فہرست مضامین
آگ خریدار ہے
افضال احمد سید
ماخذ: ’آج‘ کتاب۔1، مدیر اجمل کمال
مکمل کتاب ڈاؤن لوڈ کریں
شاعری میں نے ایجاد کی
کاغذ مراکشیوں نے ایجاد کیا
حروف فونیشیوں نے
شاعری میں نے ایجاد کی
قبر کھودنے والے نے تندور ایجاد کیا
تندور پر قبضہ کرنے والوں نے روٹی کی پرچی بنائی
روٹی لینے والوں نے قطار ایجاد کی
اور مل کر گانا سیکھا
روٹی کی قطار میں جب چیونٹیاں بھی آ کر کھڑی ہو گئیں
تو فاقہ ایجاد ہو گیا
شہتوت بیچنے والے نے ریشم کا کیڑا ایجاد کیا
شاعری نے ریشم سے لڑکیوں کے لیے لباس بنایا
ریشم میں ملبوس لڑکیوں کے لیے کٹنیوں نے محلسرا ایجاد کی
جہاں جا کر انھوں نے ریشم کے کیڑے کا پتا بتا دیا
فاصلے نے گھوڑے کے چار پاؤں ایجاد کیے
تیز رفتاری نے رتھ بنایا
اور جب شکست ایجاد ہوئی
تو مجھے تیز رفتار رتھ کے آگے لٹا دیا گیا
مگر اس وقت تک شاعری محبت کو ایجاد کر چکی تھی
محبت نے دل ایجاد کیا
دل نے خیمہ اور کشتیاں بنائیں
اور دور دراز کے مقامات طے کیے
خواجہ سرا نے مچھلی کا کانٹا ایجاد کیا
اور سوئے ہوئے دل میں چھو کر بھاگ گیا
دل میں چھپے ہوئے کانٹے کی ڈور تھامنے کے لیے
نیلامی ایجاد ہوئی
اور
جبر نے آخری بولی ایجاد کی
میں نے ساری شاعری بیچ کر آگ خریدی
اور جبر کا ہاتھ جلا دیا
٭٭٭
اگر میں لوٹ کر نہ آ سکا
میں اندھے چیتوں
رنگین مچھلیوں
اور تیز بادلوں کو پکڑتا ہوں
اندھے چیتے
کند کدالوں سے کھدے گڑھوں میں
رنگین مچھلیاں
ریشم کی ڈوریوں سے بنے جال میں
اور تیز بادل
مقناطیس سے پکڑے جاتے ہیں
یہ میرا کنواں ہے
یہ میرا تندور
اور یہ میرا قبر
ان سب کو میں نے خود کھودا ہے
جسے اپنی زنجیر خود کاٹنی ہوتی ہے
اپنی آری خود اُگاتا ہے
مجھے اپنا سمندر خود کاٹنا ہے
میں اپنی کشتی خود حاصل کروں گا
میری کشتی کسی ساحل پہ رنگ ہونے کے بعد سوکھ رہی ہے
کسی غار میں رکی ہے
کسی درخت میں قید ہے
یا کہیں نہیں ہے
مگر میرے پاس ایک بیج ہے
جس کا نام میرا دل ہے
میرے پاس تھوڑی سی زمین ہے
جس کا نام محبت ہے
میں دل کا درخت بناؤں گا
اور ایک دن
اسے کاٹ کر
ایک کشتی بنا کر نکل جاؤں گا
اگر میں لوٹ کر نہ آ سکا
میری رنگین مچھلیوں کو میرے کنویں میں
میرے اندھے چیتوں کو
میرے تندور میں
اور میرے تیز بادلوں کو
میری قبر میں رکھ دینا
جو میں نے بہت گہری کھودی ہے
٭٭٭
جتنی دیر میں ایک روٹی پکے گی
جتنی دیر میں ایک روٹی پکے گی
میں تمھارے لیے ایک گیت لکھ چکا ہوں گا
جتنی دیر میں ایک مشکیزہ بھرے گا
تم اسے یاد کر کے گا چکی ہو گی
اجنبی تم گیت کاہے سے لکھتے ہو
نمک سے
روٹی کاہے سے کھاتے ہو
نمک سے
مشکیزہ کاہے سے بھرتے ہو
نمک سے
لڑکی تم گیت کاہے سے گاتی ہو
پانی سے
روٹی کاہے سے کھاتی ہو
پانی سے
مشکیزہ کاہے سے بھرتی ہو
پانی سے
پانی اور نمک مل کر کیا بنتا ہے
سمندر بنتا ہے
جتنی دیر میں میرے گھوڑے کی نعل ٹھک جائے گی
ہم سمندر سے ایک لہر توڑ چکے ہوں گے
جتنی دیر میں گھنٹی کی آواز پر قلعی ہو چکی ہو گی
ہم ایک جنگلی کشتی کو سدھا چکے ہوں گے
اجنبی تم گھوڑے کی نعل کاہے سے ٹھونکتے ہو
ٹوٹے ہوئے چاند سے میری جان
تم گھنٹی کی آواز کاہے سے قلعی کرتے ہو
ٹوٹے ہوئے چاند سے میری جان
تم مجھے کاہے سے تشبیہ دو گے
ٹوٹے ہوئے چاند سے میری جان
لڑکی تم سمندر سے لہر کاہے سے توڑتی ہو
تمھاری تلوار سے میری جان
تم جنگلی کشتیوں کو کاہے سے سدھاتی ہو
تمھاری تلوار سے میری جان
تم مجھے کاہے سے زیادہ پسند کرتی ہو
تمھاری تلوار سے میری جان
جتنی دیر میں یہ سمندر طے ہو گا
میں اور تم بچھڑ چکے ہوں گے
جتنی دیر میں تم مجھے بھول چکی ہو گی
میں مر چکا ہوں گا
اجنبی تم سمندر کاہے سے طے کرو گے
اپنی ضد سے
میں تمھیں کاہے سے بھول چکی ہوں گی
اپنی ضد سے
اجنبی تم کاہے سے مر چکے ہو گے
اپنی ضد سے
اپنی ضد سے
لڑکی ہم کاہے سے بچھڑ چکے ہوں گے
مجھے نہیں معلوم
میں کاہے سے مر چکا ہوں گا
مجھے نہیں معلوم
روٹی کتنی دیر میں پک چکی ہو گی
مجھے نہیں معلوم
٭٭٭
شاعر کا دل
جہاں محبت کی حدود پر ختم لکھ دیا گیا
وہاں بند دروازے کے اوپر
میں نے پورا چاند دیکھ کر
نئے چاند کے دیکھنے پر مانگی جانے والی دعا مانگ لی
تم نے میرے دل کو زنجیر سے باندھ دیا
اور میں نے بھونکنا شروع کر دیا
اگر تم چاہو
تو اتنی نازک زنجیر سے
ایک ٹوٹی ہوئی شاخ
ایک نشان لگے درخت سے باندھ سکتی ہو
جس کو ٹھیکے دار
اس موسم میں کاٹ لے جائے گا
زنجیر سے بندھے ہوئے دل نے
تمھارے قدموں کو چاٹنا شروع کر دیا
اور تم نے کہا
یہ کتا پاگل ہو گیا ہے
جیسا کہ ایک کہانی میں
ایک اندھے آدمی نے اپنی بینائی پانے کے بعد
اپنے کتے کو دھتکار دیا تھا
اگر تم چاہو
تو میں تمھیں ایک نظم سناؤں
جو میں نے اس وقت پڑھی تھی
جب میں باتیں کیا کرتا تھا
اور نہیں جانتا تھا
میرے دانت پیسنے کی آواز
کتنے دروازے پار کر سکتی ہے
شاعر نے کہا تھا:
’’میرا دل ایک شکاری کتا ہے
جسے میں تمھارے کپڑوں کی بو سنگھا رہا ہوں
تم مجھ سے بے وفائی کر کے
ایک اور مرد کے ساتھ بھاگ گئی ہو
میرا دل اس مرد کے تناسل کے اعضا بھنبھوڑ ڈالے گا
اور تمھیں
تمھاری پنڈلیوں میں دانت گاڑ کر
میرے پاس گھسیٹ لائے گا ‘‘—
شاعر کا دل شکاری کتا ہوتا ہے
اور زنجیر میں بندھے ہوئے آدمی کا دل
زنجیر میں بندھا ہوا کتا
یہ کتا پاگل ہو گیا ہے
اس نے اپنی زنجیر نگل لی ہے
اور شاید تمھاری انگلیاں بھی
جو لوہے کی طرح سنگدل ہیں
اور اس زنجیر کی طرح بے وفا
جس سے کوئی بھی کتا باندھا جا سکتا ہے
تم نے جانوروں کا علاج کرنے والے کو بلایا
اور اس کی آنکھوں میں مسکرا کر
میری قسمت کا فیصلہ کر دیا
شاید محبت کی حدود پر ختم
تم نے نہیں
کسی اور نے لکھا تھا
جس کا طرزِ تحریر
اس راز کی طرح
میرے دل میں محفوظ ہے
جس پر میں نے پہلی بار
بھونکنا سیکھا تھا
٭٭٭
مٹی کی کان
میں مٹی کی کان کا مزدور ہوں
کام ختم ہو جانے کے بعد ہماری تلاشی لی جاتی ہے
ہمارے نگران ہمارے بند بند الگ کر دیتے ہیں
پھر ہمیں جوڑ دیا جاتا ہے
ہمارے نگران ہمیں لاپروائی سے جوڑتے ہیں
پہلے دن میرے کسی حصے کی جگہ
کسی اور کا کوئی حصہ جوڑ دیا گیا تھا
ہوتے ہوتے
ایک ایک رواں
کسی نہ کسی اور کا ہو جاتا ہے
خبر نہیں
میرے مختلف حصوں سے جڑے ہوئے مزدوروں میں کتنے
کان بیٹھنے سے مر گئے ہوں گے
مٹی چرانے کے عوض
زندہ جلا دیے گئے ہوں گے
مٹی کی کان میں کئی چیزوں پر پابندی ہے
مٹی کی کان میں پانی پر پابندی ہے
پانی مٹی کی حاکمیت کو ختم کر کے اپنے ساتھ بہا لے جاتا ہے
اگر نگرانوں کو معلوم ہو جائے
کہ ہم نے مٹی کی کان میں آنے سے پہلے پانی پی لیا تھا
تو ہمیں شکنجے میں الٹا لٹکا کر
سارا پانی نچوڑ لیا جاتا ہے
اور پانی کے جتنے قطرے برآمد ہوتے ہیں
اتنے دنوں کی مزدوری کاٹ لی جاتی ہے
مٹی کی کان میں آگ پر پابندی نہیں ہے
کوئی بھی نگران آگ پر پابندی نہیں لگاتے
آگ کان کے مختلف حصوں کے درمیان دیوار کا کام کرتی ہے
میں بھی آگ کی چار دیواریوں کے درمیان کام کرتا ہوں
کوئی بھی مزدوری آگ کی چار دیواریوں کے بغیر نہیں ہو سکتی
مٹی کی کان میں آگ کا ایک اور کام بھی ہے
کبھی کبھی نگران ساری کان کو اچانک خالی کرانا چاہتے ہیں
اس وقت کان میں آگ پھیلا دی جاتی ہے
اس دن اگر کوئی سلامت نکل جائے تو اس کی تلاشی نہیں لی جاتی
مٹی اسی دن چرائی جا سکتی ہے
میں نے ایک ایسے ہی دن مٹی چرائی تھی
وہ مٹی میں نے ایک جگہ رکھ دی ہے
ایک ایسے ہی آگ بھڑکائے جانے کے دن
میں نے بے کار اعضا کے انبار سے
اپنے ناخن اور اپنے دل کی لکیر چرائی تھی
اور انھیں بھی ایک جگہ رکھ دیا ہے
مجھے کسی نہ کسی طرح آگ لگنے کی خبر ہو جاتی ہے
اور میں چوری کے لیے تیار ہو جاتا ہوں
میں نے کوڑے کے ڈھیر پر ایک پاؤں دیکھ رکھا ہے
جو میرا نہیں ہے
مگر بہت خوبصورت ہے
اگلی آگ لگنے کے وقت اسے اٹھا لے جاؤں گا
اور اس کے بعد کچھ اور— اور کچھ اور— اور کچھ اور
ایک دن میں اپنی مرضی کا ایک پورا آدمی بناؤں گا
مجھے اس پورے آدمی کی فکر ہے
جو ایک دن بن جائے گا
اور مٹی کی کان میں مزدوری نہیں کرے گا
میں اس کے لیے مٹی چراؤں گا
اور تحقیق کروں گا
کان میں آگ کس طرح لگتی ہے
اور کان میں آگ لگاؤں گا
اور مٹی چراؤں گا
اتنی مٹی کہ اس آدمی کے لیے
ایک مکان، ایک پانی انبار کرنے کا کوزہ، اور ایک چراغ بنا دوں
اور چراغ کے لیے آگ چراؤں گا
آگ چوری کرنے کی چیز نہیں
مگر ایک نہ ایک ضرورت کے لیے ہر چیز چوری کی جا سکتی ہے
پھر اس آدمی کو میرے ساتھ رہنا گوارا ہو جائے گا
آدمی کے لیے اگر مکان ہو، پینے کے پانی کا انبار ہو اور چراغ میں آگ ہو
تو اسے کسی کے ساتھ بھی رہنا گوارا ہو سکتا ہے
میں اسے اپنی روٹی میں شریک کروں گا
اور اگر روٹیاں کم پڑیں
تو روٹیاں چراؤں گا
ویسے بھی نگران ان مزدوروں کو جو کان میں شور نہیں مچاتے
بچی کھچی روٹیاں دیتے رہتے ہیں
میں نے مٹی کی کان میں کبھی کوئی لفظ نہیں بولا
اور اس سے باہر بھی نہیں
میں اپنے بنائے ہوئے آدمی کو اپنی زبان سکھاؤں گا
اور اس سے باتیں کروں گا
میں اس سے مٹی کی کان کی باتیں نہیں کروں گا
مجھے وہ لوگ پسند نہیں جو اپنے کام کاج کی باتیں گھر جا کر بھی کرتے ہیں
میں اس سے باتیں کروں گا
گہرے پانیوں کے سفر کی
اور اگر میں اس کے سینے میں کوئی دھڑکنے والا دل چرا کر لگا سکا
تو اس سے محبت کی باتیں کروں گا
اس لڑکی کی جسے میں نے چاہا ہے
اور اس لڑکی کی جسے وہ چاہے گا
میں اس آدمی کو ہمیشہ اپنے ساتھ نہیں رکھوں گا
کسی بھی آدمی کو کوئی ہمیشہ اپنے ساتھ نہیں رکھ سکتا
میں اس میں سفر کا حوصلہ پیدا کروں گا
اور اسے اس خطے میں بھیجوں گا
جہاں درخت مٹی میں پانی ڈالے بغیر نکل آتے ہیں
اور وہ ان بیجوں کو میرے لیے لے آئے گا
جن کے اگنے کے لیے
پانی کی ضرورت نہیں ہوتی
میں روزانہ ایک ایک بیج
مٹی کی کان میں بوتا جاؤں گا
بوتا جاؤں گا
ایک دن کسی بھی کے بیج کے پھوٹنے کا موسم آ جاتا ہے
مٹی کی کان میں میرا لگایا ہوا بیج پھوٹے گا
اور پودا نکلنا شروع ہو گا
میرے نگران بہت پریشان ہوں گے
انھوں نے کبھی کوئی درخت نہیں دیکھا ہے
وہ بہت وحشت زدہ ہوں گے اور بھاگیں گے
میں کسی بھی نگران کو بھاگتے دیکھ کر
اس کے ساتھ کان کے دوسرے دہانے کا پتا لگا لوں گا
کسی بھی کان کا دوسرا دہانہ معلوم ہو جائے تو اس کی دہشت نکل جاتی ہے
جب میری دہشت نکل جائے گی
میں آگ کی دیوار سے گزر کر
مٹی کی کان کو دور دور جا کر دیکھوں گا
اور ایک ویران گوشے میں
اوپر کی طرف ایک سرنگ بناؤں گا
سرنگ ایسی جگہ بناؤں گا
جس کے اوپر
ایک دریا بہہ رہا ہو
مجھے ایک دریا چاہیے
میں وہ آدمی ہوں جس نے اپنا دریا بیچ کر
ایک پل خریدا تھا
اور چاہا تھا کہ اپنی گزر اوقات
پل کے محصول پر کرے
مگر بے دریا کے پل سے کوئی گزرنے نہیں آیا
پھر میں نے پل بیچ دیا
اور ایک ناؤ خرید لی
مگر بے دریا کی ناؤ کو کوئی سواری نہیں ملی
پھر میں نے ناؤ بیچ دی
اور مضبوط ڈوریوں والا ایک جال خرید لیا
مگر بے دریا کے جال میں کوئی مچھلی نہیں پھنسی
پھر میں نے جال بیچ دیا
اور ایک چھتری خرید لی
اور بے دریا کی زمین پر مسافروں کو سایہ فراہم کر کے گزر کرنے لگا
مگر دھیرے دھیرے
مسافر آنے بند ہونے گئے
اور ایک دن جب
سورج کا سایہ میری چھتری سے چھوٹا ہو گیا
میں نے چھتری بیچ دی
اور ایک روٹی خرید لی
کسی بھی تجارت میں یہ آخری سودا ہوتا ہے
ایک رات
یا کئی راتوں کے بعد
جب وہ روٹی ختم ہو گئی
میں نے نوکری کر لی
نوکری مٹی کی کان میں ملی
٭٭٭
بادشاہ کا خواب
بادشاہ نے ایک خواب دیکھا
اس نے وہ خواب
اپنے وزیر کو سنایا
وزیر نے خواب کو اپنے استعفے میں لکھا
اور روپوش ہو گیا
بادشاہ نے وہ خواب
اپنے سپہ سالار کو سنایا
سپہ سالار نے خواب کو اپنی تلوار پر لکھا
اور ایک لاکھ آدمیوں کو قتل کر دیا
بادشاہ نے وہ خواب
شہزادی کو سنایا
شہزادی نے خواب کو اپنے جسم پر لکھا
اور بازار میں بیٹھ گئی
بادشاہ نے وہ خواب
مذہبی پیشوا کو سنایا
پیشوا نے وہ خواب مقدس کتاب میں لکھ دیا
اور اعتکاف میں چلا گیا
خواب کی کوئی تعبیر نہ پا کر
بادشاہ نے خواب کو قید کروا دیا
خواب کی تعبیر
خواب کے ساتھ جڑواں پیدا ہوئی تھی
اسے تلوار کے ایک وار کے ذریعے خواب سے جدا کر دیا گیا تھا
خواب بادشاہ کے پاس چلا گیا
اور تعبیر ایک فقیر کے پاس
فقیر نے تعبیر کو اپنے کشکول پر لکھ دیا
اور ایک دن جب اس کے پاس کھانے کو کچھ نہیں تھا
کشکول نگل کر مر گیا
تعبیر ایک کسان کے پاس چلی گئی
کسان نے تعبیر کو اپنے ہل پر لکھ دیا
اور ایک دن جب اس کے پاس بونے کو کوئی بیج نہیں رہا
اس نے ہل کو زمین میں بو دیا
تعبیر ایک جنازے کے پاس چلی گئی
اور اس کے ساتھ ساتھ چلنے لگی
چونکہ مرنے والے کی قبر کو کوئی کتبہ میسر نہیں ہوا تھا
تعبیر قبر کے سرھانے کھڑی ہو گئی
ایک دن
قبرستان کے پاس سے گزرتے ہوئے ایک سپاہی نے
تعبیر کو مشکوک حالت میں دیکھ کر
گرفتار کر لیا
بندی خانے میں
خواب اور تعبیر
دونوں ایک ہی زنجیر سے جکڑ دیے گئے
اور اسی وقت
بادشاہ مر گیا
٭٭٭
لاگ بک
لاگ بک میں لکھا ہے
یہ جہاز ڈوب چکا ہے
جہاز ڈوب چکا ہے
اور سمندر زندہ ہے
اور نمکین
اور ان مچھلیوں سے بھرا ہوا ہے
جن کو اس جہاز کے ڈوبنے کا یقین ابھی نہیں آیا
لاگ بک میں جہاز کے ڈوبنے کے اندراج کے بعد
میرے دستخط ہیں
جن کی سیاہی میرے ہاتھوں میں محفوظ ہے
کیا اسی کا نام موت ہے
کیا یہ کسی اور جہاز کی لاگ بک ہے
کیا میں کسی اور جہاز کا ناخدا ہوں
کیا تمام لاگ بکوں میں یہی لکھ دیا جاتا ہے
’’یہ جہاز ڈوب چکا ہے ‘‘
مگر یہ جہاز ڈوب چکا ہے
اس پر کوئی مسافر، کوئی ملاح، کوئی سامان نہیں ہے
ایک ڈوبے ہوئے جہاز کو
کسی بندرگاہ پر اتارنے کی ذمہ داری
کسی بھی ناخدا پر عائد نہیں ہوتی
میں اس جہاز کو چھوڑ کر کہیں بھی جا سکتا ہوں
اور مرنے سے پہلے
یہ جان سکتا ہوں
کہ یہ سمندر زیادہ سے زیادہ کتنا نمکین ہو سکتا ہے
٭٭٭
کیا آگ سب سے اچھی خریدار ہے
لکڑی کے بنے ہوئے آدمی
پانی میں نہیں ڈوبتے
اور دیواروں سے ٹانگے جا سکتے ہیں
شاید انھیں یاد ہوتا ہے
کہ آرا کیا ہے
اور درخت کسے کہتے ہیں
ہر درخت میں لکڑی کے آدمی نہیں ہوتے
جس طرح ہر زمین کے ٹکڑے میں کوئی کارآمد چیز نہیں ہوتی
جس درخت میں لکڑی کے آدمی
یا لکڑی کی میز
یا کرسی
یا پلنگ نہیں ہوتا
آرا بنانے والے اسے آگ کے ہاتھ بیچ دیتے ہیں
آگ سب سے اچھی خریدار ہے
وہ اپنا جسم معاوضے میں دے دیتی ہے
مگر
آگ کے ہاتھ گیلی لکڑی نہیں بیچنی چاہیے
گیلی لکڑی دھوپ کے ہاتھ بیچنی چاہیے
چاہے دھوپ کے پاس دینے کو کچھ نہ ہو
لکڑی کے بنے ہوئے آدمی کو دھوپ سے محبت کرنی چاہیے
دھوپ اسے سیدھا کھڑا ہونا سکھاتی ہے
میں جس آرے سے کاٹا گیا
وہ مقناطیس کا تھا
اسے لکڑی کے بنے ہوئے آدمی چلا رہے تھے
یہ آدمی درخت کی شاخوں سے بنائے گئے تھے
جبکہ میں درخت کے تنے سے بنا
میں ہر کمزور آگ کو اپنی طرف کھینچ سکتا تھا
مگر ایک بار
ایک جہنم مجھ سے کھنچ گیا
لکڑی کے بنے ہوئے آدمی
پانی میں بہتے ہوئے
دیواروں پر ٹنگے ہوئے
اور قطاروں میں کھڑے ہوئے اچھے لگتے ہیں
انھیں کسی آگ کو اپنی طرف نہیں کھینچنا چاہیے
آگ
جو یہ بھی نہیں پوچھتی
کہ تم لکڑی کے آدمی ہو
یا میز
یا کرسی
یا دیاسلائی
٭٭٭
ایک دن اور زندہ رہ جانا
بہت دور ایک ساحل پر
اسکریپ سے بنے ہوئے ایک جہاز کا
بوائلر پھٹ جاتا ہے
سیکنڈ انجینئر اسی دن مر جا تا ہے
تھرڈ انجینئر
دوسرے دن
اور میں
فورتھ انجینئر
تیسرے دن مر جاتا ہوں
سیکنڈہینڈ جہازوں پر
فرسٹ انجینئر نہیں ہوتے
ورنہ
میں ایک دن اور زندہ رہ جاتا
٭٭٭
تل زعتر سے نشیب
(تل زعتر: 1976 کے بیروت میں فلسطینیوں کا ایک کیمپ)
میں بادلوں کا وہ ٹکڑا ہوں
جسے پتھر سے باندھ کر
ڈوبنے کے لیے چھوڑ دیا گیا ہے
میرا کوئی خاندانی قبرستان نہیں ہے
کرائے کے فوجیوں کا گھرانہ
وطن سے دور مرنے کی رسم
آٹے کی چکی کی بستیوں میں
مجھے آدمیوں سے خوف آتا ہو گا
میں اس گھاٹ پر نہاتا ہوں
جہاں جانور نہاتے ہیں
ماں میرے سر میں ناریل کا تیل چپڑ دیتی ہو گی
میں گھگھیانا شروع کر دیتا ہوں
میں نے کبھی کوئی لوری نہیں سنی
میں کبھی نہیں سویا ہوں گا
میں شاعروں کی طرح تتلیوں کے پیچھے بھاگتا
مگر ضدی گندے بہن بھائیوں کو بہلانے کے لیے روک دیا جاتا رہا ہوں گا
ہمارے گھر کوئی مہمان نہیں آتا تھا
کوئی تہوار نہیں آتا تھا
ہم مُردوں کا تہوار تک نہیں مناتے تھے
میرا پسندیدہ کھلونا
چوہے دان رہا ہو گا
میری دوپہریں وباؤں کی بستیوں میں آہ و بکا سننے میں گزری ہوں گی
شام کو جب منحوس پرندے شور مچانے لگتے
میں گھر آ جاتا
اور اپنے پاؤں سے زمین کریدنے لگتا
کوئی خزانہ ہمارے گھر کے نیچے دفن ہے
مگر میرا باپ مجھے لہولہان کر دیتا ہے
مجھے اپنے باپ سے محبت رہی ہو گی
جبھی اس کی قبر پر اتنی سبز گھاس اُگی
میرا بچپن ننگی بارشوں میں گزرا ہو گا
دلدلوں پہ شارعِ عام لکھا ہے
میں وہ بارہ سنگھا ہوں
جس کی سینگیں رات کے جنگل میں الجھ جاتی رہی ہوں گی
میں لکڑہارا بن جاتا
مگر ہر درخت پر محبت کرنے والوں کے نام کھدے رہے ہوں گے
میں سورج مکھی کے پھول اگاتا
مگر سورج کو پوجنا بند کر دیا گیا ہو گا
جب شہزادیاں
خواجہ سراؤں کے ساتھ بھاگ رہی تھیں
میں تمھیں کسی پیڑ کے نیچے کھڑا کر کے
کچی جامنیں نہیں جھڑجھڑا سکا
جب کنیزیں
پنجڑے میں بند پرندوں کو نرم اور سبز پتیاں کھلا رہی تھیں
میں تمھیں وہ گھونگھا نہیں بنا سکا
جس کو کان پر لگانے سے
میرا سمندر ٹھاٹھیں مارتا ہوا سنائی دیتا رہا ہو گا
میں تمھاری الگنی پر نہیں سوکھا
تمھارے گھڑے سے نہیں چھلکا
میں تمھیں گدی سے تلووں تک اپنے نام سے نہیں داغ سکا
سیلاب آنے سے پہلے
تمھاری بستی چھوڑتے وقت
میں نے اپنی انگلی کاٹ کر چہیتوں کے دن کی نشانی لوٹا دی
مگر جب بہار کی آنچ سے مٹی تمتمانے لگی
تم اپنی جلی ہوئی روٹی
اور آدھ چمچے شوربے میں مجھے شریک نہیں کر سکیں
ساری کپاس
شہزادوں کے کفن بنانے میں صرف ہو گئی
سارا ریشم
شہزادیوں کی جرابوں پر
فاتح اور مفتوح فوجی
بھیڑوں کو اون سمیت کھا گئے
گلی میں یتیم کتے
اپنی کھالوں کو دوہرا کیے اوڑھے ہوں گے
اکڑی ہوئی اینٹوں پر سوئے ہوئے بچوں کو
دودھ میں مردہ شکر ڈال کر پلائی جا رہی ہے
روشنی آنتوں میں سوئیوں کی طرح چبھ رہی ہو گی
گزشتہ سال کے تمام دنوں کو ایک ہی قبر میں سلاتے ہوئے
غلطی سے نئے سال کا پہلا دن بھی
دفن کر دیا گیا
اب مرنے کا چھوت تمام دنوں کو لگ رہا ہے
جب باہر بھیڑیے گھوم رہے تھے
ماں سے میں نے کہا
جنگل سے لکڑیاں کاٹ لاؤ
جب باہر لٹیرے گھوم رہے تھے
بہن سے میں نے کہا
کنویں سے پانی بھر لاؤ
جب بادل کو آسمان پر
اور پنیریوں کو کھیتوں پر پھیلانے کا وقت تھا
میں اپنی تنہائی کو ہتھوڑے سے کوٹ رہا ہوں گا
جب بادل کو کھیتوں پر
اور پرندوں کو خوشوں پر آنے سے روکنے کا موسم رہا ہو گا
میں اپنی تنہائی کو
چاک پر چڑھا کر ایک خوبصورت پیالہ بنا رہا ہوں گا
میرے دوستوں نے
اپنے ہاتھ دیواروں میں بو دیے ہوں گے
اور ساحل پر پڑی ہوئی کشتیوں کے پیندے میں اپنے سر
وہ سورج کو ڈوبتا دیکھ کر
سڑی ہوئی مچھلی کی طرح پگھل جاتے رہے ہوں گے
انھوں نے کبھی زمین کا چقماق جلا کر
شعلے نہیں کاشت کیے
اپنے مویشیوں اور بال بچوں کے ساتھ
ایک ناند میں کھانا کھانے کے بعد
وہ اپنی بیویوں کے ساتھ سو جانے کے لیے اپنے بچوں کے آنکھیں موند لینے کا
انتظار نہیں کرتے ہوں گے
برسوں جرابوں کی طرح پہنی ہوئی ان کی بیویوں کے منھ سے
چراندھ آ رہی ہو گی
ان کے بچے
خون کی زندہ جلتی ہوئی بوند رہے ہوں گے
چاند آسمان پر شہد کا چھتا ہے
میں اسے ریچھ بادلوں کے حملے سے بچانے جا رہا ہوں
میرے نیزے روشنی سے تیز چلتے ہیں
بادل میری کشتیوں کے بادبان ہیں
میری توپیں سورج داغتی ہیں
سمندر سرکشی پر آمادہ ہے
میں اسے ہواؤں کے گھوڑوں سے جوتنے والا ہوں
روشنی جو اس شہر کے کھمبوں پر سرنگوں ہے
میں اسے کوڑے مار مار کر اوپر بھیجوں گا
میں انھیں گرد اور غبار کے دریا میں اپنے اعضا ڈھونڈنے پر مجبور کر دوں گا
جن کی پلکیں ہوا چلنے سے جھڑ جاتی ہیں
جن کی آنکھیں روشنی میں تڑخ جاتی ہیں
جن کی گائیں سیاہ دودھ دیتی ہیں
میں اپنے زخموں میں گندھک سے
فتح کا اعلان لکھوں گا
اور
تمھاری آنکھیں بہت خوبصورت ہیں
انھیں اپنی تلوار کے دستے پر لگاؤں گا
٭٭٭
ہمیں ہمارے خوابوں میں مار دیا جاتا ہے
ہمیں ہمارے خوابوں میں مار دیا جاتا ہے
پہلے بارش ہوتی ہے
پھر کیچڑ پھیل جاتی ہے
پھر ہمیں مار دیا جاتا ہے
ان اسلحوں سے
جن کا نشانہ
تعزیرات کی کتاب میں
ہمیشہ کے لیے درست بنا دیا گیا ہے
ہم اپنے خواب میں لیمپ روم کی طرف جاتے ہیں
جس میں بیٹھے ہوئے چور
اپنے دانتوں سے کتری ہوئی رات کا ٹکڑا
ہمارے آگے پھینک دیتے ہیں
جسے ہم چباتے ہیں
اور جاگ جاتے ہیں
ہمارے خواب ہمیں کہتے ہیں
اس درخت کو پانی دو
اس میں تمھاری رات ہے
ہمارے خواب ہمیں کہتے ہیں
اس سمندر میں اتر جاؤ
اس کی تہہ میں ایک جہاز ڈوب گیا ہے
جس میں تمھاری رات سفر کر رہی تھی
ہماری رات چوری ہو گئی ہے
سیاروں کے کسی اور نظام کے لیے
پھولوں کی نمائش کے دروازے پر کھڑی ہوئی لڑکی پوچھتی ہے
تمھاری رات کہاں ہے ؟
اور بارش ہونے لگتی ہے
سمندر الٹ پلٹ ہو جاتا ہے
اور مجھے کھینچ کر چاندماری کے میدان کی طرف لے جایا جاتا ہے
بگھی میں جاتی ہوئی لڑکی گردن باہر نکال کر مجھے دیکھتی ہے
اور بارش میں بھیگ جاتی ہے
اگر میرے دونوں ہاتھ
میری پشت پر بندھے ہوئے نہ ہوتے
تو میں اسے الوداع کہتا
کتنی عجیب بات ہے
کل میں نے خواب میں اس لڑکی کا بوسہ لیا تھا
صرف ایک بوسہ
اور بارش ہونے لگتی ہے
بارش ہونے لگتی ہے
یہاں تک کہ چاندماری کی آدھی دیوار پانی میں ڈوب جاتی ہے
بھیگی ہوئی رسی
ہمارے ہاتھوں کو اور سختی سے جکڑ دیتی ہے
ہم بارش میں ننگے پاؤں
اس طرح چلتے ہیں
جیسے زمین ننگے پاؤں چلنے والوں کے لیے بنی ہو
بارش ہو رہی ہے
ہم بھیگ رہے ہیں
اب ہم یہ کپڑے کبھی نہیں بدلیں گے
ہمارے خواب ہمیں کہتے ہیں
تمھارے پاس دوسرا جوڑا تو ہو گا
دوسرے جوڑے کے لیے
اپنے گھر
یا کسی اور کے گھر میں نقب لگانی ہو گی
اور ہمارے دونوں ہاتھ پیچھے بندھے ہوئے ہیں
ہمارے خواب ہمیں کہتے ہیں
تم نے برساتی کیوں نہیں خریدی
اب
جب چاندماری کی دیوار سامنے نظر آنے لگی ہے
ہمارے خواب ہمیں کہتے ہیں
تم نے برساتی کیوں نہیں خریدی
ہم اپنے خوابوں سے کہتے ہیں
اب بارش بہت تیز ہو گئی ہے
جاؤ
اور جا کر
برساتیوں کی دکان کے سائبان میں سو رہو
برساتی میں ملبوس ایک شخص
بھیگے ہوئے رجسٹر میں میرا نام پکارتا ہے
کوئی مجھے دھکا دے کر آگے کر دیتا ہے
اب مجھے مار دیا جائے گا
اتنی بارش میں
مجھے مار دیا جائے گا
میں اتنی دیر میں کوئی خواب دیکھنا چاہتا ہوں
آتشدان کے پاس بیٹھی ہوئی لڑکی سے
کوئی کہتا ہے
تم نے بگھی کی کھڑکیاں بند رکھی ہوتیں
میں اتنی دیر میں کوئی خواب دیکھنا چاہتا ہوں
کوئی اسے
خوبصورت سی شال میں لپیٹ کر کہتا ہے
تمھیں اتنی بارش میں باہر نہیں نکلنا چاہیے تھا
٭٭٭
زندگی مجھے اتنی فراوانی سے نہیں ملی
زندگی مجھے اتنی فراوانی سے نہیں ملی
میرے دریا حریف کی صفوں سے گزر کر مجھ تک پہنچے
میں نے ہمیشہ جوٹھا پانی پیا
مجھے ایک موسم بارشوں کے نام پر خالی چھوڑنا پڑا
میرے لیے وصیت نامہ اس نے چھوڑا
جو کبھی بارشوں میں ننگے پاؤں نہیں پھرا
مجھے نہیں معلوم کہ
وہ وہی ہے
جسے گود میں لیے ایک عورت گھڑسواروں کے آگے گڑگڑا رہی تھی
اور جو گھوڑے کے نتھنوں سے نکلنے والی بھاپ سے
اپنا چہرہ بچانے کی کوشش عمر بھر کرتی رہتی ہے
مجھے نہیں معلوم کہ
وہ وہی ہے
جسے اس کی ماں نے پالنے میں رسیوں سے باندھ رکھا تھا
میں اپنی ماں کی گود
اور اپنے پالنے سے بار بار گر جاتا تھا
کیونکہ میں ایک کنویں میں پیدا ہوا تھا
جس کو کبھی پانی سے نہیں بھرا گیا
اور ایک مکان میں رہنے لگا
جو ایک کشتی کے ٹوٹے ہوئے تختوں سے بنایا گیا تھا
میں نے سرکنڈوں کی کشتی بنائی
اور اسے پتھر کے چپوؤں سے کھیا
میں نے اس کے شہر کے غیرآباد ساحل پر
ایک فصل بوئی
اور ایک کاٹی
ہاتھی دانت کا چاند
سوسن کے پھولوں کی نگہبانی کرتا ہے
وہ اپنے شہد اور روغن کے مرتبانوں کی نگرانی کرتی ہے
پتا نہیں
میرے آسمان پر ہاتھی دانت کا چاند بھی اسی نے دریافت کیا ہو
جیسا کہ اس نے میرے لیے قطب ستارہ دریافت کیا
اور پرانی نہر کھدوائی
مجھے پتا ہے
کہ اس کا باپ
منہیارے سے سوداگر کس طرح بن جاتا ہے
کس طرح
میں رقص گاہ میں اس تک درخواست لیے جاتے جاتے
نرسنگھا بجا کر خیرات دینے والوں کے سامنے
قطار میں کھڑا ہو جاتا ہوں
حالانکہ
میں تو وہ ہوں
جو گیلی سیڑھیوں پر
سورج کا راستہ روکنے کے لیے ہے
اس دن بھی
جب آگ دیکھنے والا پتھر کا ہو جاتا ہے
اگر بیل سے انگوروں کا انبار ناند میں منتقل ہو جائے
اس کی وادیوں کو دوہا نہ جائے اور
ان کا اون اتار نہ لیا جائے
تو اسے کہنا
کوئی قیدی کسی ناراض دیوتا پر قربان کر دیا گیا
اور
یہ موقع وہ تھا
جب مائیں اپنے پہلوٹی کے بچے
رتھوں کے آگے لٹا دیتیں
میں ایک جلائے ہوئے شہر میں لایا گیا ہوں
شہر وہی اچھے ہیں
جو لڑکیوں کے نام پر بسائے اور دیوتاؤں کے نام پر جلائے جائیں
لڑکیاں وہی خوبصورت ہیں
جو اُدھڑی ہوئی قبروں میں سے نکلے ہوئے ہاتھوں پر
فصل میں پہلی بار توڑے ہوئے پھل رکھتی چلی جائیں
اگر شاعری محبت کی کفایت کرتی
تو میں سمندر کے دونوں کناروں کو اپنی شاعری سے جوڑ دیتا
مگر امان نامہ میرے ہاتھوں میں ہے
اور اس کے خداوند کے اہلکار
میری پناہ گاہ ڈھا رہے ہیں
کیا یہ سمندر میرا پردیس رہ سکے گا
جو مجھے یقین دلاتا تھا کہ میں
جب تک اس کے کناروں پر رہوں گا
آدم زاد جیسا رہوں گا
پتا نہیں کب وہ جہاز آ کے رکے
جس کا ناخدا میرے لیے الاؤ روشن کرتا
پتا نہیں کب
وہ دیوی جو اس شہر کی مالکہ ہے
مجھے اپنی خوشنودی عطا کرے
کہ میں ان کے لشکر کے ساتھ نہیں تھا
جنھوں نے اس کی کارواں سرایوں میں صرف ایک رات گزاری
جب دعا سے پہلے
سیب میں خوشبو
اور بددعا سے پہلے
سانپ میں زہر پیدا ہو جائے
کسی جلے ہوئے شہر کے پتھروں سے
کوئی جلا ہوا شہر بن رہا ہو
میں اپنے وطن واپس چلا جاؤں —
یہ سمندر پسپا ہو جائے گا
اور بستیوں پر چڑھ آئے گا
جیسا کہ سمندروں کا دستور ہے
اس کے شہر میں صرف ایک عورت بچے گی
جو وہ ہو گی
اور ایک خواجہ سرا بچے گا
جو کوئی بھی ہو سکتا ہے
شاید
اس کے دل میں
کوئی شہتوت کا پیڑ نہیں تھا
مگر میرا دل
ایک ریشم کا کیڑا ہے
میں اس کیڑے کو اپنے شناخت نامے سے نکال چکا ہوں
اور اس کے ساتھ ساتھ
رینگتا ہوں
’’اب جو میرے ساتھ نہیں
وہ میرے خلاف ہے ‘‘—
٭٭٭
میں مار دیا جاؤں گا
افسوس کہ
بہت سا وقت
ان ہاتھوں کو ہموار بنانے میں ضائع ہو گیا
جو ایک دن میرا گلا گھونٹ دیں گے
ژاں ژینے کی بالکنی کے نیچے
موسیقی فروش
اور کباب بھوننے والے
مجھے بتاتے ہیں کہ
مجھے ایک دن یہیں کھڑا کر کے مار دیا جائے گا
میری قبر بے شناخت رہ جائے گی
اس عمارت کی پہلی منزل پر
دانتے کا جہنم ہے
اور اس سے اگلی منزلوں پر خدا کا
مگر میرے ساتھ ایک دریا ہے
جس کو ابھی سیڑھیوں پر چڑھنا نہیں آتا
مجھے سؤروں کے باڑے میں سلا دیا گیا
جبکہ جس معاوضے پر
میزبان مجھے اپنی بیوی کے بستر میں سلا دیتا
وہ میری جیب میں موجود تھا
افسوس کہ
میری نیندیں
میری راتوں پر ضائع ہو گئیں
افسوس کہ
میں نے جان ڈن کے گرتے ہوئے ستارے کو پکڑ لیا
افسوس کہ
افسوس کرنے میں بہت سا وقت ضائع ہو گیا
اتنا وقت کہ
اینٹوں سے ایک مکان بنایا جا سکتا تھا
نظموں سے ایک مجموعہ چھاپا جا سکتا تھا
ایک عورت سے ایک بچہ پیدا کیا جا سکتا تھا
افسوس کہ
میرا بچہ
ایک عورت کے بطن میں ضائع ہو گیا
جبکہ مجھے مارا جانا چاہیے تھا
جبکہ
یا بدیر
میں مار دیا جاؤں گا
میں مار دیا جاؤں گا
جیسے کہ تادیوش روزے وچ کی نظموں کے
کرداروں کو مار دیا جاتا ہے
٭٭٭
متن یہاں سے حاصل ہوا
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
مکمل کتاب ڈاؤن لوڈ کریں