فہرست مضامین
- اخترو سلمیٰکے خطوط
- بہارستان سبھا سے ایکاقتباس
- ’’بہارستان‘‘ کی ڈاک میں ایکگمنام تحریر
- کوکب کا خط
- سلمیٰ کا خط
- سلمیٰ کا دوسرا خط
- کوکب کا خط
- سلمیٰ کا خط
- کوکب کا خط
- کوکب کا خط
- میری ڈائری کا ایک ورق
- سلمیٰ کا خط
- کوکب کا خط
- سلمیٰ کا خط
- سلمیٰ کا خط
- کوکب کا خط
- کوکب کا خط
- سلمیٰ کا خط
- کوکب کا خط
- سلمیٰ کا خط
- کوکب کا خط
- سلمیٰ کا خط
- سلمیٰ کا خط
- کوکب کا خط
- سلمیٰ کا خط
- ہلاکِ تلوّن
- سلمیٰ کا خط
- سلمیٰ کا خط
- سلمیٰ کا خط
- سلمیٰ کا خط
- کوکب کا خط
- سلمیٰ کا خط
اخترو سلمیٰکے خطوط
اختر شیرانی
سلمیٰ و اخترکی باہمی مراسلت(مکاتیب)
اشاعت 1957 عیسوی
نہ دے نامہ کواِتنا طُول غالب مختصر لکھ دے
کہ حسرت سنجہوں عرضِستم ہائے جُدائی کا
غالباً ۱۹۳۴ء کا زمانہ تھا۔ ماہنامہ”رومان”اختر شیرانی مرحوم اور برادرِ محترمڈاکٹر عاشق حسین بٹالوی کیمشترکہ اِدارت میں نکل رہا تھا۔ میں اُن دنوں منٹگمری میں بسلسلہ ملازمتمقیم تھا اور ڈاکٹر صاحب اسلامیہ کالج کے قریب ملکھی رام سٹریٹ میں سکونت رکھتے تھے۔
میری ملازمت کا ابتدائیدور تھا۔ لاہور میں عمر گزارنے کے بعد منٹگمری کی زندگیبے کیف اور خشک تھی چنانچہ جب کبھی موقع ملتا میں بھاگ کر لاہورآتا اور چند دنبلکہ بعض اوقات چند گھنٹے اِس ’’عروسالبلاد‘‘ میں گزار کر واپس چلا جاتا۔ اِسیدوران میں ایک دن ڈاکٹر عاشق حسین صاحب کے ہاں گیا تو وہ موجود نہ تھے۔ مجھے بھی اور کوئی کام نہ تھا اِس لیے وہیں جم گیا اور استحقاقِ برادرانہ کو کام میں لاتے ہوئے اُن کی چیزوں کو اُلٹنے پلٹنے لگ گیا۔ میز کی دراز کھول کر دیکھی تو ایککاپی نظر پڑی جس کے سرورقپر لکھا تھا ’’شاعر کا خواب۔ ‘‘ اُسے کھولا تو تحریراختر مرحوم کی تھی اور یہ مسوّدہ مجموعہ تھا ’’ اختر و سلمیٰ کے خطوط‘‘ کا، جسکو کتابی صورت دے دی گئی تھی۔ میں نے بیٹھ کر اُسے دیکھنا شروع کر دیا۔ لیکن وقتکم تھا، مکمل طور پر نہ پڑھ سکا چنانچہ شام کو عاشق صاحب کی اطلاع یا اجازتکے بغیر وہ مسوّدہ لے کر منٹگمری چلا گیا۔ وہاں پہنچ کر ایک شریکِکارسیّد خورشید حسین کودے دیا کہ یہ مسوّدہ کم از کم وقت میں نقلکر دیا جائے۔ غالباً دو دن اور ایک رات کی مسلسل محنت کے بعد یہ مسوّدہ نقلہو گیا۔ اُس کے بعد میں لاہور آیا اور کاپی چپکے سے اُسی دراز میں رکھ دی۔
وقت گزرتا گیا اور مسوّدہ میرے پاس محفوظ پڑا رہا۔ میرا خیال تھا کہ اختر مرحوماِس مجموعے کو خود ہی شائع کر دیں گے کیونکہ خطوط میں متعدد مقامات پر اُنہوں نے اِس کی اشاعت کے ارادے کا نہ صرف ذکر کیا تھا، بلکہ سلمیٰ سے اِس کی اجازتبھی حاصل کر لی تھی۔ بدقسمتی سے اختر شیرانی مرحوم کو موت کا بلاواآ گیا اور اشاعت کی نوبت نہ پہنچ سکی۔
١٩٤٧ء کے پُر آشوب زمانے میں جب ہر چیز درہم برہم ہو گئی تو یہ قیمتیمتاع بھی کہیں گم ہو گئی۔ ایک سال بعد اختر مرحوم بھی اِس دنیا سے رخصتہو گئے اُس وقت معاً مجھے اِس مجموعے کا خیال آیا اور تلاش شروع کی۔ اِدھر اُدھر دیکھا بھالا، کہیں سُراغ نہ ملا۔ لیکن میں مایوس نہہوا اور آخر کار تقریباً دو سال کی مسلسل جستجوکے بعد وہ کاپی صحیح سالمحالت میں مل گئی۔ اُسکے بعد میں نے متعدّد بار اِس کی اشاعت کا ارادہ کیا لیکن زندگی کی کشمکش اور فکرِ معاش نے مہلت نہ دی۔ آخر کار جب کسی قدر سکونہوا تو اشاعت کیطرف تو جّہ کی چنانچہ آج یہ’’مسروقہ مجموعہ‘‘ آپ کے پیشِ نظر ہے۔ زندگی میں سرقے کا مرتکب تو میں کئیبار ہوا ہوں مگر اِس حسین سرقہ پر جو خوشیمجھے ہوتی ہے اُس کی کوئی مثال نہیں ہے۔
سلمیٰ کی ذات جس طرح اختر مرحوم کی زندگی میں سراپا راز تھی، آج بھی ایکچیستان سے کم نہیں ہے بہت سے لوگوں نے اِس خاتون کا کھوج لگانے کی کوشش کیہے، میں نہیں جانتا کہ اُن کو اِس معاملہ میں کہاں تک کامیابی ہوئی ہے۔ میں خود اِس ہستی سے قطعاً واقف نہیں ہوں اور پھر آج سے تیس سال پہلے کی ایک نوجوانلڑکی کی کسی لغزش کو طشت از بام کیوں کیا جائے۔ اختر مرحوممرد تھے اور شاعر!اُنہوں نے شعر کہہ کر اور شراب پی کر اپنی تسکین کے سامانپیدا کر لئے، لیکن سلمیٰ ایک مسلمان عورت تھی اور شاید پردہ نشین بھی، اُس کاکیا حشر ہوا ہو گا۔
لکڑی جل کوئلہ بھئی، کوئلہ جل بھیو راکھ
میں برِہن ایسی جلی کوئلہ بھئی نہ راکھ
پھر ہمیں کیا حق حاصل ہے کہ ہم اِس خاکستر کی چنگاریاں تلاش کرتے پھریں۔ رومانکے زمانے میں میرا ایک افسانہ ’’حقائق‘‘ اِس ماہنامہ میں شائع ہوا، اِس میں ایکجگہ پر میں نے سلمیٰ کے ایک خط کی چند سطریں حوالے کے ساتھ نقل کر دی تھیں۔ کچھعرصہ کے بعد لاہور آیا اور اختر مرحوم سے ملنے گیا۔ دوپہر کا وقت تھا اور اختر صاحبٹھرّے کی بوتل سے شغل فرما رہے تھے۔ میری طرف دیکھ کر مسکرائے اور ابتدائیدریافتِ مزاج کے بعد اُنہوں نے ایک خط میرے ہاتھ میں دے دیا۔ تحریر نسوانی تھی اور اِس میں اُن سطور کی اشاعت پر مجھے اور اختر مرحوم دونوں کو خوبکوسا گیا تھا۔ نیچے لکھا تھا ’’سلمیٰ ‘‘ میں نے وہیں بیٹھے بیٹھے ایک معذرت نامہ لکھکر اختر مرحوم کے حوالے کیا کہ سلمیٰ تک پہنچا دیا جائے۔ معلوم نہیں اُس کاکیا حشر ہوا۔ اِس سے زیادہ مجھے سلمیٰ کی نسبت کچھ پتہ نہیں ہے۔ اختر کے کئی جگریدوست اب بھی موجود ہیں ممکن ہے کہ اُن کو اختر مرحوم کی زندگی کے اِس حسینراز کا کچھ پتہ ہو لیکن میرے خیال میں اِس راز کا راز رہنا ہی بہتر ہے۔
خطوط:۔ اِن خطوط کے متعلق مختلف آراء ہیں۔ بعض لوگسرے سے سلمیٰ کے وجود ہی سے منکر ہیں اور اُن کی رائے میں اِن خطوط کیاِسی قدر حقیقت ہے کہ۔
کیا کیافریب دل کو دیئے اضطراب میں
اُن کی طرف سے آپ لکھے خط جواب میں
دوسرا گروہوہ ہے جو یہ کہتا ہے کہ سلمیٰ واقعی ایک حقیقت تھی اور اختر مرحوم کے ساتھ اُسکا معاشقہ بھی مسلّم ہے لیکن وہ کوئی ادیبہ نہ تھی کہ اِس قسم کی بلند پایہعبارات لکھ سکتی، لہٰذا یہ خطوط اختر مرحوم نے خود ہی لکھے تھے۔ تیسری قسم کے وہلوگ ہیں جو اِن خطوط کو واقعی اصلی خیال کرتے ہیں۔ خطوط پڑھنے کے بعد یہ کہنا کہیہ سب خود فریبی تھی، جس میں اختر مبتلا تھے، بہت مشکل ہے۔ اِس قدر طویلخودفریبی ممکن نہیں ہے اور پھر خطوط میں اکثر مقامات پر بعضگھریلو اور دیگر واقعات کا ذکر اِس طرح کیا گیا ہے، جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہخطوط اصل ہیں۔ بہرحال جو کچھ ہے وہ آپ کے سامنے ہے اور اِس میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہ ادبی شہ پارے اختر و سلمیٰ کے اصل یا فرضی محبت کے اَن مٹ نقوش ہیں جنکو ادب میں بلند جگہ ملنی چاہئے۔
اختر و سلمیٰ خطوطکی روشنی میں
اخترآج ہمارے درمیان موجود نہیں ہے، اُس کی زندگی کے بعض افسوسناک واقعات کااظہار کرنا مستحسن نہیں ہے لیکن یہاں صرف اختر مرحوم کی ذات زیرِ نظر نہیں ہے بلکہ اِن واقعات سے ایک ایسی ہستی کا بھی تعلق ہے جو اختر مرحوم سے زیادہ مظلوم، زیادہ بے کس و لاچار ہے۔
اختر نے جیسا کہ میں اوپر ذکر کر چکا ہوں اپنے جذبات کو شعروں کا لباس پہناکر اپنے قلبِتپاں کو تسکین دے لی لیکن مجبور اور بے زبان سلمیٰ نے دعوتِ عشقپر ’’لبیک‘‘ کہہ کر اپنی ہر چیز کھودی، تباہ و برباد کر دی۔ اِس روشنی میں جب ہمخطوط کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ محسوس ہوتا ہے کہ اختر مرحوم نے اِس رابطۂ عشق میں کسی بلند کرداری کا ثبوت نہیں دیا ہے جس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہاُنہوں نے سلمیٰ کو ہمیشہ کے لیے حاصل کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ بلکہ اُن کیشا دی عین اُس وقت ہوئی جب وہ سلمیٰ سے بے پناہ عشق کا اظہار کر رہے تھے۔ ایکجگہ وہلکھتے ہیں :-
’’اگر تم مجھے مل جاتیں تو کیا دنیا بھر کے ادب و شعر کی محفلوں میں آج میرا کوئیحریف نظر آ سکتا تھا، آہ!تمہاری حسین معیّت میں، تمہاری رنگین صحبت میں مرے خیالات، مرے ارادے کس قدر بلند اور با وقار ہو سکتے تھے۔ ‘‘ (کوکب کا خط نمبر ٢)
مگر شا دی کے معاملہ میں اپنی بے چارگی کا اِن الفاظ میں اظہار کر کے وہسمجھتے ہیں کہ سُرخرو ہو گئے۔
’’جذباتِ لطیفہ کی یہ غارت گری، محبت پرستروحوں کی یہ بربادی، جس چیز کیگلہمند ہے وہ ہمارے والدین کی حماقتیں ہیں جو بالآخر اولاد کی دائم العمر عقوبتوں کے رنگ میں ظاہر ہوتی ہیں۔ والدین کی یہ ستم آمیز حماقتیں ہمارے جاہلانہ رسمو رواج کی بے راہ روی کا نتیجہہیں۔ تہذیب و تمدّن کے اِس روشن و منوّر دور میں جب کہ اقوامِ عالمہر ایکمعاملہ میں معراجِ ترقّی کی شہ نشین پر نظر آتی ہیں۔ ایک خفتہ بخت اور جاہلقوم ہندوستان کی ہے جو ابھی تک ذلّت اور بدبختی کے تحت الثّریٰ میں کروٹ بدلرہی ہے۔ ہماری معاشرت کے دامن پر سب سے نمایاں داغ جو ہماری بدنصیبیوں کی تکمیلکی مُہر بنا ہوا ہے والدین کا وہ نا جائز اختیار ہے جو اُن کو اپنی ہوشمند اولادکے ازدواجی معاملات میں حاصل ہے ‘‘۔ (کوکب کا خط نمبر٢)
اِس رویّہ کی خود سلمیٰ شاکی ہیں، ایک جگہ کہتی ہیں۔
’’مجھے پھر کہنے کی اجازت دیجئے کہ اِن تمام تر ناگواریوں کے بانی، اِن تمام تلخکامیوں کے موجب آپ خود ہیں۔ ہاں آپ!کیوں ؟اِس لیے کہ آپ اگر چاہتے۔ آہ!اگر آپ کیخواہش ہوتی۔ آپ اگر ذرا سی بھی کوشش کرتے تو میں آپ کومل جاتی یا دوسرے الفاظ میں آپ مجھے پا لیتے۔ آہ!نہایت آسانی کے ساتھ پا سکتے تھے مگر آپ نے تو۔۔۔۔ لیکن میں بے وقوف ہوں۔ اب بھلا اِن باتوں، آہ اِن گئی گزری باتوں کی یاد میں دلکو نشتر کدۂ غم اور سینہ کو غمکدۂ یاس بنانے سے کیا حاصل۔ (سلمیٰ کاخط ٤)
اور اب میں آپ کے اور اِن خطوط کے درمیان زیادہ دیر تک حائل نہیں رہنا چاہتا۔
بہارستان سبھا سے ایکاقتباس
گمنام خطوط کا معاملہ جس قدر تکلیف دہ ہوتا ہے، محتاجِ بیان نہیں۔ ہماری بدقسمتی کہئے یا خوش قسمتی کہ آج کل ہمیں بھی بعض ایسی ہی لطیف تحریروں سے آنکھیں ’’سینکنے ‘‘ کا موقع ملا ہے جن کی نسوانی شعریت، خطرناک حد تک ہلاکت آفرین ثابت ہو سکتی ہے، لیکن ہمارے ’’گمنام پردہ نشینوں ‘‘ کو معلوم نہیں کہ اُن کا ہدفِ نظر، ایک بہت ہی دیر آشنا اور کسی حد تک بد دماغ شخص ہے۔ جو ایک طرف کسی نسوانی احترام کے حضور میں، سر بسجود ہو سکتا ہے تو دوسری طرف مصنوعی نسائیت کے پردۂ فریب کی رنگینیوں کو نہایت حقارت سے ٹھکرانا بھی جانتا ہے۔
کچھنہ سمجھے خدا کرے کوئی
_______________________
اِن شوخ تحریروں میں پہلی تحریر ایک ایسی خاتون کی ہے جن کے جذبات کی حسین فتادگی چاہتی ہے کہ ہم اپنیبہترین ہمدردیاں اُن پر نچھاور کر دیں اور ’’تکلّف بر طرف‘‘ ہمیں اپنے اندازِ جُنوں کے استعمال سے کوئی عقلی مصلحت مانع نہیں :-
بیار بادہ کہ مینائے عمر لبریز است۔۔ مریض را دمِ آخر چہ جائے پرہیز است
ہماُنہیں یقین دلاتے ہیں کہ جس ’’خلش‘‘ سے وہ ہمیں سرفراز فرمانا چاہتی ہیں، اُسے اُنکے حسبِ خواہش ’’غیر‘‘ نگاہوں کے سامنے بے حجاب نہیں کیا جائے گا:-
کہہ سکے کون کہ یہجلوہ گری کس کی ہے ؟
پردہ چھوڑا ہے وہ اُس نے کہ اُٹھائے نہ بنے
دوسری گمنام تحریر کو بھی ایکخاتون کے نقوشِ قلم سے فیض یاب ہونے کا دعوے ٰ ہے !۔ لیکن درحقیقت اِس کے پردہ میں ایک ’’ریشائیل‘‘ چہرہ جلوہفرما ہے۔ اظہارِ غصّہ بری چیز نہیں تو ہمیں صاف کہنا چاہئے کہ اگر ہمارے سامنے ہو تو ہم سے بے اختیار ’’منہنوچنے ‘‘ کا جرم سرزد ہو جائے۔ غالباً ہمارے کرم فرما کو علم نہیں کہ عورتکی ہستی بہت سی ایسی لطافتوں اور نزاکتوں کی حامل ہوتی ہے جو مرد کیکرخت فطرت کو کبھی میسّر نہیں ہو سکتیں، اور اگر ہمارے دوست قانونِ فطرت کیکُہنگی اور اپنی نوعِ خلقت کی فرسودگی سے اُکتا کر عورت کا روپ اختیار کرنا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے اُنہیں اپنے آپپر نسائیّت کی ادائیں طاریکرنی چاہئیں، بشرطیکہ ’’ہنس‘‘ کی چال چلنے میں کوّے کا چلن نہ بگڑ جائے !۔ رہا ہمیں اپنے فریب کا معمول بنانا تو اِس کے سوا کیا عرض کیا جائے۔
برو ایں دام بر مرغِدگر نہکہ عنقا را بلند است آشیانہ
(بہارستان، نومبر ۱۹۲۶ء)
’’وہی نیاز کیش‘‘ کے دستخطوں سے جو تحریر ہمیں موصول ہوئی ہے اِس میں ہمارے اُنہی نیاز کیشکو بہت سیغلطفہمیاں ہوئی ہیں۔ تشریح و تو ضیح کا یہ موقع نہیں، کبھی ملیں گے تو :-
ہ میں کہنا ہے کچھاپنی زباں میں
(اقتباس از بہارستان، دسمبر ۱۹۲۶ء)
’’سب سے پہلی اور آخری درخواست‘‘کرنے والوں کو”ایس رولو اینڈ سنز، فوٹوگرافر اینڈ آرٹسٹ، دی مال”(لاہور) سے خط کتابت کرنی چاہئے ! ’’بہارستان‘‘ اِس درخواست (حکم؟)کی تعمیل کرنے سے معذور اور شرمسار ہے۔
(اقتباس از بہارستان، جنوری ۱۹۲۷)
بہتسے ایڈیٹر صاحبان پر چکمہ چل گیا ہے اور وہ فخریہ ایسے ناپسندیدہ مضامین شائعکر دیتے ہیں مگر ہمارے نوجوان با ہمّت بھائی اختر صاحب شیرانینے اپنے رسالہ ’’بہارستان‘‘ میں یہ باریک پردہ اُٹھا دیا اور اُن ادبی مضامیننگار بُرقعہ پوش حضرات کے نقاب اُلٹ دیے۔ اُنہوں نے کسی تازہ اشاعتِ’’بہارستان‘‘ میں صاف صاف لکھ دیا ہے کہ "ہم پریہ جادو نہ چلے گا۔ ہم نے بخوبی جانلیا ہے کہ اِس زنانہ شاعرانہ نام کے برقعہ کے اندر کون ہے ؟” بس۔۔۔
(ہندوستان کی کم علممضامین نویس خواتین)
از نذر سجاد حیدر
(مرقع ماہ دسمبر١٩٢٦ء)
’’بہارستان‘‘ کی ڈاک میں ایکگمنام تحریر
۔۔۔۔ عشق ہے اور ابتدائے آہ ہوتی ہے مبارک آج طفلِ دل کی بسم اللہ ہوتی ہے
تم بھول کر بھی یاد نہیں کرتے ہو کبھی
ہم تو تمہاری یاد میں سب کچھ بھُلا چکے
اگر۔۔۔۔ محبت واقعی نام ہے ایک قوّتِجاذبہ کا۔۔۔۔ اگر فریفتگیِ عشق سچ مچ کہتے ہیں۔۔۔۔ ایک کششِ پنہاں کو، اگر شیفتگیِ نیاز عنوان ہے، حقیقتاً اِک فوری اثر انگیزی کا !تو۔۔۔۔۔ اے صرفِتغافل، اے محوِ بے نیازیِ مطلق، تیرینگاہِالتفات نے اب تک درسِبیداری کیوں نہ لیا؟ تیری روح کے خوابیدہ تاثّرات نے اب تک کیوں نہانگڑائی لی؟تیرے افکارِ روحی کی رنگینیوں میں اب تک کیوں نہ محبت کیگُدگُدی پیدا ہوئی؟آپ کے رسالے کے ہزار ہا خریدار ہوں گے۔ مگر اِس ہجوم میں۔۔۔۔ صرف میں ہی وہ خریدار ہوں جو اپنی نادانیِ جذبات کی بدولت اپنے آپ کو آپکا خریدار بھی سمجھتی ہوں۔۔۔۔ آہ!۔۔۔۔
ایک مدّت تک دلِغمگیں کو سمجھاتے رہے۔۔ضبط غم کرتے رہے، کہنے سے شرماتے رہے
سیرِ کوہ و راغ و دریا روز دِکھلاتے رہے۔۔الغرض سو سو طرح سے دل کو بہلاتے رہے
اب مگر چلتا نہیں دل پر فریبِ آرزو
یوں تو ہم کھایا کئے اکثر فریبِ آرزو
بذریعہ بہارستان جواب دیجئے۔۔۔۔ راز داری کی تاکید۔
والسلام
ایک پردہ نشین۔۔۔۔ مگر
مجبوُر
دوشیزہ
کوکب کا خط
کیونکر کہوں کہخواب نہیں جاگتا ہوں میں
یہ آنکھیں ! اور یہ!!میرے پروردگار!!خط!!!
۔۔۔۔ نہیں جانتا کہ کن الفاظ سے آپکو مخاطب کروں۔۔۔ ؟اِسلیے کہ آپ کے محبت نامہ نے جن تاثّرات و احساساتکا ہیجانِ عظیم دل میں پیدا کر دیا ہے اُسنے آپ کے خط کے جواب میں میرے پاس مدہوشی و سرشاری کے سوا کچھ باقینہیں چھوڑا۔
میں اور خطِ دوستخدا ساز بات ہے
جاں، نذردینی بھول گیا اضطراب میں
پچھلی رات کی یہ مستانہ کیفیت!اور اضطرابِروحی کا یہ عالم!۔۔۔۔ اللہ جانتا ہے یہ مبہوتلمحے کیونکر گزار رہا ہوں۔۔۔۔ ؟دل و دماغ میں ایک محشرِ بے خودی!ایک قیامت زا دیوانگی برپا ہے اور میں اپنے آپ میں اِس کی ہمّت و اہلیت نہیں پاتا کہ صحیح معنیٰ میں آپ کومخاطب کر سکوں !سب سے زیادہ جو چیز۔۔۔۔ میری پریشانی کا باعث ہے !وہ ’’نادلانہ‘‘کیفیت ہے جس نے مجھے اِسطور پر آپ کی شوخو شنگ۔۔۔۔ مگر پُر اسرار شخصیت سے دوچار کر دیا ہے۔ آہ وہ شخص!جو غریب اچھی طرحجانتا ہو!کہ فطرت کی‘‘فیّا ضی’’ نے اُسے نہ تو کسیقسمکے حسنِ معنوی سے سرفراز کیا ہے اور نہحسنِظاہری سے۔۔۔۔ اور پھر اس کو بتلایا جائے کہایک فرشتۂ ارضی۔ ایکحورِ دنیا۔ ایک برقِ جمال۔ ایک پیکرِ شعاع۔ ایک مجسّمۂ نور۔۔۔۔ ایک صنمِنگہت و رنگ۔ ایک پرستیدۂ حُسن۔ ایک موضوعِ ادب و شعر۔ اُسکی ’’بے رنگیوں ‘‘کو محبت کی نظروں سے دیکھتا ہے۔۔۔۔ اور بالخصوصاُس حالت میں جب کہ بتلانے والی ہستی بھی خود، وہی ہو۔۔۔۔ تو آپ ہی سوچئے۔ وہ بے چارہ اِس پر کہاں تک؟۔۔۔۔ کیونکر ؟۔۔۔ اعتبار کر سکتا ہے ؟ کیونکر یقین کر سکتا ہے ؟
آپ نے مجھے ’’دیوتا‘‘ کہہ کر میرے اعمال و جذبات کے ساتھ ایک نہایت بے دردانہ مذاق کیا ہے ایکحد درجہ ’’اندوہ گیں ‘‘ فریب کھیلا ہے !۔۔۔۔ آپ کی اِس ’’ستمظریفی‘‘ اِس مہلک شوخی! کا کیا جواب دوں۔۔۔۔ ؟سوائے اِس کے کہ اپنی جگہ پر کڑھوں، جلوں۔۔۔۔ اور اُف تک نہ کروں۔ !!آپ کو مجھ سے میری ’’نا آشنائیِ رحم‘‘کا شکوہ ہے !۔ ’’بیداد گری‘‘ کی شکایتہے !کاش کہ یہ جائز ہوتی! کاش کہ میں صحیحمخاطبہوسکتا۔۔۔۔ ! کیونکہ’’شکایت‘‘ بھی ’’دنیائے محبت‘‘ میں ’’عین محبت‘‘ تسلیم کیجاتی ہے !۔۔۔۔ مگر جب! مجھے سرے سے اِس’’تھئیٹر‘‘ کی سی فریب آرایانہ! اور محض ستم ظریفانہ مناظر سامانیوں پراعتماد نہہو۔۔۔۔ تو آپ ہیانصاف کیجئے ! میں اِن گِلے شکووں کا کیا جواب دوں۔
اُلٹے وہ شکوے کرتے ہیں اور کس ادا کے ساتھ!
بے طاقتی کے طعنے ہیں عذرِجفا کے ساتھ!!
حقیقت یہ ہے کہ تصویر کا ایک ہیرُخ آپ کے سامنے ہے ورنہ آپایسا لکھنا کبھیگوارا نہ کرتیں۔
تم کو آشفتہمزاجوں کی خبر سے کام کیا؟
تم سنوارا کرو بیٹھے ہوئے گیسواپنے
میرا خیال ہے کہ اگر سارے ’’حالات و واقعات‘‘ آپ کے سامنے ہوں تو شاید حقیقت کے چہرے سے نقاب اُٹھ جائے اور تب۔۔۔۔ آپ کو معلوم ہو کہ جو گلہ آپ کو مجھ سے ہے وہ دراصل مجھے آپ سے ہونا چاہئے تھا۔۔۔۔ !میرے ’’ظلم و بیداد‘‘ کا شاید اُس نظم سے اندازہ ہو سکے گا جس کا عنوان ’’اُن سے ‘‘ہے مگر اَب’’ تم سے‘‘ ہونا چاہیے اور جو اِس عریضہ کے ساتھ ملفوف ہے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ آپ اُس زمانہ سے لے کر۔۔۔۔ جب کہ آپکے ’’خیالات‘‘ کو مجھ سے غائبانہ شناسائی حاصل ہوئی۔۔۔۔ اب تک کے تمام واقعات مفصلاً مجھے لکھ بھیجیں۔۔۔۔ اور پھر میں بھی اپنی تمام ’’داستانِ غم‘‘ آپ کے حضور میں دہرا دوں۔۔۔۔ !!اگر آپ نے ’’عنایت‘‘ فرمائی تو یقیناً بہت سی چیزیں تاریکی سے روشنی میں آ جائیں گی۔۔۔۔ اور جن کو اب آ جانا چاہیے۔ یہ عریضہ آپ کے خط کا جواب نہیں ہے بلکہ اِس سے محض آپ کی تشفّی مقصود ہے۔ آپ کو یقین کرنا چاہئے کہ آپ کا ’’راز‘‘ صرف ’’ آپ ہی کا راز‘‘ نہیں ہے بلکہ اِس میں میرے دل کے ٹکڑے بھی شامل ہیں۔
دنیا میں ترے عشقکا چرچانہ کریں گے
مر جائیں گے لیکن تجھے رُسوا نہ کریں گے
کیا محترمہ ’’ ثریّا جبیں ‘‘ کی خدمت میں اب بھی میں یہ عرض نہیں کر سکتا کہ
ہم نظر بازوں سے تُو چھُپ نہ سکا جانِجہاں
تُو جہاں جاکے چھُپا ہم نے وہیں دیکھ لیا
ممکن ہے۔۔۔۔ میرے آئندہ خط سے آپ’’پہلی مرتبہ‘‘ معلوم کریں کہ میرا اب تکجو طرزِ عمل رہا۔۔۔۔ وہ کس حد تکمجبورانہ تھا۔۔۔۔ ؟ہاں۔۔۔۔ آپ مطمئنرہئیے کہ کوٹھی پر آنے سے میری’’ ’’ ’’ کسرِشان‘‘ نہہو گی۔۔۔۔۔ آپ چاہیں گے تو میں اُن ذاتِ شریف کا نام بتلا دوں گا۔۔۔۔ کیا ’’اب پہلی اور آخری درخواست‘‘ کرنے والوں سے میں اتنا پوچھنے کیجرأت کر سکتا ہوں ؟اور کیا لکھوں۔۔۔۔ ؟سوائے اِس کے کہ کاش کچھ لکھنے کی ہمت ہوتی۔۔۔۔ !!آہ۔۔۔۔ !
نہ دے نامہ کوغالب طول اتنا مختصر لکھ دے
کہ حسرت سنج ہوں عرضِ ستم ہائے جُدائی کا
راقم۔۔۔۔۔ ’’کوئی‘‘
سلمیٰ کا خط
(١)
آخر وہ آ گئے مجھے دینے تسلّیاں
آخر ہوا اُنہیں مرے صدمات کا یقین
دلنوازم۔۔۔۔ فدایت شوم
نامۂ جان آفریں موصول ہوا۔۔۔۔ اِس ’’غیر متو قع‘‘ محبت اور لطف و کرم کا بہت بہت شکریہ۔۔۔۔ مگر کیونکر یقین کروں کہ آپ کی’’ گلفشانیاں ‘‘ حقیقت سے ہمدوش ہیں ؟کیسے باور کروں کہ آپ نے مکتو بِ محبت میں جو کچھ تحریر فرمایا ہے وہ ’’صداقت‘‘ پر مبنی ہے۔۔۔۔ آہ!۔۔۔۔ بھلا میں ناچیز اِس قابل کہاں۔۔۔۔ ؟ کہ ایک ایسے فردِ گرامی کی محبت کا فخر حاصل کر سکوں۔ جو بہ ہمہ صفت موصوف اور یکتائے زمانہ ہو؟۔۔۔۔ کاش کہ میں اِس لائق ہوتی!۔۔۔۔ ہو سکتی!! میں سمجھتی ہوں یہ میری انتہائی بدنصیبی ہے کہ آپ کو میری ’’بے پایاں ‘‘۔۔۔۔ ’’لازوال‘‘ اور ’’بے لوث‘‘ محبت کا اب تک یقین نہیں ہوا، اور آپ اِسے تھیئٹر کی فریب آرایانہ اور محض ستم ظریفانہ مناظر سامانیوں پر محمول فرما رہے ہیں حالانکہ دو سال کی طویل اور روح فرسا مدّت سے غمہائے محبت سہتے سہتے میری یہ حالت ہو گئی ہے کہ
صورت میں خیال رہگئی ہوں
خصوصاً ان دنوں تو دل و دماغ کیکچھ اِسدرجہ زار حالتہے کہ میں خودبھی اِس کا صحیح اندازہ نہیں کر سکتی۔۔۔۔ ہر قسم کا ذوق و شوق مفقود اور خواب و خَور حرام ہو گیا۔
اکثر اوقات میں سوچنے کیکوشش کرتی ہوں کہ آخر یہ مدہوشی کب تک؟کہاں تک؟اور اِس کا نتیجہ کیا ہو گا؟مگر نہیں سوچسکتی۔ سنبھلنے کی لاکھ کوششکرتی ہوں مگر نہیں سنبھل سکتی۔ ہر دیکھنے والے کا میری طرف دیکھ کر سبسے پہلے سوال یہی ہوتا ہے کہ تمہاری یہ کیسی حالتہو گئی ہے ؟تمتو اَبپہچانی نہیں جاتیں ؟؟جس کے جواب میں میرے پاس ایک افسردہ، ایک پژمردہتبسّمکے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ آپ سے اِس طرح ’’اظہارِ غم‘‘ کرتے ہوئے میرے جذباتِحیا زخمیہو جاتے ہیں آپ کو ’’دردِ دل کا چارہ ساز‘‘ سمجھتے ہوئے خاموش بھی نہیں رہا جاتا۔۔۔۔ آہ!:-
زندگی کس کام کیجب ہو یہ حالِ زِندگی
ٹل بھی جائے اب کہیں سر سے وبالِ زندگی
جنابِ والا۔۔۔۔ مہربانیفرما کر آپ اپنا یہ شعر واپس لے لیجئے کہ
تم ہواب اور مدارات ہے بیگانوں کی
کون لیتا ہے خبر عشق کے دیوانوں کی
اِس لیے کہ اِس کے صحیح مخاطب آپخود ہی ہیں۔۔۔۔ ہاں ذرا گریبان میں منہ ڈال کر دیکھئے اور پھر کچھفرمانے کی کوشش کیجئے۔ کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ میں ’’چلی گئیں ‘‘کیسیدرد انگیز نظم جو آپ کے جذباتِمحبت کی آئینہ دار تھی۔ بھول گئی ہوں ؟؟نہیں۔ اِس نظم کا ایکایک شعر آتشیں حرفوں سے میری لوحِ دماغ پر نقش ہے۔ اب جو آپ نے ’’اُن سے ‘‘کے عنوان سے نظملکھ بھیجی ہے میں کیسے نہ کہوں کہ اِس میں بھی اُسی ’’ہندو خاتون‘‘ کو مخاطب کیا گیا ہے۔۔۔۔ افسوس:-
لب پہ رہ جاتی ہے آآ کے شکایت تیری
میرے خط نہ لکھنے کی یہ وجہ نہتھی کہ میں خدانخواستہ کسی اور خیال میں محو تھی۔ بلکہ اِس کا باعث یہتھا کہ میں آپ کی ’’نو عروسانہ خلوت و جلوت‘‘ میں مخل ہونا نہیں چاہتی تھی۔ نیز میرا خیال تھا کہ آپ میری مراسلت سے نہایت بیزار ہیں۔ ورنہ میریجو کیفیت رہی ہے اُسے یا تو خدا جانتا ہے۔ یا میں۔۔۔۔ !!
آپ نے شروع سے لے کر آخر تک کے واقعات معلوم کرنے کی خواہش ظاہر فرمائیہے جس کے جواب میں فقط اتنا عرض کر سکتی ہوں کہ:-
اپنے جلووں کا کیاتُو نے ہی میں خودشیفتہ
ہم ہوئے تھے مبتلائے عشق تیرے نام سے
میں آپ کے مضامین (نظم و نثر)کے مطالعہ سے آپ کی ’’نا دیدہ تمنّائی‘‘ ہو گئی اور پھر اس کے بعد عالمِوارفتگی میں، جو جو حماقتیں مجھ سے سرزدہوئیں اور ہوتی رہیں، اُن سے آپبے خبر نہیں ہیں۔۔۔۔ ؟؟اچھا۔۔۔۔ اب آپ مفصلاً تحریر فرمایئے کہ آپ کوکس طرحاصلیت و حقیقت معلوم ہوئی۔ اب اِس طرح تصویر بھیج دینے سے کیا ہوتا ہے۔۔۔۔ ؟میریدرخواست تو آپ نے مسترد فرما ہی دی تھی نا۔۔۔۔ ؟بہرحال میں آپ کی اِسعنایتِ بے غایت کا شکریہ ادا کرتی ہوں۔۔۔۔ !کیونکہ آپ کی شبیہ میرے لئے باعثِ صبر و قرار ہے جب اضطراب قلب حد سے سِوا ہونے لگتا ہے۔ تو میں چپکے سے آپکی صورت دیکھ لیتی ہوں مگر آپ کہاں ماننے والے ہیں۔۔۔۔ ؟ دوسرے سوالات کا جواب بشرطِ زندگی کسی آئندہ فرصت میں۔ میں تہِدل سے ممنونہوں (اور ساتھ ہی شرمسار بھی)کہ آپ اُس روز محض میری خاطر اِس قدر تیز بارش اور شدید سردی میں اتنی دُور سے تشریف لائے۔ آپ کا یہ ایثار میں تسلیم کرتی ہوں، مستحقِداد ہے اور آپ کیمحبت کا ایک بلیغثبوت!!مگر آہ!:-
گھر ہمارے ہائے کبآیا ہے وہ غفلت شعار
جب ہماری خانہ ویرانی کا ساماں ہو چکا
راقمہ(آپ کی تقلید میں )
بھول جانا نہ ہمیں یاد ہماریرکھنا
خط کتابت کی سدا رسم کو جاری رکھنا
(پنسل کی تحریر)
معاف فرمائیے گاعریضہ ہذا بہت جلدی میں لکھا ہے۔
سلمیٰ کا دوسرا خط
جناب والا
نیاز قبول فرمائیے۔۔۔۔ ایک خستہ اور افسردہ دل کا نیاز!آہ:-
کشتیِ دل ہو گئیاُمید کے دریا میں غرق
اوراے تقدیر تکتے رہ گئے ساحل سے ہم
اگرچہ آپ کی ’’دلخراش طنزوں ‘‘سے متاثر ہو کر میں نے آپ کے اِس قول پر عمل پیرا ہونے کا عہد کر لیا ہے کہ ’’محبت کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ محبت ہے۔ خواہ اِس کا علم فریقِثانی کو ہو یا نہ ہو۔ ‘‘ اور یہ کہ ’’سچی محبت کو جوابی محبت سے بے نیاز ہونا چاہئے۔ ‘‘مگر پھر بھی معلوم نہیں کیوں۔۔۔۔ ؟ آخری مرتبہ یہ کہنے کیجرأتکرتی ہوں کہ جیسے بھی ہو اِس عریضہ کا جواب ضرور عنایت فرمایئے۔ ہاں اُنآنسوؤں سے جن میں ایک ’’نخچیرِ غم‘‘ لڑکی کا خونِجگر بھی شاملہے۔ تکلیف تو ہو گی مگر للہ ایک دفعہ مندرجہ ذیل سوالات کے بالتفصیل جوابات دینے کیزحمت گوارافرمائیے ممنون ہوں گی۔
(١)۔ آپ کی دلگداز نظم جس کا عنوان ’’اُن سے ‘‘ ہے مطبوعہہے یا غیر مطبوعہ؟
(٢)۔ وعدہ کے باوجود آپ نے اپنی ’’داستانِ غم‘‘ اب تک کیوں نہیں دہرائی؟
(٣)۔ اپنے اِس فقرے کی تشریح فرمائیے۔۔۔۔ کہ ممکن ہے میرے آئندہ خط سے آپپہلی مرتبہ معلوم کریں کہ میرا اب تک جو طرزِ عمل رہا وہ کس حد تک مجبورانہ تھا؟۔
(٤)۔ یہ جانے بغیر کہ میں کون ہوں اور کیا ہوں ؟آپ نے اپنی غزل:-
لے آئے انقلابسپہرِبریں کہاں (مطبوعہ بہارستان)
اور اپنے افسانہ’’پشیمانِ شباب‘‘(مطبوعہقوس قزح) میں دو تین جگہ مجھے کیونکر مخاطب فرمایا تھا۔۔۔۔ ؟
(٥)۔ کیا یہ سچ ہے کہ آپ کو میری ’’غیر فانی‘‘ اور ’’بے غرض‘‘ محبت کا اب تکیقین نہیں آیا؟اور آپ اِسے محض ایک ’’فریب‘‘ سمجھتے ہیں ؟ اپنا فرض نہسمجھنے کے باوجود آپ اگر جواب سے سرفراز فرمانا چاہیں تو ٢١۔ جنوریبروز ہفتہ ڈھائی بجے دن کے قریب تشریف لے آئیں اور اس کے بعد یقینفرمائیے کہ پھر کبھی آپ کو اِس قسم کی ناگوار تکلیف نہیں دی جائے گی۔
والسلام
اظہارِاضطراب ہماری خطا سہی
تسکینِ قلب کس کی بدولت نہیں رہی
کوکب کا خط
ضبط کروں میں کبتک؟ آہ
چل رے خامے بسم اللہ
ہوا کیتحریک سے، دامنِ گلبرگ پر لرزنے والے قطرۂ شبنم کی طرح۔ سینہ میں دل، آنکھ میں آنسو۔ دماغ میں تخیّل اور ہاتھ میں قلم کانپ رہا ہے۔ تھرتھرا رہا ہے۔ تم سے خطابکرنا۔ تمہاری حسین و نازنین اور نازک و رعنا ہستی سے خطاب کرنا، اِس ویران و بے کیفدنیا میں !۔۔۔۔ اِس دنیا کی تلخ و ناگوار بے رنگیوں میں اِس سے زیادہلذیذ اور رنگین و روشن خوش نصیبی اور کیا ہو سکتی ہے۔ ؟؟آہ!۔ اِس کے تو تصوّر میں مر جانا ہی حسین ترین خوش نصیبی ہے۔۔۔۔ مگر آہ!زمانہ کی ستم پیشگی کوکس زبانسے بددعا دوں ؟جس نے میرے دل کو زخمی!میرے دماغ کو ماؤف!میرے جذبات کو مجروح اور میرے حسّیات کو ذبح کر کے، ہلاک کر کے رکھ دیا ہے۔ میں تم سے اِس طرح مہجور، یوں رنجوُر اور تم مجھ سے اِتنی دور، اِس قدر دُور۔ آہ!قسمت کی کوتاہیاں، ہائے۔ فطرتکی ستم آرائیاں :-
شبِ تاریک بیم موجو گردابِ چنیں حائل
کجا دانند حالِ ما سبکسارانِ ساحل ہا؟؟
تمہارا۔ آہ!میری جان۔ تمہارا تقاضا ہے کہ میں تمہارے حضور میں اپنی ’’داستانِ غم‘‘ دہراؤں۔ اپنا افسانۂ درد کہہ سناؤں۔ مگر کیسے کہوں ؟ کس کی زبان لاؤں ؟دلِ صد پارہکا مشہد، جذباتِاُمّید کا مقتل، جسارتِ آرزو کا مدفن تمہیں کیونکر دکھاؤں ؟؟شمع کا سوز اگر عریاں ہو سکتا ہے۔ بجلی کی بے قراری اگر ہاتھ آ سکتیہے۔۔۔۔ قطرۂ شبنم کی زندگی۔ ہاں۔ ایک لمحہ زندگی اگر منتقل ہو سکتیہے، موسیقیِ حزیں کا گداز اگر ارسال کیا جا سکتا ہے اور سرشکِ شوق کیماتم طرازیاں اگر صفحۂ کاغذ پر نمایاں ہو سکتی ہیں تو ممکن ہے میں بھیتمہارے حکم کی تعمیل سے عہدہ بر آ ہو جاؤں۔ ورنہ نگہتِ رمیدہ، بُوئے پریشاں اور نغمۂ آوارہ کی زندگی ہی کیا۔۔۔۔ ؟اِدھر شوقِ پرواز کیرخصت ملی اور اُدھر۔۔۔۔ فنا انجام۔۔ معدوم۔
لیکن کیا۔ آج مجھے حقیقت میں تمہارے سامنے اپنی غم پروردہ ہستی کو بے حجابکر دینا پڑے گا۔۔۔۔ ؟ کیا آج مجھے اپنے دل کی انتہائی گہرائیوں میں بسنے والے اُسراز کو جس کی میں ایک مدّت سے ایک داغ کی شکل میں پرورش کر رہا ہوں۔ تمہارینگاہِ کرم کے حضور میں عریاں کر دینا ہو گا۔۔۔۔ ؟ کیا محبت کی اُس حسین و رنگین اور لذیذ و خوشگوار خلش کو جو تمہارے سب سے پہلے خط کے سب سے پہلے فقرے کے ساتھ۔ میری روح کی آخری خلوتوں میں اُتر آئی تھی اور جس کی میں نے آج تک اپنے خونِافکار سے پرورش کی، نشوونما کی۔ آج مجھے تم تک پہنچانے پر مجبور ہونا پڑے گا۔۔۔۔ ؟؟آہ!:-
سُن لے اگر کوئیتو نہیں زندگی کی خیر
ہے جان سے عزیز مرا مدّعا مجھے
نہ پوچھو۔۔ میں درخواست کرتا ہوں۔۔ میں تم سے التجا کرتا ہوں۔۔ یہ نہ پوچھو۔ جو جی چاہے پوچھو، مگر آہ!۔۔ پرِ پروانہ کے شورِ خاموش کا راز اور زبانِ بلبل کے نالۂ مجبور کا معماّ۔۔ مجھ سے نہ پوچھو۔۔ سب کچھ پوچھو۔۔ مگر میں تم سے التجا کرتا ہوں۔۔ میں تمہاری منّتیں کرتا ہوں کہ میرے اشعار کی غمناک روش کا سبب اور میرے افکار کی دردناک بے کسی کا عقدہ مجھ سے نہ پوچھو۔۔ تمہاری محبت، آہ!۔ تمہاری محبت کا اعتراف، دلگداز اعتراف، درد آلود اعتراف۔ قلم کی جگہ دل ہاتھ میں ہے۔ تو بھی مجھے اِس کی جرات نہیں ہو سکتی۔ دیکھنا۔ مجھے مجبور نہ کرو۔ میں کہتا ہوں۔ میں ضبط نہ کر سکوں گا۔ آہ!۔۔ دماغ پھٹ جائے گا۔ میرا دل سینہ سے باہر نکل آئے گا۔ آہ!۔ میں مر جاؤں گا رحم کرو۔ میرے بیمار شباب کی کمہلائی ہوئی مرجھائی ہوئی۔ کھوئی ہوئی رنگینیوں پر رحم کرو۔ میرے افسُردہ دل کی لُٹی ہوئی۔ مِٹی ہوئی، بہار کی سوگواریوں پر رحم کرو۔ میرے پژ مُردہ دماغ کی ہاری ہوئی، تھکی ہوئی آوارہ خیالیوں پر۔ اُن کی درد ناکیوں پر رحم کرو کہ اِن میں تمہارے محبت کے اعتراف کی جرأت نہیں، ہمّت نہیں۔ تمہیں چھیٹرنے کو، ستانے کو نہیں۔ محض اظہارِ واقعی کے طور پر اور تمہیں اپنی ہستی سے جُدا نہ سمجھ کر کہتا ہوں کہ میں نے اپنی ناتواں ہستی کے اِن ١٢ سالہ دور ہائے بہار و خزاں میں ایک مرتبہ نہیں۔ اکثر اپنے سینہ میں محبت کی روح فرسا خلش محسوس کی ہے۔ خاص خاص موقعوں پر اِس کی پرورش کی ہے اور مجھے اِس کی بے حجابی کے موقعے بھی نصیب ہوئے ہیں۔ مگر یقین ماننا کہ آج تک کبھی کسی وقت مجھے اظہارِ محبّت کے لئے اِس قدر تکلیف۔ اِتنی دِقّت نہیں ہوئی جتنی آج اِس وقت۔ اِن پریشان نگاریوں میں مصروف، محسوس کر رہا ہوں۔ آہ! کیا محبت کا اعتراف۔ میرے لئے محبت کرنے سے زیادہ دشوار ہو گیا ہے ؟ کس سے پوچھوں ؟
بہر کیف اُس وقت تک کہ میرا دلِ صد پارہ۔ اعترافِ محبّت کے طور پر اپنی جراحت سامانیوں کو۔ کسی بہتر رنگ میں پیش کرے، ذیل کے شعر کو اپنی داستانِ افسردگی کا خلاصہ اور عنوان بنا کر پیش کرتا ہوں :-
زندہ ہوں تیرے لئے اے رشکِ مہرو ماہ میں
آج کرتا ہوں تجھے اِس راز سے آگاہ میں
میں یہ الفاظ لکھ رہا ہوں۔ اِس حال میں کہ میرا دل رو رہا ہے۔ میری روح ماتم کر رہیہے۔ میرے جذبات فریاد کر رہے ہیں۔ کاش کہ تم اِس وقت سامنے ہوتیں اور میں ہرزہنگاریوں کی بجائے اپنی آنکھوں سے۔ اپنی اِن آنکھوں سے جنہیں تم نے کبھی ’’لبریزِبے خودی‘‘ اور ’’رنگینیِ نگاہ کا ساغر‘‘ کہا تھا۔ حالانکہ وہ اُس وقتبھی ’’لبریزِ مایوسی‘‘ اور ’’غمگینیِ نگاہ کا ساغر‘‘ تھیں۔ آہ!اِن آنکھوں سے دو آنسو۔ دو خون آلود آنسو بہا کر۔ میں تم سے اپنی داستانِ سوز و درد بیانکر دیتا کیونکہ اِس مکر و فریب کی دنیا میں آنسوؤں سے زیادہ سچاّ، اعترافِ محبّتکوئی نہیں، کوئی نہیں ہو سکتا۔ مگر آہ!تم کہاں ؟ہو تو مگر میرے پاس کہاں۔۔۔۔ ؟ میرے نصیب میں کہاں ؟میرے مقدّر میں کہاں ؟:-
اب تو جینے کیتمنّا دلِ مضطر میں نہیں
وہ یہ کہتے ہیں کہ ہم تیرے مقدّر میں نہیں
آہ!۔ دُنیا!۔ ظالمدُنیا۔ تُو بظاہر کتنی دلچسپ۔ کس قدر دلفریب، کس قدر خوش نما ہے۔ مگر حقیقت میں کتنی تلخ۔ کس قدر ناگوار۔ کس درجہ نفرت انگیز ہے۔ صحرائے عدم کیہزارہا دشوار گُزار اور تاریک منزلیں طے کر کے ارواحِ معصوم کے لاکھوں کارواں آتے ہیں اور تیری سراب آسا، فریب آرا، طلسم کاریوں اور بہشت زاریوں سے دھوکاکھا کر۔ تیری نظر فریب تفرّج گاہوں کے دامن میں خیمہ زن ہو جاتے ہیں۔ حسرت و ارمانکی لاتعداد بستیاں بساتے ہیں۔ اُمید و آرزو کے بے شمار قصر تیار کرتے ہیں اور جذباتِ اُمّید و کامیابی کے ہزار ہا خُلد زار آباد کرتے ہیں۔ مگر آہ!۔ تیریبے وفائیاں، تیری ستم آرائیاں، بے دردیاں، کج ادائیاں، بیک جنبشِ نظر اُن کے شیرازۂ جمعیت کو پریشان، اُن کے ارمانوں کی بستی کو برباد، ایوان ہائے آرزو کومنہدم اور اُن کی اُمیدوں کے خُلد زاروں کو تباہ کر کے۔ غارت کر کے رکھ دیتیہے۔ اور بالآخر وہ ویرانہ زارِ عدم کی خوفناک تاریکیوں اور مہیب ظلمتوں میں دفنہو جاتے ہیں۔ آہ!۔ ہمیشہ کے لیے زندہ دفن ہو جاتے ہیں۔۔۔۔ ہائے تُو کتنی ظالم ہے، کسقدر بے وجدان ہے، کس درجہ سفّاک ہے۔ وہ شاعر بڑا ہی جھوٹا تھا جس نے تجھے بہشتکا خطاب دیا تھا۔ تُو تو ایک دوزخ ہے جس میں بے حسی و بے کیفی، بے رحمی و بے دردیکے ہزاروں خوفناک اور موذی و مہلک منظر پرورش پاتے ہیں۔ تُو تو ایک مقتل ہے۔ جس میں روزانہ ہزارہا جذبات کے گلے پر کُند چھُری پھیری جاتی ہے۔ تُو تو ایک مدفن ہے جس میں ہر لمحہ ہزاروں دل کی جوانمرگ تمنّاؤں کے جنازے آتے ہیں اور بغیر تجہیز و تکفین کے سپردِ خاک کر دیئے جاتے ہیں۔ نہ تیرے ظلم و ستم کا ہاتھفاتحہ کو اُٹھتا ہے اور نہ تیری جہنّم فشاں آنکھوں کو سرِ مزار شمع روشن کرنے کیتوفیق ہوتی ہے۔ میں نفرت کرتا ہوں ! او!قتل گاہِ افکار!او شہادتزارِ جذبات۔ او مزارستانِ آرزو!دنیا! میں تجھ سے نفرت کرتا ہوں، ہزار بار۔ آہلاکھ بار نفرت کرتا ہوں۔ لعنت بھیجتا ہوں۔
اور تُو بھی سُن لے۔ او فطرت، او بے رحم، بیدرد فطرت تُو بھی سُن لے کہ میں اپنیتمام ترین تلخ نوائیوں، درد مندیوں اور نالہ سرائیوں کے ساتھ تیرا گلہمند ہوں۔ میں جانتا ہوں کہ تُو میرے دل و دماغ کے ساتھ مذاق کر رہی ہے۔ آہ!۔ ایکنہایت ہی بیدردانہ مذاق۔ ایک نہایت ہی بے رحمانہ کھیل کھیل رہی ہے۔ مجھے معلومہے کہ حسن و عشق تیرے ازلی و ابدی مشغلے ہیں۔ جب تو اپنے آسمانی ہنگاموں سے اُکتا کر۔ تھک کر۔ کوئی کھیل کھیلنا چاہتی ہے تو کسی بدنصیب کے دل میں عشقپیدا کر دیتی ہے۔ اور پھر جب تیرا یہ کھیل۔ تیرا یہ مذاق شروعہوتا ہے۔ تو تُو مسکراتی ہوئی نگاہوں سے۔ اُن مظاہروں کو، آہ اُن ظالمانہمظاہروں کو دیکھتی ہے۔۔۔ اور دیکھتی رہتی ہے۔ کوئی روتا ہے تو مسکراتی ہے۔ کوئیفریاد کرتا ہے تو مزے لیتی ہے۔ کوئی آہیں بھرتا ہے۔ تو سُنتی ہے۔ سُنتی ہے اور خوشہوتی ہے۔ مگر ظالم۔ اِتنا تو کہہ دے۔ کہ کیا تیری اِس قدر وسیع خدائی میں تجھے میرے سوا کسی اور کا دل نہیں ملا؟جو تیری ستم ظریفیوں کا۔ اُن کی تشنگی کا علاج مہّیا کرتا؟اور جس کا رقصِ بسمل تیری ستم خند نگاہوں کے لئے لطفِ تماشا ثابتہوتا؟
آہ!۔ مجھے اتنا تو بتلا دے کہ آخر تیرا یہ بے رحمانہ کھیل کب تک جاری رہے گا؟تیرا یہبے دردانہ مذاق۔ میرے دل و دماغ سے۔ میرے نادان جذبات سے کب تک کھیلتارہے گا؟میرے حسّیات کوکب تک مجروح کرتا رہے گا؟کب تک میری راتوں کو تباہ اور میری نیندوں کو غارت کرتا رہے گا؟ ہلاک کرتا رہے گا؟مگر آہ!۔۔۔ کیا تُو سُنتیہے ؟ہجومِ جذبات کا سیلِ بے اختیار مجھے کہاں سے کہاں کھینچ لے گیا؟اور تم۔ میریپ۔ یا۔ ر۔ ی۔ میری۔ جا۔۔۔۔ ن۔ میری جانِ آرزو۔ میری آرزوئے جان۔ تم اِن وحشتنگاریوں سے گھبرا رہی ہو گی مگر اِس میں میرا قصور نہیں۔ طوفانِ جذبات کی یہ بے اختیاری اور امواجِ خیالات کا یہ ہجوم۔ تمہاری ہی چھیڑ چھاڑ کا۔ تمہاری ہیعرضِ مدّعا کا نتیجہ ہے :-
پُر ہوں میں شکووں سے یوں راگ سے جیسے باجا
اِک ذرا چھیڑئیے پھر دیکھئے کیا ہوتا ہے ؟
میں غالب کے اِس شعر میں صرف اِسقدر ترمیم چاہتا ہوں کہ میرا دل خود اِک ساز ہے۔ مگر کیسا ساز کہ اِس میں نغمے نہیں۔ بلکہ نغموں کی جگہ شکوے بھرے ہیں۔ ایسے شکوے کہ جس کیطوالت۔ تمہاری مُشکبار زلفوں سے بھی زیادہ ہی ہو گی اور اس قدر دردناک کہخُدا جانتا ہے۔ آہ!۔ میں اُن کا خیال کر کے بھی رو پڑتا ہوں :-
جورِ اعدا کے گِلے، تیری جُدائی کے گِلے
اس دلِ تنگ میں ہیں ساری خُدائی کے گِلے
ہائے !۔ میں اِن گِلوں کو۔ اِن شکووں کو۔ اِن شکایتوں کو کیونکر بیان کر سکوں گا؟
دنیا میں کس سے کیجے ؟اُس شوخ کی شکایت
کیونکر سُنائیں گے ہم، یہ دکھ بھری حکایت
اِنبے پایاں شکایتوں کا عنوان، خود یہ شکایت ہے کہ تم نے کبھی بھی میری ’’شکایتہائے رنگین‘‘ سُننے کی کوشش نہیں کی۔ اُف میری کس قدر عزیز آرزو تھی۔ کس درجہصمیمی حسرت تھی؟ کہ مجھے کبھی نہ کبھی تمہارا التفاتِ محبّت۔ تمہارے قدموں تک ضرور پہنچا دے گا۔ کبھی نہ کبھی میں تمہارے پائے نازنیں پر۔۔۔۔ سر رکھنے کی۔ بوسے نچھاور کرنے کی۔ سجدے لُٹانے کی۔ فردوسی۔ آہ!ملکوتی مسّرت ضرور حاصلکر لوں گا۔ آہ!۔ تم سے دُور۔ تم سے مہجور۔ تمہارے خیال۔ ہاں تمہارے بہشت ساماں خیال پر۔ میں نے اپنے عہدِ شباب کی بیسیوں سرشار راتیں قربان کر دیں۔ تمہاریجُدائی میں۔ تمہاری یاد۔ آہ! تمہاری حسین یاد پر۔ میں نے اپنی راتوں کی ہزاروں پُر لطف اور مزیدار نیندیں نثار کر دیں۔ اِس اُمید میں کہ ایک نہ ایک دن میریراتوں کا کوئی جزو۔ میری نیندوں کا کوئی حصّہ۔ تمہارے آستانِ جمال پر ’’خوابِزلیخا‘‘ کا ہمدوش تم سے ہم آغوش نظر آئے گا۔ مگر تقدیر۔ آہ!۔ ظالم تقدیر نے تمامدلی حسرتوں کو۔ آہ!میری اُن حسرتوں کو جنہیں میں نے۔ اپنے شعرستانِ شباب میں، اپنے بہارستانِ افکار میں۔ اپنے نغمہ زاروں میں۔ اپنے نکہت آبادِ روح میں۔ خونِجگر کے آنسوؤں اور سازِ دل کے نالوں سے پرورش کیا تھا۔ تباہ کر دیا۔ غارت کر دیا۔ آہ!:-
دل کی دل ہی میں رہی بات نہ ہونے پائی
ایک بھی اُن سے ملاقات نہ ہونے پائی
ہائے !میری کس درجہ محبوب و مطلوباُمید تھی۔ کہ کبھی میری شب ہائے آرزو کی صبحِ کامرانی طلوع ہو گی۔ ظلمتِانتظار اور تاریکیِ فراق کے مہیب اور تِیرہ و تار بادلوں میں سے۔ میریقسمت کا۔ میری مُسرّت کا۔ میری آرزو کا۔ آفتابِ جہانتاب جلوہ ریز ہو گا۔ موانع کے پُر شور طوفان چَھٹ جائیں گے۔ رکاوٹوں کی ہولناک موجیں مٹجائیں گی اور اُن کے تاریک دامنوں سے۔ میری راحتِ زندگیکا۔ گوہرِ شبچراغ ضیا بار ہو گا۔ یاس کی فصلِ خزاں ختم اور نا امیدی کی بادِ سموم خاموشہو جائے گی اور میں۔۔۔۔ اپنے گُل کدۂ حیات میں۔ عروسِ بہار کو با ہزاراں ہزاررعنائی و برقائی۔ تبسّم ریز پاؤں گا۔ خندہ بار دیکھوں گا۔
خیال تھا۔ کہ غمہائے ہجر کا یہ عارضی۔ یہ قہر آلود ابر۔ پارہ پارہ ہو جائے گا اور اس کے آغوشِ شگفتگی سے میری شب ہائے شباب کا ستارۂ حسین بے حجابہو گا اور اپنی شعاعِ حُسن کی شاداب گلباریوں سے میری خزاں آباد ہستی کیویرانیوں میں۔ بہشتی برودت۔ آسمانی برکات اور ملکوتی ندرت کی نغمہ صفت لہریں دوڑا دے گا۔
مجھے کس درجہ یقین تھا کہ بربطِ دل کے وہ تار جو زنگ آلود ہو چکے ہیں۔ جو بے آواز ہو چکے ہیں۔ جن میں اب خوشی کے راگوں کی جگہ۔ دکھ بھریآہیں۔ اور مسّرت کے ترانوں کی بجائے سوز بھری کراہیں گونجتی ہوئی۔ آہ!۔ ایکدُکھیا بھکارن کے حُزن آلود گیت کی طرح۔ روتی ہوئی۔ پیٹتی ہوئی۔ سُنائیدیتی ہیں۔ اب از سرِ نو شادابیِ موسیقی سے گویا اور شگفتگیِ نغمہ سے لبریز ہو جائیں گے اور ایک بار پھر اُن کے سنسان دامنوں میں۔ اُن کے ویران پردوں میں۔ روحِ طرب کے حسین و شیریں نغمے لہرانے۔ لگیں گے لیکنواحسرتا کہ یہ سب کچھ ایک خواب تھا۔ آہ!ایک دردناک خواب۔ ایک سرابتھا۔ آہ!ایک غمناک سراب۔
دُور۔۔۔۔ سے آنے والی صدا بہت خوش آہنگ تھی۔ مگر پاس جا کر سُنا تو سراسربے رنگ۔ ایک پھول تھا کہ دامنِ شاخسار میں۔ نہایت حسین و خوشگوار نظر آتا تھا۔ لیکن تو ڑ کر دیکھا تو نوکِ خار!۔
آہ !ایک گوہرِ آبدار تھا۔ مگر کس قدر فریب دہ کہ نگاہِ یقین کے قریب پہنچکر سنگ ریزہ بن گیا۔
تم!میری مسجودِ افکار۔ میری پرستیدہ اشعار۔ تم اندازہ تو کرو۔ ہائے میریمایوسیوں کی دلگدازیوں کا۔ میری ناکامیوں کی روح فرسائیوں کا اندازہتو کرو۔ تم دیکھتی ہو، بے رحم تقدیر۔ بے درد قدر ت۔ میرے ساتھ۔ میرے جذباتِ تمنّاکے ساتھ۔ کس درجہ سّفاکانہ تمسخر کیا جا رہا ہے۔ تُم سے۔ ہائے !تم سے محرومہونا۔ تمہاری ملکوتی ہستی کی رعنائیوں سے۔ تمہاری قابلِ پرستش دیویت کی۔ آہ!، صنمیّت کی دلربائیوں سے محروم ہونا۔ ہائے یہ کتنا دلگداز، کس قدر جاں خراش۔ کس درجہ مہیب و مہلک حادثہ ہے ؟آسماں اپنے ستاروں سے کیوں محروم نہیں ہو جاتا؟بہشت اپنی حوروں سے کیوں خالی نہیں ہو جاتی؟دُنیا اپنے گُلہائے زندگیسے کیوں تہی دامن نہیں ہو جاتی؟کہہ دو کہ آسمان کے ستارے غارت ہو جائیں۔ اُن کینورانی شعاعیں تباہ ہو جائیں۔ کیونکہ میں بھی اپنا ستارۂ قسمت کھو بیٹھا۔ اُسکی شعاعِ حُسن سے محروم ہو بیٹھا۔ کہہ دوکہ بہشت کی حوریں کھو جائیں۔ گمہو جائیں۔ کیونکہ میں بھی اپنی جوانی کی حور کو گنوا چکا۔ اُس سے ہاتھدھو چکا۔ کہہ دوکہ دنیا کے گُلہائے زندگی کمہلا جائیں۔ اُن کے رنگ و بو کا سہاگلُٹ جائے کیونکہ میری مسّرتِ حیات کا پھول بھی کمہلا گیا۔ اُس کے رنگو بو کا سہاگ لُٹ گیا۔ کہہ دو کہ یہ سب۔ ہاں یہ سب کے سب اپنی تباہ حالیوں کا ماتم کریں، سوگ منائیں۔ کیونکہ اُن کا شاعر اُن کے سازِ رنگیں کے تاروں پر۔ نغموں کی جگہ اپنی روح چھڑ کنے والا شاعر بھی آج اپنی تباہ حالی کا ماتمکر رہا ہے۔ سوگ منا رہا ہے۔ ایسا ماتم کہ جو زندگی بھر ختم نہ ہو گا۔ اور ایسا سوگجو قیامت تک جاری رہے گا:-
روز و شب رویا کئے شام و سحر رویا کئے
کچھ نہ روئے آہ گر!ہم عمر بھر رویا کئے
شاعر۔ آہ!۔ او بد نصیبشاعر۔ تُو کس قدر بدنصیب ہے۔ کہ فطرت کی ستم ظریفی تجھے شراب کی جگہ زہر پلا رہیہے۔ شباب کی جگہ موت دے رہی ہے۔ تُو کتنا بدقسمت ہے کہ تجھے پھول کی جگہخار اور ہیرے کی جگہ کنکر دیا جا رہا ہے۔ خدا ہی جانتا ہے کہ او بدنصیب۔ قابلِ رحمبدنصیب۔ تُو نے وہ ایسا کون سا گناہِ عظیم کیا ہے ؟جس کی پاداش میں۔ تجھ پر تمامدُنیوی مسّرتوں کا دروازہ بند کیا جا رہا ہے۔ تجھ پر خدائی بھرکی مسرّتیں حرامکی جا رہی ہیں اور تیرے لئے جیتے جی جہنم کا آتش ناک عذابمہیّا ہو رہا ہے۔ اُف!بدنصیب۔ آسمان نے اپنا حسین ترین۔ روشن ترین۔ ستارہتجھے بخشا تھا۔ مگر۔ تیری شومیِ قسمت۔ کہ وہ تجھ تک پہنچنے سے پہلے اُفق کی دھندلیرنگینیوں میں کھو گیا۔ بہشتِ بریں نے اپنا نازک ترین۔ خوش رنگ ترینپھول۔ تجھے عنایت کیا تھا۔ مگر تیری بدقسمتی۔ کہ وہ تجھے ملنے سے پہلے فضا کینامعلوم وسعتوں کے دامن میں غائب ہو گیا۔ آہ!فطرت نے اپنے الٰہاتی طلسم کا۔ ایکنفیس ترین۔ ایک نادر ترین تحفہ بھیجا تھا۔ مگر۔ افسوس۔ تیری کوتاہیِ تقدیر۔ کہ وہمحرومی و مایوسی کے ا تھاہ ساگر میں ڈوب گیا۔ غرق ہو گیا۔ وہ شرابِ رنگینجو تیرے ساغرِ حیات کا حصّہ تھی۔ اغیار کے پیمانوں میں چھلکنے والی ہے۔ وہنغمۂ حسین۔ جو تیرے سازِ ہستی کے لۓ مختص تھا۔ دشمنوں کے سازِ مسّرت میں لہرانے والا ہے۔ گونجنے والا ہے :-
تڑپ رہا ہوں، میں نیم بسمل، عدو کی حسرت نکل رہی ہے
ہے نام جس کا شبِ تمنّا، وہ آج آنکھیں بدل رہی ہے
اُف!اُف!عمر بھر کی اُمیدوں کا خاتمہ۔ زندگی بھرکی مسّرتوں کی بربا دی۔ دل کی عمیق ترین آرزوؤں کیتباہی۔ غارتگری۔ ہائے یہ صدمۂ عظیم۔ یہ عذابِ الیم۔ کیونکر برداشتکیا جا سکتا ہے ؟
’’مسیحا‘‘ بن گیا ہے رشک دشمن
نہیں تو مر گئے ہوتے کبھی کے
آہ!مدّتِ دراز سے میں۔ ایک خواب دیکھرہا تھا۔ ایک نہایت ہی دلفریب، نہایت ہی دلچسپ خواب۔ دُنیا۔ اِس وجدانفراموش دنیا کے حیوانی۔ نفسیانی۔ شور و غل سے دُور۔ ایک پُر سکون۔ نشۂ روحیسے لبریز۔ ایک چمن زار کھِلا ہوا تھا۔ مسّرتوں کے رنگارنگ پھولوں سے معمور۔ حلاوتِ زندگی کی کیف ریز نگہتوں سے مخمور۔ عشق و محبت کی روشنفضاؤں میں۔ لطف و عیش کی مستانہ ہواؤں میں۔ میری حیاتِ عشق ساماں۔ کا ایکستارہ تھا۔ کہ محوِ گل گشت نظر آتا تھا۔ اُس کے ساتھ تمہاری رعنائی۔ تمہاری زیبائی کا ایک ناہید فریب ستارہ جس کی مسکراتی ہوئیشعاعیں۔ میرے ستارۂ حیات کی ہلکی ہلکی روشنی سے ہم آغوش تھیں۔ آہ!۔ کسقدر شیریں خواب تھا کہ میرا دل چاہتا تھا۔ میری آنکھیں ہمیشہ یہی خوابدیکھتی رہیں۔ اور بس دیکھتی رہیں۔ اب بھی۔ آہ!۔ اب بھی کہ میرا یہ خوابِاُمید۔ پریشان ہو چکا ہے۔ اب بھی۔ اکثر اوقات آنکھیں بند کر لیتا ہوں۔ اور چاہتا ہوں کہ اپنی خیال آرائیوں کے آئینہ میں ایک بار پھر اسپیاری تصویر کو دیکھ لوں۔ مگر اب کیا دیکھتا ہوں کہ دونوں ستاروں کے بیچ میں ایک تاریکی۔ ایک ظلمت کی لامتناہی خلیج حائل ہے۔ جس کی سیاہ موجیں ہمیں ایک دوسرے سے دُور۔ ایک دوسرے کے دیدار سے مہجور۔ محروم کر رہیہیں۔ یہ دیکھ کر میں ایک زہر ناک۔ ایک سوز ناک لہجہ میں چیخ اُٹھتا ہوں :-
آسماں اور ز میں کا ہے تفاوت ہرچند
او پَری دور ہی سے چاند سا مکھڑا دِکھلا
مگر آہ!۔ کہتم میری نگاہوں سے دُور۔ نہ معلوم تاریکیوں کے دامن میں چھپ جاتیہو۔ جذباتِ لطیفہ کی یہ غارتگری۔ محبّت پرست روحوں کی یہ بربادی۔ سب سے زیادہ جسچیز کی گلہ مند ہے۔ وہ ہمارے والدین کی حماقتیں ہیں۔ جو بالآخر اولاد کی دائمالعمر عقوبتوں کے رنگ میں ظاہر ہوتی ہیں۔ والدین کی یہ ستم آمیز حماقتیں ہمارے جاہلانہ رسم و رواج کی بے راہ روی کا نتیجہ ہیں۔ تہذیب و تمدّن کے اِسروشن و منّور دور میں جب کہ تمام اقوامِ عالم۔ ہر ایک معاملہ میں۔ معراجِ ترقی کی شہ نشین پر نظر آتی ہیں۔ ایک خفتہ بخت۔ اور جاہل قومہندوستان کی ہے۔ جو اَبھی تک ذلّت و بدبختی کے تحت الثرّیٰ میں۔ کروٹ بدلرہی ہے۔ ہماری معاشرت کے دامن پر سب سے زیادہ نمایاں داغ جو ہماریبدنصیبیوں کی تکمیل کی مُہر بنا ہوا ہے۔ والدین کا وہ ناجائز اختیار ہے جو اُن کو اپنی ہوشمند اولاد کے ازدواجی معاملات میں حاصل ہے۔۔۔۔
اُن کا یہ غیر آئینی۔ غیر اُصولی۔ غیر شرعی اختیار ہے جو پچاس فیصدی ہندوستانینوجوانوں کی زندگی کو ناقابلِ برداشت۔ موت سے زیادہ ناقابلِ برداشتبنا دیتا ہے۔ اُن کے قوائے عمل کو تباہ۔ اُن کے جذباتِ لطیفہ کو زنگ آلود۔ اُن کیتندرستی کو داغدار اور اُن کے روحِ شباب کو بیمار کر دیتا ہے۔ اِس نیلگوں آسمانکے لامتناہی سایہ کے نیچے۔ اِس سر سبز زمین کے غیر مختتم فرش پر روزانہ کتنے دلایسے ہیں جو والدین کی اِس قسم کی جابرانہ حماقتوں کا شکار ہو کر۔ خاک و خون میں لوٹتے نظر آتے ہیں۔ کتنے رقیق و صمیم جذبات ہیں جو والدین کے ظالمانہ اختیارکی اُلٹی چھُری سے چپ چاپ ذبح ہو جاتے ہیں۔ اور دم نہیں مارتے۔ کس درجہ لطیفو نازک افکار ہیں۔ جو والدین کے اِس ملعون۔ اِس وحشیانہ۔ اِس شیطانی اختیار کے مذبح میں۔ مقتل میں۔ ہر وقت۔ ہر لمحہ ہلاک ہوتے رہتے ہیں۔ اور اُن کا رقصِبسمل۔ دُنیا کی فریب خوردہ نگاہوں میں عیش و مسرّت کا معمار بنا رہتا ہے۔
اگر تم مجھے مل جاتیں۔ اگر میں تمہیں پا لیتا۔ آہ!کتنا حسین۔ کس درجہ شاندار تخیّلہے کہ میں اَس کے ایک ہلکے سے تصوّر میں مر جانا ہی معراجِ زندگیسمجھتا ہوں۔ تمہارے پاس۔ آہ!۔ تمہارے ساتھ رہنا۔ ہائے یہ کیسی عظیم الشّان۔ کسقدر خوبصورت زندگی تھی۔ جس کا تصوّر۔ جس کا دلگداز تصوّر۔ آج میرے دل سے فریادوں کا۔ میری آنکھوں سے آنسوؤں کا طلب گا رہے۔ تم دیکھتی ہو۔ میں رو رہا ہوں۔ میریآنکھیں سیلابِ درد بہا رہی ہیں۔ مگر ہائے۔ اب تمہارا دامن میرے آنسو کیوں نہیں پونچھتا۔ ؟۔ آہ!۔ کیا اب تمہارے دامن کی رنگینیوں پر۔ میری آنکھوں کا۔ میری رونے والی آنکھوں کا کوئی حق نہیں رہا۔ ؟؟ اُف! میں یہ محسوس کرتا ہوں۔ اور کیا کہوں ؟کس درجہ قلبی اذیّت۔ اور روحی کرب کے ساتھ محسوس کرتا ہوں۔ ؟ کا ش کہ تمسمجھتیں۔ سمجھسکتیں۔ تمہاری ہستی کی معصوم رنگینیوں میں کھو کر۔ تمہاری شباب کی دوشیزہ رعنائیوں سے مخمور ہو کر میں کیا کر سکتا تھا؟؟یہ آہ!یہ وہ نشتر ہے جو میرے جذبات کی نزاکتوں کو مجروح اور میرے قلب و روح کی لطافتوں کو ذبح کیے ڈالتا ہے۔ اگر تم میرے نصیب میں ہوتیں۔ تو کیا اس نفسانیت زارِ ارض میں کوئی مجھ سے زیادہ خوش نصیبہو سکتا تھا۔ ؟
اگر تم مجھے مل جاتیں۔ تو کیا دنیا بھر کے ادب و شعر کی محفلوں میں آجمیرا کوئی حریف نظر آ سکتا تھا۔؟ آہ!تمہاری حسین معیّت میں، تمہاریرنگین محبّت میں۔ میرے خیالات۔ میرے ارا دے۔ کس درجہ بلند۔ کس قدر با وقار ہو سکتے تھے ؟
زندگی کا یہ چھوٹا سا گھروندہ۔ جسے دنیا کہتے ہیں۔ ایک حقیر شے ہے۔ میں چاند اور سورج کو آپس میں ٹکرا دیتا۔ جنوب کو شمال سے اور مشرق سے مغربکو ملا دیتا۔ زمین کو آسمان سے اور آسمان کو زمین سے بدل دیتا۔ آہ! میں کیا کچھ نہکرتا۔ ؟تمہیں پا لینے کے بعد میں کیا کچھ نہ کر سکتا تھا؟ہماری ’’مشترک زندگی‘‘ دنیا کے افسانہ ہائے حُسن و عشق میں ایک زندۂ جاوید افسانہ کا اضافہکرتی۔ یونانی علم الاصنام کا نیا حاشیہ لکھا جاتا۔ قیس و فرہاد کی داستانہائے معاشقہ از سر نو مرتّب ہوتیں۔ اور خدا کی خدائی میں پہلی بار۔ ایکپُر سُرور مسّرت و خوش نصیبی کی صبح طلوع ہوتی۔ ہم دنیا بھر کے ا دیبوں اور شاعروں کا موضوعِ افکار بنتے اور سراب آبادِ ہستی کے اختتامی لمحات تک بنے رہتے۔ ہماپنے ادبی رنگوں کو بھی پروان چڑھاتے۔ اللہ!۔ کیسا دلفریب منظر ہے۔ تم میرے سامنے بیٹھ جاتیں۔ اور میں مصوّر کی طرح اپنا خوبصورت قلم اُٹھا لیتا۔ تم میرے جذباتِ محبت کا۔ پیار بھری نظروں سے مطالعہ کرتیں۔۔ اور۔۔۔۔ اُن کو!اِس طرح ہمدونوں مِل جُل کر اُردو ادب کو ستاروں کی طرح حسین پھولوں کی طرح رنگین۔ خیالکی طرح الہامی۔ اور خوابِ فردوس کی طرح خوشگوار بنا دیتے۔
تمہر لمحہ۔ میری محبّت پاش نگاہوں سے ہم آغوش رہتیں۔ بہشت کے پھول تو ڑکر۔ تمہارے لیے اپنے ہاتھ سے۔ ایک قصِر رنگین تیار کرتا۔ آسمان کے ستارے چھینکر۔ اُس میں فرش بچھاتا۔ چاند سے دربانی کا کام لیتا۔ آفتاب کو فانوسبناتا۔ زہرہ۔ تمہیں لوری دینے کو نغمہ طرازی کی خدمت پر مامور ہوتی۔ کوثر و سلسبیلکی لہریں تمہاری تفرّج گاہ میں تمہاری شب رنگ زلفوں کی طرح لہراتی نظر آتیں۔ اور میں۔ آہ!۔ میں دن رات تمہارے حسن و جمال کی شان میں شعر کہتا۔ اور کہتا رہتا۔ صبح و شام تمہاری صنمیّت کے حضور میں سجدے کرتا اور کرتا رہتا۔ ہماری زندگی ایک نغمہ کی طرح گزرتی۔ ہم اپنے مشترک سازِ حیاتپر صنمِ محبّت کی الوہیت کے راگ گاتے۔ خدائی بھرکی فضائیں۔ ہماری پُر سوزملکوتی لے سے سرشار ہو جاتیں۔ ہوائیں ہماری فردوسی۔ ہماری بہشتی ترانوں سے مدہوش نظر آتیں۔ ہم ایک کیفِ سرمدی۔ ایک نشۂ معنوی میں مست اپنی اِلہامانہ نغمہسرائیوں میں محو۔ اپنی نغمہ سرائی کی بہشتِ رنگ وبو میں کھوئے رہتے اور بالآخر ہمارا ساز تھک جاتا۔ ہمارے نغمے مدّھم پڑ جاتے۔ تب ہمدو بلبلوں کے آخری راگ کی طرح۔ ایک دوسرے کی ہستی میں گم۔ ایک نامعلوم روحانیسرزمین کی طرف پرواز کر جاتے۔ ایک آخری پرواز۔ مگر۔ مگر۔ ہائے !کیا یہ محض ایکخواب تھا۔ ؟؟جو میرے بہارستانِ دماغ۔ میرے شعرستانِ شباب کی نگاہوں میں چھلکا اور بالآخر۔ ایک آنسو بن کر ٹپک پڑا؟؟؟
آہ! میں روتا ہوں۔ اپنے نصیبوں کو روتا ہوں۔ اپنی مسرّتوں کو روتا ہوں۔ آج میرا دلٹوٹ گیا ہے۔ میرا دماغ ویران ہو گیا ہے۔ میرے جذباتِ شباب ذبح ہو گئے ہیں۔ میں رو رہا ہوں۔ اور ہمیشہ روتا رہوں گا۔ آہ!تمہاری محبّت میں مبتلا۔ تمہاری محبتسے محروم۔ ایک نامعلوم وقت تک روتا رہوں گا۔ لو۔ دیکھو۔ میری جان۔ میری سبکچھ۔ یہ ہے میرا اعترافِ محبّت پہلا اور۔ اگر تم نے ستم پیشگی اختیار کر لیتو آخری۔۔۔۔ اعتراف اور۔۔۔۔ اِس کے بعد۔ اب میں تمہیں پہلی مرتبہبتلانا چاہتا ہوں۔ کہ تم نے اپنے پچھلے خطوں میں میری ’’بے رحمی‘‘۔ ظلم و تغافل’’ کیجو جو شکایتیں کی ہیں۔ وہ حقیقت میں خود تمہاری ہی ستمگر ی و جفا پیشگی کی شاہدہیں۔ آہ!جب کہ میں پہلی مرتبہ اپنے زبان و قلم کو آزاد پاتا ہوں۔ میں تم سے درخواست کرتا ہوں۔ یہ ثابت کرنے کی کہ شروع سے لے کراب تک ایک بھی قصور۔ ایکبھی جُرم ایسا ہے ؟جو مجھ سے دانستہ یا نا دانستہ سر زد ہوا ہو؟اور پھر اسکے بعد اگر تم اجازت دو گی۔ تو میں یہ ثابت کروں گا کہ شروع سے لے کر آج تک تمنے جس جس طرح مجھے ستایا ہے۔ جس جس انداز میں میری محبّت کے ساتھ بیدردانہسلوک کیا ہے۔ جس جس ادا سے میرے جذبات کو ٹھکرایا اور میرے دل کو رنج پہنچایا ہے وہکس حد تک تمہاری ظلم پیشہ فطرت۔ تمہاری جفا خوگر طبیعت اور تمہارے بے رحم دل کیستم شعاریوں کے آئینہ دار ہیں۔ ؟آہ!۔ ایک مظلوم کو ظالم کہنا۔ ایک فریا دیِ تغافلکو۔۔۔۔ ’’تغافل شعار‘‘ لکھنا۔ ایک شکوہ سنجِ بے نیازی کو بے نیازِ محبّت کا خطابدینا۔ اگر تمہاری شوخیِ ستم کے مذہب میں روا ہے تو کچھ شک نہیں کہ میرے جرائم کیفہرست بے انتہا ہے۔ ورنہ اگر تمہاری محبت۔ منصف مزاج ہے تو میں اپنی متالّم روحکی تمام تر درد مندیوں کے ساتھ عرض کرتا ہوں کہ تم ایک بات بھی ایسی نہیں بتلا سکتیں جو میرے سوز و گدازِ عشق کے دامنِ مریمی کی آلودگی کا باعث ہو:-
لو ہم تمہارے سر کی قسم کھائے جاتے ہیں
میں دیکھتا ہوں کہ تم نے اپنے تازہ خط میں بھی (جس کے انتظار میں میرا دل ہیجانتا ہے جس قدر مجھے تکلیف اُٹھانی پڑی) اُسی قسم کا ایک اور نشتر صرف کیا ہے۔ تمنے لکھا ہے کہ میں تمہارے جھوٹ موٹ کے آنسوؤں سے نہیں سچ مچ کے آنسوؤں سے متاثر ہو کر تمہارے خط کا جواب دوں۔ قطع نظر اِس بات کے کہ خدا جانے ظالم کونہے اور مظلوم کون؟خط کے جواب میں کون غفلت برتتا ہے ؟اور کون نہیں ؟مجھے شبہ ہے کہ تمہاری آنکھوں میں آنسو ہے بھی۔ ؟آہ!مجھے معاف کرو۔ میری تلخ نوائی کو بخشدو۔ محبت کی مایوسی نے مجھے دیوانہ کر دیا ہے :-
رکھیو غالب مجھے اِس تلخ نوائی میں معاف
آج کچھ درد مرے دل میں سِوا ہوتا ہے
ہائے !اگر تمہاری آنکھیں۔ تمہاری غزالیں آنکھیں۔ آنسو پیدا کر سکتیں تو آج میرے دردِ محبت کے نصیب میں سوزِ فراقِ دائمی کی کھٹک کیوں ہوتی۔ ؟اگر تمہارے آنسو۔ تمہارے ’’خونِجگر‘‘ سے آشناہونا جانتے، تو آج میرے زخمِجگر کو دوا کا رونا کیوں ہوتا؟ آج مجھے تمہاری بے التفاتیوں کا گِلہ مندکیوں ہونا پڑتا؟وہ آنکھیں جنہوں نے میری ایک نظم کو ’’حسین‘‘ تو سمجھلیا۔ مگر جن سے اُس نظم کے مقصودِ شعری اور مطلوبِ فکر ی کا جواب نہدیا گیا۔ آہ!وہ آنکھیں جن کو اپنی جھلک۔ اپنی ہلکی سی جھلک کا نقصانگوارا نہ ہوا۔ میں کیونکر یقین کروں ؟ کہ وہ آنکھیں میرے لیے ’’سچ مچ کے آنسو‘‘ ٹپکا سکتی ہیں ؟ البتہ یہ ہو سکتا ہے کہ اِن آنسوؤں کا راز غالب کے اِس شعر میں پنہاں ہو:-
کی مرے قتل کے بعداُس نے جفا سے تو بہ
ہائے اُس زُود پشیماں کا پشیماں ہونا
ع حکایت ہے یہ کچھشکایت نہیں
تمنے لکھا ہے کہ تم اِس کے بعد پھر کبھی مجھے اِس قسم کی ناگوار تکلیف نہدو گی۔ دوسرے الفاظ میں یہ۔ کہ، آئندہ مجھے خط نہ لکھو گی؟ یعنی اب ہمیں ایکدوسرے سے بالکل محروم ہونا چاہئے۔ بہت اچھا۔ یونہی سہی۔ لیکن خدارا میرے اقوالپر عمل پیرا ہونے کا بہانہ تو نہ بناؤ۔ صاف کیوں نہ کہہ دو کہ:-
———نہیں آپسے کچھ کام ہمیں
آپ بھیجا نہ کریں عشق کے پیغام ہمیں
دیکھتی ہو۔ میری پیشگوئی کس طرحپُوری ہو رہی ہے ؟حالانکہ میرا وہ خط جسے تم نے ’فلسفیانہ‘‘ کہا تھا اور جسکے اقوال پر آج تم یوں عمل پیرا ہونے کو آمادہ ہو۔ محض ایک قسم کی شوخیتھی اور اس شوخی میں ایک ’’پُر راز‘‘ مجبورانہ طرزِ عمل پنہاں تھا۔ بہرکیفکیا میں پوچھ سکتا ہوں کہ تمہیں اُس خط کی شرارت آمیز متانت سے دھوکاکھانے کی کیا ضرورت تھی؟
با ایں ہمہ میں کہتا ہوں کہ اگر تم اِس سلسلہ سے اُکتا گئی ہو اور میری نام نہادمحبت سے تھک گئی ہو تو تمہیں میرے کسی شوخ خط کو متانت سے لبریز دیکھ کر ’’جدائی‘‘کا بہانہ بنانے کی ضرورت نہیں۔ بلکہ تم بغیر لحاظ و مروّت کے نہایت آزادی اور اطمینان کے ساتھ یہ فیصلہ کر سکتی ہو کہ تم ’’ آئندہ‘‘ مجھ سے نہ ’’بولو گی‘‘۔ گوکہ میرے لئے تمہیں بھول جانا۔ آہ!۔ کوششوں کے باوجود تمہیں بھُلا دینا۔ ممکننہیں۔ کہ یہ میرے شباب کی آخری بہار کے خوابِ سوگوار ہیں۔ تاہم میں یہکر سکتا ہوں کہ آئندہ تحریری، تصویری غرض کسی صورت میں بھی تمہارے سامنے نہآؤں۔ تم مطمئن رہو۔ یہ کوئی دشوار بات نہیں ہے۔ میں اپنی خیالی تاریکیوں کے دامن میں۔ تمہاری محبت کی شمع روشن کروں گا۔ تم سے مہجور۔ تمہاری شیریں یاد کو۔ اپنے نہاں خانۂ افکار میں پرورش کروں گا اور تمہارے فراق میں۔ تمہاریتصویرِ تصوّر کو۔ اپنے سینے سے لگائے رکھوں گا۔ غرض جس طرح گزرے گی، گزار لوں گا اور ہستیِ مستعار کے آخری لمحہ تک گزار لوں گا۔ یوں بھی تمہاری ’’محبت‘‘ کی ’’رحمدلی‘‘ نے مجھ پر ایسی کون سی نوازشیں کی ہیں جن کو یاد کر کے میں کُڑھوں گا۔ ہاں۔ ایک خط و کتابت کی ’’نصف الملاقات‘‘ ضرور تھی۔ تو کیا ہے ع
ایں ہم اندر عاشقیبالائے غم ہائے دگر
اُس ہندو لڑکی(عورت نہیں ) کے معاملہ میں تم نے جو ’’خفگی‘‘ ظاہر کی ہے۔ اُسکی ضرورت نہ تھی۔ میں اوپر کہیں لکھ آیا ہوں کہطلبِ ہمدردی کی درخواست محض بربنائے شوخی تھی۔ ورنہ وہ تو۔ آج دو سال گزرے کہالہ آباد’’ چلی گئیں ‘‘ غالباً۔۔۔۔ میں براجمان ہوں گی۔ اِس سلسلہ میں تمنے جو شعر لکھّا ہے وہ بھی بیکار ہو جاتا ہے مگر میری زبان سے ادا ہو تو شاید اب بھیبامعنی ہے :-
غیروں سے تم ملاکرو، ہم دیکھتے رہیں
حاشا یہ ظُلم ہم سے اُٹھایا نہ جائے گا
آہ!۔ میں کس قدر کوشش کرتا ہوں کہاِس معاملہ کو بھُلا دوں۔ مگر کامیاب نہیں ہو سکتا۔ اللہ! میں کب تک اِسذہنی اذیّت۔ اِس قلبی جانکنی میں مبتلا رہوں گا؟تم نے میرا شکریہ اداکیا ہے کہ میں اُس روز تمہاری خاطر اِس قدر تند بارش اور شدید سردی میں اتنی دور سے چل کر تمہارے حریمِ ناز تک گیا۔ کاش کہ تم جانتیں کہتمہاری محبت۔ آہ!۔ تمہاری محبت کے جوش میں۔ میں کہاں کہاں پہنچ سکتا تھا۔
بخدائے لا یزال۔ اگر تم تک پہنچنے میں قطبِ جنوبی اور قطبِ شمالی بھی سّدِ راہہوتے تو میں اُن کو طے کر لیتا۔ دنیا بھر کے بحر ہائے بیکراں ایک بحرِ عظیم بنکر میرے راستے میں حائل ہوتے تو بھی میں اُن کو عبور کر لیتا۔ ہمالیہ کے برابربرفستانی کُہسار کے ہزا رہا سلسلے بھی اگر مجھے تم تک پہنچنے سے مانع ہوتے تو بھی میں اُن سے گزر جاتا۔ اور اگر طلسمِ ہوشربا بھی اپنی تمام ساحرانہ و سحر کارانہعظمتوں کے باوجود میرا راستہ روکتا تو میں اُس کوتو ڑ دیتا۔ پھوڑ دیتا اور تم تکپہنچ جاتا۔ کیونکہ تمہاری محبت میری خضرِ راہ ہوتی۔ تمہارا شوق میرے پرِ پرواز لگا دیتا۔ تمہارا خیال میرے ارادوں میں ہیجان اور میری اُمیدوں میں طوفان برپا کر دیتا۔ ایسا ہیجان کہ اُس سے جو چیز ٹکراتی پاش پاشہو جاتی۔ اور ایسا طوفان کہ اُس کے سامنے جو بھی آتا خس و خاشاک کی طرح بہہجاتا۔ مجھے شرم آتی ہے کہ تم نے اتنی بے حقیقت سی بات کا ذکر کرنا گواراکیا اور پھر ستم یہ کہ اُسے میری محبت کا ایک بلیغ ثبوت بھی سمجھا۔ حالانکہتمہارے پرستارِ خیال، تمہارے دیوانۂ محبت کے نزدیک۔ محبت۔ اِس سے کہیں زیادہبلند اور با عظمت ثبوت چاہا کرتی ہے۔
اب میں علی الترتیب تمہارے سوالات کا جوابدیتا ہوں۔ ١-’’اُن سے ‘‘(نظم)بالکل غیر مطبوعہ ہے۔
٢-وعدہ کے مطابق میں اپنی داستانِ درد ضرور دہراتا مگر مجھے اُس کا موقع کب دیا گیا؟اِس خط میں ضرور ایک بڑا حصّہآ گیا ہے۔ اور وہ اِس لیے کہ
آپ نے یاد دلایاتو ہمیں یاد آیا
باقیحصّہ گو کہ اب ’’راز‘‘ نہیں رہا۔ تاہم ایک راز ہے۔ جسے میرا قلم نہیں۔ میریزبان۔ اور تمہاری نگاہوں سے نہیں تمہارے کانوں سے کہہ سکتی ہے ؟مگر کیا کبھیایسا ہو سکتا ہے ؟ ہائے !کیا کبھی ایسا بھی ہو سکتا ہے ؟کیا میری محبت کو اب بھیاتنا حق حاصل نہیں ؟کہ وہ عمر بھر میں پہلی اور آخری مرتبہ تمہارے چند روحیلمحے طلب کر سکے۔ ہاں۔ یہ پہلی اور آخری التجا ہے۔ کیا اسے شرفِ قبولیتبخشا جا سکتا ہے ؟آہ!کیا دلِ شکستہ کی یہ تنہا آرزو بھی کامیاب ہو گی؟کیا محبّتِناکام کی۔ یہ ایک تمنّا بھی حرماں نصیب ہی رہے گی۔ ؟ اُف!۔ کیا تم یہ گواراکرو گی کہ کسی دیوانۂ محبت کی۔ کسی مجروحِ نظارۂ اوّلیں کی رہی سہی زندگیبھی غارت ہو جائے ؟کیا تم یہ پسند کر سکو گی کہ تمہارا بیمارِ فرقت۔ تمہارے ہونٹوں سے تسکین کے دو لفظ سُنے بغیر اِس دُنیا سے گزر جائے۔ مر جائے۔ نہیں۔ نہیں۔ تمیقیناً اتنی بے رحم نہیں ہو۔ تم جو اپنے گمنام ادبی زندگی کے کارناموں میں اکثر جذباتِ رحم کی ترجمانی کرتی رہتی ہو۔ تم یقیناً اتنی بے درد۔ اِسقدر خدا نا ترس نہیں ہو کہ انکار کی ستم آرائیوں سے میرے دل کومرجھائے ہوئے پھول کی طرح پائے حقارت سے کچل دو اور اسے موتوں اور ہلاکتوں کے رحمپر چھوڑ دو۔ میں تمہیں مجبور نہیں کرتا۔ صرف اپنی محبت کا حق طلب کرتا ہوں۔ کیا تممجھے میرے اِس حق سے محروم رکھو گی؟ میں تمہارا احترام کرتا ہوں۔ تمہاری محبتکا۔ تمہاری حرمت و عفّت کا۔ تمہاری نازک حیثیت کا۔ تہِ دل سے احترام کرتا ہوں لیکن اُس کے باوجود میرے جذباتِ بے قرار۔ میرے حسّیاتِ بے اختیار کا تقاضا ہے کہ میں۔ میں تم سے اپنی اِس آرزو کا اظہار کروں :-
مری اِس سادگی پررحم کھانا
کہ تم سے آرزوئے دل بیاں کی
میں نے آج تک ضبط کیا۔ محبت کے راز کو۔ جدائی کے صدمہ کو۔ آرزوئے ملاقات کو اور تمہاری آئندہ زندگی کے قبل از وقت رشک کو بھی۔ غرض بیسیوں تلخ و جانگداز مصائب کو ضبط کیا۔ مگر اب ضبط کا دامن ہاتھ سے چھُوٹا چاہتا ہے۔ اب میں ضبط نہیں کر سکتا۔ آہ!اب مجھ سے ضبط نہیں ہو سکے گا۔ دیکھنا میں دیوانہ ہو جاؤں گا۔ میں مر جاؤں گا۔ چند لمحے۔ اتنی مہلت۔ آہ! بس اتنی مہلت کہ میں تمہارے قدموں سے اپنی آنسو بھری آنکھیں مَل کر۔ اپنے دل کو تسکین دے سکوں۔ اور بس۔ تمام زندگی کا حاصل۔ تمام عمر کا خلاصہ۔ تمام آرزوؤں کی روح یہ اور صرف یہ ہے۔ ایک ماہیِ بے آب۔ آغوشِ بحر تک پہنچنے کی کس درجہ تمنّائی ہوتی ہے ؟ایک سازِ شکستہ کی تار۔ صدائے نغمہ سے بغل گیر ہونے کی کس قدر آرزو مند ہوتی ہے۔ ؟
ایک ظلمت خانۂ یاس۔ چراغِ اُمید کی شعاعوں کا کس بے تابی سے منتظر رہتا ہے ؟یہ وہ سوالات ہیں جن پر تم نے غور کرنا ہے اور نہایت ہی ہمدردی اور رحمدلی کے ساتھ غور کرنا ہے۔
میں انتظار کر سکتا ہوں۔ وعدۂ ملاقات کی لذّتوں میں محو۔ مسرّتِ ملاقات کا انتظار کر سکتا ہوں۔ مدّتوں انتظار کر سکتا ہوں۔ اِس اُمید پر جی سکتا ہوں۔ کاش۔ کہ تم وعدہ تو کرو۔ مگر ہائے۔ تم تو مجھے تسلّی بھی نہیں دیتیں۔ تمہاری زبان سے تو تسکین کے دو حرف بھی نہیں نکلتے۔ آہ!تقدیر۔ آہ!نصیب۔
٣-اِس کا جواب بھی ملاقات پر اُٹھا رکھو۔
٤-مجھے یقین تھا کہ یہ دونوں پرچے تمہاری نظر سے ضرور گزرے ہوں گے کیونکہ تمہارے گمنام خطوں سے اندازہ ہوتا تھا کہ اُردو کے تمام بہترین رسالے تمہارے پاس آتے ہیں۔
٥-تمہاری ’’بے غرض‘‘ اور ’’غیر فانی‘‘ محبت پر یقین ہو بھی تو کیا فائدہ؟اب تو میں اُس منزل میں ہوں جو اِن باتوں سے کہیں زیادہ بلند ہے۔ اب زخم خوردہ میں ہوں۔ اور تم۔۔۔۔ زخمی کی لذّتوں کی مرکزِ توجّہ تو صرف وہ خلش ہے جو زخم کے ساتھ ہی اُس کے سینے میں تیر جاتی ہے۔ اِس عریضہ میں تمام مقامات پر میں نے تمہیں آپ کی جگہ تم لکھا ہے۔ محض اِس لیے کہ مجھے یہ آپ سے زیادہ اچھا معلوم ہوتا ہے۔ اگر ناگوار گزرے تو معاف کر دینا۔
لو۔ میرا عریضہ آخری منزل میں ہے۔ قلمِ حسرت رقم نے اپنا ماتم ادا کر دیا۔ زبانِ نالہ بیان اپنی داستانِ درد سُنا چکی۔ دلِ درد مند اپنے پارہ ہائے خونیں کی نمائش سے فارغ ہو چُکا۔ آنکھیں اپنے فریضۂ خوں باری سے عہدہ بر آہو گئیں۔ روحِ بیقرار اپنے ماتم کی شرح سوز و ساز پیش کر چکی۔ جذباتِ حزیں نے اپنی ہلاکتوں کے افسانے دہرا دیے۔ حسرت و تمنّا کو اپنے شیون کے اظہار کا موقع مل گیا۔ اُمید و آرزو اپنے قتل و ذبح کی سفاکانہ تاریخ کے مناظر دِکھلا چکیں۔ شبابِ سوختہ اپنی سوگواریوں اپنی ماتم گساریوں کے نقوشِ حسرت ثبت کر چکا۔ محبّت نے اپنی دردمندانہ محشر ستانیوں کا مظاہرہ کر لیا۔ عشق اپنی غمناک حُزنیہ سُنا چکا اور سب سے آخر میں۔ آہ! میں رو چکا۔ اپنے آپ کو۔ اپنے دل کو۔ اپنے دماغ کو۔ اپنے نصیبوں کو رو چُکا۔ اور رو چُکا۔ آہ:-
عرفی اگر بہ گریہمیسّر شدے وصال
صد سال می تواں بہ تمناّ گر یستن
صبحہونے کو ہے۔ مرغِ سحر کی آواز گونج رہی ہے۔ فضائیں۔ اُس نغمۂ صبح گاہی سے لبریزہیں۔ میری بے خواب آنکھوں میں ایک مستی کی سی کیفیت چھا رہی ہے۔ سیاہی بہتپھیکی نظر ٍآ رہی ہے۔ الغرض عجیب سوز و گداز کا سامان ہے۔ مذہبی لوگ کہتے ہیں کہدعا کے لئے یہ وقتِ خاص ہے۔ اِس لئے۔ میری درد آشنا روح۔ ہاتھ اُٹھا۔ اور قیسعامری کی ہم زبان ہو کر خدائے حُسن و عشق سے دعا مانگ۔
’’الٰہی میں جس خلش میں مبتلا ہوں وہ کبھی کم نہ ہو‘‘۔
والسلام
تمہارا (اب بھی) کو کب
سلمیٰ کا خط
آداب، میرا پہلا عریضہ اُمید ہے کہشرفِ باریابی حاصل کر چکا ہو گا۔ اگر جواب دینے کا ارادہ ہو تو براہِ کرم ٢١۔ جنوری کی بجائے ٢٣۔ جنوری بروز پیر گیارہ بجے دن کے قریب تشریف لایئے گا۔
اطلاعاً عرض ہے۔
ہاں، اگر ہو سکے تو آج یا کل ویسے ہی آ جائیے، نوازش ہو گی، نوازش اِس لئے کہ میں آپ کی تشریف آوری کو رسیدِ خط کی خاموش اطلاع سمجھ کر مطمئنہو جاؤں گی۔
والسّلام
( نظر ثانی کے وقتقلم زد کیا گیا) (کوکب)
مرتے ہیں آرزو میں مرنے کی
موت آتی ہے، پر نہیں آتی
کوکب۔ میرے۔ کوکب۔ میری زندگیِحزیں کے سہارے۔ میرے دلفروز خواب۔۔۔۔ میرے دل کے۔ میری روح کے مالک۔ تنہا مالک۔ حوصلہ کرو۔ گھبراؤمت۔ تسلّی رکھو۔ کہ سلمیٰ۔ تمہاری اپنیسلمیٰ۔ تم سے ملے گی۔ ضرور ملے گی اور بہت جلد ملے گی۔
کیے جائیں گے ہم تدبیر اُس ظالم سے ملنے کی
کرے گی دشمنی کب تک یو نہی تقدیر دیکھیں تو
مگر اَب۔ میں پوچھتی ہوں۔ کہ ابملاقات سے کیا حاصل؟ہائے۔ اِس عارضی ملاقات سے کیا فائدہ؟ کچھ بھی نہیں۔ سوائے اِس کے کہ
اور بھی بڑھ جائے گا دردِ فراق
بہرکیف۔ میں کوشش کروں گی۔ میری تمناّؤں کے (اب بھی) روشن ترین ستارے، میری آرزوؤں کے درخشاں آفتاب۔ میں تم سے ملنے کی۔ پہلی اور آخری مرتبہ ملنے کی کوشش کروں گی۔ اِس لئے۔ ہاں، صرف اِس خیال سے کہ ہم بادِلِ بریاں و چشمِ گریاں ہمیشہ کے لئے۔ آہ!قیامت تک کے لئے۔ ایک دوسرے سے رخصت ہولیں۔ جُدا ہولیں۔
فناہے کیسی، بقاکہاں کی؟ مجھے تو رہتا ہے ہجر کا غم
جو وصل ممکن ہے جان دے کر، تو جان تم پر فدا کروں گی
پرسوں ٢٧۔ جنوری جُمعہ کے دن ٹھیک ایک بجے شب کو۔ میں آپ کی قدم بوسی کے اِشتیاق میں مضطرب و بیتاب ہوں گی۔۔۔۔ سردی میں تکلیف تو ہو گی۔ خصوصاًاِس لئے بھیکہ آپ کو ایک طویل سبزہ زار طے کرنا پڑے گا۔ مگر مہربانی کر کے مقررّہ وقتسے ذرا پہلے ہی تشریف لے آئیے گا۔ احاطہ میں شمال رویہ دروازے کی طرف سے داخل ہو جئے گا تاکہ ہمارا چوکیدار آپ کا خیر مقدم نہ کرے۔ جہاں۔ آپ کو وہدروازہ نظر آئے گا جس کے سُرخ شیشہ کے کواڑوں سے آپ نے اکثر رات کو شہابی رنگ کی روشنی چھنتی ہوئی دیکھی ہو گی۔ ہاں۔ ذراکتّوں سے احتیاطرکھئے گا۔۔۔۔ جب میں دروازہ کھولوں۔ تو آپ آہستہ آواز میں یہ الفاظ ضرور دُہرائیں کہ ’’ میں موجود ہوں۔ ‘‘ مگر دیکھئے کہیں یہ نہ ہو کہ میں تو یہاں انتظار کی کرب آفرینیوں میں مبتلا صبح تک چشم براہ کھڑی رہوں اور حضور وہاں خوابِ نوشیں پر طبع آزمائی فرماتے رہیں۔
میری عمر کے اِن١٦سال میں یقین جانئے کہ یہسب سے پہلی مرتبہ، سب سے پہلا اتفاق ہے۔ کہ میں آپ سے۔ اور صرف آپ سے۔ ملنے کا وعدہ کر رہی ہوں۔ اِس حال میں کہ ’’نا جائز ملاقات‘‘ کے لئے میرا ضمیر مجھ پر لعنت کر رہا ہے اور میں ندامت و انفعال کے ایک بحرِ بے پایاں میں غوطہ زن۔ مگر با ایں ہمہ۔ آپ کویقین کرنا چاہئے کہ میں اِس کش مکش انگیز حالت میں بھی اپنی اور آپ کی ایکطویل عرصہ کی بے تاب آرزوؤں۔ بے صبرارمانوں اور بے قرار حسرتوں کیخاطر۔ اپنے ایفائے عہد میں ثابت قدم رہوں گی۔ انشاءاللہ۔
آپ کے اِس مفصّل خط کو۔ خط کی بجائے اگر ایک افسانۂ دردو غم۔ ایک داستانِ حسرت و الم۔ سوز وگُداز کا رقیق ترین نغمہ، سازِ عشق کا ایکنالۂ حزیں۔ خارستانِ اضطراب کا ایک خارِ خلش افزا۔۔۔۔ سوز و گُداز کی روحِبے تاب کہوں تو میری رائے میں زیادہ موزوں ہو گا۔
کوکب صاحب۔ ہائے۔ میں کس دل سے کہوں ؟کہ ایک آپ ہی کی زندگی تلخ نہیں ہورہی بلکہ اُس سے کہیں زیادہ۔ اُس سے کہیں بڑھ کر، میری جان۔ ہائے میریناتواں جان۔ عذاب میں۔ عذابِ الیم میں گرفتار ہے۔ مصائب و آلام کے بلا خیز طوفان میں گھری ہوئی ہے۔ جہنمِارضی میں پڑی سلگ رہی ہے۔ جل رہی ہے۔ آہ!ہمیشہ کے لئے۔ ہائے تمام عمر کے لئے۔ مجھے یہ کہنے کیاجازت دیجئے۔ کہ اِن تمام تر ناگواریوں کے بانی۔ اِن تمام تر تلخ کامیوں کے موجب آپ خود ہیں۔ ہاں۔ آپ۔ کیوں۔۔۔۔ ؟ اِس لئے کہ آپ اگر چاہتے۔ آہ! اگرآپ کی خواہش ہوتی۔ آپ اگراِک ذرا سی بھی کوشش کرتے تو میں آپ کو مل جاتی۔ یا دوسرے الفاظ میں آپ مجھے پا لیتے۔ آہ!نہایت آسانی کے ساتھ پا سکتے تھے۔ مگر آپ نے تو۔۔۔۔ لیکن میں بے وقوف ہوں۔ اب بھلا اِن باتوں۔ آہ!اِنگئیگزری باتوں کی یاد میں۔ دل کو نشتر کدۂ غم اور سینہ کو غمکدۂ یاسبنانے سے کیا فائدہ ؟کیا حاصل؟دل کی دنیا برباد ہونی تھی۔ سو ہو گئی۔ آرزوؤں کا۔ جوانمرگ آرزوؤں کا جنازہ نکلنا تھا۔ سو نکلگیا۔ شربتِ وصل کی بجائے۔ زہرِ ہلاہل کا جام پینا تھا سو پی لیا۔ اور سب سے آخر میں یہ کہ روزِازل کی کافرساعتوں میں جو کچھ قسمت میں لکھا گیا تھا۔ وہ پُورا ہوا۔ وہ مل گیا۔ آہ! مل چکا۔ اب شکوے، شکایتیں عبث ہیں۔ بے سود ہیں۔ لاحاصل ہیں۔ آہ!
ّّّجب توقع ہیاُٹھ گئی غالب
کیوں کسی کا گِلہ کرے کوئی
والسّلام
راقمہ
ایک بیزارِ زیست
خط کا جواب کبھی پھر
(دوسری طرف) ’’کیا اب کے بھی آپ اِس ’’ضروری خط‘‘ کی رسید سے مطلع فرما سکتے ہیں ‘‘۔
کوکب کا خط
٢٦جنوری
ایک خط۔ ہاں۔ ایک حسین و دلآویز خط۔ میرے لرزتے ہوئے ہاتھوں میں لرز رہا ہے۔ اور میں محسوس کر رہا ہوں کہ آجدنیا میں مجھ سے زیادہ مسرور و دلشاد ہستی کوئی نہیں۔ میں آپ ہی مسکرا رہاہوں، اور بے اختیار مسکرا رہا ہوں۔ دل و دماغ پر ایک سیلِ نشہ محیط ہے۔ ایک ایسا نشہ جسے دل و دماغ ہی محسوس کر سکتے ہیں۔
یہ میری سلمیٰ کا خط ہے۔ اور میرے پہلے طویل خط کا جواب۔ آہ! سلمیٰ۔ سلمیٰ بالآخر تیرے تاثرات مجھ پر مہربان ہو گئے۔ بالآخر تُو نے اپنے جذبات میں ایک ہمدردی کا، رحمدلی کا ہیجان محسوس کیا اور تُو آمادہ ہو گئیکہ اپنے ناکامِ محبت کو،۔ ناکامیِ مطلق کی تکلیف سے بچا لے، آ۔ میری جان۔ میں تیرے نازک دل کو۔ تیرے نازک دل کے نازک جذبات کو پیار کر لوں۔ تیریمعصوم و پاک روح کے معصوم و پاک حسّیات کو سجدے کر لوں۔
٢٧جنوری
(صبح )ابھی۔ ابھی ’’ن‘‘ اور ’’ک‘‘ نے سلمیٰکا خط پڑھا ہے دونوں اُس کی طرزِ تحریر کی رِقّت اور اندازِ بیان کی تاثیرسے متاثر ہیں۔ تاہم اِس غیر متوقع مسرّت پر مجھے چھیڑ رہے ہیں۔ اُن کا، اُنکی ظاہر بین اور سطح پرست ذہنیتوں کا خیال ہے کہ میں سلمیٰ کی جسمانیرعنائیوں سے بھی لُطف اُٹھا سکوں گا۔ اُٹھاؤں گا؟مگر وہ نہیں جانتے کہ اب اُنپر میرا کوئی حق نہیں۔ میں نے تہیّہ کر لیا ہے کہ میں اُس کی بیرونی رنگینیوں کو نہیں گُدگُداؤں گا۔ اُس کے پیکرِ حُسن کی ظاہری سحر کاریوں کو نہیں چھیڑوں گا، بلکہ اُس کی معنوی لطافتوں، اُس کی روحی نزاکتوں کو پیار کروں گا، اور جی بھرکے کروں گا۔
محبت، حقیقتاًجذباتِ شباب کی دراز دستیوں سے بلند، ایک غیر مرئی احساس ہے۔ ایک ملکوتیجذبہ ہے۔ ایک فردوسی شگفتگی ہے۔ ایک آسمانی نغمہ ہے جو کبھی نفسانی اغراض کے پیکر میں نہیں سماتا۔ نہیں سما سکتا۔ الحمد للہ۔ کہ میرا دل مطمئن ہے۔ میریروح۔ ایک معصوم بچے کی طرح شاد۔ ایک نو شگفتہ کلی کی طرح شاداب ہے اور میرے جذبات پُر سکون۔ ایک ملکوتی خواب کی طرح پُر سکون۔ سلمیٰ کی معصومیت۔ آہ! اُسکی معصوم رعنائی یوسف کا دامن نہیں بن سکتی۔ میرے شباب کے طوفانی ولولے زلیخا کا ہاتھ نہیں بنیں گے۔ فرشتوں کے تقدّس کی۔ حُوروں کی پارسائیکی۔ کلیوں کی معصومیت کی۔ نغموں کی دوشیزگی کی۔ بچوں کی مسکراہٹ کی قسم۔ مجھے اُس کا بھُول کر بھی خیال نہیں آیا۔ ؟
کوکب کا خط
بڑھ گئیں تم سے تو مل کر اور بھی بیتابیاں
ہم تو سمجھے تھے کہ اب دل کو شکیبا کر دیا
میری غنچہ لب۔۔۔۔
پیار۔۔۔۔
بوصلِ یاررسا ندیم راو حیرانم
کہ ایں بکا ر تو ای آسماں نمی ماند
٢٧۔ جنوری کی رات کا خوابِ شیریں ابھی تک میری نگاہوں پر محیط ہے۔ آہ!میری جان تم نے مجھے کیا کر دیا ہے ؟کہ اب تمہارے سواکسی شے کا ہوش نہیں۔ تم نے مجھے کون سی شراب پلا دی جسکا نشہ دل و دماغ پر چھائے جاتا ہے۔ ہائے مجھے تم نے کس منزل میں پہنچا دیا۔۔۔۔ ؟ کس وادیِ حیرت سے دوچار کر دیا۔۔۔۔ ؟ جہاں نہ دنیا کی خبر ہے نہمافیہا کا نشان۔ تمہاری ہم آغوشی کی خالص بہشتی لذّتوں میں چُور ہونے کے بعد اب میں محسوس کرتا ہوں کہ تم سچ کہتی تھیں۔
اور بھی بڑھ جائے گا درد فراق
ہائے یہ حالت کہ
بڑھ گئیں تم سے تو مل کر اور بھی بیتابیاں ( میں کیسے باور کروں ؟)
ہم تو سمجھے تھے کہ اب دل کو شکیبا کر دیا
میں اِن بے تابیوں کا ذکر کس زبانسے کروں ؟کیا بتاؤں۔ درجہ بے کسی کے ساتھ سوچتا ہوں ؟کہ اُس رات جو موجِرنگ و بُو میرے سر سے گزری کہیں وہ کوئی پُر فریب خواب نہ ہو۔ مگر میرے گستاخ ہونٹوں کی حلاوت۔ وہ حلاوت جو اُنہوں نے تمہارے گلاب کی سیپنکھڑیوں جیسے ہونٹوں سے چھینی تھی۔ مجھے کہتی ہے کہ یہ خواب نہ تھا۔ اُسغیر متوقع مسرّت کے نشوں میں سرشار ہو جانے والی نگاہیں۔ مجھے ڈراتی ہیں۔ کہ کہیں اِنہوں نے اُس رات دھوکا نہ کھایا ہو۔ مگر تمہارے مُشک آگیں دامن اور عنبر افشاں گیسوؤں کی مستانہ مہک۔ آہ! وہ مہک جو میرا دماغتمہارے کمرے سے چُرا لایا تھا۔ مجھے یقین دلاتی ہے کہ یہ دھوکا نہتھا۔ اُف!اگر یہ سب کچھ خواب ہوتا۔ میرے اللہ یہ سب کچھ خواب ہوتا۔ تو میں کیا کرتا؟ میں دیوانہ ہو جاتا۔ میں مر جاتا۔ اب اتنا تو ہے کہ وہ اِکخوابِ پریشاں کا۔ ایک فریبِ رنگ وبُو کا گمان ہی سہی۔ مگر میرے بیتاب دل۔ میری بے قرار روح کے لئے۔ ایک سہارا۔ اِک تسکین۔ ایک اُمیدتو موجود ہے۔ کیا کہوں میں کتنی مرتبہ آنکھیں بند کر لیتا ہوں۔ اور اپنے تصوّر سے کہتا ہوں۔ کہ مجھے اِک ذرا پھر وہی نقشہ۔ وہی فردوسی نقشہ دکھا دو۔ آہ!یہخواباگر خواب ہے تو بھی خداکرے کہ میں ہر وقت ایسے خوابوں میں کھویارہوں۔ ہر لمحہ ایسے ہی خواب دیکھتا رہوں۔
جب تک میری پیاری جان۔ میری شیریں روح۔ (کتنا حسین خطاب ہے )تمہارا خطنہیں آ جاتا، میں اضطرابِ شوق سے خیالات کی لا انتہا، لامحدود فضاؤں میں تمہارے تصوّر کی ہزاروں دھُندلی دھُندلی بہشتیں تیار کر لیتا ہوں گویا تم مجھے خط لکھ رہی ہو۔ میں تمہیں چپ چاپ اِک طرف کھڑا ہو کر دیکھتا ہوں۔ اور دیکھتا رہتا ہوں۔ ہائے میں کیونکر کہوں ؟ کہ میں تمہیں کس کس رنگ میں۔ کس کس عالم میں۔ کسکس طرح دیکھتا ہوں ؟ کس درجہ حسرت کے ساتھ۔ کس درجہبے تابانہ اُمیدوں سے۔ کتنی دلگداز مگر پھر بھی۔ خوشگوار تمنّاؤں کے عالم میں دیکھتا ہوں۔ اِس حال میں کہ اِک ہلکی سی مسکراہٹ میرے ہونٹوں پر ہوتی ہے۔ میں دیکھتا ہوں کہ کبھی تمہاری نگاہیں۔ تمہاری نشہ بازنگاہیں، شرما جاتی ہیں۔ جھُک جاتی ہیں اور کبھی تمہارے پری وش ہونٹوں پر۔ اِک معصوم کلی کا سا تبسّم۔ اِک شگفتہ تبسّم لہرانے لگتا ہے۔ الغرضاُس وقت کے وہ جذبات جو تم اپنے خط میں منتقل کر دینا چاہتی ہو۔ تمہارے قلم سے۔ الفاظ کے رنگ میں بے حجاب ہونے سے پہلے تمہارے ملکُوتیبُشرےسے جھلک پڑتے ہیں۔ اور میں۔ مری معبودِ افکار۔ میری فدائے اشعار۔ میں تمہیں۔ تمہارے اِس حشر طراز عالم کو مزے لے لے کر دیکھتا ہوں۔ ہائے کیاکبھی تم نے بھیاِس حالت میں مجھے اپنے پاس محسوس کیا ہے ؟ اگر نہیں تو میں التجا کروں گا، کہ ایسا نہ کرنا، ورنہ پھر تمہاری حیا سامانی۔ تمہارے جذبات کو بے تکلّفی سے ادا نہ کر سکے گی۔
انتظار کی قیامتآفرینمدّت سے گھبرا کر تمہیں اِتنا خط لکھ چُکا تھا کہتمہارا خط پہنچا۔ اُن ہاتھوں کے نثار جنہوں نے یہ تکلیف گواراکی، اُس قلم پر قربان۔ جس نے تمہاری شیریں اور معصوم روح کا پیغام۔ میری گنہگارروح تک پہنچایا۔ اُس نامہ بر کے صدقے جس نے یہ خط لا کر مجھے دیا۔ ذرامجھے اجازت دو کہ قلم ہاتھ سے رکھ دوں اور پہلے تمہارا خط پڑھلوں۔ (سبحان اللہ اِس لفّاظی کے قربان)
تمہارا خط میں نے پڑھ لیا۔ اور دل تھام کر پڑھ لیا۔ اور اب میرے خیالات میں مطلقاً ہمّت نہیں کہ آگے کچھ لکھ سکوں۔ تم نے اِس خط میں تین مطالبے کئے ہیں۔
١-تمہارے خطوط واپس کر دوں کیونکہ یہ تمہارے ناموس کی رسوائی ہے۔
٢- فسانہ میں خطوط شائع نہ کروں۔ (تو کیا رسوائی نہیں ؟)
٣-آئندہ کے لئے ملاقات کی آرزو ظاہر نہ کروں۔
اِن تینوں مطالبوں کو ایک ساتھ ملا کر استخراجِ نتائج کا فیصلہ یہٹھہرتا ہے کہ محبت سے تھک جانے کا جو اندیشہ تمہیں مجھ سے ہے۔ اُس پر عملدر آمد تمہاری جانب سے ہو رہا ہے۔ یا صاف الفاظ میں یہ کہ اب میں تمہارے پیار سے قطعی مایوس ہو جاؤں۔ معاملہ یہ ہے۔ تو تمہی انصاف کرو۔ میرے قلقو اندوہ کی کیا حالت ہو گی؟ آہ!تم مجھے مایوس کر رہی ہو کہ٢٧- جنوری کیرات اور اس کی بہشت سامانی اب پھر کبھی نصیب نہ ہو گی۔ ہائے وہ رات۔ وہ نکہتِ بے قرار۔ وہ تبسّمِ بے اختیار۔ اب کبھی میرے ہاتھ نہ آئے گی۔ وہسیلِ نشہ و نور۔ وہ طوفانِ سُکر و سُرور اب کبھی مجھے نہیں ملے گی؟اُسموجِ عیش و نشاط۔ اُس برقِ رنگ و بو کو اَب کبھی نہ پا سکوں گا۔ اُف!تمنے تو مجھے اُمید دلائی تھی۔ کہ میں آئندہ بھی تمہاری ماہ پیکر ہستی کیرنگینیوں کو گُدگُدا سکوں گا۔ میں پھر بھی تمہاری بہار تمثال شخصیت کیرعنائیوں کو پیار کر سکوں گا۔ (تو بہ اِس قدر مبالغہ آمیزی) پھر یہ کیابیدردی ہے کہ اب تم مجھے اس طرح نا اُمید کر رہی ہو۔ میں نے کہا تھا۔ آج ’’ایک شاعر کا انجام‘‘ پایۂ تکمیل کو پہنچ گیا مگر اُس کا یہ مطلب کس کافر کو معلوم تھا؟ کہ وہ ملاقات۔ آخری ملاقات ہو گی۔ اور اگر تم اِس پرآمادہ ہو۔ تو مجھے کہنا چاہئے۔ کہ ابھی اِس افسانہ کا آخری باب باقی ہے۔ اور اس کا عنوان ’’جوانمرگ‘‘ ہو گا۔ جسے میرے بعد تمہارا قلم مکمّل کرے گا۔ (خدا نہ کرے۔ خدا نہ کرے )میری بدنصیبی۔ کہ بے خودیِ وصل کی تشنہطرازیوں نے مجھے اُس رات گونگا کر دیا تھا۔ یقین ماننا کہ جس قدر باتیں سوچ کر گیا تھا۔ اُس کا ہزارواں حصّہ بھی تمہارے حضور میں بیان نہ کر سکا۔ اور اس لحاظ سے ملاقات ہوئی نہ ہوئی۔ برابر ہے۔
شاید تم مجھے نا شکرگزار کہو۔ حالانکہ میں احسان فراموشی کا عا دی نہیں ہوں۔ مجھ سے کُفرانِ محبت کا گناہ کبھیسرزد نہ ہو گا۔ مگر تمہارے احسانات کی بے پایانی کا شکرگزار ہوتے ہوئے بھی، میں یہ کہنے پر مجبور ہوں۔ کہ میں تم سے ایک بھی بات نہ کر سکا۔ ہائے داغ مرحوم۔
یاد سب کچھ ہیں مجھے، ہجر کے صدمے ظالم(خیر کبھی پھر سہی)
بھول جاتا ہوں مگر دیکھ کے صورت تیری(لکھ کے کاٹا گیا ہے )
آہ! میں جس دن سے ڈرتا تھا۔ جسوقت کے تصوّر سے لرز جاتا تھا۔ آخر کاروہی سامنے آیا۔ میں نے تمہیں لکھدیا تھاکہ مظلوموں کی داستانِ مجبوری سے آگاہ ہونے کے بعد تم جتنا جیچاہے۔ ظلم کرو۔ ہمارے مُنہ سے ’’اُف‘‘نکل جائے تو کہنا۔ اب بھی اُسی کو دُہراتا ہوں۔
سرِ تسلیم خم ہے جو مزاجِ یار میں آئے (کیوں نہ ہو)
تمہیں بلکہ۔ آپ کو اُس بد دُعا پر جو میری نئی زندگی کی حالت میں مجھے دی تھی نادم ہو کر معافی چاہنے کیضرورت نہیں۔ کیونکہ اب اِس اعتراف سے میری بدنصیبیوں کے زخم اچھے نہیں ہو سکتے۔ البتہ آپ کو اِس امر کا اعتراف ضرور کرنا پڑے گا کہ میری محرومیکی بلا شرکتِ غیرے ذمہ دار آپ اور صرف آپ ہیں۔ نیز اِس کا اقرار بھی کہآپ نے اپنے پچھلے خط میں جو میری اِس محرومی کا ذمّہدار مجھے ٹھہرایا تھا۔ یہ بھی آپ کی زیادتی تھی۔ (بلکہ زیادتی آپ کر رہے ہیں )
’’ایک شاعر کا انجام‘‘ بھی آپ کو اپنی رسوائی کا موجب نظر آتا ہے۔ کاش کہاِس سے پہلے آپ اُس کو مکمّل ہونے دیتیں اور دیکھنے کے بعد رائے قائمکرتیں۔ بہر کیف۔ اب میں اِس پر اصرار نہیں کروں گا۔ کیونکہ میں آپ کیغزالیں نگاہوں کو برہمدیکھ رہا ہوں۔ اور مجھے اِس برہمی کا احترام کرنا ہے۔ بنا بریں میں بالکل آمادہ ہوں کہ شاعر کا انجام شاعر کی آرزوؤں کے انجام کی طرحاِس دُنیا سے ناپید ہو جائے اور آپدیکھ لیں گی کہ ایسا ہیہو گا۔ میں آپ کی خاطر اپنے اِس واحد کارنامۂ زندگی سے بھی محروم رہنا گواراکروں گا۔ میں یہ قربانی بھی کروں گا کیونکہ مجھے تم سے محبت ہے۔ کیونکہ میں تمہیں سچ مچ پیار کرتا ہوں۔ ‘‘
(پشت پر ’’مجھے تم سے محبت ہے !کیونکہ میں تمہیں سچ مچ پیار کرتا ہوں ‘‘۔ آہ! کس قدر جانفزا روح پرور الفاظ ہیں۔۔۔۔ کاش کہ مجھے اِن پر یقین ہوتا۔ ہو سکتا۔ ٢١-فروری)
’’ میں آپ کے خطوط بھی واپس کر دوں ‘‘۔ مگر کیوں۔۔۔۔ ؟ میں اِس کا کوئی جواز نہیں پاتا۔ میرے خطوط بھی آپ اِسی شرط پر واپس فرمائیں گی؟؟خوب!تبادلہ تو معقول ہے !مگر اِس ’’بنئے پن‘‘کے سودے کا مجھ سے کیا تعلّق؟۔
(حاشیہ:اِس سے یہ تعلّق ہے۔ کہ پہلے آپ نے ہی اپنے خطوط طلب فرمائے تھے !)
شرمندہ ایم فیضیزیں بے خودی کہ ناگہ
دیوانگیِمارادہدآں پری وش امشب
میرا خیالہے۔ کہ آپ مجھ سے کچھبدگمان یا خفا ہو گئی ہیں۔ خفگی کی تو میں کوئی وجہ نہیں دیکھتا۔ سوائے اِسکے کہ اُس رات، میرے ’’ہونٹوں ‘‘ نے دوایکگستاخیاں کرنے کی جسارت ضرور کیتھی!اگر یہ بات ہے تو، میں آپ سے ہزار بار معافی چاہتا ہوں !اور آئندہملاقات میں آپ دیکھ لیں گی کہ میں اِس معاملہ میں کس قدر ضبط کر سکتاہوں۔ ؟مجھے تسلیم ہے۔ کہ مجھے اُن گستاخیوں کا !آہ!اُن ہلکی سی گستاخیوں کا بھی، جو دنیائے محبت میں عام ہیں ! کوئی حق نہ تھا!لیکن اگر میں یہکہوں۔ کہ میں نے ’’فضا‘‘ کی ’’جذبات انگیز‘‘ حالت کے باوجود اِس سے آگے بڑھنے کیجرات نہ کی۔ تو کیا آپ میری محبت کی۔ میری محبت کی معصومیت کی۔ اُس کیملکوتی اور مقدّس حیثیت کی داد نہیں دیں گی؟۔۔۔۔ (کیوں نہیں )اور کیا اب بھی مجھ سے شکایت ہو گی۔ کہ مجھے آپ کے ناموس کا پاس نہیں۔۔۔۔ ؟
(پشت پر: میں نے تو پہلے ہی عرض کر دیا تھا کہ آپ انسان نہیں۔ ایک ’’دیوتا ہیں۔ اور آپ کی اِسی دیویت کی شان نے مجھے خرید لیا ہے۔۔۔۔ ! سلمیٰ٢١- فروری۔ )
رہی میری خطوط کی واپسی کی شرط۔ تو میں عرض کروں گا۔ کہ میں نے وہ خطوطناول کے لئے طلب کئے تھے۔ اب وہ نہیں۔
آں قدح بشکست آں ساقی نماند
اِس لئے اب مجھے اُن کی ضرورت نہیں۔ تاہم میں آپ کو یہ بتلا دوں۔ کہ اگر میں چاہوں تو اِن خطوط کو از سرِ نو لکھ سکتا ہوں اور اب نہیں پچاس سال کے بعد بھی لکھ سکتا ہوں کیونکہ یہبھولنے والی چیز نہیں ہے۔ لیکن میں آپ کو برہم کرنا نہیں چاہتا۔ یہاں مجھے صاف صاف لکھ دینا چاہئے ‘کہ آپ کے بے جا اندیشۂ رسوائی۔ مایوسیِملاقات اور طلبِخطوطنے مجھے بہت دکھ پہنچایا ہے۔ اتنا کہ نہ مجھ میں خط لکھنے کی ہمّت ہے۔ اور نہ جوابی اُمورپر غور کرنے کی اہلیت۔ خدا ہی جانتا ہے۔ یہ عریضہ کس قدر کشمکشِ خیالات کے ساتھلکھا ہے جس کا قدم قدم پر ثبوت ملے گا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کسی نے جذبات کا گلاگھونٹ دیا ہے اور قلم کی زبان کا ٹ لی ہے۔ لکھتا کچھ ہوں لکھا کچھ جاتا ہے۔ اِس کا الزام بھی آپ حسبِ عادت مجھی کو دیں گی۔ مگر اِس میں میرا قصُور نہیں۔
بس اب جاؤ تم سے خفا ہوگئے ہم
(ہائے ہائے ایسا غضب نہ ڈھائیے گا ور نہ ہم کہیں کے نہ رہیں گے )
آپ نے تحریر فرمایا ہے کہ اب میں آپ سے ملنے کی آرزو نہیں کروں گا؟مگر کیوں ؟ میں پوچھتا ہوں۔ کہ آپ کو میری آرزوؤں پریہ بندش عائد کرنے کا کیا حق ہے ؟آپ صرف حکم دے سکتی ہیں۔ اور میں تعمیل کرنا جانتا ہوں۔ یہ کیا ستم ہے۔ کہ کوئی آرزو بھی نہ کرے۔ میری آرزو۔ ہاں۔ میری آرزو آزادہے۔ وہ کیونکر اور کس طرح تمہاری ملاقات کے خیال سے محروم ہوسکتی ہے ؟آپ نے لکھا ہے۔ کہ اگر میں نے جوابِ صاف لکھ بھیجا۔ تو خدانخواستہ آپ زندہ نہرہنے پائیں گی۔ کیا خوب!یہ اچھی ستم ظریفی ہے۔ کہ خود مجھے جوابِ صافدیا جا رہا ہے۔ اور مجھ سے جوابِ صاف لینے کا اندیشہ کیا جا رہا ہے۔
مُکرجانے کا قاتل نے نرالا ڈھنگنکالا ہے
ہر اِک سے پوچھتا ہے اِس کو کس نے مار ڈالا ہے
حاشیہ:
خداجانے محبت کرکے آپس میں گلہ کیوں ہے ؟
تجھے شکوہ مرا کیوں ہے، مجھے شکوہ ترا کیوں ہے ؟
بس اب آگے نہیں لکھا جاتا۔۔۔۔ !(تو نہ لکھئے )۔۔۔۔ آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا رہاہے۔ اور دماغ کو کوئی کُچلے ڈالتا ہے۔
لہٰذا خدا حافظ۔
آپ کے مضمون کی اصلاح (اصلاح؟؟)کے بارے میں اگلے خط میں کچھ عرض کرنے کیکوشش کروں گا۔ سرِ دست آپ کے نوشتہ شعر میں ایک ’’نازک‘‘ اصلاح کئے دیتاہوں۔ اُمید ہے کہ قبول ہو گی
مرے دل میں تصوّرہے شبستانِ ثریاّ کا،
خداآباد رکھے کس قدر روشن مرا گھر ہے
(نوٹ:اِس خط پر جو بریکٹ میں ریمارکس نظر آتے ہیں۔ وہ بعدِمطالعہ سلمیٰ نے قائم کئے ہیں یہاں اُن کو بھی نقل کر دیاگیا ہے۔ )
میری ڈائری کا ایک ورق
خوبصورت دروازہ آہستہ آہستہ کھُلا۔ اور میں اندر داخل ہوا۔ ایک سپید پوش سایہ کچھ ڈرا۔ جھجکا۔ سامنے تھا۔ میرا ایک قدمکمرے میں اور ایک دروازے پرتھا۔ میں رُک گیا۔ خدا جانے یہ کون ہے ؟اگر کوئی اور ہوا تو۔۔۔۔ ؟ میرا آئندہ مخاطب بھی کسی برق وش فکر میں غرق۔ تامّل کے جذباتسے دو چار معلوم ہوتا تھا۔ جیسے کوئی شرم و حیا اور ضرورتِ وقت میں کش مکش محسوسکر رہا ہو۔ روشنی نہ تھی۔ کہ میں اُس کی آنکھوں کا مطالعہ کر سکتا۔ آہ!محبت کیوہ اشتیاق میں ڈوبی ہوئی نگاہیں، جبکہ اُن میں پہلے پہل ایک محبت بھرے اجنبی چہرے سے دوچار ہونے کا خیال موجزن ہو۔ اگر روشنی ہوتی تو یقیناً میں اپنے دوست ناصر کے لئے ایک ایسی تصویر کا موضوعِ حسین تیار کر لیتا۔ جس سے دنیا کیمصوّری کے خواب بھی محروم ہیں۔ ایک لمحہ اِسی طرح بُت بنے رہنے کے بعد۔
اُس لہجے میں۔ اِس انداز میں کہ گویا ضرورتِ وقت نے جذبۂ حیا پر قابو پا لیا ہے۔ اُس کیتھرتھراتی ہوئی۔ لرزتی ہوئی۔ زبان سے آہستہ نکلا۔ ’’آیئے۔ ‘‘ یہ نازنین۔ یہ شیریں آواز۔ ایک ہلکے ہلکے نغمے کی طرح سنائی دی۔ اور میرا دل و دماغ سراسر اُس میں جذب ہو کر رہ گیا۔
وہ دروازہ کی طرف بڑھی۔ اُس کا ایک ہاتھ۔ ایک مرمریں ہاتھ۔ ایک کمرے کیطرف اشارہ کر رہا تھا۔ میں اُس میں داخل ہوا۔ کمرہ تاریک تھا اور شایدتاریک رہنا بھی چاہئے تھا۔
سلمیٰ کا خط
دل خود بخود اُداسہوا جا رہا ہے کیوں ؟
کوئی جَلا ہے شامِغریباں کے آس پاس
میرے مرجعِ ارمان۔ میں اُداس ہوں۔ آہ!تمہارے لئے اُداس ہوں۔ میرا دل بے قرار ہے۔ طبیعت مضمحل ہے اور دماغ پراگندہ۔
اُٹھتے۔ بیٹھتے۔ سوتے۔ جاگتے۔ کسی پہلو چین نہیں آتا۔ ہائے کسی طرح۔ کسیعنوان جی نہیں بہلتا۔ کاش! کہ آپ مجھ سے نہ ملے ہوتے۔ کاش! کہ میں آپ سے نہملی ہوتی۔ اُف!ملاقات سے تو میری بیتابیوں میں اور بھی اضافہ ہو گیا ہے۔ بے قراریوں میں اور بھی ترقّیہو گئی ہے۔ بجائے اِس کے، کچھ سکونحاصل ہوتا۔ کچھ درد کا درماں ہوتا۔ ہائے
محبت تھی مگر یہ بے قراری تو نہ تھی پہلے
الٰہی آج کیوں یاد آتی ہے بے اختیار اُس کی
آپ کے یہ الفاظ کس درجہشیریں۔ کتنے نشاط انگیز اور کس قدر دل فروز ہیں کہ ’’ مجھے تم سے محبّتہے۔ میں تمہیں سچ مچ پیار کرتا ہوں۔ ‘‘ مگر میری بدنصیبی کہ مجھے اِن پر اعتبار نہیں۔ آہ!اِن حسین۔ اِن شیریں۔ اِن روح پرور الفاظ پر قطعاًاعتماد نہیں۔ اور اس کی وجہ؟یقیناً آپ کو معلوم ہو گی۔ رات میں نے ایکعجیب پریشان خواب دیکھا ہے۔ ایسا پریشان کہ میرا اضطراب و اضطرار اور بھی بڑھ گیا ہے۔ دیکھتی کیا ہوں کہ ایک پُر فضا باغ ہے جس کی صافسُتھری رَوِشوں پر آپ۔ ایک نازک اندام، نازک کمر۔ حسین لڑکی کے ساتھ ٹہلرہے ہیں۔ اِس شان سے کہ اُس عشوہ فروش حسینہ کا نازک ہاتھ آپ کے ہاتھ میں ہے۔ اور آپ کی آنکھیں۔ آپ کی سرشار آنکھیں۔ محبت پاش نگاہوں سے اُسپیکرِ لَطیف کے بوسے لے رہی ہیں۔ یہی نہیں۔ بلکہ آپ جوشِوارفتگیِ محبتسے اُسے مخاطب کر کے کہہ رہے ہیں۔ تمہیں معلوم ہے میں تمہیں کس قدر پیار کرتا ہوں ؟(میرا یہ خواب بالکلسچّا تھا)۔ (نظر ثانی کا اضافہ) (کوکب)
آہ! اِس قیامت انگیز منظر کو دیکھ کر دُنیا میری آنکھوں میں تاریک ہو گئی۔ وفورِ غم سے میرا دل پاش پاش ہو گیا۔ قریب تھا کہ میں لڑکھڑا کروہیں گرپڑوں کہ۔۔۔۔ اتنے میں ماما نے مجھے جگا دیا۔ کیا آپ اِس خواب کی تعبیر بتلا سکتے ہیں ؟
’’بعد از وقت‘‘تو خیر مجھے معلوم ہو گیا۔ آپ نے (بقول افسرمیرٹھی)ہندوستان کی ایک عریاں نویس خاتون کے جواب میں لکھا تھا۔ مگر یہاب تک معلوم نہیں ہو سکا کہ ’’اُن کا خط‘‘ اور ’’اے عشق کہیں لے چل‘‘ میں کس کو مخاطب فرمایا گیا ہے ؟ کیا آپ بتائیں گے نہیں ؟؟
یہتو کہئے۔ کہ وہ کون تھے ؟جن کے متعلّقآپنے ایک دفعہ تحریر فرمایا تھاکہ یہ صاحب ہمیں کئی مرتبہ فریبِ تحریر میں مبتلا کر چکے ہیں۔ ؟
ہاں۔ اِس خط کا جواب اور میرا مرسلہ کلام٧- مارچ کو ٹھیک گیارہ بجے مجھے پہنچ جانا چاہئے۔ اور کیا لکھوں سوائے اِس کے کہ
جانِ من بھول نہجانا یہ کہے دیتا ہوں
غیر سے دل نہ لگانا یہ کہے دیتا ہوں
آپ کی سلمیٰ
(حاشیہ پر )آپ کی اُس نظم کا شدید انتظار ہے۔ (پشت پر لکھ کر کاٹا گیا ہے۔ )
تم اِدھر پہلو سے اُٹھے ہم تڑپ کررہ گئے
یوں بھی دیکھا ہے، کسی کا دم نکل جاتے ہوئے
ساقی بریز جُرعۂ و صلت بجامِ ما
کز شربتِ فراقِ تُو تلخ است کا مِ ما
(پھُول)۔۔۔۔
معاذاللہ۔ اِتنی بے رحمی۔ اِس قدر سنگدلی۔ اِس درجہ ستم آرائی کہ دنوں سے ہفتے گزر گئے۔ اور آپ نے بھُولے سے بھیاِدھر کا رُخ نہ کیا۔ گویا قسمکھا لی صورت دِکھانے کی۔ ؟وائے حسرت
آپ آئے نہ کبھی خیر خبر ہی بھیجی
سینکڑوں راہیں دِکھائیں ہمیں ترسانے کی
کیوں جی۔ کہیں اِس بے اعتنائی اور سرد مہری۔ اِس بے رُخی اور بے مرّوتی کی یہ وجہ تو نہیں۔ کہ آپ ہمغریبوں سے خفا ہیں ؟اگر شومیِ قسمت سے یہی وجہ ہے تو پھر خدارا جلدبتلائیے کہاِسدل ریش۔ دل سوز خفگی کا باعثکیا ہے ؟اس جاں خراش اور روح فرساکشیدگیکا سبب کیا ہے ؟کچھ پتہ تو چلے ؟آخر کچھ معلوم تو ہو۔ اِس فوری عتاب کا سبب؟اِس ناگہانی برہمی کا راز۔ بس جی بس اب مان جائیے کہ غصہ ہو چکا۔ اور ہم کافی ستائے گئے۔ آہ!ترسائے گئے۔
اب رحم کر کہ صبرکی طاقت نہیں رہی
اللہ جانتا ہے . کہ میں آپ کے مسلسل ’’سکوت و جمود‘‘ سے بے حد پریشان، سر گرداں، مضطرب، متوحش، متردّد اور متفکّر ہوں۔ آہ!
ہر شام، مثلِشامہوں میں تِیرہ روزگار
ہر صبح مثلِ صبح گریباں دریدہ ہوں
مگر آپ کو ذرا بھی احساس نہیں۔ کیسا ستم ہے۔ خدا کے لئے یہ سکوتِ برہمی کی مہر اَب تو ڑ دیجئے اور میریتسکینِ روح کے لئے میرے خطوط کا جواب عنایت کیجئے۔ اُمید تو نہیں۔ مگر تاہم۔ (اپنی نادانی کی بدولت)١٦- فروری کو ٹھیک دن کے گیارہ بجے بڑی بے صبری اور بے قراری سے آپ کے نامۂ جانفزا کا انتظار کروں گی۔ کیا آپمیری تمنّائی نظروں کو مایوس کر دیں گے۔ ؟نہیں۔ ہرگز نہیں۔ آپ جہاں میریخاطر اور مجھ تک پہنچنے میں قطبِ جنوبی اور قطبِ شمالی کو طے کر سکتے ہیں۔ دنیا بھر کے بحر ہائے بیکراں کو عبور فرما سکتے ہیں۔ اور طلسمِ ہوشرباکو اُس کی تمام ساحرانہ عظمتوں کے باوجود تو ڑ پھوڑ سکتے ہیں۔ وہاں ناممکن ہے۔ کہ آپ یہ ذرا سی بے حقیقتتکلیف برداشت نہ فرما سکیں۔ کیوں ؟مگر ہو سکتا ہے۔ کہ اب لکھنؤکے اُسنئے حُسنِ نازنین کی خلش نے آپ کے فرسُودہ جوش و خروش کو سرد کر دیا ہو؟؟؟بہرکیف میں منتظر رہوں گی۔ آپ کی مرضی۔
زیادہحدِّادب۔ اُمّیدِنوازش
راقمہ
نہ دل بدلا،نہ دل کی آرزو بدلی نہ وہ بدلے
میں کیونکر اعتبارِ انقلابِآسمان کرلوں
کیوں صاحب۔ کیا آپ کو اپنا یہ شعریاد ہے۔
دنیا میں تیرے عشقکا چرچا نہ کریں گے
مر جائیں گے لیکن تجھے رُسوا نہ کریں گے
اگر یاد ہے۔ تو پھر خدارااِنصاف سے کہئے۔ کہ آپ کو کون ساحق حاصل ہے کہ آپ میری بے اختیارانہ اُفتادگیوں اور اپنے بے رحمانہ طرزِ عمل کو ایک شاعر کا خواب بنا کر منظرِ عام پر لائیں۔ ؟اور فضائے عالم میں مجھے جی کھولکر رُسوا کریں ؟مانا۔ کہ میں گنہگارہوں۔ مگر اِس کے یہ معنی نہیں ہو سکتے کہ آپ مجھے عام نگاہوں کیٹھوکروں میں اِس حقارت سے پھینک دیں۔ آخر(١٠٠)سو گناہ۔ خدابخشتا ہے۔ ایکاگر آپ بھی بخش دیں تو کیا غضب ہو جائے گا۔ ؟
میں آپ سے درخواست کرتی ہوں۔ میں التجا کرتی ہوں کہ مہربانی کر کے شاعرکے خواب میں میرے خطوط نہ نقل کیجئے۔ خواہ وہ سلمیٰ ہی کے نام سے کیوں نہ ہوں ؟ میں آپ کی منّتیں کرتی ہوں کہہرگز نہ نقلکیجئے۔ علاوہ بریں۔ افسانہاِسانداز میں لکھئے کہ ناظرین پر حقیقت منکشف نہ ہونے پائے۔
کیا آپ اشاعت سے پہلے مسوّدہ مجھے دِکھا سکتے ہیں۔
میں نے آج تک اپناراز۔ اپنا وہ راز جس میں بقول آپ کے۔ اور یوں بھی آپکے دل کے ٹکڑے بھی ہیں۔ کسی ذی روح سے بیان نہیں کیا۔ میری بیسیوں عزیز اور مخلص ترین سہیلیاں موجود ہیں۔ مگر قسم لے لیجئے جو اُن میں سے۔ میں نے کسی کو بھی اپنی راز دار بنانے کیکوشش کی ہو۔ محض اِس خیال سے کہمبادا بعد کو پشیمان ہونا پڑے۔ مگر نہایت افسوس ہے کہ آپ کو اِس بات کا مطلق احساس نہیں۔ یا دوسرے الفاظ میں مجھے یہ کہنا چاہئے کہ آپ کو(آپکے الفاظ میں )ایکسچّا عاشق ہونے کے باوجود میرے ناموس کا ذرابھی پاسو لحاظ نہیں ہے۔ ورنہ آپ اپنے دوستوں کے سامنے میری تباہیوں کا حال اِسطرح مزے لے لے کر بیان نہ کرتے۔ ہائے !
یا رب کبھی کسی پہ کسی کا نہ آئے دل
بہرحال اب اتنی نوازش اور کیجئے کہ مجھے اُن لوگوں کے نام لکھ بھیجئے۔ جن کو آپ نے از راہِ کرم میرے تمامخطوط دِکھلائے ہیں۔ اور میرے صحیح پتہ سے مطلع فرمایا ہے۔ تاکہ میں آنے والی مصیبت کے لئے بھی تیّار ہو جاؤں۔
ہاں آپ کے مکتوباتِگرامی آپ کو واپس کئے جاتے ہیں۔ مگر اِس شرط پر کہمیرے عریضے بھی مجھے واپس بھیج دیے جاویں۔ دیکھئے آپ کو ہماری جان کیقسم اِس پر ضرور عمل کیجئے۔ دوفروری کورات کے ایک بجے میں آپ کا انتظار کروں گی؟آپ کو عریضہ ہٰذا کا جواب اور شاعر۔ یعنی۔ آپ کا خواب۔ اور میرے مرسلہ خطوط(غالباً ١٢ ہوں گے )لے کر عین وقت پر یہاں پہنچ جانا چاہئے۔ میں بھی آپ کے خطوط حاضر کر دوں گی۔۔۔۔ اب کی مرتبہ بیٹھنے کا موقعنہیں ملے گا۔ کیونکہ۔۔۔۔ سے چچا جان اور چچّیجان آئے ہوئے ہیں۔
مجھے اُمید ہے کہ آپ آئندہ مجھ سے ملنے کی آرزو نہ کریں گے۔ لیکن میں ڈرتی ہوں کہ کہیں صورت دیکھ کر میں اپنی ادائیگیِ فرض سے قاصر نہ رہجاؤں۔
۔۔۔۔ یہ دل آپ کا ہے۔۔۔۔ اور تا دمِ آخر آپ ہی کا رہے گا۔۔۔۔ زندگی ایک خوابِ پریشاں ہے۔ اور بس۔ دُنیا ایک سرائے فانی ہے اور کچھ نہیں۔ یہاں شکستِ آرزو۔ اور ذبحِحیات کے سوا۔ کوئی مؤثر تماشا نہیں۔ کوئی دلچسپ منظر نہیں۔۔۔۔ اگر ہمچرخِ ستمگار اور اپنے بختِ جفاکار کی بدولت اِس دنیا میں نہیں مل سکے۔ تو انشاءاللہ دوسری دنیا میں ضرور ملیں گے۔
میں کل پرسوں تک بھائی جان کے ہمراہ لکھنؤ جا رہی ہوں۔ وہاں سے ایک مضمونآپ کی خدمت میں بھیجوں گی۔ ذرا اصلاح فرما دیجئے گا۔ یہ سب باتیں زبانیعرض کرتی۔ مگر افسوس۔ اُس وقت مہلت کم تھی۔ اور دوسرے یہ کہ مجھے اِس کے سواکسی بات کا ہوش نہ تھا۔
کبھی ہم اُن کوکبھی اپنے گھر کو دیکھتے ہیں
خدا کی قسم میں سچ کہتی ہوں۔ کہ آپکا وہ خط۔ ہاں وہ فریب دہ خط میرے دلی رنج و قلق کا باعث ہوا تھا۔ ہائے۔ آپاندازہ نہیں کر سکتے۔ کہ اُس وقت یہ جان کر میں نے کس درجہ روحی کربمحسوس کیا تھا۔ کہاﷲ جس تقریبِ غم پر میری آنکھیں۔ میری محزوں آنکھیں خون برسانے کو آمادہ ہو رہی ہیں۔ اُسی حادثۂ اَلم پروہ ظالم شخص دلیفرحت و انبساط کے ساتھ مبارکباد دے رہا ہے۔ گویا وہ ایک بلائے بے درماں سے پیچھا چھُڑانے کے مدّت سے آرزومند تھے اور جبکہ اُن کی وہ آرزوئے دیرینہ پوری ہونے کو ہے تو وہ اظہارِ مسرّت کر رہے ہیں۔ مگر۔ مجھے علمنہتھا کہ دراصل معاملہ اِس کے برعکس ہے۔ خیر اَب چونکہ ’’رنجیدہ‘‘ ہونے میں آپ اور میں برابر ہیں۔ اِسلئے اِسالمناک موضوع پر کچھ اور لکھنا غیر ضروری ہو گا۔
اگر آپ خفا نہ ہوں تو کہوں کہ اِن دنوں جو صدمۂ عظیم اور عذاب الیمآپ کو برداشت کرنا پڑا ہے۔ وہ حقیقت میں میری ہی بددعا کا تلخ ثمرہہے۔ کسی نے خُوب کہا ہے۔
تُو بھی ٹھنڈانہ رہا جی کو جلانے والے
درد مندوں کی دعا دیکھ لے خالی نہ گئی
آپ کو معلوم نہیں۔ کہ آج سے ایکسال قبل آپ کینئی زندگی کی خبرِ وحشت اثر میرے خرمنِ دل و دماغ پر بجلیہو کر گری تھی۔ تو بے اختیار میری زبان سے یہ الفاظ نکلگئے تھے۔ کہ الٰہی میرے ستانے اور جلانے والے بھی اُسی طرح ستائے اور جلائے جائیں۔ لیکنآج میں بصد ندامت اپنے یہ الفاظ واپس لیتی ہوں۔ کیا آپ میرا قصوّر نظرانداز نہ فرما دیں گے۔ ؟
جی ہاں۔ مجھے معلومتھا کہ محبّتاِس سے کہیں زیادہ بلند اور با عظمت ثبوتچاہا کرتی ہے۔ بلکہ میرے خیال میں تو ماں کا دل لینے والی لڑکی نے بھیایک حد تک اپنے طالب سے لحاظ و مروّت کا سلوک روا رکھا تھا۔ لیکن میں آپکے اتنے سے ثبوت پرہی نازاں ہونے کے لئے مجبور تھی۔ اِس لئے کہ میرا تو معاملہ ہی علیحدہ تھا(ہے )یعنی میں طالب اور آپ۔۔۔۔ ؟
’’نام نہاد‘‘ محبّتسے میں تو نہیں اُکتائی۔ اور نہ کبھی اُکتا سکتیہوں۔ ہاں آپ اپنی کہئے۔ دو دن میں ہی اُکتا کر۔ گھبراکر جواب صاف نہ لکھبھیجیں تو سہی۔ مگر یادرکھئے۔ کہ اگر ایساہوا۔ تو پھر میں ہرگز زندہنہ رہنے پاؤں گی۔ کیونکہ
دل جس سے زندہ ہے وہ تمنّا تمہیں تو ہو
ہم جس میں بس رہے ہیں وہ دنیا تمہیں تو ہو
مکرّر آنکہ
آپ مجھے تم ہی سے مخاطب کیا کریں۔ مجھے آپ کی زبان سے یہ لفظ بہت بھلامعلوم ہوتا ہے۔
’’وہی نیاز کیش‘‘
مرے دل میں تصوّر ہے ضیائے رُوئے کوکب کا
خدا آبادرکھے کس قدر روشن مرا گھرہے
بیا اے روح بخشِ ہستیِ ما
بیا اے مایۂ سر مستیِ ما
بکن سر مست بایک جامِ سرشار
کہ فارغ باشم ازبکندلازار
خطِ فرحت نمط پہنچا۔ الحمد للہ ربِّالعالمین کہ حضور نے اپنی خفگی کے اظہار کو واپس لے کر اِس ’’ناچیز‘‘، ’’بد نصیب‘‘ اور ’’بے ہودہ‘‘ لڑکی کو پھر ’’تم‘‘ کے سے شیریں خطاب سے مخاطبفرمانے کی عزّت بخشی۔۔۔۔ لیکن میرا خیال ہے کہ آپ ابھیمکمّل طور پر راضینہیں ہوئے۔ یعنی ابھی آپ کا آئینۂ دل میری طرف سے غبار آلود ہے۔ کیوں ہے نا؟افسوس۔
اُفتادِ طبیعت سے وہ مجبور ہیں ورنہ
کچھ بھی سببِ رنجشِ بے جا نہیں ہوتا
اگرچہ۔ اب۔ ملاقات ایک وجہ سے بہت مشکل نظر آتی ہے۔ تاہم آپ کے حکم سے اِنحراف کرنے کیمجھ میں تاب و طاقت نہیں۔ ٢٢-فروری کو رات کے ڈیڑھ بجے تشریف لے آئیے۔ آپکی ’’تقدیسِ محبّت‘‘ سے مجھے اُمیدِ واثق ہے کہ ہماری یہ ملاقات بھی ’’ملکوتیمعصومیت‘‘ سے مملو رہے گی۔ یہ بہت بڑی بات ہے۔ کہ آپ اپنی زبردست شخصیتسے دانستہ چشم پوشی اختیار کر کے اُس سے زیادہ خاکساری ظاہر کرتے ہیں۔ اور پھرمزید ستم ظریفی یہ کہ مجھے شرمندہ کرنے کی غرض سے۔ میری ناجائز تعریف میں زمینآسمان کے قلابے ملانے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ حالانکہ آپ کو بخوبی علم ہے کہ میں ’’حسنِ صورت‘‘ اور ’’حسنِ معنی‘‘ دونوں کے لحاظ سے صفر کے برابر ہوں۔ اور بس۔ آپ ایکبا کمال شاعر۔ ایک رنگیں طراز ا دیب۔ اور میں کیا؟ایک ’’جہلِ مرکّب‘‘ ہستی۔
چہ نسبت خاک را بہ عالمِ پاک؟
آپ کے سوالات کا جواب پھر دوں گی۔ اُمید ہے کہ آپ اِس پھر سے پھر ناراض نہیں ہو جائیں گے۔
آپ کے خط کے وروُد کی خوشی میں صبح سے اب تک ہارمونیم بجا رہیہوں۔ موسیقی کی دلفریبیوں میں شک نہیں۔ مگر کیا آپ بتا سکتے ہیں ؟کہ وہنغمے جو آج ساز کے پردوں سے مچل رہے ہیں اَور دنوں کی نسبت زیادہ مؤثر اور شیریں کیوں ہیں۔ ؟آپ خلیقی کی زبان میں اِس رنگ و بُو کی چیستاں کوبُوجھئے۔ تو جانیں ؟آج میں کالج بھی نہیں گئی۔ والدہ صاحبہ نے ایک ملازمکو ڈرگ ہاؤسبھیجا ہے کہ میرے لئے دردِسرکی دوالائے۔ کیوں۔ ؟اِس لئے کہ یہ کالج نہجانے کا بہانہہے۔ آپ مُسکرائے کیوں ہیں ؟۔۔۔۔ یہنرا بہانہ ہی نہیں بلکہواقعی میرے سر میں درد ہے آہ!غیر معمولی جذباتِ مسرّت کا ہجوم بھیتو سر میں درد پیدا کر دیتا ہے۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ والدہ کو درد کی فکر ہو۔ اور مجھے اِسی درد کی طلب۔
کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی
باقی بوقتِ ملاقات۔ والسّلام
نیازآگیں
سلمیٰ
تیرے آنے میں راہگِنت ہوں
تارے گنت ہوں رتیاں !!!
(پشت پر پنسل سے )٢٢ -فروریکے بجائے اگر ١٢- فروریبروز منگل رات کے ایک بجے آئیں تو بہت بہتر ہو گا۔ تاکیداً عرض ہے۔
وہ جلد آئیں گے یادیر میں خدا جانے
میں گُل بچھاؤں کہ کلیاں بچھاؤں بستر پر
بخدا۔ آپ کے تاجور کے اِس شعر کا مفہوم میری سمجھ میں نہیں آتا تھاکہ۔
تڑپ رہے ہیں شبِانتظار سونے دے
نہ چھیڑ ہم کو دلِ بے قرار سونے دے
مگر آج آپ کی ستم پیشگی اور جفا جوئی نے مجھے اِس کا تلخ مفہوم سمجھا دیا۔ آپ کے جاں خراشانتظار میں ٢١ اور ٢٢-فروری کی دونوں بھیانک راتیں مع اپنی حشر انگیز طولانیوں کے۔ آنکھوں۔ اِن مستیِ خواب سے بیگانہ آنکھوں میں کٹ گئیں۔ مگر آپ نہ آئے۔ آہ!۔
غضب کیا ترے وعدے پہ اعتبار کیا
تمامرات قیامت کا انتظار کیا
کا ش آپ کو معلوم ہوتا۔ آپ معلومکر سکتے کہ میں نے شوق سے آپ کے خیرمقدم کی تیاریاں کی تھیں۔
اے بسا آرزو کہ خاک شدہ
آخر آپ آئے کیوں نہیں ؟بتلائیے وہکون زبردست طاقت تھی؟جس نے آپ کا راستہ روک لیا؟مجھے بتلائیے وہ کونکمبخت تھا۔ جس نے میریمحبّتپر فتح پائی۔ ؟؟
کیا اب آپ نہیں آئیں گے ؟مجھ سے ملنے کبھی نہیں آئیں گے ؟ کیا میں نا امید ہو جاؤں ؟آہ!آپ کی طرف سے قطعاً نا امید ہو جاؤں ؟کیا اب مجھے آپ کیمحبّتکی طرف سے (اگر وہ سچ مچمحبّتہے تو )بالکل مایوس ہو جانا چاہئے۔ نہیں۔ نہیں۔ آہ!۔ یہ نہیں ہو سکتا۔ سُنتے ہیں آپ؟ میں آپ کیمحبّتسے مایوس نہیں ہو سکتی۔ اور نہ آپ ہی مجھے مایوس کر سکتے ہیں۔ لیکن اب میں محسوس کرتی ہوں۔ کہ میرا یہ خیال سراسر غلط تھا۔ دیکھئے میں درخواستکرتی ہوں کہ اب میرا گناہ معاف کریں۔ اور جیسے بھی ہو۔ ایک مرتبہ ضرور مجھ سے ملیے۔ میں ایک ضروری امر کے متعلق آپ سے زبانیگفتگو کرنا چاہتیہوں۔ ۲۵- فروری کورات کے ایک بجے کے قریب (صرفدو گھنٹہ کے لئے) جی کڑا کیجئے۔ عنایت ہو گی۔ اور ہاں۔ اگر میری یہدرخواست نا منظور ہو۔ تو پھر اتنی نوازش ضرور فرمائیے کہ٢٥- تاریخ کودن کے اُسی حصہ میں خط کے ذریعہ مجھے اطلاع دیجئے۔ یا دوسرے الفاظ میں جوابِ صاف لکھ بھیجئے تاکہ میری رہی سہی اُمید کا بھی خاتمہ با عزّت ہو جائے۔
نکالا تیر سینے سے کہ جانِ پُر الم نکلے
جو یہ نکلے تو دل نکلے، جو دل نکلے تو دم نکلے
اب میں آپ کے بعض سوالات کا جوابدیتی ہوں۔
١۔ سب سے پہلے میں نے آپ کا نام (’’ہمایوں ‘‘ لاہور) میں پڑھا تھا۔
٢۔ سب سے پہلے آپ کا ایک افسانہ ’’پیکِنغمہ‘‘کے عنوان سے میری نظر سے گزرا تھا۔ پھر اس کے بعد ملک کے مختلف پرچوں میں آپ کے مضامین (نظم و نثر)
٣۔ اُن کے کیا کیا اثرات مجھ پر ہوئے ؟آہ!یہ نہپوچھئے۔ کہ اپنی ہلاکتوں اور تباہیوں کے طویل افسانہ کو دُہرانے کی میریزبانِ قلم میں ہمّت نہیں۔ طاقت نہیں۔
٤۔ پھر۔۔۔۔ رفتہ رفتہ میرے احساسات کا یہ عالم ہوا کہاگر میں زندہ ہوں تو صرف اُسی ’’ساحر‘‘کے لئے جس نے پردہ ہی پردہ میں مجھے مسحور کر لیا ہے۔ اور پہلا خط لکھنے تک یہی محسوسات اور خیالات قائمتھے۔ (اور جواَب بھی قائم ہیں )
٥۔ سلمیٰ نام منتخب کرنے کی اور کوئی وجہ نہ تھی۔ سوائے اِس کے کہ پہلے یہ میرا تخلّص تھا۔
٦۔ میں نہیں جانتی کہ ’’اے عشق کہیں لے چل‘‘ میں آپ نے کس کو مخاطب کیا ہے ؟البتہ یہ کہہ سکتی ہوں کہ آپ کی اِس غیر فانینظم نے میرے دل و دماغ پر گہرا اور حزن انگیز اثر ڈالا تھا۔ خصوصاً اسبند کی یاسیت نے تو دل و جگر کے ٹکڑے اُڑا دیئے ہیں۔
یہ جبر کدہ، آزاد افکار کا دشمنہے
ارمانوں کا قاتل ہے، اُمیدوں کا رہزن ہے
جذبات کا مقتل ہے، جذبات کا مدفن ہے
چل یاں سے کہیں لے چل
اے عشق کہیں لے چل
مگر آپ کے اِس بند سے تو شبہ ہوتا ہے کہ اِس نظم کی معنوی مخاطب میری نیاز مندیِ محبت ہے۔
قدر ت ہے حمایت پرہمدردہے قسمت بھی
سلمیٰ بھی ہے پہلو میں سلمیٰ کی محبت بھی
ہر شے سے فراغت ہے پھر تیری عنایت بھی
پرواہی نہیں لے چل
اے عشق کہیں لے چل
مگر میں کیونکر یقین کروں ؟؟
٧۔ میں وثوق سے کہہ سکتی ہوں کہ ’’اُن کا خط‘‘ اور ’’بعد از وقت‘‘ کے راقم آپ خود تھے۔ اور انجم صاحب نے ج۔ ب کو مخاطبفرمایا تھا۔ (کیوں )
٨۔ میں نے سب سے پہلی بار آپ کو نومبر ٥٢ء میں دیکھا تھا جب کہ آپ سب سے پہلی مرتبہ ہمارے ہاں آئے تھے۔ آئے نہیں تھے۔ بلکہ آپ کو میرا جذبات بھرا دل کھینچ لایا تھا۔۔۔۔ کیوں ؟؟
٩۔ میریکسی سہیلی کو یہ بدعادت نہیں ہے کہ اِسطرحگمنامخطوط بھیجا کریں بلکہ میرا خیال ہے۔ کہاگروہ میری مجبورانہ حماقت شعاریوں سے واقف ہو جائیں تو مجھے ہدفِملامت بنا لیں۔ اُس کی نسبت آپ کا ایسا خیال نہیں ہونا چاہئے۔ مگر آپطنزیں کرنے پر مجبور ہیں۔ کیونکہ ایک مچھلی سارے جل کو گندہ کرتی ہے۔ آہ!میری بے حمیّتی۔
١٠۔ شعر کہنے کا اکثر شوق ہوا ہے۔ مجھے شاعری کا فقط شوق ہی نہ تھا بلکہ جنون تھا۔ مگر خلیقی دہلوی کے افسانہ ’’تہمتِ شباب‘‘پر آپ کا لمبا چوڑا اور بے پناہ نوٹ پڑھ کر(جس میں آپ نے شاعری کو بے چاری عورتوں کے لئے حرام چیز قرار دیا تھا۔ اور شاعرہ عورتوں پر تہذیبکے پردے میں لعنت کے تیر برسائے تھے )میرے شاعرانہ خیالات بُجھ گئے تھے۔
١١۔۔۔۔۔ کے ہاں شاید نہ جا سکوں۔۔۔۔ اور ہاں۔ یہ تو فرمائیے کہ۔۔۔۔ کے حال پر جناب کی اتنی مہربانی کیوں ہے ؟ کیا اس لئے کہ۔۔۔۔ اب کیاکہوں ؟ناحق کو آپ خفا ہو جائیں گے۔
یقین فرمائیے کہ مجھے اپنے خطوط کے بارے میں آپ سے کسی قسم کا کوئیاندیشہ نہیں ہے۔ میں ہمیشہ سے اور (خواہ مخواہ)آپ کو اپنا سمجھتی ہوں۔ اِس لئے میرا اور آپ کا راز بھی ایک ہی ہے۔ اگر یہ بات ہوتی تو میں خط و کتابت کے سلسلہ کو کیوں جاری رکھتی؟خصوصاً یہ مفصّل خط۔ جس میں میریحیات و ممات کا راز مضمر ہے۔ آپ کو کیوں بھیجتی۔ ؟بخدا مجھے آپ پر۔ آپ کیذات پر پورا پورا بھروسہ ہے۔ آپ کی شرافت و نجابت پراعتماد ہے۔ یقیناًآپ میری عزّت و آبرو کا اُتنا ہی پاس و لحاظ رکھیں گے جتنا ایک بھائیاپنی بہن کا رکھ سکتا ہے۔ اب آپ کو یہ معلوم ہونا چاہئے۔ کہ میریمحبّت(جو مجھے آپ سے ہے اور ہمیشہ رہے گی)عاممحبّتوں سے بالکل علیحدہ ہے۔ افسوسکہ مجھ میں اتنی قابلیت نہیں کہ میں اِس کا صحیح مفہوم آپ کو سمجھا سکوں۔۔۔۔ بس آپ خود ہی سمجھ لیجئے۔ خطوطواپسطلب کرنے سے میرا صرف یہ مقصد تھا کہ شاید اُنہیں آپ کے پاس دوسرے لوگ دیکھلیں۔ نیز پہلے آپ نے اپنے خطوط واپس مانگے تھے جس سے مجھے رنج پہنچا تھا۔ بہرحال آپچونکہ تبادلۂ خطوط کو قطع تعلقی پر محمول کرتے ہیں۔ اِس لئے میں اپنے وہ الفاظ واپسلیتی ہوں اور ساتھ ہی آپ سے معافی بھی چاہتی ہوں۔ خدارااب آپ غصہ تھوکدیجئے۔ اب کبھی ایسی حماقت نہیں کروں گی۔
آپ فسانہ شوق سے مکمّل کر سکتے ہیں۔ مگر اِس شرط پر کہ مطلقاً افشائے راز نہ ہو۔ میں اُس دن کا نہایت بے صبری سے انتظار کر رہی ہوں جبکہ ایک ’’شاعر کا خواب‘‘ میرے پاس بھیجیں گے۔ آخر یہ افسانہ کب تک اختتام کو پہنچے گا؟ میں عنقریب چلی جاؤں گی۔ ہائے۔ خدا جانے کیا باتہے ؟کہ اپنے جانے کا خیال مجھے موت سے کم نہیں۔ حالانکہ یہاں رہ کر بھی کوئی خاص فائدہنہیں۔ آپ میرے حق میں۔ میرے لئے دعا کریں۔
یہ خط بہت طویل ہو گیا۔ اِس لئے اب آپ اجازت دیں کہ اِسے یہیں ختمکر دوں۔ بقیہ باتیں زبانی۔ اگر آپ مہربانی فرمائیں تو معاف کیجئے گا۔ یہخط میں نے بہت جلدی میں لکھا ہے۔ جس کا ثبوت میری خوش نویسی زبانِ حال سے دے گی۔ یہاں میں پھر عرض کر دوں کہ آپ کے نہ آنے کا مجھے نہایت شدید صدمہ پہنچا ہے جسکی اب آپ کو تلافی کرنی چاہئے۔
والسّلام
’’سلمائے کوکب‘‘
’’کیف‘‘ کے عرس نمبر میں آپ کا مضمون بعنوان ’’محبت‘‘ بہت ہی دلچسپ۔ دلفریب اور جاذِبِتوجہ ہے۔
کوکب کا خط
مجھے کہلوانا۔ کہ آج روانگی ہے۔ اور پھر کوٹھی پرمیرا انتظار۔۔۔۔۔ معقول۔ !!
بسر و چشم حاضری کو آمادہ ہوں۔ مگر اب کیونکر ملاقات ہو سکتی ہے ؟میرا تو خیال تھا کہ سردی کا موسم ہی اِس معاملہ میں فیاض تھا۔
(ک)
سلمیٰ کا خط
آپ اگر ملنا نہیں چاہتے۔ تو نہ سہی۔ ہزاربار نہ سہی۔ خوشامد کس نے کی ہے۔ آپ کی۔ ؟؟ میں نے صرف اُس معاملے کیوجہ سے خواہش ظاہر کی تھی۔ مگر خیراَب اس کی بھی چنداں ضرورت نہیں رہی۔۔۔۔ !! گھبرائیے نہیں۔ اِسی ہفتہ کے خاتمہ تک د۔ ف۔ ع۔ ہو جاؤں گی۔ پھرتو آپ کوچین آ جائے گانا۔ ؟؟
آپ کی وبالِ جان۔
(س)۔۔۔۔ !
سلمیٰ کا خط
اچھے
اپنی پچھلی محبت کے صدقے میں، آجرات کے ایک بجے اپنے قیمتی وقت کے چند لمحے ضرور مجھے دو۔
بارش کی وجہ سے سردی ہو گئی ہے۔ اِس لئے یقیناً آج کی رات میرے حق میں۔ میری محبت کے حق میں۔ فیاض ثابت ہو گی۔ میں اپنے پچھلے الفاظ پر قائم رہتی۔ اور ناحق کسی کی زحمت کا باعث نہ ہوتی۔ مگر افسوس ہے، کہ اُسی کمبخت معاملہ کی وجہ سے مجبور ہو گئی ہوں۔ بخدا!۔ اِس کے علاوہ اور کوئی بات نہیں۔
آپ کے اخلاقِ حمیدہ سے واثق اُمید ہے کہ آپ حاملِ رقعہ ہٰذا کی معرفتمجھے اپنے فیصلہ سے ابھی ابھی مطلع فرمائیں گے۔ !!
والسلام
عمرت دراز باد فراموش گارِ من
کوکب کا خط
حکم کی تعمیل کی جائے گی!
کوکب کا خط
عزیزِ خاطرِ آشُفتہ حالاں۔ اپنے بیمارِمحبت کا۔ ہاں اپنے کوکب کا پیار قبول کرو۔ تمہاری دوسری ملاقات میرے لئے پہلی کی بہ نسبت زیادہ تباہ کُن تھی۔ کہ وہ آغاز تھی۔ خلافِ توقع کامیابیِ نصیب کی حیرت سامانیوں کا، اور یقین تھی جذباتِمحبّتکی عروجپردازیوں کی تکمیل کا۔ آہ! اگر میری ساری زندگی بھی اُس رات کی نشاطآرائیوں کی یاد میں۔ ہاں خوشگوار اور لذیذ یاد میں۔۔۔ اور دلگداز منظر تمہارے معصوم آنسوؤں کی بے اختیاریوں کا تھا۔ آہ! محبت کے اُن آنسوؤں کا۔۔۔۔ جو۔۔۔۔ میری جان۔ تمہارے جذباتِ معصوم اور حسیّاتِنازک کے ہزار ہاافسانے تاثر سے لبریز تھے۔ میں کامل ندامت آگینی کے ساتھ محسوس کرتا ہوں کہ میں نے جو تمہارے آنسوؤں سے بھیگے ہوئے آنچل اور اُن شادابموتیوں سے بھری ہوئی آنکھوں کو دیکھ کر کہا تھا۔ کہ یہ پانی کیا ہے ؟تو کس قدر بے دردانہ، بے رحمانہ مذاق کیا تھا؟محض اِس لئے کہ تم مجھ سے شکایت کرو۔ تم مجھ سے گلہ مندانہ لہجہ میں بات کرو۔ مگر آہ!تمہاری غیرتِ حُسن اور حمیتِ عشق نے اُسے برداشت نہیں کیا۔ اور تم نے میرے اِس اِرادی مغالطہ کی تردید نہ کی۔ ہائے ! میں کس درجہ سنگدل ہوں گا۔ کسقدر حِسیّ القلب ہوں گا۔ اگر اب بھی تمہیں یہ نہ بتلاؤں گا۔ کہ تمہارے میخانہہائے حُسن و شباب سے چھلک پڑنے والی شرابِ جذبات کی بے اختیارانہ غمّازی مجھ سے چھُپی نہیں رہی۔ میرے دل کے بھی ٹکڑے ہو رہے تھے۔ میری روح بھی ماتم کر رہیتھی۔ مگر مدّتوں سے آنسو بہنے کی طاقت ہے۔ ضبط کی تاب ہے۔ رنج و غم سہنے اور اُف نہکہنے کا خو گرہو گیا ہوں۔ یوں بھی پروازِ فطرت کی گرفتگی کا اقتضاء ہوتا ہے۔
دل میں ہزار درد اُٹھے آنکھ تر نہ ہو
لاچار۔ تمہارا دل بہلانے کی۔ تمہیں ہنسانے کی کوشش کرتا رہا کہ رونے کے لئے تو ابھی بہت عمر باقی ہے۔ آہ!حالو مستقبل کی فراخ دامانی اِس مشغلہ کے لئے بہت کافی ہے۔
رات دن رویا کئے شام و سحر رویا کئے
کچھ نہ روئے آہ، گر ہم عمر بھر رویا کئے
میرے پچھلے طرزِ عمل پر تم نے جو تنقید کی ہے۔ اُس کے طرزِ اِستدلال کی داد دیتا ہوں مگر بات صرف یہ ہے۔ (جیسا کہ میں زبانی عرض کر چکا ہوں )کہ جب تمہارا پہلا خطمجھے ملا ہے تو دل ہمہ تن اُس کی صداقتِ حیثیت پر یقین کرتا تھا۔ مگر دماغ اِسسے انکاری تھا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ دو نوٹ مختلف انداز سے لکھے گئے تھے اور اُنسے مقصود صرف یہ تھا کہ اگر اِس پردہ میں فی الحقیقت کوئی نسوانی ہستی جلوہگر ہوں گی۔ تو وہ پہلے نوٹ کو اپنے لئے سمجھیں گی۔ اور اگر صنفِ کرخت کا کوئینمائندہ ہو گا۔ تو دوسرے کو۔ اور اس طرح یہ جان کر کہ میں اُس کی حرکت سے اُسکے سرپرست کا پتہ لگا چکا ہوں۔ وہ خاموش ہو جائے گا۔ چنانچہ یہ تدبیر کارگر ہوئی۔ اور چونکہ کوئی مرد پسِ پردہ نہ تھا۔ اِس لئے خاموش بھی نہہوئی۔ تم نے صرف اتنی غلطی کی کہ تم دونوں نوٹوں کو اپنے لئے سمجھیں۔
مجھ سے۔ میری آوارہ شبابی سے۔ جو بدگمانیاں تمہیں ہیں۔ اُن میں ابہندوستان کی ایک عریاں نگار خاتون بھی داخل ہو گئی ہے ؟خدا خیر کرے !یہفہرست کہاں جا کر ختم ہوتی ہے ؟
اگر تم جنسِ کرخت سے علاقہ رکھتی ہو تو میں اِس صنف پر مٹنا ہی نہیں جانتا بلکہ اس پر اپناآپ قربان کرنا بھی مجھے آتا ہے۔ اور
اِک نہ اِک روز ترے عشق میں ہونا ہے یہی
میرے خط کے جس فقرہ پر تم نے اعتراض کیا ہے۔ وہ میری دانست میں (بے ادبی معاف)اب بھی صحیح ہے۔ نکتہاتنا سا ہے کہ تمہارے پہلے خط پر مجھے نسائیت کا یقین تھا۔ مگر میں اُسپر یقین نہیں کرنا چاہتا تھا کہ کہیں پردہ اُٹھنے پر کسی اور صنف سے پالا نہ پڑے۔ اور بس۔ اُمید ہے کہ اِس تصریح کے بعد تم تمام حالات سے باخبر ہو جاؤ گی۔ اِس کے بعد اب میں پھر اسی فقرہ کو دُہراتا ہوں کہ تممیرا ایک بھی قصور ثابت نہیں کر سکتیں۔ افسوس ہے کہ تم نے کبھی انصاف کی نظر سے اِن معاملات کو نہیں دیکھا۔ اور یہ تمہارے لئے کوئی نئی باتنہیں کہ تمہاری صنف کی ستم آرائیوں کا اقتضائے فطری ہے۔ یا پھر وہاقتضائے فطری جس کا نتیجہ ستم آرائی ہی ہوتا ہے۔
جی ہاں۔ عورت کی ہستی جن لطافتوں کی حامل ہوتی ہے اُن کا مجھے علم ہے اور ابتو اچھّی طرح علم ہو گیا ہے۔ آگے کہوں گا تو ناحق شرما جاؤ گی۔ رہا اعترافِ محبتپر عدم اعتماد۔ تو اِس کے سوا کیا کہوں کہ۔
مری خاک بھی لحد میں نہ رہی امیر باقی
اُنہیں مرنے ہی کا اب تک نہیں اعتبار ہوتا
اپنے بنائے جانے کیمجھ سے شکایت نہ کرو۔ قدر ت کی صنعت کارانہ صنم سازیوں کو گالیاں دو۔ میں نے تمہیں اپنے لطیف ترین تخیّل کے پیکر میں، ایک انا الحق بنا کر پیشکیا ہے۔ میں غریب اس معاملہ میں بے قصور ہوں۔
مجھے یاد نہیں رہا۔ ( کیا بتاؤں کہدماغی توازن کی کیسی زار حالت ہو رہی ہے ) کہ میں نے کون سے الفاظ واپسلئے تھے ؟جنہیں تم ’’تملق‘‘ اور چاپلوسی سمجھ رہی ہو۔ بہرکیف "١”
لوکھڑے ہیں ہاتھباندھے ہم تمہارے سامنے
رہا تملق اور چاپلوسی۔ تو یہ تو اَبمیری فطرت ہے۔ اِس کے بغیر آپ کی ہمجنس ہستیاں سیدھی بھی تو نہیں ہوتیں۔۔۔۔ لو اب اور چِڑھو۔
صحتِ مضمون کی بھی ایک ہی کہی۔ میں نے تو لکھ دیا تھا بخدا قلم لگانے کیبھی ضرورت نہ تھی۔ ڈرتے ڈرتے خواہ مخواہ ایک دو جگہ چھیڑا۔ تو وہ یقیناًکسی وقعت کا مستحق نہیں۔ تم میری نیاز مندیوں اور جہالتوں کو ناحقکانٹوں میں نہگھسیٹو۔ مگر تم کہاں سُنتی ہو؟
میں یقینی طور پر نہیں کہہ سکتا کہ۔۔۔۔ خو دلکھتی ہیں یا اجرت پر لکھواتیہیں۔ کیونکہ کلام نظم و نثر کا انداز تمام تر سیمابی ہے۔ یہ البتہ یقینیہے کہ وہ ساغر سے نہیں لکھواتیں۔ کیونکہ وہ غریب خود ایک حرف نہیں لکھسکتا۔ جو کچھ ہوتا ہے سیماب کا ہوتا ہے۔
منصور کے پردے میں خدابول رہا ہے
خیر تمہیں اِس ذکر سے کیا مطلب؟کسیسے لکھواتی ہوں۔
٧ -مارچ کے بارے میں مجھے بھی صرف حیرت ہے اور بس۔۔۔۔ بدنصیبی کے سوا کیا تاویل کروں ؟میری گھڑی غلط ضرور تھی مگر اتنی نہیں کہ۔۔۔۔ ظفر علی خاں سے بمشکل پیچھا چھڑا کر دفتر سے نکلا تھا۔ مگر افسوس کہ پھر بھی کامیابینہیں ہوئی۔ اِسی غصّہ میں میں نے زمیندار سے قطع تعلقی کر لی ہے۔
کیا میں شکریہ ادا کروں ؟ کہ حضور کو میری صحت کا اتنا خیال ہے ؟آہ!ابتم مجھے اپنی صحت کی پُرسش پر مجبور کر رہی ہو جبکہ صحّت اور بیماری۔ تندرستی۔ جراحت۔ زندگی اور موت سب میرے لئے مترادف الفاظ ہو گئے ہیں۔ اور میں صحت کا خیال کروں بھی تو کیوں ؟کس کے لئے ؟اب تو یہ لفظ میرے لئے یکسر بیگانۂ مفہوم ہو چکا ہے۔ قیس کی زبان میں ’’مجھے تو موتوں اور ہلاکتوں کی آرزو ہے۔ ‘‘۔۔۔۔ یہ تین گھنٹہ کی نیند۔ یہ آنکھوں کی کمزوری۔ یہ دماغ کا اختلال۔۔۔۔ یہ سب کچھ۔۔۔۔ کچھ بھی نہیں۔ اُساذیّت کے مقابلہ میں جو میری روح کو دبائے ہوئے ہے۔ اُس کرب کے سامنے جو میرے دل پر چھائے ہوئے ہے۔ اُس قلقکے مقابلہ میں جو میری رگ رگ میں رچا ہوا ہے۔ جانے دو۔ للہ! اِس سطحیتکلیف کا ذکرکرکے مجھے اپنی اندرونی جراحت یاد نہ دلاؤ کہ پھر اسمضمحل تکلّم کی بھی تاب مجھ میں باقی نہ رہے گی۔
کیا تمہاری معلومات میں انقلاب (لاہور)کا وہ پرچہ ہے۔ جس میں لاہور کیایک مسلم خاتون کے نام سے ایک نظم شائع ہوئی تھی؟میرا خیال ہے کہ خاتونکا نام ہی نام ہے اور وہ نظم خودادارۂ انقلاب کی زائیدہ افکار ہے۔۔۔۔ چنانچہ میں نے اُس کے جواب میں اُسی خیال کا اظہار کر بھی دیا تھا۔ (شاید تم نے زمیندار میں دیکھا ہو گا)بہرحال میں مزید اطمینان کرنا چاہتا ہوں کہواقعی کوئی مسلمان خاتون بھاٹی دروازہ میں ایسی ہیں جو ایسی نظم لکھسکتی ہوں۔ اِس قضیہ میں مجھے تمہاری امداد کی ضرورت ہے۔۔۔۔ میں نہیں چاہتا کہخواہ مخواہ "انقلاب” کے ادارہ پر اِس قسم کا شبہ کروں گو کہ یہ کچھ اُنسے بعید نہیں۔ تفنن کے ہزاروں ہی رنگ ہوتے ہیں مگر خواتینکو آڑ بنانابہر طور کچھ اچھی بات بھی نہیں۔
۔۔۔۔ ’’گلکدہ‘‘ کے اجراء میں مالی دقّتیں حائل ہیں۔ ابا جان دام دیتے نہیں اور شرکتِ سرمایہ مجھے منظور نہیں۔ تمہارے اشتیاق سے کیونکر معذرتکروں ؟ہائے کیسی بدقسمتی ہے کہ میں اُس کی تواضع کے قابل نہ ہو سکا۔۔۔۔ ورنہ میرے لئے یہمعلوم کر کے کہ تم کسی شے کی مشتاق ہو۔ اور میں اُسے انجام دے سکتا ہوں۔ اُس پر اپنا سارا نظامِ زندگی قربان کر دینا ایک حقیر اظہار ہے۔ اپنی بے پایاں عرضِ سعی کا۔۔۔۔ تمہارا شوق معلوم کر لینے کے بعد بھی اگرچہ میں پرچہنہ نکال سکا۔ تو یہ میری انتہائی بدنصیبی ہو گی اور اگر کامیاب ہو گیا تو میری جان ’’گلکدہ‘‘ صرف اِس لئے نکلے گا کہ تم ایسا چاہتی ہو۔ آہ!۔ وہ صرف تمہارے لئے نکلے گا۔ ہاں صرفاِس لئے کہ تمہاری محبت بھری نظروں سے گزرے اور یہی میرا۔ اُس کا، ہم دونوں کی مایہ زندگی کا سب سے بڑا سرمایۂ افتخار ہو گا۔ اُف! میں اُس جذبۂ بے اختیار کی شدید کیفیت کا کیونکر اظہار کروں ؟؟
۔۔۔۔۔ دنیا میں مجھے صرف ایک ہی شاگرد کافی ہے اور وہ تم ہو۔ اگرچہ۔۔۔۔ شاگردیکی مٹھائی اب تک نہیں ملی۔ مگر میں نے غلط کہا۔ غالباًشاگردی کی ہیمٹھائی تو تھی۔ جو میرے گستاخ ہونٹ۔۔۔۔ تمہارے شکرستانِ لب سے وصول کر چکے ہیں۔ خیر۔ اب کوئی شکایت نہیں۔ خدارا۔۔۔۔ خفا نہ ہو جانا۔ چھیڑ چھاڑ کی تو میریعادت ہی ہے ورنہ کہاں تم؟اور کہاں میری شاگردی ؟تم سے شاگرد قسمت والوں ہی کو ملتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم تو عمر بھر ترسے
کیا خوب۔۔۔۔ افسانہ مکمل کرنے پر اصرار ہے۔۔۔۔ مگر میرے خطوط مجھے ابھی تک واپس نہیں کئے گئے۔ آئندہ خط کے ساتھ بھیج دوتو شروع کردوں۔۔۔۔ میں خودڈرتا ہوں کہ اگر خط و کتابت کا انتظام خراب ہو گیا تو بالکل فراق کی کاہشیں کہیں اُن لذّتوں کو غارت نہکر دیں۔ جو ابھی خمارِ شبانہ کی شکل میں دل و دماغ پر محیط ہیں۔ ذیل کا شعر معلوم ہوتا ہے۔ سرکا رہی کا زائیدہ طبعہے۔ دیکھو کیسا پہچانا؟اور ہاں خوب یاد آیا۔ تم نے اپنا کلام بھجنے کا وعدہ بھی تو کیا تھا؟وہ ابتک وفا نہیں ہوا ہے۔ مہربانی کر کے اب اس طرح ضد نہ کرو۔ اُمید ہے مزاج بخیر ہو گا۔
زچشمِ زخمِ حوادثتُرا گزند مباد۔۔تنتبنازکی اننیازمندمباد
تم اُس کی نہیں مگر پھر بھی
تمہارا کوکب
(پشت پر سلمیٰ کی قلم سے پنسل کیتحریر)
خطوط واپس کرتی ہوں۔ کیونکہ ابجبکہ میری تمام تر رنگین تمنّائیں۔ شاداب محبتیں اور مسرور آرزوئیں۔ مخفی آلامِ رنج و حسرت اور یاس و حرماں کی بے دردیوں سے افسردہ۔ پژمردہ ہو گئے ہیں۔ یہ خط۔ آہ!یہ محبت بھرے خطوط مجھے خونرُلاتے ہیں۔
(کوکب کو یادنہیں رہا اس کے الفاظ یہ تھے کہ لڑکیوں کو تو میں بچپن ہی سے پسند نہیں کرتا)۔ (مصنف)
سلمیٰ کا خط
لیجئے صاحب۔ آپ کے تمام خطوط حاضر ہیں۔ کہئے۔ اب تو مطمئن ہیں نا آپ؟حضور کیوں پردہ داری کی بے فائدہزحمت گوارافرماتے ہیں ؟ میں سمجھ گئی ہوں۔ کہ یہ محض ایک بہانہ تھا۔ اپنیغلط بخشیوں کے ثبوت واپس لینے کا۔ ورنہ فسانہ تو آپ اِن خطوط کے بغیربھی لکھ سکتے تھے۔ بہرحال مجھے آپ سے کوئی شکایت نہیں ہے۔ (کیونکہ شکوہشکایتیں ہمیشہ اپنوں سے ہوتی ہیں )البتہ اپنے بختِ برگشتہ سے ضرور گلہہے۔ جو شاید تمام عمر رہے گا۔ مگر آپ کی بلا سے۔ خواہ مخواہ فکرمند ہونے کی ضرورت؟وہ تو صرف مذاق تھا۔ ورنہ میں اِسحقیقت۔ آہ!اِس تلخ حقیقت سے لاعلم نہیں ہوں کہ مجھے آپ سے بدگمانہونے کا کوئی حق حاصل نہیں ہے۔
جی ہاں۔ میں نے انقلاب میں زمیندار کی ہجوَ اور زمیندار میں ’’عکاس‘‘کے نامسے اُس کا دنداں شکن جواب دیکھا تھا۔ مگر مجھے یہ معلوم نہیں تھاکہ عکّاسکے پردہ میں شرارت مآب کوکب جلوہ گرہیں۔۔۔۔ پیشوا(دہلی) میں علی بابا چالیس چور کے عنوان سے جو مسلسل مضمون مولانا عکّاس صاحب کے نامسے شائع ہو رہا ہے۔ (اور جس کی بدولت عزیز حسن بقائی پر ’’الامان‘‘ کے ایڈیٹر صاحبنے فوجداری دعویٰ دائر کیا تھا)کیا اُس کے نگارندہ بھی آپ ہی ہیں ؟اگر ایسا ہے۔ تو میں اِس روِش کو ہرگز وقعت کی نظر سے نہیں دیکھتی۔ بھلا اس انداز میں دوسروں کی عیب جوئی سے حاصل ہی کیا ہو سکتا ہے ؟ آپ اگر اپنے اُسدلآزارانہ مضمون کے تلخ سلسلہ کو اُنیسویں چورپرہی ختم کر دیں تو میریرائے ناقص میں نہایت مناسب ہو گا۔ کیا آپ اِس پر عمل نہیں کریں گے ؟
آمدم بر سرِ مطلب۔ لاہور کی ایک مسلم خاتون سے، افسوس ہے کہ میں بالکلناواقف ہوں۔ آپ کو شاید معلوم نہ ہو۔ اِس کوٹھی میں آنے سے پہلے ہمبھاٹی دروازہ میں چند ماہ رہ چکے ہیں۔ وہاں اکثر خاندانوں سے ہمارے مراسم بھی ہیں اور اب بھی اکثر آمدورفت رہتی ہے۔ مگر میرے علم میں وہاں کوئی خاتون ایسی نہیں ہیں جو شعر کہتی ہوں اور وہ بھی آپ کے سے زبردستشاعر کے مقابلہ میں۔ "١”بہرحال میں اب خاص طور پر اُس گمنام خاتون کا پتہ چلانے کی کوشش کروں گی۔
غنیمت ہے جو آپ کو ہماری شاگردی کی مٹھائی وقت پر یاد آ گئی۔ اور آپ نے نہایت فراخ حوصلگی سے اُس کی وصولی کا اعتراف بھی کر لیا۔ ورنہ میں تو عنقریب یہ کہنے والی تھی کہ آپ تو کھاکے مُکر جانے کے عادی معلوم ہوتے ہیں۔ اگر آپ نے واقعی مجھ سی جاہل اور نالائق کو اپنی شاگردی میں قبولکر لیا ہے۔ تو پھر میں اپنی یاوریِ بخت پر جس قدر بھی ناز کروں کمہے۔ کیونکہ آپ سے اُستاد قسمت والوں ہی کو ملتے ہیں۔ فرمائیے آپ زیادہترکس قسم کی مٹھائی پسند کرتے ہیں ؟تاکہ میں ایکشاگردِرشید کی حیثیتسے آپ کی پسند کے مطابق اپنے ہاتھ سے مٹھائی تیار کروں۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔ ہم تو عمر بھر ترسے
کے ابتدائی الفاظ کیوں حذفکر دیئے ؟آخر اُن غریبوں نے ایسا کون سا سنگین جُرم کیا تھا جس کی یہ سزا ملی؟؟
آپ کا دلفریب و دلنشیں مضمون ’’محبت‘‘ ایک مجھی کو پسند نہیں۔ بلکہ ہر ایککو پسند ہے اور اس کا ثبوت ’’تفریح‘‘ (بجنور )کے فروری نمبر سے ملتا ہے جس میں آپ کا وہ مضمون بلا حوالہ نہایت قابلیت سے درج فرما لیا گیا ہے۔ مجھے ایسے سارق ایڈیٹروں پر بے حد غصّہ آتا ہے۔ جو رسالہ کا حوالہچھوڑ۔ مضمون نگار کا نام بھی ’’غتر بود‘‘کر جاتے ہیں۔ اُمید ہے کہ آپ اُنبلند شہری آغاؤں کی ضرور خبر لیں گے۔
آپ نے گلفشانی فرمائی ہے کہ تملق یا چاپلوسی کے بغیر تمہاری ہم جنسہستیاں سیدھی بھی تو نہیں ہوتیں۔ بجا فرمایا۔۔۔۔ میری اور صرف میری محبت کا دعویٰ اور غیروں کی خوشنودی حاصل کرنے کا اِس درجہ خیال؟آخر میں بدقسمت آپکی اِن ستم ظریفیوں پر چِڑھوں نہیں تو کیا کروں ؟آپ نے مجھ سے میرا کلامطلب فرمایا ہے۔ لیکن میں زبانی عرض کر چکی ہوں کہ وہ ہرگز اِس قابل نہیں کہ آپ کے بعدخطگرامی سے گزرے۔ کوئی شعر بھی ایسا نہیں جس میں شعریتہو۔ وہ شعریت جو ہمیشہ آپ کا مطلوبِ فکری ہوتی ہے۔ مجھے شرم آتی ہے۔ آپخواہ مخواہ مجھ پر ہنسیں گے۔ علاوہ بریں میں شاعری سے تو بہ بھی کر چکیہوں۔ اب میں کبھی شعر نہیں کہوں گی۔ یہ میرا آخری فیصلہ ہے۔ ممکن تھا۔ کہ دنیا مجھے ایک شاعرہ کی حیثیت سے جانتی۔ ممکن تھا۔ کہ مجھے بھی اُردوکی شاعرہ خواتین کے زمرہ میں شامل ہونے کا فخر حاصل ہو جاتا۔
مگر۔ نہیں۔ اب میں کبھی شعر نہیں کہوں گی۔ ہاں۔ اب میں ہمیشہ اِس فخر سے محروم رہوں گی۔ لیکن مجھے اِس محرومی پر مطلق افسوس نہ ہوگا۔ کیونکہ میں محسوس کرتی ہوں کہ شاعر ہونے کی بہ نسبت کسی کا فدائے اشعار ہونا۔ کسیکا مسجودِ افکار ہونا زیادہ دل خوش کن امر ہے۔ آہ! اِس سے بڑھ کر اور کیا خوش نصیبی ہو سکتی ہے ؟اِس سے بڑھ کر اور خوش نصیبی ہوہی کیا سکتیہے ؟اب مجھے آپ کی شاعری پرفخر ہے۔ بخدا جب میں آپ کی کوئی نظم دیکھتیہوں۔ (خواہ میں اُس کی مخاطب نہ بھی ہوں )تو میرا دل ایک عجیب قسم کی بے نام اور ناقابلِ فہم خوشی سے دھڑکنے لگتا ہے۔ اور میں شوقیہ لہجہ کیانتہائی وارفتگی کے ساتھ بے اختیارکہہ اُٹھتی ہوں۔ ’’یہ تو میرے ہی شعرہیں۔ ‘‘اُمید ہے کہ آپ مجھے اپنے اِنہی جذباتِ مسرّت میں سرشاررہنے دیں گے اور معذورسمجھکرمعاف کر دیں گے۔ میرے سرمایۂ افتخار!مجھے الفاظ نہیں ملتے کہ میں آپ کی محبت اور ذرّہ نوازی کا شکریہ ادا کروں۔ اب تو خطوکتابت کی نصف الملاقات ہے۔ مگر افسوس کہ پھریہ بھی نصیب نہ ہو گیکیونکہ٣- مارچ کو میں اپنے عزیزوں کے ہمراہ دہلی جا رہی ہوں۔
ہائے مایوسیاں محبتکی
مرنہ جائے تو کیا کرے کوئی
افسوس ہے کہ اِس خط میں آپ کی کئی باتوں کا جواب نہیں لکھ سکی۔ کالجکا وقت قریب ہے۔۔۔۔ اچھا پھر کبھی سہی۔۔۔۔ اُمید ہے کہ آپ بخیریت ہوں گے۔
تمسلامترہوہزار برس
ہربرسکے ہوں دنپچاسہزار
والسّلام
آپ کی سلمیٰ
پیشگی عید مبارک قبول ہو
(حاشیہ پر)خداکے لئے اِس درجہ سنگدلی اختیارنہ کیجئے۔ آخر آپ اب پہلے کیطرح راستہ میں کیوں نہیں نظر آتے ؟
(پشت پر شعر)
کبھی فراق کے صدموں سے جی نہ ہاروں گی
تمام عُمر ترییاد میں گزاروں گی
(مابدولت)
سلمیٰ کو مغالطہہوا ہے۔ اِن خاتون نے کوکب یا عکاس کے جواب میں نظمنہیں کہی تھی بلکہ عکّاس نے اُس کے جواب میں (مصنف)
کوکب کا خط
جی۔۔۔۔ وہ خطوط پہنچے۔۔۔۔ پان ملے۔۔۔۔ عطوفتنامہ بھی نظر نواز ہوا۔ اُن مستی افشاں پانوں کا شکریہ کوئی کیونکر اداکرے ؟کاش کہ ایسے پان روز ملا کرتے۔ خدا جانے اِن میں تمہاری نشہ طرازآنکھوں کی کوئی مہکی ہوئی نظر ملی ہوئی ہے۔ یا تم اپنے شکرّیں اور مستیریز ہونٹوں سے چھُوا کر اِن کو بناتی ہو۔
پھر تم نے اُنہیسفّاکانہ شوخیوں کا آغاز کر دیا نا۔ کیوں جی؟اب تو ہماری ہر ایک بات۔ دھوکا اور جھوٹ ہونے لگی۔ خطوطاِس لئے واپس طلب کئے ہوں گے کہ اِس طرح اپنی غلط بخشیوں کے ثبوت تمہارے پاس نہ رہیں۔ ؟ میں کہتا ہوں۔ اب تمہارے ہونٹوں نے پھر غلط بیانیاں شروع کر دی ہیں۔ کہیں مجھے سزاکی ضرورت نہ محسوس ہو۔ اور کیا کہوں ؟
’’پیشوا کے عکاّس‘‘ اور اس کی فحش نگاریوں پر حضور بہت چیں بہ جبیں ہیں۔ کاش کہ یہ چیں بہ جبیں میرے حصّہ میں آتی۔ مجھے پیشوا کے عکاّس کیسرفرازیِ تقدیرپررشک آتا ہے۔ مجھے افسوس ہے کہ پیشوا کا عکاّس بھی میں کیوں نہ ہوا؟کیوں نہ ہو سکا ؟بہرکیف پیشوا کا عکاّس کوئی اور شخصہے۔ ممکن ہے۔۔۔۔ ہو۔ میں ایسے ذلیل پرچوں میں (گو کہ۔۔۔۔ بھی اِسی فہرست میں داخل ہے )اوّل تو لکھنا ہی پسند نہیں کرتا۔ پھر اس درجہ حرام نگاریاں۔ ارے لاحولولا قوّتَ۔ مجھے معلوم نہ تھا۔ کہ پیشوا میں اُس مضمون کا آغازکرنے والا بھی کوئی عکاّس ہے۔ ورنہ شاید میں عکاّس کا فرضی نام نہاختیار کرتا۔ مجھے اندیشہ ہے کہ تمہاری طرح بعض لوگ بھی ’’علی بابا چالیسچور‘‘کا گنہگار مجھی کو سمجھتے ہوں گے۔ اور اس سے بڑھ کر میرے تفننِ طبع کیکوئی ہتک نہیں ہو سکتی۔ میں سوچ رہا ہوں کہ اخبار کے ذریعہ اِس مغالطہ کو رفعکر دوں۔ میں متاسّف ہوں کہ الف لیلہ کے اِس سلسلہ کو اُنیسویں چور پر ختم کر کے تمہارے حکم کے سامنے سرخرو نہیں ہو سکتا۔
بھاٹی گیٹ میں یقیناً کوئی خاتون ایسی نہیں ہوں گی۔ اور میرا خیال صحیحمعلوم ہوتا ہے کہ وہ نظم ادارۂ انقلاب ہی کی تراشیدہ فکر ہے۔ خیر اِسبحث کو دفع کرو۔
شاید آپ نے مجھے ’’کور نمک‘‘ خیال کیا۔ آخر وہ مٹھائی یاد کیوں نہ آتی؟ میں نمک حرام نہیں ہوں اور پھر ایسا نمک، اِتنا شیریں اِس درجہ حلاوتسرِشت نمککسی کے ہونٹوں کو کبھی بھول سکتا ہے ایسے نا سپاس ہونٹوں کو کالے ڈسجائیں تو اچھا۔۔۔۔ تم دوبارہ دستی مٹھائی کی تکلیف نہ کرو۔ مجھے اُسی بہشتیحلاوت۔ اُسی آسمانی شیرینی سے لبریز مٹھائی کی مست و مخمور لذّتوں میں چُوررہنے دو۔ ہاں۔ وہی مٹھائی پھر ملے تو ’’نقدِجان‘‘ دے کر بھی قبولہے۔
تم نے لکھا ہے۔ کہ شکوہ شکایت اپنوں سے ہوتے ہیں۔ گویا ہمحضور کے نزدیکبیگانے ٹھہرے۔ شاگردِرشید۔ ایسے ہی ہوتے ہوں گے کہ غریب اُستاد کو اپنا بھی نہ سمجھیں ؟؟یہ اچھی ستم ظریفی ہے۔ خیر میں اِس کی شکایت نہیں کرتا۔ البتہاتنی دعا ضرور ہے۔
خدا تم کو توفیقدے ابجفاکی
کڑیجوپڑی ہے اُٹھائیہے ہم نے
’’تفریح‘‘ میری نظر سے نہیں گزرتا۔ کیا تم یہ پسند کرتی ہو۔ کہ میں ایسے عامیانہ رسائل کو مخاطب کروں۔ ؟ میں نے ’’کیف‘‘ کو لکھ دیا ہے اور اُسی کو زیادہ حق بھی ہے۔ جی ہاں۔ آپ کے چِڑھانے ہی کے لئے تو ایسے فقرے تراشے جاتے ہیں۔ آپ نہ پڑھیں۔ تو ضرورت ہیکیا ہے۔
دیکھ تو اِس لئے میں تجھ کو خفا کرتا ہوں
کہ مجھے تیرے ستانے میں مزا آتا ہے
آخر تم نے اپنا کلام نہیں بھیجا نا۔ بہت اچھا۔ میں بھی اِس بات کو کبھی نہیں بھولوں گا۔ جوجی چاہے بہانے بناؤ۔ مطلوب صرف انکا رہے اور انکار سے میری پریشانی اور۔۔۔۔ بس۔
آہ!مجھے معلوم ہے کہ تمہیں ضرور میری ہرزہ نگاریوں پر فخر ہو گا۔ اگر تماِس کا اظہار نہ بھی کرتیں۔ تو میری جان۔ یہ مجھے معلوم ہونا چاہئے تھا۔ اور مجھے معلوم تھاکہ تمہاری فیاض نگاہیں۔ میرے لئے ہزار ہا دلفریباداؤں سے معمور ’’حسن طلبی‘‘ سے لبریز ہوتی ہیں۔ کہہ نہیں سکتا کہ اِسفقرے نے جذبات پرکیا کچھ۔۔۔۔ بنا دی؟فطرتِمحبت کے اِس بے پناہ جذبات پرکیا کچھ۔ صداقت سے خدا محفوظ رکھے۔ مجھے کس درجہ تم نے مغرور کر دیا ہے ؟؟اُف!یہ فقرہ نہیں۔ قیامت لکھ گئی ہو۔ میں تمہیں کس دل سے خدا حافظ کہوں۔۔۔۔ ؟اللہکچھ تم ہی بتا دو۔ میرا ذخیرۂ الفاظ اِس قسم کے الفاظ سے سراسر خالی ہے۔
ہائے میری آنکھوں میں تو اب اتنے آنسو بھی نہیں رہے
حیف در چشمِ زدنصحبتِ۔۔۔۔ آخر شد
روئے گل سیرنہ دیدیم وبہار آخر شد
وہ دل کہاں سے لاؤں۔۔ ؟ کہ تمہیں الوداع۔۔۔۔ ہائے خدا جانے کب تک الوداع کہنے کی تاب رکھتا ہو
قیامت ہے کہ ہووے ’’مدعی‘‘ کا ہم سفر غالب
وہ کافر جو خدا کو بھی نہ سونپا جائے ہے مجھ سے
وہاں سے خط کس طرح بھیجو گی؟فضاکا خیال رکھنا اور یقینی طور پر امکان ہو۔ تب تو کوئی حرج نہیں۔ ورنہایسی ویسی کوشش نہ کر بیٹھنا
کبھی فراق کے صدموں سے جی نہ ہاروں گی
تمام عمر تری یاد میں گزاروں گی
کیا۔ ایسے شعروں کو تم شاعری یا شعریت سے خالی سمجھتی ہو۔ ؟یہ تو مستقل ایک شعریت اور مکمّل ایک شاعری ہے۔۔۔۔ مجھے تو اِس طرزِ شعریت پر رشک آتا ہے۔ کس درجہ قاتل جذبہ ہے اور کیسے سادہالفاظ میں اظہار ہوا ہے۔ ؟شاعری کی معراجِ کمال یہی ہے۔ کہ غالب و بیدلکے خیالات ہوں۔ اور داغ کی زبان۔۔۔۔ اُردودنیاسراسراِس رنگِ عروج سے خالی ہے۔ میرا ارادہ تو اِس شعر کو ’’چُرانے ‘‘ کا ہے۔۔۔۔ اِس پر غزل لکھ کراپنے نام سے شائع کر دوں گا۔ پھر کیا کرو گی۔ ؟
عید مبارک کا شکریہ۔ مگر ہمارے لئے تو یہ عید بھی محرّم سے کم نہیں۔
تم پاس نہیں تو عید، یہ عید نہیں
آخری الوداع میری نگاہیں کہیں گی۔ لہٰذا سرِ دست رخصت۔۔۔۔ میں تمہارے لئے دعا کروں گا۔ ہاں اپنی انتہائیعبودیت کی روح سے تمہاری مسرّتوں اور طمانیتوں کے لئے دعا کروں گا۔ ہائے !
کوکب
(حاشیہ پر) میرے دو خطوں پر تم نے جو قلم فرسائی کی ہے اُس کا جواب سوائے اِس کے کیا دوں۔ کہ وہ میریتنہائی کی بہترین لذّتوں کا باعث ہیں۔ )
سلمیٰ کا خط
جی حضور!۔ پہلے لیلتہ القدر میں حجرِ اسود پر بیٹھ کر آبِ زم زم کے مقدّس پانی سے منہ دھو لیجئے۔ پھر کسیکو سزا دینے کیجرأت کا خیال کیجئے۔ اور سُنئے صاحب۔ کیا مزے سے کہتے ہیں۔ کہیں مجھے سزا کی ضرورت محسوس نہ ہو۔ کیوں جی۔ ہمیں کوئی۔۔۔۔ مقرّرکیا ہے آپ نے ؟ کہ ہماری راست بیانیوں کو بھی غلط بیانیوں کا خطاب دے کرنا حق ہمیں سزا کی دھمکی دی جاتی ہے ؟بڑے آئے کہیں کے اُستاد بن کے۔
بحمد للہ۔ کہ پیشوا کے عکاّس آپ نہیں ہیں۔ ورنہ بخدا میرے لئے تو یہخیال سوہانِ روح تھا۔
میں آپ سے دست بستہ معافی چاہتی ہوں کہ میں نے ناحق آپ کو ’’علی بابا اور چالیسچور‘‘ کا گنہگار سمجھ کر تفننِ طبع کی نفاست کی ہتک کی ہے۔ کیا آپ میرا یہقصور بھی معاف کر دیں گے ؟
جی وہ مٹھائی تو اَب آپ کو ملتی نہیں۔ اُس سے تو اَب مُنہ دھو لیجئے اور دستیمٹھائی کوہی صبر و شکر کر کے قبول کیجئے۔ قبول کر لیجئے ! کیا معنی؟ آپ کو قبولکرنی پڑے گی۔ میں کہتی ہوں آپ انکار نہیں کر سکتے۔ کیوں ؟اِس لئے کے پانوں کیطرح اِس مٹھائی میں کسی کی مخمور آنکھوں کی مبلغ ساڑھے ڈھائی عدد بہکی ہوئی نظریں ملی ہوئی ہیں۔ سُنا آپ نے۔۔۔۔ یا بھیجوں سرمہ نورِ بصر؟
آپ نے تحریر فرمایا ہے کہ تمہارے چِڑھانے ہی کے لئے تو ایسے فقرے تراشے جاتے ہیں۔ گویا ہمارا کُڑھنا اور جلنا حضور کی تفریحِ دماغ کا باعثہے۔ یعنی ہمارے غم سے آپ کی خوشی اور ہماری پریشانی سے آپ کی شادمانیوابستہ ہے۔ مگر کیوں ؟آخر مجھے ستانے میں آپ کو مزا کیوں آتا ہے۔ ؟ اُستادایسے ہی ہوتے ہوں گے کہ بیچارے شاگردوں کی قلبی اذیّت پر مسرّت کا اظہار کریں۔ ؟واہ!یہ اچھی دل لگی ہے۔ خیر۔ یونہی سہی
سرِ دوستاں سلامت کہ تُو خنجر آزمائی
میں محسوس کرتی ہوں۔ کہ یہ میری انتہائی قدر افزائی اور عزّت افروزی کا باعث ہے کہمیرا ناچیز شعر ہو۔ اور آپ اُس پر غزل لکھ کر اُسے بھی اپنے نام سے شائع کریں۔ لیکن میں اِس کو آپ کی شاعرانہ نوا سنجیوں کی ہتک تصوّر کرتی ہوں۔ اور آپ کو ایساکرنے کی ہرگز اجازت نہیں دے سکتی۔۔۔۔ ترمیم و اصلاح کے لئے ایک غزلکے چند اور اشعار بھی ارسال کرتی ہوں۔ اصلاح تو ایک بہانہ ہے۔ مقصود صرف یہ ہے کہمیری اُن آوارہ فریا دیوں سے آپ بے خبر نہ رہیں۔ جو کبھی کبھی تنہائی کی خاموش اور سوگوار راتوں میں آپ کے تصوّر کی دلگداز رنگینیوں کے اثر سے بے اختیارزبانِ شوق سے مچل پڑتی ہیں۔
تمہیں دل سے کیونکر بھلاؤں میں پیارے
تمہی ہو میری زندگی کے سہارے
تمہارے تصوّر میں چُنتی ہوں کلیاں
تمہاری جدائی میں گنتی ہوں تارے
کسی کو بھی اُن میں نہیں تم سے نسبت
ہیں جتنے بھی گُل گُل کدہ میں ہمارے
سچبتلائیے۔ آپ میرے خطوط کا محض اِس لئے جواب دیتے ہیں نا؟ کہ مبادا میں آپ کوکج خلق سمجھوں۔ ؟آپ مجھے بھول تو نہ جائیں گے ؟ میں نے تو آپ کے حکم کی تعمیلکر دی ہے۔ کیا اب آپ بھی میری درخواست کو منظور کرتے ہوئے میرے نیاز نامے چاککر دیں گے ؟سچ کہئے آپ کو بیگم صاحبہ سے کس قدر محبّت ہے ؟اگر کسی کیناز برداریوں سے آپ کو فرصت ملے تو از راہِ کرم عریضۂ ہٰذا کا جواب ٢٧ -مارچ کو ٹھیک دو بجے عنایت فرمائیے گا۔ کیا آپ میرے ہمراہجالندھر تک بھی نہیں چلیں گے ؟نہیں ؟ضرور۔
اچھا اب رخصت
غم میں جو لطفِخاص ہے، آہ خوشی میں وہ کہاں ؟
غم سے جنہیں لگاؤ ہے،اُن کو خوشی سے کیا غرض؟
آپ کی۔۔۔۔ مہجور
سلمیٰ
کوکب کا خط
جانم۔ رات کو ہمشیرہ کی عزیز از جانہستی۔ جو اِس دنیا میں تمہارے بعد میرے لئے تنہا باعثِ مسرّت تھی۔ مجھ سے ہمیشہ کے لئے جدا ہو گئی۔۔۔۔ تمہارا نامۂ محبت آنے تک میری آنکھیں جِس سیلابِاشک میں لبریز رہی ہیں۔ میں نہیں کہہ سکتا۔ آہ!اِس کی طوفانی شدّت کا حال نہیں بتلا سکتا۔
تمہاری دستی مٹھائی کا ممنون ہوں۔ میں نے تو کہا تھا کہ مذاق کی بات کو حقیقتنہ بنا دینا۔ مگر تمہاری ظالمانہ محبت کہاں ماننے والی ہے ؟ اور کیا کہوں ؟اِسوقت کوئی دل خوش کُن گفتگو نہیں سوجھتی سوائے اِس کے کہ تمہاری حسین تحریر کیشریر روش اور رُلا گئی۔ آہ!اب تم بھی چلی جاؤ گی۔ اِدھر یہ غم۔ اُدھر یہ الم۔
ہزار رنج ہیں اِکجانِ ناتواں کے لئے
مجھے تمہارے ستانے میں کیوں نہ مزہ آئے ؟آہ!اپنے مرکزِ محبّت کو ستانا۔ دنیا اس لذّتکا اندازہ نہیں کر سکتی۔ حسن و عشق کی کتاب کا یہی تو پُر لُطف باب ہے۔ جسپر دنیا بھر کے جذباتِ لطیفہ کی لذّتیں نثار ہیں۔۔۔۔ تم اِس کی لطف طرازیوں کا حال مجھ سے نہ پوچھو۔ اور بہتر یہی ہے۔ کہ کبھی نہ جان سکو۔۔۔۔ اِسسے باخبر ہو کر تمہاری ستم پیشگی میرے ہزاروں ازلی لذّتوں کو غارت کر دے گیجو اِس وقت میرے تنہا مسرّتوں کا باعث ہیں۔ میری ننھّی۔ ناسمجھ۔ تم اِس پہلوکو سمجھنے کی کوشش ہی نہ کرو۔ تو اچھا ہے۔
سُرمہ نورِ بصر بھیجنے کی ضرورت نہیں۔ یہ آنکھیں تمہاری شعاعِ جمال کا مسکن ہیں۔ خدارکھّے۔ اِن میں تمہارے لمعاتِ حُسن کی ہزاروں منوّرجنّتیں آباد ہیں۔ یہ اب ہر چیز کو اچھی طرح دیکھ سکتی ہیں۔ تمہاری ماہپیکر ہستی کی ستارہ افشانی کو بھی۔ تمہاری نشہ طراز آنکھوں کی میخانہچکانی کو بھی۔ ہاں اُن سب چیزوں کو جن سے تمہاری ملکوتی پیکر اورالہّیت سرشت ہستی کو ذرا بھی نسبت ہے۔ شکر ہے۔ تم نے اِس قابل تو سمجھاکہ ہمراہی کے لئے اِس ’’ہیچمدان‘‘ کی نیاز مندیوں کو بھی یاد کیا۔ تجاہلِعارفانہ نہ برتو۔ انصاف سے کہہ دو کیا مجھے خود اِس قسم کی آرزو نہتھی۔ ؟نہیں ہو سکتی تھی۔ ؟ میں کیوں نہ چلوں گا؟
اشارہ تیغ کا پاتے تو سرکے بل جاتے
آہ!تمنے کبھی میرے جذباتِ محبت کو سمجھنے کی پرواہی نہیں کی۔ بہر کیف اِس موقعہپر اِس لطفِ خاص اور بندہ نوازی کا ممنون ہوں۔ اُف! میں اِس صمیمی مہربانیکا۔ اِس کی ناقابلِ اظہار اثر آفرینی کا اندازہ نہیں کر سکتا۔
’’گل فروش‘‘ پر اتنی نوازشیا ظلم نہ کرنا۔ کیونکہ مجبوراً اس کے اجراء کے خواب کو بے تعبیر ہیچھوڑ دینا پڑا ہے۔ اگر اجراء سے عہدہ بر آہو بھی جاتا تو تم جیسے خریداروں کو۔۔۔۔ جو خود مجھے اور میری ہرزہ نگاریوں کو خرید چکے ہیں۔ اِس کی خریداری کیذلّت برداشت کرنے کی ضرورت نہ تھی۔ نہ مجھے گوارا۔۔۔۔ !خواہ یہ کیسا ہیمصلحتاً ہوتا۔ میں کوشش کروں گا کہ کیف۔ قوس قزح اور نگار میں تمہیں مخاطبکر سکوں۔ جس حد تک کہ اِن پرچوں کے کار پردازوں نے مجھے اجازت دی۔ دہلی میں بھیغالباً یہ پرچے تمہاری نظر سے گزر سکیں گے۔
بیوی سے محبت۔ ؟عجیب سوال ہے۔ یقیناً بیوی سے محبت کوئی ضروری چیز نہیں کیونکہ شا دی۔ محض جماعتِ انسانی کے نظام کا پاس کرنے کے لئے کیجاتی ہے۔ خواہ اُن میں محبت ہویا نہ ہو۔ کم از کم ہندوستان کی موجودہتہذیب و تمدّن کا یہی منشا معلوم ہوتا ہے۔ رہا میرا ذاتی تعلّق اِسمسئلہ میں۔ تو میں اِس بارے میں صرف اِس قدر کہوں گا کہ اِس کا جواب اپنے ہیدل سے پوچھو۔
میں تمہارے خطوط کا محض اِس لئے جواب دیتا ہوں کہ یہ میری آرزو ہے۔ اور آرزو صرف اِس لئے ہے کہ شاید مجھے تم سے محبت ہے۔ میں تو تمہیں شاید نہبھولوں۔۔۔۔ اور کیونکر بھول سکتا ہوں ؟
جبکہ میرا تمام تر سرمایۂ نگارش۔ میرا ادب۔ میری شاعری۔ میرا سب کچھ تمہارے پرتوِجمال سے لبریز اور تمہارے اثراتِ حُسن سے معمور ہے میں جو کچھ لکھتا ہوں۔ تمہارے لئے اور تمہارے خیال سے سرشار ہو کر لکھتا ہوں۔ میری تحریر۔ تمہارے خواب۔ میرینگارشیں تمہارے تصوّر ہیں۔ میرا نگار خانۂ قلم از سر تا پا تمہاری تصویرِ فکری اور پیکرِ شعری سے عبارت ہے۔ اور میرا تمام و کمالِ دماغی اور روحی افکار کا سرمایہ اب صرف تمہارا عکسِ شوق ہو کر رہ گیا ہے۔
ہر نظم گوہریں کہبیادِ تو گفتہ ام
دل رخنہ کردہ وجگرخویش سفتہ ام(فیضی)
مگر تم اپنی کہو۔
چلو تم رہو سلامت، تمہیں ہو عدو مبارک
مرے دل کو رنج و حسرت غم و آرزو مبارک
(باقی پھر)
راقم
فیضی گماں مبرکہغمِ دل نگفتہ ماند
اسرارِ عشق آنچہ تو اں گفت گفتہ ام
سلمیٰ کا خط
میرے غمزدہ۔۔۔۔
اشکِ تعزیت۔۔۔ ہائے۔ اِس اندوہناک خبر سے دل کو از بس ملال ہے کہ آپ کی ہمشیرۂ عزیز نے اِس دنیائے فانی سے رحلت کی۔۔۔۔ .مرحومہ کو میں نے ایک مرتبہ۔۔۔۔ کے ہاں دیکھا تھامگر اُس زمانے میں جبکہ میں نے آپ کو نہیں دیکھا تھا۔ کیسی پیاری بچیتھی۔۔۔۔ آہ!میرا گو کہ تعارف نہیں تھا۔ مگر چونکہ وہ آپ کی ہمشیرہ تھیں۔ اِسلئے میں بھی اُنہیں اپنی عزیز بہن سمجھتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ آج اُن کییاد میں میرا دل بے اختیار بھرا چلا آتا ہے۔
پھول تو دو دنبہارِ جانفزا دِکھلا گئے
حسرت اُن غنچوں پہ ہے جو بِن کھلے مُرجھا گئے
آپ اِس جانکاہ حادثہ میں۔ میریخلوص آمیز ہمدردی اور تعزیت قبول کیجئے۔ دعا ہے کہ خداوند کریم مرحومہکو اپنی جوارِ رحمت کے گُلکدہ میں جگہ دے اور پسماندگان کو توفیقِ صبر۔
رات دن زیر زمِیں لوگ چلے جاتے ہیں
نہیں معلوم تہہِ خاک تماشا کیا ہے ؟
مٹھائیکا شکریہ ادا کر کے آپ نے مجھے سخت شرمندہ کیا ہے۔ بھلا ایسی بے حقیقت بات پر ممنونہونے کی ضرورت ہی کیا تھی؟ بہرکیف میں آپ کے اِس ظالمانہ شکریہ کا شکریہ اداکرتی ہوں۔ میں نے تو ہنسی سے کہا تھا کہ سُرمہ نورِ بصر بھیج دوں۔ ورنہ مجھے اچھیطرح علم تھا کہ آپ کی مے گوں آنکھیں ماشاءاللہ ہماری شعاعِ جمال کا مسکنہیں۔ اُن میں ہمارے لمعاتِ حُسن کی ہزاروں نہیں۔ لاکھوں منوّر جنّتیں آباد ہیں۔۔۔۔ وہ دیکھ سکتی ہیں۔ ہماری ماہ پیکر ہستی کی ستارہ افشانی کو بھی!۔ ہمارینشہ طراز آنکھوں کی میخانہ چکانی کو بھی۔ غرض وہ ہر ایک چیز کو اچھی طرح دیکھسکتی ہیں۔ افسوس ہے کہ آپ نے ’’گلفروش‘‘ کے اجراء کا ارادہ ملتو ی کر کے میریدیرینہ تمنّا کا خون کر ڈالا۔ آخر اِس معاملہ میں آپ والدین کے دست نگر کیوں ہیں ؟ کیا وجہ ہے کہ اپنی ضروریاتِ زندگی کے آپ خود کفیل نہیں؟ مگر میں غلطیپر ہوں۔ بھلا مجھے آپ کے نجی معاملات میں دخل انداز ہونے کا کیا حق ہے ؟معافکیجئے گا۔ بعض اوقات میں بہت بہک جاتی ہوں۔ کہنا صرف اِس قدر تھا۔ کہ اگر میں اتنی حقیر رقم پیش کروں جو پرچہ کے چھ ماہ کے اخراجات کے لئے کافی ہو تو کیا آپ فوراً پرچہ نکال دیں گے ؟
تعجبّ ہے کہ بیوی سے محبت۔ آپ کے نزدیک کوئی ضروری چیز نہیں۔ حالانکہدنیا کا خیال ہے۔ کہ جب تک میاں بیوی کے مابین رشتۂ محبت قائم نہہو۔ اُن کا نباہ ہی نہیں ہو سکتا۔ خیر میں اِس موضوع پر کچھ نہیں لکھوں گیکہ کہیں ایسا نہ ہو۔ کہ آپ اِس سے کوئی اور نتیجہ اخذ کر لیں۔ آپ میریمسرّتوں اور طمانیتوں کے لئے دعا نہ فرمائیے۔ بلکہ یہ دعا کیجئے کہ خدا مجھے دنیا سے اُٹھا لے۔ ہاں۔ مجھے موت دے۔ کہ اب کسی کے فراقِ ابدی کیکاہشیں حد سے تجاوز کر چکی ہیں۔ ہائے اب مجھ میں برداشت کی تاب نہیں رہی۔ اب برداشت نہیں کر سکتی۔ آہ
آس کہتی ہے، کہ مجھ کو صبر کر میں مٹ چلی
صبر کہتا ہے کہ دل کو تھام میں چلتاہوا
ِللہ۔ دعا کرو۔ اپنی انتہائی روحِ عبودیت سے میرے مرنے کی دُعا کرو۔ کہ اُس کے بغیرمجھ تِیرہ بخت کے روز افزوں غم و الم اور درد و دکھ کا خاتمہ نہیں ہو سکتا۔ آپنے لکھا ہے۔ کہ میں تو شاید تمہیں نہ بھولوں۔ تم اپنی کہو۔ آخر میں اپنی کیاکہوں۔ ؟اور کیوں کہوں ؟؟جبکہ آپ کے اندازِ تحریر سے صاف ظاہر ہو رہا ہے۔ کہ آپمجھے کبھی بھولے سے بھی یاد نہیں کریں گے۔ بہت اچھا۔ بھُول جائیے۔ مجھے بھُولجائیے۔ میں حرفِ شکایت زبان پر نہیں لاؤں گی۔
تمہارا شکوہتمہارے آگے، کریں ہماری مجال کیا ہے ؟
اگلے ہفتہتک دہلی کی طرف روانگی ہے۔ آپ اگر اِس عریضہ کا جواب دینا چاہیں۔ تو اِس طرحکیجئے گا۔ کہ کالج جاتے وقت مجھے راستہ میں ملئے اور جب تانگہ آہستہ آہستہچلنے لگے۔ تو قریب سے گزر کر خط مجھے پھینک دیجئے۔۔۔۔ لیکن جواب نہ دینا آپ کیمرضی پر منحصر ہے۔ میں مجبور نہیں کرتی۔ زیادہ کیا لکھوں۔ ؟سوائے اِس کے کہ۔
در و دیوار پہ حسرتسے نظر کرتے ہیں
خوش رہو اہلِ وطن ہم تو سفر کرتے ہیں
والسّلام
راقمہ۔ وہی اندوہگیں
١٩٢٨/٠٣/٠٣
(حاشیہ پر)اُمید ہے۔ کہلکھنؤ میں اُس رقاصہ کے درشن بھی ہوئے ہوں گے
یاد تم آ گئے ڈوبیہوئی سانسیں اُبھریں
دم، دمِ نزع مرا رہ گیا جاتے جاتے
سلمیٰ کا خط
ہم نہ سمجھے تھے یہ ظاہر داریاں
تیری باتوں نے بڑا دھوکہ دیا
’گُلکدہ کے ایڈیٹر صاحب۔ ہمارا خریدارانہ سلام قبول فرمائیں۔ موعودہ مضمون ارسال ہے۔ شاید آپ پسند فرمائیں! مگر نہیں۔ میرے مضامین اِس قابل کہاں۔ کہ آپ اُن کو پسندیدہنگاہوں سے دیکھیں۔ میرا مقصود تو صرف اِسی قدر ہے۔ کہ جہاں تکہو سکے۔ آپ کا ہاتھ بٹانے کی کوشش کروں۔ معلوم نہیں ابگُلکدہ کا اجراء کیونکر عمل میں آیا ہے۔ بہرکیف جیسا کہ میں پہلے بھی عرض کر چکی ہوں۔ مجھے اجازت دیجئے کہ میں بھیگُلکدہ کی مالی امداد میں کچھ حصہ لے سکوں۔ مگر آپ جواب نہیں دیتے۔
مہربانی ہو گی۔ اگر خطوط والی کا پی مجھے عاریتاً عنایت فرمائیں۔ میں وعدہکرتی ہوں کہ اِک نظر دیکھنے کے بعد آپ کو واپس کر دوں گی۔ اِس درخواست یا حکم کی علّت صرف یہ ہے۔ کہ میں اِسدفتر بے معنیٰ کے دیکھنے کی آرزومند ہوں۔ اور بس۔
کیوں جی۔ ’’اُن سے ‘‘کی اشاعت کی اب ضرورت کیا تھی؟کیا اب بھی آپ کو ’’اُنسے ‘‘ کوئی شکایت ہے ؟آپ کی یہ نظم میری ایکسہیلی ’’کوکب سلطانہ‘‘ نے بہتپسند کی تھی۔ یا صحیح الفاظ میں وہ اِس سے متاثر ہوئی تھیں۔ لو۔ اب مغرور ہو جاؤ۔ (؟؟)زیادہ کیا لکھوں ؟سوائے اِس کے کہ مذکورہ کاپی ضرور مجھے دِکھائیے۔ عنایت ہو گی۔ ٣-مئی کودن کے ساڑھے بارہ بجے آپ کا شدید انتظار کیا جاوے گا۔ سُن لیا نا۔ ؟
تعدیہ دہی کی معافی۔ نیاز مند!
چند اشعار اِرسال ہیں۔
رنگین
طلوعِ صبحِ روشن حُسنِ فطرت کا تبسّم ہے
نمودِ شامِ غمگیں شمعِ اُلفت کا تبسّمہے
یہ کس نے مجھ کو دیکھا ہے تبسّم ریز نظروں سے
مری رگ رگ میں طوفانِ محبت کا تبسّم ہے
_________
ذرّہ ذرّہ میں ہیں معمور شبستاں تجھ سے
پتہّ پتہّ میں ہیں سر سبز گلستاں تجھ سے
تُو ہی تُو جلوہ نماہے کہ ہوا خلوت میں
ترا سایہ بھی ترے نور میں پنہاں تجھ سے
اُف رے اندازِوفا سب سے ملا تُو لیکن!
پھر بھی آباد رہا میرا شبستاں تجھ سے
کوکب کا خط
کچھ شک نہیں کہ تم گُلکدہ کے سلسلہ میں میرا بہت کچھ ہاتھ بٹا سکتی ہو۔ مگر ہائے میں تو تصوّر کی اُس دنیا میں کھو جاتا ہوں جبکہ۔۔۔۔ نہ صرف دُور سے ہاتھ بٹانا، بلکہہر لمحہ مجھ سے دو چار رہنا۔ اُف!یہکیسا دلگداز خوابہے۔ جس سے میری اشک آلود آنکھیں با ایں ہمہ ضبط۔ ہمآغوش ہو جاتیہیں۔
مالی امدادکے سلسلہ میں کچھ سمجھ میں نہیں آتا کیا لکھوں ؟کیا تمہارایہ مقصد ہے کہ اب میری ذِلّتیں اس درجہ تک پہنچ گئی ہیں۔ رہنے دو۔ خدارا اس ذکر کو یہیں تک رہنے دو۔ آہ!میری جان۔ میں قیامت تک یہ اہانتبرداشت نہیں کر سکتا۔
گُلکدہ کے لئے مضمون کا شکریہ۔ جی ہاں۔ میں نے پہلے بھی کبھی آپ کیتحریروں کو ناپسندیدہ نظروں سے دیکھا ہو گا۔ بہرکیف پرچہ کا پہلانمبرتمہیں بتلائے گا۔ کہ میں تمہارے حلاوت طراز شکرّیں مضامین سے کسدرجہ مفرط عشق رکھتا ہوں ؟
خطوں والی کاپی حاضر ہے۔ ابھی اِس میں بہت سے خطوط نقل ہونے باقی ہیں۔ جیہاں ! میں مغرور ہو گیا۔ کہ آپ کی ایک سہیلی نے اُس نظم سے بہت اثر قبولکیا۔ یہ تو کہو۔ تمہاری سہیلی کے نام میں میرا جو حصہ ہے۔ اُس کا تقاضہتو یہ ہے۔ کہ اُن کی شخصیت کی رنگینیوں میں بھی میرا حصہ ہونا چاہئے۔ لو!اب اور خفا ہو جاؤ۔ !!
زیادہ پیار
اُس جگہ
تمہارا
فیضی احسنت ازیں عشق کہ دوراں امروز
گرم دارد زتو ہنگامۂ رُسوائی را
سلمیٰ کا خط
کوکب صاحب۔ عرضِ تبسّم نیاز۔۔۔۔ ہاں !یہکیا فرمایا آپ نے کہ تمہارا یہ مقصد ہے کہ اب میری ذلّتیں اِس درجہ تکپہنچ گئی ہیں ؟ میں کہتی ہوں یہ آپ کی ستم آرائی ہے۔ اور بس۔ ورنہ مالیامداد کے تذکرہ سے میرا مقصد اِس کے سوا کچھ اور نہتھا کہ۔
تُو اور نہیں، میں اور نہیں
یہ علیحدہ بات ہے کہ آپ اِسے اپنیناقابلِ برداشت اہانت سمجھیں۔ بہرکیف میں بصد ندامت و پشیمانی اپنے وہالفاظ واپس لیتی ہوں۔ مگر خیال رہے کہ مجھے اِس بات کا مرتے دم تک قلقرہے گاکہ آپ میرے نیازِ خلوص کو اپنی ذلّت اور میری محبت کو اپنی اہانتتصوّر کرتے ہیں۔
کاپی کا شکریہ۔ مگر وہ خطوط تو اِس میں درج ہی نہیں کئے گئے جو گمنامیکی حالت میں لکھے گئے تھے اور جنہیں میں دیکھنا چاہتی ہوں۔ مجھے اندیشہہے کہ کہیں آپ یہ نہ کہہ دیں کہ وہ آپ کے پاس سے گمہو گئے ہیں۔
جی نہیں۔ میری سہیلی کی شخصیت کی رنگینیوں میں آپ کا حصہ نہیں ہو سکتا۔ اِسلئے کہ وہ بھی ایک کوکب کے دل کی سلطانہ ہیں۔ البتہ اتنا فرق ضرور ہے کہ اُن بے چاری کے کوکب نہ تو شاعر ہیں۔ نہا دیب۔ مگر یہ تو اپنی اپنی قسمت۔ اِس میں کسی کا کیا اجارہ؟اور کیوں صاحب؟یہ حضور ہر جگہ پاؤں کیوں پھیلانے لگتے ہیں۔ ؟؟
میں ’’ایک شاعر کا خواب‘‘کے لئے اپنے بعض حالات ایک کہانی کی شکل میں قلمبند کر رہی تھی۔ کیونکہ آپ نے ایک دفعہ کہا تھا کہ فسانہ لکھنے میں میری رہنمائی کرو۔ مگر اب آپ کی کاپی میں یہ دیکھ کر کہ فسانہ شاید خطوں ہی خطوں کے ذریعہ مکمّل کیا جاوے گا۔ میں نے اپنا ارادہ بدل دیا ہے۔ اور وہ کہانی ناتمام ہی رہنے دی ہے۔ اُمید ہے آپ بخیریت ہوں گے۔
والسّلام
منّت پذیر۔ خاکسار۔۔۔۔۔ "١”
(حاشیہ پر)برائے کرم، سب خطوط کاپی میں نقل کر دیجئے
————————————————————–
١-(اصل نام تھا۔ اور غالباً پہلی مرتبہ لکھا گیا تھا) کوکب
ہلاکِ تلوّن
(میری غمناک زندگی کے درد انگیز حالات)
ایک افسانہ کی تمہید
از سلمیٰ
اگرمحبت۔۔۔۔ واقعی نام ہے ایک قوتِ جاذبہ کا۔ تو پھر کوئی وجہ نہیں کہ اُس نے میرے سوزِ نہاں کا اثر نہ قبول کیا ہو۔ میں نے ’’نویدِ بہار‘‘ کو میزپر رکھتے ہوئے خودبخود کہا ’’مگر نہیں۔ یہ ناممکن ہے۔ آہ!یہ ناممکن معلومہوتا ہے۔ ‘‘اور میری آنکھیں۔ آنسوؤں سے لبریز ہو گئیں۔ ’’ کیا ناممکن معلوم ہوتا ہے ؟‘‘ایک آواز آئی اور میری مدہوشیِ خیال کو غارت کر گئی۔ زہرہ مسکراتی ہوئی میرے کمرے میں داخل ہو رہی تھی۔ اوہ۔۔۔۔ تم ہو۔۔۔۔ زہرہ؟ میں نے ضبطِ گریہ کی کوششکرتے ہوئے بناؤٹی ہنسی ہنس کر کہا۔ یقین مانو کہ میں اِس وقت تمہی کو یاد کر رہیتھی۔ کہو مزاج تو اچھا ہے ؟
مزاج وِزاج تو پھر پوچھنا۔ پہلے یہ بتاؤ کہ محبت کے بارے میں ابھیابھی تم کیا گلفشانی کر رہی تھیں۔ ؟
زہرا نے شرارت آمیز انداز میں مسکراتے ہوئے پوچھا اور میرے برابر ایککرسی پر بیٹھ گئی۔
’’کیا گُلفشانی کر رہی تھی؟‘‘ میں نے تجاہلِ عارفانہ کے انداز میں کہا۔ ’’مجھے تو مطلق یاد نہیں۔ کچھ تم ہی بتاؤ۔ ہاں بہن ’’نویدِ بہار‘‘ کا خاصنمبر دیکھا تم نے۔۔۔۔ ؟لو دیکھو۔۔۔۔ واللہ!اِس میں کوکب کا ایک ایسا دلفریب اور دل نشین افسانہ شائع ہوا ہے کہ بس کیا کہوں ؟یوں تو آجکل، اور دنیا میں ہر ایک افسانہ نگاری کا مدّعی نظر آتا ہے۔ مگر سچ تو یہ ہے کہحقیقتاً افسانہ نگاری ایک خاص مذاق چاہتی ہے۔ ‘‘۔۔۔۔
’’سوال دیگر۔ جواب دیگر۔ یہ کیا بے تکا پن ہے ؟‘‘ زہرہ نے محبت سے بھری ہوئیمتانت کے ساتھ مجھے روکتے ہوئے کہا۔
’’ میں کہتی ہوں۔ اِس غیر متعلّق بحث کے کیا معنی؟ میں نے تو پوچھا تھا کہاگر محبت قوتِ جاذبہ کا نام ہے تو اُس کا کیا اثر ہوتا ہے ؟آخر کس نے اِسکا اثر قبول کیا ہو گا؟‘‘
اب مجھ میں ضبط کی تاب نہ تھی۔ آہ!اب میں اپنا دلی اضطراب آنکھوں میں نہیں چھپا سکتی تھی۔ میرے جذباتِ غم میں ایک ہیجان۔ ایک بے اختیارانہہیجان برپا ہو گیا۔ اور میں رو پڑی۔
’’ہائیں۔۔۔۔ سلمیٰ۔ تم تو۔۔۔۔ یہ کیا۔۔۔۔ تم تو رونے لگیں۔۔۔۔ الٰہی یہکیا ماجرا ہے ؟بتاؤ بہن۔ کیا بات ہے ؟‘‘آہ!۔ کچھ نہیں۔۔۔۔ بس یونہی بیٹھے بیٹھے۔۔۔۔ خدا جانے کیا خیال آ گیا تھا؟‘‘ ’’نہیں سچ بتاؤ۔ کوئی بات ضرور ہے۔ اِس میں۔۔۔۔ تمہیں ہماری جان کی قسم سچ کہو۔ ‘‘ ’’کیا کہوں ؟۔۔۔۔ کیونکر کہوں۔۔۔۔ میرے اللہ۔۔۔۔ مجھے یہ کیا ہو گیا ہے ؟زہرہ۔۔۔۔ بہن۔۔۔۔ اُف۔۔۔۔ ‘‘
’’خدا خیر کرے۔۔۔۔ بہن کچھ کہو گی بھی؟تم نے تو مجھے گھبرا دیا ہے۔۔ لے اب سچ مچصاف صاف بتلا دو۔ بہن۔ ‘‘اُس کے لہجہ میں ایک مجبور کن ہمدردی تھی۔
’’آہ!زہرہ۔ نسیمِ بہار کے لئے مشہور ہے۔ کہ اُس کے روح پرور جھونکوں سے کلیاں کھِلکر پھول ہو جاتی ہیں۔ مگر میرے دل کی کلی۔۔۔۔ مرجھائی ہوئی کلی۔ ‘‘ شدّتِ گریہسے میرا حلق خشک ہو گیا اور میں کوشش کے باوجود آگے کچھ نہ کہہ سکی۔ زہرہ بے چینہو کر۔ نہایت بے چین ہو کر کرسی سے اُٹھی اور میرے قریب آ کرب اپنے سُرخ ریشمیرومال سے میری آنسو بھری آنکھیں پونچھنے لگی۔ مگر اشکِ بے اختیار کی اضطرابسامانیاں ایسی نہ تھیں کہ تھم جاتیں۔ تھم سکتیں۔
(٢)
خدا جانے کتنی دیر تک میری آنکھیں سیلابِ غم بہاتی رہیں۔ میں نیم ہوش و نیم مدہوشی کے عالم میں کھوئی ہوئیتھی۔ جب اِس طرح جی کھول کر رونے سے میرے دل کا بخار نکل گیا۔ تو مجھے ایسا محسوسہوا گویا میں ایک خواب دیکھ کر ابھی بیدار ہوئی ہوں۔
’’زہرہ۔ میری پیاری بہن۔ کیا تم وعدہ کرتی ہو۔ کہ میرے راز کو۔ میرے اِسراز کو جو آج بے تابیِ دل کے ہاتھوں تم پر افشا ہو گیا ہے۔ اپنا راز سمجھو گی؟‘‘
’’یہ بھی کوئی کہنے کی بات ہے۔ سلمیٰ بہن۔۔ میں اِس کی جان کے برابر حفاظت کروں گی۔ کیا تم نے مجھے اِس درجہ کم ظرف سمجھا ہے کہ وعدہ لے رہیہو۔ تم اطمینان رکھو کہ تمہارا راز ہمیشہ میرے دل میں رہے گا۔ ‘‘وہ ایکلمحہ کے لئے رُکی اور پھر بولی‘‘۔ مگر تم یہ نہ سمجھنا کہ تمہارا راز مجھپر آج کھُلا ہے۔۔۔۔ نہیں میں اِسے بہت دنوں سے جانتی ہوں ‘‘۔
’’بہت دنوں سے جانتی ہو۔ وہ کیسے ؟‘‘ میں نے حد درجہ اضطراب آمیز تعجب سے سوال کیا۔
’’تعجب کی اِس میں کیا بات ہے ؟پھولوں کی مہک اور محبّت کا رنگکہیں چھُپائے چھُپ سکتا ہے ؟یہ تمہارا ہر وقت، ہر لمحہ؟غمگین رہنا۔ یہچہرہ کی افسردگی۔ یہ نگاہوں کی اُداسی۔۔۔۔ بات بات پر آہیں۔ یہ سب تمہاریمحبت کی غمّاز ہیں۔ ‘‘ زہرہ نے مجھے گہری نظر سے گھورتے ہوئے جواب دیا۔
’’اچھا تو کیا تمہیں یہ بھی معلوم ہے کہ میں۔۔۔۔ کس سے ؟‘‘ میں نے دل پر جو اُسوقت یک بیک مضطرب ہو گیا تھا۔ ہاتھ رکھتے ہوئے پُوچھا۔ ’’ہاں مجھے یہ بھیمعلوم ہے کہ تم کس سے محبت کرتی ہو۔ ‘‘
’’کس سے ؟زہرہ بتاؤ مجھے کس سے محبت ہے ؟‘‘ ’’نوید بہار کے ایک غائبانہا دیب کوکب سے۔ ٹھیک کہتی ہوں نا؟‘‘
میری رگوں میں ایک برقی لہر دوڑ گئی۔۔۔۔ ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے کسی نے جذبات میں نشتر سا چبھو دیا ہے۔ دل۔ میرا مضطرب دل۔ زور۔ زور سے دھڑکنے لگا۔ ایسا معلومہوتا تھا۔ جیسے دنیا بھرکی دھڑکنیں مجھ میں سما گئی ہیں۔ یہ آہ!یہ سب کچھ۔۔۔۔ اُس نام۔ ہائے۔ اُس شیریں اور لطیف نام کا کافر اثر تھا۔
’’مگر۔۔۔۔ مگر۔۔۔۔ تمہیں یہ کیسے۔۔۔۔ کیونکر معلومہوا؟‘‘ میں نے مرتعش آواز میں پوچھا۔
’’اگر خفا نہہو تو کہوں۔ تمہاری بیاض میں۔ ایک خط نظر آیا تھا۔ اُسی نے مجھے یہ سب باتیں بتلائی تھیں۔ کچھ یاد ہے ؟جب میں پچھلی مرتبہ تم سے ملنے آئی تھی۔ تو تم نے اپنی بیاض پڑھنے کے لئے مجھے دی تھی؟‘‘
زہرہ کی یہ باتیں سُن کر میں نے انتہائی ندامت و پشیمانی سے سر جھکا لیا۔ میں اُس کی باتوں کا کچھ جواب نہ دے سکی۔ ’’نہیں۔۔۔۔۔ میری پیاری سلمیٰ میں کہتی ہوں۔ میں تمہارے ہی فائدہ کے لئے کہتی ہوں کہ تماِس سودائے خام سے باز آ جاؤ۔ ذرا عاقبت اندیشی سے کام لو۔ جہاں تک جلد ہو سکے۔ اِس بیہودہخیال کو اپنے دماغسے نکال ڈالو۔ خداکے لئے نکال ڈالو۔ کنواری لڑکیوں کے یہ لچھن اچھے نہیں ہوتے۔۔۔۔ مجھے تسلیم ہے کہمحبّتکوئی بُری چیز نہیں۔ مگر اِس صورت میں جبکہ اُس کا صحیح استعمال کیا جائے۔ ورنہ اُس سے پھر زیادہ کوئی حقیر چیز بھی نہیں۔ ‘‘زہرہ کا لہجہ برابر زوردار ہوتا جا رہا تھا۔ ’’اچھی۔ میں تو سمجھی تھی کہ تم بڑی عقلمند اور ذہین ہو۔ مگر اب مجھے معلومہواکہ میرا خیال محض حُسنِ ظن تھا اور بس‘‘
ناصحا، پندو نصیحتسے تجھے کیا فائدہ؟
دل مچلتا جائے ہے جتنا کہ تُو سمجھائے ہے
میں نے زہرہ کی لمبی چوڑی تقریر کا جواب ذوق کے اِس شعر سے دیا اور پھر بے اختیار ننھے بچوں کی طرحپھُوٹپھُوٹ کر رونے لگی۔ ’’بھلا اک ایسے شخص سے محبّتکرنا کہاں کی عقلمندی ہے۔ جس کے متعلق اتنا بھی علم نہ ہو کہ وہ ہے کون؟زہرہ نے (بظاہر)میری نالہو زاری سے متاثر ہوئے بغیر اپنا سلسلۂ کلام جاری رکھا‘‘‘‘اتنی بھی خبر نہہو کہ بوڑھا ہے یا جوان؟خوبصورت ہے یابد صورت؟شا دی شدہ ہے یاکیا؟اور سب سے آخر میں یہ کہ آیا وہ ایک محبت بھرے دل کی پذیرائی کر سکتا ہے یا نہیں ؟سلمیٰ پیاری۔ یہ تو تمہیں معلوم ہی ہو گا کہ ہر ایک شخص محبت کرنے کا اہلنہیں ہو سکتا۔ ‘‘
’’ہاں مگر تمہارے یہاعتراضات قابلِ تسلیمنہیں ہیں۔ ‘‘ میں نے کہا۔ ’’کیونکر ؟‘‘ زہرہ نے پوچھا۔
’’اِس لئے کہ مجھے اُس کے متعلّق۔ اپنے اُس دلستان کے متعلّق سب کچھمعلوم ہے۔ سب کچھ معلوم ہو چکا ہے۔ زہرہ۔ وہ ایک خوش وضع۔ خوبصورت نشیلیآنکھوں والا نوجوان ہے۔ وہ ایک راست باز۔ عالی ظرف اور شریف النسّب انسانہے۔ یہی نہیں بلکہ وہ ایک ا دیبہے۔ اور سحر نگار ا دیب۔ ایک شاعر ہے۔ اور آتش بیان شاعر۔ زہرہ۔ آجدنیائے شاعری میں اُس کا کوئی حریفنہیں۔ کوئی۔ کوئیبھی مدّمقابل نہیں۔ اُس کے کمال کا دُنیا پر سکّہ بیٹھا ہوا ہے ‘‘۔
’’خیر میں مانے لیتی ہوں کہ تمہاری باتیں حقیقت پر مبنی ہیں۔ مگر یہتو کہو۔ اُسے بھی تمسے محبّتہے ؟اُس نے بھی تمہاریمحبّتکا جوابمحبّتسے دیا ہے ؟اگر نہیں۔ تو میں کہتیہوں کہ یہ تمہارے لئے ڈوب مرنے کا مقام ہے۔۔۔۔ سلمیٰ۔ یاد رکھو۔ کہ ایک لڑکی۔ ایک کنواری لڑکی کے لئے اِس سے زیادہ ذلّت۔ اِس سے زیادہ ہتک کوئی نہیں ہے۔ کوئی نہیں ہو سکتی کہ اُس کا محبوب اُس کا ہدیۂ محبت قبول کرنے سے انکا ر کر دے۔ اُسے حقارت سے ٹھکرا دے۔ ‘‘
زہرہ نے خدا خدا کر کے اپنی غصّہ آمیز تقریر ختم کی۔ ’’مجھے معلوم ہے بہن۔ میں جانتی ہوں کہ اِس سے زیادہ ذلّت کوئی نہیں ہو سکتی۔ مگر آہ!اِس کا کیا علاج ہے ؟کہ جسے میں چاہتی ہوں۔۔۔۔ جس سے میں محبت کرتی ہوں۔ وہ مجھ سے تو کیا میرے نام تک سے بے خبر ہے۔۔۔۔ نا آشنا ہے۔ ‘‘
’’اِس سے تمہارا کیا مطلب ہے ؟‘‘’’یہی کہ میں نے اب تک‘‘۔۔۔۔۔۔ مگر اِس سے پہلے کہ میں اپنی بات ختم کروں۔ دروازہ کھُلا اور امّی جان کمرہ میں داخلہوئیں۔ ’’سلمیٰ بیٹی‘‘۔۔۔۔ اُنہوں نے فرمایا ’’چار بج گئے اور تم ابھی تک تیار نہیں ہوئی ہو؟کیا میرے ساتھ نہیں چلو گی؟‘‘’’جی۔ بس ابھی تیار ہوتیہوں۔۔۔۔ پانچ منٹ میں۔ ‘‘یہ کہہ کر اُٹھ کھڑی ہوئی اور زہرہ سے لباس وغیرہتبدیل کرنے کی اجازت لینے لگی۔
’’مگر یہ آج جاؤ گی کہاں ؟‘‘زہرہ نے پوچھا۔ ’’کیا بتاؤں بہن۔ یہایک نئیمصیبت ہے۔ میری خالہ زاد بہن عذرا آج مایوں بیٹھیں گی۔ بس اُنہی کے یہاں جا رہے ہیں ہم!میرا تو کہیں آنے جانے کو بھی جی نہیں چاہتا۔ مگر امی جان ہیں۔۔۔۔ کہ۔۔۔۔ ہاں تم بھی چلو نا‘‘۔ ’’نہیں مجھے تو گھر جانے دو۔ والدہ صاحبہ خفا ہوں گی‘‘۔
تو پھر ہمارے ساتھ چلو۔ راستہ میں اُتر جانا مکان پر۔ ابا ّجان نے نئیگاڑی خریدی ہے۔ وہ تمنے دیکھی۔۔۔۔ ؟‘‘ ’’نہیں تو ؟‘‘’’تو پھر چلو۔۔۔۔ اور ابملو گی کب؟‘‘
’’شاید اگلے اتوار کو۔۔۔۔ مگر نہیں۔ اب میں نہیں آؤں گی۔ خیال تو کرو۔ تم پچھلے دو مہینوں سے ایک دفعہ بھی تو ہمارے ہاں نہیں آئیں ‘‘۔ ’’اچھا خفا نہ ہو۔ اب میں ہی آ جاؤں گی‘‘۔
اور والدہ صاحبہ کے ساتھ گاڑی میں بیٹھتے ہوئے مجھے ایسا محسوسہواکہکسی نئی دنیا میں آ گئی ہوں۔ ایک ایسی دنیا میں جہاں پہلے خیالات و محسوسات بہت دھُندلے نظر آتے تھے۔ مگر نظر ضرور آتے تھے۔
سلمیٰ کا خط
۔۔۔۔ میں یہ اُلٹی سیدھی سطریں لکھ رہیہوں۔ اِس حال میں کہ میرا دل مجسّمۂ دردو غم ہے۔ اور میری آنکھیں سیل بکنار۔۔۔۔ آہ! میں آپ سے جدا ہو رہی ہوں۔ ایک نامعلوم عرصہ تک کے لئے جُدا ہو رہیہوں۔ ہائے !اب میری آنکھیں محروم ہو جائیں گی۔۔۔۔ کسی کے دیدار۔۔۔۔ سے ہمیشہ کے لئے محرومہو جائیں گی۔ میرے کان ترس جائیں گے۔ اُف کسی کی رس بھری۔ جادو بھری آواز سُننے کو ترس جائیں گے۔ اور بس ترستے رہیں گے۔ آہ!
جداکسی کا کسی سے غرض حبیب نہ ہو
یہ داغ وہ ہے کہ دشمن کو بھی نصیب نہ ہو
میں کیسے برداشت کروں۔ ؟ہائے مجھے بتلائیے۔ میں اِس صدمۂ عظیمکوکس طرح۔۔۔۔ کیونکر برداشت کروں گی؟میرے اللہکیونکر برداشت کرسکوں گی؟مگر آپ کیا بتلائیں گے ؟بھلا آپ کو مجھ سے اور میرے رنج و غم سے کیا واسطہ؟کیا غرض۔ آہ!۔
اُنہیں اِس کینہیں پروا کوئی مرتا ہے مر جائے
اچھّا۔ خداآپ کو ہمیشہ خوش و خرّمرکھے اور شاد و آباد رکھے۔
زندگی کی بہاردیکھو تم
عیشِ لیل و نہار دیکھو تم
خدا حافظ
غم نصیب۔ دعاگو
سلمیٰ
(حاشیہ پر)خدا کے لئے رومال کا یہحقیر و ناچیز ہدیہ(جو میرے ہاتھ کا تیار کردہ ہے )اور پان قبولفرمائیے۔
یاد اپنی تمہیں دِلاتے جائیں
پان کل کے لئے لگاتے جائیں (آہ !!!)
سلمیٰ کا خط
تُو اور چارہ سازیِاہلِ وفا غلط
نافہم تھا جو دل کو ترا آسرا ہوا
۔۔۔۔ انتظار حدسے بڑھ گیا۔ بے قراری نے شدّت اختیار کی۔ لیکن تمہاری آمد کے انتظارنے مجھے برابر مضطرب۔ پریشان اور چشم براہ رکھا۔۔۔۔ ! تمہاری یہ کم نگاہیاں۔۔۔۔ تمہارا تغافل!تمہاری بے اعتنائیاں۔۔۔۔ آہ!برباد کئے دیتیہیں۔۔۔۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ میں غم و الم کے۔ حسرت و یاس کے۔ اندوہ و حرمان کے ایک تاریک و مہیب غار میں ابد الآباد تک کے لئے محبوس کر دی گئی ہوں مگر پھر بھی اُسجگر خراش اور سینہ سوزرنج کے باوجود بھی کہتی ہوں کہ۔
خداکا شکر ہے پہلے محبت آپ نے کم کی
کیوں جی۔۔۔۔ اب تو مجھے کہنا چاہئے نا۔ کہ محبت سے تھک جانے۔ اُکتا جانے کا جو اندیشہ آپ کو مجھ سے تھا۔ اُسکا عمل در آمد آپ کی طرف سے ہو رہا ہے۔ آپ کی تصویر۔ نظم اور خطوط آپ کیخدمتِ بے مروّت میں واپس بھیجے۔ مگر ناکامی ہوئی۔ میرا خیال ہے کہحضور عمداً چھوکرے سے نہیں ملے۔ خیر۔ اِس میں نقصان کس کا ہوا۔ ؟ہاں ایکاہممعاملہ کے بارے میں مجھے آپ سے کچھ کہنا ہے۔ کیا آپ مجھ سے کسی وقتمل سکتے ہیں ؟؟؟
اگر نازک ہاتھ دُکھ نہ جائیں تو بذریعہ تحریر آج شام کو ضرور مطّلعکیجئے۔ میں مجسّم انتظار ہوں۔
یہ شعر کیسا ہے ؟
ہے وہ ہرجائی کبھی قابو میں آ سکتا نہیں
ہجر کا غم دے کے جینا جس نے مشکل کر دیا
والسّلامشکوہ سنجِ بے وفائی
وہی وفادار
(حاشیہ پر)ہمارا ہی خون پئے جو اِس خط کا جواب نہ دے۔
(پشت کی طرف)
بیروں روم کجازحدِآستانِ تُو ؟؟
زنجیرِاُلفتِ تو چودرپاکشیدہ اَم!!
________
کیا بتاؤںمجھے بے درد وہ کیوں کہتے ہیں
کیا کہوں مجھ سے حسینوں کی شکایت کیا ہے ؟ (ریاض)
________
پوچھ لیتے ہیں یہ، دستو رہے جلاّدوں کا
مجھسے قاتل نے نہ پوچھا تری حسرت کیا ہے ؟ (غالب)
________
کہیں یہتفرقہ اندازِ چرخ دیکھ نہ لے
نہ اِس طریق سے باہیں گلے میں ڈال کے چل
سلمیٰ کا خط
میں اُس دن ایک ضرورت سے ایک سہیلیکے ہاں چلی گئی تھی۔ جس کا افسوس ہے۔ کیا آپ تشریف لائے تھے؟ اگر جواباثبات میں ہے۔ تو میں شکریہ ادا کرتی ہوں۔ اور اگر نفی میں ہے۔ تو پھر میں کہتی ہوں۔ کہ آپکو اِس کی کوئی معقول وجہ بتلانا ہو گی۔ آخر کسیکے خطکا جواب نہدینا کہاں کی۔۔۔۔ دیکھئے میں آپ سے ایک اور صرف ایکسوال کا جواب چاہتی ہوں اور وہ سوال یہ ہے کہ آپ نے حسبِ وعدہ وہ خطچاک کر دئے ہیں یا نہیں ؟اگر نہیں تو کیوں ؟کس وجہ سے ؟ میں آپ کے تماممکتوبات واپس کر چکی ہوں۔ کر چکی ہوں نا؟تو اب آپ کو بھی ایسا کرنا چاہئے۔ کیوں۔ نا۔ ؟تاکہ میں بھی آپ کی طرح اِس طرف سے مطمئن ہو جاؤں۔ مطمئنہو سکوں۔ مگر آپ سے ایسی اُمید کہاں ؟آپ تو بس یہچاہتے ہیں کہ میں کمبخت ہمیشہ پریشان خاطر اور محرومِ تسکین ہی رہوں۔ معلوم نہیں۔ آپ کو مجھ سے اتنی عداوت کیوں ہے ؟یا اب ہو گئی ہے ؟
یقیناً میں یہ کہنے میں حق بجانب ہوں کہ آپ کی ہر ایک بات جھوٹ۔ فریب اور دغا تھی۔ آپ نے اپنے خطوط بھی اِس لئے واپس مانگے تھے کہ اِس طرح آپ کیغلط بحثیوں یا فریب آرائیوں کے ثبوت میرے پاس نہ رہیں۔ آہ!آپ کو مجھ سے ذرا بھی اُنس نہ تھا۔ آہ!ذرا سا انس بھی نہ تھا۔ آپ کے وہ تمام داعیاتِمحبّت۔ تصنع اور بناوٹ پر مبنی تھے۔ اور مجھے۔ مجھ عقل کی اندھی۔ نادان لڑکیکو دھوکے میں ڈالنے کے لئے۔ فریب میں مبتلا کرنے کے لئے ایک پُر مذاقسین اور بس۔
سوچئے اور شرما جائیے۔ خیال کیجئے اور نادم ہو جائیے۔ کہ آپ نے کس بے دردیکے ساتھ مجھ سے میری زندگی اور زندگی کی تمام مسرّتوں کو چھین لیا ہے۔ غارت کر دیا ہے۔ آہ!تباہ کر دیا ہے۔ کس سنگدلی سے میری اُمیدوں اور آرزوؤں کو پامالکر دیا ہے۔ مسل دیا ہے۔ کیا وہ منتقمِحقیقی اِسظلم وستمکا بدلہ آپ سے نہ لے گا؟لے گا اور ضرور لیگا۔ مجھے رنج ہے۔ کہہنہیں سکتی۔ کس درجہ رنج ہے کہ میں اب تک آپکے سے ظاہردار۔ ریاکار۔ محبت فراموش۔ بے رحم۔ مغرور۔ وفا دشمن۔ جفا طراز۔ دلآزار اور ظالم آدمی کو دیوتا کیوں کہتی رہی؟اور کیوں اتنی مدّت تکاِس طرح، اِس نیاز مندی کے ساتھ آپ کی پرستش اپنے لئے جائز اوررواخیالکرتی رہی؟مگر اب پچھتائے کیا ہووت جب چڑیاں چُگ گئیں کھیت۔
اِس عریضے سے میرا یہ مقصد نہیں ہے کہ آپ میرے اِس سوال کا حسبِمنشا لمبا چوڑا، جواب عنایت فرمائیں۔ میرا مقصد صرف یہ ہے کہ پہلے آپ اِسلئے میرے خط کا جواب دیتے تھے کہ یہ آپ کی آرزو تھی اور آرزو اِس لئے تھی۔ کہ آپ کو مجھ سے محبت تھی۔ مگر اب اِس لئے جواب دیجئے کہ یہ آپ کا اخلاقہے۔ اور اخلاق اِس لئے کہ آپ انسان ہیں۔ اگر آپ مجھے ہمیشہ کے لئے خاموش اور سکوت بلب کرنا چاہتے ہیں تو وہ خطوط واپس کردیجئے۔ یا اپنے خدا کو حاضر و ناظر جان کر کہہ دیجئے کہ وہ سب چاک کر دئیے گئے ہیں۔ بس میرے لئے یہی کافی ہو گا۔ یاد رکھئے اِس خاموش کشیدگی سے کچھ نہ بنے گا۔ آپ کے دل میں جو کچھ ہے۔ للہ بے کم و کاست زبانِ قلم سے ظاہر کر دیجئے۔ مجھے اب اور کیا رنج ہو سکتا ہے۔ آپ مجھے اپنیعنایتوں اور مہربانیوں سے پہلے ہیبہت رنجیدہ کر چکے ہیں۔ اور
رنج کا خوگر ہواانساں تو مٹ جاتا ہے رنج
آپ کو خط لکھ رہی ہوں۔ قلمکاغذ کو سیاہ کرنے میں مصروف ہے۔ مگر مجھے مطلقاً ہوشنہیں کہ کیا لکھ رہی ہوں۔ اور کیوں لکھ رہی ہوں ؟دل میں ایک اضطراب ہے۔ الم انگیز۔ ایک جوش ہے۔ درد آمیز۔ چاہتی ہوں کہ کچھ اور لکھوں۔ مگر طاقتِ تحریر جواب دے چکی ہے۔ لہذا ختم۔
راقمہ
وہی کہ جسے آپ نے تباہ و برباد کر ڈالا
سلمیٰ کا خط
۔۔۔۔۔۔۔۔ بیماری نے اب تکمیرا پیچھا نہیں چھوڑا۔۔۔۔ آج کل میں ایک قابل معالج کے زیرِ علاج ہوں اِس لئے فی الحال خط بھیجنے کی تکلیف نہ فرمائیے۔
کیوں جی۔ اِس بعد از وقت اور جھوٹ موٹ کے اعتراف کی اب کیا ضرورت ہے ؟ میں پوچھتی ہوں۔ اب ضرورت ہی کیا تھی؟معاذاللہ اِس درجہ سفید جھوٹ۔ پھر وہبھی خواہ مخواہ۔ خدا سمجھے اِن گندم نما جو فروشوں سے۔ اِس زبانی جمع خرچ اور لفاظی سے احتراز کیجئے۔ اور کوئیعملی ثبوت دیجئے۔ ہاں میں عملی ثبوت چاہتی ہوں۔ اور وہ۔۔۔۔ وہ صرف یہ ہے کہاپنی سلمیٰ کو آنے والی رسوائیوں اور بدنامیوں سے بچائیے۔ کہ کہیں غریب گنہگار، گناہِ بے لذّت کی مصداق بن کر نہ رہ جائے۔
میرا خیال ہے۔ اور آہ! کیا کہوں۔ کہ اِس خیال نے مجھے اندیشوں کے کیسے بحرِ عمیق میں غرق کر رکھا ہے۔ کہ آپ۔۔۔۔ نہیں تو بہ میں کہنا یہ چاہتی تھی کہ آپ کی وہراز داں ہستیاں عنقریب کوئی فتنہ برپا کرنے والی ہیں۔ تو پھر کیا یہ ممکنہو سکتا ہے۔ کیا میں آپ سے یہ توقع رکھ سکتی ہوں ؟ کیا آپ میرے لئے۔ میری خاطر۔ کوئیکسی قسم کا کوئی ایثار کر سکتے ہیں ؟بہتر یہ ہے۔ کہ آپ اب ماضی کی تلخ یاد کو بھولجائیے۔ اِس طرح جیسے
بھُولا سا ایک خوابہے عہدِ شباب کا
اور مستقبل کا خیال کیجئے۔ میرا مطلب یہ ہے۔ کہ آپ اپنے مستقبل کو شاندار بنانے کی جدوجہد کیجئے کہ ابسلمیٰ۔ آہ!وہ سلمیٰ(جس کے خیالات کی دنیا کبھی کسی زمانہ میں سینکڑوں خوشیوں اور ہزاروں مسرّتوں سے۔ طمانیتوں سے معمور تھی۔ آباد تھی۔ آپ کیمحبت کے قابل نہیں رہی۔ ) اور نہ آپ اُس کی بے پایاں اور بے لوث محبت کے لائق رہے۔ آخر میں ایک امرِ واقعی کے اظہار سے کیوں گریز کروں ؟
آپ دریافت کرتے ہیں۔ کہ کیوں ؟مگر میں اِس کا کچھ جواب نہ دوں گی۔ ہاں اِسقدر کہوں گی۔ کہ آپ اِس اِستفسار کا جواب اپنے دل کی گہرائیوں میں۔ اپنی روح کیخلوتوں میں تلاش کیجیے۔ اور بس۔ آخر میں مجھے یہ کہنا ہے۔ کہ آپ للہ میری تمامخطاؤں کو بخش دیجئے۔ نظرانداز کر دیجئے۔ میں ٹھہری ایک مریض۔ کون جانتا ہے۔ کسوقت دم نکل جائے۔
جواب کا انتظار کروں یا۔۔۔۔۔۔۔
آہ!
آپ کی۔۔۔۔ سلمیٰ
آپ کی وہ کانفرنسابھی ختم نہیں ہوئی کیا۔۔۔۔ ؟؟
’’میلہ جُورا۔۔۔۔ ‘‘
کوکب کا خط
آپ بیمار کیوں ہیں۔۔ اور کیا۔ ؟مذاق نہیں کرتا۔ آپ کی بات کو جھوٹ نہیں سمجھتا۔ مگر نہ معلوم کیوں یقین نہیں ہوتا کہ آپ بیمار ہیں۔
اعتراف کی ضرورت اور عدم ضرورت کا احساس مجھ پر منحصر ہے۔ آپ کو اِس سے کیا تعلق؟مجھے یاد نہیں۔ میں نے یہ نظم خدمتِ والا میں ارسال کیہو؟رہا یہ کہ اِس کی تعمیر میں سفید جھوٹ صرفہوا ہے یا سیاہ۔ اِس کا جواب میں آپ کے موجودہ کرخت اور درشت لہجے کو دیکھتے ہوئے دینا نہیں چاہتا۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہہ سکتا ہوں۔ کہ آپ گھبرائیے نہیں۔ سلمیٰ کسی اور ہستی کا بھی تو نام ہو سکتا ہے۔ ہاں ایک نئی سلمیٰ اسٹیج پر نمودار ہو رہی ہے اور وہ غریب۔ تمہاری طرح بے درد۔ اور بے داد گر نہیں ہے۔
آپ نے مجھ سے یہ توقع کی ہے کہ میں آپ کی خاطر یہ ایثار کروں کہ ماضیکی یاد کو بھول جاؤں یا بھلا دوں۔ میں عرض کرتا ہوں۔ ایسا ہی ہو گا۔ آپمطمئن رہئے۔
حقیقتاً میں اب کسی طرح آپ کی محبت کے لائق نہیں رہا ہوں۔ اُس زمانے میں آہ!اُس حسین و خوشگوار زمانے میں جبکہ سرمستیِ محبت کا عروجلاہور کی اکثر سرمائی راتوں کو اپنے ہنگامہ ہائے سُکر و نشاط سے معموررکھتا تھا۔ میں نے دو شعر کہے تھے۔
اگر مجھے نہ ملیں تم تمہارے سرکی قسم
میں اپنی ساری جوانی تباہ کر لوں گا
جوتم سے کر دیا محروم آسماں نے مجھے
میں اپنی زندگی صرفِ گناہ کر لوں گا
اِسلئے اب جبکہ اِس خوفناک خواب کی خوفناک تعبیر بروئے کار آ چکیہے۔ ناکامیِ تمناّ کے خلاف میرا تلخ سے تلخ انتقام یہی ہو سکتا ہے کہ میں جس حد تککر سکوں۔ اپنی معصومیتِ حیات کو مجروح کر دوں۔ آہ!ذبح کر دوں۔ اور اب مجھے معلومنہیں۔ آپ کن حسّیات کے ساتھ سنیں گی کہ میں ایک زخمی شیر کی طرح بے دردیِ فطرت اور بے رحمیِ دُنیا سے اپنا یہ حسین انتقام لے رہا ہوں۔ آہ!ایک لطیف۔ ایکلذیذ شاعرانہ انتقام۔ انتقام کی بسم اللہ ہو چکی ہے۔ گناہ کی پہلی رات کا رتجگہمنایا جا چکا ہے اور مستقبل کی جنگ کا تخیّل۔ دلآویز تخیّل پیشِ نظر ہے اور پھر ایکلامحدود گناہ کالا محدود تخیّل میرے دماغ کی پریشان فضاؤں میں آوارہ۔۔۔۔ لامحدود۔
ا اللہ اِس انتقام میں کس قدر مسّرت اور ندرت ہے۔
یہ پہلا موقعہ ہے۔ کہ تمہارا مخاطب ایک عام انسان۔ ایک غلیظ۔ ایک ناپاکانسان ہے جس کو جنونِ معصیت اپنی تُند رو میں لئے جاتا ہے۔ ہر چند جسطرح (اور تم سے بڑھ کر اُس کا کون اندازہ کر سکتا ہے کہ جس طرح وہ اپنیادائے معصومیت میں عام انسانوں سے ممتاز تھا۔ اُسی طرح وہ اب اپنی شانِمعصیت میں بھی دنیا کے تمام نفس پروروں سے بلند ہے۔ ہاں۔ ایک نمایاں امتیازِ گناہ کا مالک ہے۔ فطرت اِس معاملے میں ضرور فیاض ہے۔ (اور اسکے لئے میں اُس کا ممنون ہوں )کہ اُس نے میری امتیازی فطرت کا شاعرانہغرور ہر جگہ محفوظ رکھا ہے۔ میری یکتائی کے انفرادیت کے آئینے کو اُس کے جوہرِ پندار کو۔ کسی رنگ میں بھی ٹھیس لگنے نہیں دی ہے۔ میریدیوانگیِ گناہ یا بہیمتِ شباب کا وار سوسائٹی کے اُس بلند طبقے کو سہنا پڑے گا۔ جس کے دامن پر بقول کَسے حوریں بھی نماز پڑھتی ہیں۔ (کسقدر بد ذوقی ہے۔ حوروں کو نماز سے کیا نسبت)اور یہ وار اُنہی کو سہنا چاہئے۔
نسوانی معصومیتوں اور دوشیزگیوں کے لئے اب میرے پاس ایک خراش۔ ایک زخمکے سوا کچھ نہیں رہا۔
انقلابات ہیں زمانے کے
اور جبتک انسانی دُنیا مجھ سے محروم نہیں ہوتی۔ میں اُن کے نازک و ناز آفریں حصے کے حق میں ایک خطرۂ عظیم بن جانا چاہتا ہوں۔ مگر ہائے جوانی۔ بے ثبات جوانی۔ کاش میں اِسے قیامت تک برقرار رکھ سکوں اور یونہی بدستور اپنی انتقام پرور روح کی نشاطکاریوں میں مصروف رہوں۔ اللہ رے لذّتِ انتقام!
سُنتی ہو۔ اِس حالت میں اگر میں یہ دعویٰ کروں کہ میں تمہاری محبت کے لائق ہوں تو یہ میرا جھوٹ ہے۔ یقیناً میں تمہاری محبت کے لائق نہیں رہاہوں .بہرحال اِسقصے کو چھوڑ ئیے۔ اور چونکہ ابحقیقتاً میں ایک دوسرے کو بھول جانا چاہئے۔ اُسے بھُول جائیے۔ جائیے۔ بھلا دیجئے۔
اور زیادہ کیا لکھوں۔
والسّلام
آپ کا یادِ ایاّم
سلمیٰ کا خط
آپ کے صرف ایک سوال کا جواب تو صرفیہ ہو سکتا ہے کہ۔۔۔۔ ہوا ہے۔ مگر چونکہ آپ نے میرے حکم کی تعمیل ضرورینہیں سمجھی اِس لئے مجھے بھی ضرورت نہیں کہ میں تعمیلِ حکم میں۔ آپ کے صرف ایک ہی سوال کا جواب دینے پر اکتفاکروں اور اس کے علاوہ کچھ نہلکھوں۔ لہذا۔۔۔۔ یا بنا بریں بلا جھجک آپ کے مفصّل خط کا مفصّل جواب عرضکرتی ہوں۔
سُنئے۔ میں واقعی بہت ہی عجلت پسند اورضدّی (اور اس کے علاوہ جو آپارشاد فرمائیں )ہوں۔ لیکن اگر میں اِن صفات سے متصف ہوتی تو پھرآپ جیسے فردِ مغرور سے جواب لے لینا معلوم۔۔۔۔ بہرکیف اب میں آپ کو یقین دلاتیہوں کہ آئندہ آپ میری عجلت پسندی اور ضدّی طبیعت کا کبھی کوئی کرشمہ نہدیکھیں گے۔ بس یہ کرشمہ آخری کرشمہ تھا۔ مجھے افسوس ہے کہ میں اتنی مدّتتک ناحق آپ کو دق کرتی رہی ہوں۔ مگر میں تو مجبور تھی۔ کیا آپ معاف نہکریں گے ؟
خدا مجھے دنیا سے اُٹھا لے۔ واپس لے لے کہ میں آپ کے سے گرامی قدر انسانکو مکملانسان کو خارج از انسانیت یا ذلیل سمجھنے کا خیال بھی کروں۔ افسوسکہ میری نسبت آپ کے ایسے خیالات ہیں۔ کاش آپ اندازہ کر سکتے کہ آپ کے اِن الفاظ سے میں نے کس قدر دکھ محسوس کیا ہے ؟مگر آپ کیوں کرتے ؟جبکہ آپکا مقصد ہی مجھ بدنصیب کو رنج پہنچانا تھا۔ خیر خوش رہئے۔ بعد از وقتپشیمانی۔ میں آپ کی دلی ہمدردی شکریہ کے ساتھ قبول کرتی ہوں۔ مگر اتنا خیال ہے کہ اُس عریضے یا آپ کی اصطلاح میں عتاب نامے کا مقصد محض یہتھا کہ آپ برہم ہو کر جھلاّ کر میرے اُس سوال کا جوابعنایت فرما دیں۔ یوں تو آپ سیدھے ہونے والے تھے نہیں۔ مجبوراً تنگ آ کر یہ آخری تدبیر میں نے سوچی۔ جو شکر ہے کہ کارگر ہوگئی۔
خطا ثابت کریں گے اور اُن کو خوب چھیڑیں گے
سُنا ہے اُن کو غصّے میں۔۔۔۔ جانے کی عادت ہے
میرے الزامات کا جواب دینے کی آپ میں کیوں ہمت ہو؟جبکہ وہ الزامات ہیں ہی نہیں۔ جب کوئی جواب بن نہ پڑا تو یہ کہہ کر اپنا پیچھا چھڑا لیا۔ ’’اے حضور!مجھ سے بچ کر آپ جائیں گے کہاں۔ مجھے سب معلوم ہے ‘‘
جلوے مری نگاہ میں کون ومکاں کے ہیں
مجھ سے کہاں چھپیں گے وہ ایسے کہاں کے ہیں
میں اپنے الفاظ دُہراتی ہوں کہمنتقمِ حقیقی آپ سے ضرور بدلہ لے گا۔
نہ چین پائے گا تُو بھی ظالم کسی کا خانہ خراب کر کے
آپ کے اِس بلیغ فقرے کا مطلب میریسمجھ میں نہیں آیا۔ یابہ الفاظِدیگر میرا دماغ کوشش کے باوجود اِسپیچیدہ سوال کو حل نہیں کر سکتا۔ (اور اس کا باعث غالباً یہہے کہ میں بدقسمتی یا خوش قسمتی سے شاعر نہیں ہوں )بنا بریں میں خفا بھی نہیں ہوئیہوں ؟ہاں آپ اگر تحریر کے چہرے کے تبسّم کو قہقہے میں منتقلکر دیں تو پھر البتہ میں ناراضگی یا عدم ناراضگی کے متعلق کوئی رائے قائمکر سکوں گی۔ لمبا چوڑا خط لکھنے سے کس کافر نے آپ کو روکا ہے ؟آپ خود ہیایسا چاہیں۔ تو اِس میں میرا کیا قصور؟آپ کو خواہ مخواہ چکنی چپڑیباتیں کرنے کی ضرورت نہیں۔ مجھے معلوم ہے۔ اور میں بخوبی جانتی ہوں کہکسی سے محبت کرنا یا نہ کرنا اپنے بس کی بات نہیں ہے۔ میں آپ کو ہر گز مجبور نہیں کروں گی۔ اور نہ اپنی شکستہ ریزیوں کے مطالعہ سے آپ کو تکلیفدوں گی۔ ہاں مجھسے آپ کی عداوت کا جذبہ محققا اور کیا ہو سکتا ہے۔ میں کبھی۔ ذرا کھل کر فرمائیے۔ مگر ٹھہرئیے۔۔۔۔۔ میرا خیال ہے کہ میں نے اب اِس پہیلیکو حل کر لیا ہے۔ ایسا لکھنے سے آپ کا مقصد اِس کے سوا کچھ نہ تھا۔ کہ مجھسے۔ آپ کو عداوت نہیں۔ نفرت تھی۔ اور ہے۔ اور یہ محض میری بے وقوفی تھیکہ میں اب تک اِس حقیقت کونہ جان سکی۔ بہرحال میں پھر بھی آپ کی ممنونہوں کہ آپ نے کبھی نہ کبھی تو مجھے اُس راز سے مطلع کر ہی دیا نا۔ حقیقت یہہے۔ کہ میں بہت ہی بے حمیّت اور بے غیرت ہوں۔ کہ مجھ میں خود داری نامکو نہیں رہی حالانکہ قبل ازیں۔۔۔۔ مگر ! گئے گزر ے حالات و واقعات کا ذکر ہیکیا؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نے غالبنکّما کر دیاورنہ ہم بھی آدمی تھے کام کے
وہ تصویر اگر واپس نہ کروں تو کیا ہو گا؟آپ کیا کریں گے ؟؟ آخر میں بصد خلوص۔ آپ کی خدمت میں ہدیہ تشکّر پیشکرتی ہوں کہآپ نے میرے سوال کا جواب میری حسبِ منشا عنایت فرمایا۔ ہرچند کہ اِس مہربانی کا مقصد یہی ہے کہ میں اپنے وعدہ کے مطابق ہمیشہ کے لئے خاموش ہو جاؤں۔ تاہم مکّرر شکریہ ادا کرتی ہوں۔
سمع خراشی معاف
والسّلام
وہی فریب خوردہ۔۔۔۔
٭٭٭
ماخذ:
www.akhtarshairani.net
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید