FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

زہرِ عشق

مثنوی زہرِ عشق‘‘ ایک خوبصورت طلسمی خواب کے ٹوٹنے کی کہانی ہے، عشق ایسا جذباتی تجربہ بنا ہے جس کی شدت سے طلسمی خواب ٹوٹتا ہے اور المیہ پیدا ہوتا ہے۔

’’مثنوی زہرِ عشق‘‘ آرزو، خوف اور ذہنی اور جذباتی تصادم کی پیاری سی کہانی ہے کہ جس کے ارتعاشات (Vibrations) ہمیں دیر تک گرفت میں رکھتے ہیں۔ آرزو پیدا ہوتی ہے، ماحول کے دباؤ سے گھٹن ہوتی ہے اور پھر انفرادی سطح پر بڑی شدت کے ساتھ ایک آزادانہ فیصلہ ہوتا ہے اور ایک حیران کن منظر سامنے آ جاتا ہے۔

’’مثنوی زہر عشق‘‘ اردو میں پہلی بار ایک المیہ ہیروئن اور اس کے ’زوال‘ (Fall) کی کہانی کے حسن کو لے کر اس طرح متاثر کرتی ہے۔ یہ ایک رومانی تمثیل ہے کہ جس کی پہچان المیہ کے جوہر سے ہوتی ہے، مہ جبیں کی کہانی بہت چھوٹی بھی یہ اور بہت بڑی بھی۔ چھوٹی اس لیے کہ ایک چھوٹے سے ’’کینوس‘‘ پر تصویر بن گئی ہے اور بڑی اس لیے کہ ٹریجڈی کی وجہ سے جو گہرائی پیدا ہوئی ہے اس سے اختتام پر ایک حیران کن مظہر ابھر آیا ہے۔

مرزا شوق کی یہ مثنوی بھی ’’شرینگار رس‘‘ میں ڈوبی ہوئی ہے، عشق اور حسن شرینگار رس کا سرچشمہ ہے، رومانیت اس کی روح ہے، اس کی ٹریجڈی کا حسن اس کا جوہر اور جلوہ ہے، شرینگار رس کے مفہوم کی دو واضح جہتیں ہیں۔ ایک یہ کہ جس نے عشق کیا وہ مرگیا۔ میر نے کہا تھا:

عاشقی جی ہی لے گئی آخر

یہ بلا کوئی ناگہانی تھی

یا

لذت سے نئیں خالی جانوں کا کھپا جانا

کب خضر و مسیحا نے مرنے کا مزا جانا

دوسری جہت یہ کہ عشق کی شدت آہستہ آہستہ سیکس کی جبلت کو متاثر کرنے لگتی ہے۔ میر نے کہا ہے:

کیا لطف تن چھپا ہے مرے تنگ پوش کا

اگلا پڑے ہے جامے سے اس کا بدن تمام

یا

ستھرائی اور نازکی گلبرگ کی درست

پر ویسی بو کہاں کہ جو ہے اس بدن کے بیچ

یہ دونوں جہتیں اس مثنوی میں موجود ہیں۔

مہ جبیں ایک دلکش خوبصورت پیکر ہے، شرینگار رس میں ڈوب کر نکلی ہے، مرزا شوق اس کے حسن کو اس طرح پیش کرتے ہیں :

چشم بد دور، وہ حسیں آنکھیں

رشک چشم غزا چیں آنکھیں

تھانہ اس شہر میں جواب اس کا

حسن لاکھوں میں انتخاب اس کا

اس سے پہلے کہتے ہیں :

ثانی رکھتی نہ تھی جو صورت میں

غیرتِ حور تھی حقیقت میں

سبز نخلِ گل جوانی تھا

حسنِ یوسف فقط کہانی تھا

اس سن و سال پر کمال خلیق

چال ڈھال انتہا کی نستعلیق

پانی برس کے کھلا ہی ہے کہ عاشق چھت پر جاتا ہے اور اس کی نظر مہ جبیں پر پڑتی ہے، پہلی نظر میں عشق ہو جاتا ہے، عاشق حیرت کا مجسمہ بن جاتا ہے:

سامنے وہ کھڑی تھی ماہ منیر

چپ کھڑا تھا میں صورتِ تصویر

دیکھتا اس کو بار بار تھا میں

محوِ حسنِ جمال یار تھا میں

مثنوی زہر عشق کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ مہ جبیں محض حسن و جمال کا کوئی پیکر یا موم کی کوئی پیاری سی گڑیا نہیں ہے، بلکہ ایک ایسی شخصیت ہے جو محسوس ہوتی ہے۔ اس کے جذبات کے کئی رنگ ہیں۔ اس کے فیصلے اس کی شخصیت کو محسوس بناتے ہیں، اسی کے جذبات اور اسی کے فیصلوں پر اس کہانی یا تمثیل کا انحصار ہے۔ چھت پر آنکھیں چار ہوتی ہیں، تو وہ زیادہ بے چین اور مضطرب ہوتی ہے، عشق کی آگ پہلے اس کے دل میں سلگتی ہے، مہ جبیں عشق کے معاملے میں پہل کرتی ہے۔ مخلص ہے، عشق کے درد کو جانتی ہے، فیصلہ کرتی ہے۔ اسی کے تحرک سے کہانی کی ابتدا ہوتی ہے، یہ اسی کی شخصیت کا تحریک ہے کہ جس سے المناک انجام کے بعد عاشق کا کردار متحرک رہتا ہے۔ چھت پر عاشق کو دیکھتے اور عاشق کے وجود کو محسوس کرتے کرتے جب شام ہو جاتی ہے تو کنیز پیام لے کر آتی ہے:

اسی صورت سے ہو گئی جب شام

لائی پاس ان کے ایک کنیز پیام

بیٹھی ناحق ہی ہولیں کھاتی ہیں

اماں جان آپ کو بلاتی ہیں

گیسو رخ پر ہوا ہے ہلتے ہیں

چلیے، اب دونوں وقت ملتے ہیں

پھر اس کا وجود بے چین رہنے لگتا ہے، عشق کا رس لیے اس کی شخصیت مضطرب رہتی ہے، عاشق کو خط لکھ کر بھیجتی ہے:

ہو یہ معلوم تم کو بعد سلام

غمِ فرقت سے دل ہے بے آرام

شکل دکھلا دے کبریا کے لیے

بام پر آ ذرا خدا کے لیے

اس محبت پہ ہو خدا کی مار

جس نے یوں کر دیا مجھے ناچار

سارے الفت نے کھو دیے اوسان ورنہ یہ کہتی ہیں، خدا کی شان

اب کوئی اس میں کیا وکیل کرے

جس کو چاہے خدا ذلیل کرے

خط پڑھ کر عاشق کا رد عمل بڑا دلچسپ دکھائی دیتا ہے۔ جواب میں تاثرات کا اظہار حد درجہ انتہا پسندی کو نمایاں کرتا ہے۔ کردار کی خود غرضی بھی ظاہر ہوتی ہے اور محبوب کو رجھانے کا انداز بھی سامنے آتا ہے۔ لہجے میں جو تصنع ہے اس سے مرد کی نفسیات پر بھی روشنی پڑتی ہے۔ محبوب کے اظہار محبت کو محسوس کرتے ہی یہ تمنا جاگ پڑتی ہے کہ کسی طرح بس اسے حاصل کر لیا جائے۔ لفاظی سے کام لیتا ہے، محسوس نہیں ہوتا کہ محبوب کی طرح عاشق کی بھی کوئی شخصیت ہے، وہ محض ایک کردار ہے جو سماج میں عام لوگوں کے درمیان سے ابھرا ہے۔ اس کی شخصیت محسوس نہیں ہوتی:

اب جو بھیجی یہ آپ نے تحریر

ہے یہ لازم کہ وہ کرو تدبیر

سختیاں ہجر کی بدل جائیں

دل کی سب حسرتیں نکل جائیں

چاہتا ہے ہجر کے لمحے جلد ختم ہوں اور وصل نصیب ہو۔ اس کے کردار کی پہچان اس وقت ہوتی ہے، جب وہ یہ کہتا ہے:

ہو گئی ہے کچھ ایسی طاقت طاق

اٹھ نہیں سکتا بارِ رنج فراق

ہل کے پانی پیا نہیں جاتا

ورنہ حکم آپ کا بجا لاتا

تیرے قدموں کی ہوں قسم کھاتا

ہوش دو دو پہر نہیں آتا

پاتا طاقت جو طالب دیدار

بام پر آپ آتا سو سو بار

مبالغہ عروج پر ہے۔

اس کے بعدمحبوب کی شخصیت ایک نئے رنگ میں ظاہر ہوتی ہے، ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے شخصیت کا رخ ہی تبدیل ہو گیا ہو۔ عاشق کے کردار اور مہ جبیں کی شخصیت کے فرق کو ان اشعار سے بھی سمجھا جا سکتا ہے۔ مہ جبیں اس خط کا جواب اس طرح دیتی ہے، جیسے عشق و محبت سے اس کا کوئی واسطہ ہی نہ ہو اس نے عاشق کو محض چھیڑنے کے لیے خط لکھا اور عاشق میاں جھوٹ لکھنے پر مغرور ہو گئے۔ یہ سمجھنے لگے جیسے وہ واقعی ان سے محبت کرنے لگی ہے، اس بدلتے ہوئے نمائشی تیور کو دیکھئے:

پھر کیا یہ جواب میں تحریر

’’کچھ قضا تو نہیں ہے دامن گیر‘‘

’’ذکر ان باتوں کا یہاں کیا تھا؟

چھیڑنے کو یہ تیرے لکھا تھا‘‘

’’مجھ کو ایسی تھی تیری کیا پروا

بام پر تو بلا سے آ کہ نہ آ‘‘

’’بات یہ تھی کمال عقل سے دور

جھوٹ لکھنے پہ ہو گئے مغرور‘‘

’’کالا دانہ ذرا اتروا لو

رائی نون اس سمجھ پہ کر ڈالو ‘‘

’’دیکھ تحریر فیل لائے آپ

خوب جلدی مزے میں آئے آپ‘‘

’’طالبِ وصل جو ہوئے ہم سے

ہے گا سادہ مزاج جم جم سے‘‘

کہنے کو تو یہ کہا جا رہا ہے کہ مجھے تیری پروا نہیں ہے، میں کیوں آؤں چھت پر۔ تو نے جانے کس طرح سمجھ لیا کہ میں تجھ پر مرتی ہوں، ارے یہ تو میں نے جھوٹ لکھا تھا اور تو ہے کہ اس بات پر اعتبار کر گیا اور ہو گیا مغرور، میں کوئی مال زار دی نہیں ہوں، عجیب ہے تو، فوراً طالب وصل ہو گیا لیکن اندر عشق کی آگ تیز ہے، محبوب خود وصل چاہتا ہے، شرینگار رس سے سرشار یہ شخصیت عاشق کے وجود میں جذب ہو جانا چاہتی ہے، جنسی لذتوں کا تجربہ حاصل کرنا چاہتی ہے، اپنے وجود کو عاشق کے وجود میں جذب کر دیتی ہے۔ دونوں وصل کا تجربہ حاصل کرتے ہیں :

جو لکھا تھا ادا کیا اس نے

وعدہ اک دن وفا کیا اس نے

رات بھر میرے گھر میں رہ کے گئی

صبح کے وقت پھر یہ کہہ کے گئی

بات اس دم کی یاد رکھئے گا

اک دن اس کا مزا بھی چکھئے گا

’’بگڑے گی جب، نہ کچھ بن آئے گی

آپ کے پیچھے جان جائے گی‘‘

پیار کرتی جو تھی وہ غیرتِ حور

رکھا ملنے کا اس نے یہ دستور

پنج شنبہ کو جاتی تھی درگاہ

واں سے آتی تھی میرے گھر وہ ماہ

راز کب تک راز رہتا، والدین کا فیصلہ یہ ہوتا ہے کہ مہ جبیں کو بنارس کسی عزیز کے پاس بھیج دیا جائے۔ مہ جبیں اس کشمکش میں گرفتار ہو جاتی ہے کہ اپنی بے پناہ محبت اور خاندان اور والدین کی عزت دونوں میں کسے پسند کرے۔ عشق کا سلسلہ اس طرح جاری رہتا ہے تو خاندان کی شریف قدروں پر زبردست آنچ آئے گی اور اپنے عاشق کو چھوڑ کر دور بنارس چلی جاتی ہے تو اس سے سچے عشق کی آبرو ہی جاتی رہتی ہے۔ اس کا خواب خوبصورت اور طلسمی ہے، ٹوٹ گیا تو بھلا سچی محبت کی آبرو کیا رہے گی۔ ’’مثنوی زہر عشق‘‘ کا یہ نقطۂ عروج ڈرامائی ہے، مہ جبیں آرزو، خوف اور ذہنی اور جذباتی تصادم کے ان لمحوں میں فیصلہ کرے گی؟۔ اس کی تمنا میں بڑی شدت ہے لیکن ماحول کے دباؤ سے ایک گھٹن کا شکار ہے، وہ نہیں چاہتی کہ زندگی کا آہنگ بکھر جائے۔ وہ ایک فیصلہ کر لیتی ہے، خود کشی کرنے کا فیصلہ، اس فیصلے ہی سے شرینگار رس میں تحیر کا رس شامل ہونے لگا ہے۔ ’ادبھت رس‘ (Adbhuta Ras) کے شامل ہوتے ہی شرینگار رس کا ذائقہ تیکھا اور حیرت انگیز ہو جاتا ہے۔ عاشق کے پاس آتی ہے اور اپنا فیصلہ سناتی ہے، ذہن میں بات صرف یہ ہے:

’’وہ چھٹے ہم سے جس کو پیار کریں

جبر کیوں کر یہ اختیار کریں ‘‘

آخری ملاقات کے لیے عاشق کے پاس پہنچتی ہے:

تھی نہ فرصت جو اشک باری سے

اتری روتی ہوئی سواری سے

پھرلپٹ کر مرے گلے اک بار

حال کرنے لگی وہ یوں اظہار

کہتی ہے:

’’اقربا میرے ہو گئے آگاہ

تم سے ملنے کی اب نہیں کوئی راہ‘‘

’’مشورے یہ ہوئے ہیں آپس میں

بھیجتے ہیں مجھے بنارس میں ‘‘

’’گو ٹھکانے نہیں ہیں ہوش و حواس

پر یہ کہنے کو آئی ہوں تیرے پاس‘‘

عاشق کو ڈھارس دینے کے لیے مہ جبیں دنیا کی بے ثباتی کا ذکر انتہائی سنجیدہ انداز میں کرتی ہے۔ یہ بھی مثنوی ’’زہر عشق‘‘ کا ایک خوبصورت حصہ ہے۔ ہیروئن کے زر خیز ذہن کی سنجیدگی کے پیچھے جو تلاطم ہے اسے محسوس کیا جا سکتا ہے، انداز گفتگو سے پتہ چلتا ہے کہ مہ جبیں کوئی تخیلی پرچھائیں نہیں ہے۔ ایک شخصیت رکھتی ہے۔ اس کے لب و لہجے میں جو دلآویزی، سرشاری اور تازگی ہے اس سے نظم کا حسن نمایاں ہو جاتا ہے۔ دنیا کی بے ثباتی کے ذکر میں المیہ ہیروئن کے زوال (Fall)کے آثار دکھائی دینے لگتے ہیں کوئی حادثہ ہو گا اور ڈراما اختتام کو پہنچنے ہی والا ہے۔ مہ جبیں کہتی ہے:

جائے عبرت سرائے فانی ہے

موردِ مرگِ ناگہانی ہے

اونچے اونچے مکان تھے جن کے

آج وہ تنگ گور میں ہیں پڑے

بات کل کی ہے نوجواں تھے جو

صاحبِ نوبت و نشاں تھے جو

(ق)

آج خود ہیں نہ ہے مکاں باقی

نام کو بھی نہیں نشاں باقی

غیرت حور مہ جبیں نہ رہے

ہیں مکاں گر تو وہ مکیں نہ رہے

جو کہ تھے بادشاہِ ہفت اقلیم

ہوئے جاجا کے زیر خاک مقیم

کل جو رکھتے تھے اپنے فرق پہ تاج

آج ہیں فاتحہ کو وہ محتاج

تھے جو سرکش جہان میں مشہور

خاک میں مل گیا سب ان کا غرور

عطر مٹی کا جو نہ ملتے تھے

نہ کبھی دھوپ میں نکلتے تھے

گردشِ چرخ سے ہلاک ہوئے

استخواں تک بھی ان کے خاک ہوئے

روح میں ایک دیوانگی ہونے کے باوجود دنیا کے بے ثباتی پر جس طرح اظہار خیال کر رہی ہے، اس کی سنجیدگی قابل غور ہے۔ مہ جبیں اپنے ذاتی المیے کو دنیا کی بے ثباتی کے پس منظر میں دیکھتی ہے اور اس سرائے فانی کو مقامِ عبرت کہتے ہوئے یہ کہتی ہے کہ کل جو شگوفہ و گل تھے وہ اب خار بن گئے ہیں۔ جہاں چمن تھا اور اس چمن میں بلبلوں کا ہجوم تھا وہاں بوم نے آشیانہ بنا رکھا ہے۔ مہ جبیں کہ جس نے عشق کے خوبصورت خوابوں کے طلسم کو جنم دیا ہے، جس نے عشق کے رنگ برنگے شیشے سے زندگی کا جمال دیکھا ہے، جس نے اپنے انبساط و حسرت کے تصور میں عاشق کو شامل کیا ہے، وہی مہ جبیں اپنے بدلتے ہوئے تصور اور رجحان اور زندگی کے تعلق سے اپنے بدلتے ہوئے رویے کے ساتھ نظر آتی ہے۔ ایک رویہ وہ تھا کہ اس کی سرمستی توجہ طلب بن گئی تھی، اس کی شخصیت کی سرشاری سامنے تھی، وہ چنچل بھی نظر آتی تھی، اس کے لب و لہجے کی تازگی متاثر کرتی تھی، اور ایک رویہ یہ ہے کہ دنیا میں کوئی شے، کوئی چیز باقی نہیں رہتی، وقت زمانہ ہر چیز کو مٹا دیتا ہے۔ مکاں رہ جاتا ہے مکیں چلے جاتے ہیں، بادشاہ ہفت اقلیم زیر خاک ہو جاتے ہیں، اب نہ رستم ہے اور نہ سام، جن کے سروں پر تاج ہوتے تھے آج ان پر فاتحہ پڑھنے والا کوئی نہیں ہے۔ شیریں، کوہکن، نل دمن، قیس لیلیٰ ان میں اب کون رہ گیا ہے؟ موت سے کسی کو رستگاری نہیں ہے، سب کو گزر جانا ہے، موت ایک حقیقت ہے، سب سے بڑی سچائی میں بھی گزر جاؤں گی، یہ زندگی بے ثبات ہے۔

اس بدلتے ہوئے رویے کے ساتھ مہ جبیں اپنے عاشق کو اس طرح سمجھاتی ہے:

’’ہم بھی گر جان دے دیں کھا کر سم

تم نہ رونا ہمارے سر کی قسم

دل کو ہم جولیوں میں بہلانا

یا مری قبر پر چلے آنا

جا کے رہنا نہ اس مکاں سے دور

ہم جو مر جائیں، تیری جاں سے دور

روح بھٹکے گی گر نہ پائے گی

ڈھونڈھنے کس طرف کو جائے گی

روکے رکھنا بہت طبیعت کو

یاد رکھنا مری وصیت کو

میرے مرنے کی جب خبر پانا

یوں نہ دوڑے ہوئے چلے آنا

کہے دیتی ہوں جی نہ کھونا تم

ساتھ تابوت کے نہ رونا تم

ہو گئے تم اگر چہ سودائی

دور پہنچے گی میری رسوائی‘‘

مہ جبیں کی شخصیت اردو مثنویوں میں منفرد حیثیت رکھتی ہے۔ بڑی توانا شخصیت ہے، اپنی روح کی گہرائیوں میں عشق کی دیوانگی چھپائے گزر جاتی ہے۔ رومان اور حالات کے تصادم میں اس کی ذات ابھرتی ہے اور ایک عام پلاٹ میں تحرک پیدا کر کے ٹریجڈی کا حسن نمایاں کر دیتی ہے۔ عشق میں تنظیم کا تصور پیدا ہی نہیں ہوتا، مہ جبیں کی شخصیت ایسی ہے کہ عشق اور حالات کی کشمکش کو دیکھتے ہوئے عشق کی دیوانگی لیے باطن میں اتر جاتی ہے اور باہر ایک تنظیم کا احساس دلاتی ہے، اس طرح اس عشقیہ کہانی میں عظمت پیدا ہو جاتی ہے۔ خوف صرف یہ ہے کہ دونوں بدنام نہ ہو جائیں، باطن کے تموج اور تلاطم کو ہر مقام پر محسوس کیا جا سکتا ہے، لیکن ساتھ ہی اس ذہن کی توانائی کا بھی احساس ملتا جاتا ہے، جو خارج میں عمدہ اور شریف قدروں کے پیش نظر ایک تنظیم (ORDER) پیدا کرنا چاہتی ہے۔

مہ جبیں کی شخصیت کا ایک اور پہلو اس طرح نمایاں ہوتا ہے کہ اسے اپنے عاشق کے درد کا احساس ہے، جانتی ہے کہ اس کی موت کے بعد عاشق کا وجود بکھر جائے گا، وہ اسے اداس دیکھنا نہیں چاہتی یہ نہیں چاہتی کہ اس سے محبت کرنے والے اور جس سے اس نے محبت کی ہے اس کا وجود بکھر جائے۔ روتی جا رہی ہے اور دنیا کی بے ثباتی کو محسوس بناتی جا رہی ہے، روتی جا رہی ہے اور عاشق کے ٹوٹ جانے اور بکھر جانے کے احساس سے کانپ کانپ جا رہی ہے:

’’رنج فرقت مرا اٹھا لینا

جو کسی اور جا لگا لینا

رنج کرنا نہ میرا، میں قرباں

سن لو گر اپنی جان ہے تو جہاں

دل پہ کچھ آنے دیجیو نہ ملال

خواب دیکھا تھا، کیجیو یہ خیال

رنج و راحت جہاں میں قوام ہے

کبھی شادی ہے اور کبھی غم ہے

مرگ کا کس کو انتظار نہیں

زندگی کا کچھ اعتبار نہیں

ہم کو گارے جو اپنے دل کو کڑھائے

ہم کو ہے ہے کرے جو اشک بہائے

عمر تم کو تو ہے بہت کھینا

دن بہت سے پڑے ہیں رو لینا

میں دل و جاں سے ہوں فدا تیری

لے کے مر جاؤں میں بلا تیری

اب تو کیں ٹھنڈی سانسیں بھرتا ہے

کیوں مرے دل کے ٹکڑے کرتا ہے

میں ابھی تو نہیں گئی ہو مر

کیوں سجائی ہیں آنکھیں رو رو کر

اس قدر ہو رہا ہے کیوں غم گیں

کیوں مٹاتا ہے اپنی جانِ حزیں

کر نہ رو رو کے اپنا حال زبوں

ارے ظالم ابھی تو جیتی ہوں

ایسے قصے ہزار ہوتے ہیں

یوں کہیں مردوے بھی روتے ہیں

تم نے جی دینے کی جو کی تدبیر

حشر کے روز ہوں گی دامن گیر

رنج سے میرے کچھ اداس نہ ہو

یوں تو للہ بدحواس نہ ہو

تم تو اتنے میں ہو گئے رنجور

تھک گئے اور ابھی ہے منزل دور

مہ جبیں کی شخصیت ایک بار پھر اپنی سرمستی اور سرشاری کا اظہار کرنے لگتی ہے، وہ اس شبِ آخر کو شب برات کی رات بنانا چاہتی ہے:

سمجھو اس کو شبِ برات کی رات

ہم ہیں مہماں تمہارے آج کی رات

آج دل کھول کے گلے مل لو

آؤ اچھی طرح سے کر لو پیار

کہ نکل جائے کچھ تو دل کا بخار

باہیں دونوں گلے میں ڈال لو آج

جو جو ارمان ہو نکال لو آج

پھر کہاں ہم کہاں یہ صحبت یار

کر لو پھر ہم کو بھینچ بھینچ کے پیار

پھر مرے سر پہ رکھ دو سر اپنا

گال پر گال رکھ دو پھر اپنا‘‘

یہ آخری رات ہے لہٰذا یہ کہتے ہوئے:

’’خوب سا آج دیکھ بھال لو تم

دل کی سب حسرتیں نکال لو تم‘‘

مہ جبیں سچائی اس طرح سامنے رکھتی ہے:

’’ہم تو اٹھتے ہیں اس مکاں سے کل

اب تو جاتے ہیں اس جہاں سے کل

حشر تک ہو گی پھر یہ بات کہاں

ہم کہاں تم کہاں یہ رات کہاں ‘‘

کل دنیا سے رخصت ہو جائے گی۔ کہتی ہے:

’’گو کہ عقبیٰ میں روسیاہ چلی

مگر اپنی سی میں، نباہ چلی

جی کو تم پر فدا کیا میں نے

حق وفا کا ادا کیا میں نے‘‘

مہ جبیں کی باتوں سے عاشق متاثر ہوتا ہے اور بے چین ہو کر کہتا ہے:

صدمہ ہر اک پہ یہ گزرتا ہے

زہر کھا کھا کے کوئی مرتا ہے

عاشق جو کچھ کہتا ہے اس سے محض کردار کی گہری صورت کی پہچان ہوتی ہے۔ لگتا ہے وہ مہ جبیں کی باتوں کی گہرائی تک نہیں جا سکا ہے۔ عام اخلاقی درس دینے لگتا ہے، مثلاً ماں باپ کا شکوہ ناحق ہے، اولاد پر ان کا بڑا حق ہوتا ہے، ان کے قدموں کے نیچے جنت ہے۔ ان کے رتبے کو پہچاننا چاہیے:

’’کیا بھروسہ حیات کا ان کی

نہ برا مانو بات کا ان کی‘‘

مہ جبیں کی اتنی اچھی اور دل کو چھو لینے والی گفتگو کے بعد ’’مثنوی زہر عشق‘‘ کے المیے کو ختم ہو جانا تھا، وحدتِ تاثر پیدا ہو چکی تھی، اس کے بعد خود یہ جبیں کی گفتگو میں کوئی لطف نہیں رہتا۔ اس کی موت کے بعد جو تفصیل پیش ہوئی ہے اس سے یہ تمثیل مکمل تو ہو جاتی ہے لیکن تاثر کی وحدت مجروح ہوتی ہے۔ یوں جذبوں کی پیشکش ایسی ہے کہ کئی رنگ سامنے آ جاتے ہیں اور مرزا شوق لکھنوی کی فنکاری متاثر کرتی ہے۔

بلاشبہ ’’مثنوی زہر عشق‘‘ اردو کی انتہائی عمدہ کلاسیکی مثنوی ہے، اس کی جمالیاتی خصوصیات صرف ایک مرکزی کردار مہ جبیں کی شخصیت کی دین ہیں۔ اس شخصیت نے کہانی کو ایک ایسا جذباتی تجربہ بنا دیا ہے کہ ہم اسے ہمیشہ یاد رکھیں گے۔ اختتامیہ اس ذات کی طلسماتی خواب کے ٹوٹنے کا جو حیران کن منظر پیش کرتا ہے، اس کے ارتعاشات (Vibrations) کو جانے ہم کب تک محسوس کریں۔

٭٭٭

تشکر: مصنف اور مصنف کی صاحبزادی شاہینہ جنہوں نے فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

Pages: 1 2 3 4 5 6 7 8