فہرست مضامین
- ارمغانِ ابتسام
- جولیاں انار کی یخنی اور فارم ہاؤس
- پے گئی اے ٹھنڈ
- لندن ایکسپریس
- پیرس اوئے پیرس
- پیوند کاری
- وقت، بے وقت
- کہ آیو رے ساون
- تعویذ
- ہوشیار باش
- الیکشن کے دن
- عاشق کی انشا اللہ
- توند
- گفتگو
- حسرتِ قربانی
- ردیفے
- نشتر امروہوی کی محاکاتی شاعری
- وسیم عباس
- چندا اور چندہ
- شام کے بعد
- جناوری جنگ
- موجِ غزل کے مشاعروں میں مزاح کا عنصر
- روبینہ شاہین بیناؔ
- سایۂ دیوار اور ٹھیکیدار
- جاڑا اور تبادلہ
- جرائم کی نوعیت
- جہنم کی زبان
- ایک یاد
- وہ کھانا
- مسجد / ریسٹورینٹ
- آتشِ گل اور شعلۂ طُور
- انگلش
- جودتِ طبع
- جھوٹ
- جگر مرادآبادی
- نقصان
- ہندوستان والا گیت
- ایک آنکھ
- ارشاد کے اشعار
- بدصورت
- اُدھار
- مسکت جواب
- اقبالؔ کی روح
- تخریب
- یقین
- بیدی کی پھلجڑیا
- اندازِ نظامت
- تخلص کی داد
- مفرور ادارہ
ارمغانِ ابتسام
جنوری تا مارچ ۲۰۱۷ء
حصہ دوم
مدیر: نوید ظفرؔ کیانی
غزلیات/ہزلیات (جاری)
شاہین فصیح ربّانی
سگریٹ کی ہو رہی تھی بڑی زور کی طلب
ٹوٹا زمین پر سے اٹھانا پڑا ہمیں
کچھ دُور ایک پھول نے جلوہ نمائی کی
پتھر کو راستے سے ہٹانا پڑا ہمیں
وہ چھت پہ تھی، ہوائیں بھی کچھ سازگار تھیں
شوخی میں پھر پتنگ اُڑانا پڑا ہمیں
دیتے ہیں وہ جواب ہزاروں گنا بڑا
مارا تھا ہم نے بیر، دوھانہ پڑا ہمیں
اشعار کی ہمارے بہت مانگ بڑھ گئی
کچھ اس لیے بھی دام بڑھانا پڑا ہمیں
پلّے پڑی نہ ایک ذرا بات جب فصیح
بے اختیار سر کو کھجانا پڑا ہمیں
٭٭٭
عتیق الرحمٰن صفیؔ
کسی شخص پر میں نثار تھا مگر اب نہیں
مجھے عاشقی کا بخار تھا مگر اب نہیں
وہ جو بھوت بن کے چمٹ گیا مری ذات کو
مرے ذہن پر بھی سوار تھا مگر اب نہیں
وہ جو روز کہتا تھا لے چلو مجھے ڈیٹ پر
مری جیب پر بھی وہ بار تھا مگر اب نہیں
وہ کلین شیو پہ تھا فدا مری مونچھ تھی
بڑے مسئلوں کا شکار تھا مگر اب نہیں
مری تیزیوں پہ نثار تھیں کئی نازنیں
مرا راکٹوں میں شمار تھا مگر اب نہیں
کسی یاد نے مجھے بِیڑیوں پہ لگا دیا
کبھی انگلیوں میں سگار تھا مگر اب نہیں
کئی بیگموں کی تھی آرزو کسی دور میں
کسی مولوی سا خُمار تھا مگر اب نہیں
وہ جو رات دن مرے پیچھے پیچھے تھا بھاگتا
مرا اور اُس کا اُدھار تھا مگر اب نہیں
مجھے دیکھ کر ہے چھپا لیا تُو نے دفعتاً
ترے ہاتھ میں تو اَچار تھا مگر اب نہیں
وہ جو بن سنور کے گزر گیا مرے پاس سے
مری ایک آنکھ کی مار تھا مگر اب نہیں
٭٭٭
اسانغنی مشتاق رفیقیؔ
کون کہتا ہے کہ شیطان سے ڈر لگتا ہے
مجھ کو واعظ ترے ہذیان سے ڈر لگتا ہے
تری باتوں سے میں مرعوب نہیں ہو سکتا
ہاں ترے منہ میں چھپے پان سے ڈر لگتا ہے
کیا پتہ چائے میں کیا گھول کے تو رکھ دے گا
چائے والے ترے احسان سے ڈر لگتا ہے
وہ بھی کیا دن تھے ترے ہونٹ کنول لگتے تھے
اب تو جاناں تری مسکان سے ڈر لگتا ہے
ووٹ کی شکل میں اک دن اسے تو مانگے گا
حاکمِ شہر تری دان سے ڈر لگتا ہے
کسی گونگے سے کوئی خوف نہیں ہے لیکن
جاگتے بولتے انسان سے ڈر لگتا ہے
کیا پتہ کب مجھے وہ پھاڑ کے کھا جائے گا
بھیس بدلے ہوئے انسان سے ڈر لگتا ہے
پوجا کرتے ہوئے دیکھا ہے کنول کو جب سے
مجھ کو کافور سے لوبان سے ڈر لگتا ہے
طنز گوئی میں رفیقیؔ تری ہے بات ہی اور
ہر کسی کو ترے دیوان سے ڈر لگتا ہے
٭٭٭
شوکت جمالؔ
دردِ دل، دردِ جگر کا ماجرا اُس نے سنا اور ہنس دیا
داستانِ غم کو میری جان کر اک چُٹکلا، اُس نے سنا اور ہنس دیا
اختلافِ رائے بیٹے کو سیاست میں نہ ہو کیوں باپ سے
عرض بیٹے نے کیا جو مدّعا، اُس نے سنا اور ہنس دیا
پوچھ بیٹھا ہیر کے گھر کا پتہ رانجھا کسی رہگیر سے
ڈھونڈتا تھا وہ بھی کوچہ ہیر کا، اُس نے سنا اور ہنس دیا
دیکھ لینا تیرا چھوٹا بھائی ہی لٹیا ڈُبو دے گا تری
یہ بڑے بھائی سے لوگوں نے کہا، اُس نے سنا اور ہنس دیا
ہے محلّے میں ترے گانے سے نالاں ہر کوئی چھوٹا بڑا
مطّلع جب پاپ سنگر کو کیا، اُس نے سنا اور ہنس دیا
تھوکنے اور چاٹ لینے کی سیاست میں ہے یہ کیسی رَوِش
جب کسی لیڈر سے یہ پوچھا گیا، اُس نے سنا اور ہنس دیا
نقد اور زیور جو تھا سب لوٹ کر بیدرد جب جانے لگا
میں نے ڈاکو سے کہا ’’حافظ خدا‘‘، اُس نے سنا اور ہنس دیا
فلسفی سے گفتگو میں، میں نے پوچھا ایک چھوٹا سا سوال
پہلے مرغی آئی یا انڈا، بتا، اُس نے سنا اور ہنس دیا
منہ پھُلائے یار بیٹھا تھا مرا، شعر و سخن کی بزم میں
جیسے ہی شوکتؔ نے اِک مطلع پڑھا، اُس نے سنا اور ہنس دیا
٭٭٭
احمدؔ علوی
ملک میں ہو معتبر وہ اِتنی مکاری کے بعد
اور ہم معتوب ٹھہرے ناز برداری کے بعد
دونوں کاندھوں کے فرشتوں نے ہمیں احمق لکھا
آپ دہشت گرد ہیں حق کی طرفداری کے بعد
رہبران ملک کے دامن پہ اک دھبہ نہیں
ہے یقیناً معجزہ اتنی سیاہ کاری کے بعد
کچھ نئی غزلیں سناؤں گا ترنم سے تمہیں
جشن صحت بھی ہوا کرتا ہے بیماری کے بعد
چائے پر آ جائیے ہم نے پڑوسن سے کہا
اپنے گھر بیگم گئی ہیں کتنی دشواری کے بعد
قتل پر خاموش ہے میرے قبیلہ جان لے
آئے گی باری تمہاری بھی مری باری کے بعد
رات اور دن کی ریاضت منہ کنویں میں ڈال کر
ہٹ کراتے ہیں غزل کو کیسی تیاری کے بعد
گر گئی ہے مارکٹ سلمان شاہ رخ خان کی
لیڈروں کی ملک میں عمدہ اداکاری کے بعد
اس قدر آلودگی تھی رکھ لئے منہ پر رو مال
محفلوں میں آپ کی بے وقت بمباری کے بعد
٭٭٭
اقبال شانہؔ
اِس زندگی کی مار نے بوڑھا بنا دیا
غم ہائے روزگار نے بوڑھا بنا دیا
ہر آدمی کو عہدِ جوانی میں دوستو
دنیا کے کاروبار نے بوڑھا بنا دیا
برباد ہو گئی ہے جوانی بھی شیخ کی
حوروں کے انتظار نے بوڑھا بنا دیا
برسوں سے یونہی لوگ کھڑے ہیں قطار میں
راشن کے انتظار نے بوڑھا بنا دیا
تم ہو گئے ہو اور جواں عشق میں مگر
ہم کو تمھارے پیار نے بوڑھا بنا دیا
مجنوں ضعیف ہو گیا عہدِ شباب میں
لیلیٰ کے انتظار نے بوڑھا بنا دیا
ہم کو تو ایک ہی نے کہیں کا نہیں رکھا
اور شیخ جی کو چار نے بوڑھا بنا دیا
شانہؔ دھکیلتے ہی رہے عمر بھر اُسے
ہم کو پرانی کار نے بوڑھا بنا دیا
٭٭٭
نشترؔ امروہوی
دیکھ کر بیوی کو یہ کہنے لگیں نانی مری
تو بہت پچھتائے گا تو نے نہیں مانی مری
ہوتے ہی شادی بڑھی اتنی پریشانی مری
’’زندگی ہے شبنم و گُل کی طرح فانی مری ‘‘
لے کے رشوت جب پولس والوں نے کل چھوڑا مجھے
میرے گھر والوں نے بھی صورت نہ پہچانی مری
جب سے ہمسائی بنی ہے اک حسینہ خوبرو
میری بیگم کر رہی ہیں روز نگرانی مری
آج وہ بھی بن گئی ہے اک منسٹر کی بہو
کل تلک جس کو سبھی کہتے تھے دیوانی مری
مجھ کو جلدی سے بھگا دیتے ہیں گھر سے سیٹھ جی
ڈانٹنے لگتی ہے جب بھی ان کو سیٹھانی مری
جوتے اور چپل سے پٹ کر یوں لگا نشترؔ مجھے
آج مہنگی پڑ گئی ہے مجھ کو شیطانی مری
٭٭٭
ڈرتے ہیں یوں تو آج بھی چھپّن چھری سے ہم
ہاں تاڑتے ہیں اُن کو فقط دور ہی سے ہم
نیکر پھٹا، قمیض پھٹی، سر بھی پھٹ گیا
نکلے ہیں ایسی شان سے اُن کی گلی سے ہم
شادی کا طوق پہنا تھا ایّام جنوری
ڈرتے ہیں اِس لئے بھی میاں جنوری سے ہم
ہے چار شادیوں کی اجازت مگر جناب
دل جانتا ہے جیسے ہیں خوش ایک ہی سے ہم
اب ہیں مشاعروں میں گویّے ہی کامیاب
یہ فن بھی سیکھ لیں کسی استاد جی سے ہم
تھانے میں جس نے خوب مرمّت کرائی تھی
کرتے ہیں اب بھی عشق اُسی چھوکری سے ہم
تھپّڑ کا لات گھونسوں کا ہم پر اثر نہیں
تھانے میں پٹ چکے ہیں بہت مخبری سے ہم
نشترؔ نہ کر سکے کبھی سودا ضمیر کا
لڑتے رہے ہیں یوں تو بہت بھکمری سے ہم
٭٭٭
امجد علی راجا
’’دل میں اک لہر سی اٹھی ہے ابھی‘‘
اِک غزل میں نے بھی کہی ہے ابھی
چھوڑ دوں میں ابھی وزارت کیوں
اِک تجوری فقط بھری ہے ابھی
کیسے محفل میں حسن کو دیکھوں
سر پہ بیگم کھڑی ہوئی ہے ابھی
چور ڈاکو پہنچ گئے پہلے
جبکہ بستی نہیں بسی ہے ابھی
شادیاں چار ہو گئیں لیکن
جانِ من آپ کی کمی ہے ابھی
چھوڑ دے ڈانگ ہاتھ سے بیگم
دیکھ! پسلی مری جڑی ہے ابھی
بینک سے لی تھی لیز پر گاڑی
بیچ کر قسط اک بھری ہے ابھی
بعد شادی کے آگ اگلے گی
وہ حسینہ جو پھلجھڑی ہے ابھی
مجھ کو طعنہ نہ دے بڑھاپے کا
تاڑ میں میری اک پری ہے ابھی
چھوڑ سکتی نہیں ابھی وہ مجھے
ایک کوٹھی مری بچی ہے ابھی
جاگ جائے گی قوم بھی اک دن
’’غم نہ کر زندگی پڑی ہے ابھی‘‘
٭٭٭
محمد خلیل الرّحمٰن
سارا جہان تاش کے پتوں میں ہار کے
’’وہ جا رہا ہے کوئی شبِ غم گزار کے ‘‘
ویراں ہے میکدہ تو جواری اُداس ہیں
’’تم کیا گئے کہ روٹھ گئے دن بہار کے ‘‘
اِک ہاتھ ہی تو جیت سکے ساری رات ہم
’’دیکھے ہیں ہم نے حوصلے پروردِگار کے ‘‘
’’شیطان کی کتاب‘‘ تجھے چھوڑتے ہیں ہم
’’تجھ سے بھی دلفریب ہیں غم روزگار کے ‘‘
اِک جیت کی امید میں کھیلے چلے گئے
’’مت پوچھ ولولے دلِ ناکردہ کار کے ‘‘
٭٭٭
شہاب ظفرؔ
کام کسی کا ہوتا ہے
نام کسی کا ہوتا ہے
Boss کو سمجھو نہ آساں
رام کسی کا ہوتا ہے
Uncle سب کے ہیں لیکن
سام کسی کا ہوتا ہے
آتا ہے رس جس میں نظر
آم کسی کا ہوتا ہے
درد کسی کے سر میں ہے
Balm کسی کا ہوتا ہے
ہاتھ لگا بس اپنے ’’گُل‘‘
’’فام‘‘ کسی کا ہوتا ہے
میخانے سب جاتے ہیں
جام کسی کا ہوتا ہے
بِک جاتے ہیں ہم ارزاں
دام کسی کا ہوتا ہے
صبح میرا لگتا ہے
شام کسی کا ہوتا ہے
Mary میری بن بیٹھی
ٹامؔ کسی کا ہوتا ہے
ہکلہ پوچھے کا۔ ۔ کا۔ ۔ ۔ کا
لام کسی کا ہوتا ہے
عشق کسی کا سچا ہے
خام کسی کا ہوتا ہے
٭٭٭
دِلشاد ہوں ایسا کہ میں ناشاد نہیں ہوں
ابّا کا تمھارے کوئی داماد نہیں ہوں
پینا ہے تمھیں دودھ تو ملک پیک ہے موجود
عاشق ہوں تمھارا کوئی فرہاد نہیں ہوں
دل پہ نہ گراؤ یوں تغافل کے میزائل
میں شہرِ محبت تو ہوں بغداد نہیں ہوں
افسر نہیں گردانتا کچھ بھی تو کسی کو
چلائے یہ اسٹاف کہ میں گاد نہیں ہوں
شاعر ہوں مجھے کیسے نہیں لوگ سُنیں گے
حکام کے آگے کوئی فریاد نہیں ہوں
اِس ملکِ خداداد کا شہری تو ہوں لیکن
میں شوہرِ محصور ہوں آزاد نہیں ہوں
لُوٹو نہ مجھے مالِ غنیمت کی طرح سے
باہر سے میں آئی ہوئی امداد نہیں ہوں
٭٭٭
ضیاء اللہ محسنؔ
رفتہ رفتہ، دھیرے دھیرے تُم ہوئے پھر ہم ہوئے
دیکھ لو، سب غم کے مارے کس قدر بے غم ہوئے
وہ تغیر کے تو قائل ہیں، مگر کچھ اس طرح
پہلے جو صاحب تھے اب وہ صاحبِ بیگم ہوئے
جب سے شادی گھاٹ اُترے، کیا سے کیا وہ ہو گئے
مثلِ گرگٹ بن گئے، برسات کا موسم ہوئے
ایک جانب ماں کی ممتا، اک طرف زوجہ کا پیار
پس گئے چکی میں صاحب، دانۂ گندم ہوئے
جتنے بھی ارمان تھے اب سارے ٹھنڈے پڑ گئے
جب سے اِک ہمدم ملا، وہ دم بدم بے دم ہوئے
یُوں جو آوارہ پھرا کرتے تھے راتوں کو ضیاءؔ
اب تو سیدھے تیر کی مانند وہ پیہم ہوئے
٭٭٭
محسوس نہ کر، احساس نہ کر
اس دُنیا پہ، وشواس نہ کر
تُو اپنے من میں ڈوبا جا
یوں سوچ کو محو یاس نہ کر
قدموں میں منزل آئے گی
بس ختم تُو اس کی پیاس نہ کر
یہ دنیا رنگ برنگی ہے
ارمان نہ رکھ، کوئی آس نہ کر
اس پیار کے چکر میں پیارے
یوں عقل سپردِ گھاس نہ کر
من مانگے عشق کی پُڑیا جو
پھر بول اسے، بکواس نہ کر
٭٭٭
سیّد فہیم الدین
حسینِ شہر ہے ساری سیاست پاس رکھتا ہے
وہ اپنا روپ میک اپ کی بدولت پاس رکھتا ہے
نجانے کس جگہ پر کام آ جائے ہنر مندی
جہاں جاتا ہے سامانِ حجامت پاس رکھتا ہے
وہ دولت کے عوض ہر چیز دے دیتا ہے لوگوں کو
مگر ہر حال میں اپنی خباثت پاس رکھتا ہے
دبائیں کس کی دولت ہم بھلا کس یار کو لُوٹیں
گرانی ہو تو ہر کوئی ضرورت پاس رکھتا ہے
شرافت بھائی کے اطوار کچھ اچھے بھی ہیں لیکن
وہ شر تقسیم کرتا ہے تو آفت پاس رکھتا ہے
٭٭٭
رشوتیں لینے میں یہ انداز طوفانی نہ کر
نیب کے ہتھے چڑھے گا، دیکھ! نادانی نہ کر
جاہلوں کے درمیاں تقریر طولانی نہ کر
بعد میں انڈے پڑیں گے دیکھ من مانی نہ کر
کام عملے سے کرا، دفتر میں سو یا گھر میں آ
ماتحت کے واسطے مشکل کو آسانی نہ کر
گو خدا رکھے ترا سالا فقط کانا سہی
قرض لے کر پھیر مت آنکھیں، یہ دوکانی نہ کر
چائے کا اِک کپ پلا، بہلائے جا، ٹرخائے جا
کاٹ کر جیبیں تو اپنی خاص مہمانی نہ کر
٭٭٭
روبینہ شاہین بیناؔ
وہ لیڈر کی اداکاری جو آگے تھی سو اب بھی ہے
وہی وعدوں کی ترکاری جو آگے تھی سو اب بھی ہے
سبھی بہروپ بھرتے ہیں مرے گھر میں سیاست کا
مرے بچوں کی فنکاری جو آگے تھی سو اب بھی ہے
خدا نے آج تک حالت نہیں بدلی غلاموں کی
وہی بیگم کی سرداری جو آگے تھی سو اب بھی ہے
جسے دیکھو وہ مجنوں کا مریدِ خاص لگتا ہے
محبت کی یہ بیماری جو آگے تھی سو اب بھی ہے
سبھی موبائلی پیکج کرائے بیٹھے ہیں عاشق
سو راتوں کی وہ بیداری جو آگے تھی سو اب بھی ہے
چلے آتے ہیں کچھ رنڈوے امیدِ عقدِ ثانی میں
کسی بیوہ کی غمخواری جو آگے تھی سو اب بھی ہے
ابھی تک حکم چلتا ہے وہاں سسرال کا بیناؔ
وہی سالی کی گھرداری جو آگے تھی سو اب بھی ہے
٭٭٭
کسی طرح کی شناسائی سے نہیں ملتے
مرے مزاج بھی ہمسائی سے نہیں ملتے
بتا دئے ہیں جو خالہ نسیم نے سب کو
وہ سیکرٹ تو کسی نائی سے نہیں ملتے
خدا ہی جانتا ہے کون لے گئی پڑھنے
رسالے اب کسی ہمسائی سے نہیں ملتے
بنا لئے ہیں ندیدوں نے جو کرپشن سے
یہ رنگ ڈھنگ کبھی پائی سے نہیں ملتے
یہ سب کمال سے تبت کریم کا جانو!
سفید لوگ برونائی سے نہیں ملتے
یہ اور ہی کسی اماں کے لاڈلے ہوں گے
یہ چار بال کسی بھائی سے نہیں ملتے
جو کھو کے رہ گئے سسرال میں کہاں ہوں گے
کسی کھنڈر سے، کسی کھائی سے نہیں ملتے
مجھے زمانہ شناسی نہ آ سکی بیناؔ
مرے truth مری lie سے نہیں ملتے
٭٭٭
نوید ظفرؔ کیانی
شکر ہے اسکینڈلوں کے درمیاں ہے زندگی
خادمانِ قوم کے شایانِ شاں ہے ہے زندگی
چن چڑھایا ہی نہیں میری جوانی نے ابھی
تیر ہے لیکن ابھی تک بے کماں ہے زندگی
بیویوں کو دیکھئے تو تیز رو اور بے سٹاپ
شوہروں کو دیکھئے تو بے زباں ہے زندگی
اوّلیں فکرِ پلاٹ اور پھر غمِ تعمیر ہے
ہم غریبوں کے لئے خوابِ مکاں ہے زندگی
سندھ کا جیسے گورنر ہے میں ہوں ویسا ہی فٹ
میری قسمت میں مگرویسی کہاں ہے زندگی
اب سمجھدانی مری امریکنوں سی ہو گئی
میں کبوتر جانتا تھا اور ’’کاں ‘‘ ہے زندگی
ہائے یہ سوزِ محبت اُف یہ دھندے دہر کے
میں ہوں پنڈی میں اگرچہ لودھراں ہے زندگی
عقد میں متھے لگا بیٹھے ہیں بی بی بیگماں
اور اب لگتا ہے کہ ’’مس کہکشاں ‘‘ ہے زندگی
ہم بھی گزرے ہیں وہاں سے ایک دن چھٹی کے وقت
گرلز کالج جائیے تو بیکراں ہے زندگی
خیر ہے جو حُسن والے لفٹ دیتے ہی نہیں
’’برتر از اندیشۂ سود و زیاں ہے زندگی‘‘
نقل کرنے کا کوئی موقع نہیں ملتا ظفرؔ
ممتحن سر پر کھڑا ہے، امتحاں ہے زندگی
٭٭٭
عقد کا وقوعہ تھا ایک خواب کی طرح
زندگی میں ڈال دی اضطراب کی طرح
آگے سے گزر سکیں کیا چرا کے ہم نظر
وہ نظر ہے شعبۂ احتساب کی طرح
جانتا ہے وہ ہمیں اک بٹیر دوستو
جس کا بھائی جان ہے اک عقاب کی طرح
اپنی سیٹ پر کھڑا کر دیا ہے پوت کو
اور سمجھتا ہے اِسے انقلاب کی طرح
ایسے ڈیم فول پر چپ کا ڈیم کیوں نہیں
وہ جو بہتا جا رہا ہے چناب کی طرح
میرے پہلو میں تجھے دیکھتے ہی جل گیا
دل کسی کا ہو گیا پھر کباب کی طرح
عشق خبط بھر گیا، عقد کونڈا کر گیا
اِک سوال کی طرح، اک جواب کی طرح
بدنصیبی سے مری، وہ بلیک بیلٹ تھی
جو نزاکتوں میں تھی کچھ گلاب کی طرح
میتھ کی کتاب ہے ازدواجی زندگی
عشق تو ہے سرسری، انتساب کی طرح
ووٹروں میں لیڈروں میں ہے فرق تو یہی
یہ ہیں گائے کی طرح وہ قصاب کی طرح
مفتیوں سے پوچھئے حد لگے گی یا نہیں
پی رہے ہیں چائے بھی ہم شراب کی طرح
وہ جو گھر جوائی کے عہدے پر ازل سے ہے
اُس کی فرصتیں بھی ہیں میری جاب کی طرح
٭٭٭
سفر وسیلۂ ظفر
جولیاں انار کی یخنی اور فارم ہاؤس
محمد عارف
ہم ’’جولیاں ‘‘ کی گلیوں میں بھٹک رہے ہیں، گلیاں ایسی ہیں کہ موٹر سائیکل اور سائیکل کے علاوہ گھوڑے، گدھے ہی جا سکتے ہیں کہ بعض مقامات پر انجینئر نے گلی سے گزرنے والی ڈیڑھ دو فٹ چوڑی اور اس سے کہیں زیادہ گہری نالی کو اس طرح پھیر دیا ہے کہ نالی وسط کے بجائے دائیں بائیں لہراتی جاتی ہے، یقیناً، انجینئر، یو۔ ای۔ ٹی :ٹیکسلا کا فارغ التحصیل ہو گا۔ اس وقت اسی انجینئر کا بھائی بند اوریو۔ ای۔ ٹی ٹیکسلا کا استاد میرے ہمراہ ہے، زوہیب حسن نقوی، جو بیک وقت یو۔ ای۔ ٹی میں استاد بھی ہے اور پی۔ ایچ۔ ڈی کا طالب علم بھی۔
’’اوئے بات سن!‘‘
’’جی عارف بھائی!!‘‘
’’تم اس سے پہلے جولیاں آئے ہو؟‘‘
’’نہیں عارف بھائی!‘‘
’’پھرتیس برس سے ٹیکسلا میں کیا جھک مار رہے ہو؟‘‘
’’ٹھہریں ! میں اس شاپ سے پتا کرتا ہوں۔ ۔ ۔ چاکلیٹ کھائیں گے ؟‘‘
’’نہیں، پینے کے لیے کچھ لے لو اور پہلے اس سے یہ پتا کرو جولیاں کے کھنڈرات کدھر ہیں۔ ‘‘
جونہی موصوف نے دُکان دار سے سوال کیا، جواب آیا ’’ لہجے سے تو آپ مقامی لگتے ہیں ؟‘‘
’’ہاں۔ ۔ ۔ ہوں تو مقامی۔ ۔ ۔ لیکن باہر کم کم نکلتا ہوں۔ ‘‘
یہاں سے ایک کلو میٹر پیچھے نکڑآں پمپ سے بائیں ہاتھ مڑ جائیں سیدھا جولیاں پہنچ جائیں گے۔
باہر خان پور روڈ پر آئے تو سامنے چپل کباب کے چند کھوکھے نظر آئے۔
’’کباب کھاتے ہیں، اِدھر چپل کباب بہت اچھے ملتے ہیں۔ ‘‘
’’کہاں سے اچھے ملتے ہیں ؟‘‘ میں نے تین چار دکانوں کی طرف اشارہ کر کے پوچھا تو موصوف گویا ہوئے ’’پچھلی مرتبہ تو شاید اِدھر سے اچھے ملے تھے۔ ‘‘
اب ہم اس کھوکھے پر بیٹھے جولیاں سے خریدے گئے جوس سے لطف اندوز ہونے کی کوشش کرتے ہیں جس کے سامنے والے کھوکھے پر ’’جولیاں فوڈ سٹریٹ‘‘ کا بورڈ دعوتِ تبسم دے رہا ہے، پہلا سپ لیتے ہی میں نے زوہیب کی طرف دیکھا تو اس کے چہرے پر اپنے چہرے جیسے تاثرات پائے، ’’یار اس جُوس کا ذائقہ کیسا ہے ؟ عارف بھائی یوں لگتا ہے جیسے انار کا جوس نہیں، انار کی یخنی ہو۔ ۔ ۔ اور اب ہم انارکی یخنی نوشِ جاں کرتے ہیں۔ ‘‘
کباب آ گئے لیکن روٹی نہ آئی کہ تنور بجھ چکا ہے لیکن کچھ دیر بعد اِسی بجھے تنور سے کچی پکی اور کہیں کہیں سے کڑکڑاتی روٹیاں سپلائی ہونا شروع ہو تی ہیں اور ہم نبیڑتے جاتے ہیں۔ تنور پر موجود لڑکا روٹی لگانے کے بعد تنور کو ڈھک دیتا ہے، ہمارے آواز لگانے کے بعد بھی وہ چند لمحے انتظار کر کے تنور کے منہ سے دھاتی چادر کا گول ٹکڑا اُٹھا تا، روٹی اُتارتا اور جتنی دیر تک وہ اگلی روٹی اُتارتا ہم پہلی معدے میں اُتار چکے ہوتے۔ آخری روٹی کے چند نوالے باقی تھے کہ قہوے کا آرڈر دیا گیا جسے دوسری طرف چائے کا آرڈر سمجھا گیا۔ ۔ ۔ کافی دیر تک جب قہوہ نہ آیا تو ہم اُٹھ کھڑے ہوئے تو پتا چلا کہ ایک ہی پتیلی ہے جس میں عام طور پر چائے ہی بنتی ہے قہوے کی فرمائش پر اِسے دھو نا پڑتا ہے۔ ۔ ۔ اب پتیلی نہا دھو کر چولھے پر چڑھ چکی ہے لیکن کالے بادلوں کے تیور دیکھ کر ہم بغیر قہوہ پیے اُٹھ کھڑے ہوئے۔
جب خان پور روڈ چھوڑ کر نکڑآں پمپ(کیسا عجیب نام ہے ) سے جولیاں کے کھنڈرات کی طرف مڑے، اِس چھوٹی روڈ کے دونوں طرف ہرے بھرے کھیت ہیں اور پہاڑی کے ساتھ ساتھ چلتی ایک نہر۔
’’عارف بھائی ادھر زمین سستی ہو گی، میرا دل کرتا ہے کہ ادھر زمین لے کر فارم ہاؤس بنایا جائے۔ ‘‘
’’ ہاں ٹھیک ہے لے لو اور فارم ہاؤس بھی بنا لو۔ ۔ ۔ ‘‘
ایک قہقہہ سنائی دیا۔ راستے میں ایک جگہ سے رہنمائی لی اور ہم ایک موڑ مڑ کر مطلوبہ جگہ پہنچ گئے جہاں سے آگے پہاڑ کے ٹاپ تک سیڑھیاں جاتی ہیں۔ ہم بائیک یہاں موجود اکلوتے گفٹ شاپ ٹائپ کھوکھے کی بغل میں لاک کر کے ایک اچٹتی سی نظر اس شاپ کے آئٹمز پر ڈالتے زینہ بہ زینہ ہو گئے۔ یونی ورسٹی سے ڈائریکٹ آنے کی وجہ سے لیپ ٹاپ زوہیب کے پاس تھا جسے اس نے کمر پر کس لیا۔ خراماں خراماں اُوپر اُٹھتے گئے آدھی سیڑھیاں چڑھ کر ایک جگہ سستائے اوراس بات پر غور کیا کہ اکثر زیارات و مقدسات پہاڑوں کی چوٹی پر ہی کیوں ہوتے ہیں اور یہی سوچتے سوچتے جولیاں کھنڈرات تک پہنچ گئے، سامنے ایک پھاٹک ہے جو بند ہے، ادھر اُدھر دیکھا، کوئی دکھائی نہ دیا تو اس پھاٹک پر لگا ہُک ہٹا کر اندر داخل ہو گئے، اندر شدید خاموشی نے استقبال کیا، خاموشی اور اکلاپا اس قدر تھا کہ خوف محسوس ہوا، اس بے پناہ خاموشی اور خوف کو بادلوں کی گھن گرج اور بجلی کی کڑک نے توڑا۔ ۔ ۔ یہاں ایک بڑا اسٹوپا ہے جس کے گرد کئی چھوٹے سٹوپے اور بدھا کے مجسمے ہیں، جن کا موٹی جالی جو لکڑی کے ستونوں میں پروئی ہے، سے احاطہ کیا گیا ہے، چھت ٹین کی ہے جس پر اب بارش کی بوندوں نے جلترنگ بجانا شروع کر دی ہے۔ دائیں طرف چار چھے فٹ چوڑے ایک تنگ سے کمرے میں ایک چارپائی بچھی ہے جس کی پائنتی ایک لوئی پڑی ہے۔ چارپائی کے سامنے کی دیوار پر بدھا کے مجسمے کے مٹے مٹے آثار یہ بتاتے ہیں کہ یہ چھوٹا کمرہ جو اب آرام گاہ ہے کبھی عبادت گاہ رہا ہے۔ ہم سٹوپے، مجسموں اور یادگاروں کو جالیوں سے دیکھتے ہیں اور اس در کو بھی دیکھتے ہیں جس پر پرانے زمانے کا ایک قفل پڑا ہے۔ سوچا کیوں نہ جانے سے قبل اس احاطے کا چکر ہی لگا لیا جائے، دائیں طرف سے اس کام کا آغاز کیا تو اس دیوار کے اختتام پر ایک کمرے کے باہر ایک بزرگ دیکھے جو آری سے لکڑی کاٹنے میں مصروف تھے اور اس قدر منہمک تھے جیسے صدیوں سے اسی کار پر معمور ہوں، سلام کا جواب دینے کے بعد گویا ہوئے ’’آپ اُوپر ’’یونی ورسٹی‘‘ دیکھ آئیں، میں آتا ہوں۔ ‘‘
ہم کچھ سمجھتے اور کچھ نہ سمجھتے ہوئے الٹے قدموں پھر کر اس سٹوپے کے سامنے سے ہوتے ایک اور بے پناہ خاموشی میں غوطہ زن ہو گئے۔
یہاں پتھر ہی پتھر ہیں، خاموش پتھر، جو صدیوں سے گُم صم ہیں لیکن یوں محسوس ہوتا ہے کہ ان میں صرف قوتِ گویائی نہیں۔ ۔ ۔ بہت نیچے ٹیکسلا ہے اور اُوپر آسمان کی پنہائیاں ہیں، گنبدِ نیلگوں آج واقعی نیلگوں ہے کہ پچھلے گئی دنوں کی مسلسل بارش سے آسمان اور فضا دھُل دھُلا کے اپنے رنگ میں رنگ چکے ہیں۔ چند سیڑھیاں چڑھ کر بائیں ہاتھ ایک کمرہ ہے جس میں بُدھا کی کئی خاص مُورتیاں تھیں جنھیں اب ٹیکسلا میوزیم میں شفٹ کر دیا گیا ہے اور اب اس جگہ ان مُورتیوں کی نقول موجود ہیں، سامنے کئی گز لمبا چوڑا ایک مربع شکل کا احاطہ ہے جس کی چوڑی دیوار میں گونگے پتھروں سے بنے چھوٹے چھوٹے کمرے ہیں، جو صحن سے اڑھائی تین فٹ بلند اور روشن و ہوا دار ہیں لیکن ہیں بالکل گم صم، ان کے سامنے چوڑی روشیں ہیں جن سے آگے کبھی ایک تالاب تھا، جو اب مٹی سے بھر بھرا کے تقریباً برابر ہو گیا ہے۔ اب اس تالاب میں کتاب کی صورت کھلی، روسٹروم اسٹائل میں دو دھاتی تختیوں پر اس جگہ کی مختصر تاریخ کندہ ہے، ان دو روسٹروم کے درمیان اتنا فاصلہ ہے کہ آدمی با آسانی گزر سکتا ہے یا بیک وقت دونوں پر کہنیاں ٹکا کر کھڑا ہو سکتا ہے، اس شخص کو بے ساختہ داد دینے کا خیال آیا جس نے ان دھاتی تختیوں کو یہ وضع دے کراس جگہ کو ’’لیکچر ہال‘‘ کی سی صورت دے دی ہے۔ میری چشمِ تصور اس قدیم درس گاہ کے اس لیکچر ہال میں اُس دور کے استاد کو دیکھ رہی ہے جو ایک خاص گاؤن میں ملبوس اپنے شاگردوں سے محو کلام ہے اور شاگرد دھونی رمائے، بُدھ آسن میں ہمہ تن گوش ہیں بالکل ایسے جیسے یہ پتھر۔ ۔ ۔
بارش کا ایک زور دار چھینٹا پڑا تو ہم نے بھیگتے بھیگتے چند تصویریں لیں اور بھاگم بھاگ اس چھوٹے کمرے میں پہنچے جہاں ایک چارپائی پر موجود لوئی اب موجود نہیں تھی۔ سامنے پھاٹک کے درمیان بڑے میاں کھڑے شاید ہمیں نیچے وادی کی طرف دیکھ رہے تھے، ہماری بھاگ دوڑ کی آوازسے پلٹے، جیب سے چابیوں کا ایک گُچھا نکالا اور چپ چاپ جالی کے دروازے میں لگا، قفل کھول کر اندر داخل ہو گئے ہم بھی ان کے پیچھے پیچھے ہو لیے۔ ۔ ۔
’’آپ کو ڈر نہیں لگتا؟‘‘
’’نہیں ! ‘‘ اس کے جواب سے یوں لگا جیسے ہر آنے والا اس سے یہ سوال ضرور پوچھتا ہو گا۔
’’کتنا عرصہ ہو گیا ہے ادھر؟‘‘
’’تیس سال‘‘
’’آپ کتنے آدمی ہوتے ہیں ڈیوٹی پر؟‘
’’دو‘‘
’’بارہ بارہ گھنٹے کی ڈیوٹی ہے ایک بندہ دن کو ایک رات کو۔ ‘‘ یہ پہلی بات تھی جو اس شخص نے بنا پوچھے بتائی۔
’’کبھی کوئی غیر معمولی واقعہ پیش آیا ہو؟‘‘
’’کبھی کچھ نہیں ہوا، یہ بہت اچھی اور پُرسکون جگہ ہے۔ ‘‘
اندر پہنچے تو بابا جی رواں ہو گئے، بڑے سٹوپے کے دائیں طرف موجود بُدھا کے مجسمے کی طرف اشارہ کر کے بولے کہ یہ بُدھ کی انتہائی مقدس مُورتی ہے، بدھ مت کے پیروکاروں کا یہ عقیدہ ہے کہ اس مُورتی کی ناف میں انگلی رکھ کر مانگی جانے والی ہر دعا پوری ہوتی ہے، اسے شفا بخش بُدھا بھی کہتے ہیں۔ چھوٹے بڑے سٹوپے دیکھتے، دکھاتے، تصویریں بناتے، بنواتے بڑے اسٹوپا کی بغل سے ہوتے اس کے عقب میں پہنچ گئے۔ یہاں بُدھا کے خاص آسن میں دو بڑے لیکن تباہ حال بُت بھی موجود ہیں، چھوٹے سٹوپوں کے پتھروں پر کھدائی سے مختلف مناظر بہت واضح ہیں۔ بڑے اسٹوپا کے عقبی حصے میں ایک چھوٹا اسٹوپا ہے جس پر بدھ کا ایک مجسمہ تقریباً اصل اور محفوظ حالت میں دیکھا جا سکتا ہے اور شاید یہی مجسمہ جولیاں میں موجود اس وقت کے مجسموں میں مکمل بھی ہے۔ بڑے سٹوپے کی چوتھی طرف ایک لائن میں پانچ مجسمے ایستادہ ہیں جن میں سے صرف درمیان والا مجسمہ اصلی ہے، باقی چاروں تزئین و آرائش کے دوران بنائے گئے۔ چوتھی سمت سے گھوم کر پھر سامنے پہنچے اور اوپر جاتی قدیم سیڑھیوں سے ہوتے بڑے اسٹوپا کے اوپر پہنچ گئے، چھت اور جالی دار دیواروں کے درمیان فاصلہ ہے کہ چھت لکڑی کے ستونوں پر کھڑی ہے یہاں سے ٹھنڈی ہوا کے ساتھ ٹیکسلا شہر اور گردو نواح کا خوب نظارہ ہو رہا تھا۔ نیچے اُترے اور پھر اُترتے چلے گئے۔ ۔ ۔ نہر پر موجود پُل پر رُکے تو بارش بھی مکمل طور پر رُک چکی تھی، سامنے کے پہاڑ کی ایک پگڈنڈی پر ریوڑ کی بھیڑیں تنگ رستہ ہونے کے باعث قطار میں چلتی پہاڑ کی دوسری طرف سورج کی طرح گم ہوتی جا رہی تھیں۔ ۔ ۔
’’یہاں بھی زمین سستی ہو گی، میں ادھر بھی فارم ہاؤس بناؤں گا۔ ‘‘ زوہیب نے بیساختہ کہا۔ اب کے میری ہنسی نکلی۔
’’عارف بھائی! دیکھیے گا زوہیب ایک دن اس مُلک کا صدر ہو گا۔ ۔ ۔ ‘‘
’’ہو سکتا ہے بھائی، کیوں نہیں ہو سکتا، یہی ایک عہدہ ہے جس کے لیے واحد قابلیت ساٹھ سالہ ہونا ہے۔ ۔ ۔ ‘‘
نیچے پہنچ کر کھوکھے والے کو چائے کا بولا، وہ مسکرایا تو میں سمجھا کہے گا دودھ نہیں ہے لیکن اس نے کہا ’’صاب سیلنڈر میں گیس ختم ہو گئی ہے۔ ‘‘ہم مسکرا کر اُٹھ دیے بائیک اسٹارٹ کی اور واپسی کی راہ لی۔ خان پور روڈ پر ایک ڈرائیور ہوٹل پر رُکے، چائے آئی تو ساتھ بسکٹ طلب کیے۔ بیرے نے شیشے کے ایک مرتبان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ’’صرف یہ فروٹ کیک پیس ہیں۔ ‘‘کیک کے پہلے ہی بائٹ نے بتا دیا کہ یہ انارکی اسی یخنی میں تیار کیا گیا ہے جسے آج ہم نے نوش فرمایا ہے۔ ۔ ۔ یہاں سے اُٹھے توٹیکسلا کے مضافات میں داخل ہو گئے، علاقہ کچھ دیکھا بھالا لگا تو زوہیب سے پوچھا ’’یہ کون سی جگہ ہے اور آپ کے گھر سے کتنی دور ہے ؟‘‘
’’گھر سے تو کافی دُور ہے، کیوں، کیا ہوا؟‘‘
’’ ایک رات کا ذکر ہے، بلکہ ایک آدھی رات کا ذکر ہے تمھیں گھر ڈراپ کرنے کے بعد میں رات کو سمت کھو بیٹھا اور ادھر آ نکلا اور کافی دیر بھٹکنے کے بعد راہ راست پر آیا اور اس سے پہلے کہ رات آئے ہمیں گھر پہنچنا چاہیے اور ہاں اِدھر زمین کا کیا ریٹ ہو گا؟‘‘
’’کیوں خیریت؟‘‘
’’میں فارم ہاؤس نہ بناؤں۔ ‘‘
اب کے ایک مشترکہ قہقہہ فضا میں گونجا!
٭٭٭
پے گئی اے ٹھنڈ
ذہین احمق آبادی
جیساکہ بتایا تھا کہ ہم ’’سیف الملوک‘‘ گئے تھے اور اُدھر قیام بھی کِیا تھا چھوٹی سی خیمی میں۔ ۔ ۔ وہ بھی عاریتاً۔ ۔ ۔ جب چلت پھرت کے دوران ترشّح شروع ہوا تو ہم خیمہ کی طرف بھاگے اور پھر جو بارش شروع ہوئی ہے تو کم و بیش آدھے گھنٹے کی خبر لی اس نے۔ ۔ ۔ سارے ’’سیاح‘‘ جس میں کچھ بزعمِ خود ہماری مانند شاعر بھی رہے ہوں گے اور برستے ابر کی نکہت و ندرت کے بیان میں دیوان کے دیوان بہائے ہوں گے، سے وہ بارِش نہ سہاری جا سکی گویا ’’بارِش‘‘ کوئی نصیحت گو ’’بارِیش‘‘ رہی ہو۔ ۔ ۔ دامَن نچوڑ دیں تو بس پھر وہ پانی استنجے کے ہی کام آ سکے۔ ۔ ۔ خیر۔ ۔ ۔ بارش جو تھمی تو باہر آئے۔ بارش نے جو نقصان پہنچایا تھا اس کا ازالہ کِیا، کوئلے ایک طرف بھیگے ہوئے مُنھ چڑھا رہے تھے، ساتھ کے کچھ خیمہ زن بارِش کے باعث پہلے ہی رفوچکر ہو چکے تھے۔ ایک اپنا تکیہ اور ایک جینز کی پتلُون چھوڑ گیا تھا۔ ۔ ۔ دونوں چیزیں اپنی نا اہلی پر پانی پانی ہو رہی تھیں۔ کھانا وانا کھاتے شام نے ہاتھ بڑھا کر رات کی زلفوں کو بربط کے تاروں کی مانند چھیڑا تو سجیل بھیگی زلفیں ایک عجب نشاط آفریں سُر سنبھالے لامتناہی سیاہی میں تابہ فلک پھیلتی چلی گئیں۔ خاموشی نے شور مچایا تو خنکی کے احساس نے الاؤ کا خیال جگایا مگر خشک کوئلے ندارد۔ سب شب باش ایک دوسرے کے قریب آ گئے تھے تاکہ دردِ دل کا درماں ہو رہے۔ کسی نے جانے کہاں سے لکڑی پکڑی تو کسی نے آب گزیدہ پتلون سنبھالی۔ ۔ ۔ کوئی کوئلے تھامے آ رہا۔ اللہ اللہ کر کے گیلی چیزوں نے آگ پکڑی تو ہمت ہار جانے والے اور دلچسپی نہ لینے والے بھی قریب تر ہو کر فروکش ہو گئے۔ زمین گیلی تھی مگر کسی نے خیمے کے اوپر کی پانی بیزار (واٹر پرُوف) چادر بچھا دی۔ باتیں چلتی رہیں اور ہم لوگ اپنے چھوٹے سے دو بندوں کے خیمے میں آ گئے جسمیں دس بندے گھسے ہوئے تھے۔ بس ایسے گھسے ہوئے تھے کہ ایک کے پیر تھے تو دوسرے کا مُنہ تھا۔ باہر جمی محفِل میں کسی نے سیف الملوک کی بابت مشہور پر اسرار باتیں چھیڑ دیں۔
باہر سے کسی ڈرپوک کی رازدارانہ آواز ’’ سنا ہے اِدھر رات کے وقت پریاں چڑیلیں آتی ہیں اور اپنے ساتھ لے جاتی ہیں۔ ۔ ۔ بچ کر رہنا۔ ۔ ۔ رات کو ایک دوسرے کی خبر رکھنا۔ ۔ ۔ !‘‘
ہماری طرف سے ٹھٹھہ اڑاتی آواز ’’بھائی انہیں کو تو دیکھنے آئے ہیں، چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کار و بار چلے۔ ۔ ۔ جی ہاں۔ ۔ ۔ ویسے وہ تمہاری عزت نہیں لوٹیں گی۔ ۔ ۔ فکر نہ کرو! اوّل تو اُن کی جمالیاتی حِس پر مجھے کوئی شک نہیں لیکن اگر پھر بھی وہ کور بیں واقع ہوئیں اور تمھیں پکڑ بھی لیں تو شور مچا دینا ہم آ جائیں گے۔ ۔ ۔ باقی کام ہمارا۔ ۔ ۔ آہو۔ ۔ ۔ یعنی اب من و سلوی کو کون ٹھکرائے عقل کے اندھے، گونگے، بہرے۔ ۔ ۔ !‘‘
ظاہر سی بات ہے ہماری طرف سے ایسا ہی جوب آنا تھا جبکہ نیچے میدانی علاقوں والیاں گھاس پھوس کے بارے میں کافی کفایت شعار واقع ہوئی ہیں اور ہم سدا کے جگالی باز۔ ۔ ۔ اسی باعث میدانی انگور ہمیشہ کھٹّے بلکہ کڑوے محسوس ہوئے۔ ویسے نشہ ان میں بھی بدرجۂ اتم ہوتا ہے۔ آخر نشہ بھی سڑے ہوئے انگور ہی دیتے ہیں۔ یہی دربدری خاک و باک چھنواتی اس مقام تک لے پہنچی۔ ۔ ۔ !
زِندگی آمد برائے ’’رِندگی‘‘
زِندگی ’’بے رِندگی‘‘ شرمندگی
خیر، چونکہ صبح ناران سے سیف الملوک جھیل تک پیدل ہی آئے تھے اِس لئے لمحوں میں انٹا غفیل ہو گیا میں تو باقیوں نے بتایا کہ رات خنکی اور نمی کے باعث بڑی بے آرامی میں گزری بلکہ رات کو جب کوئی جانور آ کر کھانے کی باقیات میں منہ مارنے لگا تو سہمے ہوئے پڑوسیوں نے کافی خلل ڈالا آرام میں۔ گجر دم آنکھ کھلی تو باہر کے اُجالے میں پنہاں سپیدۂسحر سے ذہن کو جھٹکا لگا کہ فجر کی نماز کیا ہوئی۔ ۔ ۔ ؟ مگر پھر گھڑی دیکھی تو تسلّی ہوئی کہ وقت باقی ہے۔ باہر آ کر یخ بستہ پانی سے وضو کِیا تو دانت بجنے لگے۔ ۔ ۔ گو پتلُون قمیص میں تھا مگر پھر بھی دو بندوں نے امامت کی دعوت دی تو میں نے بھی حامی بھر لی۔ نماز کے لئے بنے چبوترے پر نماز ادا کی۔ ۔ ۔ سلام پھیرتے سیاحوں کی آمد شروع ہو چکی تھی۔ ۔ ۔ !
نماز سے فارغ ہوئے تو میں ذرا ایک طرف کو آ گیا۔ پیٹھ کی طرف مقامی عمارتوں کے دُود کشوں (چِمنِیاں۔ ۔ ۔ دُود بمعنی دھواں ) سے دھواں ولادت باسعادت پا کر فضا میں مرغولے بناتا تحلیل ہوا جا رہا تھا۔ طلوعِ آفتاب نے سرگ (صبح کی پہلی کرن) کے مساس سے اپنا احساس دلایا تو منظر کی خیرگی نے جکڑ لیا۔ ۔ ۔ ’’جَاعلِ النُّورِ مِنَ الظُّلَم‘‘ والا سماں تھا۔ بلند قامت چوٹیاں جھیل میں اپنا عکس دیکھنے میں محو تھیں۔ ۔ ۔ جھیل کے نیلاہٹ مائل سبز رنگ میں پڑتا عریاں چوٹیوں کا بان کا، شرمیلا عکس عدیم المثال منظر پیش کر رہا تھا۔ جھیل سے جڑا ساحل نما میدان فقید البشر ہو چکا تھا۔ تا حدِ نگاہ تنہائی بال کھولے، افسردہ تبسّم لئے، آنکھیں بند کئے، لب سئیے، ننگے مرمریں پیروں، رقص کناں تھی۔ ۔ ۔ بشر نہ شجر، ایسا سکوت طاری تھا گویا پورا منظر مبہوت ہو کر نظارگی میں کھو گیا ہو۔ ۔ ۔ گویا نگاہوں کے قدموں کا لمس پہلی مرتبہ نم گھاس کے خنک جذب سے آشنا ہوا ہو۔ ۔ ۔ سینے کا اتار، چڑھاؤ بھی مدھم ہو کر اس لامتناہی سُر میں ضم ہو کر رہ گیا تھا۔ ۔ ۔ ’’وَ الصُّبِحِ اِذَا تَنَفَّس۔ ۔ ۔ ‘‘ اور قسم صبح کی جب وہ سانس لیتی ہے۔
شاعرِ فطرت ہوں، جب بھی فکر فرماتا ہوں میں
روح بن کر ذرے ذرے میں سما جاتا ہوں میں
٭٭٭
لندن ایکسپریس
ارمان یوسف
بھئی دیکھو!چند روز بعد ہماری فلائیٹ ہے اور ابھی لاہور میں بھی کچھ وقت گزارنا ہے، واپس آ کر سب لوگوں سے فرداً فرداً مل لیں گے ‘‘
ہم نے فون پر مامون طاہر رانا کو وضاحت کی اور ملتان آنے سے معذرت کرتے ہوئے کہا۔ مگر وہ بھی بضد تھا
’’آپ ابھی ملتان آ جاؤ، دوست احباب سب ایک جگہ پہ جمع ہوں گے، بے شک صبح سویرے لاہور روانہ ہو جانا‘‘
اس سے پہلے کہ ہم کچھ اور کہتے ’’لاری والے اڈے پہ رسیو کر لوں گا اور کچھ نہیں سننا مجھے ‘‘کہتے ہی فون بند کر دیا۔
چار و نا چار جانا پڑ گیا۔ یہ بے تکلف دوست بھی ایسے ہوتے ہیں کہ انکار نہیں کیا
جا سکتا۔ سوچا اس بہانے ایک بار پھر ملتان کی جھلک بھی دیکھ لیں گے۔
لو جناب، کرتے کراتے ہم نے تلیری بائی پاس سے ملتان کی گاڑی پکڑی۔ ڈرائیور بڑی جلدی میں دکھائی دیتا تھا، وہ بار بار گاڑی کو ریس لگاتا گویا آن کی آن میں اڑنا شروع کر دے گا اور ادھر کنڈکٹر بھی با آواز بلند یہی صدا لگاتا کہ ’’بس آخری سیٹ رہ گئی ہے ‘‘ہم تو سمجھے کہ ہمارا ہی انتظار تھا۔ مگر پتا چلا کہ ابھی اور بھی کچھ سیٹیں خالی ہیں۔ ڈرائیور اور کنڈکٹر دونوں پھر اسی پریکٹس میں جت گئے۔
ہم نے گاڑی میں نظر دوڑائی اور کونے میں ایک ماہ جبیں کو جلوہ نما پایا۔ ہم نے احتیاطاً ایسی سیٹ منتخب کی کہ بلا وجہ بھی نظر اٹھے تو رخِ زیبا ہی پہ پڑے۔ ایک بار اس حسینہ نے بھی نظریں اٹھا کے یوں دیکھا کہ دل بیچارہ یہ جا وہ جا۔ اتنے میں ہائی ایس چل پڑی، مگر ہمارا دل گاڑی کی رفتار سے کہیں زیادہ دھڑک رہا تھا۔ ابھی ہم حسن کی تپش سے محظوظ ہو ہی رہے تھے کہ ’’اپنا اپنا کرایہ دے دو بھئی‘‘ کی صدا کانوں سے ٹکرائی۔ ہم نے یہ سوچ کر مطلوبہ رقم کنڈکٹر کو تھما دی کہ یہ تو جلوۂ حسن کا صدقہ اتار رہے ہیں، سفر تو مفت میں کریں گے۔
’’بھئی دس روپے کم ہیں ‘‘ کنڈکٹر نے ہمارے دئیے ہوئے پیسے ہمیں واپس لوٹاتے ہوئے کہا۔
ہم سمجھے کہ شاید گننے میں غلطی ہو گئی ہو گی۔ ہم نے پیسوں کی دوبارہ گنتی کی، شہادت کی انگلی کو تھوک سے گیلا کر کے ایک بار پھر گنے۔
’’یار کیوں جھوٹ بولتے ہو، ہم نے تو پورے پیسے دئیے بے شک گن لو!‘‘
’’دس روپے کم ہیں صاحب جی!ستر روپے کرایہ بنتا ہے اور آپ نے ساٹھ دئیے !‘‘ کنڈکٹر نے وضاحت کی۔
’’ستر روپے کب سے ہو گئے ؟‘‘
’’جب سے ڈیزل کی قیمت بڑھی!‘‘ کنڈکٹر نے بھی ترکی بہ ترکی جواب دیا۔
’’بھئی اول تو یہ کہ آپ کی گاڑی ڈیزل پہ نہیں سی این جی پہ چل رہی ہے اور دوسرا یہ کہ ہم کل شام ہی ملتان سے لوٹے ہیں اور اِتنا ہی کرایہ دیا تھا جتنا کہ آپ کو دے رہے ہیں اور ہر صبح اخبار پڑھنا ہماری عادت ہے، کسی اخبار میں نہیں تھا کہ قیمتیں بڑھی ہیں۔ ‘‘
’’دس روپے ہی کی تو بات ہے بیٹا، دے دو اور جان چھڑاؤ اس سے ‘‘ ایک بزرگ نے معاملہ نمٹانے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا۔
اِسی لمحے اس حسینہ کا آنچل بھی سرکا ا اور آنکھوں ہی آنکھوں میں ڈٹ جانے کا اشارہ بھی دیا۔
اب محض دس روپے کی بات نہیں رہی تھی بلکہ معاملہ عدالتِ حسن میں پہنچ چکا تھا اور ہم اسے ہر صورت جیتنا چاہتے تھے۔
’’بابا جی ! آپ کا مشورہ بجا سہی مگر یہ تو سوچیں کہ پچیس سواریاں اگر دس روپے اضافی دیں تو فی چکر ۲۵۰روپے بنتے ہیں اور دن میں یہ چھ چکر بھی لگائیں تو ۱۵۰۰روپے اضافی منافع بنتا ہے، یوں مہینے کے ۴۵۰۰۰اور سال کے ۵لاکھ چالیس ہزار بنتے ہیں۔ اگر آپ یہ دس روپے کسی ضرورت مند کو نہ بھی دینا چاہیں تو گنے کا رس ہی پی لیجئے گا، تھوڑا چہرے پہ رونق تو آئے گی، دوسری شادی کا چانس بھی بن سکتا ہے۔ ‘‘
ہم نے یوں وضاحت کی جیسے وکیل جج کے سامنے دلائل پیش کرتا ہے۔ گاڑی میں موجود ہر شخص ہم سے متاثر نظر آنے لگا مگر ہم تو فقط اس پری چہرہ کو خوش کرنا چاہتے تھے، اس نے بھی میٹھی میٹھی نگاہوں سے داد دی۔
اُدھر کنڈکٹر بھی ضد پہ اڑ گیا کہ یا تو پورا کرایہ دیں یا گاڑی سے اتر جائیں۔
ارے بھائی ہم کیسے اتر جائیں گاڑی سے، وہ بھی آدھے راستے میں، اس شوخ حسینہ کو یوں تنہا چھوڑ کر؟۔ نہ بھائی، ہم سولی پہ تو چڑھ سکتے ہیں مگر گاڑی سے نہیں اتریں گے۔ ایک فرہاد تھا کہ جس نے اپنی محبت کے حصول کے لئے پہاڑ تک کھود ڈالا تھا۔ ہم بھلا کیوں پیچھے رہتے۔ کنزیومر کورٹ جانے کی دھمکی بھی دے ڈالی مگر کنڈکٹر بھی ٹس سے مس نہ ہوا۔ ہم نے آؤ دیکھا نہ تاؤ موٹر وے پولیس کو فون کر ڈالا اور اس کے بعد جتنی بھی قرآنی آیتیں زبانی یاد تھیں پڑھ کر دعا کرنے لگے کہ اللہ میاں بھرم رکھ لینا۔ مگر پاکستانی پولیس کی کارکردگی بھی سامنے تھی۔ اِسی کشمکش میں تھے کہ گاڑی ایک جگہ روک لی گئی۔ یہ موٹر وے پولیس ہی تھی۔ پوچھا گیا کہ کس نے شکایت کی اور کیوں ؟
ہم نے شیشے سے سر نکال کر اپنا نام ’’ارمان ‘‘ کچھ اس انداز سے بتایا کہ بھلے پولیس آفیسر کو سنائی دے نہ دے اس ماہ جبیں کو کم از کم ہمارا نام تو معلوم ہو جائے کہ کبھی دل کے ارمان جاگیں بھی تو ’’ارمان‘‘ کا نام ہی گلاب ہونٹوں پہ مچل جائے۔
موٹر وے پولیس نے چھان بین کی تو ہم ہی فاتح ٹھہرے۔ دس دس روپے ہر ایک کو معذرت کے ساتھ واپس کیے گئے۔ ایک جواں سال پولیس آفیسر نے ہمارا شکریہ ادا کرتے ہو کہا ’’لوگ شکایت تک نہیں کرتے، ہمیں کیا خبر کہ گاڑی کے اندر کیا ہو رہا ہے۔ مجھے اسی روٹ پر ڈیوٹی کرتے دس سال ہو گئے ہیں اور آج پہلی بار کسی کی شکایت موصول ہوئی ہے۔ ‘‘
خیر ہم فاتحانہ انداز میں اپنی سیٹ پر واپس آ کر بیٹھے۔ مگر کچھ ہی دیر بعد پتہ چلا کہ ہم منزلِ مقصود یعنی ملتان پہنچنے والے ہیں، گویا جدائی شروع ہونے والی ہے۔ اس بات نے دل کو رلا دیا۔ ’’خدایا گاڑی ہی پنکچر ہو جائے، اس کا پیٹرول ہی ختم ہو جائے، یا کم از کم یہ سفر ہی تھوڑا اور طویل ہو جائے ‘‘
مگر تمام تر تمناؤں کو ہم نے اپنی آنکھوں کے سامنے دم توڑتے دیکھا۔ لاری اڈہ پر اس کو لینے اس کے عزیز آئے ہوئے تھے اور ہمیں لینے مون۔ اس نے بھی الوداعی سلام کیا اور نظریں جھکا لیں، ہم نے بھی مون کو گلے لگاتے ہوئے اسے خدا حافظ کہا۔
عجیب داستاں ہے یہ، یہیں شروع یہیں ختم
٭٭٭
پیرس اوئے پیرس
احمد سعید
بڑے بھائی کے گھر سے ٹرین سیدھی ’’ ایفل ٹاور ‘‘ جاتی ہے جسے یہ ’’توغ ایفل‘‘ کہتے ہیں، اور معذرت ٹرین بالکل سیدھی نہیں تھوڑا بہت بل بھی کھاتی ہے۔ ایک اور بات کہ بھائی کے گھر سے نہیں تھوڑا اُن کے گھر سے باہر نکل کر۔
بھا ئی کا پیرس میں ہونا ساس کے ہونے سے کم نہ تھا، اور میری حیثیت ان کے سامنے پرانی بہوؤں کی سی تھی، جس پر ہر پل انہوں نے نظر رکھی ہوئی تھی۔ ہر دو گھنٹے بعد فون آ جاتا کہ کہاں ہیں کب آنا ہے ؟
میں نے کہا جی کہ ’’توغ ایفل ‘‘ آ کر کوئی غلطی ہو گئی۔ یہ کیا ڈانٹنے لگ جاتا ہے اگر زیادہ دیر یہاں گزاریں تو؟ لیکن ایفل ٹاور کا جیسے سنا تھا ویسا ہی نکلا۔ واقعی دنیا کا ا یک عجوبہ ہے۔ بہت ہی لمبا ہے۔ سنا ہے کہ لمبوں کی عقل گھٹنوں میں ہوتی ہے۔ جتنا یہ لمبا ہے اس کے پاس تو عقل نام کی کوئی شئے نہ ہو گی۔
اس کے اوپر جا نے کی خواہش اس لئے نہ کی کہ ٹکٹ لینے کے لئے سینکڑوں لوگوں کی لائن لگی ہوئی تھی۔ اپنا تو حوصلہ نہ پڑا۔ ہم نے جہاز سے اترتے ہوئے سارا پیرس دیکھ لیا تھا۔ ایفل ٹاور کے اوپر سے بھی ویسا ہی نظر آ نا تھا۔ وہاں ایک عجیب بات دیکھی، ایفل ٹاور کے سامنے ’’ لِموزین ‘‘ گاڑیاں آتی تھیں۔ اُس میں کوئی دس کے قریب لڑکیاں اترتیں اور ایک آدھا لڑکا۔ عجیب لموزین کا آنا نہیں تھا۔ یہ جو ایک آدھ لڑ کے کے سا تھ دس دس حسیناؤں کا جھنڈ تھا۔ اس کا کچھ سمجھ آیا کچھ نہیں۔
فرانس ایک جدید قوم ہے، لیکن آم ابھی بھی پاکستان سے ہی آتے ہیں۔ فرانس کے دوسرے شہروں سے بھی فرنچ لوگ ’’پیرس ‘‘میں آم خریدنے آتے ہیں انہیں اکثر دکاندار کہہ بھی دیتے ہیں کہ ’’ایتھے اَمب لین آیاں ‘‘ وہ آگے سے مسکرا کے جی جی کہہ دیتے ہوں گے۔ جی جی کو یہاں سی سی کہتے ہیں۔ اس قسم کا ملتا جلتا لفظ پاکستان میں بھی بہت کارآمد ہے یعنی ’’ٹی سی‘‘۔ بس ٹی سی کرتے جائیں کام نہ کریں، پر یہاں ٹی سی نہیں چلتی۔ البتہ ٹیکسیاں بہت چلتی ہیں۔ بہت پیاری پیاری ٹیکسیاں چلتی ہیں، یعنی مرسڈیز وغیرہ بطور ٹیکسیاں ہی چلتی ہیں۔ فرانس میں غلط فرنچ بولنا صحیح انگلش بولنے سے بہت بہتر ہے۔ انگلش بولیں گے تو پھر یہ آپ سے نہیں بولیں گے۔ ’’کُٹی ہو سکتی ہے، بلکہ ہو کیاسکتی ہے، ہو جائے گی۔ لیکن اب کہیں نہ کہیں ایڈریس پوچھنے کے لئے چل جاتی ہے۔ اکثر فرنچ ایسے بھی ملیں گے جنہیں انگلش بھی آتی ہو گی آپ کی بات بھی سمجھ لیں گے پر جواب فرنچ میں ہی دیں گے یہ جانتے ہوئے بھی کہ آپ کو فرنچ نہیں آتی۔ کیونکہ فرنچیوں کا کہنا ہے کہ اگر آپ کو فرنچ نہیں آتی تو اس میں ہمارا کوئی قصور نہیں۔ پیرس شہر دیکھ کر محسوس ہوا کہ پیرس پیرس ہے، پر پیرس جتنا بھی خوبصورت ہو لاہور لاہور اے۔
فرنچ لمبے اور بہت سمارٹ ہوتے ہیں۔ اتنے سمارٹ کہ پاکستان میں ہوں تو ہر شخص گزرتا ہوا کہے کہ جناب کچھ کھا بھی لیا کریں، لیکن بہت فریش اور ایکٹو ہوتے ہیں۔ بات سیدھی کرتے ہیں اکثر بدتمیزی کرتے ہیں۔ اپنے آپ کو کچھ سمجھتے ہیں لیکن سب ایسے نہیں ہیں۔
ٹرین سسٹم میں ان کا کوئی ثانی نہیں۔ دنیا کی سب سے تیز ترین ٹرین انہی کی ایجاد ہے۔ بغیر ڈرائیور کے ٹرین بھی انہی کی ایجاد ہے۔ دنیا کی سب سے فضول ترین ایجادیں بھی یہیں دستیاب ہیں، جیسے کہ فرنچ کٹ اور ’’ فر نچ کِس‘‘ وغیرہ۔ ٹائم کے بہت پابند ہیں۔ یورپ کے دوسرے ممالک سے بھی زیادہ۔ میں اور میری بیگم صاحبہ جب بارسلونا سے پیرس فرنچ ٹرین ’’تے جے وے ‘‘پہ آئے تو پیرس پہنچنے سے کچھ لمحات پہلے بار بار کوئی اناؤنسمنٹ ہو۔ مجھے شک گزرا کہ ٹرین میں کوئی بڑی شخصیت نہ گھس گئی ہو۔ ذہن میں کبھی ’’ انجلینا جولی ‘‘ اور کبھی ’’نکول کڈمین‘‘۔ یہاں تک کہ وینا ملک کی طرف بھی ذہن چلا گیا۔ پھر خیال آیا کہ ’’ تے جے جے وے ‘‘تین سو پچاس کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے دوڑ رہی ہے۔ یہ کیسے آ سکتی ہے۔ دل پھر بھی کہے کہ آ گئیں ہیں، ہو سکتا ہے کہ ’’ سپائیڈر مین ‘‘ کے توسط سے آئی ہوں۔ اس معرکے کے بانی وہی ہوں گے۔
کس احمق کی خواہش تھی کہ ’’ سپائیڈر مین ‘‘ کو دیکھے، میں توNicole کی آنکھوں اور ’’انجلینا‘‘ کی اداؤں کے تعاقب میں تھا۔ فوری طور پر ایک لڑکی سے دریافت کیا کہ بار بار یہ کیا اعلان ہو رہا ہے ؟فرمانے لگیں کہ ٹرین تین منٹ دیر سے فرانس پہنچ رہی ہے۔ میں سر پکڑ کے بیٹھ گیا۔ ٹرین رُکی تو اناؤنسمنٹ ابھی بھی جاری تھی۔ دل نے کہا کہ کوئی نہ کوئی تو آ گئی ہے اور نہیں تو ’’ مِیرا ‘‘ ہی آئی ہو گی۔ ان میں سے تو کوئی نہ آیا، البتہ بھائی ہمیں لینے آئے ہوئے تھے۔ انہیں وہاں رہتے ہوئے دس سال ہو گئے تھے۔ کہنے لگے، ٹرین تین منٹ لیٹ پہنچی۔ غصہ مجھے پہلے ہی بہت تھا کسی ایکٹرس کے نہ آنے پر، بھائی کی بات سنتے ہی میں بولا کہ فرنچ ٹی وی چینلز پہ آپ نے سُنا ہو گا۔ اب تھوڑی دیر تک CNNاور BBCپر بھی یہ خبر چلنی ہو گی۔ بھائی میرا منہ دیکھیں، میں پیرس دیکھوں۔ جی دیکھنے جو پیرس آئے ہوئے تھے، ایک دوسرے کا منہ تھوڑی۔
فرانس جانے سے پہلے میں فیصل آبا د، ایگرکلچر یونیورسٹی سے فرنچ کورس کر کے نکلا تھا اور یہاں آ کے کئی ’’فرنچیوں ‘‘کے دانت کھٹے کر چکا تھا۔ ایک جگہ دو ’’ فرنچ ‘‘ لڑکیوں کے ساتھ ایسی فرنچ بولی کہ ان کے دانت ہی اندر نہ جائیں۔ وہ ہنس ہنس کے لوٹ پوٹ، حالانکہ میں نے فرنچ میں کوئی لطیفہ نہیں سنایا تھا۔ اب تین چار ماہ کے فرنچ کورس سے اتنی ہی فرنچ آنی تھی، جیسے کسی ’’ ٹھیٹ ‘‘پنجابی بولنے والے نے نئی نئی اُردو بولنی شروع کی ہو۔ وہ ہنستی جائیں اور معذرت کرتی جائیں۔ معذرت کی کیا ضرورت ؟ میں تو چاہتا تھا کہ ہنستی جائیں۔ آپ نے وہ محاورہ تو سنا ہی ہو گا کہ ’’ہسی تے پھسی۔ ‘‘
لیکن ہو سکتا ہے کہ وہ آپس میں پہلے ہی پھنسی ہوں۔ یہ یورپ تھا، اوپر سے فرانس کا شہر پیرس، یورپ کا بھی باپ۔ یہاں سب کچھ ہو سکتا ہے، جہاں بے غیرتی عام ہو وہاں سب کچھ ہی ہو سکتا ہے۔ ہنسی ابھی بھی متواتر جاری تھی کیونکہ میری فرنچ اُن پہ طاری تھی۔ میں اپنی جارحانہ فرنچ مسلسل جاری رکھے ہوئے تھا، جس سے ایک لڑکی سے تو سانس لینا مشکل ہو رہا تھا۔ اُس نے ایک ہاتھ سے پیٹ کو تھاما ہوا تھا اور دوسرے ہاتھ سے مجھے مسلسل اشارے کر رہی تھی کہ بس کر دو۔
میں بھی فیصل آباد سے آیا ہوا تھا، موقع کی نزاکت دیکھتے ہوئے فرنچ اور تیز کر دی۔ اب میری فرنچ، فرنچ ٹرین ’’تے جے وے ‘‘کے مقابل جا رہی تھی یعنی تین سو پچاس کلو میٹر فی گھنٹہ۔ اس سے آدھی سپیڈ پر بھی شعیب اختر نے کبھی گیند نہ پھینکی ہو گی جتنی تیز میں فرنچ پھینک رہا تھا۔ ویسے وہ بھی بہت دل پھینک لگ رہی تھیں اور میں اُس لمحے تھِنک ٹینک۔
٭٭٭
چوکے
تنویر پھولؔ
یا انقلاب
یہ بولے شیخ جی محبوبہ سے بصد الفت
میں جس میں غرق ہوں، وہ جھیل بن گئی ہو تم
یہ انقلاب ہے کیسا، اب اُس سے کہتے ہیں
کہ بعد شادی کے، اِک چیل بن گئی ہو تم
بتاؤ تو بھلا!
ہیں قومِ لوطؑ کے حامی بڑے زعمِ ترقی میں
کوئی ان سے یہ پوچھے، کس طرح تشریف تم لاتے ؟
نہ تم دنیا میں آتے اور نہ باتیں یہ بناتے تم
تمھارے باپ ماں جو تھے، اگر یہ سوچ اپناتے
شیر اور ٹارزن
دیکھ کر منظر زباں پر پھولؔ کی یہ آ گیا
شہر کی مانند یارو! سج گیا ہے آج بن
سُن کے حیراں رہ گئے، کس نے لگائی یہ صدا !
شیر کو مرغا بنانے آ گیا ہے ٹارزن
عیدِ قربان پر
گائے اور بکرے کی شامت آ گئی
بکریاں بولیں، قیامت آ گئی
مرغی والے بھی قصائی بن گئے
پھولؔ! اُن میں کیا شہامت آ گئی
چپلی کباب کلیجی اور نہاری
منہ میں تھے چپلی کباب اور لب پہ یہ آواز تھی
ہم کلیجی اور نہاری کھانے سے عاجز نہیں
ایک سبزی خور نے سن کر یہ فوراً کہہ دیا
جو مزا سبزی میں ہے، وہ گوشت میں ہر گز نہیں !
برعکس نام
پڑھنے لکھنے سے ہے عاری، نام فاضل رکھ دیا
آدمی بے فیض ہے وہ، فیض جس کا نام ہے
رکھ دیا کافور نام اُس کا جسے زنگی کہیں
رنگ کوّے کی طرح، کہلاتا وہ گلفام ہے !
اپنا اپنا احوال
زبانِ شعر میں مومن یہ کہہ گئے ہیں پھولؔ!
’’ہمارے عشق کا چرچا کہاں کہاں نہ ہُوا ‘‘
ہمارا یار گویّا ہے، وہ یوں گاتا ہے
ہمارے عشق کا بھونپو کہاں کہاں نہ بجا!
ڈارون کا قول
آپ یہ کہتے ہیں، والد آپ کے تھے بوزنہ
کل کہیں، خالہ زغن تھیں، آپ کے ماموں تھے زاغ
ڈاروِن کا مورثِ اعلیٰ تو بندر ہے مگر
ہم کو آدم ؑسے ملا ہے آدمیت کا سراغ
مفتی اور فتویٰ
ایک مُفتی آئے ٹی وی پر، عجب لہجہ سُنا
پھولؔ ! قرآں کی زباں سے ہیں وہ کتنے نا بَلَد !
کیا زباں اہل عرب کی جانتے مُفتی نہیں ؟
جو ’’غَلَط‘‘ کو ’’غلٗط‘‘ بولیں، اُن کا فتویٰ بے سَنَد
رائے ونڈ مارچ
دیکھتے رہئے نتیجہ پھولؔ! اِس دنگل کا آپ
آ گئے ہیں رائے ونڈ اب ٹارزن عمران خان
شیر کی جنگل میں شاہی، وہ بنے ہیں ٹارزن
قوم سے رکھتے ہیں اپنی، حُسنِ ظن عمران خان
پی ٹی آئی کی پٹائی
توبہ ! توبہ! دیکھئے، ڈنڈوں، دھماکوں کا یہ راج
ہو نہیں سکتی کبھی یہ قوم کیا شیر و شکر؟
دیکھ کر ٹی وی ہمارے منہ سے نکلا پھولؔ! یہ
پی ٹی آئی کی پٹائی ہو رہی ہے کس قدر
٭٭٭
ڈاکٹر مظہرؔ عباس رضوی
لے سانس ذرا دیکھ کے
امراضِ وبائی سے ہے دل تنگ و پریشان
- آفت ہے عجب جسم پہ، مشکل میں پڑی جان
لے سانس ذرا دیکھ کے ہو جائے نہ ٹی۔ بی
’’ہاں کھانس، پہ آہستہ کہ نازک ہیں بہت کان‘‘
چمٹا
بدلتے جا رہے ہیں دن بہ دن انداز الفت کے
با آسانی ہمارے پیار سے نمٹا نہیں جاتا
جو اظہارِ محبت کے لئے مطبخ میں جاتے ہیں
اٹھاتے ہیں وہ چمٹا اور پھر چمٹا نہیں جاتا
کمرشل
بنا کر زندگی کی ہر اِک شے کو تجارت
سمجھتا تھا کہ مشکل مری حل ہو گئی ہے
نمودِ ظاہری کا مگر ہے بوجھ اتنا
’’کمرشل‘‘ ہوتے ہوتے کمر، شل ہو گئی ہے
ن م راشدؔ
اگر چہ میم پہلے بعد اس کے نون آتا ہے
مگر کیا فرق پڑتا ہے الٹ پھیری سے کچھ ان کو
اگر ہو شاعری آزاد تو شاعر کا کیا کہیے
یہ ترتیبِ تہجی بھی نہیں ہے بے سبب یارو
دولت
لفظ بہت سے ایسے دیکھے
جیسا مطلب ویسی صورت
دولت ہے کیا غور کرو گر
ایک سے دو کرنے کی ہے لت
ڈکار مارنے دے
ہمیں بھی شیخیاں کرنے دے سر ابھارنے دے
نہیں ہیں شیخ، پہ شیخی ہمیں بگھارنے دے
پتہ چلے یہ انہیں ہم نہیں کوئی بھوکے
پھُلا کے پیٹ ہمیں بھی ڈکار مارنے دے
٭٭٭
محمد انسفیضی
واعظ
واعظ نے مجھ سے رات یہ بازار میں کہا
ہیں مرتکب سزا کے کدھر دیکھتے ہیں آپ
میں نے کہا گناہ میں دونوں شریک ہیں
اپنی نظر وہیں ہے جدھر دیکھتے ہیں آپ
بکرا
ہم تو انس اب آپ ہی اپنی مثال ہیں
ہم سا کوئی ملے گا نہ قرب و جوار میں
مفلس غریب لوگوں سے نظروں کو پھیر کر
بکرا خرید لائے ہیں ستر ہزار میں
گیس
نسخے قریب دور کے سب آزمائے ہیں
پہنچا ہوا حکیم بھی ناکام ہو گیا
مرغا بنا کے دیکھا تھا بیگم نے کل مجھے
اب لگ رہا ہے گیس کو آرام ہو گیا
چینی
جن کی فطرت جناب کڑوی ہے
ان کے لب پر بھی آج چینی ہے
ہم بھلا کیسے چھوڑ دیں چینی
ہم سبھی کا مزاج چینی ہے
بعد از نکاح
ہم جیسا خوش مزاج بھی ملتا نہ تھا کہیں
لیکن وفا کی راہ میں رونا پڑا ہمیں
بعد از نکاح چہرے کی رنگت اتر گئی
جیون میں جو سکون تھا کھونا پڑا ہمیں
بال
وہ بھی کیا دن تھے اس جوانی کے
ہم سراپا جمال ہوتے تھے
غور تو کر حسین چہرے پر
تب ہمارے بھی بال ہوتے تھے
ٹین ایج غزل
جب سے مری شہرت کا زمانے میں ہے چرچہ
ہر ایک کو میں اپنی غزل بانٹ رہا ہوں
تو تو ابھی نادان ہو کم سن بھی ہو ٹھرو
میں ایک دو ٹین ایج غزل چھانٹ رہا ہوں
زعفرانی مزاج
زعفرانی مزاج ہے اس کا
اور عادت ہے اقتداری کی
سر پہ الزام ہے عداوت کا
بات کرتا ہے پاسداری کی
٭٭٭
ابنِ منیبؔ
بین السّطور
گو بظاہر ذِکر تھا اِک بے وفا کا شعر میں
اُن کو جو کہنا تھا ہم سے، کہہ گئے بَین السطور
لِکھ دِیا ہم نے جواباً، ’’کیا ہی عُمدہ شعر ہے !‘‘
چوٹ ہم بھی مُسکرا کر سہہ گئے بین السطور
٭٭٭
انجینئر عتیقؔ الرّحمٰن
حکومت کیجئے
ملک کے حالات اب گھمبیر ہیں
کچھ توجہ تو ادھر بھی دیجیے
کیسے جزوقتی چلے گا ملک یہ
چھوڑ کر بزنس حکومت کیجیے
ڈنڈے کی حکومت
در اصل ہے اس ملک میں پیسے کی حکومت
دیکھا ہے جہاں ہے وہیں لے دے کی حکومت
اقدار کی ہوتی ہے یہاں اب تو تجارت
لگتا ہے کہ پھر آئے گی ڈنڈے کی حکومت
فنکار
ہم تو رکھتے ہیں شہادت کی تمنا یارو!
جانے کس آس پہ لڑتا ہے یہ مودی ہر وقت
عالمی سطح پہ تسلیم ہوا فن اُس کا
پینترے خوب بدلتا ہے یہ مودی ہر وقت
٭٭٭
شہاب ظفرؔ
مردانی
رنگ میاں کی سامنے بیگم کے زرد تھی
جس سے سبھی تھے ڈرتے وہ اک ایسا فرد تھی
مرنے کے بعد بھی نہیں نکلا دلوں سے خوف
’’حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھی‘‘
لوڈ شیڈنگ
یہ موقع خوبصورت ہاتھ سے جانے نہیں پائے
تم اپنا کام تھوڑی دیر کو یونہی چلا لینا
صنم کو دیکھنے کا لوڈ شیڈنگ میں مزا کیا ہے
اگر بتّی چلی جائے، اگر بتّی جلا لینا
خُود کش حملہ
مرنے جینے کا جو وعدہ تھا بھُلایا اُس نے
پیار کا اپنے رہے گا یونہی اونچا شملہ
ساتھ جینا نہ سہی، ساتھ میں مرنا ہی سہی
اُس کی محفل میں کروں کیوں نہ میں خود کش حملہ
٭٭٭
ڈاکٹر عزیزؔ فیصل
بد نظری
ہر اک عمر کے بوڑھے، جوان اور نیک و بد
بد نظری کے کتنے ہی دلدادہ تھے
جتنے پھول تھے اس کی کالی کرتی پر
گھورنے والے بھنورے اس سے زیادہ تھے
شک
بعض اوقات بجا ہوتا ہے
شک کرنا اچھا ہوتا ہے
کار میں ایکس (x) اگر لٹکا ہو
اس کا مطلب کیا ہوتا ہے ؟
٭٭٭
نظمالوجی
پیوند کاری
ڈاکٹر مظہر عباس رضوی
تمنا تھی کہ ہم زندہ رہیں روزِ قیامت تک
کئی صدیوں پہ پھیلا تھا اسی ارمان کا نقشہ
تگ و دو کر کے ہر اک بار دیتے موت کو دھوکا
بدل لیتے کبھی کمرے، کبھی دالان کا نقشہ
نہ آنکھیں اپنی ذاتی تھیں، نہ گردہ، دل، جگر اپنا
کہ سرجن نے بدل ڈالا تھا جسم و جان کا نقشہ
مگر کب بچ سکا ہے موت سے کوئی جو ہم بچتے
اجل آئی تو رکھا رہ گیا سب جان کا نقشہ
فرشتے نامۂ اعمال لے کے پہنچے مشکل سے
کہ گڈمڈ ہو گیا تھا ان سے قبرستان کا نقشہ
شکایت کر کے پھر کہنے لگے یہ ہے عجب مشکل
کہ مظہرؔ توُ تو ہے بکھرے ہوئے سامان کا نقشہ
بھلا دیکھو تو دھوکا دے رہا ہے ہم فرشتوں کو
لگا کے اعضاء لوگوں کے، ہے بدلا جان کا نقشہ
ہوئی ہے سرجری چہرے کی، ہر اِک نقش بدلا ہے
نہ پہلا سا وہ جبڑا ہے، نہ وہ دندان کا نقشہ
بنی تھی جو ازل میں شکل تیری وہ کہاں پر ہے
نہ ویسی ناک تیری ہے، نہ ہے وہ کان کا نقشہ
ہے قوسوں، دائروں، اور مستطیلوں میں کوئی گڑبڑ
کمر کے پیچ و خم میں ہے کسی کوہان کا نقشہ
کمالِ دستِ سرجن ہے کہ ہے یہ موت کی وحشت
کہ لگتا اجنبی سا ہے تری مُسکان کا نقشہ
تو انٹرنیشنل ہے، تیرا ایڈریس گو مقامی ہے
بڑی مشکل سے سمجھا تجھ سے بے ایمان کا نقشہ
سری لنکا سے آنکھیں لیں، کینیڈا سے جگر بدلا
ہے دل انگلش، بنا ہے جس پہ انگلستان کا نقشہ
بڑا دل گردہ ہے تیرا، ہوا جب فیل یہ گردہ
تو پیسے دے کے بدلا تو نے اپنی جان کا نقشہ
لٹائی اپنی دولت، جان تیری بس رہے باقی
نہ جانے ذہن میں تھا نقش کس سلطان کا نقشہ
مگر تو بچ کے جائے گا کہاں پیوندِ انسانی
بنائیں گے تجھے ہیروشما، جاپان کا نقشہ
سزا ایسی ملے گی سارے اعضاء کے عوض تجھ کو
کہ تجھ کو یاد آ جائے گا چولستان کا نقشہ
حساب اعضاء کا تجھ سے لیں گے ہم بالکل الگ سارا
خدا بننے چلا تھا خودبخود نقشہ بدل ڈالا
٭٭٭
وقت، بے وقت
ڈاکٹر عزیزؔ فیصل
رات کے دو بجے
آنکھ کھلنے پہ با ذوق سرتاج سے
اُکھڑے لہجے میں غصے سے کہنے لگی لکھنوی اہلیہ
نامرادا!!!! بھلا
شعر گھڑنے کا یہ کونسا وقت ہے ؟
شعر سازی کی جھنجھٹ میں پڑتے ہوئے
مصرعۂ تر کی ڈھیری کے شمشان پر
گلنے سڑنے کا یہ کونسا وقت ہے ؟
ضد میں آتے ہوئے، سر کھپاتے ہوئے
چاہے غزلوں پہ غزلیں لکھو تم مگر
ضد پہ اڑنے کا یہ کونسا وقت ہے ؟
۔ ۔ ۔ ۔ ۔
’’اے لڑاکا بلا، سن مری بھی ذرا
چاہے لڑتی جھگڑتی رہے تُو سدا
دشمن شعر و فن، اے حریف سخن
مجھ تخیل میں ڈوبے ہوئے کو بتا
مجھ سے لڑنے کا یہ کونسا وقت ہے ؟‘‘
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
جن خرافات کو
تو سمجھتا ہے اپنا ہنر، اپنا فن
میری اور میرے والد کی دانست میں
اک چول آدمی کا ہے دیوانہ پن
شوق سے تم بگڑتے رہو سارا دن
یوں بگڑنے کا یہ کونسا وقت ہے ؟
گھپ اندھیرے میں چمگادڑوں کی طرح
کر تے جاتے ہو پرواز حرف و نوا
دیکھو دینے لگی ہوں تجھے واسطہ
تیرے دس نونہالوں کا میں ظالما
لوڈشیڈنگ بھری اس شب تار میں
شاعری کے چراغ الہ دین کو
اَب رگڑنے کا یہ کونسا وقت ہے ؟
٭٭٭
کہ آیو رے ساون
نوید ظفر کیانی
بلا لو سب کو بلا لو کہ آیو رے ساون
جمالو رنگ جمالو کہ آیو رے ساون
اُٹھو کہ پھر سے ہے موسم تماشہ کرنے کا
چلو کہ نام کمالو کہ آیو رے ساون
سیاستوں کے پنپنے کا ہے یہی موسم
بنا ہے بخت اپالو کہ آیو رے ساون
تمام شہر ہے ڈوبا ہوا تو میں کیا کروں
کرو نہ تنگ سوالو کہ آیو رے ساون
بلاؤ جتنے بھی ہیں میڈیا کے جادوگر
لفافے خوب بنا لو کہ آیو رے ساون
مری سپیچ کو کچھ اور بھی عوامی کرو
نئے مکالمے ڈالو کہ آیو رے ساون
وزیرِ اعلیٰ نہیں، میں ہوں خادمِ اعلیٰ
یہ کہہ کے سب کو پٹا لو کہ آیو رے ساون
جو مجھ میں گھسنے کی ہمت نہ کر سکی ہیں کبھی
اُن عظمتوں کو اجالو کہ آیو رے ساون
میں جو بھی بات کروں جوششِ خطابت میں
تم اُس پہ بولو نہ چالو کہ آیو رے ساون
مجھے بھی پانی میں گھس گھس کے پوز دینے ہیں
رَبر کے بوٹ نکالو کہ آیو رے ساون
٭٭٭
تعویذ
اعظم نصر
کچھ دنوں سے
اک انجانا خوف تھا دل میں
دو تین بار تو سوتے میں بھی ڈر گیا
وجہ سمجھ میں نہیں آ رہی تھی
کہ آج بیگم
ایک تعویذ پکڑاتے ہوئے بولیں
شاعروں کے لئے خاص ہے
گلے میں ڈال لیجئے
دسمبر آ رہا ہے
٭٭٭
ہوشیار باش
عرفان قادر
اے ہواؤ! جب میں تُمھیں آواز دیتا ہوں
تو گرد و غبار کا طوفان آ جاتا ہے
اے سمندر! جب میں تجھے بلاتا ہوں
تو تمھارے اندر سے شارکیں اچھل اچھل کر
مُنہ کھول کھول کر باہر آنے لگتی ہیں
اے ندی نالو! جب میں تمھیں پکارتا ہوں
تو گٹر کا گندا پانی تم میں بہنے لگتا ہے
اے دسمبر! جب میں تمھیں یاد کرتا ہوں
مجھے نزلہ زکام اور کھانسی ہو جاتے ہیں
اے پرندو! جب میں تمھیں چہچہانے کو کہتا ہوں
تو کوّے کائیں کائیں کرنے لگتے ہیں
اے برسات! جب میں تم سے مخاطب ہوتا ہوں
میرے محلے کی گلیاں
کیچڑ اور دلدل سے بھرے جوہڑوں میں بدل جاتی ہیں
اور اُن میں مینڈکیں ٹرانے لگتی ہیں
کیوں ؟
کیا صرف اس لئے کہ میں ایک مزاحیہ غزل گو شاعر ہوں
اور تمھارے بارے میں مزاحیہ غزلیں لکھتا ہوں
تو سُن لو
کہ میں نے غزلوں کے ساتھ ساتھ
نثری نظمیں بھی کہنا شروع کر دی ہیں
کیا سمجھے ؟
٭٭٭
الیکشن کے دن
عتیق الرحمٰن
الیکشن منانے کے دن آ رہے ہیں
سو اُلو بنانے کے دن آ رہے ہیں
مداری کے پھر ڈگڈگی ہاتھ میں ہے
کہ بندر نچانے کے دن آ رہے ہیں
سجا ہے نیا ماسک چہرے پہ پھر سے
کہ ملنے ملانے کے دن آ رہے ہیں
گلے پھاڑ کر چیخنے سب لگیں گے
یہ جوہر دکھانے کے دن آ رہے ہیں
یہاں ابنِ زر دار بھی موجود ہے اب
کہ دولت لٹانے کے دن آ رہے ہیں
پریشان شہباز یہ سوچتا ہے
کہ انگلی گھمانے نے دن آ رہے ہیں
لگانے لگا ہے یہ عمران نعرے
یہ گیدڑ بھگانے نے دن آ رہے ہیں
بڑی توند والے بھی فرما رہے ہیں
سیاست چلانے کے دن آ رہے ہیں
لگے گی بڑی سیل چاروں طرف ہی
کہ لوٹے اُٹھانے کے دن آ رہے ہیں
لگائیں گے جو بھی بنائیں گے دُگنا
یہ دولت اُگانے کے دن آ رہے ہیں
چھڑی ہاتھ میں بوٹ والوں نے پکڑی
حکومت کے جانے کے دن آ رہے ہیں
صدا دل سے یہ آ رہی ہے عتیقؔ اب
برائی مٹانے کے دن آ رہے ہیں
٭٭٭
عاشق کی انشا اللہ
شہاب ظفر
دل سے نام delete کروں گا
نہ ہی تم کو cheat کروں گا
اب تو میرے باپ کی توبہ
نہ مسٹیک repeat کروں گا
آ جاؤں نظروں میں تیری
ایسی کوئیfeat کروں گا
عشق میں اپنا task یہی ہے
مجنوں کو بھی beat کروں گا
صرف تمھارے دل کی خاطر
سالوں کو بھی beat کروں گا
set جو کی ہے Dad نے تیرے
deadline وہ meet کروں گا
کانوں کان خبر نہ ہو گی
کام میں اِتنا neat کروں گا
ساس کو ساس نہیں سمجھوں گا
ماں جیسا ہی treat کروں گا
سسرالی جب آئیں اُن کو
پیش میں اپنی seat کروں گا
جب بولو پی لوں گا پانی
eat کہو تو eat کروں گا
٭٭٭
توند
محمد ادریس قریشی
اِس میں ہے بے حد لچک، خود کو بڑھا سکتی ہے توند
مال نذرانے کا جتنا ہو، کھپا سکتی ہے توند
روسٹ چانپیں ہوں کہ ہو مرغِ مسلّم، فکر کیا
دو پراتیں کھیر کی بھی ساتھ کھا سکتی ہے توند
چھوٹی موٹی کار کو دھکا لگا سکتی ہے توند
جتنا بھی ہو رش یہ لوگوں کو ہٹا سکتی ہے توند
پانچ چھ بچوں کو نیچے بھی چھپا سکتی ہے توند
ان کو دھوپ آندھی سے، بارش سے بچا سکتی ہے توند
ایک دو بچوں کو اوپر بھی بٹھا سکتی ہے توند
گر کے اوپر سب کا فالودہ بنا سکتی ہے توند
جب گلے ملتی ہے مجھ جیسے کسی باریک سے
ہڈیوں اور پسلیوں کو کڑکڑا سکتی ہے توند
گر ہو بیگم باکسر سمجھے گی اس کو پنچ بیگ
پنچ کھانے کے لئے بھی کام آ سکتی ہے توند
کھا رہے ہیں سحری و افطار میں جو بے حساب
روزہ داری بھی نہیں اُن کی گھٹا سکتی ہے توند
آج اہلِ توند کی سروس کو خطرہ ہے بہت
ہو نہ پائی کم تو اپنے گھر بھی جا سکتی ہے توند
کیل کانٹے سے مگر اس کو بچانا ہے ذرا
ہو گئی پنکچر، زمیں ساری ہلا سکتی ہے توند
٭٭٭
گفتگو
نشترؔ امروہوی
کل اِک بزرگوار سے کچھ گفتگو ہوئی
کیا گفتگو ہوئی یہ ذرا سن لیں آپ بھی
میں نے کہا کہ گرمی ہے بجلی کا کیا کریں
کہنے لگے کہ ہاتھ سے پنکھا جھلا کریں
میں نے کہا کہ ریل میں ہے بھیڑ کس قدر
بولے کہ کیوں بھٹکتے ہو ہر روز اِدھر اُدھر
میں نے کہا کہ کام ہے نا کوئی کارو بار
کہنے لگے کہ شعر کہو روز بے شمار
میں نے کہا کہ شاعری مجھ کو سکھائیے
بولے مشاعروں میں مرے شعر گائیے
میں بولا پیٹرول کی قیمت پہ کچھ کہیں
کہنے لگے کہ مہنگا ہے پیدل چلا کرو
میں نے کہا کہ دھوپ میں گرمی میں کیا کریں
بولے کہ گھر میں بیوی کی صورت تکا کریں
میں نے کہا کہ دیکھئے مہنگائی ہے بہت
بولے تمہاری آمد بالائی ہے بہت
میں نے کہا کہ سیب بھی مہنگا ہے کس قدر
بولے کہ تم چنے ہی چباؤ کٹر کٹر
انگور کا جو نام لیا بولے چونک کر
دختر پسند کرتے ہو تم اس کی یا پسر
میں نے کہا کہ آم کے بارے میں کچھ خیال
کہنے لگے پھلوں کا ہے راجہ یہ بے مثال
میں نے یہ پوچھا آم میں کیا خاص بات ہے
بولے جو آم کھاتا ہے اس کی نجات ہے
پوچھا قرآں میں ذکر ہے اس پھل کے نام کا
کہنے لگے کہ تیسواں پارہ ہے آم کا
٭٭٭
حسرتِ قربانی
ڈاکٹر سعید اقبال سعدی
میں نے بھی اس عید پہ قربانی کرنے کی ٹھانی
سوچا بکرا عید پہ دے دوں بکرے کی قربانی
جیب میں ڈال کے سات ہزار میں پہنچا بکرا منڈی
ہر بیوپاری ہر گاہک سے مار رہا تھا ڈنڈی
جس بکرے کا ریٹ بھی پوچھا، سُن کر جی گھبرایا
تیس ہزار کا بکرا سُن کر مجھ کو چکر آیا
میں نے کہا کہ میرے پاس ہیں بس اِتنے ہی پیسے
وہ بولا تم بکرا منڈی میں آئے ہو کیسے
آپ کے حق میں بہتر ہے باہر کا رستہ پکڑیں
بکرے نے یہ ریٹ سُنا تو مارے گا وہ ٹکریں
سات ہزار میں مل سکتا ہے بکرے کا اک ساشے
ویٹ ہو جس کا سات کلو، چھ تولے اور دو ماشے
یا پھر مل سکتا ہے تم کو چھوٹا ٹیڈی بکرا
اِن پیسوں میں آ سکتا ہے ممی ڈیڈی بکرا
میں نے پوچھا اِس بکرے کی قربانی کا جائز
بولا ’’پاہ جی، دوندا ہے یہ اس رُتبے پر فائض‘‘
دے کر سات ہزار کی قیمت بکرا لے کر آیا
گھر میں لا کر سب سے پہلے بیگم کو دکھلایا
بکرا دیکھ کے بیگم نے غصے میں مجھ کو دیکھا
غصے میں تو لگتی ہے وہ مجھ کو بالکل ’’ریکھا‘‘
بولا ایسا اعلیٰ بکرا لائے ہو کس جد کا
قربانی کرنی ہے تم نے یا دینا ہے صدقہ
جاؤ جا کر ایسا بکرا واپس کر کے آؤ
اِس بکرے سے بہتر ہے گائے میں حصہ پاؤ
کھا کر بیگم کی جھڑکیں میں واپس منڈی آیا
چار ہزار میں سات کے بدلے بکرے کو لوٹایا
گائے کا حصہ بھی تھا میری اوقات سے باہر
کر نہ پایا قربانی اِس بار بھی مفلس شاعر
تیس ہزار کا بکرا ہو اور دو دو لاکھ کی گائے
ایسے میں مجھ جیسا کیسے بکرا عید منائے
٭٭٭
ردیفے
محمد عارف
جس لڑکی کو چھیڑا تھا
والد اس کا نکلا نائی
اپنی اپنی قسمت بھائی
مجھ کو چھوڑ کے اس مہ رخ نے
بکرے کے سنگ عید منائی
اپنی اپنی قسمت بھائی
چھڑے مُڑے تھے خاموشی تھی
اب ہے ہنگامہ آرائی
اپنی اپنی قسمت بھائی
بھاشا ڈیم بھی کاغذ پر ہے
اس کو کہتے ہیں دانائی
اپنی اپنی قسمت بھائی
پنکھا ساکت بلب بجھا ہے
لیکن آن ہے وائی فائی
اپنی اپنی قسمت بھائی
٭٭٭
قہقہہ نواز
نشتر امروہوی کی محاکاتی شاعری
علامہ محمود حسن قیصر
شاعری کی مختلف اصناف، غزل، قصیدہ، مثنوی، رباعی وغیرہ میں طنزو مزاح بھی ایک قابل ذکر صنف ہے۔ اس صنف کو دیگر اصناف کے علاوہ یہ خصوصیت حاصل ہے کہ متعدد شکلوں میں اس کو سمویہ جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر غزل ہے جو عشقیہ اشعار پر ہی مشتمل ہوتی ہے۔ قصیدہ بنیادی طور پر کسی کی تعریف میں ہوتا ہے لیکن اس میں بھی طنزو مزاح کے عناصر کو شامل کیا جا سکتا ہے۔ اس صنف کو اتنی وسعت اور اتنا وسیع میدان دینے کے باوجود بھی ہم دیکھتے ہیں کہ اُردو شاعری کے کئی سو سالہ دور میں اس کا سرمایۂ ٔسخن برائے نام ہی ملتا ہے۔
غور کرنے پر اس کی وجہ صرف یہ معلوم ہوتی ہے کہ اُردو کے بڑے اور نامور شعراء نے اس صنف کو اپنانے میں عار محسوس کیا اور اس کو خالص عوام کے لئے مخصوص سمجھا۔ مثال کے طور پر علامہ اقبال،ؔ جوشؔ ملیح آبادی، مجاز،ؔ فیض احمد فیض،ؔ آلِ احمد سرورؔ اس سے اوپر جائیے تو مرزا غالبؔ، آتشؔ لکھنوی، عیشیؔ لکھنوی، ذوقؔ وغیرہ ان میں سے کسی نے بھی طنز و مزاح کے موضوع پر ہاتھ نہیں رکھا اور اپنے پاکیزہ ذوق اور رجحانِ طبع کے تقاضے پر شعر کہے۔ اِن شعراء کے یہاں طنز و مزاح کی کچھ مثالیں اگر ملیں گی بھی تو ان کی کوئی خاص ضرورت رہی ہو گی۔ البتہ اُردو کے آخری دور میں جو دورِ انحطاط کہلاتا ہے، جس نے داغؔ، امیرؔ مینائی، تسلیمؔ وغیرہ کو جنم دیا۔ اِسی کے متوازی کچھ مزاح نگار شعراء بھی پیدا ہوئے مگر ان میں سے کسی میں نہ کوئی علمی صلاحیت تھی، نہ آسودگیِ ذہن، نہ الفاظ کہ جن کے سہارے وہ کوئی مضمون تخلیق کر سکتے۔ مثال کے طور پر:
جب کہا میں نے کہ میرے گھر چلو
تب مری گوئیاں نے اے رنگیں پکار
گال پر انگلی کو رکھ کر یوں کہا
میں تیرے گھر جاؤں گی اے دور پار
(رنگینؔ)
رخِ روشن کی جھرّی حسن کا گویا ٹھٹھر جانا
قیامت ہے کسی معشوق کا سن سے اتر جانا
(ظریفؔ لکھنوی )
میری آہوں کی توپوں کا وہ خالی خولی سر ہونا
وہ ان کا لاٹ صاحب کی طرح غیروں کے گھر جانا
(ظریفؔ لکھنوی )
ایسے اشعار آپس میں بیٹھ کر تفریح کے لئے تو پڑھے جا سکتے ہیں لیکن ادب میں ان کو کوئی مقام نہیں دیا جا سکتا، البتہ جدید دور میں نئی نسل نے اس صنف کو بلندی دی اور اس کو ادبِ اُردو میں ایک قابلِ ذکر مقام دیا۔ یقیناً ان کی یہ کوشش قابلِ ستائش ہے۔ اس سلسلے میں شہبازؔ امروہوی، ہلالؔ رامپوری، دلاور فگارؔ بدایونی، ناظرؔ خیامی، ہلالؔ سیہاروی، ناظمؔؔ انصاری وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔ اس کے بعد شروع ہوتا ہے جدید ترین دور جس میں پہلا نام ساغرؔ خیامی اس کے بعد عادلؔ لکھنوی، اس کے بعد سیدین شجاع نشترؔ امروہوی۔ مجھے یہ افسوس ہے کہ وہ اپنی عمر کے پینتیس سال گزارنے کے بعد پہچان میں آئے ورنہ آج ان کا مقام بہت بلند ہوتا۔ اُن کی شاعری کو میں نے ہر دور میں سراہا ہے۔ ان کے یہاں وہ پسپائی نہیں پائی جاتی جو عموماً طنز نگاروں میں پائی جاتی ہے نشترؔ کی نظموں میں حسب ذیل نظمیں خاص معیار رکھتی ہیں اور اُن کی صالح فکر کی نمائندگی کرتی ہیں۔ مثال کے طور پر ’’دعوتِ ولیمہ ‘‘ کے دو بند ملاحظہ فرمائیں۔
کچھ عورتوں کے ساتھ میں بچے تھے چلبلے
کس باپ کے سپوت تھے کس گود کے پلے
نو دس برس کے سن میں یہ ہمت یہ ولولے
کس کی مجال ان سے کوئی ڈونگہ چھین لے
مرغے کی ٹانگ پھینک دی آدھی چچوڑ کر
بریانی پیلنے لگے روٹی کو چھوڑ کر
آئے کبابِ سیخ تو ہتھیا گیا کوئی
پلے ّپڑا نہ کچھ بھی تو جھلّا گیا کوئی
چٹنی سمجھ کے سونٹھ وہاں کھا گیا کوئی
اور رائتہ میں کھیر کو اوندھا گیا کوئی
کوئی تو لے رہا تھا مزا رس ملائی کا
تھپّڑ کسی نے کھا لیا دستِ حنائی کا
اس نظم میں نشترؔ نے محاکات کا حق ادا کر دیا ہے۔ اس کو پڑھ کر معلوم ہوتا ہے کہ دعوت اور اس میں ابتری ہم اپنے سامنے دیکھ رہے ہیں۔ میں نے ان کی نظموں کے بعض بند سن کر یہ محسوس کیا کہ جیسے میر انیسؔ کی زبان سے نشترؔ بول رہے ہیں۔
اور ایک نظم جس کا عنوان ہے ’’بیویاں ‘‘اس نظم میں یہ دکھایا گیا ہے کہ عورت اپنے شوہر پر حاوی ہونے کے لئے کیا کیا طریقے اپناتی ہے۔ اس نظم کے دو بند ملاحظہ کریں۔
کھا کھا کے گوشت ویٹ نہ اپنا بڑھائیے
جو میں بنا رہی ہوں وہ چپ چاپ کھائیے
اس وقت گھر میں آئیے اس وقت جائیے
جانا کہاں ہے جانے سے پہلے بتائیے
اس طرح کنٹرول میں لاتی ہیں بیویاں
حاکم کو بھی غلام بناتی ہیں بیویاں
وہ سنتری ہو کوئی یا کوئی ہو منتری
ہوتی ہے سب کو بیوی سے احساسِ کمتری
کیسا بھی شیر دل ہو بہادر ہو وہ جری
رہتی ہو جس کے خوف سے دنیا ڈری ڈری
ایسے بہادروں کو ڈراتی ہیں بیویاں
پھر اُنگلیوں پہ اُن کو نچاتی ہیں بیویاں
ہر دور میں رنڈوے بیچارے مذاق کا موضوع رہے ہیں۔ اسی نظریے کو سامنے رکھ کر نشترؔ امروہوی نے ایک رنڈوؤں کی کانفرنس کے عنوان سے ایک نظم لکھی ہے، جس میں رنڈوے اپنی پریشانیاں بیان کرتے ہیں۔ اس نظم کے دو بند ملاحظہ ہوں۔
صدرِ جلسہ جو کہ تھا اک سینئر رنڈوا وہاں
سب سے پہلے وہ اٹھا اور یوں ہوا شعلہ بیاں
قدر اُن کی ہے فقط زندہ ہیں جن کی بیویاں
اور رنڈووں کی کوئی عزت نہیں ہوتی میاں
فالتو سا مان کی مانند ہیں گھر بار میں
جس طرح بوڑھی طوائف حسن کے بازار میں
ایک رنڈوا تھا وہاں جو قوم کا لیڈر بھی تھا
اس نے مائک تھام کر لمبا سا اک بھاشن دیا
جوڑ کر ہاتھوں کو آخر میں پھر اس نے یوں کہا
سب اسی طرح رہو ما نو مرا تم مشورا
لاکھ بہتر ہیں کنوارے آج تک ہیں جو قطئی
جس طرح مایا وتی، عبدالکلام اور باجپئی
آپ کی زبان آسان اور عام فہم ہے نگاہ گہری اور سماج کی تلخ حقیقتوں کو مزاح کا رنگ دینے میں مہارت رکھتے ہیں۔ اُنہوں نے حالیؔ ، اقبالؔ اور چکبستؔ کی طرح مسدس سے کام لے کر علّامہ اقبالؔ کے شکوہ کی طرح خود ایک شکوہ تخلیق کیا جس میں بیوی کو مخاطب کیا گیا ہے۔ نظم کے انداز کو دیکھ کر علامہ اقبالؔ کا شکوہ دماغ میں گھوم جاتا ہے۔ نشتر امروہوی نے اس نظم میں طنزو مزاح کی ایسی ایسی پھلجھڑیاں چھوڑی ہیں کہ جو بے ساختہ قہقہہ لگانے اور مسکرانے پر مجبور کرتی ہیں۔
تیری خاطر جو کسی بات پہ اڑ جاتے ہیں
پیر گھر والوں کے گھر سے ہی اکھڑ جاتے ہیں
تجھ سے برہم ہوا کوئی تو بگڑ جاتے ہیں
بھائی کیا چیز ہے ہم باپ سے لڑ جاتے ہیں
دبدبہ تیرا ہر اک دل پہ بٹھا یا ہم نے
تو نے جو کہہ د یا وہ کر کے دکھایا ہم نے
رشتہ شادی کا لئے ہم سحر و شام پھرے
جیسے مایوس کوئی بندۂ آلام پھرے
کوئی ہاتھوں میں لئے جیسے تہی جام پھرے
ہم بجز تیرے ہر اک جگہ سے ناکام پھرے
صاحب زر نہیں بے زر بھی نہ چھوڑے ہم نے
عقل کے سیکڑوں دوڑا دئے گھوڑے ہم نے
ایک اور نظم ’’آپ سے ملئے ‘‘کا بند دیکھئے :
جعلسازی میں یہ نٹورسے بھی کچھ اکیس ہیں
چار سو بیسوں سے بڑھ کر آٹھ سو چالیس ہیں
کون کہتا ہے کہ یہ شیطان کی تجنیس ہیں
یہ بذاتِ خود جناب حضرت ابلیس ہیں
عہدِ طفلی سے ہی مکّاری کا اک پیکر ہیں آپ
آپ سے ملئے ہمارے ملک کے لیڈر ہیں آپ
اِس کے علاوہ حسبِ ذیل نظمیں بھی آپ کی تخلیق کا شاہ کار ہیں۔
ابھی پے نہیں ملی، چاپلوسی، آپ سے ملئے، خواب میں مشاعرہ، سیاست، بلیو لائن بس، کثرتِ اولاد، غالب کاپوسٹ مارٹم، شاعری اور بیگم، تعارف، مولوی صاحب، ابّا کی موت، الیکشن، بے چارہ شاعر، چالان، میرا بھارت مہان، کالی سہاگ رات، ضرورتِ رشتہ، بوتل نامہ، تیرے بغیر وغیرہ۔
نظموں کے علاوہ نشترؔ کے یہاں سماجی اور سیا سی قطعات کی بھر مار ہے۔ الگ الگ موضوعات پر تضمین آپ کے کلام کی جان ہے۔ ایک تضمین ملاحظہ کریں۔
اک مردہ کہہ رہا تھا یہ اپنے مزار میں
رونق نہیں ہی ہے کوئی بھی قرب و جوار میں
ہو جائے دفن کوئی حسینہ ہی آس پاس
’’لگتا نہیں ہے دل مرا اجڑے دیار میں ‘‘
ایسی ہی طویل نظموں میں نشترؔ نے مزاح کے وہ فوارے چھوڑے ہیں کہ پڑھنے وا لا قہقہے لگانے اور سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ مجھے ان کی شاعری اور تخلیقات سے ہمیشہ دلچسپی رہی ہے اور ان کے لئے دعا کرتا ہوں کہ وہ اپنے شغل کو جاری رکھیں۔
٭٭٭
کتابی چہرے
وسیم عباس
سید بدر سعید
شاعر یا ہوتا ہے یا نہیں ہوتا۔ جو نہیں ہوتا اسے زیادہ داد ملتی ہے کیونکہ اس کا کلام سننے والوں کو بھی بھلا کہاں اوزان کا علم ہوتا ہے۔ وسیم عباس کے بارے میں ہمیں آج تک معلوم نہیں ہو سکا کہ وہ شاعر ہے یا نہیں۔ شعر کہنے کا فارمولا اس نے بھی وہی اپنا رکھا ہے جو ہم نے اپنایا ہے البتہ اس کا گلا ہم سے زیادہ صاف ہے لہذا اکثر اٹکے بنا آگے نکل جاتا ہے۔ شاعری بہتر بنانے کے لئے باقاعدگی سے مشق کرتا ہے۔ اسی لئے روز صبح اٹھ کر دو گھنٹے مٹکے میں منہ ڈال کر شعر کا ردھم ٹھیک کرتا ہے۔ ایک مشاعرے میں وسیم عباس ٹھسے سے بیٹھا شعر کہ رہا تھا۔ ساتھ بیٹھے عروضی نے فوراً ہی ٹوک دیا ’’ارے بھیا! آپ کے مصرعہ کا ’’ر‘‘ گر گیا ہے۔ ‘‘ واہ واہ کے شور میں وسیم عباس نے مڑ کر اسے دیکھا اور کہنے لگا ’’ساحب خود اٹھا کر جوڑ لیں، میں اگلا مصرعہ سنانے میں مصروف ہوں۔ ‘‘ بس تب سے یہ بندہ کچھ نہ کچھ گرا رہا ہے اور وہ عروضی صاحب اٹھائے چلے جا رہے ہیں۔ اپنی شاعری سے دنیا کو آگ لگانے کا عزم رکھتا ہے۔ اسی لئے شاعروں کو اپنی غزل سنا کر بھاگ جاتا ہے۔
ہمارے یہاں شاعروں کی شہرت مشاعروں سے زیادہ فیس بک پر نظر آتی ہے۔ اس مقابلہ میں خواتین شاعرات کافی آگے ہیں۔ شاعر بیچارہ اپنی غزل یا نظم لکھ کر اپ لوڈ کرتا ہے تو کوئی اسے گھاس تک نہیں ڈالتا۔ دوسری جانب شاعرہ کا کلام اکثر کوئی نہ کوئی خدائی مددگار ٹائپ بھائی باقاعدہ ڈیزائن بنا کر اَپ لوڈ کرتا نظر آتا ہے۔ جس کے ساتھ لکھا ہوتا ہے کہ اپنی فلاں پیاری سی بہنا کے لئے۔ خدا جانے ایسی بہنیں شاعروں کو کیوں نہیں ملتیں۔ اس لحاظ وسیم عباس ٹو ان ون ہے یعنی یہ اپنی ہی بہن یا بھائی بھی ہے۔ یہ پیشہ ور ڈیزائنر ہے لہذا اپنی شاعری خود ہی ڈیزائن کر کے اپ لوڈ کرتا ہے۔ قاصد کے مطابق کئی نامور شاعرات کی ’’شہرت‘‘ کے پیچھے بھی اسی کا ہاتھ ہے ۔ شہر میں لوگوں کے معاشقے چلتے ہیں جبکہ اس کے ڈیزائن چلتے ہیں۔ میرے کالم کا لوگو بھی اسی نے ڈیزائن کیا تھا۔ پہلی بار اس لوگو کے ساتھ کالم چھپا تو مٹھائی کا ڈبہ لے کر گھر آ گیا، کہنے لگا : کالم چھپنے کی مبارک باد قبول کریں لیکن خدارا کسی کو یہ نہ بتانا کہ لوگو میں نے بنا کر دیا تھا۔
وسیم عباس میرا بہت اچھا دوست ہے۔ اِس کا اندازہ اِس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اس کے پہلے مجموعہ کلام میں میری رائے بھی شامل تھی۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ اپنے اس مجموعۂ کلام کو چھپاتا پھرتا ہے۔ کہتا ہے ایک وقت میں یا میرا جھوٹ پڑھا جا سکتا ہے یا تمہارا۔ شاعرات کا خاص خیال رکھتا ہے۔ ایک دن ایک میک اپ زدہ شاعرہ کو کہنے لگا ’’محترمہ نقاب ہمارے کلچر اور مذہب کا حصہ ہے لیکن نقاب کی جتنی پابندی آپ کرتی ہیں اسے زیادتی کہتے ہیں۔ ‘‘ محترمہ پہلے تو حیران ہوئیں پھر بیگ سے آئنہ نکال کر اپنا میک اپ ٹھیک کیا اور کہنے لگیں ’’میں نے کب نقاب کیا ہے ؟‘‘ معصومیت سے کہنے لگا ’’جتنا آپ میک اپ کر کے آ جاتی ہیں یہ بھی نقاب ہی ہے۔ ایک سال ہو گیا مجھے آج تک آپ کا اصل چہرہ دیکھنے کا اعزاز حاصل نہیں ہوا۔ ‘‘
نجومی ہاتھ پڑھتے ہیں۔ یہ چونکہ شاعر ہے لہذا چہرے پڑھتا ہے۔ اس معاملے میں بھی اس نے سپیشلائزیزیشن کر رکھی ہے۔ کہتا ہے میں صرف خواتین کا چہرہ پڑھ سکتا ہوں۔
صحت سے صحت مند ہی لگتا ہے۔ کسی سے لڑائی ہو تو اس کا قیمہ بنا سکتا ہے۔ شاید اسی لئے دوست ملنے جائیں تو انہیں بھی قیمے والے نان کھلاتا ہے۔ ہمارے دوستب المعروف شاہ صاحب کا کہنا ہے کہ یہ بندہ اگر امریکا میں ہوتا تو ڈونلڈ ٹرمپ کے پوسٹر پر انتخابی نشان کی جگہ اسی کی تصویر لگتی۔ مشاعروں میں داد کا مقابلہ داد سے جیتتا ہے۔ اس مقصد کے لیے گلے کی خراش والی گولیوں کا پتہ جیب میں رکھتا ہے۔ دوستوں کا اتنا خیال رکھتا ہے کہ اگر مشاعرہ ہی طول پکڑ جائے تو سب کو ایک ایک گولی سٹیپسل دیتا ہے۔ ۔ ریسٹورنٹس کے لئے مفت ڈیزائن بناتا ہے اور بدلے میں وہاں دوستوں کے ساتھ مفت میں شام مناتا ہے۔ ویسے تو یہ شکل سے مرد ہی لگتا ہے لیکن لیز کھانے کے مقابلے میں لڑکیوں سے آگے ہے۔ لیز کمپنی کو سب سے بڑا نقصان اس دن ہو گا جب یہ لیز کھانا چھوڑ دے گا۔ عین ممکن ہے اس روز کمپنی دیوالیہ ہونے کا اعلان کر دے۔ شور شرابے سے بچتا ہے لہذا فلم بھی آواز بند کر کے دیکھتا ہے۔ گروپ سیلفی میں ۲۰ افراد کو سمونا اسی کا ہنر ہے حالانکہ عام طور پر کیمرہ میں اس کے ساتھ دوسرا بندہ دیکھ کر کہ دیتے ہیں کہ الگ الگ فوٹو بنا کر بعد میں جوڑ لیں گے۔ وسیم عباس بڑے دل کا مالک ہے۔ اس لئے کئی لڑکیوں کو یہیں رہائش دے رکھی ہے۔ کہتا ہے بیچاریاں جانے کہاں کہاں کی خاک چھانتی رہتیں۔ کمزور لڑکیاں اسے قطعاً پسند نہیں ہیں لہذا انہیں پردے کی سہولت کے ساتھ چند ماہ میں صحت مند ہونے کا خفیہ فارمولا بتانے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔ شادی کو فضول کام سمجھتا ہے۔ اکثر کہتا ہے کہ دیکھو میں نے شادی نہیں کی پھر بھی خوش ہوں۔ ایسے ہر موقع پر ہمارے دوست ’’ب‘‘ المعروف شاہ صاحب جل کر جواب دیتے ہیں کہ شادی نہیں کی اسی لئے خوش ہو۔ خود کو ازلی کنوارہ قرار دیتا ہے۔ اسی لئے مردوں کو جوان بنانے والے حکیم سلیم اختر تک اس کی شرافت کی گواہی دینے پر مجبور ہیں۔ غالباً اس گواہی سے ہی ان کی کاروباری ساکھ خراب ہوئی ہے۔
وسیم عباس نے زندگی میں کئی اچھے کام کئے ہیں۔ ان میں سرفہرست اپنی ۵ کتابوں کا آگ لگانا بھی شامل ہے۔ پہلے اسے سپورٹس رائیٹر بننے کا شوق تھا۔ اس نے سپورٹس پر پانچ کتابیں بھی لکھ دیں۔ اس کے بعد ان کتابوں کو آگ لگائی اور شاعر بن بیٹھا لیکن شاعری کے پہلے مجموعۂ کلام کے بعد ہی اسے سبق مل گیا۔ لاہور کے اکثر مشاعروں میں اسے لازمی بلایا جاتا ہے ورنہ منتظمین کو دعوت نامے ڈیزائن کروانے کے لئے جیب سے رقم خرچ کرنا پڑتی ہے۔ لوگ گاڑیوں ٹریکر اور الارمنگ لاک لگواتے ہیں، اس نے اپنے کیمرے کو لگوا رکھا ہے۔ محلہ کی آنٹیاں اسے ابھی تک ببلو سمجھتی ہیں اور وہی سلوک کرتی ہیں جو ببلو کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ وسیم عباس خود کو پروفیشنل ڈیزائنر کہلواتا ہے۔ شاہ صاحب کو البتہ لفظ ’’پروفیشنل ‘‘ پر اعتراض ہے۔
محبت وسیم عباس کا مسئلہ ہے۔ جس سے محبت کرتا ہے اس کے لئے بھی وسیم عباس ہی مسئلہ ہے۔ اس کے بھیجے گئے ایک کرتے کی جتنی تشہیر کر چکا ہے اتنی کسی برانڈ کی کرتا تو برانڈ ایمبیسیٹرڈ بن چکا ہوتا۔ وسیم عباس کی شخصیت میں سب سے اچھی بات یہ ہے کہ یہ سب کا لحاظ کرتا ہے لہذا باقی سب بھی اس کا لحاظ ہی کرتے ہیں ۔ ہم نے اسے ہمیشہ دوستوں کی محفل میں قہقہے بکھیرتے دیکھا ہے۔ بزرگوں سے جھک کر ملتا ہے۔ کئی بار کہا ہے کہ اگر اتنی عاجزی سے ملنا ہو تو لائن میں سب سے آخر میں کھڑے ہوا کرو۔ پہلے دوسروں کو ملنے کا موقع دیا کرو لیکن یہ ہر بار سب پر سبقت لے جاتا ہے۔ ہمارے لئے یہ خبر تو اتنی بڑی نہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ امریکی صدر بن گیا لیکن یہ واقعی بریکنگ نیوز ہو گی کہ کوئی دوست وسیم عباس سے ناراض ہو گیا۔
٭٭٭
کالم گلوچ
چندا اور چندہ
(کرن کالم)
سیمیں کرن
اور در اصل یہ ایک وضاحتی کالم ہے اور حفظ ماتقدم کے تحت تحریر کیا گیا ہے ! قصہ کچھ یوں ہے کہ ہمارے کچھ قارئین کو غلط فہمی لاحق ہو گئی ہے کہ ہم مغرب پسند ہیں اور مولویوں سے خار کھاتے ہیں اور مولوی بے زار ہیں ! اس لئے ہم پہ لازم ہو گیا تھا کہ ہم اس غلط فہمی کا ازالہ کریں جس طرح مستنصر حسین تارڑ کہتے ہیں کہ ’’ گدھے ہمارے بھائی ہیں ‘‘۔ ۔ ۔ الو ہمارے بھائی ہیں۔ ۔ ۔ تو میں کہتی ہوں کہ مولوی میرے بھائی ہیں۔ ۔ ۔ یقین نہیں آیا ؟! سچ مچ میری فیملی تو مولوی شدہ ہو چکی ہے ! مولوی سچ مچ میں میرے بھائی ہیں اور جو بھائی بغیر داڑھی کے ہیں اُن کے پیٹ میں بھی داڑھی ضرور موجود ہے ! یہ اور بات ہے کہ ایک ادبی گروپ میں جب ہم نے یہ اعتراف جرم کیا کہ میں تو مولویوں کے حصار میں رہتی ہوں تو ایک محترم دوست نے پوچھا ’’ سیمیں بھلا کیسے ؟‘‘ تو میں نے ترنت جواب دیا ’’زبان رہتی ہے جیسے بتیس دانتوں کے درمیان۔ ‘‘
اِس سے پہلے کہ میں مزید آگے بڑھوں، لازم ہے کہ کچھ تعارف میں ان بتیس دنتوں کا بھی کروا ہی دوں، میرا خاندان بھان متی کا کنبہ ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بس اس سے اگلا جملہ آپ خود مکمل کر لیجیے، والدین کی وفات کے بعد جو اینٹ روڑا جہاں مناسب لگا ہم نے فٹ کر دیا ! سو ہم پٹھان بھی ہیں !
اعوان بھی ہیں !
ہم شیخ بھی ہیں !
ہم راجپوت بھی ہیں !
ہم باجوے بھی ہیں اور گوندل بھی
اور اس تمام تر تنوع کے حسن کے ساتھ ہم مولوی بھی ہیں !
کیونکہ مولوی میرے بھائی ہیں !
اور یہ زبان گو لاکھ سنبھل کر رہتی ہے کبھی کبھی دانتوں تلے آ ہی جاتی ہے !
اب اگلا قصہ وضاحت و سراحت کے ساتھ آپ پر ثابت کر دے گا کہ مولوی بالآخر میرے بھائی ہیں !
ہوا کچھ یوں کہ اپنے بہن بھائیوں کے گروپ میں ہم نے از راہ مذاق و شرارت ایک لطیفہ پوسٹ کر دیا !
لطیفہ کچھ یوں تھا کہ مولوی صاحب کی ایک ’’چندا‘‘ تھی، دل کی ملکہ مان چکے تھے دل ہی دل میں اُسے، مگر کہنے کی جرات منصب نہیں دیتا تھا۔ ایک روز ہمت جٹا کر اس کے دروازے پہ پہنچ کر دستک دی اور لب و لہجے میں تمام تر شیرینی سمو کر بولے ’’ چندا‘‘ چندا نے ان کو دیکھا، سر پہ دوپٹہ اوڑھ واپس مڑ گئی۔ مولوی صاحب سمجھے کہ چندا شرما گئی، ابھی تذبذب میں کھڑے تھے کہ چندا لوٹی اور ہاتھ میں کچھ نوٹ تھما کر بولی، مولوی صاحب "چندہ۔ ‘‘
بس یہ لطیفہ بھیجنا تھا کہ ہمارے گروپ میں زلزلہ آ گیا۔ بڑے مولانا جلال میں آ گئے، خوب گرجے برسے، ہمیں احادیث و آیات کے عرق مقدس سے شرمندگی کے بحر میں غوطہ زن کرنا چاہا! اسی پہ بس نہیں کیا بلکہ فتوی جاری کر دیا کہ ہم سب لکھاری پاگل ہوتے ہیں ! بھلا مولانا اس فتوے کی کیا ضرورت تھی ؟ ہم تو سب خود تسلیم کرتے ہیں کہ ہم سب کچھ ’’کھسکے ‘‘ ہوتے ہیں ! وہ ابنار میلٹی جسے حسن ظن ’’سپر نار میلٹی‘‘ کہتا ہے ! ہم قبیلہ عاشقاں کے فرد مولانا صاحب واقعی عرف عام میں تھوڑے سے پاگل ہی کہلاتے ہیں ! لیکن قارئین آپ ذرا ملاحظہ کیجئے، آخر ایسا کیا قصور ہم سے سر زد ہوا تھا بھلا۔ فقط چندا اور چندا کے خوبصورت مغالطے "چندہ” ہی کی تو بات تھی! آپ مولوی بھائی صاحب آپ ذرا دل پہ ہاتھ رکھ کر بتائیے کہ لاکھ دستار ہو، فضیلت کا جبہ بھی ہو، مولوی بھی تو آخر انسان ہی ہوتا ہے ! ابن آدم ؟ ابن آدم ہو اور اس کی کوئی چندا نہ ہو ؟! آخر سب کی ایک چندا تو ہوتی ہی ہے ناں ! اور جو اگر چندا آپ کی دستار اور ریشِ مبارک کے جلال و جلوے کے رعب میں آ کر آپ کا دھڑ دھڑ کرتا دل نہ دیکھ پائے اور چندہ تھا دے ہاتھ میں تو بتائیے ذرا، رونے کے ساتھ ساتھ ہنسی بھی آئے گی یا نہیں ؟
اب جو مجھے ہنسی آ گئی تو کیا خطا ہو گئی جو آپ اس قدر خفا ہو گئے ! بھلا اتنا جلال میں آنے کی کیا ضرورت تھی؟! اب تو آپ کو یقین آیا کہ میں مولویوں کے بارے میں گر کچھ کہتی ہوں تو در اصل وہ گھر کی ہی بات ہوتی ہے ! اور کوئی اپنے گھر کی ریتی رواج سے لاکھ باغی ہو پھر بھی گھر تو آخر اپنا ہے ! سو آپ کو مجھ سے یہ بدگمانی دور کر لینی چاہئیے کہ میں خدانخواستہ مولویوں سے کوئی عناد رکھتی ہوں ! کیونکہ مولوی تو آخر میرے بھائی ہیں ! ویسے تو بھائیوں کی بھی بہت سی اقسام پائی جاتی ہیں، اک برادران یوسف بھی ہوا کرتے تھے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ خیر بھائیوں کی مزید اقسام پہ کسی اگلے کالم میں بات ہو گی۔ یہ نہ ہو کہ یہ زبان کم بخت پھر پٹٹری سے پھسل جائے اور کسی دانت تلے آ کر کچلی جائے !
مولانا بھائی صاحب آپ جب یہ کالم پڑھیں گے تو حاجی ہو چکے ہوں گے خیر سے ! یعنی مولانا بھی اور حاجی بھی یک نہ شد دو شد! اپنی حاجیانہ مبارک نظر سے غور فرمائیے گا بھلا کیا غلط کہا تھا میں نے ؟ اگر یہ سب پڑھتے ہوئے آپ مسکرا دیں، مسکراتے ہوئے کھلکھلا کر ہنس پڑیں تو میں سمجھ جاؤں گی کہ آپ یونہی مولویانہ جلال میں مبتلا ہو گئے تھے اور عید اور حج کے مبارک موقع کی برکت میں دل پہ ہاتھ رکھ کر بتائیے کہ ہر دل میں ایک چندا بسی تو ہوتی ہے تو پھر بھلا آپ کو غصہ کس بات پہ آ گیا تھا ؟ آخر میں نے ’’چندا‘‘ کا ہی ذکر کیا تھا، کوئی چندہ تھوڑی آپ سے مانگا تھا! اسی گروپ میں چھوٹے مولوی بھائی بھی تو تھے، مگر غصہ صرف بڑے مولانا کو آیا، شاید۔ ۔ ۔ مگر چلئے چھوڑئیے شاید کو، عیدِ سعید قریب ہے، غصے و جاہ جلال کو قربان کر کے خوشیاں بانٹتے ہیں اور بہن بھائیوں میں یہ نوک جھونک تو چلتی رہتی ہے کہ آخر مولوی تو میرے بھائی ہیں !
٭٭٭
شام کے بعد
(مزاح مت)
کے ایم خالد
اِس میں کوئی شک نہیں کہ وہ جھنگ کی سوغات ہے۔ اُسے شاعری، اداکاری، گلوکاری اور اپنے ساتھی طالب علموں کو پھینٹنے کا بچپن سے ہی شوق تھا۔ جھنگ کے بیلوں میں جب اس کی کوک گونجتی تو نہ جانے کہاں سے بہت سے پہاڑی کوّے کیوں اِکٹھے ہو جاتے تھے۔ اِتنے سارے کوّے دیکھ کر وہ گھبرا جاتا اور اپنا اسکول کا تھیلا اٹھا کر بھاگ نکلتا۔ چونکہ گاتے ہوئے وہ آنکھیں بند رکھتا تھا، اِس لئے اکثر دوست اُسے اسکول میں گانا شروع کروا کر خود رفو چکر ہو جاتے تھے اور وہ گاتا رہتا اور جب کوئی استاد اُسے چپ کروا کر اس کے اکیلے گانے کی وجہ پوچھتا تو وہ سادگی سے جواب دیتا ’’ریاض کر رہا تھا‘‘ تو استاد صاحب بھی سادگی سے فرماتے ’’تم نہ بھی کرو تو کوئی فرق تو نہیں پڑنے والا۔ ‘‘
اُس نے اپنی شاعری کی ابتدا اسکول سے پہاڑے پڑھتے ہوئی کی اور وہیں سے ردیف، قافیہ سیدھا کیا۔ ماڑے اسکولوں میں چونکہ لڑائیاں لڑنے کے لئے کوئی وجہ درکار نہیں ہوتی اس لئے ساتھیوں سے لڑنا معمول کا کام تھا، لیکن وہ اَندھا دھُند لڑنے کی بجائے سٹائل سے لڑنے کی کوشش کرتا کیوں کہ اس نے کچی ٹاکی میں ایک دو ٹوٹے بروس لی کے دیکھ رکھے تھے اور یہی شوق اسے ننجاماسٹر تک لے گیا۔ جھنگ سے لاہور تک کا تین گھنٹے کا سفر نہ جانے اس نے کتنے برسوں میں طے کیا لیکن لاہور پہنچ کر اُس نے صدیوں کا سفر برسوں بلکہ مہینوں میں طے کر لیا۔ اُس نے رنگیلا کی طرح یک مشت ہر فیلڈ میں قسمت آزمائی شروع کر دی۔ اُس کے حد درجہ مخالف بھی اسے ایک جینوئن شاعر مانتے ہیں۔ اُس کی مارکیٹ میں دستیاب کتابوں میں ۴۶ شعری مجموعے اور۲۱ متفرق کتابیں ہیں۔ ’’بونگے بغلول‘‘ کے خیال میں اِتنی کتابوں کے مالک شاعر مصنف کے بارے میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ یا تو وہ پڑھا بہت جاتا ہے یا پھر وہ کسی اشاعتی گھر کا مالک ہے۔ مشاعروں میں عموماً جو شاعر کلام سنا رہے ہوتے ہیں وہ تازہ دم ہوتے ہیں، جو ابھی سنانے والے ہوں وہ اونگھ رہے ہوتے ہیں جبکہ جو سنا چکے ہوں وہ سو رہے ہوتے ہیں جبکہ اس کے مشاعروں میں نہ کوئی اونگھتا ہے اور نہ کوئی سوتا ہے۔ کمال شاید صرف اس کی شاعری کا ہے جو وہ گا کر سناتا ہے جبکہ بونگے بغلول کا کہنا ہے جب ’’شیری ‘‘ گا سکتا ہے تو کیا اس کا حق نہیں بنتا، فرق تو انیس بیس کا ہی ہے۔ اُس کے ’’ظالم ‘‘ اور ’’وریام ‘‘ جیسے پروگراموں میں طنز میں تووہ کمال فن پر نظر آیا لیکن مزاح ندارد اور شاید یہی وجہ ہے کہ وہ بہت سارے چینلز پراُس کے پروگرام آن ائیر ہونے کہ باوجود وہ پذیرائی حاصل نہیں کر سکے جبکہ سارے مزاح نگاروں کا یہ ماننا ہے کہ جب تک طنز کے ساتھ مزاح کی آمیزش نہ کی جائے، وہ پر لطف نہیں ہو سکتا اور یہ مزاح ڈائریکٹ اپنی طرف سے شامل کرنے کی بجائے کسی دوسرے فریق سے کروایا جائے۔ اِس کی بہترین مثال ہماری شادی بیاہ میں شغل میلہ لگانے والے بھانڈ ہیں۔ کوئی اپنے کتھارسس کے لئے بھانڈوں کے ہاتھوں آپ کی مٹی پلید کروا دے اور آپ سوائے پیچ و تاب کھانے کے اور کچھ نہیں کر سکتے۔ اب وہ ایک ماسٹر کے روپ میں مسکین سی صورت کے ساتھ ایک بڑے چینل کے پروگرام میں بیٹھتا ہے۔
جب اس کی پروگرام میں شمولیت کی خبریں میڈیا میں آئیں تو لوگوں کا خیال تھا کہ شاید وہ ’’کو اینکر‘‘ کے طور پر کام کرے گا لیکن تیرہ گھنٹے کی ریکارڈنگ میں اُس کے حصے میں چند لائنیں ہی آتی ہیں۔ وہ بھی صرف ’’چغل جیا نہ ہووے تے ‘‘ جیسے چند الفاظ سمجھ آتے ہیں۔ دوسری اس کے لئے اہم باتیں تو اس سے تیز طرار بھانڈ چھین لیتے ہیں۔ اس نے میڈیا میں چھپنے والے کالموں کے جواب میں ننجا ماسٹر ہونے کے باوجود چپ سادھ لی ہے لیکن شاید برسوں پہلے اس کا پنا کہا جانے والے شعر اس کے دل کی عکاسی کرتا ہو۔
تو ہے سورج، تجھے معلوم کہاں رات کا دکھ
تو کسی روز مرے گھر میں اُتر شام کے بعد
لیکن ’’باباجی ‘‘ اس پروگرام میں اس کی شمولیت اور کامیڈینز کے ہاتھوں ’’تھاپوں ‘‘ کو کسی اور نظر سے دیکھتے ہیں انہوں نے گیان کی آنکھ سے فرما یا ’’پتر ! میں اسے ششت باندھے دیکھ رہا ہوں ‘‘۔
اُنہوں نے میرے چہرے پر نہ سمجھنے والی لہر دیکھ کر ہولے سے کہا ’’ صدر پاکستان غلام اسحاق خان کو تو، تو جانتا ہے ناں ‘‘۔
’’جی، جی!‘‘
’’بس سمجھو، کبھی کبھی نازک ذمہ داریاں کمزور کندھوں پر بھی آ پڑتی ہیں۔ ‘‘
٭٭٭
جناوری جنگ
(قلم کاری)
حنیف عابد
انسان اشرف المخلوقات سہی، بہترین سانچے میں ڈھلا ہوا بھی قبول لیکن اس کی صفات میں جو نیرنگیاں پائی جاتی ہیں وہ تو الامان و الحفیظ ہیں۔ وقت کے ساتھ ترقی کی منازل طے کرنے والا انسان اپنی حرکتوں پر نظر ڈالے تو کہیں کہیں یہ ترقی معکوس کی شکل میں بھی نمودار ہوئی ہے۔ ہم اپنے لیے نت نئے سامان پیدا کرتے ہیں جو ایک جانب ہماری زندگی کو سہیل بناتے ہیں تو دوسری جانب ہماری پہچان بھی بنتے ہیں۔ انسان نے ترقی کے ساتھ اپنے حوالے سے پائی جانے والی مختلف غیر معقول عادات سے کنارا کشی اختیار تو کی ہے لیکن اسی اشرف المخلوقات نے اپنی ذات میں پائی جانے والی جناوری صفات سے آج تک جان نہیں چھڑائی ہے۔
ہم تیسری دنیا کی نہیں بلکہ ترقی یافتہ دنیا کی یا دنیا کی واحد سپر پاور کی بات کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ آج بھی اپنے آپ کو جانوروں کے ساتھ نتھی کرتے ہوئے فخر محسوس کرتے ہیں۔ میں تو کہتا ہوں ’’خاک ڈالو ایسی ترقی پر جو آپ کو جانوروں کی حیثیت سے شناخت کرتی ہو۔ ‘‘ بھلا یہ بھی کوئی بات ہوئی کہ ڈیمو کریسی جس کا دنیا بھر مین ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے اُس کی سب سے بڑی سرخیل جماعت ’’ڈیمو کریٹ ‘‘ کی شناخت کوئی ’’گدھا ‘‘ہو۔ ہماری نانی جان کہتی تھیں ’’ اے نوج گدھا بھی کوئی جانور ہے جس کی آواز سنتے ہی کانوں میں سیٹیاں بجنے لگتی ہیں۔ ‘‘پتہ نہیں نانی جان کو صرف گدھے کی آواز سے ہی الرجی تھی یا گدھے سے بھی وہ اتنی ہی نفرت کرتی تھیں۔ بات کچھ بھی ہو ہمیں تو گدھا صرف اس لیے ایک آنکھ نہیں بھاتا کہ یہ امریکیوں کا مرغوب ترین لیڈر تھا۔ گذشتہ آٹھ سال سے کہتے ہیں کہ امریکا پر گدھے کی حکمرانی تھی۔ ویسے اخبارات کے ذریعے تو ہم نے یہی پڑھا تھا کہ امریکا پر باراک اوباما حکومت کرتا ہے لیکن ہماری گلی میں رہنے والے ایک پرائمری اسکول کے ماسٹر کرم داد کہتے تھے کہ امریکا میں گدھے کی حکومت ہے۔
آج کل سنا ہے کہ امریکا میں گدھے کو مشقت سے آزادی مل گئی ہے۔ کہتے ہیں کہ ۸سال تک دن رات کام کرنے کی وجہ سے گدھا کچھ لاغر ہو گیا تھا۔ گدھے کی لاغری کو دیکھتے ہوئے امریکی عوام کو اُس پر ترس آ گیا اور انہوں نے اپنا اور پوری دنیا کو بوجھ ڈھونے کے لیے ایک موٹا تازہ ہاتھی چن لیا ہے۔ ایک بات ہماری سمجھ میں نہیں آئی کہ گدھا جو کام کرتا تھا کیا ہاتھی وہ سارے کام کر پائے گا ؟گدھے کے حوالے سے تو مشہور ہے کہ یہ بوجھ ڈھونے میں ماہر ہے جبکہ ہاتھی کا تو اپنا اتنا بوجھ ہوتا کہ وہ خود کو ہی ڈھو لے تو بہت ہے۔ اگر ہاتھی گدھے کی طرح امریکیوں کا بوجھ نہیں ڈھو پایا تو امریکی کیا کریں گے ؟یہ وہ سوال ہے جس کا جواب کسی کے پاس نہیں۔ مجھے یہ سمجھ نہیں آیا کہ امریکا جو دنیا کی سب سے زیادہ ترقی یافتہ قوم ہے وہ انتخابی نشان کے لیے کوئی بہت ہی زیادہ جدید اور انسان کے لیے مفید ترین چیز کو کیوں نہیں اپناتی ہیں۔ بھلا گدھے اور ہاتھی بھی اکیسویں صدی کی ترقی سے کوئی مناسبت رکھتے ہیں۔
امریکا میں انسانی زندگی کی بہت اہمیت گردانی جاتی ہے۔ اخلاقیات کا بھی خوب چرچا کیا جاتا ہے لیکن یہ بھی سب خیالی باتوں کے ہی زمرے میں آتا ہے۔ بیچاری ہیلری کے شوہر نے ایک لڑکی سے ذرا سا آنکھ مٹکا کیا کر لیا تھا، بیچارے کو صدارت سے ہی ہاتھ دھونا پڑے تھے۔ آج اسی امریکا میں ایک درجن سے زائد خواتین کے ساتھ تعلقات رکھنے والا شخص صدر بن بیٹھا ہے۔ ہیلری بیچاری اپنی تمام عوامی مہم میں امریکیوں کو کہتی رہی کہ وہ اُس کے انتخابی نشان گدھے کو ووٹ دیں، امریکیوں کی اکثریت نے ہیلری کی بات شاید پوری نہیں سنی۔ وہ صرف گدھا ہی واضح طور پر سن پائے، اِسی لیے انہوں نے دھڑا دھڑ گدھے کو ووٹ دے دیئے۔ اسی لیے کہتے ہیں کہ جناوری جنگ میں سب اُلٹا ہو جاتا ہے۔
٭٭٭
فیس بک موج میلا
موجِ غزل کے مشاعروں میں مزاح کا عنصر
روبینہ شاہین بیناؔ
موجِ غزل فیس بک کا ایک ایسا گروہ ہے جو ہفتہ وار طرحی مشاعروں کا انعقاد کرتا ہے۔ اس گروہ کی یہ اچھی روایت ہے کہ یہ اکثر مزاحیہ مشاعروں کا خصوصی اہتمام بھی کرتا ہے۔ ۱۹؍نومبر ۲۰۱۶ء کو اپنے ۳۱ ویں مشاعرے کو خوش فکر اور پُر مزاح شاعر جناب سید ضمیر جعفری مرحوم کے نام کیا گیا۔ اس ضمن میں مصرعۂ طرح کے لئے اُن کے درج ذیل شعر کا انتخاب کیا گیا۔
غریب خانہ ہمیشہ سے جیل خانہ ہے
مرا مزاج لڑکپن سے لیڈرانہ ہے
اس میں جن شعرائے اکرام نے شرکت فرمائی اُن کے اسمائے گرامی یہ ہیں : سالکؔ جونپوری، نوید ظفر کیانی، نویدؔ صدیقی، شہزاد گوہیرؔ، سید محمد محی الدین شاہ قیسؔ، عاکفؔ غنی، ذہینہؔ صدیقی، شاہینؔ فصیح ربّانی، غضنفرؔ علی، محمد خلیل الرّحمٰن خلیلؔ، شاہدؔ رحمٰن، محترمہ ڈاکٹر امواجؔ السّاحل، خمارؔ دہلوی، ہاشم علی خان ہمدمؔ، محترمہ نورؔ جمشیدپوری، محترمہ شہنازؔ رضوی، وزیر حسن وزیرؔ، غوثؔ بسواری اور راقمہ الحروف۔ دیگِ سخن کی مخبری کے لئے چاولوں کے چند دانوں کا انتخاب پیشِ خدمت ہے، جس سے آپ کو مشاعرے کے پُر لطف ہونے کا اندازہ ہو سکے گا۔
ہے میرے ظاہر و باطن میں بھی بلا کا تضاد
ہے بھولی شکل مگر چال شاطرانہ ہے
سالکؔ جونپوری
یوں کہنے کو تو وہ لیڈر ہے اعلی پائے کا
یہ اور بات کہ انداز کچھ زنانہ ہے
روبینہ شاہین بیناؔ
یہ لفظ لفظ نہیں ہیں، لفافہ سازی ہے
بہت سے لوگوں کا بزنس ہی کالمانہ ہے
نوید ظفرؔ کیانی
کہا یہ زوجہ نے شوہر سے صاف اولِ شب
مرا مزاج لڑکپن سے ’’آمرانہ‘‘ ہے
نشست تھام کے بیٹھا ہے صدر یوں کس کر
کہ جیسے کرسی کو ہمراہ لے کے جانا ہے
نویدؔ صدیقی
کہا طبیب نے ہنس کر یہ ہم سے ہولے سے
کہ ایک چھوٹا سا پتھر درونِ خانہ ہے
شہزاد گوہیرؔ
بس ایک مصرع میں پہچان ہے فرنگی کی
ہے رنگ گورا مگر چال شاطرانہ ہے
سید محمد محی الدین شاہ قیس
بنے ہوئے ہیں جو جمہوریت کے داعی سب
اُنہی کا طرزِ عمل جبکہ آمرانہ ہے
صداقتوں کی گواہی نہیں کوئی دے گا
یہاں یہ طے ہے کہ مل بانٹ سب نے کھانا ہے
عاکفؔ غنی
وہ اوندھے منہ جو گرا آج شامیانے میں
تو دولہا بولا کہ سہرا کہاں سجانہ ہے
ذہینہؔ صدیقی
ترا مزاج ازل ہی سے گیدڑانہ ہے
ترا تو کام ہی دشمن سے خوف کھانا ہے
خیالِ عشق ذرا اور فی زمانہ ہے
بنے نہ بیوی مگر شاعرہ بنانا ہے
شاہینؔ فصیح ربانی
حساب اربوں کا دینا تھا یا کہ عربوں کا
عدالتوں میں ادا کتنی معصومانہ ہے
عدالتوں میں میاں کی گرفت کیا ہو گی
یہ ایک میچ ہے اور وہ بھی دوستانہ ہے
غضنفر علی
یہ آدمی جو چھپا آ رہا ہے برقعے میں
یہ نازنین نہیں بلکہ اک زنانہ ہے
خلیل الرحمن خلیلؔ
زیادہ ہو جو یوں تکلیف معاف کر دینا
ہمارے ہاتھ میں نشتر ذرا پرانا ہے
شاہدؔ رحمن
وہ لیٹ آ کے ہمیشہ ہی اس میں چڑھتا ہے
جو پوری ریل میں ڈبہ لگا زنانہ ہے
ڈاکٹر امواجؔ السّاحل
اب اور اِن پہ بھروسہ نہ کیجئے آخر
سیاسی وعدے ہیں اِن کو تو ٹوٹ جانا ہے
خمارؔ دہلوی
تمام ریٹ ترے ہیں وطن کے پٹواری
ترے ہی ہاتھ میں منڈی کا باردانہ ہے
کہاں سے آئی ہے دولت میاں بتاؤ تو
یہ مال و زر ہے کہاں کا جو غائبانہ ہے
ہاشم علی خان ہمدمؔ
بہا کے خون پسینہ کھڑا کیا جس کو
نہ سمجھو اس کو مرا گھر، غریب خانہ ہے
نورؔ جمشید پوری
سدا خفا ہی وہ رہتے ہیں اپنی بیوی سے
مگر سلوک تو سالی سے دوستانہ ہے
یوں ڈاکٹر کو بتایا ہے اس نے اپنا حال
یہ واردات ہے بیگم کی، بزدلانہ ہے
شہنازؔ رضوی
جدھر بھی جائیے کچرے کے ڈھیر ملتے ہیں
ہمارا شہر نہیں، یہ کباڑ خانہ ہے
وزیر حسن وزیرؔ
اُسے تو منہ بھی لگاتا نہیں ذرا سا میں
یہ کس نے کہہ دیا وہ جان دلبرانہ ہے
غوثؔ بسواری
مزاحیہ مشاعروں کے انعقاد سے قطعۂ نظر موجِ غزل کے مشاعروں میں مزاحیہ شعراء کا ایک ایسا، نہ صرف مستقل بلکہ مستقل مزاج حصہ بھی موجود رہتا ہے جو اپنی طنز و مزاح پر مبنی شاعری کو ہر مشاعرے کی زینت بناتا ہے، چاہے خصوصیت سے مزاحیہ مشاعرے کا انعقاد کیا گیا ہو یا نہیں۔ اِس ضمن میں موجِ غزل کے فورم پر عالمی فی البدیہہ طرحی مشاعروں کے سلسلے میں رواں سہ ماہی میں منعقد ہونے والے مشاعروں میں طنز و مزاح کے اس عنصر کا تذکرہ کرنا ناموزوں نہیں لگتا۔ موجِ غزل کا ۲۸ واں عالمی طرحی مشاعرہ خوب صورت شاعرہ افروزؔ رضوی کے نام تھا۔ اِس ضمن میں مصرعۂ طرح کے لئے جس شعر کا انتخاب کیا گیا ہے وہ کچھ یوں تھا:
نصاب جاں میں اذیت تھی اس قدر تحریر
کہ ذکر آیا کسی کا، خیال تیرا رہا
اس مشاعرے میں پیش کئے گئے منتخب اشعار درج ذیل ہیں :
میں سگ گزیدہ و تیری گلی میں کتے اف
ہمیشگی سے تو 100 پر جلال تیرا رہا
شریف نے تو شریفے تمھیں کو بانٹے ہیں
کہ مستفید سب اہل و عیال تیرا رہا
گوہر رحمان گہرؔ مردانوی
بھری ہی رہتی ہیں سچائیوں میں مرچیں سی
کسی کی بات پہ منہ لال لال تیرا رہا
نوید ظفرؔ کیانی
ہوئی ہے خرچ بیوٹی پہ سیلری ساری
میاں کنگال ہوا، پر جمال تیرا رہا
روبینہ شاہین بیناؔ
میں کتنے زہرہ جمالوں کے خواب سے گزرا
اے میری پہلی محبت ! خیال تیرا رہا
ملا نہیں ترے جیسا کوئی مجھے ہمدمؔ
منافقت بھری دنیا میں کال تیرا رہا
ہاشم علی خان ہمدمؔ
حکومتیں کئی بدلیں، اے شوہرِ مسکیں !
’’میاں ‘‘ کے دور میں ویسا ہی حال تیرا رہا
سُنا تھا عیب چھُپاتے ہیں مال و زر، سچ ہے
مرے روپیّے پہ حاوی ریال تیرا رہا
عرفانؔ قادر
موجِ غزل کے ۲۹ ویں مشاعرے میں کہے گئے مزاحیہ کلام سے کچھ منتخب اشعار پیشِ خدمت ہیں جو قومی ترانے کے خالق جناب حفیظؔ جالندھری نام پر منعقد کیا گیا۔ مصرعہ طرح کے لئے حسبِ ذیل شعر کا انتخاب کیا گیا ہے۔
دوستوں کو بھی ملے درد کی دولت یارب
میرا اپنا ہی بھلا ہو مجھے منظور نہیں
کوئی خاتون جو میک اپ کا نہ برقعہ پہنے
لوگ کہتے ہیں کہ چہرے پہ ذرا نور نہیں
نوید ظفرؔ کیانی
ہم نے یوں یار کے پہلو سے اٹھایا دشمن
حور کی بغل میں اب چاہئیے لنگور نہیں
ارشد عزیز
ناز اُٹھوایئے اُن سے ہی، جنھیں عادت ہے
ہم تو شاعر ہیں، کسی منڈی کے مزدور نہیں
عرفان قادر
تو کرپشن کو دفع دور نہیں کرتا کیوں
کیا یہ قانون بنانا ترا منشور نہیں
روبینہ شاہین بیناؔ
کرکرے چپس سلانٹی کے بغیر آئی ہو
اب ترا وصل عنایات سے بھرپور نہیں
ڈاکٹر عزیزؔ فیصل
۳۰ ویں مشاعرے کے لئے محفل حکیم الامت، مفکرِ پاکستان حضرت علامہ محمد اقبال کا حسبِ ذیل شعر کا انتخاب کیا گیا:
برتر از اندیشۂ سود و زیاں ہے زندگی
ہے کبھی جاں اور کبھی تسلیم جاں ہے زندگی
چیدہ چیدہ مزاحیہ اشعار درج ذیل ہیں :
شکر ہے اسکینڈلوں کے درمیاں ہے زندگی
خادمانِ قوم کے شایانِ شاں ہے زندگی
نوید ظفرؔ کیانی
گیس کی موجودگی میں زندگی ہے واہ وا!
اور نہ ہو تو گیلی لکڑی کا دھواں ہے زندگی
نویدؔ صدیقی
دو مہینے ہو گئے پورے مٹن کھائے ہوئے
آج کل اپنی تو آلو گاجراں ہے زندگی
عرفان قادر
فیس بک پر فوٹوؤں کی اک دکاں ہے زندگی
اِن دنوں تو کاروبارِ سیلفیاں ہے زندگی
روبینہ شاہین بیناؔ
۳۲واں موج غزل مشاعرہ موجِ غزل کی خوبصورت شاعرہ محترمہ ڈاکٹر امواج السّاحل کے نام تھا۔ اس میں اُن کے جس شعر کو منتخب کیا گیا تھا، وہ یہ تھا:
بہت آسان ہے دعویٰ یہ پیمانِ محبت کا
کسوٹی جب تھی لگتی ہے تو انساں ہار جاتا ہے
چیدہ چیدہ مزاحیہ اشعار پیش ہیں :
اسے ہے خوش گمانی کہ شجر پر نوٹ لگتے ہیں
بڑے ہی شوق سے کوئی سمندر پار جاتا ہے
نوید ظفرؔ کیانی
کوئی پرزہ کسی قانون کا ثابت نہیں رہتا
کہ جب کارِ سیاست میں کوئی لوہار جاتا ہے
نویدؔ صدیقی
گوالا ہو کہ تاجر ہو مؤرخ ہو لکھاری ہو
جسے ملتا ہے جو موقع، وہ ڈنڈی مار جاتا ہے
عرفان قادرؔ
ہمارے ملک میں کچھ خاص ایسی بستیاں بھی ہیں
جہاں لیڈر نہیں جاتے مگر پرچار جاتا ہے
خمارؔ دہلوی
جو آؤٹ آف ڈیٹ مجنوں تھا وہ صحراؤں میں پھرتا تھا
مگر اِس دور کا مجنوں سمندر پار جاتا ہے
روبینہ شاہین بیناؔ
۳۶ واں طرحی مشاعرہ جناب شہزادقیسؔ کے نام تھا۔ اِس مشاعرے میں دسمبرکے بخئے ادھیڑے گئے۔ چیدہ چیدہ مزاحیہ اشعار کچھ یوں تھے۔
جو سکڑ کر پڑا ہوں چادر میں
یہ ہے حالت بلم دسمبر میں
گوہر رحمن گہرؔ مردانوی
دل ہمارا ہے یا فریزر ہے
جم سے جاتے ہیں غم دسمبر میں
روبینہ شاہین بیناؔ
قیس کی شاعری کی گرمی ہو
پھر تو سردی ہو کم دسمبر میں
ڈاکٹر امواجؔ الساحل
جو اڑاتے ہو مفت کی دعوت
پھٹ نہ جائے شکم دسمبر میں
کاشؔ صدیقی
ہیں دھواں دھار لیڈروں کے بیاں
اور ٹھٹھرتے ہیں ہم دسمبر میں
ڈاکٹر مظہرؔ عباس رضوی
آپ نے فروری میں کی شادی
بڑھ گیا ہے حجم دسمبر میں
ذیشان فیصل شانؔ
میری شادی! ستم! دسمبر میں
پھر تو پہلا جنم دسمبر میں
خلیل الرحمن خلیلؔ
بے تُکے گیت گا کے سمجھا ہے
خود کو ’’سونو نگم‘‘ دسمبر میں
عرفانؔ قادر
کبھی ہو گا نہ کم دسمبر میں
شاعروں کا اُودھم دسمبر میں
نوید ظفر کیانی
٭٭٭
جستہ جستہ
سایۂ دیوار اور ٹھیکیدار
کسی مشاعرہ میں کوثرؔ قریشی اپنی غزل کا یہ شعر پڑھ رہے تھے :
شرکتِ انجمنِ ناز ضروری ہے مگر
ہم پس سایۂ دیوار بہت اچھے ہیں
کنور مہندر سنگھ بیدی نے یہ شعر سنا تو کہا ’’بہت اچھی بات ہے، کوثر صاحب ! لیکن خیال رکھئے گا کہ وہ دیوار کہیں نئی دہلی کے ٹھیکیداروں کی بنائی ہوئی نہ ہو، کیونکہ ایسی دیواریں بالعموم چار چھ مہینے کے بعد ہی گر جاتی ہیں۔ ‘‘
جاڑا اور تبادلہ
بیدی صاحب کا سفارش کرنے کا بھی اپنا ہی انداز تھا۔ جن دنوں کشمیری لال ذاکر گوڑ گاؤں میں ڈسٹرکٹ ایجوکیشن افسر تھے فریدآباد کے ایک گرلز اسکول میں ایک ڈرائنگ ماسٹر تھے اور اسی اسکول میں ان کی بیوی بھی پنجابی پڑھاتی تھی۔ ان دونوں نے اسکول کی پرنسپل کو بہت تنگ کر رکھا تھا۔ اُنہیں بلا کر ذاکر صاحب نے بہت سمجھایا لیکن ان پر کوئی اثر نہ ہوا اور وہ پرنسپل کو تنگ کرتے رہے۔ اس پر ذاکر صاحب نے اُن میاں بیوی کو فاصلے پر الگ الگ اسکولوں میں ٹرانسفر کر دیا۔ اُس ماسٹر نے کسی طریقہ سے بیدی صاحب تک رسائی حاصل کر لی۔ اور ان سے ذاکر صاحب کے نام سفارشی چٹھی لینے میں کامیاب ہو گیا اور وہ چٹھی لے کر ذاکر صاحب کے پاس پہنچ گیا۔ لفافے پر ہاتھ سے لکھے ہوئے ایڈریس سے ہی ذاکر صاحب نے پہچان لیا کہ بیدی صاحب کا خط ہے۔ لفافہ کھول کر پڑھا تو اس پر لکھا تھا ’’ یہ میاں بیوی اِس وقت بڑی پریشانی میں ہیں، آنے والے جاڑے کے پیش نظر انہیں اکٹھا کر دیجیے اور ان کی دعائیں حاصل کیجیے۔ ‘‘
خط پڑھ کر ذاکر صاحب مسکرائے تو ڈرائنگ ماسٹر نے بڑی جرأت کر کے پوچھا ’’سر کیا لکھا ہے۔ ‘‘
’’ آپ کے فائدے کی بات ہے آپ جایئے۔ ‘‘ ذاکر صاحب نے جواب دیا اور فائل نکال کر ان میاں بیوی کو فریدآباد سے قریب ایک اسکول میں ان کے ٹرانسفر کے آرڈر جاری کر دیے۔
جرائم کی نوعیت
ہندوستان کے سابق ہوم منسٹر کیلاش ناتھ کاٹجو کی صدارت میں مشاعرہ ہو رہا تھا۔ علامہ انور صابری جب اسٹیج پر آئے تو کلام پڑھنے سے پہلے فرمانے لگے ’’ وقت وقت کی بات ہے، میں اب تک وہی کا وہی شاعر ہوں اور کاٹجو صاحب وزیر بن گئے ہیں، حالانکہ انگریزوں کے دور حکومت میں ہم دونوں ایک ہی جیل میں رہ چکے ہیں۔ ‘‘
کنور صاحب نے فوراً جملہ چست کیا ’’لیکن جرائم جدا جدا تھے۔
جہنم کی زبان
جن دنوں جوش ملیح آبادی ماہ نامہ ’’ آجکل ‘‘ کے مدیر اعلیٰ تھے، اُن کے دفتر میں اکثر شاعروں، ادیبوں اور مداحوں کی بھیڑ لگی رہتی تھی۔ ایک مرتبہ پنڈت ہری چند اختر، عرش ملسیانی، بسمل سعیدی، جگن ناتھ آزاد، بیدی صاحب اور مانی جائسی، جوش صاحب کے پاس بیٹھے تھے۔ اِدھر اُدھر کی باتیں ہو رہی تھیں کہ پنڈت جی نے بیدی صاحب کو پنجابی زبان میں مخاطب کیا۔ جوش صاحب نے فوراً ٹوک کر کہا کہ پنڈت جی یہ تو جہنم کی زبان ہے۔
بیدی صاحب نے فوراً گزارش کی ’’تو پھر جوش صاحب آپ بھی ابھی سے یہ زبان سیکھنا شروع کر دیں تاکہ آپ کو آخری جائے قیام میں تکلیف نہ ہو۔ ‘‘
ایک یاد
شادی کے سات ماہ بعد میں ملک سے باہر چلا گیا۔ تین ماہ بعد مجھے خبر ملی کہ اللہ تعالی نے مجھے بیٹا عطا فرمایا ہے۔ میں بہت خوش تھا اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا۔ پھر آہستہ آہستہ وہ بڑھنے لگا چلنے لگا بولنے لگا۔ پھر تین سال کے بعد میں نے کسی کو بتائے بغیر وطن واپس جانے کا ارادہ کیا۔ جب تین سال بعد اپنے گاؤں پہنچا تو نقشہ ہی تبدیل ہو چکا تھا۔ بہت سے نئے لوگ، نئی شکلیں تھی۔ محلے کے بچوں کے لیے چاکلیٹس لے کر آیا تھا جو گلی میں ہی بانٹنا شروع کر دیں۔ چاکلیٹس ختم ہونے پر گھر چلا تو ایک بچہ میرے پیچھے پیچھے گھر آ گیا۔ میں نے اسے کہا ’’بیٹا چاکلیٹس تو ختم ہو گئی ہیں اپنے گھر جاؤ۔ ‘‘ اِتنے میری بیگم سامنے سے آ گئی۔ خیر یوں اچانک مجھے دیکھ کر وہ دنگ رہ گئی اور خوشی سے رونے لگی۔ اور بتانے لگی کہ یہ تمہارا ہی بیٹا ہے جسے جانے کا کہہ رہے ہو۔ میں بہت خوش ہوا چوما، پیار کیا بیٹے کو۔ پہلی بار جو دیکھا تھا مجھے اِس لئے بجائے ابو کے مجھے انکل کہنے لگا۔ کھلونے چیزیں وغیرہ جو لایا تھا تو خوشی خوشی سارا دن گزار دیا اس نے۔ لیکن رات ہوئی جب سونے کی تیاری کی۔ اس سے پہلے کہ میں لیٹتا۔ بیٹے نے رونا اور ضد کرنا شروع کر دی کہ اس انکل کو کمرے سے باہر نکالو۔ بہت بہلانے اور سمجھانے کے باوجود اس نے ماں کی ایک نہ مانی اور اپنی ضد پر قائم رہا۔ ماں پھر ماں تھی ہار ماننی ہی پڑی اور مجھے کمرے سے باہر نکال دیا۔ مگر بات یہیں ختم نہیں ہوئی، صاحبزادے کہنے لگے کہ باہر تو نکال دیا ہے اب اندر سے کنڈی بھی لگاؤ۔ اس طرح تین سال بعد پہلی رات گھر سے باہر گزارنی پڑی۔ یہ واقعہ مجھے ہمیشہ یاد رہے گا۔
ارسلان بلوچ ارسل
وہ کھانا
ہم لاہور کے حاجی ہوٹل میں بیٹھے تھے۔ تپش کشمیری صاحب کھانا کھا چکے تھے، لیکن مجھے کھانا تھا۔ وہ میرے پاس بیٹھے تھے کہ اتنے میں ان کے چند دوست آئے جو پاس والے میز پر بیٹھ گئے۔ ان میں سے ایک نے تپش صاحب سے علیک سلیک کرنے کے بعد کہا ’’آئیے کھانا تناول فرمائیے۔ ‘‘
تپش صاحب نے شکریہ ادا کیا ’’خدا آپ کو بہت بہت دے۔ ۔ ۔ میں گھر سے کھا کر آیا ہوں۔ ‘‘
اُن کے دوست نے بڑا اصرار کیا کہ وہ ضرور کھائیں۔ آخر تنگ آ کر وہ اُن کے پاس بیٹھ گئے اور بارہ روٹیاں اور سالن منگوائی۔ اس کے بعد فرنی کی چار پلیٹیں کھائیں اور خدا کا شکر ادا کر کے وہاں سے اُٹھے اور میرے پاس چلے آئے۔ ۔ ۔ اُن کے اُس دوست کی حالت قابل رحم تھی۔
تپشؔ کاشمیری از سعادت حسن منٹو
مسجد / ریسٹورینٹ
ایک بار جگرؔ، شوکتؔ تھانوی اور مجروحؔ سلطانپوری دوپہر کے وقت کہیں کام کے لیے باہر نکلے تھے تو ارادہ کیا گیا کہ نماز ادا کی جائے۔ شوکتؔ صاحب ایک کام کے لیے چلے گئے۔ جگرؔ صاحب مسجد کے بجائے ایک ریسٹورنٹ میں جا گھسے۔
مجروحؔ نے کہا۔ ’’جگرؔ صاحب یہ مسجد نہیں ریسٹورنٹ ہے۔ ‘‘
جگرؔ نے جواب دیا ’’مجھے معلوم ہے۔ سوچا کہ وقت تنگ ہے۔ اللہ کو تو خوش کر نہیں سکتا، اس کے بندوں کو ہی خوش کر لوں، آئیے۔ ‘‘
آتشِ گل اور شعلۂ طُور
گونڈہ کے ایک مشاعرہ میں جگر مرادآبادی کے ساتھ اسٹیج پر اور بہت سے شاعر بیٹھے ہوئے تھے۔ جگر صاحب کے نئے مجموعہ ’’شعلۂ طور‘‘ کا موازنہ ان کے پہلے مجموعہ ’’آتش گل ‘‘ سے کیا جا رہا تھا۔ ایک مقامی شاعر جو جگر صاحب سے بغض رکھتے تھے اِس ذکر سے کافی پریشان تھے۔ جب ان کے پڑھنے کا وقت آیا تو اتفاق سے ان کے سامنے لٹکتا ہوا گیس بھبھک گیا اور اس میں سے سرخ رنگ کی لپٹیں نکلنے لگیں۔ اس پر وہ شاعر بولے کہ ذرا اس ’’آتش گل ‘‘ کو میرے سامنے سے ہٹاؤ۔ میری آنکھوں کے لئے اس کی روشنی کافی ہے۔
جگر صاحب اس جملے میں چھپے ہوئے طنز کو سمجھ گئے لیکن خاموش رہے۔ منتظمین نے جب نیا گیس لا کر سامنے رکھا تو جگر صاحب بولے ’’لیجئے جناب اب تو آپ کے سامنے شعلۂ طور‘‘ لا کر رکھ دیا ہے۔ اس سے آپ کی نگاہیں ضرور خیرہ ہو جائیں گی۔
انگلش
جناب، آپ کو عربی کیسی آتی ہے ؟
سر، جیسی پاکستانی کرکٹرز کو انگلش آتی ہے !
ارسلان بلوچ
جودتِ طبع
غالباً۱۹۰۹ء کی بات ہے کہ مولوی محمد یحییٰ تنہا بی۔ اے وکیل میرٹھ نے مولانا حالیؔ کو اپنی شادی میں پانی پت بلایا۔ شادی کے بعد مولانا حالیؔ اور مولوی محمد اسمٰعیل میرٹھی اور بعض دوسرے بزرگ بیٹھے آپس میں گفتگو کر رہے تھے کہ مولانا محمد اسماعیل میرٹھی نے مسکراتے ہوئے مولوی محمد یحییٰ تنہاؔ سے کہا ’’ اب اپنا تخلص بدل دیں، کیونکہ اب آپ تنہا نہیں رہے۔ ‘‘ اس پر مولانا نے فرمایا ’’نہیں مولوی صاحب یہ بات نہیں۔ تن ہا تو یہ ابھی ہوئے ہیں۔ ‘‘ اِس پر تمام مجلس مولانا حالیؔ کی جودتِ طبع پر حیران رہ گئی۔
جھوٹ
فلمی اخبار کے ایڈیٹر مجازؔ سے انٹرویو لینے کے لئے مجازؔ کے ہوٹل پہنچ گئے۔ ۔ ۔ انہوں نے مجازؔ سے ان کی پیدائش، عمر، تعلیم اور شاعری وغیرہ کے متعلق کئی سوالات کرنے کے بعد دبی زبان پوچھا ’’’میں نے سنا ہے قبلہ، آپ شراب بہت زیادہ پیتے ہیں۔ آخر اس کی کیا وجہ ہے ؟‘‘
’’کس نامعقول نے آپ سے یہ کہا کہ میں شراب پیتا ہوں ‘‘ مجاز نے کہا۔
’’تو پھر آپ سگریٹ کثرت سے پیتے ہوں گے ؟‘‘
’’نہیں میں سگریٹ بھی نہیں پیتا، شراب نوشی اور سگریٹ نوشی دونوں ہی بری عادتیں ہیں۔ اور میں ایسی کسی بری عادت کا شکار نہیں۔ ‘‘ مجازؔ نے جواب دیا۔
ایڈیٹر نے سنجیدہ لہجہ میں پوچھا ’’تو آپ میں کوئی بری عادت نہیں ہے ؟‘‘
مجازؔ نے اتنی ہی سنجیدگی سے جواب دیا ’’مجھ میں صرف ایک ہی بری عادت ہے۔ ۔ ۔ کہ میں جھوٹ بہت بولتا ہوں۔ ‘‘
جگر مرادآبادی
ایک بار مشاعرہ ہو رہا تھا۔ ایک مسلم الثبوت استاد اُٹھے اور انہوں نے طرح کا ایک مصرعہ دیا۔
چمن سے آ رہی ہے بوئے کباب
بڑے بڑے شاعروں نے طبع آزمائی کی لیکن کوئی گرہ نہ لگا سکا۔ ان میں سے ایک شاعر نے قسم کھا لی کہ جب تک گرہ نہ لگائیں گے، چین سے نہیں بیٹھیں گے۔ چنانچہ وہ ہر صبح دریا کے کنارے نکل جاتے اونچی آواز سے الاپتے ’’چمن سے آ رہی ہے بوئے کباب‘‘
ایک روز ادھر سے ایک کم سن لڑکا گزرا، جونہی شاعر نے یہ مصرعہ پڑھا، وہ لڑکا بول اٹھا۔
کسی بلبل کا دل جلا ہو گا
شاعر نے بھاگ کر اُس لڑکے کو سینے سے لگایا۔ یہی لڑکا بڑا ہو کر جگر مرادآبادی کے نام سے مسلم الثبوت استاد بنا۔
نقصان
جگن ناتھ آزادؔ مشفق خواجہ سے ملنے گئے تو بات چیت میں بار بار اپنی کتابوں کی غرقابی کا تذکرہ بڑے دردناک انداز میں کرتے رہے اور یہ بھی کہتے رہے ’’اس میں نہ صرف مطبوعہ کتابیں ضائع ہوئیں بلکہ کچھ غیر مطبوعہ تصانیف کے مسودے بھی برباد ہو گئے۔ ‘‘
خواجہ صاحب جب آٹھ دس دفعہ سیلاب کی دلخراش داستان سن چکے تو عرض کیا ’’اگر اجازت دیں تو ایک درد انگیز واقعہ بلا تشبیہ میں بھی عرض کروں۔ ‘‘
آزاد صاحب نے کہا ’’سنائیے !‘‘
خواجہ صاحب بولے ’’چند برس قبل ایک مشہور ادیب کے ہاں اتفاق سے آگ لگ گئی۔ اس میں ان کے کتب خانے کی بہت سی نادر کتابیں اور غیر مطبوعہ تصانیف کے مسودے بھی جل کر راکھ ہو گئے۔ خانہ سوختہ ادیب کے کچھ دوست اظہار ہمدردی کے لئے آئے اور آتشزدگی کے واقعہ پر افسوس کا اظہار کیا۔ البتہ ایک دوست نے اپنے جذبات کا اظہار اس انداز سے کیا۔ ’’اس میں کوئی شبہ نہیں کہ آپ کے کتب خانے کا جل جانا ایک درد ناک سانحہ ہے جہاں مطبوعہ کتابوں کا جل جانا افسوس ناک ہے وہاں غیر مطبوعہ تصانیف کا غیر مطبوعہ رہ جانا اطمینان کا باعث ہے۔ یقیناً یہ آپ کا نقصان ہے لیکن یہ بھی تو دیکھئے آپ کے قارئین بے شمار متوقع نقصانات سے بچ گئے۔ ‘‘
اس پر جگن ناتھ آزادؔ ہنسنے پر مجبور ہو گئے اور باقی جتنے دن وہاں رہے انہوں نے کتابوں کی غرقابی کا ذکر نہیں کیا۔
ہندوستان والا گیت
ہمارے ہاں اکثر یہ ہوتا ہے کہ کسی شاعر کی کوئی نظم جب بہت زیادہ مقبول ہو جاتی ہے تو خود شاعر کے لیے یہ نظم ایک آسیب کی حیثیت اختیار کر لیتی ہے، جیسے ساحرلدھیانوی کے لیے ’’ تاج محل‘‘ اور سکندر علی وجد کے لیے ’’اجنتا ‘‘۔ ’’ یہ ہے میرا ہندوستان ‘‘ والا گیت بھی زبیر کی ذات سے کچھ اس طرح مربوط و منسلک ہو گیا ہے کہ زبیر کسی مشاعرے میں جائیں، یا کسی نجی محفل میں، لوگ اس گیت کی فرمائش ضرور کرتے ہیں۔ آپ حیرت کریں گے کہ میں نے ۱۹۶۲ء میں زبیر کو حیدرآباد کے ایک مشاعرے میں یہ گیت سُناتے ہوئے دیکھا تھا اور ابھی کچھ دن پہلے میں نے زبیر کو دہلی کے ایک مشاعرے میں یہی گیت سُناتے ہوئے دیکھا ہے۔ اس گیت سے خود زبیر کی الجھن کا اندازہ آپ اس سے لگاسکتے ہیں کہ ایک شام زبیر بہت خوش دکھائی دیئے۔ خوشی کی وجہ پوچھی تو کہنے لگے ’’کئی ہفتوں بعد آج وہ خوشگوار دن آیا ہے، جب کسی کو ہندستان کا خیال نہیں آیا۔ ‘‘
میں نے پوچھا ’’کیا مطلب ؟ ‘‘
بولے ’’آج کا دن وہ مبارک دن ہے جب میں نے کسی کو ‘ یہ ہے میرا ہندوستان ‘ والا گیت نہیں سنایا۔ ‘‘
میں نے کہا ’’ اس کا مطلب یہ ہوا کہ آج ہندوستان تمہارا نہیں رہا۔ ‘‘
بولے ’’ جی نہیں ! آج ہندوستان سچ مچ اپنا لگ رہا ہے۔ ٹوٹ کر پیار آ رہا ہے اس پر، بلکہ یوں سمجھو کہ میرے حق میں ہندوستان آج ہی آزاد ہوا ہے کیونکہ آج میں اپنے ہی گیت کی غلامی سے آزاد ہوں۔ دیکھو تو آج جمنا ندی کتنی خوبصورت دکھائی دے رہی ہے اور ہاں آج موسم کتنا خوشگوار ہو گیا ہے۔ چلو آج قاضی سلیم کے ہاں چلتے ہیں۔ ‘‘
ہم قاضی سلیم کے ہاں پہنچے۔ گھنٹی بجائی تو قاضی سلیم کی سات سالہ بیٹی سلمیٰ نے دروازہ کھولا۔ اندر سے قاضی سلیم نے بیٹی سے پوچھا ’’ بیٹی کون آیا ہے ؟ ‘‘
سلمیٰ نے کہا ’’ مجتبیٰ انکل اور ’’ یہ ہے میرا ہندوستان ‘‘ آئے ہیں۔ ‘‘
اُس شام قاضی سلیم کے ہاں کچھ اور مہمان بھی بیٹھے تھے۔ لہٰذا تھوڑی دیر بعد میں نے دیکھا کہ زبیر پھر جذبۂ حب الوطنی سے سرشار تھے اور ہندوستان پھر اُن کا ہو گیا تھا۔
زبیر رضوی از مجتبیٰ حسین
تُرکی بہ تُرکی
سوریا سے ایک شاعر صلاح الاسیر تشریف لائے۔ قتیلؔ شفائی صاحب نے جو اُن دنوں پاکستان رائٹرز گلڈ کے سکریٹری تھے ‘ اُن کا استقبال کرتے ہوئے کہا ’’پہلی دفعہ میں نے دیکھا ہے کہ اسیر بے زنجیر بھی ہوتے ہیں۔ ‘‘
اِس پر اسیرؔ نے برجستہ جواب دیا ’’میں نے بھی پہلا قتیل دیکھا ہے جو قتل ہونے کے بعد بھی زندہ ہے۔ ‘‘
ایک آنکھ
مولانا عبدالمجید سالکؔ ہشاش و بشاش رہنے کے عادی تھے اور جب تک دفتر میں رہتے، دفتر قہقہہ زار رہتا۔ ان کی تحریروں میں بھی ان کی طبیعت کی طرح شگفتگی ہوتی تھی۔ جب لارڈ ویول ہندوستان کے وائسرائے مقرر ہوئے تو سالکؔ نے انوکھے ڈھنگ سے بتایا کہ وہ ایک آنکھ سے محروم ہیں۔ چنانچہ مولانا سالکؔ نے انقلاب کے مزاحیہ کالم ’’افکار و حوادث ‘‘ میں لکھا ’’لارڈ ویول کے وائسرائے مقرر ہونے کا یہ فائدہ ہے کہ وہ سب کو ایک آنکھ سے دیکھیں گے۔ ‘‘
ارشاد کے اشعار
۱۹۸۴ء میں یوسفؔ بخاری کا نیا مجموعۂ کلام ’’دامن یوسف‘‘ شائع ہوا تو انہوں نے دیباچہ میں انکشاف کیا کہ جب وہ دہلی میں تھے، وہ ارشاد احمد ارشادؔ نامی شاعر سے غزلیں لکھوا کر مشاعروں میں نہایت ترنم سے سنایا کرتے تھے۔ بخاری صاحب نے بہ فرمودہ ارشاد غزلوں کے کچھ شعر بھی درج کئے تھے، جو یقیناً بہت اچھے تھے۔ بخاری صاحب نے دیوان مشفق خواجہ کی خدمت میں پیش کیا۔ اُنہوں نے دیباچہ پڑھا، کلام پر ایک نظر ڈالی اور بولے ’’اگر زیر نظر مجموعہ میں شامل غزلیں بھی ارشاد احمد ارشادؔ صاحب سے لکھوائی ہوتیں تو یہ مجموعہ سال رواں کا بہترین شعری مجموعہ قرار پاتا۔ ‘‘
بدصورت
ضمیر جعفری جن دنوں سٹیلائٹ ٹاؤن میں رہتے تھے۔ ایک جیسے مکانوں کے نقشے کی وجہ سے ایک شام بھول کر کسی اور کے دروازے پر دستک دے بیٹھے۔ دروازہ کھلنے پر دوسری عورت کو دیکھ کر جعفری صاحب کو اپنی غلطی کا احساس ہو گیا۔ فوراً واپس پلٹے۔ اس فعل کا ذکر جب جعفری صاحب نے ایک دوست کیا تو اس نے سوال کیا ’’جعفری صاحب، آپ کو غلط گھر کا دروازہ کھٹکھٹانے پر شرمندگی نہیں ہوئی ؟‘‘
’’مجھے اس فعل پر تو کوئی شرمندگی نہیں ہوئی، لیکن یہ دیکھ کر ضرور تکلیف ہوئی کہ دروازہ کھولنے والی عورت میری بیوی سے بھی بدصورت تھی۔ ‘‘ جعفری صاحب نے جواب دیا۔
اُدھار
ایک ترقی پسند شاعر جو شراب کے بے حد رسیا تھے، فراقؔ گورکھپوری صاحب کے گھر پہنچے اور پریشان حال صورت بنا کر بولے ’’فراقؔ صاحب ! بات عزت پر آ گئی ہے میں بہت پریشان ہوں۔ کسی طرح تیس روپیہ ادھار دے دیجئے۔ ‘‘
فراقؔ صاحب کچھ کہنے والے تھے کہ وہ بولے ’’دیکھئے انکار نہ کیجئے گا، میری آبرو خطرے میں ہے۔ ‘‘
فراقؔ صاحب نے تیس روپے ان کے حوالے کر دیئے اور وہ روپیہ پاتے ہی فوراً فراقؔ صاحب سے رخصت ہو گئے۔
تھوڑی دیر کے بعد فراقؔ صاحب کے گھر کے سامنے ایک تانگہ آ کر رکا اور اس میں سے وہی شاعر برآمد ہوئے اور آتے ہی فراقؔ صاحب سے کہنے لگے ’’آپ فوراً اس تانگہ میں بیٹھ جائیے۔ ‘‘
’’آرے بھائی معاملہ کیا ہے ؟‘‘ زیر لب بڑبڑاتے ہوئے فراقؔ صاحب تانگہ میں بیٹھ گئے۔ تانگہ سیدھا ایک شراب خانہ پر پہنچا جہاں فراقؔ صاحب کی خاطر تواضع انہیں کے روپوں سے کی گئی۔ شراب و کباب کے دور کے بعد ان کو اسی تانگہ میں بٹھا کر واپس ان کے گھر پہنچا دیا گیا۔
دوسرے دن فراقؔ صاحب نے ایک قریبی دوست سے بڑے مصیبت زدہ لہجے میں شکوہ کیا ’’میرے تیس روپے گئے صاحب! میں کس منہ سے اس مانگوں گا۔ وہ سب تو اُس نے میرے ہی اوپر خرچ کر دیئے۔ ‘‘
مسکت جواب
الہٰ آباد یونیورسٹی میں کچھ لوگ فراقؔ اور ڈاکٹر امر ناتھ جھا کو لڑانے کی کوشش میں لگے رہتے تھے۔ ایک بار ایک محفل میں فراقؔ اور جھاؔ دونوں موجود تھے۔ دونوں کو تقریر بھی کرنا تھا۔ انگلش ڈپارٹمنٹ کے ایک لکچرر نے جس کی مستقلی کا معاملہ زیر غور تھا، کہنا شروع کیا کہ فراقؔ صاحب اپنے کو کیا سمجھتے ہیں، ڈاکٹر جھاؔ ان سے زیادہ انگریزی، اردو نیز ہندی جانتے ہیں۔ فراقؔ صاحب نے کھڑے ہو کر کہا ’’بھائی، میں جھاؔ صاحب کو ایک زمانے سے جانتا ہوں۔ ان کو اپنی جھوٹی تعریف قطعاً پسند نہیں ہے۔ ‘‘
اقبالؔ کی روح
کسی جلسہ میں سردار جعفری اقبالؔ کی شاعری پر گفتگو کر رہے تھے۔ اِدھر ادھر کی کی باتوں کے بعد جب سردارؔ نے یہ انکشاف کیا کہ اقبال بنیادی طور پر اشتراکی نقطۂ نظر کے شاعر تھے تو مجمع میں سے کوئی ’’مرد مومن‘‘ چیختے ہوئے بولا ’’جعفری صاحب !آپ یہ کیا کفر فرما رہے ہیں۔ شاعر مشرق اور اشتراکیت لاحول ولا۔ آپ اپنی اس خرافات سے اقبالؔ کی روح کو تکلیف پہنچا رہے ہیں۔ ‘‘
جلسے کی پہلی صفوں سے مجازؔ پھلجھڑی کی طرح چھٹتے ہوئے بولے ’’حضرت!تکلیف تو آپ کی اپنی روح کو پہنچ رہی ہے جسے آپ غلطی سے اقبالؔ کی روح سمجھ رہے ہیں۔ ‘‘
تخریب
حیدرآباد دکن میں ’’ق‘‘ کی جگہ عام طور پر لوگ ’’خ‘‘ بولتے ہیں۔
کسی حیدرآبادی نے مجازؔ کو ایک دعوت پر مدعو کرتے ہوئے کہا ’’مجازؔ صاحب! کل میری فلاں عزیزہ کے ہاں تخریب (تقریب) ہے۔ غریب خانہ پر تشریف لائیے۔ ‘‘
مجازؔ نے خوفزدہ ہو کر جواب دیا ’’نہیں صاحب، مجھے تو معاف ہی رکھئے، مجھ سے یہ دردناک منظر دیکھا نہیں جا سکے گا۔ ‘‘
یقین
’’خون مانگتے ہو، خون دیں گے ! جان مانگتے ہو، جان دیں گے !، کلیجہ مانگتے ہو، کلیجہ دیں گے !‘‘
مجمع کئی دن کا بھوکا تھا۔ فوراً سے پہلے آگ جلائی گئی اور اُس پر دیگ چڑھا دی گئی۔ پھر سب للچائی نگاہوں سے سٹیج پر کھڑے ضخیم و لحیم لیڈر کو دیکھنے لگے۔
ابنِ مُنیب
بیدی کی پھلجڑیا
گوپی ناتھ امنؔ کے فرزند کی شادی تھی۔ انہوں نے دہلی کے دوست شعراء کو بھی مدعو کیا۔ ان میں کنور مہندر سنگھ بیدی بھی شریک تھے۔ ہر شاعر نے سہرا یا دعائیہ قطعہ یا رباعی سنائی۔ امنؔ صاحب نے بیدی صاحب سے درخواست کی کہ آپ بھی کچھ ارشاد فرمائیے تو بیدی صاحب نے یہ شعر فی البدیہ کہہ کر پیش کر دیا ؎
جناب امنؔ کے لخت جگر کی شادی ہے
مگر غریب کو کس جرم کی سزا دی ہے
اندازِ نظامت
چیمسفورڈ کلب کے ایک مشاعرے میں، جس کی نظامت کنور مہندر سنگھ بیدی کر رہے تھے، انہوں نے جناب عرشؔ ملسیانی سے کلام سنانے کی گزارش کی جب عرشؔ صاحب مائیک کی طرف جانے لگے تو بیدی صاحب نے فرمایا ؎
عرش کو فرش پر بٹھاتا ہوں
معجزہ آپ کو دکھاتا ہوں
اور اسی طرح دوسرے شاعر کو بلانے سے پہلے فرمانے لگے کہ ایک محاورہ ہے۔ ’’برعکس نہند نام زنگی کا فور‘‘ کیا ستم ظریفی ہے کہ اب میں آپ کے سامنے ایک ایسے شاعر کو پیش کر رہا ہوں جو ہر طرح سے گھرا ہوا ہے اور قافیہ ردیف کا بھی پابند ہے اس ستم یہ کہ سرکاری ملازم بھی ہے اور تخلص ہے آزادؔ۔
اِس پر جگن ناتھ آزاد اٹھ کر مائیک پر تشریف لے آئے۔
تخلص کی داد
مولانا الطاف حسین حالیؔ ایک شگفتہ مزاج انسان بھی تھے۔ ایک مرتبہ وہ اپنے کسی مداح کے مکان پر مقیم تھے۔ میزبان نے اُن کی خدمت پر ایک دیہاتی کو مقرر کیا اور اُس سے کہا ’’یہ مولانا حالی ہیں۔ ‘‘
دیہاتی نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے پوچھا ’’کیا ہالی ( یعنی ہل چلانے والا ) بھی مولانا ہو سکتا ہے۔ ‘‘
مولانا حالیؔ نے یہ سُن کر ہنس پڑے اور فرمایا ’’ اس سے بہتر میری ستائش اور نہیں ہو سکتی، آج مجھے اپنے تخلص کی داد مل گئی ہے۔ ‘‘
مفرور ادارہ
دور ایوب شاہی میں قتیلؔ شفائی، فارغ بخاری اور رضاؔ ہمدانی ماہنامہ ’’سنگِ میل‘‘ نکالا کرتے تھے۔ ایک مضمون کی اشاعت پر پاکستان سرکار بوکھلا اٹھی تو وارنٹ گرفتاری جاری ہو گئے۔
پولس نے تینوں کو گرفتار کرنے کے بعد حکام پاکستان کو رپورٹ بھیجی کہ تینوں ایڈیٹر گرفتار کر لئے گئے ہیں لیکن ہنوز ادارہ تحریر مفقود الخبر ہے۔ اس کی تلاش جاری ہے۔
٭٭٭
تشکر: مدیر جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید