FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

جگنوؤں کے سے لمحے

 

 

 

                زہراؔ نگاہ

انتخاب: سعدیہ آصف

جمع و ترتیب: اعجاز عبید

 

 

 

 

 

کہاں گئے مرے دلدار و غمگسار سے لوگ

وہ دلبرانِ زمیں، وہ فلک شعار سے لوگ

 

وہ موسموں کی صفت سب کو باعثِ تسکیں

وہ مہر و مہ کی طرح سب پہ آشکار سے لوگ

 

ہر آفتاب سے کرنیں سمیٹ لیتے ہیں

ہمارے شہر پہ چھائے ہوئے غبار سے لوگ

 

ہم ایسے سادہ دلوں کی کیں پہ جا ہی نہیں

چہار سمت سے اُمنڈے ہیں ہوشیار سے لوگ

 

لہو لہو ہوں جب آنکھیں تو کیسا وعدۂ دید

چلے گئے ہیں، سرِ شام کوئے یار سے لوگ

 

نسیم صبح کے جھونکے ہمیں بھی چھو کے گزر

ہمیں بھی یاد ہیں کچھ موسمِ بہار سے لوگ

٭٭٭

 

 

 

 

 

یہ کیا ستم ہے کوئی رنگ و بو نہ پہچانے

بہار میں بھی رہے بند تیرے مے خانے

 

فنا کے زمزمے رنج و محن کے افسانے

یہی ملے ہیں نئی زندگی کو نذرانے

 

تری نگاہ کی جنبش میں اب بھی شامل ہیں

مری حیات کے کچھ مختصر افسانے

 

جو سن سکو تو یہ سب داستاں تمہاری ہے

ہزار بار جتایا مگر نہیں مانے

 

جو کر گئے ہیں جدا ایک ایک سے ہم کو

دیار غرب سے آئے تھے چند بیگانے

٭٭٭

 

 

 

 

 

یہ سچ ہے یہاں شور زیادہ نہیں ہوتا

گھر بار کے بازار میں پر کیا نہیں ہوتا

 

جبر دل بے مہر کا چرچا نہیں ہوتا

تاریکیِ شب میں کوئی چہرہ نہیں ہوتا

 

ہر جذبۂ معصوم کی لگ جاتی ہے بولی

کہنے کو خریدار پرایا نہیں ہوتا

 

عورت کے خدا دو ہیں حقیقی و مجازی

پر اس کے لیے کوئی بھی اچھا نہیں ہوتا

 

شب بھر کا ترا جاگنا اچھا نہیں زہراؔ

پھر دن کا کوئی کام بھی پورا نہیں ہوتا

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

یہ اداسی یہ پھیلتے سائے

ہم تجھے یاد کر کے پچھتائے

 

مل گیا تھا سکوں نگاہوں کو

کی تمنا تو اشک بھر آئے

 

گل ہی اکتا گئے ہیں گلشن سے

باغباں سے کہو نہ گھبرائے

 

ہم جو پہنچے تو رہ گزر ہی نہ تھی

تم جو آئے تو منزلیں لائے

 

جو زمانے کا ساتھ دے نہ سکے

وہ ترے آستاں سے لوٹ آئے

 

بس وہی تھے متاع دیدہ و دل

جتنے آنسو مژہ تلک آئے

٭٭٭

 

 

 

 

یوں کہنے کو پیرایۂ اظہار بہت ہے

یہ دل دل ناداں سہی خوددار بہت ہے

 

دیوانوں کو اب وسعت صحرا نہیں درکار

وحشت کے لیے سایۂ دیوار بہت ہے

 

بجتا ہے گلی کوچوں میں نقارۂ الزام

ملزم کہ خموشی کا وفادار بہت ہے

 

جب حسن تکلم پہ کڑا وقت پڑے تو

اور کچھ بھی نہ باقی ہو تو تکرار بہت ہے

 

خود آئینہ گر آئینہ چھوڑے تو نظر آئے

دہکا ہوا ہر شعلۂ رخسار بہت ہے

 

منصف کے لیے اذن سماعت پہ ہیں پہرے

اور عدل کی زنجیر میں جھنکار بہت ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 ہم لوگ جو خاک چھانتے ہیں

مٹی سے گہر نکالتے ہیں

 

ہے شعلۂ دیں کہ شمع کفر

پروانے کہاں یہ جانتے ہیں

 

اس گنبد بے صدا میں ہم لوگ

الفاظ کے بت تراشتے ہیں

 

اے سایۂ ابر اب تو رک جا

اک عمر سے دھوپ کاٹتے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

 ہر خار عنایت تھا تو ہر سنگ صلہ تھا

اس راہ میں ہر زخم ہمیں راہنما تھا

 

کیوں گھر کے اب آئے ہیں یہ بادل یہ گھٹائیں

ہم نے تو تجھے دیر ہوئی یاد کیا تھا

 

اے شیشہ گرو کچھ تو کرو آئینہ خانہ

رنگوں سے خفا رخ سے جدا یوں نہ ہوا تھا

 

ان آنکھوں سے کیوں صبح کا سورج ہے گریزاں

جن آنکھوں نے راتوں میں ستاروں کو چنا تھا

٭٭٭

 

 

 

 

 

 کیوں اے غم فراق یہ کیا بات ہو گئی

ہم انتظار صبح میں تھے رات ہو گئی

 

بہکے ہوئے بھٹکتے ہوئے کارواں کی خیر

رہبر سے راہزن کی ملاقات ہو گئی

 

دیوانگی کی خیر نہ مانگیں تو کیا کریں

دیوانگی ہی راز عنایات ہو گئی

 

سینوں میں سوز و ساز محبت نہیں رہا

دنیا رہین گردش حالات ہو گئی

 

لو ڈوبتوں نے دیکھ لیا ناخدا کو آج

تقریب کچھ تو بہر ملاقات ہو گئی

٭٭٭

 

 

 

 

 کوئی ہنگامہ سر بزم اٹھایا جائے

کچھ کیا جائے چراغوں کو بجھایا جائے

 

بھولنا خود کو تو آسان ہے بھلا بیٹھا ہوں

وہ ستم گر جو نہ بھولے سے بھلایا جائے

 

جس کے باعث ہیں یہ چہرے کی لکیریں مغموم

غیر ممکن ہے کہ منظر وہ دکھایا جائے

 

شام خاموش ہے اور چاند نکل آیا ہے

کیوں نہ اک نقش ہی پانی پہ بنایا جائے

 

زخم ہنستے ہیں تو یہ فصل بہار آتی ہے

ہاں اسی بات پہ پھر زخم لگایا جائے

٭٭٭

 

 

 

 

 

 وہ جو اک شکل مرے چار طرف بکھری تھی

میں نے جب غور سے دیکھا تو مری اپنی تھی

 

پھر اسیروں پہ کسی خواب نے جادو ڈالا

رات کچھ حلقۂ زنجیر میں خاموشی تھی

 

یوں تو آداب محبت میں سبھی جائز تھا

پھر بھی چپ رہنے میں اک شان دلآویزی تھی

 

رات بھر جاگنے والوں نے پس شمع زرد

صبح اک خواب کی صورت دیکھی تھی

 

شورش شعر میں خاموش سی کیوں ہے زہراؔ

اچھا خاصا تو کبھی وہ بھی کہا کرتی تھی

٭٭٭

 

 

 

 

 

 وحشت میں منت کش صحرا نہیں ہوتے

کچھ لوگ بکھر کر بھی تماشا نہیں ہوتے

 

جاں دیتے ہیں جاں دینے کا سودا نہیں کرتے

شرمندۂ اعجاز مسیحا نہیں کرتے

 

ہم خاک تھے پر اسے دیکھا تو بہت روئے

سنتے تھے کہ صحراؤں میں دریا نہیں ہوتے

 

اک تار گریباں کا رہے دھیان کہ سب لوگ

محفل میں تو ہوتے ہیں شناسا نہیں ہوتے

٭٭٭

 

 

 

 

 

تیرا ستم ہم پہ عام دیکھیے کب تک رہے

تلخیِ دوراں پہ دیکھیے نام کب تک رہے

 

چھا گئیں تاریکیاں کھو گیا حسن نظر

وعدۂ دیدار عام دیکھیے کب تک رہے

 

اہل خرد سست رو اہل جنوں تیز گام

شوق کا یہ اہتمام دیکھیے کب تک رہے

 

صبح کے سورج کی دیکھیے ضو کب تک نہ آئے

دہر پہ یہ رنگ شام دیکھیے کب تک رہے

٭٭٭

 

 

 

 

 قربتوں سے کب تلک اپنے کو بہلائیں گے ہم

ڈوریاں مضبوط ہوں گی چھٹتے جائیں گے ہم

 

تیرا رخ سائے کی جانب میری آنکھیں سوئے مہر

دیکھنا ہے کس جگہ کس وقت مل پائیں گے ہم

 

گھر کے سارے پھول ہنگاموں کی رونق ہو گئے

خالی گلدانوں سے باتیں کر کے سو جائیں گے ہم

 

ادھ کھلی تکیے پہ ہو گی علم و حکمت کی کتاب

وسوسوں وہموں کے طوفانوں میں گھر جائیں گے ہم

 

اس نے آہستہ سے زہراؔ کہہ دیا دل کھل اٹھا

آج سے اس نام کی خوشبو میں بس جائیں گے ہم

٭٭٭

 

 

 

 

 

 رک جا ہجوم گل کہ ابھی حوصلہ نہیں

دل سے خیال تنگیِ داماں گیا نہیں

 

جو کچھ ہیں سنگ و خشت ہیں یا گرد رہگزر

تم تک جو آئے ہیں ان کا کوئی نقش پا نہیں

 

ہر آستاں پہ لکھا ہے اب نام شہریار

وابستگان دل کے لئے کوئی جا نہیں

 

صد حیف اس کے ہاتھ ہے ہر زخم کا رفو

دامن میں جس کے ایک بھی تار وفا نہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

رشتے سے محافظ کا خطرہ جو نکل جاتا

منزل پہ بھی آ جاتے نقشہ بھی بدل جاتا

 

اس جھوٹ کی دلدل سے بھی باہر نکل آتے

دنیا میں بھی سر اٹھتا اور گھر بھی سنبھل جاتا

 

ہنستے ہوئے بوڑھوں کو قصے کئی یاد آتے

روتے ہوئے بچوں کا رونا بھی بہل جاتا

 

کیوں اپنے پہاڑوں کے سینوں کو جلاتے ہم

خطرہ تو محبت کے اک پھول سے ٹل جاتا

 

اس شہر کو راس آئی ہم جیسوں کی گم نامی

ہم نام بتاتے تو یہ شہر بھی جل جاتا

 

وہ ساتھ نہ دیتا تو وہ داد نہ دیتا تو

یہ لکھنے لکھانے کا جو بھی ہے خلل جاتا

٭٭٭

 

 

 

 

 رات گہری تھی پھر بھی سویرا سا تھا

ایک چہرہ کہ آنکھوں میں ٹھہرا سا تھا

 

بے چراغی سے تیری مرے شہر دل

وادیِ شعر میں کچھ اجالا سا تھا

 

میرے چہرے کا سورج اسے یاد ہے

بھولتا ہے پلک پر ستارہ سا تھا

 

بات کیجے تو کھلتے تھے جوہر بہت

دیکھنے میں تو وہ شخص سادہ سا تھا

 

صلح جس سے رہی میری تا زندگی

اس کا سارے زمانے سے جھگڑا سا تھا

٭٭٭

 

 

 

 

 

 دیر تک روشنی رہی کل رات

میں نے اوڑھی تھی چاندنی کل رات

 

ایک مدت کے بعد دھند چھٹی

دل نے اپنی کہی سنی کل رات

 

انگلیاں آسمان چھوتی تھیں

ہاں مری دسترس میں تھی کل رات

 

اٹھتا جاتا تھا پردۂ نسیاں

ایک اک بات یاد تھی کل رات

 

طاق دل پہ تھی گھنگھرؤں کی صدا

اک جھڑ یہ سی لگی رہی کل رات

 

جگنوؤں کے سے لمحے اڑتے تھے

میری مٹھی میں آ گئی کل رات

٭٭٭

 

 

 

 

 دل بجھنے لگا آتش رخسار کے ہوتے

تنہا نظر آتے ہیں غم یار کے ہوتے

 

کیوں بدلے ہوئے ہیں نگہِ ناز کے انداز

اپنوں پہ بھی اٹھ جاتی ہے اغیار کے ہوتے

 

ویراں ہے نظر میری ترے رخ کے مقابل

آوارہ ہیں غم کوچۂ دل دار کے ہوتے

 

اک یہ بھی ادائے دل آشفتہ سراں تھی

بیٹھے نہ کہیں سایۂ دیوار کے ہوتے

 

جینا ہے تو جی لیں گے بہرطور دوانے

کس بات کا غم ہے رسن و دار کے ہوتے

٭٭٭

 

 

 

 

تنِ نحیف سے انبوہ جبر ہار گیا

 

تنِ نحیف سے انبوہ جبر ہار گیا

اب آنسوؤں کے دھندلکے میں روشنی دیکھو

ہجومِ مرگ سے آوازِ زندگی کو سنو

سنو کہ تشنہ دہن مالکِ سبیل ہوئے

سنو کہ خاک بسر وارثِ فصیل ہوئے

ردائے چاک نے دستارِ شہ کو تار کیا

تنِ نحیف سے انبوہ جبر ہار گیا

سنو کہ حرص و ہوس، قہر و زہر کا ریلا

غبار و خار و خس و خاک ہی نے تھام لیا

سیاہیاں ہی مقدر ہوں جن نگاہوں کا

خدا بچائے ان آنکھوں کی شعلہ باری سے

ڈرو کہ زرد رخاں، نیم جاں و خستہ تناں

ہزار بار مرے اور لاکھ بار جیے !

وہ لوگ جن کو میسر نہ آئے مرہمِ وقت!

وہ لوگ تلخیِ تقدیر بانٹ لیتے ہیں

وہ ہاتھ جن پہ ہو نفرت کا زنگ صدیوں سے

وہ ہاتھ لوہے کی دیوار کاٹ دیتے ہیں

٭٭٭

ماخذ: اردوئے معلیٰ ڈاٹ کام

http://urdumualla.blogspot.com/

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید