FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

ادب سلسلہ

 

اردو زبان و ادب کا عالمی سلسلہ

کتابی سلسلہ (۲)

جلد :۱       جنوری تا مارچ۲۰۱۶       شمارہ: ۲

 

حصہ دوم: کہانیاں

نوٹ: اس میں سے اقبال خورشیید کا ناولٹ ’تکون کی چوتھی جہت‘  کو علیحدہ سے شائع کیا گیا ہے

مدیر

محمد سلیم (علیگ)

مدیر اعزازی

تبسم فاطمہ

 

مجلس مشاورت: پروفیسر اصغر علی انصاری، سہیل انجم، ساحر داؤد نگری، محمد عمران، حشمت اللہ عادل، یوسف رانا، مظہر عالم،        ڈاکٹر تنویر فریدی، ڈاکٹر مشتاق خان، ڈاکٹر شمس العارفین، اخلاق احمد، نسیم اللہ خاں ، زوبینہ سلیم

E-mail: adabsilsila@gmail.com Contact : 8588840266

 

 

 

 

ایک، دو، تین، چار—اخلاق احمد

 

سیٹھ لطیف کانجی کا نام اب بہت کم لوگ جانتے ہوں گے۔

کراچی کی پرانی تاریخ سے وابستہ کچھ لوگ شاید ذہن پر زور ڈالیں تو انہیں کچھ نہ کچھ یاد آ جائے۔ مگر ایسے لوگ بھی اب کتنے رہ گئے ہیں۔ خود کراچی بھی اب وہ کراچی کہاں رہا ہے۔ یہاں کس کے پاس اتنی فرصت ہے کہ کوئی نام ذہن کے افق پر پل بھر کو چمکے تو وہ کچھ یاد کرنے کی کوشش کرے ، کسی سے پوچھے ، پرانے ریکارڈ ٹٹولے ، یہ ساری محنت کر بھی لی جائے تو اس کا کیا حاصل؟ ۔ تحقیق بھی اس وقت کی جاتی ہے جب اس کے نتیجے میں چار پیسے ملنے کی توقع ہو۔

ایمانداری کی بات یہ ہے کہ میں خود بھی سیٹھ لطیف کانجی کے نام سے واقف نہیں تھا۔

ایک تقریب کے دوران کسی نے میرا تعارف رفیق کانجی سے کرایا جو سیٹھ لطیف کانجی کا بیٹا تھا۔ وہ ایک دبلا پتلا، گورا چٹّا آدمی تھا جس کے بال سفید ہوتے جا رہے تھے مگر ادھیڑ عمری کے باوجود اس کے چہرے پر لڑکپن تھا۔ باتوں باتوں میں پتہ چلا کہ اس کی فیملی پہلے بمبئی میں اور پھر کراچی میں رہتی تھی لیکن پھر وہ لوگ بیس پچیس سال قبل امریکہ منتقل ہو گئے۔

وہ بڑی دلچسپ گفتگو کرتا تھا۔ عجیب و غریب، تقریباً غلط اردو اور رواں انگریزی کا ملغوبہ۔ ایسا لگتا تھا جیسے وہ پہلے اپنے ذہن میں جملے کا ترجمہ کرتا ہو اور پھر جملہ ادا کرتا ہو۔ بات کرتے وقت اس کی آنکھیں شرارت سے چمکتی تھیں۔ وہ ان لوگوں میں سے تھا جو محفل آرائی کے ماہر ہوتے ہیں۔

تقریب ختم ہوئی تو وہ میرے پاس آیا اور بولا۔ ’’کیا ہم بات کر سکتے ہیں۔ ؟ ‘‘

میں نے مسکرا کر کہا۔ ’’کیوں نہیں۔ ‘‘

وہ مجھے ہال کے ایک کونے میں لے گیا جہاں ہم دو کرسیاں گھسیٹ کر آمنے سامنے بیٹھ گئے۔

اس نے کہا۔ ’’بہت میری بدقسمتی ہے ، آپ سے ملاقات ہوئی ہے۔ ‘‘

میں ہکّا بکّا رہ گیا۔

اس نے میرے تاثرات دیکھ کر گھبرائے ہوئے لہجے میں کہا۔ ’’نہیں ، نہیں۔ میرا مطلب فرق تھا… یعنی آپ سے اتنی دیر بعد ملاقات ہوئی۔ یہ ہے بدقسمتی۔ آئی ایم سوری، میں اردو میں ذرا…‘‘

میں ہنس پڑا۔ ’’اس میں بدقسمتی کہاں سے آ گئی۔ ؟ ‘‘

اس نے سر جھٹک کر کہا۔ ’’بدقسمتی مسٹر احمد، کہ مجھے کل واپس امریکہ روانہ ہو جانا ہے۔ ڈیوٹی کالز۔ ‘‘ وہ ہنسا۔ ’’بزنس کا خیال کرنا ہوتا ہے ، ورنہ بزنس تمہارا خیال نہیں رکھتا۔ ‘‘

میں اخلاقاً مسکرایا۔

وہ کچھ سوچ کر بولا۔ ’’میں سمجھتا ہوں کہ آپ ایک رائٹر ہیں۔ اینڈ اے جرنلسٹ ایز ویل؟ ‘‘

میں نے کہا۔ ’’یس۔ مگر ایک تو میں صحافت چھوڑ چکا ہوں۔ اور دوسری بات یہ کہ میں اردو میں لکھتا ہوں۔ ‘‘

’’کوئی فرق نہیں اس سے۔ ‘‘ اس نے کہا۔ ’’ اگر میں آپ کو ایک اسٹوری دوں۔ اے ویری ڈفرنٹ اسٹوری۔ تو کیا آپ اتنے مہربان ہوں گے کہ اسے لکھ دیں۔ ؟ اپنے اسٹائل میں ، آف کورس۔ ‘‘ اس کے چہرے پر گہری سنجیدگی تھی اور اس کی آنکھیں مجھ پر جمی ہوئی تھیں۔

مجھ میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ اس سے صاف صاف کہوں ، میں فرمائشی کہانیاں نہیں لکھتا۔ میں نے کہا۔ ’’اچھا ہو، اگر آپ مجھے پوری بات بتا دیں۔ میرے لئے ممکن ہوا تو میں ضرور کوشش کروں گا۔ کیسی اسٹوری ہے آپ کے پاس۔ ؟ اور آپ یہ کہانی مجھ سے کیوں لکھوانا چاہتے ہیں۔ ؟ ‘‘

وہ کچھ دیر خاموش رہا۔ پھر اس نے کہا۔ ’’ڈیڈی کی اسٹوری ہے۔ ‘‘

میں نے کہا۔ ’’سیٹھ لطیف کانجی کی۔ ؟ ‘‘

اس نے اثبات میں سر ہلایا۔

میں نے کہا۔ ’’آپ سوانحِ حیات لکھوانا چاہتے ہیں۔ ؟ بایوگرافی۔ ؟ ‘‘

’’نو، نو۔ ‘‘ اس نے تڑپ کر کہا۔ ’’بایو گرافی نہیں مانگتا ہوں۔ دیکھئے۔ میں کچھ اور کہہ رہا ہوں۔ یہ ان کی پوری لائف ہے جو ان کے ہاتھ کی لکھی ہوئی ڈائریوں میں ہے۔ آپ سمجھ رہے ہیں۔ ؟ اور اس میں کچھ ایسا ہے جو کوئی بھی نہیں جانتا۔ کچھ بہت ہی امیزنگ۔ یقین نہیں آتا اس پر۔ لیکن امی کہتی تھیں ، بالکل سچ ہے۔ ‘‘

میں خاموش رہا۔ میری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اس سے کیا کہوں۔

اس نے کہا۔ ’’دیکھئے۔ میں آپ سے ڈیل کرتا ہوں۔ میں آپ کو وہ ڈائریاں بھیج دیتا ہوں۔ اگر آپ کو بھی وہی لگے جو مجھے لگتا ہے تو آپ اسٹوری لکھئے گا۔ نہیں لگے تو واپس۔ سینڈ میں دی ڈائریز بیک۔ اوکے۔ ؟ ‘‘

میں نے کہا۔ ’’ٹھیک ہے۔ ‘‘

وہ کچھ دیر مجھے دیکھتا رہا۔ پھر اس نے کہا۔ ’’ڈیڈی پارٹیشن کے وقت پاکستان آئے تو تیرہ چودہ سال کے تھے۔ اور پچاس کی عمر میں ، ختم۔ کراچی ان کا سب کچھ تھا۔ ایوری تھنگ۔ میں نہیں جانتا کیوں ، مگر میں چاہتا ہوں ، کراچی ان کی اسٹوری جان لے۔ اگر کوئی رائٹر اردو میں وہ اسٹوری لکھ لکے۔ اور تھوڑی ریسرچ بھی کر سکے جرنلسٹ کی طرح۔ دیئر از نو وَن اِن مائی سرکل، جو ایسا کر سکے۔ اس لئے میں نے اتنی بدتمیزی سے آپ سے یہ ریکوئسٹ کی ہے۔ آئی ہوپ، آپ نے برا نہیں مانا ہو گا۔ ‘‘

میں نے کہا۔ ’’کوئی بات نہیں رفیق صاحب۔ لیکن اگر آپ اجازت دیں تو میں بھی ذرا بد تہذیبی سے یہ پوچھ لوں کہ آپ اپنے ڈیڈی کی ڈائریوں کی مدد سے کہانی کیوں لکھوانا چاہتے ہیں؟ ۔ کیوں چاہتے ہیں کہ کراچی ان کی کہانی جان لے؟ ۔ ایسی ڈائریاں بالکل نجی… میرا مطلب ہے ، بالکل پرائیویٹ ہوتی ہیں۔ آپ کو یہ حق کس نے دیا کہ آپ ان ڈائریوں میں لکھی باتوں کو دنیا کے سامنے رکھ دیں۔ ؟ ‘‘

وہ کھلکھلا کر ہنسا۔ ’’گڈ۔ ویری گڈ۔ اگر آپ نہ کرتے یہ سوال تو مجھے مایوسی ہوتی، تھوڑی تھوڑی۔ ‘‘

مجھے اندازہ ہوا کہ اس نے جان بوجھ کر اپنی ذہانت پر خوش مزاجی اور کھلنڈرے پن کا پردہ ڈال رکھا ہے۔

اس نے کہا۔ ’’یہ سوال میں نے خود سے بھی کیا۔ امی جب زندہ تھیں تو ان سے بھی بات کی تھی۔ میرا پرسنل خیالیہ ہے کہ جو پرانے لوگ ڈائریاں لکھتے تھے ، یہ در اصل چاہتے تھے کہ جب وہ نہ رہیں تو کوئی نہ کوئی ان کی کہانی جان لے۔ آپ میرا پوائنٹ سمجھ رہے ہیں۔ ؟ یعنی کیوں لکھتا ہے کوئی ایسی باتیں۔ ؟ اتنی ڈی ٹیلز کے ساتھ۔ ؟ آئی ہوپ… بلکہ آئی ایم شیور کہ ڈیڈی بھی یہی چاہتے تھے۔ ‘‘

اس کی آنکھوں میں محبت تھی اور اس کے لہجے میں وہ اعتماد تھا جو اپنے باپ کی کرسی پر بیٹھنے والے ذمہ دار بیٹے کے لہجے میں ہوتا ہے۔

وہ مجھ سے ہاتھ ملا کر رخصت ہو گیا۔

ایک، دو دن مجھے اس کی باتیں یاد آتی رہیں۔ پھر زندگی کی بھاگ دوڑ نے سب کچھ بھلا دیا۔

دو ہفتے بعد مجھے کوریئر کے ذریعے گتّے کے تین بڑے ، مضبوط بکس موصول ہوئے۔

وہ سترہ ڈائریاں تھیں۔ کچھ پتلی، کچھ موٹی۔ کچھ خاصی خستہ ہو چکی تھیں اور ان کے کاغذوں کا رنگ زرد ہو چکا تھا۔

سیٹھ لطیف کانجی کے بیٹے نے سچ کہا تھا۔ ان ڈائریوں میں پوری زندگی درج تھی۔ بلکہ یوں کہئے کہ دو زندگیاں۔ ایک تو وہ عام سی زندگی، جو کاروباری معاملات کے گرد گھومتی تھی۔ پیسوں کا لین دین، نفع اور نقصان کا حساب کتاب، تعمیری اخراجات کے گوشوارے ، عمارتوں کی تفصیل، واجب الادا قرضے۔

لیکن اس کے ساتھ ساتھ ایک اور کہانی بھی چلتی تھی۔ بین السطور۔ خاموشی سے۔ جیسے سایہ، آدمی کے ساتھ چلتا ہے۔ پہلی نظر میں یہ بے سروپا لگتی تھی۔ یعنی ایسی کہانی، جسے پڑھ کر آپ ہنسیں اور سر ہلا کر کہیں ، کیا بکواس ہے۔ مگر اس کے ساتھ ہی یہ مشتعل کرتی تھی۔ چیلنج کرتی تھی۔ تحقیق کرنے کی ترغیب دیتی تھی اور گزر جانے والے برسوں میں جا کر ریکارڈ چیک کرنے اور حقائق کی تصدیق کرنے پر اکساتی تھی۔

شاید یہ کہنا ضروری نہیں کہ مجھے اس جال میں پھنسنا ہی تھا۔

…٭٭…

 

سیٹھ لطیف کانجی کی ایک بیوی تھی۔ دو بیٹیاں تھیں۔ تین بیٹے تھے۔ چار فیکٹریاں تھیں۔ پانچ دوست تھے۔ چھ بنگلے تھے۔ سات شہروں میں دفاتر تھے۔ آٹھ بینک اکاؤنٹ تھے اور نو خاندانی ملازم تھے۔

اس ترتیب کا اہتمام خود لطیف کانجی نے کیا تھا۔

مگر یہ سب تو اس وقت کی بات ہے ، جب وہ کامیاب ہو چکا تھا۔

اصل کہانی تو بہت پہلے بمبئی میں شروع ہوئی تھی جب گورے ، مکھیوں اور مچھروں کی سرزمین چھوڑ کر واپس جانے کا فیصلہ کر چکے تھے اور لطیف کانجی سفید نیکر، سفید قمیص پہن کر سالم تانگے میں مشنری اسکول جایا کرتا تھا اور راستے میں آنے والے سنیما گھروں پر آویزاں اشوک کمار اور لیلا چٹنس اور نرملا دیوی کی تصویریں دیکھ کر ایک انجانی خوشی محسوس کیا کرتا تھا۔

لطیف کانجی کی دسویں سالگرہ پر وہی مہمان آئے جو ہر سال چھ سات مرتبہ آتے تھے۔ اسے بہت سے تحفے ملے جو رنگ برنگے ڈبوں میں بند تھے۔

مہمان رخصت ہوئے تو لطیف کانجی فرش پر آلتی پالتی مار کر بیٹھ گیا اور ایک ایک کر کے تحفے کھولنا شروع کئے۔

وہ تقریباً ایک ہی سائز کے دس ڈبے تھے۔ اور ان میں سے ایک ہی جیسی دس کھلونا کاریں نکلیں۔ 1944ء ماڈل کی نئی شیورلے کاریں۔ کچھ نیلی، بیشتر سرخ۔ لطیف کانجی اتنی بہت سی چمکتی دمکتی کھلونا کاریں پا کر اتنا خوش ہوا کہ اپنے ماں باپ کے چہروں پر چھائی مایوسی بھی نہ دیکھ سکا۔

دو تین ہفتے بعد، جب وہ ایک جیسی بہت سی کاروں سے کھیل کھیل کر بیزار ہو گیا تو اس نے پہلی بار سوچا، یہ سب لوگ ایک ہی جیسی کاریں کیوں لے آئے تھے۔ ؟

گیارہویں سالگرہ آئی تو حیرت کا ایک نیا باب کھلا۔

لطیف کانجی کو تحفے میں گیارہ سائیکلیں ملیں۔

’’گیارہ سائیکلیں۔ !‘‘ اس کے والد سیٹھ حنیف کانجی نے مہمانوں کے رخصت ہونے کے بعد حسب معمول اپنی بیوی کو غصے سے مخاطب کر کے کہا۔ ’’ابھی یہ کیا کرے گا اتنی سائیکلوں کا۔ ؟ دوکان کھولے گا۔ ؟ ‘‘

’’میرے کو کیا پتا۔ ؟ ‘‘ ان کی بیوی نے کمرے میں ڈھیر سائیکلوں کو دیکھ کر بیزاری سے کہا۔

’’دماغ پھریلا ہے سب کا۔ ‘‘ سیٹھ حنیف کانجی نے کہا۔ ’’جس کو دیکھو سائیکل اٹھائے چلا آ رہا ہے۔ ‘‘ انہوں نے سب سے آگے رکھی سائیکل کو لات رسید کی اور لنگڑاتے ہوئے کمرے سے رخصت ہو گئے۔

بارہویں سالگرہ پر لطیف کانجی کے سب سے قریبی دوست صفدر نے اسے جو کتاب تحفے میں دی اس کا نام تھا۔ ’’بارہ برجوں کی دنیا‘‘۔ یہ علم نجوم کے بارے میں ایک مشہور انگریزی کتاب کا ترجمہ تھا۔ لطیف کانجی رات بھر اور پھر اگلے روز دن بھر وہ کتاب پڑھتا رہا۔ مختلف برجوں کی خصوصیات، ان کے مزاج کا احوال، سیآروں کی چال۔ ایک پُراسرار دنیا تھی جو اس کے سامنے کسی کتاب کی طرح کھلتی جا رہی تھی۔

اپنے برج کے بارے میں معلوم کرنے کے لئے اس نے پہلے اپنی والدہ سے استفسار کیا۔ پھر والد سے پوچھا۔ بالآخر وہ ماں کی الماری میں احتیاط سے رکھی پرانی دستاویزات میں اپنی پیدائش کا سرٹیفکیٹ ڈھونڈنے میں کامیاب ہو گیا۔ یہ ایک بڑے ہسپتال کا جاری کردہ سر ٹیفکیٹ تھا جس میں پیدائش کی تاریخ ہی نہیں ، وقت بھی درج تھا۔

سرٹیفکیٹ دیکھ کر اس کا منہ حیرت سے کھلا کا کھلا رہ گیا۔

وہ یکم فروری 1934ء کو پیدا ہوا تھا۔ اس تاریخ کو انگریزی میں ایک دو تین چار لکھا گیا تھا۔ پہلی تاریخ، دوسرا مہینہ اور 1934ء کا تین چار۔ !

اس سے بھی زیادہ حیرت انگیز بات یہ تھی کہ اس کی پیدائش کے وقت کے اعداد بھی یہی تھے۔ سرٹیفکیٹ کے مطابق وہ بارہ بج کر چونتیس منٹ پر پیدا ہوا تھا۔ بارہ چونتیس!۔ ایک دو تین چار۔ !!

اس سرٹیفکیٹ نے لطیف کانجی کی زندگی کا رخ بدل دیا۔ اعداد اس کے دماغ پر چھا گئے۔ اس کی عقل پر قابض ہو گئے۔ اس نے اپنے جگری دوست صفدر کو تمام باتیں بتائیں۔ اس کا خیال تھا کہ صفدر سخت حیران ہو گا۔ لیکن وہ قطعی حیران نہ ہوا۔ وہ خود جوتش اور علم نجوم پر اعتقاد رکھتا تھا۔ اس نے لطیف کانجی کو کئی قدیم شہنشاہوں اور مشہور لوگوں کے بارے میں بتایا جن کی زندگی ایسے ہی اتفاقات سے عبارت تھی۔ کوئی پانچویں مہینے کی پانچویں تاریخ کو پیدا ہوا تھا۔ پانچ شہزادے پیدا کرنے اور پانچ برس حکمرانی کرنے کے بعد پانچویں مہینے کی پانچویں تاریخ کو مرگیا تھا۔ کسی نے سات کتابیں لکھی تھیں ، سات شادیاں کی تھیں ، سات بڑے اعزاز حاصل کئے تھے اور ساتویں دل کے دورے میں ہلاک ہو گیا تھا۔ ایک شہزادی ایسی تھی جس نے گیارہ شادیاں کی تھیں ، اکیس جنگیں لڑی تھیں ، اکتیس شہروں کو فتح کیا تھا اور اکتالیس سال کی عمر میں اکیاون باغیوں کے حملے میں ماری گئی تھی۔

لطیف کانجی، صفدر سے کئی کتابیں لے آیا۔ ان کتابوں میں ایسے ہی کئی واقعات تھے۔ اپنے نام کے اعداد معلوم کرنے کی ترکیبیں تھیں اور انسانی زندگی پر ستاروں کے اثرات کے بارے میں تفصیلات تھیں۔

ایک روز اس نے ڈرتے ڈرتے اپنے والد سے اس بات کا ذکر کیا۔ پوری بات سن کر اور پیدائش کے وقت اور تاریخ کے بارے میں اپنے بیٹے کے خیالات سے آگاہ ہو کر انہوں نے کہا۔ ’’دیکھ لطیف۔ ہوش میں آ جا۔ اپنی پڑھائی پر توجہ دے۔ نئیں تو جانتا ہے میں کیا کروں گا۔ ؟ میں تیری اتنی ٹھکائی کروں گا کہ تو بھی ٹھیک ہو جائے گا اور تیری ماں بھی۔ ‘‘

’’ماں نے کیا کیا ہے۔ ؟ ‘‘ دوسرے کمرے سے اس کی ماں نے چلّا کر کہا۔

’’ماں نے ہی اسے بگاڑا ہے۔ ‘‘ سیٹھ حنیف کانجی نے گرج کر کہا۔ ’’سالے کا مغز خراب کیا ہے۔ کہتا ہے ، میں ایک دو تین چار ہوں۔ آدمی نہیں ہوں ، کیش رجسٹر ہوں۔ !‘‘

وہ گھر میں شروع ہونے والی جنگ کے دوران خاموشی سے فرار ہو گیا۔

رفتہ رفتہ اسے یقین ہو گیا کہ لوگ ایسی باتوں پر یقین نہیں کرتے۔ انہیں محض حماقت سمجھتے ہیں اور ان پر یقین رکھنے والوں کو بے وقوف۔ لیکن خود اسے یقین تھا کہ ان اعداد میں ، ان علوم میں کوئی نہ کوئی راز ضرور تھا۔ کوئی نہ کوئی بات ضرور پوشیدہ تھی۔ ہر چیز، ہر واقعہ اتفاق نہیں ہو سکتا۔

اپنی تیرہویں سالگرہ پر لطیف کانجی نے ایک بار پھر حیرت سے ان تیرہ تحائف کو دیکھا جو آنے والے مہمان لائے تھے۔ تیرہ کے تیرہ سوٹ تھے۔ پینٹ اور شرٹ۔ !

’’ارے بابا۔ ‘‘ لطیف کانجی کی ماں نے پریشانی کے عالم میں کہا۔ ’’سارے ڈیزائن ایک ہیں۔ بس کلر الگ الگ ہیں۔ ‘‘

’’کلر۔ !‘‘ سیٹھ حنیف کانجی نے دانت پیس کر کہا۔ ’’ابھی کلر کا کیا کرنا ہے۔ کیا لطیف پورے سال ایک ہی ڈیزائن کے کپڑے پہنے گا۔ ؟ سب بولیں گے ، تھوک مارکیٹ سے درجن کے حساب سے لایا ہے۔ ! اکھّا بمبئی میں مذاق بن جائے گا۔ یہ سب تیری وجہ سے ہے۔ تیرے خاندان کی وجہ سے ہے۔ ‘‘

’’میرے خاندان نے کیا کیا ہے۔ ؟ ‘‘

’’تیرہ میں سے سات تیرے خاندان والوں نے دیئے ہیں۔ ‘‘

’’اور باقی چھ۔ ؟ وہ تو تیرے گھر والوں اور دوستوں نے دیئے ہیں۔ ‘‘

’’اچھا۔ بک بک نئیں کر۔ ‘‘

لطیف کانجی ایک بار پھر جنگ کے دوران فرار ہو گیا۔ اپنے کمرے میں جا کر اس نے دروازہ بند کیا اور بستر پر بیٹھ کر دیر تک صورتحال پر غور کرتا رہا۔ اعداد اسے اپنی اہمیت کا یقین دلا رہے تھے۔ گیارہ سائیکلیں۔ تیرہ سوٹ۔ پیدائش کا وقت، ایک دو تین چار۔ پیدائش کی تاریخ، ایک دو تین چار۔

اگلے روز وہ صفدر کے ساتھ ایک جوتشی کے پاس پہنچا جو بمبئی کے مرکزی بازار میں ٹراموں کے ٹرمینل کے پاس بیٹھتا تھا۔ صفدر اس جوتشی کی صلاحیتوں سے سخت مرعوب تھا۔

پورے ایک روپے کا نذرانہ لے کر گنجے جوتشی نے اپنا سر ہلایا اور پوچھا۔ ’’کتنی عمر ہے بالک۔ ؟ ‘‘

صفدر نے کہا۔ ’’پندرہ سال۔ ‘‘

جوتشی نے پھر سر ہلایا اور بولا۔ ’’میں تیری نہیں ، اس کی عمر پوچھ رہا ہوں۔ ‘‘

لطیف کانجی نے ڈرتے ڈرتے کہا۔ ’’تیرہ سال۔ کل میری تیرہویں سالگرہ تھی۔ ‘‘

’’ہوں۔ ‘‘ جوتشی غرایا۔ ’’ہاتھ دکھا۔ ‘‘

لطیف کانجی نے ہاتھ اس کے سامنے پھیلا دیا۔ جوتشی دیر تک اس کا ہاتھ دیکھتا رہا۔ ہتھیلی پر پھیلے لکیروں کے جال پر نظریں دوڑاتا رہا۔ پھر اس نے کہا۔ ’’ایک روپیہ اور دے۔ ‘‘

لطیف کانجی نے صفدر کی طرف دیکھا۔ صفدر نے سر کھجا کر کہا۔ ’’جوتشی جی۔ آپ تو ہاتھ دیکھنے کا ایک ہی روپیہ لیتے ہیں۔ ‘‘

جوتشی نے لطیف کانجی کا ہاتھ غصے سے جھٹک دیا۔ ’’یہ ایک روپے والا ہاتھ نہیں ہے۔ جا۔ کسی اور کو دکھا۔ یہاں تو اکنّی میں بھی ہاتھ دیکھنے والے ہیں۔ یہ بمبئی ہے بالک، بمبئی۔ یہاں ایک ہی جوتشی جیون رام ہے۔ ‘‘

لطیف کانجی نے جیب سے ایک روپیہ نکالا اور جوتشی کی میلی چٹائی پر رکھ دیا۔ کوئی اور موقع ہوتا تو شاید وہ اتنی آسانی سے پورے دو روپوں کا خون نہ کرتا۔ لیکن اس وقت معاملہ مختلف تھا۔ صورتحال نازک تھی۔ جوتشی نے ہاتھ کے بارے میں ایک بات کہہ کر اس آتشِ شوق کو بھڑکا دیا تھا جو گزشتہ کئی مہینوں سے چنگاری بن کر سلگ رہی تھی۔

’’میری باتیں دھیان سے سن بالک۔ ‘‘ جوتشی نے بہت دیر تک ہاتھ دیکھنے اور خاموش رہنے کے بعد کہا۔ ’’پھر تجھے شاید کوئی جیون رام نہ ملے جو ریکھاؤں میں آنے والے سمے کو دیکھ سکے۔ ‘‘ وہ پھر خاموش ہو کر ہاتھ کی لکیروں کو دیکھنے لگا۔

صفدر اور لطیف کانجی دم سادھے بیٹھے تھے۔ ان کے گرد سائیکل رکشا چلانے والوں کی آوازیں تھیں ، ٹرام کی گھنٹیاں تھیں ، خوانچے والوں کے چلّانے کی آوازیں تھیں ، ہنگامہ اور چیخ و پکار تھی لیکن وہ یہ سب کچھ نہیں سن رہے تھے۔ ساری دنیا ساکت تھی، بے صدا تھی اور اس گہرے سناٹے میں صرف جوتشی کی آواز کا انتظار تھا۔

’’تجھے بہت بڑا آدمی بننا ہے۔ ‘‘ جوتشی نے بالآخر کہا۔ ’’لوگ تجھے دیکھ کر رشک کریں گے۔ دھن دولت دیکھ کر حیران رہ جائیں گے۔ تو خود اپنی دولت کا حساب نہیں رکھ سکے گا۔ ‘‘ چند لمحے خاموش رہنے کے بعد اس نے اچانک پوچھا۔ ’’کل تیری کون سی سالگرہ تھی۔ ؟ ‘‘

’’تیرہویں۔ ‘‘ لطیف کانجی نے کسی سحر زدہ معمول کی طرح جواب دیا۔

’’تیرہ ہفتے اور ایک ماہ بعد ہی تیری زندگی میں وہ موڑ آئے گا۔ ‘‘ جوتشی نے پھر سر ہلایا۔ ’’تیرہ ہفتے اور ایک ماہ بعد تو کامیابی کی سیڑھی پر پہلا قدم رکھے گا۔ جا۔ چلا جا۔ ‘‘

جوتشی نے اچانک اس کا ہاتھ جھٹک کر دور کر دیا۔

لطیف کانجی نے وہ شام اپنے کمرے میں ہی گزاری۔ اس شام وہ معمول کے مطابق اپنے دوستوں کے ساتھ کھیلنے بھی نہیں گیا۔ جوتشی کی باتیں بار بار اس کے ذہن میں گونج رہی تھیں۔ دھن دولت والی بات نے اسے قطعی حیران نہیں کیا تھا۔ سیٹھ حنیف کانجی جیسے تاجر کا بیٹا پیسے والا نہیں بنے گا تو کیا بنے گا۔ ؟ دولت تو اس کا ورثہ تھی۔ گھر کی باندی تھی۔ لیکن زیادہ حیران کن بات وہ تھی۔ تیرہ ہفتوں اور ایک ماہ والی بات۔ تیرہ ہفتے اور ایک ماہ بعد کیا ہو گا۔ ؟ اس نے سوچنے کی کوشش کی۔ لیکن یہ ایسا سوال تھا جس کا کوئی جواب نہ تھا۔ لطیف کانجی نے ایک بار پھر تحیّر کی اس سنسنی خیزی کو محسوس کیا جو پُراسرار علوم میں تھی، جوتشی کی باتوں میں تھی اور خود اس کی زندگی میں تھی۔

اس نے کاپی نکالی اور حساب لگانے بیٹھ گیا۔ تیرہویں سالگرہ یکم فروری کو تھی۔ اس نے حساب لگایا، تیرہ ہفتوں میں اکیانوے دن ہوتے ہیں۔ اٹھائیس دن فروری کے۔ اکتیس دن مارچ کے۔ اور تیس دن اپریل کے۔ یہ ہوئے نواسی دن۔ ذرا سی دیر میں نتیجہ اس کے سامنے آ گیا۔ تین جون تک کوئی نہ کوئی واقعہ ہونے والا تھا۔ !

لطیف کانجی نے اگلے چار ماہ ایک عذاب میں گزارے۔ وہ راتوں کو دیر تک جاگتا رہتا تھا۔ اسکول میں اپنی بنچ پر بیٹھا بلیک بورڈ کو خالی خالی نظروں سے گھورتا رہتا تھا۔ اس کا واحد ہمدرد صفدر تھا لیکن اس کے پاس بھی لطیف کانجی کی پریشانی کا کوئی حل نہ تھا۔

دن دھیرے دھیرے گزرتے گئے۔ فروری گزر گیا۔ مارچ گزر گیا۔ اپریل گزر گیا۔ لطیف کانجی کی پریشانی بڑھتی جا رہی تھی۔ مئی آ چکا تھا۔ تیرہ ہفتے گزر چکے تھے اور اب صرف ایک ماہ رہ گیا تھا۔

انہی دنوں ایک شام جب وہ گھر واپس لوٹ رہا تھا، اس نے راستے میں صفدر کو دیکھا۔ اس کے چہرے سے لگتا تھا کہ وہ کوئی خبر سنانے کے لئے بے قرار ہے۔ لطیف کانجی کے پاس پہنچتے ہی اس نے کہا۔ ’’یار، جوتشی جیون رام کو پولیس پکڑ کر لے گئی۔ !‘‘

ایک لمحے کے لئے لطیف کانجی کو اپنے کانوں پر یقین نہ آیا۔ بھلا یہ کیسے ہو سکتا تھا۔ پُراسرار علوم جاننے والے کسی آدمی کو پولیس والے کیسے پکڑ سکتے ہیں۔ !

’’میں نے خود ٹراموں کے اڈے کے پاس بھیڑ دیکھی تھی۔ ‘‘ صفدر کہہ رہا تھا۔ ’’لوگ کہہ رہے تھے ، چرس بیچتا تھا۔ مجھے تو یقین نہیں آیا۔ ‘‘

لطیف کانجی نے کہا۔ ’’یقین تو مجھے بھی نہیں آ رہا ہے۔ یار، جوتشی کو تو ہر بات کا پتہ ہوتا ہے۔ جیون رام کو اپنی گرفتاری کے بارے میں معلوم نہیں تھا۔ ؟ ‘‘

پُراسرار علوم کے بارے میں اس کے اعتقادات کو شدید ٹھیس پہنچی تھی۔ گھر پہنچ کر بھی وہ یہی سوچتا رہا۔ رفتہ رفتہ اسے یقین آنے لگا تھا کہ جوتشی جیون رام کی پیش گوئی غلط بھی ثابت ہو سکتی تھی۔ اسے جوتشی پر اور اپنے اوپر سخت غصہ آیا۔ تیرہ ہفتے گزر چکے تھے اور ایک ماہ باقی رہ گیا تھا۔ اتنے کٹھن انتظار کے بعد یہ صدمہ یقیناً بھاری تھا۔

دن پھر گزرنے لگے۔ رفتہ رفتہ مئی گزر گیا اور جون آ گیا۔

تین جون کو وہ اسکول نہیں گیا۔ طبیعت کی خرابی کا بہانہ اس نے رات کو ہی کر لیا تھا۔ پوری صبح گزر گئی، پہاڑ سا دن گزر گیا۔ لیکن کچھ نہ ہوا۔ تقدیر کا وہ موڑ کہیں نہ آیا جو اس کی کامیابی کا باعث بن سکتا تھا۔ شام گزر گئی لیکن کامیابی کی وہ سیڑھی نہ آئی جس پر اسے پہلا قدم رکھنا تھا۔

رات گئے اس نے اپنے والد کو گھر میں آتے دیکھا۔ سب سے پہلے اس کی نگاہ ان کے بکھرے بالوں پر پڑی۔ پھر اس نے ان کا پھٹا ہوا کوٹ دیکھا اور سوجا ہوا ہونٹ دیکھا۔ جب ماں رو چکی اور چیخ چیخ کر بے مقصد سوال کر چکی تو سیٹھ حنیف کانجی نے کہا۔ ’’تیاری کر لے روانہ ہونے کی۔ !‘‘

’’روانہ ہونے کی۔ ! کہاں روانہ ہونے کی۔ ؟ ‘‘

’’اب یہاں بمبئی میں کچھ نہیں رہا۔ میرے ساتھی ڈائریکٹر دغا دے گئے۔ انہوں نے پورے بزنس پر قبضہ کر لیا ہے۔ میرے پاس اب صرف ایک لاکھ روپیہ رہ گیا ہے جو سال بھر پہلے میں نے الگ ٹرانسفر کرا لیا تھا۔ ‘‘

’’مگر…مگر کیوں۔ ؟ ‘‘ ماں کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا۔ اور صوفے کے ساتھ حیران، پریشان کھڑے لطیف کانجی کی سمجھ میں بھی کچھ نہیں آ رہا تھا۔

’’کیوں اور کیا چھوڑ دے۔ ؟ ‘‘ اس کے والد نے گرج کر کہا۔ ’’باہر سب بدل گیا ہے۔ پوری مارکیٹ بدل گئی ہے۔ تجھے پتہ نہیں چلا۔ ؟ ‘‘

’’کیا پتہ نہیں چلا۔ ؟ ‘‘ ماں نے چلّا کر پوچھا۔

’’پاکستان بن رہا ہے۔ ‘‘ سیٹھ حنیف کانجی نے اپنی ڈھیلی ٹائی اتار پھینکی۔ ’’فیصلہ ہو گیا ہے۔ ریڈیو پر تقریریں ہو گئی ہیں۔ میں نے ان سے بولا، ارے بابا ہم یہیں رہے گا۔ یہی بزنس کرے گا۔ اپنے فادر اور گرینڈ فادر کو قبروں میں چھوڑ کر کون جاتا ہے۔ لیکن وہ سالے ہندو ڈائریکٹر۔ چوٹ تو میرے بھی آئی پر میں نے بھی ایک کے تین دانت توڑ دیئے۔ ابھی پیتل کے دانت لگا کر پھرے گا ساری زندگی۔ ‘‘

ایک خواب کے سے عالم میں لطیف کانجی نے وہ پورا منظر دیکھا جو کئی ہفتوں پر محیط تھا۔ ماں قیمتی چیزیں سمیٹ رہی تھی۔ گھر کا فالتو سامان اونے پونے داموں بیچ رہی تھی۔ سیٹھ حنیف کانجی وہ قرضے وصول کرنے کے لئے بھاگ دوڑ کر رہے تھے جو اچھے وقتوں میں انہوں نے لوگوں کو دیئے تھے۔ اس ایک لاکھ روپے کو حفاظت سے ٹرانسفر کرنے کا بندوبست کر رہے تھے جو اب ان کا کُل اثاثہ تھے۔ اس نے سڑکوں کی ویرانی دیکھی اور بازاروں کی بے رونقی دیکھی۔

حملے شروع ہو گئے تھے۔ انسان ایک دوسرے کو مار رہے تھے۔ چھرے گھونپ کر زخمی کر رہے تھے۔ زندہ جلا رہے تھے۔ بار بار لطیف کانجی کے تصور میں اس جوتشی کا چہرہ آ جاتا تھا۔ تیرہ ہفتے اور ایک ماہ بعد۔ اس نے کہا تھا۔ ٹھیک تیرہ ہفتے اور ایک ماہ بعد زندگی نے ایک نیا رخ بدل لیا تھا۔ انسان، انسان نہ رہے تھے۔ ہندو اور مسلمان بن گئے تھے۔ سکھ اور عیسائی بن گئے تھے۔ وہ دن بھر گھر میں قید رہتا تھا۔ باہر ہنگامہ تھا۔ موت تھی۔ اپنے گھر کی پہلی منزل کی ایک کھڑکی سے ہی اس نے صفدر اور اس کے گھر والوں کو ایک ٹرک میں سامان چڑھاتے دیکھا۔

روانہ ہونے سے پہلے صفدر اس سے ملنے آیا۔

’’ رات کو ایک ٹرین روانہ ہو رہی ہے۔ ‘‘ اس نے بتایا۔ ’’اسی سے روانہ ہوں گے۔ پہلے دلّی جائیں گے۔ پھر وہاں سے لاہور۔ یار، یہ کیا ہو رہا ہے۔ ؟ ‘‘

وہ صفدر کو کیا بتاتا کہ کیا ہو رہا ہے۔ ؟ وہ تو یہ جاننا چاہتا تھا کہ کیا ہونے والا ہے۔ ؟ صفدر اس سے گلے مل کر، گرمجوشی سے ہاتھ ملا کر اور پاکستان میں کبھی نہ کبھی ملنے کا وعدہ کر کے چلا گیا۔ اس کے جانے کے بعد لطیف کانجی نے ایک بار پھر اس تنہائی کو شدت سے محسوس کیا جو گھر کی چار دیواری میں قید رہنے سے تھی۔

ایک شام جب وہ تنہا کیرم بورڈ کھیل رہا تھا، اس نے اپنے والد کو ماں سے باتیں کرتے سنا۔ وہ بہت دھیمی آواز میں بول رہے تھے۔ پہلی مرتبہ لطیف کانجی نے اپنے باپ کے لہجے میں محبت کی نرمی محسوس کی۔ وہ کہہ رہے تھے۔ ’’تو بالکل پریشان نہ ہو۔ میں نے بندوبست کر لیا ہے۔ کراچی بہت بڑا شہر ہے۔ بمبئی سے چھوٹا ہے ، پھر بھی بہت بڑا ہے۔ میں وہاں نیا بزنس جماؤں گا۔ بالکل اپنا بزنس۔ کوئی لفڑا نہیں ، کوئی پارٹنر نہیں۔ چار جولائی کو روانگی ہے۔ ٹرین سے جانا مشکل ہے ، اپن پلین سے چلیں گے۔ کوئی سامان نہیں جائے گا۔ بس، تو زیور لے لے۔ سارا پیسہ کراچی پہنچ چکا ہے۔ ‘‘

لطیف کانجی نے کیرم بورڈ پر رکھی سرخ کوئن کو پاکٹ کیا اور سوچا۔ چار جولائی۔ چار جولائی سن سینتالیس۔ چار سات، چار سات۔ ! لیکن جب چار جولائی آئی تو روانہ ہونے اور جہاز میں سفر کرنے کی خوشی میں وہ اعداد کی اس عجیب و غریب ترتیب کو بھول گیا۔ جہاز کی کھڑکی سے پہلے زمین نظر آتی رہی۔ پھر سمندر آ گیا۔ لطیف کانجی کو اپنا دوست صفدر یاد آیا۔ نہ جانے وہ کس حال میں ہو گا۔ کسی کھڑکھڑاتی ٹرین میں اپنے گھر والوں کے ساتھ۔ یا کسی ویرانے میں کھلی، بے نور آنکھوں کے ساتھ۔ پھر اسے جوتشی جیون رام کا خیال آیا۔ جہاز کی آواز بہت تھی۔ لگتا تھا کسی کارخانے کی بہت بڑی مشین پوری قوت سے چل رہی ہو۔ اس کے ذہن میں عجیب و غریب خیالات آتے رہے اور وہ نیند کی آغوش میں چلا گیا۔

اس کی آنکھ کھلی تو طیارہ کراچی پہنچ چکا تھا۔ مسافر سامان سمیٹ رہے تھے اور باہر نکلنے کے لئے تیار تھے۔ سیٹھ حنیف کانجی کے ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی۔ اعتماد سے بھرپور مسکراہٹ۔ لطیف کانجی نے یہی مسکراہٹ اپنی ماں کے چہرے پر بھی دیکھی۔ بے اختیار، بے سبب وہ خود بھیمسکرایا۔

…٭٭…

 

کراچی میں لطیف کانجی نے زندگی کو اسی ڈھرے پر چلتا محسوس کیا۔ کچھ بھی نہ بدلا تھا۔ سیٹھ حنیف کانجی کا بزنس چل پڑا تھا۔ دن رات کی محنت کے ساتھ اس کا سرمایہ، کامیابی کے حصول کے لئے کافی تھا۔ کراچی نیا شہر تھا لیکن اجنبی نہیں لگتا تھا۔ اس کی ہوا میں ساحلوں کی وہی نمی تھی جو بمبئی میں تھی۔ لوگوں کا انداز وہی تھا۔ لہجے وہی تھے۔ لیکن لطیف کانجی کے لئے ان دو شہروں میں ایک اور بات بھی مشترک تھی۔ یہ بات اسے اپنی چودہویں سالگرہ پر معلوم ہوئی جب مہمانوں کے رخصت ہونے کے بعد اس کے والدین نے تحفے میں وصول ہونے والے چودہ سفید لفافوں کو کھولا۔ سب میں سو سو روپے کے نوٹ تھے۔ !

’’فورٹین ہنڈریڈ۔ ‘‘ اس کی ماں نے حیرت سے کہا۔

سیٹھ حنیف کانجی مسکرارہے تھے۔ ’’بمبئی سے آنے کا ایک فائدہ تو ہوا ہے۔ ابھی یہاں ایک جیسی سائیکلیں اور ایک جیسے کپڑے تو نہیں ملتے۔ !‘‘

’’فائدہ تو دیکھ لیا۔ ‘‘ ماں نے کہا۔ ’’یہ بھی سوچا کہ ہمیں بھی ہر برتھ ڈے پر پورے سو روپے دینے پڑیں گے۔ ‘‘

’’ایک تو میں تجھ سے بڑا تنگ ہوں۔ ‘‘ سیٹھ حنیف کانجی نے غصے سے کہا۔ ’’پرافٹ نہیں دیکھتی۔ ہمیشہ گھاٹے کا سوچتی ہے۔ ارے بابا، جب دینا ہو گا، دیکھا جائے گا۔ ابھی تو یہ دیکھ کہ تیرے بیٹے کو چودہ سو روپے ملے ہیں۔ ‘‘

وہ بحث کرتے رہے اور لطیف کانجی قدرت کے اس عجیب اتفاق کے بارے میں سوچتا رہا جو اس کے ساتھ ساتھ چل رہا تھا۔ صفدر ہوتا تو بہت لطف اندوز ہوتا۔ اسے نئی کتابیں دیتا۔ نئے واقعات سناتا۔ لیکن صفدر نہ جانے کہاں تھا۔ پاکستان پہنچا تھا یا راستے میں ہی مارا گیا تھا۔ اسی شہر میں تھا یا کسی دوسرے میں۔

دن گزرتے گئے ، سال گزرتے گئے ، لیکن اعداد لطیف کانجی کے ساتھ ساتھ رہے۔

وہ کالج میں چلا گیا۔

انٹر پاس کرنے کے بعد اس نے بی کام میں داخلہ لے لیا۔

اس کے دوستوں کا خیال تھا کہ تعلیم اس کے لئے بے معنی ہے۔ اسے لاکھوں میں کھیلنا ہے اور ایک کے دو، دو کے دس بنانے میں زندگی گزارنی ہے۔ لیکن خود لطیف کانجی جانتا تھا کہ یہ بے مقصد بات ہے۔ مارکیٹ پھیلتی جا رہی تھی۔ علم کی ضرورت بڑھتی جا رہی تھی۔ ہر جگہ حساب کتاب کی، ا?ڈٹ کی، چیکنگ کی حکمرانی تھی۔ اتنے بڑے بزنس کو سنبھالنے کے لئے وہ علم کے ہتھیار سے لیس ہونا چاہتا تھا۔ کسی پر بھروسہ کرنے کے بجائے اپنی مہارت پر اعتماد کرنا چاہتا تھا۔ بمبئی میں اس کے والد سیٹھ حنیف کانجی نے ہندو ڈائریکٹرز پر بھروسہ کیا تھا اور مات کھائی تھی۔ قسمت ساتھ نہ دیتی اور وہ ایک لاکھ روپیہ الگ محفوظ نہ ہوتا تو شاید آج وہ بھی کسی ریفیوجی کیمپ میں ہوتا، کسی شہر میں دھکّے کھا رہا ہوتا یا کلرکی کر رہا ہوتا۔ سیٹھ حنیف کانجی بھی شاید یہی چاہتے تھے۔ اسی لئے وہ خود دن رات اپنے کاروبار میں غرق رہتے تھے لیکن اپنے بیٹے کو انہوں نے تعلیم حاصل کرنے کی، جو تقسیم پاک و ہند سے پہلے کے بمبئی میں تاجر پیشہ خاندانوں میں انتہائی فضول کام سمجھا جاتا تھا، اجازت دے رکھی تھی۔

لطیف کانجی بی کام کے دوسرے سال میں تھا جب وہ تاریخ آئی۔ تین اپریل، انیس سو چھپن۔ وہ اپنے والد کا ایک چیک کیش کرانے بینک گیا تو اچانک اس کی نظر چیک پر لکھی تاریخ پر پڑی۔ تین اپریل سن چھپن۔ تین چار پانچ چھ۔ !!

ایک لمحے کو اس دل دھڑکنا بھول گیا۔

کیا ہونے والا ہے۔ ؟ اس نے اپنے آپ سے پوچھا۔ بینک میں ہر جانب ہنگامہ تھا۔ لوگ پھٹے پرانے نوٹوں پر جھگڑ رہے تھے۔ باتیں کر رہے تھے۔ بینک کے عملے سے بحث کر رہے تھے اور اس سارے ہنگامے میں وہ پھٹی ہوئی آنکھوں سے چیک کو دیکھ رہا تھا۔ کاؤنٹر کے پیچھے بیٹھے بینک کے ایک کلرک نے کہا۔ ’’کیا سوچ رہے ہیں قبلہ۔ چیک دیجئے یا دوکان بڑھایئے۔ ‘‘ وہ اپنی بات پر خود ہی قہقہہ مار کر ہنسا۔ لطیف کانجی نے چیک دے کر ٹوکن لے لیا لیکن اس کی بے چینی برقرار رہی۔

چیک پانچ ہزار روپے کا تھا۔ وہ یہ رقم لے کر سیدھا اپنے والد کے دفتر پہنچا۔ کالج کی چھٹی تھی، اس لئے سیٹھ حنیف کانجی نے رقم لانے کی ذمہ داری اسے سونپ دی تھی۔

دفتر میں گھستے ہی اسے بے ترتیبی کا احساس ہوا۔ عملہ اپنی نشستوں پر نہیں تھا۔ اس کے والد کے کمرے کا دروازہ جو ہمیشہ بند رہتا تھا، ا?ج کھلا ہوا تھا اور اندر ہجوم نظر آ رہا تھا۔

وہ اندر بھاگا۔ سیٹھ حنیف کانجی کی اینگلو انڈین سیکریٹری نے اسے دیکھا اور چیخیں مار مار کر رونے لگی۔

قالین پر سیٹھ حنیف کانجی پڑے تھے۔ !

لطیف کانجی کو یوں محسوس ہوا جیسے اس کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی ہو۔ وہ لڑکھڑا کر ایک کرسی پر بیٹھ گیا۔ ایک ڈاکٹر اس کے والد پر جھکا ہوا تھا۔

کچھ دیر بعد ڈاکٹر اٹھ کھڑا ہو گیا۔ ’’نو چانس۔ ‘‘ اس نے اردگرد جمع لوگوں سے کہا۔ ’’ہاسپٹل لے جانے کا کوئی فائدہ نہیں۔ بہت سخت ہارٹ اٹیک تھا۔ ‘‘

’’نہیں۔ ‘‘ اس نے چیخ کر کہا اور اٹھ کھڑا ہوا۔ ’’ہاسپٹل لے چلو۔ ابھی۔ فوراً۔ ‘‘

اینگلو انڈین سیکریٹری چیخیں مار مار کر روتی رہی۔ وہ کار لے کر طوفانی رفتار سے ہسپتال کی جانب روانہ ہوا۔ اس کے ساتھ والی نشست پر بیٹھے کمپنی کے جنرل منیجر نے ایک دو دفعہ اسے ٹوکا اور پھر خاموش ہو کر بیٹھ گیا۔ پچھلی نشست پر سیٹھ لطیف کانجی اور ڈاکٹر تھے۔

ایمرجنسی کے لاؤنج میں وہ آدھے گھنٹے تک مسلسل ٹہلتا رہا۔ اس کے کانوں میں سائیں سائیں ہو رہی تھی۔ کمپنی کا جنرل منیجر تسلی آمیز لہجے میں اس سے جو کچھ کہتا رہا، اس کا ایک لفظ بھی لطیف کانجی کی سمجھ میں نہیں آیا۔

بالآخر دروازہ کھلا اور دو ڈاکٹر سفید اوور کوٹ پہنے نمودار ہوئے۔

’’ہمیں افسوس ہے۔ ‘‘ ایک ڈاکٹر نے اس کے کندھے کو تھپتھپایا۔ ’’کولسٹرول لیول پہلے ہی بہت زیادہ تھا اور میرا خیال ہے کہ ان کا کام بھی بہت تھا۔ اس عمر میں …‘‘

’’کس عمر میں۔ ؟ ‘‘ لطیف کانجی نے چہرے پر بہنے والے آنسوؤں کو صاف کر کے تلخی سے کہا۔ ’’ان کی عمر صرف پچاس سال تھی۔ ‘‘

ڈاکٹر بہت متحمل مزاج اور شفیق تھا۔ لطیف کانجی نے چیخ چیخ کر جو کہا، اس کا اُس نے قطعی برا نہیں مانا۔ نرم لہجے میں اس نے صرف اتنا کہا۔ ’’یہ لاؤنج ذرا علیحدہ ہے۔ لیکن اگر آپ گیلری میں یا کمروں کے سامنے اس طرح چلّائیں گے تو مریضوں پر برا اثر پڑے گا۔ مجھے آپ کے صدمے کا اندازہ ہے۔ جب میرے والد کا انتقال ہوا تھا تو میری بھی یہی حالت تھی۔ ‘‘

لطیف کانجی نے شرمندگی سے سر جھکا لیا۔ پھر اس نے ڈاکٹرز کا شکریہ ادا کیا اور باہر نکل آیا۔ اس کے بعد سارا کام کمپنی کے لوگوں نے کیا۔ گھر پر لطیف کانجی نے اپنی ماں کو پاگلوں کی طرح چیختے ، بین کرتے دیکھا۔ اس کے لہولہان ہاتھوں کو دیکھا اور دہلیز پر بکھری چوڑیوں کی کرچیوں کو دیکھا۔ وہ گھر اس دن گھر نہیں تھا، ایک آسیب زدہ کھنڈر تھا جہاں چیخوں کی بازگشت تھی اور ویرانی تھی۔ وہ اپنی ماں کو تسلی دینا چاہتا تھا لیکن اس کے پاس وہ لفظ نہ تھے جو اس کا مدعا بیان کر سکیں۔ وہ حوصلہ نہ تھا جو ماں کی دیوانگی کے مقابل ٹھہر سکے۔ وہ جذبہ نہ تھا جو ایک گہرے زخم کی مسیحائی کر سکے۔ گھر میں ہونے والی تکرار کے باوجود وہ جانتا تھا کہ اس کے ماں باپ ایک دوسرے کو دیوانگی کی حد تک چاہتے ہیں۔ لیکن اس وقت وہ بے بس تھا۔ ایک عمر کی رفاقت ختم ہونے کے اس دکھ کو وہ ہی نہیں ، کوئی بھی نہیں بانٹ سکتا تھا۔

ایک ہفتے بعد اس نے اپنی ماں سے کہا۔ ’’میں نے فیصلہ کر لیا ہے۔ مجھے پڑھائی چھوڑنی پڑے گی۔ کاروبار کسی دوسرے کے ہاتھ میں نہیں دیا جا سکتا۔ ‘‘

اس کا خیال تھا کہ ماں اس کی مخالفت کرے گی۔ پڑھائی جاری رکھنے پر اصرار کرے گی اور اس دوران کاروبار کی نگرانی کمپنی کے جنرل مینجر کو سونپنے کی تجویز پیش کرے گی۔ لیکن ماں نے کہا۔ ’’تو ٹھیک کہتا ہے۔ امتحان پرائیویٹ بھی دیا جا سکتا ہے۔ تیرے باپ کی بڑی خواہش تھی کہ تو امتحان پاس کر لے۔ لیکن میں نہیں چاہتی کہ کاروبار کسی اور کے ہاتھ میں جائے۔ ‘‘

’’ٹھیک ہے۔ ‘‘ لطیف کانجی نے کہا۔ ’’میں پرائیویٹ امتحان دے دوں گا۔ کل سے میں دفتر جاؤں گا۔ ‘‘

اگلے روز وہ اپنے والد کی سیٹ پر بیٹھا تو ایک لمحے کو اسے جھرجھری سی آئی۔ اسی سیٹ پر بیٹھ کر سیٹھ حنیف کانجی نے کامیابی کے ستاروں پر کمند ڈالی تھی۔ یہیں سے انہوں نے اپنی بیوی کے لئے اور اپنے بیٹے کے لئے دنیا زمانے کی آسائشوں کا بندوبست کیا تھا۔ اسی مقام سے انہوں نے زندگی کے نئے چیلنج کو قبول کیا تھا اور ایک بار پھر عروج کی جانب گامزن ہوئے تھے۔ ایک لاکھ روپیہ اب پھیل کر نہ جانے کتنا ہو چکا تھا۔ ؟ لطیف کانجی نے ایک ماہ تک اس دیار کے کوچہ و بازار کی سیر کی، دن رات محنت کی اور ہر گُر سے واقفیت حاصل کی تو اس پر انکشاف ہوا کہ آٹھ سال کے عرصے میں وہ ایک لاکھ روپے تیس لاکھ بن چکے ہیں۔ یہ وہ تیس لاکھ تھے جو کمپنی کے پاس تھے ، سرمایہ کاری کے لئے موجود تھے۔ اور وہ بارہ لاکھ الگ تھے جو منصوبوں میں لگے ہوئے تھے۔ بڑھتے جا رہے تھے ، پھیلتے جا رہے تھے۔ ہر ماہ ہزاروں کا منافع بینکوں میں پھینکتے جا رہے تھے۔

وہ شب و روز کام کرتا رہا۔ سیٹھ لطیف کانجی۔ تاجروں کی صف میں شامل ہونے والا نوجوان۔ لوگ اس کا نام احترام سے لینے لگے تھے۔ اس کی ذہانت کی تعریف کرنے لگے تھے۔ اس دیوانہ وار محنت میں اسے احساس بھی نہ ہوا کہ کب ایک سال بیت گیا۔ محویت کا یہ عالم اس روز ختم ہوا جب ایک صبح اس نے بعض حسابات بے باق کرنے کے لئے چند تیار شدہ چیکوں پر دستخط کئے۔ دستخط کرانے کے لئے آنے والے نوجوان اسسٹنٹ منیجر نے حیرت سے اپنے باس کو دیکھا جو دستخط کرتے کرتے اچانک رک گیا تھا۔

’’آج پانچ تاریخ ہے سر۔ ‘‘ اس نے کہا۔ ’’پانچ جولائی۔ ‘‘

لطیف کانجی نے اپنی آواز کو حتی الامکان نارمل رکھنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔ ’’پانچ جولائی سن ستاون؟ ‘‘

’’جی ہاں۔ ‘‘ اسسٹنٹ منیجر نے بھی حیرت ظاہر نہ کی۔

لطیف کانجی نے دستخطوں کے نیچے تاریخ درج کی اور اسے غور سے دیکھا۔ پانچواں دن۔ ساتواں مہینہ۔ سن ستاون۔ پانچ سات پانچ سات۔ !!

اسسٹنٹ منیجر چیک لے کر چلا گیا، تب بھی وہ اسی طرح ساکت بیٹھا رہا۔ پانچ سات، پانچ سات۔

اعداد اس کے تصور میں گھوم رہے تھے۔ کچھ ہونے والا تھا۔ لیکن کیا ہونے والا تھا، یہ کسی کو پتہ نہ تھا۔ لطیف کانجی نے سر جھٹک کر اس خیال کو دل سے باہر نکالنے کی کوشش کی۔ لیکن یہ خیال کسی شریر بچے کی طرح کسی کونے میں جا چھپا تھا۔ اس کا چہرہ نظر آتا تھا اور پھر غائب ہو جاتا تھا۔ تاریکی میں پل بھر کو روشنی ابھرتی تھی اور پھر گھپ اندھیرا چھا جاتا تھا۔ کیا ہونے والا ہے۔ ؟ اس نے سوچا۔ کوئی اچھی خبر آنے والی ہے یا صدمہ پہنچنے والا ہے۔ ؟ خوشی آنے والی ہے یا قیامت۔ ؟

قیامت نے ٹھیک ایک بج کر ایک منٹ پر اس کے کمرے میں قدم رکھا۔ !

سیاہ چادر میں اس کا چہرہ چاند کی طرح روشن تھا، اسی طرح جیسے گھنی پلکوں کے پیچھے چمکتی سیاہ آنکھوں کے چراغ روشن تھے۔ لطیف کانجی مبہوت بیٹھا اسے دیکھتا رہا۔ اس کی محویت کا طلسم اس وقت ٹوٹا جب لڑکی نے کہا۔ ’’اگر آپ مجھے دیکھ چکے ہوں تو میں بیٹھ جاؤں۔ !‘‘

بوکھلاہٹ اور شرمندگی سے دوچار لطیف کانجی نے کہا۔ ’’بیٹھئے …بیٹھئے … تشریف رکھئے …‘‘

اس نے لڑکی کو متانت کے ساتھ زیر لب مسکراتے اور اپنے روبرو بیٹھتے دیکھا۔

’’میرا نام زبیدہ ہے۔ زبیدہ مہر علی۔ ‘‘ اس نے کہا۔ ’’میں نے بی اے کیا ہے۔ میں اکاؤنٹس اور ٹائپنگ جانتی ہوں۔ شارٹ ہینڈ بھی تھوڑی بہت آتی ہے۔ مجھے آپ کے ایک جاننے والے نے آپ کے پاس بھیجا ہے۔ لیکن میں ان کا نام نہیں بتاؤں گی کیونکہ میں چاہتی ہوں ، آپ اگر مجھے ملازمت دیں تو میری صلاحیت کی بنیاد پر۔ کسی کے حوالے یا سفارش سے نہیں۔ ویسے میں نے یہ تو پوچھا ہی نہیں کہ آپ کے دفتر میں میرے لئے کوئی گنجائش ہے یا نہیں۔ ؟ ‘‘

گنجائش دفتر میں نہیں تھی، لطیف کانجی کے دل میں تھی۔ سرسری نوعیت کے سوالات کرنے کے بعد اس نے کہا۔ ’’دیکھئے مس زبیدہ۔ اس شہر میں اب تک لڑکیوں کی ملازمت کا سلسلہ عام نہیں ہوا ہے۔ عام طور پر عیسائی لڑکیاں ہی مختلف دفتروں میں کام کر رہی ہیں اور ان کے لئے ماحول کے مقابلے میں خود کو ایڈجسٹ کرنا ذرا آسان کام ہوتا ہے۔ آپ میری بات کا مطلب سمجھ رہی ہیں نا۔ ؟ ‘‘

’’جی ہاں۔ ‘‘ زبیدہ مسکرائی۔ ’’آپ یہی کہنا چاہتے ہیں نا کہ مجھے مردوں کے دفتر میں کام کرنا ہو گا۔ میں پہلے بھی ایسے ہی دفتر میں کام کر چکی ہوں۔ ‘‘

’’ٹھیک ہے۔ ‘‘ لطیف کانجی نے اس کی آنکھوں میں براہ راست دیکھنے سے گریز کرتے ہوئے کہا۔ ’’ کل سے آ جایئے۔ آج پانچ تاریخ ہے۔ اس مہینے کے ختم ہونے میں ابھی چھبیس دن باقی ہیں۔ یہ مہینہ ایک اعتبار سے آپ کی آزمائش کا اور تربیت کا مہینہ ہو گا۔ آپ کامیاب رہیں تو اگلے ماہ کی پہلی تاریخ سے آپ کو کنفرم کر دیا جائے گا۔ میرا خیال ہے کہ آپ کو ہماری کمپنی کی تنخواہ بھی معقول لگے گی اور دیگر سہولتیں بھی۔ ‘‘

زبیدہ اٹھ کھڑی ہوئی۔ اس نے تشکر کی ایک نگاہ لطیف کانجی پر ڈالی اور دروازہ کھول کر باہر نکل گئی۔ جب شام گزر گئی اور رات ڈھلنے لگی تو لطیف کانجی نے جانا کہ اعداد کی کرشمہ سازی نے رونما ہونے والے جس حیرت انگیز واقعہ کی طرف اشارہ کیا تھا، وہ زبیدہ تھی۔ ! کوئی خودکار مشین سفید کاغذوں پر اعداد اور حروف چھاپتی جا رہی تھی۔ پانچ سات پانچ سات۔ زبیدہ مہر علی۔ پانچ سات پانچ سات۔ زبیدہ مہر علی۔ وہ رات نہیں تھی، ہزار جہتوں کا کوئی آئینہ تھا جس میں زبیدہ کا چہرہ ہزار زاویوں سے نظر آ رہا تھا۔

اگلی صبح لطیف کانجی کی آنکھ کھلی تو کھلی کھڑکی سے دھوپ اندر آ رہی تھی۔ وہ ہڑ بڑا کر اٹھ بیٹھا۔ ساڑھے نو بج گئے تھے۔ ناشتہ کرنے اور تیار ہونے کے بعد دفتر پہنچنے میں پورا ایک گھنٹہ لگتا تھا۔ اسے اپنے اوپر سخت تاؤ آیا۔ کئی مہینوں سے وہ ہمیشہ بروقت دفتر پہنچتا تھا۔ عملے کو وقت کی پابندی کے اصول پر کاربند رکھنے کا اس سے اچھا کوئی طریقہ نہ تھا۔ جو دیر سے آتے تھے ، وہ مالک کو اپنے کام میں منہمک دیکھ کر سخت پریشان ہوتے تھے اور ندامت کے سبب آئندہ بروقت آنے کا فیصلہ کرتے تھے۔ لیکن آج دیر ہو گئی تھی۔ آج ہی سے زبیدہ کو آنا تھا۔ وہ کیا سوچے گی۔ ؟ لطیف کانجی کو اپنے خیالات پر خود ہنسی آئی۔ کیا سوچے گی زبیدہ۔ ؟ اور اس کے سوچنے سے کیا فرق پڑے گا۔ ؟

پندرہ منٹ بعد وہ نہا دھو کر تیار ہو کر باہر نکلا تو ماں ناشتے کی میز پر اس کا انتظار کر رہی تھی۔ ملازم نے اسی وقت گرم چائے لا کر رکھی اور وہ ناشتے میں مصروف ہو گیا۔ ناشتے کے دوران اسے دو بار احساس ہوا کہ وہ ماں کی باتیں توجہ سے نہیں سن رہا ہے۔ ناشتہ ختم کرتے ہی وہ بریف کیس اٹھا کر تیزی سے روانہ ہوا۔ ابھی وہ دروازے پر بھی نہ پہنچا تھا کہ پیچھے سے ماں کی آواز آئی۔ وہ گڑ بڑا کر مڑا۔

’’کیا بات ہے بیٹا۔ ؟ ‘‘ ماں نے حیرت سے پوچھا۔

’’سوری ماں۔ ‘‘ وہ واپس آیا اور ماں کے پاس جھکا۔ ماں نے اس کا ما تھا چوما اور ہر روز کی طرح اسے دعا دی۔

’’کیا کام بہت ہے۔ ؟ ‘‘ ماں نے پوچھا۔

’’ہاں ماں۔ ‘‘ لطیف کانجی نے نظریں چراتے ہوئے کہا۔ ’’پھر آج دیر بھی ہو گئی ہے۔ ‘‘ وہ ہاتھ ہلاتا باہر نکل آیا۔

دفتر میں زبیدہ موجود تھی۔ جنرل منیجر نے اس کی میز لطیف کانجی کے کمرے کے دروازے کے پاس رکھوائی تھی۔ ایک سرسری نظر میں لطیف کانجی نے سب کچھ دیکھ لیا۔ اس کی سیاہ چادر سلیقے سے کرسی کی پشت پر لٹکی ہوئی تھی اور اس نے گلابی دوپٹے سے سر کو ڈھانپ رکھا تھا۔ لطیف کانجی سب کے سلام کا جواب دیتا کمرے میں چلا گیا۔

اس روز وہ دوپہر تک سخت مصروف رہا۔ اتنا مصروف کہ اسے زبیدہ کا خیال بھی نہیں آیا۔ پہلے سیٹھ دیوان مل کے منیجر سے وہ ٹیلیفون پر بات چیت کرتا رہا۔ پھر سیٹھ دیوان مل خود اس کے دفتر آ گئے۔ وہ شہر کے صف اول کے صنعت کار تھے۔ صنعتکاروں کی فیڈریشن کے سربراہ تھے۔ کوئی نہیں جانتا تھا کہ وہ کروڑ پتی ہیں یا ارب پتی۔ لطیف کانجی نے کمرے سے باہر آ کر ان کا استقبال کیا اور ان کا ہاتھ تھام کر انہیں اندر لے گیا۔

اس وقت تک اسے اندازہ نہیں تھا کہ سیٹھ دیوان مل اس سے کیا کام لینے والے ہیں۔ لیکن جب سیٹھ دیوان مل نے اسے اپنے منصوبوں کی تفصیلات سے آگاہ کیا تو اس کا منہ حیرت سے کھلا کا کھلا رہ گیا۔ وہ چاہتے تھے کہ لطیف کانجی ان کے کئی صنعتی منصوبوں کے لئے ملک کے مختلف شہروں میں کثیر المنزلہ عمارتیں تعمیر کرنے کا ٹھیکہ سنبھال لے۔ یہ عمارتیں مختلف اقسام کی تھیں۔ ان میں کارخانے بھی تھے ، گودام بھی اور مخصوص اقسام کی فیکٹریاں بھی۔ لیکن ان کے ساتھ کئی ذیلی منصوبے بھی تھے۔ جگہ جگہ کارکنوں کے لئے چھوٹے مکانات بھی تعمیر کرنے تھے۔ بجلی اور پانی کی فراہمی کے ٹھیکے بھی تھے۔ سیوریج کا نظام بھی تھا۔ دفاتر بھی تعمیر ہونے تھے اور مصنوعات کی سپلائی کے مراکز بھی۔

’’سارا حساب لگا لیا ہے میں نے۔ ‘‘ سیٹھ دیوان مل نے اپنی توند پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔ ’’کوئی ڈیڑھ دو کروڑ کا پراجیکٹ ہے۔ لیکن میرے کو سارا کام اگلی جنوری کے اینڈ تک چاہئے۔ ایک دم کمپلیٹ۔ ‘‘

لطیف کانجی کو یوں لگا جیسے اس کا دل دھڑکنا بھول گیا ہو۔ ڈیڑھ دو کروڑ۔ ! اس نے ہی نہیں ، اس کے والد نے بھی کبھی اتنے بڑے منصوبے میں ہاتھ نہیں ڈالا تھا۔ کمپنی اس قابل ہی نہ تھی۔

’’آئی ایم سوری سیٹھ صاحب۔ ‘‘ اس نے ماتھے پر نمودار ہونے والے پسینے کو رو مال سے صاف کیا۔ ’’شاید میں اتنے بڑے منصوبے کو سنبھالنے کا… میرا مطلب ہے … اتنی بڑی رقم کے لئے …‘‘

سیٹھ دیوان مل نے غصے سے پہلو بدلا تو کرسی چرچرائی۔ ’’تیرے کو پتہ ہے لطیف کانجی۔ ‘‘ انہوں نے کہا۔ ’’تو ایک عقلمند باپ کا اسٹوپڈ بیٹا ہے۔ اسٹوپڈ اور گدھا۔ ایسے کرتا ہے تو بزنس ڈیل۔ ؟ تیرا باپ ہوتا تو تجھے جوتے مار کر کمرے سے نکال دیتا۔ جانتا ہے ، میں نے اور حنیف کانجی نے بمبئی میں گھی کی سپلائی کا بزنس مل کر شروع کیا تھا۔ ارے بابا، کس نے تیرے کو بولا ہے کہ اپنا پیسہ لگا اور میرا پراجیکٹ پورا کر۔ بس کام شروع کرا دے تھوڑے پیسے سے۔ کتنا پیسہ لگاسکتا ہے تو۔ ؟ ‘‘

’’بیس… بیس پچیس لاکھ۔ ‘‘ لطیف کانجی نے بمشکل کہا۔

’’کافی ہے۔ ‘‘ سیٹھ دیوان مل نے ہاتھ اٹھا کر کہا۔ ’’کام شروع کرا دے۔ کام کراتا جا اور پچھلی پیمنٹ لیتا جا۔ ایک مہینے میں پیسہ رولنگ میں آ جائے گا۔ لیکن میں نے بولا نا، میرے کو جنوری کے اینڈ پر سارا کام چاہئے۔ تو باقی سارا کام روک دے۔ لپیٹ کے رکھ دے۔ دو کروڑ کے پراجیکٹ میں تیرے کو اتنا پرافٹ ضرور ہو جائے گا کہ اگلے سال تو اور بہت سے کام شروع کر سکے۔ اور میرا مشورہ یہ ہے کہ تو اب کنسٹرکشن کی لائن پکڑ لے۔ کراچی میں اب یہی بزنس چلے گا۔ ‘‘

اسی وقت کمرے کا دروازہ کھلا اور زبیدہ اندر داخل ہوئی۔ لطیف کانجی نے حیرت سے اس ٹرے کو دیکھا جو زبیدہ کے ہاتھ میں تھی۔ اس میں دو ٹھنڈی بوتلیں تھیں اور نمکین بسکٹ تھے۔ ایک لمحے کو اسے اپنی آنکھوں پر یقین نہ آیا۔ یہ زبیدہ کا کام نہیں تھا۔ لیکن یہ بھی حقیقت تھی کہ وہ خود کاروباری گفتگو میں الجھ کر سیٹھ دیوان مل کی خاطر تواضع کے فریضے سے غافل ہو گیا تھا۔ اس کے دل میں خوشی کی ایک لہر اٹھی۔

زبیدہ چلی گئی تو سیٹھ دیوان مل نے کہا۔ ’’یہ تو نے ان چیزوں کا آرڈر کب دیا تھا۔ ؟ میں تو دیکھ بھی نہیں سکا۔ اور تیرے کو کیسے پتہ چلا کہ میں چائے نہیں پیتا ہوں۔ ؟ خیر، چھوڑ۔ اب میں تیرے کو یہ بتا دوں کہ میں یہ پراجیکٹ تیرے سر کیوں ڈالنا چاہتا ہوں۔ ایک وجہ تو تیرا باپ ہے۔ میرے کو وہ آدمی پسند تھا۔ دوسری بات یہ ہے کہ تو جوان آدمی ہے۔ کام صرف جوان آدمی کرتا ہے۔ باقی لوگ صرف ٹائم پاس کرتے ہیں۔ اور تیسری وجہ یہ ہے کہ تیری شہرت اچھی ہے۔ میرے کو گھپلے والا آدمی نہیں چاہئے۔ اچھا کام کر، اچھا پرافٹ لے۔ بمبئی میں میری اور تیرے باپ کی پارٹنر شپ دو سال رہی لیکن ہم نے اس کے بعد بھی کبھی ایک دوسرے سے گھپلا نہیں کیا۔ ایک بار میرا پچاس ہزار روپیہ اس کے پاس چلا گیا۔ میرے کو پتہ بھی نہیں چلا۔ اور دو دن بعد ہی میرا کاروبار بیٹھ گیا۔ ایک جہاز سارے مال کے ساتھ سمندر میں غرق ہو گیا اور میرے کو بھی غرق کر گیا۔ ایک دم خلاص۔ حنیف کانجی میرا پچاس ہزار ایمانداری سے واپس نہ کرتا تو میں وہیں ختم ہو جاتا۔ اس ٹائم پچاس ہزار بڑا پیسہ ہوتا تھا۔ پھر پاکستان آنے سے پہلے حنیف کانجی نے میرے کو ایک لاکھ روپیہ دیا اور پوری اسٹوری سنائی۔ اس کے ہندو ڈائریکٹروں نے اس کو کنگال کر دیا تھا۔ اس نے میرے کو بولا، دیوان مل، یہ ایک لاکھ لے لے۔ میرے کو اب یہ کراچی میں چاہئے۔ اس نے بولا، میرے کو نہ بینک پر اعتبار ہے نہ کسی دوسرے سیٹھ پر۔ یہ روپیہ ٹرانسفر کرنا تیری ذمہ داری ہے۔ بھگوان کا بڑا کرم ہوا۔ میں نے کراچی میں اس کو روپیہ دے دیا۔ تیرے ساتھ ڈیل کرنے کی وجہ یہ ہے لطیف کانجی، کہ تو بھی مجھے حنیف کی طرح لگتا ہے۔ ‘‘

سیٹھ دیوان مل چلے گئے تب بھی لطیف کانجی اپنی کرسی کی پشت سے ٹیک لگائے ساکت بیٹھا رہا۔ یہ سارا منظر، گزشتہ چوبیس گھنٹے کے سارے واقعات اسے خواب لگ رہے تھے۔ پانچ جولائی سن ستاون۔ پانچ سات پانچ سات۔ اس کے بعد زبیدہ آ گئی تھی۔ اور زبیدہ کے ساتھ خوش قسمتی آ گئی تھی۔ ! کیسی حیرت انگیز باتیں علم میں آ رہی تھیں۔ سیٹھ دیوان مل اور سیٹھ حنیف کانجی نے اپنی اپنی ایمانداری کے ذریعے ایک دوسرے کے کاروبار کی بنیاد رکھی تھی۔ ایک نے پچاس ہزار روپیہ واپس کر دیا تھا۔ دوسرے نے ایک لاکھ روپیہ منزل مقصود تک پہنچا دیا تھا۔ پھر اسے زبیدہ کا خیال آیا۔

اس کے طلب کرنے پر جب وہ کمرے میں داخل ہوئی تو اس کے ہاتھ میں پینسل اور شارٹ ہینڈ بک تھی۔

’’بیٹھئے۔ ‘‘ لطیف کانجی نے کہا۔ ’’میں نے آپ کو ڈکٹیشن دینے کے لئے نہیں بلایا۔ یہ پوچھنے کے لئے بلایا ہے کہ آپ نے بوتلیں خود لانے کی زحمت کیوں کی تھی۔ ؟ اور چائے کیوں نہیں بھیجی تھی۔ ؟ ‘‘

زبیدہ نے بے یقینی سے اس کی طرف دیکھا اور کہا۔ ’’در اصل چپراسی کو میں نے کسی کام سے بازار بھیجا تھا۔ اکاؤنٹس کے نئے رجسٹر لینے کے لئے۔ مجھے یقین تھا کہ وہ گھنٹہ بھر تک نہیں آئے گا اس لئے میں خود آ گئی۔ چائے میں نے اس لئے نہیں بھیجی کیونکہ سیٹھ دیوان مل چائے نہیں پیتے۔ !‘‘

لطیف کانجی ہکّا بکّا اسے دیکھتا رہا۔ ’’آپ کو کیسے پتہ۔ ؟ ‘‘

’’میں پہلے جس فرم میں کام کرتی تھی وہاں سیٹھ دیوان مل مہینے میں ایک دفعہ ضرور آتے تھے۔ میں چائے کے سلسلے میں ان کی ناپسندیدگی سے خوب واقف ہوں۔ میں معذرت خواہ ہوں۔ آئندہ آپ کو…‘‘

’’نہیں۔ نہیں ‘‘ لطیف کانجی نے ہاتھ اٹھا کر کہا۔ ’’میں تو آپ کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔ کاروبار میں ایسی چھوٹی چھوٹی باتیں بعض اوقات بہت بڑا فائدہ دے جاتی ہیں۔ ہاں۔ یہ نئے رجسٹر کیوں منگوائے ہیں آپ نے۔ ؟ ‘‘

’’آپ کے اکاؤنٹس کو ترتیب میں رکھنے کے لئے۔ ‘‘ زبیدہ نے اپنا دوپٹہ ٹھیک کر کے کہا۔ ’’در اصل مختلف کاروباروں کے حسابات ایک ہی ہیڈ کے تحت موجود ہیں۔ میرا خیال ہے کہ امپورٹس اور ایکسپورٹ کے حسابات اور منافع یا خسارے کے کھاتے الگ ہونے چاہئیں۔ اسی طرح کنسٹرکشن اور کلیئرنگ فارورڈنگ کے شعبے کے اکاؤنٹس بھی علیحدہ ہونے چاہئیں۔ ورنہ آپ کیسے جان سکیں گے کہ کہاں آپ کو منافع ہوا ہے اور کہاں معاملہ بریک ایون کا ہے یا خسارے کا ہے۔ ؟ ‘‘

اگلے ایک ہفتے کے دوران زبیدہ نے اسی طرح لطیف کانجی کو بار بار حیران کیا۔ اپنے حسن سے کم، اپنی عقل کے ذریعے زیادہ۔ دفتر کا پورا عملہ اس کی با وقار شخصیت سے اور اس کی متانت سے متاثر تھا، مرعوب تھا۔ ایک ہفتے بعد لطیف کانجی نے اسے کنفرم کر دیا۔

سیٹھ دیوان مل کے منصوبے کے لئے اس نے ٹینڈر طلب کر لئے تھے۔ اس نے اپنے جنرل منیجر اور زبیدہ کے ساتھ مل کر ٹینڈر منظور کئے۔ وہ جانتا تھا کہ وہ بہت بڑے کام میں ہاتھ ڈال رہا ہے۔ اگلے چھ ماہ تک اسے پاگلوں کی طرح دن رات کام کرنا ہے۔ شہر شہر کام کی نگرانی کرنی ہے۔ لیکن اسے معلوم تھا کہ اس دوران دوسرے کاروبار کی نگرانی کے لئے جنرل منیجر موجود ہے۔ اور زبیدہ موجود ہے جس کی نگاہ کبھی نہیں چوک سکتی۔

یہ دیوانہ وار محنت کے مہینے تھے۔ ایسی محنت اس نے زندگی میں کبھی نہیں کی تھی۔ لاہور، لائل پور، گجرات، گوجرانوالہ، کراچی۔ ہر جگہ کام بیک وقت شروع ہوا اور تیزی سے تکمیل کے مراحل طے کرنے لگا۔ لطیف کانجی ہر جگہ موجود تھا۔ ہوائی جہاز کے ذریعے ، کار کے ذریعے وہ ہر سائٹ پر پہنچتا تھا۔ سیٹھ دیوان مل نے بالکل ٹھیک کہا تھا۔ ابتدائی ایک ماہ میں اس نے اپنے پچیس لاکھ لگا دیئے اور اس کے ساتھ ہی سیٹھ دیوان مل کی جانب سے رقم کی فراہمی کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ جو کام مکمل ہو جاتا تھا، مرحلہ وار شیڈول کے تحت اس کی ادائیگی ہو جاتی تھی۔ بنجر زمینوں اور ویران میدانوں میں عمارتیں سر اٹھانے لگیں۔ سیٹھ دیوان مل نے جنوری تک کی ڈیڈ لائن مقرر کی تھی۔ لطیف کانجی کو نومبر میں ہی اندازہ ہو گیا کہ اس کی محنت رنگ لا رہی ہے اور وہ جنوری کے پہلے ہفتے میں ہی اپنے ہدف تک پہنچ جائے گا۔ لیکن یہ جاننے کے باوجود اس نے شب و روز کی محنت میں کوئی کمی نہیں آنے دی۔ دسمبر کے آخری ہفتے میں کام تکمیل کے آخری مراحل میں داخل ہو گیا۔ پہلی بار لطیف کانجی نے اطمینان کا سانس لیا۔

جنوری کے پہلے ہفتے میں اس نے لائل پور سے سیٹھ دیوان مل کو ٹیلیفون کیا۔

’’میرے کو پتہ ہے لطیف کانجی۔ ‘‘ دوسری طرف سے سیٹھ دیوان مل کی آواز آئی۔ ’’تو نے کس لئے فون کیا ہے۔ میں تیرے کو مبارکباد دیتا ہوں۔ تو نے میرے سارے اندازے غلط ثابت کر دیئے۔ ‘‘

لطیف کانجی حیران ہوا۔ ’’کیسے اندازے سیٹھ صاحب۔ ؟ ‘‘

سیٹھ دیوان مل نے کہا۔ ’’میرا اندازہ تھا کہ تو مارچ سے پہلے یہ کام پورا نہیں کر سکے گا۔ پر میرے جو لوگ کام کو اور تیرے کو واچ کر رہے تھے انہوں نے دو مہینے پہلے ہی بول دیا تھا کہ کام وقت سے پہلے ہی پورا ہو جائے گا۔ ہو سکتا ہے ، تیرے کو یہ بات بری لگی ہو۔ پر میں نے تیری بڑی سخت چیکنگ کی ہے۔ تیری اور تیرے کام کی۔ میرے کو کئی لوگوں نے بولا تھا کہ یہ چھوکرا نہ ڈیڈ لائن تک کام پورا کرے گا اور نہ فیئر کام کرے گا۔ پر تو نے بڑا کمال کیا لطیف کانجی۔ باقی پیسہ ایک ہفتے میں تیرے دفتر پہنچ جائے گا۔ اب میں ایک مشورہ دیتا ہوں۔ دھیان سے سن۔ چھ مہینے سے تو کام کر رہا ہے ، اب چھٹی کر۔ تھوڑا ریسٹ کر، عیش کر۔ ‘‘

لطیف کانجی ہنسا۔ ’’کاروبار میں ریسٹ کہاں ہوتا ہے سیٹھ صاحب۔ ‘‘

’’میں جو تجھ سے کہہ رہا ہوں۔ ‘‘ دوسری طرف سے سیٹھ دیوان مل نے تقریباً چلّا کر کہا۔ ’’چھٹی نہیں کرے گا تو مر جائے گا۔ جیسے تیرا باپ مرگیا تھا۔ جیسے کسی دن میں مر جاؤں گا۔ جو ریسٹ نہیں کرتا، عیش نہیں کرتا، مر جاتا ہے۔ ‘‘ سلسلہ منقطع ہو گیا۔

لطیف کانجی ریسیور تھامے خاموش کھڑا رہ گیا۔ سیٹھ دیوان مل نے بالکل صحیح کہا تھا۔ لطیف کانجی کو وہ دن یاد آیا جب اس نے اپنے والد سیٹھ حنیف کانجی کو قالین پر پڑے دیکھا تھا۔ اور وہ ڈاکٹر یاد آیا جس نے کہا تھا، میرا خیال ہے ان کا کام بھی بہت تھا۔

وہ لائل پور سے لاہور پہنچا۔ لاہور سے پنڈی اور پنڈی سے مری۔

مری میں سیزن ختم ہو رہا تھا۔ برف صرف پہاڑوں کی چوٹیوں پر نظر آتی تھی اور ہر جانب سبزہ پھوٹ رہا تھا۔ درختوں پر نئے پتے نکل رہے تھے۔ بہار آنے والی تھی۔

ایک مناسب ہوٹل میں کمرہ بک کرانے کے بعد وہ سیدھا بازار پہنچا۔ وہ صرف ایک بریف کیس اٹھا کر لائل پور سے مری آ پہنچا تھا اور اس کے پاس گرم کپڑے نہیں تھے۔ اس نے ایک اوور کوٹ خریدا۔ دو سوئیٹر اور ایک اونی کنٹوپ خریدا۔ ہوٹل واپس جاتے جاتے اسے کچھ اور یاد آیا۔ وہ واپس آیا اور ایک ٹھیلے سے چمڑے کے دستانے خریدے۔ وہ دستانے پہن کر دیکھ رہا تھا جب اس کی نظر ایک ہوٹل کی دوسری منزل پر لگے ہوئے بورڈ پڑی۔

جلی حروف میں بورڈ پر لکھا تھا۔ ’’جوتشی ایم ایس جیون رام۔ ‘‘

نیچے لکھا تھا۔ ’’بمبئی کے مشہور جوتشی۔ شادی، محبت، گھریلو الجھنوں اور کاروبار کے بارے میں اپنی قسمت کا حال دیکھئے۔ ستاروں کی چال دیکھئے۔ ‘‘

تیز تیز قدموں سے واپس اپنے ہوٹل کی طرف جاتے ہوئے لطیف کانجی مسلسل اسی بورڈ کے بارے میں سوچتا رہا۔ جوتشی جیون رام یہاں مری میں کیا کر رہا تھا۔ ! گیارہ برس پہلے ہی وہ ساٹھ ستر برس کا لگتا تھا۔ اب تو وہ قبر میں پیر لٹکائے بیٹھا ہو گا۔ لطیف کانجی نے قسمت کے اس کھیل پر حیرت کی نگاہ کی۔ بمبئی میں ٹراموں کے جنکشن پر بیٹھنے والا جوتشی جیون رام، جس نے گیارہ برس پہلے اس کی کامیابی کی پیش گوئی کی تھی، اتنی مدت کے بعد اسی چھوٹے سے شہر میں موجود تھا جہاں وہ خود آرام کرنے کے لئے آیا تھا۔ لیکن اس کے نام کے ساتھ یہ ’’ایم ایس‘‘ کیا ہے۔ ایم ایس جیون رام۔ شاید یہ قسمت کا حال جاننے کے خواہشمندوں کو متاثر کرنے کی ترکیب تھی۔

ہوٹل پہنچ کر اس نے روم سروس کے ذریعے کھانا منگوایا۔ پھر نیچے ڈائننگ ہال میں جا کر اس نے کافی پی۔ دوبارہ باہر نکلنے سے پہلے اس نے سوئیٹر پہن لیا تھا۔ ہوا میں خنکی تھی جو سورج ڈھلنے کے بعد یقیناً سخت سردی میں بدلنے والی تھی۔

پندرہ منٹ بعد وہ اسی ہوٹل کے سامنے کھڑا تھا جس کی دوسری منزل پر جوتشی جیون رام بیٹھتا تھا۔ استقبالیہ کاؤنٹر پر سر رکھ کر سونے والے منیجر نے سر اٹھا کر لطیف کانجی کو اپنے سامنے سے گزرتے اور سیڑھیاں چڑھتے دیکھا اور پھر سو گیا۔

ہوٹل باہر سے جتنا بوسیدہ نظر آتا تھا، اندر اس سے بھی زیادہ خستہ حال تھا۔ دیواروں کا رنگ اکھڑ چکا تھا اور ہر جانب چھائی گہری خاموشی سے اندازہ ہوتا تھا کہ لوگ عام طور پر یہاں ٹھہرنا پسند نہیں کرتے ہیں۔ دوسری منزل کے اسی کمرے میں ایک انگریز جوڑا پہلے سے بیٹھا ہوا تھا۔ کمرے کو لکڑی کی دیواروں کے ذریعے دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا تھا۔ ایک حصے میں جوتشی جیون رام بیٹھتا تھا اور دوسرا حصہ، جس میں لطیف کانجی اس وقت داخل ہوا تھا، گویا ویٹنگ روم تھا۔ دس بارہ برس کے ایک لڑکے نے لطیف کانجی سے بیس روپے لئے اور کاغذ کا ایک ٹوکن اسے تھما دیا۔ لطیف کانجی دیوار کے ساتھ رکھی کرسی پر بیٹھ گیا۔

جوتشی جیون رام کے پاس یقیناً کوئی کلائنٹ تھا۔ اسی لئے وہ انگریز میاں بیوی بھی لطیف کانجی کی طرح وہاں بیٹھے اپنی باری کا انتظار کر رہے تھے۔ بیوی انتہائی باتونی تھی اور شوہر انتہائی کم گو تھا۔ ان کی یکطرفہ گفتگو سے لطیف کانجی نے اندازہ لگایا کہ وہ سیاح ہیں اور اولاد نہ ہونے کے سبب جوتشی جیون رام کے پاس آئے ہیں۔ بیوی ہندو سادھوؤں اور جوتشیوں سے بہت متاثر نظر آتی تھی۔ اسے تقریباً یقین تھا کہ ایک ملاقات میں ہی کایا پلٹ جائے گی۔ شوہر قائل نہیں تھا لیکن قائل نظر آنے کی کوشش کر رہا تھا۔

دروازہ کھلا اور ایک موٹا، سیاہ فام شخص مسکراتا ہوا باہر نکلا۔ اس نے جوتشی جیون رام کے نو عمر اسسٹنٹ کو دو روپے دیئے اور مسکراتا ہوا رخصت ہو گیا۔ انگریز میاں بیوی اندر گئے اور دروازہ بند ہو گیا۔

لطیف کانجی بیٹھا پہلو بدلتا رہا۔ دس منٹ بعد بالآخر دروازہ کھلا اور انگریز میاں بیوی باہر نکلے۔ بیوی کا چہرہ خوشی سے کھلا ہوا تھا۔ ’’دو سال ہوتے ہی کتنے ہیں۔ ؟ ‘‘ وہ اپنے شوہر کی آستین گھسیٹ گھسیٹ کر کہہ رہی تھی۔ ’’اور تم نے دیکھا۔ ؟ جوتشی نے پہلے ہی جان لیا تھا کہ ہم بیٹا چاہتے ہیں۔ ہے نا حیرت انگیز۔ ؟ لیکن یہ پورا براعظم ہی حیرت انگیز ہے۔ ‘‘وہ مسلسل بولتی اپنے شوہر کے ساتھ باہر نکل گئی۔

لطیف کانجی نے کمرے میں داخل ہو کر نیم تاریکی میں ایک میز کے پیچھے بیٹھے جوتشی کو دیکھا اور اس کے قدم رک گئے۔

وہ جوتشی جیون رام نہیں تھا۔ ! جوتشی جیون رام اتنا نوجوان نہیں ہو سکتا تھا۔

’’کون ہو تم۔ ؟ ‘‘ اس نے کہا۔

میز کے پیچھے بیٹھے جوتشی نے سر اٹھا کر اسے دیکھا۔ ان لمبے بالوں میں ، گھنی سیاہ داڑھی میں لطیف کانجی نے ان چمکدار آنکھوں کو دیکھا اور ایک لمحے میں اسے پہچان لیا۔

’’تم جوتشی جیون رام نہیں ہو۔ ‘‘ اس نے حیران بیٹھے جوتشی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا۔ ’’تم صفدر ہو۔ !!‘‘

اس نے صفدر کو جست لگا کر میز پھلانگتے اور اپنی طرف آتے دیکھا۔ اس نے لطیف کانجی کو بھینچ کر، لپٹا کر کہا۔ ’’تو کہاں سے آ گیا لطیف۔ ؟ میں تو سمجھ رہا تھا کہ تو بمبئی ہی میں ہو گا۔ ‘‘

’’میں کراچی میں ہوں۔ ‘‘ لطیف کانجی نے معانقہ سے فارغ ہو کر کہا۔ ’’لیکن تو یہاں کیا کر رہا ہے۔ ؟ اور تو جیون رام کیسے بن گیا۔ ؟ ‘‘

صفدر ہنسا۔ ’’جیون رام نہیں۔ ایم ایس جیون رام۔ محمد صفدر جیون رام۔ جوتشی جیون رام تو مر کھپ گیا ہو گا۔ ‘‘

مال روڈ کے ایک سرے پر سڑک کے کنارے بنے چھوٹے سے ریستوران میں کشمیری چائے پیتے ہوئے صفدر نے اسے اپنی پوری کہانی سنائی۔ اس کے ماں باپ پاکستان آتے ہوئے مارے گئے تھے۔ ٹرین کی آخری بو گی میں وہ لاشوں کے ڈھیر کے نیچے چھپا رہا تھا اور حملہ کرنے والے مطمئن ہو کر چلے گئے تھے۔ مری میں اس نے چار سال پہلے یہ کاروبار شروع کیا تھا۔

’’بڑا مشکل کاروبار ہے بیٹا۔ ‘‘ صفدر نے کہا۔ ’’بہت پڑھنا پڑتا ہے۔ بڑے زائچے بنانے پڑتے ہیں۔ اس کاروبار میں فراڈ نہیں چلتا۔ اپنے علم کے زور پر ہی میں نے یہ کاروبار سیٹ کیا ہے۔ جانتا ہے میری ماہانہ آمدنی کتنی ہے۔ ؟ ‘‘

لطیف کانجی نے نفی میں سر ہلایا۔

’’ڈیڑھ ہزار روپے ماہانہ۔ !‘‘ صفدر نے یوں کہا جیسے کوئی بڑا انکشاف کر رہا ہو۔ ’’حیران رہ گیا نا۔ ؟ بعض اوقات تو مہینے میں تین چار ہزار بھی ہو جاتے ہیں۔ جب سیزن ہوتا ہے تو کمرہ بھرا رہتا ہے۔ ہاں یار، چاچا اور چاچی کیسے ہیں۔ ؟ ‘‘

لطیف کانجی نے کہا۔ ’’چاچا کا انتقال ہو گیا۔ پچھلے سال۔ چاچی ٹھیک ہیں۔ وہیں کراچی میں ہیں۔ ‘‘

اسے یہ دیکھ کر بڑی حیرت ہوئی کہ صفدر نے اس کے والد کے انتقال کی خبر کو انتہائی سرسری انداز میں سنا تھا اور تسلی یا افسوس کا ایک لفظ بھی نہ کہا تھا۔ اسے یہ محسوس کر کے بھی حیرت ہوئی کہ صفدر اپنے ہی خیالوں میں گم تھا، اپنی ہی کامیابی سے سرشار تھا۔ اس کے لئے اگر کوئی بات اہم تھی تو یہ کہ وہ ڈیڑھ دو ہزار کما رہا ہے اور علم نجوم پر مکمل دسترس رکھتا ہے۔ لطیف کانجی کو دکھ ہوا۔ پاکستان آنے کے بعد کتنی ہی دفعہ اس کے دل میں صفدر سے ملنے کی خواہش ابھری تھی۔ کتنی ہی مرتبہ اس نے صفدر کو یاد کیا تھا لیکن اب جب صفدر اس کے روبرو تھا، مایوسی کی ایک لہر اس کے دل پر چھاتی جا رہی تھی۔ یہ وہ صفدر نہیں تھا۔ یہ کوئی اور تھا جس کے پاس اپنے بچپن کے دوست لطیف کانجی سے دل کی باتیں کرنے اور اس کے دل کی باتیں سننے کی فرصت نہ تھی۔ شاید لطیف کانجی کو اپنا دوست، اپنا یار صفدر ملتا تو وہ اسے اپنی کامیابی کی داستان سناتا۔ یہ بتاتا کہ چند دل پہلے ہی اس نے دیوانہ وار محنت کے ذریعے کتنی بڑی اور کیسی کڑی آزمائش میں خود کو سرخرو کیا ہے۔ لیکن جو صفدر اس کے سامنے بیٹھا تھا اس سے یہ سب کہنا فضول تھا، بے مقصد تھا۔

کشمیری چائے کا دوسرا پیالہ منگوانے کے بعد صفدر نے کہا۔ ’’لا اپنا ہاتھ دکھا۔ تجھے بھی تو اندازہ ہو کہ تیرا بچپن کا دوست اب کتنا بڑا جوتشی بن گیا ہے۔ ‘‘

لطیف کانجی نے بے دلی سے اپنا ہاتھ میز پر رکھ دیا۔ صفدر اسے مرعوب کرنے کی کوشش کر رہا تھا اور اسے زندگی میں ایسے لوگ کبھی اچھے نہیں لگے تھے۔ ۔ لیکن اس وقت کچھ نہیں کیا جا سکتا تھا۔

صفدر دیر تک اس کے ہاتھ کی لکیروں کو دیکھتا رہا۔ پھر اس نے اچانک پوچھا۔ ’’کہاں تک پڑھ ڈالا تو نے۔ ؟ ‘‘

’’بی کام پاس نہ کر سکا۔ فائنل ایئر میں چھوڑنا پڑا۔ ‘‘

صفدر پھر لکیروں کو دیکھنے میں محو ہو گیا۔ لطیف کانجی جانتا تھا کہ صفدر کیا سوچ رہا ہے۔ وہ یقیناً حساب لگا رہا تھا۔ تعلیم مکمل نہ ہو سکے ، باپ کا انتقال ہو جائے ، جسم پر ایک عام سا سوئیٹر ہو اور چہرے پر کئی ماہ کی تھکن ہو تو نتیجہ اخذ کرنا زیادہ مشکل نہیں۔

’’تیرا مقدر بدلے گا لطیف۔ ‘‘ صفدر نے سوچتے ہوئے کہا۔ ’’پریشانیاں ختم ہونے والی ہیں۔ بہت جلد تیرا مقدر بدلے گا۔ دولت اتنی تیزی سے تیرے پاس آئے گی کہ تو خود حیران رہ جائے گا۔ ‘‘

لطیف کانجی نے اپنا ہاتھ کھینچ لیا۔ ’’چھوڑ دولت کے قصے کو، یار۔ ‘‘ اس نے کہا۔ ’’کوئی اور بات کر۔ دولت تو صرف پریشانی لاتی ہے۔ پریشانی اور تھکن۔ ‘‘

’’واہ بیٹے۔ ‘‘ صفدر نے اس کی پیٹھ پر ہاتھ مار کر کہا۔ ’’فلسفہ بولتا ہے۔ ابے ، تجھ سے کس نے کہہ دیا کہ دولت پریشانی لاتی ہے۔ مجھے دیکھ۔ کوئی پریشانی نظر آتی ہے تجھے۔ ؟ یہ سب کتابی باتیں ہیں بیٹا، اور یہ ان لوگوں نے ایجاد کی ہیں جنہوں نے زندگی میں کبھی دولت کا مزا نہیں چکھا۔ میں نے زندگی میں کبھی نہیں سوچا تھا کہ میں اتنی دولت کماؤں گا۔ ڈیڑھ دو ہزار روپے مہینہ معمولی رقم نہیں ہوتی۔ لیکن یوں کامیاب ہونے کے بعد ہی میں نے جانا ہے کہ سارا سکون دولت میں ہے۔ یہ پریشانی پیدا نہیں کرتی بیٹا، ختم کرتی ہے۔ سمجھا۔ ؟ ‘‘

لطیف کانجی سب کچھ سمجھ گیا تھا۔ صفدر اس کے بچپن کا سپنا تھا جسے ایک نہ ایک دن ٹوٹ ہی جانا تھا۔ وہ دن آج آ گیا تھا۔ اس نے کہا۔ ’’خدا تجھے کامیاب کرے صفدر۔ میرا مطلب ہے ، اور کامیاب کرے۔ کل مجھے کراچی لوٹ جانا ہے۔ اگلے سال میں آؤں گا تو پھر ملاقات ہو گی۔ ‘‘

انہوں نے ایک دوسرے کو اسی طرح گرمجوشی سے الوداع کہا جیسے برسوں تک بچھڑے رہنے کے بعد ملنے والے دوست ایک دوسرے کو کہتے ہیں۔ صرف لطیف کانجی جانتا تھا کہ یہ صفدر سے اس کی آخری ملاقات ہے۔ اس کے بعد انہیں کبھی نہیں ملنا تھا۔

وہ پندرہ دن تک مری میں ہی رہا۔ نتھیا گلی اور گھوڑا گلی کے سرسبز نشیب اور آسمان سے باتیں کرنے والے درختوں کے درمیان وہ میلوں پیدل چلتا رہا۔ مری میں اس نے اپنی زندگی کی پہلی برف باری بھی دیکھی۔ پنڈی دو گھنٹے کی مسافت پر تھا۔ برفباری شروع ہونے کے چند گھنٹے بعد ہی سینکڑوں لوگ بسوں کے ذریعے مری پہنچ گئے۔ ویران سڑکوں اور بے رونق بازاروں میں اچانک زندگی کی لہر دوڑ گئی۔ ہجوم کے درمیان ایک عام آدمی کی طرح گھومتے ہوئے لطیف کانجی نے کئی بار اس بورڈ کو دیکھا۔ جوتشی ایم ایس جیون رام کے بورڈ کو۔ لیکن اب اس کے دل میں کوئی افسوس، کوئی دکھ، کوئی پچھتاوا نہیں تھا۔

وہ واپس کراچی پہنچا تو بہت پرسکون تھا۔ دو تین ہفتے کی بھرپور تفریح نے اس کے شکستہ اعصاب کو بہت سکون بخشا تھا اور اب وہ ایک بار پھر زندگی کی جد و جہد میں شامل ہونے کے لئے تازہ دم تھا۔ وہ ماں سے گھنٹوں باتیں کرتا رہا۔

پھر اسے گہری نیند آئی جو کئی مہینوں سے اسے نصیب نہ ہوئی تھی۔ اگلے دو دن اس نے اسی طرح گزارے۔ ماں سے باتیں کرتے ہوئے ، سوتے ہوئے ، ریڈیو پر گانے سنتے ہوئے ، دوستوں کو ٹیلیفون کرتے ہوئے۔ فراغت کے ان دنوں میں اسے پہلی بار یہ احساس ہوا کہ اس کی عمر صرف چوبیس سال ہے۔ یہ کھیلنے کے دن تھے جو کاروباری الجھنوں اور دولت کے حصول کی جد و جہد میں صرف ہو رہے تھے۔ لیکن یہ سب مقدر کے کھیل تھے۔ بمبئی میں بچپن اور لڑکپن کے دوران اور کراچی میں نوجوانی کی حدود میں قدم رکھتے ہوئے اس نے کبھی نہ سوچا تھا کہ زندگی یوں ہو گی۔ اس کے شعبے سے تعلق رکھنے والے ، تاجر اور امپورٹرز اور صنعتکار، سب اسے رشک کی نگاہ سے دیکھتے تھے کہ اس نے زندگی کے آغاز میں ہی وہ منزلیں تسخیر کر لی تھیں جن تک پہنچنا ایک عمر کی جد و جہد کے بعد نصیب ہوتا ہے۔ لیکن اب، فراغت اور بے فکری کے ان چند دنوں میں لطیف کانجی کو احساس ہوا تھا کہ زندگی ایک بیزار کن معمول بنتی جا رہی ہے جس میں کسی آرزو کا انوکھا پن نہیں ، کسی خواہش کا نیا ذائقہ نہیں اور کسی محبت کی تازہ خوشبو نہیں۔

وہ دفتر پہنچا تو ایک خوشگوار تبدیلی نے اس کا استقبال کیا۔ دروازوں اور کھڑکیوں پر نئے پردے تھے اور دیواروں پر نیا، چمکتا رنگ تھا۔ بے ترتیب میزیں اب ایک دائرے میں تھیں۔ پالش نے تمام فرنیچر کو ایک نیا روپ بخش دیا تھا۔ اس کے اپنے کمرے میں میز پر شیشہ لگا دیا گیا تھا۔ سامنے والی دیوار پر ایک خوبصورت پینٹنگ تھی اور پیچھے والی دیوار پر اس کے والد سیٹھ حنیف کانجی کا ایک پینسل اس کیچ منقش لکڑی کے فریم میں آویزاں تھا۔ کسی سے پوچھے بغیر، کوئی سوال کئے بنا اس نے سمجھ لیا کہ یہ سب زبیدہ نے کیا ہے۔

کچھ دیر بعد کمپنی کے جنرل منیجر نے اس کے دفتر میں قدم رکھا۔

’’کیا آپ کچھ وقت نکال سکتے ہیں سر۔ ؟ ‘‘ جنرل منیجر نے اپنے سفید بالوں کو ایک ہاتھ سے سنوارتے ہوئے کہا۔ ’’بیس پچیس منٹ یا آدھا گھنٹہ۔ ؟ ‘‘

لطیف کانجی نے گھڑی دیکھ کر کہا۔ ’’میرا خیال ہے کہ میٹنگ شام کے وقت رکھیں۔ ‘‘

’’یہ میٹنگ نہیں ہے۔ کچھ اور سلسلہ ہے۔ ‘‘ جنرل منیجر کے لہجے میں تحکم تھا۔ وہ تیس سال سے کمپنی کے ساتھ تھا۔ یہاں اس نے پہلے سیٹھ حنیف کانجی کے ساتھ اور پھر لطیف کانجی کے ساتھ وقت گزارا تھا۔ لطیف کانجی کو اس نے گھٹنوں چلتے اور توتلی زبان میں گفتگو کرتے دیکھا تھا۔ اس کے لہجے میں یہ تحکم اسی وقت آتا تھا جب وہ خود کو کمپنی کا ملازم نہیں ، لطیف کانجی کے والد کا دوست سمجھتا تھا۔ لطیف کانجی ایسے وقت اس کا حکم کبھی نہ ٹالتا تھا۔

وہ جنرل منیجر کے ساتھ اپنے کمرے سے باہر نکلا تو اس نے ہال کے وسط میں سب لوگوں کو ایک چھوٹی سی میز کے گرد جمع دیکھا۔ کلرک اور سپروائزر اور چپراسی اور سینئر ایگزیکٹوز۔ سب موجود تھے۔ اور میز پر ایک کیک رکھا ہوا تھا جس پر ایک بہت بڑی موم بتی جل رہی تھی۔

’’سالگرہ مبارک سر۔ !‘‘ جنرل منیجر نے مسکرا کر کہا۔

اور حیران کھڑے لطیف کانجی کو اچانک یاد آیا کہ آج یکم فروری ہے۔ اس کا جنم دن۔ !

اس نے تالیوں اور مبارکباد کے شور میں کیک کاٹا۔ فرداً فرداً ہر ایک کا شکریہ ادا کیا۔ دفتر کے چھوٹے سے کچن میں چائے بن چکی تھی۔ وہ سب چائے پیتے رہے اور گزشتہ چھ ماہ کی باتیں ایک دوسرے کو بتاتے رہے۔ پھر جنرل منیجر نے ایک بہت بڑا سا ڈبہ اسے دیا۔ یہ کمپنی کے کارکنوں کی جانب سے سالگرہ کا تحفہ تھا۔

اس کے بعد زبیدہ نے اسے ایک بڑا سا سفید لفافہ دیا اور کہا۔ ’’اس میں سیٹھ دیوان مل والے پراجیکٹ کی بیلنس شیٹ ہے۔ تمام اخراجات اور کمپنی کو حاصل ہونے والے منافع کا حساب ہے۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ ایک کروڑ ستر لاکھ کے اس پراجیکٹ میں کمپنی کو کتنا منافع ہوا ہے۔ ؟ ‘‘

لطیف کانجی نے زبیدہ کی جھیل سی آنکھوں میں دیکھا اور اس کے چہرے پر بکھری ملاحت کو دیکھا۔ وہ کہنا چاہتا تھا، نہیں۔ مجھے منافع کا کوئی اندازہ نہیں۔ لیکن اسی وقت ایک خیال ہوا کے نرم جھونکے کی طرح اس کے پاس پہنچا۔ گیارہویں سالگرہ پر گیارہ سائیکلیں۔ اسے اچانک یاد آیا۔ تیرہویں سالگرہ پر تیرہ سوٹ۔ ایک لمحے کے لئے سامنے کھڑے لوگ دھندلے ہوئے اور پھر گویا فوکس میں آ گئے۔ اس کا دل بری طرح دھڑک رہا تھا۔ آج چوبیسویں سالگرہ تھی۔

اس نے آہستہ سے کہا۔ ’’کیا منافع چوبیس لاکھ ہے۔ ؟ ‘‘

اس نے زبیدہ اور جنرل منیجر کی اور دوسرے سینئر ایگزیکٹوز کی آنکھوں میں حیرت کو ڈولتے دیکھا۔ انہوں نے ایک دوسرے کو دیکھا اور آنکھوں ہی آنکھوں میں ایک دوسرے سے پوچھا، یہ کیسے ممکن ہے۔ ؟

’’آپ کا اندازہ سو فیصد درست ہے۔ ‘‘ زبیدہ نے کہا۔ ’’سیٹھ دیوان مل نے مکمل ادائیگی کر دی ہے۔ ہم سب آپ کو مبارکباد دیتے ہیں۔ ‘‘

وہ اپنے کمرے میں پہنچا تو اس کے ہاتھ میں وہ سفید لفافہ تھا جس میں چوبیس لاکھ کی خوشخبری بند تھی اور ماتھے پر پسینہ تھا۔ نہ جانے یہ کیسے ہوتا تھا لیکن ہر مرتبہ ہو جاتا تھا۔ یہ اتفاق نہیں تھا۔ قسمت نہیں تھی۔ یہ اس کی زندگی کا حصہ تھا۔ ہر مرتبہ اعداد اس کے لئے کوئی خبر لاتے تھے۔ یہ بڑی عجیب بات تھی لیکن اعداد ہمیشہ یہی کمال دکھاتے تھے۔

کمرے کی تنہائی میں وہ بہت دیریہی سوچتا رہا۔

پھر ایک عجیب خیال اس کے ذہن میں آیا۔ !

اعداد کی کرشمہ سازی اپنی جگہ۔ اس نے سوچا۔ لیکن یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ میں اعداد کے اعتبار سے واقعات کو خود ترتیب دوں۔ مستقبل کو ہاتھ میں بھی تو لیا جا سکتا ہے۔ اس بے یقینی کو ختم بھی تو کیا جا سکتا ہے جو اعداد کو دیکھ کر آنے والے واقعات کے سلسلے میں پیداہوتی ہے۔ مثلاً کیا ہو سکتا ہے۔ ؟ اس نے اپنے آپ سے پوچھا۔ مثلاً یہ ہو سکتا ہے کہ پچیسویں سالگرہ کے لئے میں خود اس طرح کاروبار کروں کہ عین پچیسویں سالگرہ والے دن مجھے پچیس لاکھ کا منافع ہو۔ ! اعداد کے حساب سے خوشگوار واقعات کا اہتمام بھی ہو سکتا ہے۔ !!

وہ سوچتا رہا اور زندگی کے بارے میں ، مستقبل کے بارے ایک نئی حکمت عملی اس کی نظروں کے سامنے واضح ہوتی گئی۔ یس۔ اس نے اپنے آپ سے کہا۔ یہ ٹھیک ہے۔ اعداد مجھ پر کیوں حکومت کریں۔ ؟ میں ان پر حکمرانی کروں گا۔ !!

اگلے چند روز اس نے اسی کام میں صرف کئے۔ اس نے سارا پچھلا ریکارڈ مرتب کیا۔ ہر واقعہ کی تاریخ اور تفصیل لکھی۔ اعداد کی معجزہ آرائی کو ترتیب سے سفید کاغذوں پر لکھا۔ پیدائش کا وقت اور تاریخ، گیارہویں ، بارہویں اور تیرہویں سالگرہ، جوتشی جیون رام، تیرہ ہفتے اور ایک ماہ والی پیشین گوئی، پاکستان روانگی چار سات چار سات، سیٹھ حنیف کانجی کا انتقال تین چار، پانچ چھ، زبیدہ مہر علی کی ا?مد پانچ سات پانچ سات، چوبیسویں سالگرہ، چوبیس لاکھ۔ وہ سفید کاغذوں پر ان تمام واقعات کو درج کرتا گیا جنہوں نے برسوں سے اسے تحیر کی دنیا میں رکھا تھا۔

اس کے بعد لطیف کانجی نے آنے والے دنوں کا حساب کیا۔ ان تاریخوں کا حساب لگایا جو اعداد کے اعتبار سے عجیب و غریب تھیں۔ اگلے چند برسوں میں ایسی چند ہی تاریخیں تھیں۔ ہر سال آنے والی سالگرہ تھی۔ پانچ اگست سن اٹھاون تھی۔ پانچ آٹھ پانچ آٹھ۔ پانچ ستمبر سن انسٹھ تھی۔ پانچ نو پانچ نو۔ چھ جنوری سن اکسٹھ تھی۔ چھ ایک چھ ایک۔ ان کے سوا کوئی عجیب و غریب تاریخ نہ تھی۔

تاریخوں کا حساب لگانے کے بعد کام بہت آسان تھا۔ اسے ہر تاریخ کے لئے ایک واقعے کا بندوبست کرنا تھا۔ اسے سخت حیرت ہوئی اور اپنے آپ پر سخت غصہ آیا۔ یہ کام وہ بہت پہلے کر سکتا تھا۔ اعداد کے اعتبار سے واقعات کا اہتمام تو کبھی بھی کیا جا سکتا تھا۔ کیا ضروری تھا کہ تاریخ اور واقعہ کا انتظار کیا جاتا۔ ؟

وہ مطمئن ہو کر پھر کاروبار کی طرف متوجہ ہو گیا۔ کلیئرنگ اور فارورڈنگ کے معاملات میں بہت زیادہ منافع نہیں تھا۔ خود لطیف کانجی بھی کاروبار کو مختلف سمتوں میں پھیلانے کے بجائے کسی ایک سمت کا انتخاب کرنا چاہتا تھا۔ اگلے چند ماہ کے دوران سیٹھ دیوان مل نے اسے پھر ایک اور بہت بڑا منصوبہ سونپ دیا۔ اب اسے پھر کئی شہروں میں کئی عمارتیں تعمیر کرنی تھیں۔ لطیف کانجی اس عظیم الشان منصوبے کی تفصیلات اور مالیت جان کر سمجھ گیا تھا کہ ایک بار خوش قسمتی نے اس کے دروازے پر دستک دی ہے۔

وہ ایک بار پھر شہر شہر کی خاک چھاننے اور سیٹھ دیوان مل کے نئے تعمیراتی منصوبوں کو حقیقت کا روپ دینے کے لئے نکل کھڑا ہوا۔ زیادہ تر کام پنجاب کے ان شہروں میں تھا جو دریائے سندھ کے ساتھ ساتھ واقع تھے۔ تونسہ اور مظفر گڑھ اور ڈیرہ غازی خان۔ یہ شہر بھی نہیں تھے ، قصبے تھے۔ وہ جنون کے عالم میں کام کرتا رہا۔ دن رات محنت کرتا رہا۔ ان نئی بستیوں میں سب اسے پہچاننے لگے تھے۔ اس کا احترام کرنے لگے تھے۔ لطیف کانجی نے ان کے پسماندہ علاقوں میں مزدوری کے نئے مواقع فراہم کئے تھے ، ان کو خوشحالی کا نیا خواب دیا تھا۔

ایک شب جب وہ کام کرنے والوں کے درمیان بیٹھا ایک نوجوان سے گیت سن رہا تھا، اسے بے اختیار زبیدہیاد آئی۔ رات کی تاریکی میں دور تک خاموشی اور لالٹین کی روشنی تھی اور نوجوان مزدور کے گیت میں محبت کا ذکر تھا۔ اس محبت کا جو لفظوں کی محتاج نہیں ہوتی، جو دل میں خاموشی سے بسیرا کرتی ہے اور زندگی کی کڑی دھوپ میں آنچل کا سایہ فراہم کرتی ہے۔ اس ایک لمحے میں لطیف کانجی نے اپنے دل کی ہر دھڑکن کو زبیدہ کے نام بنتے دیکھا اور اپنی رگوں میں اس کی محبت کو لہو کی طرح گردش کرتے محسوس کیا۔ پھر اچانک، کسی سبب کے بغیر، اسے یاد آیا کہ دو دن بعد وہ تاریخ ہے ! پانچ اگست سن اٹھاون۔ پانچ آٹھ پانچ آٹھ۔ !!

دو دن بعد دفتر میں اسے دیکھ کر سب حیران رہ گئے۔

کمپنی کے جنرل منیجر کے سوال کے جواب میں لطیف کانجی نے کہا۔ ’’بالکل خیریت ہے منیجر صاحب۔ در اصل ماں جی سے ملنے کو دل چاہ رہا تھا اس لئے کراچی چلا آیا۔ یہاں آ کر سوچا، دفتر کا چکر بھی لگا لوں۔ ‘‘

جنرل منیجر کے جانے کے بعد اس نے زبیدہ کو طلب کیا۔

وہ کمرے میں داخل ہوئی تو لطیف کانجی نے ایک بار پھر خود کو اس کے حسن بے مثال کے سامنے حیران پایا۔ یہ نہ جانے نظروں کا دھوکہ تھا یا حقیقت تھی کہ ہر لباس اس پر سجتا تھا، ہر رنگ اُس پر کھلتا تھا۔

’’تشریف رکھئے مس زبیدہ۔ ‘‘ اس نے کہا۔ ’’مجھے آپ کے بارے میں اور اپنے بارے میں ایک ضروری بات کرنی ہے۔ ‘‘

زبیدہ کی آنکھوں میں حیرت ابھری۔ یوں جیسے پانی کی پُرسکون سطح پر اچانک لہریں نمودار ہوں۔

’’آپ کو پتہ ہے۔ ؟ ‘‘ لطیف کانجی نے کہا۔ ’’میں صرف آپ کے لئے آیا ہوں۔ صرف ایک بات کرنے کے لئے۔ !‘‘

زبیدہ نے نظریں جھکا لیں اور کہا۔ ’’جی۔ ‘‘

لطیف کانجی نے آگے جھک کر کہا۔ ’’اس ایک بات پر میری زندگی کا انحصار ہے۔ !‘‘

’’جی نہیں۔ ‘‘ زبیدہ نے نظریں جھکائے جھکائے کہا۔ ’’اس ایک بات پر ہم دونوں کی زندگیوں کا انحصار ہے۔ !!‘‘

اسی شام وہ اپنی ماں کو کار میں بٹھا کر کلیٹن کوارٹرز پہنچا۔ جمشید روڈ سے کلیٹن کوارٹرز تک جانے والی سڑک کچی تھی اور جگہ جگہ کیچڑ تھا۔ گلیوں میں ننگ دھڑنگ بچے کھیل رہے تھے۔ یہاں چھوٹے درجے کے سرکاری ملازمین رہتے تھے۔ ایک جیسے بنے ہوئے پیلے رنگ کے کوارٹروں میں ایک سبز رنگ کے دروازے کے سامنے اس نے کار روک دی۔

لطیف کانجی کو سخت حیرانی ہوئی جب دروازہ خود زبیدہ نے کھولا۔ اس کا خیال تھا کہ وہ روایتی طور پر کسی کونے میں بیٹھی شرما رہی ہو گی۔ زبیدہ نے ماں جی کو سلام کیا اور کہا۔ ’’امی کی طبیعت پھر خراب ہو گئی ہے۔ آیئے۔ اس طرف آیئے۔ ‘‘

وہ ماں جی کو اندر کمرے میں لے گئی۔ لطیف کانجی صحن میں پڑی کرسیوں میں سے ایک پر بیٹھ گیا۔ اسے ندامت ہو رہی تھی۔ زبیدہ نے اسے بتا دیا تھا کہ اس کی ماں کی طبیعت خراب ہے لیکن لطیف کانجی سب کچھ آج ہی کرنا چاہتا تھا۔ آج پانچ اگست تھی۔ پانچ آٹھ پانچ آٹھ۔ ! آج کوئی بات ٹالی نہ جا سکتی تھی۔ کوئی تاخیر نہ کی جا سکتی تھی۔

واپس گھر آتے ہوئے ماں جی کی خاموشی لطیف کانجی کو پریشان کرتی رہی۔ بظاہر سب کچھ ٹھیک ٹھاک تھا۔ روانہ ہوتے وقت ماں جی نے بہت محبت سے زبیدہ کو پیار کیا تھا اور اسے دعا دی تھی۔ لیکن راستے بھر وہ خاموش بیٹھی رہیں۔

گھر آ کر انہوں نے کہا۔ ’’زبیدہ بہت پیاری لڑکی ہے لطیف۔ لیکن میرے کو ایک مسئلہ نظر آتا ہے۔ ‘‘

لطیف کانجی کا دل ڈوبنے لگا۔

’’کیسا مسئلہ، ماں جی۔ ؟ ‘‘

’’اس کی ماں کو ٹی بی ہے۔ !‘‘ ماں جی نے کہا۔ ’’یہ بات زبیدہ کو نئیں بولنا۔ اس کی ماں نے میرے کو بتایا ہے کہ ڈاکٹروں نے اس کو بول دیا ہے ، اب صرف دعا کرو۔ میرے کو اس بیماری سے بڑا ڈر لگتا ہے لطیف۔ تیرا ایک چاچا جوانی میں چلا گیا تھا۔ ‘‘

’’حد ہو گئی ماں جی۔ ‘‘ لطیف کانجی نے ایک گہرا سانس لے کر کہا۔ ’’اب اس بیماری کا علاج ہو جاتا ہے۔ یہ کوئی مسئلہ نہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ یہ بیماری ورثے میں منتقل نہیں ہوتی۔ ‘‘

’’اچھا، اچھا۔ ‘‘ ماں جی نے مسکرا کر کہا۔ ’’تو فکر نئیں کر۔ لیکن یاد رکھ، یہ ڈاکٹروں والی، دعا کرنے والی بات زبیدہ کے سامنے نئیں بولنی ہے۔ اس کی ماں نے میرے کو قسم دی ہے۔ ‘‘

’’نہیں بتاؤں گا۔ آپ بے فکر رہیں۔ شادی کی بات ہوئی۔ ؟ ‘‘

’’ہاں۔ اس کی ماں نے بولا ہے ، شادی ایک دم جلدی چاہئے۔ بولی، میری زندگانی کا کچھ ٹھیک نہیں ہے۔ ‘‘

لطیف کانجی کو اچانک اعداد یاد آئے۔ اعداد، جو سفید کاغذوں پر لکھے تھے۔ جو اس کی زندگی کا آئینہ تھے۔

’’شادی اتنی جلدی نہیں ہو سکتی ماں جی۔ ‘‘ اس نے کہا۔

’’کیوں۔ ؟ ‘‘ ماں جی نے تیکھے لہجے میں کہا۔ ’’کیوں نئیں ہو سکتی۔ ؟ کیا کرنا ہے تیرے کو۔ ؟ ‘‘

’’بہت کام ہے ماں جی۔ ‘‘ اس نے جھوٹ بولا۔ ’’ بہت بڑا پراجیکٹ ہاتھ میں ہے۔ جنوری تک ختم ہو گا۔ ‘‘ اس کا ضمیر اسے ملامت کر رہا تھا لیکن ماں سے یہ جھوٹ بولے بنا چارہ نہ تھا۔

ماں جی نے کہا۔ ’’سوچ لے لطیف۔ میرے کو اس کی ماں کی حالت ٹھیک نئیں لگتی۔ ‘‘

’’سب ٹھیک ہو جائے گا ماں جی۔ ‘‘ لطیف کانجی نے کہا۔ ’’آپ جنرل منیجر صاحب سے کہہ دیں ، وہ ان کا خود علاج کرائیں۔ میں کل صبح چلا جاؤں گا۔ کام اتنا ہے کہ ایک لمحے کی بھی فرصت نہیں۔ میں اب شاید جنوری سے پہلے کراچی آبھی نہ سکوں۔ ‘‘

اگلی صبح وہ واپس روانہ ہو گیا۔ اعداد کے مقابلے میں پہلی جنگ اس نے جیت لی تھی۔ اس کامیابی نے لطیف کانجی کو نیا اعتماد بخشا تھا۔ وہ ایک بار پھر سیٹھ دیوان مل کے منصوبوں میں منہمک ہو گیا۔ قسمت اس پر مہربان تھی۔ نئی عمارتیں تعمیر ہوتی جا رہی تھیں۔ کام اتنا تیز تھا کہ لطیف کانجی کو لگتا تھا، سارا کام نومبر میں ہی ختم ہو جائے گا اور منافع پہلے سے بہت زیادہ ہو گا۔ لیکن پھر اسے اعداد کا خیال آتا تھا۔ منافع زیادہ کیسے ہو سکتا تھا۔ ؟ یہ سوال اسے دن رات پریشان رکھتا تھا۔

یہ پریشانی اس روز ختم ہوئی جب سائٹ پر کام کرنے والے ایک انجینئر نے اس سے کہا۔ ’’دریا کے قریب ہم نے جو تین بلڈنگز بنائی ہیں ، ان میں پرابلم ہے سر۔ !‘‘

’’پرابلم۔ !‘‘ لطیف کانجی نے حیرت سے کہا۔ ’’کیسا پرابلم۔ ؟ ‘‘

’’تینوں بلڈنگز بیٹھ رہی ہیں۔ زمین میں پانی ہے اور سیلے نٹی ہے۔ بنیادیں کنکریٹ کا وزن برداشت نہیں کر پا رہی ہیں۔ کل رات میں نے دوسرے انجینئرز سے بھی بات کی تھی۔ ان کا خیال ہے کہ متوازی بنیادیں بنا کر پرانے ستونوں کے ساتھ نئے ستون تعمیر کئے جائیں اور ہر بیم کا وزن…‘‘

’’نہیں۔ ‘‘ لطیف کانجی نے کہا۔ ’’میں کچا کام نہیں چاہتا۔ ‘‘

’’اس کے سوا کوئی راستہ نہیں سر۔ ‘‘

’’راستہ ہے مسٹر انجینئر۔ ‘‘ لطیف کانجی نے چند لمحے خاموش رہنے کے بعد کہا۔ ’’تینوں عمارتوں کو گرا دو۔ !‘‘

انجینئر نے آنکھیں پھاڑ کر اسے دیکھا اور کچھ کہتے کہتے رک گیا۔

’’نئے سرے سے تعمیر شروع کرو۔ ‘‘ لطیف کانجی نے اس کی حیرت کو نظر انداز کرتے ہوئے کہا۔ ’’نیچے کنکریٹ اور پتھر کی لیئرز بچھاؤ۔ رافٹ بناؤ پوری۔ میں تمہیں باہر کا سیمنٹ منگوا دیتا ہوں سیلے نٹی کے لئے۔ بلڈنگ کو مضبوط بنیاد چاہئے۔ نیچے پورا پلیٹ فارم بنا دو کنکریٹ اور لوہے کا۔ سمجھ گئے۔ ؟ ‘‘

انجینئر کچھ نہ سمجھا تھا۔ اس کی سمجھ میں یہ بات نہیں آ رہی تھی کہ کوئی سیٹھ دس بارہ لاکھ کا نقصان برداشت کرنے کا فیصلہ کیسے کر سکتا ہے۔ ؟ یہ ٹھیک تھا کہ بلڈنگ کو مضبوط بنیاد کی ضرورت تھی۔ لیکن آدھا کام ہو جانے کے بعد غلطی دریافت ہونے کی صورت میں صرف ازالے کی کوئی ترکیب ہی ڈھونڈی جاتی تھی۔ بنی ہوئی عمارت نہیں گرائی جاتی تھی۔ لیکن یہ نوجوان سیٹھ اسے تھوڑا سا پاگل لگتا تھا۔ آج اس بات کا ثبوت بھی مل گیا تھا۔ انجینئر نے سر ہلایا اور احکامات پر عمل درآمد کرنے کے لئے چل پڑا۔

بنی ہوئی عمارتوں کے زمیں بوس ہونے کا منظر سب کے لئے تکلیف دہ تھا۔ ان کے لئے بھی جنہوں نے اپنے ہاتھوں سے اسے تخلیق کیا تھا اور ان کے لئے بھی جنہوں نے اس پسماندہ علاقے میں ان عمارتوں کو بلند ہوتے دیکھ کر خوشی محسوس کی تھی۔ سینکڑوں مایوس اور دل گرفتہ لوگوں کے درمیان صرف لطیف کانجی مطمئن نظر آتا تھا۔ اس کے سوا کوئی نہیں جانتا تھا کہ یہ سب اعداد کی بازیگری تھی… منافع، جو پینتیس چالیس لاکھ ہو سکتا تھا! اب پچیس لاکھ سے زیادہ نہ ہو سکتا تھا۔ اور کام جو نومبر میں ختم ہو سکتا تھا، اب اس کی پچیسویں سالگرہ تک ختم ہوتا نظر آ رہا تھا۔

ایک بار پھر وہی ہوا جس کی لطیف کانجی کو توقع تھی۔ دفتر میں اسی طرح سالگرہ ہوئی۔ عملے نے اسی طرح تحفہ دیا۔ اور زبیدہ نے پھر نئی بیلنس شیٹ دی۔ دو کروڑ تین لاکھ کے تعمیراتی منصوبے کے اخراجات اور منافع کی بیلنس شیٹ جس سے پتہ چلتا تھا کہ منافع پچیس لاکھ ہے۔ ! پچیسویں سالگرہ پر پچیس لاکھ۔ !! لطیف کانجی نے خود کو بے انتہا مطمئن اور مسرور پایا۔ زبیدہ نے اسی صبح جو تجاویز تنہائی میں پیش کی تھیں ان پر عمل درآمد کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے لطیف کانجی نے تمام عملے کی تنخواہوں میں چالیس فیصد اضافے اور تنخواہوں کے مساوی بونس دینے کا اعلان کر دیا۔ اسی روز لطیف کانجی نے سینئر ایگزیکٹوز کی میٹنگ طلب کی اور انہیں اپنے دو اہم فیصلوں سے آگاہ کیا۔ کمپنی کے صدر دفتر کے لئے شہر کے مرکزی علاقے میں نئی چار منزلہ عمارت تعمیر کرنا ناگزیر ہو گیا تھا۔ اور اسی طرح ملک کے دوسرے بڑے شہر لاہور میں ذیلی دفتر کھولنا ضروری تھا۔ میٹنگ میں اسے یقین دلایا گیا کہ صدر دفتر کی عمارت کے لئے زمین جلد ہی خرید لی جائے گی اور لاہور میں ذیلی دفتر ایک ماہ کے اندر قائم کر دیا جائے گا۔

اگلے تین ماہ اس نے پشاور اور راولپنڈی میں گزارے۔ پشاور میں اسے دو بڑے سرکاری ٹھیکے ملے تھے۔ ایک کارپوریشن کا ہیڈ آفس تعمیر کرنا تھا اور دو بڑے تعلیمی اداروں کی عمارتیں ، ہاسٹل اور اسٹاف کوارٹرز بنانے تھے۔ راولپنڈی میں اسے صدر کے علاقے میں ایک چھوٹا ہوٹل بنانے کا ٹھیکہ ملا تھا۔ یہ منصوبے سیٹھ دیوان مل کے منصوبوں کے مقابلے میں چھوٹے تھے لیکن لطیف کانجی اب صرف تعمیرات کے شعبے میں کام کرنا چاہتا تھا اور اس کے لئے ضروری تھا کہ وہ ہر طرح کی عمارتیں بنا کر مارکیٹ میں اپنی ساکھ قائم کرے۔ تین چار سال کے مختصر سے عرصے میں اسے اندازہ ہو گیا تھا کہ کاروبار میں سارا کھیل ساکھ کا ہوتا ہے۔ اسے یہ بھی معلوم تھا کہ اس کے والد نے اپنی ساکھ کے بل بوتے پر ہی ایک نئے شہر میں آٹھ نو برس کی قلیل مدت کے دوران کمپنی کو مستحکم بنیادوں پر کھڑا کیا تھا۔

وہ پشاور میں ہی تھا جب اسے جنرل منیجر کا وہ خط ملا جس میں زبیدہ کی والدہ کے انتقال کی اطلاع تھی۔ !

وہ رات لطیف کانجی نے جاگ کر گزاری۔ کوئی بوجھ تھا جو اس کے دل پر اچانک آ گیا تھا۔ جرم کا احساس تھا جو کانٹے کی طرح کھٹکنے لگا تھا۔ زبیدہ کی ماں اپنی بیٹی کو دلہن کے روپ میں دیکھنے کی آرزو لئے رخصت ہو گئی تھی۔ آٹھ ماہ پہلے اس نے زبیدہ کی فوری شادی کی خواہش کا اظہار کیا تھا اور لطیف کانجی نے صرف اعداد کی خاطر اس مطالبے کو ٹال دیا تھا۔ وہ جاگتا رہا اور زبیدہ کو یاد کرتا رہا جس کے ساتھ ایک زیادتی ہو گئی تھی۔ زبیدہ کو خود شاید اس کی خبر بھی نہ ہو گی کہ اس کی ماں نے شادی جلد کرنے پر زور دیا تھا۔ لیکن لطیف کانجی کو خبر تھی۔ ماں جی کو خبر تھی۔ جنرل منیجر کا جو خط آیا تھا وہ مختصر تھا لیکن اس میں تمام ضروری باتیں موجود تھیں۔ ماں جی خود تدفین کے وقت موجود رہی تھیں۔ اور تدفین کے بعد وہ زبیدہ کو اپنے ساتھ لے گئی تھیں۔ یہ تقدیر کی ستم ظریفی ہی تو تھی کہ زبیدہ کو عروسی جوڑے کے بغیر، کسی شان و شوکت کے بغیر اس کے گھر میں پناہ لینے کے لئے جانا پڑا تھا جہاں اسے ایک عمر گزارنی تھی، بہو بن کر جانا تھا اور حکمراں بن کر رہنا تھا۔

زبیدہ کے ساتھ ہونے والی اس زیادتی کا ازالہ کرنے کی ایک ہی صورت تھی۔ لطیف کانجی نے اگلے ہی روز ایک خط ماں جی کو لکھا اور دوسرا کمپنی کے جنرل منیجر کو۔ وقت بہت کم تھا۔ جون سر پر آ چکا تھا اور صرف تین ماہ باقی رہ گئے تھے۔ ایک ہفتے میں اسے ماں جی اور جنرل منیجر کے جوابات موصول ہو گئے۔ وہ دونوں اس کے شیڈول سے متفق تھے۔

ستمبر کے پہلے ہفتے میں اس نے زبیدہ سے شادی کر لی۔ ! کسی نے اس بات کو اہمیت نہ دی کہ شادی پانچ ستمبر سن انسٹھ کو ہوئی ہے۔ پانچ نو پانچ نو۔ !

لطیف کانجی نے سرخ جوڑے میں زبیدہ کے حسن کو دہکتا دیکھا اور اس کی آنکھوں میں آنے والے دنوں کے خوبصورت خوابوں کو دیکھا۔ وہ رات لطیف کانجی کی زندگی کی خوبصورت ترین رات ہی نہیں تھی۔ فیصلہ کن رات بھی تھی۔ اس رات لطیف کانجی نے زبیدہ کو اعداد کی کہانی سنائی۔ ! چودہ برس پہلے اس نے پہلی بار اپنے والد کو اس راز میں شریک کیا تھا اور ڈانٹ کھائی تھی۔ لیکن اس رات قسمت بھی اس پر زبیدہ کی طرح مہربان تھی۔ زبیدہ نے اس کی زندگی کے ہر باب کو یوں دیکھا جیسے کسی طلسماتی دنیا میں سیر کر رہی ہو۔ ہر واقعے کو یوں سنا جیسے اپنی آنکھوں سے سب کچھ رونما ہوتے دیکھ رہی ہو۔

اس رات کے بعد زبیدہ ہمیشہ اس کے ساتھ ساتھ رہی۔ زندگی میں ، محبت میں ، کاروبار میں۔ اور اعداد میں !!

لطیف کانجی کی باقی زندگی اعداد کی اسی ترتیب کے ساتھ گزری۔

کوئی اس کے راز سے واقف نہ تھا۔ صرف زبیدہ تھی جو کمپنی کے تمام معاملات خوش اسلوبی سے سنبھالنے کے ساتھ ساتھ اہم تاریخوں کا بھی حساب رکھتی تھی۔ لطیف کانجی اس کے ساتھ مل کر زندگی کو ترتیب دیتا گیا۔ جہاں وہ خود کچھ نہ کر سکتے تھے ، وہاں تقدیر کام سنبھال لیتی تھی۔ شادی کے ڈیڑھ سال بعد ان کے گھر میں پہلا بیٹا آیا۔ چھ جنوری انیس سو اکسٹھ۔ چھ ایک چھ ایک۔ !! ٹھیک ایک سال ایک ماہ بعد بیٹی آئی۔ چھ فروری سن باسٹھ۔ چھ دو چھ دو۔ !! لطیف کانجی کی تیسویں سالگرہ پر کمپنی کے مجموعی سرمائے کی بیلنس شیٹ ان دونوں نے حیرت اور خوشی سے دیکھی۔ تین کروڑ۔ تیسویں سالگرہ پر تیس ملین۔ !! کاروبار پھیلتا گیا۔ کام بڑھتا گیا۔ شہرت میں اضافہ ہوتا گیا۔ لیکن لطیف کانجی اور زبیدہ نے زندگی کے کسی لمحے میں بھی اعداد کو فراموش نہ کیا۔ اعداد جو رہنما تھے۔ اعداد جو منزل تھے۔ اعداد جو زندگی کے طویل سفر میں راستوں کا نشاں تھے۔ انہیں فراموش کرنا، راہ کھو دینے کے برابر تھا۔

لیکن پھر ایک دن ایسا بھی آیا جب تقدیر نے لطیف کانجی کے ارادوں کو شکست دے دی۔

سات جنوری سن اکہتر۔ سات ایک سات ایک۔ زبیدہ بہت پہلے لطیف کانجی کو اس تاریخ کے بارے میں بتا چکی تھی۔ اور لطیف کانجی نے فیصلہ کیا تھا کہ اس روز کمپنی کے پہلے ٹیکسٹائل مل کا افتتاح ہو گا۔ الیکشن ہو چکے تھے مگر ابھی فوجی حکومت ہی برسراقتدار تھی۔ مشرقی پاکستان میں بے چینی تھی مگر باقی ملک نارمل تھا۔ یہ پہلا منصوبہ تھا جس میں لطیف کانجی نے اپنے پاس سے ایک کروڑ ستر لاکھ روپے لگائے تھے۔ چند برس قبل سیٹھ دیوان مل نے اسے اتنی ہی مالیت کے منصوبے کا پہلا ٹھیکہ دیا تھا۔ آج وہ خود اتنے بڑے منصوبے کو ذاتی سرمائے سے شروع کرنے کے قابل ہو چکا تھا۔

سات جنوری کو ساری تیاریاں مکمل ہو چکی تھیں۔ کمپنی کے جنرل منیجر نے کارکنوں کی فوج کی مدد سے صنعتی علاقے میں ، جہاں ٹیکسٹائل مل تعمیر ہوا تھا، تقریب کے لئے بھرپور انتظامات کر لئے تھے۔

لطیف کانجی صبح انتظامات کا جائزہ لینے کے لئے پہنچا۔ وہاں سے وہ گیارہ بجے کے قریب دفتر پہنچا تاکہ جنرل منیجر سے حتمی تفصیلات طے کر سکے اور اس تقریر پر نظر ڈال سکے جو اسے کرنی تھی۔ وہ ابھی اپنے کمرے میں گھسا ہی تھا کہ اس کے نجی ٹیلیفون کی گھنٹی بجنے لگی۔

دراز میں سے تقریر کا مسودہ نکال کر اپنے سامنے رکھتے ہوئے اس نے ریسیور اٹھایا اور کہا۔ ’’یس۔ ‘‘

دوسری طرف زبیدہ تھی۔ ’’فوراً گھر آ جاؤ۔ ‘‘اس نے کہا۔ ’’سارے کام چھوڑ دو۔ ‘‘

زندگی میں کبھی اس نے زبیدہ کی اتنی گھبرائی ہوئی آواز نہیں سنی تھی۔

بیس منٹ بعد شوفر نے کوٹھی کے پورچ میں کار روکی تو اس نے زبیدہ کو دروازے پر منتظر کھڑا دیکھا۔ وہ ننگے پیر بھاگتی ہوئی، لان عبور کر کے اس تک آئی۔ اس کا چہرہ زرد ہو رہا تھا اور آنکھیں سوجی ہوئی تھیں۔

اندر لاؤنج میں ایک کوچ پر ماں جی کا بے جان بدن پڑا تھا۔ !!

وہ بے یقینی سے ماں کی بند آنکھوں کو دیکھتا رہا۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ ؟ اس نے اپنے آپ سے پوچھا۔ سات ایک سات ایک۔ آج تو ٹیکسٹائل مل کا افتتاح ہونا تھا۔ ہر چیز طے تھی۔ حتمی تھی۔ اس نے اپنے چہرے پر بہنے والے آنسوؤں کی نمی کو محسوس کیا اور دھندلائی ہوئی نظروں سے شہر کے ان بڑے ڈاکٹروں کو دیکھا جو ماں جی کے گرد بے بس، لاچار کھڑے تھے۔ تقدیر کے وار کو کوئی بھی نہ روک سکا تھا۔ ڈاکٹروں کی مسیحائی بھی۔ اور اعداد کی معجزہ آرائی بھی۔ اس مقام پر سب بے اختیار ہو گئے تھے۔

اور اس روز زبیدہ کے ساتھ ساتھ لطیف کانجی پر بھی یہ کھلا کہ اعداد پر یا اعداد کے ذریعے تقدیر پر مکمل حکمرانی نہیں کی جا سکتی۔ وہ بھی دنیا کے کروڑوں اور اربوں انسانوں کی طرح بندگانِ بے بس تھے۔ وہ صرف کوشش کر سکتے تھے ، فیصلہ نہیں۔

سو انہوں نے کوشش جاری رکھی۔ !

کامیابی کی کوشش، خوشیوں کے حصول کی کوشش، زندگی کو خوبصورت بنائے رکھنے کی کوشش۔

…٭٭…

 

اگر آپ اس گمان میں ہیں کہ سیٹھ لطیف کانجی کی اس کہانی کو ابھی کچھ اور حیرت انگیز موڑ کاٹنے ہیں ، کسی اور انوکھے اور ہلا ڈالنے والے کلائمکس کی طرف جانا ہے ، تو سمجھ لیجئے کہ آپ بالکل غلط ہیں۔

کہانیاں تو بس، کہانیاں ہوتی ہیں۔ کسی بھی سانچے میں ڈھل جاتی ہیں ، کوئی بھی صورت اختیار کر لیتی ہیں ، کسی بھی راہ پر چل نکلتی ہیں۔

سیٹھ لطیف کانجی کی ڈائریوں میں جو داستان بکھری ہوئی تھی، وہ یہی تھی۔ پراسرار۔ عجیب و غریب۔ تقریباً ناقابل یقین۔

مگر کیونکہ یہ اتنی زیادہ عجیب و غریب تھی اور کیونکہ برسوں کی صحافتی تربیت نے مجھے بے حد شکّی اور کسی بھی بات پر آسانی سے یقین نہ کرنے والا بنا دیا ہے اور کیونکہ کراچی کے تاریخی ریکارڈ کو چیک کرنا میرے لئے کچھ زیادہ مشکل نہ تھا لہٰذا میں نے یہ عجیب و غریب کہانی لکھنے سے پہلے واقعات کو تاریخ وار چیک کرنے کا فیصلہ کیا۔ ایسے معمر کاروباری لوگ بھی ڈھونڈ نکالے جو سیٹھ لطیف کانجی کو اچھی طرح جانتے تھے۔ بورڈ آف ریونیو کے ریکارڈ اور بلدیہ کی پرانی فائلوں تک رسائی حاصل کی۔ اگر آپ مجھ سے پوچھیں کہ میں نے یہ سب کیوں کیا تو میں شاید کوئی اطمینان بخش جواب نہیں دے سکوں گا۔ لیکن سچی بات یہ ہے کہ میں نے یہ ساری بھاگ دوڑ اس لئے کی کیونکہ میں ایسی پراسرار قسم کی باتوں پر یقین نہیں رکھتا۔ علم نجوم، اعداد، دست شناسی، یہ سب مجھے مضحکہ خیز لگتے ہیں۔ لہٰذا میں چاہتا تھا کہ مجھے کچھ ایسے سراغ مل جائیں جن کی وجہ سے سیٹھ لطیف کانجی کی کہانی کا سارا تانا بانا بکھر جائے۔

میری بھاگ دوڑ بے سود رہی۔ بیشتر واقعات انہی تاریخوں کو رونما ہوئے تھے جو ان بوسیدہ ڈائریوں میں درج تھیں۔ کچھ نئی باتیں ضرور معلوم ہوئیں مگر ان کا تعلق اعداد سے نہیں ، خود سیٹھ لطیف کانجی کی شخصیت سے تھا۔ ہر سیٹھ کی طرح اس نے بھی بہت سے گھپلے کئے تھے۔ زمینوں کے غیر قانونی الاٹمنٹ، ٹیکس چوری، ناقص تعمیرات، سرکاری قرضے ہڑپ کر جانا۔ ، ڈائریوں میں اس کا کوئی ذکر نہ تھا۔ دو تین عورتیں بھی اس کی زندگی میں آتی جاتی رہی تھیں۔ کچھ لوگوں کا دعویٰ تھا کہ ان میں سے ایک عورت کو اس نے گارڈن ایسٹ کے علاقے میں مکان بھی لے کر دیا تھا۔ مگر ظاہر ہے کہ ان سب باتوں کے ثبوت بھی اب وقت کی گرد میں دفن ہو چکے تھے اور ان کی کوئی اہمیت بھی نہیں رہی تھی۔

مجھے سب سے بڑا صدمہ اس وقت پہنچا جب میں نے تیس برس پرانے اخبارات کی فائلوں میں اس کی موت کی خبر تلاش کرنا شروع کی۔ پیر 9 اپریل کے تین اردو روزناموں اور شام کے ایک انگریزی اخبار میں وہ خبر موجود تھی۔ شام کے انگریزی اخبار نے خبر کے ساتھ سیٹھ لطیف کانجی کی سنگل کالم تصویر بھی شائع کی تھی۔ وہ اپنے باپ کی طرح پچاس سال کی عمر میں ہارٹ اٹیک کے باعث انتقال کر گیا تھا۔ ان خبروں کو دیکھتے دیکھتے مجھے یاد آیا کہ اگر یہ خبر پیر کو شائع ہوئی ہے تو اس کا مطلب یہی ہے کہ سیٹھ لطیف کانجی کا انتقال اتوار کو ہوا ہو گا۔ یعنی 8 اپریل کو۔ 8 اپریل 1984ء کو۔

لمحہ بھر کو سب خبریں دھندلا گئیں اور جیسے کسی نے آہستہ سے سرگوشی کی۔ آٹھ چار آٹھ چار۔ !

میرا اب بھی یہی خیال ہے کہ کہانیاں تو بس، کہانیاں ہوتی ہیں۔ کوئی بھی صورت اختیار کر لیتی ہیں ، کسی بھی راہ پر چل نکلتی ہیں۔ بس کبھی کبھی کوئی سیٹھ لطیف کانجی ٹکرا جاتا ہے اور لکھنے والے کے اعتماد کی دیوار میں دراڑ ڈال دیتا ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

نملوس کا گناہ —شموئل احمد

 

ملوس آبنوس کا کندہ تھا۔  اس پر ستارہ زحل کا اثر تھا۔  حلیمہ چاند کا  ٹکڑا تھی  اور جیسے زہرہ کی زائدہ تھی۔

نملوس کے ہونٹ موٹے اور  خشک تھے۔ حلیمہ کے ہونٹ ایک ذراد بیز تھے۔  ان میں شفق کی لالی تھی  اور رخسار پر اگتے سورج کا  غازہ تھا۔ نملوس  کے  دانت بے ہنگم تھے، بال چھوٹے  اور کھڑے کھڑے سے اور سر کٹورے  کی طرح گول تھا۔ ایسا لگتا بال سر پر نہیں اگے کٹورے پر رکھ کر جمائے گئے ہیں ۔ حلیمہ کے بال کمر تک آتے تھے۔ ان میں  کالی گھٹاؤں کا گذر تھا۔ دانت سفید اور ہم سطح تھے جیسے شبنم کی بوندیں سیپ  سے ہو کر دانتوں  کی جگہ آراستہ ہو گئی تھیں ۔ نملوس کی آنکھیں چھوٹی تھیں اور پلکیں  بھاری تھیں ۔ اس کی آنکھیں کھلی بھی رہتیں  تو بند بند  سی لگتی  تھیں ۔ حلیمہ کی  آنکھیں  شگفتہ تھیں ۔  ان میں  دھوپ کا بہت سا اجالا تھا۔  اور حکم ا للہ حیران تھا کہ اس کا  کالا بھجنگ  بیٹا کس کوہ قاف  سے گذرا کہ حسن  بے نظیر  سے پہلو گیر ہوا۔

زحل  اپنی رنگت میں  سیاہ  ضرور ہے  لیکن اس کا مثبت  پہلو بھی ہے۔ زحل صابر بھی ہے  شاکر بھی ہے  یہ  انسان کو درویش صفت  بناتا ہے۔ نملوس جب پیدا ہوا تھا تو  برج کواکب میں  زحل  اور قمر کا  اتصال تھا  اور ان پر  مشتری کی سیدھی نظر تھی۔  مشتری کا تعلّق مذہب  سے ہے  اور قمر دل  و دماغ ہے۔  نملوس  کے  دل  میں   قرب الٰہی  کی تڑپ تھی۔ اس کا  دل شاکر  تھا اور زبان ذاکر تھی۔ ۔ وہ  قران پڑھتا تو رقّت طاری ہوتی تھی۔ نماز کے بعد چارو قل پڑھتا۔ اور جمع کی پہلی ساعت میں مسجد جاتا  ا ور  بزرگان  دین  کا  قول  دہراتا کہ جو پہلی ساعت میں مسجد گیا اس نے گویا ایک اونٹ کی قربانی دی۔

نملوس اپنے لیئے بس ایک ہی دعا مانگتا تھا۔

’’یا خدا ! جب تک مجھے زندہ رکھنا ہے  مسکین کی حالت میں زندہ  رکھنا۔

جب موت دے تو  مسکین مارنا  اور حشر کے دن مساکین کے ساتھ میرا حشر کرنا  ! ‘‘

جاننا چاہیئے  کہ ہر آدمی کے لیئے ایک شیطان ہے۔

قلب  انسانی بہ منزلہ ایک قلعہ کے ہے  اور شیطان دشمن ہے کہ اس کے اندر گھس کر  اس پر قبضہ کرنا چاہتا ہے۔ بعض اولیا سے منقول ہے کہ  انہوں نے ابلیس سے پوچھا کہ  آدمی کے دل پر تو کس وقت غالب ہوتا ہے  تو اس نے جواب دیا کہ غضب اور خواہش نفسانی کے وقت اس کو دبا لیتا ہوں ۔ میں آنکھ میں رہتا ہوں اور جہاں جہاں خون پھرتا ہے وہاں وہاں میرا گذر ہے  اور  حرس و حسد میرے راستے ہیں جن پر چل کر میں  ملعون اور شیطان ا لرجیم  ہوا  اور کبھی پیٹ بھر کھانا مت کھانا  خواہ مال حلال طیّب ہی کیوں نہ ہو کہ پیٹ بھرنے سے شہوت کا زور ہوتا ہے اور شہوت میرا ہتھیار ہے۔

حکم اللہ راہو کا روپ تھا۔ رنگت سانو لی  تھی چہرہ لمبوترا تھا اور دانت نو کیلے تھے۔ نماز سے رغبت کم تھی۔ وہ اکثر جمع کی بھی نماز نہیں پڑھتا تھا۔ پیٹ بھر کھانا کھاتا تھا۔  ریشمی لباس پہنتا تھا۔ اس کی ایک چھوٹی سی پارچون کی دوکان  تھی۔ اس نے نملوس  کو  کاروبار میں  لگانا چاہا لیکن  وہ    جب  مال  تجارت سے بھی زکاۃ  الگ کرنے لگا  تو حکم اللہ نے چڑھ کر اسے دوکان سے الگ کر دیا تھا۔  نملوس مدرسہ  شمس ا لہدیٰ  میں مدرس ہو گیا تھا اور ذکر الہی میں مشغول رہتا تھا۔ حکم ا للہ کی بیوی فوت کر چکی تھی۔ تب سے اس کی بے

راہروی بڑھ گئی تھی۔ وہ دیر رات گھر لوٹتا۔ اکثر اس کے منھ سے شراب کی بو آتی تھی۔

معلوم ہونا چاہیئے کہ احتساب تمام مسلمانوں پر واجب ہے۔ حسن بصری فرماتے ہیں کہ باپ کو نصیحت کرے تو جب باپ غصّہ کرے تو خاموش ہو جائے ـ۔  لیکن باپ کو سخت بات کہنا مناسب نہیں ہے۔ مناسب یہی ہے کہ اس کی شراب پھینک دے اور ریشمی لباس پھاڑ دے۔  نملوس  دبے لفظوں  میں  حکم اللہ  سے مخاطب  ہوتا۔   ’’  ریشمی پہناوا مرد کے لیئے ممنوع ہے۔ حق تعالیٰ  کو سفید لباس پسند ہے۔ ‘‘  حکم ا للہ اسے نفرت سے گھورتا تو وہ خاموش ہو جاتا۔

جاننا  چاہیئے  کہ دلوں میں باطن کے اسرار پوشیدہ  رہتے  ہیں ۔ علمائے دین کہتے ہیں کہ  دل کا حال بھرے برتن کی طرح ہے کہ جب چھلکاؤ گے تو وہی نکلے گا جو اس میں بھرا ہے۔ راگ دلوں کے حق میں سچّی کسوٹی ہے۔ عشق سماع سے بڑھتا ہے۔ جو اللہ کے عاشق ہیں اور اس کے دیدار کے مشتاق ہیں  کہ جس چیز پر نظر ڈالی اس میں نور پاک کا تبسّم دیکھا  اور جو آواز سنی اس  کو اسی کے باب میں جانا تو ایسے لوگوں کے حق میں راگ ان کے شوق کو ابھارتا ہے اور عشق و  محبّت  کو پختہ کرتا ہے۔

نملوس  ہر سال بلند شاہ  کے عرس میں  ان  کے آستانے پر  جاتا تھا اور  سمع میں شریک ہوتا تھا۔ اس کے دل پر سمع  چقماق کا کام کرتا۔ اس پر وجد طاری ہوتا  ا ور وہ ہ  میدان  رونق میں دوڑا چلا جاتا۔  مکاشفات اور لطائف ظاہر ہوتے۔ لیکن  اعضائے  ظاہری  میں  کوئی  حرکت نہیں  ہوتی تھی۔  ضبط سے کام لیتا  اور گردن  نیچے کو ڈال لیتا  جیسے گہری سوچ میں ڈوبا ہو۔

امسال بھی وہ عرس میں شامل ہوا تھا۔ اور وہاں کے پیش امام نے  اسے وجد کی کیفیت میں دیکھا۔ نملوس میں اسے ایک مومن نظر آیا۔ اس نے نملوس کا حسب نسب دریافت کیا اور اسے گھر کھانے پر بلایا۔ نملوس ہمیشہ کھانا نمک سے شروع کرتا تھا اور  نمک پر ختم کرتا تھا  اور آخیر میں کہتا تھا ’’  الحمد لللہ ‘‘۔ اس دوران وہ  انبیا  کے قصّے بھی سناتا۔ ۔ پیش امام کے ساتھ وہ دستر خوان پر بیٹھا تو  اس نے حسب  معمول پہلے نمک چکھا۔ کھانے کے دوران  حدیث سنائی۔

’’ حضور صلیٰ اللہ علیہ و سلم  کا ارشاد ہے کہ  چند لوگ قیامت میں ایسے آئیں گے  جن کے اعمال تھایہ کے پہاڑوں کے مانند ہوں گے۔ ان سب کو دوزخ میں ڈال دیا جائے گا۔ لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ کیا یہ لوگ نماز پڑھنے والے تھے ؟ حضور نے فرمایا ہاں  نماز پڑھتے تھے روزے رکھتے تھے  اور رات کو  بیدار  رہتے تھے  لیکن دنیا کے مال و متاع پر فریفتہ تھے۔ ‘‘

کھانا  ختم  کر کے نملوس نے  پھر نمک  چکھا  اور بولا  ’’ الحمد لللہ ‘‘

پیش امام کی زبان سے برجستہ نکلا   ’’ جزاک اللہ ! میاں تمہاری ماں نے تمہیں بسم  ا  للہ پڑھ کر جنا ہے۔ ‘‘

پیش امام نے اسی وقت فیصلہ کر لیا کہ اپنے جگر کے ٹکڑے کو  نملوس کی جھولی میں ڈال دے گا۔  حلیمہ اکلوتی اولاد تھی  اور جیسی صورت تھی ویسی سیرت بھی تھی۔  حلیمہ کے حسن کے بہت چرچے تھے۔ ہر کوئی  اس کا طلب گار تھا  لیکن حلیمہ اتنی متّقی اور پرہیز گار تھی کہ پیش امام  اسے کسی ناہنجار کے سپرد نہیں کرنا چاہتا تھا۔ حلیمہ کے لیے اسے کسی مومن کی تلاش تھی  اور یہ مومن اسے نملوس میں نظر آیا۔  اس نے  اپنے ارادے ظاہر کیئے تو  نملوس نے دبی زبان میں  امام شافعی کا قول  دہرایا کہ  نکاح سے پہلے لڑکی دیکھ لینا واجب ہے۔ اس نے حلیمہ کو دیکھا اور خدا کا شکر بجا لا یا۔

پیش امام کو بہت عجلت تھی۔ ۔ اس  ڈر  سے کہ کوئی اس رشتے میں رکاوٹ نہ بن جائے۔ اس نے فوراّ نکاح کی تجویز رکھی  اور نملوس بھی راضی ہو گیا۔

نملوس  حلیمہ کو لے کر گھر میں داخل ہوا  تو حکم ا للہ کو ادب سے سلام کرتے ہوئے گویا ہوا۔

’’  ابّا  !  ایمان کے بعد نیک عورت سب سے بڑی نعمت ہوتی ہے۔ خدا نے مجھے اس نعمت سے نوازا۔ آستانہ فرقانیہ کے پیش امام صاحب  نے  اپنی دختر نیک اختر میرے  حق زوجیت میں سونپی  ہے۔ ‘‘

اور حکم اللہ  جیسے سکتے میں تھا۔ اس کی نگاہ حلیمہ پر جم سی گئی تھی۔ وہ یہ بھی نہیں  پوچھ سکا کہ  نکاح کب کیا ؟ مجھے خبر کیوں نہ کی ؟  وہ تو بس حیران تھا کہ  اس کا کالا بھجنگ بیٹا کس کو ہ  قاف سے۔ ۔ ۔ ۔ ۔

حلیمہ  ڈر گئی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس پر لرزہ  سا طاری ہو گیا۔ اسے محسوس ہوا کہ حکم اللہ کی زبان  لپلپا  رہی ہے اور آنکھیں سانپ کی آنکھوں کی طرح ہیرے اگل رہی ہیں ۔ ۔ ۔ ۔   حلیمہ بے ہوش ہو گئی۔

نملوس گھبرا گیا۔ اس نے حلیمہ کو گود میں  اٹھایا اور بستر پر لایا۔ منھ پر پانی کے چھینٹے مارے۔ چارو قل پڑھا۔ درود شریف پڑھ کر دم  کیا۔  حلیمہ کو ہوش آیا تو وہ نملوس سے لپٹ گئی۔

’’  میرے سرتاج۔ ۔ ۔ ۔ کہا ں ہیں ؟

’’ میں یہاں ہوں حلیمہ۔ ۔ ۔ تمہارے پاس۔ ۔ ۔ !‘‘  نملوس نے حلیمہ کے گال تھپتھپائے  اور اسے اپنے سینے سے لگا لیا۔

مجھے چھوڑ کر مت جایئے۔ ‘‘  حلیمہ کانپتی ہوئی اس کے سینے میں کسی بچّے کی طرح سمٹ گئی۔

حکم ا للہ کی طبیعت  میں  ہیجان تھا۔ وہ گھر سے باہر نکل گیا اور عثمان  حلوائی  کی دوکان پر آیا۔ عثمان  سے  اس کو رغبت تھی۔ اس کو سب حال سنایا۔ حلوائی  پیش امام کو جانتا تھا۔  حلیمہ کے حسن کے  بھی چرچے سنے تھے۔

’’ غریب کو حسین عورت  نہیں سجتی  ہے حکم ا للہ۔ تمہارا بیٹا اپنے لیئے لعنت لے آیا۔ ‘‘

’’   حسن  راجہ رجواڑوں  کو سجتا  ہے یا بالا خانے کی طوائفوں کو ‘‘

اور محلّے میں  شور تھا۔ ۔ ۔ غریب کی جھولی میں زمرّد۔ ۔ ۔ ۔ ۔

اتنی حسین۔ ۔ ۔ اتنی۔ ۔ ۔ ؟

کوئی نقص ہو گا۔ ورنہ  پیش امام اس کالے کلوٹے کے حوالے نہیں کر دیتا۔

اس کو مرگی کے دورے پڑتے ہیں ۔ گھر آتے ہی بے ہوش ہو گئی۔

’’  ضرور پیٹ سے ہے۔ ‘‘

محلّے کی عورتیں  بھی جوق در جوق چلی آتی تھیں ۔  منھ پر پلّو کھینچ کر کھسر پھسر کرتیں ۔

’’یہ حور پری۔ ۔ ۔  اور نملوس کو دیکھو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہو۔ ۔ ہو۔ ۔ ۔ ہو۔ ۔ ۔  ؟ ‘‘

’’  لنگور کے پہلو میں حور۔ ۔ ۔ !

’’ کوئی نقص ہو گا بہن۔ ۔ ۔ !‘‘

۔ ۔ پہلے سے پیٹ ہو گا۔ تب ہی تو امام نے نبٹارا کر دیا۔ ‘‘

’’ عیب چھپتا ہے جی۔ ۔ اللہ سب  ظاہر کر دے گا۔ ‘‘

ہوں محلّے میں پہلے  نملوس کی بد  صورتی کے چرچے نہیں تھے۔ سبھی اس کی عزّت کرتے تھے  اور  اس کی پارسائی کا گن گان کرتے تھے۔ اب حلیمہ کے چرچے تھے اور نملوس کے لیئے سب کی زبان پر ایک ہی بات تھی۔ ۔ ٹھگنا ہے۔ ۔ ۔ ۔ بھدّا۔ ۔ ۔ بد صورت۔ ۔ ۔ ۔ کالا پہاڑ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

اور  کالا  پہاڑ چاندنی میں شرابور تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور زہرہ کے پہلو سے پہلو سجاتا تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہر دن عید تھا اور ہر  رات شب برات تھی۔ ۔ ۔      نملوس حلیمہ سے کھیلتا  اور حلیمہ نملوس سے کھیلتی۔  زحل  کا زہرہ  سے اتصال تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ چوڑیوں  کی کھنک تھی۔ ۔ ۔  مدھم مدھم قہقہے  تھے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ فضا میں  نشہ تھا۔ ۔

بیویوں  سے مزاح کرنا  سنّت ہے۔ نملوس گھر میں لوڈو لے آیا تھا۔ دونوں خالی  وقتوں  میں لوڈو کھیلتے۔ پہلے سانپ اور سیڑھی کا کھیل کھیلتے تھے۔ حلیمہ  سیڑھیاں چڑھتی تو  خوش ہوتی  اور سانپ کاٹتا   تو ٹھنکتی اوں ۔ ۔ ۔ اوں ؛۔ ۔ ۔ اوں ۔ ۔ سانپ۔ ۔ سانپ۔ نملوس مسکراتا اور حلیمہ کو دلاسہ دیتا۔ ’’ دیکھو۔ ۔ دیکھو۔ ۔ ۔ آگے سیڑھی ہے۔ ۔ ۔ پھر چلو سیڑھی پر چڑھ جاؤ گی۔

لیکن سانپ نملوس کو بھی کاٹتا تو وہ اسی طرح ٹھنکتی ’’  اللہ جی۔ ۔ ۔ ا اپ کو بھی کاٹ لیا کمبخت نے۔ ۔ ۔ ؟ ‘‘ اور  نملوس  سے سٹ جاتی۔ وہ اپنے شانے پر حلیمہ کی چھاتیوں کا نرم لمس محسوس کرتا۔ اس کو حلیمہ کی یہ ادا اچھی لگتی۔ ایک بار  ۹۸ پر نملوس پہنچ  گیا تھا۔ ۲ نمبر لاتا  تو گوٹی لال تھی۔ ۔ لیکن ایک نمبر آیا اور سانپ نے ۹۹ پر ڈس لیا وہ سیدھا۵  پر پہنچ گیا۔ حلیمہ کے منھ سے چیخ نکلی۔ وہ نملوس سے لپٹ گئی۔

’’ میرے سرتاج۔ ۔ ۔ ‘‘

نملوس  نے بھی اسے بانہوں میں کس لیا اور اس کی مخملی پلکوں پر اپنے سیاہ موٹے ہونٹ ثبت کر دیئے۔

’’ کیوں  ڈرتی ہو ؟ جھوٹ موٹ کا  تو  سانپ ہے۔ ‘‘

’’مجھے یہ کھیل پسند نہیں ہے۔ ‘‘  حلیمہ اس کے بازوؤں میں کسمسائی۔

’’  اچھی بات ہے۔ دوسرا کھیل کھیلیں گے۔ ‘‘  نملوس  اس کو بازوؤں میں لیئے رہا۔ حلیمہ بھی بانہوں میں سمٹی رہی۔ ۔ اور پلکوں پر ہونٹ ثبت رہے۔ ۔ ۔ ۔ اور نشہ چھاتا رہا۔ ۔ ۔ فضا گلابی ہوتی رہی۔

وہ   چارو گوٹی سے ہوم ہوم کھیلنے لگے۔

سانپ والا کھیل انہوں نے بند کر دیا تھا۔ لیکن قدرت  نہیں کرتی۔ وہ  سانپ اور سیڑھی کا کھیل کھیلتی رہتی ہے۔  ہر سیڑھی کے مقدّر میں ایک سانپ  ہے۔

حلیمہ کو موتی چور کے لڈّو بہت پسند تھے۔ نملوس جب بھی بازار جاتا  موتی چور کے لڈّو لاتا۔ ایک ہی لڈّو سے دونوں کھاتے۔ حلیمہ ایک  ٹکڑا نملوس کے منھ میں ڈالتی  تو نملوس کہتا

’’ پہلے تم۔ ۔ ۔ ۔ !‘‘

’’ نہیں آپ۔ ۔ ۔ ۔ !‘‘

’’ نہیں  تم۔ ۔ ۔ ۔ !

’’ آپ سرتاج ہیں ! ‘‘

’’ تم ملکہ ہو ! ‘‘

حلیمہ کھلکھلا کر ہنس دیتی۔ لیکن منھ پر ہاتھ بھی رکھ لیتی۔ نہیں چاہتی تھی ہنسی کی آواز دور تک جائے۔

حلیمہ حکم  ا للہ  کے سامنے جلدی نہیں آتی تھی۔ حلیمہ کو اس کی آنکھوں سے ڈر لگتا تھا۔ کھانا میز پر کاڑھ کر الگ ہٹ جاتی۔ وہ پانی مانگتا تو  نملوس  پانی ڈھال کر دیتا تھا۔ کبھی کبھی اس کے منھ سے شراب کی بو آتی تھی۔ نملوس بھی چاہتا تھا کہ حلیمہ  اس سے پردہ کرے۔ نملوس جب گھر میں  موجود  نہیں رہتا  تو حلیمہ خود کو کمرے میں بند رکھتی تھی۔ وہ کھڑکی تک نہیں کھولتی تھی۔ حکم ا للہ کو احساس ہونے  لگا  تھا  کہ گھر اب اس کا نہیں رہا۔ گھر  نملوس کا ہے جس پر حلیمہ کی حکمرانی ہے  اور وہ  اپنے ہی گھر میں اجنبی ہوتا جا رہا ہے۔ جب نملوس کمرے میں موجود رہتا  تو حکم ا للہ ان کی نقل و حرکت  جاننے کی کوشش کرتا۔  دروازے کی طرف تاکتا رہتا۔ دروازہ بند رہتا تو قریب جا کر ان کی گفتگو سننے کی کوشش کرتا۔

حضرت  عیسیٰ  علیہ ا لسّلام نے فرمایا ہے کہ تاکنے سے  بچتے رہو کہ اس سے شہوت  کا بیج پیدا ہوتا ہے۔ حضرت یحیٰ علیہ ا لسّلام سے کسی نے پوچھا کہ زنا کی ابتدا  کہاں سے  ہوتی ہے  تو آپ نے فرمایا دیکھنا اور للچانا۔

گوتم رشی کی بیوی اہلیہ کو اندر دور سے دیکھتا تھا۔  آخر گوتم کا بھیس  بدل کر ان کی کٹیا میں آیا۔ اہلیہ  اندر  کو  رشی سمجھ کر ہم بستر ہوئی۔   رشی کو معلوم ہوا تو اہلیہ ان کے غیض و غضب کا شکار ہوئی۔ رشی نے اہلیہ کو پتھر بنا دیا۔

ایک دن اچانک حکم ا للہ بدل گیا۔ ریشمی لباس پھاڑ ڈالے۔ گھر کا کونہ پکڑ لیا۔ گریہ کرنے لگا ‘‘ یا اللہ میں گناہ گار ہوں ۔ مجھے معاف کر۔ ۔ ۔ مجھے سیدھے  رستے چلا۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘

اور نملوس  نے دیکھا والد محترم  مسجد جانے لگے ہیں ۔ نملوس  حیران ہوا۔

اور حکم ا للہ گوشہ نشیں ہو گیا۔ کلام پاک کی تلاوت کرتا۔  پہلی ساعت میں مسجد جاتا۔ غسل سے  پہلے تین بار وضو کرتا۔ پھر تین بار بائیں طرف پانی اجھلتا۔ تین  بار دائیں طرف  پانی اجھلتا۔ اور آخیر میں  لا الہ پڑھتے ہوئے تین بار سر پر پانی اجھلتا۔

وہ اب سادہ لباس پہنتا تھا اور  لوگ باگ حیرت سے دیکھتے تھے۔ ایک بار کسی نے ٹوک دیا۔

’’ آج کل پھٹے پرانے کپڑے میں نظر آتے ہو۔ ؟ ‘‘

حکم ا للہ  نے برجستہ جواب دیا۔

’’  ایسے شخص کا لباس کیا دیکھتے ہو  جو اس دنیا  میں مسافر کی طرح  آیا ہے  اور جو اس کائنات کی رنگینیوں کو فانی  اور وقتی  تصّور کرتا ہے۔ جب والی دو  جہاں  اس دنیا میں مسافر کی طرح  رہے  اور کچھ مال و زر  اکٹھا نہیں کیا تو میری کیا  حیثیت  اور حقیقت  ہے۔ ‘‘

حلیمہ کو اب حکم ا للہ سے  پہلے کی طرح خوف نہیں محسوس ہوتا تھا۔ وہ سامنے آنے لگی تھی۔ کھانا بھی کاڑھ کر دیتی اور نملوس کی خوشیوں کا  ٹھکانہ نہیں تھا۔

راہو پیچھے کی طرف کھسکتا ہے۔ ۔ ۔ ۔ بہت آہستہ۔ ۔ ۔ چپکے  چپکے۔ ۔ ۔ چاند سے اس کی  دشمنی ہے۔ چاندنی  اس سے دیکھی نہیں جاتی۔  جب شمس  قمر کے عین مقابل  ہوتا ہے  تو چاندنی  شباب پر ہوتی  ہے۔  راھو  ایسے میں اگر چاند کے قریب پہنچ  گیا تو اس کو جبڑے میں  کس لے گا  اور چاند کو گہن  لگا دے گا۔

وہ گھڑی آ گئی تھی۔ ۔ ۔ ۔ قمر  منزل  شرطین  سے گذر رہا تھا۔

نملوس جماعت کے ساتھ ذکر الٰہی  میں  دوسرے شہر کو چلا گیا۔

راھو  اپنی چال  چلتے  ہوئے  برج  ثور  کے آخری عشرے  سے نکلا چاہتا تھا۔

حکم ا للہ گھر سے باہر نکلا۔ عثمان کی دوکان  سے موتی چور  کے دو  لڈّو  لیئے  جو  اس نے  خاص  طور سے  بنوائے  تھے۔  شام کو گھر  پہنچا۔ لڈّو حلیمہ کو دے کر نظریں  جھکاتے  ہوئے کہا ’’ یہ نیاز کے لڈّو ہیں ۔ کھانے کے ساتھ کھا لینا۔ انہیں باسی نہیں  کھایا جاتا۔ ‘‘  اور پھر اپنے  کمرے میں  آیا  اور زور زور سے  تلاوت کرنے لگا۔ رات کھانے کے وقت   باہر نکلا۔ نظر نیچی رکھی۔  حلیمہ نے کھانا کاڑھا۔ حکم ا للہ نے خاموشی سے کھا یا  اور کمرے میں بند ہو گیا لیکن اس نے وہ کھڑکی کھلی رکھی جو حلیمہ کے کمرے کی طرف کھلتی تھی۔ تھوڑی دیر بعد اس نے کھڑکی  سے  جھانک کر  دیکھا۔  حلیمہ اوسارے  میں بیٹھی کھانا کھا رہی تھی۔ اس نے ایک لڈّو کھایا۔ پھر دوسرا بھی کھایا۔ ۔ ۔ لیکن پانی نہیں پی سکی۔ اس کو غش  آ گیا۔ راہو شرطین کی منزل میں تھا۔ ۔ ۔

حلیمہ کو  چھو کر دیکھا۔ ۔ ۔ ۔ وہ گہری گہری سانسیں  لے رہی تھی۔ ۔ گود میں اٹھا کر بستر تک لایا۔ ۔ ۔ ۔ حلیمہ نے ایک بار آنکھیں کھولنے کی کوشش کی لیکن پپوٹے بھاری ہو رہے تھے۔ ۔ ۔

’’ پانی۔ ۔ ۔ پانی۔ ۔ ۔ !‘‘  حلیمہ نے ہونٹوں پہ زبان پھیری۔ ۔ ۔ ۔ سہارا دے کر اٹھایا اور ہونٹوں سے پانی کا گلاس لگایا۔ حلیمہ  نے پھر کچھ دیکھنے کی کوشش کی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لیکن آنکھیں کھلتیں  اور بند ہو جاتیں ۔ ۔ ۔ مزاحمت کی سکت نہیں تھی۔ ۔ ۔ راہو کے سائے گہرے ہو گئے۔ ۔ ۔ ۔ روئے زمیں پر  سب سے بھدّا منظر چھا گیا۔ ۔ ۔ ۔

حکم ا للہ  نے صبح  صبح مسجد پکڑ لی۔  اعتکاف میں بیٹھ گیا۔

نملوس گھر آیا تو حلیمہ بے سدھ پڑی تھی۔ جسم پر جگہ جگہ نیلے داغ  تھے۔ حلیمہ کچھ بولتی نہیں تھی۔ وہ روتی بھی نہیں تھی۔ اس کی زبان گنگ تھی۔ ۔ نملوس گھبرا گیا۔ پڑوس کی عورتیں جمع ہو گئیں ۔ ۔ ۔ حلیمہ پھر بھی  چپ رہی۔ ایک عورت نے نملوس کی قسم دے کر پوچھا۔ حلیمہ کے سینے سے دل خراش چیخ نکلی اور وہ پھوٹ پھوٹ کر رو پڑی۔ ۔ ۔ ۔ ۔

جگ ظاہر ہو گیا۔ ۔ ۔ ۔

حکم ا للہ  تو عبادتی ہو گیا ہے۔ ۔ ۔

یہی  چھنال  ہے۔ ۔ ۔ !

پنچائت ہوئی۔ قاضی نے فیصلہ سنایا۔

حلیمہ  نملوس پر حرام قرار دی گئی۔ ۔ ۔ ۔

اور حکم ا للہ۔ ۔ ۔ ۔ ؟

دو مومن گواہ چاہیئے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حکم ا للہ کے لیئے  ملک کا قانون  سزا تجویز کرے گا۔ ۔ ۔ ۔ !

نملوس  کی آنکھوں  میں گہری دھند تھی۔ وہ سجدے میں  چلا گیا۔

’’یا اللہ۔ ۔ ۔ ۔ میں نے ایسا کون سا گناہ کیا تھا کہ تو نے میری حلیمہ کو مجھ سے  چھین لیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !‘‘

نملوس کچھ دیر سجدے میں پڑا  رہا۔ ۔ ۔ ۔ پھر جیسے کسی نے اس سے سرگوشی  میں کچھ کہا اور  نموس  اٹھ کر کھڑا ہوا۔ اس کا چہرہ نور الٰہی سے چمک رہا تھا۔ اس نے با آواز بلند پنچائت سے خطاب کیا۔

’’ میں یہ فتویٰ ماننے سے انکار کرتا ہوں ۔ ‘‘

’’یہ فتویٰ  اسلامی  ضوابط پر مبنی نہیں ہے۔ اس سے ذاتی بغض کی بو آتی ہے۔ ‘‘

’’  پنچایت نے زانی کی سزا کیوں نہیں تجویز کی جب کہ اسلام میں زانی کی سزا سنگ ساری ہے ؟ ‘‘

’’  حلیمہ  حرام کیوں ؟ وہ بے گناہ اور معصوم ہے۔ اس کو نشہ آور مٹھائی کھلا کر بے ہوش کر دیا گیا اور  بے ہوشی کے عالم میں اس کے  ساتھ زنا بالجبر کیا گیا۔ میں زانی کو ساری دنیا کی عورت پر  حرام قرار  دیتا ہوں اور ہر وہ بات ماننے سے انکار کرتا ہوں جو اسلامی روح سے بے بہرہ ہے۔ ‘‘

پنچائت میں سراسیمگی چھا گئی۔

نملوس نے  حلیمہ کا ہاتھ پکڑا اور بستی سے نکل گیا۔ ۔ ۔ ۔ !

٭٭٭

 

 

 

رودِ خنزیر—صدیق عالم

 

 

میں ان دنوں گودی کے علاقے میں سامان اٹھانے کا کام کیا کرتا۔ شام کی طرف، جب میرے پاس کرنے کو کچھ نہ ہوتا، میں اپنے وقت کو دو حصوں میں بانٹ لیتا۔ سورج ڈوبنے سے قبل میں لوہے کے پُل پر بیٹھا لوگوں کے جوتے پالش کیا کرتا۔ جب میرے پاس پالش کرنے کے لئے نہ ہوتا میں نیچے کھال میں کشتیوں کو چاند کی کشش کے زیرِ اثر کناروں پر چڑھتے دیکھتا رہتا۔ بانس اور لکڑی کے تختوں سے بنی یہ خستہ حال کشتیاں نائلن کی رسیوں سے ڈھلان پر کھڑے درختوں کے ساتھ بندھی ہوتیں۔ جلد سورج دریا پار دھندلے مکانوں کے اوپر کی کثافت میں غائب ہو جاتا۔ لیکن اس کے بعد بھی قدرتی روشنی کافی دیر تک قائم رہتی۔ آسمان اندھیرے میں دوب چکا ہوتا جب آئس کریم کی ٹرالی کو ڈھکیلتے ہوئے جس پر رنگین چھتری ڈول رہی ہوتی میں میدان کی طرف نکل جاتا جہاں درختوں کی آڑ میں بیٹھے رومانی جوڑوں کو میں اونچے داموں آئس کریم بیچا کرتا۔ ان دنوں میرے پاس بس یہی کام تھے۔ اور اگر آپ مجھ سے دریافت کریں تو میں بتا سکتا ہوں یہ زندگی اتنی بری بھی نہیں تھی۔ میں خود سے کہا کرتا، تم یہ بھول نہیں سکتے کہ تم ایک ایسے آدمی ہو جس نے دو بار اپنا ملک بدلا ہے۔

اور یہ اٹھارہ برس پہلے کی بات ہے۔ ۔ ۔

 

(۲)

 

سورج آسمان پر ہمیشہ کی طرح اپنا فرض نبھا رہا تھا اور میرے  والد مغربی پاکستان جانے کے لئے چٹاگانگ کی بندرگاہ میں اپنے دو چرمی سوٹ کیس، ایک ہولڈ آل اور ایک کوٹ کے ساتھ جہاز کے عرشے پر کھڑے ہماری طرف تاک رہے تھے۔ ماں کے برعکس جو سانولے رنگ کی ایک معمولی ناک نقشے والی بنگالی عورت تھی، ابا ایک لانبے قد کے گورے چٹے اور کافی وجیہ انسان تھے جن کے گھنے نفیس بال کسی فلمی ہیرو کی یاد دلاتے تھے۔ یہ وہ وقت تھا جب میری ماں نے ابھی ہندوستان واپس لوٹنے کے بارے میں نہیں سوچا تھا۔ دوسری طرف میں صرف سات برس کا تھا اور اس لائق نہیں تھا کہ اپنے بارے میں کوئی فیصلہ لے سکوں۔ مگر دیکھتے دیکھتے دو برس گذر گئے جب ایک دن اچانک ماں نے اعلان کیا کہ ہمارے پاس اس کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں کہ ہم اپنا پیدائشی وطن واپس لوٹ جائیں۔ مجھے ماں کی بات سن کر حیرت ہوئی۔ اپنا وطن! مجھے تو اس کی یاد بھی نہیں ہے جب کہ اپنے باپ کے برعکس جو کبھی اسِ ملک کی زبان بول نہ پائے ، ہم لوگ تو وہی زبان بولتے ہیں جو اس ملک میں بولی جاتی ہے۔

بہت بعد میں ، تقریباً نو برس بعد، بسترِ مرگ پر ماں نے مجھے بتایا، وہ میرے باپ کو کھونے کے صدمے سے کبھی ابھر نہیں پائی تھی۔ جہاز پر جانے کے لئے تختہ پر قدم رکھنے سے پہلے ابا نے ہمیں امید دلائی تھی کہ کراچی پہنچ کر وہ جلد ہمیں بلا لیں گے۔ مگر دن ہفتوں اور ہفتے مہینوں میں ڈھلتے گئے۔ سمندر میں غیر ملکی جہاز آتے جاتے رہے۔ انھوں نے کبھی لوٹ کر ہماری خبر نہیں لی۔

’’ارسلان، تم اپنے دل پر جبر مت لو۔ ‘‘ ماں نے کہا۔ پچھلے دو سال سے وقفے وقفے سے ، جب جب ان پر درد کا شدید غلبہ ہوتا انھیں اپنی پیٹھ کے نچلے حصے پرالاسٹک کے بریسیز پہننے ہوتے تھے۔ یہ بریسیزپہلے سے استعمال شدہ تھے اور جینیوں کے خیراتی اسپتال سے دئے گئے تھے جہاں ایک مارواڑی تاجر کی سفارش پر ان کی ریڑھ کی ہڈی کی مفت سرجری کی گئی تھی۔ اس تاجر کے گھر ماں نے کچھ دنوں کے لئے نوکری کی تھی۔ ان کی ریڑھ کی ہڈی کا یہ درد سالوں سال صبح سے شام تک لگاتار لوگوں کے گھروں کو پوچھا لگانے اور بھاری گھریلوسامان ادھر ادھر کرنے کا نتیجہ تھا۔ ان وقتوں میں جب ان کا درد اٹھتا وہ بالکل کام کرنے کے لائق نہ ہوتی اور زیادہ تر انھیں گھر پر پڑا رہنا پڑتا۔ جس کا مطلب تھا وہ ہماری فاقہ کشی کا دور ہوتا کیونکہ لگاتار چھٹی لینے کے سبب ان کا زیادہ تر کام چھوٹ جاتا۔ مگر اس وقت ماں ایک سرکاری اسپتال میں ایک جان لیوا مرض کی شکار بن کر آئی تھی اور اس وقت جب کہ وہ مجھے دلاسا دے رہی تھی، اسپتال کے وارڈ کے اندربس اتنی بھر روشنی رہ گئی تھی کہ میلی کچیلی دیوار پر سائے کے نام پر ایک ہلکا سا دھبہ بن سکے۔ ماں نے میری دونوں مٹھیاں تھام کر اپنے مرجھائے ہوئے سینے پر رکھ لیا تھا جیسے میری مٹھیاں وہ اپنے ساتھ دوسری دنیا میں لے جانے والی ہو۔ وہ جن آنکھوں سے میری طرف دیکھ رہی تھیں وہ میرے لئے بالکل نئی تھیں۔ مجھے اس پر حیرت ہوئی کہ اتنے سالوں تک انھوں نے ان آنکھوں کو کہاں چھپا رکھا تھا۔ ’’وعدہ کرو، تم کبھی اپنے باپ کو ڈھونڈنے کی کوشش نہیں کرو گے۔ خدا کا شکر ہے وہ ایک ایسے ملک میں جا بسے ہیں جس سے اس ملک کی دشمنی کبھی ختم ہونے والی نہیں۔ مگر وعدہ کرو۔ ‘‘

ایک بار میرا جی چاہا کہ میں اپنے ہات کھینچ لوں۔ مگر ماں لمبی لمبی سانسیں لے رہی تھیں اور میں ان کی موت کو خراب کرنا نہیں چاہتا تھا۔ میں انتظار کرتا رہا، ماں کی موت کا یا اس بات کا کہ ایسا کچھ ہو جائے کہ ماں کا موت کا ارادہ ٹل جائے۔ آج یہ بتانا مشکل ہے اس دن میں کس بات کا انتظار کر رہا تھا۔ سچ بات تو یہ ہے کہ یہ کچھ بھی ہو سکتا تھا جس پر اس وقت میرا کوئی بھی اختیار نہیں تھا۔

 

(۳)

 

رات دس بجے میں ٹرالی ڈھکیلتے ہوئے واپس لوٹتا تو ہوٹلوں کے علاوہ زیادہ تر دکانیں بند ہو چکی ہوتیں۔ قریب ہی طوائفوں کا محلہ ہونے کے سبب ان ہوٹلوں میں آدھی رات تک رونق رہا کرتی۔ مجھے کسی بھی ہوٹل کے باہر رکنے کی اجازت نہ تھی کیونکہ ہر ہوٹل کا اپنا آئس کریم کا کونا تھا جہاں کمسن طوائفیں گاہکوں کے ساتھ آئس کریم کی میز پر ہنسی ٹھٹھول کیا کرتیں۔ میں جب ٹرالی بچے کھچے آئس کریم کے ساتھ فیکٹری کے حوالے کر کے گھر لوٹتا تو یہ وقت سڑک چھاپ کتوں کا ہوتا جو میری بو سونگھ کر ہمیشہ مجھے رد کر دیا کرتے۔ در اصل اس مقصد کے لئے انھیں سڑک پر کوئی نہ کوئی پاگل یا بھکاری آسانی سے مل جاتا جس کا وہ اسٹریٹ لیمپ کی ناکافی روشنی میں دور تک پیچھا کیا کرتے۔

ماں نے مرنے کے لئے مزید تین دن کیوں لگائے یہ آج بھی میری سمجھ سے باہر ہے۔ در اصل انھیں تو اسی دن مر جانا چاہئے تھا جس دن انھوں نے مجھ سے میرے باپ کے سلسلے میں وعدہ لیا تھا۔ شاید ان کے لئے مرنا کوئی خاص واقعہ نہ ہو۔

سچ بات تو یہ تھی کہ میں ان کے مرض کو سمجھنے سے قاصر تھا۔ بس ایک دن ان پر شدید دورا پڑا اور وہ بدن اینٹھتے ہوئے بلبلا نے لگی۔ بستر سے اٹھنے کے لئے وہ ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی تھی۔ وہ بار بار اپنے بریسیز کی طرف ہاتھ بڑھا رہی تھی جنھیں میں نے انھیں پہننے میں مدد دی۔ مگر ان بریسیز کے باوجود وہ پھر کبھی بستر سے اٹھ نہیں پائی۔ وہ ساری رات کراہتی اور ٹھٹھرتی رہی جیسے سردی اپنے شباب پر ہو جب کہ پاس پڑوس کے تمام گھروں میں بجلی کے پنکھے چل رہے تھے۔ صبح میں نے دیکھا ان کے جسم میں جگہ جگہ نیلے گومڑ نکل آئے تھے۔ دو دن تک اسی طرح وہ بستر پر پڑے پڑے چھٹپٹاتی رہی جب محلے کے کچھ لوگ ترس کھا کراسے سرکاری اسپتال لے گئے جہاں ان پر پانی چڑھا دیا گیا۔ ان کے خون کی جانچ کی گئی اور سرکاری ڈاکٹر نے بتایا، یہ گومڑ کسی کتر کر کھانے والے میمل کے کاٹنے کا نتیجہ ہے ، مگر اصلی بیماری تو کچھ اور ہے۔ اور یہ ایک خاص قسم کا مچھر ہے جس کے پیرا سائٹ خون کے راستے سیدھے انسان کے دماغ پر حملہ کرتے ہیں اور دیر ہو جانے پر ڈاکٹروں کے کرنے کے لئے کچھ نہیں بچتا۔ پھر اس نے میری طرف دیکھا اور میرے کان میں سرگوشی کی: بیٹا، تم بڑے ہو گئے ہو۔ بہتر ہو گا کہ تم اپنی ماں کی موت کے لئے ذہنی طور پر تیار ہو جاؤ۔

جو میں اس دن بھی تیار تھا جب ماں چٹاگانگ کی بندرگاہ میں جیٹی سے کچھ دور ہٹ کر پانی کے بالکل قریب کھڑی تھی جہاں جانے کس امید میں ہم لوگ ہر مہینے ایک آدھ بار بس میں دھان کے کھیتوں کے بیچ ایک لمبی مسافت طئے کر کے آیا کرتے۔ اس دن آسمان پر کئی رنگ کھیل رہے تھے اور نیچے سمندر کے پانی میں خس و خاشاک ڈول رہے تھے جیسے سمندری مچھلیوں کی طرح ان کی بھی اپنی ایک الگ زندگی ہو۔ اس دن ماں بالکل خاموش تھی۔ شاید نا امیدی نے دھیرے دھیرے ان کے اندر گھر کرنا شروع کر دیا تھا۔ وہ جن نظروں سے سمندر کے پانی کو پشتے کی دیوار سے ٹکراتے دیکھ رہی تھی اس سے ایک پل کے لئے مجھے لگا ماں سمندر میں کود جانے کا ارادہ رکھتی ہو۔ میں نے سختی سے ان کی ساڑی کے کنارے کو اپنی انگلیوں سے پکڑ رکھا تھا۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ میرے اس عمل کا نتیجہ ہو کہ ماں مزید نو برس زندہ رہی اور ایک ایسے اسپتال میں ان کا انتقال ہوا جہاں کے ڈاکٹر مریضوں سے زیادہ ان کے رشتے داروں سے باتیں کرنے کے عادی تھے۔

تمہیں یاد ہے ارسلان۔ ۔ ۔ ماں نے مرنے کے ایک دن قبل کہا۔ اس وقت وہ اسپتال میں لوہے کے پلنگ پر لیٹی ہوئی چھت کی چوبی بلیوں کی طرف تاک رہی تھی جن پر رکھی اینٹیں جگہ جگہ سے پلستر جھڑ جانے کے سبب ننگی ہو گئی تھیں۔ ۔ ۔ ۔ تمہیں یاد ہے وہ دن جب ہم لوگ مجیب الرحمان کو دیکھنے گئے اور لوگوں کا جوش و خروش دیکھ کر تم پھولے نہیں سما رہے تھے۔ تم نے دو کافی بڑے غبارے تھام رکھے تھے جو ہوا میں اڑنا چاہ رہے تھے۔ تم کتنے خوفزدہ تھے کہ کہیں یہ غبارے تمہارے ہاتھ سے اڑ نہ جائیں !ان دنوں ہم لوگ ڈھاکہ میں تھے۔ اور تمہیں وہ دن بھی یاد ہو گا جب فوج نے لوگوں پر قہر ڈھا رکھا تھا اور ہم نے ایک دن ایک زخمی آدمی کو دیکھا جسے رضا کاروں نے ناریل کے ایک درخت کے ساتھ باندھ دیا تھا اور کسی فوجی گاڑی کے گذرنے کا انتظار کر رہے تھے۔ ہمیں بتایا گیا کہ یہ آدمی دشمن ملک کے ایجنٹ کے طور پر کام کر رہا تھا۔ وہ آدمی اپنی زندگی کی بھیک مانگ رہا تھا جب بھیڑ اپنے صبر کا دامن کھو بیٹھی اور کسی نے ایک اسکرو ڈرائیور نکال کر اس کے حلق میں پیوست کر دی۔ حملہ آور نے اسکریو ڈرائیور واپس باہر نکالنے کی کوشش کی تو اس کا لکڑی کا دستہ اس کے ہاتھ میں رہ گیا۔ اور شاید تمہیں یہ بھی یاد ہو کہ جب ملک آزاد ہو چکا تھا تو کس طرح ملیشیا ایک پبلک پارک میں جوان لڑکوں کو گھاس پر گرا کر ان کے سینوں میں بیونٹ گھونپ رہی تھی اور یہ ہماری طرح ہی ہندوستان سے بھاگ کر آئے ہوئے لوگ تھے فرق صرف یہ تھا کہ یہ تمہارے باپ کی زبان بولتے تھے۔ بعد میں ہمیں سرکاری ریڈیو سے پتہ چلا کہ ان لوگوں نے جنگِ آزادی کے خلاف پاکستانی فوج کو تعاون دیا تھا۔

میری سمجھ میں آج تک یہ نہیں آیا کہ مرنے سے قبل ماں نے کیوں ان نا خوشگوار واقعات کو یاد کرنے کی کوشش کی۔ سچ بات تو یہ تھی کہ نہ تو مجھے کسی غبارے کی یاد تھی نہ ان واقعات کی جن کا ذکر ماں نے کیا تھا۔ وہ ہمارے بڑے ہی افراتفری کے دن تھے جب ہم لوگ ہمیشہ سفر پر رہا کرتے ، کبھی ڈھاکہ، کبھی چٹاگانگ اور کبھی نواکھالی۔ نرس نے مجھ سے کہا کہ میری ماں پر ہذیانی کیفیت طاری تھی، کہ مجھے ان کی باتوں کا بھروسہ نہیں کرنا چاہئے کیونکہ اس حالت میں سنا اور دیکھا ہوا کا فرق بالکل مٹ جاتا ہے۔

 

(۴)

 

ابا کی روانگی کے بعد ہم لوگوں نے اپنی وفاداریاں بدل لی تھیں اور ہماری زبان کے سبب کوئی ہم پر انگلی اٹھا نہیں سکتا تھا۔ لیکن ماں نے بہت جلد فیصلہ کر لیا کہ ہمیں اپنا پیدائشی ملک واپس لوٹ جانا چاہئے۔ شاید وہ روز روز کے خون خرابے سے تنگ آ گئی تھیں۔ شاید انھیں ڈر تھا کہ یہ ملک ہمیشہ انھیں میرے باپ کی یاد دلاتا رہے گا جس پر یہ الزام آسانی سے اور جائز طور پر لگایا جا سکتا تھا کہ وہ پاکستانی فوج کے مخبر تھے۔ میری پڑھائی رک چکی تھی اور کسی نے میرے مستقبل کے بارے میں نہیں سوچا تھا۔ ہم تو بس اس نئے نویلے ملک میں تھوڑے دنوں کے مہمان تھے۔ مگر ماں کو یہ فیصلہ لینے میں دو سال لگ گئے۔ شاید کوئی بھی فیصلہ اکے لیے لینے میں وقت لگ جاتا ہے۔ شاید اپنے دل کے کسی گوشے میں اب بھی انھیں اس سمندری ڈاک کا انتظار تھا جو ایک تیسرے ملک کا دروازہ ہمارے لئے کھولنے والا تھا اور وہ اپنے ٹھکانے سے ہٹنا نہیں چاہ رہی تھیں۔ لیکن آخر کار وہ دن آ ہی گیا۔ اور پھر ہزاروں لوگوں کی طرح جو چوری چھپے اپنا وطن واپس لوٹ رہے تھے جسے انھوں نے ایک دہائی قبل چھوڑنے کی غلطی کی تھی ہمیں بھی غیر قانونی طور پر سرحد پار کرنے کا موقع مل گیا۔ ’’یاد رکھو ارسلان۔ ۔ ۔ ‘‘ ماں نے اسباب باندھتے ہوئے کہا۔ ’’۔ ۔ تم اپنا وطن واپس لوٹ رہے ہو۔ ایک مہاجر پرندے کی طرح جس کا وقت یہاں پر ختم ہو چکا ہے۔ کوئی کچھ بھی کہہ لے ، تم کوئی جرم نہیں کر رہے ہو۔ اس بات کو دھیان میں رکھنا بہت ضروری ہے ‘‘بہت بعد میں مجھے اس کا خیال آیا تھا کہ ماں نے شاید ٹھیک نہیں کہا تھا۔ مہاجر پرندے تو بار بار ایک ہی جگہ لوٹ آتے ہیں جب کہ ہمارا سفر یک طرفہ اور آخری تھا جہاں سے اب ہم کبھی واپس آنے والے نہیں تھے۔ میں محلے میں جن لڑکوں کے ساتھ کھیلا کرتا انھیں جب ہمارے بارے میں پتہ چلا تو انھیں کوئی حیرت نہ ہوئی۔ ہندوستان تم لوگوں کے لئے صحیح جگہ ہے ، میرے ایک دوست نے کہا جو ہمارے پڑوس میں رہتا تھا، مجھ سے دگنی عمر کا تھا، اور کسی پنسل کی طرح دبلا پتلا اور لمبا تھا۔ وہ طرح طرح کی کتابیں پڑھا کرتا اور اپنی ایک خاص سوچ رکھتا تھا۔ یہاں ہمیشہ تمہارے باپ کے سلسلے میں سوالات پوچھے جاتے رہیں گے۔ یاد رکھو، اگر ہوا تمہارے خلاف بہنے لگی یا کسی نے تمہاری مخبری کر دی تو انھیں اس کی کوئی پرواہ نہ ہو گی کہ تمہارے باپ کے ساتھ تم لوگوں کے تعلقات ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم ہو چکے ہیں اور تم اور تمہاری ماں اس ملک کی زبان بالکل مقامی لوگوں کی طرح بول سکتے ہو۔

 

(۵)

 

میں وہ سفر کبھی بھول نہیں سکتا۔ مگر میرے لئے بہتر ہے کہ اسے بھلا دوں۔ میں آج بھی اس کے لئے خود کو گناہ گار تصور کرتا ہوں۔ اس دن مجھے پہلی بار محسوس ہوا کہ ایک ہی آسمان کے نیچے زندگی گذارنے کے باوجود لوگ ایک دوسرے سے کس قدر مختلف ہوتے ہیں۔ سچ کہا جائے تو یہ سفر ایسا تھا کہ اس کے بعد میرے لئے دنیا میں حیران ہونے کے لئے بہت کم چیزیں رہ گئی تھیں۔ شاید یہ اس کا نتیجہ ہے کہ اب میں بہت کم باتیں بول پاتا ہوں۔ دوسری طرف نہ میں بہت دیر تک بولتے رہنے والوں کو ٹھیک سے سمجھ پاتا ہوں نہ ان لوگوں کو جو پورے وقت خاموش رہتے ہیں۔ مجھے لگتا ہے پہلے والے کے پاس کوئی کہانی سرے سے نہیں ہوتی شاید اسی لئے وہ اتنے سارے لفظوں کا سہارا لینے پر مجبور ہوتے ہیں جب کہ دوسرے کے پاس ایک ایسی کہانی ہوتی ہے جسے الفاظ کی شکل دینا نا ممکن ہوتا ہے۔

ہم جب اپنے پیدائشی وطن کے اسٹیشن میں اترے تو ماں کے چہرے پر ناخن کے کھرونچ کے دو گہرے نشان تھے جو پوری طرح سوکھے تو نہ تھے مگر اس بات کی گواہی دے رہے تھے کہ ماں کے ساتھ زندگی بھر رہ جانے والے تھے۔ سارا راستہ ماں کی دونوں آنکھوں میں ایک رقیق مادہ لرز تا رہا تھا لیکن آخر تک اس نے پانی بننے سے انکار کر دیا۔ ماں کو اپنے لوگوں کو ڈھونڈنے میں زیادہ پریشانی نہیں ہوئی۔ شاید وہ ہر پل اس جگہ کو اپنے خواب میں دیکھتی آئی تھی۔ یہ شہر کا بہت ہی گنجان علاقہ تھا جہاں ہر نکڑ پر لوہے کے ہائڈرنٹ کھڑے تھے جو دریا کا گدلا پانی اگلا کرتے اور ٹرام ڈپو کے اندر سے ٹرام گاڑیاں بجلی کے تاروں میں چنگاریاں جگاتی ہوئی نکلا کرتیں۔ یہاں پر اب بھی پرانے زمانے کی بہت ساری عمارتیں کھڑی تھیں جن کے گنبدوں کے نیچے روشندانوں میں مختلف رنگ و نسل کی بلیاں کبوتروں کی تاک میں بیٹھی رہتیں اور اینٹ کی دیواروں پر لیمپ کے آہنی ڈھانچے لگے ہوئے تھے جن کا زمانہ گذر چکا تھا اور اب ان میں روشنیوں کا کوئی انتظام نہ تھا۔ وہاں ہمارے بچے کھچے رشتے داروں کو ہماری کہانی سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔ ایک طرح سے یہ ٹھیک بھی تھا۔ میں دو سال کا تھا جب میرے نانا اپنے قریبی رشتے داروں کو کسی طرح کی بھنک دئے بغیر اپنے نقدی اور زیورات کے ساتھ راتوں رات میری نانی، اماں اور ابا کو لے کر مشرقی پاکستان کوچ کر گئے تھے۔ میری ماں ان کی اکلوتی اولاد تھی جس نے اپنے والدین کی مرضی کے خلاف شادی کی تھی۔ اب ہمیں لٹے لٹائے واپس آتے دیکھ کر کسی کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ لوگ کس طرح سے ہمارا استقبال کریں۔ انھیں یہ بھی ڈر تھا کہ ہم کہیں نانا کی طرف سے اجمالی جائداد پر دعویٰ نہ کر بیٹھیں۔ جہاں تک ماں کا تعلق تھا، یہ شہر ان کا اپنا تھا۔ اس کے آنگن اور دالانوں میں ان کا بچپن گذرا تھا، اس کے گلی کوچے ان کے جانے پہچانے تھے ، اور ان کے ذہن پر اس کے بازاروں اور پاٹھ شالاؤں کی یاد اب بھی تازہ تھی۔ لیکن میرے پاس تو سارا تجربہ ایک اور ہی ملک کا تھا جس کی پیدائش کو میں نے اپنی ننگی آنکھوں سے دیکھا تھا، مگر جس کی شکل پوری طرح طئے ہونے سے پہلے ہی ہم اسے خیرباد کہنے پر مجبور ہو گئے تھے۔ اس نئے ملک کے لئے جس وفاداری کی ضرورت تھی کیا وہ میرے بس کی بات تھی؟ مگر اس سے زیادہ فرق پڑنے والا نہیں تھا۔ میں وہ تھا جس نے تاریخی واقعات کو اپنی آنکھوں کے سامنے پیش آتے دیکھا تھا اور ایسے انسان کے لئے اپنی وفاداری کو کوئی بھی شکل دینا آسان ہوتا ہے۔ آج بھی پُل پر بیٹھ کر جوتے چمکاتے وقت میں سوچا کرتا ہوں ، میں تا عمر یہ کام نہیں کرنے والا، کہ میرے پاس دوسروں کے سلسلے میں تجربات زیادہ ہیں اور ایک دن میرے پاس کہنے کے لائق اتنی ساری باتیں ہوں گی کہ انھیں سن کر یہ دنیا اپنی انگلی دانتوں کے درمیان دبانے پر مجبور ہو جائے گی۔

 

(۵)

 

اپنے قریبی رشتے داروں کے روز روز کے جھگڑوں سے تنگ آ کر آخر کار ماں نے ہمارے ایک دور کے رشتے دار کے گھر ایک کمرا کرایہ پر لے لیا تھا جو ہماری زبان ہی بولتے تھے۔ یہ جگہ ہمارے پشتینی مکان سے کافی دور دریا کے کنارے واقع تھی۔ ماں کو یہ جگہ پسند نہیں تھی۔ وہ ہر ہفتے بس میں بیٹھ کر اپنے حق کی لڑائی لڑنے پرانی جگہ جایا کرتی جہاں ہمارے پشتینی مکان کے سارے دروازے ہمارے لئے بند کر دئے گئے تھے۔ انھوں نے ایک وکیل سے بھی رجوع کیا تھا جس نے یقین دلایا تھا کہ وہ ان کی ایک ایک پائی وصول کر دیں گے۔ ماں نے ایک بار مجھے باہر سے وہ کمرا دکھایا تھا جس کے اندر میں پیدا ہوا تھا۔ یہ کمرا کافی بڑا تھا جس میں کئی روشندان تھے اور اس کی دونوں کھڑکیاں دروازوں کی جسامت کی تھیں جن کی جھلملیاں برامدے کی طرف کھلتی تھیں۔ اس وقت اس کمرے میں میری عمر کا ایک لڑکا چھپر کھٹ پر بیٹھا اس کی دقیانوسی پوششوں کے نیچے سے میری طرف تاک رہا تھا۔ اس کی دونوں سوکھی ٹانگیں پلنگ سے اس طرح لٹک رہی تھیں جیسے وہ لکڑی کی بنی ہوں جن کے خاتمے پر چڑیوں کے پنجے لگا دئے گئے ہوں۔ میں نے محسوس کیا وہ مجھ سے کچھ بات کرنا چاہ رہا تھا۔ مگر اسے اس کا موقع نہیں ملا۔ اس کی ماں نے ہمیں دیکھ کر دروازہ اندر سے بند کر لیا تھا۔ اب میں کبھی ماں کے ساتھ اس جگہ نہیں جاتا۔ ہمارے پرانے علاقے کے برعکس اس نئے علاقے کی گلیوں بازاروں میں ان لوگوں کی اکثریت تھی جو میرے باپ کی زبان بولتے تھے۔ یہ بڑے ہی اکھڑ قسم کے لوگ تھے ، مگر بہت جلد مجھے پتہ

چل گیا کہ یہ ایک محنت کش قوم تھی۔ شاید ان پر بہت بڑا بوجھ تھا۔ لیکن ہمارے دور کے رشتے دار انھیں اچھی نظروں سے نہیں دیکھتے تھے۔ ان کے سلسلے میں ان کی رائے بالکل الگ تھی۔ ان کے خیال میں ہم ان پر زیادہ بھروسہ نہیں کر سکتے تھے۔ شاید میرے باپ کے عمل نے ان کی اس سوچ کو تقویت پہنچائی تھی۔ خود میں نے بازار میں ان چرب زبان پھل والوں کو دیکھا تھا جو کم تر درجہ کے پھل اچھے پھلوں کے ساتھ ملا کر چالاکی سے بیچ دیا کرتے۔ ان کے برعکس آلو پیاز بیچنے والے ملائم چہروں کے مالک تھے جو مجھے پسند آتے۔ وہ سامان والے پلڑے کو بٹکھرے والے پلڑے کے مقابلے کافی حد تک نیچے جھکا دیتے۔ مگر ہمارے رشتے داروں کا خیال تھا ان کے اس عمل سے مرعوب ہونے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ میں جب بھی اکیلا ہوتا وہ میری غلط فہمی دور کرنے کی کوشش کرتے۔ ’’تم نے کبھی غور نہیں کیا، ان ہندوستانیوں *کے چہروں کا رنگ کبھی نہیں بدلتا اور یہ اچھی بات نہیں۔ تم ایسے چہروں پر بھروسہ نہیں کر سکتے۔ یہاں کا ایک اور طرح کا فریب ہے۔ انگریزوں کے وقت سے وہ یہ کرتے آ رہے ہیں اور اب انھیں پکڑ پانا ممکن نہیں۔ کوئی نقصان کر کے سامان نہیں بیچتا۔ ‘‘ اس دن میں نے ایک اور بھی چیز جانی جب ایک پولس والے نے ہمارے گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا اور مجھ سے میری ماں کے بارے میں دریافت کیا۔ اسے شاید میرے بارے میں بھی علم تھا۔ ’’بچے تم یہاں کیا کر رہے ہو۔ یقیناً تمہاری پیدائش اس ملک کی نہیں ہے۔ ‘‘ اس نے مجھ سے کہا۔ مجھے یہ دیکھ کر مایوسی ہوئی کہ وہ میرے باپ کی زبان بول رہا تھا۔ ماں نے اشارا کیا اور میں آنگن چھوڑ کر گلی میں آ گیا جہاں ایک بندر والا تماشہ شروع کرنے سے پہلے اپنی ڈگڈگی بجا رہا تھا اور اکے د کے لوگ جمع ہو رہے تھے۔ دس منٹ بعد وہ پولس والا گلی میں دکھائی دیاتو میں نے تماشہ چھوڑ کر دور تک اس کا پیچھا کیا۔ وہ بس چلتا چلا گیا اور چلتے چلتے ایک جیپ کے پاس پہنچ گیا جو ایک ہوٹل کے سامنے کھڑی تھی۔ جیپ کے اندر اور بھی کئی پولس والے بیٹھے تھے جو مٹی کی بھاڑ میں چائے پی رہے تھے۔ جیپ دھول اڑاتی ہوئی سڑک کی بھیڑ میں غائب ہو گئی۔ میں واپس آ رہا تھا جب ماں کو میں نے گلی کے نکڑ پر دیکھا۔ وہ میری ہی طرف آ رہی تھیں۔ انھوں نے اپنا سر اوڑھنی سے ڈھک رکھا تھا۔ اس وقت ان کی آنکھوں میں وہی رقیق مادہ لرز رہا تھا جو ہمیشہ پانی بننے سے انکار کر دیتا۔ ’میرے ساتھ آؤ ارسلان، مجھے تمہاری ضرورت ہے۔ ‘‘ انھوں نے سختی سے میرا ہاتھ تھام لیا۔ ہم ایک ساتھ چلتے ہوے ایک سنار کی دکان پر پہنچے جہاں ایک آدمی، جس کے چہرے پر برص نے ملک کا نقشہ بنا رکھا تھا، سلاخوں کے پیچھے بیٹھا تھا۔ وہ فوراً ماں کو پہچان گیا۔ شاید اسے اس بات کا علم نہ تھا کہ اسی درمیان ہم نے دو بار اپنا وطن بدلا تھا۔ بعد میں ماں نے مجھے بتایا کہ وہ ہمارا خاندانی سنار تھا اور جب ان کی شادی نہیں ہوئی تھی وہ میری نانی کے ساتھ ہمیشہ اس دکان میں آیا کرتی۔ ان دنوں اس دکان میں یہ سلاخیں نہیں ہوا کرتی تھیں نہ ہی اس کے چہرے پر برص کا یہ سفید نشان تھا۔ ماں نے اپنے دامن سے ایک کاغذ کی پوٹلی نکالی جسے انھوں نے اوڑھنی کے پلو سے باندھ رکھا تھا۔ اس میں سونے کی ایک ہار پڑی ہوئی تھی۔ اس شخص نے ہار لیتے ہوئے میری طرف مسکرا کر دیکھا اور کہا۔ ’’بچے جلد بڑے ہو جاتے ہیں۔ تم نے کس اسکول میں اس کا داخلہ کروایا ہے؟ ‘‘

’’ وہ دس برس کا ہو چکا ہے۔ اب اس کی اسکول کی عمر نہیں رہی۔ ‘‘ ماں نے جواب دیا۔

’’کم از کم انسان کو زندہ رہنے کے لئے ایک کاغذ تو چاہئے۔ ‘‘ وہ احتیاط کے ساتھ ہار کا جائزہ لے رہا تھا جب ماں نے اسے یقین دلایا کہ یہ اسی کا ڈھالا ہوا ہے۔ وہ مسکرایا اور اس نے ہار کو پیتل کے ایک بالکل چھوٹے سے میزان کے پلڑے پر ڈال دیا۔ اتنا چھوٹا میزان میں زندگی میں پہلی بار دیکھ رہا تھا۔ اس کے پیتل کے منحنی بٹکھرے اور لعل کے سرخ دانے مجھے کسی عجوبے کی طرح نظر آ رہے تھے۔ دونوں پیسے کے بارے میں گفتگو کرنے لگے جس سے مجھے دلچسپی نہیں تھی۔ میں تو شیشوں کے پیچھے کی چمکتی چیزوں کو سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اس آدمی نے حساب کرنے کے بعد ایک لال پوتھی ماں کی طرف بڑھا دیا جس پر ماں نے فوراً دستخط کر دیا۔ ہم واپس لوٹ رہے تھے جب ماں نے مجھ سے کہا کہ میں کسی سے بھی اس بات کا تذکرہ نہ کروں۔ ’’یہ ہمارے رشتے داروں کا کمینہ پن ہے۔ انھوں نے پولس کو ہمارے پیچھے لگایا ہے۔ جانے وہ کیا چاہتے ہیں۔ مجھے ان سے یہ امید نہ تھی۔ ‘‘

شام کو وہ پولس والا دوبارہ دکھائی دیا۔ اس بار وہ موٹر سائیکل پر تھا جسے اس نے ہمارے گھر کے ٹھیک باہر روکا تھا۔ ماں نے اس کے لئے چائے بنائی۔ پولس والے نے چائے پیتے ہوئے میری طرف دلچسپی سے دیکھا۔ ’’کیا تم بیوقوف ہو؟ ‘‘ اس نے مجھ سے پوچھا۔

’’وہ بس کم بولتا ہے۔ ‘‘ماں بولی اور جب وہ چلا گیا تو میں نے دیکھا ماں کی آنکھوں سے آنسو ٹپک رہے تھے۔ وہ اپنی مٹھی میں دبی ہوئی باقی رقم کو گھور رہی تھی۔ ’’وہ میرا آخری گہنا تھا جسے مجھے گروی رکھنی پڑی۔ اب ہم یہاں نہیں رہ سکتے۔ مجھے شروع میں ہی سمجھ لینا چاہئے تھا۔ ہم لوگ ناگ کے گھونسلے میں لوٹ آئے ہیں۔ ‘‘

ایک ماہ کے اندر اندر ہم لوگوں نے وہ علاقہ چھوڑ دیا۔ ایک لوکل ٹرین میں بیٹھ کر ہم کئی گھنٹے سفر کرتے رہے جو مجھے ٹرین پر اپنے پچھلے سفر کی یاد دلا رہا تھا جب ہم سرحد سے گذر کر ایک اجاڑ سے اسٹیشن میں ایک ٹرین میں سوار ہوئے تھے۔ یہ ٹرین جن پٹریوں پر دوڑ رہی تھی ان کے دونوں طرف لہلہاتے کھیتوں کی منڈیروں پر ناریل اور کے لیے کے درخت کھڑے ہوا میں جھوم رہے تھے۔ آخر کار ہم ایک صاف ستھرے قصبے میں چلے آئے جہاں کھیتوں کے لا متناہی سلسلوں کے اس پار ایک بڑے شہر کی عمارتیں اور عبادت گاہیں نظر آ رہی تھیں۔ وہاں ماں نے مانگ میں سیندور سجایا اور ایک مکان کرایہ پر لے لیا۔ ماں نے مجھ سے کہا۔ ’’ارسلان، میں آخری بار تمہیں اس نام سے پکار رہی ہوں۔ تمہیں اپنا نام بھولنا ہو گا۔ میں نے تمہارے لئے ایک نیا نام اور ایک نیا اسکول چنا ہے۔ ہو سکتا ہے وہاں کلاس میں تم سب سے بڑے لڑکے ہو گے مگر نئے ساتھیوں کے ساتھ بیٹھنا تمہیں اچھا لگے گا۔ ‘‘ دوسرے دن وہ مجھے ایک پاٹھ شالہ لے گئی جہاں مجھے پتہ چلا کہ مجھے ایک نیا نام دے دیا گیا ہے۔ مجھے اس سے فرق نہیں پڑا تھا کہ میری ماں نے اپنا نام بدلا تھا یا نہیں۔ در اصل میں جانتا ہی نہ تھا کہ ماں کا ایک نام بھی ہے۔ کلاس میں ایک دن کسی نے مجھ سے میرے باپ کے بارے میں پوچھا۔ جب میں نے اپنی عادت کے مطابق بتایا کہ وہ اب اس دنیا میں موجود نہیں تو کسی کو میری بات سمجھ میں نہیں آئی۔ یہ بات کلاس ٹیچر کے کان تک گئی تو انھوں نے مجھے الگ بلا کر میری سرزنش کی۔ انھوں نے کہا مجھے اپنے باپ کے سلسلے میں ایسی بات نہیں کرنی چاہئے ، وہ کیسے بھی انسان ہوں ایک بچے کو اپنے بزرگوں کے سلسلے میں احترام کا رویہ رکھنا چاہئے۔ مجھے اس پر حیرت ہوئی تھی کیونکہ میں نے وہی کہا تھا جو سرحد پار کرتے وقت ماں نے مجھے سکھا یا تھا۔ ماں سے جب میں نے اس واقعے کا ذکر کیا تو انھوں نے مسکرا کر مجھے اپنے سینے سے لگا لیا اور مجھے اپنے باپ کا نیا نام بتایا جسے داخلے کے وقت انھوں نے فارم پر ڈالا تھا۔ وہ کافی تھکی ہوئی تھی اور ابھی ابھی میرے نانا کے شہر سے وکیل کے ساتھ مل کر لوٹی تھی جو ہر ماہ ان کی آمدنی کا ایک بڑا حصہ ہڑپ جایا کرتا۔ ماں کے چہرے کی طرف تاکتے ہوئے مجھے پہلی بار احساس ہوا کہ مجھے اپنے باپ کے اصلی نام کا تو پتہ ہی نہ تھا۔ ظاہر تھا اگر مجھ سے ان کا نام پوچھا جاتا تو بھی میرے پاس جھوٹ کہنے کے لئے کیا تھا؟

 

(۶)

 

گودی کے اس علاقے میں شام ہمیشہ ایسے اترتی ہے جیسے کسی نے کچے اپلوں کو آگ لگا دی ہو۔ ان اداس اور دھندلی شاموں سے گذرتے ہوئے مجھے وہ برے دن یاد آ جاتے جب ہم ساری امیدیں ہار چکے تھے اور ڈھاکہ سے سینکڑوں میل دور ہم نے دریا کے کنارے ایک کچے گھر میں پناہ لے رکھی تھی جسے غیر قانونی طور پر سرحد پار کرنے والوں کے ٹھہرنے کے لئے بنایا گیا تھا۔ یہ دریا کافی کشادہ تھا اور اس کا سبز گھاس سے ڈھکا ہوا کنارا دریا پر بہت نیچے تک جھکا ہوا تھا جس میں جگہ جگہ ایسی بھیانک دراڑیں تھیں کہ انسان ان کے اندر گر کر ہمیشہ کے لئے غائب ہو جائیں۔ ان کناروں پر ایسے اور بھی سینکڑوں کچے گھر بنے ہوئے تھے جن میں دوسرے لوگوں نے پناہ لے رکھی تھی۔ کچھ گھر ایسے بھی تھے جن کا آدھا یا ایک چوتھائی حصہ ٹوٹ کر دریا کے اندر چلا گیا تھا اور باقی حصہ رہ رہ کر ڈھ رہا تھا۔ یہ کنارے بالکل غیر محفوظ تھے ، مگر ان میں ہر روز لوگوں کا اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔ اس دن کہاسے نے شام غائب کر رکھی تھی۔ ہمارے پاس کوئی گھر تھا نہ کوئی وطن مگر ہمیں اس بات کا علم تھا کہ کسی بھی پل یا تو ایک نئے ملک کے دروازے ہمارے لئے کھل جائیں گے یا ایک نئی مصیبت ہمارے سر پر ٹوٹ پڑے گی۔ ہم نے ایک خاص جگہ جہاں پانی کم تھا، دریا کو چل کر پار کیا تھا۔ وہاں ماں کو اپنے نقدی کے ایک اچھے بڑے حصے سے محروم ہونا پڑا تھا۔ دریا پار کئے یہ ہمیں تیسرا دن ہو رہا تھا۔ ماں کو جس آدمی کا انتظار تھا دو دن سے اس کا کوئی پتہ نہ تھا۔ ہمارے پاس چینی کا ایک ڈبہ اور پاؤ روٹی کے تھوڑے سے ٹکڑے بچے تھے جو اب اتنے باسی ہو چکے تھے کہ چھوتے ہی چور ہو جاتے۔ ہمارے پاس ایک تھیلی چاول کی بھی تھی مگر اسے ابالنے کا کوئی ذریعہ نہ تھا اور پھر ہمیں سختی سے منع کیا گیا تھا کہ کسی جھونپڑی سے دھواں نہ نکل پائے۔ پانی کے لئے ماں مجھے کچی سڑک پر بھیجا کرتی جہاں ایک ہینڈ پمپ کے پیچھے بیرک کی چھت پر جو کبھی کسی زمیندار کی حویلی رہی ہو گی مگر اب فوج کی تحویل میں تھی، فوجی سگریٹ پیتے ہوئے ، کندھوں سے رائفل لٹکائے پہرا دیا کرتے اور اور اپنی گردن سے لٹکتی دو چشمی دوربین سے دریا پار دیکھا کرتے جب کہ وہ جگہ ننگی آنکھوں سے بھی صاف نظر آتی تھی۔ کبھی کبھار جب میں ان کی نظروں میں آ جاتا تو وہ ہاتھ ہلا کر اشارا کرتے اور مسکراتے ہوئے کوئی ٹافی یا کاغذ میں لپٹا ہوا کیک کا ٹکڑا پھینک دیتے۔ ہمارا آدمی واپس لوٹا تو اس نے ایک سرخ ٹوپی پہن رکھی تھی جس پر ایک سفید ستارا ٹنکا ہوا تھا۔ اسے دیکھ کر ماں کی آنکھیں چمک اٹھیں۔ ’’اسے واپس رکھ لو۔ یہ پیسہ کافی نہیں ہے۔ ‘‘ اس نے ماں کو پیسے لوٹاتے ہوئے کہا۔ ’’تمہارے پاس کوئی گہنا وہنا نہیں ہے کیا؟ ‘‘

’’سارے لٹ لٹا گئے۔ ‘‘ ماں اس سے آنکھیں چرا رہی تھیں۔ پھر ان کی آنکھیں بھر آئیں۔ مجھے لگا وہ شاید اس آدمی کو دکھانا چاہتی تھیں کہ ان کے پاس اب بھی تھوڑے سے آنسو بچے ہیں۔ اس آدمی نے ٹوپی اتار کر اپنا سر کھجاتے ہوئے ماں کے سراپے کا جائزہ لیا۔ اس کے ننگے سر کو دیکھ کر مجھے بڑی کراہیت کا احساس ہو رہا تھا کیونکہ نہ صرف اس کے سر پر بال برائے نام تھے بلکہ اس کی کھوپڑی کھجلیوں سے بھری ہوئی تھی جس سے مجھے اس کے ٹوپی پہننے کا راز سمجھ میں آ گیا۔ ’’تم مجھے ایسا کیوں دیکھ رہے ہو؟ تمہارا ارادہ کیا ہے؟ ‘‘ ماں نے اپنی پیشانی پر گر آئی لٹ کو انگلی سے واپس بالوں کے درمیان لوٹاتے ہوئے کہا۔ ’’تم کیوں نہ چل کر بیرک کے افسر سے خود بات کر لو۔ ‘‘اس آدمی نے ٹوپی واپس سر پر رکھ کر اپنی جیب سے ایک سگریٹ نکال کر سلگایا۔ ’’تم اسے اپنی بات کہہ سکتی ہو۔ اگر کام بن گیا تو مجھے بھی پیسے دینے کی ضرورت نہیں ہے۔ ‘‘

’’تمہیں یقین ہے اس سے کام بن جائے گا؟ ‘‘

’’یہ میں کیسے کہہ سکتا ہوں۔ مگر ایسا کئی بار ہو چکا ہے۔ اور آخر میں کچھ لوگوں کے کام بنے تو ہیں۔ ‘‘

میں آدھی رات تک اکیلا اپنی جگہ گٹھری اور سوٹ کیس کو تھامے بیٹھا رہا۔ کوٹھری کے باہر جھاڑیوں میں ہوا چپ تھی۔ کسی وجہ سے اس دن دریا میں پانی بہت کم تھا اور جگہ جگہ پانی سے ریت کے تودے اس طرح ابھرے ہوئے تھے جیسے دریا میں سینکڑوں گھڑیال آرام کر رہے ہوں۔ کبھی کبھار سفید بادلوں کو چیر کر چاند نکل آتا تو ریت کے گھڑیالوں کی آنکھیں روشن ہو جاتیں۔ مجھے ڈر لگ رہا تھا۔ کہیں ماں کے آنے سے قبل ہی یہ کچا گھر اپنی کمزور زمین کے ساتھ ٹوٹ کر دریا برد نہ ہو جائے۔ مگر میں یہ جگہ چھوڑ نہیں سکتا تھا۔ ماں نے سخت تاکید کی تھی کہ جب تک وہ لوٹ کر نہ آئے میں اس جگہ سے نہ ہلوں۔ میں تقریباً غنودگی کی حالت میں تھا اور اپنی آنکھوں کو کھلی رکھنے کی حتی المقدور کوشش کر رہا تھا جب ماں کی واپسی ہوئی۔ ان کے بال الجھے ہوئے تھے ، قدم ٹھیک سے نہیں گر رہے تھے اور ان کے چہرے پر ناخن کے کھرونچ کے دو گہرے نشان تھے۔ یہ نشان مجھے روشنی میں اور بھی بڑے نظر آئے۔

’’تم ایسا میری طرف کیوں دیکھ رہے ہو۔ اپنی آنکھیں واپس لو۔ ‘‘ ماں دھم سے میرے پہلو میں مٹی کے فرش پر بیٹھ گئی۔ انھوں نے جھک کر پانی کی بوتل اٹھائی، کئی لمبے گھونٹ لئے اور لالٹین کی مدھم روشنی میں اپنا چہرا دھویا۔ پانی میں ان کے چہرے کا گھاؤ جل اٹھا تھا۔ ان کی آنکھیں تلملا رہی تھیں۔ وہ کچھ دیر چپ چاپ بیٹھی سانسیں لیتی رہیں ، پھر خاموش ہو گئیں۔ باہر چاند ایک بار پھر بادلوں کے پیچھے چھپ چکا تھا جس کے سبب بادل بھی دکھنا بند ہو گئے تھے۔ ایک بار مجھے ایسا لگا جیسے نیچے دریا میں ریت کے گھڑیالوں میں سے کسی نے حرکت کی ہو۔ ماں بالکل بھی سانس نہیں لے رہی تھی۔ تقریباً آدھا گھنٹہ گذر چکا تھا جب ماں نے گٹھری کھول کر اس کے اندر سے ایک کھرپی برامد کی، لالٹین کی لو دھیمی کی اور لالٹین اور کھرپی اٹھائے ایک سائے کی طرح برامدے سے اتر کر جھاڑی کے پاس گئی۔ میں نے برامدے پر کھڑے ہو کر دیکھا، وہ جھاڑی کے نیچے کی زمین کھود رہی تھی۔ گڈھا جب تھوڑا گہرا ہو گیا تو انھوں نے اس کے اندر سے کپڑے کی ایک چھوٹی سی تھیلی برامد کی جسے جانے کب میری لا علمی میں انھوں نے مٹی کے اندر چھپا دیا تھا۔ لرزتی انگلیوں سے تھیلی کو واپس گٹھری کے اندر رکھ کر جسے سفر کے دوران ماں ہمیشہ اپنی گود میں رکھا کرتی، انھوں نے اسے گرہ لگاتے ہوئے کہا۔ ’’کبھی اس بات کا ذکر کسی سے نہ کرنا۔ ‘‘انھوں نے پینچ گھما کر لالٹین بجا دی۔

صبح سورج نکلنے سے پہلے وہ سرخ ٹوپی والا آدمی نمودار ہوا۔ ہم نے اپنے سامان سمیٹے اور دریا کے کنارے کنارے اس کے ساتھ چلنے لگے۔ جلد دریا پیچھے چھوٹ گیا۔ ہم تقریباً آدھا دن تک کھیتوں اور میدانوں میں چلتے رہے اور آخر کار ایک کچے راستے پر نکل آئے جس پرہر سو دو سو گز کی دوری پر تارکول کے بچے کھچے ٹکڑے بتا رہے تھے کہ کبھی یہ ایک پکی سڑک رہی ہو گی۔ سرخ ٹوپی والے نے بتایا کہ کبھی یہ راستہ دونوں ملکوں کے بیچ آمد و رفت کا واحد ذریعہ تھا، مگر اب اس کی جگہ ایک اور بڑا راستہ نکال لیا گیا ہے جن پر اب سامان بردار ٹرک اور ملیٹری گاڑیاں دوڑا کرتی ہیں۔ اس متروک راستے پر چلتے ہوئے میں نے جو آسمان دیکھا اس جیسا روشن آسمان مجھے پھر کبھی نظر نہیں آیا۔ ہم نے عجیب و غریب چڑیاں دیکھیں جو جھنڈ بنا کر ہمارا پیچھا کر رہی تھیں۔ وہ رہ رہ کر جیسے ہوا سے نمودار ہوتیں اور پھر ہوا میں غائب ہو جاتیں۔ راستے میں ایک جگہ ماں کے ساتھ اس آدمی کی تکرار ہو گئی۔ اپنے چہرے کے دونوں زخموں سے رستے ہوئے رقیق مادے سے لا پرواہ ماں رندھے ہوئے گلے سے اس آدمی کا ہاتھ تھام کر کچھ رقم تھمانی چاہ رہی تھی جسے وہ لینے سے بار بار انکار کر رہا تھا۔ مجھے سمجھنے میں دیر نہ لگی کہ وہ اتنے تھوڑے پیسے سے مطمئن نہ تھا۔ آخر کار دونوں کے درمیان کسی طرح کا فیصلہ ہو گیا۔ اس کے بعد وہ تھوڑی دور تک ہمارے ساتھ چلا پھر ہمیں بتائے بغیر جانے کہاں غائب ہو گیا۔ ہم اکے لیے ہی ویران راستے پر کئی کوس چلتے رہے۔ ہمیں جگہ جگہ آم کے درختوں کے جھنڈ دکھائی دے رہے تھے جن کے پیچھے ہر آدھے گھنٹے کے بعد کسی نہ کسی چھوٹے موٹے قلعے یا محل کی بوسیدہ فصیل نظر آ جاتی یا تاریخی مسجدوں کے کھنڈر دکھائی دینے لگتے۔ سنّاٹے میں ٹیلیگراف کے تار بج رہے تھے۔ سورج ڈوب رہا تھا جب ہمیں ایک اجاڑ سا ریلوے اسٹیشن نظر آیا جس کے درختوں میں چڑیاں چہچہا رہی تھیں اور پاس ہی کسی مندر میں گھنٹی بج رہی تھی۔ ہم لوگ اس کے پلیٹ فارم پر اپنی چرمی سوٹ کیس اور گٹھری کے ساتھ کھڑے ٹرین کا انتظار کر رہے تھے جب صاف ستھرے لباس میں ملبوس ایک جوڑے نے ہماری طرف دیکھا۔ وہ لوگ میرے باپ کی طرح اپنے ہولڈ آل اور سوٹ کیس کے ساتھ کھڑے تھے جیسے وہ بھی ایک ایسے سفر پر جانے والے ہوں جہاں سے کوئی نہیں لوٹتا۔

’’تم لوگ اس ملک کے نہیں لگتے۔ ‘‘ مرد نے کہا اور انگلی سے ہماری طرف اشارا کیا۔ مگر عورت نے اسے آگے کہنے کا موقع نہیں دیا۔ ’’چپ بھی کرو۔ ‘‘ وہ بولی۔ ’’تمہیں کیا لینا۔ یہ ملک سب کا ہے۔ کسی کے ماتھے پر یہ لکھا نہیں ہوتا۔ ‘‘

ٹرین کے اندر بہت دیر تک چپ چاپ بیٹھے رہنے کے بعد میں نے ماں سے پوچھا کہ رات وہ اتنی دیر تک کہاں رہ گئی تھی اور اس نے اس جگہ کیا دیکھا تو ماں نے مسکرا کر میرے سر کو سہلاتے ہوئے کہا۔ ’’اور کہاں جا سکتی تھی۔ سرحد کے داروغہ کے پاس ہی تو گئی تھی۔ کچھ کاغذات کی خانہ پری کرنے۔ ‘‘

اس دن مجھے اس بات کا علم نہ تھا۔ مگر آج مجھے پتہ ہے وہ ناخن کے کھرونچ کے نشانات ان کے چہرے پر دائمی طور پر کیوں بن گئے تھے۔ ایک نئے ملک نے اپنے انداز سے ہمارا استقبال کیا تھا۔

’’تم کیا سوچ رہے ہو؟ ‘‘ ماں نے ٹرین کی کھڑکی سے چہرا موڑتے ہوئے کہا۔ انھوں نے اپنے حواس پر پوری طرح قابو پا لیا تھا۔

’’تم نے اس آدمی سے گہنا کے بارے میں جھوٹ کیوں کہا تھا؟ ‘‘

’’یوں سمجھ لو میرا تمہیں جواب دینے کو جی نہیں چاہتا۔ ‘‘ اور ماں نے چہرا کھڑکی کی طرف موڑ لیا جس کے باہر دھان کے لہلہاتے کھیت پیچھے کی طرف بھاگ رہے تھے اور ان کی منڈیروں پر ناریل اور کے لیے کے درخت کھڑے ہوا میں جھوم رہے تھے۔

 

(۷)

 

مجھے ایک بار پھر ماں کی موت کی طرف لوٹ جانا چاہئے۔ ایک عورت جس کے دماغ پر ملیریا کا حملہ ہو چکا ہو کیسے اتنی یاد داشت کے لائق ہو سکتی ہے۔ وہ شاید روشنی کے ہوتے ہوئے اندھیرے میں جینے لگی تھی اور پرچھائیوں کو دیکھنے کی عادی ہو گئی تھی۔ تمہیں یہ سن کر دکھ ہو گا ارسلان، ماں نے بند آنکھوں کے ساتھ کہا تھا جیسے وہ اپنے اندر مجھے دیکھ رہی ہو۔ اب جو میں سوچتی ہوں تو مجھے لگتا ہے یہ تم تھے جس کے سبب تمہارے باپ نے پھر واپس لوٹنے کا نام نہیں لیا۔ ممکن ہے اس کے بعد بھی ماں نے اور بھی بہت سارے جملے کہے ہوں مگر اس جملے کو ہی میں بار بار کیوں یاد کر رہا تھا؟ اس لئے نہیں کہ اس سے میرے دل کو چوٹ پہنچی تھی۔ میں جانتا تھا ماں کا یہ ارادہ ہرگز نہ تھا۔ شاید ان کا کوئی ارادہ نہ تھا یا شاید ان کا ارادہ تھا کہ میرے دل میں اپنے باپ کے لئے کوئی گوشہ باقی نہ رہے۔ مگر یہ بیکار تھا۔ میں نے کبھی اپنے باپ کے بارے میں سوچا ہی نہ تھا۔ میری ماں میرے لئے اتنی زیادہ تھی، اتنی وافر تھی، انھوں نے چاروں طرف سے اس طرح مجھے گھیر رکھا تھا کہ میرے باپ کو اندر آنے کی اجازت ہی نہ تھی۔ میرے باپ کو شاید میری کم گوئی اور دھیمی حرکتوں سے مایوسی ہوئی تھی اور لڑائی نے انھیں ایک دوسری دنیا میں فرار ہونے کی سہولت عطا کی تھی۔ ماں اگر یہ بات مجھے نہ بھی بتاتی تو بھی میں اسے سمجھ سکتا تھا۔ مگر مجھے اس سے کوئی فرق پڑنے والا نہ تھا۔ میں ہر حال میں اس حقیقت کے ساتھ سمجھوتہ کر چکا تھا۔ خدا انھیں ایک نئے ملک میں خوش رکھے ! اس دنیا میں ہر کوئی اپنی اپنی قسمت کے ساتھ جیتا ہے۔ مگر ماں نے اپنے دل کی آخری پھانس ابھی شاید نکالی نہ تھی۔ ’’مجھے افسوس ہے ارسلان۔ ۔ ۔ ‘‘ انھوں نے اپنی بڑی بڑی زرد آنکھوں کو پوری طرح کھول کر میری طرف آخری بار دیکھتے ہوئے کہا۔ ’’ میں تمہیں ایک اچھی دنیا میں چھوڑ کر نہیں جا رہی ہوں۔ ‘‘

میرے دل نے کہا، شاید وہ یہ فیصلہ کرنے کا حق نہیں رکھتی۔ اچھی یا بری، مجھے اس دنیا کو اپنے طریقے سے جاننے کا حق ہے۔ ماں صرف یہ کہہ سکتی تھی کہ یہ دنیا اس کے اس لئے بری ثابت ہوئی، یا پھر یہ کہ اسے اس سے مایوسی ہوئی تھی یا اور کوئی جملہ جس سے انھیں تشفی ہوتی۔ مگر ان کی یہ کوشش کہ میری آخری روشنی بھی بجھ جائے میری سمجھ سے باہر تھی۔ ان کی موت کے بعد میں ان کے ٹھنڈے جسم کے سامنے جانے کب تک بیٹھا رہا۔ آس پاس کے بستروں میں اس بات کے سبب بڑی بے چینی تھی کہ مردہ کو ہٹانے میں اسپتال کے عملے کافی سستی سے کام لے رہے تھے۔ اسٹریچر پر منتقل کرنے سے پہلے نرس جب چادر سے میری ماں کے چہرے کو ڈھک رہی تھی تو اس نے میری طرف دیکھے بغیر کہا ’’تمہارے لوگ ڈاکٹر سے سرٹیفکٹ لینے گئے ہیں۔ ‘‘۔ وہ ایک پل کے لئے چپ ہو گئی۔ پھر اس نے میرے کان میں سرگوشی کی۔ ’’سرٹیفکیٹ لینا نہ بھولنا۔ کیا تم ان کی اکیلی اولاد ہو۔ ‘‘ میں نے اثبات میں سر ہلایا۔ ’’مجھے سمجھ لینا چاہئے تھا۔ ‘‘ نرس نے مجھے اسٹریچر کے پیچھے آنے کا اشارہ کیا۔ محلے کے لوگ ماں کو کریہ کرم کے لئے جس دریا کے کنارے لے گئے وہ کوئی دریا نہ تھا۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے دبیز گھاس سے ڈھکی ہوئی زمین اچانک پھٹ گئی ہو اور اس میں پانی بھر گیا ہو۔ دریا کے کنارے ایک پتھر پر بٹھا کر جو شاید اسی مقصد سے اس جگہ لا کر رکھا گیا تھا کیونکہ اس کے نیچے کی زمین بالوں سے سیاہ ہو رہی تھی حجام نے میرا سر گھونٹا اور جب لوگوں نے میرے ہاتھ سے ماں کے منہ میں آگ ڈلوائی تو میں رو پڑا۔ مجھے پہلی بار احساس ہوا کہ میں دنیا میں اکیلا ہو گیا ہوں۔ ماں ، میں نے کہا، تم نے کیا کبھی سوچا ہو گا کہ مرنے کے بعد لوگ تمہارے ساتھ یہ حرکت بھی کریں گے؟ اس واقعے نے ایک طرح سے مجھے بدل دیا۔ میں نے ان کی چتا پر قسم کھائی کہ ایک دن میں اپنے باپ کو ڈھونڈ نکالوں گا اور انھیں بتاؤں گا کہ کیسے ہم نے ایک فرضی نام کے اندر انھیں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے دفن کر دیا ہے۔ ماں کی موت کے بعد میرے لئے اب اس شہر کی کوئی اہمیت نہیں رہ گئی تھی۔ میں نے جب گھر چھوڑا تو میرے ساتھ وہی چرمی سوٹ کیس تھا جو اب بری طرح گھس چکا تھا۔ اس میں اور دوسرے سامان کے ساتھ کاغذ کا وہ ٹکڑا بھی تھا جس کی پیشانی پر اسکول کا نام درج تھا اور نیچے ہیڈ ماسٹر کے دستخط کے اوپر میرا اور میرے باپ کا فرضی نام، اس شہر کا ٹھکانہ اور پیدائشی تاریخ لکھی تھی۔ اس کاغذ پر مجھے اپنی ماں کا اصلی یا نقلی نام نہ دیکھ کر مایوسی ہوئی۔ میں نے اپنی پہلی فرصت میں اسے جلا ڈالا۔ یوں بھی یہ ہر لحاظ سے ایک بیکار کاغذ تھا جس میں دو فرضی نام لکھے ہوئے تھے۔ میں نے ایک لوکل ٹرین پکڑی جو دھندلے تاروں کے نیچے ٹھنڈی ہوا کو چیرتی ہوئی واپس میرے نانا کے شہر کی طرف جا رہی تھی۔ کمپارٹمنٹ کے اندر بیٹھا میں دیکھ رہا تھا لوگوں کے چہرے کس قدر ستے ہوئے تھے ، جیسے ہر کوئی اپنی کہانی دونوں جبڑوں کے درمیان دبائے بیٹھا ہو۔ اس دن میں نے فیصلہ کیا اس دنیا میں جہاں ہر کسی کی اپنی کہانی ہے ، میں اپنی کہانی کسی کو نہیں بتاؤں گا۔

 

(۸)

 

اس پرانے گھر کی سیڑھیاں کافی اونچی اور گھماؤ والی تھیں جن پر فرنیچر کو چڑھاتے وقت بار بار زاویہ بدلنا پڑ رہ تھا۔ چوتھی منزل تک پہنچتے پہنچتے ہم کتے کی طرح ہانپنے لگے۔ صوفہ کو اس کی مخصوص جگہ موزیک کے فرش پر رکھنے کے بعد میرے ساتھی نے انگوچھے سے اپنے چہرے کا پسینہ صاف کرتے ہوئے کہا: ’’ تو تم کہہ رہے تھے کہ تم مسلمان ہو اور تمہاری ماں ہندو تھی۔ ‘‘

’’نہیں ، کیا میں نے ایسا کہا؟ ‘‘ میں نے جواب دیا۔ ’’ وہ بھی مسلمان تھی۔ مگر مرنے کے بعد ان کی چتا کو آگ دی گئی۔ اور جن لوگوں نے یہ کیا وہ برے لوگ نہ تھے۔ ہم میں سے ہر کوئی وہی کام کرتا ہے جسے وہ اپنے طور پر اچھا سمجھتا ہے۔ ‘‘ مجھے اپنی بات پر حیرت ہوئی۔ میں کیسے اتنی لمبی بات کر پایا۔ کیا ماں کی موت کے ساتھ میری گویائی مجھے واپس مل گئی تھیں؟

’’تم بیوقوف تو نہیں ہو۔ ‘‘ میرے ساتھی نے کہا۔ ’’یا شاید مجھے بیوقوف سمجھتے ہو۔ ‘‘

ہم دونوں ہر صبح سڑک پر ایک خاص جگہ بیٹھ کر کام کا انتظار کرتے۔ ہماری کوشش ہوتی کہ ہم ایک ساتھ رہیں۔ ایسا کیوں تھا ہمیں اس کا علم نہ تھا۔ ایک بار ہم دونوں الگ الگ جگہ کام کرنے گئے تو سارا دن مجھے بڑی ویرانی کا احساس ہوا۔ دوسرے دن اس نے بھی کچھ ایسی ہی بات بتائی۔ ایسا نہیں تھا کہ ہم دونوں کے درمیان باتیں کرنے کے لئے بہت کچھ تھا۔ ہمارے درمیان زیادہ تر خاموشی کی حکمرانی ہوتی۔ مگر دھیرے دھیرے مجھے یہ احساس ہونے لگا تھا کہ میرے ساتھ کچھ اچھا نہیں ہو رہا ہے ، کہ نہ چاہتے ہوئے بھی میں کھلتا جا رہا ہوں اور اب ضروری ہو گیا ہے کہ میں اپنی جگہ بدل لوں۔ مگر وہاں پر جگہ بدلنے کے لئے نہیں تھی۔ دہائیوں سے یہ مزدوروں کے بیٹھنے کی جگہ تھی۔ اور پھر جس چینی دندان ساز کے مطب کے سامنے ہم بیٹھا کرتے وہ ہمارے لئے کافی سازگار بھی ثابت ہوئی تھی۔ تو کیا یہ میری اس سوچ کا نتیجہ تھا کہ ایک دن وہ اور پھر نظر نہ آیا؟ اور جب مجھے یقین ہو گیا کہ وہ ہمیشہ کے لئے غائب ہو گیا ہے تو مجھے یہ سوچ کر حیرت ہوئی کہ میرے اندر کبھی اس کی ذاتی زندگی کے بارے میں جھانکنے کی خواہش کیوں نہ پیدا ہوئی؟ مگر خود میں نے اسے اپنی ماں کی موت کے علاوہ اپنے بارے میں اور کچھ بتایا کیوں نہیں تھا؟ خود اس موت کے بارے میں میں نے بات ہی کیوں کی جب کہ اس میں بتانے کے لائق کچھ نہ تھا سوائے اس کے کہ یہ لوگوں کو اور بھی حیران کر سکتی تھی۔ آج مجھے یاد نہیں آتا کہ وہ کیا وجہ تھی کہ ہمارے بیچ ماں کی موت کا تذکرہ آ نکلا تھا۔

جیسا کہ میں نے اپنی ماں کی چتا پر قسم کھائی تھی، مجھے اپنی زبان کو قابو میں رکھنا چاہئے۔ مگر شایدمیں اپنی آزادی کا غلط استعمال کرنے لگا ہوں۔ ٹرین سے اترنے سے پہلے میں نے اپنا اصلی نام واپس حاصل کر لیا تھا۔ میں نے ایک اور بھی نام رکھ لیا تھاجس کا کوئی بھی مطلب نہیں نکلتا تھا۔ مجھ سے کہا گیا تھا کہ ایسے ایک نام سے کافی سہولت ہوتی ہے۔ سچ پوچھیں تو اس نام سے اگر لوگ مجھے ایک ماہ نہ پکاریں تو میں خود اسے بھول سکتا ہوں۔ مگر میری گلی میں ایک عورت ہے جو مجھ سے دس سال بڑی ہے۔ وہ نہ صرف میرے اصلی نام سے واقف ہے بلکہ اس نے میرے دونوں ناموں کو اچھی طرح سے سنبھال کر رکھا ہوا ہے۔ یہ گلی جس میں میں کرائے پر رہتا ہوں دو کشادہ سڑکوں کو ایک دوسرے سے ملاتی ہے۔ اس گلی کے ایک سرے پر جو سڑک ہے وہاں پولس کی چوکی سے بالکل لگ کر ہر رنگ و روغن کی طوائفیں کھڑی رہتی ہیں جن کی چھوٹی چھوٹی کوٹھریاں دو منزلہ سہ منزلہ گھروں کے اندر بنی ہیں۔ یہ طوائفیں اپنے گاہکوں کے ساتھ ان گھروں میں لوٹتی ہیں جب کہ گلی کے دوسرے سرے پر کھپڑیل کے ایسے ہی گھروں کے بیچ ایک دو منزلہ مسجد واقع ہے جس کا پھاٹک ایک دوسری کشادہ سڑک پر کھلتا ہے جہاں گوشت کی دکانوں اور بیف ہوٹلوں کی بھرمار ہے اور لنگی کرتا پہنے ، سر پر ٹوپی چپکائے لوگوں کی اچھی خاصی تعداد آدھی رات تک کھڑی دکھائی دیتی ہے۔ اس جگہ وہ نو جوان لڑکے بھی بھیڑ لگاتے ہیں جو کانوں میں بالیاں لٹکائے ، کھینی گھستے ہوئے طرح طرح کی گالیاں ایجاد کیا کرتے ہیں اور دکان کے سامنے بینچوں پر بیٹھ کر یا فٹ پاتھ پر کھڑے ہو کر گذرتی عورتوں اور لڑکیوں پر اپنی عقابی نظریں ڈالتے رہتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے جیسے اس دنیا میں ان کے آنے کا بس یہی مقصد رہ گیا ہو۔ گرچہ اس عورت کا رنگ میری ماں کی طرح ساونلا ہے مگر اس کا ناک نقشہ میری ماں کے مقابلے زیادہ پر کشش ہے۔ وہ طوائف والے سرے سے آئی ہے جہاں کچھ سال پہلے تکاس کی اپنی ایک کوٹھری تھی اور وہ سڑک پر کھڑی گاہکوں کا انتظار کیا کرتی تھی۔ مگر اب اس نے اس مسجد کے قریب اپنا ٹھکانہ بنا لیا ہے جہاں وہ اپنے طوطوں کی دیکھ بھال کیا کرتی ہے یا جائے نماز پر بیٹھی تسبیح گنتی رہتی ہے یا پھر پیر فقیر کے مزاروں کی زیارت کرتی پھرتی ہے۔ اس نے اپنے دروازے پر ایک سبز جھنڈا لٹکا رکھا ہے جس پر صندل سے ہاتھ کا نشان بنا ہوا ہے۔ وہ ہر جمعہ اور ہر تہوار پر کسی نہ کسی مولوی کو بلا کر کسی پیریا فقیر کے نام پر نیاز یا فاتحہ خوانی کرواتی ہے اور اپنے گھر سے لے کر نکڑ تک لوگوں میں شیرنی تقسیم کرتی ہے جو زیادہ تر چینی یا بتاسے پر مشتمل ہوتی ہے۔ اسی بہانے اس نے مجھ سے بھی پہچان بنا لی ہے۔ ’’تمہیں ایک ایسی عورت کی ضرورت ہے جو عمر میں تم سے کافی بڑی ہو۔ ‘‘ اس نے ایک دن مجھ سے کہا۔ ’’کیا تم نے شادی کے بارے میں سوچا ہے؟ دن گذر جاتے ہیں۔ کے لیے کے درخت میں دو بار پھول نہیں آتے۔ ‘‘

مجھے اس کی گفتگو پر کوئی حیرانی نہ تھی۔ سچ کہا جائے تو ان دنوں میں ہر وقت شادی کے بارے میں سوچنے لگا ہوں۔ در اصل لا شعوری طور پر میں یہ سوچنے لگا ہوں کہ کیا اپنے باپ کی طرح میں اپنے ہونے والے بچے سے پیچھا چھڑا سکتا ہوں؟ میں نے اس عورت کو ایک مرد کی نظر سے بھی دیکھا ہے۔ جیسا کہ میں نے پہلے کہا ہے اس کا ناک نقشہ کافی پر کشش ہے۔ صرف اس کا پیٹ کافی بڑا ہے جیسے اس کے اندر کوئی ٹیومر پل رہا ہو۔ اس جیسی بڑے پیٹ والی عورتوں کے لئے ایک خاص طرح کے مردوں کے اندر کافی کشش ہوتی ہو گی، مگر میں وہ مرد نہیں تھا۔ اور فی الحال میں اس کے بارے میں سوچ بھی نہیں رہا ہوں۔ میں تو صرف شادی کے بارے میں سوچ رہا ہوں۔ نہیں میں شادی کے بارے میں بھی نہیں سوچ رہا ہوں بلکہ اس شادی کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بچے کے بارے میں سوچ رہا ہوں۔ لیکن شاید میں اپنے ہونے والے بچے سے زیادہیہ سوچ رہا ہوں کہ اس سے پیچھا چھڑانا کیسا رہے گا۔ اور میں یہ بھی سوچ رہا ہوں کہ میں جو اتنا کچھ سوچتا ہوں اور اتنا کم بول پاتا ہوں کیا میں اس کا اہل بھی ہوں کہ مجھ سے کسی عورت کا حمل ٹھہر جائے ، خاص طور پر ایک ایسی عورت کا جس کے پیٹ میں ٹیومر پل رہا ہو۔ کچھ دنوں سے وہ میرے لئے اچھی اچھی چیزیں پکا کر لانے لگی ہے کیونکہ میرے کمرے تک پہنچنے کے لئے اسے صرف گلی پار کرنی پڑتی ہے۔ اس کے گھر میں ایک چھوٹا سا آنگن ہے اور ایک برامدہ جہاں کئی لوہے کے پنجڑے چھپر کے کنڈوں سے لٹکتے رہتے ہیں۔ ان پنجڑوں کے اندر سبز رنگ کے طوطے بند ہیں جو رہ رہ کر کرخت آوازیں نکالنے کے عادی ہیں۔ باقی وقتوں میں یا تو وہ چپ کھڑے رہتے ہیں یا پانی اور چنے کے پیالوں میں چونچ ڈالتے نظر آتے ہیں۔ ان طوطوں کے سبب نیچے کا فرش ہمیشہ گیلا رہتا ہے جسے صاف رکھنے کے لئے اسے کافی محنت کرنی پڑتی ہے۔ وہ ان طوطوں کو کبھی کوئی زبان نہیں سکھاتی۔ ’’میں نے ان کے کاروبار میں اچھا پیسہ بنایا ہے۔ یہ طوطے کرشمے دکھاتے ہیں۔ ‘‘ ایک دن اس نے مجھے بتایا۔ ’’ میں نے بہت گناہوں بھری زندگی گذاری ہے۔ کیا سمجھتے ہو خدا مجھے معاف کرے گا؟ لیکن میں نے کافی دکھ بھی اٹھائے ہیں۔ کیا میرے ساتھ انصاف ہو گا؟ ‘‘

’’مجھے نہیں معلوم خدا کیا سو چتا ہے۔ ‘‘ میں نے جواب دیا۔

 

(۸)

 

اس حقیقت سے میں انکار نہیں کرتا کہ خدا کو سمجھنے کے لئے میرے پاس کبھی مناسب وقت نہیں رہا۔ بس واقعات یکے بعد دیگرے پیش آتے گئے۔ جنگیں چھڑیں ، لوگوں کا قتلِ عام ہوا، سرحدیں پھر سے بنیں۔ جیل خانے بھرے گئے۔ لوگ سلاخوں کے آر پار ایک دوسرے کو دیکھنے کے عادی ہوتے گئے۔ آزادی کی تقریبات شروع ہوئیں ، لیکن کسی کو

پتہ نہ تھا وہ کس بات کی خوشی منا رہے تھے۔ لوگوں نے فینسی ڈریس کی رسم اپنائی۔ عجیب و غریب نقابوں کی روایت پڑی۔ کچھ لوگوں نے کہا، یہ دنیا ایک عارضی جگہ ہے۔ تمہیں اصلی دنیا کے لئے کچھ کرنا چاہئے ، وہاں جہاں زمین کے نیچے نہریں بہتی ہیں ، جہاں کے پھل دائمی ہیں اور سایہ لا زوال ہے۔ وہاں تمہاری ہر طرح کی خواہشات کی تکمیل ہو گی جن پر دنیا میں روک لگا دی گئی ہے مگر اس سے پہلے تمہیں اپنے اعمال کی جوابدہی کرنی پڑے گی۔ کچھ لوگوں نے کہا، تمہیں بائیں سمت چلنی چاہئے۔ سچائی صرف بائیں طرف ہے۔ مجھے معلوم نہیں وہ کیا کہنا چاہ رہے تھے۔ میں نے کچھ عرصہ تک ان کا ساتھ بھی دیا یہ جانے بغیر کہ اس سے آسمان کے نیچے کیا تبدیلی آنے والی تھی۔ شروع کی طرف میں نے کام کی تلاش میں لوکل ٹرین میں دور دور تک سفر کیا مگر ہر بار یہ سفر کسی نہ کسی دریا کے کنارے ختم ہو جاتا، وہاں جہاں کشتیاں ندی پر اینٹ، ریت اور جانور ڈھویا کرتیں یا پھر دور آسمان کے نیچے فیکٹری کی چمنیاں آگ اور دھواں اگلا کرتیں یا پھر ایک آدھ بازار ایسا نکل آتا جس کے آس پاس کوئی نہ کوئی ریلوے پل ضرور ہوتا جس پر زیادہ تر مال بردار ٹرینیں دوڑا کرتیں اور پل کے نیچے طوائفیں کھڑی گاہکوں کا انتظار کرتیں۔ ایسے ہی ایک سفر کے دوران میں نے اپنے ساتھی مسافروں سے کہا، کیا برا ہے اگر میں نے اپنے سارے دروازے کھول رکھے ہیں۔ مگر

سب کی یہی رائے تھی کہ تم بیک وقت ہر کسی کے ساتھ نہیں چل سکتے۔ تمہیں چننا پڑتا ہے ، تمہیں فیصلہ کرنا پڑتا ہے ، کہیں نہ کہیں اپنا لنگر ڈالنا پڑتا ہے۔ دوسرے وقتوں میں کسی نے مجھے رائے دی، تمہیں نئے شناختی کاغذات کی ضرورت ہے ، ایسے کاغذات جن کے ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا مگر نہ ہونے سے کافی فرق پڑ جاتا ہے۔ لیکن میری کشتی کو رکنے کے لئے کوئی جگہ میسر نہ تھی۔ میرے سارے کنارے کٹ چکے تھے۔ اور اپنے باپ کی طرح میں کسی فرضی نام کے ساتھ مرنے کے لئے تیار نہ تھا۔ کیا آپ نے یہ کہانی بار بار نہیں سنی ہے؟

اس عورت نے دھیرے دھیرے میری ساری کمزوریاں پڑھ لی ہیں۔ اس نے اپنی دانشمند آنکھوں کا بھرپور استعمال کیا تھا جس کے بدولت وہ طوطوں کے کاروبار میں کافی کامیاب رہی تھی۔ میں اس کی آنکھوں میں جانے کیوں ہمیشہ ایک سرنارتھیوں سے بھرے جہاز کو دیکھا کرتا جس کے عرشے پر میرا باپ ہمیشہ اپنے سوٹ کیس اور کوٹ کے ساتھ کھڑے دکھائی دیتے اور مجھے اس پر حیرت ہوتی کہ کتنا عرصہ گذر گیا ہے مگر آج بھی وہ اسی جگہ اسی حالت میں کھڑے ہیں۔ شاید نئے ملک میں انھوں نے اپنے لئے ایک نیا نام تجویز کر لیا ہو۔ کاش ایسے کسی جہاز سے اترے ہوئے کسی مسافر کا مجھے علم ہوتا۔ میں اس سے اس جہاز کے اندر پیش آنے والے واقعات کی جانکاری حاصل کرتا۔ مگر میرے لئے شاید کہیں پر کرنے کے لئے کچھ نہیں تھا۔

اس رات سب کچھ کسی طئے شدہ پروگرام کے تحت نہیں ہوا تھا۔ میں آئس کریم کی ٹرالی جمع کر کے واپس لوٹا تھا۔ واپسی پر ہر رات میں جس ہوٹل میں کھانا کھایا کرتا اس کے باہر راکھ پر لوٹتے کتے ہمیشہ خود کو پرچھائیوں کے ساتھ ہم آہنگ رکھنے کی کوشش کیا کرتے۔ اس رات میں ہوٹل سے کھانا کھا کر باہر نکلا تو میں نے دیکھا کتے کسی وجہ سے بالکل چپ تھے بلکہ جو جہاں پر تھے اپنی جگہ بے حرکت کھڑے تھے۔ ان کتوں کی طرف تاکتے ہوئے جانے کیوں مجھے شدید اکے لیے پن کا احساس ہوا اور واپسی پر میں نے اپنے گھر کی بجائے اس کے گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ بہت دیر تک دروازہ کھٹکھٹانے کے بعد بھی جب اس نے دروازہ نہیں کھولا تو میں مایوس ہو کر واپس لوٹنے کا ارادہ کر رہا تھا جب اس کی کھڑکی کھل گئی۔ وہ سلاخوں کو تھامے کھڑی تھی، اس کے بال بکھرے ہوئے تھے اور وہ متوحش آنکھوں سے میری طرف تاک رہی تھی۔ مجھ سے نظریں ملتے ہی اس نے پھر سے کھڑکی بند کر لی۔ دوسری صبح اس نے میرے گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ میں کافی گہری نیند سے جاگا تھا۔ آج اس نے کافی صاف ستھرے لباس پہنے ہوئے تھے اور چہرے پر ہلکا سا میک اپ بھی چڑھا رکھا تھا۔ اس نے مجھے بتایا کہ کسی مرد کا سامنا کئے ہوئے اسے ایک لمبا عرصہ بیت گیا ہے۔ در اصل میں اتنا اچانک وارد ہو گیا تھا کہ وہ خوفزدہ ہو گئی تھی۔ تم جہنم جا سکتی ہو، میں نے کہا۔ میں یہ جملہ کئی بار سن چکی ہوں ، وہ ہنسی، مگر پہلی بار مجھے ایسا لگ رہا ہے جیسے اس کا ایک مطلب بھی ہے۔ وہ چارپائی پر میرے پہلو میں بیٹھ گئی اور اس نے اپنا سر میرے ننگے سینے سے پر رکھ دیا۔ آج اس نے سرمہ لگا رکھا تھا جس کے سبب اس کی آنکھیں کافی بڑی نظر آ رہی تھیں اور اس کے بالوں سے بھینی بھینی خوشبو آ رہی تھی جس نے میرے اندر نفسانی خواہش کو جاگنے پر مجبور کر دیا۔ میں اس کی ننگی گردن کو چوم رہا تھا، اس کی پشت کو سہلا رہا تھا جب۔ ۔ ۔ تمہیں یہ خوشبو پسند ہے؟ اس نے سر اٹھا کر کہا۔ ’’یہ تیل میں نے کیوڑے کے پھولوں سے خود بنایا ہے۔ ‘‘ اور اس نے خود کو مجھ سے الگ کر لیا۔ میں دھندلائی ہوئی آنکھوں سے اس کی طرف دیکھ رہا تھا۔ وہ بستر سے اٹھ کر کھڑی ہو گئی تھی۔ آج رات ہم سارے معاملات سلجھا لیں گے ، اس نے کہا اور چلی گئی۔ اس رات اس نے پوری تیاری کر لی تھی۔ ہم دیر تک اس کے اندرونی برامدے میں کھڑے طوطوں سے باتیں کرتے رہے۔ رات گہری ہو چکی تھی اور چھپروں کے اوپر گرم ہوا چل رہی تھی جب وہ میرے ساتھ اپنے کمرے میں داخل ہوئی۔ آج اس کا کمرا کافی سجا ہوا تھا۔ اس نے کھڑکیوں پر نئے پردے ٹانگ رکھے تھے۔ ہم نے بستر پر بیٹھ کر دیر تک گفتگو کی جس کا کوئی سر پیر نہ تھا جیسے ہمارا مقصد صرف وقت کو پیچھے کی طرف ڈھکیلنا ہو۔ مگر پھر ہماری گفتگو کے اندر کچھ بھی نہیں رہ گیا۔ اس دن میں نے کسی عورت کو پہلی بار اس کے اصلی روپ میں دیکھا۔ وہ ننگی ہوئی تو اس کا پیٹ دیکھ کر مجھے حیرت ہوئی۔ اس کا پیٹ تو اتنا بڑا نہیں تھا جتنا کپڑا پہننے پر دکھائی دیتا۔ اس نے ایک نئی عورت کی طرح میرا سامنا کیا۔ اسے کراہنے کا فن معلوم تھا۔ مگر میری طرف سے سب کچھ اتنی جلد ہو گیا کہ اسے تھوڑی سی مایوسی بھی ہوئی۔ اس نے کہا، تم نے میری نئی چادر خراب کر دی۔ مجھے نہیں معلوم تھا اس معاملے میں تم بالکل اناڑی ہو۔ تمہیں پتہ ہے تم نے اپنی زندگی کے کتنے قیمتی سال کھو دئے ہیں؟ میں تمہیں ایسے لڑکوں کے بارے میں بتا سکتی ہوں جو تم سے آدھی عمر کے تھے ، جن کی مسیں ابھی بھیگی بھی نہ تھیں ، جو میرے پاس آیا کرتے۔ مجھے حیرت ہوئی۔ واقعی وہ ٹھیک کہہ رہی تھی، عورت، ہم اسے بستر پر جانے بغیر اس دنیا یا آخرت کے بارے میں کچھ بھی تو یقین سے نہیں کہہ سکتے۔ بعد میں جب ہم ننگے لیٹے ہوئے چھپر کی طرف تاک رہے تھے تو اس نے مجھے بتایا، جس طرح تجربہ کے بغیر آدمی اناڑی ثابت ہوتا ہے ، اسی طرح حد سے زیادہ تجربہ انسان کو ناکارہ بنا دیتا ہے۔ ہم اپنی سوچ کے غلام بن جاتے ہیں۔ شاید ہم نے جلد بازی کی تھی۔ اتنے سالوں تک ایک فرضی نام کے ساتھ (اس نے اپنی بدنامی کے دنوں میں کئی بار نام بدلے تھے ) بھانت بھانت کے مردوں کا سامنا کرنے کے بعد اسے کچھ اور وقت چاہئے تھا۔ میں خوفزدہ تھی، پہلے کی طرح تمہارے لئے صرف ایک گوشت پوست کا لوتھڑا نہ بن کر رہ جاؤں۔ اس لئے میں اب تمہیں اپنا اصلی نام بتانا چاہتی ہوں۔ کیا تم اسے جاننا چاہو گے؟ اور تم میرے کراہنے پر نہ جاؤ۔ یہ میری پرانی عادت ہے جس سے میں گاہکوں کو فریب دیا کرتی تھی۔ اس سے وہ جلد بازی سے کام لینے پر مجبور ہو جاتے۔ میں ایسا کرنے پر مجبور تھی۔ مجھے کمرے کا کرایہ دینا پڑتا، دوسرے اور بھی اخراجات تھے ، اور پھر میری طبیعت بھی خراب رہنے لگی تھی۔ مجھے اس پر قابو پانا ہو گا۔ میں چاہتی ہوں ، جب بھی میں تمہارے پاس آؤں میں وہ بن جاؤں جو اس بدنامی کی زندگی سے پہلے تھی۔ اور اس نے مجھے اپنا اصلی نام بتایا۔ مگر اس سے مجھے کوئی دلچسپی نہ تھی۔ میں نے کہا، تم کہنا کیا چاہتی ہو، ہمارے تجربات دھاگوں کی طرح ہوتے ہیں جو آپس میں الجھ جاتے ہیں؟ ایسا صرف اس لئے ہوتا ہے کیونکہ ہم جیسوں کے پاس کبھی کوئی منصوبہ نہیں ہوتا۔ ہم بس جیتے ہوئے مر جاتے ہیں۔ تمہیں پتہ ہے ، ایسے لوگ بھی ہیں جنھوں نے ساری زندگی انسانیت کی خدمت کی۔ انھوں نے بھوکوں کے لئے کھانے کا انتظام کیا، اپاہجوں کو بیساکھیاں بانٹیں ، خدا کی طرف سے پیغامات نشر کئے جنھیں قبول نہ کرنے والوں کے لئے کوڑے مخصوص تھے ، مگر آخر میں انھیں بھی اس بات کا پتہ چل گیا تھا کہ انھوں نے ایسے جہاز بنائے تھے جو بے وطنوں کو ان کے وطن پہچانے والے تھے مگر یہ جہاز کبھی کنارے پہنچنے والے نہ تھے۔ اس نے حامی بھرتے ہوئے کہا، میں جانتی ہوں ، میں نے ایسے لوگوں کو بہت قریب سے دیکھا ہے۔ وہ اپنے ہر عمل سے ثواب کا آخری قطرہ تک نچوڑ لینا چاہتے ہیں۔ میں نے ایک بار ایک سینی ٹوریم میں داخلہ لیا تھا۔ میرے پھیپھڑوں پر داغ آ گئے تھے۔ میں مرتے مرتے بچی۔ مگر وہاں مجھے اپنے پھیپھڑوں کے بارے میں اتنا کچھ بتایا گیا کہ ان پر عمل کرنا مشکل تھا۔ وہاں میرا بہت سارا پیسہ برباد ہو گیا۔ تو میں نے صرف یہ کیا کہ پرانا دھندا چھوڑ دیا۔ اب پاک پنجتن کی عنایت سے میں روز نہیں مرتی۔ یہ تو اچھی بات ہے ، میں نے کہا۔ اس سے سب کچھ وہی رہتے ہوئے بھی تمہاری دنیا آسان ہو گئی ہو گی۔ مگر تم مجھے یہ سب کیوں بتا رہی ہو؟ مسعودہ، یہی نام بتایا ہے نا تم نے اپنا؟ میں نہیں جانتا، میں تمہارے اس نام کا کیا کروں گا۔ میں صرف یہ چاہتی ہوں کہ تم میری اصلیت کو سمجھنے کی کوشش کرو۔ یہ دنیا بہت بڑی ہے۔ یہاں ہزاروں لاکھوں طاقتیں ہیں ، جنھیں تم جانتے بھی نہیں ، جو تمہارے خلاف کام کرتی رہتی ہیں اور تمہارے پاس اپنی شکست تسلیم کرنے کے علاوہ انھیں روکنے کا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہوتا۔ میں چاہتی ہوں کہ تم اپنی شکست تسلیم کر لو، کسی جگہ ٹھہر جاؤ۔ کسی کے ساتھ ٹھہر جاؤ۔ تم میرے ساتھ ٹھہر جاؤ۔ ہم دنیا کو دھوکہ دینے کے لئے نکاح کر لیں گے۔ تم کہنا کیا چاہتی ہو؟ میں نے کہا۔ کیا تم مجھے کسی خطرے سے بچانا چاہتی ہو؟ کیا تم نے ہمیشہ اس طرح کا کام کیا ہے؟ کیا تمہارے پاس بھی کوئی جہاز ہے؟ اس نے جواب دیا، اسے شک ہے وہ ایسے کسی کام کی اہل بھی ہے۔ کیا ایک ایسی دنیا میں جہاں ایک چھدام کے لئے لوگ شور مچاتے ہوں ، یہ ممکن ہے کہ آدمی اتنی آسانی سے کسی کی دنیا بدل ڈالے ، یا اپنے ماحول سے الگ ہو کر اپنے لئے ایک نئی دنیا بنا لے۔ ہمیں بس ڈھنگ سے کچھ سال جی لینا ہے۔ اور تم جس جہاز کی بات کر رہے ہو، وہ کبھی واپس نہیں لوٹتا۔ یہ دنیا بس اسی طرح ہے۔ تمہیں پانی پر بس ایک کوڑے کے ڈھیر کی طرح تیرتے رہنا ہے۔ ہو سکتا ہے اس پر مٹی جمتے جمتے کوئی پودا نکل آئے اور ایک تناور درخت کی شکل اختیار کر لے جیسا کہ میں نے اپنے گاؤں میں دیکھا ہے۔

اس گلی میں ناریل کے کئی پیڑ تھے جو دھول سے اٹے ہوئے تھے اور چھپروں کے بیچ سے اس طرح نکلے ہوئے تھے جیسے خبیث اپنے بال بکھرائے کھڑے ہوں۔ ان کے پتوں میں پرندے کبھی کبھار رات کے وقت بلا وجہ واویلا مچایا کرتے جیسے ان کا کوئی خاندانی تنازع سامنے آ گیا ہو۔ مسجد کی طرف برگد کا ایک لحیم شحیم پیڑ تھا جس میں گرمی کے آتے ہی کوئلیں کوکنے لگتیں۔ وہ دن بھر بلا تکان کوکتیں۔ انھیں بس مسجد کے میناروں سے بندھے ہوئے لاؤڈ اسپیکروں سے آتی اذان کی کرخت آواز ہی چپ کرا پاتی۔ مگر یہ دیرپا ثابت نہ ہوتا۔ کچھ ہی دیر کے بعد کوئلیں شدہ مد کے ساتھ کوکنا شروع کر دیتیں۔ ہر رات مجھ سے لپٹ کر وہ چین کی نیند سو جاتی اور میں اس کے پھیپھڑوں کی آواز سنتا رہتا جیسے کوئی اس کے اندر کاغذ مروڑ رہا ہو۔ کبھی کبھار وہ اچانک غیر متوقع طور پر خراٹا لینا شروع کر دیتی اور میں دیر تک جاگے رہنے پر مجبور ہو جاتا۔ مگر کسی کسی رات وہ چونک کر جاگ اٹھتی۔ اس وقت اسے اپنے کپڑوں کا بھی ہوش نہ رہتا۔ وہ اٹھ کر اندر کی طرف کھلنے والی کھڑکی کھول کر ننگی کھڑی ہو جاتی اور آنگن کی آوازوں کو سننے کی کوشش کرتی۔ کمرے کے اندھیرے میں ایسا لگتا جیسے وہ کل ملا کر ایک بڑا سا پیٹ ہو جس میں اس کی دونوں ٹانگیں اور ہاتھ غلط سمت میں گتھے ہوئے ہوں۔ تم سن رہے ہو، وہ سرگوشی کرتی، رات کی اپنی ایک بہت ہی پراسرار دنیا ہوتی ہے۔ میں اس دنیا کو اچھی طرح سے جانتی ہوں۔ میں پہاڑوں سے گھرے ہوئے ایک گاؤں میں پیدا ہوئی۔ ایک رات میں نے خواب میں دیکھا کہ میں ایک جانور بن گیا ہوں جب کہ وہ ابھی بھی ایک عورت ہے اور میں کسی وحشی درندے کی طرح اپنی شہوانی خواہش پوری کر رہا ہوں۔ جانے یہ کتنی دیر تک چلتا ہے جب ہیجانِ شہوت سے میری نیند ٹوٹ جاتی ہے۔ میں دیکھتا ہوں ، وہ مجھ سے لپٹی ہوئی ہے اور خود بھی شہوانیت کے جذبے سے سرشار ہے۔ اس نے سرگوشی میں کہا، تم ایک حیرت انگیز انسان ہو۔ اگر میں تم سے نہ ملی ہوتی تو کبھی شہوت کے اس ہیجان کو جان نہ پاتی۔ مجھے لگ رہا ہے میں اپنے کنوارے دنوں میں واپس لوٹ رہی ہوں جب میں گاؤں میں بڑی ہو رہی تھی اور ہم سہیلیاں ایک دوسرے کو اپنی ماہواری کے قصے سنایا کرتیں۔ اگر تم چاہو تو ہم ایک ساتھ اپنا گاؤں لوٹ سکتے ہیں۔ وہاں ہمارا پشتینی مکان ہے جس میں میرا ایک ذاتی کمرا ہے۔ میرے رشتے دار میرے مرنے کا انتظار کر رہے ہیں تاکہ وہ اس کمرے پر قبضہ جما سکیں۔ تمہیں دیکھ کر انھیں مایوسی ہو گی۔

گاؤں ! گرم تکیہ کے اندر اپنے دونوں کانوں تک دھنسا ہوا میں روئی کے اندر کے سنّاٹوں کو سننے کی کوشش کر رہا تھا۔ کیوں نہیں ، اور اس کے لئے ذاتی طور پر میں تمہارا شکریہ ادا کرنا چاہوں گا۔ اس واقعہ کے دو مہینے بعد اس نے مجھے اپنے گاؤں کے بارے میں مزید جانکاری دی۔ اس نے کہا، اس کی طبیعت ٹھیک نہیں رہتی، اس کے پاس ایک بہت ہی کمزور پھیپھڑا ہے اور شہر کی آلودگی دن بدن بڑھتی ہی جا رہی ہے ، وہ اگر گاؤں لوٹ جائے تو شاید کچھ اور برس جی لے۔ میں نے کہا، کیا یہ ضرورت سے زیادہ چاہنے کی طرح نہیں ہے؟ نہیں ، اس نے کہا، یہ زندہ رہنے کی ایک عام خواہش ہے جو ہر انسان کے اندر ہوتی ہے۔ میں نے اس گاؤں کو اپنے آخری وقت کے لئے بچا کر رکھا ہوا ہے۔ ٹھیک ہے ، میں نے کہا۔ پھر تو میرے پاس کوئی راستہ نہیں بچتا، مگر شرط یہ ہے کہ جب تم اپنا گاؤں پہنچو تو میں اپنا منہ بند رکھوں گا۔ ساری بات تم کرو گی۔ تم اپنے لوگوں کو زیادہ اچھی طرح سے جانتی ہو۔ کیا ان کو تمہارے ماضی کے بارے میں پتہ ہے؟ تمہیں یہ سوچ کر ڈر نہیں لگتا کہ جانے وہ تمہارے ساتھ کس طرح سے پیش آئیں گے۔ تمہیں خوامخواہ گھبرانے کی ضرورت نہیں ، وہ بولی۔ میں وہاں جاتی رہتی ہوں۔ وہاں سارے لوگ میرے بارے میں جانتے ہیں۔ لیکن وہ خود اس کا یقین کرنا نہیں چاہتے۔ لیکن اب دنیا بدل چکی ہے۔ اور پھر تمہیں میرے ساتھ دیکھ کر وہ اپنی زبان بند کر لیں گے۔ مجھے اس کا یقین ہے۔ میرا وہاں جانا ضروری ہے۔ ان دنوں میں موت کے فرشتے کو بار بار دیکھنے لگی ہوں۔ اس کے پروں میں تلواروں کی سی دھار ہے جن سے خون ٹپکتے رہتے ہیں۔ میں کبھی کبھار بری طرح نروس ہو جاتی ہوں۔ مجھے ڈر لگتا ہے ، کہیں نیند کی حالت میں ہی میری موت نہ ہو جائے۔ کیا واقعی تم میرے ساتھ آ رہے ہو؟

 

(۹)

 

میں اس دریا کا ذکر قدرے تفصیل کے ساتھ کرنا چاہوں گا۔

اس کے دونوں کنارے کئی سنگلاخ پہاڑ ہیں جو بہت زیادہ اونچے نہیں اٹھتے۔ ان پہاڑوں میں ننگی چٹانوں کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔ ہاں ، ان کے نیچے کے میدانوں میں کافی گہری ڈھلانیں ہیں جن پر سال کے پرانے جنگلوں کے شانہ بہ شانہ یوکلپٹس کے پیڑ لہراتے رہتے ہیں جنھیں محکمہ جنگلات نے اگایا ہے۔ ان ڈھلانوں سے دریا جیسے جیسے نیچے کی طرف اترتا گیا ہے وہ کشادہ ہوتا گیا ہے ، مگر اوپر کی طرف جہاں مسعودہ کا گاؤں واقع ہے اس کے پانی میں بھنور بنتے اور ٹوٹتے رہتے ہیں۔ مگر یہ اپنے آپ میں اتنا اہم نہیں جتنی یہ بات کہ اس کے دونوں کنارے کی ڈھلانوں پرسال کے درختوں کے بیچ کچھ پرانے مکانوں کے کھنڈر اب بھی کھڑے ہیں۔ ان گھروں کے یہاں بنانے کی کیا وجہ رہی ہو گی اور وہ کیا مجبوری رہی ہو گی کہ لوگ نقلِ مکانی پر مجبور ہوئے؟ اس دریا کا پانی بہت زیادہ گہرا ہے ، مگر کنارے کی طرف اس کا پانی کافی گاڑھا ہو کر کہیں کہیں رک سا گیا ہے جس میں طرح طرح کے رنگ تیرتے رہتے ہیں جنھوں نے پانی سے نکلی ہوئی چٹانوں کے زیریں حصوں میں عجیب طرح کی مصوری کر رکھی ہے۔ یہ رنگ شاید ان کل کارخانوں کی دین ہوں جو پہاڑوں کے سبب نظر نہیں آتے یا شاید کسی تھرمل پاور اسٹیشن کا گندا مواد بہتا ہوا آ گیا ہو۔ ان رنگین کناروں میں ناگ پھنی کے پودے دور تک چلے گئے ہیں۔ جگہ جگہ پانی سے فرن کے رنگین پتے بھی نکلے ہوئے ہیں جو، جیسا کہ مسعودہ نے بتایا، بارش کے دنوں میں پانی کے اندر ڈوب جاتے ہیں۔ آخر ہم یہاں کیوں آئے ہیں؟ اور تم ایک دریا سے کیا امید رکھتی ہو؟ میں نے اس سے پوچھا۔ تم اس کے پانی کو سمجھنے کی کوشش مت کرو، اس نے جواب دیا۔ میں اپنے بچپن سے اسے سمجھنے کی کوشش کرتی آئی ہوں۔ یہ ہمیشہ سے ایسا نہیں تھا۔ اس کا یہ جواب میری تشفی کے لئے کافی نہ تھا۔ اس کے گاؤں نے مجھے بہت زیادہ متاثر بھی نہیں کیا۔ اس میں نہ کوئی پچ کا راستہ تھا نہ کوئی سرکاری نل۔ ایسا لگتا ہے جیسے سرکار کے تمام ترقیاتی منصوبے یہاں آنے سے پہلے ہی دم توڑ دیتے ہیں۔ زیادہ تر گھروں کی چھتیں ٹن کی تھیں۔ اس میں بجلی بس ایک دو گھنٹے کے لئے آتی جس کے لئے زیادہ تر لوگ ہُک کا استعمال کرتے۔ اس کے اپنے گھر میں کم و بیش وہی حالات تھے جن سے اپنا پیدائشی وطن واپس لوٹنے پر میری ماں کو سامنا کرنا پڑا تھا۔ ہم نے اوبڑ کھابڑ راستوں پر سرکاری بس کا ایک لمبا سفر طئے کیا تھا اور بہت دیر سے پہنچے تھے جب سورج کا خون ہو چکا تھا اور آسمان کی گہرائیوں سے اندھیرا اتر رہا تھا۔ مسعودہ کے کمرے کو کسی طرح رات گذارنے کے قابل بنا کر ہم نے اپنے ساتھ لایا ہوا کھانا کھایا۔ دوسری صبح وہ سویرے سویرے جاگ گئی۔ گھر صاف کرنے میں اسے آدھا دن لگ گیا۔ اس کے کمرے میں پرانے دنوں کے کئی بھاری فرنیچر تھے جن کے پایوں اور لٹووں پر کی گئی کاریگری نے مجھے حیران کر دیا۔ کیا ان دنوں لوگوں کے پاس اتنی فرصت تھی؟ گھر کے دوسرے لوگوں نے ہم سے گفتگو کرنے سے احتراز کیا تھا۔ ہم اب بھی شہر سے لایا ہوا کھانا کھا رہے تھے۔ دن ختم ہو رہا تھا جب ہم کچھ ضروری سامان خریدنے بازار گئے۔ بازار ہمیں پسند آیا۔ وہ ایک کافی پرانی مسجد کے احاطے کے گرد بنا ہوا تھا۔ مسجد کے بیرونی برامدے پر درزی اپنی مشینوں پر بیٹھے کپڑے سی رہے تھے۔ برامدے کیکئی سیڑھیاں تھیں جن میں سے ایک پر ایک نانبائی کی دکان تھی۔ بازار میں ضرورت کے تقریباً سبھی سامان موجود تھے۔ دھیرے دھیرے گھر کے لوگوں کو میں پہچاننے لگا۔ ایک بوڑھی عورت تھی جس کا چہرا چھوارے کی طرح سوکھا ہوا تھا۔ اس کے بال کافی لانبے تھے جنھیں وہ چارپائی کے ادوائن پر پھیلا کر ہمیشہ ان سے جوئیں نکالا کرتی۔ میں نے ایک دن اس سے بات کرنے کی کوشش کی تو مجھے پتہ چلا وہ نپٹ بہری تھی۔ میں نے اس کے لئے ایک ساری خریدی۔ میں نے ایک تیرا چودا برس کی لڑکی کو دیکھا جو حمل کے آخری اسٹیج پر تھی اور ہمیشہ رنگین ساری پہنے رہتی۔ مجھے پتہ چلا گاؤں کے پچھلے پیش امام کے ساتھ اس کی شادی کر دی گئی تھی جو اس کے حمل کے ٹھہرنے کے بعد اچانک ایک دن لا پتہ ہو گیا تھا۔ مسعودہ نے بتایا کہ یہ اس پیش امام کا پرانا پیشہ تھا جس کا پتہ گاؤں والوں کو اس کے جانے کے بعد چلا تھا۔ وہ اسی طرح ہر گاؤں میں کنوارا بن کر نمودار ہوتا اور اپنی جڑیں چھوڑ جاتا۔ باقی عورتیں مجھے دیکھتے ہی لمبے گھونگٹ نکال لیتیں۔ دھیرے دھیرے بچے میرے قریب آنے لگے۔ میں ان کے لئے پلاسٹک کے سستے کھلونے اور بسکٹ لایا کرتا، اینٹیں سجا کر ان کے ساتھ کرکٹ کھیلتا۔ گھر کے زیادہ تر مرد شہروں میں کام کرتے تھے اور مہینہ میں ایک دو دن کے لئے گھر آتے تو سارا وقت اپنی بیوی کے پاس بیٹھے رہتے بلکہ دن میں بھی کمرے میں ایک آدھ بار بیوی کے ساتھ بند ہونے سے نہیں جھجکتے۔ انھوں نے ہمارے رشتے کو اچھی نظروں سے نہیں دیکھا تھا، مگر یہ بات وہیں پر ختم ہو گئی تھی۔ شاید ہمارے سلسلے میں ان کے اندر کچھ شبہات تھے جنھیں الفاظ کی شکل دینے کے لئے ان کے اندر طاقت نہ تھی۔ میں نے بھی جان بوجھ کر ان سے دوری قائم رکھی۔ شروع شروع میں مسعودہ نے مجھ سے کچھ نہیں کہا۔ پھر ایک دن اس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا۔ اس نے کہا، میں ٹھیک نہیں کر رہا ہوں ، مجھے ان بچوں سے دور رہنا چاہئے۔ اس سے پیچیدگیاں بڑھ سکتی ہیں۔ وقت کاٹنے کے لئے میں گاؤں کے اندر اکیلا گھوما کرتا۔ مگر یہ گاؤں اتنا چھوٹا تھا کہ جدھر بھی جاؤ راستہ بہت جلد ختم ہو جاتا اور پھر چھوٹے موٹے تالاب نظر آنے لگتے یا بانس کے جھنڈ جن کے پیچھے سبزی کے کھیتوں کا سلسلہ شروع ہو جاتا جہاں پر دلچسپی کے لائق کچھ بھی نہ تھا سوائے پرانی شرٹ اور پتلون پہنے ہوئے اُن بھچکاگ کے جو سر کی جگہ ہانڈیاں اٹھائے بانس پر کھڑے نظر آتے مگر پرندے ان سے ڈرنے کی بجائے عین ان کے سروں پر بیٹھے اپنی چونچ سے ان پر نشان لگایا کرتے۔ کبھی کبھار دریا کے کنارے کنارے چلتا ہوا میں سال کے جنگل میں چلا جاتا اور بوسیدہ گھروں کے کھنڈروں کے درمیان چکر لگایا کرتا۔ ان گھروں کی زیادہ تر دیواریں ڈھ چکی تھیں ، چوکھٹ اور روشندان نکال لئے گئے تھے مگر ان کے باغیچوں کے اندر کھڑے پیڑ اب بھی گھنے تھے جن میں ایک پر میں نے اپنی زندگی کا سب سے بڑا شہد کا چھتہ لٹکتے دیکھا۔ ان کھنڈروں کے اندر چینٹیوں نے مٹی کے کافی بڑے بڑے ٹیلے بنا رکھے تھے جن میں سے کسی کسی نے تو کسی پیڑ کے تنے کو نصف حصے تک ڈھک رکھا تھا۔ یہاں بھی ناگ پھنی کے پودے تھے مگر اب انھیں دیکھ کر ایسا لگ رہا تھا جیسے انھیں کوڑھ کی بیماری ہو گئی ہو جن کے پھوڑوں سے پیب نکل رہی ہو۔ مجھے یہ سوچ کر حیرت ہوئی کہ کبھی ان کھنڈروں میں زندگی کی چہکاریں گونجا کرتی ہوں گی۔ بلکہ ایک جگہ کھڑے ہو کر مجھے ایسا لگا جیسے میں ان آوازوں کو سن سکتا ہوں۔ مگر بہت جلد مجھے پتہ چل گیا کہ یہ شہد مکھی کا ایک چھتہ تھا جہاں سے یہ آواز آ رہی تھی۔ یا پھر کون جانے یہ میرا تصور بھی ہو سکتا تھا۔ شاید کوئی ان دیکھا بھنورا آس پاس بھنبھنا رہا ہو۔ ایک دن میں نے مسعودہ سے کہا کہ میں اس دریا کو اور اس کے کنارے کے کھنڈروں کو سمجھنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ اس نے مجھے ایک بار پھر ہوشیار کیا کہ میں اس دریا سے دور رہوں تو بہتر ہے۔ اس میں ہر سال کوئی نہ کوئی واقعہ پیش آ جاتا ہے۔ میری سمجھ میں اس کی بات نہیں آئی۔ وہ کیا کہنا چاہتی تھی۔ یہ ایک معمولی سا دریا ہی تو تھا، شاید ایک بڑا سا پہاڑی نالا جس میں پانی کا اچھا ذریعہ تھا اور جو کہیں کہیں چٹانوں کے بیچ کسی کنویں کی طرح گہرا ہو گیا تھا۔ مگر مجھے بہت جلد پتہ چل گیا کہ اس کا کہنا صحیح تھا۔ ہمیں وہاں آئے کئی ماہ ہو چکے تھے۔ رہ رہ کر وہ بیمار پڑنے لگی تھی اور گاؤں کے واحد ہومیو پیتھی ڈاکٹر کی دائمی مریض بن چکی تھی۔ ڈاکٹر نے کہا، اس کا ٹیومر اپنا جلوہ دکھانے لگا ہے ، مگر اسے زیادہ خطرہ اس کے پھیپھڑوں سے ہے جو کاغذ کی طرح سوکھ چکے ہیں۔ مگر وہ میری دوا سے ٹھیک ہو جاؤ گی۔ میں نے اس سے بھی خراب مریضوں کو ٹھیک کیا ہے۔ مجھے یہ جاننے میں دیر نہ لگی کہ اس کے پاس کوئی ڈگری نہیں تھی۔ پہلے وہ سائکل پر چوری کا کوئلہ ڈھویا کرتا تھا، لیکن کوئلے سے زیادہ اسے لوگوں کی بیماریوں سے دلچسپی ہو گئی۔ تو اس نے ہومیو پیتھی کی دوا کے بارے میں جاننا شروع کر دیا۔ اس نے کچھ دنوں تک ایک ہومیو پیتھ کے یہاں پڑیا باندھنے کا کام کیا اور پھر اس دور دراز گاؤں میں یہ پیشہ اختیار کر لیا۔ میں نے سوچا، اس کام کے لئے اس گاؤں کا انتخاب صحیح تھا۔ یہاں پر کوسوں دور تک کوئی تھانہ تھا نہ پولس کی چوکی۔ اور پھر ملک کے ہر گاؤں کی طرح اس گاؤں کو بھی ایک نیم حکیم کی ضرورت تھی۔ یہ اس کا ایک بنیادی حق تھا۔

مسعودہ ایک لمبی بیماری کے بعد کچھ دنوں سے کافی اچھا محسوس کر رہی تھی۔ گرمی کا موسم ختم ہو رہا تھا۔ اس دن دوپہر کا کھانا کھانے کے بعد ہم کافی گہری نیند سو گئے۔ میں جاگ کر باہری برامدے میں مٹی کے گھڑے کے ٹھنڈے پانی سے منہ دھو رہا تھا جب میں نے دیکھا گھر کے سارے دروازے بند پڑے تھے۔ میں آنگن میں آیا۔ گھر پر کوئی فرد نظر نہیں آ رہا تھا۔ صرف بوڑھی عورت اپنی چارپائی پر بیٹھی اپنے لمبے سن کی طرح سفید بالوں میں تیل لگا رہی تھی۔ یہ اس کی موت سے سات ماہ پہلے کا واقعہ تھا۔ وہ ابھی ابھی نہا کر اٹھی تھی۔ اس نے مسکرا کر مجھے اپنی ساری دکھائی جسے اس نے غسل کے بعد اپنے جسم پر لپیٹ رکھا تھا۔ یہ میری دی ہوئی ساری نہ تھی، مگر وہ شاید ایسا ہی کچھ سمجھ رہی تھی۔ میں باہر آیا تو سامنے کا کچا راستہ اور اس کے کنارے کے اوکھ کے کھیت اور ٹن کے چھپروں والے اکے د کے گھر قبرستان کی طرح خاموش نظر آئے۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے سارا گاؤں ہمیں اکیلا چھوڑ کر چلا گیا ہو۔ میں نے مسعودہ کو نیند سے جگا کر جب اس واقعے کے بارے میں بتایا تو پہلے تو اس کا چہرا فق پڑ گیا، پھر اس نے کہا، ہم اسے زیادہ اہمیت نہیں دے سکتے۔ میری دوا ختم ہو چکی ہے۔ کیا تم میرے ساتھ ڈاکٹر کے پاس چلو گے؟ اس نے میرے لئے چائے بنائی۔ ہم نے کپڑے بدلے اور بازار کی طرف چل دئے۔ بازار میں زیادہ تر دکانیں بند تھیں۔ جو کھلی تھیں وہ سنسان پڑی تھیں۔ خود وہ ہومیو پیتھی کا جعلی ڈاکٹر بھی غائب تھا جب کہ اس کا مطب کھلا ہوا تھا جو مسجد کے ایک کمرے میں واقع تھا۔ اس کی سائکل باہر اپنی جگہ کھڑی تھی۔ ہم وہاں اس کا انتظار کر رہے تھے جب مسجد کا لکڑی کا پھاٹک کھول کر ایک دبلا پتلا آدمی باہر آیا جس کے سر پر ایک بھی بال نہ تھا۔ اس نے بتایا کہ تمام لوگ دریا کی طرف گئے ہوئے ہیں۔ جب ہم نے سبب جاننا چاہا تو اس نے آسمان کی طرف اشارا کیا جس میں چیل اور کوے اڑ رہے تھے۔ ہم نے آسمان سے نظریں ہٹائیں تو دیکھا وہ آدمی جا چکا تھا۔ چونکہ ہم دوا لئے بغیر واپس نہیں لوٹ سکتے تھے ہم بھی دریا کی طرف ہو لئے۔ ہم دریا سے تھوڑے فاصلے پر تھے جب ہم نے محسوس کیا آسمان میں چیل اور کوے اچھی خاصی تعداد میں اڑ رہے تھے جوان ویرانوں کے لئے حیرت کی بات تھی۔ ہمیں دریا کے دونوں کنارے لوگوں کا بھاری ہجوم نظر آیا جیسے وہاں پر کوئی میلا لگا ہوا ہو۔ لوگ بہتے پانی پر نظریں ٹکائے کھڑے تھے اور وقفے وقفے سے شور مچا رہے تھے۔ وہ رہ رہ کر انگلی سے دریا کی طرف اشارے کرتے جاتے۔ اگلی بار شور اٹھا تو لوگوں کی انگلیوں کا تعاقب کرتے ہوئے ہم نے دیکھا دریا کے پانی میں کوئی بھاری چیز بہتی ہوئی آ رہی تھی۔ یہ ایک جانور کا مردہ تھا۔ وہ عین ہمارے سامنے سے گذرا۔ یہ ایک سور تھا جس کا پیٹ اور ٹانگیں اوپر کی طرف اٹھی ہوئی تھیں اور ایک کان پتوار کی طرح پانی کو تھپیڑے لگاتا ہوا چلا جا رہا تھا۔ لوگوں میں ایک بار پھر شور پیدا ہوا۔ یہ ایک دوسرا سور کا مردہ تھا جو اس کے پیچھے پیچھے بہتا ہوا آ رہا تھا۔ اتنی دوری سے وہ دریا کے جسم پر کسی پھوڑے کی مانند نظر آ رہا تھا۔ ’’وہ پچھلے آدھے گھنٹے سے بہتے آ رہے ہیں۔ ‘‘ کسی نے ہمارے کانوں میں سرگوشی کی۔ ہم دیر تک اپنی جگہ کھڑے رہے۔ واقعی دریا میں رہ رہ کر سوروں کے مردے بہتے آ رہے تھے بلکہ اب تو ان کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔ یہ مردے پانی پی کر پھول کر کپاّ ہو رہے تھے ، ان میں سے زیادہ تر جانوروں کے بدن اس قدر سڑ گل چکے تھے کہ ہوا میں سڑاند پھیلنے لگی تھی۔ دیکھتے دیکھتے مردے تعداد میں اتنا زیادہ ہو گئے کہ لوگوں نے چلانا بند کر دیا اور دریا سے تھوڑا پیچھے ہٹ کر کھڑے ہو گئے۔ انھوں نے بدبو سے بچنے کے لئے اپنی ناک پر کپڑا یا ہاتھ رکھ لیا تھا اور اپنی جگہ خاموش کھڑے ان کی طرف تاک رہے تھے۔ مردے پانی میں چکر لگا رہے تھے ، کناروں سے ٹکرا رہے تھے ، ایک دوسرے سے ٹکرا رہے تھے ، کبھی کبھار کوئی مردہ کسی چٹان سے ٹکرا کر رک جاتا، مگر پھر پیچھے سے پانی کا ایک زبردست ریلا آتا یا کوئی دوسرا مردہ آ کر اس سے ٹکرا جاتا اور وہ چٹان کے گرد چکر کاٹ کر دو بارہ اپنے سفر پر روانہ ہو جاتا۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے اوپر کی طرف بستیوں میں سوروں کے اندر کوئی بھا اری وبا پھیل گئی ہو۔

’’یہ سچ نہیں ہو سکتا۔ ‘‘ مسعودہ مجھ سے لپٹی ہوئی خوفزدہ نظروں سے سور کے مردوں کی طرف تاک رہی تھی جو کنارے کی کیچڑ یا ناگ پھنی کے پودوں سے اٹک گئے تھے یا فرن کے پتوں کے بیچ رنگین پانی میں ڈول رہے تھے۔ ان میں سے کسی کسی کی ایک یا دونوں آنکھیں کھلی ہوئی تھیں ، تھوتھنیوں کا رنگ عجیب گہرا گلا بی ہو گیا تھا جیسے ان کے اندر خون جم گیا ہو، اور پانی سے نکلی ہوئی منحنی دمیں اس طرح ہل رہی تھیں جیسے جانور اب بھی زندہ ہوں جب کہ یہ اور کچھ نہیں بہتے ہوئے پانی کا کارنامہ تھا۔ ’’ جیسا کہ میں نے کہا تھا، اس دریا میں ہر سال کوئی نہ کوئی حیرت انگیز واقعہ ہو جایا کرتا ہے۔ ‘‘ مسعودہ نے میرے کان میں سرگوشی کی۔ اس نے ساڑی کے پلو سے اپنی ناک ڈھک رکھی تھی۔ ’’مگر یہ پہلی بار ہے کہ میں اتنے سارے مردہ سوروں کو اس میں بہتے دیکھ رہی ہوں۔ اور یہ بڑھتے ہی جا رہے ہیں۔ کہاں سے آ رہے ہیں یہ؟ کہاں جا رہے ہیں؟ تم چپ کیوں ہو؟ کیا میں خواب دیکھ رہوں؟ کیا موت کا فرشتہ میرے ساتھ کسی قسم کا کھیل کھیل رہا ہے؟ ‘‘میں نے کوئی جواب نہ دیا۔ جانے کیوں مجھے ایسا لگ رہا تھا جیسے یہ پہلی بار نہیں تھا کہ میں ایسے کسی دریا کو دیکھ رہا تھا۔ میں ساری زندگی اسی دریا کے کنارے ہی تو چلتا آ رہا ہوں۔

سورج ڈوب چکا ہے۔ مشرق سے اندھیرا آسمان میں قدم بڑھانے لگا ہے۔ زیادہ تر لوگ دریا کے کنارے سے غائب ہو چکے ہیں۔ دریا سور کے مردوں سے اتنا بھر چکا ہے کہ اب وہ ایک دوسرے پر چڑھنے لگے ہیں۔ ایسا لگ رہا ہے جیسے مردے خود ہی ایک دوسرے کو ڈھکیلتے ہوئے نیچے کی طرف جا رہے ہوں۔ مغرب کی طرف جہاں آسمان میں اب بھی تھوڑی سی لالی بچی ہے دونوں سنگلاخ پہاڑوں کے بیچ دریا کے سفید پانی پر سوروں کے مردے اس طرح نظر آ رہے تھے جیسے وہ زمین کے اندر سے ابل رہے ہوں۔

اس رات جب ہم اپنی کوٹھری میں اکے لیے ہوئے تو کھڑکی پر چڑیلیں بیٹھی کھسر پسر کر رہی تھیں۔

مسعودہ نے اپنی آنکھیں بند کر رکھی تھیں۔ اس پر نیند کا شدید غلبہ تھا۔ شاید یہ دوا کا اثر تھا۔ اس کے پھیپھڑوں سے وہی خشک آواز نکل رہی تھی۔ میں نے اس کے چہرے کی طرف غور سے دیکھا۔ اس کے بند پپوٹوں کے نیچے کے حلقے اور بھی بڑے ہو گئے تھے۔ ان سے ایک عجیب دہشت ٹپک رہی تھی جیسے وہ موت کے فرشتے کو دیکھ رہی ہو۔

’’تم چین سے سو جاؤ۔ ‘‘ میں نے اس کے سر کو اپنے سینے سے ڈھکتے ہوئے کہا۔ ’’تمہیں اس دریا کے بارے میں نہیں سوچنا چاہئے۔ تمہیں پتہ چلنا چاہئے ، یہ دنیا تمہارے بغیر بھی ایک بری جگہ ہے۔ ‘‘

٭٭٭

 

 

 

 

بوئے گل نالۂ دل —ڈاکٹرشائستہ فاخری

 

 

میں نے اپنا چشمہ ماتھے کے اوپر لے جا کر بالوں کے گھنے پف کے درمیان پھنسا دیا۔ برہنہ آنکھوں سے ہنستی کھلکھلاتی دنیا کو دیکھنا اچھا لگ رہا تھا۔ دھوپ اور بادلوں کی لُکا چھپی کا کھیل، دوڑتے بھاگتے بچے ، ٹہلتے گھومتے نوجوان جوڑے ، تھمے تھمے قدموں سے چہل قدمی کرتیں عمر دراز عورتیں اور مرد، ننھے ہاتھوں سے چھوٹ کر آسمان کی جانب اُڑتے رنگ برنگے غبّارے ، تالیاں بجاتیں ننھی ہتھیلیاں ، ہتھیلیوں کی اوٹ میں ایک دوسرے کی جانب جھکتے ہوئے جواں چہرے اور میں۔ میں اپنی پسندیدہ جگہ پر بیٹھی تھی۔ گل مہر کے درخت کے نیچے بنی بینچ پر۔ میں اکثر یہاں آتی رہتی ہوں۔ جگہ جانی پہچانی، راستے دیکھے بھالے پھر بھی جانے کیوں گھر سے باہر نکلتے ہی دل گھبرانے لگتا ہے۔ پارٹی چھوڑ کر جب میں شانے پر پرس جھلاتی زینے سے اتر رہی تھی تو مسٹر حبیب بھاگتے ہوئے میری طرف آئے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ’’ ارے آپ کہاں جا رہی ہیں؟ ٹی پارٹی کا لطف تو اُٹھا لیجئے۔ آج مسز کاشف کی شادی کی پچیسویں سال گرہ ہے۔ ‘‘

’’ میں اس خوشی کے موقعے پر ضرور شامل ہوتی مگر ابھی جلدی میں ہوں۔ ‘‘

’’ آپ تو ہمیشہ جلدی میں رہتی ہیں۔ کبھی کبھی تو ایسے موقعے آتے ہیں ، جب ہم لوگ کلاس سے فری ہو کر ایک ساتھ ہنستے بولتے ہیں۔ ‘‘

میں ہنس پڑی۔ ۔ ۔ ۔ ’’ ایک ساتھ تو ہم لوگ روز ہنستے ہیں۔ گھر جا کر بھی کانوں میں قہقہوں کا شور گونجتا رہتا ہے۔ ‘‘

’’ ہاں ! بات تو آپ ٹھیک کہہ رہی ہیں۔ شور تو واقعی بہت اونچا ہوتا جا رہا ہے۔ لوگ بڑھتے جا رہے ہیں۔ ‘‘

مسٹر حبیب کی آواز کی چہک ٹھنڈی پڑ گئی۔ گرمجوشی ندارد۔ میں نے اسی بات کا فائدہ اُٹھایا اور تیزی سے زینہ اتر گئی۔ عمارت سے باہر آئی تو دیکھا موسم خوشگوار ہے۔ شام کے پانچ بج رہے تھے مگر ایسا لگ رہا تھا کہ بس رات اب اُترنے کو ہے۔ برسات کے موسم میں کب بادل کالے ہو جائیں اور کب سنہری دھوپ نکل آئے ، اندازہ لگانا مشکل ہوتا ہے۔

میں نے اپنی کار کی چابی گھمائی اور ۴۰ کی رفتار سے خراماں خراماں چلاتی ہوئی امبیڈکر پارک کے گیٹ تک پہنچ گئی۔ دوسرے پارکوں کی بہ نسبت یہاں کا ٹکٹ بہت مہنگا نہیں تھا۔ دس روپے کا نوٹ میں نے ونڈو پر رکھ دیا اور ٹکٹ لے کر پارک کے اندر داخل ہو گئی۔ مجھے بینچ پر بیٹھے ہوئے کافی دیر ہو چکی تھی۔ سبک رفتار ہوائیں جسم میں ہلکی سہرن پیدا کر رہیں تھیں۔ مجھے یہ سہرن اچھی لگ رہی تھی۔ کبھی کبھی ہواؤں کی زد میں آ کر درخت کے ایک دو کمزور نمی سے سیلے ہوئے پتے میری گود میں بھی آ کر گر جاتے۔ لگتا یہ مرجھائے ہوئے پتے نہیں ، گود میں کسی کا سر آ گیا ہو۔ ۔ ۔ ۔ پھر۔ ۔ ۔ ۔ پھر اُلجھے بالوں کا گُچھا میرے زانو پر بکھر جاتا۔ ۔ ۔ میں پیار سے اس گچھے کے ایک ایک بالوں کو الگ کر کے کنگھی سے سُلجھاتی، تیل لگاتی، ہلکے ہاتھوں سے مساج کرتی، ان کے ماتھے پر پیار سے بوسہ دیتی اور جب بند پلکیں چومنے کے لیے جھکتی تو آنکھوں کے پپوٹے کھل جاتے۔ ۔ ۔ بے نور، بے خواب اجنبی آنکھیں ، مجھ پر ٹک جاتیں ، میں ان سے کچھ پوچھ پاتی، اس سے پہلے ہی وہ سر میری گود سے سرک جاتا اور پھر ایک پھٹکار مجھے سنائی دیتی۔ ۔ ۔ ۔ ’ آپ بھی حد کرتی ہیں !یہ کیا کر دیا۔ صبح ہی تو بال دھوئے تھے۔ دیکھئے ، تیل سے تکیے کا غلاف گندہ ہو گیا۔ ‘

اچانک ہواؤں کا بہاؤ تھم گیا۔ بڑھتی بے چینی اور بگڑتی کیفیت کو سنبھالنے کے لئے میں اُٹھ کھڑی ہوئی۔ ٹکڑوں ٹکڑوں میں بکھرے بادل یکجا ہونے لگے۔ لوگ تیزی سے گیٹ کی طرف بڑھ رہے تھے۔ بڑھتی ہوئی اُمس مجھے اشارے دے رہی تھی کہ اب مجھے بھی چلنا چاہئے۔ بھیڑ کے ساتھ میں بھی باہر نکلی ہی تھی کہ تیز بارش شروع ہو گئی۔ بھاگتے قدموں سے میں اپنی کار تک پہنچی۔ گاڑی اسٹارٹ کر کے آگے بڑھ گئی۔

یک لخت ذہن کو شدید جھٹکا لگا، پرس تو میں بینچ پر ہی بھول آئی۔ جلدی سے میں نے گاڑی سائڈ کر کے سڑک کے کنارے کھڑی کر دی۔ شیشہ نیچے کر کے کھڑکی سے باہر جھانکا، پانی کی تیز پھوہاریں میرے چہرے کے ساتھ میری گردن اور کرتے کے کالر کو بھیگا گئیں۔

’ اتنی تیز بارش میں تو میں گاڑی چلا ہی نہیں سکتی۔ ‘ تبھی میری نگاہ بیک مرر پر گئی۔ گہرے کاسنی رنگ کا بڑا سا پرس پچھلی سیٹ پر رکھا ہوا تھا۔ یقیناً کار اسٹارٹ کرنے سے پہلے میں نے ہی اسے گاڑی کی پچھلی سیٹ پر رکھا ہو گا۔

گہرے اطمینان کے ساتھ ہاتھ پیچھے لے جا کر پرس اُٹھایا اور زپ کھول کر اندر دیکھنے لگی۔ ڈائری کے ساتھ ضروری کاغذات موجودتھے۔ یہ ڈائری کیلنڈر ڈائری تھی۔ یکم جنوری۲۰۱۱ سے اکتیس دسمبر۲۰۱۱ تک کے سارے صفحات یعنی۳۶۵ دن کے ۳۶۵ صفحات لیکن ہر صفحہ بھرا ہو، ایسا نہیں تھا۔ بہت سے صفحات خالی پڑے تھے۔ کئی بار کوشش کی کہ خالی نہ صحیح، مگر بھرے صفحات کے نمبر تو گن لوں ، مگر ہر بار صفحہ شماری سے پہلے ہمّت چھوٹ جاتی، آنکھیں بھیگ جاتیں اور میں ڈائری کو اپنے پرس میں ڈال لیتی، جو باتیں بھولنا چاہتی ہوں ، وہ بھولتی نہیں اور جسے یاد رکھنا چاہیے وہ بھول جاتی ہوں۔ مجھے اپنے آپ سے کوفت ہوئی۔

بارش کا شور ہلکا پڑنے لگا۔ ڈرائیونگ کرنا اب مشکل نہیں تھا۔ چوراہا یہاں سے بیس پچیس قدم کی دوری پرتھا اور وہاں پہنچ کر مجھے دائیں گھومنا تھا، نہیں ! اس سے نہیں اگلے چورا ہے سے ، جسے لوگ لال بتّی والا چوراہا کہتے ہیں۔ وہیں سے دائیں جانب مڑنا ہے۔ شام ڈھلتی جا رہی تھی اور دھندلکا بڑھتا جا رہا تھا۔ میں نے کار اسٹارٹ کی اور اس چورا ہے کو چھوڑ کر اگلے چورا ہے کی طرف بڑھ گئی۔ لال بتّی والا چوراہا، دائیں جانب گھوموں گی تو چرچ آئے گا۔ چرچ پر پہنچ کر میں نے گاڑی روک دی۔ چورا ہے کے شیڈ کے نیچے کھڑا ٹریفک پولس والا مجھے سوالیہ نگاہوں سے دیکھ رہا تھا۔ کیونکہ موسم کا مزاج اب بھی برہم تھا اور میری ڈرائیونگ بتا رہی تھی کہ میں کنفیوز ہوں۔ اس کی نگاہوں سے بچنے کے لیے میں نے تیزی سے گاڑی داہنی طرف کاٹ لی اور پوری رفتار کے ساتھ آگے بڑھ گئی۔ کچھ دور جانے پر سامنے ہی مجھے ایک بورڈ نظر آیا، جس میں نشاندہی کی گئی تھی کہ اس سڑک سے دائیں مڑنے پر ریلوے اسٹیشن آتا ہے اور بائیں مڑنے پر کچہری روڈ آئے گا۔ مجھے سول لائنس جانا تھا، جہاں فرحت اپارٹمنٹ کے تیسرے فلور پر میں رہتی ہوں۔ جھنجھلا کر میں نے گاڑی بیک کی اور پولس والے کو گالیاں بکتے ہوئے پوری رفتار سے گاڑی بائیں جانب موڑ لی۔ میں جانتی تھی کہ چڑھے ہوئے شیشے سے پولس والا میری گالیاں نہیں سن پائے گا۔ مگر میں اس کی آنکھوں کے ترچھے پن کو محسوس کر رہی تھی۔ بائیں جانب سے آگے بڑھی تو تھانہ نظر آیا، جو میرے گھر کے راستے سے مختلف سمت کی طرف پڑتا تھا۔ یعنی میں غلط راستے پر ہوں۔ مجھے پھر واپس لوٹنا پڑے گا۔ میں گھبرا اُٹھی۔ دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔ ہاتھ پیر سے پسینے چھوٹنے لگے۔ ایسا نہیں تھا کہ میں بڑھتے ہوئے اندھیرے سے ڈر رہی تھی۔ ایک کیا سیکڑوں پولس والے آ جائیں تب بھی میں نہ گھبراؤں۔ مگر۔ ۔ ۔ ؟ میں نے گاڑی سڑک کے کنارے کر کے روک دی۔ سلیم صاحب نے کتنی بار کہا کہ میں اپنے موبائل میں Gprs App لے لوں مگر میں ہر بار ان کی بات ٹال جاتی اور پیار سے کہتی، ’تم ہو نہ۔ پھر کس بات کا ڈر۔ ‘ وہ بھی خاموش ہو جاتے۔

میں نے بیک مرر میں اپنی شکل دیکھی۔ بالوں کے پف میں پھنسے گاگلس کے شیشے پر بھی پانی کے قطرے ٹھہرے ہوئے تھے۔ پیشانی پر ہلکی سی نمی اُتر آئی تھی۔ گرین شیڈ کا کاجل واٹر پروف ہونے کی وجہ سے ابھی تک گالوں پر پھیلا نہیں تھا۔ ہلکے شیڈ کی لپ اسٹک نیم تاریکی میں بھی اپنے گلابی پن کا احساس لیے ہوئی تھی۔ میں نے پیازی رنگ کی کرتی پہن رکھی تھی، جو میری کھلتی رنگت پر کافی جچتی ہے ، ایسا حبیب صاحب کئی بار کہہ چکے تھے۔ مجھے سجنے سنورنے کا اب کوئی شوق نہیں رہ گیا ہے۔ میرے دل کی اُمنگیں اب ٹھنڈی پڑ چکی ہیں۔ میں تو یہ سب سلیم صاحب کے کہنے پر کرتی ہوں۔ کہنا ان کی ڈیوٹی اور کرنا میری مجبوری۔ ڈائری بھی میں نے انہی کے کہنے پر لکھنا شروع کیا تھا۔ سلیم وہی کہتے ، جسے کرنے کے لیے ڈاکٹر مشورہ دیتا۔ وہ مجھے ذہنی اور جسمانی طور پر صحت مند دیکھنا چاہتے تھے اور میں خود کو سنبھالنے کی کوشش میں بکھرتی جا رہی تھی، جہاں میرا بس نہیں وہاں میں کر بھی کیا سکتی تھی۔ سلیم کہتے کہ یہ میرا نفسیاتی معاملہ ہے مگر جانتی تھی کہ میں خطرے کی حد میں داخل ہو چکی ہوں۔ اگر میں نے اپنی ماں کو اتنا قریب سے نہ دیکھا ہوتا، نہ جانا ہوتا تو شاید میں بھی اسے نفسیاتی معاملہ سمجھتی۔ ماں کی شروعات بھی تو کچھ اسی طرح سے ہوئی تھی۔ وہ گھر کی چابیاں رکھ کر بھول جاتیں اور پھر گھنٹوں تلاش کیا کرتیں۔ چابی کبھی باورچی خانے میں ملتی اور کبھی غسل خانہ کی طاق پر۔ میں بھی گھر کی تو نہیں مگر کار کی چابی رکھ کر بھول جاتی ہوں۔ چھ بچوں ، ابا اور ملازِم کے درمیان چکر گھنی کی طرح گھومتی ماں جب یہ بھولنے لگیں کہ انہوں نے کھانا کب کھایا تو پہلی بار ابا کو فکر ہوئی کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔ شک کی بنا پر کبھی وہ بھوکی رہ جاتیں کہ انہوں نے کھانا کھا لیا ہے اور کبھی کھانا کھانے کے باوجود وہ دوبارہ کھانا کھا لیتیں کہ شاید انہوں نے کھانا نہیں کھایا ہے ، اس چکر میں اکثر ان کا ہاضمہ خراب ہو جاتا۔ وقت گزرتا رہا اور گزرتے وقت کے ساتھ ماں کے ہاتھ سے بہت کچھ چھن گیا۔ ابا ایک سڑک حادثہ میں گزر گئے۔ بیٹا بیٹی سب اپنی اپنی گرہستی میں مصروف ہو گئے اور ماں اپنی بات اپنے اندر لیے خود میں گم ہوتی چلی گئیں۔ کبھی کبھی ان پر بولتے رہنے کا جنون سوار ہو جاتا۔ ماضی کی باتیں وہ اس طرح کرنے لگتیں جیسے وہ آج ہی کل کی بات ہو۔ بیٹے کی شکل میں انہیں ابا نظر آتے اور وہ بھائی کو ابا کے نام سے پکارنے لگتیں۔ میری ڈائری کا وہ صفحہ آج بھی مجھے رلاتا ہے ، جس میں وہ لمحہ قلم بند کیا تھا، جب میرے سامنے ہی میری ماں کو بچوں نے پاگل کہا تھا۔ میں چیخی چلائی مگر پھٹکار مجھے ہی ملی وہ تو بچے ہیں ، میں تو سمجھدار ہوں ، گھر کو کیوں رسوا کرتی ہوں۔ میں نے چپ سادھ لی اس ڈر سے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ مجھ پر گھر میں داخل ہونے کی پابندی لگا دی جائے۔ میں ان کے حق میں کبھی کچھ آہستہ لہجے میں بولتی تو ماں اجنبی آنکھوں سے مجھے دیکھا کرتیں۔ وہ آنکھیں کوری ہوتیں۔ ان میں کوئی جذبہ نہیں اُبھرتا تھا۔ ڈاکٹر نے کہا کہ یہ بھی ان کے مرض کی ایک علامت ہے۔

میں سلیم کے ساتھ کچھ دنوں کے لیے شہر سے باہر گئی ہوئی تھی۔ لوٹی تو سب سے پہلے ماں کے گھرکا رُخ کیا۔ کچھ دیر ان کے پاس بیٹھنے کے بعد میں نے دھیرے سے پوچھا۔ ۔ ۔

’’ امی ! آپ نے کچھ کھایا۔ ‘‘

انہوں نے نہ میں سرہلا دیا۔ پھر کتنی دیر وہ آوازیں انہیں پھٹکارتی رہیں ، جن کے ہاتھوں میں اب گھر کی چابی آ گئی تھی۔ امی نے آنکھیں بند کر لیں۔ ان آنکھوں میں گہرا خوف تھا۔ اپنے ہی گھر میں ، اپنے ہی کمرے میں ، اپنے ہی بستر کی وہ قیدی بن چکی تھیں۔ برین اِسٹروک کے بعد پیرالائزڈ ہو کر وہ پچھلے ایک سال سے بستر پر پڑی تھیں۔ ڈاکٹر کہتا مرض ہاتھ سے نکل چکا ہے ، اب صرف ان کی دیکھ بھال کیجئے۔ سب کے ہوتے ہوئے بھی اب دیکھ بھال کرنے والا کوئی نہیں تھا۔ سب کی اپنی مصروفیت تھی اور جن کے پاس وقت تھا، جو شب و روز گھر میں ہی رہتے تھے ، وہ ان کے اپنے نہیں تھے۔ رشتہ جڑ جانے سے ہی کوئی اپنا نہیں ہو جاتا۔

اچانک پرس میں رکھا ہوا موبائل بج اُٹھا۔ ۔ ۔ ’’ کہاں ہو تم؟ کیا کلاس ابھی ختم نہیں ہوئی؟ ‘‘

’’ کلاس تو اپنے وقت پر ختم ہو گئے تھی۔ میں ہی بھٹک گئی ہوں۔ ‘‘

’’ اُف ! ابھی کہاں کھڑی ہو؟ ‘‘

میں نے تفصیل سے سلیم کو جگہ بتائی اور اتنی ہی تفصیل سے سلیم مجھے آگے کا راستہ سمجھانے لگے۔ تھوڑی دیر بعد میں اپنے اپارٹمنٹ کے کار پارکنگ ایریا میں پہنچ گئی۔ اتنی ذہنی جد و جہد کے بعد میں تھک کر چور ہو گئی تھی۔ میں جانتی تھی کہ اب سلیم میری کلاس لیں گے کہ میں ضروری باتوں کو کیسے بھول جاتی ہوں۔ کیوں بھول جاتی ہوں۔ میری زندگی عام عورتوں سے بہتر ہے۔ میں ان سے زیادہ عیش میں جی رہی ہوں ، پھر ایسی کیا کمی رہ گئی ہے ، جو مجھے جیتے جی غار میں ڈھکیل رہی ہے۔ پچھلے چھ ماہ سے جو کچھ میرے ساتھ ہو رہا ہے وہ ٹھیک نہیں ہے۔ اپنی یادداشت پر میری گرفت ڈھیلی پڑ رہی تھی۔ میرا ذہن خلاء میں بھٹکتا رہتا، جو میں سوچنا نہیں چاہتی تھی وہی باتیں بار بار میرے ذہن کو پریشان کرتیں۔ سلیم میرے ساتھ بچوں کی طرح پیش آتے تھے مگر تھے تو مرد ہی، کبھی کبھی بری طرح جھنجھلا جاتے۔ ایک ایک بات سو سو بار سمجھاتے مگر میں تھی کہ۔ ۔ .۔ اچانک موبائل کی رنگ پھر سے بج اٹھی۔ میں سمجھ گئی کہ اب کے سلیم پھر مجھے ڈانٹیں گے مگر اس بار فون میرے بیٹے کا تھا، جو دبئی میں سول انجینئر ہے۔ ۔ ۔ ۔ ’’ مماں کیا حال ہے۔ کیسی طبیعت ہے تمہاری۔ ‘‘

’’ میں بالکل ٹھیک ہوں بیٹا۔ ‘‘

’’کلاس کرنے جا رہی ہیں نا؟ ‘‘

’’ ہاں ! روز جاتی ہوں۔ ‘‘

’’ کچھ دن ہم لوگوں کے پاس بھی آ جائیں۔ ہوا پانی بدلنے سے صحت بحال ہو جائے گی۔ ‘‘

’’ بالکل آؤں گی۔ بچوں کو دعائیں کہنا۔ بہو سے کہنا، پانچ برس گزر گئے۔ اب ایک چکر وہ انڈیا کا بھی لگا لے۔ یہاں بھی اس کے اپنے بستے ہیں۔ تم دونوں بھائی بہن تو جیسے پردیسی ہو کر رہ گئے۔ ذکیہ کیسی ہے ، کئی دنوں سے اس کا بھی فون نہیں آیا۔ ‘‘

’’ اس کے بچوں کے امتحان چل رہے ہیں مماں ! میں آپ کی خیریت اس کو بتا دوں گا۔ ‘‘

’’ ٹھیک ہے۔ اس سے کہنا جب فرصت ہو تو مجھے فون ضرور کر لیا کرے۔ بہو کی آواز سننے کو تو میں ترس گئی ہوں۔ ‘‘

بیٹے نے میری بات کا کوئی جواب نہیں دیا اور اللہ حافظ کہہ کر فون رکھ دیا۔ میں سوچنے لگی جب سلیم کو یہ سب باتیں بری لگتیں ہی نہیں تو پھر میں کیوں ہر دن اپنے بچوں کے گھر لوٹنے کا انتظار کرتی رہتی ہوں۔ سلیم مجھے پھٹکار لگاتے۔ ۔ ۔ ۔ ’’ تم تو اس طرح انتظار کر رہی ہو جیسے وہ اسکول گئے ہوں اور شام ڈھلتے ڈھلتے گھر لوٹ آئیں گے۔ ‘‘

ایک دن ایسا ہوا کہ میں سچ مچ اپارٹمنٹ کے گیٹ پر جا کھڑی ہوئی۔ اسکول کی بسیں لوٹ رہی تھیں اور میں ان کو آتے جاتے دیکھ رہی تھی۔ دیکھنا اچھا لگ رہا تھا۔ اسی وقت سلیم آ گئے۔ انہوں نے مجھ سے کچھ نہیں کہا اور میری کلائی تھام کر مجھے گھر کے اندر لے آئے۔ اسی شام مجھے وہ ڈاکٹر کے پاس لے گئے۔ پھر تو میری روز مرہ کی زندگی ہی بدل گئی۔ میرے شب و روز اب ڈاکٹر اور سلیم کے ہاتھ میں تھے ، جو وہ کہتے مجھے کرنا ہوتا۔ میرا لباس، میرے بالوں کی کٹنگ، میرا گھومنا پھرنا سب سلیم طے کرتے۔ تبدیلی ذہن کو تر و تازہ بناتی ہے۔ میں ہر چیز سے بے زار رہتی اور سلیم۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سلیم تو مجھ سے پانچ برس پہلے ہی ریٹائر ہو گئے تھے پھر بھی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر بھی کا سوال مجھے پریشان کرتا رہتا۔

میری عمر ۶۰ کو پار کر چکی ہے اور میرے اوپر کسی دیو زاد کی طرح ڈیمنشیا[Dementia] سوار ہو رہا ہے۔ مرض ہی ایسا ہے کہ حال فراموش ہوتا جا رہا ہے اور ماضی ذہن کو اپنی گرفت میں لے رہا ہے۔ ڈاکٹر کے مشورے کے بعد میں نے مسز کاشف کا اِدارہ جوائن کر لیا۔ پھر بھی میں کہیں کچھ بھول جانے ، خود کے کھو جانے کے احساس سے خوف زدہ رہتی ہوں۔ ڈرتی ہوں کہ سب کچھ چھوڑ کر گھر کے اندر بیٹھ گئی تو اپنی ماں کے انجام تک پہنچ جاؤں گی۔ اس عمر میں آ کر جب انسان آرام کے موڈ میں ہوتا ہے لیکن میں اپنی ٹرینر سے زندگی جینے کا ہنر سیکھ رہی ہوں۔ یوگا، میڈیٹیشن، لافٹر کلاسس۔ ۔ اُف!۔ ۔ ۔ کتنا کچھ۔ ۔ ۔ جو میری ماں نے نہیں کیا تھا۔ آرٹ آف لونگ کلاس میں میرے قہقہے اپنے تمام ساتھیوں سے زیادہ تیز رہتے ہیں۔ مسز کاشف مجھ سے بہت خوش ہیں مگر میں اپنے آپ سے بے حد دکھی ہوں اور خوش رہنے کی جہد مسلسل میں خود کو کوشاں رکھتی ہوں۔

٭٭٭

 

 

 

 

پرفیوم ۔ ۔ ۔ فارس مغل

(کوئٹہ)پاکستان

 

شہروں میں پرفیوم کا استعمال بڑھ رہا ہے !

گنجان شہروں کے مسائل بھی کئی طرح سے پیچیدہ ہوتے ہیں زندگی کے ناز اٹھانے میں لوگ اس قدر مگن ہیں کہ انھیں خبر ہی نہیں نفسیاتی الجھنیں بھی ان کے ساتھ رہائش اختیار کر چکی ہیں بند آہنی کھڑکیوں اور دروازوں کے پیچھے چھپے ہوئے ، اپنے سائے سے خوفزدہ لوگ جن کی آنکھیں تنگ و تاریک اوپر تلے چڑھے چوکور ڈبوں میں روشنی سے بدکتی ہیں۔ تاریکی۔ ۔ ۔ منفی سوچوں کی کمین گاہ ہے ! یہی منفی سوچیں ڈراؤنے خواب بُنتی ہیں خوابوں سے خواہشیں جنم لیتی ہیں اور پھر خواہشیں تکمیل کی آس میں بیمار ہو کر سڑنے لگتی ہیں شاید یہی وجہ ہے ان کی سڑاند دور کرنے کے لیئے شہروں میں پرفیوم کی سستی مہنگی شیشیوں کی فروخت جاری ہے

پرفیوم۔ ۔ ۔ بناوٹی زندگی کی مصنوعی خوشبو!

آئلہ اور شمائلہ کنواری، سانولی، عمر قریباً پینتیس سال، کشیدہ قامت، دھان پان سی ہمشکل جڑواں بہنیں تھیں

آئلہ ایک سرکاری سکول میں اردو کی استانی اور شمائلہ میونسپل کارپوریشن میں ہیڈ کلرک تھی دونوں بہنیں بیکراں سمندر کی مانند ٹھاٹھیں مارتے ہوئے شہر کے گنجان آبا علاقے میں ایک پانچ منزلہ عمارت کے چھوٹے سے فلیٹ میں مقیم تھیں یہ فلیٹ انھیں اپنے مرحوم نانا سے وراثت میں ملا تھا ان کے جواری باپ کو بیس سال پہلے غنڈوں نے قتل کر دیا تھا ماں چودہ سال فالج کی مریضہ رہنے کے بعد کچھ عرصہ پہلے وفات پا گئی ایک بھائی جو کئی سال پہلے ایک امریکی خاتون کے بچوں کا نیا باپ بن کر امریکہ گیا اور پھر کبھی پلٹ کر ان کی خبر نہیں لی۔

شمائلہ تند مزاج جبکہ آئلہ حلیم الطبع تھی یہی وجہ تھی کہ شمائلہ، آئلہ کی ہم عمر ہونے کے باوجود چہرے پر کرختی کی بدولت اس سے عمر میں ذرا بڑی معلوم ہوتی۔ آئلہ، شمائلہ کے رعب تلے کیوں دب گئی یہ اہم واقعہ ہے دونوں بہنوں نے بچپن سے ہی اپنے بدقماش باپ کو گھر میں ظلم و جبر کی داستانیں رقم کرتے دیکھا تھا اس کی موت انہیں اگرچہ غمگین نہ کر سکی لیکن بہرکیف خوشیوں کا در بھی نہیں کھل سکا کہ باپ کے بعد بے غیرت بھائی کی بیوفائی نے بھی دل پر کاری ضرب لگائی یہی وجہ تھی کہ شمائلہ نے گھر میں مرد ذات کے خلاف نفرت کا پرچم لہراتے ہوئے اپنی ماں اور بہن سے عہد لیا کہ آج کے بعد اس گھر میں وہ کسی مرد کا وجود برداشت نہیں کرے گی کبھی شادی نہیں کرے گی۔ ۔ اس سمے ان کی ماں تو خاموشی سے آنسو بہاتی رہی لیکن آئلہ نے جذبات کی رو میں بہتے ہوئے بہن کی آواز میں آواز ملا کر اعلان کی تائید کر دی تھی تب سے شمائلہ اس گھر کی سربراہ بن گئی تمام فیصلوں میں اس کی منشا کو کلیدی اور دو ٹوک حیثیت حاصل تھی۔

مردوں سے نفرت کا پرچم گھر میں نصب ہو چکا تھا

(نفرت کے زخم میں ناسور بننے کی قوت محبت کے گھاؤ سے زیادہ ہوتی ہے پھر بھی لوگ اسے شوق سے پالتے ہیں )

دونوں جوانی کی دہلیز پار کر کے ادھیڑ عمری کی جانب بڑھتی جا رہی تھیں سر کے سفید دھاگوں کو کالا، بھورا رنگتے رنگتے جانے کتنی بسنتیں گزر گئیں اور جسم کی پتنگیں یونہی صبح آسمان میں بلند ہوتیں اور سرِ شام اپنی چھت پر اتار لی جاتیں آس پاس کی تمام پتنگیں پیچا لڑانے قریب آنے کی کوشش کرتیں لیکن وہ فراٹے بھرتی کہیں دور نکل جاتیں۔ ایسے بزدلانہ داؤ کو کب کوئی تا دیر برداشت کرتا ہے سو مدت ہوئی دوسری پتنگوں نے آسمان کی اس گلی کا رخ کرنا ہی چھوڑ دیا جہاں نفرت اور حقارت سے مسلسل انھیں دھتکارا جا رہا تھا۔

انسان فطرت کے ساتھ کتنی ہی طویل جنگ کیوں نہ لڑ لے ایک نہ ایک روز فطرت، انسان کو پچھاڑ دیتی ہے گلا دبانے سے جذبات بیہوش ضرور ہوتے ہیں لیکن مرتے نہیں۔ انسان کے اندر محبت اور نفرت، دونوں ہی جذبے شدید ہیں کہ اس کے لہو میں خیر اور شر کی دوڑ میں لمحہ بہ لمحہ ہار جیت لگی ہوئی ہے۔ ۔ آخری جیت کس جذبے کی ہوتی ہے وہی اس کی زندگی کا حاصل ہوتا ہے !

٭

 

وہ ایک خوشگوار دوپہر تھی!

آئلہ دو بجے اسکول سے چھٹی کے بعد جس دکان سے روزمرہ کا سودا لیتی تھی وہاں اس نے تھڑے پر ایک تندرست نوجوان کو آنکھیں موندے چپ چاپ بیٹھے دیکھا اس کی ٹھوڑی پر داڑھی کے آثار نمودار ہو چکے تھے۔ آئلہ نے اشیاء کی فہرست دکاندار کے حوالے کر کے ایک بار پھر نوجوان پر نگاہیں جما دیں ۔

’میرا بھانجا ہے۔ ۔ ‘ دکاندار نے آئلہ کی حیرت کو بھانپتے ہوئے کہا ’دو ماہ پہلے بم بلاسٹ میں اس کی ماں اور بہن ہلاک ہو گئے تھے باپ نے دوسری شادی کر کے اسے میرے پاس پھینک دیا‘ دکاندار کی زبان سودا تولتے ہاتھوں سے زیادہ تیز چل رہی تھی، مس جی کیا کروں بہن کی نشانی ہے دربدر ہونے کے لیئے چھوڑ بھی نہیں سکتا کہ بیچارہ اندھا ہے ‘آئلہ کے دل میں ٹیس اٹھی اور اس نے افسوسناک نظروں سے نوجوان کو دیکھ کر نفی میں سر ہلایا

’میرا ڈربہ نما دو کمروں کا مکان ہے ، جوان بیٹیاں ہیں ایسے میں اس کی جوانی کو کہاں جگہ دوں؟ بس یہیں دکان میں بستر ڈال دیا ہے آگے جو خدا کو منظور‘ ایک سرد آہ کے ساتھ اس کی زبان نے سکون لیا آئلہ نے ان تمام باتوں سے یہی نتیجہ اخذ کیا تھا کہ موصوف اپنے بھانجے کی آمد پر سخت نا خوش ہیں ’اللہ سب اچھا کر دیگا ‘آئلہ اس سے زیادہ اور کچھ نہ کہہ سکی ’ پتہ نہیں کب کرے گا‘ وہ زیر لب بڑبڑایا

اتفاق سے اس دن سودا زیادہ تھا دکاندار نے اپنے بھانجے کو راستہ سمجھا کر آہستہ آہستہ چپ چاپ آئلہ کے ساتھ چلنے کا حکم دیا اور تھیلے اس کے مضبوط ہاتھوں میں تھما دئیے ’ بالکل بے ضرر انسان ہے۔ ۔ بے فکر ہو جائیے آپکی دہلیز تک سودا پہنچا دے گا بس راستے کی ناہمواریوں میں ذرا راہنمائی کی ضرورت ہو گی‘

آئلہ نے نوجوان کے دراز قد کا بھرپور جائزہ لیا اور پیسے ادا کر کے روانہ ہو گئی دکان اور گھر میں دو گلیوں کا ہی تو فاصلہ تھا۔

’ارے بھئی دھیان سے۔ ۔ ‘ نوجوان سائیکل والے سے ٹکراتے ہوئی بال بال بچا ‘رک جاؤ‘۔ ۔ نوجوان ٹھہر گیا ’اب جب میں کہوں چلو تو چلنا اور رکنے کا کہوں تو رک جانا۔ ۔ سمجھے ‘ ’جی مس جی سمجھ گیا‘ اس کی بے نور آنکھوں میں کسی انجانے خوف کے سائے لہرا گئے

وہ تابعدار نوکر کی طرح اس کے اشاروں پر چلتے ہوئے تیسری منزل پر واقع فلیٹ کے سامنے پہنچ چکا تھا ’بس سامان یہیں رکھ دو ‘

نوجوان نے حکم کی تعمیل کی ’میں جاؤں مس جی‘ اس کے ماتھے پر پسینے کی ننھی بوندیں چمک رہی تھیں

’ہاں جاؤ۔ ۔ اچھا سنو‘

’جی ‘

’واپسی پر دقت تو نہیں ہو گی‘

اس نے فوراً جیب سے سفید چھڑی نکال کر اسے سیدھا کیا ’بالکل بھی نہیں ‘

’تمھارا نام کیا ہے ‘

’میرا نام مرید ہے ‘ وہ پہلی مرتبہ مسکرایا

’تمھارا نام بہت اچھا ہے مرید‘ لہجہ میں ہمدردی کا عنصر نمایاں تھا

’مس جی آپ بھی بہت اچھی ہیں کیا آپ مجھے کوئی کام ڈھونڈ دیں گی‘ آئلہ کے نرم لہجے نے اسے حوصلہ دیا

’وعدہ نہیں کرتی لیکن کوشش ضرور کروں گی‘  آئلہ نے اس کا دل رکھتے ہوئے کہا ’اچھا سنو مرید، یہ پیسے رکھ لو‘ اس سمے آئلہ کی نظریں کھلے ہوئے پرس میں تھیں جب اس نے بیس روپے کا نوٹ اسے پیش کیا

مرید نے جونہی ہاتھ آگے بڑھا یا۔ ۔ ہاتھ آئلہ کی چھاتی کے ابھار کو چھو کر تیزی سے واپس لوٹ گیا ’اوہ ‘ اس کی بے نور آنکھوں میں خوف کا سایہ لہرا گیا ’معافی۔ ۔ ‘خشک حلق نے بس اتنا ہی ساتھ دیا۔ ۔ پسینے کی ننھی بوندیں پھیل چکی تھیں

آئلہ کی سانس تھم کر رہ گئی اس نے جلدی سے نوٹ اس کے ہاتھ میں تھمایا اور دروازے کا لاک کھول کر تھیلوں سمیت اندر چلی گئی

(دانستہ اور نا دانستہ چھونے میں بھی کتنا فرق ہوتا ہے دونوں کے مفہوم اور راز جدا ہوتے ہیں )

وہ پسینے میں شرابور بہت دیر تک اس حادثہ کے بارے سوچتی اور مرید کے ہاتھ کو سینے پر محسوس کرتی رہی، یہ راز اس پر آشکار ہو چکا تھا کہ وہ اب بھی عمر کے اس حصے میں ہے جہاں کسی مرد کے چھونے سے فوراً موم کی طرح پگھل سکتی ہے ، اس نے جھنجلا کر دوپٹہ اتار دیا لیکن ہاتھ وہیں سینے پر جما رہا اس نے قمیص اتار کر بستر پر اچھال دی لیکن ہاتھ کا دباؤ اور بڑھ گیا اس نے آئینے میں اپنا گندمی برہنہ جسم دیکھا اور اس جگہ کو انگلی سے چھوا جہاں ہاتھ کا مَس پیوست تھا وہ خود بھی نہیں جانتی تھی اسے اس سمے ہاتھ کی تلاش تھی یا مَس کی؟ یا اس جذبے کی جسے مرید کی انگلیوں نے گہری نیند سے جگایا تھا۔

ہاتھ کہیں دکھائی نہیں دیا وہ جسم کے اس حصے کو ٹٹولتی رہی دھیرے دھیرے اس کی جھنجلاہٹ پر سکون غالب آتا چلا گیا مرید کا چہرہ اس کی نگاہوں میں گھوم گیا اور پھر ہاتھ کا لمس اس کے ساتھ جھولا جھولنے لگا اور کچھ ہی دیر میں پلنگ پر ڈھیر ہو گئی کمرے کی دیواروں سے کئی ہاتھ اگ آئے وہ ان کی گدگداہٹ سے ہنستی چلی گئی

مردوں سے نفرت کا پرچم اس زور سے پھڑپھڑایا کہ ایک دھجی ادھڑ کر کھڑکی سے باہر دوڑ گئی

جب چھ بجے شمائلہ گھر میں داخل ہوئی تو آئلہ باورچی خانے میں خلافِ معمول گنگنا رہی تھی۔

٭٭

 

آگ آئلہ کے اندر بھڑک چکی تھی اور جب کہیں آگ لگ جائے تو تبدیلی رونما ہو کر رہتی ہے وہ اس اسرار سے واقف ہو چکی تھی کہ شمع جلتے جلتے پگھلنے کیوں لگتی ہے !مرید کے ہاتھ کا چھو منتر بالآخر رنگ لانے لگا آئلہ سینے میں ادھم مچاتے دل کو قابو میں رکھتے ، دکاندار کی معنی خیز نگاہوں کو نظر انداز کرتے ہوئے ہفتہ میں دو تین مرتبہ سکول سے سیدھی مرید کے دربار میں حاضر ہو کر التجائیہ کلمات ادا کرنے لگی

’اگر آپ اجازت دیں تو میں مرید کو سبزی کی دکان تک لے جاؤں تھیلا ذرا گھر تک پہنچا دے گا‘

’مرید کو ذرا سکول بھیج دیجئے گا کاپیاں اٹھا کر گھر۔ ۔ ‘

’کمرے میں سامان کی ترتیب بدلنی ہے پلنگ، الماری کھسکانا تو میرے بس کی بات نہیں۔ ۔ اگر مرید۔ ۔ ‘

دکاندار بخوشی اجازت دے دیتا کہ آئلہ، مرید کو ان تمام کاموں کی معقول اجرت ادا کرتی تھی، اس آگ کی تپش ایک دن مرید نے بھی محسوس کر لی اور دونوں کی مجبوریاں قربت کا سبب بن گئیں۔

(کبھی کبھی ایک حقیر سا واقعہ اور حادثہ انسان کے اندر اقیانوس سے وسیع اور گہری تبدیلی کا موجب بن جاتا ہے )

آئلہ، شمائلہ کو اعتماد میں لینا چاہتی تھی لیکن ہر بار ہمت یہ سوچ کر جواب دے جاتی کہیں اس فیصلے سے وہ اسے چھوڑ نہ دے ، روٹھ کر علیحدہ نہ ہو جائے۔ ۔ خوف کا سایہ اس کے سر پر منڈلاتا رہتا لیکن خوف کی زندگی طویل نہیں ہوتی !

ایک صبح ناشتے کی میز پر اس نے شمائلہ کے روبرو مرید سے شادی کا اعلان کر دیا۔

اسی وقت گھر میں زلزلہ آیا اور درو دیوار لرزنے لگے ، ، کچھ وقفہ کے بعد زور دار سرخ آندھی چلی اور نفرت کے پرچم کا نیم حصہ لیر لیر ہو گیا آئلہ حیران تھی کہ کیونکر خوف کا خود ساختہ بت اس کے ہاتھوں پاش پاش ہو کر زمین بوس ہو گیا پورے دو ہفتے گھر میں چپ کا راج قائم رہنے کے بعد ایک شام شمائلہ، آئلہ سے لپٹ کر زار و قطار رونے لگی گویا وہ شام آئلہ کی فتح کا پیغام لائی تھی۔ ۔ نفرت کا نیم پرچم صدر دروازے سے اکھڑ کر شمائلہ کے کمرے تک محدود ہو چکا تھا جب شمائلہ نے مرید کے ماموں کو آئلہ کی خواہش سے آگاہ کیا اس سمے اس کے پورے خاندان کی خوشی دیدنی تھی ’اللہ اللہ۔ ۔ نیک کام میں بالکل دیر نہیں ہونی چاہیئے ‘دوسری جانب کنوارا، بے سہارا، بیچارا مرید ایک سپردِ عورت ہونے کے لیئے بیتاب تھا آئلہ نے اس کی تاریک آنکھوں کو روشن خواب دکھائے تھے کہ اب اسے دکان کے سخت فرش پر سونے سے نجات، عمدہ کھانا اور اچھے کپڑے نصیب ہوں گے ، ماموں کی جھڑکیوں ، بے روزگاری کی فکروں سے جان خلاصی اور ان سب سے بڑھ کر اتنے دنوں وہ جس دریا کے قریب پیاسا کھڑا رہا اب اس کا پانی خود اس کے تشنہ جسم کو سیراب کرنے کے لیئے مچل رہا تھا۔ ۔ المختصر خوابوں کا سودا ہو چکا تھا!

٭٭٭

 

نکاح کے بعد کھانے سے فارغ ہو کر مہمان رخصت ہو گئے

آئلہ دلہن بنی ہوئی کمرے میں داخل ہوئی تو مرید کو سہما ہوا پلنگ پر بیٹھا دیکھ کر بے اختیار اس کی ہنسی چھوٹ گئی وہ بوجھل قدم اٹھاتے ہوئے ڈریسنگ ٹیبل کے قریب گئی آئینے میں خود کو دیکھ کر لمبی آہ بھری اور اپنی پسندیدہ پرفیوم بدن میں بسا کر مرید کے پاس چلی آئی

مرید کی عمر بیس برس سے زیادہ نہیں تھی عربی گھوڑوں کی مانند چست بدن پر لباس کسا ہوا تھا۔ ۔ ۔ آئلہ کے جسم سے اٹھنے والی مہک اس کے نتھنوں میں سمائی اور وہ بے قابو ہونے لگا

(کچھ خوشبوئیں کسی حسین، ملائم ریشمی تخیلاتی جسم کی مانند ہوتی ہیں جنہیں چھونے کے لیئے دل، دنیا کا ہر معاہدہ اور زندگی سے کیا ہر اک وعدہ توڑ سکتا ہے )

’نہیں۔ ۔ ابھی نہیں ‘آئلہ مسکراتے ہوئے اس کے دونوں ہاتھ پکڑ کر پلنگ پر بیٹھ گئی ’ غور سے سنو۔ ۔ ساتھ والے کمرے میں میری بہن ہے۔ ۔ کوئی آواز نہ ہو بالکل چپ چاپ۔ ۔ سمجھے؟ ‘ ’جی سمجھا‘ وہ مزید سہم گیا ’ڈر کیوں رہے ہو‘ وہ بتی بجھاتے ہوئے اس کے مزید قریب آ گئی

’نہیں ‘تیز ہوتی سانسوں کے درمیان اس کے منہ سے صرف ایک ہی لفظ ادا ہو سکا

’اچھا۔ ۔ مجھے چھو کر دیکھو میں کیسی لگ رہی ہوں ‘اس کی انگلیوں میں آنکھیں کھل گئیں کان سانسوں کی تپش سے دہکنے لگے جسم کے مساموں سے پسینہ ابلنے لگا دھیرے دھیرے آنکھیں ہونٹوں میں چلی آئیں اور وہ اسے اپنے ساتھ لمبے سفر پر چل نکلی۔

کھڑکی سے باہر چت لیٹی ہوئی رات پر چاند ٹکا ہوا تھا۔ ۔ ساتھ کمرے میں خاموشی نے سانس روکی ہوئی تھیں کچھ ہی دیر میں چاند چہکنے ، رات کسمسانے اور خاموشی کروٹیں بدلنے لگی دبی دبی ہنسی، گھٹی گھٹی سانسیں ، اور کبھی کبھار ایسی آوازیں حلق سے برآمد ہوتیں کہ دسمبر کی ہوا انہیں دور تک ساتھ لے اڑتی

فجر سے پہلے یکایک دروازے پر خاموشی نے دستک دی’ کیا تم لوگ اپنی ننگی آوازیں قابو میں نہیں رکھ سکتے ‘

چاند سہم گیا اور سلگی ہوئی رات پر اوس پڑ گئی

دن گیارہ بجے آئلہ کی آنکھ کھلی تو دیکھا مرید زمین پر آلتی پالتی مار کر بیٹھا اپنے سر کو گول گول گھما رہا تھا۔

’مرید‘

حرکت تھم گئی ’مجھے غسل کرنا ہے ‘ اس نے آواز کی سمت دیکھا اور سر گھمانے لگا۔

آئلہ نے گھڑی دیکھی اور کمرے سے باہر نکل گئی چند لمحوں بعد واپس لوٹ کر آئینے میں اپنے سراپے کا جائزہ لیا، بدن پر من پسند پرفیوم چھڑکی اور پلنگ پر لیٹ گئی ’غسل کی ایسی بھی کیا جلدی ہے ‘ اس نے مسکرا کر مرید کی جانب دیکھا ’یہاں آؤ میرے پاس‘

مرید کا سر تھم گیا چہرے پر کسی انجانے خوف کے آثار ہویدا ہوا چاہتے تھے کہ اچانک اسے اپنے کانوں میں گرم سرگوشی پگھلتی ہوئی محسوس ہوئی ’گھر میں ہمارے علاوہ اور کوئی نہیں ہے ‘

’آہا یہ کتنی اچھی بات ہے ‘اس کے گھومتے ہوئے سر نے سوچا۔

بہت دیر تک صبح کا اجالا آئلہ کی خمار آلود آنکھوں میں جھومتا رہا اور کمرے میں پھیلی ہوئی مہکار مرید کی سانسوں کے ساتھ تیز تیز چلتی رہی !

(خوف اور خوشبو میں ایک بات مشترک ہوتی ہے کہ دونوں چشم زدن میں ذہن پر سوار ہوتے ہیں )

٭٭٭

چھ بجے شمائلہ گھر میں داخل ہوئی تو اس کا استقبال آئلہ کی گنگناتی آواز نے کیا، مرید کرسی پر بیٹھا چائے کے کپ سے اٹھنے والی بھاپ کو مسکراتے ہونٹوں پر محسوس کر رہا تھا شمائلہ کی آمد کے ساتھ چبھتی ہوئی خاموشی بھی انگڑائی لے کر جاگ اٹھی آئلہ نے سلام کیا اس نے آہستہ سے سر ہلا کر دونوں کے سنجیدہ چہروں کو باری باری دیکھا( جہاں ذرا دیر پہلے تک خوشی رقصاں تھی) اور پھر تیز قدم اٹھاتی اپنے کمرے میں چلی گئی

’تم چائے پیو‘ آئلہ نے ہولے سے مرید کو مخاطب کیا جو شمائلہ کی موجودگی سے سہم چکا تھا

مرید کا زرد چہرہ دیکھ کر آئلہ اسے کمرے میں لے گئی اور سرگوشیوں میں سمجھانے لگی کہ آسمان والے اور زمین والوں کو گواہ بنا کر ہم نے ایجاب و قبول کی رسم ادا کی ہے ہمیں کسی سے بھی خوفزدہ ہونے کی چنداں ضرورت نہیں ہم ایک دوسرے کی ضرورت بن چکے ہیں باہمی رضامندی سے ہم ایک دوسرے کے جیون ساتھی بنے ہیں ایک دوسرے کا لباس ہیں میں خوش ہوں تم خوش ہو بس اتنا کافی ہے۔ ۔ سمجھ رہے ہو‘

’جی سمجھ رہا ہوں ‘ مرید نے معصومیت سے جواب دیتے ہوئے سر ہلایا

آئلہ نے اسے مزید سمجھانے کا ارادہ ترک کر دیا وہ جانتی تھی جس طرح وہ اس کی زندگی میں آنے والا پہلا مرد ہے اسی طرح وہ بھی مرید کا پہلو آباد کرنے والی پہلی عورت ہے لیکن ذہنی پختگی کے معاملہ میں دونوں کی عمروں میں پندرہ برسوں کی دھوپ چھاؤں حائل تھی زندگی کی نئی چال کو سمجھنے میں ابھی وقت لگے گا… مرید کی متحرک بے نور آنکھوں کو دیکھ کراس کی سوچ کسی اور طرف نکل گئی ’یہ کتنا پیارا معصوم، بصارت سے محروم بے ضرر انسان ہے۔ ۔ یہ بھی عام انسانوں کی طرح جذبات رکھتا ہے جذبات کا اندھے پن سے کیا تعلق؟ کیا ایک حِس کے مفقود ہونے سے باقی چار حسیات کا خواہشوں سے ناطہ ٹوٹ جاتا ہے؟ انگلیوں سے کوئی نئی شے ٹٹولنے اور چھونے کی خواہش، قربت کے لمحوں کو چکھنے کی خواہش، پیار کی میٹھی سرگوشیاں سننے کی خواہش اور جسم سے اٹھتی مہک کو سانسوں میں گھولنے کی خواہش، کیا ان تمام خواہشات پر صرف بینا لوگوں کا حق ہے؟ نہیں۔ ۔ اس نے اس کے ہونٹ چوم کر آنکھیں موند لیں

جونہی رات، چاند کو پہلو میں لیئے دوبارہ لوٹ کر آئی۔ ۔ خاموشی چوکنا ہو گئی اس مرتبہ اسے دستک دینے کی ضرورت پیش نہیں آئی اور دسمبر کی ہوا بھی خالی ہاتھ لوٹ گئی لیکن دن چڑھتے ہی پرفیوم کی مہک کمرے میں جھومنے لگی دھوپ پردوں کی اوٹ میں کھڑکی سے کان لگائے دبی دبی ہنسی کی آوازیں سنتی چلی گئی سال ہا سال کی پیاسی زمین پر ایسی تیز بارش برسی کہ ہر طرف جھل تھل ہو گیا

ایک ہفتہ ہی گزرا ہو گا کہ شمائلہ نے آئلہ سے اس رات کی معافی مانگ لی اور مرید سے چائے پینے کا پوچھا، تینوں نے رات کا کھانا ایک میز پر کھایا اور خوب باتیں کیں شمائلہ نے پہلی مرتبہ مرید کو غور سے دیکھا تو وہ اسے کسی ماہر سنگتراش کا مجسمہ لگا اس کے خاندان اور شہر کی بابت سوالات کیئے جن کے جوابات اس نے اپنی سانس روکی ہوئی آنکھوں کے ساتھ سہمے ہوئے انداز میں دیئے۔ ۔ ’ شمائلہ کے بدن سے اٹھنے والی پسینے کی بُو کس قدر ناگوار ہے ‘ اس مختصر سی نشست کے دوران یہ واحد بات مرید نے محسوس کی تھی اور جب اس کا اظہار دبے لفظوں میں اس نے آئلہ سے کیا تو اس نے ہنستے ہوئے اس کے ہونٹوں پر انگلی رکھتے ہوئے کہا ’اسے پرفیوم سے نفرت ہے وہ کبھی خوشبو استعمال نہیں کرتی‘

’کیوں؟ خوشبوئیں تو اچھی ہوتی ہیں ‘۔ ۔ ’زندگی میں سکون چاہتے ہو تو کبھی اس ’کیوں ‘ کے جھگڑے میں مت پڑنا‘۔ ۔ وہ سوچتا رہ گیا کہ یہ کیسا جھگڑا ہوتا ہے !

ایک دن شمائلہ نے باورچی خانہ میں مرید کے بارے اپنی رائے کا اظہار کیا ’یہ تو بہت ہی سیدھا سادہ ہے ‘۔ ۔ ’اچھا ہے چالاک اور تیز طرار نہیں ورنہ کوئی مصیبت بھی کھڑی کر سکتا تھا‘۔ ۔ ’ہاں یہ تو ہے ‘

دونوں بہنوں میں پہلے جیسے تعلقات استوار ہونا شروع ہو چکے تھے مرید رات کا کھانا کھا کر اپنے کمرے میں چلا جاتا آئلہ نیم شب تک بہن کے کمرے میں گھسی رہتی دونوں کی سرگوشیوں اور دبی دبی ہنسی سے ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے آئلہ بند کمرے کے رازوں سے پردہ اٹھا اٹھا کر بہن کو محظوظ کر رہی ہو جب آئلہ کمرے سے باہر نکلتی شمائلہ کے کمرے میں نصب نفرت کا پرچم مارے شرم کے سرخ ہو رہا ہوتا!

’قسم سے تم بھی شادی کر لو‘ آئلہ کی بات سن کر صحیفہ کے جسم میں چیونٹیاں سی دوڑ نے لگیں ’ہم کسی کی محتاج نہیں ہیں اپنا کماتی ہیں یقین مانو ہم نے اپنے باپ اور بھائی کی نفرت میں مرد ذات کو سزا سنا کر حماقت کی سو کی ساتھ ہی زندگی کا سنہری وقت بھی گنوا  دیا‘

’میں ایک بار فیصلہ کر چکی ہوں پیاری‘

’ میں تو صرف اتنا جانتی ہوں اگر اتنا عرصہ میں اپنے جذبات کو کچلنے میں ناکام رہی ہوں تو تمھارے جذبات بھی نہیں مر سکتے۔ ۔ خود پر مزید ظلم مت کرو‘ شمائلہ گہری سوچ میں پڑ گئی اس کے اندر سے ضد اور انا کی خوفزدہ چیخ ابھری۔ ۔ نہیں۔ ۔ اب بہت دیر ہو چکی ہے آفس کے وہ تمام مرد جنہوں نے اس کے مسلسل انکار سے عاجز آ کر بالآخر گھر بسا لیئے اور خاندان والے جنہیں برسوں اس نے گھر میں داخل نہیں ہونے دیا احباب ہمسائے سب کیا سوچیں گے ، ہنسیں گے بلکہ تھوکیں گے

’میں اپنا تماشا نہیں بنا سکتی‘ اگلی رات اس نے اپنا فیصلہ سنا دیا ’اور یہ ضروری تو نہیں کہ ہم جڑواں ہیں تو ہماری امنگیں بھی یکساں شدت کے حامل ہوں۔ ۔ بے فکر ہو جاؤ میرے جذبات قابو میں ہیں ‘ شمائلہ کے لہجہ میں طنز کا شائبہ تھا لیکن انکار میں اس کے دل کا لہو بھی آئلہ کو صاف دکھائی دے رہا تھا

(جب خوف انسان کی آنکھوں پر اپنے ہاتھ جماتا ہے پھر اسے کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ ۔ اپنا آپ بھی نہیں !)

مرید اس سارے قصے سے بے نیاز تھا اس کی بلا سے دونوں بہنیں کیا کھر پسر کرتی رہتی ہیں ، شمائلہ شادی کرتی ہے یا نہیں اسے تو اس بات کا اطمینان ہی کافی تھا کہ اب وہ رات کو دروازہ نہیں بجاتی بلکہ شام سے رات گئے تک اس سے بہت کم سہی مگر اپنی بہن کے ساتھ خوب ہنستی بولتی ہے ان دونوں کی گفتگو میں اگر اسے کچھ سمجھ آ جاتا تو ہنس دیتا ورنہ بدھو بن کر چپکا بیٹھا رہتا۔

آئلہ نے بیس دنوں کی چھٹی کے بعد دوبارہ سکول جانا شروع کر دیا تھا

پہلے روز مرید، آئلہ کے ساتھ ناشتہ کر کے اکے لیے گھر میں دیر تک پڑا سویا رہا اور جب دو بجے وہ گھر لوٹ کر آئی تو مرید جنموں کے کسی پیاسے کی مانند اس سے اپنی پیاس بجھانے لگا وہ اس کی خوشبو میں پاگل ہوا جاتا تھا آئلہ کے لیئے یہ نیا اور خوشگوار تجربہ تھا کہ اس کے تھکے ہوئے جسم کو گویا قرار مل گیا ہو شام تک اس کی بول چال میں اٹھارہ سال کی لڑکیوں ایسی شوخی تھی

شام کو آئلہ نے شمائلہ کو یہ واقعہ سرگوشیوں میں بتایا تو شمائلہ کے لبوں پر مسکراہٹ پھیل گئی ’کمینہ صحرائے تھر کا پیاسا معلوم ہوتا ہے ‘

’نئی نئی جوانی کا جوش ہے۔ ۔ کیا کر سکتی ہوں ‘ آئلہ نے ہنستے ہوئے بھونڈے انداز میں آنکھ ماری

’تم ابھی امید سے نہیں ہوئی؟ ‘شمائلہ کے اچانک سوال پر آئلہ نے نفی میں سر ہلا دیا

روزانہ رات شمائلہ کے کمرے میں دونوں بہنیں باتوں میں مشغول ہوتیں اور دوسری جانب مرید، آئلہ کا منتظر رہتا جونہی اس کا مہکتا ہوا بدن اسے میسر آتا وہ ربوٹ کی طرح ’عمل‘ کرنا شروع کر دیتا اور تھک کر فوراً خراٹے بھرنے لگتا۔

ایک شام کا ذکر ہے ۔

آئلہ، مرید کے ساتھ صوفہ پربیٹھی چہل کر رہی تھی تو مرید نے ہنستے ہوئے کہا ’آپ تھکتی نہیں ہیں رات ہی۔ ۔ ‘

ابھی آدھی بات مرید کے منہ میں تھی کہ شمائلہ کے ہاتھ سے چائے کی پیالی چھوٹ گئی اس نے جلدی سے بکھرے ہوئے کانچ کے ٹکڑے سمیٹے اور ان دونوں کی جانب نگاہ اٹھائے بغیر اپنے کمرے میں چلی گئی آئلہ کو یوں محسوس ہوا جیسے نا دانستہ طور پر اس نے شمائلہ کے جذبات کو ٹھیس پہنچائی ہے حالانکہ اس سے قبل بھی کبھی کبھی وہ اس کے سامنے مرید سے چہل کر لیتی تھی لیکن ایسا ردِ عمل پہلی بار سامنے آیا تھا وہ دیر تک اسی بابت سوچتی رہی اسی روز رات کو آئلہ نے بہن کو گلے لگا کر معافی طلب کی تو شمائلہ نے ہنستے ہوئے ’اف۔ ۔ ایسی کوئی بات نہیں ‘ کہہ کر اس کے دل سے بوجھ اتار دیا

مرید کی اشتہا بڑھتی جا رہی تھی اس کا جسم زندگی کے نئے ذائقے سے آشنا ہوا تھا اس سے پہلے وہ سردیوں کے گرم بستر ہی کو دنیا کی سب سے پُر لطف جگہ تصور کرتا لیکن اب وہ اس سے بہتر مقام پر تھا جہاں اس کا دل اور دماغ آئلہ کی من پسند پرفیوم کے سحر میں گرفتار ہو چکا تھا اس کے جسم سے اٹھتی خوشبو نتھنوں سے ٹکراتے ہی خمر کا کام کرتی اور یہ بات آئلہ بخوبی جان چکی تھی !

٭٭٭

 

اکثر راتوں کو آئلہ باتوں کے درمیان شمائلہ کے کمرے میں ہی سو جایا کرتی تب وہ اسے نیم شب میں جگا کر اپنے کمرے میں چھوڑ آتی۔ ۔ ایک رات آئلہ نے اچانک خرابیِ طبیعت کے باعث جاگ کر غنودگی کے عالم میں دیکھا تو شمائلہ اپنے بستر میں نہیں تھی وہ دیوار کے سہارے ڈگمگاتے قدموں سے دھیرے سے چلتی، اپنے کمرے کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئی تو فضا اس کے من پسند پرفیوم کی تیز خوشبو میں ڈوبی ہوئی تھی اور پھر یکایک۔ ۔ ۔ زیرو واٹ کے بلب کی نیلی مدھم روشنی میں اس کی بند ہوتی ہوئی آنکھیں پوری قوت سے کھل کر چیخ اٹھیں !

اخیر نتیجہ یہی تو ہوتا ہے۔ ۔ اپنے جذبات کو سمیٹ کر ایک محدود دائرے میں زندگی بسر کرتے ہوئے اجسام کے اندر بھلے آگ بھری ہو لیکن ان کی اوپری سطح ڈیپ فریزرز کی مصنوعی برف سے ڈھکی ہوتی ہے یہ آگ اور برف سے بنے ہوئے لوگ مٹی کے بنے لوگوں کی طرح آزاد زندگی نہیں گزار سکتے ، بیرونی حدت سے چھپتے پھرتے ہیں کہ برف پگھل کر ان کی خواہشات کو برہنہ نہ کر دے۔ ۔ احمق لوگ۔ ۔ بھول جاتے بھلا برف کب تک اندر کی آگ پر ٹک سکتی ہے؟ آگ لوہے کو پگھلا دیتی ہے آگ کی فطرت میں تڑپانا ہے اور خلافِ فطرت جانے سے تباہی مچتی ہے۔ ۔ صرف تباہی!

اگلے روز شام تک آئلہ کی ہچکیاں تھمنے کا نام نہیں لے رہی تھیں

وہ مرید کو کسی بچے کی طرح اپنے پہلو سے لگائے لیٹی رہی کبھی اس کا ما تھا چومتی، کبھی آنکھیں اور کبھی رخساروں پر بوسہ دیتے ہوئے رو پڑتی مرید سخت الجھن میں مبتلا تھا کہ آخر آئلہ اس قدر روئے کیوں جا رہی ہے؟ اور رات اسے بہت عجیب لگا جب’ شمائلہ ‘ دروازے پر آ کر چیخی تو ’ آئلہ‘ عجلت میں بستر سے نکل کیوں گئی تھی؟ وہ اس بابت پوچھ پوچھ کر تھک چکا لیکن آئلہ کی زبان کا تالا نہیں کھلا۔

رات کی آمد کے ساتھ ہی شمائلہ کے کمرے سے آہ و زاری کی صدائیں تھم گئیں لیکن وہ اپنے کمرے سے باہر نہیں آئی۔

بالآخر بہن کی محبت میں آئلہ کا پڑھا لکھا دماغ مختلف حیلے بہانوں سے اسے مطمئن کرنے کی سعی میں جت گیا ’لازمی نہیں نفسانی خواہشات کو معبود بنانے والے ہی کبیرہ گناہوں کا ارتکاب کرتے ہیں یہ گناہ تو کسی کمزور لمحے میں برس ہا برس سے گھٹے ہوئے جذبات سے بھی سر زد ہو سکتا ہے۔ ۔ کیا انسان کے لیے گناہ کے بعد احساسِ گناہ اور ندامت کے آنسوؤں میں غرق ہو جانا کافی سزا نہیں ہوتی؟ کیا ایسے گنہگاروں کو خدا اور سماج سے کبھی معافی نہیں مل سکتی؟ کیا گناہ ایک نادم انسانی جان سے زیادہ معتبر ہوتے ہیں؟ یا خدا۔ ۔ ‘اس خیال کے ساتھ ہی آئلہ کا دل یکدم موم ہونا شروع ہو گیا اس نے دروازے پر دستکیں دیں لیکن کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔ ۔ جب کافی دیر بعد بھی دروازہ نہیں کھلا اور اس کے ہاتھ پاؤں پھولنا شروع ہوئے اس نے مرید کو دروازہ توڑنے کا حکم دیا جونہی کنڈی ٹوٹ کر دروازہ کھلا سامنے شمائلہ کا نحیف جسم پلنگ پر گہرائی میں کٹی ہوئی کلائیوں کے ساتھ خون میں لتھڑا ہوا دکھائی دیا۔

ساری زندگی مرد ذات سے نفرت کے خود ساختہ حصار میں ضد اور اناپرستی کے سنپولیئے شمائلہ کے ارمانوں کو ڈستے رہے تھے اس میں زندہ رہنے کی امنگ موجود تھی لیکن شاید وہ زمانے سے ڈر گئی تھی باوجود کوشش کے روشنی کا سامنا نہ کر سکی اور اسی اثناء میں انکار کی تاریک گلیوں میں اس کی نیم زندہ نفسانی خواہشات ایک اندھے سے ٹکرا کے حرام موت مر گئیں۔

نفرت کا نیم دریدہ پرچم سرنگوں تھا !

شمائلہ کے سینے پر دھری نیند آور گولیوں کی خالی شیشی تلے ایک کاغذ پر ’ خدارا مجھے معاف کر دینا‘ درج تھا آئلہ شیشی کو دیوار پر پٹخ کر آہ و زاری کرتے ہوئے بہن کی نعش سے لپٹ گئی۔ کمرے میں پھیلی ہوئی بدبو میں مرید ناک پر ہاتھ دھرے حیران پریشان کھڑا سوچ رہا تھا کہ۔ ۔

آخربینا ئی والوں کو ہوا کیا ہے؟ ؟

٭٭٭

 

 

 

 

بھکاری—آدم شیر

 

وہ بھکاری نہیں تھا، کم از کم مجھے تو نہیں لگتا تھا۔ اس کی میلی چادر میں کئی راہ گیر بھیک ڈال دیتے لیکن وہ بھکاری نہیں تھا۔ میں روز اسے ایک موڑ پر جھولی پھیلائے بیٹھا دیکھتا۔ وہ کوئی صدا نہیں لگاتا تھا۔ چپ چاپ بیٹھا رہتا۔ اسی جگہ کئی بھکاری اشارے پر رکنے والی گاڑیوں کے گرد منڈلاتے تو ان کی الگ الگ صدائیں ہر کسی کو متوجہ کرتیں۔ لیکن وہ خاموش بیٹھا آسماں کو تکتا رہتا۔ میں نے اسے ہمیشہ دن کے وقت دیکھا تھا۔ اس لیے وہ تارے تو نہیں گنتا تھا۔ پھر پتا نہیں کیا ڈھونڈتا تھا۔ اس چوک میں کافی رش ہوتا ہے اور شور بھی۔ کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی۔ گاڑیوں کی پاں … پاں … ٹی … ٹی… رکشہ والوں کی آوازیں … ادھر آؤ جی…کدھر جانا ہے؟ وہ سب چیزوں سے بے پروا آسماں کو تکتا رہتا۔ لوگ اس کی جھولی میں خیرات پھینکتے جاتے لیکن وہ منگتا نہیں تھا۔ میں روز دفتر جاتے ہوئے جب اس اشارے پر ڈیڑھ منٹ کے لئے رکتا تو کار میں بیٹھا اسے دیکھتا رہتا۔ کبھی کبھی وہ بھی دیکھ لیتا۔ وہ مجھے بالکل بھکاری نظر نہیں آتا تھا۔

وہ شاید نہاتا نہیں تھا۔ بال آپس میں یوں چپکے ہوئے تھے جیسے رسی بنانا چاہ رہے ہوں۔ ما تھا کشادہ تھا جس پر وقت نے تین چار سلوٹیں ڈال دی تھیں۔ آنکھیں بڑی بڑی تھیں جن میں اکا دکا سرخ لکیریں بھی تھیں جو محنت کشوں کی خاص نشانی ہوتی ہیں۔ اس کی آنکھیں دیکھ کر ہی پتا چلتا تھا کہ وہ بھکاری نہیں۔ اس کی آنکھوں میں شرمندگی کی لہریں بھی تھیں … پتا نہیں کس بات کی … بھکاری پن کی یا کسی اور بات کی… ناک کے ساتھ دائیں گال پر ایک نشان تھا جو کسی پرانے زخم کی یادگار لگتا تھا۔ نشان ظاہری طور پر چھوٹا سا لگتا۔ اس کا زیادہ حصہ داڑھی نے چھپا رکھا تھا۔ داڑھی بھی اس کے لباس کی طرح بے ترتیب اور میل سے اَٹی ہوئی تھی۔ داڑھی لگتا تھا کبھی استرے کی زد میں نہیں آئی۔ مونچھیں تو ایسی تھیں جیسے حجام کی دکان سے کٹے بال پکڑ کر کسی نے گوند سے آڑے ترچھے چپکا دیئے ہوں۔ داڑھی سے نیچے گردن پر ایک اور نشان تھا جو گال والے نشان سے زیادہ بڑا تھا۔ پٹھانوں کے رنگ گورے ہوتے ہیں سو اس کا بھی تھا لیکن میل کی تہہ در تہہ چادر نے مری چھپکلی جیسا کر دیا تھا۔

اس کی عمر پتا نہیں کتنی تھی لیکن بڑھاپے میں داخل ہوئے کافی سمے بیت چکا تھا۔ اس کا بڑھاپا دیکھ کر یہی لگتا کہ کبھی بڑا گبرو تھا۔ جس گلی سے گزرتا ہو گا اس میں کئی کھڑکیاں اس کے لیے ضرور کھلتی ہوں گی۔ اس کا بڑھاپے میں بھی چوڑا چکلا ڈھانچہ کئی جوانوں سے بہتر تھا لیکن جوانی تو جوانی ہوتی ہے جو اس پر اب بہر حال نہیں رہی تھی۔ اس کے ہاتھوں کی رگیں پھولی ہوئی تھیں۔ رگیں نشہ کرنے والوں کی بھی پھولی ہوتی ہیں۔ اس کی نسیں نشہ کی وجہ سے نہیں پھولی تھیں۔ وہ دمہ کا مریض بھی نہیں لگتا تھا۔ اس کی رگیں ہل کھینچنے والے کسانوں کی طرح ابھری ہوئی تھیں۔ اس کے ہاتھ دیکھ کر لگتا تھا، انہوں نے لاتعداد پتھر پاش پاش کئے ہوں گے۔ اب تو وہ بھکاری لگتا تھا گو بھکاری نہیں تھا۔ وہ بس بیٹھا رہتا اور لوگ اس کے پاس فالتو پیسے پھینک کر آگے بڑھ جاتے۔

میں دفتر جاتے ہوئے اور واپسی پر بھی اسے وہیں بیٹھا دیکھتا۔ جب جب اسے دیکھتا تب تب یہی لگتا کہ کوئی نئی زبردست کہانی مل جائے گی۔ اس سے بات کرنا چاہتا تھا مگر روز یہی سوچ کر گزر جاتا کہ کل بات کروں گا۔ وہ کل بھی ایک دن آ ہی گئی۔ اس روز سحری سے بوندا باندی ہو رہی تھی۔ دفتر جانا نہیں چاہتا تھا مگر میکانکی انداز میں جانا پڑا۔ دفتر جاتے ہوئے اسی اشارے پر کار روکی تو وہ ہمیشہ کی طرح آسماں کو تک رہا تھا جس میں ان گنت سوراخ ہو گئے تھے۔ شاید وہ سوراخ گن رہا تھا جن میں سے آنسوؤں جیسا نمکین پانی قطرہ قطرہ گر رہا تھا اور وہ بھیگ رہا تھا۔ لوگ سروں پر چھاتے تانے آ جا رہے تھے۔ جو چھتری نہیں خرید سکتے تھے وہ خود کو کوستے جا رہے تھے۔ کچھ راہ گیر دکانوں اور کچھ عمارتوں کے سایوں میں کھڑے بارش کے رکنے کا انتظار کر رہے تھے۔ سائیکل اور موٹرسائیکل پر آنے جانے والوں کی شامت آئی ہوئی تھی۔ مجھ ایسے گاڑیوں میں بیٹھے ان پر چھینٹے اڑاتے ہوئے موسم کا نظارہ کر رہے تھے لیکن وہ بھیگ رہا تھا۔ شاید تھوڑا تھوڑا کانپ بھی رہا تھا۔ کئی ایک بھکاری بلند و بالا عمارت کے بڑھے ہوئے چھجے کے نیچے کھڑے تھے لیکن وہ سارے ماحول سے لاتعلق اپنی جگہ پر بیٹھا بھیگ رہا تھا۔

اس دن رم جھم پڑتی پھوار سارا دن نہ رکی۔ ایسی جھڑی لگی کہ کئی فصلیں ہری ہوئیں اور کئی ایک بہہ گئیں۔ دفتر سے واپسی پر میں اسی اشارے پر رکا تو اسے کچے مکان کی چھت کی طرح زمین پر گرا دیکھا۔ لوگ آ جا رہے تھے۔ پتا نہیں وہ کب سے بے سدھ پڑا تھا۔ میں نے گاڑی ایک طرف کھڑی کی۔ اسے بڑی مشکل سے دو راہگیروں کی مدد لے کر گاڑی میں لٹایا اور نزدیکی سرکاری اسپتال لے گیا۔ ڈاکٹر نے اسے ایسے ہی دیکھا جیسے اس جیسوں کو دیکھا جاتا ہے۔ پھر وہ زیر تربیت خاتون سے محو گفتگو ہو گیا۔ تھوڑی دیر بعد اسے یاد دلایا کہ بھائی میاں ابھی کسی کو تیری ضرورت ہے۔

’’آپ اس کے لیے اتنا پریشان کیوں ہو رہے ہیں؟ مجھے تو وہ بھکاری لگتا ہے۔ ٹھیک ہو جائے گا۔ ‘‘ ڈاکٹر نے بیزاری سے کہا جس پر میں اتنا ہی کہہ سکا۔

’’وہ بھکاری نہیں۔ ‘‘

پھر میں نے دو تین بڑوں سے رابطے کیے اور لاغر بوڑھے کو مسیحا کی مسیحائی مل گئی۔ بیوی جھگڑ کر میکے گئی ہوئی تھی لہٰذا میں آزاد تھا۔ اسے گھر لے آیا۔ دفتر سے چھٹیاں لیں۔ چار پانچ فلم خریدے۔ خشک میوہ جات لایا۔ اسے کھلایا، پلایا۔ نتیجہ یہ تھا کہ وہ مجھے فرشتہ سمجھنے لگا۔ میں نے اس کی غلط فہمی دور کرنے کی کوشش کی لیکن وہ نہ مانا۔ پھر میں نے ذرا اور واضح انداز میں سمجھانے کی کوشش کی۔ وہ پھر بھی نہ مانا جس پر میں نے کھلم کھلا کہا۔

’’مجھے صرف آپ کی کہانی سے دلچسپی ہے۔ ‘‘

لیکن وہ طوطے کی طرح ایک ہی جواب دیتا کہ میرے احسان کا بدلہ نہیں چکا سکتا۔ میں اس تکرار سے بے زار ہو گیا۔

’’آپ اپنی کہانی سنائیں۔ یہی میرے احسان کا بدلہ ہے۔ ‘‘ اس نے مجھے عجیب نظروں سے دیکھا اور شروع ہو گیا۔

’’میں وزیرستان ایجنسی میں پیدا ہوا۔ وہیں پلا بڑھا۔ وزیرستان میں ہی اپنے قبیلہ کی ایک خوبرو لڑکی سے شادی کی۔ اللہ پاک نے مجھے چار بچے دیئے۔ تین بیٹے اور ایک بیٹی… جب بچے پیدا ہوئے تو پڑوسی ملک میں روس کے خلاف جنگ جاری تھی۔ پھر جب بچے جوان ہوئے تو پڑوس میں ہی امریکی سرکار دہشت گردی کے خلاف لڑ رہی تھی۔ اخباروں میں پڑھا اور ٹی وی پر دیکھا۔ لوگ کہتے ہیں کہ جنگ دہشت گردی کے نہیں بلکہ اسلام کے خلاف تھی۔ بہرحال لوگ کچھ نہ کچھ کہتے رہتے ہیں حالانکہ لوگوں کو خود پتا نہیں ہوتا۔

جنگ جاری تھی۔ جنگیں ہر دور میں جاری رہتی ہیں۔ کچھ لوگوں کو ہر وقت جنگ کی ضرورت ہوتی ہے۔ امریکہ کو بھی اس کی ضرورت تھی جو آئے دن بڑھتی جا رہی تھی۔ اسی ضرورت کے تحت عراق میں بھی جنگ شروع ہوئی تھی جو افغانستان سے ہوتی ہوئی پاکستان پہنچ چکی تھی جس نے پہلے وزیرستان میں ڈیرا ڈالا۔ وزیرستان میں کار روائیاں امریکی نہیں بلکہ ہماری فوج کر رہی تھی۔ طالبان بھی لڑ رہے تھے۔ پتا نہیں کون جیت رہا تھا۔ کون ہار رہا تھا۔ کون نشانہ بن رہا تھا اور کون بنا رہا تھا۔ فوجی مر رہے تھے یا طالبان… لاشیں انسانوں کی ہی گر رہی تھیں۔ لاشیں عراق میں بھی گر رہی تھیں اور افغانستان بھی بچا نہیں تھا نہ میرا وزیرستان ہی اس وبا سے محفوظ رہ سکا۔ تب لوگ ہجرت کرنے لگے اور اس کی قوت نہ رکھنے والے مرنے لگے۔ کوئی اپنوں کی گولیوں کا نشانہ بنتا۔ کسی کو غیروں کے میزائل مار دیتے۔ کوئی مرنے والوں کو شہید کہتا اور کوئی جہنم واصل گردانتا۔ کئی مارنے والوں کو طالبان کہتے … انہیں جہادی کہنے والے بھی کم نہ تھے … اور کوئی انہیں امریکہ کے پٹھو ٹھہراتا لیکن لوگ مرتے رہے۔

میرے گھر پر بھی ایک میزائل گرا۔ میرے دو جوان بیٹے میری آنکھوں کے سامنے دم توڑ گئے۔ میرے ایک بیٹے کے چیتھڑے میرے ہی مکان میں بکھرے تھے۔ دوسرے بیٹے کا جسم چھلنی بن گیا تھا جس سے سارا خون نکل چکا تھا۔ میری بیٹی کے ہاتھ ابھی پیلے نہیں ہوئے تھے لیکن اس کے سر سے نکلنے والا لہو اس کے کپڑے ضرور رنگیں کر گیا البتہ وہ زندہ تھی۔ میرے گال سے خون ٹپک رہا تھا۔

ہم ڈاکٹروں کے چکر سے نکلے تو کچھ ماہ بعد میرا سب سے چھوٹا بیٹا غائب ہو گیا۔ ان دنوں بڑے لوگ غائب ہوئے تھے۔ وزیرستان سے ہی نہیں ، پورے ملک سے لوگ غائب ہو رہے تھے۔ غائب کرنے والے کا کسی کو پتا تھا نہ یہ علم ہوتا کہ غائب ہونے والا زندہ ہے یا مردہ… مجھے بھی اپنے بیٹا کا کچھ پتا نہ تھا۔ کوئی کہتا … میرا بیٹا امریکہ لے گیا ہے۔ کبھی پتا چلتا …وہ انتقام لینے کے لیے طالبان سے مل گیا ہے۔ کسی نے کہا… میرا بیٹا پاکستان میں ہی ہے لیکن پتا نہیں کس کے پاس تھا … زندہ ہے یا مردہ… میرا دل کہتا تھا…وہ زندہ ہے … لیکن میری بیوی کا دماغ تھوڑا تھوڑا کھسک گیا۔

میں بھی انتقام لینا چاہتا تھا۔ پختونوں کے لیے انتقام نہ لینا اتنا ہی شرمناک ہے جتنا کسی کی بیوی کا دوسرے مرد کے ساتھ سونا اور رنگے ہاتھوں پکڑے جانا۔ میری بیٹی جوان تھی۔ بیوی ہوش کھو چکی تھی۔ پھر بھی انتقام لیتا تو کس سے لیتا؟ مجھے تو دشمن کا ہی پتا نہیں تھا۔ ان دنوں کسی کو بھی دشمن کا علم نہیں تھا۔ جن کو معلوم تھا وہ بتاتے نہیں تھے۔ میں نے اپنا گھر بار بیچا۔ بیوی اور بیٹی کو ساتھ لیا اور رشتہ داروں کے پاس پناہ لینے لاہور کے لیے نکل پڑا۔ میری قسمت خراب تھی یا ملک کے حالات ہی ایسے تھے۔ جب ہم لاہور کے بس اڈے پر اترے تو زور دار دھماکہ ہو گیاجس نے میری بیٹی اور بیوی چھین لی۔ اس بار میری گردن پر بھی نشان پڑ گیا۔ میں نے سوچا… اب انتقام لینا ضروری ہو گیا ہے … لیکن ایک بہت بڑا مسئلہ درپیش تھا۔ وہی دشمن کی پہچان کا مسئلہ… ویسے بھی مجھے اپنے چھوٹے بیٹے کا انتظار تھا۔ وہی تو اپنا بچا تھا۔ یہ انتظار بھی ایک دن ختم ہو گیا۔ ٹی وی پر خبر چلی کہ امریکہ کی عدالت نے طالبان کے ساتھی ایک پاکستانی کو سزائے موت سنا دی ہے۔ وہ پاکستانی میرا بیٹا تھا۔ ‘‘

بوڑھا خاموش ہوا تو میں نے لمبی سانس لی اور کچھ دیر چپ چاپ اسے دیکھتا رہا۔ اس کی گردن جھکی ہوئی تھیں اور نگاہیں ہتھیلیوں پر جمی ہوئی تھیں جنہیں وہ رگڑ رگڑ کر کچھ تلاش کر رہا تھا۔ اسے یونہی بے سود ہاتھ ملتے دیکھ کر میں زیادہ دیر چپ نہ رہ سکا اور اس کے گال بھگوتی آنکھوں میں موجود پیغام سمجھنے کی بجائے بولا۔

کو کیا آپ کا بیٹا واقعی طالبان کا ساتھی تھا؟ ‘‘

اس نے چند سیکنڈ کے لئے نظریں مجھ سے ملائیں۔ پھر کمرے میں اِدھر اُدھر بکھری چیزیں دیکھ کر بولا، ’’نہیں۔ وہ تو پشاور کے ایک کالج میں پڑھتا تھا۔ میرے گھر میں دو لوگ ہی تو پڑھے لکھے تھے۔ ایک میں اور دوسرا وہ۔ ۔ ۔ میرا پیارا بچہ۔ ‘‘

’’پھر آپ کا بیٹا امریکہ کیسے پہنچ گیا؟ ‘‘

’’یہ تو امریکہ جانتا ہے یا پاکستان… یا پھر وہ جو سب کچھ جانتا ہے۔ ‘‘ اس نے بڑی بے بسی سے نمستے کے انداز میں ہاتھوں سے اپنی ٹھوڑی کو چھوتے ہوئے ہوئے جواب دیا تو میں نے طالبان کو خوب برا بھلا کہا۔ اس کی بربادی کا ذمہ دار ٹھہرایا۔ بڑے لوگوں کے مطابق تو طالبان ہی تباہی کے ذمہ دار تھے۔ میں نے رائے دی۔

’’طالبان نہ آتے تو قبائلیوں پر قیامت بھی نہ ٹوٹتی۔ ‘‘

’’کون طالبان نہ آتے؟ کوئی طالبان نہیں۔ ‘‘

’’تو پھر یہ دہشت گرد کہاں سے آئے؟ جو یہ خون خرابہ کر رہے ہیں۔ ‘‘

’’ مجھے تو کوئی دہشت گرد نظر نہیں آتا۔ وہ تو صدیوں سے وہاں رہ رہے ہیں۔ اب پتا نہیں کس نے انہیں دہشت گرد بنا دیا۔ ‘‘

’’تو کیا ساری دنیا جھوٹ بولتی ہے۔ ‘‘

’’وہ بہت کم لوگ ہیں جو غیر ہیں۔ باقی سب وہیں پیدا ہوئے اور مر بھی وہیں رہے ہیں۔ پوری نسل تباہ ہو گئی۔ ‘‘

اس پر میرے پاس کہنے کو کچھ نہ تھا کہ ہر کسی کا زاویۂ نگاہ مختلف ہوتا ہے۔ شاید میں تھک گیا تھا لیکن میرے دماغ میں طرح طرح کے خیالات آ رہے تھے مگر پکا راستہ نہیں مل رہا تھا۔ بڑے بڑے پتھر آ جاتے۔ ایک سمت میں سوچنے کی کوشش کرتا لیکن ناکام رہتا، ویسے بھی کہانی سنتے سنتے رات گزر چکی تھی۔ سویرا ہونے کو ہی تھا۔ چڑیاں گھونسلوں سے نکل کر چہچہانے لگی تھیں۔ دور کہیں مؤذن بھی اذان دے رہا تھا۔ اس سے پہلے پہرہ دار کی سیٹی سنائی دی تھی لیکن کمرے میں سناٹا تھا۔ خاموشی سانپ کی طرح پھنکار رہی تھی۔ اس سے بچنے کے لیے میں بولا۔

’’آپ کی داستان بڑی درد ناک ہے لیکن آپ کوئی کام کیوں نہیں کرتے؟ ‘‘

’’کیا …بڑا کام کیا۔ ادھر وزیرستان میں … ساری عمر کام ہی کیا۔ ‘‘

’’تو پھر اب یہ…‘‘ اس سے آگے کہنے کی ہمت نہ تھی۔

’’یہاں مجھے کوئی کام نہیں دیتا۔ جو کام دیتا ہے وہ پیسے پورے نہیں دیتا۔ ‘‘

’’تو واپس چلے جانا تھا۔ ‘‘

’’واپس جانے کے لیے پیسے نہیں تھے۔ لاری اڈے میں بیٹھا تھا۔ ایک عورت نے بھکاری سمجھ کر پیسے دے دیئے۔ ‘‘

’’تو آپ نے یہی کام شروع کر دیا۔ پٹھان تو ایسے نہیں ہوتے۔ ‘‘

’’میں بھی ایسا نہیں تھا لیکن یہاں لوگ بھیک تو دیتے ہیں پَر حق دار کو حق نہیں دیتے۔ ‘‘ بوڑھے پٹھان کے جواب نے مجھے خاموشی کے سمندر میں ڈبو دیا۔

٭٭٭

تشکر: تبسم فاطمہ، مدیر اعزازی، جنہوں نے اس کی مکمل فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز   عبید