FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

فہرست مضامین

ادب سلسلہ

اردو زبان و ادب کا عالمی سلسلہ

                   کتابی سلسلہ (4)

 

 

جلد :۲                   جنوری تا جون ۲۰۱۷ء                 شمارہ: 4

                   مدیر اعزازی

                   تبسم فاطمہ

                    مدیر

                   محمد سلیم (علیگ)

 

 

مکمل جریدے کے لیے ڈاؤن لوڈ:

ورڈ ڈاکیومینٹ

ای پب فائل

 

اداریہ

 

وقت کی سوئیاں آگے ضرور بڑھ گئی ہیں، لیکن المیہ یہ ہے کہ عورت آج بھی اپنے لیے اسپیس کی تلاش میں بھٹک رہی ہے۔ یہ معاملہ صرف بر صغیر کی عورتوں کا نہیں ہے۔ روپ الگ الگ ہیں لیکن امریکہ ہو، چین، جاپان یا یوروپ، عورت کہیں نہیں بدلی۔ بلکہ یہ کہا جائے تو بہتر ہو گا کہ آج بھی وہ اپنی شناخت کے لیے جنگ کر رہی ہے۔

یہ سوال اہم ہے کہ کیا آج کی عورت واقعی با اختیار ہے؟

اپنے پیروں پر کھڑی ہے :

آزاد اور خود مختار ہے؟

پھر باغی کیوں ہے؟

کیا باغی صرف اس لیے ہے کہ آج بھی مرد سماج اسے اس کا حق دینے کے لیے تیار نہیں۔ یہ الجھے ہوئے سوالات ہیں، جن کے جواب مشکل ہیں۔ پھر بھی آج کی مجموعی فضا میں عورت کے الگ الگ روپ کو دیکھنے کی کوشش کرتی ہوں۔

’عالمی صحت تنظیم‘ کے ایک سروے کے مطابق، ہندوستان میں ہر 54 ویں منٹ میں ایک عورت کے ساتھ ریپ ہوتا ہے۔،  سینٹر فار ڈیولپمنٹ آف ویمن کے مطابق، ہندوستان میں روزانہ 42 خواتین عصمت دری کا شکار ہوتی ہیں۔ پہلے عصمت دری کے پیچھے چھپی حیوانیت کو دیکھا جاتا تھا، اب عصمت دری کے حق میں وکیل، سیاستدان اور وی ایچ پی جیسی فرقہ وارانہ تنظیمیں بھی کھل کر سامنے آ گئی ہیں۔ کیا عورت کے لباس اور دس بچے پیدا کرنے جیسی مذہبی فکر کو عصمت دری سے وابستہ الفاظ سے منسوب کر کے دیکھا جا سکتا ہے؟ اکیسویں صدی میں ایک خاتون کو کیسے جینا اور رہنا چاہیے، کیا اس کا فیصلہ یہ مرد معاشرہ کرے گا، جو صدیوں سے بے خوف اور آزادی کا نعرہ دینے کے باوجود عورتوں کو خوفزدہ اور خونخوار الفاظ سے لہولہان کرتا رہا ہے۔ ایک برس قبل چنئی کے ایک ٹی وی چینل پر ہندو شدت پسندوں کا حملہ صرف اس بات پر ہوا کہ ایک خاتون نے منگل سوتر کو کتوں کے گلے میں ڈالے جانے والا پٹا بتایا تھا۔ اس نے کیا غلط کہا تھا؟

آج کی عورت بھی کسی پالتو جانور کی طرح مرد کی چوکھٹ سے باندھ دی گئی ہے۔ یہاں اس کی پاکدامنی اور آزادی خطرے میں ہے۔ اس کے بیرونی کام کاج اور گھر سے باہر نکلنے کو بھی عصمت دری کے واقعات اور خوفناک الفاظ سے جوڑ کر دیکھا جا رہا ہے۔ یاد رکھئے عصمت دری سے بھی زیادہ خطرناک ہیں عورت کو ملزم ٹھہرانے والے الفاظ۔ جو ذائقہ کی طرح سیاست سے لے کر میڈیا چینلز تک کی ٹی آر پی بڑھانے کے کام آ رہے ہیں۔ سوال یہ بھی، کہ عصمت دری اور عریاں الفاظ کی آڑ میں آپ اسے کب تک ذلیل کرتے رہیں گے؟

۸ مارچ، یوم خواتین کے موقع پر ہماری دنیا عورت کے کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہونے کا ڈرامہ ضرور کرتی ہے مگر کوئی بھی عورت کی شہرت، آزادی، اور شرکت کی راہ ہموار نہیں کرتا۔

ایک طرف نئی ایجاد، نئی تکنیک اور ریس میں بھاگتی اندھی دنیا ہے، دوسری طرف اس دنیا میں امریکی حکومت سے لے کر مشتعل کرنے والی دہشت گردی کی انتہائی حد بھی موجود ہے۔ عالمی ترقی کی مثالوں کو دیکھنے کے بعد جب عورتوں کی بات آتی ہے تو یہ پوری دنیا ایک ایسے مذاق میں تبدیل ہو جاتی ہے، جس پر دل کھول کر ہنسا بھی نہیں جا سکتا۔ ہندوستان، پاکستان ہی کیوں، یہ بہتر وقت ہے، خواتین کی بین الاقوامی صورت حال کو فوکس میں لانے کے لیے — یورپ سے امریکہ تک، کنزیومر ورلڈ سے سیاست تک وہ موجود ہے، مارے جانے کے لئے، نفرت کے لئے۔ عصمت دری سے لے کر مرد ذہنیت کے دوغلے رویہ تک عورت صرف استعمال ہو رہی ہے یا ہر سطح پر اس کا ذہنی اور جسمانی استحصال کیا جا رہا ہے۔

 

                   ماضی سے نجات

 

یہ سوچنے کا وقت ہے کہ کیا واقعی آج کی خواتین ماضی کے خوفناک اور سیاہ صفحات سے نجات پا چکی ہیں ؟ ایک زمانہ تھا جب وہ لونڈی یا غلام ہوتی تھیں اور ایک بڑے بازار میں ان کی بولی لگائی جاتی تھی۔ شوہر کے مردہ جسم کے ساتھ وہ ستی ہو جاتی تھیں یادیوداسی یا اس طرح کے ہزاروں ناموں اور تعریفوں کے ساتھ ان کا جسمانی استحصال کیا جاتا تھا۔ وقت کے صفحات پر بازار بدلا ہے اور بازارواد کا چہرہ لیکن 2016 آتے آتے بھی حالات معمول پر نہیں ہیں۔ آج عورت زیادہ تعداد میں تعلیمیافتہ ہے۔ لیکن فلم، ماڈلنگ، مذہب، سماج اور سیاست کی مارکیٹمیں آج بھی وہ ایک ایسا برانڈ ہے، جہاں مردوں کا معاشرہ انہیں ننگا کرنے اور ان کی مجبوریوں کو استعمال کرنے میں ہی اپنے وجود کی سلامتی دیکھتا ہے۔ بین الاقوامی خواتین فورم یا اقوام متحدہ خواتین کے روشن مسائل پر بحث ضرور کرتا ہے لیکن بھیک کے پیالے میں رکھی عارضی ہمدردی کے علاوہ خواتین کو کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا۔

آج جب ہم بین الاقوامی یوم خواتین منانے کی روایت ادا کر رہے ہیں تو ضروری ہے کہ ہم لیسٹرا نام کی خاتون کو یاد کر لیں جس نے فرانس کے انقلاب کے دوران جنگ کو ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے ایک تحریک کی شروعات کی تھی۔ اس کا مقصد جنگ کے دوران خواتین پر ہونے والے مظالم کو روکنا تھا اور جس کے اعزاز میں 1910 میں کوپن ہیگن میں خواتین کے عالمی دن کاقیام عمل میں آیا، لیکن گزشتہ ۱۰۷ برسوں میں خواتین کے حالات میں کوئی خاص فرق نہیں آیا۔

 

                    کاٹ کھانے والا مرد معاشرہ

 

ہندوستان میں بھی دیکھیں تو خواتین ریزرویشن بل سے لے کر خواتین کی حفاظت کے نام پر بیان بازیاں تو ہوتی ہیں، پھر یہ بیان بھی ٹھنڈے بستے میں ڈال دیے جاتے ہیں۔ ذرا سوچیں، اسی ملک میں خواتین کو عزت اور احترام دلانے کا جذبہ ایک ایسی تحریک سے جوڑ دیا جاتا ہے، جس کے پس منظر میں خوفناک عصمت دری کے سیاہ صفحات پوشیدہ ہوتے ہیں۔ دامنی یا نربھیا سے پیدا ہوئے تنازعہ کے ایک ہفتے بعد ہی انڈیا گیٹ کی پراسرار خاموشی یہ اعلان کر جاتی ہے کہ خواتین کو لے کر کوئی بھی انقلاب اس ملک میں نہیں ہونے والا۔ کیونکہ مردانہ بارودی تہذیب میں آج کے دور میں بھی خواتین کسی خیال یا نظریہ کا نام نہیں، ایک بدن کا نام ہے، جس پر للچانے والے گوشت خور گدھ ہیں اور کاٹ کھانے والا زہریلا مرد معاشرہ۔ اس لیے حالات نہ ہندوستان میں بدلے ہیں، نہ دنیا کے کسی ملک میں۔ یہ بد قسمتی ہے، جو کہا جاتا ہے کہ خواتین اپنی پوزیشن کے لئے خود ذمہ دار ہیں۔ سوال ہے، آپ اسے اٹھنے ہی کہاں دیتے ہیں ؟ فن، ادب سے سیاست تک وہ اٹھنا چاہتی ہے تو سب سے بے رحم حملہ اس کے کردار کو لے کر ہوتا ہے۔

ماضی سے حال تک، ہندوستان سے پوری دنیا تک کچھ لوگ خواتین کے اقتدار سنبھالنے یا اقتدار میں حصہ داری کے عمل کو خواتین کو با اختیار بنانے کے جذبہ سے جوڑ کر دیکھتے ہیں، کیونکہ ترقی پذیر ممالک میں اب بھی خواتین کی حصہ داری۱۰۰میں دو چار فی صد بھی نہیں ہے۔ اب بھی ایک ہی کام کے لئے ایک عورت مرد سے 50 فیصد کم کی تنخواہ پاتی ہے۔ دنیا کے 87 کروڑ 50 لاکھ آبادی میں دو تہائی سے بھی بڑی تعداد خواتین کی ہے۔ شرم و افسوس کا موضوع ہے کہ آج بھی وہ اپنے حقوق اور تحفظ کے لئے حاشیہ پر کھڑی ہے جہاں سے ہو کر اس کی اپنی آزادی اور خواہشات کا کوئی راستہ اب بھی نہیں جاتا۔

سیاہ مستقبل کے ساتھ عورت کے اختیارات کا کوئی راستہ کسی بھی ملک کے پاس نہیں ہے۔ یہ کوئی جنگ نہیں ہے جو خواتین کو خود لڑنی ہے۔ اس حقیقت کو بھی سمجھیں کہ مرد سماج معاشرہ کی نیت آج بھی خواتین سے متعلق کسی حل کو ڈھونڈنے کی نہیں ہے۔ یہ ایک ڈرامہ ہے جو صدیوں سے مسلسل چلتا آ رہا ہے۔ یہ اس سامراجی، ترقی پذیر ممالک کا ڈرامہ ہے، جو بین الاقوامی یوم خواتین کے نام پر خواتین کو جھوٹی امید دینے، ان کا مذاق اڑانے کے نام پر کیا جاتا ہے۔ اصلیت میں، اس ڈرامہ کے مرکز میں یہ بتانا ہوتا ہے کہ آزادی اور حقوق کی جنگ چھوڑ کر خواتین مردوں کی حکومت کو قبول کیوں نہیں کرتیں ؟ طاقت اور شناخت کی دو چار مثالوں کو دنیا کی پوری خواتین کی صورت حال کے ساتھ جوڑ کر نہیں دیکھا جا سکتا۔ ماضی کا اندھیرا خواتین کے موجودہ حالات اور مستقبل پر اب بھیلگام لگائے ہوئے ہے اور اس گھنے اندھیرے سے نکلنے کا راستہ بھی نہیں ہے۔ کیونکہ مرد اپنی سامراجی ذہنیت اور طاقت سے شکست یا بے دخل ہونے کو تیار نہیں۔

 

                   عورت پیدا کہاں ہوتی ہے، وہ تو بنائی جاتی ہے

 

’بیٹی بچاؤ، بیٹی پڑھاؤ‘ منصوبہ بندی کا آغاز کرتے ہوئے نریندر مودی نے ہندوستانی ذہنیت کو تبدیل کرنے کی بات تو کہہ دی لیکن وہ اپنے سنتوں کے اس فرمان پر خاموش ہیں جو خواتین سے، 4 سے 10 بچے پیدا کرنے کو کہہ رہے ہیں۔

تعلیم کے بازار میں جہاں ایک بچے کو پڑھانا مشکل ہے، وہاں ڈھنگ کا پیسہ کمانے والے بھی زیادہ بچوں کی تعلیم کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے۔ دیکھا جائے تو بین الاقوامی پلیٹ فارم پر جہاں آج عورت کی خود داری اور اس کی ذاتی آزادی کا سوال مسلسل سوالوں کے گھیرے میں ہے، وہاں پانچ بچے پیدا کرنے کا بیان عالمی اسٹیج پر ہمارا مذاق بنانے کے لئے کافی ہے۔

ہندوستان میں اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق ’’ ماں بننے کے دوران ہر دس منٹ میں ایک عورت کی موت ہو جاتی ہے۔ 2010 میں 57 ہزار خواتین کی موت ماں بننے کے دوران ہوئی تھی۔ 2015 تک اس اعداد و شمار کو کم کرنے کی مہم جاری ہے، لیکن بڑھتے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ماں بننا اب بھی ایک نئی زندگی سے ہو کر گزرنے جیسا ہے۔ یونی سیف اسٹیٹ آف دی ورلڈس چلڈرن‘ کی رپورٹ کہتی ہے کہ ترسیل سے منسلک پریشانیوں کی وجہ سے اوسطاً ہر 7 منٹ پر ایک عورت کی موت ہو جاتی ہے۔ ’دیگر ممالک کے مقابلے میں یہ اعداد و شمار بہت زیادہ ہیں اور صحت سے متعلق سوالات کو بھی جنم دیتے ہیں۔

 

                   ذاتی آزادی پر حملہ

 

بد قسمتی سے اب بھی ملک کی کئی ریاستوں میں جنین قتل جیسے مسائل حاوی ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ یہ ہلاکتیں پڑھے لکھے اور اقتصادی سطح پر مضبوط گھرانوں میں زیادہ ہو رہی ہیں۔ 5 بچے پیدا کرنے کا فرمان اور پیٹ میں قتل جیسے واقعات جہاں مرد سماج اور معاشرہ کے لئے کلنک ہیں، وہیں خواتین کی ذاتی آزادی پر حملہ بھی۔

صدیوں سے غلامی کی زنجیروں میں جکڑی عورت کے لئے یہ مذہبی روایات چیلنج ہیں۔ 40 فیصد شہری خواتین میں سے پڑھی لکھی خواتین کا کچھ فیصد ہے جو اب اپنی آزادی کا سوال بھی اٹھانے لگا ہے۔ اس آزادی میں بیدار خواتین کو کئی سماجی تنظیمیں بھی تعاون دے رہی ہیں۔ لیکن یہ خیال کیا جائے کہ فلم، اسپورٹس، دفتر میں کام کرنے والی اور دیگر کام کرنے والی خواتین کا یہ فیصد ابھی اتنا کم ہے کہ آئے دن ان کی ذاتی آزادی پر مرد کا ہتھوڑا چل جاتا ہے۔ حیرت یہ ہے کہ ایک مہذب دنیا میں عورت اب بھی اپنی زندگی، کیریئر، آزادی، یہاں تک کہ بچے پیدا کرنے کے لئے بھی مرد کے تابع ہے۔ اس وجہ سے ’سمون دی بوار‘ کے تیکھے لفظ آج بھی خون کے آنسو رلاتے ہیں کہ ’عورت پیدا کہاں ہوتی ہے، وہ تو بنائی جاتی ہے۔ ‘ اور اس کا خالق صدیوں سے مرد رہا ہے۔

 

                   لیو ان ریلیشن شپ کا معاملہ

 

’رشتے آسمان میں بنتے ہیں ‘ والی کہاوت اب پرانی اور بے معنی ہو چکی ہے۔ اب نیا دور ہے۔ ڈیجیٹل اور سائبر دنیا کے تعلقات کے نئے ڈائیلاگ میں دنیا گم ہو چکی ہے۔ عام آدمی سے عدالت تک پریشان ہے کہ اکیسویں صدی کے نئے تجربات اور تعلقات کے نئے معیار کی کسوٹی پر انہیں دقیانوسی اور پسماندہ نہ سمجھ لیا جائے۔

ہر بار نئے تعلقات کے افسانے اور فیصلے چونکانے والے ہوتے ہیں — یہ فیصلے الجھے ہوئے سوالات کے ساتھ نئے مسائل کے دروازے بھی کھول رہے ہیں۔ لیو ان ریلیشن پر سپریم کورٹ کا بیان اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ راحت کی سانس لینے والوں کے لئے ممکن ہے اس طرح کے فیصلے نئی امیدیں جگائیں، لیکن شدت پسندوں کے لئے بری خبر ہے کہ سپریم کورٹ کی منظوری ملنے پر شادی کا مذہبی طریقہ حاشیے پر پھینک دیا جائے گا، یا بے معنی ہو کر رہ جائے گی۔

قانون کا اپنا داؤ پیچ ہے کہ دو بالغ اگر بغیر شادی کے کئی برسوں سے ایک ساتھ رہتے ہیں تو وہ شادی شدہ جوڑے مانے جائیں گے۔ شوہر کے مرنے پر عورت کو اس کی جائیداد کا بھی حق ایک بیوی کی طرح ہو جائے گا۔ اور اگر بچہ ہوتا ہے تو بچے کو بھی جائز سمجھا جائے گا۔

در اصل اس فیصلے کے پیچھے جائیداد کا تنازعہ ہے۔ ایک بزرگ کے ساتھ 20 سال تک ایک عورت رہی، خاندان والوں کی دلیل تھی کہ دونوں نے شادی نہیں کی تھی اس لئے عورت کا جائیداد میں کوئی حق نہیں بنتا ہے۔ سماعت کے دوران شادی ہونے کا ثبوت فراہم نہ کئے جانے کے باوجود عدالت نے اس عورت کے حق میں فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ 20 سال تک اگر دونوں ساتھ تھے تو عورت کو خود بخود بیوی کا درجہ حاصل ہو جاتا ہے۔

نئے دور میں ہم ایک ایسی کنڈوم تہذیب میں داخل ہو گئے ہیں جہاں ماں باپ کی آنکھوں سے نیندیں حرام ہو گئی ہیں۔ لیپ ٹاپ اور موبائل کلچر نے جنسی اور آزاد زندگی کا جو معیار قائم کیا ہے، اس پر پابندی لگانا حکومت اور خاندان کے لئے ایک مشکل کام ہے۔ خاص طور پر بڑے شہروں میں آپ رات کے وقت اکے لیے کمرے میں اپنے بچوں کے بارے میں کیسے سوچ سکتے ہیں کہ اس وقت وہ کیا کر رہے ہوں گے؟ وہ پڑھ رہے ہوں گے یا کسی فحش سائٹ کا مزہ لے رہے ہوں گے یا پھر اپنی گرل فرینڈ کے ساتھ بات چیت یا جنسی چیٹ میں مصروف ہوں گے۔ اس تیز رفتار سائنسی دور نے اسکول اور کالج میں پڑھنے والے بچوں کو وقت سے پہلے ہی بالغ کر دیا ہے۔ ایک سروے کے مطابق صرف ہندوستان میں، ذہنی مریض بچوں کی تعداد میں ان دس برسوں میں بھاری اضافہ ہوا ہے۔

لیو ان ریلیشن اسی تہذیب کی دین ہے۔ کافی حد تک میڈیا اور فلموں نے بھی آزادی کے اس راستے پر اپنی طرف سے ایک مثبت مہر لگائی ہے۔ اخلاقیات کی مثالیں اور تہذیب سے الگ اب تک کی تاریخ میں دو بالغ کا ساتھ رہنا برا ہی مانا جاتا رہا ہے۔ لیکن شاید بڑے شہروں میں یہ مجبوری بھی ہے اور کچھ کی ضرورت بھی۔ قانون اب ساتھ رہتے ہوئے ایسے تعلقات کو عصمت دری کے زمرے میں نہیں مانتی۔ لہذا ایسے تعلقات کو بھی قانون جائز ہونے کا درجہ دیتی ہے۔ گزشتہ کئی برسوں سے قانون لیو ان ریلیشن کو لے کر الجھا ہوا ہے۔

یہاں بہت سے سوال ہیں جس کا سامنا مستقبل میں عام آدمی سے عورت اور عدالت کو کرنا باقی ہے۔ پہلا سوال تو یہی ہے کہ کیا ایک پورا معاشرہ اس باغی نظریہ یا بغیر ازدواجی پابندی کے ’لیونگ ٹو گیدر‘ کی ثقافت کو اپنی منظوری دے گا؟ اخلاقی اقدار کی بنیاد پر ابھی ہم اتنے ترقی پسند نہیں ہوئے کہ اس طرح کے معاملات میں اتفاق رائے بن سکے۔

اس طرح کے معاملے میں ثقافت پر سب سے پہلے خواتین ہی سوالات کے کٹہرے میں آتی ہیں۔ ایک طرف وہ آزاد عورت ہے سماج اور تصادم کی پرواہ کئے بغیر آزادانہ زندگی کو سلام کرتی ہے۔ دوسری طرف وہ کمزور عورت بھی ہے، جس کے لئے قانونی فیصلے میں آخری سانسوں تک کے لئے ایک راحت پوشیدہ ہے۔ یعنی گزر بھتا، بچے سے لے کر قانون کی طرف سے ملی ہوئی بیوی کا حق بھی اسے حاصل ہے۔ آزاد عورت لیو ان ریلیشن کو اپنی مرضی کی بنیاد پر بغیر کسی دباؤ کے چنتی ہے۔ شادی سے میاں بیوی کے علاوہ خاندان اور معاشرے میں اس کے کئی دوسرے رشتے بھی بنتے ہیں۔ اخلاقیات کا بوجھ اٹھائے ہوا ایک بڑا معاشرہ اب بھی ان تعلقات پر اختلاف کی لکیر کھینچے ہوا ہے۔ اس لئے قانونی فیصلے بھلے ایسے کچھ جوڑوں کو ریلیف دینے کا کام کریں، لیکن متعدد پیچ کے ساتھ عورت اب بھی قید اور گھٹن کا شکار ہے۔ ان نئے تعلقات کو لے کر خاندان بھی الجھا ہوا ہے۔ انصاف اور قانون بھی۔

 

                   ڈراؤنے سوال

 

99 فیصد عصمت دری کی شکار لڑکیاں صرف اس لیے قانون اور انصاف کا سہارا نہیں لے پاتیں کہ کورٹ میں پوچھے جانے والے عریاں الفاظ، انہیں عصمت دری سے زیادہ زخمی کرنے کے لئے کافی ہوتے ہیں۔ متنازعہ مصنفہ تسلیمہ نسرین نے بنگلہ دیش سے بھارت تک کئی نامور لکھنے والوں پر جسمانی استحصال کے الزام لگائے۔ آسارام باپو، ان کے بیٹے سائیں، رامپال سے لے کر سادھو، سنتوں اور آشرموں تک جسمانی استحصال اور جرم کی کہانیاں پھیلی ہوئی ہیں۔ ہندوستانی سیاست اور سیاستدانوں کی زندگی کو بے نقاب کرنے والے تہلکہ کے ارون تیج پال بھی عصمت دری کے الزام سے بچ نہیں سکے۔ بھنوری دیوی تنازعہ سے لے کر آئے دن سیاست دانوں پر عصمت دری اور جسمانی استحصال کے الزام لگتے رہے ہیں۔ قانون اور انصاف کے محافظ کئی ججوں پر بھی عصمت دری کا الزام ثابت ہوا ہے۔ عورت نہ باہر محفوظ ہے نہ گھر میں۔ وقت کے مہذب صفحات پر آج بھی عورت صرف ایک جسم کے طور پر موجود ہے۔ صدیوں سے آج تک مردوں کے لئے وہ ہوس اور ذائقہ بھر ہے۔ جان ایف کنیڈی سے بل کلنٹن تک دنیا کے بڑے رہنماؤں کے سیکس اس کینڈل بھی خبروں کی شہ سرخیوں میں رہ چکے ہیں۔ اپنے ملک میں قانون سازوں، ممبران پارلیمنٹ اور ممبران اسمبلیپر بھی جنسی استحصال اور عصمت دری کے کئی معاملے چل رہے ہیں۔ اس سیاہ تصویر میں ملک کے مردوں کی معذور ہوتی ذہنیت کو سمجھا جا سکتا ہے۔

 

                   با اختیار، باغی اور آزاد خیال عورت

 

مذکورہ بالا تحریر کے بعد اس عورت کو سامنے رکھیے جس کے لیے کہا جاتا ہے کہ وہ آزاد خیال ہے۔ عورت اب بھی آزاد خیال کہاں ہے؟ کہاں ہے با اختیار۔؟ عالمی صورت حال شاہد ہے کہ ہر جگہ اس کا استحصال کیا جا رہا ہے۔ وہ دیر رات گھر سے باہر نہیں رہ سکتی۔ نہ وہ گھر میں آزاد ہے نہ باہر۔ وہ نوکری کرتی ہے تو مرد اساس معاشرہ اسے ہوس کی نظروں سے دیکھتا ہے۔ وہ شکار ہوتی ہے تو مرد پر انگلی اٹھانے کے بجائے الزام سب سے پہلے اسی پر لگایا جاتا ہے۔ ایسی صورت میں کچھ عورتوں کا باغی ہو جانا ضروری ہے۔ مگر آپ مجموعی جائزہ لیں تو یہ تناسب ایک فیصد سے بھی کم نکلے گا۔ وقت بدل چکا ہے۔ عورتوں کو برداشت کرنے کی حد سے باہر نکلنا ہو گا۔ بیداری پیدا کرنی ہو گی۔ اپنی جنگ لڑنے کے لیے اٹھنا ہو گا۔ اس بات کی توقع کم ہے کہ مرد سماج عورت کی بیداری اور آزادی میں کوئی کردار ادا کر سکتا ہے۔ کیونکہ مرد جانتا ہے کہ عورت جاگ گئی تو اس کی اپنی آزادی خطرے میں پڑ جائے گی۔

— تبسم فاطمہ، tabassumfatima2020@gmail.com

٭٭٭

 

 

سلسلہ/ جانباز خواتین

 

عزم و ہمت کی چٹان … بیگم حضرت محل — پروفیسر ڈاکٹر پروین خان

 

یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ 1707ء میں اورنگ زیب عالمگیر کی وفات کے بعد مغلیہ سلطنت دن بدن رو بہ زوال ہوئی۔ شاہانِ مغلیہ اپنے اجداد سے برعکس حکومتی امور سے نابلد اور وسعتِ سلطنت کے پیشِ نظر اصول جہانبانی کی صلاحیتوں سے عاری تھے۔ اُسی دورِ زوال میں انگریزوں نے تاجر کے بھیس میں نہ صرف معاشی طور پر خود کو مستحکم کیا بلکہ بتدریج برصغیر کے مختلف صوبوں اور ریاستوں کو اپنے تسلّط میں لانا شروع کیا۔ 1757ء کی جنگ پلاسی نے اُن پر یہ راز افشا کر دیا کہ وہ مقامی نوابین اور اُن کے متوسلین کے درمیان ہوسِ اقتدار کا بیج بو کر اس قدر نفاق پیدا کر سکتے ہیں کہ اُن سے اُن کے زیرِ اثر صوبے اور ریاستوں پر خود قابض ہو سکتے ہیں۔ سبسڈی ایری سسٹم سے لے کر اصول الحاق کی پالیسی تک انگریز ہندوستان پر اپنا اقتدار مستحکم کرنے میں کامیاب ہوئے اور سب سے آخر میں جس ریاست پر انہوں نے سب سے آخر میں قبضہ کیا وہ ’’اودھ‘‘ کی ریاست تھی جو 12 فروری 1856ء کو نواب واجد علی شاہ کو بدنظمی کے الزام میں برطرف کر کے انگریزوں کی عملداری میں شامل کر لی گئی۔ میجر جنرل آؤٹ ریم کو اودھ کا چیف کمشنر مقرر کیا گیا۔ خرابی صحت کی بنا پر بہت جلد اس کی جگہ مسٹر جیکسن نے اختیار سنبھال لئے۔ چند دنوں بعد ہی مارچ 1857ء میں سر ہنری لارنس کو تجربہ کار ہونے کی بنا پر مقرر کیا گیا مگر وہ بھی اودھ کے عوام کو مطمئن کرنے میں ناکام رہا۔

مئی 1857ء میں جب ریاست میں بے چینی کا آغاز ہوا تو اودھ کے مجاہدین نے حضرت محل سے استدعا کی وہ کمسن مرزا برجیس قدر کی مسند نشینی کا اعلان کرنے کے ساتھ اس کی سرپرست بھی بنیں۔ اس طرح ملکہ حضرت محل نے عملاً ریاستی امور کی نگرانی اور اپنی معاونت کے لئے چند با اعتماد افراد کو مقرر کیا جن میں سے خصوصاً علی محمد عرف محمد خان داروغہ خاص، محبوب خان محکمہ عدل مال، پولیس اور فوج کے سربراہ بنائے گئے۔ حضرت محل کے اقتدار سنبھالنے کے وقت بدنظمی، لوٹ مار کی وجہ سے عوام کو بے پناہ مسائل کا سامنا تھا۔ برجیس قدر نے حضرت محل کی ایما پر سب سے پہلے جو عملی اقدامات کئے اُن میں سے پہلا فرمان یہ تھا: شہر میں ’’اب کوئی کسی کو نہ لوٹے ورنہ سزا پائے گا‘‘ پنشن یافتہ افراد کو اُن کے عہدوں پر بحال کیا گیا تاکہ امورِ حکومت میں وہ معاونت کر سکیں۔ لکھنؤ میں مجاہدین کثیر تعداد میں موجود تھے اور اُن کے قائد مولانا احمد اللہ شاہ سے تصادم کا راستہ اپنانے کی بجائے اُن سے برجیس قدر کی سرپرستی کی استدعا کی اس طرح مولانا نے نہایت اخلاص سے امورِ سلطنت میں اعانت کا سلسلہ جاری رکھا۔

امورِ سلطنت میں بہتری کے ساتھ ساتھ حضرت محل نے روسا اور اودھ کے تعلقداروں کو انقلاب میں شامل ہونے کی دعوت دی۔ کولہاپور کے کے راجہ کو ایک تلوار تحفہ و دیگر تحائف بھیجے اور اُسے ترغیبِ جہاد دی۔ یہ الگ بات ہے کہ راجہ نے تعاون نہ کیا۔

بیگم حضرت محل بھرپور صلاحیتوں کی مالک تھیں۔ انہوں نے صرف اودھ کے داخلی مسائل پر قابو پایا بلکہ انہوں نے انگریزوں کے خلاف جہاد جاری رکھا۔ علاوہ ازیں انہوں نے بہادر شاہ ظفر کو تحفے تحائف بھیجے اور اودھ کی آزادی کی نوید سنائی۔ مغل شہنشاہ کے پاس عباس مرزا کو بھیجا گیا جنہوں نے مراد آباد کے راستے دہلی کا سفر کیا۔ عباس مرزا نے تحائف بادشاہ کی خدمت میں پیش کئے اور بادشاہ نے اسے سفیر الدولہ کے خطاب سے نوازا۔

حضرت محل کی فہم و فراست، حسنِ تدبر اور انتظامی حکمت عملی کی بدولت صرف چند روز میں اودھ کے تمام اضلاع سے انگریزی عملداری ختم کروائی ہنری لارنس نے انگریز حکام کو لکھا ’’سارے اضلاع ہماری حکومت سے نکل گئے ہیں اور ہر روز حالت بگڑتی جا رہی ہے۔ سارے تعلقہ دار مسلح ہو رہے ہیں اور بعض نے دیہات پر قبضہ کر لیا ہے۔ ‘‘ (عروج عہد انگلیشہ)

انگریزوں کے خلاف مجاہدین کو منظم کرنے میں زر کثیر درکار تھا۔ بیگم حضرت محل نے گھر کا اثاثہ اور جمع سیم و زر خود بھی اور امراء سے کم و بیش چار لاکھ روپے جمع کئے۔ جنرل حسام الدین کو مزید سپاہی بھرتی کرنے کا اختیار دیا تاکہ انگریزوں سے مقابلہ کیا جا سکے۔ حریت پسندوں نے حضرت محل کے کہنے پر 31 جولائی 1857ء کو مولانا احمد اللہ شاہ کی قیادت میں بیلی گارو پر حملہ کیا۔ بیگم حضرت محل کی بے چینی کا یہ عالم تھا کہ رات بھر سو نہ سکیں وہ سپاہیوں کی بہت قدر کرتیں اور حوصلہ کے علاوہ انعامات سے بھی نوازتیں۔ جولائی 1857ء سے لے کر مارچ 1858ء تک آپ انگریزوں کے خلاف مجاہدین کی قیادت کرتی رہیں۔ انگریزوں سے جنگ و جدل میں مصروف حضرت محل بالآخر قیصر باغ کے محل تک محصور ہو کر رہ گئیں۔ وہ وہاں سے محل سرائے حسین آباد گئیں۔ وہاں برطانوی کمانڈر جنرل اوٹرام کا پیغام ملا کہ ہم واجد علی شاہ کا ملک بدستور تم کو دیں گے جنگ سے دستبردار ہو جائیے۔ مگر بیگم حضرت محل نے اُس پیشکش کو ٹھکرا دیا۔ انگریزوں کی جارحیت کے سامنے وہ ہمیشہ ڈٹی رہیں اور انہوں نے جون 1858ء سے لے کر اپریل 1859ء تک ان سے مقابلہ کیا حتیٰ کہ جنوری 1859ء میں وہ کٹھمنڈو جانے پر مجبور ہو گئیں۔

بیگم حضرت محل نے عزم و استقامت سے تاریخ ساز جد و جہد کی بدولت جنگِ آزادی میں اپنا نام زندہ جاوید کر دیا۔ وہ اپنی معمولی صلاحیتوں کے سبب جنگ آزادی میں ایک عظیم قائد بنی۔ نہایت اعلیٰ منتظم، خود دار غیرت مند اور مدبر خاتون تھیں۔ قیصر التواریخ کے مطابق ’’سپاہیوں کی بے حسی اور جمود کو توڑا اور خود ایثار و قربانی کی مثال پیش کی۔ بہادری اور جوش کا یہ حال تھا کہ باوجود پردے میں رہنے کے گھوڑے پر سوار ہو کر خود سپاہ کی سالاری کرتیں انہوں نے دس ماہ تک فرنگیوں کا نہایت بہادری سے مقابلہ کیا۔ ‘‘ حضرت محل نے لکھنؤ چھوڑنے کے بعد نیپال میں سکونت اختیار کی جہاں کم و بیش 21 برس مقیم رہنے کے بعد اپریل 1879ء میں وفات پائی اور وہیں مدفون ہوئیں۔

٭٭٭

 

 

 

ہندوستان کے دل پر راج کرنے والی پہلی خاتون حکمراں رضیہ سلطانہ کی تاراج نشانیاں — غوث سیوانی

نئی دہلی

 

وہ مردوں کے سماج کو ٹکر دینے کا حوصلہ رکھتی تھی۔ وہ خود کو مردوں سے کم تر نہیں سمجھتی تھی۔ وہ علم و حکمت میں لاثانی تھی اور میدان جنگ میں تلوار چلانے کا ہنر بھی جانتی تھی۔ وہ صرف ظاہری شکل و صورت میں ہی بے مثال نہیں تھی بلکہ کردار کی عظمت بھی اس کے اندر تھی۔ وہ اپنے بھائیوں سے ہر معاملے میں برتر تھی لہٰذا کوئی وجہ نہیں تھی کہ وہ کسی سے دب کر رہے۔ اس کی انھیں خوبیوں نے اسے ہندوستان پر حکومت کرنے کا حق دیا تھا اور رضیہ نے اس ملک کی اولین خاتون حکمراں بن کر ایک تاریخ رقم کی۔ اس سے پہلے اس ملک میں عورت کی حکمرانی کا کوئی سراغ نہیں ملتا اور اس کے بعد بھی کوئی عورت ہندوستان کی سلطنت پر قبضہ نہیں کر پائی۔

شاید اس کے لئے مردوں کی احساس برتری والی نفسیاتاور خواتین کو دبا کر رکھنے کا مزاج ذمہ دار رہا ہے۔ حالانکہ مغل بادشاہ کی ملکہ نورجہاں نے پردے کے پیچھے سے اقتدار چلایا اور جنوبی ہند میں چاند بی بی نے جو کارنامے انجام دیئے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں

مگر رضیہ سلطانہ کی تاریخ بے مثل و بے مثال ہے۔ اس نے سماجی بندشوں کی پروا کئے بغیر مردوں کے دبدبہ والے سماج سے ٹکرانے کا بیڑا اٹھایا۔ اس کے عزم و حوصلہ کو توڑنے اور اس کے قدموں کو محل کی چہار دیواریوں میں قید رکھنے کے لئے مذہب کا بھی سہارا لیا گیا مگر وہ ہمت و ولولہ کا کوہ گراں تھی جس نے کبھی جھکنا نہیں سیکھا تھا۔ اس نے ثابت کیا کہ وہ اس سلطان التتمش کی سچی جانشیں ہے جس نے جنگوں میں لازوال کارنامے انجام دیئے تھے اور دشمنوں کو دھول چٹانے کا کام کیا تھا۔

رضیہ کے دور کی سیاست

رضیہ سلطانہ، سلطان شمس الدین التتمش کی بیٹی تھی جسے اس نے اپنا جانشیں مقرر کیا تھا۔ اپنے آخری دنوں میں التتمش اپنی جانشینی کے سوال کو لے کر فکر مند تھا۔ التتمش کے سب سے بڑے بیٹے ناصرالدین محمود جو اپنے والد کے نمائندہ کے طور پر بنگال پر حکومت کر رہا تھا، 1229 ء ( اپریل) میں انتقال کر گیا تھا۔ یہی شہزادہ قابل اور حکومت کے کام کاج سنبھالنے کے لائق تھا۔ سلطان کے باقی زندہ بیٹے آرام پسند، عیاش اور بزدل تھے۔ وہ حکومت کے کام کے لائق نہیں تھے لہٰذا التتمش نے اپنی موت سے قبل اپنی بیٹی رضیہ کو اپنا جانشین مقرر کیا جو اپنے بھائیوں کے برخلاف انتہائی قابل، ذی شعور اور دور اندیش تھی۔ سلطان التتمش کی موت کے بعد امراء نے رضیہ کے بجائے اس کے ناکارہ بھائی رکن الدین کو تخت پر بٹھا دیا مگر وہ چھ مہینے سے زیادہ حکومت نہیں کر سکا اور رضیہ نے سلطنت کی باگ ڈور سنبھال لیا۔ رضیہ کے بجائے رکن الدین کو تخت پر بٹھانے کا سبب صرف اور صرف یہ تھا کہ وہ ایک لڑکی تھی اور امراء کو یہ پسند نہیں تھا کہ ایک لڑکی تخت سلطنت پر بیٹھے۔ علماء بھی اس کے خلاف تھے اور عورت کی حکمرانی کو ناپسند کرتے تھے۔ اس کا سبب دین کے احکام سے زیادہ سماجی رواج تھا، جس کے تحت عورت گھر میں قید رہنے اور مردوں کی ماتحت بننے کے لئے پیدا ہوئی تھی۔ کسی عالم کو یہ نظر نہیں آیا کہ قرآن میں ملکہ سبا بلقیس کی حکمرانی کی تعریف کی گئی ہے۔ اگر عورت کی حکمرانی ناجائز تھی تو قرآن نے ملکہ سبا کی تعریف کیوں کی؟ویسے بھی اسلام نے خلافت کا نظام رائج کیا تھا جو بادشاہت میں بدل گیا مگر علماء وقت کو اس پر کوئی اعتراض نہ تھا اور کسی نے یہ آواز نہیں اٹھائی کہ اسلامی طریقہ حکومت خلافت ہے نہ کہ ملوکیت۔ رضیہ کو اپنے دور اقتدار میں جن مسائل سے نبردآزما ہونا پڑا، ان میں سے ایک یہ بھی تھا کہ عورت کیسے حکمراں ہو سکتی ہے؟بہرحال رکن الدین کی حکمرانی بہت مختصر وقت کے لئے تھی اور وہ بھی برائے نام تھی کیونکہ حکومت کے کام کاج اس کی ماں سنبھالتی تھی۔ اس کے بعد تخت سلطنت کا کوئی دوسرامرد دعویدار نہ ہونے کے سبب ایک خاتون کو حکومت کی باگ ڈور دینی پڑی اور رضیہ دہلی کی حکمران بن گئی۔ رضیہ سلطانہ نے ’’جلال الدین‘‘ کا لقب اختیار کیا جسے، تاریخ میں عام طور پر ’’رضیہ سلطانہ‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس نے 1236 سے 1240 تک ہندوستان پر حکومت کی۔ ترکی الاصل رضیہ کو دیگر شہزادوں اور شہزادیوں کی طرح فوج کی قیادت اور انتظامیہ کے کاموں کی مشق کرائی گئی تھی، تاکہ ضرورت پڑنے پر اس کا استعمال کیا جا سکے۔ التتمش، پہلا اور آخری ایسا حکمران تھا، جس نے اپنے بعد کسی عورت کو جانشین مقرر کیا۔

 

                   رضیہ کی حکومت

 

حکومت کے کاموں میں رضیہ کی دلچسپی اپنے والد کے وقت سے ہی تھی۔ تخت سنبھالنے کے بعد رضیہ نے پرانی روایتوں کے برعکس مردوں کی طرح چغے اور پگڑی پہننا شروع کیا۔ رضیہ جنگوں میں بھی پوری مستعدی کے ساتھ شامل ہوتی اور جوانمردی کے ساتھ لڑتی۔ رضیہ اپنی سیاسی سوجھ بوجھ اور پالیسیوں کے سبب فوج اور عوام کو اپنی جانب متوجہ کرنے میں کامیاب رہی تھی اور وہ دہلی کی سب سے طاقتور حکمران بن گئی تھی۔ اس نے اپنا مشیر ایک حبشی سردار یاقوت کو بنا رکھا تھا جسے اس کے ترک امراء پسند نہیں کرتے تھے۔ ان دونوں کے تعلقات کو لے کر سلطنت میں افواہیں بھی گرم تھیں جس پر رضیہ نے زیادہ توجہ نہ دی اور یہ افواہیں اس کے لئے قاتل ثابت ہوئیں۔ اس کے امراء یہ پسند نہیں کرتے تھے کہ ان کے رہتے ہوئے سلطانہ ایک حبشی کو حکومت میں اعلیٰ مقام و مرتبہ دے لہٰذا ان کے اندر حسد و رقابت کی آگ بھی سلگنے لگی۔ اسی دوران بھٹنڈا کے گورنر ملک اختیار الدین التونیہ نے رضیہ کی طرف پیغام نکاح بھیجا جسے اس نے نامنظور کر دیا۔ اس پر التونیہ نے کچھ دوسرے طاقت ور امراء کو اپنے ساتھ ملایا اور سلطانہ کے خلاف بغاوت کر دی۔ رضیہ اور التونیہ کے درمیان جنگ ہوئی جس میں یاقوت مارا گیا اور رضیہ کو قیدی بنا لیا گیا۔ مرنے کے خوف سے رضیہ نے التونیہ سے شادی کرنا قبول کر لیا۔ اس دوران موقع پا کر رضیہ کے ایک بھائی نے تخت پر قبضہ کر لیا۔ رضیہ اور ملک التونیہ نے مل کر جنگ کی مگر وہ شکست کھا گئے اور دہلی چھوڑ کر بھاگ گئے۔ دلی کے باہر کیتھل کے مقام پر جاٹوں نے انھیں گھیر لیا اور ان کی فوج نے بھی ساتھ چھوڑ دیا۔ اس جد و جہد میں 14 اکتوبر 1240 کو دونوں مارے گئے۔

 

                   کیسی تھی رضیہ؟

 

رضیہ سلطانہ نے جب حکومت کی باگ ڈور سنبھالی اس وقت تک بھارت میں کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ ایک عورت ملک کی بادشاہ بن سکتی ہے مگر وہ بن گئی اور اپنے انصاف پسند وبا تدبیر باپ کی ہی طرح رضیہ نے ملک میں بڑے ہی شاندار طریقے سے حکومت چلایا۔ اس نے اپنے دور میں عوام کے لئے فلاحی کام کئے اور امن و امان قائم رکھا۔ وہ کسی بھی مسئلے میں جلد فیصلہ لیتی تھی اور مجرموں کو سخت سزائیں دیا کرتی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ رضیہ کو محبت کی کہانیاں سے نفرت تھی۔ وہ اس قسم کی کہانیوں کو فضول سمجھتی تھی کہا کرتی تھی کہ جب عورت کو گھر میں کوئی کام نہیں ہوتا ہے تو اسے محبت سوجھتی ہے۔ اس نے حکم دے رکھا تھا کہ اس کے سامنے کبھی بھی محبت کی کہانی نہ سنائی جائے، اس کا کہنا تھا کہ میں بزدل اور نکمی نہیں بننا چاہتی۔ وہ مذہبی تھی اور اسلام کے احکام پر عمل کرنا پسند کرتی تھی۔ وہ ایسا لباس پہنتی تھی جس میں اس کا پورا جسم چھپا رہے سوائے چہرے کے۔ حالانکہ بادشاہ بننے سے قبل اس کا چہرہ بھی چھپا رہتا تھا۔ یہ بات اسے معلوم تھی کہ شادی کے بعد کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اس لئے اس نے شادی نہیں کی تھی۔ جنگ میں شکست کے بعد ملک التونیہ سے اس نے مجبوراً شادی کی۔

 

                   رضیہ کی قبر

 

رضیہ سلطانہ کی قبر پر شدید تنازعہ ہے۔ یقینی طور پر نہیں کہا جا سکتا کہ اس کی قبر کہاں ہے؟ سلطانہ اور اس کے حبشی درباری یاقوت کی قبر کا دعوی تین مختلف جگہوں پر کیا جاتا ہے۔ پرانی دلی میں ایک چھوٹے سے احاطے میں دو قبریں ہیں جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ رضیہ اور یاقوت کی قبریں ہیں۔ سرسیداحمد خان کی کتاب ’’آثارالصنادید‘‘ میں ’’مقبرہ رضیہ سلطان بیگم‘‘ کے عنوان سے ایک چھوٹا سا مضمون یوں ہے :

’’شہر شاہجہاں آباد میں بلبلی خانے کے محلے میں ترکمان دروازے کے پاس ایک ٹوٹی سی چار دیواری اور پھوٹی سی قبر رضیہ سلطان بیگم بنت سلطان شمس الدین التمش کی ہے جو خود بھی چند مدت تخت پر بیٹھی 638 ہجری مطابق 1240 عیسوی معز الدین بہرام شاہ کے وقت میں قتل ہوئی جب یہ مقبرہ بنا مگر اب بجز نشان کے اور کچھ نہیں۔‘‘

ظاہر ہے کہ جب سرسید کے زمانے میں ہی اس مقبرے کا نام و نشان مٹ گیا تھا تو آج اس کی حالت کیا ہو گی سمجھا جا سکتا ہے۔ رضیہ کی قبر تک پہنچنے کے لئے تنگ و تاریک گلیوں سے گزرنا پڑتا ہے اور آس پاس اس قدر غلاظت رہتی ہے کہ آنے والے ناک بند کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ اس مختصر سے احاطے کے آس پاس اونچی اونچی عمارتیں ہیں اور لوگوں نے اپنے ایئرکنڈیشنڈ اور کولر اسی سمت میں لگا رکھے ہیں۔ تاریخ میں دلچسپی رکھنے والے اکا دکا لوگ ادھر آ جاتے ہیں اور یہاں کی بدحالی دیکھ کر حیران رہ جاتے ہیں۔ یہ جگہ اے ایس آئی کے زیر نگرانی ہے اور اس قبر سے ہندوستان کی تاریخ کا اہم باب وابستہ ہے مگر حکومت کی طرف سے کبھی ایسی کوشش نہیں ہوئی کہ اس طرف سیاحوں کو راغب کیا جائے۔

٭٭٭

 

 

چاند بی بی

 

عزم و ہمت، ذہانت و استقلال کا پیکر چاند بی بی جس نے اپنی بہادری اور ثابت قدمی سے مغل فوج کو ناکوں چنے چبوا دئیے، حسین نظام شاہ والی احمد نگر( دکن) کی بیٹی تھی۔ اس کی ماں کا نام خونزہ ہمایوں تھا۔ والدین نے اس کی تعلیم و تربیت پر خاص توجہ دی اور نہایت لائق فائق استادوں کو اس کی تعلیم پر مامور کیا۔ یہی وجہ تھی کہ چند ہی سال میں شہزادی جملہ علوم و فنون میں ماہر ہو گئی۔

بادشاہ حسین نظام چاند بی بی سے بے حد محبت کرتا تھا۔ چنانچہ اس نے خود بھی چاند بی بی کو سپہ گریو شہسواری، شمشیر زنی اور نیزہ بازی کی تعلیم دی اور ملکی نظم و نسق سے متعلق امور سے آشنا کیا۔ جب وہ جوان ہوئی تو اس کے اوصافِ حمیدہ کی شہرت دور دور تک پھیل گئی۔ بیجاپور کے حکمران علی عادل شاہ نے جب اس کے علم و دانش اور لیاقت کا حال سنا تو اس نے چاند بی بی سے شادی کے لئے پیغام بھیجا جسے منظور کر لیا گیا اور چاند بی بی کی شادی علی عادل شاہ سے ہو گئی۔

بیجاپور پہنچ کر چاند بی بی نے اپنی سلیقہ شعاری اور حسن لیاقت سے سسرال والوں کے دل مٹھی میں لے لیے۔ ساتھ ہی اپنی رعایا اور زیر دستوں سے ایسا اچھا برتاؤ کیا کہ سب اس کے گن گانے لگے۔ ایک دفعہ علی عادل کو خبر ملی کہ دربار سے کچھ امیر اس کے خلاف سازش کر رہے ہیں اور کی جان لینے کے درپے ہیں۔ اس نے ان امیروں کے نام جاننے کی بہت کوشش کی لیکن ناکام رہا۔ اب وہ ہر وقت اپنی جان کے خوف میں مبتلا رہنے لگا۔ چاند بی بی نے اپنے شوہر کی بدلی ہوئی حالت دیکھی تو اس نے بادشاہ سے اس کا سبب دریافت کیا۔ جب اس نے بتایا کہ مجھے قتل کرنے کی سازش ہو رہی ہے تو بہادر چاند بی بی نے شوہر کو تسلی دی اور کہا کہ میرے ہوتے ہوئے کوئی آپ کا بال بھی بیکا نہیں کر سکتا۔ آج سے رات کو میں آپ کی حفاظت کروں گی۔ آپ اطمینان سے سویا کیجئے۔

شوہر کی حفاظت کے خیال سے چاند بی بی بذاتِ خود شاہی خواب گاہ کی نگہبانی کرنے لگی۔ ایک رات اچانک بالا خانے پر کسی کے کودنے کی آواز آئی۔ پہریداروں یا شوہر کو جگانے کے بجائے چاند بی بی خود تلوار سونت کر تن تنہا بالا خانے پر چڑھ گئی۔ وہاں دو نقاب پوش ہاتھوں میں برہنہ تلواریں لئے موجود تھے۔ دونوں چاند بی بی پر جھپٹے مگر وہ پھرتی سے پیچھے ہٹی اور پینترا بدل کر تلوار کا ایسا بھر پور ہاتھ مارا کہ ایک وہیں ڈھیر ہو گیا۔ دوسرا آگے بڑھا تو اس کا بھی وہی حشر ہوا۔ شور سن کر علی عادل شاہ جاگ اٹھا اور بھاگتا ہوا اوپر آیا۔ اس نے یہ منظر دیکھا تو اپنی بہادر ملکہ کی تلوار چوم لی اور بولا۔ ’’ چاند بیگم اگر تمام دنیا بھی میری دشمن ہو جائے تو تیرے ہوتے ہوئے مجھے کوئی ڈر نہیں۔ ‘‘

987ھ/ 1580 میں علی عادل شاہ کی وفات کے بعد اس کا نابالغ بھتیجا ابراہیم عادل شاہ اس کا جانشین ہوا اور ملکہ چاند بی بی شوہر کی وصیت کے مطابق اس کی سر پرست مقرر ہوئی۔ کئی سال تک وہ یہ فرض بحسن و خوبی انجام دیتی رہی لیکن کچھ وزیروں اور امیروں نے اس کے خلاف سازشیں شروع کر دیں۔ تنگ آ کر چاند بی بی احمد نگر چلی گئی۔ اس کے منظر سے ہٹ جانے کے بعد سازشی وزیروں میں پھوٹ پڑ گئی۔ ابراہیم عادل شاہ نے اب ان کی بے اتفاقی سے فائدہ اٹھا کر ایک ایک کر کے سب کو ختم کر دیا اور چاند بی بی کو واپس بیجاپور بلا لیا۔ وہ بیجا پور آ تو گئی لیکن اب وہ سیاسی جھمیلوں سے دور رہنا چاہتی تھی لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔

چاند بی بی کے والد حسین نظام شاہ نے 972ھ / 1565 میں وفات پائی تو مرتضیٰ نظام شاہ اپنی ماں خونزہ ہمایوں کی سرپرستی میں باپ کی جگہ مسند حکومت پر بیٹھا۔ چھ سال تو ماں حکومت سنبھالتی رہی لیکن اس کے بعد وزیروں نے اقتدار اس سے چھین کر اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ مرتضیٰ نظام شاہ محض نام کا بادشاہ تھا اور دیوانہ کہلاتا تھا۔ 996ھ/ 1588 میں اس کی وفات کے بعد میراں حسین اسماعیل اور برہان شاہ یکے بعد دیگرے تخت پر بیٹھے۔ مؤخر الذ کرنے 999ھ/ 1594 تک حکومت کی۔ اس کے عہد حکومت میں اکبر بادشاہ نے شہزادہ مراد اور خانِ خاناں کو تسخیر دکن کے لئے روانہ کیا۔ برہان شاہ نے ان کو اپنی ملکیت کے ایک صوبے برار کی پیشکش کر دی لیکن ابھی یہ معاملہ طے نہیں ہوا تھا کہ برہان شاہ فوت ہو گیا۔ 1003ھ/ 1594 میں اس کی جگہ ابراہیم شاہ تخت نشین ہوا۔ وہ جلد ہی باغی امراء کے ہاتھوں مارا گیا۔ اب منجھو خان وکیل سلطنت آہنگ خان اور اخلاص خان تین سربرآوردہ امراء میں تخت نشینی کے لیے کشمکش شروع ہو گئی اور ملک کی حال بد سے بد تر ہوتی چلی گئی۔ چاند بی بی کو اس صورتِ حال کا علم ہوا تو وہ احمد نگر آ گئی۔ اسی اثناء میں مراد اور خانِ خاناں یلغار کرتے ہوئے احمد نگر کے قریب آ گئے۔ چاند بی بی نے تہیہ کر لیا کہ وہ ہر صورت اپنی آبائی حکومت کو بچائے گی۔

چاند بی بی نے سب سے پہلے تو مخالف امراء کو قلعے سے باہر نکالا اور باقی کو حسن تدبیر سے اپنے ساتھ ملا لیا۔ پھر اس نے محمد قلی قطب شاہ اور ابراہیم عادل شاہ سے مدد طلب کی اور قلعے کے حفاظتی انتظامات کو مستحکم کر کے شہزادہ مراد کو خط لکھے۔

’’اگر آپ دوست کی حیثیت سے احمد نگر آنا چاہتے ہیں تو بڑی خوشی سے تشریف لائیں۔ آپ ہمیں بے حد مہمان نواز پائیں گئے لیکن اگر آپ کا ارادہ احمد نگر پر بزورِ شمشیر قبضہ کرنے کا ہے تو سمجھ لیجئے کہ احمد نگر کا بچہ بچہ اپنے وطن پر قربان ہو جائے گا اور اپنے جیتے جیکسی کو اپنی سر زمین پر قدم نہیں رکھنے دے گا۔ ‘‘

شہزادہ مراد نے اس تنبیہ کی کچھ پروانہ کی اور 23 ربیع الثانی 1004ھ/ 1595 کو اپنے لشکر کے ساتھ قلعہ احمد نگر کی طرف بڑھا۔ چاند بی بی نے اپنی فوج کے ساتھ ذاتی نگرانی میں مغل افواج پر اپنی توپوں سے ایسی شدید گولہ باری کی کہ حملہ آور ایک قدم آگے نہ بڑھ سکے۔ دوسرے دن مراد نے خانِ خاناں اور دوسرے سردارانِ فوج سے مشورہ کرنے کے بعد چاروں طرف سے قلعے کا محاصرہ کر لیا۔ یہ محاصرہ کئی ماہ تک جاری رہا۔ اس دوران مغل فوج نے کئی بار بڑے جوش و خروش سے حملے کئے لیکن ہر بار منہ کی کھائی۔ چاند بی بی کی درخواست پر ابراہیم عادل شاہ نے پچیس ہزار سوار اور قطب شاہ سے پانچ ہزار سوار اور کچھ پیادے چاند بی بی کی مدد کے لئے روانہ کئے۔ شہزادہ مراد کو اس لشکر کے روانہ ہونے کی اطلاع ملی تو اس نے اپنی فوج کو حکم دیا کہ لشکر کے آنے سے پہلے ہر صورت قلعے پر قبضہ کرنے کی کوشش کرو۔ چنانچہ قلعہ کے برج تک پانچ سرنگیں کھو دی گئیں اور ان میں بارود بھری گئی تاکہ اس میں آگ لگا کر قلعے کو اڑا دیا جائے۔

مگر چاند بی بی بھی غافل نہیں بیٹھی تھی۔ دشمن کی نقل و حرکت پر اس کی کڑی نظر تھی۔ اسے ان بارودی سرنگوں کا علم ہوا تو راتوں رات سرنگوں میں پانی بھروانا شروع کر دیا۔ ابھی دو یا تین سرنگیں بیکار ہوئی تھی کہ شہزادہ مراد نے آگ لگانے کا حکم دے دیا۔ اس زور کا دھماکہ ہوا کہ کانون کے پردے پھٹ گئے اور قلعے کی دیوار میں پچاس گز چوڑا شگاف پڑ گیا۔ قلعے میں محصور سپاہ کے ہاتھ پیر پھول گئے لیکن چاند بی بی ذرا نہ گھبرائی۔ وہ ہاتھ میں تلوار لئے گھوڑے پر سوار ہو کر پردہ سر اسے باہر نکل آئی اور اپنی فوج کو حکم دیا کہ زیادہ سے زیادہ توپوں کو شگاف میں کھڑا کر دو۔ فوج نے حکم کے مطابق عمل کیا اور پھر مغل فوج پر بے پناہ گولہ باری شروع کر دی۔ حملہ آور فوج نے آگے بڑھنے کیسر توڑ کوشش کی اور بار بار قلعے پر خوفناک حملے کئے لیکن چاند بی بی نے اسے ایک انچ بھی آگے نہ بڑھنے دیا۔ وہ اس ہمت و استقلال سے فوج کو لڑاتی رہی کہ شام تک قلعہ کی خندق حملہ آور سپاہیوں کی لاشوں سے پٹ گئی اور ناچار شہزادہ مراد کو پیچھے ہٹنا پڑا۔

رات کو چاند بی بی نے اپنی نگرانی میں گری ہوئی دیوار کو دوبارہ بنوا دیا بلکہ اس کو پہلے سے تین گز بلند کر دیا اور صبح شہزاد مراد نے دیکھا تو پہلے سے بھی بلند دیوار اس کی راہ میں حائل تھی۔

کہا جاتا ہے کہ ایک موقع پر جب چاند بی بی کو فوج کے پاس سیسہ کی گولیاں ختم ہو گئیں تو چاند بی بی نے فوراً تانبے کی گولیاں ڈھالنے کی حکم دیا۔ جب وہ بھی ختم ہو گئیں تو سونے چاندی کی گولیاں تیار کر لیں اور اس مقصد کے لیے شاہی حرم سرا کے طلائی و نقرئی برتن، زیورات اور ہزاروں طلائی اور نقرئی روپے فوج کے حوالے کر دئیے لیکن شکست قبول نہ کی۔

اس جنگ کا نتیجہ یہ نکلا کہ شہزادہ مراد نے صلح کے لئے ہاتھ بڑھا دیا۔ چونکہ قلعے کے لوگ بھی اتنے عرصے کی محصوری سے گھبرا گئے تھے۔ چنانچہ صلح کی درخواست قبول کر لی گئی اور چاند بی بی نے حسب معاہدہ برار کا صوبہ شہزادہ کے حوالے کر دیا۔

شہزادہ مراد کی واپسی کے بعد چار سال تک احمد نگر کے لوگ امنچین سے رہے لیکن پھر امراء میں خود غرضی اور نا اتفاقی نے سر ابھارا۔ اکبر اسی موقع کی تلاش میں تھا۔ اس نے 1008ھ/ 1599 میں شہزادہ دانیال کی سرکردگی میں ایک جرار لشکر احمد نگر کی تسخیر کے لئے بھیج دیا۔ اب کے بادشاہی فوج کا پلہ بھاری تھا کیونکہ احمد نگر کی طاقت کو خانہ جنگیوں نے کمزور کر دیا تھا تاہم چاند بی بی اپنے جاں نثاروں کو لے کر مقابلہ کے لئے کمر بستہ ہو گئی۔ اس نازک گھڑی میں چیتہ کان خواجہ سرا اور بعض دیگر امراء نے غداری کیاور یہ کہہ کر فوج کو ملکہ کے خلاف کر دیا کہ وہ تم سے دغا کر کے قلعہ کو دشمنوں کے حوالے کرنا چاہتی ہے چنانچہ مشتعل سپاہی ان غدار امراء کے ساتھ چاند بی بی کے کمرے میں گھس گئے اور اس کو قتل کر ڈالا۔ اس بہادر خاتون کی زندگی کا خاتمہ ہو گیا۔

٭٭٭

 

 

ملالہ یوسف زئی

 

اعزازات

نوبل امن انعام (2014)

عالمی اعزاز امن برائے اطفال (دوسرا درجہ، 2011)

پاکستان قومی اعزاز برائے امن (2011)

ملالہیوسف زئی (پیدائش 12 جنوری، 1997ء ) پاکستان میں پیدا ہونے والی خواتین کی تعلیم کی سرگرم رکن ہے اور اسے کسی بھی شعبے میں نوبل انعام وصول کرنے والے سب سے کم سن فرد ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ اس کی وجہ شہرت اپنے آبائی علاقے سوات اور خیبر پختونخواہ میں انسانیحقوق، تعلیم اور حقوق نسواں کے حق میں کام کرنا ہے جب مقامی طالبان نے لڑکیوں کو اسکول جانے سے روک دیا تھا۔ اب ملالہ کی تحریک بین الاقوامی درجہ اختیار کر چکی ہے۔

علاقے میں اسکولوں کا ایک سلسلہ ملالہ کے خاندان کی ملکیت ہے۔ 2009ء کی ابتداء میں گیارہیا بارہ سالہ ملالہ نے "گل مکئی” کے قلمی نام سے بی بی سی کے لئے ایک بلاگ لکھا جس میں اس نے طالبان کی طرف سے وادی پر قبضے کے خلاف لکھا تھا اور اپنی رائے دی تھی کہ علاقے میں لڑکیوں کی تعلیم پر توجہ دی جانی چاہیے۔ اگلی گرمیوں میں جب پاکستانی فوج نے سوات کی دوسری جنگ میں اس علاقے سے طالبان کا خاتمہ کیا تو نیویارک ٹائمز کے صحافی ایڈم بی ایلک نے ملالہ کی زندگی کے بارے ڈاکومنٹری بنائی۔ ملالہ مشہور ہو گئی اور اس کے انٹرویو اخبارات اور ٹی وی کی زینت بننے لگے۔ اس کا نام بین الاقوامی امن ایوارڈ برائے اطفال کے لئے جنوبی افریقہ کے ڈیسمنڈ ٹوٹو نے پیشکیا۔ 9 اکتوبر، 2012ء کو ملالہ اسکول جانے کے لئے بس پر سوار ہوئی۔ ایک مسلح شخص نے بس روک کر اس کا نام پوچھا اور اس پر پستول تان کر تین گولیاں چلائیں۔ ایک گولی اس کے ماتھے کے بائیں جانب لگی اورکھوپڑی کی ہڈی کے ساتھ ساتھ کھال کے نیچے سے حرکت کرتی ہوئی اس کے کندھے میں جا گھسی۔ حملے کے کئی روز تک ملالہ بے ہوش رہی اور اس کی حالت نازک تھی۔ تاہم جب اس کی حالت کچھ بہتر ہوئی تو اسے برمنگھم کے کوئین الزبتھ ہسپتال کو بھیج دیا گیا تاکہ اس کی صحت بحال ہو۔

ملالہ پر قاتلانہ حملے سے متعلق تفصیلات دنیا بھر کے اخبارات اور دیگر میڈیا پر ظاہر ہوئیں اور عوام کی ہمدردیاں ملالہ کے ساتھ ہو گئیں۔ پاکستان بھر میں ملالہ پر حملے کی مذمت میں مظاہرے ہوئے۔ تعلیم کے حق کی قرار داد پر 20 لاکھ افراد نے دستخط کئے جس کے بعد پاکستان میں تعلیم کے حق کا پہلا بل منظور ہوا۔ پاکستانی حکام نے ملالہ پر حملہ کرنے والوں کی شناخت اور گرفتاری میں مدد دینے پر 1 کروڑ روپے انعام کا اعلان کیا۔ ملالہ کے والد نے بیان دیا کہ "چاہے ملالہ بچے یا نہ، ہم اپنا ملک نہیں چھوڑیں گے۔ ہمارا نظریہ امن کا ہے۔ طالبان ہر آواز کو گولی سے نہیں دبا سکتے "۔

 

                   سرگرمیوں کی بحالی

 

’’روایات آسمان سے نہیں اترتیں اور نہ ہی انہیں خدا بھیجتا ہے۔ ہم ہی ثقافت بناتے ہیں اور ہمیں ہی اسے بدلنے کا حق ہے اور ہمیں ایسی روایات بدلنا ہوں گی۔ ‘‘ ملالہ لندن میں گرلز سمٹ سے خطاب کرتے ہوئے۔

’’ان میں بے گناہ افراد مارے جاتے ہیں جس سے پاکستانی عوام میں بے چینی پھیلتی ہے۔ اگر ہم تعلیم پر کوششیں مرکوز کر دیں تو اس سے بہت بڑا اثر ہو گا۔ ‘‘ ملالہ براک اوبامہ سے ملاقات کے دوران ڈرون حملوں پر رائے دیتے ہوئے۔ ملالہ نے جولائی 2013ء میں اقوامِ متحدہ سے خطاب کیا اور ملکہ برطانیہ سے بکنگھم پیلس میں ملاقات بھی کی۔ ستمبر میں اس نے ہارورڈ یونیورسٹی سے خطاب کیا اور امریکی صدر اور ان کے خاندن سے ملاقات کی اور ڈرون حملوں کی مخالفت کی۔

 

                   نمائندگی

 

کینیڈا کے وزیرِ اعظم سٹیفن ہارپر اس قرار داد پر سب سے پہلے دستخط کرنے والے فرد بنے جس میں ملالہ کو امن کا نوبل انعام دینے کی درخواست کی گئی تھی۔

سابق برطانوی وزیرِ اعظم گورڈن براؤن نے اقوام متحدہ سے ملالہ کے خطاب کے انتظامات کئے۔ اس کے علاوہ گورڈن براؤن نے میکنزی کی مشیر شیزا شاہد سے درخواست کی کہ وہ ملالہ فنڈ کی سربراہی کریں۔ اس فنڈ کو انجیلینا جولی کی حمایت حاصل ہے اور گوگل کے نائب صدر میگن سمتھ بھی فنڈ کے بورڈ میں شامل ہیں۔

 

                   ملالہ ڈے

 

ملالہیوسفزئی کا دورہِ ستراسبورگ پر کھینچا ہوا ایکیادگار تصویر جہاں ملالہ نے سیکڑوں نوجوانوں سے خطاب کیا۔

12 جولائی، 2013ء کو ملالہ کی سولہویں سالگرہ تھی جب ملالہ نے اقوام متحدہ سے عالمی خواندگی کے بارے خطاب کیا۔ اقوام متحدہ نے اس واقعے کو ملالہ ڈے یعنی یومِ ملالہ قرار دے دیا۔ حملے کے بعد یہ ملالہ کی پہلی تقریر تھی۔

 

                   نوبل انعام برائے امن

 

10 اکتوبر، 2014ء کو ملالہ کو بچوں اور نوجوانوں کے حقِ تعلیم کے لئے جد و جہد پر نوبل انعام برائے امن دیا گیا۔ 17 سال کی عمر میں ملالہ یہ اعزاز پانے والی دنیا کی سب سے کم عمر فرد ہے۔ اس اعزاز میں ان کے شریک انڈیا سے کیلاش ستیارتھی ہیں جو بچوں کی تعلیم کے بہت بڑے حامی ہیں۔ ڈاکٹر عبدالسلام کے بعد ملالہ نوبل انعام پانے والی دوسری جبکہ نوبل انعام برائے امن پانے والی پہلی پاکستانی بن گئی ہے۔

٭٭٭

 

مکمل جریدے کے لیے ڈاؤن لوڈ:

ورڈ ڈاکیومینٹ

ای پب فائل