FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

آئینہ در آئینہ

 

 ستیہ پال آنند کے ساتھ ایک انٹرویو

حصہ اول

 

                علّامہ ضیاء حسین ضیاء

 

 

 

 

مصاحبہ کار:

علامہ ضیاء حسین ضیاء

 

تخلیق اور ادب کا

ہمالہ نشیں

فلک پیما نظم نگار

 

ڈاکٹر ستیہ پال آنند

 

 

 

 

ڈاکٹرستیہ پال آنند

(پیش لفظ)

 

علم و  عرفان کے سیال لب و لہجوں نے فنونِ لطیفہ کی پیدائش میں کلیدی کردار ادا کیا ہے فنون لطیفہ کے ذیل میں جذبات، تخیلات اور معقولات نے جب زبان و بیان کی پوشاک پہنی تو تسطیری کائنات نے جنم لیا۔ کہانی اور شاعری نے مختلف اَلوان و اَشکال میں انسان اور کائنات کی ترجمانی کا آسودہ طریقہ ڈھونڈا۔ انسان اپنے عقائد اور منصوص متون کے علاوہ بھی کوئی ایسا تعبیر نامۂ حیات چاہتا تھا جو منصوص نہ ہو کر بھی سچائی اور صداقت سے خالی نہ ہو۔ اور جذباتی امکانات کو توسیع و تمکن دینے سے ایسی تاریخ بنائی جا سکے جو بشری صداقتوں کی تاریخ ہو اور اس کی بنیاد اور اساس پر تہذیب، تمدن و ثقافت، تاریخ اور  برپا و ماجرا ہونے والی کائنات سے مکالمہ ہو سکے۔ اور رسم نافع کے طور پر اس کا اِندراج بھی ممکن ہو۔ مدوّن و مدّور اصطلاحی اور تشریحی فشار و استخراج کے بعد یہ سار دفترِ محنت مرقع ء ادب سے موسوم ہو گیا۔

دو شکلوں میں اس کی پذیرائی اور جمع و تدوین کا اہتمام کیا گیا۔ ایک شاعری اور دوسرا نثری ادب۔ یہ سلسلہ کب سے شروع ہوا یہ بات ہمارے موضوع سے خارج ہے۔

تاریخِ ادبیات میں نامور، فحول اور جید ادباء و شعرا  و محققین و ناقدین کا ظہور و شہود ہوتا رہتا ہے۔ ۔ ۔ مجمع ء بشری میں عنایت فکر و نظر اور جذبہ و خیال کی تقسیم و ترسیل و تخلیق کے لئے بے شمار قافلہ سالاروں کا گزر ہوتا رہا ہے۔ ۔ ۔ اور اب یہ بات اَتم ّ حقیقت ہے کہ ادب کی قدر یا نہضت حیات اضافی اور ارزانی کاوش نہیں بلکہ یہ حیات پناہ، ہمت گیر اور بشر دوستی کا وسیع رویہ ہے۔

اردو ادب میں بھی نو بہ نو شعرا ء و اُدبا ء نے مجالات فکر و نظر اور غرہ عالم امکان کی بنا ڈھونڈنے اور اپنے جذبات کی تحکیم و  تصدیر کے لئے موثر ایجادات کیں اور جذباتی تحریکوں کا آغاز و ایقاع کیا گیا۔ بشری استعداد کی جذباتی صداقتوں کے سرشاری ابلاغ کے لیئے نت نو بہ نو شہکار تلاش کئے گئے۔ کچھ جذباتی شارحین نے انسانیت کے لیئے بالعموم اور حرف و معنی کی تاریخ نویسی اور دل کاری کے لئے اَرفع خدمات سر انجام دیں جس کی وجہ سے اُردو اَدبیات کا تمول حجم میں کم سہی لیکن متن کی وسعت اور تمکین میں کسی سے کم نہیں۔

یوں فکشنائز سچائیاں غزل نظم افسانہ ناول تنقید اور دیگر متعلقہ شعبوں میں بکھری پڑی ہیں :

ڈاکٹر ستیہ پال آنند– ایک بڑا نظم نگار۔

یہ جملہ حقیقت کی پوری جہتوں کا تعاقب نہیں کرتا۔

ڈاکٹر ستیہ پال آنند — ایک بڑا دانش ور۔

یہ جملہ جامع المعانی ہو کر بھی پورا نہیں پڑتا اور میری لسانی اور علمی حسیات کی مربوط تسکین نہیں کرتا جیسے ایک اچھے شعر کا مفہوم کبھی کبھی دو مصرعوں کے درمیان نہیں بلکہ ان کے باہر دَم کش ہوتا ہے اسی طرح ستیہ پال آنند صاحب رسمی القاب و اصطلاحات منعقدہ سے باہر کھڑے مسکراتے ملتے ہیں۔ جو لوگ شرابوں میں شرابوں کو ملانے کا ہنر جانتے ہیں ان کے ہاں ان کی شخصیت اور فن کا طلوع مختلف سا ہو جاتا ہے۔ ڈاکٹر ستیہ پال آنند کو دانشور، شاعر، افسانہ نگار، ناول نویس اور نقاد۔ ۔ ۔ از بس انہیں اردو ادب کا قابل ترین استاد کہنے کے باوجود بہت کچھ ایسا بچ جاتا ہے جو ان کی شخصیت کی کفالت اور کفایت متمم نہیں کرتا۔ یہ ان کی شخصیت کا جمال ہے جس کی کرنیں رائج القاب میں نہیں سما پاتیں۔ ۔ ۔ سو انہیں حسی، علمی اور وجدانی رسوخ میں ڈھالنے کے لئے انہیں تلاش کرنے کے لیئے یا حظ اٹھانے کے لیئے بہت سی حسیات کے نئے عنوانات سے گزرنا پڑتا ہے تاکہ آنند صاحب کی شخصیت اور خدمات کے تارو پود اور کم و کیف تک رسائی ہو سکے اور ناطقہ سر بگریبان ہونے کی بجائے افزودہ تلطف کی طرف چل پڑے اور ادب نافع اور ادیب مرتفع کے کمالات و اکتشافات مخفی نہ رہ جائیں۔

مذکورہ رائے کی تائید میں یہ وضاحت محل نظر رہے کہ جن احباب نے ستیہ پال آنند کو پڑھا ہے ان کی نظموں کے کوہ قاف کی سیر کی ہے ان کی تسطیری اَسانید کا مطالعہ کیا ہے، ان کے تنقیدی اور تشریحی شذرات کو پڑھا ہے۔ بین المتونیت ان کی ماہرانہ جست کاری کو جانچا ہے، ان کی کتابوں کا جائزہ لیا ہے وہی جانتے ہیں کہ کہ وہ لفظ و معنی کے تول میں کتنے سخت ایمان دار اور معنی کے دستر خون کے کتنے جواد اور سخی میزبان ہیں

ستیہ پال آنند نظم نگاری کے ہمالیہ نشیں ہیں ان کا دَم نظمیہ فکری پخت و پز میں اتنا سچا، پکا اور جید ہے کہ حیرانی پلٹ پلٹ دیکھتی ہے۔ ۔ آنند صاحب کا وسیع مطالعہ اور مختلف مسالک پر ان کے محققانہ مقارنہ و موازنہ کا زورِ بازو احباب پر شمہ برابر مخفی نہیں۔ ان کی کھوج میں ان کی یافت اور نایافت کے نشانات شعری دستاویزات کے دفتر کے دفتر مدوّن کئے جا رہے ہیں۔ دانشگیری ایسی محکم کہ شعر و ادب کے افق پر آسمان سے اترا کوئی مہان دیوتا نظر آتے ہیں۔ ان کے ہاں اپنے ماحضر سے معاملہ کرنے اور اپنے مابعد کو سوجھنے اور ما بقیٰ کو بسر کرنے کی ایسی صلاحیت موجود ہے کہ ان کا کردار مقلد کی بجائے بجا طور پر مجتہدانہ نظر آتا ہے۔

راقم الحروف نے ان سے صرف احوال ذاتی اور لوح ابجد کے رسمی حروف نہیں پوچھے بلکہ صحت مند علمی مکالمہ کیا ہے۔ فکری و نظری مناقشہ درست کیا ہے، سوالوں کی شعوری لا شعوری شوخی اور متانت سے میں نے انہیں پریشان کرنے کی کوشش کی ہے، تفصیل وار مصاحبہ کیا ہے میری کوشش رہی ہے کہ میں علم و عرفان اور شعر و ادب کے جزیرے سے کچھ ایسی خبریں لاؤں جو مختلف، منفرد اور مفید تر ایسی ہوں کہ ایک ادب کے طالب علم سے لے کر ادب کے ایک استاد تک کو کوئی نہ کوئی نکتہ، حرف مکشوفہ ملتا رہے۔ جبیں پر تردّد کے آثار بھی آتے رہیں اور خندۂ زیر لبی بھی چلتی رہے۔ اس طویل گفتگو میں جس بات نے مجھے بہت زیادہ متاثر کیا وہ آنند صاحب کا اپنے ادبی اور فکری عقائد پر قرار و تمکن تھا۔ دلیل اور حوالہ اور نقد کتاب ہمیشہ ان کی بغل میں دبی نظر آئی۔ ستیہ پال آنند انشائی و تخلیقی معیارات میں ’’ محض‘‘ کی بجائے مطلق اور مقید رائے رکھتے ہیں جو اس بات کی مصدقہ خبر ہے کہ ادب کا اندرون شہر اور مضافات کا جغرافیہ ان کا دیکھا بھالا ہے۔

صاحبان فکر و نظر اس بات کی گواہی دیں گے ایسی شہودی اور حقی رضایت اس وقت حاصل ہوتی ہے جب کوئی امکانات کی فصیل کے پار جا اترتا ہے اور تعینات کو ان کی ممکنہ تعبیروں کے ساتھ ملا کر دیکھ چکا ہوتا ہے۔ علت جاننا اور چیز ہے اور اس کی افادیت جاننا اور چیز ہے ایسا ہی ہے میرا اور آپ سب کا ڈاکٹر ستیہ پال آنند۔ ایک عالمی سطح کا ستاد جس نے ادب کے مینارے اور کنگارے ٹھیک سے دیکھے بھالے ہوں۔ ادب کی خوشہ چینی کرتے ہوئے ان کا رطب ویابس دیکھا بھالا ہو، دیگر زبانوں کے نظمیہ محمودات کو اردو نظم میں لانے کی کوشش کی ہو۔ وہ اپنے مقصد اور اپنی وجدانی رَسد میں واضح ہوتا ہے۔ اردو ادب میں ان کی نظر میں جو راکد، متوقف اور متحجر معنی ہو گیا ہو، اس کے ترک کرنے میں انہیں ذرا برابر تعویق کرنی گوارہ نہیں تو ایسے بڑے آدمی کو رسمی خراج تحسین پیش کر کے اس کی شہرت میں آپ کیا اضافہ کر سکتے ہیں ؟ جب دھول آسمانی بادلوں کی طرح بلند ہو گئی ہو تو اپنے پاوں کیا جھاڑنا گلاب کی گود میں بیٹھ کر عطر کی آمد و رفت پر کیا گفتگو کرنا۔ مجھے علم اور شعر و ادب کے آداب میں نقد سودا بیچنے کا بہت شوق ہے میرے سوال کے ہر آوازے پر مجھے جواب کا نیا خریدار ملا۔

کیا سودا بیچا ہے میں نے یہ کھاتا آپ کی خدمت میں پیش کرہا ہوں کہ کہیں میں خود ستائی کے باب تقلید میں تو نہیں چلا گیا۔

قارئین گرامی قدر !

یہ مفصل اور مطول انٹرویو تو آپ کا محضر چشم ہے، مجھے اس کے سوالوں کے بارے میں کچھ نہیں کہنا۔ میں نے معلوم مشہورہ متداولہ پر سوال نہیں داغے، میں نے پرانے پارچوں کی دوبارہ سلائی کرنے کی کوشش نہیں کی۔ میں نے غیر نامیاتی معارف کو بطور معلومات جمع کرنے کا کوئی عندیہ نہیں دیا۔

یہ عجیب گفتگو ہے۔ میں نے آسمانی خدا کی زمینی استعداد پر سوال کر کے آنند صاحب کو چڑانے کی کوشش کی اور اور زمینی بشر کی آسمانی خدائی کے ممکنہ اہداف کا پتا چلانے کی بھی کوشش کی کرارے جواب ملے، فکر انگیز بیانات ملے۔ میں نے تو ادب کے خدا کے بشری کردار اور جذباتی و منطقی کردار پر ڈاکٹر صاحب سے دو بدو شمشیر زنی کی کئی جگہوں پر شمشیر کے پرتلوں کے علاوہ ان کے قبضے بھی نظر آئیں گے۔ میں سوال کی طاقت اور جواب کی استعداد کے کھلے باب تجویز کرنے پر تلا ہوا تھا۔ سو میں نے ادب کو کائنات مان کر اور قاری کو انسان جان کر جدل احسن کے طریق پر بات کی ہے۔ ساری گفتگو کی فضا علمی، استدلالی، استنباطی اور تاریخی حوالوں سے بھری پڑی ہے۔

بلا کا زور آور متکلم ہے ستیہ پال آنند

میں نے انہیں اس گفتگو میں تعقلات و ادبیات کے نوک سناں پر بھی سہولت سے بات کرتے دیکھا، اندر کا یقین زندہ خدا ہی تو ہوتا ہے۔

رعایت نہیں دیتے کسی کو

رعایت مانگتے بھی نہیں کسی سے

ان کا مقدمہ صاف اور کھرا ہے

فکری عدالت اور شاعرانہ بصیرت کو جمالیاتی ویژن میں اندوختہ کرنا انہی کو خوب آتا ہے۔

یہ انٹرویو ادبی و فکری حوالے سے کچھ اس قسم کا ہے کہ کبھی کبھی لگتا ہے توحیدی اسرار و رموز میں گم صم ہم علم الکلام کی کشتی میں بیٹھ کر دریا کی سیر کر رہے ہیں اور کمال یہ ہے کہ اس قدر بلیغ اور بالغ گفتگو میں بھی جمال کا پہلو ہاتھ سے نہیں نکلتا۔

یہ کم جمال نہیں کہ ہم ناؤ میں بیٹھے ہیں۔ اس مقام پر مشکلات و مضائقات بھی آئے۔ ۔ اصطلاحات منعقدہ رائجہ شائعہ پر کئی جگہ میرا ان سے اختلاف ہوا، کہیں میں ان سے منافی رہا کہیں وہ مجھ سے منحرف۔ مگر انہوں نے کمال مہربانی اور نہایت محبت سے مجھے راستہ دیا گفتگو کو منجمد نہیں ہونے دیا۔ یہ ان کا بڑا پن ہے۔ سو کہہ سکتا ہوں مجھے راستہ ضرور دیا مگر اپنا راستہ کھونے پر کسی قیمت پر تیار نہیں تھے۔ ماورائیت میں سے علمی افاضہ نکالنا بہت مشکل ہوتا ہے لیکن آنند صاحب کی نظموں کو پڑھ کر محسوس ہوتا ہے کہ وہ ایک نیا فکری مسلک اپنی شعریات کے حوالے سے بنا چکے ہیں۔ ان کے مسلک کی ایجاد و تاسیس کا اثبات ہو چکا ہے اس مسلک کے عقائد کا اثبات ہو یا نہ ہو ان کی انفرادیت سکہ رائج الوقت ہو چکی ہے۔

یہ انٹرویو عجیب پرتوں سے گزرا۔ جس کو بیان کرنا لازم نہیں۔ آنند صاحب عرصہ سے واشنگٹن ڈی سی میں مقیم ہیں۔ میں بذریعہ ای میل سوال بھیجتا تھا۔ جس کا تحریری جواب آتا تھا تو لگتا تھا روشنی کے ہزار دَر وا ہو چکے ہیں۔ میں بطور مدیر و مصاحبہ کار علم و عرفان کے محصولات شعری و نظری کے اَخذ و قبض پر کتنا قادر اور کامیاب ہوا ہوں اس کا فیصلہ زرنگار کے قارئین کریں گے۔

ڈاکٹر ستیہ پال آنند

کیا قادر الکلام نظم نگار ہیں

تعبیر سے اگلے خواب کے لیئے نیا نیند کا بستر تیار کرتے ہیں۔ جہاں باش، جہاں گیر، جہاں بند شخصیت ہیں۔ سب مذاہب کا احترام۔ اجزائے ایمان کو جمع کرنے میں مطمئن، خورسند اور کامیاب۔ میں نے اس گفتگو میں ان کے ہاتھ پر ہاتھ بھی مارا اور انہیں علمی جوش دلانے کی بھی کوشش کی مگر وہ ٹھنڈے مزاج کے دانشور نکلے۔

اس مکالمہ کو پڑھ کر آپ کو محسوس ہو گا کہ ذہنوں میں پلنے والی آگ قرطاس و قلم کو جلائے بغیر بھی ذہنوں میں منتقل ہو سکتی ہے۔ سلاسل کا شور برا بھی لگتا ہو تو یہ ’’ تعزیری موسیقی ‘‘کا معیار ہو سکتا ہے۔ میں نے کم و کیف کے علمی حوالوں کو نظر انداز کرنے کے بجائے انہیں ’’ پس اَنداز ’’ کر لیا یہی پس اَندازی آپ کے سامنے عاجزی سے پیش کی جا رہی ہے۔

نصاب عشق تو مجنوں کا کھاتہ تھا

ہم مجنون نہ سہی

مگر، علم و عرفان اور شعر شور انگیز کا رزمیہ بزمیہ یکجا صورت میں آپ کے سامنے پیش کر دیا ہے۔

ہم ڈاکٹر ستیہ پال آنند کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔ انہوں نے جس طرح میرے تہہ دار اور تہور آور سوالوں کے متین اور تحقیقی جوابات دیئے اور اپنا پورا دل اور دماغ خرچ کر دیا۔ میرا خیال ہے کہ یہ ڈاکٹر ستیہ پال آنند صاحب کی زندگی کا سب سے طویل انٹرویو ہے۔ اور شاید اردو ادب کا بھی !!!

ذیل میں بطور ریکارڈ ڈاکٹر آنند صاحب کی خدمات اور سوانح، اور علمی کامیابیوں کا ایک خاکہ پیش کیا جا رہا ہے جس سے اس انٹرویو کی افادیت دو چند ہو جائے گی۔ اس مکالمہ کے آخر میں آنند صاحب کی نظموں کا ایک مختصہ بھی پیش کیا جا رہا ہے تا کہ ادھاری خوشبو کی ضمانت پر باد صبا سے مراسم بنانے کا طعنہ نہ ملے۔

ضیاء حسین ضیاء

(مدیر زرنگار)

 

 

 

 

 

ستیہ پال آنند:  احوال و آثار

 

نام     :       ستیہ پال آنند

پیدائش :        24اپریل 1931ء

موضع کوٹ سارنگ، تحصیل تلہ گنگ، ضلع چکوال، پنجاب، پاکستان

والدین :       والد : رام نارائن آنند

والدہ   :       ودیا ونتی، پنجابی شاعرہ اور سکھ اس کالر

تعلیم   :       مارچ 1947ء میں میٹرک مشن ہائی اسکول، راولپنڈی سے کیا۔

1951ء میں ادیب فاضل (آنرز اِن اردو)

1952ء میں انٹر میڈیٹ، 1954ء میں بی اے (آنرز اِن فلاسفی)

1960ء میں ایم اے (انگلش) پنجاب یونیورسٹی، چنڈی گڑھ

1967ء میں ڈاکٹریٹ، (انگریزی ادب) پنجاب یونیورسٹی، (چنڈی گڑھ)

1986ء میں دوسری ڈاکٹریٹ (فلسفہ) : ٹرنٹی یونیورسٹی، امریکا

ادب سے وابستگی:

شعر گوئی کا آغاز تیرہ برس کی عمر میں۔ حب الوطنی پر پہلی نظم ’’سرحدی سماچار‘‘ ویکلی پشاور میں شامل اشاعت ہوئی۔ راولپنڈی میں منشی تلوک چند محروم کی شفقت پائی۔ افسانہ نگاری کا آغاز۔ نظمیں اور افسانے لاہور سے شائع ہونے والے اوسط درجے کے نیم ادبی نیم فلمی رسائل ’’لطف شباب‘‘، ’’مست قلندر‘‘، ’’مستانہ جو گی‘‘ وغیرہ میں شامل اشاعت ہوئے۔ اگست 1947ء میں آبائی وطن سے ہندوستان کو ہجرت، راستے میں والد کا قتل۔ ۔ ۔ ۔ لدھیانہ (مشرقی پنجاب) میں سکونت، چھوٹی موٹی نوکریاں، افسانہ نگاری اور ناول نویسی کل وقتی پیشہ اپنایا۔ ان برسوں میں ایک سو کے لگ بھگ افسانے لکھے۔ ’’بیسویں صدی‘‘، ’’شمع‘‘، سے خاطر خواہ معاوضے پر انحصار، ghost writing میں جاسوسی ناول لکھے۔ ہندی کی طرف مراجعت۔ کئی افسانے ہندی رسائل میں پہلے شائع ہوئے۔ ہندی میں معاوضے کی شرح اردو سے کئی گُنا زیادہ ہوا کرتی تھی۔ 1954ء میں دہلی سے شائع ہونے والے ماہنامہ ’’راہی‘‘ (مدیر: بلدیو متر بجلی) کے ساتھ معاون مدیر کے طور پر ادبی اور تجارتی انسلاک۔ -1955 1957 ء تک ادبی ’’آوارگی‘‘ کا دو برسوں پر محیط دورانیہ۔ دہلی، بمبئی اور دیگر شہروں میں اردو اہل قلم سے میل جول۔

ازدواجی زندگی:

24نومبر1957ء کو شادی ہوئی۔ اہلیہ پروملا آنند (پشاور کی پیدائش)۔ شادی کے پہلے پانچ برسوں میں تین بچوں (دو بیٹوں اور ایک بیٹی )کی پیدائش۔ تینوں اب امریکا اور کینیڈا میں بفضل خدا اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں اور بر سر روزگار ہیں۔

ملازمتیں، درس و تدریس و تحقیق کا لیکھا جوکھا:

1960ء میں پہلے ڈی اے وی کالج اور پھر اسی برس پنجاب یونیورسٹی چنڈی گڑھ میں بطور لیکچرر اِن انگلش تعیناتی۔ 1964ء میں سینٹرل انسٹیٹیوٹ آف انگلش اینڈ فارن لینگویجز، حیدر آباد دکن سے ایک تربیتی کورس پاس کیا۔ حیدر آباد قیام کے دوران ڈاکٹر محی الدین قادری زور کی شفقت پائی۔ ہم عمر لکھنے والوں، شاذ تمکنت، وحید اختر، مغنی تبسم اور کئی دوسروں سے رابطہ اور مستحکم دوستی۔ 1967ء میں ڈاکٹریٹ کی سند حاصل کی۔ ملازمت کے ان سات برسوں میں تیس سے کچھ اوپر ریسرچ پیپر انگریزی ادب کے عالمی جرائد میں شامل اشاعت ہوئے۔ دہلی، ممبئی، کولکاتہ، بنگلور وغیرہ یونیورسٹیوں میں سیمیناروں میں شرکت۔ 1971ء میں ریڈر؍ایسوسی ایٹ پروفیسر کے طور پر ترقی 1971ء میں جواہر لال نہرو کی مطبوعہ کتب اور غیر مطبوعہ مخطوطات پر نہرو میوزیم دہلی میں ریسرچ، جس کا نتیجہ پنجاب یونیورسٹی، چنڈی گڑھ کے پبلیکیشنز بیوریو سے انگریزی کتابõپرامسز ٹو کیپ ÑPromises To Keepشائع ہوئی۔ اس پر نہرو فیلو شپ ایوارڈ ملا، ۔ 1972-74ء میں برٹش اوپن یونیورسٹی، ملٹن کیینز، انگلینڈ میں تین برسوں کے لیے بطور ریذیڈنٹ اس کالر قیام۔ وزیٹنگ پروفیسر شپ متعدد یونیورسٹیوں میں، بشمولیت برٹش کولمبیا یونیورسٹی، وین کوور، ٹرنٹی یونیورسٹی، واٹرلو یونیورسٹی اور نیو بارسیلونا کالج آف اورینٹل اسٹڈیز۔ ۔ ۔ ۔ مختلف برسوں میں۔ 1982ء میں پنجاب یونیورسٹی میں ڈائریکٹر کاریسپا نڈنس کورسز کے طور پر تقرر۔ طویل المدتی چھٹی کے دوران امریکا میں ساؤتھ ایسٹرن یونیورسٹی، واشنگٹن ڈی سی میں World Poetry Project پر کام۔ 1988ء میں پنجاب یونیورسٹی سے باقاعدہ ریٹائرمنٹ اور امریکا کو ہجرت۔ ایک بار پھر ساؤتھ ایسٹرن یونیورسٹی اور یونیورسٹی آف دی ڈسٹرکٹ آف کولمبیا سے تدریسی الحاق۔ اس دوران میں دو برسوں کے لیے سعودی عرب میں تربیتی کالج ریاض میں تقرر۔ 2007ء میں مکمل ریٹائرمنٹ اور کل وقتی شعر و ادب کی خدمت۔ ۔ ۔ جو تا حال جاری ہے۔

تصانیف

اردو

شعری مجموعے

1۔      جائزے (1952ء)    2۔      دست برگ (1982)،

3۔      وقت لا وقت (1993) 4۔      آنے والی سحر بند کھڑکی ہے (1993ء)

5۔      لہو بولتا ہے (1997ء)   6۔      مستقبل، آ مجھ سے مل (1999ء)

7۔      آخری چٹان تک (2000ء)     8۔     مجھے نہ کر وداع (2004ء)

9۔      میرے اندر ایک سمندر (2007ء)       10۔    میری منتخب نظمیں (2009ء)

11۔    بیاض عمر کھولی ہے (2012)     12۔    جو نسیم خندہ چلے، مرتبہ گلزار۔ (2013ء)

13۔    ستیہ پال آنند کی ساٹھ نظمیں، مرتبہ فاطمہ حسن۔ (2014)

14۔    تتھا گت نظمیں (2015)      15۔    ترکال کی بیلا (2015)

کل تعداد: شعری مجموعے۔ پندرہ

افسانوی مجموعے :

1      جینے کے لیے (1953ء)       2۔      اپنے مرکز کی طرف (1956)

3۔      اپنی اپنی زنجیر1988)ء)         4۔      پتھر کی صلیب (1989ء)

5۔     میرے منتخب افسانے (2001)

ناول :

1۔      عشق، موت اور زندگی (1954ء)       2۔      آہٹ (1957ء)

3۔      چوک گھنٹہ گھر (1058ء)

4۔      شہر کا ایک دن (چوک گھنٹہ گھر کا ترمیم شدہ ایڈیشن) (1990ء)

ہندی کہانیاں :

1۔      یُگ کی آواز (1954ء)        2۔      پینٹر باؤری ((1956،

3۔      آزادی کی پکار (دو حصے ) 1957ء

ناول:

اردو کے سبھی ناول ساتھ ساتھ ہندی میں بھی شائع ہوئے۔

شاعری :

1۔      پھول پھول ہر نظم (2013)     2۔      تتھاگت نظمیں (۵۱2015

پنجابی: گورمکھی رسم الخط

شعری مجموعے :

1۔      غزل غزل دریا (1983ء)

2۔      غزل غزل ساگر (1985ء)

3۔      غزل غزل اک لہر (1986ء)

دیگر

بھارت دے سوتنترتا سنگرام دی اک جھلک (نثر) 1088ء

 

ستیہ پال آنند کے فن کے بارے میں اردو کتب:

1۔      ستیہ پال آنند کی تیس نظمیں۔ مرتبہ بلراج کومل۔

2۔      ستیہ پال آنند کی نظم نگاری : مرتبہ ڈاکٹر عبداللہ

انگریزی کتب

نو (۹) شعری مجموعے، کلکتہ (انڈیا)، دہلی (انڈیا) اور امریکا سے شائع شدہ

تعلیم، تنقید، فلسفہ اور تاریخ پر آٹھ کتابیں انڈیا سے شائع شدہ۔

ستیہ پال آنند کی کل کتابوں کی تعداد چالیس سے تجاوز کر چکی ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

ممتاز دانشور اور شاعر

ستیہ پال آنند سے ایک علمی مکالمہ

 

٭     کیا تصوف اور شاعری کی گوت اور قبیلہ ایک ہے ؟ فکری سطح پر اور استحضاری سطح پر۔

آنند:   جی نہیں، محترم، گوت تو الگ ہے ہی، قبیلہ بھی مختلف ہے، لیکن قدم قدم پر ان دو مساوی لیکن وسیع الذیل شاہراہوں کے ذیلی ڈانڈے آپس میں ملتے ہیں۔ یہ مغالطہ اس لیے پیدا ہوتا ہے کہ جن صوفی بزرگوں تک عموماً ہماری رسائی ممکن ہوئی ہے، بر صغیر میں (خاص طور پر پنجاب میں )، وہ سب، یا ان میں سے بیشتر شاعر تھے۔ تصوف ایران کی دین ہے، عربوں کی نہیں۔ جن ڈانڈوں نے ان دونوں کو فکری سطح پر کم کم لیکن استحضاری (یادداشت) یا، Oral tradition کی سطح پر وسیع تر انسلاک کے تاریخی مواقع میسر کیے وہ شمالی ہندوستان کے صوفی بزرگوں کا لوک بولیوں میں اپنی شعری ورثے کی املاک بیع کر کے جانا بھی ہے۔ اس کی پوری داستان کے ماخذ اگر تلاش کرنے ہوں تو شیخ محمود المعروف محمد پیرؔ  کی ’’حقیقت  الفقرا‘‘(۱۸۰۱ھ؍1660-1661 ء)کو دیکھنا ضروری ہو جاتا ہے۔ محمد پیرؔ پنجابی کے بزرگ صوفی شاعر شاہ حسین کی وفات کے کچھ دن بعد پیدا ہوئے اور پندرہ برس کی عمر میں ان کے مزار باغبانپورہ میں حاضری دے کر ان سے روحانی سطح پر متبعاتی فیض حاصل کیا۔ یہ کتاب فارسی میں ہے لیکن اس کا اردو ترجمہ 1923ء میں شاہ حسین کے مزار کے گدی نشین سید مبارک علی شاہ نے حیدر آباد دکن کے ایک بزرگ مولانا سید احمد شاہ سے کروا کے شائع کیا تھا لیکن اس میں لا تعداد اغلاط تھیں۔ صحیح ترمیم شدہ نسخہ ڈاکٹر گوہر نوشاہی، نائب منتظم مقتدرہ قومی زبان، اسلام آباد کے کتب خانے میں ٍٍٍ موجود ہے۔

ایران میں شطاریہ سلسلہ جس کے بانی اغلباً با یزید بسطامی تھے شاعری، سماع اور موسیقی کو تصوف کے ظاہری خد و خال سمجھتے تھے۔ سلوک اور طریقت میں یہ لوگ زیادہ سرگرم تھے، سخت ریاضت، ( بسا اوقات حجروں یا جنگلوں میں رہ کر )ان کا مرغوب شعار تھا۔ اس سلسلے میں ہندوستان میں سب سے زیادہ فعال شیخ محمد غوث گوالیاری (ھ980 بمطابق 1562ء) تھے جو شیخ فرید الدین عطار کی نسل سے تھے۔ شیخ محمد غوث نے شہنشاہ اکبر سے حاصل ہوئی املاک سے گوالیار میں ایک بڑی خانقاہ تعمیر کروائی، جس میں تصوف کے حوالے سے ہی شاعری اور موسیقی کی سمعی اور سماعی محافل منعقد کی جاتی تھیں۔ گوالیار ویسے بھی شاعری اور موسیقی کا گڑھ تھا، اس کی سرپرستی گوالیار کے راجہ مان سنگھ کرتے تھے، جو خود بھی کھڑی بولی کے علاوہ فارسی میں اشعار موزوں کرتے تھے۔

 

٭    کیا تخلیقی فلسفہ ہو سکتا ہے ؟ یا یہ بھی تصوف کی عقلی تعبیرات کی کوشش ہے ؟

آنند:   میری رائے میں تخلیقی فلسفہ Creative Philosophy بطور اصطلاح قابل قبول نہیں ہے۔ مغربی دنیا کے تقریباً سبھی فلسفی، بشمولیت قدیم یونان اور رومائے قدیم (سقراط، ارسطو، افلاطون۔ ۔ ۔ درجنوں نام ہیں، شمار کرنے کی ضرورت نہیں ہے ) اور یورپ میں قرون وسطیٰ یا قرون مظلِمہ(دسویں سے پندرھویں صدی تک) یا اس کے بعد بیسویں صدی تک سینکڑوں نہیں تو بیسیوں نام ایسے ہیں، جنہیں فلسفی ہونے کی سند دی جا سکتی ہے۔ ان میں نظریہ پرست بھی ہیں، کتاب پرست بھی ہیں اور پان صوفیت، فلسفۂ علت و معلول، عقیدہ۔ ۔ ۔ وسیع سے وسیع (علم بسیط) اور narrower schools of thoughtعلم الدنی، کسب خارجی، علم طبیعی، علم الٰہی وغیرہ کے یگانۂ روزگار بزرگ بھی گزرے ہیں، لیکن سبھی یا تقریباً سبھی شعری شعار اظہار سے بری الذمہ قرار دیے جا سکتے ہیں۔ (شاید اپنی کم علمی کی وجہ سے مجھے کوئی نام نہ ملا ہو، لیکن یورپ اس لحاظ سے، میری ناقص رائے میں ) قرون وسطیٰ سے لے کر آج تک ’’فلسفی شاعر‘‘ کی اصطلاح سے خالی رہا ہے۔ بہت سے اطالوی، فرانسیسی، انگریزی، جرمن اور سکینڈینیوین شعرا کو Philosopher Poet کہا جاتا ہے لیکن ان کے ہاں جو فلسفہ ملتا ہے، وہ سب کا سب مستعار ہے۔ ان میں Philosopher first and foremost and poet later کوئی نہیں ہے۔ نظریہ ساز کوئی نہیں ہے، صرف نظریہ پرست ہیں۔

سوال کا دوسرا حصہ پہلے حصے سے بطور علت و معلول منسلک ہے۔ اس لیے اس کا جواب یہی ہو سکتا ہے کہ یہ روح کی گہرائیوں میں اتر کر علت اولیٰ کی اُسی الوہیت سے مصافحہ کرنے کی کوشش ہے، جو ’’سبب‘‘ کے مسبب الاسباب سے تعلق پر استوار ہے۔

ہے کہاں تمنا کا دوسرا قدم یارب

ہم نے دشت امکاں کو ایک نقش پا پایا

 

٭    شاعری میں امکان کی بود و باش غیر فطری کیوں محسوس ہوتی ہے ؟ نرا مبالغہ۔

آنند:   امکان کی بود و باش؟ امکان کی نہ تو ’بود‘ ہے، نہ ہی ’باش‘، یعنی یہ’ ماضی‘ اور’ حال‘، دونوں سے مستثنیٰ ہے۔ اس کا تعلق ’مستقبل‘سے ہے۔ غالب کا شعر ایک سیال کیفیت کا مرقع ہے۔ اس میں سکون یا ٹھہراؤ نہیں ہے، بہاؤ ہے۔ یہ سیال کیفیت ’’، تمنا‘‘ (آرزو، خواہش، چاؤ، چاہ، چاہت، امید، ادمات، امافی، ارمان، ۔ ۔ ۔ کچھ ہم معنی الفاظ) اپنے سیال معانی میں ’’قرار‘‘ کا قطبینی الٹ پھیر ہے۔ فلسفے میں یہ برگساں کے Elan Vital کے مفروضے سے متصور اور متشکل ہے۔ ایک سعی ٔ مسلسل ہے۔ تڑپ اور لگن، بے قراری ہے۔ اٹھے ہوئے قدم کے زمین پر پڑنے سے پہلے ہی دوسرے قدم کو اٹھانے کی سعی ہے۔ یہ ارتقا پذیری کا وہ عمل ہے جس پر ہم آج تک چلتے چلے آئے ہیں لیکن غالب جیسے شاعر تو امکان کی حدود کو پھلانگ کر آگے کی سرزمیں تک ایک ہی زقند میں پہنچنا چاہتے ہیں۔ اس کیفیت کو کوئی نام دیا جا سکتا ہے ؟ پہلا قدم ایک ستون کی سی مضبوطی سے زمین پر، دوسرا قدم اٹھا ہوا اور شاعر دور بین یہ دیکھ کر حیران و پریشان کہ پہلے نقش قدم کو تو اس نے اپنے پاؤں سے تسخیر کر لیا، دوسرا کہاں ہے ؟ (شاید تیسرے قدم کے لیے زمان و مکان کی حدود بھی نا کافی ہیں۔ ) ’ہونے ‘ Being سے ’بننے ‘ Becoming کی طرف ایک جہد مسلسل ہے کہ جو شاعر کو اس سیال کیفیت سے بہائے لیے جار ہی ہے، جس کا ذکر پہلے ہو چکا ہے۔ وقت کے ابعاد ثلاثہ کا یہ کرشمہ ہے، کہ ’حال‘ جو شاید ایک لمحے کے کروڑویں حصے سے بھی کم دورانئے پر محیط ہے، ارتقا پذیری کا مرکزہ بن جاتا ہے اور شاعر مستقبل کی اس تمنا کے پیچھے دوڑنے کا خواہشمند ہے جو افقی ہے، جو اِس سے اُس افق تک پھیلاؤ کو اپنی سیال کیفیت میں لپیٹ لینا چاہتی ہے۔

امکان کی بود و باش غیر فطری ہے بھی اور نہیں بھی، کیونکہ جہاں ’حال‘ کے لمحۂ گذراں کا جگنو آپ کی مٹھی میں ہے، وہاں یہ بھی تمنا ہے کہ اس کی روشنی میں (یعنی ماضی کی مشعل راہ سے روشنی پا کر) آپ مستقبل مخفی کو متشکل کر سکیں۔ تمنا کے دوسرے قدم کے امکان کا یہ افقی رُخ اس شعر میں تو بعینہ ایسے ارتفاع پذیر ہو گیا ہے کہ عمودی رخ Vertical dimension تقریباً (کم از کم یہ شعر پڑھتے ہوئے ) ذہن سے محو ہو جاتا ہے۔ لیکن عمودی رخ ذات کے زنداں سے نجات پانے اور اوپر اٹھنے کی تمنا کے سیاق و سباق میں ایک صوفیانہ قدر و قیمت کا پتہ دیتا ہے۔ جب تک تشنگی رہے گی، جد و جہد جاری رہے گی۔ تشفی تو پیٹ بھرنے سے ملتی ہے اور اس کا حصول جگالی کرنے والے مویشی کو بھی ہے۔ کیا یہ ’نرا مبالغہ ‘ ہے ؟ جی نہیں، محترم، یہ ’نرا مبالغہ‘ نہیں ہے۔ ہر ’سچے ‘ شاعر کے ہاں یہ لا شعوری جہت موجود ہے جہاں وہ خود سے دور (افقی) اور (عمودی و عمقی) رہائش پذیر ہے۔ ۔ ۔ ۔ (استعارہ سوامی رام تیرتھ سے مستعار)۔ ان کے بارے میں اقبال کی نظم پڑھیں۔

 

٭     کیا مبالغہ آرائی ہی تخلیق کا روحانی اہتمام رہ گیا ہے ؟

آنند:   ’تخلیق کا روحانی اہتمام‘۔ ۔ ۔ بے حد بلیغ جملہ ہے۔ اب اس بات کا کیا علاج ہے کہ ’مبالغہ‘ ( جسے کے تناظر میں آپ نے یہ سوال پوچھا ہے ) اور ’بلیغ‘ کا ایک ہی مادہ ہے۔ ’روحانی اہتمام‘ کا مطلب اگر تخلیق کے نمو ہونے کے پراسس یا تخلیقی قوت کی کارکردگی کے حسن کو لیا جائے تو یہ درست ہے۔ لیکن اگر آپ کا منشا طول بیانی یا کذب بیان ہونے کی حد تک کسی شئے یا شخص کی تعریف یا برائی کرنا ہے، تو کیا کیا جائے، اردو غزل میں تو یہ عام ہے اور اپنے عروج کے وقت رثائی ادب اس کے خمیر کے بغیر پختہ کہا ہی نہیں جاتا تھا۔ کلاسیکی غزل کے دور کے بعد جب غزل روایتی بنتی چلی گئی اور اس میں لگے بندھے مضامین کو ہی باندھا جانے لگا تو اس میں لفاظی، ترصیع، تجنیس، آب و تاب، سجاوٹ، رنگیں کلامی، ملمع، تلطیف عبارت، چرب زبانی اپنی جگہ بناتے چلے گئے۔ کلاسیکی غزل میں بھی غالب کے ہاں اس کی بہتات ہے ’ تریاکیِ قدیم ہوں دود چراغ کا‘ جیسے مصارع بیسیوں کی تعداد میں ہیں۔ رثائی ادب میں انیس، دبیر اور دولھا میاں سے لے کر صبا اکبر آبادی تک سینکڑوں، بلکہ ہزاروں کی تعداد میں ایسی مثالیں ملیں گی۔ ؎ گر آنکھ سے نکل کے ٹھہر جائے راہ میں : پڑ جائیں لاکھ آبلے پائے نگاہ میں۔ (انیسؔ کربلا کی گرمی کے بارے میں )۔ یعنی پہلے تو  ’نگاہ‘ کو ایک ذی روح فرض کیا گیا۔ پھر اس کو آنکھ سے نکالا گیا۔ پھر راستے پر چلایا گیا۔ پھر یہ فرض کیا گیا کہ اس کے تلووں میں آبلے پڑ گئے ہیں۔ پھر ان آبلوں کی تعداد کو درجنوں، کوڑیوں، سینکڑوں، ہزاروں کی گنتی کے عدد سے نہیں بلکہ لاکھوں کی unit سے شمار کیا گیا۔

جی نہیں، مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں ہے کہ مبالغہ منبر سے کی گئی تقریر کے جوش میں تو کسی حد تک قابل قبول ہے (اور حۂہاں ’حال‘ کے لمحاقبال کی نظموں کا ایک رخ یہ بھی ہے کہ وہ نظمیہ تقریریں ہیں )، لیکن سچی اور اچھی شاعری میں نہیں !!

 

٭    مغربی شاعری اور مشرقی شاعری کے حسی عقلی جذباتی اور فنی ما بہ الامتیازات کیا سمجھتے ہیں آپ ؟

آنند:   ڈھیر سارے سوالات کا ایک مجموعہ۔ ’ حسی‘۔ ۔ بمعنی ؟ وجدانی؟ جمالیاتی؟ احتباسی؟ الطباعی؟ دوسری طرف عقلی۔ ۔ بمعنی۔ ۔ معقولیت، فراست، سمجھ داری، اصابت، گہرائی، وسعت نظر، پُر مغزی، دانش مندی، حذاقت، سنجیدگی؟۔ ۔ ۔ لیجیے، میں ایک سیدھا سادا جواب ہی دے دیتا ہوں۔ انیسویں صدی کے رومانی دور (ورڈزورتھ، کالریج، بائرن، کیٹس، شیلے۔ صرف انگریزی میں ہی۔ ۔ ۔ اور ان کے علاوہ دیگر یورپی زبانوں میں بیسیوں نام) کے بعد براؤننگ سے عقلی دور کا آغاز ہوا، جو مختلف اشکال میں آج تک چلتا آ رہا ہے۔ جذبہ، انس، محبت، وارفتگی، سوز و گداز، از خود رفتگی، استہزاز، وغیرہم پیچھے رہ گئے ہیں اور اس قسم کی شاعری کو کچی بلوغت کی پہلی اپج کی شاعری سمجھا جاتا ہے۔

ہمارے ہاں، خصوصی اردو میں، ہم اس گرداب سے نہیں نکل پائے اور شعر کی اثر پذیری اس کی حساسیت، ملائمت، نزاکت احساس، جذباتیت، اضطراب، رقیب القلب ہونے کی کیفیت کو ہی بہ جان و دل ’’سچی‘‘ شاعری سمجھ لیا گیا ہے۔ ضرورت اس امر کی تھی کہ دونوں میں کہیں ہوش مندی اور لا ابالیانہ ہونے کی کیفیت میں سمجھوتہ ہو، لیکن ایسا نہیں ہوا۔

جہاں تک فنی مابہ الامتیازات کا تعلق ہے، ابھی تک West is West and East is East / And never the twain shall meet دونوں پر صادق آتا ہے۔ ہمارے ہاں فرزانگی دانشمندی نہیں ہے، پیر نا بالغ ہونا ہے۔ شاعری میں (خصوصی طور پر صنف غزل میں ) ’آصف ‘ہونا’ احمق‘ ہونے کا متبادل سمجھ لیا گیا ہے۔

 

٭    مغربی ادب سے ہم نے مختلف فنون و اصناف میں بہت کچھ لیا، ہم جواباً مشرقی میراث سے مغرب کو کیا تحفہ پیش کر سکتے ہیں۔

آنند:   جی تو بہت چاہتا ہے، لیکن مغرب کے ملکوں میں چالیس برسوں تک رہنے، انڈیا، سعودی عرب، انگلینڈ، کینیڈا، امریکا میں جامعاتی سطح پر پڑھانے اور یورپ کی آدھ درجن جامعات کے تقابلی ادب یعنی Comparative Literature کے کورسزکی Curriculum Planning and Course Designing ترتیب دینے کے باوجود میں بالکل پر امید نہیں ہوں کہ ہم انہیں کچھ دے سکتے ہیں۔ اب تک تو ہم انہیں اردو زبان اور رسم الخط بھی نہیں سکھاپائے ہیں۔ جو محافل اردو کی نئی بستیوں میں سرگرم کار ہیں، ان میں صرف (اور صرف) اردو جاننے والے ادھیڑ عمر خواتین و اصحاب ہی آتے ہیں، سُن سُنا کر چلے جاتے ہیں۔ یہ سب اردو ادب کے تناظر میں اُسی سال میں منجمد بیٹھے ہوئے ہیں جس میں وہ وطن عزیز سے آئے تھے۔ اس کے بعد وہاں کیا کیا نئی تحریکیں ابھریں، کیا کچھ لکھا گیا، انہیں کچھ علم نہیں ہے کیوں کہ رسالے نہیں آتے، کتابیں صرف وہی تقسیم ہوتی ہیں جو یہاں کے قلمکاروں کی تصانیف ہوتی ہیں۔ لایِبریریوں میں اردو کے شیلف نہیں ہیں۔ ۔ ۔ ان کے بچے اور پوتے پوتیاں اردو نہیں جانتے۔ ترجمہ ہی ایک ایسا میڈیم ہے، جس سے یہاں کے یورپ نژاد لوگوں تک پہنچا جا سکتا ہے۔ بہت سے تراجم (خصوصی طور پر شعری ادب کے ) بے حد ناقص ہیں۔ غالب صدی کے دوران یونیسکو کے فنڈوں سے دیوان غالب کے کچھ تراجم کیے گئے لیکن کوئی ایک بھی اس قابل نہیں تھا کہ یہاں کے لوگوں تک پہنچ سکتا۔ لائبریریوں میں مقفل ہو گئے اور یا تو ابھی وہیں پڑے ہیں یا ردی سمجھ کر کوڑے میں پھینک دیے گئے ہیں۔ آپ بسا اوقات کچھ انڈیا یا پاکستان نژاد، بزعم خود انگریزی میں ماہر لوگوں کے تراجم رسالوں میں چھپے ہوئے دیکھتے ہوں گے، یہ وکٹوریا کے زمانے کی اس زبان میں ہوتے ہیں جنہیں ہم ’’بابو انگلش‘‘ کہتے ہیں۔ آج کی یورپی شاعری کا idiom ان مترجموں کے پلے نہیں پڑتا۔ آپ حیران ہوں گے کہ انگریزی کی کوئی بڑی سے بڑی ڈکشنری اٹھا کر دیکھ لیں کہ کیا  غالبؔ یا میرؔ کا نام موجود ہے۔ نہیں ملے گا آپ کو۔

اس لیے، قبلہ، ہم یورپ اور امریکا کو کچھ نہیں دے سکتے۔ مولانا رومی ہی ایک ایسا شاعر ہے، جس نے ان کے دل میں گھر کیا ہے۔ اس کا بھی ادب کی صحتمند اقدار سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس سلسلے میں میرا ایک مضمون ہے ’’مولانا رومی، ایران سے ہالی وُڈ تک کا سفر‘‘، شاید آپ نے پڑھا ہو، نہیں پڑھا ہو تو میں آپ کو بھیج دوں گا۔

 

٭    انسان اپنے شاعر ہونے کو علمی سطح پر کس طرح پروو کر سکتا ہے ؟

آنند:   شاعر کو علمی سطح پر خود کو تسلیم کروانے کی ضرورت ہی کیا ہے ؟ میں نہیں سمجھتا کہ کوئی ضرورت ہے بھی۔ صوفی شعرا نے تو علم کو، کتابی ہمہ دانی، جامعی تعلیم و تدریس کو اللہ تک پہنچنے کی راہ کا روڑا بتایا ہے۔ زہدۃ العلما، مدینتہ العلم ہونا، معلم ملکوت ہونا، مخزن العلوم ہونا۔ ۔ ۔ یہ سب ہمیں شاعری سے دور تو لے جا سکتے ہیں، نزدیک نہیں لا سکتے۔ اسی لیے ’’ عقلی شاعری ‘‘، intellectual poetry کی کوئی اصطلاح موجود نہیں ہے۔ میں خود جب کوئی نظم لکھتا ہوں (اس کی کلیدی سطر تو ذہن میں وحی کی طرح یا آکاش وانی کی طرح یا epiphany کی طرح پہلے ہی وارد ہو چکی ہوتی ہے ) تو ذہن میں الفاظ قطار اندر قطار، پرّا جمائے ہوئے، وارد ہوتے چلے جاتے ہیں۔ اس وقت اغلباً نیم بے ہوشی نہیں تو چوتھائی بے ہوشی کی سی حالت ہوتی ہے۔ کیا کچھ مجھے علم سے ملا ہے، کیا کچھ میں نے اپنے تجربے سے پایا ہے، کیا کچھ مجھے میری مذہبی، سماجی یا معاشرتی میراث ہے، اس کا فیصلہ ہی نہیں ہوتا کہ یہ حالت ہوش کی نہیں ہے۔ میں نے خواب میں بھی نظمیں کمپوز کی ہیں، اور جاگنے پر ان کو قلمبند کرنے کی کوشش کی ہے۔

 

٭    شاعر یا ادیب ہونا مرتبہ ہے یا کردار ؟

آنند:   جی، یقیناً کردار ہے، مرتبہ نہیں۔

 

٭    کیا شاعری میں طے شدہ تفکر کو داخل کر کے جذباتی صداقت کو صدمہ لاحق نہیں ہوتا ؟

آنند:   جی، یقیناً ہوتا ہے۔ اسی لیے تو ترقی پسند تحریک کی نعرہ بازی والی نظمیں ادبی سطح پر اپنی موت آپ مر چکی ہیں۔ ایک زمانے میں پاکستان میں ادب برائے اسلام کی تحریک نے بھی کچھ لوگوں کو (بشمولیت احمد ندیم قاسمی) اپنی صفوں میں شامل کیا تھا، لیکن نتیجہ صفر ہی نکلا۔ ہاں، تبلیغی، فلاحی اور نصیحت آموز کتابیں اور رسالے آج بھی موجود ہیں، لیکن انہیں ادب عالیہ کا رتبہ نہیں دیا جا سکتا۔ اردو میں کچھ اصناف سخن جو عربی سے براہ راست، یا براستہ فارسی آئی ہیں، اس زمرے میں شامل کی جا سکتی ہیں۔ حمد، نعت، منقبت، سلام وغیرہ ایک خاص مقصد کی پیروی کرتی ہیں، اور جہاں تک شعری اوصاف حمیدہ کا تعلق ہے، ان میں سے کچھ بے حد اچھی ہیں۔ میں نے خود نعتیہ نظمیں لکھی ہیں، جو سب کی سب آزاد (نثری نہیں !) فارمیٹ میں ہیں۔

 

٭     کیا شاعری ’کرتے ‘ہوئے انسان کوئی ’’ذمہ داری‘‘ ادا کر رہا ہوتا ہے ؟

آنند:   جی نہیں، صرف اپنا بوجھ ہی ہلکا کر رہا ہوتا ہے۔ اگر وہ شاعری میں اس امڈتے ہوئے جذبے کا نکاس نہ کرے تو شاید پاگل ہو جائے۔ ورڈزورتھ کا قول آج بھی صحیح ہے۔ Poetry is the overflow of powerful emotions.۔ ۔ ۔ اس جملے میں لفظ overflow قابل غور ہے۔ دوسری طرف شیلےؔ نے اسے اپنے ہی لہجے میں بیان کیا ہے۔

A poet is a nightingale, who sits in darkness and sings to cheer its own solitude with sweet sounds.

اس جملے میں its own solitude یعنی ’’اس کی اپنی تنہائی‘‘ قابل غور ہے۔ ان دو شاعروں سے صدیوں پہلے سقراط نے کہا تھا۔ Not by wisdom do they (the poets) make what

they compose, but by a gift of nature and an inspiration similar to that of the diviners and the oracles. (See Plato’s Apology (4th century B.C.) tr. Lane Cooper)

 

٭    ادب اخلاقی روایات کی فکری ترویج ہے ؟ یا جذباتی تحریک کے طور پر اس کا منصب آپ تجویز کر سکتے ہیں ؟

آنند:   اس سوال کا جواب اگر دیا جائے تو یہ حرف مکر رہو گا۔ اس کا جواب جستہ جستہ ان سب سوالوں میں تخفیف کے ساتھ ایک ایک دو دو جملوں میں دیا جا چکا ہے , جو پہلے زیر بحث رہے ہیں۔

 

٭    پانچ چھ ’’ما ’’مابعد‘‘ اکٹھے ہو جائیں تو ایک نظم گو وجود میں نہیں آ جاتا ؟ اس کے ماسوا بھی کچھ ہے۔

آنند:   ’مابعد‘ اور ’ماسوا‘ کبھی ’مابقا‘ نہیں ہوتے، ان کے علاوہ، ان سے پیشتر یا ان کے بعد آنے جانے والے، گریز پا  اد شششششششششششششسینکڑوں ایسے ہوتے ہیں، جو ’’تھے ‘‘، ’’ہیں ‘‘ یا ’’ہوں گے ‘‘۔ چونکہ آپ نے ’’ نظم گو‘‘ کو

لے میں بطور شاعر یوماً فیوماً کی صورت میں پیش کر کے یہ سوال اس کے ساتھ منسلک کر دیا ہے، میرا جواب صرف یہ ہے کہ تخلیقی قوت کی کارکردگی میں اُس زبان کا قطعی دخل نہیں ہے، جو نقاد استعمال میں لاتے ہیں۔ شاعر سچا ہے اور اصلی ہے اور واقعی اگر پانچ چھ مابعد اکٹھے ہو بھی جائیں تو اس کو وجود میں لانا ممکن نہیں ہے۔

 

٭    خدا کی ’’حسی معدومیت‘‘ کا صدمہ کیا شاعری میں انسانوں کا ایک دوسرے کو پرسہ نہیں ؟

آنند:   آپ تو اپنے سوالات میں استقلال کی جگہ استعجال برتنے کے عادی ہیں، یعنی نظم گو کے بعد ایک ہی جست میں خدا اور اس کی باقیات الصالحات کو ہی لے بیٹھے۔ بھائی جان، یہ اصطلاح ’’حسی معدومیت‘‘ میری سمجھ میں تو اس طرح سے آتی ہے، ۔ ۔ ’’ انسانوں کی سطح پر خدا کے بارے میں حسی معدومیت‘‘۔ ۔ خدا تو بے حس نہیں ہے، مظلوم کی فریاد بھی سنتا ہے، دعا بھی قبول فرماتا ہے۔ ۔ ۔ معدوم بھی نہیں ہے۔ علی الدوام ہے۔ میزان وقت میں وہ تا بقائے دہر ہے۔ پل چھن کا مالک انفجار بھی ہے اور بے انت بھی ہی۔ ہم لوگ ہی اپنی حساسیت سے اس کے ’معدوم ‘ ہونے کا رونا روتے ہیں۔

اب سوال کا وہ حصہ قابل غور ہے، جس میں آپ نے اس معدومیت کا صدمہ شاعری کے توسط سے انسانوں کا ایک دوسرے کو پرسہ دینے والی بات کہی ہے۔ دانتےؔؔ اور ملٹنؔ کے زمانوں میں، (برخلاف اس زمانے کے کہ جب قدیم یونان، مصر اور رومائے قدیم میں دیوی دیوتاؤں کی پرستش کی جاتی تھی)خدا کا تصور رّب، داور، مولا، اللہ تعالیٰ، علت اولیٰ کا ہو چکا تھا۔ انہوں نے بھی اللہ کی صفات میں نیکی، عدل، حق، محبت، رحم حاکمیت اعلیٰ، وغیرہ کو تسلیم کیا۔ لیکن شکوہ و شکایت بھی کیا۔ متمکن علی العرش العظیم ہونے کی وجہ سے بے چاری دھرتی کے بے چارے باسیوں کی حالت سے غیر آگاہی کا شک بھی کیا۔ ملٹن کی Paradise Lost میں بھی شیطان کو، جب وہ ارواح شر کے اجلاس میں تقریر کر رہا تھا، اور اقبال کی مجلس شوریٰ میں بھی شیطان کو بعول زبوب اور شیطان الرجیم دکھانے کے علاوہ در پردہ ملکوتی اور جبروتی بھی دکھایا گیا ہے۔ سماوری اور لاہوتی مانا گیا ہے۔ ’’شاہ ظلمات‘‘ تسلیم کیا گیا ہے۔ اس اصطلاح میں ’’شاہ‘‘ غور طلب ہے۔ تو صاحب، میرا جواب تو سیدھا سادہ ہے۔ شاعری ہی ایک ایسا ذریعہ اظہار تھا جس کی رسائی سامعین کی سطح پر عوام الناس تک بخوبی ہو سکتی تھی، کیونکہ اس سطح پر Literature تحریری نہیں رہتا، سمعی ہو کر Oratureیعنی Oral Literature بن جاتا ہے اور انسان بخوبی اس medium سے ایک دوسرے کو اس صدمے کا پرسہ دے سکتے ہیں۔

 

٭    خدا کی وجدانی دریافت کا فائدہ تصوف اور ادب کے حصے ہی میں کیوں آتا ہے ؟

آنند:   اور راستہ بھی کیا تھا، قبلہ؟ ادب زبان سے متعلق ہے۔ زبان اس وجدانی دریافت کو الفاظ اور آواز مہیا کرتی ہے۔ اس سے شاعری معرض وجود میں آتی ہے جو آہنگ، ارکان، زحافات، لہجہ، صنائع بدائع، سجع، امیجری، تمثال، علامت، استعارہ، تشبیہہ، وغیرہ کو بروئے کار لا کر بالاجمال، مجملاً ایک ایسا گلدستہ پیش کرتی ہے جو ہر کسی کے دل کو بھاتا ہے۔

تصوف بھی اسی قبیل سے ہے اور اس صورت میں ہے کہ یہ پنہاں کو جلوہ گر، مخفی و مستور کو نمایاں اور کشادہ، غیر مذکور شدہ کو اکتشاف، شہود اور انکشاف سے آشکار کرتا ہے۔ اس کے لیے اسے زبان کی ضرورت پڑتی ہے۔ وہی زبان جس کی تعریف خاکسار نے پہلے کی ہے۔ صرف زبان ہی نہیں، موسیقی اور رقص بھی اس کے آلۂ کار بن جاتے ہیں۔ ’’سر بازار می رقصم‘‘ اس کو عوام الناس تک پہنچانے کی سبیل ہے۔ موسیقی کے آلات، راگ، چھند، بھجن، سماع، سنگت، قوالی، مکھ بول، لَے کی اقسام، یعنی ولمپت، مَدھ، ورت، لہرا، تال، چھند، ٹھاٹھ، زیر و بم۔ ۔ ۔ اس میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔

اور کوئی راستہ نہیں تھا، قبلہ۔ یا تو اپنے حجرے میں بیٹھ کر ریاضت، یا جنگلوں میں جا کر مہاتما بدھ کی طرح اپنے اندر کے پرماتما سے پنر ملن، یا جو گیوں کی طرح سمادھی، یا پھر لوگوں کے ساتھ، ان کی سنگت میں، شاعری اور تصوف کے مندرجہ بالا زبان و بیان، بدن بولی (رقص، دھمال، بھنگڑا) کے حوالے سے ’’ خدا کی وجدانی دریافت‘‘۔ ۔ ۔ میری ناقص عقل تو یہی کچھ سمجھ میں آتا ہے۔

 

٭     ’’شاعرانہ بصیرت معنی کے ساتھ، لفظ کے ساتھ اور مشترکہ دونوں کے ساتھ، کن معنوں میں ہو سکتی ہے ؟ ‘‘

آنند:   حضور، یہ کہنے کی جسارت کرنا چاہتا ہوں کہ خاکسار ’’معنی‘‘ کو درجۂ دوئم میں رکھ کر ’’لفظ‘‘ کو اوّل و مقّدم سمجھتا ہے۔ میری ایک نظم کا مصرع ہے : کُن کے اعراب یک صدا بھی ہوں تو بھی اصوات پے بہ پے ہیں۔ اقبال کا مصرع ہے۔ کہ آ رہی ہے دما دم صدائے کن فیکون۔ ادا کیا ہوا لفظ spoken word مقّدم ہے، اوّلون ہے۔ اس میں دو آراء ہو ہی نہیں سکتیں۔ میں خود شاید کچھ بھی نہیں ہوں، لیکن کچھ مسئلوں کو بخوبی سمجھتا ہوں اور اپنی شاعری میں ان پر اظہار خیال کرتا رہتا ہوں۔ میری دو مختصر نظمیں اسی موضوع پر ہیں۔ یہ نظمیں کوئی بیس پچیس برس پہلے لکھی گئی تھیں۔ پہلی نظم ’لفظ‘ کے definitional codeکو کلمہ، منتر، سوتر وغیرہ مذہبی حوالوں سے تلاش کرتی ہے۔

دوسری نظم پہلے پیش کر رہا ہوں کہ اس میں ہماری نا بینا نسل کا ایک فرد ذہن کے کمپیوٹر پر وہ لفظ تلاش کر رہا ہے، جو اُسے دیا گیا تھا، لیکن وہ اسے فراموش کر چکا ہے۔ دیکھیں۔

 

لفظ کیا تھا؟

لفظ کیا تھا؟

لفظ کمپیوٹر کے مانیٹر سے ابھرا تھا، مگر پھر

اپنی آنکھیں پھیر کر چپ چاپ غائب ہو گیا تھا

لفظ کو اچھی طرح سے جانتا ہوں

اس نے خود سے یوں کہا جیسے کسی سے

بات کرنے کا بہانہ ڈھونڈتا ہو

لفظ کا چہرہ مرا دیکھا ہوا ہے !

اس نے خود سے پھر کہا، سوچا ذرا سا

اور پھر ’کی بورڈ‘ پر تیزی سے اپنی انگلیوں کو  Key board

رقص کے سرگم میں ڈھالا

اور مانیٹر کو دیکھا۔ پر وہاں کچھ بھی نہیں تھا

لفظ کمپیوٹر کی گہری جھیل میں گم ہو گیا تھا!

 

آؤ، اندازہ لگاتے ہیں کہ آخر لفظ کیا تھا

اس نے پھر خود سے کہا، آنکھیں ملیں مٹھی سے، سوچا

کیا تھا آخر؟

کراس تھا؟ یا ماہ نو تھا؟     cross

یا ابھرتے گول گنبد ’اوم‘ جیسا اک نشاں تھا؟

سوجھتا کچھ بھی نہیں، پر۔ ..۔ .

 

لفظ شاید لوٹ آئے

اس نے اپنی اندھی آنکھیں

اپنے مانیٹر کی جانب یوں اٹھائیں

جیسے اس کا لفظ یا ’آئی کان ‘ لوٹے گا اگر تو

اس کی بینائی یقیناً لوٹ کر آ جائے گی!!

 

تو، قبلہ یہ نظم آپ نے پڑھ لی، اب پہلی نظم دیکھیں جو ’لفظ‘ کو ایک definitional mode میں ڈھالتی ہے۔

 

لفظ کلمہ، لفظ منتر، لفظ سوتر

 

لفظ کے چھلکے اتاریں

لفظ کی پرتوں کو چھیلیں

کیا کوئی گٹھلی ملے گی؟

سچ؟ حقیقت؟ یا کوئی بودھی بصیرت؟

رقص کی مدرا میں جامد مورتی سی؟

معنی و مفہوم کی دیوی سراپا؟

 

جی نہیں، پرتوں کے نیچے کچھ نہیں ہے !

صرف لا یعنی خلا ہے

لفظ ہی سچائی ہے، آیت، سراپا کل حقیقت!

لفظ، اک آواز۔ اٹھتی، گونجتی سونی فضا میں

لہر جیسی تھرتھراتی

کان کے پردے پہ تتلی کے پروں سی سرسراتی

صوت، قرأت، کن فکاں، گویائی، منتر

اوم، آیت!

لفظ۔ روشن، مہر و مہ سا!

لفظ ازلی، لفظ ابدی!!

 

لفظ کا لب سے ادا ہونا۔ یہی اک معجزہ تھا

جس نے اس انسان کو حیوان کے گونگے بدن سے

سر بسر آزاد کر کے اس کو وہ رتبہ دیا تھا

آسماں زادے فرشتے اس کے آگے سر بسجدہ جھک گئے تھے

لفظ کلمہ، لفظ منتر، لفظ سوتر!

 

اب آپ نے دونوں نظمیں پڑھ لیں۔ ’اوم‘ گونجنے والی قرأت میں ایک لمبے کھینچے ہوئے سانس کے ساتھ’اوم‘ کا اچّارن (ادائگی) آہستہ آہستہ ناک سے سانس کو خارج کرتے ہوئے intonation ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیا اُس آفاقی گونج کی طرح نہیں ہے، جو آج بھی، بقول اقبال ’دما دم‘ آ رہی ہے۔ اسی طرح ’اللہ‘ کی intonation ’الف‘ کی گلے سے نکلی ہوئی آواز کے بعد زبان کو دہرا کر، یعنی تالو کی طرف دانتوں کی طرف موڑ کر ’ل‘ کی آواز کے ساتھ ملاتے ہوئے، ’ہ (‘ ہائے ملفوظی جو کھل کر پڑھی جاتی ہے ) تک پہنچ کر اسے لمبا کرتے ہوئے اس کی قرات کریں تو وہی تاثر پیدا ہوتا ہے، جو ’اوم‘ کے اُچّارن سے ہوتا ہے۔ پنجابی میں صوفیائے کرام نے اس لفظ مقدم ’اللہ‘ کی ہائے ملفوفی کو لمبا کرنے کے لیے ایک اور صوت کو طول دے کراس طولانی آواز کو اس کے ساتھ ملا دیا اور ھو کو اپنی شعری نگارشات کے آخر میں ردیف کے طور پر منسلک کر دیا۔ ’’اللہ ھو‘‘ پہلے ہی جانی پہچانی اصطلاح ہے۔ ہو عربی ضمیر ’’ہُو‘‘ کا۔ یعنی ’’وُہ‘‘ کا بگاڑ ہے۔ ۔ یعنی ’’اللہ کون!‘‘ جواب ’’وہی اللہ‘‘، یعنی وہی ایک، وحدۃ و لاشریک۔ (دیکھیں، عربی قابوس میں لفظ ہو۔ )

 

٭    کیا تصوف اور شاعرانہ مزاج انسان کی خلقی عادتوں اور مانوسیات کا بیک اپ نہیں ؟ اگر ہے تو یہ کمزوری ہے انسان کی یا فضیلت۔ ۔ ۔ ؟

آنند:   محترم علامہ ضیا صاحب، گستاخی کر رہا ہوں۔ آپ کا سوال میرے جواب کو پہلے ہی فرض کر کے سوال کے دوسرے حصے پر پہنچ جاتا ہے، یہ طریق کار Elocutionary dialogue کی ایک لاجواب صنف ہے، جسے قدیم یونان کے فلسفی دیمیتریسؔ Demeterius نے اپنی فقید المثال کتاب On Rhetoric میں anticipatory یعنی پیش بینی سے فرض کر کے مخالف کے نکتے کی پیش بندی کہا ہے۔ میں نے تو آپ کے سوال کے پہلے حصے کی تائید نہیں کی تھی بہر حال جواب حاضر ہے۔

جی، نہیں۔ تصوف اور شاعری انسان کی خلقی عادات اور مانوسیات کا بیک اپ یعنی پشت پناہی نہیں سمجھا جا سکتا۔ خلقی عادات کیا ہیں ؟گھٹی میں پڑی ہوئی، علی العموم، فطرت ثانیہ، بکرات و مرات، آئے دن، ٹکسالی، مروجہ، رسمی، لکیر پیٹنا، پائمال، اسٹیریو ٹائپ۔ ۔ ۔ ۔

Those habits that you are born with, or develop during your infancy or childhood.

اب دیکھیں، مانوسیات کیا ہیں۔ مانوس ہونا سے مراد، رسم، نہج، طور و طریق، روش، ریت، فیشن، چلن، بیوپار، ویوھار، زنگاری وغیرہ ہو سکتا ہے۔

دونوں حالتوں میں شاعری اور تصوف کا ان سے انسلاک لا یعنی ہے۔ شاعری اور تصوف زیادہ سے زیادہ عوام کی اقلیت کا وہ miniscule حصہ یعنی بہت ہی کم حصہ اپنی عادت ثانیہ بناتا ہے، جس کا تناسب ہمارے ملکوں کی آبادی میں صفر صفر صفر صفر صفر ایک فی صد بھی شاید نہ ہو۔ عوام کو تو روٹی روزی کا وسیلہ تلاش کرنے سے ہی فرصت نہیں ملتی، شاعری یا تصوف ان کے لیے بے معنی ہے۔ اس لیے آپ کے سوال کے، محترمی، دوسرے حصے کی طرف آنے کی میں کوئی ضرورت نہیں سمجھتا۔

 

٭    تصوف اور شاعری میں بھنے ہوئے گوشت کی خوشبو ہے۔ ۔ ۔ زمین پر بیٹھ کر بھی دعوت اڑائی جا سکتی ہے۔

آنند:   ریش خند تمسخر کی قبیل کا یہ جملہ مجھے قبول نہیں۔ استہزا یا ٹھٹھول کسی ایسے فرد دیگر کے لیے ہو جس کی جمالیاتی وضع و پوشش، نفاست، شائستگی، شستگی مسلّم ہو، یا یہ تمسخر کسی ایسے خیال، ما فی الذہن conceptکے لیے ہو جو اپنی پاکیزگی، سادگی، سادہ وضعی میں اپنی مثال آپ ہو، یا یہ استہزا کسیart formکے لیے ہو جو جمالیاتی حظ دے سکے یا جو جاذب نظر ہو یا ثقافتی، تمدنی، کلاسیکی، رومانی ہو یا صرف زیب و زینت کا ہی مظہر ہو، ان کے بارے میں اس قماش کا چست جملہ جو پھبتی سنائی دے، مجھے اچھا نہیں لگتا۔ ۔ ۔ ۔ ’’بھنے ہوئے گوشت کی خوشبو‘‘ اور ’’ زمین پر بیٹھ کر دعوت اڑانا‘‘ کے قوت شامہ اور قوت باصرہ سے متعلق منظر نامے کو تصوف اور شاعری پر منطبق کرنا غرابت، تضحیک، Burlesque اور عجبک کی وہ شکل ہے، جسے میں کلیتاً رد کرتا ہوں۔ اس جملے کے derived meaning (مشتق معانی) ظاہر کرتے ہیں کہ سوال کنندہ کے ذہن میں زمین پر بیٹھ کر دعوت اڑانے کے وہ معانی ہیں جو طعن و تشنیع کے زمرے میں آتے ہیں، وہ نہیں ہیں، جن سے ان دونوں (شاعری اور تصوف) کی نجابت یا طرحداری مقصود ہو کہ ہم سب کو علم ہے، شعر و سخن کی سب مجلسیں فرش پر گاؤ تکیوں کے سہارے بیٹھے ہوئے شعرا پر مشتمل ہوتی تھیں۔ بزرگان تصوف زمین پر بیٹھ کر ہی اپنے اندر کے خدا جانے کون سے ساتویں آسمان تک پہنچتے تھے اور ان کی نگارشات کو سننے والے زمین پر دو زانو ہو کر بیٹھتے تھے۔

 

٭     قاری مصنف اور متن کے علاوہ کوئی چوتھا قائمہ بھی ہے جو نظر سے اوجھل ہے ؟

آنند:   جی نہیں، اگر ہے تو صرف تاریخ کی رفتار کا چلن ہے، کبھی پیش پا اور کبھی گریز پا۔ چونکہ ہر نئے دور میں (قاری اساس تنقید) کے مطابق متن کے معانی بدل جاتے ہیں، اس لیے اگر تاریخ کو ہی ایک چوتھا قائمہ تسلیم کر لیا جائے تو کوئی ہرج نہیں ہے۔

ایک مثال سے واضح کرنے کی کوشش کروں گا۔ ہندوستان میں گذشتہ کئی صدیوں میں مختلف زبانوں میں مختلف رام بھگت شاعروں نے پچھتر کے لگ بھگ ’’رامائن‘‘ کے منظوم نسخے تحریر کیے ہیں۔ ۔ ۔ صدیوں تک ہندوؤں میں شری رام چندر کو ایک مثالی کردار تسلیم کیا گیا ہے۔ کہا جاتا ہے، کہ شری کرشن تعلیمات کا خزانہ تھے، (شریمد بھگوت گیتا کا اٹھارہواں ادھیائے اس کا محرک گواہ ہے )، جبکہ شری رام چندر کا ایک قول بھی کہیں موجود نہیں ہے، جس سے کچھ سبق ملتا ہو۔ صرف ایک مثالی کردار ہے، جو باپ کی حکم عدولی نہیں کرتا، ظلم کے خلاف نبرد آزما ہوتا ہے۔ وغیرہ وغیرہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ان گنت صدیوں تک یہ تسلیم کیا جاتا رہا، کہ رام’ ایک مثالی کردار ہے۔ ۔ ۔ پھر بیسویں صدی میں کیا ہوا کہ ستیہ پال آنند جیسے ایک معمولی شاعر نے (پہلے ہندی میں اور پھر اردو میں ) اپنی نظموں میں یہ سوال اٹھانا شروع کر دیا کہ اپنی بیاہتا بیوی اور اپنے دو بچوں کی ماں سیتاؔ کے ساتھ ان کا سلوک نا انصافی کی چغلی کھاتا ہے۔ اور ستیہ پال آنند کے بعد کئی دیگر ہندو مذہب میں یقین رکھنے والے شعرا نے اپنی نظموں میں اس سوال کو لے کر اپنی نظمیں خلق کیں۔ ایک اندازے کے مطابق ہندی میں ہی لگ بھگ اٹھارہ کے قریب نظمیں لکھی گئیں جو رام چندر جی کو ملزم کے کٹہرے میں لا کھڑا کرتی ہیں۔ ۔

اب Women emancipation یعنی ایک پدری سماج میں نسائی استحصال کے خلاف چلائی گئی تحریک نے ایک نیا نکتۂ نظر دیا تو رامائن جیسے معتبر اور متبرک مہاکاویہ پر بھی انگلیاں اٹھنی شروع ہو گئیں۔ میں اس تناظر میں تاریخ کو ایک چوتھا قائمہ تسلیم کرتا ہوں۔ میری ایک نظم ( مشمولہ ’’لہو بولتا ہے ‘‘1997ء۔ پیش لفظ: اختر الایمان)بعنوان ’’زندہ در گور بنت زمیں ‘‘ اس مضمون کو لے کر لکھی گئی تھی)

 

دونوں آکاش کے مرد فرزند تھے

رام بھی مرد تھا

اور راون بھی ہر طور سے مرد تھا

آسمانوں کی خواہش زمیں کے لیے

کچھ اچنبھا نہ تھی!

اور سیتا تھی بنت زمیں

ایک عورت

جو بس پاؤں کی گرد تھی

 

گرد کے واسطے آسماں تک

پہنچنے کی لمبی مسافت کٹھن بات ہے

اور دھرتی کی بیٹی کی مکتی

ازل سے زمیں میں سما کر ہی ہوتی رہی ہے

 

کئی قرن گذرے

مگر یہ شہادت کی لمبی کہانی

کئی اندھی صدیوں کا ورثہ

کئی رامؔ، راونؔ

کئی اک دشاسنؔ

کبھی دروپدیؔ کی، کبھی ایک سیتا کی

قسمت کے مالک رہے ہیں

کہ ہر دور میں زندہ در گور ہونا ہی سیتاؔ کی تقدیر کا

اک نوشتہ ہے

مردوں کا تحریر کردہ

اسلام کے ظہور پذیر ہونے سے قبل عرب میں نوزائدہ بچیوں کو زندہ ہی دفنانے کی طرف اشارہ ہے

اپنی بیاہتا بیوی دروپدیؔ کو پانڈوؤں نے جوئے میں ہار دیا تھا، گویا کہ وہ ایک انسان نہیں تھی، ملکیت تھی۔ دشاسنؔ نے بھرے دربار میں اس کی ساڑھی کھینچ کر اسے برہنہ کرنے کی کوشش کی تھی (مہابھارت)

 

٭    شاعری اگر تہذیب ہے تو سوسائٹی کو کن ’’آداب ‘‘ سے بطور اصول نوازنے کے قابل ہوئی ہے۔

آنند:   اس سوال میں تین الفاظ ایسے ہیں، جن کی عندالمعانی شناخت ضروری ہے۔ ’تہذیب‘، ’آداب ‘ اور ’اصول‘۔ ۔ ۔ تہذیب سے مراد صرف کلچر ہے، یا کچھ اور بھی ہے ؟ (آپ نے اس بات کو فرض کر لیا ہے کہ میں شاعری کو تہذیب تسلیم کرتا ہوں )۔ ایک معنی تو خوش مزاجی، خوش خلقی، ملنساری کے دائرے میں گھومتا ہے۔ یقیناً آپ کا مطلب یہ نہیں ہے، دوسرا مدنیت، منطقہ ثقافت، ذہنی ارتقا، نسلی ارتفاع کے زمرے میں آتا ہے۔ آپ کی مراد اگر یہ ہے تو میں اسے تسلیم کرتا ہوں کہ شاعری تہذیب کا اگر دوسرا نام نہیں ہے تو بھی اس کی تربیت میں معاون ثابت ہوتی ہے۔ اب آپ کے سوال کی طرف آئیں کہ یہ سوسائٹی کو کن ’’آداب‘‘ سے بطور ’’اصول‘‘ نوازنے میں قابل ہوئی ہے۔ آداب خارجی سطح پر طور طریق، طرز عمل، وضع، چلن، مشرب، سیرت، اسوہ، وغیرہ کا ہی مرکب لیبل ہے، اور میں اسی کو صحیح سمجھتا ہوں۔ آداب کی خارجی سطح سے قطع نظر اور کوئی سطح ہے ہی نہیں۔ ۔ ۔ جی ہاں، شاعری ]بشمولیت خصوصی طور پر سنسکرت میں کاویہ ناٹک اور انگریزی و دیگر زبانوں میں Poetic Drama سوسائٹی کی نشست و برخاست، مشرب، یہاں تک کہ حکمت مدنی، نظم و نسق، رفتار و گفتار۔ ۔ ۔ سب کو سنوارنے میں معاون ثابت ہوئی ہے۔ کالیداسؔ کے منظوم ناٹکوں میں، بھاسؔکے منظوم ناٹکوں میں (جن میں صرف شرفا، امراء اور درباری لوگ ہی منظوم باتیں کرتے ہیں، جبکہ عوام الناس روز مرہ استعمال کرتے ہیں )، مارلوؔ اور شیکسپیرؔ کے منظوم ڈراموں سے اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ کیسے شاعری نے اگر کمپاس یا قطب تارا کا کردار نہیں ادا کیا، تو بھی میل پتھر کی طرح کلچر کی راہ پر چلنے والوں مسافروں کی رہنمائی کی ہے۔

اس رہنمائی کی بطور ’اصول‘ کارکردگی مجھے قبول نہیں ہے۔ ’اصول ‘کسی بھی سیاق و سباق میں، کسی بھی حوالے سے، کسی بھی تناظر میں، صرف (اور صرف) ہدایت، اہتدا، انتظام، قانون سازی، انصرام (بشمولیت انضباط) کا عندیہ دیتا ہے، صرف طرز عمل، یا لائحہ عمل کا نہیں۔ شاعری کوئی Constitution نہیں ہے، ضابطۂ قانون تو دور کی بات ہے، ضابطہ ٔ اخلاق بھی نہیں ہے۔

 

٭    شاعری اگر رویہ ہے عند الجمہور تو قابل ستائش کیوں نہیں ؟

آنند:   یعنی اگر میں آپ کو سوال کو یوں سمجھوں کہ ’’شاعری اگر رویہ ہے عند الجمہور، تو یہ قابل ستائش کیوں نہیں ‘‘ تو جواب آسان ہے۔ لیکن پھر بھی آپ اپنے سوالات کی ترتیب یوں رکھتے ہیں کہ جیسے ’’اگر رویہ ہے ‘‘ یعنی یہ اگر مجھے قابل قبول ہو تو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میرا جواب کیا ہو گا۔ یونانی خطیب اور مصنف دیمیتریسؔ On Rhetoric میں ایسے سوالات کو Pre-postured کہتا ہے، اور اسے دانائی سے زیادہ ’چالاکی‘ سمجھتا ہے تو کیا آپ بھی مجھ سے یہ ’ہاتھ چالاکی‘ کھیل رہے ہیں ؟۔ ۔ بہر حال لیجیے، قبلہ، جواب حاضر ہے۔ ۔ ۔ کون کہتا ہے کہ قابل ستائش نہیں ؟ صرف افلاطون نے اپنی مثالی جمہوریت Republic میں شعرا کو کوئی مقام دینے سے انکار کیا تھا، اور وہ بھی اس بنیاد پر کہ ان کا سماجی فلاح میں کوئیrole یعنی کردار نہیں ہے۔ اس بات کو دور دراز سے ہانک کر اور قریب لا کر سورۃ الشعرا سے بھی منسلک کیا جا سکتا ہے۔ لیکن یہ بات اب بہت دقیانوسی ہو چکی ہے۔ شاعری کو ’’رویہ‘‘ ہی کیوں سمجھا جائے ؟ یہ طرز زندگی نہیں ہے، وطیرہ نہیں ہے، شعار یا مسلک بھی نہیں ہے، ہاں، یہ آداب و اطوار میں معاون ہے، لیکن خود آداب و اطوار بھی نہیں ہے۔ دیگر فنون کی طرح ایک ’فن‘ ہے۔ جس میں ’ہنر‘ کا بھی کچھ نہ کچھ عنصر ہے۔ اس لیے کہ شاعر کا بطور فنکار دیدہ ور، زیرک، با تمیز اور با شعور ہونا لازمی ہے۔

 

l ادب سے روشناس کروانے کے لئے بر صغیر میں تدریسی کتابوں میں شاعری کی ترویجات اور رسمیات سے آپ متفق ہیں نہیں تو کس طرح نئی نسل کو شاعری کی جمالیات اور افادات کا قائل کیا جا سکتا ہے۔ ؟

آنند:   جی نہیں، میں بے حد مایوس ہوں۔ چونکہ آپ نے بر صغیر کے حوالے سے یہ سوال پوچھا ہے، اس لیے مجھے ہندوستان اور پاکستان دونوں پر غور و خوض کرنا چاہیے۔ ہندوستان میں جامعات کی سطح پر  ؎’لہو بولتا ہے ‘‘1997ئجو کتابیں میری نظر سے گذری ہیں (اور امریکا میں رہنے کی وجہ سے سب جامعات کے کورسز میں نہیں دیکھ سکا) شاعری کی رسمیات اور ترجیحات کے حوالے سے اسی پرانے ڈھرے پر چل رہی ہیں، جس پر کئی عشروں سے چلتی آ رہی ہیں۔ میٹرک یا ہائیر سیکنڈری کی کتابیں میں نے کبھی دیکھنے کی کوشش ہی نہیں کی کہ برس دو برسوں کے بعد انڈیا جانا نصیب ہوتا ہے اور بہت سی دیگر مصروفیات ہوتی ہیں۔ پاکستان میں البتہ حالت دگر گوں ہے۔ ضیا الحق کے آمرانہ دور میں پرائمری سے لے کر جامعات تک کے کورسز آف سٹدی کو نئے سرے سے تشکیل دیا گیا۔ ایک نیا لازمی مضمون ’’پاکستان سٹڈیز‘‘ شروع کیا گیا۔ اردو کی درسی کتب سے بیک قلم سب ہندو شعرا اور نثر نگار نکال دیے گئے۔ میں نے انیس سو سینتالیس میں میٹریکولیشن کا امتحان پنجاب یونیورسٹی لاہور سے پاس کیا تھا (تقسیم کے وقت میں راولپنڈی میں تھا)۔ اس وقت ہمارے کورسز میں رتن ناتھ سرشار، دیا شنکر نسیم، برج نارائن چکبست، منشی تلوک چند محروم وغیرہ شعرا اور نثر نگار شامل تھے۔ میں لگ بھگ ہر برس ایک یا دو بار جامعات میں منعقدہ یا اکادمی ادبیات پاکستان کے سیمیناروں میں شرکت کے لیے پاکستان جاتا ہوں۔ کتابیں دیکھتا ہوں اور سوائے ایک آہ سرد بھرنے کے اور کچھ نہیں کر سکتا۔ اس کے علاوہ منٹو، عصمت چغتائی ادب اور اخلاق کے تناظر میں آؤٹ آف کورس ہیں۔ بوجوہ زیادہ نہیں لکھ سکتا۔ بسیار کوششوں کے باوجود ضیا الحق کا دور ختم ہونے کے بعد بھی یہ درسی کتابیں ویسی کی ویسی ہیں کہ ان کی نئے سرے سے تشکیل میں دائیں بازو کی وہ جماعتیں سد راہ ہیں، جن کے سربرا ہوں کے بارے میں علامہ اقبال نے کہا تھا

یہی شیخِ حرم ہے جو چرا کر بیچ کھاتا ہے

کلیم بو ذرؓ و دلق اویسؓ و چادرِ زہراؓ

 

٭     آپ شاعر ہیں آپ اپنی تخلیقی صلاحیت کا سرچشمہ کہاں دیکھتے ہیں ؟

آنند:   سائنسی نقطۂ نظر سے دیکھیں تو genes سے ابتدا کی جا سکتی ہے۔ میری ماں پنجابی میں اشلوک، دوہرے، دوہڑے، اور لوک شاعری کی دیگر اصناف میں طبع آزمائی کرتی تھیں۔ لیکن یہ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ ہم چھ بھائی بہنوں میں اکیلا میں ہی کیوں شاعری کی طرف راغب ہوا؟ میرے تین بچوں میں سے کوئی ایک بھی نہیں ہوا ۔ ۔ ۔ تو یہ صلاحیت کیا خود پیدا کردہ ہے ؟ کون سے خارجی عوامل اس کی اُپج، ترویج و ترقی میں مددگار رہے ہیں۔ کیا نا مساعد حالات نے اس ترقی کو پیر تسمہ پا کی طرح باندھ کر رکھا ہے یا اسے آتش زیر پا کی طرح آگے، اور آگے بڑھنے پر مجبور کیا ہے۔ میں نے مختلف نظموں میں ایک غیر متعلق ماہر نفسیات کی طرح اپنا psycho-analysis بھی کیا ہے اور درون دل نیم روشن فضا میں بھی اسے ٹٹول ٹٹول کر دیکھا ہے۔ کچھ ایک نظمیں بہت طویل ہیں۔ ’’بیاض عمر کھولی ہے ‘‘ چار پانچ صفحے بھر دے گی، لیکن کوشش کرتا ہوں کہ کوئی ایک نظم جو اتنی طویل بھی نہ ہو، اس سوال کا جواب بخوبی دے سکے۔ پھر سوچتا ہوں کہ طویل ہوئی تو بھی کیا ۔ ۔ ۔ ۔ یہی نظم پیش کر دوں

 

بیاض عمر

 

بیاض عمر کھولی ہے !

عجب منظر دکھاتے ہیں یہ صفحے جن پہ برسوں سے

دھنک کے سارے رنگوں میں

مرے موئے قلم نے گُل فشانی سے کئی چہرے بنائے ہیں

کئی گُلکاریاں کی ہیں

لڑکپن کے

شروع نوجوانی کے

بیاض عمر کے پہلے ورق

سب خوش نمائی کے نمونے ہیں

گلابی، ارغوانی، سوسنی، مہندی کی رنگت کے

یہ صفحے، سات رنگوں کی دھنک کے جھلملا تے وہ مرقعے ہیں

کہ جن میں ہمّت و جرأت

تہّور، منچلا پن، ہر چہ بادا باد ہر صفحے پہ لکھا ہے

انہی صفحوں میں وہ مکتوب شامل ہیں

حنا مالیدہ دو ہاتھوں نے جن کی پیار سے تشکیل کی تھی

اور وہ رقعے بھی جن میں پیار کا اظہار شعروں میں رقم تھا

میری پہلی عمر کی کچّی بلوغت میں۔ ۔ ۔ ۔

بیاضِ عمر کھولی ہے !

عجب منظر دکھاتے ہیں وہ صفحے بعد کے ان چند برسوں کے

کہ جن پہ میری خود آموزی و ذوق حصولِ علم نے

مجھ کو پڑھائی میں مگن رکھ کر

ادب کے عالمی معیار کا حامل بنا یا تھا

افادی، نفسیاتی، سائنسی تحقیق کی آنکھیں عطا کی تھیں

مجھے لکھنا سکھایا تھا

غلط آموز ہونے سے بچایا تھا

قواعد، بحث، خطبہ، ناظرہ کی تربیت دی تھی

یہ کار آموزیِ علم و ادب

تِمرین و مشق شعر میں ایسے ڈھلی تھی

مبتدی سے ماہر و مشّاق کہلانے میں

بس چھ سات برسوں کا فروعی وقت حائل تھا۔ ۔ ۔ ۔

بیاضِ عمر کھولی ہے !

بدلتا وقت، آندھی سا، ورق ایسے پلٹتا جا رہا ہے

، مجھ کو لگتا ہے

کوئی اک سال تو بس اک مہینے میں گذر جاتا ہے چپکے سے۔

کئی دن ایسے آتے ہیں

کہ اپنی طول عمری میں ہزاروں سال جیتے ہیں۔ ۔ ۔ ۔

 

مرا سویا ہوا ذوق تجسس جاگ اٹھا ہے

ورق پلٹو تو دیکھو، (مجھ سے کہتا ہے )

کسی صفحے کے مخفی حاشیے میں بھی تو کچھ تحریر ہو گا

یا کوئی پُرزہ سٹیپل سے جُڑا ہو گا

کوئی بُک مارک شاید ہو

کہ جس پر گنجلک الفاظ یا واوین میں، بین السطور

امکانیہ معنی رقم ہوں گے

مرا ذوق تجسس چاہتا ہے اب، بڑھاپے میں

یہ پوتھی کھول ہی لی ہے اگر میں نے

تو کچھ بھی رہ نہ جائے میری یادوں کی گرفت نا رسا سے !۔ ۔ ۔ ۔

بیاض عمر کھولی ہے !

یہ مخفی حاشیے، یہ خط کشیدہ لائنیں، واوین میں پابند فقرے

میرے جملہ قرض کے بارے میں لکھے ہیں

ادائی ہندسوں کی فربہ پرتوں میں رقم ہوتی ہوئی

میزان تک ایسے پہنچتی ہے

کہ ہر ’فردا‘ سے ’حاضر‘ تک،

ہر اک ’حاضر‘ سے ’ آئندہ‘ کے دن تک

سُود ہی در سود ہے جو بڑھتا جاتا ہے

یہ قرضے وہ ہیں جو میں اپنے کندھوں پر لیے وارد ہوا تھا

ایک بچہ، بالغوں کی بے ریا دنیا کی جھولی میں

کہیں املاک میں، پُرکھوں کے چھوڑے قرض ہیں

جن کی ادائی مجھ پہ واجب تھی

یہ سب قرضے ادا کرنا ضروری تھا

مگر کچھ قرض کی رقمیں

بزعم خود

مری شوریدہ سر طبع رسا نے

اپنے کھاتے میں لکھی تھیں اپنی مرضی سے

یہ راس المال جس کو پیشگی میں نے ادا کرنا تھا

حرف و صوت کا تھا۔ لفظ کی پرتوں کا تھا

نظموں کے سمندر میں کسی غوّاص کا سا تھا

یہ قرضہ عالمی انشاء کے اس سلک بیاں کا تھا

جسے اردو میں ڈھلنا تھا مری نظموں کی صورت میں !۔ ۔ ۔ ۔

بیاض عمر کھولی ہے۔ ۔ ۔ ۔

وہی محنت، مشقت، کاوش و کاہش، عرق ریزی

اٹھانا زیست کی بھاری صلیبیں

نوجوانی سے بڑھاپے تک

تھکے ماندے، دریدہ پاؤں من من کے

تھکن سے چور گر جانا تو پھر اٹھنا

مسلسل ماندگی سے مضمحل

سانسوں کے سرگم پر

پھٹے تلووں سے چلنا، چلتے جانا، قریہ در قریہ

وطن سے دور مغرب کی زمیں تک گردش پیہم

مسلسل ہجرتیں

خانہ بدوشی، لا زمینی، بحر و بر سیر و سیاحت

ملکوں ملکوں، شہروں شہروں گھومنا

شب بھر کہیں رکنا تو اگلی صبح چل پڑنا

نئے ملکوں کو شہروں کو

عناں برداشتہ پا در رکاب آوارگی، عزلت۔

یہ آتش زیر پا

حرکت پذیری آخرش لائی ہے

مجھ کو اپنی جیتی جاگتی قبروں کی سرحد تک۔ ۔ ۔

یہ جیتی، جاگتی قبریں

مری لا مختتم، عمر دراز و مرتفع کے میل پتّھر پر

دہانے کھول کر بیٹھی ہوئی مجھ کو بلاتی ہیں۔

کپِل وستو کا شہزادہ،

میں گوتم بُدّھ اپنا یہ جنم تو جی چکا ہوں

اور شاید اس جنم کے بعد پھر اک اور ہے

اک اور ہے، اک اور ہے

نروان، تو میں جانتا ہوں، مجھ سے کوسوں دور ہے اب بھی۔ ۔ ۔ ۔

بیاض عمر کو اب تہہ کروں اور طاق پر رکھ دوں !

 

٭     بطور شاعر زندہ رہنے کے لئے آپ کا ماورائی ہونا یا ماورائیت پسند ہونا ضروری ہے ؟

آنند:   نصف صدی تک جامعات کی سطح پر پڑھانے کی وجہ سے ایک عادت ثانیہ بن گئی ہے کہ کسی اصطلاح پر کچھ کہنے سے پہلے اس اصطلاح کے معانی پر غور کر لیتا ہوں۔ ’ورا‘‘ عربی لفظ ہے اور پیچھے، عقب، پس پشت کے معانی میں استعمال کیا جاتا ہے۔ ؎ دکھلاؤ منہ جلے کو، جلاتے ہو اور کیا : الفت میں کیا ملا ہمیں تم سے ورائے داغ : (تخلص کو حضرت داغ نے ذو معنویت کی خوبی دی ہے ) ’’ما‘‘ کا سابقہ ایسے ہی لگا دیا جاتا ہے جیسے ما بہ الامتیاز، ماتقدم یا آج کل ما  بعد الجدیدیت وغیرہ میں لگا دیا جاتا ہے۔ گویا ’ماورا ‘، خصوصی طور پر اردو شعری ادب میں فلسفے کی اس جہت کا متبادل ہو گیا ہے، جس کا مطلب حقیقت یا مادی اشیاء کے عقب میں یا ان کی بیخ و بنیاد میں جا کر ان کے معانی تلاش کرنا ہے۔

جی ہاں، میں سمجھتا ہوں کہ ماورائی، اقصائی، ’ نا رسا‘ تک رسائی شاعر کے لیے ضروری ہے۔ اگر یہ نہ ہو تو ایک اچھے شعر میں اور عوام الناس میں مقبول ایک کہاوت، ’اکھان‘، قول میں کچھ فرق نہ ہو۔ شاعر کے پاس جو ایک دور رس نظر ہے یہ زمان اور مکان کے تعلق سے مستقبل کا احاطہ ایسے ہی کر لیتی ہے، جیسے ماضی کا، اور اپنے ارد گرد کے علاوہ قطبین تک پہنچنے کی دور رس نگاہ رکھتی ہے۔

You can stand still in time and go back and forth in space,  or stand still in space and go back and forth in time without any conscious effort

اگر یہ ممکن نہ ہوتا تو آج کل جیسے دو پڑوسی ملکوں میں (ایک دوسرے کو متنبہ کرنے کے لیے ہی سہی) جوہری جنگ کی دھمکیاں دی جاری ہیں، اس کو دیکھ کر ایک شاعر آنے والی زمانے کی یہ تصویر پیش نہ کر سکتا جو مستقبل کی ایک بھیانک تصویر پیش کرتی ہے، جب نیوکلائی جنگ کو تیس برس گذر چکے ہوتے ہیں۔ ہاں یہ اقرار کر ہی لوں، کہ نظم میری اپنی ہی ہے۔ اور یہ جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی کے جریدے ’’کتاب نما‘‘ میں اشاعت پذیر ہو ئی تھی اور گلزارؔ صاحب کی مرتب کی ہوئی میری نظموں کی کتاب ’’جو نسیم خندہ چلے ‘‘ میں بھی شامل ہے۔

 

یہ میری آنکھ ہے

(ایک فینٹسی۔ ۔ نیوکلائی جنگ کے تیس برس بعد کا منظر نامہ)

 

نظر اُوپر اٹھائیں، تو بھی دیکھیں کیا؟

کہ بادل کے تھنوں کی تھیلیوں میں

شیر مادر ایک قطرہ بھی نہیں

سوکھی ہوا ہے

خشک آہیں، امتلا، اکراہ کی اک گھن گرج سی ہے

منغض ناگواری ہے !

کڑکتی بجلیوں کی شعلہ سامانی

پریدہ رنگ ہے، ان کی کڑک جیسے

کسی گونگے کی ہکلاہٹ، گلو گیری سی رِیں رِیں ہے۔

کہاں سے پانی برسائیں، ’’گھٹا گھنگھور‘‘ کی آنکھوں میں کانٹے ہیں !

نظر نیچے جھکائیں تو بھی دیکھیں کیا؟

کہ اس تشنہ دہاں دھرتی کے جوف و جوع کے مابین اب کچھ بھی نہیں باقی

یہی لگتا ہے کوئی راکھ کے نیچے پھنسا ہو موت کے منہ میں

نفس واپسیں کی کھڑ کھڑ اتی ہچکیوں میں مر رہا ہو وقت سے پہلے

نمو سے سر بسر عاری خرابہ، راکھ کے اڑتے بگولے

دور تک اک روہڑی، سنسان ویرانہ

مخنث، بے نمو، لا ولد دھرتی، نسل کش ناکارگی۔ ۔ ۔

 

اور میں !

یہ میری آنکھ ہے کیا جو

زمان و وقت کے جریان سے آگے پہنچ کر

نیچے اوپر دیکھتی ہے ؟ راکھ کے اڑتے بگولے ارض پر

بادل کے بنجر بانجھ ٹکڑے آسماں میں۔ ۔ ۔

ہاں، یہ میری آنکھ ہے جو پیش بیں ہے، غیب کے احوال کی واقف!

نہفتہ داں میں سب کچھ دیکھتا ہوں۔ ۔ ۔

آنے والے دور میں کیا ہونے والا ہے

میں سب کچھ جانتا ہوں !!

۔

مجھے علم نہیں ہے کہ میں اس نظم سے آپ کو سوال کے جواب کو ایک تصویری مفہوم سے واضح کر پایا ہوں کہ نہیں، لیکن میرا نظریہ یہ ہے کہ شاعر کے پاس وہ جو ایک اضافی حس ہوتی ہے، جس کے بارے میں کہا گیا ہے : شاعری جزویست از پیغمبری، اس سے وہ بیک وقت نیچے اوپر، دائیں بائیں اور آگے پیچھے دیکھ سکتا ہے۔

 

٭    پرانا سوال سہی مگر اپنی ’’تجریدی مفہومیت‘‘ کو بر انگیخت کرنے کے لئے ضروری ہے کہ آپ ’’ غزل کی ولایت ‘‘ سے منکر ہو جائیں ؟

آنند:   جی نہیں، ’’تجریدی مفہومیت کو برانگیخت‘‘ کرنے سے اگر آپ کی مراد تعقل پرستی یا عمق فکر کی بِنا پر میرا کسی بھی شعری تخلیق میں مفہوم کھوجنے کی حس کو محرک کرنا ہے، تو یہ جواز میرا غزل کی ولایت سے ’ منکر‘‘ ہو جانے کا بالکل نہیں ہے۔

یہ عرض کر دوں کہ میں غزل کی ولایت سے per se (لاطینی، بمعنیin itself, یا intrinsically ) بالکل منکر نہیں ہوں لیکن میں اس کو ایک الگ ولایت کا سب سے اہم شہری سمجھتا ہوں۔ یہ الگ ولایت Oral Literature یا میری خود ساختہ اصطلاح Orature کی ہے۔ اس اقلیم کے دیگر شہریوں میں ماہیا، ٹپہ، بیت بندی، کبِت، تک بندی، کافی، بارہ ماسہ، لوری، مقفیٰ اکھان وغیرہ کی ہے، جو زبانی سنانے یا گائی جانے والی اصناف ہیں، نہ کہ تحریر شدہ ادبی نگارشات۔ اسی لیے اسے ’کلام‘، ’سخن‘ کی اُپادھی دی گئی ہے۔ ’تحریر‘ نہیں کہا گیا۔ اسی لیے ہم ’شعر کہا ہے ‘، ’غزل کہی ہے ‘ وغیرہ کو درست تسلیم کرتے ہیں۔ ’’غزل لکھی ہے یا شعر لکھا ہے، ‘‘ اس جملے کو بھونڈا سمجھا جائے گا۔

چونکہ مغرب میں ’سنانے ‘ کی کوئی روایت نہیں ہے۔ ’لکھنے ‘ یا ’پڑھنے ‘ کی ہی ہے، اس لیے لفظ ’سنانا‘ کا انگریزی ترجمہ نہیں ہو سکتا۔ یہ کانسیپٹ ہی مغرب کے ذہن سے عنقا ہے۔ اس نے ایک شعر سنایا یا غزل سنائی کا کیا ترجمہ ہو گا ؟ He read out his poem OR He recited his poem.یہ جملے تو یک طرفہ پڑھنے کا عمل ظاہر کرتے ہیں۔ ’سنانا‘ میں جو دو طرفہ عمل ہے وہ ان سے ظاہر نہیں ہوتا۔ ہلکی پھلکی سی بات ہے، لیکن لفظ ’سنانا‘ میں کچھ اس طرح کا عمل موجود ہے، جیسے کہ اپنے شعر یا غزل کو ایک پڑیا میں لپیٹا اور سامع کے کان میں جا کر انڈیل دیا۔ ’’وہ مجھے یہ بات خصوصی طور پر سنا کر گیا ہے ‘‘ جیسے کسی بھی جملے کا انگریزی ترجمہ یا تو بالکل ہو ہی نہیں سکے گا یا تشنہ رہ جائے گا۔ اس لحاظ سے غزل سنی سنائی جانے والی یا گائی جانے والی صنف کے طور پر Oral Literature ہے۔ چبھتا ہوا سوال ہے لیکن آپ سے پوچھنا ضروری ہے، کیا آپ فلمی گانوں کو لٹریچر کہیں گے ؟

کلاسیکی غزل، ایران میں بھی اور ہندوستان میں بھی، گا کر نہیں سنائی جاتی تھی، جب یہ دربار سے نکل کر، پہلے تو قلعے کی چار دیواری کے اندر اور پھر اس کے بعد یہ چار دیواری پھلانگ کر باہر پہنچی تو اس کی جائے عافیت طوائفوں کے کوٹھے تھے۔ آپ کیا تصور کر سکتے ہیں کہ میر، غالب، ذوق اور داغ اپنی غزلیں گا کر پڑھتے ہوں گے، ہاں، یہ درست ہے کہ ان کی غزلیں طوائفیں اپنی محفلوں میں گا کر سناتی تھیں۔ اب آج کا منظر نامہ دیکھ کر سر پیٹ لینے کو جی چاہتا ہے۔ غزل گو شعرا (خصوصی طور پر شاعرات اور خصوصی طور پر انڈیا میں ) صرف ترنم پر ہی اکتفا نہیں کرتے، اپنی body language (بدن بولی) سے، اسٹیج پر گھوم پھر کر ایکٹنگ کرتے ہوئے، کسی بھی شعر کے مصرع اولیٰ کو تین بار اُٹھا کر اور پھر مصرع ثانی کو ادا کرتے ہوئے جیسے سامعین کے کانوں میں پڑیا میں باندھ کر پہنچاتے ہیں۔

اب لوٹ کر ’’تجریدی مفہومیت‘‘ کی طرف آئیں۔ آپ کے سوال میں، قبلہ، یہ ایک inherent اقبالیہ بیان بھی ہے کہ مفہومیت کے حوالے سے صنف غزل شاید نادار ہے اور میں یعنی یہ خاکسار ستیہ پال آنند چونکہ شاعری میں معنی و مفہوم کے خزانے کی تلاش میں سرگرداں ہے، اس لیے اس نے غزل کی مملکت سے راہ فرار اختیار کر کے نظم کی بدیسی اقلیم میں ہجرت کی ہے۔ چلئے، میں آپ کے در پردہ کئے ہوئے اس قیاس پر ایمان لے آتا ہوں کہ غزل اس حوالے سے نادار ہے، لیکن میری ہجرت کی وجہ یہ نہیں ہے۔ اس کا ذکر آگے آئے گا۔

عصر حاضر کی غزل میں دو اڑھائی صدیاں ایک ساتھ کندھے سے کندھا ملائے ہوئے چل رہی ہیں۔ جہاں کلاسیکی غزل ہے، جس کی مثال (کم کم ہی سہی) لیکن گاہے بگاہے کچھ اشعار میں مل ہی جاتی ہے، وہاں نیم کلاسیکی غزل اور روایتی غزل ڈھیروں کی تعداد میں رسالوں اور شعری مجموعوں میں گروہ در گروہ موجود ہے۔ ’’جدید غزل‘‘ تو شاید ایک غلط nomenclature ہو لیکن اس کے تحت بھی، کانوں کو کچھ نا شنیدہ سے محسوس ہونے والے اشعار مل ہی جاتے ہیں۔ پھر موضوع، مضمون، ماحول، مالہ و ماعلیہ کے حوالے سے روایت سے بالکل کنارہ کشی اختیار کرتے ہوئے ایسے غزل گو شاعر بھی ہیں، جو گلی محلے، گھر گرہستی، پریوار (ماں، بیوی، بچوں ) کو جیسے ناٹک میں کردار کی حیثیت دے کر اشعار میں انہیں اسٹیج پر مرکزی نشست دیتے ہیں۔ اور پھر (آخر میں ) ایسے شاعر بھی ہیں جو ٹنوں tonnes کے حساب سے ایسی غزلیں کہہ رہے ہیں، جن کا سر پیر، گردن، چہرہ، دھڑ کچھ بھی نہیں ہے۔ صرف الفاظ کا ہیر پھیر ہے ۔ (نام نہیں لوں گا، لیکن آپ پہچان جائیں گے کہ میرا اشارہ کس محترم شاعر کی طرف ہے !)

 

٭    نظم میں لایعنیت کی جتنی گنجائش ہے، غزل تو اس کا عشر عشیر بھی برداشت نہیں کرتی ؟

آنند:   اس مفروضے سے صنف نظم کی سبکی ہوتی ہے، نہ صنف غزل کی عزت بڑھتی ہے۔ اگر میں یہ کہوں کہ غزل میں پیش پا افتادہ، چبے چبائے ہوئے الفاظ، مصطلحات، عبارت آرائی، عذب البیانی، استعارہ، تمثال، علامت، اور سب سے بڑھ کر، ہزاروں بلکہ لاکھوں بار پہلے استعمال میں لائے گئے مضامین کی جتنی گنجائش ہے، نظم تو اس کا عشر عشیر بھی برداشت نہیں کرتی (آپ کے الفاظ دہرا رہا ہوں )، تو آپ کیا جواب دیں گے ؟

 

٭    نظم گوئی علمی طریق اور اسِتدلالی طرز عمل مانگتی ہے جب کہ غزل خالص جذباتی منطق کو دہرا کر بھی اپنا مقصد حاصل کر لیتی ہے ؟

 

آنند:   حضور، فیض گنجور ضیاؔ صاحب، آپ میرے دل کی بات کہتے کہتے، نصف جملہ کہنے کے بعد، پس آگاہی ملتے ہی، رُک گئے۔ یہاں تک تو آپ درست فرماتے ہیں کہ ’’۔ نظم گوئی علمی طریق اور اسِتدلالی طرز عمل مانگتی ہے۔ ۔ ۔ ‘‘اس کے بعد پس آگاہی میں آپ کچھ کچھ کہتے کہتے ایک اصطلاح برت گئے، جو میرے لیے contradiction in terms ہے، یعنی اصطلاحی تضاد بیانی ہے۔ ’’جذباتی منطق‘‘ یعنی emotional logic، ان دو الفاظ میں قطبینی تضاد ہے۔ جی نہیں، اگر غزل منطق کی اپج ہے، تو غزل غزل ہونے سے رہی۔ کیونکہ منطق تو جیومیٹری کی تھیوریم کی طرح ہے۔ مثال:

(Given : To Prove : and Proof. Therefore the triangles are congruent)

یا الجبرا کی طرح ہے ::

to re-unite parts Al (Arabic) meaning "the”, plus

gebera (Hebrew) meaning "to unite”

 

٭    غزل کے معروف ارکان موسوم بہ ہیں جب کہ نظم کے مختلف حصوں کے نام ابھی محتاج تعارف ہیں۔ ۔ ۔ کوئی تبصرہ ؟

آنند:   ضروری نہیں ہے کہ ہم نئے نام، فارسی لغت یا عربی قابوس سے نکال نکال کر ہی انہیں اردو نظم پر چسپاں کر دیں۔ انگریزی کے ارکان بھی استعمال کیے جا سکتے ہیں۔ ہم اب آسانی سے ایسی اصطلاحات استعمال کر ہی رہے ہیں۔ سمبل، مونتاژ، (لٹریچر)بیک فلیش، فاسٹ فارورڈ، ٹیگ کرنا وغیرہ (فوٹو گرافی، کمپیوٹر)۔ ۔ ۔ اس گلوبل ولیج (عالمی گاؤں ) میں اب اپنی زبانوں کا ناموس بچانے کے لیے حجاب یا برقع ضروری نہیں ہے۔

 

٭    نظم شاعر کے کردار کی کڑی مشقت ہے جب کہ غزل شاعر کے اخلاص کی ۔ ۔ ۔ ؟

آنند:   کردار اور اخلاص۔ ۔ ۔ دو کلیدی الفاظ کو کیسے آپ نے ’فساد قبل الذکر‘ کی فہرست میں شامل کر لیا؟ ان میں تو کوئی تضاد نہیں، کوئی مغائرت نہیں ہے۔ غزل بھی شاعر کے کردار کی کڑی مشقت ہے۔ شاعر کیا کہتا ہے، وہ کب ایک ’مصرع تر‘ کی صورت دیکھتا ہے ؟ کتنا خون جلتا ہے ایک مصرع تر کی صورت دیکھنے میں ؟ میر تقی میرؔ کا شعر کی تلاوت ہی فرمائیے کہ اس نے ایک ’دیوان جمع کرنے ‘میں کتنا خون جلایا تھا۔ میرؔ کی ہی باز گشت میری ایک پنجابی غزل کے شعر میں ہے :

انگلی انگلی، پوٹا پوٹا ، تُپکا تُپکا چویا خون

تاں جا کہ اک دو شعراں دی زلف سنواری کل راتی

تخلیقی قوت کی کارکردگی دونوں اصناف سخن میں یکساں ہے۔ البتہ غزل کی صنف میں کچھ موضوعات (جیسے کہ خود ترحمی self pity ) اور کچھ مضامین استعاروں، تمثالوں، اصطلاحات کی اس قدر فراوانی ہے کہ تخلیقی قوت میں جس طرح ہر انگلی سے قطرہ قطرہ خون ٹپکتا ہے، شعرا ء اس کے درد زہ birth tangs سے بچنے کے لیے ایک موٹر مکینک کی طرح اس شعری گودام سے ضرورت کے فاضل پرزے spare parts (جو بین المتونیت inter-textuality کی تھیوری کی رو سے ان کے ذہن میں پہلے ہی موجود ہوتے ہیں )ایک ایک کر کے اٹھاتے ہوئے جڑتے چلے جاتے ہیں، انہیں یہ احساس تک نہیں ہوتا کہ یہ ’آمد‘ در اصل ’آورد‘ ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میری طرح نظم کے شاعر بھی (جن کی تربیت غزل کی مشق سخن میں ہوئی ہے ) اس سے بچ نہیں پاتے۔ ۔ ۔

۔ آپ کے لیے یہ شاید ایک دلچسپ لطیفہ ہی ہو، لیکن اس بدعت سے بچنے کے لیے کوئی چالیس برس پہلے میں نے ایک ترکیب یہ نکالی، کہ ایسے الفاظ کی ایک فہرست بنائی اور ہر نظم کے مکمل ہونے سے پہلے اس کی فائنل قطع و برید میں بغور یہ دیکھنا شروع کیا کہ اس فہرست کا کوئی لفظ کہیں لا شعوری طور پر استعمال میں تو نہیں آ گیا ہے۔ اور پھر ایک ماہر جراح کی طرح اسے کاٹ کر پھینک دیا۔ یہ امر آپ کے لیے باعث تفریح ہو گا کہ اس جدول بندی میں لفظ ’دل‘ سر فہرست تھا۔ جو درجنوں مختلف النوع معانی میں (گوشت کے لوتھڑے سے لے کر لطیف جذبات کی آماجگاہ تک) غزلیہ شاعری میں استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کا لطیفہ در لطیفہ یہ ہے کہ ایک عزیز مسمی بہ زیف سید سے (جو اس وقت یہاں واشنگٹن ڈی سی میں وائس آف امریکا کے عملے میں ایک ممتاز جگہ پر تھے اور آجکل اسلام آباد میں بی بی سی سے منسلک ہیں)  اور جو تقریباً ہر ہفتے اتوار کو مجھ سے ملنے غریب خانے پر تشریف لاتے تھے اور کچھ گھنٹے میرے ساتھ گذارتے تھے، اس مسئلے پر بات کرتے ہوئے میں نے ان کے ساتھ ایک شرط بد دی کہ اگر وہ میری چھ سو نظموں میں سے کسی ایک میں بھی لفظ ’’دل‘‘ نکال کر دکھا دیں، تو فی لفظ دس ڈالر کے حساب سے میں ادائی کروں گا۔ حسنِ اتفاق دیکھیے کہ انہوں نے میری شاعری کے دس مجموعوں کے لگ بھگ پندرہ سو صفحات (اور تیس ہزار سطور ) کو چھانتے ہوئے ایک نظم میں لفظ ’دل‘ دیکھ ہی لیا۔ اور دس ڈالر جیت لیے۔ (اگر موصوف یہ تحریر پڑھیں گے تو انہیں یاد آ ہی جائے گا!)

 

٭    استحضاریت شعر کا خاصہ ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر نام نہاد آمد کا غوغا کیسا ؟

آنند:   اسی ’’استحضاریت‘‘ ( مستحضر، یاد کیا ہوا، مرتسم کیا ہوا، نوک بر زبان ہونا، یاد میں محفوظ ہونا) کو تو انگریزی میں inter-textuality اور اردو میں بین المتونیت کہا جاتا ہے۔ اور یقیناً یہ شعر کا خاصہ ہے، لیکن بھائی جان، صنف غزل کا تو مکمل انحصار ہی اسی بات پر ہے۔ زندگی اس قدر تیزی سے بدل رہی ہے کہ ہم عالمی گاؤں بن چکے ہیں۔ اگر آج بھی ہم ڈھیروں کے حساب سے وہی پرانی تشبیہیں اور استعارات برتیں گے جو بطور خیرات فارسی نے ہمارے کشکول میں تین صدیاں پہلے ڈال دیے تھے، تو پھر اللہ اللہ، خیر صلّیٰ۔ اس سلسلے میں اپنی ایک نظم جو لگ بھگ نصف صدی پہلے یعنی 1957ء میں لکھی گئی، پیش کرتا ہوں۔ شاید اس میں آپ کو جواب مل سکے۔

 

ہماری آنے والی نسل کو کیسے خبر ہو گی؟

بہت سے رت جگے جھیلے

بہت آہ و بکا میں وقت گذرا

غم پرستی کے سیہ حُجرے میں پہروں بیٹھ کر روئے

صنم پوجے ملال و حُزن کے ان بُت کدوں میں، جو

سخن کے بُت تراشوں اور غزل کے آذروں نے

اپنے وقتوں میں تراشے تھے

 

بہت غزلیں کہیں، شعروں میں حُسن و عشق کے پیکر تراشے

خود سے باتیں کیں

بڑے ہی خوبصورت استعاروں کی زباں میں بات کہنے کا ہنر سیکھا

بزرگوں کے وہ گُر ازبر کیے

جو شعر کہنے میں معاون تھے

بہت کچھ کر لیا، دیوان چھاپے، محفلوں میں داد حاصل کی

 

مگر آخر کِیا کیا؟

کون سی سچائیوں کے نخل کی یہ آبیاری تھی؟

یہ کیسی شاعری تھی، انفعالیت، شکست ذات، خود ترسی کی قدریں تھیں

جنہیں معصوم ذہنوں میں سمویا تھا

سمجھ کر جوہر فن، حسنِ روح، شاعری ہم نے ؟

کبھی اس حُزن کے حجرے سے نکلیں تو!

کبھی تازہ ہوا میں سانس لینے کو تو راضی ہوں

کبھی سوچیں کہ ہم نے کیا دیا ہے

آنے والی نسل کو اس کی وراثت میں ؟

 

کوئی ایسا صحیفہ، جس میں پورے دور کی تاریخ لکھی ہو؟

صحیفہ جو تدّبر کی علامت ہو، تعقل سے عبارت ہو

صحیفہ جس میں مخفی ہو کسی گُذرے ہوئے کل کی کہانی

عصرِ حاضر کے معانی کے تناظر میں ؟

صحیفہ، فلسفے کا، عشق کا، راز طریقت کا؟

صحیفہ، صاف پانی کا وہ چشمہ

عکس جس میں جھلملاتا ہو سبھی روشن مناروں کا

شبیہیں قوم کے معمار فنکاروں کی

جو ہر دور میں تاریخ سازی میں معاون تھے ؟؟؟؟

 

اگر ایسا نہیں ہے تو ہمیں کچھ سوچنا ہو گا

بہت سی اور راتیں جاگ کر ہی کاٹنا ہوں گی

انہی شعری صحیفوں کی عبادت میں

اگر خون رگ جاں سے نہ لکھ پائے یہ فن پارے

ہماری آنے والی نسل کو کیسے خبر ہو گی؟

 

اگر آپ اجازت دیں تو میں ان سطروں کو دہرا دوں جو آپ کے سوال (یعنی یاد کے دفینوں سے کھود کر نکالی ہوئی شاعری کا بعینہ یا کچھ تبدل و اشتراک کے ساتھ روپ) کے بارے میں ہے۔

یہ کیسی شاعری تھی، انفعالیت، شکست ذات، خود ترسی کی قدریں تھیں

جی ہاں، آورد کا غوغا کیوں، مائی باپ؟۔ اسی پر شاکر رہیں۔ انفعالیت، شکست ذات اور خود ترحمی کے اشعار کہے جائیں اور داد وصول کرتے جائیں۔ لیکن میں، جنم جنمانتر کا باغی کیسے اس پر شاکر رہ سکتا تھا۔ اس کے بعد میں نے پے در پے اور نظمیں لکھیں جن میں اس بات کا اعادہ تھا کہ میں یہ ’شعری صحیفے ‘ لکھ کر اپنا فرض پورا کروں گا۔ اس کا اعلان میں نے دو برسوں کے بعد ایک اور نظم میں کیا، جو ممبئی سے شائع ہونے والے ماہنامہ ’شاعر‘ میں چھپی۔ اور اس پر بحث میں نامور اہل قلم (بشمولیت مرحوم سردارؔ جعفری نے حصہ لیا) آپ بھی دیکھیں اور داد دیں کہ میرا اعلان جنگ خالی خولی دھمکی ہی نہیں تھا، میں اس پر ایک عمر سے عمل کرتا چلا آ رہا ہوں۔ نظم کا عنوان ہے

میں خوابوں، خیالوں کا دریوزہ گر

 

میں خوابوں خیالوں کا دریوزہ گر

اپنا کشکول پھیلائے پھرتا رہا ہوں

ہمہ تن سوال و تجسس، کہ شاید

مجھے کوئی خیرات مل جائے، درویش شیراز، مُلّائے رومی سے

………

تو میں پرو لوں

خیالوں کو، خوابوں کو الفاظ کی جھالروں میں !

کہوں خود سے، میرے تہی شکم کشکول کی بھوک

اب مٹ گئی ہے

اسے سیر حاصل تشفی کا احساس ہونے لگا ہے

میں کم مایہ، محتاج، اردو کا شاعر تھا

جب بھی کبھی میں نے ان دو تونگر فقیروں کا در کھٹکھٹایا

فقیری کو دیکھا

تونگر کو پرکھا

تو جو کچھ بھی پایا۔ ۔ ۔ ۔ فقط ایک ہی لفظ

یا اس کی تفسیر سلک بیاں میں

فقط ’عشق‘ اور ’عشق‘ اور ’عشق‘ اور ’عشق

کہیں عشق، ’عشق ازل گیر‘ دیکھا

کہیں عشق، ’عشق ابد تاب‘ پایا

تعشق سے لے کر پرستش تلک

ایک ہی لفظ کی منقبت، مدح خوانی!

 

میں کب ڈھونڈھ سکتا تھا اس عنکبوتی جھمیلے میں

کچھ ایک سلجھے ہوئے تار، جو عصر حاضر میں

مجھ جیسے دریوزہ گر کی تشفی کا سامان بنتے ؟

یہ مانا کہ اپنے حکیمانہ افکار میں

اپنے وقتوں میں ملّائے رومیؔ

فرشتہ صفت ایک ہاتف تھا، جس کا

ہر اک لفظ سر بستہ راز طریقت تھا

تفسیر میں جس کی یزدانیت تھی

یہ مانا کہ درویش شیراز اپنے سخن کے

نمود و تناظر میں کاہن بھی تھا اور درویش بھی، پر

غزل گفتنی کو فقط مے پرستی

’لب، لعل‘، ’چشم فسوں ساز‘، ’یار طرحدار‘کے دائروں میں

ہی رکھ کر پرکھنا طریقت نہیں ہے

تصوف کا پہلو جھلکتا بھی ہو، تو

یہ عشق حقیقی و عشق مجازی کی سوزن

مرا کون سا چاک سیتی؟

 

میں دریوزہ گر لفظ و معنی کا

نادار اردو زباں کا گدائے سخن

فارسی کی حلاوت سے اپنا تہی کاسۂ ذہن

صدیوں تلک تو

بڑے شوق سے بھرتا آیا ہوں، لیکن

مجھے اپنی کم مائے گی سے بھی بڑھ کر

حقیقت کا واضح نشاں مل چکا ہے

کہ میں چار صدیوں سے

اپنی ہی مرضی سے

گمراہ ہوتا چلا آ رہا ہوں !

 

میں ’’ عشق ازل گیر‘‘، ’’عشق ابد تاب‘‘ کا سست رفتار

ذہنی سفر چھوڑنا چاہتا ہوں

مجھے اب ضرورت ہے اس فلسفے کی

محرک رہا ہے جو صدیوں سے مغرب کی سبقت، ترقی پسندی

قدم زن قیادت کا ہر مسئلے میں !

مجھے اب ضرورت ہے اس کاوش فکر کے نظریے کی

کہ جس سے میں صدیوں کی غفلت کی زنجیر توڑوں

اندھیرے سے نکلوں، جہالت کو چھوڑوں !

 

میں اردو کا شاعر۔ ۔ ۔ خیالوں کا، خوابوں کا دریوزہ گر اب

اجازت کا طالب ہوں

ملائے رومیؔ سے، درویش شیراز سے

اے بزرگو

مجھے اب مرے حال پر چھوڑ دو!

میں نئے دور کی اس صدی میں ٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍ تمہارے

’سبو‘، ’ جام‘، ’ساغر‘، ’لب لعل‘، ’عیش و طرب‘، ’شمع عارض‘

گل و بلبل و گلشن و آشیانہ و برق تپاں

رہبر و راہزن، دشت پیمائی، مجنون و  لیلیٰ و محمل

سفینہ و ساحل و گرداب۔ ۔ ۔ ۔ دیوار و در۔ ۔ ۔

منصف و قاضی ٔ شہر، زندان و دار و رسن

۔ ۔ ۔ غزل گفتنی کے سبھی استعاروں

اشاروں، کنایوں کی اس بزم سے رخصتی چاہتا ہوں۔

1980ء

۰۰۰ (ہر دو اصطلاحات ن م راشدؔ سے مستعار)

 

٭    غزل میں نئے مضامین کی معدومیت کا رونا رونا کیا انسانی دماغ کی ’’ عبقری فعالیت ‘‘پر چیلنج اور تحدی نہیں۔ ؟

آنند:   غزل گو شاعر کے ہاں، افسوس، صد افسوس، اس دماغ کو بیدار کرنے کا وقت ہی نہیں ہے جس میں ایک قدر معتبر کے طور پر ’عبقری فعلیت‘ یعنی ذہین، فطین، ہونے کی سطح پر فعال ہونا موجود ہو۔ وہ تو ذہن کے گودام کے شیلفوں پر رکھے ہوئے ان spare parts کو اٹھا اٹھا کر جب اپنی غزل میں فِٹ کرتا ہے تو اسے یہی محسوس ہوتا ہے کہ یہ ’ آمد‘ ہے، کیونکہ ذہن نے براہ راست ایک استعارے، یا ایک تشبیہ پر استوار سلک بیان میں، من و عن، جچے تُلے الفاظ میں ایک خوبصورت جملہ اسے فراہم کر دیا ہے۔ ؎ ہر کہ خیانت کند، البتہ بترسد ۔ ۔ بیچارہ شاعر نہ کرے ہے نہ ڈرے ہے : بیچارہ شاعر کو تو یہ بھی علم نہیں کہ اس سے پہلے اس نے اساتذہ کے کلام میں یا اپنے ہمعصروں کے کام میں کتنی بار اس کو دیکھا ہو گا اور عادت ثانیہ کے طور پر اسے اٹھا کر اپنی یادداشت کے گودام کے ذخیرے میں ایک شیلف پر سجا دیا ہو گا۔

 

٭    نظم گو شاعر اور غزل گو شاعر کے فکری جذباتی تنوع اور معاشرتی برتاؤ پر بات ہو سکتی ہے ؟ یا اسے فطری ساختیات اور اسلوبیاتی دِساتیر میں ہی دیکھنا ہو گا۔ ۔ ۔ ؟

آنند:   جی ہاں، بالکل ہو سکتی ہے۔ پہلے اگر ’’فکری، جذباتی تنوع‘‘ کو ہی لیں، تو سوال در سوال اور جواب در جواب کی ضرورت نہیں پڑے گی اور بر سبیل تذکرہ ’’معاشرتی برتاؤ‘‘ کا ذکر بھی آ جائے گا۔

’’فکری، جذباتی، تنوع‘‘۔ ۔ ۔ آپ نے، محترم، ’فکری ‘ اور ’جذباتی‘ کے مابین commaیعنی سکتہ روا نہیں رکھا، اس لئے میں اب ’’فکری اور جذباتی تنوع‘‘ کے سیاق و سباق میں دیکھ کر جواب لکھ رہا ہوں۔ ساسیئر سے مجھے کچھ قرض لینا پڑے گا۔ وہ کہتا ہے کہ قاری یا سامع کو’ تنوع‘ اس وقت مسحور کرتا ہے جب لسانی عمل میں کوئی تخلیق اپنے عناصر میں congruity اور incongruity یعنی ارتباط و تضاد کے ذو جہتی تفاعل کے ہونے کے باوجود معنویت کو قائم رکھ سکنے کی اہل ہو۔ اسی وسیلے سے ابلاغ اور تنوع باہم بغلگیر ہو جاتے ہیں۔ فکر اور جذبہ( اس ترتیب سے ) یا جذبہ اور فکر (اس ترتیب سے ) بہم دگر اگر منسلک ہوتے چلے جائیں تو معنی خیزی اپنے عروج پر رہتی ہے۔ نظم گو شاعر سہولیت کے ساتھ یہ قول اپنے فعل میں نبھاتا چلا جاتا ہے کیونکہ اسے پیچھے مڑ کر دیکھنے اور اپنی یادداشت کے شیلفوں سے فاضل پرزے اٹھا کر جڑنے کی ضرورت پیش نہیں آتی جبکہ غزل گو شاعر (میں نوّے فیصد نہیں کہوں گا!)آخری ممکنہ حد فاصل تک اصطلاحات، جملے، استعارے، ’مفت موسوم مصطلحات‘ جوں کے توں اٹھا کر جڑتا چلا جاتا ہے کہ فکر اور جذبہ نام کی دو بے تصنع اور بے آمیز ذہنی کیفیات پس پشت پڑتی چلی جاتی ہیں۔

اب فطری ساختیات اور اسلوبیاتی دساتیر کی طرف متوجہ ہوں۔ مجھے پھر ساسیئر اور بلوم فیلڈ Leonard Bloomfield کی طرف لوٹنا پڑے گا۔ فطری ساختیات پر زیادہ لکھنے کی ضرورت نہیں ہے کہ ہم سب نہ صرف ساسیئر کے کام سے واقف ہیں، بلکہ پس ساختیات کے حوالے سے دریداؔ کے افکار کے بارے میں بھی کماحقہ آگاہی رکھتے ہیں۔ البتہ اسلوبیاتی دساتیر (یعنی اسلوب کے بارے میں وضع کیے گئے دستور، نقول، نمونے، آئین وغیرہ) کے بارے میں بات کو آگے بڑھائیں۔ غزل کا چلن ہی کوزے میں دریا کو بند کرنے یعنی مختصر ترین عبارت آرائی میں زیادہ سے زیادہ مفہوم کو فِٹ کرنا ہے۔ اس مسئلے کو اردو شعرا نے (بہ نسبت فارسی شعرا کے، کہ فارسی شعرا کے پاس فارسی کے علاوہ کوئی بیرونی ماڈل موجود ہی نہیں تھا، جبکہ اردو کے پاس فارسی کے دساتیر موجود تھے ) حل کرنے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا۔ میرؔ تو خدائے سخن تھا، اس نے سہل پسندی میں ہی روزمرہ کی زبان کا اختلاط کلاسیکی اسلوب سے کیا اور خوب کیا۔ شاید اس لیے بھی کہ ولی دکنی اور امیر خسرو کی مثالیں اس کے سامنے موجود تھیں۔ غالبؔ نے اپنی مدوریت اور ملفوفیت سے حتیٰ الوسع، حتیٰ الشعور (اور حتیٰ الامکان ) تک فائدہ اٹھایا۔ ترقی پسند تحریک کے آنے کے بعد بھی (اور اس کے اختتام تک) یہ اصول و ضوابط جاری رہے۔ ( یہاں میں نہ صرف صنف غزل کی بات کر رہا ہوں بلکہ اختر شیرانی کے رومانی دور کے بعد اور اقبال کے pro-Islamic دور کے بعد بھی ترقی پسند تحریک کے وقتوں میں صنف نظم نے بھی اسلوب کی سطح پر کوئی انقلابی رد و قدح یا رد و بدل نہیں کیا، اس کی طرف بھی اشارہ کر رہا ہوں۔ )

جدیدیت کی نام نہاد so-called تحریک کے سالوں میں (یہ تحریک جو انڈیا میں زیادہ اور پاکستان میں کم، ایک برساتی نالے کی باڑھ کی طرح آئی اور خس و خاشاک چھوڑ کر اتر گئی) میں البتہ نہ صرف زبان کی شکست و ریخت ہوئی بلکہ de-construction کے آزمودۂ کار اصولوں کو بالائے طاق رکھ کر زبان سے ایسی کھلواڑ کی گئی کہ خدا پناہ ! اس میں ملوث کچھ شعرا نے تو ایسے شعر موزوں کر کے نہ صرف اس تحریک کو ہی نقصان پہنچایا بلکہ اپنی کھلّی بھی اڑائی۔ ؎ سورج کو چونچ میں لیے مرغا کھڑا رہا ۔ ۔ ۔ اور ؎ بکری میں میں کرتی ہے : بکرا منمناتا ہے یا شاید اس کے الٹ، بکرا منمناتا ہے، بکری میں میں کرتی ہے۔ یہاں میں، نظم اور غزل، دونوں کے حوالے سے اپنے لکھے ہوئے ایک مضمون سے ایک اقتباس پیش کرنے کی اجازت چاہتا ہوں۔ یہ مضمون بجنسہ میری کتاب ’’کتھا چار جنموں کی‘‘ میں موجود ہے۔ ایک مقالہ جو میں نے لکھا وہ تخلیقی قوت کی اس کارکردگی کے بارے میں تھا، جو فنکار کے ذہن میں پہلے ایک موہوم سی اور بعد میں ایک بہت شدید ’’ٹینشن‘‘ کی شکل میں وارد ہوتی ہے، اور فن پارہ مکمل ہونے کے بعد کتھارسس سے تحلییل ہو کر ایک قسم کی آسودگی کا احساس چھوڑ جاتی ہے۔ یہ مقالہ اس سوال کے جواب کے فٹ نوٹ کے طور پر پیش کر رہا ہوں۔

انگریزی لفظ tension یونانی لفظtensio اور اس کی اسمِ جامد شکل tensus سے آیا ہے۔ ارسطو’ نے اپنی بوطیقا میں اس ہیجان کی سی کیفیت کے لیے جس کا علاج اس نے کتھارسس catharsis فرض کیا، یہی دو الفاظ استعمال کیے ہیں۔ میں نے اس لفظ کے ممکنہ اردو نعم البدل الفاظ، ہیجان، کھچاؤ، تناؤ (ذہنی اور جسمانی) پر ارسطو کی اصطلاح کے حوالے سے غور کیا تو مجھے یہ تینوں نا کافی محسوس ہوئے۔ بہر حال 1964ء میں تحریر کردہ ایک ریسرچ پیپر جو P.E.N. کی کانفرنس کے لیے مجھے لکھنا تھا، میں نے یہ سوچ کر کہ ’’کتھارسس‘‘ پر تو ہزاروں صفحے لکھے جا چکے ہیں، لیکن ’’ٹینشن‘‘ پر جو ایک آرٹسٹ تخلیق کے عمل سے پہلے محسوس کرتا ہے، بہت کم کام ہوا ہے، اس موضوع کا انتخاب کیا اور چونکہ میں انگریزی کے علاوہ سنسکرت میں بھی شد بد رکھتا تھا، سنسکرت کاویہ شاستر کو کھنگالنے سے مجھے جو موتی ملے، انہیں میں نے بقدر ظرف اس مقالے میں استعمال کیا۔

یہ درست ہے کہ جذباتی اور نفسیاتی کھینچا تانی سے ہمارے دل و دماغ میں جو ہلچل پیدا ہوتی ہے اگر اسے بڑھنے دیا جائے اور اس کا سدِباب نہ کیا جائے تو اس کا اخراج فساد، مار پیٹ، قتل اور خود کشی میں نمایاں ہو سکتا ہے۔ اس لیے اگر حیاتیاتی اور نفسیاتی علوم کی مدد سے اس کو خارج کیا جا سکے تو ’مریض‘ اپنی نارمل حالت میں واپس آ سکتا ہے۔ یونانی اطباء کو بھی اس کا علم تھا، اس لیے جب ارسطو نے یہ کہا کہ ایک ٹریجڈی اسٹیج پر کھیلے گئے واقعات کی بنا پر تماشائیوں کے ایسے جذبات کو رحم اور خوف سے خارج کرنے میں معاون ثابت ہوتا ہے، اس لیے افلاطون کی ’’ ری پبلک‘‘ میں جہاں دیگر پیشہ وروں کو مناسب جگہ اور رتبہ دیا گیا ہے، وہاں ڈرامہ نویسوں کو بھی دیاجانا ضروری ہے۔ یہاں تک تو طلبہ کو سمجھانا آسان تھا، لیکن میں نے اس مقالے میں مثالوں سے یہ واضح کیا کہ جب تک ہم عصری حوالوں سے، جن میں نسل، قومیت، مذہب اور رنگ کی بنیاد پر فسادات کا ایک لا اختتام سلسلہ جاری ہے، ان حالات کو ارسطو کے نظریے میں کچھ توسیع کر کے نہ بتائیں، ہم طلبہ کو نہیں سمجھا پائیں گے، کہ ارسطو کا نظریہ کس حد تک نا مکمل ہے۔ اسی طرح نصاب کی متنی تدریس سے تجاوز کر کے میں اپنے طلبہ سے جو باتیں کرتا تھا، ( اور میں نے جس کے بارے میں اپنے مقالے میں تفصیل سے لکھا )، ان میں یہ باریک نکتہ بھی شامل تھا کہ حقیقت نگاری اور سماجی حقیقت نگاری Realism & Social Realismمیں کیا فرق ہے۔ اوّل الذکر صدیوں سے قابل قبول اس چلن سے انحراف تھا جسے ہم رومانی اور تخیلی کہہ سکتے ہیں۔ لیکن روسی انقلاب سے کچھ قبل اور پھر اس کے بعد شد و مد سے موخر الذکر کا دور شروع ہوا جس میں مقصدیت اور مروجہ جمالیاتی اسلوب سے بغاوت تھی، یہاں تک کہ سیاسی اور سماجی تشکیل نو کے لیے بھی ادب کو آلۂ کار بنا لیا گیا۔ ترقی پسند مصنفین کی تگ و دو بھی دونوں ممالک، یعنی ہندوستان اور پاکستان میں اسی کے زیر اثر شروع ہوئی۔ ان برسوں میں عقیدہ، جاگیردارانہ تکلف، روحانی اقدار کی پابندی، بورژوا اخلاقیات کی بھرپور مخالفت کی گئی۔ پھر وہ دور آیا، جب روس کی دیکھا دیکھی ہماری زبانوں میں بھی ادیبوں اور قارئین، دونوں نے یہ محسوس کیا کہ وہ بھٹک گئے ہیں۔ یورپ میں تو جنگ عظیم کے ختم ہوتے ہوتے جدیدیت کی تحاریک شروع ہو چکی تھیں، لیکن ہمارے ہاں قدرے دیر سے پہنچیں۔ ہم لوگ بہت پیچھے تھے، یعنی جب بیسویں صدی کی تیسری دہائی میں ژاں پال سارترؔ کے وجودیت کے فلسفے کی بحث زوروں پر تھی ہم ابھی انجمن ترقی پسند مصنفین کی داغ بیل ڈال رہے تھے۔ جیمز جوائس کا ناول ’’یولیسیِس‘‘ انگلینڈ میں 1922ء میں چھپا جب کہ اردو والوں نے اس کے بارے میں بات چیت کرنا تیس چالیس برس بعد شروع کیا۔ سارترؔ کے فلسفۂ وجودیت کے حوالے سے یہ بات لکھنا ضروری ہے کہ کہیں کہیں اس میں ادبی روایات سے بغاوت کا چلن مختلف نہیں تھا، تہذیبی بیڑیوں کو کاٹنے کی باتا س میں بھی کہی جاتی تھی، بورژوا اخلاقیات اور مادیت سے بچ کر چلنے کی ہدایت اس میں بھی دی جاتی تھی۔ جنسی موضوعات سے پردہ پوشی کی روایت سے انحراف اس میں بھی تھا، لیکن ہوا یہ کہ مایوسی، تکان، مستقبل کے بارے میں بد اعتمادی، جہد لا حاصل جب ادبی موضوعات میں رواج پا گئے تو انسان کی افضل تریں حیثیت کے بارے میں ’’ڈی ٹراپ‘‘ de-trop یعنی بیکار، فضول کا نظریہ پنپنے لگا۔ اسلوب کی سطح پر علامت کے ابہام، استعارے کی ملفوفیت اور مدوریت کے اجزا در آئے اور شعری تخلیقات تو ایک معّمہ بن کر رہ گئیں۔

جہاں یورپ میں اشتراکی حقیقت پسندی کو بالائے طاق رکھ کر جدیدیت کو اپنا لیا گیا تھا وہاں ہمارے ہاں یہ دونوں تحاریک کچھ برسوں تک ساتھ ساتھ چلتی رہیں، لیکن آخر روایت سے کلیتاً بغاوت نہ کئے بغیر بھی جدیدیت کے اجزائے ترکیبی ہمارے ادب میں رواج پا گئے۔ ’’حقیقت نگاری کے غیر جمالیاتی اور صحافتی اسلوب کی جگہ پر ما فوق الفطرت اور فطرت کی علامتوں سے مادی اور زمینی حقیقت کی ترجمانی رواج پا گئی۔ اردو ادب کے جزیروں میں ہی سہی، لیکن پاکستان میں کم اور ہندوستان میں زیادہ یہ امور دیکھنے میں آئے کہ defamiliarization یعنی غیر مانوسیت اور anachronism یعنی سہو زمانی کے طریق کار سے جمالیات اور معنویت کہ تہہ داری پیدا کی گئی۔ مجھے یہ کہنے میں تامل نہیں ہے، اور میں اسے hindsight سے دیکھ سکتا ہوں، (کیونکہ ان میں بیشتر قلمکار ذاتی سطح پر میرے واقف تھے !) کہ یہ لوگ غیر منطقی اور ابسرڈ absurd تحریریں ارادتاً لکھ رہے تھے۔ یورپ میں بھی سَرریئلسٹوں Surrealists کے بارے میں یہ بات اب غلط نہیں سمجھی جاتی کہ وہ گراف بنا کر، اس کیچ یا نقشہ بنا کر، اپنی تحریر کو خلط ملط کرنے اور متن کی ’’آنکھ ناک کان کو اس کے جسم کی کسی بھی جگہ پر ٹرانسپلانٹ کرنے ‘‘ کی کوشش جان بوجھ کر کیا کرتے تھے۔ ان کی تحریروں میں جنس و جبلت بطور موضوع یا مضمون نہ بھی ہوں تو بھی ان کا ذکر برملا ہوتا تھا۔ لیکن گفتگو میں یورپ کے معروف دانشوروں کا نام لینے تک ہی ان کیے مطالعہ کی سد سکندری تھی۔ اگر ان سے پوچھے جائے کہ ییک لاکاں، جس کا نام وہ لے رہے ہیں، کون سے ملک سے یا کس زبان سے یا کس دور سے تعلق رکھتا تھا، تو انہیں کچھ پتہ نہ تھا۔ اگر یہ کلید بھی دے دی جائے کہ اس نے نشاۃ ثانیہ Renaissance کی تحریک کو جدید دور اور قرون وسطی کی کڑی بتایا ہے تو بھی انہیں کوئی سراغ نہیں مل سکتا تھا۔ ایک بار میں نے کوئی پچیس برس پہلے دہلی کے اردو دانشوروں کے ایسے ہی ایک گروپ میں سوئٹزرلینڈ کے مورخ جیکب برک ہارٹ Jacob Berchart کا ذکر کیا اور کہا کہ موجودہ جدیدیت سے بہت پہلے اس نے نشاۃ ثانیہ کی اصطلاح کے ساتھ ساتھ ان عوامل کی نشاندہی کر دی تھی جنہیں آج ہم جدیدیت کے بنیادی عناصر کے طور پر تسلیم کرتے ہیں۔ اور یہ تھے، فردیت کے نظریہ کا فن پر اطلاق، دنیا اور فرد کی باہمی کشمکش کی نئے سرے سے دریافت، فرد اور حکومت کے تعلق باہمی کا ادب سے اخراج۔ ۔ مجھے یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ سب خاموش بیٹھے تھے۔ ان میں وہ بھی تھے جو بزعم خود اپنے آپ کو اردو میں جدیدیت کے قائد کے بعداس کا سب سے بڑا ideologue سمجھتے تھے۔ ۔

 

٭     شاعر کے اندر کا ’’ مظلوم‘‘ اور ’’ صاحب بہادر‘‘ کن نفسیاتی رویوں کے تابع سر افگندہ ہے یا مونچھ کو تاؤ دے رہا ہے۔ ۔ ۔ ؟

آنند:   یعنی یہ سوال اگر تو اس شاعر per seکے بارے میں ہے جو دنیا کا باشندہ ہے اور کسی بھی زبان میں لکھتا ہے تو اس کا جواب بالکل الگ طرح کا ہو گا لیکن اگر اردو شاعر کے بارے میں ہے جو آج تک غزل اور نظم کے صدیوں پہلے اختیار کردہ را ہوں کے نقوش قدم پر چلنا ضروری سمجھتا ہے، تو اس کا جواب میں لکھ رہا ہوں۔

پہلے ایک اقتباس دیکھیں جو بعینہ آپ کے اس سوال کا جواب نظر آتا ہے۔ یہ اس مضمون میں سے لیا گیا ہے جسے میں نے اپنی ایک ’’ورکشاپ آن پویٹک پراسس‘‘ workshop on poetic process میں شرکاء میں تقسیم کیا تھا۔

A genuine poet is plagued by the rivalry of two personnas that he carries within his creative self : the "have” and the "havenot”, the belly-full and the starving, the sexually satisfied and the impotent, the all-powerful freak and the weak slave, the ruler and the rebel – in short , our poet is a strange conundrum, a hold-all of much that is self-satisfying and self-negating. How does he bring forth a truce between these warring factions? The honest answer would be : "He doesn’t!” Well, he doesn’t because he cannot! He lets the dominating self at a particular moment of creative urge (that’s almost like a mother-to-be whose water is broken and is about to deliver!) to take hold and "deliver "۔ . i.e. write his poem. Once he has done that, he lets himself breathe normally and allows both to live within himself in creative harmony of two opposite selves.

(یہ ورکشاپ کئی برس پہلے Delaware میں وہاں کے تاریخی ہال میں دی گئی تھی۔ آخری سیشن میں شہر کے میئر نے راقم الحروف کو سراہا اور شہر کی چابی ، یعنی The Key of the Town پیش کی، جسے امریکا اور یورپ میں ایک بہت بڑا اعزاز سمجھا جاتا ہے۔ اس ورکشاپ کی ایک خصوصیت یہ تھی کہ اس کے شرکاء میں کئی بہت اہم شخصیات شامل تھیں، انگریزی کے اساتذہ اور شعرا کے علاوہ کچھ اردو کے اہل قلم بھی تھے، جن میں ڈاکٹر اے عبداللہ، سر فہرست تھے، ڈاکٹر عبداللہ علیگڑھ مسلم یونیورسٹی المنائی ایسوی ایشن، امریکا کے سابق صدر ہیں )

اب آپ کے ’’ مظلوم‘‘ اور ’’ صاحب بہادر‘‘ کی definitional pin-pointing تو اس اقتباس میں ہی ہو گئی۔ اب آپ کے سوال کی طرف آئیں۔ آپ کا سوال صرف شاعر کے تخلیقی تشخص کی اس سرکردہ جہت کے بارے میں ہے، جو بعض اوقات جادو کی طرح سر چڑھ کر بولتی ہے اور یہ ۔ ’’ کن نفسیاتی رویوں کے تابع سر افگندہ ہے یا مونچھ کو تاؤ دے رہا ہے۔ ۔ ۔ ؟ ‘‘۔ تو حضور، میں عرض کروں کہ غزل کے مقطع فخریہ کی طرح شاعر کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ یہ رویہ اختیار کرے، حالانکہ (Self praise is no recommendation) تو بھی اسے موقع دیں کہ وہ اعلان کرے : ’’کہتے ہیں کہ غالب کا ہے انداز بیاں اور۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘ یہ نفساتی سطح پر انا کی خوراک Ego-feeding کا سامان مہیا کرنے کا اعلامیہ ہے۔ ۔ ۔ ۔ حتیٰ کہ صوفی شعرا بھی اس سے مبرّا نہیں ہیں۔ جب ایک صوفی شاعر یہ کہتا ہے

’’بُلھیا، اسیں نئیں مرنا، گور پیئا کوئی ہور‘‘

۔ تو وہ شاعر کے طور پر اپنے لافانی ہونے کا اعلان کر رہا ہے۔

 

٭     کیا شاعری ان عطایا میں سے ہے جس کو کاروباری فضیلت بنانا اس فن کی توہین ہے۔ ۔ ۔ ؟

آنند:   جی ہاں، یقیناً ہے، لیکن مارکیٹ اکانومی میں آپ اس سے کیسے بچ سکتے ہیں کہ آپ اسے کاروباری نہ بھی بنانا چاہیں تو بھی ’کاروبار‘ آپ کے پیچھے بھاگتا ہے۔ انڈیا میں جیسے کرکٹ کا کھیل کاروباری لوگوں کے ہاتھوں میں ایک کاروبار بن گیا ہے۔ مشاعروں کا انعقاد، کتابوں کی رونمائی یا خود نمائی کے لیے یا انعامات، ایوارڈوں کے لیے جلسوں کا انعقاد اور پھر ان کی خبریں اور تصاویر الیکٹرانک میڈیا پر پھیلانا۔ ۔ ۔ ۔ اب ایک روزمرہ کی چیز ہے، جس کا ’’ٹھیکہ‘‘ کچھ ایک فرد یا ان کی ماتحت انجمنیں لیتی ہیں اور اس کی قیمت وصول کرتی ہیں۔ کیا یہ ’فن‘ کی توہین ہے ؟ قبلہ ضیا صاحب، آپ اور ہم کون ہوتے ہیں یہ فتویٰ صادر فرمانے والے ؟ اُن سے پوچھیے، جو اِن جلسوں کی تصاویر اپنے گھروں میں سالہا سال تک سنبھال کر اپنے فوٹو البموں میں رکھتے ہیں یا دیواروں پر آویزاں کرتے ہیں۔

 

٭     کیا شاعری کو ’’ منزل من اللہ ‘‘مان لیا جائے ؟ یا یہ توقیفی نصاب ہے یا فنی ورزش کا نتیجہ ؟

آنند:   ’منزل مِن اللہ‘، ’توقیفی نصاب ‘ اور ’فنی ورزش‘ ان تین کلیدی اصطلاحات کے معانی سمجھنے کی کوشش کرنا میرا فرض ہے۔ (۱) منزل مِن اللہ تو شاعر کے الفاظ میں (شاید اreative harmony of two oppositvآتش)ؔ ؎ ہماری منزل اوّل جو تھی سو تھی، بتائیں کیا : مگر اب منزل مِن اللہ تک پہنچنے کو ترستے ہیں۔ ۔ ان معانی میں اگر نہ بھی لیا جائے تو ‘‘شاعری جزویست از پیغمبری‘‘ کے مطالب میں ڈھال لیں۔ پہلے میری یہ نظم دیکھ لیں، جو جزوی طور پر اس موضوع کے استفہامیہ کا جواب ہے۔

 

بو علی اندر غبارِ ناقہ گُم

 

میں اگر شاعر تھا، مولا، تو مری عہدہ برائی کیا تھی آخر؟

شاعری میں متکفل تھا، تو یہ کیسی نا مناسب احتمالی؟

کیا کروں میں ؟

بند کر دوں اپنا بابِ لفظ و معنی؟

اور کہف کے غار میں جھانکوں، جہاں بیٹھے ہوئے

اصحاب معبود حقیقی کی عبادت میں مگن ہیں

اور سگ تازی سا چوکیدار، ان کے پاس بیٹھوں

وحدت و توحید کا پیغام سُن کر ورد کی صورت اسے دہراتا جاؤں ؟

پوچھتا ہوں

کیا مری مشق سخن، توحید کی ازلی شناسا

ؓ         قرض کے بھُگتان کی داعی نہیں ہے ؟

میں تو راس المال سارا پیشگی ہی دے چُکا ہوں

قرض کی واپس ادائی میں

مرے الفاظ کا سارا ذخیرہ لُٹ چکا ہے

شعر کو حرف و ندا میں ڈھالنا

تسبیح و تہلیل و عبادت سے کہاں کمتر ہے مولا؟

’’شاعری جزویست از پیغمبری‘‘۔ ۔ ۔ ۔ کس نے کہا تھا؟

میں تو اتنا جانتا ہوں

میری تمجید و پرستش لفظ کی قرأت میں ڈھلتی ہے

تو پھر تخلیق کا واضح عمل تسبیح یا مالا کے منکوں کی طرح ہے

 

پھر خیال آتا ہے شاید میں غلط آموز ہوں

جو شعر گوئی کو عبادت جان کر اِترا رہا ہوں

’’بو علی‘‘ ہوں، جو ’’غبار ناقہ‘‘ میں گُم ہو گیا ہے !

 

بو علی اندر غبار ناقہ گم : دست رومی پردۂ محمل گرفت۔

 

مجھے یہ اختیار نہیں ہے کہ میں نفی یا اثبات میں اس سوال کا جواب دوں۔ بہر حال اتنا ضرور کہہ سکتا ہوں کہ سچی شاعری میں ’وحی‘ کا، ’فال کا‘، epiphany کا، آکاش بانی کا کچھ عنصر ضرور ہوتا ہے۔ یہ پیش آگاہ بھی ہو سکتی ہے، پیش بین بھی ہو سکتی ہے، نہفتہ دان ہونے کی منزل تک پہنچنے میں اس بسا اوقات کامیابی نصیب ہوتی ہے، لیکن ہر بار نہیں۔ اس لیے کہ یہ بہم گفتگو کی زبان نہیں ہے، اور دنیاوی کام کاج کی parlance بھی نہیں ہے۔ جوف و جوع کی اس گہرائی سے اٹھتی ہے جس تک اپنے بیدار لمحوں میں ہماری رسائی نہیں ہو سکتی (۲) دوسرا سوال اسی پر انحصار رکھتا ہے، کہ اگر ہم اسے منزل مِن اللہ تسلیم کر لیں تو ۔ ۔ ۔ ؟ جی نہیں، اگر ہم اسے مد نمبر ایک کے خانے میں ڈال دیتے ہیں، (جزوی طور پر ہی سہی) تو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ؟

توقیفی نصاب (توقیفی ؟یہ اصطلاح شرحی بھی ہے اور عمومی بھی ہے۔ شرحی اصطلاح کے طور پراس کا مطلب ہم سب ’اللہ میاں کی ٹھہرائی ہوئی ‘ بات، رسم، قول، اصول، ضابطہ وغیرہ ہے۔ عمومی سطح پر توقیفی کا مطلب وقت ؍ اوقات سے متعلق ہے۔ )۔ ۔ ۔ جی نہیں، میں اس قول پر یقین نہیں رکھتا، کہ اللہ میاں کی ٹھہرائی ہوئی بات تو گیتا، تورات، انجیل۔ ۔ اور پھر حرف آخر کے طور پر قرآن ہے۔ شاعری تو pedestrian levelکا قول ہے۔ عمومی سطح پر جو مطلب اخذ کیا جاتا ہے، اس پیمانے سے بھی یہ ماپی نہیں جا سکتی۔ البتہ یہاں تک قول و قیاس دونوں کی سطح پر میں تسلیم کرتا ہوں، جیسے کہ ملٹنؔ نے انسان کے بارے میں کہا ہے، part angelic, part animal وہی قول شاعری پر بھی چسپاں کیا جا سکتا ہے۔ ۔ ۔ فنی ورزش؟ ما شا اللہ! کیا ترکیب ہے۔ تُک بندی کے ذیل میں آتی ہے، لیکن اب کیا کیا جائے کہ ہمارے ہاں، غزل کی ولایت میں ’کہنہ مشق‘ وغیرہ الفاظ زباں زد عام ہیں۔ مشق اور ورزش ایک ہی معانی میں استعمال کیے جاتے ہیں، ایک شاعر کی ذہنی ہے، دوسری اکھاڑے کے پہلوان کی جسمانی ہے۔ اللہ اللہ خیر صلیٰ!

 

٭    اسلوب قلم کی کیفیت ہے یا رویہ ؟ یہ کن عناصر سے متشخص ہوتا ہے یا ہو سکتا ہے ؟

آنند:   یہ سوال ایک ایسے جواب کا متقاضی ہے، جو شاید اس انٹرویو کے ایک سو سے بھی زیادہ صفحات پر قابض ہو جائے۔ البتہ سوال کے پہلے حصے کا جواب آسان ہے۔ اسلوب قلم کی کیفیت بھی ہے اور رویہ بھی۔ (ا) قلم کی کیفیت inborn faculty ہے یعنی قدرتی ہے اور ہر شاعر اسے اپنے ذاتی پس منظر کے حوالے سے عادت ثانیہ conditioned reflex کے طور پر ہی اپنا لیتا ہے، پھر اپنی تعلیم، بصیرت، تجربہ، مطالعہ، مشاہدہ وغیرہم سے اس میں اضافہ کرتا رہتا ہے، لیکن اپنی بنیاد میں یہ مکان وہی رہتا ہے جس کا تعلق اس شاعر کی ذات سے ہے۔ ۔ ۔ (۲) ۔ قلم کا رویہ سیاسی یا معاشی رجحان، جماعتی یا مذہبی ترجیحات، تحصیلات، اور ان کے بارے میں بہرہ مندی، ہمہ دانی اور ہمہ گیری کی کیفیات سے بنتا اور بگڑتا رہتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک شاعر شروع جوانی میں یا اپنے لڑکپن کی پہلی کچی بلوغت میں رومانی نکتہ ٔ نظر رکھتا ہو، لیکن وقت گذرنے کے ساتھ وہ ترقی پسند تحریک کی طرف اور پھر جدیدیت کی طرف اور شاید آخرش ما بعد جدیدیت کی طرف مائل و متوجہ ہو جائے اور (ایمانداری سے ) ہر بار یہی سمجھے کہ وہ صحیح راستے پر گامزن ہے۔

سوال کے دوسرے حصے کا جواب کسی حد تک مندرجہ بالا پیرا گراف میں ہی آ گیا ہے۔ کن عناصر سے متشخص ہوتا ہے ؟ جواب یہی ہے کہ علمیت، بودھ، سائنس، فلسفہ، ارتسام، ورایت، عملی علوم، طبیعی علم، علم لدنی، سائنسی پیشرفت، علم الٰہی، فلسفۂ علت و معلول، ۔ ۔ ۔ ۔ سمجھ نہیں پا رہا کہ اس فہرست میں کیا کیا درج کروں، مختصراً یہ کہ رویہ میں لگاتار تبدیلی ابجد خوانی کی سطح پر نہیں ہو سکتی، ’’چارپائے برو کتابے چند‘‘ کی دسترس سے یہ فیکلٹی باہر ہے۔ اس کے لیے اگر معلم ملکوت ہونا لازمی نہ بھی ہو تو آزادانہ سوچ ایک ضروری شرط ہے۔

 

٭    شعر نفس کی پسپائی کی جنگ ہے اسے نفسیاتی جارحیت میں بدلنے سے کوئی بڑی تبدیلی متوقع ہے ؟

آنند:   اللہ خیر! نفس امّارہ کو ما را بھی، تو کیا مارا ؟ میں تو یہ تسلیم نہیں کرتا کہ شعر نفس کی پسپائی کی جنگ ہے اور اگر یہ جنگ نہیں ہے تو اسے نفسیاتی جارحیت میں بدلنے کا سوال ہی نہیں اٹھتا۔ میں نے تو اس موضوع پر آدھ درجن کے قریب نظمیں بھی لکھی ہیں۔ ایک نظم پیش کر رہا ہوں۔ اس کو علامت، استعارہ اور زیریں معانی کی سطحوں پر پڑھنا پڑے گا کہ میں نے نفس کے عند الطلب تقاضوں کو شیاطین کی صورت میں اپنے ہی ذہن کے اندر کمپیوٹر سے احکام نشر کرتے ہوئے personify کیا ہے۔ اس نظم نے میرے مسئلے کو تو حل نہیں کیا ہے، شاید آپ کے یا قارئین کے مسائل کو حل کر دے۔

Imp : hobgoblin, elf, gnome, pixie, naughty urchin, bratوغیرہ چند الفاظ انگریزی میں ہیں۔ مجھے ’شیطانچے ‘ یعنی شیطان کے بچے ہی ایک لفظ سوجھا، جو میں نے یہاں اُڑس دیا۔

جو’ شیطانچے ‘بند صندوق میں ہیں

(یہ نظم پہلے انگریزی میں Imps imprisoned in my head کے زیر عنوان لکھی گئی)

یہ شیطاں کے بچے

یہ شیطانچے، ایک صندوق میں بند بیٹھے ہوئے ہیں

یہ صندوق ایسا طلسمات کا میوزیم ہے

جو اک شخص کندھوں پہ اپنے

اٹھائے ہوے چل رہا ہے

طلسمات کے اس پٹارے کے اندر

’سوچ بورڈ‘ پر بیٹھے شیطانچے یہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ board switch

کسی بھی ’سوچ‘ کو اتاریں، لگائیں

کوئی سا بٹن بھی اٹھائیں، دبائیں

وہی جانتے ہیں کہ ان کا تسّلط ہے

اس میوزیم پر!

 

پٹارے کے اندر سے

صادر ہوئے اور نیچے

لگاتار بے تار برقی سے پہنچے ہوئے

سارے حکموں کی تعمیل اس شخص پر لازمی ہے

جو کندھوں پہ اس کو اٹھائے ہوئے چل رہا ہے

شیاطیں کے احکام میں شر کی تلقین۔ ۔ ۔

اوّل ہدایت ہے

پہلا فریضہ!

 

یہ شیطانچے کب گھسے تھے پٹارے کے اندر

۔ ۔ ۔ خدا جانتا ہے !

(اگر جانتا ہے۔ ۔ ۔ ۔

تو کیا اس کی اپنی رضا اس میں شامل نہیں تھی؟) مگر نسل درن لاچار، درماندہ یہ شخص کوئی واگزاری؟کوئی خوں بہا، جو انہیں پیش کر کے وہ پیچھا چھڑائے ؟فقط ایک رستہ اسے سوجھتا ہے کہ خود اپنی گردن بریدہ کرے، اس طلسمی پٹارے کو نالی میں پھینکے

پھر اپنے کٹے دھڑ پہ خود اختیاری کی دستار رکھ دے !!

 

٭     شاعری میں محبت کا لین دین اصولی نہیں ہوتا ؟ اور یہی اس کی خصوصیت ہے، کیا نظم گوئی کی راہ ہموار کرنے میں اس غیر منطقی طرز فکر کا بھی کوئی حصہ ہے ؟

آنند:   ’’شاعری میں محبت کا لین دین اصولی نہیں ہوتا ؟ ‘‘ یہاں لفظ ’شاعری‘ سے شاید آپ کی مراد غزلیہ شاعری ہے، کیونکہ محبت بطور موضوع ہی اس کا اوڑھنا اور بچھونا ہے، اس supposition کے فوراً بعد ہی آپ نظم گوئی کی طرف آ جاتے ہیں۔ جی، آپ کے دونوں قیاس (انہیں قیاس الفارِق سمجھ لوں تو کوئی ہرج تو نہیں ؟) درست ہیں۔ یقیناً نظم اگر بطور صنف نہیں تو نظم نویس (دیکھیے، میں نے ’نظم گو ‘ نہیں لکھا) شعرا اس روّیے کو بچگانہ سمجھ کر اس سے اجتناب برتتے ہیں۔

 

٭    شاعری کی زبان اور لسانی اجتہادات کو معاشرتی زبان بنانے کی کوشش کرنی چاہئے ؟ شاعری کی زبان اور محاورہ ایک آوارہ اور غیر مستعمل تخلیقیت نہیں۔ ۔ ۔ ۔ جس کو لغت بھی اعتماد سے قبول نہیں کرتی ۔

آنند:   شاعری کی زبان The typical parlance of poetry کا تو ٹنٹا ہی مٹتا نظر آتا ہے، کیونکہ غزل کے نئے مدرسوں کے شاعر تو وہ زبان استعمال کر رہے ہیں جسے کسی وقت اساتذہ ’عامیانہ‘ یا ’رذیل‘ سمجھتے تھے۔ نظیر اکبر آبادی کو انیسویں صدی کے آخر تک شاعر ہی تسلیم نہ کرنے کی مثال اظہر من الشمس ہے۔ انگریزی میں انیسویں صدی میں جس زبان کا استعمال ورڈزورتھ، کالریج، کیٹس اور شیلے نے کیا تھا، اسے آج کو ئی بیوقوف شاعر ہی استعمال کرے گا۔ ’لسانی اجتہادات‘ کو ’آگاہ سطح‘ پر معاشرتی بنانے کی کوشش کی کیا ضرورت ہے ؟ عوام تو زبان کے پیچھے نہیں چلتے۔ زبان عوام کے پیچھے چلتی ہے۔ اگر آپ hind sight میں اپنی زبان کی تاریخ دیکھیں تو اس اصول کو جھٹلایا نہیں جا سکے گا۔ آج اگر عوام یا کم از کم پڑھے لکھے لوگ اور نیم خواندہ لوگ ہی معاشرتی زبان اوّل و آخر استعمال کر رہے ہیں، اگر پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا یہ زبان استعمال کر رہے ہیں، تو شاعری خود بخود ہی اس سے متاثر ہو گی۔ اس کے لیے کوئی تردد کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں نے اپنی کتاب ’’کتھا چار جنموں کی‘‘ میں انگریزی اور فرانسیسی زبانوں کے حوالے دیے ہیں۔ فرانسیسی inward looking زبان ہے اور دیگر زبانوں سے بہت کم نئے الفاظ قبول کرتی ہے، اس لیے عالمی زبان نہیں بن سکی، جب کہ ہر نئے سال میں معروف انگریزی ڈکشنریوں کے نئے ایڈیشن آتے ہیں، اور ان میں گذشتہ برس کی نسبت پانچ سے دس فیصد الفاظ کا اضافہ ہو جاتا ہے، یہ الفاظ وہ ہیں جو دنیا کی دیگر زبانوں سے عوام نے (اور ان کے توسط سے میڈیا نے ) قبول عام کی سطح پر اپنی بات چیت اور تحریروں میں شامل کر لیے ہیں۔ انگریزی آج عالمی زبان ہے اور فرانسیسی جوں کی توں، جہاں تھی، وہیں کھڑی ہے۔

 

٭     وجدان ایک اصطلاح ہے جس کا تعلق تصوف سے زیادہ ہے۔ ۔ ۔ آپ تئیں (شاعرانہ) متعین معنوں میں یہ کیا ہے۔ ۔ ؟

آنند:   وجدان اور شاعری ۔ ۔ ۔ ایک سطح پر دیکھیں تو کیا شاعر اپنی تخلیقی قوت کی کارکردگی کے لمحے میں کسی ایسے para psychological تجربے سے دوچار ہوتا ہے جس سے عام آدمی کو سابقہ نہیں پڑتا۔ دوسری سطح شاعر کی تخلیق کو گا کر، یا پڑھ کر، یا کسی مجلس، سماع یا اس قماش کے دیگراجلاس میں کورس chorus یا solo آوازوں میں سن کر اسی تجربے کی کیفیت سے گذرنا ہے۔ یورپی اور ایشیا کی زبانوں کی شاعری میں کچھ مثالیں موجود ہیں۔ کالریج نے خود لکھا ہے (یاد رہے کہ کالریج افیونی تھا) کہ اس نے کچھ نظمیں اس نیم خوابی کی حالت میں لکھیں۔ ان میں Kubla Khan اور Rhyme of the Ancient Mariner کے کچھ حصص شامل ہیں۔ لیکن کیا یہ نیم بیداری کی حالت ’وجدان‘ ہے ؟ مجھے اس میں شک ہے۔ وجدان کی حالت کو نفسیاتی تحقیق کے ماہرین نے مراقبہ (خود طاری کیا ہوا یا ہپناٹزم سے طاری کیا گیا)، ’’ستھُولا شریر‘‘ (سنسکرت) بمعنی لطیف بدن، ایسٹرل جسم، سمادھی وغیرہ سے اصطلاحاً تعبیر کیا ہے۔ شاعری اور تصوف کے بارے میں پہلے بات ہو چکی ہے۔ جی نہیں، وجدان کا تعلق چاہے تصوف سے ہو یا نہ ہو، شاعری سے نہیں ہے۔

دوسری سطح پر کسی بھی مجلس، سماع میں گریہ کناں ہوتے ہوئے، سر اور سینہ پیٹتے ہوئے، ماتم میں غلطاں دیگر افراد کی ’سنگت‘ میں یہ عین ممکن ہے کہ کچھ افراد غش کھا جائیں، لیکن ’وجدان‘ یعنی ’وجد‘ کی روحانی سطح؟ شاید نہیں۔

 

٭    غالب، میر، انیس۔ ۔ ۔ پسندیدہ شاعر کون ہے ؟

آنند:   جی، تینوں میرے پسندیدہ شعرا ہیں۔ وجوہات مختلف ہو سکتی ہیں۔

 

٭    خصوصی سوالات در باب غزل : غزل کی صنف سے آپ کا تخلیقی اور اصولی اختلاف کیا ہے ؟

آنند:   رو بقفا، تیر کی طرح سیدھا سوال ہے اور اس بات کا متقاضی ہے کہ اس کا جواب بھی ایسا ہی ہو، تا کہ کوئی غلط فہمی نہ رہ جائے۔ لیجیے، میں ابتدا اپنی ایک نظم سے کرتا ہوں اور پھر اس نظم کے نکات کو ایک ایک کر کے کھنگالتے ہوئے اپنے ’تخلیقی‘ اور ’اصولی‘ اختلاف کو زیر بحث لاتا ہوں۔ یہ نظم گذشتہ صدی کی اسّی کی دہائی میں لکھی گئی اور ان یکصد نظموں میں شامل تھی، جو، میرے ساؤتھ ایسٹرن یونیوسٹی، واشنگٹن ڈی سی میں کمپییریٹو لٹریچر (تقابلی ادب) کے استاد کے طور پر ایک بین الاقوامی پراجیکٹ کی تکمیل کے دوران لکھی گئیں اور بعد میں خود نوشت پیش لفظ اور محترم ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کے نہایت مدلل اور مربوط ’پس اظہار‘ کے ساتھ دہلی سے ’’دست برگ‘‘ کے زیر عنوان شائع ہوئی۔ ان یک صد نظموں کی خصوصیت یہ تھی کہ یہ سبھی بحر خفیف میں تھیں اور سبھی میں رن آن لائنز کا چلن بے روک ٹوک چلتا ہوا، سطر کے آخر میں سیال کی طرح بہتے ہوئے دوسری یا تیسری یا چوتھی یا پانچویں سطر کے شروع، وسط یا آخر تک متن میں ضم ہوتا ہوا رواں رہتا ہے۔ اس تجربے پر بات بعد میں ہو گی، فی الحال تو موجودہ تناظر میں صنف غزل سے اپنے اصولی اور تخلیقی اختلاف کے بارے میں اس نظم سے رہنمائی لینا مقصود ہے۔ آپ نے اب یہ Flood gate کھول ہی دیا ہے، تو اس سیلاب سے لطف اندوز بھی ہوں، قبلہ۔

ہے غزل ایک انحطاط پذیر

صنف جو سخت ہے نہ نازک ہے

ایک لا جنس، زرد رو مخلوق

مرد و زن کی قبیل سے باہر!

 

دوستو، اس وسیع دنیا میں

اور بھی ملک ہیں، زبانیں ہیں

ان زبانوں میں شاعروں نے کئی

تجربے بھی کیے ہیں، شعر و ادب

منسلک بھی رہے ہیں قدروں سے

جنہیں قدماء کی سر پرستی میں

زندہ رہنے دیا گیا ہے۔ ۔ ۔ مگر

ان زبانوں نے ترک بھی کی ہیں

ایسی اصناف شعر، جو ان کی

برق رفتار زندگی کے ساتھ

چل نہیں پائیں، تھک کے بیٹھ گئیں !

 

دو مثالیں ہیں، ’اوڈ‘ اور ’سانیٹ‘ Ode & Sonnet

جن کو یورپ کی سب زبانوں نے

رفتہ رفتہ تلانجلی دے دی!

 

کالریج کے جہاز راں کی طرح ؎۱            ؎ ۱ Ancient Mariner

ٹریجڈی اپنی یہ ہے، اک مردہ

سانپ اپنے گلے میں لٹکائے

تین صدیوں سے انتظار میں ہیں

کوئی بتلائے یہ غزل کا سانپ

کیسے اپنے گلے سے دور کریں !

 

دوستو، دیکھو، بر سبیل بحث

میں نے مانا، غزل کی صنف بہت

خوب ہے نظمِ لفظ میں، اس کے

پاس ہے قافیے، ردیف کی فوج

اور ہر شعر اک مجاہد ہے

اک قرینہ ہے، اک ڈسپلن ہے

دور تک اک پٹی ہوئی ہے لکیر

گھٹی میں پڑ چکی ہے یہ عادت

ہم کو تو اس ڈگر پہ چلنا ہے

کیسا یہ روُٹ مارچ ہے یارو

جس پہ صدیوں سے گامزن ہے غزل؟

بندشیں، کانٹ چھانٹ، جملہ کشی

ایک زر گر کے کام کی مانند

موتیوں سے جڑے ہوئے جملے

خوبصورت، نظر فریب زر دوزی

ایسے فوق البھڑک، منقش رنگ

آنکھ جن سے جدا نہ ہو پائے !

 

قابل داد ہے یہ قدرت فن

لیکن اتنا تو پوچھ سکتا ہوں

یہ غزل کے صنائع لفظ و بیاں

نفس مضموں کے سر بسر فقدان

کی تلافی کہاں کریں گے، جناب!

 

دوستو، یہ غزل کا ایواں تو

مقبروں کی طرح ہے، جو باہر

سے بہت شاندار ہوتے ہیں

اور دیکھو تو لحد خاکی میں

ایک بے جان ہڈیوں کے ڈھیر

کے سوا اور کچھ نہیں ہوتا!

 

الغرض انتظام لفظ و بیاں

نفس مضموں کے کھوکھلے پن کا

کیا مداوا ہے، کیا تلافی ہے ؟

 

آج کل پیشۂ غزل گوئی

عام ہے، اس لیے کہ پیشہ ور

شاعروں کی کمی نہیں، جن کو

شاعری سے تو دور کی نسبت

ہو نہ ہو، قافیے، ردیف سے ہے !

’گائیکی‘ اک کلاسیکی فن ہے

اس کو سمجھے بنا ترّنم سے

پڑھنے کو اپنا حق سمجھتے ہیں !

 

کیا ہے معیار شاعروں کا جنہیں

’واہ‘ واہ‘، ’مرحبا ‘ کی آوازیں

محنتانے کے کچھ روپے، یا پھر

کچھ قیام، طعام و جام کا خرچ

ایسے محسوس ہو کہ جیسے انہیں

مل گئی ہو کہیں سے ہفت اقلیم!

 

چاہے اکیسویں صدی آئے

لوگ چاہے زمیں سے بھی آگے

چاند تاروں کے دیس میں پہنچیں

 

کوئی چاہے تو ’ویسٹ لینڈ‘ لکھے      T.S. Eliot’s "The Waste Land”

کوئی ’گُلّاگ‘ یا ’ذِواگو‘ لکھے     (فٹ نوٹ دیکھیں )

آنے والے زماں میں مل جائیں

سرحدیں چاہے ساری دنیا کی

خود پرستی سے رونے دھونے تک

اپنی شعری سفر رہے جاری!

غم پرستی کی انحطاط پذیر

قیمتیں، قدریں، زاد راہ کی طرح

اپنی گٹھری میں باندھ کر ہم لوگ

لیک پیٹیں گے، چلتے جائیں گے !

 

ذہن مدقوق، حافظہ بیمار

فہم مفلوج، علم و فن بیکار

بولو، اردو زباں کا بیڑہ پار!!

 

اب دیکھیں کہ اس خاکسار کا ’’ غزل کی صنف سے اصولی اختلاف‘‘ کیا ہے۔ اوّل یہ کہ میں اس بات کا جواب پہلے سوالوں میں تفصیل سے دے چکا ہوں کہ غزل میری دانست میں ’’اوریچر‘‘ ہے، ’’لٹریچر‘‘ نہیں ہے۔ اوریچر میں بھی تخلیقیت کی کمی نہیں ہوتی۔ فی البدیہہ پڑھی جانے والی یا گا کر سنائی جانے والی اصناف۔ ۔ ۔ قصص، اشلوکوں، دوہوں، دوہڑوں، سی حرفیوں، ماہیوں، ٹپوں میں من کو موہ لینے کی شکتی ہوتی ہے، کچھ آزمودہ کار روایتی نسخے ہوتے ہیں جو انسان کو مادی دنیا سے موڑ کر روحانیت کی طرف راغب کرتے ہیں۔ مرد و زن کے تعلقات پر پھبتیاں ہوتی ہیں۔ مثلاً عورت کے بارے میں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ’’کھُری جنہاں دی مت : پہلوں ہس ہس لاؤندیاں یاریاں، پچھوں رو کے دیندیاں دس۔ (مرزا صاحباں )۔ ۔ ۔ پند و نصائح ۔ ۔ ۔ ۔ ’’مان متیئے، روپ گمان بھریئے، اٹھکھیلیئے، رنگ رنگیلیئے نی : عاشق، بھور، فقیر، تے ناگ کالے، بنا منتروں کدی نہ کے لیے نی!‘‘(ہیر، وارث شاہ)۔ ۔ ۔ یا غمناک منظر نامے جنہیں سن کر سامع دل مسوس کر رہ جائے : ’’ڈولی چڑھدیاں ماریاں ہیر چیکاں، مینوں لے چلے بابلا لے چلے وے۔ ۔ ۔ ‘‘ پنجاب سے نیچے وسط ہندوستان کی طرف چلیں تو سب بولیوں میں ’’آلھا اودل‘‘ جیسے قصص، منظوم لوک کتھائیں، solo یا duet یا سنگت میں گائے جانے والے ’بارہ ماسے ‘، ملتے ہیں، بسنت کے، برکھا رت کے، پنگھٹ پر گائے جانے والے گیت ملتے ہیں۔ اب تو میرٹھ میں شاید نوچندی کا میلہ نہیں ہوتا، لیکن جب ہوتا تھا تو اس کی شان ہی نرالی تھی۔ راولپنڈی کا بری امام کا میلہ اس کی عشر عشیر بھی نہیں تھا۔ ان میں طوائفیں غزلیں بھی گاتی تھی، لیکن ’اوپن ایئر‘ پنڈالوں میں جو بہار نٹ، نٹیوں، نچیاروں کے علاوہ قوال پیش کرتے تھے، وہ دیدنی تھی۔ ؎

——————————

ٖفٹ نوٹ: Gulag Archipelago by Aleksandr Solzhentsyn۔ . .and Dr. Zhivago by Boris Pasternak جن برسوں میں یہ نظم لکھی گئی۔ ۔ ان دو ناولوں کا بہت چرچا تھا۔ ان کے مسودے سوویٹ روس سے چوری چھپے برلن لائے گئے تھے اور پھر ان کے انگریزی، فرانسیسی اور دیگر یورپی زبانوں میں تراجم چھپنے سے ایک ہلچل سی مچ گئی تھی۔

مختصراً  یہ کہ غزل اس قماش کی صنف ہے، نہ کہ Literature proper ۔ ہاں، کسی حد تک اس کے ڈانڈے Literature per se سے ضرور ملتے ہیں، لیکن دو تین صدیوں میں سوائے اس کے اور کچھ کام نہیں ہوا کہ ترجیع و تجنیس ہو، تکرار ہو، بکرات و مرات ہو، لا محدودیت کی حد تک موضوعات اور مضامین کی جگالی کی جائے۔ لا تحصیٰ اشعار صرف ایسے ہوں جن میں یہ کوشش کی جائے کہ What oft was said but never so well expressed. لیکن اب کیا کیا جائے۔ اگر میرؔ فرما گئے ہیں : نازکی اس کے لب کی کیا کہیے : پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور یہ سوچے بغیر کہ میرؔ نے یہ شعر عطار کے لونڈے کے لبوں کے بارے میں کہا ہے یا واقعی ایک نازک اندام حسینہ کے بارے میں گوہر افشانی کی ہے، ہم ڈھیروں اشعار اسی مضمون اور اسی استعارے کو لے کر کہتے چلے جائیں۔ ۔ ۔ کہتے چلے جائیں۔ ۔ ۔ اور کہتے چلے جائیں۔

مختصراً یہ بھی کہ چونکہ روایتی غزل گو شاعر قوافی کی فہرست بنا کر غزل کہنے کا عادی ہو چکا ہے، اسے یہ کام آسان لگتا ہے اور شاید محسوس ہوتا ہے کہ شاعری زندگی کی عمومیت سے بالا تر کچھ آفاقی قسم کی شئے ہے اور عام زندگی میں اس قسم کے موضوعات اور ان کے تحت مضامین کی کمی ہے، قلت ہے، (یقین مانئے، زندگی اس قدر پھیلی ہوئی ہے کہ مضامین کا آزقہ کہیں نہیں دکھائی دیتا، صرف نگہِِ بینا چاہیے ) زندگی کا کون سا شعبہ ہے جس میں واقعات، حادثات یا روزانہ کی مصروفیات کا قحط ہو؟ النادر ی، کالمعدوم کچھ بھی نہیں ہے، اس میلے میں ہر طرف تعدد ہے، مضاعف، توفیر اور بہتات کے ڈھیر لگے ہیں۔ ات گت اور بے نہایت سے البتہ اچھوتے، نو ایجاد، نو نیاز آمدہ مضمون کا انتخاب دیدۂ بینا کا کام ہے۔

اب ایک ایسے نکتے کو لینا ضروری ہے جس پر میں نے بہت غور و خو کیا ہے۔ تخلیقیت کی سطح پر غزل ایک ناکام اور دوغلی صنف ہے۔ چونکہ اسے ایران سے درآمد کیا گیا اور یہ تسلیم کیا گیا کہ فارسی اساتذہ کے کلام کو آئیڈیل نمونہ تسلیم کر کے اس کا تتبع، متابعت، پیروی کرنا، اس کی مثالیں سامنے رکھ کر، ان کی تقلید اور ان کے تطابق میں شعر کہنا ہی اردو کا اوڑھنا اور بچھونا ہے، اس لیے ہندوستان میں جو اصناف سخن پہلے موجود تھیں، ان کے عروض، چھند، پنگل، زحافات وغیرہ کی طرف توجہ مبذول کرنا غیر ضروری سمجھ لیا گیا۔ اس سلسلے میں بہت کچھ لکھا گیا ہے اور میں نے خود درجنوں مضامین میں اس پر بحث کی ہے۔ ان مضامین کا ایک خلاصہ میں نے اپنی یادداشتوں کی کتاب ’’کتھا چار جنموں کی‘‘ میں بھی شامل کیا ہے۔ طوالت کے خوف کے باعث کانٹ چھانٹ کے بعد مندرجہ ذیل اقتباس پیش کر رہا ہوں۔

’’غزل بطور صنف شعر اردو پر شروع سے ہی قابض رہی ہے۔ یعنی غزل اور اردو شاعری بہم دگر ایک ہی تسلیم کی جاتی رہی ہیں۔ یہ بات شاید ولی دکنی اور امیر خسرو کے وقت میں درست نہ ہو لیکن جب ہم گذشتہ تین چار صدیوں کا لیکھا جوکھا کرتے ہیں تو اس حقیقت سے پیچھا چھڑانا مشکل ہو جاتا ہے کہ غزل نے پیر تسمہ پا کی طرح اردو کو ایک ہی جگہ ٹھہرنے یا ایک ہی ڈگر پر چلنے کے لیے مجبور و معذور کر دیا ہے۔

پنجاب یونیورسٹی چنڈی گڑھ میں دو اڑھائی دہائیوں کے قیام کے دوران مجھے وزیٹنگ پروفیسر کے طور پر بیرون ملک کی یونیورسٹیوں میں قیام، مطالعے، مشاہدے اور درس و تدریس کے جو مواقع میسر ہوئے، ان سے میرا یہ یقین پختہ ہو گیا کہ اگر اردو کو دنیا کی ترقی یافتہ زبانوں کے دوش بدوش کہیں بھی کھڑا ہونا ہے تو اسے اس صنف کو ایسے ہی تلانجلی دینا ہو گی، جیسے انگریزی شاعری نے سانیٹ، اوڈ، ہیرائک کپلٹ , Sonnet, Ode, Heroic Couplet, Stanza format وغیرہ اصناف سخن یا شعری اسالیب کو دی ہے۔ سانیٹ اور اوڈ کے موضوعات بھی اسی طرح سکہ بند تھے، جیسے غزل کی کلاسیکی تعریف و تفسیر ہے۔ ’’بازی کردن محبوب و حکایت کردن از جوانی و حدیث محبّت و عشق زنان‘‘۔

سانیٹ میں صرف دو اقسام تھیں، ’’پیٹرآرکن‘‘ اور ’’ شیکسپیرین‘‘۔ دونوں کی سطور کی تعداد بھی مخصوص تھی۔ قوافی کا چلن بھی ایسا تھا جس سے انحراف نہیں کیا جا سکتا تھا۔ موضوعات بھی سانیٹ اور اوڈ دونوں کے لیے مخصوص تھے۔ انہیں تعریف، توصیف، القاب نوازی، ممنونیت، عرضداشت، دعا یا پھر آفاقی قدروں کے اظہار و اشتہار کے لیے استعمال کیا جاتا تھا، پھر کیا وجہ تھی کہ انیسویں صدی کے نصف آخر کے بعد اور بیسویں صدی کی پہلی ربع صدی کے آنے تک یہ اصناف سخن نا پید ہو گئیں۔ اب ان کو درسی کورسوں میں تو شامل کیا جاتا ہے، لیکن شاعری کے ان جریدوں میں جو سینکڑوں کی تعداد میں شائع ہوتے ہیں اور شعری مجموعوں میں جو ہر برس ہزاروں کی تعداد میں منظر عام پر آتے ہیں، یہ اصناف سخن نظر نہیں آتیں۔

میں نے یہ بات شدت سے محسوس کی کہ بلینک ورس کو اردو میں متعارف کروانے والے دیو قد شعرا راشد، میرا جی، مجید امجد اور اختر الایمان کے علاوہ دوسرے کئی ترقی پسند شعرا کی کاوشوں کے باوجود بہت سے شعر ا نے بھی اپنی نظموں میں غزل کی ذہنی عادت کو ترک کرنے کا مظاہرہ نہیں کیا اور غزل کے ہی پیش پا افتادہ مضامین، استعارات، تلمیحات اور لگے بندھے امیجز کو اپنی نظموں میں بھی استعمال کرتے رہے۔ ان میں خصوصی طور پر فیض احمد فیض یا ان کے زیر اثر دوسرے نصف درجن یا اس سے بھی زیادہ شاعر شامل تھے۔ مشاعروں میں حالت اس سے بھی زیادہ بد تر تھی۔ غزلیہ شاعری اور وہ بھی ترنم سے، لہرا لہرا کر پڑھنا (گانا) ، کسی بھی شعر کے مصرع اولیٰ کو ایک ماہر گلوکار کی طرح تین بار اٹھاتے ہوئے مصرع ثانی پر تان کو دھم سے ’ لٹکا‘ یا ’جھمکا‘ دے کر ختم کرنا ان کا ٹریڈ مارک بن گیا۔ اس کی انتہا یہاں تک ہوتی دکھائی دی کہ شعرا یا شاعرات کسی پروفیشنل گلو کار سے اپنی غزل کو باقاعدگی سے ’’سنگیت بدھ‘‘ کروا کر، کئی بار گھر میں آئینے کے سامنے اس کی پریکٹس کر کے مشاعروں کے لیے خود کو تیار کرنے لگے۔

میں نے چنڈی گڑھ کے ریڈیو سٹیشن سے جو جالندھر کے پروگرام ہی براڈ کاسٹ کرتا تھا، کچھ اعداد و شمار اکٹھے کیے تو پتہ چلا کہ ریڈیو کے مشاعروں میں صرف غزلیں ہی پڑھی جاتی ہیں اور اگر کوئی شاعر اپنی نظم پڑھنے کے لیے پر تولتا ہوا نظر آئے تو اسے اشارے سے منع کر دیا جاتا ہے۔

’’غزل ہماری شاعری کی جان ہے، روح ہے، آبرو ہے، ناموس ہے۔ ۔ ۔ ‘‘ وغیرہ وغیرہ یہ الفاظ تو ہم بہت سن چکے ہیں (میں نے ڈاکٹر نارنگ سے بھی بجنسہ یہ الفاظ سنے ہیں، ان سے اختلاف ضرور کیا ہے، لیکن بحث نہیں کی، کہ میں جانتا ہوں، پانی کو بلونے سے کچھ نکلنے والا نہیں، نہ وہ مجھ سے متفق ہوں گے، نہ میں ان کی بات تسلیم کروں گا، ہم دونوں کی پشت پر ساٹھ پینسٹھ برسوں کی تاریخ ہے، جس میں ہم دونوں متضاد و مختلف راستوں پر گامزن رہے ہیں )۔ ان الفاظ، یعنی جان، روح، آبرو، ناموس نے ہی تو اردو شاعری کی لٹیا ڈبو دی ہے۔ کچھ آوازیں ضرور اٹھتی رہی ہیں، الطاف حسین حالی، جوش ملیح آبادی، کلیم الدین احمد، اختر الایمان، لیکن نقار خانے میں طوطی کی آواز کون سنتا ہے ! میں نے ان بیس پچیس برسوں میں پندرہ سے بیس تک مضامین لکھے جو ان نیم ادبی رسائل میں شائع ہوئے جنہیں غزل گو شعرا کے علاوہ عوام الناس پڑھتے ہیں۔ ا۔ ان مضامین میں میرا لہجہ نرم بھی تھا اور درشت بھی۔ میں نے بار بار مثالیں پیش کر کے، گراف بنا کر، فلو چارٹ ترتیب دے کر یا ثابت کیا کہ یہ صنف عصری آگہی سے مملو نہیں ہے اور ہو بھی نہیں سکتی۔ یہ موجودہ دور کی برق رفتار زندگی، اس کے گو  نا گوں تقاضوں اور بدلتی ہوئی قدروں کے اظہار کے لیے ناکافی ہے۔ اس کی تنگ دامانی مسلمہ ہے۔ یہی اعتراضات اوڈ اور سانیٹ پر بھی کیے گئے تھے اور آہستہ آہستہ شعرا خود ہی ان اصناف سے متنفر اور بد ظن ہو کر کنارہ کشی اختیار کرتے ہوئے صرف (اور صرف!) بلینک ورس شاعری کی طرف متوجہ ہو گئے تھے۔ آج جامعات کے کورسوں میں اوڈ Ode یاسانیٹ ایکHistorical Curio تاریخی عجیب الخلقت شے کے طور پر پڑھائے جاتے ہیں۔ جیسے بیسویں صدی کے پہلے ربع دور میں قریب قریب اور وسط تک پہنچتے پہنچتے ایک پوری پود پر یہ حقیقت آشکار ہو گئی کہ سانیٹ اور اوڈ کا زمانہ لد چکا، اب بلینک ورس کا دور دورہ ہے۔ بلینک ورس سے فری ورس (نثری نظم) تک پہنچتے پہنچتے کچھ برس انگریزی میں ضرور لگے، لیکن ایک بار یہ بات طے ہو گئی کہ شاعری ان جکڑ بندیوں میں نہیں پنپ سکتی جو ان اصناف کی بنیادی قدریں ہیں، تو ہو گئی۔

میں نے اپنے مضامین میں اس بات کو خود بھی سمجھا اور دوسروں کو سمجھانے کی کوشش بھی کی کہ غزل سخت جان ضرور ہے اور ہم لوگ طبعاً روایت پسند بھی ہیں، لیکن یہ ضروری ہے کہ غزل کے طریق کار کو مضمون آفرینی کے سائینسی صوتی اور لسانی پیمانوں کے علاوہ بین المتونیات Inter-textuality کے زاویوں سے دیکھا جائے۔ مائیکل رِفا ترے Michael Riffaterre نے اپنی تنقیدی نظریہ سازی میں شاعری میں خصوصاً اور ادب عالیہ کے علاوہ اساطیر میں عموماً submerged matrix کا ذکر بار بار کیا ہے، زیر آب پڑی چمکیلی چیزوں کی طرح (استعارہ مائیکل رِفاترے کا ہے ) انسانی ذہن اپنی تخلیقی کار کردگی کے وقت ان کے ہیولے سطح پر لے آتا ہے اور یہ مجموعی نسلی لا شعور کی وہ ’’جواہرات سے جڑی ہوئی پرت ‘‘ہے (استعارہ پھر ایک بار مائیکل رِفاترے سے ہے ) جسے ہم صوتی اور لسانی سطحوں پر اپنے پرکھوں سے بطور میراث لیتے ہیں او بغیر سوچے سمجھے ایسے استعمال کرتے ہیں کہ یہ تمیز کرنا دشوار ہو جاتا ہے کہ جواہرات سے جڑی ہوئی پرت صرف ایک ہیولے ہے یا در اصل ایکobjectہے۔ کرسٹیواؔ کے تصور بین المتونیت Inter-textuality کو رِفاترےؔ کے تصور submerged matrix کے ساتھ رکھ کر دیکھیں تو کلاسیکی غزل کے طریق کو با آسانی سمجھا جا سکتا ہے۔ بین المتونیت کی مثال اردو غزل سے سوا (یعنی سو فیصد حد تک)دنیا کے ادب میں کہیں اور ملنا مشکل ہے۔ ہر غزل اپنے طریق کار میں گذشتہ متون کو اسی context میں لا شعوری طور پر جذب کرتی ہے اور ایسے کرتے ہوئے یہ نہیں دیکھا جاتا کہ ’’کیا کہا گیا‘‘ بلکہ یہ دیکھا جاتا ہے کہ ’’کیسے کہا گیا‘‘۔ اس ’’کیسے ‘‘ میں مضمون آفرینی کے علاوہ روز مرہ اور محاورے کا استعمال، صوتیاتی مد و جذر، غنائیت اور تغزل کے علاوہ وہ چابک دستی بھی شامل ہے، جس میں استعارے سے صرف نظر ’’شاعری بھی کام ہے آتشؔ مرصع ساز کا‘‘ کا پیمانہ استعمال کیا جاتا ہے۔

میرے ایک مضمون کے جواب میں کراچی سے محمد علی صدیقی صاحب اور گوہاٹی (آسام) سے تارا چرن رستو گی صاحب نے اپنے مضامین میں غزل کے دفاع میں تحریر کردہ اپنے مضامین میں وہی بات دہرائی جو دہلی میں انجمن ترقی اردو کے سربراہ اپنے تضحیک آمیز لہجے میں پہلے کہہ چکے تھے کہ مغربی تھیوریوں سے آراستہ پیراستہ یہ اردو کا ’’دوسرے سے بھی کم درجے کا شاعر‘‘ کیا غزل کو ایک عیسائی میم بنانے پر تلا ہوا ہے ؟ رستو گی صاحب کے ساتھ یہ جواب در جواب مضامین جب کراچی کے ایک رسالے سے جگہ بدل کر ’’انشا‘‘ کلکتہ کی زینت بننے لگے تو میں نے پھر ایک مضمون میں حوالہ جاتی لاٹھی کا سہارا لیتے ہوئے اس سانپ کے سر کو کچلنے کی سعی کی، جس نے تین چار صدیوں سے غزل کے زنگ آلود پارینہ خزانے کو اپنی تحویل میں لے رکھا تھا۔ میں نے لکھا،

’’ہم سب جانتے ہیں کہ مضمون کی بنیاد استعارہ ہے، لیکن اردو غزل کے طریق کار میں استعارہ صرف ایک Paradigmatic base ہی نہیں، بلکہ یہ اس بنیاد پر Syntagmatic بھی ہے۔ مغرب میں شعری طریق کارکا چلن یہ ہے کہ وہ استعارے کو صرف Object نہ فرض کرتا ہوا، اس کے بجائے اس کی Substitution فرض کر کے استعمال کرتا ہے، لیکن غزل میں یہ قائم مقام بدل Contiguityکا سلسلہ در سلسلہ بنتا چلا جاتا ہے۔ ایک چارٹ بنا رہا ہوں۔

 

مضمون                               محبت کرنا

Paradigmatic           استعارہ:محبت میں گرفتار ہونا (گرفتاری، مجبوری، آزادی کا فقدان وغیرہ)

Syntagmatic            استعارے :چمن، قفس، صیاد، طائر، دام، بال و پر، شکستگی، آشیاں، پر پرواز کا کاٹ دینا، برق تپاں، آتش زدگی، ، طوفان باد و باراں، آسمان، تیر کمان وغیرہ۔

Sub-syntagmatic     استعارے :قفس، روداد چمن، ہمدم، اور درجنوں دیگر ذیلی استعارے

 

اگر بری سفر کا استعارہ ہو گا، تو دشت، طوفان، تشنگی، کانٹے، پاؤں کے چھالے، کارواں، میر کارواں، محمل، گرد و غبار، ’’بو علی‘‘، قزاق، وغیرہ syntagmatic یا sub-snytagmatic ذیلی استعارے پیادوں کی طرح ہمراہ چلیں گے۔ اسی طرح اگر بحری سفر کا استعارہ ہو گا تو طوفان، کشتی، سفینہ، جہاز، لنگر، بادبان، نا خدا، تلاطم، کنارہ، ساحل اور درجنوں دیگر ذیلی استعارے ڈگمگاتے ہوئے ساتھ چلتے جائیں گے۔

ترقی پسند تحریک کے وقت پہلے تو ان استعاروں سے اجتناب برتا گیا اور شعرا پر دباؤ ڈالا گیا کہ وہ ان سے دور ہیں۔ جگر مراد آبادی جیسے تغزل اور ترنم کے شاعر نے بھی یہ مصرع کہنے پر خود کر راضی کر لیا، ع: شاعر نہیں ہے وہ جو غزلخواں ہے آج کل۔ لیکن جب فیض نے اپنی نظموں اور غزلوں میں یہی استعارے ایک نئے سیاق میں، یعنی اشتراکیت کے حوالے سے برتنے شروع کئے تو جیسے غزل گو شعرا سے بھی یہ پابندی اٹھ گئی۔ مجروحؔ کا یہ مصرع ثبوت کے لیے کافی ہے۔ع اٹھ اے شکستہ بال، نشیمن قریب ہے۔

بلراج کومل صاحب یکتائے روزگار شاعر تھے۔ ان سے جتنی بار دہلی میں بات چیت ہوئی یا جب وہ ایک بار چنڈی گڑھ تشریف لائے، انہوں نے مجھ سے اتفاق کیا کہ تین یا اس سے بھی زیادہ صدیوں تک یہ استعارات جو عجمی غزل سے مستعار لیے گئے تھے، اردو غزل پر اپنا سکہ جمائے ہوئے ہیں۔ ان دوران میں ان استعارات کا substitution کی سطح پر، یا One to one equation کے تناظر میں تصویری پہلو عنقا ہو گیا۔ یعنی محفل یا مشاعرے میں بّری یا بحری سفر (دشت، قافلہ، قافلہ سلار، محمل، ناقہ، گرد پس کاروان، قزاق، رہبر، گم کردہ منزل، یا کشتی، طوفان، ناخدا، ساحل، منجدھار، لنگر، بادبان وغیرہ) پر مبنی syntagmatic & sub-sntagmatic استعارات کو سن کر سامعین کے ذہن میں کوئی تصویر اجاگر نہیں ہوتی۔ یہ حالت یہاں تک دگر گوں ہو گئی کہ غزل گو شعراء ان ذیلی استعاروں کے فاضل پرزوں spare parts کو اپنے ذہن کے کارخانوں کے شیلفوں پر رکھے ہوئے با آسانی اٹھا کر کسی بھی شعر میں جڑ دیتے۔ آج تک اردو میں جو لاکھوں کروڑوں غزلیں لکھی گئی ہیں، ان میں سے نناوے فیصد اشعار اسی قماش و قبیل کے ہیں اور اس میں دو آراء نہیں ہو سکتیں۔

جن احباب نے میرے ان خیالات سے اتفاق کیا ان میں گیا (بہار) کے کلام حیدری بھی تھے، اور سری نگر کے پروفیسر حامدی کاشمیری تھے جو ابھی شعبہ اردو کے سر براہ تھے اور اس یونیورسٹی کے وائس چانسلر نہیں ہوئے تھے۔ اُن سے دو تین خطوط کے تبادلے میں ہی یہ صورتحال زیادہ واضح ہو گئی۔ اب یہ خطوط تو میرے سامنے نہیں ہیں، لیکن اس امر کے باوجود کہ وہ خود غزل کہتے ہیں، ان کا خیال تھا کہ سب یورپی زبانوں میں ہر نیا دور اپنے استعارے اپنے ساتھ لاتا رہا ہے لیکن بوجوہ اردو میں یہ نہیں ہوا اور ہم لکیر کے فقیر کی طرح چلتے ہوئے دائروں میں گھومتے رہے ہیں، یہاں تک فیض احمد فیض اور ان کے پیروکار ان استعاروں کے سوکھے چھلکوں سے بائیں بازو کی سیاست کا نیا رس نچوڑنے کا جتن کرتے رہے ہیں۔ لیکن کسی کو یہ خیال نہیں آیا کہ ہر استعارے کے تصویری پہلو کو صرف عصری زندگی کے تناظر میں ہی رکھ کر دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ وجوہ کیا تھیں ان میں ایک بار پھر جانا مناسب نہیں ہے، لیکن صرف اتنا کہنا ہی کافی ہے کہ ہم نے اردو غزلیہ شاعری میں ہمیشہ خود کو دوسرے نمبر کا شہری سمجھنے پر ہی اکتفا کیا ہے۔ اگر غالب جیسا زمانہ ساز شاعر بھی اپنے فارسی دواوین کو اردو دیوان پر فوقیت دے سکتا ہے (اور یہ انیسویں صدی کے نصف آخر کی بات ہے ) تو دیگر شعرا کا ذکر ہی کیا؟

میں نے اپنے نصف درجن کے مضامین میں اس حقیقت کا ذکر کیا کہ آج تک ہم اٹھارھویں صدی عیسوی کے انگریزی شاعر الیکذانڈر پوپؔ کو ہیرائک کپلٹ Heroic couplet یعنی قافیہ بند اشعار کا کامیاب ترین شاعر تسلیم کرتے ہیں۔ اس کی کچھ نظموں میں، جو سینکڑوں اشعار کا مرقع ہیں، پچاس یا اس سے بھی زیادہ قسم کے قوافی کا استعمال کیا گیا ہے۔ حروف ابجد کی تعداد کے حساب سے ان قوافی میں ہر بار صرف آخری دو حروف یعنی ایک حرف صحیح اور ایک حرفِ علتconsonant & vowelکے انسلاک سے قافیے کی تشکیل کی گئی ہے۔ میں نے اپنے برٹش اوپن یونیورسٹی کے دنوں میں جب انگلستان میں مقیم ہندوستانی یا پاکستانی طلبہ کے لیے ایک ESL (English as a Second Language کورس کی تشکیل کرتے ہوئے غزل میں قوافی کے طریق کار اور انگریزی میں ہیرائک کپلٹ کی روایت پر غور کیا تو مجھے اچنبھا ہوا کہ پوپؔ یا اٹھارھویں صدی عیسوی میں ہی انگریزی کے دیگر شعرا کے ہاں صرف ایک ہی چلن ہے، یعنی آخری لفظ جو صرف دو یا تین syllables سے متشکل ہو، اسے ہی قافیہ بند کیا جائے، جیسے :

last / fast: ruse/fuse : for/nor : leave / weave : bold / sold

وغیرہ، جب کہ ہمارے ہاں غزل میں یہاں تک آزادی ہے کہ صرف ایک آخری حرف علّت، الف (ممدودہ اور مقصورہ )، ’’ہ ‘‘(ہائے مختفی یا ہائے ہوز)، ’’ی ؍ے ‘‘ (یائے معروف اور یائے مجہول کا قافیہ بھی ممکن ہے، اور چار یا پانچ یا اس بھی زیادہ حروف سے متشکل الفاظ بھی قافیہ پیمائی میں استعمال کیے جا سکتے ہیں۔ اس سے جہاں غزل میں ایک صوت کے سبھی قافیے لانے کی پابندی ہے، (جو کہheroic couplet ہیرائک کپلٹ میں نہیں ہے ) وہاں یہ آسانی بھی ہے، کہ اگر آپ کسی ’’ مصرع طرح ‘‘ پر غزل موزوں نہیں کر رہے ہیں، تو آپ کسی بھی ایسی زمین کا انتخاب کر سکتے ہیں، جس میں قوافی کو صرف ایک آخری حرف علت کی صوت کو ہر مصرع ثانی میں یکساں رکھ کر، صوتی ہم آہنگی قائم رکھتے ہوئے اشعار گڑھے جا سکتے ہیں۔

مضمون آفرینی کے بارے میں بلراج کومل صاحب (مرحوم )کے الفاظ میری ڈائری میں درج ہیں، انہوں نے کہا کہ ہر دس بارہ برسوں کے بعد شعراء کی ایک تازہ پود کچھ استعارے Permutation & comcombinationسے ترتیب دے لیتے ہیں جو دیکھنے یا سننے میں کانوں کو تازہ دم اور تازہ کار محسوس ہوتے ہیں لیکن ان کی روح اصل وہی اسی پرانی جڑ سے شاخ در شاخ پھوٹتی ہے۔ ان کے ساتھ یہ نکتہ بھی زیر بحث آیا کہ مضمون آفرینی چونکہ غزل کی بنیادی صفت ہے، یہ جاننا ضروری ہو گا کہ غزل کے کسی شعر کو بھی مضمون کے چوکھٹے میں رکھ کر دیکھا جائے۔ لیکن ’’شعر‘‘ اپنے آپ میں ’’مضمون‘‘ سے مختلف ہوتا ہے۔ یعنی ’’معنی‘‘ اور ’’مضمون‘‘ دو الگ الگ اجناس ہیں۔ مغربی شاعری کے طریق کار میں یہ تفریق نہیں ملتی ہے۔ اسے انگریزی میں کہا جائے تو کچھ یوں کہا جائے گا۔

مضمون :       What the poem or couplet is about

معنی           :What the poem or couplet means

غزل کا ایک خاص مضمون اس مجموعی قسم All-inclusive categoryسے تعلق رکھتا ہے جسے خود ترحمی Self pityکہا جا سکتا ہے، (اور جس کے تحت غزل کے بیشتر اشعار  لور غٖزرکھے جا سکتے ہیں ) یہ ہے، ’’تنہائی‘‘، جس کے تحت اس طرح کی ضمنی یا ذیلی یا تحت التحریر مقاطعی اصطلاحات رکھی جا سکتی ہیں۔ عزلت، بیگانگی، اعتکاف، بیراگ، تیاگ، دست کشی، اجنبیت، سُونا پن، اداسی، جوگ وغیرہ۔ باتوں باتوں میں تین اشعار سامنے آئے۔ دو کلاسیکی شعراء کی تخلیق اور ایک ہمعصر شاعر کی اپج۔

وحشت دل سے شب تنہائی میں

صورت دود رہا سایہ گریزاں مجھ سے

(غالبؔ)

کوئی جہت یاں ایسی نہیں جو خالی ہووے اس سے میرؔ

یہ طرفہ ہے شور جرس سے چار طرف ہم تنہا ہوں

(میر تقی میرؔ)

اب تیسرا شعر جو ایک ہمعصر شاعر کا ہے، غور طلب ہے۔

وہی شب و روز ہیں زندگی کے، ہنسی بھی اشکوں کے سلسلے بھی

مگر یہ محسوس ہو رہا ہے کہ جیسے اندر سے مر گیا ہوں

(سلیم احمد)

چہ آنکہ غالب اور میر کے اشعار سلیم احمد کے شعر سے بہتر ہیں، تو بھی سلیم احمد کا شعر صرف ’’اندر سے مر گیا ہوں میں ‘‘ استعاراتی سطح پر ایک نئی جہت کی تشکیل کرتا ہے اور سہل ممتنع کی عمدہ مثال ہے۔ اس شعر میں بھی البتہ شاعر اپنا دامن ’’شب و روز زندگی کے اور ’’اشکوں کے سلسلے ‘‘‘ جیسے پارینہ، چبے چبائے ہوئے اور پیش پا افتادہ کلیشے کی قسم کی اصطلاحات سے اپنا دامن بچا نہیں پایا۔

حضور، ضیا صاحب، یہ اقتباس ختم ہوا، اب میں مختصراً دوسرے سوالات کی طرف آتا ہوں

 

٭    غزل رسم تو نہیں کہ مٹائی جا سکے، اگر یہ ’’ تخلیقی تاریخ‘‘ کا درجہ حاصل کر چکی ہے تو اس کی مادر زاد ’’عصمت ‘‘ کو برقرار رہنا چاہئے۔

آنند:   کون کمبخت کہتا ہے کہ غزل کو مٹا دینا چاہیئے۔ کم از کم میں تو نہیں کہتا۔ جوش ملیح آبادی نے تو خود بھی غزلیں کہی ہیں۔ ہاں، کلیم الدین احمد، جنہوں نے غزل کو ’نیم وحشی ‘ صنف سخن کہا تھا ایک سخت گیر نقاد تھے اور حالانکہ میری طرح ہی مغربی ادب ان کی گھٹّی میں پڑا ہوا تھا، وہ بھی اس نیم وحشی صنف کوکسی چڑیا گھر میں یا میوزیم میں رکھنے کے قائل تھے، تا کہ سند رہے۔ میں البتہ خود غزلیں کہتا ہوں۔ پنجابی (گورمکھی رسم الخط) میں جالندھر کے دیپک پبلشرز سے چھپی ہوئی میری غزلوں کی دو کتابیں ہیں۔ ’’غزل غزل دریا‘‘ اور ’’غزل غزل ساگر‘‘ جن میں دو سو غزلیں شامل ہیں۔ ہندی میں نئی غزل کو مقبول بنانے میں جہاں دشینت کمار Dushyant Kumar کا نام سر فہرست ہے، وہاں میرا نام بھی لیا جاتا ہے۔ یہ اس لیے ہے کہ پنجابی اور ہندی دونوں زبانوں میں غزل نا پید تھی، اور ان دو زبانوں کو اردو کے قریب تر لانے کا ایک واحد طریقہ یہی تھا کہ ان میں صنف غزل کو متعارف کروایا جائے۔ کوئی دیگر صنف شعر تھی ہی نہیں اردو کے پاس جسے ان دو زبانوں میں پیش کر کے کہا جاتا کہ دیکھو، یہ ہے اردو، اس سے دشمنی یا رقابت مت رکھو، اس کے قریب آؤ۔ ہندی میں ہم دونوں کی تحریک چل نکلی اور آج تک چلتی چلی جا رہی ہے، لیکن پنجابی (گورمکھی رسم الخط) میں نہیں چل سکی۔ میں خود تو تیس پینتیس برس پہلے انڈیا چھوڑ کر دساور روانہ ہو گیا اور اردو کو پنجاب (انڈیا) سے دیس نکالا دے کر پنجابی اور ہندی کے لیے جگہ بنا لی گئی، اس لیے پنجابی میں غزل کا پنپنا مشکوک ہو گیا۔ ( اب انڈین پنجابی میں صرف نثری نظم لکھی جا رہی ہے۔ )

تو، حضور، میں غزل کی گردن مارنے کے حق میں نہیں ہوں۔ میں صرف یہ چاہتا ہوں کہ غزل اپنا کچھ علاقہ خالی کر دے جو اس نے ہتھیا رکھا ہے۔ کسی بھی رسالے کو اٹھا کر دیکھ لیں، جہاں چھ سات یا آٹھ دس نظمیں ہوں گی، وہاں قطار اندر قطار غزلیات دکھائی دیں گی، ایک سے ایک بڑھ کر روایتی اور ٹھس۔ کہیں کوئی ایک شعر نظر کو ایک لمحے کے لیے گرفت میں لے گا تو بھی دوسرے لمحے اس سے اگلے شعر کو دیکھ کر طبیعت مکدر ہو جائے گی۔

 

٭    کیا موسیقی کا بہت سا بلکہ اغلب حصہ غزل، رثا، اور موزون و مقفٖیٰ شاعری پر نہیں ؟ اگر ہے تو غزل کی نیستی کی دعوت خود موسیقی کی ہلاکت کی ترغیب نہ ہو گی۔ ۔ ۔ ؟

آنند:   جی ہاں اور جی نہیں۔ ’’ موسیقی کا بہت سا حصہ بلکہ اغلب حصہ‘‘ غزل پر انحصار نہیں رکھتا۔ غزل کی گائیکی تو بیسویں صدی کے شروع میں معرض وجود میں آئی۔ اس سے پہلے تو اس کا چلن صرف طوائفوں کے کوٹھوں پر تھا۔ ماسٹر مدن یا سہگل سے پہلے کون سے بڑے نام تھے جنہوں نے غزل کی گائیکی کو عوام تک پہنچایا ہو؟ خواتین گانے والیاں سبھی بیسویں صدی کی مخلوق ہیں اور پرانے ریکارڈ (جنہیں پنجابی میں ان کے سیاہ رنگ اور گولائی کی وجہ سے ’’توا‘‘ کہتے تھے ) انیس سو بیس کے لگ بھگ وارد ہوئے۔

جی نہیں، خود کو دہرا رہا ہوں۔ موسیقی کا بہت سا حصہ بلکہ اغلب حصہ غزل پر انحصار نہیں رکھتا۔ بالکل نہیں رکھتا۔ ہندوستان بھر میں کلاسیکی اور نیم کلاسیکی اور ہلکی Classical, semi classical and soft songs موجود تھے۔ پنجاب میں لوک دھنوں پر اردو اور ہندی دونوں زبانوں میں ’ گیت گائیکی‘ کا دور دورہ تھا۔ غزل گائیکی کہاں تھی اس وقت؟ بنگال نے سب سے زیادہ لوک دھُنیں ہندوستانی گائیکی کو دیں، اور اب تو فلموں نے مغرب کی نقالی میں، راک میوزک پر، معانی سے خارج اور تسلسل سے معرا الفاظ جڑ کر جو موسیقی پیش کی ہے، اس سے تو اللہ ہی بچائے ! یہ تو غزل کے رکھ رکھاؤ سے کروڑوں میل دور ہے۔ جی نہیں، قبلہ، آپ کا قیاس صحیح نہیں ہے، معافی چاہتا ہوں۔

 

٭    نظم کی نسبت ’’فنی صنف ‘‘ کہلانے کی صلاحیت غزل میں زیادہ نہیں

آنند:   ایک اور فرضی، غیر یقینی اور استثنائی مفروضہ ہے یہ، حضور! غزل بحور و اوزان، قافیہ و ردیف، زمین، مطلع و مقطع، آہنگ، ارکان، زحافات، صنائع و بدائع، سجع، خیال بندی، معاملہ بندی، تغزل ۔ ۔ ۔ الاماں !کتنی زنجیروں میں جکڑی ہوئی یہ نازک سی پری ؟ اب تو یہ نایئکہ زیادہ اور طوائف کم دکھائی دینے لگی ہے۔ لیکن ’فن‘ کی آزادی اور پابندی کے تناظر میں اگر دیکھا جائے تو اس میں پابندی زیادہ ہے اور آزادی کم۔

اس پر طرّہ یہ ہے کہ ہم نے عروض فارسی سے مستعار لے کر اس صنف کو ایسے جکڑ بند کر دیا ہے کہ جملوں کی تراش خراش (جو خالصتاً ہندوی ہے ) جہاں کہیں بھی فارسی جملے کی تراش خراش سے لگّا نہیں کھاتی، وہاں عجیب الخلقت دوغلے شعری اجسام دکھائی دیتے ہیں۔ میں کچھ ایک باتیں آپ کی خدمت میں پیش کرنا چاہتا ہوں۔

اولاً تو فارسی عروض ہی ہے، جس کے اردو جملہ سازی پر اطلاق کے بارے میں مجھے بہت سے تحفظات ہیں۔ میری یہ تحریر آپ کی خاص توجہ کی محتاج ہے۔

اپنے ادیب فاضل کا کورس پاس کرنے (1952ء  کے دنوں میں ہی میں نے ’’حدائق البلاغت‘‘ کو جیسے گھول کر پی لیا تھا اور عروض پر میری گرفت استادوں کی طرح تھی۔ ڈاکٹر گوکک سے بات چیت اور ان سے کنّڑا زبان کی شاعری پر عروض کی انضباط کے حوالے سے میں نے ایک بار پھر عربی؍فارسی عروض اور ہندوی جملوں کی ساخت میں ایک ایسی طوائف الملوکی کی سی حالت دیکھی، جو ہر مصرع کی تقطیع میں شکست نا روا کی سی حالت پیدا کرتی تھی۔ میں نے اس بارے میں دو مضامین لکھے۔ ایک نشست میں کچھ دوستوں کو سنائے اور انہوں نے میری تائید بھی کی لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ تاریخ کا وہ دھارا جو تین چار صدیوں تک ایک جانب بہہ چکا ہے، لوٹایا نہیں جا سکتا۔ امیر خسرو کے حوالے سے کئی اور باتیں ہوئیں اور تاریخ کی اس بے رحم روش پر کئی بار رونا بھی آیا، لیکن ہو بھی کیا سکتا تھا، اس لیے دل مسوس کر رہ گیا۔

چونکہ میں ان دنوں اردو کی آزاد نظم میں طبع آزمائی کر رہا تھا اور ن۔ م۔ راشد، میرا جی کے علاوہ دیگر اردو شعرا کا بغور مطالعہ کر رہا تھا۔ ڈاکٹر زورؔ کے توسط سے جامعہ عثمانیہ کے کتب خانے سے مجھے کتابیں مل سکتی تھیں، اس لیے میں نے اس موضوع پر اپنے نوٹس سے ایک پوری ڈائری بھر دی۔

ایک خاص موضوع جس پر میں نے عرق ریزی کی حد تک کام کیا، وہ اردو میں صنف غزل کے منفی اثرات کی وجہ سے آزاد نظم (یعنی بلینک ورس۔ ۔ فری ورس نہیں، جسے آج کل نثری نظم کہا جاتا ہے ) میں رن، آن سطروں سے لا تعلقی کا رویّہ تھا۔ طوالت یا اختصار کی بنا پر سطور کی قطع برید بہت پرانی بات نہیں ہے۔ یہاں تک کہ تصدق حسین خالدؔ سے چل کر میراؔجی اور ن۔ م۔ راشدؔ تک پہنچ چکنے کے بعد تک، (بلکہ مجید امجدؔ اور اخترؔ الایمان تک) شیوہ یہ رہا کہ اگر ایک سطر بہت طویل ہو گئی ہے اور صفحے کی چوڑائی اس بات کی متحمل نہیں ہو سکتی کہ شاعر اس کو قطع کیے بغیر لکھ سکے، تو رن۔ آن لائنز کے قاعدے کو اس شرط پر بروئے کار لایا جائے کہ باقی کا متن پیوستہ سطر کے وسط سے شروع کیا جائے۔ ایک مثال دے کر اپنی بات واضح کرتا ہوں۔

اے سمندر! پیکر شب، جسم، آوازیں

رگوں میں دوڑتا پھرتا لہو

پتھروں پر سے گزرتے، رقص کی خاطر

اذاں دیتے گئے۔

(ن۔ م۔ راشد: ’’اے سمندر‘‘)

یہ بحر رمل (فاعلاتن) کی تکرار ہے۔ غور فرمایئے : اے سمندر (فاعلاتن)، پیکر شب (فاعلاتن)، جسم آوا (فاعلاتن)۔ ۔ ۔ ۔ [ یہاں اب ’’زیں ‘‘ کو رن۔ آن کر کے پیوستہ سطر کے ’’رگوں میں ‘‘ سے ملا دیا گیا ہے ]یعنی۔ ۔ زیں رگوں میں (فاعلاتن)، دوڑتا پھر (فاعلاتن)، تا لہو (فاعلن)۔ ۔ گویا سطر کی برید اس لیے کی گئی کہ چھ (۶) فاعلاتن کے بعد ’فاعلن‘ کا اختتامیہ آیا ہے، ( جو کہ غزل کا وزن عام طور پر نہیں ہے )۔ لیکن راشد نے یہ تمیز روا رکھی ہے کہ اگر رن۔ آن لاین کا چلن ضروری ہو گیا ہے تو گذشتہ سے پیوستہ سطر کو بیچ میں سے شروع کیا جائے۔ اسی طرح : پتھروں پر (فاعلاتن)، سے گذرتے (فاعلاتن) رقص کی خا (فاعلاتن)۔ ۔ ۔ اب یہاں ’’طر‘‘، جو ’’خاطر‘‘ کا اختتامیہ ہے، پیوسطہ سطر کے پہلے لفظ سے منسلک ہونا ضروری ہو گیا ہے، اس لیے دوسرا ٹکڑا سطر کے عین درمیان میں سے شروع کیا گیا۔ تر اذاں دے (فاعلاتن)، تے گئے (فاعلن)۔

ان شعرا نے رمل کے علاوہ ہزج (مفاعیلن کی تکرار)، رجز (مستفعلن کی تکرار)، متدارک (فاعلن کی تکرار)، متدارک سالم (فعلن کی تکرار)، متقارب سالم (فعولن کی تکرار)، متقارب مقبوض (فعول فعلن) اور کامل (فاعلن کی تکرار)۔ ۔ ۔ یعنی لگ بھگ سبھی مروج بحور میں یہ چلن اختیار کیا۔

راقم الحروف نے 1960ء کے لگ بھگ اس سے انحراف کیا تھا اور حیدر آباد (دکن) میں قیام کے دوران تک لگ بھگ پچاس نظموں میں نثری جملے کی منطقی ساخت کو برقرار رکھتے ہوئے (سبھی متعلقات فعل کو ان کی صحیح جگہ پر مستعدی سے کھڑا رکھتے ہوئے )، رن آن لاینز کو اس طور سے برید کیا تھا کہ نفس مضمون گذشتہ سطر سے تجاوز کرتا ہوا، ما بعد سطر کے وسط یا آخر تک، اور بسا اوقات، ما بعد سطر سے بھی منسلک ہونے والی اگلی سطر تک flux and flow کے ناتے سے بہتا چلا جائے۔ اب یاد آتا ہے کہ حیدر آباد کا دقیانوسی ماحول اول تو آزاد نظم کو قبول کرنے کے لیے ہی تیار نہیں تھا، اس پر رن آن لاین کی ’زیادتی‘؟ ظاہر ہے کہ محفلوں میں تو کم کم، مگر مشاعروں میں مجھے ہوُٹ بھی کیا گیا اور کوسا بھی گیا۔

اس سلسلے میں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ حیدر آباد (دکن) کے قیام کے بیس برسوں کے بعد جب ایک پراجیکٹ کے تحت میری تحریر کردہ ایک سو نظموں کا مجموعہ ’’دست برگ‘‘ چھپا تو اس پر ایک ذاتی خط میں ڈاکٹر کالیداس گپتا رضاؔ نے لکھا۔ ’’مجھے یقین ہے کہ فارسی عروض کی قربانی دئے بغیر، اردو میں بلینک ورس کے لیے ’رن آن لاینز ‘ کی یہ سہولیت، وقت کی ایک بہت بڑی ضرورت تھی، جسے آپ نے پورا کیا ہے۔ آنے والا مورخ جب اس کا لیکھا جوکھا کرے گا تو اردو کی آزاد نظم پر آپ کے اس احسان کو سراہا جائے گا۔ ‘‘ ڈاکٹر گوپی چند نارنگ نے کتاب کے ’’اختتامیہ‘‘ میں بھی یہ رائے ظاہر کی کہ اگر اس چلن پر اردو کی آزاد نظم چل سکی تو یہ قدم مستحسن قرار پائے گا۔ ‘‘ ڈاکٹر وزیر آغا نے پنے ایک مکتوب میں ایک نہایت دلچسپ انکشاف کیا۔ انہوں نے لکھا۔ ’’آپ کے کہنے پر میں نے ایک آدھ گھنٹہ اس بات پر صرف کیا کہ 1970 ء سے پہلے کی اپنی نظموں کو نکال کر آٹھویں یا نویں دہائی یا اس کے بعد میں لکھی گئی نظموں کے مد مقابل رکھ کر دیکھا تو واقعی یہ معلوم ہوا کہ میں نے بھی کوئی شعوری فیصلہ کیے بغیر (یعنی کلیتاً لا شعوری طور پر) اپنی نئی نظموں میں رن آن لاینز کا چلن اپنا لیا تھا، لیکن یہ بات مجھے آپ کے استفسار کے بعد معلوم ہوئی اب میں خود سے پوچھ رہا ہوں۔ ستیہ پال آنند صاحب کو اس بات کا کریڈٹ جاتا ہے یا نہیں ؟‘‘ میرے دیگر نظم گو دوستوں میں احمد ندیمؔ ل قاسمی، (مرحوم) ضیاؔ جالندھری (مرحوم)،ئ  بلراج کوملؔ، علی محمد فرشیؔ اور کئی دیگر احباب نے بھی اس رویے پر مجھ سے اتفاق کیا اور اپنی نظموں میں اس چلن پر صاد کیا۔

ماہنامہ ’’صریر‘‘ کراچی میں شامل ہوئے میرے ایک مضمون پر رد عمل کے طور پر ایک صاحب نے (نام بھول گیا ہوں، کیونکہ میں اپنی اس برس کی ڈائری سے یہاں نقل کر رہا ہوں ) ماہنامہ ’’ صریر ‘‘کے ہی فروری 2004 کے شمارے میں ان نکتوں کی شیرازہ بندی ا ان الفاظ میں کی۔ ’’ان تفصیلات پر بحث کے لیے کچھ اہم نکات کو دہرا دینا مناسب ہے [۱] مروج عام بحور جو سالم ارکان پر مشتمل ہوں آزاد موشح (ان کا مطلب تھا ’’آزاد نظم‘‘)کی تخلیق کے لیے موزوں ہیں یا ایسی مزاحف بحریں جن کے دو ارکان کے درمیان تین متحرک حروف مل کی ایک یونٹ بنا دیں، بھی جائز و موزوں ہیں۔ [۲] آزاد نظم کے مصرع کو سطر کہنا چاہیے [۳] آزاد نظم کا کوئی مصرع خود کفیل نہیں ہونا چاہیے۔ اور [۴] صوتی اعتبار سے ما قبل مصرع کا اگلے مصرع میں انضمام ضروری ہے۔ ‘‘

اس زمانے میں بھی اور آج بھی کئی بار خود سے یہ سوال پوچھنے کی جرات کرتا رہا ہوں کہ آج تک، یعنی اکیسویں صدی کی ایک دہائی گذرنے کے بعد بھی، اردو کا نظم گو شاعر غزل کی روایت کے اس مکروہ اثر سے کیوں آزاد نہیں ہو سکتا کہ وہ اپنی سطروں کی تراش خراش میں رن آن لاینز کے چلن کو روا رکھ سکے۔ اور نظم کی’ سطر‘ کو سطر ہی سمجھے، ’ مصرع‘  نہیں۔ ان دو باتوں کو الگ الگ پلڑوں میں رکھ کر بھی تولنے کا اہلیت مجھ میں ہے۔

(الف) کیا مقفیٰ اور مسجع نظموں کی غنائیت اور نغمگی، حسن قافیہ کی سحر کاری اور بندش الفاظ نگینوں میں جڑی ہوئی شوکت و رعنائی اس صنف کو ’’آزاد نظم‘‘ یا ’’نظم معرا‘‘ سے ممتاز بناتی ہے ؟

(ب) کیا غزل کے روایتی  ’’فارمیٹ‘‘ سے مستعار اردو شاعروں کی یہ عادت ثانیہ کہ وہ نظم کی ’سطر‘ کو بھی ’مصرع‘ سمجھتے ہیں اور ایسا کرنے سے وہ نظم کی آزادی، یعنی اس کے مضمون اور اس کے شعری اظہار کی لسّانی اور اسلوبیاتی تازہ کاری کی قربانی نہیں دیتے ؟ اور۔ ۔ ۔

(ج)   کیا مقفیٰ اور یکساں طوالت کی سطروں پر مشتمل پابند نظموں میں یا ان آزاد اور معرا نظموں میں جن میں ’سطر‘ مصرع کی صورت میں وارد ہوتی ہے، اور رن آن لاینز کا التزام اس لیے ممکن نہیں ہے کہ ’سطر‘ کے بیچ میں ایک جملے کے مکمل ہونے سے حسن شاعری کو ضرب پہنچتی ہے، ان امیجز images کی قربانی نہیں دینی پڑتی، جو رمز و ایمائیت کی جمالیات سے عبارت ہوتے ہیں اور علامت و استعارہ کے حسین جھالروں والے پردے کے پیچھے سے نیمے دروں نیمے بروں حالت میں پوشیدہ یا آشکارا ہوتے ہیں۔

آخری بات فارسی عروض کے بارے میں ہے جو اردو کے گلے میں ایک مردہ قادوس Albatross کی شکل میں لٹک رہا ہے۔ ( استعارے کو سمجھنے کے لیے کالریج کی نظم Ancient Mariner دیکھنی پڑے گی)۔ ۔ ۔ مجھ جیسے کم فہم اردو دان کو بھی اس بات کا احساس ہے کہ صوتی محاکات کے حوالے سے یہ عروض اردو کی جملہ سازی کے لیے ناقص ترین ہے۔ کیونکہ عربی اور فارسی کی نسبت اردو کی جملہ سازی واحد و یگانہ ہے۔ غالب کے صرف ایک مصرعے کی تقطیع سے اس بات کا اندازہ ہو سکتا ہے

سب کہاں ؟ کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں۔ (فاعلاتن، فاعلاتن، فاعلاتن فاعلن۔ بحر رمل)

پہلے صوتی محاکات دیکھیں اور پھر تقطیع کا جوکھم اٹھائیں۔ ’’سب کہاں ‘‘ (انحرافی استہفامیہ ) یعنی ’’سب نہیں ‘‘۔ ’’سب کہاں ؟‘‘ (بشمولیت سوالیہ نشان )کے بعد اردو قواعد کی رو سے سکون، یعنی ساکن حرف کی علامت، جزم کا ہونا مسلّم ہے۔ اب تقطیع کرتے ہوئے مجھے بہت کوفت ہوئی۔ سب کہاں کچھ (فاعلاتن) یعنی (سب=فا ؍ کہاں = علا ؍ کچھ = تن) اگر نثر میں لکھا گیا ہوتا تو یہ جملہ یوں ہوتا، سب کہاں ؟ کچھ۔ ۔ ۔ ’کچھ‘ ہندوی ہے اور صفت کے طور پر تعداد میں ’چند‘ کے معنی میں آتا ہے۔ ’’سب کہاں کچھ‘‘ کو ’فاعلاتن‘ کی ایک ہی بریکٹ میں اکٹھا کرنے سے ایک پیہم، لگاتار، دوڑ لگاتا ہوا جملہ، ’’سب کہاں کچھ؟‘‘ بن گیا، ’ اور ’ یعنی اردو قواعد کی رو سے سکون، یعنی ساکن حرف کی علامت، جزم کا ہونا مسلّم ہے۔ اب تقطیع کرتے ہوئے مجھے بہت کوفت ہوئی۔ سب کہاں کچھ (فاعلاتن) یعنی (سب=فا ؍ کہاں = علا ؍ کچھ = تن) اگر نثر میں لکھا گیا ہوتا تو یہ جملہ یوں ہوتا، سب کہاں ؟ کچھ۔ ۔ ۔ ’کچھ‘ ہندوی ہے اور صفت کے طور پر تعداد میں ’چند‘ کے معنی میں آتا ہے۔ ’’سب کہاں کچھ‘‘ کو ’فاعلاتن‘ کی ایک ہی بریکٹ میں اکٹھا کرنے سے ایک پیہم، لگاتار، دوڑ لگاتا ہوا جملہ، ’’سب کہاں کچھ؟‘‘ بن گیا، ’ اور ’ یعنی ‘‘سے ’’لا یعنی ‘‘ ہو گیا۔ جملے کا باقی حصہ یہ ہے۔ ’’لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں ‘‘۔ اس جملے میں ’’لالہ و گل‘‘ کے بعد کا لفظ یعنی ’’میں ‘ ‘ گرائمر کی زبان میں، ہمیشہ (ظرف مکان ہو، یا ظرف زمان)، مفعول فیہ کے بعد آتا ہے۔ یعنی ’’میں ‘‘ کا تعلق مابعد کے لفظ سے نہیں، بلکہ ما قبل کے لفظ سے ہے۔ گویا ’’لالہ و گل میں ‘‘ ایک قابل فہم جزو ہے، نہ کہ ’’میں نمایاں ‘‘ جو کہ لا یعنی ہے۔ لیکن، اب پھر ایک بار تقطیع کریں۔ لالہ و گل (فاعلاتن) میں نمایاں (فاعلاتن) ہو گئیں (فاعلن)۔ ۔ ۔ گویا جس بدعت کا ڈر تھا، وہی ہوئی۔ عروض کے اعتبار سے ہم نے مفعول فیہ کے بعد آنے والے اور اس سے منسلک لفظ ’’میں ‘‘ کو اس سے اگلے لفظ کے گلے میں باندھ دیا۔ عروض کی ضرورت تو پوری ہو گئی لیکن جملے کا خون ناحق ہو گیا اور اس قتل عمد کی ذمہ داری ان سب پر ہے جنہوں نے ہندوی چھند اور پِنگل سے منہ موڑ کر فارسی عروض کو اپنایا۔

ایک سچا واقعہ یاد آتا ہے جو فیض احمد فیضؔئۂ لام‘، ’ساغر‘، ’لب لعل‘، سے سنا، (اور شاید مرحوم فیضؔ نے کہیں لکھا بھی ہے ) کہ ترقی پسند مصنفین کی ایک کانفرنس میں جب فیضؔ ترکی کے شہرہ آفاق شاعر ناظم حکمت سے ملے تو باتوں باتوں میں (ترکی زبان پر فارسی کا اثر دیکھتے ہوئے )، بزعم خود فیضؔ نے کہا کہ اردو شاعری فارسی عروض کے مطابق لکھی جاتی ہے تو ناظم حکمت نے طنزیہ لہجے میں پوچھا، ’’تو کیا ہندوستان کی اتنی قدیم تہذیب اور لٹریچر میں شاعری کا اپنا کوئی عروض نہیں ہے جو آپ اردو والوں کو ایک بدیسی زبان کے عروض پر انحصار کرنا پڑا ہے ؟‘‘ یہ سوال سن کر فیضؔ کی جو حالت ہوئی ہو گی وہ مجھ پر عیاں ہے۔ وہ اردو عروض کی بڑائی کرتے ہوئے دو باتیں بھول گئے، ایک تو یہ کہ وسط مشرق اور خلیج کے ممالک کے بارے میں ترک لوگ بے حد منفی اثرات رکھتے ہیں، اور دوئم یہ کہ ایران اور عراق کے کلچر اور ثقافت سے ترک اشرافیہ اور عوام کو خدا واسطے کا بیر ہے۔

 

٭    ادب اگر اخلاقی تہذیب کا مددگار ہے تو حوالے کے طور پر بھی یاد رہنے کی چیز کوئی بیت یا مفرد شعر ہے یا پھر کوئی کوئی مہکتی غزل ہی ہو سکتی ہے۔ ۔ ۔ ۔ نظم حافظوں میں کہاں محفوظ رہ سکتی ہے۔

آنند:   ادب ’’ادب‘‘ ہے، جناب، ’اخلاق‘ نہیں ! اخلاق سے اس کی مماثلت ہمیں ’نیک بیبیاں ‘، ’مرا ۃ العروس‘‘ ’’توبۃ النصوح ‘‘ کی طرف لے جائے گی، جو ’ادب‘ نہیں ہے۔ اخلاقی، فلاحی، مذہبی اور نصیحت آموز مضامین ہیں، تقاریر ہیں یا پمفلٹ ہیں۔ اخلاق کی تعلیم دینا ادب کا نصب العین نہیں ہے۔

اب آئیں آپ کے سوال کے اس حصے پر کہ ’’ حوالے کے طور پر بھی یاد رہنے کی چیز کوئی بیت یا مفرد شعر ہے یا پھر کوئی کوئی مہکتی غزل ہی ہو سکتی ہے۔ ۔ ۔ ۔ نظم حافظوں میں کہاں محفوظ رہ سکتی ہے ؟‘‘خاکسار کا جواب یہ ہے کہ ایک پھڑکتا ہوا مصرع جو کسی دوسرے تناظر میں شاعر نے کہا ہو، ضرب المثل تو ہے، ’ادب‘ نہیں ہے۔ ؎ اندھے کو اندھیرے میں بہت دور کی سوجھی ۔ ۔ ۔ کا پہلا مصرع جرأتؔ کا ہے۔ یہ صاحب نا بینا تھے اور ایک دوست کے آنے پر انہیں بتانے لگے کہ ان کے ذہن میں ایک مصرع وارد ہوا ہے اور کلیت میں مسجع اور مقفیٰ شعر کہنے کے لیے دوسرا مصرع وارد نہیں ہو رہا۔ پوچھنے پر کہ کیا مصرع ہے، انہوں نے بتایا : ’اس زلف پہ پھبتی شب دیجور کی سوجھی ‘، ۔ ۔ ۔ تو فی الفور اس دوست نے یہ مصرع جڑ دیا جو جرأتؔ کے اندھے ہونے پر دال تھا۔ ’’اندھے کو اندھیرے میں بہت دور کی سوجھی!‘‘ میں آپ کو اس قسم کے درجنوں مصارع گنوا سکتا ہوں۔ اس لیے کسی مصرع یا شعر یا پوری غزل کا قاری یا سامع کی یاد داشت کا حصہ بن جانا کوئی پیمانہ نہیں جو یہ ماپ سکے کہ یہ بہترین قسم کا ادب ہے۔ اس بنیاد پر یہ تسلیم کرتے ہوئے کہ نظم حافظے میں محفوظ رہنے والی صنف نہیں ہے، یہ فرض کر لینا کہ بہ نسبت غزل بطور صنف، نظم بطور صنف ایک کمتر ادبی کاوش ہے، logical fallacy ہو گا۔

 

٭    نظم میں ابہام اور تجریدیت شاعری کو کمزور نہیں کرتی ؟

آنند:   جی نہیں، صاف اور براہ راست جواب یہ ہے، کہ ’ابہام‘ (جس معنی میں آپ لے رہے ہیں ) تو شاید اسے صریحاً نہیں تو مقابلتاً نا قابل فہم بنا دے، لیکن تجریدیت اس کی خوبی ہے، وصف ہے، خوبصورتی ہے۔ اب ابہام کو ہی دیکھیں غالب کا مطلع دیوان یہ ہے۔ ؎ نقش فریادی ہے کس کی شوخی ٔ تحریر کا : کاغذی ہے پیرہن ہر پیکر تصویر کا۔ ۔ ۔ اس کی تفسیر مجھ سے یا آپ سے (یا کسی بھی اردو کے طالبعلم سے ) پوشیدہ نہیں ہے۔ ہر ایک لفظ میں ایک معنی پنہاں ہے۔ ’’نقش‘‘، ’’فریادی‘‘، ’’شوخی ٔ تحریر‘‘، ’’کاغذی پیرہن‘‘، ’’پیکر تصویر‘‘، سبھی اپنے بطون میں اک جہان معنی کا حمل لیے پھرتے ہیں۔ (یاد رہے کہ یہ ایک غزل کا مطلع ہے، نظم کا مصرع نہیں !) ایک استعاراتی جہان آباد ہے اس شعر کے پیکر الفاظ میں ۔ ۔ ۔ اب اس استعاراتی جہان کی بابت بات کو آگے بڑھائیں، جن سے آپ کے قول کے مطابق وہ ابہام اور تجریت ہے جو نظم کو کمزور کرتی ہے۔ نظمیہ شاعری میں استعاراتی نظام ن م راشدؔ سے لے کرمیرا جیؔ، مجید امجدؔ، وزیر آغاؔ سے ہوتے ہوئے (کچھ نام چھوٹ گئے ہوں تو معافی!) اس خاکسار ستیہ پال آنند تک، یعنی سب کے ہاں موجود ہے۔ بقول راشد اگر کسی استعارے کو ایک نگینہ فرض کر لیا جائے تو یہ شاعر پر منحصر ہے، کہ وہ کہاں تک اس کو اپنے اندر کے جہان مخفی کا حصہ بنائے گا۔ پہلے تو نگینے کو انگوٹھی میں جڑے گا، پھر انگوٹھی کو ایک ڈبیا میں بند کرے گا، پھر اس ڈبیا کو ایک آہنی صندوق میں بند کر کے سات تالے جڑ دے گا۔ پھر اس صندوق کو سمندر کی گہرائی میں پھینک دے گا۔ اور پھر یہ باور کر کے مطمئن ہو کر بیٹھ جائے گا کہ قاری خود بہ خود اس نگینے کو تلاش کر لے گا۔

اب پھر غالب کے مطلع ٔ دیوان پر آئیں اور دیکھیں کہ غالب نے اس معنوی نگینے کو کس مرحلے پر پہنچایا ہے، یعنی صرف انگوٹھی میں اسے جڑنے تک، یا سبھی سیڑھیاں اترنے کے بعد سات تالوں والے آہنی صندوق کو سمندر میں پھینکنے تک؟

اس بحث کے سحر سے اب نکلتا ہوں کہ جواب در جواب کا سلسلہ بھی اس مسئلے پر ختم ہوتا دکھائی دیتا ہے کہ ایک غزلیہ شعر اور ایک نظم میں ابہام کی حدود کیا ہیں۔

 

٭    غزل عوام کی صنف اور نظم خواص کی صنف کیوں سمجھی جاتی ہے ؟

آنند:   اگر عوام سے آپ کی مراد نیم خواندہ عوام الناس ہیں تو میں آپ کے قول پر ایمان لے آتا ہوں اور اس میں مجھے اپنے ایمان کے متزلزل ہونے کا کوئی خطرہ بھی نظر نہیں آتا۔ انگلستان، کینیڈا، امریکا میں تین چار دہائیاں رہنے کے بعد میں دیکھ چکا ہوں کہ گلی میں چلنے والے، باغوں میں چہل قدمی کرنے والے، بڑے بڑے پلازوں میں شاپنگ کرنے والے، ریستورانوں میں کھانا کھانے والے، لاکھوں کی تعداد میں کسی بین الاقوامی میچ کو ٹی وی پر یا کھیل کے میدان میں ایک سو ڈالر کا ٹکٹ خرید کر دیکھنے والے۔ ۔ ۔ ۔ ان لوگوں کو شاعری سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ کیا ان لوگوں نے شیکسپیئر، پوپ، ورڈزورتھ، کیٹس، شیلے، ایلیٹ، ایذرا پاؤنڈ، یا فی زمانہ امریکا کے شعرا کے نام سنے ہوں گے ؟ سنے بھی ہوں گے تو کیا ان کی کچھ سطریں بھی انہیں حفظ ہوں گی؟ ہمارے ملک میں بھی یہی دستور ہے۔ غزل کو پسند کرنے والے لوگوں کا ایک خاص طبقہ ہے جو سطحی اور سستی دلچسپی کا سامان چاہتا ہے۔ اسے مشاعروں میں دیگر لوگوں کے ساتھ واہ واہ کرنے میں وہی لطف آتا ہے جو کسی ضعیف الباہ شخص کو پورنوگرافک ویڈیو دیکھنے میں آتا ہے۔ گائی ہوئی غزلوں کو عرف عام میں شاعر کے نام سے نہیں، گلوکار کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔ نیم خواندہ تو کیا، اچھی طرح پڑھے لکھے لوگ بھی فرمائش ان الفاظ میں کرتے ہیں، جگجیت سنگھ یا مہدی حسن یا سہگل یا فلاں یا فلاں کی گائی ہوئی فلاں غزل سنوائیں تو مزہ آ جائے۔ یعنی ’مزہ‘ کا تعلق شاعر سے نہیں ہے، گلو کار سے ہے۔

 

٭    آپ اس نعرے کو اون کرتے ہیں ’’ مرگ بر غزل ‘‘ ؟

آنند:   جی نہیں، قطعاً ً نہیں کرتا۔ میں پہلے عرض کر چکا ہوں کہ میں غزل کی گردن مارنے کے حق میں نہیں ہوں۔ اس کی اپنی ایک جگہ ہے، ایک خاص مقام ہے، اس سے ہماری تین چار سو برسوں کی ادبی تاریخ منسلک ہے۔ ہمارے بڑے شعرا بھی بوجوہ (اور وجوہات کا علم ہونا بھی ضروری ہے۔ ( ’’کچھ اور چاہئیے وسعت مرے بیاں کے لیے !‘‘)مجبوری کی حالت میں اسی میں طبع آزمائی کرتے رہے ہیں، تو میں کون ہوتا ہوں یہ فتویٰ صادر کرنے والا کہ ’مرگ بر غزل‘؟ اللہ اسے زندہ و پائندہ رکھے ! یہ پھلتی پھولتی رہے۔ دُودھوں نہائے اور پُوتوں پھلے۔ اس میں نئے نئے تجربات ہوں اور یہ ہمارے عوام الناس کے خون کو ایسے ہی گرماتی رہے، جیسے کہ اب کر رہی ہے۔

 

٭    غزل کے منسلکات و ملحکات رباعی، قصیدہ یا قطعہ وغیرہ نظم کی ہی نیابت کرتے ہیں خصوصاً وسیع مضمون آفرینی کے لیے۔ اس کے لیئے ’’غزل کی شہادت بہ معنی موت ‘‘کیوں ضروری سمجھے جائے۔

آنند:   بالکل نہیں، عالیجاہ ! غزل کو شہدا کے رتبے تک کون پہنچا رہا ہے۔ کم از کم میری نیت تو صاف ہے اور مجھے نہ صرف اپنی نیت کی ایمانداری پر بھروسہ ہے، بلکہ اس پر ہمہ وقت قائم بھی ہوں۔ میں تسلیم کرتا ہوں کہ غزل کے منسلکات و ملحکات ایسے ہی دیگر اصناف سخن کی نیابت کرتے ہیں، جیسے دیگر اصناف سخن کے منسلکات و ملحکات غزل کی نیابت کرتے ہیں۔ غزل قصیدہ کے فارمیٹ میں بھی لکھی جاتی ہے۔ لگ بھگ صد فی صد حمد اور نعت کی صنف غزل کی مرہون منت ایسے ہی ہے جیسے غزل ان کی ہے۔ ہاں، مجھے آپ کے اس انتدابی اعلامیہ سے اختلاف ہے کہ غزل ان اصناف کو وسیع تر مضمون آفرینی کا درس دیتی ہے۔ میرے قیاس میں غزل خود اس قوت لایموت اور اخذ بالجبر کی سطح پر کوتاہ دست ہے، حاجت مند ہے اور ان اصناف سے عند الٖضرورت اپنا خراج وصول کرتی رہتی ہے۔

 

٭    غزل کی موت پر ’’ خون دو عالم میری گردن پر ‘‘ آپ اس پر تیار ہیں ؟

آنند:   اب میں آپ سے گلہ کروں بھی تو کیا؟ آپ نے دو باتیں اس سوال کے شروع میں ہی فرض کر لیں، ایک یہ کہ غزل کی موت نا گزیر ہے اور دوسری یہ کی اس کی موت کا ذمہ دار مجھ کو، یا میرے جیسے دوسرے سوچنے سمجھنے والے لوگوں کی ٹھہرایا جائے گا۔ ان مفروضات کی بنا پر اپنا حتمی سوال آپ پوچھ رہے ہیں کہ کیا میں اس الزام کے لیے تیار ہوں ؟ جی، حضور، میں بالکل تیار ہوں۔ اللہ نہ کرے یہ مرگ طبیعی واقع ہو۔ جُگ جُگ جیے ہماری اردو غزل، لیکن اگر سکرات مرگ ناگزیر ہے، ضیق النفس ہو چکی ہے یا ہونے والی ہے ہماری پیاری غزل، تو اشکباری اور آہ و بکا میں دیگر لوگوں کے ساتھ رہوں گا۔ دعا کو ہاتھ اٹھاؤں گا کہ اللہ مرحوم و مغفور آسودۂ خاک کے درجات بلند فرمائے۔ آمین!

 

٭    شاعری یا ادب تخلیقی قوت ہی سہی مگر اس جذباتی صداقت کو کس حد تک بڑھایا جا سکتا ہے ؟

آنند:   سب سے پہلے یہ سوال افلاطون نے پوچھا۔ ۔ ۔ اور وہ بھی اس لیے اپنی مثالی ریاست Republic میں اس نے جہاں دیگر شعبہ جات، بشمولیت مجسمہ ساز، دیواروں پر تعلیمات کندہ کرنے والے، موسیقاروں اور دیگر فنکاروں پر ریاست کے لیے غیر مثبت ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں کوئی تبصرہ نہیں کیا تھا، شعرا کو اس نے اس لیے ’ملک بدر‘ یا ملک کو ’خالی از شعرا ‘ رکھنے کی تجویز دی تھی کہ (بقول اس کے ) شعرا کو سوائے اس کے کوئی اور کام نہیں کہ وہ لوگوں کے جذبات سے کھیلیں اور اس طرح عوام الناس کے دیگر پیداواری کام کرنے کی رفتار میں رخنہ ڈالیں۔ اس کا جواب ارسطو نے اپنی بوطیقا Poeticsمیں دیا، لیکن اس کا جواب بھی محدودے تحدیدے چندے شعرا کی اس خاص جماعت سے تھا جو ڈرامہ نویس ہیں۔ ’شاعری‘ اور ’شعرا‘ کی اس محدود definitional pin-pointingکے بارے میں افلاطون اور ارسطو کے ارشادات سب کو از بر ہیں اور انہیں دہرانے کا نہ تو یہاں وقت ہے نہ ہی مقام ہے۔ میں پہلے ذکر کر چکا ہوں کہ قرآن مجید میں جو ارشادات اللہ سورۃ الشعرا میں ہیں ان کا جواز بھی اس وقت اور مقام کے بارے میں ہے جب اسلام کے ظہور پذیر ہونے کے وقت تک شعرا اپنی تخلیقات مکہ کی دیواروں پر تحریر کیا کرتے تھے اور ان میں بیشتر کو پڑھنا صرف وقت کا ضیاع تھا۔ تو، صاحب، طے ہوا کہ دونوں حوالوں سے، ان کے سیاق میں بھی اور سباق میں بھی، اس وقت اور مقام کے تناظر میں، یہ ارشادات صحیح القدر تھے، چہ آنکہ ہم انہیں آج کے حوالے سے دیکھ کر کچھ اور نکات کو بھی زیر بحث لا سکتے ہیں۔

یہ ضروری ہی نہیں کہ ہم ایک نپے تلے، جانچے بانچے ہوئے پروگرام اور ٹائم ٹیبل کے مطابق اس ’جذباتی صداقت‘ کو آگے بڑھائیں۔ اس کو کھل کھیلنے دیں۔ پانی کی طرح یہ اپنا راستہ خود تلاش کرتے ہوئے آگے بڑھتی جائے گی۔ ۔ ۔ ۔ ہاں، مجھے آپ کی اصطلاح ’جذباتی صداقت‘ پر اعتراض ہے۔ صداقت میں قیمتوں اور قدروں کا تعین نہیں ہوتا اور نہ ہی اس کی اقسام گنوائی جاتی ہیں کیونکہ صداقت غیر منقسم ہے، اس میں قطعیت کا عنصر شامل ہے، یہ بر حق ہے، غیر مخلوط ہے۔ ۔ ۔ ۔ اس کے ساتھ اگر سابقون منسلک بھی کر دیے جائیں، (مثلاً مسلمہ صداقت) تو بھی اس کے اصلی، بے آمیز کانسیپٹ سے انحراف نہیں ہوتا۔

 

٭    شاعری جب خود میں ’’ بطور علم ‘‘نہیں تو پھر یہ کائناتی علم کو بڑھانے میں مددگار تو نہ ہوئی نہ۔ ۔ ۔ محض کائناتی یا نفسیاتی صداقتوں کی دہرائی یا جگالی کا کام کر رہی ہے۔

آنند:   سب علوم اور فرداً  فرداً ہر ایک علم خود میں ’مکمل‘، خود کفیل نہیں ہے۔ اگر علوم کے ناموں کی صرف فہرست ہی بنانا شروع کروں تو صفحے کے صفحے سیاہ ہو جائیں گے۔ علم ہندسہ، علم ریاضی، علم موجودات، علم کیمیا، علم طبقات الارض، علم حیوانات، علم جمادات، علم اخلاق، علم موجودات، علم ادب، علم مساحات، علم عروض، بلاغت، بیان، کلام معانی، علم الٰہی، علم دین، علم نجوم یا ہیئت۔ ۔ ۔ ۔ میں نے کچھ علوم کی فہرست کو گڈ مڈ کر دیا ہے، لیکن پھر بھی اپنا منشا سمجھانے میں شاید کفیل ہوں۔

جی ہاں، شاعری خود میں ’علم‘ نہیں ہے۔ لیکن یہ کیسے فرض کیا جا سکتا ہے کہ اگر یہ علم ہوتی بھی تو اس کا دائرہ ٔ کار کائنات کے علوم کو آگے بڑھانے میں مددگار ہونا ہے۔ علوم چونکہ خود میں ’مکمل‘ نہیں ہیں۔ اس لیے ایک دوسرے پر انحصار رکھتے ہیں۔ بودھ اور شُد بُد خدا داد ہے، لیکن مطالعہ، تربیت، تحصیلات، سائنسی پیش رفت سے آگاہی وغیرہ کسی کو بھی ذی استعداد اور بالغ نظر بنانے میں مدد دے سکتے ہیں۔

٭    عقائد ’’ اختیاری‘‘ ہوتے ہیں ملکیتی نہیں۔ ۔ ۔ تو پھر اس میں غیرت کا عنصر کہاں سے آ جاتا ہے جو بے دریغ، بے شعور خود ساختہ فرض بن جاتے ہیں ۔

٭    کائناتی رویوں سے متصادم ’’ یقین ‘‘پا لینے کا نظریہ کہاں ایگزسٹ کرتا ہے ؟

٭    سائنسی شہادتوں کے علاوہ دینی، اخلاقی اور علمی یقین کی حیثیت انفرادی نہیں کیا ؟ تو کیا آفاقی یقین کی دریافت کو  دعوت بنایا جا سکتا ہے۔ ۔ ۔ اور اس پر گواہ کہاں سے آئیں گے ؟

٭     علوم کی ساختیات کو جاننے ماننے سے پہلے دین کی قبولیت کا محفوظ تصور کیا ہو سکتا ہے ؟

 

٭    کیا علم سیال شکل(استمراری) میں بھی حجت بن سکتا ہے ؟ یہ سیال شکل انفرادی صداقت بھی ہو سکتی ہے۔ ؟

آنند:   مجھے محسوس ہوتا ہے کہ سوالات کا یہ سلسلہ (پانچ سوالات) میری امکانیہ حدود سے باہر ہے۔ میں ان پر ایک کتاب تو لکھ سکتا ہوں، لیکن اس انٹرویو میں، خصوصی طور پر کہ یہ اسی برس یعنی سن 2015ء میں پاکستان میں اشاعت پذیر ہو گا، میں کوئی جوکھم مول لینے کی حیثیت میں نہیں ہوں۔ اور یوں بھی ان سوالات کا ادب سے کوئی براہ راست تعلق نہیں ہے۔

 

٭    شاعری زندگی اور موت کی بند عمارت میں دروازے کی درزوں میں سے امکانیات کا سود و زیاں دیکھنے سے عبارت ہے۔ یہ کھلم کھلا آسمانی مشاہدہ تو نہ ہوا ؟ لیکن تجسس اور راز داری کا فائدہ اس کو ہی ملتا ہے۔

آنند:   سوال کا پہلا جملہ ایک خوبصورت تلمیح ہے۔ بند عمارت، دروازے کی درزیں، کے بصری منظر نامے کے بعد، شاعری کا ایک بھولی بھالی لڑکی کی طرح ان درازوں میں سے امکانیات کا سود و زیاں دیکھنے کا اشارہ۔ استعارہ، استنباط اور تلطیف عبارت euphemism کا حسین سنگم۔ لیکن سوال کے طور پر میرے لیے یہ سریع الفہم ہے، الم نشرح ہے، یسرنا ہے۔ میں اس کا مطلب پا گیا ہوں۔

کھلم کھلا آسمانی مشاہدہ تو سائنس کا کام ہے۔ کیا امکانات کا سود و زیاں نبیوں نے (بشمولیت حضورﷺ ) نے اس طرح دیکھا تھا؟ نہیں، نہیں اور نہیں۔ ان کے لیے تو ان کے دل میں آسمانی مشاہدات کھلم کھلا موجودات کی طرح حاضر تھے۔ ۔ ۔ شاعری کے بارے میں پہلے بہت سی باتیں کہی جا چکی ہیں اس انٹرویو میں۔ شاعری جزویست از پیغمبری میں جو رمز نہاں ہے، اور جس کی طرف بہت کم توجہ دی جاتی ہے، وہ یہ ہے، کہ شاعری per seیعنی خود کفیل ’پیغمبری‘ نہیں ہے، اس کا جزو ہے۔ صرف نجماً نجماً اس سے ملتی ہے۔ ایک ڈال ہے، ایک پات ہے، اُس شجر کا جو پیغمبری ہے۔ یہ اس درخت کا مرکزہ نہیں ہے۔

اب اگر یہ طے ہو گیا تو باقی کا کام میں با آسانی کر سکتا ہوں۔ لیجیے، سقراط سے شروع کرتے ہیں اور Dylon Thomas تک پہنچ کر ختم کریں گے۔ سقراط لکھتا ہے۔

Not by wisdom do they {poets} make what they compose, but by a gift of nature and inspiration similar to that of the diviners and the oracles. (Socates in Plato’s Apology (4th c. B.C. ) tr. Lane Cooper.

میں بذات خود رومانی شاعری کو اس حد تک پسند نہیں کرتا، جس حد تک انگریزی کی جدید شاعری کو چاہتا ہوں، لیکن رومانی شعرا میں شیلےؔ اس لیے میرا پسندیدہ ہے کہ ورڈزورتھؔ اور کالریجؔ کی نسبت شاعری کے بارے میں اس کے خیالات میں الجھاؤ بھی بہت کم ہے اور ان خیالات میں ایک مقّرر سا تخاطب کا لہجہ بھی نہیں ہے۔ A Defence of Poetry میں مشمولہ یہ اقتباسات پڑھنے کی دعوت دیتے ہیں۔

Poetry, lifts the veil from the hidden beauty of the world, and makes familiar objects be as if they were not familiar. A Defence of Poetry (1821)

A poet is a nightingale, who sits in darkness and sings to cheer its own solitude with sweet sounds. A Defence of Poetry (1821)

Poets are the hierophants of an unapprehended inspiration, the mirrors of the gigantic shadows which futurity casts upon the present. A Defence of Poetry (1821)

کارل سینڈبرگؔCarl Sandburg لکھتا ہے

Poetry is the opening and closing of a door, leaving people who look through to guess what is seen during a moment: as an eternity.

"Tentative(First Model) Definition of Poetry” Complete poems. (1950)

ولیم سٹیونز William Stevens نے صرف ساٹھ برس پہلے لکھا تھا:

The poet is the priest of the invisible۔  "Adagia,” Opus Posthumous (1957)

ڈِلن تھامسؔ نے کچھ باتیں شاعری کے الوحی فن کے بارے میں اور دونوں دنیاؤں، عالم لاہوت اور عالم لاسوت کے بارے میں کہی ہیں، جو مجھے اور کسی دانشور کے ہاں اس خوبصورتی سے لکھی ہوئی نہیں مل سکیں۔

A good poem is a contribution to reality of the other world bequeethed to this world. And once it is the given, this world is never the same. A good poem helps to change the shape and significance of the universe, helps to extend everyone’s knowledge of himself and the world around him.

(On Poetry, Quite Early One Morning (1960)

ایک اور جگہ ڈلن تھامس لکھتا ہے۔

The best poem is that whose worked-upon unmagical passages come closest, in texture and intensity to those moments of magical accident.

(On Poetry, Quite Early One Morning (1960)

مکرمی ضیا صاحب۔ میں نے خود کچھ نہ لکھ کر ان دانشور شعرا کی آراء پر اس لیے انحصار کیا ہے کہ میں اس سے بہتر انگریزی بھی نہیں لکھ سکتا اور اگر یہی خیالات میں اردو میں تحریر کروں گا تو سرقہ کا ملزم گردانا جاؤں گا۔ اس لیے انہی پر اکتفا کرتا ہوں۔

 

٭    غزل سے آپ کی بیگانگی اس زمین کا بنجر پن ہے یا دیگر زبانوں میں موجود ادبیات کے تقابلی جائزے نے آپ کو اس سے مایوس کیا ہے ؟ؓ؟؟؟ٰ اس تقابلی جائزے نے گھر کی غربت کا مذاق اڑانا شروع کر دیا ہے۔

آنند:   لیجیے، ہم پھر سبزۂ آغاز سے ادھیڑ عمر تک پہنچتے پہنچے عین عنفوانِ شباب میں لوٹ آئے، یعنی اس قدر بالغ النظر باتیں کرتے ہوئے یکایک غزل کے الّے تللے۔ ۔ ۔ ۔ خیر چھوڑیئے، اگر آپ بضد ہی ہیں تو میرا جواب دیکھیئے۔

آپ کے دونوں ارشادات صحیح ہیں۔ جی ہاں، اول تو غزل سے میری بیگانگی کا سبب اُس زمین کا بنجر پن ہے جس میں پہلے ہزاروں بار فصلیں بوئی جا چکی ہیں، کاٹی جا چکی ہیں، اور بغیر کھیت کو صاف کیے، بغیر اس میں نئی کھاد ڈالے اور بغیر اس میں ہل چلائے نئی فصلیں بوئی جاتی رہی ہیں۔ اب یہ زمین نسل کش ناکارگی کی ایک زندہ (لیکن نیم مردہ حالت میں ) مثال ہے۔ لا حاصل، لا طائل، الل ٹپ نتیجہ ہے جو روایتی غزل پیش کر رہی ہے۔ دوئم، آپ نے یہ بھی صحیح فرمایا کہ دیگر زبانوں میں موجود ادبیات کے تقابلی جائزے نے مجھے اس سے مایوس کیا ہے۔ میں دعوے سے تو نہیں کہہ سکتا لیکن اس وقت یورپ اور امریکا میں شاید صرف میں ہی ایک ان تھک ادنیٰ کامگار ہوں، جس نے نہ صرف اپنی یونیورسٹی کے لیے بلکہ آدھ درجن سے زیادہ یونیورسٹیوں کے لیے تقابلی ادب کی کورسز کی تشکیل کی ہے۔ ان کی curriculum planning کی ہے۔ یورپ کی بڑی زبانوں کے ادب کے علاوہ بر صغیر کی تین بڑی زبانوں، ہندی، اردو اور بنگلہ کا اس میں، ہون کی آہوتی کے برابر ہی سہی، لیکن حصہ ضرور شامل کیا ہے۔ جہاں یورپی زبانوں اور ہندی کے علاوہ بنگلہ زبان میں بھی ڈرامہ (ناٹک) ایک راسخ صنف کے طور پر موجود ہے، وہاں اردو کا دامن اس سے خالی ہے۔ ناول ہماری زبانوں کو یورپ کی دین ہے۔ بنگلہ اور ہندی میں تقریباً ساتھ ساتھ اس کی بنیاد پڑی۔ اردو میں ناول کو سکۂ رائج الوقت بننے میں کئی دہائیاں لگ گئیں، جب تک کہ بنگلہ زبان کی دیکھا دیکھی منشی پریم چند نے دیہاتی زندگی کے بارے میں ناول نہیں لکھے۔ شاعری ہی ایک ایسی صنف تھی، جو مقابلتاً برو مند تھی، اُپجاؤ تھی، ثمر آوری میں کسی بھی دیگر زبان کا مقابلہ کر سکتی تھی، لیکن پہلے صنف غزل کے دم خم، سرگرمی، جوش و خروش اور گہما گہمی نے جو فضا پیدا کی، اس کے بعد ’پدرم سلطان بود‘ کی عادت کے زیر اثر، اندر ہی اندر سلگتے ہوئے، یہ صنف بے سکت، غیر فعال ہوتی چلی گئی۔ جمود نہیں آیا، لیکن اڑیل پن نے اسے جونچال بناتے بناتے لا تصحیٰ اعادہ، تکرار کا حامل بنا دیا۔ یہ جنس کوڑی کے مول بکنے لگی۔ ہما شما شاعر بن گئے، بیش از بیش، مکرر اور سہ کرر آوازیں ہماری سماعت سے ٹکرانے لگیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ محترمی، یہ تھی وہ دوسری وجہ جس نے مجھے متنفر کیا۔ دروغ پر گردن راوی۔

 

٭    غزل سے مایوس ہونے کی بجائے آپ نے اس میں اپنی ندرت سامانی کو اس کا مساعد و مددگار کیوں نہیں بنایا۔ غالب و اقبال مایوس نہیں ہوئے تو آپ کیوں ہیں ؟

آنند:   گستاخی معاف فرمائیں تو کہوں کا کہ اس جرح میں میری کوتاہیاں تو لا تعداد ہیں۔ کردہ گنا ہوں کی فہرست میں تو یہ شامل ہے کہ میں نے صنف غزل کو بد نظمی کا شکار ہونے سے بچانے کے لیے درجنوں مضامین اور مقالے لکھے۔ ناکردہ گنا ہوں کی فہرست میں اب آپ نے یہ بھی شامل کر دیا ہے کہ میں نے ’کیوں ‘ خود یہ جتن نہیں کیا جو غالب اور اقبال نے کیا تھا۔ (معافی چاہتا ہوں لیکن اقبال نے کب اور کہاں یہ جتن کیا تھا، یہ میرے مطالعے میں نہیں آیا) غالب نے جو کچھ کیا اسے خود بھی قابل اعتنا نہیں سمجھا اور جاتے جاتے بھی اپنے فارسی دیوان کو اردو دیوان پر فوقیت دے کر گویا آنے والی نسلوں کو ایک بار پھر یہ یاد دلا دیا کہ اردو صرف ریختہ ہے، ریختہ ہے، گری پڑی ہوئی چیز ہے جو ہم نے مال مفت سمجھ کر اٹھا لی ہے۔ اب آئیں آپ کے اس سوال کے مرکزہ کی طرف۔ میں نے اپنی ’’ندرت سامانی‘‘ کو اس صنف کا ’’مساعد و مددگار‘‘ کیوں نہیں بنایا۔ یہ ایک من ٹوہنی بات تھی اور آپ کے سوال کا جواب تلاش کرتے ہوئے خود اپنی پڑتال اور پرچول کی تو پایا کہ مجھ میں نہ تو غالبؔ کا مدوریت اور ملفوفیت پر انحصار کہ ایک سے تین تک استعاراتی ؍ دیومالائی ؍ قدیم ادبی حوالوں کو گڈ مڈ کر کے ایک ساتھ ایک ہی شعر میں سر بمہر لفافے کی طرح رکھ دوں اور نہ ہی شعرا کی وہ خصوصیت موجود تھی جو تین صدیوں تک اردو غزل کی ایک راسخ روایت تھی اور یہی دکھائی دیتا تھا کہ ایک طویل قطار ہے، جس میں چلتی ہوئی، سسکیاں بھرتی ہوئی، آہ و بکا میں مصروف، گریہ زاری کا تلذز اٹھاتی ہوئی، جزع و فزع میں بلبلاتی ہوئی، ’خود ترحمی‘ کا شکار، شعرا کی ایک لمبی ’تیرتھ یاترا‘ پر نکلے ہوئے شاعر شامل ہیں، جو سینہ کوبی اور ما تھا پیٹنے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانا چاہتے ہیں۔

بر سبیل تذکرہ، جب پنجاب یونیورسٹی، چنڈی گڑھ، جہاں میں انگریزی کا پروفیسر تھا اور اکاڈمک کونسل کا صدر تھا، ہم لوگوں کی سعی مسلسل سے شعبۂ اردو کا وجود عمل میں آیا، تو اس کے ریسرچ کے پروگرام کی نگرانی کا کام مجھے سونپا گیا۔ ایم اے فائنل میں Dissertation لکھنے کا کام بھی شامل تھا اور ایک خاتون نے جب غزل کی تاریخ پر لکھنے کا ارادہ ظاہر کیا۔ تو میں نے اسے بیسویں صدی کے پہلے نصف میں تین ہزار اردو اشعار کی فہرست بنانے کا کام سونپا، جن میں اسے موضوع کے طور پر self-pity یا خود ترحمی پر مشتمل اشعار کی شرع تلاش کرنا تھی۔ جب نتیجہ دیکھا تو میں خود حیران رہ گیا۔ ان تین ہزار اشعار میں 2216 اشعار تھے جنہیں اس زمرے میں رکھا جا سکتا تھا۔ (ان میں فانی بدایونی کے اشعار کی شرع سر فہرست تھی، جس کی شاعری میں 98.2% اشعار اس قبیل کے تھے )

تو ضیا صاحب جی، اور صاحبو، میں نے اردو غزل میں اصلاح کا بیڑا اٹھانے سے انکار کر دیا۔ جہاں آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہو، پورے کا پورا بھٹہ ہی بیٹھ گیا ہو، وہاں آپ کون سی اینٹ سلامت پائیں گے۔ گندی موری کے کیڑوں کی طرح بلبلاتے ہوئے یہ اشعار طبیعت پر گراں گذرتے تھے، میں ایسے اشعار کہاں تخلیق کر سکتا تھا!

 

٭    غزل کے مضامین کی غرابت اور یکسانیت دیکھ کر آپ پسند کریں گے کہ غزل بھی معروضی واقعات اور اخباری صداقتوں پر اپنی تخلیقیت کا معیار قائم کر لے ؟

آنند:   جی ہاں، میرا جواب جزوی طور پر اثبات میں ہے۔ معروضی واقعات اور اخباری صداقتیں ؟ الفاظ اور اصطلاحات کے کام میں بھی آپ کا وہی حسن انتخاب جھلک رہا ہے، جس کی شکایت میں پہلے دبی زبان میں کر چکا ہوں۔ کیوں نہ ہم ان دو خود ساختہ اصطلاحات کو ایسے بدل دیں، ’’سماجی، معاشی، معاشرتی واقعات‘‘ اور ’’میڈیا کی وساطت سے حاصل کی ہوئی معاشرے کی صداقتیں ؟ اس طرح اجتماعی زنا کاری، بچہ بازی، حکومت کی عین ناک کے نیچے رشوت خوری، وغیرہ ؎؎ واقعات آپ کے ذہن میں کلبلاتے ہوئے خود ہی آپ سے مانگ کریں گے، کہ ہمیں دیکھو، ہم پر بھی اپنا قلم آزماؤ۔ میں جانتا ہوں غزل گو شعرا کے لیے یہ کام مشکل ہو گا۔ شاید ایک دو نسلیں اس کام کو کرتے ہوئے گذر جائیں لیکن کامیابی مشکوک نہیں ہے۔

 

٭    روایت۔ ۔ ۔ اس کو تحریک علمی تاریخ بناتی ہے یا ہمارا ’’تخلیقی اجماع ‘‘۔ یا نا ختم استمرار

آنند:   یہ تو ایک مسلسل جزر و مد ہے، flow and flux ہے جسے یہ سب ایجنسیاں مل کر، پہلے ایک پرانی کار کی طرح دھکے لگا کر ’سٹارٹ‘ کرتے ہیں اور پھر وہ خود بخود ہی چلنے لگتی ہے۔ گذرے ہوئے کل کا ’تجربہ‘ آج کی ’روایت‘ بن جاتا ہے۔ روایت بننے کے بعد آنے والے ’کل‘ میں ایک نیا تجربہ جنم لیتا ہے۔ اور پرسوں نرسوں تک پھر روایت میں بدل جاتا ہے۔ جی ہاں، یہ ایک لا اختتام استمراری عمل ہے۔

 

٭    تجربے اور روایت کے مرحلے سے گذرتے ہوئے گذشتہ ستر پچھتر برس کی اردو شاعری کا لیکھا جوکھا کریں، تجریت اور تجربہ۔ ۔ ۔ ۔ دونوں کے صحتمند اور بیمار اثرات کے بارے میں !

٭    لفظ کم ہیں اور معنی زیادہ۔ ۔ ۔ اس مشکل کا حل کیا ہے ؟

(تجریدیت سے بچتے ہوئے )

آنند:   شاعری کی تعریف میں یہ مد بھی شامل ہے کہ کم سے کم الفاظ میں زیادہ سے زیادہ معانی ایسے بارود کی طرح بھر دیے جائیں جو قاری کی سطح پر خود بخود ایک دھماکے کی صورت میں ظاہر ہو، اور اس کا ذہن ان معانی کو قبول کرنے کے لیے تیار ہو جائے۔ اس مشکل کا حل؟ ایک تو چچا غالب نے امکان اور عمل، دونوں کی سطح پر اپنی مدوریت اور ملفوفیت سے ظاہر کیا تھا، دوسرا استعارہ، علامت، لڑی وار پروئی ہوئی تشبیہات کو تصویری مفہوم کی سطح پر ایک chain of slides کی طرح پیش کرنے کا جو آپ کی تخلیقی قوت کا کیمکارڈر فلم کرتے ہوئے چلاتا چلا جاتا ہے (انکسار سے عرض کروں کہ میں خود یہ راستہ ماپتا ہوں ) کیا      Brevity is the soul of wit نہیں کہا گیا تھا؟

 

٭    شاعری کے جذباتی صداقت ہونے کا سیدھا سادھا مطلب یہ نہیں کہ ہم متوازی صداقتوں کے نظام کو تسلیم و تجویز کرتے ہیں

آنند:   جی ہاں۔ جی نہیں۔ ’’متوازی صداقتیں ‘‘ عموماً ہم  ome closest, in texture and ineعصری محرکات کی پیدا شدہ اکائیاں ہی ہوتی ہیں، جنہیں دوام حاصل نہیں ہے۔ سیاسی، سماجی، معاشی، معاشرتی، ’مذہبی ‘ ’تاریخی‘(مذہب اور تاریخ کی عصری تفسیر و تاویل کی روشنی میں ) یہ صداقتیں کچھ دہائیوں کے بعد ہی اپنا چہرہ چھپاتی پھرتی ہیں کیونکہ زمانے کی رفتار نے اس چہرے کو مسخ کر دیا ہوتا ہے۔ ٹائن بیؔ کہتا ہے :

History never looks like history when you are living through it. It looks truth. In the coming decades, however, truth is sifted from exaggeration and falsehood and then it looks history.۔ …And yet, coming centuries might sift it further and put it in the garbage can of myth, fancy, fiction and fantasy.

اب اس کا جواب میں کیا دے سکتا ہوں کہ شاعری کی ’صداقت‘ کیوں، کب، کہاں اور کیسے ان قلیل المدتی سچایؤں سے افضل اور برتر ٹھہرتی ہے۔ ’کب‘ کا جواب تو میں نے دے دیا، یعنی کچھ دہائیوں یا کچھ صدیوں کے بعد۔ ’کیوں ‘ کا جواب بھی اس بات میں مضمر ہے کہ، بقول Russell Lowell

Old events have modern meanings; only that survives

Of past history which finds kindred in all hearts and lives.

("Mahmood the Image Breaker” in Under the deWillows and Other Poems. 1808)

’ کہاں کا جواب ذرا آڑا ترچھا ہے۔ یعنی ’تاریخ‘ کے مقابلے میں یہ ’جغرافیہ‘ سے زیادہ تعلق رکھتا ہے۔ جو سچائی آج اسرائیل میں مسلمہ، مصدقہ اور مستند تسلیم کی جاتی ہے، وہ عرب ممالک میں دروغ سے بڑھ کر اور کچھ نہیں۔ یہی حالت دیگر ممالک میں بسنے والی قومیتوں کی ہے۔ اب رہا ’کیسے ‘ کا سوال، توJean Cocteau اس کا جواب یوں دیتا ہے۔

What is history, after all? History is facts which become lies next door, in the next house or the next country in the end. On the other hand legends are lies which become history in the end, within the same door, locality or country.

شاعری کی صداقت کا تعلق تاریخ جذر و مد سے نہیں ہے۔ اس لیے موازنہ حسب بالا ’متوازی صداقتوں ‘ سے کیا جانا ضروری نہیں ہے۔

 

٭    عقل کے فاضلانہ ذوق نے شعر و ادب کی راہ میں مزاحمت پیدا نہیں کی۔ ۔ ۔ ورنہ فلسفہ کی موجودگی میں۔ ۔ ۔ ۔ ؟؟؟

آنند:   جی، مزاحمت کی بھی ہے، اور نہیں بھی کی۔ جب اقبال یہ کہتے ہیں۔ ’’اچھا ہے دل کے ساتھ رہے پاسبان عقل: لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے ‘‘ تو وہ میانی راستہ اختیار کر رہے ہیں۔ The Middle Path کبھی صحیح راستہ نہیں ہوتا، لیکن دائیں بائیں لگاتار چلتی ہوئی دو کانٹے کی باڑیوں سے حفاظت ضرور مہیا کرتا ہے۔ یہاں تک تو ’عقل‘ کی بات تھی، جو غزلیہ شاعری میں، خاکسار کے قول کے مطابق، اس لفظ کے تابع مہمل ’وقل‘ سے زیادہ مستعمل ہے۔ ہاں، اگر آپ بضد ہیں کہ’ فلسفہ‘ کو بھی ’عقل‘ کے ضمیمہ کے طور پر شامل کر لیا جائے، تو، محترم، یہ مجھ جیسے ایک شاعر کے لیے بے حد جوکھم کا کام ہے کہ میں اس کا جواب دوں۔ کوشش کروں تو بھی نہیں دے پاؤں گا۔ اس لیے معذرت۔

 

٭    انسان کی طینت میں موجود کمزور عناصر نے اپنے نشیبی بہاؤ کے لیے فنون لطیفہ کی کفالت کی، کیونکہ مرویاتِ علمی سے استفادہ ہر شخص کے بس کی بات نہ تھی۔ ۔ ۔

آنند:   ایک بار پھر میرا جواب اثبات میں بھی ہے اور نفی میں بھی۔ اگر آپ ارسطوؔ کے قول پر مضبوطی سے قائم ہیں کہ شاعری (اس کے زمانے کے یونان میں Poetic Play )، تھیئٹر میں بیٹھے ہوئے سامعین کے دل و دماغ میں routine workaday کی زندگی سے پیدا شدہ، ہیجان، اعصابی حساسیت، تنک مزاجی وغیرہ کو خارج کرنے میں ایک نشیبی بہاؤ کا ساکام کرتا ہے، تو میرا جواب، ارسطو کے دور کے حوالے سے، اثبات میں ہو گا۔ لیکن آج جب کہ الیکٹرانک میڈیا، پڑھی جانے والی یا سنی جانے والی، شاعری کی نسبت لاکھوں گنا آگے بڑھ چکا ہے، ارسطوؔ کا قول اپنے معانی کھو چکا ہے۔ مرویات علمی سے استفادہ عوام الناس کے بس میں تب بھی نہیں تھا اور آج بھی نہیں ہے، اس لیے سوال کا دوسرا حصہ اپنا توازن کھو بیٹھتا ہے۔ شاعری علم و دانش کا سستا نعم البدل نہیں ہے۔ نہ ہی علم و دانش شاعری کا نعم البدل ہے۔ دونوں خود میں مختار ہیں۔

 

٭    تخلیقی تعبیرات سے ہی ایک کمزور دوسرے کمزور کے پیچھے چھپ رہا ہے ؟

آنند:   الحمد اللہ! کیا تاویل نکالی ہے آپ نے قبلہ! میری ناقص عقل میں تو کچھ نہیں پڑا۔ اگر ’تخلیقی تعبیرات‘ سے آپ کی مراد وہ تشریحی، استبصاری یا استناجی فرمودات ہیں جو کسی شعری تخلیق پر ’ٹانک‘ دیے جاتے ہیں، (جیسے دیوان غالب کی شرعوں میں کچھ شارحین آج تک کئی اشعار پر متفق نہیں ہو سکے )، تو میں آپ کو داد دیتا ہوں کہ آپ نے ’ایک کمزور‘ (شاعر) کو دوسرے کمزور (شارع) کے پیچھے (یا الٹ پھیر میں شارع کو شاعر کے پیچھے ) چھپنے کا استعارہ دے کر مجھے ایک نئی نظم کا موضوع فراہم کر دیا ہے۔

 

٭    تخیل پر بھی لاشعوری طور پر مذہب کا چھاتا موجود ہے ؟ سو ہمارا ادب بھی مسلم، ہندو، عیسائی اور ملحد ہو جاتا ہے۔ ۔

آنند:   جی نہیں، بالکل نہیں، قطعاً نہیں۔ مذہب کا چھاتا اگر موجود بھی ہے اور میرے جواب کو اس سے کوئی علاقہ نہیں ہے تو ایسا ادیب وہ ہے جو یا تو دینی فالنامے منضبط کرے گا یا اپنے قلمدان کو ہدایت ناموں، تعویذوں ، امام ضامنوں کے لیے مخصوص کر دے گا، یا اپنی خامہ فرسائی کو کٹ ملّا ئی کے حوالے کر کے بنیاد پرستی سے چپک جائے گا اور متقین یا متشرعوں میں شمولیت اختیار کر لے گا۔ اصلی ادب میں مذہب کا دخول صرف اس حد تک ہے کہ مذہب کے حوالے سے جو اساطیری یا تاریخی یا نیم تاریخی، مستند یا غیر مستند حوالہ جات، داستانیں پشتہا پشت سے چلتی ہوئی ہم تک پہنچی ہیں، انہیں ہم استعاراتی حوالوں کے طور پر استعمال کرتے رہتے ہیں۔ کربلا یا رام کے بنباس کے استعارے اب اسلام یا  ہندو مذہب سے اٹھ کر آزاد خیالی یا اثباتیت کے ذیل میں آ گئے ہیں۔

 

٭    تخلیق کا پیدائشی دین کیا ہے۔ ۔ ؟کیا وہی جو انسان کا ہے ؟ مگر اس پر بعد میں نافذ ہونے والے مختلف قسم کے ’’اثرات ‘‘ (خارجی اور داخلی ) اس کی خلقی نفسیات باقی رہنے دیتے ہیں۔ ؟

آنند:   تخلیق کا ’پیدائشی دین‘؟ جی ہاں، وہی ہے، جو انسان کا ہے۔ ہم انگریزی میں اسے ہیومنزم کہتے ہیں۔ بشریت، انس، آدم دوستی فطرت انسانی ہیں۔ ذاتی، شخصی، نسلی، اجتماعی، مشربی، عمرانی، جماعتی، اس کے ارکان ہیں۔ سماجی اقتصادیات، قومیت، مہذب سماج، ملت، امت۔ ۔ ۔ سب اس ’ہیومنزم‘ کے تحت رہ کر ہی پھل پھول سکتے ہیں۔ اس لیے خارجی اثرات، (جن کے بارے میں آپ نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ وہ کیا اس کی ’خلقی نفسیات‘ کو قائم رہنے دیتے ہیں )، چاہے کچھ مدت کے لیے اس پر اپنے منفی اثرات سے حملہ آور ہو بھی جائیں، تو بھی ’ہیومنزم‘ کا مدرک و مشعر جیتا جاگتا سایہ دیر تک ملتوی نہیں کیا جا سکتا۔ یورپ کی دو عظیم جنگوں نے (جو یورپ کے علاوہ ایشیا اور افریقہ میں بھی لڑی گئیں ) نے یہ واضح کر دیا ہے کہ آخر کار انسانیت کا بھلا ہیومنزم کی پیروی میں ہی ہے۔

 

٭    نظم کو فروغ دینے کی کوشش کا ایک مقصد یہ بھی تو نہیں کہ انسان کی نفسیات سے بالا اسے مسائل کی بات چیت تخلیقی سطح پر کرنے کی ضرورت آ گئی ہے۔

آنند:   شاید ہو، لیکن اردو نظم کی ’مین اسٹریم‘ سے وابستہ جو ایک زیریں رو میرے نام کے حوالے سے پہچانی جاتی ہے، اس کا صرف (اور صرف) ایک مقصد ہے کہ موضوعات اور مضامین کے انتخاب میں شاعر All knowledge is my domainکے نصب العین کو سامنے رکھے اور خود کو مجبور و محبوس نہ سمجھے کہ یہ موضوع یا اس کے تحت وارد ہوا یہ مضمون اور ان دونوں کے تحت خلق ہوا یہ استعاراتی تانا بانا یا تو ’ولایتی‘ ہے، یا اردو کے حوالے سے کچھ زیادہ bold ہے۔ ۔ ۔ ۔ اور پھر اس مضمون کو شعری اظہار میں ڈھالتے ہوئے سطروں کی تراش میں رن آن لائنز کا التزام رکھے۔ پہلی اور آخری شرط یہ تھی کہ من و تو کے چوکھٹے میں رکھ کر غزل کے ان مضامین، استعاروں اور اصطلاحات سے اجتناب برتے جو چبے چبائے ہوئے نوالوں کی طرح ہیں۔

آپ کے سوال کا ایک حصہ انسان کی نفسیات سے ’بالا‘ مسائل کی تخلیقی سطح پر بات چیت کرنے کی ضرورت کے بارے میں ہے۔ اگر آپ کا مطلب مابعد الطبعیاتی موضوعات سے ہے، مثلاً ہندو فلسفی کے مدارس، ( ویدانت، اتر میمانسہ، پروا میمانسہ، یوگ، نیائے، ) یا یونانی مدارس فکر (نام گنوانے کی ضرورت نہیں ) یا جدید فلسفہ ۔ ۔ ۔ ۔ تو بھائی جان، شاعری انہیں باد نسیم کی طرح چھو کر گذرتی ہے، تتلیوں یا بھنوروں کی طرح ان پر بیٹھتی نہیں ہے۔ منڈلاتی ضرور ہے، لیکن ان کی خوشبو کو خود میں جذب کرنے کے بعد اوپر اوپر سے ہی گذر جاتی ہے۔ جی نہیں، سوال کے اس حصے کا جواب نفی میں ہے۔

 

٭    کیا مبکرات ہی ( ان چھوئے مضامین ) ہی تخلیق کا منصب ہے۔ ۔ ۔ عوامی، تاریخی اور نفسیاتی دھند میں انسانی فضیلت کاما بقا اور ارتقاء مقصود ہے یا کچھ اور۔ ۔ ۔ ؟

آنند:   میں پہلے عرض کر چکا ہوں کہ مبکرات یقیناً ان پیش پا افتادہ مضامین سے بہتر ہیں جو ہزاروں بار موضوع سخن بنائے جا چکے ہیں۔ لیکن اس کا مطلب ایسے ever green مضامین سے کلیتاً اجتناب نہیں ہے، جو ہماری طبیعت کا خاصہ ہیں۔ قدرتی مناظر، رشتوں کا تقدس اور ان کی ہمواری یا نا ہمواری، معاشی اور سیاسی موضوعات جن کا چہرہ مہرہ استعارے، علامت، تمثال، وغیرہ کی مدد سے نیمے دروں نیمے بروں رکھا جا سکتا ہو، اسی زمرے میں آتے ہیں۔ آپ کا فرمانا صحیح ہے کہ انسانی فضیلت کا ما بقا اور ارتقاء دونوں مقصود ہیں لیکن صرف اس نصب العین کو سامنے رکھ کر خلق کی گئی نظمیں اپنا حسن کھو دیتی ہیں۔

 

٭    فن کا الہام وجودی اور انفرادی ہوتا ہے ، باقی نصاب کے موجد یا مجدد آپ خود ہیں ؟

آنند:   جی، سو فیصد درست ہے۔ میں شاید اس سچائی کو اتنے خوبصورت الفاظ سے معین نہ کر سکتا۔ جیسے کہ آپ نے کیا ہے۔

 

٭    آپ کی نظم نگاری کا کیف و  کم کیا ہے ؟ آپ کی سہولتیں اور مشقتیں کیا ہیں ؟

آنند:   چونکہ یہ سوال میری نظم نگاری کے بارے میں ہے، اس لیے میں اسے یہاں سے اٹھا کر آخری سوالات کی فہرس میں رقم کرنے کی اجازت چاہتا ہوں، جہاں اس قماش کے دیگر سوالات ہیں۔

 

٭    انسانی گفتگو میں ’’لہجہ ‘‘ کی موجودگی ثابت نہیں کرتی کہ انسان کیفیات کے تابع ہے ؟

٭    کیا کیفیات لائق مواخذہ، اور قابل تعزیر ہو سکتی ہیں۔ ۔ ۔ ؟

آنند:   چونکہ سوال ’گفتگو‘ میں ’لہجہ‘ کے بارے میں ہے، اس کا تعلق شعری نظام سے نہیں ہے۔ بہر حال جواب واضح ہے۔ جب آپ نیم خند، ریش خند لہجہ سرزنش کے طور پر استعمال کرتے ہیں تو یہ گالی گلوچ نہیں ہے، بد گوئی یا خردہ گیری بھی نہیں ہے، صرف طنز ہے، کنایہ اور اشارہ کی رو سے شکایت بھی ہے۔ دوسری طرف لعنت، نفرت، دھتکار، تہمت وغیرہ درشت لہجے کی پیدا وار ہیں، جہاں لہجہ اس سب و شتم کو کچھ زیادہ ہی کٹیلا بنا دیتا ہے۔ یہ کیفیات لائق مواخذہ اور قابل تعزیر ہو سکتی ہیں۔ شعری نظام سے اس سوال کا تعلق صرف ہجو گوئی تک ہے۔ اگر سوداؔ کسی شخص سے ناراض ہوتے تو اپنے ملازم کو پکارتے، ’’ ابے غنچہ، لائیو تو میرا قلمدان، میں اس خبیث کی خبر لوں !‘‘ اور پھر ہجو لکھ کر اپنا کلیجہ ٹھنڈا کر لیتے۔ میں اسے شعری گوشمالی کہتا ہوں۔ یہ پھبتی کسنا، طعنہ دینا تو ہو سکتا ہے، تلخ تنقید بھی ہو سکتا ہے، دشنام گوئی نہیں ہو سکتا۔

 

٭    کیا انسانی شخصیت کے نفسیاتی عبوری نظام میں ’’مراعات خواہی‘‘ عقلی تقاضا نہیں ہے ؟

آنند:   : اس سوال کا بھی براہ راست تعلق شعر و سخن سے نہیں ہے۔ میں خود کو اس قابل نہیں سمجھتا کہ اس کی باریک پرتوں کو کھول کر درون دل ایسے دیکھوں، جیسے ایک ماہر نفسیات دیکھتا ہے۔

 

٭    اصطلاح منعقدہ اجماعیہ (اجماع و اجتہاد )پر علم کا رک جانا، علم کو سہولت دینے کے لئے ہے یا پانی کے کناروں سے باہر جانے کا خطرہ موجود ہوتا ہے ؟

آنند:   اجماع و اجتہاد ایک ایسا حربہ ہے جو صاحب اختیار لوگ اپنے ’اختیار‘ کو قائم رکھنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اٹھارھویں صدی سے پہلے عیسائی مذہب میں یہ conclaves متعدد بار یورپ کے کئی ممالک میں منعقد کی گئیں۔ طویل بحث و مباحثہ کے بعد فیصلے وہی ہوئے جو ارباب اختیار نے پہلے سے ہی لکھ کر رکھے ہوئے تھے، لیکن اگر میں کہوں کہ انہی کی وجہ سے کچھ نئے فرقوں نے، اپنے مسلک کے دائرہ کار کے اندر رہتے ہوئے بھی، اپنی الگ حیثیت قائم کی تو غلط نہ ہو گا۔ ایک اندازے کے مطابق عیسائیوں میں اس وقت ایک سو بارہ فرقے ہیں، ان سب کے الگ الگ منشور ہیں اور الگ الگ گرجا گھر ہیں، لیکن ان میں منافقت اس لیے نہیں پائی جاتی کہ عیسیٰ مسیح یا تثلیث کے قاعدے کو تو سب تسلیم کرتے ہیں لیکن عیسیٰ مسیح کے بعد کی صدیوں میں، خصوصی طور پر اس مذہب کے یورپ کے پسماندہ ملکوں اور جنوبی امریکا میں پھیلنے کے بعد، ان فرقوں میں الگ الگ saintsکی تعلیمات کو ہی ایک خصوصی درجہ دے دیا گیا ہے۔ کچھ فرقوں نے تو اپنی الگ انجیل بھی دریافت کر لی ہے، جیسے کہ امریکا میں مارمن کرسچین طبقہ ہے۔ میں اسلام کے بارے میں کوئی بھی بات لکھنے سے پرہیز کرتا ہوں، صرف اتنا کہوں گا کہ اس کا مطلب صرف اتفاق رائے ہے جو (فقہ) مسلم مجتہدین کا کسی امر شرعی پر متفق ہو جانے کا دوسرا نام ہے۔

آپ نے پوچھا ہے کہ، کیا یہ طریق کار علم کو سہولت دینے کے لئے ہے یا پانی کے کناروں سے باہر جانے کا خطرہ موجود ہوتا ہے، دونوں باتیں ہی صحیح ہیں، لیکن زیادہ تر موخر الذکر بات ہی قابل قبول دکھائی دیتی ہے۔

 

٭    کیا غزل میں غالب اور میر کو موقوف علیہ مانتے ہیں ؟

آنند:   مجھے علم نہیں کہ یہاں پر ’‘ٹائپو‘‘ کی وجہ سے ’موقوف الیہ‘ کی جگہ پر ’موقوف علیہ‘ لکھا گیا ہے یا آپ کی تحریر کردہ اصطلاح ہی صحیح ہے۔ ’موقوف الیہ‘ کے استعمال سے استعارہ کی سطح پر آپ کا سوال ایک گہری رمزیت کا حامل ہو جائے گا، یعنی کیا یہ دو شعرا وہ ہیں جن کے لیے غزل وقف کی گئی ہے، گویا کیا یہ غزل کا حرف آخر ہیں۔ ’موقوف علیہ ‘ منصف، جج، ثالث کے معانی میں استعمال کیا جاتا ہے، یعنی وہ کرسی (مثلاً ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ یا پریوی کونسل) جس پر کسی تنازعہ کا فیصلہ منحصر ہو۔ دونوں حالتوں میں میرا جواب نفی میں ہے۔ غالبؔ اور میرؔ  دو مختلف اسالیب کے مدارس کے بانی ہیں، دو الگ الگ، schools of thoughtکے نہیں۔ ایک کے ہاں سہل ممتنع کی وہ شکل ہے، جو ممتنع نہیں ہے، دوسرے کے ہاں مدوریت اور ملفوفیت ہے جو مشکل پسندی کے ذیل میں آتی ہے، لیکن ممتنع وہ بھی نہیں۔ اس کی وجہ صنف غزل کی تنگ دامانی ہے، جس کا ’گلشن‘ میں کوئی ’علاج ‘تب بھی نہیں تھا اور آج بھی نہیں ہے۔ میں تو دونوں کا گرویدہ ہوں۔

 

٭    خلاصۃ الامر مشرقی ادبیات کا تخلیقی، ادبی، موضوعاتی مرکزہ کیا ہے ؟ اور کیا یہ عصری ادبیات سے تقابل کی اہلیت اور صلاحیت رکھتا ہے ؟

آنند:   مشرقی ادبیات سے اگر آپ کی مراد صرف (اور صرف) فارسی اور اردو ہے تو اس کا جواب مختلف ہو گا۔ اگر جاپان، چین اور ہند چینی کے ممالک کو شامل نہ بھی کریں تو مشرق میں ہندوستان کا پچیس تیس صدیاں پرانا سنسکرت اور جنوبی ہند کی زبانوں تامل، تلیگو، کنڑ، ملیالم اور نیچے شری لنکا تک سنہالی کا بھی ادب شامل ہے، جو اردو اور فارسی سے یکسر مختلف ہے۔ اس لیے اس سوال کا ایک جواب ممکن نہیں ہے۔

 

٭    مغربی ادبیات اور مشرقی ادبیات کی ’’رومان پسندی ‘‘ میں بنیادی اختلاف یا امتیاز کیا ہے ؟

آنند:   آپ نے خود ہی اپنے سوال میں جواب کا بیج بو دیا ہے۔ جہاں ’رومان پسندی‘ ایک مثبت قدر ہے، وہاں یہ بطلان کی حد سے بھی آگے بڑھ جاتی ہے۔ سراب، وہم، خواب، رویا، دیو پری کی وہمی، قیاسی، خیالی داستانیں ہیں، اعوجاج اور مغالطے ہیں۔ زمانۂ قدیم سے لے کر انیسویں صدی کی داستان گوئی یا قصہ خوانی تک ہم لوگ ’سائے کو حقیقت ‘ سمجھتے رہے ہیں۔ انہی داستانوں سے مجنوں اور فرہاد کے استعارے معرض وجود میں آئے جو غزلیہ شاعری میں آج تک کسی نہ کسی صورت میں زندہ ہیں۔ عیاری کے قصے ختم نہیں ہوئے، اوریچر کی شکل میں آج تک موجود ہیں۔ جب کہ مغربی ادبیات میں سولھویں، سترھویں صدی کے بعد یہ نا پید ہو گئے اور شعری یا نثری دونوں اصناف میں ادبی تخلیقات بے جا و بر جا فطری اور صائب، اصلیت اور انسانی سرشت کے مطابق لکھی جانے لگیں۔ ادبی تخلیق میں یہ ضروری نہیں ہے کہ روشن دماغی ہو، روشنیِ طبع ہو، نکتہ رسی یا ذہانت ہو، لیکن یہ بھی ضروری نہیں ہے کہ ضعیف العقلی ہو، دیوانگی، ہرزہ سرائی اور کھلندڑہ پن ہو۔ فرزانگی اور حماقت میں تمیز ضروری ہے، جو ہم نہیں کر سکے۔

 

٭    شاعرانہ آمد تخلیقی شعور کا با ترتیب اور موثر ہونا نہیں ہے ؟

آنند:   جی نہیں۔ شاعرانہ ’آمد‘ تخلیقی شعور کا نو نیاز آمد ہ، نونہال ضرور ہے، لیکن اس کا با ترتیب ہونا یا موثر ہونا ضروری نہیں ہے۔ اسی لیے نوے فیصد سے زیادہ تخلیقات کو خلق ہونے کے بعد کئی کئی بار نظر ثانی در ثانی کے عمل سے گذارنا ضروری ہے۔

 

٭    زمانوں کے اعتبار سے ’’مطلق ‘‘ کی علمی اور تخلیقی تشریح کیا ہے آپ کے تئیں ؟

آنند:   چونکہ آپ نے ’’مطلق‘‘ کو واوین کے اندر رکھا ہے، اس سے قیاس یہ ہے کہ آپ اسے صفت کے طور پر دیکھ رہے ہیں، جیسے قرآن کی وہ آیت جس کے بعد سکون لازم ہے۔ اگر صرف ’زمانوں ‘ یعنی ’ادوار‘ کے اعتبار سے ’مطلق‘ کی علمی اور تخلیقی تشریح درکار ہے، تو جواب نفی میں ہے۔ کیونکہ زمان تو ایک تیز رفتار گھوڑا ہے، دوڑتا ہی چلا جاتا ہے۔ اگر دس، بیس، پچاس، برسوں یا ایک صدی کے حصار میں بھی کسی زمان کو رکھ لیا جائے تو بھی اس کی زیریں لہریں اسے کچھ پیچھے اور کچھ آگے کھینچ رہی ہوتی ہیں۔ کچھ ادوار میں مساوی دوڑ جاری رہتی ہے، جیسے کہ بیسویں صدی کے نصف آ خر میں (اور آج تک بھی) صنف غزل میں دو یا تین صدیاں ایک ساتھ چل رہی ہیں۔ اس لیے، محترم، آپ کے سوال کا جواب نفی میں ہے۔

 

٭    روایت پسندی تقلیدی رویوں کا دیباچہ نہیں ہے کیا ؟

آنند:   جی ہاں، صحیح فرمایا آپ نے، روایت پسندی تقلیدی رویوں کا صرف دیباچہ ہی نہیں ہے، پورے کا پورا چربہ ہے۔ انکسار سے عرض کروں کہ الفاظ ہم معنی نہیں ہوتے۔ کہیں نہ کہیں رتی بھر کا فرق ضرور ہوتا ہے، جس سے ایک نیا لفظ گھڑنے کی ضرورت پیش آتی ہے۔ Synonyms ایک غلط اصطلاح ہے۔ اب تقلید کے سامنے میں کچھ الفاظ آویزاں کر رہا ہوں۔ آپ ملاحظہ فرمائیں کہ ان میں کہاں، کیا اور کس حد تک فرق ہے : تقلید۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (پہلا گروپ )اقتدا، تلبیس، تتبع، مثنیٰ، پیروی، مرقع، عکس پذیری۔ (دوسرا گروپ) تطابق، طریق عمل، موافقت، اتفاق، امتثال، سباق، پیروی، الف و عادت، بھیڑیا چال، (فعل) نقش قدم پر چلنا، لکیر پیٹنا، لکیر کا فقیر ہونا، نظیر دینا، اتباع کرنا پابند ہونا، وغیرہ وغیرہ ۔ ۔ ۔ ان حالات میں دستوری، مطاع و مطابق، سمعنا و اطعنا نہ بھی ہوں تقلید کرنے والے تو بھی ’’طریق کار‘‘ میں ضرور ہوں گے۔

 

٭    آرزو، خواہش، تمنا ۔ ۔ ۔ اُردو لغات کی مجبوریاں کیسے دور ہوں گی ؟

آنند:   Synonym or Homonym، میں پہلے کہہ چکا ہوں، از خود وجود میں نہیں آتے، انہیں لانا پڑتا ہے۔ آرزو، خواہش، تمنا ؟ اگر آپ غور فرمائیں گے، تو آپ کو ایک درجن بھر اور الفاظ بھی مل جائیں گے جن کے معانی قریب قریب ایک جیسے ہیں بھی اور نہیں بھی۔ چاہ، چاؤ، اِچھّا، وغیرہ تو ہندوی الفاظ ہیں لیکن ان الفاظ پر غور فرمائیں : ارمان، حسرت، عطش، اقتضا ۔ ۔ ۔ یہ اردو لغات کی مجبوریاں نہیں ہیں، اس کی مضبوطی کی دلیل ہیں۔

 

٭    اقبال کی فکریات سے کس حد تک متاثر ہوئے ہیں ؟

٭    فلسفہ کو چھوڑ اقبال کا تخلیقی کردار کیسا رہا ؟

٭    اقبال کے فلسفہ خودی کی عملی تعبیر ہو سکتی ہے یا یہ سارا نظریاتی ہے ؟

٭    اقبال ابن عربی ؒ کے نظریہ ’’ وحدۃ الوجود‘‘ سے انکار کرتے ہوئے کہتا ہے

آنند:   علامہ اقبال کے بارے میں ان چار سوالوں کو میں اس لیے بالائے طاق رکھ رہا ہوں کہ ان میں سے ہر سوال ایک مکمل جواب کا متقاضی ہے۔ اس کے لیے اس انٹرویو کے صفحات کافی نہیں ہے۔ پاکستان میں اقبالیات پر غالبیات سے بھی زیادہ کتابیں چھپ چکی ہیں۔ شاید ان میں سے کچھ میں اقبال کی inherent contradictionsپر بھی لکھا گیا ہو۔ میں بنیادی طور پر، حضور، ایک شاعر ہوں، تنقید نگار نہیں۔ نہ ہی میں اردو کا معلم ہوں۔ انگریزی پڑھاتا ہوں اور وہ بھی یورپی زبانوں کے سیاق و سباق میں، یعنی تقابلی ادب کے طور پر۔ اقبال کو میں ایک بڑا انسان اور بڑا شاعر تسلیم کرتا ہوں۔ لیکن کبھی کبھی مجھے بھی اس بڑے انسان سے بڑی مایوسی ملتی ہے۔ جب ملتی ہے، تو میں کسی نظم میں دل کا غبار نکال لیتا ہوں۔ یہ مختصر نظم دیکھیں جو کسی غیر محتاط لمحے میں مجھ ناچیز سے ہی ایک نا درست ڈھنگ سے قلم زد ہوئی۔

لا سلاطیں، لا کلیسا، لا الہ‘‘

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

ملک گیری کی ہوس کے فلسفے میں

کیا کہیں الحاق بھی ہوتا ہے

ان دو نظریاتی   دوستوں میں ؟

شاعر مشرق کی ماضی پروری اور مارکس کی مادہ پرستی

ایک سے محسوس ہوتے ہیں مجھے تو !

 

ارتقا اور ارتقا بالضد ہیں کیسے مسئلے ؟ میں پوچھتا ہوں

نفی و اثبات کیوں ہیں لا، الا کی منزلیں ؟ میں پوچھتا ہوں

 

پوچھئے اقبالؔ سے یہ بات اس نے کیوں کہی تھی؟

’’کردہ ام اندر مقاماتش نگہ

لا سلاطیں، لا کلیسا، لا الہ‘‘

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

 

٭    خدا اگر مذہب کی بجائے اولین انسان کا حصہ ہے تو ’’ انسانیت ‘‘ کا عملی پلیٹ فارم انسانوں کو متحد کیوں نہیں کر سکا۔؟

٭    کیا مذہب ’’غیب ‘‘ کا خلا بھرنے کی ایک ذمہ داری ہے جو بشر کے گلے میں آ پڑی ہے یا یہ خوشگوار عقلی فریضہ ہے ؟

٭    آپ کا خدا اعتباری ہے یا یقینی ؟ اعتباری ہے تو کیا کمی ہے یقینی ہے تو کس بنیاد پر ؟

٭    فکری آزادی نہیں دی جا سکتی۔ ۔ ۔ ۔ تخلیق آزاد ہے تو کیا تخلیق سے فکری مرویات کی تبلیغ کا کام استعاراتی زبان میں لیا جا سکتا ہے ؟

٭    کیا علم صنائع بدائع کو ادب میں وہی مقام دیا جا سکتا ہے جو ’’ مذہب میں ‘‘ تاویلات کو دیا جا سکتا ہے۔ ۔ ۔ ؟

٭    انفرادی حجت کو ’’ صداقت‘‘ ہونے سے کون روک سکتا ہے۔ ۔ ۔ ؟

آنند:   مذہب کے بارے میں سوالوں کا جواب دینے سے قاصر ہوں۔

 

٭    ستیہ پال آنند، آپ مختلف فنون و آداب کا مجموعہ ہیں، آپ کی اپنی من بھاتی شناخت کون سی ہے، جس کے امتیاز کو آپ اون بھی کرتے ہیں اور اس پر فخر بھی کرتے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ اور وجہِ افتخار جاننا بھی قارئین کے لئے دلچسپی سے خالی نہیں ہو گا۔

آنند:   جزاک اللہ! آپ نے، علامہ ضیاء صاحب، مجھ نا چیز کو ایک اجماع سمجھ لیا! فنون و آداب تو بہت سے ہیں۔ میں تو صرف ایک راہ پر ہی گامزن ہوں۔ میں وہ پا پیادہ نہیں ہوں جو ’ہر سو خرام ‘ ہو۔ میں تضاعف و تعدد میں صرف ایک ہوں۔ لفظوں کا سوداگر، ۔ ۔ ۔ ۔ شاعری، افسانہ، ناول اور، تنقید، اس منہار کے پاس صرف لفظوں کا ہی آرائشی سامان ہے۔ کوئی پینتیس چالیس برس پہلے تک افسانہ زیادہ نمایاں تھا، اب شاعری ہے اور شاعری میں بھی نظم ہے۔ اس صنف کو دل و جان سے پیار کرتا ہوں، اس کی نوک پلک سنوارتا ہوں، اس کی مانگ بھرتا ہوں۔ سلیقہ مندی اور زیب و زینت سے اسے جمالیاتی وضع اور شوبھا دیتا ہوں۔ لیکن ہر نظم مشاطگی کا نمونہ نہیں ہوتی۔ اگر سادہ وضعی، پاکیزگی، بے تصنع ناکتخدائی درکار ہو، تو وہ فن بھی میری مشاق انگلیاں جانتی ہیں۔

خدا جانے میں نے کتنے الفاظ جڑ دیے ایک مختصر جواب کے متن میں ! مختصراً یہ کہ نظم نگار ہونا ہی میری من بھاتی شناخت ہے۔ میں اسے اپناتا بھی، یعنی ’اون‘ بھی کرتا ہوں اور یہ میرے لیے باعث صد افتخار بھی ہے۔

وجہ افتخار؟ کٹھن پرشن ہے یہ! اگر تو افتخار سے مراد، تکبر رعونت، نخوت، عالی دماغی لی جائے تو، بھائی صاحب، میری توبہ! میں تو منکسر المزاج شخص ہوں، مسکین نہیں ہوں لیکن مدمغ بھی نہیں ہوں۔ بہمہ پاس ادب اس افتخار کو اپنی achievements کا صلہ گردانتا ہوں۔ کامیابی اپنے آپ میں ہی ایک سہرا ہے یا طرّہ ہے جو سر پر خود بخود سج جاتا ہے، اس کے لیے تردد نہیں کرنا پڑتا۔ مجھے پہلی بار اس سہرے کا احساس اس وقت ہوا جب 1982ء کے لگ بھگ یعنی آج سے تیس پینتیس برس پہلے میرے پاس احباب کی سفارشیں آنا شروع ہو گئیں، فلاں دوست کی کتاب کا دیباچہ یافلیپ کی عبارت لکھ دیں یا اس پر، مختصر ہی سہی، تبصرہ کر دیں۔ کہاں تو میری کتابوں پر اختر الایمان، گوپی چند نارنگ یا وزیر آغا صاحبان کے تبصرے تھے اور کہاں یکا یک مجھے یہ احساس دلایا جانے لگا تھا کہ میں (صنف نظم کے حوالے سے ) شعری مجموعوں پر رائے دوں گا تو وہ معتبر تسلیم کی جائے گی۔

کٹھن پرشن ضرور تھا یہ، لیکن میں نے ایک بھونڈے طریقے سے ہی سہی، اس کا جواب لکھ ہی دیا۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ مجھے احساس ہوا کہ میری نظموں کی تعداد کئی سو تک پہنچ گئی ہے اور سالہا سال تک بغیر تعطیل کے میں لکھتا ہی چلا گیا ہوں۔ اور کہ ان نظموں پر اہل قلم کے مضامین، تبصروں، عملی تنقید کے گوشواروں کی ایک جھڑی سی لگ گئی ہے۔ مرحوم بلراج کومل نے مختلف ذرائع سے تیس ایسے عملی تنقید کے مضامین اکٹھے کیے اور انہیں ’’ستیہ پال آنند کی تیس نظمیں ‘‘ کے زیر عنوان کتابی شکل دے دی۔ اسی طرح ڈاکٹر اے عبداللہ نے بیس بائیس مضامین رسالوں کے صفحات میں سے کھوج کر نکالے اور یہ مجموعہ ’’ستیہ پال آنند کی نظم نگاری‘‘ کے عنوان کے تحت اشاعت پذیر ہو گیا۔ تو یہ ہے میرا جواب، عالی جاہ! یعنی کہ کسی مقطع فخریہ کے بغیر ہی میں ’بڑا شاعر‘ بن گیا۔ اب ہنسی آتی ہے اس اصطلاح پر! میرا یقین کریں، واقعی تمسخر کی بات ہے۔ نہیں ہے کیا؟

 

٭    تخلیقی گریہ میں آنکھوں کی خوبصورتی کا بند وبست کیسے کرتے ہیں ؟آپ کثیر گریہ گزار( بطور شاعر) ہیں، رونا عادت تو نہیں بن گیا، قلبی تاثیر کے بغیر۔ ؟

آنند:   گریہ ہمیشہ ہی تخلیقی ہوتا ہے، یہ بارود خانہ بھی ہے اور دل کو پگھلا دینے والا بیَن keening بھی، پھٹ پڑتا ہے تو تباہی کی یاد دلاتا ہے۔ (رثائی ادب اس کی ایک مثال ہے، مرزا انیسؔ اس قدر نہیں جتنا مرزا دبیرؔ اور دولھےؔ میاں )۔ ۔ ۔ ۔ اور صرف ہچکیوں، سسکیوں سے مرتب ہوتا ہے تو بقول مقدس انجیل :

Weeping may endure for a night, but joy cometh in the morning (Bible, Psalms 305)

بہر حال گریہ کبھی رفتار و گفتار کا، یا نشست و برخاست کا نمائشی مسلک نہیں بن سکتا۔ شاعری کے ریشے اس سے مرتب ہوں تو شاعری دل کو چھوتی بھی ہے اور اسے پگھلا بھی دیتی ہے۔ ۔ ۔ شیکسپیئر نے کہا ہے :

How much better is it to weep at joy than to joy at weeping.: Much Ado About Nothing (1598) Act 1, Scene 1, Line 28.

خدا جانے کیوں لیکن یہ سوال میں نے خود سے کبھی نہیں پوچھا کہ تخلیقی گریہ میں آنکھوں کی خوبصورتی کا بندوبست کیسے کیا جاتا ہے۔ یہ تو ظاہر ہے، کہ نظموں کی چلمن سے جھانکتی ہوئی، اپنی پلکیں جھپکتی ہوئی تخلیقی آنکھ دھلی دھلی سی دکھائی دیتی ہے، کچھ کچھ لال ڈورے بھی ابھر آتے ہیں لیکن غزل گو شعرا کے استادوں کے استاد کے مطابق وہ کیفیت نہیں آتی:ع ۔ جو آنکھ ہی سے نہ ٹپکے تو پھر لہو کیا ہے !

تو اگر یہ بات طے ہو ہی گئی کہ گریہ ہمیشہ تخلیقی ہوتا ہے، اور جو تخلیقی نہیں ہوتا وہ گریہ ہی نہیں ہوتا، تو آگے چلیں ؟ آپ نے، قبلہ، یہ کیسے فرض کر لیا کہ میں ’’کثیر گریہ گذار ہوں، بطور شاعر ؟ ‘‘ جی نہیں، کچھ کچھ گریہ گذار ہوں، لیکن کثیر گریہ گذار نہیں ہوں۔ میری انگریزی نظموں کے بارے میں ممتاز نقاد محترمہ Caroline Greene نے کہا ہے کہ میں زندگی کو celebrate کرتا ہوں، اس کا ماتم نہیں کرتا۔ اردو نظموں میں صرف وہی نظمیں گریہ زاری کی تخلیقی جہت کے ضمن میں آتی ہیں، جن میں حالات حاضرہ کو اساطیر یا تاریخ یا لیجنڈ یا داستانوں کے چوکھٹے میں رکھ کر پیش کیا گیا ہے۔ یعنی اگر میری ایک پنجابی نظم کا سر خیل شعر یہ ہو گا

پیاسا بھٹکدا پھردا سی، دھُپ سی بڑی کڑی

سِر تے مرے یزید دی اک فوج سی کھڑی

تو پیاس، دھوپ، یزید کے ذکر سے لفظ ’کربلا‘ کہے بغیر ہی کربلا کا منظر نامہ پینٹ ہو جائے گا، اور ظاہر ہے رقیق القلب قاری کی آنکھوں میں ایسے ہی آنسو آ جائیں گے جیسے کہ تلمیحاً یہ شعر کہتے ہوئے میری تخلیقی آنکھ میں آئے ہوں گے۔

جی نہیں، رونا عادت نہیں بنا کہ ایک حسین چہرے کو دیکھ کر صرف ’’ماشا اللہ‘‘ کہہ کر ہی گذری ہوئی جوانی کا سوگ نہیں مناتا، ’’انشا اللہ ‘‘ بھی کہتا ہوں۔ (اور شرارتی انداز میں کہتا ہوں !) یہ قلبی تاثیر کا ہی اثر ہے کہ ماضی کو حال اور مستقبل کے تناظر میں دیکھتا ہوں، نہ کہ حال اور مستقبل کو ماضی کے آئینے میں ۔ ۔ ۔ ۔ قبلہ، گہری بات ہے نا؟

 

٭    آپ کی زندگی پر کونسا حصہ ایسا آیا، جب آپ پر الم نشرح ہوا کہ آپ ’’صاحب نظریات ‘‘ ہو رہے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ کوئی خاص واقعہ، حادثہ یا تخلیقی کشف جس نے آپ کو نظریاتی سطح پر  افلیبر مذھمنظوم کیا ہو ؟

آنند:   خاص واقعہ؟ جی ہاں۔ لیکن میں نے اس کا تباہ کن اثر بلوغت کی پہلی کچی عمر (ساڑھے سولہ برس) میں اپنے ذہن پر مرتب ہوتے ہوتے ہی اس کو کہیں دور نیچے تحت الشعور میں دفن کر دیا، یا کم از کم دفن کرنے کی کوشش کی۔ یہ ایک چھلاوے کو زنداں میں قید کرنے کے مترادف تھا۔ چھلاوہ تو سالہا سال تک، رینگ کر، سرک کر، ہوا کے ساتھ تحلیل ہو کر پھر ذہن کے زنداں سے ان لمحوں میں باہر نکل آتا رہا جب عالم خواب (یا عالم بیداری میں بھی) ہپناٹزم یا سبات جیسے خواب گراں میں بیدار لمحے سو جاتے ہیں۔ شعوری کوشش ہمیشہ یہی رہی کہ اس سانحے کو بھول جاؤں۔

تقسیم وطن کے دوران ہمارا پریوار (بابو جی یعنی والد صاحب، ماں، میں خود، مجھ سے ایک بڑی بہن، ایک چھوٹا بھائی اور ایک چھوٹی بہن) یعنی اس ٹبّر ٹیر کے چھہ افراد، بلوائیوں سے بچ بچا کر راولپنڈی سے ریل گاڑی میں بارڈر کراس کرنے کے لیے سوار ہوئے جس میں ہمارے جیسے سینکڑوں اور کنبے بھی تھے۔ راستے میں جگہ جگہ بلوائیوں کے گروہ انجن کے سامنے کھڑے ہو کر ٹرین روک دیتے اور لوٹ مار کرتے۔ نوجوان بہن کو ہم نے پرانے بستروں کے پیچھے یعنی سیٹ کے نیچے چھپا دیا تھا کہ نوجوان لڑکیوں کا اغوا ایک عام بات تھی۔ لالہ موسیٰ سٹیشن پر گاڑی انجن میں پانی بھرنے کے لیے رکی تو بابو جی بھی ایک جگ لے کر گاڑی سے اتر گئے کہ اوپر کے نل سے انجن میں پانی بھرتی ہوئی دھار سے جگ میں پانی بھر لائیں۔ ان کی کلائی کی گھڑی اتارنے کے لیے ایک بلوائی نے ان پر حملہ کیا اور یہ سمجھ کر کہ وہ جگ سے اپنا دفاع کریں گے، اس نے انہیں چھرا گھونپ دیا۔ زخمی حالت میں لڑکھڑاتے ہوئے وہ ڈبے کے دروازے تک واپس پہنچ گئے۔ ہم نے اور کچھ دیگر مسافروں نے اوپر ڈبے میں کھینچ تو لیا اور کوشش کی کہ ان کا خون رک جائے لیکن ان کی انتڑیاں باہر لٹک آئی تھیں اور ہمارے پاس سوائے چادریں پھاڑ کر پٹیوں سے ان کے زخم کا دہانہ بند کرنے کے اور کوئی چارہ نہیں تھا۔ دو تین گھنٹوں میں ان کی موت واقع ہو گئی اور ہم، یعنی گھر کے پانچ افراد، بیوہ ماں اور چار بچے ان کی لاش کو لے کر سرحد پار پہنچے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

اس جان کاہ واقعے کے زہریلے پودے کی جڑ کو اپنے دل سے اکھاڑنے کے لیے میں لگاتار جتن کرتا رہا۔ مبادا کہ میں ایک بلوائی کے مکروہ کام کے لیے مسلمانوں سے نفرت کرنے لگوں۔ میرے تو تقسیم سے پہلے بھی اور تقسیم کے بعد بھی زیادہ دوست مسلمان ہی تھے۔ ایک پھوپھی مسلمان تھی۔ میں نے آج تک اس واقعے کا کسی بھی کتاب، کسی بھی افسانے، کسی بھی نظم میں ذکر نہیں کیا، یہاں تک کہ اپنی خود نوشت ’’کتھا چار جنموں کی‘‘ میں بھی اس واقعے سے کنی کترا کر نکل گیا ہوں، سوائے ایک جملے کے ’’اور راستے میں بابو جی کی موت واقع ہو گئی‘‘ میں نے اور کچھ نہیں لکھا اب بھی نہیں چاہتا تھا، کہ لکھوں۔ اس لیے اب یہ فیصلہ آپ پر چھوڑتا ہوں کہ اسے حذف کر دیں یا رہنے دیں۔

تو صاحب، اب آپ کے سوال کی طرف آئیں۔ ’’جب آپ پر الم نشرح ہوا کہ آپ ’’صاحب نظریات ‘‘ ہو رہے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ کوئی خاص واقعہ، حادثہ یا تخلیقی کشف جس نے آپ کو نظریاتی سطح پر منظوم کیا ہو ؟‘‘۔ ۔ ۔ جی ہاں یہ جان کاہ واقعہ ہی الم کے ’’پرارمبھ، مدھیہ اور انت‘‘ Beginning, Middle and Endکا مصنف تھا۔ صاحب نظریہ ہونا یعنی مذہب کے حوالے سے میرے اندر An all-faith man کا ظہور ہونا اسی واقعے کا مرہون منت ہے۔ اس نظریہ کو اگر میں نے ستر برسوں تک، کسی بھی ترمیم کے بغیر، زندہ رکھا ہے تو اس میں میرا کمال یہ ہے کہ قدم قدم پر ادب عالیہ میں مجھے ایسے شواہد ملے ہیں، جن سے یہ اعتقاد پختہ سے پختہ تر ہوا ہے۔ انگریزی تراجم کی وساطت سے قدیم یونان، رومائے قدیم اور قرون وسطیٰ سے لے کر نشاۃ ثانیہ سے ہوتے ہوئے آج تک کا یورپی ادب میری گرفت میں ہے۔ سنسکرت پڑھ لیتا ہوں۔ عربی میں شد بد رکھتا ہوں۔ تقابلی ادب پڑھاتے ہوئے تقابلی مذہبیات اس کا صرف عشر عشیر نہیں، بلکہ نصف حصے پر قابض ڈسپلن آف سٹڈی بن جاتا ہے، جو میری تحویل میں رہا ہے۔

 

٭    بڑا آدمی کون ہے ؟ آنند: بطور دانشور؟آنند بطور شخص وفرد۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دونوں کی لاشعوری مخالطت سے نیا وجود پذیر ’’متن‘‘  (اگر ممکنہ طور پر جواب تیسرا ہو تو اس کی افادیت کو عند الناس کیسے سرخرو کرتے ہیں ؟)

آنند:   آپ، حضور، بہت ہی کائیاں ہیں، بحث مباحثے کے داؤ گھات پہلے ہی فرض کر لیتے ہیں۔ اسے حسن تدبیر یا اختراع فائقہ بھی کہا جا سکتا ہے۔ آپ یقیناً جانتے تھے کہ میرا جواب تیسرا ہی ہو گا، اس لیے آپ نے سوال در سوال بھی ایک غُلّہ کی طرح اپنی غلیل سے داغ دیا۔

یہ نیا وجود پذیر ’’متن‘‘ کیا ہے، اور اس کی افادیت کو عند الناس کیسے سرخرو کیا جاتا ہے، میں خود بھی بالستیعاب نہیں جانتا، بالجملہ غالبؔ بھی کہتا ہے : ع۔ میری حد وسع سے باہر کھلا۔ ۔ ۔ اصلاً و مطلقاً جواب شاید کسی اہل خرد کے پاس نہیں ہے۔ میں البتہ یہ کہہ سکتا ہوں کہ آنند بطور دانشور، آنند بطور شخص یا فرد سے اس کے تشخص کی آخری حد تک، یعنی کلیتاً واقف نہیں ہے، اس کی کمزوریوں سے ’آگاہ‘ ضرور ہے اور حتیٰ الوسع کوشش کرتا رہتا ہے کہ اسے سدھارے۔ اس عمل میں کشیدگی بھی پیدا ہوتی ہے اور بعض اوقات (کم کم اوقات میں ) ’پنر ملن‘ کی خوشی بھی نصیب ہوتی ہے۔ لیکن نیا ’’وجود پذیر متن‘‘، وجود پذیر ہی رہتا ہے۔ اکمل نہیں بن پاتا اور شاید کبھی نہ بن پائے۔

 

٭    کبھی خود سے لڑنے کی سعادت نصیب ہوئی ہے، نتیجہ کیا نکلا ؟

آنند:   جی ہاں، ہوئی ہے لیکن یہ ضرور عرض کروں گا کہ ایں سعادت بزور بازو نیست۔ ۔ ۔ ۔ نتیجہ؟ وہی ڈھاک کے تین پات۔ نہ تم جیتے، نہ ہم ہارے۔ دو اڑھائی برسوں تک ڈیپریشن کا شکار رہا اور self alienation اس حد تک پہنچ گئی کہ رات کوسونے سے پہلے اپنے Super Ego کی دانائی اور بینائی سے ان دونوں شخصیتوں کے مابین جنگ کو دیکھ کر محظوظ بھی ہوتا تھا اور افسوس بھی کرتا تھا کہ یہ بیوقوف کیا کر رہے ہیں۔ ایک نظم لکھی تھی، جو شاید ’اوراق‘ لاہور میں اشاعت پذیر ہوئی تھی۔ آپ کے تفنن طبع کے لیے یہاں نقل کر رہا ہوں :

 

بٹا ہوا شخص

ہمارا روز کا معمول تھا، سونے سے پہلے

باتیں کرنے اور جھگڑنے کا

گلے شکوے کہ جن میں اگلی پچھلی

ساری باتیں یاد کر کے روتے دھوتے تھے

کبھی ہنستے بھی تھے تو صرف کچھ لمحے

ذرا سی دیر میں ویسا ہی جھگڑا، اور وہی طعنے

وہی سر پیٹنا، آنسو بہانا، چیخنا، رونا

یونہی روتے ہوئے خوابوں کے دوزخ میں

بھٹکنا اور سو جانا!

 

گذشتہ شب بھی کچھ ایسی ہی حالت تھی

مگر سونے سے پہلے وہ بہت ہی تلملایا تھا

کہا تھا۔ ۔ ۔ میں چلا جاؤں گا، لیکن تم

فقط آدھے ہی رہ جاؤ گے، اک ٹوٹے کھلونے سے !

مجھے غیض و غضب نے جیسے پاگل کر دیا تھا۔ ۔ ۔

دفع ہو جاؤ ! مرا تم سے کوئی رشتہ نہیں باقی!

 

میں خوابوں کے دہکتے دوزخوں سے صبح نکلا ہوں

تو وہ غائب ہے، پچھلی رات سے۔ ۔ ۔ مجھ کو

اکیلا چھوڑ کر، جانے کہاں انجان را ہوں پر

بھٹکتا پھر رہا ہو گا

کروں کیا میں ؟ کہاں ڈھونڈوں ؟

 

مرے گھر کے مکینو، رشتہ دارو، اے گلی والو

مجھے یوں رسیوں میں باندھ کر

ذہنی مریضوں کے شفا خانے میں مت بھیجو

کہ میں پاگل نہیں ہوں۔ ۔ ۔ چیختا، سر پیٹتا تو ہوں

مگر میں چیخ کر اس کو بلاتا ہوں

جو میرا آدھا حصّہ ہے

جو میرا دوسرا ’میَں ‘ ہے !       (2005ء)

 

٭    کیا خود سے لڑنے کے لئے بھی اصول بنا رکھے ہیں ؟

آنند:   لڑنے کے لیے اصول و ضوابط کی ضرورت ہی کہاں ہوتی ہے، بس مرنے مارنے کے لیے سر بکف ہونا ضروری ہے۔

 

٭    ستیہ پال آنند تاریخ کی گم شدگی، اساطیر کی فکری ریختگی، محکمات کے اشتداد و اہتزاز سے اغلب اپنی نظموں کو متصادم و مہمیز کرتے ہیں ، گویا آپ کا دانشور آپ کے تخلیق کار سے الگ نہیں ٹھہرتا ؟

آنند:   کبھی کبھی یہ خطرہ لاحق ہو بھی جاتا ہے، لیکن اگر آپ تاریخ، دیومالا، محکمات (قرآن شریف کی۔ یا دیگر مذاہب کی کتابوں کی ۔ وہ آیات جن کے معانی میں حجت کی کوئی گنجائِش نہیں ) میں فرق سمجھتے ہیں، یعنی جانتے ہیں کہ اسطورہ کے واقعات، تاریخ کے برعکس، متفاوت ہو سکتے ہیں، لیکن محکمات کے معانی میں ال بل یا رد و بدل کی کوئی گنجائش نہیں۔ ۔ ۔ اور اگر یہ بھی سمجھتے ہیں کہ تاریخ گمراہ کن بھی ہو سکتی ہے کہ فاتح اور مفتوح قوموں کے مورخ ایک ہی واقعے کو اپنی مغائرت کے عینک سے دیکھ سکتے ہیں ۔ ۔ ۔ اور اگر یہ بھی آپ کو علم ہے کہ اساطیر کی ’’فکری ریختگی‘‘ بو قلمونی کا یا کثیر الاشکال بارہ باٹی کا نتیجہ بھی ہو سکتی ہے۔ ۔ ۔ ۔ تو آپ یقیناً محتاط رہیں گے۔ تخلیق کار کو دانشور پر غالب نہیں آنے دیں گے اور اگر غلو درکار بھی ہے تو اس کے دہن پر کس کر لگام باندھیں گے۔

گستاخی معاف، آپ محکمات کے ساتھ اشتداد اور اہتزاز کو بریکٹ کر تے ہیں، جو میری سمجھ سے بالاتر ہے، میں آج تک محکمات کو کلام الٰہی کی وہ آیات سمجھتا رہا جن کے معنے صریح ہوں۔

ستیہ پال آنند کی منظومات تینوں اقسام سے علاقہ رکھتی ہیں۔ تاریخ، اساطیر، آیات، مکاشفات، امہات الکتب ۔ ۔ ۔ کچھ کے لیے مجھے ٖفُٹ نوٹ لکھنے پڑتے ہیں کہ یہ میرے علم میں ہے کہ اردو کا قاری کم تعلیم یافتہ ہے، خصوصی طور پر غیر اسلامی تاریخ، اساطیر اور مذہبیات کی کتابوں کی اقلیم سے۔ ۔ ۔ ۔ اور اردو کا تنقید نگار؟ (اللہ رحم کرے، اس مخلوق کے لیے تو میں لکھتا ہی نہیں !)۔

 

٭    کیا شاعر کا دینی، تاریخی اور اخلاقی روایات پر پورا اترنا ضروری ہے ؟

آنند:   واقف ہونا ضروری ہے، ’’پورا اترنا‘‘ ضروری نہیں ہے۔

 

٭    اور یہ کہ مذکورہ ’’ مقدسات‘‘ کی موجودگی ہمارے موضوعات کو مختصر اور بعض اوقات لا چار نہیں بنا دیتی ؟

آنند:   آپ نے درست فرمایا، ان ’’مقدسات‘‘کی موجودگی بوجوہ ہمارے موضوعات کو مختصر تو کیا بنائے گی، لاچار ضرور بنا دیتی ہے۔

 

٭    شاعری انسان کا مقدمہ ہے مذہب کا مقدمہ نہیں ؟

آنند:   جی بالکل درست فرمایا۔ لیکن یہ بھی سوچئے کہ مذہب بھی انسان کا ’’مقدمہ‘‘ ہے۔ لفظ ’مقدمہ‘ کی تشکیل کے پراسیس پر غور فرمائیں۔

 

٭    آپ نے فرمایا ۔ آپ کی غزلوں کی دو کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ آپ کا بطور ’’ غزل گو شاعر‘‘ خود پر کوئی تبصرہ ؟ ممکنہ طور پر آپ نے غزل کی آبرو میں اضافہ کا فنی اہتمام کیا تھا۔ ؟

آنند:   مر کھپ گئیں، بھائی جان۔ اب ان آسودگان کو زیر آب سونے دیں۔ جو بچی کھچی جلدیں تھیں، وہ ناشر سے خرید کر میں دریا برد کر آیا، انڈیا چھوڑنے سے پہلے۔

 

٭    کیا آپ کی غزلیہ شاعری کی کتابوں کی اشاعت تک آپ رائج تغزل کی شریعت کے پیرو کار رہے۔ ؟

آنند:   جی ہاں، رہا بھی اور نہیں بھی۔ لیکن مجموعی طور پر میرا کام تسلی بخش نہیں تھا۔ اس میں صنف غزل کا قصور تو کیا ہوتا، میرا ہی تھا، کہ میں ایک پیشہ ور طوائف کو محبوبہ کا رتبہ دے بیٹھا تھا۔

 

٭    کن شاعروں نے آپ کی فکری اپج قائم کی۔ ۔ ؟

آنند:   اردو میں ولی دکنی سے لے کر امیر مینائی تک سب کلاسیکی اور نیم کلاسیکی شعرا کو پڑھا۔ بیسویں صدی میں جوش کا طنطنہ، فراق کی غنائیت اور ہندوی امیجری پسند آئے، لیکن ان میں سے کسی نے میری فکری اپج کو پھلنے پھولنے میں مدد دی؟ جی نہیں، مکرر، جی نہیں۔ نظم گو شعرا اردو میں تھے ہی دو چار، اس کے لیے مجھے اردو اور فارسی سے باہر یورپ کی طرف دیکھنا پڑا۔ ناموں کی ایک لمبی فہرست ہے، جنہیں میں پڑھتا رہا ہوں اور جن کی کتابیں میں پڑھاتا رہا ہوں، اس لیے کوئی ایک نام سر فہرست نہیں ٹھہرتا۔ ٹی ایس ایلیٹ اور ایذرا پاؤنڈ ساتھ ساتھ ٹھہرتے ہیں۔ لوئی میکنیس بھی قریب قریب ہی ٹھہرتا ہے۔ امریکا میں فی زمانہ مایا اینجیلوؔ کو میں پسند کرتا ہوں۔ موصوفہ کی کچھ عرصہ پہلے انتقال ہو گیا۔ ان سے دو تین ملاقاتیں بھی رہیں۔ میں نے ان کا تذکرہ اپنی انگریزی کتاب My Memory Imprints (زیر طبع) کیا ہے۔

نظم گو شعرا میں مجھے ن م راشد (جن سے لنڈن کے قیام کے دوران کچھ ملاقاتیں بھی رہیں، اور جن کا ذکر میں نے اپنی خود نوشت ’’کتھا چار جنموں کی‘‘ میں بھی کیا ہے ) نے مجھے متاثر کیا، لیکن چونکہ میرے مطالعہ میں براہ راست وہ انگریزی شعرا بھی تھے جو ان کے زیر مطالعہ بھی رہے ہوں گے، مجھے وہ جڑیں بھی تلاش کرنے میں آسانی ہوئی جو ان کی شاعری کے انکھووں کے پھوٹنے میں مددگار ثابت ہوئی ہوں گی۔ ان کی شاعری سے میرا تعلق Love Hate relationshipکا سا تھا، یعنی میں ان کی شاعری کا گرویدہ بھی تھا، (اور ایک محبوبہ کے چہرے کی طرح جب اسے آپ چھوتے ہیں اور بہت قریب سے دیکھتے ہیں تو اس کی خوبیوں کے علاوہ جلد کی جملہ خامیاں بھی عیاں ہو جاتی ہیں ) میں نے ان کی نظموں میں ’لطائف الحلیل‘ کے قماش کی تلبیسی اختراعات بھی غور سے دیکھیں، جو صرف (اور صرف) ان میں الجھاؤ پیدا کرنے کے لیے، شاعرانہ حکمت عملی کے طور پر، ’ با زندگی‘ یا شعبدہ بازی کی نمائش کے لیے بروئے کار لائی گئی تھیں۔ (یہی وجہ تھی) کہ میں نے اس بظاہر loner and reticent شاعر کی دو نظموں ( ’’حسن کوزہ گر‘‘۔ چار حصص اور ’’مجھے وداع کر‘‘) پر ایک تمثیل کے طور پر طویل تر نظمیں لکھیں۔ ان کے عنوانات، بتدریج ’’اے حسن کوزہ گر (317 سطور) اور ’’مجھے نہ کر وداع‘‘ 180سطور) تھیں۔ میری نظمیں یونانی کامیڈی نویسAristophenes کے ایجاد کردہ طریقReductio ad absurdum کے مطابق تھیں۔ ( یہ نظمیں، جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے، راولپنڈی سے اس زمانے میں علی محمد فرشی صاحب کی ادارت میں شائع ہونے والے مجلہ ’سمبل‘ میں اشاعت پذیر ہوئی تھیں ) ان پر میرا یہ نوٹ سر خط تھا جو اس سے پہلے غالبؔ کے دس فارسی اشعار کو سامنے رکھ کر اسی طریق کار سے ان پر اپنی دس اردو نظموں پر منطبق کرتے ہوئے بھی ’’سمبل‘‘کے ایک ایک گذشتہ شمارے میں شامل اشاعت ہوا تھا :

یہ نظمیں غالب کے دس فارسی اشعار کو اردو نظم کا جامہ پہناتی ہیں۔ میں نے انہیں علم منطق کی اصطلاح Reductio ad absurdum طریق کار سے آزاد نظم کے روپ میں ڈھالا ہے۔ یونانی فلسفی اور نقاد Dionysius of Helicanassus (پہلی صدی عیسوی) نے اس کا اطلاق یونانی ٹریجیڈیوں کے متون کے اہم حصص پر کر کے متنی اور اسلوبیاتی تنقید کا ایک اہم تجربہ کیا۔ اس سے پہلی بھی یونانی کامیڈی نویس Aristophanes (B.C. 380 -B.C. 448?) نے اس طریق کار کا استعمال اپنے کرداروں کے مکالمات میں کیا اور اپنے ہم عصر ٹریجڈی نویس ڈرامہ نگاروں کے متون کو نشانۂ مشق بنایا۔ اس اصطلاح کے لفظی معانی تو ’’اصل ‘‘ کو ’’نقل‘‘ کی سطح پر مختصر ترین روپ دے کر یا اسے حد درجہ تک پھیلا کر ’’ابسرڈ‘‘ یعنی ’’لا یعنی‘‘ بنایا جاتا ہے، لیکن لاجک یا منطق کی رو سے اس کا اطلاق کسی بھی شعری یا ڈرامائی متن پر دو طریق کار سے کیا جاتا ہے۔ (۱) ’’کُل‘‘ کو اس کے اجزائے ترکیبی میں بانٹ کر ایک ایک ’’جزو‘‘ کو ’’کُل‘‘ کے تناظر میں دیکھا جائے اور مختصر کر نے کے بجائے اس کو ایسے ہی پھیلا دیا جائے جیسے لاش کا پوسٹ مارٹم کرتے ہوئے مردہ جسم کے اعضا کاٹ کر ایک ایک عضو کو میز پر الگ الگ رکھ کر انہیں جوڑا جاتا ہے اور منطق کے اس اصول کے مطابق کہ The sum-total or parts is always greater than the whole یہ طے کیا جاتا ہے کہ یہ کن حالتوں میں، کس کس زاویے سے، کس مقدار یا تعداد میں بڑھ گیا۔ اور (۲) کسی بھی مفروضے کو صحیح یا غلط ثابت کرنے کے لیے اس کے منافق مٖفروضے کی چیر پھاڑ کی جائے۔ اس طرح منافق نظریہ ’غلط‘ ثابت کرنے کے لیے اس کے حصص کو میز پر پھیلا دیا جائے، یعنی اس کو اس کی منطقی جہتوں میں بانٹ دیا جائے۔ اب اگر منافق نظریہ غلط ثابت ہو گیا تو اصل نظریہ درست ثابت ہو جائے گا۔ یہ ایک منطقی الٹ پھیر ہے اور اس سے بسا اوقات غلط نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ بہر حال دونوں حالات میں تمسخر، تضحیک، یا مضحکہ انگیزی کا تاثر بھی پیدا ہو سکتا ہے، لیکن یہ ضروری بھی نہیں ہے۔ ( ستیہ پال آنند، منتخب نظمیں، صفحہ 451))۔

بعد میں ’’اے حسن کوزہ گر‘‘ فیس بک پر جناب زیف سید اور محمد حمید شاہد کے تعاون سے پیش کردہ نظموں پر بحث و مباحثہ کے لیے تشکیل کردہ ایک گروپ میں چھان پھٹک کے لیے پیش کی گیئ ا؛ود پزِں، جس کا پورے کا پورا احوال نامہ میری نظموں پر عملی تنقید کے مضامین کے بلراج کومل (مرحوم) کے مرتب کردہ مجموعے ’’ستیہ پال آنند کی تیس نظمیں ‘‘، مطبوعہ دہلی (انڈیا) اور کراچی (پاکستان) میں بھی شامل اشاعت ہوئیں۔ اور محترم محمد حمید شاہد صاحب نے بھی بحث و مباحثہ کے اس طویل تر متن کو اپنی کتاب ’’راشد، میرا جی، فیض : نایاب ہیں ہم‘‘ میں شامل کیا۔ (یہ قابل مطالعہ اور قابل قدر کتاب حال ہی میں مثال پبلشرز، فیصل آباد سے شائع ہوئی ہے )

تو، بھائی جان، یہ احوال نامہ رہا، میرے ن م راشد سے متاثر ہونے کا یا متاثر ہونے کے بعد اس نابغہ ٗ روزگار شاعر سے disorientation اور غیر ہم آہنگ ہونے کا۔ بہت کم دوست اس بات کہ تہہ تک پہنچ پائے ہیں کہ کچھ نظموں میں ن م راشد کس طرح اپنے درون قلب سنبھال کر رکھے ہوئے معانی کے نگینے کو پہلے ایک انگوٹھی میں جڑتے ہیں، پھر کس طرح اس انگوٹھی کو ایک ڈبیا میں بند کرتے ہیں، اور پھر کس کمال صفائی سے اس ڈبیا کو ایک صندوق میں تالا بند کرتے ہیں، اور آخرش کس sleigh of hand سے اس صندوق کو گہرے سمندر میں پھینک دیتے ہیں، تا کہ علی الاعلان یہ کہہ سکیں، ’’ہے کوئی مائی کا لال، جو اس صندوق کو گہرائی سے نکال کر اس میں سے ڈبیا نکالے، ڈبیا کو کھول کر انگوٹھی کو ہاتھ میں لے اور پھر اس میں جڑے ہوئے نگینے کو ہاتھ میں لے کر صراف یا مرصع نگار کی خورد بین سے دیکھ کر یہ فیصلہ صادر کرے کہ یہ نگینہ اصلی ہے یا نقلی!‘‘

ان دو نظموں ’’مجھے نہ کر وداع‘‘ اور ’’اے حسن کوزہ گر‘‘ کو بھی چھان پھٹک کر دیکھنے کے باوجود کچھ دوستوں نے انہیں ن م راشد پر ’’پھبتی‘‘ سمجھا اور آرِستوفینیسؔ کے reductio at absurdem کو سمجھے بغیر اس طویل تر بحث میں حصہ لیا، جس کا احوال نامہ اب محمد حمید شاہد صاحب اور بلراج کومل صاحب مرحوم و مغفور (بطور مرتب) کی کتب میں موجود ہے۔ مجھے خوشی بھی ہے کہ میں کچھ احباب کے ذہنی کواڑوں کو اگر کھول نہیں پایا تو ان پر دستک ضرور دے پایا ہوں، کہ قدیم یونان سے لے کر، رومائے قدیم سے ہوتے ہوئے، اور پھر نشاۃ ثانیہ کے برسوں سے ہوتے ہوئے آج کے یورپ کے ادب میں بہت کچھ ایسا موجود ہے جسے انہیں پڑھنا اور سمجھنا چاہیے۔ لیکن، alas!سوئے ہوئے لوگوں کو تو جگایا جا سکتا ہے، جاگے ہوئے لوگوں کو کون جگائے !

مجھ پر کیا ن م راشد کے کچھ اثرات مرتب ہوئے، جی ہاں اور جی نہیں۔ جی ہاں اس لیے کہ راشد کے علاوہ کوئی دیگر شاعر (بشمولیت میرا جیؔ) نہیں تھا جس نے اردو میں اس خاص قماش کی نظمیں لکھی ہوں۔ جی نہیں اس لیے کہ ان میں مغربی شعرا (خصوصی طور پر انگریزی کے جدید شعرا) کی بو باس ضرور ہے لیکن ان کی معاملہ فہمی، مطالعے کی وسعت اور بین المتونیت کے آزادانہ استعمال کا شائبہ تک نہیں ملتا۔ میرا جیؔ کی عملی تنقید کے نمونے اس وقت کی انگریزی درسی کتب Seven Types of Ambiguity وغیرہ کے اینٹ گارے کو لے کر تعمیر کئے گئے ہیں۔

بین المتونیت inter-textuality آمیزش دو طرح سے ممکن ہے۔ ایک تو یہ کہ ماضی کے کلاسیکی شعرا یا ہمعصر شعرا کے متن سے ان کی خلق کردہ اصطلاح اپنے متن میں جذب کر کے، واوین میں رکھے بغیر، انہیں اپنے متن کے خیال میں جذب کر لیا جائے۔ یہ quotable quotes بھی ہو سکتی ہیں اور کانوں کو اجنبی لگنے والی بھی۔ مثلاً غالبؔ سے ہی درجنوں کیا، بیسیوں اصطلاحیں اپنے حاملہ معانی کے ساتھ آج کل کے حالات پر چسپاں کی جا سکتی ہیں۔ دستِ تہِ سنگ، تمنا کا دوسرا قدم، بلبلِ گلشن نا آفریدہ، نقش فریادی، کاغذی پیرہن، جیسی شاید ایک سو اصطلاحیں ایک ہی شاعر سے دستیاب ہوں تو فیض احمد فیض جیسے ایک شاعر کے لیے تو میدان کھلا ہے۔ دوسرا طریق کار شعرا سے نہیں لیکن اساطیر سے، لوک کہانیوں کے واقعات اور کرداروں سے، اورل لٹریچر کے تحت آنے والے لوک ادب، تخیلی، رومانوی قصص سے، مہمات، مشاہدات، ہفت خواں، احوال سلاطین، مذہبی کتابوں کے کرداروں، واقعات، تمثیلات، سے ۔ ۔ ۔ سینکڑوں sources مغرب میں موجود ہیں۔ اگر میں یہ کہوں کہ ان سے ن م راشدؔ نے کچھ بھی نہیں لیا تو غلط نہ ہو گا۔ ہاں، ان کے ہاں ہمیں فارسی سے مستعار کیے ہوئے لا تعداد حوالے ملتے ہیں۔ (اور اس میں بھی ان کے ایران میں قیام کا دخل زیادہ ہے، مطالعے کا نہیں !)۔ ۔ لیکن بس، اس کے بعد فل اسٹاپ ہے۔ مغرب سے اپنی نظموں کی تکنیک کا قرض تو ضرور لیا اور اس کا کریڈٹ ان کو جاتا ہے، لیکن مغربی اقدار، مغربی تاریخ و تمدن، مغربی فنون لطیفہ، مغربی مذاہب، اور سب سے بڑھ کی یہ کہ مغربی ادب کا شمہ بھر ’گیان‘ بھی ان کی نظموں سے مترشح نہیں ہوتا۔

اگر ایمانداری سے کہوں تو ن م راشد کے ہاں عالمی ادب کے مطالعہ کا یکسر فقدان ہے۔ اس کی نظموں میں بین اسطور بھی کہیں ایک جھلک تک نظر نہیں آتی کہ قدیم یونان، رومائے قدیم، انگریزی کے نشاۃ ثانیہ (سولھویں، سترھویں صدی)، انگریزی کے ہی کلاسیکل پیریڈ (اٹھارھویں صدی، ) رومانٹک پیریڈ (انیسویں صدی) اور ابتدائی بیسویں صدی کے جدید دور کے شعرا سے ہی، بین المتونیت کی سطح پر کچھ نظر آ جائے۔

Comparisons are odius یہ بات میں تسلیم کرتا ہوں لیکن مجھے اس بات کا قلق بھی ہے کہ جدید شاعری کا ہمارا خضر ہمیں راستے میں ہی چھوڑ گیا۔ میں نے گذشتہ برس کراچی کے ایک عزیز دوست، مجلہ ’’دنیا زاد‘‘ کے مدیر اور معروف قلمکار آصف فرّخی صاحب کے ایما پر ٹی ایس ایلیٹ کی کچھ نظمیں، بشمولیت Love Song of J. Alfred Prufrock کا آزاد نظم کے فارمیٹ میں ترجمہ کیا۔ یہ کام لگ بھگ تیس صفحات پر مشتمل تھا اور اس کے بین المتونیت پر مبنی وضاحتی نوٹ (جو میں نے فٹ نوٹس کے علاوہ حواشی میں تحریر کیے تھے ) اس سے نصف صفحات کو گھیرے ہوئے تھے۔ یہ ایلیٹ کے مطالعہ کی وسعت کا کمال ہے کہ انجیل کے علاوہ درجنوں دیگر سابقون و اوّلون مقدمات الجیش سے ایلیٹ صاحب نے قرضہ وصول کیا تھا۔

فیض احمد فیض سے میری دو بدو شناسائی تو لنڈن میں ہی ہوئی لیکن میں ان کی شاعری کا اس وقت سے گرویدہ تھا، جب تقسیم ہند کے بعد ان کی نظمیں ’یہ داغ داغ اجالا، یہ شب گزیدہ سحر‘ اور نقش فریادی کے بعد دست صبا اور زنداں نامہ کی بہت سی نظمیں سرحد پار سے تیرتی ہوئی آنے لگیں اور اردو رسائل سے بھی زیادہ اردو کے روزانہ اخبارات کے ادبی صفحات پر تصاویر کی طرح آویزاں ہونے لگیں۔ انجمن ترقی پسند مصنفین کی پنجاب (انڈیا) برانچ کے اردو سیکشن کا جنرل سیکرٹری ہونے کی حیثیت سے میں نے P.W.A. کی بھیمڑی کانفرنس، دہلی کانفرنس اور بعد میں امرتسر کانفرنس میں حصہ لیا (اس کا ذکر میری خود نوشت میں تفصیل سے درج ہے )۔ بعد میں رہا ہونے کے بعد جب فیض پاکستان سے باہر سفر اختیار کرنے لگے تو ہمیشہ لنڈن ہی ان کا پہلا پڑاؤ ہوتا۔ میں ان دنوں برٹش اوپن یونیورسٹی میں ریزیڈنٹ اسکالر تھا اور تعلیم بذریعہ خط و کتابت یعنی کارسپانڈنس کورسز کے تکنیکی مسئلوں پر کام کر رہا تھا (کمپیوٹر، انٹر نیٹ، آن لاین کورسز کا زمانہ ابھی پندرہ بیس برس دُور تھا)۔ ان کے میزبانوں، بشمولیت محترمہ زہرہ نگاہ کے دولت کدے پر ان سے کئی ملاقاتیں رہیں۔ ان کا احوال نامہ میرے ایک مضمون میں موجود ہے، جو انگریزی میں ہے اور اس جریدے کے آخر میں چسپاں ہے۔

میں نے اپنی شاعری کے ارتقا اور اس کی صورت گری میں فیض سے کیا حاصل کیا، اس کا جواب بہت عجیب ہے، یعنی بہت کچھ حاصل کیا لیکن یہ ’’بہت کچھ‘‘ منفیانہ، تنسیخی یا تردیدی تھا۔ ان کے منہ پر مجھے یہ کہنے کی ہمت کبھی نہیں پڑی، کہ بقول شخصے، ’کیا پِدی اور کیا پِدی کا شوربہ‘، میرا ادبی قد کاٹھ تو ان کے سامنے ایک بونے کا تھا۔ کبھی ہمت بٹور ہی نہیں پایا کہ کہہ سکوں، ’حاشا و کلا یوں نہیں، جناب‘، میں ہمیشہ تحلیف و تسلیم و تصدیق میں ہی سر ہلاتا رہا۔ اور میں نے دیکھا کہ کچھ محافل میں ان کے مخالف بھی یہ ہمت نہیں کر سکتے تھے کہ کچھ کہیں۔ فیض انگریزی شاعر سپینسرؔ کی طرحPoet’s poet تھے۔ ان کی کسی ایک نظم کی تھیم کا تتبع کرتے ہوئے ترقی پسند تحریک میں سرگرم ان کے پیروکار شاعر درجنوں نظمیں لکھتے تھے۔ ’’مجھ سے پہلی سی محبت مری محبوب نہ مانگ‘‘ کے مرکزی خیال کو لے کر اگر آج بھی ان برسوں میں لکھی گئی اردو نظموں کا کوئی اس کالر frequency count کرے تو اسے شاید کئی سو نظمیں ایسی مل جائیں گی۔

مجھ پر ان کا یہ اثر منفیانہ کیوں تھا، اس سوال کا سیدھا سادا جواب یہ تھا کہ میں ان کے sweet nothings والے اُن استعارات کی اصلیت سمجھتا تھا، جو غزل کی اقلیم سے لے کر انقلاب کی اذان میں فِٹ کر دیے گئے تھے، ۔ شاید وہ بھی اس بات کو صحیح سمجھتے تھے کہ تین سو برسوں تک غزلیہ شاعری کے چشموں سے سیراب ہوتے ہوئے ان کے سامع اور قاری وہ تلخابہ برداشت کر سکیں نہ کر سکیں گے جو انقلابی شاعری کا خاصہ ہے اور سردار جعفری یا مخدوم محی الدین کی شاعری میں بکثرت موجود ہے۔ تو، صاحب، اتنے قریب سے اس عظیم انسان کو دیکھنے، اس کو سننے، اس سے باتیں کرنے، اس کو اپنی چھوٹی سی کالے رنگ کی مورس مائنر کار میں بٹھا کر  کا ہمار یہاں سے وہاں اور وہاں سے یہاں لے جانے میں مجھے بے حد سکون ملتا تھا (فیض لنڈن میں خود ڈرائیو نہیں کرتے تھے )۔

 

٭    آپ نے اپنی عمر کا اغلب حصہ دنیا کی مختلف زبانوں میں تقابلی ادب اور شاعری پڑھانے میں گزرا۔ اس سے آپ کا اپنا شعری مشرب تو خراب نہیں ہوا جس کی پاداش میں غزل سے آپ کے تعلقات خراب ہو گئے ؟

آنند:   ’’شعری مشرب تو خراب نہیں ہوا جس کی پاداش میں غزل سے آپ کے تعلقات خراب ہو گئے ؟‘‘۔ ۔ ۔ ۔ قبلہ، آپ براہ راست ہی کہہ سکتے تھے : ’’شعری مشرب خراب ہوا‘‘، اتنا تردد کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ غزل کے بارے میں اپنے موقف کی پاداش میں مجھے پھبتیاں سننے کی اب عادت سی ہو گئی ہے۔ اس لیے آپ کو اتنا ڈپلومیٹک ہونے کی ضرورت نہیں۔ ۔ ۔ ۔ یہ سوال اور اس کے بعد کا سوال ایک ہی ناگ کے دو پھن ہیں، اس لیے میں دونوں سے در گذر کرتا ہوا صرف یہ کہنے پر اکتفا کرتا ہوں کہ جی ہاں، میں اپنا جرم قبول کرتا ہوں۔ لاطینی میں کہوں، تو یہ جواب ہو گا۔ Culpa Mea میری غلطی ہے، میں قصور وار ہوں۔

 

٭    انگریز عورتوں کی صحبت میں رہتے ہوئے دیسی بیویاں اور ان کے معائب اور بد تہذیبی بدیہی طور پر نمایاں ہو ہی جاتی ہے۔ ۔ ۔ غزل کے بارے میں آپ کے ذہنی تحفظات کی وہی نوعیت تو نہیں۔ ( بہت بہت معذرت کے ساتھ )۔

آنند:   اوپر دیکھیں، مانیہ ور ! دیسی بیویوں اور میموں کے بارے میں استعارہ استعمال کر کے آپ نے میری ایک شرارتی حس کو چھیڑ دیا ہے۔ اس چنگاری کو میں کئی برسوں سے چھپا چھپا کر رکھ رہا تھا۔ ایک قطعہ کہا تھا کئی برس پہلے۔ شاید آپ کو اس میں اپنا جواب تلاش کرنے میں دقت نہ ہو۔

دیکھے ہیں میں نے یورپی گلشن کے گلبدن

چکھّے ہیں ہوٹلوں کے سب مشروب عمر بھر

پیری میں پوچھتا ہوں یہ خود سے کہ کیا نہیں

’’خار وطن زِسُنبل و ریحان خوشتر؟‘‘

 

٭    اپنی تصانیف کا مختصر جائزہ لے سکتے ہیں، کونسی اولاد زیادہ اچھی لگتی ہے اور کیوں ؟

آنند:   اول تو چار زبانیں ہی ہیں، جو چار بچوں کی طرح ہی ہیں۔ ان میں سے اردو سب سے اچھی لگتی ہے اور مجھے جان سے بڑھ کر عزیز ہے۔ پنجابی میری مادری زبان ہے، اس میں بعض اوقات منہ کا ذائقہ بدلنے کے لیے غزل کے فارمیٹ میں شعر موزوں کرتا رہتا ہوں۔ انڈیا میں قیام کے دوران ایک چیلنج کے طور پر دو ماہ میں دو سو پنجابی غزلیں کہیں، جو دو شعری مجموعوں (گرمکھی رسم الخط میں )شائع ہوئیں۔ ’’ غزل غزل دریا‘‘ اور ’’غزل غزل ساگر‘‘ عنوانات تھے۔ اول الذکر کا دیباچہ معروف پنجابی لکھاری کرتار سنگھ دگل نے تحریر کیا تھا اور دوسری کتاب کا معروف پنجابی نقاد پروفیسر پریتم سنگھ نے لکھا تھا۔ دونوں میسرز دیپک پبلشرز، مائی ہیراں گیٹ، جالندھر سے اشاعت پذیر ہوئی تھی۔ (اب نایاب ہیں )۔ ان کے علاوہ میرے بد نام زمانہ ناول ’’چوک گھنٹہ گھر‘‘ کا پنجابی ایڈیشن (گرمکھی لپی) بھی اسی پبلشر کی وساطت سے شائع ہوا تھا۔ دو اور کتابیں بھی ہیں جو وطن عزیز کی آزادی کی جد و جہد کی تاریخ ہیں اور تحقیق کے ذیل میں آتی ہیں۔ یہ پنجاب (انڈیا) کی حکومت کی گرانٹ سے شائع ہوئیں ان کتابوں کے انگریزی ایڈیشن بھی ہیں۔

ہندی میں لکھنا ایک اقتصادی ضرورت تھی کہ گذشتہ صدی کی پچاس ساٹھ کی دہائیوں میں ابھی اقتصادی سمندر میں غوطے کھا رہا تھا اور بیوہ ماں کے علاوہ تین چھوٹے بہن بھائیوں کی کفالت بھی ضروری تھی۔ ہندی میں افسانوں پر خاطر خواہ معاوضہ ملتا تھا۔ اس کے علاوہ اردو سے ہندی تراجم کے جعلی ایڈیشن چھپا کرتے تھے اور ان کے لیے گمنام طور پر، فی صفحہ ریٹ کے حساب سے، ترجمہ کرنا ایک ایسا ذریعہ تھا جس سے آمدنی جیب خرچ کی حد تک نکل آتی تھی۔ میں لدھیانہ میں اقامت پذیر تھا اور لدھیانہ سے دہلی تک کا چکر دس بارہ دنوں کے بعد لگ ہی جایا کرتا تھا، جس میں جاسوسی ناولوں کی ترجمہ شدہ ایک کھیپ لے جانا اور دستی معاوضہ لے کر لوٹنا ایک معمول سا تھا۔ اردو سے ہندی میں تراجم اکثر اوقات پہلے بھی انگریزی سے ترجمہ شدہ ہوتے تھے اور تیرتھ رام فیروزپوری کے نام سے نارائن دت سہگل اینڈ سنز، لاہور، سے چھپے ہوئے ہوتے تھے۔ ان پر میرا نام نہیں دیا جاتا تھا۔ ( بعض اوقات فرضی ناموں کو دیکھ کر خود پر رشک بھی آتا تھا۔ ) ان برسوں میں ہندی میں، کل ملا کر، ایسی پچاس ساٹھ کے قریب کتابیں شائع ہوئیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لیکن ہندی میں میری اپنی لکھی ہوئی کہانیوں پر بھی اچھا معاوضہ ملتا تھا۔ کہانیوں کے چار مجموعے، تین ناول اور ہندی کوتاؤں کی ایک کتاب۔ ۔ ۔ یعنی آٹھ کتابیں شائع ہوئیں۔ کچھ ابھی تک دستیاب ہیں۔

انگریزی درسیات سے تعلق رکھنے کی وجہ سے جب انگریزی میں براہ راست نظمیں لکھنے یا اپنی اردو نظموں کو انگریزی میں منتقل کرنے کا ’چسکا‘ لگا تو جیسے ایک نیا باب کھل گیا ہو۔ کلکتہ کے مشہور زماں انگریزی شاعر پروفیسر پی لالؔ نے اپنے ادارے ’رائٹرز ورکشاپ‘ سے میرا پہلا شعری مجموعہ A Promise Kept شائع کیا۔ اس سے پہلے اس کا Prose sequel پنجاب یونیورسٹی، چنڈی گڑھ، سے Promises to Keep کے زیر عنوان چھپ چکا تھا۔ پھر اس کے بعد پے در پے انڈیا اور امریکا سے انگریزی میں شعری مجموعوں کا سلسلہ شروع ہوا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو آج تک جاری ہے۔ اب تک نو مجموعے چھپ چکے ہیں، جن میں سے کچھ اپنے دوسرے یا تیسرے ایڈیشن میں ہیں۔

اردو میں لکھنے کا سلسلہ تو جاری ہے، اس لیے آج کے دن اس کا لیکھا جوکھا کرنا اس لیے درست نہیں ہے کہ مجھے ابھی اور بہت کچھ لکھنا ہے۔ اس انٹرویو کے آخر میں ان کی فہرست دی جا سکتی ہے۔

 

٭    آپ کسی حد تک ’’زود نویس ‘‘ہیں، کہہ سکتے ہیں ؟ اور اس کے منفی یا مثبت اثرات کیا ہوئے ؟

آنند:   ’زود نویس‘ سے بہتر اصطلاح شاید ایجاد ہو سکے۔ ’پُر نویس‘ کیسا رہے گا۔ ساڑھے چھ سو سے کچھ زیادہ نظمیں اگر ساٹھ برسوں میں لکھی جائیں تو فی سال گیارہ نظموں کا عدد پیش ہوتا ہے۔ یہ لگ بھگ ایک نظم فی ماہ ہے۔ کیا یہ زود نویسی ہے ؟ جی نہیں، پُر نویسی ضرور ہے، اور وہ بھی اس حد تک کہ میں اپنے چپوؤں پر ہاتھ رکھ کر سانس لینے کو کبھی نہیں رکا۔ زندگی اور تخلیقی کام میرے لیے ایک ہی ناؤ کا نام ہے اور میں اسے لگاتار کھیتا ہی رہا ہوں۔ ۔ ۔

اور ان ساٹھ برسوں میں اس ناچیز نے کبھی خود کو دہرایا بھی نہیں، چہ آنکہ اگر کسی ’پُر نویس‘ غزل گو کی غزلیات کو (نام نہیں لوں گا) جو ’پرچون‘ کے حساب سے نہیں، ’تھوک‘ یعنی ہول سیل کے حساب سے غزلیہ اشعار گھسیٹتے چلے جاتا ہو، frequency countکے تحقیقی پیمانے سے ماپ کر دیکھا جائے تو کیا کچھ نہ ظاہر ہو گا!۔ ۔ ۔ ۔ ، ان اشعار میں برتی گئی اصطلاحات، مصطلحات، عبارت آرائی، فی الجملہ یا مجملاً اختصار و خلاصہ (اسلوب، یا طرز بیان کی سطح پر) اور ان کے موضوعات، مضامین، زیر تخلیق امور، مالہ و ما علیہ، دلائل، نکات، معاملات، حقائق۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یا متصور، مد نظر، مقصود معانی میں اس قدر تکرار ملے گی کہ طبیعت مکدر ہو جائے گی۔ الگ الگ صفحات پر، الگ الگ اشعار میں، الگ الگ مضامین میں بھی ’’وہی ڈھاک کے تین پات‘‘ کی سطح پر غیر مختتم، لا تحصیٰ، اندھا دھند ’مکررات‘، ’سہ کررات‘، مکرات و مرات کی لگاتار جگالی کا منظر نامہ پیش آئے گا۔ ۔ ۔ ۔ الف، الوف کا یہ اژدہام، اصنعاف و مضاعف کا یہ جم غفیر اگر اکٹھا کر دیا جائے تو ناظر کی حالت متغیر ہو جائے گی، اور لا محالہ اس کے منہ سے نکلے گا، ’استغفر اللہ! تو اس ’ اینٹی چینٹی‘ پر اکڑتے رہے موصوف، کہ وہ غالبؔ اور میرؔ سے فی زمانہ بڑے شاعر ہیں !

۔۔۔۔۔۔۔۔

بقیہ دوسرے حصے میں۔۔۔۔۔۔

٭٭٭

تشکر: ستیہ پال آنند جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید