FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

فہرست مضامین

اردو ناولوں میں جنسی تشدّد

(’’گوری ‘‘ کے حوالے سے)

شگفتہ جمال انصاری

پی۔ ایچ۔ ڈی ( اردو)
مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی
گچّی باولی حیدرآباد۔۳۲

 

 موبائل نمبر۔9000318092

Email ID: shagufta.shagufta.jamal@Gmail.com

مراسلہ کا پتہ ـ: شگفتہ جمال انصاری

 کمرہ نمبر۔ ۷ گرلز ہاسٹل

 مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی

 گچّی باولی حیدرآباد( اے۔ پی)۳۲

 

 مشترکہ طور پر اگر کوئی شخص کسی کو اس کی مرضی کے خلاف کسی بھی جنسی اعمال کو دیکھنے یا اس میں حصّہ لینے کے لئے مجبور کرتا ہے تو وہ جنسی تشدّد کے زمرے میں آتا ہے۔جبکہ امریکہ میں جنسی زیادتی سے مراد نشے کی حالت میں یا جبراًجنسی تعلق قائم کرنے کو قرار دیا گیا ہے۔ متحدہ اقوام کے مطابق جنسی تشدّد کی اصطلاح کچھ اس طرح پیش کی گئی ہے کہ۔۔۔۔

’’کوئی بھی ایسا تشدّدّی عمل جو جنسی بنیاد پر کیا گیا ہو،جس کا نتیجہ جنسی یا ذہنی تکالیف ہو،جس میں زبر دستی کسی کی آزادی چھیننا بھی شامل ہے،چاہے وہ مشترکہ زندگی میں ہو یا انفرادی زندگی میں،کسی غیر محرم نے کیا ہو یا شریکِ حیات نے،جنسی تشدّد کہلائے گا۔یہ جسمانی یا ذہنی دونوں ہی طرح کا ہوسکتا ہے۔‘‘

(Scholer.google.com.in)

جنسی تشدّد کا شکار اکثر خواتین ہوتی ہیں۔آج ہر پانچ خواتین میں سے کم سے کم ایک ہندوستانی عورت جنسی تشدّد کا شکار بنتی ہے، یہ زیادتیاں گھریلو اور سماجی دونوں ہی طرح کی ہوتی ہیں۔صدیوں بعد بھی عورت،عورت ہی ہے۔مزاج بدل گیا،رکھ رکھاؤ بدل گئے،مگر تقدیر نہیں بدلی۔آج بھی ایسے علاقے موجود ہیں جہاں لڑکیوں کی پیدائش سے لے کر ان کی قبر تک ان پر بے جا اور بے حد ظلم وستم کئے جاتے ہیں اور وہ انھیں بر داشت کرنے کے لئے مجبور ہوتی ہیں۔دیہی ہی نہیں بلکہ شہری علاقوں میں بھی یہی صورتِ حال ہے۔دور کیوں جائیں صرف دلّی کا احاطہ کرنے سے صورتِ حال صاف ہو جاتی ہے۔وہاں تین سال کی بچّی سے لیکر ستّر سال تک کی عورتیں بھی محفوظ نہیں ہیں۔دلّی کی کچھ خبروں کا حوالہ دیتے ہوئے ارجمند آرا اس کی وضاحت کچھ اس طرح کرتی ہیں کہ ؎

’’میرے سامنے ہیں ۲۱ اگست کے دلّی کے دو اہم روزنامے اور خبریں ہیں تین۔چار برس کی ننھی سی مینا، ۲۳ برس کی کام کاجی خاتون سریتا اور پچاسی سال کی ایک بوڑھی عورت کے بارے میں۔ موضوع ہے آبرو ریزی۔ایک ایسا جرم جو ایک خاص ذہنیت کا متبادل بن گیا ہے۔جائے حادثہ؟

 اگر اس سے کچھ فرق پڑتا ہو یا عورتوں کے مسائل کو سمجھنے میں آسانی ہوتی ہو تو بتائی جاسکتی ہے کہ یہ دلّی شہر کے تین مختلف علاقے ہیں۔چار سالہ مینا کی سمجھ میں شاید زندگی بھر یہ بات نہیں آئے گی کہ بچپن میں آخر اس کے ساتھ ایسا کیا ہوا تھا کہ لوگ اس کی جانب عجیب و غریب نظروں سے دیکھتے ہیں جس میں ہمدردی تو شامل ہوتی ہے عزّت نہیں ( حالانکہ وہ تو بیدی کی ’’لاجونتی‘‘ بھی نہیں ہے )۔اور بھلا سنگم وہار کی بوڑھی عورت کے کون سے برے کاموں کا ثمر ہے کہ اس کے پچاسی سالہ نحیف و نزار جسم کو اپنے ہی پوتے کے دوست ۱۹ سالہ مہیش کی ہوس کا نشانہ بننا پڑا؟‘‘ ( عورتوں کے تئیں سماجی رویئے : جرائم کے خصوصی حوالے سے۔مضمون: اردو دنیا۔نومبر ۲۰۰۲ء : ص ۲۱؎ )

اگر دوسرے شہروں اور قصبوں کی بات کریں تو سڑکوں پر عام چھیڑ چھاڑ اور فقرے بازیاں تو روز مرّہ کی بات ہو گئی ہے۔راجدھانی دلّی میں تو کھلے عام،دن دھاڑے سڑکوں سے لڑکیوں کو اٹھا کر چلتی گاڑی میں ان کی عصمت دری کی جاتی ہے اور پھر انھیں مرنے کے لئے کسی سنسان جگہ پر پھینک دیا جاتا ہے۔سماج ان واقعات سے بے بہرہ ہے۔جبکہ خواتین کے اوپر ان حادثات کا ذہنی اور جسمانی دونوں پہلوؤں سے منفی اثرات مرتّب ہوتے ہیں۔مثلاً ایک رپورٹ کے مطابق۔۔۔۔

’’ایسی خواتین جو جنسی تشدّد کا نشانہ بنی ہوں یا ان پر ایساحملہ کیا گیا ہو،ان میں دمہ، عدمِ برداشت، ذیابیطس،مسلسل سر درد، نہ ختم ہونے والی تکالیف اور سونے میں دشواری جیسے طبّی مسائل پیدا ہونے کا خدشہ رہتا ہے۔‘‘
 ( بی۔بی۔سی : اردو )

جنسی تشدّد جوان طبقوں میں زیادہ پایا جاتا ہے۔عموماً اس کی شکار ایسی عورتیں ہوتی ہیں جن کی عمر تیرہ سے تیئس ہوتی ہے۔

ادب ایک ایسی اکائی ہے جو سماج کا آئنہ بھی ہوتا ہے۔یہ ہمیشہ وہی پیش کرنے کی کوشش کرتا ہے جو آس پاس ہو رہا ہے۔ ناول بھی ادب کا ایک حصّہ ہے۔ جو بقول شہاب ظفر اعظمی ؎

’’جدید دور میں انسانی زندگی جس پیچ و خم،شکست و ریخت اور انقلاب سے دو چار ہے اس کے اظہار کا سب سے بہتر وسیلہ بننے کی صلاحیت اگر کسی صنف میں ہے تو وہ صرف ناول ہے کیونکہ ناول معاشرہ، فرد اور ذات کے نہ صرف خارجی عوامل و عناصر کو پیش کرتا ہے بلکہ داخلی تضاد و تصادم اور اس کے محرکات کو بھی اپنی گرفت میں لیتا ہے ‘‘

 ( شہاب ظفر اعظمی: جدید اردو ناول کاسفر۔مضمون: ماہنامہ۔آج کل : اپریل ۲۰۰۵ء : ص )

آج سماج میں عورت کے تئیں جو رویہ رکھا گیا ہے اور ان پر جو ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں کئی ناولوں میں موضوعِ بحث رہا ہے۔ ناولوں کے شروعاتی دور سے لیکر اب تک عورت کے ہر روپ اور مسئلے کو اس میں سمونے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔جنسی تشدّد کے مسئلے کولے کر بھی کئی ناول لکھے گئے ہیں۔انھیں میں سے ایک ناول اجیت کور کا ’’ گوری ‘‘بھی ہے۔

اجیت کور یوں تو پنجابی زبان و ادب کی ادیبہ ہیں،مگر انھوں نے ہندی میں بھی کئی کہانیاں،ناول اور سوانح حیات بھی لکھے ہیں۔ ’’گوری ‘‘ ہندی زبان کا ناول ہے جس کا اردو ترجمہ خالد محمود نے کیا ہے۔’’گوری ‘‘ راجستھان کے ایک چھوٹے سے گاؤں کی ایک عام لڑکی کی کہانی ہے، جہاں آج بھی عورت صرف بچّہ پیدا کرنے کی مشین اور مفت کی نوکرانی سے زیادہ کی اہمیت نہیں رکھتی۔یہ ناول ظلم و جبر کی ایک ایسی داستان ہے جو پتھّر دل کو بھی پگھلانے کی طاقت رکھتی ہے۔یہ اپنے اندر سارے جہاں کا درد چھپائے ہوا ہے۔ایک لرزہ خیز مکالمہ جو حیوانیت کو بھی شرم سار کر دیتی ہے اور ساتھ ہی ساتھ تشدّدّی عمل کی بھی ایک مثالی کہانی ہے۔بقول اجیت کور ایک ایسی لڑکی کی کہانی ہے ؎

’’جو پوری عمر پہلے باپ سے کانپتی رہی کیوں کہ باپ اسے بھگوان کی بھیجی ہوئی بددعا سمجھتا تھا،ماں سے ڈرتی رہی کیوں کہ ماں کو لگتا تھا کہ وہ اسے رسوا کرنے کے لئے ہی ایک بددعا کی طرح پیدا ہوئی ہے۔پھر وہ اس مرد سے کانپتی رہی جو اسے غلام بنا کر خرید کر لایا تھا۔اس نے گوری کی غلام کوکھ کو استعمال کر کے اپنا وارث پیدا کیا تھا۔اپنے خاندان کا چراغ جو گور ی کا کچھ نہیں لگتا تھا۔پھر وہ اسی وارث یعنی اس مرد سے خوف زدہ رہنے لگی جس کو اس نے اپنے لہو سے سینچا تھا اور اپنے جسم سے پیدا کیا تھا۔اپنے ہی خون اور گوشت کا ایک حصّہ۔آج اس نے گوری کے جسم کو وراثت میں ملی جائداد اور ملکیّت سمجھ کر سب سے بڑ ی گالی دی تھی۔‘‘ (گوری: اجیت کور: ص۔۶ )

ادب ایک ایسا آرٹ ہے جس کے ذریعہ پیچیدہ سے پیچیدہ انسانی جذبات و احساسات کو منظرِ عام پر لایا جا سکتا ہے۔اسی آرٹ کو ذریعہ بنا کر اجیت کور نے عورت کے مقدّر، اس کی مجبوری اور اس کے استحصال کو اپنے ناول کا موضوع بنایا۔اس ناول میں انسانی تقدیر کی ستم ظریفی اور زمانے کی مطلق العنان طاقت کے سامنے انسانی عزائم کی شکست کو بھی عورت کی مجبوری کے حوالے سے دیکھنے اور سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس ناول کے نسوانی کردار ایک ایسے سانچے میں ڈھلے ہوئے نظر آتے ہیں جو صدائے حق تو کیا احتجاج بھی نہیں کرتے اقتباس ملاحظہ ہو ؎

’’اس گھر کا سربراہ گوری کا دادا رام اوتار تھا، گھر کا بڑا بزرگ۔دادی کا نام کوئی نہیں تھا۔ شاید کیوں کہ اس کا شوہر رام اوتار اسے ہمیشہ ــ’’ گردھر کی مائی ‘‘ کہہ کر ہی پکارتا تھا۔ گردھر یعنی را م اوتار کا بڑا بیٹا گردھر اور چھٹکا رمیش اسے صرف ’ مائی ‘ کہہ کر پکارتے۔ ویسے اس گھر میں عورتوں کو نہ بلانے کا رواج تھا اور نہ ہی کوئی ضرورت۔ مرد گھر آ جاتے تو عورتیں خواہ ماں ہوں، خواہ بیوی،خود ہی انھیں پینے کے لئے پانی دیتیں، چوڑی پتّل میں چاول ڈال کر اور ساتھ میں نمک مرچ کی ڈھیری رکھ کر سامنے پروس دیتیں۔ مرد بیمار ہو جاتے تو دبا دیتیں تلووں میں تیل مل دیتیں اور رات میں جب بھی وہ تقاضہ کرے خود کو اس کے سپرد کر دیتیں سب خاموشی سے۔ ‘‘ ( ایضاً : ص ۱۲؎ )

نہ ہی وہ مردانہ سماج کے ا ستحصالی رویے کے خلاف آواز اٹھاتی ہیں اور نہ ہی خود پر کئے مظالم کا رونا روتی ہیں۔ ایک کٹھ پتلی کی طرح اپنی زندگی کے صبح و شام اپنے خاندان کے نام کر دیتی ہیں اور بدلے میں انھیں سوائے دھتکار کے کچھ نہیں ملتا۔

گوری ایک ایسا ناول ہے جس میں دیہی اور شہری دونوں تناظر میں عورت کے استحصال اور اس پر کئے جانے والے تشدّدی عمل کو بخوبی بیان کیا گیا ہے۔یوں تو اس ناول میں وقت اور حالات کے آگے عورت کی شکستگی کو پیش کیا گیا ہے مگر یہ شکستگی جنسی تناظر میں ہے۔

اس ناول کے نسوانی کرداروں میں گوری کی ماں، دادی، چاچی دھنیا، بہنیں رمیّیا اور ملّی اور بابو رام کی بیوی سوشیلا ہے، مگر گوری اس کا اہم کردار ہے۔ناول کی کہانی اسی کے ارد گرد گھومتی ہے۔ یہ لڑکی راجستھان کے ایک چھوٹے سے گاؤں کی بیٹی ہے۔ گوری اپنے والدین کی تیسری اولاد ہے۔ اس سے پہلے اس کی دو بڑی بہنیں رمیّا اور ملّی ہیں۔ گوری کی ولادت اس کے والدین کے لئے ہی نہیں بلکہ پورے گاؤں کے لئے کوئی خوش کن لمحہ نہیں تھا۔ اس جہانِ فانی میں پہلا قدم رکھتے ہی سماج کا جو ردِّ عمل تھا وہ کچھ یوں تھا ؎

’’ایک نظر دیکھ کر اس نے غصّہ سے بچّہ کو پیروں کی طرف سے پکڑ کر الٹا لٹکایا اور اس کی پیٹھ پر بے رحمی سے تھپّڑ مار کر بڑبڑانے لگی، ’’اور پھر پیدا کر دیا تو نے رمیّا کی مائی۔ ڈبو دے گی تجھے یہ۔‘‘ بچّہ کے رونے کی آواز سن کر گردھر کی مائی نے باہر سے کواڑ کے ساتھ کان لگا دئے تھے۔ دائی کی آواز سن کر اس نے چھا تی پیٹ لی اور دور بیٹھ کر رونے لگی۔ کسی کو اور کچھ پوچھنے کی ضرورت ہی نہیں رہ گئی تھی۔ نو زائدہ بچّی کو دھنیا نے دائی کے ہاتھ سے چھین لیا۔ ’’ ارے مار ہی دے گی کیا اسے پیٹے جا رہی ہے بار بار۔‘‘ مرنا ہوتا تو پیدا ہونے سے پہلے مرتی، اب کیا مرے گی، اب تو ماں باپ کو مارے گی۔ میرا انعام بھی کھا گئی حرام زادی۔‘‘
( ایضاً : ص ۲۹؎ )

یہ تمام الفاظ صرف اس لئے ادا کئے گئے کیوں کہ گوری ایک بیٹی بن کر پیدا ہوئی تھی، بیٹا نہیں اور اسی احساس کے ساتھ اس نے بچپن کی دہلیز پر قدم رکھا۔ اس کے خاندان کا رویّہ صنفی عدم مساوات کا نمونہ ہے۔ کیا یہ فرق تشدّد نہیں ہے ؟ کیا اس سے پیدا ہونے والے اثرات کبھی زائل ہو پائے ہیں ؟ حالانکہ گوری میں وہ تمام خوبیاں تھیں جو ایک اچھّے بچّے میں ہونا چاہئے، مگر چونکہ وہ بیٹا نہیں بیٹی بن کر پیدا ہوئی تھی ہمیشہ والدین کے عدمِ توجّہ کی شکار رہی۔ وہ ایک ایسے سماج ( ہندو سماج ) کا حصّہ تھی جہاں بیٹا جنّت کی بشارت ہوتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ اگر بیٹے کے ذریعہ آخری رسوم ادا نہ ہو تو وہ سورگ واسی نہ ہونگے۔ گویا سماجی اور مذہبی اعتبار سے تحفّظ کی نشانی بیٹا ہے۔ گویا مذہب کو بھی عورت پر ظلم کرنے کا ذریعہ بنا لیا گیا ہے۔

 گوری کی ولادت صرف گوری کے لئے ہی نہیں اس کی ماں کے لئے بھی باعثِ رسوائی تھا۔ ڈر اور خوف جس کا مقدّر بن چکی تھی کیونکہ اس نے یکے بعد دیگرے تین بیٹیاں ں جنمی تھیں۔ سماج کے لوگ اسے جن نگاہوں سے دیکھتے ہیں وہ ایک عورت کا استحصالی پہلو ہی تو ہے۔ اس کے محسوسات پر جو اثرات پڑتے ہیں وہ کچھ یوں ہیں ؎

’’ گوری کی ماں بہت ڈر گئی تھی۔ سہمی ہوئی بچھیا کی طرح وہ سارا دن سر جھکائے کام کرتی رہتی اور سب کے جلے کٹے طعنے سہتی رہتی۔ اسے محسوس ہوتا جیسے اس کے پیٹ کے اندر اس کی کوکھ کی مٹّی بھی ان کی جھگّیوں کی مٹّی جیسی تھی۔ ریتیلی۔ اتنی محنت کے بعد بھی اس میں سے صرف تین خار دار جھاڑ پیدا ہوئے تھے اور کچھ نہیں۔ ‘‘
 ( ایضاً : ص ۳۰؎ )

یہ احساس کہ لڑکی کی پیدائش تمام خاندان کے لئے تذلیل و تحقیر کا باعث ہے ایک ایسا عمل ہے جو عورت کی تمام خواہشات و احساسات کی آزادی چھین لیتا ہے، اور کسی بھی فرد کی آزادی چھیننا بھی جنسی تشدّد کے ہی زمرے میں آتا ہے۔ لڑکے اور لڑکی کے تفریق کا یہ عالم کہ والدین جانوروں کی طرح اس کا بھی سودا کرنے سے نہیں ہچکچاتے۔ آج کے ترقّی یافتہ دور میں بھی کیا اس طرح کا عمل تشدّد کے نہیں کہلائے گا؟

گوری کے والدین اسے ایک ایسے مرد کے ہاتھوں صرف ہزار روپیوں کے لئے بیچ دیتے ہیں جو عورت کے جسم کو بھی تجارتی سامان کے طور پر برتّتا ہے۔بابو رام ان مردوں میں سے تھا جو آٹھ سال کی بچّی کو اس لئے خرید کر لے جاتا ہے کہ چار پانچ سال بعد اس کا جوان جسم اس کے لئے اولاد پیدا کر سکے۔آٹھ سال کی گوری کو دیکھ کر بابو رام کا آڑھتی دماغ جو سوچتا ہے وہ باعثِ شرم ہے ؎

’’ وہ سوچنے لگا اگر گوری کو لے جائے یہاں سے اپنے گھر تو چار پانچ سالوں میں وہ جوان ہو جائے گی اور پھر۔۔۔۔۔پھر۔۔۔۔۔اتنی خوبصورت لڑکی جب اس کا بیٹا پیدا کرے گی تو وہ پورا چاند کا ٹکڑا ہو گا۔ ‘‘
( ایضاً : ص ۴۵؎ )

اور بابو رام ’ گوری ‘ کو خرید کر کلکتّہ لے آتا ہے۔ گوری کے لئے یہ ایک الگ دنیا ہے جہاں وہ اپنے ماں، باپ، بھائی، بہن حتیٰ کہ مٹّی سے جدا کر کے لائی جاتی ہے۔مردوں کے غلبہ والے اس سماج میں جہاں آج بھی عورت اپنی ذات کی بقاء کے لئے جدّ و جہد کر رہی ہے گوری اپنا نام تک گنوا دیتی ہے۔اس سے بڑھ کر سماج ایک عورت کا استحصال اور کیا کرے گا کہ ایک زندگی سے بھرپور لڑکی ایک گونگی عورت بن کر رہ جاتی ہے۔

’’ گوری گونگی تھی۔ سب کو یہی پتہ تھا کہ گوری گونگی ہے۔ وہ کچھ نہیں بولتی تھی۔ بہت برسوں سے وہ بولنا بھول چکی تھی، گھر میں صفائی کرنے والی مہترانی، سبزی خریدنے والے اڑوسی پڑوسی سب کو یہی معلوم تھا کہ وہ گونگی ہے۔ اس کا نام بھی کسی کو پتہ نہ تھا۔ ہم سایوں کو یہی معلوم تھا کہ شنکر کا باپ ایک گونگی لڑکی کو کہیں سے خرید لایا تھا۔ نوکرانی، روٹی پکانے کے لئے، گھر سنبھالنے کے لئے اور شنکر کی ماں کی خدمت کرنے کے لئے۔ ‘‘
( ایضاً : ص ۱۰۔۹؎ )

گوری کی زندگی کا حقیقی المیہ بارہ سال کی عمر سے شروع ہوتا ہے۔ ان چند سالوں میں جب گوری کے زخم بھرنے لگتے ہیں اور وہ اپنے حالات سے سمجھوتا کر لیتی ہے تبھی اس کے ساتھ وہ حادثہ پیش آتا ہے جو صرف اسی کی زندگی کا نہیں بلکہ کسی بھی عورت کی زندگی کا بد ترین لمحہ ہوتا ہے۔ وہ ایک ایسی رات تھی جب گوری کی عصمت تک داغدار ہو جاتی ہے ؎

’’جب گوری رسوئی کا کام سمیٹ کر سوئی ہوئی تھی کہ اسے لگا کوئی گیلا سا چپچپا سا سانپ یا کینچوئے جیسا لجلجا کچھ اس کی گردن پر اس کی بانہوں پر رینگ رہا تھا۔ وہ گھبرا کر اٹھ بیٹھی۔ بابو رام تھا۔ بابو رام نے اپنا ایک ہاتھ دھیرے اس کے ہونٹوں پر رکھ دیا اور آہستہ سے پھسپھسایا ’’ شی شی ‘‘ وہ بہت ڈر گئی جان سوکھ گئی اس کی۔ بابو رام اسے چپ رہنے کے لئے نہ بھی کہتا تب بھی اس سے بولا نہیں جاتا۔ اور بول کر بلاتی بھی کسے۔ کیونکہ آس پاس صرف کوٹھری کی دیواریں تھیں۔ نیچے لپکتی آتی چھت تھی اور سیاہ تاریک اندھیرا تھا۔ بابو رام نہ جانے کتنی دیر، کتنے زمانے اس کے جسم کو گیلے آٹے کی طرح مسلتا رہا، ردّی کاغذ کی طرح پھاڑتا رہا۔ گوری کو صرف یہی پتہ تھا کہ وہ بے انتہا تکلیف کے قہر سے گذر رہی تھی اور جو کچھ اس کے ساتھ ہو رہا تھا وہ شاید بہت شرمناک تھا۔ ‘‘
( ایضاً : ص ۶۱۔ ۶۰ )

اس رات ایک معصوم سی بچّی اچانک ایک عورت بن گئی۔ وہ بیج جو زبر دستی اس کی کوکھ میں بویا گیا تھا، کچھ ہی مہینوں میں عیاں ہونے لگا۔ بابو رام کی بیوی سوشیلا کو اس کی خبر ہوئی تو وہ شوہر کے بجائے اس غریب پر ہی ٹوٹ پڑی۔ گوری کو تو یہ بھی پتہ نہیں تھا کہ کیوں اسے ہر وقت چکّر آتے رہتے ہیں ؟ کیوں اسے ہر وقت تھکان سی محسوس ہوتی ہے اور تھوڑا کھانے پر بھی کیوں وہ موٹی ہوتی جا رہی ہے ؟ اسے تو صرف یہ معلوم تھا کہ وہ بیمار ہے۔ اس پر سوشیلا کا رویّہ اس کے لئے تعجّب کن تھا۔ وہ نہیں سمجھ پا رہی تھی کہ ؎

’’ سوشیلا نے اسے کیوں اتنا پیٹا ؟ بیمار ہے وہ۔ بیمار ہو گی تو مار کھانا ہو گی۔ سوشیلا بیمار ہوتی ہے تو وہ پورا دن اس کے سر میں تیل ملتی رہتی ہے، اس کے ہاتھ پاؤں کے تلوؤں کی، کندھوں کی مالش کرتی رہتی ہے، دباتی رہتی ہے اس کی خدمت گذاری کرتی رہتی ہے اور آج جب وہ خود بیمار ہے تو سوشیلا نے مار مار کر اس کا ملیدہ بنا دیا ہے۔ کیوں ؟ آخر کیوں ؟ ‘‘
( ایضاً : ص ۶۴؎ )

 بابو رام جو اولاد کے لئے ہی اس ننھی سی جان پر اتنا بڑا ظلم کرتا ہے وہ سوشیلا کو سمجھا تا ہے کہ اولاد تو ہماری ہی کہلائے گی نہ کہ اس کی۔ سوشیلا بھی اس کی باتوں میں آ جاتی ہے کہ اولاد تو اس کی بھی چاہت تھی۔ گوری ایک صحت مند بچّے کو جنم دیتی ہے جسے سوشیلا اور بابو رام اپنا بیٹا بتاتے ہیں۔ دن مہینے اور مہینے سال بن کر بیت جاتے ہیں۔ اب گوری ستّرہ اٹھّا رہ سال کی جوان لڑکی ہے مگر ذہنی طور پر اس میں کوئی تبدیلی نہیں آتی۔ اس کے جذبات کی عکّاسی کرتے ہوئے اجیت کور لکھتی ہیں ؎

’’ ستّرہ اٹھارہ سال کی ظالم عمر میں بھی اسے کبھی کسی شہزادے کا خواب نظر نہیں آیا نہ شہزادے کے سفید گھوڑے کا جس پر بیٹھ کر وہ اسے اس قلعہ کی سزا سے آزاد کرا دیتا۔ ‘‘
( ایضاً : ص ۷۴ )

ریت کے ٹیلوں کی طرح بنتی بگڑتی اس کی زندگی اس موڑ پر پہنچ جاتی ہے جہاں اس کے ہی جسم کا حصّہ اس پر حکم چلاتا، اور کیوں نہ چلائے وہ اس کا بیٹا تو نہیں تھا، وہ تو سوشیلا اور رام بابو کا بیٹا تھا۔چھوٹا صاحب تھا۔ گوری جس طرح گھر کے تمام افراد سے ڈرتی اور ان کی ضرورتیں پوری کرتی رہتی، اسی طرح وہ شنکر ( اپنے بیٹے) سے بھی ڈرتی لیکن اس کا تمام کام اسی کے ذمّے ہوتا۔ کبھی کسی نے گوری کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی کہ وہ اتنی خاموش کیوں رہتی ہے،۔ اس کے درد کو محسوس کرنے والے اس گھر میں صرف دو ہی لوگ تھے، ایک تو اس گھر کا خانساماں جسے سب لوگ ’ مہاراج ‘ کہہ کر بلاتے تھے، اور دوسرے سوشیلا کے والد، رام لبھایا۔ لیکن وہ لوگ بھی صرف تماشائی بنے رہے۔ اسے اس جہنّم سے نکالنے کی کوشش کسی نے بھی نہیں کی۔

 سوشیلا بیمار رہنے لگی تو جیسے بابو رام کو موقع مل گیا۔ اب تو وہ ہر روز ہی گوری کے جسم کو روندتا۔ جب گوری بنا آواز احتجاج کرتی تو وہ کہتا ؎

 ’’ پگلی نہ ہو تو ! تو میرے بیٹے کی ماں ہے، مجھے تو ہر وقت یاد آتی تھی لیکن سوشیلا، بس اس کے ڈر سے ہی اتنے سال گذر گئے۔‘‘
( ایضاً : ص ۸۶؎ )

گوری خوف زدہ ہرنی کی طرح بے آواز منّتیں کرتی مگر رام بابو پر اس کا کوئی اثر نہ پڑتا۔ وہ گذرے تمام سالوں کی کسر پوری کرتا اور خود کو کوستا ؎

’’ واہ رے بدّھو رام۔ گنگا تیرے گھر میں بہتی رہی اور تو اس نالے کا پانی پیتا رہا۔ یوں ہی ڈر کر عمر گذار دی۔ ‘‘
( ایضاً : ص ۸۶؎ )

 گوری ڈر کے مارے دیر رات تک باورچی خانے میں ہی رہتی۔ ڈر جو اس کی رگ رگ میں سما گیا تھا، جو اس کی زندگی کا حصّہ بن گیا تھا۔ یہی ڈر ازدہا بن کر اسے ڈسنے کے لئے تیار تھا۔ شنکر کے روپ میں، کیوں کہ شنکر نے اپنے باپ کو ایک رات گوری کے کمرے میں دیکھ لیا تھا اور اسی دن سے اسے ان دونوں، اور خاص طور سے گوری سے نفرت ہو گئی تھی۔ ایسی نفرت جو اسے اندر ہی اندر جلا رہی تھی ؎

’’ نفرت، دونوں کے لئے نفرت گوری کے لئے بھی اور اپنے باپ کے لئے بھی۔ جنگل کی آگ کی طرح اس کا جسم دہکنے لگا۔ گندے کیڑے دونوں۔ ‘‘
( ایضاً : ص ۸۶ )

 عمر کے اس دور میں جسے بڑھاپا کہتے ہیں جب بنی آدم قدم رکھتا ہے تواسے اپنے گناہوں کا احساس شدّت سے ہوتا ہے۔ رام بابو کا یہ جملہ کہ ؎

’’ میں اب شنکر کو بتا دوں گا کہ تو ہی اس کی اصلی ماں ہے۔ مجھ سے اور برداشت نہیں ہوتا۔ بہت ظلم کئے ہیں ہم سب نے تجھ پر، میں بتا دوں گا شنکر کو۔ پھر وہ تیری عزّت کرے گا۔ ‘‘
 ( ایضاً : ص ۱۰۷؎ )

ان کے اس دور کے احساس کی عکّاسی کرتا ہے۔ اپنے گناہوں کی تلافی کے لئے جب وہ گوری کو اس کے خاندان سے ملانے لے جاتے ہیں تو گوری کے بہن بھائی بھی اسے پہچاننے سے انکار کر دیتے ہیں۔ جب کسی پودے کو اس کی مٹّی سے الگ کر دیا جاتا ہے تو وہ پودا اسی لمحے اپنی عمر اور ہریالی خو دیتا ہے۔ برسوں بعد وہ اپنی ہی مٹّی سے رشتہ توڑ لیتا ہے، یہاں تک کہ مٹّی بھی اسے پہچاننے سے انکار کر دیتی ہے۔ گوری کو بھی جب برسوں بعد اسکی مٹّی سے ملانے کی کوشش کی گئی تو وہ ناکام ہو گئی۔ اپنی پوری زندگی خاموش رہنے والی گوری پہلی بار تڑپ کر روئی۔ اسے احسا س ہو رہا تھا ؎

’’ آج وہ اپنے ہی گھر کے سامنے ایک بار پھر بیچی جا رہی تھی۔ مفت کسائی خانہ کو جاتی گائے کی طرح گوری چپ چاپ بابو رام کے پیچھے چلتی ہوئی اس گھر سے پلٹ آئی۔ ‘‘
( ایضاً : ص ۱۰۱؎ )

 آج پہلی بار بابو رام کو احساس ہوا کہ انھوں نے کیسا عظیم گناہ کیا ہے۔ مگر کیا یہ احساس کافی ہے ؟ جنسی بھوک نے انھیں اندھا کر دیا،اور یہی اندھا کنواں گوری کو نگل گیا۔ رام لبھایا، سوشیلا اور پھر بابو رام بھی اس دنیا سے کوچ کر گئے۔ مہاراج بھی بوڑھا ہو گیا تھا اس لئے وہ اپنے گاؤں چلا گیا۔ گھر میں صرف گوری اور شنکر رہ گئے۔ شنکر جس کی نفرت اس کے ساتھ ہی جوان ہوتی رہی۔رشتوں کا تقدّس جانے بغیر جب ایک مرد عورت کی طرف نگاہ اٹھا کر دیکھتا ہے تو ؎

’’ مرد خواہ منہ سے کچھ بولے یا نہ بولے عورت اس کی نگاہ دیکھ کر ہی سمجھ جاتی ہے کہ اس کے دل میں کیا ہے۔ ‘‘
( ایضاً : ص ۱۰۸؎ )

گوری بھی سمجھ گئی،۔ وہ لاچار تھی کمزور تھی، پھر بھی اس نے اپنے بچاؤ کی ناکام کوشش کی۔چیختی رہی، چلّاتی رہی، مگر شنکر پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ وہ اسے گھسیٹتا ہوا اپنے کمرے میں لے گیا۔ گوری اپنے رشتے کی دہائی دیتی رہی، اور شنکر اس کی عصمت کو تار تار کرتا رہا اور چلّاتا رہا ؎

’’ حرام زادی ماں بنتی ہے میری۔ میرے باپ نے خریدا تھا تجھے، تیرے کمینے باپ سے۔ اس کی داشتہ تھی تو، خریدی ہوئی کنیز۔ داشتہ۔ تو اسی رشتہ سے میری ماں بن بیٹھی۔ تجھے خریدنے والا گیا دوزخ میں لیکن میں تو ہوں، اس کا وارث۔ اس کے زر خرید غلاموں کا وارث۔ گلا دبا دوں گا اگر آواز نکالی تو۔ ‘‘
( ایضاً : ص ۱۰۹؎ )

 یہ وہ مرد تھا جسے اس نے نو مہینے اپنی کوکھ میں رکھا تھا، اور ہزار تکلیفیں سہہ کر اسے اس دنیا میں لائی تھی، لیکن اس کے لئے گو ری صرف ایک جسم تھی، اس کے باپ کی خریدی ہوئی شئے، جسے اب وہ استعمال کرنا اپنا حق سمجھتا تھا۔ آج شنکر نے گالی دی تھی قدرت کی اس نعمت کو جسے حاصل کر عورت کا وجود مکمّل ہوتا ہے۔آج شنکر نے گالی دی تھی اس جنّت کو جو ماں کے قدموں میں ہوتی ہے۔ گوری نے بڑے سے بڑا زخم اپنی قسمت کا لکھا سمجھ کر برداشت کر لیا، لیکن آج جو کچھ اس کے ساتھ ہوا تھا اس سے اس کی روح تک زخمی ہو گئی تھی۔ وہ گم سم سی بیٹھی سوچتی رہی اور آخر اس نے وہ فیصلہ کر ہی لیا جو اسے بہت پہلے کر لینا چاہئے تھا ؎

’’ اس نے بالیاں کانسہ کی ایک رکابی میں رکھ کر چولہے پر رکھ دیں۔ جو بھی کچن کا دروازہ کھولے گا اسے سب سے پہلے وہی نظر آئیں گے۔ ادھر گھر میں سے ایک ہی چیز مجھے ملی تھی۔ تجھے پیدا کرنے کا انعام تو نے اس پیدائش کو نامنظور کر دیا۔ تو نے اسی کوکھ کو گالی دی ہے جس نے تجھے زندگی بخشی۔ لے یہ بالیاں یہ میں تجھے دیتی ہوں یہ گالی ہے تیری پیدائش پر، تیری زندگی پر۔ گالی بھی اور بددعا بھی، لے لے انھیں فروخت کر کے شراب پی لینا۔ میرے باپ کو جتنے پیسے تیرے باپ نے دیئے تھے وہ آج میں نے تجھے لوٹا دئے اور تیس سال فالتو تجھے اور تیرے باپ کو دے دئے۔ مفت میں، خیرات میں، لے میری خیرات اور میری بد دعا۔ جو زمین کے ہر کونے تک تیرا پیچھا کرے گی۔ ‘‘
( ایضاً : ص ۱۱۰؎ )

گوری اسی رات اس گھر کو چھوڑ کر چل پڑی وہ عورت جو لہو لہان تھی، جس کا انگ انگ زخمی تھا۔ مگر مردوں کے اس سماج سے زور آزمائی کرتے کرتے اس میں بلا کی ہمّت آ گئی تھی۔ وہ ہمّت جو سب کچھ لٹنے کے بعد پیدا ہوتی ہے۔ آج ایک عورت مطمئن تھی۔ وہ کہتی ہے ؎

’’ مجھے صرف یہ سوچ کر تسکین ملتی ہے کہ گوری اپنے خول سے زور آزمائی کر کے اسے توڑ کر ٹھوکر مار کر ایک عزم کے ساتھ باہر نکل آئی ہے۔ یہی سب سے مشکل ہوتا ہے۔ زور آزمائی کرنا، خول کو توڑ دینا، عزم کرنا اور طے کر لینا کہ چلنا ہے۔ یہ ضروری نہیں ہوتا کہ وہ راہ کہیں لے ہی جائے۔ کبھی لے بھی جاتی ہے کبھی آدھے راستہ میں ہی کھو جاتی ہے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، کہیں پہنچنا اور پہنچ ہی جانا ضروری نہیں ہوتا کیوں کہ زندگی صرف چل پڑنے کا نام ہے۔ ‘‘ ( ایضاً : ص ۱۱۲؎ )

اور اب گوری چل پڑی تھی۔ افسوس تو صرف اس بات کا ہے کہ اس نے یہ فیصلہ اتنی تاخیر سے کیوں لیا۔ مگر خوشی ہے کہ عورت جاگ اٹھی۔

٭٭٭

٭٭٭

ماخذ: اخبار اردو، پاکستان

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید