FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

آسماں ہر طرف

 

 

عبداللہ جاوید

 

ماخذ: عکاس، اسلام آباد، شمارہ ۱۹، مدیر: ارشد خالد

 

 

 

 

 

دل کی دیوانگی کا سماں ہر طرف

آسماں آسماں آسماں ہر طرف

 

سوجھتا ہی نہیں راستہ کیا کریں

اک دھواں، اک دھواں،اک دھواں،ہر طرف

 

اُڑ گئی، ہے زمیں، پاؤں رکھئے کہاں

فرش ہے یا کہ آبِ رواں ہر طرف

 

ایک دریا ہے پیروں سے لپٹا ہوا

بے سکوں ، بے سکوں ، بے کراں ہر طرف

 

اصل چہرے کی پہچان ممکن نہیں

عکس ہی عکس ہیں درمیاں ہر طرف

 

ایک صورت کی سو صورتیں بن گئیں

آئینے رکھ دیے ہیں یہاں ہر طرف

 

اتنی آنکھیں کہاں، دیکھ سکتے جو ہم

آپ کے حسن کی کہکشاں ہر طرف

 

آپ سے دور جاتے تو جاتے کہاں

آپ ہی آپ تھے مہر باں ہر طرف

 

کون کہتا ہے جاویدؔ جی مر گئے ؟

وہ تو موجود ہیں اے میاں ہر طرف

٭٭٭

 

 

 

 

قفس تو ہے مگر دکھتا نہیں ہے

جو یہ گھر ہے تو گھر دکھتا نہیں ہے

 

تم اپنے آشیاں کو رو رہے ہو

ہمیں اپنا شجر دکھتا نہیں ہے

 

مشینوں کے گھنے جنگل ہیں اتنے

کہیں دل کا نگر دکھتا نہیں ہے

 

ملے جب وہ اسے جی بھر کے دیکھو

وہ یاں بارِ دگر دکھتا نہیں ہے

 

صدف دو لخت جب تک ہو نہ جا ئے

صدف کو بھی گُہر دکھتا نہیں ہے

 

عجب وحشت میں ہم سب جی رہے ہیں

عجب ڈر ہے کہ ڈر دکھتا نہیں ہے

 

جہاں زیر و زبر کر کے وہ بو لے

جہاں زیر و زبر دکھتا نہیں ہے

 

فقیری میں ہم اتنے مطمئن ہیں

کسی کا کرّ و فر دِکھتا نہیں ہے

 

وہ سب سے با خبر رہتا تو ہو گا

وہ ہم سے با خبر دکھتا نہیں ہے

 

ہماری شاعری عرض ہنر ہے

مگر کارِ ہنر دکھتا نہیں ہے

 

میں جب بھی آئینہ دیکھوں ہوں جاوید ؔ

بدن دِکھتا ہے سر دِکھتا نہیں ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

اشک ڈھلتے نہیں دیکھے جاتے

دل پگھلتے نہیں دیکھے جا تے

 

پھول دشمن کے ہوں یا اپنے ہوں

پھول جلتے نہیں دیکھے جاتے

 

تتلیاں ہاتھ بھی لگ جا ئیں تو

پر، مسلتے نہیں دیکھے جاتے

 

جبر کی دھوپ سے تپتی سڑکیں

لوگ ، چلتے نہیں دیکھے جا تے

 

خواب دشمن ہیں زمانے وا لے

خواب، پلتے نہیں دیکھے جاتے

 

دیکھ سکتے ہیں، بدلتا سب کچھ

دل بدلتے نہیں دیکھے جاتے

 

کر بلا میں رخِ اصغرؑ کی طرف

تیر چلتے نہیں دیکھے جاتے

٭٭٭

 

 

 

 

 

دریا میں کاغذ کی کشتی ڈالی ہے

خوابوں میں جانے کی راہ نکالی ہے

 

اک تتلی کے پیچھے پیچھے پھرتے ہیں

اک تتلی کو رخصت بھی دے ڈالی ہے

 

اک ہرنی کے پیچھے گھوڑے ڈالے ہیں

اک ہرنی خود اپنے گھر میں پالی ہے

 

جس ہرنی کی آنکھوں پر ہم پاگل ہیں

وہ ہرنی وحشت کے جنگل والی ہے

 

وحشت کے اس بن میں گھر ہے پیارا سا

اس گھر کے اطراف بڑی ہریالی ہے

 

اونچی اونچی دیواریں ہیں اس گھر کی

لیکن ہر دیوار کے اندر جالی ہے

 

ہر جالی کے پیچھے کالی آنکھیں ہیں

ان کالی آنکھوں میں ہلکی لالی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

جو دل کی بات ہی کرنی نہیں تھی

تو کوئی بات بھی کرنی نہیں تھی

 

اگر اندر سے اتنا چا ہنا تھا

تو با ہر بے رخی کرنی نہیں تھی

 

خطائیں اور تھیں کرنے کے لائق

خطائے عاشقی کرنی نہیں تھی

 

ہمیں یہ امتحاں دینا نہیں تھا

ہمیں یہ زندگی کرنی نہیں تھی

 

محبت بھول تھی تو بھول ایسی

کبھی بھولے سے بھی کرنی نہیں تھی

 

بکھر کے پھول یہ بولے شجر سے

ہوا سے دوستی کرنی نہیں تھی

 

ہمارا مسئلہ یہ تھا کہ جا ویدؔ

زمانے کی خوشی کرنی نہیں تھی

٭٭٭

 

 

 

 

 

شجر سب چہچہوں کے اڑ گئے کیا

بھرے گھر الفتوں کے اڑ گئے کیا

 

یہ سورج پوچھتا پھرتا ہے سب سے

چمن تھے شبنموں کے اُڑ گئے کیا

 

کہاں جا کر ہم اپنی رات جا گیں

تھے کوچے رَت جگوں کے اُڑ گئے کیا

 

فلک کا چاند تو روٹھا ہوا تھا

ستارے بھی شبوں کے اُڑ گئے کیا

 

نئے مو سم میں طائر، پھول، پودے

پرانے موسموں کے اُڑ گئے کیا

 

چمن سنسان، جنگل بے زباں ہیں

پرندے ہجرتوں کے اُڑ گئے کیا

 

عجب حالت ہے دل کے آسماں کی

غبارے رنگتوں کے اُڑ گئے کیا

 

زمانہ ساتھ لے کر اُڑ رہا تھا

مسافر بے پروں کے اُڑ گئے کیا

 

ہوا گریاں ہے جلتے جنگلوں میں

مکیں ان جنگلوں کے اُڑ گئے کیا

 

زمیں روتی ہے خالی آسماں کو

نشاں بھی رحمتوں کے اُڑ گئے کیا

 

ہوا معصومیت سے پوچھتی ہے

منارے عظمتوں کے اُڑ گئے کیا

 

نظر آتے نہیں جا ویدؔ صاحب

تھے عاشق عزلتوں کے اُڑ گئے کیا

٭٭٭

 

 

 

 

 

گرمیِ با زار ہی سب کچھ نہیں

شہر ، * شو رو شار ہی سب کچھ نہیں

 

لکھنے والے کے لئے سوچیں بہت

اک دلِ بیمار ہی سب کچھ نہیں

 

ہے بہت کچھ عشق نا ہنجار بھی

عشقِ نا ہنجار ہی سب کچھ نہیں

 

تشنگی دل کی بجھا نے کے لئے

چشم و لب ، رخسار ہی سب کچھ نہیں

 

بو ریا بھی ہے بہت، عزت کے ساتھ

کرسی و دستار ہی سب کچھ نہیں

 

نو بہ نو آ زار ہیں اک دل کے ساتھ

دل کا اک آ زار ہی سب کچھ نہیں

 

آپ کے دیدار کا کہنا ہی کیا

آپ کا دیدار ہی سب کچھ نہیں

 

گھر کے باہر ہیں، حریفوں کے حصار

گھر کے اندر یار ہی سب کچھ نہیں

 

دوریاں دل کی بڑی سنگین ہیں

درمیاں دیوار ہی سب کچھ نہیں

 

( * جائز خیال کر تا ہوں )

٭٭٭

 

اکیلا ہوں کہ تنہائی بہت ہے

کسی کی یاد بھی آئی بہت ہے

 

مجھے ہر جائی آنکھوں نے بنایا

مری آنکھوں میں بینائی بہت ہے

 

محبت۔ ۔ اور یہ عمرِ گریزاں

تعارف اور شناسائی بہت ہے

 

تعلق توڑنا آساں ہے لیکن

جدا ہو نے میں رسوائی بہت ہے

 

تری سوچوں سے عاجز ہوں میں جاویدؔ

تری سوچوں میں گہرائی بہت ہے

٭٭٭

 

 

 

 

پتھر وہ پتھر ہو تے ہیں

جو دل کے اندر ہو تے ہیں

 

کچھ لوگوں کے دل نہیں ہو تے

دل کی جگہ پتھر ہو تے ہیں

 

آپ بھی اپنا گھر بنوا لیں

سانپوں کے بھی گھر ہو تے ہیں

 

امن کے بھاشن دینے والے

ساتھ لئے لشکر ہوتے ہیں

 

دور گھروں سے رہنا سیکھو

جنگ کی زد پہ گھر ہو تے ہیں

 

فلک فلک ، ہوائی حملے

زمیں زمیں لشکر ہو تے ہیں

(ق)

آدم زاد جہاں رہتے ہیں

وہاں یہی منظر ہو تے ہیں

٭٭٭

 

وہ گیا ابرِ رواں ٹہرا رہا

اس کے جا نے کا سماں ٹہرا رہا

 

پاؤں کے نیچے زمیں چلتی رہی

سر کے اوپر آ سماں ٹہرا رہا

 

مر حلہ ایسا بھی آیا کوچ کا

ہم چلے اور کارواں ٹہرا رہا

 

بعد اپنے یاد باقی رہ گئی

بجھ گیا شعلہ دھواں ٹہرا رہا

 

اصل مہماں کے چلے جانے کے بعد

صرف اک خالی مکاں ٹہرا رہا

٭٭٭

 

 

 

 

 

دستِ اجل نے دستِ دعا کو نگل لیا

مٹّی نے ایک جا نِ حیا کو نگل لیا

 

دریا کی پیاس ساحلِ غم سے نہ بجھ سکی

موجوں نے آج شہرِ وفا کو نگل لیا

 

کوہِ ندا سے کوئی صدائے ’’اخی‘‘ اٹھی

یا راستے نے آبلہ پا کو نگل لیا

 

دنیا و دین وقت کی گردش میں آ گئے

لمحوں نے آ دمی کی انا کو نگل لیا

 

صحنِ چمن میں ، تیز ہواؤں نے، شاخ شاخ

پھو لوں کی رنگ رنگ قبا کو نگل لیا

 

تہذیبِ نو میں مہر و محبت کہاں ملے

اک اژدہے نے لعلِ وفا کو نگل لیا

 

جاویدؔ ہم بھی غم کے سمندر کو پی گئے

شبنم نے ایک دشتِ بلا کو نگل لیا

٭٭٭

 

 

 

 

پھول پر زخم نہ آنے دینا

دل نہ کانٹوں سے لگانے دینا

 

عشق کی آ گ میں جلنا لیکن

عشق پر آنچ نہ آنے دینا

 

چھوٹی چڑیوں کو بڑے خطرے ہیں

ان کو محفوظ ٹھکانے دینا

 

جہاں ہجرت کے پرندے اتریں

وہاں افراط سے دانے دینا

 

اک دیا اور بجھانے والو

اک دیا اور جلا نے دینا

 

اے زمانوں کو بنانے والے

میرے لفظوں کو زمانے دینا

٭٭٭

 

 

 

 

سر گزشت

 

عشق مذہب کیا

اور مذہب

جسم سے جان تک

اتار دیا

 

لوگ با ہر کے سانپ پر

بھاگے

ہم نے اندر کا سانپ

مار دیا

 

وقت نے

دل کو زخم زخم کیا

دل نے ہر زخم کو

نکھار دیا

 

زندگانی نے

کیا دیا ہم کو

جو دیا، ہم نے

یاد گار دیا

٭٭٭

 

 

 

عشق نے

 

عشق نے

بے قراریاں بخشیں

عشق نے ، کب کسے

قرار دیا

 

عشق نے

پہلے چھین لی دستار

بعد میں

پیرہن اتار دیا

 

عشق نے

لمحہ لمحہ زخم دیئے

عشق نے

لحظہ لحظہ مار دیا

٭٭٭

 

 

 

 

 

ہمیں آہستہ چلنا تھا

 

ہمیں آہستہ چلنا تھا

بہت

آہستہ چلنا تھا

گلی میں یار کی

ہم کو

بہت آہستہ چلنا تھا

 

گلی کی ابتدا سے

ان کے در تک

جاتے جاتے عمر مُک جاتی

ہماری سانس رک جا تی

وہ

دروازے پہ آ تے

اور ہم

آنکھیں بچھا کر

ان کے قدموں میں

بہت آہستہ

مر جا تے ! !

٭٭٭

 

 

 

 

 

ضرورت

 

ٹپکتے ، ٹپکتے ہوئے خشک آنسو

یہ دل نے کہا

’’ آنسوؤں کی زباں کو ۔

سمجھنے کی مہلت نہیں ہے جہاں کو

کہ سارا جہاں

تیز سے تیز تر دوڑنے میں مگن ہے

یہاں آنسوؤں کی ہے قیمت نہ وقعت

۔ ۔ ۔ ۔ کو ئی روتی آنکھوں کو ، چہروں کو

دیکھنا بھی نہیں چاہتا ہے ۔

 

یہاں

سرد آہوں ، کراہوں کو ، چیخوں کو

سننے کے قابل سماعت نہیں ہے۔

سماعت اگر ہے

تو فرصت نہیں ہے

جو فرصت اگر ہے

ضرورت نہیں ہے ۔ !! ‘‘

٭٭٭

 

 

 

 

نقاد کی مشکل

 

 

مانتا ہوں

اچھا لکھتا ہے

جانتا ہوں

شاعر اچھا ہے

 

میں خود اس کو،

اپنے قلم سے

اس کی شناخت عطا

کر دیتا

اس کا مقام بنا کر دیتا

لیکن میری

مشکل یہ ہے

میرا قلم

اس پر چلتا ہے

جس کی ناک کی نوک کا لکّھا

میرے در کی چوکھٹ پر ،

قدموں میں بچھ جا تا ہو

لکھنے پر اکساتا ہو

 

آتے جاتے،

ناک سے لکّھی،

سب تحریریں پڑھتا ہوں

اُس شاعر کی

ناک نے اب تک

میرے گھر کی چوکھٹ پر

کوئی لفظ

نہیں لکھا

کوئی لکیر نہیں کاڑھی! !

٭٭٭

 

 

 

 

دن کے سورج تلے

 

شب ڈھل گئی

تارے خلا میں کھو گئے

ایک ایک کر کے رات کے خوش ہو نے والے سو گئے

سب رونے والے سو گئے

 

چاند کے اندر جو مانگے کی چمک

روشن تھی شب

ماند پڑتے پڑتے وہ

ساری کی ساری بجھ گئی

 

رات کی سب بتیاں

شا ہرا ہوں، راستوں، گلیوں میں روشن قمقمے

سب بجھ گئے

کون سوچے، کون پوچھے

کب جلے کب بجھ گئے۔ ؟

 

دن کے سورج تلے ہر نور

لا یعنی ہوا

شب کی بے توقیری کے سا تھ

٭٭٭

 

 

 

 

 تشکیک

 

 

زیست کی راہ پر

چلنے والے سبھی

طے شدہ وقت وقت پر اک معین جگہ

اپنے اپنے قفس

چھوڑ جاتے ہو ئے، گردنیں موڑ کر

دیکھتے ہیں تو کیا ۔

دیکھتے ہیں کہ پیچھے جو چھوڑا وہ سب

کچھ اگر تھا

حقیقت میں کچھ بھی نہ تھا

 

ا ور جب حال پر غور کر تے ہوئے سوچتے ہیں

’’ بِنا جسم کیا رہ گیا۔ ؟

اپنے ہونے کا احسا س سا رہ گیا

یا پھر احساس کے روپ میں

۔ ۔ یہ ہمارا نفس

خود کو محسو س کر تا ہوا ۔ ۔ رہ گیا

ہم میں کیا تھا جو آخر بچا۔ ۔ رہ گیا۔ ۔ ؟

 

ہم اگر روح ہیں تو ہمارا وجود

روح کے بھیس میں

ہے بھی یا کچھ نہیں ؟

امر ربی ہے اور

ما سوا کچھ نہیں۔ !!

٭٭٭

 

 

 

 

 راستہ

 

یہ راستہ۔ ۔

یہ عجب ہے راستہ۔

نصب گو اس پر نہیں

کوئی نشاں

پھر بھی ہر دم ہیں رواں

گا ڑیاں۔

اور پیدل آدمی،

دائیں بائیں ، درمیاں۔

 

جس کو ، جس جس سمت چلنا

اور مڑنا ہے اسے

’ روڈ سائن ‘ سوجھ جاتے ہیں،

نظر آ تے نہیں۔

جانے کب مجھ کو سجھائی دے ’ نشاں ۔

آگے رستہ بند ہے ۔ ‘

میں کھڑا رہ جاؤں اک بے جان

پُتلے کی طرح۔

خاک ہو نے کے لئے۔

طا ئرِ جاں

( راستے سے بے نیاز )

چھوڑ کر اپنا قفس

بے صدا،

اُ ڑنے لگے۔ ۔

طا ئرِ جاں کو

کسی رستے سے کیا۔ ؟

طا ئرِ جاں کا کوئی

رستہ نہیں ۔ ۔ !!

٭٭٭

 

 

 

 

آزار لوحِ جاں پہ

 

آزار لوحِ جاں پہ

محبت نے لکھ دیئے

 

کانٹے کسی کی پھول سی

صورت نے لکھ دیئے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 بے چہرگی

 

یہاں کوئی چہرہ، کسی دوسرے کو

نہیں دیکھتا ہے

یہاں

اصل چہروں سے بیزار لو گوں نے

چہرے اتارے ہوئے ہیں

کہ بے چہرگی میں، سہولت بڑی ہے

 

کسی فرد کا کو ئی چہرہ نہیں ہے

کسی چیز کی کوئی صورت نہیں ہے

یہ مانا کہ چہرے،

زبانوں کے مالک ہیں اور بولتے ہیں،

زبانوں میں اپنی

مگر یہ بھی سچ ہے کہ سچ سے گریزاں

زمانے کا کلچر ہے بے چہرگی کا

کہ بے چہرگی میں سہولت بڑی ہے

 

اگر اصل چہرے، زباں کھولتے تو،

جو محسوس کر تے وہ سب بول دیتے۔

وہ ’ سچ ‘ بول دیتے !!

٭٭٭

تشکر: ارشد خالد جن سے فائل کا حصول ہوا

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید