FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

               سرفراز شاہد

جمع و ترتیب: اعجاز عبید

 

ً

خوشحال گھرانہ

ننھی منی سی کابینہ

اک حقیقت ایک فسانہ

چند وزیروں کا مطلب ہے

بچے کم خوشحال گھرانہ

٭٭٭

بدل جاتی ہیں تقدیریں

سنا ہے اک سمگلر کہہ رہا تھا اپنے بیٹے سے

گرانی میں نہ کام آتی ہیں تفسیریں نہ تدبیریں

اگر دولت کمانی ہے تو پھر ہیروئین کا دھندہ کر

کہ اس کے ایک پھیرے سے بدل جاتی ہے تقدیریں

٭٭٭

تقاضا

ہے میزبانی کا یہ تقاضا

آئے مہماں تو مسکرا دو

مگر طبیعت یہ چاہتی ہے

گلے ملو اور گلہ دبا دو

٭٭٭

بیک وقت

اِدھر ہم سے محفل میں نظریں لڑانا

اُدھر غیر کو دیکھ کر مسکرانا

یہ بھینگی نظر کا نہ ہو شاخسانہ

’’ کہیں پہ نگاہیں، کہیں پہ نشانہ

٭٭٭

ذریعہ عزت

آفر ہوئی ہے ’’ جاب ‘‘ تو اک ’’ ابن لکھ پتی ‘‘

بولا حضور! اس کی ضرورت نہیں مجھے

سو پشت سے ہے پیشہ آباء سمگلری

کچھ نوکری ذریعہ عزت نہیں مجھے

٭٭٭

چلا گیا

دیکھا جو زلفِ یار میں کاغذ کا ایک پھول

میں کوٹ میں گلاب لگا کر چلا گیا

پوڈر لگا کے چہرے پہ آئے وہ میرے گھر

میں ان کے گھر خضاب لگا کر چلا گیا

٭٭٭

پیاز پیاز

ہوئی جو دال گراں اور سبزیاں مہنگی

’’ کچن ‘‘ میں جا کے بھلا کیا وہ دلنواز کرے

معاملاتِ محبت کا اَب یہ عالم ہے

میں پیار پیار کروں اور وہ پیاز پیاز کرے

٭٭٭

اقوالِ قائد اعظمؒ

ہیں یہ اقوالِ قائداعظمؒ

جو عمل کا پیام دیتے ہیں

ہم دفاتر میں ان کو لٹکا کر

’’ ڈیکوریشن ‘‘ کا کام لیتے ہیں

٭٭٭

اللہ کے شیروں کو

جس ’’ کیس ‘‘ میں امکاں ہو اُوپر کی کمائی کا

اس کام میں یہ بابو کرتے نہیں کوتاہی

اب چھین کے لیتے ہیں سائل سے وہ ’’ نذرانہ ‘‘

’’ اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی ‘‘

٭٭٭

ہیروئن

ہیروئن بیچنے والے سے کہا لیلیٰ نے

یہ جو پوڈر ہے، سنگھا دو میرے پروانے کو

یوں ہی مر جائے کسی روز نشے کے ہاتھوں

’’ کوئی پتھر سے نہ مارے میرے دیوانے کو ‘‘

٭٭٭

سلمنگ سنٹر

آہ بھرتی ہوئی آئی ہو ’’ سلمنگ سنٹر ‘‘

’’ آہ کو چاہیے اک عمر اثر ہونے تک ‘‘

’’ ڈایٹنگ ‘‘ کھیل نہیں چند دنوں کا بیگم

ایک صدی چاہیے کمرے کو کمر ہونے تک

٭٭٭

غزل

اسی پرچے میں خبر ہے میری رسوائی کی

جس میں تصویر چھپی ہے تیری انگڑائی کی

کیسے کہہ دوں کہ میں لیڈر بھی ہوں اور لوٹا بھی

بات سچی ہے مگر بات ہے رسوائی کی

میرے افسانے سناتی ہے محلے بھر کو

اک یہی بات اچھی ہے میری ہمسائی کی

دو عدد ویڈیو فلموں میں گزر جاتی ہے

صرف اتنی ہے طوالت شب تنہائی کی

ایسے ملتا ہے چنریا سے ہئیر بینڈ کا رنگ

جس طرح سوٹ سے میچنگ ہے میری ٹائی کی

٭٭٭

 

غزل

    جو بیوٹی پارلر میں خرچ ہو

    اس کو اپنے حسن کا فطرانہ کہہ

    فیس بابو کو اگر دینی پڑے

    اس کو رشوت مت سمجھ نذرانہ کہہ

    حسن کی گر دیکھنی ہو برہمی

    ایک دن نسرین کو رخسانہ کہہ

    ہر جواں عورت کو باجی مت بنا

    جو معمر ہیں انہیں آپا نہ کہہ

    صرف اتنا کر کہ مجھ کو مت سنا

    بیس غزلیں شوق سے روزانہ کہہ

٭٭٭

غزل

زمانے میں وہی مقبول ’’ ڈپلومیٹ ‘‘ ہوتا ہے

جو منہ سے ’’ دِس ‘‘ کہے تو اس کا مطلب ’’ دَیٹ ‘‘ ہوتا ہے

عوام الناس کو ایسے دبوچا ہے گرانی نے

کہ جیسے ’’ کیٹ ‘‘ کے نیچے میں کوئی ’’ رَیٹ ‘‘ ہوتا ہے

فراغت ہی نہیں ملتی بڑے صاحب کو میٹنگ سے

وہ میٹینگ جس کا ایجنڈا فقط ’’ چٹ چیٹ ‘‘ ہوتا ہے

کرکٹر جلد بازی میں لگاتا ہے اگر چھکا

زمیں پر گیند ہوتی ہے فضا میں ’’ بیٹ ‘‘ ہوتا ہے

ہمیں تو سادگی کا درس دیتا ہے وہی جس کے

بدن پر بیش قیمت سوٹ، سر پر ’’ ہیٹ ‘‘ ہوتا ہے

یہی دیکھا ہے شاہدؔ تیسری دنیا کے ملکوں میں

بچاری قوم پتلی اور لیڈر ’’ فَیٹ ‘‘ ہوتا ہے

٭٭٭

 

غزل

وہ لوگ ساگ دال سے آگے نہیں گئے

جو لقمۂ حلال سے آگے نہیں گئے

تحفے میں مانگتے ہیں وہ سونے کے زیورات

خود ریشمی رومال سے آگے نہیں گئے

’’ بلو کی گھر ‘‘ کی راہ پر اب بھی ہیں گامزن

جو لوگ بھیڑ چال سے آگے نہیں گئے

ان راشیوں میں ان کو فرشتہ صفت کہو

جو حد ’’ اعتدال ‘‘ سے آگے نہیں گئے

سولہ کے بعد عمر کو تھوڑی بہت بڑھی

لیکن وہ بیس سال سے آگے نہیں گئے

ان کو بھی میل جول میں ’’ وقفہ ‘‘ پسند تھا

اور ہم بھی بول چال سے آگے نہیں گئے

شاہدؔ مزاح گوئی کا دعویٰ انھیں بھی ہے

جو حد ’’ اعتدال ‘‘ سے آگے نہیں گئے

٭٭٭

 

ادھر نکلے

کئی ایسے بھی غوطہ خور ہیں بحرِ سیاست میں

پتا جن کا نہیں چلتا کِدھر ڈوبے کِدھر نکلے

کہا اقبال نے شاید انھیں لوٹوں کے بارے میں

’’ اِدھر ڈوبے اُدھر نکلے، اُدھر ڈوبے اِدھر نکلے ‘‘

٭٭٭

بھائی جان

اب کے پھر عید کارڈ میں اُس نے

لفظ اک بے دھیان لکھا ہے

پھر میری عید کِرکِری کر دی

پھر مجھے ” بھائی جان ” لکھا ہے

٭٭٭

مجذوب چشتی

دو بجے تھے رات کے ہر سمت تھا گہرا سکوت

اور میں فرما رہا تھا شوق سے مشق سخن

جاگ اٹھی بیگم اچانک اور یہ کہنے لگی

’’ تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن اپنا تو بن‘‘

٭٭٭

انتہا

میرے گھر پانچ بچے ہو گئے ہیں تین سالوں میں

محبت کی یہی ہے ابتدا تو انتہا کیا ہے

میرا ہمسایہ لے آیا ہے اپنے گھر کلر ٹی وی

میری بیوی نے پوچھا ہے بتا تیری رضا کیا ہے

٭٭٭

سیاست

کھانے کی میز گھر میں سیاست کی میز ہے

چمچے ہی سب کے ہاتھ میں چلتے ہیں رات دن

بیوی میاں میں جنگ چھڑی اقتدار کی

بچوں کے جوڑ توڑ میں کٹتے ہیں رات دن

٭٭٭

 

علامہ پاکٹ مار

میں کسی جرم کا اسیر نہیں

میرے کردار کی نظیر نہیں

کیوں جھجکتی ہو مجھ کو ملنے سے

میں کوئی سابقہ وزیر نہیں

٭٭٭

مہنگائی

سخت مہنگا ہے آج کل آٹا

تم کہو ہم غریب کیا کھائیں

بے نیازی سے کہہ گئے اتنا

آپ بسکٹ سے شوق فرمائیں

٭٭٭

رمضان میں

ہوش آتا ہے جب ذرا ہم کو

دل کی تاثیر دیکھ لیتے ہیں

روزہ افطار کر کے ہم اکثر

تیری تصویر دیکھ لیتے ہیں

٭٭٭

ڈاج محل

(ساحر لدھیانوی سے معذرت کے ساتھ)

ڈاج کے نام سے جاناں تجھے الفت ہی سہی

ڈاج ہوٹل سے تجھے خاص عقیدت ہی سہی

اُس کی چائے سے، چکن سوپ سے رغبت ہی سہی

ڈاج کرنا بھی ازل سے تیری عادت ہی سہی

تو مری جان کہیں اور ملا کر مجھ سے

قیس و لیلیٰ بھی تو کرتے تھے محبت لیکن

عشق بازی کے لیے دشت کو اپناتے تھے

ہم ہی احمق ہیں جو ہوٹل میں چلے آتے ہیں

وہ سمجھ دار تھے جنگل کو نکل جاتے تھے

تو مری جان کہیں اور ملا کر مجھ سے

کاش اس مرمریں ہوٹل کے بڑے مطبخ میں

تو نے پکتے ہوئے کھانوں کو تو دیکھا ہوتا

وہ جو مُردار کے قیمے سے بھرے جاتے ہیں

کاش اُن روغنی نانوں کو تو دیکھا ہوتا

تو مری جان کہیں اور ملا کر مجھ سے

جاناں! روزانہ ترے لنچ کا بل کیسے دوں

میں کوئی سیٹھ نہیں، کوئی اسمگلر بھی نہیں

مجھ کو ہوتی نہیں اوپر کی کمائی ہرگز

میں کسی دفتر مخصوص کا افسر بھی نہیں

تو مری جان کہیں اور ملا کر مجھ سے

گھاگ بیرے نے دکھا کر بڑا مہنگا "مینو”

"ہم غریبوں کی محبت کا اُڑایا ہے مذاق”

عشق ہے مجھ سے تو، کافی ہی کو کافی سمجھو

میں منگا سکتا نہیں مرغ مسلم کا طباق

تو مری جان کہیں اور ملا کر مجھ سے

٭٭٭

غزل

نہیں شیخ کی ایک پنڈی میں زوجہ

کراچی میں دو بیویاں اور بھی ہیں

فقط ایک بِل ہی نہیں ڈاکٹر کا

دواؤں کی کچھ پرچیاں اور بھی ہیں

نہ اِترا اگر بچ گیا حادثے سے

سڑک پر ابھی لاریاں اور بھی ہیں

نہ کھینچو ابھی ہاتھ کھانے سے “شاہد“

پلاؤ میں کچھ بوٹیاں اور بھی ہیں

٭٭٭

سمجھدار عاشق

قیس و لیلی بھی تو کرتے تھے محبت لیکن

عشق بازی کے لیئے دشت کو اپناتے تھے

ہم ہی احمق ہیں جو ہوٹل میں چلے آتے ہیں

وہ سمجھدار تھے جنگل کو نکل جاتے تھے

٭٭٭

غزل

لبوں پہ آ کے قلفی ہو گئے اشعار سردی میں

غزل کہنا بھی اب تو ہو گیا دشوار سردی میں

محلے بھر کے بچوں نے دھکیلا صبح دم اس کو

مگر ہوتی نہیں اسٹارٹ اپنی کار سردی میں

مئی اور جون کی گرمی میں جو دلبر کو لکھا تھا

اسی خط کا جواب آیا ہے آخر کار سردی میں

دوا دے دے کے کھانسی اور نزلے کی مریضوں کو

معالج خود بچارے پڑ گئے بیمار سردی میں

کئی اہلِ نظر اس کو بھی ڈسکو کی ادا سمجھے

بچارا کپکپایا جب کوئی فنکار سردی میں

یہی تو چوریوں اور وارداتوں کا زمانہ ہے

کہ بیٹھے تاپتے ہیں آگ پہریدار سردی میں

لہو کو اس طرح اب گرم رکھتا ہے مرا شاہین

کبھی چائے، کبھی سگرٹ، کبھی نسوار سردی میں

٭٭٭

فوٹو اسٹیٹ محبوبہ

کلوننگ ٹیکنیک کے تناظر میں

تُو نے ٹھکرا دیا ہمیں جاناں

ہم بھی ایسی تری خبر لیں گے

بائیو ٹیکنیک کی مدد سے ہم

اپنا دامن خوشی سے بھر لیں گے

یعنی تیرے بدن کے خلیے سے

اک حسینہ "کلون” کر لیں گے

وہ حسینہ جو خوش ادا ہو گی

زندگی میں بہار لائے گی

جانِ جاں تیری ہو بہو کاپی

میرے پہلو میں مسکرائے گی

وہ ہنسے گی تجھے رلائے گی

پھر تجھے نیند کیسے آئے گی

سوچ لے اب بھی وقت ہے جاناں

٭٭٭

مآخذ: انٹر نیٹ کے مختلف وسائل سے

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید