FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

فہرست مضامین

پین ڈرائیو

 

(طنزیہ و مزاحیہ شعری انتخاب)

 

                احمد علوی

ماخذ: کتاب ایپ

اس ای بک سے وہ تخلیقات نکال دی گئی ہیں جو شاعر کی ایک اور کتاب ’طمانچے‘ میں شامل تھیں۔ اس کے علاوہ  سنجیدہ شاعری کے مجموعے ’سفر‘ سے جو غزلیں اس کتاب میں شامل تھیں، ان کو بھی الگ ای بک میں شامل کر دیا گیا ہے)

 

 

 

 

 

انتساب

 

 

 

ان دانشوروں کے نام

جن کو اللہ نے

قہقہوں اور تبسموں کی نعمتوں سے

محروم رکھا۔

 

 

 

پین ڈرائیو

 

غصے میں بیوی یہ بولی شوہر سے

تم نے تو بس ظلم مجھی پر ڈھائے ہیں

میں ہی تم کو پھوٹی آنکھ نہیں بھاتی

تم نے سب سے پیار کے پیچ لڑائے ہیں

شوہر بولا بات اگر یہ سچی ہے

پھر یہ بچے کس کے گھر سے آئے ہیں

بنٹی،  ببلی،  سونو،  مونو،  کیا تم نے

انٹر نیٹ سے ڈاؤن لوڈ کرائے ہیں

اتنا بھی معلوم نہیں ہے کیا تم کو

پھول یہ کس کی کوشش نے مہکائے ہیں

انٹر نیٹ کا سرور کب سے ڈاؤن ہے

سارے بچے پین ڈرائیو سے آئے ہیں

 

 

اردو کے پروفیسر

 

بدن پہ سوٹ اردو کا گلے میں ٹائی اردو کی

انہیں معلوم ہے گہرائی اور گیرائی اردو کی

بجاتے ہیں ہر اک محفل میں یہ شہنائی اردو کی

کہ ساری عمر کھائی ہے فقط بالائی اردو کی

پروفیسر یہ اردو کے جو اردو سے کماتے ہیں

اسی پیسے سے بچوں کو یہ انگریزی پڑھاتے ہیں

 

 

 

مربّہ

 

کچھ امی چاٹ لیتی ہیں کچھ ابا چاٹ لیتے ہیں

محبت سے محبت کا مربّہ چاٹ لیتے ہیں

ذرا فرصت میں ہوتے ہیں بڑھاپے میں میاں بیوی

سویرا ہوتے ہوتے سارا ڈبّہ چاٹ لیتے ہیں

 

 

اقبالیہ بیان

 

حسینوں پر نہیں ڈالی کبھی گندی نظر ہم نے

انہیں جنّت سے ہم نکلی ہوئی پریاں سمجھتے ہیں

ہمیشہ ان کو دیکھا ہم نے پاکیزہ نگاہوں سے

کہ ہر خاتون کو ہم بچوں کی اماّں سمجھتے ہیں

 

نذرِ منوّر رانا

 

دیا ہے کورٹ سے نو ٹس انا کے باپ نے ہم کو

شکم کم کر دیا دس انچ ڈولے بھی گھٹائے ہیں

چکن مکھن ملائی دودھ گھی ہوتے ہوئے گھر میں

انا کو ہم نے دو دو وقت کے فاقے کرائے ہیں

 

 

دہشت گرد

 

وہ مسلماں ہوں یہودی ہوں مسیحی جو بھی ہوں

قتل معصوموں کا جو کرتے ہیں وہ نامرد ہیں

ہاتھ جن کے بھی رنگے ہیں بے بسوں کے خون سے

عدل کی نظروں میں یارو! سارے دہشت گرد ہیں

 

اردو کا نقآد

 

اردو ادب کا یہ بھی المیہ ہے دوستو

منزل ہے سب کی ایک ہی اور ایک راہ ہے

غالب پہ ہے تمام ہر اک نقدِ شاعری

غالب سے آگے سوچنا تک بھی گناہ ہے

 

 

رموٹ کنٹرول

 

برطانیہ میں بیوی ہے شوہر فرانس میں

یعنی کہ میلوں دور ہے مالک پلاٹ سے

پھر کیسے ہو رہی یہ بچوں کی پیدا وار

کیا یہ بھی کام ہونے لگا ہے رموٹ سے

 

مایوسی

 

لندن کو اُڑ گئے وہ ہنی مون کے لئے

میں لڑکیوں کو شعر سنانے میں رہ گیا

وہ خوش نصیب نسل بڑھانے میں لگ گیا

میں بد نصیب بچے کھلانے میں رہ گیا

 

 

شادی

 

جن میں اکثر مری بکواس چھپا کرتی ہے

وہ رسالوں کے یہ انبار نہیں پڑھ سکتی

اس لئے آج بھی محفوظ ہے شادی اپنی

میری بیوی مرے اشعار نہیں پڑھ سکتی

 

فرشی سلام

 

مشاعرے جو کراتے ہیں چندہ کر کر کے

انہیں کو صرف میں فر شی سلام کرتا ہوں

یہ لوگ مجھ کو سمجھتے ہیں شاعر اعظم

میں جاہلوں کا بہت احترام کرتا ہوں

 

 

تقابل

 

اس عمر میں بھی علوی ہم کو نہ شعور آیا

شہرت کے آسماں پر یہ کس طرح چڑھتے ہیں

گمنام و پاپولر میں ہے فرق صرف اتنا

ہم شاعری کرتے ہیں وہ شاعری پڑھتے ہیں

 

نذرِ کرشن بہاری نور

 

انڈے پڑے کہ مجھ پہ ٹماٹر سڑے ہوئے

مائیک پہ میں چٹان کی صورت اڑا رہا

شاعر تمام لے کے لفافے کھسک لئے

’’میں تو غزل سنا کے اکیلا کھڑا رہا‘‘

 

 

نذرِ شمس رمزی

 

بس نکاحوں کے لیئے غسل و وضو کرتا رہا

زندگی میں شادیاں ہی صرف تو کرتا رہا

جب ثرّیا مل گئی دوڑا رقیہ کی طرف

خوب سے یوں خوب تر کی جستجو کرتا رہا

 

بزدل

 

آئے گا لشکر ابا بیلوں کا اس کے حکم سے

تو بتا شیطان کیا تیرا پتہ رہ جائے گا

شیر تھا صداّم ہنس کر چڑھ گیا سولی مگر

تو اجل کے نام سے ہی کانپتا رہ جائے گا

 

 

کھنچائی

 

سکوں گھر میں نہیں جن کو میسّر

زبانی ہا تھا پائی کر رہے ہیں

ستائے ہیں جو اپنی بیویوں کے

وہ شعراء کی کھنچائی کر رہے ہیں

 

 

 

صلاح الدین ایوبی

 

یہودی مسجد اقصیٰ کا قبضہ یوں نہ چھوڑیں گے

نہ ہو گی حکمت عملی سے جب تک ان کی سرکوبی

جہاں میں سر اٹھا کے دوستو ہم جی نہ پائیں گے

نہ ہو گا جب تلک پیدا صلاح الدین ایوّبی

 

 

 

ہزل

 

وہ جو آنکھوں کو لال کر بیٹھے

ہم بھی شادی کی ٹال کر بیٹھے

 

بن گئی فوج بچوں کی گھر میں

دونوں مل کر کمال کر بیٹھے

 

کوئی مچھلی پھنسے نہ پھنسے ہم

کانٹا دریا میں ڈال کر بیٹھے

 

ایک عربی حسینہ پہ مر کے

خرچ سارے ریال کر بیٹھے

 

جب پروسن سے لڑ گئیں آنکھیں

کالا اک اک بال کر بیٹھے

 

جس نے تھانے میں پٹوایا ہم کو

پھر اسی کا خیال کر بیٹھے

 

 

داڑھی

 

 

چھوڑ کاغذ قلم و کمپیوٹر

لے کے ہاتھوں میں استرا یارو

رام دیو کے من موہن سنگھ کے

ہے تعاقب میں عدلیہ یارو

 

ڈاڑھی کو طالبانی علامت کہنے کے پس منظر میں

 

 

مبارک ہو نیائے مورتی کو

تمہارے نیائے کا کوئی ہے ثانی

ہے داڑھی گر علامت طالباں کی

تو کیا پی ایم بھی ہے طالبانی؟

 

 

اوقات

 

(بش کو جوتے سے نوازے جانے پر)

 

وہ ہے دنیا کا نامور غنڈہ

اس پہ تنقید کس کے بوتے کی

اس کو کیسے کہوں سپر پاور

جس کی اوقات ایک جوتے کی

 

 

 

روڈ شو

(لیڈروں کے روڈ شو کرنے پر)

 

ذرا دیکھو تو ان کی سادہ لوحی

ہماری موت پر مرنے لگے ہیں

الیکشن کا ہوا اعلان جب سے

فرشتے روڈ شو کرنے لگے ہیں

 

اپنی بات

 

فاعلن فعلن کی ہر میزان پر

ایک اک مصرعہ ہے تُلوایا ہوا

تا کہ میں بھی میر کی صورت کہوں

مستند ہے میرا فرمایا ہوا

 

تضیعِ اوقات

 

کچھ عقل جس سے تیز ہونے نسل ہی بڑھے

ایسے ملاپ و میل سے کیا فائدہ ملے

اس طرح روز مل کے بچھڑتے ہیں آپ ہم

خواجہ سرا سے جس طرح خواجہ سرا ملے

 

 

جوتے

 

اس بارے میں فرماتے ہیں کیا مفتیِ اعظم

جوتے جو رکھوں آگے تو سجدے نہیں ہوتے

جوتے یہ نمازوں میں خلل ڈال رہے ہیں

جوتے جو رکھوں پیچھے تو جوتے نہیں ہوتے

شیطان کا پھوپا

 

جیب میں کرتے کی وعدوں کا پٹارا نکلا

ذہنِ لیڈر میں فقط جھوٹ کا ملبہ نکلا

مانگنے ووٹ جو آیا تھا فرشتہ بن کے

یہ فرشتہ بھی تو شیطان کا پھوپا نکلا

 

نذرِ احمد فراز

 

باپ کے بعد بن گیا دادا

میری آنکھوں پہ چڑھ گیا چشمہ

میرے ہاتھوں میں آ گیا رعشہ

اڑ گئے بال ہو گیا گنجا

زندگی سے یہی گلا ہے مجھے

تو بہت دیر سے ملا ہے مجھے

 

 

خوشنما ماضی

 

 

چائے بھی بناتے تھے کھانا بھی پکاتے تھے

کھجلی ہو کمر میں تو خوش ہوکے کھجاتے تھے

معشوق کا جا بے جا ہر ناز اٹھاتے تھے

تم شادی سے پہلے تو ٹانگیں بھی دباتے تھے

بیوی بھی نہیں اچھی شوہر بھی نہیں اچھے

جب دونوں کنوارے تھے وہ دن تھے کہیں اچھے

 

 

 

کھجلی

 

فرصت جو نہیں دن میں تو راتوں کو جگا لے

کرتا ہے محبت تو محبت کا مزا لے

ہم دونوں کو کھجلی ہے محبت کی برابر

میں تجھ کو کھجا لیتا ہوں تو مجھ کو کھجا لے

 

 

لکنت

 

یوں تو بچپن سے زباں میں ان کے لکنت ہے بہت

عشق کی برجستگی میں یہ کمی لاتے نہیں

سامنے قاضی کے جب ہوتے ہیں ایجاب و قبول

ہکلے ابّا جان تو بالکل بھی ہکلاتے نہیں

 

قربانی

 

مرا داماد ہے بے عیب یہ میرے سسر بولے

ہزاروں عیب یوں تو نسل انسانی میں رہتے ہیں

بڑا معصوم بکرا مل گیا ہے میری بیٹی کو

بس اب کچھ دن ہی باقی اپنی قربانی میں رہتے ہیں

 

 

سرکاری کام

 

فرشتے بھی کلرکوں کی طرح ہوتے ہیں لا پروا

جو تخلیقِ خداوندی بھی سرکاری نکلتی ہے

یہاں پہچان ہو کیسے مونث اور مذکر کی

جسے نورا سمجھتے ہیں وہی ناری نکلتی ہے

 

تقسیم

 

جو در پہ ان کے جھک گئے قائم رہے وہ سر

جھکنے میں جو نہ آئے سبھی سر وہ کٹ گئے

وہ سارے ایک ہو گئے عیسیٰ کے نام پر

اور ہم علی حسین محمد میں بٹ گئے

 

 

آزادی

 

متاعِ کوچہ و بازار ہے خاتون مغرب میں

وہ بد اخلاقیوں کو ہی بلند اخلاقی کہتے ہیں

وقارِ عصمتِ نسواں ہے مشرق کے لئے سب کچھ

وہ بد کرداریِ نسواں کو ہی آزادی کہتے ہیں

 

ہزل

 

ٹکا ہوا ہے سر پہ میرے آسماں جگاڑ سے

چلا رہا ہے یہ جہاں اللہ میاں جگاڑ سے

 

نہ اے پڑھا نہ بی پڑھا ہے اور بی اے ہو گئے

کیے ہیں پاس ہم نے سارے امتحاں جگاڑ سے

 

پڑھے لکھے تو راکٹوں کے تجربے کیا کیئے

چاند پر پہونچ گئے لڈّن میاں جگاڑ سے

 

وجودِ مرد پر ہی اب سوالیہ نشان ہے ؟

کہ بن رہی ہیں لڑکیاں اب تو ماں جگاڑ سے

 

تمام فوج ٹیکنک شکست کے قریب ہے

کہ فتح مند ہو رہے ہیں طالباں جگاڑ سے

 

نہ قاعدوں کی فکر ہے نہ ضابطوں کا پاس ہے

کہ چل رہا ہے اپنا یہ ہندوستاں جگاڑ سے

 

ملا ہے شاعری سے کیا کہ تم جہاں تھے ہیں وہیں

وہ بن گئے ارب پتی فلاں فلاں جگاڑ سے

 

 

 

چارپائی

 

(منظوم لطیفہ)

 

یہ کہا میں نے پڑوسی سے مدد کر دیجئے

چند مہماں آ گئے ہیں چارپائی چاہئے

 

چارپائی کے لئے قبلہ نے کر لی معذرت

اپنے گھر کی محترم نے یوں بیاں کی کیفیت

 

صرف دو ہی چار پائی ہیں مرے گھر میں جناب

رات بھر جن پر رہا کرتے ہیں چاروں محو خواب

 

ایک پر سوتا ہوں میں اور میرے ابّا محترم

دوسری پر میری بیوی اور مری امّی بہم

 

سن کے ان کی بات کو میں رہ گیا حیرت زدہ

بیش قیمت زندگی کیوں کر رہے ہو بے مزا

 

اس طرح ضائع جوانی کا نہ تم حصہ کرو

چارپائی دونہ دو پر ڈھنگ سے سویا کرو

 

 

 

تعلیم یافتہ

 

نئے زمانے کی تعلیم یافتہ عورت

لباس کی طرح بستر بدلتی رہتی ہے

رواج ختم ہوا بیویاں بدلنے کا

کہ اب تو بیوی ہی شوہر بدلتی رہتی ہے

 

 

دعا

 

دیکھ کر ان کے ولیمے کی ڈشیں

یہ دعا ہم بھی کر رہے ہوتے

اتنے کھانے اگر تھے قسمت میں

پھر شکم بھی کئی دیئے ہوتے

 

 

فردوس

 

 

فردوس نے گھر کتنے بنا ڈالے جہنم

اس بات کا تم کو نہیں ہم کو بھی یقیں ہے

فردوس اسی واسطے فردوس ہے اب تک

فردوس میں پہونچی ابھی فردوس نہیں ہے

 

 

 

 

پکاسو کے گدھے

 

جو نکلے برش پکاسو سے ایک بار گدھے

بنے فنون لطیفہ کے شاہکار گدھے

 

گدھوں کی پینٹنگ تو واقعی میں جادو تھی

گدھوں کی قوم جو منت کش پکاسو تھی

 

تمام جانور اعزاز سے رہے محروم

مگر گدھوں سے سجے ہیں سبھی کے ڈرائنگ روم

 

بڑھی ہوئی جو گدھوں کی بہت پرائیز ہے

گدھا تمام امیروں میں رکگنائیز ہے

 

کسی نے شیر کو اعزاز یہ نہیں بخشا

مرے خیال میں خچّر گدھے سے بہتر تھا

 

مصوری کے لیئے کیوں چنے پکا سو نے

سمجھ میں کچھ نہیں آتا گدھے پکاسو نے

 

گدھوں سے اس کو یقیناً تھی کچھ نہ کچھ نسبت

سمجھ میں آئی پکاسو کو گدھوں کی عظمت

 

حویلیوں میں امیروں کی گدھے پہونچائے

بنے امیری کی پہچان گدھوں کے سائے

 

رئیس گھر میں لگائیں گدھوں کی تصویریں

کہ چمکیں برش سے کیسے گدھوں کی تقدیریں

 

گدھے جو بوجھ اٹھائیں یتیم ہوتے ہیں

جو پوٹریٹ میں چھائیں عظیم ہوتے ہیں

 

گدھے کہ سمجھا جنہیں سب نے قابل نفرت

انہیں گدھوں کو پکاسو نے بخش دی شہرت

 

گدھے کا آرٹ بنایا بڑا کمال کیا

کہ پینٹر نے گدھے پن کو لازوال کیا

 

گدھے جو بیچنے نکلو ٹکوں میں بکتے ہیں

گدھوں کے پوٹریٹ پر ڈالروں میں بکتے ہیں

 

بنے ہیں برش کی جنبش سے آنجناب گدھے

یہ بے مثال گدھے اور یہ لاجواب گدھے

 

پرکھ نہ اصل کی ہو گی کبھی زمانے میں

کہ نقل اصل سے ہے قیمتی زمانے میں

 

نہ ہوتے طنزیہ شاعر اگر گدھے ہوتے

کسی امیر کے بنگلے میں ہم سجے ہوتے

 

 

 

 

طرحی غزل

 

نقصان ہو رہا ہے بہت کاروبار میں

ابّا پڑے ہیں جب سے پڑوسن کے پیار میں

 

سو کوششوں سے آئے تھے چندیا پہ چار بال

’’دو آرزو میں کٹ گئے دو انتظار میں‘‘

 

نا اہل ہی ملی مجھے ہر ایک اہلیہ

میں نے کیے نکاح سب یارو ادھار میں

 

بنتی نہ سرمہ پسلیاں اور پھوٹتا نہ سر

ہوتی اگر زبان مرے اختیار میں

 

انگریزی گفتگو کا بڑا فائدہ ہوا

چھے سات چاند لگ گئے میرے وقار میں

 

جب سے مکاں بدل گئیں دونوں پڑوسنیں

’’لگتا نہیں ہے جی مرا اجڑے دیار میں‘‘،

 

 

 

 

طرحی ہزل

 

 

 

کیا مِلیں کپڑوں کی نذرِ باد و باراں ہو گئیں

دخترانِ قوم جو سڑکوں پہ عریاں ہو گئیں

 

رات اور دن ہو رہی ہیں قافیہ پیمائیاں

آج کی غزلیں بنا سوئی کی گھڑیاں ہو گئیں

 

رو رہے آپ اک پرچون کی دوکان کو

مملکت کتنی جہاں میں نذر خوباں ہو گئیں

 

جب سے اپنے شہر میں آئیں بلو لائین بسیں

مشکلیں کچھ مرنے والوں کی بھی آساں ہو گئیں

 

بوب کٹ زلفیں کٹا لی ہیں مرے محبوب نے

کیسے شانوں پر لکھوں زلفیں پریشاں ہو گئیں

 

 

 

ہزل

 

 

ڈاکٹریٹ کی ڈگری لے کر اردو سر ہیں کالج میں

غالب گاف سے پڑھنے والے لیکچرر ہیں کالج میں

 

آپ ادب کا ابّا کہہ لو ہم مترجّم کہتے ہیں

انگریزی سے تھاٹ چرا کر دانشور ہیں کالج میں

 

استادی اور شاگردی کی کہنہ روایت ختم ہوئی

عالم کم ہیں علم و ادب کے پیشہ ور ہیں کالج میں

 

اسٹوڈینٹ کے ہاتھوں میں اب کاپی قلم کتاب نہیں

موبائل پر باتیں کرتے صرف لور ہیں کالج میں

 

 

 

طرحی ہزل

 

 

قورمہ ٹوسٹ بٹر یاد آیا

پھر مجھے لقمۂ تر یاد آیا

 

لوز موشن ہوئے جب بھی مجھ کو

پر تکلّف وہ ڈنر یاد آیا

 

جب ہوا ساس بہو کا جھگڑا

ففٹی سیون کا غدر یاد آیا

 

بن گیا اس کی گلی کا کتّا

پھر اسے گھاٹ نہ گھر یاد آیا

 

جس گھڑی صاف ہوئی جیب مری

دستِ بیگم کا ہنر یاد آیا

 

 

 

ارضِ پاک

 

یہ حال اب تو ہو گیا ہے ارضِ پاک کا

اہلِ دماغ ڈرتے ہیں خالی دماغ سے

محفوظ کراچی ہے، نہ لاہور نہ پنڈی

اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے

 

 

۲۶ جنوری ۲۰۱۱

 

عزت مآب، مہرباں، اے محترم نہیں

اہل وطن کی آنکھ جو اشکوں سے نم نہیں

کیسا اگست کیسی یہ چھبیّس جنوری

گر انقلابیوں کا شہیدوں کا غم نہیں

 

اضطراب

 

آئی ہے جب سے اپنی پڑوسن شباب پر

بیوی ہماری رہتی ہے کچھ اضطراب میں

ہوتے نہیں سیاہ کیوں علوی سفید بال

بیوی نے کچھ ملا نہ دیا ہو خضاب میں

 

 

 

 

خرّاٹے

 

سوتے ہوئے کلوا کو جب آتے ہیں خرّاٹے

موسیقی نئی فلم کی بن جاتے ہیں خرّاٹے

 

معلوم یہ ہوتا ہے بھوکمپ کوئی آیا

جس وقت فضاؤں میں لہراتے ہیں خرّاٹے

 

یہ شکل بھی ہے یارو اک فنِّ لطیفہ کی

ٹھمری تو کبھی دادرا سنواتے ہیں خرّاٹے

 

خوابوں میں حسینائیں بھی آنے سے ڈرتی ہیں

جب نیند میں یارو بس رہ جاتے ہیں خرّاٹے

 

آواز کہ ہو جیسے سو کے وی کا جنریٹر

یوں کان پہ نقّارے بجواتے ہیں خرّاٹے

 

کانپ اٹھتا ہے کہتے ہیں کہ عرشِ معلی بھی

خرّاٹوں سے جس شب میں ٹکراتے ہیں خرّاٹے

 

 

 

قطار

 

دل کو چرانے جاؤ وہاں بھی قطار ہے

لڑکی بھگانے جاؤ وہاں بھی قطار ہے

 

گھر میں نہانے جاؤ وہاں بھی قطار ہے

تم زچہ خانے جاؤ وہاں بھی قطار ہے

 

مردہ دبانے جاؤ وہاں بھی قطار ہے

تم پان کھانے جاؤ وہاں بھی قطار ہے

 

ہنسنے ہنسانے جاؤ وہاں بھی قطار ہے

آنسو بہانے جاؤ وہاں بھی قطار ہے

 

بے چین صرف ہم ہی نہیں انتظار میں

پی ایم بھی بچارے لگے ہیں قطار میں

 

 

نمازِ عید

 

 

آخری صف میں جگہ ہم کو ملی

بھاگتے دوڑتے گرتے پڑتے

چھوٹ جاتی نمازِ عید میاں

وقت ضائع جو وضو میں کرتے

 

 

 

فطرت

 

اس کی قسمت بدل نہیں سکتی

ہاتھ میں ٹھیکرا ہی رہتا ہے

چاہے بن جائے وہ کروڑی مل

بھک منگا بھک منگا ہی رہتا ہے

 

 

فطرت

 

چاہے کتنی بھی تنگ دستی ہو

ہاتھ اس کا کھلا ہی رہتا ہے

اب بھی سب کا خیال ہے اس کو

بادشا بادشاہی رہتا ہے

 

شبِ وصال

 

سہرا بندھا ہے سر پہ بڑی کوششوں کے بعد

سہرے کے پھول کھلنے سے پہلے اجڑ گئے

چرچا تمام شہر میں مردانگی کا تھا

آئی شبِ وصال تو بیمار پڑ گئے

 

 

کفن

 

ہاتھ سے اب تو بیٹا نکلنے لگا

لے کے آنی پڑے گی دلہن ساتھیو

انشاء اللہ یہ کام ہونا ہی ہے

’’باندھ لو اپنے سر سے کفن ساتھیو‘‘

 

نظامِ تعلیم

 

 

آج اسکول اور کالج میں

کوئی علم و ادب کا نام نہیں

ایسا رائج ہے نظامِ تعلیم

جس میں تعلیم اور نظام نہیں

 

 

 

ہنی مون

 

لاٹری میں ایک دن اپنا بھی نمبر آ گیا

نیلے نوٹوں کا نشہ ہم پر آخر چھا گیا

 

سوچا کر کے دیکھیں ہم بھی کچھ امیری چونچلے

جا کے بازاروں میں لوٹیں خرچ کرنے کے مزے

 

باپ کے ہوتے ہوئے بچے ہمارے تھے یتیم

آج کھلوا دیں انہیں بادام کی آئیس کریم

 

بیس سالوں سے میں بیگم کر رہا ہوں تم کو مس

آؤ دلوا دوں تمہیں سونے کا بھاری نیکلس

 

اب گھما لاؤں تمہیں شملہ مسوری نینی تال

گھر سے ہم نکلے نہیں شادی کو گذرے بیس سال

 

آؤ مستی میں گذاریں ہم بھی کچھ دن گھوم کر

ہم نے بیگم سے کہا بیگم چلو ہنی مون پر

 

بولی بیگم تھک چکی ہوں مان لو میری یہ بات

آج تو ہنی مون پر لے جاؤ امّاں جی کو ساتھ

 

 

 

تضمین

 

لرزنے والی عمارت سنبھل نہیں جاتی

کہ لو دیئے کی ہواؤں میں جل نہیں جاتی

سفر میں رہتے ہوئے موت ٹل نہیں جاتی

جگہ بدلنے سے قسمت بدل نہیں جاتی

’’عذابِ نقلٍ مکانی تو اک بہانہ ہے‘‘

’’سگِ زمانہ جہاں ہے سگِ زمانہ ہے‘‘

 

 

 

تفہیم

 

میری زبان اردو اس کی زبان عربی

تفہیم نے بگاڑا ہے سارا کھیل میرا

یوں ارتھ کا ہوا ہے یارو انرتھ اکثر

کٹرے کو بد دعا دوں مر جائے بیل میرا

 

 

ٹاس

 

پھر بھی قسمت میں جوتے چپّل ہیں

کام کتنا بڑا کیا ہم نے

کیا ہوا میچ سارے ہار گئے

ٹاس تو جیت ہی لیا ہم نے

 

تبدیلی

 

وہ کانوینٹ گرل ہے کافی پڑھی لکھی

روداد حسب و نسب کی اب انسٹینٹ بھیج

رشتہ بنے گا بینک کا بیلینس دیکھ کر

تصویر نہیں بینک کا اسٹیٹمینٹ بھیج

 

 

ٹیٹوا

 

یوں تو مشاعروں کی نہیں ہے کمی مگر

اک شاعرہ بھی ساتھ دے تو اور بات ہے

دمدار ہیں یہ شعر مرے اس میں شک نہیں

کچھ ٹیٹوا بھی ساتھ دے تو اور بات ہے

 

ٹوپی

 

دانشوروں کے واسطے تحقیق طلب تھی

سر پہ جو بادشا کے نظر آئی تھی ٹوپی

ہم نے اسی سبجیکٹ میں پی ایچ ڈی کر لی

خود پہنی تھی یا مرزا نے پہنائی تھی ٹوپی

 

 

دیدہ ور

 

ہزاروں کوششوں کے بعد بھی جب ایک بچے کو

کسی صورت نہ کر پائے حکیم و ڈاکٹر پیدا

تبھی اک ماہر اقبال نے ارشاد فرمایا

’’بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا‘‘

 

نذرِ اڈوانی

 

 

میکے مری بیوی اب تیار ہے جانے کو

رکھنے کے لیئے کپڑے صندوق ان ویٹنگ ہے

 

ابّا ترا لگتا ہے فلموں کا ولن مجھ کو

مارے گا مجھے گولی بندوق ان ویٹنگ ہے

 

پی ایم ان ویٹنگ ہے جس روز سے اڈوانی

اس روز سے یہ علوی معشوق ان ویٹنگ ہے

 

 

 

پیروڈی

 

تم چودھویں کا چاند ہو یا آفتاب ہو

اچھّی طرح سکا ہوا شامی کباب ہو

 

آنکھیں ہیں جیسے چہرے پہ قبریں کھدی ہوئی

زلفیں ہیں جیسے راہوں میں جھاڑی اگی ہوئی

جانِ بہار تم تو کباڑی کا خواب ہو

تم چودھویں کا چاند ہو یا آفتاب ہو

 

ایسا نہیں کہ مرتے ہیں بس تم پہ نوجواں

آہیں تمہارے عشق میں بھرتے بڑے میاں

بدبو ہے جس میں شوز کی تم وہ جراب ہو

تم چودھویں کا چاند ہو یا آفتاب ہو

 

 

پی ایچ ڈی

 

 

کر لئے دریافت تم نے شین کے شوشے اگر

گن لئے غالب کی تر کی ٹوپی کے پھندنے اگر

فیض ناصر کاظمی کے کر لئے چربے اگر

ترجمے بیضے کے تم نے کر لئے انڈے اگر

مستند اردو ادب کی پھلجھڑی ہو جاؤ گے

پھر تو تم سر تا قدم پی ایچ ڈی ہو جاؤ گے

 

 

 

 

پرانے شعر

 

جتنے آل انڈیے ہیں ڈائس پر

سیڑھیاں شہرتوں کی چڑھتے ہیں

ان کا استاد ہی نہیں کوئی

شعر سارے چرا کے پڑھتے ہیں

 

 

شوہر کی تلاش

 

ایک بیوی نے دیا اخبار میں یہ اشتہار

ہاں کا تابعدار بے تنخواہ کا نو کر چاہیئے

اک چغد ہو جس پہ دولت بے شمار

جس کی میں کہلاؤں بیوہ ایسا شوہر چاہیئے

 

 

 

توازن

 

خوش دونوں کو رکھنے کا نہیں آیا قرینہ

ڈانٹے ہے رقیّہ مجھے پیٹے ہے زرینہ

ہنستے ہیں مرے حال پہ اب میرے پڑوسی

بے کس پہ کرم کیجئے سرکار مدینہ

 

 

سوجھ بوجھ

 

نا بینا ایک مولوی پہونچا جو قبر میں

تربوز کی سوجھی نہ کچھ انگور کی سوجھی

منکر نکیر سے کہا حوروں کا دو پتہ

تاریک قبر میں بھی اسے حور کی سوجھی

سن کر یہ ہم نے واقعہ بے ساختہ کہا

اندھے کو اندھیرے میں بڑی دور کی سوجھی

 

 

 

جگجیت سنگھ

 

(غزل سنگر)

 

چٹختی کلیوں کی تاروں کی گنگناہٹ ہے

تیری آواز بہاروں کی گنگناہٹ ہے

 

تیری آواز ہے موجوں کی روانی جیسے

تیری آواز ہے بہتا ہوا پانی جیسے

 

ہر ادا تو نے تو اپنائی ہے دریاؤں کی

تیری آواز میں گہرائی ہے دریاؤں کی

 

اس میں ماضی کی جھلک ہے نیا انداز بھی ہے

تیری آواز میں اک سوز بھی ساز بھی ہے

 

چین دیتی ہے یہ ہم جیسے بے قراروں کو

تیری آواز جگاتی ہے دل کے تاروں کو

 

تو ہو خاموش تو سینے کے داغ جلتے ہیں

تیری آواز سے بجھتے چراغ جلتے ہیں

 

تیری آواز نے شعروں کو شاعری دی ہے

تیری آواز نے غزلوں کو زندگی دی ہے

 

ایک اک لفظ کی باریکی سے آگاہ ہے تو

شعر کے لوچ کا لہجے کا بادشاہ ہے تو

 

سب ہیں حیرت زدہ کیسے سنبھال کر کی ہے

تو نے غالب کی شرح سُر میں ڈھال کر کی ہے

 

کر دیا زندہ کتابوں میں دفن غزلوں کو

تو نے خورشید بنا ڈالا بجھی شمعوں کو

 

تیری آواز میں شوخی ہے تتلیوں جیسی

اور تڑپ لے میں ہے بے آب مچھلیوں جیسی

 

تیری آواز ہے خاموش دھڑکنوں کی زباں

تیری آواز ہے سچی محبتوں کی زباں

 

تجھ پہ نازاں ہے مری جان زبان اردو

تیرے سُر روح ادب اور تو جان اردو

 

سر ہواؤں سے لیئے جھرنوں سے سنگیت لیا

تیری آواز کے جادو نے یہ ’’ جگ جیت‘‘  لیا

 

 

 

نذر شہباز ندیم ضیائی

 

مذاق خود کا ہی خود کو اڑانا ہوتا ہے

اداس چہروں کو مشکل ہنسانا ہوتا ہے

ہے پل صراط سے باریک راہِ طنزو مزاح

دیا ہواؤں کے رُخ پر جلانا ہوتا ہے

 

 

مجبوری

 

گذری تھی ایک رات حوالات میں فقط

جتنا تھا سر میں عشق کا ملبہ نکل گیا

ٹوٹے وہ ہاتھ پاؤں پولس کی تڑائی سے

میں کوچۂ رقیب میں بھی سر کے بل گیا

 

مزاحیہ شاعر

 

کیا کلیجہ ہے میرا پتھر کا

چوٹ پر چوٹ کھا رہا ہوں میں

ہر طرف غم کی ہے فراوانی

ہنس رہا ہوں ہنسا رہا ہوں میں

 

 

 

 

ہم جنسیت

 

مرغی مرغی کی شادیاں ہوں گی

مرغ مرغے کی چونچ چومے گا

 

فیصلہ عدلیہ کا آیا ہے

بیل کے ساتھ بیل گھومے گا

 

سرد اور گرم سے یہ بنتی ہے

فلسفہ ہے یہی انرجی کا

 

دخل انساں کا نہیں قدرت میں

یہ نہیں کام اپنی مرضی کا

 

صرف آدم سے کام چل جاتا

پیدا کرتا نہ خدا حوّا کو

 

غیر فطری عمل ہے ہم جنسی

ہے پتہ منصفی کے ابّا کو

 

عدلیہ کو نہیں ہے کیا معلوم

پیڑ پودوں میں بھی ہیں مادہ و نر

 

نیگٹیو پوزٹیو کے ملنے سے

شاخ در شاخ ہیں ثمر آور

 

آج سائنس کا یہ کہنا ہے

یہ جو ہیں مان سون کے بادل

 

ان میں بھی نر و مادہ ہوتے ہیں

جن کے ملنے سے ہے زمیں جل تھل

 

یہ چرندوں میں بھی نہیں ملتی

یہ پرندوں میں بھی نہیں ملتی

 

اشرف ا لمخلوقات کی عادت

گندے کیڑوں میں بھی نہیں ملتی

 

تار جب سرد گرم ملتے ہیں

تب کہیں گھر کے بلب جلتے ہیں

 

یہ ہی لاجک ہے سب مشینوں کا

ایسے ہی کارخانے چلتے ہیں

 

ضد نہ جس شے کی ہو زمانے میں

ایسی شے بے وجود ہوتی ہے

 

زندگی میں مخالفت کے طفیل

زندگی کی نمود ہوتی ہے

 

دے جو بے ہودگی کو سرٹیفکٹ

کام یہ تو نہیں عدالت کا

 

اس کو ٹھہرائے صحیح قانوناً

طوق ڈالے گلے میں لعنت کا

 

گندگی مغربی تمدّن کی

ارضِ مشرق میں لا رہے ہو کیوں

 

ان کے کردار کا یہ گندہ پن

اپنی عادت بنا رہے ہو کیوں

 

اپ ڈیٹ

 

 

یہی قانونِ قدرت ہے ترقی ہوتی رہتی ہے

ترقی کے یہاں ایسے کئی سسٹم نکلتے ہیں

ترقی کر کے بندر بھی یہاں انسان بن بیٹھا

اگر بیوی پٹاخہ ہو تو بچے بم نکلتے ہیں

 

ہندوستاں

 

ہونے لگا ہے اونچا اب قد یہاں ہمارا

اخبار میں چھپا ہے جھوٹا بیاں ہمارا

اب قومی لیڈروں میں اپنا شمار ہو گا

سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا

 

مہمان

 

مشکل سے یہ برکت کے سامان نکلتے ہیں

ہر گھنٹے رسوئی سے پکوان نکلتے ہیں

ہو جاتا ہے خالی جب آٹے کا کنستر بھی

تب جا کے کہیں گھر سے مہمان نکلتے ہیں

 

 

انمول رتن

 

اب نہ چھوٹے گا کبھی سات جنم کا بندھن

اپنے دولہا سے بڑے پیار سے بولی دلہن

لاج رکھنا مرے سندور کی مرتے دم تک

’’مرے بھیّا مرے چندہ مرے انمول رتن‘‘

 

جاوداں

 

عمر اسّی کی ہے لیکن چل رہے ہیں آٹھ عشق

عمر کے اس موڑ پر بھی گلستاں ہے زندگی

معترض جب کوئی ہوتا ہے تو فرماتے ہیں آپ

’’جاوداں پیہم رواں ہر دم جواں ہے زندگی‘‘

 

 

چاہت

 

آج بھی سوچ ہے یہی اپنی

چاہے کپڑے نہ چاہے جوتے ہوں

ایک بیوی سے ہوں یا دو سے ہوں

چاہتے ہیں کہ بارہ بچے ہوں

 

کرسی

 

نمکین اور مٹھائی کرسی کے بعد آئی

چہرے پہ یہ ترائی کرسی کے بعد آئی

کرسی کے بعد آئی یہ ہائی فائی بیگم

سپریٹے پہ ملائی کرسی کے بعد آئی

 

 

 

 

 

افسوس

 

لگائے ہوئے ہتھکڑی ہاتھ میں ہم

پٹے رات بھر چاندنی رات میں ہم

 

گئے کیوں سنیما ترے ساتھ میں ہم

یہی سوچتے ہیں حوالات میں ہم

 

ہمیں کاش تجھ سے محبت نہ ہوتی

کہانی ہماری حقیقت نہ ہوتی

 

 

 

 

پیروڈی

 

قیمے کی، قورمے کی، یا شامی کباب کی

اب کیا مثال دوں میں تمہارے شباب کی

 

دو شوہروں سے آئی ہے لے کر طلاق وہ

ہم نے بھی خوامخواہ ہی نیّت خراب کی

 

پیسے بہت ہیں آپ پر مر کے تو دیکھیے

اٹھّے گی دھوم دھام سے میّت جناب کی

 

پاگل ہمارے عشق میں کیٹرینا کیف ہے

خوابوں میں اچھی لگتی ہیں باتیں یہ خواب کی

 

بیوی بھی ان کو کہنے لگی اب تو بھائی جان

تبدیل کر دی عشق نے صورت جناب کی

 

 

جاوید اختر

 

 

راجیہ سبھا کی مل گئی جاوید رُکنیت

ترکش کا اپنے ٹوٹا ہوا تیر ہو گئے

ہو تم کو مبارک یہ سیاست میں ترّقی

چمچے تھے پہلے اور اب کفگیر ہو گئے

 

 

 

چالاکی

 

کہاں پہ جا کے سر پھوڑوں غلط ہے فیصلہ خود کا

انہیں سے دوستی کی ہے کہ نیّت بیڈ جن کی ہے

ادائے قرض کا وعدہ کیا ہے پانچویں دن کا

’’کسی سے سُن لیا ہو گا کہ دنیا چار دن کی ہے ‘‘

 

خدا کی مرضی

 

پانچ سالوں سے ہیں پردیس میں اپنے صاحب

بچہ ہر سال مگر گھر میں نیا ہوتا ہے

نیک بیوی کی خطا کوئی نہیں ہے شاید

’’وہی ہوتا ہے جو منظورِ خدا ہوتا ہے ‘‘

 

 

 

 

 

ہزل

 

 

رہبروں میں بھی ہیں اوصافِ حمیدہ نہ لکھا

شان میں ان کی کبھی جھوٹا قصیدہ نہ لکھا

 

چاند کی ایک کو بھی ’’چودھویں کا چاند‘‘  تھی وہ

پھر بھی ٹن ٹن ہی لکھا اس کو وحیدہ نہ لکھا

 

اس لئے روٹھے ہیں اربابِ سیاست ہم سے

سوکھی روٹی کو کبھی گھی کا ملیدہ نہ لکھا

 

صرف اس بات پہ معشوق کے ابآ سے پٹے

اس کی اکڑی ہوئی گردن کو خمیدہ نہ لکھا

 

ایک اک کر کے خفا ہو گئے شاگرد تمام

بے بحر شعروں کو میں نے کبھی چیدہ نہ لکھا

 

 

 

 

امن کا نوبل

 

(براک اوبامہ کو امن کا نوبل انعام ملنے پر)

 

سوچتا ہوں امن کا کیسے فرشتہ بن گیا

جس کا کلچر ہی ہمیشہ سے رہا بندوق کا

امن کا نوبل پرائیز مل گیا کیسے اسے

قتل گردن پر ہے جس کی ان گنت مخلوق کا

 

 

 

پرانے شعر

 

پڑھ رہا ہے تیس سالوں سے پرانے شعر تو

ایک سامع نے یہ پوچھا شاعر بد حال سے

بولا شاعر شعر پر ہی کس لئے ہے اعتراض

شرٹ بھی بدلی نہیں ہے میں نے چالیس سال سے

 

 

نذرِ معین شاداب

 

منکشف راز ہوئے مجھ پہ نجانے کیا کیا

آنکھیں روتی ہیں مری اور نہ دل روتا ہے

کھو کے تربوز سی بیگم کو بہت خوش ہیں ہم

’’گُم اگر سوئی بھی ہو جائے تو دکھ ہوتا ہے ‘‘

 

آپ بیتی

 

 

ہوئے دونوں بنگلے خالی، چھنی دونوں کاریں میری

مری دونوں بیویوں نے ڈھونڈا نیا ٹھکانہ

رہا گھر نہ گھاٹ کا میں جب سے چناؤ ہارا

’’ملی خاک میں محبت جلا دل کا آشیانہ‘‘

 

سوائن فلو

 

اب تو کر لیجئے یقیں اسلام کی سچ‘ائی پر

علم پندرہ سو برس پہلے تھا اس تاثیر کا

کر دیا تھا آپ نے جو اپنی امّت پر حرام

گوشت کھانا نام لینا پالنا خنزیر کا

 

سیاسی کھیل

 

ساٹھ سالوں سے یہی کھیل ہے دونوں جانب

دونوں جانب یہی کھجلی ہے کھجاتے رہیے

ہند اور پاک کے رشتوں کی حقیقت ہے یہی

’’دل ملے یا نہ ملے ہاتھ ملاتے رہیے‘‘

 

 

پروفیسر کی غزلیں

 

یہی زینت بنیں گی دوستو ادبی رسالوں کی

کسی فن کار شاعر کی نہ دیدہ ور کی غزلیں ہیں

مثالیں ہیں یہ مانا قافیہ پیمائی کی لیکن

یہ غزلیں یونیورسٹی کے پروفیسر کی غزلیں ہیں

 

تقابل

 

ہی از پریکٹیکل مین

آئی ایم ڈریم پرسن

ہی از ٹچ دی اس کائی

آئی ایم گوپال ٹھن ٹھن

 

 

دو آتشہ

 

یاروں کو ولیمہ تو پھر سے مرا کھلوا دے

شادی کا مزا اب کے دو آتشہ کروا دے

سالی ہی نہیں اب کے بیوی بھی پٹاخہ ہو

’’جو قلب کو گرما دے اور روح کو تڑپا دے‘‘

 

تہلکہ

 

(بھارت میں اسٹنگ آپریشن کے موجدترون تیج پال کی نذر)

 

زمینی ہو یا ہو وہ آسمانی

ہو امریکن یا ہو انگلستانی

 

تمہارا کام کیا ہندوستاں میں

اگر آتی نہیں ہے بے ایمانی

 

تہلکہ سے سبق لینا تھا بھائی

چلے تھے چوریاں سب کی پکڑنے

 

میاں اب مارے مارے پھر رہے ہیں

لگے ہیں ٹیپ بھی اب ان کے سڑنے

 

دبی ہے جانچ کی کن فائیلوں میں

تہلکہ کی بڑی ایمان داری

 

اگر ستّا کی چمچہ گیری کرتے

تو کیا دنیا میں ہو تی اتنی خواری

 

سیاست کو دکھایا آئینہ گر

مقدّر میں سمجھ لو ہے فقیری

 

بنو گے ایک دن سنسد سدسیہ

کرو سرکار کی تم چمچہ گیری

 

اگر ایمان والے ہو تو بھائی

تمہارا کام کیا ہے اس جہاں میں

 

کھلاؤ اور کھاؤ موج مارو

اگر رہنا ہے خوش ہندوستاں میں

 

 

مفت کی بریانی

 

گردواروں، میں، مزاروں میں، سمیناروں میں

ہر جگہ مفت کی بریانی نہ کھانے لگ جاؤ

ہم نے مانا کہ بہت پیٹ کا رکھتے ہو خیال

کھاتے کھاتے ہی کسی دن نہ ٹھکانے لگ جاؤ

 

 

 

 

ڈرپوک قوم

 

شاہ رخ خان اور شاہ نواز حسین کو امیریکن ویزا نہ ملنے کے پس منظر میں

 

اس جہاں میں دوستو جتنے بھی شاہ رخ خان ہیں

اہلِ یو ایس کے لیئے سارے ہی طالبان ہیں

 

ایسے ناموں کے لیئے ویزا ہے امریکہ کا بین

ان کو ملک ا لموت لگتا نام ہو جس کا حسین

 

خواب میں صدّام آ آ کے ڈراتا ہے انہیں

ہر حسین اور خان جیسے کھائے جاتا انہیں

 

قہقہے ان پر لگاؤ یہ غضب کے جوک ہیں

صرف امریکہ میں بستے جتنے بھی ڈرپوک ہیں

 

معذرت

 

 

مجھ کو یوں پانچویں منزل سے دیا ہے دھکّہ

توڑ ڈالی ترے ابآ نے مری اُلٹی ٹانگ

عمر بھر کے لیئے معذور ہو گیا ہوں میں

’’مجھ سے پہلی سی محبت مری محبوب نہ مانگ‘‘

 

صاحبِ دیوان

 

فلم کی صورت ادب کے خان ہو جاؤ گے تم

محفل شعر و سخن کی جان ہو جاؤ گے تم

کچھ رقم میں آپ کو دیوان بھی مل جائے گا

کچھ رقم میں صاحب دیوان ہو جاؤ گے تم

 

عینک

 

 

صبح کو صبح کا اخبار پڑھاتی ہے یہی

سب حسیناؤں کا دیدار کراتی ہے یہی

میری عینک کے سوا دنیا میں رکھا کیا ہے

فرق بیوی کا پڑوسن کا بتاتی ہے یہی

 

 

 

 

طرحی ہزل

 

ایسا بھی ایک شخص ہے کیا کیا کہیں جسے

چوں چوں کا صرف لوگ مرّبہ کہیں جسے

 

اس دور میں وہی ہے سند یافتہ شریف

پنجاب کی زبان میں کھوتا کہیں جسے

 

کہتے ہیں ورلڈ وار بھی ہے اک فلاپ شو

ساس اور بہو میں ہوتا ہے جھگڑا کہیں جسے

 

تخلیق طبع زاد یہاں کس کے پاس ہے

ہر شعر ایسا ہوتا ہے چربہ کہیں جسے

 

چپکے سے چھوڑ دیجئے پھر دیکھیئے مزا

ہوتا ہے کتنے کام کا شوشہ کہیں جسے

 

اس کو مکان شہر میں کہتے ہیں دوستو

گاؤں کے لوگ مرغی کا دربہ کہیں جسے

 

ملکہ مسور شوربہ آلو معاف کر

کھلوا مجھے پلاؤ و زردہ کہیں جسے

 

دیکھا ہمیں تو ایک حسینہ نے یہ کہا

شوہر بنانے لائے ہو ابآ کہیں جسے

 

 

بیانہ

 

کب سے لگا رہے تھے نشانہ نکاح کا

حالانکہ یہ نہیں تھا زمانہ نکاح کا

اللہ نے بلا لیا اس وقت اپنے پاس

قاضی کو دے رہے تھے بیانہ نکاح کا

۔۔۔۔۔۔

نوٹ: یہاں ہندی لفظ بیانہ استعمال کیا گیا ہے اردو لفظ بیعانہ نہیں

 

 

 

 

اچانک موت

 

اس سے شادی کے لیئے ہر مہ جبیں تیار تھی

چار شادی کر چکا تھا پانچویں تیار تھی

 

اس کا سہرا، شیروانی بالیقیں تیار تھی

کیا خبر تھی قبر بھی اس کی وہیں تیار تھی

 

اس اچانک موت نے ارمان چوپٹ کر دیئے

پانچویں شادی کے سب سامان چوپٹ کر دیئے

 

 

 

برانڈ

 

 

ہر کوئی گا رہا ہے ترانہ برانڈ کا

بھارت میں آ گیا ہے زمانہ برانڈ کا

 

بینگن برانڈیڈ ہوا آلو برانڈیڈ

بھنڈی برانڈیڈ ہے رتالو برانڈیڈ

 

آموں کی جگہ مینگو کھانے لگے ہیں لوگ

پالک بھی کر کے پیک اپ لانے لگے ہیں لوگ

 

چاول بھی ان کو چاہیئے ٹاٹا برانڈ کا

جوتا ہے جن کے پاؤں میں باٹا برانڈ کا

 

گیہوں کا نہیں چاہیئے اب مور کا آٹا

کتّا برانڈ بھی ہے بڑے زور کا آٹا

 

گنّے کا رس ملے گا ٹریکٹر برانڈ کا

ٹیکہ ملیریا کا ہے مچھر برانڈ کا

 

وہ دور گیا ملتے تھے جب مرغی کے انڈے

بازار میں موجود ہیں امبانی کے انڈے

 

امّاں کا دور کب ہے یہ بیوی کا دور ہے

در اصل عہدِ نو ہے یہ ٹی وی کا دور ہے

 

ٹی وی پہ کیٹرینا اگر سیتا پھل نہ کھائے

بازار سے خرید کر بیوی کبھی نہ لائے

 

ٹی وی پہ کوکا کولا جو عامر نہیں پیئے

بھارت میں ایک کولا کی بوتل نہیں بکے

 

ہم کھاتے نہیں دھان سے نکلا ہوا چاول

ہو تاج محل لال قلعہ برانڈ کا چاول

 

 

 

نذرِ کرشن بہاری نور

 

اشعار میر کے تھے ترنّم تھا لا جواب

لیکن کسی بھی شخص نے واہ وا نہیں کہا

شاعر تمام لے کے لفافے کھسک لیئے

’’میں تو غزل سنا کے اکیلا کھڑا رہا‘‘

 

 

منھ پھٹ بیوی

 

ایک دن بولی یہ مجھ سے مری مُنھ پھٹ بیوی

تم کو بندی مری ساڑی نہیں اچھی لگتی

جس کو ہوٹل کے پرانٹھے کا مزا لگ جائے

اس کو پھر گھر کی چپاتی نہیں اچھی لگتی

 

جنازہ

 

رشوت میں جو پکڑے گئے لیڈر رنگے ہاتھوں

ظالم تھے مگر جیل سے مظلوم سے نکلے

جب ہتھکڑی ہاتھوں میں لگی لوگ یہ بولے

’’لیڈر کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے ‘‘

 

 

حکومت

 

سُرخ گجرات میں کیسر کی ہے رنگت یارو

کتنی مکروہ ہے ووٹوں کی سیاست یارو

یہ ہنر سیکھئے جا کر نریندر مودی سے

کس طرح ہوتی ہے لاشوں پہ حکومت یارو

 

مردوں کی شمشیریں

 

 

طوافِ گرلز کالج بس کیا علوی سدا ہم نے

ہماری جیب سے نکلیں حسیناؤں کی تصویریں

ستارہ کہکشاں گلشن صبا عمرانہ رخسانہ

’’جہادِ زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں‘‘

 

پٹھّا

 

عمر بھر کرتا رہا جو شادیوں پر شادیاں

سو برس کا ایسا پٹھّا ڈھونڈھتے رہ جاؤ گے

قبر میں آرام فرما جس کی پچپن دلہنیں

اس جہاں میں ایسا دولہا ڈھونڈھتے رہ جاؤ گے

 

شریکِ غم

 

ولیمے کے پلاؤ تک یہ دنیا ساتھ دیتی ہے

مگر فاقہ کشی میں ساتھ بیش و کم نہیں ہوتی

اکیلے جھیلنا پڑتا ہے بیوی اور بچوں کو

’’یہ دنیا غم تو دیتی ہے شریکِ غم نہیں ہوتی‘‘

 

 

اردو

 

اردو اگر نہیں تو کیا ہے یہاں ہمارا

اردو کے دم سے قائم نام و نشاں ہمارا

اردو کا قورمہ اور بریانی کھا کے بولے

’’سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا‘‘

 

بریک

 

بیوی سے کہیں بہتر ٹی وی ہے دوستو

دو دو منٹ میں لیتی ہے اک مہ جبیں بریک

بیوی کی ہے زبان سپر فاسٹ ایکسپریس

بیوی کی گفتگو میں تو آتا نہیں بریک

 

 

نذرِ فیض احمد فیض

 

ہوس کے شہر میں ہم ہو کے شرمسار چلے

لحاظ و شرم کے سب پیرہن اتار چلے

جو چھوڑا چھوٹی نے ہم کو تو پکڑا موٹی نے

’’جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے‘‘

 

فریاد

 

صورت پہ بج رہے ہیں چوبیسوں گھنٹے بارا

میرا نصیب بگڑا جب سے چناؤ ہارا

کفگیر چھوڑئیے اب چمچہ کوئی نہیں ہے

’’پروردگارِ عالم تیرا ہی ہے سہارا‘‘

 

 

 

 

قومی صحافت

 

سُرخ نکسل وادیوں کی ذہنیت تو زرد ہے

ان کی دہشت گردیوں پہ سب کا لہجہ سرد ہے

 

ہم نوا کشمیریوں کا کوئی کیا ہمدرد ہے

پتھروں سے لڑنے والی قوم دہشت گرد ہے

 

نکسلی اپنے ہیں دشمن وادیِ کشمیر ہے

ملک میں قومی صحافت کی یہی تصویر ہے

 

 

 

چالو

 

یہ کیا زباں ہے آپ کی سمجھائیے مجھے

اک ماہرِ لسّان سے بولے مرے خالو

ہو کار گر خراب تو کہتے ہو اسے بند

لڑکی ہو گر خراب اسے کہتے ہو چالو

 

 

مشورہ

 

جسے سالے سسر اور سالیوں سے پیار ہوتا ہے

اسی شوہر کا اس دنیا میں بیڑا پار ہوتا ہے

کہا بیوی نے یہ مجھ سے مٹا دے اپنی ہستی کو

’’کہ دانہ خاک میں مل کر گل و گلزار ہوتا ہے‘‘

 

درخواست

 

کچھ اثر کرتی نہیں اس پہ یہ پتھر بازی

یوں تو ہر وقت ہے تیار یہ مر جانے کو

مارنا ہے جسے بندوق سے بم سے مارے

’’کوئی پتھر سے نہ مارے مرے دیوانے کو‘‘

 

 

۳۰ستمبر ۲۰۱۰ء کا فیصلہ

 

شاید کہ پتھروں کی کہاوت نظر میں تھی

اس فیصلے کا عین شین قاف دیکھئے

اس کو بھی نوازہ گیا خارج جسے کیا

یہ ہائی کورٹ کا ذرا انصاف دیکھئے

 

 

بوتل کا جن

 

راہ چلتے مل گیا تھا مجھ کو یارو ایک دن

قید بوتل میں ہزاروں سال سے تھا ایک جن

 

دیکھ کر جن نے مجھے بوتل کے اندر سے کہا

اے شریف النفس انساں درد میرا سن کے جا

 

ایک جادوگر نے پکڑا تھا مجھے بنگال سے

قید ہوں بوتل کے اندر میں ہزاروں سال سے

 

دن مہینے سال صبح و شام آؤں گا بہت

مجھ کو کر آزاد تیرے کام آؤں گا بہت

 

اک دھوئیں کی شکل میں ظاہر ہوا پر تول کر

کر دیا آزاد جن کو میں نے بوتل کھول کر

 

اہل دانش کا ہے کہنا آسماں ہو یا زمیں

زندگی میں دوست آزادی سے بڑھ کر کچھ نہیں

 

تو نے آزادی کی وہ نعمت چکھائی ہے مجھے

قید سے برسوں کی آزادی دلائی ہے مجھے

 

اب سے تو آقا ہے میرا اور میں تیرا غلام

آج سے آساں سمجھ مشکل سے مشکل اپنا کام

 

رنگ برنگی تتلیوں میں خوشبوؤں کا ذکر ہوں

محترم جن میں غزل کا شاعر خوش فکر ہوں

 

چھے کتابیں لکھ چکا ہوں ساتویں تیار ہے

شاعر اعظم ہوں میری ہر غزل شہکار ہے

 

جان کر میرا تعارف جن بہت گھبرا گیا

التجا سن کر مری سکتہ سا جن کو آ گیا

 

حکم تیرا میں کسی صورت بجا سکتا نہیں

تو غزل کہتا ہے میں مصرعہ پچا سکتا نہیں

 

نیم سے بھی تلخ ہے آقا رہائی کی یہ قند

میرے محسن تو مجھے کر دے ابھی بوتل میں بند

 

 

 

 

 

قیمتی کتاب

 

 

ایک دن بیوی نے فرمایا تمہاری ہر کتاب

فالتو سامان ہے کوڑہ ہے ردّی ہے جناب

 

آج کل مہنگائی سے میں کس قدر بدحال ہوں

تم اجازت دو اگر ردّی میں ان کو بیچ دوں

 

دفن ان میں علم و فن کے ہیں ہزاروں ماہتاب

میں نے بیوی سے کہا نایاب ہے ہر اک کتاب

 

دیکھ یہ دیوانِ غالب آپ ہے اپنی مثال

اس کا اک اک شعر ہے اردو ادب میں لا زوال

 

دیکھ حالی کی مسدّس کا نہیں کوئی جواب

یہ بھی ہے اردو ادب میں ایک با مقصد کتاب

 

اور یہ بانگ درا اقبال کی پہچان ہے

کیا خبر تجھ کو یہ اردو شاعری کی شان ہے

 

انقلابی عشقیہ نظموں کی کلیّات ہے

جوش کی اردو ادب کو قیمتی سوغات ہے

 

اور یہ ہے ’’تلخیاں‘‘  ساحر کا لافانی کلام

اس سے ہی زندہ رہے گا حشر تک ساحر کا نام

 

یہ اکائی اور آمد ہیں کتابیں بدر کی

ناقدوں نے ان کتابوں سے ہی ان کی قدر کی

 

آگ کا دریا ہے یہ یہ گردشِ رنگ چمن

ان کتب سے ہے عیاں اردو ادب کا بانکپن

 

عمر بھر کی ہے کمائی بیش و کم شہباز کی

دیکھ یہ ہیں چھے کتابیں محترم شہباز کی

 

دیکھ یہ فاروق بھائی کی کتابیں بے شمار

نثر بھی ہے مستند اور نظم بھی ہے با وقار

 

دیکھ طالب کی کتا بیں ’پہلا پتھر‘  ’سلسلہ‘

لفظِ سادہ میں چھپا ہے زندگی کا فلسفہ

 

یہ طمانچے ہے ظریفانہ ادب میں شاہکار

اب اسی سے ہے جہاں میں تیرے شوہر کا وقار

 

ڈانٹ کر بیوی نے مجھ سے یہ کہا سنیے جناب

اس جہاں میں کچھ نہیں ہے بے مثال و لا جواب

 

تم اکڑتے ہو طمانچے پر طمانچے کچھ نہیں

یہ تمہارے چربے وربے سرقے ورقے کچھ نہیں

 

جو کتابیں تم نے گنوائی ہیں سب ہیں فیک بک

قیمتی ہے در حقیقت بس تمہاری چیک بک

۔۔۔۔۔۔

فاروق ارگلی، طالب زیدی، شہبازندیم ضیائی،

 

 

 

 

ناموں کے اثرات

 

برسوں کی تحقیق نے ثابت کر دی ہے یہ بات

اُلٹے ناموں کے ہوتے ہیں ہستی پر اثرات

 

نام کے الٹے اثر کی یوں بھی ہوتی ہے تصدیق

کام گواہی کا کرتے ہیں صادق اور صدیق

 

اپنے شہر میں جتنے بھی تھے ایک سے ایک خراب

کچھ کے نام شہنشا نکلے کچھ کے نام نواب

 

کوڑہ چنتا بازاروں سے جس کا نام نفیس

بھیک مانگتا اسٹیشن پر دیکھا گیا رئیس

 

دو دو دن کا فاقہ کرتے ہیں عبدلرزّاق

گاؤں سے باہر کب نکلے ہیں بھیّا جی آفاق

 

کیسے کیسے کھیل دکھائے مولا تیری شان

پیشہ ور جلّاد ہیں لیکن نام عبدلرحمان

 

بھائی شرافت میں پائی نہ کبھی شرافت ہم نے

عزت خاں کو ملتے دیکھی کبھی نہ عزت ہم نے

 

شیر محمّد خاں چوہوں سے ڈر جاتے ہیں روز

رستم خاں بھی بیوی سے چپل کھاتے ہیں روز

 

نام سخی حاتم ہے لیکن بلا کے ہیں کنجوس

اپنی نظروں سے کب گذرا ایسا مکھّی چوس

 

جیل میں آنا جانا ان کا نام ہے فخر عالم

چوری اور ہیرہ پھیری کی باتیں کرتے ہر دم

 

کالا اکشر بھینس برابر نام محمّد فاضل

نا بینا شاعر کا کس نے نام رکھا ہے کامل

 

رشوت لیتے دھرے گئے ہیں اختر الایمان

اپنے گھر میں بھی کب دیکھی شان عالم کی شان

 

عشرت خاں بھی گرمی میں ڈھوتے رہتے ہیں پتھر

دانش نام کے جاہل بھی دیکھ ہیں ہم نے اکثر

 

بھائی کروڑی مل کوڑی کوڑی کو اکثر ترسے

اور سکندر خان کبھی نکلے نہ اپنے گھر سے

 

نور عالم کی دیکھو دونوں آنکھیں ہیں بے نور

صوفی لقب ملا ہے جن کو رہتے ہیں مخمور

 

اپنی عقل سے باہر یارو قدرت کے یہ راز

پھانسی پر ہیں جھولنے والے بھائی عمر دراز

 

خط لکھنے میں کاہل ہوتے مکتوب الرحمان

کفر کا فتوہ جھیل رہے ہیں محبوب ا لرحمان

 

مئی جون میں سڑک کوٹتے ہیں بھائی ذی شان

اور فقیر احمد کی ہیں سونے چاندی کی کان

 

داغ ہیں دین کی پیشانی پر نام ہے شمس الدین

شیریں نام کی دوشیزائیں ہوتی ہیں نمکین

 

چھوڑو بہت برا ہے علوی یہ ناموں کا پھیر

روشن گوشہ کوئی نہیں ہے ایسا ہے اندھیر

 

 

 

ٹھاکرے اور جناح

 

 

اُس نے مسلم کو کیا تھا گمراہ

تو مراٹھوں کو کر رہا ہے تباہ

 

تیرا اور اُس کا ایک جیسا گناہ

پھر بھی غدّار نہیں تو وا واہ

 

وہ تھا تقسیم وطن کا مجرم

تیرا اپرادھ بھی نہیں ہے کم

 

جس طرح تھا جناح مسلم کا

تو مراٹھوں کا قائدِ اعظم

 

صرف چہرا وطن پرستی کا

روح میں ہے وطن سے غدّاری

 

صرف لوگوں کو بانٹنے میں ہی

عمر تو نے گذار دی ساری

 

ہندی اردو ہو یا مراٹھی ہو

سب زباں مادرِ وطن کی ہیں

 

اک گلستاں کی ساری کلیاں ہیں

مختلف ڈالیاں چمن کی ہیں

 

زخم الفاظ کے نہیں بھرتے

زخم تلوار کے بھر جاتے ہیں

 

کام ہوتا نہیں جو تیروں سے

تیرے دو لفظ ہی کر جاتے ہیں

 

مسجدیں گُردوارے اور مندر

پیار اور شانتی کے پیروکار

 

میرا بھارت ہے ایسا گلدستہ

جس میں ہر رنگ کے گلوں کی بہار

 

صرف تجھ کو مراٹھیوں کی فکر

مجھ کو ہندوستان پیارا ہے

 

ایک تقسیم سہہ چکا ہوں میں

دوسرا زخم کب گوارا ہے

 

ادنیٰ اعلیٰ امیر اور غریب

نفرتوں کے سیاسی پھندے ہیں

 

ہندو مسلم عیسائی یا سکھ ہوں

ایک ایشور کے سارے بندے ہیں

 

 

 

 

ٹنڈے حاجی

 

جب چوری ہیرا پھیری سے ہو گئے مالا مال

حاجی کہلانے کا دل میں آنے لگا خیال

 

ایم پی سے لیٹر لکھوا کر پرمیشن لے آئے

دور اور پاس کے جتنے بھی تھے رشتے دار بلائے

 

دوسو کنٹل مرغ بنایا لیگ پیس تلوائے

ممبئی کے نامی لوگوں سے فلمی ناچ کرائے

 

ریل کے ڈبے میں لڈن خاں ہونے لگے سوار

ہاتھوں کو ہی چوم رہے تھے سارے رشتے دار

 

لڈن کی زرداری کے تھے راز جنہیں معلوم

چوم کے لڈن کے ہاتھوں کو ہوتے تھے مغموم

 

ان کی فن کاری سے واقف تھا ہر واقف کار

لڈن کے ہاتھوں کا کیونکہ آخری تھا دیدار

 

اگر کمائی ان ہاتھوں کے فن سے وہاں رقوم

لڈّن خاں بھی ہو جائیں گے ہاتھوں سے محروم

 

لڈن خاں اپنی حرکت سے پھر بھی باز نہیں آئے

حج سے واپس آئے تو ٹنڈے حاجی کہلائے

 

 

پیروڈی

 

 

آپ کی نظروں نے سمجھا ووٹ کے قابل مجھے

ڈاکوؤں اور رہزنوں میں کر دیا شامل مجھے

 

ماشاء اللہ آج تو تعلیم کا میں ہوں وزیر

کم سے کم اب تو نہ کہیئے ان پڑھ و جاہل مجھے

 

توڑ دی ہیں میری ٹانگیں اس کے ابّا جان نے

اب بھی محبوبہ سمجھتی ہے مری کامل مجھے

 

دل بدلنے کے لیئے مجھ کو ملے ہیں دو کروڑ

دل کی اے دھڑکن ٹھہر جا مل گئی منزل مجھے

 

کل میں ڈرتا تھاپولس سے اب ڈرے مجھ سے پولس

زندگی کی ساری خوشیاں ہو گئیں حاصل مجھے

 

پھر تو کر سکتا ہوں میں بھی چار سے چھے شادیاں

ساتھ میں بیوی کے مل جائیں اگر دو مِل مجھے

 

 

 

 

پیروڈی

 

کہیں دھینگا مشتی کہیں سینہ زوری

کہیں پر ہے ڈاکہ کہیں پر ہے چوری

بنا ہے یہاں منتری ہر ٹپوری

 

 

 

 

جنہیں ناز ہے ہند پر وہ کہاں ہیں

 

 

شہیدوں کے ’کوفن‘  کفن بیچ کھائے

کلی پھول کیا ہے چمن بیچ کھائے

ملا دھن تو مردوں کے تن بیچ کھائے

جنہیں ناز ہے ہند پر وہ کہاں ہیں

 

کہیں ہو رہی ،  خود کشی کی ہے کوشش

کہیں پر ہے دولت کی بے جا نمائش

کہیں ذات و مذہب کی قائم ہے رنجش

جنہیں ناز ہے ہند پر وہ کہاں ہیں

 

بلندی پہ ہے نفرتوں کی سیاست

بنی ہے یہاں صاف گوئی حماقت

ذلالت کے کاموں سے ملتی ہے عظمت

جنہیں ناز ہے ہند پر وہ کہاں ہیں

 

حوالات میں قتل ہوتے ہیں اب بھی

گنہگار بنگلوں میں سوتے ہیں اب بھی

کہ انصاف کو لوگ روتے ہیں اب بھی

جنہیں ناز ہے ہند پر وہ کہاں ہیں

 

کہیں پر ہیں دولت کے انبار دیکھو

کہیں پر ہے روٹی پہ تکرار دیکھو

ہے لاچار و بے بس یہ سرکار دیکھو

جنہیں ناز ہے ہند پر وہ کہاں ہیں

 

نہائی لہو میں یہ تصویر کیوں ہے

سلگتا یہ آسام و کشمیر کیوں ہے

جدا ہند سے ان کی تقدیر کیوں ہے

جنہیں ناز ہے ہند پر وہ کہاں ہیں

 

ملا کوئی لیڈر نہ معقول اب تک

سدھاری نہ ہم نے کوئی بھول اب تک

سلگتے ہیں کشمیر کے پھول اب تک

جنہیں ناز ہے ہند پر وہ کہاں ہیں

 

چمکتی ہے سب کی یہیں پر سیاست

مقدّر میں ککھّی ہے ہر ایک آفت

جہنم ہے روئے زمیں کی یہ جنت

جنہیں ناز ہے ہند پر وہ کہاں ہیں

 

جنہیں ناز ہے ہند پر ان کو لاؤ

وطن کے یہ بے نور چہرے دکھاؤ

انہیں آسماں سے زمیں پر تو لاؤ

جنہیں ناز ہے ہند پر وہ کہاں ہیں

۔۔۔۔

Coffin

 

 

 

 

پیروڈی

 

یہ کھٹمل یہ مکھّی یہ مچھر کی دنیا

یہ لنگور بھالو یہ بندر کی دنیا

یہ کتّوں گدھوں اور خچر کی دنیا

یہ دنیا اگر مل بھی جائے تو کیا ہے

 

یہ عورت یہ مردوں یہ چھکّوں کی دنیا

نہتوں کی ہتھیار بندوں کی دنیا

یہ ڈاکو پولس اور غنڈوں کی دنیا

یہ دنیا اگر مل بھی جائے تو کیا ہے

 

یہ چوروں یہ لچّوں لفنگوں کی دنیا

یہ کمزوروں کی اور دبنگوں کی دنیا

تپِ دق کے بیمار چنگوں کی دنیا

یہ دنیا اگر مل بھی جائے تو کیا ہے

 

یہ بش جونیئر اور اوباموں کی دنیا

یہ امریکیوں کے غلاموں کی دنیا

یہ ملّا عمر اور اساموں کی دنیا

یہ دنیا اگر مل بھی جائے تو کیا ہے

 

جنابوں کی عزت مآبوں کی دنیا

یہ اچھوں کی دنیا خرابوں کی دنیا

یہ چمچوں کو ملتے خطابوں کی دنیا

یہ دنیا اگر مل بھی جائے تو کیا ہے

 

یہ بندوق کٹّوں طمنچوں کی دنیا

یہ فٹ بال کی اور کنچوں کی دنیا

خوشامد میں مشغول چمچوں کی دنیا

یہ دنیا اگر مل بھی جائے تو کیا ہے

 

ہوائی جہازوں کی ریلوں کی دنیا

حوالات کی اور جیلوں کی دنیا

یہ ٹرکوں کی دنیا یہ ٹھیلوں کی دنیا

یہ دنیا اگر مل بھی جائے تو کیا ہے

 

رئیسوں کی دنیا یہ کڑکوں کی دنیا

یہ بے کار آوارہ لڑکوں کی دنیا

ٹریفک سے بد حال سڑکوں کی دنیا

یہ دنیا اگر مل بھی جائے تو کیا ہے

 

 

 

پڑی لکڑی

 

 

بتا دوں آج میں دانشوروں کو

پڑی لکڑی کے اوصافِ حمیدہ

پڑی نے گھر کیے برباد کتنے

پڑی نے سر کیے، کتنے بریدہ

 

نہ اس عالم میں اس لکڑی کا ثانی

نہ اُس عالم میں اس کا جوڑ کوئی

پڑی کا آج تک دانشوروں کو

نہیں علویؔ ملا ہے توڑ کوئی

 

اذیّت ہے پڑی لکڑی کی ایسی

کہ یہ ہوتی ہے روز و شب پہ بھاری

بھکاری کو نہ بخشا بادشا کو

پڑی لکڑی پڑی ہے سب پہ بھاری

 

کوئی مانے نہ مانے سچ یہی ہے

غلط کب ہے یہ بش انکل کا کہنا

سبق بغداد و کابل سے ملا ہے

پڑی لکڑی سے یارو دور رہنا

 

پڑی لکڑی نے توڑا روس کو بھی

غلط لے لی تھی جو افغانیوں سے

سبق سیکھا نہ امریکہ نے کوئی

شکستہ روس کی نادانیوں سے

 

پڑی اک بار تسلیمہ نے لی تھی

ابھی تک ایک گوشے میں پڑی ہے

یہی سلمان رشدی کی ہے حالت

حیات اس کی جہنم بن گئی ہے

 

پڑی لکڑی پڑی ہے کتنی مہنگی

معیشت سے یہ امریکہ کی پوچھو

نہ اُکھڑا بال افغانوں کا اب تک

نئی دنیا کے اس آقا سے پوچھو

 

پڑی لکڑی کے چکرّ میں نہ آنا

پڑی لکڑی نہیں خطرے سے خالی

پڑی لکڑی ہے میزائیل کی صورت

پڑی لکڑی نہیں پھولوں کی ڈالی

 

پڑی لکڑی پڑی رہنے دو یونہی

اگر سمجھو اسی میں عافیت ہے

نہیں ہے کوئی بھی بخشش کا خانہ

پڑی لکڑی کی ایسی خاصیت ہے

 

مرے دادا تھے خطروں کے کھلاڑی

دلہن دادا کی جو دادی بنی تھی

اسی لکڑی میں لکڑی جڑ رہی ہے

پڑی لکڑی جو پردادا نے لی تھی

 

پڑی لکڑی کی ہے کہنہ روایت

پڑی فرعون نے موسیٰ سے لی تھی

ڈبویا نیل کی لہروں میں خود کو

سبب آخر یہی لکڑی بنی تھی

 

پڑی لکڑی جو لی راجیو جی نے

سری لنکا میں بھیجی فوج اپنی

پھٹے میں ٹانگ اڑانے کا نتیجہ

یونہی پھوکٹ میں اپنے جان دے دی

 

پڑی کا شوق اسرائیل کو ہے

بتا دے گی پڑی لکڑی کسی دن

مدد آئے گی امریکہ کی جب تک

مٹا دے گی پڑی لکڑی کسی دن

 

پریشاں آج تک وہ کر رہی ہے

گھڑی گذری نہیں ہے اک سکوں کی

مسلمانوں کے قتلِ عام کی جو

پڑی لکڑی کبھی مودی نے لی تھی

 

پڑی لکڑی کبھی راون نے لی تھی

پرانے عہد میں شری رام جی سے

اُسی کی آگ میں جلتا ہے اب بھی

وہ لکڑی آج تک نکلی کسی سے

 

پڑی لکڑی نہ جو گندم کی لیتے

قسم اللہ کی اپنے باوا آدم

نہ روز و شب کے یہ دکھ درد ہوتے

اترتے عرش سے کیوں فرش پر ہم

 

پڑی لکڑی جو لی تھی شاعری کی

پریشاں آج تک وہ کر رہی ہے

نہیں کچھ بھی تری اوقات علوی

پڑی لکڑی سے یہ دنیا دکھی ہے

 

 

 

 

 

ہزل

 

 

ٹکٹکی باندھ کر دیکھتے رہ گئے

تھے تو اندھے مگر دیکھتے رہ گئے

 

قیمتی کس قدر ہو گئی آج کل

آلوؤں میں مٹر دیکھتے رہ گئے

 

کیبنٹ منتری بن گئے دامودر

اور محمد ظفر دیکھتے رہ گئے

 

عصر حاضر میں کمروں کی بہتات ہے

سوئی جیسی کمر دیکھتے رہ گئے

 

سارا چٹ کر گئے وہ فرائی چکن

دال میں ہم بٹر دیکھتے رہ گئے

 

 

 

 

ہزل

 

ٹھیک ہی کہتے ہیں وہ مجھ کو گدھا کہتے ہیں

ہوتی آئی ہے کہ اچھوں کو برا کہتے ہیں

 

پھوڑ دیتے ہیں وہ نکسیر مار کر گھونسا

اور پھر اس کو مقدّر کا لکھا کہتے ہیں

 

اس تعلق سے تو ہر ایک کی ہمشیر ہوئی

تیرے عاشق تیرے ابّا کو چچا کہتے ہیں

 

کچھ ہیں ایسے کہ خدا کو بھی نہیں کہتے خدا

اور کچھ لوگ ہر اک بت کو خدا کہتے ہیں

 

 

ایک سوال

 

(۲۹ مارچ ۲۰۱۰ء کو اخبارات میں ایک خبر شائع ہوئی کہ امریکہ کی دہشت گرد فہرست میں ایک چھے سالہ معصوم بچیّ کا نام ہے اور یہ کہ ڈرپوک امریکیوں نے اس چھے سال کی بچی کا نام بھی دہشت گردوں کی فہرست سے نکالنے سے انکار کر دیا )

 

افغان اور عراق میں ہارے ہوئے لشکر

یہ کہتے ہیں ایران کی فوجوں سے لڑیں گے

چھے سال کی بچی سے بھی جو خوفزدہ ہیں

وہ کس طرح اسلام کے شیروں سے لڑیں گے

 

 

 

 

نذرِ ندا فاضلی

 

بجا خدا سے شکایت یہ بیویوں کی ہے

کبھی ضعیف نہ ہو وہ جواں نہیں ملتا

کسی کے دانت نہیں ہیں کسی کے آنت نہیں

یہاں کسی کو مکمل میاں نہیں ملتا

 

 

ارشادِ قاضی

 

ہمارے کان میں اک روز قاضی جی نے فرمایا

تمہارے کام آئیں گی یہ تحریریں نہ تقریریں

یہ فرما کر گئے ہیں شاعری میں شاعرِ مشرق

’’نکاحِ مردِ مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں‘‘

 

غزل کا شاعر

 

میکدہ کون بتائے گا یہ چندھی آنکھیں

حور لکھّے گا تجھے کون بتا میرے بعد

اپنے محبوب سے بولا یہ غزل کا شاعر

خاک ہو جائے گا یہ حسن ترا میرے بعد

 

 

ولیمہ

 

اک رہنمائے قوم کے بیٹے کا تھا ولیمہ

کھانے بھی اس قدر تھے کہ حساب تک نہ پہونچے

بھوکوں کی بھیڑ کا بھی عالم میں کیا بتاؤں

میں پلاؤ تک نہ پہونچا وہ کباب تک نہ پہونچے

 

شادی کا المیہ

 

ہماری آپ کی شادی کا شاید یہ المیہ ہے

پرانی جیسے جیسے اپنی بیگم ہوتی جاتی ہے

دنوں دن بڑھتی جاتی ہے مگر تعداد پانی کی

ملائی دودھ سے اے دوستو کم ہوتی جاتی ہے

 

 

ڈنڈے کی کرامت

 

اک دروغہ نے دیا ایسے تعارف اپنا

میرے ہاتھوں کئی جنت کی ہوا تک پہونچے

تو پولس والوں کے ڈنڈوں کی کرامت مت پوچھ

کتنے ہی بندے خدا اپنے خدا تک پہونچے

 

عید قرباں

 

نئے کپڑے نئے جوتے نئے زیور نئے کھانے

مہیّا جیب سے اپنی سبھی سامان ہوتا ہے

ہر اک عید البقر پر مہنگے بکتے ہیں بہت بکرے

مگر شوہر بچارا مفت میں قربان ہوتا ہے

 

 

بلینک چیک

 

بیلن سے صبح شام کیا کرتی ہے اٹیک

سرمائے دارگھرسے ہے تھوڑی سی ہے کریک

سسرال سے ہی چلتا ہے گھر اپنا دوستو

شاعر ہوں میں بلینک اور بیوی بلینک چیک

 

کار

 

کار عظمت کی علامت بن گئی ہے آج کل

چودھری افسر ہیں لیڈر یا کہ ٹھیکیدار ہیں

کار والے کار آمد ہیں یہاں پر دوستو

اور جو ان کے علاوہ ہیں سبھی بے کار ہیں

 

 

حج

 

عید ہے چھت پر مرے محبوب کے آنے کا نام

اور محرّم روڈ پر چپل سے پٹ جانے کا نام

آپ کو معلوم کیا ہے نوجوانوں کے لیئے

حج طوافِ گرلز کالج روز فرمانے کا نام

 

نیا سال

 

یہ سال نیا علوی کس طرح مبارک ہو

جالے بھی پرانے ہیں جالی بھی پرانی ہے

یہ سال نیا آیا کچھ بھی تو نہیں بدلا

بیوی بھی بھی پرانی ہے سالی بھی پرانی ہے

 

 

نذرِ ماجد دیو بندی

 

برکت معہ سامان کے جب سے ہوا غائب

برکت کا مرے گھر کوئی سامان نہیں ہے

دو روز سے یارو مری بیوی ہے بہت خوش

دو روز سے گھر میں کوئی مہمان نہیں ہے

 

قصور

دلی دور درشن پر ایک معتبر شاعر کونہ بلائے جانے کی شکایت کے پس منظر میں

 

تیرا قصور یہ ہے تو شاعر ہے با وقار

اُس کو حسد ہے تیرے معیاری کلام سے

تیرا شمار ہوتا اگر شاعرات میں

’انجم‘  تجھے بلاتا بڑے احترام سے

 

نذرِ شہر یار

 

برجستہ لطائف پہ بھی ہنستا نہیں کوئی

چہرہ گل و گلزار بھی ویران سا کیوں ہے

ہر کوئی تو شادی شدہ مجھ کو نہیں لگتا

’اس شہر میں ہر شخص پریشان سا کیوں ہے ‘

 

پائے کا شاعر

 

سویرا ہوتے ہی پائے کھلائے بکرے کے

اُڑد کی دال کو سبزی کو دربدر کر دے

مجھے بھی اہلیہ پائے کا مان لے شاعر

’’مرے خدا مجھے اتنا تو معتبر کر دے ‘‘

 

قرآن کا پیغام

 

ہم کیوں ہیں احادیث و روایات کے پیچھے

قرآن کیا اللہ کا پیغام نہیں ہے

اسلام وہ جو آج تک ملّا نے نہ سمجھا

جو سمجھا ہے در اصل وہ اسلام نہیں ہے

 

 

پری کوشن

 

بند آنکھوں سے کسی پر بھی بھروسہ نہ کرو

ہر کوئی شہر میں ہے کام دکھانے والا

پل میں ہو جاتی ہے انگلی سے انگوٹھی غائب

’’دوست ہوتا نہیں ہر ہاتھ ملانے والا‘‘

 

 

ساحر سے معذرت کے ساتھ

 

ہمیشہ مجھ سے کہتا ہے یہ رمضانی مجھے دے دو

تم اپنی بے وقوفی اور نادانی مجھے دے دو

نظر بیوی پہ جاتی ہے کوئی جب گنگناتا ہے

’’تم اپنا رنج و غم اپنی پریشانی مجھے دے دو‘‘

 

نذرِ فیض احمد فیض

 

بغیر انگلی کٹائے شہیدِ اعظم ہوں

جہاں کو ایسے بھی پہنائیں ٹوپیاں میں نے

وہ خون مرغ کا تھا اور سبھی نے یہ جانا

’’ کہ خونِ دل میں ڈبو لی ہیں انگلیاں میں نے ‘‘

 

 

آسمانی بلا

 

نہیں محفوظ کوئی بھی، ہے شوقِ شوہری جس کو

یہ آفت سب پہ آئی ہے، یہ آفت سب پہ آنی ہے

اگر سچ ہے بنا کرتے ہیں جوڑے آسمانوں پر

تو یوں سمجھیں کہ ہر بیوی بلائے آسمانی ہے

 

پیاری بیوی

 

موٹی ہو کہ پتلی ہو ہلکی ہو کہ بھاری ہو

بیوی وہ تمہاری یا بیوی وہ ہماری ہو

ہر عمر کے شوہر کا علوی ہے یہی کہنا

بیوی وہی پیاری جو اللہ کو پیاری ہو

 

 

 

 

ہزل

 

مرا پڑوسی کوئی مالدار تھوڑی ہے

یہ کار بینک کی ہے اس کی کار تھوڑی ہے

 

ہر اک ملک میں جائیں گے کھائیں گے جوتے

کہ بزدلوں میں ہمارا شمار تھوڑی ہے

 

خدا کا شکر ہے چکرّ کئی سے ہیں اپنے

بس ایک بیوی پہ دارو مدار تھوڑی ہے

 

گلے میں ڈال کے باہیں سڑک پہ گھومیں گے

ہے نقد عشق ہمارا ادھار تھوڑی ہے

 

ہمارا پیار جو قاضی نکاح تک پہونچے

’’ہمارے بیچ کوئی اتنا پیار تھوڑی ہے‘‘

 

جو فون بند رکھوں کال نہ اٹھاؤں میں

کسی کے باپ کا مجھ پہ ادھار تھوڑی ہے

 

 

 

 

نذرِ فصیح اکمل قادری

 

میں زلفِ گرہ گیر میں جب سے ہوا اسیر

کیا نیند ہے اس دن سے جماہی نہیں آئی

قاضی سے تین بار کہا تھا قبول ہے

’’پھر اس سے بڑی دل پہ تباہی نہیں آئی‘‘

 

بچارہ شوہر

 

شوہر بچارہ آج سلاخوں میں قید ہے

بیوی کی خدمتوں کا مزا جان تو گیا

ٹانگیں کہی تھیں، اس نے گلا بھی دبا دیا

’’الٹی شکایتیں ہوئیں احسان تو گیا‘‘

 

کاروبار

 

ہو ٹیٹوا بھی غضب کا، ادائیں بھی قاتل

مشاعروں میں تو شاعر بھی گلوکار چلے

نہ میں ہوں فلم کا شاعر، نہ میں پروفیسر

تو کیسے شعر و ادب کا یہ کاروبار چلے

 

 

نکاح نامہ

 

ہر ایک عہد نامے کا ہوتا ہے اختتام

وہ حزنیہ ہو، طربیہ ہو، یا ہو حشر خیز

ہوتی نہیں ہے جس کی کوئی ایکسپائری

علوی نکاح نامہ ہے ایک ایسا دستاویز

 

دین داری

 

میں سمجھتا ہوں پریشاں آپ ہیں علوی بہت

سو روپے کی دین داری بن گئی ہے پروبلم

خوش ہیں امبانی برادر لے کے سو دو سو کروڑ

کیونکہ یہ ان کی نہیں ہے بینک کی ہے پرابلم

 

 

غذا

 

ریت اور روڑی بدر پور ہیں پسندیدہ غذا

کیا کہیں سیمینٹ کا تو لاکھوں کٹّا کھا گیا

پیٹ بھرتا ہی نہیں یہ پیٹ یا پاتال ہے

ایک لیڈر پانچ ٹن اسٹیل سریا کھا گیا

 

 

الجھن

 

اک مولوی کا سوکھا ہوا درس ہو گئی

پوئم بڑے مزے کی تھی جو ورس ہو گئی

 

نوٹوں سے بھرا قیمتی اک پرس ہو گئی

اک ڈاکٹر کی بیوی کہ جب نرس ہو گئی

 

اب جب بھی اسپتال میں رہتے ہیں ڈاکٹر

سسٹر ہی اپنی بیوی کو کہتے ہیں ڈاکٹر

 

 

 

 

میٹر

 

 

نس بندی ٹیم گاؤں میں آئی جو دو بارا

اعلان کر کے گاؤں کے لوگوں کو پکارا

گاؤں کی عورتوں کو ہوا یہ نہ گوارا

یہ کہہ کے ساری عورتوں نے ٹیم کو مارا

پہلے گئے تھے مردوں کی لائین اجاڑ کے

اس بار کیا لے جاؤ گے میٹر اکھاڑ کے

 

 

 

 

مزاحیہ رباعی

(نذرِ جوش ملیح آبادی)

 

 

شوہر تری زندگی پہ دل ہلتا ہے

تو تو چوبیسوں گھنٹے پلتا ہے

بولا شوہر کہ اس زمانے میں

یہ بھی اعزاز کسے ملتا ہے

 

 

 

مزاحیہ رباعی

(نذرِ فرید پربتی)

 

اپنے ماں باپ کے گھر ہے بیگم

اب ہے کس بات کا غم بسم اللہ

خوبصورت ہے پڑوسن اپنی

عشق فرمائیں گے ہم بسم اللہ

 

اثرات

 

فلم ٹی وی دیکھنے کو آپ سمجھیں نہ فضول

نسلِ نو اثرات ان کے خوب کر تی ہے قبول

دیکھ کر آئی تھی بیوی فلم ’جڑواں ‘ نام کی

اس لیئے اس پر ہوا تھا جڑواں بچوں کا نزول

 

فوٹو

 

شادیاں فوٹوؤں سے ہوتی ہیں

یہ چلن واقعی کمال کا ہے

عمر میری پچاس پچپن ہے

میرا فوٹو توسولہ سال کا ہے

 

خوف

 

مجھے یہ خوف شب بھر چین سے سونے نہیں دیتا

خوشی جو مدتوّں کے بعد پائی ہے نہ کھو جائے

نہیں پڑھتا ہوں جا کر فاتحہ میں قبر پر اس کی

میری آواز سن کر اہلیہ زندہ نہ ہو جائے

 

 

 

تھری جی ٹو جی

 

 

ایک اسٹوڈینٹ نے اک دن یہ ٹیچر سے کہا

یہ بتائیں یہ تھری جی اور یہ ٹو جی ہے کیا

لفظ تو اخبار میں، میں نے بھی اکثر ہے پڑھا

نام ہے یہ مغربی بنگال کی اک قوم کا

اس طرح ہیں یہ تھری جی اور ٹوجی لفظ دو

جیسے ہوتے ہیں چٹر جی اور بینر جی دوستو

 

 

 

 

وقار

 

 

چھوڑ کر اپنی شرافت آپ نے

بخش دی شوہر کو عزت آپ نے

کیسے دکھلائی یہ ہمت آپ نے

کر دی بیگم کی مرمت آپ نے

ٹھوک کے جرمانہ مجھ پہ دس ہزار

بولا جج ہیں آپ شوہر کا وقار

 

 

 

فون نمبر

 

نام لکھئے احمد علوی شاعرِ طنز و مزاح

ان کے موبائل کی پھر دس نمبری لائن لکھیں

پہلے نائن اور زیرو، ون تھری ٹو پانچ ہے

پھر تھری ہے ایٹ فائیو لاسٹ میں نائن لکھیں

 

 

نذرِساحر لدھیانوی

 

مدھوبالا تھی تو میری، میں تیرا صاحب عالم

جو پہلی رات کو تھے ہم وہی بن جائیں ہم دونوں

پچھتر سال میں شوہر نے یہ بیوی سے فرمایا

’’چلو اک بار پھر سے اجنبی بن جائیں ہم دونوں ‘‘

 

خیریت

 

نہ ٹانگیں توڑنا اچھا، نہ سر کو پھوڑنا اچھا

جہاں پٹنے کا خدشہ ہو، وہاں سے دوڑنا اچھا

اگر معلوم ہو جائے وہ دختر ہے دروغہ کی

اسی میں خیریت ہے اس گلی کو چھوڑنا اچھا

 

 

گھر کے نہ گھاٹ کے

 

سکوں ہے زندگی میں اور نہ بعدِ مرگ آسانی

کہ سارے نامور دانشوروں کا ہے یہی کہنا

یہاں بیوی مسلّط ہے وہاں حوریں مسلّط ہیں

’’خدا کے نیک بندوں کی نہ یہ دنیا نہ وہ دنیا‘‘

 

اعتکاف

 

سکوں نصیب ہوا جا کے اس کو مسجد میں

بہت ہی خوش ہے بچارہ غلاف میں بیٹھا

خدا کا خوف نہیں خوف ہے یہ بیوی کا

کبھی کنوارہ کوئی اعتکاف میں بیٹھا

 

 

اردو

 

زندہ ہے یہاں اردو اسلامی مدرسوں سے

اردو میں ضیا ڈگری کے لٹّو سے نہیں ہے

تعلیم جو اردو کی الف بے سے نہیں ہو

اردو کی بقا شعبۂ اردو سے نہیں ہے

 

تمنا

 

نہ خوفِ آتشِ دوزخ نہ خواہش باغِ جنّت کی

تہجد کے نمازی کی بس اتنی سی تمنا ہے

بٹھا کر سامنے سلمیٰ،صبا، رخسانہ، سلطانہ

خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے

 

 

آم کی گٹھلیاں

 

آموں کی گٹھلیوں میں اور یار کے لبوں میں

کیسی غضب کی لذت کیسی مماثلت ہے

اک بار چوسیئے یا سو بار چوسیئے گا

جنّت میں بھی نہ پاؤ کچھ ایسی کیفیت ہے

 

استاد

 

اس الیکشن میں ضمانت بھی نہ بچ پائے گی

پار دریا یہ کرپشن میں نہیں کر سکتے

وہ یہ بولے کہ کرپشن کے تو استاد ہیں ہم

ہم کرپشن کیا الیکشن میں نہیں کر سکتے

 

 

 

 

لوک پال

 

جیلیں تمام بند کرا دے گا لوک پال

تھانے عدالتیں بھی مٹا دے گا لوک پال

 

راجہ ہریش چندر اب ہوں گے گلی گلی

بھگوان ڈاکوؤں کو بنا دے گا لوک پال

 

ڈھونڈے سے بھی ملے گا نہ اب کوئی بے ایمان

ایماندار سب کو بنا دے گا لوک پال

 

ہو جائیں گے فرشتہ صفت لیڈرانِ ملک

شیطانیت کو جڑ سے مٹا دے گا لوک پال

 

سارے بھرشٹ ملک سے ہو جائیں گے فرار

سولی پہ ایک اک کو چڑھا دے گا لوک پال

 

جس صبح کا ہے سارے زمانے کو انتظار

وہ انتظار ختم کرا دے گا لوک پال

 

ہم اہل ہند سے نہیں علوی کوئی نہیں بعید

جگنو کو ایک پل میں بنا دیتے ہیں خورشید

 

 

 

فرق

 

حلال و جھٹکے میں یارو یہی ہے فرق تھوڑا سا

کہ اک یک لخت ہے اور اک عذاب آہستہ آہستہ

قلم محبوبہ کر دیتی ہے سر کو ایک جھٹکے میں

یہ بیوی کرتی ہے خانہ خراب آہستہ آہستہ

 

 

شاعرِ اعظم

 

پھر بھی تو کوئی شاعر اعظم نہیں کہتا

دیوان کتنے حفظ ہیں اللہ قسم تمام

ساحر فراز فیض کا غالب کا، میر کا

چربہ ہمارے شعر ہیں اے محترم تمام

 

کنوینر

 

بزمِ شعراء میں گویوں کو بلانے والا

مسندِ صدر پہ جہلا کو بٹھانے والا

چار چھے بزمِ سخن کے ہیں لفافے اس پر

یہ جو اک شخص ہے منھ پھیر کے جانے والا

 

 

عروضی

 

اک عروضی کو دکھایا انتخاب

کیا سے کیا یہ میرے ابّا ہو گیا

پہلے ہی کمزور تھا اپنا کلام

اب تو چوں چوں کا مرّبہ ہو گیا

 

انٹیرو گیشن

 

نہیں تھا گھر میں تمہارے سوا کوئی بیگم

بڑے سلیقے کا یہ اہتمام کس کا تھا

ہماری جیب سے دو سو روپے ہوئے غائب

اگر تمہارا نہیں تھا تو کام کس کا تھا

 

 

مفت کی ترکیب

 

ترکیب بتا تے ہیں یہ مفت میں ہم تم کو

بیوہ کو حقیقت میں گر بیوی بنا نا ہے

قاضی کی نہ کچھ حاجت بارات نہ باراتی

بس ’ہ ’کو ہٹانا ہے، اور ’ی‘ کو لگانا ہے

 

دوئی کم دو

 

کرتی ہے پوری پارٹی اک قوم کو ریجیکٹ

شو پیس ان کو چاہیئے اپنی دُکان میں

ملّت فروش یوں تو ہیں اس ملک میں بہت

اس پارٹی کو دو ملے ہندوستان میں

 

 

 

موڈرن ڈراکیولاز

 

 

ہے پسند خوں ہم کو عورتوں کا بچوں کا

خون روز پیتے ہیں خون سے نہاتے ہیں

 

بھونتے ہیں اوون میں لیگ پیس بچوں کے

نوجوان لاشوں کے دل دماغ کھاتے ہیں

 

کیا لذیذ ہوتا ہے اف عراقیوں کا خوں

جارج بش بلیئر کو فون پر بتاتے ہیں

 

چار شیر خواروں کا کل برین کھایا تھا

بچیوں کے لیور میں خوب ٹیسٹ آیا تھا

ترنم باز شاعر

 

واقعی تم ہو شاعر اعظم

سارے کنوینروں کی چاہ ہو تم

جاہلوں کے بنے ہو تم غالب

گانے والوں کے بادشاہ ہو تم

 

 

نذر بشیر بدر

 

ایک بیوی پہ ہی الزام ہے کیوں

سالے اور سالیوں نے کوٹا ہے

جیسے شوہر پرانی دلّی ہے

’’جو بھی آئی اسی نے لوٹا ہے ‘‘

 

 

عمرِ خضر

 

عذابِ جان ہے سمجھو اگر یہ بے عیبی

شریف سادہ دلوں میں شمار ہونا بھی

چھری سے آپ ہیں محفوظ اللہ والوں کی

کہ عمرِ خضر ہے یہ عیب دار ہونا بھی

 

 

 

 

نہلے پہ دہلہ

 

تنخواہ جب نہیں ملی اک نوجوان کو

پی کر شراب خط یہ لکھا اپنی جان کو

 

تنخواہ تو نہیں لگی اس ماہ میرے ہاتھ

سو کس یہ تم کو بھیج رہا ہوں میں خط کے ساتھ

 

لکھا کہ اس مہینے انہیں سے چلاؤ کام

اس ماہ ہو سکے گا نہ پیسوں کا انتظام

 

چھے دن کے بعد بیوی نے خط کا دیا جواب

سو کس کا اس طرح ہے سمجھ لیجئے حساب

 

مالک مکان تیس سے کم میں نہیں پٹا

دھوبی نے پورے دس لیئے اک بھی نہیں گھٹا

 

بوبی کا ماسٹر بھی پورے بیس لے گیا

اس طرح ایک ماہ کی وہ فیس لے گیا

 

راشن کی دوکاں والا بڑا نکلا حرامی

کس سے بھی کچھ آگے بڑھیں کہتا تھا حرامی

 

جب مجھ کو لگا یہ کہ ہے کچھ دال میں کالا

میں نے بھی حرامی کو فقط پانچ میں ٹالا

 

پینسٹھ ہوئے ہیں خرچ ابھی تک حساب کے

پینتیس ابھی محفوظ ہیں بوسے جناب کے

 

 

 

ہندی کوی

 

 

جن کا مولک ہے کویتا لیکھن

ہیں کہاں ان پہ کوی سمیلن

 

مسخرے بن گئے مہان کوی

بیکانیری رہے نہ ہاتھرسی

 

چٹکلہ منچ پر سنانے کی

جن کو آئے کلا ہنسانے کی

 

آج کل ہیں وہی مہان کوی

اور باقی ہیں بے نشان کوی

 

بندروں جیسی شکل کرتے ہیں

جانی لیور کی نقل کرتے ہیں

 

مسخرے ہو رہے ہیں سمّانت

اور کوی ہو رہے ہیں اپمانت

 

ہاسیہ رس کا مہارتھی ہے کون

بیکا نیری ہے ہاتھرسی ہے کون

 

درشکوں کو ہنسایا کرتے تھے

کب لطیفے سنایا کرتے تھے

 

بات سے بات پیدا کرتے تھے

چار سے سات پیدا کرتے تھے

 

چٹکلے پر لکھی کویتا ایک

اس کویتا کے رچنا کار انیک

 

کوئی کہتا ہے اسے حقّہ کی

کوئی کہتا ہے اسے تکّہ کی

 

اس کو سردار بھی پڑھ لیتا ہے

چٹکلہ ہر کوئی گڑھ لیتا ہے

 

چٹکلوں پر لکھی کویتائیں

تالیاں درشکوں سے بجوائیں

 

چٹکلے باز سب ڈیمانڈ پہ ہیں

باقی سارے کوی ریمانڈ پہ ہیں

 

چٹکلوں پر کوی کا ماننا ہے

کیا کوی ہے سبھی کا ماننا ہے

 

چٹکلہ کیا کسی کے باپ کا ہے

جو سنائے اسی کے باپ کا ہے

 

 

 

بزرگ

 

بزرگوں کو روکے نہ ٹوکے کوئی

خدا نے بھی رکھا ہے ان کو کھلا

خطا پر خطا کرتے ہیں اس لیے

’’خطائے بزرگاں گرفتن خطا‘‘

 

 

فریاد

 

جو اسیرِ گیسوئے بیگم رہا

ہاتھ میں لاٹھی کمر میں خم رہا

چین اک پل کو نہیں پایا کبھی

’ غم رہا جب تک کہ دم میں دم رہا ‘

 

مرثیہ

 

ہم پہ ڈھائے گئے کیسے کیسے ستم

وہ چچی بن گئیں ہم چچا ہو گئے

میر و غالب کی کہتے تھے جن کو غزل

دیکھتے دیکھتے مرثیہ ہو گئے

 

 

فکس

 

نو بال فکس چھکہ بھی چوکا بھی فکس ہے

آؤٹ بھی رن آؤٹ بھی ہوتا ہے کیچ فکس

شرفاء کا نہیں اب تو یہ دولت کا کھیل ہے

کہتے ہیں کہ کرکٹ کا ہے ہر ایک میچ فکس

 

اہتمام

 

میں کر رہا ہوں ان کی تباہی کی دعائیں

جو کر رہے ہیں میرے جنازوں کا اہتمام

میدانِ کارزار میں مرنا نہیں آساں

آساں ہے مصلّوں پہ نمازوں کا اہتمام

 

 

دعا

 

وہ بناتے رہے ہتھیار تباہی کے نئے

ہم شہیدوں کے مزاروں پہ ہوا کرتے رہے

کر لیئے آسماں تسخیر کرنے والوں نے

ہم سے کچھ ہو نہیں سکتا تھا دعا کرتے رہے

 

پیٹیا

 

اب یہ تحقیق سے ہوا ثابت

سچ کا سب کو پتہ نہیں ہوتا

آپریشن سے جو نہ پیدا ہو

آدمی پیٹیا نہیں ہوتا

 

 

قربانی کا بکرا

 

اس کے چہرے پر نہ کوئی داغ دھبّہ چاہیئے

رنگ انگریزوں سے گورا ہٹا کٹا چاہیئے

اپنی ہر بگڑیل دختر کے لیئے ماں باپ کو

اک شریف النفس قربانی کا بکرا چاہیئے

 

نذرِ شہریار

 

پھانسی پہ جھول جاؤں یہی چاہتا ہے وہ

دشمن ہے میری جان کا یہ مان لیجئے

دل جب بھی اس سے مانگتا ہوں کہتا ہے یہی

’’دل چیز کیا ہے آپ میری جان لیجئے‘‘

 

 

نیا سال

 

لرزتے تاروں کی ضو مبارک

نئے چراغوں کی لو مبارک

گئے برس کی ہے آخری شب

سبھی کو ہو سالِ نو مبارک

 

افتخار امام صدیقی

 

صنعتِ نثر ہو یا نظم کے رنگ

کوئی موضوع صرف لکھنا کام

وہ ہے لکھنے کی اک خود کار مشین

نام ہے اس کا افتخار امام

 

 

انّا ہزارے

 

ہر عمل سے اور ہر تحریک سے

لگتا ہے یہ بھاجپا کا ٹول ہے

کر دیا ہے آر ایس ایس نے خراب

آدمی تو انّا بھی معقول ہے

 

سلیم جاوید

 

آگ تھے دو ہزار ڈگری کی

ایک قالب تھے جب یہ بڑ بولے

بن گئی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد

اب ہیں دونوں بجھے ہوئے شعلے

 

 

آج کا نوجوان

 

ابھی ہے عمر سولہ کی میں دسویں فیل ہوں لیکن

جوانی والے سارے کام لیکن کر چکا ہوں میں

نمازی ہوں نہ غازی ہوں فقط عاشق مجازی ہوں

کوئی دو سو حسیناؤں پہ اب تک مر چکا ہوں میں

 

دیر آید

 

پچاس سال میں پیغام آیا شادی کا

جواب دے گئے یہ پھیپڑے یہ ناف نلے

معانی ہو گئے مفقود روشنی کے جب

’’جلے چراغ مگر دیر سے چراغ جلے ‘‘

 

 

بے دم شاعری

 

عقل مندی کی انتہا دیکھو

مرتبہ میرا محترم کم تھا

رکشہ والے کے ساتھ بھاگ گئی

کیا مری شاعری میں دم کم تھا

 

مردہ پرست

 

تھا حوصلہ سورج سے بھی آنکھ ملانے کا

ذرّوں کو عظیموں نے لیکن نہیں پہچانا

تعریف میں مردوں کی توڑے ہیں قلم سب نے

زندوں کو عظیموں نے لیکن پہچانا

 

 

یو این او

 

ایک ڈنڈے سے سبھی کو ہانکا جاتا ہے یہاں

ناک میں سب کی یہاں پر ڈالی جاتی ہے نکیل

در حقیقت دوستو یو این او کہتے ہیں جسے

کچھ نہیں ہے صرف امریکہ کی ہے پیئنگ رکھیل

خوف

 

ڈائس پہ کیسے آؤں تجھے دیکھنے کے بعد

کس کی غزل سناؤں تجھے دیکھنے کے بعد

چربہ تری غزل کا ہے میری غزل کے شعر

سوچا ہے بھاگ جاؤں تجھے دیکھنے کے بعد

 

 

یس مین

 

 

بے ضمیروں کو ملے گی ترجیح

دل کی نہ برین کی ضرورت ہے

ہر سیاسی بڑی جماعت کو

ایک یس مین کی ضرورت ہے

 

پاپولر

 

ہر گدھا شہرتیں پا رہا ہے یہاں

متفق ہیں سبھی آج اہل نظر

کہہ گئے ہیں یہ کیا خوب فقرہ فراق

’’ایوری ایڈیٹ بی کم اے پاپولر ‘‘

 

 

حسبِ حال

 

مواقع عاشقی کے مل رہے ہیں

مزے میں عاشقوں کی کٹ رہی ہے

گریباں چاک نہ صحرا نوردی

جب اپنے آپ لیلیٰ پٹ رہی ہے

 

 

طمانچے کی صدا

 

یہ رعونت یہ غرور و تمکنت یہ طنطنہ

یہ جسارت اور یہ عزم و عمل یہ حوصلہ

 

ناقدِ دوراں کے یہ تیور تو دیکھیں اہلِ بزم

چاہتا ہے منتشر ہو محفلِ اجرا کا نظم

 

طنز علوی پہ یہ کرتا ہے بڑی خوبی کے ساتھ

جیسے عاشق کھیلتا ہو حسنِ محبوبی کے ساتھ

 

قد مناسب گندمی رنگ اور بے ترتیب دانت

پیٹھ سے ہے پیٹ ہم رشتہ کہ ہے خالی ہر آنت

 

ان کی پیشانی ہے کہ بستر کوئی سلوٹ زدہ

یا کوئی بیمار اجل کے خوف سے کروٹ زدہ

 

میر کی دلّی میں دیکھو جس قدر بے کار ہیں

سارے ان کے ہم قدم ہیں سارے ان کے یار ہیں

 

سر پھرے لوگوں کی صحبت میں رہا کرتے ہیں

قاسمی کی دوستی کا دم بھرا کرتے ہیں یہ

 

شمس رمزی انور و اقبال ہم رفتار ہیں

ان کے سر کی محترم فاروق بھی دستار ہیں

 

اور اک شہباز بھی ہے حسنِ اسود کی مثال

جس کا حالِ زار ہے بوسیدہ مرقد کی مثال

 

اُڑتا رہتا ہے فضاؤں میں بگولوں کی طرح

دیدہ دشمن میں چبھتا ہے جو شولوں کی طرح

 

یعنی جو بھی یار ہے ان کا بہت ہی تیز ہے

ہاں ! جسے ہم گائے کہہ سکتے ہیں وہ پرویز ہے

 

اور بھی کچھ حلقہ احباب میں اشخاص ہیں

کچھ گویّے کچھ ڈرامائی ہیں کچھ رقّاص ہیں

 

چھوڑیئے اس قصہ پارینہ میں رکھّا ہے کیا

اب جو کہنے والا ہوں وہ غور سے سنیئے ذرا

 

ایک مصرعہ ہے زباں پہ میری سکتے کی طرح

ہے یہ میری عاجزی بھی یعنی پنگے کی طرح

اک عدد مجموعہ جو آیا طمانچے کی طرح

 

عرض کرتا ہوں اگر ہو خیر میری جان کی

احمدِ علوی پہ ہے یہ مہر ناصر خان کی

 

بے پروف اک نظم ہے یا جلوہ روئے جمال

جس سے ہوتے ہیں عیاں حسنِ تخئیل کے کمال

 

صرفِ بے جا بھی ہے لفظوں کاسخن پیرائے میں

جس طرح بیمار کوئی زندگی کے سائے میں

 

نشّہ عشرت میں پل پل مست لہراتے ہوئے

طے سفر فن کا کیا ہے ٹھوکریں کھاتے ہوئے

 

کی تھی جس نے جنبش لب آج حق گوئی کے ساتھ

جس نے فرمایا تھا یہ محفل میں گستاخی کے ساتھ

 

اک طمانچہ اس پہ برجستہ جڑا ہے پڑاخ سے

جھڑ گئیں ہیں ساری کلیاں چشم نم کی شاخ سے

 

کام یہ جس دم لیا ہے جرت بے باک سے

خون کی پچکاریاں چھوٹی ہیں منھ کے چاک سے

 

دیکھ کر شہباز نے نقشہ یہ محفل میں کہا

دیر تک گونجے گی علوی کے طمانچے کی صدا

٭٭٭

تشکر:

www.kitaabapp.com

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید