FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

آگ میں پھول

 

 

               احمد فراز

 

 

’تنہا تنہا‘ مجموعے سے منتخب نظمیں

جمع و ترتیب اور ٹائپنگ: محمد بلال اعظم

 

 

 

 

آتشِ عجم

 

 

شبِ سیہ کے اُمڈتے ہوئے اندھیروں میں

دل و نظر نے اُمیدوں کے کتنے خواب بُنے

خرد کے ہاتھ میں جب آخری چراغ بجھا

جنوں نے عزم کے ذرّوں سے آفتاب چُنے

 

ہوس کی تیرہ نگاہوں کے رینگتے سائے

بڑھے تو بجھتے شراروں نے آگ برسائی

فضا نے جب بھی ارادہ کیا کچلنے کا

تو ڈوبتی ہوئی نبضوں میں برق لہرائی

 

خیال تاکہ اگر تند آندھیاں بھی اُٹھیں

تو ذرّے سُرخ بگولوں کا روپ لے لیں گے

ہزار بادِ مخالف کا زور ہو لیکن

سفینے شدّتِ طوفاں کو مات دے دیں گے

 

حیات دست و گریباں ہوئی قضا سے مگر

ہزار سانپ نِکل آئے آستینوں سے

بہت قریب تھی ساحل کی روشنی لیکن

سفینے جھوم کے ٹکرا گئے سفینوں سے

 

اس اختلافِ بہم کی کڑی کشا کش میں

وہ ولولے وہ شرر سرد ہو گئے آخر

وہ ذرّے جن کو فضاؤں میں رقص کرنا تھا

بگولے بن نہ سکے گرد ہو گئے آخر

 

بہ ایں ہمہ نہ رُکے گی اس انقلاب کی رو

اس انقلاب کی ضو تیرگی مٹائے گی

جو آگ تیل کے چشموں کو چوا کے گزری ہے

سمندروں کی تہوں کو بھی چِیر جائے گی

٭٭٭

 

 

 

 

شاعر

 

 

جس آگ سے جل اُٹھا ہے جی آج اچانک

پہلے بھی مرے سینے میں بیدار ہوئی تھی

جس کرب کی شدّت سے مری روح ہے بے کل

پہلے بھی مرے ذہن سے دو چار ہُوئی تھی

جس سوچ سے مَیں آج لہُو تھوک رہا ہوں

پہلے بھی مرے حق میں یہ تلوار ہُوئی تھی

 

وہ غم، غمِ دنیا جسے کہتا ہے زمانہ

وہ غم، مجھے جس غم سے سرو کار نہیں تھا

وہ درد کے ہر دور کے انسان نے جھیلا

وہ درد مرے عشق کا معیار نہیں تھا

وہ زخم کے ہر سینے کا ناسور بنا تھا

وہ زخم مجھے باعثِ آزار نہیں تھا

 

دنیا نے تڑپ کر مرے شانوں کو جھنجھوڑا

لیکن مرا احساس غمِ ذات میں گُم تھا

آتی رہیں کانوں میں المناک پکاریں

لیکن مرا دل اپنے ہی حالات میں گُم تھا

مَیں وقت سے بیگانہ زمانے سے بہت دُور

جام و مے و مینا و خرابات میں گُم تھا

 

دربار کی تفریح کا ساماں تھا مرا فن

ہاتھوں میں مرے ظرفِ گدا لب پہ غزل تھی

شاہوں کی ہوا خواہی مرا ذوقِ سخن تھا

ایوانوں کی توصیف و ثنا اوجِ عمل تھی

اور اِس کے عوض لعل و جواہر مجھے ملتے

ورنہ مرا انعام فقط تیغِ اجل تھی

 

چھیڑے کبھی میں نے لب و رخسار کے قصّے

گاہے گل و بلبل کی حکایت کو نِکھارا

گاہے کسی شہزادے کے افسانے سُنائے

گاہے کیا دنیائے پرستاں کا نظارا

میں کھویا رہا جنّ و ملائک کے جہاں میں

ہر لحظہ اگرچہ مجھے آدم نے پکارا

 

برس یُونہی دل جمعیِ اورنگ کی خاطر

سَو پھول کھِلائے سَو زخم خریدے

مَیں لکھتا رہا ہجو بغاوت منشوں کی

میں پڑھتا رہا  قصر نشینوں کے قصیدے

اُبھرا بھی اگر دل میں کوئی جذبۂ سر کش

اِس خوف سے چپ تھا کہ کوئی ہونٹ نہ سی دے

 

لیکن یہ طلسمات بھی تا دیر نہ رہ پائے

آخر مے و مینا و دف و چنگ بھی ٹوٹے

یوں دست و گریباں ہوئے دست و خداوند

نخچیر تو تڑپے قفسِ رنگ بھی ٹوٹے

اِس کشمکشِ ذرّہ و انجم کی فضا میں

کشکول تو کیا افسر و اورنگ بھی ٹوٹے

 

میں دیکھ رہا تھا کہ مرے یاروں نے بڑھ کر

قاتل کو پُکارا کبھی مقتل میں صدا دی

گاہے رسن و دار کے آغوش میں جھُولے

گاہے حرم و دَیر کی بنیاد ہلا دی

جس آگ سے بھرپور تھا ماحول کا سینہ

وہ آگ مرے لوح و قلم کو بھی پلا دی

 

اور آج شکستہ ہُوا ہر طوقِ طلائی

اب فن مرا دربار کی جاگیر نہیں ہے

اب میرا ہُنر ہے مرے جمہور کی دولت

اب میرا جنوں خائفِ تعزیر نہیں ہے

اب دل پہ جو گزرے گی وہ بے ٹوک کہوں گا

اب میرے قلم میں کوئی زنجیر نہیں ہے

٭٭٭

 

 

 

 

بھول

 

 

افق پر دھندلکے، شفق میں الاؤ گھٹاؤں میں شعلے، چمن میں ببول

بہاروں پہ صرصر کے گھمبیر سائے

نظاروں کے دامن میں نکہت بسائے

دلوں پر اُداسی، دماغوں میں الجھن، خیالوں میں تلخی، نگاہیں ملول

ہر اک سمت ویرانیوں کا نزول

جلاتا رہا میں اندھیروں میں شمعیں، کھلاتا رہا خار زاروں میں پھول

شعاعوں سے تاریکیوں کو اُجالے

خرابوں پہ تعمیر کا عکس ڈالے

بڑے زخم کھا کر مگر مسکرا کر کیے زندگی نے حوادث قبول

اڑاتی پھری دشت و صحرا کی دھول

وہی وقت کی سست رفتار گردش وہی موت کی رہگزاروں کا طول

وہی چار سو دہکے دہکے الاؤ

وہی گلستاں میں خزاں کا رچاؤ

وہی چاند تاروں پہ کہنہ دھند لکے وہی ظلمتوں کا پرانا اصول

مگر کون سمجھے یہ کس کی تھی بھول؟

٭٭٭

 

 

 

فرار

 

 

کئی ایاغ دل میں آنسوؤں کے بیج بو گئے

شرابِ لالہ گوں کے عکس عکس میں

جہانِ رنگ و بو لیے

فریبِ آرزو دیے

گھنیری آندھیوں کے رقص رقص میں

کئی چراغ ظلمتوں کی وادیوں میں کھو گئے

 

بچھے رہے سراب گام گام پر

جمالِ ضو فشاں لیے

مآلِ خونچکاں لیے

حیات کے ہر اک نئے مقام پر

ہزاروں داغ مسکرا دیے چراغ ہو گئے

 

مگر چلے ہو کس کی جستجو میں تم

وفا کی روشنی لیے

ہر ایک چاک دل سیئے

تصوّرِ حصولِ آرزو میں تم

کئی دماغ موت کی کمیں گہوں میں سو گئے

٭٭٭

 

 

 

احتساب

 

 

سوچ مفلوج ہے حالات کے زندانوں میں

عقل پر تلخ حوادث کے گراں تالے ہیں

آگہی سرود خموش

منجمد شعلۂ ہوش

ذہن پر بھولے فسانوں کے گھنے جالے ہیں

کوئی آہٹ بھی نہیں دل کے سیہ خانوں میں

قہقہے وقت کے خوشرنگ شبستانوں میں

کتنی دلدوز و غمیں آہوں کے رکھوالے ہیں

آرزو جامِ طرب

آبرو زہر بلب

کتنے ہی ناگ خزانوں نے یہاں پالے ہیں

کتنے پیکر ہیں جو ڈھل جاتے ہیں ایوانوں میں

زندگی رینگتی ہے موت کے ویرانوں میں

انقلابات نے انداز بدل ڈالے ہیں

رات دن شام و سحر

کس کو جرأت ہو مگر

ناگ خود ہی تو خزانوں نے یہاں پالے ہیں

آگ پھولوں نے بکھیری ہے گلستانوں میں

٭٭٭

 

 

 

 

آگ

 

 

مفلسو! اپنے مقدّر کی شکایت نہ کرو

اِس سے انسان کے ایمان میں فرق آتا ہے

ہم تو ناچیز سے بندے ہیں ہمیں کیا معلوم

کونسی بات میں کیا مصلحتِ یزداں ہے

کتنے گمراہ و گنہگار ہوئے جاتے ہو

کیا کہا؟ "خانماں برباد ہوئے جاتے ہیں

دمبدم آگ کے بے رحم لپکتے شعلے

اپنے بوسیدہ مکاں راکھ کیے دیتے ہیں

خاک ہی خاک ہوئی جاتی ہے دنیا اپنی

اور اس آتش و ظلمات کے سیلاب میں ابھی

اسی پندار اسی شان سے استادہ ہیں

کیا خدا صرف غریبوں پہ ستم ڈھاتا ہے”

 

ٹھیک کہتے ہیں مگر خام عقائد والو

ہم تو تقدیر کے بندے ہیں ہمیں کیا معلوم

کونسی بات میں کیا مصلحتِ یزداں ہے

اور پھر اپنی شکایت سے بھی کیا ہوتا ہے

وہی ہوتا ہے جو منظورِ خدا ہوتا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

بانو۱؎ کے نام

 

 

 

ملوکیت کے محل کی گنہگار کنیز

وہ جُرم کیا تھا کہ تجھ کو سزائے مرگ ملی

وہ راز کیا تھا کہ تعزیرِ ناروا کے خلاف

تری نگاہ نہ بھڑکی تری زباں نہ ہلی

وہ کون سا تھا گناہِ عظیم جس کے سبب

ہر ایک جبر کو تُو سہہ گئی بطیبِ دلی

 

یہی سُنا ہے بس اتنا قصور تھا تیرا

کہ تُو نے قصر کے کچھ تلخ بھید جانے

تری نظر نے وہ خلوت کدوں کے داغ گنے

جو خواجگی نے زر و سیم میں چھپانے تھے

تجھے یہ علم نہیں تھا کہ اِس خطا کی سزا

ہزار طوق و سلاسل تھے تازیانے تھے

 

یہ رسم تازہ نہیں ہے اگر تری لغزش

مزاجِ قصر نشیناں کو ناگوار ہوئی

ہمیشہ اُونچے محلاّت کے بھرم کے لئے

ہر ایک دَور میں تزئینِ طوق و دار ہوئی

کبھی چُنی گئی دیوار میں انار کلی

کبھی شکنتلا پتھراؤ کا شکار ہوئی

 

مگر یہ تخت یہ سلطاں یہ بیگمات یہ قصر

مؤرخین کی نظروں میں بے گناہ رہے

بفیضِ وقت اگر کوئی راز کھُل بھی گیا

زمانے والے طرفدارِ کجکلاہ رہے

ستم کی آگ میں جلتے رہے عوام مگر

جہاں پناہ ہمیشہ جہاں پناہ رہے

 

۱؎ وہ کم سن کنیز جسے بیگم جونا گڑھ نے قتل کروایا

٭٭٭

 

 

 

 

کھنڈر

 

عبث کیوں اُلٹتے پلٹتے ہو جھوٹی روایات کی عظمتوں کے کھنڈر

یہاں کچھ نہیں ہے

یہاں تم نہ پاؤ گے کوئی خزانہ

نہ شداد کی جنتِ گمشدہ کا کوئی لعل و در سے جڑا آستانہ

نہ فرعون کا کوئی خفیہ خزانہ

نہ قاروں کا کوئی دفینہ

نہ جمشید کے جام و مینا

نہ نمرود کے باغِ آغوش کی چہچہاتی ہوئی کوئی الّھڑ حسینہ

یہاں کچھ نہ ڈھونڈو

یہاں کچھ نہیں ہے

یہاں خشک و ویران خِطّوں میں

مدّت سے خانہ بر انداز عفریت چاروں طرف خیمہ زن ہے

یہاں سالہا سال سے قرن ہا قرن سے

وحشت انگیز اوہام سایہ فگن ہیں

یہاں بے شمار اُلّوؤں کے بسیرے ہیں چمگادڑوں کے ٹھکانے ہیں اور

گیدڑوں نے کئی غار کھودے ہوئے ہیں

جو دن کے دھند لکوں میں شب کی سیاہی میں آسیب صورت

کبھی ایک ایک اور کبھی سب کے سب مل کے یوں چیختے ہیں

کہ جیسے بنی نوع انساں کی تخریب پر نوحہ گر ہوں

یہاں کوئی تپتی پوئی دوپہر ہو کہ سرما کی تاریک و مفلوج شب ہو

کبھی کوئی ابرِ خراماں نہ برسا نہ چھایا

یہاں کوئی شعلہ نہ بھڑکا نہ کوئی چراغِ سحر ٹمٹمایا

کہ جیسے ہمیشہ پر افشاں رہا ہو یہاں اجنبیت کا گھمبیر سایہ

کہ اس سر زمیں کی فضا میں خلا میں کبھی بھی کوئی بھی تغیر نہ آیا

مگر یہ کھنڈر

روزِ اوّل سے ہی

پتّھروں اور اینٹوں کے انبار ہائے پریشاں نہیں تھے

فقط ادھ کٹے بُت شکستہ ستوں ٹوٹے پھوٹے ظروف

اور جھکے بام و در یونہی سردر گریباں نہیں تھے

یہاں صرف ویرانیوں کے مناظر ہی تاریخِ ماضی کے عنواں نہیں تھے

یہ وہ سر زمیں ہے

کہ جس پر زمرّد کے یاقوت کے تخت جلوہ فگن تھے

یہاں سنگِ سرخ اور مر مر کے بے مثل و نادر محلاّت

گلکاریوں سے مرصع تھے معراجِ فن تھے

یہاں بے بہا اور نایاب قالین فرشِ رہِ کاخِ فرمانروائے زمن تھے

یہاں ریشم و اطلس و پرنیاں اور دیبا و زربفت و سنجاب و کمخواب

کے بے نظیر اور عریاں ذخیرے شکن در شکن تھے

یہاں لہلہاتے ہوئے گلستاں رشکِ باغِ عدن تھے

یہاں سونے چاندی کے ڈھیروں میں لعل و جواہر میں

تلتی کنیزوں کے گلرنگ چہرے فضا تاب سینے سنہرے بدن تھے

اور ان کی حفاظ کی چوبی صلیبیں تھیں زندانِ آہن تھے دار و رسن تھے

یہاں کاس و قیتار کی گرم تانوں سے جام و سبو کے فسانوں سے

عیش و نشاط و مسرّت کے جشنِ چراغاں منائے گئے ہیں

یہاں خوش گلو اپسراؤں کے ہر تارِ گیسو سے تزئینِ بربط روا تھی

یہاں زندگی صرف زخمِ نوا تھی!!

یہاں اب ادب با سلیقہ غلاموں نے سجدے کئے اور ثبوتِ وفا کے لئے گردنیں تک کٹا دیں

مگر رحم دل اور کشادہ دل آقاؤں کی عدل و انصاف سے

جگمگاتی جبینوں پہ کوئی شکن تک نہ آئی

بہ ایں حال بھی مطمئن تھی خدائی

مگر وقت کی پے بہ پے کروٹوں نے کئی گل کھلائے

کبھی تو ہلاکو و چنگیز و تیمور نے بربریت کے پرچم اُٹھائے

کبھی تورماں اور نادر کی جرار فوجوں نے یلغار کی شہر لوٹے جلائے

تباہی کے دف صورِ محشر کی صورت ہر اک سمت بھونچال لائے

بگولوں کے دامن میں امن و سکوں کے درخشندہ فانوس جلنے نہ پائے

اور اپنی روایات کے تلخ و تیرہ دھوئیں چھوڑ کر بجھ گئے مٹ گئے ہیں

یہ کہنہ روایات جن کی گھنی ظلمتوں میں نہ جادہ نہ منزل

غبارِ رواں کی طرح چھا رہی ہیں

دلوں کو دماغوں کو نظروں کو بھٹکا رہی ہیں

اور ان کی جلو میں نہ لیلا نہ محمل

نہ جذبِ تجسّس کا حاصل

یہاں کچھ نہیں کچھ نہیں ہے

فقط کچھ کھنڈر ابنِ آدم کی تاریخ پہ منفعل ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

مجسمہ

اے سیہ فام حسینہ ترا عریاں پیکر

کتنی پتھرائی ہوئی آنکھوں میں غلطیدہ ہے

جانے کس دورِ المناک سے لے کر اب تک

تو کڑے وقت کے زندانوں میں خوابیدہ ہے

 

تیرے شب رنگ ہیولے کے یہ بے جان نقوش

جیسے مربوط خیالات  کے تانے بانے

یہ تری سانولی رنگت یہ پریشان خطوط

بارہا جیسے مٹایا ہو اِنہیں دنیا نے

 

ریشۂ سنگ سے کھینچی ہوئی زلفیں جیسے

راستے سینۂ کہسار پہ بل کھاتے ہیں

ابروؤں کی جھکی محرابوں میں جامد پلکیں

جس طرح تیر کمانوں میں اُلجھ جاتے ہیں

 

منجمد ہونٹوں پہ سنّاٹوں کا سنگین طلسم

جیسے نایاب خزانوں پہ کڑے پہرے ہوں

تند جذبات سے بھرپور برہنہ سینہ

جیسے سستانے کو طوفان ذرا ٹھہرے ہوں

 

جیسے یونان کے مغرور خداوندوں نے

ریگزارانِ حبش کی کسی شہزادی کو

تشنہ روحوں کے ہوسناک تعیّش کے لئے

حجلۂ سنگ میں پابند بنا رکھا ہو

٭٭٭

 

 

 

 

مسیحا

 

 

میری افسردگی سے پریشاں نہ ہو

تو مری تلخیوں کا سبب تو نہیں

تیری آنکھیں تو میری ہی دمساز ہیں

تھیں کبھی اجنبی لیکن اب تو نہیں

تجھ کو میری مسرّت مقدّم سہی

تیرا غم مجھ کو وجہِ طرب تو نہیں

 

تیرا احسان ہے تُو نے میرے لئے

اپنی پلکوں سے راہوں کے کانٹے چُنے

خود کڑی دھُوپ میں رہ کے میرے لئے

تُو نے زلفوں کے شاداب سائے بُنے

میری خاطر زمانے کو پاگل کہا

 

میری خاطر زمانے کے طعنے سُنے

تُو مری زندگی ہے مگر جانِ من!

میرے دل میں کئی گھاؤ ایسے بھی ہیں

جن کا درماں تری دسترس میں نہیں

ایک غم جس کی شدّت ہمہ گیر ہے

تیرے بس میں نہیں میرے بس میں نہیں

٭٭٭

 

 

 

تشنگی

 

 

دیکھو پگھلا پگھلا سونا بہہ نِکلا کہساروں سے

دیکھو نازک نازک کرنیں ٹوٹ رہی ٹیلوں پر

دیکھو بھینی بھینی خوشبو آتی ہے گلزاروں سے

دیکھو نیلے نیلے بادل جھُول رہے جھیلوں پر

تم بھی سُندر سُندر سپنوں کی لہروں پر بہہ جاؤ

اور ذرا کچھ لمحے ٹھہرو اور ذرا رہ جاؤ

 

سُلگا سُلگا موسم ہے شعلوں کی دہکتی حِدّت سے

چڑھتے سورج کے سائے میں ساری دنیا جلتی ہے

دہک دہک اُٹھی ہیں سڑکیں تپتی دھوپ کی شدّت سے

ابھی نہ جاؤ دیکھو کتنی تیزی سے لُو چلتی ہے

اِس کو بھی اِک جبرِ مشیّت سمجھو اور سہہ جاؤ

اور ذرا کچھ لمحے ٹھہرو اور ذرا رہ جاؤ

 

دیکھو چار  طرف ٹھنڈے ٹھنڈے سائے لہراتے ہیں

تارے نکھرے موتی بکھرے شام کا جادو قائم ہے

خنک خنک پھولوں کے جھونکے خوشبوئیں برساتے ہیں

ٹھیک ہے تم کو جانا ہے پر ایسا بھی کیا لازم ہے

ٹھہرو کچھ باتیں ہم سے سُن لو کچھ تم کہہ جاؤ

اور ذرا کچھ لمحے ٹھہرو اور ذرا رہ جاؤ

٭٭٭

 

 

 

اَیبٹ آباد

 

 

ابھی تلک ہے نظر میں وہ شہرِ سبزہ و گل

جہاں گھٹائیں سرِ رہگزار جھُومتی ہیں

جہاں ستارے اُترتے ہیں جگنوؤں کی طرح

جہاں پہاڑوں کی قوسیں فلک کو چُومتی ہیں

تمام رات جہاں چاندنی کی خوشبوئیں

چنار و سرو کی پرچھائیوں میں گھومتی ہیں

 

ابھی تلک ہیں نظر کے نگار خانے میں

وہ برگِ گل سے تراشے ہوئے بہشت سے جسم

وہ بولتے ہوئے افسانے الف لیلیٰ کے

وہ رنگ و نور کے پیکر وہ زندگی کے طلسم

اور ایسی کتنی ہی رعنائیاں کہ جن کے لئے

خیال و فکر کی دنیا میں کوئی نام نہ اِسم

 

ابھی تلک ہیں تصوّر میں وہ در و دیوار

بسیط دامنِ کہسار میں چناروں تلے

جہاں کسی کی جواں زلف بارہا بِکھری

جہاں دھڑکتے ہوئے دل محبتوں میں ڈھلے

عجیب تھی وہ جھروکوں کی نیم تاریکی

جہاں نظر سے نظر جب ملی چراغ جلے

 

میں لوٹ آیا ہوں اُس شہرِ سبزہ و گل سے

مگر حیات اُنہیں ساعتوں پہ مرتی ہے

مجھے یقیں ہے گھنے بادلوں کے سائے میں

وہ زلف اب بھی مری یاد میں بِکھرتی ہے

چراغ بُجھ بھی چکے ہیں مگر پسِ چلمن

وہ آنکھ اب بھی مرا انتظار کرتی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

طلسمِ ہو شربا

 

 

ابھی اک پھول کے دامن سے کوئی بھنور اُڑا

اور اُڑتے ہی اُجالے میں کہیں ڈوب گیا

ابھی اک شاخ کے سائے سے سرکتا ہوا سانپ

پاس بہتے ہوئے نالے میں کہیں ڈوب گیا

 

گنگناتے ہوئے نالے کا سنہرا پانی

دیکھتے دیکھتے اک جھیل بنا نہر بنا

یوں اُبھر آئے کناروں پہ دمکتے ایواں

ایک اُجڑے ہوئے خطے میں نیا شہر بنا

 

یہ فصیلوں میں گھرا راج محل کس کا ہے

یہ پُر اسرار در و بام انوکھے فانوس

بربط و چنگ و خم و جام لیے دست بدست

منتظر کس کا ہے یہ زہرہ جبینوں کا جلوس

 

میں شہنشاہِ زمن ہوں کسے معلوم نہیں

ہر طرف موجبِ تعمیل ہیں فرمان مرے

میرے ادنیٰ سے اشارے پہ ہیں سب رقص کناں

یہ سپاہی، یہ حسینائیں، یہ دربان مرے

 

کوئی ہے! کون؟ زرینہ نظر افروز کنیز

جیسے مینائے مئے ناب دھری ہو کوئی

یہ پریشان سی زلفیں یہ برہنہ سینہ

جس طرح قاف کی آوارہ پری ہو کوئی

 

خادمہ! آج سے اس قصر کی تو ملکہ ہے

آ مجھے اپنی گرہ گیر لٹوں میں کَس لے

آ مرے جسم سے اک سانپ کی مانند لپٹ

اور تڑپ کر مرے بیتاب لبوں کو ڈس لے

٭٭٭

 

 

 

خریدار

 

 

دلِ بے تاب کی موہوم سی تسکیں کے لئے

اِک نظر دیکھنے آیا تھا تجھے دیکھ لیا

آج کی رات بھی تُو اپنے دریچے کی طرف

حسبِ معمول نئی شان سے اِستادہ ہے

"تَیرتے ہیں تری آنکھوں میں اشارے کیا کیا”

دیدنی ہے ترے جلووں کی نمائش لیکن

اب یہ عالم ہے کہ احساسِ تہی دستی سے

تیرے زینے کی طرف تیرے دریچے کی طرف

پاؤں تو کیا مری نظریں بھی نہیں اُٹھ سکتیں!

٭٭٭

 

 

خیر مقدم

 

قصیدہ نویسوں نے مل کر یہ سوچا

کہ پھر آج وہ ساعتِ جانستاں آ گئی ہے

جب اُن سے کوئی اُن کا آقا جُدا ہو رہا ہے

وہ آقا؟

کہ جس کی مسلسل کرم گستری سے

کوئی خادمِ خاص ہو یا کہ ادنیٰ ملازم

کسی کے لبوں پر کبھی کوئی حرفِ شکایت نہ آیا

وہ آقا کہ جس کی کشادہ دلی نے خزانے لٹائے

وہ آقا کہ جس کی سخاوت نے سب کے دلوں اور دماغوں

سے حاتم کے مفروضہ قصّے بھلائے

اگرچہ وہ نوشیرواں کی طرح شہر میں کو بُکو

بھیس بدلے نہیں گھومتا تھا

مگر پھر بھی ہر سمت امن و اماں تھا

اگرچہ جہانگیر کی طرح اُس نے

کوئی ایسی زنجیرِ زر قصرِ شاہی کے باہر نہ لٹکائی تھی

جس کی ہلکی سی جنبش بھی انصافِ شاہی میں طوفاں اُٹھاتی

مگر پھر بھی ہر گھر میں عدل و مساوات کا سائباں تھا

اگرچہ کبھی وہ جھروکے میں بیٹھے

رعایا کو رُوئے مبارک کے درشن سے مجبورِ سجدہ نہ کرتا

مگر پھر بھی ہر دل پہ وہ حکمراں تھا

وہ جانِ جہاں تھا بڑا مہرباں تھا

قصیدہ نویسوں نے سوچا

کہ آخر وہ لمحات بھی آ گئے ہیں

جب اُن سے بچھڑنے کو ہے اُن کا دیرینہ آقا

تو وہ آج اُسے کون سا ایسا نایاب تحفہ کریں پیش جس سے

رہیں تا ابد یاد آقائے عالی کو

اپنے وفادار پاپوش بردار خادم

قصیدہ نویسوں نے سوچا

کہ وہ یوں تو عہدے میں ہیں

قصرِ شاہی کے جارُوب کش سے بھی کہتر

مگر عالمِ کلک و قرطاس کے بادشہ ہیں

وہ چاہیں تو اپنے قلم کے اشارے سے

ذرّوں کو ہم رُتبۂ مہر و مہتاب کریں

وہ چاہیں تو اپنے تخیل کے جادو سے

صحراؤں کے خشک سینوں کو پھولوں سے بھر دیں

وہ چاہیں تو اپنے کمالِ بیاں سے

فقیروں کو اورنگ و افسر کا مالک بنا دیں

وہ چاہیں تو اپنے فسونِ زباں سے

محلاّت کے بام و دیوار ڈھا دیں

وہ چاہیں تو یکسر نظامِ زمانہ بدل دیں

کہ وہ عالمِ کلک و قرطاس کے بادشہ ہیں

یہی ہے وہ ساعت کہ وہ اپنے

محبوب آقا کی تعریف و توصیف میں

آسمان و زمیں کو ملائیں!

کہ وہ اپنی اپنی طبیعت کے جوہر دکھائیں

کہ وہ اپنے آقا سے بس آخری مرتبہ داد پائیں

مگر پھر قصیدہ نویسوں نے سوچا

کہ وہ تو ہیں عہدے میں ایوانِ شاہی

کے جاروب کش سے بھی کہتر

انہیں کیا کوئی آئے یا کوئی جائے

کہ اُن کا فریضہ تو ہے صرف

آقائے حاضر کی خدمت گزاری

کہ ان کا فریضہ فقط تاج اور تخت کی ہے پرستش

تو پھر مصلحت ہے اِسی میں

کہ اپنے قصیدوں سے آقائے نو کا کریں خیر مقدم!

٭٭٭

 

 

 

 

اے بھوکی مخلوق

(14 اگست 1954ء)

 

 

آج تری آزادی کی ہے ساتویں سالگرہ

چار طرف جگمگ جگمگ کرتی ہے شہر پنہ

پھر بھی تیری رُوح بُجھی ہے اور تقدیر سیہ

پھر بھی ہیں پاؤں میں زنجیریں ہاتھوں میں کشکول

کل بھی تجھ کو حکم تھا آزادی بول نہ بول

آج بھی تیرے سینے پر ہے غیروں کی بندوق

اے بھوکی مخلوق

بیس نہ سَو نہ ہزار نہ لاکھ ہیں پورے آٹھ کروڑ

اتنے انسانوں پر لیکن چند افراد کا زور

مزدور اور کسان کے حق پر جھپٹیں کالے چور

کھیت تو سونا اُگلیں پھر بھی ہے ناپید اناج

تیرے دیس میں سب کچھ اور تُو غیروں کی محتاج

گوداموں کے پیٹ بھرے ہیں بوجھل ہیں صندوق

اے بھوکی مخلوق

آج گرفتہ دل تُو کیوں ہے تو بھی جشن منا

آنسو گر نایاب ہیں اپنے لہو کے دیے جلا

پیٹ پہ پتھر باندھ کے اِمشب ننگا ناچ دکھا

آج تو ہنسی خوشی کا دن ہے آج یہ کیسا سوگ

تیری بہاریں دیکھنے آئیں دُور دُور کے لوگ

تیرے خزانے پل پل لُوٹیں کتنے ہی فاروق

اے بھوکی مخلوق

٭٭٭

 

 

 

 

چند نادان چند دیوانے

 

 

رات کی جانگداز ظلمت میں

عزم کی مشعلیں جلائے ہُوئے

دل میں لے کر بغاوتوں کے شرار

وحشتوں کے مہیب سائے میں

سر بکف، جاں بلب، نگاہ بہ قصر

سرخ و خونیں علم اٹھائے ہُوئے

بڑھ رہے ہیں جنوں کے عالم میں

چند نادان، چند دیوانے

 

قصرِ شاہی کے اے نگہبانو!

تلخ لمحوں سے ہوشیار رہو

اپنے پہروں پہ جم کے ڈٹ جاؤ

اپنے آقاؤں کی بقا کے لئے

فرض کے تند و تیز دھارے پر

تم وفادار ہو تو کٹ جاؤ

 

اس سے پہلے کہ مہرباں آقا

تند شعلوں کی زد میں آ جائیں

اس سے پہلے کہ قصر جل اٹھے

خاک پر لوٹتے نظر آئیں

چند نادان، چند دیوانے

٭٭٭

 

 

لختیِ ۱؎

 

اَدھ کٹے بالوں پہ افشاں کے ستارے لرزاں

کھردرے گالوں پہ غازے کی تہیں ہانپتی ہیں

سرد و بے جان سے چہرے پہ تھرکتی آنکھیں

جیسے مرگھٹ میں چراغوں کی لَویں کانپتی ہیں

 

ٹوٹتے جسم میں لہرانے کی ناکام اُمنگ

کسی سُوکھی ہوئی ٹہنی کا جھکاؤ جیسے

لڑکھڑاتے ہوئے قدموں کی گراں رفتاری

خشک ہوتی ہوئی ندّی کا بہاؤ جیسے

 

رقص کرتی ہوئی پشواز پہ باہوں کی اُڑان

بادباں جس طرح گرداب میں چکراتے ہیں

یا کسی جھیل میں کنکر کے گرا دینے سے

چند لمحوں کے لئے دائرے بن جاتے ہیں

 

گرد آلود سے ماتھے پہ پسینے کی نمی

ریگزاروں سے عرق پھُوٹ رہا ہو جیسے

جھنجھناتے ہوئے ہر گام پہ پیلے گھنگرو

دُور اک شیش محل ٹوٹ رہا ہو جیسے

 

زندگی بال فشاں، خاک بہ رُخ، نالہ بلب

منجمد، ساکن و حیران ہیولے کی طرح

چند تانبے کے تراشے ہوئے سکّوں کی طرح

ڈھول کی تھاپ پہ رقصاں ہے بگولے کی طرح

٭٭٭

۱؎ سرحد کے وہ رقّاص لڑکے جو بیاہ شادیوں اور خوشی کی تقریبات کے موقعوں پر عورتوں کا روپ بنا کر ناچتے ہیں

 

 

 

 

ایک منظر

 

 

دُور کچھ ماتمی نعروں سے فضا گونج اُٹھی

چند مجذوب سے لوگوں کا الم کیش گروہ

(کچھ سیہ پوش تماشائی بہ اندازِ جلوس)

چادرِ گُل سے سجائے ہوئے اعلام لیے!

دمبدم نیند میں ڈوبے ہوئے کوچوں کی طرف

چیختا پیٹتا بڑھتا ہی چلا جاتا ہے

 

یک بیک کھلنے لگے بند دریچوں کے کِواڑ

چلمنیں کانپتی باہوں کے سہارے اُٹھیں

جیسے دم توڑتے بیمار کی بوجھل پلکیں

اور کئی مضطر و بے تاب دمکتے چہرے

ایک دلچسپ و الم ناک تماشے کے لئے

تنگ و تاریک جھروکوں کے گھنے پردوں سے

نُور کے چشموں کی مانند اُبل آئے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

منسُوبہ سے!

 

 

تو نے دیکھا ہی نہیں مجھ کو تجھے کیا معلوم

وقت نے آج کسے سونپ دیا ہے تجھ کو

کس کے دامن سے ہے باندھا گیا پلّو تیرا

کس نے تقدیر سے وابستہ کیا ہے تجھ کو

 

تیرے ہونٹوں پہ تو ہیں شرم و حیا کی مہریں

تیرے ماں باپ نے کیوں نرخ ترا بول دیا

کالے بازار میں نیلام اُٹھا کر تیرا

سبز باغوں کے تصوّر پہ تجھے تول دیا

 

جو سجائی گئی فردوس نمائش کے لئے

وہ کسی اور کی تعمیر ہے میری تو نہیں

یہ مکانات، یہ جندر، یہ دکانیں، یہ زمیں

میرے اجداد کی جاگیر ہے میری تو نہیں

 

میں تو آوارہ سا شاعر ہوں مری کیا وقعت

ایک دو گیت پریشان سے گا لیتا ہوں

گاہے گاہے کسی ناکام شرابی کی طرح

ایک دو زہر کے ساغر بھی چڑھا لیتا ہوں

 

تو کہ اِک وادیِ گلرنگ کی شہزادی ہے

دیکھ بیکار سے انساں کے لئے وقف نہ ہو

تیرے خوابوں کے جزیروں میں بڑی رونق ہے

ایک انجان سے طوفاں کے لئے وقف نہ ہو

 

سوچ ابھی وقت ہے حالات بدل سکتے ہیں

ورنہ اس رشتۂ بے ربط پہ پچھتائے گی

توڑ اِن کہنہ رسومات کے بندھن ورنہ

جیسے جی موت کے زنداں میں اُتر جائے گی

٭٭٭

 

 

 

معذرت

(ایک دوست کی شادی پر)

 

 

میں نے چاہا تری شادی پہ کوئی نظم کہوں

جس کے الفاظ میں پا زیب کی جھنکاریں ہوں

جس کے ہر بند میں رقصاں ہوں بہاریں نغمے

جس کے شعروں میں خیابانوں کی مہکاریں ہوں

 

میں نے چاہا تری شادی پہ کوئی گیت کہوں

جس کی تشبیہوں میں ہنستے ہوئے پیمانے ہوں

جس کے انداز پہ طاری ہو شرابوں کا نغمہ

جس کے مفہوم میں افسانے ہی افسانے ہوں

 

میں نے چاہا تری شادی پہ کوئی سہرا لکھوں

جس کی لَے سے کئی گیت ہم آہنگ رہیں

جس سے جاگ اٹھیں مغنّی کی سُریلی تانیں

جس میں افکار کی ترتیب کے سب رنگ رہیں

 

لیکن اِس وقت مرے ذہن کے ہر پردے میں

چند سلگی ہوئی آہوں کے سوا کچھ بھی نہیں

میری سانسوں میں ہیں مغموم دلوں کی چیخیں

جن کی قسمت میں کراہوں کے سوا کچھ بھی نہیں

 

جس کی شادی بھی غم و رنج کا مجموعہ ہے

جن کو حاصل نہیں ہوتا کسی لمحہ بھی فراغ

جن کو ماں باپ سے ملتے ہیں مصائب کے جہیز

جن کی باراتوں میں جل اُٹھتے ہیں اشکوں کے چراغ

 

ایسے حالات میں کیا چیز تجھے نذر کروں

یہ حقائق مجھے مجبور کیے دیتے ہیں

میرے شاہد۱؎ مرے اخلاص سے مایوس نہ ہو

چند صدمے مجھے معذور کیے دیتے ہیں

 

۱؎ دولہا دوست

٭٭٭

 

 

 

صراف

 

 

ساٹھ کے تیس، نہیں یہ تو نہیں ہو سکتا

زرِ خالص کی انگوٹھی ہے ذرا غور سے دیکھ

کسی پتھّر پہ رگڑ اِس کو کسوٹی پہ پرکھ

ہر طرح جانچ ہر انداز ہر اِک طَور سے دیکھ

 

مجھ پہ روشن ہے کہ اِس جنسِ گراں مایہ کو

میرے افلاس نے کم نرخ بنا رکھا ہے

دیکھ کر میری نگاہوں میں طلب کی شدّت

تو نے انصاف کو نیلام چڑھا رکھا ہے

 

جانتا ہوں تری دکاں کے یہ زرّیں زیور

یہ گلو بند یہ کنگن یہ طلائی پیسے

یہ زر و سیم کی اینٹوں سے لدی الماری

کسی شدّاد کا تابُوت دھرا ہو جیسے

 

کتنے مجبوروں نے بڑھتی ہوئی حاجت کے لئے

کیسے حالات میں کس نرخ یہاں بیچ دیے

کتنے ناداروں نے افلاس کے چکراؤ میں

پہلے تو رہن کیے بعد ازاں بیچ دیے

 

تیری میزاں کے یہ بے رحم سُنہرے پلڑے

ایک جلّاد کی تلوار رہے ہیں اب تک

گرسنہ آنکھوں کے کشکول، ہوس کے مقتل

ہر نئے خوں کے خریدار رہے ہیں اب تک

 

ساٹھ کے تیس نہیں، تیس کے پندرہ دے دے

اپنی مجبوری کا اظہار نہیں کر سکتا

آج اک تلخ ضرورت ہے مرے پیشِ نظر

میں کسی رنگ سے انکار نہیں کر سکتا

٭٭٭

 

 

 

 

منصُور

 

 

وہ کیا خطا تھی؟

کہ جس کی پاداش میں ابھی تک

میں قرن ہا قرن سے شکارِ عبودیت

طوق در گلو۔۔۔پا بہ گِل رہا ہوں

وہ جرم کیا تھا؟

کہ زندگی بھر تو میں

ترے آستاں پہ سجدوں کی نذر گزرانتا رہا ہوں

اور اس کا ثمرہ ملے

تو بس کاسۂ گدائی۔ عذابِ عالم

تو کیا مری بے طلب ریاضت۔۔۔ مجاہدت کا یہی صلہ ہے

مجھے گلہ ہے

خدائے تنّور و آبِ سادہ مجھے گلہ ہے

مجھے تری بندگی کے صدقے میں کیا مِلا ہے؟

کہاں ہے وہ ترا دستِ فیّاض

جس کے جُود و سخا کے قصّے

سنہرے حرفوں میں ہر صحیفے کے

حاشیے بن کے رہ گئے ہیں

کہاں ہیں وہ تری جنّتیں جن کی داستانیں

بڑے تکلّف سے عرش سے فرش پر اُتاریں

کہاں ہیں وہ تیرے شیر و شہد شکر کے بے انتہا ذخیرے

کہ جن کی کاذب جھلک سے تُو نے

گرسنہ مخلوق کو ازل سے غلام رکھا

کہاں ہیں اُن واہمی کھلونوں کے

اُونچے بازار کس طرف ہیں

میں اِن روایات کی حقیقت سے با خبر ہوں

یہ سب وہ رنگین دام تھے جن کے بل پہ تُو نے

زمیں پہ بغض و عناد و ظلم و فساد و حرص و ہوس کے ایسے دھُوئیں اُڑائے

کہ نسلِ آدم کروڑ فرقوں میں بٹ گئی ہے

یہ وحدہٗ لا شریک دُنیا ہزار خطّوں میں کٹ گئی ہے

اگرچہ روزِ الست سے لے کے اب تلک

بے شمار صدیوں کے فاصلے ہیں

مگر یہ تاریخ کی کہن سالہ راہبہ، جو

ترے کلیساؤں بتکدوں اور حرم سراؤں کے مجرمانہ

رموز سے آشنا رہی ہے

ہر اک خرابے کی خاک اُڑانے کے بعد آئی

تو کہہ رہی ہے

"سنو نشیبوں کے باسیو!

یہ جہاں تمہارا ہے

یہ زمیں یہ فلک یہ خورشید و ماہ و انجم فقط تمہارے ہیں

دوسرا ماسوا تمہارے کوئی نہیں ہے

خدا و بندہ کی تلخ تفریق بے حقیقت ہے بے سبب ہے

الوہیت کا وجود تم میں سے ہی کسی خود فریب انساں کا واہمہ تھا

یہ واہمہ اِس قدر بڑھا پھر

کہ رفتہ رفتہ تمام کونین کا خداوند بن گیا ہے

اور اس خداوند

اس تصوّر کے آسرے پر

تمہارے کچھ ہم نفس رفیقوں نے

تم کو محکوم و پا بہ زنجیر کر دیا ہے

یہی وہ پہلا گناہ پہلا فریب پہلا فسوں ہے جس نے

مزاجِ انساں کو غاصبانہ شعور بخشا”

اگر یہ سچ ہے!

اگر یہ سچ ہے خدائے تنّور و آبِ سادہ

تو یہ من و تو کی پست و بالا فصیل مسمار کیوں نہ کر دوں

کہ اِن مراتب کی کشمکش سے ہی

آج میں اور میرے ہم جنس

اِس طرح ایک دوسرے کے غنیم ہیں

جس طرح زمستاں کی برفباری کے بعد گرگانِ گرسنہ

بھوک کی شقاوت سے تنگ آ کر

اُس ایک لمحے کے منتظر ہوں

جب ان کا کوئی نحیف ساتھی

غنودگی کا شکار ہو

اور سب کے سب اس پہ ٹوٹ کے چیر پھاڑ ڈالیں

کہ اس شکم کے مہیب دوزخ سے بڑھ کے

کوئی نہیں جہنّم

نہ اِس جہاں میں

نہ اُس جہاں میں

٭٭٭

 

 

 

مشورہ

 

 

زیست کی تلخیوں سے گھبرا کر

اپنا دامانِ عجز پھیلا کر

آسماں کی طرف نگاہ کیے

اپنے ربِّ کریم کے در سے

موت کی بھیک مانگنے والے!

دیکھ اس زرنگار مسجد کو

آبِ زرّیں کی جھلملاہٹ سے

جس کے مینار جگمگاتے ہیں

تیرے ربِّ کریم کا گھر ہے

اور اس خانۂ مقدّس میں

مئے کوثر کے خم لنڈھائے ہوئے

شوخ غلماں لگائے سینے سے

ملک الموت نیم خوابیدہ

یادِ ربِّ کریم میں گم ہیں

 

چھوڑ انداز یہ دعاؤں کا

تابہ کے آسرا خداؤں کا

ہاں فقط ایک نعرۂ وحشت

بڑھ فقط اک قدم بغاوت کا

یا تو یہ خیر و شر کے رکھوالے

موت کی بھیک تجھ کو دے دیں گے

یا پھر ان کے مہیب پنجوں سے

چھین کر اپنی زندگی پا لے

موت کی بھیک مانگنے والے

٭٭٭

 

 

 

جانشیں

(1952ء میں کراچی میں طلباء پر فائرنگ سے متاثر ہو کر لکھی گئی)

 

 

علم و دانش کے سوداگروں نے کہا

جاہلو!

تم اندھیروں کی دُنیا کے باسی

جہالت کے تاریک غاروں کے مُردے

کہاں جا رہے ہو، کہاں؟

تم تہی دست ہو

تم تہی جیب ہو

تم تہی دامنوں سے ہمیں کوئی لالچ نہیں

تم نہیں جانتے

تم نہیں مانتے

ہم تمہارے لئے

کب سے تہذیب و حکمت کی نایاب اجناس کو

منڈیوں میں سجائے ہوئے ہیں

تم نہیں دیکھتے

تم کہ شب کو رہو

ہم نے دن کے اُجالے میں بھی بس تمہارے لیے

اِس تمدّن کے فانوس روشن کیے

جن کی شفّاف کِرنوں سے سارا جہاں بقعۂ نُور ہے

عالمِ طُور ہے

پاگلو!

تم نہیں جانتے

تم نہیں مانتے

ہم ارسطو ہیں شاہوں کے اُستاد ہیں

ہم فلاطوں ہیں ہم کو ہر اک علم و حکمت کے گُر یاد ہیں

ہم ہی سقراط ہیں

ہم ہی بقراط ہیں

ہم ہی بے مثل شخصیتوں کے خردمند فرزند ہیں

ہم ہی کون و مکاں کے خداوند ہیں

سرپھرو!

تم کو ہم سے گلہ ہے کہ ہم نے تمہیں

خاک و خوں کے سمندر میں نہلا دیا

صرف اپنے تسلّط کی خاطر

ہم نے اپنوں کے ہاتھوں سے کٹوا دیا

چاند سورج تو اپنے لیے رکھ لیے

اور تم کو کھلونوں سے بہلا دیا

تم کو اس کی مگر کچھ خبر ہی نہیں

یہ تسلّط یہ جا ہ و حشم یہ زمیں

بس تمہارے لیے ہے تمہارے لیے

دَورِ فردا کے فرمانروا ہو تمہیں

تم کو ہونا ہے اجداد کا جانشیں

پاگلو!۔۔۔ہم سے عالی نظر دیدہ ور

تم سے جو بھی کہیں مان لو

اپنے اپنے مراتب کو پہچان لو

تم نہیں جانتے تم کہ مردہ رہے سالہا سال سے

بھیڑیوں اور درندوں کی ارواحِ بد تم میں در آئی ہیں

اور جہل و جنوں کی نجس مشعلیں دے کے تم کو

بغاوت پہ اُکساتی ہیں

اپنے اجداد سے، اپنے فرمانرواؤں سے، آقاؤں سے

جاہلو!

پاگلو!!

٭٭٭

 

 

سیلاب

 

پھر تم ہاتھوں کو پھیلاؤ ،آیا ہے سیلاب

ناچو گاؤ جشن مناؤ، آیا ہے سیلاب

قدرت کے سب کھیل نیارے

اس میں کسی کو دخل نہیں ہے

جس کو ڈبوئے جس کو ابھارے

چھوڑو ناؤ، خوف نہ کھاؤ، دور نہیں گرداب

ناچو گاؤ جشن مناؤ، آیا ہے سیلاب

مال مویشی سب کچھ چھوڑو

نام خدا کا رہ جانے دو

ہاتھ اُٹھاؤ، ڈوبے جاؤ، چھوڑو مال اسباب

ناچو گاؤ جشن مناؤ، آیا ہے سیلاب

پھٹے پرانے کپڑے پہنو

اپنا مقدّر۔ اپنا نصیبہ

دیکھتی جاؤ۔ ننگی بہنو

ننگی ماؤ۔ بُنتی جاؤ اطلس اور کمخواب

ناچو گاؤ جشن مناؤ، آیا ہے سیلاب

تم ہو جیون بھر کے روگی

یہ جگ چھوڑو، اُس دنیا میں

تم پہ خدا کی رحمت ہو گی

پھول اُگاؤ، پتھر کھاؤ، گندم ہے نایاب

ناچو گاؤ جشن مناؤ، آیا ہے سیلاب

ہنس ہنس کر اے غربت زادو

اَن داتاؤں کے چرنوں میں

اپنی جانیں بھینٹ چڑھا دو

بڑھتے آؤ، روگ مٹاؤ، ہو جاؤ غرقاب

ناچو گاؤ جشن مناؤ، آیا ہے سیلاب

٭٭٭

 

 

 

 

23 مارچ

(جشنِ جمہوریہ پاکستان کے موقع پر لکھی گئی)

 

 

 

"خوشا یہ ساعتِ رنگیں خوشا یہ روزِ طرب

ستم کشو! نئی منزل کا احترام کرو

اداس چہروں سے گردِ ملال دھو ڈالو

ملول روحوں کو ہنس ہنس کے شاد کام کرو

درونِ خانہ گھنی ظلمتیں سہی لیکن

بڑے خلوص سے تزئینِ سقفِ و بام کرو

چراغ ہوں کہ لہو ہو کہ آنسوؤں کی لکیر

پھر آج جشنِ بہاراں کا اہتمام کرو

شبِ الم کی حکایات کا یہ وقت نہیں

اٹھو اور اُٹھ کے نئی صبح کو سلام کرو”

 

امیرِ شہر کے فرمان سب  بجا لیکن

فقیرِ شہر بھی کچھ عرضِ حال کرتے ہیں

خطا معاف بصد احترام عہدِ وفا

سسکتے ہونٹ، دکھے دل سوال کرتے ہیں

کہ ہم تو وہ ہیں جو با وصفِ ضعفِ تشنہ لبی

مزاج پیرِ مغاں کا ملال کرتے ہیں

ہر ایک تیر کو خوش آمدید کہتے ہیں

دو چند اہلِ حشم کو جلال کرتے ہیں

ہمیں تو جاں سے زیادہ عزیز دردِ وطن

مگر حضور بھی ایسا خیال کرتے ہیں

 

چمن میں جشنِ ورودِ بہار جب بھی ہوا

وطن میں جب بھی فروزاں ہوئے خوشی کے دیے

رہی ہے بوالہوسوں کے سبو میں بادۂ ناب

بلا کشانِ وفا نے لہو کے گھونٹ پئے

مہ و نجوم رہے بزمِ شہر یاراں میں

نگاہِ خلق ترستی رہی کرن کے لیے

ادھر عبا و قبا کا خیال دامن گیر

ادھر یہ فکر کہ کوئی جگر کے چاک سیئے

تو کیا یہی غمِ جمہور کے تقاضے ہیں

نظر اُٹھا کے نہ دیکھیں کوئی مرے کہ جئے

 

زہے نصیب کہ جو اب بھی غمِ مآل رہے

یہ دورِ نو ہے مبارک اگر سنبھل کے چلیں

یہ چند سانسوں کی فرصت بڑی غنیمت ہے

کسے خبر ہے کہ پھر حادثے ٹلیں نہ ٹلیں

خدا وہ وقت نہ لائے کہ گردشوں کے طفیل

حضور اپنی جفا کیشیوں پہ ہاتھ ملیں

جو ہو سکے تو مٹا دیں یہ فاصلے ورنہ

کہیں یہ ذرّے ستاروں سے انتقام نہ لیں

بجھے ہوں دل تو اندھیرے کبھی نہیں مٹتے

یہ قمقمے تو کجا لاکھ  آفتاب جلیں

٭٭٭

 

 

تفاوت

 

 

تو کیوں ہے اُداس مسکرا دے

کیوں تجھ کو غمِ وفا نے گھیرا

زنگارِ الم سے دُور ہی رہ

آئینہ صفت جمال تیرا

کتنی ہی سیاہ شب ہو لیکن

کب چاند پہ چھا سکا اندھیرا

کب موجۂ روشنی تھمی ہے

دریاؤں پہ دھُول کب جمی ہے

 

میں کیسے ہنسوں کو دردِ ہستی

ہے میرے شعور کا تقاضا

حالات کی دھوپ میری قسمت

آلام کی ریگ میری دنیا

میں سایۂ نخل کو بھی ترسوں

صحرا کی طرح وجود میرا

صحراؤں میں پھول کب کھلے ہیں

ہم دونوں میں کتنے فاصلے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

تسلسل

 

 

 

کب سے سنسان خرابوں میں پڑا تھا یہ جہاں

کب سے خوابیدہ تھے اِس وادیِ خارا کے صنم

کس کو معلوم یہ صدیوں کے پُر اسرار بھرم

کون جانے کہ یہ پتھر بھی کبھی تھے انساں

صرف لب دوختہ پربت ہیں جہاں نوحہ کناں

 

نہ در و بام نہ دیوار و دریچہ کوئی

کوئی دہلیزِ شکستہ نہ حریمِ ویراں

شہر کے شہر ہیں پاتال کے دامن میں نہاں

کون پہچانتا ظلمت میں سیاہی کے نشاں

جو نظر ڈھونڈنے اٹھی وہ نظر بھی کھوئی

چشمِ مہتاب بھی شبنم کی جگہ خوں روئی

 

یہ خرابے تھے ان ادوار کے مدفن جن میں

ارضِ مشرق کے جہاں تاب اجالوں کی نمود

جگمگاتی رہی تاریخ کا تاریک وجود

رات ہوتی رہی تبدیل چمکتے دن میں

ان گنت صدیوں کی تہذیب دبی تھی ان میں

 

علم نے آج کریدے ہیں وہ ظلمات کے ڈھیر

وقت نے جس پہ بٹھائے تھے فنا کے پہرے

جاگ اُٹھے صورِ سرافیل سے گونگے بہرے

تا ابد جن کے مقدّر میں تھی دنیا اندھیر

یہ مگر عظمتِ انساں ہے کہ تقدیر کے پھیر؟

 

یہ عمارات، یہ مینار، یہ گلزار، یہ کھیت

تودۂ خاک سے ہستی نے لیا تازہ جنم

جی اُٹھے وادیِ خاموش کے بے جان صنم

پر کوئی چیرے کا ذرّے کا جگر قطرۂ یم

دفن کر دے گا جو خالق کو بھی مخلوق سمیت

اور یہ آبادیاں بن جائیں گی پھر ریت ہی ریت

٭٭٭

 

 

 

 

ہلالِ عید

 

 

ہلالِ عید! نویدِ طرب ہے دید تری

تری نمود خوشی کا پیام لاتی ہے

بجھی نگاہوں میں کرنوں کی جوت بھرتی ہے

ملول روحوں کی افسردگی مٹاتی ہے

روایتیں ہیں کہ اس دن ہر ایک دل کی کلی

وفورِ نشۂ راحت سے جھوم جاتی ہے

بلند و پست کے ہر تفرقے مٹاتے ہوئے

ہر اک محل میں ہر اک گھر میں عید آتی ہے

 

ہلالِ عید! مگر میں نے ہر برس دیکھا

کہ تیری ضو بھی نشیبوں میں مسکراتی نہیں

روایتوں پہ مجھے بھی یقیں تو ہے لیکن

یہ خوش عقیدگی کیا کیجیے راس آتی نہیں

خدا کے گھر میں برابر سہی غریب و غنی

یہ رسم ملکِ خدا میں رواج پاتی نہیں

طلوع ہوتا رہا تو ہر ایک سال مگر

مرے وطن کی جبیں پھر بی جگمگاتی رہی

 

ہلالِ عید! تفاوت کی آتشیں آندھی

جھلس رہی ہے مرے دیس میں خوشی کے چمن

کہیں تو جسم پہ ریشم کے ڈھیر بارِ نظر

کہیں بدن پہ ہیں عریانیاں ہی پیراہن

کہیں تو کجکلہی وجہِ نخوت و تمکیں

کہیں فلاکت و افلاس زندگی کے کفن

کہاں وہ دن کہ غریب الدیار روتے ہیں

یہ حال ہو تو وطن میں ستم ہے عیدِ وطن

 

ہلالِ عید! تجھے غمزدوں سے کیا نسبت

کہ خواجگانِ جہاں ہی ترے چہیتے ہیں

جو تیرے نام کے ساغر فضا میں لہرا کر

تری کمان کی قوسوں کو موڑ دیتے ہیں

فغاں، کہ تجھ کو بے کسوں سے ربط نہیں

جو اپنے دل کے سفینے لہو میں کھیتے ہیں

تری ضیا بھی ہے گویا کٹی پتنگ جسے

بلند بام خلا ہی میں لُوٹ لیتے ہیں

 

ہلالِ عید! طرب زا سہی یہ شام مگر

چراغِ شوق جلاتے ہوئے لرزتے ہیں

دلوں پہ کل جو قیامت گزرنے والی ہے

اب اس کا دھیان بھی لاتے ہوئے لرزتے ہیں

ہم اہلِ غم تجھے خوش آمدید کیسے کہیں

جو اپنے دکھ بھی سناتے ہوئے لرزتے ہیں

اگرچہ تجھ پہ نگاہیں جمی ہوئی ہیں مگر

دعا کو ہاتھ اُٹھاتے ہوئے لرزتے ہیں

٭٭٭

 

 

 

واہمہ

 

 

تو ہر اک بات پہ ہنس دیتی ہے

اور میں سوچ میں پڑ جاتا ہوں

یہ تری سادہ و معصوم ہنسی

آنکھ کی بھول سماعت کا فسوں

تیری عادت ترا انداز نہ ہو

بے تکلّف ترے ہونٹوں کی چٹک

میری خوش فہمی کا اعجاز نہ ہو

میں سرابوں کو بھی دریا سمجھوں

تو فقط شوق کی پرواز نہ ہو

 

تو ہر اک بات پہ ہنس دیتی ہے

اور میں سوچ میں پڑ جاتا ہوں

یہ تری سادہ و بیباک ہنسی

میں جسے خواب سے تعبیر کروں

وہ حقیقت میں کوئی راز نہ ہو

تیرے بے ساختہ ہنسنے کی ادا

تیری تنہائی کی آواز نہ ہو

میں جسے حسنِ طبیعت جانوں

تیرے جذبات کی غماز نہ ہو

 

تو ہر اک بات پہ ہنس دیتی ہے

اور میں سوچ میں پڑ جاتا ہوں

یہ تری سادہ و پرکار ہنسی

میری دنیا مری ہستی کا سکوں

کسی طوفان کا آغاز نہ ہو

میں محبت کی طلب کا مارا

تو فقط حسنِ نظر باز نہ ہو

یہ نہ ہو میں تو سوئمبر جیتوں

اور ترے قصر کا در باز نہ ہو

٭٭٭

 

 

 

کنیز

 

 

حضور آپ اور نصف شب مرے مکان پر

حضور کی تمام تر بلائیں میری جان پر

حضور خیریت تو ہے حضور کیوں خموش ہیں

حضور بولیے کہ وسوسے وبالِ ہوش ہیں

حضور، ہونٹ اِس طرح  سےکپکپا رہے ہیں کیوں

حضور آپ ہر قدم پہ لڑکھڑا رہے ہیں کیوں

حضور آپ کی نظر میں نیند کا خمار ہے

حضور شاید آج دشمنوں کو کچھ بخار ہے

حضور مسکرا رہے ہیں میری بات بات پر

حضور کو نہ جانے کیا گماں ہے میری ذات پر

حضور منہ سے بہہ رہی ہے پیک صاف کیجیے

حضور آپ تو نشے میں ہیں معاف کیجیے

حضور کیا کہا، مَیں آپ کو بہت عزیز ہوں

حضور کا کرم ہے ورنہ مَیں بھی کوئی چیز ہوں

حضور چھوڑیے ہمیں ہزار اور روگ ہیں

حضور جائیے کہ ہم بہت غریب لوگ ہیں

٭٭٭

 

 

آگ میں پھول

 

میں تو شعلوں کا پُجاری ہوں مرے پاس نہ آ

اپنے دامن میں محبت کے حسیں پھول لیے

ان دلآویز بہاروں سے مجھے ربط نہیں

 

جب کوئی تازہ کلی نکہت و رنگت کی پلی

شبنمی حسن کے سیمین لبادے اوڑھے

مست پلکوں پہ لیے صبحِ جوانی کی پھوار

میرے تپتے ہوئے ماحول میں در آتی ہے

تو مرے سرد ارادوں سے دھواں اٹھتا ہے

میری آنکھوں میں الاؤ سے دہک جاتے ہیں

اور اس آتش و ظلمت کے گھنے لاوے میں

مسکراتی ہوئی شاداب کلی کی سانسیں

چند ہی لمحوں میں رک جاتی ہیں پھک جاتی ہیں

تو کہ تو بھی ہے کسی ذوقِ نمو سے سرشار

مست پلکوں پہ لیے صبحِ جوانی کی پھوار

 

ایک انجان سی منزل کو بڑھے آتی ہے

دیکھ اس شعلوں کی بستی کو ذرا غور سے دیکھ

ہر قدم پر جہاں انگارے ہی انگارے ہیں

تو یہاں رہ کے کبھی پھول نہیں بن سکتی

لوٹ جا پیشتر اس کے کہ ترے ہونٹوں میں

احمریں رس کی جگہ تند شرر گھل جائیں

ان مہکتے ہوئے رخساروں کے زرخیز کنول

آگ کے حلقۂ بے باک میں جھلسے جائیں

 

میں تو شعلوں کا پجاری ہوں۔۔۔

٭٭٭

 

 

ٹائپنگ: محمد بلال اعظم

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید