FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

وہم زاد: جیتو جلاد

 

(ناول)

حصہ دوم

 

 

               ڈاکٹر سلیم خان

 

 

 

 

نینسی

 

 

رام جنک یوں تو کم تعلیم یافتہ تھا اسی کے ساتھ اس کا مطالعہ بھی محدود تھا لیکن اس کے باوجود اس کی دو خوبیوں نے اسے ایک کامیاب سیاستداں بنا دیا تھا۔ ایک تو وہ بلا کا مردم شناس تھا۔ وہ اکثر لوگوں کو بہت جلد پہچان لیتا تھا اور اکثر ان کے بارے میں اس کی رائے صحیح ہوتی تھی اسی کے ساتھ وہ فیصلے نہایت سرعت کے ساتھ کرتا تھا۔ اس کے حریف ابھی کسی نتیجے پر نہیں پہنچ پاتے تھے کہ وہ میدانِ عمل کود جاتا تھا۔ اس کے فیصلے کبھی کبھار غلط بھی ہوتے تھے لیکن اپنی رفتارِ کار کے سبب اسے اصلاح کا موقع مل جاتا تھا۔

رام جنک کو جب یہ پتہ چلا کہ رجنی کو لارسنس نے اپنی کفالت میں پیرس روانہ کر دیا ہے تو اس کی چھٹی حس بیدار ہو گئی۔ اس نے سوچا اب یہ ناسور اپنے حدود سے تجاوز کرنے لگا ہے اس لئے اس کا فوراً انتظام کر دیا جانا چاہئے۔ اس نے معلوم کیا کہ اسکول کا کیا حال تو اسے پتہ چلا رجنی کی غیر موجودگی میں ایک عیسائی راہبہ نینسی اس کا انتظام و انصرام کر رہی ہے۔ رام جنک نے اپنے قریبی ہمنواؤں کی فارم ہاؤس میں دعوت رکھی اور کھان پان سے قبل ان سے مشورہ طلب کیا۔

رام جنک کے دربار میں ویسے تو کئی لوگ تھے لیکن جیتندر والمیکی اس کا دست راست تھا۔ والمیکی کے والد نے ڈاکٹر امبیڈکر کی خدمت میں اپنی عمر کھپا دی تھی اور دلت سماج کو بیدارو منظم کرنے میں بڑا اہم کردار ادا کیا تھا لیکن جیتندر کا ان چیزوں سے کوئی سروکار نہیں تھا وہ تو بس دلت ووٹوں کی سیاست بلکہ تجارت کرتا تھا۔ کبھی کسی کے ہاتھ فروخت کر دیتا کبھی کسی کے ہاتھ بک جاتا گویا جو خریدار اچھی قیمت دیتا وہ اس کا ہمنوا بن جاتا۔ اس کی وفاداری صرف اور صرف دولت و اقتدار سے تھی۔ فی الحال وہ رام جنک کا ہنومان بنا ہوا تھا۔ مشورے کے دوران اکثر لوگوں کی رائے تھی کہ اس مرض کا علاج فوراً ہونا چاہئے چند ایک تو یہ بھی سوچتے تھے کہ رجنی کی واپسی سے قبل ہی اس پودے کو اکھاڑ کر پھینک دینا بہتر ہے۔ وہ جانتے تھے کہ رجنی کو ڈرانا دھمکانا آسان نہیں ہے اس لئے ارادہ کیا گیاکہ رجنی کی واپسی سے قبل کچھ ایسی شورش بپا کر دی جائے جس سے خوفزدہ ہو کر رجنی اور آکاش کے فرشتے بھی دوبارہ اس علاقے کا رخ کرنے کی جرأت نہ کرسکیں۔ اس مہم کی ذمہ دار ی جیتندر والمیکی کو سونپ دی گئی۔

جیتندر نے اس کام کے لیے سب سے پہلے جیل میں بندنکسلوادی نوجوانوں سے رابطہ قائم کیا اور ان لوگوں کا انتخاب کیا جو محض شک کی بنیاد پر یا دکھانے کے لیے گرفتار کر کے جیل کی سلاخوں کے پیچھے ٹھونس دئیے گئے تھے۔ ان لوگوں میں سے اس دیپک بھونیا کو اپنا راز دار بنا لیا ا اور وعدہ کیا کہ اگر وہ اس کا تعاون کرے تو اسے ساتھیوں سمیت رہائی مل جائے گی۔ دیپک بھونیا قبائلی نوجوان تھا مگر اس کے والد مذہبی کرم کانڈ کیا کرتے تھے اور قبائلی رسوم رواج کے لحاظ سے جنم مرن کے وقت ان کی خدمات حاصل کی جاتی تھیں۔ کبھی کبھار بھوت پریت کے خلاف منتر سنتر بھی کر دیا کرتے تھے۔ دیپک کو اپنے آبائی پیشے میں کوئی دلچسپی نہیں تھی اس لئے وہ انقلابیوں کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے لگا ا ور یہی جرم اسے دارورسن تک لے آیا۔

دیپک کے ذمہ یہ کام کیا گیا کہ جیل کے اندر دھرم کی رکشا کے نام پر چند نوجوانوں کا ایک گروہ تیار کرے۔ اس گروہ میں دس بارہ لوگ فوراً شامل ہو گئے اور ان تمام لوگوں سے رہائی کا وعدہ کر لیا گیا۔ اس کے بعد ذرائع ابلاغ میں قبائلی علاقوں کے اندر عیسائی مذہب کے خلاف پر تشدد احتجاج کی خبریں چھپنے لگیں۔ اس احتجاج کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں تھا بلکہ اس کی فلم اسٹوڈیو میں بنتی تھی۔ اس میں اشتعال انگیز تقاریر، نعرے بازی اور جھونپڑوں اور گاڑیوں کو جلتے ہوئے دکھلایا جاتا تھا۔ ٹی وی چینل والے ان خبروں کو نشر کرتے تھے۔ اخبار والے ان خبروں اور تصاویر شائع کرتے تھے۔

مبصر حضرات دانستہ و نادانستہ ان نام نہاد خبروں پر تبصرے کر کے اپنا زور قلم دکھلاتے تھے۔ کوئی دور دراز کے قبائلی علاقوں میں جا کر ان کی تصدیق کرنا گوارہ نہیں کرتا اس لئے کہ صحافیوں پر حملے اور ان کے اغواء کی خبر بھی اڑا دی گئی تھی اور انتظامیہ کی جانب سے اعلان کر دیا گیا تھا کہ وہاں جانے سے فی الحال گریز کیا جائے ورنہ تحفظ کی ذمہ داری پولس پر نہیں ہو گی۔ لوگ باگ ایک غیر موجود خوف سے سراسیمہ کر دئیے گئے تھے۔ چونکہ سیکولر برسرِ اقتدار جماعت کے زیر نگرانی ہندو دھرم کی رکشا کے لیے یہ کھیل کھیلا جا رہا تھا اس لئے حزب اختلاف فسطائی جماعت بھی اس کے خلاف کچھ بولنے کی جرأت نہیں کر پا رہی تھی۔

رائے پور کے اندر گرجا گھر کا انتظامیہ اس مسئلہ پر آپسی صلاح و مشورے میں مصروف تھا۔ وہ لوگ اسے محض ایک سیاسی شعبدہ بازی سمجھ رہے تھے۔ اس لئے کہ انہیں پتہ تھا ایسا کچھ بھی نہیں ہو رہا۔ عیسائی مشنری ابھی تک ان علاقوں میں متحرک و منظم نہیں ہو سکی ہے۔ اس بیچ اچانک یہ خبر آئی کہ غیر ملکی مشنری کے ایک خفیہ اڈے کو دھرم رکشک بلوائیوں نے جلا کر راکھ کر دیا اس لئے کہ اس میں عیسائیت کی تبلیغ کا بہت سارا مواد تھا اور اس کے ذریعہ سارے قبائلی علاقے کو عیسائی بنا دینے کی سازش رچی جا رہی تھی۔ اس مرکز میں ایک راہبہ اس وقت موجود تھی جو اس کے اندر جل مری۔ عیسائی چرچ کے اہلکار اس خبر سے چونک پڑے۔ انہوں نے لارسنس کے اندر موجود اپنے بہی خواہوں سے رابطہ کیا تو پتہ چلا کہ وہ خبر سچی ہے۔ یہ حملہ کسی مسیحی مرکز پر نہیں بلکہ اس مکان پر ہوا جس میں آدرش اسکول چلایا جا رہا تھا۔ خود لارسنس والوں کو اس کی توقع نہیں تھی کہ ہندو انتہا پسند اس اسکول کو نشانہ بنائیں گے جس کو قائم کرنے والے اور چلانے والے سب کے سب ہندو ہیں لیکن بدقسمتی سے جس وقت یہ ظالمانہ حرکت ہوئی اس وقت اس کے اندر نینسی نام کی راہبہ سو رہی تھی اور وہ ہلاک ہو گئی۔

اس کمرے میں نینسی کی موجودگی سیاسی دروغ گوئی کی تصدیق کرتی تھی۔ اس خبر کو جھٹلانے والے آدرش ٹرسٹ کے ذمہ داران یوروپ کی سیر کر رہے تھے اور ان کے مشن کو آگے بڑھانے والی بے لوث نینسی دارِ فانی سے کوچ کر گئی تھی۔ انتظامیہ نے سارے علاقے میں کرفیو نافذ کر کے باہر کے لوگوں کے داخلے پر پابندی لگا دی تھی۔ لارسنس والوں سے کہہ دیا گیا تھا کہ وہ اپنا دائرۂ کار محض اپنی سائٹ اور کیمپ تک محدود رکھیں۔ ورنہ قانون کی خلاف ورزی انہیں جیل بھجو ا سکتی ہے۔ عیسائی معززین شہر نے کالاہانڈی جانے کی کوشش کی تو انہیں حالات کی کشیدگی کا بہانہ بنا کر روک دیا گیا۔ جو لوگ بضد تھے انہیں گرفتار کر کے مجسٹریٹ کے سامنے حاضر کیا گیا اور فوراً ضمانت دے کر گھر روانہ کر دیا گیا۔ بالآخر وہ اس بات پر راضی ہو گئے کہ کم از کم نینسی کی لاش کو ان تک پہنچایا جائے تاکہ اس کی آخری رسوم ادا کی جا سکیں۔ انتظامیہ اس پر راضی ہو گیا۔

اس خبر نے فسطائی کیمپ میں کھلبلی مچا دی۔ ان کی اپنی صفوں میں اس واقعہ کے حوالے سے شدید اختلافِ رائے پایا جاتا تھا۔ اس اختلاف کا اظہار مختلف رہنماؤں کے ذریعہ ٹی وی چینلس پر ہو رہا تھا۔ سنگھ کے لوگ بھانت بھانت کی بولی بول رہے تھے۔ اعتدال پسند حضرات کہہ رہے تھے کہ ان کا اس گھناؤنی حرکت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ سب انہیں بدنام کرنے کی سازش ہے لیکن انتہا پسند طبقہ یہ جانتے بوجھتے بھی کہ ان کا اس میں کوئی کردار نہیں اس سے سیاسی فائدہ حاصل کرنا چاہتا تھا۔ اس سے انہیں عیسائیوں کے خلاف ہواّ کھڑا کر کے ہندو رائے دہندگان کو ورغلانے میں مدد ملتی تھی اس لئے وہ اسے عوام کے غم و غصہ کا فطری اظہار قرار دے رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ اگر مسیحیت کے سیلاب کو نہیں روکا گیا تو ایک دن سارا ملک اسی طرح شعلوں کی لپیٹ میں آ جائے گا۔ یہ فکری خلفشارتمام اخبارات پر چھایا ہوا تھا۔ اس ہنگامہ آرائی سے جنک رام اور جیتندر والمیکی لطف اندوز ہو رہے تھے اس لئے کہ اس سے ان کے جرائم کی مکمل پردہ پوشی ہو رہی تھی۔

نینسی کی لاش کے ساتھ شہر آنے والوں میں منکی، منگو، کھیتو، مینگھی اور جیتو بھی تھے۔ وہ لوگ اظہار عقیدت میں ساتھ چلے آئے تھے لیکن پولس نے انہیں بے حد خوفزدہ کر دیا تھا۔ انہیں ہدایت تھی کہ وہ صرف یہ بولیں کہ انہیں کچھ نہیں پتہ کہ اس رات کیا ہوا؟ یہ سارا واقعہ اس وقت ہوا جب وہ سب سو رہے تھے اور حقیقت بھی یہی تھی کہ رات کے اندھیرے میں جب یہ بزدلانہ حملہ ہوا سارے لوگ موت کی نیند سورہے تھے سوائے نینسی کے جو جاگ رہی تھی۔ وہ تنہا علم کے مینار کی مانند بیدار تھی لیکن افسوس کہ ظالموں اس چراغ کو بھی بجھا دیا تھا۔ اسلئے کہ اس نے تاریکی کے علمبرداروں کی نیند حرام کر دی تھی۔ معصوم راہبہ نینسی کو موت کی نیند سلا دیا گیا تھا جو اس شعر کی مصداق تھی؎

روشنی بانٹنے کی کوشش میں

اک دیا رات بھر نہیں سویا

جس روز لاجپت رائے ، آکاش آنند اور رجنی رائے پور پہنچے تمام اخبارات کے صفحہ اول پر نینسی کی تصویر چھپی ہوئی تھی پھولوں سے سجے اس کے تابوت کو شہر کے اسی گرجا گھر میں رکھا گیا تھا جہاں برسوں اس نے اپنے مذہب اور عوام کی بے لوث خدمت کی تھی۔ اس علاقے کے لوگ نینسی کو خراج عقیدت پیش کر رہے تھے۔ اسی دن نینسی کی آخری رسومات ادا کی جانی تھیں۔ وہ تینوں ہوائی اڈے سے اپنے گھر جانے کے بجائے سیدھے قبرستان جا پہنچے جہاں نینسی کو سپردِ خاک کرنے کی ساری تیاریاں مکمل ہو چکی تھیں پادری اور دیگر سوگوارلوگ اس کے حق میں دعا کر رہے تھے۔ لاجپت، آکاش اور رجنی بھی ان میں شامل ہو گئے۔

قبرستان سے لوٹتے ہوئے رجنی کی ملاقات منکی، منگو، کھیتو، مانجھی اور جیتو سے ہوئی تو منکی اس سے لپٹ کر رونے لگی اور دیر تک روتی رہی۔ اس نے کہا بہن اب آپ ہمارے یہاں نہ آنا۔ کبھی نہ آنا۔ ہمارے بستی میں روشنی پھیلانے کے لیے چراغ نہیں گھر جلائے جاتے ہیں۔ ہمارے مقدر تاریکیوں کے عوض رہن ہے۔ ہم اس قرض سے کبھی آزاد نہ ہوسکیں گے۔ اس کا سود چکاتے چکاتے ہماری عمر گزر جائے گی لیکن اس کے باوجود اصل اپنی جگہ ویسے کا ویسا موجود رہے گا تاکہ ہماری آئندہ نسلیں اس بوجھ کے تلے دبا دی جائیں۔ انہیں بھی ہماری طرح زندہ درگور کر دیا جائے۔ رجنی کو ایسا لگا کہ منکی اپنے بارے میں بولتے بولتے جیتو کے بارے میں بولنے لگی ہے۔

جیتو ناسمجھ تھا وہ نہیں جانتا تھا کہ منکی کیا کہہ رہی ہے لیکن نہ جانے کون سے طاقت تھی جو اسے وہ سب سمجھا رہی تھی جو بڑے بڑے سمجھدار نہیں سمجھ پا رہے تھے۔ منکی الگ ہوئی تو جیتو رجنی کی انگلی پکڑ کر اس کے برابر کھڑا ہو گیا۔ یہ اس بات کا اشارہ تھا کہ اب وہ واپس نہیں جائے گا۔ جیتو کو جب کھیتو نے اپنے پاس بلایا تو وہ رجنی سے لپٹ گیا۔ رجنی نے اسے اٹھا کر سینے سے لگا لیا اور بولی کھیتو اس میتھی کی نشانی کو تم میرے پاس چھوڑ جاؤ۔ یہ جب تمہارے پاس آنے کے لیے کہے گا میں خود پہنچا جاؤں گی۔ یہ میرا وعدہ ہے۔ کھیتو جانتا تھا کہ جو پیار جیتو کو رجنی سے ملے گا مانجھی اسے نہیں دے سکتی۔ اس نے کہا مجھے آپ پر اعتماد ہے۔ اب یہ میرا بیٹا جیتو آپ کے پاس میری امانت ہے۔ جب میرا جی چاہے گا میں خود آپ کے پاس آ کر اس سے ملاقات کر لیا کروں گا۔

نینسی کی ناگہانی موت نے لاجپت رائے کے سارے خوابوں کو چکنا چور کر دیا تھا۔ اس کے کانوں میں وزیر تعلیم رگھوپتی سہائے کے الفاظ گونج رہے تھے۔ لاجپت رائے خدمت میں کوئی رنگ بھید نہیں ہوتا وہ زمان و مکان کی پابند نہیں ہوتی۔ انسان آخر انسان ہوتا ہے اور وہ جہاں بھی رہے اسے انسانوں کی خدمت کرنی چاہئے ۰۰۰۰۰۰۰۰۰ یہاں کا ماحول تمہارے لئے سازگار نہیں ہے ۰۰۰۰۰۰۰۰۰لاجپت رائے کا دل اچاٹ ہو گیا۔ اس کے کانوں میں ایک جانی پہچانی آواز گونجی ’’میں ہوں نا‘‘ اس نے اپنے آس پاس دیکھا کوئی نہیں تھا۔ لیکن ایسا نہیں تھا کوئی اس سے کہہ رہا تھا ’’میں ہوں نا‘‘۔ اس نے پھر ایک بار اپنے ماضی سے فرار حاصل کرنے کا فیصلہ کر لیا اور تنہا جینوا کی جانب چل پڑا۔

رجنی کو چند دنوں کے بعد پھر ایک بار کالاہانڈی جانے کا خیال آیا اور لوٹ کر جانے کے لیے ضد کرنے لگی۔ آکاش آنند اسے اس مہم سے باز رکھنے کے لیے سمجھانے لگا۔ آکاش آنند ایک جہاندیدہ وکیل تھا۔ اس کی زندگی کا ایک طویل عرصہ عدالت اور پولس تھانے کے درمیان گزرا تھا۔ اس کے لیے یہ سمجھنا مشکل نہیں تھا اس معاملے میں کہیں نہ کہیں رام جنک ملوث ہے ورنہ وہ اس طرح خاموش تماشائی نہیں بنا رہتا۔ رام جنک نے نینسی کے حق میں چند رسمی الفاظ سے آگے بڑھنے کی کوشش نہیں کی تھی۔ وہ اپنے ہندو رائے دہندگان کو ناراض نہیں کرنا چاہتا تھا۔ اسے ڈر تھا کہ کہیں اس کے مخالفین خود اس کو عیسائیت کا حامی نہ قرار دے دیں۔

آکاش آنند کے پاس نہ ہی جنک رام کے خلاف کوئی ٹھوس ثبوت تھا اور نہ اس کے اندر حوصلہ تھا جنک رام جیسے سیاستداں سے ٹکرا سکے۔ اسے ڈر تھا کہ ایسا کرنے کے نتیجے میں ممکن ہے رائے پور کے اندر آدرش ٹرسٹ کے تحت چلنے والے اداروں میں بھی حکومت رکاوٹیں پیدا کرنے لگے۔ اگر کسی بہانے سے سرکار کوئی ایک اسکول یا کالج کا بھی تصدیق نامہ(رجسٹریشن) رد کر دے تو اس سے سیکڑوں طلباء اور ان کے والدین کو بے شمار پریشانیوں کا سامنا ہوسکتا تھا۔ یہ بات اظہر من الشمس تھی کہ اگر والدین کا اعتماد کسی تعلیمی ادارے پر سے اٹھ جائے تو اس کو بند ہونے میں دیر نہیں لگتی۔

رجنی کو خوفزدہ کرنے کے لیے آکاش نے اندیشہ ظاہر کیا کہ یہ حملہ دوبارہ ہوسکتا ہے۔ اگر اس دوران طلباء اسکول میں موجود ہوئے تو نہ جانے کتنی معصوم جانیں ضائع ہو جائیں گی اور ان کے قتل کا الزام بلاواسطہ آدرش کے سر آ جائے گا۔ آکاش آنند یہ باتیں رجنی کو قائل کرنے میں ناکام ہو رہی تھیں۔ اسے ڈر تھا کہ کہیں رجنی کی باغیانہ تیور تیز نہ ہو جائیں اس لئے آکاش نے ٹال مٹول کا طریقہ اختیار کیا۔ اس نے رجنی سے کہا کہ جلد بازی کے بجائے کیوں نہ اقوام متحدہ کی مدد کا انتظار کیا جائے اور اس کے بعد اول تو ایک مضبوط عمارت تعمیر کی جائے۔ وہاں طلباء اور اساتذہ کے تحفظ کا معقول انتظام کیا جائے اس کے بعد ہی اس کام کو آگے بڑھایا جائے۔ رجنی کا دل تو نہیں مانا لیکن دماغ آکاش کے دلائل سے مرعوب ہو گیا۔ اس نے انتظار کرنے کا فیصلہ کر لیا۔

آکاش آنند جانتا تھا کہ بین الاقوامی امداد آسانی سے نہیں آتی۔ اس کے لیے بے شمار کاغذی کارروائی کرنی پڑتی اور عالمی اداروں کی خوب خوشامد کرنی پڑتی ہے۔ اس نے ارادہ کر لیا تھا کہ وہ خوشامد تو سرے کرے گا نہیں دیگر کاموں میں بھی اس قدر تاخیر کرے گا کہ بالآخر رجنی کی دلچسپی ختم ہو جائے۔ اپنے اس خفیہ منصوبے کی ابتداء آکاش نے اس طرح کی کہ جیتو کو اپنے گھر سے قریب کے ایک آدرش اسکول کی شاخ میں داخل کرادیا اور اس کی بالکل اپنی اولاد کی مانند پرورش کرنے لگا۔

رجنی جیتو اپنا بیٹا سمجھتی تھی لیکن اسے ڈر تھا کہ کہیں آکاش اپنی خانہ داری میں اس کے خلل سے ناراض نہ ہو جائے اور وہ معصوم اس کے گھر میں اجنبی بن کر نہ رہ جائے۔ آکاش کے رویے سے رجنی کو یک گونہ اطمینان ہوا تھا۔ رجنی نے سوچا کہ مبادا جیتو نے آکاش کو اپنی ازدواجی زندگی کے خلاء کا احساس دلا دیا ہے اور وہ اسے پر کرنے کوشش کر رہا ہے۔

 

 

 

 

تحریک

 

نینسی کا حادثہ آکاش آنند، لاجپت رائے اور رجنی پر مختلف انداز میں اثر انداز ہوا تھا۔ لاجپت رائے اس کے سبب مایوسی کے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں گم ہو گیا۔ آکاش کو اس نے دہشت زدہ کر دیا تھا جبکہ رجنی پر اس کا اثر یہ ہوا کہ وہ نہایت سنجیدگی کے ساتھ قبائلی سماج کے بنیادی مسائل پر غور کرنے لگی تھی۔ وہ اس بات کو محسوس کرنے لگی تھی کہ شاید تعلیم سے بھی زیادہ اہم کوئی چیز ہے جس کے بغیر حقیقی فلاح و بہبود ممکن نہیں ہے۔ رجنی نے اپنے سوال کا جواب حاصل کرنے خاطر مطالعہ شروع کیا تو اسے بہت جلد مایوسی کا شکار ہونا پڑا۔ ہندوستان کے قبائلی علاقوں کی جانب ویسے بھی تحقیق کرنے والوں نے توجہ کم ہی کی تھی اور جو کام ہوا تھا ان میں سے بیشتر نہایت سطحی نوعیت کا تھا۔ بہت سارے لوگوں نے جغرافیائی اور عمرانی معلومات کو یکجا کرنے پر اکتفا کیا تھا نیز اعداد و شمار کے اس گورکھ دھندے سے نتائج برآمد کرنے کی کوشش نہیں کی تھی۔ معیشت پر بکھری ہوئی معلومات کے علی الرغم قبائلی سماج کی معاشرت، تہذیب و تمدن کو سمجھنے کی زحمت شاذو نادر ہی کسی نے کی تھی۔ اس کے علاوہ جبرو استبداد پر تو کہیں کچھ بھی موجود نہیں تھا جبکہ رجنی کے خیال میں سب سے سنگین مسئلہ سیاسی نوعیت کا تھا۔

وقت کے ساتھ رجنی پر یہ حقیقت کھل چکی تھی کہ قبائلی فلاح و بہبود کے لیے تعلیم سے زیادہ اہمیت انسانی حقوق کی بحالی کو حاصل ہے اور جب تک قبائلی عوام کے بنیادی حقوق بحال نہیں ہو جاتے اس وقت تک اول تو وہ تعلیم کے زیور سے آراستہ نہیں ہو سکیں گے اور کسی مصنوعی طریقے سے انہیں اس دولت سے مالامال کر بھی دیا گیا تو وہ اس سے خاطر خواہ استفادہ نہیں کر پائیں گے۔ اسے خوف تھا کہ مبادا کل کو جیتو بھی پڑھنے لکھنے کے بعد جنک رام کے راستے پر چل پڑے اور خود اپنی ہی قوم کے دشمنوں کے ہاتھوں کی کٹھ پتلی بن جائے۔

رجنی نے قبائلی مسائل کا گہرائی سے مطالعہ کر کے ان کی حقیقی صورتحال کو دنیا کے سامنے لانے کی خاطر ایک غیرسرکاری تنظیم آدیباسی کلیان سنستھا کی داغ بیل ڈالی۔ اس تنظیم کے ذریعہ وہ نہ صرف حقیقی مسائل کو اجاگر کرنا چاہتی تھی بلکہ قبائلی علاقوں میں بیداری کی ایک ایسی تحریک چلانا چاہتی تھی جس کے نتیجے میں وہ اپنوں کے توسط سے آنے والی غیروں کی غلامی سے نجات حاصل کرسکیں۔ رجنی نے اپنے خیال کے مطابق آزادی کی ایک نئی جنگ کا آغاز کر دیا تھا۔

رام جنک کو جب بھنک لگی کہ رجنی نے اب ایک نیا محاذ کھول دیا ہے تو وہ اس کی جانب متوجہ ہوا۔ اس کی دلچسپی یہ جاننے میں تھی کہ رجنی اس معاملے میں کس حد تک جانے کا ارادہ رکھتی ہے۔ اس غرض سے رام جنک نے دہلی کے اندر منعقد ہونے والی آدیباسی فلاح بہبود کی ایک کانفرنس کا دعوت نامہ رجنی کے نام بھجوایا جس میں اسے اپنا مقالہ پیش کرنے کی دعوت دی گئی تھی نیز اپنے ادارے آدیباسی کلیان سنستھا کا تعارف بھی کرانے کا موقع تھا۔ سرکاری مکتوب کے اندر جہاں اس کے کام کو سراہا گیا تھا وہیں بین السطور میں دستِ تعاون بھی دراز کیا گیا تھا۔

رجنی اس بات پر حیرت زدہ تھی کہ ابھی تو کوئی ٹھوس کام وہ کر بھی نہیں پائی تھی معاملہ صرف بحث و تحقیق تک محدود تھا اس کے باوجود پذیرائی تعجب خیز تھی۔ دہلی کاسفر رجنی نے آکاش اور جیتو کے ساتھ کیا تھا اس لئے کہ وہ سرمائی تعطیلات کا زمانہ تھا۔ دہلی میں رجنی تو اجلاس میں مصروف ہو گئی مگر آکاش اور جیتو دہلی شہر کی سیرسیاحت کے لیے نکل کھڑے ہوئے۔ جیتو کے لیے کسی بڑے شہر کی رونق دیکھنے کا یہ پہلا موقع تھا جس سے وہ خوب لطف اندوز ہو رہا تھا۔ ان کا ارادہ قرب و جوار کی سیر کا بھی تھا۔

رجنی کے مقالے کا عنوان تھا قبائلی سماج کی پسماندگی: اسباب و علاج۔ رجنی نے اپنی پیشکش کے اغراض و مقاصد پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا سب سے پہلے ہمیں یہ پتہ لگانا ہو گا کہ آخر ان قبائلی لوگوں کی پسماندگی کی بنیادی وجہ کیا ہے ؟ میدانوں میں ایسی کون سی خاص بات ہے کہ یہاں بسنے والے زندگی کے مختلف شعبوں میں آگے بڑھ گئے اور پہاڑوں میں ایسی کو ن سی خرابی ہے کہ وہاں رہنے والے لو گ پیچھے رہ گئے ؟ اس نے اعتراف کیا کہ یہ سب ایک رات میں نہیں ہو گیا بلکہ صدیوں پر محیط مکافاتِ عمل ہے لیکن وہ اس کے پس پشت محرکات نہایت اہم ہیں۔ رجنی نے زور دے کر کہا ہمیں اس معاملے میں حال سے ماضی جانب جانے کے بجائے ماضی سے حال کی طرف آنا چاہئے اور بولی اگر ہم اس تحقیق کے لیے تاریخ کی کتابوں سے رجوع کریں تو ہمیں مایوسی ہو گی۔ انسانی تاریخ کی کتابیں بادشاہوں اور ان کے مصاحبین کے واقعات سے بھری پڑی ہیں۔ ان میں تہذیب و تمدن سے بجائے جنگوں اور فتوحات کا بیان ہے۔ وہاں پہاڑوں پر رہنے والے قبائل تو کجا میدانوں میں رہنے والے عام لوگوں کے بارے میں بھی معلومات بہت ناقص ہے۔

رجنی نے انکشاف کیا کہ قبائلی سماج یکساں طور پر مؤرخ کی بے توجہی اور حکمرانوں کی بے اعتنائی کا شکار ہوا ہے۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ اس بے توجہی کی وجہ دریافت کی جائے ؟۔ رجنی کا انداز اس قدر منطقی اور معروضی تھا سارے شرکاء دم بخود اس کو سن رہے تھے۔ وہ بولی پچھلے زمانوں میں میدانوں کے اندر زراعت ہوتی تھی۔ حکمرانوں کو اس سے لگان ملتا تھا۔ وہ لوگ لگان کے طور پر جو کچھ جمع کرتے اس پر خوب عیش کرتے لیکن اسی کے ساتھ خزانے کا ایک حصہ اس عوام کی فلاح بہبود پر خرچ کر دیا کرتے تھے جن سے محصول وصول کیا جاتا تھا۔ ایسا کرنے سے ایک طرف تو انہیں نیک نامی حاصل ہو جاتی تھی اور دوسرے تعلیم و تربیت کے نتیجے میں بہترین درباری اور فوجی میسر آ جاتے تھے۔ اس کے علاوہ ملک کا نظم و نسق چلانے کے لیے بہتر خدمتگار بھی مہیا ہو جاتے تھے۔ خزانے کا ایک حصہ ان پر خرچ کئے جانے کی یہ وجوہات تھیں۔

صنعت و حرفت کے دور میں سرمایہ دار صنعتکاروں نے جاگیرداروں کو مات دے دی محنت کش عوام سے ان کو حاصل ہونے والا فائدہ زراعت سے زیادہ تھا۔ اس طرح مزدور کسانوں سے زیادہ اہمیت کے حامل ہو گئے۔ اس اتھل پتھل سے دور پہاڑوں پر رہنے والے قبائلی لوگوں سے حکومت کو کچھ ملتا نہیں تھا اس لئے اس کے پاس انہیں دینے کے لیے کچھ ہوتا نہیں تھا۔ یہی وجہ ہے کہ کسی نے ان کی جانب متوجہ ہونے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی۔ اس طرح ترقی و ارتقاء کی اس دوڑ سے وہ لوگ باہر ہی رہے۔

وقت کے ساتھ میدانوں اور پہاڑوں کے درمیان فاصلہ بڑھتا گیا اور بالآخر ایک ایسی کھائی وجود میں آ گئی جسے پاٹنا ناممکن ہو گیا۔ ہمیں سنجیدگی کے ساتھ غور کرنا چاہئے کہ اس کھائی کو کیسے پاٹا جائے ؟ عام طور پر تعلیم کو سارے مسائل کا حل بتایا جاتا ہے لیکن میرا اپنا تجربہ اس سے مختلف ہے۔ میں یہ دیکھ چکی ہوں کہ تعلیمی مہم کو بڑی آسانی سبوتاژ کیا جا سکتا ہے۔ رجنی نے قبائلی مسائل کا بھرپور احاطہ کرنے بعد انسانی حقوق کی بحالی پر زور دیا اور کہا کہ جب تک ان کے لیے عدل و انصاف اور امن و سلامتی کا اہتمام نہیں کر دیا جاتا اور معاشی مساوات قائم کرنے کے لیے حکومت کی جانب سے ٹھوس اقدامات نہیں کئے جاتے اس وقت اس طرح کے زبانی جمع خرچ سے کچھ بھی حاصل نہیں ہو گا۔

رجنی کی تلخ بیانی نے اجلاس میں موجود بہت سارے لوگوں کو بے چین کر دیا تھا اس لئے اس کے مقالہ پر سوالات کی بوچھار شروع ہو گئی۔ سرکار کے نمک خواروں نے اس کی خوب جم کر تنقید کی۔ کسی نے کہا قبائلی فطرتاً ایک سست اور کام چور سماج ہے وہ محنت نہیں کرنا چاہتا۔ ایسے میں ان کی بیجا وکالت بے معنی ہے۔ اس تبصرے پر رجنی نے سوال کیا کہ آپ نے کبھی ان علاقوں کا سفر کیا ہے جہاں وہ رہتے ہیں ؟ وہ سرکاری افسر اس سوال پر لاجواب ہو گیا اور بولا محترمہ اگر میں آپ کو ہمالیہ پربت کے بارے میں کچھ بتاؤں تب بھی آپ یہی سوال کریں گی ؟ اس ترکی بہ ترکی سولات پر مجمع میں کئی قہقہے بلند ہوئے رجنی کو ایسا محسوس ہوا جیسے اس کی تضحیک کی جا رہی ہے لیکن اس نے اپنے آپ کو سنبھالا اور بڑے اعتماد کے بولی جی ہاں ، اگر میں نے ایورسٹ کو سر کیا ہو گا اور آپ اس کے تعلق سے کوئی اوٹ پٹانگ بات کہیں گے تو میں یہ سوال ضرور کروں گی۔

رجنی نے اوٹ پٹانگ کے الفاظ اس قدر زور دے کر کہے تھے گویا کسی نے دھوبی پچھاڑ مار کر اپنے مخالف کو پالے سے باہر پھینک دیا ہو۔ اس کے بعد رجنی بولی میں ان لوگوں کے درمیان رہ چکی ہوں اور میرا مشاہدہ ہے وہ ہم ائیر کنڈیشنڈ کمروں میں بیٹھ کر بڑی بڑی باتیں کرنے والوں کے مقابلے کہیں زیادہ محنت و مشقت کرتے ہیں۔

اپنے ساتھی کی یہ حالت دیکھ کر ایک اور افسر میدان میں آیا۔ اس نے کہا میں آپ کی بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ وہ نہایت مشکل زندگی گزار رہے ہیں لیکن یہ ان کے اپنے ہاتھوں کی کمائی ہے۔ آپ شاید نہیں جانتیں کہ موجودہ حکومت نے ان کی فلاح بہبود کے لئے کئی پراجکٹ چلائے لیکن وہ کسی سے استفادہ نہیں کرتے۔ وہ ہماری سڑکوں کو اکھاڑ دیتے ہیں۔ وہ ہمارے اسکولوں کو جلا دیتے ہیں۔ وہ اسپتالوں کو بم کے دھماکوں سے اڑا دیتے ہیں۔ وہ اپنے آپ کو بدلنا نہیں چاہتے وہ اپنے حال میں مست رہنا چاہتا ہے۔ اس لئے کوئی ان کا بھلا نہیں کرسکتا۔

رجنی کے لیے یہ انکشاف بھی حیرت انگیز تھا کہ قبائلی خود اپنے دشمن بنے ہوئے ہیں۔ وہ بولی اگر قبائلی ایسا کرتے ہیں تو کیوں کرتے ہیں ؟ اس لئے کہ انسان فطرتاً خود اپنا دشمن نہیں ہوتا۔ ممکن ہے سرکاری طریقۂ کار میں کوئی نقص ہو؟ انہیں اس کام کو کرنے سے قبل اعتماد میں لینے کی ضرورت نہیں محسوس کی جاتی ہو؟ ان کے دل و دماغ میں ہمارے تعلق سے شکوک شبہات یا غلط فہمیاں ہوں ؟ یا ان کے کچھ تلخ تجربات ہوں کچھ بھی ہو سکتا ہے ؟ ضرورت اس بات کی ہے اس کی وجوہات کا پتہ چلایا جائے اور تدارک کا سامان کیا جائے۔

رجنی کے جواب پر ایک اور غیر مطمئن شریک جلسہ نے پوچھا محترمہ مجھے حیرت ہے کہ آپ قبائلی لوگوں کی اندھی وکالت میں ان کی ساری غلطیوں کے لیے خود سرکار کو موردِ الزام ٹھہرا دیتی ہیں۔ اگر کوئی غلطی تسلیم ہی نہ کرے تو بھلا اس کی اصلاح کیسے ہو؟رجنی بولی جی نہیں ایسی بات نہیں۔ میں آپ سے اتفاق کرتی ہوں کہ کسی غلطی پر اصرار کرنے سے اس کی تباہ کاری میں اضافہ ہو جاتا ہے مگر چونکہ میرا ذاتی تجربہ اس سے مختلف ہے اس لئے میں اس الزام سے اتفاق کرنے سے قاصر ہوں میری معلومات کے مطابق وہ لوگ بڑے جوش و خروش کے ساتھ تعلیمی سرگرمیوں کا خیرمقدم کرتے ہیں۔

رائے پور سے آنے والے جنک رام کے سکریٹری راکیش شرما نے جب یہ سنا تو نہایت معصومیت سے سوال کیا۔ محترمہ رجنی کیا آپ بتا سکیں گی کہ آپ کا اسکول کہاں واقع ہے اور فی الحال اس میں کتنے بچے زیر تعلیم ہیں ؟ اس سوال نے رجنی کو پالے سے باہر پھینک دیا اور اس کے سارے دلائل پر یکسر پانی پھر گیا۔ رجنی کی پیشانی پر پسینے کی بوندیں نمودار ہو گئیں۔ وہ بولی جی بات یہ ہے کہ ہمارا اسکول کالاہانڈی میں چل رہا تھا لیکن فی الحال چند ناگزیر وجوہات کی بناء پر وہ عارضی طور پربند کر دیا گیا ہے۔ شرکاء کے اندر پھر سے چہ مے گوئیاں ہونے لگیں۔ راکیش شرما نے پھر سوال کیا کہیں آپ آدرش اسکول کی بات تو نہیں کر رہی ہیں جسے اس میں موجوداستانی سمیت جلا دیا گیا تھا۔ رجنی نے سر جھکا کر تائید کی اور بولی جی ہاں آپ درست فرماتے ہیں۔ میں اسی اسکول کی بات کر رہی تھی۔

اس بار جیتندر والمیکی نے محاذ سنبھالا اور بولا اچھا تو کیا نینسی کا بہیمانہ قتل کرنے والوں کی آپ حمایت کرتی ہیں ؟آپ دوسروں کو تو وجوہات معلوم کرنے کا مشورہ دیتی ہیں لیکن کیا آپ نے یہ معلوم کرنے کی کوشش کی کہ آپ کے اسکول کو کس نے اور کیوں جلا دیا ؟ رجنی بولی جی ہاں ہم پولس سے رابطے میں ہیں لیکن وہ لوگ نہ ہی کسی کو گرفتار کرتے ہیں اور نہ کوئی تفصیل بتاتے ہیں۔ جیتندر بولا محترمہ مجھے تو ایسا لگتا ہے جیسے آپ نے اپنی آنکھوں پر پٹی باندھ رکھی ہے ورنہ جو کوئی بھی کھلی آنکھوں سے دیکھتا ہے اس کے لیے یہ جاننا مشکل نہیں ہے کہ یہ نکسلوادیوں کی کارفرمائی ہے۔ ماؤ وادی دہشت گرد نہیں چاہتے کہ اس خطے کے لوگ حکومت کی اسکیموں سے فائدہ اٹھائیں۔ جیتندر جوش میں آ کر سوال بھی کر رہا تھا اور جواب بھی دے رہا تھا لیکن اس کی اس بکواس نے رجنی کو سنبھلنے کا موقع دے دیا۔

رجنی بولی جہاں تک آدرش اسکول کے جلائے جانے کا تعلق ہے اس کے لیے نکسلوادی نہیں بلکہ ہندو فسطائی تنظیمیں ذمہ دار تھیں۔ ان کے کچھ رہنماؤں نے ٹی وی پر اسے تسلیم بھی کیا اور دھمکی بھی دی کہ آئندہ بھی عیسائیت کی تبلیغ کے لیے کھولے جانے والوں اسکولوں کا یہی حشر ہو گا حالانکہ آدرش ٹرسٹ کا عیسائی مشنری سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس کے باوجود انتظامیہ نہ ان رہنماؤں کو گرفتار کرتا ہے اور نہ مجرمین کو۔ ایسے میں کیا اس گھناؤنی کاروائی کے لئے آپ ان عام قبائلی لوگوں کو موردِ الزام ٹھہرائیں گے جو دور دراز سے اپنے بچوں کو اسکول بھیجتے تھے ؟ جیتندر والمیکی کو اس منھ توڑ جواب کی توقع نہیں تھی۔ رجنی نے اس کی انا کو ٹھیس پہنچائی تھی جس سے وہ تڑپ اٹھا اور نہایت حقارت انداز میں بولا محترمہ رجنی آپ بہت بھولی ہیں چونکہ علم و تحقیق کے میدان سے تعلق رکھتی ہیں اس لئے نہیں جانتیں سیاست کی دنیا میں کیا کچھ ہوتا ہے۔ یہاں پر تو یہ بہت ہی عام سی بات ہے کہ خود نکسلوادی رام کے نام پر اسکولوں کو جلائیں تاکہ ان کے دشمنوں کی بدنامی ہو۔ والمیکی کی بات جزوی طور پر صحیح تھی لیکن نکسلوادی نوجوانوں سے یہ گھناؤنی حرکت کروانے والا کون تھا ؟کس نے اس کی پردہ داری کی تھی؟   ان تلخ سوالات کا جواب والمیکی سے بہتر کوئی اور نہیں جانتا تھا۔

رجنی نے پھر پلٹ وار کیا اور بولی جی ہاں میں سیاست سے دور ہوں اس کا مجھے کوئی افسوس نہیں بلکہ خوشی ہے لیکن اگر آپ کی یہ بات تسلیم کر لی جائے کہ وہاں پر لوگ اپنے دشمن کو بدنام کرنے کے لیے ان کے نام پر دہشت گردی کرتے ہیں تو یہ بھی ممکن ہے کہ نکسلوادیوں کو بدنام کرنے کے لیے خود انتظامیہ ان کے نام پر مدرسوں کو نذرِ آتش کر دیتا ہو۔ جیتندر پھر حجت پر اتر آیا۔ وہ بولا مجھے تو ایسا لگتا ہے کہ آپ نے نکسلوادی دہشت گردوں کے ترجمان کی ذمہ داری از خود اپنے سرپر اوڑھ لی ہے لیکن یہ نہ بھولیے کہ جن قبائلی لوگوں کی آپ خیر خواہ ہیں انہیں یا تو نکسلوادیوں نے یر غمال بنا رکھا ہے یاوہ لوگ برضا و رغبت ان دہشت گردوں کے ہمنوا بنے ہوئے ہیں۔

رجنی نے اس سوال کا بھی پوسٹ مارٹم کر دیا اور بولی جہاں تک نکسلوادیوں کا سوال ہے اگر انہوں نے قبائلی عوام کو یرغمال بنا لیا ہے تو ان کو چھڑانا کس کی ذمہ داری ہے ؟ حکومت اپنی اس ذمہ داری کو کیوں ادا نہیں کرتی ؟ اور اگر وہ برضا و رغبت نکسلوادیوں کے حامی ہیں تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حکومت ان کو اپنا حامی و مددگار کیوں نہیں بنا سکی جبکہ آپ کے بقول حکومت ان کی بہی خواہ ہے۔ رجنی کے جواب سے ایسا محسوس ہو رہا تھا گویا کوئی نکسلی رہنما تقریر کر رہا ہے اس نے پھر ایک بار حکومت کو مجرم کے کٹہرے میں کھڑا کر دیا تھا

ناظمِ سیشن نے جب دیکھا کہ یہ عورت کسی صورت قابو میں نہیں آتی اور بات بگڑتی چلی جاتی ہے تو اس نے وقت کے خاتمے کا اعلان کر دیا۔ رجنی کے لیے یہ پہلا موقع تھا جب اس نے کسی کانفرنس میں اپنا مقالہ پیش کیا تھا اور اس قدر تیکھے سوالات کے جوابات دئیے تھے۔ اس تجربے کے دوران وہ کئی نشیب و فراز سے گزری لیکن بالآخر کامیاب و کامران ہو کر نکلی۔ دوسرے دن جب اس اجلاس کی خبر اخبارات میں چھپی تو اس میں رجنی آنند چھائی ہوئی تھی۔ اس کی تصاویر۔ اس کے دلائل اور اس کی منطق نے صحافیوں کا دل جیت لیا تھا۔ ان میں سے کئی لوگوں نے اس سے انٹرویو کے لیے رابطہ کیا تھا۔

آکاش آنند نے جب یہ سب پڑھا تو حیرت زدہ رہ گیا۔ وہ بولا میں نے اتنے سال عدالت میں پریکٹس کی ہے لیکن مجھے کبھی اس طرح کے مشکل سوالات سے سابقہ پیش نہیں آیا اور جن سوالات کا سامنا بھی ہوا تو میں ان کے اس قدر آسان اور مؤثر جواب نہ دے سکا۔ رجنی بولی آپ مذاق کرتے ہیں۔ آکاش نے کہا نہیں رجنی میں سنجیدہ ہوں۔ اگر مجھے تمہاری اس صلاحیت کا علم ہوتا تو میں تم سے وکالت کرنے کے لیے کہتا اور خود خانہ دار شوہر بن جاتا۔ جیتو یہ ساری گفتگو سن رہا تھا وہ بولا انکل آپ ممی کے خانہ دار شوہر تو ویسے بھی ہیں اس میں بننے کی کیا بات ہے ؟رجنی نے اسے گھور کر دیکھا اور بولی تو بھی انہیں کا ہمنوا نکلا۔ جیتو دوڑ کر رجنی کے پاس آیا اور اس کے گلے سے لپٹ گیا۔ رجنی اس کے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے گویا ہوئی۔ میرا بیٹا۔ پیارا بیٹا جیتو۔

 

 

 

 

 

سراغِ منزل

 

رجنی نے بظاہر قلعہ تو کسی طرح فتح کر لیا تھا مگر اس کے اپنے اندر سوالات کا ایک ایسا تلاطم برپا ہو گیا تھا جس پر قابو پانا اس کے اپنے لئے مشکل ہو رہا تھا۔ اس کے خیال میں ان سوالات کے جواب حاصل کرنا جس قدر آسان دہلی میں تھا رائے پور میں نہیں تھا۔ دہلی میں سارے سرکاری دفاتر تھے۔ اہم افسران اور ماہرین تھے نیز دنیا بھر کے اعداد و شمار سے مزّین کتب خانے موجود تھے۔ رجنی نے مزید ایک ہفتہ دہلی میں رکنے کا ارادہ کیا اور ڈرتے ڈرتے آکاش آنند کے سامنے اسے ظاہر کیا۔

رجنی کی اس تجویز کو سن کر جیتو کی باچھیں کھل گئیں۔ اس نے فوراً آکاش سے کہا کہ یہ بہت اچھی بات ہے۔ ہم لوگ دہلی کے بہت سارے مقامات کی سیر ابھی تک نہیں کرسکے ہیں بلکہ قطب مینار تک نہیں دیکھ سکے۔ آکاش نے پوچھا کہیں یہ ماں بیٹا کی کوئی سازش تو نہیں کہ ایک جال بچھاتا ہے اور دوسرا شکار پھنساتا ہے۔ رجنی نے کہا ایسا نہیں ہے لیکن یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس دوران آپ اسے آگرہ کا تاج محل دکھلا لائیں۔ ہم لوگ تو اس کی سیر کر چکے ہیں لیکن کون جانے دوبارہ ہمیں ایک ساتھ یہاں آنے موقع ملے بھی یا نہیں۔

تاج محل نام سن کر جیتو اچھل پڑا اور بولا جی ہاں میں تو اسے دیکھے بغیرواپس نہیں جا سکتا۔ اب تو آپ کو رکنا ہی ہو گا۔ آکاش نے سوچا ان دونوں کو ناراض کرنے سے بہتر ہے رک جایا جائے لیکن یہ شرط لگا دی کہ ایک ہفتے بعد وہ لوٹ جائے گا چاہے اس کے ساتھ کوئی آئے یا نہ آئے۔

رجنی کے سوالات کی فہرست اس طرح سے تھی کہ اول تو وہ ان سرکاری مہمات کی تفصیل سے جاننا چاہتی تھی جو حکومت کی جانب سے قبائلی علاقوں میں چلائی جا چکی تھیں یا چلائی جا رہی تھیں۔ اس کو یہ جاننے میں بھی دلچسپی تھی کہ حکومت کی کوششوں کی پذیرائی کیوں نہیں ہو رہی ؟ لوگوں کے اندر عدم اعتماد کی وجوہات کو جاننا وہ ضروری سمجھتی تھی۔ ماؤ وادیوں کے بارے میں بھی اپنی ناقص معلومات پر وہ شرمندہ تھی۔ وہ ان کے اغراض و مقاصد اور طریقۂ کا ر لا علم حاصل کرنا چاہتی تھی۔ اس کوایسا لگنے لگا تھا ذرائع ابلاغ میں ان کے متعلق جو باتیں کہی جاتی ہیں شاید ان کا حقیقت سے کوئی خاص سروکار نہیں ہے۔ اس لئے کہ اگر وہ ایسے ہی تھے کہ جیسا کہ میڈیا میں ان کی عکاسی کی جاتی ہے تو جن لوگوں کے درمیان وہ کام کرتے تھے اور جنہیں نکسلوادیوں کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملتا تھا ان کی ماؤوادیوں سے ہمدردی رکھنا بے معنیٰ سا لگتا تھا۔

اس طرح گویا کئی اہم موضوعات تھے جن کی گہرائی میں رجنی اترنا چاہتی تھی تاکہ اپنی عملی تحریک کا آغاز کرنے سے قبل ان اسباب و عوامل تک حقیقی معنوں میں رسائی حاصل کرسکے جو قبائلی مسائل کے پس پردہ کار فرما تھے۔ رجنی نے اپنی تحقیق کی ابتداء اس سوال سے کی کہ آخر موجودہ حکومت کو قبائلی لوگوں میں اور ان کے علاقوں میں دلچسپی کیوں کر پیدا ہوئی ؟ اس سوال کا جواب حاصل کرنے کے لیے رجنی نے حکومتِ ہند کی وزارتِ انسانی وسائل کا رخ کیا اس لئے کہ تعلیم، تہذیب اور فلاح و بہبود کے سارے کام اسی کے تحت کئے جاتے تھے۔ اتفاق سے اس وزارت کے کئی لوگوں سے رجنی کی ملاقات قومی مذاکرے کے دوران ہوئی تھی اور اس نے محسوس کیا تھا کہ ان میں رنویرشاستری کافی سلجھے ہوئے انسان ہیں۔ انہوں جب بھی گفتگو میں حصہ لیا تھا نہایت معقول دلائل کے ساتھ گفتگو کی تھی۔

رجنی نے جب ان سے ملاقات کے لیے وقت مانگا تو وہ بہت خوش ہوئے اس لئے کہ وہ خود بھی رجنی کے مقالے اور اس کے جذبۂ اخلاص سے بہت متاثر ہوئے تھے۔ رجنی نے ان سے پوچھا کہ قبائلی عوام حکومت پر اعتماد کیوں نہیں کرتے تو انہوں نے بڑی صفائی کے ساتھ اعتراف کر لیا کہ حکومت اس معاملے میں مخلص نہیں ہے۔ اس کی نیت میں کھوٹ ہے ؟ ایسے میں اعتماد کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ شاستری کی صاف گو ئی نے رجنی کو جھنجوڑ کر رکھ دیا۔ وہ بولی آپ کیسی بات کرتے ہیں ؟ میں نے تو سنا ہے آزادی کے بعد تو کم از کم ہمارے رہنما بہت ہی مخلص اور ایماندار تھے۔ ہم ان سے کیوں کر اس بات کی توقع کرسکتے ہیں کہ وہ استحصال کی نیت سے اپنے لوگوں کے پاس گئے ہوں گے ؟

رنویرشاستری مسکرائے اور بولے بیٹی تم نے تو سنا ہے لیکن میں نے دیکھا ہے اور بہت قریب سے دیکھا ہے اس لئے میں یہ بات کہہ رہا ہوں۔ جس وقت ہمارے ملک میں آزادی کی جدوجہد جاری تھی میں گو کہ اسکول کا طالبعلم تھا مگر با شعور تھا۔ ہم سب نے آزاد ہندوستان کا ایک حسین خواب سجایا تھا افسوس کہ وہ شرمندۂ تعبیر نہ ہو سکا۔ میں اب سبکدوش ہونے والا ہوں۔ میں نے مختلف سرکاری شعبوں میں کام کرتے ہوئے اپنی زندگی گزار دی ہے اور اپنی آنکھوں سے اس خواب کو ریزہ ریزہ ہوتے ہوئے دیکھا ہے۔

شاستری جی نہایت اعتماد کے ساتھ بولے جا رہے تھے اور رجنی کو ایک کے بعد ایک حیرت کے جھٹکے محسوس ہو رہے تھے۔ اس نے پوچھا میں آپ کی تردید تو نہیں کرسکتی لیکن اپنے اطمینان کے لیے مزید تفصیل جاننا چاہتی ہوں۔ مجھے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان پچاس سالوں میں ہم نے غیر معمولی ترقی کی ہے اور جلد ہی ہم دنیا کی سب سے بڑی معیشت بن جائیں گے۔ ایسے میں آپ کا یہ بیان مجھے ذہنی خلجان میں مبتلا کرتا ہے۔

شاستری بولے میں بھی تمہاری تر دید نہیں کروں گا۔ ہمارے ملک نے اس عرصے میں غیر معمولی ترقی ضرور کی لیکن اگر اس ترقی میں ان قبائلی لوگوں کو بھی شامل کیا جاتا تو وہ بھی تمہاری مانند خوشحال ہوتے لیکن افسوس کہ ایسا نہ ہو سکا۔ شہروں کی ترقی گاؤں تک نہیں پہنچ سکی اور جنگلوں پہاڑوں کے لیے تو وہ تباہی و بربادی کا سبب بن گئی۔ رجنی اب بھی مطمئن نہیں ہوئی وہ بولی کہیں ایسا تو نہیں کہ انہیں کوئی غلط فہمی ہو گئی یا انہیں ٹھیک سے بتایا نہیں گیا۔ شاستری جی بولے بیٹی خوشحالی بتانے کی نہیں محسوس کرنے کی چیز ہوتی ہے۔ تمہیں بھی کسی نے نہیں بتایا پھر بھی سب معلوم ہو گیا۔ اس بابت ان کو کوئی غلط فہمی نہیں ہے بلکہ ہمارے اندر بیجا خوش فہمی ضرور ہے۔ اس لئے کہ ہم زمینی حقائق سے نہ تو واقف ہیں اور نہ ہونا چاہتے ہیں۔

رجنی بولی میں آپ کے دفتری اوقات میں خلل ڈال رہی ہوں اس سے آپ کو زحمت تو نہیں ہو رہی ؟ شاستری جی بولے دیکھو ویسے بھی سرکاری دفاتر میں کام کم ہی ہوتا ہے اور ایسا شاید ہی کوئی کام ہوتا ہو جس کے آج کے بجائے کل پر ٹل جانے سے کوئی خاص فرق پڑتا ہو اس لئے تم میرے وقت کی فکر نہ کرو اور بلا تکلف اپنی بات جاری رکھو۔ رجنی نے سوال کیا اگر آپ کے پاس وقت ہے تو آپ مجھے بتائیں کہ آخر اس غلطی کی ابتداء کیسے ہوئی ؟

شاستری جی کچھ دیر خلاء میں دیکھتے رہے اور پھر بولے میرے خیال میں پنڈت جی کا یہ نعرہ کہ ڈیم(بند) جدید دور کی عبادت گاہیں ہیں قبائلی عوام کے لیے ایک عذاب کا کوڑا بن گیا اور وہیں سے جبر و استحصال کی یہ چکی چل پڑی۔ ہیراکڈ بند کی تعمیر سے دربدر ہونے والے قبائلی عوام سے ۱۹۴۸ میں پنڈت جی نے بڑے دکھ کے ساتھ کہا تھا اگر اس سے آپ کو پریشانی ہو رہی ہے تو قومی مفاد میں آپ لوگوں یہ تکلیف برداشت کر لینا چاہئے۔ لیکن وہ بھول گئے تھے کہ جو لوگ پریشان ہو رہے ہیں وہ بھی قوم کا حصہ ہیں اور ان غریب لوگوں کے حصے میں اس بند کے نتیجے میں سوائے دکھ و تکلیف کے کچھ بھی نہیں آیا وہ قوم کا کوئی اور ہی طبقہ تھا جس نے اس نام نہاد تعمیر و ترقی سے استفادہ کیا۔

تو کیا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ پنڈت جی بھی مخلص نہیں تھے ؟ رجنی نے جھٹ سے سوال کیا۔ جی نہیں شاستری بولے۔ مجھے ان کے ساتھ بھی کام کرنے کا موقع ملا ہے۔ میں نے انہیں بہت قریب سے دیکھا ہے اس لئے ان کے اخلاص پر تو میں شک نہیں کرسکتا لیکن یہ ضرور محسوس کرتا ہوں کہ ان سے غلطی ہوئی اور غلطی کرنے کے لیے اخلاص سے عاری ہونا ضروری نہیں ہے۔ نادانستہ طور پر کسی سے بھی خطا سرزدہو سکتی ہے لیکن غریب کو اس کے قصور کی سزا بھگتنی پڑتی ہے اور بڑوں کی غلطی کا جواز پیش کر کے اس پر پردہ ڈال دیا جاتا ہے۔ مگر پنڈت جی تو بہت پڑھے لکھے انسان تھے ؟ رجنی نے ایک اور سوال کر دیا۔ اس کے دل میں چاچا نہرو کے تئیں جو عقیدت پائی جاتی تھی وہ اس سے پے درپے سوال کروا رہی تھی۔

جی ہاں وہ تعلیم یافتہ اور جہاندیدہ انسان تھے لیکن ان کا تحت الشعور اشتراکیت کے فلسفے سے متاثر تھا۔ انہیں خوف تھا کہ کہیں سرمایہ دار ملک کے سارے وسائل کو اپنے قبضے میں لے کر غریبوں کو ان سے محروم نہ کر دیں۔ یہ تو ایک قابلِ قدر اندیشہ تھا؟ کیا اس میں سماج کے کمزور طبقات سے ہمدردی کا جذبہ شامل نہیں تھا ؟ رنویرشاستری نے تائید کی اور کہا بے شک تھا لیکن انہوں نے جو حکمت عملی اختیار کی وہ ناقص تھی۔ انہوں نے سوچا کہ کیوں نہ سارے قدرتی وسائل پر حکومت قابض ہو جائے اور پھر اس کی منصفانہ تقسیم کر دی جائے۔

رجنی نے کہا اس میں کیا برائی تھی ؟ کوئی برائی نہیں تھی لیکن ایسا ہو نہ سکا۔ انہوں نے سب سے پہلے آبی وسائل کو حکومت کے قبضے میں لینے کا فیصلہ کیا تاکہ اس سے میدانوں کو سیراب کیا جا سکے لیکن اس کوشش میں قبائلی لوگوں کا پانی بند میں جو گیا تو پھر لوٹ کر واپس نہ آیا۔ پن بجلی گھروں سے بننے والی بجلی ان کے گھروں کو روشن نہ کرسکی۔ اس حقیقت کا مشاہدہ خود رجنی بھی کالا ہانڈی میں کر چکی تھی۔ اس نے کہا یہ بات درست ہے لیکن ایسا کیوں ہوا؟

شاستری بولے اس کی وجہ پنڈت جی کی جزوی کامیابی تھی۔ وہ امیروں سے تو کچھ لے نہ سکے مگر غریبوں سے جو کچھ لے لیا اسے واپس تک نہ کر سکے اور آگے چل کر تو یہ ہوا کہ ان کے ورثاء نے قومی و عالمی سرمایہ داروں سے سانٹھ گانٹھ کر لی۔ غریبی ہٹاؤ کا نعرہ لگا کر غریبوں کو ہٹانے کی مہم میں لگ گئے۔ تو کیا سرکاری اہلکاروں کو اپنی غلطی کا احساس ہی نہیں ہوا ؟ شاستری نے ہنس کر کہا غلطی؟ کیسی غلطی؟ ہم لوگ ان قبائلی طبقے کو کچھ دینے کے لیے وہاں گئے ہی کب تھے ؟ ہماری ساری توجہات کا مرکز تو میدانی علاقے اور شہروں میں رہنے والوں کی فلاح و بہبود تھا۔ انہیں کے لیے پانی اور بجلی کی ضرورت حکومت کو ان پہاڑی ندیوں کی جانب لے گئی تھی اور ہم نے اپنے اس مقصد میں کامیابی حاصل کی۔

رجنی نے پھر سوال کیا کہ شاستری جی مجھے یہ بتائیے کہ اس ترقی کے عمل میں قبائلی لوگوں کو شامل کرنے میں کون سے عوامل مانع ہوئے ؟ شاستری جی بولے ویسے تو کئی اسباب ہیں لیکن سب سے اہم یہ کہ ہم نے ان غریب لوگوں کو کوئی اہمیت نہیں دی۔ ان سے سرکار کا کوئی خاص فائدہ نہیں تھا۔ سرکاری خزانے میں وہاں سے کوئی خراج وصول نہیں ہوتا تھا۔ ان کے حقوق کی خاطر لڑنے والا کوئی رہنما نہیں تھا۔ ان کی آواز کو دبا دینا بہت آسان تھا اور سب سے اہم یہ کہ حکومت نے جب ندیوں پر بند باندھنا شروع کیا تو اس کے نتیجے میں قبائلی لوگوں کو دربدر ہونا پڑا۔ بند ان کی زمینوں کو نگل گئے۔ ان کو جنگلوں سے انہیں محروم کرنے کی سازش کی گئی تاکہ بند کے پانی سے غیر قبائلی کسانوں کے کھیتوں کو سیراب کیا جا سکے۔ ان کے گھروں کو اجاڑنا پڑتا کہ وہاں بننے والی بجلی سے شہروں کو روشن کیا جا سکے۔

رجنی نے کہا اس طرح کے الزامات ماؤوادی تنظیموں کی جانب سے تو لگائے جاتے رہے ہیں لیکن مجھے ان پر بھروسہ اس لئے نہیں ہوتا کیونکہ وہ اپنے دعویٰ کے حق میں کوئی دلیل یا ثبوت نہیں پیش کرتے تھے جس سے ایسا محسوس ہوتا ہے گویا یہ سب عوام کو ورغلانے کا پروپگنڈہ ہے۔ اس سے ملک و قوم کی بدنامی کے سوا کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا۔

جی نہیں شاستری بولے ایسی بات نہیں دراصل ذرائع ابلاغ کے لوگ ان کی پوری بات شائع نہیں کرتے تھوڑا بہت بیان کرتے ہیں لیکن بہت سارا چھپا دیتے ہیں مثلاً اس میں شک نہیں کے ۱۹۹۵ میں ہماری ریاستوں کے گودام اناج سے اٹے پڑے تھے اور ۳ کروڑ ٹن اناج بک نہ سکا تھا لیکن اس کے ساتھ یہ بھی حقیقت تھی کہ ملک کی ۴۰ فیصد عوام یعنی ۳۵ کروڑ لوگ خطِ افلاس کے نیچے زندگی گزار رہے تھے۔ ان غریب لوگوں کی قوت خرید اس قدر کم تھی کہ وہ خود اپنے ملک کا اناج خریدنے سے قاصر تھے۔ کالاہانڈی ضلع میں اناج کی پیداوار قومی اوسط شرح سے زیادہ تھا جس کے سبب اضافی اناج مرکز کو بھیجنا پڑا لیکن وہیں دوسری جانب اسی ضلع میں ۱۹۹۶ کے اندر سرکاری اعدادو شمار کے مطابق ۱۶ اور غیر سرکاری تنظیموں کے مطابق ۱۰۰ سے زیادہ لوگ بھکمری کا شکار ہوئے۔ ان حقائق کی پردہ پوشی کرنے کے بجائے حالات کو بدلنے کی کوشش کی جانی چاہئے۔

رجنی کی سمجھ میں سارا قصہ آنے لگا تھا وہ بولی گویا ملک نے تو ترقی کی لیکن عوام ترقی نہ کرسکے غریبوں کو ترقی میں حصہ دار بنانے کے بجائے انہیں تباہ برباد کیا گیا۔ فقراء کے جھونپڑے جلا کر امراء کے محل روشن کئے گئے۔ لیکن ان لوگوں نے اس ظلم کو کیوں کر برداشت کر لیا ؟ احتجاج کیوں نہیں کیا؟ شاستری جی بولے اس کام کو جس سفاکی سے کیا گیا اگر تم یہ جان لو تمہیں ان سوالات کا جواب مل جائے گا مثال کی طور پر۱۹۶۱ میں مرکزی وزیر خزانہ مرار جی دیسائی نے پونگ ڈیم میں جن لوگوں کے گھربار ڈوبنے والے تھے ان سے مخاطب کر کے کہا تھا جب ڈیم کی دیواریں ابھر آئیں تو ہم آپ سے گزارش کریں گے کہ آپ خود اپنے گھر سمیت یہاں سے ہٹ جائیں۔ اگر آپ چلے جائیں تو یہ آپ کے لیے بہتر ہے ورنہ ہم پانی چھوڑ دیں جو آپ سب کو غرقاب کر دے گا۔

رجنی بولی میں اس بارے میں تفصیل جاننا چاہتی ہوں آپ میری رہنمائی فرمائیں کہ میری ان دستاویزات تک رسائی کیونکر ممکن ہے ؟شاستری نے کہا اگر تم مزید معلومات حاصل کرنا چاہتی ہو تو محکمہ آبپاشی میں جا کر اعداد و شمار دیکھو تمہاری سمجھ میں سب کچھ آ جائے گا۔ رجنی بولی لیکن وہاں میری مدد کون کرے گا ؟ شاستری بولے کہ اب کافی وقت ہو گیا ہے تم گھر جاؤ۔ میں پتہ لگاتا ہوں۔ وہاں میری جان پہچان کا کوئی نہ کوئی نکل ہی آئے گا۔ میں اسے فون کر کے تمہارے بارے میں بتلا دوں گا اور تمہیں اس کے بارے میں۔ میرا خیال ہے تمہارا کام ہو جائے گا۔ مجھے خوشی ہے کہ تم اس بابت اس قدر سنجیدہ ہو اور مجھے یقین ہے کہ تم قبائلی عوام کی فلاح و بہبود کی خاطر کوئی بڑا کام کرو گی۔ میری نیک خواہشات تمہارے ساتھ ہیں۔ رجنی سمجھ گئی کہ یہ جانے کا اشارہ ہے۔ اس نے کھڑے ہو کر ہاتھ جوڑے اور پرنام کر کے شکریہ ادا کیا۔ شاستری جی اس کے ساتھ اپنے کمرے کے دروازے تک آئے اور اسے الوداع کیا۔

رجنی نے دوسرے دن رنویر شاستری کو فون کیا تو انہوں نے بتایا محکمہ آبپاشی ایک صاحب رام سوامی ہیں۔ کل وہ ان سے جا کر ملاقات کرسکتی ہے۔ رجنی نے شکریہ ادا کر کے رام سوامی کا ٹیلیفون نمبر لے لیا۔ شاستری کے برعکس سوامی نہایت کم گو آدمی تھا۔ وہ رجنی کو اپنے ساتھ ایک بڑے سے ہال نما کمرے میں لے گیا۔ جس کی دیواروں کے ساتھ بڑی بڑی کھلی الماریاں تھیں جن کے اندر بہت ساری رپورٹس مجلد موجود تھیں۔ اس نے رجنی کو ایک فائل دی جس میں تمام رپورٹوں کے نام حروف تہجی کے لحاظ سے درج تھے اور بتایا کہ ان رپورٹس کو اسی ترتیب سے لگایا گیا ہے تاکہ ان کے حصول میں آسانی ہو۔ سوامی نے ہدایت کی کہ وہ جس دستاویز کو چاہے دیکھ سکتی ہے لیکن دوبارہ اسے اپنے مقام پر رکھنے کی زحمت نہ کرے بلکہ میز پر چھوڑ دے۔ اس کام کے لیے لائبریرین موجود ہے۔ اگر کوئی خاص دقت ہو تو اس سے رابطہ کیا جا سکتا ہے۔ یہ کہہ کر رام سوامی جانے لگا تو رجنی نے پوچھا اس انمول خزانے سے کوئی استفادہ بھی کرتا ہے ؟

سوامی بولا جی ہاں نجی صلاح کار ادارے نئی رپورٹس تیار کرنے کے لیے پرانی رپورٹس سے رجوع کرتے ہیں۔ کبھی کبھار کسی یونیورسٹی کا طالبعلم اپنا پی ایچ ڈی کا مقالہ مکمل کرنے کی خاطر یہاں کا رخ کرتا ہے یا ایسا بھی ہوتا ہے کہ کوئی وکیل اپنے کسی مقدمے کی تیاری میں یہاں چلے آئے لیکن یہ سب شاذو نادر ہی ہوتا ہے۔ رجنی نے پوچھا لیکن آپ جیسے حکومت کے اہلکار اس سے استفادہ نہیں کرتے ؟ جی نہیں محترمہ یہ ہمارا کام نہیں ہے۔ ہم لوگ تو صرف اس طرح کے پراجکٹس تفویض کرنے کا کام کرتے ہیں۔

رجنی نے پھر سوال کیا معاف کیجئے سوامی جی میں کچھ سمجھی نہیں۔ سوامی بے زاری سے بولا بھئی اس میں سمجھنے کی کیا بات ہے۔ ابتدا ء میں پراجکٹ کے قابل عمل ہونے کا تجزیاتی رپورٹ کا کام ہم لوگ عالمی بنک کے ذریعہ تسلیم شدہ بین الاقوامی نامور کنسلٹنٹ کو سونپتے ہیں۔ اس کے بعد ان کی سفارشات پر عالمی بنک سے قرض مل جاتا ہے۔ اس کے بعد پھر بین الاقوامی کمپنیاں اس کا نقشہ بناتی ہیں اور جب پراجکٹ عملی مرحلے میں داخل ہوتا ہے تو ملک کے بڑے ٹھیکیداروں کو تعمیر کا کام سونپ دیا جاتا ہے۔ ان کی نگرانی کے لیے بین الاقوامی کمپنی ہوتی ہے۔ ہمارا کام تو بس قرض لینا اور اسے تقسیم کرنا ہے۔

رجنی کو اس پر ہنسی آئی وہ بولی تو کیا آپ لوگ اس کے علاوہ کچھ اور نہیں کرتے ؟ سوامی مسکرایا اور بولا اس لین دین میں ہمارا اپنا بھی حصہ ہوتا ہے آپ تو جانتی ہیں باورچی کھانا بناتا ہے تو اسے چکھتا بھی ضرور ہے۔ رجنی بولی جی نہیں میرا مطلب یہ ہے کہ جو قرض لیا جاتا ہے اسے واپس بھی تو کیا جاتا ہو گا؟ سوامی بولا جی ہاں لیکن وہ وزیر خزانہ کے دفتر کا کام ہے۔ ہمارا اس میں کوئی عمل دخل نہیں ہے۔ آپ ایسا کریں کہ اپنا کام کریں میرے پاس اور بھی بہت سارے کام ہیں اس لئے مجھے اجازت دیں۔

رام سوامی کو رجنی کے سوالات سے الجھن ہونے لگی تھی اس لئے وہ جان چھڑا کر بھاگ کھڑا ہوا۔ رام سوامی حرکتِ عمل میں یقین رکھتا تھا سوچنے سمجھنے اور بولنے چالنے میں اسے کوئی خاص دلچسپی نہیں تھی یہی وجہ تھی کہ ایک مختصر سے عرصے میں وہ کثیر دھن دولت کا مالک بن چکا تھا۔

رام سوامی کے چلے جانے کے بعد رجنی کو ایسا محسوس ہوا گویا یہ وسیع و عرض ہال ایک بھوت بنگلہ ہے اور وہ مختلف ڈھانچوں کے درمیان کھڑی ہوئی ہے۔ رجنی کو اپنے آپ سے ڈر لگ رہا تھا۔ وہ اس فائل کو لے کر ایک کرسی پر بیٹھ گئی جس میں تمام دستاویزات کی فہرست تھی اور سوچنے لگی کس دستاویز کو دیکھا جائے اور کسے نہیں ؟ کہاں سے کا م کا آغاز کیا جائے۔ رام سوامی کی گفتگو نے اس کے اندر عالمی بنک کے حوالے سے تجسس پیدا کر دیا تھا۔ اسے محسوس ہوا کہ اس سارے کھیل میں اس ادارے کا بہت ہی بنیادی کردار ہے اور رجنی کی معلومات اس بابت صفر سے زیادہ نہیں ہے اس لئے کیوں نہ یہیں سے اپنے کام کا آغاز کیا جائے۔ اس طرح وہ معیشت کے شعبہ میں داخل ہو گئی۔

رجنی نے جب اس سے متعلق اعداد و شمار دیکھے تو اس کے ہوش اڑ گئے۔ آزادی کے بعد ۵۰ سالوں میں حکومت ہند نے آبپاشی کے شعبے میں ۸۰۰۰۰ کروڑ روپئے خرچ کئے تھے لیکن اس کے باوجود ملک میں قحط کا شکار ہونے والے یا سیلاب کی زد میں آنے والے علاقوں کے رقبہ میں اضافہ ہی ہوا تھا۔ ان چونکا دینے والے اعداد و شمار کے سبب رجنی کو ایسا لگا گویا یہ ساری رقم پانی میں بہہ گئی اور قوم کا اس سے کوئی خاص بھلا نہیں ہوا جس کا ذکر۱۹۴۸ کی تقریر میں پنڈت جی نے کیا تھا۔ اس بارے میں عالمی بنک کا رویہ نہایت مشفقانہ تھا۔ ۱۹۴۷ سے لے کر ۱۹۹۴ تک عالمی بنک کو کل ۶۰۰۰درخواستیں موصول ہوئیں اور ان لوگوں نے ان میں سے کسی کو مسترد کرنے کی زحمت نہیں کی بلکہ دل کھول دولت لٹاتے رہے۔ سردار سروور کے لیے انہوں ۴۵ کروڑ ڈالر کی رقم۱۹۸۵ ہی میں فراہم کر دی جبکہ وزارت ماحولیات نے اسے ۱۹۸۷ میں ہری جھنڈی دکھلائی اور اس کے بعد ہی اس پر کام کا آغاز ہوسکا گویا ۲سال تک اس رقم پر ہم لوگ بلاوجہ سود ادا کرتے رہے۔

عالمی بنک کے اس جوش و خروش کا عقدہ رجنی پر کھلنے لگا تھا اور یہ بات اس وقت اس کے سامنے پوری طرح واضح ہو گئی جب اس نے عالمی بنک کی۱۹۹۸ کی رپورٹ کو دیکھا ہندوستانی خزانے سے جانے والی سود اور قسطوں کی رقم قرض سے ۴۸ کروڑ ڈالر زیادہ تھی۔ اسی رپورٹ میں یہ بھی درج تھا کہ ۱۹۹۳ تا ۱۹۹۸ کے دوران ہندوستان نے جو قرض لیا اس سے ۱۴۷ کروڑ ڈالر اضافی سود اور قسطوں کے طور پر ادا کیا گیا۔

اس طرح گویا فراخدل عالمی بنک پانی کی طرح ہندوستانی خزانے کا خون چوس رہا ہے۔ خزانے کی وہ رقم جو عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ ہونی چاہئے وہ بین الاقوامی سود خواروں کا جیب بھرنے میں صرف ہو رہی ہے اور قوم دن بدن ایک ناگہانی سیلاب میں غرق ہوتی جا رہی ہے۔ کوئی اس کی جانب متوجہ نہیں کرتا کہ اس لئے وزراء سے لے کر ذرائع ابلاغ تک سارے لوگوں کو بدعنوانی کی شراب سے مدہوش کر دیا گیا ہے۔ رجنی کا دماغ گھوم گیا اور اور وہ سوامی سے دوسرے دن آنے کا وعدہ کر کے ہوٹل کے کمرے میں لوٹ آئی۔

 

 

 

 

سجنی ملہوترہ

 

ہوٹل میں واپس آنے کے بعد رجنی کو پتہ چلا کہ کمرہ خالی ہے۔ جیتو اور آکاش سیرو تفریح سے لوٹے نہیں ہیں۔ اس نے سوچا اوپر جا کر اپنے آپ کو تنہائی کے حوالے کرنے کے بجائے کیوں نہ نیچے کافی ہاؤس میں بیٹھ کر چائے پی جائے۔ کافی ہاؤس کی جانب جاتے ہوئے اسے درمیان میں ٹور اینڈ ٹراویل کا کاؤنٹر نظر آیا اور بے ساختہ اس کے قدم اس دفتر کی جانب چل پڑے۔ رجنی جیسے ہی دفتر میں داخل ہوئی ایک نہایت خوبصورت دوشیزہ نے اسے خوش آمدید کہا اور بولی میں سجنی ہوں سیر و تفریح کی حسین و رنگین دنیا میں آپ کا استقبال کرتی ہوں۔

رجنی اس کی زبان سے اپنا نام سن کر چونک پڑی اور پوچھا تمہیں کیسے معلوم ہوا کہ میرا نام رجنی ہے ؟وہ خاتون مسکرا کر بولی یہ تو مجھے ابھی آپ کے کہنے پر پتہ چلا کہ ہماری معزز مہمان کا نام رجنی ہے۔ رجنی بولی لیکن میں آپ کی مہمان نہیں ہو ں ؟ اس خاتون نے مسکرا کر سوال کیا اچھا تو کیا میں آپ کی میزبان نہیں ہوں ؟ رجنی کے پاس تائید کے علاوہ کوئی چارۂ کار نہیں تھا۔ اس کے جواب میں سجنی بولی اگر میں آپ کی میزبان ہوں تو آپ میری مہمان ہو گئیں۔ رجنی کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا وہ نادانستہ طور پرسجنی کے دام میں پھنستی چلی جا رہی تھی۔

رجنی اورسجنی اب ایک دوسرے کے سامنے براجمان تھیں۔ رجنی کے کمرے کی چابی ان کے درمیانی میز پر رکھی ہوئی تھی۔ سجنی نے اس پر درج نمبر کو اپنے کمپیوٹر میں ٹائپ کیا تو مانیٹر پر رجنی، آکاش اور جیتو کی وہ تمام تفصیلات نمودار ہو گئیں جو ان لوگوں نے ہوٹل میں بکنگ کے وقت درج کرائی تھیں۔ سجنی کے پاس اب رجنی سے بات کرنے کے لیے کئی مشترک موضوعات موجود تھے۔ اس نے سوال کیا تو میڈم آپ ریاست چھتیس گڑھ کی راجدھانی رائے پور کی رہنے والی ہیں۔ رجنی سوچنے لگی یہ عورت کہیں جادوگر تو نہیں ؟ اسے رائے پور کے بارے میں کیسے پتہ چلا جبکہ وہ بلا ارادہ اس کے دفتر میں آ گئی۔

رجنی نے سر ہلا کر تائید کی تو وہ بولی آپ کے شہر کا ہوائی اڈہ بہت خوبصورت ہے۔ رجنی نے سوچا کہ اسے بہلانے کی خاطر یہ عمومی سا کلمہ سجنی نے کہہ دیا ہے اس لئے اسے کھرچنے کی خاطر وہ بولی ہوائی اڈے تو سارے ایک جیسے ہی ہوتے ہیں۔ ایک عمارت جس میں ایک بڑی سی انتظار گاہ، کچھ دفاتر اور طعام گاہیں اور اس کے سامنے لمبی سی سڑک جس پر ہوائی جہاز اڑان بھرنے سے قبل دوڑ لگاتے ہیں۔

سجنی بولی محترمہ آپ کا بیانیہ نہایت سہل اور سادہ ہے وہ تو اچھا ہوا کہ کسی نے آپ سے میرے چہرے کے بارے میں نہیں پوچھ لیا ورنہ آپ کہتیں اس میں بھلا کیا ہے ایک گیند نما کھوپڑی اس پر کھاس پھوس کی مانند اگے ہوئے بال۔ ایک ابھری ہوئی ناک کے اندر دوسوراخ اور اس کے نیچے ایک بڑا سا دہانہ دونوں جانب انیٹینا کی مانند نکلے ہوئے کان اور درمیان میں چٹیل میدان۔ اس میں بھلا کیا حسن ہے ؟رجنی نے کہا اگر کوئی تمہارے بارے میں یہ کہتا ہے کہ تم حسین نہیں ہو تو وہ نابینا ہے اور پھر اس ظاہری ناک نقشے کے پیچھے تمہارا نہایت زرخیز دماغ، شیرین زبان، معصوم سا دل بھی تو ہے۔ سجنی اپنی تعریف سن کر خوش ہو گئی اور بولی یہ آپ کا حسنِ نظر ہے جو میرے بارے میں کئی خوش فہمیوں کا شکار ہے لیکن چونکہ اس میں میرے لئے خیر ہے اس لئے میں انہیں دور کرنے کی کوشش نہیں کروں گی۔

رجنی نے کہا لیکن وہ رائے پور کے ہوائی اڈے والی بات؟؟؟ جی ہاں سجنی بولی میں تو اس شخص کو سلام کرتی ہوں جس نے اس مقام کا انتخاب کیا۔ چہار جانب پھیلی ہوئی پہاڑیوں کے درمیان ایک ننھا سا ٹیلہ ایسا لگتا ہے کہ قدرت نے اسے اسی کام کے لیے تراشا تھا۔ آپ یقین کریں میں جب بھی جہاز سے اس ہوائی اڈے پر اترتی تھی تازہ ہواکا ایک جھونکا سفر کی ساری تھکن دور کر دیتا تھا اور ایسا لگتا ہی نہیں تھا کہ ہم لوگ دہلی سے تین گھنٹے کی طویل مسافت طے کر کے وہاں پہنچے ہیں۔ رجنی بولی اچھا تو میں اب سمجھی آپ بھی رائے پور کی رہنے والی ہیں۔ بھئی اپنا شہر تو ہر کسی کو اچھا لگتا ہے اور لگنا بھی چاہئے۔ رجنی کا تکا بے نشان ٹھہرا سجنی نے خالص ہریانوی لہجے میں جواب دیا جی نہیں بہن جی میں تو ہریانہ کے ضلع روہتک کی رہنے والی ہوں جہاں نہ کوئی پہاڑی ہے نہ ٹیلا تا حد نظر سر سبزو شاداب لہلہاتے ہوئے کھیت اور بس۰۰۰۰۔

رجنی نے بات بدلنے کے لیے کہا کیا میں یہ جان سکتی ہوں کہ آپ نے آخر میں اور بس کیوں کہا؟ کیوں نہیں سجنی بولی قدرت کا حسن اس کے نشیب و فراز میں ہے زندگی کی یکسانیت اسے بے رنگ اور بے مزہ کر دیتی ہے اسی لئے میں نے کہا اور بس۔ رجنی کے لیے یہ ایک نیا انکشاف تھا وہ بولی لیکن لوگ تو اونچ نیچ سے گھبراتے ہیں وہ ہر تبدیلی میں مزاحم ہوتے ہیں چاہتے ہیں کہ سب کچھ یونہی چلتا رہے کچھ نہ بدلے۔ یہ آپ نے درست فرمایا لوگ چاہتے تو ہیں کہ ان کی زندگی رنگا رنگ ہو لیکن جانتے نہیں کہ اس کی رنگینی کا راز کہاں پوشیدہ ہے ؟لیکن اس کائنات کا خالق سے بہتر اسے کون جان سکتا ہے اس لئے وہ کبھی دھوپ کو چھاؤں میں بدل دیتا ہے تو کبھی دن کو رات میں پرو دیتا ہے۔ تبدیلیوں کا ایک لامتناہی سلسلہ ہے جس پر یہ کائناتِ ہستی رواں دواں ہے اور ان کو کوئی روک نہیں سکتا۔ جو کسی انسان کی مرضی کا تابع نہیں بلکہ کارسازِ ہستی کے اشارے پر گامزن ہے۔

لیکن کیوں اور کب تک؟ رجنی نے بے ساختہ دو سوال کر دئیے۔ سجنی بولی دیکھو رجنی سانس اگر آئے مگر جائے نہیں تو اس کا تار ٹوٹ جائے گا۔ دل پھولنے کے بعد پچکے نہیں تو اس کی دھڑکن بند ہو جائے گی اور زندگی موت میں بدل جائے گی۔ اسی طرح جب تک اس دنیا کو چلنا ہے تبدیلیاں واقع ہوتی رہیں گی اور جب اس کی بساط لپیٹ دی جائے گی تغیر و تبدیلی کا یہ سفر بھی اپنے آپ ختم ہو جائے گا۔ رجنی کو ایسا لگا جیسے وہ کسی عظیم مفکر سے محو گفتگو ہے۔ اس نے سوال کیا سجنی اس ننھی سی عمر میں یہ علم و حکمت کی باتیں تم نے کہاں سے سیکھ لیں ؟

سجنی بولی فی الحال میں دفتر میں بیٹھنے لگی ہوں لیکن اس سے پہلے میں ٹورسٹ گائیڈ ہوا کرتی تھی۔ میرا کام سیاحوں کے ساتھ سفر کرنا اور انہیں تاریخی اور قدرتی مقامات کے بارے میں معلومات فراہم کرنا ہوتا تھا لیکن اس دوران میری ملاقات کئی ایسے لوگوں سے ہو جایا کرتی تھی جن کے پاس علم و فن کے خزانے ہوا کرتے تھے۔ مجھے ایسے لوگ بہت اچھے لگتے تھے۔ میں اپنی فرصت کے اوقات ان کی صحبت میں گزارتی اور ان سے حکمت وفراست کی باتیں سنتی اور انہیں یاد رکھ لیتی۔ ایسا ہی ایک سیاح اپنے اہل خانہ کے ساتھ ترکی سے آیا تھا جو پیشے سے تاریخ کا پروفیسر تھا مگر باتیں فلسفیانہ کرتا تھا۔ میں نے ان کے ساتھ دو ہفتے گزارے اور نہ صرف دہلی آگرہ بلکہ ہندوستان کے مختلف مقامات کی سیر کی اور بہت کچھ سیکھا

رجنی نے کہا ایسا لگتا ہے تمہیں اس پروفیسر سے خاصی عقیدت ہو گئی تھی۔ جی ہاں ان دو ہفتوں کے دوران میں ان کے خاندان کی ایک فرد بن گئی تھی۔ ان کے اخلاق و عادات نے مجھے بے حد متاثر کیا تھا جب وہ لوگ واپس جانے لگے تو مجھے تو بہت دکھ ہوا بلکہ میرا جی چاہا کہ میں بھی ان کے ساتھ چلی جاؤں۔ اچھا تو کیا ان لوگوں نے تمہیں اپنے ساتھ لے جانے سے انکار کر دیا ؟ رجنی نے سوال کیا۔ جی نہیں سجنی بولی بلکہ وہ تو مجھے اپنے ساتھ چلنے کے لیے اصرار کر رہے تھے۔ اچھا تو پھر کس چیز نے تمہیں روک دیا؟ اس سوال پر سجنی خاموش ہو گئی۔ اس کے چہرے پر مختلف تاثرات آتے جاتے رہے۔ رجنی حیرت سے یہ سب دیکھ رہی تھی۔ کچھ دیر بعد سجنی بولی دراصل بات یہ ہے کہ مجھے ڈر لگنے لگا تھا۔ ڈر؟ کیسا ڈر؟ کس سے ڈر گئی تھیں تم؟ رجنی نے چونک کر پوچھا۔ میں ! میں اپنے آپ سے ڈر گئی تھی۔ مجھے ایسا لگنے لگا تھا کہ اگر میں ان کے ساتھ کچھ اور دن رہوں گی تو مسلمان ہو جاؤں گی۔ اسی خوف سے میں ان کے ساتھ نہیں گئی۔

رجنی اس جواب کو سن کر مطمئن سی ہو گئی اور بولی تب تو اچھا ہی ہوا جو تم نہیں گئیں۔ سجنی نے کہا شروع میں مجھے بھی ایسا ہی لگا جیسا کہ تم سوچتی ہو۔ اچھا لیکن اب تم کیا سوچتی ہو؟ اب!!!سجنی پھر سوچ میں پڑ گئی اور قدرے توقف کے بعد بولی۔ اب میں سوچتی ہوں کہ میں نے غلطی کی تھی۔ ایک سنہرہ موقع میرے سامنے از خود چلا آیا تھا لیکن میں نے اسے گنوا دیا۔ میں اس کی قدردانی نہ کرسکی۔ اب میں نہیں جانتی کہ دوبارہ ایسا موقع مجھے نصیب ہو بھی کہ نہیں ؟ مجھے اس کے سوا اپنی زندگی کے کسی فیصلے پر کبھی افسوس نہیں ہوا لیکن رجنی وہ پروفیسر درست کہتا تھا سجنی وقت کا دھارا کبھی نہیں رکتا اور اس کی میان سے نکلنے والا تیر کبھی واپس نہیں آتا۔ سجنی کی آنکھوں میں نمی کو ہلکی سی لکیر تھی اس کا چہرہ سرخ ہو گیا تھا ہونٹ سکڑ گئے تھے۔ رجنی یہ سب دیکھ کر گھبرا سی گئی اور بولی سجنی معاف کرنا۔ مجھے ذاتی نوعیت کے سوالات سے گریز کرنا چاہئے تھا۔ میں معذرت چاہتی ہوں۔ یہ کہہ کر رجنی اس دفتر سے اٹھ کر باہر آسمان کے نیچے کھلے کافی ہاؤس میں آ کر بیٹھ گئی جس میں بڑی بڑی چھتریاں لگی ہوئی تھیں۔

رجنی نے کافی کا آرڈر دیا اور سجنی کے بارے میں سوچنے لگی کہ اس کی پشت سے آواز آئی کیا میں آپ کے ساتھ بیٹھ سکتی ہوں۔ سجنی اس کے ساتھ بیٹھنے کی اجازت طلب کر رہی تھی۔ رجنی نے ہاتھ پکڑ کر اسے اپنے سامنے بٹھاتے ہوئے کہا کیا یہ تکلف ضروری ہے ؟سجنی بولی اب میں معذرت چاہتی ہوں۔ آپ میرے دفتر میں یقیناً سیر و سیاحت سے متعلق کسی کام سے آئی ہوں گی لیکن میں نے آپ کو غیر ضروری باتوں میں الجھا دیا۔ میں یہ معلوم کرنا چاہتی ہوں کہ آپ کیوں آئی تھیں اور کیا اس بارے میں یہاں بات ہوسکتی ہے یا میں دفتر میں جا کر آپ کا انتظار کروں ؟ رجنی بولی بات تو یہاں بھی ہو سکتی ہے لیکن اس سوال کا میرے پاس کوئی ٹھوس جواب نہیں ہے۔ میرا ارادہ تو یہیں کافی ہاؤس میں آنے کا تھا لیکن نہ جانے کیوں میں تمہارے دفتر میں داخل ہو گئی ؟

سجنی بولی کوئی بات نہیں ہم لوگ بہت سارے کام غیر شعوری طور پر کرتے ہیں خیر یہ بتائیے کہ گزشتہ آٹھ دنوں کے درمیان آپ نے کن کن مقامات کی سیر کی اور تاکہ میں باقی ماندہ مقامات کے سلسلے میں آپ کو کچھ بتلا سکوں۔ رجنی کے لیے یہ سوال مشکل بھی تھا اور آسان بھی۔ وہ بولی دیکھو بہن میں یہاں سیاحت کی غرض سے نہیں آئی بلکہ ایک سرکاری کانفرنس میں شرکت کے لیے آئی تھی اور مجھے دو دن قبل لوٹ جانا تھا لیکن کسی تحقیق کے پیش نظر میں نے واپسی ملتوی کر دی اس لئے میں نے یہاں کسی مقام کی سیر نہیں کی۔ لیکن آپ کے ساتھ آپ کے شوہر اور بیٹا بھی تو ہیں ؟ جی ہاں وہ تمہارے متوقع گاہک ہو سکتے تھے مگر وہ بھی پچھلے ہفتے کے دوران بہت ساری چیزیں دیکھ چکے ہیں۔ تو کیا آپ کوئی قسم کھا کر آئی ہیں کہ اس سفر کے دوران سیر و تفریح سے مکمل گریز کریں گی کہیں کسی جیوتش نے تو کوئی ایسی ویسی بات نہیں کہہ دی؟

رجنی بولی جیوتش! مجھے پہلے تو اس طرح کی دقیانوسی باتوں پر یقین نہیں تھا مگر تم سے ملنے کے بعد ہونے لگا ہے۔ سجنی نے چونک کر کہا مجھ سے ملنے کے بعد ؟ میں نے نہ تو آپ کا ہاتھ دیکھا اور نہ مستقبل کے بارے میں کوئی پیشن گوئی کی؟ جی ہاں مگر اس کے باوجود تم نے میرے ماضی کے بارے بہت کچھ بتلا دیا جو صد فیصد سچ تھا۔ اپنے مستقبل کے بارے تو میں خود نہیں جانتی اس لئے اس کے صحیح یا غلط ہونے کا فیصلہ نہیں کرسکتی مگر اپنے ماضی کے بارے میں جانتی ہوں۔ تمہیں نہ صرف میرے شہر، میری آمد بلکہ میرے ہمراہ آنے والوں کے بارے میں بھی سب کچھ پتہ چل گیا۔ تم اگر جیوتش نہیں تو جادوگر ضرور ہو۔ سجنی نے کہا بھئی یہ تو وہی معلومات ہیں جو آپ نے ہمارے ہوٹل کو فراہم کی ہیں اس میں جادو ٹونے کا کیا دخل ؟ مجھے تو سیر وسیاحت سے آپ کی پرخاش کاسبب معلوم کرنا ہے؟

رجنی بولی ویسے کوئی خاص وجہ نہیں ہے۔ دراصل میرے پاس وقت ہی نہیں ہے اس لئے میں نے اس کی جانب توجہ نہیں دی۔ جن کے پاس ہے میرا مطلب ہے آکاش اور جیتو تو وہ اس سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ اچھا تو آج آپ نے ہمارے دفتر کا رخ کرنے کی زحمت کیوں کی؟ آج دراصل کام کرتے کرتے میری طبیعت اوب گئی تھی اس لئے جلد واپس لوٹ آئی۔ کمرے میں کوئی تھا نہیں تو کافی ہاؤس جانے کا ارادہ کیا درمیان میں نہ جانے کیوں تم نے مجھے اپنی جانب کھینچ لیا۔ سجنی بولی آپ کی آخری بات غلط ہے اس کے باوجود میں یہی کہوں گی آپ بہت صحیح وقت پر ہمارے دفتر میں آئیں۔ اچھا وہ کیوں ؟ دیکھئے پانی سب زیادہ لطف اسی وقت دیتا ہے جب انسان پیاسا ہو کھانے کا ذائقہ بھی بھوک کے اندر پوشیدہ ہے اسی طرح سیر و تفریح کا مزہ بھی اسی وقت۰۰۰۰۰۰۰۰۰جی ہاں میں سمجھ گئی رجنی بولی میرا خیال ہے تم نے مجھے شیشے میں اتار لیا ہے۔

سجنی بولی شکریہ اب یہ بتائیں کہ کیا آپ اس پہلے تاج محل دیکھ چکی ہیں ؟ جی ہاں لیکن بہت پہلے رجنی بولی۔ تب تو آپ کو اسے دوبارہ دیکھنا چاہئے۔ جی ہاں میں بھی یہ سوچ رہی ہوں۔ شاید کل یا پرسوں آکاش اور جیتو تاج محل دیکھنے کے لیے جانے والے ہیں۔ میرا خیال ہے مجھے بھی ان کے ساتھ ہو لینا چاہئے۔ اچھا تو وہ کیسے جا رہے ہیں ؟ سنا ہے تاج ایکسپریس نام کی کوئی ریل گاڑی ہے جو علیٰ الصبح دہلی سے نکل کر آگرہ جاتی ہے ۰۰۰۰۰۰۰ اور شام میں لوٹ آتی ہے۔ سجنی بیچ ہی میں بول پڑی۔ جی ہاں ایسا ہی ہے میں نہیں جانتی کس بے وقوف نے اس ٹرین کے اوقات الٹے رکھ دئیے ؟ کیا مطلب رجنی نے سوال کیا۔ میرا مطلب ہے اس ٹرین کو کم از کم قمری مہینے کے درمیانی عشرے میں شام کو جا کر صبح واپس آنا چاہئے ؟

رجنی کے لیے یہ تجویز نہایت احمقانہ تھی لیکن وہ جان گئی تھی کہ سجنی نہایت ذہین لڑکی ہے ضرور اس کے پسِ پشت کوئی حکمت کی بات ہو گی اس لئے اس نے سوال کیا ایسا کیوں ؟ اس لئے کہ تاج محل کا حسن تو چاندنی رات میں نکھر کر آتا ہے جبکہ لوگ اسے سورج کی دھوپ میں دیکھ کر لوٹ آتے ہیں۔ بھئی بہت خوب تم جیسی سمجھدار لڑکی کو تو وزیر سیاحت ہونا چاہئے۔ سجنی مسکرا کر بولی شکریہ لیکن ایسا ہو نہیں سکتا۔ کیوں ؟؟؟ اس لئے کہ وزیر بننے کے لیے انتخاب لڑنا اور جیتنا ہوتا ہے اب آپ ہی کہیے کہ کیا مجھ جیسا سمجھدار انسان آج کے دور میں انتخاب لڑ سکتا ہے ؟ اور اگر اس سے یہ حماقت سرزد بھی ہو جائے تب بھی کیا وہ کامیاب ہو سکتا ہے ؟ جی نہیں ایسا کبھی بھی نہیں ہو سکتا۔ اس لئے آپ ایسا کریں کہ تاج ایکسپریس سے تاج محل دیکھنے کا ارادہ ترک کر دیں۔ لیکن میں اکیلے کیسے جا سکتی ہوں ؟ تو ان کا منصوبہ بھی تبدیل کر دیں۔ لیکن وہ میری کب مانیں گے ؟ اگر ٹرین کا ٹکٹ بک ہو گیا ہو گا تو۰۰۰۰۰سجنی درمیان میں بول پڑی منسوخ ہو جائے گا۔ رجنی نے کہا لیکن میں انہیں سمجھا نہ سکوں گی۔ کوئی بات نہیں آپ ان کو میرے پاس بھیج دیں میں سمجھا دوں گی۔

رجنی بولی ٹھیک ہے میں آکاش کو تمہارے پاس بھیجوں گی۔ اب اسے سجنی سے ڈر لگنے لگا تھا اس لئے کہ وہ اپنی ہر بات بلا چوں چرا تسلیم کروا لیتی تھی اس نے سوچا کہیں یہ لڑکی ہپناٹزم کا فن تو نہیں جانتی؟ رجنی بولی اچھا یہ بتاؤ کہ اگر ہم لوگ تاج ایکسپریس سے نہیں جاتے تو شام میں کس ٹرین سے جائیں گے اور تفریح کے بعد رات کہاں گزاریں گے ؟ اس کی آپ فکر نہ کریں آپ ٹرین سے نہیں بلکہ بس سے جائیں گی اور رات آگرہ میں واقع ہمارے ہوٹل میں گزاریں گی۔ آپ کی ایک رات کی بکنگ تبدیل کر دی جائے گی الاّ یہ کہ آپ واپسی میں جے پور سے ہو کر آنا پسند کریں۔ جئے پور ؟؟؟رجنی نے چونک کر پوچھا یہ درمیان میں کہاں سے آ گیا؟ کیوں آپ نے جے پور کے بارے میں نہیں سنا وہ بھی ایک تاریخی شہر ہے جو گلابی شہر کے نام سے مشہور ہے اور وہاں تاج محل نہ سہی ہوا محل ضرور ہے۔ تاج محل جہاں مغلیہ تہذیب کی علامت ہے وہیں جے پور راجپوتوں کا نمائندہ ہے۔ اکثر سیاح ان دونوں شہروں میں ایک ساتھ جاتے ہیں اس لئے کہ ان کے درمیان فاصلہ بھی بہت زیادہ نہیں ہے۔ سجنی نے رجنی کے سامنے ایک اور دام پھینک دیا تھا۔

رجنی بولی جی نہیں فی الحال جئے پور کو چھوڑو اور یہ بتاؤ کہ تاج محل کے لیے تمہاری بس شام میں کس وقت روانہ ہو گی۔ سجنی بولی ہماری بس شام میں نہیں بلکہ کل صبح روانہ ہو گی۔ صبح؟؟؟ پھر وہی بات اگر ایسا ہے تو ہم لوگ کیوں نا تاج ایکسپریس میں چلے جائیں ؟ جی نہیں تاج ایکسپریس آپ کو دوپہر سے قبل وہاں پہنچا دے گی اور ہماری بس میں آپ لوگ شام ڈھلے آگرہ پہنچیں گے۔ اتنا وقت؟ صبح سے شام تک؟ جی ایسا ہے کہ ہماری بس یہاں سے پہلے فتح پور سیکری جائے گی اور آپ لوگ دن بھر وہیں گزاریں گے۔ دوپہر کے کھانے کا اہتمام ہماری کمپنی کی جانب سے ہو گا۔ اس کے بعد آپ لوگ آگرہ لوٹیں گے جہاں ہمارے ہوٹل میں آپ کے لیے کمرے مختص ہوں گے۔ وہاں شام کی چائے پینے کے بعد آپ لوگ کچھ وقت آرام کریں گے تاکہ تازہ دم ہو کر تاج محل کا نظارہ چاندنی رات میں کرسکیں اور اتفاق سے کل قمری ماہ کی تیرہ تاریخ ہے چاند تقریباً چودھویں کے چاند جیسا ہو گا۔

رجنی بولی لیکن ہم فتح پور سیکری کیوں جائیں ؟ وہاں کیا رکھا ہے ؟ جی ہاں چونکہ آپ نہیں جانتیں کہ فتح پور سیکری میں کیا ہے اس لئے یہ سوال کر رہی ہیں اگر جانتی ہوتیں تو سوال یہ ہوتا کہ ہم لوگ فتح پور سیکری کیوں نہیں جا رہے ؟ جی ہاں ہوسکتا ہے کہ یہ سوال ہوتا لیکن ہم چونکہ جانتے نہیں اس لئے وہاں کیوں جائیں ؟ بھئی اسی لئے جائیں تاکہ جان سکیں۔ آپ نے اکبر بادشاہ کا نام تو سنا ہی ہو گا ؟ جی ہاں وہ تو شاہجہاں سے بھی زیادہ مشہور ہے۔ کیوں نہ ہو اس کا دادا جو ہے۔ اسی اکبر نے یہ شہر بسایا تھا اور اس کے ذریعہ تعمیر کی جانے والی تاریخی عمارات آج بھی فتح پور سیکری میں موجود ہیں جو اکبر بادشاہ کے ذوقِ لطیف کا پتہ دیتی ہیں۔ اسی لئے ہم اپنے مہمانوں کو پہلے دادا سے ملواتے ہیں اور پھر پوتے کے پاس لاتے ہیں۔ سجنی نے اس طرح کہا گویا وہ دونوں وہاں موجود ہیں۔ لیکن اگر کوئی وہاں جانا نہ چاہے تو؟ اس کی مرضی۔ ایسا احمق انسان دن بھر اپنے ہوٹل کے کمرے میں بیٹھا رہے رات میں تاج محل دیکھ آئے۔

رجنی کو یوں لگا گویا وہ اسے احمق کہہ رہی ہے۔ وہ بولی ٹھیک ہے تمہارے کہنے پر فتح پور سیکری بھی ہو لیتے ہیں۔ بہت شکریہ سجنی بولی لیکن میں نے آپ سے جے پور کے لیے بھی کہا تھا اس تجویز پر بھی آپ غور کر لیں ورنہ بعد میں افسوس رہے گا۔ رجنی نے پوچھا لیکن اس کی تفصیل تو تم نے بتائی ہی نہیں۔ سجنی کا جی چاہا کہ وہ اس سے بولے آپ نے اس کا موقع ہی کب دیا لیکن اس مرحلے میں وہ اپنے اس گاہک کو ناراض کرنا نہیں چاہتی تھی۔ سجنی بولی ایسا ہے کہ آگرہ کے ہمارے ہوٹل میں آپ لوگ صبح کا ناشتہ کریں گے اور اس کے بعد آپ کو آگرہ شہر کی سیر کرواتے ہوئے متھرا لے جایا جائے گا اور آپ لوگ وہاں ہندو تہذیب کے قدیم مندر اور گنگا گھاٹ دیکھیں گے۔ کرشن جنم استھان اور اس کے بغل میں واقع گیان واپی مسجد بھی آپ لوگوں کو دکھلائی جائے گی۔ سچ تو یہ ہے کہ ان تاریخی مقامات کی اپنی انفرادی تہذیبی شناخت ہے۔ متھرا جیسے پنڈے اور پیڑے آپ کو دنیا میں کہیں اور دیکھنے و چکھنے کو نہیں ملیں گے۔ جس طرح آگرے کا پیٹھا مشہور ہے اسی طرح متھرا کا پیڑا۔

دوپہر کو آپ لوگ ورنداون کے اندر بیواؤ ں کے آشرم میں خالص سبزی ترکاری سے بنا ظہرانہ پتوں کے اوپر پیڑ کے نیچے نوش فرمائیں گے۔ رجنی نے حیرت سے پوچھا یہ درمیان میں بیوائیں کہاں سے آ گئیں ؟ سجنی بولی آپ نہیں جانتیں وہاں بیواؤں کا ایک بہت بڑا آشرم ہے۔ اب ان کی فلاح و بہبود کے لیے محکمۂ سیر و سیاحت نے ایک قدیم طرز کی طعام گاہ تعمیر کر دی ہے جس میں وہ بیچاری کام کرتی ہیں اور اسی سے ان کا گزر اوقات بھی ہو جاتا ہے۔ یہ تو دراصل خیر کے کام تعاون جیسا ہے۔

رجنی نے ہنس کر کہا سجنی تمہاری بس راستہ بھٹک گئی وہ جئے پور کے بجائے متھرا پہنچ گئی۔ سجنی بولی جی نہیں راستہ نہیں بھٹکی یہ تو درمیان کا ایک مرحلہ ہے۔ اس زبردست کھانے بعد آپ لوگ جیسے ہی ہماری ایر کنڈیشنڈ بس میں بیٹھیں گے گہری نیند میں سو جائیں گے اور جب آنکھ کھلے گی تو اپنے آپ کو جے پور میں پائیں گے۔ رجنی نے پوچھا اور اگر کسی کو نیند نہ آئے اسے دوپہر کو سونے کی عادت ہی نہ ہو مثلاً میں ؟ تو آپ کے لیے ہمارے بس کے اندر ٹی وی پر فلموں کا انتظام ہے آپ شوق سے بالی ووڈ کی ہٹ فلموں کا مزہ لیں ۰۰۰۰۰۰۰۰ اور دوسروں کی نیند میں خلل ڈالیں رجنی بول پڑی۔

جی نہیں سجنی نے کہا نیند کے دوران ویسے بھی آنکھیں بند ہوتی ہیں اس لئے خلل کیسا؟لیکن کان تو کھلے ہوتے ہیں۔ کیا آپ لوگ گونگی بہری فلم دکھلاتے ہیں ؟رجنی نے پھر سوال کیا۔ اوہو میں بھی کس قدر احمق مخلوق ہوں جو آپ کا سوال اب سمجھی دراصل بس کے ہر مسافر کو ایک ائیر فون ابتدائے سفر میں فراہم کر دیا جاتا ہے۔ اب جو اسے اپنے کان میں لگا کر سنے گا اسے فلم کی آواز سنائی دے گی جو نہیں سنے گا۰۰۰۰۰۰۰بس بس سمجھ گئی رجنی نے بات کاٹ دی۔ اب یہ بتاؤ کہ جئے پور میں کیا ہو گا ؟

جے پور میں بھی آپ لوگ ہمارے ہوٹل میں قیام کریں گے۔ وہاں خالص راجھستانی طرز کی دال باٹی عشائیہ میں آپ کے سامنے پروسی جائے گی۔ یہ دال باٹی کیا ہے ؟ میں نے تو کبھی اس کا نام بھی نہیں سنا۔ جی ہاں لیکن ایک مرتبہ جب اس کا ذائقہ آپ کی زبان کو لگ جائے گا تو آپ دیگر لوگوں کو اس کے بارے میں بتلاتے ہوئے نہیں تھکیں گی۔ لیکن اگر وہ مجھے پسند نہ آئے تو؟ کوئی بات نہیں وہاں ہر طرح کا پکوان موجود ہو گا آپ جو چاہیں جتنا چاہیں کھائیں پیٹ آپ کا ہے ؟رجنی بولی لیکن یہ کھانا کھا کر تو ہم لوگ سوجائیں گے۔ جی ہاں لیکن ہمارے ہوٹل راجپوتانہ ہالی ڈے ان کے اندر راجھستانی طرز کے رقص و سرود کا بھی اہتمام ہے جو لوگ چاہیں اس سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔

اچھا تو ہماری واپسی دوسری صبح ہو گی؟ جی نہیں صبح ناشتے کے بعد آپ لوگ جے پور شہر کی سیر کے لیے نکلیں گے۔ ہوا محل اور البرٹ ہال میوزیم وغیرہ دیکھ کر شام ڈھلے دہلی پہنچ جائیں گے جہاں میں آپ کا استقبال کروں گی۔ رجنی بولی بہت خوب میں تو سمجھ رہی تھی کہ تم ہمارے ساتھ رہو گی۔ سجنی بولی جی نہیں اگر میں بس کے ساتھ چلی گئی ہوتی تو آپ سے بات کیسے کرتی؟ جی ہاں یہ بھی صحیح ہے۔ اچھا تو میں کل صبح کی بس میں اس تین دن کی سیاحت کی تین نشستیں آپ لوگوں کے لیے مختص کر دوں ؟ رجنی کے پاس تائید کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا۔ اس نے اخراجات کے بارے میں جانے بغیر حامی بھر تے ہوئے کہا کل نہیں پرسوں۔

وہ کیوں ؟ سجنی نے پوچھا۔ رجنی بولی اس لئے کہ کل میں اپنا کچھ کام کرنا چاہتی ہوں۔ تمہارے ساتھ اس گفتگو نے مجھے پھر تازہ دم کر دیا ہے۔ اوہو سجنی بولی میں تو یہ سمجھی تھی کہ آپ چودھویں کے چاند میں تاج محل دیکھنا چاہتی ہیں خیر اگر نہیں بھی تو آپ وہی کریں گی۔ اس روز تاج کے آکاش پر چودھویں کے دو چاند ہوں گے۔ رجنی نے ہنس کر کہا جی ہاں ایک شاہجہاں کا اور دوسرا ممتاز محل کا۔ آکاش اور جیتو نہ جانے کب سے رجنی اور سجنی کے پیچھے والی کرسیوں پر بیٹھ کر ان کی باتیں سن رہے تھے۔ آکاش نے جیتو کو ہدایت دے رکھی تھی کہ وہ بالکل خاموشی رہے لیکن جیتو بھی آخر بچہ ہی تھا۔ اس کے صبر کا پیمانہ چھلک ہی گیا اور اس نے حیرت سے بہ آوازِ بلند سوال کر دیا اور ہمارا؟

رجنی یہ آواز سن کر چونک پڑی۔ اس نے مڑ کر دیکھا اور پوچھا اچھا تو ہمارے پیٹھ پیچھے جاسوسی ہو رہی ہے ؟ آکاش بولا جی ہاں اگرپسِ پشت سازش ہو رہی ہو تو جاسوسی ضروری ہو جاتی ہے۔ سجنی کی سمجھ میں کچھ کچھ آنے لگا تھا۔ جیتو نے اپنا سوال دوہرایا اور بولا لیکن ہمارا چاند؟ آکاش نے جواب دیا بیٹے ہمارا چاند تو ہر وقت ہمارے پاس رہتا ہے۔ رجنی نے تائید کی جی ہاں اور وہ اس وقت ہم سے باتیں کر رہا ہے۔ جیتو نے بزرگوں کے انداز میں سر ہلا کر کہا میں سمجھ گیا۔ میں سب سمجھ گیا۔ سجنی بہت کچھ سمجھ گئی لیکن یہ نہیں جان پائی کہ جیتو ان کی سگی اولاد نہیں بلکہ منھ بولا بیٹا ہے۔

 

 

 

 

رام کتھا

 

دوسرے دن جب رام سوامی کے دفتر میں رجنی پہنچی تو وہ بہت خوش تھا۔ سامنے کی کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کرنے کے بعد اس نے رجنی کی رضامندی کے بغیر اردلی کو دو کپ کافی لانے حکم دے دیا۔ رجنی اپنے آپ کو اس غیر متوقع دھماکے سے سنبھال بھی نہیں پائی تھی کہ اس نے ایک حیرت انگیز سوال کر دیا۔ محترمہ آج آپ کی طبیعت تو ٹھیک ٹھاک ہے ؟ رجنی کے لیے یہ سب تعجب خیز تھا۔ اول تو اسے توقع نہیں تھی کہ رام سوامی اس کو اپنے کمرے میں بیٹھنے کے لیے کہے گا اور پھر خاطرداری کرتے ہوئے کافی منگوائے گا۔ رجنی چائے کی شوقین ضرور تھی مگر کافی کو وہ ناپسند کرتی تھی اس کے باوجود اس نے خاموشی اختیار کر رکھی تھی لیکن اب اس اوٹ پٹانگ سوال کا اسے جواب دینا تھا۔ وہ بولی میں سمجھی نہیں یہ آپ کیوں پوچھ رہے ہیں ؟ بس یونہی رام سوامی مسکرا کر بولا۔ کل آپ اچانک اٹھ کر چلی گئیں تو میں نے سوچا ممکن ہے آپ کی طبیعت ناساز ہو اس لئے شاید آپ آج نہیں آئیں گی لیکن آپ کو ہشاش بشاش دیکھ کر میرا دل باغ باغ ہو گیا ہے۔ ایسا لگ رہا تھا گویا رام سوامی اپنے رٹے رٹائے مکالمے چبا چبا کر بول رہا ہے۔

رجنی کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ رام سوامی کے ان بے مطلب سوالات کا کیا جواب دے اس بیچ اردلی کافی کی دو پیالیاں۔ دوگلاس پانی دو نمکین اور دو میٹھے بسکٹ ایک کشتی میں رکھ کر لے آیا۔ سب کچھ بالکل حساب کتاب سے تھا۔ رجنی کو موضوع بدلنے کا موقع مل گیا وہ بولی مسٹر رام سوامی کیا یہ ہوسکتا ہے کہ میں آپ کے بسکٹ کھالوں اور آپ میری کافی پی لیں ؟ رام سوامی بولا کیوں نہیں بالکل ہوسکتا ہے آپ میری معزز مہمان ہیں۔ اگر آپ یہی بات مجھ سے کل کہتیں تو نہیں ہو سکتا تھا لیکن آج! آج کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ رجنی نے ہنس کر کہا لیکن کل میں یہ بات آپ سے کیونکر کہہ سکتی تھی۔ کل آپ نے چائے پانی تو درکنار بیٹھنے تک کے لیے نہیں کہا تھا۔ جی ہاں مس رجنی وہ میری غلطی تھی بلکہ کل جب آپ نے اچانک جانے کا فیصلہ کیا تو مجھے چاہئے تھا کہ آپ کی طبیعت کے بارے میں پوچھتا لیکن میں نے وہ بھی نہیں کیا۔ دراصل کل کی بات اور تھی اور آج کی بات کچھ اور ہے۔

رجنی شروع ہی میں اس بات کا احسا س ہو گیا تھا کہ رام سوامی آج بدلا ہوا ہے لیکن اب وہ اس کی وجہ جاننا چاہتی تھی۔ رجنی نے ڈرتے ڈرتے سوال کیا سوامی صاحب اگر آپ برا نہ مانیں تو کیا میں یہ پوچھ سکتی ہوں کہ کل اور آج میں ایسا کون سا انقلاب آ گیا ہے جس نے آپ کو یکسر بدل کر رکھ دیا؟ رام سوامی مسکرا کر بولا کوئی خاص نہیں کل شام میری بیوی کا انتقال ہو گیا۔ رجنی کو ایسا لگا گویا رام سوامی اس سے دل لگی کر رہا ہے۔ وہ بولی رام سوامی صاحب میں آپ کو شریف آدمی سمجھتی تھی مجھے آپ سے اس طرح کے بھونڈے مذاق کی توقع نہیں تھی۔ رام سوامی بولا دیکھئے میڈم ویسے میں شرافت کا دعویدار تو نہیں ہوں لیکن اتنا ضرور ہے کہ میں آپ سے کوئی مذاق نہیں کر رہا ہوں۔ آپ نے مجھ سے جو سوال کیا اس کا صحیح جواب یہی ہے کہ کل میری بیوی کیکئی مر گئی۔ اگر آپ اسے مذاق سمجھتی ہیں تو سمجھا کریں مجھے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔

رام سوامی کا لب و لہجہ اس بات کا شاہد تھا کہ وہ سچ کہہ رہا ہے لیکن رجنی کو حیرت اس بات پر تھی کہ وہ اس قدر آرام کے ساتھ یہ بات کہہ رہا۔ اس خبر کے ساتھ حزن و ملال کا کوئی شائبہ تک نہیں پایا جاتا۔ رجنی بولی میں معافی چاہتی ہوں لیکن کیا آپ کو اپنی اہلیہ کے گزر جانے کا کوئی غم نہیں ہے ؟ رام سوامی نے نہایت سپاٹ لہجے میں جواب دیا نہیں۔ تو کیا آپ اس بات سے خوش ہیں ؟ رام سوامی پھر اسی انداز میں بولا نہیں۔ رجنی کی سمجھ میں یہ ماجرا نہیں آ رہا تھا لیکن اس کا تجسس بڑھتا جا رہا تھا۔ تھوڑی دیر کے لیے وہ اس کام کو بھول گئی تھی جس کے لیے اس محکمہ میں آنے کا قصد کیا گیا تھا۔

رجنی نے سوال کیا۔ آپ کی اہلیہ محترمہ کیا بیمار تھیں ؟ رام سوامی کا جواب تھا نہیں۔ تو کیا آپ لوگوں میں کوئی ان بن ہو گئی تھی۔ رام سوامی پھر بولا نہیں۔ تو پھر وہ مر کیوں گئی ؟ مجھے نہیں پتہ۔ لیکن آپ کو اس کے موت پر افسوس کیوں نہیں ہے۔ مجھے یہ بھی نہیں پتہ۔ رام سوامی بولا۔ مجھے کچھ نہیں پتہ۔ یہ سارے سوالات آپ کیوں پوچھ رہی ہیں میں یہ بھی نہیں جانتا۔ میں کچھ نہیں جانتا، کچھ نہیں !!!

کمرے میں یک گونہ خاموشی چھا گئی۔ کافی سرد ہو گئی پانی گرم ہو گیا اور بسکٹ پھیکے اور بدمزہ ہو گئے۔ کافی کی کشتی پانی سے نکل صحرا میں آ گئی۔ رجنی کا جی چاہا اٹھ کر واپس ہوٹل چلی جائے لیکن ہمت نہیں ہوئی۔ اس نے سوچا کیوں نہ لائبریری میں جا کر اپنا کام شروع کر دے لیکن دل نہیں مانا۔ وہ کیکئی کے بارے میں جاننا چاہتی تھی لیکن اسے ڈر تھا کہ کہیں رام سوامی ناراض نہ ہو جائے۔ رجنی نے پانی کا گلاس اٹھایا اور رام سوامی کی جانب بڑھا کر بولی آپ پانی پی لیجئے۔ رام سوامی نے کہا شکریہ اور غٹاغٹ ایک سانس میں گلاس خالی کر دیا اس کے بعد اس نے پانی کا گلاس اٹھا کر رجنی کی جانب بڑھایا اور بولا آپ پانی بھی پیجئے اور بسکٹ بھی کھائیے۔ ماحول پھر سے خوشگوار ہو گیا۔

رجنی نے اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کہا آپ بھی کافی پیجئے لیکن یہ تو سرد ہو گئی ہے۔ رام سوامی بولا اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ کیکئی کو کولڈ کافی بہت پسند تھی۔ وہ کافی بنا کر جگ میں ڈالتی اور اسے فریج میں رکھ دیتی۔ جب میں دفتر سے گھر جاتا تو خود بھی پیتی اور مجھے بھی پلاتی۔ رجنی نے کہا سرد کافی؟ جی ہاں ابتدا میں مجھے بھی یہ عجیب سا لگتا تھا لیکن دھیرے دھیرے مجھے وہ اچھا لگنے لگا۔ یوں سمجھ لو کہ مجھے کولڈ کافی کا عادی بنا کر خود کیکئی ٹھنڈی ہو گئی۔ رام سوامی کا نہایت سرد مہری کے ساتھ کیکئی کا ذکر کرنا رجنی کو چونکا دیتا تھا۔ وہ بولی دھیرے دھیرے کافی کے ساتھ جو کچھ ہوا شاید وہ کیکئی کے ساتھ بھی تو نہیں ہوا؟ رجنی نے ڈرتے ہوئے سوال کیا۔ جی ہاں آپ کی بات درست ہے کافی کے ساتھ تو میں نے مصالحت کر لی لیکن کیکئی کے ساتھ!!! کیکئی کے ساتھ بھی میں نے مصالحت کر ہی لی تھی۔ مگر وہ آپ کو کبھی اچھی نہیں لگی ؟ رام سوامی نے کہا شاید اور خاموش ہو گیا۔

رجنی نے پوچھا کیا آپ مجھے بتائیں گے کہ کل کیا ہوا ؟ کچھ خاص نہیں۔ میں دفتر سے گھر گیا تو کیکئی خلاف توقع سو رہی تھی۔ میں نے قریب جا کر اسے دیکھا تو وہ مری پڑی تھی۔ میں نے سوچا یہ مرتے مرتے مجھے کسی مصیبت میں نہ ڈال جائے اس لئے اپنے خاندانی ڈاکٹر کو فون کر کے بلوایا۔ اس نے دیکھتے ہی کہا یہ فوت ہو گئی ہے۔ وہ بولا دیکھو یہ کس قدر اچھی موت ہے۔ اس نے نہ کسی کو پریشان کیا اور نہ خود پریشان ہوئی۔ میں نے اس کی تائید کی۔ اپنے چند قریبی دوستوں کو اطلاع دی۔ اس کے بعد لاش گاڑی کو منگوا کر اسے بجلی پر چلنے والے قبرستان میں لے گیا۔ اس درمیان میرے دفتری ساتھیوں نے موت کے سرٹیفکٹ کا بندوبست کر دیا۔ ہم لوگ تین گھنٹے بعد اس کا کریا کرم کر کے واپس آ گئے۔

رجنی حیرت سے یہ سب سن رہی تھی۔ لیکن آپ کے بچے ؟ جی ہاں بچوں کو میں نے پہلے اس خیال سے نہیں بتایا کہ وہ دہلی آنے کی کوشش کریں گے اور مجھے تاخیر پر مجبور ہونا پڑے گا لیکن میرا خیال غلط تھا۔ ان دونوں کو اس میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ دونوں نے میرے دوستوں کی مانند رسماً افسوس کا اظہار کیا اور فون بند کر دیا۔ آپ کے بچے کہاں ہیں ؟ میری بیٹی سیتا کولمبو میں اپنے شوہر راون کے ساتھ رہتی ہے اور بیٹا بھرت امریکہ میں اپنی انگریز بیوی رادھا کے ساتھ رہتا ہے۔ رادھا تو انگریزی نام نہیں ہے۔ جی ہاں ہرے راما ہرے کرشنا تحریک سے متاثر ہو کر اس نے اپنا نام رادھا رکھ لیا۔ رجنی کی دلچسپی اس عجیب و غریب خاندان میں بڑھتی جا رہی تھی۔ پہلے تو اسے صرف رام سوامی عجیب لگا تھا لیکن پھر اس کی بیوی اور بچے سب کے سب طلسمی رامائن کے کردار لگنے لگے۔

رجنی نے پوچھا جناب راما سوامی میں جاننا چاہتی ہوں کہ آپ اور کیکئی کی شادی کیسے ہوئی؟ ہم تمل ناڈو کے براہمن ہیں اس لئے حسب دستور ہماری شادی ہندو ویدک رسوم و رواج کے مطابق ہوئی۔ جی ہاں وہ تو ٹھیک ہے لیکن یہ طے کیسے ہوئی ؟ کیکئی کو آپ کے ماں باپ نے پسند کیا تھا یا آپ نے ؟ رام سوامی نے اپنے ماضی کے دریچوں میں جھانک کر بہت دور دیکھا اور بولا دونوں نے ؟ لیکن ابتدا کیسے ہوئی؟ رجنی نہ جانے کیوں ساری تفصیل جاننا چاہتی تھی۔

رام سوامی بولا کیکئی ہمارے پڑوس میں رہتی تھی۔ نہ جانے کیوں اس کے ماں باپ نے اس کا نام کیکئی رکھ دیا تھا حالانکہ کیکئی رامائن کا کوئی پسندیدہ کردار نہیں تھا لیکن اس کے باوجود کیکئی مجھے اور میرے گھر والوں کو بہت اچھی لگتی تھی۔ میں نے کالج کے زمانے میں ایک دن کیکئی سے پوچھا کہ کیا وہ میرے ساتھ شادی کرے گی تو اس نے جواب دینے کے بجائے اپنی شرائط بیان کر دیں اور اس طرح گیند میرے پالے میں آ پڑی۔ گویا اگر میں شرائط کو مان لوں تو ہاں ورنہ نا۔ اس کے بعد میرے والدین نے اس کے والدین سے بات چلائی تو اس نے اپنے والدین کے سامنے بھی شرائط بیان کر دیں اور میرے والدین کو اس کے آگے سرِ تسلیم خم کرنا پڑا۔

ہم لوگ ان شرائط کے بارے میں سنجیدہ نہیں تھے ہماری خوش فہمی یہ تھی کہ ان باتوں کو کون یاد رکھتا ایک مرتبہ اگنی کے ارد گردسات پھیرے ہو جائیں گے تو اس میں ساری شرائط جل کر خاک ہو جائیں گی لیکن وہ ہماری غلط فہمی تھی۔ کیکئی کی شرائط میں بتدریج اضافہ ہوتا چلا گیا اور میں اس میں محصور ہوتا چلا گیا۔ اب صورتحال یہ ہے کہ کیکئی خود جل کر خاک ہو گئی ہے لیکن اس کی شرائط اب بھی میرے ارد گرد منڈلا رہی ہیں۔ رجنی نے کہا کیوں ؟ کیا کیکئی گنوار اور اجڑ عورت تھی ؟ جی نہیں وہ نہایت ذہین اور پڑھی لکھی خاتون تھی۔ معاشرے کے اندر اس کا بڑا احترام تھا۔ وہ تمل اور انگریزی دونوں زبانوں میں شاعری کرتی تھی۔ سماجی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی تھی۔ غیروں سے اس کا برتاؤ بہت اچھا تھا لیکن مسئلہ اپنوں کے ساتھ تھا۔

اپنوں سے مراد کون ؟ اپنوں سے مراد میں رام سوامی۔ اس لئے کہ اس کی سخت گیری کے سبب سب لوگ اس سے دور ہو گئے تھے۔ اس کے والدین اور بھائی بہنوں نے کیکئی کو میرے گلے باندھ کر اپنی گردن چھڑا لی تھی۔ میرے والدین بھی بہت جلد اس سے بیزار ہو گئے۔ میرا تبادلہ دہلی کیا ہوا انہوں نے کیکئی کو میرے ساتھ روانہ کر کے اپنا پیچھا چھڑا لیا۔ اس دوران سیتا اور بھرت کی پیدائش ہو چکی تھی اور ہم تینوں کیکئی کے جبر کا شکار تھے۔ دھیرے دھیرے بچے بھی اس سے بیزار ہو گئے اور ان لوگوں نے کیکئی کو نظر انداز کرنا شروع کر دیا۔ جیسے ہی ان کی شادیاں ہوئیں وہ ایسے رسہ تڑا کر بھاگے کہ پھر پلٹ کر نہیں دیکھا۔ اب میں اکیلا رہ گیا تھا جو آخری وقت تک اس کے جوروستم سہتا رہا لیکن کل وہ سلسلہ اختتام کو پہنچا۔ کل سے مجھے ایسا لگ رہا ہے گویا میری عمر تیس سال کم ہو گئی ہے۔ میں پھر سے وہی رام سوامی بن گیا ہوں جو شادی کے وقت چوبیس سال کا تھا۔

رام سوامی اپنی رام کتھا سنائے جا رہا تھا اس عرصے میں میرا معمول یہ تھا کہ میں گھر کی سرد ترشی کے ساتھ دفتر آتا اور دفتر کی گرم کڑواہٹ لے کر گھر جاتا۔ میری زندگی کے تیس سال اسی سردو گرم موسم کی نذر ہو گئے۔ وہ موسم جو بظاہر ہر روز بدلتا لیکن حقیقت میں کبھی نہیں بدلا۔ اس کی سدا بہار کڑواہٹ ہمیشہ قائم و دائم رہی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ مجھے ذیابطیس کا مرض لاحق ہو گیا اور میں از خود میٹھے سے تائب ہو گیا لیکن آج نہ جانے کیوں میرا جی چاہتا ہے کہ میں یہ میٹھے بسکٹ کھا جاؤں۔ رجنی نے کہا دو بسکٹ سے کیا ہوتا اگر آپ کا جی چاہتا ہے تو نوش فرما لیں۔

رام سوامی بولا یہی تو فرق ہے آپ میں اور کیکئی میں۔ وہ مجھے کبھی بھی اس کی اجازت نہیں دیتی اگر میں بسکٹ کی جانب ہاتھ بڑھاتا تو ہاتھ باندھ دیتی۔ بسکٹ کو طشتری سے اٹھا کر کھڑکی سے باہر پھینک دیتی۔ اپنے احکامات سے انحراف اسے گوارہ نہیں تھا وہ بلا چوں چرا ں تابعداری کروانے کی قائل تھی۔ ان تیس سالوں میں اس کے کسی حکم سے سرمو انحراف کی جرأت میں نے نہیں کی۔ رجنی نے سوال کیا تو کیا آپ کیکئی سے خوفزدہ تھے۔ جی نہیں میں اس سے نہیں اس ہنگامے سے ڈرتا تھا جو اس کی نافرمانی کے نتیجے میں برپا ہو جاتا تھا۔ میں اپنی عافیت کے پیش نظر اس کی ہر غیر معقول بات کو مان لیا کرتا تھا۔

رجنی نے موضوع بدلنے کے لیے کہا یہ آپ کے داماد راون کا نام کچھ سمجھ میں نہیں آیا۔ رام سوامی نے ایک ہلکا سا قہقہہ لگا کر کہا مس رجنی نام میں کیا رکھا ہے اصل اہمیت تو کام کی ہے۔ راون کمار پلئی کا باپ ساون کمار پلئی اپنے زمانے کا بہت بڑا ملحد دانشور تھا۔ وہ زندگی بھر ہندو صحیفوں کی دھجیاں اڑاتا رہا۔ اسی ضد میں اس نے اپنے بیٹے کا نام راون رکھ دیا۔ رامائن اور مہابھارت پر اس کی کتابیں امبیڈکر کی ریڈلس آف ہندوازم سے کم نہیں ہیں۔ لیکن جیسا کہ تم نے سنا ہو گا چراغ تلے اندھیرا اس کی بیوی کٹر مذہبی عورت تھی۔ اس نے راون کے ذہن و شعور کے اندر مذہبی عقائد و نظریات کو اس طرح پیوسط کر دئیے کہ اس نے مذہبیات میں ڈاکٹریٹ کی۔ اس کا موضوع بھی ہندو صحائف ہے لیکن وہ ان کی تعریف و توصیف کرتے نہیں تھکتا۔ فی الحال وہ کولمبو یونیورسٹی میں شعبۂ مذہبی تعلیمات کا صدر ہے اسے بودھ مت اور ہندو مت کا ماہر سمجھا جاتا ہے۔

رجنی کے لیے یہ سب حیرت انگیز تھا اس نے پوچھا لیکن اس کا نام؟ اس کا نام راون ہے مگر اسے اس سے کوئی پریشانی نہیں ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ خود راون بھی بہت بڑا عالم دین تھا۔ وہ نہ صرف شیو کا بہت بڑا بھکت تھا بلکہ اس نے کیلاش پربت پر جا کر غیر معمولی تپسیا بھی کی تھی۔ اسے افسوس ہے کہ راون زندگی بھر دھوکہ بازی کا شکار ہوتا رہا۔ اس کے خیال میں اگر ایسانہ ہوتا تو راون کی شہرت رام سے زیادہ نہ سہی تو کم بھی نہیں ہوتی۔ ویسے رامائن میں بھی راون کا کردار نہایت پر وقار ہے۔ اس نے رام کی سیتا کے ساتھ کوئی بدسلوکی نہیں کی اور یہ کل یگ کا راون بھی میری بیٹی سیتا کے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتا ہے۔ مجھے تو لگتا ہے کہ میری بہو رادھا سے زیادہ میری بیٹی سیتا اپنے راون سے خوش ہے۔

کیوں آپ کا بیٹا بھرت اپنی ماں پر تو نہیں گیا؟رجنی نے ہمت کر کے سوال کیا۔ جی نہیں میرا بھرت بھی بہت خوش اخلاق اور ملنسار ہے۔ میں تو صرف موازنہ کر رہا تھا کہ راون اس سے بہتر ہے۔ آج صبح بھرت کا پھر فون آیا تھا وہ مجھ سے کہہ رہا تھا کہ میں ملازمت چھوڑ کر امریکہ آ جاؤں۔ اچھا تو آپ نے کیا کہا۔ میں نے اس کی تجویز کو شکریہ کے ساتھ بڑے پیارسے مستردکر دیا۔ میں گزشتہ اکتیس سالوں سے دہلی میں رہتا ہوں۔ اب یہ میرا وطنِ ثانی بن گیا ہے۔ اس عمر میں کسی نئے شہر میں جا کر بسنے کا تجربہ میں نہیں کرسکتا۔ ویسے میرے دل میں یہ خدشہ بھی تھا کہ ممکن ہے میری بہو کو میرا ان کے پاس جا کر رہنا ناگوار ہو۔ وہ اسے اپنی ذاتی زندگی کے اندر خلل محسوس کرے ؟ لیکن پھر آپ کے بیٹے نے کیا کہا ؟

رام سوامی نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا بھرت کا جواب تھا کہ اگر ایسا ہے تو وہ کوشش کرے گا کہ اپنا تبادلہ دہلی کروا لے۔ وہ مائکروسوفٹ میں کام کرتا ہے۔ ان کا ایک بہت بڑا دفتر دہلی میں بھی ہے جہاں کوئی نہ کوئی اسامی نکلتی رہتی ہے۔ میں نے اسے مشورہ دیا کہ وہ ایسا نہ کرے اس لئے کہ ازدواجی زندگی پر اس کے برے اثرات پڑ سکتے ہیں۔ تو وہ بولا جی نہیں یہ دراصل رادھا کی تجویز ہے۔ وہ آپ کے بارے میں بہت فکر مند رہتی ہے اور اس کا اصرار ہے کہ اگر پاپا امریکہ نہیں آتے تو ہم لوگ دہلی جا کر ان کی خدمت کریں گے۔ جب رجنی کے سوالات ختم ہو گئے تو راماسوامی بولا مس رادھا میں آپ کا شکر گزار ہوں جو آپ نے میرے دل کا بوجھ ہلکا کر دیا۔ میں کل رات سے کسی سے بات کرنا چاہتا تھا۔ اب میں اپنے آپ کو خاصہ ہلکا پھلکا محسوس کر رہا ہوں۔ مجھے افسوس ہے کہ میں نے آپ کا بہت وقت ضائع کر دیا۔ اب آپ بتائیں کہ میں آپ کی کیا خدمت کرسکتا ہوں۔

رجنی نے ایک اور ذاتی قسم کا سوال کر دیا۔ وہ بولی جناب رام سوامی کیا آپ نے اپنی تمام عمر اسی شعبے میں گزاری یا کسی اور محکمہ میں بھی آپ نے کام کیا ہے ؟ دیکھو ایسا ہے کہ اس دوران دو مرتبہ مختصر مدت کے لیے میرا تبادلہ وزارتِ خزانہ اور عالمی بنک میں ہوا لیکن وہاں بھی میں بلاواسطہ اسی کام سے منسلک رہا۔ اچھا وہ کیسے ؟ مجھے پنج سالہ منصوبے کی تشکیل کی وقت وزارتِ خزانہ میں اس لئے بھیجا گیا تھا تاکہ میں ہمارے شعبے کے تحت جاری اور مجوزہ منصوبوں کو اس میں شامل کروا سکوں اور اس کام کو میں نے بہت خوبی کے ساتھ کیا اسلئے مجھے دوبارہ یہاں بلا لیا گیا۔ اس کے بعد جب عالمی بنک (جس کے تعاون سے ہمارے پروجکٹس چلتے ہیں ) ہماری کارکردگی کے بارے میں شکوک شبہات کا شکار ہو گیا تو میرا تبادلہ وہاں کر دیا گیا۔ اعتماد کی بحالی کا کام بھی میں نے بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ کیا اور نہ صرف رکے ہوئے قرضہ جات جاری کروا دئیے بلکہ نئے قرض بھی حاصل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ اس کے بعد پھر میں اپنے میکے میرا مطلب ہے محکمۂ آبپاشی و زراعت میں بلوا لیا گیا۔

رجنی نے پوچھا لیکن ان ساری کامیابیوں کا راز کیا تھا؟ایک تو کیکئی اور دوسرے میری یادداشت۔ میں سمجھی نہیں کہ ان دونوں کا کیا جوڑ ہے ؟ رجنی نے پھر سوال کیا۔ دراصل بات یہ ہے کہ رجنی کے سبب میں زیادہ تر وقت دفتر میں گزارتا تھا اور ساری دستاویزات کا بڑے انہماک سے مطالعہ کیا کرتا تھا اور میری یادداشت کچھ ایسی تھی جو اعداد و شمار ایک مرتبہ میری نظروں سے گزرتے تو وہ ذہن میں نقش ہو جاتے۔ اس لئے میرے دلائل کے پس پشت خیالی منطق کے بجائے ٹھوس اعداد و شمار ہوتے تھے۔ یہی سبب ہے کہ مخالفین کے لیے ان کو مسترد کرنا مشکل ہو جاتا تھا۔ اس بات سے قطع نظر کہ وہ اعداد و شمار درست ہیں یا غلط چونکہ وہ ایک ایسی رپورٹ میں سے نکل کر آتے جس کے تیار کرنے والے کنسلٹنٹ کو مستند سمجھا جاتا تھا اس لئے لوگ میری بات کو تسلیم کرنے کے لیے مجبور ہو جاتے تھے۔ سچ تو یہ ہے کہ میں ساری عمرہندسوں سے کھیلتا رہا ہوں۔ اپنے کام کے ہندسے استعمال کر لینا اور اپنے خلاف جانے والے اعداد کو نظر انداز کر دینا یہی میرا طریقۂ کار رہا ہے۔

رام سوامی بڑی صفائی کے ساتھ اپنی خوبیوں کے ساتھ ساتھ اپنے عیوب بھی بیان کر رہا تھا۔ رجنی بولی اگر ایسا ہے تو میں بلاوجہ ان ضخیم دستاویزات میں اپنا وقت برباد کر رہی ہوں اس لئے کہ ان میں سو صفحات دیکھو تو کسی ایک پر کوئی کام کی بات ملتی ہے باقی تو سب بلاوجہ کی بکواس ہوتی ہے۔ رام سوامی نے تائید کی اس نے کہا اس میں ان رپورٹس کے تیار کرنے والوں کا قصور نہیں۔ ہم لوگ جب انہیں فیس کے طور پر بڑی رقم دیتے ہیں تو توقع کرتے ہیں وہ وہ بھاری بھرکم رپورٹس بھی دیں۔ مختصر دستاویز کو دیکھ ہمیں گمان گزرتا ہے کہ اس ماہرین نے محنت نہیں کی اور ہم سے دھوکہ دہی کر دی۔ اس لئے وہ بلاوجہ موٹی موٹی رپورٹس بنا کر پیش کر دیتے ہیں۔ اس میں ان کا ایک اور فائدہ بھی ہے۔ وہ کیا؟ دراصل بھاری بھرکم رپورٹ سے ہم لوگ خوش تو ہوتے ہیں لیکن اس کا مطالعہ نہیں کرتے۔ جس کی وجہ سے ان کے عیوب پر پردہ پڑ جاتا ہے۔ لیکن کیا آپ بھی؟ جی نہیں پہلے تو میں پوری پوری رپورٹ نگل جایا کرتا تھا لیکن اب اس طویل تجربے سے میری سمجھ میں آ گیا ہے کہ کام کی بات کہاں ہوتی ہے۔ میں رطب ویابس کو چھانٹ کر اس میں سے لعل و گہر نکال کر اپنے ذہن نشین کر لیتا ہوں اور باقی دماغ کے کوڑے دان میں ڈال دیتا ہوں۔

بہت خوب رجنی نے خوش ہو کر کہا اچھا تو اب یہ بتائیے۔ سوال کے مکمل ہونے سے قبل اردلی کمرے میں آیا اور سوال کیا میڈم کیا آپ بھی کافی پئیں گی اس لئے کہ صاحب کے کافی پینے کا وقت ہو گیا ہے۔ رجنی نے دیوار پر لگی گھڑی کو دیکھا تو گیارہ بجنے میں صرف دو منٹ باقی تھے وہ سمجھ گئی کہ کافی صرف دو منٹ میں بن جاتی ہے۔ را م سوامی بولا تم ان کے لیے چائے ۰۰۰۰اور پھر رک کر رجنی کی جانب استفہامیہ انداز میں دیکھنے لگا۔ رجنی مسکرا بولی جی نہیں کافی مگر کولڈ نہیں بلکہ ہاٹ بالکل ہاٹ۔ اردلی کی سمجھ میں کچھ نہیں آیا وہ ہونقوں کی طرح رجنی کا منھ تک رہا تھا۔ رام سوامی بولا میڈم کے لیے بھی گرم کافی لے کر آؤ۔ اردلی کو حیرت تھی برسوں بعد کسی کو رام سوامی کے کمرے میں اس قدر دیر تک بیٹھنے کی سعادت نصیب ہوئی تھی۔ پہلی بار کسی کے لیے رام سوامی نے دوسری مرتبہ کافی منگوائی تھی۔ اردلی سوچ رہا تھا رام سوامی بدل گیا ہے۔ رام سوامی یقیناً بدل گیا ہے۔

اردلی جب کمرے سے باہر چلا گیا تو رجنی نے پوچھا اس کا نام کیا ہے ؟ یہ برسوں سے میرے دفتر میں کام کرتا ہے لیکن میں نے اس کا پورا نام جاننے کی کوشش کبھی نہیں کی۔ ویسے یہ رامو کے نام سے مشہور ہے۔ رجنی نے کہا یہ بھی ؟ جی ہاں رام سوامی بولا ممکن ہے اس کا نام رام داس ہو۔ رام داس کیوں ؟ دیکھو رجنی ویسے تو میں ذات پات کی تفریق میں یقین نہیں رکھتا اس کے باوجود ہمارے سماج کے کچھ حقائق ہیں مثلاً جب کوئی براہمن اپنے بیٹے کا نام رام رکھتا ہے تو اس کے ساتھ سوامی جڑ جاتا ہے اور سب کی سمجھ میں آ جاتا ہے کہ یہ آگے چل کر مالک بنے گا اور افسری کرے گا۔ اسی طرح جب کوئی دلت اپنے بیٹے کا نام رکھنا چاہتا ہے تو وہ اس کے ساتھ داس لگا دیتا ہے۔ اس کا مطلب ہے وہ بیچارہ زندگی بھر ہم جیسے سوامیوں کا داس بنا رہے گا۔ ہماری خدمت کو اپنی سعادت سمجھے گا۔

گھڑی کے کانٹوں نے ۱۱ بجے کا اعلان کیا اور رامو پھر ایک بار دوگلاس پانی، دو کپ کافی، دو نمکین اور دو میٹھے بسکٹ لے کر کمرے میں داخل ہو گیا۔ رام سوامی ہاتھ بڑھا کر میٹھے بسکٹ کو اٹھایا تو رجنی بولی جناب آپ تو ۰۰۰۰۰جی ہاں مجھے پتہ ہے کہ میں ذیابطیس کا مریض ہوں۔ ہم لوگوں کے اندر شکر کا توازن اچانک بگڑ جاتا ہے اکثر وہ زیادہ ہوتی لیکن پھر اچانک اس کی سطح ایک دم سے کم بھی ہو جاتی ہے۔ ایسے میں شکر نامی زہر کی پڑیا ہمارے لئے آبِ حیات بن جاتی ہے۔ رام سوامی بسکٹ کو کھا کر پانی پی رہا تھا اور رجنی کی سمجھ میں آ رہا تھا کہ برطانیہ کمپنی نے اس بسکٹ کا نام گڈ ڈے کیوں رکھا ہے۔ رجنی نے نمکین بسکٹ کی جانب ہاتھ بڑھایا جس پر لکھا تھا چسکا مسکا۔ اس بسکٹ میں نمک کے ساتھ مکھن بھی تھا۔ رجنی اس کی وجہِ تسمیہ بھی سمجھ گئی۔ انسان جس کا نمک کھاتا ہے اس کو مکھن لگاتا ہی ہے۔ رام سوامی سے معلومات حاصل کرنے کے لیے اس کی خوشامد ضروری تھی۔

 

 

 

 

ثمر نا آشنا

 

کافی کی آخری چسکی کے ساتھ رام سوامی نے سوال کیا ہاں تو آپ کچھ پوچھ رہی تھیں درمیان میں رامو آ گیا۔ رجنی بولی میں نے آپ کی داستانِ حیات تو سن لی اب آپ مجھے ان بندوں کی میرا مطلب ہے ندیوں پر تعمیر کئے جانے والے بند کی کہانی سنائیے۔ رام سوامی بولا یہ کہانی بھی میری زندگی ہی کی طرح درد انگیز ہے۔ اس میں خوشیاں کم اور آنسو زیادہ ہیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ ایک جال آزادی سے قبل بُنا گیا تھا جس میں ہم لوگ لاشعوری طور پر پھنستے چلے گئے اور یوں کہہ لو کہ ڈیم کی دیواریں دن بدن اونچی اٹھتی رہیں اور ہماری معیشت اس میں دن بدن ڈوبتی چلی گئی۔ ایک زمانے تک میں بڑے فخر سے کہتا تھا کہ ہمارا ملک دنیا کے تیسرا سب سے بڑا بند بنانے والا ملک ہے لیکن اب میں اسے باعثِ افتخار نہیں بلکہ قابلِ شرم سمجھتا ہوں۔ رجنی بولی آپ کے اشارے کنائے میری سمجھ میں نہیں آئے۔ اس لئے میں گزارش کروں گی کہ آپ تفصیل سے اس پر روشنی ڈالیں۔

رام سوامی بولا فی الحال ہندوستان میں ۳۶۰۰ ایسے ڈیم ہیں جن کا شمار بڑے ڈیمس میں ہوتا ہے۔ آزادی کے وقت ان کی تعداد صرف ۳۰۰تھی گویا ہم نے گزشتہ پچاس سالوں میں ۳۳۰۰ نئے بند بنائے ہیں۔ ان کے علاوہ ۱۰۰۰ زیر تعمیر ہیں۔ رجنی بولی یہ تو ایک بہت بڑی ہے لیکن آپ نے ابھی ابھی اسے ناکامی قرار دیا اس کی کیا وجہ ہے ؟ رام سوامی بولا وجہ صاف ہے ان ڈیمس کے باوجود کل آبادی کا پانچواں حصہ یعنی ۲۰ کروڑ لوگ پینے کے صاف پانی سے محروم ہیں اور دو تہائی آبادی یعنی ۶۰ کروڑ لوگوں کو حفظان صحت کی بنیادی سہولیات حاصل نہیں ہیں۔ آج ہمارے ملک میں ۸۰ فیصد آبادی غریبی کے خط سے نیچے زندگی گزار رہی ہے ان کی روزانہ آمدنی ۲۰ روپئے سے کم ہے۔ یہ تعداد غریب ترین افریقی ممالک کی مجموعی تعداد سے متجاوز ہے۔ رام سوامی ایک کمپیوٹر کی مانند بول رہا تھا۔

رجنی نے پوچھا لیکن غربت کا ان پروجکٹس سے کیا تعلق ہے ؟ رام سوامی بولا غربت کے ساتھ اس کا گہرا تعلق ہے میڈم۔ ایک تو براہ راست اور دوسرا بالواسطہ۔ اس کا اندازہ مجھے اس وقت ہوا جب نربدا ڈیم کے سلسلے میں ہونے والی مخالفت پر قابو پانے کے لیے مجھے دفتر کی چہار دیواری سے نکال کر متاثرہ علاقوں میں بھیجا گیا۔ وہاں میں نے جو مناظر دیکھے اس کا بیان کسی رپورٹ میں نہیں تھا جو حقائق میرے سامنے آئے اس سے میری آنکھ کھل گئی اور تعمیر و ترقی کا سارا خمار ہوا ہو گیا۔ میں نے میدان عمل میں جانے کے بعد تباہی بربادی کے سوا کچھ اور نہیں دیکھا۔ رام سوامی جذباتی ہو رہا تھا۔ رام سوامی بولا اگر تم اس تخریب کاری کا اندازہ لگانا چاہتی ہو میں چند اعداد و شمار تمہارے سامنے رکھ سکتا ہوں۔ رجنی بولی ضرور۔

رام سوامی نے سامنے پڑے کاغذ پر لکھنا شروع کیا۔ انڈین انسٹی ٹیوٹ آف پبلک ایڈمنسٹریشن نے ۵۴ بڑے ڈیمس کے سبب بے خانماں ہونے والے لوگوں کی تعداد کا تخمینہ لگایا تو پتہ چلا اوسطاً ایک بند کے سبب ۴۴ہزار لوگ اپنے گھربار چھوڑ کر ہجرت کے لئے مجبور کر دئیے جاتے ہیں۔ اب اگر اس تعداد کو کم کر کے صرف دس ہزار بھی لیا جائے اور اس کو ۳۳۰۰ سے ضرب کیا جائے تو تعداد تین کروڑ تیس لاکھ بنتی ہے۔ یہ تعداد تو صرف ڈیمس کے سبب بے گھر ہونے والوں کی ہے دیگر پروجکٹس کے سبب اجڑنے والوں کا اس میں اضافہ کر دیا جائے تو پانچ کروڑ تک بات پہنچ جاتی ہے پلاننگ کمیشن کے سکریٹری این سی سکسینہ نے اسے تسلیم کیا ہے۔ رام سوامی بول رہا تھا پانچ کروڑ لوگ کم نہیں ہوتے۔ یہ ریاست گجرات کل آبادی بلکہ براعظم آسٹریلیا کی آبادی سے تین گنا زیادہ ہے۔

رجنی نے پوچھا اس قدر بڑے پیمانے پر لوگوں کو اجاڑ نے سے قبل کیا اس کا اندازہ نہیں لگایا جاتا ؟ کیوں نہیں رام سوامی بولا لیکن یہ اندازے اکثر غلط ثابت ہوتے ہیں مثلاً ۱۹۷۹ میں جب سردار سرور پروجکٹ کی ابتدا ہوئی تو قیاس کیا گیا تھا کہ صرف ۶۰۰۰ ہزار خاندان اس سے متاثر ہوں گے لیکن ۱۹۸۷ میں پتہ چلا کہ یہ تعداد ۱۲۰۰۰ خاندان تک پہنچ گئی۔ اس کے پانچ سال بعد جب اندازہ لگایا گیا تو معلوم ہوا کہ یہ ۴۰۰۰۰ہزار ہوسکتی ہے اور محکمہ زراعت کا تازہ جائزہ بتاتا ہے کہ یہ پروجکٹ ۸۵۰۰۰خاندانوں کو متاثر کرے گا اس کے معنیٰ ہوئے تقریباً پانچ لاکھ افراد کا گھر سنسار اس میں غرق ہو جائے گا۔ اب اس کے ذریعہ سے جو بلاواسطہ تباہی آئے گی وہ بھی سنو۔ پروجکٹ کی لاگت جو ابتدا میں ۶ہزار کروڑ تھی اب ۲۰ہزار کروڑ تک پہنچ گئی ہے لیکن ماہرین کی رائے ہے اس کی تکمیل تک یہ دوگنا یعنی ۴۰ہزار کروڑ کو چھولے گی۔ یہ تمام عالمی بنک کا قرض جس کو ادا کرتے کرتے ہماری آئندہ نسلوں کی کمر ٹوٹ جائے گی۔ ہمارے پچاس سالہ زراعتی بجٹ کا نصف تو ایک پروجکٹ نگل گیا جبکہ اس سے پیدا ہونے والی بجلی کا تخمینہ صرف ۳ فیصد یعنی ۵۰ میگا واٹ لگایا جا رہا ہے۔

رجنی بولی کہ پروجکٹ کی قیمت کا بڑھنا اس لحاظ سے سمجھ میں آتا ہے کہ جب زیادہ افراد کو ہٹایا جائے گا تو ان کو ادا کی جانے والی رقم میں لازماً اضافہ ہو گا؟ جی نہیں ان غریبوں کی زمین تو کوڑیوں کے بھاؤ خریدی جاتی ہے مثلاً میری ملاقات جھارکھنڈ کے سمدیگا گاؤں میں ایک کسان سے ہوئی جس کی ۲۰ ایکڑ زرخیز زمین سرکار نے زبردستی چھین لی اور اس کے عوض اسے صرف گیارہ ہزار روپئے دئیے گئے جبکہ بازار میں اس کی قیمت ۲۰ لاکھ سے کم نہیں تھی۔ رجنی میں نے گجرات کے اندر ایسے علاقے دیکھے ہیں جہاں کے لوگوں سے ان کی زمین ۱۲۰۰۰ سے ۳۶۰۰۰روپئے فی ایکڑ کے حساب سے حکومت نے ہتھیا لی اور اس کے ۳۰ سالوں تک ۴۰ فیصد زمین استعمال ہی نہیں ہوئی اور نہ اس کے مالکوں کو واپس کی گئی بلکہ اس پر مختلف کنٹراکٹرس کا قبضہ ہو گیا اور ان کے وارے نیارے ہو رہے ہیں۔

رجنی کے کہا لیکن سوامی صاحب اس ظلم کے خلاف کوئی آواز کیوں نہیں اٹھاتا؟ ذرائع ابلاغ اس کا پردہ فاش کیوں نہیں کرتے۔ رام سوامی بولا رجنی یہ روپیوں کا کھیل ہے جس میں سیاستداں اور سرمایہ دار شریک کار ہیں۔ ذرائع ابلاغ کو انہوں نے خرید لیا۔ غریب لوگوں کی کوئی رہنمائی نہیں کرتا۔ جو آگے بڑھتا ہے اسے ملک دشمن قرار دے دیا جاتا ہے۔ جن علاقوں میں حکومت نے مثالی بستیاں بسائی تھیں ان میں سے ایک گورکھپور نام کا گاؤں جبلپور کے قریب آباد ہے ۱۹۹۲ میں جب میں وہاں گیا تو لوگوں نے بتایا ان کا کوئی والی وارث نہیں ہے پچھلے دوسالوں میں پانچ افراد بھکمری کا شکار ہو چکے ہیں۔ زیادہ تر لوگ دوبارہ جنگلوں کا رخ کر چکے ہیں اور حکومت نے ان کے نکسلوادی ہونے کا اعلان کر دیا ہے۔ رام سوامی کی گفتگو سن کر رجنی کے قدموں تلے سے زمین کھسک گئی تھی۔ اس نے کہا آخری سوال یہ ہے کہ غریب بے خانماں لوگ جن سے ان کے جنگل چھین لئے جاتے ہیں پھر وہ جاتے کہاں ہیں ؟ یہ لوگ یا تو بند بنانے کے کام میں سستا مزدور بن جاتے ہیں جس کو روزانہ ۱۰ تا ۲۰ روپئے دے کر کام لیا جاتا ہے یا شہروں کی جھگی جھونپڑیوں میں آ کر بس جاتے ہیں اور امیر لوگوں کی خدمت کر کے اپنا پیٹ پالتے ہیں۔

رجنی بولی ہمارا ملک دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہلاتا اس کے باوجود عوام کے نمائندے اس سنگین مسئلہ سے جس طرح چشم پوشی کر رہے ہیں یہ قابلِ افسوس ہے۔ مجھے تو یہ تفصیلات سننے کے بعد شرم محسوس ہوتی کہ میں نے آج تک اس جانب توجہ کیوں نہیں کی اور ان غریبوں کے دکھ درد میں شریک کیوں نہیں ہوئی؟ رام سوامی نے کہا مجھے خوشی ہے کہ تم اپنے اندر ایک دردمند دل رکھتی ہو لیکن میں تمہیں آگاہ کر دینا چاہتا ہوں کہ اس بابت حکومت سے کوئی توقع وابستہ نہ کرنا۔ رجنی نے پوچھا کیوں ؟ اس بابت آپ اس قدر قنوطیت کا شکار کیوں ہیں ؟ یہ قنوطیت نہیں حقیقت ہے۔ میں تمہیں ایک مثال دیتا ہوں سردار سرور پراجکٹ سے متاثرین کا ایک مورچہ دہلی آیا جس میں پانچ ہزار لوگ شامل تھے۔ ان کی خواہش صدر مملکت سے ملنے کی تھی لیکن صدر صاحب کی آنکھوں میں تکلیف تھی اس لئے انہوں نے معذوری ظاہر کی تو وزیر برائے برائے فلاح بہبود مینکا گاندھی سے انہیں رجوع کیا گیا۔ مینکا نے ان کے نمائندوں پر مشتمل ایک مختصر سے گروہ کو ملاقات کی اجازت دی اور کہا کہ آپ لوگ اپنی شکایت تحریری شکل میں ارسال کریں۔

تمہیں یہ جان کر حیرت ہو گی کہ ان کا شکایت نامہ دیکھ کر مینکا اس بات پر برس پڑیں کہ وہ انگریزی کے بجائے ہندی میں کیوں لکھا ہوا تھا۔ مجھے اس روز خاص طور محکمہ آبپاشی سے ان کے دفتر میں طلب کیا گیا تھا۔ میں نے جب یہ منظر دیکھا تو اپنا سر پیٹ کر واپس آ گیا۔ میں نے سوچا ایک طرف ان ڈیمس کی وجہ سے یہ لوگ زلزلوں کا شکار ہو رہے ہیں۔ دوسری جانب اس میں رکے ہوے پانی میں مچھر پل رہے جو نت نئی بیماریاں پھیلاتے ہیں اور اوپر سے یہ سیاسی رہنما ان کے سروں پر مسلط ہیں جو نہ صرف ان کا خون چوستے ہیں بلکہ ان کی تضحیک بھی کرتے ہیں۔ اس روز میں نے گھر آنے کے بعد اپنا استعفیٰ لکھا لیکن مجھ سے غلطی یہ ہوئی کہ میں نے اسے کیکئی کو دکھلا دیا۔ اس نے مجھے بچوں کے مستقبل کا واسطہ دے کر سمجھانے بجھانے کوشش کی اور جب میں نہیں مانا تو استعفیٰ چھین کر پھاڑ دیا اور مجھے دھمکی دی کہ اگر میں نے دوبارہ اس طرح کا خیال بھی دل میں لایا تو وہ پہلے بچوں کو زہر دے کر مار دے گی اور پھر اس کے بعد خودکشی کر لے گی۔ میں وقتی طور پر خوفزدہ ہو گیا اور بعد میں میرا جوش ٹھنڈا ہو گیا۔ رجنی بولی لیکن میرے ساتھ ایسا نہیں ہو گا۔ مجھے یقین ہے کہ میرا آکاش اس جدوجہد میں میرے سر پر سایہ کرے گا۔ رام سوامی بولا رجنی تم نے ایک بڑے کام کا عزم کیا ہے خدا تمہاری مدد کرے۔ میری نیک خواہشات تمہارے ساتھ ہیں۔ میں تمہاری کامیابی کے لیے دعا گو ہوں۔ رجنی کی آنکھوں میں تشکر کے آنسو تھے۔ اس نے رام سوامی کے قدموں کو چھوا اور دفتر سے باہر آ گئی۔

۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰

 

رجنی کے محکمہ آبپاشی میں چلے جانے کے بعد آکاش اور جیتو اوپر والی منزل پر ہوٹل کے سوئمنگ پول میں گئے اور دیر تک کھلے آسمان کے نیچے نہاتے رہے۔ کسی زمانے میں تالاب زمین کی سطح سے نیچے ہوا کرتے تھے لیکن اب نئی عمارتوں میں وہ چھت کے اوپر بننے لگے تھے۔ دریاؤں باندھے جانے والے بند کی طرح جن کی گہرائی نہیں بلکہ اونچائی ناپی جاتی ہے۔ آکاش سوچ رہا تھا زمانہ بدل گیا ہے دھرتی آکاش سب کچھ بدل گئے ہیں۔ زمین کے اندر کا تیل آسمان سے باتیں کر رہا ہے اور آسمان کا پانی رحمت کے بجائے زحمت بنتا جا رہا ہے۔ اس کے بعد ناشتہ کیا اور پھر سیر و تفریح کی اپنی مہم پر نکل کھڑے ہوئے۔ شام میں دمِ واپسیں جیتو نے پوچھا اب کیا ارادہ ہے ؟ تو آکاش بولا میں سوچتا ہوں کل سے شروع ہونے والی سیاحت کی کچھ تیاری کی جائے۔ تیاری ؟ ممی نے تو اس آنٹی کو ساری ذمہ داری سونپ دی ہے۔ جی ہاں لیکن اپنی ذاتی ضرورت کا بندوبست تو ہمیں خود ہی کرنا ہو گا۔ سردی کا موسم ہے۔ آگرہ اور جے پور وغیرہ میں ٹھنڈ زیادہ ہوسکتی ہے۔ رجنی کو تو ان کاموں کے لیے فرصت نہیں ہے اس ہمیں ہی یہ سب کرنا ہو گا۔

ہوٹل کے قریب واقع میٹرو مال میں آکاش اپنی خریداری سے فارغ ہوا تو سوچا کیوں نہ کچھ پھل خرید لئے جائیں۔ ان کی عمر بھی زیادہ ہوتی ہے اور انہیں ترو تازہ رکھنے کے لیے فریج وغیرہ کی ضرورت بھی نہیں ہوتی۔ ساتھ رکھے رہیں گے جب مرضی ہو گی نکال کر کھا لیا کریں گے۔ جس وقت آکاش پھل خرید رہا تھا اور جیتو الگ تھلگ دور کھڑا خلاء میں تاک رہا تھا۔ آکاش نے پوچھا کیوں جیتو تمہیں ان پھلوں میں کوئی دلچسپی نہیں ہے ؟ جیتو نے مختصر سا جواب دیا ’نا‘۔ آکاش نے پھر سوال کیا کیوں تم پھل نہیں کھاتے ؟ جیتو بولا جی نہیں۔ اچھا لیکن پہلے تو تم بڑے شوق سے کھاتے تھے ؟ جی ہاں جیتو بولا۔ تو پھر کی چھوڑ دیا ؟ جی ہاں۔ آکاش جانتا تھا کہ جیتو خاصہ باتونی بچہ ہے۔ اسے جیتو کے مختصر جوابات پر بھی تعجب ہو رہا تھا اور اس بات پر بھی حیرت تھی کہ اس نے پھلوں کے استعمال سے توبہ کر لی۔

آکاش نے پوچھا بیٹے تمہاری یہ قسم کھانا میری سمجھ میں نہیں آیا اس لئے کہ پھلوں کا ذوق تو پہاڑیوں پر رہنے والے ہی رکھتے ہیں ؟ مجھے یاد ہے جب تم کالاہانڈی سے آئے تھے تو کھانا کم اور پھل زیادہ کھاتے تھے۔ جی ہاں پاپا آپ کی بات درست ہے لیکن اب میں نے پھل کھانا چھوڑ دیا ہے۔ چھوڑ دیا ہے ؟ وہ کیوں بھلا ؟بس یونہی۔ نہیں یہ نہیں ہوسکتا۔ کوئی بلاوجہ اپنی سب سے پسندیدہ چیز نہیں چھوڑ سکتا۔ تم مجھے بتاؤ کہ آخر تم نے پھلوں سے توبہ کیوں کر لی ؟ وہ میرا بابا ہے نا کھیتو! جی ہاں میں جانتا ہوں وہ بھی پھلوں کا بہت شوقین ہے۔ جب ہم لوگ کالاہانڈی گئے تھے وہ بھانت بھانت بھانت کے پھل ہمارے لئے لے کر آیا تھا۔ ان میں سے کئی کوتو میں نے پہلی بارچکھا تھا لیکن کھیتو ان پھلوں کا ذائقہ اور ان کی تمام خصوصیات سے ماہرِ غذائیت کی طرح واقف تھا۔ کس پھل کی تاثیر سرد ہے ؟کون سا گرم ہے کون سا کس موسم میں پایا جاتا ہے اور کھایا جاتا ہے ؟ کون سا کس مرض کے لیے مفید ہوتا ہے ؟ یہ سب کھیتو جانتا تھا۔ میں نے پوچھا کہ یہ سب تمہیں کیسے معلوم ہوا؟

کھیتو بولا جناب یہ تو جنگل کی عام معلومات ہے جو سینہ بہ سینہ آگے بڑھتی ہے بلکہ پروان چڑھتی ہے۔ پروان چڑھتی ہے یہ بات میری سمجھ میں نہیں آئی اس لئے کہ وہاں تحقیق و تفتیش کا کوئی ادارہ تو تھا نہیں۔ اس لئے میں نے استفسار کیا تو وہ بولا جناب یہ علم تجربے اور مشاہدے سے آگے بڑھتا ہے۔ جیتو بولا لیکن اب اس علم کا دروازہ بند ہو چکا ہے ؟ آکاش نے کہا جی ہاں تم شہر آ گئے ہو؟ اب ہم لوگ تمہیں وہ علم و حکمت کی باتیں نہیں سکھا سکتے اس لئے کہ ہم خود ان سے محروم ہیں۔ جی نہیں جیتو بولا بات وہ نہیں ہے میرے ایک کے سیکھنے یا نہیں سیکھنے سے کیا فرق پڑتا ہے ؟ تب پھر تم یہ کیوں کہہ رہے ہو کہ علم کی ترویج کا دروازہ بند ہو گیا۔ یہ مجھے اپنے بابا نے بتایا۔ اچھا کیا بتایا تمہارے بابا نے ؟

میرا بابا کہہ رہا تھا کہ اب جنگل کے دروازے ہم پر بند ہو گئے ہیں۔ ہم سے ہمارے جنگل چھین لیے گئے ہیں۔ اب ہم ان میں بلا دریغ نہیں جا سکتے اور اپنی پسند کے سامان لے کر نہیں آسکتے۔ اسی لئے اس بار وہ بہت اداس تھا۔ لیکن اس میں اداس ہونے کی کیا بات ہے آکاش نے پوچھا ؟ جیتو بولا جو سوال آپ کر رہے ہیں یہی میں نے اپنے بابا سے پوچھا تھا ؟ اچھا تو کھیتو نے کیا کہا ؟ وہ بولا بیٹے اب تم بھی شہری باشندے ہو گئے ہو۔ تم نہیں جانتے کہ ان جنگلوں کی ہماری زندگی میں کیا اہمیت ہے ؟وہاں سے ہم لوگ نہ صرف اپنے لئے غذا اور اپنے مویشیوں کے لیے چارے کا بندوبست کرتے تھے بلکہ ہمارے لئے ایندھن، رسی، گوندھ، تمباکو، منجن، ادویات اور گھروں کی تعمیر کا ساراسامان جنگل سے آتا تھا اور وہ بھی مفت۔ اس لئے کہ وہ جنگلات ہماری اپنی ملکیت تھے۔ ان پر کسی فرد کی یا حکومت کی اجارہ داری نہیں تھی۔ جو بھی چاہتا تھا اپنی ضرورت کا سامان وہاں سے لے آتا تھا۔ اب ہماری ضرورت کا سامان غیروں کی تجارت کا مال بن گیا ہے۔ وہ لوگ ہمارے اپنے مال کو ہم سے چھین کر ہمیں کو بیچ رہے ہیں لیکن ہم انہیں خرید نہیں سکتے اس لئے کوئی اور ہی ان کو خرید کر ان سے لطف اندوز ہو رہا ہے۔ بیٹے جیتو میں تمہیں کیسے سمجھاؤں کہ ہم قبائلی لوگوں سے جنگل کا چھن جانا گویا ہماری اپنی کائنات کا چھن جانا ہے۔

کھیتو کی بات ننھے جیتو کے سر پر سے گزر گئی۔ اس نے نہایت معصومیت سے سوال کیا بابا جنگل سے پھلوں کو توڑ کر لانا تو بڑی محنت کا کام ہے۔ آپ لوگ اسے بازار سے خرید کر کیوں نہیں کھاتے ؟ اس پر میراباباکھیتومسکرا کر بولا بیٹا بازار سے پھل خریدنا ان لوگوں کے لیے تو آسان ہے جن کی جیب میں روپیہ پیسہ ہے لیکن ہم غریب لوگ ہیں۔ ہم بھلا وہ دھن دولت کہاں سے لائیں جس سے پھل خرید سکیں کھیتو نے بتایا گزشتہ سات ماہ کے دوران اس نے کوئی پھل چکھا تک نہیں۔ بس ان کو حسرت و یاس سے دیکھنے کے علاوہ اب کوئی اور چارۂ کار نہیں ہے۔ جیتو نے کہا بابا فی الحال آپ رائے پور میں ہیں اب تو انہیں کھا لیجئے۔ وہ بولا نہیں بیٹا۔ بڑی مشکل سے میں نے ان کی طلب کو اپنے دل سے نکال پھینکا ہے۔ اس لئے اب تم مجھے اس کے لیے مجبور نہ کرو۔ یہ کہہ کر کھیتو نے اپنا منھ پھیر لیا۔ جیتو نے دیکھا اس کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ اس کے بعد جب بھی وہ پھلوں کی جانب دیکھتا ہوں اس کے بابا کا مرجھایا ہوا چہرہ اس کی آنکھوں میں گھوم جاتا اور سارے پھل بدمزہ معلوم ہونے لگتے ہیں۔ آکاش نے اپنی ٹرالی میں سے پھلوں کی ٹوکری کو نکال کر واپس رکھ دیا اور دیگر اشیاء کی قیمت ادا کرنے کے لیے ادائے گی کے کاؤنٹر کی جانب چل پڑا۔ ہفتے بھر کی محنت و مشقت سے رجنی جن حقائق کا ادراک نہیں کرسکی تھی ان کی معرفت آکاش نے چند منٹوں میں کر لی تھی۔

 

 

 

 

فتح پور سیکری

 

اکبر اعظم کا نام تو آپ سب نے سنا ہو گا لیکن فتح پور سیکری کا نہیں سنا۔ تاج محل کو تو آپ سب جانتے ہیں جبکہ وہ صرف ایک عمارت ہے بلکہ مقبرہ لیکن فتح پور سیکری کو نہیں جانتے کہ ایک شہر ہے جسے ہندوستان کا پایہ تخت ہونے کا اعزاز حاصل رہا ہے گو کہ مختصر وقت کے لیے صحیح۔ قلعہ بند شہر کے صدر دروازے پر راجو گائیڈ کی تقریر جاری تھی اور رجنی سوچ رہی تھی اس کی بات کس قدر درست ہے۔ جب سجنی نے اس سے فتح پور سیکری جانے کے لیے کہا تو اس کا سوال بھی یہی تھا کہ یہ کون سا مقام ہے جس کا نام اس نے کبھی نہیں سنا۔ جلال الدین محمد اکبر کے دین الٰہی کی مانند اس شہر کو بھی انقلابِ زمانہ کی دھول کچھ ایسے چاٹ گئی کہ اس کا نام و نشان مٹ گیا۔

اس میں شک نہیں کہ اکبر اپنے پوتے شاہجہاں کی بنسبت نہایت دلیر اور ذہین بادشاہ تھا۔ اس نے اپنے دادا بابر کے کھوئے ہوئے عظمت و جلال کو پھر سے بحال کرنے کارنامہ انجام دیا۔ راجپوتوں کو فیصلہ کن شکست سے دوچار کیا۔ اپنے لئے ایک نئے پایہ تخت کا انتخاب کیا اور اس میں وہ تمام عمارتیں ازسرنو تعمیر کیں کو حکومت چلانے کے لیے ضروری تھیں۔ ایک نہایت مضبوط قلعہ بند شہر جس میں جامع مسجد، دیوان، عام، دیوانِ خاص، اپنا اپنا اور اپنے نورتن کے محلات۔ عدالت، دفاتر فوجی بیرک اور خواجہ سلیم چشتی کا شاندار مقبرہ، غرض کہ وہ سب کچھ یہاں موجود تھا جو کسی حکومت کو قائم و دائم رکھنے کے لیے ضروری تھا۔ راجو گائیڈ اپنی تقریر کے دوران ایک لمحہ کے لیے رک کر بولا دوستو یاد رہے آپ لوگ راجو گائیڈ کے ساتھ ہیں جو رٹی رٹائی تقریر نہیں سناتا بلکہ اس علاقے کی تاریخ اور جغرافیہ دونوں سے واقف ہے۔ آپ لوگ اگر بیچ میں کوئی سوال کرنا چاہیں تو بلا توقف روک کر پوچھ سکتے ہیں۔ مجھے خوشی ہو گی۔

یہ پہلا تجربہ تھا کہ کوئی گائیڈ اس اعتماد کے ساتھ سیاحوں کو سوال کرنے کی دعوت دے رہا تھا۔ اس بس کے ایک انگریز مسافر نے سوال کیا آپ نے اس طرزِ تعمیر کے بارے میں کچھ نہیں بتایا۔ میں ایک مہینے سے ہندوستان کے مختلف قدیم شہروں کی خاک چھان رہا ہوں لیکن ایسی عمارتیں میں نے کہیں نہیں دیکھیں۔ راجو مسکرایا اور بولا مجھے خوشی ہے کہ ہمارے ساتھ آج ایسے لوگ موجود ہیں محض تفریح کے لیے سیاحت نہیں کرتے۔ ہاں تو جناب آپ کے سوال کا شکریہ اس سے پہلے کہ میں آپ کے سوال کا جواب دوں میں ایک سوال کرنا چاہتا ہوں۔ لوگ سمجھ گئے راجو اپنا عیب چھپانے کی خاطر چرب زبانی سے کام لے رہا ہے۔ اسے یہ تسلیم کرنے میں عارمحسوس ہو رہی ہے کہ وہ اس سوال کا جواب نہیں جانتا۔ اس سیاح نے کہا کیوں نہیں ضرور۔ کیا آپ کو وسط ایشیا میرا مطلب ہے ایران اور اس کے اطراف جانے کا اتفاق ہوا ہے ؟ وہ بولا جی ہاں ان عمارات میں اور ان میں مشابہت تو ہے لیکن اس کے باوجود یہ خاصی مختلف ہیں۔

جی ہاں آپ کا مشاہدہ درست ہے۔ اب آپ اپنی آنکھوں کو بند کر کے چشم تصور کے اندر قدیم ہندوستانی طرز تعمیر کو فارسی طرز تعمیر میں ملائیں جیسے لسی میں روح افزاء کو ملایا جاتا ہے اور پھر دیکھیں کہ کیا شکل بنتی ہے۔ اس سیاح نے جواب دیا جی ہاں اس سے ملتی جلتی چیز بن جاتی ہے۔ سارے مسافر اس انگریز کے اعتراف پر ششدر تھے۔ راجو بولا دیکھیں جناب بابر اور اکبر کے درمیان یہی شہ مشترک تھی کہ انہوں نے اپنی اصل کو قائم رکھتے ہوئے نقل کو اپنے اوپر اوڑھ لیا تھا۔ میرا مطلب ہندوستان کی تہذیب و ثقافت سے ہے۔ مغل اپنے ساتھ ایرانی تہذیب لے کر آئے لیکن یہاں آنے بعد اسے ہندوستانی رنگ میں ڈھال دیا۔ ان لوگوں نے ایرانی نقش و نگار کو ہندوستانی جامہ پہنایا۔ یہاں کے مقامی پتھر اور مقامی کاریگروں کی خدمات حاصل کی۔ انہیں اپنے جوہر دکھانے کی آزادی دی۔ اس طرح ایک نیا طرز تعمیر وجود میں آ گیا جس کا مظاہرہ آپ شمالی ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب میں دیکھیں گے۔

بس کے مسافروں میں مختلف ممالک کے لوگ تھے ایک جاپانی نے ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں سوا ل کیا لیکن جیسا کہ آ پ پہلے کہہ چکے ہیں ان دونوں نے راجپوتوں پر فیصلہ کن فتح حاصل کر لی تھی پھر انہیں اس کی ضرورت کیوں پیش آئی؟راجو بولا یہ بہت ہی اچھا سوال ہے۔ فوجوں کے ذریعہ زمین فتح ہوتی ہے لیکن حکومت کو استحکام عطا کرنے کے لیے دلوں کو جیتنا پڑتا ہے۔ ایسے حکمرانوں کو جن کی جڑیں کہیں اور پائی جاتی ہوں عوام کے اور اپنے درمیان کے فاصلوں کو عبور کرنا ہوتا ہے۔ اجنبیت کی دیوار کو گرائے بغیر پائیدار حکومت کی بنیاد نہیں پڑسکتی اور اس طرح کے اقدامات کی یہی اہمیت ہے۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے راجو گائیڈ کے قالب میں کوئی ماہر عمرانیات گفتگو کر رہا ہے۔ آکاش راجو گائیڈ کے جوابات سے بے حد متاثر ہوا تھا لیکن پھر بھی ایک خلش اس کے ذہن میں باقی تھی جس کا اظہار اس نے اپنے سوال میں کیا۔

آکاش بولا راجو تمہاری بات بالکل درست ہے لیکن کیا وجہ ہے کہ ان تمام اقدامات کے باوجوداسے دوام نصیب نہ ہوسکایہ شہر بہت جلد اجڑ گیا اور کھنڈر میں تبدیل ہو گیا۔ راجو بولا اس سوال کا جواب دینے کے لیے آپ لوگوں کو دیوان عام کے آگے والی اس عمارت کے پاس چلنا ہو گا جس کا نام عبادتگاہ ہے۔ سارا قافلہ اب ایک وسیع و عریض عمارت کے سامنے کھڑا تھا۔ راجو نے سوال یہ کیا ہے ؟ کسی نے کوئی جواب نہیں دیا۔ راجو نے پھر پوچھا کیا یہ مسجد ہے ؟ جواب تھا نہیں۔ تو کیا یہ مندر ہے ؟ جی نہیں۔ تب پھر یہ کس کی عبادت گاہ ہے ؟ میرا مطلب ہے کس مذہب کے ماننے والوں کی ؟ مجمع میں سگبگاہٹ ہوئی دین الٰہی تو نہیں ؟ بالکل صحیح پہچانا آپ نے۔ یہ دین الٰہی کی عبادت گاہ ہے جس کا پیروکار اس دنیا میں کوئی نہیں تھا۔ خود اکبر بھی نہیں۔ اچھا اگر ایسا ہے تو اس نے اس دین کی بنیاد کیوں ڈالی گئی؟ کسی یوروپین نے سوال کیا۔

راجو بولا اپنی سیاسی ضرورت کے پیش نظر اس نے سیکولرزم جیسا ایک عقیدہ گڑھ لیا تھا جسے کسی نے قبول نہیں کیا۔ آکاش بولا لیکن یہی تو ہمارا سوال ہے کہ اکبر کی اس روشن خیالی کی پذیرائی کیوں نہیں ہوئی؟راجو کا ایک زوردار قہقہہ بلند ہوا۔ وہ بولا جناب اس موقع پر ہمیں اعتراف کرنا ہو گا کہ اس زمانے کے لوگ ہم سے زیادہ با شعور تھے۔ وہ سمجھ گئے کہ یہ سراسر منافقت ہے اہل اقتدار کی ایک سازش ہے۔ اس لئے اسے رد کر دیا۔ ہم لوگ یہ سمجھ نہیں پائے اس لئے جھانسے میں آ گئے۔ راجو کے اس جواب کے بعد سیاحوں کے درمیان چہ میگوئیاں ہونے لگیں راجو سمجھ گیا لوگ مطمئن نہیں ہوئے۔ وہ بولا خواتین و حضرات میں اپنے جواب کی تلخی کے لیے معافی چاہتا ہوں۔ خود اپنے خلاف کسی بات کو تسلیم کرنے میں جو دقت ہوتی ہے آپ سب کو اس کا شکار کرنے کے لیے معذرت طلب کرتا ہوں اور اپنے حق میں تاریخ کی ایک مثال پیش کرتا ہوں۔

راجو نے مجمع پر ایک نگاہ ڈالی سارے لوگ ہمہ تن گوش تھے وہ خوش ہوا اور بولا آپ سب اس بات سے واقف ہیں کہ اکبر نے اپنے ازلی دشمن راجپوتوں سے تعلقات استوار کرنے کی خاطر جودھا بائی سے شادی کر لی۔ جودھا بائی شادی کے بعد بھی اپنے آبائی دین پر قائم رہی۔ اکبر نے اس کے بھائی راجہ مان سنگھ کو اپنے نورتنوں میں شامل کر لیا۔ راجہ مان سنگھ پر اکبر کے اعتماد کا حامل تھا ایک دن اسی عمارت کی دہلیز پر اکبر نے راجہ مان سنگھ سے سوال کیا۔ راجہ میرے اس دین الٰہی کو کوئی قبول نہیں کرتا کم از کم تم قبول کر لو۔ اس کے جواب نے راجہ مان سنگھ نے جو جواب دیا وہ اس زمانے کی فکر عام کا غماز ہے۔ مان سنگھ بولا مہابلی اگر آپ مجھے اسلام قبول کرنے کے لیے کہیں تو میں اس پر غور کرسکتا ہوں لیکن یہ دین الٰہی قبول نہیں کرسکتا۔ راجہ مان سنگھ جانتا تھا کہ آدھا تیتر اور آدھا بٹیر پنپ نہیں سکے گا۔ یہ جلد ہی دم توڑ دے گا اس لئے اسے قبول کر کے اپنی مٹی خراب کیوں کی جائے۔ راجو کے اس جواب نے سارے لوگوں کو لاجواب کر دیا تھا۔ اب وہ لوگ بس کی جانب بڑھ رہے تھے تاکہ آگرہ چل کر شہرۂ آفاق تاج محل کا نظارہ کرسکیں۔

رجنی سوچ رہی تھی ان تعمیرات اور جدید تعمیرات میں کس قدر فرق تھا۔ گو کہ یہ عمارات شان و شوکت کی نمائش کی غرض سے تعمیر ہوئی تھیں لیکن اس سے عوام کا، کاریگروں کا، مزدوروں کا نقاشوں کا سبھی کا فائدہ ہوا تھا۔ بدحالی دور ہوئی تھی۔ معاشرے میں خوشحالی کا دور دورہ ہوا تھا۔ ان عمارتوں کی تعمیر کے لیے کسی کو اپنے آبائی گھر سے محروم نہیں کیا گیا بلکہ ان کے قدیم گھروں کی مرمت کا سامان ہو گیا۔ عوام کو حاصل قدرتی وسائل پر کسی نے ڈاکہ نہیں ڈالا بلکہ ان کے لیے قدرتی وسائل کی سہولیا ت جھیلوں ، تالابوں اور نہروں کی شکل میں فراہم کی گئی۔ جب رجنی نے اس کی وجوہات پر غور کرنا شروع کیا تو اس کی سمجھ میں آ گیا ان تعمیرات میں کسی سرمایہ دار کی سرمایہ کاری نہیں تھی۔ اس میں کسی نے سود کا زہر نہیں ملایا تھا۔ ان کاموں کو کرنے والے عوام پر حکومت تو کرنا چاہتے تھے لیکن معاشی استحصال ان کے پیش نظر نہیں تھا جب کہ آج صورتحال یکسر مختلف ہے۔ ہمارے اپنے ووٹ سے جیت کر اقتدار پر قبضہ کرنے والوں نے سود خور سرمایہ داروں سے ساز باز کر لی ہے اور دونوں مل جل کر غریب عوام کا خون چوس رہے ہیں۔ رجنی کے ذہن میں ایک طوفان بپا تھا باقی مسافر تو ماضی میں کھوئے ہوئے تھے مگر وہ ماضی کا حال سے موازنہ کر کے پریشان ہو رہی تھی۔

بس کے قریب پہنچ کر جب رجنی نے فاطمہ حسن کی جانب دیکھا تو فاطمہ کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ رجنی اس کے پاس آ کر بولی میرا نام رجنی ہے رجنی آکاش۔ فاطمہ نے نہایت گرمجوشی سے جواب دیا میرا نام فاطمہ ہے فاطمہ حسن۔ میں ہندوستان کے چھوٹے سے شہر رائے پور سے دہلی کی سیر کے لیے آئی ہوں۔ میں انڈونیشیا کے ایک بڑے سے شہر جکارتہ سے ہندوستان گھومنے کے لیے آئی ہوں۔ وہ میرے خاوند آکاش ہیں اور ان کے ساتھ میرا بیٹا جیتو ہے۔ وہ میرے خاوند اختر ابراہیم ہیں اور ان کے ساتھ کوئی نہیں ہے۔ رجنی کو ایسا لگ رہا تھا کہ فاطمہ جان بوجھ کر اس کے جملوں کوہو بہو دوہرا رہی ہے اس لئے اس نے تعجب سے فاطمہ کی جانب دیکھا تو وہ بولی اس میں حیرت کی کیا بات ہے ہماری شادی ابھی ایک ماہ قبل ہوئی اب اتنی جلدی تو ۰۰۰۰۰۰۔ جی ہاں میں سمجھ گئی رجنی بولی لیکن یہ پرانے وقتوں کی بات ہے زمانہ آگے بڑھ گیا ہے دوسال قبل میں پیرس گئی تھی وہاں میں نے کئی عورتوں کو اپنے بچوں کے ساتھ دیکھا جن کی ابھی شادی نہیں ہوئی تھی۔

فاطمہ مسکرا کر بولی جب کوئی بہت آگے نکل جائے تو اپنے آپ پیچھے ہو جاتا ہے۔ اس لئے کہ دنیا گول گھومتی ہے وہ لوگ ایسے نکلے کہ گمراہ ہو گئے خیر نئی تہذیب ہے ابھی ہوش سنبھال رہی ہے جب پختہ کار ہو گی تو سب سمجھ میں آ جائے گا۔ رجنی نے سوچا یہ پستہ قد احمق نظر آنے والی لڑکی ویسی نہیں ہے جیسی کہ دکھائی دیتی ہے۔ دہلی سے فتح پور تک کے سفر میں جیتو نے ایک ہم عمر ہمسفر ٹونی سے دوستی کر لی تھی۔ اب رجنی کو فاطمہ مل گئی تھی۔ جب وہ دونوں بس کے اندر آئے تو آکاش اور اختر اپنی اپنی سیٹ پر بیٹھے ان کا انتظار کر رہے تھے۔ رجنی نے قریب آ کر آکاش سے کہا آپ یہاں کیا کر رہے ہیں جائیے وہاں بیٹھیے۔ رجنی کا اشارہ اختر کی جانب تھا۔ آکاش نے حیرت سے پوچھا کیوں ؟ رجنی بولی عجیب سوال ہے آپ دیکھ نہیں رہے ہیں کہ میری سہیلی فاطمہ میرے ساتھ ہے۔ اب آپ ہی بتائیے وہ کہاں بیٹھے گی ؟ آکاش کو اپنی غلطی کا احساس ہو گیا وہ جا کر اختر ابراہیم کے بغل میں بیٹھ گیا اب رجنی کے سوال نے اختر کے دماغ میں جا کر اپنی جگہ بنا لی اب وہ سوچ رہا تھا کہ فاطمہ کہاں بیٹھے گی۔ فاطمہ پیچھے والی نشست پر رجنی کے ساتھ بیٹھ چکی تھی۔

رجنی بولی فاطمہ تمہارے بات کرنے کا انداز بہت منفرد ہے۔ فاطمہ بولی جی نہیں بات ایسی نہیں ہے دراصل میری انگریزی کمزور ہے اس لئے میں مخاطب کے جملوں کو ضروری ترمیم کرنے کے بعد دوہرا دیتی ہوں۔ رجنی کی سمجھ میں فاطمہ کی مشکل آ گئی۔ وہ بولی تم دونوں کے نام خاصے مختلف ہیں۔ فاطمہ حسن اور اور اختر ابراہیم۔ جی ہاں حسن میرے والد صاحب کا نام ہے اور ابراہیم ان کے والد صاحب کا۔ لیکن اب تو تمہاری ان سے شادی ہو چکی ہے ؟ تو اس سے کیا ہوا ؟ اب تمہارا نام فاطمہ اختر ہونا چاہئے۔ فاطمہ اختر کیوں ؟ اگر شادی کے بعد ان کا نام اختر فاطمہ ہو جائے تو کیسا لگے گا ؟ ان کا نام اختر فاطمہ ؟ وہ کیوں ؟ رجنی نے حیرت سے پوچھا۔ فاطمہ نے نہایت معصومیت کے ساتھ جواب دیا اس لئے کہ ان کی بھی تو مجھ سے شادی ہو چکی ہے۔ رجنی بولی لیکن وہ تو مرد ہے جی ہاں اور میں بھی تو عورت ہوں۔ نہ وہ مجھ سے کمتر ہیں اور نہ میں ان سے بہتر ہوں۔ لیکن نام بدل لینے میں کیا ہرج ہے رجنی نرم پڑ رہی تھی۔ اس سے شناخت میں آسانی ہوتی ہے۔ میرے خیال میں نام بدل دینے سے شناخت مٹ جاتی ہے۔ میں آج ان کی بیوی ہوں ہو سکتا ہے کل نہ رہوں لیکن میں آج جس کی بیٹی ہوں ہمیشہ اسی کی بیٹی رہوں گی۔ فاطمہ کی دلیل مضبوط تھی۔

رجنی بولی تمہاری نئی نئی شادی ہوئی ہے تم ابھی سے طلاق کی باتیں کرنے لگیں کیا انڈونیشیا میں طلاق کی شرح بہت زیادہ ہے ؟ جی نہیں بے حد کم ہے لیکن پھر بھی امکان تو ہے۔ رجنی کو فاطمہ حسن کی حقیقت پسندی اور صاف گوئی نے اپنا گرویدہ بنا لیا تھا۔ رجنی نے موضوع بدلنے کے لیے کہا اچھا تو تم لوگ اپنا ہنی مون منانے کے لیے ہندوستا ن آئے ہو۔ فاطمہ بولی جی نہیں انڈونیشیا میں یہ رواج ہے کہ خوشحال لوگ شادی کے بعد سب سے پہلے عمرہ کرتے ہیں اور اللہ کے گھر کعبہ میں جا کر سجدۂ شکر بجا لاتے ہیں۔ رجنی بولی پھر یہ ہندوستان درمیان میں کہاں سے آ گیا؟ بھئی انسان تاریخ بدل سکتا ہے جغرافیہ نہیں بدل سکتا۔ جکارتہ سے مکہ مکرمہ کے راستے میں ہندوستان ہے سو ہے اب اس کو کون ہٹا سکتا ہے ؟ جی ہاں میں یہ سمجھتی ہوں لیکن یہاں رکنا کیا ضروری ہے ؟ آپ لوگ اوپر ہی اوپر پرواز کر کے نکل بھی تو سکتے تھے ؟ جی ہاں ہمارا ارادہ یہی تھا لیکن شادی کے بعد ہم لوگ اپنے اسکول کے استاد گوپی چند جی سے ملنے ان کے گھر گئے۔ انہوں نے مجھے اور انہیں دونوں کو اسکول میں انگریزی زبان پڑھائی تھی۔

رجنی بولی میں سمجھ گئی گوپی چند جی نے تم دونوں کی عمر کا خیال کر کے حجاز کے بجائے دہلی بھیج دیا۔ جی نہیں حجاز کے بجائے نہیں بلکہ حجاز کے ساتھ دہلی کا سفر بھی جوڑ دیا وہ بولے تم لوگ جاتے ہوئے دو چار دن کے لیے دہلی بھی رک جانا۔ دراصل وہ دہلی کے قریب میرٹھ کے رہنے والے تھے۔ تھے کیا مطلب؟ مطلب یہ کہ گزشتہ پچاس سال سے تو جکارتہ ہی میں مقیم ہیں اس لئے وہ خود بھی تھے یہی کہتے ہیں۔ جی ہاں سمجھ گئی رجنی بولی لیکن پھر دہلی سے آگرہ؟ جی ہاں ہم نے ان سے پوچھا کہ دہلی میں ہم کیا دیکھیں گے تو وہ بولے ویسے تو دیکھنے کے لیے بہت کچھ ہے لیکن تم لوگ آگرے کا تاج محل ضرور دیکھنا۔ تاج محل ہی کیوں ؟ رجنی نے پوچھا فاطمہ بولی یہی سوال ہم نے گوپی چند جی سے پوچھا تھا وہ بولے اس لئے کہ وہ سرزمینِ محبت کے تختِ طاؤس کی پیشانی پر سجا ہوا تاج ہے۔ راہِ عشق کا لاثانی نشانِ منزل ہے۔ اس پر اختر نے پوچھا لیکن میں تو شاہجہاں کی طرح تاج محل تعمیر نہیں کرسکتا تو میں اسے کیوں دیکھوں ؟

رجنی نے چہک کر پوچھا۔ اچھا تو کیا کہا تمہارے استادگوپی چند جی نے۔ وہ ۰۰۰وہ مسکرائے اور بولے اگر ہر کوئی یہ سوچتا کہ میں ایلیٹ کی طرح کی شاعری نہیں کرسکتا تو میں اس کو کیوں پڑھوں تو ایلیٹ کی شاعری لازوال نہیں ہوتی۔ لوگ جس طرح ایلیٹ کے اشعار میں اپنے دل کی دھڑکن سنتے ہیں اسی طرح شاہجہان کی محبت کے آئینہ میں اپنی محبت کا عکس دیکھتے ہیں۔ اختر کی سمجھ میں گوپی چند جی بات آ گئی لیکن میری سمجھ میں نہیں آئی میں نے سوال کیا لیکن میں نے سنا ہے وہ شاہجہاں اور ممتاز محل کی قبر ہے گویا وہ ان کی موت کی نشانی ہے۔ جی ہاں تم نے سچ سنا ہے فاطمہ محبت کرنے والوں کی محبت کی حالت میں موت ان کی محبت کو لازوال بنا دیتی ہے۔ وہ دونوں تو مر گئے لیکن اپنی محبت کو جاوداں کر گئے۔ اسی لئے تمہیں ان کی قبر پر جا کر خراجِ عقیدت پیش کرنا چاہئے تاکہ تمہارے اندر بھی وہی چراغ روشن ہو اور تابدار و پائیدار رہے۔ گوپی چند جی شاعری کرنے لگے تھے۔ ہم لوگوں کو بہت کچھ کرنا تھا اس لئے ہم نے اجازت چاہی اور اپنے گھر کی جانب چل پڑے۔

راستے میں اختر سے میں نے کہا مجھے موت سے وحشت ہوتی ہے ہم لوگ تاج محل نہیں جائیں گے۔ اختر بولا کیسی باتیں کرتی ہو فاطمہ اس کائناتِ ہستی میں حیات تو عارضی ہے جو آتی ہی جانے کے لیے ہے۔ موت ابدی ہے جو ہمیں اپنے ساتھ لے جانے کے لیے آتی ہے اور کبھی ساتھ نہیں چھوڑتی۔ ہماری تمہاری طرح۔ میں نے اختر کی تائید کی اور ہم لوگوں نے دہلی سے ہوتے ہوئے مکہ جانے کا منصوبہ بنا لیا۔ رجنی بولی یہی تو راجو گائیڈ بھی کہہ رہا تھا۔ رجنی کی بات پر فاطمہ چونک پڑی وہ بولی لیکن راجو گائیڈ نے تاج محل کا سرے ذکر ہی نہیں کیا۔ رجنی نے تائید کی اور بولی جی ہاں اور گوپی چند نے فتح پور سیکری کے بارے میں کچھ نہیں بتایا۔ یہ بھی صحیح ہے فاطمہ نے کہا۔ یہی تو میں کہہ رہی تھی کہ دونوں کی بات ادھوری ہے لیکن اگر ان کو جوڑ کر دیکھا جائے تو بات پوری ہو جاتی ہے۔ فاطمہ بولی میں نہیں سمجھی ؟ رجنی نے کہا یہی کہ اگر منافقت ہو تو دل کھنڈر بن جاتا ہے فتح پور سیکری کی مانند اجڑ جاتا ہے لیکن محبت کا جذبہ اسے لازوال کر دیتا ہے تاج محل کی طرح۔ اسی لئے لوگ کہتے ہیں کہ تاج محل نہ کھنڈر بنا ہے اور نہ بنے گا۔ فاطمہ ہنس کر بولی بھئی میری سمجھ میں نہ تو گوپی چند جی کی شاعری آتی ہے اور نہ آپ کا فلسفہ پھر بھی مجھے آپ لوگوں کی باتیں بہت اچھی لگتی ہیں۔ رجنی بولی شکریہ۔ دیکھو بس کے تمام مسافر سو چکے ہیں۔ ایسا کرتے ہیں ہم لوگ بھی کچھ آرام کر لیتے ہیں۔ فاطمہ نے تائید کی اور آنکھیں بند کر لیں اس کی آنکھوں میں تاج محل اور اس کے اندر سے اختر ابراہیم نمودار ہو گیا۔ یہ فاطمہ حسن اور اختر ابراہیم کا تاج محل تھا۔

تاج محل کی رومانوی فضا سے نکل کر یہ قافلہ کرشنا کے شہر متھرا پہنچا۔ مندروں کے اس شہر میں چہار جانب کرشنا بھکتی ماحول تھا۔ رادھا اور کرشن لیلا کی داستانیں تمام مندروں میں پھیلی ہوئی تھیں۔ سیاح ہندو اور مسلم تہذیب کے درمیان کا فرق محسوس کر رہے تھے۔ تاج محل زن و شو کے درمیان پائے جانے والے پاکیزہ رشتے کا پر وقار اظہار تھا اور اس کے احاطے میں تعمیر شدہ مسجد کسی انسان کے بجائے خدائے واحد کی کبریائی بیان کرتی تھی۔ ایک پاک صاف روحانی ماحول جس میں انسان اپنے خالق و مالک کے آگے دن میں پانچ مرتبہ سر بسجودہو جایا کرتے تھے اس کے برخلاف متھرا کے مندروں میں انسان نما دیوتاؤں کی عبادت اور ان کے نام پر پروہتوں کے استحصال نے ساری فضا مکدر ّکر رکھی تھی۔ کرشنا کی گوپیوں سے اخلاق سوز چھیڑ چھاڑ کو تقدس کا جامہ پہنا کر خوبصورت بنا دیا گیا تھا۔

متھرا سے چل کر جب وہ لوگ کرشن نگری ورنداون پہنچے تو وہاں بھی متھرا کا سا ماحول تھا۔ ست یگ میں کرشنا کی گوپیوں کا شہر ورنداون کو کل یگ بے سہارا بیواؤں کے سبب شہرت حاصل ہو گئی تھی۔ ان کے آشرم کی حالتِ زار خون کے آنسو رلاتی تھی۔ ہر بیوہ کی داستان اس کی اپنی اولاد کی بے اعتنائی اور رشتہ داروں کی سنگدلی بیان کرتی تھی۔ رجنی کو یہ جان کر بے حد دکھ ہوا کہ سو کروڑ کی آبادی والا ملک جس پر وہ فخر کیا کرتی تھی اپنی پانچ سات ہزار بے کس و لاچار بیوہ خواتین کی دیکھ ریکھ کرنے سے قاصر ہے۔ ان کی زندگی اور موت دونوں دردناک تھی۔ رجنی نے جب ان سے بات چیت کی تو اسے پتہ چلا کہ ان میں جب کسی کا انتقال ہو جاتا ہے تو انتظامیہ ان کی آخری رسومات تک کی پرواہ نہیں کرتا۔ وہ صفائی کرنے والوں کی مدد سے لاش کو ٹھکانے لگواتی ہیں۔ ورنداون کی سیاحت کے بعد رجنی اس قدر اداس ہوئی تھی کہ اس کا جی چاہا واپس دہلی چلی جائے لیکن سب سے الگ ہو کر نکل جانا اپنے آپ کو اور آکاش و جیتو کو زحمت میں ڈالنے کے مترادف تھا۔ وہ سجنی کو کوس رہی تھی جس نے اسے آگرہ کے ساتھ ساتھ متھرا و جئے پور بھجوا دیا تھا۔

جئے پور کی سیر نہایت خوشگوار تھی۔ اس شہر کو راجہ سوائی جئے سنگھ نے نہایت منصوبہ بند طریقے پر بسایا تھا۔ سڑکیں ، عمارتیں ، بازار اور باغات سب کچھ راجہ صاحب کے نظم و نسق کی داد وصول کرتے تھے۔ قلب شہر کی ساری عمارتوں کا قد، رنگ اور طرزِ تعمیر سب کچھ یکساں تھا۔ ان لوگوں نے جئے پور کی اہم عمارتیں مثلاً ہوا محل کے علاوہ میوزیم دیکھا جس کا نام البرٹ ہال میوزیم تھا۔ اس نام نے تمام ہی سیاحوں کو چونکا دیا۔ لیکن میوزیم کے اندر جب ان لوگوں نے اس کی تاریخ کو پڑھا تو پتہ چلا کہ پرنس آف ویلس ایڈورڈ البرٹ ہی نے ۱۸۷۶ میں اپنے دورے کے وقت اس عمارت کا سنگِ بنیاد رکھا تھا۔ اس عمارت کا نقشہ سر سموئیل سونٹن جیکب نے بنایا۔ ابتداء میں مہاراجہ رام سنگھ اسے ٹاؤن ہال بنانا چاہتے تھے مگر ان کے ولیعہد مادھو سنگھ دوم نے اسے میوزیم بنا کر رام نواس باغ میں شامل کر دیا۔ اس معلومات سے انگریز سیاحوں کا سینہ خوشی سے پھول گیا۔ آکاش کا سریہ جان کر شرم سے جھک گیا کہ اس شہر کو گلابی لباس پرنس آف ویلس کے استقبال میں پہنایا گیا تھا اور غلامی کی اس روایت کو سوا سو سال بھی ہم لوگ اپنے سینے سے لگائے ہوئے ہیں بلکہ اس پر فخر کرتے ہیں۔ دہلی آنے بعد ان لوگوں نے ایک دن آرام کیا اور اپنی کھٹی میٹھی یادوں کے ساتھ رائے پور لوٹ آئے۔

 

 

 

 

مہا سمیلن

 

رائے پور واپس آنے کے بعد رجنی دوبارہ قبائلی فلاح و بہبود کی تنظیم آدیباسی کلیان سنستھا(اے کے ایس) کی جانب متوجہ ہوئی۔ دہلی میں قیام کے دوران اس نے جو قیمتی معلومات حاصل کی تھی اسے بروئے کار لا کروہ پربتوں پر رہنے والے غریب لوگوں کے لیے کوئی ٹھوس کام کرنا چاہتی تھی۔ اس کے خیال میں یہ کام کسی اکیلے کے بس کا نہیں تھا لیکن اپنے آس پاس اسے کوئی ایسا نظر نہ آتا تھا جس کو وہ اپنا ہمسفر اور ہمنوا بنا سکے۔ آکاش اس کام کو پسند تو کرتا تھا لیکن کسی عملی تعاون کے لیے اپنے آپ کو آمادہ نہ پاتا تھا۔ لے دے کر آدرش اسکول کی پرنسپل ریکھا اگروال کی اخلاقی حمایت اسے حاصل تھی۔ ریکھا چاہتی تو تھی کہ بہت کچھ کرے لیکن اسکول کے انتظامی امور ختم ہونے کا نام ہی نہ لیتے تھے۔ ان سے فرصت ملتی تو گھر کی ذمہ داریاں۔ ریکھا کے تینوں بچے اسکول میں زیر تعلیم تھے۔ ان کے ساتھ ساتھ ان کے والد رجت اگروال کی خدمت بھی ایک وفا شعار بیوی کا فرضِ منصبی تھا۔ اس لئے وہ جب بھی فرصت پاتی رجنی کے ساتھ گفتگو کرتی، اس کی حوصلہ افزائی کرتی اور اپنے مشوروں سے اس کو نوازتی۔ رجنی کے لیے یہی تعاون بہت تھا۔

دہلی سے واپس آنے کے بعد رجنی کی زندگی قبائلی زندگی سے متعلق مضامین لکھنے لگی تھی جو ایک مقامی اخبار رائے پور سماچار میں شائع بھی ہوتے رہتے تھے۔ رجنی کے مضامین چونکہ عام ڈگر سے ہٹ کر ہوتے تھے اس لئے فوراً قارئین کی توجہ کا مرکز بن جاتے تھے ، قارئین کی جانب سے ان پر اظہار خیال بھی ہوتا۔ اکثر خطوط اس کی تائید یا تعریف میں آتے لیکن کبھی کبھار اسے برا بھلا بھی کہا جاتا۔ اسے نکسل باغیوں کا حامی قرار دے کر دھمکیاں بھی دی جاتیں۔ ریکھا اگروال کا شوہر رجت اگروال رائے پور سماچار میں نائب مدیر کے عہدے پر فائز تھا۔ ریکھا نے جب اس پر استفسار کیا تو رجت نے بتایا کہ یہ سب سرکاری ایجنٹ ہیں جو اس کام پر مامور ہیں کہ ایسے لوگوں کے خلاف لکھتے رہیں جو حکومت کی مروجہّ حکمت عملی کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں۔ ریکھا نے پوچھا آپ لوگ جانتے بوجھتے ایسے بدمعاشوں کے خطوط کیوں چھاپتے ہیں ؟ اس پر رجت نے بتایا کہ غیر جانبداری کا ناٹک کرنے کے لیے یہ کرنا پڑتا ہے اور پھر سرکاری اشتہار کے بغیر ہمارا چھوٹاسا اخبار چل بھی تو نہیں سکتا۔ نمک خواری بھی تو کرنی پڑتی ہے۔

رجنی آکاش کا اخلاص اور رجت اگروال کی حمایت اپنا رنگ دکھلا رہی تھی۔ رجنی کی اخبار کے حوالے سے پذیرائی ہونے لگی تھی۔ اس کے مضامین دنیا کے دیگر جریدوں میں شائع ہونے لگے تھے تھے۔ بین الاقوامی پرچوں میں اس کے تراجم شائع ہوتے تھے۔ شہر کی اہم شخصیات میں اس کا شمار ہونے لگا تھا خاص خاص تقریبات میں اسے بلایا جاتا تھا۔ رجنی ایسے مواقع پر کبھی ریکھا کے ساتھ تو کبھی آکاش کے ساتھ شریک ہوا کرتی تھی اور جب موقع ہوتا اپنے خیالات کا بھی اظہار کرتی۔ شہر کے اندر رکن اسمبلی رام جنک کی سیاسی سرگرمیاں بھی ہوتی رہتی تھیں۔ دہلی سے واپسی کے بعد رجنی اور رام جنک کے درمیان منقطع ہو گیا تھا لیکن جب اس نے رائے پور سے دو سو کلومیٹر دور جھولا منڈی میں ایک عظیم قبائلی مہا سمیلن کے اہتمام کا فیصلہ نہیں کیا تو اسے رجنی کا بھی خیال آیا۔ اس مہا سمیلن میں تقریباً پچاس ہزار قبائلی لوگوں کی شرکت متوقع تھی اور اس سے خطاب کرنے کی خاطر دہلی سے مرکزی وزراء تک کو دعوت دی گئی تھی۔

رام جنک کے سکریٹری راکیش شرما نے مشورہ تھا کہ اس موقع پر رجنی آکاش کو شرکت کی دعوت دی جائے تاکہ دہلی والوں کو پتہ چلے آپ کے ساتھ مقامی پڑھے لکھے دانشور لوگ بھی ہیں۔ شرما کی اس تجویز پر جیتندر والمیکی ناراض ہو گیا۔ اسے دہلی میں ہونے والی اپنی ہزیمت یاد آ گئی وہ بولا شرما جی آپ نے کس ناگن کا نام لے لیا۔ سمجھدار لوگ اپنی آستین میں سانپ نہیں پالا کرتے۔ راکیش نے چھیڑا یار میں تو تم کو بہادر آدمی سمجھتا تھا لیکن تم تو ایک معمولی سی عورت سے ڈر گئے۔ جیتندر نے کہا اس روز دہلی میں پہلے ہی سوال کے بعد تمہاری بولتی بند ہو گئی تھی اور اب یہاں بہادری د کھلا رہے ہو۔ راکیش بولا دیکھو والمیکی سیاسی شطرنج پر شہ اور مات تو ہوتی رہتی ہے ایسی باتوں کو دل پر نہیں لیا کرتے۔ جیتندر بولا سوال سیاست کا نہیں ہے۔ مجھے وہ عورت نہایت خطرناک لگتی ہے۔ وہ سانپ کی مانند پھنکارتی ہے اور اس کو قابو میں کرنا ناممکن ہے اس لئے اس پٹارے کو نہ ہی کھولو تو بہتر ہے۔ رام جنک نے مداخلت کرتے ہوئے اپنا قطعی فیصلہ سنا دیا وہ بولا دیکھو ہم قبائلی لوگ ہیں۔ ہم لوگ سانپ سے ڈرتے نہیں اس سے کھیلتے ہیں اس لئے راکیش تم رجنی کو بلاؤ اگر وہ گڑ بڑ کرے گی تو ہم دیکھ لیں گے۔ اس حکم نامے کے بعد جیتندر والمیکی کو سانپ سونگھ گیا۔

رام جنک کی جانب سے اس مہا سمیلن میں شرکت کی دعوت نے رجنی کو حیرت زدہ کر دیا۔ اس نے حامی بھرنے کے بجائے دو دن کا وقت مانگا۔ رجنی کوئی فیصلہ کرنے سے قبل ریکھا سے مشورہ کرنا چاہتی تھی۔ رجنی نے فون پر جب اس بارے میں ریکھا کو بتایا تو اسے بھی تعجب ہوا۔ اسکول کے معاملے میں ریکھا کا رام جنک کے ساتھ دوچار بار پالا پڑا تھا اور اس کی رائے رام جنک کے بارے میں اچھی نہیں تھی پھر بھی وہ نہیں چاہتی تھی کہ محض اندیشوں کی بناء پر اس نادر موقع کو گنوایا جائے۔ ریکھا بولی دیکھو رجنی اس بارے میں مناسب مشورہ تو رجت ہی دے سکتے ہیں۔ تم ایسا کرو کہ پرسوں اتوار کے دن دوپہر کو کھانے کے وقت آکاش اور جیتو کے ساتھ ہمارے گھر آ جاؤ۔ بہت عرصہ تم لوگوں کی دعوت بھی نہیں ہوئی۔ اس وقت رجت بھی موجود ہوں گے اور ہم چاروں مل کر کسی مناسب فیصلے پر پہنچ جائیں گے۔ رجنی نے دعوت کے لیے حامی بھر کے فون بند کر دیا۔

ریکھا کے گھر پر کھانے کے بعد جیتو بچوں کے ساتھ کھیل کود میں مگن ہو گیا لیکن رجت ریکھا آکاش اور رجنی جھولا منڈی میں ہونے والی عظیم کانفرنس پر بات چیت کرنے لگے۔ رجت نے بتایا کہ یہ قبائلیوں کا بہت بڑا اجتماع ہے جس کے حوالے سے سیاسی گلیارے میں کافی گرمجوشی پائی جاتی ہے حزب اقتدار جماعت اسے کامیاب کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہے اور مخالفین متفکر ہیں۔ اس اجتماع کو لے کر نکسلوادی کیا رخ اختیار کرتے ہیں اس بابت بھی مختلف قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ وہ اس سے پہلے بم دھماکے کر کے اس کو ناکام بنانے کوشش کریں گے اور شرکاء کو آنے سے روکیں گے۔ کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ وہ اس کی آڑ میں اپنی خفیہ ملاقاتیں کر لیں گے لیکن ان کی جانب سے ابھی تک کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے۔ ریکھا بولی ہم نے آپ سے یہ اس سمیلن پر تبصرہ کرنے کے لیے نہیں کہا بلکہ رجنی کو ملنے والی دعوت کے بارے میں سوال کیا تھا۔ رجت بولا میں نے حقائق آپ لوگوں کے سامنے رکھ دئیے ہیں اب فیصلہ کرنا آپ کا کام ہے۔

آکاش بولا لیکن تمہاری اپنی بھی تو کوئی رائے ہو گی۔ بھئی میری کیا رائے ہوسکتی ہے مجھے بلایا ہی نہیں گیا اگر مجھے دعوت دی جاتی تو میں سوچتا۔ رجنی بولی فرض کرو کہ تمہیں بھی دعوت نامہ موصول ہوا ہے۔ رام جنک چاہتا کہ تم اس اجتماع سے خطاب کرو تو تم کیا کرتے ؟ رجت اگروال مسکرایا اور بولا میں ! میں جو بھی کرتا لیکن کسی سے مشورہ نہیں کرتا۔ ریکھا اس جواب پر زچ ہو گئی اور بولی رجت آپ بلاوجہ پہیلیاں بجھوا رہے ہیں۔ آپ کیا کرتے یہ بتاؤ۔ میں یہ کرتا کہ اپنے بدلے تمہیں اس سمیلن میں بھیج دیتا۔ ریکھا بولی اور اگر میں اکیلے جانے سے انکار کر دیتی تو؟ تو میں ساتھ چلا جاتا۔ اور اگر جانے ہی سے منع کر دیتی ے تو ؟ تو میں تنہا چلا جاتا۔ ریکھا بیزاری سے بولی رجت تم کو تو صحافت کے بجائے سیاست کی دنیا میں ہونا چاہئے تھا یہ تمہاری جلیبی کی مانند گول مول باتیں تمہارے خوب کام آتیں۔ رجنی بولی نہیں ریکھا مجھے جواب مل گیا۔ ریکھا بولی اچھا؟؟؟ جی ہاں رجت بھیا کا جواب یہ ہے کہ میں آکاش کو اپنے ساتھ لے کر جاؤں یا اگر وہ انکار کر دیں تو اکیلی چلی جاؤں۔ کیوں رجت بھیا میں نے آپ کی بات کو غلط تو نہیں سمجھا ؟ رجت نے ریکھا کی جانب دیکھ کر کہا اسے کہتے ہیں سمجھدار کو اشارہ کافی ہوتا ہے۔ ریکھا بولی اور ناسمجھ کو ؟ گھونسا بھی کافی نہیں ہوتا۔

آکاش نے کہا بھئی میں رجنی کو اس مہم پر تنہا نہیں چھوڑوں گا بلکہ اس کے ساتھ جاؤں گا اور جیتو کو بھی ہم لوگ ساتھ لیتے چلیں گے مجھے یقین ہے کہ وہاں کالا ہانڈی کے بہت سارے لوگ موجود ہوں گے وہ ان سے مل کر بہت خوش ہو گا۔ ریکھا بولی اگر ایسی بات ہے تو میں بھی آپ لوگوں کے ساتھ چلوں گی۔ رجت نے ریکھا کی جانب دیکھ کر کہا اور میں ؟ آپ! کو تو یہاں رکنا ہی پڑے گا ورنہ بچوں کو کون سنبھالے گا ؟ رجت نے اپنا سر پیٹ لیا۔ آکاش اور رجنی جانے کے لیے اٹھنے لگے تو رجت بولا آپ لوگ دو منٹ کے لیے بیٹھیں میں اندر سے کچھ لے کر آتا ہوں۔ ریکھا نے کہا اب انہیں کیا یاد آ گیا۔ آکاش بولا بندوق لا رہا ہو گا تاکہ جھولا منڈی میں اگر ضرورت پیش آ جائے تو کام آسکے۔ اتنے میں رجت اندر سے ایک کاغذ لے کر آیا اور رجنی کو دے کر بولا اس میں کچھ سوالات ہیں۔ آپ ان کے جوابات لکھ کر اپنی چند تصاویر کے ساتھ بھجوا دیں۔ آکاش بولا تصویر کاکا م میں کر دوں گا۔ پیرس اور دہلی کی اچھی اچھی تصاویر ہیں میرے پاس۔ ریکھا بولی بھیا سیروتفریح کی تصاویر مناسب نہ بھیج دینا۔ سیر کے علاوہ مقالہ پڑھنے اور سوالات کا جواب دینے والی تصاویر بھی ہیں بلکہ ایسا کرتے ہیں کہ ایک تصویر ابھی لئے لیتے ہیں جس میں رجت سوال کر رہا ہو اور رجنی جواب دے رہی ہو۔ آکاش بھیا آپ تو کمال کرتے ہیں۔ اس کے بعد رجت کی جانب دیکھ کر بولی اسے کہتے ہیں عقلمندی۔ رجت سرپکڑ کر بیٹھ گیا۔

سمیلن والے دن رائے پور سماچار کے سرِ ورق پر رجنی کا انٹرویو مع تصاویر شائع ہوا۔ جنک رام کے ایماء پر اس اخبار کی ہزاروں کاپیاں شرکائے اجتماع میں مفت بنٹوا دی گئیں۔ قبائلی پڑھنا لکھنا کم جانتے تھے لیکن منھ بولتی تصاویر خواندگی کی محتاج نہیں تھیں۔ اس انٹرویو نے رجنی کی مقبولیت میں غیر معمولی اضافہ کر دیا تھا اور وہ عوام و خواص دونوں کی توجہ کا مرکز بن گئی تھی۔ سب کوئی اس کو پہچاننے لگا تھا دہلی سے آئے ہوئے تمام ہی معززین سے اس کی دعا سلام ہو چکی تھی حالانکہ جن لوگوں نے اس کے انٹرویو کو پڑھا تھا وہ اس سے خوش نہیں تھے اس لئے کہ انٹرویو میں ایسے حقائق کے اوپر سے پردہ اٹھایا گیا تھا جو حکومت کو مجرم کے کٹہرے میں کھڑا کر دیتے تھے۔

جیتو جب سے جھولا منڈی آیا تھا اپنے گاؤں والوں میں گم ہو گیا تھا لیکن رجنی کی تقریر سے قبل اسے خاص طور اسٹیج پر لا کر رجنی کے بغل میں بٹھایا گیا تاکہ رجنی کے اس کارِ خیر کا بھرپور سیاسی فائدہ اٹھایا جا سکے۔ رجت اگروال کو رام جنک کی جانب سے ہدایت کی گئی تھی کہ وہ جیتو کو کوئی قبائلی گیت یاد کرائے۔ اس سیشن کی ابتداء میں جیتو نے جب وہ قبائلی نظم پڑھ کر سنائی تو سارا مجمع جھوم اٹھا۔ خواتین رو پڑیں اور مردوں کا سینہ فرطِ مسرت سے پھول ہو گیا۔ اس گیت کے بعد رجنی سے اس کے تعلق کا اظہار کیا گیا اور پھراسے اظہارِ خیال کی دعوت دی گئی۔ رجنی چونکہ ایک مختصر عرصہ کالا ہانڈی میں گزار چکی تھی اس لئے قبائلی زبان کے کچھ الفاظ اور ان کے لب لہجے سے واقف ہو گئی تھی۔ اسے قبائلی عوام کے مسائل کے ساتھ ساتھ ان کی پسند اور ناپسند کا بھی اندازہ ہو گیا تھا۔ جیتو کے ساتھ رہتے رہتے وہ قبائلی نفسیات بھی جان گئی تھی۔ گو کہ جیتو شہری ماحول میں پرورش پارہا تھا لیکن اس کی رگوں میں قبائلی خون دوڑ رہا تھا جو انسان کے مزاج کو ڈھالتا ہے۔ اس کے علاوہ رجنی نے اب تک قبائلی مسائل کا جو گہرائی و گیرائی کے ساتھ مطالعہ کیا تھا وہ اس کی تقریر کی بنیاد تھا۔ اس طرح گویا کسی خطاب کو مؤثر بنانے والے سارے عناصر رجنی کی تقریر میں شامل ہو گئے تھے۔ اس کی بے باکی اور بے غرضی نے کچھ ایسا رنگ جمایا کہ رجنی بالکل چھا گئی۔ رجنی کی تقریر کے بعداس کی شہرت آسمان سے باتیں کرنے لگی تھی۔ صرف ایک نام ہر عام و خاص کی زبان پر تھا اور وہ تھا رجنی آکاش۔

اجلاس کے اختتام پر سب سے پہلے ریکھا اگروال نے رجنی کو سینے سے لگا کر مبارکباد دی۔ اس کے بعد تو ایک سلسلہ چل پڑا۔ کب رجنی اسٹیج سے نیچے آئی اور کب قبائلی لوگوں میں رل مل گئی پتہ ہی نہ چلا۔ لوگ جوق در جوق اس سے مل رہے تھے ان کی آنکھوں میں امید و عقیدت کے دئیے روشن تھے۔ رجنی کے اخلاص نے ان کے دل جیت لئے تھے۔ اس تقریر کے بعد راکیش شرما اور جیتندر والمیکی کے درمیان پھر ایک بار اس بات پر اختلافِ رائے ہو گیا کہ شام میں ہونے والے اختتامی اجلاس میں رجنی کو دوبارہ خطاب کا موقع دیا جائے یا نہیں ؟ چونکہ ان کے درمیان اتفاق رائے نہ ہو سکا اس لئے فیصلہ رام جنک پر چھوڑ دیا گیا۔

رجنی کے پاس سے جب بھیڑ چھٹی تو ایک دبلی پتلی قبائلی لڑکی نے آہستہ سے اس کے کان میں کہا میرا نام مدھو ہے۔ بھیا جی نے آپ کو سلام کہا ہے۔ رجنی اس پیغام پر چونک پڑی۔ اس نے پوچھا کون بھیا جی اور کیسا سلام؟ مدھومسکرائی اور پوچھا آپ واقعی بھیا جی کو نہیں جانتیں ؟ یہاں تو سبھی لوگ ان کو جانتے ہیں۔ کچھ لوگ ان سے ڈرتے ہیں باقی لوگ ان پر جان نچھاور کرتے ہیں۔ رجنی کے دماغ میں سرخ خطرے کی بتی جلنے لگی تھی لیکن پھر بھی اس نے انجان بنتے ہوئے پوچھا دیکھو مدھو میں  نہ تمہارے بھیا جی کو نہیں جانتی ہوں اور نہ سلام کو پہچانتی ہوں۔ مدھو بولی وہ میرے ہی نہیں بلکہ ہم سب کے بھیا جی ہیں آپ کے بھی اور سلام یہی اپنا لال سلام۔ اب رجنی کا شک یقین میں بدلنے لگا تھا۔ وہ بولی ٹھیک ہے تم ان سے بھی میرا سلام کہہ دو۔ مدھو بولی سلام کا مطلب ہے وہ آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔ رجنی کو اب خوف محسوس ہونے لگا تھا پھر بھی اس نے جی کڑا کر کے پوچھا کب اور کہاں ؟دوپہر تین بجے بازار کے اندر موجود ڈاکٹر سین گپتا کے دوا خانے میں۔ لیکن میں ڈاکٹر سین گپتا اور ان کا دوا خانہ نہیں جانتی۔ بازار کے اندر ڈاکٹر بابو کا دوا خانہ سبھی جانتے ہیں اور ڈاکٹر بابو آپ کو جانتے ہیں۔ وہ کیسے ؟ مدھو نے اپنے ہاتھ میں پکڑا ہوا رائے پور سماچار پھیلا دیا۔ رجنی بولی ٹھیک ہے سمجھ گئی۔ مدھو نے کہا ٹھیک تین بجے اور بھیڑ میں غائب ہو گئی۔

معززین کے لئے طعام و قیام کا اہتمام ڈاک بنگلے میں تھا لیکن رجنی پنڈال ہی میں لوگوں سے ملنے ملانے میں مصروف تھی۔ پنڈال کے اندر ایک طرف پوڑی سبزی تقسیم ہو رہی تھی لوگ لائن لگا کر پتے کی کٹوری میں آلو کی سبزی اور گرم گرم پوڑی لے کر ادھر ادھر بیٹھ جاتے تھے اور پھر آرام سے کھاتے تھے۔ مدھو نے جب اپنے لئے پوڑی سبزی لی تو اسے رجنی کا خیال آیا وہ رجنی کے پاس آئی تو رجنی اب بھی لوگوں سے ملاقات کر رہی تھی۔ مدھو نے کہا چلو ہٹو بائی جی کو بھوک لگی ہو گی انہیں کچھ کھا پی لینے دو اور تم لوگ بھی جا کر کھاؤ پیو۔ وہ سب ایک جانب ہو گئے اور رجنی وہیں چٹائی پر بیٹھ کر پوڑی سبزی کھانے لگی۔ رجنی نے جب ان سے پوچھا تم لوگ کیوں نہیں کھاتے تو وہ بولے کہ معاف کرنا بائی جی ہم لوگ کھاپی کر فارغ ہو چکے ہیں۔ ہم نے سوچا آپ نے بھی کھانا کھا لیا ہو گا۔ مدھو پھر ایک بار غائب ہو گئی۔

رجنی نے اپنی پوڑیاں ختم کیں تو دیکھا تو ایک نوجوان پانی کلہڑ لے کر کھڑا ہے۔ نوجوان نے پوچھا اور بائی جی؟ رجنی بولی نہیں۔ اس نے مٹی کا کلہڑ آگے بڑھایا اور رجنی نے اس کے ہاتھ سے پانی لے کر پی لیا۔ اگلا اجلاس شام پانچ بجے تھا۔ شرکاء ادھر ادھر بے ترتیب انداز میں پسر گئے تھے۔ اس نوجوان نے پوچھا ڈاک بنگلہ جانا ہے۔ رجنی بولی نہیں۔ اس نے پوچھا آپ آرام نہیں کریں گی؟ کروں گی۔ اس نوجوان کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا وہ بولا آپ کہاں آرام کریں گی؟ یہیں۔ یہیں ؟؟ْ؟ اچھا سمجھ گیا۔ اس نے فوراً اپنے کندھے پر رکھے گمچھے سے زمین کو صاف کیا اور پھر اسے بچھا کر بولا کیا آپ کو یہاں آرام ملے گا؟ کیوں نہیں ؟ یہ سب لوگ تو آرام کر ہی رہے ہیں۔ نوجوان بولا یہ سب اجڑ قبائلی لوگ ہیں ان کی اور بات ہے !

رجنی نے سوال کیا اور تم؟ وہ بولا میں ؟ میں بھی ان میں سے ایک ہوں۔ رجنی پھر بولی اور میں ؟ آپ؟ آپ بھی ہم میں سے ایک ہیں۔ اور وہ ؟ رجنی کا اشارہ ڈاک بنگلے والوں کی طرف تھا۔ وہ! وہ ہم میں سے نہیں ہیں۔ اچھا تو وہ کون ہیں ؟ وہ ہمارے دشمن ہیں۔ تو پھر تم لوگ ان کے بلانے پر یہاں کیوں جمع ہو گئے ؟ اس نوجوان نے پوڑی سبزی کے اسٹال کی جانب اشارہ کیا کچھ تو اس کے لیے اور کچھ۰۰۰۰نوجوان چپ ہو گیا۔ رجنی نے پوچھا اور کیا کچھ بھیا جی کے کہنے پر۔ اب آپ آرام کیجئے۔ کوئی غیبی آواز رجنی کے کانوں میں گونج رہی تھی۔ وہ اس سے کہہ رہی تھی کہ تم خود بھی تو بھیا جی کے بلانے پر آئی ہو۔ رجنی نے اس خیال کو اپنے ذہن سے جھٹک دیا۔ جس بھیا جی کو وہ جانتی تک نہیں اس کے بلانے پر وہ کیوں کر آسکتی تھی۔ اس کے اندر سے ایک اور آواز آئی جھوٹ سراسر جھوٹ۔ اس خود کلامی کے دوران رجنی کی آنکھ لگ گئی۔

ڈاک بنگلے میں ریکھا رجت سے پوچھ رہی تھی یہ رجنی کہاں غائب ہو گئی؟ رجت بولا شاید نکسلوادی اسے اغواء کر کے لے گئے۔ کیسا بھونڈا مذاق کرتے ہو رجت؟ نکسلوادیوں سے رجنی کی کیا دشمنی ہے ؟ بھئی انسان صرف دشمنوں کو ہی نہیں دوستوں کو بھی بھگا کر لے جاتا ہے جیسا کہ میں تمہیں بھگا کر لے آیا تھا۔ ریکھا شرما کر بولی اوہ رجت تم نہیں بدلو گے۔ رجت بولا کیوں نہیں بدلوں گا ؟ اگر تم بدل جاؤ گی تو میں بھی بدل جاؤں گا۔ ریکھا نے کہا تمہیں صحافی نہیں بلکہ شاعر ہونا چاہئے تھا۔ رجت بولا ریکھا عشق صرف شاعر ہی نہیں کرتا بلکہ ہر کوئی کرتا ہے۔ مجھے پتہ ہے دہشت گرد بھی عشق کا مرض پالتے ہیں لیکن بیچارے شعراء اس کا اظہار کر کے بدنام ہو جاتے ہیں۔ ریکھا نے پھر پوچھا بدنام یا نیک نام۔ شاعر نہ نیک ہوتا اور نہ بد وہ توبس شاعر ہوتا ہے اور ہاں نامور ضرور ہوتا ہے بشرطیکہ شاعر ہو۔ ریکھا بولی تم نے پھر شاعری شروع کر دی۔ رجت بولا تمہاری دہشت گردی کا میرے پاس یہی جواب ہے۔ ریکھا نے کہا اچھا اب چپ چاپ سو جاؤ نہیں تو گولی ماردوں گی اور اپنی آنکھیں موند لیں۔

 

 

 

 

لال سلام

 

رجنی کی آنکھ کھلی تو ڈھائی بج رہے تھے۔ اسے ۳ بجے بھیا جی سے ملنے جانا تھا۔ کچھ دیر اپنی جگہ پڑی پڑی سستاتی رہ پھر اٹھ کر عارضی حمام کی جانب چل پڑی جو شرکائے اجتماع کے لیے بنائے گئے تھے۔ وہاں کافی بھیڑ بھاڑ تھی لیکن عورتوں نے رجنی کو دیکھا تو اسے قطار میں آگے کر دیا۔ جھولا منڈی میں سب سے مشہور مقام بازار تھا وہاں پہنچنے کے بعد اس نے ایک شخص سے پوچھا ڈاکٹر سین گپتا کو دوا خانہ۔ اس آدمی نے کہا چلئے میں پہنچا دیتا ہوں ، رجنی سوچنے لگی بڑے اچھے لوگ ہیں راستہ بتانے کے بجائے ساتھ چل دیتے ہیں لیکن اس بیچاری کو نہیں پتہ تھا کہ معمولی لباس کے اندر وہ سیدھا سادہ نوجوان دراصل سرخ فوج کا جاسوس تھا اور صبح سے سائے کی مانند اس کے پیچھے لگا ہوا تھا۔ فرق صرف یہ واقع ہوا تھا کہ پہلے وہ رجنی کا تعاقب کر رہا تھا اب رجنی اس کے پیچھے چلی جا رہی تھی۔

ڈاکٹر سین گپتا کے خستہ حال دوا خانے کی جانب اشارہ کر کے وہ بولا بائی جی وہ ہے دوا خانہ۔ رجنی شکریہ ادا کر کے دوا خانے میں چلی گئی اور وہ نوجوان رفو چکر ہو گیا۔ اب اس کی ڈیوٹی ختم ہو چکی تھی اور اس کی جگہ ایک لڑکی تعینات ہو گئی جو دوا خانے کے باہر رجنی کی منتظر تھی۔ اندر ایک مجہول سا نوجوان کھڑا تھا رجنی نے پوچھا ڈاکٹر صاحب۔ وہ بولا ڈاکٹر تو شام میں آئے گا۔ رجنی بولی بھیا جی۰۰۰۰۰۰؟۔ آپ ؟۰۰۰۰۰۰ رجنی !۰۰۰۰۰۰۰ یہاں بیٹھو۔ نوجوان اندر چلا گیا اور ایک منٹ بعد ایک اور شخص کے ساتھ واپس آیا۔ یہ ایک خوش پوش ادھیڑ شخص تھا۔ اس نے ہاتھ جوڑ کر پرنام کیا اور بولا آئیے آئیے رجنی جی ہمیں یقین تھا کہ آپ ضرور آئیں گی۔ رجنی نے کہا شکریہ اور اس کے پیچھے اندر چلی گئی۔

دوا خانے کا اندرونی حصہ بھی خستہ حال تھا۔ رجنی کو خوشی ہوئی کہ یہاں کا ظاہر باطن یکساں ہے۔ ایک تپائی کے آس پاس چند کرسیاں پڑی تھیں۔ رجنی ایک کرسی پر بیٹھ گئی وہ شخص سامنے بیٹھ گیا باہر والے نوجوان نے پانی کا ایک جگ لا کر تپائی پر رکھا اور پوچھا سائے (چائے )؟رجنی کی سمجھ میں نہیں آیا لیکن سامنے بیٹھے ہوئے آدمی نے کہا جی ہاں دو کپ چائے لے آؤ اور اس کے بعد استفہامیہ نظروں سے رجنی کی جانب دیکھا۔ رجنی نے نظروں سے تائید کی اور ہونٹوں سے شکریہ ادا کیا۔ نوجوان کے چلے جانے کے بعد رجنی نے پوچھا بھیا جی ؟ وہ بولا جی نہیں میرا نام سانیال ہے۔ میں پیشے سے وکیل ہوں۔ بھیا جی براہِ راست کسی سے پہلی مرتبہ نہیں ملتا ہے۔ اس لئے ہم کو بولا ہے۔ سانیال خالص بنگالی لب لہجے انگریزی الفاظ کے ساتھ ہندوستانی میں بول رہا تھا۔ رجنی بولی سمجھ گئی۔ اس نے نکسلوادیوں کے بارے میں جو کچھ پڑھ رکھا تھا یہ طریقۂ کار اس کی تائید کر رہا تھا۔

سانیال بولا ہم لوگ آپ کا آرٹیکلس دیکھتا رہتا ہے۔ آپ بہوت ریڈیکل انشان لوگتا ہائے۔ رجنی بولی شکریہ۔ ہام لوگ آپ کا بھاشن بھی سنا ہائے آپ سنسیار بھی ہائے۔ رجنی نے پھر کہا شکریہ۔ رائے پور میں چونکہ بنگالیوں کی بڑی تعداد بستی تھی اس لئے رجنی اس لب و لہجے کی عادی ہو گئی تھی۔ اسے سانیال کی بات سمجھنے میں کوئی دقت نہیں پیش آ رہی تھی۔ سانیال بولا ہام لوگ آپ کو بھی اوپنا آدمی سومجھتا ہائے۔ ہام کو اپنا لوگ کا جارورات ہر جاگا پور ہے۔ آپ بوہوت اچھا جاگا پور ہے۔ وہاں رہ کے ہامارابارا میں بہوت سارا مس انڈر اسٹینڈنگ دور کر سوکتا ہے۔ آپ اچھا کام کرتا ہے اسی لئے بھیا جی آپ کو سلام بولا ہائے۔ آپ کو کوئی جورورت ہو گا تو آپ ہام سے سمپورک کر سکتا ہے۔ ہام جبلپور میں رہتا ہے اور وہاں کورٹ میں پریکٹس کورتا ہے۔ یہ ہمارا نومبر ہائے۔ آپ ہم سے کوئی بھی بات کر سوکتا ہے۔ سانیال اپنے منھ میں رس گلاّ رکھ کر ہندی بول رہا تھا۔

چائے ختم کرنے کے بعد سانیال نے کہا اگور آپ کچھ پوچھنا چاہتا ہے تو پوچھ سوکتا ہائے۔ رجنی بولی جی ہاں لوگ آپ کے بارے میں طرح طرح کی باتیں کہتے ہیں میں خود آپ سے سننا چاہتی ہوں کہ آخر تحریک کیا چاہتی ہے ؟ ہام لوگ کچھ بھی نہیں۔ ہام لوگ تو صرف یہ چاہتا ہے کہ جور جولوم اور شوشن خاتم ہو جائے اور کچھ نہیں۔ رجنی بولی وہ تو ٹھیک ہے لیکن کیا اس کے لیے آپ حکومت کا تختہ الٹ دینا چاہتے ہیں۔ سانیال نے سرہلا کر کہا۔ زی ہاں۔ ہام لوگ یہ چاہتا ہے۔ رجنی بولی لیکن جورظلم اور استحصال کا حکومت سے کیا تعلق؟ بوہوت گہرا تعلق ہے۔ سارا شوشن کا جڑ سورکار ہے اور جو شوشن کو خاتم کورتا ہے سورکار اس کو خاتم کرتا ہے اس لئے اس سورکار کو خوتم کرنا دورکار ہے۔ اس کے بنا جولوم کوبھی بھی خوتم نہیں ہو گا۔

رجنی بولی لیکن سرکار کا دعویٰ ہے کہ آپ لوگ اس کے خلاف غلط پروپگنڈا کر کے عوام کو ورغلاتے ہیں اور بغاوت پر آمادہ کرتے ہیں۔ سانیا ل ہنسا اور بولا میڈم آپ تو پوڑھا لیکھا انشان ہے ہم آپ کو کیا بولے گا۔ سورکار جھوٹ بولتا ہے۔ آپ کو مالوم ہے کامپٹرولر آڈیٹرجنرل وہ تو ہامارا آدمی نہیں ہے۔ اس کو سورکار راکھا ہے سورکار کا پگار لیتا ہے وہ کیا بولتا ہے ؟ رجنی نے سی اے جی کی رپورٹ دیکھ رکھی تھی اس کے باوجود وہ سانیال کی زبان سے سننا چاہتی تھی۔ وہ جاننا چاہتی تھی کہ نکسلوادی کس قدر نمک مرچ لگا کر بات پیش کرتے ہیں۔ سانیال بولا دیکھو کورناٹک مائننگ کے بارے بولا ہائے۔ وہاں ایک ٹن لوہا مائئنگ کا رائلٹی سورکاری خزانہ میں صرف ۲۷ روپیہ آتا ہائے جبکہ اس کا قیمت ۵۰۰۰ روپیہ ہے۔ ہار ٹون کا اوپر ۴۹۶۷ روپیہ کہاں جاتا ہائے ؟آپ سوچو۔ سورکار کا آدمی دیش کا خزانہ لوٹ کر سورمایہ دار کو دیتا ہے اور پھر گوریب لوگ کا لئے وشو بنک سے لون لیتا ہے۔ وہ دونوں توروف سے اپنا ان کا فائدہ کورتا ہے بیچ میں جونتا کو پیشتا ہے۔ ہام لوگ یہ نیکسس کو خوتم کرنا مانگتا ہے۔

رجنی بولی لیکن آپ لوگ بندوق کے بجائے الکشن کے راستے سے سرکار کا مقابلہ کیوں نہیں کرتے ؟ سانیال بولاسورکار کے پاس لوٹ کا دولت ہائے۔ اوس کاپاس میڈیا ہے۔ اوس کا پاس پولس ہائے۔ فوج ہائے۔ سورکار وہ سوب ہمارے ورودھ یوز کورتا ہائے تو ہام اس کا مقابلہ کیسے کورے گا؟ سورکار یہ سوب نہیں کورے گا۔ پولس اور فوج ہمارے ورودھ نہیں چھوڑے گا۔ میڈیا میں ہمارا خلاف جھوٹ موٹ نہیں پھیلائے گا۔ شوشن کا دھون دولت بیچ میں نہیں لائے گا تو ہوم بھی بندوق پھینک کور ان کو ہارا دے گا۔ پہلے وہ بندوق چھوڑے پھر ہم چھوڑے گا۔ رجنی بولی لیکن یہ پہلے پہلے کا جھگڑا کیسے ختم ہو گا ؟ سرکار کہتی ہے پہلے آپ بندوق چھوڑو۔ دیکھو بائی جی آپ تو زانتا ہائے پہلے گریب لوگ خالی ہاتھ ایجیٹیشون کیا سورکار اوس کو طاقوت سے کوچلا پھر موجبور ہو کر ہام لوگ بندوق اٹھایا۔ اب ہام بندوق چھوڑے گا سورکار پھر ہام کو کچل دے گا۔ اس لئے پہلے سورکار بندوق چھوڑے پھر ہام چھوڑے گا۔

رجنی بولی لیکن اگر سرکار بندوق پھینک دے گی تو غیر ملکی لوگ ہمارے ملک پر حملہ کر دیں گے اور ہمارا سب کچھ لوٹ کر لے جائیں گے۔ سانیال بولا دیکھو بائی جی بدیس کا آدمی آنے کا جارورت نہیں ہائے۔ اپنا سورکار اس کے ساتھ مل گیا ہے۔ اس کا ایجنٹ بون گیا ہے۔ آپ لوٹنے کا بات کورتا ہے۔ یہ سورکار اور بدیسی کاپیٹالسٹ تو دیس کو لوٹ ہی رہا ہے سورکار اس کا سورکشا کورتا ہے۔ اس کا مودد کرنے کے لیے آپنا جونتا کا شوشن کورتا ہائے۔ فوج کا جاگا دیس کا سیما کا اوپر ہے لیکن آج کل سینا سیما کا اندر کام کورتا ہائے۔ آج کول دسمن سیما سے نہیں وشو بنک کا دوفتر سے آتا ہے اور دیس کو لوٹ کر لے جاتا ہے۔ جاتے جاتے سورکاری آدمی کو دوچار ہڈی دے کر چولا جاتا ہے۔ جونتا کو کچھ نہیں ملتا ہائے۔ وہ بھوکا مورتا ہے۔ ہام لوگ یہ سوب خوتم کرنا مانگتا ہائے۔ رجنی کے سوالات کا سلسلہ ختم ہو گیا تھا۔ اس نے ہاتھ میں بندھی گھڑی کی جانب دیکھا تو پانچ بجنے والے تھے۔ وہ بولی مجھے چلنا چاہئے اجلاس کو شروع ہوئے ایک گھنٹہ ہو چکا ہے۔ سانیال بولا آپ یہاں آیا دھنیا باد۔ جانا سے پہلے ایک کوپ چائے پیو پھر جاؤ۔ ہامارا توروف سے۔ رجنی سانیال کو نا نہیں کہہ سکی اور دوبارہ کرسی سے ٹیک لگا کر اس کی باتوں پر غور کرنے لگی۔ چائے کی طرح گرم گرم، کڑوی کسیلی باتیں لیکن ان میں نہ صرف زندگی، تازگی بلکہ مٹھاس بھی تھی۔

چائے کے دوران پھر سے گفتگو کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ رجنی نے سوال کیا یہ بتائیے۔ کیا یہ سچ نہیں ہے کہ جن علاقوں میں آپ کی تحریک چل رہی ہے وہ ملک کے سب سے زیادہ پسماندہ علاقے ہیں۔ سانیال بولا جورور یہ بات دوروست ہائے ماگر وہ تو ہامارا آندولون سے پہلے بھی پچھڑا علاقہ تھا۔ ہمارا آندولن کا وجہ سے پیچھے نہیں ہوا۔ لیکن سرکار کا الزام ہے کہ آپ لوگ چاہتے ہیں کہ وہ پسماندہ ہی رہے ورنہ آپ کی تحریک کا جواز ہی ختم ہو جائے گا۔ سانیال نہایت خندہ پیشانی سے رجنی کے سوالات کے جواب دے رہا تھا۔ وہ بولا دیکھو بائی جی سورکار دور کا لوگ کو جھوٹ بول کر ورغلاتا ہائے لیکن اصلی ٹرائبل ایریا کا گوریب لوگ تو ہامارا ساتھ ہائے۔ وہ سورکار کا بات کیوں نہیں مانتا؟ رجنی بولی آپ بتائیے کہ وہ لوگ حکومت پر اعتبار کیوں نہیں کرتے جبکہ سرکار ان کی ترقی و فلاح چاہتی ہے ؟ اس لئے کہ سورکار جھوٹ بولتا ہے۔ جہاں ہمارا کام نہیں ہے وہاں سورکار آدیباسی کلیان کا کام کیوں نہیں کورتا ؟ آپ دیکھو جہاں ہمارا کام ہے وہاں لوگ زیادہ سورکشت اور کھوشحال ہے۔

رجنی بولی اچھا سانیال صاحب آپ لوگ اگر ترقی چاہتے ہیں تو اسکول کیوں بند کر دیتے ہیں آپ کو تو اسکول بنانا چاہئے۔ دیکھو بائی جی ہامارا پاس ریسورس ہامارا موطلب سنسادھن بوہوت کم ہے اس لئے ہام اس کا پیروریٹی کا حساب سے اپیوگ کورتا ہے۔ مانو ادھیکار نہیں ہو گا تو ودیا کیا کام کورے گا ؟ ادھیکار کا لڑائی میں بندوق جوروری ہے۔ اسکول ہام لوگ باند نہیں کیا ہے۔ سوب اسکول کو سورکار کھالی کرا کر وہاں اپنا فوجی روکھا ہے۔ ہامارا لوگ کوئی اسکول میں نہیں ہائے۔ رجنی بولی آخری سوال۔ آپ لوگ حکومت کے خلاف ہے تو اس سرکاری تماشتے کو کامیاب کرنے کے لیے یہاں کیوں چلے آئے ؟آپ کو تو اسے ناکام بنانا چاہئے تھا۔ سانیال بولا جی ہاں وہ کام ہمارا لئے بہت آسان تھا لیکن ہام لو گ سوچا اس سے پورا فائدہ اٹھائے گا۔ آج کل پولس ہام لوگ کے پیچھے ہائے۔ لوگ ایک دوسرے سے مل نہیں پاتے اس لئے ہام لوگ سوچا اس بھیڑ بھاڑ میں آپنا لوگ ایک دوسرے سے مل کور کوآرڈنیشن کا کام کور لے گا۔ اس لئے ہام لوگ اس کو ڈیسرپٹ کورنے کا پلان نہیں بنایا۔ رجنی اور سانیال کی گفتگو جاری تھی کہ اچانک گولیوں کے چلنے کی آوازیں آنے لگیں۔ فوج کے جوان دوا خانے کے اندر داخل ہو گئے اور وہاں موجود تینوں لوگوں کو تین الگ الگ گاڑیوں میں ڈال کر اپنے ساتھ لے گئے۔

 

 

 

آ گ

 

ریکھا کے سوجانے کے بعد کچھ دیر تک رجت کروٹ بدلتا رہا۔ رجنی کا اس طرح غائب ہو جانا اس کے لیے تشویش ناک تھا۔ اس کے بعد وہ حمام کی جانب چل دیا۔ ڈاک بنگلہ میں عجب خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ ایک تو سفر کی تھکن اور اس کے بعد زبردست کھانا ان دونوں کا مجموعی اثر یہ ہوا تھا کہ لوگ گھوڑے بیچ کر سو رہے تھے۔ حمام سے واپسی پر زینے کے پاس والے کمرے سے رجت نے کھسر پھسر سنی تو ٹھٹک کر رک گیا۔ اندر سے راکیش شرما اور جیتندر والمیکی کی ہلکی ہلکی آواز کان لگانے پر سنائی دے رہی تھی۔ راکیش کہہ رہا تھا والمیکی تم دوسروں کے ہاتھ میں کھیل کر اپنے آپ کو خطرے میں ڈال رہے ہو؟ اس میں خطرے کی کیا بات ہے۔ یہ تو ہائی کمانڈ کا حکم ہے والمیکی بولا۔ شرما نے پھر سمجھانے کی کوشش کی دیکھو والمیکی یہ بڑے لوگوں کی لڑائی ہے اس سے ہم غریب لوگوں کو دور ہی رہنا چاہئے۔ لیکن شرما پانی میں رہ کر مگر مچھ سے بیر کیوں کر ممکن ہے ؟ تمہاری بات درست ہے لیکن مجھے ڈر لگتا ہے اس لئے کہ جب ہم جیسا کوئی پیادہ پھنس جاتا ہے تو وہ لوگ دامن جھٹک کر الگ ہو جاتے ہیں۔ میں نے تو یہی دیکھا ہے۔ والمیکی نے کہا دیکھو شرما ویسے بھی ہماری حیثیت بلی کے بکرے کی سی ہے اس لئے جب تک موقع ہے کیوں نہ اس کا پورا پورا فائدہ اٹھا لیا جائے آگے جو ہو گا دیکھا جائے گا۔ راکیش بولا ویسے تمہاری مرضی لیکن اگر یہی کام مجھ سے کہا جاتا تو میں انکار کر دیتا۔ اس کے بعد خاموشی نے دونوں کو نگل لیا اور رجت دبے پاوں اپنے کمرے میں آ گیا۔

رجت اب رجنی کے بجائے جیتندر والمیکی کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ اس کی چھٹی حس کہہ رہی تھی کہ والمیکی کے ہاتھوں کوئی غیر معمولی واقعہ وقوع پذیر ہونے والا ہے۔ رجت اپنے بستر سے اٹھا اور کپڑے پہن کر تیار ہو گیا۔ اب اس کی نگاہیں والمیکی کے کمرے پر لگی ہوئی تھیں وہ جاننا چاہتا تھا کہ والمیکی کہاں جاتا ہے اور کیا کرتا ہے ؟تقریباً آدھے گھنٹے بعد اس نے دیکھا کہ والمیکی اپنے کمرے سے نکل کر جنک رام کے کمرے کی جانب گیا۔ اس کے بعد وہ دونوں ایک ساتھ کمرے سے نکلے اورپنڈال کی جانب بڑھے۔ رجت بھی کچھ فاصلے پر ان کے پیچھے ہو لیا۔ پنڈال میں عام لوگ جمع ہو رہے تھے۔ معززین ابھی آئے نہیں تھی اس لئے اسٹیج تقریباً خالی تھا۔ اس پر صرف دو لوگ تھے کہ اچانک مجمع میں سے لال سلام لال سلام کی صدا بلند ہوئی۔ چند نوجوان ہوائی فائر کرتے ہوئے اسٹیج کی جانب بڑھے۔ پنڈال کے اندر بھگڈر مچ گئی۔ ان مناظر کو رجت ایک کونے میں کھڑا دیکھ رہا تھا۔ وہ نوجوان اسٹیج پر پہنچے ایک نے مائک پر نکسلباری زندہ، انقلاب زندہ باد۔ کا نعرہ لگایا رام جنک حیرت سے یہ سارے سب دیکھ رہا تھا لیکن جیتندر والمیکی بالکل پرسکون تھا۔ اس سے پہلے کہ رام جنک اپنی کمر میں لگا پستول نکالتا ایک نوجوان نے اپنی بندوق سے رام جنک کو ہلاک کر دیا اور زندہ باد، زندہ باد، نکسباری زندہ باد، لینن وادی لال سلام۔ لال سلام لال سلام کا نعرہ لگاتے ہوئے سارے نوجوان رفو چکر ہو گئے۔

رجت نے دیکھا اس سارے تماشے کے دوران پولس والے خاموش تماشائی بنے رہے ان میں سے کسی نے قاتلوں کے اس جتھے کو گرفتار کرنے کوشش نہیں کی۔ ان کے چلے جانے کے بعد پولس والے حرکت میں آئے اور رام جنک کی لاش کو پنڈال کے پاس موجود ایمبولنس میں ڈال کر ہسپتال کی جانب روانہ ہو گئے۔ جیتندر والمیکی جس نے اس ہنگامے کے دوران کوئی مداخلت نہیں کی تھی رام جنک کی لاش کے ساتھ ہسپتال چلا گیا۔ پولس عام لوگوں میں سے ایسوں کو جو اسٹیج سے قریب تھے گرفتار کرنے لگی۔ رجت چپ چاپ ایک طرف چلا آیا۔ اس نے دیکھا کہ پارٹی ہائی کمانڈ کو لوگ ایک ایک کر کے اسٹیج پر آ گئے رام جنک کے موت کے باعث سمیلن کے خاتمے کا اعلان کر دیا۔

اخبار نویسوں کو اسٹیج کے قریب آنے کے لیے کہا گیا۔ اسی کے ساتھ پولس کے اعلیٰ افسر بھی وہاں آن موجود ہوئے اور رام جنک کے قتل کی تفصیلات بیان کرنے لگے۔ رجت شرما کو اس بات پر حیرت تھی کہ مقتول کو لے کر جانے والوں کی تصدیق کے بغیر ہی اس کی موت کا اعلان کر دیا گیا تھا اور بلا تحقیق و تفتیش نکسلوادیوں کو اس کے لئے ذمہ دار ٹھہرا دیا گیا تھا۔ اس سارے معاملے میں سب سے زیادہ چونکا دینے والی بات یہ تھی رجنی پر نکسلوادیوں سے ساز باز کر کے رام جنک کے قتل کا الزام لگایا گیا تھا اور نکسل رہنما سانیال کے ساتھ اس کی گرفتاری کا اعلان بھی ہو گیا۔ چونکہ رجت کے علاوہ سارے اخبار نویس تاخیر سے پہنچے تھے اس لئے ان لوگوں نے سیاسی رہنماؤں اور انتظامیہ کے بیان کو من و عن تسلیم کر لیا اور اس کو نشر کرنے لگے۔

جیتو، آ کاش اور ریکھا ابھی تک ڈاک بنگلے پر ہی تھے۔ رجت اگروال فوراً ڈاک بنگلے پر واپس آیا اور ان تینوں سے بولا ہمیں فوراً یہاں سے رائے پور نکل چلنا چاہئے۔ آکاش نے رجنی کے بارے میں پوچھا تو رجت بولا وہ رائے پور جاچکی ہے۔ آکاش کو حیرت تھی کہ وہ بنا بتائے کیوں چلی گئی لیکن رجت نے کہا کہ اس کی رجنی سے کچھ دیر پہلے بات ہو چکی ہے جس کی تفصیل وہ ابھی بتا نہیں سکتا۔ خیر چند منٹوں میں یہ قافلہ اپنی گاڑی سے رائے پور کی جانب رواں دواں تھا۔ رجنی کی غیر موجودگی سے ہر کوئی پریشان تھا۔ وہ بھی جو حقیقت کو جانتا تھا اور وہ بھی جو اس سے واقف نہیں تھے۔ رائے پور میں وہ لوگ ایسے راستے سے داخل ہوئے کے سب سے پہلے رجت کا گھر آیا۔ وہاں پر ان لوگوں نے ریکھا کو اتارا۔ اس کے بعد وہ لوگ آکاش کے گھر آ گئے۔ جیتو کو اپنے کمرے میں بھیجنے کے بعد رجت نے آکاش کو صرف یہ بتلایا کہ رجنی نادانستہ طور پرکسی بڑی سازش کا شکار ہو گئی ہے۔ اسے رام جنک کے قتل میں شامل کر کے گرفتار کر لیا گیا ہے۔ یہ سنتے ہی آکاش کے پیروں تلے سے زمین کھسک گئی۔ وکیل ہونے کے سبب وہ انتظامیہ کے عیاریوں سے واقف تھا۔ آکاش نے بولا رجت مجھے مزید تفصیل بتلاؤ تو رجت نے سرکاری موقف بتلادیا اور اس کے اپنے مشاہدے کو پوشیدہ رکھا اس لئے کہ وہ جلدی بازی میں کوئی غلطی نہیں کرنا چاہتا تھا۔

آکاش کے پاس سے رجت اپنے اخبار کے دفتر میں آیا تو سارے لوگ ٹی وی پر جھولا منڈی کی خبریں دیکھ رہے تھے۔ اخبار کے مالک منگل پانڈے سمیت سبھی نے رجت اگروال کو گھیر لیا اور اس ے تفصیلات پوچھنے لگے۔ ان کے سامنے بھی رجت نے وہی بیان کیا جو آکاش سے کہا۔ وہ بہت محتاط ہو گیا تھا اور پھونک پھونک کر قدم رکھ رہا تھا۔ رجت نے کہا آپ لوگ اگر مجھے تنہائی میں کچھ لکھنے کا موقع دیں تو میں نے جو کچھ دیکھا ہے وہ لکھ سکوں۔ منگل پانڈے نے سارے عملے کو حکم دیا کہ ان میں سے کوئی رجت کے کام میں خلل نہ ڈالے اور خود بھی چلا گیا۔ رجت اپنے کمرے میں آنے کے بعد سر پکڑ بیٹھ گیا کہ فون کی گھنٹی بجی۔ رجت نے سوچا یہ کون ہوسکتا ہے پہلے تو اس نے فون ہی نہیں اٹھایا لیکن جب فون دوبارہ بجنے لگا تو اس نے دل کڑا کر کے فون اٹھا ہی لیا سامنے ریکھا تھی۔

ریکھا بولی رجت کیسے ہو؟ رجت نے جواب دیا میں اچھا ہوں۔ میری سہیلی رجنی غائب ہو گئی اور تم اچھے ہو۔ تم نے کہا تھا رجنی رائے پور آ چکی ہے۔ میں نے ابھی آکاش سے بات کی اس نے بتایا رجنی نہیں آئی۔ وہ کہاں ہے اسے نہیں پتہ۔ یہ کیا ماجرہ ہے ؟ تم نے جھوٹ کیوں کہا ؟ تم لوگ کچھ چھپا رہے ہو سچ سچ بولو رجنی کہاں ہے ؟ کس حال میں ہے ؟ مجھے تو دال میں کالا نظر آتا ہے۔ یاد رکھو اگر رجنی کو کچھ ہو گیا تو اس کے لیے تم بھی ذمہ دار ہو گے۔ اور میں ! میں تمہیں کبھی معاف نہیں کروں گی۔ کبھی نہیں۔

ریکھا کا فون رکھنے کے بعد رجت ایک اور آزمائش میں گرفتار ہو گیا۔ ریکھا نے اس کے ضمیر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا۔ وہ پھر ایک بار تمام واقعات کے تانے بانے جوڑنے لگا۔ راکیش اور والمیکی کی کھسر پسر۰۰۰۰۰۰ اسٹیج پر والمیکی کا پرسکون رہنا ۰۰۰۰۰ موت کی فوراً تصدیق ۰۰۰۰۰اور رجنی کی سانیال کے ساتھ گرفتاری۰۰۰۰۰۰ان سب چیزوں کا اس برق رفتاری سے وقوع پذیر ہو جانا اتفاقیہ نہیں تھا۔ رجت نے فیصلہ کر لیا کہ اپنے انجام سے بے پرواہ ہو کر وہ سچ کو اجاگر کرد ے گا اور اس کی بڑی سے بڑی قیمت ادا کرنے سے پس و پیش نہیں کرے گا۔ رجت نے اپنے قلم کو جنبش دی اور قرطاس کے سینے پر وہ سب لکھ دیا جو کچھ اس نے دیکھا تھا اور اسی کے ساتھ وہ اپنی قیاس آرائی کو لکھنے سے بھی باز نہ آیا۔ اس نے اس بات کا صاف طور اظہار کیا کہ رام جنک کا قتل ایک پراسرار سازش کا نتیجہ ہے اور اس میں جیتندر والمیکی کے ملوث ہونے کا امکان ظاہر کر کے اسے گرفتار کرنے اور تفتیش کر کے اس سے سچ اگلوانے کا مطالبہ بھی کر دیا۔

رجت نے اپنا مضمون قلم بند کر کے ٹائپسٹ ونود کے حوالے کیا اور طبیعت کی ناسازی کا بہانہ بنا کر گھر چلا گیا۔ ونود نے اس مضمون کی نقل چھپنے کے لیے دینے کے بجائے خفیہ پولس کے دفتر میں بھجوا دی۔ اس مضمون نے تو گویا خفیہ ایجنسی کے دفتر میں دھماکہ ہی کر دیا۔ اس دھماکے نے سب سے پہلے اخبار کے مالک منگل پانڈے ہوش اڑا دئیے۔ اس سے کہا گیا کہ یہ مضمون کسی صورت شائع نہیں ہوسکتا۔ منگل پانڈے نے فوراً اس مضمون کی نقل اپنے پاس منگوائی اور اس کے بعد ونود کے کمپیوٹر سے بھی اسے نکال باہر کیا۔ منگل پانڈے نے پرانی فائل کے اندر سے ایک فوت شدہ مضمون کی لاش نکال کر ونود کو پکڑاتے ہوئے کہا اب یہ۰۰۰۰۰وہ بولا جی سرکار سمجھ گیا۔ منگل نے کہا سمجھدار ہو۔ وہ بولا شکریہ۔

رجت اگروال کی اسکوٹر کو گھر پہنچنے قبل ہی راستے میں روک دیا گیا اور سرکاری مہمان بنا لیا گیا۔ پولس والوں کے ایک خفیہ فارم ہاؤس میں رجت اگروال کو ٹھہرا دیا گیا اور اس کو ہدایت کر دی کہ اپنے گھر والوں کو فون کر کے بتلا دے فکر کی کوئی بات نہیں وہ اپنے دوستوں کے ساتھ پکنک منا رہا ہے۔ ریکھا کے لیے یہ خبر حیرت انگیز تھی۔ اسے اپنی سہیلی رجنی کی فکر ستا رہی تھی اور رجت پکنک منا رہا تھا۔ رجت کو یہ سمجھنے میں دیر نہیں لگی کہ اس کا یہ استقبال کیوں کیا جا رہا ہے ؟ وہ من ہی من میں قیاس لگانے لگا کہ اب آئندہ کیا مراحل پیش آسکتے ہیں ؟ پہلے تو اسے ڈر لگا کہ کہیں حکومت اسے بھی رجنی اور نکسلوادیوں کا ساتھی بنا کر جیل کی سلاخوں کے پیچھے نہ پہنچا دے۔ پھر اس نے سوچا اگر یہی کرنا ہوتا تو اسے یہاں کیوں لایا جاتا۔ شاید قسمت میں کوئی اور بات لکھی۔ ممکن ہے اسے قربانی کے بکرے کے طور پر پالا پوسا جا رہا ہے تاکہ وقتِ ضرورت کام آئے ؟ طرح طرح کے سوالات نے رجت اگروال کا اغواء کر لیا تھا وہ بیک وقت فارم ہاؤس میں بھی تھا اور نہیں بھی تھا۔ اس کی مثال رسی پر چلنے والے مداری کی سی تھی جو پچھلے قدم پہ خوش تو تھا مگر اسی کے ساتھ اگلے کا ڈر بھی تھا۔

شام ڈھلے ایک گاڑی فارم ہاؤس میں داخل ہوئی اور اس میں سے دو نامانوس کھدر پوش افراد نمودار ہوئے۔ رجت سمجھ گیا یہ بادشاہ نہیں بلکہ پیادے ہیں۔ پہلے تو اس کا جی چاہا کہ ان سے بات کرنے سے انکار کر دے پھر سوچا ابتداء کرنے میں ہرج ہی کیا ہے ؟ ان لوگوں نے رجت کو اپنے فرضی نام ٹنکو سنگھ اور روکھا سنگھ سے آگاہ کیا۔ رجت نے رسماً اپنا اصلی نام بتایا حالانکہ اس کی مطلق ضرورت نہیں تھی وہ تو اس کی جنم کنڈلی تک سے واقف تھے۔ ٹنکو سنگھ بولا آپ کے قلم میں بہت جان ہے۔ روکھا بولا جی ہاں اس میں سے آگ برستی ہے شعلے اٹھتے ہیں۔ رجت نے کہا شکریہ جنا ب آپ کی ذرہ نوازی ہے۔ ٹنکو بولا ہمارے صاحب کو آپ کی نگارش بہت پسند آئی۔ رجت نے پوچھا کون صاحب ؟ روکھا بولا کیا یہ بتانا ضروری ہے ؟ رجت بولا ویسے ضروری تو نہیں ہے لیکن پھر بھی معلوم ہو جائے تو اچھا ہے۔ ٹنکو بولا دھیرج رکھو دھیرے دھیرے سب کچھ معلوم ہو جائے گا۔ رجت نے پھر نہ جانے کیوں شکریہ ادا کیا۔ رجت کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اس کے رویے میں یہ تبدیلی کیوں کر واقعی ہو گئی ہے لیکن فی الحال وہ کسی تجزیے کے موڈ میں نہیں تھا وہ دماغ کے بجائے صرف آنکھ اور کان سے کام لے رہا تھا زبان کا استعمال بہت ہی محتاط انداز میں کر رہا تھا۔ سچ تو یہ ہے کہ وہ خاصہ ڈر گیا تھا ْ۔

ٹنکو بولا ہمارے صاحب کا ارادہ ایک خبروں کے ٹی وی چینل کو شروع کرنے کا ہے۔ اس کی تمام تیاریاں تقریباً ہو چکی ہیں انتظار ایک اڈیٹر کا ہے اور اس کام کے لیے انہوں نے تمہارا انتخاب کیا ہے۔ رجت بولا لیکن اگر میں اس تجویز کو قبول کرنے سے انکار کر دوں تو؟ تو تم کسی کام کے نہیں رہو گے۔ جو لوگ ہمارے صاحب کی نہیں مانتے وہ اس دنیا میں نہیں رہتے انہیں پرلوک روانہ کر دیا جاتا ہے۔ روکھاسنگھ نے یہ الفاظ اس طرح سے ادا کئے کہ رجت کو محسوس ہوا گویا اس کی حیثیت کسی کیڑے مکوڑے کی سی ہے اور اگر وہ بدزبانی کی جرأت کرے گا تو اسے مسل دیا جائے گا۔ رجت بولا اگر میں اس پیشکش کو قبول کر لوں تو۔ ٹنکو بولا تب تو تمہارے وارے نیارے ہو جائیں گے۔ ٹنکو ایک بیگ رجت کی جانب بڑھا کر بولا اس کے اندر پروجکٹ کے تمام دستاویز موجود ہیں۔ تم اسے آرام سے دیکھو۔ اس کے کنٹراکٹ میں لکھی رقم کے علاوہ باقی سب کچھ پتھر کی لکیر ہے۔ اگر معاوضہ تبدیل کروانا ہو تو پرانی کی جگہ نئی لکھ دو بس۔ ہم لوگ کل صبح اسی وقت یعنی دس بجے تک آئیں گے۔ ہمیں امید ہے کہ اس وقت اس معاہدے پر تمہارے دستخط ثبت ہوں گے۔ روکھا سنگھ بولا۔ ٹنکو نے کھڑے ہو کر مصافحہ کیا روکھا نے بھی ہاتھ ملایا اور پھر وہ دونوں گاڑی میں بیٹھ کر یہ جا وہ جا ہو گئے۔

رجت دیر تک اس بیگ کو دیکھتا رہا اور اس کے بارے میں سوچتا رہا۔ وہ بیگ اسے شیش ناگ کا پٹارہ لگ رہا تھا۔ اسے ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ گویا اس میں سے ایک اژدھا نکلے گا اور اسے نگل جائے گا یا کوئی ناگن نمودار ہو کر اسے ڈس لے گی اور پھر اس کا زہر نس نس میں سرائیت کر جائے گا۔ اسی ادھیڑ بن میں رجت سو گیا۔ رجت نے رات کا کھانا نہیں کھایا تھا اس لئے صبح بہت جلد وہ بیدار ہو گیا۔ اس کی آنکھیں اور معدہ دونوں بھوکے تھے۔ ایک کو نیند تو دوسرے کو غذا مطلوب تھی لیکن اس نے ان دونوں کے تقاضوں کو نظر انداز کرتے ہوئے سامنے پڑے بیگ کی جانب ہاتھ بڑھایا۔ اسے پتہ تھا کہ اس سے آنکھوں کی نیند اڑ جائے گی اور معدے کی بھوک مٹ جائے گی۔ بیگ کے اندر ایک فائل تھی جس پر جلی حروف میں آگ اور خفی انداز میں نیوز چینل لکھا ہوا تھا۔ اس فائل میں سب سے اوپر وزارتِ مواصلات کا ایک خط تھاجس میں آگ چینل کی توثیق تھی۔ رجت نے تاریخ دیکھی تو اسی دن کی تھی۔ اس نے نیچے دستخط اور نام کو دیکھا تو رام گوپال ورما لکھا تھا۔

رام گوپال ورما کے نام پر وہ چونک پڑا۔ یہ وہی رام گوپال ورما تھا جس نے جھولا منڈی میں صحافیوں سے خطاب کر کے رام جنک کے موت کی تفصیل بتلائی تھی۔ مطلع صاف ہونے لگا تھا۔ رجت نے بیک وقت درمیان کے سارے کاغذات پلٹ دیئے۔ یہاں پر ایک ٹائپ شدہ خط تھا۔ جو رجت اگروال کی جانب سے آگ چینل کے مالک شیام گوپال ورما کے نام لکھا ہوا تھا۔ رجت سمجھ گیا شیام یا تو رام کا بھائی ہے یا بیٹا۔ رجت کے لیے یہ ایک بے معنی ٰ رشتہ تھا۔ اس نے خود اپنی جانب سے لکھے ہوئے خط کو پڑھنا شروع کیا جو اس نے لکھا نہیں تھا۔ یہ ایک عام سا خط تھا جس میں آگ چینل کے مدیر اعلیٰ کی پیشکش کو قبول کر کے شکریہ کے ساتھ تمام ضوابط کی پابندی کا یقین دلایا گیا تھا۔ رجت اگروال نے جب نیچے لکھی تنخواہ کی رقم کو دیکھا تو اس کے ہوش اڑ گئے۔ یہ اس کی موجودہ تنخواہ سے دس گنا زیادہ تھی۔ اس خط کے اندر نئی ملازمت کو شروع کرنے کی تاریخ تک لکھی ہوئی تھی جو دو دن بعد تھی۔ گویا دستخط کے علاوہ کوئی جگہ خالی نہیں تھی۔

رجت اگروال کی نگاہ دوبارہ خط کی پیشانی پر پڑی جہاں آگ چینل کے دفتر کا پتہ لکھا تھا اور وہ دہلی میں تھا۔ رجت سر پکڑ بیٹھ گیا۔ دو دن کے اندر کوئی انسان اپنے اہل و عیال کے ساتھ کسی اجنبی شہر میں جا کر کیسے بس سکتا تھا ؟ رجت پریشان ہو گیا۔ اس نے فائل بند کر دی تو اسے یاد آیا رات چوکیدار نے جاتے ہوئے یاد دلایا تھا کہ صاحب اندر فریج ہے اگر کوئی ضرورت ہو تو اسے دیکھ لیں اگر موجود نہ ہو تو مجھے یاد فرمائیں۔ رجت اگروال بوجھل قدموں کے ساتھ کمرہ نما ریج کے قریب آیا اور اس کو کھولا تو اس کے اندر ایک جہان آباد تھا۔ وہ سوچنے لگا کہ آخر ایسی کون سی چیز ہے جو اس میں موجود نہیں ہے اور جس کے لیے چوکیدار کو زحمت دی جائے۔ رجت پھلوں کے رس کی دو بوتلیں اور پانی کی ایک بوتل لے کر واپس اپنے بستر پر آیا۔ وہ اس نئی مصیبت سے بچنے کی تدابیر سوچ رہا تھا۔ روکھا سنگھ کا جملہ جو ہمارے صاحب کے لیے کام نہیں کرتے وہ کسی کام کے نہیں رہتے رجت کے کانوں میں گونج رہا تھا۔ اس نے سوچا وہ اپنی منتقلی کے بارے میں ٹنکو سنگھ سے بات کرے گا وہ معقول آدمی لگتا ہے اور دستخط اس کے بعد ہی کرے گا۔

ٹنکو اور روکھا سنگھ یاجوج و ماجوج کی مانند حسب وعدہ پھر سے آ دھمکے۔ دونوں نے رجت کے ساتھ مصافحہ کیا ٹنکو نے خیریت دریافت کی اور پوچھا رات کیسے گزری روکھا نے سوال کیا دستخط کئے یا نہیں ؟ رجت نے روکھا کے بجائے ٹنکو کو مخاطب کر کے کہا سب تو ٹھیک ہے لیکن ایک مسئلہ ہے۔ تم تو جانتے ہو میں بال بچے والا آدمی ہوں دو دن کے اندر اپنے بیوی بچوں کے ساتھ دہلی میں کہاں جا کر سر چھپاؤں گا؟ روکھا بولا لگتا ہے تم نے پورا کنٹراکٹ نہیں پڑھا؟ رجت نے معذرت کی اور بولا جی ہاں میں کافی تھکا ہوا تھا اس لئے ۰۰۰۰۰۰ٹنکو بولا کوئی بات نہیں۔ دہلی میں تمہاری رہائش کا سارا انتظام موجود ہے۔ صحافیوں کی کالونی میں فرنیچر سے آراستہ کوٹھی تمہاری منتظر ہے اسی کے ساتھ اشوکا ہوٹل میں تمہارے اور بچوں کے لیے دو کمرے مختص ہیں تم چاہو تو ایک ہفتہ ہوٹل میں رک جاؤ اور کوٹھی میں ضروری تبدیلی کروا کر اس میں منتقل ہو جانا۔

رجت کو یقین نہیں آ رہا تھا کہ یہ سب اس کے ساتھ ہو رہا ہے۔ اس نے کہا اچھا اچھا ایسا ہے تب تو کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ میں ابھی دستخط کئے دیتا ہوں۔ ٹنکو بولا شکریہ۔ روکھا سنگھ نے اپنی جیب سے ایک لفافہ نکالا اور اس کو تھماتے ہوئے کہا اس میں تمہارا اور اہلِ خانہ کا ٹکٹ ہے۔ یاد رہے یہ یکطرفہ ٹکٹ ناقابلِ تبدیل ہے۔ تم آج ہی اپنا ضروری سامان بندھوا کر اور بچوں کے اسکول سے ان کا خارجہ سرٹیفکٹ نکلوا لینا۔ کل صبح آٹھ بجے ایک گاڑی تمہارے گھر آئے گی تاکہ تمہیں ہوائی اڈے لے جا سکے۔ دہلی کے جس اسکول میں تم چاہو گے تمہارے بچوں کا داخلہ ہو جائے گا۔ ٹنکو نے بیگ اپنے قبضے میں لیا اور پوچھا اور کوئی سوال تو نہیں ہے۔ رجت بولا جی نہیں شکریہ۔ آپ لوگوں کا بہت شکریہ۔

ٹنکو اور روکھا کے چلے جانے کے بعد رجت سوچ رہا تھا یہ جو عنایات کی بارش اس پر ہو رہی یہ کس وجہ سے ہے ؟ کیا اس لئے کہ اس نے وہ گھسر پھسر سن لی تھی۔ یا اس وجہ سے کہ اس نے رام جنک کا تعاقب کیا تھا۔ یا اس لئے اس نے تمام واقعات کو نہایت دلیری کے ساتھ بیان کر دیا تھا۔ رجت سوچنے لگا اس انقلاب کا جنک کون ہے۔ رجنی جو اسے جھولا منڈی لے گئی؟ یا رام جنک جس کا قتل کر دیا گیا؟یا جیتندر والمیکی جس کی پردہ پوشی کی جا رہی ہے ؟ یاریکھا جس نے اس کو لکھنے کے لیے آمادہ کیا۰۰۰۰۰لیکن پھر۰۰۰۰۰۰۰۰رفتہ رفتہ سارے نام مٹ گئے اور بس ایک نام رہ گیا۔ ۰۰۰۰ را۰۰۰م ۰۰۰۰ گو۰۰۰۰۰۰۰۰پال۰۰۰۰۰۰۰۰ و۰۰۰۰۰۰۰۰۰رما۔ آگ چینل کے شعلوں میں رجت اگروال بھسم ہو چکا تھا۔

 

 

 

 

دیوکی نندن

 

آکاش آنند اپنے آپ کو رجنی کے معاملے میں سنبھالنے کی کوشش کر رہا تھا کہ ریکھا کا استعفیٰ اس پر بم بن کر گرا تھا۔ ریکھا کا اچانک دہلی نکل جانا آکاش کے لیے دوسرا بڑا صدمہ تھا اس لئے کہ رجنی کے معاملے میں ریکھا اور رجت اس کے دوایسے دم ساز تھے جن کے سامنے کھل کر وہ اپنے دل کی بات رکھ سکتا تھا۔ رجت کے مشورے ہمیشہ ہی حوصلہ افزاء ہوتے تھے لیکن ریکھا کے ساتھ وہ بھی دور نکل گیا تھا بلکہ سچ تو یہ ہے کہ اسی کے سبب ریکھا کو دہلی جانے پر مجبور ہونا پڑا تھا۔ رجنی کے مقدمے میں آکاش آنند کی کوئی کوشش بار آور نہیں ہو پا رہی تھی۔ آکاش کی توقعات کے خلاف ہر بار کسی نہ کسی جانب سے کوئی نئی رکاوٹ آن کھڑی ہوتی تھی۔ اب تو آکاش کو گمان ہونے لگا تھا کہ گویا عدلیہ اور انتظامیہ نے آپس میں کوئی سانٹھ گانٹھ کر لی ہے لیکن وہ بیچارہ نہیں جانتا تھا کہ وہ دونوں تو مقننہ یعنی سیاستدانوں کے اشارے پر محض کٹھ پتلی کی مانند اچھل کود رہے تھے۔

اس دوران ایک دن آکاش آنند کو راکیش شرما کا فون آیا۔ وہ اس سے ملنا چاہتا تھا۔ آکاش نے اسے دو دن بعد اپنے گھر پر بلا لیا۔ راکیش شرما نے آکاش کو بتایا کہ اس ملاقات کا مقصد اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرنا ہے۔ بہت سوچ سمجھ کر اس نے فیصلہ کیا کہ آکاش ہی وہ انسان ہے جس سے وہ اپنے دل کی بات کرسکتا ہے۔ آکاش نے پوچھا لیکن جیتندر والمیکی بھی تو اس کے ساتھ ہے۔ راکیش بولا والمیکی میرے ساتھ تھا۔ جھولا منڈی ہم لوگ ساتھ گئے تھے لیکن وہاں سے ہماری راہیں جدا ہو گئیں۔ آکاش نے پوچھا میں تمہاری بات! سمجھا نہیں ؟جھولا منڈی میں ایسا کیا ہو گیا جو تمہاری دوستی میں دراڑ پڑ گئی ؟ راکیش کچھ دیر خلاء میں دیکھتا رہا پھر بولا یہ سمجھ لو آکاش کہ ہمارے درمیان کی زنجیر ٹوٹ گئی۔ رام جنک نے ہم دونوں کو جوڑ رکھا تھا جب وہی نہیں رہا تو ہمارا ساتھ بھی چھوٹ گیا۔

اب گفتگو کا رخ رام جنک کی جانب مڑ گیا تھا۔ راکیش نے بتایا کہ رام جنک اس کا کالج کے زمانے سے دوست تھا۔ وہ دونوں ایک ساتھ یونیورسٹی کے یونین کا انتخاب لڑا کرتے تھے لیکن عملی سیاست میں جب ان دونوں نے قدم رکھا تھا تو قسمت کی دیوی رام جنک پر مہربان ہو گئی۔ وہ بہت کم عمری میں رکن اسمبلی بن گیا اور اسے وزارت بھی مل گئی۔ اس دوران پارٹی کے دفتر میں ان کی دوستی جیتندر والمیکی سے ہو گئی اور نیا مثلث وجود میں آ گیا جسے لوگ راراجی کے نام سے جاننے لگے۔ ہم لوگوں نے جو بھی منصوبہ بنایا اس میں کامیاب ہوتے چلے گئے۔

رام جنک کو ہمارے درمیان مرکزی حیثیت حاصل تھی۔ میں اور والمیکی اس کے دست راست تھے۔ رام جنک بڑا آرزو مند شخص تھا۔ اس کے عزائم بہت بلند تھے۔ وہ دہلی کی سیاست میں اپنا اثرورسوخ قائم کرنا چاہتا تھا۔ رام جنک نے دہلی کی راہ ہموار کرنے کے لیے جھولا منڈی کا راستہ اختیار کیا تھا لیکن وہاں پر اسے ایک ایسی کھائی میں ڈھکیل دیا گیا جہاں سے کوئی واپس نہیں آتا۔ مجھے یاد ہے رام جنک نے ایک مرتبہ بڑے اعتمادسے کہا تھا راکیش میری بات لکھ لو کہ اگر ہندوستان میں کسی قبائلی فرد کو وزیر اعظم بننے کا موقع ملے گا تو وہ رام جنک ہو گا۔ اب مجھے لگتا ہے کہ اس ملک کو کبھی بھی قبائلی وزیر اعظم نصیب نہیں ہو گا۔

راکیش شرما نے بتایا کہ رجنی سے رام جنک بہت مرعوب تھا۔ اس کو جب ہم لوگوں نے دہلی کی روداد سنائی تو وہ بہت خوش ہوا۔ اس نے کہا تھا آج قوم کو رجنی جیسی مخلص اور نڈر خواتین کی بہت ضرورت ہے۔ رام جنک نے بہت اصرار کر کے جھولا منڈی کی کانفرنس کا دعوت نامہ رجنی کو بھجوایا تھا۔ وہ رجنی کے انٹرویو اور تقریر سے بے حد متاثر ہوا تھا۔ اس کے بعد رجنی موضوعِ بحث بن گئی۔ پیرس سے لے کر دہلی تک کی یادیں تازہ ہوئیں۔ راکیش جس طرح دل کھول کر رجنی کی تعریف کی اس سے آکا ش حیرت زدہ تھا اس لئے کہ اس کے خیال میں رجنی نے دہلی میں والمیکی کے ساتھ اس کو بھی بری طرح جھڑک دیا تھا اس لئے ان دونوں کو رجنی سے ناراض ہونا چاہئے تھا۔ رجنی کی گرفتاری پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے راکیش شرما نے آکاش آنند کو مشورہ دیا کہ وہ اس معاملے میں بہت زیادہ اصرار نہ کرے اور نہ توقعات وابستہ رکھے۔ یہ معاملہ لمبا کھنچے گا۔ اس میں کوئی فیصلہ نہ ہو گا۔ نہ تو رجنی آسانی سے رہا ہو گی اور نہ اسے سزا ہو گی بلکہ ٹال مٹول اور تعطل کا سلسلہ جاری رہے گا۔

راکیش کی آمد نے آکاش آنند کے دل کا بوجھ ہلکا کر دیا تھا بڑے دنوں کے بعد اس نے کسی کے ساتھ اس قدر دیر تک رجنی کی بات کی تھی۔ آکاش نے محسوس کیا کہ راکیش اس کا ہمدرد ہے اور حقیقت پسند انسان ہے۔ اس دوران وقوع پذیر ہونے والے واقعات پر اس نے غور کیا تو اسے راکیش کی بات صد فیصد درست معلوم ہوئی۔ آکاش چونکہ عرصۂ دراز سے عدالت کے دھکے کھاتا رہا تھا اس لئے یہ بات اس کی سمجھ میں با آسانی آ گئی۔ اس نے سوچا کاش کے راکیش کے بغیر ہی اس بات کا ادراک اسے ہو جاتا لیکن اب تک وہ جذبات سے مغلوب ہو کر سوچا کرتا تھا۔ آج پہلی بار راکیش نے اس کے سامنے حقائق کو نہایت معروضی انداز میں رکھا تھا اور تصویر کے اس رخ سے اسے آگاہ کر دیا تھا جو اس کی نگاہوں سے اوجھل تھا۔

۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰

 

جھولا منڈی کے پاس سب سے بڑی جیل دانتے واڑہ میں تھی۔ یہ دراصل ایک فوجی بیرک تھی جسے انگریزوں نے قبائلی بغاوت کو کچلنے کے لیے تعمیر کیا تھا۔ حکومتِ ہند نے اسے جیل خانہ بنا دیا تاکہ قبائلی دہشت گردی کا خاتمہ کیا جا سکے۔ اس جیل میں پہنچنے کے بعد پہلے تو رجنی کی سمجھ میں نہیں آیا کہ یہ سب کیا اور کیوں ہو رہا ہے ؟ آکاش آنند نے اسے یقین دلایا تھا کہ اس کے خلاف سرے کوئی مقدمہ ہی نہیں بنتا۔ اس کی فردِ جرائم شواہد سے پوری طرح خالی ہے اس لئے بہت جلد وہ بری ہو جائے گی لیکن وقت کے ساتھ اس کی توقعات پر پانی پھرتا چلا گیا۔ پہلے تو قانونی موشگافیاں ٹال مٹول کا سبب بنیں اس کے بعد مختلف دہشت گردیوں کی تفتیش میں رجنی کا نام جھلکنے لگا اور اس کے خلاف مقدمات کی تعداد بڑھتی چلی گئی۔ دہشت گردی کے واقعات میں ملوث ہونے والے مختلف لوگ جن کے نام تک سے رجنی واقف نہیں تھی اپنے اعترافِ جرم میں رجنی کو شامل کر لیتے تھے۔ یہاں تک کہ آکاش کے ساتھ رجنی بھی اس بات سے مایوس ہو گئی کہ اسے رہائی نصیب ہو گی۔

رجنی کی اس مایوسی نے اس کی فکر کے نئے دروازے کھول دئیے۔ اس نے سوچا اگر یہیں رہنا ہے تو کیوں نہ کچھ کام کیا جائے ؟ اسے حیرت تھی کہ یہ سوال اس کے ذہن میں پہلے کیوں نہیں آیا۔ اس سے پہلے وہ کچھ عرصہ تو یہ سوچتی رہی تھی کہ اسے آخر جیل کیوں ڈالا گیا؟ جب اس کو اس سوال کا کوئی معقول جواب نہیں ملا تو وہ سوچنے لگی کہ اس کی گرفتاری کے پیچھے کس کا ہاتھ ہو سکتا ہے ؟ اس سوال کا اطمینان بخش جواب حاصل کرنے میں بھی وہ کامیاب نہیں ہو سکی۔ آکاش نے اسے سمجھایا کہ ہمیں اس سے کیا غرض کے اس کی گرفتاری کے پسِ پشت کیا محرکات ہیں۔ وہ تو بس اپنی شریکِ حیات کو چھڑا کر جلد از جلد گھر لے جانا چاہتا ہے۔ وہ اس کے سوا کچھ اور نہیں چاہتا۔ رجنی اس بات کو سمجھ گئی اور دن رات جیل سے نکل کر جانے کے بارے سوچتی رہی۔ اس نے کبھی اس مقام کو اپنا مسکن سمجھا ہی نہیں اور سنجیدگی کے ساتھ یہاں کے حالات پر غور ہی نہیں کیا لیکن اب اس کا خیال بدل گیا تھا۔ اب وہ پہلی بار اس سوال پر سنجیدگی کے ساتھ غور کر رہی تھی کہ یہاں رہتے ہوئے کیا کچھ کیا جا سکتا ہے ؟

اس ایک سوال نے رجنی کے سامنے کئی مواقع اور امکانات کا باب کھول دیا۔ اس نے دیکھا کہ جس کام کے لیے وہ کالا ہانڈی گئی تھی۔ جس مسئلے کو اس نے پیرس میں اٹھایا تھا۔ جن لوگوں کی وکالت اس نے دہلی میں کی تھی وہ سب تو اس کے آس پاس موجود ہیں اور اس تمام عرصے میں اس نے ان کی جانب سرے توجہ ہی نہیں کی۔ رجنی کو اس بار دوسروں کے بجائے اپنے آپ پر بہت غصہ آیا۔ رجنی اپنے ہم قفس زندانیوں کی جانب کیا متوجہ ہوئی کہ اس کا غمِ تنہائی کافور ہو گیا۔ اس نے جب ان کے دکھ درد سنے تو اسے یوں لگا کہ گویا اس کے ساتھ کچھ بھی نہیں ہوا۔ ہر ایک داستان الم خون کے آنسو رلاتی تھی۔

قیدیوں کے اندر غالب اکثریت ایسے لوگوں کی تھی جنہیں نکسلوادی دہشت گردی کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا حالانکہ نکسلیوں سے ا ن کا دور سے بھی کوئی واسطہ نہیں تھا۔ پولس والے خوف کے مارے نکسلی جنگجوؤں کے قریب نہیں پھٹکنے کی جرأت نہ کرتے تھے لیکن اپنی کار کردگی دکھانے کی خاطر غیر متعلق لوگوں کو پکڑ کر لے آتے تھے اور ان پر طرح طرح الزامات جڑ دئیے جاتے تھے۔ ان غریب لوگوں کے پاس وکیل کرنے کے لیے وسائل نہیں تھے اس لئے انہیں سرکاری وکیل پر انحصار کرنا پڑتا تھا جو ان کا دوست نما دشمن ہوتا تھا لیکن ایسا بھی نہیں تھا کوئی نکسلی وہاں موجود نہیں تھا۔ دلچسپ بات یہ تھی یہ سارے بے قصور لوگ جیل کے اندر نکسلواد کا سبق سیکھ رہے تھے۔ ان میں سے اکثر نے باہر جانے کے بعد تحریک میں شامل ہونے کا ارادہ کر لیا تھا۔ اس انکشاف نے رجنی کو چونکا دیا۔ ویسے رجنی بھی انہیں لوگوں میں سے ایک تھی۔ اس کے دل سے پولس اور جیل ڈر نکل چکا تھا۔ اس نے بھی فیصلہ کر لیا تھا کہ یہاں سے نکل نکسلوادی تحریک کے لیے اپنا سب کچھ نچھاور کر دے گی۔

رجنی کے سامنے سب سے اہم سوال یہ تھا کہ جیل کے اندر رہتے ہوئے وہ اپنی تحریک کے لیے کیا کرسکتی ہے ؟ ایک تو وہ بندوق چلانا نہیں جانتی اور اگر اسے اس فن میں مہارت حاصل بھی ہوتی تب بھی جیل میں اس کا استعمال ممکن نہیں تھا۔ اول تو جیل کے اندر بندوق کا مہیا ہونا مشکل تھا دوجے وہ لوگ بھی وہاں موجود نہیں تو جو ان گولیوں کے حقدار تھے۔ ایسے میں رجنی فیصلہ کیا کہ وہ اپنے زنداں کے ساتھیوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرے گی۔ لیکن کیا یہ ممکن ہے ؟ اور اس کے لئے جو ذرائع و سائل درکار ہیں کیا وہ جیل کے اندر فراہم ہو سکتے ہیں ؟ یہ دوسوالات اس کو جیلر دیوکی نندن کی خدمت میں لے گئے۔ رجنی کے جیلر دیوکی نندن سے اچھے مراسم تھے۔ دیوکی نندن ایک پختہ عمر کے خوش مزاج انسان تھا۔ جب رجنی نے اسے اپنے ارادوں سے آگاہ کیا تو وہ بہت خوش ہوا اور بولا رجنی سچ تو یہ ہے کہ یہ کام ہمارے کرنے کا ہے لیکن ہم لوگ نہیں کر رہے ہیں۔ اگر تم یہ کرنا چاہو تو نہ صرف یہ کہ اس کی اجازت ہے بلکہ اس کا خیرمقدم ہے اور اس کارِ خیر میں تمہیں جو بھی تعاون چاہئے وہ حاضر ہے۔

رجنی کے لیے دیوکی نندن کی یقین دہانی ناقابلِ یقین تھی جس کشادہ دلی سے دیوکی نندن نے رجنی کی تجویز کو قبول کر لیا تھا اور جس آسانی سے وہ مدد کے لیے آمادہ ہو گیا تھا اس سے رجنی کو اندازہ ہوا کہ دیوکی اپنی سخت وردی کے اندر ایک دردمند دل رکھتا ہے اور وہ بھی ان غریب قبائلیوں کا بہی خواہ ہے۔ رجنی نے پوچھا دیوکی جی آپ اس علاقے میں کب سے ہیں ؟ دیوکی بولا میں حساب کتاب میں کمزور تھا اس لئے آئی پی ایس میں ناکام ہو گیا اور عام بھرتی کے ذریعہ پولس محکمہ میں آیا اور میری پہلی تقرری اس جیل میں ہوئی۔ اب میں اگر زندہ رہا تو ایک سال بعد یہیں سے سبکدوش ہو کر سنیاس لے لوں گا۔ رجنی نے پوچھا دیوکی جی ہندو شاستروں کے مطابق سنیاس کے بعد ونواس کا نمبر آتا ہے لیکن آپ نے ترتیب بدل دی اس کی کوئی خاص وجہ ہے ؟

دیوکی بولا رجنی تم بڑے عرصے بعد پرانے زخموں کو کرید رہی ہو۔ رجنی بولی میں آپ کی دل آزاری کے لیے معذرت چاہتی ہوں آپ میرے سوال کو اگر چاہیں تو نظر انداز کر دیں۔ دیوکی بولا رجنی یہ زخم دراصل اب پھول بن گئے ہیں۔ سدابہار پھول جو نہ کبھی مرجھاتے ہیں اور نہ جن کی خوشبو میں وقت کے ساتھ کوئی کمی بیشی ہوتی ہے۔ آج میں جب پیچھے مڑ کر اپنے ماضی کے اس فیصلے کی جانب دیکھتا تو خدا کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے مجھے یہ فیصلہ کرنے کی توفیق دی ورنہ میں نہ جانے کہاں ہوتا اور کیسا ہوتا؟ رجنی کے لیے دیوکی ایک سربستہ راز بن گیا تھا۔ وہ بولی کیا آپ مجھے اس مبارک فیصلے کی بابت کچھ بتانا پسند کریں گے ؟

دیوکی بولا کیوں نہیں۔ میں اس وقت انگول نامی قصبے میں رہتا تھا اور وہیں میری بھرتی پولس میں ہوئی تھی۔ پہلے چھے ماہ ٹریننگ کے تھے اس دوران میں نے جو بدعنوانی دیکھی تو ڈر گیا۔ میری کارکردگی ویسے تو بہت اچھی تھی لیکن میں رشوت خوری کے قریب نہیں پھٹکتا تھا جس کے سبب میرے اعلیٰ افسران مجھ سے ناراض ہو گئے تھے۔ رجنی بولی رشوت نہ لینے والے سے ناراضگی عجیب سی بات ہے ؟ دیوکی بولا اس میں عجیب کیا ہے۔ اگر افسر بدعنوان نہیں ہے تو وہ رشوت خور نائب سے ناراض ہو گا لیکن اگر وہ رشوت خوری میں ملوث ہے تو اسے اپنے بدعنوان عملے سے ایک تو کوئی تعاون نہیں ملتا اوپر سے خوف بھی ہوتا ہے اس لئے وہ بیچارہ کیوں کر خوش ہو سکتا ہے ؟

رجنی بولی سمجھ گئی لیکن پھر کیا ہوا؟ ہوا یہ کہ ان کے پاس میرے خلاف کوئی ایسا جواز نہیں تھا کہ جس بناء پر مجھے ملازمت سے نکالا جا سکے۔ اس لئے سزا کے طور پر ان لوگوں نے میرا تقرر دور دراز کی دانتے واڑہ جیل میں کر دیا۔ یہاں کا ماحول یہ تھا کہ ہر کوئی تبادلہ کروانے کے چکر میں لگا رہتا تھا لیکن میں نے سوچا یہ اچھی جگہ ہے۔ یہاں بدعنوانی نہیں ہے اس لئے کہ غریب عوام کے پاس رشوت تو کجا ضمانت ادا کرنے تک کے لیے بھی روپیہ نہیں ہے۔ میں نے اسے اپنے لئے عافیت سمجھا اور تبادلے کا خیال اپنے دل سے نکال دیا۔ چونکہ میرے اعلیٰ افسر جلدی جلدی یہاں سے نکل کر بھاگتے رہے اور کوئی یہاں آنے کے لیے آسانی سے تیار نہ ہوتا تھا میری ترقی تیزی سے ہوتی رہی۔ میں ایک مختصر مدت میں جیلر بن گیا اور اب اپنی کارکردگی پر مطمئن ہوں۔ رجنی بولی آپ کے اطمینان پر مجھے حیرت ہے اس لئے آپ کی جیل میں اکثر لوگ بے قصور لوگ ہیں ؟

مجھے پتہ ہے دیوکی بولا لیکن میں اس کے لیے ذمہ دار نہیں ہوں۔ نہ ہی میں نے انہیں گرفتار کیا اور نہ ہی ان پر کوئی الزام لگایا اور نہ سزا سنائی۔ میرا کام تو صرف عدالت کے فیصلوں پر عمل درآمد کرنا ہے اور ان لوگوں کو تمام تر آئینی مراعات مہیا کرنا ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ یہاں کے قیدی بھی مجھ سے خوش ہیں۔ جی ہاں اس میں کوئی شک نہیں رجنی بولی عام قیدیوں کو آپ سے کوئی شکایت نہیں ہے۔ اچھا یہ بتائیے کہ اس علاقے کی تعلیمی پسماندگی کے لیے نکسل تحریک کس حد تک ذمہ دار ہے۔ دیوکی بولا عوام کو تعلیم سے آراستہ کرنے کی ذمہ داری حکومت کی ہے۔ اس لئے اگر کہیں تعلیمی پسماندگی ہے تو اس کے لیے سرکار ذمہ دار ہے نہ کہ کوئی عوامی تحریک۔ رجنی نے پوچھا اور جو یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ نکسلیوں نے اسکولوں کو بم سے اڑا دیا بچوں کو اسکول آنے سے روک دیا، اس میں کس حد تک صداقت ہے ؟

میرے خیال میں بے بنیاد باتیں ہیں رجنی۔ اس لئے علاقے کہ نصف سے زیادہ اسکول پولس اور نیم فوجی دستوں کی رہائش گاہ اور دفاتر بنے ہوئے ہیں اس کے لیے سرکار کے علاوہ کون ذمہ دار ہو سکتا ہے بلکہ تمہاری اس بات پر مجھے اپنے ایک ہم عمر امریکی کا لطیفہ یاد آتا ہے۔ اچھا وہ کیا رجنی نے سوال کیا۔ دراصل ایک بوڑھا امریکی اور اس کی بیوی دونوں سرکاری ملازم تھے لیکن مرد سگریٹ بہت پیتا تھا۔ ایک دن اس کی بیوی نے اس سے پوچھا تم ہر روز سگریٹ کی کتنی ڈبیا ہوا میں اڑا دیتے ہو۔ وہ بولا یہی دس گیارہ۔ اب اس کی بیوی نے حساب کتاب شروع کیا روز کے دس تو ہر ماہ کے ۳۰۰ اور ایک سال کے ۳۶۵اس طرح تیس سال کے تقریباً گیارہ ہزار پیکٹ اور ایک پیکٹ کی قیمت ۵ ڈالر تو ۵۵ ہزار ڈالر۔ اس نے کہا اتنی رقم میں تو تم ایک بی ایم ڈبلیو کار خریدسکتے تھے۔ وہ شخص مسکرا کر بولا میری جان تم تو سگریٹ نہیں پیتیں ؟ وہ بولی توبہ! اچھا تو یہ بتاؤ کہ تمہاری بی ایم ڈبلیو کہاں ہے ؟اس شخص کی بیوی لاجواب ہو گئی۔

رجنی بولی لیکن اس کا قبائلی سماج کی تعلیمی پسماندگی سے کیا تعلق ہے ؟ بڑا گہرا تعلق ہے۔ نکسل تحریک ہمیشہ سے نہیں ہے جب یہ برپا نہیں ہوئی تھی اس وقت بھی قبائلی سماج اور حکومت موجود تھی اگر نکسلی رکاوٹ بنے ہوئے ہیں تو اس سے قبل تعلیمی بیداری کیوں نہیں آئی؟ اس کے علاوہ ایسے قبائلی علاقے بھی ہیں جہاں نکسلواد کے اثرات نہیں کے برابر ہیں۔ ان علاقوں میں حکومت نے ان لوگوں کو تعلیم دینے کے لیے کوئی ٹھوس اقدام کیوں نہیں کیا؟ اس لئے دوسروں کو موردِ الزام ٹھہرا کر اپنی گردن بچانے کی حکمتِ عملی کو میں درست نہیں سمجھتا۔ رجنی کو ایسا لگ رہا تھا گویا جیلر کی وردی میں سانیال بول رہا ہے۔ دیوکی نندن اور دیپک سانیال کی فکری ہم آہنگی حیرت انگیز تھی۔

دیوکی کی دلیل سے رجنی بہت خوش ہوئی اور بولی دیوکی جی آپ کتنے اچھے آدمی ہیں اچھا ایک بات بتائیے کیا آپ کو میں دہشت گرد لگتی ہوں ؟ دیوکی نے مسکرا کر کہا رجنی میں اس سوال کا جواب نہیں دے سکتا۔ رجنی بولی کیوں ؟ کیا آپ بھی ہماری طرح ڈرتے ہیں ؟ دیوکی چونک کر بولا ہم ! ہم نہیں ڈرتے لیکن تم بھی تو کہاں ڈرتی ہو؟ رجنی بولی جی ہاں سچ تو یہ ہے کہ اس جیل میں کوئی بھی نہیں ڈرتا۔ اب چونکہ تم نے سچ بات کہہ دی ہے تو میں بھی اعتراف کر لوں کہ ہم ڈرتے ہیں ؟ اچھا آپ کس سے ڈرتے ہیں ؟ سرکار دربار سے ؟ جبکہ آپ خود سرکار ہیں ؟رجنی نے سوال کیا۔ دیوکی نندن بولے اوہو سرکار سے ڈریں ہمارے دشمن ہم کیوں ڈرنے لگیں اس سے ؟

تب پھر آپ کس سے ڈرتے ہیں ؟ ہم ! ہم بتا نہیں سکتے کہ کس سے ڈرتے ہیں ؟ لیکن سچ تو یہ ہے کہ ڈرتے ضرور ہیں۔ خیر نہ بتائیے لیکن آپ نے میرے پہلے سوال کا جواب نہیں دیا۔ کیا میں ۰۰۰۰۰۰۰دیوکی نندن نے کہا میں تو سمجھ رہا تھا کہ تم اپنا سوال بھول گئی ہو۔ جی نہیں میں اس قدر آسانی سے بھولنے والوں میں سے نہیں ہوں۔ رجنی جب تم نے سوال دوہرا دیا تو میں جواب دوہرا دیتا ہوں کہ میں جواب نہیں دے سکتا۔ رجنی بولی کیوں جواب نہیں دے سکتے ؟ آخر اس کی وجہ بتا دیجئے۔ دیوکی بولا وجہ!!!تو یہ ہے کہ تم اس جواب کو سن کر ناراض ہو جاؤ گی۔ رجنی بولی جی نہیں میں آپ کو یقین دلاتی ہوں کہ اگر آپ نے یہ کہہ دیا کہ میں آپ کو خونخوار دہشت گرد لگتی ہوں تب میں برا نہیں مانوں گی۔ اچھا اگر ایسا ہے تو سن لو کہ میں تم مجھے ۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۔

اچھا؟؟؟ رجنی منھ بگاڑ کر بولی۔ اب آپ مجھے بتائیے کہ میں نے ایسا کیا کر دیا کہ آپ کو دہشت گرد لگنے لگی۔ دیوکی بولا میں نے پہلے ہی کہا تھا کہ تم برا مان جاؤ گی اور یہی ہوا۔ دیکھو بات دراصل یہ ہے کہ مجھے ساری خواتین دہشت گرد لگتی ہیں۔ میں ان سے دہشت زدہ رہتا ہوں اسی لئے میں نے تمہیں یہ نہیں بتایا تھا کہ میں کس سے ڈرتا ہوں۔ ہاں اچھا رجنی نے کچھ سوچ کر کہا۔ اب میں سمجھی۔ تب تو اس جیل کے سارے قیدی آپ کو دہشت گرد لگتے ہوں گے۔ دیوکی نے مسکرا کر کہا بے شک۔ چونکہ یہ خواتین کی جیل ہے اس لئے لازم ہے کہ ۰۰۰۰۰۰۰دیوکی چپ ہو گیا۔ رجنی بولی چلئے میں آپ کی بات مانے لیتی ہوں اس لئے کہ اگر سارے لوگ دہشت گرد ہیں تو اس کا مطلب یہ بھی ہوا کہ ان میں سے کوئی دہشت گرد نہیں ہے۔

دیوکی بولا یہ بھی صحیح ہے۔ اچھا اگر ایسا ہے تو ان کا قصور کیا ہے ؟ رجنی نے سوال کیا۔ دیوکی بولے یہ لوگ مخلص ہیں۔ بے خوف ہیں یہی ان کا سب سے بڑا قصور ہے۔ رجنی بولی اچھا اگر ایسا ہے تو ان کا علاج کیا ہے ؟ دیوکی بولے تم پہلی شخصیت ہو جس نے مجھ سے علاج دریافت کیا ہے ورنہ سچ تو یہ ہے کہ سارے لوگ صرف بیماری کے بارے پوچھتے سب کو مسائل جاننے میں دلچسپی ہے حل نکالنے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتا۔ رجنی بولی اس لئے کہ آپ حل بتانے کے بجائے بات ادھر ادھر گھما دیتے ہیں۔ جی نہیں میرے خیال میں ان کے مسائل سب سے آسان حل یہ ہے کہ ان کو ٹیلی ویژن دے دیا جائے۔ ٹیلی ویژن ؟؟؟ اس سے کیا ہو گا ؟ اس سے ان پر صارفیت کا بخار چڑھ جائے گا یہ لوگ دنیا پرستی میں مبتلا ہو جائیں گے۔ رجنی بولی لیکن اس کا سرخ انقلاب سے کیا تعلق ہے ؟ بڑا گہرا تعلق ہے رجنی دیوکی نندن نے پر اعتماد لہجے میں کہا ھل من مزید کا چکر سرخ و سبز سارے انقلابات کو نگل جاتا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ یہ سارے نوجوان جو فی الحال انقلاب زندہ باد کا نعرہ لگا رہے ہیں از خود اپنی بندوقوں کو پھینک کرپولس محکمہ کی طرح بدعنوان بن جائیں گے۔ سارا مسئلہ اپنے آپ حل ہو جائے گا۔

دیوکی نندن کی منطق سن کر رجنی چکرا گئی۔ وہ بولی دیوکی جی میرا خیال ہے کہ چانکیہ یہیں کہیں پیدا ہوا ہو گا ؟ دیوکی نندن بولے نہیں رجنی بات دراصل یہ ہے کہ میں پاٹلی پتر میں پیدا ہوا تھا۔ رجنی بولی سمجھ گئی ایک ہی بات چاقو اور خربوزہ والی۔ جی ہاں دیوکی نے تائید کی اور کہا اب میں چلتا ہوں جیل کے اندر قیدیوں کو تو کوئی کام نہیں ہوتا لیکن جیلر کو بہت سارے کام ہوتے ہیں۔ رجنی ہنس کر بولی اچھا تب تو ہم ہی آپ سے اچھی حالت میں ہیں۔ دیوکی بولا اس میں کیا شک ہے اور اٹھ کر چل دیا۔

 

 

 

شادی خانہ آبادی

 

رجنی کی رہائی سے مایوس ہو جانے کے بعد آکاش نے جیتو کو اپنی ساری توجہات کا مرکز بنا لیا تھا۔ اس کے خیال میں جیتو کو پڑھا لکھا کر کسی قابل بنا دینا ہی رجنی کی خدمت میں بہترین خراجِ عقیدت ہو سکتا تھا۔ وقت گزرتا گیا جیتو نے ہائی اسکول پاس کر لیا لیکن اس کے نمبر بہت اچھے نہیں آئے۔ جیتو پڑھنے لکھنے کے بجائے ملازمت میں دلچسپی تھی مگر آکاش کا اصرار تھا کہ وہ تعلیم حاصل کرے۔ اس بیچ کسی نے جیتو کو بتلایا کہ رائے پور کی امر جوان میدان میں پولس کی بھرتی جاری ہے۔ جیتو آکاش کو بتلائے بغیر وہاں پہنچ گیا۔ جسمانی تعلیم کے سارے امتحانات میں وہ با آسانی کامیاب ہو گیا۔ تحریری امتحانات میں اسے کم نمبر ملے لیکن چونکہ اپنی لاعلمی کے سبب بہت کم قبائلی نوجوان اس مقابلے میں شریک ہوسکے تھے جیتو کا قبائلی ہونا اس کے کام آیا اور وہ ریزرویشن (تحفظات) کا فائدہ اٹھا کر کامیاب ہو گیا۔

جیتو کا جب انتخاب ہو گیا تو وہ مٹھائی لے کر آکاش کی خدمت میں آیا اور بولا کہ اسے ملازمت مل گئی اور اس کا تقرر بلاس پور کی جیل میں ہو گیا ہے۔ آکاش کے لیے یہ بیک وقت خوشی کا بھی موقع تھا کہ جیتو برسرِ روزگار ہو گیا تھا اور اسے غم اس بات کا تھا رجنی کے بعد اس کی نشانی جیتو بھی اسے داغِ مفارقت دے کر کسی اور شہر کی جانب روانہ ہو رہی تھی۔ آکاش نے جیتو کو نیک خواہشات کے ساتھ روانہ کر دیا اور مکمل تنہائی کا شکار ہو گیا۔ جیتو نے بلاس پور جانے کے بعد کالا ہانڈی کا سفر کیا اور اپنے والد کھیتو کو اپنے ساتھ آنے کی درخواست کی۔ کھیتو نے اپنی بیوی مانجھی سے اجازت طلب کی تو وہ اس شرط پر تیار ہوئی کہ جیتو اسے بھی اپنے ساتھ لے کر چلے گا اور اس کی پسند سے قبائلی لڑکی کے ساتھ شادی کرے گا۔ کھیتو خود یہ نہیں چاہتا تھا کہ شہر میں پلا بڑھا جیتو کسی قبائلی عورت کے چکر میں پڑے جو اسے اپنا تابعدار بنا کر رکھے لیکن مانجھی اپنی ضد پر اڑ گئی۔ بالآخر کھیتو نے جیتو کے ساتھ شہر جانے کا ارادہ ترک کر دیا اور اس سے معذوری ظاہر کر دی۔

جیتو نے جب اس سے وجہ دریافت کی تو اس نے مانجھی کی احمقانہ شرائط اس کے سامنے رکھ دیں اور بولا بیٹے میں تمہیں اس آزمائش میں ڈالنا نہیں چاہتا اس لئے تم جا کر شہر میں اپنا گھر بسالو میں کبھی کبھار آ کر تم سے مل لیا کروں گا۔ جیتو نے اپنے باپ کی بات سن کر بلا توقف مانجھی کو بلایا اور بولا ماں جی تمہاری ساری شرائط مجھے منظور ہیں تم جس سے چاہو میرا نکاح کر دو لیکن میرے ساتھ شہر چلو۔ مانجھی کا دل جیتو کی بات سن کر باغ باغ ہو گیا۔ وہ بولی اس قدر احمق باپ کا ایسا سمجھدار بیٹا میں نے کبھی نہیں دیکھا یہ تو پورا کہ پورا اپنی ماں میتھی پر گیا ہے۔ وہ میری بہت ہی اچھی اور ذہین سہیلی تھی۔ مانجھی بولی بیٹے تو چنتا نہ کر میں نے تیرے لئے اس علاقے کی سب سے خوبصورت لڑکی دیکھ رکھی ہے لیکن تیرا یہ بے وقوف باپ چاہتا ہے کہ تو شہر کی کسی کلموہی کے ساتھ بیاہ رچائے۔ جیتو اتنا یاد رکھ کہ شہر کی لڑکیاں کسی بھی معاملے میں ہمارا مقابلہ نہیں کرسکتیں نہ صورت میں اور نہ سیرت میں۔ ہم لوگ ہر طرح سے افضل و بہتر ہیں خیر اب تو واپس جا اور دو ماہ بعد آنا تب تک میں سارے معاملات ٹھیک کر کے رکھتی ہوں۔ دو ماہ بعد تو اکیلا آئے گا لیکن ہم چاروں ساتھ چلیں گے۔ جیتو نہیں جانتا تھا کہ وہ چوتھا کون ہو گا ؟پھر بھی اس نے تائید کی اور دو ماہ بعد آنے کا وعدہ کر کے نکل کھڑا ہوا۔

جیتو کے چلے جانے کے بعد کھیتو اور مانجھی میں بحث چل پڑی۔ کھیتو بولا تم کیوں میرے بیٹے کی زندگی تباہ کرنے پر تلی ہوئی ہو؟ مانجھی نے جواب دیا دیکھو کھیتو جیسے جیتو تمہارا بیٹا ہے اسی طرح میرا بھی بیٹا ہے۔ تمہارا بیٹا! کھیتو نے سوال کیا اس کا تم سے کیا تعلق ؟ مانجھی بولی وہ میری سہیلی میتھی اور میرے آدمی کھیتو کا بیٹا ہے اس لئے گویا کہ میرا بھی بیٹا ہو گیا۔ تم مانو یا نہ مانو وہ مجھے ماں مانتا ہے اور میں اسے اولاد مانتی ہوں۔ اگر ایسا ہے تو تمہیں اس کا خیر خواہ ہونا چاہئے۔ جی ہاں کون کہتا ہے کہ میں اس کی بدخواہ ہوں۔ اگر تم اس کی خیر خواہ ہو تو اس کی شادی کسی قبائلی کے بجائے شہری لڑکی سے کیوں نہیں کروا دیتیں تاکہ وہ سکون سے اپنی زندگی گزارے۔

مانجھی بولی میں نے کون سا تمہارا سکون غارت کر رکھا ہے ؟ میں اس کی بھلائی چاہتی ہوں جو اس کی شادی قبائلی لڑکی سے کروا رہی ہوں۔ کیا سمجھے۔ کھیتو قہقہہ لگا کر بولا قبائلی کالی کلوٹی لڑکی سے شادی کرنے میں بھلائی ہے ؟ یہ مجھے آج معلوم ہوا۔ مانجھی کھیتو کا یہ تبصرہ سن کر اکھڑ گئی اور بولی کسی نے صحیح کہا ہے بڑھاپے میں انسان کا دماغ خراب ہو جاتا اور تمہاری گفتگو سن کر مجھے اندازہ ہو گیا ہے کہ تمہارا دماغ ضرور بوڑھا ہو گیا ہے۔ میرا دماغ خراب ہے یا تمہارا۔ مانجھی بولی تمہاری بدھی بھرشٹ ہو گئی ہے کھیتو تمہاری اور اگر تم کہو تو میں تمہارے لئے شہر سے کوئی چکنی چپڑی بیوی لے آؤں۔ میرے لئے کھیتو نے حیرت سے پوچھا۔ جی ہاں تمہارے لئے جو تمہارا دماغ درست کر کے واپس چلی جائے تاکہ میرا کام آسان ہو جائے۔

کھیتو سمجھ گیا اس عورت کو سمجھانا ناممکن ہے اس لئے وہ بولا دیکھو مانجھی تم جو چاہو کرو لیکن اتنا خیال رکھنا کہ کہیں تمہاری وہ بہو قبائلی روایت کے مطابق عمر میں تمہارے بیٹے سے بڑی نہ ہو۔ مانجھی بولی پھر تم نے احمقوں والی بات کر دی۔ اس میں کیا حماقت ہے ؟ حماقت نہیں تو کیا ہے ؟ پہلے تو شہر اور دیہات کے چکر میں پڑ گئے۔ پھر وہاں سے نکلے تو رنگ و نسل میں پھنس گئے اور اب عمر کی کہانی لے بیٹھے آخر ان چیزوں کا خوشگوار ازدواجی زندگی کا کوئی تعلق ہے ؟تو کیایہ سب بے کار کی باتیں ہیں ؟ مانجھی بولی نہیں لیکن ان کی حیثیت ثانوی درجے کی ہے بنیادی طور پر حسن سیرت و اخلاق۔ مزاج کے اندر لچک۔ ہمدردی و غمخواری کا جذبہ یہ سب ازدواجی زندگی کو کامیاب بنانے والے عناصر ہیں۔

کھیتو بولا وہ سب تو ٹھیک ہے لیکن ایک بات کا خیال رکھنا جیتو شہر میں پلا بڑھا ہے وہ تم جیسی قبائلی جورو کی تابعداری نہیں کرے گا اور نہ اس کے گھر میں آ کر رہے گا۔ مانجھی بولی تم نے مجھے اور اپنی ہونے والی بہو کو بھی اپنی طرح بے وقوف سمجھ رکھا ہے شاید؟ میں تمہاری بات نہیں سمجھا۔ میرا مطلب ہے کہ جب وہ ہماری بہو اپنے شوہر کے گھر میں جائے گی تو لازماً اس کی تابعداری کرے گی لیکن تمہیں پتہ ہے ہمارے علاقے کی لڑکی کا ایک فائدہ جیتو کو یہ ہو گا کہ وہ جب بھی یہاں آئے گا خود اپنے یعنی اپنی بیوی کے گھر میں رہے گا۔ کھیتو بولا اچھا لیکن اس گھر میں کون کس کی تابعداری کرے گا؟مانجھی ہنس کر بولی یہ بھی کوئی پوچھنے کی بات ہے جس کی چھت اس کا حکم۔ مانجھی کے دلائل اس قدر منطقی تھے کہ کھیتو کے لیے انہیں تسلیم کرنے کے علاوہ کوئی چارۂ کار نہیں تھا اس کے باوجود کھیتو کو لگتا تھا کہ یہ سب غلط ہے۔ سراسر غلط لیکن وہ بیچارہ اپنی بیوی اور بیٹے کے آگے بالترتیب مقہور و مجبور تھا۔ مانجھی اور جیتو کے لیے آئندہ کے دو ماہ بڑی مصروفیت کے تھے۔

۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰

 

جیتو پولس کالونی کے بجائے ایک سرکاری ہاسٹل میں رہتا تھا۔ بلاس پور کا یہ ہاسٹل دراصل نئے سرکاری ملازمین کے لیے تھا جہاں لوگ عارضی طور پر آ کر ٹک جایا کرتے تھے اور جب انہیں اپنا سرکاری مکان مل جاتا تھا تو اس میں منتقل ہو جایا کرتے تھے۔ جیتو کو اپنا مکان اس لئے نہیں ملا تھا کہ سرکار سے کوئی شہ بغیر تقاضہ کئے ملتی نہ تھی۔ جیتو نے ویسے بھی کسی مکان میں منتقل ہونے کے بجائے ہاسٹل میں رہنا پسند کیا تھا جس کی کئی وجوہات تھیں۔ ایک توہاسٹل میں صاف صفائی کا سرکاری انتظام تھا۔ کھانے کے لیے ایک میس تھی جس میں بنا بنایا کھانا صبح و شام مل جایا کرتا تھا۔ ہاسٹل میں رہنے والے سارے مقیم جیتو کی طرح اپنے اہلِ خانہ سے الگ تھلگ تنہا رہتے تھے اس لئے دوست و احباب کی کمی نہیں تھی۔ ساتھ ہی ہاسٹل سے متصل ایک سرکاری ورزش گاہ تھی جہاں جیتو اپنا اچھا خاصہ وقت صرف کرتا تھا۔ اس ورزش نے جیتو کی شخصیت میں خاصہ نکھار پیدا کر دیا تھا۔

جیتو کا معمول یہ تھا کہ ہر روز صبح دس کلو میٹر کی دوڑ لگاتا۔ واپس آ کر ناشتہ وغیرہ سے فارغ ہونے کے بعد دفتر پہنچ جاتا۔ شام میں دفتر سے واپس آنے کے بعد کچھ دیر آرام کرتا اور پھر ورزش گاہ کے اندر پہنچ جاتا۔ خوب دل لگا کر کم از کم دو گھنٹے تک مختلف قسم کی ورزش کرتا اور پھر لوٹ آتا۔ جیتو کی یکسوئی اور نظم و ضبط کے سبب ورزش گاہ کا استاد رندھاوا اس سے بہت خوش رہا کرتا تھا اس لئے کہ دوسرے نوجوانوں کی مانند آئے دن ناغہ کرنا وہ نہیں جانتا تھا۔ اس کا عالم یہ تھا کہ اگر جیم نہیں آیا تو اس کا مطلب ہے شہر میں نہیں ہے لیکن اب اس کے معمول میں تبدیلی کا وقت آ گیا تھا۔ جیتو نے سب سے پہلے تو گھر کے لیے درخواست دی جو بڑی آسانی سے منظور ہو گئی اس لئے کہ بلاس پور سنٹرل جیل کی رہائشی کالونی بڑی تھی اور عملہ کم تھا۔ انتظامیہ خود ہی چاہتا تھا کہ خالی مکانوں میں لوگ رہیں اور کرایہ وصول ہو حالانکہ ان وسیع و عریض مکانات کا کرایہ بازار بھاؤ کے مقابلے نہیں کے برابر تھا لیکن چونکہ کرائے اضافہ کا منفی اثر خود فیصلہ کرنے والے افسران پر پڑتا تھا اس لئے جان بوجھ کر اس جانب چشم پوشی کی جاتی تھی ویسے بھی سرکاری آمدنی میں اضافے کی فکر تھی بھی تو کسے تھی ؟

جیتو اپنے نئے مکان کی چابی لے کر بڑے جوش میں گھر آیا۔ اس کا دوست شیلندر بھی جیتو کے ساتھ تھا لیکن جیسے ہی ان لوگوں نے کمرے کا دروازہ کھولا ساری خوشی غارت ہو گئی۔ یہ مکان نہ جانے کب سے بند پڑا ہوا تھا۔ اس کے اندر ایک عجب قسم کی بساند پھیلی ہوئی تھی۔ دیوار کا رنگ جگہ جگہ سے اکھڑا ہوا تھا۔ اندر کے دروازے ٹوٹے ہوئے تھے اور ایک باورچی خانہ نما کمرہ تو ایسے حال میں تھا کہ اس میں کھانا بنا کر کھانے کے بجائے انسان بھوکا رہنا گوارہ کر لے۔ جیتو نے سوال کیا یار شیلندر ہم لوگ کسی غلط مکان میں تو نہیں آ گئے ؟

شیلندر بولا اگر اس مکان کا تالا ہر کنجی سے کھل جاتا ہے تو یہ یقیناً غلط مکان ہے۔ جیتو بولا میں تمہاری بات نہیں سمجھا۔ شیلندر نے پوچھا اس مکان میں غلط کیا ہے ؟ جیتو بولا یار تم مجھے یہ بتا دو کہ اس میں صحیح کیا ہے ؟ کیا اس کھنڈر میں کوئی رہ سکتا ہے۔ شیلندر نے جواب دیا میرے دوست جیتو یہ خالی مکان ہے اور کھنڈر خالی مکان ہی کو کہتے ہیں اس لئے اس میں حیرت کی کیا بات ہے ؟مگر۰۰۰۰۰۰جیتو کی بات کو ٹوک کر شیلندر بولا دیکھو ہر خالی مکان ایسا ہی ہوتا ہے مگر جب انسان اسے آباد کر دے تو اس کا نقشہ بدل جاتا ہے۔ جیتو بولا لیکن اسے آباد کرنے کی خاطر کوئی یہاں آئے بھی تو کیسے ؟ میرا تو خیال ہے کہ جو اسے آباد کرنے کے لیے آئے گا وہ خود برباد ہو جائے گا۔ شیلندر ہنس کر بولا جیتو تم ایسا کرو کہ اس مکان کی چابی مجھے دے دواور ایک ہفتے بعد یہاں آنا اگر اس وقت بھی تمہاری یہی رائے ہوئی تو یہ مکان مجھے سونپ دینا میں کرائے پر چڑھا دوں گا۔ جیتو بولا۰۰۰۰ ڈن۔ یہ اچھی تجویز ہے۔

دو ہفتوں کے بعد جب شیلندر اپنے ساتھ جیتو کو لے کر اس مقام پر گیا تو سارا کچھ بدلا ہوا تھا۔ جیتو کو یک بارگی تومحسوس ہوا کہ وہ کسی اور مکان میں آ گیا۔ جیتو نے پوچھا ہم لوگ راستہ تو نہیں بھٹک گئے۔ شیلندر نے چابی کی جانب اشارہ کر کے کہا اس کا فیصلہ یہ ننھی سے کنجی کرے گی۔ اگر اس سے دروازہ کھل گیا تو سمجھو کہ ۰۰۰۰۰۰۰جیتو بولا جی ہاں جی ہاں میں تمہاری بات سمجھ گیا۔ جب وہ لوگ اندر آئے تو یہاں کا نقشہ بالکل ہی مختلف تھا۔ رنگ و روغن کے علاوہ دیگر سازو سامان سے آراستہ کمرے کو دیکھ کر جیتو حیران رہ گیا۔ وہ بولا کمال ہے تو دوست۔ ایسا بھی ہو سکتا ہے یہ تو میں نے کبھی نہیں سوچا تھا۔ اتنا اچھا فرنیچر، یہ پردے ، یہ قالین اور یہ باورچی خانہ اسے تو دیکھ کر میری بھوک کھل گئی۔ کچھ کھانے کو بلکہ بنا کر کھانے کو جی چاہتا ہے۔ شیلندر بولا دوست اس کے لیے تمہیں میرے گھر آ کر اپنی بھابی نکی کا شکریہ ادا کرنا پڑے گا۔

اوہو تو یہ نکی بھابی کا کمال ہے ؟ وہی تو میں سوچ رہا تھا کہ تم جیسا گھامڑ کندۂ نا تراش یہ سب کیسے کرسکتا ہے ؟ شیلندر بولا یار دنیا میں احسانمندی بھی کوئی چیز ہے ؟ جیتو نے پینترا بدل کر کہا یاراحسان تو غیروں پر ہوتا ہے اپنوں پر تو حق ہوتا ہے۔ شیلندر بولا یہ تو مجھے پتہ تھا لیکن حق کی ادائیگی پر گالیاں سننے ملتی ہیں یہ اب پتہ چلا۔ ویسے تمہارے اس تبصرے پر مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے۔ جیتو نے پوچھا کیوں ؟ اس لئے کہ وہ جیسامیرے بارے میں ہے ویسے ہی تم پر بھی چسپاں ہوتا ہے۔ گھر نہ تو میں بسا سکتا ہوں اور نہ تم ؟ وہ تو گھر والی کا کام ہے۔ وہی اس کو سجا سنوار سکتی ہے۔ جیتو نے تمسخر اڑاتے ہوئے کہا اچھا؟؟؟ جی ہاں شیلندر بولا جب آ جائے گی نا تو تمہیں بھی پتہ چل جائے گا۔ میں بھی کسی زمانے میں تمہاری طرح سوچتا تھا لیکن اب میری رائے بدل گئی اور مجھے یقین ہے کہ جلد ہی تمہاری بھی۰۰۰۰۰جیتو نے بات کاٹ دی سمجھ گیا سمجھ گیا۔ چلو اب تمہارے گھر چلتے ہیں۔ میرے گھر؟ شیلندر نے پوچھا۔ جی ہاں نکی بھابی کا شکریہ جو ادا کرنا ہے۔ شیلندر کو موقع مل گیا وہ بولا یار شکریہ تو غیروں کا ادا کرتے ہیں اپنوں کا تو فرض ہوتا ہے۔

۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰

 

جیتو کا مسئلہ تو اس کے دوست شیلندر اور نکی نے مل کر حل کر دیا لیکن مانجھی کا کوئی مدد گار نہیں تھا۔ جیتو کو اس نے بڑی آسانی سے سمجھا لیا تھا اور کھیتو کو اپنی دھونس دھمکی سے زیر کرنے میں کامیاب ہو گئی تھی مگراس کا اپنا دل تھا کہ مان کر نہیں دیتا تھا۔ وہ اپنے گاوں کی جس لڑکی سے بھی جیتو کا موازنہ کرتی تھی اسے یہ رشتہ نہایت بے جوڑ معلوم ہوتا تھا۔ وہ سوچنے لگی تھی کہ بلاوجہ اس نے یہ مصیبت اپنے گلے باندھ لی۔ اگر وہ اس بکھیڑے سے دور ہی رہتی تو جیتو خود ہی کسی شہری دوشیزہ کو شادی کے لیے منا لیتا۔ باپ بیٹا دونوں خوش ہو جاتے لیکن مانجھی جانتی تھی شہر کی لڑکیاں کس قدر چنڈال ہوتی ہیں۔ وہ نہیں چاہتی تھی کہ اس کے جیتو زندگی اپنی بیوی کے نخرے اٹھا نے کی نذر ہو جائے۔ وہ ساری عمر کولہو کے بیل کی طرح اپنی بیوی کی خدمت میں جتا رہے۔ وہ تو چاہتی تھی کہ جیتو کی شریک حیات اس کے دکھ سکھ کی ساتھی ہو۔ اس کی خدمت کو اپنی سعادت سمجھے اور مانجھی کے خیال میں ایسا صرف قبائلی لڑکی ہی کرسکتی تھی۔

مانجھی کی تلاش کا دائرہ وقت کے ساتھ وسیع ہو گیا تھا۔ اب وہ آس پاس کے گاؤں میں نظر دوڑا رہی تھی۔ اس دوران اس کا بھائی ٹھینگا جو لال ماٹی نام کے گاوں میں رہتا تھا اس سے ملنے کے لیے آیا۔ مانجھی نے اس سے جیتو کا ذکر کیا تو وہ بولا ہمارے گاؤں میں ایک صاحب ہیں منشی کانتا پرشاد تم ایسا کرو کہ اس کی لڑکی انامیکا کو دیکھو ممکن ہے وہ تمہیں پسند آ جائے۔ مانجھی بولی میرے احمق بھائی میں اپنے جیتو کی شادی کسی غیر قبائلی کے ساتھ نہیں کرنا چاہتی یہی تو مسئلہ ہے۔ ٹھینگا بولا مانجھی تم سے کس نے کہا کہ کانتا پرشاد قبائلی نہیں ہے۔ کسی زمانے میں حکومت نے بلاس پور سے اس کا تبادلہ لال ماٹی کچہری میں کیا تھا اور پھر وہ یہاں کیا آیا کہ یہیں کا ہو کر رہ گیا۔ اس نے لال ماٹی ہی میں بیاہ رچایا اور یہیں رچ بس گیا۔ وہ قبائلی کھانے کھاتا ہے ، قبائلی لباس پہنتا ہے اور فراٹے کے ساتھ ہماری زبان اس طرح بولتا ہے کہ ہمیں بھی شرم آتی ہے۔ اچھا اور اس کی بیوی؟ اس کی بیوی لال ماٹی گاوں کے مکھیا کی بیٹی تنکی ہے خالص قبائلی۔ تم سے بھی دو چھٹانک زیادہ۔

مانجھی بولی لیکن یہ نام کانتا پرشاد اور انامیکا۔ یہ کس بات کی غمازی کرتے ہیں۔ ٹھینگا بولا بہن جہاں تک کانتا پرشاد کا تعلق ہے یہ نام تو اس کے باپ شانتا پرشاد نے رکھا تھا۔ کانتا کو اس وقت یہ اختیار تو تھا نہیں کہ اپنا نام کانگا یا چانگا رکھوا لیتا۔ چلو مان لیا مانجھی بولی لیکن انامیکا کا نام تو اسی نے رکھا ہو گا۔ جی نہیں انامیکا کا نام اس کی بیوی تنکی نے رکھا۔ جب شالینی پیدا ہوئی تو اس کی بیوی تنکی نے کانتا پرشاد سے پوچھا کہ قبائلی روایت کے مطابق جب ہمارے گھر میں پہلی بیٹی پیدا ہوتی ہے تو ہم اس کو اس کے باپ کی ماں نام سے پکارتے ہیں اس لئے بتاؤ کہ تمہاری ماں کا کیا نام ہے ؟کانتا بولا تنکی تم میری سورگ باسی ماں کو کیوں بیچ میں لاتی ہو۔ کوئی اچھا سا علاقائی نام تجویز کر دو لیکن تم تو جانتی ہو کہ قبائلی خواتین کس قدر ضدی ہوتی ہیں۔ تنکی نے کانتا کی ایک نہ سنی اور بولی اس لڑکی کا نام تمہاری ماں کے نام ہو گا یا کوئی نام نہیں ہو گا۔ شانتا پرشاد بولا اگر ایسا تو سنو میری ماں کا نام انامیکا تھا جس کے معنیٰ بے نام والی کے ہوتے ہیں۔ تنکی بولی مجھے مطلب سے کوئی غرض نہیں۔ تو بس طے ہو گیا کہ اس کا نام انامیکا ہو گا۔ سچ مچ کتنا اچھا نام ہے میری اچھی بیٹی کی طرح اس کا نام انا میکا بھی کتنا اچھا ہے۔ اور پھر تنکی انامیکا کو پیار کرنے لگی۔

سانولی سلونی انامیکا کو جب مانجھی نے دیکھا تو اسے لگا کہ یہ تو صرف اور صرف اس کے جیتو کے لیے بنی ہے۔ مانجھی نے تنکی اور کانتا کے سامنے جیتو کی تفصیلات رکھیں تو وہ دونوں بھی بہت خوش ہوئے۔ کانتا پرشاد بولا سب کچھ تو ٹھیک ہے مگر میں کوئی فیصلہ کرنے قبل جیتو سے ایک مرتبہ ملنا چاہتا ہوں۔ ٹھینگا بولا کیوں نہیں جب بولو اس کو بلوا لیتے ہیں۔ کانتا بولا نہیں اس سے معاملہ بہت مصنوعی ہو جائے گا۔ میں ایسا کروں گا کہ اس سے بلاس پور میں جا کر ملوں گا۔ ویسے بھی بلاسپور کون دور ہے ؟ لیکن میری ایک شرط ہے۔ مانجھی نے چونک کر پوچھا وہ کیا ؟ جیتو کو میری ملاقات سے قبل اس بات کا پتہ نہیں چلنا چاہئے کہ میں اس سے کیوں مل رہا ہوں ؟ ٹھینگا بولا لیکن اگر ہم نے اسے بتایا نہیں تو وہ آپ سے ملاقات ہی کیوں کر ے گا۔ کانتا پرشاد ہنس کر بولا مجھے اس کے دفتر کا پتہ دے دو اور باقی سب کام آپ لوگ مجھ پر چھوڑ دو۔ میں نے بھی زندگی کچہری میں بتائی ہے میں سب کر لوں گا۔

اس بیچ تنکی چائے پانی لے آئی۔ اس سے فارغ ہو کر کانتا اور ٹھینگا باہر سیر سپاٹے کے لیے نکل گئے اور مانجھی تنکی کے ساتھ گھر میں رہ گئی۔ مانجھی بولی یہ تمہارا آدمی مجھے شکی مزاج کا لگتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ یہ بات نہیں بن سکے گی۔ تنکی بولی نہیں بہن وہ ویسے نہیں ہیں جیسے لگتے ہیں۔ میں انہیں جانتی ہوں زندگی گزر گئی ہے ایسی باتیں سنتے سنتے۔ وہ تو ٹھیک ہے مانجھی بولی لیکن کیا یہ بغیر بتائے ملنے والی بات کچھ عجیب نہیں ہے ؟ ہے لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا سچ تو یہ ہے کہ تم نے ہمارے ایک بہت بڑے تنازعہ کو حل کر دیا ہے۔ اچھا وہ کیا؟ دراصل میں نہیں چاہتی کہ انامیکا کا نکاح کسی قبائلی سے ہو اور وہ اس پسماندہ علاقے میں پڑی رہے لیکن اس کے والد کا اصرار ہے کہ وہ کسی غیر قبائلی نوجوان سے اپنی انی کی شادی نہیں کریں گے۔ مانجھی بولی یہ انی بیچ میں کہاں سے آ گئی؟ ارے وہی انامیکا اتنا بڑا نام لینے کے بجائے ہم لوگ اسے انی کہہ کر پکارتے ہیں۔ اب ایسا ہے کہ جیتو قبائلی بھی ہے اور شہر میں بھی رہتا ہے اس لئے ہم دونوں کی بات رہ جائے گی۔ بشرطیکہ تمہارا جیتو انکار نہ کر دے۔ مانجھی بولی انکار تو تمہاری انی بھی کرسکتی ہے۔ تنکی بولی جی نہیں تم اس کی فکر نہ کرو میری بیٹی اپنے باپ کی مرضی کے خلاف نہیں جا سکتی اور اس کا باپ میری مٹھی میں ہے۔ اگر ایسا ہے تو جیتو بھی انکار نہیں کرے گا اس لئے کہ میں اپنے بیٹے کی پسند اور ناپسند سے خوب واقف ہوں۔

جیتو اور انامیکا کی شادی بڑے دھوم دھام کے ساتھ لال ماٹی میں ہوئی۔ اس نکاح میں قبائلی روایات بھرپور خیال رکھا گیا تھا۔ آکاش آنند کے لیے یہ پہلا موقع تھا جب اس نے قریب سے دیکھا تھا کہ قبائلی شادی کیسے ہوتی ہے ؟تمام رسوم و رواج کے ختم ہو جانے کے بعد جیتو نے سب سے پہلے آکاش کے چرن چھوئے۔ آکاش نے اسے سینے سے لگایا تو وہ زار و قطار رونے لگا۔ آکاش بھی اپنے آپ کو قابو میں نہ رکھ سکا۔ رجنی کی یاد نے دونوں کو تڑپا دیا۔ وہ دونوں سوچ رہے تھے کہ کاش رجنی اس موقع پر موجود ہوتی لیکن کسی نے اپنی زبان سے کچھ نہیں کہا۔ لوگ حیرت سے ان مناظر کو دیکھ رہے تھے۔ انامیکا کے نانا خاصے امیر کبیر آدمی تھے انہوں نے سارے گاوں کو اپنی نواسی کی شادی کا کھانا کھلایا۔ آکاش آنند کا خیال تھا کہ اب جیتو اپنی بیوی کو لے کر بلاس پور جائے گا اور وہ رائے کی جانب نکل جائے گا لیکن ایسا نہیں ہوا۔ مانجھی نے حکم دیا کہ پہلے انی کالا ہانڈی جائے گی وہاں تین دن قیام کرنے کے بعد اسے بلاس پور جانے کی اجازت ملے گی۔

کھیتو نے حسبِ توقع اپنی بیوی کے آگے سرِ تسلیم خم کر دیا اور آکاش آنند سے استدعا کی کہ وہ بھی کالا ہانڈی چلے اور کم از کم ایک دن وہاں قیام کرے۔ آکاش منع نہ کر سکا۔ ایک طویل عرصے کے بعد وہ دوسری مرتبہ کا لا ہانڈی آیا تھا۔ پہلی مرتبہ جب وہ آیا تھا تو رجنی ساتھ تھی۔ اس وقت وہ سوچ رہا تھا کہ اس مقام کا نام کالاہانڈی کیوں ہے ؟ لیکن اب اسے لگ رہا تھا کہ اس کا نام کالاہانڈی ہی ہونا چاہئے۔ اسی کالا ہانڈی نے اس سے اس کی رجنی کو چھین لیا تھا۔ نہ یہاں کے لوگ رائے پور آ کر اس سے ٹکراتے اور نہ ان کے ساتھ رجنی یہاں آتی تو وہ سب نہ ہوتا جو ہوا۔ آکاش سوچ رہا تھا کہ اگر وہ سب نہ ہوتا تو کیا ہوتا۔ اس کے پاس اس سوال کا جواب نہیں تھا۔ اس کے پاس کسی سوال کا جواب نہیں تھا۔ اس کی زندگی ایک بہت بڑا سوالیہ نشان بن کر اس کے سامنے کھڑی تھی۔ وہ سوچ رہا تھا کہ کاش اس سوالات میں سے ایک اژدھا نمودار ہو اور اسے نگل جائے۔

آکاش آنند نے تین دن کالا ہانڈی میں گزارے اور اپنے بیٹے بہو کے ساتھ بلاس پور آ گیا۔ انامیکا نے آکاش آنند کے ساتھ بالکل اپنے باپ کا سا سلوک کیا۔ ایسا ادب و احترام ایسی خدمت کے اس کا دل باغ باغ ہو گیا۔ اس کے دل سے اولاد کی محرومی کا غم کافور ہو گیا۔ ایک ہفتہ بلاس پور میں گزارنے کے بعد جب اس کے جانے والا دن آیا تو جیتو بولا پاپا اب ریٹائرمنٹ لے کر بلاس پور آ جائیے۔ آکاش مسکرا کر بولا بیٹے میں نے اپنی زندگی رائے پور میں گزار دی۔ بڑھاپے میں انسان کا نہ مستقبل ہوتا ہے اور نہ حال ہوتا ہے۔ اس کا سرمایۂ حیات اس کا ماضی ہوتا ہے۔ اب اگر عمر کے اس حصے میں کسی نئے شہر میں جاؤں گا تو میرا ماضی مجھ سے چھن جائے گا۔ اس بیچ دروازہ کھٹکا جیتو نے دیکھا کہ اخبار دروازے پر لگا ہوا ہے۔

جیتو نے اخبار کو دیکھے بغیر اسے آکاش آنند کو تھمایا اور باورچی خانے میں انامیکا کی مدد کے لئے چلا گیا۔ رائے پور سماچار میں ایک طویل عرصے کے بعد رجنی کو تصویر چھپی تھی اور شاہ سرخی تھی نکسلوادیوں کا دانتے واڑہ جیل پر حملہ کر دیا اور اپنے سارے لوگوں کو چھڑا کر ساتھ لے گئے۔ جن لوگوں کو اس حملے کے نتیجے میں رہائی نصیب ہوئی تھی ان میں سب سے اوپر رجنی   آنند کا نام تھا۔ آکاش سوچ رہا تھا یہ کیسی رہائی کہ وہ اپنی رجنی سے نہیں مل سکتا اور اس کی رجنی اس سے نہیں مل سکتی۔ آکاش کو محسوس ہوا کہ رجنی تو رہا ہو گئی لیکن وہ مقید ہو گیا ہے اب وہ اپنی رجنی سے کبھی بھی نہیں مل سکے گا۔ آکاش کو ایسا لگا کہ گویا رجنی رہا نہیں ہوئی بلکہ اس کا اغواء ہو گیا ہے۔ یہ کیا ہوا ہے آکاش نہیں سمجھ پا رہا تھا۔ وہ فیصلہ نہیں کر پا رہا تھا کہ اس خبر پر خوشی منائی جائے یا افسوس کیا جائے۔ عجیب و غریب مخمصے میں گرفتار آکاش خالی خالی نگاہوں سے آسمان کی جانب دیکھ رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ کیا واقعی ماضی ہی اس کا سرمایۂ حیات ہے ؟ اور اگر ہے تو وہ لٹ گیا ہے۔ اس لمحے آکاش کو اپنا دوست لاجپت رائے یاد آیا اور اس نے فیصلہ کر لیا کہ وہ لاجپت رائے کے پاس جینوا چلا جائے گا۔ اپنے لٹے پٹے ماضی سے دور بہت دور۔

وقت کا پہیہ گھومتا رہا۔ جیتو کا تبادلہ ہوتے ہوتے دانتے واڑہ کی بد نامِ زمانہ جیل میں ہو گیا۔ جیتو کی اضافی ذمہ داری سزایافتہ قیدیوں کو پھانسی دینے کی تھی اور اس جیل کے اندر جیتو اپنے ہی قبیلے کے کئی لوگوں کو پھانسی کے پھندے پر لٹکا چکا تھا۔ دیگر کارکردگی کے ساتھ ساتھ اس نازک ذمہ داری کو بخیر و خوبی ادا کرنے کے سبب اسے قومی دن کے موقع پر صدارتی انعام پدم شری سے بھی نوازا جا چکا تھا۔

 

 

 

عالمی اجتماع

 

رجنی نے جیل سے نکلنے کے بعد پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ حکومت نے اسے فرار مجرم قرار دے کر اس کے سر کی قیمت دس لاکھ روپئے طے کر دی۔ لیکن رجنی موت کے ڈر سے بے پرواہ ہو چکی تھی۔ اس نے ایسے ایسے نوجوانوں کو اپنی تحریک کی خاطر جاں نثار کرتے دیکھا تھا کہ جنہوں نے زندگی کوئی بہار نہیں دیکھی تھی۔ ایک نئی صبح کا خواب اپنی آنکھوں میں لے کر وہ میدان عمل میں آئے اور شب خون کی بھینٹ چڑھ گئے۔ رجنی کو ایسا لگتا تھا کہ وہ ان نوخیز انقلابیوں کی مقابلے زندگی سے بہت کچھ حاصل کر چکی ہے اور اب مزید کچھ نہ بھی ملے تو رجنی کو اس کا ذرہ برابر ملال نہیں ہے۔ رجنی نے دانیشوری کے نکسلی گڑھ کو اپنا مسکن بنا لیا تھا۔ رائے پور لوٹنے کا خواب کب کا چکنا چور ہو چکا تھا۔

دانیشوری جنگل کے چپے چپے پر سرخ پرچم لہراتا تھا سرکاری دستوں نے ان بیابانوں کی جانب قدم بڑھانے کی کبھی بھی جرأت نہیں کی تھی اس لئے کے اس علاقے میں داخل ہونا موت کو دعوت دینے کے مترادف تھا۔ رجنی نے اپنے آپ کو تعلیم و تدریس کے لیے وقف کر دیا تھا۔ اب وہ اپنا زیادہ وقت مدرسین کی تیاری میں صرف کرتی تھی۔ وہ ایسے نوجوان کی جانب توجہ دیتی تھی جو پڑھانے لکھانے میں دلچسپی رکھتے تھے۔ رجنی ان کو تربیت دے کر پیدل اساتذہ تیار کر رہی تھی۔ یہ رضاکار بندوق چلانے کی تعلیم حاصل کرنے والے نوجوانوں کو علم کی روشنی سے آراستہ کرتے تھے۔ اس کے علاوہ مطالعہ کا اس کا اپنا شوق تھا۔ وہ کولکتہ سے کتابیں منگواتی تھی اور اب تو وہ لکھنے بھی لگی تھی۔ اس کے مضامین دامنی کے قلمی نام سے بائیں بازو کے بین الاقوامی جرائد میں شائع ہونے لگے تھے۔

رجنی عرف دامنی کو ویگر دانشوروں پر اس لحاظ سے فوقیت حاصل تھی کہ وہ کشمکش میں عملاً شریک تھی۔ اس کی معلومات محض کتابی نہیں تھی۔ وہ زمینی حقائق کا براہِ راست مشاہدہ کر رہی تھی اور ان لوگوں کے رابطے میں تھی جو میدان میں سرگرمِ عمل تھے۔ نکسل تحریک کی مجلسِ اعلیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا تھا کہ دامنی کون ہے ؟ خود حکومت کو پتہ نہیں تھا کہ یہ دامنی کس بلا کا نام ہے۔ اس کے بارے میں کئی بے بنیاد قیاس آرائیاں ذرائع ابلاغ میں گردش کرتی رہتی تھیں۔ نکسلی اس گردو غبار کو دور کرنے کی بے فائدہ کوشش نہیں کرتے تھے اس لئے کہ اس دھند میں رجنی کی ذات پوشیدہ تھی اور وہ لوگ یہی چاہتے تھے۔ اس طرح گویا رجنی کا بیرونی دنیا سے رابطہ تھا باہر کے لوگ اسے جانتے تو تھے مگر پہچانتے نہ تھے۔ اس بیچ کیوبا   کے شہر ہوانا میں ایک بین الاقوامی سوشلسٹ فورم کی جانب سے ایک عالمی کانفرنس کا اعلان ہوا اور اس میں شرکت کی غرض سے رجنی کو دامنی کے نام سے دعوت نامہ موصول ہوا۔

نکسلیوں کی مجلسِ اعلی نے اس پر غور کیا اور فیصلہ کیا کہ اگر رجنی تیار ہو جائے تو وہ اسے ہوانا روانہ کرنے کے انتظامات کریں گے۔ رجنی تو تیار ہو گئی لیکن سب سے پہلا مسئلہ پاسپورٹ کا تھا۔ نکسل تحریک کے کچھ ہمدرد سرکاری افسران مشرقی و جنوبی ہند کے مختلف شہروں میں رہتے تھے جن کا خفیہ رابطہ تحریک کے کارکنان کے توسط سے رہنماؤں تک تھا۔ ان میں سے ایک چنا ریڈی وشاکھاپٹنم میں رہتا تھا وہیں موجود پاسپورٹ آفس میں کام کرتا تھا۔ رجنی کا حلیہ بدل کر اس کی تصویر اس طرح کھنچوائی گئی کہ اگر آکاش بھی اسے دیکھ لیتا تو پہلی نظر میں پہچان نہ سکتا تھا۔ دامنی گوسوامی کے نام سے رجنی کا پاسپورٹ چنا ریڈی نے بنوا دیا۔ دامنی کا ویزہ کیوبا میں موجود ایک سوشلسٹ کارکن کے ذاتی مہمان کے طور پر نکلوایا گیا اور منصوبہ یوں بنا کہ وہ کانفرنس سے ایک ہفتہ قبل ہوانا میں جا کر قیام کرے گی نیز کانفرنس میں شریک ہو کر واپس آ جائے گی۔

رجنی کا سفر بالکل منصوبہ بند طریقے پر ہوا اور وہ بغیر کسی دشواری کے وہ کیوبا کے شہر ہوانا پہنچ گئی۔ کانفرس سے قبل ہی رجنی کی ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ وہ پہلی بار ان چوٹی کے دانشوروں سے ملاقات کر رہی تھی جن سے اس کا صرف قلمی تعارف تھا۔ وہ ان کی تحریروں سے بے حد متاثر تھی لیکن اسے یہ جان کر خوشی ہوئی کہ دامنی کی حیثیت سے وہ خود بھی ان کے لیے کوئی اجنبی نہیں ہے۔ وہ لوگ اس سے نہ صرف واقف ہیں بلکہ اس کی نگارشات کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ رجنی کے لیے تبادلۂ خیال کا یہ نادر موقع تھا اور اس نے اپنے مقالے پر بھی اس گفتگو کی روشنی میں نظرِ ثانی کی تھی۔ مختلف قسم کے تبدیلی و اضافے نے مقالے کی افادیت میں غیر معمولی اضافہ کر دیا تھا۔

اس عالمی اجتماع میں مختلف بلکہ مخالف فکر و نظر کے حاملین کو بھی دعوت دی گئی تھی۔ اقوام متحدہ کے کی مختلف ذیلی تنظیموں کے نمائندے بھی شریک تھے اور ان میں سے ایک لاجپت رائے تھا جو اپنے دوست آکاش آنند کے ساتھ وہاں آیا تھا۔ لاجپت رائے ویسے تو آکاش کا جگری دوست تھا مگر کاغذ پر اس کا اندراج لاجپت رائے کے ذاتی سکریٹری کی حیثیت سے کیا گیا تھا۔ آکاش کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔ اس کا بنیادی مقصد سیرو تفریح تھا۔ آکاش و لاجپت کے خواب و خیال میں بھی یہ بات نہیں تھی کہ اس موقع پر ان کی ملاقات رجنی سے ہو جائے گی۔ رجنی نے اس سفر کے دوران باب کٹ بال بنوا رکھے تھے اور وہ گزشتہ ایک ہفتے سے سے انگریزوں کی مانند فراک پہن رہی تھی۔ کانفرنس کے پہلے دن وہ اسی لباس میں اجتماع گاہ پہنچی لیکن جب اس کی نظر وہاں موجود آکاش پر پڑی تو وہ چونک پڑی۔ اسے کچھ ایسا لگا کہ گویا وہ چوری کرتے ہوئے رنگے ہاتھ پکڑی گئی ہے۔

کانفرنس کو چونکہ سرکاری سرپرستی حاصل تھی اس لئے اس میں خاصی چہل پہل تھی۔ سربراہِ مملکت فیڈل کاسٹرو خود اس کا افتتاح کرنے والے تھے۔ دنیا بھر سے تقریباً ایک ہزار سے زیادہ مندوبین شریک تھے۔ اس کے باوجود رجنی کو یقین تھا کہ لاکھ تبدیلی کے باوجود آکاش اس کو پہلی نظر میں پہچان جائے گا۔ رجنی نے آخری صفوں میں ایک ایسی نشست کا انتخاب کیا جو آکاش کی نگاہوں سے اوجھل تھی۔ رجنی کی اصل مشکل دوسرے دن تھی جب اسے خود اپنا مقالہ پیش کرنا تھا۔ وہ سوچ رہی تھی کہ کل کیا ہو گا؟ وہ اپنے آپ کو آکاش کی نظروں سے کیسے چھپا سکے گی ؟وہ کل کون سا لباس زیب تن کرے ؟ یہ بھی ایک مشکل ترین سوال تھا۔ مجلس اعلیٰ کی خاص ہدایت تھی کہ وہ اپنی شناخت کو چھپانے کی حتی الامکان کوشش کرے۔ بصورتِ دیگر سیاسی پناہ کی درخواست بھی حفظِ ما تقدم کے طور پر تیار کر کے رکھی گئی تھی کہ اگر ہندوستانی خفیہ ایجنسی کے اہلکار اسے گرفتار کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو فیڈل کاسٹرو سے درخواست کر کے کیوبا میں سیاسی پناہ حاصل کرنے کا بندوبست کر دیا جائے۔

رجنی کی قسمت اچھی تھی جو دوسرے دن آکاش نے اجتماع گاہ میں اپنا وقت ضائع کرنے کے بجائے تفریح کرنے کا فیصلہ کیا اور تنہا سیاحت کے لیے نکل گیا۔ لاجپت رائے کے لیے دامنی گوسوامی کا نام تجسس کا سبب تھا اس لئے کہ ہندوستان سے بہت کم لوگ وہاں آئے تھے اور دامنی کے علاوہ باقی سب مشہورو معروف شخصیات تھیں۔ دامنی کے نام کا جب اعلان ہوا تو لاجپت رائے کو اس کے چہرے میں شناسائی کے عناصر نظر آئے اور جیسے ہی اس نے رجنی کی آواز سنی وہ سمجھ گیا کہ یہ رجنی کے علاوہ کوئی اور نہیں ہوسکتی۔ رجنی آنند کا دامنی گوسوامی بن جانا قابلِ فہم تھا۔ اسے آکاش پر غصہ آ رہا تھا۔ اس احمق کو بھی آج ہی تفریح کے لیے جانا تھا۔ لاجپت رائے نے اجلاس کے بعد رجنی سے ملنے کا فیصلہ کیا۔ رجنی کی پیش کش بہت ہی مؤثر تھی۔ جب وہ سولات کے جوابات دینے پر آئی تو سارا مجمع دم بخود رہ گیا۔ اس کی دلیری اور صاف گوئی نے سبھی کا دل جیت لیا تھا۔ دامنی اس کانفرنس کی سب سے زیادہ معروف مقررین میں سے ایک ہو گئی تھی۔

دامنی نے اسٹیج سے لاجپت رائے کو دیکھ لیا تھا اسے خوشی تھی کہ آکاش آڈیٹوریم میں موجود نہیں تھا۔ اس کے لیے اندازہ لگانا مشکل نہیں تھا کہ آکاش کہاں ہو گا ؟ کیا کر رہا ہو گا؟ وہ اس کی رگ رگ سے واقف تھی۔ وہ اس کی شریک حیات جو تھی۔ لیکن پھر رجنی نے سوچا کہ وہ برائے نام ہی آکاش کی شریک حیات تھی ورنہ حقیقت میں عرصۂ دراز سے ان کی حیات کے دھارے ایک دوسرے سے جدا ہو چکے تھے۔ وہ نہ ہی ایک دوسرے کے غم میں شریک تھے اور نہ خوشیوں میں۔ سیکیورٹی کے پیش نظر رجنی نے آکاش سے اپنے سارے رابطے منقطع کر رکھے تھے۔ اسے اپنی جان سے زیادہ اپنی تحریک کا مفاد عزیز تھا اور وہ کسی صورت اس کو نقصان پہچانا نہیں چاہتی تھی لیکن تقدیر کا دھارا انہیں اس طرح ایک موڑ پر لا کر ملا دے گا یہ کسی نے نہیں سوچا تھا۔

اجلاس کے بعد طعام کے وقفے میں رجنی اپنے مداحوں میں گھری رہی۔ وہ لوگ جنہیں وقت کی تنگی کے سبب سوالات پوچھنے کا موقع میسرنہیں آیا تھا وہ باری باری سے اس سے ملتے رہے اور استفسار کرتے رہے۔ لاجپت رائے کے پاس صرف ایک سوال تھا جو وہ تنہائی میں پوچھنا چاہتا تھا اور تنہائی نصیب نہ ہوتی تھی۔ بھارتی خفیہ ایجنسی کے اہلکار سائے کی مانند رجنی کے آس پاس منڈلا رہے تھے۔ وہ دامنی کی حقیقت جاننا چاہتے تھے۔ وقفۂ طعام کے بعدلاجپت رائے رجنی کے پیچھے لگ گیا اور اس کے بغل والی نشست پر بیٹھنے میں کامیاب ہو گئے۔

خفیہ ایجنسی کے اہلکار پچھلی صف میں براجمان تھے۔ رجنی نے لاجپت رائے کو اپنے قریب دیکھا مگر شناسائی کے اظہار سے گریز کیا۔ یہ ایک نہایت مشکل کام تھا۔ اپنے دل پر بڑے جبر کے بعد وہ ایسا کرنے میں کامیاب ہوئی تھی۔ لاجپت رائے نے بھی احتیاط کے طور پر اسے دامنی گوسوامی کے نام سے مخاطب کیا اور مبارک سلامت کے دوران اسے اپنا تعارفی کارڈ تھما دیا جس پر اس کا فون نمبر تھا۔ رجنی نے مسکرا کر شکریہ ادا کیا اور لاجپت کے تمام شکوک و شبہات کا یکسر خاتمہ کر دیا۔ وہ معصوم مسکراہٹ صرف اور صرف رجنی کی ہو سکتی تھی۔ اس کے سوا کسی اور کی نہیں۔ لاجپت رائے سوچ رہا تھا رجنی اور آکاش کس قدر خوش قسمت ہیں۔ بچھڑ کر پھر سے ملنے والے ہیں۔ لاجپت رائے کو نینسی یاد آ گئی۔ وہ بھی تو ایک بار بچھڑ جانے کے بعد اچانک اسی طرح مل گئی تھی لیکن پھر کچھ ایسا ہوا کہ۰۰۰۰۰۔

لاجپت رائے کو یقین تھا کہ شام میں کسی مناسب وقت پر رجنی کا فون ضرور آئے گا وہ اس سے قبل کسی ایسے مقام کا تعین کر لینا چاہتا تھا کہ جہاں رجنی آکاش سے ملاقات کرسکے۔ لاجپت رائے نے ہوانا میں ایک مال کا انتخاب کیا جہاں ملاقات کی جائے اور پھر وہ دونوں کسی اور ہوٹل میں منتقل ہو جائیں۔ لاجپت رائے نے ایک مقامی ہوٹل مونٹا کارلو میں آکاش اور دامنی کے نام سے دو کمرے مختص کروا دیئے۔ لاجپت رائے اپنے طور پر تمام تر احتیاط برت رہا تھا۔ شام میں جب اس کی ملاقات آکاش ہوئی تو اس نے بتایا کہ اس کانفرنس میں اس کے لیے ایک حیران کن خبر ہے۔ جس کے بارے میں وہ اسے شام میں بتلائے گا۔ آکاش بولا یار لاجپت ہم لوگ عمر کے اس حصے سے گزر چکے ہیں جہاں کسی شہ سے ہیجانی کیفیت برپا ہوتی ہو۔ اب تو بھیا صرف پریشانی ہی پریشانی ہوتی ہے۔ لاجپت رائے بولا خیر تم شام تک صبر کرو مجھے یقین ہے کہ تمہاری رائے تبدیل ہو جائے گی۔

رجنی اپنے کمرے میں آ کر بہت دیر تک سوچتی رہی کہ اس کارڈ کا کیا کرے جو اسے لاجپت رائے نے دیا ہے۔ وہ اس تذبذب میں گرفتار تھی کہ اس بابت مجلسِ اعلیٰ سے اجازت طلب کرے یا نہیں۔ اگر معاملہ صرف لاجپت رائے کا ہوتا تو بات اور تھی لیکن وہ خود اپنی آنکھوں سے آکاش کو دیکھ چکی تھی۔ وہ جانتی تھی کہ لاجپت رائے سے رابطے کے بعد آکاش سے ملاقات لازم ہو جائے گی۔ رجنی کو اس بات کا یقین تھا یہ اس کی آکاش سے آخری ملاقات ہو گی۔ وہ لوگ پھر دوبارہ کبھی نہ مل سکیں گے۔ وہ نہیں چاہتی تھی کی مجلس اعلیٰ کے منع کرنے کے باوجود آکاش سے ملے۔ اس لئے کہ وہ آکاش کے ساتھ جا تو نہیں سکتی تھی۔ اس کی آخری پناہ گاہ تو دانیشوری کے جنگل میں مجلس اعلیٰ کا صدر دفتر ہی تھا۔ اس لئے رجنی بلا اجازت آکاش سے ملنے کا ارادہ کیا اور لاجپت رائے کو فون ملانے لگی۔

رجنی نے فون ملا کر کہا لاجپت بھیا میں ۰۰۰۰۰۰۰لاجپت نے جملہ کاٹ دیا اور بولا میں سمجھ گیا۔ میں نے تمہیں اپنے مقالے کی مبارکباد دینے کے لیے فون کیا تھا۔ دامنی تم نے اپنے ملک کا نام روشن کر دیا ہے۔ تم بہت عظیم خاتون ہو دامنی۔ رجنی کو لاجپت رائے سے اس طرح کے تکلف کی امید نہیں تھی۔ وہ سوچ میں پڑ گئی کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ لاجپت رائے اسے پہچان نہ سکا ہو لیکن اس سے پہلے کہ وہ کچھ بولتی لاجپت رائے بولا کیا یہ ممکن ہے کہ آج شام ہم لوگ کافی ہاؤس میں ملیں ؟ رجنی سمجھ گئی یہ سب احتیاط کے پیش نظر ہو رہا ہے۔ وہ بولی کیوں نہیں ؟ ہماری ملاقات کب اور کہاں ہو سکتی ہے ؟ شام سات بجے ڈلما مال کے فوڈ کورٹ میں موجود کاربیکو کافی ہاؤس۔ رجنی بولی ٹھیک ہے اور فون بند ہو گیا۔ خفیہ ایجنسی کے اہلکاروں کو اس فون میں بھیا کے لفظ نے چونکا دیا۔ انہیں اس میں سے شک کی بو آ رہی تھی۔

ڈلما مال مرکزِ شہر میں سب سے مشہور بازار تھا۔ رجنی شام چھے بجے ہی وہاں پہنچ گئی۔ وہ آکاش سے ملنے کے لیے بیقرار تھی۔ اس نے وقت گزاری کے لیے دوکانوں کا رخ کیا اور نہ جانے کیا کیا تحائف خریدتی رہی۔ اسے آکاش کی ایک ایک پسند یاد تھی وہ کیا پہنتا ہے ؟کیا کھاتا ہے ؟ کیا سنتا ہے ؟ اور کیا سوچتا تھا ؟ وہ سب جانتی تھی۔ وہ یہ بھی جانتی تھی کہ آکاش فی الحال کیا سوچ رہا ہو گا؟ رجنی نے آکاش کے لیے بہت کچھ خرید لیا تھا اس کے باوجود سات نہیں بجا تھا۔ وہ پونے سات بجے کاربیکو میں آ کر بیٹھ گئی تھی۔ اس کی نگاہیں اب آکاش کو دیکھنے کے لیے اور دل اس سے ملنے کے لیے بے تاب تھا۔

لاجپت رائے جب ہوٹل سے نکلنے لگا تو آکاش نے پوچھا کیوں اکیلے ؟ اکیلے ؟ کوئی خاص ہے ؟ لاجپت بولا جی ہاں خاص بھی ہے اور اکیلے بھی۔ آکاش نے کہا اور وہ ہیجان کا کیا بنا ؟لاجپت بولا اسے میں نے کل صبح تک کے لیے مؤخر کر دیا ہے۔ جی ہاں آکاش سرد آہ بھر کر بولا اور کل صبح وہ شام کے لیے مؤخر ہو جائے گا اسی طرح صبح اور شام ہوتی رہے گی اور عمر تمام ہو جائے گی۔ لاجپت رائے بولا نہیں میرے دوست ایسا نہیں ہو گا لیکن ایک رات کا انتظار تو تمہیں بہرحال کرنا ہی ہو گا۔ شب بخیر۔ یہ کہہ کر لاجپت رائے چل دیا۔ لاجپت رائے کی اس راز داری نے آکاش کو کسی قدر حیران ضرور کر دیا تھا۔

رجنی نے جب لاجپت رائے کو دور سے تنہا آتے ہوئے دیکھ لیا۔ وہ حیرت زدہ رہ گئی۔ اس کے ذہن میں پھر ایک بار وہی سوال کوند گیا۔ کہیں لاجپت رائے نے اسے پہچاننے میں غلطی تو نہیں کی ؟ لیکن اگر ایسی بات تھی تو اس نے ملاقات کی پیشکش کیوں کی؟ اس لئے کہ لاجپت رائے کے عادات و اطوار سے رجنی اچھی طرح واقف تھی۔ وہ بلا وجہ کسی سے ملنے کا قائل نہیں تھا۔ لاجپت رائے نے رجنی کو دیکھا تو خوش ہو گیا۔ وہ سلام کر کے اس کے سامنے والی کرسی پر بیٹھ گیا۔ رجنی کا ذہن کہیں اور ہی بھٹک رہا تھا اور لاجپت رائے کے لیے یہ حسب توقع تھا۔ اس نے رجنی سے پوچھے بغیر اس کے لیے کاپوچینو اور اپنے لئے امیریکانو کافی منگوائی۔ وہ جانتا تھا کہ رجنی کو کاپوچینو پسند ہے اور اسے یقین تھا کہ رجنی کی پسند ابھی نہیں بدلی۔ لاجپت رائے نے کافی منگوانے کے بعد کہا کیوں دامنی تم کچھ پریشان سی لگتی ہو ؟ رجنی بولی جی ہاں اور مجھے یقین ہے کہ آپ اس کی وجہ جانتے ہیں۔ لاجپت رائے بولا جی ہاں میں جانتا ہوں۔ اس کے بعد لاجپت رائے نے کاغذ کا ایک پرزہ رجنی کی جانب بڑھا کر کہا تم کل صبح دس بجے کے بعد کسی بھی وقت مونٹا کارلو پہنچ جانا۔ وہاں تمہارے لئے کمرہ مختص ہے اور تمہارے بغل والا کمرہ آکاش کا ہے ؟ تمہارے انتظار کی طوالت کے لیے معذرت چاہتا ہوں لیکن احتیاط کے پیش نظر یہ ضروری ہے۔

کافی میز پر سرد ہو رہی تھی۔ رجنی اس احتیاط کے راگ سے بیزار ہو چکی تھی۔ وہ بولی کیا آپ نے ان کو میرے بارے میں بتلایا ؟ لاجپت رائے بولا جی نہیں کل صبح ناشتے کے وقت بتلاؤں گا۔ رجنی نے پوچھا کیوں ؟ کیا احتیاط کے پیشِ نظر؟ جی ہاں ایک اور وجہ بھی ہے۔ وہ کیا ؟ رجنی نے سوال کیا۔ میں چاہتا ہوں کہ وہ رات سکون سے گزارے۔ لیکن میرا کیا؟ رجنی نے پھر سوال کیا۔ تم کو آج بتانا ضروری تھا اس لئے کہ کل میں تمہیں یہ بتاؤں ممکن نہیں ہے۔ وہ میرے ساتھ لیکن تم نہیں۔ تم میں اور اس میں ایک فرق یہ بھی ہے کہ تم اس کی موجودگی سے واقف ہو لیکن وہ نہیں جانتا کہ تم یہاں موجود ہو۔ رجنی بولی تب تو وہی خوش قسمت ہے۔ کافی کے کپ خالی ہو چکے تھے۔ لاجپت رائے اٹھنے لگا تو رجنی نے پوچھا بھیا کیا آپ مجھ سے نہیں پو چھیں گے کہ میں کیسی ہوں ؟۔ جی نہیں۔ رجنی نے پھر پوچھا کیوں ؟ اس لئے کہ میں جانتا ہوں۔ آپ کیا جانتے ہیں ؟ رجنی نے ایک اور سوال کیا۔ یہی کہ تم اچھی ہو۔ رجنی کا آخری سوال تھا اور آپ ؟ میں ؟ میں ویسا ہی ہوں جیسا تھا۔ صدا خزاں رسیدہ درخت جس کے اندر کوئی تبدیلی نہیں آتی۔

لاجپت رائے اٹھ کر جا چکا تھا اور اب رجنی نہ اپنے بارے میں سوچ رہی تھی اور نہ آکاش کے بارے میں۔ وہ لاجپت رائے اور اس کی لاجونتی کے بارے میں سوچ رہی تھی۔ رجنی دیر تک ان دونوں کی بابت سوچتی رہی اس کے رنج و الم میں اضافہ ہوتا رہا اور پھر نہ جانے کب وہ اپنے ہوٹل میں لوٹ آئی۔ اب اسے لاجپت رائے پر غصہ آ رہا تھا۔ وہ نہ جانے کیوں اس قدر احتیاط برت رہا تھا۔ اس کے سامنے رات ایک پہاڑ کی مانند کھڑی تھی۔ جسے رجنی کو عبور کرنا تھا۔ تنہا۔ تنہائی کے اس سفر میں نہ کوئی اس کا غم گسار تھا نہ ہمدم و دمساز ؟ رجنی سوچ رہی تھی وہ آکاش سے دور نہ جانے کتنی راتینںگزار چکی تھی لیکن یہ کیسی رات تھی جو گزرے نہیں گزرتی تھی۔ رات آنکھوں میں کٹی۔ صبح رجنی نے وہ شلوار قمیض زیب تن کیا جس کا رنگ اور بناوٹ دونوں عین آکاش کی پسند کے مطابق تھا اور وہ نو بجے اجتماع گاہ میں جانے کے بجائے سیدھے مونٹے کارلو ہوٹل پہنچ گئی۔

ہوٹل کے استقبالیہ نے ا سے بتایا ابھی کمرہ تیار نہیں ہے اس بیچ وہ طعام گاہ میں ناشتہ کرے جو کمرے کے ساتھ مفت ہے۔ جیسے ہی کمرہ ٹھیک ہو جائے گا اسے مطلع کر دیا جائے گا۔ رجنی کو اپنی غلطی کا احسا س ہوا۔ رجنی نے ریسٹورنٹ میں ایک ایسی کرسی کا انتخاب کیا جس سے صدر دروازہ دکھائی دیتا تھا۔ وہ آکاش کو آتے ہوئے دیکھنا چاہتی تھی۔ دس بج چکے تھے کمرہ تیار ہو چکا تھا لیکن اسے اپنے کمرے کے اندر جانے میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ آکاش کا کہیں اتا پتہ نہیں تھا۔ دس بج کے دس منٹ پر ایک ٹیکسی سے آکاش ہلکے نیلے رنگ کی ٹی شرٹ اور گہرے نیلے رنگ کی جینس پہن کر اترا۔ رجنی سمجھ گئی کہ لاجپت رائے نے آکاش کو اس کے بارے میں نہیں بتلایا اس لئے اگر اسے پتہ ہوتا کہ رجنی سے ملنا ہے تو وہ کبھی بھی یہ لباس زین تن نہیں کرتا۔ یہ رنگ کسی زمانے میں رجنی کو بے حد ناپسند تھا لیکن آج اس کی پسند بدل گئی تھی۔ آج اسے لگا نیلے آکاش کے لیے نیلے رنگ سے بہتر بھلا کون سا رنگ ہوسکتا ہے ؟

رجنی نے دیکھا آکاش استقبالیہ کے رجسٹر پر دستخط کر رہا ہے اور اب اس نے اپنے کمرے کی کنجی لے لی ہے اور وہ لفٹ کی جانب چل پڑا ہے۔ اس کے بعد رجنی استقبالیہ میں آئی اور دستخط کرتے وقت اس نے آکاش کا کمرہ نمبر بھی دیکھ لیا۔ اس کا اپنا کمرہ نمبر ۲۰۲ اور آکاش کا ۲۰۳ تھا۔ رجنی لفٹ کے ذریعہ دوسری منزل پر آئی اس کے قدم کمرہ نمبر ۲۰۳ کی جانب رواں دواں تھے۔ اس نے کمرے کی گھنٹی بجائی تو آکاش نے سوچا ہوٹل کا عملہ ہو گا۔ اس نے بلند آواز میں کہا کون ہے ؟ اندر آ جاؤ دروازہ کھلا ہے۔ رجنی توقع کر رہی تھی کہ آکاش دروازے تک اس کے استقبال کے لیے آئے گا لیکن ایسا نہیں ہوا۔ وہ خود اندر داخل ہوئی اور دروازے کی چٹخنی چڑھا دی۔ دروازہ بند ہو چکا تھا۔

جب آکاش نے رجنی کو دیکھا تو اچھل پڑا۔ اسے اپنی آنکھوں پر اعتبار نہیں ہو رہا تھا۔ اسے لگ رہا تھا کہ گویا وہ کوئی خواب دیکھ رہا ہے بلکہ ایسا خواب بھی وہ عرصہ دراز کے بعد دیکھ رہا تھا جس میں رجنی جلوہ گر تھی لیکن یہ خواب نہیں حقیقت تھا۔ آکاش کی زبان سے بے ساختہ نکلا رجنی اور پھر وہ اپنی جگہ سے اٹھا۔ رجنی آکاش کی بانہوں میں سما گئی۔ وہ دونوں دیر تک ایک دوسرے سے لپٹ کر روتے رہے حالانکہ یہ خوشی کا موقع تھا لیکن آنسو تھے کہ تھمنے کا نام نہیں لیتے تھے۔ اس کے بعد راز و نیاز کا سلسلہ شروع ہوا تو کب شام ہوئی پتہ ہی نہ چلا۔ وہ لوگ اس وقت ہوش میں آئے جب لاجپت رائے نے فون کر کے بتایا ویسے تو یہ کمرے تم دونوں کے لیے کل صبح تک مختص ہیں لیکن احتیاط کا تقاضہ ہے آپ دونوں انہیں کمروں میں آرام کریں جن میں گزشتہ دو دنوں سے رکے ہوئے ہو۔ آکاش نے شکریہ ادا کر کے فون بند کیا اور احتیاط گٹھری کو کھڑکی سے باہر پھینک دیا۔ رجنی کو آکاش سے یہی توقع تھی۔ وہ آکاش کی حرکت پر بے حد نازاں اور فرحاں تھی۔ پھر اس کے بعد راز و نیاز کا دریا پھر ایک بار رواں دواں ہو گیا۔ وہ دونوں اس حقیقت سے غافل تھے کہ کائناتِ ہستی میں نہ ہجر کو ثبات کو ہے اور نہ وصال لازوال ہے۔

دوسرے دن لاجپت رائے کو یقین تھا کہ آکاش ہوٹل میں موجود نہیں ہو گا پھر بھی اس نے استقبالیہ سے اس کی تصدیق کروائی اور پھر یہ کہا کہ دونوں کمروں کا سامان نیچے پہنچا دیا جائے۔ دوپہر دو بجے ان کی فلائیٹ تھی۔ اس کے بعد لاجپت رائے نے آکاش کو فون کیا خیریت دریافت کی اور کہا کہ وہ اپنے سا تھاس کا بھی بیگ لے کر بارہ بجے ہوائی اڈے پر پہنچ جائے گا اس لئے وہ براہِ راست ائیرپورٹ آ جائے۔ آکاش نے شکریہ ادا کیا اور ائیر پورٹ کے لیے روانہ ہو گیا۔ رجنی واپس اپنے ہوٹل آ گئی۔ اس کا جہاز شام میں تھا۔ رجنی خوابوں کے ایک سفر سے حقیقت کی دنیا میں لوٹ رہی تھی۔ وہ سوچ رہی تھی کہ آخر اس دنیا میں خواب اس قدر حسین و رنگین کیوں ہوتے ہیں اور حقائق اسی قدر تلخ و سنگین کیوں ہوتے ہیں ؟ اس سے پہلے کے رجنی ان سوالات کا جواب حاصل کر پاتی کولکتہ ائیر پورٹ پر اترتے ہی رجنی کو گرفتار کیا جا چکا تھا۔

خفیہ ایجنسی کے اہلکاروں نے جب مونٹے کارلو ہوٹل سے آکاش کے ساتھ دامنی کی تصاویر ہندوستان روانہ کیں تو یہ مژدہ فوراً کھل گیا کہ دامنی کوئی اور نہیں مطلوبہ ملزم رجنی ہے جس پر منتخب شدہ آئینی حکومت کے خلاف مسلح جدو جہد میں حصہ لینے اور ملک سے بغاوت کرنے کا الزام تو پہلے ہی سا تھا اس کے علاوہ جعلی پاسپورٹ پر غیر ملکی سفر کرنے اور قوم دشمنوں کے اشارے پر اپنے ملک کو بدنام کرنے کے نئے الزامات بھی جوڑ دئیے گئے۔ مقدمہ رائے پور کی عدالت میں قائم کیا گیا۔ آکاش کو یہ خبر ذرائع ابلاغ سے ملی وہ لا جپت رائے کے ساتھ فوراً واپس آیا۔ جیتو بھی حیران پریشان انامیکا کے ساتھ رائے پور پہنچ گیا۔ لیکن اس بار صورتحال پہلے سے مختلف تھی دوسری ہی پیشی میں رجنی کو پھانسی کی سزا سنا دی گئی۔ نہ آکاش کی وکالت رنگ لائی اور نہ لاجپت رائے کا سیاسی اثرورسوخ کسی کام آیا۔ معاملہ سپریم کورٹ میں پہنچا تو وہاں بھی پہلی ہی پیشی میں سزائے موت کی توثیق ہو گئی۔ ضعیف العمری و بین الاقوامی شہرت کی دہائی دے کر صدر مملکت سے رحم کی درخواست کی گئی۔ لیکن وہ بھی مسترد ہو کر لوٹ آئی۔ ایسا لگتا تھا کہ حکومت فوراً سے پیشتر رجنی کو پھانسی کے تختے پر پہنچا نے پر تلی ہوئی ہے۔ حکمرانوں کو خوف لاحق ہو گیا تھا کہ کہیں رجنی ان کو اس نادر موقع سے محروم کر کے فطری موت کی آغوش میں نہ چلی جائے۔

جیتو کو جب سے رجنی اور آکاش شہر لے کر گئے تھے وہ انہیں ممی اور پپا کہہ کر پکارتا تھا۔ جیتو دن رات اس فکر میں گھلا جا رہا تھا کہ اپنی ممی کو کس طرح بچائے ؟ انامیکا جس نے کبھی رجنی کو دیکھا تک نہیں تھا وہ بھی صبح و شام رجنی کے لیے دعائیں کرتی تھی۔ ایک دن ناغہ کر کے ہر دوسرے دن برت رکھتی تھی۔ اس بیچ وہ نہ جانے کہاں کہاں جا کر منت مان آئی تھی۔ لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ رائے پور کی جیل میں تختۂ دار تو تھا لیکن کوئی پھانسی دینے والا اہلکار موجود نہیں تھا اسلئے کہ عرصۂ دراز سے اس شہر میں کسی کو سزائے موت سنائی نہیں گئی تھی۔ کئی سال قبل جب اس جیل کا جلاد سبکدوش ہوا تو اس کی جگہ کسی اور کا تقرر نہیں کیا گیا تھا۔ ایسے میں جب کسی اور شہر سے آدمی لانے پر غور ہوا تو پتہ نہیں کیوں انتظامیہ کی نظرِ انتخاب دانتے واڑہ جیل میں موجود جیتو پر پڑی۔

جیتو اس سے قبل کئی مرتبہ یہ خدمت بخیر و خوبی انجام دے چکا تھا۔ وہ سرکار کا وفادار تھا اسے صدارتی اعزاز سے بھی نوازہ گیا تھا اس لئے سوچا گیا کہ ذرائع ابلاغ کو اس کے حوالے سے بھی اس خبر میں نمک مرچ لگانے کا خوب موقع ملے گا لیکن جب یہ حکمنامہ جیتو کو ملا تو وہ اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھا اور چیخنے چلانے لگا میں یہ پھانسی نہیں دے سکتا۔ میں خود تختۂ دار پر لٹک جاؤں گا مگر یہ اپنی ماں کو پھانسی نہیں دوں گا۔ جیتو کا انکار اعلان بغاوت کے مترادف تھا مگر اس نے یہ اعلان ذرائع ابلاغ کے سامنے کیا تھا۔ ٹی وی کے پردے پر ساری دنیا نے بشمول رجنی اور آکاش اسے دیکھ رہے تھے۔ کھیتو اور مانجھی اپنے لال پر فخر کر رہے تھے مگر اس مرحلے میں ناول نگار سبو کی یادداشت نے اسے خیرباد کہہ دیا اور وہ بھی جیتو کی مانند چیخنے چلانے لگا۔ میں یہ پھانسی نہیں دے سکتا۔ میں خود تختۂ دار پر لٹک جاؤں گا مگر یہ اپنی ماں کو پھانسی نہیں دوں گا۔ اس نے اپنے آپ کو جیتو سمجھ لیا تھا۔ وہ بھول گیا تھا کہ سبو کون ہے اور جیتو کیا ہے ؟کہانی کا خالق اپنے ہی کردار میں تحلیل ہو چکا تھا۔ ایک فسانہ حقیقت بن چکا تھا۔

 

 

 

 

عکس برعکس

 

سبو پر دو مہلک بیماریوں نے ایک ساتھ ہلہّ بول دیا۔ ایک تو یادداشت ساتھ چھوڑ گئی دوسرے دل کا شدید دورہ پڑا گویا دل اور دماغ بیک وقت عارضی طور پر مفلوج ہو کر رہ گئے۔ سبو کے ہم سایہ اور دوست عرفان صدیقی کا خیال تھا کہ دل کے دورے کا بنیادی سبب یادداشت کا چلے جانا ہے اس لئے وہ سبو کو کولکتہ میں واقع ڈاکٹر رائے چوہدری کے دوا خانے برین گرین میں لے آیا۔ یہاں آنے کے بعد اس کا دل سنبھل گیا اور جسمانی وجودکسی قدر صحتیاب ہو گیا لیکن یادداشت پوری طرح لوٹ کر نہیں آئی۔ یادداشت کی جزوی واپسی نے ایک نئی مصیبت گھڑی کر دی اب وہ اپنی ناول کے حصار میں مقید تھا۔ سبو اپنے آپ کو جیتو سمجھنے لگا تھا۔ اسے اپنے ناول کے تمام واقعات تویادتھے لیکن اپنے ماضی کی کوئی واردات یاد نہیں تھی۔ وہ اپنی کہانی کے سارے کرداروں کو زندہ و تابندہ سمجھنے لگا تھا جبکہ اس کے لیے اس کا اپنا وجود وقت کے گرداب میں دفن ہو چکا تھا۔

سبروتو مکرجی نامی ناول نگار سے ساری دنیا واقف تھی لیکن خودسبو کے لیے وہ ایک نامانوس نام تھا۔ سبو ایک ایسے فریب نظر کا شکار ہو گیا تھا جو طبی دنیا میں شاذو نادر وقوع پذیر ہونے والا منفرد حادثہ تھا۔ ڈاکٹر رائے چودھری جیسا اعصاب کا ماہر اور ان کا مشہور و معروف دست راست ژونگ لی بھی اس کے آگے بے دست و پا تھے۔ اس معمہ کا حل تو درکنار انہیں یہی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ آخر یہ ہو کیا رہا ہے ؟ یہ جیتو اچانک درمیان میں کہاں سے کود گیا اور سبونے اس کے بارے میں اس قدر معلومات کہاں سے جمع کر لیں ؟ اس بابت جب عرفان صدیقی سے جانچ پڑتال کی گئی تو اس نے اپنی مکمل لاعلمی کا اظہار کیا۔ ڈاکٹر رائے چودھری اور ژونگ لی بالآخرسبو کے متعلق اس نتیجے پہنچے کہ وہ الزائمر بیماری کے ایک خاص قسم کا شکار ہو گیا ہے۔ جس کے مریض خال خال پائے جاتے ہیں۔ اس بیماری کا با قاعدہ علاج کم ہی ہوتا تھا۔ عموماً ان کو پاگل قرار دے کر پاگل خانے بھیج دیا جاتا تھا یا ان مریضوں کے بارے میں یہ خیال کر کے کہ ان جن بھوت کا اثر ہے جھاڑ پھونک کی مدد ان کاسے علاج کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے اس طرح کیس میں خاطر خواہ تحقیق کا کام نہیں کیا جا سکا ہے۔ طبی لٹریچر میں اس بابت حوالہ جات سے تقریباً خالی ہے۔

الزائمر بیماری کے حوالے سے ژونگ لی کا شمار دنیا کے سب سے بڑے ماہرین میں ہوتا تھا۔ اس کے دوا خانے میں ہندوستان کے علاوہ بنگلہ دیش، پاکستان، مشرق بعید، چین اور آسٹریلیا تک سے مریض آتے تھے۔ سبو سے قبل ژونگ لی الزائمر کے سیکڑوں عام مریضوں کا علاج کر چکا تھا۔ چونکہ یہ بہت ہی سبک خرام مرض تھا جس میں انسان دھیرے دھیرے کر کے اپنی یادداشت سے ہاتھ دھو بیٹھتا تھا اس لئے کئی اکثر لوگوں کو اس کا احساس ہونے میں کافی وقت لگ جاتا تھا اور وہ بہت تاخیر کے بعد ڈاکٹر سے رجوع کرتے تھے۔ الزائمر ایسا جسمانی مرض نہیں تھا جس میں درد کی شدت ہو یا کوئی اہم عضو کام کرنا بند کر دے بلکہ یہ ایک اعصابی مرض تھا اس لئے بہت سے لوگ اس کو بڑھاپے کے اثرات پر محمول کر کے نظرانداز کر دیتے تھے اور ایسے وقت میں ژونگ کے پاس لائے جاتے جب کہ وہ پوری طرح بے یار و مددگار ہو جاتا۔ لیکن جو افراد بیماری کے ابتدائی مرحلے میں رجوع کر لیا کرتے تھے ایسے لوگوں کا علاج قدرے آسان ہوتا تھا۔ ان میں سے جو لوگ کم عمر ہوتے تھے ان کی یادداشت لوٹ آتی تھی لیکن جو طویل العمر لوگوں کی یادداشت کے جانے کا عمل دھیما ہو جاتا تھا گویا سلسلہ تو نہیں رک پاتا لیکن اس کے مضر اثرات کی شدت کم ہو جاتی۔

اس بیماری کی ایک اور خصوصیت یہ تھی کہ یہ پورے دماغ پریکساں طور پر اثرانداز نہ ہوتی تھی۔ دماغ کا جو حصہ اس مرض سے مفلوج ہوتا اسی سے متعلقہ اعضاء و جوارح متاثر ہوتے۔ کسی کی بینائی پر تو کسی کی قوت گویائی پر اس کا اثر پڑتا تھا۔ کوئی اشیاء کے نام بھول جاتا تو کسی کو واقعات یاد نہیں رہتے۔ کچھ مریض ایسے بھی ہوتے جن کے لیے افراد کی مشکل ہو جاتی وہ اپنے قریبی لوگوں کو بھی پہچاننے میں دشواری محسوس کرتے۔ کسی کسی کی تمام یادداشت بھی چلی جاتی لیکن ایسا بہت کم ہوتا اکثر یادداشت کا کوئی خاص حصہ مفقود ہو جاتا تھا۔

سبروتو مکرجی کے ساتھ اس مرض نے ایک نادر طرز عمل اختیار کیا تھا۔ عموماً جس عمر میں اس بیماری کی علامتیں ظاہر ہوتی ہیں اس سے کئی سال قبل سبو اس کا شکار ہو گیا اور یہ حملہ اس قدر شدید تھا گویا کہ اس کا نروس سسٹم ایک دم سے کریش ہو گیا ہو۔ سبو اپنے بارے میں تو سب کچھ بھول گیا کہ اس کے ذہن کے جس گوشے میں کہانی محفوظ تھی وہ الزائمر کے اثرات سے محفوظ رہ گیا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اب سبو کو اپنی کہانی پھانسی کے علاوہ کوئی حقیقت یاد نہیں تھی۔ اب اسے جیتو تو یاد تھا لیکن سبو یاد نہیں تھا۔ وہ لاجپت رائے کو تو جانتا تھا لیکن عرفان کو نہیں پہچانتا تھا۔ اب اس کے تصور خیال میں وہ رائے پور، کالاہانڈی اور جبلپور تو تھے مگر شیلانگ کا کہیں اتا پتہ نہیں تھا۔ اس کے اپنے خیال میں وہ اب مصنف سبو نہیں بلکہ جیتو جلاد بن گیا تھا۔

ژونگ لی کے سامنے سب سے بڑا چیلنج اس بات کا پتہ لگانا تھا کہ آخر جیتو نام کاآسیب کون ہے ؟ اور اس کا بھوت سبو کے سر پر کیوں سوار ہو گیا۔ اس بابت جب عرفان سے ژونگ تعاون مانگا تو وہ بولا ڈاکٹر صاحب میرے پاس سبو کا ایک کمپیوٹر ہے جس کے اندر سبو کے سارے شناسائی بند ہیں۔ ظفر کی بات سن کر ژونگ لی کو حیرت ہوئی وہ بولا ظفر میرے سنجیدہ سوال کا آپ مذاق اڑا رہے ہیں۔ ظفر بولا جی نہیں جناب میں ایسی مجال کہاں ؟ سبوکے جاننے والوں میں ایک تو اس کا ماضی ہے جس کے بارے میں کافی ساری باتیں میں جانتا ہوں لیکن وہاں جیتو نام کی کوئی شخصیت نہیں پائی جاتی۔ اس کے علاوہ اس کی کہانیوں کے کردار ہیں جن کو سبو زندہ و تابندہ سمجھتا ہے وہ سب میرا مطلب ہے ان کی تفصیلات اس جادو کے بکسے میں بند ہے اور میں ہوں جو آپ سے بات چیت کر رہا ہوں۔ ڈاکٹر رائے چودھری جواس گفتگو کو خاموشی سے سن رہے تھے بیچ میں بول پڑے۔ میں نے سبو کی تمام کتابیں پڑھی ہیں لیکن ان میں بھی جیتو نام کا کوئی کردار میری نظروں سے نہیں گزرا۔ ظفر بولا لیکن ممکن ہے یہ کسی ایسی کتاب کا کردار ہو جو ابھی منظر عام پر نہیں آئی ؟ڈاکٹر چوہدری بولے جی ہاں اس کا قوی امکان ہے۔ ژونگ لی بولا لیکن اگر ایسا ہے تو اس کمپیوٹر کے اندر سے اسے ڈھونڈ کر نکالنا کیونکر ممکن ہوسکے گا؟

ظفر بولا بھئی میں تو کباڑی والا ہوں آپ پڑھے لکھے لوگ ہیں۔ میں نے سنا ہے کہ کمپیوٹر میں کوئی ایسی کھڑکی ہوتی ہے جس پر اگر کچھ لکھ دیا جائے وہ اپنے بطن میں اسے تلاش کر کے باہر اگل دیتی ہے بشرطیکہ وہ چیز اس کے پیٹ میں موجود ہو۔ اگر آپ لوگ چاہیں تو میں اپنے بیٹے انور سے اس بارے میں مدد لے سکتا ہوں۔ ڈاکٹر چوہدری بولے جی نہیں اس کی ضرورت نہیں تم کمپیوٹر ہمارے حوالے کر دو باقی کام ہم لوگ کر دیں گے۔ ژونگ لی بولا لیکن اگر اس کے کمپیوٹر پر قفل لگا ہو تو؟ ظفر بولا جی نہیں ایسا نہیں ہوسکتا۔ کیوں تم نے اسے کھول کر دیکھا ہے ؟ ڈاکٹر چودھری نے پوچھا۔ جی نہیں ڈاکٹر صاحب میں سبو کے مزاج سے واقف ہوں جو شخص اپنے گھر کو تالہ نہیں لگاتا وہ بھلا اپنے کمپیوٹر پر قفل کیونکر چڑھا سکتا ہے ؟

ظفر سے کمپیوٹر لینے کے بعد جب اس میں جیتو کا نام تلاش کیا گیا تو سیکڑوں مرتبہ اس کا اندراج مل گیا لیکن وہ سارے ایک ہی فائل کے اندر تھے۔ یہ دراصل سبو کے نامکمل ناول پھانسی کی فائل تھی جس کا ہیرو جیتو تھا۔ ڈاکٹر چوہدری اور ڈاکٹر ژونگ لی دونوں نے بڑے غور سے اس ناول کا مطالعہ کیا۔ ایک مشکل مرحلہ سر ہو گیا۔ یہی سبو کا وہ ناول تھا جس کی تصنیف کے دوران اس نے اپنی یادداشت گنوا دی تھی۔ ڈاکٹر ژونگ لی اور ڈاکٹر رائے چودھری نے جب اس کا مطالعہ کیا تو ان کے سامنے وہ تمام واقعات و کردار آ گئے جن کا ذکر سبو دن رات کیا کرتا تھا۔ اب ان دونوں ماہرین کے سامنے چیلنج یہ تھا کہ کس طرح سبو کے دماغ سے جیتو کو نکال کر اس کے اپنے وجود کی باز آبادکاری کی جائے۔ یہ کوئی سہل ہدف نہیں تھا بلکہ یہ ایک پیچیدہ گتھی تھی جس کو سلجھاناخاصہ مشکل تھا۔ سبو کو باور کرانا کہ وہ جیتو نہیں سبو ہے جوئے شیر لانے کے مترادف تھا۔ یہ عجیب صورتحال تھی کہ سبو کودوسروں سے واقف کرانا تو آسان تھا خود اس کی اپنی ذات سے روشناس ناممکن ہو گیا تھا۔ سبو کے لیے جیتو حاضر و ناظر تھا اور سبو کا وجود ناپید تھا۔

ژونگ لی نے سبو کے علاج میں اول تو اپنی تمام تر توجہ جیتو کی تردید پر صرف کی لیکن اس کا رد عمل بہت ہی سنگین ہوا۔ ژونگ لی جیتو کے وجود کو جس قدر جھٹلاتا تھا سبو کے اعتمادو یقین میں اضافہ ہوتا چلا جاتا تھا کبھی کبھار تو ژونگ لی کو بھی ایسا لگنے لگتا کہ گویا جیتو ہی حقیقی ہے اور سبو اس کا ہمزاد خیال ہے۔ ژونگ لی کی پے درپے ناکامی نے اس کے اپنے اندر مایوسی اور سبو کے اندر اس کے تئیں بیزاری پیدا کر دی تھی۔ اب سبو اس کو دیکھتے ہی بگڑ جایا کرتا تھا اور اس کی ہر معقول بات کو ماننے سے انکار کر دیتا تھا۔ ژونگ کے مقابلے رائے چودھری اسے بہت اچھے لگتے تھے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ رائے چودھری اس سے کبھی اختلاف نہ کرتے۔ اس کی ہر نامعقول بات کی تائید کر دیا کرتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ وہ آئے دن ژونگ لی کی شکایت رائے چودھری سے کیا کرتا۔ کبھی کبھار جب ژونگ اور سبو کے درمیان ہونے والی کسی بحث کے دوران ڈاکٹر رائے چودھری آ جاتے تو وہ بلا توقف سبو کی حمایت کرتے ان وجوہات کی بناء پر وہ رائے صاحب کو اپنا بہی خواہ اور ژونگ لی کو اپنا دشمن سمجھنے لگا تھا۔ حالانکہ سبو پر کئے جانے والے سارے تجربات رائے اور ژونگ مشترکہ طور پر طے کرتے تھے فرق صرف یہ تھا کہ ژونگ ان تجربات کو عملی جامہ پہناتا تھا۔ گویا ایک زخم لگاتا اور دوسرا مرہم رکھتا تھا اور یہ کام آپسی ملی بھگت سے ہوتا تھا۔

ایک دن رائے چودھری اور ژونگ لی سبو کے مرض پر تبادلۂ خیال کر رہے تھے تو ژونگ بولا مجھے لگتا ہے کہ اب ہمیں اپنی حکمتِ عملی میں تبدیلی کرنی چاہئے ؟ رائے نے پوچھا کیا مطلب؟ مطلب یہ کہ اب ہمیں چاہئے کہ سبو کو یہ باور کرائیں کہ اس کے جیتو ہونے کو ہم نے تسلیم کر لیا ہے اور جیتو کو سبو نامی اجنبی مصنف سے متعارف کرائیں ممکن ہے اس طرح اسے اپنی ذات کا عرفان حاصل ہو جائے۔ رائے صاحب بولے یہ تو کوئی مشکل کام نہیں ہے اس لئے کو وہ مجھ سے ہمیشہ ہی جیتو کی حیثیت سے مخاطب ہوتا ہے اور میں ڈر کے مارے کبھی بھی اس کی تردید نہیں کرتا بلکہ اس کو جیتو کہہ کر ہی خطاب کرتا ہوں۔ اس لئے مجھے ایسا کرنے میں کوئی دقت پیش نہیں آئے گی۔ ژونگ بولا جی ہاں میں بھی یہی سوچ رہا تھا کہ اب سبو کے ساتھ تبادلۂ خیال میرے بجائے تم کرو اور اسے سبو سے متعارف کراؤ۔

رائے چودھری نے کہا اس کام کا دوسرا حصہ مشکل لگتا ہے اسی سے اسی کو ملانا؟ ژونگ بولا جی نہیں اب تم سبو کو سبو سے نہیں بلکہ جیتو کو سبو سے ملاؤ گے۔ تم بھی یہ بات اپنے ذہن سے نکال دو کہ یہ سبو ہے۔ یہ سمجھ لو کہ یہ شخص کالا ہانڈی کا رہنے والا اور دانتے واڑہ جیل میں کام کرنے والا جیتو ہے اور اس کو سبو سے ملانا ضروری ہے۔ رائے چودھری بولا یہ کام آسان نہیں ہے ا بھی تک تو تم اس سے کہتے رہے ہو کہ جیتو کوئی نہیں ہے اس نے اپنا زور تم کو یہ سمجھانے پر صرف کیا کہ وہ جیتو ہے اور سبو کوئی نہیں ہے لیکن جب اس کی بات تسلیم کر لی جائے گی تو وہ آگے بڑھ کر یہ مطالبہ کرے گا کہ میری انامیکا کو میرے پاس لاؤ مجھے آکاش یا کھیتو سے ملاؤ۔ مجھے رائے پور یا دانتے واڑہ لے چلو وغیرہ وغیرہ۔ ایسے میں ہم کیا کریں گے ؟

ژونگ لی بولا یہ مسائل تو ہیں۔ ہم ٹال مٹول کی کوشش کریں گے۔ اس سے کہیں گے کہ بیماری کا علاج چل رہا ہے جب وہ اچھا ہو جائے گا تو اسے رائے پور تو کیا کالاہانڈی اور بلاس پور بھی لے جائیں گے لیکن اس دوران تم اسے جیتو کے بارے میں جستہ جستہ بتلایا کرو۔ اس کی زندگی کا کوئی نہ کوئی گوشہ اس کے سامنے رکھ دیا کرو ممکن ہے اس طرح اس کے دماغ کی گرہ کھل جائے اور اگر وہ بہت اصرار کرتا ہے تو کسی کو آکاش یا رجنی بنا کر اس سے ملوا دیں گے۔ رائے چودھری نے کہا وہ تو ٹھیک ہے لیکن اگر وہ انامیکا سے ملاقات پر اڑ جائے تو معاملہ خاصہ نازک ہو جائے گا۔ ژونگ بولا دیکھو رائے اس طرح کے تجربات میں بہت زیادہ سوچنا بے فائدہ ہے اس لئے کہ ممکن ہے وہ ان تمام چیزوں کے بجائے جن پر ہم نے گفتگو کی ہے کوئی ایسا مطالبہ کر ڈالے جو ہمارے خواب و خیال میں نہ ہو۔ اس لئے بلاوجہ کے اندیشوں میں گرفتار ہونے کے بجائے آگے بڑھا جائے پھر جو ہو گا دیکھا جائے گا۔ اب رائے چودھری اور ژونگ لی کا رول بدل گیا تھا۔ ژونگ پردے کے پیچھے چلا گیا تھا اور رائے کے سامنے سبو کے بجائے جیتو تھا۔

اس دوران ایک دلچسپ پیش رفت یہ ہوئی کہ ٹورنٹویونیورسٹی کے ایک طالبعلم نے سبروتو مکرجی کے فن اور شخصیت پر اپنا ڈاکٹریٹ کا مقالہ اس قدر بہترین اسلوب میں لکھا کہ اسے پینگوین نے کتابی شکل میں شائع کر دیا۔ سبو اپنی بیماری کے سبب عالمی ادب میں ویسے ہی موضوعِ بحث بنا ہوا تھا قارئین کے اندر اس کے حوالے تجسس پایا جاتا تھا وہ اس کے بارے میں بہت کچھ جاننا چاہتے تھے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ بہت جلد اس کتاب کا دوسرا ایڈیشن شائع کرنے کی نوبت آ گئی اور ذرائع ابلاغ میں اس پر بحث و مباحثہ شروع ہو گیا۔ اس کتاب کے بارے میں ڈاکٹر رائے چودھری نے سنا تو ان کی باچھیں کھل گئیں۔ رائے صاحب کی ایک بہت بڑی مشکل اس کتاب نے آسان کر دی تھی۔ انہوں نے اسے پڑھنے کے بعد کتاب سبو کو تھما دی۔ سبو سے سبو کا تعارف تو وہ کرا ہی چکے تھے جب اس نے کتاب کو دیکھا تو اسے پڑھنے کے لیے فوراً راضی ہو گیا۔

ایک ہفتہ بعد ڈاکٹر رائے چودھری کو یوروپ ایک طبی کانفرنس میں شرکت کی غرض سے جانا تھا۔ انہوں نے اس کے ساتھ دو ہفتوں کی سیروتفریح کا پروگرام بھی بنا لیا تھا اس لئے اپنی روانگی سے قبل وہ سبو سے ملنے کے لیے آئے۔ وہ جانے سے قبل سبو سے کتاب کے متعلق تاثرات جاننا چاہتے تھے انہیں اندیشہ تھا کہ نہ جانے اس نے پڑھنا بھی شروع کیا یا نہیں مگر سبو نے انہیں حیرت زدہ کر دیا وہ بولا ڈاکٹر صاحب یہ سبو تو بڑا زبردست مصنف ہے۔ میں تو یہ کتاب پڑھ کر اس کا مداح ہو گیا ہوں اور اس کی تمام کتابیں پڑھنا چاہتا ہوں کیا آپ مجھے وہ سب مہیا کرسکتے ہیں ؟ رائے چودھری بولے جیتو تم تو سبو کے مداحوں میں ابھی شامل ہوئے ہو مگر میں تو برسوں سے اس کا پرستار ہوں۔ اس کی کوئی کتاب ایسی نہیں جو میرے ذاتی کتب خانے میں موجود نہ ہو۔

سبو نے پوچھا اچھا تو آپ کا کتب خانہ بھی ہے ؟ آپ نے مجھ سے اس کا ذکر کبھی نہیں کیا۔ رائے صاحب بولے جی ہاں جیتو۔ مجھے اپنی غلطی کا احساس ابھی ہوا ہے۔ مجھے کیا پتہ تھا کہ تم جیسا۰۰۰۰۰رائے صاحب رک گئے تو جیتو نے جملہ پورا کیا جلاد آدمی بھی کتابوں میں دلچسپی رکھ سکتا ہے۔ رائے چودھری کے لیے اس جملے کی تائید و تردید دونوں مشکل تھی اس لئے وہ بولے چلو میں تمہیں اپنی لائبریری دکھلا دوں۔ ڈاکٹر رائے چودھری کا کتب خانہ ان کے ذوقِ شدید کا غماز تھا۔ چاروں دیواریں اوپر سے نیچے تک کتابوں سے اٹی پڑی تھیں۔ کتابیں مختلف زبانوں میں تھیں مثلاً بنگلہ، ہندی، اردو اور انگریزی۔ اس کے علاوہ ژونگ کی اپنی پسند بھی وہاں موجود تھی جو کورین، چینی اور جاپانی زبان کی کتابوں پر مشتمل تھی۔ اس لائبریری میں ایک گوشہ سبو کے لیے مختص تھا جس میں اس کی تمام کتب اور کئی ایک کے مختلف زبانوں میں تراجم موجود تھے۔ رائے صاحب کا معاملہ یہ تھا کہ جب بھی وہ سبو کی کوئی نئی کتاب یا ترجمہ دیکھتے تو اپنے آپ کواسے خریدنے سے روک نہیں پاتے تھے۔

رائے چودھری نے کہا جیتو یہ تمام کتابیں سبروتو مکرجی کی ہیں۔ اب تم جس کو چاہو پڑھ سکتے ہو جب چاہو یہاں آسکتے ہو لیکن صرف ایک شرط ہے کہ اگلی کتاب کو لے جانے سے قبل پہلے والی کو اپنی جگہ لا کر رکھ دیا کرنا۔ سبو نے کہا جی ہاں رائے صاحب آپ کا بہت بہت شکریہ آپ نے مجھ کو ایک بہت بڑے خزانے کی کنجی عطا کر دی ہے اور میں اس کے لیے آپ کا ممنون و شکر گزار ہوں۔ رائے صاحب بولے اب ہماری ملاقات بیس دن بعد ہو گی۔ میں ان کتابوں کے ساتھ تمہیں چھوڑے جا رہا ہوں اور میں نے کہیں پڑھا تھا کہ کتابوں سے اچھا کوئی دوست نہیں ہوتا۔ سبو بولا جی نہیں جناب آپ نے غلط پڑھا۔ وہ عظیم ہستی جو اتنے سارے اچھے دوستوں سے روشناس کرا دے وہ ان سے بہتر ساتھی ہے۔ رائے چودھری اجازت لے کر نکل گیا اور سبو اپنی ہی کتابوں کے سمندر میں ایک اجنبی کی حیثیت سے غوطہ زن ہو گیا۔

ڈاکٹر رائے چودھری سفر کے دوران سبو کے بارے میں سوچتے رہے۔ ایک دن ڈاکٹر رائے چودھری نے سفر کے دوران ژونگ لی سے پوچھا یار ممکن ہے ہماری واپسی تک سبو اپنی ساری کتابوں کا مطالعہ کر چکا ہو لیکن اس کی ایک کتاب ایسی بھی ہے جو اب چھپی نہیں ہے۔ جی ہاں میں جانتا ہوں ژونگ لی بولا تم اسی بے نام کتاب کا ذکر کر رہے ہو جس کی تصنیف کے دوران وہ بیچارہ اپنی یادداشت گنوا بیٹھا اور اپنے ایک کردار میں ڈھل گیا۔ رائے چودھری نے کہا میرے خیال میں اس کا استعمال سبو کا علاج کرسکتا ہے لیکن سوال یہ ہے اس کتاب کو اسے کیسے پڑھوایا جائے ؟ ژونگ بولا میرا خیال ہے اس کے لیے ہمیں ایک جھوٹ گھڑنا پڑے گا۔ اچھا وہ کیا؟ ہم اس سے کہیں گے کہ دورانِ سفر ہماری ملاقات سبو سے ہو گئی اور ہم نے اس کو تمہاری آپ بیتی سنا دی۔ سبو کو وہ اس قدر پسندآئی کہ اس نے ناول لکھ مارا۔ تو کیا پوری کتاب اس کے حوالے کر دی جائے ؟ ژونگ بولا اس بابت میں تمہیں سوچ کر بتلاؤں گا میرا خیال ہے اسے پھر ایک بار دیکھ لینا بہتر ہے۔ ژونگ لی نے کتاب کو دیکھنے کے بعد فیصلہ کیا کہ رجنی کو سزا سنائے جانے تک کی کہانی سبو کے حوالے کی جائے۔

سفر سے واپسی کے بعد جب رائے چودھری نے سبو کو یہ بتلایا کہ جیتو دورانِ سفر ہماری ملاقات سبو سے ہو گئی اور اس نے تمہاری آپ بیتی تصنیف کر دی تو جیتو نے اسے مذاق سمجھا لیکن جب رائے چودھری نے ٹائپ شدہ مسودہ اس کے حوالے کیا تو وہ دیکھتا رہ گیا۔ اس کے لیے یہ سب ناقابلِ یقین تھا لیکن یقین کرنے کے سوا کوئی چارۂ کار نہیں تھا۔ جیتو اپنی دانست میں یہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ کوئی اس کے حالاتِ زندگی پر بھی کتاب لکھ سکتا ہے ؟جیتو نے ایک نشست میں پوری کتاب ختم کر دی اور رائے صاحب کے پاس آ کر بولا ڈاکٹر صاحب یہ کتاب ادھوری ہے۔ کیا اس کے آگے سبو نے کچھ نہیں لکھا ؟ رائے صاحب بولے لکھا تو تھا لیکن چونکہ وہ حقیقت نہیں بلکہ خیالی باتیں ہیں اس لئے میں نے تمہیں نہیں دیں۔

سبو بولا آپ نے ایسا کیوں کیا؟ آپ نے مجھ سے وہ کیوں چھپایا؟ رائے چودھری بولے اس لئے کہ مجھے ڈر تھا کہ کہیں اس سے تمہاری دل آزاری نہ ہو؟ دل آزاری کیسی دل آزاری مجھے وہ دیجئے میں میرے اپنے متعلق ایک مصنف کا تصورِ خیال پڑھنا چاہتا ہوں آپ برائے مہربانی مجھے وہ دیجئے ڈاکٹر صاحب اس سے میری دل نہیں ٹوٹے گا بلکہ اگر آپ نے مجھ کو اس سے محروم رکھا تو میں ٹوٹ جاؤں گا۔ ڈاکٹر رائے چودھری نے ڈرتے ڈرتے میز کی دراز سے بقیہ صفحات بھی نکال کر سبو کو پکڑا دئیے۔ یہ صفحات سبو نے نہیں بلکہ ڈاکٹر رائے چودھری نے ژونگ لی کے مشورے سے لکھے تھے۔ ان کا خلاصہ یہ تھا کہ پھانسی کی سزا چونکہ صدر مملکت کے حکم سے ہوتی ہے اس لئے کسی سرکاری ملازم کا اس پر عمل درآمد سے انکار قوم سے غداری کے مترادف ہے اور اس بغاوت کی سزا بھی پھانسی ہے اس لئے عدالت جیتو کو بھی پھانسی کی سزا سنا دیتی ہے۔

جیتو کو پھانسی سے قبل جب اس کی آخری خواہش سے متعلق پوچھا جاتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ وہ مرنے سے قبل ایک بار اپنے چہیتے مصنف سبروتو مکرجی عرف سبوسے ملاقات کرنا چاہتا ہے۔ عدالت اس کی درخواست کو قبول کر لیتی ہے اور انتظامیہ کو حکم دیتی ہے کہ ایک مہینے اندر جیتو کی اس خواہش کو پورا کیا جائے اور جس دن جیتو کی سبو سے ملاقات ہو اس کے دوسرے دن اسے پھانسی کے پھندے پر لٹکا دیا جائے۔ یعنی اپنی اس خواہش کے بعد وہ صبح کا سورج نہ دیکھے۔ سبو نے یہ پڑھا تو اسے احساس ہوا کہ آج تک سبو سے ملنے کی خواہش اس کے اندر کیوں نہیں پیدا ہوئی ؟ اسے مرنے سے قبل کم از کم ایک بار سبو سے ضرور ملنا چاہئے۔

سبو ڈاکٹر رائے چودھری کے پاس آ کر بولا ڈاکٹر صاحب اس ناول کا انجام خیالی نہیں ہے یقیناً مجھے بھی پھانسی ہو کر رہے گی لیکن ممکن ہے عدالت میری آخری خواہش نہ دریافت کرے یا اسے پورا کرنے کا حکم نہ دے اس لئے آپ میری اس خواہش کو پورا کروا دیجئے۔ آپ تو سبو سے مل ہی چکے ہیں۔ آپ مجھے بھی اس سے ملوا دیجئے ایک بار صرف ایک بار میں مرنے سے پہلے اس شخص سے ملنا چاہتا ہوں جس نے مجھے اپنی کتاب کے ذریعہ امر کر دیا ہے۔ اب اگر میں مر بھی جاؤں تو اس کتاب میں زندہ رہوں گا جب تک یہ کتاب رہے گی میں رہوں گا۔ میں سبو سے ملنا چاہتا ہوں ڈاکٹر صاحب صرف ایک بار مرنے سے پہلے ایک بار۔ ڈاکٹر صاحب نے اس سے کہا جیتو تم نہیں مرو گے۔ تمہیں پھانسی نہیں ہو گی۔ یہ خواب و خیال باتیں ہیں۔ اس لئے یہ خیال تم اپنے دل سے نکال دو۔

سبو بولا ڈاکٹر صاحب اس بحث سے قطع نظر کہ میرا انجام کیا ہو گا آپ مجھے یہ بتائیے کہ آپ مجھے سبو سے ملوا سکتے ہیں یا نہیں ؟ ڈاکٹر رائے چودھری سبو کے آگے بے بس ہو گئے اور انہوں نے سبو کو سبو سے ملانے کا وعدہ کر دیا۔ انہوں نے کہا جی ہاں میں پوری کوشش کروں گا کہ تمہاری سبو سے ملاقات ہو جائے لیکن میں نہیں جانتا کہ وہ ابھی یوروپ ہی میں ہے یا واپس آ گیا۔ میں اس سے وقت طے کر کے تمہیں بتلاتا ہوں اور پھر ہم لوگ اس سے ملاقات کریں گے لیکن اس میں کتنا وقت لگے گا یہ میں نہیں کہہ سکتا۔ سبو بولا میں انتظار کروں گا لیکن آپ کوشش کریں۔ رائے صاحب نے اس سے وعدہ کیا کہ وہ جلد از جلد اس ذمہ داری سے فارغ ہونے کی سعی کریں گے۔

ڈاکٹر چودھری سبو کے پاس سے اٹھ کر سیدھے ژونگ لی کے پاس آئے اور اس کے سامنے ساری بپتا بیان کر دی۔ یہ خاصہ پیچیدہ معاملہ ہے ژونگ لی بولا سبو اگر اپنے سوا کسی بھی کردار مثلاً رجنی، آکاش، کھیتو، مانجھی بلکہ انامیکا سے بھی سے ملاقات پر اصرار کرتا تو کسی اجنبی کو اس کردار کے بھیس میں ڈھال کرسبو سے ملوا دیا جاتا لیکن اب اسی کو اس سے کیسے ملایا جائے ؟ ڈاکٹر رائے چودھری بولے مجھے لگتا ہے تم نے مسئلہ بیان کرتے ہوئے نادانستہ طور پر حل بھی بتا دیا۔ ژونگ لی بولا میں سمجھا نہیں ! رائے صاحب بولے تم نے ابھی کہا کہ کسی بھی اداکار کو آکاش یا کھیتو بنا کر سبو سے ملوایا جا سکتا ہے اسی طرح کسی اور کو سبو بنا کر کیوں نہ اس سبو سے ملوا دیا جائے جو اپنے آپ کو جیتو سمجھتا ہے ؟

ژونگ لی بولا جی ہاں یہ اچھی ترکیب ہے اور فی الحال ہمارے پاس اس کے سوا کوئی چارۂ کار بھی نہیں ہے۔ ڈاکٹر رائے چودھری بولے اچھا دوست اب یہ بتاؤ وہ کون ہوسکتا ہے جس کی خدمات اس کام کے لیے حاصل کی جائیں ؟ ژونگ نے کچھ دیر سوچ کر جواب دیا میرے خیال میں اس کام کے لیے عرفان سب سے زیادہ مناسب ہے۔ وہ سبو کے عادات و اطوار سے اچھی طرح واقف ہے اور چونکہ سبو کا ہمدرد و غم گسار ہے فوراً اس کام کے لیے برضا و رغبت تیار ہو جائے گا۔

عرفان سے سبو کی ملاقات کی تیاریاں مکمل ہو گئیں۔ سبو کو ڈاکٹر رائے چودھری اپنے ساتھ شیلانگ میں واقع اس کے مکان میں لے گئے۔ ڈاکٹر ژونگ لی دو دن قبل وہاں پہنچ چکا تھا۔ اس کی عرفان سے تفصیلی گفتگو ہوئی تھی۔ وہ اپنے اس تجربے سے بہت پر امید تھا۔ جس کمرے میں عرفان اور سبو کی ملاقات جیتو اور سبو کی حیثیت سے ہونی تھی اور جس کمرے میں سبو کو آرام کرنا تھا دونوں میں کئی خفیہ مائک اور کیمرے نصب کر دئیے گئے تھے۔ جن کا تعلق دوسرے کمرے میں لگے کمپیوٹر سے تھا۔ ژونگ لی وہاں بیٹھ کر ان کمروں کی ہر نقل و حرکت پر نظر رکھ سکتا تھا تاکہ وہ سبو کی جیتو کی حیثیت سے ملاقات کے دوران اس کے چہرے مہرے کی تاثرات کو دیکھ سکے۔ ژونگ لی ان مشاہدات کی روشنی میں مستقبل میں علاج کی حکمتِ عملی مرتب کرنا چاہتا تھا۔ جیتو اور رائے چودھری منصوبے کے مطابق رات گئے سبو کی کوٹھی میں پہنچے جہاں ایک چوکیدار نے انہیں بتایا کہ صاحب سوچکے ہیں۔ آپ دونوں کی رہائش کا انتظام بالائی منزل پر ہے۔ اب آپ لو گ آرام فرمائیں صبح نو بجے کے بعد جب چاہیں صاحب سے دیوان خانے میں ملاقات کر لیں۔ چوکیدار کے لیے سبو پوری طرح اجنبی بنا ہوا تھا اس نے ذرہ برابر شناسائی کا اظہار نہیں کیا تھا۔

رات دیر گئے تک سبو بنام جیتو اپنی آرام گاہ میں سبو کے بارے سوچتا رہا اور نہ جانے کب اس کی آنکھ لگ گئی۔ صبح اس کی آنکھ کھلی تو وہ اپنی خواب گاہ میں تھا۔ صبح کے نو بج چکے تھے رات کی بات اس کے ذہن سے محو ہو چکی تھی۔ ڈاکٹر رائے چودھری نے سبو کے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے کہا۔ جیتو ۰۰۰۰ جیتو تم کہاں ہو۔ سبو یہ سن کر ٹس سے مس نہ ہوا۔ رائے چودھری نے دوبارہ آواز دی تو سبو بولا۔ جناب عالی آپ کون ہیں اور کس جیتو کو پکار کر رہے ہیں ؟ ڈاکٹر رائے چودھری نے قریب آ کر پوچھا کیا تمہیں سبو میرا مطلب سبروتو سے نہیں ملنا؟ سبو بولا آپ جو بھی ہیں بہت اچھا مذاق کر لیتے ہیں۔ آپ مجھ کو مجھ ہی سے ملانا چاہتے ہیں۔ اچھا تو تم کسی جیتو کو نہیں جانتے رائے چودھری نے پینترا بدل کر پوچھا۔ سبونے نفی میں سر ہلایا۔

رائے چودھری اس کمرے میں لوٹ آئے جہاں ژونگ لی اور عرفان براجمان تھے۔ انہوں نے کہا یہ سب کیا ہو رہا ہے ؟ ژونگ لی بولا میں اسے سمجھنے سے قاصر ہوں۔ عرفان بولا اس میں سمجھنے کی کیا بات ہے۔ سبو کی یادداشت لوٹ آئی ہے۔ اس کا دماغ جس نے کام کرنا بند کر دیا تھا اب سرگرم عمل ہو گیا ہے۔ رائے نے کہا لیکن اب وہ جیتو کو نہیں جانتا؟ ژونگ بولا عرفان صحیح کہتا ہے اس کی پرانی یادداشت لوٹ آئی مگر تازہ یادداشت چلی گئی۔ اس مرض اب اس کے ساتھ یہ سب اس وقت تک ہوتا رہے گا جب تک کہ وہ پوری طرح صحتیاب نہیں ہو جاتا۔ اس موقع پر عرفان نے ایک عجیب سوال کیا اچھا تو اب جیتو کا کیا ہو گا؟ ژونگ لی بولا وہی ہو گا جو منظور خدا ہو گا۔ وہ تو اچھا ہوا کہ یہ جیتو کو بھول گیا ورنہ اگرسبو جیتو سے ملنے پر مصر ہو جاتا تو تمہیں سبو کے بجائے جیتو بننا پڑتا۔

ڈاکٹر رائے چودھری بھی اب ساری بات سمجھ گئے تھے وہ بولے عرفان اب ہم ایسا کرتے ہیں کہ جیتو کی کہانی تمہارے نام سے شائع کروا دیتے ہیں۔ سبو کو اس کا پتہ ہی نہ چلے گا کہ اس کی تصنیف تھی۔ ژونگ لی بولا اور ہاں اس کا ایک فائدہ یہ بھی ہو گا کہ اگر کبھی عرفان کو جیتو بننا پڑ جائے تو کوئی مشکل نہیں ہو گی۔ اس بات پر تینوں کا زور دار قہقہہ بلند ہوا۔ ژونگ لی نے عرفان سے کہا ابھی اس تجربے کی حتمی تصدیق باقی ہے۔ تم ایسا کرو کہ جا کر سبو سے ملو دیکھیں وہ کیا بولتا ہے ؟ عرفان سبو کے کمرے میں داخل ہوا اور سلام کیا۔ سبو بڑے تپاک سے اٹھا اور عرفان کو گلے لگا کر پوچھا اوہو میرے دوست عرفان تم اتنے عرصہ کہاں تھے ؟مجھے چھوڑ کر کہاں چلے گئے تھے تم؟عرفان کو کوئی جواب سجھائی نہیں دیا وہ بولا میں جیتو کے ساتھ تھا۔ سبو نے کہا یہ جیتو کون ہے ؟ ابھی ایک شخص اس کو پکارتے ہوئے یہاں آیا تھا اور تم نے بھی اس کا ذکر چھیڑ دیا آخر یہ کیا ماجرا ہے ؟

عرفان مسکرا کر بولا جیتو، جیتو جلاد کچھ نہیں ہے بس ایک چھلاوہ ہے میرے دوست۔ خیر کبھی فرصت میں اس کے بارے میں بات کریں گے۔ سبو بولا جی ہاں یہی مناسب ہے۔ پہلے تو تم یہ بتاؤ بھابی میرا مطلب بھابیاں کیسی ہیں ؟اور وہ تمہارا ننھا شیطان میرا مطلب ہے رضوان کیسا ہے ؟ دوسرے کمرے میں ژونگ لی نے رائے چودھری نے کہا تجربے کی تصدیق ہو گئی اب اس سے پہلے کہ سبو پولس کو بلوا ہمیں اس کے حوالے کرے یہاں سے چپ چاپ نکل چلنے میں بھلائی ہے اور وہ دونوں عقب کے دروازے سے عرفان کی کوٹھی میں آ گئے۔

٭٭٭

 

 

 

 

عبرت و نصیحت

 

اور دیکھو:

اللہ نے تم کو پیدا کیا، پھر وہ تم کو موت دیتا ہے ،

اور تم میں سے کوئی بد ترین عمر کو پہنچا دیا جاتا ہے

تاکہ سب کچھ جاننے کے بعد پھر کچھ نہ جانے

حق یہ ہے کہ

اللہ ہی علم میں بھی کامل ہے اور قدرت میں بھی

(القرآن)

 

پانچ چیزوں سے پہلے پانچ چیزوں کو غنیمت جانو :

بڑھاپے سے پہلے جوانی کو،

بیماری سے پہلے صحت کو،

فقر سے پہلے خوش حالی کو،

مصروفیت سے پہلے فراغت کو

اور

موت سے پہلے زندگی کو۔

(الحدیث)

٭٭٭

تشکر: مصنف جن سے اس کی فائل فراہم ہوئی۔

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید