FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

ازواج مطہرات اور دیگر اہل بیت کی علمی خدمات

               ڈاکٹر عبد الخالق

شعبۂ دینیات علی گڑھ مسلم یونیورسٹی

اسلام میں ”اہلِ بیت“ کی اصطلاح نہایت محترم اور معزز ہے۔ کلام الٰہی یعنی قرآن کریم میں دو مقامات پر اور حدیث پاک میں متعدد احادیث اور روایات میں اہل بیت کا ذکر ہے۔ قرآن کریم میں سورۂ ہود: آیت، ۷۳ اور سورۂ احزاب: آیت:۳۳ میں اہل بیت کا صراحتاً ذکر ہے۔ سورۂ ہود میں ابو الانبیاء حضرت ابراہیمؑ  کے اہل بیت کا ذکر ہے، جبکہ سورۂ احزاب میں خاتم النّبیین فخر الانبیاء والرسل نبی آخرالزماں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت کا ذکر ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اہل بیت سے متعلق آیت کے الفاظ اس طرح ہیں: ”قَالُوا أتَعْجَبِیْنَ مِنْ أمْرِ اللّٰہِ رَحمۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہ عَلَیْکُمْ أہْلَ الْبَیْتِ انَّہ حَمِیْدٌ مَجِید“ (سورہ ہود: آیت، ۳۷) ترجمہ: (وہ بولے کیا تو تعجب کرتی ہے اللہ کے حکم سے، اللہ کی رحمت ہے اور برکتیں تم پر اے گھر والو! تحقیق اللہ ہے تعریف کیا گیا بڑائیوں والا)۔

          اور سید خاتم النّبیین حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت سے متعلق الفاظ قرآنی اس طرح ہیں: ”انَّمَا یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیُذْہِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ أہْلَ الْبَیْتِ وَیُطَہِّرَکُمْ تَطْہِیْراً“ (سورۂ احزاب: آیت، ۳۳) ترجمہ: (اور اللہ یہی چاہتا ہے کہ دور کرے تم سے گندی باتیں۔ اے نبی کے گھر والو اور ستھرا کر دے تم کو ایک ستھرائی)۔

اہل بیت کی علمی خدمات پر بحث کرنے سے قبل ضروری معلوم ہوتا ہے کہ بذاتِ خود اہل بیت کی حقیقت کا تعین ہو جائے۔ قرآن کریم، احادیث نبوی اور علماء اسلام کی تصنیفات (جن میں حضرات صحابۂ کرامؓ، حضرات تابعین اور بہت سے علمائے متقدمین اور متاخرین شامل ہیں) ان تمام حضرات کی تصنیفات کا خلاصہ یہ ہے کہ ظاہراً اہل بیت کی اصطلاح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل خانہ یعنی ازواجِ مطہرات و اولاد کے لیے خصوصاً اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عشیرہ اور عترت کے لیے عموماً استعمال ہوتی ہے۔ بعض علمائے کرام وسعت کا مظاہرہ کرتے ہوئے بنو مطلب اور بنو ہاشم کو بھی اس اصطلاح میں شامل کرتے ہیں، لیکن اہل سنت والجماعت کے اس واضح موقف کے برخلاف اہل تشیع یعنی علمائے شیعہ کے نزدیک اہلِ بیت کی اصطلاح کا حامل، نہایت ہی محدود مفہوم جس میں وسعت کی کوئی گنجائش نہیں۔ بعض علمائے حق نے اہلِ بیت سے مراد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات کو لیا ہے، ان حضرات کے نزدیک بیت سے مراد رسول اللہ کا گھر اور اہل بیت سے مراد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر والے ہیں۔ یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات۔

اپنے موقف کی حمایت میں سورۂ احزاب کی آیت پیش کی ہے: وَقَرْنَ فِی بُیُوتِکُنَّ وَلا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الجَاہِلِیَّۃِ الأولٰی وَأقِمْنَ الصَّلاَۃَ وَاٰتِیْنَ الزَّکوٰۃ وَاطعْنَ اللّٰہَ وَرَسُولَہ انَّما یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیُذْہِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ أہْلَ البَیْتِ وَیُطَہِّرَکُمْ تَطْہِیْرًا“ (سورۂ احزاب: آیت، ۳۳) ترجمہ: (اور قرار پکڑو اپنے گھروں میں اور دکھاتی نہ پھرو جیسا کہ دکھانا دستور تھا پہلے جہالت کے وقت میں اور قائم رکھو نماز اور دیتی رہو زکوٰۃ اور اطاعت میں رہو اللہ کی اور اللہ یہی چاہتا ہے کہ دور کرے تم سے گندی باتیں۔ اے نبی کے گھر والو اور ستھرا کر دے تم کو ایک ستھرائی سے) اور اس موقف کے سلسلہ میں اتنی شدت برتی ہے کہ حضرت عکرمہؓ  بازار میں منادی کرتے تھے کہ آیت: ”انَّما یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیُذْہِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ أہْلَ البَیْتِ وَیُطَہِّرَکُمْ تَطْہِیْرًا“ (سورۂ احزاب: آیت، ۳۳) ترجمہ: (اور اللہ یہی چاہتا ہے کہ دو کرے تم سے گندی باتیں۔ اے نبی کے گھر والو اور ستھرا کر دے تم کو ایک ستھرائی سے) میں اہل بیت سے مراد ازواج مطہرات ہی ہیں، کیوں کہ یہ آیت انھیں محترم و معزز خواتین کے یہاں نازل ہوئی تھی، اور فرمایا کرتے تھے کہ میں اس معاملے میں مباہلہ کرنے کو تیار ہوں، لیکن حدیث شریف میں الفاظ اس طرح سے ہیں: ”اللّٰہم صل علی محمد وعلی آل محمد کما صلیت علی ابراہیم و علی آل ابراہیم انک حمید مجید، ․ اللّٰہم بارک علی محمد و علی آل محمد کما بارکت علی ابراہیم و علی آل ابراہیم انک حمید مجید“ جس طرح سے قرآن کریم میں اہل بیت کی اصطلاح حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے استعمال ہوئی ہے، اسی طرح درودِ ابراہیمی میں بھی لفظ آل ابراہیم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے استعمال ہوا ہے۔ اہل کی ایک شکل آل بھی ہے۔ امام راغب اصفہانی نے مفردات القرآن میں تحریر فرمایا ہے کہ بعض حضرات آل النبی صلی اللہ علیہ وسلم سے حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے اقارب مراد لیتے ہیں اور بعض حضرات کے نزدیک آل النبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مراد اہل علم ہیں، جن کا آپ کے ساتھ خصوصی تعلق تھا، یا تعلق پایا جائے۔

امام راغب اصفہانی نے اہل دین کی دو قسمیں بیان کی ہیں: ایک قسم وہ ہے جن میں وہ لوگ شامل ہیں، جو علم و عمل کے لحاظ سے راسخ العقیدہ ہوئے ہیں، ان کے لیے آل النبی یا امت کے الفاظ استعمال کیے جاسکتے ہیں۔ دوسری قسم وہ ہے، جن میں وہ لوگ شامل ہیں جن کا علم صرف تقلیدی ہوتا ہے، انھیں امتِ محمد کہا جاسکتا ہے، لیکن آل محمد نہیں کہا جاسکتا۔ اس سلسلہ میں امام راغب نے امام جعفر صادق سے منسوب ایک واقعہ بیان کیا ہے کہ: کسی شخص نے حضرت جعفر صادق سے دریافت کیا کہ اس سلسلہ میں آپ کی رائے کیا ہے کہ بعض لوگ تمام مسلمانوں کو آل النبی میں داخل سمجھتے ہیں؟ حضرت جعفرؓ  نے فرمایا: ’’یہ رائے صحیح بھی ہے اور غلط بھی۔ غلط تو اس لیے ہے کہ تمام امت آل النبی صلی اللہ علیہ وسلم میں شامل نہیں ہے اور صحیح اس لیے کہ اگر تمام لوگ شریعت کے کما حقہ پابند ہو جائیں تو ان کو آل النبی صلی اللہ علیہ وسلم کہا جاسکتا ہے۔ ابن خالویہ کے مطابق آل کی ۲۵ سے زائد اصناف ہیں، جیساکہ الجرائی کی کتاب ”منار الہوا“ میں مذکور ہے۔

لیکن شیعہ حضرات اہل بیت میں صرف اہل الکساء کو ہی شمار کرتے ہیں، یہ لقب حضرت علیؓ، حضرت فاطمہؓ، حضرت حسن اور حضرت حسینؓ  کو مجموعی اعتبار سے اس واسطے دیا جاتا ہے کہ ایک مرتبہ جب کہ اہل نجران کے نصاریٰ کا وفد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا ہوا تھا، تو توحید اور تثلیث میں حق وباطل کے انتخاب کے سلسلہ میں مباہلے کے دوران آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان چاروں حضرات کو اپنی چادر میں لپیٹ لیا اور قرآن کریم کی آیت: ”انَّما یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیُذْہِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ أہْلَ البَیْتِ وَیُطَہِّرَکُمْ تَطْہِیْرًا“ (سورۂ احزاب: آیت، ۳۳) ترجمہ: (اور اللہ یہی چاہتا ہے کہ دور کرے تم سے گندی باتیں۔ اے نبی کے گھر والو اور ستھرا کر دے تم کو ایک ستھرائی سے)۔

ایک دوسری روایت کے مطابق حضرت علیؓ، حضرت فاطمہؓ  اور حضرات حسنینؓ  کے علاوہ آپ نے حضرت عباسؓ  (چچا) اور ان کے بیٹوں کو بھی اہل بیت میں شامل کیا ہے، کیونکہ ایک بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچا حضرت عباسؓ  اور ان کے بیٹوں کے اوپر اپنی چادر ڈال دی تھی اور فرمایا تھا: اے اللہ! انھیں دوزخ کی آگ اسی طرح چھپائے رکھ جیسے میں نے انھیں اپنی چادر میں چھپا لیا ہے (بعض علماء اہل الکساء کے لیے اہل العباء کی اصطلاح بھی استعمال کرتے ہیں)

خلاصۂ کلام یہ کہ اگر ایک طرف قرآن کریم سے ازواج مطہرات کا اہل بیت میں شامل ہونا ثابت ہوتا ہے، تو دوسری طرف احادیث کثیرہ اور بہت سے روایات سے حضرت علیؓ، حضرت فاطمہؓ  اور حضرات حسنینؓ  کا اہل بیت ہونا اظہر من الشمس ہے۔ اگر ان دونوں حقائق کو ملا دیا جائے، تو نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اہل بیت میں ازواج مطہرات کے ساتھ حضرات حسنین اور ان کے والدین بھی شامل ہیں۔ اگر قرآن کریم کی آیات کا بغور مطالعہ کیا جائے، تو معلوم ہوتا ہے کہ آیات قرآنی سورۂ احزاب ۷۳ ازواج مطہرات کی شان میں نازل ہوئی ہے اور اہل بیت سے وہی مراد ہیں، لیکن اہل بیت میں اور نفوس مقدسہ کا شامل ہونا قرآنی آیات کے منافی نہیں، کیوں کہ ”انَّما یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیُذْہِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ أہْلَ البَیْتِ وَیُطَہِّرَکُمْ تَطْہِیْرًا“ (سورۂ احزاب: آیت، ۳۳) ترجمہ: (اور اللہ یہی چاہتا ہے کہ دور کرے تم سے گندی باتیں۔ اے نبی کے گھر والو اور ستھرا کر دے تم کو ایک ستھرائی سے) والی آیت میں مذکر و مؤنث دونوں شامل ہیں۔ یعنی اگر اس آیت سے ماسبق اور مابعد والی آیات قرآنی ازواج مطہرات کی طرف مشیر ہیں، تو یہ آیت تمام اہل بیت مذکر و مؤنث دونوں کو شامل ہے، اس لیے حق یہ ہے کہ اہل بیت میں ازواج مطہرات کے ساتھ دوسرے حضرات بھی شامل ہیں اور حدیث شریف اور دیگر روایات اگر حضرت حسنین اور ان کے والدین کو اہل بیت میں شمار کر رہی ہیں تو احادیث سے یہ بات کہیں بھی ثابت نہیں ہوتی، بلکہ اشارہ بھی نہیں ملتا کہ اہل بیت میں حضرات حسنینؓ  اور ان کے والدین کے علاوہ کوئی دیگر شخص (ازواج مطہرات وغیرہ) شامل نہیں ہیں۔

شیعہ حضرات کا یہ موقف کہ اہل بیت میں صرف حضرات حسنین اور ان کے والدین ہی شامل ہیں، باقی اور کوئی نہیں۔ قرآنی آیت ۷۳ سورۂ احزاب کے سیاق وسباق کے منافی ہے، کیوں کہ مذکورہ آیت کے الفاظ قرآنی سے قبل اور بعد دونوں جگہ یا نساء النبی کے عنوان سے خطاب اور ان کے واسطے صیغۂ مؤنث کا استعمال فرمایا گیا ہے۔ سابقہ آیات: ”فَلَا تَخْضَعْنَ بالقول“ سب صیغہ مؤنث استعمال ہوئے ہیں اور آگے پھر ”وَاذْکُرْ مَا یُتْلٰی“ میں بصیغہ تانیث خطاب ہوا ہے، اس درمیانی آیت کو سیاق وسباق سے کاٹ کر بصیغۂ مذکر ”اِنَّکمْ“ اور ”یُطَہِّرَکُم“ فرمانا بھی اس پر شاہد ہے کہ اس آیت میں اہل بیت میں صرف ازواج مطہرات ہی داخل نہیں ہیں، بلکہ کچھ رجال بھی ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شارع اور مفسر قرآن کی حیثیت سے کچھ رجال اور نساء کو اہل بیت میں شمار کر لیا ہے۔ مثلاً ازواج مطہرات کے ساتھ حضرت فاطمہ (عورت کی حیثیت میں اور کچھ رجال بھی مثلاً حضرت علی، حضرات حسنین، حضرت عباس اور ان کے بیٹے وغیرہ) واللہ اعلم بالصواب۔ اس طرح اسلامی مصادر دین کی اہمیت کے پیش نظر وہ اہل بیت جو قرآن کریم سے واضح طور پر ثابت ہیں، ان کو اس مضمون میں طبقۂ اولیٰ میں رکھا جا رہا ہے۔ یعنی ازواج مطہرات، اور وہ حضرات اہل بیت جو احادیث صحیحہ سے ثابت ہیں، ان کو طبقہ ثانیہ میں رکھا جا رہا ہے اور دیگر حضرات جو بعض دوسری روایات سے اہل بیت میں شامل نظر آتے ہیں، ان کو طبقہ ثالثہ میں رکھا جا رہا ہے۔ مندرجہ ذیل سطور میں ان تینوں طبقات اہل بیت کی علمی خدمات کو نقل کیا جا رہا ہے۔

               اہلِ بیت کی خدمات (طبقۂ اولیٰ- ازواجِ مطہرات)

اس طبقہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سبھی ازواج مطہرات شامل ہیں، لیکن حدیث شریف میں اور دیگر کتب میں حضرت عائشہؓ، حضرت ام سلمہؓ، حضرت حفصہؓ  اور حضرت میمونہؓ  کو اس طبقے میں شمار کیا ہے۔

حضرت عائشہ کی علمی خدمات

          حضرت عائشہؓ  کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جب نکاح ہوا، تو آپ کی عمر صرف ۶ سال تھی اور جب رخصتی ہوئی تو ۹ سال تھی اور جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہوا تو آپؓ  کی عمر ۱۸ سال تھی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد آپ ۴۸ سال تک زندہ رہیں، اس دوران طویل عرصے میں یعنی تقریباً ۵۷ سال آپ شب و روز دین کی خدمت کرتی رہیں۔ علمِ دین کو پھیلاتی رہیں، صحابیات میں سب سے زیادہ احادیث آپ سے ہی مروی ہیں۔ آپ کا حافظہ نہایت قوی تھا، جو سنتی تھیں وہ صرف وقتی طور پر یاد ہی نہیں ہو جاتا تھا، بلکہ دل و دماغ میں نقش ہو کر رہ جاتا تھا۔ حدیث شریف سے آپ کو گہرا تعلق تھا، کسی حدیث کے سلسلے میں اگر اصحابِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی شبہ ہوتا تھا، تو آپ ہی کی طرف رجوع کیا جاتا تھا۔ آپ بڑی آسانی کے ساتھ مدلل طور پر شک و شبہ کو رفع کر دیتی تھیں، مثلاً ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: ’’لوگ قربانی کے گوشت کو ۳ دن سے زیادہ نہ رکھیں‘‘ حضرت عبداللہ بن عمرؓ  اور حضرت ابوسعید خدریؓ  نے یہ سمجھا کہ یہ حکم دائمی ہے۔ حضرت عائشہؓ  نے جب یہ بات سنی تو فرمایا کہ یہ حکم نہ تو دائمی ہے اور نہ ہی واجب ہے، بلکہ مستحب ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ لوگ قربانی کے گوشت کو جمع نہ کریں، بلکہ دوسروں کو کھلائیں۔ حضرت عائشہؓ  کی ایک قابل ذکر خوبی یہ تھی کہ جب آپ روایت کرتی ہیں تو ساتھ ہی ساتھ اس کی علم و حکمت پر بھی روشنی ڈالتی ہیں، مثلاً ابوسعید خدری اور عبداللہ بن عمرؓ  سے غسلِ جمعہ کے سلسلہ میں صرف اس قدر مروی ہے کہ جمعہ کے دن غسل کر لینا چاہیے، لیکن اس حدیث شریف کو حضرت عائشہ صدیقہؓ  نے ذکر فرمایا تو یہ بھی فرمایا کہ لوگ اپنے گھروں اور مدینہ کے آس پاس کی آبادیوں سے نماز جمعہ کو آیا کرتے تھے، وہ گرد و غبار سے اٹے ہوئے اور پسینے سے تر ہوتے تھے۔ ایک مرتبہ ایک صاحب آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم آج کے دن غسل کر لیتے تو کتنا اچھا ہوتا۔ حضرت عائشہؓ  کے تفقہ فی الدین دقت نظر قوت حافظہ اور شوق حدیث کے موضوع پر بہت سے حضرات نے قلم اٹھایا ہے، ان میں حضرت علامہ سیوطی بھی ہیں۔ آپ نے ایک رسالہ ”عین الاصابہ“ میں اس قسم کی ۴۰ روایات کا تذکرہ کیا ہے، جس سے آپ کی دقیق نظر، تفقہ فی الدین، دور اندیشی اور دوربینی کا اندازہ ہوتا ہے۔

حضرت عائشہؓ  کے شاگرد: آپ سے تقریباً ۱۰۰ صحابہ اور صحابیات نے روایت کی ہے، مثلاً عروہ بن زبیر، سعید بن المسیب، عبداللہ بن عامر، مسروق بن اجدع، عکرمہ جیسے جلیل القدر حضرات آپ کے تلامذہ میں شامل ہیں۔

مرویات کی تعداد: محدثینِ عظام کے مطابق حضرت عائشہؓ  کا شمار ان حضرات میں، جن سے کثیر تعداد میں حدیث شریف کی روایات ذکر کی گئی ہیں، چھٹے نمبر پر آتا ہے، بلکہ بعض حضرات کے نزدیک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرنے والوں میں آپ کا نمبر چوتھا ہے۔ صحابہ کرامؓ  کی مرویات کی فہرست دیکھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ صرف حضرت ابوہریرہ، عبداللہ بن عباسؓ  اور عبداللہ بن عمرؓ  کی مرویات آپ سے زیادہ ہیں۔ محدثین عظام نے آپ کی مرویات کی تعداد ۲۲۱۰ (دو ہزار دو سو دس) بتلائی ہیں، ان میں تقریباً ۲۷۳ صحیحین یعنی بخاری شریف اور مسلم شریف میں موجود ہیں۔

حضرت ام سلمہؓ  کی علمی خدمات

حضرت ام سلمہؓ  آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ان ازواج مطہرات میں شامل ہیں، جن کو علم حدیث سے بہت ہی شغف تھا، آپ ہی کے حجرہ شریف میں اہل بیت سے متعلق آیات نازل ہوئیں، یعنی ”انَّما یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیُذْہِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ أہْلَ البَیْتِ وَیُطَہِّرَکُمْ تَطْہِیْرًا“ (سورۂ احزاب: آیت، ۳۳) آپ کی علمی اور دینی خدمات اتنی زیادہ ہیں کہ آپ کا شمار محدثین کے تیسرے طبقے میں ہوتا ہے، اس کی وجہ یہ تھی کہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث مبارکہ کو سننے کے لیے اپنی ذاتی ضروریات کو بھی مؤخر کر دیتی تھیں، مثلاً ایک مرتبہ آپ بال بندھوا رہی تھیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خطبہ کی آواز سنائی دی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے ”أیہا الناس“ (اے لوگو!) یہ سنتے ہی آپ نے مشاطہ سے فرمایا کہ بس بال باندھ دو۔ مشاطہ نے کہا ایسی بھی کیا جلدی ہے، ابھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف ”أیہا الناس“ فرمایا ہے، تو آپ نے یہ جواب دیا کہ کیا ہم انسانوں میں شمار نہیں ہیں؟ یہ کہہ کر خود ہی بال باندھ کر کھڑی ہو گئیں اور خطبہ سننے میں مشغول ہو گئیں۔

آپ کے شاگرد: حضرت ام سلمہؓ  کے شاگردوں میں اسامہ بن زید، سلیمان بن یسار، عبداللہ بن رافع، سعید بن مسیب، عروہ بن زبیر، زینب بنت ام سلمہ رضی اللہ عنہما شامل ہیں۔

مرویات کی تعداد اور افتاء: آپؓ  کی مرویات کی تعداد محدثین عظام کے مطابق ۳۷۸ ہے، جن میں سے بہت سی احادیث بخاری اور مسلم وغیرہ کتب میں شامل ہیں۔ آپ مفتیہ بھی تھیں، آپ کے متعدد فتاویٰ موجود ہیں۔ حضرت ابن قیم کے مطابق اگر آپ کے فتاویٰ جمع کیے جائیں تو ایک رسالہ تیار ہو جائے۔

حضرت حفصہؓ  کی علمی خدمات

          آپؓ  کو ازواج مطہرات میں شامل ہونے کی وجہ سے آپ کو بلا واسطہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے احادیث مبارکہ سننے کا موقع ملا تھا۔ آپ کی مرویات کی تعداد ۶۰ ہے۔ آپ سے بڑے بڑے صحابہؓ  نے حدیث شریف کی روایت کی ہیں۔

حضرت میمونہؓ  کی علمی خدمات

          آپ کو بھی ازواج مطہرات میں شامل ہونے کی وجہ سے بلاواسطہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے احادیث سننے کا موقع وقتاً فوقتاً فراہم ہوتا رہتا تھا۔

مرویات کی تعداد: آپ کی مرویات کی تعداد ۴۶ ہے۔

شاگرد: آپ کے شاگردوں میں یعنی آپ سے روایت کرنے والوں میں مشاہیر صحابہؓ  اور علمائے حدیث شامل ہیں: مثلاً حضرت عبداللہ بن عباسؓ، زید بن حاصمؓ، عطا بن یسارؓ۔

حضرت جویریہؓ  کی علمی خدمات

          آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج میں شامل ہیں۔ آپ سے حدیث شریف کی ۷ روایات مذکور ہیں۔

حضرت سودہؓ  کی علمی خدمات

          آپ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج میں شامل ہیں۔ آپ سے حدیث شریف کی ۸ روایات مذکور ہیں۔

               اہل بیت طبقہ ثانیہ کی علمی خدمات

          اس طبقہ میں حدیث شریف کے مطابق حضرت علیؓ، حضرت فاطمہؓ  اور حضرات حسنینؓ  شمار ہوتے ہیں۔ شیعہ حضرات اس طبقہ کے صحابہ کو اہل الکساء یا اہل القباء بھی کہتے ہیں۔ اس طبقہ کی علمی خدمات احاطے سے باہر ہیں، لیکن پر بھی ثواب دارین کی تحصیل کے لیے اور تبلیغ دین کے واسطے سے اس طبقہ کی خدمات حدیث اجاگر کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

حضرت علیؓ  کی علمی خدمات

          آپ کا مبارک نام علی بن ابی طالب ہے۔ لقب اسداللہ اور اسد الرسول ہے۔ آپ جس طرح میدان جنگ میں بہادری کے جوہر دکھاتے تھے، اسی طرح تصنیف و تالیف میں بھی اعلیٰ درجہ کے صحابہ میں شمار ہوتے ہیں۔ خلافت فاروقی میں ایسے بہت سے مواقع آئے ہیں کہ جب خود حضرت عمر فاروقؓ  نے حضرت علیؓ  کی تعلمی تفہیم کو سراہا تھا، آپ کی علمی خدمات کا آغاز اس طرح سے ہوتا ہے کہ آپ لڑکوں میں سب سے پہلے اسلام میں داخل ہوئے اور بچپن سے ہی دامن نبوت میں تعلیم و تربیت پائی، آپ کا رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ گوناگوں تعلق تھا، جس کی وجہ سے آپ کو تحصیل علم کے بہت سے مواقع حاصل ہوئے، کیوں کہ اگر بچپن میں حضور  صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تعلیم و تربیت کی سمت میں آگے بڑھے تو آغاز نبوت میں ہی آپ اسلام میں داخل ہو گئے، جس طرح مردوں میں حضرت ابوبکر صدیق کو اسلام میں داخلے میں اولیت حاصل ہے، اسی طرح لڑکوں میں آپ کو اسلام میں داخلے میں پہلا مقام حاصل ہے اور جب آپ نے شباب کی منزل میں قدم رکھا تو آپ کو حضور  صلی اللہ علیہ وسلم سے دامادی (مصاہرت) کا شرف حاصل ہوا اور جب غزوات کا دور شروع ہوا تو پوری دس سالہ مدنی دور نبوت میں آپ ہر غزوہ میں آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک رہے۔

          اس بناء پر آپ کو اقوال نبوی کے سننے، اعمال نبوی کو دیکھنے اور منشا نبوت کو سمجھنے کے نادر مواقع نصیب ہوئے، جس کی وجہ سے آپ کا علمی درجہ نہایت بلند ہو گیا اور آپ مختلف علوم میں امامت کے درجہ پر فائز ہو گئے۔ بعض علماء کے مطابق (صاحب تہذیب الاسماء) ”کان من العلوم بالمحلل العالی“ اور عبداللہ بن عباسؓ  کے مطابق علوم کے دس درجوں میں سے ۹درجہ حضرت علی کے پاس تھے اور دسویں درجہ میں بھی ان کا کچھ حصہ تھا۔ حتی کہ ایک روایت کے مطابق حضور  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”انا مدینۃ العلم وعلی بابہا“ آپ کی علمی صفات میں سب سے پہلی صفت آپ کا قرآن کریم کا حافظ ہونا ہے، حتی کہ آپ یہاں تک فرمایا کرتے تھے کہ قرآن کریم کی کوئی بھی آیت ایسی نہیں ہے، جس کے متعلق مجھے یہ معلوم نہ ہو کہ وہ اس بارے میں کہاں اور کب نازل ہوئی۔ آپ کو قرآن کریم اور اس کے احکام ومسائل کے استنباط میں مہارت حاصل تھی، تفسیر کے مضمون میں بحر العلوم یعنی عبداللہ بن عباسؓ  کے علاوہ آپ کا کوئی ہمسر نہ تھا۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ نے قرآن کریم کی آیات اور سورتوں کے نزول کے اعتبار سے ایک نسخہ تیار کیا جس کا تذکرہ ابن ندیم کی فہرست میں کیا گیا ہے۔

          علم حدیث سے آپ کو اتنا شغف تھا کہ آج بھی تقریباً ۶۸۵ روایات حدیث آپ کی جانب منسوب ہیں، جو مختلف کتب حدیث میں موجود ہیں۔ آپ نے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم سے سماعت کے بعد ایک صحیفہ تیار کیا تھا، جس میں مختلف احکام ومسائل کے ساتھ ساتھ خطبہ حجۃ الوداع، حرمت حرمین شریفین وغیرہ کے احکام مندرج تھے۔ آپ فرمایا کرتے تھے کہ ہم نے رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم سے ان دو چیزوں یعنی قرآن کریم اور صحیفہ علی کے علاوہ کچھ نہیں لکھا۔ آپ کو علم فقہ اور افتاء میں اس درجہ مہارت حاصل تھی کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ہی آپ ان چند لوگوں کی مبارک جماعت میں شامل تھے، جن کو دور نبوت میں ہی فتویٰ دینے کی اجازت حاصل تھی، جب اہل یمن نے اسلام قبول کیا تو آپ ہی کو سب سے پہلے یمن کا قاضی مقرر کیا گیا تھا۔ آپ کو علم قضا میں اتنی مہارت حاصل تھی کہ حضرات صحابہؓ  میں اس میدان میں آپ کا کوئی ہمسر نہ تھا، جس کے نتیجہ میں زمان نبوت میں ہی آپ کو ”اقضٰہم علی“ کا خطاب ملا تھا۔ آپ کو علوم شریعت میں صرف وسعت ہی حاصل نہیں تھی، بلکہ اعلیٰ درجہ کی ذہانت و دقیقہ سنجی حاصل تھی۔ اصول وکلیات سے فروعی اور جزوی احکام بڑی آسانی سے اخذ کر لیتے تھے۔ اکثر وبیشتر مشکل مسائل میں صحابہ کرامؓ  آپ ہی کی طرف رجوع فرمایا کرتے تھے۔ یہاں تک کہ حضرت عمرؓ  بذات خود امام ومجتہد ہونے کے باوجود آپ سے اکثر و بیشتر مسائل میں مشورہ کیا کرتے تھے، ایک بار حضرت عمرؓ  نے ایک پاگل زانیہ کو حد کی سزا دینی چاہی، تو حضرت علیؓ  نے سزا دینے سے روک دیا اور وجہ بتلائی کہ پاگلوں اور مجنونوں پر شریعت کے احکام لاگو نہیں ہوتے۔ موافقین تو آپ کی فقہ و افتاء کے مداح تھے ہی آپ کے مخالفین بھی شریعت کے معاملے میں آپ سے رجوع کرنے میں شرم محسوس نہیں کرتے تھے، مثلاً امیر معاویہؓ  جو چار پانچ سال تک آپ سے میدان جنگ میں اور میدان سیاست میں مدمقابل رہے وہ بھی آپ سے شرعی مسائل میں فتویٰ لیا کرتے تھے۔ فقیہ الامت حضرت عبداللہ بن مسعودؓ  جن کے تفقہ فی الدین کی بنیاد پر فقہ حنفی کا قصر عالیشان پچھلے سیکڑوں سالوں سے مسلمانوں کی شرعی حاجات کی تکمیل کر رہا ہے، وہ بھی شرعی مسائل میں آپ سے رجوع فرمایا کرتے تھے۔ علم فرائض میں آ پ مدینہ کے ممتاز علماء میں شمار ہوتے تھے۔

          علم الفقہ ہی میں نہیں، بلکہ تزکیہ نفس کے سلسلے میں یعنی تصوف کے میدان میں بھی تمام سلاسل تصوف حضرت حسن بصری کے واسطے سے آپ (حضرت علیؓ ) پر ہی منتہی ہوتے ہیں، اس سلسلے میں حضرت شاہ ولی اللہ اور حضرت احمد قشاشی بھی اس دعوے کے اسباب میں شامل ہوتے نظر آتے ہیں۔

          علم ادب کے میدان میں بھی آپ کا کوئی ہمسر نہیں تھا۔ آپ فصحاء عرب میں شمار ہوتے تھے۔ خطابت (کلام و بلاغت) میں آپ حضرات صحابہ کرامؓ  میں صفِ اوّل کے لوگوں میں شمار ہوتے ہیں۔ جیساکہ بہت سے خطبات سے ظاہر ہے․․․․․․․․․․

          آپ کو اشعار سے بھی کافی شغف تھا، لیکن گوناگوں مشغولیات کی وجہ سے خاص طور سے دور نبوی میں غزوات کی مشغولی اور دور خلافت میں خلافت کی مشغولی اور مخالفین کی مخالفت کی وجہ سے اس میدان میں نمایاں طور سے ظاہر نہ ہوسکے، البتہ آپ سے منسوب ایک دیوان ملتا ہے، لیکن اشعار اس کے اتنے غیر معیاری ہیں کہ آپ جیسے فصیح اللسان عالی مرتبت لوگوں کی طرف ان کو منسوب نہیں کیا جاسکتا۔ آپ کے اشعار کا ایک نمونہ غزوۂ خیبر کے رجز کی شکل میں بخاری شریف میں موجود ہے۔

          فن لسان اللغات میں آپ صرف و نحو کے امام سمجھے جاتے ہیں۔ آپ نے مدینہ کے ایک بزرگ حضرت ابوالاسود دولی کو چند اصول بتلائے تھے، جن کو اس نے ترقی دے کر علم نحو کو مکمل فن کی حیثیت سے متعارف کروایا۔ شیعہ حضرات کے مطابق نہج البلاغۃ آپ کی علمی خدمات، مواعظ حسنہ پر مبنی مشہور و معروف کتاب ہے جس کے مرتب علامہ شریف رضی ہیں۔

حضرت فاطمہؓ  کی علمی خدمات

          رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹیوں میں سب سے چھوٹی بیٹی حضرت فاطمہؓ  تھیں۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کی ساری اولاد آپ کی زندگی میں ہی وفات پاچکی تھیں، صرف حضرت فاطمہؓ  ہی آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے ۶ مہینے بعد تک زندہ رہیں۔ حضرت فاطمہؓ  نکاح سے پہلے بھی اور نکاح کے بعد بھی آپ ہی کے قرب و جوار میں رہیں۔ علم فقہ کے میدان میں بھی آپ کی خدمات مسلم ہیں، لیکن حدیث شریف میں آپ کی زیادہ روایات موجود نہیں ہیں۔ قاضی عبدالصمد صارم کے مطابق حضرت فاطمہ الزہراءؓ  کی ۱۸ روایات مختلف کتب حدیث میں مذکور ہیں۔

حضرت حسنؓ  کی علمی خدمات

          حضرت حسن بن علیؓ، حضرت فاطمہؓ  کے سب سے بڑے بیٹے ہیں۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہوا تو اس وقت حضرت حسن بن علیؓ  کی عمر تقریباً ۸ سال تھی۔ اس قلیل مدت میں بھی آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تقریباً ۱۳ روایات حدیث یاد کر لی تھی، جو آج تک کتب حدیث میں موجود ہیں۔ مثلاً فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ میں نے صدقہ کی کھجوروں میں سے ایک کھجور اپنے منہ میں رکھ لی، جیسے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے کھجور کھاتے دیکھا تو فوراً کخ کخ کر کے میرے منہ سے نکال لی اور یہ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں یعنی آل رسول کو صدقہ کا مال کھانے سے منع کر دیا ہے۔

حضرت حسینؓ  کی علمی خدمات

          حضرت حسین بن علیؓ  حضرت فاطمہؓ  کے دوسرے بیٹے ہیں جن کی عمر شریف رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے وقت تقریباً ۷ سال تھی۔ آپ سے اتنی کم عمری میں تقریباً ۸ روایات مختلف کتب حدیث میں مذکور ہیں۔

               طبقہ ثالثہ

حضرت عباس بن عبدالمطلبؓ  کی علمی خدمات

          آپ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ہیں۔ آپ غزوہ بدر کے بعداسلام میں داخل ہوئے، باطنا آپ مکی دور میں ہی مسلمان ہو گئے تھے، آپ سے حدیث شریف کی ۳۵ روایات مذکور ہیں۔

عبداللہ بن عباسؓ  کی خدمات

          آپ حبر الامت کہلاتے ہیں۔ آپ علم تفسیر میں کمال رکھتے تھے۔ حضرت علیؓ  کے علاوہ کوئی آپ کا اس میدان میں ہمسر نہیں تھا۔ آپ تفقہ فی الدین کی وجہ سے حضرت عمرؓ  کے یہاں آپ کا خاص مقام تھا۔ حالانکہ آپ عمر میں چھوٹے تھے، لیکن پھر بھی آپ کی فہم وفراست کی وجہ سے آپ کو حضرت عمرؓ  اجلۂ صحابہؓ  میں جگہ دیتے تھے۔ آپ سے حدیث کے سلسلے میں ۱۶۶۰ احادیث کی روایات کی گئی ہیں۔ آپ کی تفسیر، تفسیر ابن عباسؓ  کے نام سے مشہور ہے، جس کے الفاظ تفسیر کی مختلف کتب میں پائے جاتے ہیں۔

حضرت ام ہانیؓ

          آپ حضور  صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپی تھیں۔ رشتہ دار ہونے کی وجہ سے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم سے سماعت کے بہت سے مواقع نصیب ہوئے، آپ سے حدیث شریف میں تقریباً ۴۶ روایات منقول ہیں۔ ایک روایت اس طرح سے ہے کہ آپ نے ایک بار رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! میں بہت بوڑھی ہو گئی ہوں زیادہ عبادت وغیرہ نہیں کرسکتی، آپ مجھے کوئی ایسی چیز بتا دیجیے جس کو آسانی سے انجام دے سکوں۔ حضور  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا آپ روزانہ (۱۰۰) سوبار سبحان اللہ کہہ لیا کرو، اس کا ثواب اتنا ہے کہ جیسے کسی نے اللہ کے راستے میں ۱۰۰ اونٹ قربان کیے ہوں اور وہ سب قبول ہو گئے ہوں۔ ۱۰۰ بار الحمدللہ کہہ لیا کرو اس کا ثواب اتنا ہے کہ جیسے کسی نے ۱۰۰ گھوڑے جہاد فی سبیل اللہ کے لیے دیے ہوں اور وہ قبول ہو گئے ہوں اور ۱۰۰ بار اللہ اکبر کہہ لیا کرو اس کا ثواب اتنا زیادہ ہے جیساکہ کسی نے ۱۰۰ غلام اللہ کے لیے آزاد کیے ہوں اور ۱۰۰ بار لا الہ الا اللہ کہہ لیا کرو اس کا ثواب تو زمین وآسمان کے درمیان کے خلاء کو پر کر دیتا ہے۔

عبداللہ بن جعفرؓ

          آپ حضرت جعفرؓ  بن ابی طالب کے بیٹے ہیں۔ آپ کے والد محترم غزوۂ موتہ میں شہید ہو گئے تھے، اس وقت حضرت جعفرؓ  کی عمر ۳۳ سال تھی۔ حضرت عبداللہ بن جعفرؓ  اس وقت بچے ہی تھے۔ اس لیے حضور  صلی اللہ علیہ وسلم سے سماعت کا زیادہ موقع نہیں ملا، لکن پھر بھی آپ سے ۲۵ روایات حدیث منقول ہیں۔

٭٭٭

               حوالہ و حواشی

کتب

(۱)            قرآن کریم۔

(۲)            مشکوٰۃ شریف۔

(۳)           حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا: فضائل اعمال (حکایت صحابہ) باب: ۱۱۔

(۴)           حافظ فروغ حسن: ازواج مطہرات، اسلامک بک فاؤنڈیشن نئی دہلی۔

(۵)           مفتی محمد شفیع: معارف القرآن۔

(۶)            فاروق خاں: حدیث کا تعارف۔

(۷)           مولانا ابوالاعلیٰ مودودی: تفہیم القرآن۔

(۸)           دائرۃ المعارف الاسلامیہ (اردو)

رسائل

(۱)            تہذیب الاخلاق                                مدیر           پروفیسر ابوالکلام قاسمی

(۲)            فکر و نظر                                       مدیر           مولانا احمد حبیب

(۳)           تحقیقات اسلامی، علی گڑھ       مدیر           سید جلال الدین عمری

٭٭٭

ماخذ:

http://www.darululoom-deoband.com/urdu/magazine/new/tmp/04-Azwaj%20Mutahrat%20aur%20digar%20ahl%20bait_MDU_02_February_12.htm

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید