فہرست مضامین
- ادب سلسلہ
- لکھنے والوں کا گم ہوتا ہوا کارواں
- نئی صدی کے پندرہ برس اور اردو فکشن — مشرف عالم ذوقی
- بے سمت بصیرت و آگہی کے ۱۵ برس اور ہمارا افسانہ
- کہانی: کل اور آج ؍ کچھ اقتباسات
- گھوڑے واپس نہیں آئے — عبدالصمد
- ساعتوں کا چور — حسین الحق
- اک ماندگی کا وقفہ — مشرف عالم ذوقی
- لمبی ریس کا گھوڑا — مشتاق احمد نوری
- باقی عمر اضافی ہے — محمد حمید شاہد
- ناف کے نیچے — صغیر رحمانی
سہ ماہی
ادب سلسلہ
اردو زبان و ادب کا عالمی سلسلہ
جلد :۱ شمارہ: ۱
اکتوبر تا دسمبر ۲۰۱۵
حصہ اول
مدیر
محمد سلیم (علیگ)
مدیر اعزازی
تبسم فاطمہ
E-mail: adabsilsila@gmail.c
اداریہ
لکھنے والوں کا گم ہوتا ہوا کارواں
کالج کے زمانے سے ہی ادبی رسالہ نکالنے کے بارے میں سوچتی رہی۔ دیرینہ خواب کی تکمیل اب ہو رہی ہے۔ ادب سلسلہ کا خیال آیا تو یہ خیال بھی حاوی تھا کہ اتنے ڈھیر سارے رسائل کی بھیڑ میں اگر میں ایک رسالہ نکال بھی لیتی ہوں تو کیا فرق پڑے گا؟ اس میں شک نہیں کہ ہندوستان میں ادب کی رفتار بہت حد تک تھم سی گئی ہے۔ ہم ایک ایسے دور میں جینے پر مجبور ہیں جہاں بڑھتی ہوئی فرقہ واریت نے نہ صرف بولنے کی آزادی پر پابندی لگائی ہے بلکہ اب آزادانہ طور پر سچ کا اظہار کرنے والوں کا قتل بھی کیا جانے لگا ہے۔ کنڑ زبان کے مشہور ادیب ایم ایم کلبرگی، گووند پانسرے، نریندر دابھولکر کے قتل نے سنسنی پیدا کر دی۔ اننت مورتی کی موت پر آر ایس ایس کے دفتر میں نہ صرف خوشیاں منائی گئیں بلکہ مٹھائیاں تقسیم کی گئیں۔ نوبل انعام یافتہ امرتیہ سین کی آواز دبانے کی کوشش کی گئی۔ تیستا سیتلواڑ کو نئے نئے مقدموں میں گھسیٹا گیا۔ مہاراشٹر میں اگر آپ حکومت اور حکومت کے نمائندوں کے خلاف کوئی بیان دیتے ہیں تو اسے ’دیش دروہ‘ سمجھا جائے گا اور قانون کا شکنجہ آپ پر سخت ہو جائے گا۔ ایمرجنسی سے زیادہ بدترین صورتحال میں ادب کی ذمہ داریاں پہلے سے زیادہ بڑھ گئی ہیں۔ ’بول کہ لب آزاد ہیں تیرے ‘ —ادب نے کبھی بھی تانا شاہی رویوں کے آگے گھٹنے نہیں ٹیکے۔ صحافت اپنا کام کر رہی ہے۔ میڈیا چند ہاتھوں کا کھلونا بن چکا ہے۔ افسوس کا مقام یہ کہ کلبرگی کی موت پر بھی میڈیا خاموش رہا اور فرقہ پرستوں کے ہاتھ مضبوط کرتا رہا۔
کیرل کی ایک ہندو تنظیم نے مسلمان ادیب ایم ایم بشیر کو رامائن پر اپنا کالم بند کرنے کے لیے مجبور کر دیا۔ بشیر نے یہ کہتے ہوئے کالم بند کر دیا کہ ۷۵ سال کی عمر میں مجھے ایک کالم نگار سے زیادہ ایک مسلمان سمجھا گیا۔ کولہا پور میں سی پی آئی لیڈر گووند پانسرے کا قتل محض اس لیے کیا گیا کہ وہ شیوا جی کو ایک سیکولر لیڈر تسلیم کر رہے تھے اور یہ بات ہندو تنظیم کے لوگوں کو ناگوار گزری۔ تمل ناڈو میں پیرومل موروگن پر حملہ ہوا۔ وجہ کہ وہ ہندو دیوتاؤں کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کر رہے تھے —اس سے قبل ایم ایف حسین کو بھی اس جرم میں سزا دی گئی تھی جس کے خلاف حسین کی زندگی میں ہندوستان میں زبردست مظاہرے بھی ہوئے۔ موروگن فیس بک پر ایک مصنف کے طور پر افسوس کے ساتھ اپنی موت کا اعلان کرنے پر مجبور ہوئے۔ یہ سوچنا ضروری ہے کہ یہ ملک کہاں جا رہا ہے۔
تقسیم اور غلامی کے ماحول میں بھی یہ زبان خاموش نہیں رہی۔ ادب اپنی ذمہ داریوں کو انجام دیتا رہا۔ لیکن آج وقت بدل چکا ہے۔ اردو میں لکھنے والوں کا گم ہوتا ہوا قافلہ ہے۔ زبان کو زندہ رکھنے کے لیے صرف ادبی رسائل اور اخبارات رہ گئے ہیں۔ اس کے باوجود زبان سے محبت رکھنے والے نا امید نہیں ہیں۔ پرانے نام خاموش ہیں۔ نئی نسل کا دور دور تک پتہ نہیں۔ امید قائم کہ سناٹا ٹوٹے گا اور نئی نسل سے کئی ایسے نام سامنے آئیں گے جو ادب میں اپنی جگہ محفوظ کریں گے۔
گلوبلائزیشن کے اس عہد میں زبان کے زندہ رہنے کے چیلنج کو اردو نے بھی قبول کیا ہے۔ اب لکھنے والوں کی ایک منزل فیس بک بھی ہے۔ جہاں اتنے نام ہیں کہ آپ کے لیے شمار کرنا بھی آسان نہیں۔ صدف مرزا، سیمیں کرن، ابرار مجیب، منزہ احتشام، اسماء حسن، مایا مریم، وحید قمر، صدف زبیری، ریحان سعید، افضال انصاری، مریم ثمر، قیصر نذیر خاور، انجم قدوائی، مہر افروز، تحسین جیلانی، نعیم بیگ، مقیم زیدی، اقبال حسن خاں، سلیم سرفراز، فرحین چوہدری، افشاں ملک، ذکیہ زبیری، صائمہ شاہ، سدرہ افضال، منزہ جاوید، صدف اقبال، ڈاکٹر کوثر جمال، نور العین ساحرہ، زبیر سیاف، اس کے علاوہ مشتاق احمد نوری سے لے کر، محمد ابصار، صغیر رحمانی اور نگار آپا (عظیم) تک، تخلیق سے تنقید کی دنیا میں پھول اور کانٹے دونوں کی بزم آراستہ کی گئی ہے۔ بہر حال یہ سوال ہے کہ کیا آنے والا وقت فیس بک یا ای بکس کا ہے۔ ؟ جب کمپیوٹر سے لیپ ٹاپ اور موبائیل تک آسانیاں پیدا ہو چکی ہیں تو کیا ہمارا رشتہ ایک بڑے پرنٹ میڈیا معاشرے سے منقطع ہو چکا ہے ؟ اس سوال کو نظر انداز کرنا آسان نہیں۔ کیونکہ تیزی کے ساتھ اردو رسائل کے قاری کم ہو رہے ہیں اور فیس بک کے قاری میں روزانہ کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ نئی نسل میں نورین علی حق، صدف اقبال، مایا مریم، افضال صدیقی جیسے لوگ تیزی سے اپنی جگہ بنا رہے ہیں۔ اس لیے زبان کے زندہ رہنے کی صورت تو نظر آتی ہے مگر پرنٹ میڈیا کے لیے گہری اداسی یہ سوال چھوڑ جاتی ہے کہ کہیں داستان اور ناول جیسی اصناف کے لیے برا وقت تو نہیں۔ ؟ کیونکہ فیس بک پر ابھی اس کی گنجائش کم ہی نظر آتی ہے۔
ایک اچھا افسانہ نمبر نکالنا آسان نہیں، مشکل کام ہے اور میرا خیال ہے، اس کے لیے دو برس کا وقفہ بھی کم ہے۔ ہندوستان میں فکشن کی رفتار سست ہے۔ بڑے لکھنے والے خاموش۔ نئی نسل میں جوش، جذبے اور امنگ کی کمی ہے۔ پھر مطالعہ کی بھی کمی ہے۔ ادب سلسلہ کے اس شمارہ کو پندرہ برسوں کے افسانوی سفر پر، بھرپور روشنی کے ساتھ میں ایک یادگار شمارہ بنانا چاہتی تھی۔ لیکن یہ ممکن نہ ہو سکا۔ میری حد درجہ مصروفیت بھی اس کی ایک وجہ ہے۔ میں افسانہ نگار ابرار مجیب کی شکر گزار ہوں کہ ان کے افسانہ فورم کا ساتھ ملا۔ پندرہ برسوں میں اردو افسانے میں آئی تبدیلیوں پر بحث و مباحث کی شروعات ہوئی۔ یہاں ایک کمی یہ تھی کہ فورم میں پاکستان کی نئی نسل ہندوستان کے زیادہ تر عمدہ لکھنے والوں سے واقف نہیں تھی۔ اسی طرح ہندوستان کی نئی نسل بھی پاکستان کے عمدہ لکھاریوں سے واقفیت نہیں رکھتے۔ واقفیت ان لوگوں سے زیادہ ہے جو فورم پر فعال ہیں۔ لیکن خوشی اس بات کی ہے کہ افسانہ فورم پر دیکھتے ہی دیکھتے لکھنے والوں کی ایک بڑی جماعت سامنے آ چکی ہے۔
ہم ایک ایسے نظام کا حصہ ہیں جہاں دہشت گردی، لسانی تعصبات اور متشدد فضا کے باوجود ہم نے جینے کے لیے مجبوراً ایک آسودہ معاشرہ برامد کر لیا ہے۔ یہاں ہم اپنی ادبی ذمہ داریوں سے کٹ گئے ہیں۔ ادبی تحریکیں سو گئی ہیں۔ فیس بک پر ہنگامہ ضرور برپا ہے لیکن منٹو، عصمت چغتائی، کرشن چندر، راجندر سنگھ بیدی، ممتاز مفتی، قرۃ العین حیدر، یہاں تک کہ جو گندر پال، سریندر پرکاش، اقبال مجید کی سطح پر ایک بھی ایسا نام نہیں، جس کے مستقبل کو لے کر پیشین گوئی کی جا سکے۔ ہو سکتا ہے یہ خاموشی کسی طوفان کا پیش خیمہ ہو تو اس طوفان کا شدت سے انتظار ہے۔ یہ شمارہ جیسا بھی ہے۔ اب آپ کے سامنے ہے۔ آپ کی رائے کا انتظار ہے۔
—تبسم فاطمہ
سلسلہ؍ مذاکرہ
نئی صدی کے پندرہ برس اور اردو فکشن — مشرف عالم ذوقی
پرنٹ میڈیا سے غائب ہوتا ہوا ادب
’وقت اور موسم کا تقاضا ہے
ایک دن سایہ دار اونچے شجر غائب ہو جائیں گے
بونسائی رہ جائیں گے …‘
ادب آج تخریب کاروں اور انتہا پسندوں کے ہاتھ میں ہے۔ اور دیکھا جائے تو کچھ شر پسند دانستہ طور پر ادب کی شکل مسلسل بگاڑ نے میں لگے ہوئے ہیں۔ ادب کو آسان بنانے کے پیچھے ایک خوفناک رویہ یہ ہے کہ لوگوں کے پاس پڑھنے کے لیے وقت نہیں ہے۔ ایک بہت آسان سوال ہے کہ آخر ایسے لوگوں کے پاس وقت کے نہ ہونے کا جواز کیا ہے ؟ عیاشی اور ہوٹلوں میں وقت گزارنے کے لیے وقت ہے۔ ؟ بار اور جوئے خانوں میں جانے کے لیے وقت ہے ؟ پورن سائٹس دیکھنے یا ۲۴ گھنٹے انٹرنیٹ میں گم رہنے کے لیے وقت ہے۔ شیئر خریدنے، اور فروخت کرنے کے لیے وقت ہے، مجلسوں اور محفلوں میں وقت ضائع کرنے کے لیے وقت ہے تو پھر ادب کے لیے کیوں نہیں ؟ میں تجربوں کا قائل ہوں لیکن ایسے تجربے جو وقت کی کمی کا احساس دلاتے ہوئے سنجیدہ ادب پر خطرناک سائے کی طرح منڈرائیں، میں ان کے حق میں کبھی نہیں ہو سکتا۔ مغرب میں فلیش فکشن اور پوپ فکشن کے نام پر ناقص تجربے ہو رہے ہیں۔ ہمارے یہاں افسانچوں کے نام پر بے سر پیر کی تحریریں سامنے آ رہی ہیں اور ایک تیسرا دروازہ انٹرنیٹ اور سوشل ویب سائٹس نے کھول رکھا ہے۔ ادب میں سایہ دار شجر کا کردار ادا کرنے والے سنجیدہ ہندوستانی ادیب ابھی بھی اس کلچر کا حصہ نہیں بنے ہیں — ایسے لوگ، ادبی رسائل یا ادبی دنیا میں جو اپنی توجہ مرکوز کرانے میں ناکام رہے، لیکن ادب کے یہ بونسائی کردار آج سوشل نیٹ ورک پر ’بے حیا‘ کے پودوں کی طرح سر نکال رہے ہیں۔ نیر مسعود سے اقبال مجید تک یہاں ادب کے اجنبی مسافر ہیں۔ قاضی عبدالستار جیسے لوگوں کا تعارف کرانے کی ضرورت پیش آتی ہے۔ اور نام نہاد ادیب غیر سنجیدہ لوگ سوشل نیٹ ورک کی وسیع و عریض کائنات کا حصہ بنتے جا رہے ہیں۔ خوف کیا ہے ؟ خطرہ کیا ہے ؟ یہ سوال ضروری ہے۔ اور اس کا جواب آسان۔ ادب نیم حکیموں کے پاس ہے اور یہ نیم حکیم اپنے اپنے معیار کے مطابق آج ادب کی نئی نئی خطرناک تشریحیں گڑھ رہے ہیں۔ سنجیدہ مذاکروں، اور مباحث کی دنیا گم ہو چکی ہے۔ انٹرنیٹ کے وسیع بازار میں ادب اس پچکی ہوئی فٹ بال کی حیثیت رکھتا ہے، جسے اپنا شوق پورا کرنے کے لیے ہر شخص کھیلنے اور ٹھوکر مارنے میں مصروف ہے۔ یہ نیم حکیموں کا بازار بن کے رہ گیا ہے، جہاں سنجیدہ ادیب کچھ لمحے اپنی موجودگی درج کراتے ہیں پھر ہراساں ہو کر کھیل سے باہر ہو جاتے ہیں۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہ لیا جائے کہ میں انٹرنیٹ اورسوشل نیٹ ورکنگ سسٹم کی مخالفت کر رہا ہوں۔ نئی صدی کی دہلیز پر ادب کی مضبوط دستک کے لیے انٹرنیٹ کی حمایت ضروری ہے۔ پرنٹ میڈیا سے الگ سنجیدہ ادیبوں کے قافلے کے لیے یہاں اپنی موجودگی درج کرانا اب پہلے سے کہیں زیادہ ضروری ہو گیا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ پرنٹ میڈیا کا بازار سکڑ گیا ہے۔ اور سوشل نیٹ ورک پر ادب اور ادبی رسائل کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ ناصر صدیقی جیسے نوجوان ادیبوں نے اپنی اپنی کہانیوں کی دنیا آباد کر رکھی ہے۔ سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ کسی بلاگس یا ادبی ویب سائٹس پر کسی تحریر کے آتے ہیں پیغامات اور مکالموں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ بھی شروع ہو جاتا ہے۔ اس لیے نئے ادیب پرنٹیڈ رسائل کی جگہ اب سوشل نیٹ ورک کو ترجیح دینے لگے ہیں، پرنٹ میڈیا کے لیے یہ چیلنج بھی ہے اور یہ اندیشہ بھی کہ آہستہ آہستہ ایک بڑے بازار میں الجھ کر ہم اپنی زبان کا رشتہ پرنٹ میڈیا سے ختم تو نہیں کر رہے۔ ؟ ذرا غور کریں ہم پرنٹ میڈیا میں نئی نسل کی گمشدگی کا رونا روتے ہیں اور سوشل ویب سائٹس اوربلاگس پر سب سے زیادہ تعداد نوجوانوں کی ہے۔ یہ نوجوان مسلسل اپنی تحریروں سے فیس بک اور بلاگس پر چھائے ہوئے ہیں۔ اور ان میں بیشتر نام ایسے ہیں، جنہوں نے محض دو ایک برس کے عرصہ میں اپنی نمایاں شناخت بھی قائم کر لی ہے۔ پندرہ برسوں میں پرنٹ میڈیا سے زیادہ بڑی بستی فیس بک پر آباد ہو رہی ہے۔
۲۰۰۰ کے بعد کا ادب
۳۱ دسمبر ۱۹۹۹ کا دن صدی کے خاتمہ کا دن تھا۔ اس دن عالمی دہشت گردی کے نام ایک نیا صفحہ لکھا گیا۔ ۲۰۰۰ کی شروعات افغانی طیارے کو اغوا کیے جانے کی کہانی کو لے کر عالمی خبروں میں اپنی جگہ بنا چکی تھی۔ ایک صدی کے خاتمہ اور ایک نئی صدی کی شروعات سے اس بات کا قیاس لگانا مشکل نہیں تھا کہ ہم نے کس عہد میں قدم رکھا ہے۔ ۲۰۰۰ یعنی Y2K کے حملے سے اچانک ہماری دنیا سناٹے میں ڈوب گئی۔ حقیقت، فنٹاسی میں، فنٹاسی حقیقت میں جذب ہو گئی۔ اب سے پندرہ سال پہلے عورت کی طرح، سیموند بوار کے لفظوں میں کہوں، تو یہ دنیا نئی نئی سیپ سے برآمد ہو رہی تھی… ایک نیا گلوبل گلوب ہمارے سامنے تھا، جس میں ایک ساتھ یہ مکمل دنیا ایک دوسرے کو دیکھ سکتی، پہچان سکتی اور گلوبل مارکیٹ کا ایک حصہ بن سکتی تھی… سنہ ۲۰۰۰— یعنی y2k … نئی صدی میں ’00‘ کے اعداد کے ساتھ ایک غراتی ہوئی خوفناک بلی آ گئی تھی… جو ایلس کی طرح ونڈر لینڈ کی فنٹاسی سے باہر چھلانگ لگا کر اس نئی دنیا میں غرا رہی تھی کہ اب دیکھو… یہ ’00‘ تمہاری دنیا میں ایک جھٹکے سے زلزلے کے آثار پیدا کر کے، نئے کھیل دکھانے والا ہے۔ ساری دنیا اور دنیا بھر کے انجینئر y2k کا حل تلاش کرنے میں لگ گئے۔ اور اس تلاش میں ہماری گول گول گھومتی اور لرزتی دنیا کو آئی ٹی کا جھنجھنا مل گیا۔ اس جھنجھنے کے ملتے ہی گلوبل طلسمی آئینہ سے جھانکتا ہواہندوستانی بازار ایک نئی انگڑائی لے چکا تھا— اور یہ سب y2k کی وجہ سے تھا۔ انٹرنیشنل مارکیٹ فارین شیئر، اکسچینج، اسٹاک آپشن اور راتوں رات ایک بدلتی ہوئی زندگی تھی… خواب اور فنٹاسی گم تھے … انقلاب کا واسطہ حقیقت کی سرزمین سے تھا مگر کتنی عجیب بات، یہ سرزمین ابھی بھی عروج اور زوال میں کھوئی ہوئی تھی۔ ایک طرف ملٹی اس کائی بلڈنگس اوور فلائی اورس کے جال تھے تودوسری طرف جھگی جھونپڑیاں بھی تھیں۔ ایک طرف لیپ ٹاپ، ڈیجٹل موبائل تھے، حیران کرنے والے شاپنگ مالس تھے، تو دوسری طرف ڈپریشن کا شکار اکانومی بھی تھی۔ ایک طرف گے، لیسبیئن، لیو ان ریلیشن شپ کی حمایت کرنے والے تھے تو دوسری طرف عشق کے نام پر زندہ جلا دی جانے والی واردات اور رحم مادر میں ہی لڑکی کو پیدائش سے پہلے ہی ختم کر دینے جیسے خیالات بھی تھے۔ ’کنیکٹیویٹی کے اس دور میں، y2k کے انقلاب کے پندرہ برسوں میں جدید و قدیم کا یہ سنگم حیران کرنے والا تھا۔ ہم اڑتے اڑتے بھی کیڑے سے بدتر تھے اور چلتے چلتے بھی کیڑے سے بد تر…انقلاب کے ان پندرہ برسوں میں لفظ و معنی کی شکلیں بد لی تھیں۔ بندر ڈگڈگی بجائے گا اور دیکھتے ہی دیکھتے ایک آدم قد بن مانس میں تبدیل ہو جائے گا۔ ترقی کی ریس میں سوشل انجینئرنگ ڈائنوسار جیسے انسان پیدا کرے گی اور سیاست سرکس میں تبدیل ہو جائے گی۔ ہم الجھنوں اور تضاد کے پل پر سوار ہیں جہاں ہم شاخوں پر بیٹھے بھی ہیں اور اپنی ہی شاخوں کو کاٹ بھی رہے ہیں۔ جہاں ہم تیزی سے مارس اور پگھلا دینے والے سورج کی طرف قدم بڑھانے کے بارے میں غور کر رہے ہیں اور دوسری طرف ہم سوائن فلو اور سارس جیسی بیماریوں کے شکار ہو رہے ہیں۔
ایک بڑی دنیا الجھن اور ڈپریشن کا شکار ہے۔ غور کریں تو ادب بھی اس حملہ سے محفوظ نہیں ہے۔ عبدالصمد سے حسین الحق تک کی کہانیوں میں بآسانی ان تبدیلیوں کو محسوس کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان کے مشہور نقاد مبین مرزا نے نئی کہانیوں پر گفتگو کرتے ہوئے اس بات کی وضاحت کی تھی کہ آج کی کہانی محض سپاٹ بیانیہ کے سہارے تحریر نہیں کی جا سکتی۔ اس لیے موجودہ نظام کے تحت ہمارا ادیب علامت نگاری اور فنٹاسی کے جنگلوں میں بھی بھٹکتا ہے۔ عبدالصمد کی نئی کہانی ’’گھوڑے واپس نہیں آئے ‘‘ میں اسی انسانی کشمکش کو دیکھا جا سکتا ہے۔ ایک ایسی دنیا جہاں خوف اور دہشت کا بسیرا ہے، اس بسیرے میں انسان اور جانوراس حد تک ایک دوسرے کے قریب آ چکے ہیں کہ فرق کرنا مشکل ہے۔ اس کہانی کو پڑھتے ہوئے مجھے جارج آرویل کے ناول اینیمل فارم کی یاد تو آئی مگر کئی معاملوں میں یہ کہانی اینیمل فارم سے مختلف ہے۔ فضا کچھ یوں ہے کہ انسان، جانوروں سے ہمدردی رکھنے لگا ہے۔ اور یہ ہمدردی مختلف مواقع پر انسان کو انسان سے دور کرنے لگتی ہے۔ ایک ایسا مرحلہ آتا ہے جب انسان جانوروں کی غذا چرانے کے اسباب پر غور کرنے لگتا ہے۔
’’سائمن نے چونک کر اسے دیکھا، یہی بات تو اس کے دل میں بہت دنوں سے پل رہی تھی۔ پھر بھی اس نے اپنی تشفی کے لیے بیوی کا عندیہ جاننا چاہا۔ ’’پھر کیا کیا جائے۔ ؟‘‘
’’جو غذا یہ برباد کر دیتی ہیں، اسے ہم بھی تو استعمال کر سکتے ہیں۔ ‘‘
بیوی نے پھر وہی جواب دیا جو اس کے دل میں بھی پہلے سے موجود تھا۔
’’جانتی ہو نا، اس سلسلے میں ان لوگوں نے کتنا سخت قانون بنایا ہے …؟‘‘
سائمن گویا ایک موہوم سہارے کے ذریعہ اپنی پوری تشفی کر لینا چاہتا تھا۔
’’وہ تو پتہ ہے، مگر قانون کو معلوم ہو گا، تب تو پکڑے گا۔ ‘‘
یہ بات بھی اس کے ذہن میں آ چکی تھی، اب جب بیوی کی حمایت بھی مل گئی تو اسے محسوس ہوا کہ وہ صحیح راستے پر چل رہا ہے۔ پھر بھی کچھ خدشات تو باقی ہی تھے۔
’’لیکن انہیں زیادہ تر تو کچے اجناس دیئے جاتے ہیں، ہم انہیں کیسے کھا سکتے ہیں …؟‘‘
اس کی بیوی مسکرائی، سمجھ گئی کہ وہ اس سے پوری طرح متفق تو ہے مگر…
’’ہم گھر لے جا کے انہیں پکا لیں گے۔ ‘‘
ایک ایسی دنیا جہاں جانور اورانسان ایک دوسرے کے مد مقابل ہو کر ایک ایسی دنیا کو جنم دینے پر خاموشی سے لگ گئے جس میں جانور انسان کا نوالہ چھین رہے تھے اورانسان جانور کا۔ ’’ ساعتوں کا چور‘‘ میں حسین الحق اسی کشمکش کو نئے انداز سے بیان کرتے ہیں۔ خواب اور پیلی آندھیوں کے درمیان آج کا انسان گھر کر رہ گیا ہے۔
’’سنو ڈاکٹر! روشنیوں کے جھماکے ہو رہے ہیں، میں دیکھ رہا ہوں، یہاں چاروں طرف کھنڈرات ہیں کہیں دور تک ریگستان پھیلا ہوا ہے۔ ایک طرف خون کی ندیاں بہہ رہی ہیں، ایک طرف آگ لگی ہوئی ہے جو ہر چیز کو جھلسا رہی ہے مگر اس میں تپش نہیں ہے، کچھ دورپر برف کے پہاڑ ہیں، میں ان برفیلے پہاڑوں کے قریب پہنچ گیا ہوں، مگر ان میں ٹھنڈک نہیں ہے — چاروں طرف ایکا تھاہ سناٹا اور تنہائی، آدم نہ آدم زاد— مگر نہیں نہیں — کچھ دور پر ایک ہیولا نظر آ رہا ہے — میں اس کے قریب پہنچنے کی کوشش کرتا ہوں۔ ہاں میں اس کے قریب پہنچ گیا ہوں — ارے یہ تو ایک نومولود مخلوق محسوس ہو رہی ہے، عجیب و غریب— اس کے دونوں پیر دونوں کندھوں پر ہیں، دونوں ہاتھ مقعد کے اوپر، اور کان مقعد کے سوارخ کے دونوں طرف لٹکے ہوئے ہیں، مقعد ہی منہ کا کام کر رہا ہے، مقعد سے غلاظت نکل رہی اور وہ مقعد ہی میں موجود، دانت سے اسے چبا رہا ہے، وہ دیکھنے میں نومولود لگ رہا ہے مگر اچھلتا کودتا بھاگتا جا رہا ہے — ہاں ڈاکٹر ملہوترا بھی مجھے مل گئے ہیں، میں اور وہ دونوں اب خلا نوردوں کی طرح تیرتے ہوئے پتہ نہیں کدھر جا رہے ہیں — آپ لوگ خدا کے لیے کچھ کیجئے ہمارا کیا ہو گا— ہم یہ کہاں پھنس گئے ہیں۔ ‘‘
قصے کہانیوں، رنگ برنگی داستانوں کا تعاقب کرتے ہوئے ایک دنیا تغیر یا انقلاب کا شکار ہو رہی ہے۔ مذہبی، سیاسی، سماجی، اقتصادی تبدیلیوں نے ادب کے رنگوں کو اداس کیا تو کبھی احتجاج میں تبدیل کر دیا۔ کبھی اتنا شور کہ سنامی کا گماں اور کبھی اتنا سناٹا کہ سوئی گرے تو آواز نہ آئے۔ ۲۰۱۵ تک آتے آتے تخلیقیت کے بطون سے منفی و مثبت دونوں طرح کے اثرات سامنے آئے۔ اور ان اثرات نے مجموعی زندگی، معاشرہ اور ادیب کو بھی نئی تبدیلیوں سے آشنا کیا۔ اب ذرا کچھ کہانیوں پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔ پاکستانی فکشن میں اخلاق احمد اور اقبال خورشید ایسے نام ہیں، جن کے افسانوں کو بلا شک و شبہ مغرب کے شاہکار افسانوں کے درمیان جگہ دی جا سکتی ہے۔ اخلاق احمد کی ایک کہانی ہے۔ ’ایک دو تین چار‘ — جیو تش اور علم نجوم میں اعتقاد رکھنے والے اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ زندگی میں ’اعداد‘ کی کیا حیثیت ہے۔ قدیم شہنشاہوں کی کہانیاں اس بات کی گواہ ہیں کہ کوئی پانچویں مہینے کی پانچویں تاریخ کو پیدا ہوا تھا۔ پانچ شہزادے پیدا کرنے اور پانچ برس حکمرانی کرنے کے بعد پانچویں مہینے کی پانچویں تاریخ کو مر گیا تھا۔ کسی نے سات کتابیں لکھی تھیں، سات شادیاں کی تھیں، سات بڑے اعزاز حاصل کیے تھے اور ساتویں دل کے دورے میں ہلاک ہو گیا تھا۔ ایک شہزادی ایسی تھی جس نے گیارہ شادیاں کی تھیں، اکیس جنگیں لڑی تھیں، اکتیس شہروں کو فتح کیا تھا اور اکتالیس سال کی عمر میں اکیاون باغیوں کے حملے میں ماری گئی تھی۔
یہ کہانی لطیف کانجی کی ہے جو اب اس دنیا میں نہیں ہے۔ اس کا بیٹا بڑا ہو چکا ہے۔ اور چاہتا ہے کہ لطیف کانجی کی کہانی سے ایک دنیا واقف ہو۔ ایک طرف ہماری آپ کی یہ تیز رفتار دنیا ہے اور اسی دنیا میں لطیف کانجی جیسے لوگ بھی ہیں، جو برق رفتار دنیا کا تعاقب کرتے ہوئے علم نجوم کے شکنجے میں آ جاتے ہیں۔ سیٹھ لطیف کانجی کی ایک بیوی تھی۔ دو بیٹیاں تھیں۔ تین بیٹے تھے۔ چار فیکٹریاں تھیں۔ پانچ دوست تھے۔ چھ بنگلے تھے۔ سات شہروں میں دفاتر تھے۔ آٹھ بینک اکاؤنٹ تھے اور نو خاندانی ملازم تھے۔ اس ترتیب کا اہتمام خود لطیف کانجی نے کیا تھا۔ مگر یہ سب تو اسوقت کی بات ہے، جب وہ کامیاب ہو چکا تھا۔
تیرہ برس کے لطیف کانجی سے ایک جیوتشی جیون رام ٹکراتا ہے۔ جو اس سے کہتا ہے کہ تیرہ ہفتے بعد اس کی دنیا بدل جائے گی۔ اور واقعی ایسا ہوتا ہے۔ پاکستان بن جانے کی خبر آتی ہے۔ آگ کے شعلوں پر چلتا ہوا وہ کراچی آ جاتا ہے۔ والد کا انتقال ہوتا ہے۔ اعداد کی کرشمہ سازی یہاں بھی رنگ دکھاتی ہے لیکن دلچسپ یہ کہ ان کرشمہ سازیوں کے درمیان تقسیم کا المیہ بھی ہے اور مصنف نے چابکدستی سے نو آبادیاتی نظام اور اس نظام میں شامل کمزوریوں کا بھی جی بھر کر مذاق اڑایا ہے۔ تقسیم کے بعد نئے ملک میں آنکھیں کھولنے والے لطیف کانجی کے لیے نیا کچھ بھی نہیں تھا۔ نیا تھا تو علم نجوم اور اعداد کا تحفہ، جہاں وہ کبھی پاکستانی قدروں کو پامال ہوتے ہوئے دیکھتا اور کبھی اپنی کامیابی و ناکامی کو اعداد کی کرشمہ سازی کہہ کر خود کو تسلیاں دینے کی کوشش کرتا۔ اور بالآخر اپنے باپ کی طرح ۵۰ سال کی عمر میں لطیف کانجی کا انتقال ہو جاتا ہے۔ یہ اقتباس ملاحظہ ہو۔
’’میرا اب بھی یہی خیال ہے کہ کہانیاں تو بس، کہانیاں ہوتی ہیں۔ کوئی بھی صورت اختیار کر لیتی ہیں، کسی بھی راہ پر چل نکلتی ہیں۔ بس کبھی کبھی کوئی سیٹھ لطیف کانجی ٹکرا جاتا ہے اور لکھنے والے کے اعتماد کی دیوار میں دراڑ ڈال دیتا ہے۔ ‘‘
کہانی کے آخری جملے کو اردو افسانے کی تعریف یا کلید کے طور پر بھی پیش کیا جا سکتا ہے کہ کہانیاں تو بس کہانیاں ہوتی ہیں۔ کوئی بھی صورت اختیار کر لیتی ہیں۔ اور کسی بھی راہ پر چل پڑتی ہیں۔ غور کریں تو اخلاق احمد کی اس کہانی میں علم نجوم اور اعداد کے معجزے فقط کہانی کو آگے بڑھا رہے ہیں جبکہ بین السطور میں ایک خوفناک دنیا رقص کر رہی ہے اور مصنف نے خوبصورتی سے علم نجوم کو علامت اور استعارے کے طور پر استعمال کرتے ہوئے اس دنیا کا انکشاف کیا ہے، جہاں ارتقا کے راستہ میں توہم پرستی کے بت ہر چورا ہے پر ایستادہ ہیں اور جب تک ان بتوں کی موجودگی ہے، سیاسی وسماجی و معاشرتی اور ثقافتی سطح پر بھی کسی تبدیلی کے بارے میں نہیں سوچا جا سکتا۔ اسی فکر کو آگے بڑھاتا ہوا ایک افسانہ اقبال خورشید کا ہے۔ اقبال خورشید صحافی بھی ہیں، انٹرویو کار بھی اور افسانہ نگار بھی۔ ابھی گنتی کے چند افسانے لکھے ہیں لیکن ایسے افسانے جنہوں نے اردو افسانے کے روایتی انداز کو توڑ کر اپنا جداگانہ انداز واسلوب فنی مہارت کے ساتھ خلق کیا ہے۔ اقبال خورشید کی ایک کہانی ہے۔ ’تکون کی چوتھی جہت‘ یہاں ایک گلوبل دنیا ہے۔ اوراس دنیا میں سانس لینا بھی جرم ہے۔ یہاں ہر طرف درد و فغاں، کراہوں اور چیخوں کی بستیاں آباد ہیں۔ پاکستان کے مشہور ناقد مبین مرزا نے آج کے اردو فکشن کی تعریف میں یہ بات کہی تھی کہ آج کے افسانہ نگار کو افسانہ لکھنے کے لیے بہت سے مصالحے چاہئیں۔ بیانیہ پر قدرت، علامتوں کا استعمال، فنٹاسی، طلسمی حقیقت نگاری، افسانہ نگار اپنی بات مؤثر انداز سے کہنے کے لیے چاروں طرف ہاتھ پاؤں مارتا ہے پھر بحر ذخار سے اس قیمتی موتی کو تلاش کرنے میں کامیاب ہوتا ہے، جو اس کی کہانی میں چار چاند لگا دیتا ہے۔ اقبال خورشید کا کمال یہی ہے کہ وہ مضبوط بیانیہ کے سہارے، علامتوں اور استعاروں کے خوبصورت استعمال کے ساتھ افسانے کو اس بلندی پر پہنچا دیتے ہیں کہ قاری فکرو تحیر کی لہروں پر غوطہ زن ہو کر یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ… حیرتی ہے یہ آئینہ کس کا۔
تکون کی چوتھی جہت کی شروعات، رابندر ناتھ ٹیگور کی ایک نظم سے ہوتی ہے۔ ’کیا تم نے اس کے خاموش قدموں کی آواز نہیں سنی؟‘ وہ آتا ہے … آتا ہے … اور ہمیشہ آتا ہے …‘
لیکن یہ کون آتا ہے ؟ کون؟ جو بار بار آتا ہے۔ مختلف بھیس میں۔ کبھی نغمہ، کبھی موسلادھار بارش، کبھی طوفان بن کر، اور ایک ویران شام، جب سمندر سڑکوں پر آ گیا تھا۔ نشیبی علاقے ڈوب گئے تھے، جب برف گر رہی تھی اور بندوقیں آگ اگل رہی تھیں، اس کہانی کی شروعات ہو رہی ہے۔ کہانی کا یہ اقتباس ملاحظہ ہو۔
’’قیدی کے لیے وہ انوکھی شام تھی۔ ایک سرد، مگر تحیر خیز شام۔ تھوڑا ہی سہی، مگر گرم پانی میسر تھا۔ وہ غلاظت سے، جو اس کے جسم کا حصہ بن گئی تھی، چھٹکارا پا سکتا تھا۔ آنکھوں پر پٹی بندھی رہی، مگر ہاتھ کھول دیے گئے۔ اور ہاتھ کھولنے والے نے کرخت لہجے میں اسے متنبہ کیا کہ اس کے ہاتھ میں بندوق ہے۔ :
’’ذرا سی چالاکی تمہاری جان لے لے گی۔ ‘‘
قیدی نے جو یہ آواز پہلے بھی سن چکا تھا، اس کی ہدایت پر بلا چوں و چرا عمل کیا۔
اس نے گندے کپڑوں سے نجات حاصل کی۔ خود کو صاف کیا۔ پھر کھانے کی جانب متوجہ ہوا، جو تعجب خیز حد تک خوش ذائقہ تھا۔ اس دوران جنگ جو کھڑا اسے دیکھتا رہا۔ جب قیدی فارغ ہوا، تو اس نے آگے بڑھ کر اس کے ہاتھ باندھ دیئے۔ پھر وہ جانے کے لیے پلٹا اور تب ایک آواز نے اس کے قدم پکڑ لیے۔
’بھائی۔ ذرا ٹھہرو۔ ‘
’’میری بیوی… اکیلی ہے۔ وہ… حاملہ… کیا تم اس تک یہ اطلاع پہنچا سکتے ہو کہ میں زندہ…؟‘‘
جنگ جو کو ایک بے نام احساس نے آ لیا۔ تخیل بادلوں سے بھر گیا۔ اور تاریکی چھا گئی۔ مگر جلد اس نے ہر نوع کے احساس سے نجات حاصل کر لی۔ یہ تربیت کا حصہ تھا۔ کرختگی کو خود پر غالب کیا۔ ’’کیا تمہیں یقین ہے کہ تم کل تک زندہ رہو گے۔ ؟‘‘
یہ قیدی کون ہے ؟ یہاں سمئے کا پیڑ بھی ہے جس کی پرانی شاخوں سے امید کے پتے گرتے ہیں۔ اور ہر پتّے میں ایک کہانی درج ہے۔ یہاں ایک عورت بھی ہے جس کے مقدس بازوؤں میں ایک پاکیزہ روح ہے۔ اوراس منظر سے میلوں دور، وقت کے کسی نامعلوم دائرے میں ایک سورما کی لاش پڑی ہے، انہی پتھروں میں جہاں تتھاگت سانس لیتا تھا۔ تکون کی اس چوتھی جہت میں ہماری آپ کی یہ دنیا لہولہان پڑی ہے۔ اور ہم صرف بے حس آنکھوں سے تماشہ دیکھنے والے اداس داستان گو بن کر رہ گئے ہیں۔ تکون یعنی گمشدہ کائنات کی الجھی سلجھی لکیروں کو اقبال خورشید نے فنی چابکدستی کے ساتھ ایسے پرویا ہے کہ ہر لفظ میں ایک نئی کہانی پوشیدہ، ہر سطر میں ایک نئے ملک کا چہرہ سانس لیتا ہوا نظر آتا ہے۔
نئے مسائل، نئی کہانیاں
چھوٹی سی ہماری یہ دنیا واقعات کے کہرے میں گم ہوتی جا رہی ہے۔ پہلی اور دوسری جنگ عظیم نے ایک نئی تہذیبی، اقتصادی اور معاشی صورتحال کو جنم دیا تھا۔ ۱۹۴۵ء میں جب دوسری عالمی جنگ ختم ہوئی تو نہ صرف ایک دنیا تبدیل ہو چکی تھی بلکہ ایک نئی دنیا، نئی تبدیلیوں اور نئے مسائل کے زیر سایہ جنم لینے کی کوشش کر رہی تھی۔ ہٹلر کی برلن میں خودکشی، جرمنی کا ڈھیر ہونا، امریکہ، برطانیہ، فرانس اور سوویت یونین جیسی نئی طاقتوں کا سر اٹھانا— جنگ کے اثرات عالمی نظام کے لیے بہت گہرے تھے — امریکہ ایٹم بم بنانے اور استعمال کرنے والی پہلی طاقت کے طور پر سامنے آ چکا تھا۔ سرد جنگوں نے دنیا کو الگ الگ بلاکوں کے طور پر تقسیم کر دیا تھا— اور اسی نئے عالمی نظام نے برطانوی حکومت کے خاتمے کا اعلان بھی کیا— اور ادھر نو آبادیاتی عہد میں پستی ہوئی قومیں تھیں جنہیں از سر نو نئے نظام میں واپس آنا تھا۔ ہندستان کے لیے بھی نئے چیلنج کی شروعات کا عہد تھا— غلامانہ عہد کا خاتمہ، تقسیم اور ہندوستان کی آزادی نے کہانیوں کے لیے نئی زمینیں فراہم کی تھیں — یہ حقیقت ہے کہ تقسیم کا سب سے زیادہ اثر اردو اور پنجابی زبان پر ہوا— نتیجہ، اس کے اثرات سے سب سے زیادہ کہانیاں بھی انہی دونوں زبانوں میں لکھی گئیں — اب ایک بدلتا ہوا ہندوستانی سماج اور معاشرہ تھا۔ عالمی جنگوں سے باہر نکلنے کے بعد نئی نئی جنگوں کے میزائل ہمارا انتظار کر رہے تھے — فرقہ وارانہ دنگے، بھوک سے ماحولیات تک ایک نئی جنگ سامنے آ چکی تھی— تہذیبوں کے تصادم سے نئی تہذیبیں فروغ پا رہی تھیں اور آسانی سے ان کا اثر ہماری کہانیوں میں تلاش کیا جا سکتا تھا۔
ایک بے حد سہمی ہوئی خوفزدہ کرنے والی صدی کے دس سال گزر گئے — دس بھیانک سال— جس نے ہزاروں خوفناک واقعات سے صدی کے سینے میں سارترے کے Iron in the soul کو رکھ دیا تھا۔ ساری دنیا میں بھکمری اور غریبی لوٹ آئی تھی۔ تیل کی قیمتیں آسمان چھو گئیں — شیئر بازار لڑھک کر گر پڑا— ہزاروں بینکوں کو دیوالیہ قرار دیا گیا۔ ابوظہبی اور دبئی جیسے جدید مراکز ہل گئے — امریکی کرنسی گریٹ ڈپریشن کا شکار ہوئی، ماحولیات کے تحفظ کے لیے نئے نئے ماڈل بنائے گئے، جو ناکام رہے — انٹارٹیکا کے بڑے بڑے گلیشیرس سمندر میں گم ہو گئے۔ سر جوڑتے ہوئے دنیا کے تمام سائنس دانوں نے اپنا فیصلہ سنا دیا— انسانی ترقی اور کامیابی کی کہانیاں ہی در اصل انسانی بربادی کی اہم وجوہات ہیں۔ ایک طرف دہشت پسندی ہے — دوسری طرف مہا ماری— سوائن فلو اور سارس جیسی نئی بیماریوں سے لڑتے ہوئے لوگ— کامیابی کا ہر قدم ایک نئی بیماری لے کر سامنے آ رہا ہے۔ شوگر، ہائپر ٹینشن، بلڈ پریشر، ایڈز، ہارٹ اٹیک— 9/11 سے گجرات اور 26/11 تک ایک خوفزدہ کرنے والی تہذیب ہمارا استقبال کرتی ہے۔ بین الاقوامی معاہدے، سمجھوتے، قوانین، قواعد و ضوابط سب طاق پر رکھے رہ جاتے ہیں اور ایک نئی سنگین دنیا نئے وائرس کے ساتھ ہمارے سامنے آ جاتی ہے۔ عرصہ پہلے ڈارون نے اوریجن آف اسپیشیز لکھ کر مذہب کو چیلنج کیا تھا— آج ایسے مذاہب کی جگہ مذہب اسلام عالمی دہشت گردی کی علامت ہے۔ صہیونی سازشیں ہیں اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم پر کارٹون بنائے جا رہے ہیں — گلوبل دنیا اور گلوبل وارمنگ کے اس عہد میں الگ الگ اخلاقیات کے عفریت ہمیں حصار میں لیے کھڑے ہیں — اور جیسا کہ ان دنوں مغرب کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ وہاں کے بنیادی مسائل نہ تو معاشی ہیں اور نہ ہی آبادی کا بڑھنا— بلکہ اصل مسئلہ ہے ، تہذیبوں کا گم ہونا— ایک نیاسیاسی بحران سامنے ہے — دہشت پسندی اور القاعدہ تہذیب ہے، جس کی جڑیں بنیاد پرستی سے زیادہ دہشت پسندی کی زمین سے وابستہ ہیں۔ ایک طرف پاگل، بھاگتی دنیا ہے۔ ریس ہے —تباہیاں ہیں — پراڈکٹ ہے — برانڈ ہے — یہاں ہندوستان بھی ایک برانڈ ہے — جسے ہالی ووڈ بازار اوتار اور 2010 جیسی فلموں کے ذریعہ اس بازار پر قبضہ کرنا چاہتا ہے۔
پہلے اتنی ترقی نہیں تھی— میڈیاز نہیں تھے۔ سیکس ایجوکیشن نہیں تھی— سائبر ورلڈ نہیں تھا۔ اب ایک تیزی سے بدلتی ہوئی دنیا ہے — اور اس دنیا میں فیس بک سے گوگل، یوٹیوب، زوم سے Padora تک انفارمیشن ٹیکنالوجی سے سیکس اور پورن سائٹس کی بھی ایک بڑی دنیا آباد ہے — جنسی اشتعال انگیزی میں گم ایشیا کا ایک بڑا بازار ہے — چھوٹے چھوٹے پانچ سے گیارہ سال کے نئے بچوں کے بلیو پرنٹ ہیں اور دیکھنے والی ہزاروں بوڑھی آنکھیں — سیکس کے اس بازار میں اب رشتے اور ننھے بچے تک آ گئے ہیں۔ ایک طرف عالمی ثقافت کے بازار میں سیکس ٹورزم کو جگہ مل رہی ہے — اور دوسری طرف کنڈومس کو کھلونوں پھلوں کی نئی نئی شکلیں دی جا رہی ہیں — انڈیا ٹوڈے اور آؤٹ لک جیسے جریدے سیکس پر سروے کرا رہے ہیں — اسکول کالج میں پڑھنے والے بچے برانڈڈ انڈر ویئر کو دکھاتے ہوئے خوشی محسوس کر رہے ہیں اور شاید اس لیے ہمارے یہاں سچ کا سامنا، روڈیز شو اور ایموشنل اتیاچار جیسے پروگرام دیکھنے والوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے — ایک طرف عالمی دہشت پسندی ہے اور دوسری طرف نئی تہذیب سے برآمد ہونے والا کنڈوم کلچر— اور دوستو، یہ نئی دنیائیں اقبال مجید سے لے کر صدیق عالم اور خالد جاوید تک کہیں نہ کہیں ہماری کہانیوں کا حصہ بن رہی ہیں — بھوک سے عالمی دہشت گردی اور ماحولیاتی آلودگی سے سپر پاور بننے کی ریس میں ہزاروں مسائل ہیں جن کا سامنا سیاست سے عام آدمی اور ادیب و فنکار تک سب کر رہے ہیں۔ 9/11 کے دل دہلا دینے والے حادثے نے مسلمانوں کو عالمی سطح پر دہشت گرد بنا رکھا ہے اور اس کا خمیازہ دنیا کے تمام مسلمانوں کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔
The reluctant fundamentalist میں 9/11 کے بعد محسن حامد ایک ایسے ہی نوجوان مسلمان کردار چنگیز کو سامنے لاتا ہے جسے بدترین مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے — ابھی حال میں طاہر نقوی کی کہانی موسم بدلتے ہوئے عالمی مسائل کے اسی خطرناک تیور کی طرف اشارہ کرتی ہے — کیتھرین سے محبت کرنے والا ایک مسلمان— لیکن جب کیتھرین کو معلوم ہوتا ہے کہ اس کا محبوب ایک مسلمان ہے تو وہ اسے جیل بھیج دیتی ہے۔
مرحوم شفق اپنے ناول بادل میں 9/11 کے حادثے کو اردو قارئین کے سامنے رکھتے ہیں —
’’تیسرا پلین پنٹاگن کے فوجی ہیڈ کوارٹر سے ٹکرایا ہے۔ آگ پھیلتی جا رہی ہے۔ خیال ہے کہ وہ پلین وہائٹ ہاؤس سے ٹکرانے جا رہا تھا— یہ سب کیا ہو رہا ہے — خالد نے بھاری دل سے سوچا— مسلمان خوشیاں مناتے ہوئے اپنی تصویریں کیوں کھنچوا رہے ہیں ؟ انہیں حادثے کے ساتھ کیوں دکھایا جا رہا ہے — نام لیے بغیر بھی یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ اس حادثے کے ذمہ دار مسلمان ہیں اگر وہ حادثے کے ذمہ دار نہیں ہیں تب بھی وہ اتنے سیڈسٹ ہیں کہ اس بڑے حادثے پر دکھ کے بجائے ناچ گا کر خوشی کا اظہار کر رہے ہیں —‘‘
شفق کے غور و فکر کا یہ عمل بے معنی نہیں ہے — امریکی ایئر پورٹ پر مشہور ادا کار شاہ رخ خاں کو مسلمان ہونے کے نام پر بے عزت کیا جاتا ہے — آسٹریلیا میں مقیم ایک نوجوان ہندوستانی ڈاکٹر کو واپس ہندوستان بھیج دیا جاتا ہے — اور ایسے ہزاروں واقعات کی روشنی میں ہمارا اردو افسانہ نگار عالمی دہشت گردی کی روشنی میں نئی نئی کہانیوں کو جنم دیتا ہے — اور اس کا عکس آسانی سے عبد الصمد، غضنفر، حامد سراج، شائستہ فاخری، عاصم بھٹ، شاہد حمید، مبین مرزا سے لے کر آسٹریلیا میں مقیم اہم ناول نگار اشرف شاد تک تلاش کیا جا سکتا ہے — اشرف شاد کے تینوں ناول وزیر اعظم، بے وطن اور صدر اعلیٰ میں صرف پاکستانی آمریت کی جھلک نہیں ہے بلکہ اس کے پس پردہ عالمی نظام اور مسائل کا وہ چہرہ بھی محسوس کیا جا سکتا ہے جو سپر پاور ہونے کی آڑ میں آہستہ آہستہ کمزور ممالک کو نگلتا جا رہا ہے —
’’کچھ نہیں پتہ کون کس کو مار رہا ہے۔ لگتا ہے سب اجتماعی خودکشی پر تل گئے ہیں — پاگل پن کا پلیگ ہے جو پورے شہر میں پھیل گیا ہے — بے نشان بندوقوں سے گولیاں نکل کر آتی ہیں اور لہو چاٹ جاتی ہیں۔ پولیس مقابلے ہوتے ہیں، جن میں چلنے والی گولیاں صحیح نشانوں پر پہنچ کر سینے چھلنی کرتی ہیں — بوریاں اپنا منہ کھول کر آنکھوں پر پٹی بندھی ہوئی لاشیں اُگلتی ہیں — عمارتوں میں راکٹ پھٹتے ہیں۔ شہر میں بے روزگار نوجوانوں کی فصلیں تیار کھڑی ہیں جنہیں کاٹنے والا کوئی نہیں۔ سیاست کرنے والے بے حس گورکن بنے، قتل گاہوں پر طاقت کے تخت بچھائے بیٹھے ہیں۔ ‘‘
— اشرف شاد (وزیر اعظم)
’’میں وہ آخری آدمی ہوں جو پردیس کو وطن بنانے کا مشورہ نہیں دوں گا۔ لیکن تمہارے حالات ایسے ہیں کہ تمہیں اپنے گھر والوں کا مشورہ مان لینا چاہئے۔ واپس گئے تو تم اپنے گھر والوں کے لیے ایک اور مسئلہ بن جاؤ گے۔ جذبات میں بہہ کر اس نسل میں شامل ہو جاؤ گے، جو جیل جا رہی ہے۔ یا گولیاں کھا رہی ہے — اس وقت تمہارا جانا واقعی صحیح نہیں ہو گا—‘‘ — اشرف شاد (ناول سے )
ان تمام تر کہانیوں کا ہیرو وقت ہے۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ ساری کہانیاں نئے عالمی مسائل کی کوکھ سے جنمی ہیں۔ تقسیم کے بعد بلکتے پاکستان کو نظر انداز کرنا ممکن نہیں تھا۔ تہمینہ درّانی جیسی انگریزی ادیبہ نے بھی پاکستان کے ہولناک معاشرے کو قلم بند کیا۔ یہی نہیں انور سین رائے کی ’چیخ‘ سلگتے پاکستان کی چیخ ثابت ہوئی:
’’ہمیں بتاؤ تمہیں کس بات کا ڈر ہے ہم تمہیں مکمل تحفظ دینے کا وعدہ کرتے ہیں۔ ہمیں بتاؤ کہ تم کن لوگوں کے ساتھ مل کر اخبار نکالتے تھے اس کے لیے رقم تمہیں کہاں سے، کیسے ملتی تھی؟ اخبار کو کہاں کہاں تیار کیا اور کہاں چھاپا جاتا تھا؟ اس کے لیے مضامین کون کون لکھتا تھا اور پھر اس اخبار کو کس طرح تقسیم کیا جاتا تھا اور کون کون تقسیم کرتا تھا؟‘‘ وہ بولتے بولتے تھوڑی دیر کے لیے رک گیا اور میں سوچنے لگا: میں جس اخبار کو نکالنے کے لیے کام کرتا ہوں اس کا میری بیماری سے کیا تعلق ہو سکتا ہے اور جو کچھ یہ ڈاکٹر پوچھ رہا ہے اس میں سے بہت سی باتیں تو خود اخبار دیکھ کر معلوم کی جا سکتی ہیں — کوئی ایک بات بھی ایسی نہیں جسے معلوم کرنے کا کسی کی بیماری سے، خاص طور پر ذہنی بیماری سے کوئی تعلق ہو— میں نے ساری باتیں اسے بتا دیں لیکن اس نے صرف اتنا کہا ’’تم واقعی ایک احمق آدمی ہو۔ ‘‘
—چیخ: انور سین رائے
عاصم بٹ کا ’دائرہ‘ اسی سلسلے کی اہم کڑی ہے۔ یہاں پاکستانی مارشل لائ، پاکستانی فوجی حکومت اور تقسیم کے ۶۲ برسوں کی سینسر شپ میں پستا ہوا ہر ایک آدمی ایک مسخرہ ہے یا اسٹیج ایکٹر یا کٹھ پتلی، جس کا سرا ہمیشہ سے پاکستانی تانا شاہوں کے پاس رہا ہے۔ عوام کو صرف اشارے پر اپنا کرتب دکھانا ہے یا اپنا ’رول‘ پلے کرنا ہے — آہستہ آہستہ پاکستانی فضا ان بندشوں سے آزاد ہو رہی ہے۔ مرد اور خاتون افسانہ نگاروں کی ایک لمبی قطار سامنے آ چکی ہے۔ یہ قطار بے خوفی کے ساتھ اپنی ذمہ داریاں نبھا رہی ہے۔ حمید شاہد سے آصف فرخی، طاہرہ اقبال، مبین مرزا، سیمیں کرن، منزہ احتشام تک آپ ان کی کہانیوں میں پاکستان کے بہانے عالمی مسائل کی جھلک محسوس کر سکتے ہیں۔
عالمی مسائل اور نئی اردو کہانی کی بازگشت
سنہ ۲۰۱۰ء آتے آتے اردو دنیا کی صورتحال یکسر تبدیل ہو گئی۔ یحییٰ نشاط سے نسیم ساکیتی تک ایسے لوگ بھی سامنے آ رہے تھے جو کوپن ہیگن میں ماحولیات کی ناکامی پر بھی افسانہ رقم کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ جو فضا میں پھیلتے کاربن مونو آکسائیڈ کی تشویش ناک صورتحال کو بھی دیکھ کر افسانے لکھ رہے تھے اور ساتھ ہی بھوک، دہشت گردی، نکسل واد کے مسائل کو عالمی اُفق پر دیکھنے کی کوشش کر رہے تھے — اسی عالمی نقشہ پر پانی بھی مسئلہ ہے اور دیکھئے رضوان الحق نے کس خوبصورتی سے اس مسئلہ کو اپنے افسانہ ’تعاقب‘ میں پیش کیا ہے —
’’گلوب کے تعلق سے اس کی ایک عادت یہ بھی ہے کہ جب وہ شدید ذہنی انتشار میں ہوتا ہے تو اس گلوب کو بہت تیزی سے گھمانے لگتا ہے۔ پھر کوئی ملک اپنی سرحد کے ساتھ نظر نہیں آتا ہے، تمام سرحدیں مٹ جاتی ہیں اور صرف عالمی جغرافیہ رہ جاتا ہے، اس جغرافیہ میں پہاڑ، جنگل، جھیلیں، چرند پرند، آسمان، آسمان پر اڑتے ہوئے بادل اور دور تک پھیلا ہوا سمندر، سب کچھ موجود ہوتا ہے۔ اس کا جی چاہتا ہے کہ یہ گلوب ہمیشہ اسی رفتار سے گھومتا رہے اور تمام سرحدیں ہمیشہ کے لیے مٹ جائیں۔ صرف عالمی جغرافیہ بچے۔ گلوب دیکھتے ہوئے ایک سوال اسے بہت پریشان کرتا ہے کہ دنیا کا تقریباً دو تہائی حصہ پانی پر مشتمل ہے۔ پھر بھی دنیا کی آبادی کا ایک بڑا حصہ زندگی کرنے کے لیے ضروری پانی سے کیوں محروم ہے ؟
در اصل بے حد خاموشی سے فنکار عالمی مسائل کو اپنے مسائل سے جوڑ کر ایک نیا زاویہ دینے کی کوشش کرتا ہے۔ اسی لیے آج اردو کہانی میں پہلے سے کہیں زیادہ انسانیت، امن و آشتی اور دہشت گردی پر مبنی تجزیاتی کہانیوں کی تعداد بڑھنے لگی ہے۔ شوکت حیات، حسین الحق، معین الدین جینا بڑے، رحمن عباس، اسرار گاندھی اور صدیق عالم کی کہانیوں میں ایسے مسائل کی تڑپ دیکھی جا سکتی ہے۔
’’اس وقت صرف انسان زندہ رہ گیا تھا، باقی سب کچھ مر گیا تھا۔ آج صرف انسان مر گیا ہے باقی سب کچھ زندہ ہے۔ کیا ہو گیا ہے اس شہر کو؟ پہلے ایسے حادثات تو کبھی نہ ہوئے تھے، سنو، میری بھی رائے یہی ہے کہ شام کو جب تھوڑی دیر کے لیے پہرے ہٹیں تم کسی محفوظ جگہ چلے جاؤ۔ میں تمہیں کھونا نہیں چاہتی۔ ‘‘
—اسرار گاندھی (راستے بند ہیں )
’’میں کسی فرشتے میں یقین نہیں رکھتا۔ ‘‘ وہ دھیرے دھیرے کہتا ہے۔ ’’کیونکہ میں جانتا ہوں اب ہم انسان ایسی چیز نہیں رہے کہ اس کے لیے کوئی فرشتہ خدا کی طرف سے پیغام لے کر اترے۔ شاید ہمیں اب اس کے بغیر ہی کام چلانا ہو گا۔ یوں بھی جب اتنی ساری کھائیاں ہمارے چاروں طرف بن چکی ہوں تو انہیں لانگھنا تو پڑتا ہی ہے، چاہے اس کوشش میں ہم اس کی نذر ہی کیوں نہ ہو جائیں۔ ‘‘
—صدیق عالم- الزورا
یہاں اعتبار کی بجھتی ہوئی قندیل ہے —انسان یا انسانیت کو زندہ دیکھنے کی ایک موہوم سی امید ہے — خدا کی ذات سے منکر ہونے کی کیفیت ہے — اور یہ تمام کیفیتیں اُس نئے بحران سے پیدا ہوئی ہیں، جو ہمارے سامنے ہے — جہاں راستے گم ہیں — اور زندگی اپنے معنی و مفہوم گم کر چکی ہے —
یہ نئی دنیا پاگل کرنے والی ہے
اس سے قبل کہ اس گفتگو کو آگے بڑھایا جائے، اس نئی دنیا کا تعارف آپ سے ضروری ہے، جس کے بارے میں جوزف براڈ سکی نے لکھا—
’’جب آپ ٹائی کی ناٹ باندھتے ہیں۔
لوگ مر رہے ہیں —
جب آپ اپنے گلاسوں میں اس کاچ انڈیلتے ہیں
لوگ مر رہے ہیں
جب آپ نئے خداؤں کے آگے سجدہ کرتے ہیں
لوگ مر رہے ہیں —‘‘
ایک بھیانک دنیا— کچھ عجیب سے سچ— اور تماشا دیکھنے والے ہم— سماجی آئین سے الگ ایک نئی اخلاقیات سامنے آ چکی ہے — نئی تکنالوجی سائبر ورلڈ، ایک تیزی سے بدلتی ہوئی دنیا اور پگھلتے ہوئے گلیشیرس— نیوزی لینڈ کی عورت نے اپنے گھر سے دو بھوت پکڑے — ایک بوتل میں بند کیا اور آن لائن خریدار مل گئے — ہم ایک ایسے عہد میں ہیں جہاں کچھ بھی فروخت ہو سکتا ہے — در اصل ہمیں انفرادی و اجتماعی طور پر حیوان بنانے کی تیاری چل رہی ہے —نئی قدریں تشکیل پا رہی ہیں۔ سپر مارکیٹ، انڈیا شائننگ اور 2050 تک انڈیا کو سب سے بڑی طاقت کے طور پر پیشن گوئی کرنے والے بھی نہیں جانتے کہ وہ اس پورے انڈیا کو کہاں لے آئے ہیں — کمرشیل ٹی وی شوز سیکس کی آزادی کا پیغام لے کر آ رہے ہیں اور تہذیب بلاسٹ کر چکی ہے — اور دوسری طرف ڈی ان اے، جینوم، کروموزوم اور جین کے اس عہد میں تہذیب و تمدن کی نئے سرے سے شناخت ہو رہی ہے کہ سب سے قدیم انڈین کون تھے — دراوڑ یا انڈمان جزائر میں رہنے والے — یا پھر منگولیائی— جہاں ایک طرف کینسر‘ ایڈز، ڈائبٹیز اور ہارٹ اٹیک پر فتح پانے کے لیے میڈیکل سائنس کے نئے دروازے کھل رہے ہیں — اور یہیں کامن ویلتھ گیمس کے لیے ایک بڑی آبادی بھوکوں مار دی جاتی ہے — یہاں آئی پی ایل کے بلّے چمکتے ہیں — اور نندی گرام میں کسانوں کو زندہ جلا دیا جاتا ہے —
موجودہ افسانوں پر گفتگو کرتے ہوئے اس بھیانک دنیا کا تذکرہ ضروری ہے۔ لیکن ایک بڑا سوال یہ بھی ہے کہ اس بد سے بدتر ہوتی دنیا کا مکروہ چہرہ کیا ہماری کہانیوں میں نظر آ رہا ہے — یا صرف ہمارے فنکار اشاروں اور کنایوں سے کام چلا کر آج بھی سرسری طور پر ان واقعات سے آنکھیں چراتے ہوئے گزر جاتے ہیں — اگر ایسا ہے تو مجھے کہنے دیجئے یہ فن کے ساتھ کوئی ایماندارانہ رویہ نہیں ہے — موجودہ عالمی سماج کے اہم مسائل بھوک، پانی، آلودگی، اور دہشت پسندی کے تناظر میں جو دنیا ہمیں ہاتھ لگتی ہے وہ جنگوں سے برآمد شدہ دنیا ہے — لیکن صرف اتنا کہنا کافی نہیں ہے۔ کہانی کار کے طور پر ہمیں اس کا تجزیہ بھی کرنا ہے — وحشت، بربریت، دہشت اور انتہاپسندی کی بھیانک داستانیں ہیرو شیما اور ناگاساکی کی تباہی کے بعد آج بھی رقم کی جا رہی ہیں۔ اب نئے اندیشے اور خطرات ہیں — عراق اسی طرح تباہ ہوا جیسے ایک زمانے میں امریکہ نے یوگوسلاویہ کو تباہ و برباد کیا تھا۔ 9/11 کے بعد افغانستان کی بربادی بھی سامنے ہے۔ ایران کو تہہ تیغ کرنے کی دھمکیاں بھی سنائی جا چکی ہیں۔ روسی قیادت دوبارہ سپر پاور بننے کا خواب دیکھ رہی ہے۔ چین اپنی سیاست کر رہا ہے — عراق اور افغانی جنگ نے امریکہ کو اقتصادی طور پر کھوکھلا کر دیا ہے — ساری دنیا بھکمری کی شکار ہے — امن خطرے میں ہے — نئے صارف کلچر میں جنس پرستی کو فروغ دیا گیا ہے — آزادی آزادی کی رٹ لگانے والوں کے لیے 9/11 کے بعد آزادی صرف ایک کھوکھلی حقیقت ثابت ہوئی ہے —
کیا اردو کا ادیب عالمی مسائل کی روشنی میں ان دور رس بھیانک نتائج سے آگاہ ہے ؟ ڈپٹی نذیر احمد سے شمس الرحمن فاروقی کے ناول تک ایک تہذیبی ناستلجیا تو دیکھنے کو مل جاتا ہے لیکن اس پر آشوب عہد کی آگاہی و عکاسی کہیں بھی نظر نہیں آتی— ہاں، پاکستانی فنکاروں میں سچ کا سامنا کرنے والی تحریریں بڑی تعداد میں مل جائیں گی۔ اسد محمد خاں سے لے کر زاہدہ حنا، طاہرہ اقبال، مبین مرزا اور حمید شاہد تک عالمی مسائل پر لکھی جانے والی تحریروں کی کوئی کمی نہیں۔ نسیم بن آسی گیلارڈ ہوٹل کے بہانے اسی خوف و تشکیک کی فضا کو سامنے رکھتے ہیں —تاریخ کی طرح ارتقا کے نئے سفر کا سلسلہ ہنوز جاری ہے —
مغرب میں بھی فکشن تذبذب اور فکری تضاد کا شکار ہے اور یہی بیماری بر صغیر کو بھی لگ چکی ہے اور شاید اسی لیے تخلیقی تجربوں کی سطح پر ایک وسیع دنیا ہمارا انتظار کر رہی ہے جہاں لاسمتی ہے، وحشت ہے۔ سائبر کیفے ہے۔ انٹرنیٹ ہے۔ وائرس ہے۔ ایڈز اور کینسر ہے۔ بڑی مچھلیاں اور چھوٹی مچھلیاں ہیں۔ دہشت گردی ہے۔ سماج وسیاست کا نیا نظام ہے۔ اور ایک خوفناک گلیشیر ہے جو بہتا ہوا ہماری طرف لپک رہا ہے۔ اور ہم اسی نئی صورتحال سے نئی کہانیاں تخلیق کرنے پر مجبور ہیں۔
٭٭٭
بے سمت بصیرت و آگہی کے ۱۵ برس اور ہمارا افسانہ
نئی صدی کے ۱۵ برسوں میں ہم نے ایک بڑی دنیا کو تبدیل ہوتے ہوئے دیکھا۔ ۳۱ دسمبر ۱۹۹۹ کی شروعات ایک دھماکے سے ہوئی۔ اس کے بعد سونامی لہروں کے قہر اور دہشت بھری خبروں نے ایک دنیا کو متاثر کیا اور ابھی بھی روہنگیا مسلمانوں کے قتل عام کے ساتھ خطے میں جو بحران پیدا ہوا ہے، اس نے تہذیب یافتہ دنیا کا ایک خوفناک چہرہ ہمارے سامنے رکھا ہے۔ بھگوا آتنک واد سے داعش تک دنیا ایک نئے ہائی وے پر برق رفتاری سے سفر کر رہی ہے۔ تہذیبوں کے تصادم کے ساتھ خیالات کے ٹکراؤ میں بصیرت و آگہی کا فقدان نظر آتا ہے۔ سماجی، تہذیبی معاشرتی، اقتصادی پس منظر تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے۔ ایک طرف دنیا مریخ پر قدم رکھنے والی ہے، اور دوسری طرف مذہبی دہشت گردی نے کنفیوژن کی فضا پیدا کر دی ہے۔ ان ۱۵ برسوں میں ہم مسلسل ایڈز، کینسر، سوائن فلو اور سارس جیسی بیماریوں سے بھی خوفزدہ ہیں۔ جاپان سے نیپال تک قدرتی آفات کا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ گلوبل طلسمی آئینے سے جھانکتا بازار ہمیں خوفزدہ کر رہا ہے اوردوسری طرف فاسٹ فوڈ کی دنیا اب ’میگی‘ کے نام سے گھبرانے لگی ہے۔ انٹرنیشنل مارکیٹ، فارین شیئر، ایکسچینج، اسٹاک آپشن، میک ان انڈیا اور امریکی تصرف تک انقلابی زمین کھوکھلی ہو چکی ہے۔ قدیم و جدید کا حیران کرنے والا سنگم ہے اور بے سمت بصیرت و آگہی۔ ڈپریشن کا شکار اکانومی، لیسبین ازم، لیو ان ریلیشن، گھر واپسی، لو جہاد، سوشل نیٹ ورکنگ، سائبر کرائم تک نئی اصطلاحیں ہمیں ایک ایسی نئی دنیا سے وابستہ کر رہی ہیں جہاں مستقبل کا کینوس کورا ہے اور نئے پرانے دماغ ایک دوسرے میں تحلیل ہو رہے ہیں۔ سائنس موت پر فتح پانے کی کوشش کر رہی ہے اور معصوم ننھے بچے شوگر، بلڈ پریشر اور دنیا بھر کی خوفناک بیماریوں کا شکار ہو کر اپنا بچپن بھول رہے ہیں۔
ہزاروں موضوعات، ہزاروں سوالات، ان سوالوں کا جواب ادب کو بھی دینا ہوتا ہے۔ فکشن اور ناول کی بڑی دنیا کا احاطہ کرتے ہوئے ہم ایسے تمام سوالوں کو نظر انداز نہیں کر سکتے۔ ۱۹۹۰ کے بعد ترقی پسند تحریک، جدیدیت اور مابعد جدیدیت کے بعد کی جو نئی ادبی فضا ہے وہ اب تک کنفیوژن شکار ہے۔ بہر صورت مکالمہ ضروری ہے۔ ادب کی دنیا کو صرف ہندوستان اور پاکستان تک محدود نہیں کیا جا سکتا۔ اردو کی ایک بڑی عالمی بستی ہے، جہاں ویب سائٹس اور بلاگس ہیں اور مسلسل نئے مسافر ہمارے اس ادبی سفر کا حصہ بن رہے ہیں۔ اور یہ اعتبار کرنے کو جی چاہتا ہے کہ اردو ابھی زندہ ہے۔ زبان ابھی باقی ہے۔ مگراس کے باوجود زندہ زبانوں کا کردار یہ ہے کہ مکالمے بند نہ ہوں۔ صحت مند بحث و مباحثہ اور نئے مکالموں کو آواز دی جائے۔
— تبسم فاطمہ
میرے خیال میں اب لکھنے والے کے پاس لکھنے کے لیے بہت کچھ ہے۔ بے شمار موضوعات منہ کھولے اژدہے کی طرح آپ کے منتظر ہیں۔ پیار و محبت کے وہ قصے، خاندانی رسم و رواج وہ رکھ رکھاؤ تہذیب سب وقت کی نذر ہو گیا۔ سسی پنوں، سوہنی مہوال، مولا جٹ کی کہانیاں قصۂ پارینہ بن چکی ہیں۔ بلکہ اب اگر کوئی ان پر لکھے گا تو شاید اسے قبول نہ کیا جائے۔ اب تو پیار محبت بھی سائنٹفک اصولوں پر کیا جاتا ہے۔ ہاتھ سے لکھی چٹھیوں اور خوبصورت مخروطی ہاتھوں سے رو مال کاڑھنے کا زمانہ بھی گیا۔ اب تو کبوتر بھی محبت کی علامت نہیں رہا کہ اس پر بھی دہشت گردی کا الزام لگا دیا جاتا ہے۔ سو سب نازک جذبات و احساسات مٹ چکے ہیں۔ آپ کے پاس اب محبت کرنے کی بھی چوائیس ہے ایک نے بے وفائی کی تو دوسرا تیار۔ ماضی کی طرح نہیں کہ ایک سے پیار کیا اسی سے نبھایا اور نہ ملنے پر اس کی خاطر جان بھی دے دی۔ ایسے قصے اب خال خال ہی ملتے ہیں۔ اب تو آپ کو ایسی نسل کے قصے لکھنا ہوں گے جو پاوڈر کا دودھ پی کر جوان ہوئی ہے۔ جس نے اپنے آس پاس نا انصافی، دہشت گردی، خوف، ظلم، بربریت کو ہوتے ہوئے دیکھا ہے۔ اب افسانے لکھنے کے موضوعات بدل چکے ہیں۔ خواہ آپ دنیا کے کسی بھی حصے میں بیٹھے ہوں۔ اگر آپ ارد و بولتے اور لکھتے ہیں تو آپ ان موضوعات پر لکھے بنا رہ نہیں سکتے۔ جاگیردارانہ ظلم و جبر۔ ملک کے حالات تشدد کے واقعات آپ کو دور افق کے اس پار بھی محسوس ہوتے ہیں۔ ملاوٹ شدہ اس معاشرے میں جہاں کچھ بھی خالص نہیں آپ کو سچ لکھنا ہے۔ اور بیباک ہو کر لکھنا پڑے گا۔
—مریم ثمر
میرا پس منظر انگریزی ادب کا ہے میں نے اردو کے قدیم قلمکاروں کو بہت پڑھا ہے ترقی پسند تحریک اور جدیدیت پر بھی میری نظر رہی ہے … لیکن جب میں اردو ادب کا انگریزی ادب کی تخلیقی رفتار اور معیار سے مقابلہ کرتی ہوں تو لگتا ہے ابھی ہم بہت پیچھے ہیں اس کی دو وجوہات ہیں … ایک ہندوستان میں اردو کو ختم کرنے کی سیاسی اور لسانی سازش اور پاکستان میں اردو کو قومیانے کامسئلہ کہ آیا یہ واقعی ہماری زبان ہے بھی کہ نہیں ؟وہاں یہ سوچ اور کنفیوژن موجود ہے کہ گھر میں پنجابی بولو اسکول میں انگریزی پڑھو اور ادب اور شاعری کی آبیاری اردو میں کرو وہاں بلوچ کشمیر اور پختونستان والے بھی پیش پیش ہم کیوں۔ اپنی زبان چھوڑیں … پرانی نسل اپنی فرسودہ روایات اور خیالات کو لے کر بڑھ رہی ہے مگر حالات ہر جگہ دگرگوں ہیں کہ ہر طرف ایک عجیب سے بے بسی کم یقینی اور کنفیوژن کا ماحول میں کیا لکھوں کیا پڑھوں کیا دیکھوں اور کیا دکھاؤں … نتیجے میں پاکستان کی بے پناہ اور شدید تخلیقی قوت رکھنے والے شاعروں کی کھیپ صرف درون ذات کا رونا روتی نظر آتی ہے اور افسانہ نگاروں میں اتنا تنوع اور بے سمتی ہے کہ کسی ایک دھارے یا تحریک کا شناخت کرنا ناممکن ہے۔
کسی تحریک کے چلانے سے یا مبتدی بننے سے پہلے عالمی پس منظر کو بہت غور سے دیکھنا ضروری ہے میری نظر میں مصنف وہ ہے جو اس وقت کے تناظر میں آنے والے بدلاؤ یا تبدیلی کی دھیمی چاپ کو سن لیتا ہے اور اس کے لیے کوششیں شروع کرتا ہے۔ مصنف وقت کا نباض ہوتا ہے … شورشیں، تبدیلیاں جنگیں، امن کی کوششیں، موت کا نوحہ ہر ادب کا حصہ ہے … لال مسجد کا حادثہ ہو یا مکہ مسجد کا بم بلاسٹ بچوں کا قتل عام ہو یا فلسطینیوں پر ہونے والا ظلم یا برما کا قتل عام یہ سچ ہے مسلمان نشانے پر ہے اور اردو اب زیادہ تر مسلمانوں کی عام زبان اور علامت بن گئی ہے … خون کسی کا بھی کیوں نہ بہے یہ خون انسان کا ہے … گلوب کو ایک ہی چیز جو تباہی اور بحران سے بچا سکتی ہے وہ درس امن اور درس مساوات ہی ہے …
—مہر افروز
نئی صدی کے ان پندرہ برسوں میں تہذیبی، معاشی اور معاشرتی طور پر بہت تبدیلی آ گئی ہے جس کا اثر ظاہر ہے ادب پر بھی پڑا ہے شعر و نثر ہر دو اصناف کے تخلیقی محرکات بھی تبدیل ہوئے ہیں میں سمجھتا ہوں نئی صدی کے مسائل و مصائب اور فکری تقاضوں کے تحت جو فکشن لکھا جا رہا ہے اس پر گفتگو کیوں نہیں ہوتی۔ اس دوران جو ایک نئی نسل سامنے آئی ہے اس کے یہاں تخلیقی امکانات پر مکالمہ کیوں نہیں ہوتا۔ ان پندرہ برسوں میں جو ادبی رسائل بغیر کسی ادبی مٹھا دیش کی سرپرستی کے اپنا مزاج و معیار اور شناخت حاصل کرنے میں کامیاب رہے ہیں ان کے حوالے سے گفتگو کیوں نہیں ہوتی۔
—سلیم انصاری
تبسم فاطمہ صاحبہ نے ایک فکر انگیز بات سامنے رکھی ہے … مندرجہ بالا تحریر میں انسانی استحصال کی جو وجوہات بیان کی گئی ہیں ان کا بھی عمل دخل موجود ہے … لیکن میں سمجھتا ہوں کہ یہ لڑائی صرف دو نظریات کی ہے جس میں معتدل قسم کا طبقہ بھی پریشانی کا سامنا کر رہا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ۱۱؍۹ کے بعد مسلمانوں کو بہت ساری مشکلات درپیش ہیں، لیکن یہ بھی ایک سچائی ہے کہ ایسا نظریاتی جمود کے مرہون منت ہے۔
اس واقعہ کے بعد دو نظریات نے بھرپور انداز میں پروپیگنڈا شروع کیا دونوں ایک دوسرے کے مخالف ہیں، دونوں شدت پسند ہیں … ایک دوسرے کی نفی کرتے ہیں … اب چونکہ مسلمان کسی صورت بھی اپنے نظریات سے ٹس سے مس نہیں ہو سکتے … اس لیے بہت جلد ان کو اکسایا جا سکتا ہے اور یہ ہو بھی رہا ہے۔ خیر یہ تو ہمارا موضوع نہیں ہے کہ اس پر زیادہ بات کی جائے بہرحال ہم اس واقعے کو معاشرت کے نئے موڑ سے تو تمثیل کر سکتے ہیں مگر یہ نہیں کہہ سکتے کہ اس نے اردو ادب پر کوئی غیر معمولی اثرات مرتب کیے ہیں۔ جو کہ متوقع تھے اور لازم بھی۔
ہمارا ادیب کچھ چالیس سال پہلے ہی بیمار ہو چکا تھا، اس کو مذہبیت کے لبادے میں چھپ کر لکھنے میں اپنا مفاد دکھائی دینے لگا تھا… کچھ کو جبری طور پر خاموش کروا دیا گیا اور کچھ جو پھر بھی خلوص نیت سے آواز اٹھاتے رہے ان کی زندگیاں اتنی کٹھن بنا دی گئیں کہ مرتے دم تک آزار میں مبتلا رہے۔
پندرہ برس سے زیادہ میں تیس برس کہوں گا جہاں سے ادب میں انسان اپنی ذات کو کہانی و شاعری میں لانے لگا۔ اس کے افسانوں میں سے معاشرت ختم ہوتی گئی اور صرف اپنی ذات زیادہ بیان ہونے لگی۔ اس نے کبھی یہ نہیں چاہا کہ میں معاشرے کی تشکیل اور بگڑتی صورت حال کی جانب اشارہ کروں۔ اسے بتایا گیا تھا کہ ادیب کرب کو محسوس کر کے لکھتا ہے … کس کا کرب… یہ واضح نہیں تھا سو اس نے اپنی پریشانیاں کہانی کیں۔ ایسی صورتِ حال میں قارئین کی دلچسپی بھی کم ہوتی گئی کہ وہ کیفیت انفرادی تو ہو سکتی تھی مگر اجتماعی نہیں اور کسی کے پاس اتنا وقت کہاں کہ دوسروں کی کتھا سنے۔
ادیب ہمیشہ جذبات کا عکاس ہوتا ہے، اجتماعیت کا عمل انفرادی سطح پر آ کر کیسا رد عمل دکھا سکتا ہے … انفرادیت کیسے اجتماعیت کو مجروح کر سکتی ہے۔
دونوں صورتوں میں معاملہ ایک ذات سے نکل کر کئی لوگوں کے گروہ میں شامل ہو جاتا ہے … اسی طرح تحاریر پسند کی جاتی ہیں۔
قارئین کو کھینچنے کے لیے پہلا عنصر دلچسپی کا ہے، کہانی ہو یا غزل نظم اس کی شکل، ڈھانچہ یا یوں کہہ لیں کہ اس کا بیان دلچسپ/خوبصورت ہو گا تو قاری اسے پڑھنے کے لیے تیار ہو گا… دوسری مشکل یہ درپیش رہی کہ سوکالڈ ادیب… بہت زیادہ intellectual ہو گیا۔ بڑے بڑے جملے، پیچیدہ متون، بے تکے اسلوبی تجربات… ان سب میں کچھ ایسا گم ہو گیا کہ اسے صرف عقلمند بننا ہی یاد رہا اور قارئین کی ذہنی سطح پر نہ آ سکا۔
—قرب عباس
مجھے ایک بات محسوس ہوتی ہے کہ اب سے دو تین دہائی قبل کے کچھ افسانوی مسائل اکیسویں صدی میں تقریباً الٹ گئے ہیں۔ مثال کے لیے ایک عہد تھا کہ انسان کی معصومیت کا کھو جانا ایک بڑا افسانوی موضوع تھا۔ (ڈار سے بچھڑے ) آج یہ مسئلہ ہے کہ آخر کوئی اتنا معصوم کیسے ہو سکتا ہے ؟ اسی طرح کسی زمانے میں مشینی زندگی سے بہت اوب محسوس ہوتی تھی۔ آج اگر کوئی فرصت سے ہے تو اس پر بہت تعجب ہوتا ہے۔ اقتصادی سطح پر عورت کا کندھے سے کندھا ملا کر نہ چلنا اب پچھڑ جانے کی نشانی ہے۔
—ارشد عبدالحمید
اسلوبیاتی سطح پر گزشتہ 15 برسوں میں sub-plots کی گنجائش کم سے کم رہ گئی ہے۔ ایک ہی واقعے ایک ہی کردار یا بہت کم کرداروں تک محدود رہنے کو ترجیح حاصل ہے۔ بیانیہ میں تاثرات کا حصہ کم ہوا ہے واقعے کی راست رپورٹنگ سے دلچسپی بڑھی ہے۔ اس کا اثر زبان و بیان پر بھی ہوا ہے۔
—ارشد عبدالحمید
تبسم فاطمہ پچھلے پندرہ برسوں کو اردو افسانہ کا ایک ایسا دور مانتی ہیں جو بے سمت بصیرت اور آگہی کا دور ہے۔ یہاں تبسم کے اس مشاہدے کا یا تو رد کیا جا سکتا ہے یا اثبات۔ انہوں نے موضوعاتی اختصاص کی ایک فہرست پیش کی ہے کہ 90 کے بعد کس طرح دنیا بدلی ہے اور عالمی منظر نامے پر ثقافتی ڈسکورس کس طرح بدلا ہے۔ اگر ایک بالغ النظر قاری جس نے ان پندرہ برسوں کا افسانہ پڑھا ہے ایک سرسری جائزہ لے تو کیا تبسم فاطمہ کے مشاہدے کی حمایت کر سکتا ہے۔ کیا اردو افسانہ نگاروں نے تبسم کے پیش کردہ موضوعات سے رو گردانی کی ہے۔ ایک طرف موضوع دوسری طرف افسانہ کے تکنیکی عناصر میں انقلابی تبدیلیاں آئی ہیں۔ بیانیہ کا انداز بدلا ہے۔ اب ان باتوں کو مثالوں اور حوالوں کے ذریعہ ہی آگے بڑھایا جا سکتا ہے۔ میری اپنی معروضات ہیں جن پر میں آگے گفتگو کروں گا، یہ چند باتیں مذاکرہ کے بنیادی نکات کو نشان زد کرنے کی ایک کوشش ہے۔
—ابرار مجیب
گلوبل ولیج کے نعرے نے جس طرح ہر طریقے کے استحصال کو ہوا دی ہے اور بڑھاوا دیا کہ اس نے اخلاقی اقدار اور انسانیت کی دھجیاں بکھیر دیں ساری مساوات ساری تہذیبیں سارے عقیدے سارے جذبے سارے یقین بکھر گئے … رہ گئی تو صرف مادیت پرستی… اگر فورم سچ میں کسی تحریک کا منبع بننا چاہتا ہے اور اردو کو واقعی عالمی زبان کا درجہ دینا چاہتا ہے تو ردا ستحصال کا نعرہ دے کر ہر اس استحصال کے خلاف بغاوت کی جائے جو انسان کو اشرف المخلوقات کے درجے سے گرا کر حقیر رینگنے والا کیڑا بنا چکا ہے …
میں مغرب کا ہلکا سا پس منظر بھی پیش کرنا چاہوں گی… دنیا کا سارا ادب بھی اسی کنفیوژن کا شکار ہے اکے لیے ہم نہیں ہیں … کچھ میڈیا کے پلے لوگ استحصال کو جائز ثابت کرنے میں لگے ہیں … کچھ انسان کی مادر پدر لباس اور سماجی بندھنوں سے آزادی کے خواہاں ہیں …کچھ لوگ اپنا اپنا نظریہ تدارک پیش کرنے میں لگے ہیں …اگر ان کی تعداد نوے فی صد ہے تو دس فیصدی مصنفین ایسے ہیں جو انسانیت کی بات کر رہے ہیں … استحصال کے ختم کرنے کی بات کر رہے ہیں نیچرل فوڈ اور قدرت کی طرف واپس لوٹنے کی بات کرتے ہیں حالانکہ یہ کسی بھی مذہب کے ماننے والے نہیں ہیں کیونکہ تمام مذاہب کا مکمل استحصال ہو چکا ہے یہ صرف انسانیت اور زمین کو آلودگی سے پاک رکھنے کی بات کر رہے ہیں … کیا ہم نئی نسل کی اس کھیپ سے اس بات کی توقع کر سکتے ہیں کہ وہ انسانیت کی بات کرے۔ خالص ہونے کی بات کرے … ضمیر کے زندہ ہونے کی بات کرے …سچی محبت کی بات کرے اور ہر انسانی رشتے کے احترام کی بات کرے جسے استحصال نے ختم کر دیا ہے … قوت نطق امانت ہے اس کا جائز استعمال سماج کو بہتر طور پر راہ دکھانے اور ازسرنوتشکیل کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ نئی نسل اپنی اس ذمہ داری کو سمجھ لے اور پرانی نسل اگر اپنے خول سے باہر آ جائے تو اس بات کی توقع کی جا سکتی ہے کہ ہم ایسا ادب تشکیل کر سکیں گے جو ایک نئے گلوب کی نئی پہچان بن سکے گا…
—مہر افروز
میں نے ابھی اس مکالمے کو پڑھا ہے اور مجھے خوشی ہے کہ اس میں ایک جاندار مکالمے کا مواد موجود ہے۔ جہاں تک پہلے سوال کا تعلق ہے تو پچھلے پندرہ برسوں میں اردو ادب منتشر رہا ہے۔ مختلف موضوعات سامنے آتے رہے۔ جس کے سامنے جو موضوع آیا اس نے لکھا۔ ہماری پہلی بات تو یہ ہے کہ آج بھی لکھنے کو پیشہ نہیں بلکہ شوق سمجھا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا اور نہ ہی کسی ایک موضوع پر فوکس کیا جاتا ہے۔ ہم چیزوں اور موضوعات کو رینڈم لیتے ہیں۔ یا موضوعات کو رواج کے طور پہ طے کرتے ہیں۔ دوسری بات یہ کہ ابھی تک ادیب نے اپنے سماجی منصب کو قبول نہیں کیا۔ وہ سماج کی کوئی ذمہ داری اپنے اوپر لینے کو تیار نہیں۔ یہ تب ہو گا جب لکھنے والا اپنی ’میں ‘ سے نکل کر ’ہم‘ کی طرف لوٹے گا۔
—منزہ احتشام
تبسم فاطمہ نے عالمی صورت حال کو بیان کیا ہے، صارفیت، گلوبل ولیج، جینیٹکس بیماریاں، قتل عام … تہذیبوں کا تصادم، ابھرتی ہوئی تھیوری، دیکھنا یہ ہے کہ ان حالات نے ہمارے افسانہ نگاروں کے مشاہداتی اور فکری عمل میں کچھ ایسے عناصر شامل کیے ہیں یا نہیں جن سے اردو افسانہ نگاری میں ایک نئی تازگی آئی ہو۔ مذکورہ موضوعات کا ذکر کسی افسانے کو عظیم نہیں بنا سکتا۔ بلکہ ان حالات کے اثرات اور اس کے نفسیاتی، سیاسی، ثقافتی عوامل اور ہماری معاشرتی تبدیلیوں کا گہرا شعور ہی ایک بہترین افسانے کی تخلیق میں معاون ہو سکتا ہے۔
—ابرار مجیب
آج بے شمار مسائل ہیں جن کا ہمیں سامنا ہے۔ میں جدیدیت سے متنفر نہیں مگر مجھے اس سے شکایت ضرور ہے کہ اس نے ادیب کو الجھایا ہے۔ اس کو اس کے مرکز سے ہٹایا ہے۔ بے پناہ موضوعات ہیں۔ ہم ای ٹیکنالوجی کے دور میں جی رہے ہیں، اس دور میں جو ادیب رومانوی کہانی لکھتا ہے وہ وقت ضائع کرتا ہے۔ سائبر کرائم، ایٹم بم، تھنک ٹینک یہ سارے نئے محاذ ہیں ان محاذوں پہ لڑنے کی ضرورت ہے۔ ادیب کا ایک سماجی منصب ہے اس کو دانش دی گئی ہے تو وہ ذمہ داری قبول کرے۔ وہ ’میں ‘سے نکلے اور اجتماع کی طرف لوٹے۔ اس کا وجدان اگر علمی سازشوں سے پردہ اٹھاتا ہے تو وہ یہ پردہ اٹھائے۔
اوپر کہیں ایک جملہ میری نظر سے گزرا تھا change for change… تبدیلی لانے کے لیے خود میں تبدیلی لانا ضروری ہے یہ نعرہ بھی گلوبل ولیج اور معاشی بحران کے نظریے کے دوران دیا گیا ہے نعرہ بہت اچھا ہے اور بہت اثر پذیر بھی مگر اس کے پیچھے پالیسی بڑی خطرناک ہے اسے سوچ سمجھ کراستعمال کریں اسے مثبت طور پر لیں تو بہت اچھا ہے۔
جدیدیت مرے گی—جدیدیت کو مرنا ہے —کوئی بھی مہمل چیز زیادہ عرصہ زندہ نہیں رہ سکتی…ادیب کو اجتماع کی طرف لوٹنا ہو گا—اس کو اپنا سماجی منصب قبول کرنا ہو گا—ہم اگر ایک نیا ڈائلاگ قائم کر رہے ہیں تو وہ ارتقا کا ہے اور ارتقا ترقی پسندی کے اندر ہے داخلی تنہائی کی شوریدہ سری کے اندر نہیں ہے۔ آپ جدیدیت کی حمایت کرنے والوں سے پوچھیے کہ وہ فرد کو کس بحران کی طرف لے کر جا رہے ہیں —تنہائی کا احساس ایک بہت بڑی طاقت کے روبرو—فرد کو خودکشی پر مجبور کر رہے ہیں۔ بڑے ادب کے نام پر مہمل فن پاروں کی تخلیق کا جواز کیا ہے آخر کیوں —الفاظ اور افکار کو لنگڑا لولا کیا جائے۔
—منزہ احتشام
جدت یہ نہیں کہ پچھلے دس بیس سال سے دنیا کہاں جا رہی ہے جدت یہ ہو گی کہ لکھنے والے ان وجوہات کا احاطہ کریں کہ دنیا کیوں جا رہی ہے۔ ہمیں ہر طرف بکھری، جلتی لاشیں تو نظر آتی ہیں لیکن کبھی ہم نے ان سب کے پس منظر کو دیکھنے پرکھنے اور لکھنے کی کوشش نہیں کی۔ دنیا کا کوئی بھی ملک ہو مذہب ہو یا انسان ہو سب کی نظر میں جو کچھ صحیح ہے وہ صحیح اور جو غلط ہے وہ غلط ہے — پچھلے کچھ سال تبدیلیوں کے سال ہیں لوگوں کا معیار زندگی اور سوچ بالکل بدلاؤ میں ہے لوگ پہلے سے زیادہ اچھا اور برا سمجھنے لگے ہیں۔ لیکن افسوس کہ اس کے با وجود تعصب کو تقویت ملی ہے۔ عام زندگی میں لوگوں کے بیچ دوریاں بڑھی ہیں۔ لکھنے والوں کو اس تعصب کو رد کرنا ہو گا جنس مخالف کے حصار سے نکلنا ہو گا۔ آج کے حالات کو سامنے رکھ کر وجوہات کی عکاسی کرنا ہو گی۔ ہندوستان ہو یا پاکستان دونوں ملکوں میں عام آدمی کی زندگی ایک جیسے مسائل میں گھری ہوئی ہے۔ اردو کی تقویت تبھی ممکن ہو گی جب قاری کو پڑھنے کے لیے کچھ ایسا مہیا ہو گا جسے پڑھ کر اسے یوں لگے کہ لکھنے والا یا تو خالص اسی کی بات کر رہا ہے یا پھر اسی سے مخاطب ہے۔
—سلیم خان رند
پچھلے پندرہ برسوں میں جن لوگوں نے گلوبل ازم اور ای ٹیکنالوجی کی مار کو سمجھ لیا تھا ان میں معذرت کے ساتھ ادیب کم ہیں اور نقاد زیادہ ہیں —پاکستان اور ہندوستان میں جن لوگوں نے متاثر کیا—ان میں سید محمد اشرف، اقبال مجید، زاہدہ حنا، الطاف فاطمہ، منشا یاد اگرچہ علامتی افسانے کے حوالے سے بدنام ہیں مگر ان کے ہاں ترسیل ہے —مکمل ابلاغ اور جدید موضوعات بھی ہیں …خالد طور، ذوقی صاحب، شائستہ فاخری، فاطمہ حسن، طاہرہ اقبال اگرچہ طاہرہ مقامی لوکیل کی کہانی کار ہیں۔ مگر بیباک ہیں۔ بے لاگ لکھتی ہیں۔ عورت کے مسائل پر لکھنے کی ضرورت ہے۔ مرزا اطہر بیگ اور مستنصر حسین تارڑ کے ہاں عورت ایک منفرد روپ لے کے آئی ہے۔ مجھے پسند ہے تارڑ نے عورت کو پہلی بار ’پاروشنی‘ اور بیگ نے ’انیلا‘ اور ’زہرا‘ کا کردار دیا ہے —حسن منظر اور انیس ناگی نے بھی نئے موضوعات پر لکھا ہے —حسن منظر اور تارڑ نے پارسیوں ’پاروسی‘ اصطلاح میں اپنے وطن سے دور دوسرے ملکوں میں بسنے والوں کے لیے استعمال کر رہی ہوں —ان کے بھی ہزاروں مسائل ہیں جن کا ادراک وہی کر سکتے ہیں۔
—منزہ احتشام
یہ صحیح ہے کہ گزشتہ دہائی میں اردو افسانے کے موضوعات میں خاصا تنوع آیا ہے۔ اس کا فلک کشادہ ہوا ہے۔ لیکن جب ہم دوسری زبانوں بلکہ بالکل قریبی ہندی زبان کے ادب سے اپنے اردو ادب کا موازنہ کرتے ہیں تو مایوسی ہاتھ لگتی ہے۔ تبسّم صاحبہ نے جن موضوعات کی جانب اشارہ کیا ہے، خواہ وہ گلوبلائزیشن ہو، بازار واد ہو، کرپشن ہو، سیاست ہو، کوئی بھی تخلیق کم سے کم میری نظر سے نہیں گزری جس میں انہیں شدت کے ساتھ اٹھایا گیا ہو۔ ممکن ہے، میرا مطالعہ محدود ہو، مگر بہت دور جانے کی ضرورت نہیں، گاؤں، دلت، نکسلواد تک کو ہم ایمانداری سے چھو نہ سکے ہیں۔ جبکہ کم از کم ہندوستان میں لکھے جانے والے اردو ادب میں تو ان موضوعات کی شدت کے ساتھ نمائندگی ہونی چاہیے تھی۔
—صغیر رحمانی
بدلاؤ ہر دور کا خاصہ رہا ہے اور بدلاؤ ناگزیر بھی ہے، داستان سے قصہ گوئی، قصہ گوئی سے ناول، پھر ناولٹ، افسانہ، اب افسانچہ۔ اسی طرح موضوعات بھی وقتاً فوقتاً بدلتے رہتے تھے، ہاں پیار محبت، دھوکہ دھڑی۔ فریب وغیرہ کے قصے عام تھے اور یہ بہت دیر سے چلے آ رہے تھے لیکن پچھلے پندرہ بیس سالوں سے جو دینا سائنسی ایجادات کی وجہ سے گلوبل گاؤں بن گئی ہے اور انسان کو جو سہولتیں میسر آ گئیں وہیں ایک طرف تو اسے ان گنت فائدے ہوئے ہیں لیکن دوسری طرف وہ بہت زیادہ ذہنی، جسمانی اور سماجی بیماریوں کا شکار ہو گیا ہے۔ ساتھ ہی ایسی سینکڑوں نئی چیزیں وجود میں آ گئی ہیں جو اب عام بول چال میں استعمال ہو رہی ہیں اور ایسے کئی نئے نام ادب پاروں میں بھی اب استعاروں کے روپ میں استعمال ہوتے ہیں۔
میں اپنے ہی کشمیر کی بات بتاتا ہوں۔ یہاں ہزاروں سالوں سے کہانیاں کہنے سننے کا رواج ہے۔ قصہ، کہانیاں سننے سنانے کے لیے زبردست اہتمام کیا جاتا تھا۔ قہوہ کے دور چلتے تھے، شیرینیاں اخروٹ اور بادام بٹتے رہتے تھے (یہاں یہ بتاؤں۔ کشمیر کے مشہور قصہ گو حاتم تلوانی کی کہانیوں کا کلیکشن اُنیسویں سنچری میں Hatim’s Tales کے نام سے Sir Auriel Stein نے کشمیری سے انگریزی میں ترجمہ کر کے شائع کیا ہے )۔ یہاں کی کہانیوں میں زیادہ تر وہی قصے ہوتے تھے جو اوپر مریم ثمر صاحبہ نے بیان کیے ہیں۔ لیکن اب یہاں کی کہانیوں میں بھی نئے استعارے شامل ہو گئے ہیں۔ جیسے (آزادی، ملیٹنٹ، ہائیڈ آؤٹ، بلاسٹ، کراس فائرنگ، گھیراؤ، پتھراؤ، کریک ڈاؤن، سیفٹی ایکٹ، تلاش گمشدہ، کسٹوڈین کلنگ، شہید، گمنام قبریں، یتیم، تار تار عصمت، آبرو ریزی، ودھوا بہن، پاگل ماں، اپاہج باپ۔ اور بے جا تسلط ) اب تو یہاں بھی کہانیاں ڈر اور خوف کے ماحول کی عکاس ہیں۔ کیونکہ پچھلے پندرہ بیس سالوں میں ہم ڈیڑھ لاکھ کے قریب بچے جوان مرد و زن اس عفریت کی بھوک مٹانے کے لیے دے چکے ہیں اور ابھی یہ سلسلہ جاری ہے۔
—رضا یوسف
دوسری اہم بات کہ اردو ادب ابھی تک مسلمانیت سے باہر نہ آ سکا ہے — ہم کہتے تو ہیں کہ اردو صرف مسلمانوں کی زبان نہیں ہے، مگر عملی طور پر ہم اسے صرف مسلمان کی زبان ہی مانتے ہیں۔ یہ صحیح ہے کہ جس قوم میں زیادہ مسلے ہوں گے بات اس کی ہو گی مگر ہمیں دریچے دوسری جانب بھی کھولنے ہوں گے۔
اس کے علاوہ ایک اہم بات یہ کہ دوسری زبانوں میں ہر ادیب کی ایک خاص علاقائی شناخت ہوتی ہے کہ فلاں فلانے علاقے کا ادیب ہے۔ اس کی تحریر میں کسی خاص علاقے (موضوع) کی ہی نمائندگی ہوتی ہے اور وہ اس علاقے کا ماہر مانا جاتا ہے۔ اردو میں ایسا نہیں ہے۔ یہاں ہر کوئی ہر موضوع پر لکھتا ہے جس وجہ سے اس کی کوئی ایک شناخت نہیں بن پاتی۔
—صغیر رحمانی
ہندوستان کا اردو فکشن اور افسانہ ہندوستانی مسلمانوں کے مسائل کو زیر بحث لانے میں بھی ناکام ہے۔ ان مسائل پر لکھے گئے فکشن میں جذباتیت ہے اور ملی جوش۔ ماضی کا نوحہ ہے۔ مسائل کا فنکارانہ اظہار نہیں۔
—ابرار مجیب
تبسم فاطمہ! آپ نے سوالات سے پہلی تمہیدی عبارت میں پچھلے پندرہ برسوں میں عالمی سطح پر ہوئی تبدیلیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے کچھ سوالات کو متن سے اخذ کیا ہے۔ آپ کا کہنا ہے کہ ان سوالوں کا جواب ادب کو بھی دینا ہوتا ہے …آپ نے مکالمے کی فضا اور ادب میں صحت مند سنجیدہ مکالمے کی اہمیت پر بھی زور دیا ہے …جس سے میں متفق ہوں۔ احسن سلیم ہمارے بہت محترم دوست ہیں آپ نے ان کے ادارتی نکات کو بھی بطور حوالہ یہاں لکھا ہے کہ ہم ادب برائے تبدیلی کے خواہاں ہیں لیکن ہماری سوچیں منجمد ہیں !! خورشید اکبر اس دھند کو نجات کا نام دیتے ہیں۔ ۔ .ان دونوں اصحاب کی رائے یا بیان سے جو سوال میرے ذہن میں ہیں وہ دو اہم سوال ہیں۔ اگر ان کے جوابات مل جائیں تو شاید ہم کوئی بہتر رائے قائم کر سکیں۔
پہلا سوال کہ : ادب کیا ہے ؟دوسرا سوال : حقیقت اور فکشن میں کیا فرق ہے ؟
ان دو سوالوں کے جوابات کی تلاش میں ہی ہم آپ کے اٹھائے گئے اہم سوالات کے جوابات تک شاید رسائی کر پائیں !ایک کوشش کر دیکھتے ہیں۔ رہی بات جدیدیت اور ما بعد جدیدیت کی تو اس وسیع موضوع پر بھی سوچنا ضروری ہے۔ تحریک سے ادب کی وابستگی ضروری ہے یا نہیں یہ ایک اور اہم ترین ادبی مسئلہ ہے۔ ابھی تو سوال اپنے اوپر کھول رہا ہوں دھیرے دھیرے بات بھی کرتے ہیں۔
—سید تحسین گیلانی
میرا ایک سوال ہے کہ کیا لکھنے والا قاری کا ذوق مطالعہ سیٹ کرتا ہے یا قاری لکھنے والے سے لکھواتا ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ ادیب اثر انداز ہو۔ وہ قاری کا ذہنی رجحان بنائے یا دوسرے لفظوں میں اس کی تربیت کرے۔
—منزہ احتشام
مابعد نوآبادیاتی ڈسکورس میں ہندوستانی حوالے سے لفظ دلت (Dalit) ایک خاص اہمیت کا حامل ہے۔ ہندوستانی ادب، جس میں بیشتر علاقائی زبانیں شامل ہیں لیکن خاص طور سے مراٹھی اور ہندی میں دلت ادب اپنی مخصوص شناخت کے ساتھ موجود ہے۔ دلت سماج میں عام طور سے ہندو ذاتوں کی تقسیم کے حوالے سے ان طبقات کو شامل کیا جاتا ہے جو مذہبی فلسفہ کے مطابق ورن کے نظام میں سب سے نچلی سطح پر ہیں، جنہیں عرف عام میں شودر کہا جاتا ہے۔ گو کہ دلت ادب کی شروعات ہندو برہمنی فکریات کی مخالفت سے ہوئی، لیکن میرے خیال میں دلت ادب کی موضوعاتی وابستگی صرف ذاتوں کے استحصالی رویے تک محدود نہیں رہ گئی، اس ادب کے فلسفیانہ ڈسکورس میں برہمنی فکریات کے ان خطرناک پہلوؤں کی نشاندہی کی ہے جو مجموعی طور ایک استحصالی نظام کے طور پر فروغ پذیر ہو چکا ہے، یہ سماج کے ان تمام طبقات پر محیط ہے جو استحصال کا شکار ہیں۔ چونکہ ہندوستان میں مذہب کے حوالے سے نچلی ذاتوں کو صدیوں سے کچلا گیا، برہمنی بالا دستی نے ان کا استحصال کیا اس لیے دلت ادب کے مباحث میں ہندو سماج کے یہ طبقے مرکزی بحث کا حصہ بنے۔ اردو ادب میں دلت مسائل اور ادبی نمائندگی لگ بھگ ناپید ہے، ادھر ادھر چند رسائل کبھی اس پر مضامین شائع کر دیتے ہیں، لیکن اردو میں اس اہم ادبی تحریک کو فروغ نہ ملنے کی سب سے اہم وجہ اردو کے مسلمانوں سے گہرے رشتے کی وجہ سے ہے۔ چونکہ اسلام میں ذاتوں کا نظام ہندو ورن کے نظام کی طرح پختہ اور سخت نہیں ہے اس لیے سماجی روابط میں سید اور انصاری ظالم و مظلوم کی شکل میں ظاہر نہیں ہوتی۔ لیکن یہ اردو دانشوروں کی فکر کا ایک سطحی انداز ہے۔ مسلمان ہندوستان کے اندر معاشی اور سماجی استحصال کے نقطۂ نظر سے دلتوں سے بھی بدتر حالت میں ہے۔ ہندوستانی مسلمانوں کے مسائل اور ان کے سماجی حالات منصوبہ بند سیاسی استحصال کا نتیجہ ہیں اور ہندوستانی سیاست کی عملی شکل برہمنی فکریات سے اپنی غذا حاصل کرتی ہے، لیکن حیرت کی بات ہے ہمارے دانشور، تخلیق کار اور صحافی اس کا شعور نہیں رکھتے۔ میرے اپنے تجزیے کے مطابق ہندی اور مراٹھی کے مقابلے اردو ادب کو دلت تحریک کا نمائندہ ہونا چاہئے کیونکہ ہندوستانی آبادی میں مسلمانوں کی تعداد شودروں کی منقسم ذاتوں سے بڑی ہے اور برہمنی فکریات اور اس کی عملی اشکال کے استحصال کا خوفناک شکار مسلمان کہیں زیادہ ہے۔ چونکہ مسلمانوں میں ذاتوں کی تقسیم مذہبی حوالے سے ممکن ہی نہیں اس لیے انہیں ذات کے نام پر وہ مراعات بھی حاصل نہیں جو ہندو سماج کے شودروں، جنہیں شیڈول کاسٹ اور شیڈول ٹرائب میں تقسیم کیا گیا ہے کو حاصل ہیں۔ یہ ایک المیہ ہے کہ سیاسی نظام اور قانون سازی کا ادارہ انسانوں کی پسماندگی کو معاشی اور سماجی حالات کے پس منظر میں نہیں دیکھتا بلکہ ذاتوں کی تقسیم کی بنیاد پر دیکھتا ہے، ایک جمہوری ملک میں پسماندگی کا یہ معیار بذات خود اس طرف اشارہ کر دیتا ہے کہ ہندوستانی قانون سازی میں برہمنیت کے کتنے گہرے اثرات ہیں۔ ہندوستان میں رام ولاس پاسوان جیسے دولت مند وزیر کو بھی وہی مراعات حاصل ہیں جو ایک آدی واسی کو، یہ آدی واسی دن کے ایک وقت کے کھانے کے لیے محتاج اور تیز بارش میں اپنے بال بچوں کے ساتھ اپنی جھونپڑی میں بھیگنے کے لئے مجبور ہوتا ہے۔
دلت ڈسکورس کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ مفکروں کے مطابق اگر چوتھی دنیا کا کوئی تصور قائم کیا جا سکتا ہے تو وہ دلت ادب ہو گا، تیسری دنیا کی پسماندگی تو جگ ظاہر ہے، اس پسماندگی اور ذلت آمیز حالات سے بھی زیادہ عبرت ناک حالت دلتوں اور مسلمانوں کی ہے، دلت ڈسکورس میں اردو ادب کی عدم شمولیت ہمارے ادیبوں اور دانشوروں کی بے خبری، سماجی سروکاروں سے بے اعتنائی، جمالیاتی لطف وانبساط کی پاسداری پر دال ہے۔ یہ اس بات کا بھی اظہار ہے کہ اردو ادب سیاسی، سماجی، معاشرتی اور ثقافتی ڈسکورس سے یا تو باہر ہے یا اگر اس میں کبھی ان موضوعات کی جھلک نظر بھی آتی ہے تو پانی کی سطح پر تیرتے ہوئے جھاگ کی طرح ہوتی ہے جو بہت جلد بیٹھ جاتی ہے۔ ہماری دانشوری ہیئت کے مسائل کے گرد گھومتی ہے، اس رجحان اور ذہن سازی میں جدیدیت کی خود ساختہ تاویلوں نے اہم رول ادا کیا۔ جدیدیت کے سب سے بڑے ناقد شمس الرحمٰن فاروقی اور ان کے مقلدین کی شخصی تنہائی، سماجی، سیاسی، معاشرتی اور ثقافتی مسائل سے رو گردانی بلکہ ان مسائل کی مشاہداتی اور فکری سمجھ کی کمی نے اردو ادب کو ہئیت کے مباحث کا چیستاں بنا دیا۔ شاعری میں رعایت لفظی، تشبیہ، استعارہ، علامت اور جمالیاتی مباحث کو اس قدر فروغ دیا گیا کہ شاعر تخلیقی عمل میں انسان اور انسانی مسائل سے بے بہرہ ہو گیا۔ اسی طرح افسانہ میں تنہائی، ذات کا المیہ، اور لجلجی نیم شاعرانہ زبان کا استعمال بیانیہ کی طاقت کے زوال کا سبب بن گیا۔ اردو ادب آج بھی ان ہی خطوط پر گامزن ہے، اب یہ ہو رہا ہے کہ مغرب سے تھیوری کے مباحث کے چربے پیش کر کے اسے دانشوری کا اظہار سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش ہو رہی ہے۔
—ابرار مجیب
گزشتہ پندرہ برسوں کے فکشن کا مطالعہ اگرسنجیدگی سے کریں اور سمت و رفتار کا تعین کریں تو میں اس یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ اردو افسانہ نگاروں نے اپنے اپنے طور پر ملکی اور بین الاقوامی سطح کے ان تمام مسائل کو کسی نہ کسی شکل میں پیش کیا ہے۔ جہاں تک میں اپنی بات کروں تو ان پندرہ برسوں میں ہندوستان پاکستان کے اہم رسالوں میں جو افسانے شائع ہوئے ہیں ان تمام افسانوں میں تقریباً وہی مسائل اٹھائے گئے ہیں۔ میری طرح دوسرے افسانہ نگاروں نے بھی اپنے اپنے طور پر اسے برتا ہے۔ کسی نے کم۔ کسی نے زیادہ۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا آج کے افسانہ نگاروں نے اس دوران اپنی تحریر سے اردو افسانے کو ایک نئی سمت عطا کرنے کی کوشش کی ؟ تو میں تو یہ کہوں گا۔ جی ہاں۔ اپنی استطاعت بھر کی ہے۔ کیونکہ ادب کبھی جمود کا شکار نہیں ہو سکتا۔
ادب کبھی تحریک کا محتاج نہیں رہا ہے اور نہ ہی ادب کو تحریک کی کسی ڈور میں باندھ کر رکھا جا سکتا ہے۔ اگر ترقی پسندی نہیں بھی ہوتی تو بھی "کفن ” لکھا جاتا۔ جدیدیت کا رجحان اگر اپنے پیر نہیں بھی پسارتا تو بھی غیاث احمد گدی ” پرندہ پکڑنے والی گاڑی ” ضرور لکھتے۔ تحریک ایک راستہ ہے۔ لیکن فنکار کی منزل نہیں۔ فنکار کی منزل اس کا فن ہے اور فن کبھی کسی ازم یا تحریک کا محتاج نہیں ہوتا۔ اگر تحریک ہی سب کچھ ہے تو ایک تحریک سے وابستہ ہونے والے سبھی بڑے فنکار ہوتے۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔ ہر دور نے بڑے فنکار پیدا کیے ہیں۔ جس تحریک کے اندر جو باتیں اچھی ہیں اسے اپنائیں۔ آنکھ بند کر کے پیروی نہ کریں۔ ادب کی تخلیق کے لیے فنکار کاکسی تحریک سے جڑا ہونا اتنا ضروری نہیں ہے جتنا زندہ رہنے کے لیے سانس لینا۔ کیونکہ لکھنے کے لیے جس تحریک کی ضرورت ہے وہ فنکار کے باطن میں خود جنم لیتی ہے۔
—اختر آزاد
ادب سلسلہ کا دلی خیر مقدم، محترمہ تبسم فاطمہ نئے افسانے اور نئے افسانہ نگاروں کے اردو سے ہندی میں تراجم کے ذریعے اردو ادب کی گراں خدمت سر انجام دے رہی ہیں جس کے لیے انہیں بے حد تحسین، قوی امید ہے کہ ادب سلسلہ ان کی اور انصاری صاحب کی کاوشوں سے یاد گار ادبی خدمت سر انجام دے گا- (۱) نئی، رواں صدی اردو افسانے کے حوالے سے اس طرح بھی بہت اہم ہے کہ اس کے عین آغاز سے پہلے اس کے ابتدائی تین اہم ارتقائی ادوار اپنی طبعی عمر پوری کر چکے، اس میں افسانے کے کسی بھی دور کے مر جانے کا کہہ دینا میری دانست میں درست نہیں کہ ان ہر تین ادوار کے اثرات تو لکھنے والوں میں اب بھی باقی ہیں اور جانے کب تک رہیں اور ان ملے جلے اثرات کی وجہ سے اگر یہ کہا جائے کہ افسانہ پچھلے پندرہ سالوں سے ایک جگہ پر رکا ہوا، تاثراتی یکسانیت کا حامل دکھائی دیتا ہے تو یہ بڑی صحیح بات معلوم ہوتی ہے – (۲) میری دانست میں ادب یا افسانے کے کسی دور کے مر جانے کی بات درست نہیں، ادوار مرتے نہیں، ارتقا پذیر ہوتے ہیں اور موجودہ دور اردو افسانے کے حوالے سے اس کے موضوعات اور مواد کے تئیں تبدیلی کا متقاضی ہے، مجموعی طور پر یہ وقت سائنس کی ترقی سے مشروط ہے اور جدید طبیعیات، ما بعد طبیعیات، جینیات، نفسیات، معاشیات، فلسفہ، کاسمالوجی، آسٹرالوجی، حسابیات وغیرہ کے جدید علوم سے بہرہ ور ہوئے بغیر جدید معاشرتی مسائل، مصائب کا ادبی حل سوچنا اور بعینہ افسانہ لکھنا ممکن نہیں رہا، جو لوگ فی زمانہ یہ کام سر انجام دے رہے ہیں اس کی حیثیت ریپیٹیشن کے سوا نہیں، دوسرے الفاظ میں یہ افسانے کا علمی و سائنسی دور ہے اور اس دور میں افسانہ لکھنے کے لیے ہمہ گیر مطالعے و مشاہدے کی اشد ضرورت ہے –
—شاہد جمیل احمد
سب سے پہلے تو تبسم فاطمہ کو مبارکباد اتنی اہم اور سنجیدہ کاوش پر۔ ان کی یہ کاوش اس بات کا ثبوت ہے کہ اردو کا ادیب زندہ ہے اور جاگ رہا ہے۔ جب اردو کا مقابلہ ہم دوسری قدیم زبانوں سے کرتے ہیں تو اس کی عمر کو بھول جاتے ہیں۔ اردو کا ماضی مستقبل اور حال تابناک ہے۔
درست کہ ہزاروں موضوع اور ایک وسیع آسمان موضوعات کا تنا ہے اور ادیب کے لیے یہ چیلنج بھی اور اپنی بقا کا مسئلہ بھی کہ اسے کیسے اس کا مقابلہ کرنا ہے۔ اور ایسے بہت سے ادیب ہیں جو نئے موضوعات کے تناظر میں لکھ رہے ہیں۔ گو کہ یہ رفتار سست ہے اور اس کی وجہ معاشرے میں خصوصاً پاکستانی معاشرے میں ادیب کو درپیش مسائل بھی ہیں۔
ادب اگر کسی فکری ارتقا کا نام ہے تو پھر تبدیلی اس کا ناگزیر مقصد ہے۔ ایک فن پارہ پڑھ کر اگر سوچ ایک زینہ بھی طے کرتی ہے تو یہ تبدیلی ہے اور یہی زندہ ادب کی پہچان ہے۔ اور مختلف تحریکوں سے وابستہ ہو کر تخلیق کرنا ایسے ہی ہے جیسے تصویر بنانے سے پہلے اسے فریم کرنا۔ اس کے تخلیقی ذہن کو زنجیر کرنا… میرے خیال اور عاجزانہ رائے کے مطابق تخلیقی قوت ایک نور کا شمہ ہے ایک ایسی کیفیت جو اس وسیع تنی کائنات کے کسی بھی رنگ سے متاثر ہو کر بار آور ہو سکتی ہے … تو تخلیق کار کیوں کوئی وابستگی اور دائرہ قبول کرے۔
دس افسانہ نگار… جو مجھے بہت پسند رہے …منٹو، عصمت چغتائی، کرشن چندر، ممتاز مفتی، قدرت اللہ شہاب بانو قدسیہ ان کے کسی ایک افسانے کا نام لینا ممکن نہیں … پھر رشید امجد۔ مشرف عالم ذوقی۔ ان کے بہت سے افسانے۔ ایک کا نام ممکن نہیں۔ طاہر نقوی۔ کوون کی بستی میں ایک آدمی، حمید شاہد، سورگ میں سور، کویٹہ میں کچلاک اسد محمد خان کے کئی افسانے، ضیا حسین ضیا پانچ نہیں … چھ…حامد سراج۔ پانچ روپے کا متروک نوٹ، اخلاق احمد ایک دو تین… چار، خورشید اقبال۔ تکون کی چوتھی جہت۔
—سیمیں کرن
نئی صدی کے ۱۵ برسوں میں جو اہم تبدیلیاں ہوئی ہیں اس کا ایک اجمالی جائزہ محترمہ تبسم فاطمہ نے پیش کرتے ہوئے چند سوالات قائم کیے ہیں۔ ان سوالوں کا مدلل جواب فکشن کے ایسے با ذوق قاری، ناقد یا پھر افسانہ نگار ہی دے سکتے ہیں جن کی نگاہ متواتر افسانوں کی سمت و رفتار پر رہی ہو یا جن کا مطالعہ وسیع ہو۔ گزشتہ پندرہ بیس برسوں میں مجھے نہیں لگتا کہ اردو افسانے کے کسی ذہین قاری نے اپنی موجودگی درج کرائی ہو۔ اردو افسانے کا ناقد تو خیر سے آج بھی ترقی پسندی ہی کے زمانے میں جی رہا ہے۔ رہ گئی بات افسانہ نگار کی تو وہ صرف اپنی کہانی سے باخبر رہتا ہے۔ بلا شبہ میں بھی اس میں شامل ہوں۔ یوں نام گنانے کو میں بھی دس افسانہ نگاروں کا نام مع افسانہ گنوا سکتا ہوں مگر اس کا کوئی فائدہ میری سمجھ میں نہیں آتا کیونکہ اسم شماری اس مضمون کا مقصد نہیں ہے۔ بلکہ اس بات کا جواز بھی فراہم کرنا ہے کہ یہ افسانے کس طرح تبدیل شدہ نئی دنیا کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ میری صاف گوئی کسی کو گراں گزرے تو معذرت طلب ہوں۔
—رفیع حیدر انجم
محترمہ تبسم فاطمہ نے کئی اہم سوالات کے ذریعہ جس مکالمے کا آغاز کیا ہے اس کے لیے ’میں ‘ تہ دل سے ان کا شکرگزار ہوں کہ کم از کم مجھ جیسے افتادہ خاک قاری کو سخن گفتنی کا موقع ملا۔
گزشتہ ۱۵سال والے سوال کے تعلق سے کچھ عرض کرنا چاہوں گا جو میرے لیے ٹرننگ پوائنٹ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اردو ادیب خود سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ مسئلہ اس طرح کہ وہ ہمہ گیر ہونا چاہتا ہے عالمگیر ہونا چاہتا ہے دس بائی دس کے سڑے تعفن آمیز کمرے میں بند ہو کر جہاں باہر کی روشنی نہیں پہنچ رہی ہے اور پہنچ رہی ہے تو اس طرح چھن چھن کر کہ وہ اس سے مستفید ہونے کی کوشش میں بصارت و بصیرت سے محروم ہو جاتا ہے۔ اردو ادیب اپنا گلی محلہ قاعدے سے نہیں دیکھ پاتا سماجی سروکار تو زیادہ بڑا موضوع ہے۔ اس نے فرار کو رومانس کے ریشمی دھاگے میں لپیٹ کر قحبہ خانے میں سجا دیا ہے اور روز اس کا ورد کرتا رہتا ہے …اور کیوں نہ کرے کہ بے چارے کے پاس اتنے پیسے کہاں ہوتے ہیں کہ وہ مغربی مصنفین کی طرح پر تعیش زندگی گزار سکے اور جیو پولیٹکس کو سمجھتے ہوئے ادب تخلیق کرے تاکہ وہ ادب زبان سماج اور سیاست ہر جگہ ریلیوینٹ رہے۔ جو افسانے اور افسانہ نگار سامنے آئے ان کی تخلیقی توانائی سے انکار کرنا ممکن نہیں لیکن اگر میں سوال کی درست انداز میں سمجھ سکا ہوں تو وہ یہ ہے کہ اس دور میں سامنے آنے والے افسانوں میں جو تنوع موجود ہے وہ کسی ایک فکری دھارے میں بہتا نظر نہیں آتا، کوئی بڑی تحریک نہیں ابھرتی۔
یہ سوال اہم بھی ہے اور اپنی کئی ایک جہات کے حوالے سے متنوع بھی۔
سب سے پہلے تو ایک سرسری بات ایسے افسانہ نگاروں کے حوالے سے ہو جائے جن میں اکثریت ایسے لکھنے والوں کی ملے گی جن کا تخلیقی مرکز صرف اور صرف ان کا مطالعہ ہی گردانا جا سکتا ہے جسے الیکٹرانک میڈیا کے حوالے سے دیکھا جائے تو مشاہدہ بھی کہا جا سکتا ہے لیکن ” مجاہدے ” کا فقدان بدستور موجود رہا۔
ایک بہت ہی اچھے دوست نے ایک مرتبہ یہ سوال کیا تھا کہ، کیا تاریخ اور تحقیق، فکشن کی قوت اور توانائی میں اضافے کا سبب بن سکتی ہیں ؟میرا جواب صرف اتنا تھا کہ تاریخ اور تحقیق، فکشن کی قوت اور توانائی میں اضافے کا سبب صرف اسی صورت میں بن سکتی ہیں جب یہ دونوں اپنی انفرادی حیثیت میں فکشن کے آگے ہتھیار نہیں ڈال دیتیں۔
—قاضی طاہر
ساٹھ اور ستر کی دہائی کے اکثر ادیب آل راونڈرز تھے وہ ادب کے ساتھ ساتھ ثقافت، سیاست، میڈیا اور شو بز سے یکساں طور پر جڑے تھے اس کے بعد مجھے محدود سوچ اور محدود افکار نظر آئے آج بیشتر ادیب اپنے ایک مخصوص نظریے اور مضمون سے بندھے نظر آئیں گے، اس سے آگے کی نہ وہ سوچ پاتے ہیں نہ تجربہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں جس کا اہم سبب ذہنی وسعت ہے۔
ادب کا ارتقا جیسے تھم سا گیا ہے بے حس معاشرے اور ان میں سانس لیتی خود غرضیوں نے ادب کو جمود کا نشانہ بنا دیا۔ اردو ادب کو تبدیلی اور ترقی کی جتنی اب ضرورت ہے شاید پہلے کبھی نہ تھی۔ روایات بدل گئیں اقدار بدل گئیں دنیا گلوبل ولیج بن گئی مگر اردو ادب کا معیارحسن اور غم جاناں اب تک غم جہاں میں نہیں بدل سکا۔ مذہبی تنگ نظری، معاشرتی دباؤ اور نئے علوم سے انکار آج کے ادیب کا سانحہ ہے مگر ہمارے ہاں ہر المیے کو اپنی اپنی خود غرضی کی عینک اور مفاد سے پرکھا جاتا ہے انفرادی مسائل اجتماعی مسائل کے آگے ترجیح رکھتے ہیں۔
اب رومانویت کی جگہ اسٹیٹس نے لے لی ہے فراغت کو ہیکٹک لائف اسٹائل نے ٹیک اوور کر لیا ہے مگر ہماری اگلی نسلیں شاید یہ کبھی جان ہی نہ پائیں کہ ہمارا دور کیا تھا۔ کہیں سے کوئی بھی ادب پارہ اٹھا لیجیے اس میں آپ کو انفرادی اور چھوٹے مسائل ہی نظر آئیں گے خود سے آگے ہمیں کوئی ستارہ نہیں دکھتا جہاں ہم نئے جہاں تلاش کریں اور مسئلے کا حل تو یہاں بھی نکالا جا سکتا ہے اگر ہم خود میں ایک جہاں ہی آباد کر کے اس کو ایکسپلور کر لیں اس جہاں کی تحقیق یا اس پر تجربہ ہی کر لیں مگر نہیں ہمیں تو اس کمفی باکس کے اندر رہنا پسند ہے جہاں جس میں ہم نے خود کو بند کر لیا۔
—صائمہ شاہ
لیکن یہ واقعات و سانحات جو در اصل سماجی، معاشی اور بعض اوقات قدرتی مظاہر ہیں بظاہر Chaosکی شکل میں رونما ہوتے ہیں اور شاید اسی لیے تبسم فاطمہ انہیں ’بے سمت بصیرت و آگہی کے پندرہ سال‘کہہ رہی ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ محترمہ بصیرت و آگہی کو سائنس اور ٹکنالوجی کی ترقی سے ہم آہنگ کر کے انسانی سماج پر مرتب ہونے والے منفی اثرات کی طرف اشارہ کرنا چاہتی ہیں۔ مگر سچ پوچھیے تو بصیرت و آگہی ان طبیعیاتی عناصر سے ماورا ہوا کرتی ہے۔ یہ تو نیم شفاف شیشے کے پار دیکھنے کا عمل ہے جو خود انسانی سماج کی سمت و رفتار طے کرتا ہے۔ یہ سائنس اور ٹیکنالوجی اور اس سے پیدا شدہ اثرات کا علم قطعی نہیں۔ اس لیے بصیرت و آگہی کو misdirected کہنا مناسب نہیں۔ یہ بصیرت و آگہی ہی ہے جو ادبا و شعرا کے ذہن و دماغ میں ہی نہیں ان کی روح کی گہرائیوں میں رچی بسی ہوتی ہے۔ اور فکشن نگاروں میں تو یہ وصف کوٹ کوٹ کر بھرا ہوتا ہے۔
—شبیر احمد
افسانہ یا ا دیب بے سمت ہوا— معاشرے کی بے سمتی کی وجہ سے جب فن اور پیٹ کا ٹکراؤ ہو گا تو پیٹ ہی جیتے گا… بہت اچھے لکھنے والے موجود ہیں مگر وسائل کی کمی۔ ۔ ۔ کبھی ان کی خود داری انہیں پیچھے ڈھکیلتی ہے سو بہت سے ادیب مشہور ہو جاتے ہیں جو غیر معیاری ہیں سو ادب کا چہرہ داغ داغ نظر آتا ہے۔ کسی حد تک کسی نہ کسی ہم خیال ادبی تنظیم سے وابستگی ضروری ہے ورنہ لکھنے والا ہر جانب سے کچلا جاتا ہے …
—فرحین چودھری
٭٭٭
کہانی: کل اور آج ؍ کچھ اقتباسات
(۱۹۸۵ کی افسانہ ورکشاپ میں پڑھے گئے مضامین سے کچھ اقتباسات)
پیشکش: سلیم علیگ
ادھر پندرہ بیس برس پہلے کہانی نے ایک نیا موڑ لیا، نیا انداز اختیار کیا۔ نوجوان ذہنوں کو پرانے طرز کی کہانیوں نے اکتا دیا۔ کچھ بدلے حالات کا تقاضا، کچھ جیسا کہ آج کل کہنے کا بہت فیشن ہے۔ جنریشن گیپ، کچھ وجودیت کا کرب اور تنہائی کا احساس۔ کبھی اصل کبھی نقالی میں۔ مذہبی، معاشی، معاشرتی اور سیاسی بدلتی ہوئی روایتیں وغیرہ وغیرہ۔ تو ان سب کا اثر نوجوان ذہنوں پر پڑنا تھا اور پڑا اور فن کار ذہنوں میں دوسری قسم کی کہانیاں کلبلانے لگیں۔ اور انہوں نے اپنے اپنے ڈھنگ سے کہانیاں لکھنا شروع کیں۔ ابتدا میں مجھ جیسے لوگ حق چق رہ گئے ! کبھی نثر پر نظم کا دھوکا ہوتا کبھی نظم پر نثر کا کبھی کہانی معمّہ معلوم ہوتی کبھی مجذوب کی بڑ۔ کبھی اتنی مختصر کہ چند سطروں میں مکمل۔ کبھی کہانی اتنی طویل کہ پچاسوں صفحے ناکافی۔ وغیرہ وغیرہ۔ اکثر وہ خود فن کار کے ذہنی افکار اور دماغ کی پریشانی اور الجھن کی آئینہ دار ہوتی جن کا مطلب وہ خود سمجھیں یا خدا سمجھے ! مگر دیکھتے دیکھتے اس نئی کہانی نے، جسے کبھی جدید کہانی کہا جاتا ہے کبھی نئی، کبھی جدیدیت کی حامل وغیرہ، طفولیت سے بلوغ کی طرف قدم رکھنا شروع کر دیا۔ کوئی بھی فن کار یہ نہیں چاہتا کہ اس کے لکھے کو پڑھنے والے سمجھ کر نہ پڑھیں اور پڑھ کر نہ سمجھیں۔ شعوری یا غیر شعوری طور پر یہی خواہش ہوتی ہے کہ اس کے فن کو سمجھا جائے اور قدر کی جائے اور یہ جبھی ہو سکتا ہے کہ چاہے انداز، اسٹائل، طریقہ نیا ہو مگر بات کہنے کا انداز ایسا ہو کہ قاری اور سامع سمجھ جائے۔
—صالحہ عابد حسین
نئے افسانہ نگار نے پریم چندی افسانے کو مسترد کر کے ادب کی ایک اہم خدمت انجام دی ہے۔ اس نے بڑی قربانیاں د ے کر یہ سبق سیکھا ہے کہ کردار محض ایک کھونٹی ہے جس پر کسی بھی قسم کا لباس ٹانگا جا سکتا ہے۔ لیکن پریم چندی افسانے سے اس کو ابھی پوری طرح گلو خلاصی نہیں ملی ہے۔ دوسری طرف اسے نثری نظم کا خطرہ ہے۔ نثر کا ہفت خواں طے نہ کر سکنے کے باعث اس کا قافلہ نثری نظم کے نخلستان میں ٹھہرتا ہوا معلوم ہوتا ہے۔ نثری نظم میں آسانی یہ ہے کہ بات کم لفظوں میں کہہ دی جاتی ہے۔ لیکن افسانہ لفّاظی مانگتا ہے۔ پروست نے یہ بات سمجھتے سمجھتے بیس برس لگا دیے۔ ہمارے افسانہ میں دیہات کی پیش کش، اردو افسانے میں مزدور کی پیش کش، اردو افسانے میں عورت کی پیش کش، اردو افسانے میں نفسیات، اردو افسانے میں فلسفہ، یہ سب تو ہو چکا ہے۔ اب ذرا واقعہ بیان ہو جائے۔
—شمس الرحمن فاروقی
’’فن کار جب حقیقت نگاری اور علامت نگاری دونوں پر قادر نہیں ہوتا تو تمثیل، داستان، کتھا، حکایت اور پریوں کی کہانی کا آسان راستہ تلاش کرتا ہے۔ یہاں تخئیل، فنٹاسی میں تحلیل ہو جاتی ہے۔ آرٹ کا ڈسپلن اور سو فسطائیت از کار رفتہ وسائل اظہار کی سادگی اور سادہ لوحی پر قربان کر دی جاتی ہے۔ جدید اردو افسانہ کا یہی المیہ ہے۔ ‘‘
—وارث علوی
کیا کہانی صرف PRIMITIVE قصہ کہانی ہے یعنی کیا اس میں کوئی علامتی مفاہیم نہیں۔ اس وضاحت کی ضرورت بھی اب باقی نہیں رہ جاتی کہ ایسی کہانیوں میں علامتی مفاہیم صرف ایک وسیلے سے پیدا نہیں ہوتے۔ کٹے ہوئے سرکا دھڑ سے جڑ جانا یا راکش کا شہزادی کا سرکاٹ کر چھینکے پر رکھ کر باہر چلے جانا اور پھر شام کو اسے جوڑنا یقیناً تمثیلی پیرایہ ہے لیکن یہ کہانی محض تمثیلی نہیں۔ تمثیلی اور تمثیلی پیرائے میں فرق ہے۔ تمثیلی پیرایہ علامتی معنی GENERATEکرتا ہے۔ سماجیاتی سطح پر یہ آج کے معاشرے اور ثقافت کی اس کشمکش کی آئینہ دار بھی ہیں جس سے فرد کا ذہن و شعور نبرد آزما ہے۔ اس ساری بحث سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ نئے افسانے میں داستانوی افسانہ، علامتی افسانے سے الگ کوئی چیز نہیں ہے۔ نیر یہ بھی کہ علامت ہمارے لاشعور کو تمثیلی پیرائے ہی کے ذریعہ راس آتی ہے اور اردو کے نئے افسانے میں اکثر و بیشتر تمثیلی عنصر علامتی عنصر کے ساتھ باہم آمیز ہو کر آتا ہے۔
—گوپی چند نارنگ
(سید محمد اشرف کی کہانی ڈار سے بچھڑے پر نقادوں کی رائے ملاحظہ کیجئے۔ اور اندازہ لگائیے کہ وقت کس حد تک تبدیل ہو چکا ہے )
شمس الرحمن فاروقی:
میں سمجھتا ہوں کہ اس تجزیے میں شہر یار صاحب نے تمام باتیں صحیح موقع سے کہہ دی ہیں۔ یعنی یہ کہ افسانہ کامیاب ہے۔ افسانے کے بیانیہ بہاؤ میں آدمی کھو جاتا ہے۔ پھر بھی ہم یہ محسوس کرتے ہیں کہ اس میں جذباتیت کا عنصر ہے۔ واحد متکلم راوی کی وجہ سے جگہ جگہ مصنف کی مداخلت کا احساس اس طرح ہوتا ہے کہ بات آگے نکل جاتی ہے اور جہاں تک اسے پہنچناچاہئے، وہاں تک نہیں پہنچتی۔ کیا واقعی اس فسانے کو انتظار حسین کے کسی افسانے کے مقابل رکھ سکتے ہیں ؟ میرے خیال میں نہیں۔
نیر مسعود:
کچھ سوال جن کو میں (اشرف کے افسانے پر گفتگو کرنے کے لئے ) حیلہ بنا رہا ہوں، یہ ہیں کہ کہیں کہیں اس افسانے میں تبصرے کا انداز آ جاتا ہے جو اصل میں انہیں قاری کے اوپر چھوڑنا چاہئے تھا۔ مثلاً یہ کہ ’’ہم بھی انہی پرندوں کی طرح ہیں لیکن ان کو غنیمت ہے کہ ذبح کر دیا جاتا ہے، ہم کو ذبح نہیں کیا جاتا۔ ‘‘ یہ سوال ہم کو اپنے ذہن میں بنانا چاہئے۔ افسانہ نگار کا کام یہ نہیں ہے کہ وہ سوال قائم کرے۔ تو اس لیے یہ حصے ذرا سے غیر ضروری ہیں۔ سب سے ضروری جو چیز مجھ کو عرض کرنا ہے وہ چند فقرے ہیں۔ مثلاً ذہن کے پنجرے میں بند چند یادوں کی چڑیاں ‘‘، ’’سورج نے کہرے کا مفلر اتارا‘‘ ’’عقل و ہوش کے بال و پر‘‘ یا ’’درختوں کی سرگوشیوں سے خاموشی کی بھیک مانگنا۔ ‘‘ یہ اصل میں شعر کے اوزار ہیں اور نثر ان کی محتاج بھی نہیں ہے، متحمل بھی نہیں ہے۔ اشرف کے یہاں چار پانچ فقرے اس طرح کے ہیں لیکن یہ جہاں بھی ہیں وہاں کھٹک رہے ہیں۔ معلوم نہیں کیا بات ہے کہ نثری اظہار پر سے ہمارا اعتماد ہٹ گیا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ شاعرانہ انداز میں بات کریں گے تو زیادہ پُر اثر ہو گی۔ حقیقت یہ ہے کہ شعری اظہار نثر کے لیے، افسانے کے لیے زہر قاتل ہے، یہ کبھی فائدہ نہیں پہنچائے گا۔
بلراج کومل:
جن سوالات کی طرف میں اشارہ کرنا چاہتا تھا، نیّر مسعود صاحب نے ان کی طرف اشارہ کر دیا۔ دو چار باتیں میں بھی کہوں گا۔ بنیادی طور پر نثر کے اپنے تقاضے ہیں اور میں نیر مسعود صاحب سے اتفاق کرتا ہوں کہ ان تقاضوں کا احترام بہت ضروری ہے۔
ڈاکٹر قمر رئیس:
حضرات ڈار سے بچھڑے پچھلے دس بارہ سال میں پڑھی جانے والی اُردو کی چند بہترین کہانیوں میں سے ایک ہے۔ اچھی تخلیق کی ایک شناخت یہ بھی ہوتی ہے کہ جتنی بار آپ اسے پڑھیں کچھ نئے گوشے، کچھ نئے فنی پہلو ابھر کر سامنے آتے ہیں۔ آج جب یہ کہانی پڑھی گئی تو مجھے اس کی چند اور خوبیوں کا احساس ہوا۔ لیکن ابھی ہمارے دو تخلیق کاروں مثلاً نیر مسعود صاحب اور بلراج کمل نے کچھ باتیں کہی ہیں۔ ان باتوں کو سن کر میں سوچنے لگا کہ اس کہانی کی جن کمزوریوں کی طرف شہر یار نے اور لوگوں نے اشارہ کیا ہے، کیا واقعی ان کو کمزوریاں کہا جائے۔ یا یہ سوچا جائے کہ اگر بلراج کومل صاحب یا مسعود صاحب اس موضوع پر لکھتے تو شاید اسی طرح لکھتے جس طرح انہوں نے اس کہانی کے تعلق سے اس تھیم کو انگیز کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہ بات ہمیں نہیں بھولنا چاہئے کہ مصنف کی عمر تیس، بتّیس سال سے زیادہ نہیں ہے۔ ہجرت کا تجربہ اس نے نہیں جھیلا ہے۔ شاید وہ پاکستان گئے بھی نہیں۔ یہ کہانی انہوں نے صرف اپنے تخیل کی قوت سے، اس تخلیقی قوت کی مدد سے، جس سے ہر بڑا فن کار بہرہ ور ہوتا ہے، لکھی ہے۔ لیکن اس کے پیچھے ایک بڑی گہری دردمندی بھی ہے۔ اور وہ ہے انسانیت کے رشتے سے۔
گوپی چند نارنگ:
اس ورک شاپ کے لیے یہ بھی ایک مسئلہ تھا کہ ۷۰ کے بعد کی کہانی الگ سے اپنی شناخت رکھتی ہے یا نہیں رکھتی۔ لیکن افسانے میں اتنا ضرور ہوا( جو شاعری میں نہیں ہوا) کہ جب علامتی یا تمثیلی کہانی میں فارمولا اور فیشن زدگی آ گئی اور بہت سے لکھنے والوں نے فیشن کے طور پر جس طرح دیکھا دیکھی علامتی کہانی لکھنا شروع کی تو وہ کہانی علامتی کہانی نہیں رہ گئی۔ وہ انشائیہ بھی نہیں ہے۔ اگر اچھا انشائیہ ہے تو آپ اس کو پڑھ کر کم از کم اس کی شگفتہ بیانی سے جمالیاتی حظ اور مسرت حاصل کر سکتے ہیں۔ لیکن ایسی کہانی صنعت اہمال میں سہل ممتنع ہو گئی۔ دوسرے یہ کہ اگرچہ یہ بات غلط ہے کہ علامتی کہانی یعنی سریندر پرکاش، انور سجاد اور بلراج مینرا اور انتظار حسین کی نسل کی کہانی میں سماجیاتی، سیاسی ابعاد نہیں ملتے۔ اس فارمولا زدگی کے تحت یہ ہوا کہ علامتی کہانی نہ تو علامتی کہانی رہی نہ انشائیہ رہی بلکہ یہ تجویز کیا گیا کہ اس چیز کا کوئی اور اچھا سا نام رکھ لینا چاہئے۔
—آج کی کہانیاں
عابد سہیل:
…آج کا افسانہ نگار زیادہ جرأت کے ساتھ وہ سب کچھ کہنے کی ہمت رکھتا ہے جسے پینسٹھ، سترسال قبل تشبیہوں اور استعاروں میں لپیٹ کر پیش کیا جاتا تھا۔
شوکت حیات:
۷۰ ء اور ۸۰ء کے بعد کے افسانوں کی صورت حال پر غور کرتے ہوئے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ سعادت حسن منٹو اور سب سے بڑی فکشن کی خاتون ناقد ممتاز شیریں (جو بحیثیت افسانہ نگار نا کام تھیں ) کا عہد زریں لوٹ آیا ہے، جس میں حسین الحق سے مشرف عالم ذوقی تک مع طارق چھتاری، نورالحسنین، قمر احسن وغیرہ نے تنقید کے بحران میں اپنے عہد کے افسانوں کی تبدیلیوں کی شناخت کے لئے خود آگے بڑھ کر تنقید کی کمان سنبھال لی ہے۔
عبدالصمد:
۱۹۸۰ کے بعد صورت حال میں خاصی تبدیلی آئی ہے۔ اچھے اور بہت اچھے افسانے بھی لکھے جا رہے ہیں۔ لکھنے والوں میں ایک بڑی تعداد ان کی ہے جو افسانے کے نام پر لکیریں کھینچتے تھے، اب انہی کے قلم سے عمدہ افسانے نکل رہے ہیں۔ سچی بات یہ ہے کہ بھونپو والے افسانے، لکھنے کی حد تک بہت آسان ہوتے تھے، لکھنے والے کی گرفت مشکل تھی۔ کچھ بھی لکھ دیا جاتا تھا اور معنی و تفہیم کے لیے پڑھنے والے کو آزاد چھوڑ دیا جاتا تھا۔ قصے اور واقعے کو بنیاد بنا کر افسانہ لکھنا کل بھی فن تھا، آج بھی فن ہے۔ میرے کہنے کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ افسانہ اپنے پرانے محور پر لوٹ رہا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ چیز اب ممکن ہی نہیں۔ پریم چند اردو کے بہت بڑے افسانہ نگار تھے، مگر کیا آج ان کے اسلوب اور موضوع کی نقل کر کے کوئی افسانہ نگار اپنی شناخت قائم کر سکتا ہے —؟ منٹو کی لکیر پر بے شمار لوگوں نے چلنے کی کوشش کی، ان میں کتنے کامیاب ہوئے اور اپنی پہچان بنا سکے —؟ ماضی ہمارا بہت بڑا سرمایہ اور ورثہ ہے۔ اس سرمائے اور ورثے سے جو روشنی حاصل ہوتی ہے، وہ ہمیں آگے … اور آگے کی راہوں کو روشن کرنے میں مدد دیتی ہے۔
حسین الحق:
منٹو کے ’پھندے ‘ کا زمانہ گزر چکا۔ آنے والا کل بیدی کے ’جوگیا‘ غیاث احمد گدی کے ’پرندہ پکڑنے والی گاڑی‘ خالدہ حسین کے ’سواری‘ نیر مسعود کے ’طاؤس چمن کی مینا‘ اور اقبال مجید کے ڈرامے ’ٹسرپھسنا‘ کا عہد ہے۔ یا پھر ۱۹۷۱ء کے بعد لکھے گئے ان افسانوں کا عہد ہے۔ جو شعوری طور پر بلراج مینرا، سریندر پرکاش اور احمد ہمیش کے ابہام سے کنارہ کش ہو کر لکھے گئے ہیں۔
قدوس جاوید:
مابعد جدید افسانے کا ارتقا آٹھویں نویں دہائی سے ہوتا ہے لیکن مابعد جدید افسانہ اور اس کی شعریات کے جو امتیازات اوپر بیان کیے گئے ہیں ان کے مطابق ۸۵۔ ۱۹۸۰ سے قبل بھی بعض ایسے افسانے ملتے ہیں، جن میں مابعد جدید افسانہ کے عناصر موجود ہیں۔ مثلاً پھند نے (منٹو) غالیچہ (کرشن چندر) آنندی (غلام عباس) اور میتھن (بیدی) ایسے افسانے ہیں جو روایتی نہیں تو خالص ترقی پسند ہیں اور نہ ہی ان میں فیشن پرستانہ جدیدیت ہے بلکہ ان افسانوں میں نئے سماجی ڈسکورس، زبان و بیان، فنی اور جمالیاتی تازگی کے حوالے سے جو انفرادیت ہے، اس کی بنیاد پر ان افسانوں کو مابعد جدید افسانے کے پیش رو کہا جائے تو شاید غلط نہ ہو گا، ان افسانوں میں علامتی، استعاراتی اور اساطیری اسلوب میں سماجی و ثقافتی بیانیہ کا عمدہ برتاؤ ملتا ہے جو مابعد جدید کا بھی خاصہ ہے۔ ان کے علاوہ آج کے مابعد جدید افسانہ کے مذکورہ امتیازات کی روشنی میں ایسے سیکڑوں افسانوں کے نام درج کیے جا سکتے ہیں، جنہیں مابعد جدید افسانہ کے زمرے میں رکھا جا سکتا ہے۔
صغیر افراہیم:
شاید یہ کہنا حق بجانب ہو کہ دورِ حاضر کے اکثر افسانہ نگاروں نے منظری پیرایۂ اظہار کو اپنے فن کے کینوس پر مصور بلکہ ثبت کر کے آج کی موقع پرستی، ریاکاری اور منافقت کو ایک وسیع تر حسیاتی تناظر عطا کیا ہے اور وہ بھی اس ہنر مندی کے ساتھ کہ قاری تہ بہ تہ خباثتوں سے واقف ہو کر صداقتوں کا شاہد بن جاتا ہے۔ اس نے علاقائی، لسانی، سیاسی کشمکش اور انتشار کو منظری مرقعوں میں ڈھال کر زندگی کی ہلچل کی علامت بنا دیا ہے کہ یہ فن پارے جب یہاں پڑھے جائیں گے ان کی آفاقیت برقرار رہے گی۔
مشرف عالم ذوقی:
در اصل یہ عہد سادہ نظر تخلیق کار یا نقاد کا ہے ہی نہیں۔ مبین مرزا بھی تسلیم کرتے ہیں کہ آج کی کہانیاں محض سپاٹ بیانیہ یا محض کرداروں کے سہارے یا محض جدیدیت کی دھند کے ساتھ سفر نہیں کر سکتیں۔ غصہ، ارتعاش، کنفیوژن اور ڈپریشن کے اس عہد کو نئی کہانیوں کی سوغات چاہئے اور مبین مرزا کی بات مانیں تو فکشن کے لیے اب ایک ساتھ کئی مصالحے چاہئیں۔ مغرب میں بھی فکشن تذبذب اور فکری تضاد کا شکار ہے اور یہی بیماری برصغیر کو بھی لگ چکی ہے۔ اور شاید اسی لیے تخلیقی تجربوں کی سطح پر ایک وسیع دنیا ہمارا انتظار کر رہی ہے جہاں لاسمتی ہے وحشت ہے۔ سائبر کیفے ہے۔ انٹرنیٹ ہے۔ وائرس ہے۔ ایڈز اور کینسرہے۔ بڑی مچھلیاں اور چھوٹی مچھلیاں ہیں۔ دہشت گردی ہے۔ سماج و سیاست کا نیا نظام ہے۔ اور ایک خوفناک گلیشئیر ہے جو بہتا ہوا ہماری طرف لپک رہا ہے۔ اور ہم اسی نئی صورت حال سے نئی کہانیاں تخلیق کرنے پر مجبور ہیں۔
سلام بن رزاق:
در اصل ۸۰ کے بعد کے لکھنے والے بھی تقریباً وہی افسانہ نگار ہیں جو ۷۰ سے لکھ رہے ہیں۔ ۸۰ کے بعد اس قافلے میں چند نئے نام ضرور شامل ہو گئے ہیں اس لیے میرے خیال سے نئے افسانے کی اگر حد مقر ر کرنی ہو تو ۷۰ کے بعد کرنی چاہئے۔ ویسے مجھے تواس کی بھی ضرورت محسوس نہیں ہوتی کیونکہ ۷۰ کے بعد سے افسانے میں تکنیک، فارم اور فنی رویے کے اعتبار سے کوئی بڑی تبدیلی سامنے نہیں آئی۔ البتہ چند موضوعات پر زیادہ توجہ دی جانے لگی، جیسے :دہشت گردی، فرقہ پرستی، مذہبی انتہا پسندی، تانیثی تحریک اور گاہے گاہے دلت یا پچھڑے طبقوں کے مسائل وغیرہ۔
٭٭٭
سلسلۂ افسانہ
گھوڑے واپس نہیں آئے — عبدالصمد
سائمن اوراس کی بیوی کے لیے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہی نہیں بہت مشکل تھا مگر اس کے سوا ان کے پاس کوئی چارہ بھی نہیں تھا۔ لہذا کافی دنوں کی کشمکش، پس و پیش اور دو قدم آگے اور چار قدم پیچھے جانے کے بعد آخر وہ اسی فیصلے پر آ کے ٹکے جو پہلے ہی دن سے پردوں میں چھپا ہوا ان کا پیچھا کر رہا تھا۔ ان کی مشکل یہ تھی کہ ان کی ایک بھینس اور دو بکریاں ہی ان کی روٹی روزی کا واحد سہارا تھیں۔ انہیں کے دودھ کی فروخت سے ان کے گھر کا چولہا جلتا۔ جب گاؤں میں ہریالی تھی تو ان جانوروں نے بھی ان کی رکابیوں کو ہرا بھرا بنائے رکھنے میں اپنا پورا تعاون دیا تھا۔ تینوں دس سیر دودھ روزانہ فراہم کرتی تھیں، گو بھینس کا حصہ اس میں زیادہ ہوتا، تقریباً سو روپئے روزانہ کا دودھ بک جاتا۔ سائمن اور اس کی بیوی کا خرچہ بھی کیا تھا، بال بچے تھے نہیں، وہ بڑے آرام سے زندگی گزار رہے تھے، ان کی زندگی اور دلچسپی کے مرکز ان کے یہی جانور تھے۔ جانور ان پر احسان کرتے تھے تووہ بھی اس احسان کا بدلہ چکانے میں پیچھے نہیں رہتے تھے۔ وہ ان کے لیے ہری، توانا اور صحت مند گھاس دور دور سے تلاش کر کے لاتے، ان کے لیے خوشی خوشی سانی تیار کرتے، ان کے پانی کے تسلے میں ہمیشہ ٹھنڈا پانی ڈالتے رہتے۔ دھوپ اور تیز بارش سے ان کا بچاؤ کرتے۔ ان کے پاس ایک بوسیدہ کمرے کے علاوہ ایک چھوٹی سی برآمدہ نما جگہ تھی، یہی جانوروں کی گویا رہائش گاہ تھی۔ کبھی کبھی بارش اپنی حدوں کو توڑ دیتی تو جو سامنے آتا اسے بلا تامل اپنا شکار بنا ڈالتی، اس وقت وہ اپنے جانوروں کو اپنے کمرے ہی میں لے آتے، اس وقت انسان اور جانور کی تفریق بالکل مٹ جاتی اور وہ سب ایک ہی خاندان کے فرد کی طرح رہنے لگتے۔ یہ سلسلہ کبھی کبھی بہت طویل ہو جاتا، مگر اس سے انہیں کسی زحمت کا احساس نہیں ہوتا تھا بلکہ ایک دائمی خوشی کا۔
ادھر پتہ نہیں کس کی بد نظر لگ گئی تھی یا کسی کے منحوس قدم کا اثر تھا کہ ہریالی اور خوشحالی جیسے ان سے دور بھاگ گئی تھی۔ موسم والی بارش تو کب کی روٹھ چکی تھی، بے موسم والی آتی بھی تو ان کی مصیبتوں میں کچھ اضافہ ہی کر جاتی، تالاب اور نالے سوکھتے سوکھتے نشیبی کھیتوں ہی کا حصہ بن گئے تھے، ظاہر ہے جب کھیتوں ہی نے کچھ اگلنا چھوڑ دیا تھا تو یہ کون سا کمال دکھاتے، بلکہ انہوں نے جگہ جگہ سے پھٹ کر کائی کی سخت تہوں سے زمین کو مزید بد صورت بنا ڈالا تھا۔ کھیت یوں بھی اجاڑ صحرا کی شکل اختیار کر چکے تھے۔ سائمن اوراس کی بیوی کی پریشانی یہ تھی کہ وہ تنہا ہوتے تو شاید جانے کا قصد بھی کرتے، مگر اپنی بھینس اور بکریوں کو کس کے سہارے چھوڑ کر جاتے۔ وہ ان کے لیے کس طرح سے بھی، دور دراز کا جوکھم اٹھا کے کچھ گھاس پھوس لے ہی آتے، اپنے سے زیادہ فکر انہیں ان بے زبانوں کی تھی جو ان کی زندگی کی گاڑی کو کشاں کشاں یہاں تک لے آئے تھے، اب وہ بے چارے خود مجبور ہو گئے تھے، جس طرح کی خوراک انہیں مل رہی تھی، اس کی بنیاد پر وہ کتنا دودھ دیتے، ان کا دودھ کتنا فروخت ہوتا اور وہ اپنے ساتھی انسانوں کی بھوک کو کس حد تک مٹاتے، بس کسی طرح یہ سارا کاروبار زندگی چل رہا تھا۔ راستہ بے حد ناہموار تھا اور آگے کا راستہ دھند میں پوری طرح کھویا ہوا تھا۔
سائمن اور اس کی بیوی روز روز کی محنت سے تھک کر چور ہو جاتے، اپنی اوقات سے زیادہ محنت کر کے جب وہ لوٹتے تو ان کے اندر ہلنے ڈولنے کی سکت بھی باقی نہیں رہتی۔ وہ خود تو روٹی کے سوکھے ٹکڑوں اور پانی پر کسی طرح بسر کر لیتے مگر ان بے زبانوں کی آنکھوں میں مظلومیت اور لاچارگی کی نمی سے ان کے اندر ختم ہوتی ہوئی قوت سے پھر سے بیدار ہو جاتی اور وہ ان کے رزق کے دانے کی تلاش میں پھر سے لگ جاتے۔
اچانک اتھاہ تاریکی میں ایک عجیب روشنی ان کے اور سب کے سر پر منڈلائی۔ عجیب اس لیے کہ اس روشنی کی اپنی کوئی پہچان نہیں تھی، کبھی وہ لال نظر آتی، کبھی پیلی، کبھی ہری، کبھی کچھ اور مگر بہر کیف تھی وہ روشنی ہی۔ اس روشنی نے ایک ایسی تحریر میں لوگوں کو سمجھایا جس سے اگر چہ وہ واقف نہیں تھے پھر بھی انہیں سمجھنے میں کوئی دشواری نہیں ہوئی۔ ان ساری آفتوں اور مصیبتوں کا ذمہ دار اس نے مظلوموں اور بے زبانوں کے تئیں ان کے بے رحم اور کٹھور رویے کو قرار دیا۔ ان کی نگاہیں جب بھی اٹھتیں، اپنی طرف اٹھتی تھیں، ان بے زبانوں کی طرف اٹھتی ہی نہیں تھیں، یا شاید نگاہوں نے اس طرف اٹھنے کی اپنی طاقت ہی کھو دی تھی۔ بات انہیں لگی یا نہیں لگی، مگر اس نے کچھ سوچنے اور مل بیٹھنے کے لیے مجبور ضرور کر دیا۔ پہلے تھوڑے سے لوگ بیٹھے، پھر ان سے زیادہ، پھر ان سے بھی زیادہ، یہاں تک کہ ان کی سوچ سارے میں پھیل گئی۔ در اصل انہیں اپنے مقصود کی تلاش کے لیے زیادہ بھٹکنے کی ضرورت پڑی۔ وہ تو سامنے ہی کی چیز تھی، سوا نہیں فوراً نظر بھی آ گئی۔ ان بے زبان جانوروں سے زیادہ مظلوم اور کون ہو سکتا تھا جن پر انہوں نے بے انتہا ظلم کے پہاڑ توڑے تھے۔ وہ اپنے پیٹ کسی طرح بھر لیتے اور انہیں صرف ٹکر ٹکر دیکھنے اور جگالی کرنے کے لیے چھوڑ دیتے۔ سردیوں کی ٹھٹھرتی ہوئی راتوں میں وہ موٹے موٹے لحافوں، کمبلوں اور مہنگے اونی کپڑوں میں ملبوس رہتے، ان بے زبانوں کو موسم کی مار جھیلنے کے لیے باہر چھوڑ دیتے۔ سیلاب کا پانی اپنا قہر آسانی سے ان پر برسا دیتا اور وہ خود کوٹھوں، چھتوں اور اونچے درختوں پر پناہ گزیں رہتے۔ اس غائب ہوتی ہوئی ہریالی میں وہ دوسروں کا نوالہ منہ سے چھین لیتے، ان غریبوں کو رسیوں سے باندھے رکھتے۔ جتنا وہ سوچتے جاتے اتنا ہی ان پر خود آگاہی کے اسرار کھلتے جاتے تھے۔ آخر انہوں نے طے کیا کہ جو ہوا سو ہوا، اب وہ اپنی غلطی کے تدارک میں جی جان سے لگ جائیں اور آنے والی مزید آفتوں سے اپنے آپ کو محفوظ رکھنے کی کوشش میں جٹ جائیں۔
منادی کرا دی گئی کہ ہر آبادی میں ایک الگ احاطہ بنایا جائے، جس میں آبادی کے سارے جانور لا کے رکھے جائیں اور لوگ اجتماعی طور پر ان کے کھانے پینے اور دوسری ضروریات کا خیال رکھیں۔ بنیادی نکتہ یہ تھا کہ اپنا پیٹ تو کسی طرح بھر جاتا ہے مگر جانور اپنے آپ کچھ نہیں کر سکتے، لہذا ان بے زبانوں کی خدمت کر کے اپنے گناہوں کے دھبوں کو مٹانے کی کوشش کی جائے۔ اس طرح یقیناً جانوروں اور انسانوں کے خالق کی رحمت جوش میں آ جائے گی اور وہ اپنی نوازشیں پھر جاری وساری کر دے گا۔
سائمن اور اس کی بیوی نئی صورت حال سے خوش تو بہت ہوئے مگر جب انہیں خیال آیا کہ اس طرح تو ان کی محبوب بھینس اور بکریاں ان سے چھوٹ جائیں گی تو وہ بہت مغموم بھی ہوئے۔ مگر اس کے سوا کوئی چارہ ہی نہیں تھا۔ ان کے کھانے پینے کے اپنے لالے پڑے ہوئے تھے، اپنے محبوب جانوروں کے لیے خوراک تلاش کرتے کرتے یوں بھی وہ ادھ مرے ہو چکے تھے۔ یہ تو ان کے لیے قدرت کی طرف سے گویا ایک نادر موقع فراہم ہوا تھا، اس سے فائدہ نہیں اٹھانا شکران نعمت کے ٹھکرانے کے برابر ہوتا۔ وہ تو کسی طرح چن چگ کے پیٹ کے ایک آدھ حصے کو بھر بھی لیتے، مگر اپنے جانوروں کو بھوکا دیکھنا اور ٹکر ٹکر مظلوم نگاہوں سے انہیں تکتے رہنا انہیں بالکل گوارہ نہیں تھا، سو انہوں نے اپنے دل پر پتھر رکھ لیا۔
انتظام دیکھ کے تو ان کی آنکھیں کھل گئیں۔ ایسا انتظام جانور کے لیے تو کیا، کبھی انسان کے لیے بھی انہوں نے نہیں دیکھا تھا۔ ایک بہت ہی وسیع احاطہ، چاروں طرف شیڈ، لاتعداد ناند، جانوروں کے گلے میں ان کے مالکوں کے نام کی پٹیاں لگی تھیں اور زیادہ تر جانوروں کو مختلف رنگ اور رنگ برنگی پٹیوں سے ایسا سجا دیا گیا تھا جیسے وہ سج دھج کے کسی بارات میں نکلے ہوں۔
انہیں کھلانے پلانے کے صلے میں ثواب حاصل کرنے کی ایک ہوڑ لگ گئی تھی۔ شہر کے زیادہ تر لوگ اور گاؤں میں رہنے والے کچھ نفیس لوگ عام طور پر بڑے جانور پالنے کا شوق نہیں رکھتے تھے، ان کے ہاں جو کتے، بلیاں اور دودھ دینے والی مہنگی گائیں اس اہتمام سے رکھی جاتیں کہ ان کی دیکھ بھال پر مامور کارکن کو ہر وقت یہ حسرت ستاتی رہتی تھی کہ وہ انسان کے جون میں کیوں پیدا ہو گئے۔ وہ کون سے پاداش کی سزا بھگت رہے ہیں۔ ان جانوروں کو الگ کرنے کا تو کوئی سوال ہی نہیں تھا، یوں بھی وہ ان کی جس طرح دیکھ بھال کر رہے تھے، اس سے وہ دن رات ثواب کے حقدار بن رہے تھے اور عجب نہیں کہ اتنے بیش بہا ثواب ہی کی بدولت ان کے ہر دن شب برأت اور ہر روز عید ہوتی جاتی تھی۔ قابل توجہ اور رحم کے قابل جانور تو وہ تھے جو اپنے مالکوں کو دن رات فائدہ بھی پہنچاتے اور مالک کی ہزاروں کوششوں کے بعد بھی ان کے پیٹ کا حصہ مکمل بھرنے سے رہ جاتا اور وہ منہ بسورتے رہ جاتے۔ مگر اب وقت نے شاید انہیں کے لیے کروٹ بدلی تھی۔
جو لوگ اپنے جانور احاطے میں لائے تھے، ان کے ہاں تو قبل ہی سے ثواب کا کھاتہ بند ہو چکا تھا مگردوسروں کے لیے کھل گیا تھا۔ ثواب حاصل کرنے کی ایسی دوڑ تھی کہ ایک انوکھا منظر دیکھنے والوں کی نگاہوں میں آ گیا تھا۔ جو لوگ کبھی بھوکے انسانوں کی طرف روٹی کا ایک ٹکڑا پھینکنا بھی گوارہ نہیں کرتے تھے وہ مظلوم، بے زبان جانوروں کے لیے معتبر کمپنیوں کی بنائی ہوئی غذائی اشیاء لانے میں ایک دوسرے کو مات دے رہے تھے۔ احاطے کو دیکھ کر پہلی نظر میں ایک میلے کا گمان ہوتا، لوگ خوشنما بڑے تھیلوں میں غذائی اشیاء بھرے ہوئے اپنے پسندیدہ جانوروں کی تلاش میں سرگرداں رہتے۔ جو خود سے ان بھاری تھیلوں کو اٹھانے کے اہل نہیں تھے، انہوں نے اپنے خادموں کے کندھوں پران تھیلوں کو لٹکا رکھا تھا۔ غذائی اشیاء کے علاوہ صاف و شفاف پانی کی بوتلیں، یہاں تک کہ پھلوں کے رس اور خشک میوے تک ان جانوروں کو نصیب ہو رہے تھے، جن کے منہ سے سوکھی گھاس بھی چھن چکی تھی۔
سائمن اور اس کی بیوی کا زیادہ وقت اپنے جانوروں کے پاس ہی گزرتا۔ ان کے پاس پہلے بھی کوئی کام نہیں تھا، ان کی ساری محنت کا محور تو ان کے محبوب جانور تھے جنہیں مست اور خوش دیکھ کران کے بھوکے جسموں میں توانائی کی لہریں دوڑ جاتیں۔ وہ خود کسی طرح روکھی سوکھی کھا کے یہاں چلے آتے اور اپنے جانوروں کی خوشحالی دیکھ کر ان کے بھوکے پیٹ بھی جیسے بھر جاتے۔
ایک طرف ثواب دارین حاصل کرنے کی ایک زبردست دوڑ تھی، دوسری طرف شیطان نے حسب معمول اندھا دھند صورت حال سے فائدہ اٹھانے کی ٹھان لی۔ سائمن اور اس کی بیوی روز دیکھتے تھے کہ ان کے جانور ان اشیاء کو ٹھیک سے کھا بھی نہیں پاتے جو انہیں میسر ہوتی ہیں۔ وہ یوں بھی ایسی اشیاء کے عادی نہیں تھے، وہ تو روکھی سوکھی ہی میں مست رہتے، بس انہیں اس وقت میسر ہو جائے جب ان کے پیٹ اس کے لیے آواز دینے لگیں۔ وہ میسر اشیاء میں سے کچھ ہی کھا پاتے، زیادہ برباد کر ڈالتے، ہوس اور للک میں وہ دگنا نوالہ منہ میں بھر تو لیتے مگر وہ نوالہ ان کے معدے میں اترنے سے صاف انکار کر دیتا، نتیجہ کے طور پر ان کے چبائے ہوئے نوالے بھی زمین پر گر جاتے، سائمن اور اور اس کی بیوی صاف دیکھ رہے تھے کہ قیمتی غذائی اشیاء جانوروں اورانسانوں کے پیروں تلے روندی جا رہی ہیں اور کوڑے کی شکل سمیٹ لی جاتی ہیں۔ انہوں نے سوچا کیوں نہ وہ ان اشیاء میں سے اپنے پیٹ بھی بھر لیں۔ سوچ کے اس سلسلے کو انہوں نے آنکھوں ہی آنکھوں میں طے کیا۔ زبان پر بس اشاروں اشاروں میں باتیں ہوئیں، کیوں کہ جانوروں کے لیے اس انتظام کو انجام دینے سے پہلے منتظم کاروں نے اس مسئلے پر بھی غور کر لیا تھا۔ انہیں پتہ تھا کہ وہ جن کے جانوروں کے لیے یہ انتظام کر رہے ہیں، وہ ان جانوروں سے کم بھوکے نہیں ہیں، ابھی تو وہ اپنے جانوروں کی محبت میں قربانی دینے کو تیار ہو جائیں گے، مگر بعد میں جب ان کے اپنے معدوں میں دھول بھری آندھیاں چلنے لگیں گی تو ان کی نگاہیں اپنے ہی جانوروں کی خوراک پر للچانے لگیں گی، وہ ان جانوروں کے نوالے بھی چھیننے کی کوشش کریں گے، نتیجہ یہ ہو گا کہ ان کا مقصد ہی فوت ہو جائے گا۔ یہ انتظام انہوں نے ان کے جانوروں کے لیے کیا تھا، ان کے لیے ہر گز نہیں، لہذا انہوں نے پہلے ہی اتنے سخت قانون بنا دیئے تھے کہ کوئی جانوروں کے نوالے کی طرف دیکھنے کی ہمت نہیں کرے۔ اس سلسلے میں ان کے اندر جو خواہشیں، بھوک اورحسرت جنم لیتیں، وہ سب کی سب ان کے اندر ہی دم توڑ دیتیں یا زیادہ سے زیادہ آنکھوں میں تیر کر رہ جاتیں۔
سائمن اور اس کی بیوی کو غذا کے اس طرح برباد ہونے پر بہت افسوس ہوتا تھا، وہ دانے دانے کے محتاج تھے، چننے کے لیے بھی انہی ناکوں چنے چبانے پڑتے، تب بھی ان کے پیٹ خالی کے خالی رہ جاتے، ادھر انہیں کے پالے ہوئے جانور نہایت بے دردی اور لاپروائی سے قیمتی دانوں کو اپنے پیروں تلے روند رہے تھے۔ جانوروں پر لوگوں کی نوازشیں بڑھتی جا رہی تھیں۔ ثواب حاصل کرنے کی ایسی دوڑ پہلے کبھی دیکھی نہیں گئی۔ زیادہ سے زیادہ ثواب حاصل کرنے کا لالچ کسی طرح کم ہی نہیں ہو رہا تھا، بلکہ اس میں روز بہ روز اضافہ ہی ہو رہا تھا، دوسری طرف انسانوں کے تئیں ان کی بے توجہی اور بے رحمی بھی بڑھ رہی تھی۔ جانوروں کے احاطے کے قیام نے شروع میں تو بہت اچھی فضا بنائی، جانوروں کی طرف لوگوں کی خاص توجہ نے جانوروں کے تئیں لوگوں کے دلوں میں محبت کی ایسی جوت جگا دی تھی جس کی مثال شاید ڈھونڈے سے نہ ملتی۔ لوگ نہایت محبت اور ممنونیت کے جذبے سے معمور ہو کر اپنے جانور وہاں لائے تھے، مگر جب جانوروں کے پیٹ بھر گئے اور ان کے پیٹ خالی رہ گئے تو ایک نئے اور انوکھے جذبے نے جنم لیا۔ جانوروں کے تئیں ایک رقابت کی چنگاری سی ان کے دلوں میں جنم لینے لگی۔ یوں تو یہ قصہ مشترک تھا، مگر چونکہ سائمن اور اس کی بیوی سب کی نمائندگی کر رہے تھے، لہذا قصے کا آغاز اور انجام انہی پر ہوا۔
سائمن کی بیوی نے اپنے شوہر سے دبی زبان سے کہا کہ ’’ہماری بھینس اور بکریاں تو کھا کھا کے بہت موٹی ہو رہی ہیں، مگر یہ جتنا کھاتی ہیں، اس سے زیادہ برباد کرتی ہیں۔ ‘‘
سائمن نے چونک کر اسے دیکھا، یہی بات تو اس کے دل میں بہت دنوں سے پل رہی تھی۔ پھر بھی اس نے اپنی تشفی کے لیے بیوی کا عندیہ جاننا چاہا۔ ’’پھر کیا کیا جائے۔ ؟‘‘
’’جو غذا یہ برباد کر دیتی ہیں، انہیں ہم بھی تو استعمال کر سکتے ہیں۔ ‘‘
بیوی نے پھر وہی جواب دیا جو اس کے دل میں بھی پہلے سے موجود تھا۔
’’جانتی ہو نا، اس سلسلے میں ان لوگوں نے کتنا سخت قانون بنایا ہے …؟‘‘
سائمن گویا ایک موہوم سہارے کے ذریعہ اپنی پوری تشفی کر لینا چاہتا تھا۔
’’وہ تو پتہ ہے، مگر قانون کو معلوم ہو گا، تب تو پکڑے گا۔ ‘‘
یہ بات بھی اس کے ذہن میں آ چکی تھی، اب جب بیوی کی حمایت بھی مل گئی تو اسے محسوس ہوا کہ وہ صحیح راستے پر چل رہا ہے۔ پھر بھی کچھ خدشات تو باقی ہی تھے۔
’’لیکن انہیں زیادہ تر تو کچے اجناس دیئے جاتے ہیں، ہم انہیں کیسے کھا سکتے ہیں …؟‘‘
اس کی بیوی مسکرائی، سمجھ گئی کہ وہ اس سے پوری طرح متفق تو ہے مگر…
’’ہم گھر لے جا کے انہیں پکا لیں گے۔ ‘‘
اب سائمن کا ذہن دوسری طرف مڑ گیا اور وہ اس لائن پر سوچ کے میدان میں داخل ہو گیا۔
پہلے پہل انہوں نے اپنے کندھوں پر خالی تھیلے لانے شروع کیے۔ خالی تھیلے لانا اور خالی ہی واپس لے جانا۔ اس سے کسی کو شبہ کرنے کا موقع ہی نہیں ملا۔ ایک آدھ کی آنکھوں میں سوالیہ نشان چمکا بھی تو سائمن نے مسکرا کر روٹی کے سوکھے ٹکڑے دکھا دیئے۔ ظاہر ہے کہ اب یہ غذا انسان کی تھی، جانوروں کی نہیں۔ آہستہ آہستہ انہوں نے کبھی آدھی مٹھی کبھی اس سے بھی کم، کبھی پوری مٹھی چنے وغیرہ اپنے خالی تھیلے میں ڈالنے شروع کیے۔ کسی کو دور دور شک نہیں ہوا۔ وہ یوں بھی ان لوگوں میں تھے جو تقریباً روزانہ ہی اپنے جانوروں کو دیکھنے پہنچ جاتے، بلکہ ان کا زیادہ وقت یہیں گزرتا، مگر جہاں ایک طرف انہوں نے دانے لے جانے میں اتنی احتیاط برتی وہاں دوسری طرف ان کے حوصلے بھی بڑھتے گئے جس نے آگے چل کر ایک لالچ کی شکل اختیار کر لی۔ وہ جانوروں کے نوالے پر بھی نظر رکھنے لگے۔ اچانک لوگوں کو محسوس ہوا کہ جانور پہلے جیسے صحت مند نہیں رہے۔ جس وقت وہ لائے گئے تھے، اس وقت تو ٹھیک سے چل بھی نہیں رہے تھے۔ یہاں کی دیکھ بھال اور اچھی غذا نے یہ کیفیت پیدا کر دی کہ مارے مٹاپے کے ان کا قدم اٹھانا بھی دشوار ہو گیا تھا۔ اب یہی جانور ہلکے پھلکے ہو کر احاطے میں قلانچیں بھرتے تھے۔ ان کے جسموں سے فاضل چربی کا فی گھٹ گئی تھی اور وہ بڑے اطمینان سے اپنے ساتھی جانوروں کے کھانے میں منہ مارتے تھے۔ یہ ایک غیر متوقع صورت حال تھی۔ اس کی کوئی فوری وجہ بھی سامنے نہیں تھی۔ ثواب حاصل کرنے کی دوڑ تو پہلے سے بھی زیادہ تیز ہو گئی تھی، بلکہ ان علاقوں میں بھی پھیل گئی تھی جہاں پہلے لوگوں کا اس قسم کی باتوں پر کوئی اثر نہیں ہوتا تھا۔ وہ بس اپنے ہی تک سمٹنے سمٹانے میں مست رہتے تھے۔ مگر ثواب کمانے کا دروازہ کھل جانے پر انہیں اپنے اپنے خول سے باہر نکلنے کا سنہری موقع ہاتھ آیا اور وہ اس موقع کو کسی طرح ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہتے تھے۔ مگر نئی صورت حال سب کچھ بگاڑ سکتی تھی، ان کے اعتماد کو ٹھیس پہنچ سکتی تھی اور ساری محنت پر پانی پھر سکتا تھا۔ معاملہ دنیا کا ہوتا تو شاید اسے کسی طرح سنبھال لیا جاتا، ثواب سے تو دنیا کا بظاہر کوئی تعلق نہیں تھا، مگر بہر کیف ثواب کمانے کی زمین تو دنیا ہی کی تھی، اس لیے مسئلے کا حل بھی یہیں نکلنا تھا۔ سب سے اہم بات یہ تھی کہ یہ بات ظاہر ہونے پر بدنامی کتنی ہوتی، جانوروں کے احاطے نے ایک طرح سے ایک مذہبی مقام حاصل کر لیا تھا، جو لوگ جانوروں کی خدمات کے لیے وہاں آتے تھے، ان کے پیش نظر بس ایک ہی جذبہ ہوتا تھا، جن لوگوں کے جانور وہاں موجود تھے، وہ بھی ایک خاص جذبے ہی کے تحت وہاں آتے تھے، جس میں ثواب کمانے میں حصہ دار بننے کا ایک جذبہ بھی ضرور شامل تھا۔ ایسی صورت میں اس معاملے کو نہایت ہوشیاری سے طے کرنا ضروری تھا۔
اگر یہ کوئی عام معاملہ ہوتا تو کسی طرح نمٹا بھی لیا جاتا۔ در اصل معاملہ جذبات اور ثواب کمانے کا تھا، اس میں کسی قسم کا سمجھوتہ بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ اس مسئلے کو حل کرنے کی بس کوششیں ہی ہو سکتی تھیں، مثلاً یہاں سے جانے والوں کے تھیلے اور سامان کی تلاشی لی جا سکتی تھی، جو لوگ ثواب کمانے کی غرض سے یہاں آتے تھے، ان پر سخت نگاہیں رکھی جا سکتی تھیں، مزید جانوروں کی آمد پر روک لگائی جا سکتی تھی، لیکن ان ساری کوششوں کی ضرب ثواب کمانے پر پڑتی اور اصل مشکل یہی تھی۔ جذبے اور ثواب سے الگ ہو کر سوچا جاتا تو پھر معقولیت کی کئی راہیں کھل سکتی تھیں، مگر تقریباً سبھی راہیں بند تھیں اور انہیں کھولنے کی ایک ذراسی کوشش بھی خطرناک ثابت ہو سکتی تھی۔ اس مسئلے کا ایک محفوظ حل یہ بھی ممکن تھا کہ جو لوگ جانوروں کے لیے دانے لے کر آئیں وہ کچھ حصہ جانوروں کے مالک کے لیے بھی الگ کر لیں، لیکن سوال یہ تھا کہ اس حل کو مانتا کون۔ یہی بات ہوتی تو آج ثواب کمانے کی یہ دوڑ ہی کیوں شروع ہوتی اوراس سے منسلک مسائل ہی کیوں جنم لیتے۔
یہ مسئلہ صرف ایک جگہ کا نہیں تھا، جہاں جہاں ثواب کمانے کی سبیل لگائی گئی تھی، تقریباً سبھی جگہوں سے یہی اطلاع مل رہی تھی، لہذا جب بھی کوئی حل نکالا جاتا تو سب پریکساں طور پر لاگو ہوتا۔ اس مسئلے پر سوچنے والوں نے یہ بھی محسوس کیا کہ اب جانور کم آتے ہیں، ان کے ساتھ آنے والوں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے۔ یوں دانوں کے حصہ دار بھی اسی تناسب میں بڑھ جاتے ہیں، اس طرح جانوروں کے پیٹ پر خفیہ انداز میں آسانی کے ساتھ لات ماری جا رہی ہے۔ اس کا مطلب ہے جب اس لائن پر سوچ کی رفتار بڑھائی گئی طرح طرح کے ممکنہ انکشافات بھی سامنے آتے گئے۔ مسائل مختلف شکلوں میں سامنے آ رہے تھے، لیکن ان کے حل کا دور دور پتہ نہیں تھا، ویسے اگر کوئی ممکنہ حل تھا بھی تو انہی چیزوں کے درمیان تھا، کوئی آسمان سے ٹپک نہیں سکتا تھا۔ اس احاطے کو تو بند نہیں کیا جا سکتا تھا کہ معاملہ جذبات سے جڑا تھا۔ وہ بھی مذہبی جذبات سے۔ اس کی جگہ پر دوسری مخلوق پر مشتمل احاطہ بھی نہیں قائم کیا جا سکتا تھا کہ یہ تجربہ اور اس سے ملتے جلتے تجربے اتنی بار ہو چکے تھے کہ اب ان میں کسی کو دلچسپی بھی نہیں رہ گئی تھی۔
یہ مسئلہ روز روز الجھتا ہی گیا۔ سوچنے والے جتنا اس سلسلے میں سوچتے تھے، اتنا ہی ان کا راستہ تاریک ہوتا جاتا تھا، در اصل یہ مسئلہ ہی ایسا تھا جس کا شاید کوئی حل تھا ہی نہیں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ تاخیر ہونے سے معاملہ تقریباً وہاں پہنچ گیا جہاں کے بعد کوئی راستہ ہی نہیں تھا یا دکھائی نہیں دیتا تھا، جس کا لازمی اثر یہ ہوا کہ جانوروں اور انسانوں کو ایک دوسرے کے مد مقابل چھوڑ دیا گیا۔
سوچنے والے اور دانشوری کی دور کی کوڑی لانے والے گھوڑے کبھی سپاٹ سڑکوں پر دوڑتے، کبھی نشیب و فراز سے پر راستوں پر، لیکن حیرت انگیز بات تھی کہ وہ جاتے تو پھر لوٹ کے نہیں آتے۔ وہ کہاں جاتے تھے، کیا کرتے تھے، واپس کیوں نہیں آتے تھے، ان باتوں کی کسی کو جانکاری نہیں تھی۔ دوسری طرف احاطے میں جانوروں کی تعداد جس تناسب میں بڑھ رہی تھی، اس سے زیادہ تناسب میں انسانوں کی بڑھ رہی تھی۔ اس کے سبب جانوروں اورانسانوں کے درمیان ایک رسہ کشی سی پیدا ہو رہی تھی۔ آخر جانوروں کے پاس بھی تو دو آنکھیں تھیں ہی، بھلے ان کے پیچھے سوچ کی دنیا تاریک تھی۔ وہ یہ تو دیکھ ہی سکتے تھے کہ ان کے نوالوں میں انسان بڑی خاموشی سے حصہ دار بن رہا ہے اور ان کے پیٹ کے اندر جانے والے لقموں کی تعداد برابر گھٹ رہی ہے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ وہ بھی انسانوں کے نوالے چھیننے میں لگ گئے۔ ثواب کمانے والے اپنی دھن میں لگے رہے اور جانور اورانسان ایک دوسرے کے مد مقابل ہو کر ایک ایسی دنیا کو جنم دینے میں خاموشی سے لگ گئے جس میں جانور انسان کا نوالہ چھین رہے تھے اور انسان جانور کا۔
یہ سلسلہ دراز ہی ہوتا گیا، اور دوڑ لگانے والے گھوڑے واپس نہیں آئے۔
٭٭٭
ساعتوں کا چور — حسین الحق
گرمی کی ایک تپتی جھلستی رات تھی۔
پرانے شہر کے مکانات کی ساخت بھی عجیب و غریب ہوا کرتی ہے، ایک مکان کی دیوار دوسرے مکان کی دیوار سے بالکل چسپاں، پہلے کے گھروں میں چہار دیواری کا تو کوئی تصور تھا ہی نہیں، حویلیاں بھی یوں بنتی تھیں کہ مکان کے چاروں طرف پہلے بلند دیوار کھڑی کر دی جاتی اور ایک ہاتھی یا طویل القامت گھوڑا گزرنے کے لائق بلند دروازہ بنایا جاتا جس سے امیروں اور نوابوں کے ہاتھی گھوڑے یا پالکیاں اندر داخل ہوتیں اور بلند دروازہ بند ہو جاتا۔ یہ دروازہ عام آدمیوں کے لیے نہیں کھلتا تھا۔ عام آدمی کے لیے اسی دروازے میں ایک بغلی یا تحتی دروازہ ہوتا جس سے عام آدمی ذرا جھک کر آیا جایا کرتا تھا۔ یہ چہار دیواری اتنی بلند ہوا کرتی تھی کہ ارد گرد کی آواز، بویا ہوا اس کے اندر داخل نہیں ہو پاتی، بس آسمانی روشنی اور ہوا اس کے اندر داخل ہو جایا کرتی تھی۔ ان حویلیوں کے علاوہ کچھ حویلی نما مکانات بھی ہوا کرتے تھے جن میں ان حویلیوں سے قدرے کم رقبے میں بنے مکانات، ان حویلیوں سے کم بلند چہار دیواری میں گھرے نظر آتے۔ دونوں طرح کی عمارتوں میں دیواروں سے لگے لگے کہیں اصطبل، کہیں ہاتھی خانہ، کبھی گؤ شالہ، کہیں نوکروں کے مکانات یا گھروں میں بچوں کی تعلیم کے لیے مولوی اوراس کے اہل خانہ کے لیے ایک چھوٹا سا رہائشی حصہ بھی رہتا۔
ان کے علاوہ جو مکانات ہوا کرتے تھے ان کی دیواریں ایک دوسرے سے بالکل چسپاں ہوا کرتی تھیں، کراس وینٹیلیشن تو دور کی چیز ہے، مکان میں شعاع دان بھی نہیں ہوا کرتے تھے۔ کہاں سے ہوتے، ہر مکان کی دیوار تو پڑوسی کی دیوار سے لگی کھڑی تھی، شعاع دان کیسے نکلتا؟ اور اگر کہیں گنجائش میسر آ گئی اور صاحب مکان کی ’’شہری حس‘‘ بھی کچھ زیادہ بیدار رہی، تب بھی شعاع دان یوں بنائے جاتے کہ ان کا رخ کسی باغ، بانس واڑی، یا سامنے سے گزرتے راستے کی طرف نہ ہو کر سیدھے آسمان کی طرف ہوتا تاکہ آسمانی روشنی، ہوا تو گھر میں داخل ہو جائے مگر زمین کا کوئی شخص یا گھرکی کوئی عورت اور لڑکی زمانے کی طرف نہ دیکھ پائے۔
یہ مکانات زیادہ تر گراؤنڈ فلور تک محدود رہتے، بعض گھروں پر اب چھت بھی پڑنے لگی تھی ورنہ زیادہ تر کھپریل ہی کے ہوا کرتے تھے مگر آنگن ہر گھر کے لیے لازمی تھا، اس آنگن میں مرغی کا ڈربہ، بجبجاتی نالیاں، برتن دھونے کی جگہ، وہیں پر مسالا پیسنے کے لیے سل بٹہ وغیرہ عمومی طور پر نظر آتا۔ جوان جوڑے گرمی، برسات، جاڑا ہرموسم بغیر شعاع دان کے کمروں میں ہی گزار دیا کرتے، بچے غیر شادی شدہ جوان اور بوڑھے چھتوں پر سوتے، عورتیں عموماً دالان میں اور شدید گرمی پڑنے پر آنگن میں پلنگ ڈال لیتیں مگر اذان سے پہلے اٹھ جاتیں۔
ایسے ہی مکانات میں سے کسی ایک مکان کی چھت پر گرمی کی ایک تپتی جھلستی رات میں کہانی کا مرکزی کردار خواب دیکھ رہا تھا کہ چونک پڑا۔
کچھ شور و غل کی آواز سنائی دی، فوری طور پر تو وہ کچھ نہیں سمجھ پایا کہ کیا ہو رہا ہے، چاند کی آخری تاریخیں تھیں اس لیے کچھ دکھائی تو نہیں دے رہا تھا مگر آوازیں بار بار فضا کا سینہ چیرتی اس تک پہنچتی محسوس ہو رہی تھیں۔
چند ثانیہ بعد جب وہ نیند سے پوری طرح بیدار ہوا تو اسے احساس ہوا کہ اپنی چھت پر یا اس کے ارد گرد کی چھتوں پر کوئی غیر معمولی بات نہیں تھی مگر آوازیں بہر حال آ رہی تھیں۔
اندازہ ہوا کہ محلے کے ارد گرد کا ہی کچھ معاملہ ہے۔
اس نے آس پاس سوئے بزرگوں کو دیکھا، اندھیرے میں کیا نظر آتا، بس کچھ ہیولے چت لیٹے نظر آئے، باپ چچا بڑے بھائی سبھی بستروں پر لیٹے تھے اور پٹ پٹ کی آواز سنائی دے رہی تھی۔
’’پھر چلا۔ ‘‘ باپ چچا میں سے کوئی بولا۔
’’یہ کدھر چل رہا ہے ؟‘‘ بڑے بھائی نے بالکل سرگوشیوں میں سوال کیا۔
’’اس اندھیرے میں کیا پتہ چلے گا؟‘‘ باپ نے رائے ظاہر کی۔
اس نے لیٹے لیٹے ہی محسوس کیا کہ آس پاس کی چھتوں پر بھی ہلچل جیسا کچھ ہے، رات کے سناٹے کا سینہ چیر کر پڑوسی کی سرگوشیاں بھی اس چھت تک پہنچ رہی تھیں، اور گلی میں سپاہی کے لاٹھی پٹخنے کی آواز آ رہی تھی۔
’’کیا ہو رہا ہے ؟‘‘ اس نے سوچا۔
اسے یاد آیا کہ ادھر کچھ دنوں سے کچھ ہو رہا ہے، کچھ ایسا جسے رواں رواں محسوس کرے مگر جسے بیان نہ کیا جا سکے، اسے لگا وہ سہم گیا ہے، اس کے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ وہ اٹھ کر صورت حال کو سمجھنا چاہتا تھا مگر جب بڑے نہیں اٹھ رہے تھے، سب کے سب لیٹے ہوئے ہی سرگوشیوں میں باتیں کر رہے تھے تو وہ کیسے اٹھتا۔
اندھیری رات سر پر کھڑی رہی سب اپنی اپنی چھتوں پر اپنے اپنے بستروں پر لیٹے رہے۔ بس جب تب کبھی ادھر سے کبھی ادھر سے سرگوشی ابھرتی رہی—پھر چلا— پھر چلا۔ ‘‘
’’اسے نیند کب آئی؟‘‘ صبح میں اس نے سوچا تو اسے یاد نہ آ سکا۔
اس کا گھر مولویوں کا گھر تھا، ٹیلی ویژن ممنوع تھا، باپ چچا ریڈیو سنتے دکھائی دیئے۔ گھر کی فضا میں امس تھی، کچھ حبس کا احساس، ناشتے کے وقت بھی بڑے غیر معمولی طور پر چپ تھے، وہ اس پوزیشن میں نہیں تھا کہ اس چپ کو توڑ سکے، گھبرا کر گھر سے باہر نکل آیا… محلے کے نکڑ پر ایک جملہ سنائی دیا، ’’گویا وہ آ ہی گیا۔ ‘‘
’’کون آ گیا؟‘‘ اس نے اپنی عمر سے ذرا کچھ بڑے لڑکے سے پوچھا۔
’’اب ایسے بھی بھولے مت بنو جیسے تم کچھ جانتے ہی نہیں۔ ‘‘ وہ لڑکا آہستہ سے بولا اور آگے بڑھ گیا۔
اس کے پاس خموش رہنے کے علاوہ کوئی سبیل نہیں تھی۔ اس نے محسوس کیا کہ بڑی عمر والا لڑکا کچھ زیادہ غلط نہیں کہہ رہا ہے، کیونکہ اس کے آنے نہ آنے پر یا اس کے ہونے نہ ہونے پر کئی دنوں پہلے جب ایک جگہ بحث چل رہی تھی تو وہ بھی موجود تھا، اور بڑی عمر والا لڑکا بھی۔
اس نے یاد کرنا چاہا کہ اس دن کیا بحث چل رہی تھی؟ اسے یاد آیا کہ تذکرہ چھڑا ہوا تھا، کسی نے کہا تھا کہ وہ اگر آ گیا تو بہار کی رُت چلی جائے گی، سیلاب آئیں گے ہواؤں میں زہر گھل جائے گا، کھیت بنجر ہو جائیں گے، زلزلے آئیں گے، لوگوں پر معاش تنگ ہو جائے گی اورآہستہ آہستہ جو آج ہے اس میں سے کچھ بھی نہ رہے گا۔
مگراس دن بھی سمجھ میں نہ آ سکا تھا کہ وہ— آنے والا وہ کون ہے ؟
وہ اد بدا کر دوستوں کی طرف بھاگا مگر آج تو دوستوں کا رنگ بھی نرالا تھا، اکثر دوستوں نے اپنے چھوٹے بھائیوں سے کہلوا دیا کہ ’’بھیا گھر پر نہیں ہیں ‘‘ ایک دو دوستوں سے ملاقات ہوئی تو ان کا رونا بھی وہی تھا:
’’سب کہہ رہے ہیں کہ وہ آ گیا مگر وہ ہے کون؟‘‘
اس بھاگ دوڑ میں آدھا دن بیت گیا، اور تھک ہار کر وہ گھر کی طرف مڑ گیا۔
راہ چلتے اس نے محسوس کیا کہ لوگ چل رہے ہیں مگر یوں جیسے لاشے حرکت میں ہوں، سب چپ، ارد گرد سے بے نیاز، آنکھیں بے نور اور منکے ڈھلے ہوئے، دکانیں یوں تو کھلی ہوئی تھیں مگر ان میں گاہک نہیں تھے۔ کچھ لوگ باتیں کرتے اور مسکراتے بھی نظر آئے مگر ان کی مسکراہٹوں پر اداسی کا رنگ غالب تھا۔
اس نے سوچا، اس کے آنے یا اس کے ہونے کا معنی صرف یہی ہے ؟ لشتم پشتم دن گزر گیا اور رات پھر آ گئی۔
پھر وہی جلتی سلگتی رات، وہی اندھیرے میں چھتوں پر چت لیٹے ہوئے ہیولے، وہ حسب سابق خواب کی وادیوں کا مسافر تھا۔ وادی میں دو بالشتیے نظر آئے عجیب و غریب تھی ان کی ہیئت کذائی، اس نے غور کیا، پورے وجود پر آنکھوں کے سوا کچھ نہ تھا، اس نے غور کرنا چاہا کہ یہ لڑکے ہیں یا لڑکیاں، سرمنگول بچوں جیسا، آنکھ کنچوں کی طرح اور سرخ، ناک کا صرف ایک سوراخ نظر آ رہا تھا، ہونٹ کا پتہ نہیں تھا بلکہ منہ بھی شاید نہیں تھا، مگر پتہ نہیں اس وقت اسے کوہ قاف کیوں یاد آیا تھا۔ وہ مسکرا رہے تھے یا مسکرا رہی تھیں، اس نے غور کیا وہ کہیں جا رہے تھے یا جا رہی تھیں اور چلتے چلتے انہوں نے پلٹ کر اسے دیکھا تھا۔ اس دیکھنے میں استہزا تھا اور بے نیازی بھی، اس کو یاد آیا کہ خواب ہی میں اس نے غور کرنا چاہا تھا کہ وہ اور یہ دونوں، ٹرانس جنڈر کے نمونے کس جگہ ہیں، اسے یہ بھی یاد آیا کہ اس نے صحرا کی گرم ریتیلی ہواؤں کا احساس کیا تھا، شاید کہیں بہت دور انجیر اور کھجور کے درخت تھے اور ڈینیوب کی لہروں میں کوئی حلقہ نہیں تھا، گنگا ترل بہہ رہی تھی یا راوی اور چناب کا پانی ہلکورے لے رہا تھا اور وہ ان سے ذرا فاصلے پر تھا، اس نے ان کی طرف بڑھنا چاہا تھا، وہ بڑھ رہا تھا وہ دونوں جہاں تھے یا جہاں تھیں وہیں کھڑے تھے یا کھڑی تھیں۔ وہ ان دونوں کی طرف بڑھتا رہا وہ دونوں کھڑے رہے یا کھڑی رہیں اور فاصلہ ایک بالشت بھی کم نہیں ہوا۔
اسی موہوم تحرک کے درمیان اسے بم چلنے کی آواز سنائی دی۔
وہ چونک پڑا۔
وہ چونک کر جاگا تو دیکھا کہ وہ اپنی چھت پر تھا اور چھت پر کھلبلی مچی ہوئی تھی، ابا، تایا، بھائی سب جاگ گئے تھے کوئی اٹھ کر بیٹھ گیا تھا، کوئی کھڑا تھا، کوئی چاروں طرف دیکھ رہا تھا اور اندھیری رات تنبو تانے کھڑی تھی اور چھت پر پٹاپٹ ڈھیلے گر رہے تھے۔
’’چلو چلو نیچے چلو، کمبختوں کا کوئی ٹھکانہ نہیں ہے ‘‘ ابا گھبرائے گھبرائے سے کھڑے ہو گئے اور سیڑھی کی طرف بڑھتے ہوئے بولے۔
ہبڑ دھبڑ سبھی نیچے کی طرف بھاگے۔
چاروں طرف چیخ پکار جاری تھی، شور و غل کے درمیان بھدی بھدی گالیاں چھتوں چھت ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک آ رہی تھیں اور جا رہی تھیں۔
ساری رات اسی خلفشار کی نذر ہو گئی۔
مگر سب گھروں میں قید رہے کہ شرفاء اندھیری راتوں میں گھروں سے باہر نہیں نکلتے۔
’’اس کے آنے کے بعد یہ سب تو ہونا ہی ہے۔ ‘‘ انتہائی حبس زدہ اور پراسرار ماحول میں تایا کا جملہ گونجا۔
دوستوں کی منڈلی جمی تو پتہ چلا کہ یہ کسی ایک محلے کا مسئلہ نہیں تھا، ہر محلے میں کچھ نہ کچھ انہونی ہو رہی تھی۔
’’ہمارے محلے میں تو طشتری چلتی ہے۔ ‘‘ عبد الجلیل بتانے لگا۔
’’طشتری چلتی ہے ؟ کیا مطلب؟‘‘ اس نے حیرت سے عبد الجلیل کی طرف تکا۔
’’کیوں تم طشتری کے بارے میں نہیں جانتے ؟‘‘
’’نہیں تو۔ ‘‘
’’لو بھلا!‘‘ عبد الجلیل ہنسا: ’’تمہارا محلہ تو تکیہ داروں کا محلہ ہے، سب کہتے ہیں کسی تکیے ہی سے چلی ہو گی۔ ‘‘
’’ابے یہ ہے کیا؟‘‘
’’یہ کچھ یوں ہے بچو! کہ طشتری پر کسی گھر کا پتہ اور کچھ نقش لکھ کر، پھر اسے پھونک کر، ہوا میں اڑا دیا جاتا ہے اور وہ طشتری ہوا میں اڑتے ہوئے اس گھر تک پہنچ جاتی ہے جس کا اس پر پتہ لکھا ہوا ہے۔ اگر صرف ڈرانا ہے تو کسی آدمی کا نام نہیں لکھا جاتا پس وہ طشتری اس گھر کے اندرونی طول و عرض میں چکراتی پھرتی ہے، اگر کوئی پکڑنا چاہے تو پارے کی طرح ہاتھوں کے درمیان سے پھسل جاتی ہے اور اگرکسی کو مارنا ہے تو طشتری پر اس کا نام بھی لکھ دیا جاتا ہے تب وہ طشتری سیدھے اس آدمی کی گردن سے ٹکراتی ہے اور تلوار کا کام کرتی ہے۔
’’خدا کی پناہ!‘‘وہ اس کے علاوہ کچھ نہ کہہ سکا۔
’’ابھی بیچ کے صوبے میں یہی تو ہو رہا ہے۔ ‘‘ عبدالعزیز اچانک بول پڑا۔
’’تم بھی یار کہاں کی بات کہاں لے جا کے پٹختے ہو؟‘‘ راہل چورسیا بولا۔
’’کہیں کی اینٹ کہیں کا روڑا بھان متی نے کنبہ جوڑا۔ ‘‘ وقار اسجد صفوی نے قہقہہ لگایا۔
بے چارہ عبدالعزیز چپکا بیٹھا سب کا منہ دیکھا کیا اور گپ شپ جاری رہی۔
’’ارے وہاں تو طشتری نظر بھی آئی۔ ‘‘ شمس الدین بتانے لگے۔ ’’مرکزی علاقے میں تو ایک موہوم سا نقطہ وہی کام کر رہا ہے۔ ‘‘
’’موہوم سا نقطہ؟ بھئی یہ تو اور حیرت ناک بات ہے، ذرا تفصیل سے بتاؤ۔ ‘‘سبھی نے چونک کر شمس الدین کی طرف توجہ کی۔
’’ہاں وہاں کے بارے میں والد صاحب کے ایک دوست والد صاحب کو بتا رہے تھے تو میں نے سنا۔ ‘‘
بتاؤ بھئی کیا سنا؟‘‘
ایک ڈاکٹر کا کلینک اس کے گھر کے بغل میں ہے۔ اس نے اپنے کلینک میں سی سی ٹی وی کیمرہ لگایا تو اس کا کنکشن اپنے گھر میں بھی دے دیا۔ ڈاکٹر کے ہاتھ میں قدرت نے شفا دی ہے اس لیے وہ کافی مشغول رہتا ہے اور چونکہ بغل کے گھر میں ڈاکٹر کے باپ ماں اور بال بچے رہتے ہیں اس لیے وہ دلجمعی کے ساتھ اپنا وقت ہسپتال میں گزارتا ہے، اس دن بھی وہ ہسپتال میں کافی دیر تک رہا تھا اور لگاتار مشغول و پریشان بھی رہا تھا، ہوا کیا کہ ایک ایسا مریض ہسپتال میں داخل ہوا جو سب کے لیے جان کا جنجال بن گیا۔ یہ مریض پچھلے ایک ہفتے سے نرسنگ ہوم میں داخل تھا۔ جب مریض داخل ہوا تھا تو پیٹ میں درد کی شکایت کر رہا تھا مگر مشکل یہ تھی کہ درد کسی ایک جگہ نہیں تھا، کبھی پیٹ کے بیچوں بیچ محسوس ہوتا، کبھی دائیں کبھی بائیں، ایکسرے، الٹرا ساؤنڈ، کسی میں کوئی وجہ نظر نہیں آ رہی تھی۔ جب انڈو اسکوپی کی گئی تو پیٹ کے پچھلے حصے میں ایک نقطہ سا دکھائی دیا مگر کسی کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ یہ نقطہ کس چیز کی علامت ہے۔
ڈاکٹر، جونیئر ڈاکٹر نرسنگ ہوم میں موجود مختلف امراض کے ماہرین سب سر جوڑ کر بیٹھے مگر کسی کی سمجھ میں کچھ نہیں آیا۔ تھک ہار کر شہر کے کچھ قابل ڈاکٹروں سے مشورہ کیا گیا آخر میں فیصلہ یہی ہوا کہ پیٹ کا آپریشن کیا جائے اور اگر کوئی فاسد مادہ ہے تو اس کو نکال دیا جائے مگر چونکہ یہ ایک پیچیدہ آپریشن تھا اس لیے دارالسلطنت کے علاوہ باقی جگہوں پر جو جان پہچان کے ماہرین تھے ان کی خدمات لینے کا بھی فیصلہ کیا گیا۔
کئی ماہرین سے ڈاکٹر کی گفتگو ہوئی وہ لوگ آنے کو تیار بھی ہو گئے مگر سب کی اپنی اپنی مصروفیتیں اور مشغولیتیں تھیں لہذا ایک تاریخ پر سب کی موجودگی کو ممکن بنانے کے لیے آٹھ دن کا انتظار کرنا پڑا۔
اس بیچ مریض کی کیفیت نے بھی تابڑ توڑ پہلو بدلا۔ پہلے پیٹ میں جہاں تہاں درد ہوتا تھا، کچھ دنوں بعد، پیٹ میں کسی کے چھوئے بغیر گدگدی ہونے لگی، پھر مریض تقریر کرنے لگا۔ ایسی دھواں دھار تقریر جس پر حیرت ہو کہ ایک نہایت خموش رہنے والا آدمی اتنا کیسے بولنے لگا اور تقریر بھی کسی ایک موضوع پر نہیں، کبھی مذہب کبھی سیاست کبھی تاریخ کبھی تہذیب اور پھر کبھی بھاری بھدی بھدی گالیاں، پھر ایک دو دن ایسے بھی آئے کہ اس کو اپنی جان کا ڈر ستانے لگا، ہر آنے جانے والے کو پکڑ کر کہتا ’’وہ مجھے مروا دیں گے۔ ‘‘ جب پوچھا جاتا کہ کون تو جواب میں کبھی کہتا ’’شیر‘‘، کبھی کہتا ’’بھائی‘‘ کبھی کہتا ’’لاڈلا‘‘ —عجب بے ربط باتیں جن کا اور نہ چھور جن کا مطلب نکالنا دور کی کوڑی لانے کے مترادف ہوتا۔ پھر ایک دن قئے کرنے لگا، سکوں کی قے — زوردار قے اور ہر ابکائی گندگی میں لتھڑے ڈھیر سارے سکے باہر لاتی— اسپتال کا عملہ اور وہاں موجود سارے لوگ سکے بٹورنے کے لیے آپا دھاپی کرنے لگے، پورے ہسپتال میں افرا تفری مچ گئی۔ مریض قے کر رہا تھا اور سب لوگ اس گندگی میں ہاتھ ڈال ڈال کر سکے تلاش کر رہے تھے جو سکہ پا لیتا وہ مسکرانے لگتا، جسے نہ ملتا وہ دو بارہ اسی گندگی میں لتھڑ جاتا۔
اسی بیچ ماہرین آ گئے اور جلد از جلد آپریشن کا فیصلہ لے لیا گیا۔
اوٹی میں آپریشن ٹیبل پر جب مریض کا پیٹ چیرا گیا تو مریض ہنس رہا تھا اور ڈاکٹر حیران پریشان تھے کہ اس کو آخری درد کیوں ہو رہا ہے مگر اس مسئلے پر بہت دیر تک غور کرنے کا موقع ہی نہیں مل سکا کیونکہ دوسری حیرت ناک بات یہ ہوئی کہ چیرے ہوئے پیٹ سے خون کا ایک قطرہ بھی نہیں گرا۔
اور پھر یوں ہوا کہ جب ڈاکٹر نے پیٹ کھولا تو پیٹ کے طول و عرض میں ایک بہت بڑے غار کا سامنا کرنا پڑا، جس میں اندر تو مکمل اندھیرا تھا ہی، غضب کی بات یہ کہ باہر کی روشنی کی کوئی شعاع اندر نہیں جا پا رہی تھی مگر اندر دیکھنا تو ضروری تھا، ٹارچ کا انتظام کیا گیا، پانچ بیٹریوں والی ٹارچ آئی مگر اس کی روشنی بھی ناکافی ہوئی، پھر ایسی کئی ٹارچ فراہم کی گئیں نتیجہ صفر رہا، تنگ آ کر ایک ڈاکٹر نے اندر ہاتھ ڈال دیا، جس وقت اس ڈاکٹر نے پیٹ کے اندر ہاتھ ڈالا، اسی وقت مریض کا بہت زور دار اور ہول ناک قہقہہ بلند ہوا اور وہ زور زور سے بہت دھواں دھار انداز میں پھر تقریر کرنے لگا، زبان کئی زبانوں کا ملغوبہ محسوس ہو رہی تھی، کبھی کچھ گجراتی الفاظ سنائی دیتے، پھر لہجہ مراٹھی ہو جاتا، کچھ راجستھانی کی بھی آمیزش محسوس ہوئی، ہریانوی اور کھڑی بولی بھی تقریر کا حصہ تھی۔ ڈاکٹر صاحبان تھوڑی دیر تو متحیر اور دم بخود رہ گئے مگر پھر اس عالم سے لوٹے تو اس ڈاکٹر کی طرف دھیان گیا جس نے اپنا ہاتھ پیٹ کے اندر ڈالا تھا۔ اس ڈاکٹر کا کہیں پتہ نہ تھا مگر اس کی آواز آ رہی تھی۔
’’بچائیے — کچھ کیجئے —‘‘ سب نے غور کیا تو احساس ہوا کہ آواز تو پیٹ کے اندر سے آ رہی ہے۔
مگر پیٹ کے اندر اتنا گہرا اندھیرا تھا کہ کچھ نظر نہیں آ رہا تھا، پھر بھی آواز پر دھیان دیا گیا تو صاف سنائی دیا:
بچائیے —مدد کیجئے — میں نے پوری بانہہ اندر ڈالی تھی، مکمل خلا تھا، میں کچھ اور سمجھنے اور محسوس کرنے کے لیے کاندھوں کے بل جھکا اور اپنا توازن برقرار نہیں رکھ سکا، پیٹ کے اندر گیا۔ گرنے کے بعد قدم رکھنے کے لیے کوئی سطح نہ مل سکی۔ میں اب تک کہیں پر ٹھہر نہیں پایا ہوں مسلسل اندر گرتا جا رہا ہوں، مگر اب ایک نئی بات ہوئی ہے، اب یہاں روشنی ہے لیکن یہ روشنی چاند یا سورج کی نہیں ہے، یہ بجلی سے پیدا ہونے والی روشنی بھی نہیں ہے، کچھ فاسفورس کا کرشمہ محسوس ہو رہا ہے، روشنی کے بھبھکے سے اٹھتے ہیں اور ناپید ہو جاتے ہیں، فضا میں کافور کی بو محسوس ہو رہی ہے، یا جیسے خون کے تھکے کا تھکا اردگرد ہو مگر میں مسلسل نیچے کی طرف گرتا جا رہا ہوں، میں کہاں جاؤں گا میں کیا کروں گا— پلیز بچائیے — آپ لوگ کچھ کیجئے —
آپریشن تھیٹر میں افرا تفری سی مچ گئی، وارڈ بوائے پہلے بھاگا۔ پھر نچلی سطح کا عملہ بھی چپکے سے باہر کھسک گیا، کمپاؤنڈر کچھ ٹھہرا پھر وہ بھی بھاگ کھڑا ہوا، ایسے میں ڈریسر کہاں سے تھمتا، او ٹی میں بچ گئے تھے صرف ڈاکٹر صاحبان جن میں سے ایک اندر جا چکا تھا نرسنگ ہوم کے مالک ڈاکٹر کا حال خراب تھا، ایک بوڑھے ڈاکٹر کا بلڈ پریشر بڑھ گیا اور وہ چکرا کر زمین پر گر گیا، باقی ڈاکٹروں کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کیا کیا جائے، مریض اٹھ تو نہیں پا رہا تھا مگر اس کے قہقہے مسلسل جاری تھے۔
اسی بیچ نوجوان ڈاکٹر نے ہمت کی اور کہا: ’’سر ڈاکٹر صاحب اندر اکے لیے ہیں اور مسلسل فریاد کر رہے ہیں، مجھ سے اب برداشت نہیں ہو رہا ہے، میں بھی اندر جا رہا ہوں۔ ‘‘ اتنا کہہ کروہ بھی پیٹ کے اندر زور سے یہ کہتا ہوا کود گیا کہ ’’ڈاکٹر گھبرانا مت میں بھی آ رہا ہوں۔ ‘‘ اب اندر کی صورت حال یہ تھی کہ دونوں ڈاکٹر آگے پیچھے اندر اندر گرتے چلے جا رہے تھے اور پہلا ڈاکٹر رواں تبصرہ کرتا جا رہا تھا۔ :
سنو ڈاکٹر! روشنیوں کے جھماکے ہو رہے ہیں، میں دیکھ رہا ہوں، یہاں چاروں طرف کھنڈرات ہیں کہیں دور تک ریگستان پھیلا ہوا ہے۔ ایک طرف خون کی ندیاں بہہ رہی ہیں، ایک طرف آگ لگی ہوئی ہے جو ہر چیز کو جھلسا رہی ہے مگر اس میں تپش نہیں ہے، کچھ دور پر برف کے پہاڑ ہیں، میں ان برفیلے پہاڑوں کے قریب پہنچ گیا ہوں، مگر ان میں ٹھنڈک نہیں ہے — چاروں طرف ایکا تھاہ سناٹا اور تنہائی، آدم نہ آدم زاد— مگر نہیں نہیں — کچھ دور پر ایک ہیولا نظر آ رہا ہے — میں اس کے قریب پہنچنے کی کوشش کرتا ہوں۔ ہاں میں اس کے قریب پہنچ گیا ہوں — ارے یہ تو ایک نومولود مخلوق محسوس ہو رہی ہے، عجیب و غریب— اس کے دونوں پیر دونوں کندھوں پر ہیں، دونوں ہاتھ مقعد کے اوپر، اور کان مقعد کے سوراخ کے دونوں طرف لٹکے ہوئے ہیں، مقعد ہی منہ کا کام کر رہا ہے، مقعد سے غلاظت نکل رہی ہے اور وہ مقعد ہی میں موجود دانت سے اسے چبا رہا ہے، وہ دیکھنے میں نومولود لگ رہا ہے مگر اچھلتا کودتا بھاگتا جا رہا ہے — ہاں ڈاکٹر ملہوترا بھی مجھے مل گئے ہیں، میں اور وہ دونوں اب خلا نوردوں کی طرح تیرتے ہوئے پتہ نہیں کدھر جا رہے ہیں — آپ لوگ خدا کے لیے کچھ کیجئے ہمارا کیا ہو گا— ہم یہ کہاں پھنس گئے ہیں۔
باہر ان کی آواز بہت نزدیک سے آتی محسوس ہو رہی تھی مگر وہ دونوں کہیں دکھائی نہیں دے رہے تھے۔ اتنے میں ڈاکٹروں کی مزید کمک آ گئی۔ فیصلہ یہ ہوا کہ مریض کے گھر والوں کو اس کا حال بتایا جائے، اس کے رشتہ دار اندر بلائے گئے، ان لوگوں نے مریض کا جو حال دیکھا تو حواس باختہ ہو گئے۔
عام آدمی کے نزدیک ایسے معاملات اسطوری ہو جاتے ہیں۔ گھر والوں کے نزدیک بھی مریض اب راکشس کی جون میں تبدیل ہو چکا تھا۔ ماں، باپ، بیوی، بھائی سب نے بیک زبان کہا، ’’اس کا جو کرنا ہے کیجئے ہمیں کوئی شکایت نہیں ہو گی۔ ‘‘ ڈاکٹروں نے بیوی اور باپ سے اجازت نامہ لکھوا کر اپنے پاس رکھ لیا۔
اور مریض کا پیٹ پوری طرح سے چیر دیا گیا، صرف پیٹھ سے لگا چمڑا باقی رہ گیا۔
مریض مر چکا تھا، دونوں ڈاکٹروں کا اندر باہر کہیں پتہ نہ تھا۔
سب حیرت اور غم میں تھے کہ یہ کیا ہوا اور کیسے ہوا؟
ابھی یہ حیرت ختم بھی نہیں ہوئی تھی کہ اچانک باہر بہت زور کا ہنگامہ ہوتا سنائی دیا۔ دریافت حال کے لیے ایک دو آدمی باہر گئے اور اندر آ کر یہ وحشت ناک خبر سنائی کہ نامو جود ڈاکٹر جس عجیب الخلقت اور عجیب الہیئت مخلوق کے بارے میں بتا رہا تھا وہ تو ہسپتال کے باہر دکھائی دیا، پھر وہاں سے اچھلتا کودتا شہر کی طرف چل پڑا ہے، سڑکوں پر اور بازاروں میں افرا تفری مچ گئی ہے، وہ پچھلی تمام عمارتوں کو ڈھا رہا ہے، خلق خدا تراہ تراہ کر رہی ہے مگر وہ سب سے بے خبر اور شاید اپنے سے بھی بے خبر مقعد کی غلاظت مقعد سے کھا رہا ہے اور مقعد سے سونگھ رہا ہے اور ناک کے نیچے سے دیکھ رہا ہے۔
پھر اس خبر پر کچھ مدت گزر گئی۔
اور آخری خبر یہ ملی کہ جسے اس کے اپنوں نے راکشس جانا تھا اسے دیش کے لوگوں نے دیوتا سمجھ لیا اور اپنا راجہ بنا لیا۔
اصل میں پھاٹک کھلا تو سب سے آگے یہی نظر آیا تھا۔
یہ داستان کس ملک کی ہے۔ مرکزی کردار اس بارے میں گومگو کا شکار ہے۔
کہانی کا اگلا قدم یہ ہے کہ ڈاکٹر جب کلینک سے حیران و پریشان گھر آیا تو سبھی لوگ سوچکے تھے۔ بیوی نے انتظار کر کے کھانا ڈائننگ ٹیبل پر رکھ کے ڈھک دیا تھا۔
ڈاکٹر یہ سوچ کر کمرے میں داخل ہوا کہ ملحق غسل خانے میں ذرا منہ ہاتھ دھو لے تو کھائے، مگراس کا موقع کہاں ملا؟ وہ جیسے ہی کمرے میں داخل ہوا، فضا میں تیرتا ایک منحنی سا نقطہ ڈاکٹر کی گردن سے ٹکرایا اور ڈاکٹر کی گردن اس کے جسم سے الگ ہو کر ایک کنارے گر گئی۔
ڈاکٹر کے گرنے کی آواز سے بیوی کی نیند ٹوٹ گئی، منظر دیکھ کر وہ چیختی ہوئی اور سینہ پیٹتی ہوئی کمرے کے باہر بھاگی۔ اس کی آواز سن کر ڈاکٹر کے ماں باپ اوردوسرے لوگ بھی اپنے اپنے کمروں سے باہر نکلے، بیوی نے روتے چیختے ہوئے کمرے کی طرف اشارہ کیا سب کمرے میں داخل ہوئے اور دم بخود رہ گئے۔
ڈاکٹر کی موت کے بعد جو کچھ ہونا تھا وہ ہوا، اس سلسلے کی آخری دو خاص باتیں یہ ہیں کہ موت کے دوسرے دن جب پوسٹ مارٹم کی رپورٹ سامنے آئی تو اس میں پوسٹ مارٹم کی روایتی یافت (فائنڈنگ) کے بجائے ایک تصویر تھی جس میں ایک انگلی ڈاکٹر کی گردن ریتتی نظر آئی۔
دوسری قابل ذکر بات یہ کہ ڈاکٹر کے چھوٹے بھائی نے سی سی ٹی وی کیمرے سے موت کے دن کی تصویریں دیکھنی شروع کیں تو اس نے دیکھا کہ ڈاکٹر کے گھر میں داخل ہونے کے وقت سے پانچ منٹ پہلے ایک موہوم سا نقطہ صدر دروازے کے پاس پہنچا، اس وقت گھر کے دونوں کتوں نے شور مچانا شروع کیا۔ گھر کے سب لوگوں کو بھی یاد آیا کہ نو ساڑھے نو کے درمیان کتے آسمان کی طرف منہ اٹھا کر زور زور سے بھونکنے لگے تھے۔ گھر کے لوگوں نے کتوں کو ڈانٹا بھی تھا، پچکارا بھی تھا، پھر تنگ آ کر دونوں کو ان کے رہنے کی جگہ پر لے جا کر باندھ دیا گیا تھا، مگر اس کے بعد بھی وہ بھونکتے رہ گئے تھے۔
بہر حال! وہ موہوم نقطہ صدر دروازے سے داخل ہوا اور اس کا سیدھا رخ تیر کی طرح ڈاکٹر کے کمرے کی طرف تھا مگر ایئر کنڈیشنڈ کمروں کا معاملہ یہ ہے کہ ان کے دروازے عموماً بند رہتے ہیں اور کھولنے پر کھلتے ہیں، لہذا نقطہ دروازے تک جاتا تھا اور ٹکرا کرواپس آ جاتا تھا۔ اسی جانے اور آنے کے درمیان کسی وقت گھر کا کوئی فرد کمرے میں داخل ہوا، اور سی سی ٹی وی میں صاف نظر آیا کہ اس وقت وہ نقطہ بھی اندر داخل ہو گیا، مگر اندر داخل ہو کر بھی وہ اس وقت تک کمرے کے طول و عرض میں چکر کاٹتا رہا جب تک خود ڈاکٹر کمرے میں داخل نہیں ہوا اور شوہر کے قتل کے بعد جیسے ہی بیوی روتی چیختی باہر نکلی، نقطہ بھی باہر نکل گیا اور گھرکی فضا میں تحلیل ہو گیا۔ اس کے بعد سی سی ٹی وی کیمرہ بالکل سفید تھا۔
جس نے بھی سنا اس کے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔
’’خدا کی پناہ! یہ واقعہ ہے کہ خواب ہے کہ خیال ہے کہ مفروضہ ہے ؟‘‘ کئی طرف سے سوال اٹھا۔
’’لیکن بیوی تو کمرے میں تھی، اس کا قتل کیوں نہیں ہوا؟ سوال پر سوال ہو رہا تھا۔
یہ واقعہ ہے اور سچا واقعہ ہے اور بیوی کو اس لیے کچھ نہیں ہوا کیونکہ وہ نقطہ اصلی شے نہیں تھا بلکہ عمل کا سیمیائی اثر تھا اور اس عمل میں عامل نے ڈاکٹر کا ہیولا بنا کراس کے چاروں طرف کچھ لکھ کر اس کا نام بھی لکھا ہو گا اور اس ہیولے پر اور نام پرسوئیاں چبھوئی ہوں گی۔
مگر یہ تکیے کا عمل معلوم نہیں ہوتا، یہ سب سفلی عمل میں ہوتا ہے اور عموماً او گھڑا سے شمشان میں مہاکال کے دن مردے کی کھوپڑی میں شراب پی کر کرتے ہیں۔ ‘‘ کسی سننے والے نے رائے ظاہر کی۔
’’اب جس نے بھی کیا ہو مگر ایسی باتیں اس کے آنے کے بعد کثرت سے شروع ہو گئی ہیں۔ ‘‘
’’ہاں ! ایسا عمل جس میں آپ اصل مجرم کی گرفت نہ کر سکیں۔ ‘‘
’’اور جس کی تاویل میں دشواری پیش آئے۔ ‘‘
’’یعنی آپ جو کہیں دوسرا اس کو اپنی دلیل سے غلط ثابت کر دے۔ ‘‘
’’اور ان سب کا نتیجہ ہمیشہ کمزور کے خلاف جاتا ہو۔ ‘‘
تس پر ایک دوست ہنسا ’’نتیجہ کمزور کے حق میں آیا کب ہے۔ ؟‘‘
’’ہاں سو تو ہے۔ ‘‘
زیادہ تر دوست تھک ہار کر، اس کے سوا کچھ نہ کہہ سکے اور محفل برخاست ہو گئی۔
کہانی کا مرکزی کردار جب گھر کی طرف چلا تو رات آہستہ آہستہ اپنے پر پھیلانے لگی تھی۔
گر می کی رات بہت کھلی کھلی رہتی ہے، چاند دکھائی دیتا ہے، ہوا خوشگوار محسوس ہوتی ہے، اگر گرم ہوا ہے تو ناگواری کا احساس بھی واضح رہتا ہے، دکانیں دیر تک کھلی رہتی ہیں۔ لوگ آتے جاتے دکھائی دیتے ہیں، رات گرنے پر آئے تب بھی سڑکیں سناٹی نہیں ہوتیں، کتے خوب خرمستی کرتے ہیں، بلیاں جی بھر کے راستہ کاٹتی ہیں، اورسب سے بڑی بات یہ کہ وجود پر پالا گر تا محسوس نہیں ہوتا ہے۔
مگر آج تو عجیب حال تھا، چاند کہیں دکھائی نہیں دے رہا تھا، ہوا محسوس نہیں ہو رہی تھی، دوکانیں بند تھیں، اکا دکا لوگ جلدی جلدی کسی طرف جاتے بلکہ بھاگتے دکھائی دیئے، کسی مکان دکان کے اوٹے پر کوئی بندہ سویا نظر نہیں آ رہا تھا، کتے خموش تھے، بلیاں ناپید تھیں، اور وجود کے اندر ایک عجیب قسم کی ہولناک معدومیت سراٹھاتی محسوس ہو رہی تھی۔
وہ گھر پہنچا تو سبھی منتظر تھے، اسے دیکھ کر سب نے اطمینان کا سانس لیا، اور اس کے باپ نے تنبیہ کی۔ ’’اتنی دیر تک باہر نہیں رہنا چاہئے سورج ڈوبتے ڈوبتے گھر آ جایا کرو۔ ‘‘
اس نے سنا اور خموش رہا، کیا کہتا اور کیسے کہتا، گھر نے جیسے چپ کی چادر اوڑھ رکھی تھی، باپ، تایا، بھائی، بہن، ماں، چچی، بھابھی کسی کے پاس کہنے کے لیے کچھ نہیں تھا۔
کھانے کے بعد جب وہ چھت کی طرف چلا تو باپ نے آہستہ سے کہا:
’’نیچے ہی سو رہو۔ ‘‘
’’کیوں ؟‘‘
اس کیوں کا کسی نے جواب دینا ضروری نہیں سمجھا۔
تھک ہار کر، کچھ دیر بعد، آنگن میں پڑی ایک چار پائی پر وہ لیٹ گیا۔
آج سب بڑے مرد بھی آنگن میں تھے، دادی، ماں، چچی، اور چھوٹے بچے دالان میں چلے گئے تھے۔
رات گرتی گئی مگر گھر پر اور محلے میں ایک مسلسل اور پر اسرار سی خموشی طاری رہی، اسے اندازہ ہوا کہ آس پڑوس کی چھتوں پر بھی آج کوئی نہیں ہے۔
اس نے اپنے ارد گرد ایک شدید قسم کی تنہائی، اداسی اور بھیدوں بھری غیر محفوظیت، بہت شدت سے محسوس کی۔
لیٹے لیٹے بہت دیر گزر گئی، اسے حیرت ہوئی، آج نہ نیند آ رہی تھی، نہ خواب آ رہے تھے، ارد گرد باپ، بڑا بھائی سب لیٹے تھے، چپ تھے اور کروٹیں بدل رہے تھے۔ اسے لگا کوئی بھی سویا نہیں ہے یا سو نہیں پا رہا ہے۔ اسی عالم میں رات کا کافی عرصہ گزر گیا، ساڑھے بارہ سے ایک کے بیچ کا عمل رہا ہو گا کہ اچانک آنگن میں ’’بھد‘‘ کی آواز آئی۔
محسوس ہوا کہ کچھ گرا، مگر یہ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کیا گرا؟
کپڑے کی گٹھری؟ مٹی کا لوندا؟ یا کھانے کی کوئی بڑی سی پوٹلی؟
ابھی وہ سمجھنے کی کوشش ہی کر رہا تھا کہ پھر، بھد بھد کچھ گرنے کی آواز آئی، باپ، تایا، بھائی سبھی اٹھ کے بیٹھ گئے — ان کے بیٹھتے بیٹھتے گرنے کی رفتار تیز ہو گئی— تقریباً سبھی کی چار پائی پر کچھ نہ کچھ گر رہا تھا اور پورے ماحول میں بدبو کے شدید بھبکے اٹھ رہے تھے۔ بڑے بھائی نے جلدی سے اٹھ کر آنگن کا بلب روشن کیا تو کراہت اور خوف سے طبیعت میں گویا سنسنی سی پھیل گئی… اندر سے ابکائی کا زور ہوا اور رونگٹے کھڑے ہو گئے۔
آنگن میں چاروں طرف پیخانہ، کیچڑ اور گاڑھا گاڑھا قے جیسا کچھ مادہ بکھرا پڑا تھا۔
مانو گھر میں ایک ہڑکمپ سا مچ گیا عورتیں چیخنے لگیں، بچے رونے لگے، بھائی غصے میں چیخ چیخ کر کسی انجانے کو برا بھلا کہنے لگا، باپ اور تایا بالکل دم بخود تھے شاید صورتحال کو سمجھنا چاہ رہے تھے اور سمجھ نہیں پا رہے تھے۔ کسی کے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہیں تھی کہ صورت حال گندگی اور سنگ دلی کی اس انتہا تک پہنچ جائے گی۔
اس سچ کو تو تقریباً سب نے مان لیا تھا کہ وہ آ چکا ہے مگر اس کے آنے کا مطلب سنگ باری اور گندگی کا اچھال ہو گا، یہ کہیں کسی کے تصور میں بھی نہیں تھا۔ اب جب وہ دیش کا راجا ہو چکا تھا تو سبھی نے بھلائی اسی میں جانی کہ خموشی سے اس کو برداشت کیا جائے تاوقتیکہ فصیل شہر پر کوئی دوسراشیر نہ آ پہنچے مگر یہ تو حد ہو گئی۔
گھر کے لوگ ابھی حیص بیص ہی میں مبتلا تھے کہ گھر کے باہر بھی چیخ پکار ہونے لگی، اندازہ ہوا کہ لوگ گھروں سے باہر نکل آئے ہیں۔
اب گھر میں بند رہنا کسی کو صحیح نہیں لگا، سب گھر سے باہر آ گئے۔
محلے کے زیادہ تر لوگ میدان میں جمع تھے، اکبر بھائی، شعیب چچا، اظہار دادا، کامل ماموں، عید محمد انصاری، اسماعیل خاں، ابصار ملک وغیرہ وغیرہ
مگر پاس کے محلے میں سناٹا براج رہا تھا۔
سب میدان میں جمع تھے گندگی سبھوں پر چاروں طرف سے برس رہی تھی، کل تک تو باپ کو اور دوسرے لوگوں کو بھی پورا شک تھا کہ محلے ہی کے کچھ شریر لڑکے لوگوں کو پریشان کرنے کے لیے کہیں سے چھپ کر ڈھیلا چلا رہے ہیں مگر آج تو اسٹریٹ بلب کی روشنی میں صاف نظر آ رہا تھا کہ اس قسم کے سارے منچلے لڑکے، پنکو، شمشیر، لڈن خاں، گڈو یہیں پر تھے اوراس کے بعد بھی گندگی لگاتار حملہ آور ہو رہی تھی۔
مگر پاس کے محلے میں سناٹا براج رہا تھا۔
اچانک پنکو، شمشیر خاں، لڈن اور گڈو آگے بڑھے۔
’’کدھر جا رہے ہو؟‘‘ لڈن کے چچا نے زور سے پوچھا۔
ذرا پوچھا تو جائے، وہ لوگ اطمینان سے کیوں سورہے ہیں ؟‘‘
’’اب نیا لفڑا مت کھڑا کرو، خموشی سے یہیں کھڑے رہو۔ ‘‘ ایک بزرگ نے ڈانٹا۔ ’’چچا: ہم لوگ بھی موقع محل سمجھتے ہیں۔ ہم نرمی سے بات کریں گے۔ ‘‘ شمشیر خاں نے اطمینان دلایا اورسامنے کے محلے کی طرف بڑھ گیا۔
چاروں میں سے ایک نے اس محلے کے انتہائی شریف آدمی کے گھر پر دستک دی، اس نے دروازہ کھولا تو گڈو نے بہت آہستگی اور احترام سے پوچھا: ’’چاچا ہم لوگوں نے کیول حال چال پوچھنے کے لیے آپ کو کشٹ دیا۔ ہماری چھتوں پر کہیں سے کچھ پھینکا جا رہا ہے۔ آپ لوگوں کی طرف سب کشل منگل ہے نا؟
’’ہاں بچوا۔ ادھر تو کچھ نہیں ہے۔ ہم تو گہری نیند میں تھے۔ ‘‘
’’آپ آرام کیجئے چچا۔ بیچ رات جگانے کے لیے ہم چھما چاہتے ہیں۔ ‘‘
چاروں نے واپس آ کر رپورٹ دی تو حیرت دوبالا ہو گئی مگر کیا کیا جا سکتا تھا؟ بس اتنا پتہ چل گیا کہ ادھر سکھ شانتی رہے گی اور ادھر پتھراؤ اور گندگی کا سامنا کرنا ہو گا۔
دیر رات تک یہی سلسلہ رہا، گھنٹوں بعد گندگی کی بارش رکی تو لوگ گھروں کی طرف مڑے، اندازہ ہوا کہ اب تو فجر کی اذاں کا وقت قریب ہی ہے۔
دوسرے دن جب دوستوں کی منڈلی پھر جمی تو پتہ چلا کہ یہ بھی کسی ایک محلے کا معاملہ نہیں تھا، ایک طرف کے تمام محلے بے چین رہے اور دوسری طرف سب لوگ بے فکر ہو کر سہانے خواب دیکھتے رہے۔
طبیعت بہت اچاٹ ہو رہی تھی اور دل بے چین تھا، اس بے چینی کو کچھ کم کرنے کی خاطر سب دوست گھومنے کے لیے نکل گئے اور گھومتے گھومتے شہر سے ذرا دور پر واقع چند تن پیر کی پہاڑی کے دامن کی طرف چل پڑے، اس کو پہاڑی کہا جاتا تھا مگر یہ ایک بلند و بالا پہاڑ تھا جو ہر موسم میں جوانوں کا مرکز نظر بنا رہتا۔ برسات میں اس کی چوٹی سے دامن تک ہریالی اور متعدد جھرنوں کا سماں دل لبھاتا جاڑے میں پہاڑ کی خاموشی الگ داستان سناتی— گزرے ہیں اس مقام سے کتنے کارواں۔ اور گرمی میں دامن کوہ میں، سالوں بھر تھوڑا بہت جاری رہنے والے ایک دو جھرنے گھومنے والوں کے لیے تھوڑی سی ٹھنڈک مہیا کر دیتے۔
سب جب روانہ ہوئے تو شام ہو چلی تھی، ہوا کچھ نرم ہونے لگی تھی، بازاروں کی رونق بھی لوٹ رہی تھی، راستے میں اور دکانوں پر زعفران کا چھڑکاؤ محسوس ہوا، ہر طرف سواستیکا نظر آ رہا تھا، سبھی کو کشمیر اور جرمنی کا مزا آ گیا، پھر ایسا بھی لگا جیسے چاروں طرف سرسوں پھولی ہوئی ہے، خلق خدا سودے سلف کے لیے گھروں سے باہر تو نکل گئی تھی مگر ایک طرف والے کافی چوکنا تھے اور جدھر سرسوں پھولی تھی ادھر بسنت رت تھی۔
وہ جب پہاڑ کے پاس پہنچے تو پہاڑ اپنی تمازت بلندی اور عظمت نمائی کے ساتھ موجود تھا، ان سے پہلے کچھ اور منچلے بھی پہنچے تھے اور وہ ایک جھرنے کی ٹھنڈک سے لطف اندوز ہو رہے تھے، مگر حیرت کی بات یہ تھی کہ وہاں پر کچھ حضرات گائڈ کے انداز میں لوگوں کی رہنمائی کر رہے تھے اور بتا رہے تھے :
’’یہ ہزاروں ہزار برس پہلے کے راجہ گرو ایشور ناتھ کا محل ہے۔ اور یہ جو سیڑھیاں آپ دیکھ رہے ہیں، انہی سیڑھیوں سے اس محل تک جایا جاتا ہے۔ ہزار برس پہلے کی پانڈو لپی جو ناگ پور کے شکھچا سنچالک کے پاس سے پراپت ہوئی۔ اس میں اس محل کا پورا وِورن ملتا ہے۔ محل میں ۱۰۵ کمرے ہیں، جن پر ویدک یگ کی اتی سندر ہست کلا کا پرمانٹر ملتا ہے — اور راجہ رانی کا وشرام گرہ—‘‘
وہ اور جانے کیا کیا بولتا رہا، سب دوستوں نے بھاگ لینے میں ہی پناہ جانی۔
’’یہ ایک نیا لفڑا شروع ہوا ہے۔ ‘‘ کچھ دور نکل آنے کے بعد ایک دوست بولا۔ ’’جو ہے اس کو ’نہیں ‘ قرار دے دو، اور جو نہیں ہے اس کو ’ہے ‘ بنا دو۔ ‘‘
سب خموش رہے، شاید کسی چمنی سے دھواں نکل رہا تھا۔ سب کو لگا کہ دم گھٹ جائے گا۔
مرکزی کردار کو یاد آیا، باپ نے سورج ڈوبنے سے پہلے گھر آنے کی ہدایت کی تھی۔
اس کے قدم بے ساختہ تیز ہو گئے۔ وہ تیزی سے گھر کی طرف بھاگ رہا تھا کہ وہ اس کی آخری پناہ گاہ تھا اور سوچ رہا تھا کہ اب کیا باقی ہے ؟
رات تو سر پر کھڑی ہے مگر کیا یہ قصہ رات کی رات ختم ہو جانے والا ہے ؟ یا یہ رات پھیل کر پورے زمان پر چھا جائے گی؟
ایک مرتبہ پھر اسے اپنا وہ خواب یاد آیا جس میں دو بالشتیے یا کم قد کے افراد نظر آئے تھے جن کی آنکھوں میں استہزا تھا اور بے نیازی بھی، اور یاد آیا کہ اسی خواب میں اس نے صحرا کی گرم ریتیلی ہواؤں کو محسوس کیا تھا، شاید کہیں دور انجیر اور کھجور کے درخت بھی تھے، کوہِ قاف کی پریاں بھی تھیں، آمیزن کے خطرناک جنگل بھی تھے، ڈینیوب کی لہروں میں کوئی حلقہ نہیں تھا، راوی اور چناب کا پانی بس ہلکورے لے رہا تھا، البتہ شیونا کی لہریں مضطرب تھیں اور بحر ہند اپنے جوار پر تھا۔ ادھر امیتابھ بچن بہت بوجھل اور قدرے تحکمانہ انداز میں گا رہا تھا… دھیرے بہو گنگا جی، دھیرے بہو جمنا جی!
چاروں طرف بہار یہ کا اعلان تھا مگر پیلی آندھی زور پکڑ رہی تھی۔
مرکزی کردار نے تیز تیز قدم اٹھاتے ہوئے اضطراب آمیز اداسی کے ساتھ سوچا! ’’ہر رات کے بعد دن کو تو بہر حال آنا ہی ہے مگر دن کو تو ہر رنگ کی ضرورت ہے، صبح کاذب ہو، چمکیلی دھوپ ہو، سرمئی شام ہو، شفق ہو، قوسِ قزح ہو اور سرخ آفتاب بھی ہو۔ ‘‘
خیال کی رو کے یہاں تک پہنچتے پہنچتے اس پر یہ بھید کھلا کہ دن کے سب رنگوں میں پیلی آندھی کی حیثیت صرف گھس پیٹھیے کی ہے …
٭٭٭
اک ماندگی کا وقفہ — مشرف عالم ذوقی
’’موت اک ماندگی کا وقفہ ہے
یعنی آگے بڑھیں گے دم لے کر
—میر تقی میرؔ
میں اس پار دیکھی رہی ہوں … گہری دھند ہے — مگر صرف دھند کہاں ہے …؟ برف پوش وادیاں ہیں … لاتعداد گلیشیرس ہیں … جو مسلسل تپش اور موسم کی تبدیلی کی وجہ سے پگھلتے جا رہے ہیں … حد نظر روئیدگی سے بھرپور حسین ترین وادیاں … اور ایک لمحے میں منظر تبدیل ہو جاتا ہے —قدرت کا قہر نازل ہوتا ہے … قیامت خیز لہریں شور کرتی ہیں … شہر کے شہر پانیوں میں ڈوب جاتے ہیں — الیوشا، تم نے سنا… یقیناً تم سن رہے ہو الیوشا… لوگ ایسے بھی گم ہو جاتے ہیں کہ کچھ دن، کچھ مہینے اور کچھ سال بعد تاریخ سے دریافت کرو تو تاریخ کا ’’ٹھٹھا‘ گونجتا ہے کہ کون لوگ…؟ کیا کبھی یہ لوگ تھے …؟ کبھی یہ نام… جسموں میں بھی آباد تھے ؟ کبھی یہ نام تمہاری طرح یعنی زندہ آدمیوں، بھیڑ بکریوں کی طرح انسانی شاہراہوں پر گھومتے ہوئے بھی نظر آتے تھے —؟ محبت کرتے ہوئے … یا انسانی تقاضوں کی رسم کو پورا کرتے ہوئے … الیوشا… کچھ دن کے بعد یہ چہرے تو کہیں محفوظ بھی نہیں رہتے … کوئی ایک آتش فشاں، کوئی ایک برقی لہر، کوئی ایک زلزلے کا جھٹکا… کوئی قدرتی عتاب یا پھر ایک قدرتی حادثہ یا موت… الیوشا— اس وسیع کائنات، اس بر اعظم سے زندہ انسانی چہروں کا کھو جانا… نہیں الیوشا— میری طرف ایسے مت دیکھو اور یقین کرو… میں بالکل ٹھیک ہوں …
الیوشا کون…؟
میرا بیٹا……اور اس وقت اس فلیٹ کی ویران آرام گاہ میں ہم دونوں کا ہی بسیرا ہے … ایک کھڑکی کھولتی ہوں — باہر کی طرف دیکھتی ہوں … دور تک دھند کی چادر بچھی ہوئی… اطراف کے درخت اس دھند میں کھو گئے ہیں — دھند میں راستے بنتے ہیں …اور کھو جاتے ہیں — پھر راستے بنتے ہیں اور کھو جاتے ہیں … چھپن چھپیا کا یہ کھیل چلتا رہا ہے —لیکن یہ کھیل ہونٹوں پر مسکراہٹ نہیں لاتا— اور کہنا چاہئے … میں اندر سے خالی ہوں یا بجھ گئی ہوں — یا صرف کتابیں رہ گئی ہیں جو تھکے ہوئے وجود کے لیے بھی تسکین کا سامان کرنے سے قاصر ہیں — اور ان کتابوں سے ہو کر ارنیسٹ ہیمنگوے، سمندر کا بوڑھا آدمی میرے سامنے نکل کر کھڑا ہو جاتا ہے … الیوشا… تم سن رہے ہو مجھے … اور یقین کے ساتھ یہ میرا وہم نہیں ہے … وہ میرے ساتھ ساتھ اس دھند کا حصہ بن گیا ہے — پھر میری طرف دیکھتا ہے … ’مٹی کا ایک ٹکڑا بھی سمندر بہا کر لے جائے تو زمین کم ہو جاتی ہے … ایک بھی آدمی… ایک بھی آدمی کم ہوتا ہے تو…؟
نہیں، اب مجھے ہنسی آ رہی ہے — اور ان سارے واقعات کو سمیٹنا میرے لیے آسان نہیں — مثال کے لیے … یہ میرے سامنے تا حد نظر دھند کی چادر بچھی ہوئی ہے … اور ایک لمحہ ایسا بھی آئے گا کہ یہ دھند کی چادر تو ہو گی لیکن یہ جسم نہیں ہو گا— یا اسے یوں کہیں کہ وہ روح نہیں ہو گی… جو اس وقت اس جسم کا حصہ ہے — باہر سب کچھ ویسا ہی چل رہا ہو گا… بندر کا تماشہ… شور… بازار کی رونقیں — تیز رفتاری سے بھاگتی ہوئی گاڑیاں — محبت کرتے ہوئے لوگ… بارش کے قطروں کو ہتھیلیوں پہ لے کر روشن، چمکنے والی آنکھوں کے گیت… اخبار… ٹی وی… حادثے … سب کچھ… پھر دیکھنے والے کون ہوں گے …؟ دوسرے لوگ… اور الیوشا— تمہاری زندگی سے وابستہ بھی دوسرے لوگ ہوں گے … ہے نا…؟ یوں چونک کر میری طرف مت دیکھو— اور اس بات کو رہنے دو کہ اس وقت میری دماغی کیفیت ٹھیک نہیں … میں بالکل ٹھیک ہوں الیوشا— اور میں سمجھ نہیں پا رہی ہوں کہ ایک ایسے معمولی سے سوال پر تم اس طرح چونک کر میری طرف کیوں دیکھ رہے ہو— جب سے دنیا قائم ہوئی ہے، کیا یہ سوال کرنے والی میں پہلی عورت ہوں … یا یہ سوال پہلے بھی قائم کیے گئے — یوں حیران مت ہو… اور سنو غور سے میری بات سنو— یہاں ایک حادثہ ہوا ہے — ایک بڑا حادثہ— کچھ لوگ گم ہو گئے ہیں — اور مجھے پولیس میں ان کی گمشدگی کی رپورٹ درج کرانی ہے … کون چلے گا میرے ساتھ؟ تم چلو گے الیوشا— تم بڑے ہو گئے ہو… اور یقیناً تم کو چلنا بھی چاہئے ان میں سے ایک وہ بھی تھا— جس کے ساتھ تمہارا قریبی رشتہ رہا ہے —
٭٭
’’ہم ایک دن ملیں گے — ایک دن اسی دھند میں ملیں گے — ممکن ہے ہم ایک دوسرے کو دیکھ رہے ہوں …ممکن ہے، گفتگو کرنے کی بھی خواہش ہو— مگر یہ بھی ممکن ہے کہ شاید ہم ایک دوسرے سے بات نہ کر پائیں —کھلی آنکھوں سے ایک دوسرے کی موجودگی محسوس کی جا رہی ہو… مگر… کیا اتنا کافی نہیں — کہ ہم ملیں گے — اور ایک دن اسی دھند میں ملیں گے اور پھر دھند سے بھی اوجھل ہو جائیں گے …‘
دھواں دھواں ہوتی ہوئی یادوں میں اس کے یہ مکالمے اب بھی بسے ہوئے ہیں — میں سامنے ہوتی تو وہ بانہیں پھیلا کر میری طرف محبت سے دیکھتا… دور اشارہ کرتا، جہاں … تا حد نظر نیلگوں آسمان کی چادر بچھی ہوتی اور میں خاموشی سے مجسم سوال بنی اُس کی طرف دیکھ رہی ہوتی… پھر وہ مسکرا دیتا— اور کہتا— ایک دن اسی نیلی دھند میں ہم ہوں گے … ہم اسی طرح کھو جاتے ہیں — یا اس وادیِ طلسمات میں ہم اسی طرح کھونے کے لیے پیدا ہوئے ہیں …
کیا وہ سچ مچ کھو گیا ہے …؟
ممکن ہے باہر گیا ہو… ابھی لوٹ کر آ جائے گا— کبھی کبھی وہ جان بوجھ کر دیر سے آتا ہے … مجھے غصہ دلانے کے لیے —
میں نے آنکھیں بند کیں — پھر آنکھیں کھول دیں — الیوشا کی طرف دیکھا…
’وہ پہلے دو تھے …‘
’ہاں —‘
’اور اس کے بعد بھی دو تھے …؟‘
ہاں …
اور ان چاروں سے الگ بھی ایک تھا…
’ہاں —‘
’وہ باپ تھا تمہارا—‘
میں نے ٹھڈی پر ہاتھ رکھتے ہوئے گہری آنکھوں سے بیٹے الیوشا کو دیکھا، جو ناپسندیدگی کی نظروں سے میری طرف دیکھ رہا تھا— عام طور پر وہ اس طرح کی گفتگو کے حق میں کبھی نہیں تھا— مگر یہ الیوشا کی مجبوری تھی کہ میں اس کا ہاتھ تھام کر اس کے کمرے سے اُسے لے کر اس کمرے میں آ گئی تھی، جہاں ہمارا بیڈ روم تھا— اور یقیناً الیوشا کو یہ بات بری لگی تھی— اور اسے بُری لگنی بھی چاہئے تھی— کیونکہ ہمیشہ کی طرح وہ اپنے کمرے میں اپنے لیپ ٹاپ پر جھکا ہوا تھا— اُس کے سر پر چھوٹے چھوٹے بال تھے، یہ بال درمیان سے اٹھے ہوئے آسمان کی جانب تھے — ایک زمانے میں الیوشا کے باپ کو یہ بال سخت ناپسند ہوا کرتے تھے — مگر الیوشا کی ہر بار یہ مضبوط دلیل ہوتی کہ وقت کے ساتھ فیشن بدل جاتے ہیں —جیسے افریقیوں کی طرح اٹھے ہوئے بال اور، ہپّیوں کی طرح پھٹی ہوئی جینس، جو اس وقت وہ پہنے ہوا تھا اور جینس سے میچ کرتی ہوئی ٹی شرٹ… اور یہ بھی حقیقت ہے کہ محض بالوں کی وجہ سے اس کا پرکشش چہرہ یوروپ کے کسی ایک ایسے، جپسی بچے کا تصور پیدا کر رہا تھا جو مجھے کسی بھی صورت میں متاثر نہیں کر سکتا تھا۔ اور الیوشا کی دلیل ہوتی کہ آپ لوگ پرانے زمانے کے ہیں — اور اس وقت الیوشا کا ہاتھ تھامنے والی وہی پرانے زمانے کی عورت تھی جو بدقسمتی سے اس کی ماں بھی تھی— اور یہ بھی حقیقت ہے کہ الیوشا کے لیے، یا ان نئے بچوں کے لیے یہ ماں ہونا کوئی معنی نہیں رکھتا تھا— میں الیوشا کو لے کر کمرے میں آ گئی— اور اس فریم کی طرف اشارہ کیا جو دیوار پر ایستادہ تھا—
’ اس تصویر کو پہچانتے ہونا…‘
’ہاں …‘
اور تمہارے لیے یہ معنی نہیں رکھتا کہ …‘ میں نے ٹھہر کر الیوشا کی آنکھوں میں جھانکنے کی کوشش کی… کہ اس کائنات سے ایک بھی آدمی کم ہو جائے … ہاں ایک بھی آدمی…‘
میں الیوشا کی طرف دیکھ رہی تھی۔ اور اس وقت الیوشا کی حالت یہ تھی کہ وہ مشکوک نظروں سے میری طرف دیکھ رہا تھا— اس کی آنکھیں بغور میرا جائزہ لے رہی تھیں اور ممکن ہے، اس نتیجے پر پہنچنے کی کوشش کر رہی ہوں کہ اس وقت میری دماغی حالت کیا ہے ؟
آؤ میرے ساتھ—‘
میں الیوشا کو لے کر اس کمرے میں آئی، جو اس کا ناپسندیدہ کمرہ تھا۔ اس وقت یہ کمرہ بے رونق بھی تھا اور ویران بھی— پہلے یہ کمرہ اس قدر ویران نہیں ہوتا تھا — جبکہ باپ اس کمرے میں عام طور پر کم بولا کرتے تھے —اور اس کمرے میں چاروں طرف المیرا میں ان کی کتابوں کی حکومت تھی— اور ایک بڑی سی ریوالونگ چیئر تھی، جس پر سر رکھے یا تو وہ کسی سوچ میں گم رہتے تھے — یا پھر سگریٹ کا دھواں چھوڑے ہوئے لکھنے میں گم ہو جاتے تھے۔ کئی بار ایسا ہوا جب میں کمرے میں اندر آتی تو سگریٹ کی مہک سے پریشان ہو کر زور سے چیخ پڑتی—
خدا کے لیے … خدا کے لیے اسموکنگ بند کرو—
’ بند کر دوں گا—‘
’نہیں خدا کے لیے — اور تم سن رہے ہو— اس کمرے سے سگریٹ کی مہک کبھی جاتی بھی نہیں — اور خدا کے لئے الیوشا کے بارے میں سوچو…‘
وہ ہمیشہ کی طرح مسکراتے ہوئے ایش ٹرے میں سگریٹ کی راکھ جھاڑ کر دوبارہ لکھنے میں گم ہو جاتا…
یادوں کی پرچھائیوں سے باہر نکل کر میں نے دیکھا… ریوالونگ چیئر خالی تھی۔ اور المیرا سے جھانکتی کتابوں کے شور اس وقت مجھے پریشان نہیں کر رہے تھے … کتابوں کے شور—‘ میں جب بھی اس کمرے میں داخل ہوتی، ایسا احساس ہوتا کہ اچانک المیرا کی بند کتابوں میں زندگی کی رمق پیدا ہو گئی ہو… پھر ایسا لگتا جیسے کتابیں بولنے لگی ہوں … پھر ایسا ہوتا کہ میں ان کتابوں کی چیخ کی زد میں ہوتی… اور کئی بار ایسا ہوا جب میں نے دونوں ہاتھ سے اپنے کان بند کر لیے — اور سراسیمہ انداز میں اس کی طرف دیکھ کر گویا ہوتی— خدا کے لیے … خدا کے لیے ان کتابوں کا کوئی اور انتظام کرو—
’ لیکن کیا؟‘
’کچھ بھی—‘
’مشکل یہ ہے کہ کتابیں جلائی بھی نہیں جا سکتیں —‘
’جانتے ہو— الیوشا بھی تمہارے کمرے میں آتے ہوئے گھبراتا ہے — اور کہتا ہے، مجھے ان کتابوں سے نفرت ہے — سن رہے ہو تم…‘
حالانکہ ایسی باتیں سن کر عام طور پر وہ مسکرا کر خاموش ہو جاتا تھا— مگر مجھے یاد ہے … وہ طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ میری طرف دیکھ رہا تھا…
’سمندر میں خزانے چھپے ہیں …‘
ہاں —
’ اور اس کے لئے سمندر کے اندر جانا ہوتا ہے … گہرائی تک…‘
’ہاں —‘
’ایک دن وہ اس گہرائی کو سمجھ لے گا… تب اس کے ہاتھ بیش قیمت موتیوں سے بھرے ہوں گے … اور ابھی ان باتوں کا اندازہ لگانے کے لیے تمہاری عمر بہت کم ہے — تم الیوشا سے زیادہ بڑی نہیں ہو…‘
وہ پھر سے کتابوں کی دنیا میں گم تھا اور مجھے یاد ہے، میں زور زور سے چیخ رہی تھی’… تم سمجھتے کیا ہو اپنے آپ کو … میں چھوٹی ہوں … دماغی طور پر میری عمر وہی ہے —جو الیوشا کی ہے … تم یہی کہنا چاہتے ہونا… حالانکہ وہ اپنی کتابوں میں الجھا ہوا تھا مگر مجھے احساس تھا کہ وہ مسکرا رہا ہے — اور یہ مسکراہٹ مجھے کس قدر گراں گزرتی ہے — یہ میں ہی جانتی تھی—
میں نے یادوں کے جھروکے سے باہر نکل کر الیوشا کی طرف دیکھا— اُس کی آنکھیں بجھی ہوئی تھیں — چہرہ سپاٹ—الیوشا کبھی بھی اپنے چہرے سے اپنے جذبات کو عیاں نہیں ہونے دیتا تھا—الیوشا ناگواری کے انداز میں اُس کی طرف دیکھ رہا تھا—
’مجھے کیوں لائی ہو یہاں —؟‘
’وہ یہاں بیٹھتا تھا— اس ریوالونگ چیئر پر— اور دیکھو تو… یہاں میز پر اُس کی کتابیں، کاپیاں، ڈائری ہوا کرتی تھیں — وہ کہاں گئیں …؟ اُس کی ہر چیز وہیں ہونی چاہئے — جہاں وہ رکھتا تھا— تم سن رہے ہو نا الیوشا— وہ آئے گا— اور چیخنا شروع کر دے گا…‘ مجھے ہنسی آ رہی تھی… کوئی چیز نہیں ملے گی تو اُس کا پارہ ساتویں آسمان پر ہو گا— اور دیکھو… لکھتے لکھتے وہ اپنی کرسی سے اٹھ کر اس طرف آتا تھا— یہ کھڑکی باہر کی طرف کھلتی ہے … باہر جامن کے پیڑ بھی ہیں — ہرے ہرے سبز سخت پتے … وہ مجھے چڑھایا کرتا تھا— یہ تمہاری ہتھیلیاں ہیں — اب پہلے کی طرح ملائم نہیں رہیں … قدرت کے سحر میں کھو جانا اسے پسند تھا اور اسی لیے وہ لکھتے ہوئے تھک جاتا تو کھڑکی کھول کر دیر تک باہر کے مناظر میں گم رہتا—‘ میں نے مسکرا کر الیوشا کی طرف دیکھا—
’باہر ٹھنڈی ہوا چل رہی ہے …‘
’ہاں …‘
’دیکھو… جامنیں بھی پیڑوں سے گر رہی ہیں … کبھی کبھی مجھے لگتا تھا— قدرت میں اُس کی کوئی دلچسپی نہیں ہے … مگر محبت… میں ایک لمحے کو ٹھہری— انسان میں محبت کا یہ تخم قدرت ہی ڈالتی ہے … اور اس طرف: یہاں … اُس کی کرسی پر بیٹھ کر دیکھو…‘
الیوشا نے برا سا منہ بنا کر اُس کی طرف دیکھا— ’نہیں —‘
’کیوں —؟‘
مجھے نہیں بیٹھنا— اور سنو ماں … تم اس کی جگہ بیٹھ جاؤ— اور اس کے بعد پہلے تمام معاملات پر نئے سرے سے غور کر لو— تم تو سمجھ رہی ہونا… میں کیا کہہ رہا ہوں …
’ہاں …‘
’ اور جیسا کہ تم نے کہا، وہ پانچ تھے — اور اچانک ایک صبح…‘
’ موسم خراب تھا— پیلی آندھی چلی تھی… تمہیں یاد ہے الیوشا— موسم نے اچانک رنگ بدل دیا تھا— باپ تم کو تلاش کرتے ہوئے کمرے میں آئے تھے … ان کا لہجہ ذرا سا اکھڑا ہوا تھا… یاد ہے ؟ مجھے ان کے لفظ اب بھی یاد ہیں — پالیوشن… یہ انسانی تحفہ قدرت نے ہمیں واپس کر دیا— بہتر ہے الیوشا آج گھر میں ہی رہے — اُسے باہر مت نکلنے دینا… یاد ہے تمہیں …؟‘
’ ہاں …‘
میں کچھ دیر تک بکھری ہوئی کتابوں والی المیرا کو دیکھتی رہی— پھر میرے ہاتھوں نے آگے بڑھ کر ریوالونگ چیئر کے ہینڈل پر لرزتا ہوا ہاتھ رکھ دیا… ایک سہرن وجود میں اترتی چلی گئی— لمس یوں بھی بے جان اشیاء میں جاگتے رہتے ہیں، مجھے پتہ ہی نہیں تھا— کرسی خالی تھی… میں کچھ دیر تک ساکت و جامد کھڑی رہی— پھر کرسی پر بیٹھ گئی— الیوشا واپس اپنے کمرے میں لوٹ چکا تھا— اور جیسا الیوشا نے کہا مجھے تمام واقعات کو نئے سرے سے سمجھنا تھا اور اس کے بعد گمشدہ ہستیوں کی تلاش میں باہر نکلنا تھا—
میں کرسی پر بیٹھ گئی— سر کو پیچھے کیا— آنکھیں بند کر لیں — اب میرے لیے واقعات کی سرنگ میں اترنا آسان تھا اور شاید میں ایسا کر سکتی تھی—‘
٭٭
آئندہ صفحات میں موت کے بارے میں کوئی تذکرہ نہیں ہو گا— مگر اس بات کا اشارہ ضروری ہے کہ موت مجھے ڈراتی ہے اور موت کا احساس مجھے پاگل کرتا ہے — حالانکہ وہ زندہ تھا تو موت کو لے کر اُس کے خیالات مختلف تھے — وہ اکثر کہتا تھا— زندگی ’کن‘ ہے — ہم ایک سفر پورا کرنے کے بعد’ فیکون‘ میں چلے جاتے ہیں — یہ جو ’کن فیکون‘ ہے — اسے ایک گول دائرہ یا بچوں کی، بائیسکل کی چین سمجھ لو— ہم اس یونیورس میں قرنوں، صدیوں سے بڑھتے اور پھیلتے جا رہے ہیں — ہم اس کائنات میں کس جگہ ہوں گے نہیں معلوم— لیکن یاد رکھو— کوئی بھی — اُس نے زور دے کر کہا، کوئی بھی جو ہماری آپ کی اس دنیا سے جا رہا ہے — وہ واپس نہیں لوٹے گا— ممکن ہے وہ دو مہینے کا بچہ ہو یا سو سال کا— اور یہ حقیقت ہے کہ آپ اُسے نہیں دیکھیں گی— اور ذرا غور کرو کہ ایک شخص سانس لیتا ہے، گوشت پوست کا انسان جو اپنی خواہشوں کے محل تعمیر کرتا ہے … اپنی آسائش کے لیے مکانات اور بنگلے بناتا ہے — ڈسکو جاتا ہے — موسیقی سے لطف اٹھاتا ہے — اور گھر کے افراد کے ساتھ ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھا ہوا کھانا بھی نوش فرماتا ہے اور گپیں بھی ہانکتا ہے — اور ایک دن اچانک وہ کائنات کے کسی بلیک ہول میں پھینک دیا جاتا ہے — اور ذرا غور کرو تو انجمن…( کبھی کبھی اچانک وہ میرے نام کو مسکرا کر لیا کرتا تھا— اور اتنے پیار سے کہ مجھے اپنے نام سے محبت ہو گئی تھی…) انجمن… اس نے دو بار اس لفظ کو دہرایا… اور ذرا غور تو کرو … حالانکہ اب وہ ایک انجان سیارے، کہکشاں یا بلیک ہول کا حصہ ہے — مگر آپ اُسے تلاش کر رہے ہیں — اُسے تلاش کرتے ہوئے ڈرائنگ روم سے کچن اور بیڈ روم تک آتے ہیں — ڈائننگ ٹیبل پر بھی آپ آنکھیں پھیلا کر اُس کرسی کو بار بار دیکھتے ہیں، جہاں وہ ہوا کرتا تھا— مطلب بیٹھا ہوتا تھا اور اب وہ کرسی خالی ہے … ذرا غور تو کرو انجمن… اور کتنی عجیب بات، بلکہ میں کہتا ہوں، اداس کرنے کی بات کہ ایسے ہزاروں لوگ، کبھی جن کے دم سے یہ ہماری بزم آباد ہوا کرتی تھی— اور ہم یہ سوچنے سے قاصر تھے کہ آیا ایک دن یہ نہیں ہوں گے — اور نہیں ہوں گے تو ان کے نہ ہونے سے ہماری زیست کے طریقوں میں کیا فرق آئے گا… مگر انجمن—‘ وہ ہنسا تھا— اب ان لوگوں کی کہانیوں کو بھولے ہوئے بھی زمانہ ہو گیا… لیکن دیکھو تو… ہم زندہ ہیں اور مسکرا بھی رہے ہیں — ہم ان کے بغیر بھی زندہ ہیں، ایک زمانے میں جن کے گم ہونے کا تصور بھی محال تھا— مگر دیکھو تو… آج ہم زندہ ہیں کہ نہیں …؟‘
حالانکہ اس طرح کے موضوعات پر گفتگو کی گنجائش کم ہی پیدا ہوتی تھی مگر میں جانتی تھی، گمشدگی کا کوئی بھی واقعہ اُسے پریشان کر جاتا ہے —سیلاب میں کسی شہر یا گاؤں کا گم ہونا… یا مثال کے لیے پرانی عمارتوں کی جگہ نئی عمارتوں کا بننا، یا مثال کے لیے جب اُس کے پرانے گھر کا بٹوارہ ہوا… تو وہ نئی عمارت کے بن جانے تک بہت دنوں تک اداس رہا— وہ اشارہ کرتا تھا— وہاں ہم کھیلا کرتے تھے — اور اُس جگہ ایک چھوٹا سا کمرہ تھا— وہ وہاں پڑھائی کرتا تھا— اور دیکھو— وہ بالائی منزل پر دائیں طرف والا کمرہ— وہاں ایک زمانے تک دادا حضور اور ابا حضور کی کتابیں ہوا کرتی تھیں — اب یہ جگہ بھائیوں کے حصے میں چلی گئی… اور مثال کے لیے وہ مسکرانے کی کوشش میں کہا کرتا کہ ایک دن اُسے علاء الدین کا چراغ ملے گا… اور دیکھنا تمام پرانی چیزیں اصل حالت میں لوٹ آئیں گی… وہ مسکرا کر کہتا… ایف آئی آر درج کراتے ہیں — میں پوچھتی— ایف آئی آر میں کیا لکھواؤ گے — اُس کی آنکھوں میں بچپن کا عکس لہراتا— وہ مسکراتے ہوئے گویا ہوتا… کچھ بھی لکھوا دوں گا… ایک پرانا شیونگ کٹ، میری بائیسکل، جسے میں چھوٹی عمر میں چلایا کرتا تھا— اور میرے بڑے ہونے کے بعد بھی اسٹور روم میں محفوظ تھی— ایک لکڑی کا بلّا، جسے کچھ دنوں تک میں نے کرکٹ کے طور پر استعمال کیا… اور تمہارے ہونے کا مکمل احساس جو وہیں رہ گیا ہے … تمہیں یاد ہے انجمن… جب پہلی بار شادی کر کے تم گھر آئی تھیں … تمہیں یاد ہے …
’تو وہ مکمل احساس اب تمہارا حصہ نہیں —‘
اُس کی آنکھوں میں اچانک بہاروں کی جگہ خزاں لرزتی ہوئی نظر آئی… وہ گلزار کے لفظوں میں آہستہ آہستہ کہہ رہا تھا… آدھا بھیگا پن وہیں رہ گیا… آدھا میں اپنے ساتھ لے آیا— آدھے، بیقرار رت جگوں کے شکارے وہیں رہ گئے — آدھے میرے ساتھ آ گئے … آدھی انجمن وہیں رہ گئی… وہ دبلی پتلی سی— دوڑ کر میری پیٹھ پر سوارہو جانے والی… اور یاد ہے انجمن… وہاں بڑی بڑی سیڑھیاں تھیں — اور میں تمہیں گود میں اٹھا کر سیڑھیوں سے ہوتا ہوا چھت پر لے جاتا تھا… میرا بھی آدھا سرمایہ وہیں رہ گیا— آدھا میں اپنے ساتھ لے آیا…‘
دھند بڑھ گئی ہے … الیوشا نہیں ہے۔ چاروں طرف کتابوں کے درمیان صرف ایک اداس موسیقی کی گونج رہ گئی ہے۔ میں اچانک چونک گئی ہوں … وہ وہیں ہے … اپنی کرسی پر موجود… میں اسے دیکھ سکتی ہوں … اس کے ہاتھوں میں ابھی بھی سگریٹ کا آدھا ٹکڑا ہے … وہ شاید کچھ سوچ رہا ہے … ممکن ہے، کچھ لکھنا چاہتا ہو… کیا وہ سچ مچ ہے یا میرا وہم… کیا میں آگے بڑھ کر اسے پہلے کی طرح چھو سکتی ہوں … وہ ہے … یا وہ نہیں ہے … ہونے اور نہ ہونے کے درمیان میں اس دھند کا احساس کر سکتی ہوں جو تیزی سے کمرے میں پھیل رہی ہے … پہلے کتابیں غائب ہوئیں … پھر وہ کرسی بھی… میں دھند اور تاریکی کے درمیان معلق ہوں … میں الیوشا کو آواز دینا چاہتی ہوں … مگر میں ٹھہر گئی ہوں … یہ وہ لمحہ ہے جہاں میں دھند میں تیر رہی ہوں … یا رقص کر رہی ہوں …
سینہ خواہم شرحہ شرحہ از فراق
تابگویم شرحِ دردِ اشتیاق
وصال کے اس ٹھہرے ہوئے لمحے میں، میں ہونے اور نہ ہونے کی منزلوں سے دور نکل آئی ہوں۔
٭٭٭
لمبی ریس کا گھوڑا — مشتاق احمد نوری
آج وہ بہت خوش تھا۔ اس نے اپنے طور پر بہت بڑا تیر مار لیا تھا۔ حالانکہ اس کی بیوی سلمیٰ نے اپنی ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا:
’’ان کے ساتھ تمہیں ایسا برتاؤ نہیں کرنا چاہیے تھا۔ ‘‘
’’اس سے اتنی ہمدردی کیوں ؟ وہ تمہارا رشتہ دار لگتا ہے کیا؟‘‘ اکبر کے جواب میں اس نے کہا:
’’دیکھو اکبر! اس میں رشتہ دار لگنے کی کوئی بات نہیں ہے۔ انہوں نے تمہارا کبھی نقصان نہیں کیا اور نہ ہی ان سے تمہاری لڑائی ہے پھر……؟‘‘
’’تم چپ رہو سلمیٰ۔ تم ان بڑے لوگوں کو نہیں جانتیں۔ یہ دیکھنے میں بہت معصوم لگتے ہیں، لیکن ……‘‘
’’ہوتے ہوں گے ‘‘ سلمیٰ نے بات کاٹتے ہوئے کہا۔ ’’لیکن یہ اشفاق صاحب تو ایسے نہیں ہیں۔ تمہیں بھی معلوم ہے کہ وہ ایک اصول پسند آدمی ہیں۔ تم سے ہمیشہ بڑی محبت سے پیش آتے رہے ہیں ……‘‘
’’چھوڑو ان باتوں کو، تم ابھی میری سیاست نہیں سمجھ پاؤ گی۔ میں ایک عرصہ سے موقع کی تلاش میں تھا، وہ آج مل گیا۔ اب کل کیا ہو گا … دیکھا جائے گا۔ ‘‘ اکبر نے اس معاملے کو ختم کرتے ہوئے کہا۔
سلمیٰ خاموش ہو گئی۔ وہ جیسی بھی رہی ہو کسی کو بلا وجہ ذلیل کرنے کے حق میں نہیں تھی۔ آج بھری محفل میں اکبر نے اشفاق صاحب کے ساتھ ایسا برتاؤ کیا تھا کہ سارے لوگ دنگ رہ گئے تھے۔ سکتے میں تو وہ بھی آ گئی تھی۔ اسے یاد آیا کہ انہوں نے بڑی محبت سے کہا تھا:
’’سلمیٰ تم بھی آنا … تم میری مہمان رہو گی۔ ‘‘
اگر اسے ذرا بھی خدشہ ہوتا کہ اکبر ایسی ذلیل حرکت کرے گا تو وہ ہرگز اس محفل میں نہیں آتی۔ وہ یہ سب سوچ رہی تھی اور اکبر کی نگاہیں خلا میں اٹک گئی تھیں۔ اس کے نہ جانے کون سے جذبے کی تسکین ہوئی تھی کہ وہ بہت پرسکون لگ رہا تھا۔ وہ جسمانی طور پر اپنے ہنومان نگر کے ایم آئی جی فلیٹ میں تھا لیکن اس کی روح بہار کے اس خطے میں بھٹک رہی تھی جہاں گوبھی کے کھیت میں انسانی سر بو دیئے گئے تھے اور اس علاقے نے فساد کی ایسی ہولناکی جھیلی تھی جس کی مثال اس سے قبل نہیں دیکھی گئی۔
اس نے جب سے آنکھ کھولی خود کو ایک ایسے ماحول میں پایا جس سے اسے شدید نفرت تھی۔ چھوٹی سی آبادی والا یہ محلہ ناتھ نگر جہاں دن رات چرکھوں اور کرگھوں کی آواز آتی رہتی، پاور لوم کی گھڑ گھڑاہٹ ان کی زندگی کا ایک اٹوٹ حصہ بن گئی تھی۔ اس گھڑ گھڑاہٹ میں معصوم بچے بھی بڑی میٹھی نیند سونے کے عادی ہو گئے تھے۔ کوئی ایسا گھر نہیں تھا جہاں ہینڈ لوم کپڑے کا کاروبار نہیں ہوتا تھا۔ کہیں مختلف رنگ کے دھاگے رسیوں پر جھول رہتے ہیں کہیں دھاگوں کی رنگائی چل رہی ہے۔ کہیں کپڑے بنے جا رہے ہیں اور کہیں ان کی تھان بنائی جا رہی ہے۔ ایک زمانے میں یہاں کا ریشم پورے ملک میں مشہور ہوا کرتا تھا لیکن اب سب خواب کا حصہ بن گیا تھا۔ نسیم الدین انصاری صاحب بے حد شریف اور ملنسار آدمی تھے۔ ان کا اپنا کاروبار تھا۔ دو چار پاورلوم کے مالک وہ بھی تھے۔ ایک معمولی کاریگر کے پیشہ سے شروع کر کے انہوں نے اپنی محنت مشقت سے اسے کاروبار کا درجہ دیا تھا۔ اصغر علی ان کا پہلا بیٹا تھا جس کی پیدائش پر انہوں نے لڈو تقسیم کئے تھے لیکن جب اصغر علی دس سال کا ہوا تو اسے اپنے نام کا معنی سمجھ میں آیا۔ اس نے خود ہی اپنا نام بدل لیا۔ باپ نے لاکھ سمجھایا لیکن اس کی ایک ہی ضد تھی۔
’’اصغر معنی چھوٹا … کیا میں زندگی بھر چھوٹا ہی رہوں گا۔ اگر رکھنا ہی ہے تو میرا نام اکبر رکھئے۔ اس سے نام کا بھی اثر پڑے گا۔ ‘‘
باپ کیا کرتا … اب اصغر علی، اکبر علی ہو گیا۔ اکبر شروع سے ہی ذہین تھا۔ اس نے اسکول میں اچھے نمبروں سے کامیابی حاصل کی اور مقامی کالج میں داخل ہو گیا۔ اس کے کالج میں داخل ہونے تک نسیم الدین انصاری صاحب کے یہاں یکے بعد دیگرے چھ بچے پیدا ہو چکے تھے۔ کثیر الاولاد ہونے کے ناطے اکبر کے کالج کا خرچ ان کے بوتے کا نہیں تھا پھر بھی انہوں نے بچے کی خواہش کے سامنے ہمت نہ ہاری اور رہی سہی کسر پروفیسر خان نے پوری کر دی۔
جس کالج میں اکبر کا داخلہ ہوا، پروفیسر خان اسی کالج میں پڑھاتے تھے۔ بڑے مخلص شخص تھے اور لوگوں کی دل کھول کر مدد بھی کیا کرتے تھے۔ اکبر کی لگن کو وہ تعریفی نظروں سے دیکھتے تھے اور گاہے بگاہے اس کی مدد بھی کر دیا کرتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ اپنے ہی شہر کا بچہ ہے، پڑھ لکھ جائے گا تو محلے کا بھی نام روشن کرے گا۔ ان کی لڑکی جب میٹرک میں آئی تو انہوں نے اکبر کو اسے ٹیوشن پڑھانے پر رکھ لیا کہ اس طرح اکبر کی مالی مدد بھی ہو جائے گی۔
اکبر نے کبھی بھی اپنے ماحول کو قبول نہیں کیا۔ نسیم الدین صاحب اسے اپنی پشتینی کاروبار میں لگانا چاہتے تھے لیکن وہ سوت دیکھ کر ہی بدک جاتا۔ اسے محسوس ہوتا کہ وہ یہاں رہا تو اس کی قسمت بھی دھاگوں کی طرح الجھ جائے گی۔ جس طرح اتنی محنت سے بنے کپڑوں پر مال داروں کا حق ہوتا ہے اسی طرح اس کی زندگی بھی دوسروں کی غلامی میں چلی جائے گی۔ وہ بڑا آدمی بننے کا خواب بچپن سے ہی دیکھتا آیا تھا اور وہ ہر قیمت پر ان خوابوں میں رنگ بھرنا چاہتا تھا۔ وہ تو وقت کا منتظر تھا کہ کب اڑان کا موقع میسر ہو اور وہ آسمان میں اڑنے لگے۔
’’چائے پی لو، ٹھنڈی ہو جائے گی۔ ‘‘
سلمیٰ کی آواز پر وہ چونکا اور اس کی جانب غور سے دیکھنے لگا۔ نہ جانے آج اسے سلمیٰ کا چہرہ بدلا بدلا سا کیوں لگ رہا تھا۔ چائے سے نکلتی بھاپ کی طرح وہ بھی ہوا میں گم ہونے لگا۔
پروفیسر خان اسے بیٹے کی طرح چاہتے تھے۔ اس کی جلد باز فطرت سے وہ بہت متفکر رہتے تھے۔ اکثر اسے سمجھاتے ہوئے کہتے :
’’دیکھو اکبر … دنیا کے پیچھے بھاگنے سے کچھ نہیں ہوتا۔ تمہاری تقدیر میں جتنا لکھا ہے اسے سے زائد نہیں ملنے والا۔ ‘‘
’’تو کیا ہم زندگی بھر چھوٹے ہی رہیں اور سماج کے یہ سفید پوش زندگی بھر موج مستی کرتے رہیں۔ کیا سارا سکھ وہی لوگ اپنی قسمت میں لکھا کر لائے ہیں۔ ‘‘
’’نہیں، ایسا نہیں ہے …‘‘
’’تو پھر ہم لوگوں کا اس طرح استحصال کیوں ہوتا ہے۔ کپڑے بننے والوں کے بچوں کے جسم پر کپڑے کیوں نہیں ہوتے ؟ یہ کپڑے سفید پوش کو ہی کیوں بھلے لگتے ہیں۔ ہمارے لوگ پشت در پشت اس کاروبار سے جڑے ہیں، وہ اس سے باہر بھی نہیں نکل پاتے کہ باہر نکلنے کے دروازے ان پر بند کر دیئے گئے ہیں۔ ‘‘
پروفیسر خان گفتگو کا رخ دوسری جانب موڑنے میں ہی عافیت سمجھتے۔ اکبر کے اندر جو آگ تھی وہ کسی کو بھی جلا کر راکھ کر سکتی تھی۔ خود اس کا اپنا وجود اس آگ میں جھلس رہا تھا۔ انہیں ڈر صرف اس بات کا تھا کہ کسی نہ کسی دن یہ لڑکا کوئی ایسا گل ضرور کھلا جائے گا جس کی توقع کسی اور سے نہیں کی جا سکتی۔
اور ایسا ہی ہوا۔ اس نے واقعی ایک ایسا گل کھلا دیا جس کی توقع کسی اور سے نہیں کی جا سکتی تھی۔ ایک رات چپکے سے وہ پروفیسر خان کی کم سن لڑکی کو لے کر بھاگ گیا۔ لڑکی نے بس ابھی ابھی میٹرک کا امتحان پاس کیا تھا۔ عمر یہی کوئی پندرہ سولہ کے آس پاس رہی ہو گی۔ ان کی لڑکی کو پڑھانے کے چکر میں وہ خود اس کو پڑھتا رہا اور جب پڑھتے پڑھتے اس نے پوری کتاب ہی چاٹ ڈالی تو آخری ورق پلٹنے میں دیر ہی کتنی لگتی۔
پورے شہر میں بھونچال آ گیا۔ پروفیسر خان جیسے شریف آدمی پر جیسے پہاڑ ہی ٹوٹ پڑا۔ نسیم الدین نے ان کے قدموں میں سر رکھ کر اپنی بے گناہی کا یقین دلایا لیکن اب ہو ہی کیا سکتا تھا۔ وہ لڑکی کو لے کر سیدھے راجدھانی آ گیا اور اپنے ایک پرانے دوست عاصم کے یہاں پناہ ملی۔
خان صاحب نے تھانے میں رپورٹ درج کرانے سے انکار کر دیا کہ رہی سہی عزت بھی خاک میں مل جائے گی لیکن لڑکی کے ماموں اس کی تلاش میں راجدھانی تک آ گئے۔ انہیں سراغ بھی ملا لیکن ساتھ ہی ساتھ یہ خبر بھی ملی کہ لڑکی تین مہینے کے پیٹ سے ہے۔ یہ خبر سن کر خان صاحب رو پیٹ کر رہ گئے۔ لڑکی لے جا کر بھی کیا کرتے ؟ کون کرتا شادی؟ اس جگ ہنسائی کے بعد مزید جگ ہنسائی؟ انہیں درد اس بات کا نہیں تھا کہ بیٹی بھاگ گئی، انہیں تو درد یہ تھا کہ وہ آستین میں سانپ پالتے رہے اور اس نے موقع ملتے ہی انہیں ڈس لیا۔ اکبر کی کمیں گی کی وجہ سے پوری انسانیت سے ہی ان کا یقین اٹھ گیا تھا۔
اس پورے واقعہ کے درمیان جو سب سے زیادہ پرسکون رہا وہ اکبر تھا۔ اس نے کچا کام کرنا سیکھا ہی نہ تھا۔ جب اسے مکمل یقین ہو گیا کہ وہ تین مہینے کی حاملہ ہے تب ہی اسے سکون ملا اور وہ اسے بہلا پھسلا کر لمبے لمبے خواب دکھا کر لے بھاگا۔
’’پاپا … آپ سے کوئی ملنے آیا ہے۔ ‘‘
وہ چونکا۔ اس کے سامنے اس کی بیٹی کھڑی تھی جس نے اس بار آئی ایس سی میں داخلہ لیا تھا۔ سامنے شکلا جی کھڑے تھے جو ایک فنکشن کے سلسلے میں اس سے ملنے آئے تھے۔
’’اکبر جی، اس ڈرامے کے بارے میں آپ سے بات کرنی ہے جس کے شو کے لئے ہم لوگ فنکشن کر رہے ہیں۔ ‘‘
’’آپ نے سلمیٰ سے بات نہیں کی؟‘‘
’’سلمیٰ جی سے تو بات ہو چکی ہے، وہ ابھی شرما جی سے ڈسکس کر رہی ہیں۔ آپ نے اس سلسلہ میں کچھ کہا؟‘‘
’’ہاں …ں …‘‘ وہ کچھ یاد کرتے ہوئے بولا۔
’’میں نے اشوک جی سے بات کر لی ہے۔ وہ اُدگھاٹن سماروہ میں ضرور آئیں گے۔ ‘‘
’’لیکن ان کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ وعدہ کر کے بھی نہیں آتے۔ ‘‘ ڈرتے ڈرتے شکلا جی نے کہا۔
’’نہیں نہیں، ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ میں نے کہہ دیا ہے اور پھر ان کا یہ پروگرام تو سلمیٰ نے طے کیا ہے۔ ‘‘
یہ سن کر شکلا جی نے اطمینان کی سانس لی کیونکہ جب سلمیٰ نے پروگرام طے کیا ہے تو یہ طے ہی ہو گا۔
شکلا جی تو مطمئن ہو کر چلے گئے اور وہ سوچنے لگا:
’’یہ ڈرامہ والے بھی خوب ہوتے ہیں۔ اسٹیج پر کوئی اور ڈراما ہوتا ہے اور پردہ کے پیچھے کوئی اور ڈراما کھیلا جاتا ہے۔ ‘‘
اس نے ایک لمبی سانس لی۔
’’اس کا نام راج نیتی ہے … جو سامنے ہے، وہ نہیں ہے اور جو نظر نہیں آتا وہی سچ ہوتا ہے۔ ‘‘
اس نے بھی کم ڈراما نہیں کیا تھا۔
لڑکی بھاگنے کو تو بھاگ آئی تھی لیکن اب اسے احساس ہو رہا تھا کہ اس نے زندگی کی سب سے بڑی بھول کی ہے۔ اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ اکبر اسے کہیں کا نہیں رکھے گا۔ اس نے جب ڈرتے ڈرتے عاصم کی شکایت کی تھی کہ کس طرح اس نے اس کی غیر موجودگی میں …
’’بھول جاؤ ان باتوں کو۔ ‘‘ اس نے فلسفیانہ انداز میں کہا تھا۔
’’کچھ پانے کے لئے کچھ کھونا پڑتا ہے۔ ‘‘ پھر اس نے بڑی گہری مسکراہٹ کے ساتھ کہا تھا:
’’تم فکر کیوں کرتی ہو، تمہارے پاس اب کھونے کے لئے بچا ہی کیا ہے۔ ‘‘
وہ تو بھونچک رہ گئی تھی۔
’’یا اللہ … میں کیا سے کیا ہو گئی …‘‘ وہ پھوٹ پھوٹ کر رو پڑی تھی لیکن اس کے آنسو دیکھنے کے لئے اکبر اس کے سامنے نہیں تھا۔
اکبر نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا تھا۔ وہ صرف سامنے دیکھنے کا عادی تھا۔ اسی دوران اس کی ملاقات سیاست کے گلیارے کے ایک ماہر کھلاڑی اشوک رائے جی سے ہو گئی۔ ان کے دوست انہیں بگلا بھگت کہتے تھے۔ رائے جی باہر سے معصوم لگتے لیکن اندر سے بہت ماہر کھلاڑی تھے۔ انہوں نے اکبر کو ایک ہی نظر میں تاڑ لیا تھا کہ یہ لمبی ریس کا گھوڑا ثابت ہو سکتا ہے۔
اکبر اپنی کامیابی کے لئے کسی نہ کسی زینے کا استعمال کرتا تھا۔ پہلا زینہ تو خان صاحب ثابت ہوئے تھے جن کی چوکھٹ ہی اکھاڑ آیا تھا اکبر۔ اب رائے جی اس کی ترقی کے لئے دوسرا زینہ تھے۔ رائے جی نے اس کی دھار میں اور شان چڑھایا اور اسے کامیابی کی راہ کے داؤ پیچ سکھائے۔
چار پانچ ماہ بیت گئے، اسی دوران وہ ایک بیٹی کا باپ بھی بن گیا۔ سلمیٰ نے جب پہلی بار اپنی بیٹی کا منھ دیکھا تو وہ اپنے سارے دکھ درد بھول گئی۔ اس کے سامنے حالات سے سمجھوتہ کرنے کے علاوہ کوئی دوسرا چارہ بھی نہیں تھا۔ اس نے کود کو وقت کے دھارے پر چھوڑ دیا۔
سلمیٰ ماں بن کر ایک مکمل عورت ہو گئی تھی۔ کچھ ہی دنوں میں اس کے چہرے میں ایک عجیب سا نکھار بھی پیدا ہو گیا۔ اس تبدیلی کو اکبر نے بھی محسوس کیا پھر اس نے اپنے خوابوں میں رنگ بھرنے کے لئے سلمیٰ کو اور رنگین بنانا شروع کر دیا۔ ادھر سلمیٰ کا رنگ اترتا رہا اور اُدھر اس کے خواب، زمین پر اترنے لگے۔ جہاں بھی اس کا کام اٹکتا وہ سلمیٰ کی سیڑھی لگا دیتا۔ اس کے ذہن میں یہ بات بیٹھ گئی تھی کہ :
’’جس کے پاس بیوی زینہ ہو وہ دنیا کی کوئی بھی بلندی طے کر سکتا ہے۔ ‘‘
وہ اس زینہ کے سہارے زندگی کی ایک سے ایک کامیابی حاصل کرتا رہا۔ اشوک کمار رائے بھی سلمیٰ پر بہت مہربان تھے۔ پھر کیا تھا۔ اکبر نے ایم اے کیا، نوکری ملنی مشکل تھی اس لئے اس نے ایک این جی او کا رجسٹریشن کروایا۔ اب اس کے ذریعہ سرکاری اعانت حاصل کرتا اور مستی سے زندگی گذارتا۔ ایک این جی او اس نے سلمیٰ کے نام سے بھی رجسٹر کروایا۔ اب یہ دونوں ادارے اس کے خوابوں میں رنگ بھرنے کے لئے کافی تھے۔
اب وہ منزل کی تلاش میں دوڑنے لگا۔
اس کے اندر کانٹوں کا بن اُگ آیا تھا جس سے وہ اندر ہی اندر لہولہان ہو رہا تھا۔ اسے سماج کے اعلیٰ طبقے کے افراد سے شدید نفرت تھی۔ اس کا ماننا تھا کہ انہیں لوگوں نے اس کے طبقے کا استحصال کیا ہے۔ انہیں زمانے سے دبا کچلا سمجھ کر نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ اس کی اس منفی سوچ میں دم تھا، سچائی تھی لیکن اس کا رویہ غلط تھا۔ وہ اعلیٰ سماج کے ہر فرد سے انتقام لینا چاہتا تھا۔ وہ حالات بدلنا نہیں بلکہ ایسے حالات پیدا کرنا چاہتا تھا کہ جو خود اس کے لئے گھاتک ثابت ہو رہے تھے۔
وہ ایک عجیب سی احساس کمتری کا شکار تھا۔ محفلوں میں کسی بات پر بحث کرنا تو دور کی بات وہ لوگوں سے آنکھ ملا کر گفتگو بھی نہیں کر سکتا تھا۔ اپنی بات منوانے کی صلاحیت بھی اس میں نہیں تھی۔ وہ صرف دوسروں کو گالیاں دے سکتا تھا۔ ان کا مذاق اڑا سکتا تھا اور اس کی منفی سوچ جس ڈگر پر اسے ڈالتی وہ چلنے لگتا۔ یہ اس کی منفی سوچ ہی تھی کہ اس نے اپنے سب سے بڑے محسن پروفیسر خان کے ساتھ سب سے بڑا دھوکہ کیا تھا۔ در اصل اس نے اونچے طبقے سے انتقام لیا تھا۔ کس بات کا؟ یہ تو اسے بھی معلوم نہیں تھا۔
سلمیٰ کو اس نے واقعی ایک زینہ بنا کر رکھ دیا تھا۔ شروع شروع میں سلمیٰ کو یہ سب ناقابل برداشت لگا، پھر قدرے اَٹ پٹا اور اب اسے ایک عجیب سا لطف بھی آنے لگا تھا اور کبھی کبھی تو وہ خود ہی بڑھ کر اس کی ترقی کے لئے زینہ بن جاتی تھی۔
ایک بار اکبر نے محسوس کیا کہ جب سے رائے جی کی مہربانیاں بڑھی ہیں سلمیٰ پر اس کی گرفت ڈھیلی پڑتی جا رہی ہے۔ اس نے اشارتاً یہ بات سلمیٰ سے کہہ بھی دی لیکن سلمیٰ نے بہت واضح الفاظ میں جواب دیا تھا:
’’ دیکھو اکبر، میں تو نسیم سحری کی طرح معصوم تھی۔ تم نے میری معصومیت کی ردا کو خود ہی تار تار کر دیا۔ اب تو تم نے مجھے بادِ سموم بنا دیا ہے اور میں اس ڈگر پہ چل پڑی۔ اس ڈگر پر میں اپنی مرضی سے نہیں آئی بلکہ تم نے اپنے فائدے کے لئے مجھے یہاں پہنچا دیا۔ میں جب رکی تو تم نے دھکے مار کر آگے بڑھایا اور جب کہ میں اس ڈگر پر بڑھ آئی ہوں تو اس کی بھی کچھ اپنی پرمپرائیں ہیں، کچھ سیمائیں ہیں اور کچھ مجبوریاں ہیں، اس لئے میں اس کا النگھن کیسے کر سکتی ہوں۔ تمہارے آ کروش کرنے سے کیا ہو گا …؟‘‘
وہ چپ ہو رہا۔ اپنے کئے کا آخر علاج بھی کیا تھا۔
وہ جب سے ہندی ڈرامے میں کام کرنے لگی تھی تب سے اس کی گفتگو میں ہندی الفاظ کثرت سے در آئے تھے۔ وہ بات بات میں آ کروش، سنگھرش، نپنسکتا، جیسے الفاظ کا استعمال کرتی تھی۔ نہ جانے اس کے ذہن میں کون سی گتھی الجھی ہوئی تھی کہ وہ ایسے الفاظ کا استعمال بات بات میں کرنے لگتی۔
پورے شہر میں اس کے گھر کا نام ہی ’’زینہ گھر‘‘ پڑ گیا تھا۔ وہ جدھر سے بھی گذرتا لوگ چپکے سے کہتے :
’’وہ دیکھو، زینے والا جا رہا ہے۔ ‘‘
یہ سب سن کر اس کے اندر کانٹے کا بن اور پھیل جاتا اور اس کے جی میں آتا کہ وہ سارے زمانے کو لہو لہان کر دے۔
اسی دوران بنگال میں ایک یوتھ فیسٹیول کا انعقاد ہوا۔ اس میں سلمیٰ کو بطور خاص مدعو کیا گیا اور دل رکھنے کے لئے دعوت نامے میں اس کا نام بھی جوڑ دیا گیا۔ سلمیٰ پہلی بار باہر نکلی تھی۔ بنگال کی فضا اس کے لئے نئی تھی۔ وہاں کا کھلا پن اسے بہت بھایا۔ اسی فیسٹیول میں اس کی ملاقات دلیپ گانگولی سے ہو گئی۔ کیا بان کا جوان تھا اور اس کی آواز میں تو ایک جادو تھا۔ سلمیٰ گانگولی کی طرف شدت سے کھینچتی چلی گئی۔ اسے اکبر کے ساتھ دوسروں نے بھی محسوس کیا، خصوصاً شرما جی جو سلمیٰ کے ساتھ ہی آئے تھے۔ انہیں لگا کہ اب سلمیٰ ان کے ہاتھ سے بھی پھسل جائے گی۔ اس لئے انہوں نے اکبر کا کان بھر دیا۔
اکبر نے اسی رات ہوٹل کے کمرے میں سلمیٰ کو خوب کھری کھری سنائی۔ سلمیٰ نے بھی ترکی بہ ترکی جواب دیتے ہوئے چبا چبا کر الفاظ ادا کئے۔
’’اکبر علی صاحب … آپ کو یہ یاد ہے کہ آپ میرے پتی پرمیشور ہیں، لیکن آپ نے آج تک مجھے ایک پتنی کا درجہ نہیں دیا۔ صرف بچہ پیدا کر دینے سے میں آپ کی پتنی نہیں ہو گئی۔ ‘‘
وہ رکی اور اس کی جانب نفرت بھری نظروں سے دیکھتی ہوئی…
’’آپ اپنے فائدے کے لئے مجھے دوسروں کے پہلو میں بھیجتے رہے۔ یہ آپ کی نپنسکتا نہیں تو اور کیا تھی۔ میں جب آپ کی مرضی سے یہ سب کر سکتی ہوں تو پھر جب اپنی مرضی سے کر رہی ہوں تو آپ کو آ کروش کیوں ہو رہا ہے ؟ یہاں آپ اصول پرست ہو گئے ؟ نہ جانے آپ کس اصول کی بات کرتے ہیں جس نے زندگی بھر صرف نفرت کرنا سیکھا ہو وہ مجھے محبت کا درس دے رہا ہے ؟‘‘
’’چپ رہو سلمیٰ … تم میرے صبر کا امتحان مت لو اور نہ ہی میری مرضی میں دخل دو۔ ‘‘ وہ چیخا
’’میں دخل کہاں دے رہی ہوں۔ دخل تو آپ دے رہے ہیں۔ نو سوچوہے کھلا کر آپ بلی کو حج پر کیوں بھیجنا چاہتے ہیں ؟‘‘
اس رات دونوں میں خوب بک جھک ہوتی رہی۔ سلمیٰ نے بھی عاجز آ کر ایک ساتھ نیند کی ڈھیر ساری گولیاں نگل لی لیکن ایسے لوگوں کو اتنی آسانی سے موت کب ملتی ہے۔ جو اس طرح پل پل مرنا سیکھ جاتے ہیں ان کی زندگی بہت لمبی ہو جاتی ہے۔
سلمیٰ کو بھی بچا لیا گیا اور اکبر میاں کی جان میں جان آئی کیونکہ ایک جھٹکے میں انہیں لگا تھا کہ جس زینے پر وہ کھڑے تھے کسی نے اچانک پاؤں کے نیچے سے کھینچ لی ہو۔
بنگال سے واپسی کے بعد سلمیٰ میں ایک خاص تبدیلی محسوس کی جانے لگی تھی۔ وہ قدرے مجبور ہو گئی تھی۔ اس کا باہر نکلنا بھی قدرے کم ہو گیا تھا۔ شرما جی بھی آتے تو وہ ملنے سے انکار کر دیتی۔ اپنی جوانی دونوں ہاتھوں سے لٹانے کے بعد بھی اس کا دم خم باقی تھا۔ اس کی بیٹی مقامی کالج میں پڑھتی تھی اور بیٹا کسی دوسرے شہر میں تعلیم پا رہا تھا۔ اشوک کمار رائے جی نے سی ایم کوٹا سے اس کا داخلہ میڈیکل کالج میں کروا دیا تھا۔ اس کی پوری کوشش رہی تھی کہ وہ اپنا سایہ بچوں پر نہ پڑنے دے۔
بنگال سے آنے کے بعد اس کا زیادہ تر وقت بیٹی کے ساتھ گذرتا جو آئی ایس سی کا امتحان دینے والی تھی اور رائے جی نے وعدہ کیا تھا کہ اس بار بیٹی کا بھی داخلہ کوٹا سے کروا دیں گے۔ اکبر سے اس کی رسمی گفتگو ہوتی رہی۔ اکبر کی سمجھ میں یہ بات نہیں آ رہی تھی کہ سلمیٰ کے دل میں کون سی گانٹھ بیٹھ گئی ہے جو کھلنے کا نام ہی نہیں لے رہی ہے۔
اس نے سوچا وقت کے ساتھ سب کا کس بل نکل جاتا ہے۔ سلمیٰ بھی ہفتہ عشرہ میں نارمل ہو جائے گی۔ سلمیٰ کی مدد سے اس ایم آئی جی فلیٹ تو خرید ہی لیا تھا۔ اب ایک کار بھی آ گئی تھی کیونکہ اب کافی بڑے لوگوں میں اس کی پہنچ ہونے لگی تھی اور مزید ترقی کے لئے اس کے پاس جو زینہ تھا ابھی اس کے امکانات روشن تھے۔
دونوں کے درمیان ایک سرد سی جنگ جاری تھی اور ادھر ایک بڑے نیتا نے اسے ایک ادارے کا چیئر مین بنوانے کی پیش کش کرتے ہوئے کہا تھا:
’’آپ تو مصروف رہتے ہیں۔ آپ سلمیٰ جی کو کل شام بھیج دیجئے گا۔ میں انہیں سارا … سمجھادوں گا اور پھر انہیں بھی تو مہیلا آیوگ کا سدسیہ بنانا ہے۔ چیئر مین بننے کے بعد تو آپ کا ایم ایل سی بننا طے ہے اکبر جی۔ اب تو آپ کے راج ہی راج ہیں۔ ‘‘
گھر لوٹ کر اس نے سارا پلان سلمیٰ کو سمجھا دیا تھا۔ وہ بہت خوش تھا۔ وہ رات بھر رنگین … دیکھتا رہا۔ کبھی وہ خود کو لال بتی لگی کار میں گھومتا ہوا دیکھتا اور کبھی ایوان بالا میں اپوزیشن کو گالیاں دیتا ہوا۔ اسے ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ وہ ایک نہ ایک دن وزارت کی کرسی بھی حاصل کر لے گا۔
صبح سویرے وہ بیدار ہوا تو بغل کا بستر خالی تھا۔ سلمیٰ نے اس پر ایک سلپ چھوڑا تھا:
’’اکبر علی صاحب! آپ نے مجھے ہمیشہ زینے کی طرح استعمال کیا اور میں آپ کی ہر بات مانتی رہی۔ اپنی دنیا کو بے رنگ کر کے آپ کی دنیا رنگین بناتی رہی۔ اب تو میں ایک ایسے راستے پر ڈال دی گئی ہوں جس پر واپسی کے نشان ہوتے ہیں تو ایسی حالت میں جب واپسی ممکن ہی نہیں تو میں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ جب یہی سب کرنا ہے تو پھر اپنے لئے ہی کیوں نہ کروں ؟… زندگی بھر میری آب اتری اور آب دار آپ ہوتے گئے … آپ کو جو بننا تھا آپ بن چکے، اب جو بننا ہے وہ میں بنوں گی۔ چاہے چیئر مین ہو یا ایوان بالا کی ممبری … آیوگ کی ممبری ہو یا وزارت کی کرسی … آپ کی مرضی سے بہت جی چکی، اب اپنی مرضی سے جینے کے لئے میں آپ کا یہ گھر چھوڑ رہی ہوں …‘‘
اس کے ہاتھ میں کاغذ کا سلپ تھرتھرانے لگا۔ اس کے پاؤں کے نیچے سے زمین ہی سرک گئی۔ خوابوں کی فلک بوس عمارت آن واحد میں زمیں بوس ہو گئی۔ اس سے قبل کہ اس کی آنکھوں میں مکمل اندھیرا چھاتا، دروازے سے آواز آئی:
’’پاپا! چائے …‘‘
اس کی بیٹی دو کپ چائے لئے پوچھ رہی تھی:
’’ امی کدھر گئی ہیں پاپا …؟
اس سے قبل کہ وہ کوئی جواب دیتا دروازے سے ہوا کا تیز جھونکا آیا اور اس کے ہاتھوں می تھرتھراتے کاغذ کو اڑا کر کھڑکی سے باہر لے گیا۔ اس نے گھور کر اپنی جوان بیٹی کو دیکھا اور اس کے مرجھائے ہوئے ہونٹوں پر مسکراہٹ رینگ گئی اور اس کی آنکھوں میں پھیلتا ہوا اندھیرا غائب ہونے لگا۔
٭٭٭
باقی عمر اضافی ہے — محمد حمید شاہد
دیم دیم تانوم رے رے ناتانادِر دِر نا رے
’’او۔ او۔ اس نے کھڑکی سے نیچے چھلانگ لگا دی ہے۔ ‘‘
’’چھلانگ لگا دی‘‘
’’کس نے ‘‘
’’ کس نے ‘‘
’’ کس نے ‘‘
’’وہ۔ ۔ ۔ وہ۔ ۔ ۔ جو۔ ۔ ۔ ۔ بارہ سو دو میں بیٹھتا ہے ‘‘
’’کون ؟۔ ۔ ۔ کیا ا ا ا ا ا نام ہے اُس کا؟‘‘
بتانے والے کی گھگھی بندھ گئی تھی۔ میں اندازہ لگا سکتا تھا کہ خوف سے اس کی آنکھیں اور منہ پوری طرح کھل گئے تھے۔ اس کیفیت میں، اُس کا نام ذہن سے پھسل جانا فطری تھا جو باہر بارہویں منزل سے نیچے کود گیا تھا۔
اچانک حواس پر چڑھ دوڑنے والے خوف اورتجسس میں گندھی ہوئی حیرت کی آوازیں باہر کوریڈور سے اندر رِس رِس کر آنے لگی تھیں۔
میں متعجب ہوا؛ ہائیں، تو کیا باہر کی آوازیں بھی اندر آ سکتی تھیں۔
باہر کی آوازیں اندر آتی رہی تھیں، شاید ہمیشہ سے۔
میں ناحق متعجب ہو رہا تھا ؛ یقیناً آوازیں آتی رہی ہوں گی اندر، بس میں ہی دھیان نہ دیتا رہا تھا۔
اب جو دھیان دے رہا تھا، تو اپنی نشست پر بیٹھے بیٹھے اس شخص کو بھی پہچان گیا تھا جس کے حلقوم میں خوف پوری طرح دھنسا ہوا تھا؛ اتنا کہ اسے کود جانے والے کا نام بھی یاد نہ آ رہا تھا۔ مجھے لگا، میں اُن سب لوگوں کی بابت بھی بتا سکتا تھا جو اپنی اپنی حیرت اورتجسس کوسوالوں کی صورت میں اُس پر اُچھال رہے تھے۔
میں نے سامنے دروازے کی سمت دیکھا ؛ وہ پوری طرح بھنچا ہوا تھا۔
’’ہاں۔ ۔ وہ۔ ۔ ۔ اُس طرف۔ ۔ ۔ اُس نے کھڑکی کا شیشہ سرکایا، اتنا کہ اُس میں سے اُس کا بدن باہر نکل سکتا۔ ۔ ۔ اور ر ر اُس نے چھلانگ لگا دی باہر۔ ‘‘
مجھے اندازہ ہو گیا تھا کہ اُس نے اُسی جانب اِشارہ کیا تھا جہاں سے میں کبھی کبھار سورج ڈوبنے کا نظارہ کیا کرتا تھا۔ صبح سے شام تک اس عمارت کے ایک کمرے میں مسلسل بیٹھنا؛ رائیگانی کے احساس کے ساتھ، جی ہاں ! بیٹھنا اور مسلسل سوچنابہت اذیت ناک تھا۔ اس اذیت کو پرے دھکیلنے کے لیے شام چھٹی سے پہلے، جب باقی لوگ لفٹوں میں گھسنے کے لیے، ان کے سامنے اکٹھے ہو چکے ہوتے، یا پھر اس بھیڑ سے گھبرا کر بعجلت سیڑھیوں کی طرف لپکتے اور دھپا دھپ نیچے اُتر رہے ہوتے ؛ کسی اور فلور سے لفٹ پکڑنے کی اُمید میں، میں اس کھڑکی کے پاس پہنچ جایا کرتا۔ سورج ڈوبنے کا منظر دیکھنے کے لیے۔
آپ اسے کھڑکی نہ کہیں، شیشے کا تختہ کہہ لیں، جسے درمیان سے کاٹ کر اوپر نیچے چڑھا کر سرکانے کی گنجائش پیدا کر لی گئی تھی۔ عمارت کا فرش سنگ مرمر کا تھا جو کولہوں کے برابر اُٹھی اس دیوار پر بھی مڑھا ہوا تھا جس کے اوپر یہ شیشہ چلتا تھا۔ کئی بار ایسا ہوا کہ مجھے کچھ زیادہ دیر کے لیے وہاں رُکنا پڑا اور میں نے گھٹنوں اور کمر پر پڑتے انتظار کے بوجھ سے اُٹھتے درد سے نجات کے لیے اپنی پشت شیشے کی کھڑکی کی سمت کی اور بغیر اُچھلے اپنے کولہے مرمریں کگر سے کھسکا کر وہاں بیٹھ گیا تھا۔
وہاں اچھلے بغیر بہ سہولت کولہے شیشے تک کھسکا کر بیٹھا جا سکتا تھا۔ میں بیٹھتا رہا تھا۔ مگر اب اندر رِس رِس کر آنے والی آوازوں سے میں نے اندازہ لگایا تھا کہ وہاں سے شیشہ سرکا کر باہر کودا بھی جا سکتا تھا۔ اور وہ کود گیا تھا، اس سمت جہاں سورج غروب ہوتا تھا۔
باہر دہشت اور سراسیمگی تھی۔ یہ میں اندر بیٹھے بیٹھے جان گیا تھا۔ مگر کیا یہی دہشت اور سراسیمگی میرے اندر بھی نہیں تھی؟ میں نے ادبدا کر اپنے آپ سے سوال کیا تھا۔
’وہ تو ہر کہیں ہے۔ اندر بھی، باہر بھی۔ ‘
’گویا اندر باہر ایک ہوا‘۔ میں نے اپنے تئیں نتیجہ اخذ کیا۔
’میں اندر ہوں یا باہر؟‘۔ ۔ ۔ ایک نئی الجھن سے سینہ جھن جھن کرنے لگا تھا۔
’اگر میں باہر ہوں، تو یہ اندر کون ہے جو سرعت سے اپنے ہی اندر ڈوبتا چلا جا رہا ہے۔ ‘
’اندر کے اندر، ایک گھماؤ میں ‘
میں نے گھبرا کر باہر دیکھا۔ اپنی اس گھومتی کرسی پر دھول کی طرح پڑے پڑے میں باہر بھی دیکھ سکتا تھا اور دیکھنے کے بعد اندازے لگاسکتا تھا:
’ہونھ، تو یوں تھا کہ وہاں، جہاں میں اپنے چوتڑ ٹکا کر بیٹھ جایا کرتا تھا، وہاں اُس نے اَپنے پاؤں ٹکائے ہوں گے اور شیشہ سرکا کر باہر کود گیا ہو گا۔ ‘
۔ ۔ ۔ ہو گا۔ ۔ ۔ نہیں ؛ وہ تو واقعی کود گیا تھا۔
اور محض باہر نہیں باہر اور نیچے۔ بہت نیچے
باہر سے قطرہ قطرہ اندر ٹپکنے والی آوازوں کے ساتھ کمرے کے اندر سمٹا ٹھٹھرا منظر بھی پانی پانی ہو کر جیسے سارے میں ٹپکنے لگا تھا:
دیم دیم تانوم رے رے ناتانادِر دِر نا رے
میری سماعت میں جیسے یہ لَے ابا کے وقتوں سے رَچی بسی ہوئی تھی۔ سارا وقوعہ سیال ہو جاتا ہے اور پھر سے اپنی شکل بنانے لگتا ہے، یوں جیسے راگ ماروا کی بابت سوچتا تو تین تال کی بندش میں دُرت لَے سارے میں رَس گھولنے لگتی تھی۔
موت کا رَس سارے میں گھلا ہوا تھا۔
پی کی جوگن بن گئی
تو گویا موت اتنی رَسیلی اور شہوت بھری ہو سکتی ہے کہ کوئی اس کے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ جما کر اُسے چوس لے یا پھر عین وہاں سے، جہاں کوئی اپنے چوتڑوں پر اوپر والا بدن گرا دیتا تھا، کوئی اور پاؤں جمائے اور کود جائے۔ ٹھیک موت کی آغوش میں۔ یوں کہ وہ اپنا جسم پوری طرح اس کی بانہوں میں سمٹ جانے دے اوپر اور نیچے والے بدن کی تفریق کے بغیر۔ اور پوری طرح موت کی گود کے اندر خود کو دھنس جانے دے، یوں جیسے کھدی ہوئی قبر میں مردہ دھنسا دیا جاتا ہے۔
باہر معدوم ہو جانے والی آوازیں ایک بار پھر رِس رِس کر اندر آنے لگی تھیں۔
بہت ساری آوازوں میں سے ایک آواز : ’’وہ دھپ سے نیچے گرا اور مر گیا۔ ‘‘
کسی انجانی سمت میں بڑے غلام علی کی نقل کرتی ابا کی آواز تھرتھرائی ؛ ’’پی کی جوگن بن گئی۔‘‘
شام سمے سوہنی کو اس رنگ میں سننا مجھے بہت لطف دیتا رہا ہے ؛ ’’ پی کی جوگن بن گئی‘‘
کسی نے دہرایا: ’’ اور دھپ وہ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘
میں نے آنکھیں بند کر لی تھیں اور انہیں موندے موندے موت کے اِس رَس کو ایک ہی ہلے میں غٹک لینا چاہا ؛ دھپ۔ ۔ ۔ پی کی جوگن بن گئی۔
دھیان بندھتے بندھتے ایک بار پھر بکھر گیا تھا۔ نہیں شاید باہر کی آوازوں سے دھِیان بکھرا نہیں تھا، کچھ یوں ہوا تھا جیسے کوئی راگ پوریا چھیڑنا چاہتا تھا؛ ڈھنگ سے گا بھی رہا تھا مگر پلک جھپکنے میں ماروا گانے لگا، انجانے میں۔ زندگی اور موت، دونوں راگ ؛آروہی، اوروہی کے اعتبار سے ایک جیسے ہی تو تھے۔ بیچ میں پلک جھپکنا پڑتا تھا۔
سا۔ نی۔ رے۔ گا۔ ما۔ دھا۔ نی۔ سا
سا۔ نی۔ دھا۔ ما۔ گا۔ رے۔ سا
ایک جیسے کہاں ہیں ؟۔ ۔ ۔ ۔ کہاں ہیں ایک جیسے ؟۔ ۔ ۔ میں نے ادبدا کر خود سے سوال کیا اور دہرایا: موت اور زندگی۔ ۔ ۔ ۔ دونوں کی پہچان گڈ مڈ ہو جاتی ہے لہذا ایک میں نکھاد اور مدھم پر زیادہ زور دینا ہوتا ہے۔
ما۔ دھا۔ نی۔ سا۔ سا۔ نی۔ دھا۔ ما۔ ۔ دھا۔ گا۔ ما۔ گا۔ رے۔ سا
ایک الاپ سارے میں رس گھول رہا تھا کہ جب دھیان میں کھنڈت پڑی تھی۔
’’کوئی اور نہیں تھا پاس، تم ہی تھے نا۔ ۔ ۔ بس۔ ۔ ۔ وہاں ؟‘‘
وہ جس کی دہشت کے مارے آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئی تھیں، اس بار اس نے سہم کر سوال کرنے والے کی طرف دیکھا تھا۔
میں کوریڈور میں ایک بار پھر مجتمع ہو جانے والی آوازوں اور سانسوں کو سن رہا تھا اور جان گیا تھا کہ سب نیچے سے ہو کر آئے تھے۔ میں کرسی سے اُٹھا اور اُس خالی پن کو سارے کمرے میں محسوس کیا، جو نیچے کود کر مرنے والے کے ساتھ ہی اس کمرے میں بھر گیا تھا۔
ہاں، خالی پن بھی جگہ گھیر سکتا ہے۔ بھر جایا کرتا ہے سارے میں، یوں جیسے کوئی پٹ سن کی بوری میں آٹا ٹھونس ٹھانس کر بھرتا ہے۔
گھومنے والی کرسی، جس میں اُس کا وجود دھنسا رہتا تھا، اُس میں خالی پن دھنسا ہوا تھا اور سارا کمرہ جس میں اس کی سانسیں سرسراتی رہتیں وہاں بھی اس کا نیچے گر کر پچک جانے اور بکھر جانے والا وجودٹھنسا ہوا تھا۔
مجھے اپنا بچپن یاد آ گیا۔ ۔ ۔ ابا ایک ساتھ بہت سے تربوز لایا کرتے۔ اب سوچتا ہوں تو یوں لگتا ہے اباکو دو چیزوں سے ہی پیار تھا؛ طنبورے سے اور تربوزسے۔ جب وہ مسلسل ریاض کے بعد کمر سیدھی کرنے اور ہاتھ پاؤں کھولنے باہر نکلتے تو نکڑ والے کی ہٹی سے ایک ساتھ کئی تربوز لے آتے۔ اُنہیں کاٹا جاتا تو ہمیشہ اندر سے سرخ نکلتے۔ سرخ اور رَسیلے۔ ہم شام سمے انہیں کھایا کرتے کہ تب تک وہ گھڑونچی کے کورے گھڑوں کے نیچے پڑے پڑے ٹھنڈے ہو کر اور میٹھے ہو جایا کرتے تھے۔ تربوز آنکنے کا بھی ایک طریقہ تھا ابا کے پاس۔ پہلے وہ ایک طرف سے اُن میں نوک دَبا کر چھری اندر گھونپ لیتے اور چورس ٹکڑا کاٹ کر باہر نکال لاتے۔ اگر تربوز سرخ نہ ہوتا تو وہ اُسے کاٹتے ہی نہ تھے۔ گویا یہ مسترد کر دیا گیا تھا۔ ہم اماں کی آنکھ بچا کر مسترد کیے گئے تربوز اوپر چھت سے نیچے پھینکا کرتے تھے، باہر گلی میں۔ پھر دھپ دھپ سیڑھیاں اُتر کر باہر جاتے۔ وہ ٹوٹ کرساری گلی میں بکھر گئے ہوتے۔ کبھی کبھی ہمیں لگتا، عین وہاں جہاں کوئی تربوز زور سے فرش سے ٹکرا کر بکھرا تھا، وہاں گودا نیچے چپک جاتا تھا۔
’’وہ دھپ سے نیچے آ پڑا تھا، یوں کہ اس کا بھیجا کھل کر بکھر گیا تھا۔ ‘‘ ایک آواز
’’کہیں کہیں اس کا بھیجا فرش پر چپکا ہوا بھی تھا‘‘: ایک اور آواز
’’تم نے دیکھا تھا کہ اس نے خود چھلانگ لگائی تھی اوپر سے ؟‘‘۔ ۔ یہ پہلے والی آواز تھی، شک میں ڈوبی ہوئی۔ ۔ ۔
جس نے اس سارے منظر کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے کا دعویٰ کیا تھا، اس نے سوال سے پہلے اس شک کو پہچانا اور مزید سراسیمہ ہو گیا تھا۔ وہ جواب دینے کے بجائے خوف سے تھر تھر کانپنے لگا۔
’’ وہ دھپ سے نیچے گرا تھا، سر کے بل جیسے اُسے کسی نے دھکا دے دیا ہو۔ ‘‘: ایک آواز
’’ممکن ہے۔ ۔ ۔ ہاں ایسا ممکن ہے۔ ‘‘ :دوسری آواز
’’اگر وہ کودنے کے لیے کھڑکی پر چڑھتا اور کھڑکی کھول کر نیچے چھلانگ لگاتا تو اسے سیدھا نیچے جانا چاہیے تھا پاؤں کے بل‘‘ تیسرے نے حساب لگایا۔
’’لگتا نہیں کہ وہ سیدھا گیا ہو نیچے۔ ۔ ۔ ۔ سر کے بل گرا ہے ؛ تب ہی تو اس کا بھیجا بکھر گیا ہے۔ ‘‘ ایک اور آواز
’’م۔ ۔ م۔ ۔ ۔ مگر اس کے بھیجے کا اگلا حصہ چپکا ہوا تھا فرش پر۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘: خوف زدہ ہونے والی کپکپاتی آواز
ساری آوازیں آپس میں گڈ مڈ ہونے لگی تھیں۔ کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا، کتنے ماتروں کی تالیں تھیں ؛ تین تین ماتروں کی دو اور دیں یا پھر چار چار ماتروں کی چار آوردیں۔ پہلی پر سم تھا، اس کا اسے یقین تھا مگر چوتھی پر تالی تھی یا پانچویں پر ؟۔ ۔ اور۔ ۔ نواں خالی تھا یا تیرہواں۔
دھا تٹ کٹ دھا۔ ۔ ۔ ۔ دھا دھن کڑ دھن۔ ۔ ۔ ۔ تا تٹ کٹ۔ ۔ ۔ ۔ تا تن کڑ تن
میں لمبا سانس لینا چاہتا تھا مگر سارے میں خالی پن بھرا ہوا تھا؛اس کے وجود اور سانسوں کے منہا ہونے سے جس نے بارہویں منزل سے کود کر خود کشی کر لی تھی یا جسے اوپر سے دھکا دے کر مار دیا گیا تھا۔
دھا تٹ کٹ دھا۔ ۔ ۔ ۔ دھا دھن کڑ دھن
وہ باہر اُلجھ رہے تھے اور کسی نتیجے پر نہیں پہنچ پا رہے تھے۔ اور میں اندر الجھ کر شانت ہو رہا تھا کہ دونوں صورتوں میں نتیجہ تو ایک سا تھا ؛ موت سے معانقہ۔
دھَپ۔ ۔ ۔ ۔ پی کی جوگن بن گئی۔ ۔ ۔
پار کرو موری ناؤ بھنور سے
’’بتائیے کہاں سے اس نے چھلانگ لگائی تھی؟‘‘
یہ آواز ان سب آوازوں سے مختلف تھی، جو اب تک رِس رِس کر اندر آتی رہی تھیں۔ میں نے جوتوں کی آواز سے بھانپ لیا تھا کہ باہر پولیس آ گئی تھی۔ یہ سوال انہی میں سے ایک کا تھا۔ پھر یوں لگا وہ سب کھڑکی کی طرف گئے تھے۔ پویس والے نے یقیناً شیشہ ایک طرف کھسکا کر کھڑکی سے نیچے جھانکا ہو گا کہ وہ چیختے ہوئے کہہ رہا تھا : ’’وہاں تو کچھ نہیں ہے ‘‘
سب نے ایک ساتھ اوپر سے نیچے جھانکنے کی کوشش کی تھی کہ سب کی نئی صورت حال کی دہشت سے چیخیں نکل گئی تھیں۔
’’ وہاں تو لاش تھی پچکے اور بکھرے بھیجے والی، وہ کہاں گئی۔ ‘‘ عینی شاہد کا حلق ایک بار پھر حیرت اور خوف سے پوری طرح کھلا ہوا تھا۔
’’ہم نے خود موقع پر ملاحظہ کیا تو وہاں لاش پڑی ہوئی تھی، شاید کوئی اُٹھا لے گیا ہو گا۔ ‘‘ وہ بھاگ کر ایک بار پھر لفٹوں کے سامنے جمع ہو گئے اور ان میں سے کچھ سیڑھیوں سے دھپا دھپ اُترنے لگے تھے۔
جب باہر سناٹا چھا گیا تو میں ہنس دیا۔ اب اندر بھی سناٹا ہو گیا تھا۔
یہی سناٹا ایک لحاظ سے زندگی ہے یا پھر ایک اور اعتبار سے موت۔
میں نے اس سناٹے کی ایک استھائی تخلیق کی ؛ ایک ایسا دائرہ جس میں رہ کر ہی اس سناٹے کو بھوگا جا سکتا تھا۔
مجھے لگا، اس استھائی سے ہی سناٹے کے اس گیت کے بول، تال اور لَے سے تعارف ہو پانا ممکن تھا۔
’’کون تھا وہ جو اُوپر سے نیچے کودا مرنے کے لیے یاجسے دھکا دیا گیا تھا مارنے کے لیے ؟ ‘‘
پولیس والے پھر اوپر آ گئے تھے، سب آوازوں کے ساتھ۔ مگر جواب کا سمے آیا تو جیسے سب کو چپ کا سانپ سونگھ گیا تھا۔
پولیس والوں کو شناخت چاہیے تھی، اس کی جو اوپر سے نیچے گرا تھا مگر اب نیچے نہیں تھا۔
اوپر نہ نیچے۔ لاش وہاں سے غائب تھی، اپنے بکھرے ہوئے بھیجے اور پچکے ہوئے چہرے سمیت۔
’’ اوپر سے اُسے کیسے شناخت کیا جا سکتا ہے جو نیچے نہیں تھا؟‘‘ایک سوال
استھائی سے۔ جی استھائی کا ایک مکھڑا ہوتا ہے ؛ اُسی سے۔
پولیس والے عجلت میں تھے اور کچھ کچھ اُکتائے ہوئے بھی۔ موقع پر سے مردہ غائب تھا۔ اب اگر کوئی وقوعہ ہوا تھا تو اس آدمی کی شناخت سے بات آگے بڑھائی جا سکتی تھی جس کے ساتھ یہ وقوعہ گزرا تھا۔
’’جو مرنے والے یا قتل ہونے والے کی شناخت کر سکتا ہو وہ آگے آئے۔ ‘‘
سب ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے اور پھر اُن کے چہرے یوں بجھنے لگے جیسے دھروکھے پر رکھے ہوئے دیئے کے اندر سے تیل ختم ہو رہا ہو تووہ بجھنے لگتا ہے۔
پولیس والا غصے سے چیخا ’’کیا مرنے والے کی شناخت بھی مر گئی ہے ؟‘‘
استھائی کا مکھڑا ہی شناخت بناتا ہے۔ ایسا چہرہ جو بجھتا نہیں ہے مستقل رہتا ہے۔ یوں جیسے جسم کوئی معدوم ہو جاتا ہے تو چہرہ رہ جاتا ہے ہماری یادوں میں پلٹ پلٹ کر آنے کو۔ کوئی نیچے چھلانگ لگا دے یا اسے اوپر سے دھکیلا گیا ہو، کسی کی کھوپڑی پھیتی پھیتی ہو جائے یا اس کا چہرہ فرش پر زور سے پڑنے سے پچک گیا ہو ؛ وہ پھر بھی رہتا ہے۔ مستقل، جیسے ہوا میں نقش ہو گیا ہو۔
استھائی کا مکھڑا ایک بار تخلیق ہوتا ہے اور بار بار سامنے آتا ہے۔
پولیس والا ایک بار پھر چیخا تھا؛ ’’میں تم سب کو تھانے لے جاؤں گا تو سب یاد آ جائے گا؟‘‘
اُن میں سے ایک کو یاد آ گیا تھا کہ اُن میں سے ایک نے ’’کمرہ نمبر بارہ سو دو‘‘ میں رہنے والے کی طرف اشارہ کیا تھا۔
’’کس نے ؟‘‘ پولیس والے نے بہ عجلت پوچھا؛ جیسے ایک اندھے کیس کا سرا اس کے ہاتھ لگنے والا ہو۔
’’وہ۔ ۔ وہ۔ ۔ ۔ وہ۔ ۔ ۔ ‘‘ اُس نے ادھر ادھر دیکھا مگر اُسے وہ نظر نہیں آیا۔
’’کیا وہ، وہ لگا رکھی ہے تم نے، سیدھی طرح بکو، کون تھا وہ، ورنہ ایسی چھترول۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘
اس سے پہلے کہ پولیس والے کی بات مکمل ہوتی اُسے یاد آ گیا تھا کہ جس نے ’’ کمرہ نمبر بارہ سو دو‘‘ والے کے نیچے کود جانے کا ذکر کیا تھا، وہ خود اُسی کمرے میں بیٹھا تھا۔ اب اگر وہ یہاں نہیں تھا تو یقیناً اپنے آفس میں ہو گا۔ اس نے یہ بات پولیس والے سے کہہ دی۔
’’ کیا مطلب؟۔ ۔ ۔ ۔ جو مرنے والا ہے وہ بارہ سو دو والا ہے، جس نے اُسے دیکھا، یعنی جو عینی شاہد ہے وہ بھی بارہ سو دو والا ہے۔ ۔ ۔ ۔ گویا یہ عینی شاہد جس پر شک کیا جا رہا ہے کہ اُس نے دھکا دے کر اُسے نیچے گرایا ہو گا، وہ دونوں ایک ہیں۔ کیا بکواس ہے یہ‘‘
بس میں اتنا ہی سن پایا تھا۔ اتنا ہی سُن سکتا تھا کہ میرے اندر کوئی انگڑائی لے کر جاگ گیا تھا۔
’’یہ بکواس نہیں ہے ‘‘؛ میں نے کمرے کے اندر سے چیخ کر جواب دیا۔ ’’یہ زندگی ہے اور یہی موت‘‘۔ اور اس پر اضافہ کیا۔ پھر اس سے پہلے کہ وہ بے ہودہ سوالات کے ساتھ دروازہ کھول کر اندر آ جاتے، میں دروازہ کھول کر عین دروازے کے بیچ میں کھڑا ہو گیا تھا۔ آدھا اندر، آدھا باہر۔
باہر کچھ بھی نہیں تھا۔
استھائی کے غیر مستقل حصہ میں ہم سب کا ارتجال پڑتا ہے۔ ساری فسوں کاری، سارا طلسم یہاں ہمارا اپنا ہوتا ہے یہی وہ مقام ہے جو وقت ہو جاتا ہے اور یہیں وہ وقت ٹک ٹک کرتا گزرتا ہے جو مقام میں ڈھل جاتا ہے۔
باہر کچھ نہیں تھا۔
میں چلتا ہوا شیشے کی کھڑکی کے پاس گیا، اور اسے تھوڑا سا ایک طرف کھسکانا چاہا۔ مجھ پر کھلا کہ شیشہ تو وہاں سے کھسکا کر ایک طرف نہیں کیا جا سکتا تھا۔ وہ تو مستقل بند تھا، ہمیشہ سے، ہمیشہ کے لیے۔ میں نے اپنے چوتڑ مرمریں کگر سے کھسکا کر پیٹھ شیشے کی دیوار پر ٹیک دی اور گردن موڑ کر شیشے سے پار باہر جھانکا ؛ وہاں جہاں کچھ نہیں تھا۔ ۔ ۔ موت کا سناٹا، نہ زندگی کا چہچہا۔ مجھے یوں لگا جیسے میری سسک سسک کر جینے والی ساری عمر اضافی ہو گئی تھی۔ اضافی؛ فالتو ہو جانے والی۔ ۔ ۔ فرسودہ، متروک ہونے کے لائق۔ ۔ ۔ ایک ٹک لگا کر اوپر سے نیچے اچھال دی جانے والی۔ وہاں کتنا ہی وقت گزر گیا تھا۔ حتیٰ کہ میں اوب کر واپس کمرے میں طلوع ہوا تو اور طرح کا تھا۔ ایک اضافی عمر کے ساتھ۔ فالتو والا اضافی نہیں، اضافت والا۔ جب میں وہاں پہنچا تو کوئی گنگنا رہا تھا اور اس گنگناہٹ کا رَس سارے میں گھل رہا تھا۔
پار کرو موری ناؤ بھنور سے۔ ۔ ۔ ۔ ۔
میں نے کہا نا استھائی کے غیر مستقل حصہ میں ہمارا استعجال پڑتا ہے۔ تو یوں ہے کہ تال کے شروع ہوتے ہی اگر طبلے والے سے مقابلہ نظر آئے یا سارنگی والے سے مکالمہ۔ راگ کی بڑھت کے ساتھ ساتھ مکالمے اور مقابلے میں شدت آتی جائے اورایسے میں میرے پسینے چھوٹ جائیں توایسا گمان نہ کیجئے گا کہ میرے مقابل موت آ گئی ہے۔ میں تو زندگی کے مقابل ہوں۔ وہ مجھے اوندھا دے یا میں اسے پچھاڑ دوں، ہر صورت میں میری نیا پار جا لگے گی۔
٭٭٭
ناف کے نیچے — صغیر رحمانی
مقام۔ ۔ ۔ شمالی ٹولے کا ایک تاریک کمرہ۔
۔ ۔ ۔ اس سے قبل کہ اژدہا اسے اپنے دہانہ میں بھر لیتا اس کی نیند ٹوٹ گئی اور اس نے گھبرا کر آنکھیں کھول دیں۔ اٹھ کر بیٹھنے کی کوشش کی تو اس کے منہ سے کراہ نکل گئی۔ اس نے محسوس کیا کہ اس کے جسم کا ایک ایک عضو پھوڑے کی شکل میں ٹیس رہا ہے۔ وہ پسینے سے تر بہ تر ہو گیا تھا اور پیاس کی شدت سے اس کا حلق سوکھنے لگا تھا۔ کمرے میں گہری تاریکی تھی اور ہاتھ کو ہاتھ نہیں سجھائی دے رہا تھا۔
آج پھر اس نے وہی خواب دیکھا تھا۔ ایک طویل و عریض بد ہیئت اژدہا اسے چاروں جانب سے اپنے حصار میں جکڑے ہوئے ہے اور اپنے دہانہ کو پھیلا کر اسے ثا بت نگلنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس کے جسم کی ہڈیاں چٹک رہی ہیں اور روح گھٹتی جا رہی ہے۔ اس سے قبل کہ اس کی روح فنا ہو جاتی اور وہ ہیبت ناک اژدہا اسے اپنے سخت دہانہ کی گرفت میں لے لیتا۔ ۔ ۔ اس کی آنکھ کھل جاتی ہے۔ یہ خواب وہ مسلسل کئی راتوں سے دیکھ رہا تھا۔ خواب اس قدر ڈراؤنا تھا کہ اس کا اثر اس کے ہوش و حواس پر کئی کئی دنوں تک مسلط رہتا تھا۔ اور آج تو اس کا پورا جسم گھاؤ ہی بنا ہوا تھا۔
اس کا ذہن ماؤف ہونے لگا۔ اسی کیفیت میں اس نے بمشکل گردن گھما کر بغل میں سو رہی اپنی بیوی اور بچے کو دیکھا۔ تاریکی میں ان کی ناک سے نکلنے والی گھر گھراہٹ کی آواز سنائی دے رہی تھی۔ وہ دھیرے دھیرے اٹھا اور چارپائی سے پیر نیچے لٹکا کر بیٹھ گیا۔ پیاس کی شدت کے باوجود اندھیرے میں پانی کے مٹکے تک جانے کی اس کی ہمت نہیں ہو رہی تھی۔ چارپائی سے پیر لٹکائے وہ گہری سانسیں لیتا رہا۔
اس کی عمر کوئی ایک پینتیس سال تھی۔ اکہرا جسم اور درمیانہ قد ہونے کی وجہ سے ڈنڈوں کی مار اس سے اندر اندر تک حائل کر گئی تھی۔ بیوی نے ہلدی اور چونے کا مرکب پورے جسم پر مل تو دیا تھا لیکن اس نے تنبیہ بھی کی تھی، ’جب جب پروا چلے گی، انگ انگ ٹیسے گا ‘ اور اس کا انگ انگ ٹیس رہا تھا۔
دفعتاً اس کے کانوں میں ایک مترنم اور قدرے مانوس سی آواز ٹکرانے لگی۔ یہ گاؤں کی گول گنبد والی عبادت گاہ سے آنے والی آواز تھی۔ وہ سمجھ گیا کہ رات ڈھل چکی ہے اور اب نور کا تڑکا پھیلنے ہی والا ہے۔ پورے دن میں کل پانچ دفعہ عبادت کے لیے اس آواز کے ذریعہ لوگوں کو مدعو کیا جاتا ہے۔ بلا تفریق سب لوگ ایک ساتھ اپنے معبود کی عبادت کرتے ہیں۔ اس کے حواس ذرا بحال ہونے لگے۔ ایک ایک منظر یاد آنے لگا۔ نکیلے گنبد والی عبادت گاہ۔ ۔ ۔ چارپائی۔ ۔ ۔ چپل۔ ۔ ۔ ڈنڈے۔ ۔ ۔
اس کے باپ کی ایسی ہی ٹیس سے موت واقع ہوئی تھی۔ ٹولے کی سامنے والی سڑک سے بڑے گھر کی سواری نکل رہی تھی۔ شراب کے نشے میں اس کا باپ اپنے گھر کے سامنے چارپائی پر بیٹھا رہ گیا تھا۔ اس وقت تو سواری نکل گئی تھی مگر شام کو بلاوا آ گیا تھا۔ بڑے گھر کے دالان کے ستون سے باندھ کر اس پر اتنے ڈنڈے برسائے گئے تھے کہ اس کا باپ نیم مردہ ہو گیا تھا۔
کسی کم ذ ات کی یہ مجال کہ سامنے سے اشراف گزریں اور وہ چارپائی پر بیٹھا رہ جائے۔ یہ تو خوش آئند بات نہیں ہے۔ یہ کسی طوفان کا پیش خیمہ ہے۔ بڑے گھر کے لوگوں کا خیال ہے کہ۔ ۔ ۔ اس طرح مذہب کا خطرے میں پڑنا لازم ہے اور جب مذہب خطرے میں پڑے گا تو معاشرتی نظام کو درہم برہم ہونے سے کوئی نہیں بچا پائے گا۔ ہر کسی کے لیے حد مقر ر ہے۔ ۔ ۔ آج معاشرے میں سکون اور امن و امان کا فقدان اس لیے ہے کہ طے شدہ کام طے شدہ حدوں کے اندر نہیں کیے جا رہے ہیں۔ ایسی حالت میں افراتفری مچنا فطری ہے۔ مذہب کا پیما نہ ٹوٹنا لازمی ہے۔ اور جب یہ پیمانہ ٹوٹے گا تو معاشرے کا تانا بانا بکھر جائے گا۔ ۔ ۔
اس کے باپ نے مذہب کو خطرے میں ڈالا تھا۔ معاشرتی نظام کو درہم برہم کرنے کی کوشش کی تھی اور وہ مجرم تھا۔
وہ اپنے باپ کے نیم جاں جسم کو اٹھا کر گھر لے آیا تھا۔ کچھ دنوں تک تو اس کا لاغر باپ بستر پر پڑا کھو۔ ۔ ۔ کھو۔ ۔ ۔ کرتا رہا پھر ایک دن اس کی موت واقع ہو گئی تھی۔ اس کے سینے میں اتنی شدید چوٹ تھی کہ وہ زیادہ دنوں تک نہ جی سکا۔ لیکن مرنے سے قبل اس کے پاس ایک امانت تھی جسے اس نے اس کے حوالے کیا تھا۔ اور وہ تھی پشتینی نصیحت۔ ۔ ۔
’ ہم ناف کے نیچے والے ہیں، ناف کے اوپر والوں کی خوشنودی حاصل کرنا ہی ہمارا فرض ہے۔ مجھ سے بھول ہوئی۔ تم ایسی بھول نہ کرنا۔ اپنی حد کو عبور نہ کرنا۔ ‘
اس کے باپ نے اسے نصیحت کی تھی۔ اس کے باپ کو اس کے باپ یعنی اس کے دادا نے یہ نصیحت کی تھی اور اس کے دادا کو اس کے پر دادا نے۔ اسی طرح یہ نصیحت نسل در نسل ان کے درمیان چلی آ رہی تھی۔ اب یہ نصیحت اس کے معرفت اس کے بیٹے تک پہنچے گی۔ اس کے باپ تک اس نصیحت کی خوب پاسداری ہوئی لیکن اس سے بھول ہو گئی۔ وہ بھول گیا۔ اپنے باپ کی نصیحت بھول گیا۔ پشتینی نصیحت کو بھول گیا۔
کل کی بات ہے ـ۔ ۔ ۔
بڑے گھروں کے یہاں سے خدمت گزار کر واپس لوٹ رہا تھا کہ بارش شروع ہو گئی۔ بھیگنے سے بچنے کے لیے نکے لیے گنبد والی عبادت گاہ کے چبوترے پر چڑھ گیا۔ ناپاک کر دیا اس نے عبادت گاہ کو۔ پھر کیا تھا، اس کا بھی بلاوا آ گیا۔ اس نے بہت معافی مانگی، زمین پر ناک رگڑی۔ بیوی نے جان بخش دینے کی منّت کی۔ اسے بھی ذلیل کیا گیا کہ اپنے مرد کی خبر پا کر وہ بد حواس چپل پہنے گاؤں میں بھاگتی آ گئی تھی۔ اس کی جان تو بخش دی گئی لیکن پورا جسم ڈنڈوں سے چور کر دیا گیا۔
اسے اپنے سر میں شدید درد کا احساس ہوا۔ اس کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ اس نے گردن گھما کر ایک بار پھر اندھیرے میں سو رہی اپنی بیوی اور بچے کو دیکھا۔ ان کو دیکھتے ہوئے اس کے اندرون میں تلاطم سا برپا ہوا۔ ’نہیں، ہرگز نہیں۔ ۔ ۔ وہ اپنے بیٹے تک اس پشتینی نصیحت کو منتقل نہیں کرے گا۔ ‘
کچھ لمحوں تک ان کی جانب دیکھتے رہنے کے بعد وہ آہستگی کے ساتھ چارپائی سے اٹھ کر کھڑا ہو گیا۔ تاریکی کے باوجود اسے اندازہ تھا کہ دروازہ کس جانب ہے۔ وہ دھیرے دھیرے دروازے کی جانب بڑھا۔ اس نے دروازہ کھولا تو ایک خوش گوار احساس سے بھر اٹھا۔ کیا ہی خوب منظر تھا۔ تاریکی رخصت ہو رہی تھی اور نسیم سحر میں لپٹی ہوئی نرم روشنی اس کا استقبال کر رہی تھی۔ اس کے انگ انگ میں پیوست درد کو سہلا رہی تھی۔ لمحہ بھر کے لیے وہ سب کچھ فراموش کر بیٹھا۔ وہ کھڑا روشنی کو پیتا رہا۔ دفعتاً اس کے اندرون میں عجیب سی ہلچل ہوئی اور بیک وقت خیال گزرا کہ اندر واپس لوٹ جائے اور بستر پر جا کر سو جائے۔ اس نے گردن گھما کر اندر دیکھا۔ اس نے دیکھا اس کے بستر پر، جہاں وہ لیٹا ہوا تھا، وہاں ایک بڑا سا اژدہا بیٹھا ہوا تھا اور جو اس کے بیٹے کو خوں بار آنکھوں سے گھورے جا رہا تھا۔ ایک بار پھر اس کے ہوش و حواس اڑ گئے۔ اس نے گھبرا کر نگاہیں ہٹا لیں۔ دروازے پر کھڑا وہ گہری گہری سانسیں لیتا رہا۔ کچھ لمحہ بعد اس نے دل کو مضبوط کیا اور لرزتے قدموں سے باہر آ گیا۔
تقریباً پچیس تیس گری پڑی، ٹوٹی بکھری جھونپڑیوں اور کچے مکانوں والا اس کا ٹولہ شمن پورہ گاؤں کے شمالی حصے میں واقع تھا۔ وہ اپنے ٹولے سے نکل کر گاؤں میں داخل ہونے والی سڑک پر آ گیا۔ وہ دورا ہے پر کھڑا ہو گیا تھا جہاں سے گاؤں کے مکانوں کی شروعات ہوتی تھی۔ سیدھی سڑک گاؤں کی گول گنبد والی عبادت گاہ کی طرف جاتی تھی اور سیدھے ہاتھ کی سڑک نوکیلے گنبد والی عبادتگاہ کی طرف۔
نوکیلے گنبد والی عبادتگاہ سے بھی آواز گونجنے لگی تھی۔ وہاں بھی عبادت کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔ اس کے جسم کا ایک ایک حصہ چیخ اٹھا اور اس کے اندرون میں ایک بار پھر تلاطم سا برپا ہو گیا۔ اس نے یاس و حسرت بھری نگاہوں سے نوکیلے گنبد والی عبادتگاہ کی طرف دیکھا اور گہری گہری سانسیں لینے لگا۔ چند ثانیہ وہ بے حس بنا کھڑا رہا پھر سیدھے رستے پر بڑھ گیا۔ وہ جوں جوں گول گنبد والی عبادتگاہ کے قریب پہنچ رہا تھا اس کے قدموں میں تیزی آتی جا رہی تھی۔ اس کے دروازے کے پاس پہنچ کر وہ ایک کنارے کھڑا ہو گیا تھا۔ گاؤں کے اکا دکا لوگ صبح کی عبادت سے فارغ ہو کر واپس جا رہے تھے۔ ذرا دیر بعد ان میں سے معتبر اور نمایاں سا دکھنے والا ایک شخص باہر نکلا تو وہ قدرے لپکتے ہوئے اس کے پاس پہنچا۔
’سنیے، سنیے۔ ۔ ۔ مجھے آپ سے کچھ پوچھنا ہے۔ ر کیے ما لک۔ ۔ ۔ ‘ وہ سرگوشی میں چلایا۔
اس شخص نے اسے اوپر سے نیچے تک دیکھا۔ ’کون ہو بھائی، کیا پوچھنا چاہتے ہو؟‘
’میں۔ ۔ ۔ میں یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ۔ ۔ ۔ کہ کیا میں بھی آپ کی اس عبادتگاہ میں۔ ۔ ۔ ‘ اس نے عبادتگاہ کی طرف انگلی اٹھائی۔ ’۔ ۔ ۔ عبادت کر سکتا ہوں ؟ کوئی روک ٹوک تو نہیں ہو گی نا؟‘
’یہ عبادتگاہ میری نہیں ہے بھائی۔ یہ تو اس کی ہے جو ایک ہے اور جو سب کا مالک ہے۔ اس ایک کو ماننے والا کوئی بھی اس میں عبادت کر سکتا ہے۔ ‘
’اگر میں اس کو ماننے لگوں تو کیا میں بھی اس میں عبادت کر سکتا ہوں۔ ۔ ۔ ؟‘
’ہاں ۔ ۔ ۔ ہاں ۔ ۔ ۔ کر سکتے ہو۔ ۔ ۔ پر تم ہو کون؟‘
’میں۔ ۔ ۔ میں۔ ۔ ۔ اسی گاؤں کے ’شمالی ٹولہ ‘پر رہتا ہوں مالک۔ ۔ ۔ ‘ اس کی آواز میں قدرے لکنت کی آمیزش تھی۔
مطلع صاف ہو چکا تھا۔
صاف روشنی میں وہ شخص اسے بغور دیکھے جا رہا تھا۔
مقام۔ گول گنبد والی عبادتگاہ کا صحن
شام کی عبادت کے بعد وہ سب وہاں یکجا ہوئے تھے۔ سب خاموش تھے اور غور و خوض میں غرق تھے۔ بظاہر تو یہ محض ایک تجویز تھی لیکن اس پر سنجیدگی سے غور و فکر کرنا لازمی تھا۔
’مجھے لگتا ہے، ہمیں اسے اپنی جماعت میں شامل کر لینا چاہیے۔ ‘ کچھ لمحہ کے بعد ان میں سے ایک شخص نے گردن کو جنبش دیتے ہوئے کہا۔
’لیکن جناب یہ بھی تو سوچیے کہ اس کا اثر کیا ہو گا؟‘ ایک دوسرے شخص نے اندیشے کا اظہار کیا۔
پہلے والے شخص نے اپنی گردن کو پھر جنبش دی۔ ’اثر کیا ہو گا بھئی، ہم تو اس کے پاس گئے نہیں ہیں۔ اس تجویز کو لے کروہ خود آیا ہے۔ اس نے خود سے اپنا منشا ظاہر کیا ہے اور یہ تو اچھی بات ہے کہ اس طرح ہمارا حلقہ وسیع ہو گا۔ ہماری مقدس کتاب بھی تو یہی کہتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ تبلیغ کرو اور زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اپنے میں شامل کرو۔ یہ شخص تو خود سے چل کر ہمارے پاس آیا ہے۔ اور پھر ہمارے ملک کے آئین میں بھی درج ہے کہ کوئی بھی بالغ فرد ان تمام معاملات میں اپنا فیصلہ کرنے کے لیے خود مختار ہے۔ ‘اس شخص نے اپنی بات کو واضح کرنے کی کوشش کی۔
’لیکن حضور ہمیں یہ بھی تو دیکھنا ہو گا کہ اس کا اصل منشا کیا ہے ؟ کہیں اس طرح ہمیں فائدہ کے بجائے نقصان نہ پہنچ جائے ؟‘ ایک دوسرے نے پہلے والے شخص سے سوال کیا۔
’ارے بھائی، ظاہر سی بات ہے وہ ہمارے یہاں کی خوبیوں اور اچھائیوں سے متاثر ہو کر ہی ہم میں شامل ہونا چاہتا ہے۔ آخر ہماری مثل۔ ۔ ۔ ہماری نظیر کہیں اور ہے کیا ؟‘ ایک شخص نے فخریہ لہجے میں کہا۔ ’ہمارے یہاں کی مساوات دیکھو۔ ہمارے یہاں کی اخوت دیکھو۔ ہمارے یہاں کا عدل دیکھو۔ ہمارے یہاں کی یکجہتی دیکھو۔ کیا کیا دیکھو گے۔ ہم بلا تفریق شانہ بشانہ ہو کر عبادت کرتے ہیں۔ ہمارا امام کوئی بھی ہو سکتا ہے۔ ہمارے مقدس صحیفے کوئی بھی پڑھ سن سکتا ہے۔ ہمارے ما بین کوئی امتیاز نہیں۔ کوئی بندش نہیں۔ ہم سب ایک رب کو ماننے والے ہیں۔ ‘ ایک سانس میں بولنے کے بعد اس شخص نے ذرا تحمل سے کام لیا اور پھر آگے کی بات پوری کی۔ ’کیا یہ سب کہیں اور ملے گا؟‘
وہاں خاموشی مسلط ہو گئی تھی۔ وہ شخص اپنی تقریر کا اثر جاننے کے لیے وہاں موجود ایک ایک فرد کا چہرہ بغور دیکھ رہا تھا۔
’آپ کی بات سو فیصد درست ہے۔ یقیناً وہ ہماری ان منفرد اور اعلیٰ خصوصیات کی بنا پر ہی ہماری جانب راغب ہوا ہے۔ ‘ ایک شخص نے پہلے والے شخص کی حمایت میں دھیرے سے کہا۔
’چلیے مان لیتے ہیں کہ وہ ہماری اعلیٰ خصوصیات کی بنا پر ہم میں شامل ہونا چاہتا ہے لیکن اس کی طرز زندگی تو الگ رہی ہے ؟ کیسے ممکن ہے کہ وہ ہمارا طریقۂ کار اپنا سکے گا؟‘ بولنے والے نے اپنی دانست میں دور کی کوڑی پیش کی۔
’دیکھئے حضرات، ایک محاورہ ہے کہ خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ بدلتا ہے۔ ۔ ۔ صحبت میں رہے گا تو کیا کچھ نہیں سیکھ جائے گا۔ ہم لوگ یہ نہ بھولیں کہ ہم کوئی براہ راست کھجوروں کے دیس سے نہیں آئے ہیں۔ ہمارے آباء و اجداد یہیں کے تھے اور دوسرے حلقے سے ہی اس میں منتقل ہوئے ہیں لیکن کیا کوئی ہمیں دیکھ کر آج یہ کہہ سکتا ہے کہ ہم پہلے کچھ اور تھے ؟‘
شاید بولنے والے نے کچھ تلخ مثال پیش کر دی تھی۔ کئی لوگوں نے اسے اضطراب میں دیکھنا شروع کر دیا تھا۔
اس شخص کے بولنے کے بعد کافی دیر تک سکوت کا عالم طاری رہا۔
رات کی عبادت کا وقت ہو چلا تھا۔
’حاضرین، ایک شخص جو خود چل کر ہمارے پاس آیا ہے، اگر ہم اس کا خیر مقدم نہیں کریں گے تو ہم گنہگار ہوں گے۔ کل وہ ہمارا دامنگیر ہو گا۔ وہ ہم سے سوال کرے گا اور ہم اپنے معبود کے سامنے مجرم ٹھہرائے جائیں گے۔ کیا اس عدالت میں اس کے سوالوں کا کوئی جواب ہو گا ہمارے پاس؟‘ اس عمر دراز شخص نے بولتے ہوئے اپنے بدن میں لرزش سی محسوس کی۔
لوگ خاموش تھے اور غور و فکر میں مبتلا تھے۔
’ویسے بھی اس گاؤں میں ہم لوگ تعداد کے اعتبار سے کافی کم ہیں۔ ہماری تعداد کچھ تو بڑھے گی۔ ہم کچھ تو مستحکم ہوں گے ؟‘ ایک نئی عمر کے شخص نے ذرا طیش میں آ کر کہا تو یک لخت موجود سبھی کی عقل و فہم کے دروازے گویا واہو گئے۔ نہ جانے کیوں اس کی دلیل سب کو پسند آئی۔ لیکن کچھ لوگوں نے اسے نا پسندیدگی سے بھی دیکھا۔ انہیں اس کی بات گراں گزری تھی۔ نئی عمر کا شخص سٹپٹا گیا۔ اس کو گھور کر دیکھنے والوں میں سے ایک نے، جس کو ان سبھی میں شاید معتبر مقام حاصل تھا، حتمی طور پر بولا۔ ’ہمیں بہر حال یہ یاد رکھنا چاہیے کہ وہ ہماری نمایاں اور اعلیٰ خصوصیات کی بنا پر ہم میں داخل ہو رہا ہے۔ ‘
اس فیصلے پر سبھی کا اجماع ہوا اور سب نے ایک آواز میں کہا۔ ’خوش آمدید۔ ۔ ۔ خوش آمدید۔ ۔ ۔ مبارک۔ ۔ ۔ مبارک۔ ۔ ۔ ‘
مقام۔ نوکیلے گنبد والی عبادت گاہ کا چبوترہ
ماحول میں اگر بتی، چندن اور ناریل کے جلنے کی بھینی بھینی خوشبو بکھری ہوئی تھی۔ وہاں موجود سبھی لوگ یوں تو چپ تھے لیکن ان کے چہرے کی طنابیں کسی ہوئی تھیں۔ بتانے والے نے جو بتایا تھا اس پر یقین کرنا ویسے تو مشکل تھا لیکن یقین نہیں کرنے کی بھی کوئی وجہ نہیں سمجھ میں آ رہی تھی۔ یقینی اور بے یقینی کے بھنور میں غوطے لگاتے جاننے والے نے پھر تسلی کرنی چاہی۔
’کیا تمہیں پکا یقین ہے کہ وہی تھا؟‘
’ہاں میں پورے وثوق کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ وہی تھا۔ ‘
’آخر وہ ان کے پاس کیوں گیا ہو گا؟‘
’ہو سکتا ہے اس دن جو کچھ اس کے ساتھ ہوا اس کی وجہ سے۔ ‘
’ارے نہیں، یہ وجہ نہیں ہو سکتی۔ اس کے تو وہ عادی ہو چکے ہیں۔ اس کو اس کی بھول کی جو سزا ملی وہ کوئی نئی بات تو ہے نہیں ؟ وہ بھول کرتے آ رہے ہیں اور انھیں سزا ملتی رہی ہے۔ یہ تو زمانۂ قدیم سے چلا آ رہا ہے۔ ‘ بولنے والے شخص کی آواز کے پیمانے سے اعتماد چھلک چھلک کر باہر آ رہا تھا۔
’میرے خیال سے وہ ان کے پاس کام مانگنے کی غرض سے گیا ہو گا؟ آخر ایسے لوگوں کو معاش کا مسئلہ بھی تو درپیش ہوتا ہے ؟ یا پھر علاج کرانے کے لیے قرض ورض لینے گیا ہو گا؟ ان لوگوں سے انھیں بنا بیاج کا قرض بھی تو مہیا ہوتا ہے۔ ‘ ایک شخص نے اپنا جواز پیش کیا۔
’میں سمجھتا ہوں۔ ۔ ۔ ‘ ایک شخص ذرا سا رکا پھر بولا۔ ’وہ ان سے اپنا دکھڑا سنانے گیا ہو گا، مدد مانگنے گیا ہو گا ؟‘
’ارے نہیں۔ ان سے بھلا اسے کیا مدد ملے گی۔ ؟اسے دکھڑا سنانا ہوتا اور مدد لینی ہوتی تو’ لال جھنڈین ‘کے پاس جاتا۔ جا کر ان میں شامل ہو جاتا۔ ‘ پہلے والے شخص نے اس کی بات کو کاٹتے ہوئے کہا۔
’ان کے پاس وہ کیا جائے اور کیوں جائے ؟‘ ایک شخص مضحکہ خیز انداز میں بولا۔ ’اب ان سے ان کے توقعات وابستہ ہی کہاں رہ گئی ہیں۔ ؟ ان کے خواب خواب ہی رہ گئے۔ اب تو ان خوابوں پر گرد و غبار جم چکا ہے۔ جو اندھیرے میں اپنا وجود تلاش کر رہا ہو، اپنے ہونے کا جواز ڈھونڈ رہا ہو، جو خود راستے سے بھٹک گیا ہو وہ دوسرے کو کیا راستہ دکھائے گا؟ اچھا ہی ہے، ایک دم جینا محال ہو گیا تھا۔ ‘
’لیکن یہ سوال تو اپنی جگہ ہنوز استادہ ہے کہ وہ گول گنبد والوں کے پاس کیوں کر گیا تھا؟‘ وہاں بیٹھے سب سے بزرگ شخص نے اپنی پیشانی پر ہاتھ پھیرا۔
’وہ ان میں شامل ہونے کے لیے گیا تھا۔ اتنا ہی نہیں اطلاع کے مطابق پورا کا پورا شمالی ٹولہ ان میں شامل ہونے کے لیے تیار بیٹھا ہے۔ ‘ نووارد شخص کے اس انکشاف سے وہاں کھلبلی مچ گئی۔ کچھ لوگ مشتعل ہو اٹھے اور طیش میں کھڑے ہو گئے، کچھ زور زور سے بولنے لگے۔ کچھ وقفہ تک وہاں کا ماحول افرا تفری کا شکار رہا پھر معتبر دکھنے والے شخص نے کسی طور سب کو شانت کرا یا۔
سکوت ایسا کہ سوئی بھی گرے تو کان کے پردے پھٹ جائیں۔ سب ایک دوسرے کا منہ تک رہے تھے۔ ایسا کیسے ہو سکتا ہے ؟ ایسا کیوں کر ہو سکتا ہے ؟ سبھی کے چہرے پر ایک ہی سوال پتا ہوا تھا۔
’سوچنے والی بات یہ ہے کہ آخر اس نے ان میں ایسی کیا خاص بات دیکھی جو ان میں شامل ہونے چلا گیا؟ کیا اسے علم نہیں کہ ہم سے بہتر کوئی نہیں۔ ہم سب سے پرانے ہیں۔ ہمارے ریتی رواج دنیا کے سب سے پرانی ریتی رواج ہیں۔ ہمارے یہاں ہر کسی کے لیے اور ہر کام کا ایک منظم طریقہ ہے۔ ہمارے بزرگوں نے زندگی گزارنے اور اپنی دوسری دنیا کو سنوارنے کے لیے جو آئین بنایا ہے اس کے مطابق ہر کسی کی حیثیت، اس کا مقام اور اس کے کام مقر ر کر دیے گئے ہیں۔ کسی کے معاملے میں کسی کا کوئی دخل نہیں۔ یہ دنیا کی سب سے قدیم تہذیب اور سب سے بہتر نظام زندگی ہے۔ اتنے بہتر نظام کو چھوڑ کر وہ کس گڈھے میں گرنے جا رہا ہے۔ کیا اس کی عقل و دانش پر پردہ پڑ گیا ہے ؟ ہمارا متبادل کوئی ہے کیا؟‘ ایک بزرگ شخص نے درمیان میں گہری گہری سانسیں لیتے ہوئے اپنی بات پوری کی۔
’میں تو کہتا ہوں، اس کا دماغ خراب ہو گیا ہے۔ وہ ہم لوگوں کو صرف نیچا دکھانے کی کوشش کر رہا ہے۔ اسے کسی قدر یہ غلط فہمی ہو گئی ہے کہ ہم سے بہتر بھی کوئی ہے اور اس کی جب کبھی بھی خواہش ہو گی وہ ہمیں ٹھینگا دکھا سکتا ہے۔ ‘ ایک شخص نے اپنی کھیج نکالی۔
’آپ لوگ خواہ مخواہ اس پر اپنی ناراضگی ظاہر کر رہے ہیں۔ مسئلے کی اصل جڑ تو کہیں اور ہے۔ ہمارے لوگ تو بڑے معصوم ہوتے ہیں۔ میں تو کہتا ہوں اسے ضرور گمراہ کیا گیا ہے۔ اسے ہمارے خلاف بد ظن کیا گیا ہے۔ ‘ ایک نئی عمر کے شخص نے اپنی بات رکھی۔ ایک دوسرے شخص نے اس کی تائید کی۔
’بلکہ میری سمجھ میں تو یہ آ رہا ہے کہ اسے ضرور کسی نہ کسی طرح کا لالچ دیا گیا ہو گا۔ یہ بڑے عیار قسم کے لوگ ہیں۔ ان کی ہر کوشش میں یہی مقصد پنہاں ہوتا ہے کہ۔ ۔ ۔ ایک دن پوری سرزمین پر ان کا ہی پرچم لہرائے، پوری دنیا پر ان کی ہی حکومت ہو۔ ‘
’ہاں، ہاں۔ ایسا ہی ہے۔ ۔ ۔ ایسا ہی ہے۔ ‘ تقریباً سبھی نے بولنے والے سے اتفاق کیا اور اپنے ہاتھوں کو ہوا میں لہرانے لگے۔
مقام۔ گاؤں کا فٹ بال میدان
بچے فٹ بال کھیل رہے تھے۔ میدان کے کنارے قطاروں میں گل موہر کے پیڑ لگے ہوئے تھے۔ ایک گل موہر کے نیچے دری بچھی ہوئی تھی اور فریقین آمنے سامنے بیٹھے ہوئے تھے۔ کشیدگی دونوں اطراف حائل تھی۔ کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد ایک جانب سے گفتگو کا سلسلہ شروع ہوا۔
’ ہم لوگ اتنے دنوں سے ساتھ رہتے آ رہے ہیں۔ ۔ ۔ ‘
’ ہمیں بھی اس کا پاس ہے۔ ۔ ۔ ‘
’ آپ لوگوں نے ایسا کیوں کیا۔ ۔ ۔ ؟‘
’ ہم لوگوں نے ایسا کچھ بھی نہیں کیا۔ ۔ ۔ ‘
’ کیا آپ لوگوں نے اسے گمراہ نہیں کیا۔ ۔ ۔ کیا آپ لوگوں نے اسے ہمارے خلاف نہیں بھڑکایا۔ ۔ ۔ کیا آپ لوگوں نے اسے لالچ نہیں دیا۔ ۔ ۔ ؟‘
’ ہم لوگوں نے اسے قطعی گمراہ نہیں کیا۔ ۔ ۔ ہم نے اسے قطعی نہیں بھڑکایا۔ ۔ ۔ اور ہم نے اسے کوئی لالچ بھی نہیں دیا۔ ۔ ۔ ‘
’ کیا یہ بھی غلط ہے کہ آپ لوگ اس کے پاس گئے تھے۔ ۔ ۔ ؟‘
’ بالکل غلط ہے۔ ۔ ۔ وہ خود چل کر ہمارے پاس آیا تھا۔ ۔ ۔ ‘
’ ایسا نہیں ہو سکتا۔ ۔ ۔ ‘
’ ایسا ہی ہوا ہے۔ ۔ ۔ ‘
’ ایسا کیسے ہو سکتا ہے۔ ۔ ۔ ؟‘
’ ایسا کیوں نہیں ہو سکتا۔ ۔ ۔ ؟‘
’ اس کی تصدیق کون کرے گا۔ ۔ ۔ ؟‘
’ اس کی تصدیق وہی کرے گا۔ ۔ ۔ ‘
’ اگر وہ منع کر دے تو۔ ۔ ۔ ؟‘
’ ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔ ۔ ۔ ‘
’ اگر وہ منع نہیں کرے تو۔ ۔ ۔ ؟‘
’ تو ہمارا دروازہ کھلا ہے۔ ۔ ۔ ‘
’ اس کا فیصلہ آپ کو منظور ہو گا۔ ۔ ۔ ؟‘
’ کیا آپ کو منظور ہو گا۔ ۔ ۔ ؟‘
’ ہاں ہمیں منظور ہو گا۔ ۔ ۔ ‘
’ ہمیں بھی منظور ہو گا۔ ۔ ۔ ‘
طے پایا کہ اگلی نشست میں اسے بلا کر اس کا حل نکالا جائے۔ فٹ بال کا کھیل بھی ختم ہو گیا تھا۔ نہ کوئی جیتا نہ کوئی ہارا۔ بچے تالیاں بجا رہے تھے۔
مقام۔ سیاسی پارٹی کا دفتر
رہنما کے تشریف رکھتے ہی کارکن بھی اپنی جگہ پر بیٹھ گئے اور میٹنگ کی کار روائی شروع ہو گئی۔
’جیسا کہ آپ سبھی کو علم ہے کہ انتخاب سر پر آن پہنچا ہے۔ ‘ رہنما نے بات شروع کی۔ ’اور جب سے آپ سب نے مجھے اپنا رہنما منتخب کیا ہے تب سے مخالف پارٹیوں کے درمیان کھلبلی مچی ہوئی ہے اور ان لوگوں نے اپنی تیاریاں زور و شور سے شروع کر دی ہیں۔ ہمیں بھی کسی خوش فہمی میں نہیں رہنا ہے اور ہر طرح سے اپنی تیاری مکمل کرنی ہے۔ اگر ہمیں حکومت حاصل کرنی ہے تو اس انتخاب میں ہمیں اپنا دھیان ان علاقوں پر مرکوز کرنا ہو گا جہاں سے ہمیں گزشتہ انتخابات میں یا تو کم ووٹ ملے ہیں یا پھر بالکل صفر ملے ہیں۔ ا یسے علاقوں کے لیے ہمیں کچھ خاص منصوبے تیار کرنے ہوں گے۔ ‘
’ایسے علاقوں میں ہم جلسے جلوس زیادہ منعقد کریں گے اور اشتہار پر زیادہ زور دیں گے۔ ۔ ۔ ‘ ایک کارکن نے جوش و ولولوں سے لبریز ہو کر کہا۔
’ان علاقوں میں ہم موجودہ حکومت کی ناکامیوں کو بھی مشتہر کریں گے تاکہ لوگوں کو ہم میں امید کی نئی کرن نظر آئے۔ ۔ ۔ ‘ ایک دوسرے کارکن نے بھی اسی لہجے میں کہا۔
’ان علاقوں میں ہم اپنے ترقیاتی منصوبوں کو بیان کریں گے اور ترقی کی نہر بہا دینے کا وعدہ کریں گے تاکہ برسوں سے زبوں حالی کے شکار وہ لوگ دوسرے کو اپنا مسیحا بنانے کے اپنے سابقہ فیصلے کو مسترد کر دیں۔ ۔ ۔ ‘ ایک کی، دوسرے کی پھر تیسرے کارکن کی بات بھی رہنما نے بغور سنی، ذرا تو قف کیا پھر بولنا شروع کیا۔
’دوستو۔ ۔ ۔ آپ لوگ جن حربوں کی بات کر رہے ہیں، اب ان کا زمانہ نہیں رہا۔ جنتا بخوبی سمجھ چکی ہے کہ یہ سب محض سیاسی نعروں کے سوا کچھ بھی نہیں۔ ان کو پتہ ہے کہ ان کی ترقی، ان کے مسئلوں سے کسی کو کوئی سروکار نہیں ہے۔ جو بھی آتا ہے وہ صرف انہیں چھلنے کے لیے آتا ہے۔ ۔ ۔ ایسی حالت میں، جب ترکش کے سارے تیر ناکام ہو جائیں، کیا بچتا ہے ؟‘ رہنما نے گہری نظر کارکنوں پر ڈالی۔ ’ تب بچتا ہے اموشن۔ ۔ ۔ جذبات۔ ۔ ۔ عقائد۔ ۔ ۔ یہ ایک ایسا آزمودہ ہتھیار ہے جو کبھی ناکام نہیں ہوتا۔ نشانے پر لگتا ہی لگتا ہے۔ اور اپنے ملک میں تو لوگ اموشن کے اس قدر غلام ہیں کہ صبح کی اپنی ٹٹی سے بھی ان کا اموشن جڑا ہوتا ہے۔ یہی کمزور رگ ہے یہاں کے عوام الناس کی۔ اسے پکڑنے کی کوشش کیجئے۔ ۔ ۔ ‘ رہنما اپنی بات آگے جاری رکھتا کہ ایک شخص نے آ کر اس کے کان میں سرگوشی کی۔ رہنما کی آنکھوں میں ایک خاص قسم کی چمک ابھر آئی، اس نے آگے کہا۔
’جیسا کہ میں کہہ رہا تھا کہ ہمیں ان علاقوں پر اپنا دھیان مرکوز کرنا ہو گا جہاں کے ووٹر مخالف کے زیر اثر ہیں اور انہیں اپنا ووٹ دیتے رہے ہیں۔ جیسے کہ شمن پورہ۔ تاریخ گواہ ہے، آزادی کے بعد سے اب تک ہماری لاکھ کوششوں کے باوجود وہاں سے ہمیں ایک بھی ووٹ نہیں ملا ہے جبکہ وہاں اکثریت ہمارے لوگوں کی ہی ہے۔ ‘ کچھ لمحہ رک کر سانس لینے کے بعد اس نے کہا۔ ’۔ ۔ ۔ آپ لوگ اپنے پورے جسم کو کان بنا کر میری بات سن لیں، اگر اس بار بھی وہاں کے لوگ آپکی طرف نہیں جھکے اور آپ کو اپنا ووٹ نہیں دیا تو سمجھ لیجئے حکومت کرنے کا ہمارا خواب، خواب ہی رہ جائے گا۔ ۔ ۔ ‘ کہہ چکنے کے بعد رہنما اپنے کارکنوں کے چہرے کے تاثرات پڑھنے لگا۔
’وہاں تو کامیابی ملنا مشکوک ہے۔ بالکل مشکوک ہے۔ ۔ ۔ ‘ کارکنوں کے درمیان سرگوشی جاری ہو گئی تھی۔
’کچھ بھی مشکوک نہیں۔ ۔ ۔ کچھ بھی ناممکن نہیں۔ آپ سب میری بات سنیں۔ ۔ ۔ ‘ رہنما نے انہیں شانت کرایا، ان پر ایک طائرانہ نظر ڈالی اور پھر سرگوشیوں میں انہیں کچھ سمجھانے لگا۔ ا سکی بات جوں جوں پوری ہو رہی تھی، کارکنوں کے چہرے کھلتے جا رہے تھے۔
’اس سے قبل کے وہاں کا معاملہ رفع دفع ہو جائے آپ۔ ۔ ۔ ‘ آخری بات ادھوری بول کر رہنما چپ ہو گیا تھا۔
’آپ اطمینان رکھیں۔ ۔ ۔ آپ اطمینان رکھیں۔ ۔ ۔ ‘ کارکنوں کا جوش ٹھاٹھیں مارنے لگا تھا۔ رہنما کچھ لمحوں تک ان کے جوش اور ولولوں کو محسوس کرتا رہا پھر اپنے دو مخصوص کارکنوں کی جانب مخاطب ہو کر بولا۔
’وہاں کے لیے پارٹی نے جو لائحۂ عمل تیار کیا ہے اس کے متعلق آپ لوگوں کو کچھ کہنا تو نہیں ہے ؟‘
’نہیں، بالکل نہیں۔ آپ بجا فرماتے ہیں۔ ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ ہم آپ کے وفادار ہیں، ہم آپ کے وفادار ہیں۔ ‘ بولتے ہوئے دونوں مخصوص کارکنوں کو محسوس ہوا گویا ان کے جسم کے عقبی حصے میں کوئی زائد عضو نمودار ہو آیا ہے اور تیزی سے ہلنے لگا ہے۔
رہنما کے ہونٹ مسکراہٹ میں پھیل گئے تھے۔
مقام۔ شمن پورہ گاؤں
وہ غائب ہو گیا تھا۔ اس کی تلاش شدت کے ساتھ کی جا رہی تھی لیکن وہ اپنی بیوی بچے کے ساتھ غائب ہو چکا تھا۔ اس کے گھر کا دروازہ کھلا ہوا تھا اور گھر کے اندر اس کے اثاثے جوں کے توں پڑے ہوئے تھے لیکن وہاں اس کی یا اس کی بیوی اور بچے کی موجودگی کا کوئی نشان موجود نہیں تھا۔
گاؤں کی فضا مکدر ہو گئی تھی۔ ماحول میں افواہ، شک و شبہات، غصہ، نفرت کسی وبائی مرض کی طرح پھیلنے لگی تھی۔
’بھاگ گیا سا۔ ۔ ۔ لا۔ ۔ ۔ ‘ ایک جماعت کا خیال تھا۔
’ڈر کی وجہ سے بھاگ گیا۔ ‘
دوسری جماعت کا خیال تھا۔
’بھاگ گیا یا بھگا دیا گیا؟‘ دونوں جماعتیں سوچ رہی تھیں۔
’ضرور ان لوگوں نے اسے بھگا دیا ہے ؟‘ ایک جماعت نے نتیجہ اخذ کیا۔
’ضرور انہوں نے ہی اسے خوف زدہ کر کے بھگایا ہے۔ ۔ ۔ ‘ دوسری جماعت نے بھی فیصلہ کن طریقے سے سوچا۔
دونوں جماعتوں میں غلط فہمی بھی خوش فہمی بھی۔ دونوں جماعتیں اسے اپنی اپنی میراث سمجھ رہی تھیں اور اس کو لے کر دونوں جماعتوں کے مابین صف آرائیاں شروع ہو گئی تھیں۔
’آپ لوگوں کو اس کی قیمت چکانی ہو گی۔ ۔ ۔ ‘
’آپ لوگوں کو بھی اس کی قیمت چکانی ہو گی۔ ۔ ۔ ‘
’ہم دکھا دیں گے۔ ۔ ۔ ‘
’ہم بھی دکھا دیں گے۔ ۔ ۔ ‘
وہ رات دونوں جماعتوں نے رتجگا کر کے گزاری۔
صبح صبح سب کی ناک تیز خوشبو سے پھڑکنے لگی۔ گاؤں کی گلی گلی خوشبو سے معطر ہو اٹھی۔ اس نے عطر کی پوری شیشی شاید بدن پر انڈیل رکھی تھی۔ چار خانے کی لنگی، سفید کرتا اور کندھے پر چار خانے کا ہی ہرے رنگ کا صافہ۔ آنکھوں میں گہرا سر مہ لگائے وہ جدھر سے گزر رہا تھا سب کی آنکھیں برساتی ندی کی طرح چوڑی ہوئی جا رہی تھیں۔
وہ لوٹ آیا تھا۔
پورا دن گرم اور اجنبی ہوائیں گاؤں کا محاصرہ کرتی رہیں۔ رات ہوئی تو شعلہ بار ہو اٹھیں۔ مکانات دھو دھو کر جلنے لگے۔ چیخ و پکار، کہرام۔ ۔ ۔ نوحہ۔ ۔ ۔ بین۔ ۔ ۔
نقصان دونوں طرف ہوا۔ لوگ دونوں طرف کے مارے گئے۔ وہ اور اس کی بیوی بچہ بھی مارے گئے۔ لیکن ان کا مارا جانا کس کا نقصان تھا، نقصان تھا بھی یا نہیں، اس کا جواب شاید کسی کے پاس نہ تھا۔
مقام۔ گاؤں کا قبرستان
جو زندہ بچ گئے تھے وہ مرنے والوں کو دفنا رہے تھے۔ بچوں کے۔ ۔ ۔ بوڑھوں کے۔ ۔ ۔ عورت اور مردوں کے۔ ۔ ۔ ایک ایک کر سارے جنازے دفنائے جاتے رہے۔ اس کا اور اس کی بیوی بچے کا جنازہ بھی اپنے دفنائے جانے کا منتظر رہا۔ وقت گزرتا رہا، گزرتا رہا، کافی گزر گیا۔ ان کے جنازے پڑے رہے۔
مسئلہ درپیش تھا۔ ۔ ۔
’ان کے جنازے ہمارے قبرستان میں کیسے دفنائے جا سکتے ہیں۔ ۔ ۔ ؟‘
’کیوں، اب تو وہ ہماری جماعت کا حصہ تھے۔ ۔ ۔ ‘
’ہاں۔ ۔ ۔ لیکن انہوں نے تبدل اختیار کیا تھا۔ ۔ ۔ ‘
’ہم لوگوں نے بھی تو تبدل ہی اختیار کیا ہے۔ ۔ ۔ ‘
’ہماری بات کچھ اور ہے۔ ۔ ۔ ہم لوگ وہاں ناف سے اوپر والے تھے اور یہ۔ ۔ ۔ ۔ اس لیے۔ ۔ ۔ ۔ ‘
جنازوں کے اپنے دفنائے جانے کا انتظار طویل سے طویل ہوتا گیا یہاں تک کہ ان میں تعفن پیدا ہونے لگا۔
مقام۔ عالم ارواح
وہ، اس کی بیوی اور اس کا بیٹا ایک دوسرے کے مقابل بیٹھے ہیں۔
وہ اپنے بیٹے کو دیکھ کر مسکرایا۔ بیٹا سمجھ نہ سکا، ماجرا کیا ہے۔ اس کا باپ کیوں مسکرا رہا ہے۔ وہ اس کے مسکرانے کا سبب جاننا چاہتا تھا۔
وہ بھی سمجھ رہا تھا کہ اس کا بیٹا اس کی مسکراہٹ کی وجہ سے تذبذب میں مبتلا ہے۔
عفونت سے اس کی ناک بجبجا اٹھی۔ ـ
’میرے پاس تمہارے لئے ایک امانت ہے۔ ۔ ۔ ‘
اس نے پشتینی امانت اپنے بیٹے کو سونپ دی۔
٭٭٭
تشکر: تبسم فاطمہ، مدیر اعزازی، ادب سلسلہ، جنہوں نے جریدے کی فائل فراہم کی
ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید