FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

فہرست مضامین

ارمغانِ ابتسام

 

اکتوبر تا دسمبر ۲۰۱۶ء، حصہ ۱

 

                مدیر: نوید ظفر کیانی

 

 

 

 

 

شرگوشیاں

 

ہمارے ایک دوست ہیں جو اکثر اپنے بھانجوں کو پڑھاتے ہیں۔ اُنہوں نے ہی اس واقعہ کا ذکر مجھ سے کیا ہے۔ پچھلے ہفتے اُن کے ایک بھانجا شریف جن کی عمر شریف۱۴ یا ۱۵ برس ہو گی، نے پڑھائی کے دوران اُن سے پوچھا ’’ماموں ! کیا آپ شاعری کو ٹھیک کر سکتے ہیں ؟‘‘

’’شاعری کو تو دنیا بھر کے نقاد مل کر بھی ٹھیک نہیں کر سکے، میں کس کھیت کی مولی ہوں لیکن تم یہ کیوں پوچھ رہے ہو؟‘‘

’’وہ ماموں، در اصل میں نے ایک اُردو میں پوئم بنائی ہے، آپ اُسے ٹھیک کر سکتے ہیں ؟‘‘

’’ریت بجری کہاں سے لائے تھے تم اس کے لئے ؟‘‘

’’ریت بجری؟ ماموں میں نے پوئم بنائی ہے !‘‘

’’بیٹے، اوّل تو اُردو میں جو شاعری کی جائے وہ پوئم نہیں نظم کہلاتی ہے، اور دوم یہ کہ وہ بنائی نہیں جاتی بلکہ رقم کی جاتی ہے یعنی لکھی جاتی ہے۔‘‘

’’وہی ماموں، میں نے نظم لکھی ہے، آپ اس کو ٹھیک کر دیں گے ؟ میں نے فیس بک سٹیٹس اپڈیٹ کرنا ہے‘‘

’’اور یہ بات بھی یاد رکھو کہ نظم ٹھیک نہیں کی جاتی بلکہ اُس کی تصحیح کی جاتی ہے، بہرحال دکھاؤ، کہاں ہے وہ نظم؟‘‘

برخوردار نے شرماتے ہوئے فزکس کی کتاب میں سے ایک کاغذ نکالا اور اُنہیں تھما دیا۔

ہمارے دوست نے نظم پر ایک نظر ڈالی، یہ نظم کسی طالبِ علم سے منسلک کسی موضوع پر نہیں تھی، میرا مطلب ہے کہ وہ نظم علم، سکول، کمرۂ جماعت، کسی جانور، مظاہرِ قدرت یا اسی جیسے کسی موضوع پر نہیں تھی بلکہ اپنی کسی خاتون ہم جماعت کی تعریف میں لکھی گئی تھی، جسے برخوردار اپنے فیس بُک کے سٹیٹس میں اپڈیٹ کرنا چاہتے تھے۔ نظم کسی بحر کے تکلف میں پڑے بغیر لکھی گئی تھی، بس قافیہ پیمائی کی گئی تھی اور وہ بھی نثر میں ہاں البتہ خیالات خاصے بالغانہ نوعیت کے تھے۔

’’برخوردار، پہلے مطالعہ کرو، پھر نظمیں بھی جوڑتے پھرنا!‘‘ اِس پر ہمارے دوست نے اُس کی خاصی سرزنش کی تھی۔

’’مطالعہ؟ پر کتھوں ؟؟‘‘ ہم نے اپنے دوست سے کہا ’’حرفتِ جانکاری کے اس دور میں بھلا کون مطالعہ کا کشٹ اُٹھائے اور کیوں اُٹھائے ؟قابلیت جن باٹوں پر تولی جاتی ہے اُن کی طبعی ترکیب میں علمی استعداد نام کی کوئی شے شامل نہیں بلکہ یہ ترازو کسی اور ہی دھات سے بنے ہوئے ہیں۔ جب عملی زندگی میں ایسی آپا دھاپی ہو تو مطالعے کا شوق کسے رہے گا اور کیوں رہے گا؟‘‘

یہ بات ہے بھی درست، اورسچ پوچھیں تو ہمارے ذمہ داران کو اس سے کوئی غرض ہے بھی نہیں کہ ہماری نئی نسل کیا کرتی پھر رہی ہے اور اُن کی صلاحیتوں کو قومی سطح پر منظم کرنے کے لئے کیا چارہ سازی کی جائے۔ خصوصاً اُن میں مطالعہ کا شوق پیدا کرنے کے لئے تو کسی قسم کی قطعاً کوئی منصوبہ بندی دیکھنے میں نہیں آ رہی ہے۔

پاکستان نیشنل بک کونسل کی مساعی اس ضمن میں قابلِ ستائش ہیں کہ وہ اپنے قیام سے ہی مطالعہ کے فروغ کے لئے احسن اقدامات اُٹھاتی رہی ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ جب اس ادارے نے نوجوانانِ پاکستان میں مطالعہ کے فروغ کا ذمہ اُٹھایا اور غیر نصابی کتب قابلِ ذکر رعایتی نرخوں پر مہیا کرنے کے لئے ’’ممبر شب کارڈ‘‘ کا اہتمام کیا۔ مجھے یاد ہے کہ جب میں پہلی بار جی ایٹ میں تعلیمی چوک پر ممبر شپ کارڈ لینے گیا تو وہاں طالبانِ علم کا اِتنا بڑا جلوس موجود تھا جو آج کل اوسط درجے کی سیاسی جماعت کا ہوتا ہے۔ تعلیمی چوک کھچا کھچ بھرا ہوا تھا لیکن گزشتہ برس جب میں ممبر شپ کارڈ کے حصول کے لئے نیشنل بک فاؤنڈیشن کے دفتر گیا تو وہاں ہُو کا عالم تھا۔ میرا ممبر شپ کارڈ پانچ منٹوں کے اندر اندر بن گیا تھا۔ شاید ایسا اس لئے تھا کہ آئی ٹی کا سیلاب نوجوانوں میں سے مطالعے کا شوق بہا لے گیا تھا اور ادارۂ ہذاکے سامنے ’’ فروغِ مطالعہ‘‘ کے بجائے ’’احیائے مطالعہ‘‘ کا مسئلہ درپیش تھا، تاہم پھر بھی اس ادارے کا دم غنیمت تھا کہ جو بچا کھچا مطالعہ کا شوق باقی رہ گیا تھا اُس سے نئی کونپلیں پھوٹ سکتی تھیں۔ بدقسمتی سے گزشتہ برس سے ادارۂ ہذا اس کام سے بھی گیا، وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ ’’بجٹ‘‘ نہیں ہے۔

کتنے افسوس کا مقام ہے کہ ہماری حکومت کے پاس اللوں تللوں کے لئے وافر پیسہ موجود ہے لیکن فروغِ تعلیم کے لئے بجٹ نہیں ؟کیا یہ لمحۂ فکریہ نہیں ؟؟

 

نوید ظفرؔ کیانی

 

 

 

 

پرانے چاول

 

 

یہ نہ تھی ہماری قسمت

 

                کرنل محمد خان

 

یہ کالج کے دِنوں کا واقعہ ہے۔

ایک دِن یکایک ہماری کلاس یعنی ایم۔ اے فائنل کے لڑکوں میں یہ خبرمشہور ہو گئی کہ ہمارے ایک منحنی سے ہم جماعت مولوی عبدالرّحمٰن کو ایف۔ اے کی ایک طالبہ کی ٹیوشن مل گئی ہے۔ چرچا ٹیوشن کی وجہ سے نہ تھا بلکہ لڑکی کی وجہ سے، کیونکہ افواہ کی رو سے لڑکی حسین ہی نہ تھی، فطین بھی تھی۔ پانچ سال اپنے بیرسٹرباپ کے ساتھ ولایت رہ کر آئی تھی، فیشن کی کوئی ادا نہ تھی جو اسے یاد نہ ہو، انگریزی فر فر بولتی تھی اور کلاس میں اپنی پروفیسر کے کان بھی کترتی تھی۔ صرف اُردو میں کمزور تھی۔ یہ کمزوری بھی حُسن اور انگریزی کے زور سے کسی قدر پوری کر لی تھی اور باقی کمی پورا کرنے کے لئے ٹیوشن کا اہتمام کیا گیا تھا۔

لڑکی کے کوائف سُن کر عبدالرّحمٰن کے ہم جماعت رشک اور حسد سے حسبِ توفیق لال پیلے اور نیلے ہونے لگے۔ کئی ایک نے مولوی صاحب کی داڑھی کے متعلق ناروا سی باتیں بھی کیں اور درمیان میں ان جانوروں کا ذکر لے آئے جن کی ٹھوڑی کے نیچے بال ہوتے ہیں، لیکن اس تمام غیبت سے مولوی عبدالرّحمٰن کی داڑھی کا ایک بال تک بیکا نہ ہوا کیونکہ ہر روز کی دست و برد سے آپ کے جو بال بیکا ہونے تھے، ہو چکے تھے اور جو باقی رہ گئے تھے، بظاہر پکے تھے چنانچہ اکثر حاسدوں نے مولوی عبدالرّحمٰن پر داڑھی سمیت ہی رالیں بہا لیں۔ ہم نے رال پر تو قابو رکھا لیکن اندرونِ خانہ ہم بھی ذرا حاسد ہی تھے۔ ۔ ۔ ہمیں قسمت سے اصل شکایت یہ تھی کہ اس ٹیوشن کے لئے ہم کیوں نہ چنے گئے۔ یعنی ہم کہ سُرخ و سپید، بانکے، بے فکرے چھ فٹ قد کے جوانِ رعنا تھے اور بیرسٹر صاحب کے گھر یوں لگتے جیسے رابرٹ ٹیلر کو ٹیوٹر رکھ لیا ہو، لیکن قرعہ پڑا تو مولوی صاحب کے نام جو اپنی موٹی چادر کی عینک میں یوں نظر آتے تھے جیسے شیشوں کے پیچھے سے اُودبلاؤ جھانک رہا ہو۔ ہمیں لڑکی کے ٹیوٹر چینوں کی بد مذاقی پر بہت غصہ آیا۔ مولوی عبدالرّحمٰن کو کسی لڑکے یا بھینگی سی لڑکی کا ٹیوٹر چُن لیا ہوتا تو ہمیں شکایت نہ ہوتی، لیکن ایک آہو چشمِ قتالہ کے لئے اس کا انتخاب قسمت کی سخت غلط بخشی تھی۔ لیکن مصیبت یہ ہے کہ قسمت قد ناپ کر نعمتیں تقسیم نہیں کرتی، ہاں کبھی کبھی بی۔ اے کے نمبر دیکھ لیتی ہے اور اس میں مولوی صاحب ہمیں کوئی دو سو نمبر پیچھے چھوڑ گئے تھے۔ بہرحال نمبر کم سہی، ہمارے دل کے ارمان اِتنے کم نہ تھے۔ اگر ہمارے نمبروں کے ساتھ ہماری حسرتوں کا شمار بھی کیا جاتا تو ایگریگیٹ میں ہم بڑی اونچی پوزیشن حاصل کرتے اور یہ ٹیوشن بھی، کیونکہ ہمارا ایک ارمان ایک ایسی ہی پیاری سی ٹیوشن کا تھا، لیکن دل کے ارمانوں کا قدر دان قیس کو نہ ملا، فرہاد کو نہ ملا، رانجھے کو نہ ملا۔ ۔ ۔ اور شاید اسی لئے کہ ان لوگوں نے میٹرک بھی پاس نہ کیا، ہمیں کیا ملتا؟ ہم رشک اور حسد کو بھی ہضم کر گئے اور ایک دن سامنے آتے ہوئے مولوی عبدالرّحمٰن ملے تو اُنہیں مبارکباد پیش کر دی۔

مولوی صاحب نے حسد کے طوفانوں میں مبارکباد کی آواز سُنی تو سینے سے لگا لیا اور بولے ’’ساری کلاس میں ایک تم ہی شریف لڑکے ہو۔‘‘

میں نے جلدی سے سینے بلکہ داڑھی سے الگ ہو کر کہا ’’ اور آپ شریف ہی نہیں، قابل بھی ہیں، یہ ٹیوشن آپ ہی کو ملنی چاہیئے تھی۔‘‘

مولوی صاحب نے اپنی زندگی میں تحسین کے پھول یوں برستے نہ دیکھے تھے، چنانچہ ایک دفعہ پھر مجھے سینے سے لگانے کی ناکام کوشش کی۔ اِدھر میں لڑکی کے متعلق کچھ جاننے کو بے تاب تھا۔ سہمے سہمے انداز میں پوچھا ’’مولوی صاحب، لڑکی کیسی ہے ؟‘‘

بڑے دولت مند باپ کی بیٹی ہے، اُن کا ایک بنگلہ ہے، دو کاریں ہیں، تین نوکر ہیں۔ ۔ ۔‘‘

مجھے باپ کے اعداد و شمار میں دلچسپی نہ تھی، لہذا بات کاٹتے ہوئے بولا ’’مولانا، باپ نہیں لڑکی کیسی ہے ؟‘‘

اور لفظ لڑکی پر زور دے کر اسے خوب انڈر لائن کیا۔

مولانا کسی قدر حیرانی سے بولے ’’تمھارا کیا مطلب ہے ؟‘‘

یوں دن دیہاڑے لڑکی کی خوبصورتی کے متعلق سوال سُن کر مولانا کے کان سُرخ ہونے لگے، بولے ’’بھئی مجھے تو معلوم نہیں، میں نے تو اسے کبھی آنکھ بھر کر دیکھا نہیں۔‘‘

’’آنکھ بھ کر دیکھا نہیں ؟ پڑھاتے وقت آپ اپنی شاگرد کے روبرو بیٹھتے ہیں یا پشت بہ پشت؟‘‘

بیٹھتا تو سامنے ہوں مگر میں نے کبھی آنکھ نہیں اُٹھائی۔‘‘

’’کیوں نہیں اُٹھائی؟‘‘

’’بُری بات ہے۔‘‘

’’لیکن آنکھ جھپکا کر اس کے پاؤں تو دیکھتے رہتے ہوں گے، یہ کیسی بات ہے ؟‘‘

’’پاؤں میں تو چپل پہنتی ہے۔‘‘

یہ کہہ کر مولوی صاحب ہماری سادگی پر مسکرا دئیے، گویا کہتے ہوں، کیا مسکت جواب دیا ہے۔ اس پر ہم نے مزید خراج ادا کرتے ہوئے کہا ’’مولوی صاحب آپ بے شک نیک آدمی ہیں۔‘‘

’’آپ بھی تو ہیں۔‘‘

یہ چار لفظوں کا جملہ مولوی صاحب نے اسی انداز میں ادا کیا جیسے حبیب بنک کے ٹی وی کے اشتہار میں ایک بچہ کہتا ہے ’’میلا بھی تو ہے‘‘۔ ۔ ۔ پھر رخصت ہونے سے پہلے آپ نے بالکل بچگانہ طور پر تیسری ناکام کوشش کی، جی ہاں، ہمیں سینے اور داڑھی سے لگانے کی۔

لیکن اب مولوی صاحب کی اور ہماری دوستی پکی ہو چکی تھی۔ ہر صبح مولوی صاحب سے گزشتہ شام کے سبق کی نہایت متشرع روداد سنتے، لڑکی بیچاری کی قسمت پر آنسو بہاتے لیکن جی کڑا کر کے مولوی صاحب کو داد دیتے اور وہ ہمیں دعا دیتے ہوئے رخصت ہو جاتے۔

ایک روز مولوی صاحب ذرا خلافِ معمول پریشان حال نظر آئے۔ وجہ پوچھی تو بولے ’’گاؤں سے اطلاع آئی ہے کہ ماں بیمار ہے۔ ماں کی عیادت بھی لازم ہے اور ٹیوشن میں ناگہ ہوا تو بیرسٹر صاحب کے ناراض ہونے کا خوف ہے۔‘‘

میں نے کہا ’’ناراض کیوں ہوں گے ؟ آخر مجبوری ہے، آپ بیرسٹر صاحب سے بات تو کر لیں۔‘‘

’’کر لی ہے، کہتے ہیں سالانہ امتحان مین صرف دس دن باقی ہیں اور رضیہ اُردو میں بدستور کمزور ہے۔‘‘

’’تو کیا اُن کا خیال ہے کہ اگر رضیہ کی اردو کی کمزوری رفع نہ ہوئی تو دشمن ملک پر حملہ کر دے گا؟‘‘

مولوی صاحب میرا سوال ٹال گئے، شاید سمجھ ہی نہ سکے اور بولے ’’بیرسٹر ساحب کہتے ہیں کہ اگر جانا لازم ہے تو اپنی جگی کوئی موزوں آدمی دے کر جاؤ۔ اب میں موزوں آدمی کہاں سے لاؤں ؟‘‘

معاً ہمیں خیال آیا کہ ہم آدمی تو یقیناً ہیں، باقی رہی موزونیت تو چند اور خوبیوں کے علاوہ ہم اُردو بھی لکھ پڑھ بلکہ پڑھا سکتے ہیں۔ ۔ ۔ مگر یہ ہمارا خیال تھا۔ سوال یہ تھا کہ کیا یہی خوبصورت خیال مولوی صاحب اور بیرسٹر صاحب کو ھی آ سکتا ہے ؟ بلا دعوت اپنی خدمات پیش کرنا تو شان کے خلاف تھا، چنانچہ امید کے دامن کا ایک تار تھام کر ہم نے کہا ’’بے شک موزوں آدمی ملنا مشکل ہے البتہ یہ بات ناممکن نہیں۔‘‘

مولانا بولے ’’بس ایک ہی صورت ہے۔‘‘

’’مثلاً؟‘‘

مثلاً یہ کہ اگر آپ زحمت نہ سمجھیں تو دو روز میری جگہ پڑھا آئیں۔‘‘

یہ تو وہی بات ہوئی کہ دعا منہ سے نکلی نہیں اور اجابت نے دروازہ آ کھٹکھٹایا۔

لیکن ہماری مسرت سے کہیں زیادہ ہماری حیرت تھی۔ ہمارے منہ سے کسی قدر اضطرار مین نکلا ’’میں یعنی خود پرھا آؤں ؟‘‘

’’جی ہاں، آپ خود۔‘‘

’’مولانا، آپ کی ذرّہ نوازی ہے اور مجھے انکار بھی نہیں لیکن یہ بتائیں کہ کیا بیرسٹر صاحب بھی اِتنے ہی ذرّہ نواز ہیں ؟‘‘

’’میں نے برسٹر صاحب سے آپ کا ذکر کیا تھا۔ وہ آپ کو دیکھنا چاہتے ہیں، آج شام میرے ساتھ چلئے گا۔‘‘

یہ وہی پرانی کہانیوں والا قصّہ تھا، شہزادی سامنے قلعے میں بیٹھی انتظار کر رہی ہے لیکن اس تک پہنچنے کے لئے شہزادے کو فقط ایک اژدھے اور دو شیر ہلاک کرنے کی ضرورت ہے بلکہ شاید دونوں مہموں کی نسبت ایک بیرسٹر راضی کرنا زیادہ دشوار تھا۔ پھر مولوی عبدالرّحمٰن صاحب رخصت ہونے لگے تو جیسے کچھ اچانک یاد آ گیا ہو، بولے ’’ہاں ایک بات، اگر بُرا نہ مانیں۔‘‘

’’ارشاد۔‘‘

’’کیا ہی اچھا ہو اگر آپ سوٹ کی جگہ اچکن پہن کر آئیں۔‘‘

’’لیکن میرے پاس اچکن تو ہے نہیں۔‘‘

’’کہیں سے مانگ نہیں سکتے ؟‘‘

’’مولانا، مانگ تو سکتا ہوں، پھر آپ کہیں گے کہ ایک داڑھی بھی مانگ لاؤ۔‘‘

’’داڑھی نہیں ٹوپی۔‘‘

’’قبلہ میں بیرسٹر صاحب کے گھر لڑکی پڑھانے جاؤں گا یا جمعہ پڑھانے ؟‘‘

’’بات یہ ہے کہ ننگے سر ٹھیک نہیں ہوتا اور اچکن اور ٹوپی میں آدمی شریف لگتا ہے۔‘‘

اب مولوی صاحب سے کیا بحث کرتے۔ ہم نے بڑے بڑے سمگلرون کو اچکن اور ٹوپی پہنے دیکھا تھا۔ بہرحال اُنہیں یقین دلایا کہ اُن کی خاطر۔ ۔ ۔ جو در اصل اپنی ہی خاطر تھی۔ ۔ ۔ اچکن اور ٹوپی کا انتظام بھی کریں گے اور آخر شام سے پہلے ڈھیلی سی بد رنگ سی اچکن اور پی سی تنگ سی ٹوپی پیدا کر لی۔

شام بیرسٹر صاحب کے دولت کدے پر پہنچے۔ مولوی صاحب کی نگاہیں دولت کدے سے سو گز اُدھر ہی جھک گئیں اور ایسی کہ پھر اُٹھانے کا نام نہ لیا۔ مولوی صاحب نے ہمیں بھی تلقین کی کہ نظریں اُٹھانے سے پرہیز کرنا لیکن ہم سے کوشش کے باوجود بد پرہیزی ہوتی رہی۔ بیرسٹر صاحب کے روبرو ہوئے تو مولوی صاحب نے ہمارا تعارف کرایا۔ جواب میں بیرسٹر صاحب نے بظاہر تو مزاج پُرسی کی لیکن حقیقت میں ہمارا معائنہ کرنے لگے جو طبّی معائنے سے بہت ملتا جُلتا تھا یعنی ہمیں تو بہت اُلٹ پلٹ کر نہ دیکھا لیکن خود بہت اُلٹے پلٹے یوں معلوم ہوتا تھا جیسے ہر زاوئیے سے فرضی ٹوپی لگا کر ہماری نیّت کی رفتار ناپ رہے ہوں۔ آخر، غالباً ہماری اچکن اور ٹوپی سے متاثر ہو کر فرمایا ’’لڑکا تو شریف ہی لگتا ہے۔‘‘

پھر مولوی صاحب کو رخصت دے دی اور ہمیں رضیہ تک پہنچا آئے۔

رضیہ ہماری توقع سے بھی زیادہ حسین نکلی اور حسین ہی نہیں، بلکہ فتنہ گرِ قد و گیسو تھی!

پہلی نگاہ پر ہی محسوس ہوا کہinitiativeہمارے ہاتھ سے نکل کر فریق مخالف کے پاس چلا گیا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ پہلا سوال بھی ادھر ہی سے آیا ’’ تو آپ ہیں ہمارے نئے نویلے ٹیوٹر؟‘‘

اب اس شوخ سوال کا صحیح جواب تو یہ تھا کہ ’’ تو آپ ہیں ہماری نویلی شاگرد؟‘‘

لیکن سچی بات ہے کہ حسن کی سرکار میں ہماری شوخی ایک لمحے کے لئے ماند پڑ گئی اور ہمارے منہ سے ایک بے جان سا جواب نکلا ’’ جی ہاں، نیا تو ہوں، ٹیوٹر نہیں ہوں۔ مولوی صاحب کی جگہ آیاہوں۔‘‘

’’ اس سے آپ کی ٹیوٹری میں کیا فرق پڑتا ہے ؟‘‘

’’ یہی کہ عارضی ہوں۔‘‘

’’ تو عارضی ٹیوٹر صاحب۔ ہمیں ذرا اس مصیبت سے نجات دلائیں۔‘‘

رضیہ کا اشارہ دیوان غالب کی طرف تھا۔ میں نے کسی قدر متعجب ہو کر پوچھا ’’ آپ دیوان غالب کو مصیبت کہتی ہیں ؟‘‘

’’ جی ہاں، اور خود غالب کو بھی۔‘‘

’’ میں پوچھ سکتا ہوں کہ غالب پریہ عتاب کیوں ؟‘‘

’’ آپ ذرا آسان اردو بولئے۔ عتاب کسے کہتے ہیں ؟‘‘

’’ عتاب غصے کو کہتے ہیں۔‘‘

’’ غصہ؟ ہاں غصہ اس لیے کہ غالب صاحب کا لکھا تو شاید وہ خود بھی نہیں سمجھ سکتے۔ پھر خدا جانے، پورا دیوان کیوں لکھ مارا۔‘‘

’’ اس لیے کہ لوگ پڑھ کر لذت اور سرور حاصل کریں۔‘‘

’’ نہیں جناب۔ اس لیے کہ ہر سال سینکڑوں لڑکیاں اردو میں فیل ہوں۔‘‘

’’ محترمہ، میری دلچسپی فقط ایک لڑکی میں ہے، فرمائیں آپ کا سبق کس غزل پر ہے ؟‘‘

جواب میں رضیہ نے ایک غزل کے پہلے مصرع پر انگلی رکھ دی لیکن منہ سے کچھ نہ بولی۔ میں نے دیکھا تو غالب کی مشہور غزل تھی

یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصال یار ہوتا

میں نے کہا ’’ یہ تو بڑی لاجواب غزل ہے۔ ذرا پڑھئے تو۔‘‘

’’ میرا خیال ہے کہ آپ ہی پڑھیں۔ میرے پڑھنے سے اس کی لا جوابی پر کوئی ناگوار اثر نہ پڑے۔‘‘

مجھے افسوس ہوا کہ ولایت کی پڑھی ہوئی رضیہ باتونی بھی ہیں اور ذہین بھی، لیکن اردو پڑھنے میں غالباً اناڑی ہی ہیں۔ میں نے کہا ’’میرے پڑھنے سے آپ کا بھلا نہ ہو گا۔ آپ ہی پڑھیں کہ تلفظ بھی ٹھیک ہو جائے گا۔‘‘

رضیہ نے پڑھنا شروع کیا اور سچ مچ جیسے پہلی جماعت کا بچہ پڑھتا ہے۔

یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وِصل۔ ۔ ۔

میں نے ٹوک کر کہا ’’یہ وصل نہیں، وصال ہے۔ وِصل تو سیٹی کو کہتے ہیں۔‘‘

رضیہ نے ہمیں سوالیہ نظروں سے دیکھا۔ ہم ذرا مسکرائے اور ہمارا اعتماد بحال ہونے لگا۔ رضیہ بولی ’’ اچھا، وصال سہی۔ وصال کے معنی کیا ہوتے ہیں ؟‘‘

’’ وصال کے معنی ہوتے ہیں ملاقات، محبوب سے ملاقات۔ آپ پھر مصروع پڑھیں۔‘‘

رضیہ نے دوبارہ مصرعہ پڑھا۔ پہلے سے ذرا بہتر تھا لیکن وصال اور یار کو اضافت کے بغیر الگ پڑھا۔ اس پر ہم نے ٹوکا ’’ یہ وصال یار نہیں، وصالِ یار ہے۔ درمیان میں اضافت ہے۔‘‘

’’ اضافت کیا ہوتی ہے ؟ کہاں ہوتی ہے ؟‘‘

’’ یہ جو چھوٹی سی زیر نظر آ رہی ہے نا آپ کو، اسی کو اضافت کہتے ہیں۔‘‘

’’توسیدھا سادا وصالے یار کیوں نہیں لکھ دیتے ؟‘‘

’’ اس لیے کہ وہ علما کے نزدیک غلط ہے۔ ۔ ۔‘‘یہ ہم نے کسی قدر رعب سے کہا۔

’’ علماء کا وصال سے کیا تعلق ہے ؟‘‘

’’ اچھا جانے دیں علما کو۔ مطلب کیا ہوا؟‘‘

’’ شاعر کہتا ہے کہ یہ میری قسمت ہی میں نہ تھا کہ یار سے وصال ہوتا۔‘‘

’’قسمت کو تو غالب صاحب درمیان میں یونہی گھسیٹ لائے ہیں۔ مطلب یہ کہ بیچارے کو وصال نصیب نہ ہوا۔‘‘

’’ جی ہاں ! کچھ ایسی ہی بات تھی۔‘‘

’’ کیا وجہ؟‘‘

’’ میں کیا کہہ سکتا ہوں ؟‘‘

’’ کیوں نہیں کہہ سکتے ؟ آپ ٹیوٹر جو ہیں۔‘‘

’’ شاعر خود خاموش ہے۔‘‘

’’ تو شاعر نے وجہ نہیں بتائی، مگر خوشخبری سنا دی کہ وصال فیل ہو گئے ؟‘‘

’’ جی ہاں، فی الحال تو یہی ہے۔ آگے پڑھیں۔‘‘

رضیہ نے اگلا مصرعہ پڑھا۔ ذرا اٹک اٹک کر مگر ٹھیک پڑھا ’’ اگر اور جیتے رہتے یہی انتظار ہوتا‘‘

میں نے رضیہ کی دلجوئی کے لیے ذرا سر پرستانہ انداز میں کہا ’’ شاباش، آپ نے بہت اچھا پڑھا ہے۔‘‘

’’ اس شاباش کو تو میں ذرا بعد میں فریم کروں گی۔ اس وقت شعر کے پورے معنی بتا دیں۔‘‘

ہم نے رضیہ کا طنز برداشت کرتے ہوئے کہا ’’ مطلب صاف ہے۔ غالب کہتا ہے۔ قسمت میں محبوبہ سے وصال لکھا ہی نہ تھا۔ چنانچہ اب موت قریب ہے، مگر جیتا بھی رہتا تو وصال کے انتظار میں عمر کٹ جاتی۔‘‘

’’ توبہ اللہ، اِتنا lack of confidence، یہ غالب اتنے ہی گئے گزرے تھے ؟‘‘

’’ گئے گزرے۔ ۔ ۔ ؟ نہیں تو۔ غالب ایک عظیم شاعر تھے۔‘‘

’’ شاعر تو جیسے تھے، سو تھے، لیکن محبت کے معاملے میں گھسیارے ہی نکلے۔‘‘

’’ لاحول ولا قو۔ آپ غالب کو گھسیارہ کہتی ہیں ؟ وہ نجم الدولہ تھے۔‘‘

’’ شاہ دولہ ہوں گے۔ بے چارے عمر بھر وصال کو ترستے رہے۔‘‘

’’ محترمہ شاعری میں تو فرضی باتیں ہوتی ہیں۔ غالب نے شعر لکھا ہے عدالت میں حلفیہ بیان نہیں دیا۔‘‘

’’ وکیل صفائی صاحب۔ آپ ملزم سے بھی زیادہ چست نظر آتے ہیں۔ یہ فرمائیں، آپ کے نجم الدولہ صاحب کی شادی بھی ہوئی یا نہ ؟‘‘

’’ یقیناً ہوئی۔‘‘

’’ کسی بوڑھی کزن سے ہوئی ہو گی۔‘‘

’’ نواب زادی تھی اور بوڑھی بھی نہ تھی، مگر خود لونڈے ہی تھے۔‘‘

’’ میں نہ کہتی تھی کہ کچھ mal-adjustment ضرور تھی۔‘‘

’’ لیکن محترمہ آپ کا پرچہ غالب کی شادی پر نہیں، غالب کی شاعری پر ہو گا۔‘‘

’’ شاعر کو شاعری سے جدا نہیں کیا جا سکتا۔‘‘

’’ لیکن اگر آپ نے امتحان سے پہلے دیوان ختم کرنا ہے تو جدا کرنا پڑے گا۔‘‘

’’ مجھے امتحان کی فکر نہیں۔ پہلے غالب کا فیصلہ ہونا چاہیے۔‘‘

’’ بہت اچھا، تو فرمائیں، غالب نے کیا قصور کیا ہے ؟‘‘

’’ غالب نے محبت میں مار کھا کر بے معنی شعر لکھے ہیں اور لوگوں کو الو بنایا ہے۔‘‘

’’ محترمہ، الو بڑا غیر پارلیمانی پرندہ ہے اور غالب کے چاہنے والوں میں تو اچھے اچھے لوگ ہیں۔ مثلاً۔ ۔ ۔‘‘

’’ آپ اچھے لوگوں کی فکر نہ کریں۔ ویسے میں نے آپ کو ان پرندوں میں شامل نہیں کیا۔ )چھوٹے سر وار چھوٹے قد کی فاتر العقل مخلوق جسے ایک بزرگ کی نسبت سے شاہ دولہ یا شاہ دولہ کے چوہے کہتے ہیں‘‘

’’ مجھ پر یہ نظر عنایت کیوں ؟ میں بھی تو غالب پرست ہوں۔‘‘

’’ آپ کی جگہ اصلی ٹیوٹر نے لے رکھی ہے۔‘‘

’’ تو آپ مولوی عبدالرحمن کو الو سمجھتی ہیں ؟‘‘

’’ غالباً ان کا اپنا یہی خیال ہے‘‘

’’ محترمہ ٹیوٹر اور الو؟‘‘

’’ جی ہاں، وہ تہہ دل سے چغد ہیں۔‘‘

’’ اور ہم؟‘‘

’’ آپ کی بات اور ہے۔‘‘

’’ ہماری کیا بات ہے۔‘‘

’’ بس آپ چغد نہیں۔‘‘

’’ بڑی رعایت کی آپ نے ہم پر۔‘‘

’’ تو آپ شاہین بننا چاہتے ہیں کیا؟‘‘

’’ ہم ہیں ہی شاہین!‘‘

’’ تو پھر بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں۔‘‘

’’ اور اگر یہاں آنا چاہیں تو؟‘‘

’’ تو براہ مہربانی یہ خوبصورت اچکن بدل کر آئیں۔‘‘

ساتھ ہی رضیہ نے ہماری ٹوپی سے لے کر اچکن کے نچلے سرے تک دیکھا اور بے اختیار ہنس دی۔ اتنے میں ساتھ کے کمرے سے بیرسٹر صاحب کی آواز آئی ’’ بیٹا رضیہ، آپ کی پڑھائی کا وقت ختم ہوا۔ اب آ چلیں باہر۔‘‘

رضیہ نے کتاب بند کر دی اور بولی ’’ تو عارضی ٹیوٹر صاحب، خدا حافظ۔‘‘

’’ گویا آپ کا مطلب ہے کل نہ آؤں ؟‘‘

’’ اتنے عارضی بھی نہ بنیں۔ کل آئیے۔ پرسوں آئیے اور آتے رہئے۔‘‘

’’ پرسوں تو مولوی صاحب آ جائیں گے۔‘‘

’’ اللہ تعالیٰ اُن کی والدہ کو دو دن ٹھہر کر شفا دے دے گا۔‘‘

اتنے میں بیرسٹر صاحب کی آواز کی بجائے ان کا چہرہ نمودار ہوا اور میں نے آہستہ سے خدا حافظ کہہ کر رخصت لی۔

ہم دوسرے روز کپڑے بدل کر پڑھانے گئے۔ سبق تو دوسرے شعر سے بہت آگے نہ بڑھا لیکن باہمی مفاہمت میں خاصی پیش رفت ہوئی۔ تیسرے روز مولوی صاحب آ گئے اور ہمیں دوستوں نے آ گھیرا کہ دو روزہ ٹیوشن کی روداد سنا۔ ہم نے روداد سنائی تو دوست ہماری خوبی قسمت پر خوشی سے جھوم اٹھے۔ ہم کہانی سنا چکے تو ہماری کلاس کے ذہین مسخرے، لطیف نے باقی لڑکوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ’’دوستوں خاموشی اور ذرا توجہ سے سنئے۔‘‘

ساری کلاس خاموش ہو گئی تو لطیف نے بولنا جاری رکھا ’’ میرا ستاروں کا علم کہتا ہے کہ اگلے سال ہمارے اِس خوش نصیب ہم جماعت کی شادی ہو جائے گی۔ ذرا بتاؤ تو سہی اس کی دلہن کا کیا نام ہو گا؟‘‘

ساری جماعت نے یک زبان ہو کر کہا ’’ رضیہ!‘‘

اس پر بے پناہ تالیاں بجیں۔ لڑکوں نے مجھے کندھوں پر اٹھایا اور خوب اودھم مچایا۔

قارئین، کیا آپ کو بھی میرے ہم جماعتوں سے اتفاق ہے ؟ سنئے اگلے سال رضیہ سچ مچ، دلہن تو بنی لیکن ہماری نہیں، مولوی عبدالرحمن کی! حادثہ یہ ہوا کہ ٹیوشن کے بعد مولوی عبدالرحمن اور ہم سی ایس پی کے مقابلے کے امتحان میں شریک ہوئے اور مولوی صاحب ہمیں یہاں بھی دو سو نمبر میں پیچھے چھوڑ گئے۔ اس کامیابی کے بعد ان کے لیے رضیہ سے شادی میں ایک ہی رکاوٹ تھی اور مولانا نے یہ رکاوٹ برضا و رغبت نائی کے ہاتھوں دور کرا دی۔ برضا و رغبت اس لیے کہ بقول مولوی صاحب، ایک دن انھوں نے کانی آنکھ سے رضیہ کو دیکھ لیا تھا اور پھر دل میں عہد کر لیا تھا کہ داڑھی کیا چیز ہے یہ لوح و قلم تیرے ہیں۔ اِدھر بیرسٹر صاحب تو مولوی عبدالرّحمٰن کے نام کے ساتھ ایس پی دیکھ کر داڑھی کی قربانی پر مصر نہ تھے۔ رہے ہم تو جونہی مولوی صاحب اپنی دلہن کو لے کر ہنی مون پر روانہ ہوئے، ہم دیوان غالب کھول کر ایک لاجواب غزل الاپنے لگے۔

یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصال یار ہوتا

٭٭٭

 

 

 

 

قندِ شیریں

 

 

سیاستدانوں کی ورائٹی

 

                شوکت علی مظفر

 

اِنسان کہلانے کے لیے امریکی ہونا شرط ہے جبکہ سیاستدان ہونے کے لیے پاکستانی ہونا۔ انسانوں اور سیاستدانوں میں وہی فرق ہے جو صابن اور جھاگ میں ہوتا ہے۔ صابن سے جھاگ بنایا جا سکتا لیکن جھاگ سے صابن نہیں بنایا جا سکتا اور یہی کچھ سیاستدان کرتے ہیں، وہ عوام کو انسانی حقوق فراہم کرنے کے دعوے کرتے ہیں، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ دعویٰ کوئی قرآن و حدیث نہیں ہوتا۔

اس دنیا میں جتنے مسائل ہیں اتنے ہی سیاستدان ہیں اور سب بڑا مسئلہ عوام خود ہیں۔ ہر بندہ اپنے اندر سیاسی صلاحیتیں پیدائش کے ساتھ ہی لے کر دنیا میں نمودار ہوتا ہے۔ آتے ہی رونا شروع کر دیتا ہے کہ اسے ’’روٹی، کپڑا اَور مکان‘‘ چاہئے۔ جیسے ہی ننھا سیاستدان جھولے میں لیٹتا ہے، ہاتھ میں فیڈر پکڑ کر پیتا بعد میں، ہنستا پہلے ہے کہ کیسا رو رو کر سب کو بے وقوف بنا لیا۔ جوں جوں بچہ بڑا ہوتا ہے سیاست کے جراثیم بھی بڑھ جاتے ہیں، اسکول اس شرط پر جاتا ہے کہ اسے نیا یونیفارم ملے نہ ملے لنچ باکس اور خرچی ضرور ملنی چاہئے۔ کالج میں سیاست کے انداز نرالے ہو جاتے ہیں، لنچ باکس اور خرچی سے زیادہ اس بات کی فکر ہوتی ہے کہ مخالف جنس کا ’’ووٹ‘‘ اپنی طرف کیسے مائل کیا جائے۔ یہاں ووٹ کی اصطلاح عموماً دل اور پیار استعمال کی جاتی ہے۔

اصل سیاست شادی کے بعد شروع ہوتی ہے جب ایک بہو کو ساس کے وَار سے بچنے کے لیے سیاسی چالیں چلنا ہوتی ہیں، جبکہ ساس اپنے ’’باغی بچے‘‘ کا ووٹ اپنے حق میں کرنے کے لیے بہو رانی کے مختلف کارناموں کی تختیاں دکھاتی رہتی ہیں۔ جبکہ اصل سیاسی امیدوار شوہر ہوتا ہے جو بیک وقت دو مختلف پارٹیوں کو بے وقوف بنانے کے ساتھ ساتھ بچہ لوٹا قسم کے سیاسی جھمیلوں سے بھی نبرد آزما رہتا ہے۔ بہر حال آج ہم نے سیاست کے لنڈا بازار سے سیاستدانوں کی مختلف اقسام چھانٹی کرنے کی کوشش کی ہے، کسی سیاستدان کی نشانی کسی سے بھی اتفاقیہ مل جانا اس کی اپنی ذمہ داری ہے۔

 

عوامی سیاستدان

یہ سیاستدان ہمیشہ عوام کے حق میں بات کرتے ہیں اور موقع ملتے ہی عوام سے آنکھیں پھیر لیتے ہیں۔ جب تک اقتدار میں رہیں عوامی مفادات کو مد نظر رکھتے ہوئے کوئی بھی کام ایسا نہیں کریں گے جس سے ان کی اپنی ذات کو فائدہ نہ ہو۔ عوامی سیاستدان خود کو بھی ایک عام فرد کے درجے پر سمجھتے ہوئے پہلے اپنے گھر سے خیرات بانٹنا شروع کرتا ہے اور جب اپنے رشتہ داروں کی تمام فرمائشیں اور ضرورتیں پوری ہو جاتی ہیں تو پھر عوام کی طرف دیکھ کر دوبارہ نئے جذبے سے اپنے رشتہ داروں کے مسائل حل کرنے میں جت جاتا ہے۔ ایسے سیاستدان ہمیشہ اپنا بیان، حلقہ اور پارٹی بدلنے میں دیر نہیں لگاتے۔

 

ہر فن مولا سیاستدان

اس قسم کے سیاستدان عوام کے مسائل حل کرنے میں سب سے آگے آگے ہوتے ہیں لیکن جوں ہی مسئلہ حل ہوتا نظر آ جائے یہ سب سے پیچھے دکھائی دیں گے اور مسئلہ حل کرنے والوں کی ٹانگیں کھینچا شروع کر دیں گے۔ ٹانگیں کھینچنے میں ناکامی ہو تو مسئلے کو کھینچ کر بڑا کر دیں گے۔ ان کا خیال ہوتا ہے کہ مسائل حل ہونے کے لیے نہیں ہوتے، کیش کر نے کے لیے ہوتے ہیں۔

 

جلالی سیاستدان

یہ سیاستدان مائیک سامنے دیکھتے ہی جلال میں آ جاتے ہیں۔ عوام کو رعب میں لینے کے لیے مائیک پر ہاتھ مار کر انہیں گرانے کی اس طرح کوشش کرتے ہیں جس طرح پہلوان مخالف پہلوان کو ٹنگڑی ڈال کر گراتا ہے۔ بعد میں مائیک ٹوٹنے کا خرچہ بھرتے ہوئے ان کے آنسو نکل آتے ہیں جنہیں ان کے رفقائے کار عوام کی بدحالی دیکھ کر غمزدہ ہونا بتاتے ہیں جب کہ مخالفین مگرمچھ کے آنسو قرار دیتے ہیں۔

 

نامعلوم سیاستدان

یہ سیاستدان اکثر نامعلوم حرکتیں رہتے ہیں جو آئے روز میڈیا کی زینت بنی رہتی ہیں۔ یہ جادوگر قسم کے سیاستدان ہوتے ہیں، سب کے سامنے ہوتے ہوئے بھی کسی کو نظر نہیں آتے۔ زیادہ تر ٹیلی سیاست سے کام چلاتے ہیں، دوسرے سیاستدانوں کے اشارہ آبرو پر ان کے حامی کچھ بھی کر سکتے ہیں تو نامعلوم سیاستدانوں کو تو اشاروں کی بھی ضرورت نہیں پڑتی، ان کے سانسوں کے اتار چڑھاؤ سے ماحول بنتا اور بگڑتا ہے۔ آج کل سیاست میں اِن کا ہی بول بالا ہے کیونکہ بول بچن ہی ان کی پہچان ہوتی ہے۔

 

لیچڑ سیاستدان

اس طرح کے سیاستدان عموماً بڑے عہدوں پر پائے جاتے ہیں اور کرسیوں پر چپک کر بیٹھ جاتے ہیں۔ انہیں کاموں سے چڑ اور فنڈ سے محبت ہوتی ہے۔ کرسی چھن جائے تو روتے بعد میں ہیں پہلے سرکاری سامان ٹرک میں لوڈ کر محفوظ مقام پر منتقل کرواتے ہیں۔ اتنا موت سے نہیں ڈرتے جتنا کرسی چھن جانے سے ڈرتے ہیں۔ کرسی چھن جائے تو دوستوں کو دشمن اور دشمنوں کو دوست بنا لیتے ہیں۔

 

معصوم سیاستدان

ایسے سیاستدان، سیاست کو عبادت کا درجہ دیتے ہیں۔ جو وعدہ کرتے ہیں پورا کرتے ہیں لیکن عقل مند اتنے ہوتے ہیں کہ کوئی وعدہ نہیں کرتے۔ مسائل کو چٹکیوں میں حل کر دیتے ہیں لیکن پہلے عوام کو یہ ثابت کرنا بڑا مشکل ہوتا ہے کہ مسئلہ اصل میں ہے کیا؟ عوام کے غم میں ہر وقت گھلتے رہتے ہیں۔ غریب عوام کو پریشانی میں نہیں دیکھ سکتے، اسی لیے زیادہ تر دوروں پر رہتے ہیں۔ جب حالات اور ماحول ساز گار ہو تو ملک کا دورہ بھی کر لیتے ہیں۔ یہ اتنے معصوم ہوتے ہیں کہ روزانہ کی بنیاد پر کرپشن ہو جائے تب بھی اسے غلطی سمجھتے رہتے ہیں، ایسی غلطیاں دہرانا بھی ان کے نزدیک بھولپن قرار پاتا ہے۔

 

شی میل سیاستدان

ایسے سیاستدان باتیں مردوں جیسی کرتے ہیں لیکن عملی طور پر عورتوں سے بھی گئے گزرے ہوتے ہیں۔ سیاست میں لین دین کو برا سمجھتے ہیں اس لیے بیان دینے سے بھی گریز کرتے ہیں۔ ساری زندگی شادی نہیں کرتے لیکن شادی کا نام سن کر ان کی شرماہٹ دیکھنے لائق ہوتی ہے، لیکن خود کسی لائق نہیں ہوتے۔ پروٹوکول انہیں سخت نا پسند ہوتا ہے، ہر معاملے کو تنہائی میں نمٹانے کے خواہش مند ہوتے ہیں اس لیے جو بھی معاملہ نمٹانے بیٹھیں بس بیٹھے ہی رہ جاتے ہیں۔ نیم حکیم خطرۂ جان ہوتے ہیں لیکن ایسے نیم سیاستدان خطرۂ جانشین ہوتے ہیں۔ ایسے سیاستدان کارنامہ انجام دینے کی بجائے نام کی تختی لگانے سے پرہیز کرتے ہیں کیونکہ جتنا پیسہ تختی پر آتا ہے، اس سے یہ اپنی جیب گرم کر لیتے ہیں۔

 

فی میل سیاستدان

جس طرح عورت کائنات کا رنگ ہے اسی طرح سیاست بھی عورت کے بغیر نامکمل ہے۔ فی میل سیاستدان معاشرتی مسائل سے زیادہ اپنے چہرے کے کیل مہاسوں کے لیے پریشان ہوتی ہے۔ سڑکوں کی تعمیر کا ٹھیکہ پاس کرنے سے پہلے یہ ضرور دیکھ لیتی ہیں کہ انہوں نے خود تو اس سڑک سے نہیں گزرنا، اگر گزرنا ہو تو پھر جمپ نہ رکھنے کی شرط لازمی رکھتی ہیں۔ فی میل سیاستدان اخبارات سے دور بھاگتی ہیں، کیونکہ اخبار والے ان کی بات پوری سنتے ہی نہیں، سنتے ہیں تو پوری چھاپتے نہیں۔ پھر بڑی وجہ یہ ہوتی ہے کہ ہر اخبار میں بہت سی سرخیاں ہوتی ہیں جبکہ انہیں ایک وقت میں صرف ایک ہی سرخی استعمال کرنے کا موقع ملتا ہے۔

 

ملنگ سیاستدان

جو زندگی سے تنگ ہو جاتا ہے وہ ملنگ ہو جاتا ہے اور سیاست کے دربار میں بھی بہت سے ملنگ سیاست دانوں نے ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں۔ ایسے سیاستدان قوم کی تقدیر دعاؤں سے بدلنے کا ارادہ رکھتے ہیں، دعا اس لیے نہیں کرتے کہ کہیں قبول ہی نہ ہو جائے۔ انہیں کرسی مل جائے تو اسے بھی گدی سمجھتے ہیں، یعنی اس پر بھی اپنی اولاد کا حق سمجھتے ہیں۔ انہیں سیاست کی خدمت کرنے کا کہا جائے تو سیاست سے کنارہ کشی اختیار کر لیتے ہیں۔

 

رنگیلے سیاستدان

یہ سیاستدانوں کی وہ قسم ہے جو سب سے زیادہ پائی جاتی ہے۔ ان کی ٹانگیں قبر میں بھی ہوں تو بھی آنکھیں وینا کی خبر پر ہوں گی۔ سیاست میں آنے سے پہلے یہ بسوں میں سفر سفر کر کے نوکریاں ڈھونڈنے کے عادی ہوتے ہیں اس لیے سیاست میں آ کر جہاز میں اگلی سیٹوں پر یہ سوچ کر بیٹھتے ہیں کہ یہ لیڈیز کی جگہ ہے۔ فیملی سیاست سے اس لیے الرجک ہیں کہ اس میں فی میل اپنے گھر کی ہوتی ہیں۔ خواتین امیدواروں کو ٹکٹ دینے کی خاطر اپنی ذاتی پارٹی بنا لیتے ہیں۔ اکثر ان کا انجام بہت برا ہوتا ہے، اتنا برا کہ کسی سیاستدان خاتون سے ہی ان کی شادی ہو جاتی ہے اور بالآخر دونوں کا سیاسی کیریئر ختم ہو جاتا ہے۔

٭٭٭

 

 

 

چوزہ بھی ایک کردار ہے

 

                خانزادہ خان

 

فارسی زبان کی کہاوت ہے  ’’ کار نہ دارد بز بخر‘‘ کہ ’’ اگر تمہیں کو ئی کام نہ ہو تو بکری پالو‘‘ بکریاں پالنے والوں کا کہنا ہے کہ بزدار کو عید کے دن بھی چھُٹی نہیں ملتی۔ صحرائی لوگوں کا کہنا ہے : ’’ جو لوگ گھوڑے پالتے ہیں اُن میں تکبّر آ جاتا ہے، جو اونٹ پالتے ہیں اُن میں بُردباری اور استقامت پیدا ہوتی ہے جبکہ بکریاں پالنے والوں میں حوصلہ اور توازن جیسی صفات پیدا ہوتی ہیں‘‘۔

اگر آپ کو کبھی گھوڑا، اونٹ یا بکری پالنے کی بجائے کوئی چُوزہ پالنا پڑ جائے تو آپ ایک نئے تجربے سے گزریں گے، جو کہ زندگی کو قریب سے دیکھنے کا تجربہ ہو گا۔ چند روز پہلے کی بات ہے، ہُوا یوں کہ گلی میں چوں چوں کی آواز اُبھرتی چلی گئی۔ چند لمحے بعد ایک گھبرایا ہوا اور بے چین سا چوزہ گیٹ کے نیچے سے گزر کر ہمارے آنگن میں وارد ہوا۔ میرے چھوٹے بچوں جویریہ، وقار اور زہرہ نے اِس چوزے کا جو خیر مقدم کیا وہ بچوں کے ہاتھ سے ہی لکھا جا سکتا ہے۔

گلی میں وائی فائی کی طرح گھومتی اور جھومتی بلیوں سے معلوم نہیں یہ کیسے بچ نکلا، حالانکہ یہ چوں چوں کے الارم بجا کر بلیوں کو دعوتِ نوالہ بھی دے رہا تھا اور اُس کے پروں پر لگا ہوا شیشی رنگ بھی بتی کی طرح لشکارے مار رہا تھا۔ بہر حال ممتا سے محروم یہ فارمی چوزہ بچوں کے ہاتھوں میں پہنچ کر کسی حد تک سکون پانے لگا۔ یہ معلوم کرنے سے پہلے کہ یہ چوزہ اڑوس پڑوس کے کِس گھر سے آیا ہے ؟بچوں نے گھر میں موجود چاول، دال، روٹی کے ٹکڑے، تل اور ایک بڑی ٹرے میں پانی لا کر اِس کے آگے لا کر رکھ دیا۔ چوزے نے اِن تمام چیزوں کو سیر چشمی سے دیکھا۔ دال، چاول پر زیادہ چونچیں نہیں ماریں، تھوڑے سے تِل چگنے کے بعد ایک مکھی پر کامیاب وار کیا جس پر بچوں نے تالیاں بجا کر اِسے بھرپور داد دی۔ بچوں کا خیال تھا کہ یہ چو مکھی جنگ جاری رہے گی لیکن چوزے نے صرف مکھیوں پریہی واضح کرنا تھا کہ دخل در ’’ماکولات‘‘ قبول نہیں۔

اڑوس پڑوس سے معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ یہ چوزہ اِس محلے کے کسی گھر کا نہیں ہے تو بچوں کو قدرے سکون ہوا۔ بچوں نے اِس کے لیے ایک ڈربہ بنانے کے مختلف منصوبے پاس کیے۔ سب سے آسان اور وقتی حل یہ نکالا کہ قریبی دُکاندار سے ایک خالی ڈبہ لایا جائے۔ بچے چونکہ قریبی دُکانداروں سے چپس اور ملائیاں کھاتے رہتے ہیں اِس لیے دُکاندار اُن کی بڑی عزت کرتے ہیں، یوں ایک اچھی کوالٹی کا ڈبہ انہیں مفت میں مِل گیا۔

کہا جاتا ہے مشہور سائنسدان نیوٹن کو اصیل مرغے پالنے کا شوق تھا۔ ایک دفعہ اُس نے بھی مرغوں کے ایک جوڑے کے لیے ڈربہ بنانا چاہا تھا کیونکہ نیوٹن کے زمانے میں پاپڑ، ملائیاں اور گتے کے ڈبے نہیں ہوا کرتے تھے، اِس لیے نیوٹن کُچھ لکڑیاں اور تختے لے کر ایک بڑھئی کے پاس گیا اور اُسے کہا کہ میری مُرغی اور مرغے کے لیے ایک ایسا ڈربہ بناؤجس کے دو دروازے ہوں ایک مرغی کے لیے اور دوسرا مرغے کے لیے اور ہاں دیکھنا جو دروازہ مرغے کے لیے بناؤ گے وہ ذرا بڑا ہو کیونکہ مرغا جسامت میں کُچھ زیادہ ہے۔ تین چار دن بعد نیوٹن جب ڈربہ لینے گیا تو وہ یہ دیکھ کر پریشان سا ہو گیا کہ ترکھان نے ڈربے کا صرف ایک ہی دروازہ بنایا ہے۔ اُس نے ترکھان سے شکوہ کیا کہ تُو نے مرغی کے لیے دروازہ کیوں نہیں بنایا۔ ترکھان نے نیوٹن کو سمجھایا کہ جو دروازہ مرغے کے لیے بنا ہے وہی مرغی کے بھی کام آئے گا، تو نیوٹن کو شرمندگی ہوئی۔ معلوم نہیں وہ ڈربے کا آرڈر دیتے وقت کون سی چوتھی مساوات سوچ رہا تھا؟ سچ ہے کہ اکثر بڑے لوگ غبی ہوا کرتے ہیں۔

ہمارا چوزا دو ہفتے تک تو ہر قسم کی زمینی آفتوں (بلیوں )سے تو بچا  رہا لیکن فارسی کے مشہور شاعر انوری کی طرح آسمانی آفتوں کی زد میں آ گیا۔ ہوا یوں کہ دو کووّں کی نظرِ بدّ اس پر پڑ گئی۔ براہ راست حملہ کرنے سے پہلے انہوں نے ٹی وی انٹینا کو بطور مستقر استعمال کیا جیسے انگریزوں نے ہندوستان پر پنجہ مارنے سے پہلے کلکتہ میں ٹھیکی لی تھی۔ یہ انٹینا تو اپنی گردن اُٹھا کر رکھے ہوئے تھا اور کلکتہ کی طرح اِسے اپنے اگلے جنم میں کولکُتا بننا گورا نہ تھا، چین کے طوطے کی طرح سیدھا زمین پر بے سدھ گر گیا، میں باہر دوڑا، اِس دوران کووں نے چوزے کو دبوچا ہی تھا کہ میں اِسے زخمی حالت میں چھُڑانے میں کامیاب ہو گیا۔ گردن اور پروں کے بیچ گہری چونچ لگنے سے یہ جہاں زخمی ہوا وہیں اب گردن کو سیدھی نہیں رکھ سکتا۔ اس کی چوں چوں میں جو ٹھہراؤ آ چُکا تھا اب اُس میں کسی انجانے واہمے نے خوف سا شامل کر دیا ہے گویا اِس چوزے نے اِس دنیا کو جیسا سوچا سمجھا تھا یہ ویسی نہیں ہے اور جیسے اُس پر یہ بھی کھُلا ہو کہ آفتیں زمینی ہی نہیں آسمانی بھی ہوا کرتی ہیں۔

میری بیٹی زہرہ جو ابھی سکول نہیں جاتی، اُس کا خیال ہے کہ اگر ہمارے پاس ٹوٹی(اسٹیتھو سکوپ) ہو تو ہم اس کا علاج کر سکتے ہیں۔ جبکہ وقار اور جویریہ جو پہلی اور تیسری میں پڑھتے ہیں اُن کا خیال ہے کہ اِس کے علاج میں ہمیں دیر نہیں لگانی چاہیے۔ بچے مختلف ڈاکٹروں پر غور کر رہے ہیں۔ ایک مشہور لیڈی ڈاکٹر کے متعلق اُن کا خیال ہے کہ اگر اُس کے پاس لے جائیں تو وہ اتنی زیادہ دوائیاں دے گی کہ کئی ہفتوں تک اِس کو دانے دُنکے کی بھی ضرورت نہیں رہے گی۔ بچوں نے ایک اور ڈاکٹر کے متعلق بھی معلومات حاصل کر رکھی ہے کہ جس نے حال ہی میں کلینک کھولا ہے اُن کا خیال ہے کہ یہ نیا ڈاکٹر بہت ہی کم دوائیاں لکھ کر دیتا ہے۔

جب سے چوزہ زخمی ہوا ہے بچوں نے اِسے گھر کی چیزیں کھلانے کی بجائے با زار سے چوگ، باجرہ لا کر کھلانا شروع کر دیا ہے۔ بچے مجھ سے پوچھتے ہیں کہ یہ چوزہ بڑا ہو کر کیا بنے گا؟ میں نے بچوں سے کہا کہ پاکستان میں تو ہر چوزہ بڑا ہو کر ڈاکٹر یا انجنیئر بننا پسندکرتا ہے یہ تو اسی کو پتہ ہو گا!۔ بچے کہتے ہیں ہمارا مطلب ہے کہ یہ مرغی بنے گا یا مرغا؟۔ ۔ میں بچوں کو سمجھاتا ہوں کہ دیکھئے ! اگر اِس نے گھریلو اور سادہ خوراک کھائی تو پھر یہ مرغی یا مرغا بن پائے گا اگر فارمی اور بازاری چیزیں ہی کھاتا رہا تو پھر نہ مرغا بنے گا نہ مُرغی بلکہ چوزے کا چوزہ ہی رہ جائے گا۔ بچوں نے کہا ہمیں اسے بلی اور کوؤں سے بھی بچانا ہو گا۔ بلی سے بچانے کے لیے بچے گلی کا دروازہ تو پہلے دِن سے ہی بند رکھتے تھے اب وہ کوؤں پر بھی نظر رکھنے لگے ہیں۔ مجھ پر پہلی دفعہ واضح ہوا کہ سیکوریٹی ایک احساس کا نام ہے اور زندہ رہنے کے لیے یہ احساس اُتنا ہی ضروری ہو چُکا ہے جتنا کہ غذا، پانی اور آکسیجن ضروری ہے، زندگی تو بجائے خود اِس چوزے ہی کی طرح معصوم سی چیز ہے۔

چوزہ یہ بات جان چُکا ہے کہ یہ ننھے منے بچے اُس کے مونس اور ہمدرد ہیں اسی لیے وہ اُن کے ساتھ ساتھ چلتا ہے۔ بچے سیماب پا ہوتے ہیں لیکن وہ ہر لحظہ اِس بات کا خیال رکھتے ہیں کہ یہ پاؤں کے نیچے کُچلا نہ جائے، گویا اِس چوزے نے اُنہیں زمین پر دھیان سے چلنے کا گُر سکھا دیا ہے کہ ؎

یہ وہ مقام ہے میاں یاں ہر گھڑی دھیان رکھ

یوں لگتا ہے کہ زندگی کے متعلق انسان اور چوزہ ایک ہی جیسی تشکیک میں مبتلا ہیں۔ اُستاد دامن نے خوب ہی کہا تھا:

خون جگر دا تلّی تے رکھ کے دھرتی پو جدے پوجدے گزر چلے

ایتھے کیویں گزاریئے زندگی اے گَل سوچدے سوچدے گزر چلے

٭٭٭

 

 

 

 دُم سا نہیں دیکھا

 

                نادر خان سرِ گروہ

 

خیالِ خام۔ ۔ ۔ عام ہے کہ دُم میں کچھ نہیں ہوتا، یعنی دُم میں دَم نہیں ہوتا۔ پھر بھی ہر جانور کے ساتھ یہ دُم کی طرح لگی ہوتی ہے۔ دُم کا سِرا پکڑ کر جب ہم نے سوچنا شروع کیا تو لٹکتے، جھولتے اِس نتیجے پر پہنچے کہ دُم کے ہونے سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ جانور اَب یہاں آ کر ختم ہو چکا ہے۔ اِس کے علاوہ یہ جانوروں کی ستر پوشی اور مکھیاں اُڑانے کا کام بھی کرتی ہے۔ اور کبھی کوئی چشم بینا کسی جانور کی شناخت کے مسئلے میں اُلجھے تو یہ دُم ہی صحیح پہچان بتا نے میں اُس کی مدد کرتی ہے۔ لیکن کبھی وہ دَم سادھے گھوڑے کی پِچھاڑی سے اُسے پہچاننے کی غلطی کرے تو گھوڑا ہتھے سے اُکھڑ جاتا ہے اور بِلا سمجھے بوجھے عینی شاہد کا دَم اُکھاڑ دیتا ہے۔

دُم اور دَم، دیکھنے میں ایک جیسے، اگر فرق ہے بھی تو ہاتھی کی دُم برابر۔ دُم کی دال زیرِ پیش اور دَم کی دال زیرِ زبر ہوتی ہے۔ ویسے جب دُم کا ذکر آتا ہے تو کُتا پیش پیش ہوتا ہے اور اُس کی دُم زیرِ بحث ہوتی ہے (بحث اکثر ٹیڑھے موضوعات پر ہی ہوتی ہے، جس میں ایک دوسرے کو زیر کرنا پیش نظر ہوتا ہے )۔

بے چارے کتے کا دَم نکل جاتا ہے، مگر اُس کی ٹیڑھی دُم۔ ۔ ۔ مزید ٹیڑھی نہیں ہوتی۔ ہمیں تواِس کتے کے بچے کی ٹیڑھی دُم کا محاوروں اور ضرب الامثال میں استعمال کے علاوہ کوئی مصرف نظر نہیں آتا۔ ہمارے دوست پُر جوش پُوری یہ معلومات فراہم کرتے ہیں کہ وہ اِسی کو ہِلا کر اپنی وفاداری کا ثبوت دیتا ہے، اور جب مالکان اِس پر تکیہ کر کے سو تے ہیں تو یہ اُونگھتے سُونگھتے، نگہبانی کرتے ہوئے دُم ہِلا ہِلا کر اپنی خبر داری کا احساس دلاتا رہتا ہے۔ عافیت اِسی میں ہے کہ یہ ہِلتی رہے، ایسا نہ ہو کوئی دُم پر پاؤں رکھ دے۔ اِسی لیے کتا جب موت کی نیند سو رہا ہو تب بھی۔ ۔ ۔ ’’ حرکتِ کلب ‘ بند نہیں ہوتی۔‘‘

ایک جانور ٹیڑھا۔ ۔ ۔ جس کا سیدھا سیدھا رشتہ ہم انسانوں سے بتایا جاتا ہے۔ یہ اپنی دُم سے پورا پورا فائدہ اُٹھاتا ہے، جھٹکنے سے لے کر لٹکنے تک۔ اِس کی دُم اِس کا تیسرا ہاتھ ہوتا ہے یا تیسری ٹانگ ہوتی ہے، جسے یہ جا بہ جا اَڑاتا رہتا ہے۔ چوں کہ بندر ایک مصروف ترین جانور ہے، اِس کے پاس کرنے کو کچھ نہ ہو تب بھی یہ بہت کچھ کر رہا ہوتا ہے۔ فراغت میں بھی اِسے سَر کھجانے ’سے ‘ فُرصت نہیں ملتی۔ اپنا نہیں تو ساتھی بندر کا سَر کھجا کھجا کر اُس کے کان پر رینگنے کے لیے ایک بھی جُوں نہیں چھوڑتا۔ ایسے میں بند رکی دُم ایک اہم موقع پر اُس کا ساتھ دیتی ہے۔ دُم کا پھَندا درخت کی شاخ میں ڈال کر وہ دونوں ہاتھوں سے اپنی نقل اُتارنے والوں کی نقل اُتارتا ہے۔

کینگرو کی دُم اُتنی ہی لمبی ہوتی ہے جتنا لمبا کینگرو خود ہوتا ہے۔ یعنی اگر کہیں سے کینگرو نکل جائے اور اُس کی دُم رہ جائے تو ہم کہیں گے کہ آدھا کینگرو اَٹکا رہ گیا ہے۔ اَڑتالیس کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے جَست لگانے والایہ جانور اِسی مضبوط دُم سے اپنا توازن برقرار رکھتا ہے۔ اِس پر پُر جوش پُوری حیرت کا اظہار یوں کرتے ہیں، ’’واہ بھئی! کیا دَم دار دُم ہے !‘‘

چھپکلی کی دُم کٹنے کے بعد بھی کچھ دیر تک تڑپتی رہتی ہے۔ بندہ اِسے دیکھ کر دَم بخود رہ جاتا ہے۔ چھپکلی جب چاہے اپنی دُم کو اپنے جسم سے علیٰحدہ کر سکتی ہے، جب کہ چُوہے کی دُم چھپکلی کی دُم سے قدرے مضبوط ہوتی ہے۔ لیکن اگر ایک طرف سے آپ زور لگائیں اور دوسری طرف سے چُوہا، تو دُم اُکھڑ بھی سکتی ہے۔ ایک مرتبہ ہم نے چُوہے کا تعاقب کرتے ہوئے اُس کی دُم پر پاؤں رکھا۔ اُس نے تڑپ تڑپ کر زور لگایا اور وہیں۔ ۔ ۔ دُم توڑ کر نکل گیا۔

مچھلیاں اور دیگر آبی جاندار اپنی دُم کو تیراکی اور رُخ بدلنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ آبی جاندار سے یاد آیا کہ شکاریات کی کسی کتاب میں پڑھا تھا کہ برازیل میں دریائے امیزن کے کنارے رہنے والے مقامی باشندے، چھوٹے چھوٹے مگر مچھ زندہ پکڑ کر گھروں کے سامنے رسیوں سے باندھ دیتے ہیں اور حسب ضرورت تھوڑی تھوڑی دُم کاٹ کر کھاتے رہتے ہیں۔ اِس عمل کے دوران مگرمچھ زندہ رہتا ہے۔ جب پوری دُم ختم ہو جاتی ہے تو مگر مچھ کو مار کر بڑی دعوت کرتے ہیں۔ یعنی وہ لوگ مگر مچھ کو دُم سے قسطوں میں ذبح کرتے ہیں۔ ایک دَم سے ذبح نہیں کرتے۔

ہاتھی دوڑتے وقت یا کسی خطرے کی صورت میں اپنی چھوٹی سی دُم کو عَلم کی طرح اُٹھائے رکھتا ہے، تاکہ بے تحاشا دوڑنے میں کہیں اَٹک نہ جائے، لیکن اتنی چھوٹی دُم اُس کے شایانِ شان نہیں۔ اگر دُم بھی سونڈ کے برابر ہوتی تو اُس سے ایک وقت میں دو۔ ۔ ۔ دو شہتیر اُٹھوائے جا سکتے تھے، لیکن اگر غور کیا جائے تو اِس میں بھی خیر کا پہلو نکلتا ہے، کیوں کہ اِتنی چھوٹی ہونے کے با وجود بھی یہ اکثر اَٹکی رہ جاتی ہے۔

دنیا میں بہت سے کام ایسے ہوتے ہیں جن میں ہاتھی نکل جاتا ہے، مگر دُم اَٹکی رہ جاتی ہے اور اُسی دُم کے نکالنے میں انسان کا دَم نکل جاتا ہے۔ کبھی کبھی انسان کی پوری زندگی میں اُس کے مقصد کی صرف دُم ہی نکل پاتی ہے اور پورے کا پورا ہاتھی اَٹکا رہ جاتا ہے۔

٭٭٭

 

 

 

ڈاکٹر کی فیس

 

                ڈاکٹر مظہر عباس رضوی

 

انگریز سرمایہ داری نظام کا پروردہ ہے اور حقیقت میں ایلوپیتھک یا جدید طبی علاج بھی اس ہی کی دریافت ہے۔ لہذا ڈاکٹر کے ساتھ اس کی فیس کا تصور پہلے ہی دن سے وجود میں آ گیا جب کہ اس کے برعکس حکمت کا شعبہ اس کاروباری انداز سے دور رہا ( البتہ آج کل کے دور میں یہ بھی اس کاروباری نظام میں اتنا ہی آلودہ ہے ) لہذا سو سال قبل کے اکبر الہ آبادی ہوں یا پچاس سال پہلے کے اختر شیرانی یا ظریف جبلپوری یا عہدِ حاضر کے سرفراز شاہد، انعام الحق جاوید، ، اسد جعفری، امیر الاسلام ہاشمی خاور نقوی یا فاخرہ بتول سب کے کلام میں ڈاکٹر کی فیس کی چبھن کی ایک جھلک ضرور نظر آتی ہے۔ انگریزی اقدار کا مضحکہ اڑانے میں اکبر الہ آبادی ہمیشہ پیش پیش رہے۔ ڈاکٹری یا جدید ایلوپیتھک طریقۂ علاج بھی انگریزوں کی ایجاد ہی سمجھا گیا لہذا اکبرؔ کا یہ شعر آج بھی حقیقت حال کا اتنا ہی غماز ہے جتنا کہ ایک صدی پہلے تھا :

اُن کو کیا کام ہے مروت سے

اپنے رخ سے یہ منہ نہ موڑیں گے

جان شاید فرشتے چھوڑ بھی دیں

ڈاکٹر فیس کو نہ چھوڑیں گے

اختر شیرانی اگرچہ شاعرِ رومان کے نام سے پہچانے جاتے ہیں لیکن انہوں نے ظریفانہ اشعار بھی کہے ہیں۔ فیس سے متعلق ان کا یہ شعر ملاحظہ کیجئے

فیس پہلے جب تلک رکھوا نہ لے

ڈاکٹر اپنے بھی گھر جاتا نہیں

اور اسی بات کو دورِ حاضر کے مزاحیہ شاعر سرفراز شاہد نے اپنے ایک شعر میں کچھ اس طرح سمویا ہے

دیتا نہیں ہے مفت کسی کو وہ مشورہ

محتاط ہو کے اس سے ذرا بات کیجئے

وہ ڈاکٹر تو گھر میں بھی کچھ گفتگو کے بعد

بیوی سے کہہ رہا ہے مری فیس دیجئے

ظریف جبلپوری ڈاکٹر کی فیس کو اس کی دوا سے یوں منسلک کرتے نظر آتے ہیں

ہماری مفلسی اور دل کی بیماری ارے توبہ

مسیحا کے مطب سے جو دوا آئی اُدھار آئی

مسٹر دہلوی قدیم و جدید ڈاکٹر حضرات کے درمیان موازنہ کرتے ہیں تو انہیں محسوس ہوتا ہے کہ

ڈاکٹر پہلے بھی تھے آج بھی ہیں

فرق لیکن ہوا ہے یہ فی الحال

اُن کا مقصود تھا مرض کا علاج

اِن کے پیشِ نظر مریض کا مال

امیر الاسلام ہاشمی کے ہاں ظرافت کے ساتھ ساتھ طنز کی تیز کاٹ بھی ملتی ہے۔ فیس کے ذیل میں اُن کے اشعار ان کی رائے سمجھنے میں بہت ممد و معاون ثابت ہوں گے

ہے اب بھی فرق اتنا ڈاکٹر میں اور قصائی میں

اگرچہ صرف کھالیں کھینچنا دونوں کا پیشہ ہے

قصائی پھر بھی بہتر ہے ذبح کرنے سے کچھ پہلے

کم از کم زور سے اللہ اکبر پڑھ تو لیتا ہے

اور

سرجن کی فیس دے کے کہا اِک مریض نے

توبہ ہے میری اور مرے ابا کے باپ کی

جو کچھ تھا میری جیب میں دس جیبیں کاٹ کر

وہ فیس اُس نے ایک ہی جھٹکے میں کاٹ لی

اور ذرا اُن کا یہ قطعہ تو ملاحظہ فرمائیں۔

پوچھا یہ اک طبیب نے اپنے مریض سے

میری دوا سے فائدہ کتنا ہے آپ کو

ہنس کے مریض بولا کہ بہتر تو ہوں مگر

اتنا نہیں ہے فائدہ جتنا ہے آپ کو

سرفرازشاہد ہمارے عہد کے وہ مزاحیہ شاعر ہیں جن کے ہاں جدید دور کی سائینٹفک اصطلاحات بہت زیادہ دکھائی دیتی ہیں۔ سائینس کے ساتھ ساتھ مثبت تہذیبی اقدار کا فروغ بھی ان کے اشعار کا موضوع رہا ہے۔ ڈاکٹر کی بے جا فیس پر اُن کے ہاں ہمیں کافی اشعار نظر آتے ہیں۔

تم چارہ گر سے بر سرِ پیکار کیوں ہوئے

پیسے نہیں تھے پاس تو بیمار کیوں ہوئے

خوب سوجھا ہے مسیحا کو گرانی کا علاج

فیس کر دی ہے ڈبل اُس نے مسیحائی کی

؎

اُن کو ہے بس فیس سے مطلب

چارہ گر بیمار کے خوش ہیں

؎

آیا کوئی مریض تو مرغا سمجھ لیا

چارہ گروں کے واسطے چارہ ہے آدمی

؎

سُنی جب فیس تو بیمار بولا

ضرورت اب نہیں مجھ کو دوا کی

؎

فقط ایک بِل ہی نہیں ڈاکٹر کا

دواؤں کی کچھ پرچیاں اور بھی ہیں

فیس ہی کے ضمن میں انعام الحق جاوید، اسد جعفری اور نیاز سواتی بالترتیب یوں رقم طراز ہوتے ہیں :

جھِلّا کے ڈاکٹر نے کہا اک مریض سے

کرتا ہے میرے کام کو دشوار کس لئے

پیسے نہ تھے علاج کے گر تیری جیب میں

پھر یہ بتا ہوا ہے تو بیمار کس لئے

(انعام الحق جاویدؔ)

جیب کو دیکھ کے ہوتا ہے مریضوں کا علاج

کتنا ناداں ہے اسد نبض دکھانے والا

( اسد جعفری)

نہ فیس جا کے کلینک میں تو اگر دے گا

کوئی بھی تجھ پہ توجہ نہ ڈاکٹر دے گا

(نیاز سواتی)

اندرونِ مُلک اور بیرونِ ملک ڈاکٹر کی فیس کا ایک ہی حال ہے۔ لہذا مریض یورپ میں بھی بیمار پڑ جائے تو اس کو بھی فیس کی چبھن ویسی ہی ہوتی ہے جیسے کہ اپنے دیس میں۔ اطہر رازؔ کے اس شعر میں اس کھلے راز کی طرف یوں نشاندہی کی گئی ہے

لندن میں بھی علاج کا ڈھانچا بدل گیا

اِک ڈاکٹر کے پاس مرا دوست کل گیا

دل کے مریض کو ملی اُمید سے نجات

بِل ڈاکٹر کا دیکھتے ہی دم نکل گیا

جدید ترین دور کے مزاح نگار بھی اس مضمون کو اپنی شاعری میں اس طرح سموتے ہوئے نظر آتے ہیں :

فیس معالج کی سن کر

کانپ اٹھا بے کس بیمار

ایک ہی نسخے نے اس کو

کر دیا فوراً ٹھنڈا ٹھار

(خاور نقوی)

اب معالج بھی جیب کو دیکھے

نبض کس کو بھلا دکھائیں ہم

برفباری میں کوئٹہ جا کر

گیلا کمبل کہاں سکھائیں ہم

( فاخرہ بتول)

٭٭٭

 

 

 

 

 

خواتین کی شاپنگ

 

حماد احمد

 

میرے پاس کپڑوں کے لا تعداد جوڑے موجود ہے۔ ڈھیروں جوتے شو ریک میں سجے ہوئے ہیں۔ ذاتی آرائش و زیبائش کا دیگر سامان بھی وافر مقدار میں میرے پاس موجود ہے۔ اس کے علاوہ بیڈ شیٹس، پردے، فرنیچر اور دیگر گھریلو سامان بھی اس قدر دستیاب ہے کہ سنبھالنے کے لئے عموماً جگہ بھی کم پڑ جاتی ہے‘‘۔

معلوم نہیں کہ یہ قولِ زریں کس کا ہے، مگر یہ میں گارنٹی سے کہہ سکتا ہوں کہ کم سے کم یہ گل پاشی کسی خاتون کے لبوں سے ہرگز نہیں ہوئی۔

کہتے ہیں کہ میاں بیوی گاڑی کے دو پہیے ہوتے ہیں۔ جب تک یہ دونوں پہیے ایک دوسرے کا خیال رکھتے ہوئے اپنی زندگی کی گاڑی کو آگے بڑھائیں، تب تک گھر کی گاڑی بھی توازن سے آگے بڑھتی چلی جاتی ہے۔ اس مجرّب نسخے پر عمل کرتے ہوئے اکثر گھروں کے سمجھدار میاں بیوی مل کر ’’ورک شاپ‘‘ چلاتے ہیں۔ ۔ ۔ ورک شاپ سے مراد یہ ہے کہ شوہر صاحب ’’ورک‘‘ کرتے ہیں، جہاں سے ملنے والی آمدن سے بعد ازاں اہلیہ محترمہ اپنی پسند کے مطابق ’’شاپ‘‘ کر لیتی ہیں۔ اس ’’ورک شاپ‘‘ کے عقل مند ’’ورکر‘‘ یعنی شوہر گھر کے اندر اپنی بیویوں کا ہاتھ ہمیشہ تھام کر رکھتے ہیں۔ یاد رہے کہ ایسا وہ محبت کی وجہ سے ہرگز نہیں کرتے بلکہ صرف اور صرف اس خدشے کی وجہ سے کرتے ہیں کہ اگر ’’کرماں والی‘‘ کا ہاتھ چھوڑ دیا تو وہ شاپنگ کے لئے نکل کھڑی ہو گی۔ بالکل اسی طرح شوہر حضرات اپنی بیویوں کو ڈیرپیسڈ(depressed) یا ٹینسڈ(tensed) ہونے سے بچانے کی بھی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔ در اصل وہ یہ بات بخوبی جاتے ہیں کہ پریشان حال خواتین زیادہ کھاتی اور زیادہ شاپنگ کرتی ہیں، اور دونوں صورتوں میں نقصان بہر حال مرد کا ہی ہوتا ہے۔

شاپنگ سے قبل خواتین ضروری اشیاء کی لسٹ ضرور بناتی ہیں۔ کبھی کبھار غلطی سے وہ یہ لسٹ اپنے ساتھ شاپنگ پر بھی لے جاتی ہیں، ورنہ عموماً اسے گھر میں ہی بھول جاتی ہیں۔ یوں انہیں مارکیٹ میں جا کر ضروری اشیاء خریدنے کی بجائے ’’مجبوراً‘‘ وہ چیزیں خریدنا پڑ جاتی ہیں، جو انہیں وہاں جا کر زیادہ پسند آ جائیں۔ آخر شاپنگ کے لئے جو پیسے لے کر گئی ہیں، وہ شاپنگ کی مد میں ہی خرچ بھی تو کرنے ہیں نا۔

جیسے ’’کڑی سے کڑی‘‘، ’’سلسلے سے سلسلہ‘‘ اور ’’ہاتھ سے ہاتھ‘‘ ملائے جاتے ہیں، بالکل اسی طرح خواتین شاپنگ کے دوران ’’چیزوں سے چیزیں‘‘ بھی بخوبی ملاتی ہیں۔ ایک خاتون شاپنگ کے بعد گھر واپس آئیں تو اپنے شوہر کو شاپنگ کی کارگزاری سناتے ہوئے بولیں ’’تم تو اچھی طرح جانتے ہو کہ میں محض اپنے لئے ایک اچھا سا سوٹ خریدنے مارکیٹ گئی تھی۔ لیکن وہاں ایک دکان پر مجھے ایک خوبصورت سا ہینڈ بیگ (پرس) نظر آ گیا، لہذا میں نے کافی سوچ و بچار کے بعد جوتوں کا یہ جوڑا خرید ہی لیا‘‘۔

جب خواتین شاپنگ میں مصروف ہوں تو اس دوران ان کے ’’ہنس بینڈ‘‘ حضرات کو سکون کے چند لمحات بھی میسر آ ہی جاتے ہیں۔ کچھ ڈیپارٹمنٹل سٹورز کے ایک کونے پر ’’مینز کارنر‘‘ بھی ہوتا ہے، جہاں مرد حضرات کو ’’کھڈے لائن‘‘ لگانے کے لئے ’’بینچ‘‘ رکھے گئے ہوتے ہیں۔ بیگمات کی شاپنگ کے دوران شوہر جیسی ’’مفلوک الحال قوم‘‘ وہاں بخوشی سر ٹکا کر سو جاتی ہے۔ ۔ ۔ اِس دوران جتنا بے فکری اور سکون سے وہاں شوہر سوتا نظر آتا ہے، اس کی مثال کہیں اور ملنا ممکن نہیں۔ ۔ اس بیچارے کو یقین ہوتا ہے کہ زوجۂ محترمہ اپنی مطلوبہ اشیاء کی شاپنگ پر کم سے کم دو سے تین گھنٹے تو ضرور صرف کرے گی۔ کیونکہ یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ پانی میں گئی ہوئی بھینسیں اور شاپنگ کی غرض سے دکان میں گئی ہوئی عورتیں کبھی بھی جلدی باہر نہیں آتیں۔

پیار و محبت سے خواتین کا اتنا گہرا رشتہ ہوتا ہے کہ ایک سائنٹیفک ریسرچ کے مطابق ہر عورت دن میں اوسطاً سات مرتبہ پیار کرتی ہے۔ جس میں سے چھ مرتبہ اس کا پیار شاپنگ کر کے لائی گئی اشیاء سے ہوتا ہے۔

ایک اور تحقیق سے یہ بات بھی ثابت ہوئی ہے کہ دنیا میں صرف اور صرف دو ہی ایسی چیزیں ہیں جو خواتین کا خراب موڈ بدل کر اچھا کر سکتی ہیں۔

پہلی چیز شوہر کے منہ سے نکلے ہوئے یہ الفاظ ہیں کہ ’’مجھے تم سے محبت ہے‘‘۔

دوسری چیز کسی بھی دکان پر لگے ہوئے ’’پچاس فیصد ڈسکاؤنٹ‘‘ کا بورڈ ہے۔

خواتین کسی بھی جگہ لگی ہوئی ’سیل‘ پر ضرور نظر رکھتی ہیں۔ مطلوبہ مقام پر جا کر اگر ان کا پسندیدہ لباس ’’سیل‘‘ پر نہ دستیاب ہو تو ان کی زبان پر حرف شکایت ضرور آ جاتا ہے۔ اسی طرح اگر مطلوبہ لباس ’’سیل‘‘ میں دستیاب تو ہو مگر ان کے مطلوبہ سائز میں نہ میسر ہو، پھر تو ان کا دل بھی خون کے آنسو رونے لگتا ہے۔

خواتین تو سیل کی اس قدر شیدائی ہوتی ہیں کہ اگر کسی پرس کے اوپر پانچ سو روپے قیمت لکھی ہو تو ممکن ہے کہ وہ اسے خریدنا فضول خرچی قرار دے دیں۔ لیکن اگر اسی پرس کے اوپر پہلے ایک ہزار روپے، اور پھر اسے کاٹ کر چھ سو روپے قیمت لکھی گئی ہو تو خواتین ’’چارسو روپے‘‘ یا ’’چالیس فیصد‘‘ کی ’’عظیم بچت‘‘ کی خاطر وہ پرس بخوشی خرید لیتی ہیں۔

اگر کوئی شادی شدہ جوڑا شاپنگ کے لئے نکلا ہوا ہو اور خاتونِ خانہ کسی بھی دکان کے باہر ’’سیل‘‘ کا بورڈ پڑھ لیں تو شوہر سے اجازت مانگے یا اسے اطلاع دئیے بغیر ہی دکان کے اندر گھستی چلی جاتی ہیں۔ در اصل ایسی خواتین کا یہ ماننا ہوتا ہے کہ پاکستانی روپیہ دن بدن اپنی قدر کھو رہا ہے، لہذا روپے کی قدر مزید کم ہونے سے پہلے پہلے اسے سیل پر لگی ہوئی چیز خرید کر محفوظ بنا لینا چاہئے۔

خواتین اگر ’’بچہ لیس‘‘ ہوں یا پھر اگر بچے ہوتے ہوئے بھی بچوں کے لئے کچھ خریدنے کا ارادہ نہ ہو، تب بھی کسی ’’چائلڈ گارمنٹس‘‘ پر لگی ہوئی سیل انہیں اپنی جانب ضرور متوجہ کر لیتی ہے۔ اگر انہیں سیل میں بچیوں کی کوئی فراک پسند آ جائے تو دکاندار سے کہتی ہیں کہ یہ والی فراک ’’ایک ننھی سی، پینتالیس سالہ بچی‘‘ کے سائز میں پیک کر دینا۔ ۔ ۔ سیانے کہتے ہیں کہ مرد نے کبھی کوئی کپڑا خریدنا ہو تو وہ یہ سوچتا ہے کہ کیا یہ کپڑا مجھے پورا آ جائے گا؟ لیکن اس کے برعکس خواتین کو جب کوئی کپڑا پسند آئے تو وہ یہ سوچتی ہیں کہ کیا میں اس کپڑے میں پورا آ جاؤں گی؟

خواتین کو سیل کا ایسا چسکا ہوتا ہے کہ بعض اوقات تو اُنہیں یہی علم نہیں ہوتا کہ وہ کیا چیز خرید رہی ہیں۔ ایسے میں گھر واپس آنے پر جب شوہر یہ پوچھتا ہے کہ یہ خریدی گئی چیز آخر کیا ہے اور کیوں خریدی گئی ہے تو جواب ملتا ہے ’’مجھے نہیں علم، یہ کیا ہے، مگر اتنا ضرور جانتی ہوں کہ اس پر میں نے ستر فیصد کا ’’گریٹ‘‘ ڈسکاؤنٹ حاصل کیا ہے‘‘۔

بات صرف سیل کی ہی نہیں ہے۔ جس جگہ سیل نہ بھی لگی ہو، وہاں بھی خواتین کا ’’ندیدہ پن‘‘ لا جواب ہوتا ہے۔ سیانے کہتے ہیں کہ مرد دکان پر صرف اور صرف وہ چیز لینے جاتے ہیں، جو انہیں درکار ہوتی ہے، لیکن اس کے برعکس خواتین یہ جاننے کے لئے ہی دکان پر جاتی ہیں کہ آخر انہیں کیا کیا چیز درکار ہے ؟‘‘۔

کیا آپ کو معلوم ہے کہ خواتین مردوں کی نسبت لمبی عمر کیسے پا لیتی ہیں ؟ در اصل شاپنگ کرنے سے کبھی بھی ہارٹ اٹیک نہیں ہوتا۔ لیکن شاپنگ کے پیسے ادا کرنے والے کو ہارٹ اٹیک ہونے کا چانس بہر حال موجود رہتا ہے۔ ۔ اور پیسے ادا کرنے کا فریضہ عموماً مرد حضرات ہی انجام دیتے ہیں۔

کچھ خواتین کپڑوں کی دکان پر جا کر انگلی کے اشاروں سے باری باری ’’وہ والا‘‘، ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ’’وہ والا‘‘، ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ’’وہ والا‘‘ کہہ کر دکان کے آدھے تھان کامیابی سے کھلوا لیتی ہیں۔ جب دکاندار ’’شڑڑڑڑڑر۔ ۔ ۔ ۔ ’’شڑڑڑ۔ ۔ ۔ ۔ شڑڑڑڑ‘‘ کر کے سارے تھان کھول دیتا ہے تب یہ محترمائیں بغیر کوئی سوٹ خریدے ہی دکان سے باہر نکل جاتی ہیں۔ در اصل ان کا دکان میں آنے کا واحد مقصد ہی کچھ دیر کے لئے مفت میں اے سی کی ٹھنڈک انجوائے کرنا ہوتا ہے۔

کپڑوں کی دکان پر تو اگر خواتین کو من پسند چیز مل بھی جائے تو بھی قیمت کے معاملے میں بحث و مباحثہ کر کے دکاندار کو اپنا سر پکڑنے پر مجبور کر دیتی ہیں۔ ۔ ایسی ہی ایک خاتون کو ایک دکان پر دوپٹہ پسند آ گیا۔ ۔ دکاندار نے خاتون کی فرمائش پر ایک ہزار روپے کے اس دوپٹے کی قیمت کم کر کے نو سو روپے کر دی مگر خاتون آٹھ سو روپے سے اوپر ایک دھیلا بھی دینے کو تیار نہ تھی۔ کچھ دیر تک بارگیننگ چلتی رہی، بعد ازاں دکاندار نے ہتھیار ڈال ہی دیئے اور دوپٹہ آٹھ سو روپے پر دینے کو تیار ہو گیا۔ ابھی وہ شاپنگ بیگ میں دوپٹہ ڈال ہی رہا تھا کہ خاتون بول پڑیں کہ، دیکھو اس کے کنارے پر جھری ہے، لہذا میں تو اس کے چھ سو روپے ہی دوں گی۔ دکاندار نے بہتیرا سمجھایا کہ یہ جھری دوپٹے کی مطلوبہ پیمائش کے بعد اور تھان کے آخری حصے میں ہے، لیکن خاتون نے ایک نہ مانی۔ اب کی بار بھی دکاندار نے اپنی شکست تسلیم کر لی اور چھ سو روپے میں راضی ہو کر وہ دوپٹہ خاتون کے حوالے کر دیا۔ خاتون نے پیسے ادا کرنے سے قبل دوپٹہ شاپنگ بیگ سے باہر نکالا اور ایک بار پھر اسے الٹ پلٹ کر دیکھنا شروع کر دیا۔ کافی دیر تک دوپٹے کا معائنہ کرنے کے بعد بولی: یہ دیکھو، اس پھول کی یہ والی پتی دوسری پتیوں کی نسبت زیادہ چھوٹی ہے لہٰذا مجھے یہ عیب دار دوپٹہ ہرگز نہیں چاہئے، لیکن پھر بھی میں تمہارا بھلا سوچتے ہوئے کہہ رہی ہوں کہ اگر تو تم نے اس دوپٹے کے چار سو روپے لینے ہیں تو ٹھیک ہے، ورنہ اسے اپنے پاس ہی رکھو۔ ۔ اب تک دکاندار بھی اس فضول اور بے تکی بحث سے عاجز آ چکا تھا، لہذا جھلا کر بولا کہ ’’ محترمہ آپ نے چار سو روپے بھی کیوں دینے ہیں، ایسا کریں کہ اسے مفت ہی لے جائیں‘‘۔ ۔ ۔ فوراً سے پیشتر خاتون کی آواز گونجی ’’یہ ہوئی نا بات۔ ۔ فوراً سے پیشتر ایسے تین دوپٹے پیک کر دو۔‘‘

آپ کو اپنی زندگی میں وقتاً فوقتاً کچھ لوگ ادبی انداز سے باتیں کرتے ضرور نظر آتے رہتے ہوں گے لیکن آپ خواتین کی عظمت کا اندازہ لگائیں کہ وہ بولنے کے علاوہ سوچتی بھی ادبی انداز سے ہیں اور تو اور شاپنگ بھی مفید سوچ اور عقلمندانہ الفاظ استعمال کر کے ہی کرتی ہیں۔ ایک خاتون اپنے شوہر سے کہنے لگی کہ: مجھے بلاوجہ شاپنگ کرنے اور پیسے خرچ کرنے سے شدید نفرت ہے۔ لیکن چونکہ پیسوں کے سرکولیشن سے ملکی معیشت مضبوط ہوتی ہے۔ لہذا اگر شاپنگ پر میرے پیسے خرچ کرنے کی وجہ سے قومی معیشت میں بہتری آ سکتی ہے تو ملکی محبت میں یہ سودا مہنگا ہرگز نہیں‘‘۔ ۔

اکثر میاں بیوی آپس میں ہنسی مذاق اور کھیل کود بھی کر تے رہتے ہیں۔ کرنا بھی چاہئے کیونکہ ایسا کرنا ازدواجی رشتے کو مزید مضبوط بھی بناتا ہے۔ لیکن جب خواتین اپنے شوہروں کے ساتھ کھیل کود یا ہنسی مزاح میں مصروف ہوں وہاں بھی ان کے عجیب و غریب ڈائیلاگز سننے کو ملتے ہیں۔

مثال کے طور پر وہ اپنے شوہر سے یہ کہتی ہیں، ’’چلو ایسا کرتے ہیں کہ میں چھپتی ہوں، اور پھر تم مجھے ڈھونڈنا۔ اگر تم نے مجھے ڈھونڈ لیا تو پھر ہم اکٹھے شاپنگ کرنے چلیں گے‘‘۔

یہ سن کر شوہر کی آنکھیں ابل کر باہر کو آ جاتی ہیں لیکن وہ ’’بچت کا راستہ‘‘ نکالنے کے لئے بیوی سے پوچھتا ہے : ’’اور اگر میں تمہیں نہ ڈھونڈ سکا تو پھر ہم کیا کریں گے ؟َ‘‘۔

بیوی جھٹ سے جواب دیتی ہے : ’’آپ ایسا ہرگز مت سوچیں پیارے سرتاج۔ میں آپ کو ہارتا ہوا کبھی بھی نہیں دیکھ سکتی۔ یاد رکھیں کہ میں سامنے والے ستون کے پیچھے ہی چھپوں گی۔ لہذا آپ آرام سے مجھے تلاش کر لینا‘‘۔

آج کل آن لائن شاپنگ کرنے کا بھی رواج چل رہا ہے۔ آن لائن شاپنگ کے دوران خواتین کی یہی کوشش رہتی ہے کہ کسی قسم کا خرچہ بھی نہ کرنا پڑے اور چند سیکنڈوں کے اندر ہی مطلوبہ چیز ان کے پاس بھی پہنچ جائے۔ ایسی ہی ایک خاتون کے متعلق سنا ہے کہ وہ گوگل پر

How to download imported lawn suit directly America to my wardrobe within second.

سرچ کر رہی تھیں۔

الغرض یہ کہ شاپنگ خواتین کی کمزوری ہے اور شاپنگ کا نام لے کر خواتین سے کوئی بھی کام لیا اور نکلوایا جا سکتا ہے۔ اب یہ مردوں پر منحصر ہے کہ وہ خواتین کی اس کمزوری سے فائدہ اٹھا کر اسے، کس طرح مفید بنا سکتے ہیں۔ ۔ ایک خاوند دفتر سے گھر واپس آیا تو دیکھا کہ بیگم صاحبہ فارغ بیٹھی ٹی وی دیکھ رہی ہیں اور انہوں نے کھانے کا بھی کوئی انتظام نہیں کیا۔ ۔ شوہر کو دیکھتے ہی بیگم نے جھٹ سے منہ کا عجیب و غریب ڈیزائن بنایا اور بہانہ مارتے ہوئے بولی :۔ ’’سنئے، آج مجھے اپنی طبیعت بالکل بھی ٹھیک نہیں لگ رہی‘‘۔ ۔

خاوند اسے تسلی دیتے ہوئے بولا : ’’اوہ، کوئی بات نہیں۔ ۔ اپنا خیال رکھو اور آرام کرو۔ ۔ ۔ ورنہ میں تو تمہیں آج شاپنگ پر لے جانے کا سوچ رہا تھا‘‘۔

شاپنگ کا سن کر بیوی کی رال ٹپکی اور وہ خود کو سنبھالتے ہوئے بولی ’’میں تو مذاق کر رہی تھی سرتاج۔ الحمد للہ میں بالکل ٹھیک ہوں‘‘۔

خاوند بھی سیانا تھا۔ ۔ جھٹ سے بولا ’’اچھا، تو میں بھی مذاق ہی کر رہا تھا ملکہ رانی۔ ۔ ۔ چل اٹھ۔ ۔ آٹا گوندھ اور روٹی پکا‘‘۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

اپنی تعزیت آپ

 

                مرزا یاسین بیگ

 

میری موت پر میرے صحافی دوستوں نے مقامی خبروں والے صفحے پر سیاہ حاشیہ میں دو کالمی خبر لگائی ’’دوسروں کی خبر لگانے والا آج خود خبر اور قبر بن گیا۔ ’’

ایک نے متن میں لکھا ’’مرحوم نے اپنے پیچھے صرف ایک بیوہ، دو خوش و خرم بچے، یا ہو کی دو، جی میل کی ایک اور ہوٹ میل کے تین اکاؤنٹس، ایک فیس بک اور ٹیوٹر اکاؤنٹ اور نیٹ پر اپنی لاتعداد ایسی تصاویر چھوڑیں جسے دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ وہ زندگی سے بیزار تھے۔‘‘

میرے اپنے اخبار نے لکھا ’’ آج ہم مرحوم کی آخری خواہش کے احترام میں ان کے انتقال کی خبر پانچ کالمی لیڈ کی شکل میں لگا رہے ہیں جو انھوں نے زندگی کے آخری ایام میں خود تیار کی تھی۔ مرحوم کو بہت شوق تھا کہ وہ کوئی ایسا کارنامہ کرتے کہ ان کا نام اخبارات کی سرخی بنتا، ہمارا خیال ہے ان کی موت سے ان کی یہ فرمائش پوری ہو گئی‘‘۔

ایک کالم نگار دوست نے تعزیتی کالم میں لکھا ’’ مرحوم آخری برسوں میں ’’زن‘‘ سے انتہائی نفرت کرنے لگے تھے۔ اگر کسی خبر میں زن لکھنا ہوتا تو چہرے کو ستر کے زاوئیے پر گھما کر حقارت کے ساتھ ’’ظن‘‘ لکھتے۔ کہتے تھے جو جوانی میں نہ ملی اب اس کے بارے صرف سوچ کر آخرت کیوں برباد کروں ؟ سوائے کھانے اور فیس بک کے ہر چیز سے بد ظن ہو گئے تھے۔ کھانے کی میز پر بیٹھ کر گھنٹوں فیس بک کی زیارت کرتے اور یہی دو چیزیں ان کی عین بڑھاپے میں موت کا باعث بنیں۔ ڈاکٹرز اور الطاف حسین سے اُنھیں خدا واسطے کا بیر تھا۔ کہتے تھے زندگی چاہتے ہو تو ان سے دور رہو۔ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا، ڈاکٹر بابر اعوان، ڈاکٹر فاروق ستار، ڈاکٹر عاصم اور ڈاکٹر رحمان ملک ان کی قلم کی ہٹ لسٹ پر تھے۔

مرحوم کو آخری عمر میں پینٹنگ کا شوق ہو گیا تھا، ہر وقت اپنے بالوں کو رنگتے رہتے تھے۔ فخریہ کہا کرتے تھے میرے بالوں نے آخری وقت تک میرا ساتھ دیا ہے میں ان کا رنگ سفید ہونے نہیں دوں گا۔ مرحوم کو کفن میں دیکھ کر اندازہ ہوا کہ کاش اِتنا صاف لباس انھیں زندگی میں پہننے کو مل جاتا۔ لانڈری سے چڑتے تھے، کہتے تھے انسان کو اپنے ذہن، کان اور کپڑوں کا میل خود اپنے ہاتھوں سے نکالنا چاہئیے۔ یہ اور بات کہ اس کام کے لیے وہ اپنے ہاتھوں کو سال میں صرف دو بار زحمت دیتے تھے۔

مرحوم کی مزاح کے صنف کے لیے بڑی خدمات تھیں۔ زندگی میں تین بار اپنی بتّیسی تبدیل کی۔ کہتے تھے آدھی عمر بیوی اور آدھی عمر بتّیسی کی خدمت میں گذر گئی۔ اخبار اور کھانے کی پلیٹ چاٹنے میں ان کا کوئی ثانی نہ تھا۔ پاکستانی سیاست دانوں اور شوبز شخصیات کے تمام اس کینڈلز انھیں حفظ تھے۔ وہ برائیوں کی چلتی پھرتی ویکی پیڈیا تھے۔ کسی کی ذاتیات پر ڈرون حملہ کروانا ہو تو انھیں ’’چھو‘‘ کہنا کافی ہوتا تھا۔ وہ اگر ہکلے نہ ہوتے تو آج کل کے ٹاک شوز کے مقبول سیلیبریٹی ہوتے۔ مرحوم جب بھی منہ کھولتے پان، چھالیہ، چیونگم یا گالیاں نکلتیں۔ کلمہ صرف آخری وقت کے لیے رکھ چھوڑا تھا۔ پان کے شیدائی تھے۔ مرحوم کی موت پر پان والے ہی سب سے زیادہ غمگین تھے۔ مرحوم کا کوئی دوست تھا نہ دشمن کیونکہ مرحوم ادھار دینا پسند کرتے تھے نہ ادھار لینا۔ ’’

میری موت کا میرے دوستوں نے گہرا اثر لیا۔ ہر ایک نے میری موت کی خبر پر فوری سینکڑوں ٹیکسٹ میسیجز کئیے۔ بہت سوں نے اپنی فیس بک کی وال پر تعزیتی پیغامات لکھے۔

ایک دوست کا ٹیکسٹ میسیج تھا ’’ وہ ہم میں نہیں رہا، اب ہم دل بھر کے چلغوزے اور جھوٹی قسمیں کھا سکتے ہیں۔‘‘

دوسرے نے لکھا ’’مرحوم کی موت سے خراٹوں کی موسیقی بھی دم توڑ گئی۔ خراٹوں کے بغیر انھیں قبر میں سوتا دیکھ کر خوشی سے میرے آنسو بہنے لگے۔‘‘

ایک ٹیکسٹ یوں تھا ’’مرحوم اگر جوانی میں فوت ہوتے تو بیوہ سے تعزیت میں زیادہ مزہ آتا۔ وہ اتنا خود غرض تھا کہ اتنی دیر سے مرا کہ بیوہ کی دوسری شادی کا ارمان بھی فوت ہو گیا۔‘‘

ایک کرپٹ سیاستدان نے لکھا ’’یہ کوئی عام موت نہیں ہے۔ اس شخص نے ہمیں حرام کا ایک لقمہ بھی چین سے کھانے نہیں دیا۔ آج حرام کھانے والوں کی آزادی کا دن ہے۔‘‘

ایک شرابی دوست نے لکھا ’’ مرحوم کو ہم نے کبھی پیتے نہیں دیکھا۔ وہ ہمیشہ شراب کی بھری بوتل ساتھ لے جایا کرتے تھے۔‘‘

ایک نے فیس بک پر لکھا ’’مرحوم دوسروں کو برائی کرتے نہیں دیکھ پاتے تھے۔ کہتے تھے اس کام کے لیے میں پیدا کیا گیاہوں۔ مرحوم ہر کام میں دیر کر دیتے تھے۔ وہ خودکشی کے شوقین تھے۔ کہتے تھے اس سے پہلے کہ خدا مجھے اپنی دنیا سے نکالے میں خود یہ دنیا چھوڑ دوں گا مگر موصوف نے یہاں بھی دیر کر دی۔‘‘

ایک اور پیغام تھا ’’ ان کی موت سے جو خلا پیدا ہوا ہے اسے تین موٹے بھی مل کر پورا نہیں کر پائیں گے۔ میں حیران ہوں کہ کرین کے بغیر وہ لحد میں کیسے اتار دئیے گئیے۔ ’’

ایک نے لکھا ’’ وہ ہمارا دوست تھا۔ میں اس کی موت کا سن کر ایک منٹ کے لیے غمگین ہو گیا۔ اگلے منٹ میرا بلیک بیری بج اٹھا، ایک اور دوست مجھے ’’ڈرٹی پکچرز ’’ دیکھنے کی دعوت دے رہا تھا۔ مووی دیکھنے کے بعد ہم مرحوم کے گھر تعزیت کے لیے چلے گئے۔ ’’

ایک ایس ایم ایس تھا ’’مرحوم قبرستان سے خوف کھاتے تھے اس لئے بہت کم جنازوں میں شرکت کی۔ آج ان کے جنازے میں بھی قلیل لوگ شریک تھے کیونکہ لوگ ان سے خوف کھاتے تھے۔‘‘

ایک تعزیت کچھ ایسی تھی ’’ اللہ کے رحم کو چیلنج نہ کرو یہ دعا مانگ کر کہ اللہ اُنھیں جنت نصیب کرے۔‘‘

٭٭٭

 

 

 

 

برسات کے مزے

 

                سید عارف مصطفیٰ

 

برسات میری دیرینہ کمزوری ہے۔ ۔ ۔ لیکن یہ بھائی تابش کی ان متعدد کمزوریوں کی مانند نہیں کہ جو اکثر موقع بموقع ایک دوسرے کی جگہ لیتی رہتی ہیں یا جنہیں سوائے قبلہ بڑے حکیم صاحب کے، شرفاء کے سامنے کھلے بندوں بیان نہیں کیا جا سکتا بلکہ میری دانست میں یہ ایک اور طرح کا مستقل نوعیت کا آبی روگ ہے، ایک ایسا روگ جس سے میرا انگ انگ اور پور پور سرشار ہو جاتا ہے اور جس سے جان چھڑانے کا میرا ہرگز کوئی ارادہ نہیں جبکہ ایک اپنے خواجہ صاحب ہیں جنہیں میں ’’کور ذوقوں‘‘ کا ’’کور کمانڈر‘‘ کہا کرتا ہوں، جہاں دو چار بوندیں کیا گریں ناک اور شلوار کے پائنچے ایک ساتھ چڑھائے نظر آتے ہیں، برسات کی شدت جتنی ہو اسی اعتبار سے یہ چڑھی ناک اور پائینچے اوپر نیچے کرتے رہتے ہیں۔ اِدھر میرا یہ حال ہے کہ بقول بیگم کے، کہ جہاں آسمان پہ بادل کے چند ٹکڑے ایک دوسرے کے قریب آتے نظر آئے اور ادھر مجھے گھر کاٹنے کو دوڑا، ان کا کہنا ہے کہ باقاعدہ بارش نہ بھی ہو تب بھی میں خاصے بِلکتے پن سے بھاگ دوڑ کر کے خود کو ہر ممکن جگہ سے بھگو کر ہی دم لیتا ہوں تاہم میری جان اس بات سے بہت جلتی ہے کہ کہیں اگر ان کے رکاوٹی ہتھکنڈوں کے ہاتھوں میری یہ ذرا سی گیلاہٹ پانے کی نمناک کوشش بھی کامیاب نہ ہو سکے، پھوار بڑھ کر باقاعدہ برسات تک جا پہنچے تو میری بانچھوں کو مروجہ حد سے بھی زیادہ پھیلنے سے کوئی نہیں روک سکتا، حتیٰ کہ خود میں بھی نہیں۔ اس موقع پر میں نہایت خشوع و خضوع سے عموماً کوئی پرانا ادھورا کام لے کر صحن میں براجمان ہو جاتا ہوں لیکن اس دن بھی میری اہلیہ کی جھڑپتی مداخلت کے باعث کچھ نہ کچھ ایسا ہوتا ہی رہتا ہے کہ شرابور ہونے کی آشا تو پوری ہو جاتی ہے لیکن وہ ادھورا کام پھر بھی مکمل نہیں ہو پاتا۔

برسات کے لئے میری یہ وارفتگی صرف خانگی سطح تک محدود نہیں، میں جب ایک ملٹی نیشنل کمپنی کا مینیجر ہوا کرتا تھا تب بھی یہ سرمئی سرمئی بادل میرے من کو یونہی گدگداتے تھے اور بوندیں برسنا شروع ہوتے ہی دفتری خیالات بھی بہنا شروع ہو جاتے تھے اور مزاج شناس چپراسی لپک جھپک ایک کرسی میرے آفس کی گیلری میں سجا دیتا تھا تاکہ میں اس رم جھم کو قریب نہیں بلکہ عنقریب سے ملاحظہ کر سکوں۔ ۔ ۔ اور یہ ملاحظہ بھی کیا ہوتا تھا کہ ہر ہر انگ اور ہر ہر پور میں مانو ایک ایک آنکھ سی ابھر آتی تھی۔ ایسے مواقع پہ مجھے کبھی کبھی کمال فرض شناسی سے ادھر ادھر کھلے آسمان تلے پڑے پیداواری اسٹاک اور دیگر سامان کی پڑتال کے لیے سوٹ بوٹ ڈاٹے ہونے کے باوجود میدانِ عمل میں مسلسل سرگرم دیکھا جاتا تھا اور ایسے میں آسمان میں بھی کیا بجلیاں بھری ہوں گی جو میری ’’آنیوں جانیوں‘‘ میں لپکے مارتی تھیں۔ ۔ ۔ اس موقع پر بارش تو چاہے تھوڑی دیر میں تھم بھی جائے لیکن دُور دُور سے ملاحظہ کرنے والوں کے کلمات تحسین تا دیر نہ تھمتے تھے، یوں وہ مجھ سے اور ہم نزلے سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہتے تھے۔

یہ برسات در حقیقت بڑے کام کی چیز ہے، اکثر ہی میرے اندر ایک بیحد ذمہ دار آدمی کو ابھارتی ہے اس کے باوجود کہ مردم ناشناسی کی وباء کے زیر اثر یا چند بدقسمت واقعات کے تسلسل کے سبب کچھ لوگ مجھے مطلق ذمہ دار نہیں سمجھتے (حالانکہ بیگم سے پوچھیں تو وہ نجانے کن کن باتوں اور واقعات کا ذمہ دار صرف مجھے ہی ٹھہراتی ہیں۔ ) لیکن میں اِن سب حاسدین کو غلط ثابت کر سکتا ہوں۔ ۔ ۔ کم از کم برسات کے پہلے دن تو یقینی طور پر۔ ۔ ۔ کیونکہ اس روز میرا ذوقِ ذمہ داری پوری طرح اپنی بلندیوں کو چھو لیتا ہے، کوئی قدر شناس ہو تو با آسانی یہ جان سکتا ہے کہ اس دن میرا بدرجۂ اتم لائق ستائش، جذبۂ ذمہ داری قابل فخر حد تک عیاں ہو کر رہتا ہے اور میری حد درجہ متین سوچ سے پوری طرح سے جڑا ہوا ہوتا ہے، جس کا ثبوت یہ ہے کہ برسات شدت اختیار کرتے ہی مجھے ایسا کوئی باہری کام یاد آ جانا کبھی نہیں بھولتا کہ جسے اسی نازک وقت سرانجام دینا از حد ضروری بلکہ اشد ضروری ہوتا ہے، تاہم ڈھیروں دل شکنی کی بات یہ ہے کہ میرے اِس نہایت ذمہ دارانہ عمل کو کبھی بھی نہ صرف سراہا نہیں جاتا بلکہ اسے بہت عجیب عجیب نام دیئے جاتے ہیں۔ اگر اِن ناموں میں میں سے کوئی نام آپ جیسے کسی معزز آدمی کو بتانے کے لائق ہوتا تو میں ضرور آپ کو بھی بتا دیتا۔ معزز میں نے اس لیئے کہا کہ جب تک آپ تحمل سے میری باتیں سن رہے ہیں میں تو آپ کو معزز ہی مانوں گا مگر آپ کب تک معزز سمجھے سکتے ہیں اس کا فیصلہ مطلق آپ کے اپنے اختیار میں ہے، میری طرف سے کوئی زور زبردستی نہیں۔

ہاں تو بات ہو رہی تھی برسات کی۔ ۔ ۔ یہ نصف صدی کا قصہ ہے دو چار برس کی بات نہیں کہ میں ہمیشہ سے ہی برسات کا دلدادہ ہوں۔ بچپن میں دوستوں کے ساتھ بارش میں خوب خوب نہاتا تھا، اِتنا کہ پیروں کے تلوے پھول کر لہریئے دار گتے کی مانند ایک ساتھ جڑی کئی نالیوں جیسے ہو جاتے تھے، ، میرا چہرہ بغیر مناسب مدارات کے، بہت سوجا سوجا سا کسی منگول جنگجو کا سا دکھنے لگتا تھا اور ہونٹ چوٹ لگے بغیر پھول کر رشک افریقہ ہو جاتے تھے۔ پھر یہ کہ میں بارش میں کھیلتا بھی تو بہت تھا۔ اگر روایتی کھیل کم پڑ جاتے تو ہاتھ کے ہاتھ کئی نئے اور سستے کھیل بھی ایجاد کر لیئے جاتے تھے، جن کے قوانین مصلحت اور طاقت کے ہاتھوں بدلتے چلے جاتے تھے۔ اِن دنوں بارش میں کھیلتے ہوئے پھسل کر بار بار گرنا عام بات تھی۔ بعد میں لڑکپن جاتے جاتے معاملہ جب نظر نیت اور قدم تینوں کے پھسلنے کا ہونے لگا تو چوٹ اگر جسم پر نہ بھی لگے تب بھی نجانے کیوں دل پہ زیادہ محسوس ہوتی تھی۔

ہم بچپن میں بارش تھمتے ہی ساتھیوں کے سنگ زمین میں بیر بہوٹیاں کھوجا کرتے تھے۔ بڑے ہوتے ہوتے بیر بہوٹیاں شاید آس پاس کے فلیٹوں و بنگلوں کی بالکنیوں میں منتقل ہو گئیں اور یاروں نے اپنی تلاش کو منتخب مقامات کے چھجوں تک ہی محدود کر لیا تو پھر ہم بھی اکیلے کب تک یہ مہم جاری رکھ سکتے تھے، ویسے بھی ہم جیسے، قبل از جوانی ہی زمانے بھر کو بہو بیٹیاں سمجھنے پہ مجبور کر دیئے جانے والوں کو، بیر بہوٹیوں کی تلاش جلد ترک کرنی ہی پڑتی ہے۔

لیکن جو اپنے میاں اچھن ہیں ان کے معاملے میں سارا مسئلہ ہی لچھن کا ہے۔ ایک مدت سے یہ معمول ہے کہ بارش کے آثار نمودار ہوتے ہی نہایت پھونسڑے دار کپڑے پہنے نمودار ہو جاتے ہیں، لگتا ہے کہ سیلاب متاثرین کے کیمپ سے ہاتھ لگے ہیں لیکن سچ یہ ہے کہ اُن کی یہ پوشاک بہت تاریخی ہے کیونکہ اس نے ان سے پہلے ۶۔ ۵ نسلوں کی خدمت کی ہے اور ان کی ایسی دیدہ دلیر جامہ زیبی خاص بارش ہی سے مشروط ہے۔ ویسے تو موصوف خواہ کتنے عرصے سے لا پتا ہوں لیکن اُدھر بادل چھائے اور ادھر اچھن گھر کر آئے۔ ہمیشہ آبی تخریب کے شرطیہ نئے پلان کے ساتھ آتے ہیں اور جل تھل برسات میں ہر طرف چھپڑ چھپڑ کرتے پھرتے رہتے ہیں اور مسلسل یہاں وہاں ہر سمت ان کی آوت جاوت لگی ہی رہتی ہے یوں سمجھئے کہ بارش پر اُن کی ترنت حاضری کا تعلق ویسا ہی ہے جو کہ بڑی والی ہری مکھی کا آم سے ہوتا ہے، ادھر دو بوندیں زمین پہ گرنے کیا گریں ادھر جھٹ حاضر ہو گئے۔ ویسے تو وہ کوئی کام اپنے سر نہیں لیتے لیکن بارش کی ابتدائی بوندیں گرنے سے پہلے پہلے اپنے سرپہ لے لیا کرتے ہیں۔ بالوں سے محروم ان کے چوڑے چکلے سے گنجے سر پر بارش سے اچھلتی چھینٹوں کا نظارہ ایئرپورٹ کے رن وے پہ برسی بارش جیسا ہی ہوتا ہے لیکن اس موقع پر اچھن میاں کو حاسدوں کی پھبتیوں کی ایسی کوئی خاص پرواہ نہیں ہوتی تاہم ان کو اپنی اوٹ میں لیئے رکھنے والے ایک دو سنگی ہمیشہ ان کے ہمرکاب ضرور ہوتے ہیں جن میں سے ایک ہم شمار کئیے جاتے ہیں۔

اب جبکہ بچپن بھی گیا اور پھر جوانی بھی کچھ ایسا خاص کیئے بنا غارت ہوئی، لیکن برسات سے ہماری رغبت ذرا کم نہ ہوئی تاہم اب جوانی کے جاتے جاتے اتنا ضرور ہوا ہے کہ دھواں دار برسات ہو تو ہم تھوڑی ہی دیر میں ٹھاٹھ دار سا نہا لیتے ہیں اور نیچی نظریں کئیے کیئے گھوم پھر کر گھر چلے آتے ہیں۔ نظریں نیچی رکھنے کی بابت بھی ہمارے حاسدین کو ذرا چین نہیں۔ وہ اسے ہماری شرافت سے زیادہ ہماری احتیاط پسندی پہ محمول کرتے ہیں۔ دو برس قبل ہم ایک گٹر میں کیا گرے یار لوگوں نے اِسے ہمیشہ کا فضیحتہ ہی بنا دیا۔ اب تک کوئی نہ کوئی چمک کر اس کا پرسہ دے ہی ڈالتا ہے۔ ۔ ۔ لیکن اچھن میاں کے لچھن بدستور وہی ہیں۔ جلے پیر کے بلے کی طرح ہر حال میں رم جھم میں ہمیں یا کسی عاشقِ برسات کو اپنے ساتھ ٹانگے ٹانگے خوب خوب گھومتے ہیں، جہاں تک سردی کی بارش کا معاملہ ہے تو اس میں نکلنے کا معاملہ ذرا جہاد جیسا ہے اور اب ہمارے اور اچھن کے عزائم ایسے جہادی بھی نہیں رہے۔ عام طور پہ سرما کی بارش میں ان کی باہر نہ نکلنے کی وجہ تقویٰ کی افراط سے زیادہ لقوے سے بچنے کی احتیاط ہوتی ہے۔ سرما کی بارش کے جہاد میں تو اب ہم بھی اپنی کھڑکی ہی میں بیٹھے بیٹھے تلوار لہراتے رہتے ہیں، جس کی داد کئی دن تک اپنی ہی پسلیوں سے ملتی رہتی ہے تاہم ٹھنڈا موسم بھی زیادہ سرمئی معلوم ہو تو خود کو ذرا سا بقدرِ عرقِ ندامت بھگو بھی لیتے ہیں، لیکن لڑکپن میں تو ہم ایسے میں بھی ادھر ادھر ٹاپیں مارتے دِکھتے تھے اور جب تک نیلے نہ پڑ جائیں اور یہ نیل کرتے کے نیل سے بڑھ نہ جائیں، اگلے مورچوں کے دورے ہی پہ نظر آتے رہتے تھے۔

یہاں برسات کے حوالے سے ان بد توفیقوں کا ذکر کرنا بھی ناگزیر معلوم ہوتا ہے کہ جنہیں نہانے کے لیئے کبھی غسلخانے سے باہر نکلنا ہی نصیب نہیں ہوتا۔ ۔ ۔ لے دے کے ان کی تمام مصفیٰ حیاتی کا مدار ایک مگ اور بالٹی پہ ہوتا ہے۔ کبھی کسی قدر بے احتیاطی پر مائل ہوں تو زیادہ سے زیادہ شاور کھول کر دائرۂ بوچھار میں سر ڈال لینے کی شرابور عیاشی بھی کر لیتے ہیں۔ ایسے محتاط لوگوں کی ایک قسم مہذب فلموں میں وضعدار سا کچھا پہنے نہاتے نظر آتی ہے لیکن انہیں نہاتے دیکھنا سراسر برائے عبرت ہوا کرتا ہے۔ ایسی متعدد فارمولا فلموں کے فلاپ ہو جانے کے بعد ایسے روح فرسا غسل اب یاد ماضی ہوتے جا رہے ہیں۔ اب اس کی جگہ آسان غسل کے مناظر شامل کیئے جاتے ہیں اور صحت و صفائی کی اہمیت اجاگر ہو جانے کے بعد سے فلموں میں یہ مناظر وقفے وقفے سے اِتنی بار دکھائے جاتے ہیں کہ فلم کی ہیروئن اور فلم کی کہانی پوری طرح دھل جاتی ہے۔

ایسے بد ذوق لوگ بھی ہیں جیسے خواجہ صاحب، کہ اگر باہر کہیں رستے میں ہوں اور اچانک بارش برس پڑے تو کسی چھجے کے نیچے دبک کر اور دیوار سے بالکل لگ کر دم سادھے بے آواز و بدحواس یوں کھڑے رہتے ہیں کہ گویا صور اسرافیل سن لیا ہو یا کسی نے ان کی انتڑی اوجھڑی نکال کر حنوط کر کے لاش کو یہاں برائے نمائش چسپاں کر دیا ہو۔ تاہم قدرت اور فطرت کے کچھ اپنے اصول ہیں۔ پوری طرح بارش رک جانے کا یقین ہو جانے کے بعد وہ جونہی قدم باہر نکالتے ہیں، رپٹ جاتے ہیں اور کسی طوفانی اولتی کے عین نیچے جا پڑتے ہیں۔ آناً فاناً کمر یا کولہے میں چوٹ لگ جانے سے چت پڑے پڑے انہیں اٹھنے میں اتنی دیر تو لگ ہی جاتی ہے کہ وہ ان افراد سے بھی زیادہ بھیگے بھالو بنے گھر پہنچتے ہیں کہ جو باقاعدہ اپنی خوشی سے برسات کا مزہ لینے کے لیئے دھڑ لے سے کھلم کھلا بھیگے تھے۔

گو اتنی گفتگو کے بعد ہمارے خواجہ صاحب کے تعارف کی مزید ضرورت تو نہیں لیکن چونکہ ہماری بیگم کے نزدیک وہ کاہلوں، بد ذوقوں اور بد توفیقوں کے غیر منتخب رہنما ہیں اس لیئے ان کو جان لینے سے ایک عجیب و غریب طرح کی طرز حیات کو سمجھنے میں بڑی مدد ملتی ہے۔ مناظرِ فطرت و مظاہرِ قدرت سے پیٹھ موڑے بیٹھنے والے اس قبیل کے لوگوں کو قدرت برسات میں بھی پینے کو مفرح شربت کی کسیلا سا جوشاندہ اور کھانے کو لذیذ پکوانوں کی جگہ کثیف ہڑ کا مربہ عطا کرتی ہے اور جنہیں بغیر بھیگے بھی ایک گھنٹے میں بیٹھے بیٹھے کم از کم تین چار درجن چھینکیں مارنے کا ہنر عطا کر کے قدرت کمرے ہی میں برسات سے زائد نمی فراہم کرتی ہے، ایسے نزلاتی لوگوں کے چپچپاتے خیالات کی وجہ سے اسیرانِ برسات ان سے دور ہی رہنا پسند کرتے ہیں، یوں یہ حضرات اس موسم میں سوائے بند ناک اور بند گٹروں کا شکوہ کرتے رہنے اور بلدیہ و بجلی محکمے کو کوسنے کے، اور کوئی کام کرتے نہیں پائے جاتے۔

چونکہ عشق اور نزلہ کبھی بھی ہو سکتا ہے اور اس کے ستائے ہوؤں کو باہم قریب آتے دیر نہیں لگتی لہٰذا ایک جہاندیدہ پہنچے ہوئے بزرگ ان تک پہنچے اور عمر کے بڑے فرق کے باوجود خواجہ صاحب کے نزلہ شریک بھائی بن گئے۔ بالآخر کئی دن تک سیاپے کے متواتر تبادلے اور برسات بیزاری کی یکسانیت نے انہیں باہم یوں جوڑ دیا کہ ایک دن فرطِ غمگساری سے، انہوں نے خواجہ کو اپنا داماد بنا لیا۔ یقیناً ایسا جہاندیدہ شخص ہی ان کے سسر کے مرتبے پہ فائز ہونے کا سزاوار تھے کہ جس نے اپنی بیٹی کے جہیز کے لیے بھی سب سے پہلے دو چھتریوں اور دو برساتیوں کو خریدنا یاد رکھا تھا، لیکن صد حیف کہ اپنے خواجہ صاحب کو ان کے اس دفاعی سازو سامان کے استعمال کی نوبت کبھی نہ آئی کیونکہ بارش کی پہلی بوند پڑتے ہی ان کے پیر تو گویا بھاری سے ہو رہتے ہیں اور دنیا بھر میں کہیں بھی، کسی کمرے میں چھتری تان کے بیٹھنے کا چلن آخر ہے بھی تو نہیں۔

٭٭٭

 

 

 

 

کی جاناں میں کون

 

                فہد خان

 

میں کون ہوں ؟زمانۂ قدیم سے ہی انسان اس سوال کے تعاقب میں پیدل چلتا رہا۔ ذرا شعور ملا تو گھوڑے دوڑانے لگا۔ پھر ریل گاڑی دوڑائی اور رائٹ برادران کے بعد جہاز اڑانے لگا۔

اس سوال کا جواب دینے کی کوشش فلسفیوں نے کی۔ کسی نے انسان کو پانی پانی جانا توکسی نے خدا کا روپ۔ سائنس کہنے لگی کہ انسان ہڈیوں اور گوشت کا مرکب ہے۔ مگر کیا یہ ترکیب مکمل ہے ؟ مذہب نے ایک جزو روح کا اضافہ کیا۔ ایک صاحب نے تو حد کر دی: انسان کو حیوان کہہ ڈالا۔ ایک صاحب دور کی کوڑی لائے، انھوں نے اپنی جنسی خواہشات کی تکمیل کے لیے سرگرداں۔ ۔ ۔ ادھر ادھر منہ مارتی مخلوق قرار دے ڈالا۔

مسلم ہندوستان میں حالیؔ نے سمجھانے کی کوشش کی کہ میں کون ہوں۔ اقبالؔ نے بتایا کہ خود میں جھانک کر خود کو پہچان جاؤں۔ شبلی نے سوچا کہ آج کے میں کو جاننے کے لیے کل کا میں جاننا ضروری ہے۔ انھوں نے المامون، الفاروق کے آئینے میں مجھے میرا عکس دکھایا۔ مگر بات نہ بن پائی۔

کہتے ہیں چند صوفی اس راز تک پہنچ گئے تھے، مگر جب اس وادی سے واپسی پر وہ بول نہ سکتے تھے۔ وادی میں داخلے کی شرط قوتِ گویائی سے محرومی تھی۔ ایک منصور تھا جس نے بولنے کی کوشش کی لیکن پھر بولنے کے قابل نہ رہا۔

غرض منزل کسی کونہ ملی۔ ۔ ۔

جس سوال کا جواب دیتے دیتے بڑے بڑے فلسفیوں کی بریکیں فیل ہو گئیں، شعراء گھائل ہو گئے، صوفی جان ہار بیٹھے اور سائنس دان عمریں لگا کر ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہے۔ ۔ ۔ کیا ظلم ہے کہ شب و روز مجھے اس سوال سے گزرنا پڑتا ہے۔

’’آپ کون ہیں ؟‘‘ انھوں نے لانبی لانبی غلاف نما پلکیں جھپکا کر پوچھا۔

’’فہد خان۔ ۔ ۔ فہد خان چغتائی!۔ ۔ نام تو سنا ہو گا۔‘‘ ہم نے لہجے میں چاشنی بھر کر بڑے ’’اشٹائل‘‘ سے کہا۔

’’خان؟ آپ پٹھان ہیں ؟‘‘ بینائی کے چشمے میں نہ جانے کس گہرائی سے یکایک حیرت نمودار ہوئی۔

’’ہاں۔ ۔ ہیں تو پٹھان بس ذرا دھوپ میں زیادہ رہتا ہوں۔‘‘

پنکھڑیاں ذرا پھیلیں، مگر وہ ہنسی ضبط کرنے لگیں اور ہم موتیوں کے دیدار سے محروم رہے۔

’’اچھا تو پھر آپ کو پشتو آتی ہو گی؟‘‘

’’دیکھیے ایک تو پشتو زبان کے قواعد کے مطابق پشتو آتی نہیں۔ ۔ ۔ آتا ہے۔ دوجا یہ کہ میں بھی اتنا اہلِ زبان ہوں جتنا عمران خان۔‘‘

ہمارے اس ایٹیچوڈ کا ناس مارا جائے۔ ۔ ۔ ہمیں مسخرا سمجھتیں۔ ۔ ۔ ہمیں مسکا لگا گئیں۔

ہمارے نام پر ذرا غور کیجیے۔ ۔ ۔ا لفاظ شمار مت کیجیے، پیمانہ اٹھائیے (وہ بھی گز والا):

محمد فہد خان چغتائی

(عرفیت، تخلص، القاب و آداب دیدہ و دانستہ چھوڑے گئے ہیں۔ )

مس حنا خالد کی کلاس میں پہلی دفعہ حاضری لگائی جا رہی تھی۔ ہمارے نام پر وہ ٹھٹکیں۔

’’خان اور چغتائی؟ وہ مغل نہیں ہوتے ؟‘‘ انہوں نے اس طرح پوچھا تھا جیسے کہ رہی ہوں اے کی چول ماری ظالما!

اب انہیں سمجھانے کی کوشش تو کی ہی کی سوچا کہ ایک باقاعدہ تحریر لکھ کر گلے میں آویزاں کر لی جائے تاکہ سند رہے اور بوقتِ ضرورت کام آئے۔

چغتائی خان چنگیز خان کی پہلی بیوی بورتے کا دوسرے نمبر والا بیٹا تھا۔ وہی چنگیز خان جس نے کھوپڑیوں سے مینار تعمیر کیے۔ وہی چنگیز جو مردِ میدان تھا۔ نسل منگول تھی، جو مغل بھی کہلائی مرزا اور بیگ بھی۔ والد کے انتقال کے بعد اس نے پانچ وسطی ایشیائی ریاستوں (قازقستان، کرغٰزستان، تاجکستان، ترکمانستان اور ازبکستان) کی باگ دوڑ سنبھالی۔ اور یکم جولائی ۱۲۴۲ءکو وفات پائی۔ خاندانِ چغتائی در اصل اسی چغتائی خان کی اولاد ہے۔

سو جو چغتائی صاحب تھے، چنگیز خان کے بیٹے، وہ چغتائی خان تھے، اور ہم خان چغتائی ہیں۔ بالکل ویسے ہی جیسے ہوتا AB ہے مگر لوگ چودہ سال پڑھ کر بھیBA کرتے ہیں۔

مرزا عظیم بیگ چغتائی کا نام تو سنا ہو گا آپ نے ؟ (جی نہیں سنا۔ ۔ بھلا کیسے سنتے آپ؟۔ وہ فلموں میں نہیں آتے تھے !) عصمت چغتائی۔ ۔ ۔ لحاف والی کے بھائی اور اردو کے بہت بڑے نَثّار۔ وہ مرزا بھی تھے، بیگ بھی اور چغتائی بھی۔ خان نہ لکھتے تھے مبادا نام لمبا ہو جائے۔ واللہ اعلم

ایک سینہ بہ سینہ چلتی روایت کے مطابق اقبالؔ نے اپنا مشہور مصرع (یوں تو سید بھی ہو۔ ۔ ۔ ) کچھ اس طرح لکھا تھا ؎

یوں تو مرزا بھی ہو، بیگ بھی ہو، چغتائی بھی ہو

لیکن بعد میں شعری ضرورتوں کے تحت تبدیل کر دیا۔ کیوں کہ وزن خراب ہو رہا تھا۔ اب بھئی اتنے بڑے مردِ میدان کا نام آ رہا ہے۔ ۔ چغتائی۔ ۔ توازن تو بگڑے گا ناں !۔

یہ تحریر لکھنے کے دوران ہی مجھ پر انکشاف ہوا ہے کہ غالبؔ بھی اپنے ددھیال میں سے ہیں۔ بھئی اب ان کا نام، جو ’’ مرزا‘‘ غالبؔ تھا۔ حضرات توجہ فرمائیں۔ ۔ ۔ مرزا! پھر انہوں نے خود کہا ہے کہ

سو پشت سے ہے پیشۂ آباء سپہ گری

کچھ شاعری ہی ذریعۂ عزت نہیں مجھے

ہاں اب یہ مؤرخوں کی بددیانتی دیکھیے کہ انہیں سلجوقیوں سے جا ملاتے ہیں۔ سچ کہتے ہیں تاریخ تعصب سے عاری نہیں ہو سکتی۔ ۔ ان مورخوں کی اڑائی گرد ہی اتنی تھی کہ ایک شعر میں انہوں نے خود کو ماورا النہری تسلیم کر لیا۔ خیر یہ تو درست ہے کیوں کہ ماورا النہر وہی ہمارے چغتائی خان کا علاقہ ہے۔ لیکن اس سب کے باوجود انہوں نے چغتائیوں کا تذکرہ نہ کرے۔ دشمنِ خاندانِ چغتائیاں نے ہمیشہ میدانِ کارزار میں ہار کر، اپنی شکست کا بدلہ ہم سے علمی دنیا میں لینے کی کوشش کی۔ اور ہائے ہماری بدقسمتی کے ہم تلوار کے تو دھنی رہے، قلم کے نہیں۔ لیکن اب صورتِ حال بدلتی جا رہی ہے۔ مرزا غالب، مرزا عظیم بیگ اور عصمت کے بعد اب فہد خان جیسے لوگ بھی اس میدان میں اتر آئے ہیں۔ اور کشتوں کے پشتے لگا کر ہی جائیں گے۔ ان شاء اللہ

مقصد اس تحریر کے لکھنے کا یہ تھا کہ آپ جان لیجیے، مان لیجیے پہچان لیجیے۔ اور خبر دار اگر پھر کبھی کسی نے یہ سوال کیا، قسم بہ جلالِ پادشاہی سر بہ قلم کردن!۔ اگر ہمارے چغتائی خون نے جوش مارا اور ہم کچھ کر بیٹھے تو ہمیں موء ردِ الزام نہ ٹھہرایا جائے نہ ہی تاریخ کی کتابوں میں کوئی ہفوات لکھی جائیں۔

وما علینا الا البلاغ المبین۔

٭٭٭

 

 

 

 

بس اور بے بس

 

                نعیم طارق

 

تپتی ہوئی گرم دوپہر کو جونہی میں نے اے سی کوچ کے اندر قدم رکھا ایک سرد احساس رگ و پے میں اترتا چلا گیا۔ اپنی سیٹ تلاش کی اور سفری بیگ کو اپنے قدموں میں رکھ کر سیٹ کی پشت سے ٹیک لگا کر اطمینان کی ایک لمبی سانس لی۔ کھڑکی کا پردہ تھوڑا سا ہٹا کر باہر دیکھا تو احساس ہوا کہ ہمارے ہاں اپر کلاس کو اپنی ٹھنڈی گاڑی کے اندر سے باہر تیز دھوپ میں کھڑے لوگ رنگ برنگے کپڑوں میں کیوں اتنے خوش و خرم اور مطمئن دکھائی دیتے ہیں۔ ہاتھ بڑھا کر اے سی کی دونوں نوزلوں کا رخ عین اپنے سر پر کرتے ہوئے سامنے لگے ہوئے ڈیجیٹل کلاک پر ٹائم دیکھا، ڈیڑھ بج چکے تھے۔ بس ہوسٹس کی مترنم آواز نے سفری دعا پڑھائی اور کسی سے کوئی چیز لے کر نہ کھانے کی تلقین کی جو مجھ جیسے پاکستانیوں کو ہمیشہ بہت ناگوار گزرتی ہے۔

ابھی ہمیں نیند کا پہلا جھونکا ہی آیا ہو گا کہ اچانک پچھلی سیٹ سے ایک مردانہ بھاری بھرکم آواز ماحول کی خاموشی کو توڑتی ہوئی کانوں سے ٹکرائی۔ ہیلو۔ ۔ ۔ ہیلو۔ ۔ ۔ ہاں جی۔ ۔ ۔ ۔ ہاں جی۔ ۔ ۔ جی میں الطاف قصاب عرض کر رہا ہوں بھائی جی۔ ۔ ۔ ۔ وہ چھوٹی سی عرض تھی جناب عالیٰ۔ ۔ ۔ ۔ پاء بشیر کو ملتان نشتر ہسپتال داخل کروا دیا ہے جی۔ ۔ ۔ ہاں جی اپنی جان پہچان والا بندہ مل گیا تھا۔ ۔ ۔ جی پاء جی آپ بس دفتر سے تھوڑا سا ٹائم نکال کر ناں ڈاکٹروں کے کان کھینچ آئیں۔ ۔ ۔ ہاں جی آئی سی یو میں ہے ۱۲ نمبر پر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جی باقی میں سنبھال لوں گا جی۔ ۔ ۔ اچھا اچھا۔ ۔ ۔ ہاہاہاہاہا۔ ۔ ۔ ہاں جی ہاں جی۔ ۔ ۔ ۔ چلو ٹھیک ہے۔ ۔ جب آپ لاہور آئیں پاء جی۔ ۔ جی میں منسٹر صاحب کے پی اے کو ساتھ لے کر جاؤں گا پاء جی۔ ۔ اپنا مرید ہے۔ ۔ ۔ اوکے اوکے جی۔ ۔ ۔ اللہ حافظ۔

سامنے کلاک پر ۲۵:۲۔ ۔ ۔ ٹوں۔ ۔ ۔ ٹوں۔ ۔ ۔ ۔ ٹی۔ ۔ ۔ ٹوں۔ ۔ ٹاں۔ ۔ کون۔ ۔ اچھا اچھا۔ ۔ ۔ حاجی منیر صاحب۔ ۔ ۔ میں بھولے کو کہہ کر آیا تھا۔ ۔ ۔ آپ بندہ بھیج کر منگوا لیں۔ ۔ ۔ ۔ چلو اچھا جی میں ابھی پوچھ کر پھر آپ کو بتاتا ہوں۔ ۔ ۔ آج کل ریٹ تیز ہے حاجی صاحب پر آپ سے پیسے لے کر ہم نے لاہور میں رہنا کیسے ہے۔ ۔ ۔ ہاہاہاہا۔ ۔ ۔ ۔ جی جی اچھا۔

کلاک پر ٹائم ۳۵:۲۔ ۔ ۔ ہاں جی پتر بھولے کتنا مال باقی رہ گیا ہے۔ ۔ ۔ اچھا پانی مارتے رہنا۔ ۔ او حاجی منیر کا فون آیا تھا اس کے پائے رکھے ہیں۔ ۔ ۔ او یار اس نے تو سیاپا ڈال دینا ہے۔ ۔ بڑا ہولا بندہ ہے۔ ۔ ۔ ۔ اچھا اس کا نوکر آئے تو اوجھڑی دے دینا، ، ناں مانے تو اچھو سے ایک آدھ پایا لے کر ٹکا دینا۔ ۔ ۔ ۔ اوکے میں میاں چنوں پہنچ گیا ہوں۔ ۔ ٹھیک آ۔

کلاک پر ٹائم ۵۵:۲۔ ٹوں۔ ۔ ۔ ۔ ٹاں۔ ۔ ۔ ۔ ٹوں۔ ۔ ۔ ۔ ٹاں۔ ۔ جی مستری صاحب۔ ۔ ۔ اچھا اچھا میری گل کروا دیں۔ ۔ ۔ سلام علیکم بھائی جی۔ ۔ ۔ ڈی جی سیمنٹ آ گیا پاجی۔ ریٹ کتنا۔ ۔ ۔ چلو چلو۔ ۔ ۔ ۲۰ گٹو لوڈ کروا دیں ہاں جی سریا وی۔ ۔ ۔ اکو پھیرا لگ جائے گا جی۔ ۔ ۔ اوکے اوکے میں شام تک چکر لگاتا ہوں۔ ۔ ۔ ٹھیک۔

کلاک پر ٹائم ۰۵:۳۔ ۔ ہاں جی ہیلو۔ ۔ بھولے کی ماں۔ ۔ سعودے کافون آیا تھا دوبئی سے۔ ۔ ۔ پیسے کا کہہ رہ تھا میں نے کہا دو مہینے آسرا کرے بڑا مندا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اچھا اگر فیر فون آئے تو ٹال دینا۔ ۔ ۔ ہاں جی اوکاڑہ کراس کر لیا ہے۔ ۔ ۔ شیدے سے کہ دیں بھانے چکر مار آئے۔ ۔ ۔ اوکے کوئی آیا گیا۔ ۔ ۔ اچھا اچھا۔ ۔ ۔

کلاک پر ٹائم ۱۵:۴۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ٹوں۔ ۔ ٹوں۔ ۔ ۔ ٹاں۔ ۔ ۔

میرے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا تھا۔ الطاف قصاب کی کال پر کال جاری تھی۔ ۔ ۔ میں خواہ مخواہ میں اس کی زندگی کے سیاسی، سماجی، معاشی، معاشرتی پہلوؤں سے آگاہی حاصل کر چکا تھا۔ سر گھما کر باقی مسافروں کو دیکھا، سب اپنے اپنے کانوں میں ہینڈ فری لگائے پرسکون نیند کے مزے لے رہے تھے۔ میں نے اپنی ہینڈ فری تلاش کرنے کے لیے اپنی جیبوں اور بیگ کو ٹٹولا۔ کہاں ملنی تھی۔ ۔ ۔ میری حالت اس بچے کی طرح ہو گئی جو میتھ کے ہوم ورک کی کاپی گھر بھول آیا ہو۔ اسی اضطراب میں بس ہوسٹس کو اشارے سے بلا کر پوچھا کہ ’’ہینڈ فری‘‘ ملے گی۔

اس نے مجھے یوں گھور کر دیکھا جیسے میرا ذہنی توازن درست نہ ہو اور سر جھٹکتی، پاؤں پٹختی چلی گئی۔ میں شرمندہ ہو گیا اور باقی سفر میں پینے کے لیے پانی بھی نہ مانگ سکا۔

میں اپنے ان گناہوں کی معافی مانگنے لگا جب میں نے مسٹر بین دیکھتے ہوئے اس پر قہقہے لگائے تھے۔

کلاک پر ٹائم ۱۵:۵۔ ۔ ۔ ۔ بس ہوسٹس کی آواز۔ ۔ ۔ تمام مسافروں سے التماس ہے کہ اپنے سفری بیگ اور دیگر سامان اپنے ہمراہ رکھ لیں۔ ۔ ۔ امید ہے آپ کا یہ سفر خوش گوار گزرا ہو گا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میری طرف سے اس اعلان میں یہ بات شامل کر لیں کہ اگلے سفر پر اپنی ہینڈ فری اپنے ساتھ رکھیں بلکہ کانوں میں لگا کر بس میں سوار ہوں۔ ۔ ۔ کیا پتہ کوئی الطاف قصاب آپ کا ہمسفر بن جائے اور اگر اسے آپ کے ساتھ والی سیٹ مل جائے تو یہ گانا ضرور سنیں

’’آپ جیسا کوئی میری زندگی میں آئے

تو بات بن جائے

ہاں ہاں بات بن جائے‘‘

٭٭٭

 

 

 

 

جھاکا کھلنا

 

                شوکت جمال

 

پنجابی برّ صغیر کی ان چند زبانوں میں سے ہے جن میں الفاظ کی شیرینی، اور ادائیگی میں سادگی اور روانی ہے۔ بعض لوگوں، خاص طور پر فلمی اداکاروں اور اداکاراؤں کے لہجے سے سننے والوں کو اس زبان میں کھردرے پن اور کرختگی کا احساس ہو سکتا ہے، لیکن مجموعی طور پر پنجابی زبان کی چاشنی اور مقبولیت مسلّم ہے۔ اس زبان میں کئی الفاظ ایسے بھی ہیں جو اردو اور دوسری زبانوں میں بھی پائے جاتے ہیں مگر مطلب میں اکثر زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر راقم الحروف کے یہ چار مصرعے دیکھ لیجیے ؎

یہ کیسا عشق ہے عاشق پڑا دن رات سوتا ہے

نہ آہِ سرد بھرتا ہے نہ گاتا ہے نہ روتا ہے

کہاوت ہے یہ اردو اور پنجابی زبانوں میں

جو جاگے ہے سو پاوے ہے جو سوتا ہے وہ ’’ کھوتا‘‘ ہے

اس زبان کے کئی الفاظ ایسے ہیں جن کو صحیح طور پر ادا کرنا ایک فن ہے اور بقول شاعر۔ ۔ ۔ عشق بن یہ ہنر نہیں آتا۔ سو جب تک آپ اس زبان یا کسی صاحبِ زبان سے عشق نہیں کریں گے آپ کی پنجابی ایسی ہی رہے گی جیسے میری انگریزی! میرے ایک محسن نے پنجابی زبان اور تہذیب سے میرے والہانہ لگاؤ کو دیکھ کر مجھے ایک مشہور محاورہ ’’ جو کرے گھیو نہ کرے ماں نہ کرے پیو‘‘ آج سے تقریباً چالیس سال پہلے رٹایا تھا۔ وہ اکثر ملتے ہیں اور یہ محاورہ مجھ سے ضرور سنتے ہیں لیکن انگلی تو انگلی۔ ۔ ۔ زبان ٹیڑھی کرنے کے باوجود میرے حلق سے ویسا گھیو نہیں نکلتاجیسا انہیں چاہیے۔

پنجابی کے کئی الفاظ ایسے ہیں جن کا نعم البدل کسی اور زبان میں نہیں ملتا، مثال کے طور پر ولٹوئی، چرغہ، کتلمّا،  کھرا، وغیرہ۔ آئیے کیوں نہ یہاں کھرے کا کچھ بیاں ہو جائے۔ کھرا سطحِ زمین سے چند انچ نیچے ہوتا ہے۔ اس کے ایک سرے پر کارپوریشن کا نلکا لگا ہوتا ہے یا ہینڈ پمپ، جس کے منہ پر ایک لمبا سا کپڑا لٹکا ہوتا ہے۔ اس کپڑے کو عرفِ عام میں ’’ ٹاکی‘‘ کہتے ہیں۔ یہی ٹاکی پانی کی دھار کو کنٹرول کرتی ہے۔ حسب ضرورت آپ اس سے دھار کو لمبی یا چھوٹی، تیز یا آہستہ کر سکتے ہیں۔ فلیٹوں میں رہنے والے کھرے کی افادیت سے محروم ہیں، چونکہ اس کے لئے گھر میں صحن یا ویہڑہ ہونا لازمی ہے۔ گھر بھر کے کپڑے، برتن، دال، چاول، گوشت، سبزی، خاص طور پر ساگ، اوجھڑی، سری پائے وغیرہ کی دھلائی کھرے میں ہی تسلّی بخش طور پر ہو سکتی ہے۔ صبح کو آپ ٹوتھ پیسٹ استعمال کرتے ہوں، مسواک کرتے ہوں، منجن ملتے ہوں یا کوئلے کے سفوف سے ہی کام چلاتے ہوں، کلّی کرنے کے لئے کھُرا مناسب ترین جگہ ہے۔ آپ باہر سے آئیں، پاؤں اور جوتے کیچڑ میں لپٹے ہوں تو پہلے کھرے کا رخ کیجیے۔ وضو کرنے، نہانے اور بچوں کو نہلانے کے لیے بھی اسے ہی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ خود نہانا ہو تو بہتر ہے کہ کھرے کے اوپر ایک چادر تان لیں تاکہ پاس پڑوس سے جھاکی نہ پڑے، آگے آپ کی مرضی۔ ایمرجنسی کی حالت میں کھرے پرہی چھوٹے بچوں کو ضروریات سے فارغ بھی کرایا جا سکتا ہے۔ دیکھا آپ نے، کس قدر کثیر المقاصد مقام ہے یہ کھرا ؟

آمدم بر سرِ مطلب، آج آپ کو جس عدیم المثال پنجابی محاورے سے متعارف کروارہا ہوں وہ ہے ’’ جھاکا کھلنا‘‘۔ جھاکا کھولنے سے پہلے ’’جھاکا‘‘ کا صحیح تلفّظ آنا بہت ضروری ہے۔ یہ لفظ ڈھاکا، تھاما، یا دھاگا کا ہم وزن تو ہو سکتا ہے مگر ہم آواز نہیں ہے۔ اس میں جھاکا کا جیم، ’’ج‘‘ اور ’’چ‘‘ کی درمیانی آواز میں نکالنا پڑتا ہے جو ہر شخص کے بس کی بات نہیں۔ اسی طرح اس میں جو دو چشمی ’’ھ‘‘ ہے اس کی آواز بھی آدھی نکالی جاتی ہے اور بقیہ آدھی حلق میں ہی تحلیل کرنی پڑتی ہے۔ یہ تھا ’’جھاکا‘‘ بولنے کے صحیح طریقہ۔ آگے پڑھنے سے پہلے آپ چاہیں تو اس کی اچھی طرح سے مشق کر لیجیے۔ ۔ ۔ پھر نہ کہنا ہمیں خبر نہ ہوئی۔

شاعری میں شرم، جھجک، ہچکچاہٹ جیسے جو الفاظ استعمال ہوتے ہیں یا۔ ۔ ۔ کہیں ایسا نہ ہو جائے، کہیں ویسا نہ ہو جائے ۔ ۔ ۔ قسم کے جو مصرعے کہے گئے ہیں، ان سب کو جمع کیجیے تو جو حاصل نکلے گا وہی جھاکا کہلاتا ہے۔ دیکھا آپ نے، پنجابی کا ایک ہی لفظ اپنے اندر الفاظ اور معانی کا کتنا بڑا سمندر سموئے ہوئے ہے ! ایک دفعہ جھاکا کھل جائے تو بہت سے راستے کھل جاتے ہیں اور دور تک روشنی ہی روشنی نظر آتی ہے۔ اس سلسلے میں ایک چھوٹی سی مثال پیشِ خدمت ہے۔ کمپنی کی ملازمت میں بہت عرصے تک میری اتنی ہمّت نہیں ہوئی کہ اپنے شیخ سے معاہدے (یہاں کی زبان میں عقد ) کی رُو سے جو حقوق اور سہولتیں ہیں، ان سے زیادہ کچھ مانگ سکوں۔ ایک دفعہ حالات کچھ ایسے ہو گئے کہ عقد کی حدود تجاوز کرنے کے علاوہ کوئی اور چارہ نہ رہا۔ چناں چہ میں نے خوف اور جھجھک کو بالائے طاق رکھ کے شیخ سے حرفِ مطلب بیان کر ہی دیا۔ نہ جانے وہ کس خوشگوار موڈ میں تھا، میری درخواست منظور ہو گئی۔ کام کیا نکلا، میرا تو جھاکا ہی کھل گیا۔ اب کوئی بھی مسئلہ ہو، میں تکلّف نہیں کرتا۔

اسی طرح پہلے پہل قرض کے لئے کسی کے آگے ہاتھ پھیلانا بھی کارے دارد۔ اس کے لئے جھاکا بڑی مشکل سے کھلتا ہے۔ لیکن اگر ایک دفعہ کام بن جائے تو پھر چل سو چل۔ قرض کے معاملے میں ہمارے حکمرانوں کا کارنامہ ہی دیکھ لیجیے، جھاکا کیا کھلا کہ دیکھتے ہی دیکھتے قرض دینے والے تمام بین الاقوامی اداروں کے ہاں ہمارے کھاتے کھل گئے اور وہ بھی کئی جلدوں میں۔

شاعر اور ادیب بھی جب نئے نئے میدان میں اترتے ہیں تو ان کا جھاکا کھلنے میں ذرا وقت لگتا ہے۔ خاص طور پر شاعر کا جب تک اچھی طرح سے جھاکا کھل نہ جائے وہ مشاعرے میں اپنا کلام بے دھڑک نہیں پڑھ سکتا۔ ہاتھ پاؤں پھول جاتے ہیں، زبان لڑکھڑانے لگتی ہے، سر پر ہوٹنگ کا خوف سوار ہو جاتا ہے۔ نئے آنے والوں کو چھوڑئیے، ایک بہت ہی مشہور اور منجھے ہوئے ادیب اور شاعر جن کا شمار اپنے ملک کے ممتاز لکھاریوں میں ہوتا تھا، سعودی عرب آ کر بہت عرصے تک گوشہ نشیں رہے اور اپنے احباب کے سامنے بھی کھلنے سے پرہیز کرتے رہے۔ جھاکا تھا کہ کھلنے کا نام ہی نہ لیتا تھا۔ بہرحال جب خدا خدا کر کے کفر ٹوٹا تو الامان الحفیظ۔ آپس کی بات ہے، مجھے بھی ایک شاعر کی حیثیت سے جھاکا کھولنے میں بارہ تیرہ سال کا عرصہ لگ گیا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ میرا دیوان پہلے چھپا اور جھاکا بعد میں کھلا۔

جسے عشق کا تیر کاری لگے۔ ۔ ۔ اُس کے لئے جھاکا کھولنا بہت ضروری ہو جاتا ہے۔ ورنہ عین ممکن ہے کہ وہ بچارا جھاکا ہی کھولتا رہ جائے اور محبوبہ کی منگنی کہیں اور ہو جائے۔ جھاکا ایک پیراشوٹ کی طرح ہے۔ جہاز سے کودتے ہوئے اگر وقت پر پیراشوٹ نہیں کھلا تو نیچے لیموزین کی جگہ میّت گاڑی ہی ملے گی۔ کئی کوششوں کے باوجود جھاکا نہ کھل سکنے کی وجہ سے نہ جانے اس شاعر کی محبت کا کیا انجام ہوا ہو گاجس نے یہ کہا ہے ؎

ابھی تو رعبِ جمال سے ہم زباں بریدہ سے ہو رہے ہیں

دیا سہارا جو ہمتوں نے تو اُن سے کچھ التجا کریں گے

اور حضرت آبروؔ کو تو جھاکا کھولنے کے کئی مواقع ملے مگر بقول ان کے ؎

یوں آبروؔ بناوے دل میں ہزار باتاں

جب تیرے آگے آوے، گفتار بھول جاوے

پرانے زمانے کے عاشق بھی کیا عاشق ہوتے تھے۔ ان کا جھاکا پیدائشی طور پر کھلا ہوتا تھا۔ مثال کے طور پر مجنوں، فرہاد اور رانجھا کو ہی لے لیجیے جو بالترتیب لیلیٰ، شیریں اور ہیر کے علاوہ ان خواتین کے والدین اور عزیزوں کے سامنے بھی حالِ دل ڈنکے کی چوٹ پر کہتے رہے ؎

اذاں دی کعبہ میں، ناقوس دَیر میں پھونکا

کہاں کہاں ترا عاشق تجھے پکار آیا

آج کل مشترک درسگاہوں، دفتروں اور کاروباری اداروں میں شانہ بہ شانہ کام کرنے اور دوسری سماجی سہولیات کی وجہ سے محبت کے ماروں کا جھاکا بھی جلد ہی کھل جاتا ہے اگرچہ جھاکا کھولنے کے لئے فلمی طریقے زیادہ استعمال کئے جاتے ہیں … مثلا رو مال گرا کر، کرایے کے غنڈوں سے محبوبہ کو ’’ ً چھِڑوا‘‘ کر، وغیرہ وغیرہ۔ جھاکا کھولنے کے لئے بعض دفعہ بڑی صاف گوئی سے کام لیا جاتا ہے مثلا محبوبہ کو سڑک پرہی روک کر کہا جاتا ہے ’’ آ جا، نی بَے جا سائکل تے‘‘، یا ’’ چل چلئے دنیا دے اُس نکڑے‘‘۔ بعض منچلے تو ’’ قمیض تیری کالی۔ ۔ ۔‘‘ گا کر محبوبہ کے ذاتی معاملات میں بھی دخل انداز ہونے سے نہیں چوکتے۔ تجربہ کی بنیاد پر میری اپنی رائے یہ ہے کہ جس محبت میں جھاکا جلدی کھل جائے یا جان بوجھ کر کھول لیا جائے وہ عشق، الحاق یا تعلق پائیدار نہیں ہوتا۔ کئی فلمی، سماجی اور سیاستی شخصیتوں کی مثالیں آپ کے سامنے ہیں۔ جھٹ منگنی، پٹ بیاہ، کھٹ طلاق۔ ۔ ۔ !

سنا ہے کہ پرانے زمانے میں بہت سی بیویاں ایسی بھی گزری ہیں جن کا اپنے شوہروں سے تمام عمر جھاکا نہیں کھل سکا۔ دروغ بر گردنِ راوی، بعض ایسی خواتین کو توسالوں تک اپنے ’’اُن‘‘ کا حلیہ بھی نہیں معلوم ہو سکا جن کے ساتھ ان کی قسمت جوڑی یا پھوڑی گئی۔ بعد میں بچوں کی شکل دیکھ کر کچھ اندازہ ہوا۔ اس دور میں ایسی بیویاں تو شاید نہ مل سکیں لیکن ایسے شوہر ضرور پائے جاتے ہیں جن کو دیکھ کر یوں لگتا ہے جیسے طویل رفاقت کے باوجود بیگم سے ان کا جھاکا نہ کھلا ہو۔ ایک ایسے ہی صاحب کسی فیکٹری میں کام کرتے تھے۔ ایک دن شام کو گھر آئے، سخت بھوک لگی ہوئی تھی۔ کھانا کھانے کے لئے کھُرے پر ہاتھ دھونے لگے۔ بیگم نے جو ڈپٹ کر پوچھا کہ یہ ہاتھ کس خوشی میں دھوئے جا رہے ہیں تو کھسیا کر بولے، ’’ ایویں ای۔ ۔ ۔ ذرا کاکےنوں چُکنا سی‘‘۔ ویسے ان جیسے شوہر حضرات پر پنجابی کا ایک اور دلچسپ محاورہ چپکتا ہے۔ ۔ ۔ ’’ تھلّے لگنا‘‘۔ اس محاورے کے بارے میں پھر کبھی بات ہو گی۔

٭٭٭

 

 

 

تیسری آنکھ

 

                محمد ایوب صابر

 

آنکھیں جسم کے وہ اعضاء ہیں جن کی مدد سے ہم سارے جہاں کا نظارہ کر سکتے ہیں۔ ہمارے ہاں اکثر الیکشن اور سلیکشن کا کھیل جاری رہتا ہے اس لئے آنکھیں کھلی رکھنے کی بے حد ضرورت ہے۔ ویسے ان دنوں آنکھ لگتی ہی کہاں ہے جو کھلی رکھنی پڑیں۔ پچھلے دنوں میں نے پاکستان چھٹیوں کے دوران دیکھا کہ دن بھر گیس کی لوڈ شیڈنگ کے باعث لوگ آدھی رات کے وقت یا رات کے آخری پہر کچن کا رخ کرنے لگے ہیں۔ لوگوں نے گھروں میں چولھا، گیزر۔ استری، جنریٹر، اور بلب تک گیس پر چلانے کا انتظام کیا ہے۔ یہاں تک کہ ۸۰فیصد ٹرانسپورٹ گیس پر چلتی ہے اسے کہتے ہیں کہ ’’آنکھ ایک نہیں کجلوٹیاں نو نو۔‘‘

تقریباً۱۰برس قبل تک ہم گیس کی لوڈشیڈنگ کے نام سے بھی غیرمانوس تھے۔ اب یہ حال یہ کہ فجر کی اذان دینے کے لئے مولوی صاحب صبح۵بجے بیدار ہوتے ہیں اس کے برعکس جس ماں کے بچے اسکول جاتے ہیں ہو صبح۴بجے اٹھ جاتی ہے تاکہ ناشتہ، لنچ اور ڈنر ایک ساتھ ہی بنا سکے۔ اس کے علاوہ ایک نئی دریافت بھی ہوئی ہے کہ اپنے گیس ہیٹر کے ساتھ فریج کا کمپریسر لگا دیا جاتا ہے جس کی مدد سے آپ پڑوسیوں کی گیس کھینچ سکتے ہیں لیکن یہ بھی کوئی حل نہیں ہے کیونکہ وہ دن دور نہیں جب سارے لوگ پڑوسیوں کی گیس کھینچنے لگیں گے پھر کسی کو بھی فائدہ نہیں ہو گا۔ بجلی تو پہلے ہی ناپید تھی، اب گیس بھی ہوا میں تحلیل ہو گئی ہے۔

یہ بات بھی مشاہدے میں آئی ہے کہ الیکشن کے دوران لوگ آنکھ بند کر کے غیر مستحق افراد کو شاہی محلات کا حقدار بنا دیتے ہیں اس کے بعد ۵سال تک آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر منتخب امیدوار کو اُس سائنسداں کی طرح تلاش کرتے ہیں جو نئے نئے سیارے دریافت کرنے کے خبط میں ہر وقت آسمان کی طرف آنکھیں لگائے رکھتا ہے۔ اس سائنسدان کو تو کبھی نہ کبھی کامیابی حاصل ہو جاتی ہے لیکن ووٹر آنکھوں میں امید کے چراغ لئے مارے مارے پھرتا ہے اور اس کی منتخب امیدوار وزارت کی کرسی پر جُڑ چکا ہوتا ہے۔ وہ اپنی آنکھیں اس طوطے کی طرح بدل لیتا ہے جسے آزاد کرنے بعد بھی اس کے واپس پنجرے میں آنے کی امید رکھی جاتی ہے۔ اسی لئے تو کہتے ہیں کہ آنکھوں میں شرم ہو تو جہاز سے بھاری ہیں۔

آج کل کچھ سیاستدانوں کے بارے میں یہی نعرہ سنتے ہیں کہ ’’ ایک ہی سب پر بھاری‘‘ یہ الگ بات ہے کہ پوری قوم سے ایک کا ہی بوجھ برداشت نہیں ہو رہا۔ حکومت کی تو پوری کوشش ہے کہ عوام کی آنکھ میں نیل کی سلائی پھیری جائے تاکہ اندھے عوام ہمیں اگلے انتخابات میں ایوان میں پہنچانے کا انتظام کر دیں۔ آج بھی اگر عوام نے اپنی آنکھوں سے پٹی نہ اتاری تو وہ دن دور نہیں جب لوگوں کی آنکھوں میں بھی لوڈ شیڈنگ اتر آئے گی، پھر شکایت ہو گی کہ ہماری آنکھوں کے تارے چھوٹ رہے ہیں۔ اگر آپ لاپروا لوگوں کو اپنا حکمران منتخب کریں گے تو وہ آپ کو سر آنکھوں پر کیا خاک بٹھائیں گے ؟ وہ تو انتخابات جیتنے کے بعد اپنی آنکھ میلی کر کے چھو منتر ہو جائیں گے۔ اس کے بعد آنکھوں سے دریا بہانے سے بھی کام نہیں چلے گا۔

آج صاحبانِ حل و عقد نے عوام کی آنکھوں میں خاک ڈالنے کا پکا ارادہ کیا ہے اور ہم ہیں کہ آنکھوں میں امیدوں کے چراغ جلا کر بہتری کی آس پر زندہ ہیں حالانکہ اُن کی آنکھوں کا تو پانی مر گیا ہے۔ وہ اقتدار کی راہداریوں میں آنکھیں پھیر کر گھوم رہے ہیں اور عوام کی آنکھیں آسمان پر لگی ہیں۔ اگر کوئی غریب اپنی فریاد لے کر جاتا ہے تو اُسے آنکھیں دکھاتے ہیں۔ غریب اپنی پُر آشوب آنکھیں لے کر مایوس لوٹ آتا ہے۔

آج غربت و افلاس کی چکی میں پستے ہوئے لوگ ’’تنگ آمد، بجنگ آمد‘‘ کے مصداق احتجاج کے لئے گھروں سے نکلنے میں ذرا بھی تامل کا مظاہرہ نہیں کرتے۔ در اصل جب سے ایک کالے نے تبدیلی کے نام پر ’’سفید گھر‘‘ میں قیام کیا ہے، تب سے ہر کوئی تبدیلی کا نعرہ لگا کر بھولے بھالے عوام کو بے وقوف بنا رہا لے۔ پہلے خطروں کے کھلاڑی نے تبدیلی کا نعرہ لگایا اور لوگ اپنی اپنی ڈنر پارٹیاں چھور کر اس کے پیچھے بھاگنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ اس کا دعویٰ ہے کہ میں ایک بال سے دو وکٹیں لینے کا ماہر ہوں۔ اِس لئے میں ہی تبدیلی لا سکتا ہوں۔ اُس کے بعد ایک دور سے تشریف لائے ہوئے صاحب نے تبدیلی کا نعرہ لگا کر عوام کی ٹوپی ڈرامے کے ذریعے ٹوپی پہنا دی۔ ۳دن تک ڈی چوک میں کھڑے ہو کر حکومت کا گالیاں دیتے رہے اور چوتھے دن شام کے وقت بے اختیار ان کے لبوں پر یہ نغمہ آ گیا :

’’آ سینے نال لگ جا ٹھاہ کر کے‘‘

عرفِ عام میں اُسے وزارت عظمیٰ کا پیدائشی امیدوار کہتے ہیں۔ خبردار !جوکسی نے اِسے دو پارٹیوں کے ’’مک مکا‘‘ کا نام دیا۔ وہ انقلاب کا نعرہ لگا کر لوگوں کی قیادت فرما رہے تھے۔ اُن کا دعویٰ ہے کہ یہ دنیا کا سب سے منفرد انقلاب ہے۔ اِس میں کوئی شک نہیں کہ یہ دنیا میں جتنے بھی انقلاب آئے، اُن میں رہنما بھی عوام کے درمیان ہوتا تھا۔ جبکہ یہ پہلی دفعہ ہوا ہے کہ کوئی رہنما عوام کو سڑکوں پر بٹھا کر خود فائیو اسٹار ہوٹل کے کمرے کی طرح سہولیات سے مزین کنٹینر میں تشریف فرما تھے۔ پیروکار کھلے میدان میں سخت سردی میں ٹھٹھرتے رہے اور مرشد لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونک رہے تھے اور بھولے عوام انقلاب کے نام پر آنکھیں موند کر نعرے بازی کر رہے تھے۔

میں اکثرسوچتا تھا کہ ہماری قوم دونوں آنکھیں کھلی رکھنے کے باوجود دھوکے میں کیسے آ جاتی ہے ؟

میں نے ایک دن خواجہ خوامخواہ سے پوچھا تو اُس نے دور کی کوڑی لاتے ہوئے کہا کہ قوم کو اس وقت تین آنکھوں کی ضرورت ہے۔ اِن میں دو سامنے کی طرف اور ایک عقب کی جانب ہونی چاہیے۔ میں پھر عقل کے سمندر میں ہچکولے کھانے لگا کہ تیسری آنکھ کہاں سے آئے گی۔

آج اخبار میں یہ خبر پڑھ کر حیرت سے میری آنکھیں کھلی رہ گئیں کہ نیویارک یونیورسٹی میں عراقی نژادامریکی پروفیسر وفا بلال نے اپنے دماغ کے عقبی حصے میں تیسری آنکھ کے طور پر ایک کیمرہ نصب کرا لیا ہے۔ اس کی تنصیب کے لئے باقاعدہ سرجری کرانی پڑی۔ اس عمل کو تیسری آنکھ کا نام دیا گیا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عراقی باشندے امریکہ جانے کے بعد بھی آپریشن اور تنصیبات سے جڑے رہتے ہیں۔ بہر حال اِس تیسری آنکھ کی مدد سے انسان پیٹھ پیچھے آتے شخص کو بھی بآسانی دیکھ سکتا ہے۔ اس ایجاد کے بعد پیٹھ میں خنجر گھونپنا بہت مشکل ہو جائے گا۔ آپ خود ہی فیصلہ کریں کہ جس قوم کی پہلے ہی مہنگائی، بیروزگاری، انتہاپسندی اور غربت و افلاس کی وجہ سے پیٹھ چارپائی سے لگ جائے، اُس کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑنا کہاں کی دانشمندی ہے۔

امید ہے کہ آئندہ انتخابات میں پوری قوم اپنی تیسری آنکھ کھلی رکھے گی۔ ارے ارے یہ کیا کہہ رہے ہو ہمارے ہاں لوگوں کے پاس تیسری آنکھ کہاں ہے وہ تو ’’سپر پاور‘‘ کے پاس ہے جو ہر وقت پوری دنیا پر تیسری آنکھ سے نظر رکھتا ہے۔ ہاں یہ سچ ہے کہ ہمارے پاس تیسری آنکھ نہیں لیکن خواجہ خوامخواہ کہتے ہیں کہ عقل کی بھی ایک آنکھ ہوتی ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

پسینہ

 

                نفیسہ سلطانہ

 

ہم بچپن سے ہی اپنے گھر میں بہت عقل مند اور پڑھاکو مشہور تھے، اس بات پر ہمیں بھی بہت ناز تھا کہ ہما را رز لٹ دوسرے بہن بھائیوں سے کہیں اچھا آتا تھا۔

پڑھا کو ہونے کی وجہ سے ہمارے ابا حضور نے ہمیں کالج جانے کی اجازت بھی دے دی تھی۔ ۔ ۔ ہماری تینوں بڑی بہنوں نے کالج کی صورت بھی نہیں دیکھی تھی، ہاں البتہ سسرا ل کا منہ ضرور دیکھ لیا تھا۔ اُن دنوں گھروں میں فون ہی نہیں تھے تو موبائل واٹس ایپ اور فیس بک وغیرہ تو کسی کے خواب اور گمان میں بھی نہ ہوں گے۔

لڑکے اگر کسی لڑکی سے کچھ بات کہنا چاہتا تو بڑی مشقتوں سے گزرنا پڑ تا تھا۔ بیچارے لڑکے کسی گلی کے چوراہے پر کھڑے، کسی دیوار کی آڑ میں یا کسی بجلی کے کھمبے سے ٹیک لگائے گھنٹو ں، سکول یا کالج جانے والی لڑکیوں کا انتظار کرتے اور جب ان کے پاس سے گزر ہوتا تو پہلے سے سوچا ہوا کوئی فقرہ کستے اور لڑ کیوں کے چہرے شرم سے گلنار ہو جاتے۔ لڑکی من ہی من میں کھی کھی کرتی ہوئی آگے بڑھ جاتی۔

اب ہم ٹھہرے پڑھاکو ٹائپ۔ کئی بار ایسا ہوا کہ کسی نے ہمیں چھیڑنے کی ہمت کر بھی لی توا سے بعد میں پچھتا وا ہی ہا تھ لگا۔ ہمارے گھر سے کالج دو کلومیٹر دور تھا، کبھی وہاں ہم پیدل جا تے اور کبھی تا نگہ میں۔ ۔ ۔ تین لڑکیوں کا گروپ تھا، کبھی چار بھی ہو جاتی تھیں۔ راستے میں پتلی گلیاں بھی پڑ تی تھیں، واپسی میں دونوں سہیلیوں کے گھر پہلے پڑتے تھے اور کچھ را ستہ ہمیں پیدل کاٹنا پڑتا تھا۔

ہم کئی دن سے نوٹ کر رہے تھے کہ ایک دُبلا پتلا لمبے قد کا لڑکا، جب ہما کیلے ہو جاتے ہیں، ہمارا پیچھا کرتا  ہوا گھر کی گلی تک آتا، گلی کے موڑ پر کھڑا ہو کر ہمیں دیکھتا جب تک ہم گھر کے اندر داخل نہ ہو جاتے۔

اِس بات کا ا حساس ہوا تو ہمارے پسینے چھوٹ گئے۔ ۔ ۔ا للہ رحم کرے اب کیا ہو گا گھر والوں کو خبر ہو گئی تو آگے کی پڑھائی گئی ہاتھ سے۔ ۔ ۔ خیر ایک دن ہم اسی پتلی گلی سے تیز تیز چلے جا رہے تھے کہ اچانک وہی لمبے قد کا ہیولہ نمودار ہوا، اس نے اپنا لمبا پتلا ہاتھ ہماری طرف بڑھایا۔ ۔ ۔ شاید اس کے ہاتھ میں رو مال تھا، عجیب و غریب قسم کی خوشبو اُس رو مال میں بسی ہو ئی تھی۔ بس ہما ری ناک پر لگا نا ہی چاہتا تھا کہ ہمارے اندر کی غصیلی لڑ کی باہر آ گئی اور پوری قوت سے اپنا الٹا ہاتھ اسےد ے مارا جو اس کے رو مال والے ہاتھ پر جا پڑا۔ چوڑی چین والی گھڑی کھل کر نالی میں گری اور رو مال زمین پر ( شا ید کسی مولوی صاحب سے دم وا لا عطر لگا کر لایا تھا لڑ کی کو پٹا نے کے لئے )اور خود سر پر پیر رکھ کر بھاگ کھڑا ہوا۔

اِس حادثے سے ہماری حالت خراب ہو گئی سانس پھول گئی۔  ہاتھ پیر کانپنے لگے، کتابیں الگ گر گئیں۔ ۔ ۔ جیسے تیسے کتابیں سمیٹ کر گھر کی طرف دوڑے۔ا پنے ہاتھ کے پچھلے حصے سے گھن سی آ رہی تھی جو اس نامراد سے ٹکرایا تھا۔

ڈرتے ڈرتے گھر پہنچے، سب سے پہلے تو صابن سے ہاتھ دھویا۔ ۔ بڑی مشکل سے دل و دماغ قابو میں آئے۔ ابھی ہم پوری طرح اس حادثے کے خوف سے باہر بھی نہ آئے تھے کہ باہر سے ہمارے بھا ئی صاحب دندنا تے ہوئے گھر میں داخل ہوئے۔

’’اِسی لئے میں نے کہا تھا کہ کا لج پڑھنے مت جاؤ، خراب ماحول ہوتا ہے کالج کا، لڑکے لڑکیاں ساتھ پڑھتے ہیں، بے شرم ہو جاتی ہیں لڑکیاں۔‘‘

ہم اپنا قصور سمجھ کر آنکھوں میں آنسو بھر کر خاموش۔ ۔ ۔ کسی نے آنکھوں دیکھا حال اُنہیں سناد یا تھا اور وہ گھر جا کر اس کی مر مت بھی کر آئے تھے۔ بھائی کا فرمان جاری ہو گیا کہ آج سے کا لج جا نا بند!

لیکن ہم ٹھہرے اپنے ابا حضور کی لاڈلی، ہمارا کالج کون بند کروا سکتا تھا۔ ۔ ۔ ہاں شاید اس لڑکے کی لگامیں کھینچ لی گئی تھیں، وہ پھر کبھی دکھائی نہ دیا۔

چھیڑ چھاڑ کرنے والوں کی بھی کئی قسمیں ہوتی ہیں۔ ۔ ۔

پہلی قسم چٹ پٹے فقرے کسنے والے۔ ۔ ۔

دو سری قسم پیچھا کر کے کالج سے گھر، گھر سے کالج چھوڑ کر آنے والے۔ ۔ ۔

اور تیسری قسم سب سے زیادہ خطرناک۔ ۔ ۔ پرچہ بازی کرنے والی۔ ۔ ۔

ایک بار پہلی قسم والے لڑکوں کے گروپ میں سے کسی نے کہا۔ ۔ ۔ ’’یار سن ! تو نے کبھی ۱۰۱ کا ہندسہ چلتے ہوئے دیکھا ہے ؟‘‘

دوسرے نے کہا ’’نہیں !‘‘

پہلا بولا ’’دیکھ! وہ آگے جا رہا ہے !!‘‘

اور کئی قہقہے ایک ساتھ گونجے۔

ہم نے غور کیا تو پتہ چلا کہ ہم تین لڑکیوں میں سے سب سے چھوٹے قد والی درمیان میں تھی ہم دو لمبے قد کی آس پاس۔ ۔ ۔ ہماری بھی ہنسی نکل گئی۔ لیکن بغیر کسی آواز کے۔

ایک بار دو ماہ کی چھٹیوں کے بعد ہم اپنے دو عدد بھانجوں کو، جن کا نرسری میں نیا نیا ایڈمیشن ہوا تھا، سکول چھوڑنے جا رہے تھے کہ پیچھے سے آواز آئی ’’ دو ماہ میں دود و‘‘

ہمارے تو مارے شرمندگی کے پسینے چھوٹ گئے۔ اُس دن کے بعد ہم کسی بچے کو اسکول چھوڑنے نہیں گئے۔

ایک بار ایک دو سری قسم والا لڑکا ہمارے پیچھے روز آنا شروع ہو گیا۔ ۔ ۔ ہم تینوں کو سمجھ نہ آئی کہ کس پر عاشق ہیں؟

موصوف روز ایک ڈیڑھ کلو میٹر دور تک چل کر اپنی ٹانگیں تھکاتے تھے۔ ۔ ۔ ہمارے گروپ میں ایک لڑکی زیادہ حسین تھی، باقی ہم اوسط درجے پہ فائز۔ ۔ ۔ ہم بے فکر تھیں کہ جو لڑکی سب سے زیادہ خوبصورت ہے، اُسی کے پیچھے ہو گا۔ ۔ ۔ کئی دن اِسی طرح چلتا رہا۔ ۔ ۔ ہم نظر انداز کرتے رہے کہ کچھ دِن تھک ہار کے خود ہی آنا چھوڑ دے گا۔ ۔ ۔ لیکن واہ ری ہمت۔ ۔ ۔ا یک دن آگے بڑھا تیزی سے اور ایک گولڈن رنگ کا قلم ہمارے ہاتھ میں پکڑی فائل میں ٹھونس کر یہ جا وہ جا۔

میں ہکی بکی رہ گئی۔ ۔ ۔ گھبرا کے فائل ہی دور پھینک دی۔ فائل کہیں گئی قلم کہیں۔ ۔ ۔ جلدی سے بھاگ کر فائل اٹھائی اور ہم تینوں تیزی سے آگے بڑھ گئیں۔

دل ہی دل میں گالیاں دیتی ہوئیں۔ ۔ ۔ دونوں لڑکیاں ہمیں شک کی نگاہ سے دیکھنے لگی تھیں۔ ۔ ۔ وہ تو خیر ہوئی کہ اس کے بعد وہ کبھی نظر نہ آیا !!

لڑکوں کی تیسری قسم پرچے باز ہوتی ہے۔ ۔ ۔ا پنا درد دل، دردِ محبت خو شبوؤں والے کاغذ پر لکھا۔ ۔ ۔ کہیں کہیں آنسو ٹپکا کر سیاہی پھیلا دی۔ ۔ ۔ تو کہیں لڑکی کا نام خون سے لکھ دیا۔ اللہ ہی بہتر جانے کہ آنسو پانی ہوتے ہوں اور خون لال سیاہی۔ پرچے میں پتھر لپیٹ کر چھت پر پھینک دیا۔ ۔ ۔ اب اگر وہ کسی کے ہاتھ لگ گیا تو گھر میں قیامت۔ ۔ ۔ پرچے میں اعلی قسم کی شاعر ی۔ ۔ ۔ ایسی شاعری کہ غالبؔ اور میرؔ پڑھ لیتے تو شا ید شاعری ہی چھوڑ دیتے، جیسے ؎

شیشی بھری گلاب کی پتھر سے پھوڑ دوں

تو نظر نہ آئے تو اپنا سر پھوڑ دوں

ایک دن چھت پر اُون والے پلنگ پر دری بچھائے، اماں پاندان سامنے رکھے پان لگا رہی تھیں۔ ہم سامنے تخت پر بیٹھے حساب (s math ) کا کوئی سوال حل کرنے میں منہمک تھے کہ کھٹ سے آواز آئی اور ایک گول سی چیز عین اماں کے سا منے پاندان کے ڈھکن پر آ گر ی۔ ۔ ۔ اماں حیران رہ گئیں۔

’’دیکھنا تو بیٹا یہ کیا چیز ہے ؟‘‘

اٹھ کر دیکھا تو کیا دیکھا، ایک کاغذ میں پتھر لپٹا ہے۔ انہوں نے بے خیالی میں کاغذ کو تو ایک طرف پھینکا البتہ پتھر الٹ پلٹ کر دیکھنے لگیں۔ ہم نے بھی کمال چالاکی سے کاغذ اٹھا لیا۔ اگلے محلے ہی کے لڑکے کا ہمارے نام خط تھا۔ کئی ٹکڑوں میں تقسیم کیا اور باہر پھینک دیا۔ اس بار ہم بال بال بچ گئے۔ ۔ ۔ ورنہ ساری مصیبت پڑھائی اور کالج پر آتی۔ نہ جانے کیا بات ہے، قصور کسی کا بھی ہو، ساری مصیبت لڑکی کی پڑھائی پر آتی ہے۔ ۔ ۔ اب ان سب باتوں میں لڑکی اور پڑھائی کا کیا قصور ؟؟ کبھی کبھی لڑکیوں کا کوئی قصور نہیں ہو تا، پھر بھی تعلیم سے محروم کر دی جاتی تھیں۔

جیسے تیسے کا لج کی پڑھائی پوری ہوئی ہی تھی کہ شادی ہو گئی ! اور شادی ہوئی بھی تو انڈیا میں۔ ۔ ۔ کہاں کراچی کہاں بھوپال۔ ۔ ۔ ماحول، زبان، بول چال، رہن سہن۔ ۔ ۔ سب جدا جدا۔ باقی تو سب ٹھیک ٹھاک رہا، ہماری ایڈ جسٹ کرنے والی عادت ہمارے کام آ گئی۔ ۔ ۔ سارا مسئلہ ہوا زبان کا۔ ہمیں ہندی کا ( چھو ٹا آ، بڑا آ ) یعنی الف ب بھی نہیں آتی تھی۔ اس لئے بڑی کٹھنائیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ ۔ ۔ (یہ جو ہم ہندی کے الفاظ استعمال کر رہے ہیں تو یہ سب اپنے بچوں کو پڑھاتے وقت سیکھے ہیں )۔

بہرحال شادی کے بعد ہم گئے ہنی مون منانے دہلی، دہرا دون، مسوری و غیر ہ۔ ہمارے میاں نے، اللہ انہیں ہمیشہ اچھا رکھے، خوب گھمایا۔ ۔ ۔ کئی جگہوں اور عمار توں کے نام بتائے۔ یہ دہلی راجدھانی ہے، یہ راشٹر پتی بھون ہے وغیرہ وغیرہ۔

واپسی میں با توں با توں میں ہم نے ان سے پوچھا انڈیا کا دار الحکومت کونسا ہے ؟

ہم یہ معلوماتی سوال کر کے اندر ہی اندر بہت خوش تھے۔ اُنہوں نے بے یقینی سے ہماری صورت دیکھی۔ ہماری بھولی صورت پر سوالیہ نشان دیکھ کر جو قہقہے لگائے ہیں تو ٹرین میں آس پاس بیٹھے لوگ بھی مسکرا اُٹھے۔

ہم نے ناراضگی سے پو چھا ’’ایسا کونسا لطیفہ سنا دیا کہ آپ کی ہنسی نہیں رُکنے پا رہی؟‘‘

بولے ’’ارے پگلی۔ ۔ ۔ دہلی ہی تو دارالحکومت ہے، یعنی راج دھانی!‘‘

ہم پھر پسینے پسینے ہو گئے حالانکہ ٹرین کی کھڑکی سے ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں آ رہی تھیں۔

ہم کراچی سے بھو پال آ گئے لیکن کمبخت اِس شرمندگی والے پسینے نے ہما را پیچھا نہیں چھوڑا۔ باقی ہم اپنا سب کچھ وہیں چھوڑ آئے۔ ۔ ۔ ماں باپ، بہن بھا ئی، سہیلیا ں، کتابیں، ڈائیریاں اور بچپن کی گڑیاں بھی۔

اب بھی یہ باتیں یاد آتی ہیں تو کئی کئی گھنٹے پتہ ہی نہیں چلتا کہ کیسے گزر گئے۔ کبھی ہنسی آ جاتی ہے تو کبھی پسینہ۔

٭٭٭

 

 

 

ہم بنے باورچی

 

                گوہر رحمٰن گہر مردانوی

 

ہم ملازمین کی بھی کیا فوں فاں ہے کہ سارا سارا دن فائلیں کھنگالتے رہتے ہیں، دماغ کی چولیں ہل کر رہ جاتی ہیں، کچھ کی ایمانداری کے سبب اور کچھ ہڈ حراموں کی حرام مال کھا کھا کر مگر ایسے مَردوں اور مُردوں کی بھی کمی نہیں جو چپاتی بنا نا تو کجا، کھانا کھانے کا بھی سلیقہ نہیں رکھتے کیونکہ اُنہیں لقمے پر لقمہ اور شڑاپ شڑاپ کھانے کی عادت ہوتی ہے اور کچھ چوہوں کی طرح کترتے رہتے ہیں۔ بعض ایسے بھی زن مرید ہوتے ہیں جو پکے باورچی بھی ہوتے ہیں۔ اُن کی بیگم صاحبہ اپنی سہیلیوں کو بڑے فخر سے کہتی رہتی ہے کہ آپ کا بھائی بہترین کک ہے۔ اصل میں بیگم کے کہنے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ بہترین ککڑ ہے۔

درجہ بالا کیٹگری میں ہمیں پہلے والے میں ٹھونس دیا جائے یعنی بودا کک جو ککڑ بن نہیں سکتا تو پکائے گا سواہ۔ ۔ ۔ تمہید باندھنے کا مقصد صرف اور صرف یہ ہے کہ آپ سب خواتین و حضرات کو اپنی وہ بپتا سنا سکوں جس کا کچھ دن پہلے یہ مابدولت شکار ہوئے تھے۔

ہوا کچھ یوں جناب کہ پچھلے دنوں ہمیں ایک عجیب سانحے سے دو چار ہونا پڑا، ہم اِسے سانحہ اس لیے بھی کہنے پر مجبور ہیں کیونکہ اس واقعہ میں ہی ہماری درگت بنی تھی اور کچھ ایسی بنی تھی کہ بتائے نہ بنے اور چھپائے نہ چھپے۔ ۔ ۔ خیر سنا ہی دیتے ہیں آپ کو بھی تاکہ کہیں آپ لوگ بھی ایسی سچوئشن کا شکار نہ ہو جائیں اور اگر ہوں تو آپ کو پتہ ہو کہ آپ کے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔

اُس دن ہماری بیگم صاحبہ تاکید، نہیں غلط کہہ گیا، حکم صادر فرما کر گئی تھیں کہ ’’میں میکے جا رہی ہوں، شام کو لوٹوں گی، بچے بھی ساتھ لے جا رہی ہوں اس لیے سکول بھی فون کر دیا ہے کہ اُنہوں نے آج نہیں آنا، آپ ایسا کرنا کہ دوپہری بازار سے کر لینا۔‘‘

ہم نے بھی چار و ناچار دل پر جبر کر کے ہاں کر دی۔ اور چارہ بھی کیا تھا۔ ۔ ۔ بیگم صاحبہ کوئی ہدایت دے رہی ہوں تو سرپنڈولیم کی طرح خودبخود اثبات میں ہلنا شروع ہو جاتا ہے اور منہ سے از خود ’’جی اچھا!، جی ٹھیک ہے، جی بالکل‘‘ کی آوازیں نکلنا شروع ہو جاتی ہیں۔ اگر چہ بازاری کھانے کھانا ایسا ہی ہے جیسے ہم ہمارے معدے پر خود کش حملہ کرنے جا رہے ہوں۔ پیٹ شریف، نواز شریف کی طرح اکڑ کر رہ جاتا ہے اور ہمارا وہ قیمتی وقت جو ہم دوسرے اللوں تللوں میں ضائع کر سکتی ہیں، گھنٹوں کے حساب سے لیٹرین کی نذر کر جاتے ہیں۔

خیر، مگر مرتا کیا نہ کرتا، صاد کرنا پڑا لیکن حسب عادت چھٹی کے وقت بیگم کا حکم نامہ یا تاکید نامہ جو کچھ بھی تھا، مکمل طور پر بھول گئے اور سیدھے گھر کی راہ لی۔ گھر پہنچے تو تالہ بند دروازے پر نظر پڑتے ہی ہمارا ما تھا ٹھنکا کہ ضرور ہم سے کچھ پروفیسرانہ بھول ہو گئی ہے۔ بھوک کے باعث نقاہت اور سستی اس قدر تھی کہ واپس بازار مڑنے کا قطعاً موڈ نہیں بنا، چنانچہ تالہ کھولا اور گھر میں داخل ہو گیا۔ بھوک الگ ستا رہی تھی، اس لیے سیدھے کچن میں گھس گیا کہ باسی ہی سہی کھانے کی کوئی چیز تو ملے کہ زہر مار کر سکوں لیکن ہائے رے ہماری بیگم کی نفاست پسندی کہ تمام برتن ایسے چمک رہے تھے جیسے میں باورچی خانے میں نہیں بلکہ کسی کراکری دکان میں داخل ہوا ہوں۔

ہمتِ مرداں مددِ خدا کے مصداق، چارو ناچار، خود ہی ہاتھ پیر مارنے کا فیصلہ کر لیا۔ سب سے پہلے روٹی پکانے کا سوچا کہ یہی نان کمنٹمنٹ ہے جس نے حضرت آدم کو جنت سے نکالا تھا اور جس کے بارے میں شاعر نے کہا ہے ؎

لذتِ انفاس نے مجرم بنایا ہے اسے

زندگی معصوم تھی بچے کی خواہش کی طرح

ایک برتن میں آٹا ڈالا اور اسمیں پانی ملا کر اُسے گوندھنا شروع کر دیا۔ آٹے نے ہمارے نادان اور غیر تجربہ کار ہاتھوں کو پہچان لیا چنانچہ گوندھے جانے کے بجائے ہمارے ہاتھوں سے چمٹنا شروع کر دیا۔ اِس پر طرہ یہ کہ مکھیوں نے بھی بو پا کر بھنبھنانا شروع کر دیا۔ کبھی ناک پر بیٹھ جاتیں کہ نکسیر بھی پھوٹ پڑی تھی، تو کبھی کان میں گھس کر ہمارے صبر کو آزمانے لگتیں۔ ہماری حالت سراسر ایک غیر ملکی فلم کے مکالمے جیسی ہو گئی ’’جسے ایک سالی مکھی ہیجڑا بنا دیتی ہے۔‘‘کبھی کبھی ہم اُن کی گستاخیوں پر اُن کی پکڑ بھی کر لیتے تھے لیکن ایسے ہی نشانہ باز ہوتے تو بھلا پروفیسری کر رہے ہوتے، فوج میں کمیشن لے کر افسرنہ بن چکے ہوتے۔

اب حالت یہ تھی کہ ایک ہاتھ سے آٹا گوندھ رہے تھے تو دوسرے سے مکھیاں بھگا رہے تھے۔ بمشکل آٹا گوندھنے میں کامیاب ہو پائے لیکن اب اور مشکل مرحلہ درپیش تھا اور وہ تھا سالن بنانے کا۔ ازسرِ نو کیل کانٹے نکالے اور فریج سے ٹماٹر پیاز لہسن ادرک لا کر مختلف برتنوں میں کاٹنا شروع کر دیا۔ اس کام میں بھی خاصے چرکے لگے، کبھی ہاتھوں کو زخمی کر بیٹھتے تو کبھی مرچوں لگے ہاتھ سے آنکھ سے چھیڑ خانی کر بیٹھتے، نتیجتاً دریائے سوات آنکھوں کے ساتھ ساتھ ناک سے بھی بہتا رہا۔ ٹماٹر کاٹتے ہوئے ایک انگلی زخمی کی، پیاز کاٹنے شروع کیے تو ایسا لگ تھا کہ محبوب کے ہجر میں میں چپکے چپکے ٹسوے بہائے جا رہے ہیں، آپ جسے ’’آنسو‘‘ کے نام سے بھی جانتے ہیں۔

خیر یہ مرحلہ بھی پایۂ تکمیل کو پہنچا مگر اب ہم یہ سوچ رہے تھے کہ گوشت ٹھیک رہے گا یا چکن اور ہاں سبزیاں بھی تو ہیں مگر دل شدتِ مسلمانی کے باعث چکن کی طرف مائل رہا۔ اس کے لیے فریج کو دوبارہ حاضری لگوائی اور چند پیس اٹھا لیے جو شاید بیگم نے شام کے کھانے کے لیے کاٹ کے رکھ چھوڑے تھے۔ اب یہ بندہ شش و پنج میں پڑ گیا کہ پہلے کونسی چیز دیگچی میں ڈالنی ہے۔ دیگچی تو کچھ بتانے سے قاصر تھی ہاں البتہ گزشتہ بھوک کے دوران کھانے کی تاڑ میں، بیگم کا اتنا تو مشاہدہ کیا ہوا تھا کہ پہلے چکن پیسز تلتی ہے، لہذا گھی گرم کیا، اُس میں چکن پیس ڈالے اور چمچہ گیری کرنیلگے یعنی چمچے کو ہنڈیا میں ڈال کر ہلانا شروع کر دی مگر یہ کیا۔ ۔ ۔ ہم دفتر کے صاف ستھرے کپڑوں پر بغیر ایپرن لگائے کھانا بنا رہے تھے۔ ظاہر ہے کہ مصورانہ حلیے میں دکھائی دیا جانا کوئی اچھنبے کی بات نہ تھی۔ ۔ ۔ مطلب یہ کہ اس باب میں بھی بیگم کا جھگڑا الگ درپیش تھا۔

تو بھائیو! ہم نے اپنی بھوک کو زیادہ آزمانا مناسب نہ سمجھا اور کھانا شتابی بنانے کے چکر میں ہنڈیا میں پیاز، ادرک، ٹماٹر ایک ساتھ ڈال دیے، ساتھ سالن مصالحے کا حساب بھی بیباق کر دیا۔ جبکہ دوسری انگیٹھی پر توا رکھ دیا تاکہ توا گرم ہو تو چپاتیاں بنانے میں دیر نہ لگے۔

سب سے مشکل مرحلہ پیڑے بنانے کا تھا۔ اس فن میں تو ہم بلا کسی مبالغے کے انتہائی نکمے تھے لیکن مرتا کیا نہ کرتا، پیڑے بنانے شروع کر دیئے۔ پتہ نہیں کیسے بنے لیکن جو جہاں ہے جیسا ہے کے مصداق سب کو توے پر ڈالتے چلے گئے۔ بغور نظر ڈالتے تو ہر چپاتی پر کسی نہ کسی ملک کا نقشہ ابھرا دکھائی دیتا۔ کبھی ہندوستان کی طرح وسیع تو کبھی پاکستان جیسی لمبی روٹی بن جاتی۔ کئی بار تو توے نے اپنے غضب کا اظہار بھی کیا اور ہاتھ ایسے جلائے کہ چھٹی کا دودھ یاد آ گیا۔ ہم پر جتنا بس چلا سو چلا، اُس ستم ظریف نے چپاتیوں کو بھی بنگلہ دیش کا باشندہ بنانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ پہلے پانسے ہی پانچ دانے، یعنی پہلی چپاتی ہی جلا ڈالی۔

اسی دوران ہم دوسرے محاز پر بھی سرگرم رہے۔ مکھیوں سے چومکھی لڑتے لڑتے کئی بار خود اپنے ہی منہ پر طمانچے بھی رسید کر ڈالے لیکن وہ جو کہتے ہیں ناں کہ بھوک نچائے تگنی ناچ لہذا طوعاً و کرہاً ایک کام کرنا تھا سو کرنا ہی پڑا۔

آخرکار ہم دو تین کچی پکی چپاتیاں بنانے میں کامیاب ہوہی گئے۔ اُدھر سالن تھا کہ مسلسل اپنا اُبال دکھاتا پھر رہا تھا چنانچہ چولہے کو بند کیا اور بڑی بے صبری سے کھانے پر جھپٹے مگر افففففف یہ کیا۔ ۔ ۔ نہ سالن میں نمک اور نہ روٹی میں۔ ۔ ۔ جیسے کسی ہائیبلڈ پریشر کے مریض کا کھانا ہو۔ بیڑا غرق ہو اس نسیان کا کہ جس نے یہ دن دکھایا۔ اب تھوڑا نمک ایویں ہی سالن میں ڈال دیا، جس سے کچھ ذائقہ بن گیا مگر چکن پیس خاصے سخت تھے۔ بھلا ہمیں کیا پتہ کہ اِنہیں کتنی دیر تک چولہے پر کھپانا تھا۔ بس بھائیو جیسے تیسے زہر مار کر لیا اوربستر پر الٹا لیٹ گئے۔ شدید تھکن اور کھانے کا خمار ایسا چڑھا کہ پھر خبر تب ہوئی جب کسی نے پاؤں ہلا کر جگایا۔ جوں ہی ہم نے کروٹ لی، کئی چیخوں اور قہقہوں کی ملی جلی آوازیں سنا ئی دیں۔ ہم نیم غنودگی کے عالم میں تھے چنانچہ ہڑبڑا کر اُٹھ بیٹھے۔ بیگم ہنسی سے لوٹ پوٹ ہو رہی تھی جبکہ بڑی بیٹی الگ سے دانت نکال رہی تھی۔

یکلخت اُس کی ہنسی کو بریک لگ گئے کیونکہ ہمارا چہرہ غصے سے بھوت بنا ہوا تھا۔

’’ارے ارے ہم پر کیوں غصہ ہو رہے ہو جناب۔ ۔ ۔‘‘بیگم بھی غصہ آ گیا۔

ہمارا نکا الگ چیخ رہا تھا اور روتے ہوئے کہہ رہا تھا ’’بوؤ آ گیا ہے امی بوؤ سے بچاؤ۔‘‘

غضب تو چڑھا ہوا تھا لیکن اس کے ساتھ ساتھ کچھ سراسیمگی بھی ہوئی کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے۔

اور کچھ نہ سوجھا تو راشن لے کر بیگم پر برس پڑے ’’یہ کیا دانت نکال رہی ہو کم ذات عورت مجھے بے وقت جگانے کی آخر کیا تک ہے۔‘‘

ڈرنے کے بجائے اس کی ہنسی مزید تیز ہوتی گئی۔ پھر وہ بولی ’’ ارے بدھو پہلے آئینہ دیکھ، پھر غصہ شریف فرما لینا۔‘‘

عجیب مخمصے میں تھے۔ نیند ہرن ہو کر رہ گئی تھی۔ کچھ ملامت سی محسوس ہو رہی تھی۔ اس لیے ایک لمبی انگڑائی لی اور اٹھ بیٹھے۔ ہمارا نکا اپنی ماں سے مزید چمٹ گیا۔

ہم نے کہا ’’نکے، یہ میں ہوں۔ ۔ ۔ تیرا ابو یار! کیا ہو گیا۔ ۔ ۔ کیا میرے سینگ اُگ آئے جو یوں بدک رہے ہو۔‘‘

پاپا، ذرا شیشہ دیکھ کے آئیں پھر پتہ چلے گا!‘‘ بڑی بیٹی ہنستی ہوئی بولی۔

بستر سے تقریباً چھلانگ لگاتے ہوئے اُٹھے اور سیدھا آئینے کی طرف لپکے کہ دیکھیں تو سہی آخر ماجرا کیا ہے۔

آئینے کے سامنے جو شخص نظر آیا وہ کم از کم ہم تو نہیں تھے۔ ہماری اپنی ہنسی چھوٹ کر رہ گئی۔ ہمیں ہنستا دیکھ کر دوسروں کی ہنسی مزید تیز ہو گئی گویا چھت پھاڑ ہنسی کا منظر پیش کیا جانے لگا۔

ہم نے نکے کو اپنے ساتھ چمٹاتے ہوئے کہا ’’ یار ہم کیا جانیں تیری امی کے کام۔ ۔ ۔ دیکھ توے سے سارے گال کالے ہو کر رہ گئے ہیں، اس پر سفید آٹے کے داغ الگ ہاہاہاہا۔ ۔ ۔ یہ سارے کام جانیں اور گھر کی باورچن!‘‘

اور ہم نے خفت مٹانے کے لئے غسلخانے کا رُخ کیا۔

٭٭٭

 

 

لنڈے کے انگریز

 

                رازی الغزالی

 

تمام کچے پکے اصلی، نقلی، کالے، پیلے، سیکولرز، لبرلز اور ملحد حضرات سے گزارش ہے میری پوسٹ پڑھنے سے پہلے منہ میں ’’ہاجمولہ‘‘ رکھ لیں ورنہ اپنی ذمہ داری پر پڑھیں کیوں کہ میری اطلاعات کے مطابق ہر جگہ مرچیں موسم کے حساب سے لگتیں ہیں لیکن لبرلز کے ہاں جب سچ بولو تب ہی لگ جاتی ہیں۔ آخر ’’’فریڈم آف سپیچ‘‘ کا زمانہ ہے بھئی۔

جانے کب کون کس کو بلاک دے ایکسٹریمسٹ کہہ کر

فیس بک کی فیس بک لبرل ہوئی پھرتی ہے

یوں تو دنیا میں ’’سانپوں‘‘ اور ’’لبرلز‘‘ کی بے شمار اقسام پائی جاتی ہیں مگر تمام ’’سانپ‘‘ زہریلے نہیں ہوتے۔ یہاں ہمارا موضوع ’’سانپ‘‘ نہیں بلکہ ’’لبرلز‘‘ ہیں۔

’’مسلم دنیا‘‘ کے تناظر میں ’’لبرلز‘‘ کی دو بڑی اقسام ہیں۔ ایک باہر کا بنا ہوا ’’اصلی‘‘ یا ’’اوریجنل‘‘ دوسرا یہاں کا بنا ہوا ’’نقلی‘‘ یا ’’دو نمبر‘‘۔

’’نقلی لبرلز‘‘دیسی ساختہ ہوتے ہیں جس کی بنیاد پر اُنہیں ’’دیسی لبرلز‘‘ بھی کہا جاتا ہے لیکن چونکہ اس میں لفظ ’’دیسی‘‘ استعمال ہوتا ہے اور ’’دیسی لبرلز‘‘ کو ہر اس نام، چیز اور جگہ سے نفرت ہوتی ہے جس میں لفظ ’’دیسی‘‘ استعمال ہو اس لیئے یہ خود کو ’’دیسی لبرلز‘‘ کہلوانا پسند نہیں کرتے جبکہ ایک تحقیق سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ ’’دیسی لبرلز‘‘ خود کو ’’امریکی سنڈی‘‘، ’’فارمی لبرلز‘‘ اور ’’بے غیرت برگیڈ‘‘ کہلوانا پسند کرتے ہیں۔ مگر ’’دیسی لبرلز‘‘ کے لیئے آج تک کا سب سے مناسب نام جو دریافت ہوا ہے وہ ’’لنڈے کے انگریز‘‘ ہے۔ تو آج ہم جاننے کی کوشش کریں گے کہ یہ ’’لنڈے کے انگریز‘‘ کون کیوں کب اور کیسے ہوتے ہیں۔

چونکہ بات ہونے کی چل رہی ہے اس لیئے ایک اور شعر ملاحظہ فرمائیں۔

لبرل ہوا جو پیدا تو شیطان نے کہا

لو آج ہم بھی صاحب اولاد ہو گئے

ماہرین کے نزدیک ’’’لنڈے کا انگریز‘‘ ہونا ایک ’’مینٹل ڈس آڈر‘‘ ہے۔ وہ لڑکا جسے بچپن سے ہی اس کے ماما پاپا یہ کہتے ہوں ’’بے بی! ڈونٹ گو آؤٹ سائیڈ، پلیز کم اِن سائیڈ، پلے ود یور سسٹر‘‘ اور وہ بچہ جو کلاس میں سب سے مار کھاتا ہو، جس کا پسندیدہ رنگ گلابی پسندیدہ کھیل گڈے گڑیا کی شادی، پہل دوج، آپا بوا ہو، جس کا سرمایہ حیات اس کی باربی ڈولز کی کلیکشن ہو، تو سمجھ جایئے وہ لڑکا بڑا ہو کر ’’لنڈے کا انگریز‘‘ بنے گا۔

یوں تو ’’لنڈے کے انگریز‘‘ گاہے بہ گاہے اپنی عالمانہ ٹائیپ جاہلانہ گفتگو سے عوام کو محظوظ کرتے ہی رہتے ہیں مگر پھر بھی ان کے شب روز اسی انتظار میں گزرتے ہیں کہ اسلام یا پاکستان سے متعلق کوئی بری خبر ملے، کوئی پاکستانی چوری کرتا پکڑا جائے، کوئی دھماکہ ہو، کسی ملک کا جہاز گم ہو جائے۔ ۔ ۔ بس پھر یہ ہوتے ہیں اور چوبیس گھنٹے نہ رکنے والی دانش ورانہ گفتگو۔ دلیل وہی دی جاتی ہے جو سعادت حسن منٹو نے دی تھی کہ اگر معاشرے میں گندگی غلاظت ہے تو میں تو دکھاؤں گا۔ اِن ’’لنڈے کے انگریزوں‘‘ کی مثال اُس مکھی کی طرح ہے جو اگر پھولوں کے اوپر بھی اڑ رہی ہو تو غلاظت ڈھونڈ نکالتی ہے اور بیٹھتی غلاظت پر ہی ہے۔ خیر پسند اپنی اپنی نصیب اپنا اپنا۔

’’ویسٹرن لبرل‘‘ گرگٹ کی طرح رنگ بدلتا ہے اور یہ ’’لنڈے کے انگریز‘‘ گدھے کی طرح ڈھیچوں ڈھیچوں کرتے ہوئے پیچھے پیچھے چلتے ہیں۔ اسلام کے خلاف کینہ بغض اور زہر اِن میں ایسے بھرا ہوا ہوتا ہے جیسے ’’کوکومو‘‘ میں چاکلیٹ۔

اُمید ہے آپ کو ’’لنڈے کے انگریزوں‘‘ کے بارے میں خوب پہچان ہو گئی ہو گی۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

آوے ای آوے

 

                حسیب احمد حسیب

 

آوے ای آوے۔ ۔ ۔

جب سے شعور سنبھالا یہ نعرہ سننے کو ملا، آوے ای آوے۔ ۔ ۔ پہلے پہل اس کی سمجھ نہیں آتی تھی کہ کس کو بلایا جا رہا ہے اور کیوں بلایا جا رہا ہے اور حقیقت تو یہ ہے کہ جب شعور آیا تو یہ مخمصہ پیدا ہو گیا کہ کون آ رہا ہے اور کیوں آ رہا مگر جناب جانے دیجئے بس نعرہ لگائیے ’’آوے ای آوے۔‘‘

یہ نعرہ در اصل اس قوم کی نفسیات کا مظہر ہے ایک ایسی قوم کی نفسیات کہ جسے خوش نما چیزیں اپنی جانب متوجہ کرتی ہیں اور وہ چیزیں انہیں زیادہ خوشنما معلوم ہوتی ہیں کہ جو مستور ہیں اور نا سمجھ میں آنے والی ہوں بلکہ اکثر تو نعروں کا صوتی آہنگ ان کی مقبولیت کی سند بن جاتا ہے اجی کون کہتا ہے کہ بھینس کے آگے بین بجانا بے کار ہووے ہے آج کل تو بھینس بھی اچھی بیٹس پر رقصاں ہوتی ہے بلکہ ’’ می رقصم می رقصم‘‘ کا نعرہ مستانہ بلند کرتی ہے۔

بات ہو رہی تھی ’’آوے ای آوے‘‘ کی۔ ۔ ۔ کون، کیوں، کب، کیسے، کسطرح، کس لئے ؟؟؟

اجی کالا ہو کہ گورا لمبا ہو کہ چھوٹا پتلا ہو کہ موٹا جناب من بات یہ ہے کہ ” ساڈا لیڈر ’’آوے ای آوے۔‘‘

لیڈر کی پہچان کیا ہووے ہے وہ کہ جس کے پیچھے عوام آنکھیں بند کر کے چل پڑیں۔ ۔ ۔ اور عوام کی پہچان کیا ہووے ہے کہ جو کسی لیڈر کے پیچھے آنکھیں بند کر کے چل پڑیں۔

اعلیٰ ترین اوصاف جو کسی لیڈر میں ہوں ؟کیا ہیں ؟؟

’’ اول جس کی بات کسی کو سمجھ نہ آوے ؟‘‘

’’ثانی جس کو کسی کی بات سمجھ نہ آوے ؟؟‘‘

یاد رہے کوئی بھی چپڑ گنجو لیڈر ہو سکتا ہے۔

’’اگر‘‘

ساڈا گرائیں ہووے۔

ساڈی برادری دا ہووے۔

بولے تو ہماری زبان بولے کیونکہ شاعر نے کیا خوب کہا ہے۔

’’ زبان یار من ترکی و من ترکی نمی دانم۔‘‘

’’چہ خوش بودے اگر بودے زبانش دردہان من۔‘‘

اور سوچے تو ہماری سوچ سوچے۔ ۔ ۔

بس پھر کیا دیر ہے ’’ آوے ای آوے۔‘‘

الیکشن کے سہانے دنوں میں گلی گلی قریہ قریہ وادی وادی کوچہ کوچہ ایک ہی نعرہ وطن عزیز کی فضاؤں میں بلند ہوتا ہے۔

ساڈا لیڈر آوے ای آوے۔

یہ شیر ہے۔

یہ گیڈر ہے۔

یہ سانپ ہے۔

یہ سیڑھی ہے۔

اور یہ بے چارہ بابو بیڑی ہے۔

مگر اپنا ہے اور جان لیجئے اپنا تو بس ایک ہی سپنا ہے۔

ساڈا لیڈر ’’آوے ای آوے۔‘‘

٭٭٭

 

 

 

 

لاہور اور ہم کمینے

 

                راشد حمزہ

 

اِن میں کسی کو شک نہیں ہونا چاہئے کہ لاہور بہت ہی پیارا دل نواز اور زندہ دلوں کا زندہ دل شہر ہے۔ پہلے جب میں وہاں پڑھتا تھا تو گھر سے دوری ذرا سی بھی محسوس نہیں ہوتی تھی۔ دل اِتنا لگ گیا تھا کہ جب کبھی چھٹیوں میں چار و ناچار امی کو منہ دکھائی کے لئے آبائی گھر جانا پڑتا تو لاہور سے دوری بری طرح چبھتی تھی۔ اس وقت مجھے تنہائی کا جو شعور ملا تھا، اُسے میں لاہور سے دوری کا نام دیتا تھا۔ لاہور شہر میں گھر سے دوری اس وجہ سے نہیں ڈستی تھی کہ بہت سارے ہم مکتب ہم نوالہ و ہم پیالہ دوست ہوتے تھے، جس میں ہر ایک ایک سے بڑھ کر ایک اعلیٰ اور اصل نسل کا کمینہ ہوتا تھا۔ یقین کیجئے زندگی کے وہی پل یادگار بن جاتے ہیں جو کمینوں اور کمینیوں کے ساتھ ہنستے کھیلتے عیش اڑاتے، زندگی کے مختلف رنگوں اور لذتوں سے محظوظ ہوتے گزر جاتے ہیں اور جب زندگی میں وہی کمینے اور کمینیاں دانشور بن جاتے ہیں تو زندگی کی اننگز کھیلنے سے ساری رعنائی نکل جاتی ہے، بس وقت گزاری بچ جاتی ہے۔

سرِشام مال روڈ پر مٹرگشت کرنا ہمارا معمول ہوتا تھا۔ میرے دوست کمینے نے ایک بات نوٹ کر رکھی تھی، جس کا وہ اکثر ذکر فرماتے تھے اور وہ یہ کہ لاہور کی دو شیزائیں چہرے اور ہاتھوں پر تو بھرپور توجہ دیتی ہیں لیکن اُن کی اپنی ایڑیاں توجہ سے محروم رہتی ہیں۔ یوں ہماری توجہ کا مرکز ایڑیاں بن جاتی ہیں، یہی وجہ ہے اکثریت کی ایڑیاں گرمیوں میں بھی پھٹی ہوئی ہوتی ہیں۔ گرمیوں کے موسم میں ایڑیاں پھٹنے کی حد تک تو وہ مبالغہ آرائی سے کام لیتا تھا، جو دوشیزاؤں پر اُن کی خفگی کا اظہاریہ ہوتا تھا البتہ گندی ایڑیوں کی حد تک مجھے ان سے متفق ہونا پڑتا تھا۔ شاید لاہوری دوشیزائیں یہ یقین کر بیٹھی ہیں کہ جب چہرہ خوبصورت سجا ہوا سنوارا ہوا ہو تو ایڑیوں کی طرف کسی کی نگاہیں نہیں جاتیں کہ وہ پھٹی ہوئی ہیں یا گندی ہیں۔ یہ اُن کی خوش فہمی تھی۔ وہ یہ نہیں جانتی تھیں کہ کچھ کمینے ہر قابلِ دید مقامات کا دیدار کرنا اپنی اوّلین سعادت سمجھتے ہیں۔

ایڑیوں سے یاد آیا سیالکوٹی خواتین اپنی ایڑیوں پر چہرے سے زیادہ توجہ دیتی ہیں۔ خاص توجہ کی وجہ یہ عقیدہ ہے کہ پھٹی اور گندی ایڑیاں پھوہڑ پن کی علامت ہوتی ہے۔

مال روڈ پر چہل قدمی کرتے کرتے جب ہم ریلوے سٹیشن پہنچ جایا کرتے تھے تو وہاں ایک قسم کی مخلوق بکثرت مصروف دکھائی دیتی تھی اور وہ ہوتی تھی مختلف ہوٹلز کے سہولت کار جو راہ چلتے مسافروں کو پکڑتے نجانے کن کن چیزوں کی لالچ دے کر اپنے ہوٹل میں ٹھہرانے پر آمادہ کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ یہ سہولت کار بڑی تیز نظر رکھتے تھے۔ ہم جیسے کمینوں کے پاس سے بھی نہیں گزر کرتے اور جو بھولا بھالا دیکھتے تو الجھ جاتے۔ اکثر مسافر تو محض ان سے گلو خلاصی کی خاطر ان کے ہوٹل میں ٹھہرنے پر آمادگی ظاہر کرتے۔ ہوٹلز سہولت کاروں اور مسافروں کی یہ کیمسٹری دیکھ کر مجھے اپنی کالج بس یاد آ جاتی تھی، جس میں سارے طالب علم ایک دوسرے سے کسی نہ کسی طرح آپس میں الجھے ہوئے ہوتے تھے، کسی کے ہاتھ میں کسی کا گریبان ہوتا تو کسی کی گود میں کسی کا سر۔

لاہور کے دو موسموں پر تو بے تحاشا پیار آتا تھا۔ ایک وہ موسم جب سردیوں میں ہر طرف دھند چھائی ہوئی ہوتی تھی، حد نگاہ پانچ میٹر سے بھی کم ہو جاتی تھی۔ یہ میں نہیں جانتا کہ دھند مجھے کیوں پسند ہوتی ہے۔ اور دوسرا موسم گرمیوں کا، عام طور لوگ موسموں کی شدت پسندی کو پسند نہیں فرماتے لیکن میں نے اِن جیسی طبعیت نہیں پائی ہے، مجھے سخت سردیوں میں کالام میں رہنا بھاتا تھا، جہاں چلتے پھرتے انسان برف کے مجسمے بن جاتے ہیں اور گرمیوں میں لاہور شہر رہنا من کو بھاتا ہے۔

جون جولائی میں لاہور میں اِتنی شدید گرمی پڑتی ہے کہ نظروں کے سامنے لوگ گرمی کی شدت کی وجہ سے پسینہ پسینہ ہو کر پگھل کر بہہ جاتے ہیں۔ سخت گرمی کے باوجود لاہور کی ہوا صبح دو سے چار بجے کی بیچ نہایت پیاری میٹھی اور ٹھنڈی ہو جاتی ہے جو سیدھی روح میں سرایت کر جاتی ہے۔ جب عابدین خدا کے حضور نمازِ تہجد پڑھنے جاگ کر قیام کرتے تو ہم کمینے ٹولی کی صورت سنسان سڑکوں پر مٹرگشت کرنے نکل جاتے۔ مٹرگشت کے دوران جہاں دل کیا کسی ڈھابے کے پاس چلے جاتے، جن کی کرسیاں سڑک پر رکھی ہوئی ہوتیں، وہاں بیٹھ جاتے، سگریٹوں پر سگریٹ پیتے اور چائے پراٹھے کے ساتھ نوش کر جاتے۔ پاکستان کے کسی بھی کونے میں جائیں آپ کو لاہور جیسی چائے اور پراٹھا کہیں نہیں ملے گا۔ یہ تو تھا جب ہم لاہور رہائش رکھتے تھے، تب ذرا سا بھی تنہائی نہیں ڈستی تھی۔ اب کبھی لاہور تفریحاً جانا پڑے تو تنہائی اتنی ڈستی ہے کہ ’’ذرا سا شادی‘‘ کے لئے من مچل جاتا ہے، جس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ سارے کمینے دوست بکھر گئے ہیں۔ دوسری وجہ لاہور کی تنگ گلیاں اور چلتے پھرتے حسین دو شیزاؤں کی کثرت۔

جب میں لاہور رہتا تھا تو میرے ساتھ چار عدد خالص کمینے، پڑوس میں ایک عدد نہایت کمینی اور ایک عدد نہایت خوش شکل لڑکی رہتی تھی۔ ایک کمینے کے بچوں کے متعلق خیالات اچھے نہیں تھے، وہ اس وجہ سے شادی کرنے سے کتراتے تھے کہ شادی کے بعد اگلی شدید خواہش بیوی سے بچے جننا ہوتی ہے۔ دوسرا کمینہ عجیب قسم کے نظریات کا مالک تھا۔ اُسے بچے تو انتہائی پسند تھے لیکن اس کا عقیدہ تھا کہ محض بچوں کی خاطر شادی کر کے بیوی گھر لانا دوسری بڑی حماقت ہے۔ ایک دن تیسرے کمینے نے چھ عدد انڈے لائے، ہم سب خوش ہوئے کہ چلو اس کی جیب سے کچھ تو نکلا۔ ہم سب نے انڈے ابالنے کا پروگرام بنانے کا سوچا تو تیسرا کمینہ کہنے لگے یہ ابالنے کے لئے نہیں اس پر فلاں نے بیٹھنا ہے اور اس سے بچے پیدا کرنے ہیں۔ پوچھا گیا ’’کس نے ؟‘‘تو کہا گیا جسے بچے تو پسند ہیں لیکن شادی کے حق میں نہیں۔

چوتھا کمینہ نہایت اچھا، مددگار، خوش طبع اور شریف انسان تھا، وہ سارا وقت مکان کی چھت پر صرف کرتا، سامنے کی چھت پر ایک نوعمر لڑکی پر ہزار دل و جان سے فدا ہونے کی محنت کرتا تھا۔ سامنے والی لڑکی کبوتروں کو پالتے پوستی تھی، وہ لڑکی اتنے پیار سے کبوتروں کو دانہ ڈالتی تھی کہ اس شریف کمینے کے دل میں کبوتر بننے کی خواہش امڈ اتی، اکثر یہ گانا گاتا رہتا ؎

کاش میں ایک کبوتر ہوتا

تیرے ہاتھوں سے ہی دانہ چگتا

آج جب میں وہاں نہیں ہوں تو سوچتا ہوں کہ اب وہاں کتنے کمینے رہ گئے ہوں گے، اور اُن کے خیالات اب بھی ویسے کے ویسے ہوں گے یا بدلے ہوئے ہوں گے۔ اس خوش شکل پڑوسن کی بھی فکر رہتی ہے کہ وہ کس حال میں ہو گی، اُس کی شادی کے متعلق سوچتا ہوں کہ شادی کی بھی ہو گئی ہو گی کہ اسی طرح کبوتر پال رہی ہو گی۔

آہ۔ ۔ ۔ شادی کس قدر مقدس رشتہ ہے اور یہ محبت محبت کھیلنا کس قدر بے معنی کھیل ہے۔ یہ جو تارے ایک دوسرے کے قریب ٹمٹما رہے ہیں بلکہ بعض تو ایک دوسرے کی طرف لپک لپک کر چپک رہے ہیں، لپٹ رہے ہیں، چمٹ رہے ہیں اس کے کیا معنی ہیں اور آج یہ چاند کیوں نہیں نکل رہا ہے۔

ہمارے یہاں چاند نکلے بھی تو بہت ہے، اسلام آباد میں تو رات کو سچ مچ کی دمکتی چاندنی نکل آتی تھی۔ اپنے ٹیرس میں، میں نے اُن سے چند باتیں کی تھی، اس کی آواز موسیقی سے بھرپور تھی، آنکھیں نسواری تھیں۔ بس مجھے اُن کی ناک سے معمولی سی شکایت تھی۔ ۔ ۔ ضرورت سے زیادہ لمبی تھی، باقی وہ قبول صورت تھی۔

بعض اوقات مجھے یہ خیال آتا تھا کہ اُس کے باقی چہرے کو ناک سے آویزاں کیا گیا ہے۔ ایک خوبصورت خاتون کے لئے یہ کس قدر بے تکا اور غیر مناسب خیال ہے۔ مجھے ایسے خیالات نہیں آنے چاہئے، جب جب اُس کا خیال آتا ہے تو معمولی سی پریشانی ہوتی ہے کہ اب وہ میرے متعلق پریشان ہو گی، بچوں بارے اُس کے خیالات مناسب نہیں تھے۔ میں نے ایک فلسفی کی ایک کتاب پڑھی تھی۔ فلسفی کی حالت زندگی بارے کچھ خاص نہیں معلوم ہاں البتہ اتنا معلوم ہے کہ وہ لائل پور میں رہتا تھا۔ اُس نے لکھا تھا کہ ہر وہ شخص بہترین تخلیق کار بن جاتا ہے جس کو روز اس جہاں میں پھیلے حسن کے خزانوں میں سے کچھ نیا ملتا ہے۔ اس کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ ایک خاتون میں دنیا جہاں کی ساری خوبصورتی مت ڈھونڈیئے، سارے جہاں کی خواتین خوبصورت ہوتی ہیں، ہر ایک محبت کے قابل ہوتی ہے، ہر ایک پر مر مٹنا سعادت ہوتی ہے۔ وہ مزید لکھتا ہے کہ روز روز کی محبت سے طبعیت کو مسرت، روح کو طراوت اور قلب کو تازگی ملتی ہے۔ آج اس آسمان کو دیکھ کر اس فلسفے کو ہلاک کرنے کا دل چاہ رہا تھا۔ کتنے بے ہودہ خیالات ہیں اُس کے۔

٭٭٭

 

 

 

 

وزارتِ حماقت کا نوٹس

 

                ذہین احمق آبادی

 

یہ سب تحریر پھانک کر نگلنے اور جگالی کرنے سے پہلے یہ سمجھ لیں کہ بیڑا، ویڑا اور وہڑا پنجابی میں گائے، بیل کو کہتے ہیں۔ ۔ ۔ یہ نہ ہو کہ یہ تحریر زہر مار کرتے ہوئے میں آپ کو کہوں کہ میں بیڑا لایا اور آپ سمجھیں کہ میں نے جنگی بیڑہ خرید رکھا ہے۔ ۔ ۔ الامان والحفیظ، نہیں میں پنجاب میں رہتا ہوں نہ ہی پنجابی ہوں۔ ۔ ۔ احمق آباد میں رہتا ہوں میں تو۔ ..!!!

عرض یہ کرنی تھی کہ گائے بیل کے لیے جو پیمانۂ عمر مقرّر ہے۔ ۔ ۔ دانتوں والا۔ ۔ ۔ یعنی دوندا، چوگا، چھگّا، اٹّھا۔ ۔ ۔ دو، چار، چھ اور آٹھ دانتوں والا۔ ۔ ۔ اس میں کچھ تبدّل نہیں ہونا چاہیے ؟ میرا مطلب ہے کہ کیا وہ تین پانچ سات سال کے نہیں ہوتے ہوں گے ؟ تو پھر یہ جفت کی قید کیوں ؟ یا شاید ایسا اس وجہ سے کرتے ہیں کہ دانتوں کا جوڑا ایک ساتھ ہی نکلتا ہے۔ ۔ ۔ تین سال کی عمر میں تیسرا نہیں بلکہ چار سال کی عمر میں تیسرا اور چوتھا دونوں یکے بعد دیگرے اپنا سر ابھارتے ہیں اور حالات سازگار دیکھ کر راہ گزرِ بتیسی پر آ براجمان ہوتے ہیں۔ ویسے کیا بیل کا سلسلۂ دانت بھی ’’بتیسی‘‘ہی کہلائے گا؟ کیا اس کے بھی بتِّیس دانت ہی ہوتے ہیں ؟ میں تو ابھی تک اٹّھائیسِیا (۲۸ یا) ہی ہوں مگر پھر بھی اپنے دانتوں کے لیے لفظ ’’بتیسی‘‘ ہی کو زیرِ استعمال لاتا ہوں۔ ویسے چار ’’عقل ڈاڑھیں‘‘ نکلنے کے بعد لوگوں نے مجھے احمق ماننے سے انکار کر دینا تھا، اس وجہ سے میں نے انھیں نکلنے ہی نہ دیا۔ سرکوبی کر کے رکھ دی۔ ۔ ۔ اب میں ’’حُمق ڈاڑھیں‘‘ نکلنے کا مُنتظر ہوں تاکہ میری حماقت مستند ہو سکے۔ ویسے ڈاڑھی تو موجود ہی ہے بحمد للہ مگر ڈاڑھیں خانۂ عقل کو تا حال خالی دیکھ کر نکلنے کی جرأت نہیں کر سکِیں۔ ۔ ۔ عقل اررر حمق رپٹنے سے میں موضوع سے اکثر بہک جاتا ہوں۔ ۔ ۔ تو خیر۔ ۔ ۔ اِس تمام مشکل سے نکلنے کے لیے وزارتِ حماقت نے ایک ’’دانت نامہ‘‘ شائع کِیا ہے۔ ۔ ۔ عید الاضحیٰ کے موقع پر۔ ۔ ۔ تاکہ عمر کے تعیُّن میں آسانی ہو۔ ۔ ۔ بلحاظِ آں تحریر کچھ نئی اصطلاحات وضع کی گئی ہیں۔ ۔ ۔ سب سے پہلے تو ’’کھِیرا‘‘ ہوتا ہے، جو کہ بچّہ ہوتا ہے مگر یہ اچھا لگنے کے باوجود نامعقول سا محسوس ہوتا ہے کچھ۔ ۔ ۔ مطلب کہ ایک بیڑا آ رہا ہے اور کوئی آپ کو کہے کہ ’’دیکھو کھیرا آ رہا ہے !‘‘ تو کیا آپ کا اس کو چماٹ لگانے کا جی نہیں چاہے گا؟ ہاں نہیں تو۔ ۔ ۔ اِس طرح تو میں ٹماٹر، کدُّو، توری بینگن، کریلے وغیرہ بھی استعمال کر سکتا ہوں۔ ۔ ۔ لاحول ولا۔ ۔ ۔ اِس کی نامعقولیت خود آپ کو محسوس ہونی چاہیے۔ کوئی کہہ رہا ’’ماشاء اللہ۔ ۔ ۔ دیکھو کیا کریلا آ رہا ہے۔ ۔ ۔ !‘‘ یہ سُن کر سر پیٹنے کو جی نہیں چاہے گا کیا؟ گو کہ دانتوں کے لحاظ سے عمر کا تعیّن انتہائی منطقی تھا مگر پھر بھی نئی اِصطلاحات وضع کرنا ناگزیر تھا تو اِس کڑے وقت میں وزارتِ حماقت نے کام کِیا اور نئی اصطلاحات وضع کِیں۔ پرانی والی یعنی دوندا، چوگا وغیرہ بحال رہیں اور طاق اعداد کے لیے نئے اشارے موضوعے گئے اور ان کو بنانے میں قریب ترین جفت اعدادِ عمر سے قوافی ملائے گئے۔ ۔ ۔ جیسے دو سال یا دو دانت کا دوندا کہلاتا ہے تو ایک سال کا ’’یوندا‘‘ کہلائے گا جبکہ ’’کھیرے‘‘ کو حذف کر دِیا گیا۔ اصطلاحات مندرجہ ذیل ہیں :

اوندھا

اس لفظ کے اوضاع پر کوئی منطقی دلیل نہیں ہے، بس قافیہ ’’دوندا‘‘سے ملایا گیا ہے۔ آدھے سال کے جانور کے لیے مستعمل ہے۔ اِس کا اُلٹا پڑے ہونے سے کوئی تعلّق نہیں، نہ ہی اس پر اندھا ہونے کا اطلاق مناسب ہے۔

یوندا

اس لفظ کی آواز اور ساخت ’’دوندا‘‘سے کشید ہے جبکہ اس کا پہلا حصہ ’’یو‘‘، ’’ایک‘‘ کو کہتے ہیں جو کہ پشتو سے مغوی ہے۔ ایک سال کے جانور کے لئے مستعمل ہے۔

توندا

یہ بھی ’’دوندا‘‘ سے وضع کِیا گیا لفظ ہے جو کہ تین سال کے جانور کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اِس کا استعمال کافی وسیع ہے اور اس سے صحتمندی پھوٹی پڑ رہی ہے مگر اس کو سن کر ’’توند‘‘ تک ذہن دوڑانا مناسب نہیں۔ ۔ ۔ گو کہ اس کو توند والے جانوروں کے لئے بھی استعمال کِیا جا سکتا ہے اور گابھن جانوروں (حاملہ) کے لئے بھی مگر بات یہ ہے کہ ایسا کرو گے تو کون آئے گا؟

پنگا

یہ لفظ کافی مانوس سا ہے مگر اِس ضمن میں اس کے معانی و مطالب بالکل مختلف ہیں۔ یہ پانچ سال کے جانور کے لئے ہے۔ اِس کے شروع کے ’’پن‘‘ پر اختلاف واقع ہوا ہے۔ کوئی کہتا ہے کہ پشتو کے ’’پِنزہ‘‘ (پانچ) سے موضوع ہے تو کوئی پنجابی کے ’’پنج‘‘ سے اس کو کترنے کا مدّعی ہے جبکہ کچھ فارسی کے ’’پنجم‘‘ سے بریدہ ہونے کا دعویٰ رکھتے ہیں، غرض یہ کہ جتنے مُنھ اتنی باتیں ہیں مگر ہم آپ کو اِس میں الجھنے کی چنداں ضرورت نہیں، بس یہ ہے سو ہے۔ اِس کا دوسرا حصہ ’’گا‘‘ بس ’’چوگا‘‘ سے ہم آواز کرنے کے لئے لگایا گیا ہے۔ اِس لفظ ’’پنگا‘‘ کا چھیڑ چھاڑ وغیرہ سے دور کا علاقہ بھی نہیں ( یا شاید ہو) کیونکہ پانچ سال کی عمر تک جانور ادھیڑ عمر میں داخل ہو جاتا ہے۔ ۔ ۔ پس اس کی لاتوں سے بچنا چاہیے کیونکہ یہ ادھیڑ عمری جانور اُدھیڑ کر رکھ دیتا ہے۔

سَگّا

یہ سات سال کے جانوَر کے لئے استعمال کِیا جانا چاہیے۔ کوئی نہ کرے تو وزارتِ حماقت کی بلا سے۔ ۔ ۔ اِس کا پس منظر کچھ دھینگا مشتی سے بھرا ہے۔ یہ اُردُو کے عددی لفظ ’’سات‘‘ کا مرہُونِ مِنّت ہے۔ اس کا اُردو کے لفظ ’’سگ‘‘ (کُتّا) سے کوئی تعلّق نہیں، گو کہ یہ سات سال کا جانور دوسروں کے ساتھ کُتّوں والی کرنے کی اہلِیت رکھتا ہے مگر ساتھ ہی یہ کُتّوں والی عادات کا مالِک ہوتا ہے، بقولِ پِطرس بخاری ’’کتے جو کہ سڑک کے بیچوں بیچ لال ڈوروں والی مخمور نِگاہوں سمیت انتہائی سکون سے براجمان ہوتے ہیں اور بھونپُو (ہارَن) بجنے پر آنکھیں کھول کر بے نیازی سے دیکھ کر دوبارہ بند کر لیتے ہیں۔‘‘ اسی طرح یہ بیڑے بھی جگالی کر تے ایسے بے نیازی سے ایک کان جُھکا اور ایک اُٹھا کر دیکھتے ہیں، جیسے اگلے کو کچھ سمجھتے ہی نہ ہوں۔ ۔ ۔ خیر۔ ۔ ۔ وزارت کے کچھ لوگوں نے اس کو فارسی کے ’’ہفتم‘‘ سے ’’ہگّا‘‘ کرنے کی مذموم کوشش بھی کی تھی۔ .. مگر اس کا قارورہ ہگنے مُوتنے سے مِلانے پر کوئی راضی نہ ہُوا۔ اب وزارتِ حماقت میں بول و بزار کے استاد میاں چرکین تو ہیں نہیں جو کوئی ایسی حرکت کر کے چلا جائے اور کوئی پوچھنے والا ہی نہ ہو۔ کوئی شرم ہوتی ہے کوئی حیا ہوتی ہے۔ .. دھت تیرے کی۔ ۔ ۔

ننگا

اگر پڑھنے والے یہ سمجھ رہے ہوں کہ یہ اُردُو کے عددی لفظ ’’نو‘‘سے مصنوعہ ہے تو سوچتے رہیں۔ ۔ ۔ اس سے راقم کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ ۔ ۔ اس کی آغاز کی آواز سے لگتا ہے کہ یہ انگریزی لفظ ’’نَن‘‘Nun (راہبہ) ہے۔ ۔ ۔ مگر احمق آباد والوں کو راہب، راہبہ قسم کے بیڑے بالکل نہیں پسند۔ ۔ ۔ وہ علیحدہ بات ہے کہ کبھی کبھار اِدھر لوطی نسل کے بیڑے بھی پہنچ جاتے ہوں۔ ۔ ۔ مزید بر آں، اس لفظ کا برہنہ ہونے سے رتی برابر تعلق نہیں ہے۔ (ویسے، اگر کہہ بھی دیا جائے تو بیڑے ذرا بُرا نہیں منائیں گے ) تو خیر، یہ نو سال کے جانور کے لیے مستعمل ہے۔ ۔ ۔ کچھ لوگوں نے ’’اٹّھا‘‘ (آٹھ سال) کے وزن پر ’’پٹّھا‘‘ کرنے کی مذموم کوشش بھی کی تھی مگر اس کے گالی میں تبدیل ہونے کے ڈر سے لاکھوں روپے کا خیال مسترد کر دیا گیا لیکن ننگا رکھنے پر بھی کافی قباحتیں پیش آنے کا امکان ہے۔ ۔ ۔ منڈی میں کچھ ایسی صورتِ حال پیش آئے گی کہ:

گاہک : ہاں بھئی! کتنے سال کا جانور ہے یہ۔ ۔ ۔ !؟

جانور کا مالک : یہ۔ ۔ ۔ یہ ننگا ہے۔ ۔ ۔ !

گاہک: استغفراللہ۔ ۔ ۔ بھائی! ہمیں بھی معلوم ہے کہ یہ ننگا ہے۔ ۔ ۔ ہم اس کی عمر دریافت فرما رہے ہیں !!

مالک: یقین مانئے کہ یہ ننگا ہے !

گاہک: لاحول ولا۔ ۔ ۔ پھر وہی۔ ۔ ۔ ارے شرم نہیں آتی آپ کو۔ ؟ کیسی باتیں کر رہے ہیں۔ ۔ ۔ بھئی میں عمر پوچھ رہا ہوں اس کی، عمر!!

مالک: ارے بھئی۔ ۔ ۔ یہ ننگا ہے۔ ۔ ۔ یعنی کہ۔ ۔ ۔ ننگا۔ ۔ ۔ آپ ننگا نہیں جانتے۔ ۔ ۔ ؟ یعنی کہ۔ ۔ ۔ ننگا۔ ۔ ۔ !

گاہک: بدتمیز کہیں کے۔ ۔ ۔ تمھیں شرم نہیں آتی؟ کیا لغویت پھیلائی ہوئی ہے۔ ۔ ۔ میں نے کب کہا ہے کہ میں نے اسے عید کے کپڑے سلوا کے دینے ہیں۔ ۔ ۔ جانے کہاں سے اٹھ کے آ جاتے ہیں۔ ۔ ۔ احمق کہیں کے۔ ۔ ۔ بلکہ یہیں کے۔ ۔ ۔ کچھ نہیں لینا تم سے۔ ۔ ۔ بدتمیز۔ ۔ ۔ !

اور مالک پیچھے ہکلاتا رہ جاتا ہے۔ ۔ ۔ !

ڈھیر سارے برس پہلے، ہمارے باپ ابراہیم علیہ السلام نے چناؤ کِیا تھا، اُنھیں اپنے بیٹے سے محبت تھی مگر انھیں اپنے ربّ سے زیادہ محبت تھی۔ اپنے بیٹے کو قربان کرنے کا حکم نازل ہُوا لیکن وہ اُن کا بیٹا نہیں تھا، جو ذبح ہُوا تھا بلکہ جو چیز ذبح ہوئی تھی وہ تھی اُن کی خواہش۔ ۔ ۔ اُن کا کسی بھی شے سے لگاؤ جو اُن کی اللہ کے لئے محبت کے مقابلے میں آ سکتا تھا، پس ہمیں اپنے آپ سے پُوچھنا چاہئے کہ ہمیں اُس عظیم قربانی کی یاد میں اپنا کِن اشیاء سے لگاؤ قربان کرنا ہے۔ قربانی کے ان خوبصورت دِنوں میں۔ ۔ ۔ وہ بھی اپنی قیمتی ترین چیز سے۔ ۔ ۔ جیسے۔ ۔ ۔ جیسے کہ۔ ۔ ۔ بڑھاپے کی اولاد۔ ۔ ۔ اللہ کے لئے۔ ۔ ۔ !

اور میرے ربّ کو اُن تین دِنوں میں خون بہانے سے زیادہ کوئی عمل پسند نہیں، بہترین جانور ہو، چُھری تیز ہو۔ قربانی میں بھی اسراف سے بچو اور افراط و تفریط کا شکار نہ ہو۔ ۔ ۔ تمہارے ربّ تک خون گوشت وغیرہ کچھ نہیں پہنچتا بلکہ اس کی بارگاہ میں رسائی صرف تقوی کو ہے، پس عدل کرو کیونکہ یہ تقوی کے زیادہ قریب ہے۔ ۔ ۔ دعاء کی درخواست!!!

٭٭٭

 

 

 

عیدی

 

                احمد سعید

 

عید تو دید سے ہوتی اور دید تو عید کو ہی ہوتی ہے۔ یعنی

’’دید والوں کی عید ہوتی ہے‘‘

چاند رات کو چاند نظر آ جائے تو اگلے دن عید اور نہ آئے تو اگلے دن چاند رات ضرور ہوتی ہے پھر چاند رات کو بازاروں میں اتنے چاند، ہماری تو وہیں عید ہو جاتی ہے۔

بچپن اور جوانی کی عید میں سب سے بڑا فرق بچپن اور جوانی کا ہی ہوتا ہے۔ بچپن کی عید عیدی پہ موقوف اور نوجوانوں کی زیادہ تر کرکٹ پہ ہوتی ہے۔ جوانوں کی عید عید دینے پہ اور زیادہ تر جوان چونکہ شادی شدہ ہوتے ہیں تو ان کی عید بیگموں کے پیچھے پیچھے ہی گزرتی ہے۔

بہت بچپن کی عیدیں مجھے تو یاد نہیں یعنی جب میں کوئی ایک دو سال کا تھا۔ خیال ہے کہ اتنی عمر میں بچوں کو اپنی عیدیں یاد نہیں ہوتی ہوں گی۔ اتنی عمر میں بچوں کو عیدی تو بہت ملتی ہے لیکن اُن کے حصے میں اس عیدی کا ایک چوتھائی بھی نہیں آتا۔ والدین سمجھتے ہیں کہ اسے کیا پتہ عیدی کے پیسوں کا ؟حالانکہ اُسے سب پتہ ہوتا ہے۔ اس لیے جب وہ تھوڑا بولنے اور بھاگنے کے قابل ہوتا ہے تو اس وقت وہ آپ کی تمام کوششیں ناکام بنا دیتا ہے۔ چاہے آپ لاکھ بہانے بنائیں کہ تمہارے شوز لینے نہیں جانا؟ اور برگر بھی تو کھانے جانا ہے۔ وہ سب سمجھ گیا ہوتا ہے کہ کونسے جوتے اور کونسا برگر؟ یہ سب چیزیں تو اسے ویسے بھی مل ہی جانی ہیں۔ یہ سب اس کا طفلانہ تجربہ ہوتا ہے، جو وہ ایک دو سال کی عمر سے دیکھ رہا ہوتا ہے۔ پر اُس وقت وہ شریف النفس بچہ نہ تو منہ سے بول سکتا ہے، اور نہ آگے لگ کے بھاگ سکتا ہے۔ صرف رو ہی سکتا ہے اور یہاں رونے سے صرف بات نہیں بنتی ورنہ کتنے ہی مرد اپنی بیگموں کے آگے گڑگڑاتے ہیں وہ شاید نہیں جانتے کہ

ہم کو اُن سے وفا کی ہے اُمید

جو نہیں ’’جانتیں‘‘ وفا کیا ہے

اور اب تو وہ ویسے ہی آپ سے تم، تم سے تو پہ آ چکی ہیں ڈر ہے تو سے ’’ تھو تھو‘‘ پہ نہ آ جائیں

ہر بات پہ ’’ کہتی‘‘ ہو تم کہ تو کیا ہے ؟

تمہِیں کہو کہ یہ اندازِ گفتگو کیا ہے

عید پہ ایک بار بڑے بھائی نے ہمیں فلم دکھانے کی آفر کر دی وہ بھی سنیما میں۔ بڑے بھائی تو اپنے دوستوں میں کھرے ہونے کی آفر نہ کرتے، آج یہ کرم نوازی دیکھ کر یقین نہ آیا۔ فوری پیچھے مڑ کر دیکھا کہ دوسرے بڑے بھائی کو تو نہیں کہا، پر پیچھے کوئی نہ تھا اور انہوں نے نام بھی میرا لیا تھا۔ میں حیران کھڑا اُنھیں تک رہا تھا، کہنے لگے جانا نہیں ؟ میں نے کہا، کس نے نہیں جانا، میں تو سمجھیں سینما پہنچ بھی گیا ہوں۔

میں اس وقت چھٹی کلاس میں تھا، پہلی بار سینما اندر سے دیکھنا تھا اور اندر سے صرف سینما ہی نہیں، فلم بھی دیکھنی تھی۔ نئی جوتی پینٹ شرٹ سمیت موٹر سائیکل پہ چڑھ گئے اور سینما کی طرف فلم دیکھنے نکل پڑے۔ نگینہ سینما کی ٹکٹیں بک ہو چکی تھیں۔ وہاں ہمارا ’’ٹاکرا‘‘ کزنوں کے ساتھ ہوا، انہوں نے پوچھا آپ کہاں ؟ ہم نے پوچھا بھئی آپ کہاں ؟ یہ ایک روایتی انداز تھا۔ بھئی ظاہر سی بات ہے سینما کے اندر عید کے دن فلم ہی دیکھنے آئے ہیں کوئی عید ملنے تھوڑی۔ مجھے لگا فلم ہاتھ سے نکل گئی۔ فلم کا مسئلہ نہیں تھا، سینما میں فلم دیکھنے کی بات تھی۔ بڑے بھائی اور کزن آپس میں باتوں میں لگ گئے اور میں فلموں کے پوسٹر دیکھنے لگ گیا وہ بھی سینما کے اندر۔ آخر منصوبہ طے پایہ کہ دس بجے کا شو دیکھتے ہیں تب تک اُن کی طرف رہا جائے۔ اُن کا گھر قریب تھا سو وہاں گپوں میں وقت گزارا، پر صرف انہوں نے۔ میرا تو سارے کا سارا دھیان ہی نہیں وجود بھی اُس پل سینما میں تھا۔ اور میں تو فلم کی کئی کہانیاں اپنے ذہن میں بنا بھی چکا تھا۔ بس اب اصلی فلم بڑی اسکرین پر دیکھنی رہ گئی تھی۔ انتظار میں ہماری جان سوکھ سوکھ کے آدھی رہ گئی۔ انتظار کی گھڑیاں ختم ہوئیں ہمیں گھڑیوں سے کوئی سروکار نہ تھا۔ انتظار کی گھڑیاں ختم ہوتیں یا افتخار کی۔ لیکن یہ گھڑیاں ختم ہونے پہ سب اُٹھ کھڑے ہوئے۔

میں نے اپنے کپڑے نہ دیکھے لیکن اپنے جوتوں کو اچھی طرح دیکھا کہ کہیں کوئی ہلکی سی بھی مٹی تو اسے ٹکرا کے نہیں گزری۔ پھر نئی جوتی کے ساتھ ایسے چلا جیسے کوئی سلو موشن میں چل رہا ہو۔ بچپن میں ابا جان جب نئی جوتی مجھے لے کے دیتے تو میں کچھ اس قسم کی حرکات و سکنات ہی کرتا جب تک اسے آٹھ دس بار پہن نہیں لیتا۔ میں یہ سمجھتا تھا کہ نئی جوتی سے اگر بالکل نارمل ہو کر چلا جائے تو بوٹ کے درمیانی حصے میں دراڑیں پر جاتی ہیں۔ جسے پنجابی میں ’’ چُڑر مُڑر‘‘ کہتے ہیں۔ اور جوتا بدنما سی شکل اختیار کر لیتا ہے، اس لیے میں چلتے ہوئے پاؤں کو موڑتا ہی بہت کم تھا، بس ربوٹ کی طرح چلتا تھا۔

بھائی کی بار بار آوازیں اور میں ’’ربوٹ‘‘ کی مانند آہستہ ٓاہستہ، لیکن اب موٹر سائیکل تک پہنچ چکا تھا۔ موٹر سائیکل بھائی نے ایسے چلائی جیسے انگلش فلم کی شوٹنگ ہو رہی ہو۔ میں نے بھائی کو بڑے زور سے پکڑا ہوا تھا کہ اچانک مجھے جانے کیا سوجھی، اپنے جوتے کو دیکھا کہ اس عید پہ جوتا بڑا خوبصورت لے ہو گیا ہے۔

آگے سے باریک سا تھا اور جوتے کے فرنٹ پہ باریک سی ’’ پتری‘‘ لگی ہوئی تھی، اب میں نے موٹر سائیکل کے پائیدان سے پاؤں ہٹا کر جوتے کو پاؤں کے ساتھ ہوا میں لہرایا اور بالکل زمین کی طرف لے گیا یعنی جوتے کی ماڈلنگ شروع کر دی کہ اچانک سڑک سے نکلا ہوا گٹر کا ڈھکن جوتے میں بجا۔ پاؤں تو بچ گیا جوتا نہ بچا۔ جوتے کے آگے خوبصورت نما ’’پتری‘‘ مُر گئی۔ بس میں رویا نہیں باقی اُس جوتے کی حالت دیکھ کر سب کچھ کر لیا۔ فلم سے دھیان ہٹ چکا تھا سارا دھیان ہی جوتے پر تھا۔ ابھی تو عید کا پہلا دن تھا۔ اتنے میں سینما آ گیا، دھیان پھر سینما کی طرف گیا۔ فلم تک جوتے کو بھول گیا۔ سینما میں داخل ہوئے، پھر جہاں سینما سکرین ہوتی ہے وہاں داخل ہوئے۔ فلم کو ابھی پانچ منٹ ہی گزرے تھے۔ میرا پہلا تجربہ تھا، پہلی بار سینما اسکرین میں داخل ہوا تو اندھیرا ہی اندھیرا۔ ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہ دے۔ اپنا ہی ہاتھ دوسرے ہاتھ میں دیکھا تو ڈر گیا کہ یہ کس نازک حسینہ کا ہاتھ میرے ہاتھ میں آ گیا۔ اوپر سے فلم میں ہیلی کاپٹر نمودار ہوا، اتنی تو اصلی ہیلی کاپٹر کی آواز نہیں ہوتی جتنی سینما میں آ رہی تھی۔ مجھے یقین ہو گیا کہ یہ یہیں پہ اترنے لگا ہے۔ میں ذرا پیچھے ہٹا۔ بھائی نے آگے کو دھکیلا۔ میں نے کہا بھائی ہیلی کاپٹر۔ بھائی کہنے لگا ہیلی کاپٹر ہی تو ہے بھَو (کتا) تو نہیں۔ سونے پہ سہاگا ہیلی کاپٹر سے شفقت چیمہ ہر فلم کا ’’وِلن‘‘ لمبے لمبے پاؤں بڑے ناخن اور عجیب سی آوازیں نکالتا ہوا باہر نکلا۔ میں نے سوچا فلم تو ’’لو 95‘‘ تھی، یہ ’’ کوہ قاف‘‘ سے واپسی لگا دی۔ پر میں اتنا بھی بچہ نہ تھا، آخرکار سمجھ گیا کہ آج کل فلموں کے نام کچھ اور کہانی کچھ ہوتی ہے بلکہ کہانی ہوتی ہی کہاں ہے ؟ اب میں تھوڑا تسلی سے بیٹھنے میں کامیاب ہو چکا تھا۔ فلم میں ریمبو آیا، ریما آئی، بابر آیا، مِیرا آئی تقریباً آدھی فلم انڈسٹری آ گئی پر کوئی سٹوری نہ آئی کہ ہاف ٹائم آ گیا۔

سموسے کھائے نان ٹکیاں بوتلیں اور پھر سینما کی طرف رواں دواں ہو گئے۔ مجھے بہت مزہ آ رہا تھا اتنی بڑی اسکرین پہ پہلی بار ریمبو، ریما، صاحبہ، بابر اور ہیلی کاپٹر کو اکٹھے دیکھ کر۔ میں نے بھائی کے کان میں آہستہ سے پوچھا کہ کہانی کیا چل رہی ہے ؟ بھائی نے مجھے چپ ہی کرا دیا۔ شاید کہانی ہی شروع ہونے لگی تھی یا پھر بچہ سمجھ کے چپ کرا دیا۔ پر اتنے بھی کیا بچے اُس وقت عینک والا جن کی ہمیں اچھی خاصی سمجھ آتی تھی۔ PTV پہ رات۸ بجے کے ڈرامے سارے سمجھ آتے تھے میں کونسا ابھی روٹی کو ’’ چوچی‘‘ ہی کہتا تھا۔ فلم سمجھ آئی نہ آئی پر اس عید پر مزہ دوبالا ہو گیا تھا۔

٭٭٭

 

 

 

قطعات

 

 

سلمان باسطؔ

 

                پہلی سی محبت۔ ۔ ۔

 

 

عشق کی لہر تھی اور پھر وہ جوانی کی چھلانگ

ایک ہی جست میں فرلانگ بھی جاتے تھے پھلانگ

اور اب ضعف ہے ایسا کی گھسٹتی نہیں ٹانگ

’’مجھ سے پہلی سی محبت مری محبوب نہ مانگ‘‘

 

                چاند رات اور چاند

 

نکلے جو چاند رات کو ہم بر سبیل, شوق

جذبات ایسے مچلے، مچلتے چلے گئے

نکلا تھا ایک چاند کہیں چاند رات کو

پھر ہر طرف سے چاند نکلتے چلے گئے

٭٭٭

 

 

 

ڈاکٹر مظہرؔعباس رضوی

 

                فکر و فاقہ

 

میں کیسے سمجھوں مضامینِ دانش و بینش

نہ میکدہ، نہ صراحی، نہ ہے کوئی ساقی

مرے نصیب میں ہے روز و شب محض فاقہ

تمہیں ہو یار مُبارک یہ فکرِ آفاقی

 

                اثر ہونے تک

 

ایک گنجے کو سنا ہم نے یہاں کہتے ہوئے

میں نہ مر جاؤں دوائی کا اثر ہونے تک

چار برسوں میں اُگے چار مرے سر پر بال

’’کون جیتا ہے مری زُلف کے سر ہونے تک‘‘

 

                لاحول

 

بُرائی ہے کہ پھیلے جا رہی ہے

قدم شیطاں کے بڑھتے جا رہے ہیں

یہ مت کہنا کہ کچھ کرتے نہیں ہم

سنو ! لاحول پڑھتے جا رہے ہیں

 

                ڈریسنگ روم میں

 

ڈریسیر نے کہا کہ کام مشکل ہے ڈریسنگ کا

ہے یہ ایسی جگہ کہ چشمِ تر بھی رو نہیں سکتی

مٹانا داغِ دل دشوار ہے اے عاشقِ صادق

کہ زخمِ دل کی مرہم اور پٹی ہو نہیں سکتی

 

                ٹیکہ

 

دردِ دل، دردِ جگر کیسے رفع ہوتا ہے

مجھ کو معلوم ہے تو اپنا ہٹا لے ٹیکہ

اے حسیں نرس نہ کر چھلنی مرے بازو کو

مری خاطر ذرا ماتھے پہ سجا لے ٹیکہ

 

                گُلکاری

 

رہ گیا دنگ جو پہنچا میں کراچی مظہرؔ

ہر درو بام پہ وہ نقش تھے گُلکاری کے

پوچھا جب ماہرِ فن کون ہے ہنس کر بولے

یہ کرشمے ہیں فقط پان کی پچکاری کے

٭٭٭

 

 

 

تنویر پھولؔ

 

                بعد از شادی

 

یہ بولے شیخ جی محبوبہ سے بصد الفت

میں جس میں غرق ہوں، وہ جھیل بن گئی ہو تم

یہ انقلاب ہے کیسا ، اب اُس سے کہتے ہیں

کہ بعد شادی کے، اِک چیل بن گئی ہو تم

 

                قومِ لوط سے ایک سوال

 

ہیں قومِ لوط کے حامی بڑے زعمِ ترقی میں

کوئی اُن سے یہ پوچھے، کس طرح تشریف تم لاتے ؟

نہ تم دنیا میں آتے اور نہ باتیں یہ بناتے تم

تمھارے باپ ماں جو تھے، اگر یہ سوچ اپناتے

 

                ادرک کا بھاؤ

 

جامِ ہنر ہیں پینے سے عاری

کچھ گھونٹ لینا ان کو سکھاؤ

بے بہرہ فن سے، سمجھے ہیں مہمل

’’ بندر کیا جانے ادرک کا بھاؤ‘‘

 

 

                گھر کی مرغی

 

مرغی اب ہے دال سے سستی!

ڈار کی باتیں بال برابر

مرغی سستی ؟ کیا یہ غلط ہے ؟

’’ گھر کی مرغی دال برابر‘‘

 

                پانامہ مارکہ لیڈر

 

کیسے چھوڑیں جان سیاست کی، لیڈر

پانامہ نے کر دی ہے پیدا ہلچل

سرداری ہر صورت اپنے پاس رہے !

’’بلی جب گرتی ہے تو پنجوں کے بل‘‘

 

                پی ایچ ڈی

 

دیکھ کر لگتا ہے یہ، گردن میں سریا آ گیا

وہ بنے ہیں ’’ڈاکٹر‘‘ تو اُن کی گردن تن گئی

وہ لگاتے ڈیش ہیں ڈگری میں اپنی دو عدد

لکھتے اپنے نام کے آگے ہیں وہ ’’پی۔ ایچ۔ ڈی‘‘

 

                مرغِ حرام

 

دو کو چھوڑیں، ہم نے دیکھا پھولؔ! یہ حیرت کے ساتھ

ایک مُلّا ہیں ہمارے، کرتے ہیں مرغی حرام

کچھ کہو اُن سے تو پھر ہوتا ہے اُن کو ناگوار

چھوڑتے ہیں وہ شگوفہ، ہم ہیں کرتے ابتسام

 

                جھاڑو

 

آنا مبارک ہو گیا!

دیوارِ غفلت گر گئی

آئے بلاول جب یہاں

بستی میں جھاڑو پھر گئی!!

 

                بارش

 

رحمت و زحمت بنی بارش یہاں

بستیاں ایسی بھی ہیں جو رُل گئیں

پہلے جھاڑو پھِر گئی، اچھا ہُوا !

ہو گئی بارش تو سڑکیں دھُل گئیں

 

                توند

 

اِتنی بڑی سی توند پھُلائے ہوئے ہیں وہ

پٹرول پمپ جیسے چھپائے ہوئے ہیں وہ

لیڈر بنے ہوئے ہیں بہت مال کھا گئے

ہنس ہنس کے سب کو اُلّو بنائے ہوئے ہیں وہ

 

                سوال

 

کیمرے کے سامنے جب آ گئے

یوں لگا، موٹی سی اِک گاجر ہیں آپ

ہے یہ فتویٰ یا سیاسی ہے بیان

آپ  ’’مولانا‘‘ ہیں یا لیڈر ہیں آپ ؟

 

                الفاظ کا کھیل

 

نہ متّفق ہیں ہمارے ملّا، روایتیں سب الگ الگ ہیں

جو بات حق کی ہے اُس کو مانو، نہ اس میں جائز اگر مگر ہے

نئے نئے نام ان کو دے کر پرانے الفاظ ہم نے بدلے

جو تھا گویّا وہ اب ہے سنگر، جو ناچتی تھی وہ ڈانسر ہے

٭٭٭

 

 

 

ابنِ مُنیبؔ

 

                سرکاری عمرہ

 

حرم میں آ کر بیٹھے سارے چور اُچکّے ڈاکو

رو رو آہیں بھر بھر مانگیں رَب سے یہ دعائیں

’’ووٹر اپنے یونہی یارب قائم دائم رکھنا

سو سو دھوکے کھا کر ہم سے پھِرسے دھوکا کھائیں‘‘

٭٭٭

 

 

 

ڈاکٹر عزیزؔ فیصل

 

                بیس قیراط

 

’’صرف سبزی‘‘ لکھا تھا تھیلے پر

اور سارا فروٹ تھا اس میں

سچ کا سونا جسے وہ کہتا تھا

بیس قیراط جھوٹ تھا اس میں

 

                ترنم

 

یہ مسئلہ ہے پریشان کن نہایت ہی

و? کس طرح سے یہ تکلیف بے بسی کی سہے

زبید? آپا سے پوچ?ا ہے ایک شاعر نے

و? فیس بک پہ ترنم سے شعر کیسے کہے ؟

 

                جھنگ کی نذر

 

ٹوٹی پھوٹی سڑک پہ جاتے ہوئے

میں نے سوچا ہر ایک کھڈے پر

ہیر کیونکر ملی نہ رانجھے سے

جھنگ میں ڈائیوو کے اڈے پر

٭٭٭

 

 

عتیقؔ الرحمن

 

                ٹریپ

 

کتراتا تھا جس راہ پہ چلنے سے کبھی میں

یاروں نے گھسیٹا ہے مجھے اُس ہی گلی میں

پہلے تو بلایا ہے بڑے پیار سے مجھ کو

پھر زور سے پیٹا ہے مجھے اُس ہی گلی میں

 

                زوجہ سے بچا مجھ کو خدا

 

بگڑے ہیں مرے گھر کے یہ حالات مسلسل

فی الوقت ہیں گھیرے ہوئے خطرات مسلسل

کل رات مجھے پھینٹی پڑی اور طرح کی

دکھتے ہیں مرے ہڈی و عضلات مسلسل

 

 

                پیسے کا آدمی

 

کر دیا ہو مال نے اندھا جسے

کچھ دکھائی پھر اُسے دیتا نہیں

بات مطلب کی نہ ہو جب بھی کوئی

کچھ سنائی پھر اُسے دیتا نہیں

 

                پردیسیوں کا دکھ

 

گھر والے نہ ہوں ساتھ تو پردیس میں بھائی

خوش باش ذرا سی بھی طبیعت نہیں ہوتی

پردیس ہے دنیا میں وہ کونہ کہ جہاں پر

گھر والی سے لڑنے کی سہولت نہیں ہوتی

٭٭٭

 

 

 

 

ولایتیزعفران

 

 

جائز کرایہ

 

                صداقت علی ساجد

 

میں نے ہاتھ کا اشارہ کیا، تو ٹیکسی رک گئی۔

’’ مجھے رفیقی چوک تک جانا ہے۔‘‘ میں نے ڈرائیور سے کہا۔

’’ آپ نے جہاں بھی جانا ہے۔ ۔ ۔ اندر تشریف لائیں۔‘‘ ڈرائیور نے کہا۔ اس کا لہجہ اتنا شائستہ تھا، جو ہمارے ہاں زیادہ تر موجود نہیں ہے۔

میں ٹیکسی میں بیٹھ کر سوچنے لگا کہ ہمارے ہاں اچھے اور ایمان دار لوگ ختم نہیں ہوئے ہیں، لیکن تھوڑی تعداد میں موجود تو ہیں۔ کوئی پندرہ منٹ بعد میرا اسٹاپ آ گیا۔

میٹر پر ۲۷ روپے نظر آ رہے تھے۔ میں نے پچاس روپے کا نوٹ ٹیکسی ڈرائیور کی طرف کیا، تو وہ سر ہلا کر بولا۔

’’ میرے پاس کھلے نہیں ہیں۔‘‘

میں نے اپنی جیبیں ایک بار پھر کھنگالیں اور دس دس روپے کے تین نوٹ ڈھونڈنے میں کامیاب ہو گیا۔

’’ میرے پاس تین روپے بھی نہیں۔‘‘ ڈرائیور نے معذرت کی۔

’’ کوئی بات نہیں۔‘‘ میں کھلے دل سے مسکرایا۔ ’’ یہ تین روپے تم رکھ لو۔‘‘

’’ میں بیرا نہیں ہوں کہ آپ سے سے ٹپ لے لوں۔‘‘

’’ یہ جان کر مجھے خوشی ہوئی کہ ہمارے ملک میں اس طرح کے لوگ بھی ہیں۔ ۔ ۔ مگر اب ہم کیا کریں۔‘‘

’’ وہاں بائیں طرف کونے میں بڑا یو ٹیلٹی اسٹور ہے۔ ۔ ۔ ہم وہاں سے پیسے کھلے کرا سکتے ہیں۔‘‘

اسٹور بائیں طرف گلی میں تھا۔ مگر وہ یک طرفہ راستہ تھا۔ ہم بائیں جانب نہیں مڑ سکتے تھے، اس لیے ہم سیدھے گئے اور ایک لمبا چکر کاٹ کر مڑے۔ یو ٹیلٹی اسٹور کے پاس پہنچے، تو دو پہر کا ایک بج چکا تھا اور اسٹور ظہر کی نماز اور دو پہر کے کھانے کے وقفے کے لیے بند ہو چکا تھا۔ میں نے ٹیکسی کا میٹر دیکھا، تو اس پر ۴۲ روپے نظر آ رہے تھے۔ میں نے معاملہ ختم کرنے کے لیے کہا۔

’’ تقریباً ۵۰روپے ہو گئے۔‘‘

ڈرائیور کو شاید میرے ارادے کا علم ہو گیا، اس لیے وہ بولا۔

’’ دیکھیے ! میرے پاس کھلے آٹھ روپے نہیں ہیں اور یہ یاد رکھیے کہ میں ٹپ نہیں لیا کرتا۔‘‘

’’ یہ تو تقلید کے لائق مثال ہے۔‘‘ میں نے اس کی تعریف کی اور دل ہی دل میں پیچ و تاب کھانے لگا۔ ’’ اس طرح کرو کہ مجھے آٹھ روپے کی سیر اور کرا دو اور اس ٹیکسی سے مجھے رہائی دلاؤ۔‘‘

’’ہاں۔ ۔ ۔ یہ ٹھیک ہے۔‘‘ ڈرائیور نے گاڑی آگے بڑھاتے ہوئے کہا۔

میں میٹر دیکھنے لگا، جوں ہی پچاس روپے پورے ہوئے، میں نے چلا کر ڈرائیور سے کہا۔

’’ یہیں روک دو۔ ۔ ۔ یہیں روک دو !‘‘

’ ’معذرت۔ ۔ ۔ جناب !‘‘ ڈرائیور اسی رفتار سے گاڑی چلاتے ہوئے بولا۔ ’’ یہاں ٹھہرنا قانوناً ممنوع ہے۔ ۔ ۔ آپ آگے نصب ہوا ٹریفک بورڈ نہیں دیکھ رہے ؟‘‘

’’ تو پھر میٹر بند کر دو !‘‘

’’ یہ بات اُصول کے خلاف ہے۔‘‘ ڈرائیور بولا۔ اس کا لہجہ بہت شائستہ تھا۔ ’’ جب گاڑی میں سواری موجود ہو، تو لازمی میٹر کو چلتے رہنا چاہیے۔‘‘

جب ہم ایک ایسی جگہ پہنچے، جہاں ہم قانون کی خلاف ورزی کیے بغیر رک سکتے تھے، تو میٹر ۶۷ روپے دکھا رہا تھا۔

میرے منہ سے آہ نکل گئی۔

’’ زیادہ پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں۔‘‘ ڈرائیور نے مجھے دلاسا دیا۔ ’’ چلیے ! ہم اس کا کوئی اور حل سوچتے ہیں۔ ۔ ۔ کچھ فاصلے پر ایک بنک ہے۔ ۔ ۔ وہاں میرا ایک دوست کیشیئر ہے، ہمیں پیسے فوراً کھُلے کرا دے گا۔‘‘

وہاں گئے، تو یہ دیکھ کر میں مایوس ہو گیا کہ بنک بند تھا۔ باہر کھڑے چوکی دار نے بتایا کہ آج بنک کی چھٹی تھی۔ میں گھبرانے لگا۔ مگر ٹیکسی ڈرائیور بڑا حوصلہ مند انسان تھا۔ اس نے ٹیکسی پھر چلائی، تو میں نے پوچھا۔ ’’ اب کدھر جا رہے ہو ؟‘‘

’’ قومی مرکز بچت والے آج کے روز آدھی چھٹی نہیں کرتے۔ ۔ ۔ وہاں چلتے ہیں۔‘‘

اس کی بات ٹھیک نکلی۔ وہ واقعی آدھی چھٹی نہیں کرتے۔ مگر مرکز بند تھا، کیوں کہ وہ پوری چھٹی کرتے ہیں۔

خوش قسمتی سے اب میٹر پورے ۸۰روپے دکھا رہا تھا، نہ ایک کم نہ ایک زیادہ۔ میں نے ٹیکسی ڈرائیور کو ٹیکسی روکے رکھنے کو کہا، کیوں کہ ٹیکسی کی ذرا سی حرکت سارا میزان خراب کر سکتی تھی اور جیب سے ۸۰ روپے نکال کر اسے دے دیے۔ ڈرائیور نے شکریہ ادا کر کے رقم پکڑ لی اور جیب میں رکھتے ہوئے بولا۔

’’ خدا کی قسم ! مجھے دلی طور پر افسوس ہے کہ واقعات اس طرح پیش آئے اور آپ کو بہت زیادہ زحمت برداشت کرنا پڑی۔ ۔ ۔ مگر میں اپنے ضمیر کا کیا کروں، جو جائز کرائے کے علاوہ ایک پیسا بھی لینا نا جائز سمجھتا ہے۔‘‘

میں نے اس کی ایمان داری اور اس کے نتیجے میں خود کو پہنچنے والے نقصان پر لعنت بھیجی اور سر ہلا کر چپ ہو گیا۔

اچانک مجھے ایک خیال آیا۔ میں نے ڈرائیور سے کہا۔

’’ مگر مجھے تو رفیقی چوک جانا تھا۔‘‘

’’ تو کیا ہوا۔ ۔ ۔ جناب !‘‘ ڈرائیور پہلے کی طرح شائستگی سے بولا۔ ’’ میں ابھی آپ کو وہاں پہنچا دیتا ہوں۔‘‘

پندرہ منٹ کے بعد ہم پھر رفیقی چوک پہنچ گئے۔ میٹر دیکھا، تو وہ پھر ۲۷روپے دکھا رہا تھا۔ میں اپنا سر تھام کر رہ گیا ! ! !

٭٭٭

 

 

 

 

چور

 

                نوید ظفر کیانی

 

(اس کھیل کے لئے کسی خاص سیٹ کی ضرورت نہیں۔ یہ سارا کھیل کسی گلی کے نکڑ پر بھی کھیلا جا سکتا ہے۔ آپ چاہیں تو منظر نامے میں رنگ بھرنے کے لئے پس منظر میں ایک عدد پوسٹ بکس آویزاں کر سکتے ہیں یا کسی مکان کی کھڑکی بنا سکتے ہیں، لیکن اگر ایسا نہ بھی کیا جائے تو کھیل کا مجموعی تاثر ہرگز مجروح نہیں ہو گا۔ گلی کے منظر نامے کو حقیقی بنانے کے لئے چند ایک ایسے پیدل افراد کا اہتمام کیا جا سکتا ہے جو گاہے بگاہے گلی میں مٹر گشت کریں یا وہاں سے گزر جائیں۔ پھیری والے کا اہتمام بھی کیا جا سکتا ہے جو ہلکی پھلکی آواز لگاتا ہوا وہاں سے گزرے لیکن وہ مسلسل آوازیں لگانے سے گریز ہی کرے تو بہتر ہے کیونکہ اس سے کھیل کے کرداروں کے صوتی تاثرات پر بُرا اثر پڑنے کا احتمال ہے۔ )

 

بیٹی     (معمول کے مطابق بے فکری کے انداز میں گلی سے گزر رہی ہے۔ اُس نے سنہری ہار پہنا ہوا ہے )

ایلس   (یہ بھی گلی سے گزر رہی ہے لیکن بیٹی کے مخالف سمت سے آ رہی ہے، بیٹی سے قدرے قریب آ کر رُک جاتی ہے۔ اُس کی نظر مسلسل بیٹی کے سنہری ہار پر گڑی ہوئی ہے )

بیٹی     (ایلس کو رُکتا دیکھ کر) کیوں جی، کیا کوئی کام ہے مجھ سے ؟

ایلس   پتہ نہیں۔ ۔ ۔ بس مجھے یونہی تجسس سا ہو رہا ہے، کیا تم بتا سکتی ہو کہ تم نے یہ ہار کہاں سے لیا ہے ؟

بیٹی     کیوں ؟ کیا یہ تمھارا ہے ؟؟

ایلس   جی ہاں، مجھے کچھ ایسا ہی لگ رہا ہے، ہوبہوایسا ہی سونے کا ہار میں بھی پہنتی رہی ہوں۔

بیٹی     اچھا۔ ۔ ۔ اب کہاں ہے وہ؟

ایلس   کچھ پتہ نہیں۔ ۔ ۔ بس کچھ ایسا اتفاق ہوا کہ میں اسے ایک ڈیڑھ برس تک پہن نہیں پائی، موقع ہی نہیں ملا اِس کا۔ ۔ ۔ بعد میں خاصا ڈھونڈا لیکن اُسے نہیں ملنا تھا سو نہ ملا۔ وہ ہار میرا پسندیدہ ہار تھا۔ ۔ ۔ یہی وجہ ہے کہ میں تم سے پوچھنے پر مجبور ہو گئی ہوں کہ یہ تم نے کہاں سے لیا ہے ؟

بیٹی     اگر میں تمھیں نہ بتاؤں کہ میں نے یہ کہاں سے لیا ہے تو کیا کر لو گی؟

ایلس   (پس و پیش کے کے عالم میں ) یہ تمھاری مرضی ہے، اگر چا ہو تو مجھے بتا دو کہ تمھیں یہ کہاں سے ملا ہے، میں تمھیں اس بات پر مجبور نہیں کر سکتی۔ ویسے یہ بات کچھ اچنبھے کی ہے کہ آخر تم مجھے بتانے سے ہچکچا کیوں رہی ہو کہ تم نے یہ سونے کا ہار کہاں سے لیا ہے۔ ۔ ۔ لیکن اگر تم نہیں بتانا چاہ رہیں تو تمھاری مرضی۔ ۔ ۔ اللہ حافظ۔

بیٹی     ٹھہرو۔ ۔ ۔ میں یہ نہیں کہہ رہی ہوں کہ میں تمھیں نہیں بتاؤں گی، میں نے تو صرف یہ کہا تھا کہ اگر میں نہ بتانا چاہوں تو تم کیا کر لو گی۔

ایلس   اوہ۔ ۔ ۔ تو کیا اس کا مطلب کہ تم مجھے بتا دو گی؟

بیٹی     کہیں تم کو مجھ پر ہار کی چوری کا شبہ تو نہیں کر رہی ہو؟

ایلس   (جلدی سے ) ارے نہیں، بالکل نہیں۔ ۔ ۔ میں بھلا ایسا کیسے سوچ سکتی ہوں۔ ۔ ۔ مجھے تو بس اس بات کا تجسس ہو رہا ہے کہ تمھیں یہ نیکلس آخر کہاں سے ملا ہے اور بس۔

بیٹی     حقیقت تو یہی ہے کہ میں نے اس کو چرایا ہے، یہ تمھارا ہی ہار ہے۔ ۔ ۔ غالباً۔

ایلس   میری تو سمجھ میں نہیں آ رہا کہ کیا کہوں، دماغ شل ہو کر رہ گیا ہے۔ ۔ ۔ ٹھیک ہے اگر یہ میرا ہے تو تم یہ فوراً مجھے لوٹا دو۔

بیٹی     کیا۔ ۔ ۔ تمھیں واپس لوٹا دوں۔ ۔ ۔ پاگل ہو گئی ہو کیا؟ اِتنی مشکل سے تو چرایا تھا میں نے، اب میں تمھیں واپس کر دوں۔ ۔ ۔ ہاہاہا۔ ۔ ۔ یہ بھی خوب کہی۔

ایلس   لیکن تم کہہ چکی ہو کہ یہ میرا ہے۔

بیٹی     ٹھیک ہے، یہ تمھارا ہی ہو گا لیکن یہ مجھے بہت پسند ہے۔ میرے پاس بھی پانچ چھ برس پہلے ایسا ہی ہار ہوا کرتا تھا لیکن پھر وہ گم گیا تھا۔ جب میں نے بالکل ویسا ہی ہار تمھارے پاس دیکھا تو رہ نہ سکی اور اسے اُڑا لیا۔ ۔ ۔ اور یاد رکھو، میرا اِسے تمھیں واپس کرنے کا کوئی ارادہ نہیں۔ ۔ ۔ سمجھیں !

ایلس   لیکن یہ تمھارا نہیں ہے۔ ۔ ۔ میں تمھیں اِس ہار کو چرانے کے جرم میں گرفتار بھی کروا سکتی ہوں۔ ۔ ۔ اس کی چوری کا اعتراف تو تم خود کر ہی چکی ہو۔

بیٹی     ارے یہ مجھ سے کیا حماقت سرزد ہو گئی۔ ۔ ۔ بھلا یہ راز

اُگلنے کی کیا ضرورت تھی مجھے، تم کون سی

پولیس انسپکٹر لگی ہوئی ہو۔ ۔ بہرحال،

اگر میں یہ تمھیں واپس لوٹا دوں تو کیا تم مجھے

بتاؤ گی کہ تم نے اسے کہاں سے خریدا تھا، تاکہ میں بھی اپنے لئے وہاں سے ایک ایسا ہی اور ہار خرید سکوں۔

ایلس   اور اگر میں نہ بتاؤں تو ؟

بیٹی     تمھاری مرضی، لیکن یاد رکھو پھر میں تمھیں یہ ہار واپس بھی نہیں کروں گی۔

ایلس   تمھیں یہ ہار ہر صورت لوٹانا پڑے گا، میں پولیس کو بلوا لوں گی۔

بیٹی     ٹھیک ہے ٹھیک ہے۔ ۔ ۔ لیکن پلیز پلیز مجھے بتا دو کہ تم نے یہ کہاں سے خریدا تھا۔ میں اس کے بغیر رہ نہیں سکتی۔ میں جنون کی حد تک اس کی شیدائی ہوں۔ یقین مانو، میں نے اپنے نیکلس کو مدتوں اپنے گلے سے جدا نہیں کیا تھا۔ یہ کئی سالوں سے میری دل کی دھڑکنوں کاساتھی رہا ہے۔

ایلس   تم نے اپنا ہار کہاں گم کر دیا تھا؟

بیٹی     پتہ نہیں، میں نے اپنا ہار ایک بار شہر کے زنانہ ہاسٹل میں نہاتے ہوئے اُتارا تھا اور وہیں بھول گئی تھی۔ بعد میں جب مجھے یاد آیا تو میں دوڑتی دوڑتی وہاں گئی لیکن بہت دیر ہو چکی تھی۔ ہار کو نہ ملنا تھا سو نہ ملا۔ پلیز مجھے بتادو کہ تم نے یہ ہار کہاں خریدا تھا، میں وعدہ کرتی ہوں کہ تمھیں تمھارا ہار واپس کر دوں گی۔

ایلس   میں تمھیں نہیں بتا سکتی۔

بیٹی     لیکن کیوں ؟

ایلس   ارے تو کیا تم مجھ پر الزام لگا رہی ہو کہ میں نے اِسے چرایا ہے ؟

بیٹی     نہیں، بالکل بھی نہیں۔

ایلس   تو پھر۔ ۔ ۔ پھر۔ ۔ ۔ سچ پوچھتی ہو تو مجھے یہ وہیں سے ملا تھا۔ ۔ ۔ وہیں گرلز ہاسٹل سے، جہاں تم اسے بھول گئیں

تھیں۔ ۔ ۔ یہ یقیناً تمھارا والا ہی ہے، میں نے جب اِسے دیکھا تو اس سنہرے چمکدار ہار کا جادُو اس قدر مجھ پر چڑھ گیا کہ میں اِسے اُڑائے بغیر رہ نہ سکی۔ اگرچہ چاہیئے تو یہ تھا کہ میں اِسے پولیس کے حوالے کر دیتی تاکہ وہ اس کی مالکہ کو ڈھونڈ کر اس کی امانت اس کو لوٹا دیتی لیکن۔ ۔ ۔ لیکن پتہ نہیں کیوں، مجھ سے ایسا کیا ہی نہ گیا۔

بیٹی     اور تم نے اسے چُرا لیا؟

ایلس   مجھے افسوس ہے۔

بیٹی     لعنت ہو۔ ۔ ۔ ہم گھوم پھر کر پھر اُسی بند گلی میں پہنچ گئے، اب بھی مجھے پتہ نہیں کہ اسے کہاں سے خرید پاؤں گی۔

ایلس   ارے نہیں، اب تمھیں نیا ہار خریدنے کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی، یہ تمھارا ہی تو ہے۔ ۔ ۔ میں ہی اس سے محروم رہ جاؤں گی۔

بیٹی     ایں۔ ۔ ۔ ارے ہاں، تم ٹھیک ہی تو کہہ رہی ہو، یہ تو ہے ہی میرا۔ ۔ ۔ اچھا۔ ۔ ۔ تو پھر اللہ حافظ۔

ایلس   ٹھہرو۔ ۔ ۔ کیا یہ ہار واقعی تمھارا ہے ؟

بیٹی     ظاہر ہے۔

ایلس   تو کیا یہ تم نے خود خریدا تھا یا کسی نے تحفے میں دیا تھا۔

بیٹی     پتہ نہیں۔ ۔ ۔ اب تو میں بھول بھال گئی ہوں، پندرہ سال سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے اِس بات کو۔

ایلس   دیکھو مجھ سے اُڑنے کی کوشش مت کرو، تمھیں اچھی طرح یاد ہے۔ ۔ ۔ مجھے بتاؤ کہ تم نے یہ ہار کہاں سے خریدا تھا۔

بیٹی     یقین مانو، مجھے بالکل بھی یاد نہیں۔ ۔ ۔ بتا رہی ہوں ناں کہ بہت عرصہ ہو گیا ہے اس بات کو۔

ایلس   مجھے تمھاری بات پر بالکل بھی یقین نہیں۔ ۔ ۔ دیکھو، جس طرح تمھیں یہ ہار پیارا ہے ویسے ہی مجھے بھی پیارا ہے۔ ۔ ۔ ۔ پلیز مجھے بتا دو کہ تم نے یہ ہار کہاں سے خریدا تھا۔

بیٹی     سوری۔ ۔ ۔ ۔ مجھے یاد نہیں (جانے لگتی ہے )

ایلس   آہا، اب میں سمجھی۔ ۔ ۔ ۔ تم نے یہ کسی کا چرایا تھا،

کیوں صحیح کہہ رہی ہوں ناں میں ؟

بیٹی     میں کہہ رہی ہوں ناں کہ مجھے یاد نہیں۔ ۔ ۔ ٹھیک ہے اب مجھے تنگ نہ کرو، میں جا رہی ہوں۔ ۔ ۔

ایلس   ٹھیک ہے، شوق سے جاؤ، لیکن مجھے میرے سوال کا جواب مل گیا ہے، مجھے پتہ چل گیا ہے کہ تم نے خود یہ ہار کسی کا چرایا ہوا ہے۔ ۔ ۔ تم مان کیوں نہیں رہی ہو کہ تم نے یہ چوری کیا تھا۔

بیٹی     فضول باتیں نہ کرو، مجھے کیا ضرورت ہے کچھ ماننے یا نہ ماننے کی۔ ۔ ۔ خدا حافظ (جانے لگتی ہے )

اپریل   (گلی سے گزرتے گزرتے رُک جاتی ہے اور تیر کی طرح بیٹی کی طرف آتی ہے ) ارے، یہ ہار تم کو کہاں سے ملا ؟

(بیٹی دوڑ لگا دیتی ہے )

(بلیک آؤٹ)

٭٭٭

تشکر: مدیر جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید