FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

فہرست مضامین

استفتاءات

جلد اول، حصہ دوم*

                   آیت اللہ علی خامنہ ای

*اصل کتاب کی جلد اول کے چار حصص کر دئے گئے ہیں

 

                   اذان و اقامت

س۴۶۰۔ رمضان المبارک میں ہمارے گاؤں میں موذن ہمیشہ صبح کی اذان وقت سے چند منٹ پہلے ہی دیتا ہے تاکہ لوگ درمیان اذان یا اذان ختم ہو نے تک کھانے پینے سے فارغ ہو لیں۔ کیا یہ عمل صحیح ہے ؟

ج۔ اگر اذان کی آواز لوگوں کو شبہ میں مبتلا نہ کرے اور وہ طلوع فجر کے اعلان کے عنوان سے نہ ہو تو اس میں کوئی اشکال نہیں ہے۔

س۴۶۱۔ بعض اشخاص امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے فریضہ کی انجام دہی کے لئے وہ اجتماعی صورت میں عام راستوں میں اذان دیتے ہیں اور خدا کا شکر ہے کہ اس اقدام سے علاقے میں کھلم کھلا فسق و فساد روکنے میں بڑا اثر ہو رہا ہے اور عام لوگ خصوصاً جوان اول وقت نماز پڑھنے لگے ہیں ؟لیکن ایک صاحب کہتے ہیں کہ : یہ عمل شریعت اسلامی میں وارد نہیں ہو ا ہے ، یہ بدعت ہے ، اس بات سے شبہ پیدا ہو گیا ہے ، آپ کا کیا نظریہ ہے ؟

ج۔ روزانہ کی واجب نمازوں کے اول اوقات میں نماز کے لئے اذان دینا اور سامعین کی طرف سے اسے بلند آواز سے دہرانا مستحبات میں سے ہے جن کی شریعت نے تاکید کی ہے اور سڑکوں کے کناروں پر اجتماعی صورت میں اذان دینے میں اگر یہ عمل بے حرمتی یا راستہ روکنے اور دوسروں کی اذیت کا سبب نہ ہو تو کوئی حرج نہیں ہے۔

س۴۶۲۔ چونکہ اذان دینا عبادی ، سیاسی عمل ہے اور اس میں عظیم ثواب ہے لہذا مومنین نے یہ طے کیا ہے کہ وہ لاؤڈ اسپیکر کے بغیر واجب نماز کے وقت خصوصاً نماز صبح کے لئے اپنے اپنے گھروں کی چھت سے اذان دیں گے(لیکن) سوال یہ ہے کہ اگر اس عمل پر بعض ہم سایہ اعتراض کریں تو اس کا کیا حکم ہے ؟

ج۔ عام طور پر جس طرح اذان دی جاتی ہے اس طرح مکان کی چھت سے اذان دینے میں کوئی اشکال نہیں ہے بشرطیکہ اس سے دوسروں کو تکلیف نہ پہنچے اور نہ ہم سایوں کے گھروں کی طرف نگاہ اٹھائی جائے۔

س۴۶۳۔رمضان المبارک میں اذان صبح کو چھوڑ کر مسجد کے لاوڈ اسپیکر سے سحری کے مخصوص پروگرام نشر کرنے کا کیا حکم ہے تاکہ سب لوگ جاگ جائیں ؟

ج۔ رمضان المبارک کی راتوں میں جہاں اکثر لوگ تلاوت قرآن مجید، دعائیں پڑھنے اور دینی و مذہبی مراسم میں شرکت کے لئے بیدار رہتے ہیں وہاں اس میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن اگر یہ مسجد کے ہم سایوں کی تکلیف کا موجب ہو تو جائز نہیں ہے۔

س۴۶۴۔ کیا اذان صبح سے قبل مساجد اور مراکز سے بہت بلند آواز میں جس کی آواز کئی کلومیٹر تک پہنچے قرآنی آیات اور دعاؤں کو نشر کر کے دوسروں کو زحمت میں مبتلا کرنا صحیح نہیں ہے۔

ج۔رائج طریقہ کے مطابق نماز صبح کے وقت کے داخل ہو نے کے اعلان کے لئے لاوڈ اسپیکر سے اذان دینے میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن لاوڈ اسپیکر کے ذریعے مسجد سے آیت قرآنی اور دعاؤں وغیرہ کا کسی بھی وقت نشر کرنا اگر ہم سایوں کے لئے تکلیف کا باعث ہے تو اس کے لئے شرعاً کوئی جواز نہیں بلکہ اس میں اشکال ہے اور بنیادی طور پر آیات قرآنی کی تلاوت اور دعاؤں کو نشر کر کے دوسروں کو زحمت میں مبتلا کرنا صحیح نہیں ہے۔

س۴۶۵۔ کیا اپنی نماز کے لئے مرد عورت کی اذان پر اکتفا کرسکتا ہے ؟

ج۔ عورت کی اذان پر اکتفا کرنا بعید نہیں ہے اگر اس کے تمام کلمات سنے گئے ہوں۔

س۴۶۶۔ واجب نماز کی اذان و اقامت میں شہا دت ثالثہ یعنی سید الاوصیاء ( حضرت علی علیہ السلام) کو امیر و ولی کہنے کے سلسلے میں آپ کا کیا نظریہ ہے ؟

ج۔ شرع کے لحاظ سے اذان و اقامت کا جزء نہیں ہے لیکن اگر اذان و اقامت کے جزء اور اس میں شامل ہو نے کے قصد سے نہ ہو تو اسے کہنے میں کوئی حرج نہیں ہے بلکہ اگر خلیفۂ  رسول صلی اللہ علیہ و علیٰ اوصیاۂ المعصومین (ع) کہنا اپنے عقیدے کے اعتراف و اذعان کے اظہار کے لئے ہو تو راجح و بہتر ہے۔

                   قرأت اور اس کے احکام

س۴۶۷۔ ہماری اس نماز کا کیا حکم ہے جس میں قرأت جہری یعنی آواز سے نہ ہو ؟

ج۔ مردوں پر واجب ہے کہ وہ صبح، مغرب اور عشاء کی نماز میں حمد و سورہ کو بلند آواز سے پڑھیں۔

س۴۶۸۔ اگر ہم صبح کی قضا نماز پڑھنا چاہیں تو اسے بلند آواز سے پڑھیں گے یا آہستہ؟

ج۔ صبح، مغرب اور عشاء کی نمازوں میں چاہے وہ ادا ہوں یا قضا، حمد و سورہ کو بہر حال آواز سے پڑھنا واجب ہے چاہے ان کی قضا دن میں پڑھی جائے۔

س۴۶۹۔ ہم جانتے ہیں کہ نماز کی ایک رکعت نیت، تکبیرۃ الاحرام ، حمد و سورہ اور رکوع و سجود پر مشتمل ہے ، دوسری طرف ظہر و عصر اور مغرب کی تیسری رکعت اور عشا کی آخری دو ( تیسری اور چوتھی ) رکعتوں کو آہستہ پڑھنا بھی واجب ہے۔لیکن ٹیلی ویژن سے تیسری رکعت کے رکوع و سجود کو بلند آواز سے نشر کیا جاتا ہے جبکہ معلوم ہے کہ رکوع وسجود دونوں ہی اس رکعت کی جزء ہیں جس کو آہستہ پڑھنا واجب ہے۔ اس مسئلہ میں آپ کا کیا حکم ہے ؟

ج۔ مغرب و عشاء اور صبح کی نماز میں آواز سے پڑھنا واجب ہے ، اور ظہر و عصر کی نماز میں آہستہ پڑھنا واجب ہے۔ لیکن یہ صرف حمد و سورہ میں ہے۔ جیسا کہ مغرب و عشاء کی پہلی دو رکعتوں کے علاوہ باقی رکعتوں میں اخفات یعنی آہستہ پڑھنا واجب ہے اور یہ ( اخفات) ، صرف سورہ حمد و تسبیحات ( اربعہ) سے مخصوص ہے لیکن رکوع و سجود کے ذکر نیز تشہد و سلام اور اسی طرح نماز پنجگانہ کے تمام واجب اذکار میں مکلف کو اختیار ہے کہ وہ انہیں آواز سے ادا کرے یا آہستہ پڑھے۔

س۴۷۰۔ اگر کوئی شخص ،روزانہ کی سترہ رکعت نمازوں کے علاوہ احتیاطاً سترہ رکعت قضا نماز پڑھنا چاہتا ہے تواس پر صبح اور مغرب و عشا کی پہلی دو رکعتوں میں حمد و سورہ آواز سے پڑھنا واجب ہے یا آہستہ پڑھنا؟

ج۔ نماز پنجگانہ کے اخفات و جہر کے وجوب میں ادا و قضا نماز کے لحاظ سے کوئی فرق نہیں ہے ، چاہے وہ احتیاطی ہی کیوں نہ ہو۔

س۴۷۱۔ہم جانتے ہیں کہ لفظ صلوۃ کے آخر میں (ت) ہے لیکن حیّ علی الصلۃ (حا) کےساتھ کہتے ہیں کیا صحیح ہے ؟

ج۔ لفظ صلوٰۃ کے اختتام پر ’ ہا ‘ پر وقف کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے بلکہ یہی معین ہے۔

س۴۷۲۔ تفسیر سورۂ  حمد میں امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے نظریہ کو ملحوظ رکھتے ہوئے کہ آپ نے سورۂ حمد کی تفسیر میں لفظ ملک کو مالک پر ترجیح دی ہے تو کیا واجب و غیر واجب نمازوں میں اس سورۂ  مبارکہ کی قرأت میں دونوں طریقوں سے پڑھنا صحیح ہے ؟

ج۔ اس مورد میں احتیاط کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

س۴۷۳۔ کیا نماز گزار کے لئے صحیح ہے کہ وہ ’غیر المغضوب علیہم۔۔۔۔۔ ‘ پڑھنے کے بعد عطف فوری کے بغیر وقف کرے پھر ’ ولا الضآلین ‘ پڑھے اور کیا تشہد میں لفظ ’ محمد‘ پر ٹھرنا صحیح ہے جیسا کہ ہم ( صلوۃ پڑھتے وقت) کہتے ہیں ’اللہم صلی علی محمد‘ پھر تھوڑے وقفہ کے بعد ’ و آل محمد ‘ کہتے ہیں ؟

ج۔ اس حد تک کوئی حرج نہیں ہے جب تک کہ وحدت جملہ میں خلل نہ پیدا ہو۔

س۴۷۴۔ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ سے درج ذیل سے استفتاء کیا گیا:

تجوید میں حرف ’ ضاد‘ کے تلفظ کے سلسلہ میں متعدد اقوال ہیں آپ کس قول پر عمل کرتے ہیں ؟ اس کے جواب میں امام خمینی (رح) نے لکھا کہ علمائے تجوید کے مطابق حروف کے مخارج کی معرفت واجب نہیں ہے بلکہ ہر حرف کا تلفظ اس طرح ہو نا واجب ہے کہ عرب کے عرف کے نزدیک صادق آ جائے کہ وہ حرف اد ہو گیا،اب سوال یہ ہے :

اول یہ کہ :اس عبارت کے معنی کیا ہیں کہ ’ عرب کے عرف میں یہ صادق آ جائے کہ اس نے وہ حرف ادا کیا ہے۔

دوسرے :کیا علم تجوید کے قواعد عرف و لغت عرب سے نہیں بنائے گئے ہیں۔ جیسا کہ ان ہی سے صرف و نحو کے قواعد بنائے گئے ہیں ؟ پس لغت و عرف میں جدائی کیسے ممکن ہے ؟

تیسرے : اگر کسی کو کسی معتبر طریقہ سے یہ علم حاصل ہو گیا کہ وہ قرأت کے دوران حروف کو صحیح مخارج سے ادا نہیں کرتا یا وہ عام طور پر حروف و کلمات کو صحیح شکل میں ادا نہیں کرتا اور اس کے سیکھنے کے لئے اسے ہر قسم کے مواقع فراہم ہیں ، گویا سیکھنے کے لئے اس کی استعداد بھی اچاہی ہے یا اس کا علم حاصل کرنے کے لئے اس کے پاس وقت بھی ہے تو کیا ، اپنی صلاحیت کی حدود میں ،اس پر صحیح قرأت سیکھنے یا صحیح سے نزدیک قرأت کے سیکھنے کی کوشش کرنا واجب ہے یا نہیں ؟

ج۔ قرأت کے صحیح ہو نے میں معیار یہ ہے کہ وہ اہل زبان ، جنہوں نے تجوید کے قواعد و ضوابط بنائے ہیں ، کی قرأت کے موافق ہو۔اس بنا پر کسی حروف کے تلفظ کی کیفیت میں جو علمائے تجوید کے اقوال میں اختلاف ہے ، اگر یہ اختلاف اہل زبان کے تلفظ کی کیفیت کو سمجھنے میں ہے تو اس کی اصل اور مرجع خود عرف اہل لغت ہے لیکن اگر اقوال میں اختلاف ہے لیکن اگر اقوال کے اختلاف کا سبب تلفظ کی کیفیت میں خود اہل زبان کا اختلاف ہے تو مکلف کو اختیار ہے کہ جس قول کو چاہے اختیار کرے۔

س۴۷۵۔ جس شخص کی ابتداء سے نیت یا عادت ہو کہ وہ حمد کے بعد سورۂ  اخلاص پڑھتا ہے اور اگر کبھی اس نے سورہ مشخص کئے بغیر بسم اللہ پڑھ لی تو کیا اس پر واجب ہے کہ پہلے سورہ معین کرے اس کے بعد دوبارہ بسم اللہ پڑھے ؟

ج۔ اس پر بسم اللہ کا اعادہ کرنا واجب نہیں ہے بلکہ وہ اسی پر اکتفا کرسکتا ہے اور پھر حمد کے بعد جو سورہ چاہے پڑھ سکتا ہے۔

س۴۷۶۔ کیا واجب نمازوں میں عربی الفاظ کو کامل طور پر ادا کرنا واجب ہے ؟ اور کیا اس صورت میں بھی نماز کو صحیح کہا جائے گا جب کلمات کا تلفظ مکمل طور پر صحیح عربی میں نہ کیا جائے؟

ج۔ نماز کے تمام اذکار جیسے حمد وسورہ کی قرأت اور دیگر ذکر و تسبیحات کا صحیح طریقہ سے ادا کرنا واجب ہے اور اگر نماز گزار عربی الفاظ کی اس کیفیت کو نہیں جانتا جس کے مطابق ان کا پڑھنا واجب ہے تو اس پر سیکھنا واجب ہے اور اگر سیکھنے سے عاجز ہو تو معذور ہے۔

س۴۷۷۔ نماز میں قلبی قرأت ، یعنی کلمات کو تلفظ کے بدل دل میں دھرانے پر قرأت صادق آتی ہے یا نہیں ؟

ج۔ اس پر قرأت کا عنوان صادق نہیں آتا اور نماز میں ایسے تلفظ کا ہو نا ضروری ہے جس پر قرأت صادق آئے۔

س۴۷۸۔ بعض مفسرین کی رائے کے مطابق قرآن مجید کے چند سورے مثلاً سورہ فیل و قریش ، انشراح و ضحی کامل سورے نہیں ہیں ، وہ کہتے ہیں کہ جو شخص ان سوروں میں سے ایک سورہ مثلاً سورۂ  فیل پڑھے اس پر اس کے بعد سورۂ قریش پڑھنا واجب ہے اسی طرح سورہ انشراح والضحی کو بھی ایک ساتھ پڑھنا واجب ہے۔ پس اگر کوئی شخص نماز میں سورۂ  فیل یا تنہا سورۂ  ضحی پڑھتا ہے اور اس مسئلہ سے واقف نہیں ہے تو اس کا کیا فریضہ ہے ؟

ج۔ وہ گزشتہ نمازیں ، جن میں اس نے سورہ فیل و ایلاف یا سورہ ضحی و الم نشرح میں سے ایک سورہ پر اکتفا کی ہے ، صحیح ہیں اگر وہ اس مسئلہ سے بے خبر رہا ہو۔

س۴۷۹۔ اگر اثنائے نماز میں ایک شخص غافل ہو جائے اور ظہر کی تیسری رکعت میں حمد و سورہ پڑھے اور نماز تمام ہو نے کے بعد اسے یاد آئے تو کیا اس پر اعادہ واجب ہے ؟ اور اگر یاد نہ آئے تو اس کی نماز صحیح ہے یا نہیں ؟

ج۔ پہلی دو رکعتوں کے علاوہ دیگر رکعات میں بھی سورہ حمد پڑھنا کافی ہے خواہ غفلت و نسیان ہی سے پڑھے اور غفلت یا جہا لت کی وجہ سے زیادہ سورہ پڑھنے سے بھی اس پر کوئی چیز واجب نہیں ہو تی۔

س۴۸۰۔ امام خمینی (رح) کا نظریہ ہے کہ نماز ظہر و عصر میں اخفات کا معیار عدم جہر ہے اور یہ بات ہمیں معلوم ہے کہ دس حروف کے علاوہ بقیہ حروف جہری صورت میں پڑھے جاتے ہیں۔ اس بنا پر اگر ہم نماز ظہر و عصر کو آہستہ پڑھیں تو اٹھا رہ جہری حروف کا حق کیسے ادا ہو گا۔ امید ہے کہ اس مسئلہ کی وضاحت فرمائیں گے؟

ج۔ اخفات کا معیار بالکل بے صدا پڑھنا نہیں ہے۔ بلکہ اس سے مراد آواز کا اچھی طرح اظہار نہ کرنا ہے اور یہ جہر کے مقابل ہے جس سے مراد آواز کا اظہار ہے۔

س۴۸۱۔ غیر عرب افراد خواہ مرد ہوں یا عورتیں اسلام قبول کر لیتے ہیں لیکن عربی سے واقف نہیں ہو تے وہ اپنے دینی واجبات یعنی نماز وغیرہ کو کس طرح ادا کرسکتے ہیں ؟ اور بنیادی طور سے ان کے لئے عربی سیکھنا ضروری ہے یا نہیں ؟

ج۔ نماز میں تکبیر ، حمد و سورہ ، تشہد اور سلام کا سیکھنا واجب ہے اور اسی طرح جس چیز میں بھی عربی کا تلفظ شرط ہے ، اسے سیکھنا واجب ہے۔

س۴۸۲۔ کیا اس بات پر کوئی دلیل ہے کہ شب کے نوافل یا جہری نمازوں کے نوافل کو آواز سے پڑھا جائے۔ اسی طرح اخفاتی نمازوں کے نوافل کو آہستہ پڑھا جائے۔ اگر جواب مثبت ہے تو کیا اگر جہری نماز کے نوافل آہستہ اور اخفاتی نماز کے نوافل بلند آواز سے پڑھے جائیں تو کافی ہوں گے؟اس سلسلے میں اپنے فتوے سے نوازئیے؟

ج۔ واجب جہری نمازوں کے نوافل کو بھی آواز سے پڑھنا مستحب اور ( یوں ہی ) آہستہ پڑھی جانے والی نمازوں کے نوافل کو آہستہ پڑھنا مستحب ہے ، اگر اس کے خلاف اور برعکس عمل کرے تو بھی جائز ہے۔

س۴۸۳۔ کیا نماز میں سورہ حمد کے بعد ایک کامل سورہ کی تلاوت کرنا واجب ہے یا قرآن کی چند آیتیں پڑھنا کافی ہے ؟ اور کیا پہلی صورت میں یعنی حمد و سورہ پڑھنے کے بعد قرآن کی چند آیتیں پڑھنا جائز ہے ؟

ج۔ روز مرہ کی واجب نمازوں میں ایک کامل سورہ کے بجائے قرآن کی چند آیات پڑھنا کافی نہیں ہے لیکن مکمل سورہ پڑھنے کے بعد قرآن کے عنوان سے بعض اوقات کے پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

س۴۸۴۔ اگرسستی کی وجہ سے یا اس لہجہ کے سبب جس میں انسان گفتگو کرتا ہے ، حمد و سورہ کے پڑھنے یا نماز کے کلمات و حرکات کے اعراب کی ادائیگی میں غلطی ہو جائے اور ’ یولد ‘ کے بجائے ’ یولد ‘ بالکسرہ پڑھے تو اس نماز کا کیا حکم ہے ؟

ج۔ اگر یہ جان بوجھ کر یا وہ جاہل مقصر جو سیکھنے پر قدرت رکھتا ہے ، اس کے باوجود ایسا کرتا ہے تو اس کی نماز باطل ہے ورنہ صحیح ہے۔

س۴۸۵۔ ایک شخص کی عمر ۳۵ یا ۴۰ سال ہے ، بچپنے میں اس کے والدین نے اسے نماز نہیں سکھائی تھی ، اس ان پڑھ آدمی نے صحیح طریقہ سے نماز سیکھنے کی کوشش کی لیکن نماز کے اذکار و کلمات کو صحیح صورت میں ادا کرنا اس کے امکان میں نہیں ہے بلکہ بعض کلمات کو تو وہ ادا ہی نہیں کر پاتا ہے کیا اس کی نماز صحیح ہے ؟

ج۔ اس کی نماز صحیح ہے بشرطیکہ جتنے کلمات کا ادا کرنا اس کے بس میں ہے ، انہیں ادا کرے۔

س۴۸۶۔ میں نماز کے کلمات کو ویسے ہی تلفظ کرتا تھا جیسا کہ ہم نے انہیں اپنے والدین سے سیکھا تھا اور جیسا کہ ہمیں مڈل اسکول میں سکہا یا گیا تھا ، بعد میں مجھے یہ معلوم ہوا کہ میں ان کلمات کو غلط طریقہ سے پڑھتا تھا ، کیا مجھ پر ، امام خمینی طاب ثراہ کے فتوے کے مطابق ، ان نمازوں کا اعادہ کرنا واجب ہے ؟ یا وہ تمام نمازیں جو میں نے اس طریقہ سے پڑھی ہیں صحیح ہیں ؟

ج۔ سوال کی مفروضہ صورت میں گزشتہ تمام نمازیں صحیح ہیں نہ ان کا اعادہ کرنا ہے اور نہ قضا۔

س۴۸۷۔ کیا اس شخص کی نماز اشارے سے صحیح ہے جس کو گونگے پن کا مرض لاحق ہو گیا ہے اور وہ بولنے پر قادر نہیں ہے لیکن اس کے حواس سالم ہیں ؟

ج۔ مذکورہ فرض کے مطابق اس کی نماز صحیح اور کافی ہے۔

                   ذکر

س۴۸۸۔ کیا  جان بوجھ کر رکوع و سجود کے اذکار کو ایک دوسرے کی جگہ ادا کرنے میں کوئی حرج ہے ؟

ج۔ اگر انہیں محض اللہ عزاسمہ کے ذکر کے عنوان سے بجا لائیں تو کوئی حرج نہیں ہے رکوع و سجود اور پوری نماز صحیح ہے۔

س۴۸۹۔ اگر ایک شخص بھولے سے سجود میں رکوع کا ذکر پڑھتا ہے یا اس کے برعکس رکوع میں سجود کا ذکر پڑھتا ہے اور اسی وقت اس کو یاد آگیا اور وہ اس کی اصلاح کر لے تو کیا اس کی نماز باطل ہے ؟

ج۔ اس میں کوئی حرج نہیں ہے اور اس کی نماز صحیح ہے۔

س۴۹۰۔ اگر نماز گزار کو نماز سے فارغ ہو نے کے بعد یا اثنائے نماز میں یاد آ جائے کہ ذکر غلط تھا تو اس مسئلہ میں کیا حکم ہے ؟

ج۔ اگر ذکر کے محل سے آگے بڑھ چکا ہے یعنی رکوع و سجود کو ختم کر چکا ہے تو اس کے ذمہ کچھ نہیں ہے۔

س۴۹۱۔ کیا نماز کی تیسری اور چوتھی رکعت میں ایک مرتبہ تسبیحات اربعہ پڑھنا کافی ہے ؟

ج۔ کافی ہے ، اگرچہ تین مرتبہ پڑھنا احتیاط مستحب ہے۔

س۴۹۲۔ نماز میں تین مرتبہ تسبیحات اربعہ پڑھنا چاہئیے مگر ایک شخص بھولے سے چار مرتبہ پڑھتا ہے تو کیا خدا کے نزدیک اس کی نماز قبول ہے ؟

ج۔ اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔

س۴۹۳۔ اس شخص کا کیا حکم ہے جو یہ نہیں جانتا کہ اس نے نماز کی تیسری اور چوتھی رکعت میں تسبیحات اربعہ تین مرتبہ پڑھی ہے یا اس سے زیادہ یا کم پڑھی ہے ؟

ج۔ ایک مرتبہ پڑھنا بھی کافی ہے اور وہ بری الذمہ ہے اور جب تک رکوع میں نہیں جاتا اس وقت تک وہ تسبیحات میں کم پر بنا رکھتے ہوئے اس کی تکرار کرے گا، یہاں تک کہ اسے یقین ہو جائے کہ تسبیحات اربعہ تین مرتبہ پڑھ لی ہیں۔

س۴۹۴۔ کیا نماز میں بدن کی حرکت کے وقت ’ بحول اللہ ‘ کہنا جائز ہے کیا یہ اسی طرح صحیح ہے جس طرح قیام کی حالت میں صحیح ہے ؟

ج۔ اس میں کوئی حرج نہیں ہے اور مذکورہ ذکر کی اصل صورت یہ ہے کہ اسے نماز کی اگلی رکعت کے قیام کی حالت میں انجام پانا چاہئیے۔

س۴۹۵۔ ذکر سے کیا مراد ہے ؟ کیا اس میں نبی اکرم (ص)اور آپ کی آل پر صلوات بھی شامل ہے ؟

ج۔ جو عبادت بھی اللہ عزاسمہ کے ذکر پر مشتمل ہے وہ ذکر ہے اور محمد و آل محمد(ع) پر صلوات بھیجنا بہترین ذکر ہے۔

س۴۹۶۔ نماز وتر ، جو کہ ایک ہی رکعت ہے ، جب ہم اس میں قنوت کے لئے ہاتھ بلند کرتے ہوئے اور خدا سے اپنی حاجتیں طلب کرتے ہیں تو کیا اس میں کوئی اشکال ہے کہ ہم اپنی حاجتیں فارسی میں بیان کریں ؟

ج۔ قنوت میں فارسی میں دعا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے بلکہ قنوت میں مطلق دعا کسی بھی زبان میں کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

                   سجدہ کے احکام

س۴۹۷۔ سیمنٹ اور موزائیک (ٹائلز)پر سجدہ اور تیمم کرنے کا کیا حکم ہے ؟

ج۔ ان دونوں پر سجدہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن تیمم محل اشکال ہے اور احتیاط واجب یہ ہے کہ نہ کیا جائے۔

س۴۹۸۔ کیا حالت نماز میں اس موزائیک (ٹائل)پر ہاتھ رکھنے میں کوئی اشکال ہے جس میں چھوٹے چھوٹے سوراخ ہوں ؟

ج۔ مذکورہ فرض میں کوئی اشکال نہیں ہے۔

س۴۹۹۔ کیا مٹی کی اس سجدہ گاہ پر سجدہ کرنے میں کوئی اشکال ہے جو میل سے کالی ہو گئی ہو اس طرح کہ اصل خاک اس میل کی پرت سے چھپ گئی ہو اور پیشانی اور خاک کے درمیان حائل ہو ؟

ج۔ اگر سجدہ گاہ پر اتنا زیادہ میل ہو جو پیشانی اور سجدہ گاہ کی خاک کے درمیان حاجب بن جائے تو اس پر سجدہ باطل ہے اور اسی طرح نماز بھی (باطل ہے )

س۵۰۰۔ ایک عورت سجدہ گاہ پر سجدہ کرتی ہے اور اس کی پیشانی خاص کر سجدہ کی جگہ حجاب سے چھپی ہوئی ہے ، تو کیا اس پر ان نمازوں کا اعادہ واجب ہے ؟

ج۔ اگر وہ سجدہ کے وقت اس حائل کی طرف متوجہ نہ تھی تو اس پر نمازوں کا اعادہ واجب نہیں ہے۔

س۵۰۱۔ ایک عورت سجدہ گاہ پر اپنا سر رکھتی ہے اور یہ محسوس کرتی ہے کہ اس کی پیشانی مکمل طور پر خاک سے مس نہیں ہوئی ہے ، گویا چادر یا رومال حائل ہے جو مکمل طور پر سجدہ گاہ سے مس نہیں ہو نے دے رہا ہے۔ لہذا وہ اپنا سر اٹھا تی ہے اور حائل چیز کو ہٹ ا کر دوبارہ خاک پر اپنا سر رکھتی ہے اس مسئلہ میں کیا حکم ہے ؟اگر اس کے بعد والے کو مستقل سجدہ فرض کیا جائے تو اس کے ساتھ پڑھی جانے والی نمازوں کا کیا حکم ہے ؟

ج۔ اس پر واجب ہے کہ زمین سے اٹھائے بغیر پیشانی کو اتنی حرکت دے کہ وہ خاک تک پہنچ جائے اور اگر سجدہ گاہ پر سجدہ کرنے کے لئے زمین سے پیشانی اٹھا نا لاعلمی اور فراموشی کی وجہ سے ہو اور یہ کام وہ ایک ہی رکعت کے دو سجدوں میں سے ایک میں انجام دیتی ہو تو اس کی نماز صحیح ہے اور اعادہ واجب نہیں ہے لیکن اگر وہ سجدہ گاہ پر سجدہ کرنے کے لئے  جان بوجھ کر سر اٹھا تی ہے یا ہر رکعت کے دونوں سجدوں میں ایسا کرتی ہے تو اس کی نماز باطل ہے اور اس پر نماز کا اعادہ واجب ہے۔

س۵۰۲۔ حالت سجدہ میں ساتوں اعضاء سجدہ کو زمین پر رکھنا واجب ہے لیکن ہمارے لئے یہ مقدور نہیں ہے کیونکہ ہم جنگی زخمیوں میں سے ہیں جو متحرک کرسی سے استفادہ کرتے ہیں۔ نماز کے لئے ہم یا سجدہ کو پیشانی تک ملاتے ہیں یا سجدہ گاہ کو کرسی کے بازو پر رکھ کر اس پر سجدہ کرتے ہیں کیا ہمارا اس طرح سجدہ کرنا صحیح ہے ؟

ج۔ اگر آپ کرسی کے دستہ پر سجدہ گاہ رکھ کر اس پر سجدہ کرسکتے ہیں تو ایسا ہی کریں اور آپ کی نماز صحیح ہے ورنہ جو طریقہ بھی آپ کے لئے ممکن ہو مثلاً اشارہ یا ایماء ہی سے رکوع و سجود کریں اس میں کوئی اشکال نہیں ہے۔ اللہ آپ لوگوں کو مزید توفیق عطا کرے۔

س۵۰۳۔ مقامات مقدسہ کی زمین پر بچھائے گئے سنگ مرمر پر سجدہ کرنے کا کیا حکم ہے ؟

ج۔ سنگ مرمر پر سجدہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

س۵۰۴۔ سجدہ کی حالت میں انگوٹھے کے علاوہ پیر کی بعض دیگر انگلیوں کے زمین پر رکھنے کا کیا حکم ہے ؟

ج۔ اس میں کوئی حرج نہیں ہے

س۵۰۵۔کچھ دنوں پہلے نماز کے لئے ایک سجدہ گاہ بنائی گئی ہے جسے ’ مہرامین‘ کہتے ہیں۔ اس کا فائدہ یہ ہے کہ وہ نماز گزار کی رکعتوں اور سجدوں کو شمار کرتی ہے اور ایک حد تک شک کو رفع کرتی ہے۔ یہ معلوم ہے کہ جس کمپنی نے اس سجدہ گاہ کو بنایا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ مراجع تقلید نے اس پر سجدہ کی اجازت دی ہے۔ اس وقت وہ نیچے کی طرف حرکت کرتی ہے اس لئے کہ اس کے نیچے لوہے کی ایک اسپرنگ ہے۔ کیا ایسی صورت میں اس پر سجدہ صحیح ہے۔

ج۔ اگر یہ ان چیزوں میں سے ہے جن پر سجدہ کرنا صحیح ہے اور پیشانی رکھنے اور اس پر دباؤ پڑنے کے بعد وہ ثابت ہو جاتی ہے اور ٹھہر جاتی ہے تواس پر سجدہ کرنے میں کوئی اشکال نہیں ہے۔

س۵۰۶۔ سجدوں کے بعد بیٹھتے وقت ہم کس پیر کو دوسرے پیر کے اوپر رکھیں ؟

ج۔ داہنے پیر کو بائیں پیر کے باطنی حصہ پر رکھنا مستحب ہے۔

س۵۰۷۔ رکوع و سجود میں واجب ذکر کے بعد کون سا ذکر بہتر و افضل ہے ؟

ج۔ واجب ذکر ہی کی اتنی تکرار کرے کہ وہ طاق پر تمام ہو جائے (مثلاً ۳، ۵، ۷، ۹) اس کے علاوہ سجود میں دنیوی و اخروی حاجات طلب کرنا بھی مستحب ہے۔

س۵۰۸۔ اگر قاری سامنے نہ ہو بلکہ ذرائع ( مثلاً ریڈیو اور ٹیپ ریکارڈ) کے ذریعہ وہ آیات نشر ہو رہی ہو جن میں سجدہ واجب ہے تو ان کو سننے کے بعد شرعی فریضہ ہے ؟

ج۔ ٹیپ ریکارڈ وغیرہ کے ذریعہ آیات سجدہ کے سننے سے سجدہ واجب نہیں ہو تا ہے ، لیکن اگر ریڈیو اور لاؤڈ اسپیکر سے براہ راست زندہ تلاوت نشر ہو رہی ہے ، تو بنا بر احتیاط سجدہ واجب ہے۔

                   نماز میں سلام کے احکام

س۵۰۹۔ کیا بچوں اور بچیوں کے سلام کا جواب دینا واجب ہے ؟

ج۔ لڑکے لڑکیوں میں سے ممیز بچوں کے سلام کا جواب دینا یوں ہی واجب ہے جیسے مردوں اور عورتوں کے سلام کا جواب دینا واجب ہے۔

س۵۱۰۔ اگر کسی شخص نے سلام سنا اور غفلت یا کسی دوسری وجہ سے اس کا جواب نہ دیا یہاں تک کہ تھوڑا فاصلہ ہو گیا تو کیا اس کے بعد جواب سلام دینا واجب ہے۔

ج۔ اگر اتنی تاخیر ہو جائے کہ اس کو سلام کا جواب نہ کہا جائے تو جواب دینا واجب نہیں ہے۔

س۵۱۱۔ اگر ایک شخص ایک جماعت پر اس طرح سلام کرے ’ السلام علیکم جمیعاً ‘ اور ان میں سے ایک نماز پڑھ رہا ہو تو کیا نماز پڑھنے والے پر سلام کا جواب دینا واجب ہے جبکہ حاضرین بھی سلام کا جواب دیں ؟

ج۔ احتیاط واجب یہ ہے کہ اگر دوسرے جواب دینے والے موجود ہوں تو نمازی جواب دینے میں عجلت نہ کرے۔

س۵۱۲۔ جو تحیت ( مثلاً آداب و بندگی) سلام کے صیغہ کی صورت میں نہ ہو تو اس کا جواب دینے کے سلسلہ میں آپ کا کیا نظریہ ہے ؟

ج۔ اگر تحیت قول کی صورت میں ہو اور عرف عام میں اسے تحیت شمار کیا جاتا ہو اور اگر انسان نماز میں ہے تو اس کا جواب دینا جائز نہیں ہے لیکن اگر حالت نماز میں نہ ہو تو احتیاط واجب یہ ہے کہ جواب دے۔

س۵۱۳۔ اگر ایک شخص ایک ہی وقت کئی بار سلام کرے یا متعدد اشخاص سلام کریں تو کیا سب کا ایک ہی مرتبہ جواب دینا کافی ہے ؟

ج۔ پہلی صورت میں ایک ہی مرتبہ جواب دینا کافی ہے اور دوسری صورت میں ایک صیغہ کے ذریعہ جو سب کو شامل ہو سب کے سلام کا جواب دینا کافی ہے۔

س۵۱۴۔ ایک شخص ’ السلام علیکم ‘ کے بجائے صرف ’ سلام ‘ کہتا  ہے۔ کیا اس کے سلام کا جواب دینا کافی ہے ؟ اور اگر کوئی نابالغ ’ سلام علیکم ‘ کہے تو کیا اس کا جواب دینا واجب ہے ؟

ج۔ اگر عرف میں اسے سلام و تحیت کہا جاتا ہے تو اس کا جواب دینا واجب ہے اور اگر سلام کرنے والا بچہ ممیز ہو تو اس کے سلام کا جواب دینا بھی واجب ہے۔

                   مبطلات نماز

س۵۱۵۔ کیا تشہد میں ’ اشہد ان امیرالمومنین علیا ولی اللہ ‘ کہنے سے نماز باطل ہو جاتی ہے ؟

ج۔ ان امور کو ، جو واجب نمازوں کے تشہد میں وارد نہیں ہوئے ہیں ، اس قصد سے بجا لانا کہ وہ شرع میں وارد ہوئے ہیں ، یعنی تشہد کا جزء ہیں نماز کو باطل کر دیتا ہے ، چاہے وہ امور بذات خود حق اور صحیح ہوں۔

س۵۱۶۔ ایک شخص جو اپنی عبادتوں میں ریاکاری کرتا رہا اور اب وہ اپنے نفس سے جہا د کر رہا ہے تو کیا اسے بھی ریا کاری سے تعبیر کیا جائے گا ؟ وہ ریا کار سے کس طرح اجتناب کرے؟

ج۔ قربۃ الی اللہ کے قصد سے عبادات کا بجا لانا واجب ہے اور ریا سے نجات حاصل کرنے کے لئے اسے عظمت و شان خدا اور اپنی ضعف و ناتوانی اور اپنے اور تمام انسانوں کے خدا کا محتاج ہو نے کے بارے میں غور کرنا چاہے۔

س۵۱۷۔ عورتوں پر، حالت نماز میں ہاتھوں کو ایک دوسرے کے اوپر رکھنا واجب ہے یا نہیں ؟

ج۔ واجب نہیں ہے اور اگر ہاتھ باندھنے کی صورت میں ہو تو جائز نہیں ہے۔

س۵۱۸۔ برادران اہل سنت و الجماعت کی نماز جماعت میں شرکت کے وقت، امام جماعت کے سورہ حمد پڑھنے کے بعد بلند آواز سے ’ آمین‘ کہی جاتی ہے۔اس کے بارے میں ہمارے لئے کیا حکم ہے ؟

ج۔ اگر مذکورہ فرض میں طبیعت ’ آمین‘ کہنے کا اقتضا کرے تو کوئی حرج نہیں ہے ورنہ جائز نہیں ہے۔

س۵۱۹۔ ہم کبھی اثنائے نماز میں بچہ کو کوئی خطرناک کام کرتے ہوئے دیکھتے ہیں تو کیا سورہ حمد یا دوسرے سورہ یا بعض ذکر کے کچھ کلمات کو بلند آواز سے پڑھ سکتے ہیں تاکہ بچہ متنبہ ہو جائے یا ہم گھر میں موجود کسی شخص کو ملتفت کریں اور اسے خطرہ سے خبردار کر دیں تاکہ خطرہ رفع ہو جائے؟ نیز اثنائے نماز میں ہاتھ کو حرکت دینے یا بہوؤں کے ذریعہ کسی شخص کو سمجھا نے یا اس کے کسی سوال کا جواب دینے کا کیا حکم ہے ؟

ج۔ اگر آیات و اذکار پڑھتے وقت آواز بلند کر کے دوسروں کو خبردار کرنے سے نماز کی ہئیت ( حالت) سے خارج نہ ہو تو اس میں کوئی اشکال نہیں ہے بشرطیکہ قرأت اور ذکر کو ، قرأت و ذکر ہی کی نیت سے انجام دیا جائے۔ہاں حالت نماز میں بولنا یا ایسی حرکت کرنا جو سکون و طمانیت یا نماز کی شکل کے منافی ہو اس سے نماز باطل ہو جاتی ہے۔

س۵۲۰۔ اگر اثنائے نماز میں کوئی شخص کسی مضحکہ خیز بات کو یاد کر کے یا کسی مضحکہ خیز امر کی وجہ سے ھنس پڑے تو اس کی نماز باطل ہے یا نہیں ؟

ج۔ اگر ہنسی آواز کے ساتھ، یعنی قہقہہ ، ہو تو نماز باطل ہے۔

س۵۲۱۔ کیا قنوت کے بعد ہاتھوں کو چھرے پر ملنے سے نماز باطل ہو جاتی ہے ؟ اگر یہ بطلان کا سبب ہے تو کیا اسے معصیت و گناہ بھی شمار کیا جائے گا؟

ج۔ اس میں کوئی حرج نہیں ہے اور نہ یہ نماز کے باطل ہو نے کا سبب ہے۔

س۵۲۲۔ کیا حالت نماز میں دونوں آنکھوں کا بند کرنا جائز ہے کیونکہ آنکھیں کھلی رکھنا انسان کی فکر کو نماز سے بھکا دیتا ہے ؟

ج۔ حالت نماز میں دونوں آنکھوں کو بند کرنے میں شرع کے لحاظ سے کوئی حرج نہیں ہے۔

س۵۲۳۔ میں اکثر نماز میں ان ایمانی اور معنوی لحظات کو یاد کرتا ہوں جن کے سائے میں میں نے بعثی کافر نظام میں زندگی گزاری تھی ، اس سے میرے خشوع میں اضافہ ہو تا ہے ، کیا اس سے نماز باطل ہو جاتی ہے ؟

ج۔ اس سے نماز کی صحت کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا۔

س۵۲۴۔ اگر دو اشخاص میں تین دن تک دشمنی اور جدائی باقی رہے تو کیا اس سے ان کا نماز روزہ باطل ہو جاتا ہے ؟

ج۔ دو اشخاص کے درمیان دشمنی اور جدائی پیدا ہو نے سے نماز روزہ باطل نہیں ہو تا۔

                   شکیات اور ان کے احکام

س۵۲۵۔ جو شخص نماز کی تیسری رکعت میں ہو اور اسے یہ شک ہو جائے کہ قنوت پڑھا جائے یا نہیں تو اس کا کیا حکم ہے ؟ کیا وہ اپنی نماز کو تمام کرے یا شک پیدا ہو تے ہی توڑ دے۔

ج۔ مذکورہ شک کی پرواہ نہیں کی جائے گی، نماز صحیح ہے اور مکلف کے ذمہ کوئی چیز نہیں ہے۔

س۴۲۶۔ کیا نافلہ نمازوں میں رکعات کے علاوہ کسی اور چیز میں شک کی اعتناء کی جائے گی؟ مثلاً یہ شک کرے کہ ایک سجدہ یا دونوں سجدے بجا لایا ہے یا نہیں ؟

ج۔ نافلہ کے اقوال و افعال میں شک کی پرواہ کرنے کا وہی حکم ہے جو واجب نمازوں کے اقوال و افعال میں شک کا ہے ، بشرطیکہ انسان محل شک سے نہ گزرا ہو۔ محل شک کے گزر جانے کے بعد شک کی پرواہ نہیں کرنا چاہئیے۔

س۵۲۷۔ کثیر الشک کا حکم یہ ہے کہ وہ اپنے شک کی پرواہ نہ کرے لیکن اگر اسے نماز میں شک ہو جائے تو اس کا کیا فریضہ ہے ؟

ج۔ اس کا فریضہ ہے کہ جس چیز کے بارے میں شک ہو اسے انجام شدہ قرار دے اور اگر اسے انجام شدہ سمجھنے سے خرابی لازم آئے تو اس کے عدم پر بنا رکھے اس سلسلے میں رکعات، افعال اور اقوال کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔

س۵۲۸۔ اگر کوئی شخص چند سال کے بعد اس بات کی طرف متوجہ ہو کہ اس کی عبادتیں باطل تھیں یا وہ ان کے بارے میں شک کرے تو اس کا کیا فریضہ ہے ؟

ج۔ عمل کے بعد شک کی پرواہ نہیں کی جاتی اور باطل ہو نے کے علم کی صورت میں ان ہی کی قضا واجب ہے جنہیں بجا لا سکتا ہو۔

س۵۲۹۔ اگر سہواً نماز کے بعض اجزاء کو دوسرے اجزاء کی جگہ بجا لائے یا اثنائے نماز میں اس کی نظر کسی چیز پر پڑ جائے یا بھولے سے کچھ کہہ دے تو اس کی نماز باطل ہے یا نہیں ؟اور اس پر کیا واجب ہے ؟

ج۔ نماز میں بھولے سے جو اعمال سرزد ہو جاتے ہیں وہ بطلان کا سبب نہیں ہیں ، ہاں بعض موقعوں پرسجدہ سہو کا موجب ہو تے ہیں لیکن کسی رکن میں کمی یا زیادتی ہو جائے تو اس سے نماز باطل ہو جاتی ہے۔

س۵۳۰۔ اگر کوئی اپنی نماز کی ایک رکعت بہو ل جائے اور پھر آخری رکعت میں اسے یاد آ جائے لیکن آخری رکعت میں اس بات کی طرف متوجہ ہو کہ یہ تیسری رکعت ہے تو اس کا شرعی فریضہ کیا ہے ؟

ج۔ سلام سے قبل اس پر اپنی نماز کی چھوٹی ہوئی رکعت کو بجا لانا واجب ہے ، اس کے بعد سلام پھرے اس حالت میں اگر بھولے سے کچھ زیادہ انجام دیا ہو یا بعض ایسے واجبات چھوٹ جائیں جو رکن نہیں ہیں تو اس پر دو سجدہ سہو بجا لانا واجب ہے اور واجب تشہد کو اس کے مقام پر ترک کر دے تو احتیاط واجب یہ ہے کہ اس کی قضا بھی بجا لائے۔

س۵۳۱۔ نماز احتیاط کی رکعات کی تعداد کا جاننا کیسے ممکن ہے کہ یہ ایک رکعت ہے یا دو؟

ج۔ نماز احتیاط کی رکعتوں کی مقدار اتنی ہی ہو گی جتنی احتمالی طور پر نماز میں چھو ٹ گئی ہے۔ پس اگر دو اور چار کے درمیان شک ہو تو دو رکعت نماز احتیاط واجب ہے اور اگر تین اور چار کے درمیان ہو تو ایک رکعت نماز احتیاط واجب ہے۔

س۵۳۲۔ اگر کوئی بھولے سے یا غلطی سے ذکر، آیات قرآن یا دعائے قنوت میں سے کوئی کلمہ ( زیادہ) پڑھ لے تو اس پر سجدہ سہو واجب ہے ؟

ج۔ واجب نہیں ہے۔

                   قضا نماز

س۵۳۳۔ میں سترہ سال کی عمر تک احتلام اور غسل وغیرہ کے بارے میں نہیں جانتا تھا اور ان امور کے متعلق کسی سے کوئی بات نہیں سنی تھی ، خود بھی جنابت اور غسل واجب ہو نے کے معنی نہیں سمجھتا تھا لہذا اس عمر تک میرے روزے اور نمازوں میں اشکال ہے ، امید ہے کہ مجھے اس فریضہ سے مطلع فرمائیں گے جس کا انجام دینا میرے اوپر واجب ہے ؟

ج۔ ان تمام نمازوں کی قضا واجب ہے جو آپ نے جنابت کی حالت میں پڑھیں لیکن اصل جنابت کا علم نہ ہو نے کی صورت میں جو روزے جنابت کی حالت میں رکھے ہیں وہ صحیح اور کافی ہیں ان کی قضا واجب نہیں ہے۔

س۵۳۴۔ افسوس کہ میں جہا لت اور ضعیف الارادہ ہو نے کی وجہ سے استمناء ( مشت زنی) کیا کرتا تھا جس کے باعث بعض اوقات نماز نہیں پڑھتا تھا۔ لیکن مجھے یہ معلوم نہیں ہے کہ میں نے کتنے دنوں تک نماز ترک کی ہے اور پھر میں نے مستقل طور سے نماز نہیں چھوڑی تھی بلکہ ان ہی اوقات میں نماز نہیں پڑھتا تھا جن میں مجنب ہو تا تھا اور غسل نہیں کر پاتا تھا میرے خیال میں چہ ماہ کی نماز چھوٹی ہو گی اور میں نے اس مدت کی قضا نمازوں کو ادا کرنے کا ارادہ کر لیا ہے ، آیا ان نمازوں کی قضا واجب ہے یا نہیں ؟

ج۔ جتنی پنجگانہ نمازوں کے بارے میں آپ کو یقین ہے کہ ادا نہیں کی ہیں یا حالت حدث میں پڑھی ہیں ، آپ پر ان کی قضا واجب ہے۔

س۵۳۵۔ جس شخص کو یہ معلوم نہ ہو کہ اس کے ذمہ قضا نمازیں ہیں یا نہیں اور اگر بالفرض اس کے ذمہ قضا نمازیں ہوں تو کیا اس کی مستحب و نافلہ پڑھی ہوئی نمازیں ، قضا نماز میں شمار ہو جائیں گی؟

ج۔ نوافل و مستحب نمازیں قضا نماز میں شمار نہیں ہوں گی۔ اگر اس کے ذمہ قضا نمازیں ہیں تو ان کو قضا کی نیت سے پڑھنا واجب ہے۔

س۵۳۶۔ میں تقریباً سات ماہ قبل بالغ ہو ا ہوں اور بالغ ہو نے سے چند ہفتے پہلے میں یہ سمجھتا تھا کہ بلوغ کی علامت صرف قمری حساب سے پندرہ سال کامل ہو نے پر ہے۔ مگر میں نے اس وقت ایک کتاب کا مطالعہ کیا جس میں لڑکیوں کے بلوغ کی علامت بیان ہوئی ہے ، تو اس میں کچھ اور بھی علامتیں میں نے دیکھیں جو مجھ میں پائی جاتی تھیں لیکن میں نہیں جانتا کہ یہ علامتیں کب سے وجود میں آئی ہیں ، کیا اب میرے ذمہ نماز و روزہ کی قضا ہے ؟ واضح رہے کہ میں کبھی کبھی نماز پڑھتا تھا اور گزشتہ سال ماہ رمضان کے سارے روزے رکھے ہیں پس اس مسئلہ کا کیا حکم ہے ؟

ج۔ ان تمام روزوں اور نمازوں کی قضا واجب ہے جن کے بالغ ہو نے کے بعد چھو ٹ جانے کا یقین ہے۔

س۵۳۷۔ اگر ایک شخص نے ماہ رمضان میں تین غسل جنابت انجام دئے مثلاً ایک بیسویں تاریخ ایک پچیسویں تاریخ اور ایک ستائیسویں تاریخ کو بعد میں اسے یہ یقین ہو گیا کہ ان میں سے ایک غسل باطل تھا۔ پس اس شخص کے نماز ، روزے کا کیا حکم ہے ؟

ج۔ روزے صحیح ہیں لیکن نماز کی قضا احتیاطاً واجب ہے۔

س۵۳۸۔ ایک شخص نے ایک عرصہ تک ناواقفیت کی بنا پر غسل جنابت میں ترتیب کی رعایت نہیں کی تو اس کے روزہ نماز کا کیا حکم ہے ؟

ج۔ اگر ترتیب کی رعایت نہ کرنا غسل کے باطل ہو نے کا سبب ہے جیسے سروگردن دھو نے سے پہلے جسم کا دایاں حصہ دھوئے تو جو نمازیں اس نے حدث اکبر کی حالت میں پڑھی ہیں ان کی قضا واجب ہے لیکن اگر وہ اس وقت اپنے غسل کو صحیح سمجھتا تھا تو اس کے روزے صحیح ہیں۔

س۵۳۹۔ جو شخص ایک سال کی قضا نمازیں پڑھنا چاہتا ہے ، اسے کس طرح پڑھنا چاہئیے؟

ج۔ اسے کسی ایک نماز سے شروع کرنا چاہئیے اور نماز پنجگانہ کی طرح پڑھنا چاہئیے۔

س۵۴۰۔ اگر ایک شخص پر کئی نمازیں واجب ہیں تو کیا وہ درج ذیل ترتیب کے مطابق ان کی قضا کرسکتا ہے :

۱۔ صبح کی بیس نمازیں پڑھے۔

۲۔ ظہر و عصر کی بیس بیس نمازیں پڑھے۔

۳۔ مغرب و عشاء کی بیس بیس نمازیں پڑھے اور سال بھر اسی طریقہ پر عمل پیرا رہے

ج۔ مذکورہ طریقہ سے قضا نمازیں پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

س۵۴۱۔ایک شخص کا سر زخمی ہو گیا جس کا اثر اس کے دماغ تک پہنچا،اس کے نتیجہ میں اس کا ہاتھ ، بایاں پیر اور زبان شل ہو گئی ( اس سانحہ کے نتیجے میں وہ) نماز کا طریقہ بھول گیا اور اسے دوبارہ سیکھ بھی نہیں سکتا۔ لیکن کتاب میں پڑھ کر یا کیسٹ سے سن کر نماز کے بعض اجزاء کو سمجھ سکتا ہے۔ اس وقت نماز کے سلسلہ میں اس کے سامنے دو شکلیں ہیں :

۱۔ وہ پیشاب کے بعد طہارت نہیں کرسکتا اور نہ وضو کرسکتا ہے۔

۲۔ نماز میں اسے قرأت کی مشکل ہے ، اس کا کیا حکم ہے ؟ اسی طرح چہ ماہ سے اس کی جو نمازیں چھو ٹ گئی ہیں ، ان کا کیا حکم ہے ؟

ج۔ اگر وہ دوسروں کی مدد سے ہی وضو یا تیمم کرسکتا ہے تو واجب ہے کہ وہ جس طرح ہو سکے نماز پڑھے چاہے کیسٹ سن کر یا کتاب دیکھ کر یا وہ جس ذریعہ سے پڑھ سکتا ہو۔ اور گزشتہ فوت ہو جانے والی نمازوں کی قضا واجب ہے مگر جس نماز کے پورے وقت وہ بے ہو ش رہا ہے اس کی قضا واجب نہیں ہے۔

س۵۴۲۔ جوانی کے زمانہ میں مغرب و عشاء اور صبح کی نماز سے زیادہ میں نے ظہر و عصر کی نمازیں قضا کی ہیں لیکن نہ میں ان کے تسلسل کو جانتا ہوں نہ ترتیب کو اور نہ ان کی تعداد کو ، کیا اس موقع پر اسے نماز دور پڑھنا ہو گی؟ اور نماز دور کیا ہے ؟ امید ہے کہ اس کی وضاحت فرمائیں گے۔

ج۔ ترتیب کی رعایت واجب نہیں ہے ، اور جتنی نمازوں کے فوت ہو نے کا آپ کو یقین ہے۔ ان ہی کی قضا بجا لانا کافی ہے اور ترتیب کے حصول کے لئے آپ پر دور کی نماز اور تکرار واجب نہیں ہے۔

س۵۴۳۔ ایک کافر ( بالغ ہو نے کے ایک) عرصہ کے بعد اسلام لاتا ہے تو اس پر ان نمازوں اور روزوں کی قضا واجب ہے یا نہیں جو اس نے ادا نہیں کی ہیں ؟

ج۔ واجب نہیں ہے۔

س۵۴۴۔ شادی کے بعد کبھی کبھی میرے عضو مخصوص سے ایک قسم کا سیال مادہ نکل آتا تھا جسے میں سمجھتا تھا کہ نجس ہے۔ اس لئے غسل جنابت کی نیت سے غسل کرتا اور پھر وضو کے بغیر نماز پڑھتا تھا ، توضیح المسائل میں اس سیال مادہ کو ’ مذی‘ کا نام دیا گیا ہے ، اب یہ فیصلہ نہیں کر پا رہا ہوں کہ جو نمازیں میں نے مجنب ہوئے بغیر غسل جنابت کر کے بغیر وضو کے پڑھی ہیں ان کا کیا حکم ہے ؟

ج۔ وہ تمام نمازیں جو آپ نے سیال مادہ نکلنے کے بعد غسل جنابت کر کے وضو کئے بغیر ادا کی ہیں ان کی قضا واجب ہے۔

س۵۴۵۔ بعض اشخاص نے گمراہ کن پروپیگینڈہ کے زیر اثر کئی سال تک نماز اور دیگر واجبات ترک کر دئے تھے لیکن امام خمینی (رح) کا رسالۂ  عملیہ آنے کے بعد انہوں نے خدا سے توبہ کر لی اور اب وہ چھو ٹ جانے والے واجبات کی قضا نہیں کرسکتے ، ان کا کیا حکم ہے ؟

ج۔ جتنی مقدار میں بھی ممکن ہو ان پر قضا ہو جانے والے واجبات کا ادا کرنا واجب ہے۔

س۵۴۶۔ ایک شخص مرگیا اور اس کے ذمہ رمضان المبارک کے روزے اور قضا نمازیں تھیں ، اس نے کچھ مال چھوڑا ہے اگر اسے صرف کیا جائے تو فقط ماہ رمضان المبارک کے روزوں کی قضا ہو سکتی ہے اور نماز باقی رہے گی یا نماز پڑھوائی جا سکتی ہے اور روزے باقی رہ جاتے ہیں اس صورت میں کس کو مقدم کیا جائے؟

ج۔ نماز اور روزہ میں ( ایک کو دوسرے پر ) ترجیح نہیں ہے جب تک ( انسان) زندہ ہے اس پر خود قضا نماز و روزہ ادا کرنا واجب ہے اور جب خود ادا نہ کرسکے تو اس پر واجب ہے کہ آخر عمر میں یہ وصیت کرے کہ میرے ایک تھائی ترکہ سے قضا نمازوں کو اجرت پر ادا کرائیں۔

س۵۴۷۔ میں زیادہ تر نمازیں پڑھتا رہا ہوں اور جو چھو ٹ گئی ہیں ان کی قضا کی ہے یہ چھو ٹ جانے والی نمازیں وہ ہیں جن کے اوقات میں ، میں سوتا رہا ہوں یا اس وقت میرا بدن و لباس نجس رہا ہے جن کا پاک کرنا دشوار تھا پس میں یہ کیسے سمجھوں کہ نماز پنجگانہ ، نماز قصر اور نماز آیات میں سے میرے ذمہ کتنی نمازیں باقی ہیں ؟

ج۔ جتنی نمازوں کے چھو ٹ جانے کا یقین ہے ان ہی کی قضا پڑھنا کافی ہے اور ان میں سے جتنی کے بارے میں آپ کو یہ یقین ہو کہ وہ قصر ہیں یا نماز آیات، انہیں اپنے یقین کے مطابق بجا لائیے اور باقی کو نماز پنجگانہ سمجھ کر پوری پڑھئیے اس سے زیادہ آپ کے ذمہ کوئی چیز نہیں ہے۔

 

                   بڑے بیٹے پر باپ کی قضا نمازیں

س۵۴۸۔ میرے والد دماغی فالج کا شکار ہوئے اور اس کے بعد دو سال تک مریض رہے ، مرض کی بنا پر وہ اچھے برے میں تمیز نہیں کر پاتے تھے یعنی ان سے سوچنے سمجھنے کی قوت ہی سلب ہو گئی تھی ، چنانچہ دو برسوں کے دوران انہوں نے نہ روزہ رکھا اور نہ نماز ادا کی۔میں ان کا بڑا بیٹا ہوں پس کیا مجھ پر ان کے روزہ اور نماز کی قضا واجب ہے ؟ جبکہ میں جانتا ہوں کہ اگر وہ مذکورہ مرض میں مبتلا نہ ہو تے تو ان کی قضا مجھ پر واجب تھی۔ امید ہے کہ اس مسئلہ میں میری راہنمائی فرمائیں گے؟

ج۔ اگر ان کی قوت عقلیہ اتنی زیادہ کمزور نہیں ہوئی تھی جس پر جنون کا عنوان صادق آسکے اور نہ نماز کے پورے اوقات میں وہ بے ہوش رہتے تھے تو ان کی فوت ہو جانے والی نمازوں کی قضا واجب ہے۔

س۵۴۹۔ اگر ایک شخص مر جائے تو اس کے روزہ کا کفارہ دینا کس پر واجب ہے ؟ کیا اس کے بیٹوں اور بیٹیوں پر یہ کفارہ دینا واجب ہے ؟ یا کوئی اور شخص بھی دے سکتا ہے ؟

ج۔ جو کفارہ باپ پر واجب ہے اگر وہ کفارہ مخیرہ تھا یعنی وہ روزہ رکھنے اور کھانا کھلانے پر قدرت رکھتا تھا تو اگر ترکہ میں سے کفارہ کا دینا ممکن ہے تو اس میں سے نکال کر ادا کیا جائے ورنہ احتیاط واجب ہے کہ بڑا بیٹا روزے رکھے۔

س۵۵۰۔ ایک سن رسیدہ آدمی بعض اسباب کی بنا پر اپنے گھر والوں کو چھوڑ کر چلا گیا اور ان سے رابطہ رکھنے سے معذور ہو گیا وہ اپنے باپ کا سب سے بڑا بیٹا ہے۔ اسی زمانے میں اس کے والد کا انتقال ہو گیا۔ وہ باپ کی قضا نماز وغیرہ کی مقدار نہیں جانتا ہے اور اتنا مال بھی نہیں رکھتا کہ باپ کی نماز اجارہ پڑھو ائے۔ نیز بڑھا پے کی وجہ سے خود بھی باپ کی قضا نماز نہیں پڑھ سکتا پھر وہ کیا کرے؟

ج۔ باپ کی صرف ان ہی نمازوں کی قضا واجب ہے جن کے فوت ہو نے کا علم ہو اور جس طریقے سے بھی ممکن ہو بڑے بیٹے پر باپ کی نمازوں کی قضا واجب ہے۔ ہاں اگر وہ اسے ادا ہی نہ کرسکتا ہو تو معذور ہے۔

س۵۵۱۔ اگر کسی شخص کی بڑی اولاد بیٹی ہو اور دوسری اولاد بیٹا ہو تو کیا ماں باپ کی قضا نماز اور روزہ اس بیٹے پر بھی واجب ہے ؟

ج۔ معیار یہ ہے کہ بیٹوں میں سب سے بڑا بیٹا ہو لہذا مذکورہ سوال میں باپ کے روزے اور نماز کی قضا اسی بیٹے پر واجب ہے جو باپ کی دوسری اولاد ہے اور ماں کے فوت ہو جانے والے، روزے اور نماز کی قضا کا واجب ہو نا ثابت نہیں ہے اگرچہ احتیاط مستحب یہ ہے کہ اس کی قضا نماز و روزے بھی ادا کئے جائیں۔

س۵۵۲۔ اگر بڑے بیٹے کا باپ سے پہلے انتقال ہو جائے، خواہ بالغ ہو یا نابالغ ، تو باقی اولاد سے باپ کی قضا ساقط ہو جائے گی یا نہیں ؟

ج۔ باپ کے روزہ نماز کی قضا اس بڑے بیٹے پر واجب ہے ، جو باپ کی وفات کے وقت زندہ ہے خواہ وہ باپ کی پہلی اولاد یا پہلا بیٹا نہ ہو۔ْ

س۵۵۳۔ میں اپنے باپ کی اولاد میں بڑا بیٹا ہوں کیا مجھ پر واجب ہے کہ باپ کے قضا فرائض کی ادائیگی کی غرض سے ان کی زندگی ہی میں ان سے تحقیق کر لوں یا ان پر واجب ہے کہ وہ مجھے ان کی مقدار سے باخبر کریں پس اگر وہ باخبر نہ کریں تو میرا کیا فریضہ ہے ؟

ج۔ آپ پر تحقیق اور سوال کرنا واجب نہیں ہے لیکن اس سلسلہ میں باپ پر وصیت کرنا واجب ہے۔ بہر حال بڑا بیٹا مکلف ہے کہ اپنے باپ کے انتقال کے بعد اس کے یقینی طور پر چھو ٹ جانے والے روزے اور نمازیں ادا کرے۔

س۵۵۴۔ ایک شخص کا انتقال ہو ا اور اس کا کل اثاثہ وہ گھر ہے جس میں اس کی اولاد رہتی ہے ، اور اس کے ذمہ روزے اور نمازیں باقی رہ گئے ہیں اور بڑا بیٹا اپنی مشغولیتوں کی بنا پر انہیں ادا نہیں کرسکتا، پس کیا اولاد پر واجب ہے کہ وہ اس گھر کو فروخت کر کے باپ کے روزے اور نمازیں ادا کرائیں ؟

ج۔ جن روزوں اور نمازوں کی قضا باپ پر واجب تھی بہرحال ان کی قضا بڑے بیٹے پر ہے لیکن اگر مرنے والا یہ وصیت کر دے کہ میرے ترکہ کے ایک تھائی حصہ سے اجرت پر نماز روزے کی قضاء ادا کریں تو ترکہ میں سے ایک تھائی مال اس میں صرف کرنا واجب ہے۔

س۵۵۵۔ اگر بڑا بیٹا جس پر باپ کی قضا نماز واجب تھی ، مر چکا  ہو تو کیا اس قضا کو اس کے وارث ادا کریں گے یا یہ قضا دادا کی اولاد میں سے دوسرے بیٹے پر واجب ہو گی؟

ج۔ باپ کی جو نمازیں اور روزے بڑے بیٹے پر واجب تھے۔ ان کی قضا اس کے بیٹے پر واجب نہیں ہے اور نہ ہی اس کے بھائی پر واجب ہے۔

س۵۵۶۔ جب باپ قطعی طور سے نماز نہ پڑھتا ہو تو کیا اس کی ساری نمازیں قضا ہیں اور بڑے بیٹے پر واجب ہیں ؟

ج۔ احتیاط واجب یہ ہے کہ اس صورت میں بھی اس کی نمازیں پڑھی جائیں۔

س۵۵۷۔ جس باپ نے  جان بوجھ کر اپنے تمام عبادی اعمال کو ترک کیا ہے کیا بڑے بیٹے پر اس کی تمام نمازوں اور روزوں کا ادا کرنا واجب ہے جن کی مقدار پچاس سال تک پہنچتی ہے ؟

ج۔ بعید نہیں ہے کہ عمداً ترک کرنے کی صورت میں ان کی قضا بڑے بیٹے پر واجب نہ ہو لیکن اس صورت میں بھی اس کی قضا ادا کرنے کی احتیاط کو ترک نہیں کرنا چاہئیے۔

س۵۵۸۔ جب بڑے بیٹے پر خود اس کی نماز اور روزے کی قضا بھی ہو اور باپ کے روزے اور نمازوں کی قضا بھی ہو تو اس وقت دونوں میں سے کس کو مقدم کرے گا؟

ج۔ اس صورت میں اسے اختیار ہے جس کو بھی پہلے شروع کرے گا صحیح ہے۔

س۵۵۹۔ میرے والد کے ذمہ کچھ قضا نمازیں ہیں لیکن انہیں ادا کرنے کی ان میں استطاعت نہیں ہے اور میں ان کا بڑا بیٹا ہوں ، کیا یہ جائز ہے کہ ، جبکہ وہ بھی زندہ ہیں ، میں ان کی فوت ہو جانے والی نمازیں بجا لاؤں یا کسی شخص سے اجارہ پر پڑھاؤں ؟

ج۔ زندہ شخص کی قضا نماز اور روزوں کی نیابت صحیح نہیں۔

                   نماز جماعت

س۵۶۰۔ امام جماعت نماز میں کیا نیت کرے؟ جماعت کی نیت کرے یا فرادیٰ کی؟

ج۔ اگر جماعت کی فضیلت حاصل کرنا چاہتا ہے تو واجب ہے کہ امامت و جماعت کا قصد کرے۔اگر امامت کا قصد کئے بغیر نماز شروع کرے تو اس کی نماز اور دوسروں کے لئے اس کی اقتداء میں کوئی اشکال نہیں۔

س۵۶۱۔ فوجی مراکز میں نماز جماعت کے وقت، جو کہ دفتری کام کے وقت میں قائم ہو تی ہے ، بعض کارکن کام کی وجہ سے نماز جماعت میں شریک نہیں ہو پاتے۔ اگرچہ وہ اس کام کو دفتری اوقات کے بعد یا دوسرے دن بھی انجام دسے سکتے ہیں۔ کیا اس عمل کو نماز کو سبک سمجھنے سے تعبیر کیا جائے گا؟

ج۔ فی نفسہ نماز جماعت میں شرکت واجب نہیں ہے لیکن اول وقت اور جماعت کی فضیلت حاصل کرنے کے لئے بہتر یہ ہے کہ دفتری امور کو اس طرح منظم کریں جس سے وہ اس الہی فریضہ کو کم سے کم وقت میں جماعت کے ساتھ انجام دے سکیں۔

س۵۶۲۔ ان مستحب اعمال ، جیسے مستحب نماز یا دعائے توسل اور دوسری دعاؤں کے بارے میں آپ کا کیا نظریہ ہے جو سرکاری اداروں میں نماز سے پہلے یا بعد میں یا اثنائے نماز میں پڑھی جاتی ہیں جن میں نماز جماعت سے بھی زیادہ وقت صرف ہو تا ہے۔

ج۔ جو مستحب اعمال اور دعائیں ، الہی فریضہ اور اسلامی شعائر یعنی نماز جماعت کے ساتھ انجام پاتے ہیں اگر دفتری وقت کے ضائع ہو نے اور دفتری کاموں کی تاخیر کے موجب ہو تے ہوں تو ان میں اشکال ہے۔

س۵۶۳۔ کیا ا س جگہ دوسری نماز جماعت قائم کرنا صحیح ہے جہاں سے پچاس یا سو میٹر کی دوری پر بے پناہ نماز گزاروں کے ساتھ ایک جماعت برپا ہو تی ہے اور اذان اور اقامت کی آواز بھی سنی جاتی ہے ؟

ج۔ ایسی دوسری جماعت قائم کرنے میں کوئی اشکال نہیں ہے لیکن مومنوں کے شایان شان ہے کہ وہ ایک ہی جگہ جمع ہوں اور ایک جماعت میں شریک ہوں تاکہ نماز جماعت کی عظمت میں چار چاند لگ جائیں۔

س۵۶۴۔ جب مسجد میں نماز جماعت قائم ہو تی ہے اس وقت ایک شخص یا چند اشخاص اس قصد سے اپنی فرادیٰ نماز شروع کرتے ہیں کہ امام جماعت کی نااہلی یا بے عدالتی ثابت ہو جائے، اس عمل کا کیا حکم ہے ؟

ج۔ اس میں اشکال ہے کیونکہ نماز جماعت کی تضعیف کرنا جائز نہیں ہے اسی طرح اس امام جماعت کی ہا نت اور بے عزتی کرنا بھی جائز نہیں ہے جس کو لوگ عادل سمجھتے ہوں۔

س۵۶۵۔ ایک محلہ میں متعدد مساجد ہیں اور سب میں نماز جماعت ہو تی ہے اور ایک مکان دو مسجدوں کے درمیان واقع ہے اس طرح کہ ایک مسجد اس سے دس گھروں کے فاصلہ پر واقع ہے اور دوسری دو ہی گھروں کے بعد ہے اور اس گھر میں نماز جماعت برپا ہو تی ہے ،اس کا کیا حکم ہے ؟

ج۔ ضروری ہے کہ نماز جماعت کو اتحاد و الفت کے لئے قائم کیا جائے نہ کہ اختلاف و افتراق کا ذریعہ بنایا جائے۔ مسجد سے متصل گھر میں نماز جماعت قائم کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے اگر اختلاف و پراگندگی کا سبب نہ ہو۔

س۵۶۶۔ کیا کسی شخص کے لئے جائز ہے کہ وہ مسجد کے امام راتب ، جس کی مساجد کے مرکز نے تائید کی ہے ، کی اجازت کے بغیر اس مسجد میں نماز جماعت قائم کرے؟

ج۔ نماز جماعت قائم کرنا امام راتب کی اجازت پر موقوف نہیں ہے لیکن بہتر یہ ہے کہ جب نماز جماعت قائم کرنے کے لئے امام راتب مسجد میں موجود ہو تو اس سے مزاحمت نہ کی جائے بلکہ اکثر یہ مزاحمت حرام ہو تی ہے جبکہ فتنہ و شر کے بھڑک اٹھنے کاسبب ہو۔

س۵۶۷۔ اگر امام جماعت کبھی غیر شائستہ بات کہے یا ذوق سے ہٹ کر ایسا مذاق کرے جو کہ عالم دین کے شایان شان نہ ہو تو کیا اس سے عدالت ساقط ہو جاتی ہے ؟

ج۔ اس چیز کو نماز گزار طے کریں گے اور اگر ایسا مذاق اور کلام شریعت کے خلاف اور مروت کے منافی نہ ہو تو اس سے عدالت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔

س۵۶۸۔ کیا امام جماعت کی کما حقہ معرفت نہ ہو نے کے باوجود اقتداء کی جا سکتی ہے ؟

ج۔ اگر ماموم کے نزدیک کسی بھی طریقہ سے امام کی عدالت ثابت ہو جائے تو اس کی اقتداء جائز ہے اور جماعت صحیح ہے۔

س۵۶۹۔ اگر ایک شخص کسی دوسرے شخص کو عادل و متقی سمجھتا ہے اور اسی لمحہ اس بات کا بھی معتقد ہے کہ اس نے بعض موقعوں پر ظلم کیا ہے تو کیا وہ اسے عمومی حیثیت سے عادل سمجھ سکتا ہے ؟

ج۔ جب تک اس شخص کے بارے میں ، جس کو اس نے ظالم سمجھا ہے ، یہ ثابت نہ ہو جائے کہ اس نے وہ کام علم و ارادہ اور اختیار یا کسی شرعی جواز کے بغیر انجام دیا ہے اس وقت تک وہ اس کے فاسق ہو نے کا حکم نہیں لگا سکتا۔

س۵۷۰۔ کیا ایسے امام حاضر کی اقتداء کی نیت کرنا جائز ہے جس کا نہ نام جانتا ہو اور نہ اس کا چھرہ دیکھتا ہو ؟

ج۔ جس کسی بھی طریقہ سے یہ اطمینان ہو جائے کہ امام حاضر عادل ہے تو اس کی اقتداء صحیح ہے۔

س۵۷۱۔کیا ایسے امام جماعت کی اقتداء کرنا جو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر پر قدرت رکھتے ہوئے بھی انجام نہیں دیتا جائز ہے ؟

ج۔صرف امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو ترک کرنا جبکہ اس بات کا امکان ہے کہ مکلف اپنے عذر کی بنا پر اس وظیفہ کو انجام نہ دے سکتا ہو عدالت کو ختم نہیں کرتا ہے اور ایسے امامت جماعت کی اقتداء کے لئے مانع نہیں ہے۔

س۵۷۲۔ آپ کے نزدیک عدالت کے کیا معنی ہیں ؟

ج۔ یہ ایک نفسانی حالت ہے جو ایسا تقویٰ اختیار کرنے کا باعث ہو تی ہے جو انسان کو شرعی محرمات کے ارتکاب سے روکتا ہے۔ا س کے اثبات کے لئے اس شخص کے ظاہر کا اچھا ہو نا کافی ہے جو عام طور پر عدالت کا گمان پیدا کرتا ہے۔

س۵۷۳۔ ہم چند جوان ہیں مجلسوں اور امام بارگہوں میں ایک جگہ بیٹھتے ہیں جب نماز کا وقت ہو تا ہے تو اپنے درمیان میں سے کسی ایک عادل شخص کو نماز جماعت کے لئے آگے بڑھا دیتے ہیں لیکن بعض برادران اس نماز پر اعتراض کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ امام خمینی (رح) نے غیر عالم دین کے پیچھے نماز پڑھنے کو حرام قرار دیا ہے پس ہمارا کیا فریضہ ہے ؟

ج۔ یہ برادران عزیز اگر آسانی سے ایسے عالم دین کے پیچھے نماز پڑھ سکتے ہیں جس کو وہ اقتداء کا اہل بھی سمجھتے ہوں ، انہیں محلہ کی مسجد میں جانا پڑے تو اس صورت میں غیر عالم دین کی اقتداء نہیں کرنا چاہئیے بلکہ غیر عالم دین کی اقتداء بعض حالات میں اشکال سے خالی نہیں ہے۔

س۵۷۴۔ کیا دو اشخاص سے نماز جماعت قائم ہو سکتی ہے ؟

ج۔ اگر ایک امام اور ایک ماموم سے تشکیل جماعت مراد ہو تو کوئی حرج نہیں ہے۔

س۵۷۵۔ جب ماموم ظہر و عصر کی نماز با جماعت پڑھتے ہوئے حمد و سورہ خود پڑھے ، اس فرض کے ساتھ کہ حمد و سورہ پڑھنا اس سے ساقط ہے لیکن اگر اس نے اپنے ذہن کو ادھر ادھر بھٹکنے سے بچانے کے لئے ایسا کر لیا تو اس کی نماز کا کیا حکم ہے ؟

ج۔ اخفاتی نما جیسے ظہر و عصر کی نمازوں میں ، جب امام حمد و سورہ پڑھ رہا ہو اس وقت ماموم پر خاموش رہنا واجب ہے ، قرأت اس کے لئے جائز نہیں ہے چاہے اپنے ذہن کو مرتکز کرنے کی غرض سے ہی ہو۔

س۵۷۶۔ اگر کوئی امام جماعت ٹریفک کے تمام قوانین کی رعایت کرتے ہوئے موٹر سائیکل سے نماز جماعت پڑھا نے جاتا ہو تو اس کا کیا حکم ہے ؟

ج۔ اس سے عدالت اور امام کی صحت پر کوئی حرف نہیں آتا مگر یہ کہ وہاں کے لوگوں کی نظر میں یہ چیز شان و مروت کے منافی اور معیوب ہو۔

س۵۷۷۔ جب ہمیں نماز جماعت نہیں مل پاتی اور ختم کے قریب ہو تی ہے تو ہم ثواب جماعت حاصل کرنے کی غرض سے تکبیرۃ الاحرام کہہ کر دو زانو بیٹھ جاتے ہیں اور امام کے ساتھ تشہد پڑھتے ہیں اور امام کے سلام پھیرنے کے بعد کھڑے ہو جاتے ہیں اور پہلی رکعت پڑھتے ہیں تو سوال یہ ہے کہ کیا چار رکعتی نماز کی دوسری رکعت کے تشہد میں بھی ہم ایسا کرسکتے ہیں ؟

ج۔ مذکورہ طریقہ امام جماعت کی نماز کے آخری تشہد سے مخصوص ہے تاکہ جماعت کا ثواب حاصل کیا جا سکے۔

س۵۷۸۔ کیا امام جماعت کے لئے نماز کی اجرت لینا جائز ہے ؟

ج۔ جائز نہیں ہے۔

س۵۷۹۔ کیا امام جماعت کو عید یا کوئی بھی دو نمازوں کی ایک وقت میں امامت کرنا جائز ہے ؟

ج۔ نماز پنجگانہ میں امام کا دوسرے مامومین کے لئے نماز جماعت کا ایک بار اعادہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے ، بلکہ مستحب ہے ، لیکن مستحب کا اعادہ کرنے میں اشکال ہے۔

س۵۸۰۔ جب امام عشاء کی نماز کی تیسری یا چوتھی رکعت میں ہو اور ماموم دوسری میں ہو تو کیا ماموم حمد و سورہ کو بلند آواز سے پڑھ سکتا ہے ؟

ج۔ واجب ہے کہ دونوں کو آہستہ پڑھے۔

س۵۸۱۔ نماز جماعت کے سلام کے بعد نبی اکرم پر صلوۃ کی آیت پڑھی جاتی ہے۔ اس کے بعد نماز گزار محمد و آل محمد پر تین مرتبہ درود بھی جتے ہیں اور اس کے بعد تین مرتبہ تکبیر کہتے ہیں اس کے بعد سیاسی ( یعنی دعا اور برأت کے جملے کہے جاتے ہیں جنہیں مومنین بلند آواز سے دہراتے ہیں ) کیا اس میں کوئی حرج ہے ؟

ج۔ آیہ صلوات پڑھنے اور محمد و آل محمد پر درود بھیجنے میں نہ صرف کوئی حرج نہیں بلکہ یہ مستحسن اور راجح ہے اور اس میں ثواب ہے اور اسی طرح اسلامی اور اسلامی انقلاب کے نعرے ’ تکبیر اور اس کے ملحقات ‘ جو کہ اسلامی انقلاب کے پیغام و مقاصد کی یاد تازہ کرتے ہیں وہ بھی مطلوب ہیں۔

س۵۸۲۔ اگر ایک شخص نماز جماعت میں شرکت کی غرض سے مسجد میں دوسری رکعت میں پہنچے اور مسئلہ سے ناواقفیت کی وجہ سے بعد والی رکعت میں تشہد و قنوت ، جن کا بجا لانا واجب تھا نہ بجا لائے تو کیا اس کی نماز صحیح ہے ؟

ج۔ نماز صحیح ہے لیکن تشہد کی قضا اور دو سجدہ سہو بجا لانا واجب ہے۔

س۵۸۳۔ نماز میں جس کی اقتداء کی جا رہی ہے کیا اس کی رضا مندی شرط ہے ؟ اور کیا ماموم کی اقتداء کرنا صحیح ہے ؟

ج۔ اقتداء کے صحیح ہو نے میں امام جماعت کی رضا مندی شرط نہیں ہے اور اس شخص کی اقتداء جو نماز میں ماموم ہو تا ہے ، صحیح نہیں ہے۔

س۵۸۴۔ دو اشخاص میں ایک امام اور دوسرا ماموم جماعت قائم کرتے ہیں ، تیسرا شخص آتا ہے وہ دوسرے ( یعنی ماموم ) کو امام سمجھتا ہے اور اس کی اقتداء کرتا ہے اور نماز سے فراغت کے بعد اسے معلوم ہو تا ہے کہ وہ امام نہیں بلکہ ماموم تھا پس اس تیسرے شخص کی نماز کا کیا حکم ہے ؟

ج۔ ماموم کی اقتداء صحیح نہیں ہے لیکن جب نہ جانتا ہو اور اقتداء کر لے اور رکوع و سجود میں اس نے اپنے انفرادی فریضہ پر عمل کیا ہو یعنی عمداً و سہواً کسی رکن کی کمی یا زیادتی نہ کی ہو تو اس کی نماز صحیح ہے۔

س۵۸۵۔ جو شخص نماز عشاء پڑھنا چاہتا ہے کیا اس کے لئے جائز ہے کہ اس جماعت میں شریک ہو جو مغرب کی نماز پڑھی جا رہی ہے ؟

ج۔ اس میں کوئی حرج نہیں۔

س۵۸۶۔ مکان کی بلندی اور پستی میں اگر ماموم امام کی رعایت نہ کرے تو کیا یہ ان کی نماز کے باطل ہو نے کا سبب بن سکتا ہے ؟

ج۔ اگر امام کے کھڑے ہو نے کی جگہ مامومین کے کھڑے ہو نے کہ جگہ سے اتنی بلند ہو جس کی اجازت نہیں ہے تو وہ ان کی جماعت کے باطل ہو نے کا سبب ہو گی۔

س۵۸۷۔ اگر نماز جماعت کی ایک صف ان لوگوں سے تشکیل پائی ہے جن کی نماز قصر ہے اور اس کے بعد والی ان لوگوں کی ہے جن کی نماز پوری ہے اس صورت میں اگر اگلی صف والے دو رکعت نماز تمام کرنے کے فوراً بعد اگلی دو رکعت کی اقتداء کے لئے کھڑے ہو جاتے ہیں تو ان کے بعد کی صف والوں کی آخری دو رکعت کی جماعت صحیح ہے یا نہیں ؟

ج۔ بالفرض اگلی صف میں تمام افراد کی نماز قصر ہو تو بعد والی صفوں کی جماعت کا صحیح ہو نا محل اشکال ہے اور احتیاط واجب ہے کہ جب پہلی صف والے سلام کی نیت سے بیٹھ جائیں تو بعد والی صف والے فرادیٰ کی نیت کر لیں۔

س۵۸۸۔ جب ماموم نماز کے لئے پہلی صف کے آخری سرے پر کھڑا ہو تو کیا وہ ان مامومین سے پہلے نماز میں شامل ہو سکتا ہے جو اس کے اور امام کے درمیان واسطہ ہیں ؟

ج۔ جب وہ مامومین ، جو کہ اس کے اور امام کے درمیان واسطہ ہیں ، امام کی نیت کرنے کے بعد نماز میں شامل ہو نے کے لئے تیار ہوں تو وہ جماعت کی نیت سے نماز میں شامل ہو سکتا ہے۔

س۵۸۹۔ جو شخص یہ سمجھ کر کہ امام کی پہلی رکعت ہے اس کی تیسری رکعت میں شریک ہو جائے اور کچھ نہ پڑھے تو کیا ا س پر اعادہ واجب ہے ؟

ج۔ اگر وہ رکوع میں جانے سے پہلے ہی اس کی طرف ملتفت ہو جائے تو اس پر قرأت کا تدارک واجب ہے اور اگر رکوع کے بعد ملتفت ہو تو بھی اس کی نماز صحیح ہے اور اس پر کوئی چیز واجب نہیں ہے اگرچہ احتیاط مستحب یہ ہے کہ قرأت ترک کرنے کے سبب دو سجدہ بھی بجا لائے۔

س۵۹۰۔ حکومتی دفاتر اور مدارس میں نماز جماعت قائم کرنے کے لئے امام جماعت کی اشد ضرورت ہے اور میرے علاوہ اس علاقہ میں کوئی عالم دین نہیں ہے اس لئے میں مجبوراً مختلف مقامات پر ایک واجب نماز کی تین یا چار مرتبہ امامت کرتا ہوں۔ دوسری نماز  پڑھا نے کے لئے تو سارے مراجع نے اجازت دی ہے ، کیا اس سے زائد کو احتیاطاً قضا کی نیت سے پڑھا یا جا سکتا ہے ؟

ج۔ جو نماز جماعت سے پڑھی جاچکی ہے اس کا دوسری جماعت میں اعادہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن ایک مرتبہ سے زیادہ پڑھی جانے والی نماز میں اشکال ہے اور احتیاطاً پڑھی جانے والی نمازوں میں امامت صحیح نہیں ہے۔

س۵۹۱۔ ایک کالج نے اپنے اسٹاف کے لئے کالج کی عمارت میں نماز جماعت قائم کی ہے جو شہر کی مسجد کے نزدیک ہے اور وہ لوگ جانتے ہیں کہ عین اسی وقت مسجد میں نماز جماعت قائم ہو تی ہے پس کالج کی جماعت میں شریک ہو نے کا کیا حکم ہے ؟ اور کالج کے ذمہ داروں کا نماز میں شرکت پر اصرار و اجبار حکم کو بدل سکتا ہے یا نہیں ؟

ج۔ ایسی نماز جماعت میں شرکت کرنا ، جس میں ماموم کی نظر میں وہ شرعی شرائط جو جماعت اور اقتداء کے لئے لازمی ہیں ، پائے جاتے ہوں ، بے اشکال ہے ، خواہ جماعت اس مسجد سے قریب ہی ہو رہی ہو جس میں عین اسی وقت نماز جماعت قائم ہو تی ہے لیکن نماز جماعت میں شرکت کرنے پر اصرار اور اجبار کے لئے کوئی شرعی دلیل نہیں ہے۔

س۵۹۲۔ کیا اس شخص کے پیچھے نماز صحیح ہے جو محکمۂ  قضاوت ( عدلیہ ) میں ہے لیکن مجتہد نہیں ہے ؟

ج۔ محکمہ قضاوت ( عدلیہ) میں اگر ان کا تقرر اس شخص نے کیا ہے جس کو تقرر کا حق ہے تو اس کی اقتداء کرنے میں کوئی مانع نہیں ہے۔

س۵۹۳۔ مسئلہ مسافر میں امام خمینی(رح) کا مقلد کیا ایسے امام جماعت کی اقتداء کرسکتا ہے جو اس مسئلہ میں امام (رح) کا مقلد نہیں ہے خصوصاً جبکہ اقتداء نماز جمعہ میں ہو ؟

ج۔ تقلید کا اختلاف صحیح ہو نے میں مانع نہیں ہو تا لیکن اس نماز کی اقتداء صحیح نہیں ہے جو ماموم کے مرجع تقلید کے فتوے کے مطابق قصر ہو اور امام جماعت کے مرجع تقلید کے فتوے کے مطابق کامل ہو۔

س۵۹۴۔ اگر امام جماعت تکبیرۃ الاحرام کے بعد بھولے سے رکوع میں چلا جائے تو ماموم کا کیا فریضہ ہے ؟

ج۔ اگر ماموم نماز جماعت میں شامل ہو نے کے بعد اس طرف متوجہ ہو تو اس پر فرادیٰ کی نیت کر لینا اور حمد و سورہ پڑھنا واجب ہے۔

س۵۹۵۔ جب نماز جماعت کی تیسری یا چوتھی صف میں مدرسوں کے نابالغ بچے نماز کے لئے کھڑے ہوں اور ان کے بعد چند بالغ اشخاص کھڑے ہوں تو اس حالت میں نماز کا کیا حکم ہے ؟

ج۔ مذکورہ فرض میں کوئی اشکال نہیں ہے۔

س۵۹۶۔ امام جماعت نے اگر غسل کے بدلے معذور ہو نے کے سبب تیمم کیا ہو تو یہ نماز جماعت پڑھا نے کے لئے کافی ہے یا نہیں ؟

ج۔ اگر وہ شرعی اعتبار سے معذور ہے تو غسل جنابت کے بدلے تیمم کر کے امامت کرسکتا ہے اور اس کی اقتداء کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

                   امام جماعت کی غلط قرأت اور اس کے احکام

س۵۹۷۔ کیا قرأت صحیح ہو نے کے مسئلہ میں فرادیٰ نماز نیز ماموم یا امام کی نماز کے درمیان کوئی فرق ہے ؟ یا قرأت کی صحت کا مسئلہ ہر حال میں ایک ہی ہے ؟

ج۔ اگر مکلف کی قرأت صحیح نہ ہو اور وہ سیکھنے پر بھی قدرت نہ رکھتا ہو تو اس کی نماز صحیح ہے لیکن دوسروں کا اس کی اقتداء کرنا صحیح نہیں ہے۔

س۵۹۸۔ حروف کے مخارج کے اعتبار سے بعض آئمہ جماعت کی قرأت صحیح نہیں ہے پس کیا ان کی اقتداء ایسے لوگوں کے لئے صحیح ہے جو حروف کو صحیح طریقہ سے ان کے مخارج سے ادا کرتے ہوں۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ تم پر جماعت سے نماز پڑھنا واجب ہے اور اس کے بعد نماز کا اعادہ کرنا بھی واجب ہے ، لیکن میرے پاس اعادہ کرنے کا وقت نہیں ہے ، پس میرا کیا فریضہ ہے ؟ اور کیا میں جماعت میں شریک ہو کر اخفاتی طریقہ سے حمد و سورہ پڑھ سکتا ہوں ؟

ج۔ جب ماموم کی نظر میں امام کی قرأت صحیح نہ ہو تو اس کی اقتداء اور جماعت باطل ہے اور اگر اعادہ کرنے پر قادر نہ ہو تو اقتداء نہ کرنے میں کوئی مانع نہیں ہے لیکن جہری نماز میں آہستہ سے حمد و سورہ پڑھنا ، جس سے امام جماعت کی اقتداء کا اظہار ثابت ہو ، صحیح نہیں ہے اور نہ مجزی ہے۔

س۵۹۹۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ چند آئمہ جمعہ کی قرأت صحیح نہیں ہے یا تو وہ حر ف کو اس طرح ادا نہیں کر پاتے کہ جس سے وہ حرف شمار کیا جائے یا حرکت کو اس طرح بدل دیتے ہیں جس سے وہ حرکت شمار نہیں ہو تی، کیا ان کے پیچھے پڑھی جانے والی نمازوں کے اعادہ کے بغیر ان کی اقتداء صحیح ہے ؟

ج۔ قرأت کے صحیح ہو نے کا معیار عربی زبان کے علماء کے مقرر کردہ قانون کے مطابق یہ ہے کہ حروف کو ان کے مخارج سے اس طرح ادا کیا جائے کہ اہل زبان یہ کہیں کہ وہی حرف ادا ہو ا ہے نہ کہ دوسرا۔ ساتھ ہی ان حروف کی بنیادی حرکات اور کلمہ کی ہئیت میں دخیل تلفظ کی رعایت کی جائے۔ پس اگر ماموم امام کی قرأت کو قواعد کے مطابق نہ پائے اور اس کی قرأت صحیح نہ ہو تو اس کی اقتداء کرنا صحیح نہیں ہے اور اگر اس صورت میں اس کی اقتداء کرے تو اس کی نماز صحیح نہ ہو گی اور دوبارہ پڑھنا واجب ہو گا۔

س۶۰۰۔ اگر امام جماعت کو اثنائے نماز میں کسی کلمہ کے محل سے گزر جانے کے بعد اس کے تلفظ کی کیفیت میں شک ہو جائے اور نماز سے فارغ ہو نے کے بعد متوجہ ہو کہ اس نے کلمہ کے تلفظ میں غلطی کی ہے تو اس کی اور مامومین کی نماز کا کیا حکم ہے ؟

ج۔ نماز صحیح ہے۔

س۶۰۱۔ قرآن کے مدرس اور اس شخص کی نماز کا شرعی حکم کیا ہے جو تحوید کے اعتبار سے امام جماعت کی نماز کو غلط سمجھتا ہے ایسی حالت میں اگر وہ جماعت میں شرکت نہ کرے تو لوگ اس پر مختلف قسم کی ناروا تہمتیں لگاتے ہیں ؟

ج۔ اگر ماموم کی نظر میں امام کی قرأت صحیح نہیں ہو گی تو اس کے معنی یہ ہیں کہ ماموم کی نظر میں اس کی نماز بھی صحیح نہیں ہے ، ایسی صورت میں وہ اس کی اقتداء نہیں کرسکتا لیکن عقلائی مقصد کے لئے اپنی شرکت ظاہر کرنے میں کوئی مانع نہیں ہے۔

                   معلوم اور ناقص کی امامت

س۶۰۲۔ درج ذیل صورتوں میں معلول امام کی اقتداء کا کیا حکم ہے ؟

1۔ وہ معلول و معذور جن کے بدن کا کوئی عضو کٹا تو نہیں ہے لیکن پیر کے شل ہو جانے کی وجہ سے وہ عصا یا دیوار کا سہا را لے کر کھڑے ہو تے ہیں۔

2۔ وہ معلول افراد جن کے ہاتھ یا پیر کی انگلی کی ایک پور یا پوری انگلی کٹی ہوئی ہو۔

3۔ وہ معلول افراد جن کے ہاتھ یا ایک پیر کا کچھ حصہ یا دونوں کا کچھ حصہ کٹا ہو۔

4۔ وہ معلول افراد جن کے ہاتھ یا پیر کی تمام انگلیاں یا دونوں کی تمام انگلیاں نہ ہوں۔

5۔ وہ معلول افراد جن کے بدن کا کوئی ایک عضو نہ ہو اور ہاتھوں سے معذور ہو نے کے سبب وضو کرتے وقت کسی سے مدد لیتے ہوں۔

ج۔ تمام صورتوں میں اگر قیام میں استقرار ہو اور وہ نماز کے افعال و اذکار کی حالت میں استقرار اور اطمینان کو برقرار رکھ سکتا ہو اور ساتوں اعضاء پر کامل رکوع و سجود کرسکتا ہے اور صحیح وضو کرنے پر بھی قادر ہو ، اور اس میں امامت کے تمام شرائط بھی پائے جاتے ہوں تو دوسروں کے لئے نماز میں اس کی اقتداء کرنے میں کوئی اشکال نہیں ہے اور اگر یہ باتیں نہ ہوں تو صحیح و کافی نہیں ہے۔

س۶۰۳۔ میں ایک دینی طالب علم ہوں ، آپریشن کی وجہ سے میرا دایاں ہاتھ کٹ چکا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے مجھے یہ معلوم ہو ا کہ امام خمینی (رح) کامل کے لئے ناقص کی امامت کو صحیح نہیں سمجھتے ہیں لہذا آپ سے گزارش ہے کہ ان مامومین کی نماز کا حکم بیان فرمائیں جنہوں نے بھی تک میری امامت میں نماز پڑھی ہے ؟

ج۔ مامومین کی گزشتہ نمازیں اور ان لوگوں کی نمازیں جنہوں نے حکم شرعی سے ناواقفیت کی بنا پر آپ کی اقتداء کی ہے ، صحیح ہیں۔ نہ ان پر قضا واجب ہے نہ اعادہ۔

س۶۰۴۔ میں دینی طالب علم ہوں اور اسلامی جمہو ری ایران پر مسلط جنگ میں میرے پاؤں کی انگلیاں زخمی ہو گئیں البتہ انگوٹھا مکمل طور پر سالم ہے اور اس وقت میں ایک امام بارگاہ میں امام جماعت ہوں۔ اس میں کوئی شرعی اشکال ہے یا نہیں ؟ امید ہے کہ بیان فرمائیں گے؟

ج۔ اگر پیر کا انگوٹھا صحیح و سالم ہے اور اثنائے سجود میں اسے زمین پر ٹیکا جا سکتا ہے تو ایسی حالت میں آپ کے امام جماعت ہو نے میں کوئی اشکال نہیں ہے۔

                   نماز جماعت میں عورتوں کی شرکت

س۶۰۵۔ کیا شارع مقدس نے عورتوں کو بھی مسجدوں میں نماز جماعت یا نماز جمعہ ادا کرنے کی اسی طرح ترغیب دلائی ہے جس طرح مردوں کو ، یا عورتوں کا گھر میں نماز پڑھنا افضل ہے ؟

ج۔ اگر عورتیں جماعت میں شرکت کرنا چاہتی ہیں تو ان کی شرکت میں کوئی اشکال نہیں ہے اور ان کو جماعت کا ثواب ملے گا۔

س۶۰۶۔ عورت کب امام جماعت بن سکتی ہے۔

ج۔ عورت کا عورتوں کی نماز جماعت کے لئے امام بننا جائز ہے۔

س۶۰۷۔ جب عورتیں ( مردوں کی طرح) نماز جماعت میں شریک ہو تی ہوں تو استحباب و کراہت کے لحاظ سے اس کا کیا حکم ہے ؟

الف۔ جب وہ مردوں کے پیچھے کھڑی ہوں تو اس وقت ان کا کیا حکم ہے ؟

ب۔ کیا مردوں کے پیچھے ان کی نماز جماعت کے لئے کسی حائل یا پردے کی ضرورت ہے ؟ اور اگر نماز میں وہ مردوں کے برابر کھڑی ہوں تو پردہ کے لحاظ سے کیا حکم ہے ؟

اس پھلو کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ جماعت اور خطبہ کے دوران اور دوسرے مراسم میں عورتوں کا پردے کے پیچھے کھڑے ہو نا ان کی ہا نت اور کسر شان ہے ؟

ج۔ عورتوں کے نماز جماعت میں شریک ہو نے میں کوئی اشکال نہیں ہے اور جب وہ مردوں کے پیچھے کھڑی ہوں تو پردے کی ضرورت نہیں ہے لیکن جب مردوں کے ایک جانب کھڑی ہوں تو نماز میں عورتوں کے مرد کے مقابل کھڑے ہو نے کی کراہت کو رفع کرنے کے لئے پردے کی ضرورت ہے۔ اور یہ تو ہم کہ حالت نماز میں مرد و عورت کے درمیان پردے کا وجود عورت کی شان گھٹانے اور اس کی عظمت کو گرانے کا موجب ہے۔ فقط ایک خیال ہے جس کی کوئی اساس نہیں ہے مزید یہ کہ فقہ میں اپنی ذاتی رائے کا داخل کرنا جائز نہیں ہے۔

س۶۰۸۔ حالت نماز میں مردوں اور عورتوں کی صفوں کے درمیان پردے کے بغیر اتصال اور عدم اتصال کی کیا کیفیت ہے ؟

ج۔ عورتیں فاصلہ کے بغیر مردوں کے پیچھے کھڑی ہوں۔

                   اہل سنت کی اقتداء

س۶۰۹۔ کیا اہل سنت کی اقتداء میں نماز جائز ہے ؟

ج۔ وحدت اسلامی کی خاطر ان کے پیچھے نماز جماعت پڑھنا جائز ہے۔

س۶۱۰۔ میں کرد نشین علاقہ میں ملازمت کرتا ہوں وہاں اہل سنت کے آئمہ جمعہ و جماعت کی اکثریت ہے۔ ان کی اقتداء کے سلسلے میں کیا حکم ہے ؟ اور کیا ان کی غیبت جائز ہے ؟

ج۔ ان کے ساتھ ان کی جماعت اور نماز جمعہ میں شرکت کرنے میں کوئی اشکال نہیں ہے اور غیبت سے پرہیز کرنا لازم ہے۔

س۶۱۱۔ اہل سنت کے ساتھ معاشرت اور ان کے ساتھ میل جول کی بنا پر نماز پنجگانہ میں شرکت کے دوران بعض موقعوں پر ہم بھی ان ہی کی طرح عمل کرتے ہیں مثلاً ہاتھ باندھ کر نماز پڑھنا اور اپنے وقت کی رعایت و پابندی نہ کرنا اور جانماز پر سجدہ کرنا، تو کیا ایسی نماز کا اعادہ کرنا ضروری ہے ؟

ج۔ اگر اسلامی اتحاد ان تمام چیزوں کا تقاضا کرے تو ان کے ساتھ نماز پڑھنا صحیح اور کافی ہے یہاں تک کہ مصلے پر سجدہ وغیرہ میں بھی کوئی مضائقہ نہیں ہے ، لیکن ان کے ساتھ ہاتھ باندھنا جائز نہیں ہے۔ مگر یہ کہ حالات اور ضرورت اس کا بھی تقاضا کریں۔

س۶۱۲۔ مکہ اور مدینہ میں ہم اہل سنت کے ساتھ نماز جماعت پڑھتے ہیں اور ایسا اس لئے کرتے ہیں کہ امام خمینی(رح) کا فتویٰ ہے۔اور بعض اوقات مسجد میں نماز کی فضیلت حاصل کرنے کی غرض سے ظہر و مغرب کی نماز کے بعد، عصر و عشاء کی نمازیں ہم اہل سنت کی مساجد میں سجدہ گاہ کے بغیر فرادیٰ پڑھتے ہیں ، ان نمازوں کا کیا حکم ہے ؟

ج۔ مذکورہ فرض میں نماز صحیح ہے۔

س۶۱۳۔ ہم شیعہ دوسرے شہروں میں اہل سنت کی نماز میں کیسے شرکت کریں جبکہ وہ ہاتھ باندھ کر نماز پڑھتے ہیں ؟ اور کیا ان کی طرح ہاتھ باندھنا ہمارے اوپر واجب ہے یا ہم ہاتھ باندھے بغیر نماز پڑھیں ؟

ج۔ اگر اسلامی اتحاد کی رعایت مقصود ہو تو اہل سنت کی اقتداء جائز ہے اور ان کے ساتھ نماز پڑھنا صحیح و کافی ہے ، لیکن نماز میں ہاتھ باندھنا واجب نہیں ہے بلکہ جائز بھی نہیں ہے مگر یہ کہ وہاں حالات اسی کے متقاضی ہوں۔

س۶۱۴۔ اہل سنت کی نماز جماعت میں شرکت کے وقت قیام کی حالت میں دونوں طرف کھڑے ہوئے اشخاص کے پیروں کی چھوٹی انگلی سے انگلی ملانے کا کیا حکم ہے جبکہ وہ اس کو لازم سمجھتے ہیں ؟

ج۔ یہ واجب نہیں ہے ، لیکن اگر ایسا کرے تو اس سے نماز کی صحت متاثر نہیں ہو تی۔

س۶۱۵۔ اہل سنت وقت اذان مغرب سے قبل ہی مغرب کی نماز پڑھتے ہیں کیا حج کے زمانہ میں یا اس کے علاوہ ہمارے لئے ان کی اقتداء کرنا اور اس نماز پر اکتفاء کرنا صحیح ہے ؟

ج۔ یہ معلوم نہیں ہے کہ وہ وقت سے پہلے نماز پڑھتے ہیں لیکن اگر مکلف کے لئے وقت ثابت نہ ہو ا ہو تو اس کا نماز میں شامل ہو نا صحیح نہیں ہے ہاں اگر اسلامی اتحاد مقصود ہو تو اس وقت ان کے ساتھ نماز پڑھنے اوراس پر اکتفاء کرنے میں کوئی مانع نہیں ہے۔

                   نماز جمعہ

س۶۱۶۔نماز جمعہ میں شریک ہو نے کے بارے میں آپ کا کیا نظریہ ہے ؟ جبکہ ہم حضرت اما م زمانہ علیہ السلام کی غیبت کے زمانہ میں زندگی گزار رہے ہیں اور اگر بعض اشخاص امام جمعہ کو عادل نہ مانتے ہوں تو نماز جمعہ میں شرکت کی تکلیف ان سے ساقط ہے یا نہیں ؟

ج۔ نماز جمعہ اگرچہ دور حاضر میں واجب تخییری ہے اور اس میں حاضر ہو نا واجب نہیں ہے لیکن نماز جمعہ میں شرکت کے فوائد و اہمیت کے پیش نظر صرف امام جمعہ کی عدالت میں شک یا بیہودہ عذر کی بنا پر مومنین خود کو ایسی نماز کی برکتوں سے محروم نہ کریں۔

س۶۱۷۔ مسئلہ ، نماز جمعہ میں واجب تخییری کے کیا معنی ہیں ؟

ج۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ جمعہ کے دن مکلف کو اختیار ہے کہ خواہ وہ نماز جمعہ پڑھے یا نماز ظہر۔

س۶۱۸۔ نماز جمعہ کو اہمیت نہ دیتے ہوئے نماز جمعہ میں شرکت نہ کرنے کے سلسلے میں آپ کا کیا نظریہ ہے ؟

ج۔ عبادی و سیاسی پھلو رکھنے والی اس نماز جمعہ کو اہمیت نہ دیتے ہوئے شرکت نہ کرنا شرعی لحاظ سے مذموم ہے۔

س۶۱۹۔ کچھ لوگ بیہودہ اور بے کار عذر کی بنا پر نماز جمعہ میں شریک نہیں ہو تے اور بعض اوقات نظریاتی اختلاف کے باعث شرکت نہیں کرتے اس سلسلہ میں آپ کا کیا نظریہ ہے ؟

ج۔ نماز جمعہ اگرچہ واجب تخییری ہے لیکن اس پر کوئی شرعی دلیل نہیں ہے کہ اس میں مستقل طور پر شرکت نہ کی جائے۔

س۶۲۰۔ نماز ظہر کا عین اس وقت جماعت سے منعقد کرنا، جب نماز جمعہ تھوڑے فاصلہ پر برپا ہو رہی ہو جائز ہے یا نہیں ؟

ج۔ بذات خود اس میں کوئی مانع نہیں ہے اور اس سے مکلف جمعہ کے دن کے فریضہ سے بری الذمہ ہو جائے گا کیونکہ دور حاضر میں نماز جمعہ واجب تخییری ہے لیکن جمعہ کے دن نماز جمعہ سے نزدیک ہی با جماعت نماز ظہر قائم کرنے کا لازمی نتیجہ مومنین کی تفریق و تقسیم ہے اور اکثر اوقات عوام کی نظر میں امام جمعہ کی اہا نت و ہتک شمار کیا جاتا ہے اور اس سے نماز جمعہ کی پرواہ نہ کرنے کا اظہار ہو تا ہے اس لئے با جماعت نماز ظہر قائم کرنا مومنین کے لئے سزاوار نہیں ہے بلکہ اگر اس سے مفاسد اور حرام نتائج برآمد ہو تے ہوں تو اس سے اجتناب واجب ہے۔

س۶۲۱۔ کیا نماز جمعہ و عصر کے درمیانی وقفہ میں امام جمعہ نماز ظہر پڑھ سکتا ہے ؟ اور اگر امام جمعہ کے علاوہ کوئی اور شخص نماز عصر پڑھائے تو کیا عصر کی نماز میں اس کی اقتداء ہو سکتی ہے ؟

ج۔ نماز جمعہ نماز ظہر سے بے نیاز کر دیتی ہے لیکن نماز جمعہ کے بعد احتیاطاً نماز ظہر پڑھنے میں کوئی اشکال نہیں ہے اور اگر نماز عصر کو جماعت سے پڑھنا چاہتا ہے تو کامل احتیاط یہ ہے کہ نماز عصر اس شخص کی اقتداء میں ادا کرے جس نے نماز جمعہ کے بعد احتیاطاً نماز ظہر پڑھ لی ہو۔

س۶۲۲۔ اگر نماز جمعہ کے بعد امام جماعت نماز ظہر نہ پڑھے تو ماموم احتیاطاً نماز ظہر پڑھ سکتا ہے یا نہیں ؟

ج۔ اس کے لئے نماز ظہر پڑھنا جائز ہے۔

س۶۲۳۔ کیا امام جمعہ کے لئے واجب ہے کہ وہ حاکم شرعی سے اجازت حاصل کرے؟ اور حاکم شرعی کس کو کہتے ہیں ؟اور کیا یہی حکم دوسرے ملکوں پر بھی جاری ہے ؟

ج۔ نماز جمعہ کی امامت کا اصل جواز اجازت پر موقوف نہیں ہے لیکن منصب امامت جمعہ کے احکام کا مرتب ہو نا ولی امر مسلمین کی طرف سے منصوب ہو نے پر موقوف ہے۔ اور یہ حکم ہر شہر اور ملک کے لئے عمومیت رکھتا ہے جس میں ولی امر مسلمین حاکم ہو اور لوگ اس کے فرمانبردار ہوں۔

س۶۲۴۔ کیا منصوب شدہ امام جمعہ کے لئے یہ جائز ہے کہ وہ اس جگہ نماز جمعہ قائم کرے جہاں اسے منصوب نہ کیا گیا ہو جبکہ وہاں اس کے لئے کوئی مانع  و معارض بھی نہیں ہے ؟

ج۔ بذات خود نماز جمعہ قائم کرنا اس کے لئے جائز ہے لیکن اس پر امامت جمعہ کے احکام مرتب نہیں ہوں گے۔

س۶۲۵۔ کیا موقت و عارضی آئمہ جمعہ کے انتخاب کے لئے واجب ہے کہ انہیں ولی فقیہ منتخب کرے یا آئمہ جمعہ کو اتنا اختیار ہے کہ امام موقت کے عنوان سے افراد منتخب کریں !

ج۔ منصوب شدہ امام جمعہ کسی کو بھی اپنا وقتی اور عارضی نائب بنا سکتا ہے۔ لیکن نائب کی امامت پر ولی فقیہ کی طرف سے نصب کئے جانے کے احکام مرتب نہیں ہوں گے۔

س۶۲۶۔ اگر مکلف منصوب شدہ امام جمعہ کو عادل نہ سمجھتا ہو یا ا س کی عدالت میں شک کرتا ہو تو کیا مسلمین کی وحدت کے تحفظ کی خاطر ا سکی اقتداء جائز ہے ؟ اور جو شخص خود نماز جمعہ میں نہیں آتا اس کے لئے جائز ہے دوسروں کو جمعہ میں شرکت نہ کرنے کی ترغیب دے؟

ج۔ اس کی اقتداء کرنا صحیح نہیں ہے جس کو عادل نہ سمجھتا ہو یا جس کی عدالت میں شک کرتا ہو اور نہ اس کی جماعت میں اس کی نماز صحیح ہے لیکن وحدت کے تحفظ کی خاطر جماعت میں شریک ہو نے میں کوئی مانع نہیں ہے۔ بہر حال اسے دوسروں کو نماز جمعہ میں شرکت سے روکنے کا حق نہیں ہے اور نہ دوسروں کو اس کے خلاف بھڑکانے کا حق ہے۔

س۶۲۷۔ اس نماز جمعہ میں شریک نہ ہو نے کا کیا حکم ہے جس کے امام جمعہ کا جھوٹا ہو نا مکلف پر ثابت ہو گیا ہو ؟

ج۔ امام جمعہ کے قول کے خلاف انکشاف ہو نا اس کے کذب کی دلیل نہیں ہے ممکن ہے کہ اس نے اشتباہ ، غلطی یا توریہ کے طور پر کوئی بات کہی ہو۔ لہذا صرف اس توہم سے کہ امام جمعہ کی عدالت ساقط ہو گئی ہے خود کو نماز جمعہ کی برکتوں سے محروم نہیں کرنا چاہئیے۔

س۶۲۸۔ جو امام جمعہ امام خمینی یا عادل ولی فقیہ کی طرف سے منصوب ہو ، کیا ماموم پراس کی عدالت کا اثبات و تحقیق ضروری ہے ، یا امامت جمعہ کے لئے اس کا منصوب ہو نا اس کی عدالت کے ثبوت کے لئے کافی ہے ؟

ج۔ اگر امام جمعہ کا امام خمینی(رح) یا ولی فقیہ کی جانب سے نصب کیا جانا ماموم کے لئے امام جمعہ کی عدالت کے بارے میں اطمینان بخش ہو تو ایسے امام کی اقتدا کے لئے کافی ہے

س۶۲۹۔ کیا مساجد کے لئے آئمہ جماعت کا ثقہ علماء کی طرف سے معین کیا جانا یا ولی فقیہ کی جانب سے آئمہ جمعہ کا معین کیا جانا ، اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ عادل ہیں یا ان کی عدالت کی تحقیق واجب ہے ؟

ج۔ اگر ماموم کو ان کے امام جمعہ یا جماعت منصوب کئے جانے سے ان کی عدالت پر اطمینان و وثوق پیدا ہو جاتا ہے تو اقتداء کرنے کے لئے اس پر اعتماد کرنا جائز ہے۔

س۶۳۰۔ اگر امام جمعہ کی عدالت میں شک ہو کہ ( خدانخواستہ) اس کے عادل نہ ہو نے کا یقین ہو اور ہم نے اس کی اقتداء میں نماز پڑھ لی تو کیا اس کا اعادہ واجب ہے ؟

ج۔ اگر عدالت میں شک ہو یا نماز کے بعد یہ معلوم ہے کہ وہ عادل نہیں ہے تو جو نماز آپ نے پڑھ لی ہے وہ صحیح ہے اور اس کا اعادہ واجب نہیں ہے۔

س۶۳۱۔ اس نماز جمعہ میں شرکت کا کیا حکم ہے جو یورپی اور دوسرے ممالک میں وہاں کی یونیورسٹیوں میں پڑھنے والے اسلامی ممالک کے طلاب قائم کرتے ہیں اور ان میں شرکت کرنے والے اکثر افراد بشمول امام جمعہ اہل سنت ہو تے ہیں ؟ کیا اس صورت میں نماز جمعہ کے بعد ظہر پڑھنا ضروری ہے ؟

ج۔ مسلمانوں کے درمیان وحدت و اتحاد کی خاطر اس میں شرکت کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

س۶۳۲۔ پاکستان کے ایک شہر میں چالیس سال سے ایک جگہ نماز جمعہ ادا کی جا رہی ہے اور اب ایک شخص نے دو جمعوں کے درمیان شرعی مسافت کی رعایت کئے بغیر دوسری نماز جمعہ قائم کر دی ہے جس سے نماز گزاروں کے درمیان اختلاف پیدا ہو گیا ہے۔ شرعاً اس عمل کا کیا حکم ہے ؟

ج۔ کسی ایسے عمل کے اسباب فراہم کرنا جائز نہیں ہے ، جس سے مسلمانوں کی صفوں میں اختلاف و تفرقہ پیدا ہو جائے بالخصوص نماز جمعہ جیسے شعائر اسلامی میں جو مسلمانوں کے اتحاد کا مظہر ہے۔

س۶۳۳۔ راولپنڈی کی جامع مسجد جعفریہ کے خطیب نے اعلان کیا کہ تعمیری کام کی بنا پر مذکورہ مسجد میں نماز جمعہ نہیں ہو گی۔ اب مسجد کی تعمیر کا کام ختم ہو گیا تو ہمارے سامنے یہ مشکل کھڑی ہو گئی کہ چار کلومیٹر کے فاصلہ پر دوسری مسجد میں نماز جمعہ قائم ہو نے لگی، مذکورہ مسافت کو مد نظر رکھتے ہوئے مذکورہ مسجد میں نماز جمعہ قائم کرنا صحیح ہے یا نہیں ؟

ج۔ جب دو نماز جمعہ کے درمیان ایک شرعی فرسخ کا فاصلہ نہ ہو تو بعد میں اور ایک ہی وقت میں قائم ہو نے والی نماز جمعہ باطل ہے۔

س۶۳۴۔ کیا نماز جمعہ ، جو جماعت کے ساتھ قائم کی جاتی ہے ، اسے فرادیٰ پڑھنا صحیح ہے ؟مثلاً کوئی شخص ان لوگوں کے پھلو میں فرادیٰ نماز جمعہ پڑھے جو اسے جماعت سے پڑھ رہے ہیں ؟

ج۔ نماز جمعہ کے صحیح ہو نے کے شرائط میں سے ایک یہ ہے کہ اسے جماعت سے پڑھا جائے، فرادیٰ صورت میں جمعہ صحیح نہیں ہے۔

س۶۳۵۔ جب نماز گزار قصر کے حکم میں ہو اور وہ اس امام جماعت کے پیچھے نماز پڑھنا چاہتا ہو جو نماز جمعہ پڑھ رہا ہے تو کیا اس کی نماز صحیح ہے ؟

ج۔ ماموم مسافر کی نماز جمعہ صحیح ہے اور اسے ظہر پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے۔

س۶۳۶۔ کیا دوسرے خطبہ میں حضرت زہرا سلام اللہ علیہا کا اسم گرامی مسلمانوں کے ایک امام کے عنوان سے لینا واجب ہے یا استحباب کی نیت سے آپ (س) کا نام لینا واجب ہے ؟

ج۔ آئمہ مسلمین کا عنوان حضرت  زہرا سلام اللہ علیہا کو شامل نہیں ہے اور خطبہ جمعہ میں آپ کا اسم گرامی لینا واجب نہیں ہے لیکن برکت کے طور پر آپ کے نام مبارک کا ذکر کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

س۶۳۷۔ کیا ماموم ، امام جمعہ کی اقتداء کرتے ہوئے جبکہ وہ نماز جمعہ پڑھ رہا ہو کوئی دوسری واجب نماز پڑھ سکتا ہے ؟

ج۔ اس کا صحیح ہو نا محل اشکال ہے۔

س۶۳۸۔ کیا ظہر کے شرعی وقت سے پہلے نماز جمعہ کے دونوں خطبے پڑھنا صحیح ہے ؟

ج۔ زوال سے پہلے اس طرح پڑھنا جائز ہے کہ زوال آفتاب کے وقت ان سے فارغ ہو جائے۔

س۶۳۹۔ جب ماموم دونوں خطبوں میں سے کچھ بھی نہ سن سکے بلکہ اثنائے نماز جمعہ میں پہنچے اور امام کی اقتداء کرے تو کیا اس کی نماز صحیح اور کافی ہے ؟

ج۔ اس کی نماز صحیح اور کافی ہے چاہے اس نے امام کے ساتھ ایک ہی رکعت پڑھ لی ہو ، اس طرح کہ نماز جمعہ کی آخری رکعت کے رکوع میں ہی اس کی شرکت ہو گئی ہو۔

س۶۴۰۔ ہمارے شہر میں اذان ظہر کے ڈیڑھ گھنٹہ بعد نماز جمعہ قائم ہو تی ہے تو کیا یہ نماز ظہر کا بدل بن سکتی ہے یا نماز ظہر کا اعادہ ضروری ہے ؟

ج۔ زوال آفتاب کے ساتھ نماز جمعہ کا وقت ہو جاتا ہے اور احتیاط واجب یہ ہے کہ عرف عام میں ابتداء زوال کے وقت سے تاخیر نہ کرے اور یہ بعید نہیں ہے کہ نماز جمعہ کا وقت ظہر کے بعد رونما ہو نے والے سایہ کے قامت انسان کے 2/7 برابر ہو نے تک باقی رہے ، اگر اس وقت میں نماز جمعہ نہیں پڑھی ہے تو پھر احتیاط واجب یہ ہے کہ اس کے بدلے نماز ظہر پڑھے۔

س۶۴۱۔ ایک شخص میں نماز جمعہ میں پہنچنے کی طاقت نہیں ہے تو کیا وہ اوائل وقت نماز ظہر و عصر پڑھ سکتا ہے ؟ یا نماز جمعہ ختم ہو نے کا انتظار کرے اور اس کے بعد نماز ظہر و عصر پڑھے ؟

ج۔ منصوب امام جمعہ کی موجودگی میں نائب کے لئے جمعہ پڑھا نے میں کوئی حرج نہیں ہے اور نہ ہی منصوب امام کا اپنے نائب کی اقتداء کرنے میں کوئی مانع ہے۔

                   نماز عیدین

س۶۴۳۔ آپ کی رائے میں نماز عیدین اور جمعہ واجبات کی کس قسم میں سے ہیں ؟

ج۔ عصر حاضر میں نماز عیدین واجب نہیں ہے بلکہ مستحب ہے لیکن نماز جمعہ واجب تخییری ہے۔

س۶۴۴۔ کیا نماز عیدین کے قنوت میں کمی زیادتی اس کے باطل ہو نے کاسبب ہو تی ہے ؟

ج۔ اس سے نماز باطل نہیں ہو تی ہے۔

س۶۴۵۔ ماضی میں رواج تھا کہ امام جماعت ہی مسجد میں عید الفطر کی نماز  پڑھا یا کرتا تھا۔ کیا اب بھی جائز ہے کہ آئمہ جماعت ہی نماز عیدین پڑھائیں یا نہیں ؟

ج۔ ولی فقیہ کے وہ نمائندے پڑھا سکتے ہیں جن کو ولی فقیہ کی طرف سے نماز عید قائم کرنے کی اجازت ہو اسی طرح وہ آئمہ جمعہ بھی دور حاضر میں نماز عید جماعت سے پڑھا سکتے ہیں جن کو ولی فقیہ کی طرف سے منصوب کیا گیا ہو ، لیکن ان کے علاوہ افراد کے لئے احتیاط یہ ہے کہ فرادیٰ پڑھیں اگرچہ رجاء ً جماعت سے پڑھنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے لیکن ورود کے قصد سے نہیں۔ ہاں اگر مصلحت کا تقاضا یہ ہو کہ شہر میں ایک ہی نماز عید قائم کی جائے تو اولیٰ یہ ہے کہ اسے ولی فقیہ کے منصوب کردہ امام کے علاوہ کوئی اور نہ پڑھائے۔

س۶۴۶۔ کیا نماز عید فطر کی قضا کی جا سکتی ہے ؟

ج۔ اس کی قضا نہیں ہے۔

س۶۴۷۔ کیا نماز عید فطر میں اقامت ہے ؟

ج۔ اس میں اقامت نہیں ہے۔

س۶۴۸۔ اگر نماز عید فطر میں امام اقامت کہے تو اس کی اور دیگر نماز گزاروں کی نماز کا کیا حکم ہے ؟

ج۔ اس سے امام جماعت اور دیگر مامومین کی نماز کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔

                   نماز مسافر

س۶۴۹۔ مسافر کے لئے ہر نماز کو قصر پڑھنا واجب ہے یا بعض نمازوں کو؟

ج۔ قصر کا وجوب پنجگانہ نمازوں کی صرف چار رکعتی یعنی ’ ظہر و عصر اور عشاء ‘ کی نمازوں سے مخصوص ہے۔ صبح اور مغرب کی نماز قصر نہیں ہے۔

س۶۵۰۔ مسافر پر چار رکعتی نمازوں میں وجوب قصر کے شرائط کیا ہیں ؟

ج۔ یہ آٹھ شرطیں ہیں :

1۔ سفر کی مسافت آٹھ فرسخ کے برا بر ہو یعنی ایک طرف کا فاصلہ یا دونوں طرف کا مجموعی فاصلہ آٹھفرسخ شرعی ہو ، شرط یہ ہے کہ صرف جانے کی مسافت چار فرسخ سے کم نہ ہو۔

2۔ سفر پر نکلتے وقت آٹھ فرسخ کا قصد رکھتا ہو۔ پس اگر مسافت کا قصد نہ کرے یا اس سے کم کا قصد کرے اور پھر اس منزل پر پہنچ کر دوسری جگہ کا قصد کر لے اور اس جگہ اور پچھلی منزل کے درمیان کا فاصلہ شرعی مسافت کے برابر نہ ہو ، لیکن جہاں سے پہلے چلا تھا وہاں سے اتنی مسافت ہے تو قصر نہیں ہے۔

3۔ مسافت تمام ہو نے تک عزم سفر باقی رہے۔ پس اگر چار فرسخ تک پہنچنے سے پہلے ارادہ بدل دے یا اس سفر کو جاری رکھنے میں متردد ہو جائے تو اس پر سفر کا حکم جاری نہیں ہو گا چاہے ارادہ بدلنے سے قبل اس نے نماز قصر ہی پڑھی ہو۔

4۔ سفر کے درمیان اپنے وطن سے گزرنے یا کسی جگہ دس روز یا اس سے زیادہ قیام کرنے کی نیت سے سفر ختم کرنے کا ارادہ نہ رکھتا ہو۔

5۔ شرعی اعتبار سے اس کا سفر جائز ہو ، پس اگر معصیت یا حرام کام کے لئے سفر ہو خواہ وہ سفر خود ہی معصیت و حرام ہو جیسے لشکر اسلام سے فرار کرنا یا غرض سفر حرام ہو جیسے راہ زنی کے لئے سفر کرنا تو اس پر سفر کا حکم جاری نہیں ہو گا۔م

6۔ مسافر ، خانہ بدوشوں میں سے نہ ہو جیسے بادیہ نشین جن کا کوئی معین وطن نہیں ہو تا ہے بلکہ وہ صحراؤں میں گھومتے ہیں اور جہاں انہیں پانی اور چارہ مل جاتا ہے وہیں اتر پڑتے ہیں۔

7۔ یہ کہ سفر اس کا پیشہ نہ ہو جیسے چوکیدار ، شتربان اور ملاح وغیرہ اور یہ حکم ان لوگوں کا بھی ہے جن کا مشغلہ سفر ہو تا ہے۔

8۔ اس کا حد ترخص تک پہنچنا۔ حد ترخص وہ جگہ ہے جہاں سے شہر کی اذان نہ سنی جا سکے یا وہاں سے شہر کی دیواریں نظر نہ آئیں۔

                   جس کا پیشہ یا پیشہ کا مقدمہ سفر ہو

س۶۵۱۔ جس شخص کا سفر اس کے پیشہ کا مقدمہ ہو ، وہ سفر میں پوری نمازیں پڑے گا، یا یہ ( پوری نمازیں پڑھنا) اس سے مخصوص ہے جس کا پیشہ ہی سفر ہو اور مرجع دینی، جیسے امام خمینی(رح)کے اس قول کے کیا معنی ہیں ’ جس کا پیشہ سفر ہو ‘ کیا کوئی شخص ایسا بھی پایا جاتا ہے جس کا پیشہ سفر ہو ؟ اس لئے کہ چرواہوں ، شتربان اور ملاح وغیرہ کا عمل بھی چرانا ، ہنکانا اور کشتی چلانا ہے اور مختصر یہ ہے کہ ایسا کوئی شخص نہیں پایا جاتا کہ جس کا مقصد سفر کو پیشہ بنانا ہو ؟

ج۔ جس کا سفر اس کے شغل کا مقدمہ ہو اگر وہ ہر دس دن میں کم از کم ایک مرتبہ کام کرنے کے لئے اس جگہ جاتا ہے جہاں کام کرتا ہے تو وہاں پوری نماز پڑھے گا اور اس کا روزہ بھی صحیح ہے اور فقہا رضوان اللہ علیہم کے کلام میں جو یہ جملہ آتا ہے کہ ’ جس کا شغل سفر ہو ‘ اس سے مراد وہ شخص ہو تا ہے جس کے کام کا دارومدار سفر پر ہو جیسے وہ مشاغل جو سوال میں مذکور ہیں۔

س۶۵۲۔ اس شخص کے روزہ نماز کا کیا حکم ہے جس کا شغل سفر ہو جیسے کرایہ پر سفر کرنے والا ڈرائیور اور ملاح وغیرہ؟

ج۔ سفر میں پوری نماز پڑھے گا اور اس کا روزہ صحیح ہے۔

س۶۵۳۔ اس شخص کے روزہ نماز کا کیا حکم ہے جس کا کام سفر ہو جیسے وہ ملازم جو اپنی جائے ملازمت کی طرف سفر کرتا ہے یا وہ کاریگر جو اپنے کارخانہ کی طرف سفر کرتا ہے ؟

ج۔ جب وہ ھردس دن میں کم از کم ایک مرتبہ اپنے محل شغل یا کام کرنے کی جگہ کی طرف سفر کرتا ہو تو روزہ کے صحیح ہو نے اور پوری نماز کے واجب ہو نے میں اس کا حکم وہی ہے جو اس شخص کا ہے جس کا شغل سفر ہو۔

س۶۵۴۔ ان لوگوں کے روزے ، نماز کے بارے میں آپ کا کیا نظریہ ہے جو جس شہر میں کام کرتے ہیں ایک سال سے زیادہ ٹھرتے ہیں یا وہ فوجی جو کسی شہر میں فوجی خدمت انجام دینے کے لئے ایک یا دو سال قیام کرتے ہیں ، کیا ان پر ہر سفر کے بعد دس روز کے قیام کی نیت کرنا واجب ہے تاکہ روزہ رکھ سکیں اور پوری نماز پڑھ سکیں اور اگر دس روز سے کم قیام کی نیت ہو تو ان کے روزہ نماز کا کیا حکم ہے ؟

ج۔ مفروضہ سوال میں ان کا حکم وہی ہے جو نماز قصر سے متعلق تمام مسافروں کا ہے ، جب تک وہ دس دن کے قیام کی نیت نہ کریں۔

س۶۵۵۔ جنگی طیاروں کے پائیلٹ ، جو اکثر فوجی اڈوں سے پرواز کرتے ہیں اور شرعی مسافت سے کہیں زیادہ فاصلہ طے کرنے کے بعد واپس آتے ہیں ، ان کی نماز اور روزے کا کیا حکم ہے ؟

ج۔ اس سلسلہ میں ان کا حکم وہی ہے جو سفر میں نماز کے تمام ہو نے اور روزہ کے صحیح ہو نے میں موٹر کے ڈرائیوروں ، کشتی رانوں اور جہا ز کے پائیلٹوں کا ہے۔

س۶۵۶۔ وہ قبائل جو اپنی قیام گاہ سے ایک یا دو مہینہ کے لئے اِدھر اُدھر منتقل ہو تے رہتے ہیں لیکن سال کا باقی حصہ گرم یا سرد علاقہ میں گذارتے ہیں تو کیا دونوں جگہیں ( گرم و سرد علاقے) ان کے لئے وطن شمار ہوں گی؟ اور ( نماز کے قصر یا تمام کے اعتبار سے ) ان کے اس سفر کا کیا حکم ہے جو ان دو جگہوں میں قیام کے دوران کرتے ہیں ؟

ج۔ اگر وہ ہمیشہ گرم سے سرد علاقہ اور سرد سے گرم علاقہ کی طرف منتقل ہو تے رہتے ہیں تاکہ اپنے سال کے بعض ایام ایک جگہ گزاریں اور بعض ایام کو دوسری جگہ گذاریں اور انہوں نے دونوں جگہوں کو اپنی دائمی زندگی کے لئے اختیار کر رکھا ہو تو دونوں جگہیں ان کے لئے وطن شمار ہوں گی اور دونوں پر وطن کا حکم عائد ہو گا۔ اور اگر دونوں وطنوں کے درمیان کی مسافت، شرعی مسافت کے برابر ہے تو ان کے لئے ایک وطن سے دوسرے وطن کی طرف سفر کا حکم وہی ہے جو تمام مسافروں کا ہے۔

س۶۵۷۔ میں ایک شہر میں سرکاری ملازم ہوں اور میری ملازمت کی جگہ اور گھر کے درمیان تقریباً ۳۵ کلومیٹر کا فاصلہ ہے اور روزانہ اس مسافت کو اپنی ملازمت کی جگہ پہنچنے کے لئے طے کرتا ہوں۔ پس اگر کسی کام سے میں اس شہر میں چند راتیں ٹھرنے کا ارادہ کر لوں تو مجھ پر پوری نماز پڑھنا واجب ہے یا نہیں ؟اور مثال کے طور پر اگر میں جمعہ کو اپنے رشتہ داروں سے ملاقات کے لئے شہر سمنان جاؤں تو مجھے پوری نماز پڑھنا ہو گی یا نہیں ؟

ج۔ اگر آپ کا سفر آپ کی اس ملازمت کے لئے نہیں ہے جس کے لئے آپ روزانہ جاتے ہیں تو اس پر شغل کے سفر کا حکم عائد نہیں ہو گا۔ لیکن اگر سفر خود اسی ملازمت کے لئے ہو اور آپ اپنی ملازمت کی جگہ پر قیام کے دوران خاص کاموں ، جیسے رشتہ داروں اور دوستوں سے ملاقات کے لئے جائیں اور اتفاق سے وہاں پر ایک رات یا چند راتیں گذارنا پڑیں تو کام کے لئے سفر کا جو حکم ہے وہ ان اسباب کی وجہ سے نہیں بدلے گا بلکہ آپ کو پوری نماز پڑھنا ہو گی اور روزہ رکھنا ہو گا۔

س۶۵۸۔ اگر ملازمت کی جگہ پر ، جس کے لئے میں نے سفر کیا ہے ، دفتری اوقات کے بعد ذاتی کام انجام دوں ، مثلاً سات بجے سے دو بجے تک دفتری کام انجام دیتا رہوں اور دو بجے کے بعد ذاتی کام انجام دوں تو میری نماز اور روزہ کا کیا حکم ہے ؟

ج۔ دفتری کام کو انجام دینے کے بعد کسی خاص کام کا انجام دینا، دفتری کام ( شغل ) کے سفر کے حکم کو تبدیل نہیں کرتا۔

س۶۵۹۔ ان سپاہیوں کے روزہ و نماز کا کیا حکم ہے جو یہ جانتے ہیں کہ وہ دس دن سے زیادہ ایک جگہ قیام کریں گے لیکن اس کا اختیار خود ان کے ہاتھ میں نہیں ہے ؟ امید ہے امام خمینی کا فتویٰ بھی بیان فرمائیں گے؟

ج۔ مذکورہ سوال میں اگر انہیں دس دن یا اس سے زیادہ ایک جگہ رہنے کا اطمینان ہو تو ان پر پوری نماز پڑھنا اور روزہ رکھنا واجب ہے اور یہی فتویٰ امام خمینی (رح) کا بھی ہے۔

س۶۶۰۔ ان لوگوں کے روزہ، نماز کا کیا حکم ہے جو فوج یا پاسداران انقلاب میں شامل ہیں اور جو دس دن سے زیادہ چھاؤنیوں میں یا سرحدی علاقوں میں رہتے ہیں ؟ برائے مہربانی امام خمینی (رح) کا فتویٰ بھی بیان فرمائیں ؟

ج۔ وہاں ان پر پوری نماز پڑھنا اور روزہ رکھنا واجب ہے۔

س۶۶۱۔ میں رمضان المبارک میں ایک ایسی جگہ قیام پذیر تھا کہ میری قیام گاہ اور ان تمام مقامات کے درمیان جن کے بارے میں اطلاع فراہم کرنا میرا فریضہ تھا ، حد ترخص کی مقدار کے برابر فاصلہ تھا ، اس صورت میں کیا مجھے نماز پوری پڑھنی ہو گی اور روزہ رکھنا واجب ہو گا؟

ج۔ جب آپ نے اپنے کام کے لئے ان تمام مقامات کا چکر لگاتے ہیں جن کی اطلاع فراہم کرنا آپ پر واجب ہے یا ان مقامات تک جاتے ہیں جو آپ کی قیام گاہ سے شرعی مسافت کے بقدر دور نہیں ہیں ، جبکہ آپ پر اپنی قیام گاہ پر پوری نماز پڑھنے کا حکم نافذ ہو چکا ہو خواہ وہاں ایک ہی چار رکعتی نماز ادا کی ہو یا دس دن کے اندر ان مقامات تک کا سفر کل ملا کے ایک تھائی دن یا رات یا اس سے کم کا ہو تو اس صورت میں آپ اپنی قیام گاہ اور ان مقامات پر پوری نماز پڑھیں گے اور روزہ رکھیں گے ورنہ دوسری صورت میں نماز قصر ہو گی اور روزہ رکھنا صحیح نہ ہو گا۔

س۶۶۲۔ امام خمینی (رح) کی توضیح المسائل کے صلۃ المسافر کے باب میں مسئلہ ۳۰۶ میں ساتویں شرط یہ ہے :

ڈرائیور پر واجب ہے کہ پہلے سفر کے بعد پوری نماز پڑھے لیکن پہلے سفر میں اس کی نماز قصر ہے خواہ سفر طویل ہی کیوں نہ ہو پس کیا پہلے سفر سے مراد وطن سے چلنا اور لوٹ کر وطن واپس آنا ہے خواہ وہ سفر ایک ماہ یا اس سے زیادہ مدت تک جاری رہے چاہے وہ اس مدت میں اپنے اصلی وطن کے علاوہ ایک شہر سے دوسرے شہر دسیوں بار اسباب منتقل کرتا رہا ہو ؟

ج۔ اس کا پھلا سفر اس منزل و مقصد تک پہنچنے کے بعد پورا ہو تا ہے جس کا اس نے اپنے وطن یا قیام گاہ سے نکلتے وقت قصد کیا تھا تاکہ سواریوں کو وہاں منتقل کرے یا اسباب پہنچائے اور واپس وطن تک لوٹنا اس کا جزء نہیں ہے مگر یہ کہ اس کا سفر منزل و مقصد کی طرف سواریوں کو منتقل کرنے کے لئے یا اس جگہ سے سامان وہاں لے جانے کے لئے ہو جہاں سے اس نے سفر شروع کیا تھا۔

س۶۶۳۔ وہ شخص جس کا دائمی پیشہ ڈرائیوری نہ ہو بلکہ مختصر مدت کے لئے ڈرائیوری اس کا فریضہ بن گیا ہے ، جیسے چھاؤنیوں میں یا نگہبانی کے فرائض انجام دینے والوں پر موٹر گاڑی چلانے کی ذمہ داری عائد کر دی جاتی ہے کیا ایسا شخص مسافر کے حکم میں ہے یا اس پر پوری نماز پڑھنا اور روزہ رکھنا واجب ہے ؟

ج۔ جب عرف عام میں اس کو اس وقتی مدت میں ڈرائیور کہا جائے تو اس مدت میں اس کا وہی حکم ہے جو تمام ڈرائیوروں کا ہے۔

س۶۶۴۔ جب ڈرائیور کی گاڑی میں کوئی نقص پیدا ہو جائے اور وہ اس کے پرزے اور اسباب لینے کے لئے دوسرے شہر جائے تو کیا اس سفر میں وہ پوری نماز پڑھے گا یا قصر جبکہ اس سفر میں اس کی گاڑی اس کے ساتھ نہیں ہے ؟

ج۔ جب اس سفر میں اس کا شغل ڈرائیوری نہ ہو تو اس کا حکم وہی ہے جو تمام مسافروں کا ہے۔

                   طلبہ کا حکم

س۶۶۵۔ یونیورسٹیوں کے ان طلبہ کا کیا حکم ہے جو ہفتہ میں کم از کم دو دن تحصیل علم کے لئے سفر کرتے ہیں یا ان ملازمین کا کیا حکم ہے جو ہر ہفتہ اپنے کام کے لئے سفر کرتے ہیں ؟ واضح رہے کہ وہ ہر ہفتہ سفرکرتے ہیں لیکن کبھی یونیورسٹی میں چھٹی ہو جائے یا دفتر و کارخانہ میں چھٹی ہو جائے تو ایک ماہ اپنے اصل وطن میں رہتے ہیں اور اس ایک ماہ کی مدت میں سفر نہیں کرتے تو جب وہ ایک ماہ کے بعد پھر سے سفر کا آغاز کریں گے تو کیا اس پہلے سفر میں ان کی نماز قاعدہ کے مطابق قصر ہو گی اور اس کے بعد وہ پوری نماز پڑھیں گے؟

ج۔ تحصیل علم کے لئے جانے والوں کی نماز قصر ہے اور روزہ رکھنا صحیح نہیں ہے خواہ ان کا سفر ہفتہ وار ہو یا روزانہ ہو لیکن جو شخص کام کے لئے سفر کرتا ہے خواہ اس کا کام آزاد ہو یا دفتری لہذا اگر وہ دس دن میں کم از کم ایک مرتبہ اپنے کام کرنے کی جگہ سے اپنے وطن یا محل سکونت کی طرف جاتا ہے تو کام کے لئے کیے جانے والے دوسرے سفر میں وہ پوری نماز پڑھے گا اور اس کا روزہ رکھنا بھی صحیح ہو گا اور جب وہ کام والے سفر کے دوران اپنے وطن میں یا غیر وطن میں دس دن قیام کرے تو ا سکام کے لئے کئے جانے والے پہلے سفر میں نماز قصر پڑھے گا اور روزہ نہیں رکھے گا۔

س۶۶۶۔ دینی طالب علم یہ نیت کر لے کہ تبلیغ کو اپنا مشغلہ بنائے گا تو مذکورہ فرض کے مطابق وہ سفر میں پوری نماز پڑھ سکتا ہے اور روزہ رکھ سکتا ہے یا نہیں ؟ اور جب اس کا سفر تبلیغ ، دعوت ہدایت اور امر بالمعروف کے لئے نہ ہو بلکہ کسی اور کام کے لئے سفر کرے تو اس کے روزے نماز کا کیا حکم ہے ؟

ج۔ اگر تبلیغ و ہدایت اور امر بالمعروف و نہی از منکر کو عرف عام میں اس کا شغل و عمل کہا جاتا ہے تو ان چیزوں کے لئے اس کے سفر کا حکم وہی ہے جو شغل کے لئے تمام سفر کرنے والوں کا ہے اور اگر کبھی ان کے علاوہ کسی اور غرض کے لئے سفر کرے تو قصر نماز پڑھنے اور روزہ نہ رکھنے میں اس کا وہی حکم ہے جو تمام مسافروں کا ہے۔

س۶۶۷۔ حوزہ علمیہ کے طالب علم یا حکومت کے ملازمین وغیرہ جو کسی شہر میں غیر معین مدت کے لئے مامور کئے جاتے ہیں ان کے روزوں اور نمازوں کا کیا حکم ہے ؟

ج۔ تعلیم و تحقیق اور ملازمت کی جگہ پر جب تک وہ دس دن کے قیام کا قصد نہ کریں اس وقت تک نماز قصر پڑھیں گے اور روزہ نہیں ہو گا اور ان کی حالت بقیہ مسافروں کی سی ہے۔

س۶۶۸۔ ایک طالب علم دوسرے شہر میں تعلیم حاصل کرتا ہے اور ہر ہفتہ اپنے گھر آتا ہے ، اس کے گھر اور درس گاہ کے درمیان شرعی مسافت ہے تو درس گاہ میں اس کی نماز قصر ہے یا نہیں ؟

ج۔ تعلیم و تدریس کے سفر پر پیشہ کے سفر کا حکم جاری نہیں ہو گا بلکہ تعلیم کے لئے سفر میں طالب عالم تمام مسافروں کے حکم میں ہے۔

س۶۶۹۔ اگر دینی طالب علم اس شہر میں رہتا ہے جو اس کا وطن نہیں ہے اور وہاں دس روز قیام کی نیت کرنے سے قبل وہ جانتا ہے یا یہ قصد رکھتا ہے کہ شہر کے کنارے پر واقع مسجد میں ہر ہفتے جائے گا۔ آیا وہ دس دن کے قیام کی نیت کرسکتا ہے یا نہیں ؟

ج۔ قصد اقامت کے دوران ایک گھنٹہ یا اس سے زیادہ یہاں تک قیام گاہ سے ایک تھائی 1/3 دن یا رات کے برابر شرعی مسافت سے کم بہر جانے کا ارادہ قصد اقامت کو ختم نہیں کرتا ہے اور جس جگہ جانے کا ارادہ ہے وہ محل اقامت میں داخل ہے یا نہیں ؟ اس کی تشخیص عرف عام پر منحصر ہے۔

 

                   قصد مسافرت اور دس دن کی نیت

س۶۷۰۔ میں جس جگہ ملازمت کرتا ہوں وہ قریبی شہر سے شرعی مسافت سے کم فاصلہ پر واقع ہے اور چونکہ دونوں جگہ میرا وطن نہیں ہے لہذا میں اپنی ملازمت کی جگہ دس روز ٹھہرنے کا قصد کرتا ہوں تاکہ پوری نماز پڑھ سکوں اور روزہ رکھ سکوں اور جب میں اپنے کام کی جگہ دس روز قیام کرنے کا قصد کرتا ہوں تو دس روز یا اس کے بعد قریبی شہر میں جانے کا قصد نہیں کرتا پس درج ذیل حالات میں شرعی حکم کیا ہے ؟

1۔ جب میں اچانک کسی کام سے دس دن کامل ہو نے سے پہلے ہی اس شہر کو جاؤں اور تقریباً دو گھنٹے وہاں ٹھہرنے کے بعد کام کی جگہ واپس آ جاؤں۔

2۔ جب میں دس روز کامل ہو نے کے بعد اس شہر کے معین محلہ میں جاؤں اور یہ فاصلہ شرعی مسافت سے زیادہ نہ ہو اور ایک رات وہاں قیام کر کے اپنی ملازمت کی جگہ واپس آ جاؤں۔

3۔ جب میں دس روز قیام کے بعد اس شہر کے کسی معین محلہ کے قصد سے نکلوں لیکن وہاں پہنچنے کے بعد میرا ارادہ بدل جائے اور میں شہر کے اس محلہ میں جانے کی نیت کر لوں جو میری قیام گاہ سے شرعی مسافت سے زیاد ہ دور ہے ؟

ج۔ ۲۔۱ قیام گاہ پر پوری نماز پڑھ لینے کے بعد خواہ ایک چار رکعتی نماز ہی پڑھی ہو شرعی مسافت سے کم فاصلہ تک جانے میں کوئی حرج نہیں ہے خواہ سفر گھنٹہ دو گھنٹے کا ہو اور ایک دن میں ہو یا کئی دنوں میں اور اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اپنی قیام گاہ سے دس دن کامل ہو نے کے بعد نکلے یا دس دن کامل ہو نے سے قبل بلکہ نئے سفر سے پہلے تک پوری نماز پڑھے گا اور روزہ رکھے گا۔

۳۔ جب نیت بدلنے کی جگہ سے شرعی مسافت تک کے سفر کا قصد کرے اور پھر اس مسافت کو طے کر کے اپنی قیام گاہ تک لوٹ آئے تو اس سے سابقہ قیام کا حکم ختم ہو جائے گا اور قیام گاہ پر لوٹنے کے بعد از سر نو دن کے قیام کی نیت کرنا ضروری ہے۔

س۶۷۱۔ مسافر اپنے وطن سے نکلنے کے بعد اگر اس راستے سے گزرے جہاں سے اس کے اصلی وطن کی آواز اذان سنائی دیتی ہے یا اس کے وطن کے گھروں کی دیواریں دکھائی پڑتی ہیں تو کیا اس سے قطع مسافت پر کوئی اثر پڑتا ہے ؟

ج۔ اگر اپنے وطن سے نہ گزرے تو اس سے قطع مسافت پر کوئی اثر نہیں پڑتا اور نہ اس سے سفر کا سلسلہ منقطع ہو تا ہے لیکن جب تک اس جگہ ہے اس وقت تک اس پر سفر کا حکم جاری نہیں ہو گا۔

س۶۷۲۔ جہاں میں ملازم ہوں اور آج کل سکونت پذیر ہوں وہ میرا اصل وطن نہیں ہے اور اس جگہ کے اوپر میرے اصلی وطن کے درمیان شرعی مسافت سے زیادہ فاصلہ ہے۔ ملازمت کی جگہ کو میں نے اپنا اصلی وطن نہیں بنایا ہے۔ اور یہ ممکن ہے کہ وہاں میں چند سال رہوں بعض اوقات وہاں سے دفتری امور کے لئے مہینے بہر میں ایک دو دن کے سفر پر بھی جاتا ہوں پس جب میں اس شہر سے نکل کر جس میں ، میں سکونت پذیر ہوں حد شرعی سے زیادہ دور جاؤں اور پھر وہیں لوٹ آؤں تو کیا مجھ پر واجب ہے کہ دس دن کے قیام کی پھر سے نیت کروں یا اس کی ضرورت نہیں ہے ؟اور اگر دس دن کے قیام کی نیت واجب ہے تو شہر کے اطراف میں کتنی مسافت تک میں جا سکتا ہوں ؟

ج۔ آپ جس شہر میں سکونت پذیر ہیں اگر وہاں سے شرعی مسافت تک جاتے ہیں تو سفر سے لوٹ کر اس شہر میں آنے پر از سر نو دس دن کے قیام کی نیت ضروری ہے اور جب صحیح طریقہ سے آپ کا دس دن کے قیام کا قصد متحقق ہو جائے اور پوری نماز پڑھنے کا حکم آپ کا فریضہ بن جائے، اور چاہے ایک ہی چار رکعتی نماز پڑھی ہو ، تو ا سکے بعد محل سکونت سے نکل کر شرعی مسافت سے کم فاصلہ تک سفر کرنے سے دس دن کے قیام کی نیت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا جیسا کہ دس دن کے دوران شہر کے باغوں اور کھیتوں پر جانے سے اقامت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔

س۶۷۳۔ اگر ایک شخص ، چند سال سے، اپنے وطن سے چار کلومیٹر دور رہتا ہے اور ہفتہ میں ایک مرتبہ گھر جاتا ہے پس اگر یہ شخص سفر کرے اور اس کے اور وطن کے درمیان ۲۵ کلومیٹر کا فاصلہ طے ہو جائے لیکن جس جگہ وہ تعلیم حاصل کرتا ہے وہاں سے یہ فاصلہ ۲۲ کلومیٹر ہو تو اس کی نماز کا کیا حکم ہے ؟

ج۔ جب وہ تعلیم و تحقیق کے مرکز سے کسی دوسری جگہ کا قصد کرے جس کا فاصلہ شرعی مسافت سے کم ہو تو اس پر سفر کا حکم جاری نہیں ہو گا لیکن اگر وطن سے اس مقصد کا ارادہ کرے تو اس پر سفر کا حکم مرتب ہو گا۔

س۶۷۴۔ ایک مسافر نے تین فرسخ تک جانے کا قصد کیا لیکن ابتداء ہی سے اس کا ارادہ تھا کہ وہ ایک کام کی انجام دہی کے لئے ایک فرعی راستہ سے ایک فرسخ تک جائے گا پھر اصلی راستہ پر آ جائے گا اور اپنے سفر کو جاری رکھے گا تو اس سفر میں اس کے روزہ و نماز کا کیا حکم ہے ؟

ج۔اس پر مسافر کا حکم جاری نہیں ہو گا اورمسافت کو پورا کرنے کے لئے راستہ سے ہٹ نا اور دوبارہ اس پر لوٹ آنا کافی نہیں ہے۔

س۶۷۵۔ امام خمینی (رح) کے (اس) فتوے کے پیش نظر کہ جب آٹھ فرسخ کا سفر ہو تو روزہ رکھنا جائز نہیں اور نماز قصر ہے پس اگر جانے کا راستہ چار فرسخ سے کم ہو لیکن واپسی پر سواری نہ ملنے پر یا راستے کی مشکلات کے پیش نظر اس شخص پر لازم ہو کہ ایسا راستہ اختیار کرے جو چہ فرسخ سے زیادہ ہے۔ اس صورت میں نماز روزہ کا کیا حکم ہے ؟

ج۔ جب جانا چار فرسخ سے کم ہو اور واپسی کا راستہ بھی شرعی مسافت کے برابر نہ ہو تو نماز پوری پڑے گا اور روزہ رکھے گا۔

س۶۷۶۔ جو شخص اپنے محل سکونت سے ایسی جگہ جائے جس کا فاصلہ شرعی مسافت سے کم ہو ، ہفتہ بھر میں اس جگہ سے متعدد بار دوسری جگہوں کا سفر کرے اس طرح کہ کل مسافت آٹھ فرسخ سے زیادہ ہو جائے تو اس کا کیا فریضہ ہے ؟

ج۔ اگر وہ گھر سے نکلتے وقت مسافت کا قصد نہیں رکھتا تھا اور نہ اس کی پہلی منزل اور ان جگہوں کے درمیان کا فاصلہ شرعی مسافت کے برابر تھا تو اس پر سفرکا حکم جاری نہیں ہو گا۔

س۶۷۷۔ اگر ایک شخص اپنے شہر سے کسی خاص جگہ کے قصد سے نکلے اور پھر اس جگہ سے ادھر ادھر جائے تو کیا اس کا یہ ادھر ادھر جانا مسافت میں شمار ہو گا جو اس نے اپنے گھر سے طے کی ہے ؟

ج۔ اس جگہ سے ادھر ادھر جانا مسافت میں شمار نہیں ہو گا۔

س۶۷۸۔ کیا دس دن قیام کی نیت کے وقت یہ نیت رکھنا جائز ہے کہ روزانہ محل اقامت سے محل شغل تک جاتا رہوں گا جبکہ ان دو جگہوں کا فاصلہ چار فرسخ سے کم ہو ؟

ج۔ دس دن قیام کی نیت کے ساتھ شرعی مسافت سے کم فاصلہ تک جانے کی نیت رکھنا قصد اقامت کے لئے اسی وقت نقصان دہ ہے جب عرفاً کہا جائے کہ یہ شخص محل اقامت میں،  دس دن نہیں ٹھہرا ہے،  جیسے کوئی شخص پورا دن بھر رہے۔ لیکن اگر وہ شخص دن رات میں چند گھنٹہ کے لئے بہر جائے اور دن یا رات کے ایک تھائی حصہ تک بھر رہے یا دن یا رات میں ایک دفعہ بھر جائے یا چند بار بھر جائے لیکن مجموعی طور پر دن یا رات کے ایک تھائی حصہ سے زیادہ نہ ہو تو ایسی نیت قصد امامت کی صحت کے لئے مضر نہیں ہے۔

س۶۷۹۔ اس بات کے پیش نظر کہ ایک شخص اپنے محل سکونت سے اپنی جائے ملازمت تک جاتا ہے اور دونوں ( محل سکونت و محل ملازمت) کے درمیان ۲۴ کلومیٹر سے زیادہ فاصلہ ہے جو پوری نماز پڑھنے کا موجب ہے ، پس اگر میں ان شہروں کے حدود سے بہر نکلوں جہاں ملازمت کرتا ہوں یا کسی دوسرے شہر کی طرف جاؤں جس کا فاصلہ میرے کام کرنے کی جگہ سے شرعی مسافت سے کم ہے اور ظہر سے قبل یا بعد واپس ہو جاؤں تو کیا میری نماز پھر بھی پوری ہے ؟

ج۔ صرف محل ملازمت سے شرعی مسافت سے کم نکلنے پر آپ کے روزہ نماز کا حکم نہیں بدلے گا چاہے روزانہ کے عمل سے اس کا کوئی واسطہ نہ ہو اوراس میں کوئی فرق نہیں ہے کہ آپ وہاں ظہر سے قبل واپس آئیں یا بعد میں۔

س۶۸۰۔ میں اطراف اصفہان کا رہنے والا ہوں اور ایک عرصہ سے شہین شہر کی یونیورسٹی میں ملازمت کرتا ہوں جو اصفہان کے تابع ہے اور اصفہان کے حد ترخص سے شہین شہر تک تقریباً بیس کلومیٹر کا فاصلہ ہے۔ لیکن یونیورسٹی تک، جو اطراف شہر میں واقع ہے ، تقریباً ۲۵ کلومیٹر سے زیادہ مسافت ہے جبکہ یونیورسٹی شہین شہر میں واقع ہے اور میرا راستہ شہر کے درمیان سے گزرتا ہے مگر میرا اصلی مقصد یونیورسٹی ہے پس مجھے مسافر شمار کیا جائے گا یا نہیں ؟

ج۔ اگر دونوں شہروں کے درمیان چار شرعی فرسخ سے کم فاصلہ ہے تو اس پر سفر کا حکم مرتب نہیں ہو گا۔

س۶۸۱۔ میں ہر ہفتہ سیدہ معصومہ ’ علیہا السلام ‘ کے مرقد کی زیارت اور مسجد جمکران کے اعمال بجا لانے کی غرض سے قم جاتا ہوں۔اس سفر میں ، مجھے پوری نماز پڑھنا چاہئیے یا قصر؟

ج۔ اس سفر میں وجوب قصر کے سلسلہ میں آپ کا حکم وہی ہے جو تمام مسافروں کا ہے۔

س۶۸۲۔ شہر کا ثمر میری جائے ولادت ہے اور ۱۳۴۵ ہ۔ش۔ سے ۱۳۶۹ ھ،ش تک میں تہران میں مقیم رہا اب تین سال سے اپنے خاندان کے ساتھ ادارہ کی طرف سے بندر عباس میں تعینات ہوں اور ایک سال کے اندر پھر تہران لوٹ آؤں گا، اس کے پیش نظر کہ جب میں بندر عباس میں مقیم تھا وہاں سے میں کسی بھی وقت ادارہ کے ضروری کام کہ جو کام میرے ذمہ ہو تے تھے۔ اس سے وقت کا اندازہ نہیں لگا سکتا تھا۔

برائے مہربانی پہلے میرے روزہ نماز کا حکم بیان فرمائیں گے؟

دوسرے : اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ میں اکثر اوقات یا سال کے چند مہینوں میں کام کے سلسلے میں سفر میں رہتا ہوں ، میرے اوپر کثیر السفر کا عنوان صادق آتا ہے یا نہیں ؟

اور تیسرے : میری زوجہ کی نماز و روزہ کا کیا حکم ہے وہ میری شریک حیات ہے ، اس کی جائے پیدائش تہران ہے اور میری وجہ سے بندرعباس میں رہتی ہے ؟

ج۔ اس وقت جہاں آپ ڈیوٹی پر ہیں اور جو آپ کا وطن نہیں ہے ، وہاں آپ کے روزہ اور نماز کا وہی حکم ہے جو مسافر کے روزہ و نماز کا حکم ہے ، یعنی نماز قصر ہے اور روزہ صحیح نہیں ہے۔مگر یہ کہ آپ وہاں دس دن قیام کرنے کی نیت کر لیں یا دس دن میں کم از کم ایک مرتبہ مربوط ذمہ داری کی انجام دہی کے لئے شرعی مسافت تک جائیں لیکن آپ کی زوجہ جو آپ کے ساتھ ہے اگر وہاں دس روز ٹھہرنے کی نیت کر لیتی ہے تو ا سکی نماز تمام اور روزہ صحیح ہے ورنہ نماز قصر اور روزہ رکھنا صحیح نہیں ہے۔

س۶۸۳۔ ایک شخص نے ایک جگہ دس دن ٹھہرنے کا قصد کیا، اس طرح کہ وہ جانتا تھا کہ وہاں دس روز تک ٹھہرے گا یا اس نے اس امر کا ارادہ کر لیا پھر اس نے ایک چار رکعتی نماز پوری پڑھ لی جس سے اس کا قیام متحقق ہو گیا۔اب اسے ایک غیر ضروری سفر در پیش ہو گیا، کیا اس کے لئے یہ سفر جائز ہے ؟

ج۔ اس کے سفر میں کوئی مانع نہیں ہے خواہ سفر غیر ضروری ہو۔

س۶۸۴۔ اگر کوئی شخص امام رضا علیہ السلام کی زیارت کے لئے سفر کرے اور یہ جانتا ہو کہ وہاں دس روز سے کم قیام رہے گا لیکن نماز پوری پڑھنے کی غرض سے دس روز ٹھہرنے کی نیت کر لے تو اس کا کیا حکم ہے ؟

ج۔ اگر وہ جانتا ہو کہ وہاں دس روز قیام نہیں کرے گا تو اس کا اقامت عشرہ کی نیت کرنا بے معنی ہے اور اس کی اس نیت کا کوئی اثر نہیں ہے اور وہ وہاں قصر نماز پڑھے گا۔

س۶۸۵۔ شہرسے بہر کے ملازمت پیشہ لوگ جو اس شہر میں دس روز قیام نہیں کرتے اور ان کا سفر بھی شرعی مسافت سے کم ہو تا ہے تو نماز کے سلسلہ میں ان کا کیا حکم ہے قصر پڑھیں یا پوری؟

ج۔ جب وطن اور محل ملازمت کے درمیان یا آمد رفت دونوں ملا کر شرعی مسافت کے برابر فاصلہ نہ ہو ، تو ان پر مسافر کے احکام جاری نہیں ہوں گے اور جس شخص کے وطن اور جائے ملازمت کے درمیان شرعی مسافت کے برابر فاصلہ ہو اور دس روز کے اندر وہ کم از کم ایک مرتبہ دونوں کے درمیان سفر کرے اس پر پوری نماز پڑھنا واجب ہے ورنہ دس دن کے قیام کے بعد سفر اول میں اس کا وہی حکم ہے جو تمام مسافروں کا ہے۔

س۶۸۶۔ اگر کوئی شخص کسی جگہ سفر کرے اور اسے یہ معلوم نہ ہو کہ وہاں کتنے دن قیام کرنا ہے ، دس روز یا اس سے کم تو اسے کس طرح نماز پڑھنی چاہئیے؟

ج۔ قصر نماز پڑھے گا۔

س۶۸۷۔ جو شخص دو مقامات پر تبلیغ کرتا ہے اور اس علاقہ میں دس روز قیام کا قصد رکھتا ہے اس کے روزہ نماز کا کیا حکم ہے ؟

ج۔ اگر عرف عام میں یہ دو علاقے ہیں تو مذکورہ صورت میں وہ نہ دونوں میں قصد اقامت کرسکتا۔ اور نہ ایک مقام پر جبکہ دوسرے مقام تک جانے کا قصد بھی رکھتا ہو۔

 

                   حد ترخص

س۶۸۸۔ جرمنی اور یورپ کے بعض شہروں کا درمیانی فاصلہ ایک سو میٹر سے زیادہ نہیں ہو تا اور دونوں شہروں کے مکانات اور راستے ایک دوسرے سے متصل ہو تے ہیں ، ایسے موارد میں حد ترخص کہاں سے شروع ہو تی ہے ؟

ج۔ جہاں دو شہر ایک دوسرے سے اس طرح متصل ہوں جیسا کہ سوال میں ہے تو ایسے دو شہر ایک شہر کے دو محلوں کے حکم میں ہیں یعنی ایک سے خارج ہو نے اور دوسرے شہر میں داخل ہو نے کو سفر شمار نہیں کیا جائے گا کہ اس کے لئے حد ترخص معین کی جائے۔

س۶۸۹۔ حد ترخص کا معیار شہر کی اذان سننا اور شہر کی دیواروں کا دیکھنا ہے ، کیا (حد ترخص میں ) ان دونوں کا ایک ساتھ ہو نا ضروری ہے یا دونوں میں سے ایک کافی ہے ؟

ج۔ احتیاط یہ ہے کہ دونوں علامتوں کی ، رعایت کی جائے اگرچہ حد ترخص کی تعیین کے لئے اذان کا نہ سنائی دینا ہی کافی ہے۔

س۶۹۰۔ کیا حد ترخص میں شہر کے ابتدائی گھروں ، جہاں سے مسافر شہر میں داخل ہو تا ہے ، کی اذان کا سنائی دینا معیار ہے یا شہر کے درمیانی آبادی کی آواز کا سنائی دینا؟

ج۔ شہر کے اس آخری حصے کی اذان سننا معیار ہے جہاں سے مسافر شہر سے نکلتا ہے یا اس میں داخل ہو تا ہے۔

س۶۹۱۔ ایک علاقہ کے لوگوں کے درمیان شرعی مسافت کے بارے میں اختلاف ہے بعض کہتے ہیں : شہر کے گھروں کی وہ آخری دیواریں معیار ہیں جو ایک دوسرے سے متصل ہیں بعض کہتے ہیں کہ گھروں کے حدود سے بہر جو کارخانے اور کمپنیاں ہو تی ہیں ، ان کی دیواریں معیار ہیں۔ ہمارا سوال یہ ہے کہ شہر کے آخر سے مراد کیا ہے ؟

ج۔ شہر کی آخری حدود کی تعیین عرف عام پر موقوف ہے۔

س۶۹۲۔ ہم یونیورسٹی کے طلبہ ہیں اور ہماری کلاسیں شہر طبس کے ایک گاؤں میں لگتی ہیں اور یہ قریہ ہمارے وطن سے سو کلومیٹر کے فاصلے پر ہے جبکہ شہر طبس کا فاصلہ ۵ کلومیٹر ہے لیکن طبس اور اس گاؤں کے درمیان کوئی چیز حائل نہ ہو نے کی وجہ سے اس گاؤں کی دیواریں تو شہر طبس سے دکھائی دیتی ہیں مگر اذان سنائی نہیں دیتی ہے ایسی صورت میں اگر ہم اس گاؤں میں دس روز کے قیام کی نیت کریں اور پھر دو گھنٹے سے زیادہ کے لئے طبس چلے جائیں تو اس سے ہماری نیت برقرار رہے گی یا نہیں ؟

ج۔ دیواروں کے اوجھل ہو نے سے مراد خود دیواروں اور ان کی شکلوں کا اوجھل ہو نا ہے۔ لہذا ان کا دھندلا سا دکھائی دینا کافی نہیں ہے ، اس فرض پر کہ گاؤں کی دیواریں شہر طبس سے اوجھل ہو تی ہوں تو یہاں اگر وہ گاؤں طبس کا جزو شمار ہو تا ہے یا شہر کے باغات یا مزارع میں شامل ہے تو اس صورت میں گاؤں میں قصد اقامت کی نیت کے دوران طبس آنے جانے سے اقامت عشرہ کی نیت متاثر نہ ہو گی لیکن اس کی تشخیص خود مکلف پر موقوف و منحصر ہے۔

                   سفر معصیت

س۶۹۳۔ جب انسان یہ جانتا ہے کہ وہ جس سفر پر جا رہا ہے اس میں گناہ و حرام میں مبتلا ہو گا تو اس کی نماز قصر ہے یا نہیں ؟

ج۔ جب تک اس کا سفر ترک واجب یا فعل حرام کی غرض سے نہ ہو تو نماز کے قصر ہو نے میں اس کا وہی حکم ہے جو تمام مسافروں کا ہے۔

س۶۹۴۔ کوئی گناہ کے ارادے کے بغیر سفر کرے لیکن درمیان میں گناہ میں مرتکب ہو نے کا قصد کر لے ایسی صورت میں آیا نمازیں پوری پڑھے گا یا قصر ؟ جو نمازیں قصر پڑھ چکا ہے وہ صحیح ہیں یا نہیں ؟

ج جس شخص نے گناہ کی غرض سے سفر کو جاری رکھنے کی نیت کی ہے ، اسی وقت سے اس پر پوری نماز پڑھنا واجب ہے ، اور معصیت کی نیت کے بعد جو نمازیں اس نے قصر پڑھی ہیں ان کا دوبارہ پورا پڑھنا واجب ہے۔

س۶۹۵۔اس سفر کا کیا حکم ہے جو تفریح یا ضروریات زندگی کے خریدنے کے لئے کیا جائے اور اس سفر میں ادائیگی نماز کے لئے جگہ اور اس کے مقدمات ممکن و میسر نہ ہوں ؟

ج۔ اگر وہ جانتا ہے کہ اس سفر میں اس سے بعض وہ چیزیں چھو ٹ جائیں گی جو نمازیں واجب ہیں تو ایسے سفر کو ترک کرنا احتیاط واجب ہے ، مگر یہ کہ سفر ترک کرنے میں ضرر و حرج ہو۔

                   احکام وطن

س۶۹۶۔ میری جائے پیدائش تہران ہے جبکہ میرے والدین کا وطن ’ مہدی شہر ‘ ہے۔ لہذا وہ سال میں متعدد بار ’ مبدی شہر‘ جاتے ہیں ان کے ساتھ میں بھی سفر کرتا ہوں۔ پس میرے روزہ و نماز کا کیا حکم ہے ؟ واضح رہے کہ میں اپنے والدین کے وطن کو اپنا وطن نہیں بنانا چاہتا بلکہ میرا ارادہ تہران ہی میں رہنے کا ہے ؟

ج۔ مذکورہ فرض میں تمہارے والدین کے وطن میں تمہارے روزہ نماز کا حکم وہی ہے جو مسافر کے روزہ نماز کا ہے۔

س۶۹۷۔ میں ایک سال میں چہ ماہ ایک شہر میں اور چہ ماہ دوسرے شہر میں رہتا ہوں جو کہ میری جائے پیدائش اور اپنے خاندان والوں کے وطن لوٹ آتا ہوں۔ میرا سوال یہ ہے کہ اگر میں پہلے شہر میں دس روز سے کم ٹھہرنے کی نیت کرتا ہوں تو میرا حکم مسافر کا ہے یا نہیں ؟

ج۔ اگر وہ شہر آپ کا وطن نہیں ہے اور اسے وطن بنانے کا ارادہ بھی نہیں ہے تو جس زمانہ میں آپ وہاں دس روز سے کم رہتے ہیں اس میں آپ کا حکم وہی ہے جو مسافر کا ہے۔

س۶۹۸۔ تقریباً ۱۲ سال سے وطن کا قصد کئے بغیر ایک شہر میں رہتا ہوں۔ کیا یہ شہر میرا وطن شمار ہو جائے گا اور اس شہر کو میرا وطن ہو جانے میں کتنی مدت درکار ہے ؟ اور یہ امر کیسے ثابت ہو گا کہ عرف میں لوگ اس شہر کو میرا وطن سمجھنے لگے ہیں ؟

ج۔ وطن نہیں بن سکتا مگر یہ کہ دائمی طور پر اقامت گزینی کی نیت کرے اور ایک مدت تک اس قصد کے ساتھ اس شہر میں رہے یا مستقل رہائش کے قصد کے بغیر اتنی طویل مدت تک اس شہر میں رہے کہ وہاں کے باشندے اسے اس شہر کا باشندہ کہنے لگیں۔

س۶۹۹۔ ایک شخص کا وطن تہران ہے اور اب وہ تہران کے قریب دوسرے شہر کو وطن بنانا چاہتا ہے جبکہ اس کا روزانہ کا کسب و کار تہران میں ہے لہذا وہ د س روز بھی اس شہر نہیں رہ سکتا چہ جائیکہ چہ ماہ تک رہے جس سے وہ اس کا وطن ہو جائے، وہ روزانہ اپنی محل ملازمت پر جاتا ہے اور رات کو اس شہر میں لوٹ آتا ہے۔ اس کے نماز روزہ کا کیا حکم ہے ؟

ج۔ اگر شہر جدید میں وطن بنانے کا ارادہ کر کے اس میں سکونت اختیار کر لے تو پھر عنوان وطن کے اثبات کے لئے یہ شرط نہیں ہے کہ چہ ماہ تک مسلسل اسی جگہ رہے بلکہ اس کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ اپنے اہل و عیال کو وہاں ساکن کر دے اور اپنے روز مرہ کے کام سے فارغ ہو نے کے بعد ان کے پاس لوٹ آئے اور رات ان کے پاس گزارے یہاں تک کہ اہل محلہ اسے اسی محلہ کا شمار کرنے لگیں۔

س۷۰۰۔میری اور میری زوجہ کی جائے پیدائش ’ کاشمر‘ ہے لیکن جب سے سرکاری ملازمت پر میرا تقرر ہو ا ہے اس وقت سے نیشاپور منتقل ہو گیا ہوں ، اگر چہ ماں باپ کاشمر میں ہی رہتے ہیں نیشاپور کی طرف ہجرت کے ابتدائی زمانہ میں ہم نے اصلی وطن ( کاشمر) سے اعراض کر لیا تھا مگر ۱۵ سال گزر جانے کے بعد میں اس قصد سے منصرف ہو گیا ہوں۔امید ہے کہ درج ذیل سوالات کے جواب مرحمت فرمائیں گے:

1۔ جب ہم اپنے والدین کے گھر جاتے ہیں اور چند روز ان کے پاس قیام کرتے ہیں تو میری اور میری زوجہ کی نماز کا حکم کیا ہے ؟

2۔ ہمارے والدین کے وطن( کاشمر) کے سفر میں اور وہاں چند روز قیام کے دوران ہمارے ان بچوں کا کیا فریضہ ہے جو ہماری موجود ہ رہائش گاہ نیشاپور میں پیدا ہوئے اور اب بالغ ہو چکے ہیں ؟

ج۔ جب آپ نے اپنے اصلی وطن ( کاشمر) سے اعراض کر لیا تو اب وہاں آپ دونوں پر وطن کا حکم جاری نہیں ہو گا، مگر یہ کہ آپ زندگی گزارنے کے لئے دوبارہ وہاں لوٹ جائیں اور کچھ مدت تک وہاں اس نیت سے رہیں ، اسی طرح یہ شہر آپ کی اولاد کا وطن نہیں ہے بلکہ اس شہر میں آپ سب مسافر کے حکم میں ہیں۔

س۷۰۱۔ایک شخص کے دو وطن ہیں ( دونوں میں نماز پوری پڑھتا ہے اور روزہ رکھتا ہے ) پس برائے مہربانی یہ فرمائیں کہ کیا اس کے بیوی بچوں پر جن کی وہ کفالت کرتا ہے ،ا س مسئلہ میں اپنے ولی و سرپرست کا اتباع واجب ہے ؟ یا اس سلسلہ میں وہ مستقل نظریہ قائم کرسکتے ہیں ؟

ج۔ زوجہ کے لئے جائز ہے کہ وہ اپنے شوہر کے وطن کو اپنا وطن نہ بنائے۔ لیکن جب تک اولاد کم سن ہے اور اپنی زندگی و ارادہ میں خود کفیل اور مستقل نہیں ہیں یا اس مسئلہ میں باپ کے ارادہ کے تابع ہیں تو باپ کا وطن ان کے لئے وطن شمار ہو گا۔

س۷۰۲۔اگر ولادت کا ھسپتال باپ کے وطن سے دور ہو یعنی وضع حمل کی خاطر ماں کے لئے چند روز اس ہسپتال میں داخل ہو نا ضروری ہو اور بچہ کی ولادت کے بعد وہ پھر اپنے گھر لوٹ آئے تو اس پیدا ہو نے والے بچہ کے وطن کا کیا حکم ہے ؟

ج۔اگر ہسپتال والدین کے اس وطن میں ہے جس میں وہ زندگی گزارتے ہیں تو وہی شہر بچہ کا بھی وطن ہے ورنہ کسی شہر میں پیدا ہو نے سے وہ شہر اس بچہ کا وطن نہیں بنتا بلکہ اس کا وطن وہی ہے جو اس کے والدین کا ہے جہاں بچہ ولادت کے بعد منتقل ہو تا ہے اور جس میں ماں باپ کے ساتھ زندگی بسر کرتا ہے۔

س۷۰۳۔ایک شخص چند سال سے شہر ہو از میں رہتا ہے لیکن اسے وطن ثانی نہیں بنایا ہے۔ اگر وہ شہر سے کہیں شرعی مسافت سے کم یا زیادہ فاصلہ پر جاتا اور دوبارہ واپس آتا ہے تو اس کے نماز روزے کا کیا حکم ہے ؟

ج۔جب ہو از میں اس نے قصد اقامت کر لیا اور کم از کم ایک چار رکعتی نماز پڑھنے سے اس کے لئے پوری نماز پڑھنے کا حکم جاری ہو گیا تو جب تک وہ شرعی مسافت طے نہیں کرتا ہے اس وقت تک وہاں پوری نماز پڑھے گا اور روزہ رکھے گا اور اگر وہاں سے شرعی مسافت یا اس سے زیادہ دور جائے گا تو اس شہر میں اس کا حکم وہی ہے جو تمام مسافروں کا ہے۔

س۷۰۴۔میں عراقی ہوں اور اپنے وطن عراق سے اعراض کرنا چاہتا ہوں کیا میں پورے ایران کو اپنا وطن بنا سکتا ہوں ؟ یا صرف اسی جگہ کو اپنا وطن قرار دے سکتا ہوں جہاں میں ساکن ہوں ؟ یا وطن بنانے کے لئے اس شہر میں گھر خریدنا ضروری ہے ؟

ج۔ جدید وطن کے لئے شرط ہے کسی مخصوص اور معین شہر کو وطن بنانے کا قصد کیا جائے اور ایک مدت تک اس میں اس طرح زندگی بسر کی جائے کہ عرف عام میں یہ کہا جانے لگے کہ یہ شخص اسی شہر کا باشندہ ہے لیکن اس شہر میں گھر وغیرہ کا مالک ہو نا شرط نہیں ہے۔

س۷۰۵۔جس شخص نے بلوغ سے قبل اپنی جائے پیدائش سے ہجرت کی تھی اور وہ ترک وطن والے مسئلہ کو نہیں جانتا تھا اور اب وہ بالغ ہو ا ہے تو وہاں اس کے روزہ نماز کا کیا حکم ہے ؟

ج۔ اگر باپ کی متابعت میں اس نے اپنی جائے پیدائش سے ہجرت کی تھی اور اس شہر میں دوبارہ اس کے باپ کا زندگی بسر کرنے کا ارادہ نہیں تھا تو اس جگہ اس پر وطن کا حکم جاری نہیں ہو گا۔

س۷۰۶۔اگر ایک جگہ انسان کا وطن ہے اور فی الحال وہاں نہیں رہتا لیکن کبھی کبھی اپنی زوجہ کے ہم راہ وہاں جاتا ہے کیا شوہر کی طرح زوجہ بھی وہاں پوری نماز پڑھے گی یا نہیں ؟ اور جب تنہا اس جگہ جائے گی تو اس کی نماز کا کیا حکم ہے ؟

ج۔ شوہر کے وطن کا زوجہ کے لئے وطن ہو نا کافی نہیں ہے کہ اس پر وطن کے احکام جاری ہوں۔

س ۷۰۷۔ کیا جائے ملازمت وطن کے حکم میں ہے ؟

ج۔ کسی جگہ ملازمت کرنے سے وہ جگہ اس کا وطن نہیں بنتی ہے لیکن اگر وہ دس روز کی مدت میں کم از کم ایک مرتبہ اپنے مسکن سے اپنے کام کی جگہ جو کہ اس کے رہائشی مکان سے شرعی مسافت کے فاصلہ پر ہے ، جاتا ہو تو وہ جگہ اس کے وطن کے حکم میں ہے اور وہاں پوری نماز پڑھنا اور روزہ رکھنا صحیح ہے۔

س۷۰۸۔ کسی شخص کے اپنے وطن سے اعراض و رو گردانی کرنے کے کیا معنی ہیں ؟ اور کیا عورت کے شادی کر لینے اور شوہر کے ساتھ چلے جانے پر وطن سے اعراض ثابت ہو جاتا ہے یا نہیں ؟

ج۔ اعراض سے مراد یہ ہے کہ انسان اپنے وطن سے اس قصد سے نکلے کہ اب دوبارہ اس میں زندگی نہیں گزارے گا، اور صرف عورت کے دوسرے شہر میں شوہر کے گھر جانے کا لازمہ یہ نہیں ہے کہ اس نے اپنے وطن سے اعراض کر لیا ہے۔

س۷۰۹۔ گزارش ہے کہ وطن اصلی اور وطن ثانی کے متعلق اپنا نظریہ بیان فرمائیں ؟

ج۔ وطن اصلی : اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں انسان پیدا ہو تا ہے اور ایک مدت وہاں رہتا ہے اور وہیں نشوونما پاتا ہے۔

وطن ثانی : اس جگہ کو کہتے ہیں جسے مکلف اپنی دائمی سکونت کے لئے منتخب کرے چھے سال میں چند ماہ ہی اس میں رہے۔

س۷۱۰۔ میرے والدین شہر ’ ساوھ‘ کے باشندے ہیں دونوں بچپنے میں تہران آ گئے تھے اور وہیں سکونت اختیار کر لی تھی۔ شادی کے بعد شہر چالوس منتقل ہو گئے اور وہاں اس لئے سکونت اختیار کر لی کہ وہ وہاں ملازمت کرتے تھے ، پس اس وقت میں تہران و ساوہ میں کس طرح نماز پڑھوں ، واضح رہے میری پیدائش تہران میں ہوئی ہے لیکن وہاں کبھی نہیں رہا ہوں ؟

ج۔ اگر آپ نے تہران میں پیدا ہو نے کے بعد وہاں نشوونما نہیں پائی ہے تو تہران آپ کا اصلی وطن نہیں ہے اور اگر آپ نے تہران و ساوہ میں کسی کو اپنا اصلی وطن قرار نہیں دیا ہے تو ان دونوں میں آپ کے لئے وطن کا حکم جاری نہیں ہو گا۔

س۷۱۱۔ اس شخص کے بارے میں آپ کا کیا نظریہ ہے جس نے اپنے وطن سے اعراض نہیں کیا ہے اور وہ اب چہ سال سے دوسرے شہر میں مقیم ہے پس جب وہ اپنے وطن جاتا ہے تو وہاں اس کو پوری نماز پڑھنا چاہئیے یا قصر ؟ واضح رہے وہ امام خمینی (رح) کی تقلید پر باقی ہے۔

ج۔ اگر اس نے سابق وطن سے اعراض نہیں کیا ہے تو وطن کا حکم اپنی جگہ پر باقی ہے اور وہاں پوری نماز پڑھے گا اور روزہ رکھے گا۔

س۷۱۲۔ایک طالب علم نے شہر تبر یز کی یو نیورسٹی میں تعلیم حاسل کرنے کی غرض سے تبریز میں چار سال کے لئے کرایہ پر گھر لیا، اب اس کا ارادہ ہے کہ اگر ممکن ہو تو دائمی طور پر تبریز ہی میں رہے گا آج کل وہ رمضان میں کبھی اپنے اصلی وطن جاتا ہے کیا دونوں جگہوں کو اس کا وطن شمار کیا جائے گا یا نہیں ؟

ج۔ اگر محل تعلیم کو وطن بنانے کا پختہ ارادہ نہیں کیا ہے تو وہ جگہ اس کے وطن کے حکم میں نہیں ہے لیکن اس کا اصلی وطن حکم وطن پر باقی ہے جب تک وہ اس سے اعراض نہ کرے۔

س۷۱۳۔ میں شہر ’ کرمانشاہ ‘ میں پیدا ہو ا ہوں اور چہ سال سے تہران میں مقیم ہوں لیکن نہ اپنے اصلی وطن سے اعراض کیا ہے اور تہران کو وطن بنانے کا قصد ہے لہذا جب ہم ایک سال یا دو سال کے بعد تہران کے ایک محلہ سے دوسرے محلہ میں منتقل ہو تے ہیں تو اس میں میرے روزہ نماز کا کیا حکم ہے ؟ اور چونکہ ہم چہ ماہ سے تہران کے نئے علاقے میں رہتے ہیں تو ہم پر یہاں وطن کا حکم جاری ہو گا یا نہیں ؟ اور ہمارے روزہ نماز کا کیا حکم ہے جبکہ ہم دن بھر تہران کے مختلف علاقوں کا گشت کرتے رہتے ہیں ؟

ج۔ اگر آپ نے موجود تہران یا اس کے کسی محلہ کو وطن بنانے کا قصد کیا ہے۔تو پورا تہران آپ کا وطن ہے اور موجودہ تہران کا ہر علاقہ آپ کا وطن ہے وہاں پوری نماز پڑھنا اور روزہ رکھنا صحیح ہے اور تہران کے اندر ادھر ادھر جانے سے سفر کا حکم نہیں لگے گا۔

س۷۱۴۔ ایک شخص دیہات کا رہنے والا ہے اور آج کل ملازمت کی وجہ سے تہران میں رہتا ہے اور اس کے والدین دیہات میں رہتے ہیں اور ان کے پاس زمین و جائیداد بھی ہے ، وہ شخص ان کی احوال پرسی اور مدد کے لئے وہاں جاتا ہے لیکن وطن کے قصد سے وہاں واپسی کا قصد نہیں رکھتا ، واضح رہے کہ وہ اس شخص کی زادگاہ بھی ہے۔ لہذا وہاں اس کے روزہ نماز کا کیا حکم ہے ؟

ج۔ اگر کسی نے اس گاؤں میں زندگی بسرکرنے اور اس کو وطن بنانے کی نیت نہیں کی ہے تو وہاں اس پر وطن کے احکام جاری نہیں ہوں گے۔

س۷۱۵۔ کیا جائے ولادت کو وطن سمجھا جائے گا خواہ پیدا ہو نے والا وہاں نہ رہتا ہو ؟

ج۔ اگر ایک زمانہ تک وہاں زندگی گزارے اور وہیں اس پر وطن کا حکم جاری ہو گا ورنہ نہیں۔

س۷۱۶۔ اس شخص کی نماز ، روزہ کا کیا حکم ہے جو اس شہر میں طویل مدت (۹ سال)سے مقیم ہے اور فی الحال وہ اپنے وطن میں ممنوع الورود ہے لیکن اسے یہ یقین ہے کہ ایک دن وطن واپسی ہو گی؟

ج۔ جس شہر میں وہ اس وقت مقیم ہے وہاں اس کے روزہ اور نماز کا وہی حکم ہے جو تمام مسافروں کا ہے۔

س۷۱۷۔ میں نے اپنی عمر کے چہ سال گاؤں میں اور آٹھ سال شہر میں گزارے ہیں۔حال ہی میں بغرض تعلیم مشہد آیا ہوں پس ان تمام مقامات پر میرے روزہ نماز کا کیا حکم ہے ؟

ج۔ جو قریہ آپ کی جائے پیدائش ہے وہی وطن ہے اور وہاں آپ کا روزہ اور نماز پوری ہے بشرطیکہ اس سے اعراض نہ کیا ہو۔ لیکن مشہد کو آپ جب تک وطن بنانے کا قصد نہ کریں وہاں آپ مسافر کے حکم میں ہیں اور جس شہر میں آپ نے آٹھسال گزارے ہیں اگر اسے وطن بنایا تھا تو وہ بھی اس وقت تک آپ کے وطن کے حکم میں رہے گا جب تک وہاں سے اعراض نہ کریں ورنہ اس میں بھی مسافر کے حکم میں رہیں گے۔

 

                   زوجہ  کی تابعیت

س۷۱۸۔ کیا وطن اور اقامت کے بارے میں زوجہ شوہر کی تابع ہے ؟

ج۔ صرف زوجیت قہری طور پر شوہر کے تابع ہو نے کی موجب نہیں ہے بلکہ زوجہ کو یہ حق حاصل ہے کہ قصد اقامت اور وطن اختیار کرنے میں شوہر کا اتباع نہ کرے،ہاں اگر زوجہ اپنے ارادہ اور زندگی بسر کرنے میں مستقل نہ ہو بلکہ وطن اختیار کرنے یا اس سے اعراض کرنے میں وہ شوہر کے ارادہ کی پابند ہو تو اس سلسلہ میں اس کے شوہر کا قصد ہی اس کے لئے کافی ہے پس اس کا شوہر جس شہر میں دائمی زندگی بسر کرنے کے لئے منتقل ہو تا ہے وہ اس کا بھی وطن ہے۔ اسی طرح اگر شوہر اس وطن کو چھوڑ دے جس میں وہ دونوں رہتے ہیں اور کسی دوسری جگہ کو وطن بنائے تو یہ اپنے وطن سے زوجہ کا اعراض بھی شمار ہو گا، اور سفر میں دس دن کے قیام کے سلسلہ میں اس کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ شوہر کے قصد اقامت سے آگاہ ہو جبکہ وہ اپنے شوہر کے ارادہ کے تابع ہو بلکہ اس وقت بھی یہی حکم ہے جب وہ اقامت کے دوران اپنے شوہر کے ساتھ وہاں رہنے پر مجبور ہو۔

س۷۱۹۔ کیا منگنی کے زمانہ میں بھی زوجہ، مسافر کی نماز کے مسائل میں اپنے شوہر کے تابع ہے ؟

ج۔ زوجیت کے رشتہ کا اقتضا یہ نہیں ہے کہ قصد سفر و اقامت یا اختیار وطن و ترک وطن میں زوجہ شوہر کے تابع ہو بلکہ اس سلسلہ میں وہ خود مختار ہے۔

س۷۲۰۔ ایک جوان نے دوسرے شہر کی لڑکی سے شادی کی ہے پس جس وقت لڑکی اپنے والدین کے گھر جائے تو کیا پوری نماز پڑھے گی یا قصر ؟

ج۔ جب تک وہ اپنے اصلی وطن سے اعراض نہ کرے گی اس وقت تک وہاں پوری نماز پڑھے گی۔

س۷۲۱۔ کیا بیوی بچے امام خمینی (رح) کی توضیح المسائل کے مسئلہ ’ ۱۲۸۴ ‘ کے زمرے میں آتے ہیں ؟ ( یعنی سفر کے تحقق میں بیوی بچوں کے لئے بھی سفر کی نیت شرط نہیں ہے ) اور کیا باپ کے وطن میں اس کے تابع افراد پوری نماز پڑھیں گے؟

ج۔ اگر سفر میں قہری طور پر ہی سہی وہ باپ کے تابع ہیں تو سفر کے لئے باپ کا قصد کافی ہے بشرطیکہ انہیں اس کی اطلاع ہو ، لیکن وطن اختیار کرنے یا اس سے اعراض کرنے میں اگر وہ اپنے ارادہ اور زندگی گزارنے میں خود مختار نہ ہوں ، بلکہ باپ کے تابع ہوں تو قہری طور پر ان کا باپ دائمی طور پر ان کے ساتھ زندگی گزارنے کے لئے منتقل ہو ا ہے وہ ان کا وطن بھی ہو گا۔

                   بڑے شہروں کے احکام

س۷۲۲۔ بڑے شہروں میں قصد وطن اور قصد اقامت کے شرائط کے بارے میں آپ کا کیا نظریہ ہے ؟

ج۔ بڑے اور مشہور شہروں میں ، احکام مسافر، قصد وطن اور دس روز قیام کے اعتبار سے کوئی فرق نہیں ہے بلکہ بڑے شہر میں کسی مخصوص محلہ کے تعیین کے بغیر قصد وطن کرنے اور کچھ مدت اور شہر میں زندگی گزارنے سے اس پر وطن کا حکم جاری ہو جائے گا جیسا کہ اگر کوئی شخص محلہ کی تعیین کئے بغیر ایسے شہر میں دس روز قیام کی نیت کرے تو وہ تمام شہر میں پوری نماز پڑھ سکے گا اور روزہ رکھ سکے گا۔

س۷۲۳۔ ایک شخص کو اس فتوے کی اطلاع نہیں تھی کہ امام خمینی (رح) نے تہران کو بڑا شہر قرار دیا ہے انقلاب کے بعد اسے امام خمینی (رح) کے فتوے کا علم ہو لہذا اس کے ان روزوں اور نمازوں کا کیا حکم ہے جو کہ عادی طریقہ سے اس نے انجام دئے ہیں ؟

ج۔ اگر بھی تک وہ اس مسئلہ میں امام خمینی (رح) کی تقلید پر باقی ہے تو اس پر ان گزشتہ اعمال کا اعادہ واجب ہے جو امام خمینی (رح) کے فتوے کے مطابق نہ ہوں ، چنانچہ جو نمازیں اس نے قصر کی جگہ پوری پڑھی تھیں ان کو قصر کی صورت میں بجا لائے اور ان روزوں کی قضا کرے جو اس نے مسافرت میں رکھے ہیں۔

                   نماز اجارہ

س۷۲۴۔ مجھ میں نماز پڑھنے کی طاقت نہیں ہے۔ کیا میں دوسرے شخص سے اپنی نیابت میں نماز پڑھو ا سکتا ہوں اور کیا اجرت اور بغیر اجرت کے نائب بنانے میں کوئی فرق ہے ؟

ج۔ شرع کے اعتبار سے ہر مکلف پر واجب ہے کہ جب تک وہ زندہ ہے اپنی واجب نماز خود ادا کرے، نائب کا نماز ادا کرنا کافی نہیں ہے اور اس میں کوئی فرق نہیں ہے کہ اجرت پر نائب بنایا ہو یا اجرت کے بغیر۔

س۷۲۵۔ جو شخص اجارہ کی نماز پڑھتا ہے :

اول : کیا اس پر ، اذان و اقامت کہنا ، تین سلام پھیرنا اور مکمل طور پر تسبیحات اربعہ پڑھنا واجب ہے ؟

دوسرے: اگر ایک دن مثلاً ظہر و عصر کی نماز بجا لائے اور دوسرے دن مکمل طور پر نماز پنجگانہ پڑھے ، کیا اس میں ترتیب ضروری ہے ؟

ج۔ میت کی خصوصیات بیان کرنا ضروری نہیں ہے۔ صرف نماز ظہر و عصر اور نماز  مغربین میں ترتیب کی رعایت ضروری ہے ، جب تک عقد اجارہ میں اجیر کے لئے خاص کیفیت کی شرط نہ رکھی گئی ہو اور نہ ہی لوگوں کے ذہنوں میں کوئی ایسی خاص کیفیت ہو جس پر مطلقاً لفظ اجارہ صادق آسکے، تو ایسی صورت میں اس پر لازم ہے کہ نماز کو متعارف مستحبات کے ساتھ بجا لائے لیکن اس پر یہ واجب نہیں ہے کہ وہ ہر نماز کے لئے جداگانہ اذان کہے۔

                   نماز آیات

س۷۲۶۔ نماز آیات کیا ہے اور شرع کے اعتبار سے اس کے واجب ہو نے کے اسباب کیا ہیں ؟

ج۔ یہ دو رکعت ہے اور ہر رکعت میں پانچ رکوع اور دو سجدے ہیں ، شرع کے لحاظ سے اس کے واجب ہو نے کے اسباب یہ ہیں : سورج گہن اور چاند گہن خواہ ان دونوں کے بعض حصہ ہی کو کیوں نہ لگے۔ اسی طرح زلزلہ اور ہر وہ چیز جس سے اکثر لوگ خوف زدہ ہو جائیں ، جیسے غیر معمولی سرخ و سیاہ اور پیلی آندھیاں یا شدید تاریکی ( بجلی کی) کڑک و گرج اور وہ سرخی جو کبھی آسمان میں نظر آتی ہے۔سورج گہن، چاند گہن اور زلزلہ کے علاوہ جس چیز سے عام لوگ خوف زدہ نہ ہوں ان پر نماز نہیں ہے۔اسی طرح شاذ و نادر لوگوں کے خوف کا بھی اعتبار نہیں ہے۔

س۷۲۷۔ نماز آیات پڑھنے کا کیا طریقہ ہے ؟

ج۔ اسے بجا لانے کی چند صورتیں ہیں :

پہلی صورت : نیت اور تکبیرۃ الاحرام کے بعد حمد و سورہ پڑھے پھر رکوع میں جائے اس کے بعد رکوع سے بلند ہو اور حمد و سورہ پڑھے اور رکوع میں جائے، پھر رکوع سے بلند ہو کر حمد و سورہ پڑھے پھر رکوع بجا لائے پھر سر اٹھائے اور حمد و سورہ پڑھے اسی طرح ایک رکعت میں پانچ رکوع بجا لائے پھر سجدے میں جائے اور دو سجدے بجا لانے کے بعد کھڑا ہو کر پہلی رکعت کی طرح دوسری رکعت بھی بجا لائے اور اس کے بعد تشہد اور سلام پڑھے۔

دوسرا طریقہ : نیت و تکبیرۃ الاحرام کے بعد سورہ حمد اور کسی سورہ کی ایک آیت پڑھ کر -رکوع میں جائے۔ رکوع کے بعد اسی سورہ کی دوسری آیت پڑھے اور رکوع میں جائے۔پھر سر اٹھا کر اسی سورہ کی تیسری آیت پڑھے۔ اسی طرح پانچویں رکوع تک بجا لائے یہاں تک کہ وہ سورہ تمام ہو جائے۔ جس کی آیتیں آخری رکوع سے پہلے پڑھی تھیں اس کے بعد پانچواں رکوع اور پھر دو سجدے بجا لائے۔ دوسری رکعت کو بھی پہلی رکعت کی طرح بجا لائے اور تشہد و سلام پڑھ کر نماز ختم کر دے ، لیکن اگر اس نے رکوع سے پہلے ایک سورہ کی ایک آیت پر اکتفا کیا ہو تو سورہ حمد کو پہلی رکعت میں ایک مرتبہ سے زیادہ پڑھنا جائز نہیں ہے۔

تیسری صورت : مذکورہ دونوں طریقوں میں سے ایک رکعت کو مثلاً پہلے طریقہ سے اور دوسری کو دوسرے طریقہ سے بجا لائے۔

چوتھی صورت: اس سورہ کو دوسرے یا تیسرے یا چوتھے قیام میں پورا کرے جس کی ایک آیت پہلے قیام میں پڑھی تھی ، پس رکوع سے سر اٹھا نے کے بعد سورہ حمد اور ایک دوسرا سورہ پڑھنا واجب ہے یا اس سورہ کی ایک آیت پڑھے اگر پانچویں قیام سے پہلے ہو۔ اب اگر پانچویں قیام سے پہلے ایک آیت پر اکتفا کرے تو پانچویں رکوع سے قبل اس سورہ کا ختم کرنا واجب ہے۔

س۷۲۸۔ کیا نماز آیات اسی شخص پر واجب ہے جو اس شہر میں تھا جس میں اسباب نماز آیات رونما ہوئے ہیں۔ یا ہر اس مکلف پر واجب ہے جسے اس کا علم ہو گیا ہو خواہ وہ اسباب اس کے شہر میں رونما نہ ہوئے ہوں ؟

ج۔ نماز آیات اسی شخص پر واجب ہے جو اس شہر میں ہو جس میں آثار رونما ہوئے ہوں اسی طرح اس شخص پر بھی واجب ہے جو اس شہر کے نزدیک والے شہر میں رہتا ہو ، اتنا نزدیک کہ دونوں کو ایک شہر کہا جاتا ہو۔

س۷۲۹۔ اگر زلزلہ کے وقت ایک شخص بے ہو ش ہو اور زلزلہ ختم ہو جانے کے بعد ہو ش میں آئے تو کیا اس پر بھی نماز آیات واجب ہے ؟

ج۔ اگر زلزلہ کے فوراً بعد ہو ش میں آ جائے اوراس کو زلزلہ کی خبر ہو جائے تو اس پر نماز آیات واجب ہے ورنہ نہیں ہے۔

س۷۳۰۔ کسی علاقہ میں زلزلہ آنے کے بعد مختصر مدت کے درمیان بہت ہی معمولی دسیوں زلزلے اور زمینی جھٹکے آتے ہیں ایسے موارد میں نماز آیات کا کیا حکم ہے ؟

ج۔ ہر مستقل زلزلہ پر، خواہ وہ شدید ہو یا خفیف نماز آیات واجب ہے۔

س۷۳۱۔ جب زلزلوں کی پیشین گوئی کرنے والا مرکز یہ اعلان کرے کہ زمین کو کئی خفیف جھٹکے آئے ہیں ، مرکز اس علاقہ کے جھٹکوں کی تعداد بھی بتائے جس میں ہم رہتے ہیں لیکن ہم نے انہیں قطعی محسوس نہ کیا ہو تو کیا اس صورت میں ہمارے اوپر نماز آیات واجب ہے ؟

ج۔ اگر آپ لوگوں نے وقوع زلزلہ کے دوران یا اس کے فوراً بعد زلزلہ خود محسوس نہیں کیا ہے تو آپ پر نماز آیات واجب نہیں ہے۔

                   نوافل

س731۔ کیا نافلہ نمازوں کو بلند آواز سے پڑھنا واجب ہے یا آہستہ؟

ج۔ دن کی نافلہ نمازوں کو آہستہ پڑھنا اور شب کی نافلہ نمازوں کو بلند آواز سے پڑھنا مستحب ہے۔

س۷۳۳۔ نماز شب کو ( جو دو دو رکعت کر کے پڑھی جاتی ہے ) کیا دو مرتبہ چار، چار رکعت ، ایک مرتبہ دو رکعت اور ایک مرتبہ ایک رکعت ( وتر) پڑھ سکتے ہیں ؟

ج۔ نماز شب کو چار ، چار رکعت پڑھنا جائز نہیں ہے۔

س۷۳۴۔ کیا نماز شب پڑھنے کے لئے واجب ہے کہ ہمیں کوئی نماز شب پڑھتے ہوئے نہ دیکھے یا یہ واجب ہے کہ ہم تاریکی میں نماز شب پڑھیں ؟

ج۔ تاریکی میں نماز شب پڑھنا اور اسے دوسروں سے چھپانا شرط نہیں ہے ہاں اس میں ریا جائز نہیں ہے۔

س۷۳۵۔ نافلہ ظہر و عصر نماز ظہر و عصر کے بعد خود نافلہ کے وقت میں قضا کی نیت سے پڑھی جائیں گی یا کسی اور نیت سے؟

ج۔ احتیاط یہ ہے کہ قربۃ الی اللہ کی نیت سے پڑھی جائیں ادا و قضا کی نیت نہ کی جائے۔

س۷۳۶۔ جو شخص نماز جعفر طیار پڑھتا ہے کیا صرف یہ نماز پڑھنے سے اس کا مکمل ثواب حاصل ہو جاتا ہے یا چند دیگر امور کی رعایت کرنا بھی واجب ہے ؟

ج۔ ممکن ہے دعا کے مستجاب ہو نے میں کچھ اور امور بھی دخیل ہوں ، بہر حال نماز جعفر طیار پڑھنے کے بعد آپ حاجت روائی اور خدائے تعالیٰ کی طرف سے اس ثواب کے حصول کی امید رکھیں جیسا کہ اس کی بجا آوری کے عوض وعدہ کیا گیا ہے۔

س۷۳۷۔ برائے مہربانی ہمیں نماز شب کے طریقہ سے تفصیل کے ساتھ مطلع فرمائیں۔

ج۔ نماز شب مجموعاً گیارہ رکعات ہیں ، ان میں سے آٹھ رکعتوں کو ، جو دو ، دو رکعت پڑھی جاتی ہیں ، نماز شب کہتے ہیں اور ان کے بعد کی دو رکعت کو نماز شفع کہتے ہیں ، یہ نماز صبح کی طرح پڑھی جاتی ہے۔ اس مجموعہ کی آخری ایک رکعت کو نماز وتر کہتے ہیں ، اس کے قنوت میں مومنین کے لئے استغفار و دعا کرنا اور خدائے منان سے حاجت طلب کرنا مستحب ہے ، اس کی ترتیب دعاؤں کی کتابوں میں مذکور ہے۔

س۷۳۸۔ نماز شب کا کیا طریقہ ہے ؟ یعنی اس میں کون سا سورہ ، استغفار اور دعا واجب ہے ؟

ج۔ نماز شب میں کوئی سورہ ، استغفار اور دعا اس کے جزء کے عنوان سے معتبر نہیں ہے اور نہ وجوب تکلیفی کے اعتبار سے معتبر ہے بلکہ تکبیرۃ الاحرام کے بعد ہر رکعت میں سورہ حمد پڑھنا ، رکوع و سجود اور ان دونوں میں ذکر پڑھنا اور تشہد و سلام پڑھنا کافی ہے۔

                   متفرقات نماز

س۷۳۹۔ وہ کون سا طریقہ ہے جس سے گھر والوں کو نماز صبح کے لئے بیدار کرنا جائز ہو ؟

ج۔ اس سلسلے میں گھر کے افراد کے لئے کوئی خاص طریقہ نہیں ہے۔

س۷۴۰۔ ان لوگوں کے روزہ و نماز کا کیا حکم ہے جو مختلف پارٹیوں اور گروہوں سے تعلق رکھتے ہیں اور بلاسبب ایک دوسرے پر شک یا ایک دوسرے سے حسد کرتے ہیں بلکہ ایک دوسرے سے عداوت رکھتے ہیں ؟

ج۔ مکلف کے لئے دوسروں کے بارے میں بغض و حسد اور عداوت کا اظہار کرنا جائز نہیں ہے لیکن یہ روزہ و نماز کے باطل ہو نے کا سبب نہیں ہے۔

س۷۴۱۔ اگر محاذ جنگ پر قتال کرنے والا شدید حملوں کی وجہ سے سورہ فاتحہ نہ پڑھ سکے یا سجود یا رکوع نہ کرسکے تو کیسے نماز پڑھے گا؟

ج۔ جیسے ممکن ہو پڑھے اور جب رکوع و سجود کرنے پر قادر نہ ہو تو دونوں کو اشارہ سے بجا لائے گا۔

س۷۴۲۔ والدین پر بچہ کو کس سن میں احکام و عبادات شرعی کی تعلیم دینا واجب ہے ؟

ج۔ ولی کے لئے مستحب ہے کہ جب بچہ سن تمیز کو پہنچ جائے تو اسے شریعت کے احکام و عبادات کی تعلیم دے۔

س۷۴۳۔ بعض بسوں کے ڈرائیور جو ایک شہر سے دوسرے شہر جاتے ہیں ، مسافروں کی نماز کو اہمیت نہیں دیتے ہیں وہ سواریوں کے کہنے پر بس نہیں روکتے کہ وہ لوگ اتر کر نماز پڑھ سکیں لہذا بسا اوقات ان کی نماز قضا ہو جاتی ہے ، اس سلسلہ میں بس ڈرائیوروں کی کیا ذمہ داری ہے ؟ اور ایسی صورت میں اپنی نماز کے سلسلہ میں سواریوں کا کیا فریضہ ہے ؟

ج۔ سواریوں پر واجب ہے کہ جب انہیں نماز کے قضا ہو جانے کا خوف ہو تو اس وقت کسی مناسب جگہ پر ڈرائیور سے بس روکنے کا مطالبہ کریں اور ڈرائیور پر واجب ہے کہ وہ مسافروں کے کہنے پر بس روک دے۔ لیکن اگر وہ معقول عذر کی بنا پر بلاسبب گاڑی نہ روکے اور وقت ختم ہو جانے کا خوف ہو تو اس وقت چلتی گاڑی میں نماز پڑھیں اور قبلہ ، قیام ، رکوع اور سجود کہ جہاں تک ہو سکے رعایت کریں۔

س۷۴۴۔ یہ جو کہا جاتا ہے کہ ’ شراب خوار کا روزہ و نماز چالیس دن تک ( قبول) نہیں ہے ‘ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ اس مدت میں اس پر نماز پڑھنا واجب نہیں ہے اور وہ اس مدت کے بعد فوت ہو جانے والی نمازوں کی قضا بجا لائے؟ یا اس کا مطلب یہ ہے کہ قضا و ادا دونوں واجب ہے ؟ یا پھر اس کا مقصد یہ ہے کہ اس پر قضا واجب نہیں ہے بلکہ ادا کافی ہے لیکن اس کا ثواب دوسری نمازوں سے کم ہے ؟

ج۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ شراب خواری نماز، روزہ کی قبولیت میں مانع ہے نہ کہ اس کی وجہ سے شراب خوار سے نماز، روزہ کا فریضہ ہی ساقط ہو جائے گا۔

س۷۴۵۔ اس وقت میرا شرعی فریضہ کیا ہے جب میں کسی شخص کو نماز کے کسی فعل کو غلط بجا لاتے ہوئے دیکھتا ہوں ؟

ج۔ اس سلسلہ میں آپ پر کوئی ذمہ داری نہیں ہے مگر یہ کہ جب وہ حکم سے ناواقف ہو نے کی بنا پر کوئی غلطی کرے تو احتیاط یہ ہے کہ اس کی ہدایت کریں۔

س۷۴۶۔ نماز سے فراغت کے بعد نماز گزاروں کے مصافحہ کرنے کے سلسلے میں آپ کا کیا نظریہ ہے ؟ اس بات کی وضاحت کر دینا بھی مناسب ہے کہ بعض بڑے علماء کہتے ہیں کہ اس موضوع سے متعلق آئمہ معصومین علیہم السلام سے کوئی حدیث وارد نہیں ہوئی ہے ، پس معلوم ہو تا ہے کہ مصافحہ کرنے کا کوئی محرک نہیں ہے لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ مصافحہ سے نماز گزاروں کی دوستی اور محبت میں اضافہ ہو تا ہے ؟

ج۔ سلام اور نماز سے فراغت کے بعد مصافحہ کرنے میں کوئی اشکال نہیں ہے اور بالعموم مومنین سے مصافحہ کرنا مستحب ہے۔

٭٭٭

ماخذِ:

http://al-Islam.org

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید