فہرست مضامین
- اُردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ
- انتساب
- اُردو محاورات اور زبان و بیان میں اُس کی اہمیت
- پیش حرف
- ردیف ’’ا‘‘
- (۱) اُبلا سُبلا،اُبالا سُبالا۔
- (۲) آبخورے بھرنا۔
- (۳) آبرو ریزی کرنا۔
- (۶۳) اَفلاطون ہونا، افلاطون بننا۔ ۔
- (۷۴) آگے خدا کا نام
- (۸۷) اللہ ماری یا اللہ مارا یا خُدا ماری۔
- (۱۰۵) آنکھ اٹکنا، آنکھ اٹھا کر نہ دیکھنا، آنکھ اٹھا کر دیکھنا، آنکھ اُٹھانا، آنکھ آنا، آنکھ اونچی نہ کرنا، آنکھ بچانا،آنکھ بدلنا، آنکھ بند ہونا، آنکھ بھرکر دیکھنا،آنکھ بھوں ٹیڑھی کرنا، آنکھ پڑنا،نظر ادھر گئی، آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھنا، آنکھیں پھیر لینا، آنکھوں کی ٹھنڈک، آنکھوں کا سرمہ۔ آنکھیں ٹھنڈی کرنا، آنکھیں ٹیڑھی کرنا، آنکھیں چُرانا، آنکھیں چھپانا، آنکھ سے آنکھ ملانا، آنکھیں لڑانا،( یا آنکھ لڑنا) آنکھیں مٹکانا وغیرہ آنکھوں میں رات کاٹنا، آنکھیں پتھرانا۔
- ردیف ’’ب‘‘
- (۱) بات اٹھانا، بات الٹنا یا الٹ دینا، بات بنانا، بات اونچی کرنا، بات نیچی ہونا، بات کا بتنگڑ بنانا، بات بات میں ذکر کرنا، اعتراض کرنا،بڑھ گئی بات بات کچھ بھی نہ تھی۔ بات کا سرا پانا، بات کا سِرا ملنا، جتنے منہ اتنی ہی باتیں۔ بات بدلنا، بات بڑھنا یا بڑھانا، بات بڑی کرنا، بات بگاڑنا یا بگاڑ دینا، منہ سے نکلی بات کوٹھوں چڑھتی ہے، بات لگانا، بات میں سے بات نکالنا، بات نہ کرنا وغیرہ۔
- (۲) بارہ باٹ کرنا یا ہونا۔
- (۱۲) باؤ باندھنا، باؤ بندی، باؤ بھری کھال، باؤ بھڑکنا، باؤ پر آ جانا (اور دفاع میں ہوا بھر جانا) باؤٹا اڑانا، باؤ ڈنڈی پھرنا، باد ہوائی پھرنا، باؤ کے گھوڑے پر سوار ہونا، باؤلی دینا۔
- (۱۳) باہر کا ہونا باہر کر کے، باہر کرنا، باہر کی بو، باہر کی پھرنے والی، باہر والا، باہر والی۔
- (۱۴) بیتی بجنا، بیتی بند ہو جانا، بیتی دکھانا۔
اُردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ
حصہ اول
ڈاکٹر عشرت جہاں ہاشمی
انتساب
دہلی کی شہر ی تہذیب اور اُس سےوابستہ شعر و ادب کی روایتکے نام
’’دہلی جو ایک شہر تھا عالم میں انتخاب‘‘
دلّی کے نہ تھے کوچے اوراقِ مصّور تھے
جو شکل نظر آئی، تصویر نظر آئی
دل کی بربادی کا کیا مذکور ہے
یہ نگر سو مرتبہ لوٹا گیا
(میر تقی میر)
اُردو محاورات اور زبان و بیان میں اُس کی اہمیت
سید ضمیر حسن دہلوی
آب حیات میں مولانا محمد حسن آزاد نے میر سوزؔکا ذکر کرتے ہوئے یہ واقعہ بیان کیا ہے کہ ایک دن سوداؔکے ہاں میرسوزؔ تشریف لائے۔ ان دنوں شیخ حزیںؔ کی غزل کا چرچا تھا جس کا مطلع ہے۔
می گرفتیم بجا تا سرِ را ہے گا ہے
اُد ہم از لطفِ نہاں داشت نگا ہے گا ہے
میرؔ سوز مرحوم نے اپنا مطلع پڑھا۔
نہیں نکلے ہے مرے دل کی اَپا ہے گا ہے
اے مُلک بہرِ خُدا رخصتِ آہے گا ہے
مرزا سن کر بو لے کہ میر صاحب بچپن میں ہمارے ہاں پشور کی ڈومنیاں آیا کرتی تھیں یا جب یہ لفظ سنا تھا یاآج سنا۔ میر سوز بچا رے ہنس کر چپ ہو رہے۔
پشا ور کی ڈومنیاں جو کہ نکسے اور اَیا ہے بو لتی تھیں فارسی غزلوں کے بجائے ہندی چیزیں سنا تی ہوں گی جو ان دنوں قریب الفہم اور مقبولِ عام تھیں۔
خلاصہ اس گفتگو کا یہ ہے کہ اردو جو کھڑی بو لی کا ایک مخصوص روپ ہے، عوام کی بولی چال کی زبان بنی اور ا س نے پہلی بار ان کے جذبہ اظہار کو زبان دی ادبی زبان اور بول چال کے فرق کو مٹا یا۔ چنانچہ اٹھارویں صدی پر دہلوی شعراء کاکلام با لعموم اسی لسانی اصول کا پا بند اور آئینہ دار ہے۔
آ گے چل کر جب مرزا مظہر جانجاناںؔ ، حا تمؔ، سوداؔ، نا سخؔ، شا ہ نصیرؔ اور ذوقؔ نے اپنے اپنے نقطہ ہائے نظر کے مطابق اصلا ح زبان کا کام کیا تو دہلی میں گاہ گا ہ متروک الفا ظ و محاورات کے سا تھ ساتھ جو قدیم لب و لہجے کی گونج سنا ئی دیتی رہی۔ اس کا سہرا مردوں سے زیادہ عورتوں کے سر ہے۔ عورتیں زبان کے معاملے میں قدامت پسند ہو تی ہیں۔ مردوں کے مقابلے میں ان کا ملنا جُلنا باہر والوں سے کم ہوتا ہے۔ نیز مختلف النوع اقوام اور بھانت بھانت کی زبان بولنے والوں سے بعد کی وجہ سے ان کی زبان بگڑ نے سے محفوظ رہتی ہے۔ عورتوں کی نما یاں خصوصیت انتخابِ الفاظ کے سلسلے میں یہ ہے کہ وہ کریہہ الفا ظ کی جگہ لطیف الفا ظ استعمال کرتی ہیں۔ ان جزوی اختلافاتِ زبان کے علاوہ انتہا ئی نما یاں خصوصیت مردوں اور عورتوں کی زبان کے اختلاف کی یہ ہے کہ عورتیں جنسیات سے متعلق باتیں واضح الفا ظ میں کہنے کے بجائے اشارے اور کنائے میں بیان کر تی ہیں۔ بیگمات کی زبان میں ہر قسم کاجنسی افعال کے لئے پر دہ پوش اصطلاحات و محاورات مو جود ہیں۔ مثلاً میلے سر سے ہو نا، گود میں پھول جھڑنا، دوجیاں ہونا بات کر نا جیسے متعدد محاورے عورتوں نے مختلف کیفیات کو ظاہر کر نے کے لئے بنائے اور اُن کا چلن عام کیا۔
جو ہونی تھی وہ بات ہو ئی کہاروں
چلو لے چلو میری ڈولی کہاروں
مَردُوا کہتا ہے آؤ چلو آرام کریں
جس کو آرام یہ سمجھے ہے وہ آرام ہو نوج۔
عورتیں اپنے گرد و پیش کے الفاظ چنتی ہیں ان کے ہاں کسی شئے کی جزئیات کو پیش کر نے کے لئے الفاظ کی کمی نہیں ہو تی اسی لئے مردوں کی بجائے عورتوں کی لکھی ہو ئی کتابیں زیادہ عام فہم صاف اور شستہ ہو تی ہیں۔ عورتیں لسانی اعتبار سے مردوں سے زیادہ تیز طرار ہوتی ہیں۔ وہ سیکھنے کا شوق رکھتی ہیں۔ سننے میں تیز ہیں اور جواب دینے پر زیادہ قدرت رکھتی ہیں۔ دنیا بھر میں عورتیں باتونی مشہور ہیں۔ مردوں کے بر عکس انہیں الفا ظ ٹٹولنے اور تولنے میں دیر نہیں لگتی۔ عورتیں نئی نئی اصطلاحیں محاورے وضع کر لیتی ہیں، جن میں اکثر خوش آواز مترنم اور پر لطف ہو تے ہیں۔ ہر زبان کی لغت میں ایک ایسی فرہنگ مو جود ہوتی ہے جو عورتوں کی بول چال کے لئے مخصوص ہے۔ مردوں کی گفتگو میں یہ الفا ظ شا ذ ہی نظر آتے ہیں۔ اُردو نثر میں عورتوں کی بول چال کم و بیش طلسمِ باغ و بہار اور دیگر نثری داستانوں میں سمٹ آئی ہے۔ ایک اور مثال واجد علی شاہ کی بیگمات کے وہ خطوط ہیں جو انہوں نے واجد علی شاہ کو مٹیا برج جانے کے بعد لکھے ہیں۔
زبان سے ملک کا سکّہ ہے عورت
انوکھا ہے چلن سارے جہاں سے
زباں کا فیصلہ ہے عورتوں پر
یہ باتیں مردوئے لائیں کہاں سے
عورتوں کی زبان سے خدا بچائے، بیگمات کی بول چال سے گو کان آشنا نہیں، آنکھوں نے اور اقِ پارینہ میں اُن کی جھلکیاں دیکھی ہیں۔ ان کے ممتاز محاورات پر نظر ڈالئے تو آنکھوں کے سامنے رمز و کنائے کا ایک رنگیں چمن ہو گا۔ اُن کی صناعی طباعی کا جوہر منہ بند کلیوں کی طرح کھلتا اور خندۂ مل کی طرح مہکتا نظر آئے گا۔
بہادر شاہ ظفرؔ کے عہد پر تبصرہ کرتے ہوئے ڈاکٹر اسلم پرویز نے لکھا ہے۔
’’قلعہ معلیٰ کی تہذیب کا ایک اہم جز وہ زبان تھی جس میں شاہ علم ثانی اور اُن کے بعد ظفرؔ نے بھرپور شاعری کی تھی۔ اس زبان کی گونج اور بازار سے گزرتی ہوئی کابلی دروازے کے اس تنگ و تاریک مکان تک سنائی دیتی تھی جہاں ذوقؔ کا مسکن تھا اور پھر یہ گونج سننے والوں کو اپنی طرف کھینچتی تھی۔ اس گونج میں ذوقؔ بھی کھنچے چلے گئے اور پھر دلّی کا محاورہ اور روزمرہ جس طرح ذوقؔ کی شاعری میں رچ بس گیا، اس کی دوسری اور نسبتاً زیادہ خوبصورت مثال داغؔ کے یہاں ملتی ہے۔
زبان کی خوبی اس کی سلاست، عام فہمی، نرمی، موزونی، چھوٹے چھوٹے الفاظ اور بڑے بڑے مطالب پر موقوف ہے۔ محاورات وہ ننھے مرقع ہیں جو کسی سماج کے تجربات، تصورات اور تاثرات کی نمائندگی کرتے ہیں۔ عام لوگوں کی زبان کو پایۂ اعتبار سے گرانا زبان کے زوال اور عدم مقبولیت کا سبب بنتا ہے۔ بیگمات نے اپنے محاوراتی اسلوب میں مجاز و مبالغہ تشبیہ اور تمثیل، مصوری و محاکات اور رمزیت و اشاریت کے سارے جوہر محفوظ کر لئے تھے۔ اسی لئے جب ہم ان کی صدائے بازگشت سنتے ہیں تو بیقرار ہو جاتے ہیں اظہارِ خیال اور ادائے مطلب میں پیچیدگی سے بچنے کے لئے بول چال کی زبان روزمرہ اور محاورے کا استعمال ناگزیر ہو جاتا ہے زبان کا ذوق رکھنے والوں نے ادبی شبہ پاروں میں محاورات پر ضرور نظر کی ہو گی۔ یہاں چند محاورات مثال دینے کے لئے پیش کئے جاتے ہیں۔
چلوؤں لہو خشک ہونا، اُوڑا پھڑنا، سر بالوں کو آنا، اٹھوائی کھٹوائی لینا، منہ تھوتھائے رہنا، دیدوں کا پانی ڈھلنا، تکلفی کے سے بل نکالنا، آنکھوں پر چربی چھانا، نعمت کی اماں کا کلیجہ ہونا، محاوروں کے علاوہ ضرب الامثال کا بھی ایک بیش بہا خزانہ ہے جو ہماری زبان میں پایا جاتا ہے۔ مثلاً ایک توے کی روٹی کیا چھوٹی کیا موٹی، جس کے ہاتھ ہنڈیا ڈوئی اس کا ہر کوئی، انیس و بیس روڑے اُچھلیں، سرخ رو چونڈا ایمان بھونڈا، مائی جی کا تھان کھیلے چوگان، ٹاٹ کی انگیا، مونچھ کا بخیا، جہاں بہو کا پسار وہیں خسر کی کھاٹ، ان محاورات اور ضرب الامثال کی مدد سے کچھ مصنفین نے ابلاغ اور معانی آفرینی کے کمالات دکھائے ہیں اور کچھ مصنفین صناعی کلام کی ان بھول بھلیوں میں گم ہوکے رہ گئے۔
سنا ہے کوئی جاٹ سرپر چار پائی لئے کہیں جا رہا تھا۔ ایک تیلی نے دیکھ لیا اور جھٹ پھبتی کسی۔۔ جاٹ رے جاٹ تیرے سر پہ کھاٹ۔ جاٹ اُس وقت تو چُپ ہو گیا مگر دل میں بدلے کی بھاؤنا لئے بیٹھا رہا۔ ایک دن دیکھا کہ تیلی اپنا کولہو لئے جاتا ہے جاٹ نے جواباً کہا تیلی رے تیلی ترے سر پہ کولہو۔ تیلی ہنسا اور کہنے لگا جچی نہیں۔ جاٹ نے جواب دیا جچے نہ جچے تو بھوجھوں تو مرے گا۔ محاوراتی اُسلوب کا راستہ پل صراط سے زیادہ خطرناک ہے غزل کے ہر شعر کی طرح اس کا تعلق آبدار اور برجستگی سے ہے پھر یہ کہ عورتوں سے محاورے زبان کی طراری اور ایک مخصوص معاشرتی تربیت کے بغیر اس پر شکوہ اور پر خطر مہم کا سر کرنا ممکن نہیں ہے۔ نذیر احمد کی زبان ٹکسالی ہے لیکن ان کی تصنیف امہات الامۃ کو لوگ کہتے ہیں اسی لئے نذر آتش کیا گیا تھا کہ اس میں ایک محاورہ یہ بھی تھا کہ جوتیوں میں دال بٹنے لگے گی۔
اب نہ اُردوئے معلیٰ رہی اور نہ گلی کوچوں میں بولا جانے والا ریختہ، جمہوری انقلابات نے ماضی کے تمام امتیازات کی جڑیں اکھاڑ پھینکی ہیں عورت مرد سب بچھڑی زبان بول رہے ہیں۔ جو لوگ زبان کا حسن اور محاورے کی وابستگی کا رونا روتے تھے وہ بھی قصہ پارینہ ہوئے ۔ جواب دکھائی دیتے ہیں وہ کل ناپید ہو جائیں گے۔ ہمیشہ رہے نام اللہ کا۔
ایسے میں عشرت ہاشمی کا یہ کارنامہ ایک تاریخی دستاویز کا درجہ رکھتا ہے۔ عشرت نے بہادر شاہ ظفرؔ کے عہد اور شاعری پر پہلے بھی کام کیا ہے انہیں اس دور سے ربطِ خاص ہے جس میں محاورات اور ضرب الامثال کا چلن نے اُردو زبان کو مقبولیتِ عام اور شہرتِ دوام بخشی تھی۔ محاورے کیسے بنتے ہیں، ان کی ساخت میں معاشرت کا کس کس عمل اور انسانی فکر کے کن کن زاویوں کا دخل ہوتا ہے، یہ سمجھے بغیر محاوراتی اسلوب کو برقرار رکھنا ناممکن ہے۔ اور محاوراتی اسلوب کے ہاتھ سے نکلنے کے بعد اردو زبان کی ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ جائے گی، ہماری ہزار آٹھ سو سال کی محنت اور جانفشانی رائیگاں ہو جائے گی۔ محاورات اور ضرب الامثال پر اردو میں متعدد لغتیں اور فرہنگیں موجود ہیں۔ لیکن اُنکی تہذیبی اور کلیدی جہتوں پر اہل زبان کی نظر کم گئی ہے۔ کچھ عرصے پہلے تک یہ ضروری بھی نہیں تھا۔ کیونکہ تہذیب کے سوتے ہمارے وجود میں ضم ہو گئے تھے۔ ملک کی تقسیم نے اُردو کو دو خطوں میں باٹ کر ظلم عظیم کیا ہے۔ وہ خطّہ جو پاکستان کہلاتا ہے، ہمارے تہذیبی شعور سے متعلق ناآشنا ہے۔ اور ہندوستان میں بھی طرح طرح کے سیاسی انقلاب نے تہذیب اور تمدن کو نزاعی مسئلہ بنا دیا ہے۔ چنانچہ اس نازک دور میں ڈاکٹر عشرت ہاشمی کا یہ کام جو دقیع اور جامع ہونے کے ساتھ ساتھ تہذیبی مرقعوں کی افہام و تفہیم کا فریضہ انجام دیتا ہے، لائقِ ستائش ہے۔ مجھے یقین ہے کہ یہ اُردو بولنے والوں کے لئے سیکھنے اور سکھانے کا ذریعہ بنے گا مرتب کی ذہانت کاوش دیدہ ریزی اور تاریخِ معاشرت سے دلچسپی کتاب کی مقبولیت کی ضامن ہے۔ اشاعت کے لئے اردو اکادمی بھی شکر یہ اور مبارکباد کی مستحق ہے۔
سید ضمیر حسن دہلوی
۱۲/مارچ ۲۰۰۶ء
پیش حرف
(مقدمہ)
محاورہ عربی زبان کا لفظ معلوم ہوتا ہے اس لئے کہ اس میں ’’محور‘‘ شامل ہے جس کے معنی ہیں مرکزی نقطہ فکر و عمل۔ جس کے گرد دائرے بنائے جاتے ہیں۔ یہاں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ محاورہ زبان کا مرکزی نقطہ ہوتا ہے یعنی وہ دائرہ جو مختصر ہونے کے باوجود اپنے گرد پھیلی ہوئی بہت ساری حقیقتوں کو یہ کہیے کہ اپنے اندر سمیٹ لیتا ہے۔ ہمارے محاورات ہمارے مُشاہدوں اور طرح طرح کے تجربوں کو پیش کرتے ہیں اور انہیں کہیں عام معاشرتی انداز فلسفیانہ اور کہیں شاعرانہ انداز سے سامنے لایا جاتا ہے۔ اس میں گاہ گاہ پیشہ وارانہ انداز بھی شامل رہتا ہے۔ اور طبقہ وارانہ بھی اس میں ہمارے قدیم الفاظ بھی محفوظ ہیں اور قدیم روز مرّہ بھی یہ عمومی زبان اور عام لب و لہجہ سے قریب ہوتا ہے اور ایک حد تک اِس میں تخیل اور تجربہ کا اور تجزیہ کا آمیزہ بھی پایا جاتا ہے۔
’’زبان ‘‘ کے آگے بڑھنے میں سماج کے ذہنی ارتقاء کو دخل ہوتا ہے۔ ذہن پہلے کچھ باتیں سوچتا ہے، اُن پر عمل درآمد ہوتا ہے، اور وہیں سے اُس سوچ یا اُس عمل کے لئے الفاظ تراشے جاتے ہیں۔ اور پھر اُن میں سے کچھ فقرہ اور جملے محاورات کے سانچے میں ڈھلتے ہیں۔ اور ایک طرح سے محاورہ کی اِس حیثیت پر ہم نے کوئی کام نہیں کیا۔ اب تک یہ تو ہوتا رہا کہ محاورہ کی صحتِ استعمال پر زور دیا گیا۔ اُس کی نوکِ پلک دُرست رکھی گئی۔ اور اِس طرح کی کتابیں بھی بعد کے زمانے میں تحریر ہوئیں کہ محاورے کے معنی یہ ہیں اور اِس کا استعمال یہ ہے۔ یہ کام تدریسی نقطہ نظر کی سطح پر ہوا۔ یا پھر زبان کے ایک بڑے حصّے کو محفوظ کرنے کی غرض سے اسے انجام دیا گیا۔ چرنجی لال کی لغت مخزالمحاورات اسی کا ایک اہم نمونہ ہے اور قابلِ تعریف کام ہے۔ جس کو اب ایک طویل عرصہ گزرنے پر ایک یادگار عملی کام قرار دیا جا سکتا ہے۔
مگر اِس ضمن میں محاورے پراس پہلو سے غور و فکر نہیں کیا گیا کہ اُس نے ہماری زبان و بیان، تہذیبی رویوں اور معاشرتی تقاضوں سے کس طرح کے رشتہ پیدا کئے۔ اُن کو زبان و ادب اور معاشرت کا آئینہ دار بنایا۔ جب کہ محاورات کے سلسلہ میں راقمہ کی محدود نظر کے مطابق یہی سب سے اہم پہلو تھا اس لئے کہ زبان اور ادب کا ایک ’’اٹوٹ‘‘ اور ’’گہرا رشتہ‘‘ تہذیب سے ہوتا ہے۔ اور تہذیبی رشتہ وہ ہوتا ہے جو ہمارے معاشرتی رویوں کو سمجھنے اور سمجھانے میں مدد دیتا ہے بلکہ اُن کے لئے روشنی اور رہنمائی کے طور پر کام آتا ہے۔
راقمہ الحروف نے اِس کام کو اسی نقطہ نظر سے کیا ہے اور اس سلسلہ میں بطورِ خاص مخزالمحاورات کو سامنے رکھا ہے تاکہ محاورات کی ایک بڑی تعداد تک رسائی ہو جائے۔ اُن کے معنی اور اُن کی بنیادی معنویت کو سمجھ لیآ جائے۔
تہذیبی مطالعہ ایک الگ سلسلہ فکر و نظر ہے اور اخذِ نتائج کے لئے ایک جُداگانہ زاویہ نگاہ ہے۔ کیونکہ اس پہلو (Angle)سے محاورے پر ہنوز کوئی کام نہیں ہوا۔ اس لیے مجھ ایسے اُردو زبان و ادب کی ایک طالبِ علم کے لئے یہ سوچنا مشکل ہے کہ مجھے اس میں کیا کامیابی ہوئی اور کس حد تک اس موضوع پر ادبی مطالعہ کی حدود آگے بڑھی ہیں۔ اس کا فیصلہ تو اصحابِ دید و دریافت اور زبان و محاورات کے ماہرین ہی کچھ زیادہ بہتر طور پر کر سکتے ہیں۔ اور یہ توقع ہے کہ آیندہ یہ کام آگے بڑھے گا اور اس کے خطوط فِکر اور زیادہ روشن اور واضح ہوں گے۔
حقیقت یہ ہے کہ الفاظ و صویتات ہوں یا پھر لغت و قواعد کے دائرہ میں آنے والی کچھ خاص اور اہم باتیں ہوں، اُن کو کلیتاً عصری تہذیب اور دواری دائرہ ہائے فکر و عمل سے آزاد نہیں کر سکتے۔ ایک زمانہ میں کچھ الفاظ رائج ہوتے ہیں اور دوسرے زمانہ میں اُن کا استعمال پھر بحیثیت مجموعی اُن پر توجہ وہی کم ہو جاتی ہے۔ اِس کی وجہ بھی بہت کچھ سماجی اور معاشرتی ہوتی ہے۔ اس کے لئے ہم دہلی اور اُس کے قرب و جوار کی زبان نیز بولی کو سامنے رکھ سکتے ہیں کہ شہری زبان کے ساتھ قصبہ و دیہات کی زبان میں بھی فرق آیا ہے۔ اور ایک زبان نے دوسری زبان کو متاثر بھی کیا ہے اور اِس سے تاثر بھی قبول کیا ہے۔
زبان میں اردو محاورہ کی حیثیت بنیادی کلمہ کی بھی ہے اور زبان کو سجانے اور سنوارنے والے عنصر کی بھی اس لئے کہ عام طور پر اہلِ زبان محاورہ کے معنی یہ لیتے ہیں کہ ان کی زبان کا جو اصل ڈول اور کینڈا ہے یعنی Basic structureجس کے لیے پروفیسر مسعود حسن خاں نے ڈول اور کینڈا کا لفظ استعمال کیا ہے۔ جو اہلِ زبان کی لبوں پر آتا رہتا ہے۔ اور جسے نسلوں کے دور بہ دور استعمال نے سانچے میں ڈھال دیا ہے۔ اسی کو صحیح اور دُرست سمجھا جائے۔ اہلِ دہلی اپنی زبان کے لئے محاورہ ’’بحث خالص محاورہ استعمال کرتے تھے۔ اور اس محاورہ بحث کو ہم میرؔ کے اس بیان کی روشنی میں زیادہ بہتر سمجھ سکتے ہیں کہ میرے کلام کے لئے یا محاورۂ اہلِ دہلی ہے یا جامع مسجد کی سیڑھیاں یعنی جو زبان صحیح اور فصیح دہلی والے بولتے ہیں جامع مسجد کی سیڑھیوں پر یا اُس کے آس پاس اس کو سُنا جا سکتا ہے۔ وہی میرے کلام کی کسوٹی ہے۔
ہم ذوقؔ کی زندگی میں ایک واقع پڑھتے ہیں کہ کوئی شخص لکھنؤ یا کسی دوسرے شہر سے آیا اور پوچھا کہ یہ محاورہ کس طرح استعمال ہوتا ہے۔ انہوں نے بتلایا۔ مگر پوچھنے والے کو ان کے جواب سے اطمینان نہ ہوا۔ انہوں نے کہا کہ اس کی سند کیا ہے۔ ذوقؔ ان کو جامع مسجد کی سیڑھیوں پر لے گئے۔ انہوں نے جب لوگوں کو وہ محاورہ بولتے دیکھا تو اس بات کو مان گئے اور اس طرح معلوم ہو گیا کہ جامع مسجد کی سیڑھیاں کس معنی میں محاورہ کے لئے سندِ اعتبار تھیں۔ میرؔ انشاء اللہ خاں نے اپنی تصنیف دریائے لطافت میں جو زبان و قواعد کے مسئلہ پر اُن کی مشہور تالیف ہے، اُن محلوں کی نشاندہی کی ہے جہاں کی زبان اُس زمانہ میں زیادہ صحیح اور فصیح خیال کی جاتی تھی شہر دہلی فصیل بند تھا اور شہر سے باہر کی بستیاں اپنے بولنے والوں کے اعتبار سے اگرچہ زبان اور محاورہ میں اس وقت اصلاح و اضافہ کے عمل میں ایک گوناگوں Contribution کرتی تھیں لیکن اُن کی زبان محاورہ اور روزمرّہ پر اعتبار نہیں کیا جاتا تھا۔ اِس کا اظہار دہلی والوں نے اکثر کیا ہے۔
میر امنؔ نے باغ و بہار کے دیباچہ میں اِس کا ذکر کیا ہے کہ جو لوگ اپنی سات پشتوں سے دہلی میں نہیں رہتے وہ دہلی کے محاورے میں سند نہیں قرار پا سکتے کہیں نہ کہیں اُن سے چُوک ہو جائے گا اور وہی صحیح بولے گا جس کی’’ آنول نال‘‘ دہلی میں گڑی ہو گی اِس سے دہلی والوں کی اپنی زبان کے معاملہ میں ترجیحات کا اندازہ ہوتا ہے۔ محاورے سے مراد انگریزی میں Proverbبھی ہے اور زبان و بیان کی اپنی ادائے محاورہ کے دو معنی ہیں ایک محاورہ با معنی Proverbاور دوسرا محاورہ زبان و بیان کا سلیقہ طریقہ اور لفظوں کیSettingبھی۔
اس کے مقابلہ میں لکھنؤ والے اپنی زبان پر اور اپنے شہر کے روزمرہ اور محاورے کو سند سمجھتے تھے رجب علی بیگ سرورؔ نے فسانہ عجائب میں میر امنؔ کے چیلینج یا دعوے کا جواب دیا اور یہ کہا کہ لکھنؤ کی شہریت یہ ہے کہ باہر سے کوئی کیسا ہی گھامڑ اور کندۂ نا تراش آتا ہے بے وقوف جاہل اور نا مہذب ہو اور ہفتوں مہینوں میں ڈھل ڈھلا کر اہلِ زبان کی طرح ہو جاتا ہے یہ گویا میرا منؔ کے مقابلہ میں دوسرا معیار پیش کیا جاتا ہے بہرحال گفتگو محاورے اور شہر کے روزمرہ ہی کے بارے میں رہی۔
ہماری زبان میں ایک رجحان تو یہ رہا ہے اور ایک پُر قوت رجحان کے طور پر رہا کہ شہری زبان کو اور شرفاء کے محاورات کو ترجیح دی جائے اور اسی کو سندِ اعتبار خیال کیا جائے اور اِس کی کسوٹی محاورۂ اہلِ دہلی قرار پایا۔
اس سلسلہ میں ایک اور رجحان رہا جو رفتہ رفتہ پُر قوت ہوتا چلا گیا کہ زبان کو پھیلا یا جائے اور دوسری زبانوں اور علوم و فنون کے ذریعہ اس میں اضافہ کیا جاتا ہے کہ زبان سکڑ کر اور ٹھٹھر کر نہ رہ جائے شہری سطح پر امتیاز پسندی آ جاتی ہے تو وہ لوگ اپنی تہذیب کو زیادہ بہتر اور شائستہ سمجھتے ہیں۔ اور اپنے لب و لہجہ کو دوسروں پر ترجیح دیتے ہیں اور امتیازات کو قائم رکھتے ہیں۔ لکھنؤ اور دہلی نے یہی کیا۔ اس کے مقابلہ میں لاہور کلکتہ اور حیدر آباد کا کردار دوسرا رہا۔ شاید اس لئے کہ وہ اپنی مرکزیت کو زیادہ اہم خیال نہیں کرتے تھے۔ اور اُس پر زور نہیں دیتے تھے اور نتیجہ یہ ہے کہ وہ آگے بڑھتے انہوں نے اضافہ سنئے اور نئی تبدیلیوں کو قبول کیا۔ زمانہ بھی بدل گیا تھا نئے حالات نئے خیالات اور نئے سوالات پیدا ہو گئے تھے۔ ۔
محاورہ کی ایک جہت ادبی ہے اور ایک معاشرتی۔ یعنی زبان کے استعمال کی صحیح صورت جب دہلی والے اپنے محاورہ کی بات کرتے ہیں تو اُن کی مراد صرف Proverb سے نہیں ہوتی، بلکہ اُس روز مرّہ سے ہوتی ہے ۔ جس میں بولی ٹھولی کا اپنا جینیس (Genius) چھُپا رہتا ہے اسی لئے دہلی والے ایک وقت اپنے محاورہ پر بہت زور دیتے تھے۔ اب وہ صُورت تو نہیں رہی مگر محاورے کی ادبی اور تہذیبی اہمیت کو پیشِ نظر رکھا جائے یہ مسئلہ اب بھی اہم بلکہ یہ کہئے کہ غیر معمولی طور پر اہم ہے اس لئے کہ محاورہ زبان کی ساخت اور پرداخت پر بھی روشنی ڈالتا ہے اور زبان کے استعمال کی پہلو داریوں کو بھی سامنے لاتا ہے۔ دہلی والے جامع مسجد کی سیڑھیوں کو اپنے محاورہ کی کسوٹی قرار دیتے تھے۔ اُس کی اپنی لِسانی ادبی تاریخی اور معاشرتی پہلو داریاں ہیں۔ جن کو اِن خاص علاقوں میں بولے جانے والی زبان اور اندازِ بیان نے اپنے ساتھ خصوصی طور پر رکھا ہے اور اس طرح کئی صدیوں کے چلن نے اسے سندِ اعتبار عطا کی ہے۔ زبان اور بیان کی روایتی صورتوں کو الفاظ کلمات اور جملوں کو ایک خاص شکل دیتا ہے۔ اس میں روایت بھی شامل ہوتی ہے اور بولنے والوں کا اپنا ترجیحی رو یہ بھی۔ کہ وہ کس بات کو کس طرح کہتے اور سمجھتے ہیں۔ محاورہ میں آنے والے الفاظ تین پانچ کرنا یا نو دو گیارہ ہونا تین تیرہ بارہ باٹ یہ ایک طرح سے محاورے بھی ہیں اور جملے کی وہ لفظی اور ترکیبی ساخت بھی جو اپنا ایک خاص Settingکا اندازہ رکھتی ہے۔
اِن دو جہتوں کے ماسوا محاورہ کے مطالعہ کی ایک اور بڑی جہت ہے جس پر ہنوز کوئی توجہ نہیں دی گئی یہ جہت محاورہ کے تہذیبی مطالعہ کی ہے اور اُس کے ذہنی زمانی انفرادی اور اجتماعی رشتوں کو سمجھنے سے تعلق رکھتی ہے اس تعلق کو اُس وقت تک پورے طور پر نہیں سمجھا جا سکتا جب تک اُن تمام نفسیاتی سماجیاتی اور شخصی رشتوں کو ذہن میں نہ رکھا جائے جو محاورہ کو جنم دیتے ہیں۔ اور لفظوں کا رشتہ معنی اور معنی کا رشتہ معنویت یعنی ہمارے سماجیاتی پس منظر اور تاریخی و تہذیبی ماحول سے جوڑتے ہیں یہ مطالعہ بے حد اہمیت رکھتا ہے اور اُس کے ذریعہ ہم زبان اُس کی تہذیبی ساخت اور سماجیاتی پرداخت کا صحیح اندازہ کر سکتے ہیں۔
عام طور پر ہمارے ادیبوں، نقادوں اور لِسانیاتی ماہروں نے اِس پہلو کو نظر انداز کیا اور اِس کی معنویت پر نظر نہیں گئی۔ اِس کے لئے ہم ایک سے زیادہ محاوراتی صورتوں کو پیشِ نظر رکھ سکتے ہیں۔
راقمہ الحروف نے اسی نسبت سے محاورے کے مطالعہ کو اپنا موضوع بنایا اور مختلف محاورے کے سلسلہ میں جو باتیں ذہن کی سطح پر تہذیب و معاشرت کے لحاظ سے اُبھر کر سامنے آئیں۔ اُن کو اپنے معروضات میں پیش کر دیا۔ اسی کے ذیل میں مختلف محاورات اور اُن کے فِکر و فہم سے جو اُمور وابستہ ہیں اُن کی طرف اشارہ کر دیا گیا ہے جس سے متعلق کچھ باتیں یہاں پیش کی جاتی ہیں۔
مثلاً پانی آب ہی کو کہتے ہیں۔ روشنی شفافیت اور کشِش کے طور پر پانی کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ پانی تلوار اور آئینہ کے ساتھ یہی معنی دیتا ہے اور آنکھوں کے ساتھ بھی ہم کچھ اپنی مثالوں کو سامنے رکھ سکتے ہیں۔ جن سے یہ معلوم کیا جا سکتا ہے کہ محاورے کی سادہ سی صورت کے پسِ منظر میں تہذیبی معنی اور معنویت کے کیا کیا سلسلے ملتے ہیں مثلاً جب ہم یہ کہتے ہیں کہ اُس کی آنکھوں کا پانی ڈھل گیا تو اِس سے مراد آنکھوں کی کشش بھی ہوتی ہے حیاء و شرم اور غیرت کی وہ خوبی و خوبصورتی بھی جو آنکھوں سے وابستہ ہوتی ہے۔ اور جب وہ نہیں رہتی، تبھی تو یہ کہتے ہیں کہ آنکھوں کا پانی ڈھل گیا۔ ہم استعارہ کی طرح محاورہ میں بھی لفظ سے معنی اور معنی سے در معنی کی طرف آتے ہیں۔ ’’رنگ ‘‘کا لفظ خوبصورتی کشش انداز و ادا سب کو دھنک کی طرح اپنے حلقوں میں لے لیتا ہے اس سے رنگینی بھی مُراد ہوتی ہے۔ اور خوبصورتی بھی اور اہلِ زبان خاص انداز بھی شاعری میں طرزِ فکر اور اندازِ ادا کو ’’رنگ‘‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے اور بے رنگ ہونے کے یہ معنی ہوتے ہیں کہ اُس میں کوئی خاص خوبصورتی و کشش نہ ہو۔ اسی لئے بے رنگی اشعار کی اس سادگی کو کہا جاتا ہے۔ جن میں سپاٹ پن ہوتا ہے اور یہ کبھی کہا جا سکتا ہے کہ اُن کے اشعار تو بالکل بے آب و رنگ ہیں۔ یعنی اُن میں فکر و خیال کے اعتبار سے کوئی حُسن کوئی جاذبیت اور کشش تھی ہی نہیں۔ اِس اعتبار سے اس محاورہ کو ہم اپنی ذہنی زندگی اپنے احساسِ جمال اور سماجی رو یہ کا نمائندہ کہہ سکتے ہیں۔
زباندانی کا جو معیار اہلِ شہر اپنی شہریت،اپنی گفتگو اور اپنے لب و لہجہ سے وابستہ کرتے ہیں اُس کا ایک گہرا تعلق محاورہ سے بھی ہے کہ بغیر شہر میں قیام اور اُس کے باشندوں سے تعلقات کے محاورے پر قدر ت ممکن نہیں یہ بات ہم اہلِ شہر کی زبان پر اُس حوالہ یا اس حوالہ سے برابر آتے ہوئے دیکھتے ہیں جن باتوں کا ذکر ہمارے یہاں زیادہ آتا ہے وہ ہمارے معاشرتی رو یہ کی نفسیات یا (سائیکی) کا ایک بڑا حصّہ ہوتی ہے اس اعتبار سے بھی محاوروں کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے کہ وہ ہمارے نفسیاتی ماحول میں داخل ہیں اور جن باتوں سے ہم بہت متاثر ہیں محاورات میں اُن کا ذکر آتا ہے اور اُن کے لئے بار بار کوئی محاورہ ہمارے لبوں یا زبان قلم پر آتا رہتا ہے۔
محاورے ہماری ذاتی اور معاشرتی زندگی سے گہرا رشتہ رکھتے ہیں محاوروں میں ہماری نفسیات بھی شریک رہتی ہیں مگر بیشتر اور اُن کی طرف ہمارا ذہن منتقل نہیں ہوتا کہ یہ ہماری اجتماعی یا اِنفرادی نفسی کیفیتوں کی آئینہ داری ہے اسی طرح ہمارے اعضاء پر ناک، کان اور آنکھ بھوں سے ہمارے محاورات کا گہرا رشتہ ہے۔ مثلاً آنکھ آنا، آنکھیں دیکھنا، آنکھوں میں سمانا، اور آنکھوں میں کھٹکنا آنکھوں کا لڑنا یہ محاورے مختلف المعنی ہیں اور کہیں ایک دوسرے سے تضاد کا رشتہ بھی رکھتے ہیں۔
آنکھ سے متعلق کچھ اور محاورے یہاں پیش کئے جاتے ہیں۔ آنکھ اٹھا کر نہ دیکھنا، آنکھ اٹھانا، آنکھوں کی ٹھنڈک، آنکھ پھوڑ ٹڈا، آنکھیں ٹیڑھی کرنا، آنکھ بدل کر بات کرنا، رخ بدلنا آنکھوں میں رات کاٹنا،آنکھوں کا نمک کی ڈلیاں ہونا۔ استعاراتی اندازِ بیان ہے۔ جس کا تعلق ہماری شاعری سے بھی ہے اور سماجی شعور سے بھی یہ بے حد اہم اور دلچسپ بات ہے آنکھ بدل کر بات کرنا۔ ناگواری نا خوشی اور غصّہ کے موڈ میں بات کرنا ہے جو آدمی اپنا کام نکالنے کے لئے بھی کرتا ہے۔ آنکھیں اگر تکلیف کی وجہ سے تمام رات کڑواتی رہیں۔ اور اُن میں برابر شدید تکلیف ہوتی رہی تو اُسے آنکھوں کا نمک کی ڈلیاں ہونا کہتے ہیں یعنی یہ صورت تکلیف کی انتہائی شدت کو ظاہر کرتی ہے نمک کی ڈلیاں ہونا کہتے ہیں۔ آنکھیں پتھرانا اس کے مقابلہ میں ایک دوسری صورت ہے یعنی اتنا انتظار کیا کہ آنکھیں پتھر ہو گئیں۔ آنکھوں میں رات کاٹنا بھی انتظار کی شدت اور شام سے صبح تک اسی حالت میں رہنے کی طرف اشارہ ہے جو گویا رات کے وقت انتظار کرنے والے کی حالت کو ظاہر کرتا ہے۔ آنکھ لگنا سو جانا اور کسی سے محبت ہو جانا جیسے میری آنکھ نہ لگنے کی وجہ سے میرے یار دوستوں نے اُس کا چرچہ کیا کہ اِس کا دل کسی پر آ گیا ہے۔ اور کسی سے اس کی آنکھ لگی ہے۔ اس سے ہم اندازہ کر سکتے ہیں کہ نہ جانے ہماری کتنی باتوں اور ذہنی حالتوں کو صبح و شام کی وارداتوں اور زندگی کے واقعات کو ہم نے مختصر اً محاورہ میں سمیٹا ہے اور جب محاورہ شعر میں بندھ گیا تو وہ ہمارے شعور اور ذہنی تجربوں کا ایک حصّہ بن گیا۔
راقمہ نے جن محاورات پر کام کیا ہے اور جن کا تہذیبی مطالعہ پیش کیا گیا ہے وہ Proverbکے معنی میں آئے ہیں۔ صرفSetting کے معنی میں نہیں Proverb(محاورے) سے لفظوں کی ایک ترکیبی یونٹ واحدہ ہوتا ہے جو ایک خاص انداز سے ترکیب پاتا ہے اپنے معنی کا تعین کرتا ہے اور اپنی ہیئت اور صُورت شکل پر قائم رہتا ہے محاورہ کی زبان بدلتی نہیں ہے جس کا تعین ایک مرتبہ ہو گیا اُس کو ایک مستقل صورت مل جاتی ہے۔
راقمہ نے محاورات کے لفظ و معنی کے اعتبار سے کوئی تبدیلی نہیں کی۔ اِس کے مقابلہ میں محاورات کے لفظ و معنی میں تہذیب و تاریخ کے جو محرکات اور موثرات ملتے ہیں اُن کو اُردو کی اپنی معاشرت کے پس منظر میں سمجھنے کی کوشش کی ہے اور اُس کے وسیلے سے بہت سے نئے معنی کا محاورات میں موجود ہونے کا انکشاف کیا ہے اِس طرح کا کوئی کام اُردو میں اب تک نہیں ہوا۔ جس سے محاورات کی تہذیبی اور تاریخی اہمیت کا حال معلوم ہو سکے۔
مختلف لغات میں جو محاورات دوسرے الفاظ کے ساتھ شریک ہیں اُن کے معنی بھی لفظوں ہی کے طور پر دیئے گئے ہیں۔ اِن سے اخذِ نتائج کا کوئی عمل وابستہ نہیں کیا گیا۔ شہر دہلی لال قلعہ نیز دہلی اور لکھنؤ کے محاورے میں جو فرق کیا گیا ہے۔ وہ اپنی جگہ ایک اہم کام ضرور ہے مگر تہذیبی اور معاشرتی نقطہ نظر سے ہنوز کوئی کام راقمہ کی محدود معلومات کے مطابق ابھی تک نہیں ہوا۔ دو شہروں کی زبان کا الگ الگ انداز اُس میں ضرور زیر بحث آیا ہے۔ لیکن ہمارے سماج ہماری معاشرت اور ہمارے تہذیبی رویوں سے محاورہ کا جو خاص اور معنی خیز رشتہ رہا ہے اُس پر کوئی گفتگو نہیں ہوئی اِس پر بھی صاحبانِ قلم نے کوئی روشنی نہیں ڈالی کہ ہمارے یہاں جو محاورات موجود ہیں اور ہماری زبان کا حصہ ہیں اُن میں سے بعض پر دوسری زبانوں کے کیا اثرات ہیں عربی فارسی ہندی اور دیہاتی کا اُن پر کیا اثر ہے اور اُن کی لفظیات کو کس طرح دوسری زبانوں نے متاثر کیا ہے۔ یہ اہم مسئلہ بھی محاورات پر علمی اور ادبی کام کرنے والوں کے سامنے نہیں آیا۔ اُن کی توجہ زیادہ تر لُغت پر رہی ہے اور اُسی دائرہ میں رہ کر انہوں نے سوچا اور اپنے طور پر پُر وقار کام کیا ہے۔
ایسے لغت بھی تیار ہوئے جس میں محاورات کو لفظی وحدتوں کے طور پر جمع کیا گیا اور اُن کے معنی بتلائے گئے۔ ہماری درسیات میں یہ شامل رہا ہے کہ محاورات پر اُن کے معنی سمجھانے کے لئے ضرور روشنی ڈالی جائے اور معنوی سطح پر لغوی نقطہ نظر سے اُن کے معنی لکھ دیئے جائیں۔ لیکن محاورے وہ شہروں میں رائج ہوں یا قصبہ میں ادبی زبان میں یا عام بول چال میں اُن کا ہماری تہذیبی ماحول سے کیا رشتہ ہے اِس طرف ہنوز کسی کی توجہ مبذول نہیں ہوئی۔ محاورات پر دوسرے اہلِ قلم نے جو کام کیا ہے اُس کی نوعیت بہرحال جُدا گانہ ہے وہ کام اُس نقطہ نظر سے نہیں ہوا جو راقمہ کے سامنے رہا ہے۔ آج تو اِس کی بھی بہت ضرورت ہے کہ اُردو میں محاوروں کو جمع کیا جائے اور لُغت المحاورات مُرتب کی جائے۔ پہلے ایسا ہوتا رہا ہے۔ اس کی ایک نمایاں مثال چرنجی لال کی معروف تصنیف مخزن المحاورات معروف کتاب سے بہت پہلے شائع ہو چکی ہے مولانا سید احمد دہلوی کی معروف لغت آصف الغات اور نورالغات مصنفہ مولانا نورالحسن علوی کاکوروی بھی اپنے دامن میں بہت سے محاورات کو سمیٹے ہوئے ہیں۔
راقمہ کے اس کام کو نوعیت اِس سے مختلف ہے اور وہ محاورات کی صرف جمع اور ی یا اُن کی (لغوی) سطح پر معنی نگاری نہیں ہے بلکہ اُن کی تہذیبی نوعیت کو سمجھنے کی کوشش ہے کہ ہمارے محاورے اپنے لفظ و معنی میں کس حد تک تہذیبی تصورات یا تصویروں کو جمع کئے ہوئے ہیں کہ یہ ایک جُدا گانہ کام ہے بلکہ محاورات کا ’’ایک تہذیبی مطالعہ‘‘ ہے کہ وہ ہماری زندگی ہمارے ذہن ہماری معاشرتی فکر اور تہذیبی تقاضوں کی طرح عکاسی کرتے ہیں۔
راقمہ سُطور نے اِسی نقطہ نظر سے محاورے کے مطالعہ اور اُن کے پیش کش کا یہ منصوبہ اپنے سامنے رکھا ہے اور اس پر اپنی محدود نظر کے مطابق محاورات کو جمع کرنے کے علاوہ اُن پر تنقیدی اور تہذیبی گفتگو کی ہے محاورات کو حروفِ تہجی کے تحت رکھا گیا ہے۔ اور اِس ضمن میں نسبتاً اہم محاورات ہی کو سامنے رکھا گیا ہے۔ اور اِس کا اظہار کیا گیا ہے کہ اس محاورہ سے ہمارے ذہن زندگی اور زمانہ کا کیا رشتہ ہے۔
ہم اپنے معاشرتی رویوں کو اس لئے بھی سمجھنا چاہتے ہیں کہ ہماری تہذیبی تاریخ جن جن مرحلوں سے گزری ہے اور جن معاشرتی آداب و رسوم نے ہمارے طبقاتی معاشرے علاقائی سطح پر بننے بگڑنے والے سماج کو متاثر کیا ہے۔ اُن کی ایک متحرک تصویر سامنے آتی ہے۔
راقمہ الحروف کے سامنے اُردو کا وہ لغت خاص طور پر رہا ہے جو محاورات پر مشتمل ہے۔ اور جسے چرنجی لال نے ترتیب دیا ہے اِس کام نام مخزن المحاورات ہے۔ چرنجی لال نے۲۵/مئی ۱۸۸۶ء میں منشی بُلاتی داس دہلوی کے مطبع سے شائع کیا۔ اِس کے کاتب کا نام سید عبد اللطیف اور اُس کے ساتھ ساکن سبز منڈی بیرونِ شہر لکھا ہوا ہے۔
اِس کے بعد غلط نامہ کے صفحات آئے ہیں جن کا سلسلۂ تحریر و نگارش سات سوا کسٹھ صفحہ پر ختم ہوتا ہے۔ اس کے بعد تمام شد تحریر ہے۔ اِس کے ذیل میں قطعہ تاریخ بابو ٹھاکر گلاب سنگھ صاحب متخلص بہ مشتاق سب در سیر ہنر جمن غربی ڈویزن دہلی ساکِن شہر میرٹھ لکھا ہوا ہے۔
قطعہ
لکھتے ہیں اِس کتاب میں مُشتاق
خوب اُردو مُحاوروں کے حال
میں نے بھی اس کا بے سرا عدا
نسخۂ بے نظیر لکھّا سال
۱۸۸۶۔
نسخۂ بے نظیر مادہ تاریخ ہے پہلے مصرعہ میں بے سراعداد لکھ کر تخرجہ کے اعداد کی طرف اشارہ کیا گیا ہے یہ عدد خارج ہونا۔ اتنے عدد مادہ تاریخ سے نکالے جائیں گے تب جا کے سالِ تاریخ کے اعداد آئیں گے۔
یہ کتاب اب نایاب ہو چکی ہے اِس کا ایک ہی نسخہ اب دہلی جیسے شہر میں موجود ہے۔ اور ڈاکٹر تنویر احمد علوی کے ذاتی کتب خانہ کی زینت ہے۔ موصوف ہی نے مجھے مشورہ بھی دیا کہ میں محاورات کے تہذیبی مطالعہ پر کام کروں یہ کام اب تک راقمہ کی محدُود معلومات کے مطابق کسی دوسرے شخص یا ادارے نے نہیں کیا۔
میرے بعض ساتھیوں اور احباب نے مجھے اس نئی تنقیدی اور تہذیبی مطالعہ کے کام میں مشورہ دیا۔ اور اپنی رائے اور اظہارِ خیال سے میری راہِ فکر و عمل کو روشن کیا۔ میں اپنی اس ناچیز کو شش کے سلسلہ میں اپنے اساتذہ ڈاکٹر تنویر احمد علوی (دہلی یونیورسٹی) ڈاکٹر شریف احمد (دہلی یونیورسٹی ) اور سید ضمیر حسن دہلوی (ذاکر حسین کالج) نیز اپنے علمی احباب اور ساتھیوں کا شکر یہ ادا کرنا اپنا ادبی فریضہ خیال کرتی ہوں۔ علاوہ بریں میں دہلی اُردو اکادمی کی اشاعتی کمیٹی کے اراکین نیز اِدارے کے دوسرے معزز کارکُنان اور اکادمی کی ایکزیکٹیو کمیٹی کے وائس چیئرمین جناب م۔ افضل صاحب اور مرغوب حیدر عابدی (سکریٹری دہلی اردو اکادمی) کی ممنون ہوں کہ انہوں نے میرے اِس کام کی انجام دہی میں خاص طور پر تعاون کیا اور اس کی اشاعت میں خصوصی دلچسپی لی۔
ڈاکٹر عشرت جہاں ہاشمی،دہلی
ردیف ’’ا‘‘
(۱) اُبلا سُبلا،اُبالا سُبالا۔
اگر ہم اس محاورہ کی لفظی ترکیب پر غور کریں تو اس سے ایک بات پہلی نظر میں سمجھ میں آ جاتی ہے کہ ہمارے ہاں الفاظ کے ساتھ ایسے الفاظ بھی لائے جاتے ہیں جن کا اپنا اس خاص اس موقع پر کوئی خاص مفہوم نہیں ہوتا لیکن صوتی اعتبار سے وہ اس لفظی ترکیب کا ایک ضروری جُز ہوتے ہیں۔ اس طرح کی مثالیں اور بھی بہت سی مل سکتی ہیں، جیسے "الاَبُلَّا”، "اٹکل پچو”، "اَبے تبے”، "ٹال مٹول”، "کانچ کچُور” وغیرہ۔
"اُبلا سُبلا” ایسے موقع پر بولا جاتا ہے جب کسی عورت کو اچھا سالن بنانا نہیں آتا۔ ہمارے ہاں کھانا بنانے کا آرٹ گھی، تیل، بگھار، گرم مصالحہ، گوشت وغیرہ ڈال کر اس کو خوش ذائقہ اور لذیذ بنایا جاتا ہے۔ سالن میں جتنی ورائٹی ) variety (ہو سکتی ہے، اُن سب میں ان کو دخل ہے کہ وہ بھُنے چُنے ہوں، شوربہ، مصالحہ، اس میں ڈالی ہوئی دوسری اشیاء اگر خاص تناسب کے ساتھ نہیں ہیں تو پھر وہ سالن دوسروں کے لیے "اُبلا سُبلا” ہے، یعنی بے ذائقہ ہے اور اسی لیے بے نمک سالن کا محاورہ بھی آیا ہے، یعنی بے ذائقہ چیز۔ اس سے ہم اس گھریلو ماحول کا پتہ چلا سکتے ہیں جس میں ایک عورت کی کھانا پکانے کی صلاحیت کا گھر کے حالات کا ایک عکس موجود ہوتا ہے کہ اس کے ہاں تو۔ ” اُبالا سُبالا”پکتا ہے۔
(۲) آبخورے بھرنا۔
"آب خورہ” ایک طرح کی مٹی کے” فنجان نما” برتن کو کہتے ہیں جو کمہار کے چاک پر بنتا ہے اور پھر اُسے مٹی کے دوسرے برتنوں کی طرح پکایا جاتا ہے۔ یہ گویا غریب آدمی کا پانی پینے کا پیالہ اور ایسا برتن ہوتا ہے جسے پانی، دُودھ یا شربت پی کر پھینک بھی دیتے ہیں۔ عام طور سے ہندوؤں میں اس کا استعمال اس لیے بھی رہا ہے کہ وہ کسی دوسرے کے استعمال کردہ برتن میں کھاتے پیتے نہیں ہیں۔ آبخورے میں دُودھ پیا اور پھر اُسے پھینک دیا اور پھر یہی صورت شربت کے ساتھ ہوتی ہے مگر آبخورے بھرنا عورتوں کے نذر و نیاز کے سلسلہ کا ایک اہم رسمی آداب کا حصّہ ہے۔ عورتیں منّتیں مانتی ہیں اپنے بچّوں کے لیے، رشتہ داروں کے لیے، میاں کی کمائی کے لیے اور ایسی ہی دوسری کچھ باتوں کے لیے، اور کہتی ہیں کہ اے خدا، اگر میری یہ دعا قبول ہو گئی اور میری منّت پوری ہوئی تو میں تیری اور تیرے نیک بندوں کی نیاز کروں گی۔ دُودھ یا شربت سے آبخورے بھر کر،انہیں دعا درود کے ساتھ تین بّچوں، فقیروں، درویشوں یا مسافروں کو پلاؤں گی۔ نیاز کی چیزیں عام طور پر غریبوں ہی کے لیے ہوتی ہیں مگر اس میں اپنے بھی شریک ہو سکتے ہیں۔
(۳) آبرو ریزی کرنا۔
۔ "آبرو” چہرے کی آب و تاب کو کہتے ہیں، اس لیے کہ آب کے معنی چمک دمک کے بھی ہیں،پانی کے بھی۔ لیکن محاورہ کی سطح پر آبرو کے معنی ہیں عزت، سماجی احترام اور اگر کوئی شخص اپنے کسی عمل سے دوسرے کو معاشرتی سطح پر بے عزت یا Dishonour کرتا ہے تو وہ گویا اس کی "آبرو ریزی "کرتا ہے، اِسے مٹی میں مِلاتا ہے۔ فارسی میں "ریختن،ریزیدن”کے معنی ہیں "گرانا، گرنا”۔ اسی لیے موسمِ خزاں میں جو پت جھڑ کا موسم ہوتا ہے، اُسے برگ ریز یعنی پتّے گرانے والا موسم کہتے ہیں۔
اِس سے ہم”آبرو ریزی ” کے لفظی مفہوم اور معاشرتی معنی تک پہنچ سکتے ہیں جو ایک تہذیبی اندازِ نظر ہے۔ آبرو کے ساتھ کئی محاورے آتے ہیں اور سب کے مفہوم میں چہرہ کی آب و تاب اور عزت شامل ہے۔ مثلاً”آبرو بگاڑنا ” آبرو ریزی ہی کے معنی میں آتا ہے۔ "آبرو رکھنا ” عزت رکھنے ہی کا مفہوم بناتا ہے۔ "آبرودار” عزت دار آدمی کو کہتے ہیں۔ "رو دار” بھی آبرو دار ہی کے معنی میں آتا ہے۔ اس سے ہم آبرو کے معاشرتی تعلق کو سمجھ سکتے ہیں، اس لیے کہ بے عزتی بہت بڑی سماجی سزا ہے۔ ۔
(۴) اَبلا پری، اَبلاّ رانی ہونا۔
بہت خوب صورت ہونا۔ اصل میں رانی اور راجہ کا لفظ مرد اور عورت کے شخصی امتیاز کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ پھولوں میں بھی ایک پھول دن کا راجہ ہوتا ہے اور ایک رات کی رانی۔ اس سے بھی پھولوں میں اُن کا ممتاز ہونا ظاہر ہے۔ "ابلا” لڑکی کو کہتے ہیں اور جسے بہت خوب صورت لڑکی ظاہر کرنا ہوتا ہے یا پھر سمجھا جاتا ہے، اِسے "اَبلا پری” کہا جاتا ہے۔
قدیم ہندوستان میں پریوں کا تصوّر نہیں تھا۔ اسی لیے "ابلاّ رانی” کہا جاتا تھا۔ جب فارسی کے ذریعہ "پری” کا تصوّر آیا تو "ابلاّ پری” کہا جانے لگا۔ بہر حال، "ابلاّ پری” ہو یا "ابلاّ رانی”،حُسن کا ایک آئیڈیل تصوّر ہے اور اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ لفظی طور پر ہم نے فارسی سے جو الفاظ لیے ہیں، ان کا ہماری تہذیب سے بھی ایک رشتہ ہے۔ حسین عورت کو ہم "پری چہرہ” بھی کہتے ہیں، چاہے دیووں، جن، بھوتوں اور پریوں کو مانتے ہوں یا نہ مانتے ہوں۔
حضرت امیر خسرو کا مشہور فارسی شعر ہے
پری پیکر، نگارِ سرو قدے، لالہ رُخسارے
سراپہ آفتِ دل بُود، شب جائے کہ من بودم
یعنی وہ جو پری پیکر ہے، حسین اور خوب صورت ہے، سرو قد ہے، لالہ رُخسار ہے اور سر تا پا آفتِ دل ہے اور میں نے رات اسے اس کی تمام جلوہ آرائیوں کے ساتھ دیکھا ہے۔ اس شعر کو اگر دیکھا جائے تو اس میں "ابلاّ رانی” یا "ابلاّ پری” کی وہ خو بیاں نظر آتی ہیں جو ایرانی تصوّرِ حسن کو پیش کرتی ہیں اور ہندوستان کی ایک حسین عورت کی خوب صورتیاں اس میں جھلکتی ہیں۔ "اَبلا رانی” سے "اَبلاّ پرَی” تک محاورہ کا یہ شعر ہماری تہذیبی تاریخ کی روشن پرچھائیوں کی ایک متحرک صورت ہے۔
(۵) آبِ حیات ہونا۔
آبِ حیات کا تصور قوموں میں بہت قدیم ہے۔ یعنی ایک ایسے چشمہ کا پانی جس کو پینے سے پھر آدمی زندہ رہتا ہے۔ اُردو اور فارسی ادب میں حضرتِ خضر کا تصور بھی موجود ہے۔ یہ چشمہّ آبِ حیات کے نگراں ہیں۔ اسی لیے وہ ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ حضرتِ خضر کا لباس۔ ۔ "سبز” ہے اور وہ دریاؤں کے کنارے ملتے ہیں اور بھولے بھٹکوں کی رہنمائی کرتے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ قدیم زمانہ میں جب باقاعدہ سڑکیں نہیں تھیں، دریاؤں کے کنارے کنارے سفر کیا جاتا تھا۔ اور اس طرح گویا دریا ہماری رہنمائی کرتے تھے۔ یہیں سے خضر کی رہنمائی کا تصور بھی پیدا ہوا ہے۔
علم کو پانی سے مُشابہت دی جاتی ہے۔ اسی لیے ہم علم کا سمندر یعنی بحرالعلم کہتے ہیں جسے ہندی میں "ودیا ساگر”کہا جاتا ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ علم پانی ہے، پانی زندگی ہے اور پانی نہ ہو تو پھر زندگی کا کوئی تصور نہیں۔ اِن باتوں کو آبِ حیات کی صُورت میں ایک علامت کے طور پر مانا گیا ہے۔ حضرتِ خضر کا علم بھی بہت بڑا ہے جس کے لیے اقبالؔ نے کہا ہے:
علمِ موسیٰ بھی ہے جس کے سامنے حیرت فروش
قرآن میں بھی حضرتِخضر اور حضرتِ موسیٰ سے متعلق روایت کی طرف اشارہ موجود ہے۔ لیکن خضر کا نام نہیں ہے۔ اردو ادب میں اور مغلوں کی تاریخ میں بادشاہ جو پانی پیتے تھے اُس کو بھی آبِ حیات کہا جاتا تھا۔ ان سب باتوں کے پیشِ نظر جب اردو میں بطورِ محاورہ آبِ حیات ہونا کہا جاتا ہے تو اس سے مُراد ہوتی ہے کہ یہ بے حد مفید ہے، زندگی بڑھاتا ہے اور صحت میں اضافہ کرتا ہے۔ یہاں ہم کہ سکتے ہیں کہ محاوروں نے ہماری تہذیبی روایت کو محفوظ کیا ہے اور عوام تک پہنچایا ہے۔ ۔
(۶) آبنوس کا کُندا ہونا۔
یہ ایک عجیب محاورہ ہے۔ لکڑیوں کے مختلف رنگ ہوتے ہیں، مثلاً تُون کی لکڑی کا رنگ گلابی ہوتا ہے۔ صندل (چندن) کی لکڑی کا رنگ زرد ہوتا ہے اور آبنوس کا سیاہ۔ سیاہ ہمارے ہاں خوبصورت اور پُر کشش رنگ خیال نہیں کیا جاتا۔ اس لیے دیووں اور بھوتوں کو یہ رنگ دیا جاتا ہے اور سیاہ کہہ کر بھی جِن بھوت مُراد لیا جاتا ہے۔ حیرت یہ ہے کہ بالوں کا رنگ بھی سیاہ ہوتا ہے۔ بھَوں کا بھی اور آنکھوں کی پُتلیوں کا اور تِل کا بھی رنگ کالا ہوتا ہے۔ اور یہ سب حسن و کشش کی علامت ہیں۔ کم از کم ہند ایرانی تہذیب میں ایسا ہی ہے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر سیاہ رنگ سے نفرت کے اظہار کی وجہ کیا ہے۔ جب کہ شیعہ عقیدہ رکھنے والوں کے ہاں سیاہ رنگ مقدّس رنگ ہوتا ہے اور عبّاسیوں کی سلطنت (خلفائے بنو عبّاس) میں سیاہ رنگ اُن کی اپنی سلطنت کا رنگ تھا۔
اُن حقائق کی روشنی میں سیاہ رنگ سے نفرت دراصل آریائی تہذیب کی دین ہے کہ وہ دراوِڑوں سے نفرت کرتے تھے۔ اُن کی تہذیب اور علمی کار گزاریوں کو بالکل نظر انداز کرتے رہے۔ بہت سے لوگوں کو بھنگی، چمار اور دوسرے پیشوں سے وابستہ کر دیا۔ یہاں تک کہ ان کے رنگ سے نفرت شروع کر دی۔ اور اُس کا اثر یہ ہے کہ آبنوس کا کُندا کالا کلوٹا کلموہا ہمارے ہاں بُرے الفاظ ہو گئے۔ آبنوس وہ لکڑی ہے جو صرف دراوِڑوں کے علاقوں میں پیدا ہوتی ہے، کہیں اُس میں ہندوستانی تہذیب، ہندوستانی فکر اور اُن فکری تعصبات کی جھلک بھی ہے جو ہماری تہذیب و ثقافت کا رشتہ رہے ہیں۔
(۷) اَبجد خواں ہونا۔
حروف کو لکھنے کی دو ترکیبیں ہیں۔ ایک وہ جس کو ہم حروفِ تہجّی کی ترکیب کہتے ہیں یا اُردو والے "الف‘‘، ’’ب‘‘، ’’ت‘‘ کے سلسلے سے وابستہ کرتے ہیں۔ دوسرا وہ سلسلہ یا ترتیب ہے جن کو حروفِ ’’اَبجد‘‘ سے وابستہ کیا جاتا ہے۔ ابجد، ھوز،حُطّی، کلمن،سعُفص، قرشت، ثخذ، ضظغ،۔ یہی وہ حروف کی ترتیب ہے جس میں اِن حروف کے اعداد مقرر کیے جاتے ہیں۔
ابجدی ترتیب مندرجہ ذیل ہے۔
۱(۱) ب(۲) ج (۳) د(۴) ہ(۵) و (۶) ز(۷)ح (۸)ط (۹) ی (۱۰) ک (۲۰) ل(۳۰) م (۴۰)ن (۵۰) س (۶۰) ع( ۷۰ف(۸۰) ص(۹۰) ق(۱۰۰) ر(۲۰۰) ش(۳۰۰) ت (۴۰۰) ث(۵۰۰) خ(۶۰۰) ذ(۷۰۰) ض(۸۰۰) ظ(۹۰۰) غ(۱۰۰۰)
نام یا تاریخ نکالنے کا طریقہ یہ ہے کہ اُس نام یا اُس تاریخ سے متعلق حروف کے اعداد لے لیتے ہیں۔ اور اُن کو جمع کرتے ہیں۔ حاصل جمع جو بھی عدد ہوتا ہے اس سے تاریخ کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ مسلمانوں میں دو ہی سنین جاری رہے ہیں، ایک ہجری، دوسرا عیسوی۔ عیسوی سن بھی کم نکالا جاتا ہے۔ ہندو سمبت استعمال کرتے ہیں۔ لیکن ان کے ہاں تاریخ نکالنے کا کوئی دستور نہیں ہے۔ اس لیے ان کے ہاں ث، خ، ذ، ض، ظ اور غ استعمال ہی نہیں ہوتے۔ جب یہ حروف ہی ان کی زبان میں شامل نہیں تو ان کے اعداد وہ کیسے مقرر کریں۔
غرض کہ اُن حروف سے جو ترتیب قائم ہوتی ہے، اُسے اَبجدی ترتیب کہتے ہیں۔ اس کے برعکس ا، ب، ت، ث، سے جو ترتیب قائم ہوتی ہے، اُسے ترتیبِ حروفِ ’’ہجا‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہاں محاورہ میں ’’ابجد خواں ‘‘ کہا گیا ہے۔ اِس سے مراد صرف ا، ب، ت، ث لی گئی ہے۔ حروفِ ’’اَبجد‘‘ نہیں۔ یعنی میرا معاملہ تو صرف حروف شناسی کی ’’حد ‘‘سے آگے نہیں بڑھتا۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ اُن لوگوں کے نزدیک علم کا معیار کافی اونچا تھا اور از راہِ کسر نفسی ایک پڑھا لکھا آدمی بھی خود کو ’’ابجد خواں ‘‘ کہتا تھا اور دوسروں کی کم علمی کا اظہار بھی اسی انداز سے کیا جاتا تھا۔
(۸) آب و دانہ اُٹھ جانا۔
آب، پانی۔ دانہ، کوئی بھی ایسی شے جو خوراک کے طور پر لی جائے۔ اور پرندے تو عام طور پر دانہ ہی لیتے ہیں۔ چونکہ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ آدمی کا رزق اوپر سے اترتا ہے اور اوپر والے کے ہاتھ میں ہے کہ وہ جس کو جہاں سے چاہے رزق دے۔ اور یہ سب کچھ تقدیر کے تحت ہوتا ہے اور تقدیر کا حال کسی کو معلوم نہیں۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ کیا خبر ہے کس کا آب و دانہ کب اٹھ جائے اور جب تک آب و دانہ ہے، اسی وقت تک قیام بھی ہے۔ جب آب و دانہ اٹھ جائے گا تو قیام بھی ختم ہو جائے گا۔
یہ محاورہ ہمارے تہذیبی تصورات اور زندہ رہنے کے فطری تقاضوں کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ ’آب و دانہ ‘، ’آب و خور‘ اور ’آب و خورش‘ بھی اسی ذیل میں آتے ہیں۔ یہ ایک ہی محاورہ کی مختلف صورتیں ہیں۔ خُورش، خُور اور خُوراک فارسی الفاظ ہیں اور اسی مفہوم کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔
(۹) آب و رنگ۔
آب و رنگ کے معنی دوسرے ہیں، یعنی رونق، خوب صورتی، رنگینی اور رعنائی۔ آب دار اسی لیے چمک دار کو کہتے ہیں۔ آب داری کے معنی روشن اور چمک دار ہونے کی صِفت تھی اور بے آب ہونے کے معنی اپنی خوب صورتی سے محروم ہونا ہوتا ہے اور اس کے معنی عزت کھونے کے بھی آتے ہیں۔ لڑکی بے آب ہو گئی، یعنی بے عزت ہو گئی، اس کا کنوار پن ختم ہوا۔ ’’موتی کی سی آب‘‘ محاورہ ہے اور چمک دار موتی کو ’’درِ خوش آب‘‘ کہتے ہیں۔ اس معنی میں ’’آب‘‘ بمعنی عزت، توقیر، آن بان وغیرہ کے معنی میں آتا ہے۔ جو استعاراتی معنی ہیں۔ یہاں بھی آب و رنگ اسی معنوں میں آیا ہے۔ رنگ خوب صورتی پیدا کرتا ہے اور ’’آب‘‘ تازگی، طراوت کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
(۱۰) آپ بیتی۔ اَپ بیتی۔
انسان کی تاریخ عجیب ہے۔ یہ اس کی اپنی تاریخ بھی ہے، اس کے ماحول کی تاریخ بھی ہے، اُس کی اپنی نسلوں کی تاریخ اور خود اس ملک یا اس نسل کی تاریخ بھی جس سے اِس کا تعلق ہوتا ہے۔ اب کوئی انسان،اپنے حالات کے تحت، یہ بھی ممکن ہے اپنی تاریخ بھول جائے اور کسی انسان کو اپنے ماحول، اپنی قوم اور اپنے شہر یا اپنے علاقہ کی تاریخ یاد رہے۔ اپنی تاریخ کو آپ بیتی کہتے ہیں اور دوسروں کی تاریخ کو جگ بیتی۔ جب انسان اپنے حالات لکھتا ہے یا بیان کرتا ہے تو اُسے وہ آپ بیتی کہتا ہے۔ ہم اسے خود نوشت سوانح عمری بھی کہتے ہیں۔ گفتگو میں جب آدمی اپنے حالات بیان کرتا ہے اور اگر اس میں اس کا اپنا غم شامل ہوتا ہے تو وہ اُس کی رام کہانی کہلاتی ہے۔ وہ یہ بھی کہتا ہے کہ میں جگ بیتی نہیں آپ بیتی کہہ رہا ہوں۔ ہم نے خود نوشت سوانح کو آپ بیتی کہا ہے اور جب کسی کی خود نوشت سوانح کو اُردو یا ہندی میں ترجمہ کرتے ہیں تو اسے آپ بیتی کہتے ہیں، جیسے میرؔ کی آپ بیتی، غالبؔ کی آپ بیتی، خسروؔ کی آپ بیتی وغیرہ۔ کہانیاں، افسانہ، قصہّ، داستانیں بھی آپ بیتیاں ہوتی ہیں جن میں جگ بیتیوں کا زیادہ عنصر ہوتا ہے۔ اسی لیے ہم ان میں تاریخ، تہذیب و ثقافت کو تلاش کرتے ہیں کہ وہ بھی شعوری، نیم شعوری یا لا شعوری طور پر ہمارے ماحول کی گزاری ہوئی زندگی یا گزارے جانے والے ذہنی ماحول کا حصہ ہوتا ہے۔ اس طرح ’’آپ بیتی‘‘ اور جگ بیتی کا ہمارے تہذیبی ماحول سے گہرا رشتہ ہے۔
(۱۱) اپنے تئیں شاخِ زعفران سمجھنا۔ ۔
آدمی میں اس کی اپنی نفسیات یا ماحول کی نفسیات کے تحت طرح طرح کے ذہنی رویّے develop ہو جاتے ہیں۔ اِن میں بدلاؤ بھی آتا ہے لیکن ایک وقت میں یہ انسان کے فکر و کردار کا بہت نمایاں حصّہ ہوتے ہیں اور اگر ان میں نمود و نمائش کا پہلو زیادہ ہوتا ہے تو وہ دوسروں کے لیے تکلیف یا مذاق کا سبب بن جاتے ہیں۔ ایسے کسی شخص کو وہ عورت ہو یا مرد بڑا ہو یا چھوٹا، یہ کہا جاتا ہے کہ وہ تو اپنے آپ کو شاخِ زعفران سمجھتے ہیں یعنی بہت بڑی چیز خیال کرتے ہیں۔ زعفران جڑی بوٹیوں میں بہت قیمت کی چیز ہے۔ اسی لیے شاخِ زعفران ہونا گویا بڑی قدر و قیمت رکھنے والا شخص ہے۔
محاورے ہمارے معاشرتی رویوں پر جو روشنی ڈالتے ہیں اور سماج کے مزاج و معیار کو سمجھنے میں مدد دیتے ہیں۔ اُن میں یہ محاورہ بھی شامل ہے۔ اپنے آپ کو دُور کھینچنا بھی کم و بیش اسی امتیاز پسندی اور مغروریت کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
(۱۲) اپنا اُلّو سیدھا کرنا۔
عجیب و غریب محاورہ ہے جس میں اُلّو کے حوالہ سے بات کی گئی اور معاشرے کے ایک تکلیف دہ رویّہ کو سامنے لایا گیا یا اس پر طنز کیا گیا ہے۔ یہ وہ موقع ہوتا ہے جب آدمی وہ کوئی بھی ہو، اپنا بیگانہ، امیر غریب، دوسرے سے اپنا مطلب نکالنا چاہتا ہے اور مطلب برآری کے لیے دوسرے سے چاپلوسی اور خوشامد کی باتیں کرتا ہے اور مقصد اپنا مطلب نکالنے سے ہوتا ہے۔ اسی مفہوم کو ادا کرنے کے لیے ایک اور محاورہ بھی ہے یعنی دوسرے کو’’ الّو بنانا‘‘ یعنی بیوقوف بنانا۔
(۱۳) اَپرادھ ہرنا (ہڑنا)
’’ہڑنا‘‘ دیہات میں عام بولا جاتا ہے، جیسے پیسے ہڑنا، عقل ہڑنا۔ یہ ہڑنا ہڑپ کرنے کے معنی میں آتا ہے یعنی سُوجھ بُوجھ کو سلب کرلینا، عقل کو چھین لینا۔ اَپرادھ ہندی میں گناہ، قصور اور خطا کو کہتے ہیں۔ آدمی خدا کا قصور بھی کرتا ہے، سماج کے نقطۂ نظر سے بھی اس سے خطائیں سرزد ہوتی ہیں۔ وہ جُرم کا مرتکب بھی ہوتا ہے۔ بے حد نقصان پہنچانے والے معاشرتی یا دینی جرم کو مذہب کی اِصطلاح میں پاپ، اَپرادھ یا گناہ کہتے ہیں۔ انسان کو اس طرح کے گناہوں کا احساس رہا ہے۔ اسی لیے اس نے معافی مانگنے کا اخلاقی رو یہ بھی اختیار کیا اور گناہ بخشوانے کا تصور بھی اس کی زندگی میں داخل رہا۔ یہاں اسی کی طرف اشارہ ہے۔ لیکن انسان نے گناہ بخشوانے یا بخشے جانے کا خیال ذہن میں رکھتے ہوئے طرح طرح کی باتیں سوچیں۔ مذہبی عبادات میں اس کے وسیلے تلاش کیے۔ مسلمانوں میں تو یہ بات یہاں تک آ گئی کہ فلاں وقت کی نماز پڑھنے یا حج کرنے سے ساری زندگی کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔ ہندوؤں نے بھی تیرتھ یاترا اور اشنان میں ان وسائل کو ڈھونڈا اور آخر کار اس پر مطمئن ہو گئے۔
(۱۴) آپ سُوار تھی۔
’’سوار‘‘ ہندی میں خود غرضی کو کہتے ہیں، یعنی اپنا مطلب جسے آدمی ہر طرح حل کرنا چاہے۔ اُسے مطلب نکالنا بھی کہتے ہیں۔ یہ ہمارے معاشرے کی عام کمزوری ہے اور پچھلی صدیوں کے حالات کا نتیجہ ہے کہ آدمی دوسروں کے لیے نہیں سوچتا یا سوچتا ہے تو بُرا ہی سوچتا ہے۔ اس کو جانتا بھی ہے۔ اسی لیے جب دوسرے کی طرف سے غلط سوچ سامنے آتی ہے تو اُس پر اعتراض بھی کرتا ہے۔ لیکن اس غلط روش یا خود غرضانہ رویے سے بچنا نہیں چاہتا۔ اس بات کو لوگ سمجھتے ہیں اور سمجھتے رہے ہیں۔ اس کا ثبوت ہمارا ردِعمل بھی ہے اور یہ محاورے بھی جن میں انہیں رویوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔
ہم اپنی معاشرتی زندگی میں اِس کا مشاہدہ بھی روز روز کرتے ہیں مگر حالات کے دباؤ اور قدیمانہ روایت کے تحت اس کے خلاف کھُلم کھلا کچھ نہیں کہتے۔ اور کہتے ہیں تو صرف اس وقت جب ہمیں تکلیف پہنچتی ہے۔ ورنہ عام رو یہ یہ ہے کہ صبر کرو، برداشت کرو جب کہ سامنے کی بات بالکل یہ ہے۔ کہ ان روشوں کو کیوں نہ ترک کیا جائے، صرف برداشت ہی کیوں کرایا جائے۔ مگر انسان نے کچھ روایتیں تو اختیار کر لیں لیکن اپنے اوپر خود تنقید کرنا جسے خود احتسابی کہتے ہیں، وہ منظور نہیں کیا اور بد قسمتی یہ ہے کہ مذہب کے روایتی تصور نے بھی انسان کو اس میں مدد دینی شروع کی کہ وہ من مانی کرتا رہے۔ جب کہ مذہب کا اصل مقصد یہ نہ تھا۔ ۔
(۱۵) آپ رُوپ۔
اپنے آپ ہی سب کچھ ہونا۔ رُوپ کے معنی ہندو فلاسفی اور ادب میں بہت سے ہیں۔ یہ محاورہ بھی ایک طرح سے ہندو فلسفہ کی طرف اِشارہ کرتا ہے۔ اس کے معنی ہیں جو کسی سے پیدا نہ ہوا ہو۔ ظاہر ہے یہ صفت صرف خدا کی ہے جو کسی سے پیدا نہ ہوا کہ کسی نے اس کو بنایا، اور سنوارا نہیں۔ اِس کے دوسرے معنی جو محاورہ ہی سے پیدا ہوئے ہیں، وہ خود بدولت ہیں جو مغلوں میں بادشاہ کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ مزاح کے طور پر،جس آدمی کو بڑا بننے کی عادت ہو، اس کے لیے طنز کے طور پر بھی یہ فقرہ استعمال ہوتا ہے۔
(۱۶) آپ سے باہر ہونا یا آپے سے باہر ہونا۔
آپ کا لفظ محاورہ کے طور پر اپنی مختلف صورتوں میں بار بار استعمال ہوتا ہے۔ ا س سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ انسانی وجود کو ایک معاشرتی وجود مان کر کیا کچھ کہا گیا اور سوچا گیا ہے۔ ’’آپے سے باہر ہونا‘‘ ایسے شخص کے لیے کہا جاتا ہے جو سماجی طور پر اپنی شخصیت کو ضرورت سے زیادہ سامنے لاتا ہے، مثلاً یہ کہتے ہیں کہ اُسے ملازمت کیا مل گئی کہ وہ تو آپے سے باہر ہو گیا۔ یا ذرا سی بات میں وہ آپے سے باہر ہو جاتا ہے۔ یہاں مراد غصّہ سے ہے کہ وہ اپنے غصّہ پر قابو نہیں رکھ سکتا۔
آدمی کی خوبی یہ ہے کہ وہ غصہّ پر قابو پائے تاکہ تعلقات میں ایک گونہ ہمواری باقی رہے۔ لیکن یہ کوئی ایسا اصول نہیں ہے جس کو ہر موقع اور تعلقات کے ہر مرحلہ میں پیشِ نظر رکھا جائے۔ کبھی کبھی دوسرے لوگ انسان کی شرافت اور کمزوری سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اور جب تک سختی سے منع نہ کیا جائے یا اظہارِ ناخوشی نہ کیا جائے، اُن پر کوئی اثر نہیں ہوتا اور وہ ناجائز فائدہ اٹھاتے رہتے ہیں۔
(۱۷) اپنی اور نہارو۔ اپنی طرف خیال کرو۔
نہایت اہم محاورہ ہے۔ اس لیے بھی نہارنا بہ معنی دیکھنا، ہماری زبان میں ایک قدیم فعل ہے اور ہندوی ہے۔ ہمارے زیادہ تر مصدر ہندوی ہیں اور اُن سے ہماری زبان کی بنیادی ساخت کا پتہ چلتا ہے۔ محاورہ اس طرف متوجہ کرتا ہے کہ معاشرے کا ذہنی رو یہ کیا رہا ہے۔
’’اور‘‘ کے معنی ہیں طرف۔ اسی لیے اس کا ترجمہ کیا گیا ہے کہ اپنی طرف خیال کرو۔ اس کے معنی ہیں کہ آدمی کو متوجہ کیا جا رہا ہے کہ اُس کو نہ دیکھو، اپنی بڑائی یا بُرائی کا خیال کرو۔ معاشرے میں جو روا روی کا رو یہ موجود رہتا ہے کہ آدمی خود کو نہیں دیکھتا، دوسروں پر اعتراض کرتا ہے۔ اپنی کوئی بُرائی اس کو نظر نہیں آتی، دوسروں کی کمزوری کی طرف خواہ مخواہ اشارہ کرتا ہے۔ یا پھر دوسروں کا رو یہ بہت غلط، نہ روا اور تکلیف دہ ہوتا ہے۔ مگر پھر بھی ہم سلجھ کر اور سمجھ کر بات کرتے ہیں کہ ہمیں اپنی عزت و آبرو سنبھالنی ہوتی ہے۔ انہی سماجی امور کی طرف اس محاورہ میں توجہ دلائی گئی ہے۔
(۱۸) اپنی ایڑی دیکھو۔
ایڑی پاؤں کا پچھلا اور نچلا حصّہ ہوتا ہے۔ اُس کی طرف نظر کم جاتی ہے۔ اس معنی میں ایڑی ایسی چیزوں کی طرف اشارہ ہے جن کو آدمی نہیں دیکھتا اور جن پر نظر نہیں ڈالتا۔ یہ اُس کے اپنے عیب بھی ہو سکتے ہیں جن کی طرف سے وہ بے پروا ہوتا ہے۔ اسی لیے عورتیں اپنی مخالف عورت سے کہتی ہیں کہ مجھے کیا کہہ رہی ہے، اپنی ایڑی دیکھ۔ اس سے ہم یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ معاشرے میں جو خرابیاں اخلاقی سطح پر پیدا ہوتی یا رُو نما ہوتی ہیں، اُن پر دوسرے توجہ دلاتے ہیں اور طنز و تعریض کے موقع پر دلاتے ہیں، مگر آدمی خود متوجہ نہیں ہوتا۔
(۱۹) اپنی رادھا کو یاد کرو۔
سماجی طور پر یہ محاورہ ہندو کلچر سے رشتہ رکھتا ہے۔ ہندو فلسفہ کے مطابق ’’رادھا ‘‘ سری کرشن کی محبوبہ تھی۔ اُس کے فلسفیانہ طور پر یہ معنی ہیں کہ وہ’’ سری کرشن‘‘ کی مزاج آشنا اور ان کی خوبیوں کی معترف تھی۔ محبت کے رشتے میں مزاج شناسی اور خوبیوں کا اعتراف بڑی بات ہے۔ ۔
عام طور سے ہم محبت کے رشتے کو جنس اور جذبہ کا رشتہ سمجھتے ہیں یا پھر خون کے رشتے کا تقاضہ، جب کہ محبت کا رشتہ خوبیوں کے اعتراف اور اعتماد کی دین ہوتا ہے۔ ’’ کرشن اور رادھا‘‘ کے رشتے میں یہی خلوصِ خاطر اور دلی تعلق موجود تھا۔ جو سماجی رشتوں میں کہیں کم اور کہیں زیادہ نا پید ہوتا ہے۔
اِس محاورے میں اس پہلو کو طنز کے طور پر سامنے لایا گیا ہے کہ اگر تم مجھے پسند نہیں کرتے تو چھوڑو، بے تعلق ہو جاؤ اور اپنی لگی سگی ’’رادھا‘‘ کو یاد کرو۔ رادھا کا حوالہ ظاہر کرتا ہے کہ یہ عورتوں کا محاورہ ہے۔ چونکہ سماج میں عورت ایک گھرے ہوئے ماحول میں رہتی ہے، اِس لیے اس کے ہاں preservation یعنی محفوظ رکھنے کا عمل زیادہ ہوتا ہے اور قدیمانہ ماحول، محاورے، زبان اور رسم و رواج زیادہ تر عورتوں ہی کے وسیلے سے باقی رہتے ہیں۔ تمام محاورے عورتوں کے ہی نہیں ہیں، یہ مختلف طبقوں سے بھی تعلق رکھتے ہیں اور اُن میں سے بعض محاورے خاص طور پر مردوں سے ذہنی رشتہ رکھتے ہیں، مثلاً ’’اپنی صلیب آپ اُٹھانا‘‘۔ ظاہر ہے کہ عورتوں کو صلیب نہیں دی جاتی تھی، مردوں ہی کو دی جاتی تھی۔ ’’پھانسی چڑھنا ‘‘بھی مردوں ہی کا محاورہ ہے۔ ’’اپنی قبر آپ کھودنا‘‘ بھی مردوں کا محاورہ ہے، اس لیے کہ عورتیں قبرستان نہیں جاتیں اور نہ ہی قبر کھودتی ہیں۔ ’’اپنے قول کا پکا ہونا ‘‘ بھی مردوں سے ہی متعلق محاورہ ہے۔
(۲۰) اپنی کھال میں مست ہونا۔
معاشرے میں ہم ایک دوسرے کے ضرورت مند ہوتے ہیں۔ لیکن کچھ لوگوں میں خود پسندی یا خود داری زیادہ ہوتی ہے۔ وہ کسی دوسرے کے احسان مند بننا نہیں چاہتے۔ اب اگر اُن کے پاس کچھ نہیں ہے تو ایک عجیب سی صورتِ حال پیدا ہو جاتی ہے۔ اسی کو کہتے ہیں ’’اپنی کھال میں مست ہو جانا‘‘۔ یعنی ایک آدمی غریب بھی ہو، خود دار بھی ہو، یا پھر اپنے معاملات سے بے پروا اور بے خبر بھی رہنا چاہتا ہو، ایسے موقع پر طنزاً یہ کہا جاتا ہے کہ انہیں کسی کی کوئی پروا نہیں۔ اپنی پروا بھی نہیں۔ وہ تو بس اپنی کھال میں مست ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو یہ معاشرے کا ایک نفسیاتی مطالعہ ہے۔ اس سے اریب قریب ’’آپا بسرانا‘‘، ’’آپا تجنا‘‘، ’’آپا تج دینا‘‘ محاورے ہیں جن کے معنی ہیں خود فراموشی اختیار کرنا۔
(۲۱) اپنی گُڑیا آپ سنوارنا۔
’’گڑیاں ‘‘ ہندوستانی تہذیب کی ایک علامت ہے۔ اب تو پلاسٹک کی گڑیاں بننے لگی ہیں۔ ایک زمانے میں یہ کپڑے اور روئی سے تیار ہوتی تھیں اور گھر کی بڑی بوڑھیاں بچیوں کے لیے کھیل کی غرض سے بناتی تھیں۔ گھر میں جو گھریلو سامان ہوتا ہے، اسی کی نقل گڑیوں کے برتنوں میں تیار کی جاتی تھی۔ چھوٹا سا پلنگ، تکیہ، لحاف اور پتیلی، چمچہ، کٹوری وغیرہ، وغیرہ۔
گڑیوں کی شادی رچائی جاتی تھی۔ مایوں کی رسم الگ ہوتی تھی۔ اِس کے علاوہ پیر مکوڑا الگ بنتا تھا۔ یہ کسی بزرگ کی چھوٹی سی قبر ہوتی تھی اور اُس کے چاروں طرف احاطہ اور جھنڈیاں نیز چھوٹی چھوٹی شمعیں جو اسی مقصد کے لیے تیار ہوتی تھیں۔ اور اس طرح گویا ایک عُرس کا سماں باندھا جاتا تھا۔
گڑیوں کے ذریعہ بچیوں کو گھر گرہستی کے بہت سے کام آ جاتے تھے اور باتیں معلوم ہو جاتی تھیں۔ اپنی گڑیاں سنوارنا، اپنی گھر گرہستی کو بہتر بنانا، اپنی بچیوں کی دیکھ بھال کرنا اُن کو سلیقہ سکھلانا۔ پڑھانے لکھانے کا پہلے رواج نہیں تھا۔ اِس سے ہم گھریلو معاشرت اور وہاں کی تہذیبی فضا کا کچھ اندازہ کر سکتے ہیں۔
(۲۲) اپنی گوں کا یار۔
معاشرے میں جو بھی عیب ہوتے ہیں اُن کو ہم جانتے ہیں، پہچانتے ہیں، محسوس کرتے ہیں اور محاورے زیادہ تر انہیں پر بنے ہیں۔ اب یہ الگ بات ہے کہ جو بات محاورے میں کہہ دی گئی، وہ بات واضح ہو گئی لیکن محاورے کی وجہ سے وہ پھر رواج عام کا حصّہ بن گئی اور اُس کی معاشرتی حیثیت پر ہماری نظر نہیں جاتی۔ اِس محاورے میں گوں کے معنی ہیں خود غرض، مطلبی۔ ہم اسے اس طرح بھی کہتے ہیں کہ وہ ہماری ’’گوں کا آدمی‘‘ نہیں ہے۔
یعنی ہماری مطلب اس سے نہیں نکل سکتا۔ ’’گوں گیرا‘‘ بھی اسی طرف اشارہ کرتا ہے کہ وہ اپنے مطلب کی تلاش میں رہتا ہے۔ ’’اپنی گوں کا یار‘‘ بہت واضح صورت ہے کہ وہ خود غرض اور مطلبی ہے۔ ’’آپ سوارتھی‘‘ کے معنی بھی یہی ہیں جس پر پہلے گفتگو ہو چکی ہے۔
(۲۳) اپنی چھا کو کون کھٹّی کہتا ہے۔
یہ محاورہ بھی ہمارے معاشرے کے رویّے پر ایک طنز ہے۔ ’’چھا‘‘ بلوئے ہوئے دُودھ کا وہ حصّہ ہوتا ہے جس سے گھی یا مکھن نکل جاتا ہے۔ یہ صحت کے لیے اور خاص طور پر پیٹ کو درست رکھنے کے لیے بہت اچھی غذا ہے، مگر کھٹی ’’چھا‘‘ مزے دار نہیں ہوتی۔
ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ محاورہ شہر سے وابستہ نہیں ہے۔ گاؤں یا قصبے سے متعلق ہے جہاں ’’چھا‘‘ پینے کا رواج عام تھا۔ کچھ لوگ ’’چھا‘‘ بیچتے بھی تھے اور کہتے تھے کہ ہماری ’’چھا‘‘ میٹھی ہے۔ جھوٹ بولتے تھے۔ اسی سے یہ محاورہ وجود میں آیا اور اب اس کے معنی ہمارے معاشرتی رویوں سے جڑ گئے کہ ہم اپنوں کو بُرا کہنا نہیں چاہتے اور اپنی کوئی برائی تسلیم نہیں کرتے۔ ایسے موقع کے لیے کہا جاتا ہے کہ اپنی چھا کو کون کھٹی بتاتا ہے۔ اس اعتبار سے یہ معاشرے کا ایک عیب ہے کہ وہ سچ بولنے کے بجائے جھوٹ بول کر اپنا کام چلانا چاہتا ہے۔ اس میں شہر اور دیہات سب شریک ہیں۔
(۲۴) اپنی بات کا پچ کرنا۔
اپنی بات پر جمنا اور اُس کے حق میں طرح طرح کی دلیلیں دینا۔ وہ دلیلیں اس بات کو اور بگاڑ دیتی ہیں اور وہ صورت ہوتی ہے۔ ’’عذرِ گنا ہ بد تر از گناہ‘‘۔ اسی لیے بات میں سلیقہ ہونا چاہیے۔ جہاں یہ دیکھو کہ دلیل نہیں چلے گی، وہاں اپنی بات پر ’’اڑنے‘‘ کے بجائے معذرت کر لو اور غلطی کو مان لو۔ یہ زیادہ بہتر ہے۔
(۲۵) اپنے نصیبوں کو رونا۔
مشرقی اقوام قسمت کو بہت مانتے ہیں۔ اب ہم جاپان اور چین کو الگ کر دیں تو بہتر ہے۔ مگر محاورہ اپنی جگہ پر ہے اور اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ معاشرے میں زیادہ تر لوگ نکمّے پن کا اظہار کرتے ہیں۔ وقت پر تدبیر نہیں کرتے، کوشش نہیں کرتے، ناکام رہتے ہیں اور قسمت کی شکایت کرتے ہیں۔ ایسے ہی موقع کے لیے کہا جاتا ہے کہ اپنی قسمت کو بیٹھے رو رہے ہیں۔ تقدیر پر اعتماد کوئی بڑی بات نہیں مگر اپنی سی بہترین کوشش کرنے کے بعد آدمی ایسا سوچے تو غلط نہیں ہے۔ وہاں بھی تقدیر کی بُرائی شریک نہیں ہوتی۔ دوسروں کی بدمعاشی، بد دیانتی شریک ہوتی ہے۔ ہم چونکہ کچھ نہیں کر پاتے، معاشرہ اپنی جگہ پر رہتا ہے اور دوسرے ہمیں اپنی فریب کاریوں، جھُوٹ سچ اور غلط سلط طریقہ سے دھوکا دیتے رہتے ہیں۔ اس لیے ہم اپنی تقدیر کو برا کہنے بیٹھ جاتے ہیں اور جو زیادہ مذہبی ہوتے ہیں وہ یہ کہتے ہیں کہ اللہ کی مرضی۔ وہ یہ نہیں سوچتے کہ وہ ایک کے ساتھ انصاف اور دوسرے کے ساتھ نا انصافی کرے اور آپ کو مصیبت میں ڈالے۔ اتفاقی طور پر کچھ باتیں ضرور ہو جاتی ہیں اور وہ بہت بڑے نقصان اور فائدے کا سبب بنتی ہیں۔ مگر سبب بہرحال اُن کے ساتھ بھی ہوتا ہے۔ اس پر بھی نظر رکھنی چاہیئے۔
(۲۶) اپنے گریبان میں مُنہ ڈال کر دیکھنا۔
ہم جن معاشرتی کمزوریوں، برائیوں اور عیبوں کا شکار ہیں، اور نہ جانے کب سے رہے ہیں، اُن کے بارے میں ہم سوچتے ہیں، سمجھتے ہیں، اُن پر تنقید کرتے ہیں، طعن و تعریض کرتے ہیں ؛ وہ خود ہم میں ہوتے ہیں۔ لیکن نہ ہم کبھی اپنی طرف دیکھتے ہیں، نہ ان کا اعتراف کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ ہم اپنے خاندان،اپنے عزیز اور اپنے گروہ کے لیے بھی یہ نہیں سوچتے کہ عیب اُن میں بھی ہیں۔ صرف دوسروں پر اعتراض کرتے ہیں۔ یہیں سے تلخیاں پیدا ہوتی ہیں، دوسروں کے رویّے میں اختلاف کا جذبہ اُبھرتا ہے۔ اور وہ یہ کہتے ہیں کہ اپنے گریبان میں تو منہ ڈال کر دیکھو کہ تم خود کیا ہو، تمہارا اپنا کردار کیا ہے۔ تمہاری اپنی انسانی خو بیاں کیا ہیں اور کتنے عیب ہیں جو تمہارے اندر بھرے ہوئے ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو یہ صرف کوئی سیدھا سادہ محاورہ نہیں ہے بلکہ ہمارے سماجی ماحول اور آپسی رویّوں پر ایک تبصرہ ہے۔
(۲۷) اپنی اپنی پڑنا۔
آدمی خود غرض تو ہوتا ہی ہے، اس کی معاشرتی زندگی اور آپسی معاملات کے تلخ تجربے اس کی انسانی فطرت کو زیادہ گرد آلود کر دیتے ہیں۔ گاہ گاہ ہمارا ماحول اس طرح بدلتا ہے اور لوگ ایک دوسرے کو دیکھ کر اپنے لیے جواز تلاش کر لیتے ہیں اور بے طرح خود غرضیوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ دوسروں کے ساتھ انصاف کرنا یا اِن کے کام آنا،اُن کے مسائل سے دل چسپی لینا، اپنی مجبوری کے تحت ہو۔ آدمی صرف اپنی خواہشوں کو پورا کرتا ہے؛ اپنی ضرورتوں کی طرف دیکھتا ہے؛ اس وقت سماج میں ایک آپا دھاپی شروع ہو جاتی ہے اور یہ کہا جاتا ہے کہ اب کسی کو کسی کی پروا نہیں، سب کو اپنی اپنی پڑی ہے۔
(۲۸) اپنا کِیا دھرا سب بیکار ہونا۔
آدمی اپنے ہوش و حواس اور سُوجھ بُوجھ کے ساتھ اگر فیصلہ کرنے، قدم اُٹھانے اور آئندہ کے لیے کوئی پلان بنانے کی پوزیشن میں ہوتا ہے تو ایسا کرتا ہے، چاہے سب نہ کرتے ہوں یا سب نہ کر سکتے ہوں۔ کچھ لوگ جو کرتے ہیں، اگر اُن کے قریب ترین افراد اس میں معاون نہیں ہوتے تو اکثر وہ بیکار ہو جاتا ہے اور وہ نتیجہ سامنے نہیں آتا جس کے لیے کوششیں کی جاتی ہیں، چاہے اس کی کوشش میں کچھ لوگ شریک ہوں اور چاہے کسی کی اپنی ہی کوشش کا وہ نتیجہ ہو۔ ایسے ہی موقع پر کہا جاتا ہے کہ اس کا یا ہمارا یا میرا اپنا کِیا دھرا سب بیکار ہو گیا۔ اسی مفہوم میں ’’آٹا ماٹی ہونا‘‘ بھی کہتے ہیں۔
(۲۹) اٹھکھیلیاں کرنا۔
آٹھ کا لفظ ہمارے ہاں صرف ایک عدد نہیں ہے بلکہ نشان شمار ہونے کے ساتھ ساتھ اُس کے کچھ دوسرے مفہوم بھی ہیں۔ مثلاً، آٹھواساں، اٹھواسی، جو اشرفی کو بھی کہتے ہیں اور کسی ایسے بچہ کو بھی اٹھواساں کہا جاتا ہے جو مدتِ حمل پورا ہونے سے پہلے آٹھویں مہینے میں پیدا ہو جائے۔ ’’آٹھوں گانٹھ کمینت‘‘ ایسا گھوڑا ہے جو ہر طرح چاق و چوبند ہو، تندرست و توانا ہو۔ اسی طرح آٹھ پہر دن اور رات کے چار چار پہر ہوتے ہیں لیکن اٹھکھیلیاں ایک دل چسپ محاورہ ہے جس میں ہنسی مذاق کے ایسے تمام پہلو جمع ہو جاتے ہیں جن میں کوئی تکلیف دینے والی بات نہ ہو۔ یعنی ’’آٹھ کھیل‘‘ جو باتوں سے متعلق ہوں۔ اس کو ہم جنسی اور جذباتی طور پر نہیں لیتے ورنہ اس کا تعلق جنس و محبت کی بعض روشوں سے بھی ہے۔ اِس سے ملتا جلتا ایک محاورہ ’’بارہ سولہ سنگھار‘‘ یعنی بارہ لباس اور سولہ سنگھار۔ اَبرن بارہ طرح کے کپڑے ہیں جو پہنے جاتے ہیں اور سنگھار آرائش کے وہ طریقے ہیں جو امیر گھر والوں میں رائج رہے ہیں۔
( ۳۰) اُجلی یا اُجلی سمجھ۔ اُجلی طبیعت۔
اُس میں کچھ محاورے ایسے ہیں جو خاص دہلی سے تعلق رکھتے ہیں اور دہلی کی عورتوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ مثلاً، ’’اُجلی‘‘ کی بات وہ دھوبن کے لیے کہتے ہیں۔ اُس کے متعلق یہ لکھا گیا ہے کہ صبح کے وقت یا رات کو عورتیں دھوبن کہنا بُرا سمجھتی ہیں۔ اسی لیے دھوبن کو ’’اُجلی‘‘ کہہ کر یاد کرتی ہیں۔ یہ دہلی کے خاص الفاظ یا عورتوں کے استعارہ میں شامل ہے اور اس اعتبار سے دہلی کی تہذیبی زندگی کا ایک خاص محاورہ ہے۔
’’اُجلی سمجھ‘‘ اور ’’اُجلی طبیعت‘‘ دہلی کی عورتوں میں خاص طرح کی سُوجھ بُوجھ اور عقل و دانش کو کہتے ہیں۔ اُس کے معنی یہ ہیں کہ اندھیرے یا آ جالے کا تعلق صرف صبح و شام یا دن رات کی قدرتی کیفیات سے نہیں ہے بلکہ انسانی ذہن، فطرت، سوجھ بوجھ اور نا سمجھی سے بھی ہے۔ اور یہیں سے انسان کا فطرت اور تہذیب سے ذہنی رشتہ سمجھ میں آتا ہے۔ ایسا ہی ایک محاورہ ’’اُجلی گزران‘‘ بھی ہے جس کے معنی ہوتے ہیں خوش حال اور خوش باش زندگی۔
’’اُجلا منھ ہونا‘‘ بھی اسی کے ذیل میں آتا ہے اور اس کے معنی ہوتے ہیں عزت و آبرو سے زندگی گزارنا۔ اس کے مقابلے میں ’’منھ کالا کرنا‘‘ بے عزتی کے کام کرنا ہوتا ہے۔
(۳۱) اچھا نِکا۔
مغربی یو۔ پی۔ میں اچھی زندگی کے لیے بولا جاتا ہے۔ ’’نِکا‘‘ در اصل ’’نِکو‘‘ ہے جو فارسی میں نیک کے معنی میں آتا ہے اور مُراد وہی اچھائی یا بھلائی ہوتی ہے۔
محاورے میں الفاظ لغوی معنی میں نہیں آتے۔ اُن کے کچھ مُرادی معنی ہوتے ہیں جو اصل معنی سے اخذ کیے جاتے ہیں۔ استعارہ اور تشبیہہ کے عمل میں بھی یہی ہوتا ہے کہ وہاں ایک ایسے معنی مراد ہوتے ہیں جو تصویر سے تصور کی طرف لے جاتے ہیں اور ان کا تعلق انسان کے ذہن و فکر، فن اور طریقۂ رسائی سے ہوتا ہے جو تہذیب کی دین بھی ہیں اور اُس کی علامتیں بھی۔
(۳۲) اُچاپت اُٹھانا۔
یہ بھی دہلی کا خاص محاورہ ہے لیکن ہمارے تہذیبی اور معاشرتی نظام کے ایک خاص عملی حصہ کو ظاہر کرتا ہے۔ کسان، مزدُور، ملازمت پیشہ نوکر چاکر سبھی بنیے کی دکان سے سودا سلف لیتے ہیں اور ضروری نہیں کہ ہاتھ کے ہاتھ اُس کی قیمت بھی ادا کریں۔ یہ قیمت کبھی فصل آنے کی صورت میں ادا کی جاتی ہے، کبھی چھ ماہی کی صورت میں جو زیادہ تر فصل آنے پر ہی ہوتا ہے۔ یہ بھی ہوتا ہے اور ہوتا رہا ہے کہ جب تنخواہ ملتی ہے یا مزدور کو اس کی محنت کا معاوضہ دیا جاتا ہے تو پھر وہ اس رقم میں سے بنیے کو جاکر دیتا ہے جس سے اُچاپت اٹھائی گئی ہے۔ تعلق اُس کا اُدھار لینے سے ہی ہے لیکن ایک خاص سسِٹم کے ساتھ یہی بات آگے بڑھ کر دیوانی اور ساہوکاری میں بدلی ہے۔
(۳۳) آدھا تیتر آدھا بٹیر۔
جب کردار میں یا کسی شے کی ظاہری شکل و صورت میں توازن و تناسب نہیں ہوتا اور اُس کی غیر موزونیت پہلی نظر میں بھانپ لی جاتی ہے تو اُسے آدھا تیتر آدھا بٹیر کہتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں شوقین طبع لوگ تیتر پالتے تھے۔ بٹیروں کے پالنے کا بھی رواج تھا اور لکھنؤ میں بٹیروں کی لڑائی بھی کرائی جاتی تھی۔ اِس کا رواج دہلی میں بھی تھا۔ یہ رئیسوں کا شوق تھا اور رفتہ رفتہ درمیانی طبقے میں بھی سرائیت کر گیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بٹیر پالنا اور تیتر پالنا معاشرے میں کچھ خاص رجحانات کا ترجمان بن گیا۔ اُن میں موزونیت اور ہم آہنگی بطورِ خاص شامل ہے جس کی طرف یہ محاورہ بطورِ خاص اشارہ کرتا ہے۔
(۳۴) آدمیوں کا بَن یا جنگل۔
جنگل آدمی کے لیے ایک اہم تہذیبی حوالہ ہے۔ دیہات والے اپنی بہت سی ضرورتیں جنگل سے پوری کرتے ہیں۔ لکڑیاں لانا ہو، پھل کھانا ہو، مکان کی کوئی ضرورت ہو، کڑیاں ہوں، ’’برگے‘‘ ہوں، شہتیر ہوں یا چھپّر ہو، اُسارہ ہو، جس کے سہارے چھپّر کھڑا کیا جاتا ہے یا پھونس جس سے چھپر بنایا جاتا ہے۔ سب کا تعلق جنگل سے ہے۔ جنگل سے انسانی تہذیب کا گہرا رشتہ ہے۔ رفتہ رفتہ شہر آباد ہو گئے۔ گاؤں اور ضلعے بس گئے تو آدمی کا اور جنگل کا ساتھ چھُوٹ گیا۔ آدمی نے جنگل کاٹ بھی دیے اور اپنے شہری تصوّرات کے تحت غیر مہذب آبادی کو جنگلی کہنا شروع کر دیا۔ بن میں رہنے والے انسان ان کے نزدیک آدمی نہیں، بن مانس تھے۔ زیادہ شہریت آئی تو گاؤں والوں کو گنوار کہنا شروع کر دیا۔ یہاں تک کہ شہر میں اگر گھنی آبادی ہو گئی، بہت بڑھ گئی تو اسے آدمیوں کا جنگل کہہ کر پکارا اور اُس کے مقابلے میں جہاں آبادی نہ ہوئی یا بہت کم ہوئی اُسے جنگل بیابان کہنا شروع کر دیا۔
اُن محاوروں پر اگر نظر ڈالی جاتی ہے تو اندازہ ہوتا ہے کہ جنگل کا آدمی کی زندگی سے کیا رشتہ ہے۔ صحرا بھی ایک طرح کا بھُوڑ جنگل ہی ہوتا ہے۔ ۔
میر انیسؔ کا مصرعہ ہے:
صحرا کا آدمی ہے کہ جنگل کا جانور
جنگل کا استعارہ شاعری میں بھی آتا رہا ہے اور صحرا کو تصورِ عشق کے طور پر طرح طرح سے تشبیہ اور استعاروں میں شامل کیا گیا ہے۔ فراقؔ کا مصرعہ ہے:
صحرا صحرا دل بھٹکے گا آج تمہیں نے روکا ہوتا
(۳۵) آدمیت پکڑنا۔
انسان آدم زاد ہے اور اُردو ادب میں اُسے آدم زاد بار بار کہا بھی گیا ہے۔ جہاں آدمی سے قصور اور خطا وابستہ ہے، وہاں آدمیت، شرافت اور انسانیت کے تقاضے بھی اسی سے متعلق ہیں۔ انہیں تقاضوں کے پورا نہ ہونے پر انسان کو جنگلی اور جانور کہا جاتا ہے۔ جب کسی انسان میں شرافت، نیکی اور بھلے آدمی ہونے کی صفات نہیں دیکھی جاتیں تو یہ کہا جاتا ہے کہ آدمی بن، آدمیت سیکھ۔ اسی لیے صورت شکل میں بھی اُس کے آدم زاد ہونے کو سراہا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ وہ آدمی کا بچہ ہے، یعنی قبول صورت ہے۔
(۳۶) آدھی رات اِدھر، آدھی رات اُدھر۔
رات اوقات کی تقسیم میں دن کے مقابلے میں کچھ زیادہ پُر اسرار، پُر کشش، لایقِ توجہ اور ڈرانے والی ہوتی ہے۔ رات سے چونکہ اندھیرا متعلق ہوتا ہے، اس لیے بھی اس کا ذکر خوابوں کے ساتھ خوفناکیوں کے طور پر بھی کیا جاتا ہے، جیسے ڈراؤنی رات، اندھیری رات، اندھیرا گھُپ۔ اندھیروں کا سفر زندگی کا تکلیف دہ اور ڈراؤنا سفر ہوتا ہے۔ اس اندھیرے کا سفر جب ہاتھ کو ہاتھ بھی سُجھائی نہیں دیتا۔ رات تاروں بھری بھی ہوتی ہے، چاند رات بھی ہوتی ہے اور چاندنی رات بھی۔ اسی کے ساتھ ’’چار دن کی چاندنی ہے پھر اندھیری رات ہے‘‘، یہ بھی کہا جاتا ہے۔ غرض کہ رات سے ہمارے بہت سے تصورات وابستہ ہیں۔
’’آدھی رات اِدھر، آدھی رات اُدھر‘‘ نصف شب کو کہتے ہیں جب سونے کا وقت آ جاتا ہے۔ پچھلا پہر بھی رات ہی سے منسوب ہے۔ انسان دو برابر کے ٹکڑوں میں تقسیم کرنے کو بڑی بات خیال کرتا ہے۔ چاند کے حِساب سے راتیں دو حصوں میں تقسیم ہو جاتی ہیں تو وہ چودھویں رات کہلاتی ہے اور اس کے چاند کو چودھویں کا چاند کہتے ہیں۔ ہمارے ہاں داستانوں اور کہانیوں کا تصور بھی راتوں سے وابستہ ہے۔ ’’الف لیلیٰ‘‘ کا نام ہی ’’الف لیلیٰ و لیلیٰ‘‘ ہے یعنی ایک ہزار ایک راتیں۔ اردو کی مشہور معشوقہ لیلیٰ بھی رات ہی سے وابستہ ہے۔
(۳۷) آدھوں آدھ کرنا۔
آدھا ایک کا نصف ہے اور تہذیبی طور پر اپنے خاص معنی رکھتا ہے۔ مذکورہ محاورے میں بھی آدھے کا تصوّر واضح طور پر موجود ہے۔ اَدّھی، اَدَھنّا، اَدھ پکا، اَدھ رانا، اَدھ بانکا، اَدھ مرا، اَدھ موا، ادھ کچرا، ادھ بُنا، اُن سب میں ’’آدھ‘‘ شامل ہے اور ایک خاص ذہنی پیمانے کو پیش کرتا ہے۔
ہمارے معاشرے کی سوچ ہمارے ذہنوں پر اثر ڈالتی ہے اور ہمارا ذہن زبان پر اپنے گہرے اثرات چھوڑتا ہے۔ دیکھا جائے تو الفاظ کے محاوراتی معنی، استعاراتی معنی ہوتے ہیں۔ ایک کہاوت ہے ’’آدھی کو چھوڑ ساری کو دھاوے، آدھی رہے نہ ساری پاوے‘‘۔ یعنی آدمی جب زیادہ لالچ کرتا ہے تو نہ آدھی ملتی ہے، نہ ساری؛ محرومی ہی اِس کے حصے میں آتی ہے۔ یہ بھی سماج کے رو یہ پر تبصرہ ہے کہ صبر وضبط سے کام لو، زیادہ لالچ اور خود غرضی اختیار نہ کرو۔
(۳۸) اُردوئے معلّیٰ۔
اُردو کا لفظ ہم زبان کے لیے استعمال کرتے ہیں اور جب اُردوئے معلّیٰ کہتے ہیں تو ہماری مُراد اعلیٰ درجہ کی ادبی زبان ہوتی ہے یا پھر درباری زبان اور دہلی کی خاص زبان جس میں شرفاء کی زبان بطورِ خاص پیشِ نظر ہوتی ہے۔ مگر واقعہ یہ ہے لال قلعہ کے سامنے اور چاندنی چوک کے قریب جو میدان ہے، یہاں قلعہ کی حفاظت کرنے والی خاص فوج رہتی تھی جس کا افسر راجپوت ہوتا تھا۔ اُسے اُردوئے معلّیٰ کہتے تھے۔ اسی نسبت سے جینیوں کے لال مندر کو بھی پُرانے زمانے میں اُردو مندر کہا جاتا تھا۔ اب اِس کا مفہوم بدل گیا ہے اور اُردو کو عرفِ عام میں لشکری زبان یا پھر عام زبان کہا جانے لگا ہے۔ جب کسی زبان کو بہت اچھا اور اعلیٰ زبان کہنا مقصود ہوتا ہے تو اُسے اُردوئے معلّیٰ کہتے ہیں اور یہ بولتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ وہ تو مغل اُردو بولتے ہیں۔
(۳۹) اَردلی ّمیں رہنا۔ اَردلی کرنا۔ اَردلی میں چلنا۔
’’اردلی‘‘ کا لفظ بتلا رہا ہے کہ یہٍ انگریزوں کے آنے کے بعد اُن کے دفتری طور طریقوں کا مشاہدہ کرنے کے بعد رائج ہوا ہے۔ وہ اپنے پیش خدمت کو ’’آرڈرلی‘‘ (Orderly) کہتے تھے، یعنی آرڈر کو لانے لے جانے والا۔ اِس طرح یہ لفظ انگریزوں کے دفتری نظام سے متعلق ہو گیا اور انگریزی سے بنائے جانے والے الفاظ میں اِس کا استعمال عام ہونے لگا۔ لفظوں کے ساتھ محاورہ بنتا ہے تو ایک تاریخ اُس کے پیچھے موجود ہوتی ہے۔ زبان اور الفاظ معاشرے میں لفظ محاورے کیا کردار ادا کرتے ہیں، اِس کا اندازہ محاورات پر سنجیدگی سے غور و فکر کے ساتھ ہوتا ہے۔ لفظوں کا پھیر بدل اور معنوی سطح پر تبدیلی زمانہ، زندگی اور ذہن کے تغیرات کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ ’’اردلی‘‘ کا لفظ اس کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ ایسا ہی ایک لفظ ’’افسر‘‘ بھی ہے جس کے معنی فارسی میں ’’تاج‘‘ کے ہیں لیکن اُردو میں افسر کے معنی ہیں ’’آفیسر‘‘ (Officer)اور آفیسر ہی سے لفظ افسر بنا بھی ہے۔
(۴۰) ارَنڈ کی جڑ۔
’’ارنڈ‘‘ ایک خاص طرح کا درخت ہوتا ہے جس میں شاخیں نہیں ہوتیں اور جس درخت میں شاخیں ہوتی ہیں اُس کا تنا بہت مضبوط ہوتا ہے۔ اس کے یہ معنی ہیں کہ اس درخت کا تنا بھی مضبوط نہیں ہوتا اور جڑ اور بھی کمزور ہوتی ہے۔ ’’جڑ‘‘ کا لفظ ہمارے ہاں بہت با معنی لفظ ہے۔ اس کے معنی بنیاد کے ہیں۔ بنیاد جتنی مضبوط ہو گی، اتنی ہی عمارت مضبوط ہو گی۔ ہمارے ہاں بنیاد کے ساتھ بہت لفظ آتے ہیں۔ اور محاورے کے طور پر آتے ہیں۔ جیسے، بے بنیاد بات ہے، اس کی بنیاد ہی غلط تھی۔ ’’ بنیاد‘‘ کے ساتھ’’ جڑ‘‘ کا لفظ بھی آتا ہے اور ’’جڑ بنیاد‘‘ کہتے ہیں۔ اُن دونوں لفظوں کا ایک دوسرے کے ساتھ آنا- جڑ کا پہلے اور بنیاد کا بعد میں – ایسی لفظی ترکیب ہے جو روزمرّہ کے دائرے میں آتی ہے۔ ہم جڑ بنیاد ہی کہہ سکتے ہیں، بنیاد جڑ نہیں۔ جیسے، تین پانچ ہی کہتے ہیں، پانچ تین نہیں کہتے اور اس سے تیا پانچہ کر دیا۔ جڑ کے ساتھ جڑ جمنا، جڑ جمانا، جڑ اکھڑنا، جڑوں کا کھوکھلا ہونا، جڑوں سے وابستہ رہنا- -غرض بہت سے محاورے ہیں جن کا تعلق درخت یا شجر سے اتنا نہیں ہے جتنا ہماری سماجی زندگی سے ہے۔ ’’اَرنڈ کی جڑ‘‘ کمزور ہوتی ہے؛ بالکل کھوکھلی۔ اسی لیے ارنڈ کی جڑ کے معنی ہیں ناپائدار ہونا۔ اپنی جڑ کی ناپائداری اس کے لیے کم قدری کا باعث ہوتی ہے۔ اسی لیے ’’اَرنڈ باغاتی‘‘ دہلی میں محاورہ ہے جو میرؔ اور سوداؔ کے زمانے تک بولا جاتا تھا اور مطلب ہوتا تھا ’’بے تکی چیز‘‘۔ اس کو ’’ باغاتی‘‘ بھی کہا جاتا رہا ہے۔
(۴۱) اَرواح بھٹکنا۔
دہلی والے رُوح کو اَرواح کہتے ہیں، یعنی رُوح کی جمع بولتے ہیں اور اس سے صرف رُوح مراد لیتے ہیں۔ روح بھٹکنے کے معنی یہ بھی ہیں کہ انسان چلا جاتا ہے اور اس کی روح دنیا میں باقی رہ جاتی ہے اور اِدھر اُدھر اس کو یا اپنی کسی پسندیدہ چیز کو ڈھونڈتی رہتی ہے۔ قدیم زمانے سے یہ تصور موجود ہے۔ کہ رُوح اپنے بدن یا مادّی وجود کی طرف واپس آتی ہے۔ قدیم زمانے کی قبروں میں اس طرح کے نشانات رکھے جاتے تھے جن سے یہ پتہ چل سکے کہ یہ فلاں شخص کی قبر ہے۔ اب تو یہ بات دنیاوی طور پر شناخت کے لیے ہوتی ہے اور کتبے لگائے جاتے ہیں۔ قدیم زمانے میں یہ رُوح کی شناخت کے لیے ہوتا تھا کہ وہ پہچان جائے۔ اب یہ گویا محاورہ بن گیا ہے کہ رُوح بھٹکتی پھرے گی۔ خاص طور پر محبت کرنے والے کی روح کے لیے ایسا سوچا جاتا ہے۔ میرؔ نے اپنی مثنوی ’’دریائے عشق‘‘ اور ’’شعلۂ عشق‘‘ میں اسی کا ذکر کیا ہے۔ بعد کے شعراء کے ہاں بھی اس کا بیان ملتا ہے اور اِس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ زندگی ہی میں نہیں، مرنے کے بعد بھی میرا شوق، میرا تعلقِ خاطر قائم رہے گا اور میری رُوح تیرے یا اپنے محبوب کی فراق میں بھٹکتی رہے گی۔
(۴۲) اَرے ترے کرنا (ابے تبے کرنا)۔
اَرے ترے کرنا یا ابے تبے کرنا کے معنی ہیں بد تہذیبی سے پیش آنا۔ یا بہت بے تکلًفی سے بات کرنا۔ تہذیب و شائستگی کے آداب میں گفتگو کا طریقہ سلیقہ بہت کام کرتا ہے اور ہمیشہ اس کا ایک اہم رول ہوتا ہے کہ کس سے گفتگو کی جائے تو کس طرح کی جائے۔ لب و لہجے کا اُتار چڑھاؤ کیا ہو، موقع اور محل کے لحاظ سے الفاظ و فقرے کس اسلوب اور کس انداز میں پیش کیے جائیں۔ بات صرف لفظوں کے معنی کی نہیں ہوتی، کہنے کے انداز کی بھی ہوتی ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ کہنے والا کون ہے اور سننے والا اس کے مقابلہ میں کیا درجہ رکھتا ہے؛ برابر کا ہے، چھوٹا ہے، بڑا ہے۔ اس وقت موقع و محل کے اعتبار سے اس کے ساتھ سوال و جواب کا یا تبصرے اور تجزیے کا کیا انداز اختیار کیا جائے۔ یہ سب باتیں بڑی اہمیت رکھتی ہیں اور گفتگو کے وقت اپنا خاص کردار ادا کرتی ہیں۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو یہ سمجھا جائے کہ بات کرنے والا نہ زبان جانتا ہے، نہ آداب اور شائستگی سے واقف ہے۔ بے تکلفی اپنی جگہ پر، لیکن لفظوں کے استعمال میں احتیاط بہت ضروری ہے۔ ہم دوسروں سے برداشت کی توقع رکھتے ہیں۔ یہ توقع اسی وقت صحیح ہو سکتی ہے جب کہ گفتگو کرنے والا لب و لہجے اور الفاظ کے استعمال میں احتیاط برتے۔ ہمارے محاورات میں ایسے بہت سے محاورے ہیں جو گفتگو کے آداب پر روشنی ڈالتے ہیں۔ بیہودہ گفتگو کو اُول فول بکنا کہتے ہیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ گڑ نہ دے، گڑ جیسی بات کہہ دے، یعنی میٹھا انداز اختیار کر لے۔ اسی لیے زبانِ شیریں کی بات کی جاتی ہے اور یہ کہا جاتا ہے کہ تیرے منھ میں گھی شکّر۔
(۴۳) اُڑا لینا، یا اُڑا دینا، اُڑنا۔
اُڑنا پرندوں کا عمل ہے۔ اِدھر سے اُدھر آنا جانا، ایک شاخ سے اُچھل کر دوسری شاخ پر بیٹھ جانا، دانا چُگنے کے لیے یہاں سے وہاں اور وہاں سے یہاں آنا، پروں ہی کی مدد سے ہی تو ہوتا ہے۔ یہ عملِ محال کرشمہ اور کرامت کے طور پر پیروں کے ساتھ بھی استعمال کیا جاتا ہے کہ وہ ہوا میں اُڑتے ہیں اور خوشبو کی طرح اِدھر سے اُدھر اور اُدھر سے اِدھر پھیلتے رہتے ہیں، آتے جاتے ہیں۔ آج کل تو تقریریں، تحریریں اور تصویریں بھی ہوا پر اُڑتی ہیں اور ٹیلی ویژن میں ہم دنیا بھر کے شہروں، بیابانوں، جانوروں، انسانوں، سمندروں اور ہواؤں کی تصویریں دیکھ سکتے ہیں۔ اُڑنے کے معنی میں یہ سب آتا ہے۔ اُڑان بھرنا بھی ایک محاورہ ہے اور اُڑانے کے معنی میں خلیل خاں کا فاختہ اُڑانا اور مریدوں کا پیروں کو اُڑانا بھی شامل ہے، کہ پِیر نہیں اُڑتے،مرید اُڑاتے ہیں۔ خبر اُڑانے کو بھی ہمارے ہاں بطورِ محاورہ استعمال کیا جاتا ہے۔
اُڑتی سی اک خبر ہے زبانی طیور کی
بات اڑا دینا بھی یا’ باتوں باتوں میں اڑا دینا‘،’ چٹکیوں میں اُڑا دینا‘ بھی ہمارے محاورات کا حصّہ ہے۔ ’بے پر کی اُڑانا‘،’ گُل چھرّے اُڑانا‘،’ طوطا مینا اُڑانا‘۔ اس سے اُڑنے اور اُڑانے کے عمل سے ہماری زبان اور ہمارے ذہن کی وابستگیوں کا پتہ چلتا ہے۔ ’ اُڑا دینا‘، خاک دھُول کی طرح اُڑا دینا ہے۔ اور کسی چیز کا اُڑا لینا بھی جیسے، ’اس نے یہ بات اڑا لی‘،’اس نے ساری کتاب ہی اڑا لی‘۔ اس معنی میں ’ اُڑنا‘ یا ’اُڑا دینا‘ یا’ اُڑا لینا‘ بہت سے محاورات کی بنیاد ہے۔ جن محاوروں کو ہم کسی ایک تصور، ایک تصویر، ایک خیال یا ایک عمل سے نسبت دے کر مختلف صورتوں یا سمتوں میں پھیلا سکتے ہیں، اُن میں ’اُڑنا‘ اور ’ اُڑا دینا‘ بھی ہے۔ ’ اُڑتی چڑیا کو پہچاننا‘، یا’ اُڑتی چڑیا کے پر گننا ‘بھی اور ’ اُڑن چھُو ہونا‘ (غائب ہو جانا، بھاگ جانا) یا ’اُڑن کھٹولا ہونا‘ بھی اسی ذیل میں آتا ہے۔ ۔ ’اُڑن کھٹولا‘ ہوئی جہاز کو بھی کہتے ہیں۔ دہلی میں ’اُڑان جھَلّا‘ یعنی اڑتے ہوئے کبوتروں کی ٹولی بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے جو کبوتر بازوں کا محاورہ ہے۔ ’ قسم ہے اُڑان جھلے کی‘۔ ’اڑن سانپ‘ یعنی ایسا سانپ جو اڑ سکتا ہو۔ ’اڑتی بیماری ‘ بھی ایک محاورہ ہے، ایسی بیماری کو کہتے ہیں جو ایک سے دوسرے کو لگ جاتی ہے۔ کھجلی بھی انہیں میں ہے، دق بھی اور کھانسی بخار کی بعض صورتیں اس میں شامل ہیں۔ معاشرتی طور پر ایسی برائی جو ایک سے دوسرے کو لگ جاتی ہے اور سب ہی کم و بیش اس میں مبتلا ہو جاتے ہیں، اس کو اڑتی بیماری کہتے ہیں۔
(۴۴) اَڑنا،رکاوٹ بننا۔
اپنی جگہ پر اس طرح ٹھہر جانا کہ پھر ٹس سے مس نہ ہو۔ اقبال کا شعر ہے۔
آئینِ نو سے ڈرنا، طرزِ کُہن پہ اُڑنا
منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں
’’طرز کہن پہ اڑنا‘‘ وہی پرانی روایت پر قائم رہنا ہے، بلکہ اس پر اصرار کرنا ہے۔ معاشرے میں یہ روش ایک خاص کردار کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ معقول سطح پر ایک بات کا جائزہ نہ لیا جائے اور یہ تجزیہ نہ کیا جائے کہ اس میں کیا اچھا اور کیا برا ہے۔ کسی تبدیلی یا ترمیم کی ضرورت اس میں ہے بھی یا نہیں۔ اگر دیکھا جائے تو یہی فکر و نظر اور احساس و ادراک کی نا رسائیوں کا باعث بننے والی ایک معاشرتی کمزوری ہے۔ جس کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے۔
(۴۵) اَڑنگ بَڑنگ۔
اصل میں جو چیزیں، جو خیالات سماج کو بے تکے پن کی طرف لاتی ہیں، وہی اڑنگ بڑنگ کہلاتی ہیں، یعنی بے تکی، بے ڈھنگی، بے ہنگم۔ یہ عوامی الفاظ ہیں۔ اُن کا استعمال اب زبان میں کم ہو گیا ہے۔ لیکن عمومی سطح پر اب بھی ہم انہیں محاورات میں استعمال ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ ’اڑنگا لگانا‘ ایسا ہی ایک محاورہ ہے جس سے دوسرے کے کام میں آگے بڑھنے میں رکاوٹ بننے کا رو یہ سامنے آتا ہے، جو ایک طرح کا بُرا اور بُرے نتیجے پیدا کرنے والا سماجی رو یہ ہوتا ہے۔ اسی لیے کہتے ہیں کہ اس نے خواہ مخواہ’ اڑنگا لگا دیا‘ رکاوٹ پیدا کر دی، الجھنیں کھڑی کر دیں۔ اس سے ہم اپنے سماجیاتی مطالعہ کے بعض پہلوؤں کو پیشِ نظر رکھ سکتے ہیں جو کام، جو شے یا جو تعمیر بے ڈھنگی ہوتی ہے، اُس کے بے ہنگم پن پر تبصرہ بھی اَڑنگ بڑنگ کہہ کر کیا جاتا ہے۔
(۴۶) اُڑی اُڑی طاق پر بیٹھی۔
ویسے تو ایک چڑیا کا اُڑنا اور اِدھر سے اُدھر بیٹھنا اِس میں شامل ہے، لیکن محاورے کے سماجی استعمال اور معاشرتی رویوں کے اعتبار سے اگر دیکھا جائے تو یہ سمجھ میں آتا ہے کہ ہمارے معاشرے کے کون کون سے عملی اور ذہنی رویّے اس میں شامل ہیں۔ اُڑنا انسان کو ہمیشہ ہی اچھا لگا اور خود وہ طرح طرح سے اُڑنے کی کوشش کرتا رہا۔ اسی لیے اُڑنے کے عمل پر بہت سے محاورے موجود ہیں۔ محاوروں کا رشتہ ہمارے جذبات سے، خواہشات سے اور تمنّاؤں سے طرح طرح سے جُڑا ہوا ہے۔ اِس میں ہمارے خواب بھی آ جاتے ہیں، خیال بھی اور تمنائیں بھی۔ کوئی محاورہ کسی خواہش کو ظاہر کرتا ہے۔ ایک طرف اس میں اُس کی ناکامیاں آتی ہیں، دوسری طرف کامیابیاں اور تیسری طرف تمنائیں اور ضرورتیں، مجبوریاں۔ ایک محاورہ ہے ’اَڑی بھِیڑی میں کام آنا‘، یعنی جب کوئی صورت نہ ہو اور ہر طرف رکاوٹیں ہی رکاوٹیں ہوں، اس وقت کوئی کام آ جائے تو کتنی بڑی بات ہوتی ہے۔ اسی لیے ایک کہاوت ہے، ’بیوی بھلی پاس کی، یار دوست بھلا ٹوٹے کا‘۔ جب کوئی کام نہ آتا ہو تو آدمی کتنا مجبور ہوتا ہے۔ اسی لیے اَڑی بھیڑ میں کام آنا یا اَڑے وقت میں کام آنا ہماری سماجیات کا اہم پہلو ہے کہ جب آدمی خود کچھ نہ کر سکے تو کوئی دوسرا کام آئے۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ جو مصیبت میں کام آ جائے وہی اپنا ہوتا ہے۔ اس سے آدمی کی مجبوریوں کو بھی سمجھا جا تا ہے۔ اسی سلسلے کا ایک محاورہ ’اڑے کام سنوارنا ‘ بھی ہے۔
(۴۷) آڑے ہاتھوں لینا۔
عجیب بات ہے کہ محاورات ہماری تہذیب کے مختلف رُوپ پیش کرتے ہیں اور اُن سے ہمارے ذہن و زندگی کی ترجمانی ہوتی ہے۔ ’آڑے ہاتھوں لینا‘ فضیحتا کرنے کو کہتے ہیں، جس کے معنی یہ ہیں کہ سیدھے ہاتھ کے معنی ہوتے ہیں محبت کا اظہار کہ پیار سیدھے ہاتھوں ہی کیا جاتا ہے۔ اسی لیے ’آڑے ہاتھوں لینا‘ گفتگو کا عمل بھی ہے اور تعلقات کے اچھے بُرے ہونے کی ایک نشانی بھی ہے۔ ترچھی نظروں سے دیکھنا بھی اسی عمل کا ایک حصہ ہے۔ انسانی عمل کی ادائیگی میں الفاظ بھی حصہ لیتے ہیں۔ اعضاء کا ایکشن اور ری ایکشن(reaction) بھی اشارے ا ور کنایے بھی، خیال، عمل، خوشی اور نا خوشی بھی۔ محاورے انہیں سب حقیقتوں کو اپنے اندر سمیٹتے ہیں۔ اب یہ الگ بات ہے کہ محاورہ بھی تشبیہ ہوتا ہے، استعارہ بھی، تصوّر بھی اور تصویر بھی۔
’آڑے آنا‘ بھی اسی سلسلے کا محاورہ ہے۔ اِس کے معنی بھی رکاوٹ بننے ہی کے ہیں۔ لیکن کسی مصیبت سے بچانے کے لیے آفت میں کام آنے کی غرض سے آڑے آنا کام آتا ہے اور ایک طرح کا سماجی عمل ہے جس میں دوسروں کا تعاون اور ان کی بر وقت مدد شامل رہتی ہے کہ یہ تو وہ تھا کہ آڑے آ گیا، ورنہ کون جانے کتنا نقصان پہنچتا اور کتنی پریشانیاں برداشت کرنی ہوتیں۔ ’اڑم ڈھم ہونا‘ بھی اسی ضمن میں آتا ہے۔ مگر اس کے معنی بھیڑ بھڑکّا کے ہیں۔ جب راستہ نہ ملے اور نہ بیٹھنے کی جگہ ہو، نہ جانے کے کوئی راہ، ایسے وقت میں اَڑم ڈَھم کہتے ہیں۔ محاورہ عوامی طرزِ اظہار بھی ہوتا ہے اور بعض محاوروں میں صوتی اعتبار سے ایک کرختگی بھی ہوتی ہے جو عوامی اظہار میں شامل رہنے والی ایک صورتِ اظہار ہے۔ خواص سخت الفاظ اور کرخت آوازوں کا استعمال کم کرتے ہیں۔ ممکن ہے ہماری زبان میں یہ رجحان پوربی بھاشاؤں سے آیا ہو۔ اُردو کے ابتدائی مراحل میں ان بھاشاؤں کا اثر ہماری زبان پر زیادہ تھا اور بعد میں فارسی اثرات کی بدولت یہ رجحان شہری سطح پر کچھ اور آگے بڑھتا نظر آتا ہے۔ مگر عوامی محاورے نے ان آوازوں کو جو نسبتاً ثقیل آوازیں تھیں، ہماری زبان میں باقی رکھا ہے۔
(۴۸) آزاد کا سونٹا (فقیر)۔
فقیر پابند نہیں ہوتے؛ نہ گھر بار کے، نہ عزیز داری، نہ رشتہ داری کے۔ کاروبار وہ کرتے ہی نہیں۔ جب جو مل گیا وہ کھا لیا، نہ ملا تو صبر کیا۔ ایسی زندگی سماجی اعتبار سے مشکل ہی سے نبھتی ہے۔ لیکن اس طرح کے لوگوں کا ایک طبقہ رہا ضرور ہے۔ اقبالؔ کا یہ مشہور شعر انہیں آزاد طبع لوگوں کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
درویشِ خدا مست نہ شرقی ہے نہ غربی
گھر میرا نہ دِلّی، نہ صفاہاں، نہ سمرقند
فقیر کا سونٹا ہی اس کا سب کچھ ہوتا ہے۔ وہ بڑی آزادی سے اس کا استعمال کرتا ہے۔ بھنگ گھونٹتا ہے، کڑا بجاتا ہے، بلّی کتّے کو بھگاتا ہے، اپنے دشمن کا سر پھوڑتا ہے۔ اس معنی میں ہمارے معاشرے میں ایسے شخص کی زبان کو جو اپنے لب و لہجے پر قابو نہیں رکھتا، ’آزاد کا سونٹا‘ یا ’ فقیر کا سونٹا‘ کہتے ہیں۔
(۴۹) اِزار بند ی کا رشتہ یا اِزار بند کا رشتہ۔ کمر بندی رشتہ۔
اسے عام زبان میں کمر بندی رشتہ بھی کہتے ہیں۔ یہ شادی، بیاہ کا رشتہ ہوتا ہے جس میں جنسی رشتے کو دخل ہوتا ہے۔ اِزار پائجامہ کو کہتے ہیں۔ اسی لیے ایسے رشتے جو جنس و جذبے سے تعلق رکھتے ہیں، اُن کو اِزار سے نسبت دی جاتی ہے اور سماجی طور پر انسان کی جذباتی کمزوریوں کا ذکر بھی اسی نسبت سے کیا جاتا ہے۔ ’اِزار کا کچّا‘، ’اِزار کا ڈھِیلا‘ یا ’اِزار کی ڈھیلی‘، اسی نسبت سے مرد اور عورت کے لیے کہتے ہیں۔ اب یہ محاورے عام نہیں ہیں۔ ان کا استعمال بہت کم ہو تا چلا گیا ہے۔ لیکن آج بھی اُن سے پتہ چلتا ہے کہ محاوروں نے تشبیہ و استعارے یا اشارے و کنایے میں ہمارے سماجی رویّوں یا معاشرتی سطح پر عمل اور ردِ عمل کو محفوظ کر دیا ہے۔ ’ازار میں پہن لیا‘ یا ’ازار میں ڈال کر پہن لینا‘ اسی سلسلے کے کچھ محاورے ہیں اور سماجی طور پر اپنے خالص معنی رکھتے ہیں۔ جب کسی بات کی یا کسی شخص کی دوسروں کی نگاہ میں قدر و قیمت نہ رہے، اس وقت یہ کہا جاتا ہے کہ وہ تو پائجامے میں پہن لینا چاہتے ہیں۔ اِزار میں ڈال لینے کے معنی بھی یہی ہیں۔ اِس طرح سے سماج میں جو ایک ذہنی درجہ بندی رہتی ہے، یہ اسی کی طرف ایک اشارہ ہے۔
(۵۰) از غیبی گولا یا از غیبی دھکّا۔
مشرقی اقوام غیب کی زیادہ قائل رہیں اور ظاہر کے مقابلے میں باطن کو انہوں نے ہمیشہ زیادہ بامعنی اور پُر قوّت تصور کیا۔ اس سے جہان صوفیانہ اور رُوحانی تحریکیں نیز مذہبی فلسفہ ان میں زیادہ رائج رہا۔ وہاں توہّم پرستی اُن میں افکار، خیالات اور عقائد کے اعتبار سے زیادہ رائج رہی کہ کیا خبر کس وقت کیا ہو جائے، کہاں سے کونسی آفت نازل ہو اور کس مصیبت کا سامنا کس وقت کرنا پڑے۔ ’از غیبی گولا‘ یا ’از غیبی دھکا‘ اسی صورتِ حال کو کہتے ہیں جب آدمی اچانک کسی آفت میں مبتلا ہو جائے، کسی مشکل میں پھنس جائے۔ زبان کے اعتبار سے بھی اگر دیکھا جائے تو یہ محاورہ عجیب و غریب ہے کہ اس میں ’از‘ کا لفظ شروع میں آیا ہے، جو سر تا سر فارسی لفظ ہے۔ لیکن اُردو والے اِسے بے تکلف استعمال کرتے تھے۔ خطوں میں ’از دہلی‘، ’از لاہور‘ یا’ از حیدرآباد‘ بے تکلف طور پر لکھا جاتا تھا۔ ’از حد‘ کہہ کر حد سے زیادہ کی طرف اشارہ کیا جاتا تھا۔ ’از حد بد تمیز ہے ‘ یا ’از حد خوف ناک ہے‘ اب بھی کچھ لوگ بولتے ہیں۔ محاورے کی اس صورت نے ’از‘ کے استعمال کو عام زبان کا ایک حصّہ بنا دیا ہے اور حیرت ہے کہ ’دھکّا‘ یا ’گولا‘ جیسا لفظ ’از غیبی‘ کے ساتھ ملا دیا۔ ہماری زبان کی مزاج شناسی کے لیے یہ محاورہ ایک کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔
(۵۱) آس۔
آس اُمّید کو کہتے ہیں اور اُمید کے لیے کہا جاتا ہے کہ اس پر دنیا قائم ہے، یعنی اُمید نہ ہو تو پھر کچھ بھی نہیں ہو سکتا۔ اگر چہ امید کے ساتھ بھی قیامت کا اُتار چڑھاؤ رہتا ہے۔ اُردو کا ایک شعر ہے۔
اُمّیدیں باندھتا ہوں، سوچتا ہوں، توڑ دیتا ہوں
کہیں ایسا نہ ہو جائے، کہیں ویسا نہ ہو جائے
امیدیں ہمارے خواب ہیں، خیال ہیں، توقعات ہیں جو زندگی میں وقتاً فوقتاً، موقع بموقع ایک نہایت اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ عورت کے ہاں حمل کی حالت کو اُمید سے ہونا کہتے ہیں۔ اُردو کا ایک شعر ہے۔
کہتے ہیں، جیتے ہیں اُمّید پہ لوگ
ہم کو جینے کی بھی اُمّید نہیں
’’اُمید آس ‘‘ہے، جو آشا کی عوامی شکل ہے اور بعض محاورات کا ضروری جزو ہے۔ ’آس رکھنا‘ تو خیر اُمّید رکھنے کے بارے میں ہے۔ ’آس اولاد‘ اس سے آگے کی بات ہے۔ ہم اولاد سے بھی آس رکھتے ہیں۔ اور اولاد ہم سے آس رکھتی ہے۔ یہ سلسلہ باہمی طور پر ذہنی رشتوں کو قائم رکھتا ہے۔ دعاؤں میں آس پوری کرنا بھی کہتے ہیں،پوری ہونا بھی۔ اولاد کی آس تو بہت بڑی آس ہوتی ہے اور جس کے اولاد نہ ہو اس کی تو گویا جڑ بنیاد ہی اکھڑ جاتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس کے تو آس اولاد کچھ بھی نہیں ہے۔ بے اولادا ہونا ایک طرح کی نحوست ہے اور عورت تو اولاد نہ ہونے کی صورت میں بہت ہی نا مرادانہ زندگی گزارتی ہے۔ ’آس لگانا‘ اور ’ آس رکھنا‘ بھی اسی میں شامل ہے اور ’آس ٹوٹنا‘ یا ’آس بندھنا‘ بھی۔ ’آسرا‘ بھی اسی ذیل میں آتا ہے۔ ’آسرا ڈھونڈنا‘، ’آسرا جوہنا‘، ’آسرا لگانا‘، ’’آسرا باندھنا‘ بھی اور ’’آسرا رکھنا‘ بھی۔ فراق کا شعر ہے۔
آسرا وہ بھی شامِ فُرقت کا
خواب تو دیکھیے محبت کا
(۵۲) آسامی بنانا۔
’آسامی‘ جگہ کو بھی کہتے ہیں۔ اسی لیے یہ کہا جاتا ہے کہ وہاں ایک پٹواری، ایک ٹیچر یا ایک کلرک کی آسامی خالی ہے۔ ’آسامی بنانا‘ ایک محاورہ بھی ہے اور انسان کے فریب، مکر اور دغا کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ آدمی جھوٹ سچ بول کر، پُر فریب باتیں کر کے کسی سے ناجائز فائدہ اٹھا لیتا ہے۔ اسی کا آسامی بنانا کہتے ہیں کہ اُس نے وہاں آسامی بنا رکھی ہے، یا وہ تگڑم باز ہے، آسامی بنا لے گا۔ آسامی بمعنی جگہ اب بہت کم استعمال ہوتا ہے اور درخواستوں میں بھی نہیں آتا۔ اس سے ہم نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ بعض الفاظ سماج میں ایک خاص طبقے یا حلقے میں اپنی جگہ بناتے ہیں اور جڑیں پھیلاتے ہیں اور وقت کے ساتھ وہ سمٹ بھی جاتے ہیں اور ان کا استعمال کم یا ختم ہو جاتا ہے۔
(۵۳) آستین کا سانپ ہونا۔
یہ بھی سماج میں موجود افراد کی برائیوں کی طرف ایک اشارہ ہے۔ سانپ خود بھی بطورِ محاورہ اور علامت استعمال کیا جاتا ہے اور یہ کہا جاتا ہے کہ وہ آدمی نہیں بلکہ سانپ ہے۔ اس معنی میں سانپ گویا بدترین دشمن ہوتا ہے اور آستین کا سانپ وہ ہوتا ہے جو بظاہر ہمارے ساتھ ہو، ہمارا ہم درد ہو اور مخلص نظر آتا ہو لیکن در پردہ ہمارا دشمن ہو۔ سماج میں اس طرح کے کردار بہر حال موجود ہوتے ہیں۔
(۵۴) آستینوں میں بُت چھُپائے رکھنا۔
یہ محاورہ ایسے موقعوں پر بولا جاتا ہے جب انسان عقیدہ و خیال کو چھُپائے رکھنا چاہتا ہے۔ حقیقت کچھ اور ہوتی ہے اور ظاہر کچھ اور کہا جاتا ہے۔ یہ روایت ہے کہ عرب کے کچھ لوگ جو دراصل بُت پرست تھے، جب نماز پڑھنے مسجد میں آتے تو اپنی آستینوں میں بت چھپائے رکھتے اور اس طرح ایک منافقانہ کردار ادا کرتے۔ اسی بات کو ذہن میں رکھتے ہوئے اقبالؔ نے یہ شعر کہا ہے۔
اگر چہ بُت ہیں جماعت کی آستینوں میں
مجھے ہے حکمِ اذاں، لا الٰہ الا اللّہ
(۵۵) اِس کان سننا، اُس کان اڑا دینا۔
معاشرے کا لا پروائی والا رویّہ اُس کے پس منظر میں موجود ہے کہ وہ کسی کی اچھی سچی بات اور فریاد بھی سننا نہیں چاہتا۔ ویسے داستانیں، قصّے، کہانیاں گھڑی بھی جاتی ہیں، سنی بھی جاتی ہیں اور سنائی بھی جاتی ہیں۔ لیکن معاملے کی باتیں نہ کوئی سننا چاہتا ہے، نہ سمجھنا چاہتا ہے۔ اسی لیے یہ رویّہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ اور روزمرہ کے تجربے کا حصہ ہے کہ آدمی دوسرے کی بات کو سُنی ان سنی کر دیتا ہے۔ اسی کی طرف اس محاورے میں اشارہ کیا جاتا ہے کہ وہ اس کان سے سنتے ہیں اور اس کان سے اڑا دیتے ہیں۔
(۵۶) آسمان پر اُڑنا۔ آکاس پھل۔
یہ ایسا محاورہ ہے جو ہماری زبان اور ہماری روایتی فکر کی سماجی بنیادوں کی طرف اشارہ کرتا ہے یعنی بہت اونچی اونچی باتیں کرنا، بڑھ چڑھ کر باتیں بنانا، جس کو زمین آسمان کے قُلابے مِلانا بھی کہتے ہیں۔ آسمان ہماری ایک اہم تہذیبی علامت ہے۔ ہم اپنے مذاہب کو بھی آسمانی مذہبوں سے تعبیر کرتے ہیں۔ آسمانی کتابیں کہتے ہیں، آسمانی صحیفہ قرار دیتے ہیں۔ سنسکرت میں اسے’ آکاش وانی‘ کہا جاتا ہے۔ مسلم اقوام میں آسمان کا ایک اور کردار بھی ہے کہ وہ فریب کار ہے، دغا باز ہے، فتنے بر پا کرتا ہے، دِلوں میں فرق ڈالتا ہے اور عاشقوں کا دشمن ہے، رقیبوں کا دوست ہے، وغیرہ وغیرہ۔ اسی لیے فارسی اور اردو شعراء کے ہاں آسمان کی شکایتیں ملتی ہیں اور اس طرح کی تمنائیں بھی کی جاتی ہیں۔
شبِ وِصال بہت کم ہے، آسماں سے کہو
کہ جوڑ دے کوئی ٹکڑا شبِ جُدائی کا
اسی لیے ایک نیا زاویۂ فکر پیدا ہوا۔ وہ یہ کہ آدمی اگر زیادہ مکّاریاں کرتا ہے تو وہ گویا آسمان سے بھی آگے بڑھ جاتا ہے۔ ایسے بہت سے محاورے آئے ہیں جن سے ان ذہنی رویّوں کا پتہ چلتا ہے جو آسمان سے متعلق ہیں، جیسے آسمان کے تارے توڑنا، آسمان سے باتیں کرنا، آسمان میں پیوند لگانا، آسمان پر دماغ ہونا، آسمان پر چڑھنا، آسمان کو ہلا دینا، آسمان جھانکنا یا تاکنا۔ اِس سب میں زیادہ چالاکی دکھانے، جھوٹ بولنے اور فریب دینے کا مفہوم شامل رہتا ہے۔ اِس کے کچھ دوسرے پہلو بھی ہیں جو انسانی مشکلات سے تعلق رکھتے ہیں اور انسانی زندگی پر جو آفتیں ٹوٹتی ہیں، اُن کی طرف اُن میں اشارہ مقصود ہوتا ہے، جیسے آسمان پھٹ پڑنا، آسمان ٹوٹ پڑنا، آسمان سے بلاؤں کا اُترنا۔ فارسی کا ایک شعر ہے۔
ہر بلائے کز‘ آسمان آید
خانۂ انوریؔ تلاش کُند
یعنی جو بلا آسمان سے نازل ہوتی ہے، وہ انوریؔ کا گھر تلاش کر لیتی ہے۔ یہ ہر وہ آدمی کہہ سکتا ہے۔ جس کے گھر پر زیادہ آفتیں آتی ہیں۔
آسمان سے متعلق اور بھی محاورات ہیں، جیسے آسمان سے گِرا، کھجور میں اٹکا، یعنی ایک جگہ سے کوئی مسئلہ حل بھی ہوا تو دوسری جگہ جا کر اٹک گیا۔ ایسا ہمارے انتظامی معاملات، گھریلو مسائل اور دفتری سطح کی باتوں میں اکثر ہوتا رہتا ہے۔ اس اعتبار سے یہ محاورہ ہمارے معاشرے کی صورتِ حال کو سمجھنے اور محاورے کے ذریعے معاشرتی امور پر تبصرہ کرنے کے لیے ایک کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ اوپر از غیبی گولے کا ذکر آیا ہے۔ ’آسمانی گولا‘، ’آسمانی تھپیڑا‘ بھی اسی کو کہتے ہیں۔ آسمان کے متعلق اور بھی کچھ محاورے ہماری زبان کا حصہ ہیں۔ اُن میں ’ آسمان تلے آنا‘ بھی ہے۔
(۵۷) آسن۔
بیٹھنے کے انداز کو کہتے ہیں۔ جوگی دھیان، گیان کے وقت ایک خاص انداز سے بیٹھتے ہیں۔ اس کو’ آسن لگانا‘ کہتے ہیں۔ اگر وہ اپنی جگہ پر نہ رہے تو اسے ’آسن ڈگنا‘ کہتے ہیں۔ ’آسن مارنا‘ یا ’آسن مارکر بیٹھنا‘ آسن لگانے ہی کے معنی میں آتا ہے۔ جنسیات میں ایک خاص طریقے سے ایک دوسرے کے قریب آنے کو بھی آسن لگانا کہا جاتا ہے۔ ’آسن تلے آ جانا‘ بھی اسی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
(۵۸) اَش اَش کرنا (عش عش کرنا)۔
یہ محاورہ ’ع‘ سے عش عش کرنے کی صورت بھی آتا ہے، جس کے معنی یہ ہیں کہ کسی ایسی زبان سے ماخوذ ہے جس میں ’ع‘ کا استعمال ہوتا ہو۔ اسی لیے لغت میں اس کے ساتھ چھوٹی ’ہ‘، ’ف‘ اور ’ع‘ کی علامتیں لکھی ہوئی ہیں، یعنی یہ ہندی، فارسی اور عربی تینوں میں استعمال ہوتا ہے۔ اس سے ہم اپنی زبان کے لِسانی رشتوں کا پتہ چلا سکتے ہیں۔ محاورہ زبان کی قدامت کو بھی ظاہر کرتا ہے۔ اِس اعتبار سے زبان کے سماجی رشتوں اور لسانی رابطوں کی تفہیم میں محاورہ یہ کہیے کہ غیر معمولی طور پر معاون ہوتا ہے۔
(۵۹) اِشتعال دینا یا اِشتعالک پیدا کرنا۔
غصّہ دلانے کو کہا جاتا ہے۔ لیکن لفظِ اشتعال عربی ہے اور اسی طرف اشارہ کرتا ہے کہ یہ محاورہ ہم نے عربی سے اخذ کیا ہے۔ ہمارے سماجی عمل میں بھی یہ استعارہ شریک ہے۔ جان جان کر بھی ہم دوسروں کو Teaseکرتے ہیں اور ان کو غصہ دلاتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ محاورہ صرف لغت کی شے ہی نہیں ہے۔ اس کا رشتہ سماجی لسانیات سے ہے اور زبان کو ایک خاص سطح پر پیش کرنے اور سامنے لانے میں محاورہ جگہ جگہ اور معنی بہ معنی ایک خاص کردار ادا کرتا نظر آتا ہے۔ ۔ اس سے کسی بھی معاشرے کے داخلی عمل، فکری رویّے اور معاملاتی اندازِ نظر کو ہم زیادہ بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں۔ مثلاً ’اشنان دھیان‘ ہندو معاشرے کا ایک خاص اندازِ عبادت ہے کہ وہ اشنان کرتے ہیں تو گویا سورج کو جل چڑھاتے ہیں۔ آفتاب پرستی قوموں کا بہت قدیم مذہب ہے اور اِس آفتاب پرستی کا پانی سے گہرا رشتہ ہے۔ اسی لیے اشنان کے وقت بھی سورج کا جل چڑھایا جاتا ہے۔
(۶۰) آفت توڑنا۔
آفت کے معنی مصیبت، سانحہ اور شدید پریشانی کے ہیں۔ آدمی کی زندگی میں اس طرح کے تکلیف دہ موقعے آتے رہتے ہیں کہ وہ اچانک کسی پریشانی میں مبتلا ہو جاتا ہے یا کسی دکھ کا سامنا کرنے پر مجبور ہوتا ہے۔ یہ دکھ زیادہ تر جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ وقت کی دین ہوتے ہیں مگر اس میں انسان ہمارے عزیز رشتے دار، پڑوسی، ساتھ کام کرنے والے شریک رہتے ہیں۔ انہیں کی وجہ سے یہ ہوتا بھی ہے۔ اب وہ اپنے ہوں یا غیر، وہی مصیبت کا باعث ہوتے ہیں۔ کچھ لوگ ’آفت ڈھاتے ہیں ‘، کچھ لوگ ’آفت اُٹھاتے ہیں ‘، کچھ لوگ ’آفت توڑتے ہیں ‘۔ کچھ لوگ اس کی وجہ سے یا کسی اچانک حادثے کے باعث ’آفت رسیدہ‘ ہوتے ہیں، جنھیں ’آفت زدہ‘ یا ’آفت کا مارا‘ کہتے ہیں۔
ہمارے ہاں شاعر اپنے آپ کو سب سے زیادہ آفت زدہ یا آفت رسیدہ خیال کرتا ہے۔ اس میں غم جانا بھی شامل رہتا ہے غم جان اور بھی۔ جہان آفت خود ایسا لفظ ہے جو تہذیبی رشتوں پر روشنی ڈالتا ہے۔ اصل میں یہ لفظ ’’آپتی‘‘ ہے جو سنسکرت لفظ ہے۔ وہاں سے ہندوی بھاشاؤں میں آیا ہے اور فارسی میں ’’پ‘‘ کے بجائے ’’ف‘‘ آ گئی اور تشدید غائب ہو گیا اُردو نے بھی اسے فارسی انداز کے ساتھ قبول کیا جس کے ذریعے ہم زبانوں کے باہمی رشتوں کو بھی سمجھ سکتے ہیں۔ ذہنوں اور زمانوں کے آپسی لین دین کو بھی۔
(۶۱) آفت کا پرکالہ (لپکتا ہوا شعلہ)۔
غیر معمولی طور سے ذہین اور شرارت پسند آدمی کو آفت کا’’ پرکالہ‘‘ کہتے ہیں۔ آفت کا ٹکڑا بھی اسی ذیل میں آتا ہے۔ ایک اور محاورہ آفت کی چھٹی ہے۔ چھٹی خط کو کہتے ہیں۔ اب سے کچھ زمانہ پہلے تک ڈاکیہ کو چھٹی رساں کہتے تھے۔ یعنی خط پہنچانے والا۔ چھٹی رساں کا لفظ بھی ایک ایسی ترکیب پر مشتمل تھا جس میں ایک لفظ ہندی اور دوسرا فارسی تھا۔ آفت کی چھٹی بھی اسی طرح کاترکیبی لفظ ہے جس سے ہماری زبان کی ساخت اور پرداخت کا علم ہوتا ہے۔ خط آنے پر ہمارے قصبوں اور خاص طور پر دیہات کے لوگوں میں ایک طرح کی کھلبلی سی مچ جاتی تھی۔ کہاں سے آیا ہے؟ کس نے لکھا ہے؟ کیا لکھا ہے؟ اور پھر یہ کہ اسے کون پڑھ کر سنائے ؟ چٹھی میں کوئی بہت خوشی یا غم کی بات ہوتی تھی تو اسے آفت کی چٹھی سمجھا جاتا ہے۔ اب یہ رو یہ اگر محفوظ ہیں تو ہمارے اِن محاورات میں جو معاشرتی مطالعے کی کنجیاں کہہ جا سکتے ہیں۔
(۶۲) اَفراتفری۔
یہ عربی لفظ ہے، اَفراط اور تفریط، یعنی بہت زیادہ اور بہت کم۔ ظاہر ہے کہ اس صورت میں توازن بگڑتا ہے اور چاہے وہ معاملات ہوں، مسائل ہوں، مشغولیتیں ہوں یا مصروفیات ہوں، تناسب اور توازن کے بغیر اُن کا حُسن اور اُن سے وابستہ بھلائی اور عظمت قائم نہیں رہتی اور ایک بے تکا پن پیدا ہو جاتا ہے۔ اُردو والوں نے اسی کو ایک نئے محاورے میں بدل دیا۔ اس کے تلفظ اور املا کو بھی نئی صورت دی اور اس کے معنی میں نئی جہت پیدا کی۔ اب افراتفری کے معنی ہیں گڑبڑ بھگدڑ چھینا جھپٹی اور بے ہنگم پن۔ یہی بات سماج میں خرابی کا باعث ہوتی ہے اور اُس کی قوت کو کمزوری اور خوبی کو خرابی میں بدلتی ہے۔ اس معنی میں اس مفہوم کا رشتہ انفرادی عمل سے بھی قائم ہوتا ہے اور اجتماعی اعمال سے بھی جو ہماری معاشرتی کارکردگی کی دائرے میں آتا ہے۔
(۶۳) اَفلاطون ہونا، افلاطون بننا۔ ۔
اَفلاطون قدیم یونان کا ایک بہت بڑا فلسفی، طبیب اور دانشور تھا۔ ارسطو اسی کا شاگرد تھا۔ افلاطونی نظریات یونانی فلسفے پر بہت اثرانداز ہوئے ہیں اور ارسطو نے اپنی تنقیدوں سے اُن کو نئی قوت اور وسعت بخشی ہے۔ اب یہ عجیب اتفاق ہے کہ ہماری زبان کے محاورے میں اَفلاطون کی عظمت کا تصور بدل گیا ہے اور ایسے لوگوں کے لیے یہ محاورہ استعمال ہونے لگاہے جوخواہ مخواہ اپنے اوپر مغرور ہوں اور اپنی معاشرتی زندگی میں اس کا موقع بہ موقع اظہارکرتے رہتے ہوں۔ اسی لئے اَفلاطون کاسالہ اور افلاطون کاناتی بھی محاورے میں شامل ہوئے۔ اُس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہم نے کس طرح دوسرے ملکوں کے کرداروں کو اپنے یہاں جگہ دی اور اُن کی شخصیت کواپنی طرف سے نئے معنی پہنائے۔
(۶۴) افواہ پھیلانا، افواہ اُڑانا۔
افواہ جھوٹی سچی باتوں کو کہتے ہیں۔ عام آدمی کو کسی بات میں اِس رشتے سے دلچسپی نہیں ہوتی کہ وہ بات سچی ہے یا جھوٹی غلط ہے یا صحیح مناسب ہے یا غیرمناسب وہ توباتوں کو پھیلاتا اور ان سے اپنی دلچسپیوں کا اظہارکرتا ہے۔ غالبؔ نے تودہلی کے لوگوں کی ایسی باتوں کا ذکرکرتے ہوئے یہ بھی کہا تھا کہ دہلی کے خبر تراشوں کا جیساکہ دستور ہے انہوں نے اپنی طرف سے خبراُڑادی۔ اسی خبراڑانے کو افواہ اڑانا کہتے ہیں۔ اس سے ہمارے معاشرے کے مزاج اور خواہ مخواہ کی باتوں سے دلچسپی کا پتہ چلتا ہے۔ مصرعہ ہے۔ اسی انداز کی ایک بات ہے۔
اڑتی سی اک خبرہے زبانی طیورکی
(۶۵) آکھ کی بڑھیا۔
’’آکھی ‘‘ایک خاص طرح کا پودا ہوتا ہے جسے آک بھی کہتے ہیں۔ یہ پودا گرمی کی شدید اداؤں میں پروان چڑھتا ہے اور اُس کے پتے اور پھُول بہت تر و تازہ ہوتے ہیں۔ اس کے بیج کچھ اس طرح ہوتے ہیں کہ وہ ایک ہرے خول میں بند رہتے ہیں۔ جب وہ خول کھُلتا ہے تو چھوٹے چھوٹے بیج بالوں جیسے بہت سارے ریشوں کے درمیان ہوتا ہے جو ہوا میں اڑتے پھرتے ہیں۔ انہیں بچے پکڑتے ہیں اور پھر اپنی پھونک سے اڑا دیتے ہیں۔ ان بالوں کو اور بیج کو آک کی بڑھیا کہتے ہیں یعنی سفید بالوں والی بُڑھیا جو اڑتی پھرتی ہے۔ ایسی ہی ایک مشین بھی ہے جس میں شکر سے سفید سفید بالوں جیسا ایک گچھا پیدا ہوتا ہے۔ اسے سمیٹ لیتے ہیں۔ وہ بھی بڑھیا کے بال کہلاتے ہیں۔ یہ محاورہ جو مشینی دور تک آ گیا اس بات کی علامت ہے کہ ہمارے معاشرے میں بوڑھی عورت اپنے سفید بالوں کے ساتھ بچوں اور بڑوں کو کسی نہ کسی خاص معنی میں متاثر کرتی ہے۔ کہانیوں میں بھی اکثر بوڑھی عورتوں کا ذکر آتا ہے مگر شفقت و محبت کے ساتھ نہیں ایک طرح مکاری کے ساتھ۔
(۶۶) اُکھاڑ پچھاڑ۔
اکھاڑنا بھی بیشتر اچھے معنی میں نہیں آتا، جیسے اُس کو اکھاڑ دیا گیا، وہ اکھڑ گیا، اس کی جڑ اکھڑ گئی، جڑ بنیاد اکھاڑ کر پھینک دی گئی۔ یہ سب ایک طرح کے سماجی عمل ہیں اور اُن میں فرد یا جماعت کا ایسا عمل شامل ہے جو ذاتی طور پر یا جماعتی طور پر نقصان دینے والا ہو۔ یہی صورت پچھاڑ کی ہے۔ پچھڑ جانا،پچھاڑ کھانا، پچھاڑ دینا شکست دینے کے معنی میں آتا ہے یا پھر اس میں بے چینی اور ناکامی کا مفہوم شامل رہتا ہے۔
یہاں اکھاڑ پچھاڑ انہیں مطالب کا جامعہ ہے اور اس کے ساتھ کہا جاتا ہے کہ بہت اکھاڑ پچھاڑ کی یا اکھاڑ پچھاڑ کھائی۔ اکھاڑ پچھاڑ مچانا بھی اسی دائرہ میں شامل ہے۔ پہلے زمانہ میں جب جھڑپیں ہوتی تھیں، لوٹ مار ہوتی تھی۔ اسی کو اکھاڑ پچھاڑ بھی کہتے تھے۔ اکھاڑ پچھاڑ مچانا اسی طرح کا عمل ہے۔ فتنہ فساد برپا کرنے والوں کو بھی اکھاڑ پچھاڑ مچانے والا کہتے تھے۔ خاندانی جھگڑے جب بڑھ جاتے تھے تو وہ بھی ایک طرح کی اکھاڑ پچھاڑ تھی جس کے ذمہ دار خاندان ہی کے لوگ ہوتے تھے۔
یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ یہ محاورہ بھی ایسے محاورات میں سے ہے جو سماج کی فطرت انسانی ذہنی روش اور سماجی، معاشرتی اور خاندانی تنظیم کو بگاڑ دینے کا عمل اس میں شامل ہے۔ ۔
(۶۷) اُکھڑی اُکھڑی باتیں کرنا۔
جما،جما کر باتیں کرنا ایک طرح کا سماجی عمل بھی ہے اور شخصی عادت بھی۔ اس کے مقابلے میں اکھڑی اکھڑی باتیں کرنا آتا ہے، یعنی باتوں کو بے دلی سے کرنا۔ کٹے پھٹے جملے اور بے ربط فقرے استعمال کرنا یہ ذہنی رو یہ سماجی نفسیات کا حصّہ ہوتا ہے۔ آدمی جب بیزار ہوتا ہے، بات نہیں کرنا چاہتا تو خواہ مخواہ کی بے تکی باتیں کرتا ہے، بے ربط اور بے موقع سوال و جواب کرتا ہے۔ وہی تو اکھڑی اکھڑی باتیں ہیں۔ ہمارے یہاں اس طرح کا عمل طرح طرح سے سامنے آتا ہے۔ ہم کسی بات پر توجہ دینا نہیں چاہتے، سننا نہیں چاہتے، بات کو ڈھنگ سے کہنا نہیں پسند کرتے، ٹلا دینا چاہتے ہیں، تو یہ رو یہ اختیار کرتے ہیں۔
(۶۸) آگا تا گا لینا۔
یہ ہمارے معاشرتی رویوں کا ایک نمائندہ محاورہ ہے۔ ہمارے یہاں درمیانی طبقہ اور اس میں بھی نچلا درمیانی طبقہ ذمہ داریوں سے گھبراتا ہے اور چاہتا یہ یہ کہ دوسرے ہمت کر کے آگے بڑھیں اور جو قریب تر لوگ ہیں اُن کے لئے کچھ کریں۔ مثلاً اگر ضرورت پڑے تو شرافت کے ساتھ اُن سے اچھا سلوک کریں خاطر تواضع مناسب سطح پر لین دین اور ضرورت وقت امداد و تعاون سے بھی گریز نہ کریں۔
حکومت کی طرف سے کوئی ایسا انتظام نہیں ہے یا سوسائٹی نے کوئی ایسا ادارہ قائم نہیں کیا جس میں دوسروں کی بھلائی یا وقتِ ضرورت ان کی مدد کا کوئی provisionہو اس میں زیادہ تر رشتہ دار عزیز دوست اور ہمدردی ہی کام آتے ہیں اور وہی آگا تاگا لیتے ہیں اور یہی سماجی عمل کی خوبصورتی ہے۔
(۶۹) آگا پیچھا دیکھنا۔
نفع نقصان اور اچھائی برائی پر نظر رکھنا بہت سے آدمی غیر ذمہ دار ہوتے ہیں کوئی فیصلہ کر کے یا اس پر عمل کرتے وقت انجام کو ذہن میں نہیں رکھتے جو چاہے کہہ دیتے ہیں جو چاہے کر دیتے ہیں وہ یہ کبھی غور نہیں کرتے اپنے آپ کو اس کا عادی نہیں بناتے کہ بات کا آگا پیچھا سوچ لیں احتیاط برتیں اور کسی بھی فعل کے معاملہ میں اپنی ذمہ داری کے احساس کو فراموش نہ کریں۔
(۷۰) آگا روکنا۔
آگا روکنا بھی ایک طرح کا وہ عمل ہے جو ہماری سماجی نفسیات سے گہرا رشتہ رکھتے ہیں کسی بھی معاملہ میں جو مشکلات ابتداءً پیش آتی ہیں ان کو روکنا یا روکنے میں معاون ہونا آگا ہونا روکنا کہا جاتا ہے دشمن کے حملہ کے وقت اس کے پہلے حملے کو روکنا آگا روکنا کہلاتا ہے۔
شادی میں دلہن کو لے جاتے وقت آگا روکنے کی ایک اور صورت سامنے آتی ہے وہ یہ کہ رعایا پر آیا ہے کے لوگ آ کر برات کا راستہ روکتے ہیں اس کو باڑ رکائی کہا جاتا ہے لیکن ہے وہ بھی آگا روکنا کہا جاتا ہے اور جیسا کہ اس سے پیشتر اشارہ کیا جا چکا ہے۔ بہت سے محاورہ ہماری سماجی فکر و معاشرتی عمل اور سماجی رویوں کو ظاہر کرتے ہیں۔
(۷۱) آگ بگولہ ہونا۔
ایسے ملکوں کا محاورہ ہے یا ان کی زبان یا طرز بیان میں داخل ہو سکتا ہے جہاں شدت سے گرمی پڑتی ہے سخت گرم لونہیں چلتی ہوں وہیں تو بگولے آگ کا درجہ رکھتے ہوں وہیں تو بگولے آگ بگولہ کہلاتا ہے جہاں آدمی ذرا سی بات پر بھڑک رکھتا ہے اور اپنے شدید غم و غصہ پر بھڑک اٹھتا ہے اور اپنے شدید غم و غصّہ کا اظہار کرتا ہے ایک اپنے معاشرے میں جہاں تحمل اور بُرد بازی کم ہوتی ہے وہیں اس طرح کی جذباتی روشیں زیادہ سامنے آتی ہیں خواہ وہ غصّہ کے عالم میں ہوں یا غم وا لم کے جذبات سے متعلق ہوں یہاں شدتِ احساس کا غلبہ مشرقی قوموں میں زیادہ دیکھنے کو ملتا ہے۔
آگ سے متعلق ایک ہم محاورہ آگ کھائے گا انگار ے اُگلے گا یہاں آگ کوئی نہیں کھاتا لیکن مداری شعلہ اگلتے اور آگ نگلتے نظر آتے ہیں۔ یہ ایک طرح کا نظر بندی کا عمل بھی ہے۔ اور یہاں کی جادوگری کا ایک حصّہ ہے مگر اسی کے ساتھ اس کا ایک اور سماجی مفہوم ہے وہ یہ کہ آدمی جس طرح کے اعمال اختیار کرتا ہے وہی اس کے سنسکار میں جاتے ہیں جواس کے دل میں ہوتا ہے وہی زبان میں ہوتا ہے آخر ہونٹوں تک کوئی بات دل سے گزر کریا دماغ سے اُتر کر ہی آتی ہے ایسی صورت میں جس طرح کے کردار کا کوئی انسان ہو گا وہی اس کی رفتار و گفتار میں بھی سامنے آئے گا۔
(۷۲) آگ لگانا، آگ بجھانا، یا لگانی بجھائی کرنا۔
یہ سماجی عمل ہے لوگ جھوٹ بولتے ہیں فتنہ پردازیاں کرتے ہیں یہ سیاسی مقصد سے بھی ہوتا ہے سماجی مقاصد اس میں شریک رہتے ہیں۔ لوگوں کی اپنی کمینہ فطرت بھی ایسی صورت میں چاہیے افراد میں تعلقات بگاڑے جاتیں یا خاندانوں میں بہرحال وہ ایک سماجی سطح پر یہ کردار ہے۔
بعض جس کا اظہار آگ سے متعلق محاورات سے ہوتا ہے جیسے آگ بھڑکانا، یا آگ پانی کا بیر ہونا، آگ پھونکنا، آگ اگلنا، آگ لگا کر تماشہ دیکھنا، آگ دینا، آگ ہوئی تو دھواں ہو گا، وغیرہ۔
بعض محاورے عجیب و غریب ہیں جیسے آگ جوڑنا آگ روشن کرنے کی کوشش کو کہتے ہیں۔ آگ دھونا اس سے بھی زیادہ عجیب و غریب محاورہ ہے۔ چلم پر رکھنے کے لئے جب انگاروں کو جھاڑا جاتا ہے اور راکھ الگ کی جاتی ہے تو اسے آگ دھونا کہتے ہیں۔
(۷۳) آگے آگے چلنا، یا ہونا، آگو آگو کرنا۔
آگے آگے چلنا ہمارے یہاں ایک تہذیبی قدر ہے ہراول دستہ ہمیشہ آگے آگے چلتا تھا شاہی سواری کے ساتھ خیمہ بردار اور دوسرے خادم ہمیشہ آگے رہتے تھے ان کو پہلے سے خیمے چھولداریاں اور ڈیر ے لگا نے ہوتے تھے احتراما ً بزرگوں کے آگے آگے چلتے تھے۔ اور مقصد یہ ہوتا تھا کہ کسی بھی رکاوٹ دشواری اور خطرہ سے ان کو بچایا جائے۔
جہاں محاورے کے ساتھ آگوہ آگو بھی دیا گیا ہے اور آگاڑی آگاڑی کے ساتھ آگا ڑ وآگاڑ وآگاڑ بھی لکھا گیا ہے۔ یہ تلفظ راجستھانی اثرات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ وہ لوگ ’’آگا‘ تلفظ ہویا ی کا دونوں کو و کے تلفظ میں بدل دیتے تھے اور گاڑھا کو گاڑہو کہتے ہیں اور ’’مارا‘‘ کو مارو کہتے ہیں۔ محاورے ہماری زبان کی قدیم شکل کو محفوظ رکھتے ہیں اس میں تلفظ املا بھی شریک ہے۔
(۷۴) آگے خدا کا نام
یہاں تک آ گئے آگے خُدا کا نام ہے ساقی
خدا ہمارے یہاں ایک فکری آئیڈیل ہے ہم جو عقیدتوں خیالوں ‘ اور خوابوں میں بھی شریک رہتا ہے۔ یہاں یہ ظاہر کیا گیا ہے کہ ہم جس انتہا تک آ گئے ہیں اِس کے بعد میں خدا کا نام ہے اور کچھ نہیں۔
معلوم ہوا کہ فکر و خیال اور سعی و عمل کی وہ حد جسے ہم نقطہ آخر کہہ سکتے ہیں وہ مقام آ چُکا ہے اور اُس کے بعد خدا کا نام ہے۔ ایک محاورہ ہے کہ ہمارے پاس کچھ نہیں سوائے خدا کے نام اور محمدصلی اللہ علیہ و سلم کے کلمہ کے بات پھر وہیں آئی کہ صورت جو بھی ہو انتہا کو پہنچ کر ہم خدا کے نام کو سامنے رکھتے ہیں اس لئے کہ ہمارا عقیدہ ہے کہ وہی اوّل ہے وہی آخر ہے نہ اس سے پہلے کچھ تھا اور نہ اس کے بعد کچھ ہے۔
(۷۵) آگے سے ہوتی آئی ہے۔
ہمارا معاشرہ بنیادی طور پر روایت پرست ہے اور انسان نے اپنی راہ ارتقاء کے مختلف مرحلوں میں سوچا ہے ،سمجھا ہے، نئے فیصلے کئے ہیں، مگر معاشرہ بنیادی طور سے روایت پسند رہا ہے یہ کہنا کہ آگے سے ہوتی آئی ہے اس حقیقت کا اظہار ہے کہ ہم جو کچھ سوچ رہے ہیں کر رہے ہیں وہ پہلے سے چلی آتی ہوئی ایک روایت ہے۔
ہوتی آئی ہے کہ اچھوں کو برا کہتے ہیں
یعنی اپنی سوچ کا عمل یہاں بھی موجود نہیں ہے صدیوں کا سفر آنکھ بند کر کے روایت کی لکیر پر ہوتا رہا ہے آخر اچھوں کو کیوں برا کہا جاتا رہا ہے یہ کتنا بڑا سوالیہ نشان ہے مگر ہر آدمی نے روایت کا سہار لیا خود سوچا نہیں اور یہی انسانی معاشرے کی بہت بڑی کمزوری نارسائی اور ناکامی ہے کہ اُس نے ایک بار کسی بات کو مان کر پھر اُس پر کبھی نہیں سوچا۔ اور Tradition Boundروایت پرستی پر ہمیشہ فخر کیا۔
(۷۶) آگے کا اُٹھا کر کھانے والا،یا آگے کا اُٹھا کے کھانا۔
آگے کا اُٹھاکھا کرنا یہی محاورہ دوسرے الفاظ میں بھی ملتا ہے ’’اوپر کا پڑا کھانا‘‘ اور ہمارے معاشرے کی شدید کمزوریوں کی طرف اِشارہ کرتا ہے یعنی بغیر محنت کے یا بغیر حق کے کھانا جو مل گیا جسے مل گیا جہاں سے مل گیا اُس سے پیٹ کی آگ بجھا لی یا اپنی کوئی بھی معاشرتی ضرورت پوری کرنا ہے معاشرے کی یا سوسائٹی کی اِس مجموعی عادت کو اِس محاورے میں پیش کیا گیا ہے جس میں ایک گہرا طنز موجود ہے۔
(۷۷) آگے ڈالنا۔
اِس کے معنی سامنے رکھنا بھی ہے اور بیوہ کی مدد کرنا بھی ہے۔ ہندوؤں میں دستور ہے کہ کسی بیوہ عورت کے گزارے کے خیال سے اُس کے عزیز رشتہ دار اُٹھاونی یا تیرہویں کے دن حسبِ مقدور کچھ روپیہ دیتے ہیں۔
اِس کے یہ معنی ہیں کہ ہماری رسمیں زندگی اور دُنیاوی معاملات سے بھی رشتہ رکھتی ہیں ضرورت اِس امر کی ہے کہ اُن کے معنی اور مقصد پر نظر رکھی جائے۔
(۷۸) آگے کو کان ہونا۔
یہاں کانوں کے آگے یا پیچھے ہونے سے مُراد نہیں ہے بلکہ آئندہ کے لئے ذہن کے ہوشیاری ہونے سے مراد ہے کہ اب جو کچھ ہم نے سنا ہے دیکھا ہے اس سے ہم نتیجہ اخذ کریں ہمارے معاشرے کی سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ ہم لوگ آئندہ کے لئے احتیاط اور اخذ نتائج کے عمل سے اکثر محروم رہتے ہیں۔
(۷۹) آگے ہاتھ پیچھے پات۔
پات پیڑ کے پتہ کو کہتے ہیں ایسا غریب آدمی جس کے پاس تن ڈھانکنے کے لئے بھی کچھ نہ ہو یہ محاورہ اُس کے لئے ہوتا ہے ہندوستان میں سادھو سنت اور خاص طور پر پر جین مت کو ماننے والے منی ننگے رہتے ہیں۔ جو غربت کے باعث نہیں ہوتا یونان میں بعض دیوتاؤں یا قدیم انسانوں کے پرائیوٹ حصّہ جسم کو انجیر کے پتے سے ڈھکتے تھے۔ وہ ایک فنکارانہ رو یہ تھا غربت وہاں بھی شریک نہیں تھی مگر ہمارے معاشرے میں غُربت و اِفلاس کو بھی اس پس منظر میں خصوصیت سے شامل کیا گیا ہے۔
غُربت پر ہمارے یہاں بہت محاورے ہیں اُن میں ایک محاورہ یہ بھی ہے کہ اُس کے گھڑے پر پیالہ بھی نہیں ہے یا ننگی کیا نہائے کیا نچوڑے بھوکا ننگا فقیر جیسے محاورے ہمارے معاشرے کی غربت کو ظاہر کرتی ہے۔
(۸۰) اُلٹا توا ہونا، بے حد کالا ہونا۔
ہندوستان میں سانولا رنگ تو ہوتا ہی تھا اُس کی تعریف بھی کی جاتی تھی۔ لیکن زیادہ کالے رنگ کو ناپسند بھی کیا جاتا رہا ہے اسی لئے اُلٹا توا ہونا بہ حیثیت محاورے کے ہمارے ہاں رائج ہوا کہ وہ آدمی کیا ہے اُلٹا توا ہے۔ اس سے ہم یہ بھی اندازہ کر سکتے ہیں کہ یہ اُن لوگوں نے بطور محاورہ رائج کیا جو جو نسبتاً اچھے رنگ والے ہوتے تھے۔
اُلٹے لفظ اور مفہوم کے ساتھ بہت محاورے بنے ہیں اور ہمارے معاشرے کی ذہنی سطح کے مختلف رنگ اُس کے ذریعہ سامنے آتے ہیں مثلاً اُلٹی گنگا بہانا، بات کو الٹ پلٹ کر دیکھنا، یا دینا۔ اُلٹی سیفی پڑھنا یعنی بددعا دینا۔ اُلٹے پاؤں پھر آنا، فوری طور پر واپس لوٹ آنا،الٹے ملک کا ہونا، بے حد بیوقوف ہونا ملک کا لفظ ہماری عام زبان میں بہ طورِ علاقہ استعمال ہوتا تھا ملک اس معنی میں نہیں آتا تھا جس معنی میں اب آتا ہے۔
قوم کا لفظ بھی اپنے معنی اور مفہوم کے اعتبار سے بہت سی تبدیلیوں سے گزرا ہے ایک وقت میں وہ قبیلے خاندان اور گروہ کے معنی میں آتا تھا اب اُس کے معنی ایک خاص سیاسی اور قانونی اسٹیٹ میں رہنے والے کے ہیں۔ جسے آج ہم ہندوستانی قوم کہتے ہیں اور Nationنیشن کے معنی مراد لیتے ہیں۔
(۸۱) اُلٹی سانسیں آنا یا اُلٹے سانس آنا۔
اِس سے مراد ہے جان کنی کا عالم جب سانس اُکھڑ جاتی ہے دہلی میں اُسے’’ گھنگرو بجنا‘‘ کہتے ہیں کہ وہ خود ایک محاورہ ہے۔
(۸۲) الش کرنا۔
بادشاہوں یا امیروں کے لئے الگ سے جو اُن کا پسندیدہ کھانا ہوتا تھا وہ خاصہ کہلاتا تھا۔ اُس میں سب شریک نہیں ہوتے تھے امیر یا بادشاہ اُس میں سے جب بطورِ تحفہ کسی کو کچھ دیا جاتا تھا تو وہ’’ الش‘‘ کہلاتا تھا یہ ترکی لفظ ہے اور غالباً مغل بادشاہوں کے ساتھ آیا ہے۔
(۸۳) الف
حروفِ تہجی میں پہلا حرف ہے اور اِس اعتبار سے خاص معنی رکھتا ہے۔ ابتداء کو ظاہر کرتا ہے خدا کے نام یعنی ’’اللہ کا پہلا حرف ہے’’ الف اللہ‘‘ کا محاورہ ہے اور اس کے معنی سب سے الگ اور جدا۔ الِف کھینچنا گَداگری کرنے کو کہتے ہیں۔ ’’ الف‘‘ کے ساتھ عریاں ہونے کا تصور بھی آتا ہے اسی لئے کہتے ہیں کہ وہ ننگا الف تھا۔
’’پُرش‘‘ ہندو فلسفہ میں خدا کو بھی کہتے ہیں ’’الکھ پرش‘‘ خُدا کی ذات بھی ہے اور ایسے فقیر کو بھی کہتے ہیں جو دوسروں سے آزاد اور الگ تھلگ رہتا ہو۔ہندو کلچر میں ’’ الکھ‘‘ کا لفظ بہت اہم اور مقدّس ہے۔ اسی لئے ایک مقدس ندی کا نام’’ الکھ نندا ہے‘‘’’ الکھ داس‘‘ نام رکھا جاتا ہے ’’الکھ جگانا‘‘ یعنی جوش عقیدت پیدا کرنا۔ ’’ آرتی اتارنا‘‘ بھجن پیش کرنا وغیرہ وغیرہ۔ اِس کے علاوہ کچھ مانگنے کو بھی درویشوں کی جگہ پر’’ الکھ جگانا‘‘ کہتے ہیں۔
(۸۴) الگ پڑنا، الگ تھلک ہو جانا یا الگ تھلگ کر دیا جانا۔
بہت سادہ سا محاورہ ہے جواب بھی استعمال ہوتا ہے کہ میں الگ پڑ گیا۔ یہ بھی ممکن ہے اور ہوتا رہا ہے کہ کوئی گروپ یا گروہ کسی ایک آدمی کے چلنے نہ دے اور یہ بھی ہمارا ایک سماجی رو یہ ہے کہ آدمی اپنی جان بچانے کے لئے یہ کہے کہ میں اکیلا پڑ گیا تاکہ وہ الزام سے بچ جائے۔
(۸۵) اللہ اللہ کرنا۔
مسلمانوں میں ایک معاشرتی رو یہ یہ ہے کہ وہ اپنی ہر بات کو خُدا سے نسبت دیتے ہیں ایسا صوفیانہ طرزِ فکر کے تحت بھی ہوتا ہے تہذیبی رسوم و آداب کے تحت بھی اور اس میں معاشرے کی یہ ذہنی روش بھی شامل رہتی ہے کہ اس طرح وہ اپنی انفرادی یا اجتماعی بُرائی چھُپانے کے لئے معاملہ کو مذہب کی چھتر چھایا میں لے آنا چاہتے ہیں مثلاً یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ اللہ کی مرضی کا چاہا ہوتا ہے بندے کا چاہا نہیں ہوتا یہ کہنے والا اِس بات کو بھول جاتا ہے کہ اُس کی ناکامی میں اُس کی غلطی کو بھی دخل ہو سکتا ہے اور دوسروں کی مکاریوں کو بھی ہم ہر بات کو سمجھنے اور سمجھانے کے لئے اسی طرح کی باتوں کا سہارا لیتے ہیں چونکہ مذہب ہماری نفسیات میں داخل ہو گیا ہے اسی وجہ سے اِس بات کا رُخ بات بات میں مذہب کی طرف پھر جاتا ہے۔
اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ تہذیبی اظہار میں یہ رو یہ کہیں کہیں بہت خوبصورتی پیدا کرتا ہے۔ مثلاً اللہ نگہبان، اللہ حافظ، اللہ اللہ کرنا یا ہونا اس کی اللہ اللہ ہو رہی ہے یعنی آخری وقت ہے اور خُدا یاد آ رہا ہے۔
دمِ واپس اب سرِ راہ ہے
عزیزو اب اللہ ہی اللہ ہے
اظہارِ تعجب کے لئے بھی اللہ اللہ کہا جاتا ہے جیسے اللہ اللہ یہ نوبت آ گئی۔ یا تم کوکسی بات سے کیا واسطہ تم تو اللہ اللہ کرو۔
(۸۶) اللہ آمین سے بچہ پالنا، یا اللہ آمین کا بچہ ہونا۔
جو بچے بہت لاڈلے ہوتے ہیں اور جن کے ساتھ خاندان یا ماں باپ کی بہت تمنائیں وابستہ ہوتی ہیں ان کے لئے کہا جاتا ہے۔
(۸۷) اللہ ماری یا اللہ مارا یا خُدا ماری۔
یہ محاورہ اُس موقع پر بولتے ہیں جہاں عورتیں نگوڑا اور موا وغیرہ بولتی ہیں یہاں یہ بات بھی ذہن میں رکھنے کی ہے کہ کچھ محاورے ہمارے یہاں صرف عورتوں سے متعلق ہیں مرد اِس کو استعمال نہیں کرتے۔
(۸۸) اللہ والا،خُدا رسیدہ، بہت نیک۔
یہ محاورہ دہلی میں فقیر کے لئے استعمال ہوتا ہے چاہے اِسے عورت کے ساتھ وابستہ کیا جائے یا مرد کے لئے اللہ نور نام بھی ہوتا ہے لیکن جب اللہ کانور کہتے ہیں تو اس سے مراد نورانی صورت ہوتی ہے ڈاڑھی کو بھی اللہ کانور کہا جاتا ہے۔
(۸۹) اللہ کے گھر سے پھرنا، شدید بیماری سے واپس آنا۔
جس کا یہ مطلب بھی ہے کہ موت خدا سے قُربت کا ذریعہ ہے اِسی لئے یہ محاورہ بھی بولا جاتا ہے کہ وہ اللہ کو پیارا ہو گیا۔
(۹۰) الٰہی مہر ہونا۔
جس طرح سے کوئی مُہری دستاویز مصدِقہ ہوتی ہے اسی لئے جب یہ کہا جائے وہ الٰہی مہر ہے تو اِس کے معنی یہ ہیں کہ وہ رقم وہ بات وہ وعدہ نامہ ہر طرح مصدِقہ ہے۔ تصدیق شدہ ہے اور اُس سے انکار نہیں ہو سکتا۔
(۹۱) اللہ کا جی (جیو۔ جان) ہونا۔
جو آدمی بالکل سُوجھ بُوجھ سے بالکل محروم ہوتا ہے بس ایک معصوم جانور جیسا اُس کا ذہن اور اُسی کے مطابق اس کی زندگی ہوتی ہے۔ اس کو اللہ کی جی کہتے ہیں یہاں اللہ کا جیو کہنا ایک خاص تہذیبی معنی بھی رکھتا ہے وہ یہ کہ اللہ تو ہر انسان کو معصوم اور بھولا بھالا پیدا کرتا ہے یہ تو آدمی کو اُس کا ماحول اور اُس کی اپنائی ہوئی زندگی کی قدریں ہوتی ہیں جو اسے مکاری پر آماد ہ کرتی ہیں اِس لئے کہ جانداروں یا جانوروں میں تجربہ تو ان کے ذہن کو بدلتا ہے ورنہ بیشتر وہ معصوم ہوتے ہیں اور اپنی فطرت پر قائم ہوتے ہیں ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہئے کہ ہمارے معاشرے میں ہر بات کو کسی نہ کسی پہلو سے خدائی ہی سے نسبت دی جاتی ہے۔
(۹۲) اِلَّلذی نہ اُلَّلذِی، نہ اِدھر کا نہ اُدھر، الی اللذین ولا الی اللذین
دین کا نہ دنیا کا عربی زبان کے فقرہ کو اپنے محاورے میں ڈھال لینا اور اُس میں اُردو پن پیدا کر دینا ہمارے زبان دانوں کا بڑا کارنامہ ہے اور اِس سے پتہ چلتا ہے کہ اگر ہم نے دوسری زبانوں اور ادبیات کے نمونوں سے کچھ حاصل کیا ہے تو اُسے اپنے طور پر اور اپنے ذہن کے سانچوں میں ڈھالا ہے۔
یہ اعتراض کہ اُردو میں تو بہت کچھ عربی فارسی یا پھر تُرکی یا تاتاری زبانوں سے آیا ہے غلط ہے ہم نے ان کے ذریعہ اپنی زبان کو زیادہ Enrichکیا ہے مختلف اعتبارات سے ترقی دی ہے اِس کو دیا نتداری اور ایک ارتقاء پذیر زبان کے تاریخی سفر سے وابستہ کرنا چاہیے محض کسی سیاسی حکمتِ عملی سے نہیں جو علمی دیانتداری کے خلاف ہے۔
(۹۳) آپ سے خُوب خُدا کا نام۔
یعنی اپنے سے اچھا تو صرف خدا کا نام ہوتا ہے۔ اس سے سماج کی اِس نفسیات کا پتہ چلتا ہے کہ ہر آدمی خود مرکزیت کا شکار ہوتا ہے کہ صرف میں سب کچھ ہوں اور مجھ سے بہتر کوئی نہیں بس خدا کا نام ہے اگر اس اعتبار سے محاوروں پر غور کیا جائے تو سماج کہ ذہن و زندگی سے کتنے پردے اٹھتے ہیں جن کے اندر ہم جھانک نہیں پاتے۔
(۹۴) آیا دیکھنا۔
معنی اپنے اوپر نظر کرنا۔ یہ اِس اعتبار سے بڑی معنی خیز بات ہے کہ انسان دوسروں کے ایک ایک عیب کو ڈھونڈتا ہے اور اپنی طرف نظر نہیں کرتا کہ وہ کیا کر رہا ہے کیوں کر رہا ہے اور خود اُس کی اپنی ذات کی اچھائیاں بُرائیاں کیا ہیں یہی محاورہ اس شکل میں بھی ہے آیا ہی آیا نظر آنا یعنی اسے اپنا وجود ہی نظر آتا ہے اور اس سے باہر کچھ نظر نہیں آتا یہاں بھی مراد خود غرضی ہے خود شناسی نہیں۔ خود شناسی میں تو اپنے آپ کو اِمکانی طور پر صحیح پیمانوں سے دیکھنا اور پرکھنا شامل ہے۔ صرف خود غرضی یا آپ اپنی پرستش کرنے کے جذبہ سے خود کچھ دیکھنا نہیں آدمی جب دوسرے کی نظر سے خود کو دیکھتا ہے تو اس نتیجہ پر بھی پہنچتا ہے اور یہ بھی محاورہ ہے’’ آیا ہے برا ہے‘‘ یعنی ہم ہی بُرے ہیں اور تو سب اچھے ہیں۔
(۹۵) اپنا خون بہانا۔
اِس سے مراد ہے اپنے سے قریب تر رشتہ داری (Blood Relation Ship)ہونا۔ پہلے زمانہ میں اِس کی بڑی اہمیت تھی اور اپنائیت کے ساتھ بہت سارے رشتہ جڑے ہوئے ہیں اور محاورے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں خون کا رشتہ صرف محبت کا رشتہ نہیں ہوتا مگر محاورہ میں اسے ہمیشہ کے لئے جوڑ دیا اور اس کے خلاف ہماری زندگی میں جو ہزار در ہزار واقعات اور ثبوت موجود ہیں۔ اور تلخ تجربات اس کی شہادت دے رہے ہیں لیکن ابھی تک وہ بات زبان پر آئی ہے کہ خون کا رشتہ اپنائیت کا رشتہ اسی کے ساتھ یہ محاورات ذہن میں رکھے جا سکتے ہیں کہ’’ اپنا مارے گا تو چھاؤں میں ڈالے گا‘‘ معلوم ہوا کہ اپنوں سے نیکیوں کی توقع رکھی جاتی ہے اسی کے ساتھ یہ محاورہ بھی ہے کہ’’ شکایت اپنوں ہی سے ہوتی ہے‘‘ یہ اپنے طور پر کوئی غلط بات نہیں ہے لیکن اسی کے ساتھ جب ہم یہ محاورہ دیکھتے ہیں کہ اپنوں کا کیا شکر یہ سوال یہ ہے کہ اگر اپنوں کا شکر یہ ادا نہیں کیا جاتا تو اُن سے شکایت کیوں کی جاتی ہے یہ سماج کے غلط رویوں کی طرف اشارہ ہے یہ الگ بات ہے کہ ہم نے محاوروں کو اپنے معاشرتی مطالعہ کے لئے اور اُن سے اخذ نتائج کی غرض سے کبھی اعتناء نہیں کیا۔ توجہ نہیں دی۔ اور ان سے نتیجہ اخذ نہیں کئے۔
(۹۶) آپادھاپی پڑنا۔
یعنی وہ صورت پیدا ہو جانا کہ چھینا جھپٹی ایک عام رو یہ بن جائے آپا سنبھالنا بھی ایک محاورہ ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ اپنے آپ کو ٹھیک ٹھاک رکھو۔ اس کے بغیر دوسرے تمہیں یا کسی کو تحسین کی نظر سے نہیں دیکھیں گے۔
(۹۷) آپے سے باہر ہونا۔
یہ بے حد اہم محاورہ ہے۔ اِس کے معنی ہیں اپنی حدود اور موقع کی نزاکت کونہ سمجھنا اور غصہ و غم پر قابو نہ پانا اور بے محابا اظہار کر دینا اِس میں بُرا بھلا کہنا بھی شامل ہے اور دوسرے بُرے سلوک بھی ہیں نقصان پہنچانا توڑ پھوڑ کرنا مار پیٹ کرنا عذابوں میں شامل کرنا سب ہی شامل ہے۔
اس اعتبار سے یہ نہایت اہم محاورہ ہے اور اخذ نتائج کی طرف ذہن کو مائل کرتا ہے۔ اُردو میں آپ سے متعلق بہت سے دلچسپ شعر بھی ہیں جیسے
آپ ہیں آپ، آپ سب کچھ ہیں
اور ہیں اور ، اور کچھ بھی نہیں
(۹۸) اپنی اپنی ڈفلی اپنا اپنا راگ۔
ڈفلی چھوٹے سے ڈف کو کہتے ہیں اس کو بجایا جاتا ہے اور دوسرے سازوں کے ساتھ اس کی لے ملائی جاتی ہے۔ اِس میں کبھی کسی راگ کو بھی دخل ہو سکتا ہے بہرحال کسی بھی موسیقی سے نسبت رکھنے والی پیش کش کے لئے یہ ضروری ہے کہ جو لوگ اُس میں شامل ہوں وہ ایک دوسرے سے آواز میں آواز ملائیں جب سماج میں افراتفری پھیل جاتی ہے اور کوئی کسی کا ساتھ دینا نہیں چاہتا اپنی اپنی کہتا ہے اور اپنی سوچ کے آگے کسی کو اہمیت نہیں دیتا تو سماج بکھر جاتا ہے اور اُس کی مجموعی کوشش جو اچھے نتیجے پیدا کر سکتی ہے ان سے محروم رہ جاتا ہے اسی وقت یہ کہا جاتا ہے کہ وہاں اپنی اپنی ڈفلی اور اپنا اپنا راگ ہے۔ کسی کو کسی دوسرے کی کوئی پرواہ نہیں ہر شخص اپنی مرضی کا مالک ہے اور اپنی رائے کے آگے کسی کی بات کو کوئی اہمیت نہیں دیتا۔ یہ سماج کا کتنا بڑا مسئلہ ہے جس سے ہم گزرتے رہے ہیں اور گزر رہے ہیں۔
(۹۹)اُلٹی پٹی پڑھانا۔
ایک قدیم محاورہ ہے جس کا اندازہ پٹی پڑھانے سے ہوتا ہے پٹی پیمانہ جیسی ایک لکڑی ہوتی ہے جس پر پہلے زمانہ میں تحریر لکھی جاتی تھی اِس طرح کی پٹیاں جنوبی ہندوستان کے مندروں میں محفوظ تھیں اور اب میوزیم اور آرکائیوز میں رکھی ہوئی ہیں پہلے یہ کتابوں اور رسالوں کی طرح پڑھانے کے کام آتی ہوں گی اسی سے یہ محاورہ بنا کہ اُس نے یہ پٹی پڑھا دی اُس کے ذریعہ سکھایا اور اُس کا اپنا مطلب سمجھایا اب ایک ناواقف آدمی کو غلط سلط بھی سمجھایا بجھایا جا سکتا ہے۔ اِسی کو الٹی پٹی پڑھانا کہتے ہیں جو غلط ارادے رکھنے والے لوگ کیا کرتے ہیں۔
’’الٹی سیدھی باتیں کرنا‘‘ ایک الگ محاورہ ہے جس میں یہ پہلو چھپا ہے کہ وہ بات بیشک کرتے ہیں مگر سیدھی سچی نہیں الٹی سلٹی جو بات اُن کی سمجھ میں آتی ہے وہ کرتے ہیں نہ اُن کی عقل و تجربہ سے اِن باتوں کا کوئی تعلق ہوتا ہے یہ گویا باتیں کرنے والوں کے رو یہ پر تبصرہ ہے۔
(۱۰۰) اُلٹی گنگا پہاڑ کو،یا اُلٹی گنگا بہانا۔
بے تکی غلط اور اُلٹی بات کے لئے کہا جاتا ہے۔ ’’ گنگا ‘‘پہاڑ ہی سے اُتر کر آتی ہے اور میدانوں میں رہتی ہوئی آگے بڑھتی ہے اسے پیچھے نہیں ہٹایا جا سکتا ہے ایسے موقعوں پر جب کچھ لوگ انہونی بات کرتے ہیں تو یہ محاورہ بولا جاتا ہے کہ یہ تو گنگا کے بہاؤ کو اُلٹ کر پھر پہاڑ کی طرف کر دینا چاہتے ہیں جو ممکن نہیں یہ بھی سماج کا رو یہ ہے کہ وہ جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھُوٹ ثابت کرنا چاہتا ہے اور اس میں جو بے تکاپن ہے کہے یا کرنے والوں کو اس کا خیال بھی نہیں رہتا یہ ہماری روزمرہ کی زندگی ذہنی حالت اور زمانہ کی روش پر ایک گہرا طنز ہے۔
(۱۰۱) اللہ اکبر،اللہ اکبر کرنا یا اللہ اللہ کرو یعنی اللہ کا نام لو۔
مسلمان سوسائٹی ہو یا ہندو سوسائٹی یا پھر سکھ سوسائٹی اُن پر مذہب کا روایتی اثر زیادہ ہے۔ یہ بات بات میں مذہب کو سامنے رکھتے ہیں اور جو بات کرتے ہیں وہ مذہب کے نام پر کرتے ہیں اِس کا ان کے عقیدے سے بھی رشتہ ہے اور تہذیبی روایت سے بھی وہ لوگ جو مذہب کو زیادہ مانتے بھی نہیں وہ بھی یہ الفاظ یہ کلمات اپنے اظہار ی سلیقے کے مطابق زیادہ مانتے ہیں مذہب کا روایتی اثر یہاں تک ہے کہ وہ یہ کہتے ہیں کہ خدا کے حکم کے بغیر پتہ بھی نہیں ہلتا یہ بات اپنی جگہ صحیح ہے مگر ایسی صورت میں بد اعمالیاں کیسے ہو رہی ہیں اور اس کی ذمہ داری کس پر ہے۔
اِس سے بہرحال یہ اندازہ ہوتا ہے کہ معاشرہ پر مذہب کا جو روایتی اثر ہے۔ اُس کا اظہار اس کی گفتگو، جملوں کی ساخت اور خاص طرح کے مذہبی کلمات سے بھی ہوتا ہے۔ ۔
(۱۰۲) اللہ آمین کا بچہ یا اللہ توکلی،اللہ کانور، اللہ کی جان۔
اللہ مارا، اللہ ہی اللہ ہے۔ اللہ کے گھر سے پھر ا ہے، خدا کے گھر سے پھرا ہے، اللہ کے لوگ، الہی مہر،الہی رات یہ تمام کلمات جو محاورے ہیں اِس طرف بھی اشارہ کرتے ہیں کہ اس میں مذہب کا وہ روایتی Traditionalاثر ہے جو ہماری زندگی و ذہن پر مل سکتا ہے اور جس کا اظہار بات بات میں ہوتا رہتا ہے۔
اِس کے علاوہ اللہ آمین کا بچہ ہو جانا ظاہر کرتا ہے کہ بعض بچے بڑے لاڈ پیار اور دعا درود کے سایہ میں پلتے ہیں خاص طور پر ایسے خاندانوں کے لڑکے جہاں بچے بہت کم ہوتے تھے۔ یہ صورت بڑی حد تک اب بھی ہے۔
اللہ توکلی کے معنی یہ ہیں کہ آدمی کو بھروسہ کوئی نہیں ہے کہ اُس کے پاس وسیلہ بھی کوئی نہیں بس جو کچھ ہے وہ اللہ پر بھروسہ ہے کہ غیب سے جو کچھ ہو جائے تو ہو جائے گا۔ اللہ کسی کے دل میں ڈال دے گا تو کام بن جائے گا یہ بھی ہمارے معاشرے کی حالتِ مجبوری اور معذوری کے ساتھ ایک فیصلے پر پہنچنا ہے۔
اللہ اللہ کرو یعنی یہ بات ہونے والی نہیں خواہ مخواہ کی اُمید لگائے بیٹھے ہو۔ اللہ کا نور داڑھی کو بھی کہتے ہیں اور ایسے بچے کو بھی جو کم صورت ہوتا ہے کہ وہ تو اللہ کا نور ہے اُس کی قدرت کا اظہار ہے ویسے اللہ کا نور ہونا بڑی خوبیوں کی طرف اشارہ بھی ہے کہ وہ تو اللہ کے نور میں سے ایک نور ہے۔ اللہ ہی اللہ ہے جب کسی مریض کے اچھا ہونے کی کوئی اُمید نہیں ہوتی ہے تبھی یہ بات زبان پر آتی ہے کہ اُس کی اللہ اللہ ہو رہی ہے۔
اللہ مارا یا خدا مارا ہمارے محاورات میں سے ہے اس کے معنی یہ ہیں کہ جو کچھ تم کر رہے ہو،وہ خدا کی مار ہے مگر عام طور پر یہ کلمہ محبت میں کہا جاتا ہے۔ اِس کو اللہ سنوارے کے روپ میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ اگر کوئی مریض بہت بری حالت سے واپس ہوتا ہے تو اُس کو اللہ کے گھر سے پھرنا کہتے ہیں جس کے یہ معنی ہیں کہ مر جانا اللہ کے گھر جانا ہے اللہ کو پیارا ہونا ہے۔
اللہ والے یا اللہ کے لوگ دہلی میں فقیروں کو کہتے ہیں۔ اس کے قریبی معنی رکھنے والا محاورہ اللہ کے لوگ ہیں یعنی وہ تو درویش خدا مست ہیں مل گیا تو بھی ٹھیک ہے نہ ملا تب بھی ٹھیک ہے اس معنی میں یہ تمام محاورے ہمارے معاشرے اور اس کے ایک خاص طرز فکر کے آئینہ دار ہیں۔ الہی مہر یا الہی رات بھی اسی طرز فکر کے نمائندہ محاورے ہیں۔ الٰہی رات کسی مقدس اور متبرک رات کو کہتے ہیں جیسے شبِ معراج اگرچہ الٰہی رات کا استعمال اردو میں بہت کم ہے الٰہی مہر تصدیق کرنے کے لئے مہر لگائی جاتی ہے جس کے بعد وہ تحریر یا رقم مصدقہ ہو جاتی ہے اور جب اُس پر خدا کی مہر لگ جائے گی تو اسے کوئی چیلنج نہیں کر سکتا۔
(۱۰۳) آنچل میں بات باندھنا۔
آنچل پہ بہت محاورے ہیں ان میں گرہ باندھنے کا محاورہ اِس معنی میں اہم محاورہ ہے کہ وہ آپس کے پیار کو مضبوطی بخشنے کے معنی میں آتا ہے بات کو نبھا دینے کے معنی میں اُردو کا گیت ہے اُس کے مکھڑے کے بول اُسی کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔
آنچل سے کیوں باندھ لیا ایک پردیسی کا پیار
(۱۰۴) آنسوں نکل پڑنا، آنسوں پونچھنا، آنسوں پینا، آنسوں ڈالنا، آنسوؤں سے منہ دھونا، آنسوؤں کا تار باندھنا۔
آنکھوں میں آنسوں آنا، آنکھوں کا ڈبڈبانا، آنکھوں کا تر ہونا، آنسوؤں ہی سے متعلق ہے۔ اور آنسوؤں سے منہ دھونا بھی اس سے ہم یہ اندازہ کر سکتے ہیں کہ رونے اور آنسوں بہانے کا تصور یا تاثر ہمارے ذہنوں پر کس حد تک رہا ہے اور ہمارے معاشرے نے آنسو بہانے کے ذکر میں کن کن وادروں اور نفسیاتی حالتوں کا تذکرہ کیا ہے۔ ۔
(۱۰۵) آنکھ اٹکنا، آنکھ اٹھا کر نہ دیکھنا، آنکھ اٹھا کر دیکھنا، آنکھ اُٹھانا، آنکھ آنا، آنکھ اونچی نہ کرنا، آنکھ بچانا،آنکھ بدلنا، آنکھ بند ہونا، آنکھ بھرکر دیکھنا،آنکھ بھوں ٹیڑھی کرنا، آنکھ پڑنا،نظر ادھر گئی، آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھنا، آنکھیں پھیر لینا، آنکھوں کی ٹھنڈک، آنکھوں کا سرمہ۔ آنکھیں ٹھنڈی کرنا، آنکھیں ٹیڑھی کرنا، آنکھیں چُرانا، آنکھیں چھپانا، آنکھ سے آنکھ ملانا، آنکھیں لڑانا،( یا آنکھ لڑنا) آنکھیں مٹکانا وغیرہ آنکھوں میں رات کاٹنا، آنکھیں پتھرانا۔
اِن محاورات سے اندازہ ہوتا ہے کہ انسان کے مختلف رویوں کو جو سماجی اخلاقیات سے گہرا واسطہ رکھتے ہیں ہماری سوچ سے کیا تعلق رہا ہے۔ اور اُس پر ہمارا تبصرہ کرنا کیا کیا انداز اختیار کرتا ہے مثلاً آنکھیں پھیر لینا مطلب نکل جانے کے بعد بے مروتی اختیار کرنا۔ آنکھ بدلنا رو یہ میں تبدیلی کرنا۔ آنکھ بھر کر دیکھنا بھی ایک عام رو یہ کی طرف اشارہ ہے کہ کسی کی یہ مجال نہیں ہے کہ تمہاری طرف اس طرح دیکھے کہ اس میں احترام کا پہلو باقی نہ رہے آنکھیں چار ہونا ایک دوسرے کے دیکھنے کو کہتے ہیں مگر چار آنکھیں ہونا غیر ضروری خواہشات نہ مناسب تمناؤں اور توقعات کو دل سے لگانے اور اپنی سماجی زندگی میں داخل کرنے والی عورتوں کے لئے اکثر کہا جاتا ہے کہ اس کی چار آنکھیں ہو گئیں۔
آنکھ سے آنکھ ملانا برابری کے رشتہ کے ساتھ ایک دوسرے کو دیکھنا ہے اور آنکھ نہ ملا سکنا فرق و امتیاز یا نفسیاتی طور پر شرمندہ ہونا کہ اُس کے بعد سامنے جرأت کی ہمت نہیں ہوتی بشرطیکہ وہ غیرت شخص ہو۔
آنکھیں چرانا بھی سماجی عمل ہے اور وہی کہ نفسیاتی طور پر آدمی کسی سے آنکھ ملا کر گفتگو نہ کر سکے اور بات کو اِدھر اُدھر ٹالنا چاہے
آنکھ لڑنا یا آنکھیں لڑانا عجیب و غریب انداز سے ہماری نفسیات پر روشنی ڈالتا ہے، لڑنا یا لڑانا کوئی اچھی ذہنی کیفیت نہیں ہے۔ لیکن قوم کشتی سے لیکر ہاتھیوں کی لڑائی مرغیوں کی پالی اور تیتر بٹیر کی باہمی جنگ دیکھ کر جو لوگ لطف لیتے ہوں اُن کے ہاں آنکھیں لڑانا بھی محبت کا اشارہ ہو جائے گا۔
آنکھ پھڑکنا سماج کی توہم پرستانہ فکر فرمائی کی ایک نشانی ہے کہ آنکھ پھڑک رہی ہے تو کوئی آفت آنے والی ہے اس طرح کی باتیں ہمارے معاشرے میں بہت رائج رہی ہیں۔ مثلاً بلی نے راستہ کاٹ دیا، تواب سفر منحوس ہو گیا۔ سفر میں خطرات تو تھے ہی اسی لئے سفر پر جانے والے کے بازو پر امام ضامن باندھا جاتا تھا آئینہ کے منہ پر پانی ڈالا جاتا تھا۔ اس سے اُس دور کی توہم پرستی کا کچھ نہ کچھ اندازہ ضرور ہوتا ہے۔
آنکھ پھوڑ ٹڈا ہونا دہلی کا خاص محاورہ ہے دوسری جگہوں پر استعمال نہیں ہوتا اور اچانک جو شخص تکلیف پہنچنے یا پہنچانے کا باعث بن جاتا ہے اس کے لئے استعمال ہوتا ہے۔
اپنی آنکھ کا شہتیر نظر نہ آنا اور دوسرے کی آنکھ کا تنکا دیکھنا بھی ہمارے سماجی رو یہ کا ایک پہلو ہے جو افسوس ناک حد تک سماجی ذہنیت کی برائی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
آنکھیں ٹھنڈی کرنا بھی بہت دلچسپ اور معنی خیز محاورہ ہے جب کسی بات کو دیکھ کر ہمارا جی خوش ہوتا ہے اور ہماری تسکین کا باعث بنتا ہے اسی کو آنکھیں ٹھنڈا ہونا کہتے ہیں۔ اس کے اریب قریب کا محاورہ کلیجہ ٹھنڈا ہونا ہے۔ میری آنکھیں ٹھنڈی اور دل خوش کہا جاتا ہے اور اس کے مقابلہ میں جو باتیں تکلیف کا باعث ہوتی ہیں ان کے لئے کہا جاتا ہے کہ وہ آنکھوں میں کانٹے کی طرح کھٹکتی ہیں۔
’’آنکھوں کی سوئیاں نکالنا‘‘ بھی کسی محنت طلب اور دقت والے کام کا انجام پا جانا ہے اسی طرح آنکھوں میں سلائی پھیرنا یا سلائی پھرنا اندھا کئے جانے کے عمل کو کہتے ہیں کہ مغلوں میں اِس کا دستور تھا کہ وہ اپنے قریبی رشتہ داروں کو جنہیں اپاہج بنا دینا مقصود ہوتا تھا ان کی آنکھوں میں سلائی پھروا دیتے تھے مغلوں کے دور میں ایسے واقعات بہت ہوئے ہیں میرؔ کا یہ شعر اسی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
شہاں کہ کُحل جواہر تھی خاکِ پا جن کی
اُنہی کی آنکھوں میں پھرتی سلائیاں دیکھیں
ہم میرؔ کے زمانہ سے پہلے اور میر ؔ کے زمانہ میں اس طرح کے واقعات کو تاریخ کا حصہ بنتے دیکھتے ہیں اسی کی طرف یہ محاورہ اور میرؔ کا شعر اشارہ کر رہا ہے یہاں ہم کہہ سکتے ہیں کہ بعض محاورے تاریخی واقعات سے بھی رشتہ رکھتے ہیں مثلاً ’’احسان لیجئے جہاں کا مگر احسان نہ لیجئے شاہجہاں کا۔ ‘‘
یہ کہاوت ہے اور کسی وجہ سے شاہ جہاں کے زمانہ میں رائج ہوئی ہے اسی طرح ’’نادر گردی مرہٹہ گردی‘‘ اور جاٹ گردی بھی محاورہ کے معنی میں آتی ہے بری صورت حال کو کہتے ہیں مگر ان کا تعلق تاریخ سے ہے جب انتظام باقی نہ رہے مگر بہرحال اس صورتِ کا تعلق تاریخ کے حقائق سے توہے۔
(۱۰۶) انگاروں پر لوٹنا، انگارے بچھانا، انگار بھرنا، انگار ے مارنا۔
انگارہ آگ ہی کی ایک صورت ہے اور تکلیف دہ صورت ہے وہ ہاتھوں پہ انگارے رکھنا ہویا انگاروں پر چلنا شدید عذاب کی ایک صورت ہے موت کے بعد قبر کے انگاروں سے بھرنے کے معنی بھی یہی ہیں کوئی اپنی قبر کو بھرے یا دوسرے کی بات ایک ہی ہے مسلمانوں میں یہ عقیدہ پایا جاتا ہے کہ جو عذاب آدمی کو دیا جاتا ہے وہ قبر میں دفن کرنے کے بعد ہی شروع ہو جاتا ہے اور چونکہ مسلمانوں میں عذاب کا تعلق آگ سے ہے دوزخ سے ہے اس لئے قبر میں بھی انگاروں کا ہونا شدید عذاب سے گزارنا ہے انگاروں پر لوٹنے کے معنی بھی سخت بے آرامی اور ذہنی کوفت کے ساتھ وقت گزارنا ہے۔
سماج کا رو یہ بھی کبھی کبھی ایک حساس یا مجبور آدمی کے حق میں اتنا بُرا ہوتا ہے کہ آدمی کچھ کر نہیں پاتا اور بے انتہا ذہنی کوفت اور جسمانی اذیتوں کے ساتھ وقت گزارتا ہے۔
(۱۰۷) اُوپری پرائے، بھوت پریت۔
یہ محاورہ بھی اس معنی میں اہم ہے کہ سماجی تو اہم پرستی اور ان دیکھی باتوں سے خوف کی طرف اشارہ کرتا ہے ہم یہ کہتے ہیں ہوئے دیکھتے ہیں کہ وہ اوپری پرائے کے بہت قائل ہیں اوپری پرائے کا ڈر رہتا ہے۔
(۱۰۸)اوکھلی میں سر دینا۔
اوکھلی لکڑی کے اس حصّہ کو کہتے تھے جس میں کسی شئے کو ڈال کر مُسل سے کوٹا جاتا ہے اوکھلی ایک کونڈی کی طرح ہوتی ہے اب سے کچھ دنوں پہلے تک گاؤں اور قصبوں کے گھروں میں اوکھلی بنی ہوتی تھی اور مُسل رکھے رہتے تھے اور دھان اس میں کوٹے جاتے تھے جس میں چاول الگ ہو جاتے تھے۔ بھُوسی الگ ہو جاتی تھی اب ایسی کسی جگہ کے لئے یہ محاورہ استعمال ہونے لگایا یہ کہاوت کام آنے لگی جہاں تکلیف کی باتیں ہوں اور آدمی اپنے سماجی رشتوں اور ضرورتوں کے پیشِ نظر اُن کو برداشت کر لیتا ہے اور یہ کہتا نظر آتا ہے کہ جب اوکھلی میں سر دیا ہے تو مسلوں سے کیا ڈرنا۔
(۱۰۹) اونچی ناک کرنا یا ہونا، نیچی ناک کرنا یا ہونا۔
یہ محاورہ سماجی امتیاز اور بے امتیاز ی کے تصوّر کے گرد گھومتا ہے ناک عزت و آبرو کی علامت ہے اسی لئے ناک کٹنا بے عزت ہونے کے معنی میں آتا ہے آدمی سر اونچا کر کے چلتا ہے تو اس کی ناک بھی اونچی ہوتی ہے اگر سر نیچا کر کے چلتا ہے تو ناک بھی نیچی ہوتی ہے اس سے مراد فخر و ناز کا اظہار کرنا ہے یا عاجزی اور انکسار کو پیش کرنا ہے سر اور ناک کے محاورے انسان کی یا ہماری زبان کی سماجی نفسیات کو پیش کرتے ہیں اور اُس میں یہ اونچ نیچ ایک اعتبار ی یا اختیاری صورت ہے۔ ۔
(۱۱۰) اہلے گہلے پھرنا، خوش خوش ہونا
دہلی کا محاورہ ہے اور جب انسان کسی کامیابی یا خوشی کے موقع پر خوش خوش نظر آتا ہے تو اہلے گہلے پھرنا کہتے ہیں یہ اس کی شخصی خوشی کا اظہار ہے۔
(۱۱۱) ایرے غیرے۔
سماجی نفسیات کی طرف اشارہ کرنے والا ہے محاورہ غیر ناآشنا یا دُور پرے کے آدمیوں کو کہتے ہیں انسانی نفسیات میں اپنے بیگانے یا قریب اور دور کے لوگوں کی تقسیم بہت واضح رہی ہے اور آج بھی ہے اسی لئے وہ ناآشنا لوگوں کو اپنے قریب پسند نہیں کرتا۔ سیاست یا تجارت کے رشتوں کی بات دوسری ہے ورنہ’’ ایرے غیرے‘‘ کہہ کروہ ناآشنا اجنبیوں کا ہی تو ذکر کرتا ہے۔
(۱۱۲) ایسی تیسی میں جائے یا جاؤ۔
آدمی اپنی ذہنی حالتوں اور نفسیاتی کیفیتوں کا اظہار ان الفاظ یا آوازوں میں کرتا ہے۔ سیٹی بجاتا ہے یا دوسری طرح کی آوازوں سے اپنی مختلف ذہنی کیفیتوں کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ ایسی تیسی ہونا اول فول بکنا اسی طرح کے حملوں یا آوازوں کا حصّہ ہے۔
(۱۱۳) ایک منہ،یا ایک زبان ہونا۔ ہزار منہ اور ہزار زبانیں ہونا۔
ایک منہ اور ایک زبان ہونے ہی کا ایک دوسرا رخ ہے جتنے منہ اتنی زبانیں یہ بھی اسی سلسلے کا محاورہ ہے۔ اصل میں ایک زبان کے ہونا کے یہ معنی بھی ہیں کہ سب ایک سی بات کہیں مگر سماجی معاملات میں ایسا ہوتا نہیں ہر آدمی اپنی بات الگ سوچتا اور الگ کہتا ہے منہ سے مراد چہرہ نہیں ہے بلکہ لب و زبان ہے اب جتنے آدمی ہوں گے اتنے ہی ان کے منہ ہوں گے ان کی زبانیں ہوں گی اور ان کی الگ الگ باتیں ہوں گی اسی سے سماج میں الجھنیں پیدا ہوتی ہیں کہ کوئی کچھ کہتا ہے تو کوئی کچھ کہتا ہے اور یہی ذہنی خلفشار اور گفتگو میں مقصدیت کے لحاظ سے انتشار کا باعث ہوتا ہے۔
(۱۱۴) اینڈا اینڈا پھرا نا، ڈولنا۔
اہلا گیلا پھرنے ہی کو کہتے ہیں اور اس میں شخصی نفسیات کو زیادہ دخل ہوتا ہے اور جماعت کو کم لیکن اینڈی بینڈی باتیں کرنا دوسری بات ہے یہ وہی صورت ہے جس کو ہم اوٹ پٹانگ بات کرنا کہتے ہیں یا غلط سلط باتیں کرنے کا رو یہ جو سماجی طور پر بہت لوگوں میں ہوتا ہے۔ اینڈی بینڈی چال بھی اسی مفہوم میں آتا ہے اس لئے کہ آدمی کی چال بلکہ خود جانور کی چال اس کی ذہنی حالتوں کو ظاہر کرتی ہے۔ تیز چلنا ایک الگ مفہوم رکھتا ہے آہستہ خرامی کا مطلب الگ ہے اور اینڈی بینڈی چال دوسرے ہی معنی رکھتی ہے۔
٭٭٭
ردیف ’’ب‘‘
(۱) بات اٹھانا، بات الٹنا یا الٹ دینا، بات بنانا، بات اونچی کرنا، بات نیچی ہونا، بات کا بتنگڑ بنانا، بات بات میں ذکر کرنا، اعتراض کرنا،بڑھ گئی بات بات کچھ بھی نہ تھی۔ بات کا سرا پانا، بات کا سِرا ملنا، جتنے منہ اتنی ہی باتیں۔ بات بدلنا، بات بڑھنا یا بڑھانا، بات بڑی کرنا، بات بگاڑنا یا بگاڑ دینا، منہ سے نکلی بات کوٹھوں چڑھتی ہے، بات لگانا، بات میں سے بات نکالنا، بات نہ کرنا وغیرہ۔
گفتگو ہمارے معاشرتی رویوں کا بہت بڑا حصہ ہے ہمارے بہت سے معاملات و مسائل بات چیت کے غلط رخ یا رو یہ کی بدولت بگڑ جاتے ہیں اور بات ہی سے سنورتے ہیں کہا سنی، گالی گلوچ،برا بھلا،لڑائی جھگڑا، تناتنی آخر ہمارے معاشرتی رو یہ ہیں جن کی بنیاد اکثر بات چیت سے پڑتی ہے ہم کہیں نہ کہیں گفتگو کے طریقہ سلیقہ میں غلط ہو جاتے ہیں بات آگے بڑھتی ہے غلط رخ پر آ جاتی ہے بلکہ بات کا بتنگڑ بن جاتا ہے۔
ہم غلط طور پر اپنی بات کا پچ بھی کرتے ہیں یعنی اپنی بات کو بڑا ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں اس میں غلط اور صحیح مناسب اور نامناسب کی حدود کو اکثر نظر انداز کر جاتے ہیں اور بات کہیں سے کہیں پہنچ جاتی ہے بہرحال ہماری معاشرتی اور سماجی زندگی میں جو پریشانیاں ذہنی الجھنیں شکر رنجیاں اور (دوستانہ تعلقات کا بگاڑ) اور عزیزانہ رشتوں میں گرہ پڑنا یہ سب گفتگو کے الفاظ سلیقہ اور طریقہ پر قابو نہ رہنا ہوتا ہے بعض لوگوں کو صحیح الفاظ آتے بھی نہیں بعض جلدی میں غلط سلط بات کہہ جاتے ہیں اور اس سے زیادہ بُرا یہ ہوتا ہے کہ اپنی غلطی پر اڑ جاتے ہیں اور دس باتیں اور بُری ہو جاتی ہیں اور بات کو بڑھ کر جہاں نہیں پہنچنا چاہیے وہاں پہنچ جاتی ہے اور پھر سنبھالنا مشکل ہو جاتا ہے۔ بات کو سنبھالنا ہر آدمی کے بس میں ہو تا بھی نہیں درگزر کرنا ایک اچھا رو یہ ہے لیکن مناسب حد تک ہی برداشت کرنا چاہئیے نامناسب حد تک بات کو پہنچانا یوں بھی صحیح نہیں ہوتا۔ توازن برقرار رکھنا چاہئے۔
کبھی کبھی بات اتنی پھیلتی بگڑتی اور اُلجھتی ہے کہ بات کا سرا نہیں ملتا کہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ اصل مسئلہ کیا تھا، اور کیوں تھا اور کیسے تھا، بات کا سِرا پکڑنے کی کوشش ہم اکثر کرتے بھی نہیں اِس سے بھی بات الجھتی ہے اور اس کا سَمٹانا یا معاملہ سے اپنی ذمہ داریوں کے ساتھ باہر آنا مشکل ہو جاتا ہے۔
بہ حیثیت مجموعی سماج کو سمجھنا ماحول کا جائزہ لینا اور صورتِ حال کا تجزیہ کرنا ایک بہت ضروری امر ہے جس سے ہم خوبصورتی کے ساتھ عہدہ بَرا ہونا بڑی بات ہوتی ہے۔ معاملہ کے تقاضوں کا خیال کرنا مسئلے کے ضروری پہلوؤں پر نظر رکھنا بات کے بے تکے پن سے بچنا سچ یہ ہے کہ بہت سی سماجی برائیوں سے بچنا ہے اور بہت سی الجھنوں سے نجات پانے کی کوشش ہے۔
(۲) بارہ باٹ کرنا یا ہونا۔
بارہ باٹ کرنا تیتر بتر کرنے کو کہتے ہیں جس کے بعد جمع اور ی مشکل ہو جاتی ہے اور آدمی کچھ کر نہیں پاتا سارا کنبہ بارہ باٹ ہو گیا ہے۔
(۳)بارہ بانی کا ہو جانا۔
ہر طرح سے صحت مند ہو جانا یہ بھی دیہات میں اکثر بولا جاتا ہے صحت مندی کے لئے بھی اور کھیت کی اچھی پیداوار کے لئے بھی اب رفتہ رفتہ محاورات غائب ہو رہے ہیں یہ محاورات بھی دیہات اور قصبات تک محدود ہو گئے ہیں۔ مثلاً دیہاتی یہ کہتے ہیں کہ ذرا سی محنت کر لو وقت پر پانی دو اور کھاد ڈالو تو تمہارے کھیت بارہ بانی کے ہو جائیں گے۔
اب یہ ظاہر ہے کہ شہر کا معاشرہ جب ’’کھیت کیا ر‘‘ کی زندگی سے کوئی تعلق ہی نہیں رکھتا تو اُس سے نسبت رکھنے والے محاورے بھی اس کی زبان میں داخل نہیں ہیں بالکل اسی طرح جیسے بہت سے شہری محاورے جو پڑھے لکھے اور ملازمت پیشہ طبقہ میں رائج ہیں وہ ان لوگوں کی زبان میں شامل نہیں جو کھیتی باڑی اور محنت مزدوری سے تعلق رکھتے ہیں اب جیسے (دھیلی) پاولا کمانا یا پکڑنا محنت مزدوری کرنے والوں کا محاورہ ہے۔ جو لوگ باقاعدہ تنخواہ لیتے ہیں ان کا محاورہ یہ نہیں ہو سکتا روپیہ کے مقابلہ میں (دھیلی) اور ’’دھیلی‘‘ میں ’’پاولا‘‘ آٹھ آنے چار آنے کو کہتے ہیں یہ محاورہ اس وقت کی یاد دلاتا ہے جب ایک آدمی کی مزدوری آٹھ آنے روز ہوتی تھی اور وہ بھی کاریگر کی عام مزدور کو چار آنے ملتے تھے اس طرح سے محاورات میں نہ صرف یہ ہے کہ طبقاتی ذہن کی پرچھائیاں ملتی ہیں بلکہ ایک وقت میں ایک خاص طبقہ کی جو آمدنی ہوتی تھی اس کی محنت کا جو معاوضہ ملتا تھا محاورے میں اس کی طرف بھی اشارہ ہوتا تھا۔
آج بھی ہمارے یہاں روٹی، روزی، روزگار سے لگا ہوا کہنے والے موجود ہیں اور یہ بھی کہتے ہیں کہ اس زبان اس فن یا اس کام کا تعلق روٹی روزی سے جوڑ دیا جائے اِس سے ان کی مُراد روپیہ پیسہ یا آمدنی کے حصول کا کوئی ذریعہ ہوتا ہے لیکن یہ الفاظ بتا رہے ہیں کہ اِس کا تعلق اس وقت کی مزدوری سے ہے جب محنت کا معاوضہ پیسوں میں نہیں روٹیوں میں ادا کیا جاتا تھا اور روز کی روٹی کہا جاتا تھا روزی دراصل روزینے کو کہتے تھے یعنی روزانہ جو کچھ ملازم یا مزدور کو ادا کیا جاتا تھا وہ اس کی روزی ہوتی تھی چار آنے روز دو آنے روز ایسا بھی ہوتا تھا کہ آٹا پیسنے والی کو پیسوں کے بجائے مزدوری میں آٹا ہی دیا جاتا تھا اور بازار سے جب چیز منگائی جاتی تھی تو روٹی بنوا لے، جو، باجرا، چنے اور گیہوں کچھ بھی دوکان پر بھیج دیا جاتا تھا اور اُس کے بدلہ میں روزمرّہ کے استعمال کی چیز آ جاتی تھی۔
’’فقیر مٹھی دو مٹھی آٹا مانگتا تھا‘‘ جو ایک محاورہ ہے اور ایسا ہوتا تھا کہ صبح کے وقت جو عورتیں عام طور پر گھروں میں چکی پیستی تھیں اپنے گھر کے آٹے میں سے ایک مٹھی آٹا اُسے دے دیتی تھیں مٹھی بھر آٹا، مٹھی بھر اناج، یا مٹھی بھر چنے،یہاں تک کہ مٹھی بھر دانے خیرات یا مزدور ی کے طور پر دیئے جاتے تھے۔
ہمارا معاشرہ بدل گیا لیکن اس دور یا کسی بھی دور یا کسی بھی، معاشرے سے تعلق رکھنے والے محاورے ہم عہد یا معاصر سچائیوں کی نمائندگی اب بھی کرتے ہیں۔
(۴) بازار کے بھاؤ پیٹنا۔
یہ دیہات و قصبات میں بولا جانے والا محاورہ ہے مغربی یوپی میں یہ پیٹنا بولا جاتا ہے اور لغت المحاورات میں ’’پ‘‘ کے زبر کے ساتھ پیٹنا بھی ہے۔ لیکن بھاؤ کے ساتھ ’’پٹنا‘‘ عام طور پر نہیں آتا۔ بازار سے متعلق اردو میں بہت محاورہ ہیں بازار لگنا بازار میں کھڑے کھڑے بیچ دینا بازار میں کھڑے ہونا،گرم بازاری ہونا یا بازار سرد ہونا، اتوار کا بازار، پیر کا بازار، منگل کا بازار، ہفتہ کا بازار عام طور سے اس خاص بازار کو کہتے ہیں جو کسی خاص دن لگتا ہے اسی سے روزے بازار کا محاورہ نکلا ہے۔ بازار کا رنگ بھی ہمارے محاورات میں سے ہے اور بازار کی چیز بھی غالبؔ کا شعر یاد آ رہا ہے۔
اور بازار سے لے آئے اگر ٹوٹ گیا
جام جم سے تو مِرا جام سِفال اچھا ہے
(۵) بازاری ہزاری یا بازار کی مانگ، بازاری عورت، بازار کی زبان، بازاری رو یہ، باز ار مندا ہونا۔
یہ سب بھی ہمارے محاورات کا حصہ ہیں اور اس سے پتہ چلتا ہے کہ بازار اس میں بکنے والی چیزیں بیچنے اور خریدنے والے لوگوں کا رو یہ زبان اور انداز بیان ہمارے معاشرے کو کس طرح متاثر کرتا رہا ہے۔ بازاریوں بھی ہمارے معاشرتی اداروں میں سے ہے اور ایک بڑا ادارہ ہے۔
(۶) بازی دینا یا کرنا، بازی کھانا، بازی لگانا یا بدلنا، بازی لے جانا۔
یہ سب ایسے کھیلوں سے متعلق محاورے ہیں جو مقابلہ کے لئے ہوتے ہیں اور کچھ نہ کچھ ’’بد ‘‘ کر کھیلے جاتے ہیں، جوا اس کی نمایاں مثال ہے۔ جو قمار بازی یا جوا کھیلنے ہی کی ایک صورت ہے یہ اور اس طرح تیتر بازی ہمارے معاشرے کی وہ کھیلنے کی روشیں ہیں جن کا ذکر ہماری زبان پر آتا ہے آج کرکٹ میں گیند بازی اور بلّے بازی بیت بازی، بازی کے لفظ کے ساتھ کچھ دوسری معاشرتی روشوں کا اظہار ہے بیت بازی ایک اور طرح کا مقابلہ ہے۔
(۷) بازی ہار جانا۔
مقابلہ میں شکست کھا جانا، یعنی وہ بازی ہار گیا اور اس کے دعوے جھوٹے ثابت ہوئے۔ بازی لگانے کے معنی شرط لگانے کے بھی ہیں جان کی بازی لگانا بڑی سے بڑی قربانی دینے کے لیے تیار ہو جانا جس کوشش میں کامیابی نہ ملے اس کو بھی بازی ہارنے کا پہلو چھپا ہوتا ہے۔
(۸) بال بال بچ گیا، بال بال دشمن ہو گیا ہے۔ بال بال گنج موتی پرونا، بال بال احسان مند ہے۔
بال بال کئی محاوروں کا بے حد اہم جز ہے جیسے بال بال بند جانا یعنی قرض میں مبتلا ہونا اور بری طرح قرض میں گھر جانا جب کہ بال بال بچنے کے معنی خطرہ سے نکل آنے کے ہیں میرے اور نقصان کے درمیان بال برابر فرق رہ گیا اسی کو بال بال بچنا کہتے ہیں بال بال گنج موتی پرونا گویا موتیوں سے بالوں کو آراستہ کرنا ہے یہ سجانے کے عمل کو آگے بڑھانا اور اس میں طرح طرح کے تکلفات برتنا ہے۔
بارہ ایران سولہ سنگھار میں یہ بھی داخل ہے کہ بال بال موتی پروئے جائیں بال بال احسان مند ہونا بھی بے حد احسان مند ہونے کو کہتے ہیں کچھ لوگ شریف ہوتے ہیں وہ کسی کے احسان کو بہت مانتے ہیں۔
(۹) بامن (برہمن) کی بیٹی کلمہ پڑھے یا بھرے۔
یعنی کسی اچھی چیز کو دیکھ کر بڑے سے بڑے آدمی کا تقویٰ ٹوٹ جاتا ہے برہمن کی لڑکی کلمہ پڑھنا یہی معنی رکھتا ہے۔
(۱۰) بانٹیا یا بانٹے۔
بانٹیا کی جمع بانٹیے ہے۔ اصل میں بانٹیے کے معنی ہیں حصّہ تقسیم کرنا حق دینا اسی لئے جس کا کوئی حق نہیں ہوتا حصّہ نہیں ہوتا اُسے کہا جاتا ہے کہ تیرا کیا ’’بانٹیا‘‘ اور اپنے حصے حق پر لگنے کا رجحان ہمارے معاشرے میں بہت ہے۔ اور جس کا وہ حق وہ حصّہ نہیں سمجھتے اس سے کہتے ہیں کہ تمہارا کیا بانٹیا یعنی تم بولنے کا حق نہیں رکھتے یہ بندر بانٹ محاورہ میں بھی شامل ہے کہ وہاں حق حصّے کی تقسیم بددیانتی کے ساتھ ہوتی ہے کہ وہ بھی ہمارے معاشرے کا ایک رو یہ ہے۔
(۱۱) بانسوں اُچھلنا۔
بہت اونچائی تک چھلاّنگ لگانا یوں بھی بازی گر جب اوپر چھلانگ لگاتے تھے تو لچک دار بانس کے سہارے اُچھلتے تھے مطلب یہاں بڑھ چڑھ کر باتیں بنانے سے بھی ہیں جو سماج کا ایک عام رو یہ ہے۔
(۱۲) باؤ باندھنا، باؤ بندی، باؤ بھری کھال، باؤ بھڑکنا، باؤ پر آ جانا (اور دفاع میں ہوا بھر جانا) باؤٹا اڑانا، باؤ ڈنڈی پھرنا، باد ہوائی پھرنا، باؤ کے گھوڑے پر سوار ہونا، باؤلی دینا۔
باد فارسی میں ہوا کو کہتے ہیں اُسی کو ہندوی میں باؤ کہا جاتا ہے اور کہیں کہیں دونوں کو ایک ساتھ جمع بھی کر دیا جاتا ہے جیسے باد ہوائی پھرنا ہواؤں کی طرح آوارہ گردی کرنا لوگوں کے پاس جب کام نہیں ہوتا تو وہ یونہی مٹرگشت کرتے پھرتے ہیں اس سے سماج میں بے کار لوگوں کے وقت ضائع کرنے کے مشغلوں کی طرف اشارہ کرنا ہوتا ہے اُردو کا ایک شعر جو اسی مفہوم کو ظاہر کرتا ہے یہاں پیش کیا جاتا ہے۔
تیرے کوچہ میں یونہی ہے ہمیں دن سے رات کرنا
کبھی اس سے بات کرنا کبھی اُس سے بات کرنا
باؤ ہندی ہوا کو بند کرنے کا عمل ہے اور ہوا بند ہونے والی چیز نہیں ہے بُلبلے کے خول میں ہوا بند ہوتی ہے مگر کتنی دیر کے لئے یعنی یہ ایک بے اعتباری بات ہے۔ سماج میں ا س طرح کی باؤ بندی ہوتی رہتی ہے اسی کی طرف اس مصرعہ میں اشارہ ہے
باؤ بندی حباب کی سی ہے۔
یا یہ مصرعہ
مٹھی میں ہوا کو تھا منا کیا
وہ آدمی جو بلا وجہ موٹا ہوتا ہے اُس کے لئے کہا جاتا ہے کہ وہ تو باؤ بھری کھال ہے۔ یہ ایک طرح کی بیماری ہے۔ لیکن اس کا اِطلاق انسانی رویوں پر بھی ہوتا ہے اور یہ سماج کا مطالعہ بن جاتا ہے اسی کے ذیل میں یہ محاورے بھی آتے ہیں باؤ بھڑکنا، باؤ ڈنڈی پھرنا۔ وغیرہ۔
(۱۳) باہر کا ہونا باہر کر کے، باہر کرنا، باہر کی بو، باہر کی پھرنے والی، باہر والا، باہر والی۔
شہری لوگوں میں یہ رو یہ ہوتا ہے۔ کہ وہ باہر کے لوگوں کو پسند نہیں کرتے نہ ان کی زبان کو پسند کرتے ہیں نہ ان کے طور طریقوں کو ان کے نزدیک وہ سب باہر کی باتیں ہیں اسی لئے وہ کسی کی بات کو باہر نہیں جانے دیتے اور یہ کہتے ہیں کہ یہ محاورہ اس طرح استعمال ہوتا ہے کہ گھر سے نکلی کوٹھوں چڑھی یعنی کوئی بات اس گھر سے باہر نکلنی نہیں چاہیے۔
باہر کرنے کے معنی یہ ہیں کہ نکال کر باہر پھینک دینا اور فالتو سمجھنا نفرت کا اظہار کرنا باہر کی بُو یعنی باہر سے آنے والی روش کو اختیار کرنا یا اس کی خواہش کرنا یہ اور اس طرح کے محاورات شہری نفسیات کو سمجھنے میں بہت معاون ہوتے ہیں دہلی والے اپنی تہذیب اپنے رسم و رواج اور اپنے محاورے پر بہت ناز کرتے تھے اسی لئے وہ باہر کے لوگوں کی کسی بات کو اپنے لئے پسند نہیں کرتے تھے۔ اور ان کے یہاں مردُم بیرونِ جات کا لفظ استعمال ہوتا تھا جس کے معنی ہوتے ہیں کہ لوگ اسی لئے ان کی زبانوں پر اس طرح کے فقرہ آتے تھے کہ تم تو دلی کی ہو باہر کی نہیں ہو۔
باہر پھرنے والی عورت ان کے خیال سے عزت کے لائق نہیں ہوتی تھی ایک خاص طبقہ پردہ پر بہت زور دیتا تھا وہ دہلی سے باہر بھی تھا مگر ایک خاص طبقہ تھا سب نہیں جو باہر کی پھرنے والی عورت کو بھی برا سمجھتا تھا اور اس پر طنز کرتا تھا۔ اگر دو قدم بھی چلنا ہوتا تھا۔ تو ڈولی استعمال ہوتی تھی۔ اور تانگے میں سفر کیا جاتا تھا تو پردے باندھے جاتے تھے اور عورتیں اپنے گھر کے دروازے سے نکل کر تانگے یا ڈولی تک پردہ کروا کے جاتی تھیں اسی لئے باہر پھرنے والی بہت بری نظر سے دیکھی جاتی تھی۔
(۱۴) بیتی بجنا، بیتی بند ہو جانا، بیتی دکھانا۔
دانت منہ میں رہتے ہوئے بھی بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ وہ ہنسنا ہو یا بولنا ہر ایک میں ایک تمیز داری اور آداب شناسی کی ضرورت ہوتی ہے بہت کھل کر ہنسنا پسند نہیں کیا جاتا تھا۔ اسی لئے ٹھٹھے مارنا یا لگانا اچھے معنی میں استعمال نہیں ہوتا یہاں تک کہ دانت دکھانے کو بھی عورت کے لئے پسند نہیں کیا جاتا تھا۔ یہ اس وقت کے معاشرتی آداب تھے۔ کھاتے وقت دانتوں کا بجنا بھی بہت بُرا سمجھا جاتا تھا۔ دانتوں کا سوتے میں رگڑنا بھی منحوس سمجھا جاتا ہے۔
دانت دکھانے کا محاورہ بھی برائی کے معنی میں آتا ہے کہ ذرا سی دیر میں دانت دکھا دیئے۔
بتیسی بند ہو جانا دورا پڑنا، اس میں ایک افسوس ناک صورت کی طرف اشارہ ہے کوئی طنز نہیں لیکن بتیسی دکھانے میں ہے کہ اُس کا منہ کھلا رہتا ہے اور منہ کھُلا رہنا تمیز دار ی کے خلاف ہے۔
(۱۵) بجلی پڑے، ٹوٹے یا گرے۔
یہ عورتیں کے کوسنے ہیں اور عورتوں کی زبان میں گالیاں اتنی شامل نہیں ہوتیں جتنے کوسنے شامل ہوتے ہیں یہ ہمارے معاشرے کا مزاج اور عورتوں کا اندازِ نظر ہے آسمان پر بجلی چمکتی ہے۔ لیکن پہلے اس طرح کے قصّے بہت ہوتے تھے کہ اُس پر بجلی گر گئی جس کے معنی یہ ہیں کہ اچانک وہ ایک المناک انجام سے دوچار ہوا عورتیں اپنے کوسنوں میں اس طرح کے جملوں کو شامل رکھتی تھیں۔ جس میں نقصان پہنچنے موت آنے بیمار پڑنے اور گھرکے برباد ہونے کا مفہوم شامل رہے۔
(۱۶) بجوگ پڑنا۔
ہندوی محاورہ ہے۔ اور ’’ویوگ‘‘ سے بنا ہے۔ جس کے معنی ہوتے ہیں۔ جدا ہو جانا یہ فراق آشنا ہونا۔ ہندوؤں میں عورت کا مرد سے جُدا ہونا ویوگ کہلاتا ہے۔ وہی بجوگ ہے یعنی تیرا شوہر تجھے چھوڑ کر چلا جائے مر جائے یا کسی بھی وجہ سے دونوں کے درمیان جُدائی واقع ہو جائے جو بہت بڑا کوسنا ہوتا ہے۔ خاندانوں میں جب آپسی اختلافات بڑھ جاتے ہیں۔ تب بھی بجوگ پڑنا کہتے ہیں یہ بھی گویا خاندان کے لئے ایک تکلیف دہ بات ہوتی ہے۔
(۱۷) بچن بد ہونا، بچن دینا۔
وَچن سنسکرت کا لفظ ہے جو ہندوی میں بچن ہو گیا ہے اور اسی سے یہ محاورے بنے ہیں اپنی بات کا پابند ہونا اور اسے اُلٹ پلٹ نہ کرنا ایک طرح کا اخلاقی رو یہ ہے بچن بد کہہ کر اسی کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے۔ وچن دینا وعدہ کرنا کہ ہم اِس کے پابند ہیں اور ایسا کریں گے یہ اخلاقی رو یہ ہے جو سماج کی بڑائی کو ظاہر کرتا ہے۔ اور اس برائی کو بھی کہ عام لوگ اپنی بات اور اپنے وعدہ کو نبھانے کے بجائے ذرا سی دیر میں بات بدل دیتے ہیں اور مسئلے کا رُخ پھیر دیتے ہیں۔
(۱۸) بد لگام ہونا۔
بدتمیز ہونا، سرکش ہونا، زبان کا قابو میں نہ رکھنا، یہ گھوڑے کی مناسبت سے ہے لیکن اِس سے مراد انسان کی طبیعت اور کردار ہے کہ وہ کس حد تک اپنی زبان اپنی طبیعت اور اپنے عمل اور ردِ عمل پر قابو رکھتا ہے۔
بدمزاج اور بد مزاجی بھی اسی ذیل میں آتا ہے بد ذوقی، بد شوقی کی کمی صحیح مذاق کا فقدان بدکلامی وغیرہ اسی سلسلے کے محاورے ہیں ان میں طریقہ کار طرزِ عمل طرزِ گفتگو کے اعتبار سے اِن محاورات کا موقع بہ موقع استعمال اور اِطلاق ہوتا ہے۔
(۱۹) بُرا وقت،بُرے دن، بُری گھڑی۔
ہم سماجی طور پر یہ سمجھتے ہیں کہ آدمی بُرا نہیں کرتا۔ برائی کا سبب تو بری گھڑی ہوتا ہے جس پر آدمی کو کوئی قابو نہیں بُری ساعت بھی اسی کو کہتے ہیں اور وہی بُرے دن ہوتے ہیں۔ جب ایک لمبا دور کسی تکلیف مصیبت یا پریشانی کے عالم میں گزرا۔ اسی لئے کہا جاتا ہے کہ اللہ بُرا وقت نہ لائے بُرے دنوں سے بچائے یا کسی بچے کے لئے کہا جاتا ہے کہ وہ بری گھڑی کی پیدا ئش ہے بات وہی ہے کہ برائیوں کی ذمہ دار بُرے دن ہیں بُرا وقت ہے بُری ساعت ہے اُس سے معاشرتی طور پر ہماری سماجی سوچ کا اندازہ ہوتا ہے کہ ہم حالات کوکس طرح سمجھتے اور کس طرح انہیں Interpretکرتے ہیں کسی بات کا مطلب نکالتے ہیں۔
(۲۰) بڑی چیز، بڑی روٹی، بڑا کھانا، بڑے گھرکی بیٹی، بڑا نام، بڑا بولا۔
اِن محاورات پر غور کیا جائے تو بڑی چیز بڑا، بڑی بات سبھی سماجی امتیازات کو ظاہر کرتے ہیں۔ بڑا کھانا اور بڑی،روٹی غریب گھرانوں کے مقابلہ میں بڑے خاندانوں ہی سے مل سکتی ہے بڑا مال بھی ہے یعنی دولت اور بہت اچھا کھانا۔
بڑے گھرکی بیٹی اُس صورتِ حال کا اظہار ہے۔ جب وہ کسی چھوٹے درجہ کے خاندان میں بیاہی جائے۔ تبھی تو اُسے بڑے گھرکی بیٹی کا طعنہ دیا جائے گا طنز کیا جائے گا اونچ نیچ کا تصور اس سے جڑا ہوا ہے۔ بڑ بولا اس شخص کو کہتے ہیں جو بہت بڑھ چڑھ کر باتیں کرتا ہے۔
(۲۱) بسم اللہ کرنا، بسم اللہ کا گنبد ہونا، بسم اللہ کی برکت۔
بسم اللہ کا گنبد ہونا جاہل آدمی کے لئے کہا جاتا ہے جو مذہب کا دعویٰ دار ہو جس کا ذہن بالکل مکتبی ہو۔ اُسے ہم ملاّئے مکتبی کہتے ہیں اور یہ بھی طنز کرتے ہیں کہ یہ تو بسم اللہ کے گنبد میں رہتے ہیں ویسے بسم اللہ پڑھ کے کھانا ایک طرح کا مذہبی اور تہذیبی رو یہ ہے۔ اسی لئے کہا جاتا ہے۔ کہ بسم اللہ کیجئے یعنی شروع کیجئے اللہ کے نام کے ساتھ۔
بسم اللہ کی برکت کے معنی بھی یہی ہیں کہ بسم اللہ پڑھ کے کوئی کام کرو گے تو برکت ہو گی ظاہر ہے کہ یہ محاورہ مسلمانوں کا اپنا ہے۔ اور ان کی مذہبی فکر سے گہرے طور پر متاثر ہے۔ اور ہمارے سماجی عمل اکثر مذہب دھرم خاندانی بزرگوں کے اثر اور صوفیوں کے اثرات سے بھرے نظر آتے ہیں۔ بسم اللہ ہی غلط ہو گئی اس کے معنی ہوتے ہیں کہ کام کی شروعات غلط ہو گئی۔
(۲۲) بُغضِ الٰہی۔
بیر بغض رکھنا ہمارا یک محاورہ ہے۔ اور اِس کے معنی یہ ہیں کہ ہم دوسروں کی طرف سے خوامخواہ بھی دشمنی کے جذبات اپنے دل میں رکھتے ہیں۔ ان کی خوشی سے ناخوش ہوتے ہیں۔ یہ خدا واسطے کا بیر کہلاتا ہے۔ اور اسی کو بغضِ الٰہی بھی کہتے ہیں۔ اِس سے معاشرے کی اپنی کچھ برائیاں سامنے آتی ہیں کہ اختلاف بھی ان کے یہاں بسا اوقات بلاوجہ اور بے سبب ہوتا ہے۔
(۲۳) بغل کا دشمن، بغلی گھونسا ہونا۔
بغل کے ساتھ بہت سے محاورے ہیں مثلاً بغل میں بچہ شہر میں ڈھنڈورا(مُنادی) یا بغل میں کتاب اور منہ پر جہالت اِس سے مراد یہ ہے کہ بھی اور نہیں بھی بجا بے خبری ہے۔
اس سے فائدہ اٹھا کر دوسرے ہمیں دھوکے دیتے ہیں۔ اور دوست بن کر دشمنی اختیار کرتے ہیں وہی لوگ بغلی گھونسا ثابت ہوتے ہیں یا بغل کے دشمن سمجھے جاتے ہیں یہ کہا جاتا ہے کہ لوگ بغل میں گھوس کر نقصان پہنچاتے ہیں یہ بھی مکاری دغا بازی اور دھوکہ دھڑی کی ایک صورت ہے۔
(۲۴) بغل گرم کرنا۔
ایک دوسرے سے ہم آغوش ہونا۔ اور ایک ساتھ ہم خواب ہونا۔ بغل گیر ہونا۔ ایک دوسرے سے مُعانقہ کرنا گلے ملنا یہ بھی ہمارے لئے ایک دوسرے کے ساتھ محبت کا اظہار کرنے کے لئے ہوتا ہے۔ مبارکباد کے وقت بھی ہم گلے ملتے ہیں۔ یہ بھی سمجھا جاتا ہے کہ گلے مِلنا شکوہ شکایت اور گِلہ مندیوں کا خاتمہ کر دیتا ہے۔
(۲۵) بکھیڑا، بکھیڑے میں پڑنا،بکھیڑنا۔
یہ خالص ہندوستانی محاورہ ہے اور اس کے معنی ہوتے ہیں الجھنوں میں گرفتار ہونا جھگڑے میں پڑنا۔ اختلافات کا بڑھنا اسی لئے کہا جاتا ہے۔ کہ ہم اس بکھیڑے میں پڑنا نہیں چاہتے۔
(۲۶) بَل بَل جانا، بَلہاری جانا۔
ہمارے معاشرتی رویوں کا ایک خاص انداز ہے یعنی صدقہ ہونا قربان ہو جانا، جان دینا، جان نچھاور کرنا اُسی کو بَل بَل جانا۔ بَلہاری جانا کہتے ہیں۔
(۲۷) بندوق بھرنا، بندوق لگانے کاندھے ہونا۔
بندوق بارود ی ہتھیار ہے اور حیرت ہے کہ ہم نے بارود سے متعلق بہت کم سوچا اور اسی نسبت سے ہمارے یہاں بارود ی ہتھیاروں پر محاورے بہت کم ہیں۔ ایک زمانہ میں بندوق میں بارود بھری جاتی تھی ایسی بندوقوں کو توڑے دار بندوق کہتے تھے۔ اسی سے بندوق بھرنا محاورہ بنا یعنی لڑنے کی تیاری کرنا مقابلہ پر آمادہ ہونا۔
اتنی بڑی بڑی بندوقیں ہوتی تھیں کہ آدمی اکیلے اُن کو نہیں سنبھال سکتا تھا اُن کی نالی دوسرے کے کندھے پر رکھ دی جاتی تھی یہیں سے گانے کاندھے بندوق ہونا محاورے کے طور پر آنے لگا مراد یہ ہے کہ وہ اپنا فیصلہ خود نہیں کر سکتے دوسروں کے مشورہ پر کرتے ہیں۔ بندوق کو چھُپانا بندوق چلانے کا عمل ہے کہ بندوق کا پچھلا حصہ اگر کاندھے سے ایک خاص انداز سے نہ لگایا جائے اور چھاتی کا سہارا نہ دیا جائے تو بندوق ایک دم سے دھکا لگاتی ہے۔
اُس سے بچنے کے لئے ہی بندوق کو چھُپانے کا عمل کہا جاتا ہے۔ محاورہ کے طور پر یہ زیادہ کام نہیں آتا زیادہ سے زیادہ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ تیار ہونے کا عمل ہے کہ فوراً ہی گولی چلا دی جائے گولی مار دینا سامنے کی بات ہے لیکن ہم بیزاری کے طور پر بھی یہ کہتے ہیں کہ اسے گولی مارو اور اس کا ذکر بھی نہ کرو۔
(۲۸) بوٹی بوٹی پھڑکتی ہے۔ بوٹی بوٹی کر ڈالنا، بوٹیاں چبانا، بوٹیاں چیلوں کو ڈالنا، بوٹی بوٹی تھرکنا۔
یہ شدید ردِ عمل اور غصہ کے اظہار کے طور پر کہتے ہیں کہ تیری بوٹیاں چبا لوں گا اس لئے کہ کچا گوشت کھانا وحشت و بربریت کی علامت ہے۔ بوٹیاں یا بوٹی بوٹی کر کے چیل کووّں کو کھلا دینا ایک بہت ہی المناک انجام ہے مرنے والے کے ساتھ شدید غصہ اور انتقام کا سلوک کرنا ہے قدیم زمانہ میں غلاموں کے ساتھ یہ سلوک ہوتا تھا اور ان کی بوٹیاں چیل کووّں کو کھلائی جاتی تھیں۔
ہم اس سے اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ بہت محاوروں کے پس منظر میں تاریخی واقعات اور روایات موجود ہیں۔ بوٹی بوٹی تھرکنا یا پھڑکنا دوسری بات ہے اس سے مراد ایک ایسی شخصیت ہوتی ہے بلکہ اکثر نوعمر کے لڑکے اور لڑکیاں ہوتی ہیں جن میں سے چُستی چالاکی اور شوخ مزاجی زیادہ ہوتی ہے۔ اس کے لئے کہا جاتا ہے کہ اس کی تو بوٹی تھرکتی ہے۔
(۲۹) بول اٹھنا، بول بالا ہے۔ بول بالا ہونا، بول جانا، بولنے پر آنا، بولیاں بولنا، بولیاں سننا، بول سُنا۔
یہاں بنیادی طور پر لفظ بول کی اہمیت ہے۔ اور اس سے پتہ چلتا ہے۔ کہ ایک ایک لفظ کے کتنے معنی اور کتنے Shadesہیں اور بات میں سے بات اور نکتے میں سے نکتہ کیسے پیدا ہوتا ہے۔ بول بات چیت کے لئے بھی کہتے ہیں میٹھے بول اچھی بات چیت کے لئے بھی کہتے ہیں جو محبت اور پیار سے کی جائے اسی طرح سے طنز و تعریض سے جو بات کی جاتی ہے اور لہجہ میں سختی اور کرختگی آتی ہے اسے تلخ گفتگو گویا کڑوے بول کہتے ہیں جب کسی کی بات رکھ لی جاتی ہے مان لی جاتی ہے سرائی جاتی ہے۔ تو اسے بول بالا ہونا کہتے ہیں اور جب رعد کی جاتی ہے۔ تو اس کو نیچا ہونا کہتے ہیں۔
طرح طرح کی باتیں کرنے کو بھانت بھانت کی بولیاں کہا جاتا ہے بول اٹھا اچانک کسی بات پر بول پڑنے کو کہتے ہیں کبھی کبھی چھت ٹوٹنے لگتی ہے۔ تو اس کے لئے بطور استعارہ چھت بول جانا یعنی کڑیوں کے ٹوٹنے کی آواز پیدا ہونا۔ بڑبولا اس سے پہلے آ چکا ہے اور اپنے لئے’’ زمین آسمان کے قلابے ملانا‘‘ یہ سب باتیں ہمارے سماجی رویوں اور معاشرتی روشوں کی نشاندہی کرتی ہیں۔
(۳۰) بھاگ پھوٹنا، بھاگتے کی لنگوٹی، بھاگتے بھُوت کی لنگوٹی۔ بھاگ جاگنا یا کھُلنا، بھاگ لگنا، بلّی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹنا۔
ہمارا معاشرہ ایک تقدیر پرست معاشرہ ہے کہ ہم تدبیر پر بھروسہ نہیں کرتے اپنی کوشش یا اجتماعی کوشش کے نتیجے پر ہمارا یقین نہیں ہوتا ہم یہ سمجھتے ہیں کہ جو کچھ ہوا ہے یا ہونا ہے وہ قسمت کی وجہ سے ہوا ہے تقدیر میں یونہی تھا اس لئے ہوا ہے۔ اس کوکسی تدبیر کسی منصوبہ بند کوشش اور کاوش سے وابستہ کر کے نہیں دیکھتے یہ ہماری بنیادی سوچ ہے کہ ہم Effortsکوششوں پر بھروسہ نہیں کرتے Chancesکو زیادہ اہمیت دیتے ہیں اسی وجہ سے بھاگ قسمت اور تقدیر کا لفظ بہت لاتے ہیں بھاگ پھوٹنا یعنی بدقسمتی کا پیش آنا بھاگ کھُلنا اچھی قسمت ہو جانا بلّی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹنا اچانک ایسی صورت کا پیدا ہو جانا جو فائدہ پہنچانے والی ہو۔
اِس سے ہم اس فریم ورک کا حال معلوم کر سکتے ہیں جس کے ساتھ ہماری سماجی نفسیات’ ہمارے معاشرتی رویوں میں شریک ہو جاتے ہیں اسی لئے ہم لڑکی کو رخصت کرتے ہوئے یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ ہم نے تو اس کے ہاتھ پیلے کر دیئے ہیں۔ اب جو تقدیر جو نصیب یعنی ہم آگے کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتے۔
ہم اپنی زندگی میں اچھے بُرے مواقع سے بھی گزرتے ہیں جہاں قدرت بظاہر ہمیں Favourیا Disfavourکرتی ہے لیکن پورے معاشرے نے غلطی یہ کی کہ ہر بات کو تقدیر کے حوالہ کر دیا اور حالات ماحول نے انسانی روش اور رویوں پر نظر نہیں رکھی ہمارے یہاں آدمی بد دیانت بہت ہے یہاں تک کہ قرض لیا ہوا واپس نہیں دینا چاہتا جو ایک طرح کا سماجی عیب ہے۔ دوسرے لوگ یہ چاہتے ہیں کہ جن کا قرض ہوتا ہے جو کچھ ملے وہی لے لو یہ آدمی کچھ دے گا تو نہیں اسی کو بھاگتے کے لنگوٹی یا بھاگتے بھُوت کی لنگوٹی کہتے ہیں۔ اصل میں یہ ظاہر کرنا ہوتا ہے کہ وہ آدمی کسی لائق نہیں ہے اور اس کے پاس کرتا پاجامہ بھی ہیں صرف لنگوٹی ہی لنگوٹی ہے۔ وہی تو چھینی جا سکتی ہے۔
(۳۱) بھرا بھتُولا، بھرا ُپرا، بھری بھتُولی۔
مغربی یوپی میں ایسے بھربتون کہتے ہیں دوسرے محاورے جواس سلسلے کے ہیں وہ وہاں رائج ہیں دہلی ہی میں رائج ہیں۔ بھرا پُرا گھرکے لئے بھی آتا ہے جس میں چیزیں بھی ہوں اور پیسے بھی اس لئے کہ ہمارے یہاں اتنی بھی ہوں اور پیسے بھی اس لئے کہ ہمارے یہاں اتنی غربت رہی ہے کہ بعض اوقات گھڑے پر پیالہ بھی نہیں ہوتا تھا تو عورتیں کہتی تھیں کہ ہم نے روٹی پر روٹی رکھ کے کھائی یعنی ہم اتنے غریب نہیں ہیں کہ ہمارے یہاں دو روٹیاں بھی نصیب نہ ہوں اب ایسے خالی گھروں کے مقابلہ میں جن کے پاس کچھ بھی نہیں ہوتا تھا بھرا پرا گھر مال و دولت کے اعتبار سے بڑا گھر کہلاتا تھا اور جب کبھی لڑکی کو یا کسی عزیز کو بہت کچھ دیکر رخصت کیا جاتا تھا تو کہا جاتا تھا کہ ابھی تو پھر تبول یا بھربتوں کے بھیجا تھا۔
(۳۲) بھرم کھُل جانا، بَھرم باقی رہنا۔
ہمارے ہاں بہت باتیں اصل حقیقت نہیں ہوتیں بلکہ اُن کو ظاہر اِس طرح کیا جاتا ہے کہ جیسے وہ اپنی جگہ پر ایک حقیقت ہوں لیکن اِس میں واقعتاً کوئی بنیاد نہیں ہوتی تو جلدی ہی وہ بات کھُل جاتی ہے اور بھرم باقی نہیں رہتا اس کو دہلی میں ایک اور محاورے سے بھی ظاہر کیا جاتا ہے کہ پول پیٹی کھُل گئی اور آدمی اپنے بھرم کو باقی رکھ سکے کہ سماج کے لئے وہ بڑی بات ہوتی ہے۔
(۳۳) بھرے کو بھرتا ہے۔
یہ محاورہ بھی ہمارے سماج کی سوچ ہے اور ہوت نہ ہوت کے نتیجے میں پیدا ہوئی کہ ضرورت مند آدمی یہ سمجھتا ہے۔ کہ میں متحقق ہوں مجھے ملنا چاہیے کہ میرے پاس کچھ نہیں ہے اور ملتا اسے ہے کہ جسے ضرورت نہیں ہے اس کے یہ معنی ہیں کہ بھرے کو بھرا جاتا ہے ہم اکثر رشتہ داروں کے لبوں پر شکایت دیکھتے ہیں کہ وہاں تو بھرے کو بھرا جاتا ہے۔ یہ سماجی شکایت ہے یہاں تک کہ یہ شکایت خدا سے بھی ہوتی ہے۔
ہمارے یہاں نکمّہ پن بھی زیادہ تھا اور نہ انصافی بھی اسی کی وجہ سے کچھ لوگوں کے پاس ہوتا تھا اور کچھ لوگوں کے پاس بالکل نہیں ہوتا تھا۔ بعض حالتوں میں وہ اِس نہ ہوت کے خود بھی ذمہ دار ہوتے تھے۔ لیکن سمجھتے یہ تھے کہ یہ سب تو ہماری تقدیر کی بُرائی ہے ہمارا کوئی قصور نہیں اور اپنے رشتہ داروں پر اپنا حق تصور کرتے تھے پھر شکوہ شکایت کرتے تھے۔
(۳۴) بہشت کا جانور، بہشت کا میوہ، بہشت کی قمری، بہشت کی ہوا۔
بہشت مسلمانوں میں اور اس سے پیشتر عیسائیوں اور یہودیوں میں موت کے بعد کی زندگی کا ایک آئیڈیل ہے کہ وہاں راحتیں ہیں اس میں محل ہیں بہتی ہوئی نہریں پھل دار درخت ہیں اور چہکتے ہوئے پرندے ہیں ہمارے ہاں سکون و راحت آرام کا یہی تصور بھی ہے جو صحرا نشیں قوموں کا ہوتا ہے اس سے بہت سے محاورے ہمارے ہاں جیسے بہشت کی قمری حُور جنت کوثر و تسنیم، شجر طوبہ، شجرِ ممنوعہ، آدم و حوا کا بہشت میں قیام یہ سب اسی تصور کا نتیجہ ہے جس کا اثر مسلمان تہذیب پر بہت گہرا ہے۔ اس کا اثر عیسائی تہذیب پر بھی ہے مگر اتنا نہیں فردوس گم گشتہ کی بات وہاں پر زبانوں پر آتی ہے انگریزی کے مشہور شاعر ملٹن کی نظم پیراڈائس لوسٹ اور Paradise Regained پیرا ڈائس ریگینڈ نظمیں اسی کی طرف اشارہ کرنے والی شعر ی تخلیقات ہیں۔
(۳۵) بیٹی کاباپ۔
ہمارے یہاں بیٹی ہونے پر خوشی کا اظہار نہیں کیا جاتا اس کی بہت سی وجوہات ہیں اُن میں ایک بڑی وجہ بیٹی کے ساتھ اس کی سسرال والوں کا رو یہ ہے جو ایک بیٹی والے باپ کے لئے بے حد تکلیف کی بات ہوتی ہے۔
ہمارا سماج کمزور کودباتا ہے چاہے اُس کی کمزوری اخلاقی ہو یا رشتوں کی نزاکت کے باعث ہو یا مالی اعتبار سے ہو۔ یا بے سہارا ہونے کے لحاظ سے یہاں تک کہ اگراس کے گھرمیں بیٹی ہے تو یہ بھی کمزوری ہے۔ اور اس کو بھی موقع بہ موقع داماداس کے گھروالے برابر Exploitکرتے رہیں گے ناجائز دباؤ ڈالتے رہیں گے۔
(۳۶) بے چراغ کرنا، بے چراغ ہونا۔
چراغ خوشی کی علامت ہے اس لئے کہ وہ اندھیروں کو دورکرتا ہے۔ اور روشنیوں کوپیدا کرتا ہے۔ یہ بڑی بات ہوتی ہے۔ اسی لئے بیٹے کو اندھیرے گھرکا چراغ کہتے ہیں۔ دعاء دی جاتی ہے۔ چراغ روشن مراد حاصل اور بے چراغ ہو جانا اس کے مقابلہ میں محروم ہو جانا،بے حد نقصان کی حالت میں ہونا ویران ہو جانا،گھرکے گھربے چراغ ہیں شہر کا شہر بے چراغ ہے۔ اردو کا ایک شعرہے۔
روشن ہے اس طرح دلِ ویراں میں داغ ایک
اُجڑے نگر میں جیسے جلے ہے چراغ ایک
(۳۷) بیس بِسولے۔
ہمارے معاشرے میں غیرشہری یا دیہاتی طبقہ بیس تک ہی گنتی جانتا تھا اور دوبیسی یعنی چالیس تین بیسی یعنی ساٹھ اسی نسبت سے وہ وہ کھیت کو بھی بسوں میں تقسیم کرتا تھا۔ اسی لئے بیس بِسوے کہتا تھا اور اُس سے مُراد اس کا ایک حصہ ہوتا تھا۔ یہ معاشرے کے ایک خاص دور کا پیمانہ ہے۔ اور اُس معاشرے کے اپنے ماحول سے تعلق رکھتا ہے۔ جو کھیت کیارسے جُڑا ہوتا تھا۔
(۳۸) بیل منڈھے ہونا یا چڑھنا، بیل پڑنا، بیل بدھنا۔
بیل منڈھے چڑھنا، بیل کے سہارا لینے کے عمل کوکہتے ہیں اس لئے کہ بیل تیزی سے بڑھتی ہے مگرسہارا چاہتی ہے اگر سہارا نہیں ملتا تووہ گِرپڑتی ہے اور برباد ہو جاتی ہے کسی منصوبے یا تدبیر کے کامیاب ہونے کو بڑی بات اور تقدیرکی خوبی خیال کیا جاتا ہے۔ اسی لئے جب کوئی کام ہو جاتا ہے تو یہ خیال کیا جاتا ہے۔ کہ بس تقدیر کی خوبی ہے کہ بیل منڈھے چڑھ گئی ہمارے ہاں مددکرنے والے تو ہوتے نہیں غلط سلط مشورہ دینے والے ملتے ہیں رکاوٹوں سے بچ نکلنا یا ان پر قابوپانا بڑی بات ہوتی ہے۔ تبھی گھریلوماحول میں اسے بیل منڈھنا کہتے ہیں۔ جو چیزیں تیزی سے آگے بڑھتی ہیں انہیں بیل بدھنا کہتے ہیں یعنی وہ بیل کی طرح پروان چڑھتی ہے یہ لڑکیوں کے لئے بھی کہا جاتا ہے کہ وہ تو بیل کی طرح بڑھتی ہیں۔
(۳۹) بے نمک ہونا۔
نمک ہمارے ہاں سالٹ (Salt)کو بھی کہتے ہیں اور اس سے کئی محاورے نکلے ہیں۔ نمک حلال اور نمک حرام اور دہلی میں ایک حویلی ایسی ہے جس کونمک حرام کہتے ہیں اور نمک کھانے کا معنی احسان مند کے ہیں۔ کسی کی نیکی خدمت اور بھلائی کا خیال کرنے کے ہیں۔ کہ ہم نے تو اس کا نمک کھایا ہے بے نمک سالن کے معنی بے مزہ ہونے کے ہیں۔ یہاں تک کہ جس شخص کے رنگ میں ہلکی ہلکی ملاحت نہیں ہوتی حسنِ بے نمک کہتے ہیں جہانگیر نے کشمیر کے لئے لکھا ہے کہ کشمیرمیں نمک نایاب ہے یہاں تک کہ اس کے حسن میں نمک نہیں ہے ’’حتّی کہ حنش ہم نمک نمی دارد۔ ‘‘
(۴۰) بیوی کا دانہ یا کونڈا، بیوی کی صحنک یا نیاز بیوی کی فاتحہ۔
مسلمان گھرانوں میں یہ دستور چلا آتا ہے کہ حضرت فاطمہؓ بنت رسولؐ مقبول کے نام کی فاتحہ دی جاتی ہے۔ اسے گھروں کی زبان میں بی بی کی صحنک یا بی بی کے کونڈے کہا جاتا ہے کونڈا مٹی کی بڑی تغاری کوکہتے ہیں۔ جب فاتحہ کے لئے اُس میں کچوریاں پوڑے میٹھے(گلگلے ) اور کھیرپکاکر اس پر نیاز دی جاتی ہے تو اس کو کونڈابھرنا کہتے ہیں یہ محاورے ہماری معاشرتی زندگی اور گھریلو ماحول کی ایک خاص تصویر پیش کرتے ہیں اور ان کے ساتھ جو رسم وابستہ ہے ان محاوروں سے اُس کا بھی اظہار ہوتا ہے۔
(۴۱) بیوی کا غلام ہونا۔
اب سے کچھ زمانہ پہلے تک جب بڑے گھروں کی بیٹی رخصت کی جاتی تھی تو اس کے ساتھ غلام اور باندیاں بھی دی جاتی تھیں کہ یہ آئندہ خدمت کے لئے ہیں ۔ رفتہ رفتہ جاگیر داریاں ختم ہو گئیں تو یہ رسم بھی ختم ہوئی اب بیوی کے سامنے بول بھی نہیں سکتا۔بھیگی بلی بنا رہتا ہے ۔ یعنی اُس غلام کی طرح ہوتا ہے جسے اپنے مالک یا ملکہ کی طرح بی بی کے سامنے بولنے کی جرات بھی نہ ہو۔ وہ گویا بیوی کا غلام ہے۔ اِس سے ہمارے معاشرے کی ذہنی روش کا پتہ چلتا ہے۔ کہ شوہر کے مقابلہ میں وہ بیوی کو کوئی درجہ نہیں دیتا تھا۔ اور یہ اس کی مخالف ایک صورت تھی کہ بیوی اس کی آقا بن جائے اور شوہر اس کا غلام نظر آئے۔ یہ صورت حال معاشرہ پسند نہیں کرتا تھا۔ تبھی تو طنزا ً کہا گیا کہ بیوی کا غلام ہے۔
***
٭٭٭٭٭٭
تشکر: کتاب گھر ڈاٹ کام،
پروف ریڈنگ اور ای بک کی تشکیل: محمد شمشاد خان، اعجاز عبید