فہرست مضامین
- اب شام نہیں ڈھلتی۔ انتخاب
- باقی احمد پوری
- انتخاب، پیشکش اور ٹائپنگ: شیزان اقبال
-
- بے کیف ہیں یہ ساغر و مینا ترے بغیر
- تمہارے آخری خط کا جواب دینا ہے
- لہوٗ لہوٗ ہے ہر اِک یاد کا بدن باقی
- تیری طرح ملال مجھے بھی نہیں رہا
- جو تجھ سے وابستہ ہے
- فقط دیوارِ نفرت رہ گئی ہے
- سامنے سب کے نہ بولیں گے ہمارا کیا ہے
- سُنا ہے پاس کوئی رنگ و بُو کا بھی نہیں کرتا
- اُداس بام ہے، دَر کاٹنے کو آتا ہے
- خود کو کب درمیان رکھتے ہیں
- جسموں کے پگھلنے کا مہینہ نہیں آیا
- زمانے بھر نے منہ موڑا تو جانا
- سامنا زمانے کی سرپھری ہوا کا ہے
- ظلم ہی ظلم ہے زوروں کی ہوا چلتی ہے
- ذرا سی بات پہ دل کا نگر بدلتے نہیں
- جو لگے داغ دل لگانے سے
- وہ دُور دُور سے رہتے ہیں جانے کیوں ہم سے
- شعلۂ زر میں جلے ہیں ہم لوگ
- ہاں کا انداز تھا نہیں جیسا
- جسے حیات سے نفرت بہت زیادہ تھی
- ہمیں اُن بستیوں کی جُستجو ہے
- تجھ بن مری حیات میں کچھ بھی نہیں رہا
- حسرت ہی رہی ہے اُسے ارماں ہی رہا ہے
- رات بھر جاگتا ہی رہتا ہوں
- میری آنکھوں میں ڈال کر آنکھیں
- صبح تا شام سوچتا ہوں میں
- وحشت میں تار تار لبادہ نہیں کیا
- دلِ دہقاں جو کھیتوں میں نہیں ہے
- مال و متاعِ درد زیادہ ہے اِن دِنوں
- نہ ہاتھ اُٹھا کے اُسے روز و شب پکارا کر
- کوئی فصیل اُٹھائی نہ دَر بنایا ہے
- ہم کریں جا کے عرضِ حال کہاں
- دھُول اُڑتی ہے چار سُو کیسی
- ہے سرِ خامہ شکستہ کاتبِ تقدیر کا
- بے نام منزلوں سے پکارا گیا ہوں میں
- دل ہے پارہ پارہ شہر کی گلیوں میں
- عشق کی منزلِ پُر خار پہ آ جاتے ہیں
- کوئی جب سے ہمارا ہو گیا ہے
- پیمانے سے پیمانہ ٹکرا ہی لیا جائے
- جو اُس محفل میں بیگانے بہت ہیں
- تیرے شہرِ وفا میں رہتے ہیں
- جُنوں کے شہر کا ہر آدمی عجب نکلا
- گُزرے ہوئے لمحوں کے حسابوں میں رہیں گے
- خُو گرِ ظلم ہو رسمِ مہر و وفا، تم نہیں جانتے
- یہی حیات کا ساماں نہیں ہے، وہ بھی ہے
- اب تو ہر ظلم روَا ہو جیسے
- سب مرحلے وفا کے، جفا کے سپرد ہیں
- غریبِ شہر پہ اُس کو ترس نہیں آتا
- اِن آبلوں سے جو ذوقِ سفر میں پلتے ہیں
- آئی نہیں چمن میں بہارِ چمن ابھی
- منزلِ انقلاب ہی میں رہے
- جو تیرا سامنا کیے ہوتے
- جب کِسی زُلف کے اسیر ہوئے
- کیا کہوں کیوں ہم سے وہ غُنچہ دہن کھُلتا نہیں
- منزلوں پر اجنبی سے راستے یاد آ گئے
- اور تو کچھ بھی نہیں میری نظر کے آگے
- بازیِ عِشق جب سے ہاری ہے
- یادوں کی گُونج دشتِ محبت میں اب بھی ہے
- موجِ بلا کو گرمئ رفتار کر لیا
- باقی احمد پوری
- مُتَفرق
اب شام نہیں ڈھلتی۔ انتخاب
باقی احمد پوری
انتخاب، پیشکش اور ٹائپنگ: شیزان اقبال
بے کیف ہیں یہ ساغر و مینا ترے بغیر
آساں ہوا ہے زہر کا پینا ترے بغیر
کیا کیا ترے فراق میں کی ہیں مشقّتیں
اِک ہو گیا ہے خُون پسینہ ترے بغیر
جچتا نہیں ہے کوئی نِگاہوں میں آج کل
بے عکس ہے یہ دیدۂ بینا ترے بغیر
کِن کِن بلندیوں کی تمنا تھی عشق میں
طے ہو سکا نہ ایک بھی زِینہ ترے بغیر
تُو آشنائے شدتِ غم ہو تو کچھ کہوں
کِتنا بڑا عذاب ہے جینا ترے بغیر
ساحل پہ کتنے دیدہ و دل فرشِ راہ تھے
اُترا نہ پار دل کا سفینہ ترے بغیر
باقی کسی بھی چیز کا دل پر اثر نہیں
پتھر کا ہو گیا ہے یہ سینہ ترے بغیر
٭٭٭
تمہارے آخری خط کا جواب دینا ہے
نہ جانے رُوح کو کتنا عذاب دینا ہے
اُس اِک نگاہ نے اِک پل میں کیا نہیں پُوچھا
کئی سوال ہیں جن کا جواب دینا ہے
گُذر گیا ہے یہ دن تو کِسی طرح، لیکن
تمام رات غموں کا حساب دینا ہے
ستمگروں کو یہی بات بھُول جاتی ہے
کہ ایک روز تو خُوں کا حساب دینا ہے
اُسی نے مُہر لگا دی ہے سب کے ہونٹوں پر
وہ اِک سوال کہ جس کا جواب دینا ہے
نظام ہائے کہن آزما کے دیکھ لیے
زمیں کو اور ہی اب اِنقلاب دینا ہے
لہوٗ لہوٗ ہے ہر اِک یاد کا بدن باقی
گئے دنوں کا اَبد تک حساب دینا ہے
٭٭٭
تیری طرح ملال مجھے بھی نہیں رہا
جا، اب ترا خیال مجھے بھی نہیں رہا
تُو نے بھی موسموں کی پذیرائی چھوڑ دی
اب شوقِ ماہ و سال مجھے بھی نہیں رہا
میرا جواب کیا تھا ، تجھے بھی خبر نہیں
یاد اب ترا سوال، مجھے بھی نہیں رہا
جس بات کا خیال نہ تُو نے کیا کبھی
اُس بات کا خیال مجھے بھی نہیں رہا
توڑا ہے تُو نے جب سے مرے دل کا آئینہ
اندازۂ جمال مجھے بھی نہیں رہا
باقی میں اپنے فن سے بڑا پُر خلوص ہوں
اِس واسطے زوال مجھے بھی نہیں رہا
٭٭٭
جو تجھ سے وابستہ ہے
مجھ پر فقرے کستا ہے
طنز ہے اِک بیماروں پر
ہاتھ میں جو گُلدستہ ہے
تیری ہی سب راہیں ہیں
میرا کون سا رستہ ہے
بادل ہیں اور آنکھیں بھی
دیکھیں کون برستا ہے
ساون میں اِک ناگ مجھے
فرض سمجھ کے ڈستا ہے
پانی کون پلائے گا
خُون یہاں اب سسَتا ہے
دیوانے کی بات سہی
بات مگر برجستہ ہے
باقی ہی کچھ بولے گا
ہر کوئی لب بستہ ہے
٭٭٭
فقط دیوارِ نفرت رہ گئی ہے
یہی اِس گھر کی صُورت رہ گئی ہے
کوئی شامل نہیں ہے قافلے میں
قیادت ہی قیادت رہ گئی ہے
بطولت کذب کے حصّے میں آئی
حقیقت بے حقیقت رہ گئی ہے
کوئی کب ساتھ چلتا ہے کسی کے
غرض کی ہی رفاقت رہ گئی ہے
تگ و دو تو بہت کرتے ہیں لیکن
خلوصِ دل کی قلّت رہ گئی ہے
نہیں ہے اور کچھ باقی تو کیا ہے
یہ کیا کم ہے کہ عزت رہ گئی ہے
٭٭٭
سامنے سب کے نہ بولیں گے ہمارا کیا ہے
چھُپ کے تنہائی میں رو لیں گے ہمارا کیا ہے
گلشنِ عشق میں ہر پھُول تمہارا ہی سہی
ہم کوئی خار چبھو لیں گے ہمارا کیا ہے
عُمر بھر کون رہے ابرِ کرم کا محتاج
داغِ دل اشکوں سے دھو لیں گے ہمارا کیا ہے
ہاتھ آیا نہ اگر دستِ حنائی تیرا
اُنگلیاں خُوں میں ڈبو لیں گے ہمارا کیا ہے
تم نے محلوں کے علاوہ نہیں دیکھا کچھ بھی
ہم تو فٹ پاتھ پہ سو لیں گے ہمارا کیا ہے
اپنی منزل تو سرابوں کا سفر ہے باقی
ہم کِسی راہ پہ ہو لیں گے ہمارا کیا ہے
٭٭٭
سُنا ہے پاس کوئی رنگ و بُو کا بھی نہیں کرتا
خیال اب وہ چمن کی آبرُو کا بھی نہیں کرتا
سِتم ہے اب وہ آنکھیں بھی نہیں ہیں مہرباں ہم پر
کوئی اب تذکرہ جام و سبُو کا بھی نہیں کرتا
زبانِ دوستاں نے اِس قدر نشتر لگائے ہیں
کہ اِتنا کام تو خنجر عدُو کا بھی نہیں کرتا
یہاں میرے پسینے کی کِسی کو کیا خبر ہو گی
حساب اِس شہر میں کوئی لہُو کا بھی نہیں کرتا
وہاں لا کے محبت نے کِیا ہے چاک دل باقی
جہاں پر کام اب کوئی رفُو کا بھی نہیں کرتا
٭٭٭
اُداس بام ہے، دَر کاٹنے کو آتا ہے
ترے بغیر یہ گھر کاٹنے کو آتا ہے
خیالِ موسمِ گُل بھی نہیں ستمگر کو
بہار میں بھی شجر کاٹنے کو آتا ہے
فقیہہِ شہر سے اِنصاف کون مانگے گا
فقیہہِ شیر تو سَر کاٹنے کو آتا ہے
اِسی لیے تو کسانوں نے کھیت چھوڑ دیئے
کہ کوئی اور ثمر کاٹنے کو آتا ہے
ترے خیال کا آہو کہیں بھی دن میں رہے
مگر وہ رات اِدھر کاٹنے کو آتا ہے
کہا تو تھا کہ ہمیں اِس قدر بھی ڈھیل نہ دے
اب اُڑ رہے ہیں تو پَر کاٹنے کو آتا ہے
یہ کام کرتے تھے پہلے سگانِ آوارہ
بشر کو آج بشر کاٹنے کو آتا ہے
یہ اُس کی راہ نہیں ہے مگر یُونہی باقی
وہ میرے ساتھ سفر کاٹنے کو آتا ہے
٭٭٭
خود کو کب درمیان رکھتے ہیں
صرف تیرا دھیان رکھتے ہیں
کون کہتا ہے چھت نہیں اپنی
سر پہ سات آسمان رکھتے ہیں
وہ ہمارے سوا کسی کا نہیں
ہم بھی کیا کیا گمان رکھتے ہیں
اُن کے انداز بھی نرالے ہیں
ہم بھی اِک اپنی شان رکھتے ہیں
اتنے بے باک مت بنو باقی
دَر و دیوار کان رکھتے ہیں
٭٭٭
جسموں کے پگھلنے کا مہینہ نہیں آیا
بھاگے ہیں بہت، پھر بھی پسینہ نہیں آیا
طوفانِ بلا خیز میں رہتے ہیں ہمیشہ
ساحل پہ کبھی اپنا سفینہ نہیں آیا
حق بات پہ کیا زہر کا وہ جام پئیں گے
اِک ساغرِ مے بھی جنہیں پینا نہیں آیا
نکلتے ہیں فقط سنگ تہہِ سنگِ زمیں سے
ہاتھوں میں کِسی کے بھی خزینہ نہیں آیا
تلوار لیے لرزہ بر اندام ہے قاتل
مقتول کے ماتھے پہ پسینہ نہیں آیا
سانسوں کا تسلسل بھی ہے مجبوریِ ہستی
جیتے ہیں کہ مرنے کا قرینہ نہیں آیا
جس شہر میں اِک عُمر سے ہم رہتے ہیں باقی
اُس شہر میں اب تک ہمیں جینا نہیں آیا
٭٭٭
زمانے بھر نے منہ موڑا تو جانا
کِسی نے ساتھ جب چھوڑا تو جانا
نظر آتے ہیں دو دو عکس اپنے
شکستہ آئینہ جورا تو جانا
بہت دُشواریاں ہیں راستوں میں
کِسی نے راہ میں چھوڑا تو جانا
گُلوں کا لَمس کیا ہوتا ہے باقی
کِسی پتھر پہ سر پھوڑا تو جانا
٭٭٭
سامنا زمانے کی سرپھری ہوا کا ہے
پھر بھی ضو فشاں اب تک اِک دِیا وفا کا ہے
ایک ایک بات اُس کی یاد آتی رہتی ہے
کیا کریں کہ اپنا بھی حافظہ بلا کا ہے
اُن کھُلے کواڑوں سے اور کون جھانکے گا
اُن اُداس گلیوں میں بس گُزر ہوا کا ہے
خواہشوں کی ہاؤ ہُو، حسرتوں کے واویلے
سوچتا ہوں شہرِ دل، شہر کِس بلا کا ہے
ہم بھی سنگِ مر مر کے اپنے گھر بنا لیتے
لیکن اپنی مجبوری، مسئلہ انا کا ہے
ہم سفید پوشوں کی زندگی نرالی ہے
پاس کچھ نہیں باقی نام بس خُدا کا ہے
٭٭٭
ظلم ہی ظلم ہے زوروں کی ہوا چلتی ہے
ایسے طوفان میں اِک شمع کی کیا چلتی ہے
تم کہاں جنسِ وفا لے کے چلے آئے ہو
اِس زمانے میں تو بس رسمِ جفا چلتی ہے
اب کوئی بادِ مخالف کا مخالف ہی نہیں
سب اُدھر چلتے ہیں جس رُخ کی ہَوا چلتی ہے
پھر نہ پُوچھو کہ گزر جاتی ہے کیا کیا دل پر
شام کے بعد جو یادوں کی ہَوا چلتی ہے
آؤ اِس شہر سے اب دور کہیں جا نکلیں
ہر تمنا یہاں زنجیر بہ پا چلتی ہے
میں کبھی شوکتِ شاہی سے نہ مرعُوب ہوا
آئینہ بن کے مرے ساتھ اَنا چلتی ہے
ایک پل بھی کوئی تنہا نہیں ہوتا باقی
ساتھ گزرے ہوئے لمحوں کی صدا چلتی ہے
٭٭٭
ذرا سی بات پہ دل کا نگر بدلتے نہیں
تری نظر کی طرح ہم نظر بدلتے نہیں
بدل چکے ہیں کئی آفتابِ وقت مگر
مرے جہان کے شام و سحر بدلتے نہیں
کِسی گنہ کی سزا میں بھٹکتے پھرتے ہیں
سُکوں نصیب ہو جن کو وہ گھر بدلتے نہیں
وہی مٗہیب دریچے، وہی اُداس مکاں
ہمارے شہر کے دیوار و دَر بدلتے نہیں
غموں نے ساتھ نبھایا ہے ہر قدم پہ مرا
کِسی طرح یہ مرے ہم سفر بدلتے نہیں
اُنہی کو منزل مقصد نصیب ہوتی ہے
ہر ایک موڑ پہ جو رہگزر بدلتے نہیں
ہم اپنے وعدوں کی حُرمت کا پاس رکھتے ہیں
زبان دے کے کبھی عُمر بھر بدلتے نہیں
ہے اُس کی یاد کی شدت اُسی طرح باقی
کتابِ درد کے زیر و زَبر بدلتے نہیں
٭٭٭
جو لگے داغ دل لگانے سے
اب وہ مٹتے نہیں مٹانے سے
کتنے لوگوں کی یاد آئی ہے
اِک تری یاد کے بہانے سے
آنکھ میں چبھ گئی ہیں تعبیریں
خواب دیکھے تھے کچھ سُہانے سے
ظُلمتیں ہیں نصیب میں جب تک
کچھ نہ ہو گا دیئے جلانے سے
گھر میں کھُل کر ہَوا تو آئی ہے
گھر کے دیوار و دَر گِرانے سے
مال سب لُٹ لٹا گیا پھر بھی
سانپ نِکلا نہیں خزانے سے
آج تک ہم بھٹکتے پھرتے ہیں
یہ ہُوا، تیرے چھوڑ جانے سے
سینکڑوں زخم سج گئے دل پر
اور کیا چاہیئے زمانے سے
کون جانے کہاں گیا باقی
اُس کو دیکھا نہیں زمانے سے
٭٭٭
وہ دُور دُور سے رہتے ہیں جانے کیوں ہم سے
بدل گئے ہیں نِگاہیں زمانے کیوں ہم سے
اب اُن کی آنکھ بھر آئی تو کیا قصور اپنا
وہ سُن رہے تھے وفا کے فسانے کیوں ہم سے
ہم ایک پل کی جدائی بھی سہہ نہ سکتے تھے
یہ امتحاں لیے ہیں خُدا نے کیوں ہم سے
جو ہر نفس تری خُوشبُو بسا کے جاتے تھے
اُڑا لیے ہیں وہ لمحے ہَوا نے کیوں ہم سے
ہم اُس کی آس پہ زندہ ہیں آج تک باقی
وفا کے وعدے کیے بے وفا نے کیوں ہم سے
٭٭٭
شعلۂ زر میں جلے ہیں ہم لوگ
شام سے پہلے ڈھلے ہیں ہم لوگ
گھر کا رستہ بھی نہیں یاد رہا
کیسی راہوں پہ چلے ہیں ہم لوگ
کوئی اِلزام زمانے پہ نہیں
اپنی مرضی سے جلے ہیں ہم لوگ
خیر ایسے بھی گنہگار نہیں
کتِنے لوگوں سے بھلے ہیں ہم لوگ
ہر کوئی سنگ زَنی کرتا ہے
اِس طرح پھُولے پھَلے ہیں ہم لوگ
اب رفاقت کا گلہ کیا کرنا
خُود ترے ساتھ چلے ہیں ہم لوگ
جب دَرِ حُسن پہ آئے باقی
کچھ نہ کچھ لے کے ٹلے ہیں ہم لوگ
٭٭٭
ہاں کا انداز تھا نہیں جیسا
پھر بھی احساس تھا یقیں جیسا
اِک ترے غم کو لے کے بیٹھا ہے
کون ہو گا دلِ حزیں جیسا
ایک پل کا رفیق تھا لیکن
وہ مُسافر ہوا مکیں جیسا
زندگی ہے نہ اُس پہ سبزہ و گل
چاند کب ہے مری زمیں جیسا
آبرُوئے سُخن ہوں میں باقی
میرا ہر لفظ ہے نگیں جیسا
٭٭٭
جسے حیات سے نفرت بہت زیادہ تھی
ہمیں اُسی کی ضرُورت بہت زیادہ تھی
اب ایک لمحۂ مفقُود کو ترستے ہیں
وہ دن بھی تھے، ہمیں فُرصت بہت زیادہ تھی
ہمارے گھر کی تباہی کا یہ سبب ٹھہرا
ہمارے گھر میں سیاست بہت زیادہ تھی
ہر ایک جرم کے پیچھے تھا جس کا ہاتھ یہاں
اُسی کی شہر میں عزت بہت زیادہ تھی
اِسی لیے تو وہ دستِ سِتم دراز رہا
کہ ہم میں ضبط کی عادت بہت زیادہ تھی
اُسی نے شہر کا سارا جمال چھین لیا
جو سَربلند عمارت بہت زیادہ تھی
حقیقتوں پہ تو ٹھہری نہیں نظر اپنی
خیال و خواب کی صُورت بہت زیادہ تھی
نہ اُس کی آنکھ بھر آئی، نہ میرا دل رویا
دمِ فراق یہ حیرت بہت زیادہ تھی
تھکن سے ٹوٹ گرا ہوں تو اب یہ سوچتا ہوں
کہ بے خیال مسافت بہت زیادہ تھی
تمہارا قُرب جو ملتا تو جانے کیا کرتے
ہمیں تو دُور کی نِسبت بہت زیادہ تھی
اب اُس کا نام بھی لیتے ہیں سوچ کر باقی
کِسی سے ہم کو محبت بہت زیادہ تھی
٭٭٭
ہمیں اُن بستیوں کی جُستجو ہے
جہاں امن و اماں کی گفتگو ہے
ابھی تکمیل کی منزل کہاں ہے
ابھی تو آرزُو بس آرزُو ہے
تصور کو مجسّم کر لیا ہے
اِدھر سوچا، اُدھر وہ رُو برُو ہے
اکیلی شمع آخر کیا کرئے گی
اندھیرا تو جہاں میں چار سُو ہے
زرِ اسود کے مالک ناسمجھ ہیں
وہ قاتل ہے جو ان کا چارہ جُو ہے
یہاں کی فصل گل بھی ہے خزاں سی
یہ کیسا گلشنِ بے رنگ و بُو ہے
اُسی کی اِک نظر سب کچھ ہے باقی
وہی مینا، وہی جام و سبُو ہے
٭٭٭
تجھ بن مری حیات میں کچھ بھی نہیں رہا
ڈُوبا ہے چاند، رات میں کچھ بھی نہیں رہا
تیری صدا نہیں ہے تو ہم کان کیوں دَھریں
اب تو کِسی کی بات میں کچھ بھی نہیں رہا
پلکوں پہ ضُو فشاں جو سِتارے تھے، گِر گئے
پھر اُس کے بعد رات میں کچھ بھی نہیں رہا
آنکھیں کھلی ہیں اور نِگاہوں میں کچھ نہیں
لگتا ہے شش جہات میں کچھ بھی نہیں رہا
اب فیصلہ نصیب پہ چھوڑیں، جو ہو سو ہو
اب تو ہمارے ہاتھ میں کچھ بھی نہیں رہا
مغُرور کِس قدر تھا یہ شاخِ بلند پر
جڑ کٹ گئی تو پات میں کچھ بھی نہیں رہا
اِک حرف بھی نہیں جو مرے غم کا ساتھ دے
باقی کسی لُغات میں کچھ بھی نہیں رہا
٭٭٭
حسرت ہی رہی ہے اُسے ارماں ہی رہا ہے
یہ دل تو ہمیشہ سے پریشاں ہی رہا ہے
رہنے نہ دیا اُس کو ہواؤں نے کہیں کا
خُوشبو کی طرح سب سے گریزاں ہی رہا ہے
ہم نے بھی کبھی اُس کے رفو کا نہیں سوچا
ویسے بھی سدا چاک گریباں ہی رہا ہے
منسُوب ہر اِک میری حکایت ہے اُسی سے
افسانۂ ہستی کا وہ عُنواں ہی رہا ہے
چاہا بھی تو اُس حد سے وہ آگے نہیں آیا
اِتنا ہے کہ نزدیکِ رگِ جاں ہی رہا ہے
سب کچھ کیا باقی نے مگر دل نہیں توڑے
کافر تھا مگر پھر بھی مسلماں ہی رہا ہے
٭٭٭
رات بھر جاگتا ہی رہتا ہوں
کچھ نہ کچھ سوچتا ہی رہتا ہوں
میری منزل کوئی نہیں پھر بھی
راستہ پُوچھتا ہی رہتا ہوں
اپنی تعمیر دن میں کرتا ہوں
رات بھر ٹوٹتا ہی رہتا ہوں
تُو صنم بھی نہیں، خُدا بھی نہیں
میں تجھے پُوجتا ہی رہتا ہوں
تجھ سے باتیں ہزار کرنی ہیں
پر تجھے دیکھتا ہی رہتا ہوں
کوئی گوہر بھی مل ہی جائے گا
خاک تو چھانتا ہی رہتا ہوں
جانتا ہوں کوئی نہیں سُنتا
پھر بھی محوِ دُعا ہی رہتا ہوں
اپنے عیبوں پہ ہے نظر باقی
آئینہ دیکھتا ہی رہتا ہوں
٭٭٭
میری آنکھوں میں ڈال کر آنکھیں
اُس نے رکھ لیں سنبھال کر آنکھیں
ہم نے جب بھی سوالِ وَصل کیا
اُس نے دیکھا نکال کر آنکھیں
بے بصیرت ہیں اِس جہاں کے لوگ
یا رب اِن کی بحال کر آنکھیں
مر بھی جائیں تو اُس کو دیکھ سکیں
ایسی کچھ لازوال کر آنکھیں
ہر طرف حُسن ہے زمانے میں
حُسن سے مالا مال کر آنکھیں
جانے والا بھی لوٹ آئے گا
یُوں نہ رو رو کے لال کر آنکھیں
اب وہ صُورت نہیں رہی باقی
اب نہ رکھنا سنبھال کر آنکھیں
٭٭٭
صبح تا شام سوچتا ہوں میں
سو ترے نام سوچتا ہوں میں
یہ جو اِک تازہ آگ بھڑکی ہے
اُس کا انجام سوچتا ہوں میں
سامنے ہے قلم بھی ، کاغذ بھی
اور پیغام سوچتا ہوں میں
تجھ سے اِس دل کا جو تعلق ہے
اُس کا کچھ نام سوچتا ہوں میں
ایک شامِ فراق ڈھل بھی گئی
پھر بھی ہر شام سوچتا ہوں میں
کیا سبَب ہے غمِ زمانہ کا
لا ذرا جام، سوچتا ہوں میں
اب کوئی فکر ہی نہیں باقی
بس ترا نام سوچتا ہوں میں
٭٭٭
وحشت میں تار تار لبادہ نہیں کیا
اِتنا بھی ہم نے عِشق زیادہ نہیں کیا
عیش و سُکوں سے اپنی گزرتی ہے زندگی
دامانِ آرزُو ہی کُشادہ نہیں کیا
وہ بے نیازِ غم ہے ، اُسے کیا بتائیں ہم
کیوں ترک شغلِ ساغر و بادہ نہیں کیا
ترکِ تعلُقات کا اُس کو بھی غم نہیں
ہم نے بھی اُس کو یاد زیادہ نہیں کیا
رنگین بنا دیا ہے تری داستان کو
تیرا کِیا جو ذکر تو سادہ نہیں کیا
باقی ہمیں تو فُرصتِ امروز بھی نہیں
کل کیا کریں گے، اِس کا ارادہ نہیں کیا
٭٭٭
دلِ دہقاں جو کھیتوں میں نہیں ہے
تقّدس اب وہ فصلوں میں نہیں ہے
سفر کرتے ہیں لیکن بے دلی سے
یقیں شامل ارادوں میں نہیں ہے
ہمارے عہد کے وہ مسئلے ہیں
کہ جن کا حل کتابوں میں نہیں ہے
جو ظالم ہے ، اُسے ظالم ہی کہہ دیں
خلُوص اِتنا بھی لوگوں میں نہیں ہے
ہوائیں سنسناتی پھر رہی ہیں
کوئی چہرہ دریچوں میں نہیں ہے
جسے ہم قید کرنا چاہتے ہیں
وہی اک لمحہ، لمحوں میں نہیں ہے
چھلک جائیں تو آسُودہ ہوں آنکھیں
مگر ہمت ہی اشکوں میں نہیں ہے
نئی قاموسِ غم لکھتا ہوں باقی
اثر اب کہنہ لفظوں میں نہیں ہے
٭٭٭
مال و متاعِ درد زیادہ ہے اِن دِنوں
لُٹنے کا اپنا پھر سے اِرادہ ہے اِن دِنوں
بے سَمت پھر رہے ہیں مُسافر یہاں وہاں
منزل کا کوئی نام نہ جادہ ہے اِن دِنوں
اِک ہاتھ میں کہاں ہے عناں رخشِ وقت کی
کل تک تھا جو سوار، پیادہ ہے اِن دِنوں
خلوت میں اپنے آپ کو دُہرا رہا ہوں میں
گزرے ہوئے دنوں کا اعادہ ہے اِن دِنوں
اہلِ خرد کی بات کوئی مانتا نہیں
وحشت میں تار تار لبادہ ہے اِن دِنوں
سامان ہو رہے ہیں بڑے زور و شور سے
باقی کہو، کہاں کا ارادہ ہے اِن دِنوں
٭٭٭
نہ ہاتھ اُٹھا کے اُسے روز و شب پکارا کر
جو مِل گیا ہے اُسی میں گزر گزارا کر
ترا بھی عکس بِکھر جائے گا زمانے میں
تُو میرے شیشۂ دل کو نہ پارہ پارہ کر
تہوں میں جا کے ہی ملتا ہے گوہرِ کم یاب
سفینہ سینۂ گرداب میں اُتارا کر
مرا علَم تو چمکتا ہے چاند تارے سے
مری زمیں کا مقدر بھی چاند تارا کر
ہمیشہ مشکلِ ہستی کی فکر کیا کرنی
کِسی کی زلفِ گرہ گیِر بھی سنوارا کر
میں صرف تیرا ہُوں، جیسا ہُوں، جو بھی ہُوں باقی
تُو مجھ کو چاہے کِسی نام سے پکارا کر
٭٭٭
کوئی فصیل اُٹھائی نہ دَر بنایا ہے
پھر اُس پہ خوش ہیں کہ ہم نے بھی گھر بنایا ہے
اُسی نے چھین لیا اعتبارِ چشم و نظر
جسے بھی ہم نے یہاں معتبر بنایا ہے
ہم اُس کی بات کا پھر بھی یقین کرتے ہیں
وہ شوخ جس نے ہمیں عُمر بھر بنایا ہے
تمہارے حُسن کی تعریف اور کیا ہو گی
خدا نے تم کو بہت سوچ کر بنایا ہے
ہم اُس کے قبضۂ قُدرت میں ہیں مگر خُوش ہیں
کہ اہلِ زَر نہیں، اہلِ ہُنر بنایا ہے
اُسی میں رہ کے نظر کو قرار ملتا ہے
جو اُس نے حلقۂ دامِ اثر بنایا ہے
ہوائے تُند اُسے بھی اُڑا کے چھوڑے گی
اِک آشیاں سرِ شاخِ شجر بنایا ہے
زمانہ روک سکے گا ہمیں کہاں باقی
فصیلِ وقت میں ہم نے بھی دَر بنایا ہے
٭٭٭
ہم کریں جا کے عرضِ حال کہاں
وہ سُنے گا کوئی سوال کہاں
شہر یاروں سے دوستی کر لیں
اِس ہُنر میں ہمیں کمال کہاں
مُفلسی آئینہ دکھاتی ہے
شوقِ آرائشِ جمال کہاں
اب تو کچھ اور ہی مسائل ہیں
اب ترا بھی ہمیں خیال کہاں
جامِ جم کے نشے میں ہیں سب لوگ
مستئ ساغرِ سفال کہاں
تجھ سے حیرت چھپا سکیں اپنی
اِس قدر آئینوں میں حال کہاں
منزلوں تک تھے رابطے سارے
اب وہ پوچھیں گے میرا حال کہاں
تھی کبھی اپنی آبرو باقی
لوگ کرتے ہیں اب خیال کہاں
٭٭٭
دھُول اُڑتی ہے چار سُو کیسی
بے نشاں کی ہے جُستجُو کیسی
واسطہ ہی کوئی نہیں جس سے
اِس کے بارے میں گفتگو کیسی
اب نہ دامن رہا نہ دستِ جنوں
اب ہمیں حاجتِ رفُو کیسی
شبِ ہجراں بھی نم نہیں آنکھیں
یہ عبادت ہے بے وضُو کیسی
خُون کی ندّیاں رواں ہیں یہاں
اپنی دھرتی ہے سُرخُرو کیسی
دل تو اُس کے سُپرد ہے باقی
بے دلی ہو تو آرزُو کیسی
٭٭٭
ہے سرِ خامہ شکستہ کاتبِ تقدیر کا
اور ہی کچھ رنگ ہوتا جائے ہے تحریر کا
بندشِ بابِ کرم کو بھی زمانہ ہو گیا
اب دُعا میں بھی کوئی عنصر نہیں تاثیر کا
عہدِ آزادی میں بھی شورِ سلاسل کم نہیں
لمحہ لمحہ بڑھ رہا ہے دائرہ زنجیر کا
دوسری جانب کسی کی بھی نظر جاتی نہیں
ایک ہی رُخ دیکھتے رہتے ہیں سب تصویر کا
ہے سمندر کے شکنجے میں زمیں جکڑی ہوئی
اِک اشارہ چاہیئے بس آسمانِ پیر کا
مشقِ تخریبِ وطن میں ہر کوئی مصروف ہے
ایک بھی پہلُو نظر آتا نہیں تعمیر کا
ہر کوئی شہرِ طرب کی سمت ہجرت کر گیا
اِک محافظ میں ہوں باقی، درد کی جاگیر کا
٭٭٭
بے نام منزلوں سے پکارا گیا ہوں میں
اِک کربِ مُستقل سے گزارا گیا ہوں میں
مجھ پر خُدا کا فیصلہ اب تک نہیں کھُلا
کیا سوچ کر زمیں پہ اُتارا گیا ہوں میں
شبیار بستیوں کا مقدّر وہی رہا
ہرچند لے کے چاند ستارا گیا ہوں میں
رُخصت کے وقت اُس کے بھی آنسُو نکل پڑے
بن کر کسِی کی آنکھ کا تارا گیا ہوں میں
میرے مقابلے پہ کوئی اور تو نہ تھا
اپنے ہی برخلاف اُبھارا گیا ہوں میں
دل کی لگی میں کچھ بھی تو باقی نہیں رہا
اُس کے لئے تو کھیل تھا، مارا گیا ہوں میں
٭٭٭
دل ہے پارہ پارہ شہر کی گلیوں میں
کس کا کون سہارا شہر کی گلیوں میں
رات کو اپنا گاؤں بہت یاد آتا ہے
بیت گیا دن سارا شہر کی گلیوں میں
کتنے پاگل ڈھُونڈ رہے ہیں برسوں سے
جگنُو، چاند ، ستارا، شہر کی گلیوں میں
مصر میں اِک پیغمبر بِکنے آیا تھا
یہ بھی تھا نظارہ شہر کی گلیوں میں
باقی شاہ فقیر کہاں اب ملتا ہے
آیا تھا بے چارہ شہر کی گلیوں میں
٭٭٭
عشق کی منزلِ پُر خار پہ آ جاتے ہیں
سب سمجھتے ہیں مگر دار پہ آ جاتے ہیں
گُل تو اپنی ہی نُمائش سے بِکھر جاتا ہے
پھر بھی اِلزام کئی خار پہ آ جاتے ہیں
جب بھی آتا ہے مری عرضِ تمنّا کا خیال
رنگ کیا کیا تیرے رخسار پہ آ جاتے ہیں
میری خوشیوں کا ٹھکانا نہیں رہتا باقی
جب مرے شعر لبِ یار پہ آ جاتے ہیں
٭٭٭
کوئی جب سے ہمارا ہو گیا ہے
ہر اِک آنسُو سِتارا ہو گیا ہے
بسر کیسے ہوئی ہے، یہ نہ پُوچھو
کِسی صُورت گذارا ہو گیا ہے
کِسی نے پیار سے اِک بار دیکھا
کئی زخموں کا چارہ ہو گیا ہے
نہ بام و در، نہ دیواریں ، دریچے
یہ کیسا گھر ہمارا ہو گیا ہے
ہمارے دل میں اب کیا ڈھونڈتے ہو
یہ شیشہ پارہ پارہ ہو گیا ہے
یہی کیا کم ہے گردابِ جہاں میں
کہ تِنکے کا سہارا ہو گیا ہے
یہ دل رہتا ہے کِس کے بس میں باقی
تمہیں دیکھا، تمہارا ہو گیا ہے
٭٭٭
پیمانے سے پیمانہ ٹکرا ہی لیا جائے
اِس دل کو کِسی صُورت بہلا ہی لیا جائے
اِک روز تو وحشت کا انجام یہی ہو گا
یہ سر کسی پتھر سے ٹکرا ہی لیا جائے
اِس طرح کے جینے سے ، مر جانا ہی بہتر ہے
کچھ پی ہی لیا جائے، کچھ کھا ہی لیا جائے
وہ وصل پہ راضی تھا، ہم نے ہی مگر سوچا
کچھ اور ذرا دل کو تڑپا ہی لیا جائے
پتھر سے مراسم کا اِلزام نہیں اچھا
ٹوٹا ہی سہی شیشہ، شیشہ ہی لیا جائے
خوشیاں بھی ہزاروں تھیں پر دل کی یہ خواہش تھی
اِک غم کوئی اچھا سا اپنا ہی لیا جائے
اِس کارِ محبت میں ملتا ہے یہی باقی
اِک زخم جو لینا ہے، گہرا ہی لیا جائے
٭٭٭
جو اُس محفل میں بیگانے بہت ہیں
وہ چہرے جانے انجانے بہت ہیں
زباں سے لا الٰہ کہتے ہیں سارے
دلوں میں پھر بھی بُت خانے بہت ہیں
ہمیں ساقی سے کیا مطلب، ہمیں تو
تری آنکھوں کے پیمانے بہت ہیں
مثالِ قیس کیوں صحرا میں جاؤں
مرے دل میں ہی ویرانے بہت ہیں
اکیلی شمع اب جلتی ہے باقی
فقط کہنے کو پروانے بہت ہیں
٭٭٭
تیرے شہرِ وفا میں رہتے ہیں
کتنی اونچی ہوا میں رہتے ہیں
اِس جہاں میں تو ایسا لگتا ہے
جیسے کرب و بلا میں رہتے ہیں
وہ بھی اپنی ضدوں پہ قائم ہے
ہم بھی اپنی اَنا میں رہتے ہیں
فصلِ گُل میں بھی گُل نہیں کھِلتے
کیسی آب و ہوا میں رہتے ہیں
ہم شہنشاہِ وقت ہیں باقی
کیوں دریدہ قبا میں رہتے ہیں
٭٭٭
جُنوں کے شہر کا ہر آدمی عجب نکلا
جسے میں کچھ نہ سمجھتا تھا، وہ غضب نکلا
کوئی نہ کوئی غرض شاملِ محبت تھی
کوئی نہ دوست زمانے میں بے طلب نکلا
میں اپنے آپ کو کتنا دُکھی سمجھتا تھا
جو آج سوچا تو ہر درد بے سبَب نکلا
میں اُس کے ہِجر کی منزل کو کھیل سمجھا تھا
یہ مرحلہ تو محبت میں جاں طلب نکلا
نوازشات ہیں اُس کی ہزار غیروں پر
جو میرے دل میں اِک ارمان ہے، وہ کب نکلا
اُسی کے دم سے زمانے میں نور ہے باقی
جو آفتاب سرِ وادیِ عرب نکلا
٭٭٭
گُزرے ہوئے لمحوں کے حسابوں میں رہیں گے
ہم تجھ سے جُدا ہو کے عذابوں میں رہیں گے
ہر گام پہ کانٹوں نے قدم تھام لیے ہیں
سوچا تھا کہ کلیوں میں، گُلابوں میں رہیں گے
جو لوگ ترے وصل کی اُمید پہ خوش ہیں
وہ لوگ محبت کے سرابوں میں رہیں گے
جب تک تری آنکھوں کا اِشارہ نہیں ہوتا
ہم لوگ یونہی غرق شرابوں میں رہیں گے
باقی نہ مٹائے گا کبھی ہم کو زمانہ
ہم زندۂ جاوید کتابوں میں رہیں گے
٭٭٭
خُو گرِ ظلم ہو رسمِ مہر و وفا، تم نہیں جانتے
رنگ لائے گا ٹوٹا ہوا آئینہ تم نہیں جانتے
دیکھنا تو سہی زینتِ دار کے کتنے سامان ہیں
یہ شفق، یہ اُفق، یہ لہُو، یہ حِنا تم نہیں جانتے
دن کی حد تک شرافت کے دستُور تھے، لوگ مجبُور تھے
شب کے پردے میں پھر کیا سے کیا ہو گیا، تم نہیں جانتے
دوستی دُشمنی میں بدلتی ہوئی تم نے دیکھی نہیں
اِس زمانے کی کیسی ہے آب و ہوا تم نہیں جانتے
صرف دولت کی دیکھی ہے تم نے جھلک، کیا ہے دورِ فلک
بیکسی، مُفلسی، یہ خُودی، یہ اَنا، تم نہیں جانتے
باقی احمد پوری، بھُول جانا اُسے اتنا آساں نہیں
گزرے لمحوں کی آتی رہے گی صدا تم نہیں جانتے
٭٭٭
یہی حیات کا ساماں نہیں ہے، وہ بھی ہے
کہ میری جاں ہی مری جاں نہیں ہے، وہ بھی ہے
ہمارے دل کے مقدر میں بھی ہیں غم کیا کیا
وہ غم جو زِیست کا عنواں نہیں ہے وہ بھی ہے
غموں کی دھُوپ میں کِس کِس نے ساتھ چھوڑ دیا
بس ایک ابرِ گریزاں نہیں ہے، وہ بھی ہے
پلک پلک پہ فروزاں سرشکِ غم کو تو دیکھ
یہ کیا کہا کہ چراغاں نہیں ہے، وہ بھی ہے
جہاں میں کوئی بھی غم سے نہ بچ سکا باقی
بس ایک تو ہی پریشاں نہیں ہے، وہ بھی ہے
٭٭٭
اِس طرح چپ ہیں مرے شہر کے لوگ
اب تو ہر ظلم روَا ہو جیسے
سانس لینا بھی ہے مُشکل یارو
شہر میں قحطِ ہوَا ہو جیسے
کوئی چہرہ نہیں پُورا دیکھا
آئینہ ٹُوٹ گیا ہو جیسے
رہگزر سُرخ ہوئی جاتی ہے
راہرو آبلہ پَا ہو جیسے
ایک ہی بات پڑھی ہے سو بار
خط کا مضموں نہ کھُلا ہو جیسے
ہاتھ اُٹھتے ہی نہیں ہیں باقی
خامشی حرفِ دُعا ہو جیسے
٭٭٭
سب مرحلے وفا کے، جفا کے سپرد ہیں
وہ دیپ کیا جلیں جو ہوا کے سپرد ہیں
اُس نے بھی اپنی ضد نہیں چھوڑی کِسی طرح
ہم کیا کریں کہ ہم بھی انَا کے سپرد ہیں
ہر تہمتِ عمل سے برَی ہیں ،جو ہو سو ہو
اپنے تمام کام خُدا کے سپرد ہیں
کیسے نشاطِ بزم کا ساماں بہم کریں
نغمے شکستِ دل کی صدا کے سپرد ہیں
رنگ و وجودِ گُل تو سبھی خاک ہو گیا
خوشبو کے قافلے بھی ہوا کے سپرد ہیں
٭٭٭
غریبِ شہر پہ اُس کو ترس نہیں آتا
سبھی کو آتا ہے، اُس کو ہی بس نہیں آتا
بیاضِ دل میں نہ کوئی غزل رقم ہوتی
اگر وہ یاد نفس دَر نفس نہیں آتا
یہ قلب و رُوح کا رشتہ ہے ربطِ پاکیزہ
محبتوں میں خیالِ ہوس نہیں آتا
گُلاب کلیاں بھی ہیں جنتِ نظر، لیکن
مزہ چمن میں بجز خار و خس نہیں آتا
سِتمگروں سے کرم کی اُمید مت رکھنا
سِتمگروں کو کِسی پر ترس نہیں آتا
کِسی کو گریۂ شبنم کی قدر کیا معلوم
بغیر اُس کے گُلوں میں بھی رَس نہیں آتا
وہ مل گیا ہے تو جی بھر کے پیار کر باقی
کہ ایسا وقت برس ہا برس نہیں آتا
٭٭٭
اِن آبلوں سے جو ذوقِ سفر میں پلتے ہیں
گُلاب رنگ نظارے نظر میں پلتے ہیں
خزاں کے کان میں اُن کی بھنک نہ پڑ جائے
نمو کے خواب جو چشمِ شجر میں پلتے ہیں
اِنہی کے دم سے تو ظلمت کدے بھی روشن ہیں
یہ رتجگے جو اُمیدِ سحر میں پلتے ہیں
ہُنر کے نام پہ کب تک مصیبتیں جھیلیں
کہ بے ہُنر بھی جہانِ ہُنر میں پلتے ہیں
اُنہی کو دل میں اُترنے کا ڈھنگ آتا ہے
غزل کے شعر جو خُونِ جِگر میں پلتے ہیں
میں دُشمنوں سے نبرد آزمائی کیسے کروں
کہ لاکھ فتنے مرے اپنے گھر میں پلتے ہیں
پہاڑ بن کے کھڑے ہیں یہی تو راہوں میں
یہ وسوسے جو دماغِ بشر میں پلتے ہیں
میں اپنے اشک چھپاتا ہوں اِس لیے باقی
کہ اُس کے عکس مری چشمِ تر میں پلتے ہیں
٭٭٭
آئی نہیں چمن میں بہارِ چمن ابھی
بندِ قبا کو کھول کے پاگل نہ بن ابھی
بدلا نہیں ہے اُس میں جفا کا چلن ابھی
یہ انجمن نہیں ہے مری انجمن ابھی
دن کو ضرُورتوں نے مرا سر جھکا دیا
راتوں کو ٹوٹتا ہے انَا کا بدن ابھی
کیسے یزیدِ وقت کی ہم بات مان لیں
تازہ ہے داستانِ حسین و حسن ابھی
اب دیکھنا ہے کون انا الحق کی دے صدا
سُونے پڑے ہیں شہر کے دَار و رَسن ابھی
بھُولا نہیں ہوں میں تری پازیب کی صدا
کانوں میں ہو رہی ہے چھنا چھن چھنن ابھی
ہر بات تیری بات سے منسُوب کل بھی تھی
تیرے ہی تذکرے ہیں سُخن در سُخن ابھی
زنجیرِ ظلم و جور میں جکڑے ہوئے ہیں لوگ
آزاد کب ہوئے ہیں ہمارے وطن ابھی
یُوں سب کے ہاتھ خُوں میں تر ہیں کہ جسطرح
مہندی لگا رہی ہو عرُوسِ وطن ابھی
اپنے لیے تو جی بھی چکے اور مر چکے
باقی ہے کِس کے واسطے جیون مرَن ابھی
٭٭٭
منزلِ انقلاب ہی میں رہے
اِک مسلسل عذاب ہی میں رہے
ہم کوئی اور کام کیا کرتے
ہم سدا اِنتخاب ہی میں رہے
کوئی دستُورِ زندگی نہ کھُلا
لفظ قیدِ کتاب ہی میں رہے
لوگ مانوس تھے خرابوں سے
اور عہدِ خراب ہی میں رہے
منزلوں کا کہیں نِشاں بھی نہ تھا
چلنے والے سراب ہی میں رہے
جانے یہ کِس کی بد دُعا تھی ہمیں
ہر نفس اِضطراب ہی میں رہے
کیا خبر کیا سے کیا ہوا باقی
جاگ کر ہم تو خواب ہی میں رہے
٭٭٭
جو تیرا سامنا کیے ہوتے
دل، جگر ہاتھ میں لیے ہوتے
بے وفاؤں پہ جان دیتے رہے
کاش اپنے لیے جئے ہوتے
دل کو غم ہی نصیب ہونے تھے
چاہے لاکھوں برس جئے ہوتے
وصل کی شب یہ کیسی خاموشی
کچھ تو شِکوے گِلے کئے ہوتے
شان سے یوں نہ بیٹھتے باقی
جُرم ہم نے اگر کیے ہوتے
٭٭٭
جب کِسی زُلف کے اسیر ہوئے
گیت اپنے بھی دل پذیر ہوئے
ہم نے دیکھی نہیں بہارِ شباب
ہم تو بچپن میں تھے کہ پِیر ہوئے
شعر گوئی میں کم نہیں پھربھی
ہم نہ غالب ہوئے نہ میر ہوئے
ہم شہنشاہ تھے کبھی باقی
اب تو مُدت ہوئی فقیر ہوئے
٭٭٭
کیا کہوں کیوں ہم سے وہ غُنچہ دہن کھُلتا نہیں
اُس کی چُپ سے نغمگی کا بانکپن کھُلتا نہیں
گریۂ شبنم سے کب دھُلتا ہے پت جھڑ کا غُبار
جب تلک بارش نہ ہو، رنگِ چمن کھُلتا نہیں
جب تلک انگڑائیاں لیتی نہیں بادِ صبا
موسمِ گُل میں بھی خُوشبو کا بدن کھُلتا نہیں
کیوں ہماری سمت سورج کی نظر پڑتی نہیں
کیوں بدن سے تیرگی کا پیرہن کھُلتا نہیں
اب کوئی منصُور و سرمد ہو تو یہ عُقدہ کھُلے
راز کیا ہے جو بجز دار و رَسن کھُلتا نہیں
ذوقِ عُریانی ستاروں کو حیا کے ساتھ ہے
رات سے پہلے کِسی کا پیرہن کھُلتا نہیں
کھولتے ہیں دَر یہاں ظرفِ مُسافر دیکھ کر
ہر کِسی پر بابِ شہرِِ عِلم و فن کھُلتا نہیں
لوٹ آتی ہیں غریبوں کی صدائیں بار بار
کِس لیے دروازۂ چرخِ کُہن کھُلتا نہیں
سینکڑوں شِکوے گِلے ہوتے ہیں خوابوں میں مگر
سامنے اُس کے کبھی حرفِ سُخن کھُلتا نہیں
کیا خبر باقی اسے کِس بات سے چُپ لگ گئی
اب وہ ہم سے انجمن دَر انجمن کھُلتا نہیں
٭٭٭
منزلوں پر اجنبی سے راستے یاد آ گئے
قُربتیں حد سے بڑھیں تو فاصلے یاد آ گئے
اشک آنکھوں سے نکل آئے قطار اندر قطار
عِشق میں ناکامیوں کے سِلسلے یاد آ گئے
رات مے خانے میں اِک جامِ شکستہ دیکھ کر
ریزہ ریزہ دو دلوں کے آئینے یاد آ گئے
اپنی پلکوں پر چمکتے آنسُوؤں کو دیکھ کر
دشتِ شب میں جگنوؤں کے قافلے یاد آ گئے
٭٭٭
اور تو کچھ بھی نہیں میری نظر کے آگے
تیری تصویر ہی آتی ہے اُبھر کے آگے
اِک خلش ہی دلِ نازک کا مقّدر ٹھہری
بچھ گئے خارِ مغیلاں گلِ تر کے آگے
عشق میں وحشتِ پیہم کے علاوہ کیا ہے
خاک ہی خاک ہے بس خاک بہ سَر کے آگے
تیرے چہرے کے خدوخال پڑھے ہیں کِس نے
کب ٹھہرتی ہے نظر تیری نظر کے آگے
صِرف دیوار ہی دیوار نظر آتی ہے
گھر تو شاید کوئی تھا ہی نہیں گھر کے آگے
آ کے اب دیکھ لے تذلیلِ بشر کا عالم
سَر جھُکایا تھا فرشتوں کا بشر کے آگے
ٹُوٹ کر زرد سے پتّے مری جانب لپکے
ہاتھ پھیلا جو مرا شاخِ ثمر کے آگے
ایک مدت سے سرابوں میں لیے پھرتا ہے
کوئی منزل ہی نہ ہو جیسے خضر کے آگے
میرا دامن تو نہیں ہے کہ جو تَر ہو جائے
ایک صحرا ہے مرے دیدۂ تر کے آگے
روز ہم اپنی تمناؤں کا خُوں کرتے ہیں
روز رو لیتے ہیں لاش اپنی ہی دَھر کے آگے
وقت بھی رُک سا گیا ہے کِسی غم میں باقی
ہجر کی رات میں لمحہ بھی نہ سرَکے آگے
٭٭٭
بازیِ عِشق جب سے ہاری ہے
بے قراری ہی بے قراری ہے
پہلے جس غم سے تھا مفَر ہم کو
اب اُسی غم کی پاسداری ہے
زندگی نے ہمیں گُذارا ہے
ہم نے کب زندگی گُذاری ہے
آگ کو سب ہوائیں دیتے ہیں
یہ عجب رسمِ غمگُساری ہے
ہم تو حیرت میں پڑ گئے خُود بھی
تیری تصویر کیا اُتاری ہے
عِشق کا روگ بھی عجب ٹھہرا
درد میٹھا ہے، زخم کاری ہے
باقی احمد پوری کی صُورت میں
اب بھی غالب کا فیض جاری ہے
٭٭٭
یادوں کی گُونج دشتِ محبت میں اب بھی ہے
یہ دل گئے دنوں کی رفاقت میں اب بھی ہے
اِک یاد ہے جو نقش ہے لوحِ دماغ پر
اِک زخم ہے جو دل کی حِفاظت میں اب بھی ہے
رُکتے نہیں ہیں آنکھ میں آنسُو کِسی طرح
یہ کاروانِ شوق ، مُسافت میں اب بھی ہے
ترکِ تعلقات کو اِک عمر ہو چکی!
دل ہے کہ بے قرار محبت میں اب بھی ہے
سب دوست مصلحت کی دُکانوں پہ بِک گئے
دشمن تو پُر خلوص عداوت میں اب بھی ہے
آثارِ حشر سارے نمُودار ہو چکے
کہتے ہیں لوگ دیر قیامت میں اب بھی ہے
مجبُوریوں نے برف بنا دی اَنا، مگر
شعلہ سا ایک اپنی طبیعت میں اب بھی ہے
جس نے کیا تھا جرم وہ کب کا بَری ہوا
جو بے قصُور ہے، وہ عدالت میں اب بھی ہے
برسوں ہوئے جو زخمِ شناسائی سے ملا
وہ درد میری، اُس کی شراکت میں اب بھی ہے
مل جائے وہ کہیں تو اُسے کہنا اے ہوا
باقی ترا غموں کی حراست میں اب بھی ہے
٭٭٭
اے دل یہ تیری ضد، یہ تمنا عجیب ہے
جو تجھ کو چاہیئے وہ کِسی کا نصیب ہے
ہم تم کِسی غرض کے اطاعت گزار ہیں
ورنہ جہاں میں کون کِسی کے قریب ہے
دل سے خیالِ وصلِ مکمل نکال دے
اِتنا بہت نہیں کہ وہ تیرے قریب ہے
چلتا ہے اہلِ زر کے اشاروں پہ حسن بھی
اُس کی سنے گا کون جو مجھ سا غریب ہے
اپنے عمل جہاں میں کوئی دیکھتا نہیں
سب کو یہی گِلہ ہے، زمانہ عجیب ہے
اب کے بھری بہار میں تنہا کھڑا ہوں میں
گلشن میں گل کھلے نہ کوئی عندلیب ہے
باقی کِسی کے رُخ پہ خُوشی کی جھلک نہیں
کاندھے پہ ہر کِسی کے غموں کی صلیب ہے
٭٭٭
موجِ بلا کو گرمئ رفتار کر لیا
دشتِ فراقِ یار یُونہی پار کر لیا
جس کے لیے تھی حاجتِ بام و سقف ہمیں
وہ کام زیرِ سایۂ دیوار کر لیا
صدہا نشاطِ رُوح کے ساماں بہم ہوئے
جب دل کو وقفِ لذتِ آزار کر لیا
چھوٹی سی ایک خواہشِ جاں سوز کے لیے
کیا رنگ تُو نے دیدۂ خُونبار کر لیا
لائے ہیں روز خانۂ ویراں میں اِنقلاب
تعمیر کر لیا، کبھی مسمار کر لیا
پہلے تو دوسروں سے اُلجھتے تھے بے سبَب
اب خُود کو خُود سے برسرِ پیکار کر لیا
اب آفتاب خیر منائے کہ بھاگ کر
بچوں نے ایک جگنو گرفتار کر لیا
باقی ذرا سی خلوتِ دل بھی نہیں رہی
یادوں نے ایسا رُوح میں دربار کر لیا
٭٭٭
مُتَفرق
جب چاندنی صحرا میں چھٹک جاتی ہے
جب ریت بھی ٹھنڈک سے مہک جاتی ہے
اِک چاند سے چہرے کا خیال آتا ہے
اور دل میں وہی آگ بھڑک جاتی ہے
٭٭
اِس دل نے کوئی بات نہ مانی اپنی
اب کِس سے کہیں درد کہانی اپنی
اِس عشق میں کیا کیا نہیں ہوتا باقی
صحرا میں سلگتی ہے جوانی اپنی
٭٭
کچھ آگ میں، کچھ برف میں جلتے دیکھے
موسم کے کئی رنگ بدلتے دیکھے
پھُولوں سے بھی کچھ زخم لگے ہیں باقی
کانٹوں سے بھی سو کام نکلتے دیکھے
٭٭
کچھ دیر کو دل شاد تو کر لیتے ہیں
اِس شہر کو آباد تو کر لیتے ہیں
مصرُوفِ غمِ دہر بہت ہیں پھر بھی
اے دوست تجھے یاد تو کر لیتے ہیں
٭٭
آباد ہے جو گھر اُسے آباد کیا کریں
بھُولے نہیں ہیں تم کو تو ہم یاد کیا کریں
اُن کے سِتم سے کچھ بھی تو باقی نہیں رہا
اب ظالموں کو غم ہے کہ برباد کیا کریں
٭٭
ظالم ہو جو کرتے نہیں پرواہ کِسی کی
لگ جائے گی اِک روز تمہیں آہ کِسی کی
اُس کو تو گئے ایک زمانہ ہوا باقی
کیا دیکھتے رہتے ہو یُونہی راہ کِسی کی
٭٭
کوئی شکستِ دل کی صدا بھی نہ آ سکی
ایسی ہوا چلی کہ ہوا بھی نہ آ سکی
مجبوُریوں میں دستِ طلب تو عَلًم ہوئے
پھر یہ ہوا کہ مجھ کو دُعا بھی نہ آ سکی
٭٭
یُوں تو دُنیا میں سب کی آنکھیں ہیں
تیری آنکھیں، غضب کی آنکھیں ہیں
٭٭
ہم سَر کو اطاعت میں جو خم کرتے رہیں گے
یہ اہلِ سِتم اور سِتم کرتے رہیں گے
٭٭
گلاب موسم گزر گیا تو خزاں کے لشکر اُتر پڑیں گے
طرب نظاروں کے گلستاں میں اُداس منظر اُتر پڑیں گے
سرشکِ غم کی روانیوں میں ہے ضبطِ گریہ کی عُمر کتنی
ہم اپنی آنکھوں سے قطرہ قطرہ کبھی زمیں پر اُتر پڑیں گے
٭٭
اُس چہرۂ پُر نُور میں کچھ ایسی کشش ہے
جاتی ہے نظر اور پلٹ کر نہیں اتی
٭٭٭
ماخذ:
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید