اساطیر کی جمالیات
حصہ اول
شکیل الرّحمٰن
انتساب
اپنی مینا
اور اپنے پیارے بچوں کے نام
جن کی وجہ سے اس کام کے لیے مواد حاصل ہوئے
اپنی پیاری بیٹی ڈاکٹر انجم شکیل کی محبت کا خاص طور پر شکریہ ادا کرتا ہوں
جن کی وجہ سے کئی نایاب کتابیں اور مضامین دستیاب ہوئے
۔۔۔ شکیل الرحمٰن
سرورق
یونانی اساطیر میں اور فیس (Orpheus) ایک عظیم موسیقار ہے۔ اُس کے نغموں اور اس کی موسیقی کے آہنگ کی جانے کتنی صورتیں اور جہتیں تھیں۔ جب وہ کائنات کی تخلیق کو موضوع بناتا تو اس کے نغموں اور ان کے آہنگ سے ایک عجیب پراسرار رُوحانی کیفیت طاری ہو جاتی، محسوس ہوتا جیسے روحانی آہنگ سے کائنات کی تخلیق کا سلسلہ جاری ہے۔ ’لائر‘ (Lyre) [بربط] پر اس کی انگلیوں سے دلفریب نغموں کی تخلیق ہوتی، کبھی زیوس (Zeus) اور اولمپینس (Olympians) جیسے دیوتاؤں کی جنگ کو موضوع بناتا، کبھی اُن انسانوں کو جو پھولوں اور پرندوں میں تبدیل ہو گئے تھے، اس کے نغموں اور شدّتِ جذبات سے پھوٹے مختلف آہنگ کی سحر انگیزی غضب کی تھی۔ صرف انسان اور جانور ہی نہیں چٹاّنیں، ندّیاں، پہاڑ، درخت سب اس سحر کی گرفت میں ہوتے۔ جنگلوں میں نغمہ گونجتا اور بربط کا آہنگ پھوٹتا تو تمام درخت اپنی جڑوں کو اُکھاڑ کر اور فیس کے ساتھ چلنے لگتے۔ جہاں وہ جاتا جاتے، پہاڑوں پر، سمندر کے کنارے اور جہاں اور فیس کا نغمہ ختم ہوتا اور بربط کی آواز رُک جاتی وہیں تمام درخت اپنی جڑیں زمین کے اندر ڈال کر اس طرح کھڑے ہو جاتے جیسے اب انھیں وہیں رہنا ہے، وہی اُن کی زمین ہے۔
اس یونانی موسیقار اور فیس نے ایک خوبصورت عورت یوری ڈائس (Eurydice) سے شادی کر لی۔ شادی کی شام جب یوری ڈائس اپنی سہیلیوں سے گفتگو کر کے واپس آ رہی تھی ایک زہریلے ناگ نے اُسے ڈس لیا، اس نے دَم توڑ دیا۔ اور فیس کا بھی جیسے دَم نکل گیا ہو، تڑپنے لگا، اس کی زندگی کی سب سے قیمتی شے گم ہو گئی تھی، فیصلہ کیا وہ روحوں کی دُنیا ’ہیڈس‘ (Hades) کا سفر کرے گا اور کسی صورت یوری ڈائس کو واپس لے آئے گا۔
روحوں کی دُنیا نیچے کی تاریک دُنیا ہے۔ راہ میں ایک ندی تھی، وہاں ایک کشتی تھی، اس پر دو اشخاص سوار تھے، اور فیس نے آنے کا مقصد بتایا تو کشتی پر بیٹھے ایک شخص نے کہا: ’’کوئی زندہ شخص اس تاریک دُنیا میں داخل نہیں ہو سکتا۔‘‘ اور فیس نے ایک نغمہ چھیڑا اور بربط کی سحر انگیز آواز سے ایسی فضا خلق کر دی کہ اس تاریک دُنیا کے اندر داخل ہونے کی اجازت مل گئی۔ اس نے محسوس کیا کہ کچھ ایسی روحوں نے اس کے گرد گھیرا ڈال دیا ہے کہ جو نظر نہیں آ رہی ہیں۔ اس نے بے خوف اپنا ایک نغمہ چھیڑا اور موسیقی کے آہنگ میں اپنے جذبے کی آتشیں لہروں کو جذب کر لیا۔ گیت رفیقۂ حیات کے لیے تھا، اس کے چھن جانے کے غم نے گیت میں جدائی کا درد بھر دیا، تمام روحیں رونے لگیں، بڑے بڑے گدھ حیرت زدہ رہ گئے۔ ہر دَم بھونکنے والا تین سروں والا کتاّ جو تاریک دُنیا کی حفاظت کے لیے تھا، اچانک خاموش ہو گیا۔
پھر اور فیس اس تاریک دُنیا کے بادشاہ پلوٹو (Pluto) کے رتھ کے قریب پہنچ گیا، وہ اپنی بیوی پرسی فون (Persephone) کے ساتھ بیٹھا تھا۔ نغمہ چھیڑا، ایک المناک فضا بن گئی۔ پلوٹو اور اس کی بیوی دونوں پر بڑا گہرا اثر ہوا۔ بادشاہ نے اور فیس کی بیوی یوری ڈائس کو طلب کیا۔ کچھ سوچ کر اجازت دے دی کہ اور فیس اپنی رفیقۂ حیات کو لے کر اپنی دُنیا میں لوٹ سکتا ہے۔ لیکن ایک شرط رکھی۔ شرط یہ تھی کہ چلتے ہوئے اور فیس آگے رہے گا اور اس کی بیوی پیچھے رہے گی، وہ گھوم کر اپنی بیوی کو نہیں دیکھے گا ورنہ اس کا نقصان ہو گا۔ جب اور فیس تاریک دُنیا سے باہر نکلا اور اس نے سامنے صبح کی روشنی دیکھی تو خوش ہو کر مڑا تاکہ وہ اپنی رفیقۂ حیات کو دیکھ سکے، اس کی بیوی ابھی تاریک دُنیا سے باہر قدم رکھ رہی تھی کہ اچانک گم ہو گئی، اور فیس نے صرف یہ سنا ’’الوداع!‘‘
موسیقار پر دیوانگی سی طاری ہو گئی، وہ تاریک دُنیا کی جانب دوڑا، کشتی پر بیٹھ کر ندی پار کر نے کی خواہش ظاہر کی۔ اجازت نہیں ملی۔
اور عمر بھر بربط کے تاروں کو چھیڑتا اور اپنے شدید غم کا اظہار کرتا رہا!
جب وہ اس دُنیا سے گزر گیا تو سب روئے۔
پرندے
درخت
پہاڑ
ندیاں
سب
روئے
میری کتاب ’’ادبی قدریں اور نفسیات‘‘ دسمبر ۱۹۶۵ء میں شائع ہوئی تھی، بیالیس تینتالیس برس کا طویل عرصہ گزر چکا ہے، اس کے تیسرے باب ’’ادب کی رومانیت کے سرچشمے‘‘ میں میں نے ادب کے بنیادی رجحانات کا تجزیہ کرتے ہوئے اساطیر اور تخلیقی وژن پر گفتگو کی تھی، کہا تھا اساطیر۱ کی بنیاد انسان کے ابتدائی حسی تجربے ہیں، انسان کے ’وژن‘ نے مختلف سطحوں پر اساطیر کی تخلیق کی۔ میں نے لکھا تھا اساطیر کا مطالعہ ’’توتم پرستی (Totem Worship) زندگی کے المیے کے گہرے اثرات اور موت کے پراسرار خوف کے جذبے کا بھی مطالعہ ہے، ساتھ ہی متحرک علامات، عقائد، داخلی کیفیات اور نفسیاتی کشمکش اور تصادم، فریب اور واہمہ، خواہشات کی تکمیل سے محرومی اور شکست کی آواز کا مطالعہ بھی ہے۔ اساطیری کردار و واقعات انسان کی ’سائیکی‘ سے بہت ہی گہرا تعلق رکھتے ہیں۔ ان سے انسان کے ابتدائی تخلیقی ذہن اور اس کی جمالیاتی کیفیات کو بہت حد تک سمجھنے میں آسانی ہوتی ہے۔ تماثیل اور تاریخ کی بنیاد اساطیری قصّے ہیں، اساطیری رموز و اسرار کی پھیلی ہوئی داستان ہے، قدیم تخیل نے قدروں کا تعین کیا ’آفتاب‘ ، ’ماہتاب‘ ، ’تارے ‘ ، ’آبشار‘ ، ’پہاڑ‘ قوسِ قزح سب تخیل کے ذریعہ زندگی کے جوہر سے معمور ہوئے۔ عہد بہ عہد تاریخ آگے بڑھتی گئی اور زندگی کے رموز و اسرار کی نئی آگاہی سے قدروں کے تعین کا سلسلہ جاری رہا، فطرت اور زندگی کے ابتدائی تجربوں کے مطالعے کے بغیر انسانی تفکر کی تاریخ مرتب نہیں ہو سکتی اور قدروں کے تسلسل اور ان کی تبدیلیوں کا جائزہ لیا نہیں جا سکتا۔ وقت کے بہاؤ پر انسان کے تیرتے ہوئے قدیم تجربے نئے تجربوں اور قدروں کی نوعیت کو سمجھنے میں کافی مدد کرتے ہیں۔ انسانی تخیل کی تاریخ کے تسلسل کو سمجھنے کے لیے تمدّن و تہذیب کے اساطیری قصوں سے بہتر اور کوئی وسیلہ نہیں ہے۔ کائنات کی تخلیق کے تعلق سے قدیم انسانی تخیل کی عمدہ پہچان نیوزی لینڈ کے ’موئی‘ (Maui) ہندوستان کے ’وِشنو‘ اور آسٹریلیا کے ’بومے ‘ (Baume) کے اساطیری قصوں سے ہوتی ہے۔ اس کے بعد یونانی اساطیری فکر، میکسیکو کے اساطیری قصّے اور ایشیا کے بدھ تخیل اور فکر کا مطالعہ کیا جائے تو انسان کی ’سائیکی‘ (Psyche) اس کے تجربوں کی وسعت اور گہرائی، قدروں کے تصادم، بنیادی اقدار کی اہمیت اور زندگی کے رومانی تصوّرات کی قدر و قیمت کا اندازہ ہو گا۔
میں نے تحریر کیا تھا کہ اسطور سازی کی جبلّت ایک بنیادی جبلّت ہے، مذاہب اور پر اسرار حقیقتوں نے اسطوری تجربوں کے اظہار میں توازن پیدا کر نے کی کوشش کی ہے۔ اساطیری کردار بلاشبہ تخیل، وِژن اور گہری رومانیت کی تخلیق ہیں، یہ کردار مادّی زندگی سے رشتہ رکھتے ہوئے بھی اپنے پُر اسرار ذہن اور پُر اسرار نفسیات سے پہچانے جاتے ہیں، ان کی مشکل پسندی اور پیچیدگی کا اندازہ کرنا آسان نہیں ہے۔ فطری اور نفسیاتی تصادم اور شدّتِ جذبات کا مطالعہ بھی دلچسپ ہے۔ یہ کردار بنیادی سچائیوں کے نمائندے بھی ہیں اور تجربوں اور جذبوں کی علامات اور اشارات بھی، اساطیری واقعات کے ربط اور تسلسل کو بھی کبھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، ان سے انسان اور کائنات کے باہمی حسی رشتوں کی وضاحت ہوتی ہے۔
ایسا بھی ہوتا رہا ہے اور آج بھی ہو رہا ہے کہ ’ متھ‘ (Myth) اور اسطوری قصّے ’حقیقی‘ بنا دیئے گئے ہیں اور حقیقی قصوں اور کرداروں کو ہم نے ’ناقابلِ یقین اسطوری قالب میں ڈھال دیا ہے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ دیومالا کے کردار انسانی جذبات اور احساسات رکھتے ہیں۔ ان کی نفسیاتی کشمکش انسانی کشمکش جیسی ہے۔ فوق الفطری کرداروں کے عمل اور ردِّ عمل میں انسانی عمل اور ردِّ عمل کی پہچان مشکل نہیں ہوتی۔ بنیادی طور پر یہ انسانی ذہن ہی کے کرشمے ہیں۔ پہاڑ کو اُٹھا لینے کے باوجود ’مکابو‘ اپنے باپ کو اس لیے سزا دیتا ہے کہ اس کی ماں (چاند کی نسل کی) بے عزّت ہوتی ہے۔ صرف آگ کی تلاش اور آگ لے کر بھاگ آنے کے تمام اساطیری قصوں کا جائزہ لیا جائے تو بنیادی انسانی جبلّتوں اور خواہشوں کو سمجھنے میں آسانی ہو گی۔ رات، چاند، صبح، وغیرہ کے تصوّرات اور کیوپڈ اور سائیکی، اپولو، جیوپیٹر، ایکو، نارکی سس، جونو، منروا وغیرہ کی کہانیوں میں انسانی جذبات کی پہچان مشکل نہیں ہے۔ یونانی، رومی اور ہندوستانی اساطیر میں انسان کی نفسیات اور اقدار کی تشکیل کے عمل کا مطالعہ کیا جائے تو کچھ بڑے دلچسپ نتائج سامنے آئیں گے۔ اساطیری کردار اور واقعات جمالیاتی کیفیتوں اور گہری رومانیت کی تخلیق ہیں ایک اساطیری کردار میں کئی تجربوں کے عکس ملنے لگے ہیں۔ رزمیہ نظموں میں اساطیری جبلّت کا اظہار ہوتا رہا ہے۔ اکثر انسانی کردار اساطیری ماحول میں اپنی بنیادی خصوصیات کا اظہار کرتے ہیں ساتھ ہی اقدار کا تعین کرتے ہوئے بھی نظر آتے ہیں۔ فنکاروں کے اساطیری رجحان نے ایسے کرداروں کی بھی تخلیق کی ہے جو دیوتاؤں سے بھی ٹکراتے ہیں اور کامیاب ہوتے ہیں۔ (دیوتاؤں سے آگ چھین لیتے ہیں ) اساطیری علامتوں کا مطالعہ کیجیے تو اکثر محسوس ہوتا ہے جیسے ہم گہرائی میں اُترتے جا رہے ہیں۔ زندگی اور وقت (Time) کی معنویت کا بھی احساس ملتا جا رہا ہے۔
میں نے اس باب میں تحریر کیا تھا کہ وحشی اور نیم وحشی اساطیر میں چاند، سورج، ستارے قوسِ قزح، پہاڑ، بادل، بارش، سمندر، جانور، پرندے، درخت اور آبشار وغیرہ سب اپنے عمل کے ساتھ نمایاں ہوتے ہیں۔ یہ قدیم خیال بھی قابلِ غور ہے کہ ہر وہ شے جو انسان کی زندگی پر اثر انداز ہوتی ہے ایک شخصی وجود رکھتی ہے۔ اساطیری پیکروں میں انسانی صورتیں بھی ہیں اور بنیادی محرّکاتِ زندگی بھی۔ چاند ستاروں کی گھریلو زندگی اور خاندانی زندگی کا تصوّر عام گھریلو اور خاندانی زندگی جیسا ہے۔ تخلیقی آرٹ کو ان سے بہت کچھ حاصل رہا ہے۔ تشبیہوں، استعاروں، اشاروں اور علامتوں کی ایک بڑی دُنیا ملی ہے۔ بڑے تخلیقی فنکاروں کے ’وِژن‘ نے اس بڑے پھیلے ہوئے گہرے رومانی جمالیاتی تجربوں سے مختلف سطحوں پر رشتہ قائم کیا ہے۔ اکثر بڑے فنکاروں کے لاشعور میں اساطیر کا تحرّک موجود ہے۔ اکثر تخلیقی جمالیاتی وِژن نے سائیکو اسطور سازی (Psycho-Mythology) کے عمدہ نمونے پیش کیے ہیں۔ بڑی تخلیقات میں ’ متھ‘ (Myth) کا عمل نفسیاتی ہے۔ اپنے عہد کی سائیکی‘ (Psyche) کا مطالعہ کیا جائے تو ’ا4‘ (Images) استعاروں اور تشبیہوں میں قدیم اساطیر اور ’متھ‘ کی جھلکیاں دِکھائی دیں گی۔ نسلی یا اجتماعی شعور (Collective Unconsciousness) کے تحرّک کی پہچان ہو جاتی ہے۔ ماحول اور فضا کی تخلیق میں آرچ ٹائپ (Archetype) کا دباؤ موجود رہتا ہے۔ اساطیر اور اساطیری قصوں کہانیوں کا مطالعہ کرتے ہوئے یہ ّ سچائی بھی سامنے آ جاتی ہے کہ تمام اسطوری قصّے صرف دیوی دیوتاؤں سے تعلق نہیں رکھتے۔ ’ایڈی پس‘ (Oedipus) کی مثال سامنے ہے جسے سگمنڈ فرائیڈ نے اپنا محبوب ہیرو بنا رکھا ہے۔ کئی یونانی اسطوری قصوں کے کردار دیوی دیوتا نہیں ہیں۔ بڑی تخلیقات میں اسطوری تجربے (Mythic Experience) اس طرح پگھل جاتے ہیں کہ ان کی پہچان مشکل ہو جاتی ہے۔ نئے فنی یا شعری تجربے ان سے رشتہ قائم کرتے ہیں تو اکثر پراسرار لذّت آمیز کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔
دراصل اُنیسویں صدی میں سائنسی ذہن نے پہلی بار ذہنِ انسانی کی تاریخ کے قوانین کا مطالعہ کیا اور اسطور کو ایک بڑا ذریعہ سمجھا۔ اس سے قبل ہی علمائے اساطیر نے مطالعے کی بنیاد مضبوط کر دی تھی، اس بنیاد کے بغیر کسی سائنسی قدر کی پہچان بھی مشکل تھی۔ اسطوری علامات کی کائنات وسیع، تہہ دار اور جہت دار ہے۔ یہ علامات گہرائیوں سے آشنا کرتی ہیں، اس طرح تخیل کی شادابی، زرخیزی اور بلندی کا احساس ہوتا ہے اور ساتھ ہی اقدار کے تصادم اور ان کے تسلسل کے تعین میں بھی بیداری پیدا ہوتی ہے۔
تاریخی تنقید کی سختی سے تمثیلی قصوں اور اساطیری کہانیوں کے بہت سے جوہر پوشیدہ ہو گئے ہیں ان لیے کہ ہم ان پر یقین نہیں کرتے۔ حالانکہ ’دانائی‘ سے زیادہ بینائی کی ضرورت تھی، ذہنی تاریخ اور فکری اور جذبی تاریخ پسِ پردہ جا پڑتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ تاریخی تنقید ہمیں ایک منزل تک چھوڑ دیتی ہے، اس منزل تک کہ جہاں تک ثبوت ملتے ہیں اور شہادتیں ملتی ہیں، فن و ادب کے طلبہ کی تشنگی نہیں بجھتی، آرٹ کی رومانیت کا احساس ہی تاریخی شہادتوں اور عقلی ثبوت سے ہٹا کر رومانیت کی پُر اسرار گھاٹیوں میں لے جاتا ہے، ظاہر ہے اس سے نقصان نہیں فائدہ ہی ہوتا ہے اس لیے کہ پیکروں اور علامتوں کی ایک بڑی دولت حاصل ہو جاتی ہے، فن و ادب کا طالب علم انھیں نئی قدروں کی آگ میں تپا کر تاریخی بنیادوں کے بغیر متحرّک بنا دیتا ہے۔ تخیل کا یہ کارنامہ بھی کم اہم نہیں ہے۔ بڑے تاریخ داں بھی اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتے کہ کل تک جنھیں وہ جھوٹی کہانیاں اور ناقابلِ اعتماد قصّے کہہ رہے تھے آج وہی اپنے کرداروں کے ساتھ قدروں کی تلاش کے ذرائع بن گئے ہیں اور تاریخ نے ان کا سہارا لینا شروع کیا ہے۔ اسی طرح قدیم اساطیر اور قدیم تمثیلی قصّوں کے ایسے بہت سے اسرار ہیں کہ جن سے فنکار کا ذہن آشنا ہو رہا ہے۔ ان سے فائدہ حاصل کر رہا ہے۔ تخیل کے بتکدے سجا رہا ہے۔ آرٹ تاریخ کے پیچھے نہیں آگے چلتا ہے۔ آرٹ تاریخ سے زیادہ گہری اور بلیغ تہذیبی علامت ہے۔ آرٹ نے تاریخ کی رہنمائی کی ہے اور اسے نئے کھنڈروں میں اُتارا ہے۔ کوئی بھی اساطیری نقش ہو اپنے زمانے اور عہد کی کسی معنویت کو پیش کرتا ہے، اس میں وقت کی معنویت کہیں نہ کہیں پوشیدہ ہوتی ہے۔ تاریخی تنقید اساطیری نقوش میں قدروں کا مطالعہ کر رہی ہے۔ رومانی نقوش سے فائدہ اُٹھانے کی کوشش میں اپنے اصولوں میں ترمیم و تنسیخ بھی کر رہی ہے۔ اساطیر نے بلاشبہ گہری اور پھیلی ہوئی رومانیت کا احساس بڑھایا ہے۔ صدیوں کی روح اس رومانیت میں پوشیدہ ہے۔
اساطیر میں تخیّلی اور جذباتی فکر میں زندگی اور سماج سے فنکارانہ گریز کی عمدہ تصویریں ملتی ہیں۔ حقیقت کی مختلف جہتیں ملتی ہیں۔ ایک ہی خیال یا تصوّر پر کئی سمتوں سے روشنی پڑتی ہے۔ انسان کے تخیل کی شادابی کی جانے کئی مثالیں ملتی ہیں، اساطیر کا کلاسیکی مزاج فنونِ لطیفہ کو مختلف انداز سے متاثر کرتا رہا ہے۔
وحشی اور نیم وحشی اساطیر میں چاند، سورج، تارے، قوس قزح، پہاڑ، بادل، بارش، سمندر، جانور، پرندے، درخت آبشار وغیرہ اپنے عمل اور ردِّ عمل سے متاثر کرتے ہیں، اسطوری پیکروں میں انسانی صورتیں بھی ہیں اور بنیادی نفسیاتی محرکات بھی، چاند ستاروں کی گھریلو زندگی توجہ طلب ہے۔ تخلیقی آرٹ نے ان سے تشبیہیں، استعارے، اشارے اور علامتیں حاصل کیے ہیں۔
چند اساطیری خیالات ملاحظہ فرمائیے:
’’ایک ہندوستانی بچے ّ نے کسی ستارے کو غور سے دیکھنا شروع کیا، ستارہ نیچے آیا، بچے ّ سے باتیں کیں اور پھر اُسے اپنے ساتھ لے گیا، ستارۂ صبح وہی ہندوستانی بچہ تو ہے!‘‘
’’جب پرانا سورج جل گیا اور دنیا تاریک ہو گئی تو ایک شخص دہکتی آگ میں کود پڑا اور پھر ایک نیا سورج وجود میں آ گیا۔‘‘
’’قوسِ قزح متحرک بلا ہے، اس نے مقدس درخت پر اپنے ہونٹ رکھ دیئے پھر شاخیں ٹوٹنے لگیں اور مقدس درخت کھوکھلا ہو گیا۔‘‘
’’دھنک کے ساتھ ایک زہریلا سانپ ہوتا ہے، اس کا زہر دریاؤں میں گھل جاتا ہے۔‘‘
’’قوسِ قزح کے ذریعہ دیوتا انسان کو پیغام بھیجتے ہیں۔‘‘
’’گرہن سے سورج تاریک ہو جاتا ہے اور چاند کے سینے سے لہو ٹپکنے لگتا ہے۔‘‘
’’آفتاب سمندر کی تخلیق ہے۔‘‘
’’جب ایک قدیم اور بڑے پرندے کی چیخ سنائی دیتی ہے تو بارش ضرور ہوتی ہے۔‘‘
’’یہ ستارے۔۔۔ شکاری اپنے گھر کا راستہ بھول گئے ہیں۔‘‘
’’گرہن چاند کا زخم ہے، سورج اپنی دلہن سے ناراض ہو کر اسے اسی طرح زخمی کر دیتا ہے۔‘‘
’’چاند ایک عورت ہے، سورج بھی ایک عورت ہے، ستارے چاند کے معصوم بچے ّ ہیں، سورج کے بھی بچے ّ تھے لیکن اس نے اپنے بچوں کو نگل لیا۔ بات یہ تھی کہ دونوں عورتوں نے محسوس کر لیا تھا کہ صرف ان دونوں کی روشنی دُنیا کے لیے کافی ہے، ان بچوں کی روشنی کی ضرورت نہیں ہے، بہتر یہ ہے کہ دونوں اپنے بچوں کو نگل جائیں، چاندنے اپنا وعدہ پورا نہیں کیا، اس کی ممتا بیدار ہو گئی لہٰذا یہ عورت سورج کی نگاہوں سے اپنے بچوں کو چھپاتی پھرتی ہے۔ سورج نے ان بچوں کو دیکھ لیا ہے، اس کی ناراضگی چاند کو پریشان کر رہی ہے، بغیر بچوں کی عورت چاند کو دانتوں سے کاٹ لیتی ہے، چاند گرہن دراصل چاند کا یہی زخم ہے۔
یہ قدیم اساطیری خیالات اور تصوّرات ہیں، رومانی جمالیاتی اندازِ فکر نے خوبصورت پیکر تراشی کی ہے۔ جذبات و احساسات کے ایسے پیکر بکھرے ہوئے ہیں، پیکر تراشی کے آرٹ پر اساطیری فکر اور قدیم رومانی جمالیاتی اندازِ فکر کے گہرے اثرات ہیں۔ اساطیری فکر و نظر کی رومانیت نے پیکر تراشی کے نئے سانچے دیئے ہیں۔ ورجل، ڈانٹے، ملٹن، گیٹے، وِکٹر lتسابثہیگو، شیکسپیئر اور ولیم بلیک وغیرہ نے پیکر تراشی کے عمل میں اساطیری رومانی رجحان کو اُبھارتے ہوئے اپنے ذہن کی خلاّقی اور زرخیزی کا عمدہ ثبوت دیا ہے۔ اساطیر کی پُر اسرار فضاؤں میں کہیں کوئی سورج کو نگل رہا ہے۔ کہیں پرندے روحوں کو نئی راہیں دِکھا رہے ہیں، کہیں طوفان گھاٹیوں میں گرفتار ہے، کہیں مشرق اور مغرب ایک دوسرے سے ملنے کو بے چین ہیں، کہیں چار ہوائیں اپنی طاقت کا مظاہرہ کر رہی ہیں، کہیں کوئی بڑا طوفان پہاڑ کے دامن میں رو رہا ہے اور اس کی آواز سے چٹاّنیں کانپ رہی ہیں۔ جنت کے دیوتا کے اشارے سے کڑکتے ہوئے بادل خاموش ہیں، آفتاب زمین کا سینہ چاک کر کے بے اختیار نیچے اُتر رہا ہے، کہیں کوئی کسی درخت کو بوسے دے رہا ہے اور زلزلے کے آثار نمایاں ہو رہے ہیں، کہیں مقدس زمین رقص کر رہی ہے۔ جذباتی فکر و نظر، گہرے رومانی جمالیاتی وِژن اور زرخیز تخیل کی یہ بڑی میراث ہے۔ دنیا کے ہر ملک میں لوک کہانیوں اور داستانوں نے اس عظیم سرچشمے سے فیض حاصل کیا ہے۔ سگمنڈ فرائیڈ کی تحلیلِ نفسی اور یونگ کے حسی پیکروں یا آرچ ٹائپس نے اس سرچشمے کی قدرو قیمت کا احساس اور بڑھا دیا ہے، پُر اسرار باطینیت اسی رجحان کا آئینہ ہے۔ یونگ کی فکر کی روشنی میں ’ماں ‘ کے حسی پیکر (Mother Archetype) کا مطالعہ کیا جائے تو اسطور سازی کی جبلّت اور بنیادی رومانی فکر و نظر کی قدر و قیمت کا شدید احساس ملے گا۔ اساطیر میں ’مدر آرچ ٹائپ‘ کی جانے کتنی صورتیں ہیں۔ ’ڈی میٹر‘ (Demeter)، کور(Kore)، سائیبل (Cybele)، ایٹس (Attis) اور کالی (Kai) کی اساطیری کہانیوں میں یہ حسی پیکر موجود ہے۔ صرف پیکروں اور حسی عمل اور ردِّ عمل کا معاملہ نہیں ہے بلکہ ان کے ساتھ جذباتی کیفیتیں بھی ہیں جو متاثر کرتی ہیں، مثلاً محبت، ممتا، نفرت، رقابت، حسد وغیرہ۔ ’ماں کا حسی پیکر یا آرچ ٹائپ جانے کتنے پیکروں میں ڈھل گیا ہے۔ جنت، زمین، جنگل، گرجا، مندر، درگاہ، شہر، سمندر اور چاند وغیرہ بھی اس حسی پیکر کی علامتیں بن جاتے ہیں۔ یونگ نے ’مدر آرچ ٹائپ‘ کو باغوں، کھیتوں، گھاٹیوں، غاروں، درختوں، آبشاروں، پھولوں (گلاب، کنول)، چرچ یا گرجا گھروں میں بھی ٹٹولنے کی کوشش کی ہے۔ قسمت کی دیوی مثلاً نورنس، (Norns)، موتر (Motra) اور گرئی (Graeae) ’مدرآرچ ٹائپ‘ کی تصویریں ہیں۔ سانپ، انسان کو نگل لینے والی بڑی مچھلیاں، قبر اور موت بھی ان کی علامتیں ہیں۔ شیکسپیئر کے ’میک بتھ‘ میں، اسکاٹ لینڈ اور رات ’مدر آرچ ٹائپ‘ کے پیکر ہیں، ’میک بتھ’ نے ’نیند‘ کے تمام جزیروں کو ویران کر دیا ہے۔ رات تشدّد کو جنم دینے لگی ہے۔ بے چینی، اضطراب اور تپش کا اندازہ کرنا مشکل ہے۔ دھڑکنیں سنائی دیتی ہیں۔ ’میک بتھ‘ کی بے خوابی چند کرداروں کی بے خوابی نہیں ہے بلکہ پورے اسکاٹ لینڈ کی بے خوابی ہے۔ اسکاٹ لینڈ کی سرزمین ایسی ماں ہے، جو اپنے بچوں کی لاشوں کو اپنے دامن میں چھپائے پھر رہی ہے۔ اسکاٹ لینڈ کی نیند اُچٹ گئی ہے، ایک ماں جاگی ہوئی ہے، بے چین، مضطرب تڑپ رہی ہے۔
اساطیر میں کائنات کی تخلیق کے تعلق سے مختلف تصوّرات ملتے ہیں، وقت کے بہاؤ پر مختلف انداز کی نگاہ ملتی ہے۔ دیوی دیوتاؤں کے پیکروں میں گناہ زندگی اور موت کے تصوّرات میں تصادم اور کشمکش اور نفسی اور داخلی اضطراب کے مختلف میلانات ہیں۔ باطنی داخلی زندگی کا رشتہ مختلف انداز سے کائنات سے پیدا کیا گیا ہے۔ یہ داستان طویل ہے گہری اور تہہ دار ہے۔ ماضی کے گہرے اندھیرے میں پھیلی ہوئی ہے۔ کلاسیکی ذہن نے مختلف حکایتیں تخلیق کی ہیں۔ چاند سورج کے رشتے قائم ہوئے، سمندر اور قوس قزح کے تعلق پر غور کیا گیا، ستاروں کی گفتگو سنی گئی، برف، پھول، جنگل، طوفان، آگ، جانور، پرندے، جنت، جہنم، راگ اور رنگ، پہاڑ lآبشار، طلوعِ آفتاب، غروبِ آفتاب، پاتال آکاش سب کی کہانیاں خلق ہوئیں، جذباتی سطحوں پر قدروں کا تعین ہوتا رہا ہے۔
اساطیری رجحان ایک بنیادی رجحان ہے اور ہمیں اس حقیقت کا بہت کم علم ہے کہ ہم یونانی اور ہندوستانی آریائی اور غیر آریائی صنمیات میں کسی حد تک جذب ہیں۔ اس رجحان سے وقت کی زنجیریں ٹوٹی ہیں۔ صدیوں کی فکری زندگی نے جو میراث عطا کی ہے اس کی روشنی لازوال روایتوں، حکایتوں اور اشاروں اور علامتوں میں ڈھل گئی ہے۔ اساطیر نے فکر و نظر کا ایک بڑا سرمایہ عطا کیا ہے۔ خوب سے خوب تر کی جستجو بڑے فنکاروں کو علم الاصنام کی ایک بہت بڑی دُنیا میں لے گئی ہے۔
ویم بلیک (William Bake) نے کہا تھا:
"A deities reside in the human breast.”
جی.سی. یونگ Jung) ۱۹۶۱ء۔ ۱۸۷۵ء) نے ’سائیکی‘ کی اصطلاح استعمال کی ہے یعنی تمام دیوی دیوتا انسان کی ’سائیکی‘ میں موجود ہیں۔
فنون میں اساطیر کے نفسیاتی تجربوں کا سفر جانے کب سے جاری ہے، تخلیقی فنکاروں نے ’متھ‘ (Myth) کے دلکش معنی خیز تجربوں کو نفسیاتی صورتیں دی ہیں۔ رومانیت کے اصول سے آشنا کیا ہے۔ انھیں ڈرامائی پیکروں میں ڈھالا ہے اور اکثر استعاروں میں جلوہ گر کیا ہے۔ اساطیر کا مطالعہ بنیادی طور پر معصوم، پُر اسرار اور حیرت انگیز قدیم اور قدیم تر انسانی تجربوں کی نفسیات کا مطالعہ ہے۔ فنون کا مطالعہ کریں تو محسوس ہو گا کہ سارا کھیل ’سائیکی‘ کا ہے۔ ’سائیکی‘ نے ابتدا سے بے اختیار ’متھ‘ کو پیش کیا ہے۔ آج بھی ’سائیکی‘ نئے ’خوابوں،‘ نئی bسی اور نئے تجربوں کو قدیم اساطیر کی طرح پیش کرتی جا رہی ہے۔ اسی لیے غالباً یہ کہا جاتا ہے کہ ’سائیکی‘ کی فطرت میں اسطور سازی کا کوئی پُر اسرار تحرک موجود ہے، یعنی ’سائیکی‘ بنیادی طور پر Mythopolic ہے۔ ’سائیکو اسطور سازی‘ (Psycho-mythology) کی جبلّت ہی تخلیقی فنکاروں کو عمدہ اور بڑی تخلیقات کے لیے اُکساتی ہے۔ نئے عہد کی ’سائیکی‘ کے ’ا4‘ (Images) کا تعلق جب قدیم سائیکی کے ’متھ‘ سے قائم ہو جاتا ہے تو تخلیقی تخیل میں بہت ہی پُر کشش تحرک پیدا ہو جاتا ہے۔ معنوی گہرائی کا زیادہ سے زیادہ احساس ملنے لگتا ہے۔ ’متھ‘ کا رنگ و آہنگ لیے جمالیاتی تجربہ سامنے آ جاتا ہے۔
’ایڈیپس (Oedipas) کی اساطیری کہانی جب نئے عہد کی ’سائیکی‘ میں اُترتی ہے تو ایڈی پس اُلجھن کی پُر اسراریت لیے کوئی بھی تجربہ ایسا جمالیاتی تجربہ بن جاتا ہے جو اپنی ٹریجڈی کے جمال سے متاثر کرتا ہے۔ ذات کی نفسیاتی کشمکش انسان کے بنیادی تصادم کی صورت اُبھر آتی ہے۔ یونگ نے کہا تھا کہ قدیم ترین ’متھ‘ اور اپنے عہد کے درمیان ایک پل بن جاتا ہے۔ محسوس ہوتا ہے جیسے ایڈی پس ہم میں اب بھی زندہ ہے۔ بنیادی ذہنی یا نفسیاتی تصادم وقت یا ’ٹائم‘ سے آزاد ہوتا نظر آتا ہے۔ نئے عہد میں سانس لینے والوں کے خواب ’bسی‘ اور حسی تجربے میں اساطیر کی جھلکیاں نظر آتی ہیں جو اکثر جنسی ہوتی ہیں لہٰذا۔۔۔ خوبصورت بھی ہوتی ہیں۔
صنمیات میں ایسے جانے کتنے پیکر ہیں جو دیوی دیوتا نہیں ہیں لیکن انتہائی دلکش اور دلنواز شخصیتوں کے مالک ہیں، جن کی کہانیاں اپنی ڈرامائی اور نفسیاتی کیفیتوں سے متاثر کرتی ہیں۔ ’ اور فیس‘ (Orpheus) (سرورق) عمدہ مثال ہے۔ وہ ایک بڑا تخلیقی فنکار ہے، ایک بڑا موسیقار، اس کا پورا وجود جیسے موسیقی کے مختلف آہنگ سے مرتب ہوا ہو۔ انسانی احساس اور جذبے سے سرشار ہے۔ اس کا المیہ غیر معمولی نوعیت کا ہے، کہانی کے اختتام تک پہنچتے پہنچتے دل لہولہان ہوتا محسوس ہوتا ہے۔ کسی تخلیقی فنکار کے تعلق سے ایسا پیکر کہیں نظر نہیں آتا۔ ایسی کہانی دکھائی نہیں دیتی۔ سرورق کی کہانی پر ایک بار پھر نظر ڈالیے اور سوچئے کیا اساطیر کی اتنی بڑی دنیا میں ایسا کوئی کردار اپنی دلنواز شخصیت لیے کہیں اور ملتا ہے؟ اساطیر کی پھیلی ہوئی تہہ دار تاریخ میں کسی بھی ملک میں غالباً ایسا کردار موجود نہ ہو۔
بعض تخلیقی فنکاروں نے اساطیری کرداروں کو اپنی تخلیقات میں بڑی نمایاں حیثیت دی ہے انھیں متحرک کرداروں کی صورت پیش کیا ہے۔ مثلاً Achiles جو سمندر کی دیوی ’تھی ٹس‘ (Thetis) اس کا بیٹا ہے ہومر کی بڑی کلاسیکی تخلیق ’ایلیڈ‘ (Iliad)میں ایک نمایاں کردار ادا کرتا ہے۔ ’اینیس‘ (Aeneas) ہومر کے ’ایلیڈ‘ میں ’ٹروجنس‘ (Trojans) کے ایک بڑے متحرک ہیرو کی طرح ملتا ہے۔ ’ورجل‘ (Virgil) کی عظیم تخلیق ’اینیڈ‘ (Aeneid) میں تو ایک انتہائی متحرک اور پُر کشش کردار بنا ہوا ہے کہ جس کی کہانی کسی ’ایپک‘ کا حصہ نظر آتی ہے۔ ’ٹرائے ‘ کے زوال کے بعد اپنے اوپر اپنے والد کے ساتھ دیوتاؤں کو بھی سوار کر لیتا ہے، بیوی چھوٹ جاتی ہے، جانے کہاں کہاں کی خاک چھانتا ’ڈیڈو‘ (Dido) کے پاس آن پہنچتا ہے، اس کا مہمان تو بنتا ہی ہے ڈیڈو پر عاشق بھی ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد بھی اُس کی کہانی آگے بڑھتی ہے۔ اطالیہ پہنچتا ہے کہ جہاں بادشاہ اس کا استقبال کرتا ہے۔ بادشاہ کی بیٹی ’لاوینیا‘ (Lavinia) سے اس کی شادی ہوتی ہے اور وہ ایک نیا شہر بساتا ہے۔
اساطیر کی جڑیں ما قبل تاریخ میں جانے کب سے پیوست ہیں۔ رفتہ رفتہ جڑیں پھیلتی گئی ہیں۔ دنیا کے مختلف علاقوں کے قبیلوں میں مختلف انداز سے اساطیر کا ارتقا ہوتا رہا اور انسانی ذہن کے کرشموں کی ایک عجیب و غریب پُر اسرار دنیا وجود میں آتی گئی۔ قدیم ترین ادوار میں مقامی سطحوں پر جو تمدّن موجود رہا اس کے آثار اور نقوش کی بعض روایتوں کا سفر جاری رہا۔ کم و بیش بارہ ہزار سال قبل مسیح کے کھنڈروں اور غاروں میں جو تصویریں پائی گئی ہیں اُن سے اس بات کا علم ہوتا ہے کہ ان میں اکثر تصویروں کا تعلق ’توتم‘ (Totem) اور اساطیری جبلّت سے ہے۔ قدیم غاروں میں جو مجسّمے ملے، جو زیورات حاصل ہوئے اور تصویروں کے جو نمونے توجہ طلب بنے ان سے اسطوری جبلّت کے متحرک عمل کی پہچان ہوئی۔ توتمی کردار لیے جانے کتنے پیکر اور ’ا4‘ حاصل ہوئے ہیں۔ دنیا کے کئی ملکوں اور ان ملکوں کے قبیلوں میں قدیم ترین چہروں، پیکروں اور ’ا4‘ کی تشکیل کی روایات آج بھی موجود ہیں۔ جنگلوں میں شکار کی زندگی نے جانوروں کے چہروں اور پیکروں کو اہمیت دی اور مختلف احساسات اور جذبات نے اساطیری پیکروں کی تخلیق کی۔ اسی طرح کھیتوں سے رشتہ پیدا ہوا تو جہاں ’توتم‘ (Totem) کی نئی صورتیں اُبھریں وہاں فطرت اور کھیتوں کے تعلق کے پیشِ نظر نئے دیوتا پیدا ہوئے۔ موسم اور قدرت کے قہر سے خوف کا جذبہ شدّت سے بیدار ہوا اور دیوی دیوتاؤں کی جہاں نئی نئی صورتیں پیدا ہونے لگیں وہاں ان کے شدید عمل اور ردِّ عمل کے قصّے بھی وجود میں آنے لگے۔ بیج بونے، آبیاری کر نے اور فصل کاٹنے کے وقت کو آہستہ آہستہ جشن میں تبدیل کر دیا گیا اور دیوی دیوتاؤں کی صورتیں خلق کر کے ان کی عبادت بھی ہونے لگی۔ بیج کا دیوتا پیدا ہوا، پانی کی دیوی نے جنم لیا، فصل کے دیوتا مختلف علاقوں میں مختلف صورتیں لیے وجود میں آئے۔ دیوی دیوتاؤں کے علاوہ اپنے آبا و اجداد کی روحوں سے رشتہ قائم کر نے کی کوشش اس طرح بھی ہوئی کہ ان کے بھی مجسّمے بننے لگے اور ان کی عبادت بھی کی جانے لگی۔
کھنڈروں اور غاروں میں بارہ ہزار سال قبل مسیح کے جو تصویری خاکے دستیاب ہیں ان میں جانوروں کے خاکوں کی تعداد زیادہ ہے۔ ان خاکوں اور تصویروں میں اُن جانوروں کی روحوں سے رشتہ قائم کر نے کی کوشش زیادہ ملتی ہے کہ جو ’توتم‘ (Totem) کی حیثیت اختیار کر چکے تھے جن کی عبادت کی جاتی تھی۔ اسی طرح کھیتوں میں کام کر نے والے اپنے آبا و اجداد کے پیکر تراشتے کہ جن کی عبادت فرض سمجھتے تھے، ان کا عقیدہ تھا کہ اُن کی روحیں زندہ اور متحرک ہیں، کھیتی باڑی میں یہ روحیں مدد کرتی ہیں، ان کے لیے رقص بھی کیا جاتا، رقص کی ایسی تصویریں بھی موجود ہیں جو آبا و اجداد کو خوش رکھنے کی کوشش میں بنائی گئی تھیں، مختلف قسم کے ’ماسک‘ (Mask) پہن کر رقص کیا جاتا۔
قدیم ذہن نے اس طرح آہستہ آہستہ اپنی اسطوری جبلّت میں تحرک پیدا کیا ہے۔ اس کے بعد اسطوری ذہن کے پُر اسرار کرشموں کا سلسلہ قائم ہوا ہے۔ دیوی دیوتاؤں کے پُر اسرار پیکر وجود میں آئے، ان کی علامتوں کی تخلیق کا سلسلہ شروع ہوا۔ مختلف علاقوں کے مختلف قبیلوں میں اسطوری ذہن نے پُر اسرار کرداروں اور پُر اسرار فضاؤں کی تخلیق تشکیل کی۔ اس ذہن کا رومانی جمالیاتی رجحان توجّہ طلب بن جاتا ہے۔ سمندروں کے قریب کے علاقوں میں ان کے آثار آج بھی موجود ہیں، نیگرو تمدّن کی قدیم ترین تاریخ کے مطالعے سے یہ حقائق سامنے آتے ہیں۔ وسط ایشیا کے مختلف قبیلوں کا سفر شروع سے اثر انداز ہوا ہے۔ اساطیری علامتیں بھی ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچنے لگیں اور مختلف قبیلوں کے اساطیری تجربے ایک دوسرے پر اثر انداز ہونے لگے۔ وسط ایشیا، انڈونیشیا اور چین نے یوروپ کی اساطیری فکر کو متاثر کیا۔ سانپ اور ڈریگن وغیرہ کے پُر اسرار پیکروں نے جانے کتنے اساطیری قصوں کہانیوں کو جنم دیا۔
۲۵۰۰۰۔ ۳۰۰۰۰ سال قبل مسیح جنوبی، روس، افغانستان اور بلقان وغیرہ میں پتھروں پر شکاری فنکاروں کے بنائے ہوئے نسوانی پیکروں کا ذکر ملتا ہے۔ کہا جاتا ہے ان نسوانی پیکروں کا اسلوب فطری ہے۔ بعض تصویروں کی روحانی سطح کا بھی ذکر کیا جاتا ہے مثلاً ’ماں ‘ کے پیکروں کا۔ انسان کی تصویروں کے ساتھ بعض درندوں کی تصویروں کے شکار ی فنکاروں کی اساطیری جبلّت کی پہچان کی گئی ہے مثلاً بعض انسانی جسم کے ساتھ درندوں کے چہرے یا بعض درندوں کے جسم کے ساتھ انسانی چہرے۔ یہ روایت جب بہت آگے بڑھی ہے تو مصر کا آرٹ بھی ان سے متاثر ہوا ہے۔ شمالی افریقہ میں پتھروں پر انسان کی ایسی تصویریں نقش ہیں جو جانور اور درندے نظر آتے ہیں، غالباً بنیادی رجحان یہ رہا ہے کہ انسان میں فوق الفطری طاقت کا مظاہرہ کیا جائے۔ موت کا خوف چونکہ ہر وقت غالب رہا اس لیے دوسری زندگی کا تصوّر بھی پیدا ہوا ہے۔ انسان موت کے بعد طاقتور جانوروں کی صورتوں میں جنم لے سکتا ہے یا لیتا رہتا ہے۔ اساطیری جبلّت سے اس دلچسپ رومانی تصوّر نے جنم لیا تھا۔ شمالی سائبیریا اور اسکیمو (Eskimos) قبیلوں میں یہ تصوّر یا عقیدہ پرورش پاتا رہا ہے۔ آسٹریلیا اور افریقہ کے کئی قبائلی علاقوں میں یہ عقیدہ موجود رہا ہے۔ گزرے ہوئے لوگوں کی آوازوں کو سننا، مرے ہوئے افراد کو دیکھ لینا اس قسم کے نفسیاتی فینومینا سے اساطیری جبلّت کے اظہار میں بڑی مدد ملی ہے۔ مرے ہوئے افراد بھی اساطیری کردار بنے ہیں۔ آج ایسی ذہنی کیفیت اور حالت کے لیے Psychosis کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔ دنیا کے جانے کتنے ملکوں میں یہ عقیدہ بہت پرانا ہے کہ موت کے بعد روح زندہ رہتی ہے اور وہ اکثر دوسرا جسم حاصل کر لیتی ہے، روح انسان کی بھی ہو سکتی ہے اور جانور کی بھی۔ مختلف دَور میں بعض جانوروں کو مارنا گناہ تصوّر کیا گیا۔
شعوری اور غیر شعوری طور پر اساطیر کی بنیاد قائم کر نے اور اس میں فکر اور جذبے اور احساس کی روشنی اور رنگ و آہنگ کو شامل کر نے میں ’تو تم‘ (Totems) نے بھی ایک بڑا کردار ادا کیا ہے۔ ’توتمیت‘ مذہب کی طرح مقدس ہے، تہذیب کا مطالعہ کرتے ہوئے توتمی علامتوں کو کبھی نظر انداز نہیں کر سکتے، آج بھی توتمی روایات کی پہچان ہوتی ہے۔ قدیم افریقی، امریکی، آسٹریلیائی اور آریائی قبیلوں کا مطالعہ کرتے ہوئے ’توتم‘ کی قدر و قیمت کا اندازہ ہوتا رہتا ہے۔ قدیم قبائلی زندگی میں کچھ خاص جانوروں کو مارنا اور انھیں کھانا ممنوع تھا، ان کی حفاظت بچوّں کی طرح ہوتی تھی، ایسا کوئی جانور مر جاتا تو اس کے آخری رسوم کی نوعیت وہی ہوتی جو کسی بھی انسان کے مر نے کے آخری رسوم کی نوعیت تھی۔ کہا جاتا ہے کچھ جانور ایسے بھی تھے کہ جنھیں مار نے اور کھانے کی اجازت تھی لیکن اُن کے جسم کے بعض حصوں کو کھانا منع تھا۔ غلطی سے کوئی ایسا جانور مار دیا جاتا تو اسے قتل قرار دیا جاتا۔ قدیم قبیلوں میں بعض جانوروں کی قربانی جائز تھی لیکن ان جانوروں کے چمڑوں کو پہننا بھی ضروری تھا، لباس میں چمڑوں کو اس طرح محفوظ رکھنا بھی توتمی کردار کو سمجھاتا ہے۔ توتمی جانوروں کے خاص نام بھی رکھے جاتے اور ہتھیاروں پر ان کی تصویریں بھی بنائی جاتی تھیں۔ یہ تصویریں آہستہ آہستہ اساطیری پیکروں میں ڈھل گئیں اور ان کی اہمیت بہت زیادہ بڑھ گئی۔ اگر کوئی توتمی جانور خطرناک ہوتا تو اس کا نام قبیلے کے کچھ افراد کو دے دیا جاتا تھا اور وہ افراد اس توتمی جانور کی علامت بن جاتے، اس طرح کے عمل کا مقصد یہ بھی تھا کہ انسان آفات سے دُور رہے گا۔ توتمی جانوروں کی آوازوں کی بھی اہمیت تھی، ان کی آوازوں سے اچھے بُرے لمحوں کی خبر ملتی تھی۔ بعض قبیلوں میں یہ اعتقاد بھی پختہ رہا ہے کہ ان توتمی جانوروں سے خون کا رشتہ ہے لہٰذا قبیلے کا ہر فرد ان جانوروں کا رشتہ دار ہے۔ علم نفسیات نے توتمی کلچر کا مطالعہ کر کے انسان کے مختلف رجحانات کا مطالعہ کیا ہے اور اقدارِ زندگی کو سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ تمدّن، روایات اور تہذیبی اقدار کا مطالعہ کرتے ہوئے ہم ’توتمیت‘ (Totemism) کو نظر انداز نہیں کر سکتے۔ اساطیر اور فنونِ لطیفہ میں ’bسی‘ (Fantasy) کی جو اہمیت ہے بخوبی جانتے ہیں۔ ان کی پُر اسراریت کے پس پردہ ’توتمی کلچر‘ کا تحرک موجود ہے۔ پریوں کی کہانیاں، جنوں بھوتوں کے قصّے، پُر اسرار پرندوں اور جانوروں کے افسانے یہ سب ’توتمیت‘ سے کسی نہ کسی طرح رشتہ رکھتے ہیں۔ اساطیر کی تخلیق میں خوف اور تحیر اور عقیدت اور محبت کے جذبوں نے ابتدا سے اپنی اہمیت کا احساس دلایا ہے۔
سگمنڈ فرائیڈ نے ’توتمیت‘ کا مطالعہ کرتے ہوئے خدا کے تصوّر کا جو نفسیاتی مطالعہ کیا ہے اس میں اس بات کا بھی ذکر کیا ہے کہ ہر بڑے دیوتا کے ساتھ ایک خاص جانور بھی موجود ہے (ہندوستانی اساطیر میں بھی اس کی مثالیں موجود ہیں ) کبھی کبھی کئی جانور ایک ہی دیوتا کے ساتھ ہیں۔ یہ جانور رفتہ رفتہ دیوتاؤں کی علامتیں بن گئے ہیں۔ وہ جانور جو دیوتا کو پسند ہے اس کی قربانی بھی ہوتی ہے اور وہی دیوتا کی علامت بن کر قابلِ پرستش بن جاتا ہے۔ اساطیری قصّوں میں بہت سے دیوتاؤں نے جانوروں کی صورتوں کو پسند کیا ہے اور ان ہی صورتوں میں نمایاں ہوئے ہیں۔ اس طرح ’دیوتا‘ خود ’توتم جانور‘ (Totem animal) بن گئے ہیں۔ رفتہ رفتہ ان جانوروں کی حیثیت مذہبی ہو گئی ہے۔ انسان اور خدا کا رشتہ بچے ّ اور باپ کے رشتے کی ترقی یافتہ صورت ہے، دیوتاؤں کا انسانی صورت میں آنا اس نفسیاتی عمل کو ظاہر کرتا ہے۔ فرائیڈ نے کہا ہے کہ ’’دیویوں کی تخلیق کا راز یہ ہے کہ انسان ایسے سماج کو دیکھنا چاہتا تھا جس میں باپ کی جگہ نہ ہو۔ توتمی جانور قربان کیے گئے اور رفتہ رفتہ ان کے کردار مقدس نہیں رہے، پھر وہ دَور بھی آیا جب وہ صرف قربانی کے بکرے بن گئے، انھیں دیوتاؤں کو خوش رکھنے کا ذریعہ بنایا گیا، دیوتا عام انسانوں سے بہت بلند ہو گئے، پجاریوں کے ذریعے دیوتاؤں کے قریب پہنچنے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ سماجی زندگی میں ایسے ’بادشاہوں ‘ کا ظہور ہوا جو دیوتاؤں سے گہرا رشتہ رکھتے تھے پھر ایسی کہانیاں اور ایسے قصّے ملنے لگے جن میں دیوتاؤں نے معلوم نہیں کتنے ایسے جانوروں کو مارا جو بہت مقدس تھے اور جو خود ان دیوتاؤں کی علامتوں کی صورت میں موجود تھے۔ اس منزل پر بھی ’باپ کی اُلجھن‘ (Father Complex) ختم نہیں ہوئی۔ جانوروں کی قربانی میں مسرّت کا جذبہ پوشیدہ رہا، دیوتاؤں کا جانوروں کو مارنا تحلیلِ نفسی کی روشنی میں خود اپنی ’زخمی فطرت‘ کو مارنا ہے، یہ کہا جائے کہ دیوتا اس طرح اپنی فطرت کے تاریک پہلو کو ’تسخیر‘ کر لیتے تھے تو غلط نہ ہو گا۔ بادشاہوں اور پجاریوں نے بھی بہت سے جانوروں کی قربانی کے احکام جاری کیے ہیں۔ پسِ پردہ ’باپ کی اُلجھن‘ موجود رہی ہے، ’باپ‘ ہی قتل ہوتا رہا ہے۔
سگمنڈ فرائیڈ کے خیالات سے اختلاف کر نے کی بڑی گنجائش ہے لیکن ہم اس بات کو نظر انداز نہیں کر سکتے کہ اساطیر کی بنیاد کے استحکام اور اسطوری جبلّت کو متحرک کر نے اور اسطور سازی میں احساس اور جذبے کے رنگ و آہنگ کو جذب کر نے میں ’توتم‘ نے ایک بڑا اہم کردار ادا کیا ہے۔ حیات و کائنات کے تعلق سے رومانی، نفسیاتی اور جمالیاتی تصوّرات و کیفیات کو لیے صرف یونانی، رومن اور ہندوستانی اساطیر ہی کا مطالعہ کیا جائے تو اساطیر کے ایک بہت بڑے نظامِ جمال کی پہچان ہو گی ساتھ ہی یہ بھی محسوس ہو گا کہ سیکڑوں ہزاروں پیکروں، کرداروں، ان کی کہانیوں اور ان کے عمل اور ردِّ عمل کی متحرک تصویریں خلق کر نے والا تخلیقی ذہن ہمیشہ غیر معمولی حیثیت کا مالک رہا ہو گا۔ صرف دیوتاؤں کے دیوتا اور آسمان کے دیوتا ’زیوس‘ (Zeus)، علم کے دیوتا ’اتھینا‘ (Athena)، پاتال کے دیوتا ’ہیڈس‘ (Hades)، عشق و محبت کی دیوی ’افروڈائٹ‘ (Aphrodite)، سورج کے دیوتا ’اپولو‘ (Apollo)، شراب کے دیوتا ’ڈائیونیسس‘ (Dionysus)، صبح اور دن کی روشنی کی دیوی اور ۔۔۔ ’جے نس‘ (Janus)، ’ہائپ نوس‘ (Hypnos)، دیوی ’ایروس‘ (Eros)، ’ اور فیس‘ (Orpheus)، دیوی ’پنڈورا‘ (Pindora)، ’نارکیسس‘ (Narcissus) دیوی ’ہیرا‘ (Hera) وغیرہ کا مطالعہ کیا جائے تو اساطیر کے ایک بڑے نظامِ جمال اور بڑے زرخیز تخلیقی ذہن کی پہچان ہو جائے گی۔ اسی طرح رومن اساطیر میں ’جیوپٹر‘ (Jupiter)، ’جونو‘ (Juno) (دیوتاؤں کی ملکہ)، سمندر کے دیوتا ’نیپٹیون‘ (Neptune)، موت کے دیوتا ’پلوٹو‘ (Puto)، سورج کے دیوتا ’اپولو،‘ چاند کی دیوی ’ڈائینا‘ (Diana)، جنگ کے دیوتا ’مارس‘ (Mars)، محبت کی دیوی ’وینس‘ (Venus)، دیوتاؤں کے پیامبر ’مرکری‘ (Mercury)، علم و دانش کی دیوی ’منروا‘ (Minerva)، زمین کی دیوی ’ایروس‘ (Eros)، پاتال کی دیوی ’پروسرپائن‘ (Proserpine)، وقت کے دیوتا ’سیٹرن‘ (Saturn) وغیرہ ایک بڑے معنی خیز اساطیری نظام کی تشکیل کرتے ہیں۔ یہ سب انسان کے تصوّرات اور احساسات اور جذبات کے متحرک پیکر ہیں۔ ان کے ذریعے ایک بڑی پراسرار دُنیا سامنے آ جاتی ہے جو خلاّق ذہن کی تخلیق ہے۔
نفسیاتی جمالیاتی فکر و نظر نے اکثر یونانی اور رومن اساطیری کرداروں اور ان کے عمل کو جاذبِ نظر اور پرکشش بنا دیا ہے۔ نسوانی کرداروں میں خصوصاً بڑی کشش پیدا کر دی ہے۔ نفسیاتی جمالیاتی نقطۂ نظر سے ان سب کی کئی خصوصیات متاثر کرتی ہیں۔ نفسیاتی کیفیتوں کے ساتھ جلال و جمال کے مظاہر توجہ طلب ہیں۔
ایفروڈائٹ (Aphrodite) نسوانی حسن کا جوہر لیے ہوئے ہے، اس کا پُر کشش وجود غیر معمولی حیثیت رکھتا ہے، اس کے باوجود وہ حاسد ہے، فریب دیتی رہتی ہے، اس میں انتقام لینے کا جذبہ ہے۔
ایفروڈائٹ انسان کے دل میں جنسی بے چینی پیدا کر دیتی ہے۔ جنسی جذبے کو دیوانگی کی حد تک پہنچا دیتی ہے۔ وہ افراد جو اس کے شکار بنتے ہیں ان میں اکثر اتنے بدنصیب بن جاتے ہیں کہ اپنے مقصد کی کامیابی کے لیے اپنے والدین سے بھی دُور ہو جاتے ہیں، اپنے گھر بار کو چھوڑ کر دُور نکل جاتے ہیں، ان پر دیوانگی سی طاری ہو جاتی ہے اس حد تک کہ ان میں خونخوار جانور کی خاصیت پیدا ہو جاتی ہے۔ اس کے باوجود ’ایفروڈائٹ‘ نئی نویلی دلہنوں اور نئے نویلے دولہاؤں کو اپنی خاص رحمتوں کے سائے میں رکھتی ہے، اُنھیں مسرّتیں عطا کرتی ہے۔
پیکرِ جمال ایفروڈائٹ قدرت کی تو انائی کی علامت ہے۔ اسی کی وجہ سے ایروس (Eros) اور ’سائیکی‘ (Psyche) کا ملن ممکن ہو پاتا ہے۔
محبت، سیکس اور افزائش نسل کی یہ یونانی دیوی سمندر سے نمودار ہوتی ہے۔ اس کے سیاہ خوبصورت بال اس کے حسن میں زبردست اضافہ کرتے ہیں۔
رومن اساطیر میں وینس (Venus) ’ایفروڈائٹ‘ کی نمائندگی کرتی ہے۔ ہیلن (Helen) اساطیر کی دُنیا میں اپنے انتہائی پُر اسرار حسن سے متاثر کرتی ہے۔ ایسا پُر اسرار حسن غالباً کسی کو نصیب نہیں ہے۔ اس کے بال انتہائی پُر کشش ہیں۔ سرپر سونے کا خوبصورت تاج ہے، سونے کے جس تخت پر بیٹھی ہے اس کے دونوں بازو پر سونے کے سانپ بنے ہوئے ہیں، اس کا لباس نیلا ہے جس کی وجہ سے اس کا حسن اور پُر اسرار بن گیا ہے۔ گہرے نیلے سمندر اور گہرے نیلے آسمان کے درمیان نیلے لباس میں ہیلن حسن کا ایک پُر اسرار استعارہ بن گئی ہے۔ زیوس (Zeus) اور لیڈا (Leda) کی بیٹی ہے جسے پیرس (Paris) اِغوا کر کے ٹرائے لے جاتا ہے جس کی وجہ سے ٹرائے کی جنگ ہوتی ہے۔ کچھ وقت کے گزر جانے کے بعد ہیلن پیرس کے بھائی ڈی فوبس (Deiphobus) سے شادی کر لیتی ہے۔ ٹرائے کی جنگ کے بعد واپس آ جاتی ہے۔
ہیلن جو پُر اسرار حسن کی علامت ہے داخلی زندگی اور باطنی سطح پر احساسات کے اضطراب کا استعارہ بھی ہے، وہ اندر بہت گہرائیوں میں اُتری ہوئی ہے اپنے وجود کے اندر سمندر سے زیادہ گہری ہے۔
ہیلن کی کہانی اس طرح بھی بیان ہوئی ہے کہ پیرس سے بے پناہ محبت کر نے لگی تھی۔ ٹروجن کی جنگ میں جب پیرس ہلاک ہو جاتا ہے تو اس کے پُر اسرار حسن سے متاثر تین عاشق سامنے آتے ہیں، جن میں تھیسیوس (Theseus) تھا کہ جس نے ہیلن کو اِغوا کیا تھا۔ ٹروجن کی جنگ کے دس سال ہیلن کے بہترین تجربوں کے سال تھے۔ مینی لوس (Meneous) ہیلن کا عاشق تھا، وہی ہیلن کو اسپارٹا لے آیا اور دونوں ہنسی خوشی زندگی بسر کر نے لگے۔
ہیلن کے حسن میں عجیب کشش تھی جس کی جانب نظر اُٹھا کر دیکھ لیتی اس کے ہوش و حواس گم ہو جاتے، عجیب سحر تھا اس کی خوبصورت آنکھوں میں۔ وہ صاف شفاف پانی کی طرح تھی کہ جو اسے دیکھتا اپنی روح کی گہرائیوں تک پہنچ جاتا۔ ہیلن کا حسن خود اپنے اسرار میں لپٹا ہوا تھا۔ وہ کئی مردوں پر مہربان رہی، ان میں اس کے دشمن بھی شامل تھے۔ جو مرد پسند آ جاتا اسے گرفت میں لے لیتی اور اس کے وجود میں اُتر جاتی۔ اُس کے شعور کو گرفت میں لیتے ہوئے اس کے لاشعور کے اندر سما جاتی۔ ہیجانات کی نغمہ ریز لہروں میں مرد اپنے تمام انتشار کو بھول جاتا۔ ہیجانات کی نغمہ ریز لہریں جانے اسے کہاں پہنچا دیتیں۔ وہ بلاشبہ پُر اسرار bسی کی دنیا میں پہنچ جاتا۔
وینس (Venus) رومن تخلیقی ذہن کا کارنامہ ہے، حسن کا پیکر، محبت اور شہوت کی علامت۔ یونانی ’ایفروڈائٹ‘ سے ملتا جلتا پیکرِ جمال۔
ہیرا (Hera) یونانیوں کی قدیم دیوی ہے۔ یونانی اساطیر میں ہیرا زیوس(Zeus) کی بیوی اور بہن دونوں کی صورتوں میں ملتی ہے، خوبصورت ہے لیکن ہومرؔ نے تحریر کیا ہے کہ حد درجہ بد زبان ہے۔ عورت کے حسد کو نمایاں کرتی رہتی ہے۔ جھگڑالو ہے، کسی کو بُرا بھلا کہنے میں پیچھے نہیں رہتی، اس کی عبادت جس مقام پر کی جاتی ہے اس کا نام آرگوس (Argos) ہے جو بہت دُور کسی سنسان علاقے میں ہے۔
سرِسی (Circe) ایک دُور دراز علاقے Aesea کی دیوی ہے۔ یہ ایک جزیرہ ہے کہ جہاں اوڈیسیس (Odysseus) رُکا تھا، یہ جادو سحر کی بھی دیوی ہے۔ جادو سے جب چاہتی کسی بھی مرد کو خونخوار جانور میں تبدیل کر دیتی۔ اوڈیسیس کے ساتھیوں کے ساتھ بھی اس نے یہی کیا اُنھیں جانور بنا دیا۔ اوڈیسیس اس کے ساتھ ایک سال رہا اور جادو کی چھڑی سے اپنے ساتھیوں کو ایک بار پھر انسان بنوا دیا۔
منروا (Minerva) رومن اساطیر میں عقل و دانش کی دیوی ہے۔ یونانی اساطیر میں اتھینا (Athena) بھی عقل و دانش کی نمائندہ دیوی ہے جسے زیوس (Zeus) نے بہت عزیز رکھا تھا۔ اس کا سبب غالباً یہ تھا کہ اس نے زیوس کے سر سے جنم لیا تھا، زیوس نے اپنی ماں ’میٹس‘ (Metis) کو نگل لیا تھا جو عقل و دانش کی دیوی تھی، ایتھن میں اتھینا کی عبادت ہوتی تھی۔
آرٹیمس (Artemis) ابتدا میں زمین کی دیوی تھی جو آہستہ آہستہ زرخیز زندگی کی دیوی بن گئی۔ یونانی اساطیر میں وہ زیوس کی بیٹی ہے، اس کی ماں کا نام لیٹو (Leto) ہے۔ ہمیشہ کنواری رہی، شکار سے دلچسپی تھی لیکن اس نے ہمیشہ اس بات کا خیال رکھا کہ جنگوں میں شکار کرتے ہوئے اس کی عزّت آبرو محفوظ رہے۔ رومن اساطیر میں ڈائینا (Dyana) کا کردار بھی کچھ اسی نوعیت کا ہے۔
انڈرومیڈا (Andromeda) یونانی بادشاہ ’سی فیوس‘ (Cepheus) کی بیٹی تھی۔ اس کی ماں اسے دُنیا کی سب سے حسین لڑکی تصوّر کرتی تھی، کہتی تھی وہ سمندر کی حسیناؤں (Sea nymphs) سے زیادہ خوبصورت ہے۔ اُس پر قیامت اس وقت ٹوٹی جب اس کے والد کی حکومت پر سمندری عفریت نے حملہ کیا، وہ گرفتار ہو گئی تو اس خوبصورت دوشیزہ کے عاشق ’پرسیوس‘ (Perseus) نے اسے بچا لیا۔ عفریت کو قتل کر دیا اور انڈرومیڈا سے شادی کر لی۔
’لامیا‘ (Lamia) ایک ملکہ تھی کہ جس نے ’زیوس‘ (Zeus) سے جنسی تعلّق قائم کر رکھا تھا۔ ’ہیرا‘ (Hera) نے غصّے میں لامیا کے تمام بچوں کو اُٹھا لیا، اس کے بعد لامیا پر جنون کی سی کیفیت طاری ہو گئی اور اس نے جس بچے ّ کو پکڑ لیا مار ڈالا۔ رومن نے اس کی وحشت اور اس کے عمل کو دیکھ کر اسے ’فی میل ومپائر‘ (Female Vampire) کہنا شروع کر دیا۔
’ہیرو‘ (Hero) ایک خوبصورت پاکباز عورت تھی، ایفروڈائٹ کی عبادت کرتی تھی۔ ’لینڈر‘ (Leander) اس کے قریب آیا، دونوں عشق میں گرفتار ہو گئے، لینڈر ایک خوب رو جوان تھا جو ہیرو سے بے پناہ محبت کر نے لگا تھا، ہر شب سمندر عبور کر کے ہیرو سے ملنے آتا تھا، ہیرو ساحل پر چراغ جلائے بیٹھی رہتی، اسی چراغ کی روشنی میں لینڈر تیرتا ہوا اپنے محبوب کے پاس پہنچ جاتا تھا۔ ایک شب ایسا ہوا، طوفان آیا، لینڈر سمندر میں اُتر چکا تھا، تیرتا تیرتا آگے بڑھ رہا تھا، ہیرو کے چراغ کی روشنی پہنچ رہی تھی کہ اچانک آندھی طوفان کی وجہ سے چراغ بجھ گیا۔ ہر سو اندھیرا ہی اندھیرا تھا لینڈر ہیرو کے لیے، کوشش کے باوجود آگے بڑھ نہ سکا، سمندر میں ڈوب گیا۔ ہیرو غم سے نڈھال ہو گئی اور اس نے خود کو سمندر کی لہروں کے حوالے کر دیا۔ (سوہنی مہیوال کی یاد آ جاتی ہے )
’او‘ (Io) ایک خوبصورت دوشیزہ تھی کہ جس سے زیوس (Zeus) پیار کر نے لگا تھا۔ اسے پاس تو لے آیا لیکن اُسے اپنی بیوی ہیرا سے چھپا کر رکھنا چاہتا تھا، لہٰذا جب بیوی آتی زیوس ’او‘ کو جوان بچھیا بنا دیتا تھا۔ جب بیوی نہ ہوتی تو اس خوبصورت دوشیزہ کے ساتھ لذّت آمیز لمحے گزارتا۔ ہیرا کو اپنے خاوند کی کچھ حرکتوں کو دیکھ شبہ ہوا تو اس نے ایک عفریت کو کہ جس کی سو آنکھیں تھیں اپنے خاوند کی حرکتوں پر نظر رکھنے کے لیے معمور کیا۔ زیوس کو خبر ملی تو اس کے حکم سے ’ہرنس‘ (Hernes) نے آرگس(Argus) کا قتل کر دیا۔ اس عفریت کے قتل کے بعد ہیرا نے جوان بچھیا کو دبوچ لیا اور اسے لے کر جانے کہاں کہاں گھومتی رہی، دریائے نیل کے پاس پہنچی تو اچانک جوان بچھیا ’او‘ بن گئی۔
یہ کہانی یونان میں لوک کہانی کی طرح مقبول رہی ہے۔
’پاسی فائی‘ (Pasiphae) ایک عجیب و غریب نسوانی کردار ہے، ہیلیوز (HelLُاُتہتوغلطنہہوگا۔بادشاios) کی بیٹی ہے جو مائی نوز (Minos) سے بیاہی گئی ہے۔ مائی نوز کریٹ کا بادشاہ ہے۔ دیوتا پوسی ڈون (Poseidon) نے کریٹ کے بادشاہ مائی نوز کو ایک مضبوط تو انا بہت پُر کشش سانڈ بھیجا کہ جس پر پاسی فائی عاشق ہو گئی اور ایک شب چپکے سے اس سانڈ کے ساتھ مباشرت کی جس سے ایک عفریت نے جنم لیا کہ جس کا نام پاسی فائی نے مینوٹور (Minotaur) رکھا۔
’نائیٹی مین‘ (Nyetimene) سائیون کے بادشاہ کی بیٹی تھی کہ جسے اس کے باپ نے ’ریپ‘ کیا تھا۔ اس کے بعد وہ گھنے جنگلوں میں چھپتی پھری۔ اتھینا (Athena) نے اسے اُلّو بنا دیا!
’ایٹلانٹا (Atlanta) ایک سوچتے ہوئے خوبصورت چہرے کا نام ہے، ہلکے نیلے لباس پسند کرتی ہے، سرپر سونے کا تاج ہے تخت چاندی کا ہے۔ تنہا پسند ہے، جنسی زندگی کے تعلق سے کچھ نہیں سوچتی، شکار اور کئی کھیلوں سے دلچسپی ہے۔ دوستی پسند کرتی ہے جنسی تعلق پسند نہیں کرتی۔ تنہائی میں رہنا چاہتی ہے۔ قدیم لوک کہانیوں میں اس کا ذکر ملتا ہے۔ بہت تیز دوڑتی ہے، چیلنج کرتی ہے کہ دوڑ میں جو مرد اُسے پیچھے کر دے گا وہ اس سے شادی کر لے گی، کوئی مرد کامیاب نہیں ہوتا، باپ نے چاہا تھا بیٹا پیدا ہو لیکن ایٹلانٹا پیدا ہو گئی۔ باپ نے کبھی لڑکی کو لڑکے مقابلے میں زیادہ اہمیت نہیں دی لیکن ایٹلانٹا نے ثابت کر دیا کہ وہ کسی سے کم نہیں ہے۔ اس کا ایک عزیز ’میلانین ‘ (Milanion) اسے بے حد چاہنے لگا تھا، اس نے چیلنج قبول کیا، دوڑ ہوئی، میلانین نے ایفروڈائٹ سے تین سیب لیے تھے، دوڑتے ہوئے اس نے یہ تینوں سیب ایٹلانٹا کے سامنے پھینک دیئے۔ وہ انھیں اُٹھانے کے لیے رُکی اور میلانین آگے بڑھ گیا۔ ایٹلانٹا کی شکست ہو گئی۔
’ڈیمیٹر‘ (Demeter) ’دھرتی ماں ‘ ہے۔ گیہواں رنگ دھرتی کا حسن سمیٹے زمین کی خوشبوؤں کو لیے، گیہواں رنگ کے لہراتے بال، اکثر حاملہ رہتی ہے۔ افزائشِ نسل کی ذمہ داری بھی اسی پر ہے، گیہوں کے کھیتوں کی نگہبانی کرتی ہے۔ اس کا لباس مختلف پودوں سے بنا ہوا ہے۔ گلے میں بارہ قیمتی پتھروں کا ہار ہے۔ عام طور پر آبشاروں کے پاس کھڑی ہوتی ہے، آبشاروں کے نزدیک ہی سے کھیت دُور دُور تک پھیلے ہوئے ہیں۔ اس کی وجہ سے نئی زندگی کا سلسلہ قائم ہے۔ زمین کی تو انائی کی علامت ہے۔ اسی نے ہل جوتنا، بیج ڈالنا، کھیتوں میں پانی دینا سکھایا ہے۔ عورتوں کو گیہوں صاف کر نے اور روٹیاں بنانے کے گر سکھائے ہیں۔
ڈیمیٹر اپنی بیٹی پرسی فون (Persephone) کے ساتھ رہتی اور اپنے ساتھ اپنی بیٹی کو بھی دنیاوی اُلجھنوں سے دُور رکھتی۔
ایک صبح پرسی فون ٹہلنے گئی تو پھر واپس نہیں آئی، ڈیمیٹر پریشان ہو گئی اپنی بیٹی کو ہر طرف ڈھونڈا، کوئی نشان نہیں ملا۔ برسوں ہر جانب جا کر اسے تلاش کرتی رہی، عرصہ بعد اسے خبر ملی کہ پاتال کے دیوتا ہیڈس (Hades) نے اس کا اِغوا کیا ہے۔ ہیڈس زمین کے اندر بڑی گہرائیوں میں رہتا ہے کہ جہاں صرف تاریکی ہی تاریکی ہے۔ ڈیمیٹر کو معلوم ہوا کہ ہیڈس اپنے دو سیاہ گھوڑوں کے رتھ پر آیا اور پرسی فون کو لے گیا۔ ڈیمیٹر چیخ پڑی، زمین کی ماں نے زمین سے کہا دو حصوں میں بٹ جاؤ۔ اندر تاریکی میں میری بیٹی ہے جسے میں حاصل کرنا چاہتی ہوں۔ زمین نے سینہ چاک کیا تو ہر جانب انتشار پیدا ہو گیا۔ ہر شے ٹوٹنے لگی، زمین کی سطح بگڑ گئی، زمین کی ایسی حالت ہو گئی کہ اناج کا پیدا ہونا ممکن نہ تھا، ڈیمیٹر نے سوچا یہ غلط ہوا، اپنی بیٹی کی واپسی کے لیے زمین اور زمین کے باشندوں پر مجھے ہر گز ظلم نہیں کرنا چاہیے۔ اس نے زمین کو حکم دیا اپنی اصل صورت پر آ جاؤ اور زمین اپنی اصلی صورت پر آ گئی، ڈیمیٹر کو اپنی بیٹی سے زیادہ دھرتی اور دھرتی کی ہر شے کی فکر تھی، دیوتا ’ہرمیس‘ (Hermes) نے فیصلہ کیا پرسی فون نو ماہ اپنی ماں ڈیمیٹر کے ساتھ رہے گی اور تین ماہ اندھیرے کے دیوتا ہیڈس کے پاس۔‘‘ ڈیمیٹر اور ہیڈس دونوں نے یہ فیصلہ قبول کر لیا۔
اس کے بعد پرسی فون جب بھی تین ماہ کے لیے ہیڈس کے پاس پاتال میں جاتی ڈیمیٹر کے لیے ہر لمحہ غم کا لمحہ ہوتا، خزاں کا موسم آ جاتا، پتے ّ جھڑنے لگتے، پھول دِکھائی نہیں دیتے۔ پودے مرجھا جاتے، ایسا لگتا زمین سسک رہی ہے، اور جب پرسی فون اپنی ماں کے پاس آ جاتی تو بہار کا موسم آ جاتا۔
خزاں اور بہار دونوں ڈیمیٹر کے غم اور خوشی کی علامت ہیں۔
پرسی فون (Persephone) جو ڈیمیٹر کی بیٹی اور پاتال کے دیوتا ہیڈس کی بیوی ہے مرے ہوئے لوگوں کے ہر راز سے واقف ہے، تاریک دنیا کی ملکہ ہے جو سال میں تین ماہ حکومت کرتی ہے اس لیے کہ نو مہینے اپنی ماں ڈیمیٹر کے پاس رہتی ہے۔ یہ تاریک دنیا، یہ پاتال اپنے اسرار چھپائے بیٹھا ہے، ہیڈس اور پرسی فون ہی دھرتی کے نیچے کے اسرار کو جانتے بوجھتے ہیں۔ پرسی فون جب ماں کے پاس آتی ہے تو اسے بھی تاریک دُنیا کے اسرار نہیں بتاتی۔
پرسی فون بلاشبہ لاشعور کی علامت ہے۔ پُر اسرار باطن کی دنیا پر حکومت کرتی ہے۔ لاشعور کی تاریکی میں جانے کتنے راز پوشیدہ ہیں، خواب، وجدان اور bسی کے ذریعہ کچھ اشارے ملتے رہتے ہیں یہ اشارے پرچھائیوں جیسے ہیں، پرسی فون وقت بدلتے ہوئے لمحوں اور وقت کے آہنگ کو سمجھاتی ہے۔
’پینی لوپ‘ (Penelope) ایک پاکباز نسوانی کردار ہے۔ اوڈیسیس (Odysseus) کی بیوی ہے، جب اس نے جنم لیا تھا تو اس کے والد آئی کاریس (Icarius) نے اسے سمندر میں پھنکوا دیا تھا اس لیے کہ وہ بیٹا چاہتا تھا بیٹی نہیں۔ ہلکے نیلے رنگ کی لکیروں سے آراستہ مرغابیوں نے اسے بچا لیا، اسے کھلایا پلایا اور اُسے لے کر سمندر کے کنارے پہنچ گئیں، آئی کاریس پینی لوپ کو دیکھ کر حیرت زدہ رہ گیا، سوچنے لگا اس بچی میں یقیناً غیر معمولی تو انائی ہے جو سمندر سے نکل کر کنارے پر آ گئی ہے۔ اسے افسوس ہوا اور پینی لوپ کو سینے سے لگا لیا۔
جب اس کا شوہر اوڈیسیس دوسرے یونانی شہزادوں کے ساتھ ’ٹروجن جنگ‘ کے لیے چلا گیا تو پینی لوپ تنہا رہ گئی۔ اس کے ساتھ صرف اس کا چھوٹا سا بیٹا ٹیلی ماچس (Telemachis) تھا جو کسی طرح حکومت کی دیکھ بھال کرتا تھا۔ عرصہ گزر گیا اوڈیسیس واپس نہیں آیا۔ ادھر سیکڑوں شہزادے پینی لوپ کے محل کے پاس آ کر رہنے لگے، سب یہی چاہتے پینی لوپ ان میں کسی کو پسند کر کے شادی کر لے۔ پینی لوپ نے صاف انکار کر دیا، اسے یقین تھا کہ اوڈیسیس ضرور واپس آئے گا، اس کے دل کی آواز یہ ہے کہ اوڈیسیس زندہ ہے۔
دس برس کی صحرا نوردی کے بعد اوڈیسیس واپس آیا تو پینی لوپ دیوانی سی ہو گئی، اس کا تخلیقی تخیل غیر معمولی تھا۔ اوڈیسیس ان کے تخیل میں رچا بسا تھا اور اس کا پورا وجود اسے اپنی جانب کھینچ رہا تھا۔ پینی لوپ کی وفاداری ایک مثال بن گئی۔
عدل اور انصاف کی دیوی ’ایتھین‘ (Athene) کا جنم بڑے ڈرامائی انداز میں ہوتا ہے۔ زیوس (Zeus) کی بیٹی ہے، زیوس دیوتاؤں کا دیوتا ہے۔ اس کی بیوی حاملہ تھی تو ایک ’نجومی دیوتا‘ نے بتایا کہ ایک لڑکی پیدا ہونے والی ہے جو تم سے زیادہ ذہین، تم سے زیادہ عقلمند اور تم سے زیادہ طاقتور ہو گی۔ زیوس کو یہ بات کیسے پسند آتی وہ تو دیوتاؤں کا دیوتا تھا، اُس نے ایسا کیا ایک شب اپنی بیوی میٹس (Metis) کو نگل لیا۔ اس کے بعد اُس کے سر میں درد شروع ہوا اور درد بڑھتا ہی گیا، جب زیادہ بے چین ہو گیا تو اس نے ’لوہار دیوتا‘ ، ’ہیفائی ٹوس‘ (Hephaitos) کو بلایا، حکم دیا کہ اس کا سر کلہاڑی سے دو ٹکڑے کر دے۔ حکم کی تعمیل ہوئی، سر پھٹ گیا لیکن سب حیرت زدہ رہ گئے جب یہ دیکھا کہ اندر سے ایتھن شور کرتی نکلی اور چیخ پڑی ’’میں جیت گئی!‘‘
عرصہ بعد یہی ایتھن زیوس کی سب سے چہیتی بیٹی بن گئی اور عدل اور انصاف کی دیوی بن کر بڑے کام انجام دینے لگی۔ اس کے انصاف کو کوئی چیلنج نہیں کر سکا۔
ایرس (Iris) قوسِ قزح کی دیوی ہے۔ جب چاہتی ہے جہاں چاہتی ہے اُڑ کر چلی جاتی ہے، اس کے دو خوبصورت پر ہیں، عورت بن کر رہتی ہے اور دیوی بن کر بھی آسمان اور زمین میں رشتہ پیدا کرتی ہے، یہ رشتہ قوسِ قزح کے پیارے رنگوں کو لیے رہتے ہیں۔
ہی کیٹ (Hecate) چاند کی انتہائی خوبصورت دیوی ہے کہ جس کا تعلق زمین آسمان اور پاتال سب سے ہے۔ یہ لاشعور کی پُر اسرار گہرائیوں کی علامت ہے۔
اوم فیل (Omphael) ’پین ٹیکلس‘ (Pentacles) کی ملکہ ہے۔ اوم فیل کے معنی ہیں ’ناف‘ (Naval)۔ یہ ملکہ جسمانی اور جنسی زندگی کی ایک مضطرب متحرک علامت ہے۔ لذتوں کا پیکر ہے جو مردوں کے جسم کی لذّت پسند کرتی ہے۔ ہرکلیز (Heracles) کو غلام بنا لیتی ہے۔ طاقتور اور پُر وقار عورت ہے جو جنسی زندگی کی لذتوں سے خوب آشنا ہے۔ ایک بار دیوتا پین (Pan) کی اُس پر جو نظر پڑی تو وہ اپنی پریوں کو چھوڑ کر خاموشی سے اوم فیل کے پاس آ گیا، بہت اندھیرا تھا، ہاتھ کو ہاتھ سجھائی دیتا نہ تھا، اوم فیل کو پین کی حرکت کا علم ہوا تو اس نے اپنے شوہر ہرکلیز کو اپنا لباس پہنا دیا اور خود ہرکلیز کے لباس میں لیٹ گئی۔ نصف رات میں پین آیا اور اُچھل کر ہرکلیز پر چڑھ بیٹھا۔ اسے کیا معلوم تھا کہ ہر کلیز نے اوم فیل کا لباس پہن رکھا ہے، پھر تو پین کی حجامت بن گئی، ہرکلیز نے اسے خوب پیٹا اور وہ بچ بچا کر نکلا، تب سے وہ لباس سے نفرت کرتا ہے، عریاں رہتا ہے۔
اوم فیل جنسی جبلت کی بھرپور نمائندگی کرتی ہے۔
ان کے علاوہ سائیکی (Psyche)، پنڈورا (Pandora)، ایمفی ٹرائٹ (Amphitrite)، اینڈرو میڈا (Andromeda)، اینٹی گون (Antigone)، آرٹیمس (Artemis)، ایروس (Eros) اور جانے کتنے یونانی اور رومن نسوانی کردار ہیں جو اپنی زندگی، اپنے کردار اور شخصیت اور اپنی نفسیات سے متاثر کرتے ہیں۔ جن نسوانی کرداروں کا ذکر کیا گیا ہے اُن میں سب دیوی نہیں ہیں لیکن دیوی دیوتاؤں سے رشتہ رکھتے ہیں۔ ہر کردار کی اپنی انفرادی حیثیت ہے۔ جن نسوانی کرداروں کا نفسیاتی مطالعہ کیا گیا ہے وہ سب آج بھی اہمیت رکھتے ہیں۔ عورتوں کی زندگی اور ان کی نفسیات کے مختلف مظاہر اپنی تہہ داری کا احساس بخشتے ہیں۔ ان میں اکثر نسوانی کردار لاشعور کی گہرائیوں میں لے جاتے ہیں اور پُر اسرار سچائیوں سے آشنا کرتے ہیں۔ ان کی حیثیت ’آرچ ٹائپ‘ (Archetypes) کی بھی ہے۔ بلاشبہ دیوی دیوتاؤں کی کہانیاں اور کردار انسان کی اپنی فکر و نظر اور اپنی نفسیاتی تقاضوں کی توسیع ہیں۔ یہ سب انسان کے تراشے ہوئے دیوی دیوتا ہیں۔ شعور اور لاشعور۔۔۔ اور نسلی یا اجتماعی شعور (Collective unconsciousness) سب ان کی تخلیق میں شامل ہیں۔ ہم اساطیری پیکروں کو اپنے وجود سے باہر دیکھتے ہیں حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ اپنے ’وِژن‘ کی گہرائیوں میں موجود ہیں۔ ان کی تخلیق میں وجدان اور ’bسی‘ نے نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ اس سچائی سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ یہ سب انسان کی انتہائی پاکیزہ خالص فطری کیفیتوں کے نتائج ہیں۔
جلال و جمال کے یہ مظاہر اپنی نفسیاتی کیفیتوں اور نفسیاتی عوامل سے متاثر کرتے ہیں۔ کہا جاتا ہے مردوں نے آہستہ آہستہ نسوانی کرداروں کی اہمیت کم کر نے کی کوشش کی اور ’مرد دیوتاؤں ‘ اور اُن سے وابستہ کرداروں کو عروج بخشنے کی کوشش جاری رکھی۔ نفسیات کے کچھ ماہرین کہتے ہیں کہ اس کا سب سے بڑا سبب ’رحم مادر‘ سے حسد ہے۔ مردوں کی اس نفسیاتی کیفیت کو (Womb envy) کہا ہے۔ چونکہ ّبچوں کو جنم دے کر عورت افضل بن جاتی ہے اس لیے مردوں کے تحت الشعور میں حسد ہمیشہ کلبلاتا رہا ہے۔ مرد ابتدا میں جانوروں کی دیکھ بھال اور اناج پانی کے جو گاٍڑ میں رہا اور عورتیں اپنے قبیلوں میں تمدّن سطح پر کام کرتی رہیں، ایک قبیلے کا رشتہ دوسرے قبیلوں سے جوڑتی رہیں، پیار محبت کے رشتے قائم کیے۔ جب مرد اپنے گھر کے پاس کھیتی باڑی کر نے لگے اور انھیں عورتوں کی مقبولیت کا احساس ہوا تو حسد اور بڑھ گیا اور وہ آہستہ آہستہ ان کی اہمیت کم کرتے گئے۔ نفسیات کے بعض ماہرین اس حسد کا ایک اور سبب بتاتے ہیں۔ وہ یہ کہ جنسی زندگی میں عورت مرد سے زیادہ طاقتور ہے۔ جنسی عمل میں مرد عورت کو اپنی مکمل گرفت میں نہیں رکھ سکتا جبکہ عورت کی گرفت بہت مضبوط ہوتی ہے۔ وہ صرف مرد کے عضوِ تناسل کو نہیں اس کے پورے جسم کو گرفت میں لے لیتی ہے۔ مردوں کے حسد اور ان کے بلبلانے کا ایک بڑا سبب یہ بھی ہے۔ مرد سمجھنے لگے تھے کہ جذباتی، نفسیاتی، جنسی کیفیتوں کی شدّت کے مقابلے میں وہ عورت کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔
شعوری اور لاشعوری سطح پر عورتوں کو مردوں کے مقابلے میں کمتر دیکھنے کی خواہش اور کوشش حضرت مریم کے معاملے میں دیکھی جا سکتی ہے۔ حضرت عیسیٰ کی ’ماں ‘ کی عظمت کو تسلیم کر نے کی وجہ سے ایک مسلک یا کلٹ (Mary Cult)پیدا ہو گیا تھا، یوروپ کے بہت سے علاقوں میں Jesus Cult سے زیادہ Mary Cultکی اہمیت بڑھتی جا رہی تھی، اس کلٹ کی مقبولیت میں جو اضافہ ہو رہا تھا اس سے پریشانی بڑھ رہی تھی، اس کو آہستہ آہستہ دور رکھنے اور پھر ختم کر نے کی کوشش ہوئی۔ تصویروں سے حضرت مریم کی شبیہ کو نکال کر صرف حضرت عیسیٰ کے پیکر کو رکھنے کی شعوری کوشش کی مثالیں ملتی ہیں۔ چرچ یا گرجا گھروں میں پادریوں نے سوچا کہ ’میری کلٹ‘ سے حضرت مریم روحانی سطح پر بہت بلند ہو جائیں گی۔
یونان اور روم نے اساطیر کی جو دنیا خلق کی وہ جمال و جلال کے جانے کتنے مظاہر لیے ہوئے ہے، انسانی نفسیات کی انگنت پُر اسرار سطحیں ہیں۔ جبلّتوں کے عمل اور ردِّ عمل اور احساس اور جذبے کے نہ جانے کتنے رنگوں سے ذہن آشنا ہوتا ہے۔ اساطیری پیکروں کی تشریح و تعبیر سے زیادہ اس بات پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ یہ سب انسان کے تخلیقی ذہن کی تخلیق ہیں اور ان کے ذریعے تخلیق کا سلسلہ کس طرح جاری رکھا جائے۔ ہزاروں اشارات، علامات اور استعارات کیسی سرگوشی کرتے ہیں۔
بروس برگر (Bruce Berger) نے اپنے ایک مقالہ "The Telling Distance” میں غالباً اسی بات کی جانب اشارہ کیا ہے:
"The ultimate purpose of myth is not to interpret reality but to create it.”
آئیے اب چند بڑے چھوٹے یونانی اور رومن دیوتاؤں اور دیوتاؤں جیسے کرداروں کو جاننے پہچاننے کی کوشش کریں، ان کی شخصیت اور ان کے عمل اور ردِّ عمل میں جمالیاتی خصوصیتوں اور مظاہر کو دیکھیں۔
یونانی اساطیر میں زیوس (Zeus) تمام دیوتاؤں اور تمام انسانوں کا باپ ہے، سب سے بڑا عظیم تر دیوتا ہے۔ اس کی قوّت اور تو انائی کا اندازہ نہیں کیا جا سکتا۔ آسمان کے دیوتا کی حیثیت سے اس کی عبادت ہوتی تھی، بجلی کی چمک، بادلوں کی کڑک اور بارش سے اس کے وجود کی پہچان ہوتی، چمک، کڑک اور تیز بارش سے محسوس ہوتا جیسے وہ پاس ہی کہیں موجود ہے۔ زیوس کے باپ کا نام کرونوس (Kronos) اور ماں کا نام ریہا (Rhea) تھا۔ پوسی ڈون (Poseidon)، ہیڈس (Hades)، ہستیا (Hestia)، ڈیمیٹر (Demeter) اور ہیرا (Hera) اس کے بھائی بہن تھے۔ کرونوس کی حکومت کے اُلٹنے کے بعد دنیا کی جو تقسیم ہوئی اس میں پوسی ڈون کو سمندر کی حکومت ملی، ہیڈس کو پاتال کی حکومت زمین کے اندر اندھیرے اور روحوں کی دنیا اور زیوس کو آسمان، تمام جنتوں اور آسمان سے لگے تمام حصوں کی حکومت۔ زمین پر سب کا قبضہ رہا۔
زیوس کے بال بہت لمبے تھے، داڑھی بہت بڑھی ہوئی جوہر وقت لہراتی رہتی تھی، آنکھیں سمندر کی مانند نیلی۔ سونے کے تخت پر بیٹھتا جو سب سے بڑے بلند پہاڑ پر تھا۔ لباس کا رنگ نیلا کہ جس پر سونے کا کام تھا، سر پر تاج، سیدھے ہاتھ میں چمکتی بجلی، دوسرے ہاتھ میں دنیا، ایک کاندھے پر تیز نظر عقاب بیٹھا رہتا جو اتنی بلندی سے ساری دنیا پر نظر رکھتا۔ سیدھے ہاتھ میں چمکتی بجلی ساری دنیا کو روشنی دیتی تھی۔ زیوس پر الہام ہوتا رہتا۔ وہ الہام کے مطابق ہی عمل کرتا۔ تخلیقی وِژن کا مالک تھا، ّ سچائی کو پہچاننے والی نگاہ رکھتا تھا۔ بلندی پر رہائش سے اس بات کی خبر ملتی ہے کہ وہ روحانی بلندی کی آخری منزل پر تھا۔
دیوتاؤں کا دیوتا، دنیا کا خالق اور دیوتا اور انسان کا حاکم زیوس کرونوس اور ریہا کا سب سے چھوٹا بیٹا تھا، ’نجومی دیوتا‘ نے پیش گوئی کی تھی کہ کوئی ایک بیٹا کرونوس کی حکومت کا خاتمہ کر کے خود حکمران بن جائے گا۔ پانچ برسوں میں ریہا کے جو بچے ّ ہوئے انھیں کرونوس نے نگل لیا۔ اس کی بیوی ریہا کو یہ بات پسند نہیں آئی، چھٹے بچے ّ کی ولادت کے وقت ریہا آرکیڈیا چلی گئی کہ جہاں زیوس کا جنم ہوا۔ واپس آئی تو ایک پتھر کو کپڑے سے لپیٹ کر لے آئی۔ شوہر سے کہا یہی پیدا ہوا ہے۔ کرونوس نے اس پتھر کو اسی وقت نگل لیا۔ اُس طرف زیوس آہستہ آہستہ بڑا ہوتا گیا۔ جوان ہو گیا تو ایک ملازم بن کر باپ کے پاس آیا جو اس وقت بیمار تھا، زیوس نے ایسی دوا دی کہ جس سے کرونوس کی حالت اور بگڑ گئی اور اس نے اپنے تمام بچوں کو اُگل دیا۔ سب سلامت تھے اور وہ پتھر بھی باہر آ گیا کہ جسے اس نے آخر میں نگل لیا تھا۔ زیوس نے اپنے بھائیوں اور بہن کے ساتھ مل کر باپ کی حکومت کا تختہ پلٹ دیا۔ دنیا کو بھائیوں میں تقسیم کیا اور خود آسمان پر بیٹھ کر سب سے بڑا دیوتا بن گیا۔
زیوس اعلیٰ روحانی اقدار کا خالق تصوّر کیا جاتا ہے کہ جس نے انسان اور انسان، اور انسان اور دیوتاؤں کے رشتوں کو مضبوط اور مستحکم کیا۔
زیوس زندگی کے عمدہ تجربوں کا سب سے بڑا دیوتا سمجھا جاتا ہے۔ وہ زندگی اور مظاہرِ کائنات کے جلال و جمال کا معنی خیز استعارہ ہے۔
ایڈونس (Adonis) ایک انتہائی خوبصورت نوجوان تھا، ایفروڈائٹ (وینس) کو اس سے بے پناہ محبت ہو گئی۔ ایک دوڑ میں ایک جنگلی سؤر نے اُسے مار ڈالا۔۔۔ اور پھر اس کے لہو کے قطرے جہاں جہاں گرے وہاں سرخ رنگ کے پھول اُگ آئے۔
ایڈونس کو دیکھ کر ایفروڈائٹ بے اختیار رونے لگی، اس کے آنسوؤں کے قطرے جہاں گرے وہاں سفید پھول اُگنے لگے۔
خوبصورت نوجوان ایڈونس کا حسن اس کے لہو میں بھی تھا اور اس لہو میں ایسا سحر تھا کہ جہاں جہاں قطرے گرے وہاں وہاں سرخ پھول نے اپنا جمال بکھیرنا شروع کر دیا۔
پرائی مس اور تھس بی (Pyramus And Thisbe) کی کہانی میں بھی اسی قسم کا ایک واقعہ ملتا ہے۔ پرائی مس اور تھیس بی دونوں ایک دوسرے سے بے پناہ محبت کرتے تھے، ان کے والدین نے پسند نہیں کیا کہ یہ ایک دوسرے سے شادی کریں لہٰذا دونوں چھپ چھپ کے ملتے، دونوں کے گھروں کے بیچ جو دیوار تھی اس میں سوراخ کر کے ایک دوسرے کو دیکھتے اور باتیں کرتے۔ کہیں دُور ملنے کا وعدہ کیا، دونوں وہاں گئے، ابھی پرائی مس پہنچا بھی نہ تھا کہ ایک شیر کو دیکھ کر تھس بی بدحواس ہو گئی اور اپنے سر کے آنچل کو پھینک کر بھاگ گئی۔ جب پرائی مس وہاں آیا تو دیکھا تھس بی کا آنچل پڑا ہوا ہے، یقین آ گیا کہ اس کی محبوبہ کو شیر نے کھا لیا ہے، پرائس مس نے خود کشی کر لی، تھس بی وہاں آئی دیکھا کہ اس کا عاشق مرگیا ہے تو اُس نے بھی اپنی جان دے دی۔ دونوں کے لہو سے پاس کھڑے شہتوت کے پیڑ کی آنکھوں میں لہو کے قطرے چمکنے لگے اور پھر شہتوت کا رنگ سرخ ہو گیا۔ سرخ رنگ کے شہتوت بہت میٹھے ہو گئے، ان دونوں کی محبت کا رس جو گھل گیا ان میں!
میڈاس (Midas) پین ٹیکلس (Pentacles) کا بادشاہ انسانی فطرت کے کئی پہلوؤں کو نمایاں کرتا ہے۔ زندگی کی مسرّتیں حاصل کرنا چاہتا ہے۔ میکڈونیا کے لوگوں سے محبت کرتا ہے، ان کی بہتر خدمت کرتا ہے۔ میڈاس جب بچہ تھا تو اکثر دیکھا جاتا کہ چینوٹیاں منہ میں گیہوں کے دانے لیے اس کے پالنے تک جا رہی ہیں اور سوئے ہوئے ننھے میڈاس کے منہ کے اندر کسی طرح انھیں ڈال کر واپس آ رہی ہیں۔ نجومی کہتے جب میڈاس بڑا ہو گا تو بہت دولت مند بنے گا اور وہی ہوا، وہ ایک دولت مند بادشاہ بن گیا۔ اس میں انسانیت کوٹ کوٹ کر بھری تھی، دیوتا ’ڈائیونائیسوس‘ (Dionysos) بہت خوش ہوا۔ میڈاس سے دریافت کیا بتاؤ کیا چاہتے ہو؟ جو چا ہو گے میں دوں گا۔ میڈاس نے فوراً کہا۔ چاہتا ہوں جس چیز کو چھو دوں وہ سونا بن جائے۔ دیوتا نے منظور کر لیا، پھر تو وہ جس شئے کو چھوتا وہ سونا بن جاتی۔ وہ پتھر ہو یا پھول، محل کے اندر کی چیزیں ہوں یا باہر کی۔ مصیبت یہ ہو گئی کہ وہ اپنی غذا کو چھوتا تو وہ بھی سونا بن جاتی۔ اُس کا تو بُرا حال ہو گیا، بڑے دیوتا سے گزارش کی کہ وہ اس ’عنایت‘ کو واپس لے لے۔ دیوتا نے فیصلہ واپس لے لیا۔ میڈاس دنیاوی آرام و سکون کا اشارہ ہے۔ مادّی آسائش کی جانب اشارہ کرتا ہے۔
ان کے علاوہ اوڈیسیس (Odysseus) ٹروجن کی جنگ میں شریک ہوتا ہے، کامیابیاں حاصل کرتا ہے، یہ وہی ہے کہ جس نے جنگ میں ٹروجن گھوڑے (Trojan Horse) کی تجویز رکھی تھی، کامیابی حاصل کر نے کے باوجود دس برس صحرا نوردی کی زندگی بسر کرتا ہے۔ اوڈیسیس ایک انتہائی ذہن اور بہادر شہزادے کی صورت اُبھرتا ہے۔ اصول پسند تھا، مہربان تھا، ایک دانشور رہنما تھا، ’سائیک لوپس (Cycopes) کے جزیرے میں پہنچا تھا کہ جہاں اسے ایک آنکھ والا عجیب عفریت ملا تھا۔
اوڈیسیس (لاطینی میں Ulyxes، انگریزی میں Ulysses )ہومر کے ’اوڈیسی‘ (Odyssey) کا ایک نمایاں مرکزی کردار ہے۔ ایلیڈ (Iliad) میں بھی نظر آتا ہے۔ ٹرائے کی فتح کے بعد وہ دس برس صحرا نورد بنا رہا ہے، اس کے دلچسپ تجربے اس کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں کو بھی پیش کرتے ہیں۔
نارکیسس (Narcissus) کہ جس کے نام کے ساتھ ’ایکو‘ (Echo) کا نام وابستہ ہے، نارکیسس نے ایک روز تالاب میں اپنا چہرہ دیکھا اور خود پر عاشق ہو گیا۔ بہت حسین اور خوبصورت تھا، پھر وہ ایک پھول بن گیا کہ جسے نرگس کہتے ہیں۔
محبت کا دیوتا ایروس (Eros) ہے کہ جسے رومن اساطیر میں کیوپڈ کی صورت دیکھتے ہیں۔
پاتال اور تاریک دنیا کا دیوتا ہیڈس (Hades)، سورج کا دیوتا ہیلیوس (Helios)، ہرکلیز (Heracles) دیوتاؤں کا پیامبر، ہرمیز (Hermes) دوچہرے والا، جینس (Janus) جنگ کا دیوتا، مارس (Mars) پانی کا رومن دیوتا، نیپچون (Neptune) بھیڑوں کا دیوتا ’پین‘ (Pan) جو نصف بھیڑ ہے اور جانے کتنے دیوتا اور دیوتاؤں جیسے کردار ملتے ہیں۔ اساطیر کی جمالیات کی وسعت، تہہ داری اور گہرائی کا اندازہ کرنا آسان نہیں ہے۔ انسان کے جمالیاتی شعور اور نفسیاتی کیفیتوں نے ایک ہمہ گیر دنیا خلق کر دی ہے۔ تخلیقی ذہن نے عام جذبات کی مدد سے اجتماعی bسی (Collective Phantasy) کو عروج بخشا ہے، اس سے تخیل کی تو انائی کی پہچان ہوتی ہے، انسان کا تخیل کس منزل تک پہنچ سکتا ہے۔ غور فرمائیے کلچر کی ابتدائی منزل پر انسان نیچر میں داخل ہوتا ہے اور اپنی روح اور ’سائیکی‘ سے ایک نئی روح پھونک دیتا ہے اور ہر جانب جلال و جمال کے مظاہر اپنے پُر لطف اور پُر جوش پہلوؤں سے متاثر کر نے لگتے ہیں!
تخلیقی عمل کی نفسیات کا مطالعہ کرتے ہوئے ہم ’سائیکی‘ ، ’تخیل‘ اور ’bسی‘ کے اندر جتنی گہرائیوں میں جاتے ہیں اتنی ہی پُر اسرار کیفیتوں سے دو چار ہوتے ہیں۔ تخلیقی عمل کی نفسیات ذہن کو علم الحساب، فیزکس، لٹریچر، موسیقی اور مصوّری سب کی جانب لے جاتی ہے پھر یہ ّ سچائی سامنے آ جاتی ہے کہ ’bسی‘ ہی تخلیق کی بنیاد ہے۔ تخیل قدرت کی بہت بڑی نعمت ہے۔
کارل مارکس نے کہا تھا:
"Imagination is a great gift that has contributed so much to the development of the mankind.”
(Marx, Ancient Society, .G. Morgan, Page 85)
لینن نے ’تخیل‘ کی اہمیت پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا تھا:
"It is wrong to think that only poets need imagination. That is a silly prejudice. It is needed even in mathematics, it would have been impossible to discover the differential and integral calculus without imagination. Imagination is a very valuable asset.”
Lenin: Collected Works, Vo. 33, Page 203)
’سائیکی‘ اور تخیل کے تحرک اور ’bسی‘ کے جمال کی پُر اسراریت کی کئی مثالیں پچھلے صفحات میں پیش کی جا چکی ہیں۔ آئیے صرف ’پھولوں ‘ اور ’پودوں ‘ کے پیشِ نظر اساطیر کی جمالیات پر نظر ڈالیں جو ’سائیکی‘ اور تخیل (Imagination) کے تحرک سے روشن ہوئی ہے اور جسے ’bسی‘ نے نقطۂ عروج پر پہنچا دیا ہے۔
ایفروڈائٹ (Aphrodite) اور ایڈونس (Adonis) کی کہانی کا ذکر کر چکا ہوں۔ اس کے تعلّق سے جو 5 ہے اس کی روشنی میں سُرخ سفید پھول کی بابت بتانا چاہتا ہوں۔ 5 کے مطابق ایفروڈائٹ ایڈونس پر عاشق ہو گئی تھی، ایڈونس اپنی محبوبہ کے ساتھ رہنے لگا تھا، یہ بات آرس (Ares)کو پسند نہیں آئی جو ایفروڈائٹ کا پہلا عاشق تھا، اسے یہ بات قطعی پسند نہ آئی کہ ایک دیوی ایک انسان سے تعلق رکھتی ہے۔ جب ایڈونس شکار کر رہا تھا تو جنگل میں آرس سؤر بن کر آیا اور ایڈونس پر حملہ اور ہو گیا۔ ایڈونس مرگیا تو ایفروڈائٹ کا روتے روتے بُرا حال ہو گیا۔ ایڈونس کے لہو کے قطروں سے جو سرخ پھول اُگ آئے تھے ان پر اس کے آنسوؤں کے قطرے پڑے اور سرخ سفید پھولوں سے ایک چمن وجود میں آ گیا۔ سرخ لہو میں سفید آنسوؤں کے ملنے سے ایک عجیب پراسرار خوشبو پھیل گئی۔
ایرس (Iris) قوسِ قزح کی دیوی ہے، زیوس اور ہیرا کے پیامبر کے طور پر بھی جانی جاتی ہے۔ آسماں سے زمین تک سفر کرتی ہے، قوسِ قزح اس کی کشتی ہے۔ ایرس کو جنت کی آنکھ کہتے ہیں، اس کے نام ایرس پر ایک خوبصورت پھول کا نام ہے، جو اسے دیکھتا ہے وہ جنت کی مقدس آنکھ کو دیکھتا ہے۔
نارکیسس (Narcissus) کا ذکر بھی آ چکا ہے۔ ایک انتہائی خوبصورت نوجوان تھا اس کی ماں نے اس سے کہا تھا کہ کسی تالاب میں جھانک کر اپنا چہرہ نہ دیکھنا ورنہ تمھاری زندگی مختصر ہو جائے گی۔ ایک آبشار کے قریب جہاں پانی جمع تھا نارکیسس نے اپنا چہرہ دیکھ لیا اور خود پر عاشق ہو گیا اور اسی مقام پر رُک گیا۔ اپنا خوبصورت چہرہ دیکھتے ہی اس کی موت واقع ہو گئی۔ نرگس کے پھولوں کی بہار اسی مقام پر دیکھی گئی کہ جہاں نارکیسس نے دم توڑا تھا۔
کروکس (Crocus) اور یونانی دیوتا ہرمیز (Hermes) کی دوستی بڑی گہری تھی، دونوں کھیل رہے تھے کہ اچانک ہر میز کے ہاتھوں کروکس کو سخت چوٹ لگی اور وہ مرگیا۔ جہاں یہ حادثہ ہوا وہاں ایک خوبصورت پھول نکل آیا جیسے کروکس کہا گیا۔ ایک روایت یہ ہے کہ کروکس ایک خوبصورت حسینہ (دیوی) سے محبت کر نے لگا تھا۔ محبت ناکام ہو گئی تو وہ ایک پھول میں تبدیل ہو گیا کہ جیسے کروکس کہتے ہیں۔
ایک حسین دیوی ’دے فین‘ (Daphne) اپولو کی چھیڑ چھاڑ سے پریشان تھی، اس نے اپنے باپ پی نیوس (Peneus) (ندی کادیوتا) کو پکارا کہا مجھے اپولو سے بچالو، پی نیوس نے اپنی بیٹی کو ایک خوبصورت درخت بنا دیا کہ جسے لارل (Laurel Tree)کہتے ہیں۔ اپولو نے اسے اپنا مقدس درخت بنا لیا۔
گلاب اور اس کی خوشبو کے تعلق سے کئی کہانیاں ملتی ہیں۔ کہا گیا ہے کہ پھولوں کی دیوی کلورس (Chloris) نے اس کی تخلیق کی ہے۔ ایک دن اس نے جنگل میں ایک خوبصورت چھوٹی سی ننھی سی دیوی کو دیکھا جو زندہ نہیں تھی۔ اس نے اسے ایک دلکش پھول بنا دیا اور ایفروڈائٹ سے کہا کہ اس میں حسن شامل کر دے۔ حسن کی دیوی نے اسے حسن عطا کر دیا پھر کلورس نے ڈایؤنائیسس (Dionysus) سے کہا اس میں خوشبو ڈال دے، اس نے اُس میں دیوتاؤں کا مشروب ڈال دیا۔ ہوا کے دیوتا نے بادل ہٹا دیئے اور سورج کے دیوتا اپولو نے اپنی روشنی سے نوازا۔ پھر یہ پھول روشن ہو گیا، اسے پھولوں کی رانی کہا گیا۔ یہ گلاب کے حسن کی کہانی ہے۔
پھولوں کی خوبصورتی کے علاوہ پودوں اور درختوں کے حسن و جمال کی جانے کتنی تصویریں سامنے آتی ہیں۔ تخیل کے تحرک اور bسی کے جمال نے ایک انتہائی دلکش پرکشش پُر اسرار کائنات خلق کر دی ہے۔
اساطیر کی جمالیات کا مطالعہ کرتے ہوئے ہم نفسی تجربوں (Psychic Experiences) پر نظر ڈالیں تو اُس تخیل کی قدر و قیمت کا احساس اور بڑھ جاتا ہے کہ جس نے متھ کے تجربوں کو نفسیاتی کیفیتیں عطا کیں۔ انھیں Psychologize کیا، بلند رومانی سطحیں دے کر انھیں استعاروں سے آراستہ کیا اور ان کی ڈرامائی صورتیں خلق کیں۔
ہندوستانی جمالیات کی روشنی میں یونانی اور رومن جمالیات کا مطالعہ کیجیے تو تحیر کی جمالیات (Aesthetic of Wonder)سب سے پہلے توجہ کا مرکز بنتی ہے۔ تحیر اور اس کی جمالیات اساطیر کی روح میں جذب ہے۔ ’اَد بھت رس‘ (Adbhuta Rasa) کا مطالعہ کر نے والے جانتے ہیں کہ فنونِ لطیفہ میں اس کی قدر و قیمت اور اہمیت کیا ہے۔ حیرت اور تحیر کے ساتھ جو ’کتھا رس‘ ہوتی ہے اس سے باطنی طور پر ایک تبدیلی سی آ جاتی ہے اور ’وِژن‘ میں کشادگی پیدا ہوتی ہے۔ اساطیر کے کرداروں اور واقعات پر نظر ڈالیے تو چمتکار ہی چمتکار ملے گا۔
اساطیر کے واقعات اور کردار حیرت انگیز کیفیت طاری کر کے جمالیاتی انبساط (Aesthetic delight) عطا کرتے ہیں۔ تحیر کی جمالیات کے تعلق سے پریا درشنی پٹنائک کی کتاب "Rasa in Aesthetics” میں بھرت کے ’ناٹیہ شاستر‘ کا ایک اقتباس ہے جسے پیش کر رہا ہوں:
"Now (the rasa) called adbhuta has for its permanent emotion wonder. It arises from such ‘Vibhavas’ as seeing heavenly beings, gaining ones desired object, going to a temple, a garden (upavana) or a meeting pace, or (seeing) flying Chariot, a magic show (maya) or a juggler’s show.”
)Natya Sastra (IV. 74) Aesthetic Repture, Vo.-I, Page 56)
ناٹیہ شاستر کے مطابق تحیر کا حسن اُس وقت پیدا ہوتا ہے جب ہم آسمان یا جنت کے پیکروں اور دیوی دیوتاؤں کو دیکھتے ہیں۔ چلتے پھرتے اُڑتے تخت پر سوار، معجزے دِکھاتے ہوئے، جب اچانک ایسی خواہش ایسی تمنّا پوری ہو جاتی ہے جس کی جانب سے مایوسی ہو چکی ہوتی ہے۔ جب ہم کوئی عجوبہ تجربہ حاصل کرتے ہیں یا زندگی میں اچانک کوئی معجزہ ہو جاتا ہے۔ جب ہم مندر میں جاتے ہیں اور اس کی حیرت انگیز تخلیقی صورت دیکھ کر حیرت زدہ ہو جاتے ہیں۔ مندر حیرت انگیز معجزوں کا گہوارہ ہے لگتا ہے دیوتا واقعی مسکراتے چہروں کے ساتھ کھڑے ہیں۔ جب ہم ایک خوبصورت دلکش چمن میں جاتے ہیں چمن کا جلوہ حیرت میں ڈال دیتا ہے، جب وہ اچانک مل جاتا ہے کہ جسے چاہتے ہیں، لگتا ہے کوئی بہت خوبصورت خواب حقیقت میں تبدیل ہو گیا ہے۔ اندازہ کیجیے آسمان سے زمین تک تحیر کا جمال پھیلا ہوا ہے!
’’اَد بھت رس) (Adbhuta Rasa)، بھیانک رس (Bhayanaka) اور شرینگار رس (Shringar Rasa) کے عمدہ نمونے تو ملتے ہی ہیں ان کی آمیزشوں کے بھی عمدہ نمونے اساطیر کی جمالیات کو عروج بخشتے ہیں۔ زیوس بجلی کی چمک بادلوں کی کڑک اور تیز بارش کے ساتھ جلوہ گر ہوتا ہے تو تحیرّ یا اَدبھت رس اور بھیانک رس کی آمیزش سے ایک عجیب کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ زیوس کا باپ کرونوس جب اپنے بچوں کو ہر بار نگل جاتا ہے یہاں تک کہ بچے ّ کی طرح ایک پتھر کو بھی نگل لیتا ہے تو بھیانک رس کے ساتھ اَدبھت رس سے بھی ہم لطف اندوز ہوتے ہیں۔ جب سب بچوّں کو زندہ سلامت پتھر کے ساتھ اُگل دیتا ہے تو نفسیاتی سکون ملتا ہے۔
خوبصورت نسوانی کردار شرینگار رس لیے ہوئے ہیں۔ ایفروڈائٹ، ایرس، ہی کیٹ، اوفیل اور جانے کتنے نسوانی کردار اپنے حسن اور عوامل سے متاثر کرتے ہیں۔
پھولوں، پودوں اور درختوں کی تخلیق کے پیچھے جو کہانیاں ہیں وہ تحیرّ کی جمالیات اور اَدبھت رس لیے ہوئی ہیں۔
اساطیری کرداروں اور واقعات میں ان کے علاوہ ’رُدر رس‘ (Raudra rasa)، ’ویر رس‘ (Vira Rasa)، کرون رس (Karuna rasa) اور شانت رس (Santa rasa) سب موجود ہیں اور یہ سب جمالیاتی انبساط (Aesthetic Pleasure) عطا کرتے ہیں۔
قدیم مصر کے مذاہب پر میری نظر سے جو مواد گزرا ہے اس سے اساطیری روایات اور اساطیری کردار اور علامات کو سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ یہ کم دلچسپ بات نہیں ہے کہ مختلف علاقوں کے بادشاہ یا حکمران کے اپنے دیوتا تھے، ایک دوسرے سے مختلف اور مختلف خصوصیات رکھنے والے دیوتا۔ صرف یہی نہیں، پجاریوں، تاجروں، کھیتوں میں کام کر نے والوں اور مختلف طبقوں میں بٹے لوگوں کے اپنے اپنے دیوتا تھے۔ خاندانی حکومت کی ابتدا سے پہلے آہستہ آہستہ یہ خیال کسی حد تک پختہ ہوا تھا کہ ایک ہی بڑی طاقت ہے لیکن یہ بڑی طاقت یا بڑا دیوتا پورے علاقے یا آبادی کا نہیں تھا بلکہ ہر علاقے کا اپنا ایک بڑا دیوتا ہوتا تھا۔ سب بڑے دیوتا ایک دوسرے سے مختلف تھے لیکن تھے ایک ہی، دیوتاؤں کے ہجوم میں!
پھر بڑے دیوتاؤں کی تصویریں بننے لگیں، اس کے بعد تحریر ایجاد ہوئی جو تصویری تحریر تھی۔ ان تصویروں اور تصویری تحریر کا مقصد لوگوں کو ’روحانی تعلیم‘ دینا تھا۔
دیوتا زندہ رہتے پھر مر جاتے، شکار کھیلتے، جنگ کرتے، دیویاں بچے ّ جنتیں، سب عام انسانوں کی طرح کھاتے پیتے،اُن کے جذبات احساسات وہی تھے جو انسان کے ہوتے ہیں۔ اسی لیے کہا جاتا ہے تمام اساطیری پیکر اور کردار انسان کے شعور اور لاشعور اور اس کے ’وِژن‘ کی توسیع ہیں۔ ’مِتھ‘ (Myth) انسان کی نفسیات کے حیرت انگیز کرشمے ہیں۔ مصری اساطیر کا مطالعہ کرتے ہوئے یہ بات بھی غور طلب بن جاتی ہے کہ کئی دیوتا اکثر ایک دوسرے میں جذب ہو جاتے ہیں۔ حکمران یا بادشاہ ایک علاقے سے دوسرے علاقے میں ’راج پاٹ‘ کر نے چلا جاتا تو اکثر حکمران کا دیوتا بھی تبدیل ہو جاتا، نام بدل جاتا۔ مصری اساطیر میں کالے جادو کو اہمیت دی گئی تھی، دشمن کا نام لے کر چند لکیریں کھینچ دی جاتیں اور پھر اُن لکیروں کو مٹا دیا جاتا تو دشمن کا خاتمہ ہو جاتا۔ بہت سے ایسے دیوتا تھے کہ جن کے کئی نام تھے، ہر دیوتا کے کم از کم پانچ نام ہوتے۔ ایک نام ’سورج‘ سے وابستہ ہوتا تو دوسرا ’چاند سے، ایک ’ہوا‘ سے وابستہ ہوتا تو دوسرا ’پانی‘ سے۔
تمام اشیا و عناصر کے خالق کے جو نام ملتے ہیں اُن میں ’ری‘ (Re)، ’امون‘ (Amun)، ’پٹھا‘ (Ptah)، ’خنم‘ (Khnum) یا ’آٹم‘ (Atem) کے نام اہم ہیں۔ ان سب کے تعلق سے اساطیری کہانیاں ملتی ہیں۔ آسمان اور جنت کا دیوتا ’ہاتھور‘ (Hathor) اس کے ساتھ بیٹ (Bat) اور ہورس (Horus) کے نام بھی ملتے ہیں۔ اوسیرس (Osiris) اور ’پٹھا‘ (Ptah) زمین کے دیوتا تھے، چونکہ دریائے نیل سے ہر سال سیلاب کا عذاب آتا تھا اس لیے اس کے لیے بھی ایک دیوتا موجود تھا۔ ’ری‘ (Re) ایسا دیوتا تھا جو مختلف صورتیں اختیار کر سکتا تھا۔ ’ری‘ سورج دیوتا تھا۔ مختلف علاقوں میں مختلف دیوتا تھے، ہر علاقے کا دیوتا خود ایک افسانہ تھا، مختلف مقامات سے دیوتاؤں کے تعلق سے جانے کتنی کہانیاں ایک دوسرے کے قریب آئیں اور رفتہ رفتہ مِتھ‘ (Myth) کی ایک دنیا آباد ہو گئی۔ یہ تمام ’مِتھ‘ کہانیاں صدیوں میں سفر کرتی رہی ہیں۔
مصری اساطیر کا مطالعہ کرتے ہوئے دوبنیادی باتیں توجہ طلب بن جاتی ہیں۔ ایک یہ کہ یونانی اور رومن اساطیر کے مقابلے میں یہاں سنجیدگی زیادہ ہے۔ دوسری بات یہ کہ رومانیت اور نفسیاتی جمالیاتی رجحان اور ’bسی‘ کے ساتھ قدیم اخلاقی، مذہبی اور فلسفیانہ خیالات بھی موجود ہیں۔ اُن کی صورت جیسی بھی ہو ایک ’’دوسری دنیا‘‘ کی تخلیق کرتے ہوئے تخیل نے عموماً ایسے کردار تراشے ہیں کہ جن کی اپنی انفرادیت ہے۔ عمل، ردِّ عمل اور ماحول میں جو سحر انگیزی ہے اس کا تعلق اُس تخیل سے ہے جو مادّی دنیا سے اوپر پرواز کرتا ہے اور عوامی زندگی سے بھی کہ جن کا رشتہ زمین اور مٹّی سے ہے۔ ناول نگار سی.ایس.لیوس (C. S. Lewis) نے ۱۹۴۲ء میں ’پیراڈائز لاسٹ‘ (Paradise Lost) کا مقدمہ لکھتے ہوئے ایک جگہ تحریر کیا ہے:
"…. . giants, dragons, paradises, gods and the like are themselves the expression of certain basic elements in man’s spiritual experience.”
یہی بات اساطیری کرداروں اور واقعات اور اساطیری فکشن کے بارے میں کہی جا سکتی ہے۔ جہاں نیکی اور بدی کا ٹکراؤ ہوتا ہے وہاں بہت حد تک انسان کے روحانی تجربوں کی پہچان ہو جاتی ہے۔
چند مصری اساطیری دیوی دیوتاؤں کا تعارف پیش کرتا ہوں۔
’آمون‘ (Amon) ہوا کا دیوتا جو آمون رے (Amon Re) بن گیا دیوتاؤں کا شہنشاہ۔
’آمونت‘ (Amaunet) ایک طاقتور دیوی رہی ہے کہ جس کی عبادت آمون کے ساتھ ہوتی تھی۔
’آنوکٹ‘ (Anuket) کئی علاقوں میں اس دیوی کی پرستش ہوتی رہی ہے، ایک ہرنی ہمیشہ اس کے ساتھ ہوتی ہے۔
’ہاتھور‘ (Hathor) محبت، رقص اور شراب کی دیوی ہے جسے ایک گائے کی صورت پیش کیا گیا۔
’ہورس‘ (Horus) ایک ایسا طاقتور دیوتا جس کا چہرہ باز (Falcon) کی طرح تھا۔ ایک آنکھ میں سورج اور دوسری آنکھ میں چاند لیے سفر کرتا تھا۔
’انٹا آئیوس‘ (Antaios) پہلے یہ ’دو دیوتا‘ (Double) کے ملاپ سے ایک دیوتا بنا، پہلے دو باز لیے رہتا تھا پھر ایک باز کے ساتھ ایک ہی دیوتا رہا۔
’خونسو‘ (Khonsu) چاند کا دیوتا تھا۔
’ من‘ (Min) افزائشِ نسل کا دیوتا تھا۔
’نٹ‘ (Nut) سورج، چاند اور جنت کے اشیا و عناصر کی ماں تھی۔
’تھوتھ‘ (Thoth) عقل و دانش اور مقدس تحریروں کا دیوتا تھا۔
’ری‘ (Re) سورج کا دیوتا تھا۔
اور بہت سے دیوی دیوتا تھے، مصری اساطیر کی دُنیا کی تخلیق اور تشکیل میں یہ سب شامل تھے۔
قدیم مصر میں بادشاہوں کے بغیر مذہب، اخلاق اور فلسفۂ زندگی کا کوئی تصوّر پیدا نہیں ہو سکتا تھا۔ بادشاہ دیوتا تھا، جب بہت سے دیوتا پیدا ہو گئے تب بھی بادشاہ کے اندر دیوتا کی روح دیکھی گئی۔ راہبوں کی بڑی اہمیت رہی ہے۔ تمام راہب بادشاہ کی نگرانی میں کام کرتے تھے، جو معبد بنتے راہب ہی ان کے نگراں بنتے، مندروں کے اندر ایک مقام پر دیوار میں سوراخ کر دیا جاتا، دیوتا سے کچھ کہنے کوئی آتا تو پجاری دیوار کی دوسری طرف سے اسی سوراخ سے بولتے کچھ اس طرح کہ محسوس ہو دیوتا کی آواز ہے۔ سحر جادو پر لوگوں کا بڑا اعتقاد تھا، مختلف قسم کی بیماریوں اور سانپ کے کاٹنے کے منتر الگ الگ تھے۔ عقیدہ یہ تھا کہ دنیا کے پہلے سمندر ’نو‘ (Nu) سے زندگی کا جنم ہوا ہے۔ پھر یہ سمندر پہاڑی میں تبدیل ہو گیا۔ جب دھرتی پر زندگی نے جنم لیا اس سے بہت پہلے دیوتاؤں کا وجود تھا۔ ’آتم‘ (Atum) پہلا دیوتا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ ’آتم‘ ، ’نو‘ (Nu) کا بیٹا تھا اور ایک خیال یہ بھی ہے کہ اس نے خود اپنی تخلیق کی۔ ’آتم‘ پھر ’را‘ (Ra) میں جذب ہو کر سورج دیوتا بن جاتا ہے۔
۳۱۰۰ قبل مسیح کے بعد مصر میں یہ تصوّر آہستہ آہستہ پختہ ہوتا گیا کہ آٹھ دیوتاؤں نے مل کر دنیا بنائی ہے۔ جب یہ مر گئے تو پاتال کی اندھیری دُنیا میں چلے گئے کہ جہاں سے اب بھی دُنیا کی نگرانی کرتے ہیں۔ یہی آٹھ دیوتا ہیں جن کی وجہ سے سورج تاریکی سے باہر آتا ہے۔ ۱۵۴۵۔ ۱۰۸۵ قبل مسیح جب ایک نئی حکومت قائم ہوئی تو کہا گیا کہ یہ ’آمون‘ (Amon) دیوتا کا کار نامہ ہے کہ دُنیا وجود میں آئی ہے۔ ’آمون‘ کو کسی نے جنم نہیں دیا وہ خود پیدا ہوا ہے اور اس کی پیدائش سب سے بڑا راز ہے۔
’را۔ آتم‘ (Ra- Atum) کی ایک دلچسپ کہانی یہ ہے کہ (اس کی آنکھ سورج کی علامت ہے ) اس کے جڑواں بچے ّ شو (Shu) اور ٹف نٹ (Tefnut) گم ہو گئے تو اس نے ان کی تلاش کے لیے اپنی ایک آنکھ کو روانہ کیا۔ آنکھ اُنھیں تلاش کر کے لے آئی تو را آتم کی آنکھوں سے خوشی کے آنسو چھلکتے رہے۔ ان ہی آنسوؤں سے انسان کا جنم ہوا ہے۔ دیوتا نے اس آنکھ کو اپنی پیشانی پر جگہ دی تاکہ وہ دنیا پر حکومت کرے۔ یہ آنکھ آہستہ آہستہ سورج کی مانند چمکنے لگی۔
چند اور اہم دیوی دیوتا یہ ہیں:
’آ کر‘ (Aker) دو شیروں والا دیوتا،طلوعِ آفتاب اور غروبِ آفتاب کا دیوتا۔
’آمون‘ (Amun) سب کی آنکھوں سے اوجھل رہتا ہے، دیوتاؤں کا دیوتا ہے۔ اس کی داڑھی لمبی ہے، ٹوپی پہنتا ہے، اس کے ساتھ ایک بھیڑ ہے، ایک بھیڑ کے سروالا انسان ہے، اس کے کئی نام ہیں، آمن (Amen)، آمن را (Amen Ra)، آمن رے (Amen Re)۔
’انوبس‘ (Anubis) گیدڑ کے سروالا دیوتا ہے۔ پاتال کے اندھیرے تک رہنمائی کرتا ہے، سحر جادو جانتا ہے۔ زہر اور مختلف قسم کی دوائیں ساتھ رکھتا ہے۔ جڑی بوٹیوں سے علاج کرتا ہے۔
’ہاپی‘ (Hapi) تمام دیوتاؤں کا باپ تصوّر کیا گیا۔ دریائے نیل کا دیوتا ہے۔ داڑھی ہے، نیلے یا سبز رنگ کا پیکر ہے، عورتوں کی طرح پستان ہیں جس سے یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ دُنیا والوں کو غذا فراہم کرتا ہے۔
’آئی سس‘ (Isis) سحر جادو کی دیوی ہے۔ ہوا کی بھی نمائندگی کرتی ہے۔
’ماٹ‘ (Maat) سچائی کی دیوی ہے۔ قانون، زندگی کی تنظیم اور اخلاقی قدروں کی دیوی۔
’ من‘ (Min) جنت کا دیوتا ہے۔ بادلوں کی کڑک سے پہچانا جاتا ہے۔ افزائشِ نسل اور ’سیکس‘ کا دیوتا، سفید سانڈ کی صورت نظر آتا ہے۔
’مٹ‘ (Mut) تمام دیوتاؤں کی ماں ہے۔ گدھ اس کی علامت ہے۔
’آمٹ‘ (Ammut) ڈائن دیوی ہے۔ سر گھڑیال کا ہے، جسم شیرنی کا اور پیچھے سے ہپوپوٹومس (Hippotamus) دِکھائی دیتی ہے۔
’ہیٹھور‘ (Hathor) بہت اہم دیوی ہے۔ جنت کی دیوی، آسمان کی دیوی سورج کی دیوی، چاند کی دیوی، مشرق اور مغرب کی دیوی، پاتال کی دیوی، افزائشِ نسل کی دیوی، کھیتوں اور اناج کی دیوی، موسیقی اور رقص کی دیوی، گائے کی صورت میں اس کی پرستش ہوئی۔ پھر ایک ایسی عورت کی صورت کہ جس کا سر گائے کا سر تھا۔ اس دیوی کے تعلق سے جانے کتنی کہانیاں ہیں۔
’شِکھ مٹ‘ (Sekhmet) سورج کی دیوی ہے جو آفتاب کی آگ اور گرمی کی نمائندگی کرتی، جنگ کی بھی دیوی ہے۔ خفا ہو جاتی ہے تو آگ لگا دیتی ہے۔ ایک بار تو ساری دنیا کو جلا بادشا دینے کے لیے اُٹھ کھڑی ہوئی۔ بھلا ہو را(Ra) کا کہ جس نے اسے خون سے بنی شراب پلا دی پھر وہ ٹھنڈی ہو گئی۔ دُنیا تباہی سے بچ گئی۔
’سی شت‘ (Seshat) علم کی دیوی ہے۔ تحریر کو عروج بخشنے والی، علم الحساب اور فنِ تعمیر کی بھی دیوی کہی جاتی ہے۔
’ٹورٹ‘ (Tourt) حاملہ عورتوں اور ننھے بچوں کی حفاظت کرتی ہے۔ انسان کے نئے جنم پر بھی نظر رکھتی ہے۔
ان کے علاوہ اور بھی جانے کتنے دیوی دیوتا ہیں، سب کی اپنی خصوصیات ہیں، اپنی کہانیاں ہیں۔
اساطیر کی ’bسی‘ (Fantasy) میں تین جہتیں اہمیت رکھتی ہیں۔ پہلی جہت میں فوق الفطری عناصر سے روحانی سطح پر رابطہ، اسے ’مِسٹی کل‘ (mystical) جہت کہہ سکتے ہیں۔ دوسری جہت فطرت اور انسان کے تعلق سے جادوئی ہے، نیچر اور انسان کا سحر انگیز رشتہ اور تیسری جہت انسان کی بدنصیبی اور کمزوری کو نمایاں کرتی ہے۔ انسان کتنا بے بس اور مجبور ہے۔ ’bسی‘ میں جہاں سحر انگیز فضا آفرینی ہے وہاں انسان کی بنیادی خواہشات کی تکمیل کی بھی عمدہ کوشش ہے۔ اساطیر کی bسی زباں و مکاں کی گہرائیوں میں اُترتے رہنے کی کوشش ہے۔ اساطیری کہانیوں میں اکثر مسرّت انگیز لمحات نصیب ہوتے ہیں اور اچانک معجزوں کو پُر وقار سطح پر دیکھتے ہیں۔ بلاشبہ کسی بھی ملک کے اساطیری قصّے و واقعات ہوں ’bسی‘ کا جادو متحیر کر دیتا ہے۔ جو اساطیری کردار و واقعات خلق کرتے رہے ہیں وہ اچھے تخلیقی ذہن کے مالک رہے ہیں۔ ایک ایسی دوسری دنیا کی تخلیق جو رومانیت اور جمالیات کا سرچشمہ بن جائے غیر معمولی کارنامہ ہی تو ہے۔ الن گارنر (Allan Garner) نے لکھا ہے:
"…. . myth contains crystallized human experience and very powerful imagery. This imagery is useful for a writer if he uses it responsibly. It can work against him if he does not use it property, but he it has very powerful cutting tools in his hand which work beneath the surface.”
——- Allan Garner: "Coming to Terms”, Page 16
مصر کی ’’تصویری تحریر‘‘ ہیرو غلفی(Hierogylphs) کی ہمیں خبر ہے۔ ۳۲۰۰ قبل مسیح سے اس تحریر کی خبر ملتی ہے۔ ۳۹۶ عیسوی میں غالباً پہلی بار اس کے نمونے ملے تھے۔ مصر میں علامتوں کو بڑی اہمیت دی گئی تھی۔ جن علامتوں کو سمجھا گیا اُن میں چند یہ ہیں:
را (Ra) آفتاب کی وجہ سے زندگی قائم ہے۔ قدیم مصر کا یہ عقیدہ رہا ہے۔ مصر کی مذہبی زندگی میں اس کی بڑی اہمیت ہے، کئی اہم دیوتا آفتاب سے تعلق رکھتے ہیں، آفتاب کی عبادت کبھی ہورس (Horus) کی صورت ہوئی، کبھی را اور امون را (Amun – Ra) کی صورت ہے۔
’سا‘ (Sa)
تحفظ کی علامت ہے۔
’آکھیت‘ (Akhet)
سورج کے نکلنے اور ڈوبنے کے مقامات۔
’دیجیو‘ (Dijew)
وادیِ نیل کے درمیان میں، دونوں جانب پہاڑ کی چوٹیاں
شی (She)
مصر میں بھی یہ عقیدہ رہا ہے کہ پانی سے زندگی نے جنم لیا ہے۔
تمام اشیا و عناصر کا انحصار پانی پر ہے۔
’یورایوس‘ (Uraeus)
بادشاہوں کا محافظ ناگ۔ ’رے ‘ (Re) کی آتشیں آنکھیں۔
اور کئی علامات ہیں
جان ڈرنک واٹر (John Drink Water) نے اپنی کتاب "The Outline of Literature” میں درست لکھا ہے:
"…. mythology, like a parent’s blood has passed into a the veins of literature of which it is still one of the sweetest and most persisting currents.”
آگے لکھتے ہیں:
"What the alphabet is to words, and what words are to vocal or written expression of thought — Such is mythology to poetry.”
(Page 109 – 1957, Revised Edition)
بلا شبہ اساطیر آبا و اجداد کے لہو کی طرح ہے، لٹریچر کی رگوں میں اس کی لہر دوڑ رہی ہے۔ اس کی شیریں لہروں کی پہچان دوسری لہروں کے ساتھ ہوتی ہے۔ رومانیت، bسی اور جمالیات کے اس سرچشمے سے تخلیقی فنکار متاثر ہوتے رہے ہیں۔
شاعری میں ’متھ‘ (myth) اور ’متھ‘ کے رَسوں کے تعلق سے اظہارِ خیال ہوتا رہا ہے۔ یونگ کے تصوّر ’آرچ ٹائپ‘ (Archetype) نے اساطیری علامتوں اور استعاروں کو لاشعور/ نسلی لاشعور سے نکالنے اور اُبھار نے کی جو کوشش کی ہے اس کی تاریخی اہمیت ہے۔ ہم نسلی لاشعور یا اجتماعی لاشعور میں کتنے جذب ہیں اور تخلیقی آرٹ میں غیر شعوری طور پر اساطیری ماحول اور اساطیری علامتوں کو کس طرح استعمال کرتے ہیں اس کا اندازہ ہوتا ہے۔
ماقبل تاریخ کا انسان مشکلات اور مصائب کی زندگی بسر کرتا رہا ہے، زندگی اور اس کے مسائل اور ’فینومینا‘ نے اس کی پریشانیوں اور دُکھوں میں ہمیشہ اضافہ ہی کیا ہے۔ جہاں مادّی زندگی کے چھوٹے بڑے مسائل اُلجھاتے رہے وہاں جانے کتنے سوالات سامنے کھڑے ہوتے رہے مثلاً یہ بھی کہ یہ دنیا کیا ہے؟ انسان اور جانور کیسے بنے، یہ جو آسمان پر تارے چمک رہے ہیں اور اپنے تحرک کا احساس دیتے رہتے ہیں ان کے پیچھے کون سی طاقت ہے، یہ سورج ہر صبح نکلتا اور ہر شام ڈوبتا کیوں ہے؟ پھولوں کے رنگ اور پرندوں کی چہک کا کیا راز ہے۔ اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق ہی ہر بات جاننے اور سمجھنے کی کوشش کرتے۔ ہیروڈوٹس (Herodotus) نے کہا تھا کہ قدیم مصری باشندے آگ کو خونخوار زندہ جانور سمجھتے تھے اور اس سے ہمیشہ خوف زدہ رہتے تھے۔ ماقبل تاریخ کے انسان نے ہر شئے میں زندگی محسوس کی۔ وہ ہوا ہو یا آگ آسمان ہو یا سورج، سمندر ہو یا درخت، انھیں زندہ شخصیت تصوّر کرتے تھے۔ ان سے رشتہ قائم کرتے، ان کی عبادت بھی کرتے، ان کے ذریعے اپنے سوالات کو حل کر نے کی کوشش میں مصروف بھی رہتے۔ پھر ان کی کہانیاں بننے لگے، تخیل کا عمل آہستہ آہستہ تیز ہوتا گیا، ’bسی‘ اور رومانیت کا تحرک بڑھا اور تاریکی اور روشنی کے مسلسل عمل سے جمالیاتی احساس میں اُٹھان پیدا ہوئی۔ سامنے کی اشیاو عناصر کی کہانیاں بننے لگیں اور یہی ’مِتھ‘ کی بنیاد ہیں۔ اساطیر اور اس کی رومانیت اور جمالیات کا مطالعہ کریں تو یہ بات بہت حد تک واضح ہو جائے گی کہ اسطور میں قدیم انسان کی ذہنی اور روحانی تاریخ جذب ہے۔ صدیوں بعد یہ کہانیاں لکھی گئیں اور ایک نسل سے دوسری نسل تک ان کا سفر جاری رہا، ان کی صورتیں بھی تبدیلی ہوتی گئیں، ان میں تبدیلیاں بھی پیدا ہوتی گئیں، زندگی اور موت کے تصوّرات کے سفر کے تعلق ہی سے جو کہانیاں یا ’متھ‘ ہیں وہ قدیم انسان کے ذہنی اور روحانی زندگی کو بہت حد تک سمجھانے کے لیے کافی ہیں۔ انسان اور زمین کے رشتے کی کہانی اساطیر میں بڑی کشادگی پیدا کرتی رہی ہے۔
وقت گزرتا گیا پتھروں کے ٹکڑوں اور مٹّی سے بنی تختیوں پر لکھنے کا عمل شروع ہوا۔ سرہنری لییارڈ (Henry Layard) نے مٹّی سے بنی تختیوں پر چند تحریروں کی دریافت کی تھی کہ جن میں ایک تختی برٹش میوزیم میں موجود ہے۔ اس میں ایک بڑے سیلاب کا ذکر ہے۔ کہتے ہیں، دنیا کی قدیم ترین تحریروں میں یہ تحریر شمار کی جا سکتی ہے۔ سیلاب کی کہانی ۴۰۰۰ ہزار سال قبل مسیح کی بتائی جاتی ہے۔ اس بات کا ثبوت ملتا ہے کہ عبرانیوں نے بائبل سے ہزاروں سال قبل سیلاب کی کہانی مٹّی کی تختیوں پر تحریر کی تھی، اس کے بعد مصریوں کی تحریر ’پیپائرس‘ (Papyrus) پر ملتی ہے جسے ’مُردوں کی کتاب‘ (The Book of Dead) کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس کا بھی ایک نسخہ برٹش میوزیم لائبریری میں موجود ہے۔ اس میں عبادت اور روحوں کے تعلق سے کچھ باتیں تحریر ہیں۔ کہا جاتا ہے ’مُردوں کی کتاب‘ (The Book of the Dead)کے بعد ایک شخص Ptah-Hotep نے ایک کتاب لکھی، کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ یہ ’مُردوں کی کتاب‘ سے پہلے لکھی گئی تھی۔ مصنف کا زمانہ ۳۵۵۰ سال قبل مسیح ہے، یعنی حضرت موسیٰ سے دو ہزار سال قبل، ویدوں سے بھی بہت پہلے، ہومر سے دو ہزار پانچ سو Lکے چھوٹے بڑے مسائل اُسال قبل۔
یوروپی ادبیات سے سیکڑوں برس قبل چین میں کتابیں لکھی گئی تھیں۔ کہا جاتا ہے دو ہزار آٹھ سو سال قبل مسیح چین میں تحریر کا آغاز ہو چکا تھا۔ پہلے مذہبی علامتوں کو ہڈّیوں اور مٹّی کے برتنوں پر نمایاں کیا گیا، اس کے بعد کنفیوشیس (Confucius) کے دَور تک بہت کچھ لکھا جا چکا تھا۔ چین میں اخلاقیات کے علاوہ جڑی بوٹیوں سے بنی دواؤں اور کھیتی باڑی کو بنیادی موضوع بنایا گیا تھا۔
اس کے بعد ’وید‘ (ایک ہزار سال قبل مسیح) ’بدھ لٹریچر‘ ، ’عبرانی ادب‘ ، ’فوینسین‘ (Phoenician) اور مصری اور یونانی ادبیات نے تحریر کی ایک بڑی تاریخ مرتب کر دی۔
جب اسکندریہ (Alexandria) یونانی تہذیب و تمدّن کا مرکز بنا تو یونانیوں نے یونانی زبان کی کتابوں کو اکٹھا کرنا شروع کیا۔ کہا جاتا ہے اسکندریہ کے کتب خانے میں کم و بیش سات لاکھ کتابیں جمع ہو گئی تھیں، ان میں بہت معیاری کتابیں تھیں۔ ۴۸ قبل مسیح سکندر نے اس کتب خانے کا ایک بڑا حصہ نذرِ آتش کر دیا، آج دو ہزار برس بعد برٹش میوزیم لائبریری میں چار ملین کتابیں موجود ہیں جو توجّہ کا مرکز بنتی ہیں۔ ان میں ایلیڈ اور اوڈیسی، افلاطون کا ’ری پبلک‘ یوری پیڈس (Euripides)، صوخوکلیس (Sophocles)، ارسطوفینس (Aristophanes) اقلیدس کی جیومیٹری اور سائنس اور علم الحساب پر جانے کتنی کتابیں موجود ہیں۔
لٹریچر کی ابتدا سے قبل اساطیر کا سرمایہ انسان کی بہت بڑی میراث رہا ہے، لوگوں نے اسے بہت عزیز رکھا ہے، مختلف عہد میں اساطیر نے تخلیقی فنکاروں کو متاثر کیا ہے۔ صرف ’ہومر‘ (Homer) اور ’او وِڈ‘ (Ovid) ہی نہیں، براؤننگ، ’ہوتھورن‘ (Hawthorn)، ’ہیرک‘ (Herrick)، ’لونگ فیلو‘ (Longfellow)، ’میریڈ دھ‘ (Meredith)، ’ولیم مورس‘ (William Morris)، ’پوپ‘ (Pope)، ’سوئن برن‘ (Swuiburne)، ’ٹینی سن‘ (Tennyson)، ’بائرن‘ (Byron)، ’شیلے ‘ (Shelley) ’کیٹس‘ (Keats) اور جانے کتنے تخلیقی فنکاروں پر اساطیر کا اثر رہا ہے۔ اساطیر کی روایت متحرّک رہی ہے، ’سائیکو اسطور سازی‘ (Pschyco-Mythology) کے بھی عمدہ نمونے ملتے ہیں۔ صرف شاعری پر ہی نہیں نشاۃ الثانیہ (Renaissance) کے مصوّروں اور مجسمہ سازوں کے آرٹ پر بھی اساطیری قصوں اور کرداروں کے اثرات نظر آتے ہیں۔ بعض فنّی نمونوں میں تو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے اساطیری نقوش جذب ہو گئے ہیں۔
ہومر ’ایپک‘ کا سب سے بڑا شاعر تصوّر کیا جاتا ہے، اس نے ایلیڈ اور اوڈیسی میں اساطیر کی جو متحرک پراسرار دُنیا خلق کی ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ ہومر کے سامنے تمام پرانے قصّے کہانیاں خصوصاً لوک گیت قصّے موجود تھے، یونانی اساطیر کی پوری دنیا لیے بیٹھا تھا، ایلیڈ اور اوڈیسی میں اساطیری کہانیوں، قصّوں اور کرداروں کی نئی تخلیق بھی کی اور میراث کی بھی حفاظت کی۔ یوروپ کے لوگوں نے اس کے دونوں ’ایپک‘ کو بائبل کی طرح عزیز رکھا، اسے قوم کی تاریخ سے بھی تعبیر کیا۔ اساطیریقصوں اور کرداروں کو تخلیقی سطح پر جو عظمت بخشی اس کی مثال نہیں ملتی۔ ہومر نے اچی لس (Achilles) کی شجاعت، ہیلن (Heen) کے حسن، یولائی سیس (Ulysses) کے پُر اسرار تجربوں پینی لوپ (Penelope) کی وفاداری وغیرہ کو قاری کے احساس اور جذبے سے بہت ہی قریب کر دیا۔ کرداروں کے احساس اور جذبے اور عمل اور ردِّ عمل سے حیرت انگیز دنیا سامنے آ جاتی ہے۔ ہومر کے دونوں ’ایپک‘ کی کہانیاں اور ان کے کردار صدیوں سینہ بہ سینہ چلے ہیں اور ان میں بڑی تبدیلیاں آئی ہیں، شاعری اور نغموں کا بھی وہی حال ہے۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ ہومر کے فن کا کتنا حصہ ہمیں حاصل ہوا ہے۔ ہومر کی تخلیق ایلیڈ کی کہانی ٹروجن کی جنگ کی کہانی ہے۔ کہانی دیوتاؤں کی جنگ سے شروع ہوتی ہے۔ ’جونو‘ (Juno) ’وینس‘ (Venus) اور ’منروا‘ (Minerva) کا حسن چیلنج بنتا ہے۔ ’ایرس‘ (Eris) ایک سیب پھینکتا ہے جس پر یہ تحریر ہے: ’’اس کے لیے جو سب سے زیادہ حسین ہے‘‘ جونو، وینس اور منروا تینوں خود کو سیب کا حقدار تصوّر کرتی ہیں۔ جیوپیٹر (Jupiter) جو دیوتاؤں کا دیوتا ہے ٹرائے کے بادشاہ ’پریئم‘ (Prium) کے چھوٹے بیٹے ’پیرس‘ (Paris) سے کہتا ہے ’’ان میں جو سب سے زیادہ خوبصورت ہے اسے سیب دے دو۔‘‘ پیرس، وینس کو سیب دے دیتا ہے پھر جونو اور منروا کا حسد حد درجہ بڑھ جاتا ہے۔ نفرت کی آگ بڑھنے لگتی ہے۔ اس فیصلے کے بعد پیرس یونان چلا جاتا ہے۔ اسپارٹا کے بادشاہ ’مینی لوس‘ (Menelaus) کا مہمان رہتا ہے، مینی لوس کی خوبصورت بیوی ہیلن پر عاشق ہو جاتا ہے اور اسے لے کر ٹرائے چلا جاتا ہے۔ مینی لوس یونان کے بہادر سپہ سالاروں کو حالات کی خبر دیتے ہوئے کہتا ہے کسی صورت ہیلن کو واپس لے آؤ۔ یولائی سس (Ulysses) کے علاوہ کئی دوسرے بہادر سپہ سالار اس کام کے لیے تیاّر ہو جاتے ہیں۔ مینی لوس کا بھائی ’آگا میمنن‘ (Agamemnon) فوجی سردار بنتا ہے اور کئی ’کمانڈر فوج میں شامل ہوتے ہیں۔ دیوتا کب پیچھے رہتے وہ بھی دو مخالفین کی جانب تقسیم ہو گئے، جونو اور منروا یونانیوں کے ساتھ تھیں، ٹروجن کے خلاف صف آرا تھیں۔ وینس اور مارس دوسری جانب تھیں۔ نپچون (Neptune) یونانیوں کے ساتھ تھا، جوپیٹر اور اپولو کسی طرف نہ تھے۔ ٹرائے کی یہ جنگ نو برسوں تک ہوتی رہی، اس وقت تک جب تک کہ Achies اور آگا میمنن (Agamemnon) کے درمیان جھگڑا شروع نہ ہو گیا اور ایلیڈ کی کہانی اسی مقام سے شروع ہوتی ہے۔ بڑے چھوٹے جانے کتنے واقعات رونما ہوتے ہیں، جنگ ہوتی ہے، تقریریں ہوتی ہیں، دیوتاؤں کے دربار میں ہلچل رہتی ہے، کہانی زمین سے آسمان کی طرف جاتی ہے اور پھر زمین کی طرف لوٹتی ہے۔ سپاہیوں کے درمیان جو لڑائی ہوئی ہے اس کی ڈرامائی صورتیں بہت دلچسپ بتائی جاتی ہیں۔ اسی طرح دیویوں کے اختلافات اور ان کے ٹکراؤ کے واقعات بھی لطف دے جاتے ہیں۔ کہانی کی خوبصورت پیچیدگیوں، کرداروں کی کشمکش اور فضا آفرینی کے پیشِ نظر ’ایلیڈ‘ اور ’اوڈیسی‘ دونوں دنیا کے بہترین ابتدائی ڈرامے کہے جا سکتے ہیں۔ ایلیڈ اور اوڈیسی کے تعلق سے دو بنیادی باتیں ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے۔
۱۔ یونانی ادبیات سے دلچسپی رکھنے والے علماء یہ کہتے ہیں کہ ایلیڈ اور اوڈیسی کے تمام انگریزی ترجمے ناقص ہیں، کسی بھی مترجم کو مکمل طور کامیابی حاصل نہیں ہوئی ہے۔ اس کا سب سے بڑا سبب یہ بتایا گیا ہے کہ قدیم ترین نسل کے معصومانہ اظہارِ خیال پر ترجمہ کرتے ہوئے خیالات کا بوجھ ڈال دیا گیا ہے۔ میتھو آرنلڈ (Mathew Arnold) نے اپنی کتاب "On Translating Homer” میں لکھا ہے کہ صاف ستھرے ڈِکشن پر کہ جس کی صورت بھولے بھالے معصوم بچے ّ کی طرح ہے اپنے اسلوب کا بوجھ ڈال دیا گیا ہے کہ جس سے ڈِکشن کا حسن ہی جاتا رہا ہے۔ نثر ی ترجمے میں شاعری کا جمال ہی گم ہو گیا ہے۔
۲۔ ہومر کے پاس ۹۵۰ سال قبل مسیح لکھنے کا کوئی ذریعہ نہ تھا۔ یہ نظمیں سینہ بہ سینہ چلتی رہی ہیں، لوگ اسے گاتے رہے ہیں، اس کی کہانیاں سناتے رہے ہیں۔ ۵۵۰ سال قبل مسیح ان نظموں کو لکھا گیا۔ اُس وقت کے ماہرین نے زبان اور طرزِ بیان کو صاف ستھرا اور جاذبِ نظر بنانے کی کوشش کی۔ ماہرین نے اپنے مذاق کے مطابق ان کی صورتیں مرّتب کیں جنھیں کچھ لوگ مصنوعی کہتے ہیں۔ دونوں ’ایپک‘ میں جو فنکارانہ وحدت ہے وہ ماہرین کی دین ہے۔ چونکہ کئی مصنّفین نے مل کر کام کیا ہے اس لیے یہ کہنا مشکل ہے کہ کون سے حصّے ابتدائی ہیں اور کون سے حصّے کہاں ختم ہوتے ہیں، ان باتوں کے باوجود ماہرین کہتے ہیں کہ فنکار ملٹن اپنی تخلیقی صلاحیتوں کے ساتھ ہر جگہ موجود ہے اور دونوں ’ایپک‘ کے جال اسی کے بنے ہوئے ہیں۔
اوڈیسی کی بابت پچھلے صفحات میں کچھ باتیں لکھی جا چکی ہیں۔ یہ یولائی سس (Ulysses) کی ’صحرا نوردی‘ کی کہانی ہے۔ ٹروجن کی جنگ کے بعد وہ دس برس اِدھر اُدھر گھومتا رہا، بہت سے واقعات سامنے آئے، پھولوں جیسی غذا کھا کر خود فراموش بھی ہو گیا۔ اسے ’سائیکلوپس‘ (Cyclopes) جیسے عفریت ملے اور بہت سے تجربے حاصل ہوئے۔
محقق کہتے ہیں کہ ایلیڈ میں ایک سو اسّی تشبیہات ہیں جبکہ اوڈیسی میں صرف چالیس۔ غالباً اس کا سبب یہ ہے کہ ایلیڈ میں ایڈونچر کے ڈرامے متواتر سامنے آتے رہتے ہیں۔ پُر اسرار دلچسپ واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں۔ ہر لحاظ سے ایلیڈ اوڈیسی سے بہت آگے ہے۔ اساطیر کی رومانیت اور جمالیات کو نہ جانے کتنے حیرت انگیز مناظر کہانی اور واقعات کے اندر ذہن کو کھینچ لیتے ہیں۔ ایلیڈ کی تشبیہوں کی ایک خوبصورت مثال پیش کرتا ہوں۔ یہ ڈبلو.سی.گرین (W.C.Green) کا ترجمہ ہے:
"As from an island city, seen afar,
The smoke goes up to Heaven, when foes besiege:
And a day long in grievous battle strive
The leaguered townsman from this city wall:
But soon, at set of sun, blaze after blaze,
And hit the beacon fires, and high the glare
Shoots up for that dwell around to sea,
That they may come will ships to aid their stress:
Such light blazed heaven word from Achilles head.”
(Iliad)
ہومر نے آگ کو تشبیہ اور علامت کے طور خوب استعمال کیا ہے۔ پُر اسرار ماحول اور جنگ کے میدان میں آتش کا عمل کبھی کبھی کردار جیسا بن گیا ہے۔ آتش کے علاوہ شہد کی مکھیاں، پہاڑ، جنگل، طوفان، برفیلی ہوا، بجلی کی چمک، شیر، سمندر، آسمان،آفتاب اور جانے کتنے محرک پیکر ملتے ہیں جو تشبیہ اور علامت کی صورت متاثر کرتے ہیں۔
ہومر نے یونانی اساطیر کے جلال و جمال کو اپنی مکمل گرفت میں اس طرح لے رکھا ہے کہ جب بھی یونانی اساطیر، اس کی رومانیت، اس کی جمالیات اور اس کی ’bسی‘ وغیرہ کی تلاش کی ضرورت ہوتی ہے ہم ایلیڈ اور اوڈیسی کے فن کی گہرائیوں میں اتر نے کی کوشش کرتے ہیں۔
یوروپ کے شاعروں اور ادیبوں نے یونانی رومن اساطیر کے دیوتاؤں اور واقعات و کردار کو اپنی تحریروں میں جگہ دی ہے۔ ’ایکو‘ اور ’نارکی سس‘ (Echo and Narcissus)، ’پین‘ (Pan)، ’کیوپڈ اور سائیکی‘ (Cupid and Psyche)، ’پلوٹو اور پروسرپائین‘ (Pluto and Proserpine)، ’جوپیٹر‘ (Jupiter)، ’ڈائینا‘ (Diana)، ’اپولو‘ (Apollo)، ’مارس‘ (Mars)، ’جونو‘ (Juno)، ’ہیب‘ (Hebe)، ’وستا‘ (Vesta)، ’منروا‘ (Minerva) اور جانے کتنے دیوتا دیوی، اساطیری کردار رکھنے والے ستارے، قصّوں کہانیوں کے متحرک کردار فنکاروں کی تخلیقات میں نظر آتے ہیں۔
شیکسپیئر نے کیوپڈ کا ذکر بار بار کیا ہے (اندازہ ہے ب اور ن بار) "A Midsummer Night’s Dream” کے چند مصرعے ملاحظہ کیجیے:
That very time I saw, but thou could not,
Flllying between the cod moon and the earth,
Cupid all armed; a certain aim he took
At a fair vesta throned by the west,
And loosed his love-shaft smarty from his bow,
As it should pierce a hundred thousand hearts;
…. …. …. …. …. .
(A Midsummer Night’s Dream)
کیٹس (Keats) کی خوبصورت نظم "Ode to Psyche” یاد کیجیے۔ اسکائی لس (Aeschyus) کے "Prometheus Unbound” اور شیلے (Shelley) کے "Prometheus Unbound” میں اساطیر کے جلوے متاثر کرتے ہیں۔ یہ دونوں اپنی اپنی جگہ خوبصورت اساطیری ڈرامے ہیں۔ صوفو کلیس (Sophocles)، یوری پیڈس (Euripides) اور ارسطور فینس (Aristophanes) وغیرہ کی تخلیقات میں اساطیر کی رومانیت اور جمالیات کی دنیا روشن ہے۔
کیٹس یونانی اساطیر سے بہت متاثر تھا، کسی نے تو یہاں تک کہا ہے کہ اس کی روح یونانی اساطیر میں ڈوبی ہوئی تھی۔ اساطیر کے رنگوں کے چھینٹے اس کی شاعری پر بہت واضح ہیں۔ اس نے پہاڑی چروا ہے اور چاند کی دیوی پر جو نظم کہی ہے وہ عمدہ مثال ہے۔ نظم ’لامیا‘ (Lamia) میں کیٹس نے ناگن کے حسن اور خوف کی جو تصویر پیش کی ہے اس میں اسطوری ذہن کی بخوبی پہچان ہوتی ہے۔
She was a gordian shape of dazzling hue.
Vermillion spotted, golden green and blue
Striped like a zebra, freckled like a pard,
Eyed like a peacock, and a crimson-barred.
And full of silver moons, that, as she breathed,
Dissolved, or brightes shone, or interwreathad
Their lustres with the gloomier tapestries ——
So rainbow-sided, touched with miseries
She seemed at one some penanced lady elf,
Some demon’s mistress or the demon’s self.
Upon her crest she wore a wannish tire
Sprinkled with stars like Ariadne’ tiar
Her head was serpent, but ah, bitter sweet!
She had a woman’s mouth with a its pears compete
And for her eyes what could such eyes do there
But weep, and weep, that they were born so fair?
As proscerpine sti weeps for her sicillion air.
ہر مصرعہ اساطیر کے ’رس‘ میں ڈوبا ہوا ہے۔ شاعر کے تصوّر میں اساطیر کی خوشبو جیسے جذب ہو گئی ہو تشبیہیں علامتیں استعارے سب شعوری اور لاشعوری طور پر اسطور سے رشتہ رکھتے ہیں۔ بلاشبہ یوروپ کی رومانی شاعری پر اساطیر کی رومانیت اور جمالیات کا گہرا اثر ا ہوا ہے۔
عہد نامہ قدیم (Old Testament) اور عہد نامہ جدید (New Testament) فکر و نظر کا ایک بڑا سرچشمہ رہا ہے۔ شاعر فنکار ان سے بہت متاثر رہے ہیں۔ بائبل ایک کتاب نہیں ہے کئی کتابیں اس میں شامل ہیں۔ عہد نامہ عتیق میں ہزاروں برس تک عبرانی نسل نے بہت ہی عمدہ لٹریچر پیدا کیا ہے۔ ’عہد نامہ جدید‘ صرف ایک قوم کے لٹریچر کی نمائندگی نہیں کرتا بلکہ ایک بڑی تحریک کی نمائندگی کرتا ہے۔ انسان کے مذہبی اور اخلاقی مزاج کی تخلیق اور ذہنی ارتقا میں بائبل نے جتنا حصہ لیا ہے دوسرے کسی لٹریچر نے نہیں لیا۔ جہاں اس نے اجتماعی زندگی میں احساس اور جذبے کی تنظیم اور تہذیب میں حصّہ لیا اور ہزاروں برسوں تک انسان کو جوڑے رکھا وہاں ایک بہت ہی عمدہ لٹریچر بھی پیدا کیا۔ فنکاری کی سطح اتنی بلند ہو گئی کہ اس کی مثال نہیں ملتی۔ بائبل میں حسن، تو انائی اور خلوص کے حسی تصوّرات کی جو ہم آہنگی ہے وہ بے مثال ہے۔ بنیادی موضوع خالقِ کائنات کی تلاش ہے۔ ہم اُسے کسی طرح محسوس کر سکتے ہیں۔ یہ صرف دینیات اور اس کے تعلق سے مسائل کا مجموعہ نہیں ہے بلکہ انسان، اس کی زندگی، اس کی تو انائی، اس کی کمزوری، اس کی کامیابی ناکامی سب کا آئینہ ہے۔ روحانی ارتقا کی تاریخ کا مطالعہ بائبل کے بغیر نہیں ہو سکتا۔
’عہد نامہ قدیم‘ (Old Testament) کی تاریخ طویل ہے۔ بعض ماہرین کہتے ہیں کہ اس کا لٹریچر انگریزی کے کلاسیکی ادب میں سب سے نمایاں مقام رکھتا ہے۔ زبان کی خوبصورتی کا انحصار لفظوں اور جملوں کے آہنگ پر ہے۔ اسلوب کا اتنا خوبصورت آہنگ انگریزی لٹریچر میں موجود نہیں ہے۔
’بائبل‘ کی اپنی منفرد دُنیا ہے کہ جس سے شعراء فنکار متاثر ہوتے رہے ہیں اور اس کی روشنی میں اپنی دُنیا سجائی ہے، اپنی علیحدہ اساطیری دنیا خلق کی ہے، ملٹن، ڈانٹے، بنین (Bunyan)، تھامس براونے (Thomas Browne)،تھیکرے (Thackeray)، رسکن (Ruskin) اور جانے کتنے فنکار متاثر ہوئے ہیں۔ ملٹن نے کہا تھا:
"There are no songs comparable to the songs of Zion, no orations equal to those of the Prophets.”
بائبل ہی ’پیراڈائز لاسٹ‘ (Paradise Lost) کا بنیادی سرچشمہ ہے۔ تین اہم کردار ہیں آدم، حوّا اور شیطان۔۔۔ خدا کو شامل کر لیں تو کردار چار ہو جاتے ہیں۔ لیکن خدا۔۔۔ خدا تو خدا ہے۔ اس ڈرامے کا خالق ہے۔
’پیراڈائز لاسٹ‘ کی ابتدا اس طرح ہوتی ہے: انسان کی ’پہلی نافرمانی‘ ، اس کے بعد جو کہانی شروع ہوتی ہے وہ رومانی اور جمالیاتی کیفیتیں لیے بائبل سے الگ ایک ڈراما بن جاتی ہے۔
’نافرمانی‘ کے بعد ایک صورت یہ تھی کہ شیطان کے وجود میں داخل ہو کر نیچے گنا ہوں کی دُنیا میں پہنچا جائے یا پھر مسیح بخشوا alدیں، گنا ہوں سے نجات دلا دیں۔
انسان کے پیکر میں آدم اور حوّا نے خدا کے حکم کو نہ مانا، نافرمانی کی، پہلے انسان تھے کہ جنھوں نے نافرمانی کی اور شیطان پہلا فرشتہ تھا کہ جس نے نافرمانی کو ضروری سمجھا۔ شیطان نے خود ہی بغاوت کر نے کا فیصلہ کیا تھا، اپنے فیصلے پر اٹل رہا، جہنم میں رہا اس لیے کہ جانتا تھا کہ خدا اسے معاف نہیں کرے گا۔
آدم اور حوّا جانتے تھے کہ نافرمانی کی سزا اُنھیں اور ان کی تمام آنے والی نسلوں کو ملتی رہے گی۔
ملٹن نے بتایا ہے کہ کائنات کا ایک نظام مرّتب ہے، زمین درمیان میں ہے۔ جنت اوپر آسمان پر ہے اور جہنم زمین کے نیچے ہے۔
’پیراڈائز لاسٹ‘ میں ملٹن نے ’روشنی‘ اور ’تاریکی‘ کے جو دو بلیغ استعارے ہر جگہ استعمال کیے ہیں ان سے یونانی اساطیر کے کرداروں اور فضاؤں کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔ ان دو معنی خیز استعاروں کے درمیان اپنی ایک اساطیری دنیا خلق کی ہے جو اپنی مثال آپ ہے۔
ڈانٹے (Dante) کی ’ڈیوائن کامیڈی/اِنفرنو‘ (Devine Comedy / Inferno) میں فنکار نے اپنی ایک اساطیر کی دنیا بنائی ہے۔ یونانی اساطیر کے اثرات جا بجا نظر آتے ہیں۔ بلاشبہ ڈانٹے نے اساطیری روایات سے ایک رشتہ قائم کر رکھا ہے۔ ’انفرنو‘ (Inferno) کی ابتدا ’گہرے تاریک جنگل‘ کی پُر اسراریت سے ہوتی ہے۔ یہ ’گہرا تاریک جنگل‘ (Dark Wood) شاعر کے تخیل کا کرشمہ ہے۔ شاعر ورجل کی رہنمائی میں جہنم کے مختلف مقامات پر جاتا ہے۔ ان مقامات کا بغور مطالعہ کیا جائے تو اس حقیقت کا علم ہو گا کہ ڈانٹے روایات اور خصوصاً اساطیر کی روایات سے متاثر تھا۔ پاتال میں موت کے اساطیری دیوتا ہیڈس (Hades) تک پہنچنے میں اسے اس تاریک جنگل سے گزرنا پڑتا ہے۔ خونخوار تین جانوروں چیتا، شیر اور مادہ بھیڑیا (She-Wolf) کی علامتیں جہنم کے تین حصّوں کو سمجھاتی ہیں اور اساطیری عفریتوں کی یاد تازہ کرتی ہیں۔ تین سروں والا کتاّ بھی ملتا ہے جس کی گردن میں سانپ لپٹا ہوا ہے۔
’ڈیوائن کامیڈی‘ / اِنفرنو میں ’امیجری‘ کی جو بڑی دنیا ملتی ہے وہ اساطیری روایات سے بہت ہی قریب محسوس ہوتی ہے۔ ان میں بہت سے ’ا4‘ (Images) شاعرانہ اور جمالیاتی بن گئے ہیں۔ ’سانپ‘ شیطان کی علامت ہے۔ ’چیتا‘ بدترین گنہگاروں کا ’امیج‘ ہے، ’شیر‘ تشدّد اور خود غرضی کا اشاریہ ہے، ’مادہ بھیڑیا‘ جنسی ہیجانات اور بدترین گنا ہوں کی علامت ہے۔ یونانی اساطیر میں بھی بعض عورتوں کو فریب دینے اور جنسی طور پر آسودگی حاصل کر نے کے کرداروں میں پیش کیا گیا ہے۔ ’شیر‘ یونانی اساطیر میں ایک نمایاں علامت ہے۔
سسرو (Cicero) نے کہا تھا کہ انسان نے بڑی چیزیں خلق کی ہیں۔ بہت سی چیزوں کی روحانی سطح بلند ہے لیکن جو سب سے بڑا کام کیا ہے وہ ہے اساطیر کی تخلیق! اساطیر کے رموز و اسرار سے زیادہ اور کہاں اسرار ہیں! اساطیر نے ہمیں جتنا مہذّب بنایا ہے، ذہن کی آبیاری میں جتنا حصّہ لیا ہے اور فکر و نظر میں جتنی کشادگی پیدا کی ہے آپ اس کی مثال بھلا کہاں سے لائیں گے؟ اساطیر نے ہمیں مسرّت بھری زندگی کا مفہوم تو سمجھایا ہی ہے اچھی اُمید کے ساتھ مرنا بھی سکھایا ہے۔
آئیے چینی اساطیر (Chinese Mythology) اور بدھ اساطیر پر گفتگو کریں۔ چین ایک بڑا ملک رہا ہے لہٰذا اس کے مختلف علاقوں میں اساطیر کی مختلف روایات ملتی ہیں۔ مختلف حصّوں میں بولیاں اور زبانیں بھی الگ الگ ہیں۔ جانے کتنی تہذیبی ثقافتی و حدتیں ہیں۔ ہزاروں برسوں علاقائی اساطیر کا ارتقا ہوتا رہا ہے۔ اساطیری کہانیاں سینہ بہ سینہ تو چلی ہی ہیں ’تصویری رسم خط‘ کی وجہ سے بھی بعض قریبی علاقوں میں تعلق اور رشتہ قائم ہوا ہے۔ چینی اساطیر کا ایک بڑا حصہ روحیتِ مظاہر (Animism) کی بنیاد پر نظر آتا ہے یعنی تمام اشیا و عناصر میں زندگی ہے۔ ایسے کئی کردار ہیں جو انسان بھی ہیں اور جانور بھی۔ یہ سب بھی دیوتاؤں کی مرضی منشا کے مطابق عمل کرتے ہیں۔ مذہبی اختلافات کی وجہ سے جو تصادم ہوتا رہا اس کا بڑا گہرا اثر ان کے مزاج اور فکر پر ہوا۔ خوف کا جو جذبہ پیدا ہوا تو اپنے اپنے عقائد کو بچانے کے لیے جانے کتنے فلسفیانہ خیالات پیدا کیے، ایسی بہت سی کہانیاں وجود میں آئیں جو ٹکراؤ اور تصادم کو پیش کرتی تھیں۔ ’تاؤاِزم‘ اور ’بدھ اِزم‘ کے ٹکراؤ اور تصادم سے کئی اساطیری قصّے و کردار پیدا ہوئے۔ ’بندر راجا‘ ان ہی دونوں کے ٹکراؤ کی کہانی ہے جس کی حیثیت اساطیری ہو گئی ہے۔
’تاؤاِزم‘ (Taoism) نے جو فلسفہ پیش کیا اور جس فلسفے پر اساطیری کہانیاں سامنے آئیں وہ فلسفہ تھا زندگی، موت کے بعد بھی زندگی، زندگی کا کبھی نہ ختم ہونے والا سلسلہ! انسان صرف روحانی طور پر نہیں جسمانی طور پر بھی زندہ رہ سکتا ہے اور ہمیشہ زندہ رہ سکتا ہے!
کنفیوسیشن ازم (Confucianism)نے اخلاقی اقدار کی تشکیل کی اور روحانی صحت کو ضروری جانا۔ اس سے متاثر ہو کر جو کہانیاں وجود میں آئیں اُن میں زندگی کی بہتر تنظیم کی جانب زیادہ توجّہ دی گئی۔
’بدھ اِزم‘ (Buddhism) کا مطالعہ کریں تو اس سچائی کا علم ہو گا کہ اساطیری قصّوں کہانیوں کی تخلیق کا ایک طویل سلسلہ قائم رہا ہے۔ ایمان اور اعتقاد کو مضبوط رکھنے پر زیادہ سے زیادہ زور دیا گیا ہے۔ منگ بادشاہ (Emperor Ming) کی وہ کہانی مشہور ہے کہ جس میں اس کے ایک خواب کو پیش کیا گیا ہے۔ بادشاہ نے خواب میں دیکھا کہ ایک سونے کا انسان بنایا جائے جو اُڑ کر افغانستان جائے اور وہاں سے ’بدھ تعلیمات‘ کے تعلق سے جو قیمتی دستاویزات ہیں انھیں لے کر واپس آ جائے۔ ہندوستان اور کئی اور ملکوں کی طرح چین میں بھی دنیا کی تخلیق کے تعلق سے جو اساطیری کہانی ہے وہ ’انڈے ‘ (Cosmic egg) کی دلچسپ حکایت ہے۔ ہندوستانی اساطیر میں کہانی یوں ہے کہ ابتدا میں ہر جانب پانی ہی پانی تھا۔ اور الوہی خوشبو یا الوہی جوہر وِشنو کی صورت پانی کے اوپر لیٹا ہوا تھا (پانی کو ’نارا‘ کہتے ہیں ’ایانا‘ (Ayana) کے معنی ہیں بستر اسی لیے وِشنو کو ’ناراین کہتے ہیں ) پانی کے اندر سے سونے کے ایک انڈے کا ظہور ہوا۔ اس انڈے کے اندر ’برہما‘ تھے، چونکہ وہ خود پیدا ہوئے تھے ( بھو= جنم) [سویم] اس لیے انھیں ’بھوسویم‘ (Bhu Svayam) کہتے ہیں۔ برہما انڈے کے اندر ایک سال رہے، پھر انھوں نے انڈے کو دو حصّوں میں تقسیم کر دیا۔ ایک حصّے سے جنت (سورگ) بن گئی اور دوسرے حصّے سے زمین (پرتھوی) وجود میں آئی پھر دونوں جنت جہنم کے رُخ پیدا ہوئے، وقت نے جنم لیا حواس کا وجود ہوا۔ برہما نے سات رشیوں کو پیدا کیا، پھر ایک مرد اور ایک عورت کو جنم دیا۔ مرد کا نام ’سوائم بھاؤ‘ (Svayam bhuva) تھا اور عورت کا نام ’شتارُوپ‘ (Shatarupa)۔ پھر کہانی آہستہ آہستہ بہت دُور تک چلی جاتی ہے۔ چینی اساطیر میں کہانی یوں ہے:۔ ابتدا میں ہر جانب تاریکی تھی، ہر طرف صرف انتشار ہی انتشار تھا، گہری تاریکی کے اندر ایک انڈے کا جنم ہوا، اس کے اندر ایک عفریت تھا کہ جس کا نام ’پنگو‘ (Pangu) تھا۔ وہ عرصہ تک انڈے کے اندر سوتا رہا، وقت کے ساتھ بڑھتا گیا، جب بہت بڑا ہو گیا تو ایک زوردار انگڑائی لی۔ انگڑائی لیتے ہی یہ بڑا انڈا ٹوٹ گیا، انڈے کا جو ہلکا حصّہ تھا وہ اوپر جا کر جنتوں کی صورت میں تبدیل ہو گیا جو وزنی حصہ تھا وہ زمین بن گیا۔ اس طرح آسمان اور زمین کا وجود عمل میں آیا۔۔۔ ’ین‘ (Yin) اور ’یانگ‘ (Yang)۔
’پنگو‘ خوش تو ہوا لیکن خوفزدہ بھی ہوا۔ سوچنے لگا کہ آسمان اور زمین دونوں ایک دوسرے سے چپک گئے تو اس کی ہڈیاں چور چور ہو جائیں گی۔ پھر اس نے یہ کیا کہ اپنا سر آسمان تک لے گیا اور آسمان کا بوجھ سرپر لے لیا اور پاؤں زمین کے اوپر رکھ دیئے تاکہ زمین میں کسی قسم کی کوئی جنبش نہ ہو۔ اس عفریت کا قد بڑھتا ہی جا رہا تھا۔ ایک دن میں دس فٹ بڑھتا رہا، اٹھارہ ہزار برس گزر گئے، جیسے جیسے بڑھتا گیا زمین آسمان کی دُوری بڑھتی گئی۔ اس کے بعد۔
’پنگو‘ سو گیا ایسی گہری نیند کہ پھر نہ اُٹھا!!
مرگیا تو اس کی سانس سے ہوا نے جنم لیا، بادل وجود میں آئے۔
اس کی آواز سے بادل گرجنے لگے اور بجلیاں چمکنے لگیں۔
اس کی ایک آنکھ سے سورج پیدا ہوا اور دوسری آنکھ سے چاند۔
اس کے دونوں بازوں اور ٹانگوں سے دنیا کے چار رُخ مقرر ہوئے۔
اس کی سونڈ سے پہاڑ پیدا ہوئے۔
گوشت سے مٹّی نے جنم لیا کہ جس پر درخت اُگنے لگے۔
اس کے لہو سے دریا پیدا ہوئے۔
اس کی رگوں سے انسان کے لیے راستے بنے۔
اس کے دانتوں اور ہڈیوں سے قیمتی پتھر پیدا ہوئے، معدنیات اور ہیرے جواہرات کا بڑا خزانہ آ گیا۔ اس کے پسینے شبنم، اس کے بال ستارے!
اس طرح ایک دنیا۔۔۔ ایک بڑی کائنات وجود میں آ گئی۔
چین میں یہ عقیدہ اب بھی ہے کہ گرچہ ’پنگو‘ مر چکا ہے لیکن موسم کی تمام تبدیلیاں اُسی کی روح کے کرشمے ہیں۔
کہا جاتا ہے کائنات کی تخلیق کے تعلق سے یہ اساطیری کہانی جنوب مشرقی ملکوں میں بھی موجود ہے۔
چینی اساطیر اور خصوصاً بدھ اساطیر میں علامتوں اور کہانیوں کے ذریعہ لاشعور کی تو انائی اور اس کے تحرک کا جو احساس ملتا ہے وہ ایشیائی ملکوں میں اپنی مثال آپ ہے۔ کائنات کے پس منظر میں فکر و نظر کی گہرائی اور کلچر کی اخلاقی قدروں اور تجربوں کی وسعت کی پہچان ہوتی ہے۔ کہانیاں عموماً استعاراتی اور علامتی ہیں، تخیلی کہانیوں میں تمدّنی مظاہر کی پہچان مشکل نہیں ہوتی۔ چین کے مختلف علاقوں کی لوک کہانیوں کا Llرس بھی ان میں شامل ہے۔ موسم، انسان، درخت، ندی جانور، پرندے، قدرتی حادثات مثلاً زلزلہ وغیرہ بنیادی موضوعات رہے ہیں۔ ’ڈریگن‘ (Dragon) ان کی کہانیوں کا محبوب پیکر اور استعارہ رہا ہے۔ چین میں تاریخی اور لوک کہانیوں میں بھی نئی معنویت پیدا کر نے کی کوشش کی گئی ہے۔
’بدھ اِزم‘ کے آنے سے پہلے چین میں ’تاؤاِزم‘ اور ’کنفیوسیش ازم‘ کے زیر اثر جو قصّے کہانیاں ہیں ان میں اخلاقی اور مذہبی معاملات و اقدار کے دباؤ کی وجہ سے بڑی گہری سنجیدگی پائی جاتی ہے۔ ’بدھ اِزم‘ کے آنے کے بعد فکر و نظر میں بڑی کشادگی پیدا ہوئی، مختلف علاقوں میں معنی خیز دلچسپ کہانیوں کا جنم ہونے لگا۔ مختلف حلقوں، طبقوں اور فرقوں میں تقسیم ہو کر بدھ ازم کی کئی صورتیں اُبھر آئیں، عقائد پر بڑا گہرا اثر ہوا، مختلف عقائد نے جنم لیا، دیوتا بھی پیدا ہونے لگے، مختلف علاقوں کے 5 سے رشتہ قائم کیا اور نئی کہانیاں لکھی جانے لگیں۔ کہا جاتا ہے بدھ کہانیوں سے زیادہ شاید ہی کوئی اور کہانیاں ہوں۔ گوتم بدھ کی پیدائش کے تعلّق سے جو اساطیری قصّہ ملتا ہے وہ تھوڑے بہت فرق کے ساتھ مختلف فرقوں کے اساطیری قصّوں میں بھی موجود ہے۔ اس اساطیری کہانی میں درج ہے کہ جب سدھار تھ پیدا ہوئے تو زمین کانپنے لگی، دریاؤں کا بہاؤ رُک گیا، تمام پھول ٹوٹ کر گر گئے، آسمان سے پھولوں کی بارش ہونے لگی، جہاں یہ پھول گرے وہاں کنول کا ایک خوبصورت پھول پیدا ہو گیا۔ چین میں جو بودھی اساطیری کہانیاں گئیں وہ ہندوستان کے مختلف علاقوں کی کہانیوں سے بھی گہرا تعلّق رکھتی تھیں۔ جنموں کے سلسلے کا جو عقیدہ ہندوستان کے برہمنوں کا تھا وہ ’بدھ ازم‘ میں شامل ہو گیا۔ ایک جنم کے بعد دوسرا اور دوسرے کے بعد تیسرا۔۔۔ یہ سلسلہ ختم نہیں ہوتا۔
امیتابھ بدھ ازم کا مرکزی ’بودھی ستو‘ (Bodhi Sathva) ہے کہ جسے گیان ملا اور جس نے ’نروان‘ پانے کی خواہش کو روکے رکھا۔ اس بودھی ستو کا جنم ’کنول‘ کے پھول سے ہوا تھا۔ امیتابھ کے دل میں لوگوں کی خدمت کا جذبہ تھا اس لیے اس نے ’نروان‘ حاصل کرنا ضروری نہیں سمجھا۔ چین میں بدھ ازم کی بے پناہ مقبولیت کا اندازہ اس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ تاؤ عبادت گا ہوں میں ’بدھ دیوتاؤں ‘ اور ’بودھی ستواؤں ‘ کی عبادت ہونے لگی تھی اور بدھ خانقاہوں میں ’تاؤ‘ دیوتاؤں کو پوجا جانے لگا تھا۔ ’مہایانا بدھ ازم‘ (Mahayana Bodhism) چین میں جیسے جیسے مقبول ہوتی گئی اساطیری قصوں کہانیوں کا اسی رفتار سے ارتقا ہوتا رہا۔ مہایانا بدھ ازم نے اساطیری کہانیوں کے ارتقا میں بڑا حصّہ لیا ہے۔ معروف بدھ راہب زینگ (Xuan Zang) بدھ دستاویزات کی تلاش میں ہندوستان آئے۔ کہا جاتا ہے جہاں وہ بہت سے قیمتی بدھ دستاویزات چین لے گئے وہاں بہت سے اساطیری قصّے کہانیاں بھی لے گئے جو چین میں بہت مقبول ہوئیں۔ یہ بات بھی دلچسپ ہے کہ زانگ (Xuan Zang) کا یہ سفر بھی ایک 5 بن گیا اور ایک اساطیری کہانی وجود میں آ گئی۔
کہانی یہ ہے کہ زانگ جب ہندوستان کے لیے روانہ ہونے لگے تو ان کے ساتھ سؤر دیوتا زوح باجی (Zhu Bajie) اور بندردیوتا سن اوکونگ (Sun Wukong) بھی ہو گئے۔ راہ میں بڑی مشکلات پیش آئیں۔ عفریتوں سے واسطہ پڑا، چونکہ یہ تینوں بڑے مخلص تھے اور ایک بڑے نیک مقصد کے لیے روانہ ہوئے تھے اس لیے اُنھیں کامیابی نصیب ہوتی گئی، بہت ہی خطرناک را ہوں اور علاقوں سے گزر کر ہندوستان پہنچے اور دستاویزات حاصل کر نے میں کامیابی حاصل کی۔ ان کے پاس جادو کی ایک چھڑی تھی جو ہر مشکل میں کام آئی۔
چینی بدھوں نے دیوی دیوتاؤں کی ایک بڑی دنیا بنا لی۔ ان میں شانگ دی (Shang Di) ایک بہت ہی اہم دیوتا تھا۔ دوسرا دیوتا دادی (Dongyue Dadi) تھا جو مشرق کے سب سے اونچے پہاڑ پر بیٹھ کر حکومت کرتا تھا، تمام مرے ہوئے انسانوں اور جانوروں کی روحیں اس کے قبضے میں تھیں جو ہر حکم کی تعمیل کرتی تھیں۔ ان ہی روحوں کے سہارے وہ کائنات اور زندگی کے مختلف حصّوں اور شعبوں کی دیکھ بھال کرتا تھا۔
بدھ دیوتاؤں میں جنتوں کے چار بادشاہ جہنم کے چار بادشاہ اور گھر کی نگرانی والے دیوتا بھی اہمیت رکھتے ہیں۔
مشہور ’بودھی ستو‘ ، ’میتریا‘ (Maitreya)بھی ایک اساطیری کردار بن گیا، چین میں میتریا کو می۔ لی (Mi-e) کہتے ہیں، یعنی دوست، حبیب۔ میتریا مستقبل کا بدھ ہے (بدھ سے یہ بات منسوب ہے کہ کہا تھا مستقبل میں ایک اور بدھ پیدا ہو گا جس کا نام ’میتریا‘ ہو گا حبیبِ خداؐ کی طرف اشارہ تو نہ تھا؟)
میتریا ہمیشہ ایک ہنس مکھ’بودھی ستو‘ بنا رہا، وقت کے ساتھ ساتھ اس کی مسکراہٹ ہنسی میں تبدیل ہو گئی، خوشیوں سے دامن بھردینے والا بودھی ستوا کہ جس کی نغمہ ریز ہنسی زندگی کو لازوال نعمتیں عطا کرتی ہے۔ غالباً یہی پیکر ’لافنگ بدّھا‘ بن گیا۔ چین میں ’میتریا‘ کی بھی عبادت ہوتی، عقیدہ یہ بھی تھا کہ اس کی عبادت فرد کو جنت لے جائے گی۔ اس سے وابستہ جانے کتنے اساطیری واقعات اور قصّے موجود ہیں۔
بدھ کہانیوں اور بدھ اساطیری کہانیوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ ہندوستان سے چین تک بدھ کہانیاں بکھری ہوئی ہیں۔ جاتک کہانیوں کو شامل کر لیں تو ان کی تعداد اور زیادہ ہو جاتی ہے۔ بعض اساطیری کہانیاں اس نوعیت کی ہیں۔ ایک بودھی ستوا پچھلے جنم میں بندر تھے جو ایک بڑے دریا کے کنارے ایک غار میں رہتے تھے۔ درختوں پر رہتے، نیچے کم ہی اُترتے اس لیے کہ دریا میں ایک بڑا خونخوار قسم کا گھڑیال رہتا تھا کہ جس کی نظر ہر وقت اُن پر رہتی تھی۔ دشمن گھڑیال کو جب بھی دیکھتے اُچھل کر کسی اور پیڑپر چڑھ جاتے۔ ایک بار اُنھیں دریا کے اُس پار جانا تھا، سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کس طرح جائیں۔ گھڑیال ان کے دل کا حال جان گیا بولا ’’آ جاؤ تمھیں پار پہنچادوں گا۔‘‘ بندر کی صورت بودھی ستو کو یقین سا آ گیا کہ خطرناک گھڑیال ایماندار ہے وہ ضرور دریا کے پار پہنچادے گا۔ بولے ’’آ رہا ہوں‘‘ اور وہ درخت سے نیچے آ گئے۔ گھڑیال کی بات پر یقین کر کے اس پر چڑھ گئے۔ گھڑیال نے اُنھیں دریا پار پہنچا دیا۔ کہنے لگے۔ آپ سچے ّ ہوں تو جگ بھیسچا ہو جاتا ہے۔
دو ’بودھی ستو‘ ، امیتابھ اور ’میتریا‘ نور کے بنے ہوئے ہیں، امیتابھ کے معنی ہی نور کے ہیں روشنی تیز روشنی، جاپان میں امیتابھ کو ’اَمیدا‘ (Amida) کہتے ہیں، ’اَمیدا‘ کا کارنامہ یہ ہے کہ اس نے ایک خوبصورت زمین کی تخلیق میں سب کے ساتھ حصّہ لیا۔ ایسی سرزمین کہ جہاں بچے ّ پیدا ہوں، لوگ جوانی کی لذتیں حاصل کریں۔ زمین ایک جنت بن جائے جہاں بد روحوں کا گزر نہ ہو۔ ’میتریا‘ بھی نور کے بنے ہوئے ہیں، کوئی تاریخی شخصیت نہیں ہیں، بدھ کے بعد جنم لیں گے، بدھ عقائد سے باہر بھی جنم لے سکتے ہیں۔
ان کے علاوہ آوالوک ٹیشورا(Awaokiteshvara) اور دوسرے بودھی ستوا بھی ہیں ان سب کی کہانیاں زندگی کے رموز سمجھاتی ہیں۔
گوان ین (Guan Yin) دیوی ہیں، ایک مہربان دیوی جو سب پر اپنی رحمت کا سایہ ڈالے رہتی ہیں۔ مندروں اور خانقاہوں میں ان کے مجسّمے موجود ہیں۔ ’تاؤ اِزم‘ نے بھی انھیں قبول کیا ہے۔ چینی اساطیر میں ان کی کہانیاں بھی مقبول ہیں۔
تمام چینی اور بدھ اساطیری پیکروں کی حیثیت استعاراتی اور علامتی ہے، کردار سرگوشی کرتے ہیں اور زندگی کے رموز سمجھاتے ہیں۔ بنیادی مقصد جاگرتی اور باطنی سطح پر بیداری پیدا کرنا ہے۔
مندرجہ ذیل علامتیں اساطیری کہانیوں میں استعمال ہوتی رہی ہیں:
چھتری، سائبان سونے کی مچھلی
’خزانوں ‘ سے بھرا مرتبان کنول
سنکھ کبھی نہ کھلنے والی گرہ
فتح کا علم۔۔۔ اور : دھمّا چکر، (Wheel)
ہمیں اس بات کا علم ہے کہ ابتدا میں بدھ کے نقش اُبھارے نہیں جاتے تھے، بدھ آرٹ کے ابتدائی دَور میں بدھ کے پیکر نہیں ہوتے تھے۔ عبادت کر نے والوں کے سامنے خالی تخت یا جگہ ہوتی تھی۔ امراوتی کے استوپ پر جو نقش ہے اس سے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے۔ ہندو آرٹ کا اثر ہوا تو پہلے یا کشی اور یا کشتی انسانی صورت میں نظر آئے۔ اس کے بعد بودھی ستوا اور پھر بدھ! دوسری صدی عیسوی کے بعد ہی بدھ انسانی صورت میں نظر آئے۔ قندھار میں بدھ کی جو شبیہ بنی وہ یونانی شہزادوں جیسی تھی، متھرا میں بدھ کا جو پیکر بنا وہ بہت مقبول ہوا اور آج بھی وہ پیکر ہر دلعزیز ہے۔ بدھ ایک بزرگ درویش کی طرح نظر آئے، ان کی درویشی ہی کو لوگوں نے عزیز جانا اور عزیز رکھا۔ بودھی درخت کو بڑی اہمیت حاصل ہوئی، ’کنول‘ کا پھول پانی سے اوپر آتا ہے درخت بھی اُسی طرح آہستہ آہستہ بڑا ہوتا ہے۔ باطن کی اُٹھان اور رُوحانی بلندی کی یہ دونوں بڑی اہم علامتیں ہیں۔ (رِگ وید میں اگنی کا جنم کنول سے ہوتا ہے ) دھمّا (Dhamma) تعلیم ہے، علم ہے، ذہنی روحانی تربیت ہے، بدھ ایک معلّم ہیں چکر، پہیہ (Whec) علم کی روشنی کا لے جانا ہے، ہر طرف ہر جانب بدھ اساطیری کہانیوں میں علم کی روشنی بھی ہے، ’bسی‘ کا جلال و جمال بھی ہے اور بالیدہ رومانی جمالیاتی ذہن کی زرخیزی بھی۔
ایک اساطیری کہانی سن لیجیے:
ایک خانقاہ میں دو راہب رہتے تھے، گہری دوستی تھی دونوں میں، کئی برسوں کے ساتھی تھے کہ اچانک دونوں ایک کے بعد ایک چل بسے۔
ایک راہب کا جنم جنت میں ہوا اور دوسرے کا جنم ایک کیڑے کی صورت گوبر کے ڈھیر میں ہوا۔
جنت کا راہب خوش تھا ہر لمحہ خوبصورت تھا اس کے لیے جنت کی نعمتوں اور ان کیlلذتوں میں گم تھا کہ اچانک اسے اپنے دوست راہب کی یاد آئی، وہ تو مجھ سے پہلے ہی چل بسا تھا، یہاں جنت میں اسے دیکھا ہی نہیں۔ جنت کا چپّہ چپّہ چھان مارا اس کا دوست نظر نہیں آیا۔ جنت کے اس گوشے میں آیا کہ جہاں انسانوں کی روحیں آباد تھیں دوست نہیں ملا، پھر اس گوشے میں گیا کہ جہاں جانوروں کی روحیں تھیں وہاں بھی وہ نظر نہ آیا۔ اچانک اس کی نظر گوبر کے ڈھیر پر پڑی جہاں اس کا دوست ایک کیڑے کی طرح کلبلا رہا تھا۔ سوچا اپنے دوست کی مدد ضروری ہے لہٰذا وہ گوبر کے ڈھیر کے پاس آیا، کیڑے نے دریافت کیا تم کون ہو؟ اُس نے جواب دیا تمھارا دوست پچھلے جنم میں ہم دونوں ایک ساتھ خانقاہ میں رہتے تھے۔ میں تمھیں لینے آیا ہوں تاکہ تم بھی میری طرح جنت میں رہو جہاں زندگی رسوں سے بھری ہوئی ہے۔ کیڑے نے جواب دیا ’’شکریہ، میں نہیں جانے والا، میں گوبر کے اسی ڈھیر میں خوش ہوں۔ تم واپس چلے جاؤ جہاں سے آئے ہو۔‘‘ جنت والے راہب نے کیڑے کو دبوچا اور جنت کی جانب روانہ ہو گیا، لیکن راستے بھر کیڑا جدوجہد کرتا رہا، اپنے دوست کی گرفت سے آزاد ہونے کی خواہش اسے بے چین کرتی رہی، اور آخر کیڑا راہب کی گرفت سے چھوٹ گیا اور گوبر کے اسی ڈھیر میں گم ہو گیا!!
ہندوستانی اساطیر اور اس کی پھیلی ہوئی تہہ دار جمالیات میں ’سمندر منتھن‘ تخلیق کا کلاسیکی امیج ہے کہ جس کی مثال اساطیر کی دنیا میں اور کہیں نہیں ملتی۔
ابتدا میں ہر طرف انتشار تھا۔
زبردست انتشار۔
انتشار سے پر اس سے پہلے سمندر کا منتھن ضروری ہے تاکہ زندگی اور اس کے جلوؤں کا ظہور ہو، منتھن سے ’امرت‘ نکلے، اس امرت کو پی کر زندگی ہمیشہ قائم رہے، انسان امر ہو جائے اس کی زندگی امر ہو جائے۔ دیوتا امر ہو جائیں سب امر ہو جائیں۔ منتھن ایک انتہائی خوبصورت زندگی کی تخلیق اور اس کے ارتقا کے لیے ہے، ہمیشہ رہنے والی زندگی کے لیے ہے۔
عفریتوں اور بھوت پریتوں کی بھی تمنّا ہے کہ ’منتھن‘ کے بعد جو ’امرت‘ نکلے اس میں اُن کا بھی حصہ ہو۔
لہٰذا تمام دیوتا اور تمام عفریت اور بھوت پریت مل کر ’پہلے سمندر‘ کا منتھن کرتے ہیں۔ ’پہلے سمندر کے پانی‘ ہی سے اکسیرِ حیات (Elixirs of Life)کے مختلف اقسام کا جنم ہوتا ہے۔ نمک، دودھ، مکھن، گنے ّ کارس، شراب، سوم رس/ امرت جو زہر نکلتا ہے اسے دیکھ کر سب پریشان ہو جاتے ہیں، زہر کون پئے گا؟ شیو زہر پیتے ہیں، زندگی کے سمندر کا سارا زہر، انسان کے لیے اس کی زندگی اور اس کے مستقبل اور اس کے جنم جنم کی مسرتوں اور خوشیوں کے لیے، زہر پینے سے اُن کا حلق نیلا ہو جاتا ہے اسی لیے وہ ’نیل کنٹھ‘ کہے جاتے ہیں۔ منتھن کرتے ہوئے دیوتاؤں اور عفریتوں اور بھوت پریتوں کے درمیان اختلاف ہو جاتا ہے، عفریت اکسیرِ حیات پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں، زہر میں حصّہ داری پسند نہیں کرتے، ’برہما‘ فیصلہ تو کرتے ہیں لیکن دیوتاؤں اور عفریتوں کے درمیان شدید اختلاف موجود رہتا ہے۔ ابتدا سے جو اختلاف رہا وہ موجود رہا اور ہمیشہ موجود رہے گا۔
یہ معنی خیز اساطیری کہانی ’پہلے ‘ سمندر کی سطح پر ایک ڈراما اسٹیج کرتی ہے جس کی تہہ دار معنویت اپنے حسن سے متاثر کرتی ہے۔ تخلیقی عمل میں تاریکی اور روشنی، خوبصورتی اور بدصورتی اور اچھے اور برے کی شناخت علیحدہ ہوتی ہے۔ یہ دراصل آئندہ زندگی کے ارتقا میں قدروں کی پہچان ہے۔ دو پہاڑ ہیں ایک سیاہ ہے اور دوسرا صاف ستھرا، دو ناگ ہیں ایک بھلا دوسرا ڈسنے والا، بارش دو بار ہوتی ہے، ایک سے رونق آتی ہے دوسری بارش سے تباہی ہوتی ہے۔ دیکھئے انسان کا تخیل کہاں پہنچا ہے اور کیسی ’bسی‘ پیدا ہوئی ہے۔ منتھن کرتے ہوئے جہاں رقص اور آنے والی زندگی کے رقص کا خوبصورت تاثر ملتا رہتا ہے وہاں ’پتھوس‘ (Pathos) کی دبی دبی سی لہروں کا بھی احساس ملتا رہتا ہے۔ اس اساطیری کہانی میں فکشن ’bسی‘ بن جاتا ہے اور ’bسی‘ اپنے جلال و جمال کو لیے فکشن!
سمندر منتھن کی یہ کہانی مختلف عہد میں مختلف انداز سے پیش کی گئی ہے۔ ’وایوپران‘ (Vayu Puana) (350 A.D.) میں یہ اساطیری کہانی اس طرح درج ہے:
’’جانے کتنا وقت گزر گیا، ’ست یگ‘ (Sata Yuga) کا زمانہ تھا، وشِسٹھ رشی شیو اور پاروتی کے بیٹے کارتک کے پاس آئے، ان کی عبادت کی، پھر کہا آپ مجھے یہ بتائیں گے کہ شیو کا کنٹھ نیلا کیوں ہو گیا؟‘‘
کارتک نے جواب دیا ’’مجھے مکمل جانکاری نہیں ہے البتہ اپنی ماں پاروتی کی گود میں بیٹھ کر جو سنا ہے آپ کو بتائے دیتا ہوں، آگے بولے ’ایک بار میری ماں پاروتی نے شیو جی سے دریافت کیا آپ کا کنٹھ نیلا کیوں ہو گیا؟‘‘ شیو جی نے کہا تمام دیوتا اور بھوت پریت سمندر کا منتھن کر رہے تھے تاکہ انھیں زندگی کا وہ امرت مل جائے جس سے اُن کی زندگی لافانی بن جائے۔ ابھی منتھن شروع ہی ہوا تھا کہ سمندر سے وہ زہر نکل آیا کہ جس سے سب ختم ہو جاتے، کائنات گم ہو جاتی۔ سب برہما کے پاس پہنچے کہا ’’منتھن کرتے ہوئے جو زہر نکلا ہے اس سے سب کچھ تباہ ہو جائے گا، کائنات ختم ہو جائے گی۔‘‘ اس زہر کا نام ’کالا کوتا‘ (Kalakuta) تھا۔ برہما نے کہا حفاظت کی بس ایک ہی صورت ہے شیو کو یاد کرو، وہی تحفظ کر سکتے ہیں۔ سب نے شیو کی عبادت کی، شیو نے وہ زہر پی لیا اور زندگی بچ گئی، تب سے شیو کا کنٹھ نیلا ہے، تب ہی سے اُنھیں ’نیل کنٹھ‘ کہا جاتا ہے۔ ۱ ہے ا
یہی کہانی ’براہ منڈا پران‘ (Brahmanda Puran) (350-95A.D) میں ملتی ہے۔ ’مہابھارت‘ (300B.C.-A.D.300) میں یہ اساطیری کہانی زیادہ مفصل اور چمکدار اور روشن ہے۔ ایک چمکتا ہوا خوبصورت پہاڑ ہے کہ جس کا نام ’میرو‘ (Meru) ہے۔ اس کی بے پناہ تو انائی سے اس کی چوٹیاں سونے کی مانند چمک رہی ہیں۔ سورج کی روشنی بھی اس کے سامنے ماند ہے۔ یہاں دیوتا اور گندھروا سب آتے ہیں۔ اور ماحول کی خوبصورتی سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ جنگلی جانور اس پہاڑ کی حفاظت کرتے رہتے ہیں۔ ہر جانب جاذبِ نظر جھر نے اور درخت ہیں، پرندوں کے نغمے گونجتے رہتے ہیں، سحر انگیز ماحول میں دیوتا جس چیز کی خواہش کا اظہار کرتے ہیں وہ چیز سامنے آ جاتی ہے۔ ایک روز دیوتاؤں کا موضوع وہ ’امرت‘ بن گیا کہ جو سمندر کے اندر ہے اور منتھن کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتا۔ نارائن دیوتا نے برہما سے کہا کیا اچھا ہو جب دیوتا اور بھوت پریت تمام عفریت پہلے سمندر کا منتھن کریں اور ’امرت‘ حاصل کر لیں۔ اس امرت کو پی لینے کے بعد سب ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ ایک خوبصورت پہاڑی ہے ’مندارا‘ (Mandara) اس کے حسن کی کوئی مثال نہیں ہے۔ فیصلہ یہ ہوا کہ سمندر منتھن کے لیے اسی پہاڑ کو اُکھاڑا جائے اور اسے استعمال کیا جائے۔ دیوتاؤں اور عفریتوں نے بڑی کوشش کی پہاڑ ٹس سے مس نہ ہوا، سب تھک ہار گئے تو برہما نے ’اننت ناگ‘ (سانپ) کو حکم دیا کہ وہ اس پہاڑ کو اُکھاڑے تاکہ اس کی مدد سے پہلے سمندر کا منتھن ہو سکے۔ اننت ناگ نے اس مضبوط پہاڑ کو اُکھاڑ دیا جو دیوتاؤں اور عفریتوں کے لیے بہت بڑا سہارا بن گیا۔ دیوتا اور عفریت سمندر کے پاس آئے مقصد بتایا تو سمندر کے دیوتا نے کہا منتھن ضرور کیجیے، لیکن امرت میں میرا حصہ بھی ہونا چاہیے۔ کچھوے کے راجا کی پیٹھ پر پہاڑ کا بوجھ رکھا گیا، اِندر دیوتا نے پہاڑ کے ایک حصّے کو اپنے اوپر رکھ لیا اسے اچھی طرح باندھ لیا۔ مندارا پہاڑ منتھن کر نے کا ڈنڈا بن گیا، ’واسوکی سانپ‘ (Vasuki) رسّی بن گیا۔۔۔ اور منتھن شروع ہو گیا۔ ’امرت‘ کی تلاش شروع ہو گئی۔
کہانی میں منتھن کے پورے عمل کو دکھایا گیا ہے۔ کون کیا کر رہا ہے، کس نے سانپ کی دُم پکڑ رکھی ہے کس نے سانپ کو زور سے گھمایا ہے۔ ’واسوکی‘ کے منہ سے جو آگ نکلتی ہے اور اس کے ساتھ جو دھواں پھیلتا ہے اس کا ردِّ عمل کیا ہوتا ہے۔ کس طرح بادل آ جاتے ہیں، کس طرح بجلیاں چمکتی ہیں اور کس انداز سے بارش ہوتی ہے۔ کس طرح پہاڑ کے پھول پودوں سے ماحول خوبصورت بنا ہوا ہے، کس طرح پھول دیوتاؤں کے اوپر برس رہے ہیں۔ دیوتاؤں اور عفریتوں پر پھولوں کی بارش کس طرح ہو رہی ہے، مندارا کے پہاڑ کو سمندر میں کس طرح گھمایا جا رہا ہے۔
صاف پانی آتا ہے پھر نمک پھر دودھ، اس کے بعد مکھن، پھر گنے ّ کا رس، شراب، زہر امرت، سوم۔
عجیب ’bسی‘ ہے، انسانی تخیل کی پرواز اپنی مثال آپ ہے۔ زندگی اور خوبصورت زندگی کے لیے بڑا معنی خیز رقص ہو رہا ہے جیسے!
شیو زہر پی جاتے ہیں، حلق ہمیشہ کے لیے نیلا ہو جاتا ہے!
امرت کے نکلتے ہی عفریت چیخ پڑتے ہیں ’’اس پر صرف ہمارا حق ہے۔‘‘
نارائن دیوتا موہنی کا رُوپ اختیار کر لیتے ہیں اور عفریتوں کے سامنے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ ایک خوبصورت عورت کو دیکھ کر سب دیوانے ہو جاتے ہیں۔
دیوتا امرت پی لیتے ہیں۔
’امرت‘ کی چوری کی ایک کہانی بھی موجود ہے۔
مشہور شاعر ایٹس (Yeats) بھی اس کہانی سے متاثر ہوا تھا۔
کائنات کی تخلیق کے تعلق سے ’برہمانڈ‘ کا ذکر پچھلے صفحات میں آ چکا ہے۔ ’کرما پران‘ (Kurma Puran) (550-850 A.D.)، ’برہما پران‘ (Brahama Puran) (950-1350 A.D.)، ’برمّاویوارت پران‘ (Brammavaivarta Puran) (750-1550 A.D)، ’وراہا پران‘ (Varaha Puran) (750 A.D) اور ’مارکنڈیہ پران‘ (Markandeya Puran) (250 A.D) میں بھی اس کا ذکر ہے۔ بیان کر نے کا انداز مختلف ہے لیکن قصہ وہی ہے۔
’کرما پران‘ میں تخلیقِ کائنات کی کہانی اس طرح پیش ہوئی ہے:
ابتدا میں ’برہما‘ ہی تھا، ہر جانب وہی تھا۔
اس کی کوئی صورت نہیں تھی۔
اس کی کوئی ابتدا تھی اور نہ انتہا، نہ اختتام۔
اس سے پہلے کہ تخلیق کا سلسلہ شروع ہو،
برہما نے ساری کائنات میں پانی پیدا کیا، ہر طرف پانی اور صرف پانی
اس سے پہلے کچھ بھی نہ تھا۔
اسی پانی میں سونے کا ایک انڈا ظہور پذیر ہوا۔
سونے کا یہ انڈا آہستہ آہستہ بڑھتا گیا۔
’برہما‘ اس کے اندر تھے۔
اور وہ ساری چیزیں، تمام اشیا و عناصر، کائنات کی ہر شے اس کے اندر تھی، اسی کے اندر تھے تمام دیوتا، تمام بھوت پریت، عفریت، تمام انسان، سورج، چاند، ستارے تمام سیّارے۔
ہر جانب کی ہوائیں۔
’برہما‘ کو ہیرنیا گربھ‘ (Hiranya Garbha) بھی کہتے ہیں اس لیے کہ ان ہی کے پیٹ (گربھ) سے ہر شے وجود میں آئی۔
’برہما‘ کی چار صورتیں تھیں۔
اُنھیں ’آج‘ (Aja) کہتے ہیں یعنی جنم کے بغیر۔
چونکہ خود کو خلق کیا اس لیے وہ ’ بھو‘ (Bhuva) بھی کہے گئے یعنی ’سوئم بھو‘ خود جنم لیا۔
یہی وجہ ہے انھیں ’سوائم بھو‘ بھی کہتے ہیں، وہ سب کے (پرجا) کے پتی ہیں۔ اُن کو ’پرجاپتی‘ اسی لیے تو کہتے ہیں۔
تخلیق کا سلسلہ شروع ہو گیا۔
’برہما‘ نے اپنے وجود کی تو انائی اور شکتی سے پانچ بیٹوں کو پیدا کیا وہ پانچوں رشی بن گئے۔
پھر افراد کو جنم دینا شروع کیا۔۔۔ اور آبادی بڑھتی گئی۔
برہما نے شیو سے کہا ’’اب تم تخلیق کا سلسلہ شروع کرو۔‘‘
شیو نے اپنی ہی شکل کے چھوٹے چھوٹے دیوتا پیدا کرنا شروع کر دیا۔
برہما نے کہا ’’یہ تم کیا کر رہے ہو، دیوتا نہیں چاہیے انسان چاہیے انسان جو دُکھ اور اذیت اُٹھاتا ہے اور پھر مر جاتا ہے۔
شیو نے معذرت کرتے ہوئے کہا ’’بیماری اور موت دونوں مجھے ناپسند ہیں لہٰذا میں ایسے انسان پیدا کرنا نہیں چاہتا جو ضعیف ہو جائیں اور مر جائیں اور پھر برہما نے تخلیق کا عمل شروع کیا، پانی، آگ، آسمان، جنت، ہَوا، دریا، پہاڑ، سمندر، درخت، جڑی بوٹی سب پیدا ہوئے اور آخر میں ’وقت‘ کا جنم ہوا۔
اس کے بعد دیوتا، عفریت اور انسان کی تخلیق کی۔ عفریت کی پیدائش برہما کی جانگھ سے ہوئی، دیوتا منہ سے پیدا ہوئے، اس کے بعد ناگ سانپ (سرپا) یا کشا (چھوٹے دیوتا) بھوت پریت (بھوت) اور گندھروا آئے۔ گائے، گھوڑے، ہاتھی، ّخچر، ہرن، اونٹ اور دوا علاج کے لیے جڑی بوٹیاں۔۔۔ سب نے جنم لیا۔ ۱
ویدوں میں جو اس بات کا ذکر ہے کہ ’پرش‘ (انسان) کے ایک ہزار سر تھے، ایک ہزار آنکھیں اور ایک ہزار پیر، اس سے غالباً یہ بتانا مقصود تھا کہ بہت سے انسان پیدا ہوئے۔ ’برہما پران‘ میں یہ کہا گیا ہے کہ شروع میں ہر طرف صرف پانی ہی پانی تھا، برہما وِشنو کی صورت پانی پر لیٹے ہوئے تھے، (نارا = پانی۔ ئن = بستر) وِشنو کو نارائن کہا جاتا ہے۔ برہما نے ایک ’پرش‘ اور ایک ’ناری‘ کو جنم دیا، ’پرش‘ مانو (Manu) تھا اس لیے آنے والی نسلیں ’مانوا‘ (Manava) کہی گئیں۔ ’برہما پران‘ میں تخلیق کے سلسلے کی ایک بڑی لمبی کہانی ہے۔ دور تک یہ قصّہ ختم ہونے کو دِکھائی نہیں دیتا۔
وِشنو (Vishnu) ہندوستانی اساطیر اور اس کی رومانیت اور جمالیات کا ایک بہت ہی اہم معنی خیز استعارہ ہیں۔ وہ اننت (ایسا سانپ کہ جن کا انت نہ ہو) پر سمندر کے اوپر سوئے ہوئے ملتے ہیں۔ اچانک ان کی ناف کے اوپر ایک بہت بڑا کنول کا پھول کھلتا ہے، اس میں ایسی روشنی ہے کہ سورج کو بھی شرمندہ کر دے۔ ’کرما پران‘ کے مطابق کنول کی خوشبو ہر جانب پھیلی لیکن وِشنو اسی طرح سوئے رہے۔ کنول کے اندر برہما تھے، (پدم= کنول/ یونی = پیدائش کا مقام- یہی وجہ ہے کہ برہما کو ’پدم یونی‘ کہتے ہیں ) برہما نے وِشنو کو جگایا پوچھا ’’تم کون ہو؟‘‘ ’’وِشنو، میں وِشنو ہوں۔‘‘ جواب ملا۔ ’’ہر شے کی ابتدا مجھ سے ہوئی ہے۔ لیکن تم کون ہو؟‘‘ وِشنو نے دریافت کیا۔ ’’میں برہما ہوں، خالقِ کائنات۔ کائنات کی ہر چیز میرے وجود کے اندر ہے۔ جو بھی شئے جنم لے گی وہ میرے اندر موجود ہے۔‘‘ ۔۔ ’’کیا واقعی؟‘‘ وِشنو نے حیرت سے دریافت کیا ’’میں دیکھنا چا ہوں گا‘‘ اور اس کے بعد وِشنو برہما کے اندر داخل ہو گئے، وہاں تین دنیاؤں کی سیر کی، وہاں دیوتا تھے، بھوت تھے، انسان تھے۔ وِشنو یہ سب دیکھ کر برہما کے منہ سے باہر آ گئے، اُنھیں سخت حیرت ہوئی یہ سب دیکھ کر۔
’’بلاشبہ جو دیکھا حیرت انگیز ہے‘‘ وِشنو نے کہا۔ ’’لیکن میں بھی تمھیں اپنے اندر بہت کچھ دکھانا چاہتا ہوں۔ تم میرے اندر آ جاؤ۔‘‘ برہما وِشنو کے جسم میں داخل ہو گئے۔ اتنی بڑی دنیا، تین دنیاؤں کی ایک دنیا، برہما اندر کی دنیا کی وسعت کا اندازہ نہیں کر سکے۔ چلے تو گئے اندر لیکن نکلنے کی کوئی راہ نظر نہیں آئی۔ بڑی مشکل سے وِشنو کی ناف سے نکلے، کنول کے اتنے بڑے پھول کے اندر بیٹھے ہوئے!!
وِشنو کا ’آرچ ٹائپ‘ (کن معنی خیز رشتے کا احساس دیتا ہے۔ خواب اور ’bسی‘ کے حسن و جمال کے درمیان اُبھرتا ہوا یہ حسی پیکر لاشعور کی گہرائیوں (Depths) کا احساس بخشتا ہے۔ ’آرچ ٹائپس‘ کے پیشِ نظر نفسی کلیت (Psycho Totality) کا جب بھی مطالعہ ہو گا وِشنو کا آرچ ٹائپ ’سائیکی‘ کی کیفیتوں اور اپنے جمالیاتی مظاہر کو لیے توجہ کا مرکز بنے گا۔ ’وِشنو پران‘ کی تدوین کے وقت تک وِشنو کے تعلّق سے جانے کتنی کہانیاں وجود میں آ چکی تھیں۔ اس پران میں مختلف قسم کی کئی کہانیاں موجود ہیں کہ جس طرح دوسرے پرانوں میں بعض دوسرے دیوتاؤں کی کہانیاں ہیں، کہانی سے کہانی پیدا ہوتی گئی ہے۔
’وِشنو‘ لاشعور کی وادی کی بڑی خوبصورت اور معنی خیز علامت ہیں، تخلیق سے قبل کی پراسرار خاموشی وِشنو کے پیکر میں ڈھل گئی ہے۔ وہ اکثر اپنی ذات میں ڈوبے ہوئے نظر آتے ہیں، اپنے باطن کی گہرائیوں میں اُترے ہوئے۔۔۔ لاشعور اور ’سائیکی‘ کی گہرائی کا اندازہ ہوتا ہے۔ سمندر، لاشعور کی پُر اسرار گہرا ئیوں کا علامیہ ہے جو وِشنو کا مسکن ہے۔
زندگی کی بڑی نعمتوں کا شعور ان ہی سے حاصل ہوتا ہے، تاریک ’سائیکی‘ پر قیمتی روشن ذرّات کو پانے کا ذریعہ وہی ہیں۔ یہ ’آرچ ٹائپ‘ زندگی کے معجزوں کا سرچشمہ بنا متاثر کرتا رہتا ہے۔ پانی یا سمندر ایک انتہائی پُر اسرار اور حد درجہ دلچسپ اور اَنگنت جہتوں والا ’آرچ ٹائپ‘ ہے، وِشنو کا پیکر اس کا ایسا علامیہ ہے کہ شعور اور لاشعور دونوں کے عمل اور ردِّ عمل کی پہچان ہونے لگتی ہے۔ یہ ’آرچ ٹائپ‘ تخلیقی عمل کی پُر اسرار کیفیتوں کو بھی سمجھاتا ہے اور زندگی کے جلال و جمال سے آشنا کرتا رہتا ہے۔
وِشنو نسلی شعور (Collective Consciousness) کے بے پناہ بہاؤ کو پیش کرتے ہیں۔ ایک تمثیل کے مطابق جب کائنات تباہ ہو رہی تھی فنائے کامل کی منزل پر تھی تو تمام مادّی عناصر ایک اور صرف ایک سمندر میں جذب ہو گئے تھے اور وہاں اننت ناگ کے اوپر وِشنو لیٹے ہوئے تھے، وِشنو ہی سمندر تھے اس لیے کہ تمام عناصر کے جذب ہو جانے کے بعد پھیلے ہوئے بے پناہ گہرے سمندر کے کچھ اور نہ تھا، کسی شے کی انفرادیت نہیں تھی، شعور ہی گم ہو چکا تھا، سمندر خود میں ڈوبا ہوا تھا۔۔۔ غرق تھا، دو lپریت یا آسیب آئے جنھوں نے وِشنو سے لڑنا lچاہا، وہ اسی طرح لیٹے رہے گم سُم، جب ان دونوں نے وِشنو کو للکارا تو اُنھوں نے لفظوں کی ایک خوبصورت دُنیا خلق کر دی، وہ اپنی اسی کیفیت میں ڈوبے رہے، الفاظ سمندر کی لہروں کی مانند ان دونوں سے ٹکراتے رہے، داخلی کلام کا ایک سلسلہ تھا جو جاری تھا۔ ہر لفظ طاقتور تھا، تو انائی سے بھرپور یہ الفاظ غیر معمولی انرجی کے مالک تھے، پُر وقار ذہنی، تعلقی اور صوتی عمل سے دونوں کی شکست ہوئی لیکن ہمہ گیر لاشعور کے اس تحرک سے زمین کا بوجھ بڑھ گیا، لفظوں کی تو انائی یا انرجی میں احساس اور جذبے کی شعاعیں جذب تھیں، لفظوں کے آہنگ کا حسن غیر معمولی نوعیت کا تھا، الفاظ اور آہنگ گہرائیوں کی نعمتیں ہیں۔ بے پناہ تجربوں کی گہرائیوں کا علامیہ، باطن اور پھیلے ہوئے لاشعور کی طاقتوں کا مظہر! شعور یہ سمجھتا ہے کہ بلندیوں کا شعور حاصل ہونا چاہیے۔ تمام رحمتیں بلندیوں سے حاصل ہوتی ہیں اس کے برعکس لاشعور (وِشنو) اس سچائی کو واضح کرتا ہے کہ تمام عظمتوں اور تمام رحمتوں کا سرچشمہ نیچے ہے باطن میں ہے۔
’پانی‘ مادّہ کی سیّال صورت ہے جسے چھوا جا سکتا ہے محسوس کیا جا سکتا ہے، اس سے بہتے ہوئے لہو کا تصوّر وابستہ ہے، یونگ نے کہا ہے کہ یہ لاشعور کی علامت ہے اور لاشعور وہ ’سائیکی‘ ہے جو نیچے کی طرف جاتی ہے، گہرائیوں میں۔۔۔ اور زندگی کے توازن کو برقرار رکھتی ہے۔ وِشنو زندگی کے توازن کو اس کے تمام حسن و جمال کے ساتھ قائم رکھتے ہیں، یہاں ذات یا خودی علیحدہ ہو جاتی ہے اور پراسرار سطحیں ظاہر ہونے لگتی ہیں جن سے داخلی زندگی کا علم حاصل ہوتا رہتا ہے اور اس طرح ذہنی عمل اعلیٰ سطح پر پہنچ جاتا ہے۔
وِشنو کے تعلق سے ایک بڑی خوبصورت تمثیل ہے جس میں اس ’آرچ ٹائپ‘ کی جمالیاتی جہات نمایاں ہوتی ہیں۔ وِشنو کے سامنے کسی ملکوتی ساحرہ کا ایک ہاتھ آگے بڑھا وہ چونک پڑے۔ یہ اُن کے جمالیاتی تخیل کا حیرت انگیز پیکر تھا۔ فوراً ہی اُنھوں نے آم کے میٹھے لذیذ رس سے اپنی جانگھ پر ایک دو شیزہ کی تصویر بنائی۔ اس تصویر میں ان کے تخیل کا رس ایسا تھا کہ وہ ایک حسین ترین دوشیزہ کی صورت سامنے کھڑی ہو گئی۔ اُنھوں نے اُسے ’ارویشی‘ کہا، ارویشی کے معنی ہیں جو جانگھ میں رچی بسی ہو اور اسی سے مصوّری کے فن نے جنم لیا۔ وِشنو کا آرچ ٹائپ مصوّری کی لکیروں، رنگوں اور مصوّری کے آہنگ سے آشنا کرتا ہے۔ عورت کا جمال، اس کا وجود، آم کے میٹھے رسوں سے بھرا بھرا۔۔۔ جمالیاتی انبساط اور لذتیت سے آشنا کرتا ہے۔ یہ ’آرچ ٹائپ‘ غیر معمولی جمالیاتی مظاہر لیے ہوئے ہے۔ پہلی تمثیل میں دو پریت یا آسیب اور وِشنو کے لفظوں کی دنیا کے تصادم میں پہلی بار ڈراما کا وجود عمل میں آتا دِکھائی دیتا ہے، یہ ’آرچ ٹائپ‘ ڈراما اور مصوّری اور لفظوں کی تو انائی کے تئیں بیدار کر دیتا ہے۔
پہلی تمثیل میں وِشنو ڈراما کے فن کے پہلے خالق نظر آتے ہیں۔
اور دوسری تمثیل میں مصوّری کے پہلے خالق!
ایک جگہ خود کلامی کا سلسلہ ہے اور اپنے وجود ہی کے پاس دو کرداروں کی تشکیل ہے۔ ایک تمثیل شعور کی رَو شعور کے بہاؤ کی تصویر اُجاگر کرتی ہے اور دوسری اپنے وجود سے متحرّک شے کو باہر نکال کر اُسے ایک جلوہ اور ایک عظیم جمالیاتی مظہر بنانے کے تخلیقی عمل کو سمجھاتی ہے۔ آم کا رس تمام رسوں کا رس ہے، تمام شیریں اور لذیذ مسرّت آفریں احساسات کا علامیہ ہے، رنگوں کے لیے صرف آم کا رَس ہے جو تمام رنگوں، تمام خوشبوؤں اور تمام لذتوں سے عبارت ہے تخیل اور تخلیقی وجدان کی کیفیت کو اسی رس سے سمجھایا گیا ہے۔
وِشنو ایک بڑے خالق کے رُوپ میں اپنی لاشعوری کیفیتوں کے ساتھ جانے کتنی جہتوں کو لیے جلوہ گر ہوئے ہیں۔ لکشمی، سری یا سری لکشمی وِشنو سے ہم آہنگ ہیں، دونوں کو علیحدہ کر کے دیکھا نہیں جا سکتا۔ وِشنو کے جمالیاتی مظاہر میں لکشمی محسوس ہوتی ہے، پانی کے دیوتا کے ساتھ وہ کملا اور پدما بن کر ہے۔ لکشمی وِشنو سے علیحدہ نہیں ہے۔
وِشنو بلاشبہ انتہائی قدیم حسی پیکر ہیں، اس ’آرچ ٹائپ‘ کا دباؤ ہر دَور میں بڑی شدّت سے رہا ہے۔ ’چکر‘ تو انائی یا انرجی کی علامت ہے جو وقت پر قابض ہے۔ ’چکر‘ میں سورج اور کنول دونوں کا جلال و جمال جذب ہے، آسمان اور زندگی کے تمام حسن و جمال کے ساتھ یہ ’آرچ ٹائپ‘ متحرک رہا ہے۔ جمالیاتی مظاہر کا مطالعہ کرتے ہوئے وِشنو کی گہری نیند اور ان کے خواب، سمندر کی تاریک سطح، ناف سے نکلتے ہوئے کنول اور کنول کی خوبصورت پنکھڑیوں، چکر اور چکر سے ایک دنیا کے بعد جلال و جمال کی دوسری دنیاؤں کی تخلیق کا لامتناہی سلسلہ ’مایا‘ کے دلفریب پردے سب پیشِ نظر ہوں تو اس ’آرچ ٹائپ‘ کی قدر و قیمت کا زیادہ اندازہ ہو گا۔
ہندوستانی صنمیات میں تین بڑا سحر انگیز نمبر ہے۔ وِشنو نے اپنے تین پَد (قدم) میں پوری کائنات کا طواف کر لیا اور انسان کو زندگی کے شہد کی مٹھاس سے آشنا کیا، صرف تین پد میں اُنھوں نے آسمان، زمین اور تمام اشیا و عناصر کو دیکھ لیا۔ تمام پہاڑیوں، تمام ندیوں اور تمام ستاروں سیّاروں سے ہو آئے۔ پاؤں کے تین نشان میں وہ شہد بھرا ہوا ہے جو اُنھوں نے پہاڑوں کی بلندی سے انسان کے لیے حاصل کیا ہے۔ وِشنو نے دس اوتاروں میں ڈھل کر زندگی کی سچائیوں کا زبردست احساس دلایا ہے۔ وہ مچھلی کی صورت آئے، کچھوا بنے، سؤربنے، شیر ببر بنے، بونے (Dwarf) کی شکل اختیار کی۔ ہر اوتار کی اپنی دلچسپ کہانی ہے۔ یہاں صرف دو کہانیوں مچھلی اوتار، اور سؤراوتار کا ذکر کر رہا ہوں۔
کہا جاتا ہے منو یا مانو کے سیلاب کی کہانی وِشنو سے وابستہ کہانی سے بہت پرانی ہے، (طوفانِ نوح بھی یاد کیجیے ) ہوا یوں کہ پانی میں ہاتھ ڈالتے ہی مانو کے ہاتھ میں ایک چھوٹی سی مچھلی آ گئی، اس نے کہا میرا خیال رکھو میں تمھیں ایک بہت بڑے عذاب سے بچا لوں گی۔ ’’کون سا عذاب؟‘‘ مانو نے پوچھا۔
مچھلی نے جواب دیا ’سیلاب‘‘ ایک سیلاب آئے گا جو تمام انسانوں، جانوروں اور تمام اشیا و عناصر کو لے کر چلا جائے گا، دنیا تباہ ہو جائے گی، تم میری حفاظت کرو دیکھو کیا ہوتا ہے۔
مانو نے اس چھوٹی سی مچھلی کو ایک برتن میں رکھ دیا، مچھلی تیزی سے بڑی ہوتی گئی، برتن سے بھی بڑی ہو گئی، مانو نے اسے ایک تالاب میں ڈال دیا، مچھلی تالاب میں بھی بڑی ہوتی گئی اتنی بڑی ہو گئی کہ تالاب میں رہنا مشکل ہو گیا۔ پھر مانو نے اسے ایک دریا میں ڈال دیا، وہاں بھی یہی ہوا مچھلی اتنی بڑی ہو گئی کہ تالاب میں رہنا بھی دشوار ہو گیا، پھر مانو نے اسے سمندر میں ڈال دیا۔ وہاں مچھلی کو آرام ملا، وہ سمندر میں پھیل گئی لیکن اسے کوئی تکلیف نہیں ہوئی، اس نے مانو سے کہا تم ایک جہاز تیاّر کرو اس سے پہلے کہ سیلاب کا عذاب آئے تم جہاز بنا کر دنیا کی ایک ایک چیز اور دنیا میں رہنے والے ایک ایک جوڑے کو جہاز میں رکھ دو۔ مانو نے ایسا ہی کیا، جہاز تیاّر کیا اور وہی کیا جو مچھلی نے کہا۔ پھر سیلاب عذاب بن کر آیا، جہاز کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا، مچھلی متحرک تھی اس نے جہاز کو بڑے درختوں میں باندھ دیا اور اس طرح جہاز محفوظ ہو گیا۔ باہر باقی تمام چیزیں ختم ہو گئیں۔ سیلاب کا پانی آہستہ آہستہ اُتر گیا۔ وِشنو نے مچھلی کے اوتار کی صورت میں دنیا کو بچا لیا پھر پوری دنیا میں ایک نئی زندگی شروع ہوئی۔ (ڈبلو. بی. ایٹس اس قصّے سے بہت متاثر ہوا تھا، اس نے اپنی ایک نظم میں اس کا ذکر کیا ہے )
’سؤر اوتار‘ کی کہانی یوں ہے کہ برہما نے اپنے جسم کو دو حصّوں میں تقسیم کیا۔ ایک حصّہ مرد اور دوسرا حصہ عورت، تو آبادی تیزی سے بڑھی۔ رہنے کے لیے جگہ نہ تھی زمیں ہی کا وجود نہیں تھا تو کوئی رہتا کہاں، ہر طرف پانی ہی پانی تھا۔ لوگ وِشنو کے پاس آئے۔
کہنے لگے ہر طرف تو پانی ہی پانی ہے ہم کہاں رہیں؟ تعداد بڑھتی جا رہی ہے اور رہنے کے لیے جگہ نہیں ہے۔ آپ جلد کچھ کیجیے۔ وِشنو نے سؤر کا جنم لیا، جنم لیتے ہی سؤر بڑا ہوتا گیا پھیلتا گیا۔ ہاتھی بن گیا۔ تمام دیوتا کہ جن میں برہما بھی شامل تھے اسے دیکھ کر حیران تھے۔ سؤر آسماں کی جانب لپکا، اس کی آنکھوں میں الوہی روشنی پیدا ہوئی اور پھر وہ سمندر کے اندر چلا گیا۔ پاتال میں پہنچ گیا۔ اور اندر بڑی گہرائیوں سے ’زمین‘ نکال لایا، دھرتی سنبھالے اوپر آیا۔ زمین آ گئی اور لوگ اُس زمین پر بسنے لگے۔ نیچے سے ’زمین‘ لاتے ہوئے وِشنو کو ایک عفریت (دیت) ’ہرن یا کشا‘ (Hiranyaksha) سے لڑنا پڑا، ’ہرن یا کشا‘ قتل ہوا اور وِشنو زمین اُٹھائے سمندر سے باہر نکل آئے۔
جب برہما وِشنو کے وجود کے اندر داخل ہوئے تو وہاں کے حسن و جمال کو دیکھ کر متحر ہو گئے۔ جیسے ساری کائنات کا حسن سمٹ آیا ہو، کون سا جلوہ تھا جو وہاں موجود نہ تھا۔ اسی طرح جب کئی رِشی مُنی وِشنو کے وکنٹھ لوک آئے کہ جہاں وِشنو رہتے تھے تو وہ اُس پہاڑ کے اوپر کا حسن دیکھ کر حیرت زدہ رہ گئے۔ ایسے باغ اُنھوں نے دیکھے نہیں تھے یا یہ کہیے کہ ایسے گلستاں کا رشی منیوں نے کبھی تصوّر بھی نہیں کیا تھا۔ درختوں کی خوبصورتی اور مچھلیوں کی مٹھاس کی خوشبوؤں سے پورا ماحول جیسے نشے میں تھا۔ تالاب کنول کے حسن کو لیے مسکرا رہے تھے، گندھروا اپنے نغموں کا جادو جگا رہے تھے۔ اپسرائیں رقص کر رہی تھیں۔ غور فرمائیے وِشنو کے وجود کے اندر بھی حسن بکھرا ہوا تھا اور وجود کے باہر بھی۔ وِشنو کے ساتھ اساطیر کی رومانیت اور جمالیات اور ’bسی‘ کی ایک بڑی دنیا سامنے آئی ہے۔
’شیوپران‘ (750-1350 A.D.) اور ’ لنگ پُر ان‘ (600-1000 A.D.) کا مطالعہ کیجیے تو شیو کی آمد کا منظر ڈرامائی دِکھائی دے گا۔ ’لنگ پُر ان‘ کے مطابق ایک بار برہما اور وِشنو میں کسی بات پر اختلاف ہوا اور دونوں ’’تو تو میں میں‘‘ میں گرفتار ہو گئے۔ اسی وقت حد درجہ روشن ’ لنگ‘ نمودار ہوا، نمودار ہوتے ہی آسمان کی جانب پرواز کر گیا اور پھر نیچے آ گیا۔ اس کی ابتدا اور اس کے اختتام کا پتہ ہی نہیں چلا، کہاں سے ابتدا ہوئی اور کہاں اس کا اختتام ہوا۔ برہما اور وِشنو دونوں حیرت زدہ تھے۔ شیوپر ان کے مطابق وِشنو نے برہما سے کہا ’’ہم اپنے اختلاف کو بھول جائیں یہ دیکھیں کہ یہ تیسری طاقت کہاں سے آ گئی ہے، یہ کون ہے؟‘‘
برہما نے کہا ’’یہ تو بہت ہی روشن آگ کا ستون لگتا ہے لہٰذا اسے دیکھنا ضروری ہے۔ آتے ہی آسمان کی جانب پرواز کر گیا اور پھر فوراً زمین پر آیا اور دھرتی کی گہرائیوں میں چلا گیا۔‘‘
وِشنو نے کہا ’’تم ہنس (ہمسا) بن جاؤ اور اوپر آسمان کی جانب پرواز کر جاؤ، میں سؤر(واراہا) بن کر دھرتی کے اندر جاتا ہوں، ہمیں یقیناً معلوم ہو جائے گا یہ کون ہے!‘‘
برہما سفید ہنس بن کر آسمان کی جانب اُڑ گئے اور وِشنو سفید سؤربن کر زمین کے اندر چلے گئے۔
شیوپر ان کے مطابق دونوں چار ہزار سال تک تلاش کرتے رہے اُنھیں ’لنگ‘ کا یہ اسرار معلوم نہ ہو سکا کہ وہ کہاں ختم ہوتا ہے۔
ناکام ہو گئے تو عبادت کر نے لگے، سو برس عبادت میں گزر گئے تو اچانک کہیں سے آواز آئی ’اوم‘‘ !
دونوں چونک پڑے۔ اسی وقت شیو سامنے آ گئے جن کے پانچ چہرے اور دس ہاتھ تھے۔ شیو نے کہا: ’’ہم تینوں ایک ہی وحدت کے تین حصّے ہیں، برہما خالق ہیں، وِشنو محافظ ہیں اور میں تخریب کار ہوں قہار ہوں۔‘‘
یہ کہہ کر شیو آنکھوں سے اوجھل ہو گئے۔
’شیو لنگ‘ بھی ایک قدیم ترین حسی تجربہ ہے جو گہرے مذہبی اور انتہائی پراسرار مابعد الطبیعیاتی رجحانات کے ساتھ احساس اور جذبے سے ہم آہنگ رہا ہے اور تصویروں اور مجسّموں کی تہہ دار معنویت کا سرچشمہ بنا رہا ہے۔ جلالِ کل اور جمال کل کا ایسا معنی خیز پیکر خلق نہیں ہوا۔ ’کل‘ کا حسی دائرہ اس کی بنیاد ہے، اس کی اسطوانہ (Cyindrical) صورت ہر لحاظ سے تکمیل کا احساس دیتا ہے، دائرہ، گولائی، چکر، حلقہ، رقص، جنس، زرخیزی اور کون و مکاں اور گہرے شعور کا یہ غیر معمولی جلوہ اپنی معنی خیز جہتوں کے ساتھ ہندوستانی تجربوں کو روشن کرتا رہا ہے۔ مجسمہ سازی مصوّری اور فنِ تعمیر میں اس کی نمایاں حیثیت کا ہمیں بخوبی علم ہے۔ کہیں اس کے چار چہرے مشرق، مغرب، شمال اور جنوب کی علامتیں ہیں۔ مثلاً راجستھان میں سترہویں صدی کا شیو لنگ۔۔۔ اور کہیں کون و مکاں اور اس کی تمام گہرائیوں کا ’امیج‘ مثلاً پریل (بمبئی) شیو لنگ۔۔۔ کہیں یہ جنس کے تقدس کا علامیہ ہے اور کہیں کائنات کی تمام طاقتوں کا مظہر!
شیو کا بنیادی رنگ سرخ ہے اور گردن پر بائیں جانب ایک نشان ہے جو زندگی کے تمام زہر کوپی جانے کا اشارہ ہے۔ شیولنگ کا رنگ گہرا سرمئی یا سیاہ ہے۔ سرخ جب بہت گہرا ہو جاتا ہے تو سیاہ ہو جاتا ہے۔ وِشنو اور کرشن کا رنگ بھی گہرا سیاہ ہے۔ سانولا اور سرمئی گہرا رنگ دونوں سیاہی کے نشانات ہیں۔ کائنات کو خالق کے قلب ماہیت سے تعبیر کیا گیا ہے اور ایسے ہر عمل میں سیاہ رنگ کے بہاؤ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ خالق جن صورتوں میں جلوہ گر ہوتا ہے ان تمام صورتوں کا رنگ سیاہ ہے۔ کالی مادرِ اوّلین ہیں، شکتی کی علامت ہیں لہٰذا ان کا رنگ بھی سیاہ ہے۔ شاستروں میں کہا گیا ہے کہ جس طرح تمام رنگ سیاہ رنگ میں جذب ہو جاتے ہیں اسی طرح تمام عناصر کالی میں جذب ہیں کالی یا شکتی کو شیو سے علیحدہ کر کے دیکھنا آسان نہیں ہے۔
شیو لنگ طاقت، استحکام، جنس، تخلیق، وحدت، چکر، زمانہ، ست، یوگ، سمادھی زندگی کے جوہر، آہنگ، باطنی اضطراب، داخلی سکون، جسمانی جنسی اور روحانی بیداری آزادی، تحرک، روشنی، مسرّت، آسودگی، بصیرت، وِژن، کیف، وجد، رحمت، ارتعاشات، حسیات، نجات سب کا معنی خیز علامیہ ہے جو مجسمہ سازی، مصوّری اور فنِ تعمیر کا انتہائی قیمتی جلوہ بنا ہے معنوی جہتوں کی ایسی مجسم اور ایسی پُر جلال اور پُر جمال سرایت کر نے والی، رچ بس جانے والی اور باطن میں پھسلنے والی جمالیاتی علامت اور کہیں نہیں ملتی۔
شیو کے دس یا بارہ ہاتھ علامتی ہیں، سانپ، ناگ، ذات لامحدود کا علامیہ ہے۔ (سیس ناگ چھتریا سائبان کی طرح ملتا ہے ) کھوپڑی، تمام مادّی خواہشات سے اوپر اُٹھنے کا اشارہ ہے۔ یہ آفاقی رقص کائنات کے تمام عناصر کو سمیٹ کر ایک وحدت کی صورت عطا کرتا ہے۔ اس کی عظیم تر معنویت اور اس کی جمالیات پر کئی بار اظہارِ خیال کر چکا ہوں۔ یہاں یہ بتا دینا کافی ہو گا کہ اس پیکر کے آہنگ اور ان کی خاموشی میں عابد کو ماورائے کائنات اور کائنات دونوں کا عرفان نصیب ہوتا ہے اور جمالیاتی نقطۂ نظر سے آہنگ اور خاموشی کی دلکش اور انتہائی نفیس مطابقت ایک عظیم تر جلوہ ہے جس کا احساس خود جمالیات کے دائرے کو وسیع سے وسیع تر کرتا ہے اور نئی جہتوں کی پہچان ہوتی جاتی ہے۔
نٹ راج کا وجود ایسا مظہر ہے کہ آواز اور خاموشی کو علیحدہ کر کے دیکھا نہیں جا سکتا۔ مجھے تو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے /یہ انسان کا ایسا عظیم معنی خیز جمالیاتی تجربہ ہے کہ جس نے مذہب اور مابعد الطبیعیات کو اپنی طرف کھینچا ہے۔ مابعد الطبیعیاتی اور مذہبی فکر دونوں نے اس جمالیاتی تجربے میں وہ سب کچھ حاصل کیا ہے کہ جس کی روشنی وہ عطا کرنا چاہتے تھے۔ وجدان نے کائنات کے آہنگ کے سچے ّ احساس سے اس پیکر کی تخلیق کی ہے جس سے مابعد الطبیعیاتی اصول مرتب ہوتے ہیں۔
’نٹ راج‘ ہندوستانی تہذیب کی عظمت کا وہ عظیم تر علامیہ ہے کہ جس سے کائنات اور ذاتِ لامحدود کی وحدت کا علم ہوتا ہے، دائرہ، چکر اور رقص اسی ہم آہنگی کو پیش کرتے ہیں، عظیم تر نغمہ ریز ’چکر‘ نے تخلیق اور خالق یا عناصر اور ہستیِ مطلق کے رشتے اور ان کی وحدت کا شعور عطا کیا ہے۔ کائنات کی تخلیق اور اس کے ارتقا کا عمل (سرشٹی) تمام حسن و جمال کے ساتھ کائنات کا قیام اور اس کا تحفظ (سیٹھتی) کائنات کو توڑ دینے اور بکھیر دینے کا عمل (سم ہار ا) عناصر کو اپنے باطن میں سمیٹ لینے کا عمل (شیربھو) اور عناصر کو آزاد کر نے اور ہر شے کو اعلیٰ ترین منزل پر لے جانے کا عمل (انوہ گرہ)۔ ان پانچوں آہنگ کی معنویت کو مصوّری اور فن مجسمہ سازی نے مختلف عہد میں پیش کیا ہے اور ان پانچوں آہنگ کو برہما، وِشنو، ردر، مہیشور اور سدا شیو کی صورتیں عطا کی ہیں۔ ’نٹ راج‘ اور شیو لنگ دونوں ماورائے کائنات اور کائنات کی علامتیں ہیں جو خود کائنات اور ماورائے کائنات میں گئی ہیں ۱۔
’نٹ راج‘ کے تعلق سے یہ خیال بھی پختہ ہے کہ پہلا رقص شیو نے کیا تھا اور کائنات کی تخلیق اسی پہلے رقص کا نتیجہ ہے۔
مرکزِ حیات و کائنات کے دل پر اس عظیم رقاّص کا رقص کائنات کے تمام عناصر کو سمیٹ کر ایک وحدت کی صورت دیتا ہے۔ اس رقص سے روح اور جسم کی وحدت کا احساس ملتا ہے۔ ہندوستانی جمالیات کے فکری سرچشمے اسی رقص سے پھوٹے ہیں، جسم اور روح اور تمام عناصر و اشیا کی پراسرار وحدت کا شعور سب سے پہلے اسی رقص سے حاصل ہوتا ہے۔
شیو کا رقص یوگ کا نقطۂ عروج ہے۔
معاملہ صرف سمیٹ لینے اور وحدت کا شعور عطا کر نے کا نہیں ہے مترنم آوازوں اور حسین اور خوبصورت عناصر کو کائنات میں بکھیر دینے کا بھی ہے۔
ہندوستانی اساطیر میں اجتماعی لاشعور کا یہ پیکر اتنا قدیم ہے کہ ماضی کے اندھیروں میں اس کی تلاش و جستجو آسان نہیں ہے، یہ پیکر دراوڑ تہذیب کی روح سے طلوع ہوتا محسوس ہوتا ہے اور آہستہ آہستہ ’نٹ راج‘ کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔ اس کا رشتہ جنگل کی تہذیب سے ہے جو فطرت یا نیچر سے بے حد قریب تھی۔
شیو (نٹ راج) کی پانچ جہتوں کو اس طرح پیش کیا گیا ہے:
۔۔۔ پہلے آہنگ (سرشٹی) سے۔۔۔ کائنات کی تخلیق اور اس کے ارتقا کا عمل!
۔۔۔ دوسرے آہنگ (سیٹھی) سے۔۔۔ تمام حسن و جمال کے ساتھ کائنات کا قیام!
۔۔۔ تیسرے آہنگ (سم ہار ) سے۔۔۔ تباہی کائنات اور اس کے عناصر کو بکھیر دینے کا عمل۔
۔۔۔ چوتھے آہنگ (نیروبھو) سے۔۔۔ کائنات اور اس کے عناصر کو اپنے باطن میں سمیٹ لینے کا عمل۔۔۔ اور
۔۔۔ پانچویں آہنگ (انوگرہ) سے۔۔۔ کائنات اور اس کے عناصر کو آزاد کر نے اور ہر شے کو اعلیٰ ترین سطح پر لے جانے کا عمل، نروان کی منزل!
برہما، وِشنو، ردر، مہیشور اور سدا شیو ان پانچ جہتوں کی علامتیں ہیں۔ ’نٹ راج‘ کے پیکر ہیں!
’ڈمرو‘ کی آواز تخلیق کی آواز ہے، تخلیق کے آہنگ کا اشارہ ہے، ایک ہاتھ میں آگ تخریب کی علامت ہے، دوسرا ہاتھ فتح اور آزادی کو سمجھاتا ہے، تیسرا ہاتھ (ابھے مدرا) امن، سکون اور تنظیم کا اشارہ ہے۔ ایک خاص مدرا میں اُٹھے ہوئے پاؤں پانچویں آہنگ کا اشارہ ہے۔ کائنات اور اس کے عناصر کو آزاد کر نے اور انھیں ایک اعلیٰ سطح پر لے جانے کے عمل کی علامت۔
مجموعی طور پر ’نٹ راج‘ کی جمالیات کی وضاحت اسی طرح کی جا سکتی ہے:
کائنات کی تمام متحرک کیفیتوں کا سرچشمہ ہے، محراب اس کی علامت ہے۔
’چکر‘ کے تہہ دار حسیاتی تصوّر کا افضل ترین تخلیقی نمونہ ہے۔
’مایا‘ کے پردے سے اوپر آزادی کے عرفان کو پیش کرتا ہے۔
آہنگ اور آہنگ کی وحدت کے حسن کا جلوہ ہے۔
کائنات عشق کے شعور کا فنّی شاہکار ہے۔
جلال و جمال کی دلکش آمیزش کا علامیہ ہے۔
رقصِ وجود ہے رقصِ کائنات ہے۔
متحرک لاشعور کا انتہائی اثر آفریں اظہار ہے جس سے لاشعور کی بے پناہ صلاحیتوں کی پہچان ہوتی ہے۔
آہنگ کے حسن کا یہ جمالیاتی پیکر آوازوں، رنگوں اور تصویروں کے تئیں بیدار کر کے جمالیاتی انبساط عطا کرتا ہے۔
’نٹ راج‘ کی ۱۰۸ کیفیتوں میں جو ’رس‘ ملتے ہیں ان میں چند یہ ہیں:
شرینگار رَس ۔ (وِشنو)
ردر رَس ۔ (ردر)
بیتس رَس ۔ (مہاکالا)
شانت رس ۔ (نارائن)
بھیانک رَس ۔ (سیاہ دیوتا)
ادبھت رَس ۔ (گندھاروا)
شیو/ ’نٹ راج‘ نے روشنیوں، تاریکیوں، خوشبوؤں، آوازوں خاموشیوں اور رنگوں کی ہمہ گیر جمالیات سے آشنا کیا ہے ۱۔
’شیو پران‘ اور ’ لنگ پران‘ کے مطابق کائنات کی تخلیق ’ لنگ‘ سے ہوئی ہے، اسی سے اس انڈے کا جنم ہوا تھا کہ جس سے برہما نکلے تھے۔ ’ لنگ پران‘ میں یہ بھی درج ہے کہ شیو ہی نے برہما اور وِشنو کو ’گیاتری منتر‘ سکھایا تھا۔ کہا تھا ہم تینوں ایک ہی وحدت کے حصّے ہیں۔ ’لنگ پران‘ میں شیو کے ایک ہزار نام درج ہیں۔
’شیو پران‘ میں ’اِندر دیوتا‘ ،’گنیش‘ ، ’پاروتی‘ ، ’نارد‘ اور رِشی منیوں اور ان کی بیویوں کی کہانیاں بھی بہت دلچسپ ہیں اور ہندوستانی اساطیر کے قصّوں میں اپنا مقام رکھتی ہیں۔ شیو جی کی شادی کا ڈرامابھی کم دلچسپ نہیں ہے۔
’اردھ نار ایشور‘ ایک بنیادی تصوّر ہے، شیو کا وہ پیکر ہے کہ جس میں شیو نصف مرد اور نصف عورت ہیں۔ اردھ ناتھ ایشور کے پیکر پرانے مندروں میں موجود ہیں، اس کے تعلق سے اساطیری اور نیم اساطیری قصّوں کی تعداد کم نہیں ہے۔ لوک کہانیوں میں بھی یہ پُر اسرار پیکر ملتا ہے۔ یہ وحدت کا بہت ہی پراسرار انتہائی رومانی اساطیری تصوّر ہے جس کی مابعد الطبیعاتی سطحیں جمالیاتی جہتوں میں نمایاں اور ظاہر ہوئی ہیں۔
ہندوستان میں ’دیوی‘ کی پرستش کی روایت بہت ہی پرانی ہے، ویدوں کے زمانے سے بہت پہلے سندھ تہذیب میں ’ماں ‘ کے قابلِ احترام پیکر کی عبادت (دو ہزار سال قبل مسیح) کے ثبوت ملتے ہیں۔ اس کے باوجود یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ ’عورت‘ کو دیوی کا مقام اس وقت ملا جب وِشنو اور شیو اساطیر کی دنیا میں اپنا مقام بنا چکے تھے۔ ’دیوی‘ غالباً اُس دور میں سامنے آئی جب ’دیوتاؤں ‘ کو ’بیویاں ‘ حاصل ہوئیں۔ ’تانتر‘ نے بلاشبہ ’عورت‘ کو بلند مقام بخشا، بعض ’دیویاں ‘ دیوتاؤں سے اوپر نظر آنے لگیں۔ پہلے ’سری‘ کی پہچان وِشنو کے تعلق سے ہوتی تھی اور ’شکتی‘ کی پہچان شیو کے تعلق سے۔ ’تانتر‘ نے ’شکتی‘ میں اتنی تو انائی پیدا کر دی کہ شیو اس کے سامنے ’ شو‘ (مردہ جسم) بن کر رہ گئے، شکتی کی وجہ سے اُن میں زندگی اور حرکت پیدا ہوئی۔ ’کالی‘ کی دیو پیکر شخصیت اُبھر کر سامنے آئی۔ ’کالی‘ نے ’ماں ‘ کا بلند درجہ حاصل کر لیا۔
ہندوستانی اساطیری میں ایسے کئی ’آرچ ٹائپس‘ (Archtypes) ہیں جو اپنے جمالیاتی مظاہر سے متاثر کرتے ہیں، ایسے بہت سے کردار کہ جنھیں مختلف عقیدوں اور مذہبی افکار و خیالات نے مذہبی حیثیت دی وہ ابتدا سے ایسے نہ تھے، لوک قصّوں کہانیوں اور ملک کے مختلف علاقوں کے افسانوی مزاج نے انھیں جنم دیا تھا۔ خوف،تحیر اور رحمتوں کی آرزو کے یہ پیکر رفتہ رفتہ حسی پیکر (Psychic Images) بنتے چلے گئے، ان میں عوامی احساسات اور جذبات شامل ہوتے گئے، ایک ہی کہانی کئی صورتوں میں ڈھلتی گئی۔ حسی پیکر متضاد اور مختلف خصوصیتوں کے ساتھ نمایاں ہوتے گئے، اختلاف اور تضاد کے باوجود اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ یہ اجتماعی یا نسلی لاشعور (Collective Unconsciousness) سے نکلے ہوئے پیکر ہیں، ابتدا میں یہ تخیلی اور حسی پیکر ہی تھے رفتہ رفتہ ’آرچ ٹائپس‘ بن کر ذہن و شعور کو متاثر کرتے رہے۔ قدیم انسان کے احساس و شعور پر سورج، چاند اور ستاروں میں ’خالق کی آنکھ‘ (Eye of God)کا بڑا گہرا اثر ہوا ہے۔ ’’خالق کی آنکھ دیکھ رہی ہے!‘‘ ان کی ’سائیکی‘ پر آنکھ کی شعاعوں نے یقیناً بڑا اثر ڈالا ہو گا، کون جانے مذہب کا جنم اسی وقت ہوا ہو۔ بیداری کے خوابوں اور ’وژن‘ کی تو انائی اور تحرک کی کہانی بھی غالباً اسی وقت شروع ہوئی ہو گی۔
پرانی کہانیوں کہ جن میں لوک قصّوں کہانیوں کی تعداد زیادہ تھی جمع کر نے اور انھیں مرتب کر نے کا ایک دَور آیا، چونکہ عقائد اور مذہبی نظریات اور خیالات کو زیادہ اہمیت دی گئی، ان نظریوں اور عقیدوں کا دباؤ بڑھتا گیا اس لیے ان کی حیثیت دیوی دیوتاؤں کی ہو گئی۔ قدیم لوک حسی پیکر اور لوک کہانیوں کے واقعات مذہبی صورتیں اختیار کرتے گئے۔ یہ سب قابلِ عبادت بنتے گئے، آج بھی ان کی عبادت ہو رہی ہے۔ پرانوں میں کردار اور واقعات جمع کیے گئے، ’پران‘ کے لفظ ہی سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ پرانوں کو مرتب کر نے والے انھیں پرانی کہانیاں ہی سمجھتے تھے۔ ہر بھگوان ہر دیوتا کے لیے ایک پران مرتب ہوا اور انھیں عقیدوں اور مذہبی خیالات میں طرح طرح سے ڈھالا گیا۔ پرانی کہانیوں کے مزاج اور تیور کا فرق تو نمایاں ہی رہا ساتھ ہی ایک ہی کہانی کی کئی صورتوں میں ڈھلتی رہی۔
ابوریحان محمد ابن احمد البرونی (پیدائش ۹۷۳ء) نے اپنی معروف تصنیف ’’کتاب الہند‘‘ میں پرانوں کا ذکر کرتے ہوئے یہ لکھا ہے کہ ان کی تعداد اٹھارہ ہے۔ انگریزی زبان میں مجھے اٹھارہ پران مل گئے۔ انھیں پڑھتے ہوئے اس سچائی کا احساس ہوا کہ پران (Puranas) ہندوستانی قصّوں، کہانیوں کے ایک قدیم سرچشمے کی خبر دیتے ہیں۔ ’پران ‘ کے معنی ہیں پرانا، ’قدیم۔ مفہوم ہے ’پرانی کہانی‘ (Purana Mahyanam)پرانوں کی جڑیں ہندوستان کی قدیم تاریخ اور سماج میں پیوست ہیں۔ لوک کتھاؤں کہانیوں سے ان کا سفر شروع ہوا تو اساطیر کی منزل آئی اور پھر ادبیات کی منزل! قدیم اور قدیم تر مذہبی خیالات اور تجربات نے انھیں اپنا رنگ و آہنگ بخشا، تخیلی واقعات و کردار کو ایسا تحرک عطا کیا کہ وہ زندہ حقیقتوں اور سچائیوں کی طرح محسوس ہونے لگے۔ کہانیوں سے کہانیاں، واقعات سے واقعات اور کردار جنم لینے لگے، عقائد کی مضبوط گرفت میں رہنے کے باوجود عوامی احساسات و جذبات لیے پرانوں کی کہانیاں ہندوستانی قصّوں کہانیوں کا سرچشمہ بن گئیں، کہانیاں سینہ بہ سینہ چلیں، دن بھر کی تھکن دور کر نے کے لیے کبھی کھیتوں میں الاؤکے گرد بیٹھ کر سنائی جانے لگیں۔ ابتدا میں کہانی سنانے والا اہم تھا۔ ایک جگہ بیٹھ کر رامائن اور مہابھارت کے واقعات اور قصّوں کو سنانے کا سلسلہ بھی بہت پرانا ہے۔ پرانوں کی کہانیاں بھی سنائی جاتی تھیں، لوک کتھاؤں کا جنم اسی طرح ہوا ہے۔ محققین کہتے ہیں کہ مہابھارت کا بغور مطالعہ کہا جائے تو یہ حقیقت روشن ہو گی کہ بنیادی طور پر یہ بھی ایک پران ہے اور رامائن کے کئی باب اور کردار پرانوں کی یاد تازہ کرتے ہیں۔ ویدی قصّوں میں بھی پرانوں کے بہت سے واقعات و کردار کی نشاندہی کی جا سکتی ہے۔
لاشعور، سگمنڈ فرائڈ، کے تصوّر سے کہیں زیادہ گہرا ہے۔ سی.جی. یونگ کے نسلی لاشعور کے تصوّر کے بعد تو اس کی گہرائی کا اندازہ کرنا اور مشکل ہو گیا ہے۔ صدیوں صدیوں کے نسلی تجربوں نے لاشعور میں ’آرچ ٹائپس‘ (Archetypes) کو جنم دیا ہے۔ یونگ نے کہا ہے کہ ’آرچ ٹائپس‘ زندہ نفسی تو انائی (Psychic force) رہے ہیں اور اب بھی ہیں، سنجیدگی سے جائزہ لیں تو محسوس ہو گا کہ ’آرچ ٹائپس‘ کتنے حیرت انگیز طریقے سے اثر انداز ہوتے ہیں اور ان کے اثرات کتنے گہرے ہوتے ہیں۔ ’آرچ ٹائپس‘ نے تحفظ اور ’نجات‘ (Protection and Savation) کا احساس دیا ہے۔ ان سے ’نیوراتی‘ اور ایسی نفسیاتی کیفیتیں بھی پیدا ہوتی رہی ہیں کہ جس سے نقصان ہوا ہے اور یہ بھی سچائی ہے کہ ان کے سائے میں نیوراتی اور بعض نفسیاتی کیفیتوں میں تنظیم بھی پیدا ہوئی ہے۔ دنیا کے تمام مذاہب میں جو ’ا4‘ (Images) پیدا ہوئے ہیں وہ ’آرچ ٹائپس‘ ہی کی دین ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بہت سے حسی پیکر اور ’آرچ ٹائپس‘ کہ جنھیں مذہبی کٹرّپن نے اس طرح دبوچ لیا ہے کہ ان کی اصلی صورتیں گم ہو گئی ہیں انسان کی ’سائیکی‘ میں زندہ متحرک اور محفوظ ہیں۔ اکثر فنون اور لٹریچر میں یہ حسی پیکر بڑی شدّت سے متاثر کرتے ہیں۔ مثلاً ’عظیم ماں ‘ ، ’ضعیف دانش مند‘ (Wise Od Man)، پرچھائیں (Shadow)،مچھلی، سانپ، درخت، پُر اسرار پرندے اور جانور وغیرہ۔
ہندوستانی اساطیر میں ’خالق کی آنکھ‘ (Eye of God) اور ’عظیم ماں ‘ (Great Mother) کی بڑی اہمیت رہی ہے۔ ’خالق کی آنکھ‘ کا آرچ ٹائپ تحفظ کا احساس دیتا رہا ہے ساتھ ہی غلط کام نہ کر نے کی تلقین بھی کرتا رہا ہے۔ ’عظیم ماں ‘ نے کئی رُوپ اختیار کیے ہیں۔ لاشعور کی تاریکی اور شعور کی روشنی دونوں نے ماں کی صورتیں خلق کی ہیں۔ لاشعور کی تاریکی سے نکلی ہوئی ’ماں ‘ کالی بھی تحفظ کا گہرا احساس بخشتی ہے۔ ہندوستانی اساطیر میں ’کالی‘ کا ’آرچ ٹائپ‘ غیر معمولی نوعیت کا ہے، اس کے جمالیاتی مظاہر توجہ طلب بن جاتے ہیں۔
یونگ نے تحریر کیا ہے کہ ہر انسان (آدم) اپنی حوّا کو اپنے وجود کے اندر لیے رہتا ہے۔ اس کی دو اصطلاحیں ’انیما‘ اور ’اینی مس‘ (Anima and Animus)مشہور اصطلاحیں ہیں۔ ’انیما‘ دیوی پری، جادوگرنی، ماں، بلّی، غار وغیرہ کے پیکروں میں متشکل ہوتی رہی ہے۔ اسی طرح ’اینی مس‘ باز، بیل، شیر، لنگ، اونچی عمارت وغیرہ میں جلوہ گر ہوتی ہے۔ یونگ نے اسے باطنی یا روحانی ’امیج‘ یا ’سول امیج‘ (Sou Image) کہا ہے۔ اس کا خیال یہ ہے کہ ’سول امیج‘ میں سب سے پہلے ’ماں ‘ کا پیکر اُبھرتا ہے۔ گوری چٹیّ خوبصورت ماں اور کالی کلوٹی ماں۔۔۔ لیکن ’ماں ‘ کی صورت جیسی بھی ہو ماں، ماں ہوتی ہے۔ بلاشبہ ’کالی‘ ، ’ماں ‘ کا ’سول امیج‘ یا حسی پیکر ہے۔ ہندوستانی اساطیر میں ’کالی‘ بہت ہی پُر اسرار ہے، اسی نے کائنات کی تخلیق کی ہے۔ عریاں رہتی ہے لیکن پچاس راکھشسوں کی کھوپڑیوں کا ہار پہنتی ہے۔ ’ماں ‘ کا حسی پیکر ہے جو سیاہ ہے، تاریکی میں علم و دانش کا جو سرچشمہ ہے وہ اسی کی تخلیق کا کرشمہ ہے، وہ علم عطا کرتی رہتی ہے۔ اس کے چار ہاتھ ہیں، چہرہ خوفناک ہے، وقت (Time) کی دیوی ہے، عمدہ اقدار کی خالق اور نگہباں ہے، خراب اور بُرے تجربوں اور پیکروں سے ٹکراتی ہے، انھیں شکست دے کرہی دم لیتی ہے، اس کے جمالیاتی مظاہر میں یہ بات بہت اہم ہے کہ اس کا بنیادی رنگ سیاہ ہے۔ سیاہ رنگ کا حسن لیے ہوئے ہے۔ بڑی جمالیاتی خصوصیت یہ ہے کہ تمام رنگ جو زندگی کے مظاہر ہیں اس سیاہ رنگ میں جذب ہیں۔ جب چاہتی ہے جہاں چاہتی ہے، اپنے پسندیدہ رنگوں کا مظاہرہ کرتی ہے۔ اس کی جمالیات کا مطالعہ کرتے ہوئے ایک دلچسپ بات یہ نظر آتی ہے کہ وہ جب چاہتی ہے گم ہو جاتی ہے نظر نہیں آتی اور سورج، چاند اور آگ جو اس کی تین آنکھیں ہیں اُن سے اپنے بچوں کی نگہبانی کرتی رہتی ہے۔ آفتاب، قمر اور آتش یہ تینوں خوبصورت جمالیاتی مظاہر ہیں۔ ان کی جانب دیکھئے تو تین چمکتی روشن آنکھوں کی پہچان ہو گی، انھیں دیکھتے رہیے تو آہستہ آہستہ کالی ماں کی صورت کا ایک خاکہ اُبھرتا محسوس ہو گا۔
’تانتر‘ میں کالی تو انائی یا ’انرجی‘ کے حسن کا جلوہ بن جاتی ہے اسی لیے اسے ’شکتی‘ کہتے ہیں۔ اس کے عمل میں تحرک کے جمال کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔ ’نرکتا تانتر‘ (Nirukta Tantra) میں شکتی بھی ہے اور مایا کا جمال بھی، وہ کائناتی حسن کے تسلسل اور وقت یا ’ٹائم‘ کی ایسی علامت ہے کہ جس کی کوئی ابتدا ہے اور نہ کوئی اختتام، لمحوں میں صورتیں تبدیل کرتی رہتی ہے، کبھی لکشمی ہے تو کبھی ستی، کبھی رادھا ہے تو کبھی چمندا، کبھی کالی ہے تو کبھی کالیکا، اُس کے بال بہت گھنے، سیاہ اور لمبے ہیں جو ’مایا‘ کے دلفریب حسن کی علامت ہیں۔ ’تانتر‘ میں اُس کا خوفناک چہرہ اُس وقت تمتماتا ہے جب کوئی نا انصافی ہوتی ہے یا کسی عمدہ اور اچھی قدر کے ٹوٹنے کی آواز سنائی دیتی ہے، ایسے وقت میں اس کا لباس ’سرخ‘ ہو جاتا ہے جو جلال کی علامت ہے، اُوپر کا سیدھا ہاتھ جو اُٹھا رہتا ہے رحمتوں کی بارش کرتا ہے، آشیرواد دیتا ہے، وہ سیدھا ہاتھ جو نیچے ہوتا ہے وہ خوف کو دُور کرتا ہے، انسان دشمنوں کو دُور کرنے، انھیں شکست دینے اور قتل کر نے کے لیے بایاں ہاتھ متحرّک رہتا ہے۔ وہ شیو (شِو) کے سینے پر سوار ہو جاتی ہے تو مایا کا جال لیے ہر جانب تحیرّ پیدا کرتی ہے، ایک انتہائی پراسرار فضا قائم کر دیتی ہے، شیو کا مردہ جسم ( شو) جاگ پڑتا ہے متحرک ہو جاتا ہے۔ شدّت سے محسوس ہوتا ہے اس ملاپ سے ساری کائنات اپنے تمام حسن و جمال کے ساتھ اس کے وجود کا حصہ بن گئی ہے، ’برہما‘ اس کے وجود کے اندر ہے۔
ہندوستانی اساطیر میں کالی یا شکتی کے جمالیاتی مظاہر غیر معمولی حیثیت رکھتے ہیں۔ عوام کی ’سائیکی‘ کو اپنی گرفت میں لیے ہوئے ایسے ’آرچ ٹائپس‘ بہت کم ہیں۔
دُرگا نے ’عفریت بھینسے ‘ کو مار ڈالا۔ برہما نے کہا تھا ’عفریت بھینسے ‘ کا قتل دیوتا بھی نہیں کر سکتے انسان کی بات تو دُور رہی۔ عفریت بھیسنے نے جب جینا حرام کر دیا تو برہما، وِشنو اور شیو تینوں نے مل کر سرسوتی، لکشمی اور شکتی کی تو انائی سمیٹ کر ایک انتہائی خوبصورت عورت کی تخلیق کی کہ جس کے دس ہاتھ تھے۔ یہ عورت دُرگا تھی جو عفریت بھینسے کا خاتمہ کر سکتی تھی۔ بھینسے کا نام مہیشاسورا (Mahishasura) تھا۔ دُرگا نے مہیشا سور اسے نو دنوں تک جنگ کی، دسویں دن اس کا سرقلم کر دیا۔ کہا جاتا ہے انسان کے اندر سرسوتی، لکشمی اور شکتی کی تو انائی موجود تو ہے، ساتھ ہی عفریت بھینسے کی بھی تو انائی پوشیدہ ہے۔ (یوگ میں اس کا ذکر ملتا ہے ) انسان میں جو طاقت ہے یہ اس کی جہتیں ہیں۔
میں نے اپنی کتاب ’ہندوستانی جمالیات‘ (جلد دوم، ۱۹۹۴ء) میں لکھا تھا کہ ’عظیم ماں ‘ کے کئی نام ہیں۔ سری، لکشمی، سری لکشمی، مہالکشمی، سری سکت (رگِ وید) ایوری پدما، کملا، بھگوتی، لوک ماتا، شکتی، گرہ لکشمی، راج لکشمی، دھن لکشمی، وِجے لکشمی دھنیہ لکشمی، بھاگیہ لکشمی، وِکٹ لکشمی وغیرہ۔ شمالی ہند کے پہاڑی علاقوں میں ’ماں ‘ کی عبادت کو ہمیشہ اہمیت حاصل رہی ہے۔ درگا، کالی،چمندا، مالینا اور مردینی وغیرہ کے مجسّمے ان علاقوں میں مقبول رہے ہیں۔ ان کی پرانی تصویروں کے علاوہ کانسی، پتھر اور تانبے کے مجسّمے بھی ملتے ہیں۔ ’عظیم ماں ‘ کو فنکاروں نے مختلف انداز سے پیش کیا ہے۔ ’ماں ‘ کے پیکر عموماً ایسے ہیں جن میں وہ شیر پر سوار ہیں، بھینسے کی شکل کے عفریت پر حملے کر رہی ہیں، گردن میں کھوپڑیوں کی مالا ہے، ہتولی (شملہ) کے آٹھویں صدی کے پتھر کا جو مجسمہ ملا ہے اس میں دُرگا کی خصوصیات اُجاگر کر نے کی کوشش کی گئی ہے۔ شیر پر بیٹھی ہیں اور شیر جیسے نہایت آرام سے سویا ہوا ہے۔ دُرگا کے جسم کا توازن متاثر کرتا ہے۔ زیورات کم ہیں ہاتھ میں ترشول ہے۔ ’ماں ‘ کے کچھ پیکر ایسے ہیں جن میں شخصیت کی غضب ناکی بہتر طور پر ظاہر ہوئی ہے۔ ہندوستان کے بعض ایسے مجسّموں کی ایک بڑی خصوصیت یہ ہے کہ یہ پیکر انسان کے چہروں اور ان کے جسم کی تفصیل نہیں ہیں بلکہ ’عظیم ماں ‘ یا ’ذاتِ اوّلین‘ ہے۔ وہ آئینے ہیں کہ جن میں عورت اور مرد کو علیحدہ کرا کے دیکھا نہیں جا سکتا۔ کائناتی عشق کے حسی شعور نے ایسے پیکروں کی تشکیل کی ہے۔ وہ عفریت جسے دیوتا ختم کرنا چاہتے تھے اور ناکام ہوئے اسے دُرگا ختم کرتی ہیں، عفریت پُر سکون حالت میں قتل ہوتا ہے، اس کے چہرے پر جو سکون اور اطمینان ہے۔ وہ ختم ہو جانے یا قتل ہو جانے کی آرزو کا اشارہ ہے۔ اس سلسلے میں دو باتیں غور طلب ہیں:
(۱) دُرگا یا ’عظیم ماں ‘ کائنات اور ماورائے کائنات کی قوتوں کا مظہر ہیں۔ دیوتاؤں کے غضب کا سانسوں کی بے پناہ تپش میں تبدیل ہونا اور تپش کا شعلوں میں بدل جانا اور ان سے عظیم پیکر کا اُبھرنا اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ عظیم ماں کائنات کی وحدت اور ماورائے کائنات کی قوتوں سے علیحدہ نہیں ہیں دیوتا ان سے علیحدہ نہیں ہیں۔۔ اور
(۲) بنیادی مقصد روح کی آزادی ہے، مارکنڈیہ پران کے مطابق عفریت بھی روح کی آزادی اور ’سورگ‘ (جنت) کا متلاشی ہے۔ لہٰذا اس کی تمنّا ہے کہ وہ عظیم ماں کے ہاتھوں قتل ہو تاکہ اسے آزادی نصیب ہو سکے۔
ہندوستان کے جمالیاتی پیکروں میں ’عورت‘ تخلیق اور حرکت کی علامت رہی ہے، ہندوستانی مابعد الطبیعیات کا تقاضا بھی یہی تھا، عورت تخلیق کا سرچشمہ اور تحرک یا حرکت کی علامت ہے۔ محبت، ممتا، شفقت اور زندگی کی اعلیٰ اقدار سے پیار اس کی بنیادی خصوصیات ہیں۔ ’کنول‘ سب سے پُر کشش جمالیاتی علامت ہے۔ ’ماں ‘ اور ’کنول‘ ہمیشہ ایک دوسرے میں جذب رہے ہیں۔ لکشمی کے پیکر کے ساتھ ’کنول‘ کی تصویر کشی کئی لحاظ سے اہمیت رکھتی ہے۔ ’عظیم ماں ‘ مہربان اور رحمتوں کا سرچشمہ تو ہیں لیکن ساتھ ہی وہ بُری اور بدتر قدروں کے خلاف قہر بن کر لپکتی ہیں۔ میں نے اپنی کتاب ’ہندوستانی جمالیات‘ جلد دوم میں دیویوں کے جلال و جمال پر مفصل گفتگو کی ہے (دیکھئے عظیم ماں،ص ۱۳۳) بدھ ازم میں ’شکتی‘ کا تصوّر شامل ہوا تو تارا بھی رقص کر نے لگی اور بنگال میں وجرتاڑ اور ماریچی کے مجسّمے بننے لگے، چمندا کی گردن میں دُرگا اور کالی کی طرح کھوپڑیوں کی مالا اور ہڈیوں کے زیورات نظر آنے لگے۔
ہندوستانی اساطیر میں کرشن ایک محبوب کرشماتی شخصیت ہیں۔ وہ ’انسان‘ کی حیثیت سے بھی سامنے آتے ہیں اور دیوتا کی حیثیت سے بھی، وِشنو کے بیسویں اوتار کہے جاتے ہیں۔ بچپن کی کہانی بہت دلچسپ ہے جو لوک کہانیوں اور لوک گیتوں میں جانے کب سے مقبول رہی ہے۔ مہابھارت میں بھی نظر آتے ہیں لیکن ’ایپک‘ کے ہیرو نہیں ہیں، شریمد بھگوت گیتا میں ایک پیامبر کے پیکر میں روحانی بلندیوں پر ہیں۔ ’بھگوت پران‘ میں ان کی ابتدائی زندگی اور ان کے معجزوں اور کرامات کا ذکر ملتا ہے۔ کرشن کی ماں اپنے بیٹے کے منہ میں پوری کائنات دیکھتی ہیں۔ اس سے قبل مہابھارت میں مارکنڈے رِشی کا واقعہ بھی کچھ اسی نوعیت کا ملتا ہے۔ وہ کائنات کے بڑے وسیع اور گہرے سمندر کے اوپر تیرتے جا رہے تھے کہ اُن کی نظر ایک چھوٹے لڑکے پر پڑی، وہ وِشنو تھے، مارکنڈے رِشی وِشنو کے منہ کے اندر چلے گئے، وہاں کائنات کے جلال و جمال کو دیکھ کر حیرت زدہ رہ گئے۔ ان دونوں متھ میں یکسانیت ہے۔ اساطیری کہانیوں کا سرچشمہ لوک کہانیاں ہیں لہٰذا بہت سی کہانیاں ایک جیسی نظر آتی ہیں۔ بادامی کے غاروں میں کرشن کی زندگی کے کئی واقعات مناظر کی صورت پیش ہوئے ہیں۔ ان پر عوامی قصّوں کا گہرا اثر ہے۔ اسی طرح راج شاہی (بنگلہ دیش) میں کرشن لیلا کے مناظر ملتے ہیں۔ کرشن ابتدا سے عوامی قصّوں کہانیوں کے محبوب موضوع رہے ہیں۔ لوک گیتوں اور شاعروں کے کلام میں ان کی سحر انگیز شخصیت متاثر کرتی ہے۔ کالندی ندی میں کالیا ناگ کی شکست، جنگل کی آگ کو نگل جانا، گو وردھن پہاڑ کو اُٹھا لینا، بانسری کی سحر انگیز آواز سے پوری فضا کو گرفت میں لے لینا اور رادھا کے وجود کو ہمیشہ کے لیے انسان کے ذہن پُر کشش کر دینا کرشن لیلا کی عمدہ ترین مثالیں ہیں، ان واقعات کی پُر اسراریت بڑی روحانی بلندیوں تک لے جاتی ہے۔
’وِشنو پران‘ میں کرشن ہندوستانی اساطیر کے بہت ہی اہم 5 کی حیثیت سے سامنے آتے ہیں۔ ان کی پیدائش، ان کے بچپن اور ان کی جوانی کی بڑی تصویر اُجاگر ہوتی ہے۔ ان کے عظیم کارناموں کا ذکر ان کی مہربان شخصیت سے بہت قریب کر دیتی ہے۔ قدیم پرانوں میں بھی ان کی بابت کئی تحریریں ملتی ہیں۔ اندازہ ہوتا ہے کہ ان کی شخصیت عوامی زندگی میں بہت مقبول رہی ہو گی۔ لوک کتھاؤں میں ان کے قصّے عوامی احساسات کی ترجمانی کرتے ہیں۔
وہ ایک بڑے دانشور کی حیثیت سے شریمد بھگوت گیتا میں متاثر کرتے ہیں۔ زندگی اور اس کی اعلیٰ قدروں، زندگی کے تقاضوں اور دنیاوی مسائل اور حالات پر کرشن کی عالمانہ، فلسفیانہ اور حکیمانہ گفتگو غیر معمولی حیثیت کی حامل ہے۔ آج بھی ان سے روشنی حاصل کر نے کی کوشش ہوتی ہے۔
جب وہ قتل ہونے سے محفوظ رہتے ہیں، چھوٹی عمر میں پراسرار حرکتیں کرتے ہیں۔ جب بانسری کی آواز سے اشیا و عناصر دم بخود ہو جاتے ہیں، جب جمنا کی گہرائی میں اُتر کر کالیا جیسے زہریلے ناگ اور دوسرے سانپوں کو ختم کرتے ہیں، گو وردھن پہاڑ اُٹھا لیتے ہیں تو اساطیر کی فضائیں ذہن و شعور کو مکمل طور پر گرفت میں لے لیتی ہیں۔
’وِشنو پران‘ میں ٹکراؤ اور تصادم کی کئی کہانیاں ملتی ہیں، جمنا میں زہر پھیلانے والے ناگ کلنگ سے کرشن کی جنگ انسان کی زندگی کے تحفظ کے لیے ہوتی ہے۔ اور وہ زہریلا ناگ ہمیشہ کے لیے ختم ہو جاتا ہے۔ اندرا کے ساتھ زبردست تصادم ہوتا ہے اور کرشن اندرا کی لائی ہوئی تیز بارش سے بچنے کے لیے گو وردھن پہاڑ کو اُٹھا لیتے ہیں اور اسے چھتری بنا لیتے ہیں، عفریت آرستا (Arista) کو خود اس کی ٹوٹی ہوئی ایک سینگ سے مار ڈالتے ہیں۔ کمسا (Kamsa) جب ان کی طرف ایک دیوانے ہاتھی کو بھیجتا ہے تو وہ اسی ہاتھی کے دانت سے اسے مار دیتے ہیں۔ اس کے بعد جو جنگ ہوتی ہے اس میں کرشن کو کامیابی حاصل ہوتی ہے۔
ہندوستانی اساطیر میں ’رامائن‘ اور ’مہابھارت‘ دونوں کو ممتاز مقام حاصل ہے۔ دونوں تخلیقات کی کہانیاں، کردار اور واقعات سب جانتے ہیں، اساطیری فضاؤں اور ماحول کی تشکیل میں عوامی ذہن اور تخلیق کاروں کے تخیل نے جو حصّہ لیا ہے اس کی مثال دنیا کی بڑی سے بڑی تخلیقات میں موجود نہیں ہیں، ایلیڈ اور اوڈیسی کی بھی روشنی ان کے سامنے کم ہو جاتی ہے۔
’مہابھارت‘ کی چند ایسی اساطیری کہانیوں اور ان کے باطنی حسن کا ذکر کرنا چاہتا ہوں کہ جن کی بہت کم خبر ہے۔
ایک کہانی ویدوں کے زمانے کی ہے جو مہابھارت میں شامل ہے۔ یہ سانپوں کی قربانی کی کہانی ہے۔ راجا جنم جایا (Janamejaya) کے باپ کو سانپوں کے راجا ٹک سا کا (Taksaka) نے ڈس لیا جس سے اس کی موت ہو گئی۔ راجا نے عہد کیا کہ وہ سانپوں کی قربانی دے گا۔ جادو سحر کر نے والے جانے کتنے پجاری جمع ہوئے، منتر پڑھے گئے آگ روشن ہوئی اور پھر دنیا کے مختلف مقامات سے سانپ نکل نکل کر آنے لگے اور آگ اُنھیں نگلتی گئی۔
ایک برہمن کے بیٹے رُو رُو (Ruru) کی کہانی یوں ہے کہ اس نے ایک اَپسرا کی خوبصورت بیٹی پرم دیورا (Pramadvara) کو دیکھا تو عاشق ہو گیا۔ دونوں کی شادی طے ہو گئی، شادی سے چند روز قبل ایک زہریلے سانپ نے اسے ڈس لیا۔ رُو رُو دیوانہ سا ہو گیا، جنگل کی طرف دوڑ گیا۔ روتا رہا اور دیوتاؤں سے کہتا رہا میں نے بڑی پاکیزہ زندگی بسر کی ہے۔ آپ سب رُورُو کو زندگی عطا کر دیں۔ اس کی عبادت سے متاثر ہو کر دیوتاؤں نے اپنے پیامبر کو اس کے پاس بھیجا جس نے پرم دیورا سے کہا۔ ’’دیوتا تمھاری عبادت سے بہت خوش ہوئے ہیں، ان کا کہنا یہ ہے کہ اگر تم اپنی نصف زندگی رُو رُو کو بخش دو تو وہ زندہ ہو جائے گا۔‘‘ پرم دیورا نے کہا ’’مجھے منظور ہے۔‘‘ رُو رُو کو نئی زندگی مل گئی، دونوں کی شادی ہو گئی۔ پرم دیورا نے عہد کیا کہ وہ کسی سانپ کو زندہ رہنے نہ دے گا جہاں بھی کوئی سانپ نظر آ جاتا اسے مار دیتا۔ ایک صبح اس نے ایک سانپ دیکھا اور اسے مار نے کو تیاّر ہو گیا، سانپ نے کہا۔ ’’پرم دیورا، میں ایک رِشی ہوں، سانپ بن گیا ہوں۔ سانپ بن کر میں کسی کا کوئی نقصان نہیں کرتا، مجھے معاف کر دو، نہ مارو مجھے‘‘
’’تم سانپ کیوں بن گئے ہو؟‘‘ پرم دیورا نے دریافت کیا، سانپ نے جواب دیا۔ ’’یہ کسی کی بد دعا ہے، میں رِشی بن کر تمھاری بیوی کے پاس جاؤں گا اور آشیرواد دوں گا۔‘‘ سانپ نے رشی کی صورت اختیار کر لی۔ ردرا کے پاس آیا، اسے آشیرواد دے کر چلا گیا۔ پرم دیورا نے وعدہ کیا کہ اب وہ کسی سانپ کو نہیں مارے گا۔ کہا جاتا ہے یہ کہانی بھی ویدی دَور کی ہے۔
ایک ایسے شخص کی کہانی بھی ملتی ہے کہ جس نے کبھی کسی عورت کو نہیں دیکھا۔ دن رات عبادت میں مصروف رہتا تھا، ملک میں قحط پڑا تو رِشی منیوں نے راجا سے کہا ’’وہ شخص جو دن رات عبادت میں مصروف رہتا ہے یہاں آ جائے تو قحط کا عذاب ختم ہو جائے گا۔ سوال یہ تھا اسے کون راج دربار میں لے آئے، وہ تو عابد ہے، نظر اُٹھا کر بھی اِدھر اُدھر نہیں دیکھتا، راجا کی بیٹی سانتا اس کام کے لیے تیاّر ہو گئی، جنگل کی جانب روانہ ہوئی، تلاش کرتے کرتے وہاں پہنچ گئی کہ جہاں وہ عابد عبادت میں مصروف تھا۔ سانتا نے اسے پھل دیئے اور اپنے ہونٹوں کا رس دیا۔ اسے سینے سے لگائے رکھا، عابد دیوانہ سا ہو گیا۔ اچانک گیتوں میں اپنے جذبات کا اظہار کر نے لگا، سانتا کے ساتھ ہولیا، شہر پہنچتے ہی قحط کا خاتمہ ہو گیا۔ راجا نے عابد سے اپنی بیٹی کی شادی کر دی۔ (کہا جاتا ہے پدما پران اور بدھ کہانیوں میں بھی یہ کہانی ملتی ہے )
’مہابھارت‘ میں ایک اساطیری کہانی اس طرح بیان ہوئی ہے، ایک نیک پاکباز برہمن عورت تھی گوتمی، اس کے بیٹے کو سانپ نے ڈس لیا تو اس کی موت ہو گئی۔ ایک شکاری تھا ارجن ناکا، اس نے برہمن عورت سے دریافت کیا ’’بتاؤ میں اس سانپ کو ماردوں تو تمھیں سکون ملے گا؟‘‘ گوتمی نے جواب دیا ’’اُس سانپ کو مار دینے سے میرا بیٹا زندہ تو نہیں ہو جائے گا، اور پھر اسے مار نے کا فائدہ ہی کیا ہے۔‘‘ شکاری نے کہا ’’میں بہت بڑا شکاری ہوں۔ دشمنوں کو مار نے میں میں اِندر دیوتا سے کم نہیں ہوں۔‘‘ گوتمی نے کہا ’’دشمنوں کو مار نے سے بھی کیا فائدہ ہے۔‘‘ اسی وقت وہ سانپ بھی آ گیا کہ جس نے گوتمی کے لڑکے کو کاٹ کر مار ڈالا تھا۔ سانپ نے کہا ’’مجھ سے غلطی نہیں ہوئی ہے، مجھ پر اس کی موت کا الزام نہ دو۔ یہ تو ’ مرتو‘ (موت) کا کام ہے کہ جس نے مجھے مار نے کا ذریعہ بنایا، میں نے لڑکے کو کب کاٹا، اسی وقت موت کا دیوتا ’مرتو‘ آ گیا۔ کہا ’’لڑکے کی موت کی ذمہ داری سانپ پر ہے اور نہ مجھ پر، ذمہ داری ہے تو ’کال‘ (وقت) کی،
قسمت نے اسے مارا ہے۔ جو ہوا وہ وقت کا تقاضا تھا۔ جس طرح بادل ہوا سے اِدھر اُدھر بھاگتے رہتے ہیں اسی طرح ’مِرتو‘ بھی قسمت کے حکم سے اِدھر اُدھر بھاگتی ہے۔‘‘ ابھی یہ بحث چل ہی رہی تھی کہ ’کال‘ یعنی وقت/ قسمت سامنے آ گئی۔ اس نے کہا ’’لڑکے کی موت کی ذمہ داری مجھ پر ہے اور نہ سانپ پر، ذمہ داری کہو یا جو کہو ’کرم‘ ہی یہ سب کرتا ہے۔ ’کرم‘ ہی ہرکام کر نے پر مجبور کرتا ہے یہ اس لڑکے کا ’کرم‘ ہے جو ذمہ دار ہے، ہم سب ذمہ دار نہیں ہیں۔ جس طرح کمہار گیلی مٹّی کو جس طرح چاہتا ہے موڑتا رہتا ہے اسی طرح ’کرم‘ یا انسان اپنی تقدیر بناتا ہے، لڑکے نے اپنی جو تقدیر بنائی یہ اسی کا نتیجہ ہے۔
ایسی بہت سی اساطیری کہانیاں ’مہابھارت‘ میں موجود ہیں جو زندگی اور موت کو طرح طرح سے سمجھانے کی کوشش کرتی ہیں۔ کئی قصّے ’bسی‘ کے عمدہ نمونے ہیں۔ رومانیت اور ’سیکس‘ کے تعلق سے بھی قصّے ملتے ہیں جو جمالیات اور المیہ کی جمالیات کو مختلف انداز سے پیش کرتے ہیں ۱۔
میں نے ہندوستانی اساطیر اور اس کی جمالیات کی کہانی سب سے خوبصورت قصّے ’سمندر منتھن‘ سے شروع کی ہے۔۔۔ آخر میں، سب سے زیادہ دردناک کہانی سنا رہا ہوں، ’مہابھارت‘ میں یہ کہانی پڑھتے ہوئے لگتا ہے جیسے معاشرے کی ٹریجڈی نے ہمیں اپنی مکمل گرفت میں لے لیا ہے، جب ٹریجڈی کا جوہر اچانک نمایاں ہوتا ہے تو کلیجہ لہو لہان ہوتا محسوس ہوتا ہے۔
یہ کہانی ہے یکلاویا (Eklavya) کی۔
درون اچاریہ کے آشرم کے پاس ارجن اور ان کے بھائی مختلف فنون کی تربیت حاصل کرتے ہیں، ان فنون میں تیر اندازی کا فن سب سے زیادہ اہم ہے۔ ارجن درون اچاریہ کے محبوب شاگرد ہیں کہ جنھیں اچاریہ تیر اندازی کا ماہر بنا چکے ہیں۔ قریب ہی شودر ذات کا ایک ہونہار لڑکا یکلاویا رہتا ہے جو تیر اندازی کا سبق لینا چاہتا ہے۔ یکلاویا کی ماں بیٹے سے کہتی ہے اچاریہ کے پاس جاؤ گے تو وہ ہر گز ہر گز تمھیں تربیت نہیں دیں گے اس لیے کہ تم شودر ذات کے ہو۔‘‘ یکلاویا مایوس نہیں ہوتا۔ اچاریہ کے آشرم کے ساتھ ہی ایک جنگل میں ایک درخت کے نیچے مٹّی (لکڑی) کا مجسمہ بناتا ہے جو درون اچاریہ کا ہم شکل پیکر ہے صبح شام ایک عابد کی طرح مجسّمے کے پاس پھول رکھتا ہے، خوشبو دار لکڑیاں جلاتا ہے۔ اس پیکر کو اپنا گرو تصوّر کر کے تیر اندازی کی مشق کرتا ہے۔ آہستہ آہستہ مشق کرتے ہوئے یکلاویا تیر اندازی کا ماہر ہو جاتا ہے، ہر دم یہی سوچتا ہے کہ یہ گرو درون اچاریہ کا فیض ہے۔
ایک دن اچاریہ درون اپنے عزیز شاگرد ارجن کے ساتھ یکلاویا کی جھونپڑی تک آتے ہیں۔ اس وقت ایک کتاّ زور زور سے بھونکنے لگتا ہے، یکلاویا کو اس کا بھونکتے رہنا اچھا نہیں لگتا ایک تیر چلا کر کتے ّ کا منہ بند کر دیتا ہے۔ درون اچاریہ اور ارجن دونوں کو سخت حیرت ہوتی ہے سوچنے لگتے ہیں بھلا ایسا نشانہ کس کا ہو سکتا ہے، یہ کون ماہر تیر انداز ہے کہ جس نے ایک تیر سے بھونکتے کتے ّ کا منہ بند کر دیا؟ ارجن کی بے چینی بہت بڑھ جاتی ہے انھیں لگتا ہے ان سے بھی بڑا کوئی تیر انداز موجود ہے۔ دونوں تیر انداز کو تلاش کرتے ہوئے یکلاویا تک پہنچ جاتے ہیں۔ اچاریہ اپنی مورتی دیکھتے ہیں اور سمجھ جاتے ہیں معاملہ کیا ہے۔ وہ سمجھ جاتے ہیں کہ یکلاویا ذہنی اور جذباتی طور پر ان کی مورتی سے وابستہ ہے اور اسے دیکھ کر تیر اندازی کی مشق کرتا ہے۔ اچاریہ درون کے دل میں یہ خوف بیٹھ جاتا ہے کہ یکلاویا ان کے عزیز شاگرد ارجن سے آگے بڑھتا جا رہا ہے۔ وہ تو یہ چاہتے ہیں کہ ارجن کا کوئی ثانی نہ ہو۔
درون اچاریہ آگے بڑھ کر دریافت کرتے ہیں ’’اے تیر انداز یہ تو بتا تیرا گرو کون ہے، تو نے ایسی تیر اندازی کہاں سے سیکھی ہے؟‘‘
یکلاویا گرو کو سامنے دیکھ کر بے حد خوش ہوتا ہے جواب دیتا ہے ’’یہ آپ کا کرم اور آشیرواد ہے، آپ کی مورتی سے ہدایت لے کر تیر اندازی کی مشق کرتا ہوں، گرو درون اچاریہ جھٹ کہتے ہیں ’’تولاؤ گرو دکشنا!‘‘
یکلاویا دریافت کرتا ہے ’’گرو کیا چاہتے ہیں؟ جو چاہتے ہیں دوں گا۔‘‘
درون اچاریہ کہتے ہیں ’’تم مجھے اپنے دائیں ہاتھ کا انگوٹھا دے دو!‘‘
یکلاویا جھٹ اپنے دائیں ہاتھ کا انگوٹھا کاٹ کر اچاریہ درون کو پیش کر دیتا ہے۔ اچاریہ جانتے ہیں کہ انگوٹھا کٹ گیا تو وہ پھر کبھی کمان اُٹھا کر تیر نہیں چلا سکے گا!
اچانک ایک گہری خاموشی طاری ہو جاتی ہے۔
درخت خاموش ہو جاتے ہیں۔
پرندوں کے نغمے گم ہو جاتے ہیں
پورا جنگل گم سم ہو جاتا ہے۔
(کہا گیا ہے کہ تمام دیوتا جنت میں خوش ہو گئے اور یکلاویا کو آشیرواد دینے لگے!!)
یہ ایسی ٹریجڈی ہے کہ جس سے کلیجہ لہو لہان ہو جاتا ہے۔
یکلاویا اس اساطیری کہانی کی ٹریجڈی کا جوہر بن کر سامنے آتا ہے!!
٭٭٭
مصنف کی اجازت سے اور ان کے تشکر کے ساتھ
اردو تحریر میں تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید