FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

فہرست مضامین

احکام و مسائل

حصہ دوم

(متفرق مسائل)

ابو محمد عبدالستارالحماد

جمع و ترتیب: اعجاز عبید

 

ایک اشتہار میری نظر سے گذرا جس کی عبارت میں ’’ گستاخ رسول صلی اللہ علیہ وسلم “ لکھا ہوا تھا حالانکہ صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت کے لئے ہیں لیکن اس مقام پر بظاہر گستاخ رسول کے ساتھ معلوم ہوتے ہیں ، ہم کئی جگہ محمد کا لفظ استعمال کرتے ہیں مثلاً محمد علی وغیرہ تو اس کے ساتھ صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ استعمال نہیں کرتے کیونکہ یہاں محمد سے مراد رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی نہیں بلکہ کوئی شخصیت مراد ہے تو پھر گستاخ رسول کے ساتھ صلی اللہ علیہ وسلم لکھنا کیونکر درست ہو سکتا ہے، وضاحت فرمائیں ۔ (فیصل نذیر۔ ڈجکوٹ)

 

اسلام کی بنیادی تعلیمات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کو جزو ایمان قرار دیا گیا ہے اور آپ سے بغض و عداوت کو حرام کہا گیا ہے۔ چنانچہ امام بخاری نے اپنی صحیح میں ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے۔ ’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت جز و ایمان ہے۔ “ پھر حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث بیان کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

’’ مجھے اس ذات کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تم میں سے کوئی ایمان دار نہیں ہو سکتا تا آنکہ میں اسے اسکے والدین اور اولاد سے زیادہ محبوب نہ بن جاؤں ۔ “ (صحیح بخاری الایمان : 14)

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں سے کوئی مومن نہیں ہو سکتا جب تک میری شخصیت اسے والدین، اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو۔ (صحیح بخاری، الایمان : 14)

ان احادیث کے پیش نظر ایک مسلمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی گستاخی کا تصور بھی نہیں کر سکتا، بلکہ آپ کی محبت ہر مسلمان کے رگ و ریشہ میں خون کی طرح جاری و ساری ہے حقیقی مسلمان کسی صورت میں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی برداشت نہیں کر سکتا چہ جائیکہ وہ خود اس کا مرتکب ہو، صورت مسؤلہ میں غلط فہمی کی بناء پر صلی اللہ علیہ وسلم کے لاحقہ کو ’’ گستاخ “ کے ساتھ ملا دیا گیا ہے حالانکہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تعلق گستاخ سے نہیں بلکہ رسول سے ہے گویا عبارت اس طرح ہے ’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا گستاخ “ اس سلسلہ میں جو مثال دی گئی ہے وہ اس پر منطبق نہیں ہوتی کیونکہ لفظ ’’ محمد علی “ میں ایک شخص کا نام ہے جو یقیناً رسول نہیں ، اس لئے اس کے ساتھ صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی ضرورت نہیں جبکہ گستاخ رسول میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ، اس لئے لاحقہ کے طور پر اس کے بعد صلی اللہ علیہ وسلم کا لفظ لکھا جاتا ہے۔ اس انداز میں کوئی گستاخی والی بات نہیں ہے اور نہ ہی اس میں کوئی بے ادبی کا پہلو پایا جاتا ہے۔

 

ماخذ: ہفت روزہ اہلحدیث شمارہ نمبر 34 جلد نمبر 39 12 شعبان تا 18 شعبان 1429 16 تا 22 اگست 2008 ء

 

 

ٹی وی، وی سی آر اور فلموں کا کاروبار کرنے والوں کو اپنی دوکان کرایہ پر دینا جائز ہے یا نہیں ، کتاب و سنت کی روشنی میں وضاحت کریں ۔ (عبدالاکبر۔ فیصل آباد)

 

دور حاضر میں ٹی وی، وی سی آر اور سی ڈی وغیرہ کو فحش کاری اور بے حیائی پھیلانے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے، قرآن کریم نے بے حیائی پھیلانے والوں کا سخت نوٹس لیا ہے،

ارشاد باری تعالیٰ ہے :

’’ یقیناً وہ لوگ جو مسلم معاشرہ میں بے حیائی پھیلانے کو پسند کرتے ہیں ان کے لیے دنیا و آخرت میں دردناک عذاب ہے، اللہ تعالیٰ سب کچھ جانتا ہے اور تم کچھ بھی نہیں جانتے ہو۔ “ (النور : 19)

مذکورہ آیت میں فاحشہ سے مراد ہر وہ کام ہے جو انسان کو شہوانی خواہش میں تحریک پیدا کرنے کا سبب ہو، آج کل فحاشی کی اشاعت بہت وسیع پیمانے پر ہو رہی ہے، اس میں تھیٹر، سینما گھر، کلب ہاؤس، ویڈیو، ٹی وی پر شہوت انگیز اور زہد شکن گانے، اس طرح فحاشی پھیلانے والا لٹریچر، ناول افسانے بسوں میں نصب وی سی آر، اخبارات و اشتہارات میں عورتوں کی عریاں تصاویر، ناچ گانے کی محفلیں اور ہوٹلوں کے پرائیویٹ کمرے فحاشی پھیلانے میں اپنا اپنا کردار ادا کر رہے ہیں ۔ اسی طرح بعض اداروں نے نوجوان لڑکیوں کو سیل مین کے طور پر ملازم رکھا ہوتا ہے تا کہ مردوں کے لئے وہ باعث کشش ہوں اور ان کے کاروبار کو فروغ حاصل ہو، الغرض سوال میں مذکور ٹی وی، وی سی آر اور فلموں کا کاروبار شرعاً ممنوع ہے کیونکہ یہ سب بے حیائی، عریانی اور فحاشی پھیلانے میں نمایاں کردار ادا کرتے ہیں ، فحاشی کی یہ تمام اقسام قابل دست اندازی پولیس ہیں ، اس طرح کا کاروبار کرنے والوں کو اپنی دوکان کرایہ پر دینا حرام کام میں تعاون کی وجہ سے ناجائز ہے قرآن کریم میں ہے نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں ایک دوسرے کا تعاون کرو، گناہ اور سرکشی کے کاموں میں ایک دوسرے کا تعاون مت کرو۔ (مائدہ : 2)

اس آیت کریمہ کے پیش نظر ٹی وی، وی سی آر اور فلموں کا کاروبار کرنے والوں کو اپنی دوکان کرایہ پر نہیں دینا چاہئے اور نہ ہی اس سلسلہ میں داڑھی مونڈھنے والے اور فوٹو گرافر کے ساتھ کوئی تعاون کرنا چاہئیے، ہمارے نزدیک بنک کو دوکان کرایہ پر دینا بھی درست نہیں ہے۔ (واللہ اعلم)

 

ماخذ: ہفت روزہ اہلحدیث شمارہ نمبر 34 جلد نمبر 9 12 شعبان تا 18 شعبان 1429 16 تا 22 اگست 2008 ء

 

 

 

ہماری مسجد کو کسی صاحب ثروت نے از سر نو تعمیر کر دیا ہے، اس کا پہلا سامان مثلاً ٹی آر اور گاڈر وغیرہ فالتو پڑے ہیں ، کیا کسی محتاج یا غریب کو دئیے جا سکتے ہیں تا کہ وہ اپنے مکان کی تعمیر میں انہیں استعمال کرے۔ کتاب و سنت کے مطابق فتویٰ درکار ہے۔ (محمد سلیمان۔ لاہور)

 

اگر مسجد ضرورت مند ہے تو انہیں فروخت کر کے مسجد کی ضروریات کو پورا کیا جائے اور اگر مسجد کو کسی قسم کی ضرورت نہیں اور وہ سامان فالتو پڑا ہے تو اسے کسی غریب ضرورت مند کو دینے میں کوئی حرج نہیں ہے تا کہ وہ اسے اپنے استعمال میں لاسکے، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر تیری قوم عہد جاہلیت یا کفر سے نئی نئی اسلام میں نہ آئی ہوتی تو میں کعبہ کا خزانہ نکال کر اسے اللہ کے راستہ میں خرچ کر دیتا۔ (صحیح مسلم، الحج : 1333)

جب کعبہ کے فاضل مال کا یہ حکم ہے تو باقی مساجد کے فالتو مال کا بالاولی یہی حکم ہے اور یہ حکم قیامت تک باقی رہے گا کہ اگر مساجد کے غیر ضروری سامان کو مساجد کے علاوہ دیگر مصارف مثلاً غرباء و مساکین میں صرف کرنے سے کسی فتنہ کا اندیشہ ہو تو اسے کسی بھی دوسرے مصرف میں خرچ نہیں کرنا چاہئیے لیکن اگر کسی قسم کا کوئی اندیشہ نہ ہو تو پھر افضل ہے کہ ایسا سامان جو فالتو ہے اور مسجد کے کسی مصرف میں استعمال نہیں ہو سکتا، اسے محتاجوں اور مصلحت کے کاموں میں صرف کر دیا جائے، اسے بلاوجہ ایک جگہ پر روکے رکھنا جائز نہیں ، بلکہ ایسا کرنا اس کے ضیاع کے مترادف ہے جس سے شریعت نے منع کیا ہے۔ (واللہ اعلم)

 

ماخذ: ہفت روزہ اہلحدیث شمارہ نمبر 33 جلد نمبر 39 5 شعبان تا 11 شعبان 1429 9 تا 15 اگست 2008 ء

 

 

بسوں اور گاڑیوں میں جوان لڑکیاں بھیک مانگتی ہیں ، ان کا طریقہ واردات یہ ہے کہ پہلے کارڈ اور ٹافیاں تقسیم کرتی ہیں پھر کارڈ اکٹھے کرتے وقت بھیک مانگتی ہیں ، کیا ان کے ساتھ تعاون کرنا جائز ہے انہیں روپیہ پیسہ دینے سے ثواب ہو گا۔ (عبدالشکور۔ قصور)

 

بسوں اور گاڑیوں میں جو جوان لڑکیاں بھیک مانگتی ہیں یہ دراصل بے حیائی اور بے غیرتی کی اشاعت کرتی ہیں ، ان کے صحت مند بھائی یا باپ یا خاوند گھر میں ہوتے ہیں اور وہ ان جوان لڑکیوں کو مانگنے کے لئے بھیج دیتے ہیں یہ ان کا پیشہ ہے بلکہ اس کی آڑ میں ناگفتہ بہ واقعات کا ارتکاب کیا جاتا ہے، ان کے ساتھ تعاون کرنا برائی اور فحش کاری کی اشاعت کرنا ہے،

حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

’’ جس نے سوال کیا حالانکہ اسے سوال کرنے کی ضرورت نہ تھی، اسے قیامت کے دن اس حالت میں اٹھایا جائے گا کہ اس کے چہرے پر خراشیں ہوں گی۔ (صحیح الترغیب نمبر : 800)

حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ جو شخص میری ایک بات قبول کرے میں اس کے لئے جنت کا ذمہ لیتا ہوں میں نے عرض کیا میں قبول کرتا ہوں ، آپ نے فرمایا : لوگوں سے کسی چیز کا سوال نہ کرنا۔

اس ارشاد نبوی کے بعد حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ کی حالت یہ تھی کہ وہ اپنی سواری پر سوار ہوتے اور ان کا کوڑا گر جاتا تو وہ کسی سے یہ نہ کہتے کہ میرا کوڑا مجھے پکڑا دو بلکہ خود سواری سے اتر کر اسے اٹھاتے۔ (مستدرک حاکم ص412 ج 1) بہرحال بسوں اور گاڑیوں میں پیشہ ور قسم کے بھکاری آتے ہیں خاص طور پر نوجوان لڑکیاں اس سوال کی آڑ میں بے حیائی پھیلاتی ہیں ، ان سے تعاون نہیں کرنا چاہئیے۔ ان سے تعاون کرنا بے حیائی کو فروغ دینا ہے لہٰذا ایک مسلمان کو اس سے اجتناب کرنا چاہئیے۔ (واللہ اعلم)

 

ماخذ: ہفت روزہ اہلحدیث شمارہ نمبر 33 جلد نمبر 39 5 شعبان تا 11 شعبان 1429 9 تا 15 اگست 2008 ء

 

 

جمعہ کے دن سورۃ کہف پڑھنے کے متعلق کوئی فضیلت حدیث میں آئی ہے ؟ نیز اسے پورا پڑھنا چاہئیے اور کس وقت پڑھا جائے، صحیح احادیث کی روشنی میں جواب دیں ۔ (عبدالحمید۔ احمد آباد)

 

جمعہ کے دن سورۃ الکہف پڑھنے کے متعلق احادیث آتی ہیں ، حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ جمعہ کے دن سورہ کہف پڑھنے والے کے لئے دو جمعوں کے درمیانی عرصہ کے لئے روشنی رہتی ہے۔ (سنن بیہقی ص249 ج 3)

امام حاکم نے بھی اسے روایت کیا ہے (مستدرک ص368 ج 2) اور اسے صحیح قرار دیا ہے، البتہ علامہ ذہنی بن حماد نے راوی کی وجہ سے اس پر اعتراض کیا گیا ہے لیکن ان پر اعتراض درست نہیں کیونکہ بیہقی میں اس کے متابعات اور شواہد موجود ہیں ، جیسا کہ علامہ البانی رحمہ اللہ نے لکھا ہے۔ (ارواء الغلیل ص93ج 3)

اس کے وقت کے متعلق کوئی حدیث تعیین میری نظر سے نہیں گزری، البتہ خالد بن معدان فرماتے ہیں کہ جو شخص جمعہ کے دن امام کی آمد سے پہلے سورہ کہف کی تلاوت کرے تو ایسا کرنا جمعہ سے آئندہ جمعہ تک کفارہ بن جاتا ہے اور اس کا نور بیت اللہ تک پہنچتا ہے۔ (مغنی ابن قدامہ ص 236 ج 3) لیکن یہ مرفوع روایت نہیں بلکہ ایک مشہور تابعی کا قول ہے۔ امام ابن تیمیہ سے سوال ہوا کہ جمعہ کے دن عصر کے بعد سورۃ کہف پڑھنے کے متعلق کوئی حدیث آئی ہے تو انہوں نے جواب دیا : جمعہ کے دن سورہ کہف پڑھنے کے متعلق کچھ آثار ملتے ہیں ۔ جنہیں محدثین اور فقہاء نے بیان کیا ہے لیکن وہ مطلق ہیں ، میری نظر میں عصر کے بعد پڑھنے کی تعیین کسی روایت میں نہیں ہے۔ (مجموع الفتاویٰ ص 515 ج 24)

 

ماخذ: ہفت روزہ اہلحدیث شمارہ نمبر 14جلد نمبر 39 20 رجب تا 26 رجب 1429 ھ 29 مارچ تا 4 اپریل 2008 ء

 

 

 

رضا ورائٹی ہاؤس لاہور کی طرف سے ایک کارڈ شائع کیا گیا ہے جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نعلین کی 6 عدد تصاویر ہیں ، کیا یہ واقعی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نعلین کی تصاویر ہیں ، ان کے نیچے کچھ فضائل درج کئے گئے ہیں ، ان کی شرعی حیثیت کیا ہے، ان تصاویر کے اوپر اور نیچے ’’ صلی اللہ علیہ وسلم “ کے الفاظ درج ہیں ، کیا یہ درود کی بے ادبی اور گستاخی نہیں ہے، کیا ایسے کارڈ پر کوئی دعوت نامہ بنوا کر تقسیم کرنا اور اس کارڈ کو عام کرنا درست ہے، ایک عالم دین نے اس کی اشاعت کا اہتمام کیا ہے اور وہ اسے کار ثواب خیال کرتے ہیں ، قرآن و حدیث کے مطابق اس کی حیثیت واضح کریں ۔ (محمد یونس حیدری۔ بیگم کوٹ لاہور)

 

امام بخاری نے اپنی صحیح میں ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے :

’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زرہ، عصا، پیالہ، انگوٹھی اور ان تمام چیزوں کا بیان جنہیں آپ کے بعد آپ کے خلفاء نے استعمال کیا لیکن ان کی تقسیم منقول نہیں ، اسی طرح آپ کے موئے مبارک، نعلین اور برتنوں کا حال ہے جن سے آپ کی وفات کے بعد صحابہ اور غیر صحابہ برکت حاصل کرتے رہے ہیں ۔ “ (کتاب فرض الخمس باب نمبر5)

اس کے بعد آپ نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث بیان کی ہے کہ انہوں نے بالوں کے بغیر چمڑے کی دو پرانی جوتیاں پیش کیں جن پر دو پٹیاں تھیں پھر فرمایا کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاپوش مبارک ہیں ۔ (صحیح بخاری، فرض الخمس : 3107)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں جوتے کی بناوٹ موجودہ دور کی ہوائی چپل سے ملتی جلتی ہے اس میں چمڑے کا ایک ٹکڑا انگلیوں کے درمیان ہوتا تھا، اس کا ایک سرا جوتی کے تلے میں اور دوسرا سرا زمام سے بندھا ہوتا تھا، اس زمام کو قبال بھی کہتے ہیں ، ایک جوتے میں دو پٹیاں (قبال) ہوتیں اور ہر قبال چمڑے کے دو تسموں پر مشتمل تھا چنانچہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جوتے کی دو پٹیاں تھیں جن کے تسمے دہرے ہوتے تھے۔ “ (ابن ماجہ، اللباس : 3614)

اس قسم کے جوتے میں پاؤں کا اکثر حصہ کھلا رہتا ہے چنانچہ احادیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم موزوں یا جرابوں پر مسح کرتے وقت اپنے پاؤں جوتوں سے نہیں نکالتے تھے بلکہ جوتوں سمیت مسح کر لیتے تھے۔ (سنن ابن ماجہ : الطہارہ : 559) بلکہ جوتے اتارے بغیر پاؤں بھی دھو لیتے تھے۔ (صحیح بخاری، الوضوء : 166)

ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ عام طور پر آپ کا جوتا ہمارے ہاں ہوائی چپل کی طرح ہوتا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی نبوت 23 سال پر محیط ہے، اس دوران آپ نے کئی جوتے استعمال کئے ہوں گے چنانچہ احادیث میں مختلف جوتوں کی تفصیل ملتی ہے لیکن جسے تاریخی حیثیت حاصل ہے وہ یہی ہے جو ہوائی چپل کی طرح تھا چنانچہ حضرت قتادہ نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نعل مبارک کیسے تھے تو انہوں نے ایک پرانا جوتا نکال کر دکھایا جس کے اوپر دو پٹیاں تھیں اور فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ جوتے ہیں ۔ (صحیح بخاری، اللباس : 5858) بعض روایات میں ہے کہ وہ گائے کے چمڑے کے تھے اور انہیں پیوند لگا ہوا تھا۔ (مسند امام احمد ص 6ج 5) ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دوران نماز اتار دیا، سلام پھیرنے کے بعد فرمایا کہ مجھے حضرت جبرئیل علیہ السلام نے دوران نماز بتایا کہ انہیں گندگی لگی ہوئی ہے لہٰذا میں نے انہیں اتار دیا۔ (مستدرک حاکم ص 260 ج 1) بہرحال یہ نعلین سیدنا انس رضی اللہ عنہ کے پاس تھیں اور انہیں بطور وراثت تقسیم نہیں کیا گیا بلکہ ان کے پاس ہی رہنے دیا گیا، حضرت انس رضی اللہ عنہ عمر کے آخری حصہ میں دمشق چلے گئے تھے وہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب پاپوش مبارک نویں ہجری کے آغاز میں فتنہ تیمور لنگ کے وقت ضائع ہو گئیں ، احادیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے وقت آپ کی ذاتی اشیاء بہت کم تعداد میں موجود تھیں ، امام بخاری نے اپنے عنوان میں جن ذاتی اشیاء کا ذکر کیا ہے وہ یہ ہیں زرہ، عصا، تلوار، پیالہ، انگوٹھی، موئے مبارک، نعلین اور چند ایک برتن، پھر جو احادیث اس عنوان کے تحت ذکر کی ہیں ان میں صرف پانچ چیزوں کا ذکر ہے پہلی میں انگوٹھی، دوسری میں نعلین، تیسری میں چادر چوتھی میں پیالہ پانچویں میں تلوار، باقی اشیاء یعنی زرہ، موئے مبارک، چھڑی اور عصا کے متعلق دوسرے مقامات پر احادیث ذکر کی ہیں ، ہمارے نزدیک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام استعمال کردہ ذاتی اشیاء اور آثار شریفہ بابرکت ہیں اور ان سے برکت حاصل کرنا شرعاً جائز ہے

لیکن اس تبرک کے لئے دو شرائط ہیں :

1 تبرک لینے والا شرعی عقیدہ اور اچھے کردار کا حامل ہو، جو شخص عمل اور عقیدہ کے اعتبار سے اچھا مسلمان نہیں اسے اللہ تعالیٰ اس قسم کے تبرکات سے کوئی فائدہ نہیں پہنچائیں گے۔

2 جو شخص تبرک حاصل کرنا چاہتا ہو اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حقیقی آثار میں سے کوئی شئی حاصل ہو اور پھر وہ اسے استعمال بھی کرے محض دیکھ لینے سے کچھ فائدہ نہیں ہو گا، لیکن ہم یہ بات بھی علی وجہ البصیرت کہتے ہیں کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ آپ کے آثار شریفہ اور تبرکات معدوم ہو گئے یا جنگوں اور فتنوں کی نذر ہو کر ضائع ہو گئے جیسا کہ درج ذیل واقعات سے معلوم ہوتا ہے۔

(الف) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چاندی کی ایک انگوٹھی بنوا رکھی تھی جسے آپ پہننے تھے، آپ کی وفات کے بعد حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اسے استعمال کیا، ان کے بعد حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس رہی بالآخر بئر اریس میں گر گئی اور تلاش بسیار کے باوجود وہ نہ مل سکی۔ (صحیح بخاری، اللباس : 5879)

(ب) عباسی دور کے آخر میں جب تاتاریوں نے بغداد پر حملہ کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رداء مبارک اور چھڑی جس سے آپ کھجلی کیا کرتے تھے، ہنگاموں میں ضائع ہو گئیں ، یہ سن 656 کے واقعات ہیں ۔

(ج) دمشق میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب پاپوش مبارک بھی نویں ہجری کے آغاز میں فتنہ تیمور لنگ کے وقت ضائع ہو گئی جیسا کہ ہم نے پہلے ذکر کیا ہے۔

(د) آپ کے آثار شریفہ کے فقدان کی ایک وجہ یہ تھی کہ جس خوش قسمت انسان کے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی نشانی تھی اس نے وصیت کر دی کہ اسے قبر میں اس کے ساتھ ہی دفن کر دیا جائے چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ایک عورت نے اپنے ہاتھ سے چادر تیار کی اور آپ کو بطور تحفہ پیش کی۔ آپ نے اسے قبول کرتے ہوئے زیب تن فرمایا، لیکن حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے اس خواہش کے پیش نظر کہ وہ آپ کا کفن ہو، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے وہ چادر مانگ لی۔ بالآخر وہ چادر ان کا کفن بنی۔ (صحیح بخاری، الجنائز : 1277) اس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک قمیص رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی کو پہنایا گیا، اسے بھی بطور کفن قبر میں دفن کر دیا گیا۔ (صحیح بخاری، الجنائز : 1270)

حضرت امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے پاس چند موئے مبارک تھے، آپ نے ان کے متعلق وصیت کر دی تھی کہ انہیں قبر میں ان کے ساتھ ہی دفن کر دیا جائے چنانچہ ایسا ہی کیا گیا۔ (سیر ا¿علام النبلاء ص 337 ج11) ان حقائق کے پیش نظر ہم کہتے ہیں کہ اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کپڑوں ، بالوں اور نعلین میں سے کچھ باقی نہیں ہے اور نہ ہی کسی کے بس میں ہے کہ وہ قطعی اور یقینی طور پر یہ ثابت کر سکے کہ فلاں چیز واقعی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی استعمال کردہ ہے پھر جب صورت حال یہ ہے تو ہمیں بتایا جائے کہ دور حاضر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نعلین کی تصاویر کہاں سے برآمد کی گئی ہیں ، یقیناً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام استعمال کردہ ذاتی اشیاء بابرکت ہیں اور ان سے برکت حاصل کرنا بہت بڑی خوش قسمتی اور باعث عزت ہے لیکن ان اشیاء کی تصاویر کو اس مقصد کے لئے استعمال کرنا خلاف شرع ہے چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ ایک مخصوص مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے کچھ لوگ اکثر دوکانوں اور بسوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نعلین کی تصاویر کے کارڈ لئے پھرتے ہیں اور ان کی اشاعت باعث برکت خیال کرتے ہیں ، پھر ان تصاویر کو اپنے سینہ اور پگڑی پر آویزاں کرتے ہیں ، ان تصاویر کے متعلق لوگوں کو بتایا جاتا ہے کہ اسے گھر، دوکان یا دفتر میں رکھنے سے ہر قسم کی مصیبت اور بلا ٹل جاتی ہے، تنگ دست کی تنگ دستی اور ضرورت مند کی ضرورت پوری ہو جاتی ہے۔ یہ سب جذباتی باتیں خلاف شریعت ہیں ، تصویر سے اگر اصل چیز کا مقصد حاصل ہو سکتا ہے تو پھر گھر میں بیت اللہ کی تصویر رکھ کر اس کا طواف کیا جا سکتا ہے اور وہاں نماز پڑھ کر ایک لاکھ نماز کا ثواب بھی لیا جا سکتا ہے، حجر اسود کی تصویر رکھ کر اس کا بوسہ لیا جائے تا کہ مکہ مکرمہ جانے کی ضرورت ہی نہ رہے، ہمیں سوال کے ہمراہ جو کارڈ موصول ہوا ہے اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نعلین مبارکین کے چھ عدد تصاویر ہیں ، اس کا عنوان یہ ہے۔ ’’ نقش نعلین مبارک سلطان دوجہاں صلی اللہ علیہ وسلم۔ “

پھر اس نقش نعل کے متعلق لکھا ہے کہ اسے اپنے پاس رکھنے والے کو مندرجہ ذیل برکات حاصل ہوں گی۔

1 سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت نصیب ہو گی۔

2 اس کو اپنے پاس رکھنے سے شیطان کے شر سے حفاظت ہو گی۔

3 اس کو آنکھوں پر رکھنے سے امراض چشم سے نجات حاصل ہو گی۔

4 گنبد خضراء کی حاضری نصیب ہو گی۔

5 اس کو اپنے پاس رکھنے سے ظالموں کے ظلم سے نجات حاصل ہو گی۔

6 اس کے واسطہ سے دعا مانگی جائے تو پوری ہو گی۔

7 ہر قسم کے جادو ٹونے سے حفاظت ہو گی۔

8 اس کو اپنے پاس رکھنے سے ہرحاسد کے حسد و نظر بد سے حفاظت ہو گی۔

9 جس کشتی میں ہو وہ نہ ڈوبے اور جس گھر میں ہو چوری سے محفوظ ہے۔

نوٹ : یہ فضائل اس صورت میں حاصل ہوں گے جب نیت درست اور یقین کامل ہو۔

ہمارے نزدیک نقش نعلین کے مذکورہ فضائل و مناقب خودساختہ اور بناوٹی ہیں ، احادیث میں ان کا کوئی سراغ نہیں ملتا، حضرت انس رضی اللہ عنہ جو نعلین کے نگران تھے، ان سے کچھ بھی منقول نہیں ہے، بلکہ ہمارے نزدیک یہ تمام نقش ہی جعلی اور بناوٹی ہیں ، خاص طور پر درمیان میں بڑا جوتا جو دور حاضر کی سوفٹی کی شکل پر تیار کیا گیا ہے، اس کے بناوٹی ہونے میں تو کوئی شک و شبہ نہیں ہے۔ بہرحال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاپوش کی تصویر بنانے میں چنداں حرج نہیں ، اگر کوئی محبت کے پیش نظر ایسا کرتا ہے تو اس کی گنجائش ہے بشرطیکہ پاپوش کی اصلیت اور حقیقت سے واقف ہو، لیکن اس نقش سے برکت حاصل کرنا اور اسے باعث فضیلت قرار دینا کسی صورت میں بھی صحیح نہیں ہے جیسا کہ ہم پہلے وضاحت کر آئے ہیں البتہ اصلی پاپوش مبارک اگر کہیں موجود ہے تو اس میں خیر و برکت کا پہلو بدرجہ اتم موجود ہے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس میں کوئی کمی نہیں آسکتی جیسا کہ حضرت امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے موئے مبارک تھے جو انہیں فضل بن ربیع کے کسی لڑکے نے عنایت فرمائے تھے۔ آپ ان بالوں کو بوسہ دیتے، آنکھوں پر لگاتے اور پانی میں بھگو کر شفا کے طور پر اس پانی کو نوش کرتے، جن دنوں آپ پر آزمائش آئی اس وقت وہ آپ کی آستین میں رکھے ہوتے تھے، بعض لوگوں نے آپ کی آستین سے موئے مبارک نکالنے کی کوشش بھی کی لیکن وہ ناکام رہے۔ (سیر اعلام النبلاء ص250ج11)

آخر میں ہم اس امر کی وضاحت کرنا ضروری خیال کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام نے اگرچہ صلح حدیبیہ کے موقع پر آپ کے آثار شریفہ سے تبرک حاصل کیا اور آپ کے لعاب دھن کو اپنے چہروں اور جسموں پر ملا۔ آپ نے انہیں منع نہیں فرمایا ایسا کرنا جنگی حالات کے پیش نظر انتہائی ضروری تھا مقصد یہ تھا کہ کفار قریش کو ڈرایا جائے اور ان کے سامنے اس بات کا اظہار کیا جائے کہ مسلمانوں کا اپنے رہبر و راہنما سے تعلق کس قدر مضبوط ہے، انہیں اپنے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کس قدر والہانہ عقیدت و محبت ہے وہ آپ کی خدمت میں کس قدر فنا ہیں اور وہ کس کس انداز سے آپ کی تعظیم بجا لاتے ہیں ۔ لیکن اس کے باوجود اس حقیقت سے صرف نظر نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی اسے چھپایا جا سکتا ہے کہ اس صلح حدیبیہ کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑے حکیمانہ انداز میں اور لطیف اسلوب کے ساتھ مسلمانوں کی توجہ اعمال صالحہ کی طرف مبذول کرنے کی کوشش فرمائی جو اس قسم کے تبرکات کو اختیار کرنے سے کہیں بہتر ہیں ، مندرجہ ذیل حدیث اس سلسلہ میں ہماری مکمل راہنمائی کرتی ہے۔

ابوقراء سلمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن وضو فرمایا آپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے آپ کے وضو کے پانی کو اپنے جسموں پر ملنا شروع کر دیا، آپ نے دریافت فرمایا کہ تم ایسا کیوں کرتے ہو، صحابہ کرام نے عرض کیا کہ ہم اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کے پیش نظر ایسا کرتے ہیں ، آپ نے فرمایا جسے یہ بات پسند ہو کہ وہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرے یا اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس سے محبت کرے تو اسے چاہئے کہ بات کرتے ہوئے سچ بولے، اس کے پاس امانت رکھی جائے تو وہ اسے ادا کرے اور اپنے پڑوسیوں سے حسن سلوک کا مظاہرہ کرے۔ (الاحادیث الصحیحہ : رقم 2998)

مختصر یہ کہ ہمارے نزدیک رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا اصل تبرک یہ ہے کہ جو کچھ ہمیں آپ کے ذریعے اللہ کی طرف سے ملا ہے اس پر عمل کیا جائے اور آپ کی صورت و سیرت کی اتباع کی جائے تو اس دنیا و آخرت کی خیر و برکات سے ہم مشرف ہوں گے،

اب ہم سوالات کے مختصر جوابات دیتے ہیں ۔

1 کارڈ پر شائع کردہ تصاویر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پاپوش مبارک کی نہیں ہیں اور نہ ہی ان سے برکت حاصل کرنا جائز ہے۔

2 اس میں جو فضائل و مناقب درج کئے گئے ہیں وہ حدیث کی کسی کتاب میں موجود نہیں ہیں ، بلکہ یہ خود ساختہ ہیں ، ان سے عقیدہ کی خرابی لازم آتی ہے۔

3 تصاویر کے اوپر نیچے صلی اللہ علیہ وسلم نہیں لکھا گیا بلکہ ’’ سلطان دوجہاں “ کے ساتھ صلی اللہ علیہ وسلم لکھا گیا ہے، کوئی بھی صاحب شعور جوتوں کے اوپر یا نیچے صلی اللہ علیہ وسلم کی جسارت نہیں کر سکتا۔

4 ایسے کارڈ پر دعوت نامہ بنا کر تقسیم کرنا درست نہیں ہے اور نہ ہی اسے عام کرنا جائز ہے کیونکہ ایسا کرنے سے بدعات کی اشاعت ہوتی ہے۔

5 جس عالم دین نے ثواب سمجھ کر اس کی اشاعت کی ہے، اس کا یہ اقدام انتہائی محل نظر ہے۔ واللہ اعلم

 

ماخذ: ہفت روزہ اہلحدیث شمارہ نمبر 31 جلد نمبر 39 21 رجب تا 27 رجب 1429 ھ 26 جولائی تا 1 اگست 2008 ء

 

 

آج کل تجارتی بازاروں میں صورت حال یہ ہوتی ہے کہ عورتیں عریاں قسم کا لباس پہنے ہوئے ہوتی ہیں ، وہاں مرد و زن کا اختلاط بھی ہوتا ہے، اس قسم کے بازار میں جانے کا کیا حکم ہے۔

 

اس قسم کے بازار میں ضرورت کے بغیر جانا درست نہیں ہے، ویسے بھی بازار کا شور و شغب ایک مسلمان کے لئے موزوں نہیں ، بالخصوص جب وہاں اس قسم کی صورت حال سے دوچار ہونا پڑے جو سوال میں ذکر کی گئی ہے، تاہم اگر سخت ضرورت کے پیش نظر وہاں جانا ناگزیر ہو تو درج ذیل امور کو پیش نظر رکھنا چاہئیے۔

1 نیکی کا حکم دے اور برائی سے منع کرے، مسلمان کے لئے یہ ایک مذہبی فریضہ ہے۔

2 نظریں جھکاتے ہوئے اور اسباب فتنہ سے بچتے ہوئے وہاں جائے۔

3 اپنے دین اور عزت کی حفاظت کی حرص لے کر اور شر کے وسائل سے دور رہتے ہوئے وہاں جائے اگر اس میں طاقت ہو تو اس قسم کے بازار میں برائی سے روکنے کے لئے جانا باعث اجر و ثواب ہے۔

اللہ تعالیٰ اس امت کے متعلق فرماتا ہے۔ ’’ تم میں سے ایک جماعت ایسی ضرور ہونی چاہئیے جو خیر و بھلائی کی طرف لوگوں کو دعوت دے، نیکی کی تلقین کرے اور برے کاموں سے روکے، یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں ۔ “ (آل عمران : 104) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے۔

جب لوگ برائی دیکھنے کے بعد اسے نہیں روکیں گے تو قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی سزا میں انہیں بھی شامل کر لے۔ (ابن ماجہ، الفتن : 4005) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا ہے کہ تم میں سے جو کوئی برائی دیکھے تو اسے اپنے ہاتھ سے روکے اگر اس کی طاقت نہ ہو تو اپنی زبان سے اس کی برائی بیان کرے اور اگر اس کی بھی طاقت نہ ہو تو اپنے دل میں ہی اسے برا خیال کرے اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے۔ (ابن ماجہ، الفتن : 4013) ان آیات و احادیث کے پیش نظر ایک مسلمان کسی سخت ضرورت کے پیش نظر بازار میں جا سکتا ہے البتہ اسے درج بالا آداب کو ضرور ملحوظ رکھنا ہو گا۔ (واللہ اعلم)

 

ماخذ: ہفت روزہ اہلحدیث شمارہ نمبر 29 جلد نمبر 39 07 رجب تا 13 رجب 1429 ھ 12 جولائی تا 18 جولائی 2008 ء

 

 

 

آج کل جانوروں کی پیوند کاری کی جاتی ہے، جس طرح گھوڑے کی ایک نسل کی دوسری نسل کے اختلاط سے خچر تخلیق کی گئی ہے، اس طرح ایک بھیانک اور ناپاک درندے خنزیر کے اختلاط سے گائے کی ایک نسل پیدا کی گئی ہے جو مسلمانوں کے گھروں میں بس رکھی گئی ہے، چونکہ مذکورہ گائے دودھ بہت دیتی ہے، اس لئے عوام الناس میں کافی مقبول ہو رہی ہے، کیا یہ حقیقت پر مبنی ہے اگر صحیح ہے تو کیا اس طرح کے جانور کا دودھ اور گوشت حلال ہے۔ کتاب و سنت کی روشنی میں جواب دیں ۔ (نعمت اللہ ظفر۔ مرکز اہل حدیث 106 راوی روڈ لاہور)

 

اگرچہ اس سوال کا تعلق جدید سائنس سے ہے، کتاب و سنت سے نہیں ، ہمارے ہاں یہ المیہ ہے کہ جو حضرات کتاب و سنت کے حاملین ہیں وہ جدید سائنس سے بے بہرہ اور ماہرین سائنس کتاب و سنت سے عاری ہوتے ہیں ، راقم الحروف بھی قرآن و حدیث کا طالب علم ہے۔ جدید سائنس کے متعلق معمولی سی معلومات رکھتا ہے تاہم اس سوال کے حوالہ سے میں نے محکمہ لائیو سٹاک کے عملہ سے رابطہ کیا۔ ماہرین سائنس سے بھی معلومات حاصل کی ہیں ، ان معلومات کو قرآن و حدیث کی روشنی میں قارئین کی نذر کیا جا رہا ہے۔ قرآن کریم کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ کائنات کی ہر چیز کو جوڑا جوڑا پیدا کیا گیا ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے : اور ہر چیز کے ہم نے جوڑے پیدا کر دئیے ہیں شاید تم سبق حاصل کرو۔ (الذاریات : 49)

اس آیت کے کئی ایک مفہوم بیان کیے جاتے ہیں ، ہمارے رجحان کے مطابق درج ذیل مفہوم قرین قیاس ہے۔ زوجین سے مراد نر اور مادہ ہے، ہر نر مادہ کا زوج ہے اور ہر مادہ نر کا زوج ہے، جانداروں میں ایک دوسرے کا زوج تو سب کے مشاہدہ میں آ چکا ہے، نباتات میں بس یہ سلسلہ قائم ہے، بار بردار ہوائیں نر درختوں کا تخم مادہ درختوں پر ڈال دیتی ہیں تو انہیں پھل لگتا ہے، جس علاقے میں کھجوریں زیادہ ہوتی ہیں وہاں کے باشندے خود نر کھجوروں کا تخم مادہ کھجوروں پر ڈال دیتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ طیبہ تشریف کے موقع پر اہل مدینہ کھجوروں پر یہی عمل کرتے تھے، جس سے آپ نے منع فرمایا تو اگلے سال پھل بہت کم ہوا۔ اس کے بعد آپ نے اس کی اجازت دے دی، شرعی اصطلاح میں اس عمل کو ’’ تابیر نحل “ کہا جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ کسی مقام پر تن تنہا درخت پھل نہیں لاتا۔

جدید تحقیق کے مطابق یہ سلسلہ جمادات میں بھی پایا جاتا ہے۔ بجلی کا نیوٹرل اور فیس ہونا، ایک حقیر ذرہ میں الیکٹرون اور پروٹون کا مثبت اور منفی ہونا انسان کے علم میں آ چکا ہے۔ جمادات تو کیا کائنات کی ہر چیز ذرات ہی کا مجموعہ ہوتی ہے، اس نر و مادہ سے اللہ تعالیٰ نے یہ سلسلہ چلایا کہ ان دونوں نر و مادہ کے ملاپ سے ایک تیسری چیز وجود میں آتی ہے جس میں اصل نر و مادہ کے خواص موجود ہوتے ہیں ۔ اسے سائنسی اصطلاح میں اس طرح تعبیر کیا جا سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کائنات کی ہر جاندار نسل باقی رکھنے اور اس سلسلہ کو آگے بڑھانے کا ایک نظام رکھا ہے، اس نے ہر جاندار میں جرثومے پیدا کئے ہیں جنہیں کروموسوم کہا جاتا ہے پھر ہر جنس میں کروموسوم کی تعداد، شکل و صورت اور ان کی ترتیب مختلف ہے مثلاً انسان کے اندر چھیالیس کروموسوم ہیں جن کے تیس جوڑے بنتے ہیں ، جنس ملاپ کی صورت میں بائیس جوڑے جسم کی نشوونما کے لئے اور تیئسواں جوڑا افزائش نسل کے لئے ہوتا ہے،

قرآن کریم نے نطفہ امثاج سے انسان کو آگے چلایا ہے، اگر ان کی تعداد، شکل و صورت اور ترتیب میں فرق ہو جائے تو کوئی چیز پیدا نہیں ہوتی، اگر پیدا ہو جائے تو وہ افزائش نسل کے قابل نہیں ہوتی، ہمارے ہاں اس کی مثال گدھے اور گھوڑی کے ملاپ سے خچر پیدا کرنا ہے اگرچہ شریعت نے اس سے منع کیا ہے تاہم فوجی حضرات اپنی ضرورت کے لئے مصنوعی بار آوری کے ذریعے خچر کو پیدا کرتے ہیں ، یہ خچر خود آگے افزائش نسل کے قابل نہیں ہوتا خواہ نر یا مادہ، اس کی پیدائش صرف اس کی ذات تک محدود رہتی ہے۔ اس کی آگے نسل نہیں چلتی ہے، اس وضاحت کے بعد ہم صورت مسؤلہ کا جائزہ لیتے ہیں کہ سائنسی اعتبار سے یہ ناممکن ہے کہ خنزیر اور گائے کے ملاپ سے کوئی نسل پیدا کی جائے جس میں گائے کی خصوصیات ہوں اور دودھ دینے کے اعتبار سے وہ خنزیر کی خصوصیات کی حامل ہو۔ موجودہ آسٹریلین گائے مستقل ایک جنس ہے جس کی آگے نسل چلتی ہے، ان میں نر و مادہ دونوں جوڑے ہوتے ہیں ، جب پاکستان میں اس نسل کی پہلی کھیپ آئی تو بلوچستان کے ٹھنڈے علاقہ میں رکھا گیا۔ اس کھیپ میں نر اور مادہ دونوں قسم کے جانور تھے، ان کے ملاپ سے آگے نسل بھی چلائی گئی،

میں نے اس سلسلہ میں اس وقت کے محکمہ لائیو سٹاک کے ڈائریکٹر سے ملاقات کی، اگر یہ گائے خنزیر کے ملاپ سے پیدا ہوئی ہوتی تو اس کی نسل آگے نہ چلتی جیسے خچر کی نسل آگے نہیں چلتی ہے، دودھ زیادہ دینے کی اور کئی وجوہات ہو سکتی ہیں ، اس سلسلہ میں غذائیں اور چارہ بھی کافی معاون ثابت ہوتا ہے میں نے رینالہ فارم میں ایسی گائیں خود دیکھی ہیں جن کے پیٹ میں ایک پیچدار پائپ لگا ہے جو ان کے معدے تک پہنچتا ہے۔ انہیں چارہ کھلانے کے بعد پائپ کھول کر پتہ کیا جاتا ہے کہ یہ چارہ کتنی مدت میں ہضم ہوتا ہے پھر زود ہضم چارے کا انتخاب کر کے دودھ زیادہ حاصل کیا جاتا ہے چارے کے علاوہ دیگر غذائی مواد بھی انہیں کھلایا جاتا ہے تا کہ وہ زیادہ دودھ دیں ، بہرحال اس مفروضے کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے کہ یہ نسل گائے اور خنزیر کے ملاپ سے پیدا کی گئی ہے واقعاتی اعتبار سے ایسا ہونا اس لئے بھی ناممکن ہے کہ گائے کے کروموسوم ساٹھ اور خنزیر کے صرف اڑتیس ہوتے ہیں ، ان دونوں کی تعداد میں بائیس کروموسوم کا فرق ہے پھر ان کی شکل و صورت میں واضح فرق ہے کہ مادہ خنزیر کے سولہ تھن ہوتے ہیں جبکہ گائے کے صرف چار تھن ہیں ۔ خصوصیات کے اعتبار سے بھی فرق ہے کہ خنزیر انتہائی بے حیا جانور ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے اسے حرام کیا ہے پھر جن ممالک میں اس کا گوشت کھایا جاتا ہے وہ انتہائی بے حیا اور بے شرم ہیں ، اگر ایسا ممکن ہوتا تو اللہ تعالیٰ حضرت نوح علیہ السلام کو یہ حکم نہ دیتا کہ تم ہر جنس کا ایک ایک جوڑا کشتی میں سوار کر لو، صرف ایک ایک جانور ہی کافی تھا پھر ان کے باہمی ملاپ سے آگے نسل چلائی جا سکتی تھی لیکن اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح علیہ السلام کو حکم دیا۔ ’’ ہم نے نوح سے کہا کہ اس کشتی میں ہر قسم کے جانوروں کا ایک ایک جوڑا نر مادہ رکھ لو۔ “ (ھود : 40)

بہرحال خنزیر ایک الگ جنس ہے اور گائے ایک دوسری جنس ہے، ان کا باہمی ملاپ ناممکن تو نہیں البتہ اس سے کسی جنس کا پیدا ہونا ناممکن ہے، یورپ میں فرنگی تہذیب سے وابستہ خواتین کتوں سے بدکاری کراتی ہیں لیکن کبھی اسکے نتیجہ میں کوئی جنس پیدا ہوئی ہے، اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے، مجھے اس حوالہ سے اپنے فقہاء کرام سے شکوہ ہے کہ انہوں نے اس سلسلہ میں فرضی صورتیں بیان کر کے دوسروں کو پریشان کیا ہے، صرف ایک مفروضہ ملاحظہ فرمائیں ۔

اگر بکری اور کتے کے ملاپ سے ایسا بچہ پیدا ہو جس کا سر کتے جیسا اور باقی دھڑ بکرے کا ہو تو اس کے حلال و حرام ہونے کے متعلق فقہاء احناف نے حسب ذیل وضاحت کی ہے۔

اس کے سامنے گوشت اور چارہ ڈالا جائے، اگر وہ گوشت کھائے تو اس کا گوشت حرام ہے کیونکہ بنیاد طور پر وہ کتا ہے اگر وہ چارہ کھائے تو ذبح کرنے کے بعد اس کا سر کاٹ کر پھینک دیا جائے اور باقی گوشت استعمال کر لیا جائے کیونکہ وہ بنیادی طور پر بکرا ہے اور اگر وہ چارہ اور گوشت دونوں کھا جائے تو پھر اسے مارا جائے اگر بھونکتا ہے تو اس کا گوشت استعمال کے قابل نہیں کیونکہ وہ کتا ہے اور اگر وہ بکری کی طرح ممیاتا ہے تو ذبح کر کے اس کا سر پھینک دیا جائے اور باقی حصہ کھا لیا جائے کیونکہ وہ بنیادی طور پر بکرا ہے۔ اگر مارنے سے دونوں قسم کی آوازیں برآمد ہوں تو اس کا پیٹ چاک کیا جائے اگر اس سے اوجھڑی نکلے تو اس کا سر کاٹ کر پھینک دیا جائے اور باقی حصہ قابل استعمال ہے اور اگر اوجھڑی کے بجائے صرف انتڑیاں ہی برآمد ہوں تو وہ کتا ہے اور اسے استعمال نہ کیا جائے۔ (فتاویٰ قاضی خاں برحاشیہ عالمگیری ص 387 ج 3)

ہم اس فتویٰ پر اپنی طرف سے کوئی تبصرہ نہیں کرنا چاہتے، صرف اتنا کہنے کا حق رکھتے ہیں کہ دنیا میں کبھی ایسا ہوا ہے کیا ایسا ہونا عادتاً ممکن ہے، کیا اس سائنسی دور میں اس قسم کے مفروضوں سے اسلام اور اہل اسلام کے متعلق لوگ کیا کہیں گے ؟ دراصل اس قسم کے بیسیوں مسائل ایسے ہیں جنہوں نے اسلامی شریعت کو اغیار کی نظر میں بدنام کر ڈالا ہے۔ سوال میں ذکر کردہ صورت بھی اس قسم کی معلوم ہوتی ہے۔ ممکن ہے کہ کسی نے مذکورہ فتویٰ پڑھ کر گائے اور خنزیر کے ملاپ کا افسانہ تراش لیا ہو۔ ہمارے ہاں بکریوں کی ایک قسم ہرن سے ملتی جلتی ہے، اس کے سینگ، سر، منہ اور آنکھیں بالکل ہرن جیسی ہوتی ہیں ، اس کے متعلق بھی بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ جنس بکری ہرن کے ملاپ کا نتیجہ ہے، اس طرح برائلر مرغی کے متعلق مشہور ہے کہ اس کی پیدائش باپ کے بغیر ہوتی ہے لہٰذا اس کا گوشت جائز نہیں ہے، یہ بھی محض ایک مفروضہ ہے، جہاں مرغی فارم ہیں وہاں مرغ بھی رکھے ہوتے ہیں ، وہ مرغیاں جو انڈے دیتی ہیں ان کے بچے نکالے جاتے ہیں لیکن وہ بچے مشینی ہوتے ہیں اگرچہ وہ اکیس دن کے بعد ہی نکلتے ہیں تاہم وہ مرغیوں کے محتاج نہیں ہوتے۔

ان بچوں کو ایک خاص طریقہ سے نر اور مادہ کی چھانٹی کی جاتی ہے جو مرغ ہوتے ہیں انہیں برائلر کے طور پر مارکیٹ میں لایا جاتا ہے اور مرغیوں کو انڈوں کے لئے رکھا جاتا ہے، ان سے کیمیاوی غذا کھلا کر انڈے حاصل کئے جاتے ہیں ، ان انڈوں سے بچے نہیں نکلتے کیونکہ یہ انڈے صرف غذا سے حاصل کئے جاتے ہیں ، ان میں مرغ کا کوئی حصہ نہیں ہوتا، جو مرغی انڈے دے دے کر تھک جائے پھر انڈے نہ دے اور غذا زیادہ کھائے اسے لیر کے نام سے مارکیٹ میں لایا جاتا ہے، اس کا گوشت برائلر کے مقابلہ میں سستا ہے، بہرحال برائلر گوشت کے استعمال میں شرعاً کوئی قباحت نہیں ہے، اگر کسی کا دل نہ کرے تو یہ ایک الگ مسئلہ ہے۔ بہرحال صورت مسؤلہ کے متعلق ہمارا موقف یہ ہے کہ آسٹریلین گائے جو دودھ بہت دیتی ہے، اس میں خنزیر کا کوئی حصہ نہیں ہے، اور نہ ہی خنزیر کے ملاپ سے یہ پیدا ہوئی ہے اور ایسا ہونا ممکن نہیں ہے جب کہ ہم نے واضح کہا ہے، جنس کو آگے چلانے کے لئے کروموسوم کی تعداد، شکل و صورت اور ان کی ترتیب میں یکسانیت ہونا ضروری ہے، گائے اور خنزیر میں ایسا ہونا ناممکن ہے، اس سلسلہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کچھ روایات بھی ہیں جو آپ نے حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ کے ایک سوال کے جواب میں ارشاد فرمائی تھیں ، جنہیں ہم نے شرح بخاری میں تفصیل سے بیان کیا ہے جو آج کل آخری مراحل میں ہے، قارئین کرام سے اپیل ہے کہ وہ اس کی تکمیل کے لئے ضرور دعا کریں اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔

 

ماخذ: ہفت روزہ اہلحدیث شمارہ نمبر 27 جلد نمبر 23 تا 29 جمادی الثانی 1429 ھ 28 جون تا 04 جولائی 2008 ء

 

 

ایک حدیث میں ہے کہ تقدیر کو بندے کی دعا رد کر سکتی ہے اور نیکی کرنے سے عمر میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ جبکہ مشہور بات ہے کہ اللہ کی تقدیر اٹل ہے اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہو سکتی۔ (ابوعمران۔ لاہور)

 

ہماری یہ عادت ہے کہ ہم ہر اچھے برے کام کے لئے بھرپور کوشش کرتے ہیں ، جب ہم کامیاب نہیں ہوتے تو اسے تقدیر کے کھاتہ میں ڈال دیا جاتا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ دنیا میں ہر چیز کا وقوع اسباب و ذرائع سے متعلق ہے جیسا کہ بیج کے لئے طے شدہ امر ہے کہ اس نے اگنا ہوتا ہے لیکن اس کے لئے اسباب مہیا کرنا ہوں گے کہ اسے زمین میں کاشت کیا جائے۔ اسے پانی بھی دیا جائے گا اور اس کے علاوہ اس کی نگرانی بھی کی جائے گی، اسباب و وسائل کو بروئے کار لانے کے بعد اس سے مقدر چیز حاصل ہو گی جبکہ سوال میں ذکر کردہ حدیث بھی اسی مفہوم کی تائید کرتی ہے کہ نیکی اور حسن سلوک عمر میں اضافہ کا باعث ہے اور دعا تقدیر کو رد کر دیتی ہے اور انسان گناہ کرنے کی بناء پر رزق سے محروم کر دیا جاتا ہے۔ (مسند امام احمد ص 277 ج 5)

اس کا مطلب یہ ہے کہ نیکی اور حسن سلوک عمر میں اضافہ کرنے کا سبب ہے۔ جب سبب حاصل ہو گا تو سبب بھی موجود ہو گا، باقی رہا یہ اعتراض کہ دعا تقدیر کو کیسے رد کر سکتی ہے تو گزارش ہے کہ بیماری کا آنا بھی اللہ کی تقدیر ہے اور دعا کرنا بھی اللہ کی تقدیر ہے کہ اس کے ذریعے اللہ تعالیٰ مرض کو دور کرتا ہے دنیا میں ہر چیز اللہ کی تقدیر سے متعلق ہے اور اللہ تعالیٰ اس نوشتہ تقدیر میں کمی بیشی کرنے پر قادر ہے وہ اسے لکھنے کے بعد بے بس اور عاجز نہیں ہو گیا:

ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’ اللہ جو چاہے مٹا دے اور جو چاہے ثابت رکھے، لوح محفوظ اسی کے پاس ہے۔ “ (الرعد:39)

بہرحال اللہ تعالیٰ اسباب و ذرائع اختیار کرنے سے تقدیر میں رد و بدل کرنے پر قادر ہے۔ حسن سلوک کرنے سے عمر میں برکت ہوتی ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کی عمر میں عملاً اضافہ ہو جاتا ہے یا اس کی عمر تو اتنی ہی رہتی ہے لیکن اس میں اللہ کی طرف برکت آ جاتی ہے کہ جو کام اس نے ایک سال میں کرنا ہوتا ہے وہ عمر میں برکت پڑنے کے بعد ایک ماہ میں ہو جاتا ہے۔ بہرحال تقدیر کا موضوع ایسا سمندر ہے جس کی گہرائی کوئی بندہ بشر معلوم نہیں کر سکا اس لئے اس سے پرہیز اور خاموشی اختیار کرنا چاہیے۔ (واللہ اعلم)

 

ماخذ: ہفت روزہ اہلحدیث شمارہ نمبر 9جلد نمبر 39 15 تا 21 صفر 1429 ھ 23 فروری تا 29 فروری 2008 ء

 

 

ایک لڑکی نے کسی عورت کا دودھ پیا، پھر اس لڑکی کے باپ نے اس سے نکاح کر لیا، کیا لڑکی کا بھائی، اس عورت کی لڑکی سے نکاح کر سکتا ہے جو اس کے سابقہ خاوند سے ہے۔ (ام عمر۔ ملتان)

 

جواب دودھ پینے والی لڑکی کے لئے عورت کے تمام رشتہ دار نسبی رشتوں کی طرح ہو جاتے ہیں یعنی عورت کا خاوند، اس کا باپ، خاوند کے بھائی اس کے چچا اور اس کی اولاد لڑکی کے بہن بھائی بن جاتے ہیں ، جیسا کہ حدیث میں ہے رسول اللہ نے فرمایا: ’’ رضاعت سے وہ تمام رشتے حرام ہو جاتے ہیں جو نسب کی وجہ سے حرام ہوتے ہیں ۔ “ (صحیح بخاری، النکاح: 2644)

یہ حرمت کا سلسلہ دودھ پینے والے بچے یا بچی کے لئے ہے۔ اس کے بہن بھائیوں کے ساتھ یہ سلسلہ قائم نہیں ہو گا۔ یعنی دودھ پینے والے بچے کے لئے وہ عورت ماں کے درجہ میں ہو گی جس کا بچے نے دودھ پیا ہے، اس بچے کے باقی بہن بھائی جنہوں نے اس کا دودھ نہیں پیا ہے ان کا اس سے کوئی رشتہ دودھ کی وجہ سے قائم نہیں ہو گا، چنانچہ ایک حدیث میں ہے کہ عقبہ بن حارث رضی اللہ عنہ نے ام یحییٰ بنت ابی اھاب رضی اللہ عنہا سے نکاح کر لیا تو ایک دوسری عورت نے شہادت دی کہ میں نے تم دونوں کو دودھ پلایا ہے، حضرت عقبہ رضی اللہ عنہ نے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا اب تم اسے کس طرح اپنے نکاح میں رکھ سکتے ہو جبکہ رضاعت کی اطلاع دے دی گئی ہے؟ چنانچہ حضرت عقبہ رضی اللہ عنہ نے اس عورت کو جدا کر دیا تو اس نے کسی دوسرے آدمی سے نکاح کر لیا۔ (بخاری، الشہادات: 2660)

حافظ بن حجر رحمہ اللہ نے صراحت کی ہے کہ اس عورت نے اپنے خاوند کے بھائی حضرت ظریب بن حارث رضی اللہ عنہ سے نکاح کیا تھا، اس واقعہ سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ دودھ کا رشتہ صرف دودھ پینے والے تک محدود رہتا ہے، اس کے بہن بھائیوں کو متاثر نہیں کرتا، اس بناء پر جس لڑکی نے کسی عورت کا دودھ پیا ہے تو اس لڑکی کا بھائی، عورت کی اس لڑکی سے شادی کر سکتا ہے جو پہلے خاوند سے ہے، کیونکہ اس لڑکے کا اس عورت اور اس کی بیٹی سے کوئی حرمت کا تعلق قائم نہیں ہوا ہے۔ (واللہ اعلم)

 

ماخذ: ہفت روزہ اہلحدیث شمارہ نمبر 8جلد نمبر 39 08 تا 14 صفر 1429 ھ 16 فروری تا 22 فروری 2008 ء

 

 

 

میرے دوست کے ہاں بچی پیدا ہوئی تو میں نے اس کا نام بریرہ تجویز کیا، میرے دوست نے کہا کہ بریرہ نامی عورت نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک مرتبہ کہا نہیں مانا تھا، اس لئے مجھے یہ نام پسند نہیں ہے، اس واقعہ کی کیا حقیقت ہے، کیا اس وجہ سے یہ نام نہیں رکھنا چاہیے۔ (عبدالکریم۔ شورکوٹ)

 

جواب حضرت بریرہ رضی اللہ عنہا ایک قابل قدر صحابیہ ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اس پر بڑا اعتماد تھا۔ دراصل واقعہ یہ ہے کہ جب وہ لونڈی تھیں تو مغیث رضی اللہ عنہ نامی ایک صحابی سے نکاح کر دیا گیا جو کسی کے غلام تھے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہانے اسے خرید کر آزاد کر دیا تو اسے اپنے خاوند کی زوجیت میں رہنے یا نہ رہنے کا اختیار دیا گیا چونکہ وہ آزاد ہو چکی تھیں ، اس لئے انہوں نے ایک غلام کی زوجیت میں رہنا پسند نہ کیا، بلکہ اس نے یہاں تک کہہ دیا کہ اگر میرا خاوند مجھے اتنی رقم بھی دے تب بھی میں اس کے ہاں رہنے کو تیار نہیں ہوں ۔ (صحیح بخاری، الفرائض: 6758)

دوسری طرف مغیث رضی اللہ عنہ کو ان سے بڑی محبت تھی، وہ مدینہ طیبہ کے گلی کوچوں میں اپنی بیوی کے فراق سے روتے اور آنسو بہاتے رہتے، حضرت عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ، میں نے اسے دیکھا کہ وہ بریرہ رضی اللہ عنہا کے پیچھے روتا رہتا اور روتے روتے اس کی داڑھی تر ہو جاتی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کیفیت دیکھ کر حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے فرمایا مغیث کی بریرہ سے محبت اور بریرہ کی اس سے نفرت باعث تعجب ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بریرہ رضی اللہ عنہ کو بلا کر کہا کہ تم اسے اختیار کر لو اور اپنے موقف سے رجوع کر لو، حضرت بریرہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا یا رسول اللہ! اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے تو مجھے بسر و چشم قبول ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا حکم نہیں بلکہ میں اس کی صرف سفارش کرتا ہوں ، حضرت بریرہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا اگر آپ کا صرف مشورہ ہے حکم نہیں ہے تو مجھے اس کی کوئی ضرورت نہیں ۔ (صحیح بخاری، الطلاق: 5283)

واقعہ کی حقیقت تو اس قدر ہے، اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی قسم کی نفرت یا ناراضگی کا اظہار نہیں فرمایا کہ اس نے میرا مشورہ یا سفارش نہیں مانی ہے، لہٰذا مجھے اس سے نفرت ہے، احادیث میں اس قسم کی بات کا کوئی سراغ نہیں ملتا، بلکہ اس پاکباز عورت نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر جب تہمت لگی تو آپ کا پورا پورا دفاع کیا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے زبردست دباؤ کے باوجود انہوں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی عفت و پاکدامنی کو بڑے خوبصورت انداز میں بیان کیا، ایسے حالات میں کسی مسلمان کو حضرت بریرہ رضی اللہ عنہا یا ان کے نام سے نفرت نہیں ہونی چاہیے۔ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی امر کو نظر انداز نہیں کیا، بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وساطت سے ملنے والے اختیارات کو استعمال کیا ہے اور یہ ان کا ایک حق تھا۔ (واللہ اعلم)

 

ماخذ: ہفت روزہ اہلحدیث شمارہ نمبر 7جلد نمبر 39 01 تا 07 صفر 1429 ھ 9 فروری تا 15 فروری 2008 ء

 

 

ہماری مسجد کے وضو خانہ اور طہارت خانوں کی چھت پر ایک کمرہ ہے، میں اس مسجد کا خطیب ہوں ، میں چاہتا ہوں کہ اپنی بیوی کو اپنے پاس رکھوں اور رہائش کے لئے اس کمرہ کو استعمال کروں جس کی سیڑھیاں بھی الگ ہیں ، اس کا مسجد کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے، شرعی طور پر مجھے آپ کی راہنمائی درکار ہے۔ (ابواسامہ۔ کراچی)

 

مسجد کے تقدس کے پیش نظر حائضہ عورت کو مسجد میں آنے جانے کی ممانعت ہے، مسجد کی چھت چونکہ اس کا حصہ ہوتی ہے، اس لئے بیوی بچوں کی رہائش کے لئے چھت وغیرہ کو بھی استعمال نہیں کرنا چاہیے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے جیسے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا ہے: ’’ بلاشبہ میں حائضہ اور جنبی کے لئے مسجد میں داخل ہونے کو جائز قرار نہیں دیتا۔ “ (بیہقی ص 442 ج 2)

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حائضہ عورت کا مسجد میں داخلہ ممنوع ہے۔ جب داخلہ ممنوع ہے تو مستقل قیام کیسے درست ہو سکتا ہے، ہاں اگر مسجد کے علاوہ کوئی اور راستہ نہ ہو تو ان کے لئے گزرنا جائز ہے، صورت مسؤلہ میں جو بیان ہوا ہے کہ وہ کمرہ وضو خانہ اور طہارت خانوں کے اوپر ہے، اس جگہ کو مسجد کے لئے استعمال نہیں کیا جاتا لہٰذا ایسے کمرہ میں بیوی بچوں کو رہائش کرنے کی گنجائش موجود ہے، لہٰذا اس قسم کے کمرہ میں رہائش رکھی جا سکتی ہے۔ (واللہ اعلم)

 

ماخذ: ہفت روزہ اہلحدیث شمارہ نمبر 7جلد نمبر 39 01 تا 07 صفر 1429 ھ 9 فروری تا 15 فروری 2008 ء

 

 

میں نے قسم اٹھائی تھی کہ فلاں کام کروں گا، لیکن میں اسے کر نہیں سکا، اس کام کا وقت بھی گزر چکا ہے اب مجھے کیا کرنا چاہئے، وضاحت کریں ۔ (عبدالحمید۔ گوجرانوالہ)

 

جب کوئی مسلمان قسم اٹھائے تو اسے پورا کرنے کی بھرپور کوشش کرے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

’’ اپنی قسموں کی حفاظت کیا کرو۔ “ (المائدہ: 89)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’ کہ قسم کو پورا کرو کیونکہ قسم توڑنے والے پر گناہ ہوتا ہے۔ (مسند امام احمد ص 114، ج 6)

اگر کوئی آدمی کسی وجہ سے قسم پورا نہیں کر سکا تو اسے اس کا کفارہ دینا چاہیے جیسا کہ قرآن مجید ہے:

اس قسم توڑنے کا کفارہ یہ ہے کہ دس مساکین کو اوسط درجے کا کھانا دیا جائے جو اپنے گھر والوں کو تم کھلاتے ہو یا انہیں لباس دیا جائے یا ایک غلام یا لونڈی آزاد کی جائے اور جس کو استطاعت نہ ہو وہ تین دن کے روزے رکھے۔ (المائدہ: 89)

اب لونڈی یا غلام دستیاب نہیں ہیں ۔ صرف اوسط درجے کا کھانا یا انہیں لباس بنا کر دینا ہے۔ اگر کوئی آدمی صاحب ثروت نہیں تو اسے تین دن کے روزے رکھنے کا حکم ہے، واضح رہے کہ کفارہ قسم میں جن اشیاء کا ذکر ہے مثلاً کھانا یا لباس وغیرہ ہی دینا چاہیے، اس کی قیمت ادا کرنا صحیح نہیں ہے۔ (واللہ اعلم)

 

ماخذ: ہفت روزہ اہلحدیث شمارہ نمبر 7جلد نمبر 39 01 تا 07 صفر 1429 ھ 9 فروری تا 15 فروری 2008 ء

 

 

فوٹوگرافی کا پیشہ کرنا شرعاً کیا حیثیت رکھتا ہے؟ جبکہ آج تصویر ہماری زندگی کا حصہ بن چکی ہے۔ قرآن و سنت کے مطابق اس کا کیا حکم ہے؟ (عبدالوہاب۔ ملتان)

 

شریعت میں تصویر کشی حرام ہے، اس بناء پر فوٹوگرافی کا پیشہ اختیار کرنا بھی حرام ہے، حدیث میں ہے کہ قیامت کے دن لوگوں میں سب سے سنگین عذاب تصویر بنانے والوں کو ہو گا۔ (صحیح بخاری، اللباس: 5954)

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے پاس ایک آدمی آیا، اس نے کہا اے ابن عباس رضی اللہ عنہ ! میری معیشت میرے ہاتھ کا ہنر ہے اور میں تصاویر بنا کر فروخت کرتا ہوں ، یہی میرا ذریعہ معاش ہے۔

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’ میں تجھے اس کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث سناتا ہوں آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’ جس نے بھی کوئی تصویر بنائی تو اللہ اسے اس وقت تک عذاب سے دوچار رکھے گا، جب تک وہ شخص اپنی بنائی تصویر میں جان نہ ڈال دے اور وہ کبھی اس میں جان نہیں ڈال سکے گا۔ “

وہ آدمی یہ حدیث سن کر کانپ اٹھا اور اس کا رنگ فق ہو گیا، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اگر تیرا اور کوئی ذریعہ معاش نہ ہو تو ایسی چیزوں کی تصویریں بنا جس میں روح نہ ہو مثلاً درخت وغیرہ۔ (صحیح بخاری، البیوع: 2225)

امام بخاری نے اس حدیث پر بایں الفاظ عنوان قائم کیا ہے:

’’ ان تصاویر کی خرید و فروخت جن میں روح نہ ہو۔ “ (بخاری، البیوع باب نمبر 104)

ہمارے ہاں جو فوٹوگرافی کا پیشہ کرتے ہیں وہ انسانوں کی تصویریں بناتے ہیں ، اس لئے یہ پیشہ شرعاً درست نہیں ہے البتہ ایسی چیزوں کی تصاویر بنانا اور اسے بطور پیشہ اختیار کرنا جائز ہے جن میں روح نہ ہو جیسا کہ حدیث کے آخر میں وضاحت ہے اگر تم تصاویر بنانا ہی چاہتے ہو تو ان درختوں کی اور ہر اس چیز کی تصویر بنا سکتے ہو جس میں روح نہ ہو، ہماری مجبوری اور تصویر کا زندگی کے لئے جزو بن جانا ایک الگ موضوع ہے، لیکن اس سے یہ بات کشید نہیں کی جا سکتی کہ تصویر کشی کو بطور پیشہ اختیار کرنا جائز ہے۔ (واللہ اعلم)

 

ماخذ: ہفت روزہ اہلحدیث شمارہ نمبر 7جلد نمبر 39 01 تا 07 صفر 1429 ھ 9 فروری تا 15 فروری 2008 ء

 

 

میں نئی نئی مسلمان ہوئی ہوں اور چاہتی ہوں کہ شریعت کے مطابق زندگی بسر کروں ، سب سے پہلے مجھے پردہ کے متعلق مشکلات کا سامنا ہے، کتاب و سنت کی روشنی میں میری راہنمائی کریں کہ کن کن لوگوں سے مجھے پردہ کرنا ضروری نہیں ہے، تا کہ میں ان کے علاوہ دوسروں سے پردہ کروں ۔ (ام حبیبہ۔ برطانیہ)

 

اللہ تعالیٰ آپ کو دین اسلام پر استقامت دے۔ آپ کا سوال بڑی اہمیت کا حامل ہے، ہم اس کا جواب ذرا تفصیل سے دے دیتے ہیں تا کہ دوسری مسلمان خواتین بھی اس کی روشنی میں اپنے رویے پر نظر ثانی کریں ۔

عورت اپنے محرم مردوں سے پردہ نہیں کرے گی اور عورت کا محرم وہ ہوتا ہے جس سے ہمیشہ کے لئے نکاح حرام ہو، حرمت نکاح کے تین اسباب ہیں :

1۔ قرابت داری

2۔ دودھ کا رشتہ

3۔ سسرالی تعلق

نسبی محارم :

قرابت داری کی وجہ سے محارم کی تفصیل حسب ذیل ہے :

1۔ آباء و اجداد : عورتوں کے باپ، ان کے اجداد اوپر تک، ان میں دادا اور نانا سب شامل ہیں ۔

2۔بیٹے : عورتوں کے بیٹے، ان میں بیٹے، پوتے، نواسے وغیرہ۔

3۔ عورتوں کے بھائی : ان میں حقیقی بھائی، باپ کی طرف سے اور ماں کی طرف تمام بھائی شامل ہیں ۔

4۔ بھانجے اور بھتیجے : ان میں بھائی کے بیٹے اور بہن کے بیٹے اور ان کی تمام نسلیں شامل ہیں ۔

5۔ چچا اور ماموں : یہ دونوں بھی نسبی محارم میں شامل ہیں ، انہیں والدین کا قائم مقام ہی سمجھا جاتا ہے، بعض دفعہ چچا کو بھی والد کہہ دیا جاتا ہے۔

رضاعی محارم :

اس سے وہ مراد ہیں جو رضاعت یعنی دودھ کی وجہ سے محرم بن جاتے ہیں ، حدیث میں سے کہ اللہ تعالیٰ نے رضاعت سے بھی ان رشتوں کو حرام کیا ہے جنہیں نسب کی وجہ سے حرام کیا ہے (مسند امام احمد ص 131 ج 1) جس طرح نسبی محرم کے سامنے عورت کو پردہ نہ کرنا جائز ہے اس طرح رضاعت کی وجہ سے محرم بننے والے شخص کے سامنے بھی اس کے لئے پردہ نہ کرنا مباح ہے یعنی عورت کے رضاعی بھائی، رضاعی والد اور رضاعی چچا سے پردہ کرنا ضروری نہیں ہے۔ چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ان کے رضاعی چچا، افلح، آئے اور اندر آنے کی اجازت طلب کی تو میں نے انہیں اجازت نہ دی بلکہ ان سے پردہ کر لیا، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا علم ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس سے پردہ نہ کرو اس لئے کہ رضاعت سے بھی وہی حرمت ثابت ہوتی ہے جو نسب کی وجہ سے ثابت ہوتی ہے۔ (صحیح مسلم، الرضاع : 1445)

اس حدیث کے مطابق عورت کے رضاعی محارم بھی نسبی محارم کی طرح ہیں لہٰذا رضاعی محارم سے پردہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

سسرالی محارم :

عورت کے سسرالی محارم سے مراد وہ رشتہ دار ہیں جن سے شادی کی وجہ سے ابدی طور پر نکاح حرام ہو جاتا ہے جیسا کہ سسر اور اس کا بیٹا یا داماد وغیرہ۔ والد کی بیوی کے لئے محرم مصاہرت وہ بیٹا ہو گا جو اس کی دوسری بیوی سے ہو، سورۃ النور کی آیت 31 میں اللہ تعالیٰ نے سسر اور خاوند کے بیٹوں کو شادی کی وجہ سے محرم قرار دیا ہے اور انہیں باپوں اور بیٹوں کے ساتھ ذکر کیا ہے اور انہیں پردہ نہ ہونے کے حکم میں برابر قرار دیا ہے۔

مذکورہ محرم رشتہ داروں کے علاوہ جتنے بھی رشتہ دار ہیں ان سے عورت کو پردہ کرنا چاہیے خواہ وہ چچا، پھوپھی، خالہ اور ماموں کے بیٹے ہی کیوں نہ ہوں ، اسی طرح خاوند کے چچا اور ماموں سے بھی بیوی کو پردہ کرنا چاہیے کیونکہ وہ اس کے خاوند کے چچا یا ماموں ہیں اس کے نہیں ہیں ۔ (واللہ اعلم)

 

ماخذ: ہفت روزہ اہلحدیث شمارہ نمبر 5 جلد نمبر 39 16 تا 22 محرم الحرام 1429 ھ 26 تا 1 فروری 2008 ء

 

 

ہمارے ایک بزرگ دور کے رشتہ دار ہیں ، وہ مختلف امراض میں مبتلا عورتوں کو دم کرتے ہیں ، لیکن وہ ہر عورت کو علیحدگی میں دم کرتے ہیں ، بعض اوقات عورت کی تشویش ناک حالت کے پیش نظر وہ کچھ دنوں کے لئے اپنے ہاں قیام کا بھی کہتے ہیں ، ایسے حالات میں دم کروانے کا شرعاً کیا حکم ہے؟ (ام عطیہ۔ کراچی)

 

کسی بھی اجنبی عورت سے خلوت اختیار کرنا شرعاً حرام ہے۔ خواہ وہ تنہائی قرآنی دم کرانے کے لئے ہی کیوں نہ ہو، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :

’’ خبردار! جو آدمی بھی کسی عورت کے ساتھ تنہائی اختیار کرتا ہے، ان دونوں میں تیسرا شیطان ہوتا ہے۔ “ (ترمذی، الرضاع : 2165)

کسی اجنبی مرد کے ساتھ اجنبی عورت کی خلوت جائز نہیں ہے پھر سب سے زیادہ خطرناک بات یہ ہے کہ ایک غیر محرم کے پاس دم کرانے کے بہانے چند راتوں کا قیام کرنا کیسا ہے، ہمارے نزدیک یہ شر اور فساد کے وسائل میں شامل ہے، ہم مسلمانوں کو ایسے کاموں سے اجتناب کرنا چاہیے، جس سے اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت ہوتی ہو۔ (واللہ اعلم)

 

ماخذ: ہفت روزہ اہلحدیث شمارہ نمبر 5 جلد نمبر 39 16 تا 22 محرم الحرام 1429 ھ 26 تا 1 فروری 2008 ء

 

 

ایک آدمی نے چوری کی، سامان کے مالک نے عدالت میں دعویٰ دائر کر دیا، کیا وہ عدالت میں جانے کے بعد چور کو معاف کر سکتا ہے تا کہ اس سے حد ساقط ہو جائے، قرآن و سنت اس معاملہ میں ہماری کیا راہنمائی کرتے ہیں ۔ (ابوعکرمہ۔ ملتان)

 

اللہ تعالیٰ خود معاف کرنے والا ہے اور معافی کرنے والوں کو پسند کرتا ہے لیکن چوری کے معاملات عدالت میں جانے سے پہلے پہلے معاف ہوتے ہیں ۔ جب کوئی معاملہ عدالت میں زیرسماعت ہو تو مالک کو معاف کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ آپس میں حدود معاف کر دو اور جس حد کا معاملہ میرے پاس آ جائے تو وہ واجب ہو جائے گی۔ “ (ابوداؤد، الحدود: 4376)

ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک چور کا چوری ثابت ہونے پر ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا تو جس کی چوری ہوئی تھی، اس نے کہا میں نے یہ چیز اسے ہبہ کر دی ہے تو آپ نے فرمایا اسے میرے پاس لانے سے پہلے تو نے ایسا کام کیوں نہ کیا۔ “ (مستدرک حاکم ص 380 ج 4)

 

اگرچہ کچھ ائمہ کرام کا موقف ہے کہ عدالت میں جانے کے بعد بھی اگر مالک معاف کر دے تو حد ساقط ہو جائے گی لیکن مذکورہ احادیث سے اس موقف کی تردید ہوتی ہے، لہٰذا عدالت میں پہنچنے سے پہلے پہلے معاف کر دینے کا حق ہے، اس کے بعد وہ ایسا نہیں کر سکتا۔ (واللہ اعلم)

 

ماخذ: ہفت روزہ اہلحدیث شمارہ نمبر 4 جلد نمبر 39 9 تا 15 محرم الحرام 1429 ھ 19 تا 25 جنوری 2008 ء

 

 

آج کل گنجا پن کا ایک علاج دریافت ہوا ہے کہ بال اگائے جاتے ہیں ، ایسا علاج شرعاً کیا حیثیت رکھتا ہے کیا ایسا کرنا جائز ہے کتاب و سنت کی روشنی میں جواب دیں ۔ (عبدالحمید۔ گوجرانوالہ)

 

بالوں کی پیوند کاری تو حرام ہے یعنی مصنوعی بالوں کو دوسرے بالوں کے ساتھ جوڑنا یا مصنوعی بالوں کو ہی استعمال کرنا شرعاً یہ فعل حرام اور ناجائز ہے، انصار کی ایک لڑکی بیمار ہوئی تو اس کے بال گر گئے، اہل خانہ نے مصنوعی بال پیوند کرنے کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت طلب کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ اللہ تعالیٰ کی لعنت ہے اس عورت پر جو بال پیوند کرتی ہے یا کراتی ہے۔ “ (صحیح بخاری، اللباس: 5934)

حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ جب حج سے فراغت کے بعد مدینہ طیبہ تشریف لائے تو انہیں مصنوعی بالوں کا گچھا ملا تو انہوں نے خطبہ دیا اور فرمایا: ’’ اے اہل مدینہ! تمہارے علماء کدھر ہیں ۔ بنی اسرائیل کی ہلاکت اسی وجہ سے ہوئی تھی کہ ان کی عورتوں نے ان مصنوعی بالوں کو استعمال کرنا شروع کر دیا تھا۔ “ (صحیح بخاری اللباس: 5932)

البتہ بال اگانے کا طریقہ طب جدید کا دریافت کردہ ہے، یہ مصنوعی نہیں بلکہ اس طریقہ سے حقیقی بال اگائے جاتے ہیں ۔ اس قسم کے علاج میں شرعاً کوئی قباحت نہیں ہے۔ اس کے متعلق وہ حدیث بطور دلیل پیش کی جا سکتی ہے کہ فرشتے نے ایک گنجے کے سر پر ہاتھ پھیرا تھا تو اس کے خوبصورت بال اُگ آئے تھے، جیسا کہ ایک حدیث میں اس کا ذکر ہے۔ “ (صحیح بخاری، احادیث الانبیاء: 3464)

اس حدیث کے پیش نظر ہمارا رجحان ہے کہ بالوں کو کاشت کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے البتہ پیوند کاری حرام ہے۔

 

ماخذ: ہفت روزہ اہلحدیث شمارہ نمبر 4 جلد نمبر 39 9 تا 15 محرم الحرام 1429 ھ 19 تا 25 جنوری 2008 ء

 

 

تلاوت قرآن کے لئے با وضو ہونا ضروری ہے یا بے وضو ہی قرآن پڑھا جا سکتا ہے ؟ قرآن و سنت کی روشنی میں جواب دیں ۔ (محمد شکور۔ ملتان)

 

قرآن کریم کی تلاوت با وضوء ہو کر کرنا بہتر اور افضل ہے تاہم اسے بے وضوء پڑھا جا سکتا ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سو رہے تھے، جب رات کو بیدار ہوئے تو اپنی آنکھوں کو ہاتھ سے صاف کیا اور سورہ آل عمران کی آخری دس آیات کو تلاوت فرمایا پھر لٹکے ہوئے مشکیزہ کی طرف بڑھے اور اچھی طرح وضو کیا پھر نماز شروع کر دی۔ (صحیح بخاری، الوضوء : 183)

اس حدیث پر امام بخاری نے یوں عنوان قائم کیا ہے۔ ’’ بے وضو ہونے کے بعد قرآن مجید کی تلاوت کرنا “ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان وضوء کے بغیر قرآن مجید کی تلاوت کر سکتا ہے۔ اس کے علاوہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر وقت اللہ کا ذکر کرتے رہتے تھے۔ (صحیح مسلم، الحیض : 373)

اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ انسان بے وضوء تلاوت کر سکتا ہے، اگر وضوء کی پابندی لگا دی جائے تو وہ بچے جو قرآن مجید یاد کرتے ہیں ان کے لئے بہت مشکل ہو گا، اس لئے ہمارا رجحان ہے کہ افضل اور بہتر ہے کہ انسان با وضوء ہو کر تلاوت قرآن کرے تاہم اگر بے وضوء ہے تو بھی قرآن کریم کی تلاوت کرنے میں چنداں حرج نہیں ہے۔ (واللہ اعلم)

ماخذ: ہفت روزہ اہلحدیث شمارہ نمبر 2 جلد نمبر 39 25 ذوالحجہ تا یکم محرم الحرام 1428 ھ 5 تا 11 جنوری 2008 ء

٭٭٭

ماخذ:

http://www.ahlehadith.com

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید