FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

ڈائن اور دوسری کہانیاں

 

 

                   پیغام آفاقی

جمع و ترتیب: اعجاز عبید

 

 

 

 

 

 

نیم لاش

 

 

                   شہر

 

اس کی نگاہوں کے کینوس پر شہر کی اونچی عمارتیں ابھرنے لگی تھیں – وہ درخت کے سائے میں آرام کرنے بیٹھ گیا- گاڑیوں میں خون سے لت پت اور نیم زندہ لوگوں کو لے جایا جا رہا تھا-اور ان پر نصب بندوقیں چاروں طرف جھانک رہی تھیں – تیز دھوپ سے پوری فضا گرم ہو گئی تھی- اسے پیاس لگ گئی لیکن دور دور تک خشک گرم ہواؤں کے سوا کچھ نہ تھا- پاؤں پھٹنے لگے تھے-

اس نے اپنے پھٹے ہوئے جوتوں کو دیکھا، ان پر کتنی دھول جم گئی تھی-

وہ کہاں جا رہا ہے ؟

کتنے دنوں سے جا رہا ہے ؟

جب چلا تھا تو اس کے جوتے نئے تھے، اب پرانے ہونے لگے ہیں –

وہ یہی سب کچھ سوچتا رہا-

 

                   موٹر گاڑی

 

اس کی نگاہوں میں ایک کالی سی چیز ابھری اور پھر ابھرتی چلی گئی- ایک، دو بچے، ایک موٹا سا چمکیلا آدمی- ڈرائیور کے سامنے شیشے پر جمی ہوئی دھول – اور پھر کار تھوڑی دور آگے جا کر رک گئی-

وہ غور سے دیکھنے لگا- شاید چشمے والے نے مجھے تھی ہوئی حالت میں اس بیابان سی جگہ پر دیکھ کر گاڑی روک دی ہے-

ڈرائیور نے بونٹ اٹھا کر کچھ ٹھیک کیا، اندر بیٹھا، چشمے والے نے کھڑکی سے جھانک کر باہر اس کی طرف دیکھا- اس کے بعد ڈرائیور نے باہر نکل کر اسے آواز دی-

"آنا، بھیا، ذرا دھکا لگا دینا-”

اوہ، کتنے مناسب وقت پر گاڑی خراب ہوئی ہے- اس نے سوچا اور ڈرائیور کی آواز پراس کے پھٹتے ہوئے پاؤں ہرے بھرے ہو گئے- وہ جھومتا ہوا دوڑ پڑا- دھکا لگایا- کار اسٹارٹ ہو گئی- سبھی دوبارہ اس میں بیٹھ گئے-

Thank you very much.

کار دھول میں کھو گئی- چشمے والے نے سر باہر نکال کر مسکراتے ہوئے کہا-

وہ سمجھ نہیں پایا تھا کہ اس سے کیا کہا گیا تھا- گاڑی میں خالی جگہ تھی- کہیں اس چمکیلے آدمی نے اس سے کار میں بیٹھ لینے کے لئے تو نہیں کہا تھا ؟مگر وہ سمجھتا کیسے، وہ تو کسی اجنبی آواز میں کچھ کہا تھا-

وہ اپنے بھاری پاؤں گھسیٹتا ہوا پھر پیڑ کے نیچے آ کر بیٹھ گیا-

موسم گرما میں ریت پر بھاگتے ہوئے بگولے،

جھاڑیوں میں چھپے ہوئے جنگلی جانور،

اور پیاس !

اور کار !

 

                   جنگل

 

اس کے گھر میں آگ کیوں لگائی گئی تھی

اس کے عزیزوں کا خون کیوں کیا گیا تھا ؟

وہ اپنے وطن میں جلا وطن کیوں کیا گیا تھا ؟

مردے کتنا تیز بھاگ رہے تھے، ؟ گاڑیوں پر-

اور وہ زندہ تھا اس لئے چھوڑ دیا گیا تھا-

وہ کتنا پیچھے چھوٹ گیا تھا-

لیکن کیوں ؟

وہ تو وہاں سےخود بھاگا تھا-

لیکن کیوں بھاگا تھا ؟

وہ کہاں جا رہا تھا ؟

شہر کی طرف – کیوں ؟ کس لئے ؟

شہر اس کی نگاہوں میں آ چکا تھا-

اونچی اونچی عمارتیں،

سڑکیں، دکانیں، کاریں

ہسپتال، کونوینٹ اسکول، اسٹیڈیم، الیکٹرونکس کی دنیا، رقص، ایر کنڈیشنڈ کمرے-

وہ کس کی تلاش میں جا رہا ہے ؟ وہ کہاں تک بھاگ سکتا ہے ؟

سڑک نگاہ سے بھی زیادہ لمبی ہے اور اس کے پاؤں بہت چھوٹے ہیں –

ان سڑکوں پر تو رولر کے رولر گھس کر کنڈم ہو جاتے ہیں – پھر اس کے جوتوں میں کیا رکھا ہے-

 

                   کاروبار

 

پٹرول سے آنسوؤں کا کیا مقابلہ – کوئی مقابلہ نہیں –

اسی لئے تو اس کا مکان لٹ گیا- وہ لٹیرے کون تھے جو کل آئے تھے اور زندگی کو موت میں بدل گئے تھے- اور یہ کون ہیں جو مردوں کو اٹھائے لئے جا رہے ہیں ؟ یہ کیسا کاروبار ہے ؟ یہ مردوں کو کہاں لئے جا رہے ہیں ؟

سب کچھ جانتا ہوں اور یہ بھی جانتا ہوں کہ مجھے کیوں نہیں لے جا رہے ہیں –

 

                   شکار

 

اس کے سامنے درخت پر ایک چڑیا بیٹھی تھی – وہ اسے غور سے دیکھنے لگا- اگر میں بھی اسے مار کر کھا جاؤں تو کیا ہو جائے گا ؟ لیکن آگے ؟ بغیر بھنا ہوا گوشت کھانا، کچا گوشت کھانا، درندگی ہے !

کچھ نہیں – سب بکواس ہے –

کوئی فرق نہیں پکے ہوئے گوشت میں، بھنے ہوئے گوشت میں اور کچے گوشت میں –

بھوک اس کے پیٹ کو کاٹ رہی تھی-

پیاس سے اب اس کا حلق سوکھ گیا تھا-

سامنے کا پتھر اٹھا کر اس نے مارا اور چڑیا گر پڑی-

اس جا کر چڑیا کو اٹھایا- دانتوں سے اس کا گلا کاٹا لیکن خون کے صرف چند قطرے نکلے – اس کی پیاس باقی رہ گئی- پھر اس نے اس کے پر نوچے اور لگ بھگ ہڈیوں سمیت اسے کھاگ یا-

بھون کر کھانا چاہئے تھا- اسے لگا وہ خود دھوپ میں سامنے پھیلی ہوئی ریت میں بھنا جا رہا ہے اور جیسے تھوڑی دیر میں وہ بھنتا ہوا بے ہوش ہو جائے گا- کباب، لذیذ کباب بن جائے گا اور کوئی گاڑی اسے بھی اٹھا لے جائے گی-

ایک کار پھر سامنے رکتی سی لگی اور گزر گئی-

ایک گاڑی پھر لاشوں سے بھری ہوئی شہر کی طرف چلی گئی-کی بھوک ختم نہیں ہوئی تھی اور سفر لمبا تھا-

” مجھے بھی ان لاشوں میں سے ایک دے دو-”

اس نے کہنا چاہا لیکن بندوقیں دیکھ کر ڈر گیا- چڑیا کی بچی کھچی ہڈیاں اس کے سامنے پڑی تھیں –

 

                   دھول

 

تھوڑی دیر تک وہ پھر اپنے چاروں طرف دیکھتا رہا-

اب وہ پھر شہر کی طرف جا رہا تھا-

کاروں، گاڑیوں کا ایک ریلا پھر آیا اور گزر گیا-

 

                   نیم لاش

 

وہ زندہ ہوتے ہوئے بھی نیم لاش ہو چکا تھا-

وہ چل پڑا –

ایک گاڑی کی رفتار پھر کم ہوئی- اس نے گاڑی کی طرف دیکھا – لیکن وہ تو اسے للچائی ہوئی نظر سے دیکھ رہے تھے جیسے قصائی بکرے کے گوشت کے وزن کا اندازہ لگاتا ہے – وہ پیچھے ہٹ کر سڑک کے بالکل کنارے چلا گیا اور گاڑی رفتار بڑھا کر آگے نگل گئی-

ہوا اور گرم ہوئی-

دھول اور اڑی-

جوتے کا تلوہ ٹوٹ گیا-

پاؤں جلنے لگے-

اور وہ نیچے سے گھسنے لگا-

لیکن وہ گھستا رہا اور چلتا رہا-

پھر اس کے پاؤں ٹخنوں سے اوپر تک گھسنے لگے – اس کے بازوں گھس کر پیچھے گر گئے لیکن وہ بڑھتا رہا-

شہر اس کی نگاہوں میں تھا-

اور اب وہ نیچے سے آنکھوں کی جڑ تک گھس گیا تھا-

اور صرف دو آنکھیں کھوپڑی سمیت دماغ کو اپنے اوپر لئے ہوئے شہر کی طرف بڑھتی جا رہی تھیں – اب وہ شہر کی گھنی ٹریفک کے

تھی اس کا جیسے پورا وجود تباہ ہو گیا تھا۔

وہ بار بار کوشش کر رہا تھا کہ اس نے جو کچھ خواب میں دیکھا اور سنا تھا اسے محض ایک خواب مان کر بھلا دے لیکن حملہ اتنا شدید تھا کہ سوچتے سوچتے بالآخر وہ بے ہوش ہو گیا –

 

اس نے بے ہوشی کے عالم میں ہی دیکھا-

دو خوفناک جانور ایک دوسرے پر جان لیوا حملہ کر رہے تھے –

٭٭٭

 

 

 

 

افسانچہ

 

 

منطق: مجھے غلط ثابت کرو یا مجھے تسلیم کرو-

تخلیق: جیو اور جینے دو-

منطق: تمہارا یہ رویہ کافرانہ ہے –

تخلیق: یعنی تم ہو اور میں نہیں ہوں – تمہارا یہ رویہ بہت آمرانہ ہے –

منطق: تمہارا رویہ باغیانہ ہے – تمہارا یہ جیو اور جینے دو کا رویہ میرے تئیں قاتلانہ ہے –

تخلیق: تو پھر ایک کام کرو- تم بھی تخلیق بن جاؤ- ادھر بہت کشادگی ہے –

٭٭٭

 

 

 

 

 

 ڈائن

 

 

 

جی، میں نے اپنے ڈاکٹری کے پیشے میں بہت سے لوگوں کو اپنی آنکھوں کے سامنے مرتے دیکھا ہے۔ جی۔ ان میں چند اموات سے میں کافی متاثر بھی ہوا ہوں۔ جی۔ ان میں سب سے زیادہ ایک ایسی موت سے ہوا کہ وہ شخص تب تک نہیں مرا جب تک بیمار تھا لیکن جیسے ہی میں اس کے اندر کے زہر کو نکال لینے میں کامیاب ہوا ویسے ہی وہ ایک پرسکون حالت میں جاکر سرد ہو گیا۔

یہ کیسے ؟

میڈیکل کے طلبا حیرت سے اسے دیکھنے لگے۔

دھیان سے سنو کہ میں کہ کیا رہا ہوں۔ کچھ واقعات اس نوعیت کے ہوتے ہیں کہ جب وہ ماضی میں گم ہو جاتے ہیں تو ان کے بطن سے کہانیاں پیدا ہوتی ہیں۔ یہ کہانیاں اپنے صدموں، اپنی عجیب عجیب سچأیوں اور انکشافات کی وجہ سے انسان کے علم اور اس کے فطری ارتقا میں اضافے کی حیثیت رکھتی ہیں۔اور جب تک وہ اپنے کو منوا نہیں لیتیں کہ وہ سچأیوں کا حصہ ہیں تب تک وہ اپنے دم پر ہمارے اجتماعی شعور میں کانٹے کی طرح کھٹکتی رہتی ہیں۔

ایسی ہی ایک کہانی اس کے اندر اٹکی ہو ئی تھی۔کہانیاں دبانے سے ختم نہیں ہو جاتیں۔خبریں دب جاتی ہیں۔ کہانیاں نہیں۔ اسی لئے یہ اخباری رپورٹ ٹا ئپ کہانی دبی نہیں۔ یہ یہاں، ڈاکٹر نے اپنے سینے کی طرف اشارہ کیا، کانٹے کی طرح موجود رہتی ہیں۔ اس لے بہتر یہ ہے کہ ان کو کھلے عام سنا جائے۔ وہ تہذیب یعنی دنیا کی سب سے بڑی عدالت کی وکیل ہوتی ہیں۔ اور انہیں کی وکالت سے دنیا کے کئی بڑے مہذب ملکوں نے ماضی کی کئی کہانیوں پر افسوس اور شرمندگی ظاہر کرتے ہوئے کھلے عام پوری دنیا کے سامنے معافی مانگی ہے۔

ڈاکٹر تلخی سے مسکرایا۔ اس مریض کی کہانی بھی ایسی ہی ایک کہانی تھی۔ اس مریض نے مجھے راتوں رات ایک ڈاکٹر سے فلسفی بنا دیا۔ مجھے لکھنا معلوم ہوتا تو میں کہانی کار ہو جاتا۔ اب تم لوگوں نے پوچھا ہے تو سنو کہ میں بھی سنانا چاہتا ہوں۔

میں یہ کہانی تم کو اسی لئے سنارہا ہوں کہ یہ کہانی منظر عام پر آئے اور اپنے منطقی انجام کو پہنچے۔ جو قومیں، حکومتیں اور اشخاص اس پر بھی تیار نہ ہوں وہ انسانی نسل کے چہرے پر بد تہذیبی کا بہترین نمونہ ہیں۔ میں نے اس کا علاج کیا تھا۔ میں دوا اور انجکشنوں سے تو اس کو ٹھیک نہیں کر پایا تھا لیکن جیسے ہی میں نے اس کی زہر بھری کہانی چوس کر پی لی وہ ٹھیک ہو گیا تھا اور اسے پہلی بار بغیر کسی انجکشن کے گہری نیند آئی تھی۔ لیکن اس کے ساتھ ہی وہ مرگیا اور تب سے اب تک میری نیند ڈسٹرب رہتی ہے۔

تم اپنے تخیل میں اس کہانی کا تصور کرو۔

یہ کولمبو سے شمال کی جانب واقع ایک پاگل خانے کا منظر ہے۔ یہ کہ یہ منظر کتنی وسعتوں تک پھیلا ہوا ہے یہ کہنا میرے ئے مشکل ہے۔لیکن اس منظر میں رفتہ رفتہ کئی ملک شامل ہو گئے ہیں۔

میں نے اس مریض پر ہر ممکن دوا استعمال کر چکا تھا لیکن کسی دوا نے کام نہیں کیا۔ البتہ دوائیں دیتے دیتے میں اپنی گفتگو اور ہمدردی کی وجہ سے اس عرصہ میں اس مریض کے دل کے قریب ضرور ہو گیا تھا۔ اور آخر میں اچانک یہی بات مریض پر اثر کر گئی۔

، وہ لوگ فوج کے تھے، پولیس کے تھے یا قوم پرستوں کا کا کوئی دستہ تھا ؟ میں نے اس سے پوچھا۔

مریض کی گفتگو سے مجھے اتنا اندازہ ہو گیا تھا کہ اس کے ساتھ ایسا ہی کچھ ہوا تھا۔ مریض خاموشی سے مجھے دیکھ رہا تھا۔

میں جانتا ہوں کی تم کو کوئی بہت بڑا صدمہ پہنچا ہے۔ میں نے تم کو ہر طرح کی دوا دے کر دیکھ لیا۔ لیکن تم ٹھیک نہیں ہو رہے ہو۔ میں پریشان ہو رہا ہوں۔ اب میرا اپنے آپ پر سے، اپنی صلاحیتوں پر سے بھروسہ اٹھ رہا ہے۔ اور اس کی وجہ تم ہو۔ تم مجھے بتاؤ کہ آخر ہوا کیا تھا۔ میں صرف تم کو ٹھیک کرنا چاہتا ہوں۔ میں ڈاکٹر ہوں۔ اور صرف ڈاکٹر ہوں۔ میں انٹیلیجنس کا کوئی آدمی نہیں ہوں۔ میں کسی سے کچھ نہیں کہوں گا۔

اور پھر وہ ادھیڑ عمر کبڑے جیسا آدمی اچانک اتنی سلجھی ہوئی باتیں کرنے لگا کہ مجھے حیرت ہوئی۔

مریض اب اس منظر کو بیان کر رہا تھا جس کی پرچھائیں میں کئی بار دیکھ چکا تھا۔ اس نے اس علاقے کا نام بتایا۔

چلو آگے کی باتیں بتاؤ۔ جگہ تو کوئی بھی ہو سکتی ہے۔

میرا گھر وہیں ایک چوڑی سڑک سے منسلک گھنی آبادیوں کے بیچ تھا۔ اس دن میں ایک دوسرے شہر اپنی دکان کے لئے کچھ مال خریدنے گیا ہوا تھا۔ کچھ دنوں سے میں بیمار بھی تھا اور موسم خراب ہونے کی وجہ سے مری طبیعت بہت ملول سی ہو رہی تھی پھر بھی مجبوراً جانا پڑا تھا۔ دن دو پہر سے کچھ پہلے اچانک تین چار بکتر بند گاڑیاں اور ایک ٹرک آکر میرے گھر کے سامنے رکے۔ گاڑیوں کے رکنے کا منظر دیکھتے ہی چاروں طرف سنسنی پھیل گئی، ایک سناٹا سا چھاگیا اور فضا میں موت کی آواز سنائی دینے لگی کیونکہ سب کو معلوم تھا کہ جب ایسی گاڑیاں آتی تھیں تو کیا ہوتا تھا۔ لوگ چھتوں اور کھڑکیوں سے جھانک کر دیکھنے لگے۔

گاڑیوں سے کچھ لوگ اترے اور سیدھے میرے گھر کے دروازے پر پہنچے اور دروازے کو کھٹکھٹاتے ہوئے دروازہ کھولنے کا حکم دیا۔ میرے گھر کے کسی فرد نے دروازہ کھولا تو وہ لوگ گھر کے اندر گھس آئے۔

پھر ایک ایک کر کے سب کو گھر سے باہر نکالنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ بڑے بوڑھے سب کو باہر نکالا گیا۔ عورتیں دروازے تک آئیں تو ایک شخص نے جو گاڑی میں ہی بیٹھا تھا ان کو بھی بلاکر قطار میں کھڑا کرنے کا حکم دیا۔ چند لمحوں بعد دو تین نوجوان گھر کے تین چار چھوٹی عمر کے بچوں کو لے کر باہر آئے جس میں میرا ڈیڑھ سال کا وہ بیٹا بھی تھاجس نے ابھی چند ہے روز پہلے اپنے قدموں ہر ہلتے ڈولتے چلنا سیکھا تھا۔انہوں نے بچوں کو لے کر آتے ہوئے گاڑی میں بیٹھے شخص کے حکم کے لئے اس کی طرف دیکھا۔

ہاں، ہاں، انہیں بھی لاؤ۔ اس شخص نے نظر پڑتے ہی حکم دیا۔

ایک اشارے پر گھر کی دیوار کے پاس سب کو کھڑا کر دیا گیا۔

اور دوسرے ہی لمحے گولیوں کی بوچھار سے سب کو ڈھیر کر دیا گیا۔

گاڑی میں آئے لوگ گاڑیوں میں بیٹھ کر چلے گئے۔

 

میں اسٹیشن سے اترا ہی تھا کہ اپنے محلے میں ہوئے اس دل دہلا دینے والے واقعے کے بارے میں سنا۔ مجھے اپنے بھتیجے کی کارستانیوں کا خیال آیا اور دل میں خوف بھی پیدا ہو ا کہ ہو نہ ہو یہ میرے کنبے کے بارے میں نہ ہو۔ باہر نکلا تو تیز ہواؤں کے جھکڑ سے دھول سی اڑ رہی تھی۔ کو ئی رکشا دکھائی نہیں دیا تو پیدل ہی تیز تیز چل پڑا۔ راستے میں یہ دیکھ کر میں اور بدحواس ہوا کہ وہی گاڑیاں کھڑی تھیں اور وہ سب کچھ کھا پی رہے تھے۔ ان میں ایک نے مجھے پہچان لیا اور وہ مجھے پکڑ کر لے گئے۔ گاڑی میں آگے بیٹھے آدمی سے پوچھا گیا کہ مجھے گاڑی میں ڈال لیا جائے کیونکہ وہاں دور تک کافی لوگ تھے اور سب کے سامنے مجھے ختم کرنا شاید انہیں مناسب نہیں لگا۔ لیکن اس آدمی نے ہنستے ہوئے کچھ سوچ کر کہا۔

نہیں اسے چھوڑ دو۔ بچ گیا تا بچ گیا۔ یہ کہانیاں ڈھوئے گا۔

گھر پہنچ کر میں نے جو منظر دیکھا اس سے میرے ہوش اڑ گئے تھے اور میں بے ہوش ہو گیا تھا۔ میرے گھر کے سامنے پڑی میرے گھر والوں کی لاشوں پر محلے والوں نے چادریں ڈال دی تھیں۔ میں دوڑا قریب پہنچا۔ ایک چھوٹی سی ہلکی چادر میری نونہال بیٹے کے اوپر بھی پڑی تھی۔ ہوا کے چلنے سے اس کے اوپر کی چادر ایسے ہلی کہ مجھے گمان ہوا کہ وہ زندہ ہے۔ میں نے کانپتے ہاتھوں سے اس کی چادر ہٹائی تو جو دیکھا وہی میرے حافظے پر اب تک نقش ہے۔ اس کے جسم پر پیشانی، منھ، سینے اور ہاتھ پر گولیاں لگی تھیں۔ لوگوں نے بعد میں مجھے بتایا کہ میں کئی دنوں تک بے ہوش رہا تھا۔ اب میرے گھر کے افراد میں صرف ایک شخص زندہ بچ گیا تھا اور وہ تھا میرا بھتیجہ جو دہشت گردوں کے گروہ میں شامل تھا۔ اور گھر نہیں آتا تھا۔

لیکن انہیں تمہارے گھر کے اور لوگوں کو نہیں مارنا چاہئے تھا۔ میں نے ہمدردی کے لہجے میں کہا۔

جی ہاں۔ لیکن میں پوری بات بتاتا ہوں۔

اس نے سنجیدگی سے بتانا شروع کیا۔ واقعہ یہ تھا کہ اس بار دہشت گردوں کے ایک گروہ نے پولیس کالونی میں گھس کر گولیاں چلائی تھیں۔پولیس کالونی کی اس فائرنگ میں جو لوگ مرے تھے ان کی تصویریں بہت دلدوز تھیں۔ محکمہ پولیس میں کام کرنے والوں کے اہل کنبہ کو اس طرح سے گولیوں سے بھون ڈالنا۔ انتہائی درندگی تھی۔ نہیں۔ میں غلط کہ گیا۔ انتہائی انسانیت تھی۔ نہیں میں غلط کہ گیا۔ معاف کرنا ڈاکٹر مجھے لفظ نہیں مل رہا ہے۔ لیکن میں لفظ کی تلاش میں ہوں اور میں ضرور ڈھونڈ لوں گا۔ میں تب آپ کو بتاؤں گا۔

جی ہاں۔ میرا بھتیجہ بھی ان میں شامل تھا۔

ہاں ڈاکٹر وہ لفظ مل گیا۔ انتہائی درجہ کی حب الوطنی تھی۔ نہیں، وہ جو پولیس والوں کے گھر کے افراد کو مارا تھا وہ حب الوطنی نہیں تھی۔ وہ جو میرے گھر والوں کو مارا تھا وہ حب الوطنی تھی۔ دہشت گردوں کے گروہ میں شامل ہونے کے بعد میرا بھتیجہ کبھی گھر نہیں آیا۔ گھر والے اس کی وجہ سے پہلے سے ہی خوفزدہ تھے اور ہم سب کو پہلے سے ہی اس کا اندیشہ تھا کیونکہ اب ہر طرف ایسا ہی سننے کو مل رہا تھا۔ پولس کئی بار ہمارے گھر پر چھاپہ مار چکی تھی۔پولس ایک بار مجھے بھی لے گئی تھی۔ لیکن تب وہ دہشت گردی کے شروع کے دن تھے اور لڑائی دہشت گردوں اور پولیس و فوج کے درمیان ہوتی تھی۔

اس کے بعد پولیس کی گاڑیوں اور ٹھکانوں پر حملے ہونے لگے تھے۔ اور اس کے بعد پولس والوں کی سرکاری رہائش گاہوں پر حملے ہونے لگے۔

اور اس طرح ہوا گرم تر ہونے لگی۔

اب کسی کو سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اتنی پیچیدہ لڑائیوں کا حل کیا ہوسکتا تھا۔ لوگ یہی سوچتے تھے کہ اگر وہ خود پولیس یا فوج میں ہوتے یا سرکار چلا رہے ہوتے تو کیا کرتے۔

یہ جنگ سنگین اور پیچیدہ ہوتی چلی گئی۔ ہوا تیز ہوتے ہوتے بگولوں کی شکل لینے لگی۔ اور ان بگولوں کے رقص میں ایک دن قانون کا دوپٹہ ایک جھونکے سے اڑ کر گرد و غبار میں تہس نہس ہو گیا۔

ہوا اتنی تیز ہوئی کہ یہ پہچاننا مشکل ہو گیا کی سڑک یا گلی میں چلتا ہوا کون سا شخص دہشت گر دتنظیموں سے وابستہ ہے اور کون پولیس کا آدمی ہے۔ کہ جا بجا دہشت گرد پولیس کے یونیفارم میں اور پولس کے لوگ دہشت گردوں کے حلیوں میں گھوم رہے تھے۔

 

میرے خاندان کے ساتھ ہوئے اس سانحہ کے بارے میں کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ یہ پولیس کی انتقامی کاروائی تھی۔ کچھ دوسرے لوگوں کا خیال تھا کہ یہ دہشت گرد ہی تھے جنہوں نے پولیس کے خلاف عوام میں نفرت اور غصہ پیدا کرنے کے لئے یہ حرکت کی تھی۔

سچ پوچھئے تو کافی دنوں تک میں تذبذب میں تھا۔

میں اپنی اسی ذہنی حالت میں ایک دن بھٹکتا بھٹکتا اپنے اس گھر کو دیکھنے چلا گیا تھا جو اب کھنڈر سا ویران ہو گیا تھا۔ میں وہاں دالان میں لکڑی کے تخت پر اپنے گھٹنوں پر سر ٹیکے اپنے پیاروں کو یاد کر رہا تھا کہ میرے دو تین پڑوسی آئے اور انہوں نے مجھے تنبیہ کی کہ میں فورا وہاں سے غائب ہو جاؤں۔ انہوں نے بہت اداس لہجے میں مجھے بتایا کہ پولیس مجھے ڈھونڈ رہی تھی کیونکہ ان کا خیال تھا کہ

چونکہ میرے اندر انتقام کا زہر بھرا ہوا ہے اس لئے میں حقیقتاً ایک خطرناک دہشت گرد بن گیا ہوں۔

 

 

جب واقعہ تازہ تھا تب مجھے اتنی تکلیف نہیں تھی جتنی اب اس واقعے کے زہر بن جانے کی وجہ سے ہے۔ وہاں تو سب کچھ برابر ہو گیا لیکن یہاں سب کچھ باقی ہے۔وہ قہر کا دن میری زندگی کے لمحوں میں تحلیل ہو گیا۔

ڈاکٹر، مجھے چلتے، پھرتے، بیٹھتے ایسا لگتا ہے کہ میرے پاؤں کے نیچے زمین نہیں ہے۔

میں ڈر جاتا ہوں۔

میں نے کئی بار خواب میں دیکھا ہے کہ جیسے زمین اچانک قہقہہ لگا کر مجھے نگل جانا چاہتی ہے۔لیکن

میں ہوا میں پرواز کر کے بچ جاتا ہوں۔

کئی بار تو جب میں اڑتے اڑتے تھک گیا تو مجھے کسی پرندے نے بچالیا۔

ایک بار میں بادلوں پر جا بیٹھا۔

میں نے محسوس کیا کہ مریض پھر بے قابو ہو رہا تھا۔

ڈاکٹر مجھے بار بار لگتا ہے کہ میری زمین مجھے پکڑ کر نیچے کھینچ رہی ہے اور مجھے جان سے مار دے گی۔

مریض پھر ہوش میں آنے لگا تھا۔

اس پورے عرصے میں میں ٹھیک سے سو نہیں پایا ہوں۔ میں سوؤں کہاں ؟ زمین مجھے سوتے میں نگل لے گی۔ جھٹکے سے۔ اچانک۔ میں جانتا ہوں کہ وہ نگل لے گی۔ وہ میری جان کی بھوکی ہے۔ ڈاکٹر، تم کو پتہ ہے۔ ڈائنیں سب سے پہلے اپنے بچوں کی جان لیتی ہیں۔

میں شاید پاگل نہیں ہوں بلکہ نیند نہیں آنے کی وجہ سے میری یہ حالت ہو گئی ہے۔ تم کیسے میرا علاج کر پاؤ گے۔

اس نے مجھ سے ایسے بات کی جیسے وہ پوری طرح ہوش میں ہو لیکن پھر فورا ہی اس کے چہرے کے تاثرات بدلنے لگے اور وہ اس طرح بات کرنے لگا جیسے وہ ہوش و حواس میں نہیں ہو۔ وہ رک رک کر وقفوں کے بعد مجھ سے تخاطب کے انداز میں ہی کہتا رہا۔

ایک دن میں نے اڑتے ہوئے اچانک دیکھا کہ میری ماں کا منھ کھلا ہوا ہے اور اس کے ہاتھ میری طرف بڑھ رہے ہیں۔ میں نے ہمت کر کے سیدھے اس کے منھ کے اندر پرواز کی اور اس کی زبان سے بچتا ہوا اس کے حلق کے راستے اس کے پیٹ میں گھس گیا۔ وہاں دیکھا میرے گھر والوں کے علاوہ اور بھی ہزاروں نوجوانوں اور بچوں کی ہڈیاں سڑ رہی تھیں۔ میں پھڑ پھڑا کر باہر اتنی سرعت سے نکلا کہ اوپر بادلوں پر جا بیٹھا۔

نیچے سے میری ماں مجھے بلا رہی تھی۔ لیکن میں نیچے نہیں اترا۔ تب سے یہیں بیٹھا ہوں۔

پھر وہ اچانک کانپنے لگا جیسے موت کے قریب آنے پر کچھ مریضوں کے ساتھ ہوتا ہے۔

دیکھو۔

اب وہ گھڑیال جیسا منھ کھولے بادلوں تک پہنچ رہی ہے۔

مجھے یہاں سے بھی بھاگنا پڑے گا۔

ڈاکٹر۔ اب میں اڑوں گا۔

اور یہ کہنے کے بعدبستر پر بیٹھے بیٹھے اس کے دونوں بازو بالکل چڑیا کے ڈینوں کی طرح تیز تیز حرکت کرنے لگے جیسے وہ پرواز کر رہا ہو۔

یہ اس سے میری آخری گفتگو تھی۔

٭٭٭

 

 

 

 

گلاس

 

 

ایک دن وہ آفس میں آ کر اطمینان سے بیٹھا تو اسے پیاس کا احساس ہوا – اس نے سامنے رکھے گلاس کا پانی پی لیا اور پھر چپراسی سے ایک گلاس پانی لانے کے لئے کہا – اس کے ساتھ ہی اس کی سکریٹری مانسی بھی آئی تھی جو میز کی دوسری طرف بیٹھ گئی – مانسی کی نظر قلمدان پر لگے ایک قلم پر بیٹھے ایک پیلے رنگ کے اڑنے والے کیڑے پر پڑی – مانسی اس کو اڑانے کے بہانے انگلی سے چھونے لگی –”اس کو انگلی سے نہ چھوؤ، یہ کاٹ لے گا- زہریلا ہوتا ہے –”اس نے مانسی کو منع کیا اور پھر اس نے ایک قلم کی نوک سے اس کیڑے کو چھیڑا –

 

کیڑا اڑنے کے بجائے قلمدان سے اتر کر میز کے شیشے پر آہستہ آہستہ چلنے لگا- کچھ دور چلنے کے بعد وہ اڑ گیا لیکن اس کے بعد وہ دوبارہ شیشے پر ہی آ کر بیٹھ گیا –

 

اتنی دیر میں چپراسی پانی لے کر آگیا- اس نے پانی کا ایک گھونٹ اور پیا اور ابھی پیاس باقی ہی تھی کہ پانی پینے کے دوران وہ کیڑا اڑ کر ٹھیک اس کے سامنے بیٹھ گیا – اور ایک وقفے کے بعد ادھر ادھر چلنے لگا- اس نے کیڑے کو شیشے کے گلاس سے دبایا کہ وہ اس میں دب کر مر جائے لیکن وہ گلاس کے  پیندے کی خالی جگہ میں صرف قید ہو کر رہ گیا – یہ گلاس بھی عجیب انداز کا تھا کہ اس کے پیندے میں گھونٹ بھر پانی کے برابر جگہ تھی – اب اس کیڑے کے پاؤں کے نیچے میز کا شیشہ تھا اور اوپر گلاس – وہ اس کیڑے کو دیکھنے لگا – بار بار اس کا جی چاہتا تھا کہ گلاس اٹھا کر پانی پی لے لیکن وہ گلاس نہیں اٹھا پا رہا تھا کیونکہ اس کیڑے کی قید و بند کی کیفیت کو دیکھ کر اسے خود اپنے اندر ایک عجیب سا درد محسوس ہونے لگا تھا – وہ موازنہ کرنے لگا –

 

‘ وہ طبعی پیاس جس کو مٹانے کے لئے وہ گلاس میں رکھے پانی کو پینا چاہتا تھا وہ زیادہ طاقتور ہے یا اذیت میں مبتلا کیڑے کو دیکھنے کی لذت جس کو وہ بہت گہرائی سے محسوس کر رہا تھا –’

 

ان لمحوں میں گلاس میں رکھا پانی اس کے لئے زندگی کے اجنبی نظام کے نقوش کو واضح کر رہا تھا اس لئے وہ چاہتا تھا کہ وہ کیڑے کو تب تک آزاد نہ کرے جب تک اس پر گزر رہی کیفیت اس مکمل علامت کو کھول نہ دے جو اتفاقا اس وقت اس کے سامنے نمودار ہوئی تھی – وہ اس کیڑے کی اس کیفیت کو، اس کے امید و بیم کے اس تناؤ کو کہ وہ اس قید سے نکل پائے گا یا نہیں اور اس کے اندر موجود بے یقینی کو گہرائی سے محسوس کرنے کی کوشش کر رہا تھا – وہ یہ سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا کہ آخر وہ کون سی بات ہے جو اس کی اپنی پیاس سے بھی زیادہ اہم ہے اور جو اس کو گلاس نہیں اٹھانے دے رہی ہے – اب تک جو اس کا خیال تھا کہ خیال کمزور اور دکھائی دینے والی چیزیں زیادہ مضبوط ہوتی ہیں اور اس نے جو گذشتہ دنوں کسی اخبار کے کالم میں پڑھا تھا کہ یاد یں اور ناسٹلجیا تاریخ اور جغرافیہ سے زیادہ با معنی نہیں ہوتیں یہ بات غلط ثابت ہو رہی تھی – اور وہ اس مشاہدے کے دوران یہ بھی محسوس کر رہا تھا کہ انسان اندر اندر اس کائنات کی چیزوں اور انسانوں سے جو رابطہ محسوس کرتا ہے وہ حقیقی اور کافی مضبوط ہوتا ہے – گلاس اب بھی سامنے تھا اور اس کے نیچے کیڑا چل رہا تھا – قید اس کیڑے کو جیسے بھیا نک لگ رہی تھی – وہ نکلنے کے لئے تیزی سے دوڑ بھاگ کر رہا تھا – وہ سوچ میں پڑ چکا تھا کہ ‘ اگر یہ سب کچھ ایسا ہی رہا تو اس کی زندگی کو باقی رکھنے کے ذ رائع منقطع ہو جائیں گے – ‘

 

‘وہ پریشان کیوں ہے ؟؟ ‘ ‘وہ یہ کیوں نہیں سوچتا کہ جس طرح یہ قید اچانک آ گئی ہے اسی طرح یہ اچانک ختم بھی ہو جائے گی – لیکن وہ کیسے جانے کہ یہ ختم ہو بھی جائے گی ؟ اگر نہیں ختم ہوئی تو یہ جو قید تھی وہ مستقل قید کی صورت میں تو اس کی موت بن کر آئی ہے – ‘ وہ شیشے کے باہر جھانکتا رہا – چاروں طرف وہی سب کچھ دکھائی دے رہا تھا – وہی قلمدان، وہی چھت، وہی پنکھے، وہی الماریاں، وہی پردے – وہی کلنڈر، وہی میز پر پڑا ہوا پلاسٹک کے پھولوں کا گلدان، وہی کھڑکیاں جن سے باہر درختوں کی پتیاں دکھائی دے رہی تھیں –اور وہی لڑکی جو اسے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھ رہی تھی – اور وہی شخص جو سامنے کرسی پر بیٹھا تھا اور جس کے چہرے پر رحم کا شائبہ تک نہیں تھا – جو بار بار گلاس کو دیکھتا تھا اور پھر اس کو دیکھتا تھا اور پھر اپنے آپ میں ڈوب جاتا تھا – وہ دیکھتا رہا اور شیشے کے اندر ہی اندر چکر لگاتا رہا –

 

اسے بار بار دھوکا ہوتا کہ وہ جدھر بڑھ رہا ہے ادھر کھلی ہوا ہے اور کچھ اور نہیں ہے لیکن جیسے ہی وہ بڑھتا ویسے ہی آگے ٹکرا جاتا- اور تب اسے لگتا کہ وہ خالی دکھنے والی سمت تو کوئی ٹکرا جانے والی شے تھی جو اسے دکھائی نہیں دے رہی تھی لیکن جو وہاں مضبوطی سے موجود تھی – اور پھر اسے اپنے چاروں طرف پھیلی ہوئی تمام چیزوں پر شک ہو جاتا کہ ہو نہ ہو ہر طرف ویسا ہی کوئی ٹکرا جانے والا منظر ہو یا چیز ہو یا حد یں ہوں – اس شخص کی پھیلائی ہوئی جو اسے دیکھ رہا تھا – اس خیال کے آنے کے بعد تو اس نے ایک جگہ باقاعدہ اپنی ٹانگیں اٹھا کر اس دیوار سے زور آزمائی کرنے کی کوشش کی اور پھر وہاں سے چلا اور دوسری جگہ پر زور آزمائی کی اور پھر کئی جگہوں پر کی اور پھر جب دیکھا کہ اس سے کوئی فائدہ نہیں اور نہ اس سے کوئی راستہ نکلتا ہے نہ اس محنت سے اس کے ذ ہن میں کوئی نیا سوال پیدا ہوکر کوئی اور تد بیر دکھاتا ہے تو اس نے یہ محنت بند کر دی – اب وہ یونہی کھڑا ہو کر سوچنے لگا گویا سوچنے سے کوئی فائدہ تھا اور پھر چکر لگانے لگا – اس بار وہ صرف چلتا رہا – دیوار کے سہارے، دیوار کو چھو چھو کر اور دیوار کے کنارے کنارے کہ جہاں دیوار ختم ہوتی ہے اس کا اس کو اندازہ ہو جائے اور پھر اس نے دیکھا کہ پورا گلاس آگے کھسک رہا ہے اور پیچھے سے شیشہ اس سے ٹکرایا تو وہ آگے بڑھا اور اس کی ایک ٹانگ اس شیشے میں دب کر ٹوٹتے ٹوٹتے بچی –

 

دراصل وہ کیڑے کی صورتحال میں کچھ مزید جہات کا اضافہ کرنے کے لئے گلاس کو کھسکا رہا تھا – اب کیڑا اس سمت کو بڑھنے لگا جس سمت میں گلاس اسے دھکا لگا رہا تھا – چلتے چلتے ایک جگہ دھکے کی رفتار کچھ کم ہوئی اور دوبارہ پھر تیز ہو گئی – وہ چاروں طرف اور اوپر کی جا نب نگاہیں گھما کر اور اپنے جسم کو بچا بچا کر دیکھتا رہا کہ یہ سب کچھ جا کدھر رہا تھا کہ وہ اس کے مطابق ہی چل سکے اور جب اس کے جانے کی سمت کا اس کو کچھ کچھ اندازہ ہوا تو اس کی خود اعتمادی کچھ کچھ بحال ہوئی اور چلتے چلتے جب سب کچھ تھما تو وہ بھی تھم گیا – اب وہ نئے امکانات کی تلاش میں ادھر ادھر جھانکنے لگا اور جب جھانکتے جھانکتے تھک گیا تو ایک کنارے کھڑا ہو گیا – اور تب اس نے دیکھا کہ اب وہ لڑکی اس آدمی کو انگلی کے اشارے سے بتا رہی تھی کہ کہ اب وہ تھم گیا ہے – پھر جیسے دونوں اس کے تھم جانے کی اس حرکت کو سمجھنے کی کوشش کر رہے تھے – اس کا تھم جانا اتنا معنی خیز تھا یہ اسے معلوم ہی نہ تھا – اور پھر وہ ایک کونے میں کھڑا حیرت سے اس شخص کو دیکھتا رہا جو اب کچھ لکھ رہا تھا –

 

اسے اپنے اوپر کچھ لکھے جانے میں ہزاروں اسرار دکھائی دینے لگے – وہ شخص بار بار اسے اور اس کے اوپر کے گلاس کو دیکھے جا رہا تھا اور لکھے جا رہا تھا – اتنی ہی دیر میں اس کے لئے چائے بھی آ گئی – لیکن وہ چائے پینے کے بجائے لکھتا ہی رہا حتی کہ چائے ٹھنڈی ہو کر شاید خراب ہو گئی کیونکہ لڑکی نے کچھ دیر بعد اپنے سامنے کی پیالی سے چائے پینی شروع کر دی اور جلد ہی خالی کر کے ایک طرف رکھ بھی دی – کیڑے کو یہ بات بہت پریشان کر رہی تھی کہ وہ شخص کیا سوچ رہا تھا – نہ جانے اب اس کا اگلا قدم کیا ہو گا – اتنی دیر میں وہ اتنا سمجھ گیا تھا کہ جب تک وہ اس گلاس میں ہے تب تک محفوظ ہے – ایک جگہ اسے شیشے میں اپنی آنکھوں اور اپنے چہرے اور اپنے پیلے پیلے پنکھوں کا عکس دکھائی دیا تو اسے صاف صاف معلوم ہوا کی وہ شیشوں میں قید ہے –

 

مانسی کی متجسس نظروں کو اپنے چہرے پر تھامے ہوئے اور قلم ہاتھ میں لئے ہوئے وہ اس کیڑے کو مسلسل دیکھ رہا تھا اور تب اسے محسوس ہوا جیسے ایک روح اس شیشے کے قید خانے میں گھری ہوئی لاچار نگاہوں سے چاروں طرف دیکھ رہی تھی اور وجود کے عناصر سے نبرد آزما تھی کہ کس طرح اس میں آزادی کی سوراخ کھود سکے اور عناصر تھے کہ اپنی جگہ سخت، بے حس اور بے جان تھے اور پھر بھی اس کو گھیرے ہونے میں پورا پورا انہیں کا رول تھا اور اس رول میں وہ مستعد تھے – جامد اور خاموش، لب سلے ہوئے – جیسے کہتے نہ ہوں لیکن جانتے ہوں کہ صرف وہی شخس ان کو اٹھا سکتا ہے جو سامنے بیٹھا ہوا ہے – اور اس روح کو اگر کسی کی تلاش ہے، اگر وہ کسی چیز کو چھو کر اس کا ادراک کرنا چاہتی ہے کہ وہ کتنی شقی القلب ہے اور کیسے اس میں نرمی آئے گی تو وہ یہ جان لے کہ یہ چیز خود اس شخص کی اپنی روح تھی جو سامنے بیٹھا تھا–

 

وہ تحریر کر چکا تھا : میں تمہیں اس وجہ سے آزاد نہیں کر رہا ہوں کہ تم متحرک ہو اور میں مردہ ہوں – تم مجھے اپنی کوششوں کو دیکھتے دیکھتے ان کے زیر اثر متحرک ہو جانے دو – اپنی مایوسیوں کے مواد سے میرے اوپر جو موٹی موٹی پرتیں جم گئی ہیں انہیں پگھل جانے دو کہ میں بھی ان سے آزاد ہو کر تمہاری طرح متحرک ہو جاؤں، ان دیواروں کے خلاف، ان دیواروں کے روبرو جو دیواریں مجھے گھیرے ہوئی ہیں کہ مجھے بھی تو تمہاری ہی طرح کسی نے زمین وآسمان کے بیچ ڈال دیا ہے – تم چاہتے ہو کہ میرا دل پسیج جائے اور میں تم کو چھوڑ دوں – میں تمہیں نہیں چھوڑوں گا–

 

میں تمہیں اس شیشے میں گھرا ہوا رکھ کر، تمھارا دم گھٹا کر، ترسا ترسا کر اور تمہاری کوششوں کو بے معنی ثابت کرتے ہوئے تمہیں اسی میں ختم کر دوں گا – اور اس میں سے صرف تمہاری بے جان لاش نکلے گی –

 

تم سمجھتے ہو کہ یہ گلاس میں نے تمہارے اوپر رکھا ہے ؟ یہ تو محض اتفاق کی بات تھی کہ تم یہاں گرے اور اس وقت میں پانی پی رہا تھا اور میں نے تمہارے اوپر یہ گلاس تم کو مار ڈالنے کے لئے رکھا تھا لیکن تم مرنے کے بجائے اس میں قید ہو گئے – یہ میری منشا نہیں تھی – یہ تو یونہی ہو گیا اور تمہارے ساتھ جو ہو رہا ہے وہ یونہی ہو رہا ہے – اور تم اس ہو جانے میں قید ہو – اس نے کیڑے کی ان بڑی بڑی آنکھوں سے جو اس لمحے ٹھہر کر اسی کو دیکھ رہی تھیں، نظریں ملائیں – اگر میرا خاتمہ قید میں ہوسکتا ہے تو تمہارا خاتمہ قید میں کیوں نہیں ہوسکتا ؟ اس کے چہرے پر پاگلوں جیسا تاثر ابھرا – کیڑا بچارہ کسی بکری کے بچے کی طرح معصومیت سے دیکھ رہا تھا، اس امید میں کہ وہ اسے دیکھ رہا ہے اور اب اس کی مدد کرے گا-

 

اس نے چاہا کہ وہ کیڑے کو مار دے لیکن یہ اس کے اختیار میں نہیں تھا کیونکہ اس کے لئے اسے گلاس کو اٹھانا پڑتا اور گلاس کو اٹھاتے ہی کیڑا اڑ سکتا تھا – میں تمہیں اس گلاس کے نیچے ہی چھوڑوں گا جب تک تم مر نہ جاؤ- اسے محسوس ہوا کہ اس نے کیڑے کے نام موت لکھ دی ہے لیکن موت اس کے ہاتھ میں بھی نہیں تھی – وہ سوچنے لگا کہ یہ اس کی دی ہوئی موت کیسے ہے جبکہ وہ کیڑے کو مار نہیں سکتا – وہ کیڑا اب اس کی طرف سے نا امید ہو کر منھ پھیر چکا تھا اور از سر نو دیواروں کے معائنے میں مصروف ہو گیا تھا – اسے اپنے خدائی کا زعم مسمار ہوتا ہوا محسوس ہوا- اگر وہ گلاس کو اٹھاتا ہے تو کیڑا اڑ جائے گا – اگر گلاس کو یونہی چھوڑ کر چلا جائے تو چپراسی ٹیبل کو صاف کرتے وقت گلاس اٹھائے گا اور کیڑا اڑ جائے گا – وہ گلاس کو اسی طرح چھوڑے رہنے کا حکم بھی نہیں دے سکتا کہ لوگ اسے اس کے دماغ کا خلل سمجھیں گے –

 

کیڑا بار بار گلاس کے شیشے کے اوپر کسی سرکش مکڑے کی طرح پاؤں پھینک کر کھڑا ہوتا رہا اور زور پر زور لگا تا رہا – اس نے عاجز آ کر پانی سے بھرا گلاس پینے کے لئے اٹھا لیا –

٭٭٭

ماخذ: مصنف کے بلاگ اور دوسری سائٹس سے

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید