اب عہدِ گل آ گیا ہے
خلیل الرحمٰن اعظمی
انتخاب: شہر یار
فہرست مضامین
کاغذی پیرہن
آپ بیتی
(۱)
یوں تو مرنے کے لیے زہر سبھی پیتے ہیں
زندگی تیرے لیے زہر پیا ہے میں نے
شمع جلتی ہے پر اک رات میں جل جاتی ہے
یاں تو اک عمر اسی طرح سے جلتے گزری
کون سی خاک ہے یہ جانے کہاں کا ہے خمیر
اک نئے سانچے میں ہر روز ہی ڈھلتے گزری
کس طرح میں نے گزاری ہیں یہ غم کی گھڑیاں
کاش میں ایسی کہانی کو سنا بھی سکتا
طعنہ زن ہیں جو مرے حال پہ اربابِ نشاط
ان کو اک بار میں اے کاش رُلا بھی سکتا
میں کہ شاعر ہوں، میں پیغامبرِ فطرت ہوں
میری تخئیل میں ہے ایک جہانِ بیدار
دسترس میں مری نظارۂ گلہاۓ چمن
میرے ادراک میں ہیں کُن فیکون کے اسرار
میرے اشعار میں ہے قلبِ حزیں کی دھڑکن
میری نظموں میں مری روح کی دل دوز پکار
پھر بھی رہ رہ کے کھٹکتی ہے مرے دل میں یہ بات
کہ مرے پاس تو الفاظ کا اک پردہ ہے
صرف الفاظ سے تصویر نہیں بن سکتی
صرف احساس میں حالات کی تفسیر کہاں
صرف فریاد میں زخموں کی وہ زنجیر کہاں
ایسی زنجیر کہ ایک ایک کڑی ہے جس کی
کتنی کھوئی ہوئی خوشیوں کے مناظر پنہاں
کتنی بھولی ہوئی یادوں کے پراسرار کھنڈر
کتنے اُجڑے ہوئے، لُوٹے ہوئے سنسان نگر
کتنے آتے ہوئے جاتے ہوئے چہروں کے نقوش
کتنے بنتے ہوئے مٹتے ہوئے لمحات کے راز
کتنی الجھی ہوئی راتوں کے نشیب اور فراز
(۲)
کیا کہوں مجھ کو کہاں لائی مری عمرِ رواں
آنکھ کھولی تو ہر اک سمت اندھیرے کا سماں
رینگتی اونگھتی مغموم سی اک راہگزر
گردِ آلام میں کھویا ہوا منزل کا نشاں
گیسوۓ شام سے لپٹی ہوئی غم کی زنجیر
سینۂ شب سے نکلتی ہوئی فریاد و فغاں
ٹھنڈی ٹھنڈی سی ہواؤں میں وہ غربت کی تھکن
در و دیوار پہ تاریک سے سائے لرزاں
کتنی کھوئی ہوئی بیمار و فسردہ آنکھیں
ٹمٹماتے سے دیے چار طرف نوحہ کناں
دلِ مجروح سے اٹھتا ہوا غمناک دھواں
یہی تاریکیِ غم تو مرا گہوارہ ہے
میں اسی کوکھ میں تھا نورِ سحر کے مانند
ہر طرف سوگ میں ڈوبا ہوا میرا ماحول
میرا اُجڑا ہوا گھر میرؔ کے گھر کے مانند
اک طرف عظمتِ اسلاف کا ماتھے پہ غرور
اور اک سمت وہ افلاس کے پھیلے ہوئے جال
بھوک کی آگ میں جھلسے ہوئے سارے ارماں
قرض کے بوجھ سے جینے کی امنگیں پامال
وقت کی دھند میں لپٹے ہوئے کچھ پیار کے گیت
مہر و اخلاص زمانے کی جفاؤں سے نڈھال
بھائی بھائی کی محبت میں نرالے سے شکوک
نگہِ غیر میں جس طرح انوکھے سے سوال
’ایک ہنگامے پہ موقوف تھی گھر کی رونق‘
مفلسی ساتھ لئے آئی تھی اک جنگ و جدال
فاقہ مستی میں تھے بکھرے ہوئے سارے رشتے
تنگدستی کے سبب ساری فضائیں بے حال
اک جہنّم کی طرح تھا یہ مرا گہوارہ
اس جہنم میں مرے باپ نے دم توڑ دیا
ٹوٹ کر رہ گئے بچپن کے سُہانے سپنے
مجھ سے منہ پھیر لیا جیسے مری شوخی نے
میرے ہنستے ہوئے چہرے پہ اداسی چھائی
جیسے اک رات بھیانک مرے سر پر آئی
راہ دشوار مگر راہ نما کوئی نہ تھا
سامنے وسعتٕ افلاک خدا کوئی نہ تھا
میرے اجداد کی میراث یہ ویران سا گھر
جس کو گھیرے ہوئے ہر سمت تباہی کے بھنور
جس کی چھت گرتی ہوئی ٹوٹا ہوا دروازہ
ہر طرف جیسے بکھرتا ہوا اک شیرازہ
نہ کہیں اطلس و کمخواب نہ دیبا و ہریر
ہر طرف منہ کو بسورے ہوئے جیسے تقدیر
مجھ کو اس گھر سے محبت تو بھلا کیا ہوتی
ہاں اگر دل میں نہ جینے کی تمنا ہوتی
یہ سمجھ کر کہ یہی ہے مری قسمت کا لکھا
اس کی دیوار کے سائے سے میں لپٹا رہتا
لیکن اس دل کی خلش نے مجھے بیدار کیا
مجھ کو حالات نے آمادۂ پیکار کیا
بے کسی رختِ سفر بن کے مرے ساتھ چلی
یاد آئی تھی مجھے گاؤں کی ایک ایک گلی
لہلہاتی ہوئی فصلیں وہ مرے آم کے باغ
وہ مکانوں میں لرزتے ہوئے دھندلے سے چراغ
دوُر تک پانی میں پھیلے ہوئے وہ دھان کے کھیت
اور تالاب کنارے وہ چمکتی ہوئی ریت
میرے ہم عمر۔ وہ ساتھی، وہ مرے ہم جولی
میرے اسکول کے وہ دوست، مری وہ ٹولی
ایک بار ان کی نگاہوں نے مجھے دیکھا تھا
جیسے اک بار مرے دل نے بھی کچھ سوچا تھا
’میں نے جب وادیِ غربت میں قدم رکھا تھا
دور تک یادِ وطن آئی تھی سمجھانے کو‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہار کی واپسی
میں چپ چاپ بیٹھا ہوں اس رہگزر پر
یہی سوچتا ہوں کہ خط لانے والا
کہیں آج بھی کہہ نہ دے "کچھ نہیں ہے"
یہ کیا بات ہے لوگ اک دوسرے سے
جدا ہو کے یوں جلد ہیں بھول جاتے
وہ دن رات کا ساتھ ہنسنا ہنسانا
وہ باتیں جنھیں غیر سے کہہ نہ پائیں
اچھوتے سے الفاظ جو شاہراہوں پر
آتے ہوئے دیر تک ہچکچائیں
کچھ الفاظ کے پھول جو اس چمن میں
کھلے تھے جسے محفلِ دوش کہیے
جو کچھ دیر پہلے ہی برہم ہوئی ہے
چراغوں سے اب تک دھواں اٹھ رہا ہے
در و بام پر اب بھی پھیلی ہوئی ہے
ہر اک سمت صہباۓ احمر کی خوشبو
ہوا میں ابھی شور ہے ہا و ہو کا
وہ اڑتے ہوئے کاگ کے قہقہوں سے
الجھتے ہوئے زمزمے بوتلوں کے
بناتے ہیں دیوار پر کتنے دھبّے
ابھی ہنس رہے ہیں، ابھی بولتے ہیں
مری داستانوں کے دلچسپ کردار
سنسان جگہوں کے رنگین قصّے
یہ سب میرے پیچھے چلے آ رہے ہیں
کوئی جیسے روٹھے ہوئے آدمی کو
مناۓ، بڑے پیار سے تھتھپاۓ
دلاۓ کوئی یاد گزری ہوئی بات
ہاتھوں کو اس کے دبا کر کہے
دیکھنا دیکھنا کوئی انجان راہی ہے
یا لڑکھڑاتا ہوا کوئی پتّہ
خزاں کے پروں پر اُڑا آ رہا ہے
کوئی نامۂ شوق لے آ رہا ہے
ترے شہر کے سر و من کے گُلوں نے
خود اپنے ہی ہاتھوں سے تجھ کو لکھا ہے
چلے آؤ اب عہدِ گل آ گیا ہے
کاغذی پیرہن
کچھ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ جیسے موسم بدل رہا ہے
اٹھوں اور اب اٹھ کے کیوں نہ اس گھر کے سارے دروازے کھول ہی دوں
مرے دریچوں پہ جانے کب سے دبیز پردے لٹک رہے ہیں
میں کیوں نہ ان کو الگ ہی کر دوں
مرا یہ تاریک و سرد کمرہ
بہت دنوں سے سنہری دھوپ اور نئی ہوا کو ترس رہا ہے
جگہ جگہ جیسے اس کی دیوار کی سپیدی اکھڑ گئی ہے
ہر ایک کونے میں کتنے جالے لگے ہوئے ہیں
مرے عزیزوں، مرے رفیقوں کی یادگاریں
یہ ساری تصویریں جیسے دھندلی سی پڑ گئی ہیں
یہ شیلف، جس میں مری کتابیں ہیں
میز، جس پر مرے سبھی کاغذات بکھرے ہوئے پڑے ہیں
یہ سب کے سب گرد سے اٹے ہیں
مری کتابیں،
میں کیا بتاؤں کہ کس قدر ہیں عزیز مجھ کو
بہت سی ایسی ہیں جو مرے دوستوں نے تحفے میں مجھ کو دی ہیں
وہ دوست جو جاں نثار تھے میرے، کس قدر چاہتے تھے مجھ کو
میں ان کے ہاتھوں کی پیاری تحریر ان کتابوں پہ دیکھتا ہوں
کچھ ایسے الفاظ، ایسے فقرے
جوا ن کے ہاتھوں نے صرف مرے لیے لکھے ہیں
یہ میرے غم خوار، میرے دکھ درد کے امیں ہیں
مرے یہ سب کاغذات جو منتشر پڑے ہیں
مجھے یہ محسوس ہو رہا ہے میں ان سے بیزار ہو چلا ہوں
اگر چہ یہ جانتا ہوں ان کے سوا ہے کیا کائنات میری
مری تصانیف، میرے مضمون، میری نظموں کی ساری پونجی
وہ شے کہ جس کی نہ کوئی قیمت ہے، اور نہ جو میرے کام آئی
مری کتابیں، مری بیاضیں، یہ مسودے میری فکر و فن کے
نہ جانے کتنے ہی ناشروں کے حسین فائل میں کچھ دنوں رہ کے
پھر دوبارہ اس اجڑے کمرے میں آ کے آباد ہو گئے ہیں
میں جس زمانے میں ان کتابوں کو لکھ رہا تھا
عجب جنوں تھا
عجیب طوفان میرے دل میں امنڈ رہا تھا
نہ نیند آتی تھی رات کو اور نہ دن کو دم بھر سکون ملتا
کہ جیسے خود زندگی نے ہاتھوں کو میرے لوح و قلم دیا ہو
انھیں کتابوں میں
میرے دل کی تمام دھڑکن
مری تمنّا
مرے ارادوں کی ساری گرمی
مری محبّت کے سارے نشتر چھپے ہوئے ہیں
میں آج ان کاغذات کو الٹ کر جو دیکھتا ہوں
تو اپنے ہی دل سے پوچھتا ہوں
یہ میری لکھی ہوئی کتابیں ہیں؟
ایسے اشعار؟
ایسی نظمیں؟
کہ جن پہ خود مجھ کو رشک آئے
یہ سب مرے ذہن کا کرشمہ ہیں؟
(ہاۓ کیا ہیں!)
میں ان کو پہچانتا نہیں ہوں
یہ ساری تصویریں میری ایسی ہیں
آج جو مجھ سے مختلف ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔
کنجِ محبّت
یہ سنسان راتیں، یہ ٹھنڈی ہوائیں، یہ پھیلی ہوئی تیری یادوں کی خوشبو
یہ چُپ چاپ سے پیڑ، یہ غم کے سائے، یہ دل کی کسک، یہ محبّت کا جادو
یہ سب جاگتے ہیں، یہ سب سوچتے ہیں، یہ سب کروٹیں لے کے آہیں ہیں بھرتے
نئی منزلوں سے، نئے راستوں سے، نئے موڑ سے سب کے سب ہیں گزرتے
ہر اک موڑ پر جیسے کوئی کھڑا ہو، اشاروں اشاروں میں کچھ کہہ رہا ہو
سمجھ میں نہ آئے کوئی بات اس کی مگر جیسے چشمہ سا اک بہہ رہا ہو
کوئی جیسے میٹھے مدھر گیت کے بول مدھم سُروں میں یوں ہی گنگناۓ
کوئی جیسے طوفاں دباۓ ہو دل میں، کسی سے مگر پھر بھی کچھ کہہ نہ پاۓ
کچھ الفاظ ایسے جو یوں دیکھنے میں پُرانے سے ہیں، اور کتنے ہی انساں
انہیں کے سہارے سے کہتے رہے ہیں، دلوں کی مرادیں، جوانی کے ارماں!
یہ ارمان، یہ آرزوئیں ہماری، یہ کچھ رسمساتے ہوئے پھول جیسے
جگائیں جنھیں آ کے جھونکے ہوا کے، جنھیں گدگدا جائیں آ آ کے بھنورے
خزاں کی ہواؤں کے چلنے سے پہلے، ٹپکتے ہوۓ پھول کے رس میں گویا
کوئی گیت سا بن لیا ہے بہاروں نے گاتے ہیں اب بھی جسے باغ و صحرا
جو کنجِ محبّت میں پیروں کی چھنتی ہوئی چاندنی کی زباں سے کہتا
کہو آج کی رات کیسی گزاری، کوئی آج کی رات ملنے بھی آیا؟؟
غزلیں
نشاطِ زندگی میں ڈوب کر آنسو نکلتے ہیں
سنا ہے اب ترے غم کے نئے پہلو نکلتے ہیں
جنوں لے کر چلا ہے پا بجولاں اس کے کوچے میں
لیے آغوش میں ہم نکہتِ گیسو نکلتے ہیں
تری بستی میں دیوانوں کو رسوائی ہی راس آئی
یہ اپنا چاک دامن لے کے اب ہر سو نکلتے ہیں
وہی عارض، وہی کاکل، وہی کافر ادا آنکھیں
مگر ہر لمحہ پھر بھی کچھ نئے جادو نکلتے ہیں
محبت میں انھیں کو جان دے دینا بھی آتا ہے
وہ جن کے واسطے لے کر خمِ ابرو نکلتے ہیں
۔۔۔۔۔۔
ہر ذرّہ گلفشاں ہے، نظر چور چور ہے
نکلے ہیں مے کدے سے تو چہرے پہ نور ہے
ہاں تو کہے تو جان کی پروا نہیں مجھے
یوں زندگی سے مجھ کو محبّت ضرور ہے
اپنا جو بس چلے تو تجھے تجھ سے مانگ لیں
پر کیا کریں کہ عشق کی فطرت غیور ہے
نازک تھا آبگینۂ دل، ٹوٹ ہی گیا
تو اب نہ ہو ملول، ترا کیا قصور ہے
عارض پہ تیرے میری محبّت کی سرخیاں
میری جبیں پہ تیری وفا کا غرور ہے
۔۔۔۔
ہم اہلِ غم بھی رکھتے ہیں جادو بیانیاں
یہ اور بات ہے کہ سنیں لن ترانیاں
شرمندہ کر نہ مجھ کو مرا حال پوچھ کر
لے دے کے رہ گئی ہیں یہی بے زبانیاں
کم کیا تھا ہم فقیروں کو آشوبِٕ روزگار
کیوں یاد آ رہی ہیں تری مہربانیاں
اہلِ زمانہ تم بھی بڑے وقت پر ملے
کچھ بار ہو چلی تھیں مری شادمانیاں
تم نے بھلا دیا تو نئی بات کیا ہوئی
رہتی ہیں یاد کس کو وفا کی کہانیاں
رکھ لو کہ زندگی میں کبھی کام آئیں گی
دیوانگانِ عشق کی بھی کچھ نشانیاں
۔۔۔۔
اپنا ہی شکوہ اپنا گلہ ہے
اہلِ وفا کو کیا ہو گیا ہے
ہم جیسے سرکش بھی رو دئے ہیں
اب کے کچھ ایسا غم آ پڑا ہے
دل کا چمن ہے مرجھا نہ جاۓ
یہ آنسوؤں سے سینچا گیا ہے
یہ درد یوں بھی تھا جان لیوا
کچھ اور بھی اب بڑھتا چلا ہے
بس ایک وعدہ، کم بخت وہ بھی
مرمر کے جینا سکھلا گیا ہے
جرمِ محبٓت مجھ تک ہی رہتا
ان کا بھی دامن الجھا ہوا ہے
اک عمر ہی گزری ہے راہ تکتے
جینے کی شاید یہ بھی سزا ہے
دل سرد ہو کر ہی رہ نہ جاۓ
اب کے کچھ ایسی ٹھنڈی ہوا ہے
۔۔۔۔۔
زہر پی کر بھی یہاں کس کو ملی غم سے نجات
ختم ہوتا ہے کہیں سلسلۂ رقصِ حیات
آخری شمع ہوں میں، میرا لہو جلنے دو
اب مرے بعد ملے گا نہ اندھیروں کو ثبات
صبح سے پہلے ہی برپا نہ کرو خیمۂ گُل
کتنے گلچیں ابھی بیٹھے ہیں لگاۓ ہوۓ گھات
ہم کہ مے خانے کا مے خانہ اُٹھا کر پی جائیں
تجھ سے چھٹ کر نہ کٹی ہم سے مگر ایک بھی رات
تشنگی محفلِ خوبإں میں تو کیا خاک بجھی
پھر بھی بیٹھا ہوں کہ شاید ہو یہیں آبِ حیات
اتنا باہر نہ قدم سرحدِ ادراک سے رکھ
تجھ کو ڈس لیں نہ کہیں تیرے جنوں کے لمحات
صبحِ کاذب سے تو کیا چاک ہو ظلمت کی ردا
جگمگا اٹھّیں گے اب خاک کے لاکھوں ذرّات
۔۔۔۔
تمام یادیں مہک رہی ہیں، ہر ایک غنچہ کھلا ہوا ہے
زمانہ بیتا مگر گماں ہے کہ آج ہی وہ جدا ہوا ہے
یہ سچ ہے کھاۓ ہیں میں نے دھوکے، مگر نہ چاہت سے کوئی روکے
بجھے بجھے سے چراغِ دل میں بھی ایک شعلہ چھپا ہوا ہے
کچھ اور رسوا کرو ابھی مجھ کو تا کوئی پردہ رہ نہ جاۓ
مجھے محبّت نہیں جنوں ہے، جنوں کا کب حق ادا ہوا ہے
میں اور خود سر، میں اور سر کش، ہوا ہوں تلقینِ مصلحت سے
مجھے نہ اس طرح کوئی چھیڑے، یہ دل بہت ہی دکھا ہوا ہے
ملا جو اک لمحۂ محبّت، یہ پوچھ اس کی ہے کتنی قیمت
اب ایسے لمحوں کا تذکرہ کیا، کبھی جو وہ بے وفا ہوا ہے
یہ درد ابھرا ہے عہدِ گل میں، خدا کرے جلد رنگ لاۓ
نہ جانے کب سے سلگ رہا ہے، نہ جانے کب کا دبا ہوا ہے
وفا میں برباد ہو کے بھی آج زندہ رہنے کی سوچتے ہیں
نئے زمانے میں اہلِ دل کا بھی حوصلہ کچھ بڑھا ہوا ہے
ہر ایک لَے میری اکھڑی اکھڑی سی، دل کا ہر تار جیسے زخمی
یہ کون سی آگ جل رہی ہے، یہ میرے گیتوں کو کیا ہوا ہے
۔۔۔۔۔۔۔
بس کہ پابندیِ آئینِ وفا ہم سے ہوئی
یہ اگر کوئی خطا ہے تو خطا ہم سے ہوئی
زندگی تیرے لیے سب کو خفا ہم نے کیا
اپنی قسمت ہے کہ اب تو بھی خفا ہم سے ہوئی
سر اُٹھانے کا بھلا اور کسے یارا تھا
بس ترے شہر میں یہ رسم ادا ہم سے ہوئی
بار ہا دستِ ستم گر کو قلم ہم نے کیا
بار ہا چاک اندھیرے کی قبا ہم سے ہوئی
ہم نے اُتنے ہی سرِ راہ جلائے ہیں چراغ
جتنی برگشتہ زمانے کی ہوا ہم سے ہوئی
بار ہستی تو اُٹھا، اُٹھ نہ سکا دستِ سوال
مرتے مرتے نہ کبھی کوئی دعا ہم سے ہوئی
کچھ دنوں ساتھ لگی تھی ہمیں تنہا پا کر
کتنی شرمندہ مگر موجِ بلا ہم سے ہوئی
۔۔۔۔۔
بہت فسردہ ہیں ان کو کھو کر جگر فگاروں سے کچھ نہ کہنا
نہ جانے کیا ان کے دل پہ بیتے گی، سوگواروں سے کچھ نہ کہنا
بہت ہی بھوکے، بہت ہی مفلس، بڑے ہی آوارہ گرد ہیں ہم
بڑے ہی سرکش ہیں، جانے کیا کہہ دیں، غم کے ماروں سے کچھ نہ کہنا
کبھی نہ بھولیں گی ایسی گھڑیاں، یہ سخت تنہائیوں کے لمحے
گزارنی ہجر کی یہ راتیں، مگر ستاروں سے کچھ نہ کہنا
فغاں کہ ایسی فضا میں جینا پڑا ہے جس کا یہ مشورہ ہے
ستم سہے جاؤ لیکن اپنے ستم شعاروں سے کچھ نہ کہنا
یہ کس طرح کی وفا چمن سے ہے، کچھ کہو میرے ہم صفیرو
خزاں سے بڑھ کر جو زہر آگیں ہو، اُن بہاروں سے کچھ نہ کہنا
یہ مسکراتے ہیں میرے غم پر ت میری ڈھارس بندھا رہے ہیں
خلوص اک طرح کا ہے ان کو بھی، غم گساروں سے کچھ نہ کہنا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Oooo..xxxx..oooo
نیا عہد نامہ
سوداگر
لو گجر بج گیا
صبح ہونے کو ہے
دن نکلتے ہی اب میں چلا جاؤں گا
اجنبی شاہراہوں پہ پھر
کاسۂ چشم لے لے کے ایک ایک چہرہ تکوں گا
دفتروں، کارخانوں میں ، تعلیم گاہوں میں جا کر
اپنی قیمت لگانے کی کوشش کروں گا
میری آرامِ جاں!
مجھ کو اک بار پھر دیکھ لو
آج کی شام لوٹوں گا جب
بیچ کر اپنے شفّاف دل کا لہو
اپنی جھولی میں چاندی کے ٹکڑے لیے
تم بھی مجھ کو نہ پہچان پائیں تو پھر
میں کہاں جاؤں گا۔۔۔!!
کس سے جا کر کہوں گا کہ میں کون تھا۔۔۔۔۔
کس سے جا کر کہوں گا کہ میں کون تھا۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آنچل کی چھاؤں میں
آج ہر سمت سے آنچل کی ہوا آتی ہے
کیا کہوں اب کے یہ کس طرح کا آیا موسم
لمحے لمحے کی زباں پر ہے نئی فصل کا گیت
میری بستی، مرے کھیتوں کا عجب ہے عالم
ہنس رہے ہیں مرے معصوم سے ننھے پودے
جن کو ملتی رہی اب تک مرے غم کی شبنم
کوئی گوری لیے آتی ہے چھلکتی گاگر
جس طرح پہلے برستی تھیں یہ آنکھیں چھم چھم
رس بھرے ہونٹوں سے راتوں کے اندھیرے مہکے
اس اندھیرے میں کوئی چھیڑ دے جیسے سرگم
منزلیں اب مرے پاؤں میں بچھی جاتی ہیں
جانے کس سمت لیے جاتا ہے ایک ایک قدم
مجھ سے کہتی ہے مری پیاس یہ جیون بھر کی!
اور کچھ اور کہ یہ نشّہ ابھی ہے کم کم
رکھ کے سینے پہ میرے ہاتھ کوئی کہتا ہے
اتنے پاگل نہ بنو ہوش میں آؤ بالم
دیکھو اب جاگ اٹھو، رات کٹی، بھور ہوئی
سیج کے گجروں میں باقی نہ رہا کوئی غم
چل کے پھلواری میں سورج کو نکلتے دیکھیں
چل کے دیکھیں کہ کلی کھلتی ہے کیسے تھم تھم
میرے بالوں میں سجا دو کوئی ہنستا ہوا پھول
چل کے ہاتھوں پہ مرے کھاؤ محبت کی قسم
۔۔۔۔
اپنے بچّے کے نام
اے مرے سنّ و سال کے حاصل
میرے آنگن کے نو دمیدہ گلاب
میرے معصوم خواب کے ہم شکل
میری مریم کے سایۂ شاداب
صبح تخلیق کا سلام تجھے
زندگی تجھ کو کہتی ہے آداب
اے مقدّس زمیں کے شعلۂ نو
تو فروزاں ہو اُن فضاؤں میں
میرے سینے کی جو امانت ہیں
جو مری نا سرا دعاؤں میں!
اس طرح مسکراتی ہیں جیسے
نغمگی دور کی صداؤں میں
مجھ کو اجداد سے وراثت میں
وہ خرابے ملے کہ جن میں رہا
عمر بھر پائمال و خاک بسر
میرا حصّہ رہا غمِ فردا
مجھ کو میرے لہو میں نہلا کر
جس نے قیدِ حیات میں رکھّا
اے مری روحِ فن کے عکسِ جمیل
تجھ کو میری سی زندگی نہ ملے
جو نہ میں ہو سکا، وہ تُو ہو جاۓ
کاش تو میرا جانشیں نہ بنے
میں تصوّر میں بھی جہاں نہ گیا
اُن دیاروں میں تیرا نام چلے
۔۔۔۔۔۔
سلسلے سوالوں کے
دن کے چہچہوں میں بھی رات کا سا سنّاٹا
رات کی خموشی میں جیسے دن کے ہنگامے
جاگتی ہوئی آنکھیں، نیند کے دھندلکوں میں
خواب کے تصوّر میں اک عذابِ بیداری
روز و شب گزرتے ہیں قافلے خیالوں کے
صبح و شام کرتے ہیں آپ اپنی غم خواری
ہم کہاں ہیں؟ ہم کیا ہیں؟کون ہیں مگر کیوں ہیں؟
ختم ہی نہیں ہوتے سلسلے سوالوں کے
چشمۂ ہدایت ہے علم کے صحیفوں میں
فن کے شاہکاروں میں اک چراغِ عرفاں ہے
مرحمت کے ساماں ہیں ان کی بارگاہوں میں
مفت جو لُٹاتے ہیں اب بھی اپنی دانائی
رزم گاہِ ہستی میں اپنوں اور غیروں نے
جس سے روشنی پائی، جو عمل کی راہوں میں
کتنے کم نگاہوں کی مشکلوں میں کام آئی
ہم نے ان چراغوں کو، ہم نے اِن صداؤں کو
اپنی خواب گاہوں میں بارہا بلایا ہے
حال سب سنایا ہے اپنی آرزوؤں کا
اپنے دل کے زخموں کا بھید سب بتایا ہے
دو قدم مگر چل کر داغ کچھ نئے ابھرے
پھر خلاۓ بے پایاں، پھر وہی اندھیرے تھے
ہر چراغ سے روٹھی جیسے اپنی بینائی
ہر صدا پہ غالب تھی جیسے اپنی تنہائی
۔۔۔۔۔
تنہائی سے آگے
اور یہ سب بحثیں جو گھس پِٹ کے پرانی ہو جائیں
جب کوئی رس نہ ہو دہرائی ہوئی باتوں میں
مضمحل روحیں خموشی کا سہارا ڈھونڈھیں
جب کوئی لطف نہ رہ جاۓ ملاقاتوں میں
جب نہ محسوس ہو کچھ گرمئ آداب و سلام
جی نہ چاہے کہ کوئی پرسشِ احوال کرے
دور تک پھیلی ہوئی دھند ہو، سنّاٹے ہوں
سب کے سب بیٹھے ہوں اور کوئی نہ ہو کچھ نہ رہے
ان خلاؤں سے نکل کر کہیں پرواز کریں
آؤ کچھ سیر کریں ذہن کی پنہائی میں!
کیوں نہ دریافت کریں ایسی گزر گاہوں کو
بات کرتی ہیں مسافر سے جو تنہائی میں
۔۔۔۔۔۔
غزلیں
ہے عجیب چیز مۓ جنوں، کبھی دل کی پیاس نہیں بجھی
مگر اب ملا کے تو دیکھ لوں ذرا ایک قطرۂ آگہی
مری خامشی۔ مری بے حسی، یہی میرا رازِ فسردگی
کبھی سو گیا ہوں تو جاگ اٹھی ہے یہ دل کی چوٹ دبی دبی
ہے یہ کیسی صحبتِ مے کشاں کہ ہر ایک جام لہو لہو
یہی دوستی ہے تو اے خدا مجھے راس آئی نہ دوستی
ہے ملول مجھ سے دعاۓ موت کہ میں ساتھ اس کا نہ دے سکا
مرے راستے میں جو آ گئی یہی زندگی، یہی زندگی
یہی ساتھ ساتھ مرے رہا، میں اسی کا پا نہ سکا پتا
کبھی ہر قدم پہ مجھے ملا، یہی آدمی، یہی آدمی
مرے ساتھ ساتھ چلے تھے سب، مرا ساتھ کوئی نہ دے سکا
مرے ہم سفر، مرے ہم نظر، مری خودسری، مری سر کشی
مری سمت اور بھی ساقیا! وہ جو بوند بوند میں زہر تھا
جسے اور کوئی نہ پی سکا، وہ شراب میرے ہی منہ لگی
میں شہیدِ ظلمتِ شب سہی، مری خاک کو یہی جستجو
کوئی روشنی، کوئی روشنی، کوئی روشنی، کوئی روشنی
………….
تری صدا کا ہے صدیوں سے انتظار مجھے
مرے لہو کے سمندر ذرا پکار مجھے
میں اپنے گھرکو بلندی پہ چڑھ کے کیا دیکھوں
عروجِ فن! مری دہلیز پر اتار مجھے
ابلتے دیکھی ہے سورج سے میں نے تاریکی
نہ راس آۓ گی یہ صبحِ زر نگار مجھے
کہے گا دل تو میں پتھر کے پاؤں چوموں گا
زمانہ لاکھ کرے آ کے سنگسار مجھے
وہ فاقہ مست ہوں جس راہ سے گزرتا ہوں
سلام کرتا ہے آشوبِ روزگار مجھے
*****
وہ رنگِ رخ، وہ آتشِ خوں کون لے گیا
اے دل ترا وہ رقصِ جنوں کون لے گیا
زنجیر آنسوؤں کی کہاں ٹوٹ کر گری
وہ انتہاۓ غم کا سکوں کون لے گیا
دردِ نہاں کے چھین لیے کس نے آئینے
نوکِ مژہ سے قطرۂ خوں کون لے گیا
جو مجھ سے بولتی تھیں وہ راتیں کہاں گئیں
جو جاگتا تھا سوزِ دروں کون لے گیا
کس موڑ پر بچھڑ گئے خوابوں کے قافلے
وہ منزلِ طرب کا فسوں کون لے گیا
جو شمع اتنی رات جلی، کیوں وہ بجھ گئی
جو شوق ہو چلا تھا فزوں کون لے گیا
………..
میں دیر سے دھوپ میں کھڑا ہوں
سایہ سایہ پکارتا ہوں
سونا ہوں، کرید کر تو دیکھو
مٹی میں دبا ہوا پڑا ہوں
لے مجھ کو سنبھال گردشِ وقت
ٹوٹا ہوا تیرا آئینہ ہوں
یوں ربط تو ہے نشاط سے بھی
در اصل میں غم سے آشنا ہوں
صحبت میں گلوں کی میں بھی رہ کر
کانٹوں کی زباں سمجھ گیا ہوں
دشمن ہو کوئی کہ دوست میرا
ہر ایک کے حق میں میں دعا ہوں
کیوں آبِ حیات کو میں ترسوں
میں زہرِ حیات پی چکا ہوں!!
ہر عہد کے لوگ مجھ سے ناخوش
ہر عہد میں خواب دیکھتا ہوں
۔۔۔۔۔۔۔
دل کی رہ جاۓ نہ دل میں، یہ کہانی کہہ لو
چاہے دو حرف لکھو، چاہے زبانی کہہ لو
میں نے مرنے کی دعا مانگی وہ پوری نہ ہوئی
بس اسی کو مرے جینے کی نشانی کہہ لو
تم سے کہنے کی نہ تھی بات، مگر کہہ بیٹھا
اب اسے میری طبیعت کی روانی کہہ لو
وہی اک قصّہ زمانے کو مرا یاد رہا
آپ بیتی کہو، یا مرثیہ خوانی کہہ لو
۔۔۔۔۔۔
اتنی لمبی ہے کہانی کہیں دم ٹوٹ نہ جاۓ
حالِ دل اور لکھیں گے پہ قلم ٹوٹ نہ جاۓ
ہم چھپاتے ہیں پریشانئ خاطر ان سے
طبعِ نازک پہ بھی یہ کوہِ الم ٹوٹ نہ جاۓ
ہم نے خود جس کو تراشا ہے بڑی محنت سے
اب ہمیں سے یہ خیالوں کا صنم ٹوٹ نہ جاۓ
اب ٹھہرتا نہیں اس گھر میں کوئی اور چراغ
قطرہ قطرہ ترا اے دیدۂ نم ٹوٹ نہ جاۓ
کسی قیمت کسی بازار میں ملتا نہیں دل
لو سنبھالو کہ یہ پیمانۂ جم ٹوٹ نہ جاۓ
اور آہستہ چلو رہگزرِ ہستی سے
کہیں یہ سلسلۂ نقشِ قدم ٹوٹ نہ جاۓ
۔۔۔۔۔
زندگی اے زندگی
نیا آدمی
اور پھر یوں ہوا
جو پرانی کتابیں، پرانے صحیفے
بزرگوں سے ورثے میں ہم کو ملے تھے
انھیں پڑھ کے ہم سب یہ محسوس کرنے لگے
ان کے لفظوں سے مطلب نکلتا نہیں ہے
جو تعبیر و تفسیر اگلوں نے کی
معانی و مفہوم
جو ان پہ چسپاں کیے تھے
اب ان کی حقیقت کسی واہمے سے زیادہ نہیں ہے
اور پھر یوں ہوا۔۔۔
زندہ لوگوں نے یہ آ کے ہم کو بتایا
کہ اب ان پرانی کتابوں کو
تہہ کر کے رکھ دو
ہمارے وسیلے سے
تم پر
نئی کچھ کتابیں اُتاری گئی تھیں
انھیں تم پڑھو گے
تو تم پر
صداقت نئے طور سے منکشف ہوگی
بوسیدہ و منجمد ذہن میں
کھڑکیاں کھل سکیں گی
تمھیں علم و عرفان اور آگہی کے
خزینے ملیں گے
اور پھر یوں ہوا۔۔۔
ان کتابوں کو
اپنی کتابیں سمجھ کر
انھیں اپنے سینے سے ہم نے لگایا
ہر اک لفظ کا ورد کرتے رہے
ایک اک حرف کا رس پیا
اور ہمیں مل گیا
جیسے معنی و مفہوم کا
اک نیا سلسلہ
اور پھر یوں ہوا۔۔۔۔
ان کتابوں سے
اک دن
یہ ہم کو بشارت ملی
آنے والا ہے دنیا میں
اب اک نیا آدمی
لے کے اپنے جلو میں نئی زندگی
ہم اندھیری گپھاؤں سے
اوہام کی تنگ گلیوں سے نکلیں گے
ہم کو ملے گی نئی روشنی
اور پھر یوں ہوا۔۔۔
لانے والے کتابوں کے
اور وہ بھی جو ان پہ ایمان لاۓ تھے
سب اپنے اپنے گھروں
سے نکل کر
کسی سمت کو چل پڑے
ایسے اک راستے پر
جدھر سے نیا آدمی
آنے والا تھا
یا ہم کو اس کا یقیں تھا
کہ وہ آۓ گا اور اسی سمت سے
بس اسی سمت سے آۓ گا
اور پھر یوں ہوا۔۔۔
دیر تک ہم نئے آدمی کے رہے منتظر
دیر تک شوقِ دیدار کی
اپنی آنکھوں میں مستی رہی دیر تک
اس کی آمد کا ہم گیت گاتے رہے
دیر تک اس کی تصویر
ذہنوں میں بُنتے رہے
دیر تک
اِس خرابے میں اَک جشن ہوتا رہا
اور پھر یوں ہوا۔۔۔
دیر تک
اور بھی دیر تک
جب نہ ہم کو ملا
آنے والے کا کوئی پتہ
اس کے قدموں کی کوئی نہ آہٹ ملی
ہم نے پھر زور سے اس کو آواز دی
"اے نئے آدمی!!
اے نئے آدمی!!"
اور یہ آواز اونچے پہاڑوں سے ٹکرا کے
بے نام صحراؤں سے لوٹ کر
پھر ہماری طرف آ گئی
اور پھر یوں ہوا۔۔۔
چند لوگوں نے سوچا کہ شاید نیا آدمی
آۓ گا اور ہی سمت سے
دوسرے چند لوگوں نے سوچا
کہ شاید نیا آدمی
آۓ گا اور ہی سمت سے
اور پھر ہر طرف قافلے قافلے
اور پھر ہر طرف راستے راستے
اور پھر یوں ہوا۔۔۔
دیر تک اس نئے آدمی کی
رہی جستجو
اُس کو آواز دیتے رہے چار سو
کو بکو، قریہ قریہ
اسے ہم بلاتے رہے
منزلوں منزلوں
خاک اُڑاتے رہے
اور پھر یوں ہوا۔۔۔
سب کے چہرے اسی خاک میں اٹ گئے
سب کی آنکھوں میں اک تیرگی چھا گئی
سب کو ڈسنے لگی راہ کی بے حسی
اور پھر سب وہ اک دوسرے کے لیے
اجنبی ہو گئے
اور پھر سب کے سب
دھند میں کھو گئے
اور پھر یوں ہوا۔۔۔
ہم نے پھر گھر پہ آ کے
کتابوں کے اوراق کھولے
انھیں پھر سے پڑھنے کی خاطر اٹھایا
اور ہر اک سطر پر غور کرتے رہے دیر تک
اور ہر اک لفظ کو
دوسرے لفظ سے جوڑ کر
سلسلہ حرفِ نغمہ کا
صوت و صدا کا ملاتے رہے
اور پھر یوں ہوا۔۔۔
اور پھر یاس و امید
یاس و امید کے درمیاں
ڈھونڈھتے ہی رہے
اس نئے آدمی کا نشاں
اور ہمیں پَس ملیں
اپنی آواز کی
زرد سوکھی ہوئی پتیاں
اور پھر یوں ہوا۔۔۔
ہم سے سورج کئی روز روٹھا رہا
آسمانوں سے اٹھتی رہیں
تہہ بہ تہہ بدلیاں
کالی کالی نظر آئیں سب وادیاں
کالے گھر، کالی دیواریں، کالی چھتیں
کالی سڑکوں پہ چلتی ہوئی کالی پرچھائیاں
یہ زمیں
کالے ساگر میں
ٹوٹی ہوئی ناؤ کی طرح سے
ڈگمگانے لگی
موت کی نیند آنے لگی
اور پھر یوں ہوا۔۔۔
ہم نے اپنے گھروں میں
جلائے خود اپنے دیے
ہم نے بکھرے ہوۓ خواب
ٹوٹے ہوۓ آئینے
پھر سے جوڑے
بجھے جسم کی راکھ سے
سر اٹھاتے ہوۓ
ایک ننھے سے شعلے کو
اور اپنے چہرے میں
اک اور چہرے کو دیکھا
پھر اپنے لہو کی صدائیں سنیں،
اور اپنے لیے آپ اپنی کتابیں لکھیں
۔۔۔۔۔۔۔۔
میں گوتم نہیں ہوں
میں گوتم نہیں ہوں
مگر جب بھی گھر سے نکلا
یہ سوچتا تھا
کہ میں اپنے آپ کو
ڈھونڈھنے جا رہا ہوں
کسی پیڑ کی چھاؤں میں
میں بھی بیٹھوں گا
اک دن مجھے بھی کوئی گیان ہوگا
مگر
جسم کی آگ جو گھر سے لے کر چلا تھا
سلگتی رہی
گھر کے باہر ہوا تیز تھی
اور بھی یہ بھڑکتی رہی
ایک اک پیڑ جل کر ہوا راکھ
میں ایسے صحرا میں اب پھر رہا ہوں
جہاں میں ہی میں ہوں
جہاں میرا سایہ ہے
ساۓ کا سایہ ہے
اور دور تک
بس خلا ہی خلا ہے
۔۔۔۔۔۔۔
کتبہ
(۱)
خدایا! نہ میں نے کہیں سر جھکایا
نہ دنیا میں احسان اب تک کسی کا اٹھایا
مرے سر پہ جب دھوپ ہی دھوپ تھی
اس گھڑی میں نہ ڈھونڈھا کہیں کوئی سایا
تو اب تُو ہی آ کر مری آبرو کو بچا لے
یہی ایک تحفہ ہے
جو میں ترے پاۓ اقدس پہ رکھ دوں گا
اور یہ کہوں گا
یہی میری پونجی، یہی ہے کمائی
مجھے اور کچھ بھی عطا کر نہ پائی
یہ تیری خدائی
خدایا
مری نذرِ بے مایہ کو دیکھ کر
جس خزانے میں اس کی جگہ ہو
اب وہاں پر اسے ڈال دے
۔۔۔۔۔
کتبہ
(۲)
یہ کتبہ فلاں سن کا ہے
یہ سن اس لیے اس پہ کندہ کیا
کہ سب وارثوں پر یہ واضح رہے
کہ اس روز برسی ہے مرحوم کی
عزیز و اقارب، یتامیٰ، مساکین
ضیافت سے اپنی نوازیں، سبھی کو بلائیں
کہ سب مل کے مرحوم کے حق میں دستِ دعا کو اٹھائیں
زباں سے کہیں اپنی ’مرحوم کی مغفرت ہو‘
بزرگِ مقدّس کے نامِ مقدّس پہ بھیجیں درود و سلام
سبھی خاص و عام
افسانہ (کسی اور کا پنسل سے لکھا ہوا)
مگر یہ بھی ملحوظِ خاطر رہے
عزیز و اقارب کا شرب و طعام
اور اس کا نظام
الگ ہو وہاں سے
جہاں ہوں یتامیٰ، مساکین، اندھے بھکاری
پھٹے اور میلے لباسوں میں سب عورتیں اور بچّے
کئی لولے لنگڑے، مریض اور گندے
وہی جن کو کہتے ہیں ہم سب عوام
وہاں ہوگا اک شور و غل اژدہام
یہ کر دیں گے ہم سب کا جینا حرام
۔۔۔۔۔۔
غزلیں
خود اپنا عکس ہوں کہ کسی کی صدا ہوں میں
یاں شہر تا بہ شہر جو بکھرا ہوا ہوں میں
میں ڈھونڈھنے چلا تھا جو خود اپنے آپ کو
تہمت یہ مجھ پہ ہے کہ بہت خود نُما ہوں میں
مجھ سے نہ پوچھ نام مرا روحِ کائنات
اب اور کچھ نہیں ہوں، ترا آئینہ ہوں میں
لاؤں کہاں سے ڈھونڈھ کے میں اپنا ہم نوا
خود اپنے ہر خیال سے ٹکرا چکا ہوں میں
اے عمرِ رفتہ میں تجھے پہچانتا نہیں
اب مجھ کو بھول جا کہ بہت بے وفا ہوں میں
…….
ہر گھڑی عمرِ فرومایہ کی قیمت مانگے
مجھ سے آئینہ مرا میری ہی صورت مانگے
دور رہ کر ہی جو آنکھوں کو بھلے لگتے ہیں
دلِ دیوانہ مگر ان کی ہی قربت مانگے
پوچھتے کیا ہو ان آنکھوں کی اداسی کا سبب
خواب جو دیکھے وہ خوابوں کی حقیقت مانگے
اپنے دامن میں چھپا لے مرے اشکوں کے چراغ
اور کیا تجھ سے کوئی اے شبِ فرقت مانگے
وہ نگہ کہتی ہے بیٹھے رہو محفل میں ابھی
دل کی آشفتگی اٹھنے کی اجازت مانگے
زہر پی کر بھی جیوں میں، یہ الگ بات مگر
زندگی اس لبِ رنگیں کی حلاوت مانگے
زیب دیتے نہیں یہ طرّہ و دستار مجھے
میری شوریدہ سری سنگِ ملامت مانگے
……..
پھر مری راہ میں کھڑی ہوگی وہی اک شے جو اجنبی ہوگی
شور سا ہے لہو کے دریا میں ۔ کس کی آواز آ رہی ہوگی
پھر مری روح میرے گھر کا پتہ ۔ میرے ساۓ سے پوچھتی ہوگی
کچھ نہیں میری زرد آنکھوں میں ۔ ڈوبتے دن کی روشنی ہوگی
رات بھر دل سے بس یہی باتیں ۔ دن کو پھر درد میں کمی ہوگی
بس یہی ایک بوند آنسو کی ۔ میرے حصّے کی مے کشی ہوگی
پھر مرے انتظار میں مری نیند ۔ میرے بستر پہ جاگتی ہوگی
جانے کیوں اک خیال سا آیا ۔ میں نہ ہوں گا تو کیا کمی ہوگی
…….
اس پر بھی دشمنوں کا کہیں سایہ پڑ گیا
غم سا پرانا دوست بھی آخر بچھڑ گیا
جی چاہتا تو بیٹھتے یادوں کی چھاؤں میں
ایسا گھنا درخت بھی جڑ سے اکھڑ گیا
غیروں نے مجھ کو دفن کیا شاہراہ پر
میں کیوں نہ اپنی خاک میں غیرت سے گڑ گیا
خلوت میں جس کی نرم مزاجی تھی بے مثال
محفل میں بے سبب ہی وہ مجھ سے اکڑ گیا
بس اتنی بات تھی کہ عیادت کو آۓ لوگ
دل کے ہر ایک زخم کا ٹانکا اُدھڑ گیا
یاروں نے جا کے خوب زمانے سے صلح کی
میں ایسا بد دماغ، یہاں بھی پچھڑ گیا
کوتاہیوں کی اپنی میں تاویل کیا کروں
میرا ہر ایک کھیل مجھی سے بگڑ گیا
اب کیا بتائیں کیا تھا خیالوں کے شہر میں
بسنے سے پہلے وقت کے ہاتھوں اُجڑ گیا
………
سوتے سوتے چونک پڑے ہم، خواب میں ہم نے کیا دیکھا
جو خود ہم کو ڈھونڈھ رہا ہو، ایسا اک رستا دیکھا
دور سے اک پرچھائیں دیکھی اپنے سے ملتی جلتی
پاس سے اپنے چہرے میں بھی اور کوئی چہرا دیکھا
سونا لینے جب نکلے تو ہر ہر ڈھیر میں مٹی تھی
جب مٹی کی کھوج میں نکلے، سونا ہی سونا دیکھا
سوکھی دھرتی سن لیتی ہے پانی کی آوازوں کو
پیاسی آنکھیں بول اٹھتی ہیں ہم نے اک دریا دیکھا
چاندی کے سے جن کے بدن تھے، سورج جیسے مکھڑے تھے
کچھ اندھی گلیوں میں ہم نے ان کا بھی سایا دیکھا
رات وہی پھر بات ہوئی نا۔۔۔ ہم کو نیند نہیں آئی
اپنی روح کے سنّاٹے سے شور سا اک اٹھتا دیکھا
بنے بناۓ سے رستوں کا سلسلہ نکلا
نیا سفر بھی بہت ہی گریز پا دیکھا
نہ جانے کس کی ہمیں عمر بھر تلاش رہی
جسے قریب سے دیکھا وہ دوسرا نکلا
ہمیں تو راس نہ آئی کسی کی محفل بھی
کوئی خدا، کوئی ہمسایۂ خدا نکلا
ہزار طرح کی مے پی، ہزار طرح کے زہر
نہ پیاس ہی بجھی اپنی، نہ حوصلہ نکلا
ہمارے پاس سے گزری تھی ایک پرچھائیں
پکارا ہم نے تو صدیوں کا فاصلہ نکلا
اب اپنے آپ کو ڈھونڈھیں کہاں کہاں جا کر
عدم سے تا بہ عدم اپنا نقشِ پا نکلا
………
رخ پہ گردِ ملال تھی، کیا تھی
حاصلِ ماہ و سال تھی، کیا تھی
ایک صورت سی یاد ہے اب بھی
آپ اپنی مثال تھی، کیا تھی
میری جانب اُٹھی تھی کوئی نگہ
ایک مبہم سوال تھی، کیا تھی
اس کو پا کر بھی اس کو پا نہ سکا
جستجوۓ جمال تھی، کیا تھی
صبح تک خود سے ہم کلام رہا
یہ شبِ جذب و حال تھی، کیا تھی
دل میں تھی، پر لبوں تک آ نہ سکی
آرزوۓ وصال تھی، کیا تھی
اپنے زخموں پہ اک فسردہ ہنسی
کوششِ اندمال تھی، کیا تھی
عمر بھر میں بس ایک بار آئی
ساعتِ لا زوال تھی، کیا تھی
خوں کی پیاسی تھی پر زمینِ وطن
ایک شہرِ خیال تھی، کیا تھی
باعثِ رنجشِ عزیزاں تھی
خوۓ کسبِ کمال تھی، کیا تھی
اک جھلک لمحۂ فراغت کی
ایک امرِ محال تھی، کیا تھی
کوئی خواہاں نہ تھا کہ جنسِ ہنر
ایک مفلس کا مال تھی، کیا تھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماہنامہ شاعر ممبئی خلیل الرحمٰن اعظمی نمبر (شمارہ 4 5 اور 6، 1980) کے لیے شہریار کا کیا گیا انتخاب
ٹائپنگ اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
روح پرور ہیں یہ اشعارِ خلیل
ان کا اعجازِ ہُنرہے دلنشیں
احمد علی برقی اعظمی