فہرست مضامین
- آئینہ بھی ہے
- سید اقبال عظیم
- جمع و ترتیب: اعجاز عبید
- مجھ میں لفظوں کو برتنے کا سلیقہ ہی نہیں ہے شاید
- یہ مری اَنا کی شکست ہے، نہ دوا کرو نہ دعا کرو
- جانے گھر سے کوئی گیا ہے گھر سُونا سُونا لگتا ہے
- اک خطا ہم از رہِ سادہ دِلی کرتے رہے
- گِلہ تو آپ سے ہے اور بے سبب بھی نہیں
- یہ نگاہِ شرم جھُکی جھُکی، یہ جبینِ ناز دھُواں دھُواں
- اپنا گھر چھوڑ کے ہم لوگ وہاں تک پہنچے
- ہر چند گام گام! حوادث سفر میں ہیں
- ہم نے مانا اس زمانے میں ہنسی بھی جرم ہے
- شاید کہیں قریب کوئی دوسرا بھی ہے
- یہ مری انا کی شکست ہے، نہ دعا کرو، نہ دوا کرو
- مجھے اپنے ضبط پہ ناز تھا، سرِ بزم رات یہ کیا ہوا
- وہ موجِ تبسّم شگفتہ شگفتہ ، وہ بھولا سا چہرہ کتابی کتابی
- تم ماتھے پہ بل ڈال کے جو بات کرو گی
- وہ یوں ملا کے بظاہر خفا خفا سا لگا
- اور روشن رہِ سفرکردو
- اٹھے تو صبحِ درخشاں، جھکے تو ظلمتِ شام
- جمع و ترتیب: اعجاز عبید
- سید اقبال عظیم
آئینہ بھی ہے
سید اقبال عظیم
جمع و ترتیب: اعجاز عبید
میں نے کچھ اور کہا آپ سے اور آپ نے کچھ اور سنا
مجھ میں لفظوں کو برتنے کا سلیقہ ہی نہیں ہے شاید
جب بھی ملئے وہی شکوے وہی ماتھے پہ شکن رہتی ہے
آپ سے کوئی ملے آپ کا منشا ہی نہیں ہے شاید
میں نے تو پرسشِ احوال بھی کی اور مخاطب بھی ہوا
حسنِ اخلاق مگر آپ کا شیوہ ہی نہیں ہے شاید
بات اب منزلِ تشہیر تک آ پہنچی جستہ جستہ
اب بجز ترکِ تعلق کوئی رستہ ہی نہیں ہے شاید
آپ کچھ بھی کہیں ناقابلِ تردید حقیقت ہے یہ
آپ کو میری صداقت پر بھروسہ ہی نہیں ہے شاید
اب وہ احباب نہ ماحول نہ آداب نہ پرسش نہ سلام
اب تو محفل میں کوئی اپنا شناسا ہی نہیں ہے شاید
حاکم شہر پہ تنقید کا اقبالؔ نتیجہ معلوم
اور وہ یہ کہ تمھیں شہر میں رہنا ہی نہیں ہے شاید
٭٭٭
یہ مری اَنا کی شکست ہے، نہ دوا کرو نہ دعا کرو
جو کرو تو بس یہ کرم کرو مجھے میرے حال پہ چھوڑ دو
وہ جو ایک ترکشِ وقت ہے ابھی اُس میں تیر بہت سے ہیں
کوئی تیر تم کو نہ آ لگے میرے زخمِ دل پہ نہ یوں ہنسو
نہ میں کوہ کن ہوں، نہ قیس ہوں، مجھے اپنی جان عزیز ہے
مجھے ترکِ عشق قبول ہے، جو تمھیں یقینِ وفا نہ ہو
جو تمھارے دل میں شکوک ہیں تو یہ عہد نامے فضول ہیں
جو مرے خطوط ہیں پھاڑ دو، یہ تمھارے خط ہیں سمیٹ لو
جو کسی کو کوئی ستائے گا تو گلہ بھی ہونٹوں تک آئے گا
یہ تو اک اصول کی بات ہے، جو خفا ہے مجھ سے کوئی تو ہو
مجھے اب صداؤں سے کام ہے، مجھے خال و خد کی خبر نہیں
تو پھر اس فریب سے فائدہ یہ نقاب اب تو اُتار دو
مجھے اپنے فقر پہ ناز ہے، مجھے اس کرم کی طلب نہیں
میں گدا نہیں ہوں فقیر ہوں، یہ کرم گداؤں میں بانٹ دو
یہ فقط تمھارے سوال کا مرا مختصر سا جواب ہے
یہ گلہ نہیں ہے، خلوص ہے، مری گفتگو کا اثر نہ لو
یہ ادھورے چاند کی چاندنی بھی اندھیری رات میں کم نہیں
کہیں یہ بھی ساتھ نہ چھوڑ دے، ابھی روشنی ہے چلے چلو
٭٭٭
جانے گھر سے کوئی گیا ہے گھر سُونا سُونا لگتا ہے
گھر کے بچے بچے کا چہرہ اُترا اُترا لگتا ہے
ہم باہر سے گھر کیا لوٹے ہیں سب کو پرائے لگتے ہیں
اب جو بھی ہم سے ملتا ہے کچھ روٹھا روٹھا لگتا ہے
یہ کس کو خبر تھی اس کو بھی دیکھ دینے کے ڈھب آتے ہیں
چہرے مہرے سے تو وہ ہم کو بھولا بھالا لگتا ہے
حسن اگر سچا ہو تو اس کو زیبائش کی حاجت کیا
سیدھے سادے جوڑے میں بھی وہ کتنا پیارا لگتا ہے
غفلت کی نیندیں سونے والے اس لذت کو کیا سمجھیں
جب صبح اذانیں ہوتی ہیں تو کتنا اچھا لگتا ہے
عہدہ ان کو جب سے ملا ہے وہ جانیں کیسے لگتے ہیں
لہجہ ہی نہیں اب چہرہ بھی کچھ بدلا بدلا لگتا ہے
اقبالؔ سے ہم کل رات ملے تھے چُپکا چُپکا بیٹھا تھا
کیا جانے اس کو کیا دکھ ہے جو کھویا کھویا لگتا ہے
٭٭٭
اک خطا ہم از رہِ سادہ دِلی کرتے رہے
ہر تبسّم پر قیاسِ دوستی کرتے رہے
ایسے لوگوں سےبھی ہم مِلتے رہے دل کھول کر
جو وفا کے نام پر سوداگری کرتے رہے
خود اندھیروں میں بسر کرتے رہے ہم زندگی
دوسروں کے گھر میں لیکن روشنی کرتے رہے
سجدہ ریزی پائے ساقی پر کبھی ہم نے نہ کی
اپنے اشکوں سے علاجِ تشنگی کرتے رہے
اپنے ہاتھوں آرزوؤں کا گلا گھونٹا کئے
زندہ رہنے کے لئے ہم خود کُشی کرتے رہے
ہر طرف جلتے رہے،بُجھتے رہے جھُوٹے چراغ
اور ہم، سامانِ جشنِ تِیرَگی کرتے رہے
حالِ دل کہہ دیں کسی سے، بارہا سوچا مگر
اِس اِرادے کو ہمیشہ مُلتوی کرتے رہے
خود کو دیتے بھی رہے ترکِ تعلّق کا فریب!
اور درپردہ ، کسی کو یاد بھی کرتے رہے
اس طرح اقبال! گزری ہے ہماری زندگی
زہرِ غم پیتے رہے، اور شاعری کرتے رہے
٭٭٭
گِلہ تو آپ سے ہے اور بے سبب بھی نہیں
مگر اِرادۂ اظہار زیرِ لب بھی نہیں
میں چاہتا ہوں کہ اپنی زباں سے کچھ نہ کہوں
میں صاف گو ہوں، مگر اتنا بے ادب بھی نہیں
جفا کی طرح، مجھے ترکِ دوستی بھی قبول
ملال جب بھی نہ تھا مجھ کو، اور اب بھی نہیں
گزر گیا وہ طلب گاریوں کا دَور بخیر
خدا کا شُکر، کہ اب فرصتِ طلب بھی نہیں
مزاجِ وقت سے تنگ آ چکا ہے میرا ضمیر
مِرے اصول بدل جائیں تو عجب بھی نہیں
گئے دنوں کا فسانہ ہے اب ہمارا وجود
وہ مفلسی بھی نہیں ہے، وہ روز و شب بھی نہیں
جواب دوں گا میں، کچھ مجھ سے پوچھ کر دیکھو
ابھی میں ہوش میں ہوں ایسا جاں بہ لب بھی نہیں
حسب نسب کی جو پوچھو تو شجرہ پیش کروں
کتاب کوئی نہیں ہے، مِرا لقب بھی نہیں
٭٭٭
یہ نگاہِ شرم جھُکی جھُکی، یہ جبینِ ناز دھُواں دھُواں
مِرے بس کی اب نہیں داستاں، مِرا کانپتا ہے رُواں رُواں
یہ تخیّلات کی زندگی، یہ تصوّرات کی بندگی
فقط اِک فریبِ خیال پر، مِری زندگی ہے رواں دواں
مِرے دل پہ نقش ہیں آج تک، وہ با احتیاط نوازشیں
وہ غرور و ضبط عیاں عیاں، وہ خلوصِ ربط نہاں نہاں
نہ سفر بشرطِ مآل ہے، نہ طلب بقیدِ سوال ہے
فقط ایک سیریِ ذوق کو، میں بھٹک رہا ہوں کہاں کہاں
مِری خلوتوں کی یہ جنّتیں کئی بار سج کے اُجڑ گئیں
مجھے بارہا یہ گمان ہوا، کہ تم آرہے ہو کشاں کشاں
٭٭٭
اپنا گھر چھوڑ کے ہم لوگ وہاں تک پہنچے
صبحِ فردا کی کِرن بھی نہ جہاں تک پہنچے
میں نے آنکھوں میں چھپا رکھے ہیں کچھ اور چراغ
روشنی صبح کی شاید نہ یہاں تک پہنچے
بے کہے بات سمجھ لو تو مناسب ہوگا
اس سے پہلے کہ یہی بات زبان تک پہنچے
تم نے ہم جیسے مسافر بھی نہ دیکھے ہوں گے
جو بہاروں سے چلے اور خزاں تک پہنچے
آج پندارِ تمنّا کا فسُوں ٹُوٹ گیا
چند کم ظرف گِلے نوکِ زبان تک پہنچے
٭٭٭
ہر چند گام گام! حوادث سفر میں ہیں
وہ خوش نصیب ہیں جو تِری رہگزر میں ہیں
تاکیدِ ضبط، عہدِ وفا، اذنِ زندگی
کتنے پیام اک نگہ مُختصر میں ہیں
ماضی شریک حال ہے، کوشش کے باوجود
دھُندلے سے کچھ نقوش ابھی تک نظر میں ہیں
لِلہ اِس خلوص سے پرسش نہ کیجئے
طوفان کب سے بند مِری چشمِ تر میں ہیں
منزل تو خوش نصیبوں میں تقسیم ہو چکی!
کچھ خوش خیال لوگ ابھی تک سفرمیں ہیں
٭٭٭
ہم نے مانا اس زمانے میں ہنسی بھی جرم ہے
لیکن اس ماحول میں افسردگی بھی جرم ہے
دشمنی تو خیر ہر صورت میں ہوتی ہے گناہ
اک معین حد سے آگے دوستی بھی جرم ہے
ہم وفائیں کر کے رکھتے ہیں وفاؤں کی امید
دوستی میں اس قدر سوداگری بھی جرم ہے
اس سے پہلے زندگی میں ایسی پابندی نہ تھی
اب تو جیسے خود وجودِ زندگی بھی جرم ہے
آدمی اس زندگی سے بچ کے جائے بھی کہاں
مے کشی بھی جرم ہے اور خودکشی بھی جرم ہے
سادگی میں جان دے بیٹھے ہزاروں کوہ کن
آدمی سوچے تو اتنی سادگی بھی جرم ہے
کتنی دیواریں کھڑی ہیں ہر قدم ہر راہ پر
اور ستم یہ ہے کہ شوریدہ سری بھی جرم ہے
ایک ساغر کے لئے جو بیچ دے اپنا ضمیر
ایسے رندوں کے لئے تشنہ لبی بھی جرم ہے
اپنی بے نوری کا ہم اقبال ماتم کیوں کریں
آج کے حالات میں دیدہ وری بھی جرم ہے
٭٭٭
محسوس ہو رہا ہے کہ تنہا نہیں ہوں میں
شاید کہیں قریب کوئی دوسرا بھی ہے
قاتل نے کس صفائی سے دھوئی ہے آستیں
اس کو خبر نہیں کہ لہو بولتا بھی ہے
یہ حسنِ اتفاق ہے یا حسنِ اہتمام
ہے جس جگہ فرات وہیں کربلا بھی ہے
ہم پھر اپنے چہرے نہ دیکھیں تو کیا علاج
آنکھیں بھی ہیں، چراغ بھی ہے، آئینہ بھی ہے
اقبال شکر بھیجو کہ تم دیدہ ور نہیں
دیدہ وروں کو آج کوئی پوچھتا بھی ہے؟
یہ مری انا کی شکست ہے، نہ دعا کرو، نہ دوا کرو
جو کرو تو اتنا کرم کرو، مجھے میرے حال پہ چھوڑ دو
یہ جو ایک ترکشِ وقت ہے، ابھی اس میں تیر بہت سے ہیں
کوئی تیر تم کو نہ آ لگے ، مرے حالِ دل پہ نہ یوں ہنسو
میں نہ قیس ہوں، نہ ہوں کوہکن، مجھے اپنی جان عزیز ہے
مجھے ترکِ عشق قبول ہے جو تمھیں یقینِ وفا نہ ہو
جو تمھارے دل میں شکوک ہیں تو یہ عہد نامے فضول ہیں
یہ تمھارے خط ہیں سنبھال لو، جو مرے خطوط ہوں پھاڑ دو
جو کوئی کسی کو ستائے گا تو گلہ بھی ہونٹوں تک آئے گا
یہ تو اک اُصول کی بات ہے جو خفا ہو مجھ سے تو کوئی ہو
مجھے اپنے ضبط پہ ناز تھا، سرِ بزم رات یہ کیا ہوا
مری آنکھ کیسے چھلک گئی، مجھے رنج ہے یہ برا ہوا
مری زندگی کے چراغ کا یہ مزاج کوئی نیا نہیں
ابھی روشنی ابھی تیرگی، نہ جلا ہوا نہ بجھا ہوا
مجھے جو بھی دشمنِ جاں ملا وہی پختہ کارِ جفا ملا
نہ کسی کی ضرب غلط پڑی، نہ کسی کا تیر خط ہوا
مجھے آپ کیوں نہ سمجھ سکے یہ خود اپنے دل ہی سے پوچھیے
مری داستانِ حیات کا تو ورق ورق ہے کھلا ہوا
جو نظر بچا کے گزر گئے مرے سامنے سے ابھی ابھی
یہ مرے ہی شہر کے لوگ تھے مرے گھر سے گھر ہے ملا ہوا
ہمیں اس کا کوئی بھی حق نہیں کہ شریکِ بزمِ خلوص ہوں
نہ ہمارے پاس نقاب ہے نہ کچھ آستیں میں چھپا ہوا
مرے ایک گوشۂ فکر میں، میری زندگی سے عزیز تر
مرا ایک ایسا بھی دوست ہے جو کبھی ملا نہ جدا ہوا
مجھے ایک گلی میں پڑا ہوا کسی بدنصیب کا خط ملا
کہیں خونِ دل سے لکھا ہوا، کہیں آنسوؤں سے مٹا ہوا
مجھے ہم سفر بھی ملا کوئی تو شکستہ حال مری طرح
کئی منزلوں کا تھکا ہوا، کہیں راستے میں لٹا ہوا
ہمیں اپنے گھر سے چلے ہوئے سرِ راہ عمر گزر گئی
کوئی جستجو کا صلہ ملا، نہ سفر کا حق ہی ادا ہوا
٭٭٭
وہ موجِ تبسّم شگفتہ شگفتہ ، وہ بھولا سا چہرہ کتابی کتابی
وہ سُنبل سے گیسو سنہرے سنہرے ، وہ مخمور آنکھیں گلابی گلابی
کفِ دست نازک حنائی حنائی ، وہ لب ہائے شیریں شہابی شہابی
وہ باتوں میں جادو اداؤں میں ٹونا ، وہ دُزدیدہ نظریں عقابی عقابی
کبھی خوش مزاجی ، کبھی بے نیازی، ابھی ہوشیاری ، ابھی نیم خوابی
قدم بہکے بہکے نظر کھوئی کھوئی ، وہ مخمور لہجہ شرابی شرابی
نہ حرفِ تکلّم ، نہ سعیِ تخاطب ، سرِ بزم لیکن بہم ہم کلامی
ادھر چند آنسو سوالی سوالی ، اُدھر کچھ تبسّم جوابی جوابی
وہ سیلابِ خوشبو گلستاں گلستاں ، وہ سروِ خراماں بہاراں بہاراں
فروزاں فروزاں جبیں کہکشانی ، درخشاں درخشاں نظر ماہتابی
نہ ہونٹوں پہ سرخی ، نہ آنکھوں میں کاجل ، نہ ہاتھوں میں کنگن ، نہ پیروں میں پائل
مگر حُسنِ سادہ مثالی مثالی ، جوابِ شمائل فقط لاجوابی
وہ شہرِ نگاراں کی گلیوں کے پھیرے ، سرِ کوئے خوباں فقیروں کے ڈیرے
مگر حرفِ پُرسش ، نہ اِذنِ گزارش ، کبھی نامُرادی کبھی باریابی
یہ سب کچھ کبھی تھا ، مگر اب نہیں ہے کہ آوارہ فرہاد گوشہ نشیں ہے
نہ تیشہ بدوشی ، نہ خارہ شگافی ، نہ آہیں ، نہ آنسو ، نہ خانہ خرابی
کہ نظروں میں اب کوئی شیریں نہیں ہے ، جدھر دیکھیئے ایک مریم کھڑی ہے
نجابت ساپا ، شرافت تبسّم ، بہ عصمت مزاجی ، بہ عفّت مآبی
جو گیسو سنہرے تھے اب نُقرئی ہیں ، جن آنکھوں میں جادو تھا ، اب با وضو ہیں
یہ پاکیزہ چہرے ، یہ معصوم آنکھیں ، نہ وہ بے حجابی ، نہ وہ بے نقابی
وہ عشقِ مجازی حقیقت میں ڈھل کر تقدّس کی راہوں پہ اب گامزن ہے
جو حُسنِ نگاراں فریبِ نظر تھا ، فرشتوں کی صورت ہے گردوں جنابی
وہ صورت پرستی سے اُکتا گیا ہے ، خلوصِ نظر اور کچھ ڈھونڈتا ہے
نہ موجِ تبسّم ، نہ دستِ حنائی ، نہ مخمور آنکھیں گلابی گلابی
٭٭٭
تم ماتھے پہ بل ڈال کے جو بات کرو گی
تو یاد رہے ہم سے بھی ویسی ہی سنو گی
یہ ہمسفری مصلحتِ وقت تھی ورنہ
یہ تو ہمیں معلوم تھا تم ساتھ نہ دو گی
یہ تازہ ستم ہم کو گوارہ تو نہیں ہے
ہم یہ بھی سہہ لیتے ہیں کیا یاد کرو گی
ہم شوق میں برباد ہوئے اپنے ہی ہاتھوں
روداد ہماری جو سنو گی تو ہنسو گی
تم آج سمجھتی ہو ہمیں غیر تو سمجھو
اوروں سے ملو گی تو ہمیں یاد کرو گی
منزل بھی ابھی دور ہے اور راہ بھی دشوار
کیا ہوگا اگر اپنے ہی سائے سے ڈرو گی
اپنوں سے خفا ہو کے کہاں جاؤ گی آخر
اقبال کو کب تک نظر انداز کرو گی
٭٭٭
وہ یوں ملا کے بظاہر خفا خفا سا لگا
وہ دوسروں سے مگر مجھ کو کچھ جدا سا لگا
مزاج اُس نے نہ پوچھا مگر سلام لیا
یہ بے رخی کا سلیقہ بھی کچھ بھلا سا لگا
وہ جس کی کم سُخنی کو غرور سمجھا گیا
میری نگاہ کو وہ پیکرِ حیا سا لگا
میں اپنے کرب کی روداد اُس سے کیا کہتا
خود اُس کا دل بھی مجھے کچھ دُکھا دُکھا سا لگا
غبارِ وقت نے کچھ یوں بدل دیئے چہرے
خود اپنا شہر بھی مجھ کو نیا نیا سا لگا
گھُٹی گھُٹی سی لگی رات انجمن کی فِضا
چراغ جو بھی جلا کچھ بجھا بجھا سا لگا
جو ہم پہ گزری ہے شائد سبھی پہ گزری ہے
فسانہ جو بھی سُنا کچھ سُنا سُنا سا لگا
میں گھر سے چل کے اکیلا یہاں تک آیا ہوں
جو ہمسفر بھی ملا ، کچھ تھکا تھکا سا لگا
کچھ اس خلوص سے اُس نے مجھے کہا اقبال
خود اپنا نام بھی مجھ کو بہت بڑا سا لگا
٭٭٭
اور روشن رہِ سفرکردو
شوقِ منزل کو معتبر کر دو
راستےمختصرنہیں ہوں گے
اپنی رفتار تیز تر کر دو
جس طرف روشنی نظر آئے
اپنے قدموں کا رُخ اُدھر کر دو
جب بہکنے لگیں تمھارے قدم
عزمِ راسخ کو راہبر کر دو
کر کے روشن لہوسے سارے چراغ
شبِ تاریک کو سحر کر دو
اٹھے تو صبحِ درخشاں، جھکے تو ظلمتِ شام
تری نگاہ پہ قائم ہے زندگی کا نظام
یہ خم بہ خم ترے گیسو یہ کافرانہ خرام
ز فرق تا بقدم شعرِ حافظ و خیام
تری جبیں پہ طلوعِ سحر کی پہلی کرن
ترے لبوں پہ بہاروں کا اولیں پیغام
نظر جھکی تو ہوا بند بابِ مے خانہ
نظر اٹھی تو ہوئے چور چور، شیشہ و جام
بغیر لفظ و بیاں گفتگو سرِ محفل
نفس نفس میں فسانے، نظر نظر میں پیام
قدم بڑھیں تو بدل جائے وقت کی رفتار
قدم رکیں تو ٹھہر جائے گردشِ ایام
نہ جانے کون سی منزل ہے یہ محبت کی
نہ پرسشیں، نہ تخاطب، نہ گفتگو نہ سلام
٭٭٭
ماخذ:
http://www.urduweb.org/mehfil/tags/%D8%A7%D9%82%D8%A8%D8%A7%D9%84+%D8%B9%D8%B8%DB%8C%D9%85/
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
عمدہ انتخاب ہے
بہت لطف آیا پرانی یادیں تازہ کر کے
کمال