اردو کی کلاسیکی مثنویوں میں ’فینتاسی‘ کا جمال
’فینتاسی‘ (Fantasy) کے تعلق سے ذہن جس قدر گہرائی میں اترتا ہے ’فینتاسی‘ اتنی ہی پراسرار اور معمہ سا بنتی جاتی ہے۔ یہ تخیل (Imagination) کی دین ہے، یونانیوں اور رومیوں نے ’فینتاسی‘ کے تعلق سے کئی فلسفیانہ خیالات اور نکات پیش کیے لیکن اس کا تصور واضح نہ ہو سکا۔ یہ حقیقت ہے کہ یہ تخلیقی فکر و نظر یا تخلیقی سوچ کی ایک صورت ہے اور اس کا رشتہ انسان کی نفسیات سے گہرا ہے۔ انسان کے ہیجانات (Impulses) اس کی تخلیق میں نمایاں حصہ لیتے ہیں۔ ’فینتاسی‘ انسان کی نفسیات کی داخلی سطح میں تحرک پیدا کرتی ہے۔ صرف ادبیات ہی میں نہیں بلکہ مصوری، موسیقی، فیزکس اور علم ریاضی میں بھی اس کی اہمیت ہے۔ کارل مارکس نے کہا تھا کہ انسان کی ترقی اور اس کے فکری ارتقا میں ’فینتاسی‘ نے ایک بڑا معنی خیز کردار ادا کیا ہے، یہ بہت بڑی نعمت ہے۔ تخیل صرف ادبیات کی ضرورت نہیں ہے، علم ریاضی کی بھی ضرورت ہے، اس کے بغیر احصاعۂ تفریقی (Differential Calculus) کو دریافت کرنا ممکن نہ تھا۔
’فینتاسی‘ ذہن کا وہ نفسیاتی عمل ہے کہ جس سے نئی درو بینی پیدا ہوتی ہے اور ’وژن‘ نئی صورتوں کو پانے لگتا ہے۔ اردو ادب میں غالبؔ ’فینتاسی‘ کے سب سے بڑے تخلیقی فنکار ہیں۔ ایسی تخلیقی شخصیت ایسے ہمہ گیر ’وژن‘ کے ساتھ شاید ہی دنیا کے کسی ادب کو نصیب ہوئی ہو۔ رومانی اور جمالیاتی ’فینومینن‘ (Phenomenon) خلق کرنے والے اس فنکار کا ذہن حد درجہ زرخیز ہے، زرخیز ذہنی عمل ہی ’فینومینن‘ خلق کر سکتا ہے۔ ’فینتاسی‘ کی دنیا میں غالبؔ کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ ان کی سائیکی (Psyche) نے ’امیجری‘ کو صرف خلق ہی نہیں کیا بلکہ اسے توانائی بھی بخشی اور اسے تحرک بھی عطا کیا۔ جن ’فینومینا‘ کا وجود ہی نہ تھا دیوانِ غالب، اور ’کلیات غالب‘ میں ان کا ظہور ہوا۔ ’فینتاسی کے ’امیجیز‘ اور استعاروں نے ’’نفسی فینومینا‘‘ (Psychic Phenomena) کی ایسی تخلیق کی ہے کہ وہ اپنی مثال آپ بن گئی ہے۔
اردو کے کلاسیکی مثنوی نگاروں کی شخصیتیں ایسی تخلیقی نہ تھیں کہ ’وژن‘ سے ’فینومینن‘ خلق ہو جاتے پھر بھی تخلیقی ہیجانات اور تخیل نے انہیں حقیقت کی صورت دینے کی کوشش کی ہے کہ جن کا وجود نہیں ہے۔ تخیل کے عمل سے ایسے کردار اور مناظر سامنے آ جاتے ہیں جن کا مشاہدہ جمالیاتی آسودگی بخشتا ہے۔
اردو کی قدیم منثور اور منظوم کہانیوں کا تعلق ملک کے عوامی قصوں اور دیومالا سے بھی رہا ہے اور فارقی قصوں کہانیوں سے بھی۔ لوک کہانیوں اور مقامی قصوں کے اثرات بھی موجود ہیں، سنی ہوئی اور پڑھی پڑھائی کہانیوں کی نئی صورتیں بھی نظر آتی ہیں، دیو، جادوگر اور پریوں کے کردار نئی دنیا کے مناظرے آئے ہیں، قصوں میں تصادم اور کشمکش کی پیشکش کے لیے مثنوی نگاروں کے تخیل نے ’فینتاسی‘ پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔
’کدم راؤ پدم راؤ‘ (فخر الدین نظامی 1430-35;) میں راجا کدم راؤ کو ایک جوگی طوطا بنا کر اڑا دیتا ہے۔ راجا طوطا بنا جنگل جنگل اڑتا پھرتا ہے۔ ایک دن چھت پر بیٹھے اداس وزیر پدم راؤ کو اپنا قصہ سناتا ہے۔ پدم راؤ ناگ ہے جو جوگی کو ڈس لیتا ہے اور راجا کدم راؤ طوطے سے انسان بن جاتا ہے۔ راجا کدم راؤ سر پر ہاتھ پھیرتا ہے تو پدم راؤ کے سر پر پدم نمودار ہو جاتا ہے، وہ ناگ تو تھا لیکن اب تک اس کے سر پر پدم نہیں تھا۔ ہاتھ پھیرتے ہی پدم راؤ ایک لمبا ناگ بن جاتا ہے اور اس قدر اونچا اٹھتا ہے کہ اس کا سر چھت تک پہنچ جاتا ہے۔ ’فینتاسی‘ کے اس منظر کے ساتھ ’فینتاسی‘ کا نقطۂ عروج اس طرح سامنے آتا ہے:
پدم راؤ ادبھا ہوا چھات لگ
بتاتی گئی تن پہر رات لگ
ممکن ہے ’کدم راؤ پدم راؤ‘ کی کہانی کا تعلق کسی پرانے ہندوستانی لوک قصے سے ہو، مزاج اسی نوعیت کا ہے۔ فخرالدین نظامی نے جادو منتر، طلسمی ماحول، روح کی تبدیلی، چمتکار، معجزے اور خصوصاً آخری منظر سے ’فینتاسی‘ کی جو تخلیق کی ہے اس کی تاریخی اور ادبی اہمیت ہے، اردو مثنویوں میں اس کی حیثیت ’فینتاسی‘ کے ایک خوبصورت ابتدائیہ کی ہے۔ کہانی کا حسن ’’فینتاسی‘‘ میں سمٹ آیا ہے۔
’قطب مشتری‘ (وجہی 1607ء) کی عشقیہ کہانی ایک خواب کے دھندلکے سے نکلی ہے۔ قطب مشتری کی ’فینتاسی‘ سب سے پہلے ایک خوبصورت ’امیج‘ (مشتری) کی تخلیق کرتی ہے۔ شہزادہ قطب خواب میں ایک خوبصورت دوشیزہ کے ’امیج‘ (Image) پر عاشق ہو جاتا ہے۔ مصور عطارو بنگالے کی دوشیزہ کے حسن و جمال کی جو تعریف کرتا ہے، اس سے یہ ’امیج‘ روشن ہوتا جاتا ہے اور اس سے ’فینتاسی‘ کا حسن نمایاں ہونے لگتا ہے۔ عارو، آب حیات، چاند، سورج، حور، سحر بنگال، جنتر منتر، جسم، لباس، آنچل، سیہ تِل وغیرہ سے اس ’امیج‘ کے گرد ایک دلفریب رومانی فضا خلق کر دیتا ہے۔
’فینتاسی‘ کی اس سحر انگیزی سے مرکزی کردار کی نفسیات کی داخلی سطح پر بھی ایک تحرک پیدا ہوتا ہے، اس کے خواب اور ’امیج‘ دونوں کے دائرے وسیع ہوتے ہیں اور وہ خواب کے دھندلکوں یا فینتاسی کے جلال و جمال میں گم ہو جانا چاہتا ہے۔ خواب کے منظر (صفت مجلس طرب) اور مشتری کے محل کی تزئین و آرائش (آراستن محل مشتری) میں ’فینتاسی‘ کے جلوے موجود ہیں۔ کہانی آگے بڑھتی ہے تو قلعہ گلستاں، ملتا ہے، جہاں مہتاب پری شہزادے پر عاشق ہو جاتی ہے۔ ’قطب مشتری‘ میں تلاش کے پورے عمل میں ’فینتاسی‘ پیدا ہوتی رہی ہے۔ شہزادہ اور عطارو طوفان میں گھر جاتے ہیں، پہاڑ جیسے اژدہوں سے مقابلہ ہوتا ہے، راکھشس ملتا ہے، بڑے بڑے دانت والا اور ہر صبح نو ہاتھیوں کا ناشتہ کرنے والا راکھشس فنکار کی تخیل نگاری نے ’فینتاسی‘ کے ایک اچھے معیار کو پیش کیا ہے۔
’سیف الملوک اور بدیع الجمال‘ (غواصی 1625ئ) میں ’الف لیلہ‘ کی ’فینتاسی‘ موجود ہے۔ اس مثنوی کی ’فینتاسی‘ بھی خواب کے دھندلکوں سے پیدا ہوتی ہے۔ شہزادہ سیف الملوک خواب میں بدیع الجمال کو دیکھتا ہے اور اس ’امیج‘ پر عاشق ہو جاتا ہے اور اس کی تلاش میں نکلتا ہے، لیکن اسی وقت بادشاہ کے اندھے ہو جانے کی خبر ملتی ہے۔ شاہی حکیم کہتے ہیں کہ سراندیپ کے جنگل سے بکاؤلی پھول لایا جائے تو بادشاہ کی آنکھیں ٹھیک ہو جائیں گی۔ سیف الملوک سراندیپ پہنچ جاتا ہے۔ کہانی میں ’فینتاسی‘ کا عمل تیز ہو جاتا ہے، جِنوں اور پری زادوں سے زبردست ٹکراؤ ہوتا ہے، اسے فتح حاصل ہوتی ہے اور وہ گل بکاؤلی لے کر واپس آ جاتا ہے اور بادشاہ کی بینائی واپس آ جاتی ہے۔ اس کے بعد اس کا دوسرا سفر شروع ہوتا ہے، مقصد خواب کے ’امیج‘ بدیع الجمال کی تلاش ہے۔ ایک مقام پر وہ ایک ڈائن کو قتل کرتا ہے۔ یہ ڈائن لوگوں کو کھاتی جا رہی تھی۔ اب وہ جِنوں کے بادشاہ ارزق کے ملک میں پہنچتا ہے۔ ارزق نے شہزادی دولت خاتون کو قید کر رکھا ہے۔ سیف الملوک اسے آزادی دلانا چاہتا ہے۔ جِنوں کے بادشاہ ملک ارزق کے ملک میں جو واقعات رونما ہوتے ہیں وہاں ’فینتاسی‘ کی ایک دنیا خلق ہو گئی ہے۔ ہم ’فینتاسی‘ کے جلال و جمل سے متاثر ہوتے ہیں۔ دولت خاتون کے حسن و جمال اور لال آندھی اور بادلوں کی گرج، جن کی صورت وغیرہ سے ’فینتاسی‘ کی تصویریں نمایاں ہوتی ہیں۔ جِن جب سوتا ہے تب ہی اس کے جسم میں جان آتی ہے لہٰذا اسے صرف سوتے ہوئے ہی قتل کیا جا سکتا ہے۔ سوتے ہوئے جِن کے پاس آنے سے قبل ایک خوفناک اژدھے سے مقابلہ ہوتا ہے، اژدھے کی شکست ہوتی ہے۔ ایک شیر ملتا ہے جس پر سیف الملوک اسم اعظم پڑھ کر پھونک دیتا ہے، شیر پتھر کا بُت بن جاتا ہے۔ جِن کے پاس آ کر شہزادہ پھر اسم اعظم پڑھتا ہے اور جِن کی شہہ رگ بے حس ہو جاتی ہے۔ تلوار سے شہہ رگ کاٹ دیتا ہے۔ اس کی گردن دھڑ سے الگ کر دیتا ہے، جِن کے مرتے ہی قلعے میں زلزلہ آ جاتا ہے، طوفان اٹھتا ہے، اندھیرا چھا جاتا ہے۔ جب یہ سب تھم جاتا ہے تو اندھیرا ختم ہو جاتا ہے، شہزادہ کیا دیکھتا ہے قلعہ ہے اور نہ جِن کا جِسم، شہزادی دولت خاتون سامنے بے ہوش پڑی ہے۔ دولت خاتون کو اس کے ملک پہنچا کر وہ پھر شہزادی کی تلاش میں نکل پڑتا ہے۔ پوری فضا الف لیلوی ہے، الف لیلہ کی ’فینتاسی‘ سے غواصی نے خوب فائدہ اٹھایا ہے۔ شہزادہ ایک پُر اسرار پیر بزرگ کی دعائیں بھی حاصل کرتا ہے، جب شہزادہ بدیع الجمال کے حل کے پاس آتا ہے تو اسے پتہ چلتا ہے کہ ایک خونخوار پرندہ ہے جو ہر روز کسی نہ کسی انسان کو اٹھا کر لے جاتا ہے اور اسے اپنی غذا بناتا ہے۔ اس پرندے کی شکل و صورت اور ماحول پر اس کے خوف کے اثرات کی تصویر کشی میں اچھی ’فینتاسی‘ پیدا ہوئی ہے۔ پرندے کی آنکھیں سرخ ہیں، منھ بڑا ہے، چونچ آرے کی مانند ہے۔ شہزادہ پرندے کی گردن کاٹ دیتا ہے۔ پرندے کے ختم ہوتے ہی پورے شہر میں خوشی کی لہر دوڑ جاتی ہے۔ سیف الملوک، بدیع الجمال کو حاصل کر لیتا ہے۔ غواصی نے ’الف لیلہ‘ کے بعض واقعات کو اپنایا تو ہے لیکن انہیں نئی صورتیں دے دی ہیں۔ اپنے تخیل سے انہیں تازہ اور شاداب کر دیا ہے۔ ایک اچھے فنکار کی طرح غواصی نے ’فینتاسی‘ کی ایک بڑی خصوصیت ’’انتشار میں تنظیم‘‘ (Order out of Chaos) کی تصویر خوب ابھاری ہے۔
چندر بدن و مہیار (مقیمی 1628ئ) کا قصہ لیلیٰ مجنوں، شیریں فرہاد اور ہیر رانجھا کی طرح عوامی زندگی میں موجود تھا۔ مقیمی نے اس خاکے کو اپنایا اور ڈرامائی کیفیتوں اور ’فینتاسی‘ سے اسے نکھار دیا۔ عشقیہ مثنوی ہے کہ جس کا اختتام ایک خوبصورت فینتاسی‘ کی صورت جلوہ گر ہوا ہے۔ ’فینتاسی‘ کی سب سے بڑی خصوصیت ’تحیر‘ ہے جو آخری حصے میں پیدا ہوا ہے۔ موت کے بعد عاشق اور محبوب کفن میں ایک دوسرے میں جذب نظر آتے ہیں :
ہوا جیوں عمل سب قبر کا تمام
آٹھیا دفن کرنے کوں شر نیک نام
شہا دیکھ کر قدرتِ بے نیاز
کہ عاشق جنازے کا کیا نماز
منگیاں جو قبر میں اتاروں اسے
دفن کر دینا سوں بساروں اسے
جو دیکھیا جنازے میں مہیار کوں
تو ہے جفت مل کر سواس نارسوں
کفن بیچ آ کر او چندر بدن
گلے لگ کے سوتی ہے جوں ایک تن
گلے اس لگے پرت پیار سوں
پرت در محبت کی ہیار سوں
جدا ان کو ہر چند کرنے لنگے
کہ دونوں کوں دوٹھار دھرنے لنگے
نکیتے ایس جدائی پذیر
کہ تھے عاشقاں میں یو دو بے نظیر
تویوں لگ ایس میں دو سوتے اٹھے
جدا دو کسی تے نہ ہوتے اٹھے!
یہ ’ڈرامائیت‘، ’فینتاسی‘ کی دین ہے، تخیل کے عمل سے واقعہ، مشاہدے (Observation) کا منظر بن جاتا ہے۔ قاری کے ہیجان کو نفسیاتی سکون ملتا ہے اور جمالیاتی آسودگی حاصل ہوتی ہے۔
’’پھولبن‘‘ (ابن نشاطی 1655ئ) ’فینتاسی‘ کا ایک انتہائی خوبصورت نمونہ ہے۔ ابن نشاطی ایک بڑا تخیل نگار شاعر تھا کہ جس نے اس مثنوی میں ’فینومینن‘ خلق کرنے کی بڑی فنکارانہ کوشش کی ہے۔ میں نے اپنے مقالے ’’مثنوی پھولبن کا جمالیاتی معیار‘‘ (مطبوعہ ایوانِ اردو، دہلی، فروری 2000ئ) میں لکھا تھا کہ ابن نشاطی نے احمد حسن دبیر کی ایک فارسی داستان ’’بساتین الانس‘‘ کا اثر قبول تو کیا تھا لیکن تخیل نگاری اور دلکش طرزِ نگارش کی وجہ سے ’پھولبن‘ کو ایک منفرد حیثیت حاصل ہو گئی ہے۔ ایک عمدہ جمالیاتی معیار قائم کرنے میں شاعر کی رومانیت نے بڑا حصہ لیا ہے، اس رومانیت کا پہچان تخیلیت، جذبوں کی رنگ، ’فینتاسی‘ فضا آفرینی اور کرداروں کے تحرک سے ہوتی ہے۔ ’فینتاسی‘ کی رومانیت کا تقاضا ہے کہ زندگی کو پراسرار بنا کر پیش کیا جائے تاکہ فینتاسی کے جلال و جمال کا اثر زیادہ سے زیادہ ہو۔ ابن نشاطی نے اس مثنوی میں زندگی کو پراسرار بنانے کی فنکارانہ کوشش کی ہے۔ ’کنچن ٹین‘ کی خوبصورتی کے بیان میں ’فینتاسی‘ ابھر کر سامنے آئی ہے:
کنچن کے تِس اوپر تویاں زنبورے
کنچن برجاں یو کنچن کے کنگورے
کنچن کے گھے کنگر، کنچن کی تھی گچ
کنچن کوں گال باندے تھے کنچن برح
کنچن کے تھے محل، کنچن کی دیوار
کنچن پر پھر کنچن لیپے تھے ہرٹھار
اسی طرح شہر کی زمین میں ’فینتاسی‘ کی رومانیت خوب واضح ہوتی ہے۔ پراسرار شہر اور پر اسرار محل کی تصویروں سے ابتدا ہی سے ’فینتاسی‘ متاثر کرنا شروع کر دیتی ہے۔ پھولبن کی پراسراریت اور اس کی ’فینتاسی‘ (Fantasy) سے رومانی جمالیاتی رویے کی قدر و قیمت کا اور اندازہ ہوتا ہے۔ واقعات میں جو پراسراریت ہے اس سے جمالیاتی انبساط حاصل ہوتا ہے۔ سمن بر اور ہمایوں فال کی کہانی میں فنکار نے ’فینتاسی‘ کے معیار کو بلند کیا ہے۔ شاہ ہند کے خزانے میں ایک مچھلی ہے کہ جس پر طلسم تحریر ہے، اگر اسے پانی میں ڈال دیں تو وہ دریا کی گہرائیوں میں اتر جائے گی اور گہرائیوں کی سچائیاں لکھ کر لے آئی گی۔ اسی مچھلی سے پتہ چلتا ہے کہ شہزادے کو ایک مچھلی نگل گئی تھی، اسے ہضم نہ کر سکی، لہٰذا سمن کے جزیرے پر اُگل آئی پریوں کی قید میں ہے، اس کے بعد ہی تلاش کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔ اور ’فینتاسی‘ کا ایک سلسلہ قائم ہو جاتا ہے۔
خزینے میں مرے ہے ایک مچھلی
نہ مچھلی اس کے سم کوی آؤے مچھلی
کیے ہیں اس کوں حکمت سوں حکیماں
گھڑے ہیں بھوت صف سوں حکیماں
طلسم اس پر لکھے ہیں، خوب اول تی
سٹے پانی میں تو آ بیچ چلتی
حقیقت قصر کا جناں کنے سوں
لکھا لاتی اپے پانی نے سوں
خبر بارے اول شہزادے کالیو
تمیں منگتے ہیں جیوں بعد از سزا دیو
منگا بیگی سوں اس مچھلی کوں در حال
کے تیوں لے کے پانی میں اسے ڈال
و مچھلی اس حقیقت کا خبر لے
نکل کر آئی دو دن کوں تیرلے
اسی طرح ’سورگ بن‘ کے بیان میں ’فینتاسی‘ پیدا ہوئی ہے۔ ابن نشاطی کی جمالیاتی فکر و نظر سے ایک اور دنیا سامنے آتی ہے۔ یہ کنچن پٹن جیسی دنیا نہیں ہے، یہاں ’فینتاسی‘ کے تحیر کا ایک دوسرا ہی پہلو ہے۔ ’امیجری‘ (imagery) ’فینتاسی‘ کی روح ہے۔ ابن نشاطی نے ’امیجری‘ سے خوب کام لیا ہے۔ شاعر نے اپنے طور پر ’فینتاسی‘ میں ’امیجیز کا ایک معیار قائم کر دیا ہے۔ جانے کس نے کہا تھا کہ فینتاسی میں :
"Non-existent phenomenon manifests itself as something new”
’مثنوی پھولبن‘ میں یہ سچائی موجود ہے۔
’’گلشنِ عشق‘‘ (نصرتی 1657ئ) میں ’فینتاسی‘ (Fantasy) کو بڑی نمایاں حیثیت حاصل ہے۔ فنکار کے تخیلی اور تخلیقی عمل سے مشاہدے کے جانے کتنے مناظر سامنے آئے ہیں، نصرتی کا ذہن حد درجہ زرخیز ہے۔ یہاں ’فینتاسی‘ کے تعلق سے صرف تصویریں یا مناظر نہیں ہیں بلکہ ہیجانات (Impulses) کا عمل دخل بھی بہت زیادہ ہے۔ نصرتی کی کوشش یہ ہے کہ نئے حالات اور واقعات پیش کیے جائیں، کچھ اس طرح کہ جو کچھ موجود نہیں ہے، موجود نظر آئے۔ کئی مقامات پر نفسی فینومینا سے عمدہ فینتاسی پیدا ہو گئی ہے۔
راجا فقیر کی تلاش میں جنگل جنگل گھومتا ہے، اس کے پورے سفر میں ’فینتاسی‘ کی ایک بہت ہی خوبصورت دلکش اور تحیر آمیز دنیا ابھرتی ہے۔
ایک تالاب کے پاس پہنچتا ہے تو ہر جانب خوبصورت درخت اور پھل پھول دکھائی دیتے ہیں، خوشبو آوارہ پھر رہی ہے، چار پریاں تالاب میں نہاتی نظر آتی ہیں، جو راجا کا درد جانتی ہیں۔ پریاں راجا کو فقیر کا پتہ بتاتی ہیں۔ سر کا بال دیتی ہیں، کہتی ہیں یہ مصیبت میں کام آئیں گے پھر راجا کو اپنے تخت پر بیٹھا کر فقیر کے غار تک لے جاتی ہیں۔
راجا فقیر کو پریوں کے بال دکھاتا ہے تو فقیر اسے پاس بلا لیتا ہے، فقیر کی ہدایت پر راجا شریفے کے ایک درخت سے ایک پھل توڑ کر رانی کو کھلا دیتا ہے اور وہ حاملہ ہو جاتی ہے۔ ایک خوبصورت لڑکا پیدا ہوتا ہے نام منوہر رکھا جاتا ہے، شاہی نجومی زائچے اسے بتاتا ہے کہ چودہ برس کی عمر میں راجکمار منوہر ایک بڑے خطرے سے دوچار ہو گا۔
راجا اپنے بیٹے کو چھت کے نیچے ہی رکھتا ہے لیکن ایک شب چھت پر سو جاتا ہے اور پریاں اس کے حسن و جمال سے متاثر ہوتی ہیں۔ اتنے خوبصورت راجکمار کے لیے اتنی ہی خوبصورت لڑکی چاہیے۔ کل نو پریاں ہیں جو مختلف سمتوں میں اڑ جاتی ہیں۔
نویں پری یہ خبر لاتی ہے کہ سات دریاؤں کے پار ایک ملک ہے جس کا نام ’مہارس نگر‘ ہے اس کے راجا دھرراج کی ایک لڑکی ہے۔ مدماتی وہی راجکمار کی شریک زندگی ہو سکتی ہے۔ پریاں راجکمار کا پلنگ اٹھا لیتی ہیں اور مدماتی کی پلنگ کے ساتھ رکھ دیتی ہیں۔ جب منوہر اور مدماتی کی آنکھیں کھلتی ہیں تو دونوں ایک دوسرے پر عاشق ہو جاتے ہیں، پھر انگوٹھیاں بدلی جاتی ہیں۔
پریاں راجکمار کی مدد کرتی رہتی ہیں، منوہر کی آنکھوں میں سلائی ڈال دینے سے منوہر کسی کو نظر نہیں آتا لہٰذا وہ اطمینان سے اپنی محبوبہ کے پاس پہنچ جاتا ہے۔
راجا کو حقیقت معلوم ہوتی ہے، منوہر کو سات سمندر پار جا کر مدماتی سے ملنے کی اجازت دیتا ہے۔ منوہر ایک جہاز پر سوار ہو کر’مہارس نگر‘ کے لیے روانہ ہوتا ہے کہ طوفان آ جاتا ہے، سمندر میں ایک بہت بڑا اژدھا نمودار ہوتا ہے کہ جس کے منھ سے انگارے نکل رہے ہوتے ہیں، جہاز اژدھے سے ٹکرا کر ٹوٹ جاتا ہے، منوہر کسی طرح ایک تختے کے سہارے بہتے بہتے ایک جزیرے پر آ جاتا ہے۔ اس سنسان علاقے میں ایک چڑیل ان کی گردن پر سوار ہو جاتی ہے، سیاہ فام، دانت باہر نکلے ہوئے اور ہاتھ پیر الٹے، چڑیل، منوہر کو غار میں بند کر دیتی ہے، وہ اسے کھا جانا چاہتی ہے، اسے کھڑا پیر پکانا چاہتی ہے۔
منوہر پری کو یاد کرتا ہے، پری آ کر کہتی ہے کہ اب وہ اس کی کوئی مدد نہیں کر سکے گی، البتہ اس کی آنکھوں میں سرمے کی سلائی ڈال سکتی ہے جس سے وہ اس کی نگاہوں سے اوجھل ہو جائے گا۔ پری سرمے کی سلائی منوہر کی آنکھوں میں ڈال دیتی ہے اور وہ غائب ہو جاتا ہے۔
منوہر بھاگ کر ایک پہاڑ کے قریب آتا ہے تو وہ چڑیل اس کی بو سونگھتے سونگھتے پاس آ جاتی ہے۔ چیختی ہے اس کی چیخ سن کر غار سے ایک اژدھا نکل پڑتا ہے۔
اژدہا چڑیل پر حملہ کر دیتا ہے اور اسے چبا جاتا ہے۔
راجکمار کسی طرح وہاں سے فرار ہو کر سمندر کے کنارے آ جاتا ہے، شب میں وہ ایک خالی جھونپڑی میں داخل ہوتا ہے تو ایک چٹائی پر انسان کا خون نظر آتا ہے، اچانک باہر ایک خوفناک آواز آتی ہے۔ یہ شیر کی آواز ہے جو ایک انسان کی لاش چبا رہا ہے۔ راجکمار کی آنکھوں میں تو سرمے کی سلائی ڈالی گئی ہے، لہٰذا شیر بھی اسے دیکھ نہیں پایا۔
منوہر بھاگتا بھاگتا ایک ایسی جگہ پر آتا ہے کہ جہاں آدم خور آباد ہیں۔ کیا دیکھتا ہے ایک انسان درمیان میں ہے اور وہ آدم خور اس کے گرد رقص کر رہے ہیں، منوہر اس شخص کو پہچان لیتا ہے، وہ بھی جہاز میں منوہر کے ساتھ تھا، ممکن ہے بچ کر یہاں آ گیا ہو۔ منوہر ایک آدم خور کے ہاتھ سے چھری لے لیتا ہے۔ اسے آدم خور دیکھ ہی نہ سکے، سب حیرت زدہ یہ کیا ہوا، کون چھری لے گیا؟
منوہر اس شخص کو آزاد کر کے ساتھ لے لیتا ہے۔ آدم خور اپنے شکار کی تلاش میں سرگرداں رہتے ہیں۔ دونوں ایک غار میں چھپ جاتے ہیں، جہاں آدم خور پہنچ جاتے ہیں۔ ایک آدم خور اندر جانے لگتا ہے تو راجکمار اسے ختم کر دیتا ہے۔ مرے ہوئے آدم خور کا نیزہ راجکمار کے ہاتھ میں آ جاتا ہے اور وہ آدم خوروں پر حملے کرنے لگتا ہے، آدم خور پریشان ہیں کہ یہ کیا ہو رہا ہے، اس لیے انہیں راجکمار نظر نہیں آتا، باقی آدم خور بھاگ جاتے ہیں۔
منوہر کی آنکھوں میں پڑے سرمے کا اثر زائل ہو جاتا ہے اور وہ نظر آنے لگتا ہے۔ پری کی مدد مانگتا ہے، پری مدد نہیں کر پاتی۔ منوہر اپنے ساتھی کے ساتھ آدم خوروں کی کشتی چرا لیتا ہے لیکن بدنصیبی سے منوہر کا ساتھی پہرے دار آدم خور کے تیر سے مر جاتا ہے۔ ایک بار پھر آدم خور آ جاتے ہیں اور شہزادے کو گرفتار کر لیتے ہیں۔
آدم خور منوہر کو کھا جانے کی تیاری کرتے ہیں۔ منوہر مالک سے دعا کرتا ہے۔ اسی وقت ایک بزرگ ظاہر ہوتے ہیں اور منوہر کی مدد کرتے ہیں۔ چلتے ہوئے ایک تحفہ دیتے ہیں، توانائی اور طاقت کی صورت میں !
راجکمار اس بزرگ کی دی ہوئی طاقت سے تمام آدم خوروں کو شکست دے دیتا ہے، پھر ایک کشتی پر سوار ہو کر نکل جاتا ہے، مقصد صرف یہ ہے کہ مدماتی حاصل ہو جائے۔ راجکمار ایک باغ میں پہنچتا ہے جہاں پرندے تو ہیں، انسان نہیں ہیں، محل تو ہے انسان موجود نہیں، محل میں داخل ہوتا ہے تو کیا دیکھتا ہے کہ ایک خوبصورت عورت تخت پر لیٹی ہوئی ہے، منوہر کو دیکھ کر وہ ہنستی بھی ہے اور روتی بھی ہے، راجکمار سبب دریافت کرتا ہے تو کہتی ہے کہ ہنسی اس لیے کہ ایسا خوبصورت نوجوان کبھی دیکھا نہیں اور روئی اس لیے کہ ابھی دیو آئے گا اور اسے کھا جائے گا۔ بتاتی ہے ایک دیو نے اسے قید کر رکھا ہے، اس عورت کا نام چمپاوتی ہے۔
چمپاوتی سے پیار کرتے ہوئے دیو راز کی بات بتا دیتا ہے۔ کہتا ہے کہ میری جان ایسی جگہ پر ہے کہ جہاں کوئی پہنچ نہیں سکتا، تین دریا پار ایک صحرا ہے، اس کے بعد ایک جنگل ہے، اس جنگل میں ایک اندھا کنواں ہے جس پر ایک بھاری پتھر رکھا ہوا ہے، اس کنویں میں ایک طاقچہ ہے جس کے اندر ایک گلستاں ہے اس کے اندر ایک شاندار محل ہے، محل کے ایک تہہ خانے میں ایک پنجرہ ہے، اس پنجرے میں ایک طوطا ہے، اس طوطے میں میری جان ہے۔ راجکمار دیو کی ساری باتیں سن لیتا ہے۔ چمپاوتی کے ساتھ رات بسر کر کے دیو کی جان کی تلاش میں نکل پڑتا ہے۔
منوہر دریا پار کرتا ہے، صحرا سے گزرتا ہے، طوفان کا مقابلہ کرتا ہے۔ جنگل میں پہنچ جاتا ہے، گھنے جنگل کی وجہ سے اندھیرا ہے۔ لہٰذا وہ گھوڑے سے اتر کر آرام کرتا ہے۔ نصف رات میں اچانک بیدار ہو جاتا ہے، چند عورتوں کی آوازیں سنتا ہے۔ کیا دیکھتا ہے پاس ہی درخت پر چار عورتوں کے سر ٹنگے ہوئے ہیں، ان کے لمبے لمبے بال زمین تک آرہے ہیں، ایک عجیب منظر ہے۔ عورتیں کہہ رہی ہیں جانے کب ہم اپنے دھڑوں سے جا ملیں گے۔ راجکمار کے سوال کے جواب میں وہ بتاتی ہیں کہ وہ پریاں ہیں۔ ہم چاروں بہنیں ہیں۔ ایک جن نے ہماری گردنیں کاٹ کر یہاں درخت پر لٹکا دیے ہیں۔ ہمارے دھڑ نزدیک ہی ایک جھونپڑے میں پڑے ہیں۔ اگر جِن قتل کر دیا جائے، تو ہمارے دھڑ اپنے آپ جھونپڑی سے نکل کر یہاں آ جائیں۔
راجکمار اس جھونپڑی میں پہنچ جاتا ہے، وہاں جن پر حملہ کرتا ہے، مرد بزرگ کی عطا کی ہوئی توانائی سے اسے شکست دیتا ہے۔ ادھر جن کی گردن کٹتی ہے ادھر جنگل میں طوفان اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔ درخت جڑوں سے اکھڑ جاتے ہیں، اب پریوں کے دھڑ باہر نکل کر چلنے لگتے ہیں۔ پریوں کے سر دھڑ میں لگ جاتے ہیں۔ اس کے بعد راجکمار پہلے جِن کی جان کی تلاش میں نکل پڑتا ہے۔ بڑی مصیبتیں اٹھا کر طوطے کے پنجرے کے پاس پہنچ جاتا ہے۔اسی وقت دیو آ جاتا ہے لیکن اس وقت تک راجکمار طوطے کو مار دیتا ہے۔ جِن یا دیو کے مرنے کے بعد پورے ماحول کی صورت تبدیل ہو جاتی ہے۔ مدماتی حاصل ہو جاتی ہے۔
منوہر اور مدماتی کی شادی ہو جاتی ہے!
’گلشن عشق‘ میں ’فینتاسی‘ کی ایک انتہائی خوبصورت، دلچسپ اور پراسرار دنیا آباد ہے۔ اردو کی کسی مثنوی میں ’فینتاسی‘ اور اس کے حسن و جمال کی ایسی مثال نہیں ملتی۔ کہانی کا تعلق پرانے قصوں اور لوک کہانیوں سے یقیناً ہے لیکن نصرتی کی تخیلی اور تخلیقی فکر نے اسے ایک نئی تخلیق کی صورت دے دی ہے اور ’فینتاسی‘ کا ایک انتہائی پرکشش معیار قائم کر دیا ہے۔ تلاش محبوب بنیادی موضوع ہے، فنکار کا تخلیقی ذہن اتنا زرخیز ہے کہ مشاہدے کے جانے کتنے عمدہ رومانی اور جمالیاتی مناظر خلق ہو گئے ہیں۔ ڈرامائیت اور ڈرامائی آہنگ کے بغیر ’فینتاسی‘ کا تصور ہی پیدا نہیں ہو سکتا۔ ’گلشن عشق‘ کے ڈرامائی مناظر اپنی مثال آپ ہیں۔ نصرتی کا ذہن تخیل نگاری میں بہت آگے ہے، جو موجود نہیں ہے۔ (Non-existent) کو ’حقیقت‘ کی صورت دینے کی فنکارانہ کوشش غیر معمولی نوعیت کی ہے۔ ایسے قصوں کو اب تک صرف یہ کہہ کر نظرانداز کیا گیا ہے کہ یہ حقیقت اور سچائی سے دور ہیں، خوابوں کی دنیا پیش کرتے ہیں، ہوائی قلعے تعمیر کرتے ہیں، فوق الفطری عناصر اور کرداروں کے گرد گھومتے ہیں۔ ایسے قصوں میں ’فینتاسی‘ کی قدر و قیمت کا اندازہ نہیں کیا گیا۔’گلشن عشق‘ نے رومانیت کے دائرے میں بڑی وسعت پیدا کی ہے۔ مرکزی کردار کے پورے سفر میں رومانیت کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتا جاتا ہے۔ نصرتی سے قبل اور نصرتی کے بعد کسی بھی مثنوی نگار نے ’فینومینن‘ (Phenomenon) خلق کرنے کی ایسی مسلسل کوشش نہیں کی۔ مشاہدے (Observation) کے اتنے سارے ڈرامائی مناظر پیش نہیں کیے، کرداروں کو ’امیجیز‘ بنانے میں پیش پیش نہیں رہے۔ فوق الفطری کرداروں کو ہیجانات (Impulses) عطا نہیں کیے اور واقعات کا رشتہ انسان کے سماج اور اس کی نفسیات سے اتنا گہرا نہیں کیا۔ مثنوی ’گلشن عشق‘ کی خوبصورت ’فینتاسی‘ میں جن واقعات اور مناظر نے روح پھونک دی ہے، ان میں چند یہ ہیں :
پریاں اپنے سر کے بال راجا کو دیتی ہیں اور درویش راجا پر مہربان ہو جاتا ہے۔
پریوں کا ’مہارس نگر‘ میں منوہر کے لیے مدماتی کا انتخاب کرنا۔
منوہر کی آنکھوں میں پری کا سرمہ ڈالنا، منوہر سب کو دیکھ سکے مگر اسے کوئی دیکھ نہ سکے۔
اژدھے سے جہاز کا پاش پاش ہو جانا۔
راجکمار پر چڑیل کا سوار ہونا۔ اژدھے کا چڑیل پر حملہ۔
آدم خوروں کا علاقہ- وہاں کے مناظر۔
درویش کا ظہور- منوہر کی توانائی کا چکر عطا کرنا۔
دیو سے منوہر کی جنگ- دیو کی جان کی تلاش۔دیو کے ٹوٹ ٹوٹ کر مرنے کا منظر۔
مدماتی کا طوطی بننا اور پھر مدماتی کی صورت میں نمودار ہونا۔
’فینتاسی‘ تحیر کے جمال کا تقاضا کرتی ہے، تحیر کے جلال و جمال ہی سے تجسس پیدا ہوتا ہے۔مثنوی ’گلشن عشق‘ میں تحیر کا جلال و جمال متاثر کرتا ہے۔ جو ڈرامائی مناظر ہیں ان میں ’فینتاسی‘ کا جلال و جمال موجود ہے۔ آدم خوروں کے علاقے میں جو واقعات رونما ہوتے ہیں، دیو یا جِن کی جان کی تلاش میں منوہر جن حالات سے دوچار ہوتا ہے، چار پریوں کی گردنیں جس طرح درخت سے لٹکی رہتی ہیں، جن کے ساتھ جو تصادم ہوتا ہے(تصادم کا منظر انتہائی پرکشش ہے) طوطے کے ساتھ دیو جس طرح تڑپ تڑپ کر مرتا ہے اور دیو کے مرتے ہی جو تیز آندھی آتی ہے، ساری چیزیں جس طرح دیکھتے ہی دیکھتے گم ہو جاتی ہیں۔ یہ سب تحیر کے حسن کو نمایاں کرتے ہیں، جلال کے مناظر بھی دلکش ہیں اور جمال کے مناظر بھی پرکشش ہیں۔ ایسی ’فینتاسی‘ اس لیے بھی پرکشش بن جاتی ہیں کہ ہمارے لاشعور میں ان کا حسن اور ان کے تحیر کا حسن موجود ہے۔ مسرتوں اور اداسیوں کی جانے کتنی داستانیں ہم اپنے لاشعور میں لیے پھرتے ہیں۔ ’فینتاسی‘ کے کرداروں کی نفسیات یا ان کے ہیجانات ہم سے علاحدہ نہیں ہیں۔ نصرتی کی شاعری کی نغمگی نے انہیں اور بھی محسوس بنا دیا ہے۔ اس شاعر کی تخلیقی صلاحیت ایسی ہے کہ جلال و جمال کے مناظر سے فوراً ہی جمالیاتی انبساط حاصل ہونے لگتا ہے اور یہ بڑی بات ہے۔ ’گلشن عشق‘ کا ’کینوس‘ بہت بڑا ہے، نصرتی نے بنیادی کہانی پر گہری نظر رکھتے ہوئے بہت سی چھوٹی بڑی تصویریں پورے کینوس پر ابھاری ہیں۔ موسموں کی رومانیت ہو یا جنگلوں، صحراؤں اور باغوں کا جلال و جمال، خباثتوں کی دنیا ہو یا فراق اور وصل کے مناظر سب ’فینتاسی‘ کا حسن لیے اس ’کینوس‘ کی قدر و قیمت میں اضافہ کرتے ہیں۔
مثنوی سحر البیان (میر حسن ۸۵۔۱۷۸۴ئ) کے کئی مناظر فینتاسی کے عمدہ نمونے ہیں۔ مندرجہ ذیل مناظر میں ’فینتاسی‘ کی پہچان ہوتی ہے۔
’’داستان شاہ زادے کے کوٹھے پر سونے کی اور پری کے اڑا کر لے جانے کی‘‘ ۔
’’داستان پرستان میں لے جان کی‘‘ ۔
’’خواب میں دیکھنے میں بدر منیر کے لیے بے نظیر کو کنویں میں ‘‘ ۔
’’داستان نجم النسا کے جوگن ہونے میں ‘‘ ۔
’’داستان فیروز شاہ، جِنوں کے بادشاہ کے بیٹے کے عاشق ہونے میں جوگن پر‘‘ ۔
حیرت انگیز مناظر میں شدت بہت کم ہے، اس کے باوجود ان سے ’فینتاسی‘ کے عمدہ مناظر پیدا ہوتے ہیں اور جمالیاتی انبساط حاصل ہوتا ہے۔
قضا را ہوا اک پری کا گزر
پڑی شاہ زادے پہ اس کی نظر
بھبھوکا سا دیکھا جو اس کا بدن
جلا آتشِ عشق سے اس کا تن
ہوئی حسن پر اس کے جی سے نثار
وہ تخت اپنا لائی ہوا سے اتار
جو دیکھا تو عالم عجب ہے یہاں
منور ہے سارا زمیں آسماں
محبت کی آئی جو دل پر ہوا
وہاں سے اسے لے اڑی دل رُبا
٭
’طوطی نامہ‘ (جعفر علی حسرت ۸۷-۱۷۸۵ئ) میں کم و بیش ڈھائی ہزار اشعار ہیں۔ ’فینتاسی‘ اس مثنوی کی روح ہے۔ عشقیہ داستان ہے۔ طوطی اور شکرپارا کے عشق کی داستان۔ طوطی شکرپارا کی تصویر دیکھ کر دیوانہ ہو جاتا ہے۔ شکر پارا بھی طوطی کی عشق کی باتیں سن کر اس پر عاشق ہو جاتی ہے۔ کہانی میں انوپ (مصور) اور امرت وغیرہ کے کردار شامل ہوتے ہیں۔ طوطی ہلاک ہو جاتا ہے، شکر پارا اسکی لاش کو ایک صندوق میں بند کر دیتی ہے۔ اس خیال سے کہ ممکن ہے کہ طوطی کسی اور جسم میں داخل ہو گیا ہو، ایک طوطا آتا ہے، جسے شکر پارا اپنے شوہر طوطی کی لاش دکھاتی ہے۔ طوطے کی روح طوطی کے جسم میں داخل ہو جاتی ہے۔ طوطی کو دوسری زندگی مل جاتی ہے۔ ایک شہزادہ شکر پارا کو لے جاتا ہے، یہ مقام طلسم کی دنیا ہے۔ اس کے بعد طوطی کا سفر شروع ہوتا ہے۔ جوگی بن کر بیٹھ جاتا ہے۔ وہاں ایک ہرن اور ہرنی آ کر باتیں کرتے ہیں۔ ہرن جوگی بن جاتا ہے اور ہرنی پری بن جاتی ہے۔ کہانی میں آہستہ آہستہ ’فینتاسی‘ کا دائرہ بڑھتا جاتا ہے۔ انگوٹھی اپنا کرشمہ دکھاتی ہے، شہزادہ طلسمی انگوٹھی کے ذریعے کامیابی حاصل کرتا ہے۔ ایک جگہ شہزادی کی ہدایت پر انگوٹھی کا طلسم سرخ رنگ کے ایک طلسمی پیڑ کو اکھاڑ دیتا ہے اور اسی وقت ایک دیو سامنے آ جاتا ہے۔ طوطی پر حملہ کرنا چاہتا ہے کہ طوطی اپنی طلسمی انگوٹھی اس کے منہ میں ڈال دیتی ہے اور دیو کا وجود مٹ جاتا ہے۔ لال پری جو دیو کی بہن ہے طوطی سے بدلہ لیتی ہے۔ ’فینتاسی‘ پیدا ہوتی رہتی ہے۔ ’باطل السحر‘ پڑھ کر طوطی کو زندہ کیا جاتا ہے۔ آخر میں طلسم پر فتح حاصل ہو جاتی ہے۔ طلسمی دنیا کی تمام مورتیاں انسان بن جاتی ہیں۔ تمام انتشار ختم ہو جاتے ہیں اور زندگی میں ایک ترتیب پیدا ہو جاتی ہے۔ ’طوطی نامہ‘ کی ’فینتاسی‘ زیادہ دلچسپ ہے اور غالباً اس کی ایک وجہ قصوں کی پیچیدگی ہے۔ حسرتؔ ’فینتاسی‘ پیدا کرنے میں اپنا جواب نہیں رکھتے۔ رنگا رنگ تجربوں اور ڈرامائی کیفیتوں سے ’فینتاسی‘ کے عمدہ نمونے پیش کرتے ہیں۔
’مثنوی گلزار نسیم‘ (پنڈت دیا شنکر نسیم ۳۹-۱۸۳۸ء) میں ’گل بکاؤلی‘ کی تلاش ایک بڑی خوبصورت ’فینتاسی‘ ہے۔ رومانی تخیل نے ’فینتاسی‘ کے بعض بڑے خوبصورت نمونے پیش کیے ہیں۔ نسیم کی رومانیت اور ’فینتاسی‘ نے محاوروں کی مدد سے عمدہ فضا آفرینی کی ہے۔ مثنوی گلزار نسیم ایک پرانی داستان کی نئی تخلیق ہے۔ شاعر کی تخلیقی فکر نے اسے طرح طرح سے سنوارا ہے۔ واقعات و حادثات کو مناظر کی صورت دے دی ہے جو ’فینتاسی‘ کے حسن کو نمایاں کرتے ہیں۔
بلّی کا سر، چراغ داں تھا
چوہا، پالے کا پاسباں تھا
الٹاتے اڑی یہ قسمت آسا
بلّی جو، دِیا تو موش پاسا
جیتے ہوئے بندے تھے ہزاروں
قسمت نے پھنسائے یہ بھی چاروں
٭
اک ٹیکرے پر گیا بلایا
وہ مثلِ صدائے کوہ آیا!
٭
خیمے سے وہ بے قرار نکلی
اس چھالے سے مثلِ خار نکلی
دیکھا تو اندھیری رات سنسان
اک عالم ہو ہے اور بیاباں
اک دیو وہاں پہ گشت میں تھا
جو پائے شکار دشت میں تھا!
٭
دیکھا تو وہ بت تھی مٹھ کے اندر
جسم، آدھا پری تھا آدھا پتھر
بلاشبہ اردو کی کلاسیکی مثنویوں نے اردو ادب میں ’فینتاسی‘ کی ایک بڑی پیاری دلکش دنیا خلق کر دی ہے۔
٭٭٭