FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

وہم زاد: جیتو جلاد

 

(ناول)
حصہ اول

 

 

               ڈاکٹر سلیم خان

 

 

 

 

 

آخر کیا وجہ ہے کہ تم اللہ کی راہ میں اُن بے بس مردوں ، عورتوں اور بچوں کی خاطر نہ لڑو جو کمزور پا کر دبا لیے گئے ہیں اور فریاد کر رہے ہیں کہ خدایا ہم کو اس بستی سے نکال جس کے باشندے ظالم ہیں اور اپنی طرف سے ہمارا کوئی حامی و مدد گار پیدا کر دے

(القرآن)

 

 

 

 

 

خواب میں جو کچھ دیکھ رہا ہوں اس کو دکھانا مشکل ہے

آئینے میں پھول کھلا ہے ، ہاتھ لگانا   مشکل ہے

(قمر جمیل)

 

 

 

انتساب

 

معروف افسانہ نگار

جناب انور قمر

کے نام

جن کی شفقت کا سایۂ عافیت

میرے ادبی سفر کا سائبان ہے

 

 

 

 

 

 

 

 

 

دانا دماغ

 

وہ مر نہیں سکتی ! وہ نہیں مر سکتی !! وہ ہرگز نہیں مر سکتی!!!میں اسے مار نہیں سکتا! میں اسے نہیں ماروں گا!! میں اسے کبھی نہیں ماروں گا!!! میں مر بھی جاؤں تو اسے نہیں ماروں گا ! میں مر جاؤں گا مگر اسے نہیں ماروں گا !! میں اسے ہر گز نہیں ماروں گا !!!

آئی سی یو یعنی انتہائی نگہداشت کے کمرے میں سبروتو مکرجی کے لب بار بار یہی الفاظ مختلف ترتیب کے ساتھ دوہرائے جا رہے تھے۔ دوا خانے کا سارا عملہ حیرت سے اس منظر کو دیکھ رہا تھا۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ سبروتو عرف سبو کے جسم میں سارے اعضاء نے کام کرنا بند کر دیا ہے۔ پھیپھڑوں میں سانس وینٹی لیٹر کی مدد سے آ جا رہی تھی۔ دل ڈوب چکا تھا۔ رگوں میں خون مشین کی مدد سے ٹھہر ٹھہر کر بہہ رہا تھا۔ دماغ کی پہلے نشوونما بند ہوئی۔ پھر اس نے سوچنے سمجھنے سے انکار کیا اور آگے چل کر یادداشت جاتی رہی۔ جس کے سبب وہ ایک ایک کر کے سارے لوگوں کو بھولتا چلا گیا یہاں تک کہ اسے یہ بھی یاد نہیں رہا کہ وہ خود کون ہے ؟ اب صرف آنکھیں زندہ رہ گئی تھیں جو خلاؤں میں نہ جانے کیا دیکھتی رہتی تھیں ؟ اور لب کبھی کبھار کچھ بے ہنگم سے الفاظ ہوا میں اچھال دیا کرتے تھے۔ ڈاکٹر رائے چوہدری اور عرفان صدیقی کے علاوہ سارے لوگ سبو کی موت کے منتظر تھے لیکن ان دونوں حضرات کو یقین تھا سبو نہیں مرے گا۔ ان کے خیال میں اگرسبوکو مرنا ہوتا تو کبھی کا مر چکا ہوتا۔ وہ شیلانگ سے اڑ کر کولکتہ کے برین گرین عرف دماغ دانہ شفا خانہ میں نہیں آتا۔

ڈاکٹر رائے چوہدری ملک کے ویسے ہی جانے مانے ماہر اعصاب تھے جیسا کہ مشہور و معروف ناول نگار سبو تھا لیکن ان دونوں میں ایک فرق یہ تھا کہ ڈاکٹر رائے چوہدری سبو کے دلدادہ تھے اور سبو انہیں جانتا تک نہیں تھا۔ سبو کی جس وقت ان سے ملاقات ہوئی تھی وہ کسی کو نہیں جانتا تھا۔ ویسے سبو کے چاہنے والوں میں رائے چوہدری کی مانند لاکھوں لوگ تھے جن سے اس کی کبھی ملاقات نہیں ہوئی تھی مگر وہ سب سبو کے دیوانے تھے۔ وہ اس کے ایک ایک حرف پر فدا تھے۔ وہ اس کی کتابوں کا انتظار کرتے تھے اور اسے اولین فرصت میں پڑھنا اپنی سعادت سمجھتے تھے۔ ان میں سے کئی ایسے تھے جنھوں نے اس کے ایک ایک ناول کو کئی کئی بار پڑھا تھا۔ ان کا جی چاہتا تھا کہ سبو لکھتا ہی جائے اور وہ پڑھتے ہی جائیں۔ یہ خوابوں اور خیالوں کا سفر کبھی اختتام پذیر نہ ہو۔

ڈاکٹر رائے چوہدری نے اپنی طویل پیشہ ورانہ زندگی میں بہت سارے مریضوں کو دیکھا تھا کئی ایسی جراحتیں کی تھیں جن کے بارے میں دیگر ماہرین کا خیال تھا کہ ڈاکٹر صاحب بلاوجہ اپنے آپ کو زحمت دے رہے ہیں اور مریض کے کرب میں اضافہ فرما رہے ہیں لیکن جب مریض صحتیاب ہو کر معمول کے مطابق اپنی کی زندگی گزارنے لگتے تو ڈاکٹر چوہدری کے ناقدین کی زبان بند ہو جاتی تھی اور ایسا اتنی بار ہو چکا تھا کہ اب لوگوں نے ان پر تنقید کرنا بند کر دیا تھا۔ ڈاکٹر چوہدری کے ہسپتال میں جب سبو کو لایا گیا تو وہ گھر پر تھے۔ انہوں نے جب ٹیلی ویژن پر سنا کہ سبو کو برین گرین اسپتال میں لے جایا جا رہا ہے تو فوراً دوا خانے فون لگا کر پوچھا کیا ہمارے یہاں کوئی نیا مریض لایا گیا ہے ؟

ڈاکٹر چوہدری جس وقت استقبالیہ میں بیٹھی ٹیلی فون آپریٹر سے یہ سوال کر رہے تھے۔ خارجی مریضوں کے شعبہ میں تعینات ڈاکٹر نیلم چکرورتی عرفان صدیقی کو سمجھا رہا تھا کہ آپ انہیں یہاں کیوں لائے ہیں ؟ کیا آپ اس کی حالت نہیں دیکھ رہے۔ اب اس کے بچنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ سبو کے ساتھ آنے والا اس کا دوست عرفان صدیقی ڈاکٹر چکرورتی سے منت سماجت کر رہا تھا کہ ڈاکٹر صاحب جو اللہ کو منظور ہے وہ تو ہو کر رہے گا لیکن جب تک کوئی فیصلہ نہیں صادر ہو جاتا کوشش کرنا ہمارا کام ہے اوپر والے نے یہ تمام سہولیات ہمیں اسی لئے دی ہے۔ علم و فن کی دولت سے اسی لئے نوازہ ہے۔ پلیز ڈاکٹر صاحب اسے آپ اپنے اسپتال میں داخل کر لیجئے۔ چکرورتی پھر بولا اس میں کوئی شک نہیں کہ برین گرین ایشیا کا سب سے اعلیٰ و ارفع اعصابی امراض کا دوا خانہ ہے۔ یہاں پر دماغ و اعصاب کا علاج کرنے کے لیے ساری سہولیات اور ماہر ترین معالجین موجود ہیں لیکن مجھے افسوس ہے کہ آپ کا مریض جس مرحلے میں ہے یہ سب اس کے لئے بے سود ہے۔ اب یہی ہے کہ انہیں مزید زحمت میں ڈالنے کے بجائے گھر لے جائیں ، خدمت کریں اور ان کے لئے دعا فرمائیں۔ عرفان صدیقی نے کہا میں آپ سے اتفاق کرتا ہوں ڈاکٹر صاحب لیکن پھر بھی چاہتا ہوں کہ ایک بار ڈاکٹر رائے چوہدری انہیں دیکھ لیں۔ اس حالت میں شیلانگ سے یہاں کولکتہ آنے کا مقصد ایک بار انہیں دکھا کر رائے لینا ہے۔

فون کی گھنٹی نے ڈاکٹر نیلم چکرورتی کو چونکا دیا۔ انہوں نے فون اٹھا کر پوچھا کون؟ تو سامنے سے ڈاکٹر رائے کی آواز آئی میں چوہدری بول رہا ہوں ؟ نیلم گھبرا گیا وہ بولا فرمائیے سر آپ نے کیسے یاد کیا؟ رائے نے پوچھا تمہارے پاس کون ہے ؟ جی ایک مریض ہے ابھی ابھی آیا ہے ؟ اس کا نام کیا ہے ؟ اس کا نام ؟ اس کا نام میں نے نہیں پوچھا اس لئے کہ وہ کچھ بتانے کی حالت میں نہیں ہے۔ کیا مطلب ؟ مطلب یہ کہ صاحب وہ ایک لاش ہے زندہ لاش۔ اب وہ بھلا اپنے بارے میں بتائے بھی تو کیسے بتائے ؟ رائے چوہدری نے بگڑ کر پوچھا کہیں تمہارا دماغ تو خراب نہیں ہو گیا۔ اگر وہ لاش بھی ہے تو کیا خود چل کر آئی ہے ؟ جی نہیں سر اس کے ساتھ ایک صاحب ہیں اور میں انہیں سمجھا رہا تھا کہ ۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰ڈاکٹر رائے چوہدری نے جملہ کاٹ دیا اور بولے اس مریض کو آئی سی یو میں داخل کرو اور ڈاکٹر ژونگ لی کو فوراً بلاؤ میں بھی آ رہا ہوں۔

نیلم نے سوچا دماغ کا علاج کرتے کرتے شاید ڈاکٹر چوہدری کا دماغ بھی چل گیا ہے۔ پہلے تو انہوں نے مریض کا نام پوچھا اور پھر یہ جانے بغیر کہ وہ کون ہے اور اسے کیا پریشانی ہے اس کو انتہائی نگہداشت یونٹ میں داخل کرنے کا حکم دے ڈالا اور اپنے سب سے سینئر نائب کو بلوا بھیجا اسی کے ساتھ خود بھی نکل کھڑے ہوئے۔ نیلم کو یقین تھا کہ اگر ان کے دوا خانے میں صدرِ مملکت کو بھی داخل کیا جاتا تب بھی ڈاکٹر رائے چوہدری اس قدر سرعت کے ساتھ دوا خانے کی جانب کوچ نہیں کرتے۔ لیکن وہ احمق نہیں جانتا تھا کہ ڈاکٹر چوہدری کے دل میں سبو کا مقام صدرِ مملکت سے اونچا ہے۔ خیر نیلم نے ڈاکٹر ژونگ لی کو ڈاکٹر چودھری کا پیغام دیا اور مریض کے ساتھ آئی سی یو میں پہنچ گیا۔ اس کے بعد موت سے برسرِ پیکار انسان کو مصنوعی زندگی عطا کرنے والی مشینیں ایک ایک کر کے سبو کو لگائی جانے لگیں۔ سبو کے معاملے میں دوا خانے کے سارے اصول و ضوابط کو موقوف کر دیا گیا تھا۔ عرفان صدیقی حیرت سے یہ سب دیکھ رہا تھا۔ لوگوں کے لاکھ منع کرنے کے باوجودسبو کو کولکتہ لانے کے جرأت مندانہ فیصلے پر عرفان صدیقی قدرے اطمینان محسوس کر رہا تھا۔

ژونگ لی ڈاکٹر رائے چوہدری کا نائب کم اور دوست زیادہ تھا۔ وہ دونوں نصف صدی قبل امریکا کے بوسٹن شہر میں طب کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے ایک ساتھ پہنچے تھے۔ ویسے تو دونوں اعصابی امراض کے شعبے میں تعلیم حاصل کر رہے تھے مگر ایک کی دلچسپی جراحت میں تھی اور دوسرے کی بڑھاپے کی دماغی بیماریاں مثلاً پارکنسن، ڈائمنسیا اور الزائمر وغیرہ۔ ڈاکٹر ژونگ کی کی والدہ الزائمر کی مریضہ تھیں اور وہ چاہتا تھا کہ اپنی ماں کا علاج خود کرے۔ تعلیم کے خاتمے پر دونوں کو یونیورسٹی کے میڈیکل کالج میں ملازمت مل گئی۔ دس سال انہوں بوسٹن میں رہ کر کام کیا اور پھر جب ان کا دل اوب گیا تو ان لوگوں نے امریکہ چھوڑنے کا ارادہ کیا۔

ڈاکٹر ژونگ کا تعلق ویسے تو شمالی کوریا کے دار الخلافہ پیونگ یانگ سے تھا لیکن ان کی بیوی کا میکہ سنگاپور تھا اس لئے وہ چاہتی تھی کہ ڈاکٹر ژونگ سنگا پور چلیں۔ ڈاکٹر رائے چوہدری کی اہلیہ کولکتہ کی رہنے والی تھیں اس لئے وہ انہیں اپنے شہر لے کر جانا چاہتی تھی لیکن دونوں دوست ایک دوسرے سے دور جانا نہیں چاہتے تھے۔ اس لئے انہوں نے امریکہ سے نقلِ مکانی کا ارادہ وقتی طور موقوف کر دیا۔ جب ان دونوں کی بیویوں کو یہ پتہ چلا تو انہوں نے آپس میں مل کر اس مسئلے کا حل نکال لیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ کولکتہ اور سنگاپور کے درمیان کا فاصلہ ان دونوں شہروں کے بوسٹن سے دوری کی بہ نسبتبہت کم تھا۔ بوسٹن کے بالمقابل ان میں سے کوئی سا بھی مقام دونوں کے لیے زیادہ قابلِ قبول تھا اس لئے بلا تاخیر اتفاق ہو گیا۔ ان میں سے کسی ایک شہر کے انتخاب کی خاطر قرعہ اندازی کا طریقہ اختیار کیا گیا اور کولکتہ کا فال کھلا اس طرح پانچ افراد پر مشتمل یہ مختصر قافلہ کولکتہ پہنچ گیا۔

اس قافلے کی سب سے بزرگ شخصیت ہیونگ ہا یعنی ژونگ لی کی والدہ محترمہ تھیں۔ ژونگ لی پانچ سال قبل جب انہیں اپنے ہمراہ لانے کے لیے پیونگ یانگ گیا تھا تو اس وقت ان کی یادداشت خاصی کمزور ہو چکی تھی اس کے باوجود انہیں اس بات کا شعور تھا کہ وہ کس شہر میں رہتی ہیں۔ ان کا بیٹا کہاں تعلیم حاصل کر رہا ہے وغیرہ وغیرہ لیکن وہ بیچ بیچ میں یہ سب عارضی طور پر بھول جاتی تھیں۔ ایک وقفہ کے بعد پھر سے جب دماغ کام کرنے لگتا تھا اور سب کچھ معمول پر آ جاتا تھا لیکن ژونگ لی کی تمام تر توجہ دہانی کے باوجود ان کی یادداشت دن بدن بگڑتی ہی چلی گئی اور دوچار سال کے بعد وہ اس بات کو بھول گئیں کہ ان کا قیام فی الحال کس ملک میں ہے۔

اس ابتری سے ان کی بہو ننگ چی کو کسی قدر اطمینان ہوا تھا اس لئے کہ اب ہیونگ ہا نے پیونگ یانگ جانے کا اصرار چھوڑ دیا تھا۔ ویسے ہیونگ ہا نے کبھی بھی اپنے بیٹے یا بہو سے نہیں کہا تھا کہ وہ ان کے ساتھ پیونگ یانگ چلیں۔ وہ تو کہتی تھیں تم لوگ مجھے اپنی مٹی کے پاس بھیج دو میں اسی میں رل مل جانا چاہتی ہوں لیکن ننگ چی جانتی تھی کہ اگر ژونگ لی نے اپنی امی کی بات مان لی تو وہ ہر قیمت پر ان کے ساتھ جائے گا اوراس بات کی بھی پرواہ نہیں کرے گا کہ ننگ چی اس کے ساتھ جاتی ہے یا نہیں۔

ژونگ لی کو یقین تھا ہیونگ ہا کے علاج کی جو سہولیات بوسٹن میں موجود ہیں وہ پیونگ یانگ میں موجود نہیں ہوں گی۔ یہی ایک وجہ تھی کہ جو ژونگ لی کے پیروں کی زنجیر بنی ہوئی تھی لیکن پانچ سال تک اپنے زیر نگرانی علاج کرنے کے بعد ژونگ لی اس نتیجے پر پہنچ چکا تھا کہ یہ مرض لاعلاج ہے۔ اس بیماری سے رونما ہونے والے یادداشت کے نقصان کو روکنا ناممکن ہے۔ اب ژونگ لی کی تمام تر توجہ اس عمل کو دھیما کرنے پر صرف ہو رہی تھیں وہ جانتا تھا کہ اس جہاز کو ڈوبنے سے اب روکنا ناممکن ہے پھر بھی وہ اس سوراخ بند کرنے کی کوشش میں جٹا ہوا تھا جس سے پانی اندر داخل ہو رہا تھا تاکہ اس کے غرقاب ہونے کو جس حد تک ممکن ہو ٹالا جا سکے۔ اسی کے ساتھ پانی کے اندر آ جانے سے جو مشکلات پیدا ہو رہی تھیں ان کے روک تھام کی سعیِ جمیل میں لگا رہتا تھا۔ اس کارِ خیر میں ژونگ کی اہلیہ ننگ چی اس کے شانہ بشانہ شریک تھی۔ ننگ چی کو اس پر کوئی اعتراض نہیں تھا۔ اس کی پریشانی تو صرف پیونگ یانگ جانے سے تھی۔

ننگ چی کے والدین اس کی پیدائش سے قبل جنوبی کوریا کے شہرسؤل سے ہجرت کر کے سنگاپور میں بس گئے تھے۔ اس کی پرورش چونکہ سنگاپور کے ترقی یافتہ ماحول میں ہوئی تھی اس لیے پیونگ یانگ میں جا کر اپنا گھر بسانا اس کے لیے ناقابل تصور خواب تھا۔ جب وہ لوگ بوسٹن سے کولکتہ آئے تو ہیونگ ہا کو احساس ہی نہیں ہوا کہ وہ کہاں سے کہاں جا رہی ہے اس کے لیے اب سنگاپور، بوسٹن اور کولکتہ یکساں تھے۔ اسے بوسٹن کی سڑکیں اپنے شہر کی شاہراہ لگتی تھیں اور کولکتہ کے باغ پیونگ یانگ کے چمن۔ اس لئے کہ گاڑیوں کا اور پھولوں کا اپنا کوئی وطن نہیں ہوتا۔ موٹر گاڑی ہر سڑک پر بلا توقف دوڑتی ہے اور لالہ و گل ہر چمن میں بلا تکلف کھلتے ہیں۔ رشتے ناطوں کا بندھن تو انسانوں کا امتیاز ہے۔ مالک گاڑی کو اپنی ملکیت سمجھتا ہے لیکن گاڑی اپنے مالک کو نہیں پہچانتی۔ مالی پھولوں سے اولاد کی سی محبت رکھتا ہے لیکن پھول اسے نہیں جانتے۔

کولکتہ آنے سے قبل رائے چوہدری اور ژونگ لی نے اپنی اولاد کے حوالے سے عجیب و غریب فیصلے کئے تھے۔ ڈاکٹر چوہدری کی اہلیہ میگھنا نے بہتر تعلیم کی خاطر اپنی ایک بیٹی اور ایک بیٹے کو امریکہ ہی میں اپنی بہن کے پاس چھوڑ دیا تھا۔ اس کا خیال تھا امریکہ کی تعلیم ہی ان کی اولاد کے روشن مستقبل کی ضمانت ہے۔ ڈاکٹر چوہدری اپنی اہلیہ کے اس خیال سے متفق نہیں تھے مگر میگھنا کی دلیل یہ تھی کہ وہ کولکتہ شہر کو ان سے زیادہ بہتر جانتی ہے۔ بالآخر ڈاکٹر رائے کو میگھنا کے آگے ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہونا پڑا تھا اور وہ دونوں اپنے بچوں سے ہزاروں میل دور آگ ئے۔

اس کے برعکس ننگ چی نے اصرار کر کے دونوں بیٹیوں کو اپنے والدین کے پاس سنگاپور روانہ کر دیا تھا۔ اس کے خیال میں سنگاپور کا ماحول تعلیم و تربیت کے زیادہ سازگار ہے۔ وہیں رہ کر وہ اپنے اقدار و تہذیب سے آراستہ ہو سکیں گی۔ دونوں جوڑوں کے دلائل مختلف تھے مگر نتیجہ یکساں تھا دونوں دوست اپنی اولاد سے دور ہو گئے تھے۔

 

 

 

تنہائی

 

سبو ؟کون سبو؟ رنگا نے جب سبو سے یہ سوالات سنے اس کی حیرت کا ٹھکانہ نہ رہا لیکن پھر بھی وہ ان بے ہنگم سوالات سے صرفِ نظر کر کے بولا سبو تم کتنا سوو گے دیکھو سورج نصف النہار پر پہنچ گیا ہے۔ چلو جلدی اٹھو میں تمہارا ناشتہ لگانے جا رہا ہوں۔

تم کس سبو کانا شتہ لگا رہے ہو ؟ میں کسی سبو کو نہیں جانتا۔ رنگا نے کہا سبو میں تمہارے نت نئے مذاق کرنے کی عادت سے خوب واقف ہوں اس لئے اب جلدی سے دانت مانجھ کے آؤ بعد میں اگر تمہارا موڈ ہو تو نہا لینا ویسے بھی غضب کی سردی پڑ رہی ہے۔

میں مذاق نہیں کر رہا ہوں۔ سبو نے نہایت سنجیدگی کے ساتھ کہا میں واقعی کسی سبو کو نہیں جانتا۔ رنگا ہنس کر بولا اگر ایسی بات ہے تو کل کو بولو گے تم اس خادم رنگا کو بھی نہیں پہچانتے ؟

کل کیوں ؟ میں آج اور ابھی بول رہا ہوں کہ تم ہو کون ؟ میں کسی رنگا کو نہیں جانتا

تم مجھے نہیں جانتے اپنے تیس سال پرانے نوکر کو تم نہیں جانتے ؟

تیس سال ؟ میرے پاس تو کوئی تین دن پرانا نوکر بھی نہیں ہے۔ مجھ جیسا معمولی ملازم بھلا نوکر چاکر رکھنے کی سکت اپنے اندر کیسے رکھ سکتا ہے۔ رنگا نے جب سبو کے چہرے پر چھائی سنجیدگی کو دیکھا تو اسے لگا کہ سبو شاید سچ کہہ رہا ہے۔ وہ اس قدر اچھا اداکار نہیں ہوسکتا۔ پھر بھی اس نے سوال کیا اچھا اگر میں رنگا نہیں ہوں تو کون ہوں ؟

اگر تم خود نہیں جانتے کہ تو میں کیسے جان سکتا ہوں۔ سبو نہایت معصومیت سے بولا

رنگا کو یاد آیا کہ گزشتہ کئی ماہ سے سبو عجیب و غریب کیفیت کا شکار تھا کبھی کچھ بھول جاتا تھا تو کبھی کچھ اور بھول جاتا تھا بلکہ ایک دن بڑے تالاب کے کنارے اس نے رنگا سے سوال کر لیا تھا کہ تم کون ہو؟ رنگا کے لیے یہ سوال مضحکہ خیز تھا اس نے جواب دیا میں ! میں رنگا کا ہم زاد ہوں۔ اس جواب کو سن کر بڑی سنجیدگی کے عالم میں سبو نے پوچھا تھا کہ رنگا کا ہم زاد یہ کیساعجیب نام ہے۔ رنگا نے سوچا آج سبو دل لگی کے موڈ میں ہے تو وہ بولا جیسا نام ویسا آدمی ؟ کیا میں سمجھا نہیں ؟ اس میں سمجھنے کی کیا بات ہے ؟ میں آدمی بھی تو عجیب و غریب ہوں اس لئے نام بھی ٖحسبِ حال ہے۔

اچھا تو تم بیک وقت عجیب بھی ہو اور غریب بھی سبو نے اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا رنگا بولا جی ہاں رنگا تو غریب ہے لیکن اس کا ہم زاد عجیب ہے اس لئے میں مجموعی طور پر عجیب و غریب ہوں۔ سبو بولا لیکن تمہیں ہم زادسے ڈر نہیں لگتا۔ رنگا ہنس کر بولا مجھے خود اپنے ہم زادسے کیسا ڈر ؟ اچھا تو کیا تمہیں میرے ہم زاد سے ڈر لگتا ہے ؟ رنگا کو لگا کہ بات کچھ زیادہ ہی طول پکڑ رہی ہے اس لئے ٹالنے کی غرض سے اس نے کہا نہیں لگتا۔

نہیں لگتا تمہیں میرے ہم زاد سے بھی ڈر نہیں لگتا تم انسان ہو یا شیطان ہو؟میں نہ شیطان ہوں اور نہ انسان ہوں میں تو رنگا ہوں رنگا۔ تمہارا ازلی خادم چلو گھر چلتے ہیں۔ اچھا تو تمہیں میرا گھر معلوم ہے ؟ جی ہاں مجھے تمہارا اور تمہارے پرکھوں کا گھر بھی معلوم ہے سبو۔ اس لئے میرے ساتھ چلو میں تمہیں اپنے گھر پہنچا دوں گا۔ اچھا تو تم ٹیکسی ڈرائیور ہو۔ رنگا کے لیے اب یہ مذاق برداشت سے باہر ہو چکا تھا وہ بیزاری سے بولا جی میں ٹیکسی ڈرائیور نہیں گائیڈ ہوں۔ رنگا گائیڈ اس لئے میرے ساتھ چلو سردی بڑھ رہی ہے۔ سبو نے بے خیالی کے عالم میں تائید کی اور اٹھ کر رنگا کے پیچھے چل پڑا۔ رنگا سوچ رہا تھا کہ سبو کو یہ کیا ہو گیا ہے ؟ اور سبو سوچ رہا تھا کہ یہ رنگا کون ہے جو اس کے آبا و اجداد تک سے واقف ہے۔

راستے میں وہ دونوں خاموش رہے گھر کے آتے آتے سبو معمول پر آ چکا تھا۔ اس نے پوچھا رنگا آج تم مجھے بہت جلدی واپس لے آئے ابھی تو صرف چار بجے ہیں۔ سبو کی زبان سے یہ جملہ سن کر رنگا کی جان میں جان آئی وہ خوشی سے بولا جی ہاں جناب یہ بات آپ اپنے بازو میں لگی ہوئی گھڑی کو دیکھ کر کہہ رہے ہیں لیکن اوپر آسمان کو دیکھئے سورج اپنا بستر لپیٹ رہا ہے۔ میں چاہتا تھا کہ اس کے جانے سے قبل ہماری واپسی ہو جائے۔ جی ہاں رنگا تم صحیح کہتے ہو آج کل سورج کو بڑی جلدی ہوتی نہ جانے کس سے ملنے کے لیے وہ بیقرار رہتا ہے اور اس قدر جلدی لوٹ جاتا ہے۔ رنگا نے سوچا سبو پھر بہکنے لگا ہے اس لئے وہ بولا صاحب چھوڑو سورج سے اپنا کیا لینا دینا اس کی مرضی جب آئے تب آئے اور جب چاہے چلا جائے۔ میں ایسا کرتا ہوں کہ آپ کے لیے گرم گرم کافی بنا کر لاتا ہوں آپ باہر جھروکے میں بیٹھ کر غروبِ آفتاب کے حسین و جمیل مناظر کا لطف اٹھائیں۔

سبو بولا رنگا تم واقعی عجیب و غریب انسان ہو۔ رنگا نے پوچھا کیوں ؟ کیا کسی کے ڈوبنے کا منظر بھی حسن و جمال کا پیکر ہوسکتا ہے ؟ کیوں نہیں ؟ رنگا بولا حسن و جمال کا دونوں سے یکساں تعلق ہے طلوع اور غروب دونوں حسین و جمیل ہوتے ہیں۔ واقعی ! مجھے نہیں لگتا۔ رنگا کو ایسا لگا کہ سبو یہ بات خود اپنے بارے میں کہہ رہا ہے۔ پیالی کے اندر کافی کے پاؤڈر پر ابلتا ہوا پانی انڈیلتے ہوئے رنگا سوچ رہا تھا وہ سبو نامی سورج کو ڈوبتے ہوئے نہیں دیکھ سکے گا اور اگر دیکھنا ہی پڑ جائے تو اس سے ہر گز لطف اندوز نہیں ہوسکے گا۔

اپنی چار پائی پر لیٹ کر رنگا اپنے اور سبو کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ ان دونوں کے اندر کوئی ایک بھی قدر مشترک نہیں تھی اس کے باوجود وہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ تھے۔ سبو یعنی سبروتو مکرجی دنیا کے سب سے زیادہ مشہور قلمکاروں میں سے ایک تھا اور رنگا کو قلم پکڑنے کی بھی تمیز نہیں تھی۔ جب کبھی اس کے سامنے دستخط کرنے کا موقع آتا وہ بتیسی نکال کر انگوٹھا بڑھا دیتا تھا ویسے اس کا موقع شاذو نادر ہی آتا تھا جبکہ سبو کے آگے قلم نہایت ادب و احترام سے ہاتھ باندھ کر منتظر رہتا تھا کہ جیسے ہی حکم ہو بجا آوری میں لگ جائے۔ جب بھی اس کا کوئی مداح اسے دیکھتا سب سے پہلے اسے سبو کے دستخط لینے کا خیال آتا اور لوگ اپنی جیب، اپنا بٹوہ یا اپنا بیگ ٹٹولنے لگتے اور جو بھی مناسب کاغذ ان کے ہاتھ پڑتا اس کو آٹو گراف پلیز کہہ کر سبو کے آگے رکھ دیتے گویا خیرات مانگ رہے ہوں۔

رنگا کو یاد تھا ایک مرتبہ کوئی صاحب ہزار روپئے کی نوٹ لے آئے اور اس پرسبو کے دستخط لینے بعد کہا اب میں کروڑ پتی ہوں۔ یہ ایک کروڑ کی نوٹ ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ قیمتی لیکن افسوس کے میں اسے بھنا نہیں سکتا۔ یہ میری زندگی سب سے بڑا اثاثہ ہے جو ہمیشہ میرے ساتھ رہے گا۔ جب سبو کی کتابوں کا اجراء ہوتا تو اس کی انگلیاں دستخط کرتے کرتے تھک جاتیں۔ سب سے دلچسپ صورتحال تو اس وقت ہوتی جب اسے اپنی کسی کتاب کے ترجمہ کی رسم رونمائی میں شریک ہونا پڑتا۔ لوگ ان کی اپنی زبانوں میں نہ جانے اس کے بارے میں کیا کیا کہہ رہے ہوتے ، بالآخر جب وہ اس کی کتاب خرید کر اس کے سامنے لاتے تو وہ سمجھ جاتا کہ وہ کیا چاہتے ہیں وہ اپنی کتاب پر جو اب ان کی ہو چکی تھی اپنے دستخط سبت کر دیتا اور اس کے جواب میں جو آوازیں سنتا ان کا مطلب از خود سمجھ جاتا کہ عقیدت و محبت زبان کی محتاج نہیں ہوتی وہ تو نظروں سے بیان ہو جاتی ہے۔

رنگا نے یوں تو کہہ دیا تھا کہ وہ سبوکے پرکھوں کا مکان بھی جانتا ہے لیکن یہ بات غلط تھی۔ سچ تو یہ ہے کہ وہ سبو کے ماضی کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتا تھا۔ اس نے کبھی یہ سبجاننے کی کوشش بھی نہیں کی تھی۔ اس کی رنگا کو کوئی ضرورت بھی نہیں تھی۔ اسے تو بس اس قدر پتہ تھا کہ سبو ازل سے تنہا ایک بہت بڑا مصنف ہے۔ جس کی کتابوں کا لوگ انتظار کرتے ہیں۔ جنہیں شائع کرنے کو لے کر ناشرین کے درمیان مسابقت ہوتی ہے۔ ہر کتاب کے کئی ایڈیشن شائع ہوتے ہیں۔ دنیا کی مختلف زبانوں میں ان کے تراجم ہوتے ہیں اور ہاتھوں ہاتھ فروخت ہو جاتے ہیں۔ ان سے ملنے والی لاکھوں روپیوں کی رائلٹی اس کے بنک اکاؤنٹ میں جمع ہو جاتی ہے اور پھر اس کا کیا ہوتا ہے یہ نہ رنگا جانتا تھا اور نہ جاننا چاہتا تھا۔

جب تک رنگا کی بیوی رنگیلی حیات تھی اور بچے چھوٹے تھے۔ اسے اپنی تنخواہ سے غرض ہوتی تھی۔ بعد میں جب بچے بڑے ہو گئے اور بڑے شہروں میں جا کر بس گئے اور رنگیلی دنیا ہی سے چل بسی تو رنگا بھی سبو کی طرح تنہا ہو گیا۔ رنگا کے بچے اسے اپنے پاس بلاتے تو وہ انکار کر دیتا۔ اس لئے کہ سبو کو اس طرح چھوڑ کر جانا مناسب نہیں تھا۔ اسے نوکر تو مل سکتا تھا لیکن رنگا نہیں اور سبو کو زندگی کے اس مرحلے میں ملازم کی نہیں ایک ہمدرد و غمخوار کی ضرورت تھی۔ اس طرح سبوکی ازلی تنہا ئی نے رنگا کو ابدی تنہائی کا شکار کر دیا تھا۔

سبو اور رنگا کا ویسے ایک مشترک دوست عرفان صدیقی بھی تھا لیکن عرفان صدیقی تنہائی کے نام و نشان سے واقف نہیں تھا۔ شیلانگ میں سب سے بڑا کباڑ خانہ اسی کا تھا۔ اس کی دوکان میں مقامی لوگوں کے علاوہ دنیا بھر کے سیاح آتے تھے اور کوڑیوں کی اشیاء موتیوں کے بھاؤ خرید کر لے جاتے تھے۔ اس کے پاس کبھی ڈالر ہوتے تھے تو کبھی پاؤنڈ یا یورو۔ مشرق بعید کے جاپانی یانگ سے لے کر ملیشیائی روپیہ تک ساری کرنسی موصول ہوتی رہتی تھی۔ اس کی کوٹھی اگر سبو سے اچھی نہیں تو خراب بھی نہیں تھی بلکہ باہر سے دونوں کے اندر کوئی فرق نہیں تھا اس لئے کہ دونوں مکان عرفان صدیقی کی نگرانی میں بیک وقت تعمیر ہوئے تھے۔

اس مکان میں منتقل ہونے سے قبل بھی عرفان اور سبو ایک دوسرے کے ہم سایہ تھے۔ سبو تو بہت پہلے مالدار ہو گیا تھا مگر اپنی بے نیازی کے سبب ایک خستہ حال مکان میں پڑا ہوا تھا لیکن جب عرفان خوشحال ہوا تو اس کی بیویاں گھر تبدیل کرنے پر اصرار کرنے لگیں۔ مرتا کیا نہ کرتا عرفان راضی ہو گیا اور اس نے ایک پلاٹ دیکھا۔ اپنی اہلیہ سے اس کا ذکر کرنے سے قبل اس نے سبو کو اس کے بارے میں بتلایا۔ سبو اس پلاٹ کو دیکھے بغیر اس کے بغل والا خطۂ ارض خریدنے کے لیے اس شرط پر تیار ہو گیا کہ عرفان اس کا بھی گھر بنوا کے دے گا۔

عرفان کے لیے اس میں کوئی مسئلہ ہی نہیں تھا۔ اس نے ایک نقشہ بنوایا اور ٹھیکے دار سے کہا کہ اس نقشے کے مطابق دو مکان ایسے بنا دے گویا دونوں بالکل ایک دوسرے کا عکس یا ہم زاد ہوں۔ جب مکان بن کر تیار ہو گئے تو عرفان کے گھرکے اندر کا سازو سامان اس کی بیویوں کی مرضی سے آیا لیکن سبو کے گھر کے اندر کی آرائش و زیبائش کی ذمہ داری رنگا اور رنگیلی نے مل کر ادا کی۔ ان دونوں نے اس گھر کو بالکل اس طرح سجایا گویا وہ ان کے اپنے سپنوں کا محل ہو اور کیوں نہ ہو ؟ گھر تو اس کا ہوتا ہے جو اس میں رہتا ہے ؟ جس پر اس کا اختیار ہوتا ہے۔ جس میں اس کی مرضی چلتی ہے اور اس لحاظ سے وہ گھر سبو سے زیادہ رنگا کا تھا۔

سبوکا نصف وقت تو اندرون و بیرونِ ملک دوروں پر گزرتا لیکن رنگا کا جینا مرنا اسی گھر سے وابستہ تھا۔ اس کی رنگیلی نے اسی کوٹھی میں اپنی آخری سانسیں لی تھیں۔ اسی سبب سے غالباً اس گھر کے چپے چپے سے وہ وابستہ اور پیوستہ تھا۔ یہی وجہ تھی کہ رنگا اس گھر کو چھوڑ کر اپنے بچوں کے پاس شہر میں نہیں جاتا تھا۔ اس گھر کی رنگینی وجودِ رنگیلی سے تھی جو فی الحال رنگا کی زندگی کو بے رنگ کر کے جاچکی تھی۔ بہر حال ان دونوں گھروں کا اندرون عرفان اور رنگا کے منفرد اور مختلف ذوق کی عکاسی کرتے تھے۔ سبو طبعی طور پر تو اس گھر میں رہائش پذیر تھا مگراس کا معنوی وجوداس کی اپنی کہانیوں میں گم رہتا تھا۔ سچ تو یہ ہے سبو اپنے کرداروں کے ساتھ ان وادیوں میں کھویا رہتا تھا جہاں کے وہ خیالی کردار رہتے بستے تھے۔

اس کے برعکس عرفان کے گھر کی ہر اینٹ پر اس کا نام کندہ تھا اور ایسا کرنے والیاں اس کی دونوں بیویاں اور چھے عدد بچے تھے۔ عرفان صدیقی اتر پردیش میں واقع اعظم گڑھ کے ایک دیہات چاند پٹیکا رہنے والا تھا۔ نوعمری میں گھر سے بھاگ کر پہلے تو کولکتہ آیا پھر گوہاٹی پہنچا اور بالآخر شیلانگ میں آن بسا۔ اس بیچ اس نے کئی کاروبار کئے۔ پہلے پہل اس نے کولکتہ کی ایک بیکری کوسنبھالا جو اس کے ایک رشتے دار کی ملکیت تھی۔ چونکہ عرفان تھوڑا بہت لکھنا پڑھنا جانتا تھا اسلئے منن خاں صاحب نے اسے اپنا منشی بنا لیا۔ اسی دوران منن کے بھائی نے گوہاٹی میں لانڈری کھولنے کا ارادہ کیا تو عرفان کو اپنا منیجر بنا لیا۔ یہاں پر وہ بیک وقت مالک کا نمائندہ یعنی مالک بھی تھا اور منشی کی ذمہ داری بھی ادا کرتا تھا۔

منن ّ کا بھائی چنن ّ اس کے کام سے خاصہ مطمئن تھا اور چاہتا تھا ایک اور لانڈری اس کے تحت کر کے اس کی تنخواہ بڑھائے لیکن اس دوران عرفان کی ملاقات لکھنؤ کے مرزا افضل بیگ سے ہو گئی جو شیلانگ میں کباڑی کا کاروبار کرتے تھے۔ مرزا صاحب کو اس کے اخلاق و عادات اس قدر پسند آئے کہ انہوں نے اسے شیلانگ بلا لیا۔ شیلانگ کی آب و ہوا عرفان کا من بھا گئی اور اس نے وہیں بس جانے کا فیصلہ کر لیا۔

مرزا افضل بیگ شیلانگ میں تنہائی کی زندگی گزار رہے تھے۔ ان کے پاس اپنی مرحوم اہلیہ کی ایک نشانی نور چشمی صفیہ بیگم تھیں جس کی پرورش مرزا صاحب نے بڑے نازو اندام سے کی تھی۔ گوناگوں وجوہات کی بناء پر نہ وہ خود اپنے وطن آنا چاہتے تھے اور نہ اپنی بیٹی کو بیاہ کر سیکڑوں میل دور لکھنؤ بھیجنا چاہتے تھے۔ ادھر شیلانگ میں داماد کی حیثیت سے کوئی لڑکا انہیں جچتا نہیں تھا۔ اس کی وجہ سے صفیہ دن بدن شادی کی عمر سے نکلتی جا رہی تھی۔

عرفان کو انہوں نے پہلے تو کاروبار کے دوران قریب سے دیکھا اور اس کے عادات و اطوار سے مطمئن ہو جانے کے بعد اپنے ایک دوست کے ذریعہ بلاواسطہ پیغام دے دیا۔ عرفان نے نہ جانے کیاسوچ کر حامی بھر دی حالانکہ اس وقت تک اس نے صفیہ بیگم کو نہ تو دیکھا تھا اور نہ اس کے مزاج سے واقف تھا۔ عرفان نے سوچا مرزا صاحب کے مقابلے اگر نصف خوبیاں بھی ان کی بیٹی میں ہوں گی تو وہ اس کے لیے کافی ہے۔ عرفان کی سعادتمندی سے مرزا افضل بیگ بہت خوش ہوئے۔ شادی کے بعد عرفان پر انکشاف ہوا کہ اس کے خسر میں اپنی بیٹی کی ایک چوتھائی صفاتِ حسنہ بھی نہیں ہیں۔

عرفان اور صفیہ نہایت کامیاب معاشرتی زندگی گزارتے رہے یہاں تک کہ مرزا صاحب کا انتقال ہو گیا مگر صفیہ کی گود نہیں بھری۔ مرزا صاحب کے بعد ان کے کاروبار اور گھربار کا مالک عرفان بن گیا۔ والد کی موت کے بعد صفیہ کو اپنے گھر کے سونے پن کا شدید احساس ہونے لگا۔ اس نے عرفان کے ساتھ مل کر گھر کو شاد باد کرنے کا منصوبہ بنایا اور عرفان کی خاطر ایک اور بیوی کی تلاش میں لگ گئی۔

عرفان اور صفیہ کی شادی کو دس سال کا وقفہ گزر چکا تھا اور وہ دونوں چالیس کی دہائی میں تھے۔ پہلے پہل تو صفیہ نوعمر لڑکیوں کے رشتے لاتی رہی جنہیں عرفان مسترد کرتا رہا۔ اس لئے کہ وہ بے جوڑ زندگی کا قائل نہیں تھا۔ اس بیچ صفیہ کی ملاقات نورجہاں سے ہو گئی جس کا مرحوم خاوند ریلوے میں ملازمت کرتا تھا مگر اچانک ایک حادثے میں اس کا انتقال ہو گیا۔ اب وہ اپنے شوہر کی پنشن سے اپنا اور اپنے بیٹے کا گزارہ کر رہی تھی۔ ویسے تو نور جہاں کا تعلق تمل ناڈو سے تھا مگر اس نے اپنے آبائی وطن واپس جانے کے بجائے گوہاٹی ہی میں رہنا پسند کیا۔ ا سے خوف تھا کہیں اس کے ساس سسر بیٹے انور کو اس سے جدا نہ کر دیں۔ صفیہ نے پہلے عرفان کے سامنے اس کا ذکر کیا اور اس کی تائید حاصل کرنے کے بعد بات کو آگے بڑھانے کا فیصلہ۔ وہ نہیں چاہتی تھی کہ آگے چل کر عرفان کے انکار سے نورجہاں کی دل آزاری ہو۔

نورجہاں کو جب صفیہ نے اپنے شوہر کا پیغام دیا تو وہ حیرت زدہ رہ گئی۔ اس نے سب سے پہلے اپنے بیٹے کی بابت پوچھا تو صفیہ بولی تمہارا بیٹا تمہاری مرضی۔ اگر تم اسے ہمارے گھر لاتی ہو تو وہ میرا بیٹا بن جائے گا۔ صفیہ کے لیے یہ سب ایک خواب کی سی باتیں تھیں۔ وہ جلدی میں کوئی ایسا فیصلہ نہیں کرنا چاہتی جس سے بعد میں پچھتاوا ہو۔ اس نے صفیہ سے بہت سارے سوالات کئے اور اسے ٹٹولتی رہی اس کے بعد سوچنے کے لیے وقت مانگا اور بہت سوچ بچار کے بعد اپنی تائید کا اظہار کر دیا۔

صفیہ نورجہاں کو بیاہ کر اپنے گھر لے آئی اور اب پہلی بار اسے محسوس ہوا کہ یہ گھر اس قدر کشادہ نہیں ہے جتنا کہ ہونا چاہئے۔ پہلے کبھی اس میں تین لوگ رہتے تھے۔ اس کے امی، ابو اور وہ۔ اس کے بعد دوہو گئے اور عرفان کے اضافے کے بعد پھر سے تین ہو گئے۔ مرزا صاحب کے انتقال کے بعد ایک فرد کی کمی ہوئی جسے دو افراد نے پورا کیا۔ نورجہاں اور اس کا بیٹا انور۔ صفیہ اور نورجہاں نے مل کر نیا گھر بنانے کا منصوبہ بنایا لیکن گھر کے بننے سے قبل پرانے مکان میں ایک نیا مہمان سلطان ابن عرفان تشریف لا چکا تھا۔

سلطان کو لانے کے لیے نورجہاں اپنے پرانے گھر سے زچہ خانہ گئی لیکن لوٹ کر نئے گھر میں آئی اور پھر کچھ ایسا ہوا کہ ہر سال نورجہان کی مہربانی سے ایک نئے مہمان کی آمد ہو جاتی۔ اس طرح پانچ سال بعد آٹھ افراد پر مشتمل ایک بھرا پورا خاندان تھا اوراس فوج کا سردار انور تھا جواسکول کے رجسٹر میں بڑے فخر سے اپنا نام انوار الحق ابن احسان الحق لکھتا تھا۔

انور کو بچپن ہی سے بڑوں کے درمیان اٹھنا بیٹھنا اچھا لگتا تھا۔ اپنے اسکول میں کئی اساتذہ کے ساتھ اس کا دوستانہ تھا۔ اس نے اپنے سوتیلے والد کے دوست اور اپنے پڑوسی سبوسے بھی دوستی گانٹھ لی تھی۔ رنگا ان دونوں کو محوِ گفتگو دیکھتا تو اسے حیرت ہوتی۔ وہ سوچتا تھا سبو جیسا کم گو اور تنہائی پسند آدمی اس لڑکے سے کیا باتیں کرتا ہو گا ؟ اس قدر طویل عرصہ ساتھ رہنے کے باوجود سبو کی کئی باتیں رنگا کے پلے نہیں پڑتی تھیں اس لئے وہ سوچتا یہ نوعمر طالبعلم سبو کی اعلیٰ و ارفع باتیں کیونکر سمجھ پاتا ہو گا ؟

ان سوالات سے علی الرغم یہ حقیقت تھی کہ وہ دونوں بڑے انہماک سے ایک دوسرے کی باتیں سنتے تھے اور گھنٹوں محو گفتگو رہتے تھے یہاں تک کہ صفیہ اسے بلا کر واپس لے جاتی تاکہ وہ اسکول کی کتابوں کو دیکھے۔ سچ تو یہ ہے کہ انور کو اسکول کی کتابوں سے زیادہ سبو کی کتابوں میں دلچسپی تھی۔ اب تو سبو اس کو وہ کہانیاں سنانے لگا تھا جو ہنوز صفحۂ قرطاس کی زینت نہیں بنی تھیں۔ سبو کا خیال تھا کہ انور اس کے دوست عرفان کے مقابلے کہیں زیادہ سمجھدار ہے لیکن سبو جانتا تھا کہ کسی کو اچھا دوست ہونے کے لیے اسے ذہین ہونا ضروری نہیں ہے۔ دوستی اس طرح کے نامعقول شرائط کی بنیاد پر تو استوار نہیں ہوتی۔ کوئی دوست ہے تو ہے۔ اس کے عقلمند یا بے وقوف   ہونے کیا فرق پڑتا ہے ؟

 

 

 

 

بچپن

 

سبو جب انور کو دیکھتا تو اس کے اندر اسے اپنا بچپن دکھلائی دیتا تھا۔ انور کی طرح سبو کے والد کا بھی اچانک ایک حادثے میں انتقال ہو گیا تھا لیکن اس کے بعد سبو کے ساتھ جو واقعات پیش آئے انہوں نے اس کی شخصیت کو مکمل طور پر بدل کر رکھ دیا۔ سبروتو مکرجی کے والد ششدھر مکھوپادھیائے بردمان کی ریاست کے شاہی خاندان میں ولیعہد تھے مگر ان کے لڑکپن ہی میں ملک آزاد ہو گیا اور ان کے خاندان کی شہنشاہی غلامی میں بدل گئی۔ وہ اپنی اہلیہ ساوتری دیوی کے ساتھ پشتینی محل میں رہتے تھے۔ آزادی کے بعد بھی سارے علاقے میں ان کا بڑا احترام اور دبدبہ تھا۔ عام لوگ انہیں اب بھی راجہ صاحب کے لقب سے پکارتے تھے۔

سبروتو کو علاقے کے واحد کانونٹ اسکول میں داخل کیا گیا جس کی زمین اور عمارت دونوں ہی اس کے دادا کی عنایت کردہ تھی۔ اسکول کے اندر ہر بنچ پر دو یا تین طالبعلم بیٹھتے تھے لیکن سبروتو کے برابر بیٹھنے کی جرأت کوئی نہیں کرسکتا تھا۔ آزادی کے بعد ششدھر مکھوپادھیائے نے کولکتہ تک اپنا کاروبار پھیلا دیا تھا اور ہر ماہ کم از کم ایک ہفتہ کے لیے شہر جایا کرتے تھے۔ اسکول کی تعطیلات کے دوران جب جانا ہوتا تو اپنی اہلیہ اور بیٹے کو بھی ساتھ لے جاتے ورنہ اکیلے ہی ہو آتے۔

شہر کے اندر ان کی اپنی کوٹھی تھی جس میں عیش و آرام کا سارا سامان موجود تھا۔ ایک مرتبہ وہ اپنی گاڑی سے کو لکتہ جا رہے تھے تو بارش اور طوفان نے ہلہّ بول دیا۔ ڈرائیور نے لاکھ سمجھایا کہ صاحب درمیان میں کسی سرائے کے اندر قیام کر لیں۔ جب باد و باراں کا زور ٹوٹے تو آگے بڑھیں لیکن ششدھر نہیں مانے۔ انہوں نے ڈرائیور سے سفر جاری رکھنے پر اصرار کیا یہاں تک ان کی ضد نہ صرف انہیں بلکہ ان کے ڈرائیور کی بھی لے ڈوبی۔

ششدر مکھوپادھیائے کے موت کی خبر ساوتری دیوی پر بجلی بن کر گری۔ سارے علاقے میں کسی کے اندر ایسی جرأت نہیں تھی کہ وہ ساوتری دیوی کے قریب جا کر اس کے دل کا بوجھ ہلکا کرے۔ ششدر کے رشتے دار یوروپ جا چکے تھے اور وہ خود بنگلہ دیش کے جنوبی علاقے سے بیاہ کر آئی تھی۔ لوگوں نے سوچاکیا کیا جائے ؟ انہیں ایک ترکیب سوجھی کیوں نہ مندر کے پروہت گنیش بھٹا چاریہ کی مدد لی جائے۔ ساوتری دیوی خاصی مذہبی خاتون ہے اور وہ ان کو گرو دیو کہہ کر مخاطب کرتی ہے اس لئے ممکن ہے وہی اسے دلاسہ دے سکیں۔

گنیش اپنی بیوی تنوجا کے ساتھ ساوتری دیوی کے پاس پہنچا۔ ساوتری دیوی گنیش کی اہلیہ سے مل کر بہت روئی۔ وہ روتی جاتی تھی اور کہتی جاتی تھی میرے ساتھ ایسا کیوں ہوا؟ میں نے کون سا پاپ کیا تھا جو مجھے اس سنکٹ میں ڈالا گیا؟ اب میں اپنا جیون کیسے گزاروں گی ؟ اب میرا یہاں کون ہے ؟ میں زندہ نہیں رہ سکوں گی۔ میں اپنے پتی کی چتا پر ستی ہو جاؤں گی۔ گنیش بھٹا چاریہ کی بیوی تنوجا اسے سمجھاتی رہی بہن ایسے نہ بولو سنکٹ آتے ہیں چلے جاتے ہیں کال چکر یوں ہی چلتا رہتا ہے۔ وہ نہ کبھی رکا ہے اور نہ رک سکتا ہے۔ ننھے سبو کی سمجھ میں کچھ بھی نہیں آ رہا تھا وہ نہیں جانتا تھا کہ اس کی ماں کو کون سا غم کھائے جا رہا ہے ؟

گنیش بھٹا چاریہ ساوتری کی باتیں کچھ دیر تک چپ چاپ سنتا رہا اور اس کے بعد کریا کرم کی تیاری کے لیے اپنی بیوی تنو جاکو وہاں چھوڑ کر مندر کی جانب نکل کھڑا ہوا لیکن راستے بھر اس کے دماغ میں ساوتری کا ایک جملہ گونجتا رہا۔ ’’میں اپنے پتی کی چتا پر ستی ہو جاؤں گی‘‘ یہ جملہ اس نے فلم کے پردے پر یا ڈرامے کے اسٹیج پر تو بہت مرتبہ سنا تھا لیکن حقیقت میں سننے کا اتفاق کبھی نہیں ہوا تھا۔ جب پہلی مرتبہ اس نے ان الفاظ کو سنا تو اس کے بدن میں جھرجھری سی پھیل گئی وہ خوفزدہ ہو گیا۔ کیا کوئی انسان زندہ جل سکتا ہے ؟ یہ سوال اس کے ذہن میں کلبلانے لگا۔

گنیش نے سوچاکیوں نہیں ؟ جو لوگ خودکشی کرتے ہیں وہ اپنے مقصد کو حاصل کرنے کی خاطر کئی طریقے استعمال کرتے ہیں کوئی پھانسی لگا کر لٹک جاتا ہے۔ کوئی اپنے آپ کو گولی مار لیتا ہے۔ کوئی ریلوے کی پٹری پر جا کر لیٹ جاتا ہے اور کوئی اپنے آپ کو جلا مارتا ہے۔ یہ ساری باتیں گنیش نے سنی تو تھیں لیکن اسے کبھی اپنی آنکھوں سے دیکھا نہیں تھا۔ اس لئے کہ خودکشی کرنے والا اگر اپنے ارادے ظاہر کر دے تو اسے روک دیا جاتا ہے۔

اب گنیش بھٹا چاریہ کا دماغ دوسرے رخ پر کام کر رہا تھا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ ساوتری دیوی کو اپنے ارادے سے روکنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ وہ بہت مضبوط اعصاب کی مالک ہے اگراس نے کوئی فیصلہ کر لیا ہے تو بے شک وہ اس پر عمل درآمد ضرور کرے گی اور اگر واقعی ساوتری دیوی یہ کر گزرتی ہے تو کیا ہو گا ؟ اس نے سب سے پہلے سبروتو کے بارے میں سوچا اس کا کیا ہو گا ؟

ششدھر نے اپنے پیچھے مال و دولت کو جو انبار چھوڑا تھا اس کے چلتے سبروتو کو کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا۔ ویسے بھی اس کی خدمت نوکر چاکر کرتے ہیں اور وہ کرتے رہیں گے۔ مقامی رکنِ پارلیمان دیپنکر چٹوپادھیائے جو ششدھر کے گہرے دوست ہیں اس کی سرپرستی کریں گے اور چند سالوں میں وہ اپنے باپ کی وراثت کا مالک بن جائے گا۔ ساوتری دیوی کے ہونے یا نہ ہونے کا کوئی خاص اثر نہیں ہو گا۔ اب گاؤں والے ؟ تو ان کا کیا آج غمگین ہیں کل بھول جائیں گے۔ کریا کرم کے ساتھ ہی بھولنے کا یہ عمل شروع ہو جائے گا اور پھر ایک وقت ایسا بھی آئے گا کہ جب ان سے پوچھا جائے کہ ششدھر مکھوپادھیائے کون تھا؟ تو وہ سر کھجا کر ہونقوں کی مانند منھ تاکتے رہ جائیں گے۔

اب وہ اپنے بارے میں سوچ رہا تھا گنیش بھٹا چاریہ اور گاؤں کا مندر ایک ہی سکہ کے دو پہلو تھے۔ اس کے معاش کا انحصار گاؤں کے مندر پر تھا۔ اگر یہ مندر کسی وجہ سے ڈھے جائے تو اس کے لیے دوسرا مندر تلاش کرنا یا کسی اور کاروبار میں لگ جانا لازم تھا لیکن اگر اس کے مندر میں ساوتری ستی ہو جائے تو؟ اس سوال پر پہنچ کر وہ ٹھٹک گیا۔ اس نے سوچا ایک زمانہ ایسا بھی تھا جب ستی کے واقعات رونما ہوتے رہتے تھے اس لئے وہ غیر معمولی ضرور تھے مگر بالکل نایاب بھی نہیں تھے لیکن راجہ رام موہن رائے کی تحریک کے بعد اور دستور میں اس کے خلاف قانون وضع کر دئیے جانے کے بعد یہ بالکل ہی مفقود ہو گئے تھے۔ ایسے میں کسی مندر میں ستی کا واقعہ اس بیوہ کو اور اس کے ساتھ مندر کو ساری دنیا مشہور کر دینے کے لیے کافی ہے۔ مندر کی مقبولیت اور اس میں جمع ہونے چندے کا راست تعلق تھا۔

گنیش جانتا تھا اس طرح کا واقعہ چند سال قبل راجھستان کے ایک گاؤں میں رونما ہوا تھا اور پھر وہاں عقیدت مندوں کا ایسا تانتا بندھا کہ حکومت، انتظامیہ، دستور اور عدالت سب کے سب اس کے آگے بے بس ہو گئے۔ ستی کے مخالفین دور دراز علاقوں سے جوق در جوق آنے لگے لیکن انہیں راستے میں روک دیا گیا۔ وہ ٹی وی کیمروں کے آگے نعرے لگاتے رہے لیکن جائے واقعہ پر پہنچ کر اپنا احتجاج تک رقم نہیں کرا سکے۔ اس لئے کہ سب جانتے تھے اگر کسی مخالف نے اس گاؤں کے قریب پھٹکنے کی بھی غلطی کی تو ان چتا روشن ہو جائے گی اور ایک نیا ستی کا مندر تعمیر ہو جائے گا۔ اس واقعہ کے بعد اس مندر کا پروہت راتوں رات کروڑ پتی ہو گیا تھا۔ ایک لمحہ کے بعد گنیش بھٹا چاریہ اپنے تصورِ خیال میں کروڑ پتی بن چکا تھا۔

گنیش اب دو چیزیں چاہتا تھا ایک تو کسی طرح ساوتری اپنا ارادہ تبدیل نہ کرے اور دوسرے اس بات کا خوب خوب چرچا ہو۔ ان دونوں میں سے پہلی بات زیادہ اہم تھی۔ اب وہ اس کے لیے سازش بننے لگا سب سے پہلے تو اس نے ستی ساوتری کی تصویر تلاش کرنے کی کوشش کی تو اسے وہ نہیں ملی۔ اس نے یہ کیا کہ سنتوشی ماتا کی مورتی پر بڑے بڑے حرفوں میں ستی ساوتری لکھوا کر مندر کے احاطے میں ایک طرف اسے نصب کر دیا اور اس کو پھولوں کی مالا پہنا دی۔ اس کے آگے گلال کا رنگ رکھا اس پر لال ٹیکا لگایا۔ موم بتی اور لوبان جلا کر اس کا دھواں چہار جانب پھیلا دیا۔ اس کے آگے ایک قالین بچھا کر اپنے تین چیلوں کوسجا سنوار بٹھا دیا تاکہ وہ دھرم گرنتھ کا پاٹھ شروع کر دیں۔

یہی ڈرامہ رچانے کی خاطر وہ اپنے پانچ سات چیلوں کے ساتھ محل کے اندر بنے مندر میں پہنچ گیا۔ سارا ماحول بنانے کے بعد وہ اپنی بیوی کے پاس آیا اور اس کے توسط سے ساوتری دیوی کے ساتھ دو منٹ بات کرنے کی اجازت طلب کی۔ گنیش کی بیوی نہیں جانتی تھی کہ اس کے دل میں کیا چھل کپٹ بھرا ہوا ہے۔ اس نے فوراً اجازت حاصل کر لی۔ اب گنیش نے ساوتری دیوی سے کہا مبارک ہو آپ کی پرارتھنا سویکار ہو گئی۔ ساوتری دیوی کو کچھ سمجھ میں نہیں آیا اس نے پوچھا گرو دیو آپ کیا کہہ رہے ہیں میں کچھ سمجھی نہیں ؟

گنیش بولا ہمارے دھرم گرنتھوں میں لکھا ہے کہ کسی بھی ناری کے لیے اس جگ میں سب بڑا پونیہ اپنے پتی دیو کی چتا پر ستی ہو جانا ہے۔ لیکن اس بلند درجے پر فائز ہونا ہر ناری کے بس کا روگ نہیں ہوتا اور اسی کے ساتھ یہ بھی ایک ستیہ ہے کہ ہر عورت کے اس مہا بلیدان کوایشور سویکار نہیں کرتے اس لئے کہ اس کی بنیادی شرط ہردیہ کی پوترتا ہے۔ پرنتو جس کی کسی کی پرارتھنا سویکار ہوتی ہے اس کا پرمان (ثبوت)یہ ہے کہ اس کے مندر میں اپنے آپ ستی ساوتری پرکٹ ہو جاتی ہیں۔

گنیش بے تکان بولے جا رہا تھا آپ کو یہ جان کر آشچریہ (تعجب) ہو گا کہ آج جب میں اس محل سے لوٹ کر مندر گیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ جس ککش (حصہ)میں بیٹھ کر آپ پرارتھنا کرتی ہیں اس میں ستی ساوتری کی دو مورتیاں پرکٹ ہو گئی ہیں۔ پہلے تو میری سمجھ میں نہیں آیا کہ یہ دو کیوں ہیں ؟ لیکن پھر مجھے آپ کے پتی دیو ششدھر مکھو پادھیائے کی بھرائی ہوئی آواز نے چونکا دیا انہوں نے مجھ سے پوچھا گرو دیو آپ کس سوچ بچار میں ویست (مشغول) ہیں۔ میں ڈر گیا اور بولا راجہ صاحب آپ ! آپ کہاں سے بول رہے ہیں۔ آپ مجھے دکھائی کیوں نہیں دیتے ؟

وہ بولے گرو دیو آپ جیسا گیانی منوشیہ یہ پرشن کر رہا ہے ؟ مجھے آشچریہ ہے۔ آپ مجھے کیسے دیکھ سکتے ہیں ؟ میں سورگ میں ہوں۔ سورگ میں ؟ میں نے حیرت سے پوچھا ابھی تو آپ کا انتم سنسکار بھی نہیں ہوا آپ کا ارتھی کلش بھی گنگا میں نہیں بہایا گیا۔ آپ کو اتنی جلدی موکش کیسے پراپت ہو گیا ؟ راجہ صاحب بولے یہ دراصل میری دھرم پتنی کی پرارتھنا کا چمتکار ہے۔ اس نے ستی ہونے کا نشچیہ(ارادہ) کیا اور مجھے سورگ میں روانہ کر دیا گیا تاکہ میں اس کے سواگت کی تیاری کرسکوں۔

گنیش نے کہا مجھے ان سب باتوں پر وشواس نہیں ہو رہا تھا۔ میں نے پوچھا لیکن راجہ صاحب۰۰۰۰۰۰ ! لیکن کیا ؟ راجہ صاحب بولے آپ کو وشواس نہیں ہو رہا ہے ؟ میں بولا جی نہیں ایسی بات نہیں ہے وہ بولے ایسی ہی بات ہے گرو دیو مجھے پتہ تھا کہ آپ کے لیے اور دوسرے لوگوں کے لیے اس پر وشواس کرنا اتیشہ کٹھن ہو گا اسی لئے میں نے سورگ سے یہ پرمان (ثبوت)آپ کے سمکش (سامنے )بھیجے ہیں۔ میرے سمکش کیسے پرمان؟ وہی ستی ساوتری کی مورتیاں جنہیں دیکھ کر آپ چونک پڑے تھے۔ وہ جو آپ کے سمکش مسکرا رہی ہیں۔ انہیں خود ستی ساوتری نے سورگ لوک میں مجھے پردان کیں اور میں نے آپ کے پاس روانہ کر دیں۔ میں نے پوچھا لیکن دو کیوں ؟ راجہ صاحب کا قہقہہ گونجا اور وہ بولے آپ بھول گئے میرے محل کے اندر بھی ایک مندر ہے۔ میں ان کی بات سمجھ گیا اور ان کی وانی شانت ہو گئی۔

مرتیو کے پشچات کسی ویکتی سے سنبھاشن(گفتگو) کا یہ میرا پہلا اوسر (موقع)تھا اس لئے میں پہلے تو گھبرایا پرنتو پھر میرے دھرم کرتویہ نے مجھے شکتی پردان کی اور میں نے ان مورتیوں کو گنگا جل سے نہلایا ایک کو شہر کے مندر میں استھاپت کیا اور دوسرے کو آپ کے محل میں استھاپت کرنے کی آگیا چاہتا ہوں۔ ساوتری دیوی ایک بھولی بھالی اور نیک خاتون تھیں انہوں نے بھٹا چاریہ کے سارے جھوٹ پر من و عن یقین کر لیا۔ ان کے چہرے پر یک گونہ مسکراہٹ پھیل گئی۔ وہ بولیں گرو دیو آپ نے جو شبھ وارتا مجھے سنائی اس سے بڑی خوشخبری میرے لئے کوئی اور نہیں ہوسکتی کہ میرے پتی دیو سورگ لوک میں میری پرتکشا کر رہے ہیں۔ آپ اپنا دھرم کرتویہ پورن کیجئے کرم کانڈ کا آرمبھ کر دیجئے اب مجھ سے کسی آگیہ کی کوئی اوشیکتہ نہیں ہے۔ میں جلد از جلد سورگ میں اپنے پتی دیو کے پاس جانا چاہتی ہوں۔

گنیش بھٹا چاریہ کی بیوی تنوجاسوچ رہی تھی دال میں کالا ہے۔ یہ مورتیاں محل کے مندر میں کیوں پرکٹ نہیں ہوئیں ؟ راجہ صاحب نے گنیش کے بجائے اپنی بیوی ساوتری دیوی سے براہِ راست کیوں بات نہیں کی؟اس کا جی چاہ رہا تھا کہ اسی وقت وہ اپنے شکوک و شبہات کا اظہار کر ڈالے لیکن رانی صاحبہ کے سامنے اپنے ہی شوہر کے خلاف بولنے ہمت تنوجا نہیں جٹا پائی۔ اس نے سوچا تنہائی میں وہ گنیش سے یہ سوالات ضرور کرے گی۔ وہ سوچ رہی تھی اگر رانی صاحبہ واقعی ستی ہو جاتی ہیں تو بیچارے سبروتو کا کیا ہو گا؟ اس کے سر سے باپ کا سایہ تو پہلے ہی اٹھ چکا تھا اب ماں کے چلے جانے سے وہ بے موت مارا جائے گا۔ تنوجا بیک وقت ششدھر، ساوتری اور سبروتو کی حالت پر آنسو بہا رہی تھی۔ اسے کے اندر ایک طوفان بپا تھا وہ بہت کچھ کرنا چاہتی تھی لیکن نہیں جانتی تھی کہ کیا کرے ؟ اور کیسے کرے ؟

 

 

 

 

 

بصیرت

 

محل سے نکل کر پروہت گنیش بھٹاچاریہ مقامی رکن پارلیمان دیپنکر چٹوپادھیائے عرف دیپو چٹرجی کی کوٹھی پر پہنچ گیا اور ان سے بولا کہ ساوتری دیوی اپنے پتی کی چتا پر ستی ہونا چاہتی ہیں۔ یہ سن کر دیپو دا ہکا ّبکاّ رہ گئے۔ وہ بولے رانی صاحبہ کوبڑا صدمہ ہوا ہے۔ چونکہ ان کے سارے میکہ بنگلہ دیش ہے اور دیگر قریبی رشتے دار بیرون ملک ہیں اس لئے کوئی ان کا غم بانٹنے والا نہیں ہے لیکن فکر نہ کیجئے دو ایک دن میں سب ٹھیک ہو جائے گا۔ جی ہاں آپ نے درست فرمایا گنیش بولا کل راجہ صاحب کا انتم سنسکار ہو گا اور ان کی چتا پر رانی صاحبہ ستی ہو جائیں گی۔ اس کے بعد دوچار دن میں سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔

دیپودا بولے پروہت جی یہ آپ نے کیا ستی کی رٹ لگا رکھی ہے۔ کہیں آپ کا دماغ تو نہیں چل گیا ؟ میرا دماغ؟ کیسی باتیں کرتے ہیں دیپودا! اگر کسی کا دماغ خراب ہوا ہے تو وہ ساوتری دیوی ہیں جو ستی ہونے پر اڑی ہوئی ہیں۔ اپنے محل کے مندر اور شہر کے مندر میں ستی ساوتری کی مورتی کو نصب کروا دیا ہے۔ وہاں دن رات دھرم گرنتھوں کا پاٹھ ہو رہا ہے اور آپ مجھ پر برس رہے ہیں۔

اگر ایسا ہے تو انہیں سمجھانا پڑے گا۔ ستی پرتھا پر سرکار نے پابندی لگا دی ہے کہیں ان کی گرفتار ی کی نوبت نہ آ جائے۔ آج بھی اس علاقے کے لوگ انہیں بردمان ریاست کی رانی سمجھتے ہیں۔ ان کی گرفتاری سے نظم و نسق کا بہت بڑا مسئلہ پیدا ہو جائے گا۔ پروہت بولا مسئلہ صرف رانی ہونے کا نہیں ہے۔ اب وہ ستی ہونے جا رہی ہیں۔ اس کے بعد دیوی ہو جائیں گی۔ ان سے دھارمک آستھا کا پرشن جڑ جائے گا اور آپ تو جانتے ہی ہیں جاہل عوام دھارمک بھاوناؤں کے ویشئے (معاملے ) میں کس قدرحساس ہے۔ جی ہاں مجھے پتہ ہے دیپودا بولے۔ پچھلی مرتبہ فرقہ پرستوں نے کالی ماتا کے وسرجن کا سوال اٹھا کر اسیّ ہزار ووٹ حاصل کر لئے اور بڑی مشکل سے ہم اپنی سیٹ بچا پائے۔ جی ہاں سرکار لیکن اس بار بازی الٹ جائے گی اگر آپ نے ستی ماتا کی کھل کر حمایت کر دی تو فسطائی طاقتیں تو کجا اشتراکیوں کے ووٹ بھی آپ کی جھولی میں آ جائیں گے۔

پروہت کی باتیں سن کر دیپو دا خاموش ہو گئے ایک جانب ان کے دوست راجہ صاحب کی بیوہ تھی اور دوسری جانب سیاسی مفاد۔ وہ تذبذب کا شکار ہو گئے تھے اور فیصلہ نہیں کر پا رہے تھے کہ اس مشکل سے کیسے نکلیں ؟ انہوں نے کہا گنیش جی مجھے سوچنے کی مہلت دیجئے میں فوراً کوئی فیصلہ نہیں کرسکتا۔ گنیش بولا دیکھئے دیپو دا، اس طرح کا سنہری موقع روز روز نہیں آتا وہ تو ہوا کی مانند آ کر طوفان کی طرح نکل جاتا ہے۔ اگر آپ سنکوچ میں پڑے رہے تو ہاتھ ملتے رہ جائیں گے اور سوائے افسوس کے کچھ بھی ہاتھ نہیں آئے گا۔

دیپودا بولے مجھے ذرائع ابلاغ سے ڈر لگتا ہے وہ لوگ بات کا بتنگڑ بنا دیں گے اور مجھے بدنام کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھیں گے۔ پروہت بولا صاحب آپ نے نہیں سنا بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہو گا ؟ وہ لوگ آپ کی جس قدر مخالفت کریں گے اسی قدر اس بات کا چرچا ہو گا اور عوام کی ہمدردیاں آپ کے ساتھ ہوتی چلی جائیں گی۔ کمیونسٹوں کی مخالفت ان کے خلاف جائے گی اور اگر فرقہ پرستوں نے مخالفت کرنے کا فیصلہ کر لیا تو ان کی ہوا اکھڑ جائے گی، ان کی خاموشی آپ کی تائید بن جائے گی۔

دیپو دا کو پروہت گنیش کی سیاسی بصیرت پر حیرانی ہو رہی تھی وہ سوچ رہے تھے کہ کہیں فرقہ پرستوں نے اس بے وقوف کو ٹکٹ دے دیا تو ان کا ٹکٹ ہمیشہ کے لیے کٹ جائے گا۔ دیپودا نے بے ساختہ کہا اچھا یہ بتاؤ کہ مجھے کرنا کیا پڑے گا ؟انہوں نے آج تک سیاسی معاملات میں اس طرح کا سوال کسی سے نہیں کیا تھا لیکن اچانک یہ جملہ ان سے ادا ہو گیا جس نے گنیش بھٹا چاریہ کو باغ باغ کر دیا۔ اس کی من مراد پوری ہو گئی تھی۔

وہ بولا آپ تو بس یہ کریں کہ ٹی وی اور اخبار والوں کو بلا کر ان کے سامنے ستی ساوتری کی مورتی کو پرنام کریں۔ اپنے ماتھے پر تلک لگائیں اور ساوتری دیوی کی حمایت میں ایک بیان دے ڈالیں اس کے بعد آپ کا سارا کام آپ کے مخالفین کر دیں گے۔ ویسے میری ایک رائے یہ ہے کہ آپ انتم سنسکار کر کے سمے کوئی بہانہ بنا کر غائب ہو جانا چاہئیے تاکہ عدالتی کارروائی سے محفوظ رہ سکیں۔ دوسرے دن ساوتری دیوی کے مندر کا شیلانیاس کرنے کی خاطر وارد ہو جانا اس لئے کہ اس میں کوئی خطرہ نہیں ہے۔ دیپو داکی سمجھ میں سارا ڈرامہ آ گیا اور انہوں نے دوسرے دن دوپہر میں آسنسول کے بڑے ہسپتال میں اپنے لئے کمرہ مختص کر لیا تاکہ علاج کے بہانے خود کو اس ہنگامے سے دور رکھ سکیں۔

ساوتری دیوی نے شمسان گھاٹ جانے کے لیے نکلیں تو تنوجا نے ان کے معصوم بیٹے سبروتو سمجھا بجھا کرسامنے کر دیا۔ سبو نے پوچھا ماتا شری آپ مجھے چھوڑ کر کہاں جا رہی ہیں ؟ساوتری بولیں بیٹے میں تمہارے پتا شری کے پاس جا رہی ہوں۔ پتا شری کے پاس ؟ وہ کہاں ہیں ماتا شری؟ وہ سورگ لوک میں ہیں بیٹے۔ وہ وہاں میری پرتکشا کر رہے ہیں۔ آپ کی کیوں میری کیوں نہیں ؟ میں بھی چلوں گا آپ کے ساتھ۔ سبو نے مچل کر کہا۔

تنوجا کا یہ آخری وار تھا وہ جانتی تھی کہ رانی صاحبہ کسی صورت سبو کو آگ میں جھونک نہیں سکتیں اور اسے بچانے کو شش میں وہ خود موت کے منھ میں جانے سے بچ جائیں گی۔ ساوتری دیوی کے چہرے کا رنگ بدلنے لگا، گنیش بھٹاچاریہ نے اپنے چیلوں کو اشارہ کیا کہ وہ دھرم گرنتھوں کا پاٹھ زور زور سے کرنے لگے۔ اس کے بعد پروہت نے سبو سے کہا راجکمار سورگ لوک میں بچوں کا جانا ورجت ہے اس لئے تم فی الحال وہاں نہیں جا سکتے۔ تنوجا نے دیکھا بازی الٹ رہی ہے لیکن پھر ایک بار وہ بے بس تھی۔

سبو بولا اچھا تو میں سورگ میں کب جا سکتا ہوں ؟وہ گنیش کے دام میں پھنس چکا تھا۔ گنیش بولا بیٹے جب تم اپنے پتا شری راجہ صاحب کی طرح بڑے ہو جاؤ گے تو سورگ میں جا سکو گے۔ اچھا لیکن آپ تو بڑے ہیں کیا آپ بھی میری ماتا شری کے ساتھ سورگ لوک میں جا رہے ہیں ؟ یہ خطرناک سوال تھا جس نے گنیش کو بوکھلا دیا لیکن فوراً اپنے آپ کو سنبھال کر وہ بولا جی نہیں بیٹے ابھی راجہ صاحب نے کیول تمہاری ماتا شری کو آنے کے آدیش دئیے ہیں اس لئے وہ جا رہی ہیں۔ جب وہ مجھے نمنترن (دعوت)دیں گے تو میں بھی چلا جاؤں گا۔ تنوجا کا جی چاہا کہ آگے بڑھ کر اپنے پتی کامنھ نوچ لے لیکن وہ ابلہ ناری یہ نہیں کرسکتی تھی۔ جب ساوتری دیوی اپنے آسن سے اٹھ کر راجہ صاحب کی چتا کی جانب چلی گئیں تو تنوجا سبروتو کو اپنے ساتھ لے کر اس کے خوابگاہ میں چلی گئی اور رامائن کی کتھا سنانے لگی۔

ساوتری دیوی کی ستی کے واقعہ نے ساری دنیا میں دھوم مچا دی۔ قدامت پرست ہندوؤں کے علاوہ جنہوں نے اس اندوہناک حادثے کو ہندو دھرم کا احیاء قرار دیا تھا ہر مکتبِ فکر کے لوگوں نے اپنے اپنے انداز میں اس کی مذمت ّ کی۔ اس کے باوجود عوام جوق در جوق ستی ماتا کے مندر میں آنے لگے۔ جس وقت دیپنکر چٹوپادھیائے مندر کی شیلا نیاس رکھ رہے تھے مجمع کی تعداد لاکھ سے زیادہ تھی جو گلا پھاڑ پھاڑ کر ستی ماتا کی جئے کا نعرہ لگا رہا تھا۔ دیپودا اپنی سیاسی زندگی میں لاکھ کوشش کے باوجودایسا جم غفیر جمع نہ کرسکے تھے اور لطف کی بات یہ تھی کہ یہ لوگ بن بلائے اپنی عقیدت کا اظہار کرنے کے لیے پہونچے تھے۔ ستی ساوتری کو پیش کی جانے والی ساری عقیدت دیپنکر چٹرجی کے کھاتے میں اور دکشنا گنیش بھٹا چاریہ کی تجوری میں جمع ہو رہی تھی۔ سبروتو اور تنوجا کے علاوہ ہر کوئی خوشی سے پھولا نہیں سما رہا تھا۔

دو دن بعد جب گرد بیٹھی تو تنوجا اپنے ساتھ سبروتو کو لے کر دیپنکر بابو کی کوٹھی میں پہنچ گئی۔ دیپو دا اپنے خاص مصاحبین کے ساتھ خوش گپیاں کر رہے تھے جن میں گنیش بھی شامل تھا۔ جیسے ہی انہوں نے تنوجا کے ہمراہ سبروتو کو دیکھا چونک پڑے۔ انہوں نے فوراً محفل میں موجود لوگوں سے کہا میں معذرت چاہتا ہوں میرے عزیز دوست راجہ صاحب کا بیٹا آیا ہے اس لئے اب آپ لوگ جائیں میں بعد میں آپ لوگوں سے بات کروں گا۔ وہ سب اٹھ کر جانے لگے۔ گنیش عجیب و غریب تذبذب میں گرفتار تھا اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کیا کرے جائے یا رکا رہے۔

گنیش نے سوالیہ نگاہوں سے دیپنکردا کی جانب دیکھا انہوں نے تنوجا طرف دیکھا۔ تنوجا نے اشارے سے اجازت دے دی اور گنیش اپنی جگہ بیٹھ گیا۔ وہ سمجھ گیا تھا کہ اب کچھ نہ کچھ گڑبڑ ہونے والی ہے۔ تنوجا نے دیپو دا سے پوچھا کیا آپ اس معصوم سی جان کو پہچانتے ہیں ؟ جی ہاں کیوں نہیں۔ یہ میرے عزیز ترین دوست کا بیٹا ہے۔ تنوجا بولی لیکن اب یہ یتیم ہو چکا ہے اس کا بھی آپ کو علم ہو گا؟ جی ہاں تم یہ کیسے سوال کر رہی ہو تنو۔ میرے دوست راجہ صاحب کا ایک حادثے میں انتقال ہو گیا اسے ہر کوئی جانتا ہے۔

تنوجا بولی جی ہاں دیپودا راجہ صاحب کی موت تو حادثاتی تھی لیکن اس کی ماں رانی صاحبہ ان کے ساتھ تو کوئی حادثہ پیش نہیں آیا۔ جی ہاں لیکن انہوں نے تو خود ۰۰۰۰۰۰تنو جا نے دیپو دا کا جملہ کاٹ دیا وہ بولی دیپنکر بابو رانی صاحبہ کا قتل ہوا ہے۔ انہیں زندہ جلا دیا گیا ہے۔ یہ کیسی باتیں کرتی ہو تنوجا تمہارا دماغ تو خراب نہیں ہو گیا ؟ گنیش درمیان میں بول پڑا۔ تنوجا بولی میرا نہیں دولت کے نشے نے تمہارا دماغ خراب کر دیا ہے اور اسی لئے تم نے اس بیچاری کو ورغلا کر ہزاروں لوگوں کے سامنے دن دہاڑے نذرِ آتش کر دیا۔ تم اس کے قاتل ہو قاتل درندے۔

گنیش بھٹا چاریہ کی زبان گنگ ہو چکی تھی۔ اسے اپنی مدافعت کے لیے الفاظ نہیں مل رہے تھے۔ دیپو دا کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کریں۔ انہوں نے کہا یہ تمہارے پتی دیو ہیں تم ان کے بارے میں یہ کیا اول فول بک رہی ہو؟ تنوجا بولی یہ میرے پتی تھے لیکن اب نہیں ہیں۔ میں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ اب نہ ان کے ساتھ رہوں گی اور ان کا منھ دیکھوں گی۔ میں ایک قاتل کی دھرم پتنی بن کر اپنا جیون نہیں گزار سکتی۔

گنیش پر یہ جملے بجلی بن کر گر رہے تھے وہ بولا تنوجا گھر چلو میں تمہیں سب سمجھا دوں گا۔ تنوجا بپھر کر بولی کیا تم نے میری بات نہیں سنی ؟ کیا تم مجھے نہیں جانتے کہ میں اپنی زبان سے پھرنے والوں میں سے نہیں ہوں۔ میں تمہارے گھر نہیں جاؤنگی مجھے تم سے کوئی بات سمجھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ تنوجا اگر تم نے اپنا موقف نہیں بدلا تو تمہیں پچھتانا پڑے گا۔ گنیش نے پھر کہا۔ تنوجا بولی مجھے تو اس بات پر پچھتاوا بہت ہے کہ میں نے اتنے سال ایک پاکھنڈی کی سیوا میں گزار دئیے۔

مجھے اس بات کا بھی افسوس ہے کہ میں نے ایک قتل کو ہوتے ہوئے دیکھا اور مقتول کو بچا نہ سکی اور سب سے زیادہ دکھ اس بات کا ہے کہ قاتل میرے سامنے ہے مگر میں اسے کوئی سزا نہیں دلا سکتی۔ گنیش بھٹا چاریہ اب تم مجھے بھول جاؤ اور اس دھن دولت سے بیاہ رچا لو جو تم نے اس معصوم کی ماں کو قتل کر کے حاصل کی ہے۔ مجھے تم سے گھن آتی ہے گنیش میں تمہارا منھ دیکھنا نہیں چاہتی۔ دیپو دا نے تنوجا کے یہ تیور دیکھے تو بولے پروہت جی ہم آپ سے بعد میں بات کریں گے۔ اب آپ جا سکتے ہیں۔

گنیش کے چلے جانے کے بعد دیپو دا بولے تنوجا میں بھی اندھا ہو گیا تھا تم نے میری آنکھیں کھول دیں۔ نادانستہ طور پر میں بھی اس مہاپاپ میں شریک ہو گیا تھا اس کے لیے میں سبو سے اور تم سے دونوں سے معافی چاہتا ہوں۔ میں شرمندہ ہوں تنو مجھے رانی صاحبہ کو بچانے کی کوشش کرنی چاہئے تھی لیکن اب تو جو ہونا تھا سوہو چکا۔ میں یہ تو سمجھ چکا ہوں کہ تم اب اس نا خلف گنیش کے پاس نہیں جاؤ گی لیکن پھر جاؤ گی کہاں ؟

تنوجا بولی یہ میں نے ابھی نہیں سوچا دیپو دا۔ میرا کیا ہے میں نے اپنی زندگی کا بڑا حصہ گزار چکی ہوں جو باقی ہے سو وہ بھی کسی طرح گزر جائے گا لیکن اس معصوم بچے کے بارے میں سوچئے جس کے سر سے ماں باپ کا سایہ اٹھ چکا ہے۔ اس کا کوئی قریبی رشتہ دار یہاں موجود نہیں ہے۔ اس کا کیا ہو گا ؟ اس کے سامنے تو پوری زندگی کھڑی ہے اور جس نازو اندام سے اس کی پرورش ہوئی اس آپ سے بہتر اور کون جان سکتا ہے ؟

دیپنکر چٹرجی کچھ دیر خاموش رہے اور پھر بولے تنو جا۔ میں سمجھتا ہوں کہ سبروتو کا سب سے بڑا ہمدردو غمخوار اگر کوئی ہو سکتا ہے تو وہ تم ہو۔ میرے ذہن میں اس مسئلہ کا ایک حل ہے۔ ممکن ہے اس پر عمل کر کے میں کسی نہ کسی حد تک اپنے پاپ کا پرائشچت (کفارہ ادا)کرسکوں لیکن اس کے لیے مجھے تمہاری مدد کی ضرورت ہو گی۔ تنوجا کی سمجھ میں کچھ نہیں آیا وہ بولی میں آپ کی بات سمجھ نہیں سکی دیپودا۔

دیکھو تنو میں سمجھتا ہوں کہ اب سبروتو کا یہاں بردمان میں رہنا مناسب نہیں ہے اور اس کے یہاں رہنے کی کوئی افادیت بھی نہیں ہے۔ تم کو شاید یہ بھی پتہ ہو کہ کولکتہ میں راجہ صاحب کی کوٹھی ہے۔ میرا خیال ہے تم اسے لے کر وہاں چلی جاؤ میں اس کا داخلہ وہاں کے بہترین اسکول میں کروا دوں گا۔ راجہ صاحب کی دولت و جائداد کو اپنے پاس امانت کے طور پر رکھوں گا اور جب سبروتو ہوشمند ہو جائے گا تو اس کے حوالے کر کے سبکدوش ہو جاؤں گا۔ اگر تم نے اس کی پرورش کی ذمہ داری اپنے سر لے لی تو میری بہت بڑی چنتا دور ہو جائے گی۔

تنوجا نے کچھ دیر سوچ کر کہا دیپو دا آپ کی تجویز مجھے منظور ہے۔ میں اپنی بیس سالہ ازدواجی زندگی میں اولاد کی خوشی سے محروم رہی اور اب جب کہ میں نے گرہستی کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا تو مجھے سبروتو جیسا ہونہار بیٹا مل گیا۔ اب اس کی نگہداشت ہی میری زندگی کا واحد مقصد ہے۔ جس طرح آپ اس کی میراث کے امین ہیں اسی طرح آپ کے دوست کا یہ بیٹا میرے پاس امانت ہے۔ میں اس کا اپنی اولاد سے زیادہ خیال کروں گی اور جب یہ بالغ ہو جائے گا تو اسے آپ کے حوالے کر بن باس پر نکل جاؤں گی۔

دیپو دا بولے تنو کوئی اپنی ماں کو جیتے جی نہ جنگل میں جانے دیتا ہے اور نہ چتا پر جلنے دیتا ہے۔ وہ تو اس معصوم کو شعور نہیں تھا کہ اس کی ماں ساوتری دیوی کے ساتھ کیا ہو رہا ہے ورنہ یہ اپنی پھونک سے اس آگ کو بجھا دیتا۔ تنوجا ایک بات اور سنو جس طرح تم نے گرہستی چھوڑ دی اسی طرح میں نے سیاست سے کنارہ کشی کا فیصلہ کر لیا ہے۔ ساوتری کی چتا سے ملنے والا ہر ووٹ مجھ پر حرام ہے۔ جس طرح گنیش دولت کے حرص میں اندھا ہو گیا تھا اسی طرح اقتدار کے نشے نے مجھے پاگل کر دیا تھا لیکن تم نے میرے شعور کو بیدار کر دیا۔

میں کل ہی سبو کی روانگی کا بندوبست کرتا ہوں۔ تم لوگ وہاں جا کر ایک ہفتہ آرام کرو۔ اس بیچ میں اسکول میں داخلے کی تیاری کروں گا اور پھر کولکتہ آ کر اسے اپنے ساتھ اسکول لے جا کر اس کا داخلہ کرواؤں گا۔ تنوجا نے کہا شکریہ۔ سبروتو دوسرے کمرے میں کچھ کھا پی رہا تھا اسے واپس بلایا گیا۔ دیپو دا نے جب سبو کے سر پر شفقت کا ہاتھ رکھا تو تنو اور دیپو دونوں کی آنکھیں نم تھیں۔

 

 

جولیس سیزر

 

کولکتہ میں سبو کے لیے سب کچھ بدل گیا تھا۔ بردمان میں وہ راجہ صاحب کا راجکمار تھا لیکن کولکتہ میں وہ ایک دیہات سے آیا ہوا نووارد طالبعلم۔ سبو یہاں آنے کے بعد اپنی موروثی شان سے یکسر محروم ہو گیا تھا مگر بہت جلد اپنی خداداد صلاحیتوں اور محنت و مشقت کے سبب اس کا شمار اسکول کے ممتاز طلباء میں ہونے لگا تھا۔ دیپنکر چٹرجی نے اپنے اثرو رسوخ کا استعمال کر کے سبو کا داخلہ شہر کے سب سے اعلیٰ و ارفع اسکول ڈان بوسکو میں کروایا تھا۔ اس اسکول کے اندر کولکتہ کے امیر کبیر گھرانوں کے بچے تعلیم کے زیور سے آراستہ کئے جاتے تھے۔

ڈ ان بوسکو اسکول کوایسٹ انڈیا کمپنی نے کسی زمانے میں کیمبرج کے خطوط پر قائم کیا تھا اور ہنوز وہی معیار قائم تھا۔ یہاں کے اکثر طلباء اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے کیمبرج یا آکسفورڈ یونیورسٹی میں جاتے تھے۔ اساتذہ میں بھی تقریباً پچاس فیصد کا تعلق یوروپ سے تھا خاص کر چھوٹی کلاسوں کے لیے جہاں بچوں کی ذہن سازی ہوتی تھی یا انہیں اخلاق و آداب کے جوہر سے مزین کیا جاتا سارے اساتذہ یوروپ کی خواتین تھیں۔ ان خواتین کی اہم ترین ذمہ داری بچوں کو مغربی تہذیب سے مرعوب کرنا اور مشرقی ثقافت سے بیزار کرنا ہوتی تھی۔

ایک عرصہ بعدسارے اسکول کی آنکھوں کا تارہ سبو جب نویں جماعت میں پہنچا تو اس کی شخصیت متنازعہ فی ہو گئی۔ یہ سالا نہ جلسے کی تیاری کا موقع تھا۔ ڈان بوسکو اسکول کی سالانہ تقریب بہت ہی خاص اہمیت کا حامل ہوا کرتی تھی اس لئے کہ بنگال کی ممتاز ادبی، فلمی اور سیاسی شخصیات اس میں شریک ہوتی تھیں اور ذرائع ابلاغ میں اس کے چرچے ہوتے تھے۔ سبروتو پر اختلاف رائے کی وجہ چند ماہ قبل رونما ہونے والا ایک عجیب و غریب واقعہ تھا۔ دراصل ہوا یہ تھا کہ ایک بین المدارس تقریری مقابلے میں ڈان بوسکوکے دو طلباء کی جو ٹیم بھیجی گئی ان میں سے ایک سبروتو مکرجی تھا اور دوسری اُروشی چکرورتی تھی۔ دو مختلف اساتذہ نے ان دونوں طلباء کو پر بہت محنت کی، انہیں تقریر یاد کروائی اور خوب پریکٹس کر کے تیار کیا لیکن مقابلے کے دن اچانک سبروتو کو نہ جانے کیا سوجھی کہ اس نے اپنے استاد کی تقریر کو کنارے رکھ کر ایک فی البدیہہ تقریر کر دی۔

اس تقریر میں پائی جانے والی فطری برجستگی اور روانی نے جج حضرات کا من موہ لیا۔ اس کی زبان و بیان نہایت صاف اور تلفظ بالکل صحیح تھا۔ معنیٰ و مفہوم کی مصنوعی گہرائی سے اس کا خطاب یکسر پاک تھا اور اس بات کی گواہی دے رہا تھا کہ یہ طوطے کی مانند رٹارٹایا خطاب نہیں ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ سبروتو اول نمبر پر آیا اور اُروشی چوتھے نمبر پر اس کے باوجود سبروتو کے باعث ٹرافی ڈان بوسکو کو ہی ملی لیکن جس استاد نے اسے تیار کیا تھا اس کی انا کو ٹھیس پہنچی اور وہ ناراض ہو گیا۔ اس نے صدر مدرس سے شکایت کر دی یہ نظم و ضبط کی خلاف ورزی ہے جس کا ارتکاب کرنے کی جرأت ڈان بوسکو کی تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی نے کی ہے۔

اسکول کا صدرِ مدرس پادری ہوا کرتا تھا۔ اس کی اہم ترین ذمہ داری نظم و ضبط کی پابندی کروانا ہوتی تھی۔ جب اسے پتہ چلا کہ سبروتو نے بھری بزم میں اپنے استاد کی نافرمانی کی ہے تو وہ آپے سے باہر ہو گیا۔ اس کے لیے سبروتو کی غیر معمولی کامیابی بے وقعت ہو گئی۔ پرنسپل صاحب کے نزدیک ناکام ہونے والی اُروشی نظم و ضبط کی پابندی کے سبب زیادہ پسندیدہ تھی۔ مجلسِ انتظامیہ نے فیصلہ کر لیا کہ اب سبروتو کو کسی بھی عوامی تقریب میں کوئی ذمہ داری نہیں دی جائے گی۔

سالانہ جلسہ کا نگراں اتفاق سے وہی استاد تھا جس کو سبروتو نے ناراض کر رکھا تھا۔ اس نے یہ تجویز پیش کی کہ اس سال شکسپیئرکے مشہور ڈرامے رومیو جولیٹ کو بنگلہ زبان میں پیش کرنا چاہئے اس پر ایک استاد نے یہ مشورہ دے دیا کہ بہت خوب سبروتو کو رومیو اور اُروشی کو جولیٹ کا کردار دے دیا جائے یہ جوڑی پھر ایک بار اپنی کامیابی کے جھنڈے گاڑ دے گی۔ کمیٹی میں موجود کئی اساتذہ نے اس رائے کی تائید کر دی۔ مگر اس کے خلاف دلیل یہ تھی کہ ممکن ہے وہ ان مکالمات کے بدلے جو اسے یاد کرائیں جائیں کچھ اور ہی بولنے لگے۔ اس لئے کہ تقریری مقابلے میں وہ ایسا کر چکا تھا۔

سبروتو سے جب اس بابت وضاحت طلب کی گئی تھی تو وہ معذرت کر کے چھوٹ سکتا تھا لیکن اس نے بڑی ڈھٹائی سے کہہ دیا تھا کہ اس کے خیال میں رٹی رٹائی تقریر سے مؤثر فی البدیہہ خطاب ہوتا ہے اس لئے اس نے ایسا کیا تھا۔ جو اساتذہ سبروتو کے حق میں تھے ان کی دلیل یہ تھی کہ سبروتو نے نظم کی خلاف ورزی ضرور کی لیکن بالآخر ڈان بوسکو کو ٹرافی کا مستحق بنایا اور خود بھی اول آیا وگرنہ نظم و ضبط کی پابند اُروشی ٹرافی تو درکنار اپنے آپ کو بھی کسی انعام کا مستحق نہیں بنا سکی۔

سبروتو کے کلاس ٹیچر کو اس سے بہت محبت تھی وہ چاہتے تھے کہ سبو سالانہ تقریب میں ضرور شامل ہو لیکن انہیں پتہ تھا کہ اگر نگراں پر دباؤ ڈالا جائے تو بات پرنسپل تک پہنچ جائے گی اور ان کا فیصلہ یقیناً سبو کے خلاف ہی جائے گا اس لئے انہوں نے بلا واسطہ طریقہ اختیار کیا وہ بولے کہ جناب عالی اس عمر میں آپ کی رومیو جولیٹ جیسے رومانی ڈرامے میں دلچسپی حیرت انگیز معلوم ہوتی ہے۔ اس سوال پر کمیٹی کے اندر ایک قہقہہ بلند ہوا لیکن جواب تھا یہ ڈرامہ ہم اپنے لئے نہیں شرکاء کے لیے کھیلنے جا رہے ہیں اور ان کی دلچسپی کو ملحوظِ خاطر رکھنا ضروری ہے۔

وہ استاد بولے ویسے بھی آج کل کے نوجوان کچھ زیادہ ہی رومیو بنے ہوئے ہیں کیا اس ڈرامے سے ہم اس خرابی میں مزید اضافہ چاہتے ہیں ؟ مباحثہ طول پکڑتا جا رہا تھا۔ جی نہیں ہم انہیں محبت کے خطرناک انجام سے ڈرانا چاہتے ہیں۔ اچھا تو کیا ہم چاہتے ہیں وہ سب کے سب رہبانیت کا راستہ اختیار کر لیں۔ جی نہیں ہم ایسا بھی نہیں چاہتے۔ اس دوران ایک استاد نے مصالحت کے پیشِ نظر مشورہ دیا کہ کیا شکسپئیرنے رومیو جولیٹ کے علاوہ کوئی اور ڈرامہ نہیں لکھا جو ہم اس پر اس قدر اصرا ر کر رہے ہیں۔

کیوں نہیں انہوں نے نے بہت کچھ لکھا ہے۔ سبو کے کلاس ٹیچر نے کہا مثلاً جولیس سیزر ان کا بہت مشہور ڈرامہ تھا۔ نگراں استاد نے کہا اب آپ کہیں گے جولیس سیزر کا کردار سبو کو دے دیا جائے۔ میں یہ نہیں کہوں گا اس لئے کہ آپ اسے مسترد کر دیں گے اس لئے آپ وہ مرکزی کردار جس کو چاہیں دے دیں۔ اس پر وہ خوش ہو گئے اور بولے تو کیا سبو اس ڈرامے میں حصہ نہیں لے گا۔ لے سکتا ہے مثلاً اسے مارک انٹونی کا کردار دے دیا جائے۔ یہ مارک انٹونی کون ہے ؟ جولیس سیزر کے دربار کا ایک مصاحب۔ تب تو ٹھیک ہے اس میں کوئی حرج نہیں۔

اس بیچارے نے جولیس سیزر ڈرامہ نہ پڑھا تھا اور نہ دیکھا تھا اس لئے اسے پتہ ہی نہیں تھا سیزر درمیان ہی میں مر جاتا ہے اور اس کے بعد مارک انٹونی ہی اپنے خطاب اور اپنی تلوار سے تمام سازش کو ناکام بنا کر روم کے عزت و وقار کو بحال کرتا ہے۔ اس لحاظ سے جس ڈرامے کی ابتداء جولیس سیزر سے ہوتی ہے اس کا اختتام مارک انٹونی پر ہوتا ہے سبروتو کے استاد تو اپنے منصوبے میں کامیاب ہو گئے تھے لیکن سبو کے لیے دلیّ ابھی دور تھی۔

سبروتو کو جب پتہ چلا کہ شکسپئیر کے ڈرامے میں کام کرنے کے لیے اس کا انتخاب ہوا ہے تو وہ بہت خوش ہوا۔ اس نے سب سے پہلا کام تو یہ کیا کہ لائبریری سے شکسپیئرکی اصلی تصنیف کو حاصل کیا اور اس کا حرف حرف مطالعہ کر ڈالا۔ اسکول کے بعد ویسے بھی ویسے بھی سبروتو کی واحد مصروفیت مطالعہ کا شوق تھا۔ اسے نہ کھیل کود میں دلچسپی تھی اور نہ سیر تفریح سے کوئی سروکار تھا۔ سچ تو یہ ہے اس کا مطالعہ ان اساتذہ سے زیادہ تھا جو نصاب کے علاوہ کچھ اور پڑھنا پڑھانا ضروری نہیں سمجھتے تھے۔ ویسے تو سبروتو ہر قسم کی کتابوں کا مطالعہ کرتا تھا لیکن قصے کہانیوں سے اسے خاص شغف تھا۔

سبروتو نے اس ڈرامے کی ریہرسل کے دوران برٹش کاؤنسل لائبریری میں جا کر جولیس سیزر کی کیسٹ طلب کی تو اسے پتہ چلا کہ پانچ سال قبل لندن ڈرامہ فیسٹول میں جنوبی افریقہ ایک گروپ نے اس ڈرامے کو کھیل کر پہلا انعام حاصل کیا تھا۔ اتفاق سے اس پیشکش کی فلمبندی کی گئی تھی جو برٹش کاؤنسل کی مختلف لائبریریوں بشمول کولکتہ میں موجود تھی۔ سبروتو اپنے ساتھ شکسپیئر کے دیگر رزمیہ ڈراموں کی اور ان پر بننے والی فلموں کی کیسٹس بھی لے آیا۔ اس نے جب انہیں دیکھا تو پتہ چلا کہ کسی ڈرامے کو پڑھنے اور کھیلنے میں کیا فرق ہوتا ہے۔ اب سبو کا ایک یہی کام تھا اسکول سے آ کر ہوم ورک پورا کرو اور ان ڈراموں کو یکے بعد دیگرے دیکھتے رہو۔

ڈرامے کی ریہرسل کے دوران سبو کو عجیب و غریب انکشافات ہوئے۔ اس کے ساتھ پڑھنے والے وہ طلباء جو نہایت ذہین سمجھے جاتے تھے اور فراٹے کے ساتھ انگریزی بولتے تھے ان کے لیے بنگلہ زبان بولنا مشکل ہو رہا تھا۔ اول تو انہیں مکالمے یاد نہیں ہوتے تھے اور پھر ان کی ادائیگی کے دوران تلفظ کا مسئلہ آ جاتا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ان میں سے اکثر اپنے گھر میں بھی اپنی مادری زبان کے بجائے انگریزی بولتے تھے۔ ان کے ماں باپ اور ملازم آپس میں جو بھی زبان بولتے ہوں لیکن ان کے ساتھ انگریزی ہی میں گفتگو کرتے تھے اس لئے بنگلہ زبان وہ سمجھ تو لیتے تھے لیکن بولنے کے عادی نہیں تھے اور یہی ان کے کے لیے مشکل بن گئی تھی۔

اس کے برعکس سبو کا معاملہ یہ تھا کہ اس نے گھر پر ہمیشہ ہی اپنی مادری زبان میں گفتگو کی تھی۔ اس کے والدین اس سے بنگلہ میں بات چیت کرتے تھے۔ اس کی امی سبو کو بنگلہ میں کہانیاں سنایا کرتی تھیں اور سچ تو یہ ہے انگریزی سے قبل بنگلہ حروفِ تہجی اس نے اپنے والد راجہ صاحب سے سیکھے تھے۔ وہ جب کولکتہ جاتے اس کے لیے بنگلہ کہانیوں کی اور کارٹون کی کتابیں لاتے۔ تنوجا کا تعلق بنگال کے براہمن خاندان سے تھا وہ نہایت صاف اور صحیح بنگلہ بولتی تھی اور انگریزی کی اے بی سی ڈی سے بھی واقف نہیں تھی۔ اس لئے سبو کے لیے زبان کا مسئلہ سرے سے تھا ہی نہیں۔

سبو کا مطالعہ اور ویڈیو بینی بھی اس کے لئے معاون و مددگار ثابت ہو رہی تھی۔ اس کے ساتھ کام کرنے والے طلباء صرف ایک سین پر توجہ دیتے تھے لیکن سبو کے سامنے مکمل منظر نامہ ہوتا تھا وہ جانتا تھا کہ اگلے منظر میں کیا ہونے والا اسے کیا کرنا ہے یا دوسروں کو کس طرح کی اداکاری کرنی ہے۔ اس شہ نے سبو کا کام بہت آسان کر دیا تھا۔ درمیان میں کئی بار وہ بڑے اعتماد کے ساتھ لکھے ہوئے مکالموں کے بجائے اپنی مرضی سے بہت کچھ کہہ جاتا تھا اور اس کے اساتذہ کو پتہ بھی نہیں چلتا تھا کہ اس نے کیا کچھ کر دیا ہے۔

جب سالانہ جلسہ کی تاریخ قریب آ گئی تو اسکول کے منتظمین نے بنگلہ اسٹیج کے ایک پیشہ ور ہدایتکار کی خدمات حاصل کیں۔ اس نے جب سبو کی کارکردگی کو دیکھا تو ششدر رہ گیا۔ اسے دیکھنے کے بعد ایسا لگتا ہی نہ تھا کہ یہ نوجوان پہلی بار کسی ڈرامے میں کام کر رہا ہے۔ اس نے سوچ لیا تھا کہ آئندہ جب وہ کوئی ڈرامہ کرے گا تو اس میں بچے کا کردار کسی اور کو نہیں بلکہ سبو کودے گا۔

سالانہ تقریب کے دعوت نامے میں جولیس سیزر کا ذکر بڑے اہتمام سے کیا گیا تھا جس کے سبب فنونِ لطیفہ اور ادب کی دنیا کی بہت ساری نامور ہستیوں نے اس میں شرکت کا فیصلہ کیا۔ فلمی دنیا کے علاوہ ٹیلی ویژن پر سیریل بنانے والوں کی بھی اچھی خاصی تعداد وہاں موجود تھی۔ اس لئے کہ جس بیرونی ہدایتکار کی خدمات حاصل کی گئی تھیں اس کا تعلق چھوٹے پردے سے بھی تھا۔ سبو نے ابھی تک گھر میں تنوجا کو اس بابت کچھ بھی نہیں بتایا تھا مگر جب ہر طالبعلم کو اپنے والدین اور اعزہ و اقرباء کے لیے پاس دئیے گئے تو سبو نے سوچا اس کی واحد سرپرست نانی ہے جسے اس تقریب میں شرکت کرنی چاہئے۔

سبو نہ جانے کیوں تنوجا کو نانی کہتا تھا حالانکہ وہ اس کی نانی کی عمر کی نہیں تھی۔ کوئی اور اگرایسی حرکت کرتا تو تنوجا اس کا منھ نوچ لیتی مگر سبو کے آگے وہ بے بس تھی۔ اس سے ناراض ہونا تنوجا کے بس سے باہر کی بات تھی۔ سبو کی طبیعت میں ایک خاص قسم کی راز داری پائی جاتی تھی۔ وہ کرتا بہت کچھ تھا مگر بولتا بہت کم تھا اس لئے تنوجا کے علاوہ کسی کو معلوم نہ ہوتا کہ کیا کھچڑی پک رہی۔ لیکن کبھی کبھی تنوجا کو بھی پتہ نہ چل پاتا کہ کیا کچھ ہو رہا ہے۔ جب سبو نے تنوجا سے کہا کہ اسے اگلے دن اسکول میں سالانہ تقریب کے اندر شریک ہونے کے لیے چلنا ہے تو اس نے منع کر دیا۔ اسے امیر کبیر لوگوں کے درمیان اٹھنے بیٹھنے میں تکلف محسوس ہوتا تھا لیکن سبو کی ضد کے آگے اس کی ایک نہ چلی۔

سبو نے اسے بتایا کہ وہ شکسپیئر کے ڈرامے میں حصہ لے رہا ہے تو تنوجا نے کہا انگریزی تو اسے آتی نہیں اسلئے وہ کچھ سمجھ نہیں پائے گی لیکن جب سبو نے بتایا کہ ڈرامہ بنگلہ زبان میں کھیلا جائے گا تو تنوجا کے لیے یہ دلچسپی کا باعث ہو گیا۔ تنوجا کسی زمانے میں بردمان کے سالانہ ثقافتی میلے میں ڈرامے دیکھا کرتی تھی لیکن ایک عرصہ ہوا اس نے یہ چھوڑ دیا تھا۔ سبو نے اسے پھر ایک بار اسٹیج کی دنیا میں آنے کی دعوت دی تھی۔ تنوجا کو ایسا لگ رہا تھا گویا وقت کا پہیہ اپنی سمت بدل کر گھومنے لگا ہے۔

ڈان بوسکو اسکول کی سالانہ تقریب حسب معمول اپنی شان کے ساتھ اختتام پذیر ہوئی لیکن جولیس سیزر ڈرامے نے اور اس کے اندر سبو کی اداکاری نے سارے شرکاء محفل کا من موہ لیا۔ اس ڈرامے کے اندر مارکس بروٹس کی بیوی پورٹیا کا کردار اُروشی نے نبھایا تھا۔ پورٹیا کے کردار میں جو نزاکت تھی اور بروٹس کو ڈرامے میں جو مرکزیت حاصل تھی اس کے پیشِ نظر اُروشی کی اداکاری کو بھی سراہا گیا تھا۔ بروٹس کی لاش پر تقریر کرتے ہوئے جب مارک انٹونی اسے سب زیادہ بہادر اور قابلِ احترام شخصیت قرار دیتا ہے اس وقت اُروشی نے غیر معمولی اداکاری کی تھی۔ متضاد جذبات کا اظہار جس میں بیک وقت وہ بروٹس کی موت پر غمزدہ بھی تھی اوراس کی پذیرائی پر فرحت بھی محسوس کر رہی تھی۔ اس منظر میں ایسا لگتا تھا گویا پورٹیا کی روح اُروشی کے اندر حلول کر گئی ہے۔

اُروشی کے والد سومناتھ داس گپتا کولی ووڈ کے بہت بڑے فلمساز تھے۔ انہوں نے اپنی بیٹی کی اداکاری دیکھی تو ششدر رہ گئے۔ ان کے خیال میں اگر یہ اداکاری اُروشی نے کسی فلم میں کی ہوتی تو اسے قومی اعزاز سے نوازہ جاتا۔ انہوں نے اسی وقت اپنے تئیں فیصلہ کر لیا کہ اُروشی کو لے کر وہ ایک فلم ضرور بنائیں گے۔ سومناتھ دا کی تمام توقعات سے علی الرغم سبو کو اتفاق رائے سے بہترین فنکار کے خطاب سے نوازہ گیا۔ انعام دینے قبل جب اس سے پوچھا گیا کہ وہ اس کامیابی کا سہرہ کس کے سرباندھتا تو ہے اس نے بلا توقف تنوجا کی جانب اشارہ کر کے کہا اپنی اس نانی کے سر جو ہمارے درمیان تشریف رکھتی ہیں۔

صدر مدرس نے تنوجا سے گزارش کی وہ اسٹیج پر تشریف لائے۔ اس شام سارے ٹیلی ویژن چینلس نے سبو کے ساتھ تنوجا کی تصویر نشر کی اور اگلے دن کے سارے بڑے اخباروں میں بھی وہ تصویر جھلک رہی تھی۔ دیپنکر چٹرجی نے جب یہ منظر دیکھا تو ان کا دل بھر آیا۔ پھر ایک بار اپنے دوست ششدھر مکرجی کی حسین یادیں ان کی آنکھوں میں گھوم گئیں اور پھر ساوتری بھابی کے ستی ہونے کا واقعہ ان کی نظروں کے سامنے آ گیا۔ وہ دیر تک خلاء میں دیکھتے رہے اس کے بعد اپنے آنسو پونچھ کر تنوجا کو فون ملایا۔ اس سے پہلے کی دیپودا کچھ کہتے تنوجا رونے لگی۔ ان کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ کیا کہیں۔ انہوں نے بس یہ کہا تنو مبارک ہو اور فون بند کر دیا۔

اس پروگرام کے بعد سبو کولی ووڈ اور کولکتہ ٹی وی کی دنیا میں بحث کا موضوع بن گیا۔ اسے کئی لوگوں نے اپنی فلم اور سیریل میں کام کرنے کی پیشکش کی۔ سبو نے اپنی نانی سے پوچھ کر جواب دینے کی بات کہی۔ وہ لوگ جانتے تھے کہ آج کے دور میں ایسی کون سی نانی ہو گی جو اس بات کو پسند نہیں کرے گی کہ اس کا نواسہ چھوٹے یا بڑے پردے پر نہ چمکے لیکن تنوجا جانتی تھی کہ اگر سبو ایک مرتبہ کیمرے کے سامنے چلا جائے تو اس کی چمک دمک اس کے تعلیمی مستقبل کو تاریک کر دے گی اور مایا نگری میں کون کب تک چمکے گا اس کے بارے میں یقین کے ساتھ کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا۔ وہ نہیں چاہتی تھی راجہ صاحب کا بیٹا فلمی دنیا کی خاک چھانے اس لئے اس نے سبو سے کہا وہ اپنے مستقبل کے سلسلے میں جو بھی فیصلہ کرنا چاہتا ہے بے شک کرسکتا ہے لیکن وہ اس کی اجازت نہیں دے سکتی۔

اس کے والد راجہ ششدھر مکرجی اسے بیرسٹر بنانا چاہتے تھے اور ماں ڈاکٹر، ان میں سے کسی کی یہ خواہش نہیں تھی کہ وہ ایکٹر بنے۔ اس لئے تنوجا بھی یہی چاہتی کہ ان دونوں میں سے ایک پیشے کو اختیار کرے لیکن اداکار نہ بنے۔ تنوجا کے خیال میں یہ ناچنے گانے کا کام راج کمار کے شایان شان نہیں تھا۔ تنوجا نے آخر میں کہا ویسے اگر تمہاری مرضی اداکاری کرنے کی ہے تب بھی اپنی تعلیم کی تکمیل کے بعد وہ اس وادیِ پر خار میں قدم رکھ سکتا ہے۔ سبو نے تنوجا کی اطاعت و فرمانبرداری کرتے ہوئے سارے لوگوں کو منع کر دیا اور اپنے اسکول کی پڑھائی میں منہمک ہو گیا۔

 

 

 

اُروشی

 

اُروشی کے والدسومناتھ داس گپتا ج وکولی ووڈ کے نامی گرامی فلمساز تھے تنوجا سے ملاقات کے لیے اس کے گھر آئے اور کہا کہ وہ اپنی بیٹی کو لے کر بوبی کے طرز پراروشی نام کی فلم بنانا چاہتے ہیں۔ ان کے خیال میں اس فلم کے ہیرو اور ہیروئن دونوں کی یہ پہلی فلم ہونا چاہئے۔ جولیس سیزر دیکھنے کے بعد انہوں نے ارادہ کیا ہے کہ وہ سبو کو اس فلم میں ہیرو کا رول دینا چاہیں گے۔ تنوجا نے ان کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ وہ نہیں چاہتیں کہ سبو کی تعلیم کا سلسلہ منقطع ہو۔ ایک بار اپنی تعلیم کو مکمل کرنے کے بعد سبو جو بھی کرنا چاہے وہ اس کے لیے آزاد ہے۔ سومناتھ دا کو تنوجا کے جواب سے مایوسی ہوئی لیکن ان کے خیال میں اُروشی بھی ابھی فلم کرنے کی عمر کو نہیں پہنچی تھی اس لئے کچھ انتظار تو انہیں کرنا ہی تھا۔

سومناتھ دا نے تنوجا سے دوبارہ ملاقات کی اس کے سامنے یہ تجویز رکھی کہ وہ ڈھائی سال انتظار کر لیں گا تب تک اُروشی اور سبروتو بارہویں کے امتحان سے فارغ ہو جائیں گے۔ اس دوران وہ دیگر تیاریاں مکمل کر لیں گے۔ منظرنامہ کہانی اور دوسرے اداکاروں کا انتخاب اور ان کنٹراکٹ سائن ہو جائیں گے۔ ان سے تاریخیں لے لی جائیں گی۔ فلمبندی کا کام بنا رکے ڈھائی ماہ کے اندر مکمل کر لیا جائے گا تاکہ سالانہ تعطیلات کے بعد وہ دونوں کالج میں داخلہ لے سکیں۔ اس کے تقریباً چھے ماہ بعد یہ فلم ریلیز ہو جائے گی لیکن اس سے سبو کا تعلیمی سلسلہ متاثر نہیں ہو گا۔ تنوجا اس منصوبے پر راضی ہو گئی۔ سومناتھ دا نے اس سے عہد لیا کہ سبو ان کی فلم اُروشی سے پہلے کسی فلم میں کام نہیں کرے گا۔ تنوجا نے وعدہ کر دیا۔

وقت کا پہیہ گھومتا رہا۔ اسکول کی تعلیم کے ساتھ ساتھ سبروتو کے مطالعہ کا شوق بھی پروان چڑھتا رہا۔ وہ انگریزی اور بنگلہ کے علاوہ اردو اور ہندی ادب کا بھی مطالعہ کرنے لگا۔ انگریزی کے ساتھ فرانسیسی اور روسی کہانیوں کے تراجم بھی اس کے مطالعے میں آنے لگے اور اس کے اندر لکھنے کی خواہش مچلنے لگی لیکن دسویں کلاس کی پڑھائی کا دباؤ نہ اس کی اجازت دیتا تھا اور نہ یکسوئی ہو پاتی تھی۔ اس بیچ دیپنکر مکرجی اس سے کولکتہ میں کئی بار ملاقات کر چکے تھے اور انہیں اندازہ ہو گیا تھا کہ سبو کا رجحان تکنیکی تعلیم کے بجائے فنون لطیفہ کی طرف ہے۔

دسویں کے بعد کی چھٹیوں میں انہوں نے ایک مشہور ٹراویل ایجنسی کی مدد سے سبو کے لیے یوروپ کے سیاحتی دورے کا منصوبہ بنایا۔ یہ چالیس دنوں کا دورہ مشرقی، وسطی اور مغربی یوروپ کے کئی ممالک پر محیط تھا۔ سومناتھ دا کو جب اس کا پتہ چلا تو انہوں نے اُروشی کو اس کی ماں کے ساتھ اس سیر و سیاحت کے لیے شامل کر دیا اس طرح پچیس لوگوں کے اس کارواں میں تنوجا، سبو، اُروشی اور اس کی ماں روپا رانی بھی موجود تھے۔

تنوجا کے لیے یہ خوابوں کا سفر تھا۔ گنیش بھٹاچاریہ کے ساتھ بردمان جیسے چھوٹے سے شہر میں زندگی گزارتے ہوئے اس نے سوچا بھی نہیں تھا کہ وہ کبھی لندن، پیرس، ماسکو اور سوئٹزر لینڈ جیسے شہروں کی سیر کرے گی۔ سبو کے ساتھ ساتھ تنوجا کی تقدیر کا ستارہ بھی عروج پر تھا۔ سبو کی زندگی میں یہ سیر وسیاحت ایک نئی بہار لے کر آئی تھی۔ وہ کبھی قدرتی مناظر سے لطف اندوز ہو رہا ہوتا تو کبھی لوگوں سے مل رہا ہوتا۔ مختلف لوگوں کے طور طریقے۔ ان کی تہذیب و معاشرت۔ وہاں کے تاریخی مقامات اور ان کا پس منظر سب کچھ اس کے لیے اپنے اندردلچسپی کا سامان رکھتے تھے۔

سبو کا زیادہ تر وقت گائیڈ س کے ساتھ گزرتا تھا۔ وہ دن بھر ان سے بے شمار سوال کرتا تھا اور شام میں اسے اپنے کمپیوٹر میں محفوظ کر لیتا۔ ہر مقام کی لوک کہانیاں وہاں کے ادبِ لطیف کی کتابوں کا ذخیرہ جمع کرتا اور اگلے مقام پر جانے سے قبل اسے ہوٹل سے کولکتہ روانہ کر دیتا۔ دیپو دا نے تنوجا کو ہدایت کر رکھی تھی کہ وہ خرچ کی بالکل پرواہ نہ کرے۔ سبو جو بھی خریدنا چاہے اسے خرید لینے دے۔ دیپو دا جانتے تھے سبو اگر اپنے سارے ارمان نکال لے تب بھی راجہ صاحب کی جائداد کا عشر عشیر بھی خرچ نہیں کر پائے گا۔

تنوجا کی توجہ کا مرکز ویسے توسبو تھا مگر دورانِ سفر روپا رانی اور اُروشی سے بھی اس کی خوب چھننے لگی تھی اور سچ تو یہ ہے کہ اسے اُروشی کے عادات و اطوار بہت پسند آئے تھے۔ اس نے سوچ لیا تھا کہ فلمبندی کے بعد اگر سبو اُروشی کے ساتھ شادی کی خواہش کرے گا تو وہ فوراً تیار ہو جائے گی اور اگر نہیں کرے گا تو خود اس کے سامنے یہ تجویز رکھے گی کہ اُروشی کے ساتھ اپنا گھر بسا لے۔

اُروشی کو گھومنے پھرنے کے علاوہ کپڑے اور خوشبو خریدنے کا بھوت سوار تھا۔ سبو سے ترغیب پا کر اس نے بھی اپنے کپڑوں کا بوجھ درمیان ہی سے کولکتہ روانہ کرنا شروع کر دیا تھا تاکہ سفر ہلکا پھلکا رہے۔ روپا رانی کھانے پینے کی شوقین تھیں۔ جہاں بھی جاتیں سب سے پہلے یہ معلوم کرتیں کہ وہاں کے خاص پکوان کون کون سے ہیں ؟ اس کے بعد ایک ایک کر کے خود بھی ان سے محظوظ ہوتیں اور بقیہ تینوں کو بھی کھلاتیں۔ قافلہ کے دیگر سیاحوں سے بھی روپا رانی کی دوستی ہو گئی تھی۔ وہ بہت ہی ملنسار خاتون تھیں۔ جو بھی ان سے ایک بار ملتا ان کا گرویدہ ہو جاتا تھا اور اس فہرست میں سب سے اوپر تنوجا کا نامِ نامی تھا۔

چالیس دن دیکھتے دیکھتے گزر گئے کچھ پتہ ہی نہیں چلا۔ جب وہ لوگ واپس آئے تو امتحان کے نتائج آنے ہی والے تھے ابھی سفر کی تھکن بھی نہیں اتری تھی نتائج کا اعلان ہو گیا۔ اُروشی اور سبو دونوں نے امتیازی نمبروں سے کامیابی حاصل کی تھی اس لئے بلا کسی دقت کے ان کا ڈان باسکو ہی کے جونئیر کالج میں داخلہ ہو گیا۔ سبو نے چونکہ آرٹس میں داخلہ لیا تھا اس لئے ڈاکٹر ی کا راستہ بند ہو گیا لیکن بیرسٹری کا دروازہ ہنوز کھلا ہوا تھا۔ کالج کے دوران سبو نے انگریزی ادب کو کھنگال کر رکھ دیا۔ اس بیچ اس نے کالج کے سالانہ تقریبات کا ڈرامہ لکھا اور اس میں ہدایتکاری کی ذمہ داری ادا کی مگر اداکاری سے گریز کر گیا لیکن اس کے ڈرامے کی ہیروئن اُروشی تھی۔

اُروشی کی اداکاری کے جوہر دن بدن کھُلتے جا رہے تھے۔ اسے بھی فلموں کے چھوٹے موٹے رول کی پیش کش ہو رہی تھی لیکن سومناتھ دا صاف منع کر دیتے تھے۔ انہیں پتہ تھا اُروشی کو تو اپنی پہلی ہی فلم سے سپر اسٹار بن جانا ہے۔ اس لئے وہ اس کے تعارف سے آگے جانا نہیں چاہتے تھے۔ سومناتھ دا فلم کی تیاریوں مصروف تھے۔ اس فلم کا اوراس کے ہیرو ہیروئن کا نام انہوں نے صیغۂ راز میں رکھا ہوا تھا۔

گیارہویں جماعت کے بعد تعطیلات مختصر ہوتی تھیں۔ اس بار سومناتھ دا نے سیرو تفریح کا پروگرام بنایا اور روپا رانی کے ساتھ اُروشی کو کلو منالی بھیجنے کا ارادہ کیا نیز سبو اور تنوجا کو بھی اس کے لیے تیار کر لیا۔ اس سفر کے دوران وہ لوگ کولکتہ سے ہوائی جہاز کے ذریعہ بنگلور گئے تھے اور وہاں دو دن قیام کرنے کے بعدبس کے ذریعہ سے کلو منالی کا سفر کیا۔ کلو منالی میں ایک ہفتہ گزارنے کے بعد وہ لوگ بس کے ذریعہ چنئی آئے وہاں پر دو دن گزارنے کے بعد وہ بذریعہ ہوائی جہاز کولکتہ لوٹ آئے۔

سبو کے لیے یہ سفر بھی یادگار تھا۔ اس نے ہندوستان میں بردمان یا کولکتہ کے علاوہ کوئی اور مقام دیکھا نہیں تھا اور اس غلط فہمی کا شکار تھا کہ سارا ہندوستان ایسا ہی ہے۔ بنگلور جانے کے بعد اسے پتہ چلا کہ بنگلور اور کولکتہ کے درمیان کچھ بھی مشترک نہیں ہے اور جب وہ لوگ بس سے کلو منالی کے لئے روانہ ہوئے تو اسے احساس ہوا درمیان کے علاقے بھی بنگلور سے خاصے مختلف ہیں۔ کلو منالی میں تو ایک نیا جہان آباد تھا۔

واپسی میں جب وہ لوگ تمل ناڈو کے مختلف علاقوں سے گزرتے ہوئے چنئی پہنچے تو پر یہ انکشاف ہوا کہ یہ پڑوسی ریاستیں بہت سارے معاملات میں ایک دوسرے کی ضد ہیں اور ان کے درمیان کرشنا ندی کے پانی کا تنازعہ ہند اور بنگلہ دیش سے زیادہ سنگین ہے۔ کولکتہ لوٹتے ہوئے فلائیٹ میں سبو نے فیصلہ کیا کہ اگر اسے موقع ملا تو ایک بار سڑک سے ہندوستان بھر کا سفر کرے گا تاکہ اس ملک کو سمجھ سکے جس کا کہ وہ رہنے والا ہے۔ اسے یقین تھا کہ یہ سفر یوروپ کے سفر سے زیادہ متنوع اوردلچسپ ہو گا۔

بارہویں جماعت کے امتحان سے جس دن سبو اور اُروشی فارغ ہوئے دوسرے ہی دن انہیں شیلانگ کے لیے روانہ ہو جانا پڑا۔ سومناتھ دا ایک ماہ قبل سے وہاں ڈیرہ ڈالے ہوئے تھے اور ان مناظر کی فلمبندی کا کام جاری تھا جن میں سبو اور اُروشی نہیں تھے۔ ان دونوں کے وہاں پہنچتے ہی اب ایسے مناظر کی شوٹنگ کا آغاز ہو گیا جن کو سبو اور اُروشی پر فلمایا جانا تھا۔ سبو کے لیے یہ یکسر مختلف تجربہ تھا۔ ڈرامے کی ریہرسل ایک ترتیب سے ہوتی تھی اور اسی ترتیب کے ساتھ اسے کھیلا جاتا تھا لیکن فلم کو چھوٹے چھوٹے مناظر میں تقسیم کر دیا گیا تھا اور ایک پس منظر میں فلمائے جانے والے سارے مناظر کی شوٹنگ بلا ترتیب یکے بعد دیگرے کی جاتی تھی۔ سبو نے محسوس کیا کہ اس لحاظ سے فلم میں کام کرنا مشکل تر ہے لیکن یہاں فائدہ یہ تھا ناظرین موجود نہیں ہوتے تھے اور اگر اداکاری میں کجی رہ جائے تو اس کو دوہرا کر سدھارنے کا موقع باقی رہتا تھا۔

فلمبندی کا کام جیسے جیسے آگے بڑھتا گیا اس میں تیزی آتی گئی اور اسی کے ساتھ سبو کی مصروفیت میں بھی اضافہ ہوتا چلا گیا لیکن اس بیچ وہ تنوجا سے بات کرنا نہیں بھولتا تھا گو کہ فون کے درمیان کا وقفہ دن بدن بڑھتا جا رہا تھا۔ ایک کے ماہ بعد فون پر سبو نے گفتگو کرتے ہوئے محسوس کیا کہ نانی کی طبیعت ناساز ہے۔ اس نے بارہا تفصیل دریافت کی لیکن تنوجا انکار کرتی رہی۔ سبو کو جب لگا کہ نانی اس سے کچھ چھپا رہی ہے تو اس نے سومناتھ دا سے کہا وہ کولکتہ واپس جانا چاہتا ہے۔ سومناتھ دا نے اسے سمجھایا کہ اس طرح درمیان سے جانا مناسب نہیں ہے۔ اس کے اچانک چلے جانے سے یہ سارے لوگ بیکار ہو جائیں گے اور لاکھوں کا نقصان ہو جائے گا۔ اسی کے ساتھ اگر شوٹنگ پوری نہ ہو سکی تو اس کا کالج جانا بھی متاثر ہو جائے گا جو تنوجا کو ہر گز قابلِ قبول نہیں ہے۔ اس لئے وہ اطمینان رکھے ، اس کی اہلیہ روپا رانی جو اب تنوجا کی سہیلی بھی ہے اس کا پورا خیال رکھے گی۔

سومناتھ نے فوراً اپنی بیوی روپا رانی سے رابطہ قائم کیا اوراسے ہدایت کی کہ تنوجا سے مل کر اس کی کیفیت سے آگاہ کرے۔ روپارانی جب تنوجا سے ملی تو اسے پتہ چلا کہ تنوجا کی حالت بہت خراب ہے۔ اسے سانس لینے میں شدید دقت پیش آ رہی ہے اس لئے کہ اس کے پھیپھڑوں میں پانی جمع ہو گیا۔ ڈاکٹر جراحت کا خطرہ اس لئے مول نہیں لے رہے ہیں کہ وہ ذیابطیس کے مرض میں مبتلا ہے اور اس کے خون میں شکر کی مقدار بہت زیادہ ہے۔ دواؤں کے ذریعہ پانی خشک کرنے کی سعی کی جا رہی ہے لیکن اس کے حوصلہ افزاء نتائج برآمد نہیں ہو رہے تھے اس لئے ڈاکٹروں نے کہہ دیا تھا کسی بھی وقت کچھ بھی ہو سکتا ہے۔

یہ خبر سومناتھ دا پر بجلی بن کر گری۔ انہوں نے روپا رانی سے پوچھا اس گھر میں اور کون ہے تو روپا نے بتایا بس ایک چوکیدار گوپال داس ہے جو سودہ سلف لانے کا کام بھی کر دیا کرتا ہے اس کے علاوہ کوئی اور نہیں ہے۔ سومناتھ دا نے روپا سے کہا وہ اسے تنوجا کے ڈاکٹر اور گوپال داس کا فون نمبر فراہم کرے نیز اپنے گھر کی ایک پرانی ملازمہ پدما کو تنوجا کی خدمت پر معمور کر دے۔ اس کے علاوہ دو تربیت یافتہ پیشہ ور نرسیں بھی تنوجا کے لیے متعین کر دی جائیں تاکہ اس کی صحت کا پورا خیال رکھا جا سکے۔

ڈاکٹر سے بات کرنے کے بعد سومناتھ دا کو یقین ہو گیا کہ اب تنوجا چند دنوں کی مہمان ہے۔ انہوں نے سوچا تنوجا تو اس دنیا سے چلی جائے گی لیکن اگر سبو سیٹ چھوڑ کر چلا جائے گا تو نہ صرف ان کا بہت بڑا خسارہ ہو جائے گا بلکہ سبو کا مستقبل بھی تاریک ہو جائے گا۔ اس لئے کہ کولی ووڈ بلکہ بولی ووڈ کا بھی کو ئی دوسرا فلمساز جلدی اسے اپنی فلم میں سائن نہیں کرے گا۔ سومناتھ دا نے گوپال داس سے فون پر بات کی اور اسے خرید لیا۔ گوپال داس ان کی سازش کا حصہ بن گیا اور تنوجا کے فون کو اپنے قبضے میں لے لیا۔ اب گوپال داس سومناتھ کے اشارے پر چلتا تھا اور وہ جو کچھ بولتے تھے اس پر بلا چوں چرا عمل در آمد کرتا تھا۔ روپارانی نے گوپال داس کے معاوضہ کی پہلی قسط اس تک پہنچا دی تھی۔

فلمبندی کے دوران ایک دن سبو جذباتی ہو گیا۔ اس نے سوچا اس فلم کی شوٹنگ کے خاتمے کے بعد وہ لوٹ کر واپس کولکتہ نہیں جائے گا اور نہ اُروشی کو جانے دے گا۔ وہ اُروشی سے بیاہ رچا کر وہیں بس جائے گا۔ کولکتہ کی گہما گہمی سے دور پرسکون زندگی گزارے گا لیکن نانی وہ تو کولکتہ میں ہے۔ اس نے سوچا کہ وہ اپنی نانی کو کو بھی یہیں شیلانگ میں بلا لے گا۔ اسے یقین تھا کہ اس کے بلانے پر نانی خوشی خوشی یہاں آ جائے گی۔ جو دیوی سمان عورت بردمان سے میرے لئے اپنی بیس سالہ گھر گرہستی قربان کر کے کولکتہ آسکتی ہے اسے شیلانگ آنے میں کیا پریشانی ہو سکتی ہے اور پھر نانی تو اُروشی کی تعریف کرتے نہیں تھکتی۔ جب اسے پتہ چلے گا کہ اُروشی اس کی بہو بن چکی ہے تو وہ خوشی سے پھولی نہیں سمائے گی۔ ان سہانے خوابوں کے بیچ اس نے نانی کو فون لگایا تو سامنے سے گوپال داس کی آواز آئی۔

سبو نے بگڑ کر کہا کون ہو تم۔ نانی کو فوراً فون دو۔ گوپال بولا سرکار میں آپ کا غلام گوپال داس بول رہا ہوں۔ گوپال داس نے سبو کو بتایا کہ وہ تنوجا کو فون نہیں دے سکتا اس لئے ایک دن قبل وہ اپنے گاؤں چلی گئی۔ بردمان سے پچاس ساٹھ میل دور تنوجا کے آبائی گاؤں ڈھنگرا سے کچھ رشتے دار آئے تھے جو اسے اپنے ساتھ لے گئے تاکہ گاؤں کے وید جی سے تنوجا کا علاج کرا سکیں۔ سبو کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ یہ اتنے دنوں بعد نانی کے رشتے دار کہاں سے نمودار ہو گئے اور وہ موبائل اپنے ساتھ کیوں نہیں لے گئیں۔

ان دونوں سوالات کا جواب گوپال نے یوں دیا کہ تنوجا نے خود بردمان فون کر کے کسی کے ذریعہ گاؤں میں سندیسہ بھیج کر کے انہیں بلوایا تھا اس لئے کہاس کے خیال میں اس کا بہترین علاج وید جی ہی کرسکتے ہیں۔ فون اس لئے چھوڑ گئی کہ گاؤں میں موبائل کا سگنل نہیں ہے اس لئے وہاں یہ بیکار ہے نیز یہاں اگر تم فون کرو تو یہ پیغام دیا جا سکے تاکہ تم دھیرج رکھو۔ انہوں نے جاتے جاتے کہا کہ وہ بہت جلد لوٹ آئے گی۔ حالانکہ تنوجا جس جہاں میں کوچ کر گئی تھی وہاں سے کوئی لوٹ کر نہیں آتا۔

گوپال داس کی گفتگو سے سبو کا دماغ گھوم گیا۔ وہ فوراًسومناتھ دا کے پاس آیا لیکن اس سے پہلے گوپال داس انہیں گفتگو سے مطلع کر چکا تھا اس لئے وہ خود سبو کے منتظر تھے۔ انہوں نے سارے متوقع سوالات کے جواب اپنے پاس تیار کر کے رکھے تھے۔ سبو نے آتے ہی کہا انکل میں اب نہیں رک سکتا مجھے فوراً جانا ہے۔ سومناتھ دا بولے کہاں جاؤ گے ؟ مجھے تو تمہاری آنٹی نے بتایا کہ تنوجا علاج کے لیے گاؤں چلی گئی ہے۔ سومناتھ کی زبان سے بھی وہی تفصیل سن کر سبو کو گوپال کی بات پر یقین ہونے لگا وہ بولا میں گاؤں جاؤں گا۔ کون سے گاؤں ؟ کیا تمہیں اس کا پتہ معلوم ہے ؟۔ سبو بولا میں پتہ لگاؤں گا۔ کس سے پتہ لگاؤ گے ؟سبو کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا اسے ایسا لگ رہا تھا گویا وہ ایک بند گلی میں پہنچ گیا ہے جہاں اندھیرا ہی اندھیرا ہے اور اندھیرے کے سوا کچھ نہیں ہے۔ ایسے میں اسے روشنی کی ایک کرن نظر آئی دیپو انکل۔

سبو بولا دیپو انکل سے میں نانی کے گاؤں کا پتہ لگاؤں گا۔ سومناتھ بولے مجھے پتہ تھا تم یہی کہو گے۔ دیپودا فی الحال بیرونِ ملک دورے پر ہیں پھر بھی میں نے ان سے رابطہ کیا اور تمہیں یہ جان کر حیرت ہو گی کہ وہ خود بھی تنوجا کے گاؤں سے ناواقف ہیں۔ اگر تمہیں یقین نہ آتا ہو تو خود فون کر کے پوچھ لو۔ سومناتھ دا نے دیپنکر چٹرجی کو سمجھا دیا تھا کہ اگر سبو فون کرے تو انہیں کیا جواب دینا ہے۔ سبو تذبذب کا شکار ہو گیا اور خلاء میں دیکھنے لگا۔ سومناتھ بولے اگر تمہیں دپپودا سے بات کرنا ہو تو میں انہیں باہر کے نمبر پر فون لگاؤں۔ سبو بولا نہیں جانے دیجئے میں بعد میں ان سے بات کر لوں گا۔ سومناتھ بولے دیکھو ابھی صرف دس دن کا کام رہ گیا جو ہم ایک ہفتہ میں نمٹا دیں گے۔ اس کے بعد ساتھ ہی کولکتہ چلے چلیں گے۔ ممکن ہے اس وقت تک تمہاری نانی علاج کروا کر آ چکی ہو اور اگر ایسا نہیں ہوا تو وہاں سے بردمان جا کر گاؤں کا پتہ لگانے کی کوشش کریں گے۔

دیکھتے دیکھتے فلمبندی کا آخری ہفتہ بھی گذر گیا۔ اس بیچ سبو خاصہ بے چین رہا لیکن حالات نے اس قدر مجبور کر رکھا تھا کہ وہ کوئی اقدام نہیں کرسکا۔ کولکتہ پہنچنے کے بعد تمام حقائق کے اوپر سے پردہ اٹھ گیا۔ اسے پتہ چل گیا کہ اس کے دھوکہ ہوا ہے۔ ایک سازش کے تحت اسے گمراہ کیا گیا۔ سبو کونانی کی موت کا غم اپنی ماں سے بھی زیادہ ہوا تھا اس لئے کہ ماں کی موت کے وقت اسے پتہ ہی نہیں تھا موت کس بلا کا نام ہے لیکن اب وہ با شعور ہو چکا تھا وہ جان رہا تھا ماں باپ کے بعد اس کے سر کا واحد سایہ، اس کی نانی اس جہانِ فانی سے اٹھ چکی ہے اور افسوس کہ جس وقت اس کی نانی مرض الموت میں مبتلا تھی اس وقت فلم کی شوٹنگ کر رہا تھا۔ وہ اپنی نانی کی چتا کو اگنی بھی نہیں دے سکا ان کا مرتیو کلش گنگا ساگر میں بہا کر انہیں مکتی دلانے کی سعادت سے بھی محروم رہا۔ سبو جس قدر اس مسئلے پر غور کرتا تھا اس کے حزن و ملال میں اضافہ ہوتا چلا جاتا تھا۔

سبو کے آنے سے قبل ہی گوپال داس فرار ہو چکا تھا۔ سومناتھ دا اور ان کی بیوی روپارانی میں سبو کا سامنا کرنے کی اخلاقی جرأت نہیں تھی لیکن اُروشی اس کا تو کوئی قصور نہیں تھا۔ اس نے سبو سے کیوں منھ پھیر لیا تھا یہ اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔ اس بیچ سبو کو دیپو انکل کا فون آیا۔ وہ ہوائی اڈے سے بات کر رہے تھے۔ انہوں نے سبو کو بتایا کہ وہ بردمان جانے سے قبل اس کے گھر آ کر ملاقات کرنا چاہتے تھے۔ دیپو انکل سے مل کر سبو بہت رویا۔ حقیقت یہی تھی فی الحال سبو کا غمگسار دیپو انکل کے سوا کوئی نہیں تھا۔ اس نے دیپو ادا سے گزارش کی اگر ممکن ہو تو وہ دو چار دن کے لیے اس کے پاس ٹھہر جائیں تاکہ اس کا من ہلکا ہو جائے۔ دیپنکر چٹرجی اس کے لیے تیار ہو گئے انہیں لگا کہ شاید اسی بہانے ان کے گناہوں کا کچھ نہ کچھ کفارہ ہو جائے۔

یہ پہلا موقع تھا جب دیپو دا کو اس کوٹھی میں ٹھہرنے کا اتفاق ہوا تھا۔ اس سے پہلے وہ راجہ صاحب کی یا تنوجا کی موجودگی میں یہاں آتے تھے اور دیوان خانے میں بیٹھ کھاتے پیتے اور گفتگو کر کے لوٹ جاتے لیکن اب کی بار کوٹھی میں صرف سبو تھا اور وہ تھے۔ اپنے قیام کے دوران وہ سبو کی کتابوں کے ذخیرے سے بہت متاثر ہوئے۔ راجہ صاحب بھی مطالعہ کا اعلیٰ ذوق رکھتے تھے مگر سبوکا شوق ان سے آگے نکل گیا تھا۔ اس کتب خانے کو دیکھنے کے بعد انہیں ایک کمی محسوس ہوئی جو انہوں نے دوسرے دن پوری کر دی۔ وہ بازار سے اپنے ساتھ رامائن لے آئے اور دیپو کو یہ کہہ کر ہدیہ کر دیا کہ بیٹے غم کی اس گھڑی میں ممکن ہے یہ صحیفہ تمہارے کسی نہ کسی کام آئے۔

دودن بعد دیپودا نے سبو سے پوچھا اب دوچار دنوں کے اندر تمہارے امتحانات کے نتائج آ جائیں گے اور مجھے یقین ہے کہ تم پھر ایک بار امتیازی نمبروں سے کامیاب ہو جاؤ گے تو اب آگے کیا ارادہ ہے ؟ اگر کسی خاص کالج یا کورس میں داخلہ لینا ہو اور اس بابت کوئی مشکل ہو تو مجھے بتانے میں تکلف نہ کرنا۔ سبوبولا انکل اب میرا دل اس شہر میں نہیں لگتا۔ نانی کے بغیر یہ کوٹھی مجھے کھانے کو دوڑتی ہے اس لئے میں اس شہر کو چھوڑ کر شیلانگ جانا چاہتا ہوں ، اب میں وہیں پر رہنا چاہتا ہوں۔

دیپو دا کو سبو کی اس تجویز پر حیرت ہوئی وہ بولے لیکن ایک اجنبی شہر میں جا کر کہاں رہو گے ؟ سبو نے بتایا کہ سومناتھ دا نے جو مکانات شوٹنگ کے دوران کرائے پر لئے تھے ان میں سے ایک میں جا کر وہ رہ لے گا۔ ویسے بھی کولکتہ میں اس کا کون ہے ؟ نانی اسے چھوڑ کر چلی گئیں اورسومناتھ دا اور روپارانی کی شکل وہ خود دیکھنا نہیں چاہتا۔ کچھ دوست و احباب ہیں تو ان کا کیا وہاں بھی بن جائیں گے۔

دیپو دا نے محسوس کیا کہ سبو نے اُروشی کے بارے میں کچھ نہیں کہا تو وہ از خود بولے۔ سبو مجھے تمہارا یہ خیال بھی ٹھیک ہی لگتا ہے۔ میں نے سنا ہے اُروشی کی سگائی بہت جلد اسی فلم کے ہدایتکار دلیپ گوگوئی سے ہونے والی ہے اور شادی فلم کی ریلیز ہونے کے ٹھیک ایک ہفتہ بعد ہو گی۔ سبو پر یہ غم و اندوہ کا انتہائی حملہ تھا۔ اسے اس بات پر تعجب تھا۔ ڈھائی ماہ تک شیلانگ میں ایک ساتھ کام کرنے کے باوجود اسے دلیپ گوگوئی اور اُروشی کے درمیان تعلق کا پتہ کیوں نہیں چل پایا۔

سبو نے سوچاکاش کہ اسے یہ معلوم ہو گیا ہوتا تو وہ شیلانگ سے لوٹ کر کولکتہ آنے کی زحمت ہی نہیں کرتا۔ وہیں سے نانی کو اپنے پاس بلاتا اور جب پتہ چلتا کہ وہ اس دنیا سے جاچکی ہیں تو صبر کر کے بیٹھ جاتا۔ جس آدمی کی تقدیر میں غم ہی غم لکھے ہوں وہ صبر کرنے کے علاوہ اور کر بھی کیا سکتا ہے ؟سبو اپنی کم عمری ہی میں بزرگی کا شکار ہو گیا تھا۔ اس کی جوانی بڑھاپے کی نذر ہو گئی تھی۔

 

 

 

رامائن

 

دیپو انکل کے بردمان لوٹ جانے کے بعد سبو پھر ایک بار یکہ و تنہا ہو گیا۔ اپنی اس تنہائی کو دور کرنے کی خاطر وہ دیپودا کا تحفہ رامائن کھول کر بیٹھ گیا۔ یہ والمیکی کی نہیں بلکہ تلسی داس کی رامائن تھی جو رام چرت مانس کے نام سے مشہو رہے۔ مہا کوی تلسی داس نے اسے ۲۰۰ قبلِ مسیح میں نہیں بلکہ بابر کے زمانے میں یعنی صرف ساڑھے چار سو سال قبل لکھا تھا۔ سبو دراصل رام چرت مانس کا نہایت سلیس اور دلچسپ بنگلہ ترجمہ پڑھ رہا تھا۔ رامائن کا مطالعہ سبو نے پہلے کیا تو نہیں تھا لیکن اسٹیج پر اور ٹی وی کے پردے پر رام آنند ساگر کی رامائن دیکھ کر کہانی کا اندازہ کر چکا تھا۔ دیکھنے اور پڑھنے کا فرق سبو رامائن کو پڑھتے ہوئے جان رہا تھا۔

اسے پتہ چل گیا تھا کہ جس طرح بہت ساری چیزیں کو دیکھا تو جا سکتا ہے لیکن لکھا نہیں جا سکتا اسی طرح بہت ساری باتیں ایسی بھی ہیں جنہیں لکھا تو جا سکتا ہے مگر دکھلانا ممکن نہیں ہے۔ رامائن پڑھنے سے قبل سبو کا خیال تھا کہ یہ حق و باطل کے موضوع پر لکھی گئی ایک رزمیہ داستان ہے جس میں بالآخر حق کو غلبہ حاصل ہو جاتا ہے لیکن جب اس نے غور سے اس کا مطالعہ کیا تو اسے پتہ چلا کہ اس کے ہر موڑ پر ایک سازش اور حق تلفی موجود ہے اور کہانی اسی کے سہارے آگے بڑھتی ہے۔

سبو نے محسوس کیا کہ کہانی کا با قاعدہ آغاز ہی حق تلفی سے ہوتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس نا انصافی کا شکار خود رام چندر جی ہو جاتے ہیں اور اس موقع پر ظالم کا کردار کوئی اور نہیں بلکہ ان کی سوتیلی ماں کیکئی ادا کرتی ہیں۔ وہ اپنے بیٹے بھرت تو تخت نشین کرنے کی سازش کچھ اس طرح سے رچتی ہیں کہ رام کو بن باس اور بھرت و کو تخت و تاج حاصل ہو جاتا ہے۔ اس حق تلفی کے خلاف رام چندر جی کے والدِ بزرگوار راجہ دشرتھ بھی بے بس و لاچار نظر آتے ہیں۔

لکشمن جو بھرت سے بڑا ہونے کے سبب اقتدار کا اس سے زیادہ حقدار ہے اپنے چھوٹے بھائی کی رعایا بننے کے بجائے از خود بن باس پر نکل جانے کو ترجیح دیتا ہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ بھرت بھی رام جی کو ان کے کھڑاؤں سے محروم کر کے تخت پر رکھنے کے بجائے لکشمن کی طرح ان کے ساتھ جنگل جانے کے لیے تیار ہو جاتا جس کے نتیجے میں کیکئی کو اپنی غیر عقلی شرائط واپس لینے پر مجبور ہو جانا پڑتا لیکن اگر ایسا ہو جاتا تو پھر رامائن کیسے بنتی؟

کیکئی نے اپنے بیٹے کی محبت میں جو کچھ کیا آگے چل کر اسی کا اعادہ مریادہ پرشوتم رام جی نے اپنے مفاد کی خاطر کشکندہ کے راجہ والی کے ساتھ کیا۔ رامائن میں کشکندہ کی اہمیت کے پیشِ نظر اس نام سے ایک باب منسوب ہے۔ رام چندر جی کو لنکا فتح کرنے کے لیے جنوب ہند کی قبائلی فوج درکار تھی۔ سو انہوں نے والی اور سگریو برادران کی آپسی چپقلش کا فائدہ اٹھایا۔ اس کہانی کو پڑھنے کے بعد سبو کی رائے رام چندر جی کے بارے میں بدلنے لگی اس لئے کہ بڑا بھائی والی پوری طرح حق بجانب تھا لیکن رام جی نے اس کے خلاف نہ صرف سگریو کا ساتھ دیا بلکہ ایک سازش کے تحت چھپ کر نہتے والی کا قتل کر دیا۔

کیکئی نے تو خیر اقتدار کے حقدار کو صرف ۱۲ سال کے لیے بن باس میں بھیجا تھا لیکن تھا لیکن رام جی کا شکار والی پرلوک سدھار گیا۔ باوجود اس کے کہ سگریو نے پے درپے غلطیاں کی تھیں رام چندر جی اسی کے ہمنوا بنے رہے اور اسے کبھی بھی مائل با اصلاح نہیں کیا۔ اس کہانی سے سبو اس قدر پریشان ہوا کہ اس نے والمیکی کی رامائن حاصل کی تاکہ اس میں حقیقت کی معرفت حاصل کرسکے لیکن وہاں بھی اسے جو کچھ پتہ چلا وہ مایوس کن تھا۔

والمیکی کی رامائن بھی اس بات پر شاہد تھی کہ والی اورسگریو دونوں بھائی تھے جن میں سے والی تخت سلطنت کا مالک تھا۔ ایک مرتبہ یوں ہوا کہ راکشس مایاوی کا پیچھا کرتے ہوئے والی کسی زیر زمین سرنگ میں گھس گیا لیکن اندر اترنے سے قبل اس نے اپنے بھائی سگریو کو دہانے پر تعینات کیا۔ کچھ دیر بعد سگریو نے دیکھا کہ اندر خون کی ایک زبردست بوچھار باہر آئی۔ اس نے اندازہ لگایا کہ مایاوی نے اس کے بھائی والی کا قتل کر دیا ہے۔

سگریو نے نہ ہی اس کی تصدیق ضروری سمجھی اور نہ ہی اپنے بھائی کے قتل کا بدلہ لینے کے بارے میں سوچا بلکہ فوراً جا کر تخت نشین ہو گیا جب کہ اقتدار کا جائز حقدار والی کا بیٹا ولی عہد انگڑ تھا۔ سگریو کو چاہیے تھا اسی کو تاج پہناتا۔ سگریو نے بادشاہ بننے کے بعد ہنومان کو اپنا وزیر اعظم بنا لیا۔ والی کی قیاس آرائی غلط نکلی سرنگ کے اندر سے خون کی جو بوچھار باہر آئی تھی وہ مایاوی کی تھی جسے والی نے قتل کر دیا تھا۔ باہر آنے کے بعد پہلے تو والی نے سگریو کو غائب پایا اور جب وہ اپنے ملک کی راجدھانی کشکندہ واپس آیا تو پتہ چلا سگریو راجہ بنا ہوا ہے۔ والی نے اسے معزول کر کے بن باس بھیج دیا۔

جنگل کے اندر سگریو اور رام چندر جی کی اتفاقی ملاقات ہو گئی۔ رامجیکی دشمنی راون کے ساتھ تھی اس لئے کہ اس نے سیتا کو اغواء کر لیا تھا اور سگریو اپنے بھائی کا دشمن بنا ہوا تھا اس لئے کہ والی کے سبب اس کا ناجائز اقتدار چھن گیا تھا۔ ان دونوں کے درمیان سانٹھ گانٹھ ہو گئی۔ دونوں نے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنے کا فیصلہ کیا حالانکہ سگریو کی معاونت اصول پسندی کے بجائے ابن الوقتی و مفاد پرستی کی بنیاد پر کی گئی تھی۔

سگریو اور والی کے درمیان کشتی کا مقابلہ طے ہوا۔ والی نہیں جانتا تھا کہ یہ مقابلہ اس کے قتل کی ناپاک سازش ہے۔ والی اس بات سے بے خبر تھا کہ اس کا قاتل پیڑ کے پیچھے چھپا ہوا ہے۔ وہ کوئی اور نہیں مریادہ پرشوتم رام ہیں جن کا اس نے کچھ بھی نہیں بگاڑا۔ اس کے باوجود سگریو کا تعاون حاصل کرنے کی خاطر والی کانا حق قتل کر دیا گیا تاکہ سگریو کو تخت نشین کیا جا سکے۔

بھائیوں کے درمیان ناچاقی کا جو سلسلہ ایودھیا سے شروع ہوا تھا وہ کشکندہ میں ختم نہیں ہوا بلکہ لنکا کے اندر بھی اسے دوہرایا گیا۔ لنکا کے میدانِ کارزار میں ایک طرف راون کی فوج تھی اور دوسری جانب رام چندر جی کی کمان میں سگریو اور ہنومان کی وانر سینا تھی۔ اس کے باوجود سیدھے مقابلہ کرنے کے بجائے راون کے بھائی وبھیشن کو اقتدار کا لالچ دے کر اپنا ہمنوا بنا لیا گیا اور اس طرح راون کے خلاف سازش رچی گئی۔ راون اور اس کے بیٹے اندرجیت کو قتل کر کے وبھیشن کی تاجپوشی کا راستہ صاف کیا گیا گویا راون کی لنکا کو ڈھانے کے لیے اس کے گھر کے بھیدی وبھیشن کی مدد لی گئی۔

راون کے جرم کی سز ا عام لوگوں کو بھی دی گئی جو کہ اس کے جرم میں کسی طور سے شریک نہیں تھے۔ ساری لنکا نگری کو ہنومان نے اپنی دم میں لگی آگ سے جلا کر راکھ کر دیا۔ یہ تمام باتیں پڑھنے کے بعد سبروتو چٹر جی کے من میں رام چندر جی کے لیے جو آستھا اور شردھا تھی اس کا مکمل طور پر خاتمہ ہو گیا۔ لیکن اس رزمیہ کہانی میں خواتین اور اچھوتوں کے ساتھ جو سلوک سبو نے پڑھا تو اس کے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔

سبو کو ایسا لگا گویا شمبوکا کے قتل کی داستان تاریخِ انسانی کی پیشانی پر کلنک ہے جسے لگانے کا سہرہ بڑے فخر کے ساتھ شری رام چندر جی کے سر باندھا جاتا ہے۔ ہوا یوں کہ رام راجیہ میں ایک براہمن کا لڑکا نو عمری میں فوت ہو گیا جو اس دور کا ایک غیر معمولی واقعہ تھا۔ وہ براہمن اپنے بیٹے کی لاش رام جی کے محل کی چوکھٹ پر لے آیا۔ اس نے شری رام چندر جی پر یہ الزام لگایا کہ ان کی سلطنت میں کوئی فردِ بشر گناہِ عظیم کا ارتکاب کر رہا ہے اور اسی لئے اس کے بیٹے کو موت کے منھ میں جانا پڑا۔ اس لئے راجہ رام کی ذمہ داری یہ ہے کہ اس گناہ کا سدِ باب کرے ورنہ سارے لوگ اسی طرح یکے بعد دیگرے ہلاک ہو جائیں گے۔

شری رام جی اپنے اڑن کھٹولے میں سوار ہو کر جرم کا پتہ لگانے نکل کھڑے ہوئے۔ اپنے ہوائی دورے کے دوران ان کی نظر شمبوکا نامی شودر پر پڑی جو ایودھیا سے سیکڑوں میل دور تنہائی کے عالم میں عبادت و ریاضت کر رہا تھا۔ اب کیا تھا اس غریب کو اپنی تپسیا کی سزا کے طور بلا توقف قتل کر دیا گیا۔ ادھر شمبوکا کا بیجا قتل ہوا ادھر براہمن کا لڑکا زندہ ہو گیا۔ رامائن کے اندر رام چندر جی جیسے مہاپوروش سے جس گھناؤنے ظلم کا ارتکاب کرایا گیا اس کی توقع تو کسی عام آدمی سے بھی ممکن نہیں ہے۔

سبو کی شخصیت پر اس کی ماں ساوتری دیوی اور نانی تنوجا کے بڑے اثرات تھے۔ سبو کوایسا لگتا تھا کہ وہ دونوں خواتین ظلم و جبر کا شکار ہوئی ہیں ایک کو بلا وجہ کی مذہبی تقدس کی بھینٹ چڑھا دیا گیا اور آخری وقت میں اسے دوسری کے پاس آنے سے اسے روک دیا گیا لیکن رامائن کے اندر سپرنکھا اور سیتاماتا کے ساتھ جو سلوک اس نے دیکھا تو اس کے ہوش اڑ گئے۔

سپر نکھا لنکا پتی راون کی بہن تھی۔ اسے نہیں پتہ تھا کہ رام چندر جی شادی شدہ ہیں اور ویسے بھی اس معاشرے میں ایک سے زیادہ بیویاں کوئی معیوب بات نہیں تھی۔ خود رام جی کی تین مائیں تھیں اور ان کی اپنی کئی بیویوں کا ذکر والمیکی نے رامائن میں کیا ہے۔ اس لئے قبائلی دستور کے مطابق سپرنکھا نے رام جی کو شادی کا پیغام دیا۔ رام چندر جی نے اسے اپنے بھائی لکشمن کے پاس بھیج دیا جبکہ وہ بھی شادی شدہ تھے۔ فرق صرف یہ تھا کہ لکشمن کی اہلیہ نے بن باس میں چلنے پر ایودھیا میں رہنے کو ترجیح دی تھی۔ وہ سیتا کی مانند بن باس میں ساتھ نہیں آئی تھی۔

سپر نکھا کے ساتھ لکشمن نے جو سلوک کیا وہ کسی بھی مہذب انسان کو زیب دینے والا نہیں تھا۔ لکشمن سپر نکھا کی تجویز کو نامنظور تو کر سکتے تھے لیکن جواباً اس کی ناک کاٹ دینا ایک نہایت سنگین غلطی تھی جو لکشمن سے سرزد ہوئی اور دلچسپ بات یہ ہے رام چندر جی نے اس کی سرزنش تو کجا گرفت تک نہیں کی۔ راون کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ بہت بڑا عالم فاضل انسان تھا اس نے اپنی تپسیا کے بل بوتے پر وشنو کی مورتی کو کیلاش پربت سے اٹھا کر لنکا لے جانے کی سعی کر ڈالی تھی۔ اس کے باوجود اس رشی منی نے لکشمن کی سزا سیتا کو دی اور اس کا اغوا ء کر لیا۔

اپنی بہن کی بے عزتی کا بدلہ لینے کے لیے جو طریقۂ کار اختیار کیا گیا تھا وہ یقیناً پسندیدہ نہیں تھا۔ ایک نہایت طاقتور راجہ کے لیے جنگل میں در بدر کی ٹھوکر کھانے والے بے یارو مددگار لکشمن کا اغواء کوئی مشکل کام نہیں تھا لیکن اس کے باوجود ایک بھکشو کا روپ دھار کر سیتا کو اغواء کرنا ایک شرمناک حرکت تھی جس کا ارتکاب راون نے کیا۔ رام جی نے راون کی اس غلطی کی سزا لنکا کے سارے لوگوں کو دے کر راون کو بھی شرمندہ کر دیا۔

سبروتو کو یہ غلط فہمی تھی کہ رام چندر جی نے سیتا ماتا کو چھڑانے کے لیے لنکا پر چڑھائی کی رامائن کا مطالعہ کرنے کے بعد اس کی یہ غلط فہمی بھی دور ہو گئی۔ رام جی نے پہلے تو راون کو قتل کیا اس کے کریا کرم کے بعد وبھیشن کی تاجپوشی ہوئی اور اس کے بعد بھی انہوں نے از خود اپنی محصور اہلیہ کے پاس جانے کے بجائے ہنومان کے ذریعہ اپنی کامیابی و کامرانی کی اطلاع بھجوائی لیکن انہیں اپنے پاس بلوانے کی زحمت تک نہیں کی۔ اس سے بڑھ کر ایک زوجہ کی توہین کوئی نہیں ہوسکتی اس کے باوجود سیتا ماتا نے ان سے ملنے کی خواہش کی گویا رام چندر جی سیتا جی سے ملنے نہیں گئے بلکہ وہ خود ان کی خدمت میں حاضر ہوئیں۔

اپنے شوہرِ نامدار کے ذریعہ ملاقات کے بعد انہیں جس ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا اس کی تفصیل پڑھ کر سبو کانپ اٹھا۔ والمیکی کی رامائن کے مطابق رام چندر جی نے راون کی قید سے رہائی کے بعد سیتا ماتا کو ان الفاظ میں مخاطب کیا :

میں نے اپنے دشمن اور تمہارے اغوا کار کو جنگ میں شکست سے دوچار کرنے کے بعد تمہیں انعام میں حاصل کیا ہے۔ میں نے اپنے دشمن کو سزا دے کر اپنے عزت و وقار کو بحال کیا ہے۔ لوگوں نے میری فوجی طاقت کا مشاہدہ کر لیا اور مجھے خوشی ہے کہ میری محنت بار آور ہوئی۔ میں یہاں راون کا قتل کر کے اپنی رسوائی کے داغ کو مٹا نے کے لیے آیا تھا۔ میں نے یہ زحمت تمہاری خاطر گوارہ نہیں کی۔ سبو کے لیے سیتا ماتا کی توہین کے لیے یہی بہت تھا لیکن رامائن یہیں پر بس نہیں کرتی۔

رام چندر جی کا بیان جاری ہے۔ وہ فرماتے ہیں۔ مجھے تمہارے چال چلن پر شک ہے۔ تمہیں راون نے ضرور خراب کیا ہو گا۔ تمہارا نظارہ ہی مجھے آمادۂ بغاوت لگتا ہے۔ اے دخترِ جنک تم جہاں بھی جانا چاہتی ہو میں تمہیں اس کی اجازت دیتا ہوں۔ میں نے تمہیں دوبارہ فتح کر لیا اور میں اپنے اس مقصد پر قانع ہوں۔ میں یہ نہیں سوچ سکتا کہ راون تم جیسی خوبصورت عورت سے لطف اندوز ہونے سے چوک گیا ہو گا۔ رامچندر جی کی اس سنگدلی کے مظاہرے کے بعد سبو کے دل میں ان کا جو رہا سہا احترام تھا وہ بھی ختم ہو گیا لیکن اسی کے ساتھ سیتا ماتا کے تئیں اس کے دل میں زبردست ہمدردی کے جذبات پیدا ہو گئے۔

سبونے جب اس موقع پر سیتا ماتا کا جواب پڑھا تو وہ عش عش کر اٹھا۔ سیتا جی نے نہایت دلیری کے ساتھ پر وقار انداز میں اپنا موقف رکھتے ہوئے کہا کہ جس وقت آپ نے ہنومان کو میرے پاس بھیجا اگر ان کے ساتھ یہ پیغام بھی روانہ کر دیا ہوتا کہ میرے اغواء ہو جانے کے سبب آپ مجھ سے کنارہ کش ہو چکے ہیں تو وہ خودکشی کر کے انہیں یہ زحمت نہیں دیتیں۔

اس کے بعد سیتا جی اگنی پریکشا سے گزر کر اپنے پاک صا ف ہونے کا ثبوت پیش فرماتی ہیں۔ تمام دیوتا ان کی اس کامیابی پر مسرت کا اظہار کرتے ہیں اور ان کے پاک ہونے شہادت دیتے ہیں۔ رامچندر جی انہیں اپنے ہمراہ ایودھیا لانے پر راضی ہو جاتے ہیں۔ سبو نے سوچا تھا اگنی پریکشا کے بعد سب کچھ بدل جائے گا اور پہلے جیسی خوشیاں لوٹ آئیں گی لیکن اسے حیرت اس بات پر ہوئی کہ اگنی پریکشا کے شعلے بھی سیتا جی کے غم و اندوہ کو خاکستر نہ کرسکے اور ان کی داستانِ الم طویل تر ہوتی چلی گئی۔

سیتا جی کی آزمائشوں میں بتدریج اضافہ ہوتا چلا گیا۔ سبو نے ذاتی طور سے یہ محسوس کیا کہ لنکا فتح ہو جانے کے بعد رام چندر جی کے کردار کو پوری طرح گہن لگ گیا ہے اور اب رامائن کا مرکزی کردار رام کے بجائے سیتا ماتا ہو گئی ہیں۔ رام جی کی تاجپوشی کے چند دن بعد ہی سیتا جی حاملہ ہو گئیں جسے دیکھ کر کچھ کینہ پرور لوگوں نے ان کے خلاف تہمت بازی اور افترا پردازی شروع کر دی کہ وہ لنکا میں تھیں اس کے باوجود راجہ رام انہیں اپنے ہمراہ زوجہ کی حیثیت سے واپس لے آئے۔ درباری نقال بھدرا نے رام چندر جی کو شہر میں گردش کرنے والی افواہوں سے آگاہ کیا۔

ظاہر ہے رام چندر جی اس تہمت بازی ورسوا ئی سے غمگین اور شرمسار ہو گئے۔ یہ ایک فطری عمل تھا لیکن اس رسوائی سے نکلنے کا جو راستہ انہوں نے اختیار کیا وہ سبو کے لیے ناقابلِ فہم تھا۔ آزمائش کی نازک گھڑی میں اپنی مظلوم اہلیہ کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہونے کے بجائے رامچندر جی نے اپنے آپ کو مزید رسوائی سے بچانے کی خاطر سیتا سے پیچھا چھڑانے کے لیے اپنی حاملہ زوجہ کو بغیر بتائے جنگل میں بے سہارہ چھوڑ دینے کا ارادہ کیا۔

یہ سب اچانک نہیں ہو گیا بلکہ بڑی عیاری کے ساتھ اس سازش کو رچا گیا اور نہایت صفائی کے ساتھ اس کو عملی جامہ پہنایا گیا۔ رامائن کے اندر اس کی بیان کردہ تفصیل کو سبو نے کئی بار پڑھا تاکہ اس کی کوئی بہتر توجیہ کرسکے لیکن ہر مرتبہ اس کے حصہ میں ناکامی و نامرادی کے سوا کچھ اور نہیں آیا۔ سوائے اس کے لکشمن کے کردار کی پختگی سامنے آئی خلاصہ یہ ہے کہ:

بھدرا نے جب سیتا ماتا کے متعلق پھیلنے والی افواہوں کی اطلاع دی تو رامچندر جی نے اپنے بھائیوں کو بلا کر اس کے سامنے اپنے احساسات و جذبات کو رکھا۔ لکشمن نے انہیں بتایا کہ لنکا کے اندر سیتا اپنی پاکدامنی ثابت کر چکی ہیں۔ دیوتا اس کی تصدیق کر چکے ہیں اور انہیں سیتا کی معصومیت اور عصمت و عفت پر پورا عتماد ہے۔ اپنے چھوٹے بھائی کی گواہی پر راجہ رام نے کہا اس کے باوجود لوگ سیتا پر تہمت لگا رہے ہیں اور مجھ کو موردِ الزام ٹھہرا رہے ہیں جس سے میں شرمندہ ہوں۔ عزت و شرف عظیم سرمایہ ہے دیوتا اور بڑے لوگ اسے قائم رکھنے کے لیے سعی و جہد کرتے ہیں۔ میں اس ذلت و رسوائی کو برداشت نہیں کرسکتا۔ اس بے عزتی سے اپنے آپ کو محفوظ رکھنے کے لیے میں تم سے بھی دست بردار ہو سکتا ہوں اور یہ نہ سوچو کہ سیتا سے دستبردار ہونے میں پس و پیش سے کام لوں گا۔

سبو کو رام چندر جی کے افکارو خیالات کا پتہ اپنے بھائیوں کے ساتھ کی جانے والی گفتگو سے چل گیا۔ وہ سمجھ گیا کہ مریادہ پرشوتم رام کے لئے ان کی مان مریادہ کے مقابلے سیتا مائی کی زندگی کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔ اپنے ذاتی عزت و شرف کو قائم رکھنے کے لیے اختیار کئے جانے والے طریقۂ کار کا صحیح یا غلط ہونا بھی ثانوی درجہ کی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ رام چندر جی اپنی اہلیہ کی پاکدامنی کا قائل ہونے کے باوجود اس کا دفاع کرنے کی جرأت اپنے اندر نہیں پا رہے تھے۔ ایک بادشاہ کی حیثیت سے انہوں نے عوام کی ناراضگی اور اقتدار کا تحفظ کو اہلیہ کی حق تلفی پر ترجیح دینے کو مناسب خیال کیا۔

رامچندر جی نے اپنے ارادوں سے سیتا کو اندھیرے میں رکھا اور اس پر عمل درآمد کے لیے مناسب موقع کا انتظار کرنے لگے۔ بدقسمتی سے از خود سیتا جی نے وہ نادر موقع رام جی کو عطا کر دیا۔ رام چندر جی جانتے تھے کہ دوران حمل خواتین کے اندر مختلف قسم کی آرزوئیں جنم لیتی ہیں ان کا دل بہت کچھ کرنے کو چاہتا ہے اس لئے انہوں نے سیتا سے پوچھا کہ کیا ان کے دل میں بھی کوئی آرزو انگڑائی لے رہی ہے۔ سیتا ماتا نے جواب دیا جی ہاں میرا جی چاہتا ہے کہ دریا کے کنارے کسی رشی منی کے آشرم میں تازہ پھلوں و جڑی بوٹیوں پر ایک رات گزاروں۔ رامچندر جی نے فوراً ان کی تائید کی اور کہا اطمینان رکھو کل تمہاری سواری کا اہتمام کئے دیتے ہیں۔

سبو بھی اندازہ نہیں لگا سکا کہ رامچندر جی اس موقع کا فائدہ اٹھا کر سیتا سے نجات حاصل کر لیں گے۔ اسے حیرت اس بات پر تھی کہ اپنی اہلیہ سے کئے گئے اس معمولی سے عہد کو پورا کرنے کی خاطر راجہ رام نے اپنے بھائیوں کو ایک خفیہ مقام پر مشورے کے لیے کیوں طلب کیا۔ اس خفیہ اجلاس میں اپنے ارادوں کا اظہار کرنے کے بعد رامچندر جی نے اپنے بھائیوں کو متنبہ کیا کہ اگر انہوں نے سیتا کی وکالت کرنے کی کوشش کی تو وہ انہیں اپنا دشمن سمجھیں گے۔ اس کے بعد انہوں نے لکشمن کو حکم دیا کہ وہ اگلے دن ایک رتھ میں سیتا کو بیٹھا کر اپنے ساتھ گنگا کے ساحل پر لے جائیں اور انہیں والمیکی آشرم کے قریب چھوڑ کر لوٹ آئیں۔

لکشمن اپنے اندر سیتا سے یہ کہنے کی ہمت نہیں پا رہے تھے کہ ان کے حوالے سے رامچندر جی نے کیا فیصلہ کیا ہے ؟ مگر راجہ رام نے یہ کہہ کر انہیں مطمئن کر دیا کہ سیتا خود آشرم میں کچھ وقت گزارنا چاہتی ہیں۔ دوسرے دن صبح لکشمن نے سامنتا نامی سائیس کو رتھ تیار کرنے کا حکم دیا اور جب ساری تیاری مکمل ہو گئی تو سیتا ماتا کو آشرم جانے کی اپنی خواہش کی یاددہانی کرائی۔ لکشمن نے بتایا کہ رامچندر جی نے اس کے ذمہ یہ کام کیا ہے کہ وہ انہیں آشرم تک پہنچائیں اور سارا انتظام کر دیا گیا۔

یہ سن کر سیتاجی خوش ہو گئیں اور اپنے خاوند کے تئیں جذبۂ تشکر سے سرشار چل پڑیں۔ گنگا کے ساحل پر پہنچ کر ان لوگوں نے ماہی گیروں کی کشتی میں ندی کو پار کیا اور اس کے بعد جدائی سے قبل لکشمن سیتا کے قدموں میں گر گئے۔ ان کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔ انہوں نے کہا اے بے قصور ملکہ، مجھے اپنی اس حرکت کے لیے معاف کر دیجئے۔ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں آپ کو یہیں چھوڑ کر واپس چلا جاؤں اس لئے کہ لوگ راجہ رام پر آپ کو اپنے گھر میں رکھنے کا الزام لگا رہے ہیں۔

سیتاجی کو جنگل کے اندر بے یار و مددگار چھوڑ دیا گیا۔ والمیکی رشی نے انہیں اپنے آشرم پناہ دی۔ آگے چل کر اسی آشرم میں سیتا نے جڑواں بیٹوں کو جنم دیا جن کا نام لو اور کش تھا۔ سبو کو ان بچوں سے ہمدردی ہو گئی یتیمی کے کرب سے وہ اچھی طرح واقف تھا۔ لو اور کش کی حالت اس سے بھی دگر گوں تھی ان بیچاروں کا باپ تو بادشاہ تھا اس کے باوجود وہ جنگل بیابان میں کسمپرسی کی زندگی گزار رہے تھے جبکہ اپنے والدین سے محرومی کے باوجود اس کی زندگی عیش و عشرت میں گزری تھی۔

سیتا ماتا نے اپنی زندگی کے مزید بارہ سال جنگل میں گزار دئیے اس طرح گویا معمولی سے توقف کے ساتھ سیتا ماتا کی عمر عزیز کے چھبیس سال بن باس میں گذر گئے۔ اس دوران رامچندر جی کو ایک مرتبہ بھی اپنی بیوی سیتا کی خیریت معلوم کرنے کا خیال نہیں آیا۔ والمیکی نے اس دوران لو اور کش کو رامائن ازبر کرا دی۔ لو اور کش کے کرداروں نے رامائن کے اندر سبو کی دلچسپی میں بے شمار اضافہ کر دیا تھا۔ وہ جاننا چاہتا تھا کہ اس کی اپنی زندگی میں ان کی داستانِ حیات میں کس قدر مشابہت اور فرق ہے۔ سبو بڑے انہماک کے ساتھ رامائن کے صفحات پلٹ رہا تھا۔

اس نے دیکھا کہ بارہ سال کے بعد رامچندر جی نے ایک یگیہ کرنے کا فیصلہ کیا اور سارے رشیوں کو دعوت دی لیکن والمیکی کو نہیں بلایا حالانکہ ان کا آشرم ایودھیا سے خاصہ قریب تھا۔ والمیکی رشی اپنے طور سے سیتا اور لو کش کے ساتھ اس مذہبی تقریب میں جا پہنچے۔ یگیہ کے دوران لو اور کش رامائن سنانے لگے یہ دیکھ کر رامچندر جی بہت خوش ہوئے اور پوچھا یہ کون ہیں تو انہیں بتایا گیا کہ یہ سیتا کے بیٹے ہیں۔ اس طرح بارہ سال بعد رامچندر جی کو اپنی اہلیہ کا پہلی مرتبہ خیال آیا اس کے باوجود انہوں نے سیتا کے بجائے صرف لو اور کش کو اپنے پاس بلوایا اور والمیکی کے ذریعہ سیتا تک یہ پیغام بھجوایا کہ سارے مجمع کے سامنے قسم کھا کر وہ اپنے پاک صاف ہونے کی گواہی دے اور اعلان کرے کہ رام اور سیتا پر لگائی جانے والی تہمت بے بنیاد ہے۔ اس مطالبے کوسیتا ماتا اگنی پریکشا کے تحت لنکا میں پورا کر چکی تھیں۔ اگر یہ بات بارہ سال قبل آشرم میں روانہ کرنے سے قبل کہی جاتی تب تو اس کا جواز بھی بن سکتا تھا لیکن اب جبکہ رامچندر جی کی جانب سے ایسی یقین دہانی بھی نہیں کی جا رہی تھی کہ وہ سیتا ماتا کو اپنے گھر میں واپس لے لیں گے یہ نرا سراب تھا۔

سبو نے رامائن اور اپنی آنکھیں دونوں بند کر لیں اور سوچنے لگا کہ دیکھتے ہیں اس موقع پر سیتا ماتا کیا موقف اختیار کرتی ہیں۔ بڑی دیر تک وہ محوِ خیال رہا لیکن اس کی سمجھ میں کچھ نہ آیا۔ سبو نے پھر ایک بار رامائن کی ورق گردانی شروع کر دی۔ اس بار والمیکی رشی خود اپنے بارے میں بیان کر رہے تھے۔ وہ خود سیتا کے ساتھ رام جی کے دربار میں حاضر ہوتے ہیں اور کہتے ہیں یہ آپ کی بیوی سیتا جسے آپ نے عوام کی ناراضگی کے پیش نظر چھوڑ دیا تھا اور یہ آپ کے بیٹے ہیں جن کی پرورش میرے آشرم میں ہوئی ہے۔ اگر آپ اجازت دیں تو سیتا پھر ایک بار اپنی پاکیزگیِ عفت کی قسم کھائے۔

اس پیشکش کے جواب رامچندر جی نے فرمایا کہ میں جانتا ہوں کہ سیتا پاک ہے اور یہ میری اولاد ہیں۔ وہ لنکا کے اندر اپنی پاکیزگی کو ثابت کر چکی ہیں اسی لئے میں انہیں اپنے ساتھ لایا تھا لیکن لوگوں کو شک ہے۔ اس لئے سیتا پھر سے قسم کھائیں تاکہ تمام رشی اور عوام اس کا مشاہدہ کرسکیں۔ سبو کو ایسا محسوس ہوا کہ وہ ۴۰۰ قبل مسیح میں پہنچ گیا۔ رامچندر جی کے دربار میں وہ بھی موجود ہے اور سیتا ماتا پر ہونے والے اس ظلم عظیم کا شاہد ہے۔ سبو کا جسم تھر تھر کانپ رہا تھا۔ وہ دیکھنا چاہتا تھا کہ سیتا جی اب کیا کرتی ہیں۔

اس نے دیکھا سیتا ماتا کی نظریں زمین میں گڑی ہوئی ہیں۔ انہوں نے اپنے ہاتھ جوڑ لئے ہیں اور کہہ رہی ہیں۔ میرے قلب و ذہن میں رام کے علاوہ کسی کا خیال تک نہیں آیا۔ کاش کہ یہ زمین پھٹ جائے اور میں اس میں دفن ہو جاؤں۔ چونکہ میں نے ہمیشہ ہی رام سے محبت کی ہے اور انہیں کے بارے میں سوچا ہے اس لئے اے کاش اس زمین کا سینہ شق ہو جائے اور مجھے اپنے اندر سما لے۔

سبو نے دیکھا کہ زمین میں ایک شگاف پڑ گیا ہے اور سیتا ماتا اپنے طلائی تخت سمیت اس کے اندر سماتی جا رہی ہیں۔ سبو سمیت سارے لوگ اس منظر کو حیرت سے دیکھ رہیں اور سورگ سے ان پر پھولوں کی برسات ہو رہی ہے۔ سبو نے پھر ایک بار کتاب بند کر دی اور آنکھیں بھی بند کر لیں وہ دیر تک نہ کچھ سوچ سکا اور نہ کچھ پڑھ سکا۔ اپنی جگہ بے حس و حرکت بت بنا بیٹھا رہا۔ اس کی آنکھوں سے آنسوؤں کا دریا رواں تھے۔

 

 

 

 

سیتائن

 

آنسوؤں کا دریا سبو کو ست یگ سے بہا کر کل یگ میں لے آیا۔ اس کے اندر کا مصنف جاگ چکا تھا۔ اس نے فیصلہ کیا کہ شیلانگ ہجرت کرنے کے بعد وہ سب سے پہلے تو کالج میں داخلہ لے گا اور اس کے بعد گو سوامی تلسی داس کی مانند پھر ایک بار رامائن کو زندہ کرے گا۔ لیکن اس کی تصنیف رامائن کا مرکزی کردار رامچندر جی نہیں ہوں گے بلکہ سیتا ماتا ہوں گی۔ سبروتو مکرجی کی رامائن کا نام رام چرت مانس نہیں ہو گا بلکہ سیتا کی رامائن ہو گا۔ اس کی ابتداء راجہ دشرتھ کے بجائے راجہ جنک کے محل سے ہو گی۔ لیکن پھر سبو نے سوچا کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ رامائن بھی ہو اور اس کا مرکزی کردار رام نہ ہو ؟ یہ تو کچھ بے تکی سی بات ہو گی۔ قارئین اس نام ہی سے توقع وابستہ کر لیں گے کہ شری رام چندر جی کی رزمیہ داستان ہے اس لئے سبو کے سامنے اپنی تصنیف کے لیے ایک نئے نام کا سوال آن کھڑا ہوا۔ اس سوال پر غور و خوض کرتے ہوئے سبو کی آنکھ لگ گئی۔

اب وہ پھر ایک بار ست یگ میں تھا اور سیتا جی کے چرنوں میں بیٹھ کر پوچھ رہا تھا اے ماتا آپ تو جانتی ہی ہیں کہ میں کیا لکھنا چاہتا ہوں اور میں جو لکھوں گا سو لکھوں گا لیکن اس کتاب کا نام آپ کو تجویز کرنا ہو گا۔ جگت ماتا سیتا نے مسکرا کر کہا۔ اس میں کیا مشکل ہے تم اپنی کتاب کا نام سیتائن رکھ دو۔ سیتائن نام سبو کو کچھ اٹپٹا سا لگا سیتا اس کے چہرے کے تاثرات دیکھ کر سمجھ گئیں اور بولیں دیکھو اگر رام کی رامائن ہو سکتی ہے تو سیتا کی سیتائن کیوں نہیں ہو سکتی ؟ تم چونکہ یہ نام پہلی مرتبہ سن رہے ہو اس لئے تمہیں عجیب سا معلوم ہو رہا ہے لیکن اس کتاب کے مشہور ہو جانے کے بعد کسی کو اس پر حیرت نہیں ہو گی۔

اس بیچ عقب سے ایک اور آواز آئی نارائن، نارائن۔ یہ نارد منی کی آواز تھی انہوں نے کہا بہت خوب سیتائن ! کیا خوب نام ہے سیتائن۔ دیکھو سبوتمہاری کتاب کا نام سیتائن ہی ہو گا۔ یہ تقدیر کا فیصلہ ہے۔ نارائن نارائن۔ نارائن سیتائن۔ سیتائن نارائن۔ سیتائن سیتائن۔ سبو کی آنکھ کھلی تو اس کے سامنے ساوتری دیوی کی تصویر تھی جو کہہ رہی تھیں سیتائن، سیتائن۔ اس کے بغل میں نانی تنوجا کی تصویر بھی کہہ رہی تھی سیتائن سیتائن۔ سبو ذہن و قلب میں رامائن کی جگہ سیتائن نے لے لی تھی۔

سبو نے اپنی سیتائن بنگلہ زبان میں لکھی اور اسے دیپنکر چٹو پادھیائے کو منسوب کیا جنہوں نے اسے رامائن کا نسخہ پڑھنے کے لیے دیا تھا۔ اس کتاب کو خواتین کے حقوق کی محافظ اشتراکی تنظیموں نے ہاتھوں ہاتھ لیا۔ یہ کتاب اپنے منفرد موضوع کے باعث اشتراکیوں اور فسطائی ہندوؤں کے درمیان ایک بہت بڑے تنازعہ کا سبب بن گئی۔ کتاب کی مخالفت نے اسے بے حد معروف و مشہور کر دیا تھا۔ مغربی بنگال کے حدود سے باہر نکل کر یہ بنگلہ دیش پہنچ گئی اور وہاں بھی اس کتاب کی خوب پذیرائی ہونے لگی۔

بنگلہ دیش کی خاتون صدر نے اس کتاب کے ذریعہ اپنے ناراض ہندو رائے دہندگان کو خوش کرنے کی کوشش میں جٹ گئی اور سبو کو قومی اعزاز سے نواز دیا حالانکہ ایسا کرنے کے نتیجے میں ہندو رائے دہندگان کے اندر ان کے تئیں مخالف جذبات میں اضافہ ہوا تھا۔ اس لئے کہ کٹر ہندو تنظیموں نے اسے رامچندر جی کی توہین قرار دے دیا تھا حالانکہ سبو نے کتاب کے دیباچہ میں یہ بات صاف کر دی تھی کہ یہ کتاب نہ ہی کسی کی حمایت میں اور نہ ہی کسی کے خلاف لکھی گئی ہے۔ اس کو لکھنے میں والمیکی کی رامائن کی مدد لی گئی اور اگر کوئی غلط بات شامل ہو گئی ہو تو وہ اصلاح کے لیے تیار ہے لیکن افسوس کہ کتاب کے مخالفین نے کتاب تو کجا اس کا دیباچہ بھی پڑھنے کی زحمت گوارہ نہیں کی تھی۔

سبو اس دوران سیتائن کا انگریزی ترجمہ کر رہا تھا اور دائیں بازو کے مشہور دانشور میگھناتھ چودھری اس کا ہندی میں منظوم ترجمہ کر رہے تھے۔ جب یہ دونوں تراجم منظرِ عام پر آئے تب تو قومی سطح پر ہنگامہ کھڑا ہو گیا۔ اب سبو بنگلہ جگت سے نکل کر سارے ہندوستان میں بحث کا موضوع بن گیا۔ اس بیچ قدرت کا کرنا یہ ہوا کہ دسہرہ کے موقع پر خواتین کی ایک تنظیم نے کولکتہ میں رام لیلا کے بجائے سیتالیلاکھیلنے کا منصوبہ بنایا۔ یہ خبر جیسے ہی اخبارات میں چھپی اس کی مخالفت شروع ہو گئی اس لئے ان کا ارادہ راون کے بجائے رام دہن کا تھا۔ پانی سر سے اونچا ہو چکا تھا۔

رام دہن کو ٹالنے کے لیے پہلے ہی دن سیتا لیلا کے پنڈال کو جلا دیا گیا۔ اس واقعہ نے سیتائن کو اور بھی مشہور کر دیا اور سارے ذرائع ابلاغ پر سبو چھا گیا جو بار بار یہ کہہ رہا تھا کہ سیتا لیلا یا رام دہن سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے لیکن کٹر ہندو اس کی کتاب پر پابندی لگانے کی خاطر عدالت میں پہنچ گئے تھے۔ اس سے پہلے کہ انہیں اپنے مقصد میں کامیابی حاصل ہوتی ماسکو کی ایک عدالت نے رامائن پر پابندی لگا دی اور اپنے فیصلے میں یہ کہہ دیا کہ جو ہندو رام اور سیتا سے عقیدت رکھتے ہیں وہ اگر چاہیں تو سیتائن پڑھ سکتے ہیں۔ اسی کے ساتھ روس کی وزارت ثقافت نے اس کتاب کا روسی زبان میں ترجمہ کرنے کا اعلان کر دیا تاکہ ست یگ کی حقیقی صورتحال سے عوام کو روشناس کرایا جا سکے۔

ماسکو کی خبریں جب دہلی پہنچیں تو ایک نئی مہابھارت چھڑ گئی۔ سنگھ پریوار کے لیے یہ نعمتِ غیر مرتقبہ تھی انہیں اپنی گرتی ہوئی ساکھ کو قائم کرنے کا نادر موقع ہاتھ آ گیا تھا۔ ان کی مقبولیت میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔ اندرونِ ملک انارکی اور خانہ جنگی کا ماحول تیار کیا جانے لگا تھا۔ حکومت ہند کو چہار جانب سے گھیر لیا گیا تھا اور کل تک آزادیِ اظہار رائے کے نام پر کنی کاٹنے والے سیکولر لوگوں کا جینا دشوار ہو نے لگا تھا۔ بالآخر سیکولر حکومت نے ہندو عوام کی خوشامد کا فیصلہ کیا اور اس بابت سخت موقف اختیار کر کے روسی حکومت پر دباؤ بڑھانا شروع کر دیا۔ یہ بات واضح کر دی گئی کہ اگر رامائن پر سے پابندی نہیں اٹھائی جاتی تو روس کے ساتھ کئے جانے والے سارے تجارتی سودے منسوخ کر دئیے جائیں اور سفارتی تعلقات تک ختم کر دئیے جائیں گے۔

روسی حکومت کو حکومتِ ہند کے اس فیصلے کا پاس و لحاظ کرنا پڑا اس لئے کہ ہندوستان ہی روسی اسلحہ کا سب سے بڑا خریدار تھا اور وہ اسے ناراض کرنے کا خطرہ مول نہیں لے سکتے تھے۔ اس لئے نچلی عدالت کو عدالتِ عالیہ میں چیلنج کرنے کا ڈرامہ کر کے اس کے خلاف فیصلہ کروا دیا گیا۔ حکومت کی اس کامیابی نے فسطائی ہندوؤں کی ہوا نکال دی۔

ہندو احیاء پرست اس معاملے میں آسانی سے شکست تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ ان لوگوں نے اپنی مخالفت کا رخ حکومتِ وقت سے ہٹا کر سبو کی جانب موڑ دیا اور یہ موقف اختیار کیا کہ فتنہ کی اصل جڑ سبروتو مکرجی ہے جس نے سیتائن لکھی اگر وہ ایسی ذلیل حرکت نہیں کرتا تو کسی کو یہ موقع ہی نہیں ملتا۔ ملک کے سارے بڑے شہروں میں سبو کے خلاف مظاہرے ہونے لگے بلکہ یوروپ اور امریکہ کے بڑے شہروں میں بھی سبو کے خلاف مظاہرے کئے گئے لیکن جیسے جیسے مخالفت میں اضافہ ہوتا جاتا تھا سیتائن کی مقبولیت بھی بڑھتی جاتی تھی۔ امریکہ کے ایک بہت بڑے اشاعتی ادارے پنگوین نے اس کتاب کو شائع کرنے کا فیصلہ کیا اور دیکھتے دیکھتے اس کی لاکھوں کاپیاں فروخت ہو گئیں۔

اس ہنگامے کے دوران سبو شیلانگ کے اندر سکون واطمینان کے ساتھ اپنی اگلی تصنیف پر کام کر رہا تھا۔ شیلانگ میں چونکہ ہندوؤں کی آبادی خاصی کم ہے زیادہ تر عیسائی یا دیگر قبائل کے لوگ بستے ہیں جو اپنے آپ کو ہندو نہیں سمجھتے اس لئے وہاں کوئی خاص شورش بپا نہ ہو سکی۔ حکومت نے اس کو تحفظ تو فراہم کر دیا لیکن احتیاط کے طور پر دیگر شہروں میں سفر کرنے سے منع کر دیا۔ ویسے سبو کو بھی اس طرح کی ہنگامہ آرائی میں کوئی خاص دلچسپی نہیں تھی اس نے اپنی توجہات لکھنے پڑھنے کی جانب مرکوز کر رکھی تھیں۔

فسطائی طاقتوں نے جب دیکھا کہ معاملہ ٹھنڈا ہوتا جا رہا ہے اور بازی ان کے ہاتھ سے نکل رہی ہے تو انہوں نے ایک نہایت گھناؤنی سازش رچی۔ آسام کے اندر موجود علٰیحدگی پسند تنظیموں سے ساز باز کر کے سبو کے گھر کی گھیرا بندی کا فیصلہ کیا گیا۔ آسام کے مختلف علاقوں سے رضاکار گوہاٹی میں جمع کئے گئے اور وہاں سے شیلانگ کے لیے ایک رتھ یاترا کا آغاز ہوا۔ اس یاترا نے رام رتھ یاترا کی یادیں تازہ کر دیں اور فرقہ پرستوں کے اندر اقتدار پر پھر سے قابض ہونے کی امید کا چراغ روشن کر دیا۔

ان کا اصل مسئلہ یہ تھا کہ اس تنازعہ کا کھل نائک کوئی مسلمان بابر نہیں بلکہ سیتا ماتا کا ایک ہندو بھکت تھا۔ اس لئے ملک کو فرقہ وارانہ فسادات کی آگ جھونک دینا مشکل ہو رہا تھا۔ ویسے سبو کو مسلم تنظیموں سے جوڑنے کی جو بھی کوشش کی گئی تھی وہ سب ناکام ہو چکی تھی۔ ہندو احیاء پرست ویسے توسبو کے گھر احتجاج کی غرض سے گئے تھے لیکن ان کے ارادے خطرناک تھے۔ سرکار کو اپنی خفیہ ایجنسی کے ذریعہ اس کا پتہ چل گیا تھا اس لئے حفاظتی کمک میں غیر معمولی اضافہ کر دیا گیا تھا اور تحفظ کے پیشِ نظرسبو کی نقل و حرکت پر مکمل پابندی لگا دی گئی۔

عرفان صدیقی ہر روز اپنے گھر سے آتے جاتے دیکھ رہا تھا کہ ایک ہنگامہ برپا ہے جس میں روز بروز اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ کباڑی خانے کے مالک عرفان کو نہ اخبار سے کوئی مطلب تھا اور نہ ٹی وی دیکھنے کی فرصت تھی۔ اسے پتہ ہی نہیں تھا کہ آخر یہ ہو کیا رہا ہے ؟ اس کے پڑوس میں کون رہتا ہے ؟ وہ کیا کرتا ہے ؟ اور یہ لوگ کیوں اس کی جان کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔ سبو کی مکان کو چہار جانب سے گھیر لیا گیا۔ پولس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا مجمع کو کیسے قابو میں کرے ؟ چونکہ عرفان کا مکان سبو سے سٹا ہوا تھا اس لئے وہ بھی اپنے خاندان سمیت عملاً نظر بند ہو گیا۔

اس نے انتظامیہ سے شکایت کی تو ڈپٹی پولس کمشنر نے اسے اپنے پاس بلا کر سمجھایا اور اس سے تعاون کی درخواست کی۔ عرفان نے کہا اس کے بچوں کی تعلیم کا سلسلہ بند ہو گیا ہے۔ دو دن سے لوگ اسے آتے جاتے دیکھ کر مشتعل ہونے لگے ہیں اس لئے جب تک ہنگامہ ختم نہیں ہوتا وہ وہاں نہیں رہنا چاہتا اس لئے یا تو اس کا راستہ صاف کیا جائے یا اس کی رہائش کا متبادل بندو بست کیا جائے۔ ڈپٹی پولس کمشنر نے اس بابت کمشنر صاحب سے بات کر کے اسے جلد از جلد جواب دینے کا وعدہ کیا اور اس کو ہونے والی زحمت کے لیے معذرت طلب کی۔

کمشنر صاحب اپنے کمرے میں فکر مند بیٹھے تھے اس لئے کہ ان مخبر آئے دن خطرناک قسم کی خبریں دے رہے تھے۔ انہوں نے بتا دیا تھا کہ یہ ہندو احیاء پرست بابری مسجد کی کہانی یہاں پھر دوہرانا چاہتے ہیں۔ ان کے جذبات کو بے حد مشتعل کر دیا گیا ہے اور اب ان پر قابو کرنا خود رہنماؤں کے بس میں نہیں ہے۔ وہ اسی ادھیڑ بن میں تھے کہ احتجاج سے کیسے نبٹا جائے کہ درمیان میں عرفان صدیقی کا مسئلہ آن کھڑا ہوا جو نہایت معقول شکایت تھی لیکن عرفان صدیقی کی پریشانی میں کمشنر صاحب کو امید کی ایک کرن نظر آئی۔

انہوں نے کہا ایسا کرو مظاہرین کے رہنماؤں کو اعتماد میں لے کر عرفان کو سرکاری گیسٹ ہاؤس میں منتقل کر دو۔ اس کا ایک فائدہ تو یہ ہو گا کہ ہمارے عملے کو سر چھپانے کے لیے ایک مکان مل جائے گا جہاں رہ کر ہم سبو کی بڑے آرام سے حفاظت کر پائیں گے۔ موسمِ باراں قریب ہے جیسے ہی بارش آئے گی پنڈال کی چھت پہلے تو ٹپکے گی پھر اڑ جائے گی اور اسی کے ساتھ مظاہرین بھی رفع دفع ہو جائیں گے۔ ان مظاہرین پر طاقت کے استعمال سے ہمیں منع کیا گیا ہے اس لئے کہ ان کے رہنما یہی چاہتے ہیں کہ ان کا خون بہے اور وہ اس کو ایندھن بنا کر اپنی سیاسی دوکان چمکائیں لیکن ریاستی حکومت اور مرکزی حکومت دونوں ان لوگوں کو یہ موقع نہیں دینا چاہتیں۔ ان کو تھکا کر بھگانے کے علاوہ ہمارے پاس دوسرا کوئی چارۂ کار نہیں ہے۔

ڈپٹی کمشنر نے رہنماؤں سے گفت و شنید کر کے انہیں اس بات پر تیار کر لیا کہ رات کے آخری پہر عرفان صدیقی کے اہل خانہ کو ضروری سازوسامان کے ساتھ وہاں سے نکالنے دیا جائے۔ مظاہرین کا ہدف چونکہ سبو تھا اس لئے ان لوگوں نے اس تجویز پر کوئی اعتراض نہیں کیا لیکن جب گھر خالی ہو رہا تھا ڈپٹی پولس کمشنر کے ذہن میں ایک نیا خیال آیا۔ رات کے اس حصے میں کمشنر صاحب سے اس کی اجازت لینا ممکن نہیں تھی اس لئے انہوں نے بغیر اجازت اس پر یہ سوچ کر عمل درآمد کر دیا کمشنر صاحب یقیناً اس فیصلے سے خوش ہو جائیں گے اور اس کا موقع دوبارہ ہاتھ نہیں آئے گا۔

عرفان صدیقی کی منتقلی اس قدر بے ضرر حرکت تھی کہ اس کی کوئی خبر تک نہیں بنی۔ اس بیچ دسہرہ کا تہوار قریب آ گیا اور احتجاجیوں کے پنڈال میں بڑے زور شور کے ساتھ رام لیلا کا اہتمام شروع ہو گیا۔ رام لیلا کھیلنے کی خاطر ایک نہایت مشہور پیشہ ور گروپ کو دہلی سے شیلانگ لایا گیا تھا۔ احتجاجیوں کا معمول اب یہ بن گیا تھا کہ صبح ناشتے کے بعد خوب جم کر نعرے بازی کرتے اور پھر اشتعال انگیز تقریریں ہوتیں۔ اس کے بعد کھانا کھا کر وہ لوگ سوجاتے۔

شام ڈھلے کھانا کھانے کے بعد رام لیلا سے لطف اندوز ہو کر آرام فرماتے۔ جیسے جیسے رام لیلا کا چرچا ذرائع ابلاغ میں بڑھنے لگا عقیدت مندوں کی تعداد میں اضافہ ہونے لگا۔ احتجاج کے پنڈال میں اب سیرو تفریح کا ماحول بن گیا تھا۔ مفت کی سیر اور مفت کا کھانا اوپر سے پونیہ عوام کو اور کیا چاہئے ؟ چونکہ شیلانگ تو کجا گوہاٹی میں بھی کبھی ہندو احیاء پرستوں کے کسی جلسے میں اس قدر لوگ جمع نہیں ہوئے تھے اس لئے رہنما بہت خوش تھے۔ انہیں یقین ہو گیا تھا آئندہ انتخاب میں نہ صرف مرکز بلکہ آسام اور میگھالیہ میں بھی زعفرانی پرچم سربلند ہو جائے گا۔

دیکھتے دسہرہ کی دسویں تاریخ بھی سامنے آ گئی اور عوام نے دیکھا کہ ایک بہت بڑا ٹرک پنڈال کے قریب آ کر رکا۔ لوگوں نے سمجھا تہوار کے خصوصی پکوان کے لیے اناج لایا گیا۔ وہ خوشی جھوم اٹھے لیکن انہوں نے دیکھا کہ اس میں سے گھاس پھوس کا بنا ہوا راون کا ایک دیو ہیکل مجسمہ نمودار ہو رہا ہے۔ پہلے تو اس سرکٹے مجسمہ کو سبو کی کوٹھی کے سامنے نصب کیا گیا اور پھر الگ سے لائے گئے اس کے دس سروں کواس کے شانے پرسجایا گیا پھر ان میں سے ہر ایک سرپر ایک تاج رکھ دیا گیا۔ یہ مجسمہ خاص طور پر گوہاٹی سے بنا کر لایا گیا تھا اور میگھالیہ کی تاریخ میں راون کا سب سے بڑا مجسمہ تھا۔

دسہرہ کی صبح تمام اخبارات میں اس کی تصویریں جھلک رہی تھیں۔ سارے ٹی وی چینلس نے اس کو جلتا ہوا دکھلانے کے انتظامات مکمل کر لئے تھے۔ احتجاجیوں کو اس بات پر حیرت تھی کہ انتظامیہ کی جانب سے بھرپور تعاون دیا جا رہا تھا۔ وہ سمجھ رہے تھے ان کی تحریک نے پولس اہلکاروں کے اندر رام بھکتی کا دیا روشن کر دیا ہے اور اب وہ سب بھی رام بھکت بن گئے۔ اس احساس نے عوام اور رہنماؤں کا حوصلہ بلند کر دیا۔

راون کے پتلے کو جلانے سے قبل سیاسی رہنماؤں کی تقریروں کا آغاز ہوا۔ وہ خود بھی شیلانگ میں بیٹھے بیٹھے تھک گئے تھے اور جانتے تھے کہ رام لیلا ٹیم کے ساتھ ہی مجمع چھٹ جائے گا اور ان کا پول کھل جائے گا اس لئے ان لوگوں نے فیصلہ کن حملہ کرنے کا ارادہ کر لیا۔ ایک مقرر نے اپنی تقریر میں کہا یہ جو راون کا پتلہ آپ لوگ دیکھ رہے ہیں وہ تو بس علامت ہے۔ اصلی راون اندر کوٹھی میں چھپا بیٹھا ہے۔ اس لئے اس پتلے کے ساتھ ساتھ ۰۰۰۰۰ اب کیا تھا جئے شری رام کے نعروں سے آسمان گونج اٹھا۔

اس کے بعد مقررین کی توجہ راون سے ہٹ کر سبو پر مرکوز ہو گئی اور انہوں نے اسے راون بنا دیا۔ ایک رہنما بولا آپ لوگوں کو پتہ ہے کہ شری رام نے راون کا ودھ ضرور کیا تھا لیکن ہنومان نے کیا کیا تھا۔ اس نے ساری لنکا نگری کو بھسم کر دیا تھا۔ کیا آپ لوگ اپنی لنکا نگری کو دیکھ رہے ہیں ؟ یہ کہہ کر اس نے سبو کی کوٹھی کی جانب اشارہ کیا۔ سارے لوگوں نے پھر ایک بار جئے شری رام کا نعرہ لگایا اور پھر فلک شگاف شعلوں نے راون کے ساتھ ساتھ سبو کی کوٹھی کو بھی جلا کر راکھ کر دیا۔ مظاہرین اور ان کے رہنما خوشی خوشی یہ اعلان کر کے اپنے اپنے مقام کی جانب نکل کھڑے ہوئے کہ انہوں نے اس بار صحیح معنوں میں کل یگ کے اندر ست یگ کی روایت کو زندہ کر دیا اور راون کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔

دوسرے دن ذرائع ابلاغ میں سبو کو زندہ جلا دینے کے واقعہ پر زبردست ہنگامہ کھڑا ہو گیا۔ ہندو احیاء پرستوں کے ذریعہ ایک معصوم شخص کے قتل مذّمت کی جانے لگی۔ سبو کو چونکہ اپنی پہلی ہی تصنیف سے بین الاقوامی سطح پر مشہور ہو گیا تھا اس لئے ساری دنیا میں اس خبر پر واویلا مچ گیا۔ جس سے ہندو احیاء پرستوں ک صفوں میں انتشار پھیل گیا۔ کوئی اسے اتفاقی حادثہ بتانے لگا۔ کسی نے اسے عوام کے غم و غصہ سے تعبیر کیا۔ کوئی اس پر تنقید کرنے بیٹھ گیا۔ کسی نے معذرت شروع کر دی اس لئے کہ سبو کی موت پر اس قدر زبردست ہنگامہ برپا ہو گا اس کا اندازہ کسی کو نہیں تھا۔

حکومتِ وقت کو بھی سبو کی حفاظت میں ناکامی پر تنقید کا نشانہ بنایا جانے لگا تھا لیکن حکومت کا موقف نہایت پر سکون تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ قانون اپنا کام کرے گا وہ تحقیق کرے گی اور مجرمین کو کیفر کردار تک پہنچائے گی۔ اس بابت وزراء کی ایک ہنگامی میٹنگ طلب کر لی گئی تھی۔ وزیر اعظم نے اس کے بعد قوم سے خطاب کر کے حقائق کو سامنے رکھنے کا اعلان کروا دیا۔ حقیقت تو یہی تھی کہ حکومت کو اپنی سیاسی حریف کو گھیرنے کا بہترین موقع ہاتھ آیا تھا اور وہ اس کا بھر پور فائدہ اٹھا لینا چاہتی تھی۔

دودن بعد جب وزیر اعظم نے پریس کانفرنس طلب کی تو ان کے ساتھ ایک نوجوان بھی بیٹھا ہوا تھا۔ جن لوگوں نے سبو کی تصویرکسی اخبار یا ٹی وی پر دیکھ رکھی تھی ان کو وہ سبو سے مشابہ لگتا تھا لیکن حقیقت یہی تھی کہ ہندوستان کی حد تک جتنے لوگ سیتائن کو جانتے تھے اس کے مقابلے بہت کم لوگ سبو سے واقف تھے۔ وزیر اعظم نے اخبار نویسوں کو خوشخبری سنائی کہ انتظامیہ کے جانبازوں نے اپنی جان پر کھیل کر سبو کو بچا لیا۔ یہ سراسر کذب بیانی تھی۔ سچ تو یہ تھا کہ جس رات عرفان صدیقی کو منتقل کیا گیا اسی رات ڈپٹی پولس کمشنر پچھواڑے کی جانب سے سبروتو مکرجی کو بھی نکال کر اپنے ساتھ لے گئے تھے اور سارے ہنگامے کے دوران وہ بڑے آرام کے ساتھ سرکاری گیسٹ ہاؤس میں نظر بندی کی زندگی گزار رہا تھا۔

وہ ٹیلی ویژن کے پردے پر اپنے بارے میں طرح طرح کی قیاس آرائیوں کو دیکھ رہا تھا اور اخبارو رسائل میں اپنے متعلق بھانت بھانت کے بیانات پڑھ کر لطف اندوز ہو رہا تھا۔ سبو کے موت کی خبر نے اسے ادب و سیاست کی دنیا میں زندہ و جاوید کر دیا اور اس کا شمار دنیا کے مقبول ترین مصنفین میں ہونے لگا۔ سبو نے طے شدہ منصوبے کے مطابق نہایت مختصر اور محتاط بیان دیا۔ بغیر کسی تفصیل میں جائے اس نے صرف اپنے محافظین کو خراجِ عقیدت پیش کیا اور دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ان تمام لوگوں کا شکریہ ادا کیا جنہوں نے اس کی حمایت اور تعزیت کی تھی۔

سبو کا اپنی تعزیت کرنے والے لوگوں کا شکریہ ادا کرنا اس قدر ظریفانہ اقدام تھا کہ وہ اپنے آپ ذرائع ابلاغ کی سرخیوں پر چھا گیا۔ سبو کی موت دراصل ہندو احیاء پرستوں کے لیے موت کا پیغام بن گئی۔ اس نے فسطائی منافقت اور سفاکیت کا گھڑا بیچ بازار میں لا کر پھوڑ دیا اور معتدل ہندوؤں کے ایک بہت بڑے طبقے کو ان کا دشمن بنا دیا۔ فسطائی قوتوں کا یہ حال تھا گویا ان کی لاٹھی تو ٹوٹ ہی گئی تھی مگر سبو سانپ کی مانند انہیں ڈنک مارے جا رہا ہے۔ سبو کا زہر فرقہ پرستوں کی رگوں میں پھیلتا جا رہا تھا۔ وہ ان کے لیے سوہانِ جان بن گیا تھا۔ مرکزی حکومت دسہرہ کے بعد ناگ پنچمی کا تہوار منا رہی تھی اور آستین کے سانپ کو دودھ پلا رہی تھی۔ سبو کا ستارہ عروج پر پہنچ گیا تھا۔

 

 

 

 

جیتو جلاد

 

سیتائن کے بعد سبو نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ وہ لکھتا گیا تو لکھتا ہی چلا گیا اور چھپتا گیا تو چھپتا ہی چلا گیا۔ سچ تو یہ ہے کہ سبوکو سیتائن کے بعد کبھی اشاعت کے باب میں کچھ سوچنے کی ضرورت ہی پیش نہیں آئی۔ اس کا کام تو صرف پڑھنا اور لکھنا تھا۔ بڑے بڑے اشاعتی ادارے اس سے رابطے میں رہتے تھے اور جب کتاب مکمل ہو جاتی تو وہ کیسے چھپتی اور کہاں بکتی اس کی اسے کوئی فکر ہی نہیں ہوتی تھی ہاں یہ ضرور تھا کہ اس کی کتابوں کے ساتھ ساتھ اس کا بنک بیلنس میں بھی برابر اضافہ ہونے لگا تھا لیکن سبو اس سے بھی بے نیاز تھا۔ سبو کے پاس موضوعات کی کمی نہیں تھی۔ اس کی ناولوں میں کبھی رومانی رنگ غالب ہو جاتا تو کبھی وہ جاسوس بن جاتا۔ اس نے سماجی اور سیاسی موضوعات پر بھی اپنا قلم چلایا بلکہ طلسمی و خوفناک قسم کی ناول بھی لکھے۔

سبو نے اس بیچ اپنی تمام تر توجہ بنگلہ زبان کے بجائے انگریزی کی جانب مرکوز کر دی تھی اور اس کا ایک فائدہ تو یہ تھا کہ سبو کے ناولوں کے مختلف زبانوں میں تراجم ہونے لگے تھے۔ ایسی زبانوں میں جن کی سبو کوئی شد بد نہیں تھی اور اسی کے ساتھ سبو کی زندگی میں سیلانیت کا اضافہ ہو گیا تھا۔ جس زبان میں اس کی کتاب کا ترجمہ ہوتا وہاں کا ناشر اسے اپنے یہاں آنے کی دعوت دیتا اور اس دورے کو خوب مشتہر کیا جاتا تھا۔ یہ دراصل کتاب کی اشتہار بازی کا ایک بہانہ ہوتا تھا۔ سبو جب اس ملک میں جاتا مثلاً اسپین، جرمنی، کرغستان یا کوریا وغیرہ تو اس کی کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ اس کے بارے میں یا اس کی کتاب کے بارے میں کیا کہا جا رہا ہے لیکن اسے یہ سب بہت اچھا لگتا تھا۔ وہ لوگوں کی آنکھوں میں عقیدت و محبت کے چراغ دیکھ لیتا اور سمجھ جاتا تھا کہ ان کے دل میں کون سے جذبات موجزن ہیں۔ سبو اپنے مداحوں کے ہونٹوں پر خوشی اور مسرت کا مشاہدہ کرتا تو اس کی سمجھ میں آ جاتا تھا کہ یہ لوگ کیا کہنا چاہتے ہیں۔

سبو جہاں بھی جاتا وہاں ایک دو ہفتہ ضرور قیام کرتا۔ وہاں کی تہذیب و ثقافت کا بغور مشاہدہ کرتا۔ ان کی انفرادیت کو اپنے ذہن اور کمپیوٹر کی یادداشت میں محفوظ کر لیتا۔ وہاں کے حسین و جمیل مناظر کو اپنی نگاہوں میں بسا لیتا۔ وہاں کی معمولات زندگی اور روزمرہ کے تلخ حقائق سے کسی مترجم کی مدد سے واقفیت حاصل کرتا اور عوام و خواص سے ملاقات کرتا۔ سبو کو لوگ بہت اچھے لگتے تھے۔ ان سے ملنا جلنا اس کا بہترین مشغلہ تھا۔ وہ ان سے بظاہر لایعنی سوالات کرتا اور ان کے سوالات کے اٹ پٹے جوابات بھی دیتا۔ اس دوران اسے بڑا سرور محسوس ہوتا اور یہیں پر کہیں اسے کوئی نہ کوئی نئی کہانی مل جاتی۔ اسے نئے کردار میسر آ جاتے۔ اس کو نیا منظر اور پس منظر مل جاتا۔ کبھی کبھار تو ایسا بھی ہوتا تھا کہ واپسی سے قبل ہی کہانی کی ابتدا ہو جاتی تھی اور کبھی کبھار اس کہانی کو جنم لینے کے لیے برسوں کا انتظار کرنا پڑتا۔

سبو نے کبھی بھی زبردستی کچھ نہیں لکھا۔ تصنیف و تالیف اس کا جنون تھا۔ اس عشق میں قلم کی حیثیت ایک معشوق کی سی تھی جس کی ناز برداری کو وہ اپنی سب سے بڑی سعادت جانتا تھا۔ قلم کی رفاقت میں وہ یک گونہ فرحت و انبساط محسوس کرتا تھا۔ اس نے کبھی اپنے قلم پر جبر نہیں کیا بلکہ ہمیشہ ہی قلم کے ہاتھوں مجبور ہو کر لکھا۔ جب کوئی کہانی بننی شروع ہوتی تو خود اسے پتہ نہ ہوتا تھا کہ یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔ ایک ہلکاسا اشارہ ہوتا تھا جو اسے اپنی جانب متوجہ کرتا اور پھر بے ساختہ وہ اسشاہراہ تصور پر بڑھتا چلا جاتا۔ آگے چل کر ایک وقت ایسا بھی آتا کہ وہ دونوں ایک دوسرے کے ہمراہ ہو جاتے اور نہ جانے کتنا عرصہ ایک ساتھ چلتے رہتے۔ اس دوران جس لمحہ سبو اپنے آپ کو اچانک تنہا محسوس کرتا وہ گھبرا کر اپنی کہانی ختم کر دیتا۔ کبھی کبھار وہ قصداً اپنے تصورِ خیال سے آگے نکل جاتا اور اپنی بساط لپیٹ کر لوٹ آتا۔

سبویہ سب کیوں کرتا تھا؟ کیسے کرتا تھا ؟ کب کیا کرتا تھا اور کیا نہیں کرتا تھا ؟ ان سوالات کا جواب اس کے پاس نہیں تھا سچ تو یہ ہے ان سوالات کا جواب جاننے کی اسے نہ ضرورت تھی اور نہ جستجو۔ اپنی منزل سے بے خبر قلم کے میدان کا یہ بے نیاز سپاہی بغیر کسی ستائش اور تمنا کے آئے دن نت نئے محاذ پر زور آزمائی کرتا اور یکے بعد دیگرے مختلف قلعے فتح کرتا چلا جا رہا تھا۔ سبو جہاں بھی جاتا اس سے ایک سوال ضرور کیا جاتا تھا۔ اس کم عمری میں اس قدر بڑی کامیابی حاصل کرنے کے باوجود وہ تنہائی کی زندگی کیوں گزار رہا ہے ؟ اس سوال کے جواب میں سبو حیرت کا اظہار کرتا۔ وہ پلٹ کر سوال کرتا کون کہتا ہے کہ میں تنہائی کی زندگی بسر کر رہا ہوں ؟ میں تو ہمیشہ ہی اپنے کرداروں کے درمیان گھرا رہتا ہوں۔ ان کے دکھ سکھ کا ساجھی دار بنا رہتا ہوں۔ ان کے ساتھ ہنستا بولتا رہتا ہوں۔ میں کبھی بھی تنہا نہیں رہتا۔

سبو کا جواب لوگوں کے لیے ناقابلِ یقین ہونے کے باوجود ایک حقیقت تھا۔ سبو کا وجود دو حصوں میں تقسیم ہو چکا تھا۔ ایک اس کا طبعی وجود تھا جو شیلانگ کے اندر بڑی جھیل کے کنارے سیتائن نامی کوٹھی میں راجو کے ساتھ رہتا تھا۔ عرفان صدیقی کا پڑوسی اور اس کے بیٹے انور صدیقی کا انکل بھی تھا لیکن اس کا دوسرا تصوراتی وجود تھا جو اپنا مقام بدلتا رہتا تھا۔ وہ اس جہاں میں رہتا جہاں اس کی کہانی پھلتی پھولتی تھی۔ وہ ان لوگوں کے ساتھ رہتا جو اس کی کہانی میں چلتے پھرتے تھے۔ وہ ان کے ساتھ جیتا اور انہیں کے ساتھ مر جاتا تھا۔ جب تک کہانی زندہ رہتی وہ زندہ رہتا ا ور جب کہانی ختم ہوتی تو وہ تصوراتی دنیا بھی آپ سے آپ فنا کے گھاٹ اتر جاتی تھی۔

یہ عالمِ برزخ کی سی ایک کیفیت ہوتی تھی، موت کا مہین ساپردہ جب دو زندگیوں کے درمیان حائل ہو جاتاتو سبو کو محسوس ہوتا کہ وہ قبر کے اندر سانس لے رہا ہے۔ لیکن اس کے بعد کسی اور کہانی میں سبو کے تصوراتی ہم زاد کا پونر جنم ہو جاتا تھا۔ شاید یہی وجہ تھی کہ سبو نے کبھی بھی ایک ساتھ دو کہانی نہیں لکھی تھی۔ اس لئے کہ اپنی تصوراتی زندگی میں بھی وہ دوئی کا قائل نہیں تھا۔ سبو جس طرح اپنی طبعی زندگی میں تنہا اور منفرد تھا اسی طرح اس کا تصوراتی ہمزاد بھی بالکل منفرد اور یکتا ہوا کرتا تھا۔ سبو کے قارئین اس کی کہانیوں میں تنوع کی تازگی محسوس کرتے تھے۔ سبو اپنے آپ کو دوہرانے کے مرض سے محفوظ و مامون تھا۔

سبواپنی نئی کہانی پھانسی میں جیتو بنا ہوا تھا۔ جیتو جلاد جس کا کام مجرمین کو تختۂ دار پر لٹکانا تھا۔ ایک عجیب و غریب کردار جو زندہ لوگوں کو موت کے اندھے کنوئیں میں ڈھکیل دیا کرتا تھا۔ لوگ اس سے نہ صرف ڈرتے تھے بلکہ نفرت بھی کرتے تھے لیکن جیتو کو اس کا ذرہ برابر ملال نہیں تھا۔ اس لئے کہ یہ کام وہ اپنی مرضی سے تو کرتا نہیں تھا۔ اس نے کبھی بھی یہ طے نہیں کیا تھا کہ کس کو اور کب پھانسی کے پھندے پر لٹکا دیا جائے ؟ وہ تو بس ایک کٹھ پتلی کی مانند بغیر یہ جانے کہ سزا کسے مل رہی ہے ؟ اس کا کیا جرم ہے ؟ وہ مجرم ہے بھی یا نہیں ؟ عدالتی احکامات کی بلا چوں و چرا تعمیل کر دیا کرتا تھا۔ اس لئے کہ یہی اس کا فرضِ منصبی تھا۔ اس کام کی اسے تنخواہ ملتی تھی۔

اس حقیقت کے باوجود لوگ اس سے نفرت اور ان لوگوں سے محبت کرتے تھے جو عدالت میں اس ملزم کی پیروی کرتے یا اس کے خلاف وکالت کیا کرتے تھے۔ جو اس کی حمایت میں یا اس کے خلاف گواہی دیتے تھے اور جو فیصلہ سناتے تھے۔ وہ تمام لوگ جو سوچ سمجھ کر کسی فرد کو تختۂ دار تک پہنچانے کا کام کرتے تھے سب کے سب نیک نام تھے مگر بدنام اگر کوئی تھا تو بیچارہ جیتو جلاد جس کا اس ساری مشق میں کوئی عمل دخل نہیں تھا۔ وہ بیچارہ تو آخری لمحات کے اندر میدان میں آتا اور آنکھ موند کر اپنے نام پر ایک اور بٹہ لگا کر چلا جاتا۔

جس طرح جیتو مجرمین کے بارے میں نہ کچھ جانتا تھا اور نہ جاننا چاہتا تھا اسی طرح عوام بھی جیتو کے بارے میں نہ ہی کچھ جانتے تھے اور نہ جاننا چاہتے تھے۔ ان کے لیے جیتو کا جلاد ہونا کافی تھا حالانکہ اگر وہ جیتو کے ماضی سے واقف ہوتے تو اس سے محبت نہ سہی تو کم از کم نفرت یقیناً نہیں کرتے۔ جیتو کا تعلق اڑیسہ کے ایک دیہات کالا ہانڈی سے تھا۔ یہ قبائلی لوگوں کا علاقہ تھا جسے جدید تہذیب اور تعلیم و ترقی ہوا تک نہیں لگی تھی۔ زمانہ کہاں سے کہاں نکل گیا تھا لیکن یہ قبائلی عوام دنیا و مافیہا سے بے خبر اپنے جنگلوں میں مست تھے۔ نہ انہیں باہر کی دنیا سے کوئی سروکار تھا اور نہ باہر والوں کا ان سے کوئی دور کا بھی واسطہ تھا۔

قدرت کی ستم ظریفی یہ تھی کہ اس نے اپنے قیمتی معدنیات کو ان قبائلی بستیوں کے نیچے منتقل کر دیا تاکہ وہ محفوظ رہ سکیں۔ لیکن حرص و ہوس کے بندے بھوکے کتوں کی طرح ہڈی کو سونگھتے ہوئے شہروں سے نکل ان پہاڑوں کے دامن میں جا پہنچے جہاں ان سے قبل کسی غیر قبائلی نے قدم نہیں رکھا تھا۔ یہ ایک مافیا تھا جس میں بڑے بڑے سرمایہ دار، محقق اور ماہر سائنسدانوں کے ساتھ حکومت کے اہلکار شامل تھے۔ ان تمام لوگوں نے مل کر زمین کی کوکھ سے تانبہ اور جستہ نکالنے کا ارادہ تو کر لیا تھا لیکن ان مقاصد کو بروئے کار لانے کے لیے قبائلی لوگوں کا اپنے آبائی علاقوں سے انخلاء لازمی تھا۔ ماہرین معاشیات جس نام نہاد ترقی کا خواب دکھلایا کرتے تھے اور سیاسی شعبدہ باز جنہیں بیان کرتے نہ تھکتے تھے ان کو شرمندۂ تعبیر کرنے کے لیے صدیوں سے آباد قبائلی عوام کو بے خانماں کرنا ضروری تھا۔ اس مہم کے اندر یقیناً بہت سارے غیر متعلق لوگوں کی فلاح و بہبود کا سامان تھا لیکن بنیادی مسئلہ یہ تھا کہ اس کی قیمت کوئی اور چکا رہا تھا اور اس سے استفادہ کوئی اور کرنے والا تھا۔

زمین کے سروے کا کام ہو رہا تھا قبائلی اس خوش فہمی کا شکار ہو گئے تھے کہ بالآخر حکومت کی نظرِ عنایت ان کی جانب مبذول ہو گئی ہے اور ان کے لیے سڑک وغیرہ تعمیر ہونے جا رہی ہے۔ قبائلی اس بات سے بھی خوش تھے کہ ان کے لیے محنت مزدوری اور روزی روزگار کا انتظام ہو گیا ہے کہ اچانک ایک حادثہ رو نما ہو گیا۔ مٹی کا نمونہ جمع کرنے والی ایک گاڑی ڈھلان سے پھسل کر کھائی میں جا گری۔ اس گاڑی میں ایک انجنیئر دو مزدور اور ایک ڈرائیور تھا۔ یہ خبر جیسے ہی کالاہانڈی کے اندر واقع کمپنی کے عارضی دفتر میں پہنچی تو ایک ہنگامہ کھڑا ہو گیا اس لئے کہ مرنے والا انجینئر انگریز تھا۔ اس کو لارسنس نامی غیر ملکی ادارے نے اس علاقہ میں تعینات کیا تھا۔ لارسنس نے مقامی ٹھیکیداروں سے لے کر حکومت اور انتظامیہ تک سب پر دباؤ بنانا شروع کر دیا۔

کھائی کے اندر جہاں گاڑی جا کر گری تھی اور ان چاروں کی لاش پڑی ہوئی تھی وہاں تک رسائی نہایت دشوار گزار تھی۔ لیکن مرنے والا انگریز اور اس کی کمپنی کے مالکان سب کے سب یہودی تھے۔ انجینئر کے اہلِ خانہ نے کمپنی سے نہ صرف ایک بہت بھاری رقم خون بہا کے طور پر طلب کی تھی بلکہ وہ آخری رسومات کی ادائیگی کے لیے ہر قیمت پر لاش کے تل ابیب پہنچائے جانے کا مطالبہ کر رہے تھے۔

اس معاملے میں حکومتِ اسرائیل کی مداخلت کا نتیجہ یہ ہوا کہ انجنینر کی لاش کو لانے کے لیے رائے پور چھاؤنی سے ایک ہیلی کوپٹر بھجوایا گیا جو بڑی مشکل سے وادی میں اتر سکا لیکن اس ہیلی کاپٹر میں پہلے ہی ایک ڈاکٹر دو نرس، دو فوجی اور چار مزدور سوار تھے۔ اسی کے ساتھ لاش کو لانے کے لیے ایک بڑا سا تابوت بھی رکھا ہوا تھا۔ اس لئے ان لوگوں نے کسی طرح انجینئر کی مسخ شدہ لاش کو تابوت میں ڈالا اور وہاں سے بھاگ آئے۔

کالا ہانڈی کے لوگوں نے ہیلی کاپٹر کا نظارہ پہلی مرتبہ کیا تھا۔ جب انہیں پتہ چلا کہ یہ ہیلی کوپٹر مرنے والوں کی لاش کو لانے کے لیے منگوایا گیا ہے تو گاؤں والوں کو اطمینان ہوا کہ کم از کم مرنے والے مزدوروں کے اہل خانہ میت کا آخری دیدار کر لیں گے اور اپنی روایت کے مطابق اس کا انتم سنسکار کر دیا جائے گا۔ اس پروجکٹ پر کام کرنے والے دو مزدور مقامی قبائل سے تعلق رکھتے تھے مگر ڈرائیور آندھرا پردیش کے شہر وجئے واڑہ کا رہنے والا تھا۔ مہلوک ڈرائیور کے تین رشتے دار وہیں برسرِ روزگار تھے۔ ان لوگوں نے انتظامیہ سے بات کر کے ایک گاڑی کے ذریعہ ڈرائیور کی لاش کو اپنے شہر وجئے واڑہ لے جانے کی بات کر لی تھی اور ان کا ٹھیکیدار اس پر راضی ہو گیا تھا۔

کمپنی کا سارا عملہ بڑی بے صبری سے ہیلی کاپٹر کا انتظار کر رہا تھا لیکن جب انتظار کی گھڑیاں طویل سے طویل تر ہو گئیں تو طرح طرح کی چہ میگوئیاں ہونے لگیں۔ کسی نے کہا لگتا ہے ہیلی کوپٹر بھی حادثے کا شکار ہو گیا۔ کوئی بولا چونکہ وادی میں خونخوار درندے پائے جاتے ہیں اس لئے ممکن جو عملہ لاشوں کو لانے کے لیے گیا تھا وہ ان کا تر نوالا بن گیا ہو۔ مختلف قسم کی قیاس آرائیوں کا سلسلہ جاری تھا کہ کیمپ میں لگے ہوئے ٹیلی ویژن پر وہ ہیلی کاپٹر نمودار ہو گیا۔ سارے مزدور حیرت سے دیکھ رہے تھے کہ جو عملہ وادی میں جانے سے قبل اس کیمپ میں کچھ دیر کے لیے رکا تھا وہ ہیلی کاپٹر سے باہر آ رہا ہے۔ یہ رائے پور فوجی چھاؤنی کے اندر موجود ہوائی اڈے کے مناظر تھے۔

مزدور یہ سوچ ہی رہے تھے کہ اب ڈرائیور کی لاش کو رائے پور سے لانے کے لیے کیا کیا جائے کہ انہیں پتہ چلا ہیلی کاپٹر میں صرف ایک لاش ہے۔ جسے ایک اور ہوائی جہاز میں ڈال کر تل اببیب بھجوانے کے انتظامات کئے جا رہے ہیں۔ باقی تین لوگوں کی لاش کو چیل کوّوں کی بھوک مٹانے کے لیے وہیں کھائی میں چھوڑ دیا گیا ہے۔ اس خبر نے مزدوروں کے اندر غم و غصے کی لہر دوڑا دی۔ ان لوگوں نے سوچا یہ کیسا امتیاز ہے جو موت کے ساتھ بھی ختم نہیں ہوا۔ مزدوروں نے ہڑتال کر دی اور مطالبہ کیا کہ جب تک لاش واپس نہیں آتی اس وقت تک وہ کوئی کام نہیں کریں گے۔

کمپنی کا انتظامیہ پہلے ہی اسرائیلی انجنییر کی موت پر خرچ ہونے و الی رقم سے جلا بھنا بیٹھا تھا مزدوروں کی ہڑتال نے انہیں آگ بگولا کر دیا۔ ان لوگوں نے ٹھیکیدار کو دھمکی دی کہ چوبیس گھنٹے میں وہ ان مزدوروں کی مدد سے یا دوسرے مزدوروں کو لا کر کام شروع کرائے ورنہ اس کی چھٹی کر دی جائے گی اور اس کے تجارتی حریف کو یہ ٹھیکہ دے دیا جائے گا۔ ٹھیکیدار نے مزدوروں کو سمجھانے کی حتی الامکان کوشش کی لیکن کوئی ٹس سے مس نہیں ہوا۔ ٹیلی ویژن والے بار بار ان مناظر کو دکھلا کر ان مزدوروں کا خون نادانستہ طور پر کھولا رہے تھے۔ بالآخر ان مزدوروں کی واپسی کا فیصلہ ہوا۔

جب بڑے بڑے ٹرک کیمپ کی جانب آنے لگے تو گاؤں والوں کو لگا مبادا ان کے ساتھیوں کی لاش آ چکی ہے اس لئے سارا کالا ہانڈی گاؤں وہاں جمع ہو گیا۔ مزدور واپسی سے قبل کیمپ صدر دروازے پر جمع ہو کر نعرے لگانے لگے۔ گاؤں والے بھی ان کی آواز میں آواز ملانے لگے۔ ایک ہنگامہ برپا ہو گیا۔ پولس کو طلب کر لیا گیا۔ پولس نے مجمع کو تتر بتر کرنے کے لیے مختلف حربے استعمال کئے لیکن لوگوں کا غصہ اس قدر زیادہ تھا کہ ہر اقدام کے بعد احتجاج میں شدت آ جاتی تھی۔ لاٹھی چارج میں کئی لوگ بری طرح زخمی ہو چکے تھے لیکن جذبات سرد ہونے کا نام نہ لیتے تھے۔ بالآخر پولس نے گولی باری شروع کر دی اور جب لاشیں گرنے لگیں تو مجمع قابو سے باہر ہو گیا۔ اس نے لارسنس کے کیمپ کو آگ لگا دی۔

دوسرے دن تمام اخبارات اور ٹیلی ویژن پر صرف ایک خبر تھی بین الاقوامی کمپنی لارسنس پرنکسلوادی دہشت گردوں کا حملہ۔ لوٹ پاٹ کے بعد کیمپ نذرِ آتش۔ نکسلوادی یہ نہیں چاہتے کہ ان کے زیر اِ اثر علاقوں میں ترقی ہو اور خوشحالی آئے اس لئے وہ معدنیات کے عظیم پروجکٹ کی راہ میں رکاوٹ بن رہے ہیں۔ ان کا ہدف غیر ملکی سرمایہ کار ہیں اور یہ نکسلوادی انہیں خوفزدہ کر کے سرمایہ کاری سے روکنا چاہتے ہیں۔ لیکن حکومت کی جانب سے یقین دہانی کی گئی تھی کہ مجرموں کو کیفرِ کردار تک پہنچایا جائے گا تاکہ غیر ملکی سرمایہ کاری کی مدد سے ترقی کی شرح کو برقرار رکھا جا سکے۔

اس کہانی میں کہیں بھی عوام کے غم و غصہ کی اصل وجہ کا تذکرہ نہیں تھا۔ کسی نے یہ بتانے کی زحمت نہیں کی تھی کہ مرنے والے ڈرائیور اور مزدوروں کے ساتھ امتیاز و نا برابری کا سلوک کیا گیا تھا۔ اپنے آپ کو دیش بھکت کہنے والی حکومت نے کس طرح ایک غیر ملکی کے حقوق کی خاطر اپنے تمام وسائل لگائے لیکن خود اپنے ہی شہریوں کے ساتھ کمال بے حسی کا مظاہرہ کیا۔ انتظامیہ نے مظاہرین پر کس طرح بے دریغ طاقت کا استعمال کیا۔ پولس کی گولی سے کتنے لوگ زخمی ہوئے یا اپنی جان گنوا بیٹھے۔ ٹیلی ویژن کیمرے پر تو بس جلتے ہوئے کیمپ تصویریں تھیں اور اقتصادی نقصان کا ماتم تھا۔ اس کے پردے میں غریبوں پر کیا جانے والا ظلم چھپا دیا گیا تھا بلکہ مظلوموں کو نکسلوادیوں کا روپ دے کر ظالم بنا دیا گیا تھا۔

 

 

 

 

رمنی راجہ

 

لارسنس کے افسران تو ہنگامہ شروع ہوتے ہی کیمپ سے بھاگ کھڑے ہوئے تھے اب انہیں واپس کام پر جانے سے ڈر لگ تھے۔ وجئے واڑہ کے ناکام و نامراد مزدور احتجاج کے دوران اپنے دو اور ساتھیوں کو گنوا کر واپس جا چکے تھے لیکن گاؤں والے قبائلی بیچارے کہاں جاتے تو سووہ وہیں موجود تھے۔ اس پروجکٹ کی تکمیل کے لیے وہ بہت ہی سستے مزدور تھے اس لئے ان کی خدمات کا حصول ضروری تھا۔ سرکاری سطح پر نئی صورتحال پر قابو پانے کے لیے یہ حکمتِ عملی طے کی گئی تھی کہ پہلے ان کو خوب اچھی طرح خوفزدہ کر دیا جائے پھر اپنے کام لگایا لیا جائے تاکہ ان کی جانب سے کوئی خطرہ بھی نہ ہو اور وہ بلا چوں چرا خدمتگاری میں لگے رہیں۔

اس کام کے لیے پولس کی جانب سے تحقیق و تفتیش کی مہم کا آغاز ہوا تاکہ یہ پتہ لگایا جائے کہ تشدد کو بھڑکانے والوں میں کون کون شامل تھا؟ اور کن لوگوں کا تعلق نکسلوادی تحریک سے ہے۔ یہ ایک ایسی چیز کی تلاش تھی جس کا سرے سے کوئی وجود ہی نہیں تھا۔ لطف کی بات یہ تھی کہ جس پولس کی زیادتی کے سبب دنگا بھڑکا تھا وہی جانچ پڑتال کر رہی تھی اور اپنے علاوہ جس کو چاہتی تھی موردِ الزام ٹھہرا دیتی تھی۔ ان لوگوں نے کئی نوجوانوں کو گرفتار کر کے رائے پور پہنچا دیا تھا۔ ان گرفتار شدگان میں سے احتجاج کے دوران گولی باری سے ہلاک ہونے والے مزدور بھیکو کا بھائی کھیتو بھی تھا۔

بھیکو اور دیگر مرنے والوں کی تکفین و تدفین سے فارغ ہونے کے بعد کالا ہانڈی کے لوگوں کو اپنے گرفتار شدگان کا خیال آیا۔ انتظامیہ نے انہیں یکے بعد دیگرے اس قدر مصیبتوں میں گرفتار کر دیا تھا کہ وہ کھائی میں پڑی ہوئی لا وارث لاشوں کو بھول ہی گئے تھے۔ مرنے والوں کو بھولا جا سکتا ہے لیکن زندہ لوگ بھلائے نہیں بھولتے۔ بالآخر گرفتار شدگان کے اعزہ و اقارب نے شہر جانے کا فیصلہ کیا۔ کالا ہانڈی میں تو یہ ہوتا تھا کہ جب بھی کوئی اجنبی نظر آتا کوئی نہ کوئی مقامی شخص اسے اپنا مہمان بنا لیتا اور جو کچھ بھی روکھا سوکھا میسر ہوتا پہلے اپنے مہمان کو کھلاتا اور پھر خود کھاتا۔ مہمان کے سونے کا بندوبست میزبان خود اپنے آنگن میں یا گاؤں کے مندر میں کر دیا کرتا تھا۔ ان سیدھے سادے لوگوں کو یہی توقع تھی کہ ان کے گاؤں کی روایت کے مطابق شہر میں ان کا ستقبال کیا جائے گا۔

قدیم و فرسودہ تہذیب کے پروردہ قبائلی اس توقع میں شہر چلے آئے تھے کہ یہاں کہ خوشحال لوگ انہیں پناہ دیں گے لیکن یہاں تو عجب نفسا نفسی کا عالم تھا۔ ہر کوئی اپنے آپ میں الجھا ہوا پریشان حال تھا۔ لوگ اپنوں کے کسی کام نہ آتے تھے تو ایسے میں اجنبیوں کو بھلا کون پوچھتا ؟ بہرحال جب یہ لوگ اپنے اعزہ کی تلاش میں پولس تھانے پہنچے تو ایک پولس اہلکار کو ان کی حالتِ زار پر رحم آ گیا۔ ان غریبوں کے نہ پیٹ میں دانہ تھا اور نہ تن پر ٹھیک سے لباس ہی تھا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ ان کا کیا جائے ؟ سرکاری خزانے میں اس طرح کے غریبوں پر خرچ کرنے کے لیے کوئی بجٹ نہیں تھا۔

تھانیدار بچہ سنگھ سوچ رہا تھا اب ان کا کیا کرے ؟ تھانیدار کے پاس ان کے تعاون کی صرف یہی صورت تھی کہ ان قبائلیوں کو گرفتار کر کے جیل بھیج دے تاکہ وہاں انہیں دو وقت کی روٹی اور سونے کے لیے چھت میسر آ جائے لیکن پھر سوال یہ پیدا ہوتا تھا کہ ان پر الزام کیا لگایا جائے ؟اس لئے کہ ان میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے اور بھلا یہ غریب قبائلی اجنبی شہر میں کر بھی کیا سکتے تھے ؟

رحمدل تھانیدار بچہ سنگھ کا بچپن قبائلی علاقے میں گزرا تھا۔ اس کے والد حوالدار سچا سنگھ کی تعیناتی بلاسپور کے قریب راج نند گاؤں میں تھی۔ یہ سارا علاقہ قبائلی آبادی پر مشتمل تھا۔ اس کے اسکول میں زیادہ تر طلباء قبائلی تھے۔ اس کے دوست و احباب، اڑوس پڑوس سب قبائلی لوگوں سے اٹا پڑا تھا۔ اس کا اپنے دوستوں کے گھر آنا جانا تھا۔ بچہ سنگھ کو قبائلی لوگوں کی سادگی اور سچائی بے حد پسند تھی۔ اس کا بس چلتا تو وہ راج نند گاؤں کبھی نہ چھوڑتا لیکن پولس کی ملازمت نے اس کے والد سچا سنگھ کو جس طرح رائے پور سے اٹھا کر قبائلی لوگوں کے درمیان راج نند گاؤں پہنچا دیا تھا جبکہ وہ وہاں جانا نہیں جانا چاہتے تھے۔ بچہ سنگھ کو رائے پورچ منتقل کر دیا جبکہ وہ راج نند گاؤں چھوڑنا نہیں چاہتا تھا۔

بچہ سنگھ جس وقت وہ اپنے تبادلے کے خلاف ہاتھ پیر مار رہا تھا تو اس کے باپ سچا سنگھ نے نصیحت کی بیٹے اس دنیا میں انسان نہ اپنی مرضی آتا ہے اور نہ جاتا ہے۔ جب وہ آنا نہیں چاہتا تو بھیج دیا جاتا ہے اور جب جانا نہیں چاہتا تو بلا لیا جاتا ہے۔ یہ سارے فیصلے اوپر والا کرتا ہے اور انہیں بدلا نہیں جا سکتا۔ سچا سنگھ کی یہ سچی بات بچہ سنگھ کی سمجھ میں نہیں آئی لیکن جب چند ماہ بعد سچا سنگھ اس دنیا کو چھوڑ گیا تو بچہ سنگھ بڑا ہو گیا اس کی سمجھ میں سب کچھ آ گیا۔

سپاہی رام سرن نے آ کر جب امر جوان چوک پر منعقدہ دھرنا کے بندو بست پر جانے کی اجازت طلب کی تو بچہ سنگھ اس ادھیڑ بن میں مبتلا تھا کہ ان قبائلی لوگوں کا کیا کرے ؟ تھانیدار نے کہا تم ایسا کرو کہ اپنے ساتھ ان لوگوں کو بھی لے جاؤ جو باہر بیٹھے ہیں۔ حوالدار نے حیرت سے پوچھا صاحب وہ بیچارے وہاں جا کر کیا کریں گے ؟ تھانیدار بولا وہی جو عام طور پر دھرنے میں کیا جاتا ہے۔ یہ لوگ وہاں پر زندہ باد مردہ باد کے نعرے لگائیں گے۔

رام سرن بولا لیکن صاحب ان کو اس سے کیا مطلب ؟ بچہ نے کہا تو کیا وہاں جو لوگ لائے جاتے ہیں کیا انہیں اس سے کوئی مطلب ہوتا ہے ؟ حوالدار بولا جی نہیں صاحب ان کا بھی کوئی مطلب نہیں ہوتا۔ لیکن صاحب ان کو کیا ملے گا ؟ وہی جو دوسروں کو ملتا ہے۔ کیا مطلب ؟ حوالدار نے پوچھا۔ تھانیدار بگڑ کر بولا پہلے جب میں حوالدار تھا اور دھرنوں کی نگرانی کے لیے جایا کرتا تھا تو وہاں پوری کچوری بنٹتی تھی کیا اب بند ہو گئی ہے ؟ جی نہیں صاحب اب تو اس کے ساتھ سو سوروپئے کا نوٹ بھی بنٹتا ہے۔

تھانیدار نے حیرت سے سوال کیا بھئی واہ کافی ترقی ہو گئی ہے۔ اچھا تو ہر شریک کو فرداً فرداً نوٹ تھما دیا جاتا ہے۔ جی نہیں صاحب اس سے تو بڑی بدنظمی ہو گی بلکہ بدنامی کا بھی اندیشہ ہے۔ نظم و نسق قائم رکھنے کے لیے ہر گروہ کے سرغنہ کو ان کے ساتھ آنے والوں کے حساب سے روپیہ دے دیا جاتا ہے۔ اچھا تو یہ کافی منظم معاملہ لگتا ہے۔ تھانیدار نے پوچھا مگر اس لانے والے سرغنہ کو کیا ملتا ہے ؟ اسے ایک ہزار روپئے ملتے ہیں لیکن اس کے لیے شرط ہے شرکاء کی تعداد دس سے زیادہ ہو؟

تھانیدار بچہ سنگھ اس تفصیل سے لطف اندوز ہو رہا تھا وہ بولا حوالدار تمہیں یہ سب کیسے پتہ چل گیا کہیں تم بھی تو ؟ یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں صاحب۔ نہیں میرا مطلب سائڈ بزنس کے طور پر جزوقتی؟؟؟ جی نہیں صاحب ہم بہت ایماندار آدمی ہیں۔ یہ سب تو ہمیں اپنے مخبر سے معلوم ہوا ہے۔ بہت خوب۔ تھانیدار بولا اچھا تو دیکھو یہ پندرہ بیس لوگ ہیں تم ان کو اپنے ساتھ لے جاؤ اور اپنے ایک ہزار کھڑے کر لو۔

حوالدار رام سرن بولا صاحب کیسا مذاق کرتے ہیں آپ ؟ کیا میں اس ٹولے کا سرغنہ بن کرجلوس میں جاؤں یہ نہیں ہو سکتا۔ بچہ سنگھ بولا تم سے کون کہہ رہا ہے کہ سرغنہ بن کر نعرے لگاتے ہوئے جاؤ۔ انہیں لے جا کر وہاں چھوڑ دینا اور اپنے پیسے وصول کر لینا۔ لیکن لے کر کیسے جاؤں میرے پاس کوئی ٹریکٹر تو ہے نہیں۔ تھانیدار بولا تمہیں ٹریکٹر کی کیا ضرورت۔ وہ سامنے پولس کی گاڑی کھڑی ہے جس میں ہم لوگ ملزمین کو عدالت سے جیل لے کر جاتے ہیں اسی میں انہیں بھر کر لے جاؤ۔

حوالدار نے پھر سوال کیا صاحب آپ مذاق تو نہیں کر رہے ہیں ؟ بچہ سنگھ کڑک کر بولا دیکھو میں جو کر رہا ہوں وہ کرو ورنہ دہشت گردوں کی مدد کرنے کے الزام میں تم پر ٹاڈا لگا دوں گا۔ حوالدار کچھ دیر خاموش کھڑا رہا پھر ان قبائلی لوگوں کو ساتھ لے کر امر جوان چوک کی جانب روانہ ہو گیا۔ اس روز کا دھرنا شہر کے ایک بہت بڑے رہنما رمنی راجہ کے خلاف تھا۔ رمنی راجہ نے اپنے علاقے کی جھگیوں میں رہنے والے غریب رائے دہندگان کو بے خانماں کر کے ان کی زمین پر ایک سرمایہ دار کی شراکت میں فائیو اسٹار ہوٹل کھولنے کا ارادہ رکھتا تھا۔

ابتداء میں رمنی راجہ شہر کا بہت بڑا غنڈہ تھا بعد میں اس نے اپنے جرائم پر پردہ ڈالنے کی خاطر نیتا گیری شروع کر دی تھی لیکن اس کا پرانا زیر زمین کاروبار اب بھی جاری تھا بلکہ سرکاری تحفظ میں پھل پھول رہا تھا۔ رمنی راجہ کا تجربہ اس کی سیاسی سرگرمیوں میں معاون و مددگار ثابت ہو رہی تھی۔ رمنی کے پاس دولت کی ریل پیل تھی۔ اس کے پاس غنڈوں کی اچھی خاصی فوج تھی جو زیادہ تر شہر کی جھگیوں کے درمیان پکے مکانات کے اندر رہتی تھی۔ اپنے گرگوں کی مدد سے راجہ رمنی نے بغیر کسی پارٹی کی ٹک ٹکے آزاد امیدوار کے طور پراسمبلی کا انتخاب جیت لیا تھا اور پھر کھدر دھاری قومی جماعت میں شامل ہو گیا تھا جہاں اس کا بسرو چشم استقبال کیا گیا۔

رمنی نے اس مظاہرے کو ناکام بنانے کے لیے امر جوان چوک پر آنے والے سارے راستوں پر اپنے غنڈے تعینات کر دئیے تھے جو مظاہرین کو ڈرا دھمکا کر لوٹا دیتے تھے۔ رمنی راجہ کو یقین تھا کہ یہ مظاہرہ بری طرح ناکام ہو جائے گا لیکن اسے نہیں پتہ تھا کہ اس کے خلاف مظاہرہ کرنے والے لوگ پولس کی گاڑی میں آ رہے ہیں۔ حوالدار نے گاڑی میں بیٹھے قبائلیوں کو بالکل امر جوان چوک کے سامنے گاڑی سے اتارا اور وہاں بنے پنڈال میں جانے کا اشارہ کیا جہاں دوچار رہنما اپنے ہمنواؤں کا انتظار کرتے کرتے مایوس ہونے لگے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ رمنی کے خلاف جھگی جھونپڑی کے لوگ جوق در جوق نکل آئیں گے اور اس طرح آئندہ انتخاب میں رمنی راجہ کا یہ ووٹ بنک ان کے اپنے کھاتے میں منتقل ہو جائے گا۔ رمنی راجہ کے مخالفین نے اپنے پٹھووں کے ذریعہ مظاہرین کے لانے لے جانے اور دیگر لوازمات کا بھی اہتمام کر دیا تھا لیکن کسے پتہ تھا کہ رمنی راجہ نے اپنی طاقت کے بل بوتے پر ان کے تمام منصوبوں کو خاک میں ملا دے گا۔

ذرائع ابلاغ کے لوگ بھی ایک کنارے بیٹھے بیٹھے بور ہو رہے تھے۔ انہیں توقع تھی کہ اس روز وہ رائے پور کے سب سے بڑے مظاہرے کی خبر اپنے ٹی وی چینل اور اخبار کو دیں گے لیکن یہاں تو مظاہرے کی قبر کھود کر اسے زندہ درگور کر دیا گیا تھا۔ رمنی راجہ کی طاقت سے نامہ نگار اس قدر مرعوب ہو گئے تھے کہ اس واقعہ کے خلاف لب کھولنے کا ان کا اپنا حوصلہ بھی پست ہو چکا تھا۔

جب ان رہنماؤں اور ٹی وی کے نمائندوں نے قبائلی لوگوں کو پنڈال کی جانب آتے ہوئے دیکھا تو ان کی باچھیں کھل گئیں۔ پہلے سے جو پلے کارڈس وغیرہ لا کر رکھے ہوئے تھے انہیں قبائلی لوگوں میں تقسیم کر دیا گیا۔ اسی کے ساتھ کیمرے چلنے لگے ، مائک بولنے لگے اور نیتاؤں کی تقاریر کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ ٹیلی ویژن کے مقامی چینل ہمارا رائے پور پر تقریر نشر ہو رہی تھیں اور مجمع کو ایسے زاویہ سے دکھلایا جا رہا تھا کہ وہ کثیر نظر آئے لیکن زیادہ تر وقت کیمرہ مقررین کی جانب لگا رہتا۔ مظاہرہ کرنے والے رہنما رمنی راجہ کے خلاف خوب دل کھول کر بول رہے تھے اور رمنی راجہ اپنی سرکاری کوٹھی میں پیچ و تاب کھا رہا تھا۔ اس کا جی چاہ رہا تھا مظاہرین پر گولیاں چلوا دے یا اس چینل کو آگ لگوا دے لیکن اب وہ بھی ڈر گیا تھا۔ اسے غلط فہمی ہو گئی تھی کہ اس مظاہرے کو کسی بڑے سیاسی رہنما کی پشت پناہی حاصل ہے۔ اس لئے وہ کچھ محتاط سا ہو گیا تھا۔

مظاہرے کے بعد قبائلی لوگوں میں پوری سبزی تقسیم کی گئی۔ قبائلی لوگ شہر والوں کی اس ضیافت سے بہت خوش تھے۔ ان کو یہ غلط فہمی ہو گئی تھی کہ یہ مظاہرہ ان پر ہونے والے مظالم کے خلاف کیا گیا ہے۔ کھانے کے دوران ایک نیتا نے پوچھا تمہارا لیڈر کون ہے ؟ اس سوال کا ان کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ پھر اس نے پوچھا تم لوگ یہاں آئے کیسے ؟ تمہیں کون لایا ہے ؟ اس کے جواب میں ان لوگوں نے پولس کی گاڑی کی جانب اشارہ کر دیا۔ پہلے تو نیتا کی سمجھ میں کچھ نہیں آیا۔ اس نے سوچا شاید ان کا سرغنہ رمنی راجہ کے خوف سے پولس کی گاڑی میں چھپا ہوا ہے۔ جب وہ گاڑی کے قریب گیا تو وہاں حوالدار رام سرن ایک ڈرائیور کے ساتھ پوری سبزی سے لطف اندوز ہو رہا تھا۔ ان دونوں کے علاوہ کوئی تیسرا آدمی وہاں موجود نہیں تھا۔

حوالدار نے بتایا کہ وہی ان قبائلی لوگوں کو اپنی گاڑی میں سوار کر کے لایا ہے۔ اسی کے ساتھ رمنی راجہ کی نظروں سے بچ کر ان مظاہرین کے پہنچنے کا عقدہ بھی کھل گیا۔ اس رہنما نے کہا بھائی رام سرن تم نے آج ہماری لاج رکھ لی ورنہ رمنی نے تو ہماری لٹیا ہی ڈبو دی تھی خیر یہ کتنے آدمی تم اپنے ساتھ لائے تھے ؟ یہی کچھ پندرہ بیس رام سرن ہنس کر بولا۔ سمجھ لو بیس۔ تم تو جانتے ہی ہو عام طور پر ہر شریکِ مظاہرہ کو سو روپئے دئیے جاتے ہیں لیکن چونکہ یہ اپنی جان جوکھم میں ڈال کر یہاں آئے ہیں اس لئے ان میں سے ہر ایک کو پانچ سو ملنے چاہئیں اور تمہیں ایک ہزار کے بجائے پانچ ہزار۔ رام سرن خوشی سے پھولا نہیں سما رہا تھا۔ وہ اپنے تھانیدار کو دعائیں دے رہا تھا لیکن ڈرائیور بیچارہ حسر ت بھری نظروں سے یہ سب دیکھ سن رہا تھا۔

جب وہ رہنما روپئے دے کر لوٹ رہا تھا تو ڈرائیور بولا حوالدار صاحب کیا یہ رقم ان جنگلی لوگوں میں تقسیم کرنا ضروری ہے ؟ ان کے لیے تو یہ پوری سبزی ہی بہت ہے ؟ رام سرن بولا کیسی باتیں کرتے ہو میں ان کا حق کیسے مار سکتا ہوں ؟ لیکن سرکار میرا بھی تو کوئی حق ہے ؟ ڈرائیور نے سوال کیا اور رام سرن کے چودہ طبق روشن ہو گئے وہ بولا ہاں ہاں کیوں نہیں۔ میری رقم میں تمہارا اور تھانیدار صاحب دونوں کا حصہ ہے۔ ڈرائیور بولا جی نہیں صاحب اس میں سے ایک نیا پیسہ بھی میں اپنے اوپر حرام سمجھتا ہوں۔

حوالدار نے سوچا عجیب بے وقوف آدمی ہے۔ ان غریبوں کی ساری رقم ہڑپ کر لینا چاہتا ہے اور مجھ سے ایک نیا پیسہ نہیں لینا چاہتا؟ رام سرن کے دماغ میں ایک ترکیب سوجھی۔ قبائلی کھانا کھا چکے تھے۔ ذرائع ابلاغ کے لوگ جاچکے تھے مظاہرہ کامیاب ہو چکا تھا۔ اب وہی نیتا مظاہرین کو ہانک کر پولس کی گاڑی کی جانب لا رہا تھا۔ جب وہ قریب آ گیا تو رام سرن بولا صاحب آپ ہمارے ڈرائیور کو بھول ہی گئے۔ وہ بھی تو میرا ساجھی دار ہے۔ نیتا نے پانچ سو کے دو نوٹ ڈرائیور کو تھما کر کہا اب تو خوش ہو۔ اس نے جواب دیا بہت شکریہ جناب۔ آپ کا بہت بہت شکریہ۔

گاڑی کے اندر سب سے پہلے رام سرن نے ہر قبائلی کو پانچ سو کا کڑک نوٹ پکڑایا۔ ان میں سے کئی ایک نے ایک ایسا تازہ نوٹ پہلی مرتبہ دیکھا تھا۔ اس نعمتِ غیر مرتقبہ پر وہ بے حد خوش تھے اور شہر والوں کے بے حد ممنون و مشکور تھے لیکن ان کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اس کا اظہار کیسے کیا جائے۔ جب انسان کے پیٹ میں اناج کا دانہ اور جیب میں ٹھن ٹھن گوپال پہنچ جاتا ہے تو وہ وقتی طور پر اپنے سارے رنج و الم فراموش کر دیتا ہے۔ ایسا ہی کچھ ان لوگوں کے ساتھ بھی ہوا تھا۔ ان میں سے اکثر گاڑی میں اونگھ رہے تھے لیکن کھیتو کی بیوی میتھی جاگ رہی تھی اس لئے کہ اس کی گود میں بیٹھا ننھا جیتو مسلسل اچھل کو د کر رہا تھا۔

یہ قبائلی کل اٹھارہ کی تعداد میں تھے اس طرح رام سرن کے پاس پانچ سو کے دو نوٹ بچ گئے تھے۔ رام سرن نے بڑی ایمانداری کے ساتھ ان میں ایک ڈرائیور کو دیا اور ایک اپنی اوپر کی جیب میں رکھ لیا۔ پولس تھانے پہنچنے کے بعد رام سرن سیدھے تھانیدار کے دفتر میں داخل ہو گیا اور ڈرائیور نے گاڑی کا دروازہ کھول دیا۔ قبائلی گاڑی سے اتر کر پیپل کی چھاؤں میں بیٹھ کر سستانے لگے۔ رام سرن کو دیکھ کر تھانیدار نے پوچھا کیوں بھئی حوالدار صاحب کیسا رہا مظاہرہ ؟ کوئی گڑ بڑ یا توڑ پھوڑ تو نہیں ہوئی؟ کیسے ہوتی سرکار حوالدار بولا ہمارے ہوتے کس کی مجال ہے کہ ۰۰۰۰۰۰۔ تھانیدار نے ٹوک دیا بس بس بہت شیخی نہ بگھارو میں جانتا ہوں ابھی ایک ہفتہ قبل کیا ہنگامہ ہو چکا اس وقت بھی ڈیوٹی تمہاری ہی تھی۔ رام سرن جھینپ کر بولا جی ہاں سر لیکن آج بالکل امن امان رہا اس لئے کہ رمنی راجہ نے کسی کو وہاں پہنچنے ہی نہیں دیا۔ کیا مطلب تمہیں بھی نہیں ؟

جی نہیں سر رام سرن بولا اس کی کیا مجال ہے کہ ہمیں روکے لیکن آج کا مظاہرے کا سہرہ تو صد فی صد آپ کے سر ہے۔ میرے سر ؟ کیا بکواس کر رہے ہو رام سرن کہیں تمہارا دماغ تو ۰۰۰۰۰۰۰۰جی نہیں سرکار میرا دماغ درست ہے۔ اگر آپ ان قبائلیوں کو وہاں لے جانے کا حکم نہ دیتے تو میں کیونکر انہیں لے کر جاتا۔ اور اگر یہ نہیں جاتے تو مظاہرہ سرے سے ہوتا ہی نہیں۔ وہاں موجود تین چار رہنما کسے اپنی لمبی چوڑی تقریر سناتے ؟یہ کہہ کر رام سرن نے پانچ ہزار پانچ سو روپئے تھانیدار کے سامنے رکھ دئیے۔

تھانیدار نے چونک کر پوچھا یہ کیا ہے ؟ صاحب میں نے آپ کو بتایا تھا نا کہ ۰۰۰۰۰۰۰۰ ہاں ہاں مجھے یاد آیا تم ایسا کرو کہ اس رقم کو ان غریب قبائلی لوگوں میں تقسیم کر دو۔ رام سرن بولا صاحب ان میں سے ہر ایک کو میں پانچ سو کا ایک ایک کڑک نوٹ دے چکا ہوں۔ یہ تو ہمارے لئے ہے۔ تھانیدار نے کہا نہیں رام سرن۔ اگر یہ رشوت ہوتی تو ہم اسے اپنے ضابطے کے لحاظ سے ضرور تقسیم کرتے اور ہر ایک کو اس کا جائز حصہ پہنچا دیا جاتا لیکن یہ تمہاری محنت کی کمائی ہے اس میں سے ایک نیا پیسہ بھی لینا میں حرام سمجھتا ہوں۔ رام سرن کو ڈرائیور کا مکالمہ یاد آ گیا۔ وہ بولا صاحب آپ مہان آدمی ہیں۔ اب یہ بتائیے کہ ان براتیوں کا کیا کیا جائے جو باہر پیپل کے تلے آرام فرما رہے ہیں۔ تھانیدار بولا میں نے ان کا بندو بست کر دیا ہے۔ تین بجے کے بعد تم انہیں آدرش اسکول میں لے جانا۔ ایڈوکیٹ آکاش آنند سے میری بات ہو گئی وہ ان کی رہائش کا بندو بست کر دیں گے۔

 

 

 

 

آ کاش آنند

 

کالا ہانڈی کے گرفتار شدگان کی پہلے تو رائے پور جیل میں خوب جم کر پٹائی ہو ئی اور پھر ان سے من مانے بیان پر دستخط لے لئے گئے۔ اس کے بعد حسبِ دستور عدالت میں پیش کر دیا گیا۔ پولس نے جو کہانی بنائی تھی اس کے مطابق اصل سرغنہ ملکھا سنگھ فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا تھا اور یہ سب لوگ اس کے حواری تھے حالانکہ حقیقت یہ تھی کہ کالاہانڈی کے لوگوں نے یہ نام پہلی بار سنا تھا لیکن اخبار والے اور ٹی وی والے اس خیالی کردار شجرۂ نسب مع تصویری خاکہ پیش فرما رہے تھے۔

عدالت میں ان کی پیشی سے قبل انتظامیہ نے کئی سرکاری وکیلوں سے اس فرضی مقدمہ کی پیروی کے لیے کہا لیکن سارے لوگوں نے انکار کر دیا۔ اس لئے کہ اس طرح کے مقدمات میں کوئی اوپر کی یا اندر کی آمدنی ہوتی نہیں تھی ہاں بدنامی ضرور ہو جاتی تھی۔ ذرائع ابلاغ کے توسط سے ساری دنیا جان جاتی تھی کہ دہشت گردوں کا حامی و ناصر کون ہے ؟ آکاش آنند رائے پور کا مشہور وکیل اور معروف سماجی کارکن تھے۔ وکالت ان کا ذریعۂ معاش تھا لیکن ان کا تعلق کئی تعلیمی اور دیگر فلاح و بہبود کی تنظیموں سے بھی تھا۔ انسانی حقوق خاطر لڑنے والی قومی تنظیم ہم ہندوستانی کی ریاستی شاخ کے وہ صدر نشین تھے۔

آکاش آنند ویسے تو سرکاری وکیل کے فرائض انجام نہیں دیتے تھے مگر ان قبائلی لوگوں پر انہیں رحم آ گیا اور وہ رضا کارانہ طور اس کام کے لیے تیار ہو گئے۔ ابھی وہ ان لوگوں پر لگائے جانے والے الزامات اور فردِ جرم کا مطالعہ کرہی رہا تھے کہ ایک نئی مصیبت آن کھڑی ہوئی۔ تھانیدار بچہ سنگھ نے انہیں بتایا کہ ملزمین کے رشتہ دار کسی طرح شہر پہنچ گئے ہیں۔ تھانیدار نے گزارش کی کہ وہ دوچار دن کے لیے ان کی رہائش کا کہیں انتظام کر دے۔ بچہ سنگھ نے بتایا کہ اسے اوپر سے حکم دیا گیا ہے کہ نہ وہ اپنے الزام پر اصرار کرے اور نہ ضمانت کی مخالفت کی جائے۔ اس لئے آئندہ ہفتہ ضمانت یقینی ہے تب تک کا مسئلہ ہے۔

آکاش آنند نے کے لیے یہ غیر متوقع مسئلہ تھا لیکن تھانیدار بچہ سنگھ کی استدعا نے اس کے قلب کو نرم کر دیا۔ اس نے سوچا یہ کیسا تھانیدار ہے۔ اس کا ان قبائلی لوگوں سے کیا واسطہ وہ اگر چاہے تو اپنے ڈنڈے کے زور سے انہیں بھگا دے لیکن ایسا کرنے کے بجائے بچہ سنگھ ان کے بارے میں فکر مند ہے تو اسے بھی چاہئے کہ اس کارِ خیر ہاتھ بٹائے۔ آکاش آنند نے جب سوچنا شروع کیا تو اسے خیال ہوا کہ آج سنیچر کا دن ہے دوپہر کو اسکول چھوٹ جائے گا اور پھر اگلے دن چھٹی ہے۔ پیر کے دن عدالت میں سماعت ہے۔ اگر اسکول کے آغاز سے پہلے انہیں عدالت لے جایا جائے تو ضمانت کے بعد یہ لوگ اپنے آپ لوٹ جائیں گے۔

آکاش آنند نے فون کر کے بچہ سنگھ سے کہا ابھی دو بج چکے ہیں ایک گھنٹے بعد انہیں آدرش اسکول بھجوا دو میں ان کی رہائش کا انتظام کروا دوں گا لیکن ایک شرط پر۔ بچہ سنگھ نے پوچھا وہ کیا؟ پیر کی صبح نو بجے سے قبل انہیں عدالت لے جانا آپ کی ذمہ داری ہے اور وہاں سے تو وہ لوگ واپس اپنے گھروں کو لوٹ ہی جائیں گے۔ تھانیدار بولا جی ہاں یہ سارے انتظامات میں کئے دیتا ہوں۔

آکاش آنند نے بچہ سنگھ کا فون رکھنے کے بعد اپنی بیوی رجنی گندھا کو فون لگایا۔ رجنی گندھا کو بھی سماجی کاموں میں خاصی دلچسپی تھی اور وہ اپنے خاوند آکاش آنند کے شانہ بشانہ ہر کارِ خیر میں شریک رہتی تھی۔ رجنی گندھا اور آکاش صحیح معنیٰ میں ایک دوسرے کے شریک حیات تھے۔ ان کی آپسی سمجھ بوجھ کا یہ عالم تھا کہ بغیر بولے وہ ایک دوسر ے کا مدعا جان لیتے تھے۔ آکاش آنند نے رجنی گندھا کو ان قبائلی لوگوں کی تفصیل بتلانے کے بعد کہا کہ وہ اسکول میں جا کر وہاں موجود عملہ کی مدد سے ان کے ٹھہرنے کا انتظام کروائے۔ ٹینٹ والے سے بستر اور چادریں پہنچانے کے لیے اس نے کہہ دیا ہے۔ رجنی گندھا نے مذاقاً کہا آپ تو ایسے انتظام کروا رہے ہیں گویا باراتی آنے والے ہیں۔ آکاش بولا رجنی تم تو بغیر بینڈ باجا اور باراتیوں کے میری زندگی چلی آئیں۔ مجھے ان لوازمات کا موقع ہی نہیں دیا تو کیوں نہ میں ان مہمانوں کے بہانے اپنے ارمان نکال لوں۔ دونوں نے قہقہہ لگایا اور فون بند ہو گیا۔

رجنی گندھا نے اسکول میں آ کر سب سے پہلے پرنسپل ریکھا اگروال کو اعتماد میں لیا۔ اس کے بعد سارے پیونس کو رکنے کے لیے کہا گیا۔ کل ملا کر یہ اٹھارہ لوگ تھے جن میں بارہ مرد اور چھے خواتین تھیں۔ بچوں کا شمار نہیں کیا گیا تھا اس لئے کہ انہیں اپنی ماؤں کے ساتھ رہنا تھا۔ ریکھا نے مشورہ دیا کہ ان کے لیے تین کمرے مختص کر دئیے جائیں اور ان میں سے میز اور بنچ ہٹا لی جائیں۔ دو کمرے مردوں کے لیے اور ایک میں خواتین رہ لیں گی۔ اس بیچ شامیانہ ٹینٹ ہاؤس سے بستر اور چادریں آ گئیں اور انہیں بچھانے کا کام چل ہی رہا تھا کہ پولس کی گاڑی اسکول کے میدان میں آ کر رکی۔ ریکھا نے پوچھا رجنی یہ کیا ؟ پولس والے کیوں اندر چلے آ رہے ہیں ؟ رجنی بولی لگتا ہے وہ سرکاری مہمان ہیں جو پولس کی گاڑی میں تشریف لا رہے ہیں۔ ریکھا نے ہنس کر کہا تب تو ان کا بہت خیال رکھنا ہو گا۔

ان قبائلیوں میں سے اکثر ایسے تھے جو پہلی مرتبہ کالا ہانڈی کے قرب و جوار سے باہر آئے تھے۔ وہ شہر کی تہذیب و تمدن تو درکنا ر یہاں کی زبان سے بھی پوری طرح واقف نہیں تھے۔ ویسے ان کی قبائلی زبان بھوجپوری سے ملتی جلتی تھی۔ رائے پور کے علاقے میں چونکہ بھوجپوری زبان عام طور پر بولی اور سمجھی جاتی تھی اس لئے اگر کوئی غور سے ان کی بات کو سنے تو اس کا مفہوم کسی قدر سمجھ لیتا تھا۔ ریکھا اور رجنی نے انہیں سارا انتظام سمجھایا۔ مرد اپنے لئے مختص شدہ کمروں میں لیٹ گئے۔ ریکھا نے اپنے گھر کی راہ لی اور رجنی عورتوں والے کمرے میں آ کر بیٹھ گئی۔ یہ لوگ چونکہ رات بھر کا سفر کر کے آئے تھے اس لئے ان کے پپوٹے بھاری ہو رہے تھے۔ خواتین بھی ایک ایک کر کے اپنے بستر پر دراز ہونے لگی تھیں۔ نرم نرم بستر اور سفید سفید چادر۔ ان قبائلیوں نے اپنے خواب میں نہیں سوچا تھا کہ شہر میں ان کی اس طرح سے خاطر مدارات کی جائیں گی۔

میتھی ان خواتین میں سے ایک ایسی عورت تھی جو اپنے بچے جیتو کے سبب جاگ رہی تھی اور رجنی سے باتیں کر رہی تھی۔ میتھی نے اپنی ٹوٹی پھوٹی زبان میں رجنی کو بتلایا کہ اس کا دیور بھیکو گاڑی کے حادثے کا شکار ہو کر مارا گیا۔ اس کے بعد جو احتجاج ہوا اس میں اس کے شوہر کھیتو کے ساتھ وہ بھی شریک تھی بلکہ گاؤں کے سبھی لوگ اس میں شامل تھے لیکن پولس نے بعد میں اس کے شوہر کھیتو کو آتش زنی کے الزام میں گرفتار کر لیا جبکہ اس نے آگ لگانا تو درکنار دیا سلائی بھی نہیں جلائی تھی۔

رجنی کو میتھی اور کھیتو پر رحم آیا لیکن ننھا جیتو اس پر پیار آ گیا۔ جیسے ہی اس نے جیتو اپنی جانب آنے کا اشارہ کیا وہ پھدک کر رجنی کی گود میں آ کر بیٹھ گیا اور اس کے گلے میں پڑے موتیوں کے ہار جسے منگل سوتر بھی کہا جاتا ہے کے ساتھ کھیلنے لگا۔ اب اس کی بھاگ دوڑ بند ہو چکی تھی اور شاید وہ تھک چکا تھا۔ ایسا لگتا تھا جیتو بھی سونے کے موڈ میں آ رہا ہے۔

رجنی کو میتھی کی باتیں اور جیتو کی ادائیں بہت اچھی لگیں۔ وہ میتھی اور جیتو کو اپنے ساتھ گھر لے آئی اور مہمان خانے میں انہیں سلا دیا۔ وہ میتھی سے باتیں کرنا چاہتی تھی۔ جاننا چاہتی تھی کہ قبائلی زندگی کیسی ہوتی ہے ؟ وہ لوگ ترقی اور خوشحالی کی دوڑ میں دوسروں سے کیوں پچھڑ گئے ہیں ؟ ان کی اس حالتِ زار کے لیے کون ذمہ دار ہے ؟ ان حالات کو بدلنے کے لیے کیا کیا جا سکتا ہے ؟ وغیرہ وغیرہ سچ تو یہ ہے کہ میتھی سے ملاقات کے بعد رجنی کو قبائلی سماج کے مسائل میں غیر معمولی دلچسپی پیدا ہو گئی تھی۔

جب شام ہونے لگی تو ر جنی نے میتھی سے پوچھا رات میں آپ لوگ کیا کھاتے ہیں ؟ میتھی نے کہا کچھ خاص نہیں جو بھی موجود ہوتا ہے کھا لیتے ہیں۔ رجنی کو محسوس ہوا کہ اس کا سوال غلط تھا اس نے پھر پوچھا لیکن آ ج آپ لوگ کیا کھائیں گے ؟ میتھی کا مختصر سا جواب تھا کچھ بھی نہیں۔ کچھ بھی نہیں ؟ کیوں تم مجھ سے ناراض ہو جو کھانا نہیں کھاؤ گی اور اگر تمہیں نہیں بھی کھانا ہے تو باقی لوگ کیا کھائیں گے ؟ دیکھو بائی جی میں آپ سے کتنی خوش ہوں کیا بتاؤں میرے پاس اس کے لیے الفاظ نہیں ہیں لیکن پھر بھی ہم لوگ اب کچھ نہیں کھائیں گے۔ لیکن اس کی وجہ ؟ رجنی نے سوال کیا۔ وجہ کوئی خاص نہیں دراصل ہم لوگ دن میں صرف ایک وقت کھانا کھاتے ہیں۔ آج دوپہر کو خوب جم کر کھا لیا آج کا کام ہو گیا اب کل ہی کھائیں گے۔

رجنی بولی یہ کیا بات ہے اگر دوچار دن ہمارے ساتھ دو وقت کا کھانا کھا لیا تو کون سا آسمان پھٹ پڑے گا ؟ بھئی اپنے میزبان کا بھی تو کچھ خیال رکھا جاتا ہے۔ میتھی نے کہا دیکھئے بائی جی آپ ہمیں مفت میں پیار سے کھلا رہی ہیں اس لئے آپ کو ناراض کرنے سے بڑا کوئی اور پاپ نہیں ہو سکتا لیکن ایک مسئلہ ہے۔ رجنی نے کہا کیا مسئلہ ہے ؟ ہم نے اپنے بزرگوں سے سنا ہے اور آپ نے بھی سنا ہو گا کہ انسان کی عادت تین دن میں بدل جاتی ہے۔

جی سنا تو نہیں لیکن ایسا ہوسکتا ہے رجنی نے تائید کی لیکن اس سے کھانے کا کیا سروکار ؟ کیوں نہیں بھوک بھی تو ایک عادت ہے۔ ہم لوگ چونکہ ایک بار کھاتے ہیں تو وہ ایک بار لگتی ہے لیکن اگر آپ نے تین دن تک دو وقت کھانا کھلا دیا تو مسئلہ ہو جائے گا۔ کیا مسئلہ ہو جائے گا؟ رجنی نے سوا ل کیا۔ یہی کہ واپس جانے کے بعد بھی   بھوک دو بار لگنے لگے گی۔ تو اس میں کیا مشکل ہے ؟ مشکل کیوں نہیں ہے بائی جی ایک وقت کا کھانا تو بڑی مشکل سے میسر آتا ہے۔ کبھی کبھار اس میں بھی فاقہ ہو جاتا ہے۔ اب آپ ہی بتائیں کہ دو وقت کا کھانا کہاں سے لائیں گے ؟میتھی کی بات نے رجنی کو رنجیدہ کر دیا اس نے اپنے تئیں فیصلہ کیا کہ اب وہ ان لوگوں سے دو قت کھانے کے لیے اصرار نہیں کرے گی مگر جب تک یہ لوگ اس کے مہمان ہیں وہ خود بھی دن میں صرف ایک وقت کا کھانا کھائے گی۔

رجنی کو جب بھی فرصت ہوتی وہ میتھی کے ساتھ باتیں کرتی اور قبائلی زندگی کے بارے میں معلومات حاصل کرتی یہاں تک کہ اتوار کا دن بھی گزر گیا اور پیر کی صبح آٹھ بجے وہ میتھی کے ساتھ اسکول پہنچ گئی۔ وہاں تمام لوگ عدالت جانے کے لیے تیار تھے۔ ہر کسی کو اپنے محصور عزیز سے ملنے کا اشتیاق تھا میتھی بھی کھیتو کو دیکھ کر اپنی نگاہیں ٹھنڈی کرنا چاہتی تھی۔ رجنی ان تمام لوگوں کے ہمراہ پولس کی گاڑی میں بیٹھ کر عدالت پہنچ گئی۔ آکاش آنند نے جب رجنی کو عدالت میں دیکھا تو حیران رہ گیا۔ اس نے مذاقاً پوچھا رجنی تم یہاں کس لئے آئی ہو۔ کیا تمہارا بھی کوئی عزیز زیرِ حراست ہے۔ رجنی نے جواب دیا ان سب کا تو ایک رشتے دار جیل میں ہے لیکن میرے تو یہ سب رشتے دار ہیں۔ آکاش آنند کو حیرت کا دوسرا جھٹکا لگا۔ وہ بولا رجنی ان دو دنوں کے اندر تم نے اتنے سارے رشتہ دار بنا لئے۔ رجنی بولی آکاش رشتوں کے بننے بگڑنے میں وقت نہیں لگتا۔

آکاش آنند اور رجنی گندھا کالج کے زمانے سے ایک دوسرے کے دوست تھے۔ وہ رجنی کی رگ رگ سے واقف تھا۔ رجنی کی آنکھوں سے وہ اس کے دل میں اتر جاتا تھا اور جان لیتا تھا کہ اس کی رجنی کیا سوچ رہی ہے۔ لیکن فی الحال رجنی کے متعلق اس کی قیاس آرائیاں یکے بعد دیگرے غلط ثابت ہو رہی تھیں۔ آکاش مذاق کر رہا تھا اور رجنی سنجیدگی کا پہاڑ بنی ہوئی تھی حالانکہ عام طور پر کیفیت متضاد ہوتی تھی۔ جب وہ خود سنجیدہ ہوتا تب بھی رجنی دل لگی کرنے سے باز نہ آتی۔ یہ اور بات ہے کہ رجنی کا ایسا کرنا آکاش کو بہت پسند تھا۔ رجنی کی یہ ادا آکاش کے قلب و ذہن پر موجود سارے دباؤ کو نگل جایا کرتی تھی اور آکاش پھر ایک بار اپنی عام حالت میں آ جایا کرتا تھا لیکن اس روز عدالت کے اندر رجنی کا لب و لہجہ یکسر بدلا ہوا تھا۔ آکاش کے لیے یقین کرنا مشکل ہو رہا تھا کہ وہ اسی رجنی سے بات کر رہا ہے جو اس کی اہلیہ ہے یا یہ کوئی اس کی ہمزاد ہے۔ جس کا جسم تو بالکل اس کی زوجہ رجنی کا ہے مگر اس کے اندر کوئی اور روح حلول کر گئی ہے۔ وہ سوچ رہا تھا کہیں اس قبائلی عورت میتھی نے اس کی بیوی پر کوئی جادو ٹونا تو نہیں کر دیا۔

عدالت میں محصورین کو پولس کی بند گاڑیوں میں لایا گیا۔ انہیں اپنے اعزہ و اقارب سے ملاقات کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔ وہ ایک دو سرے کو دیکھ تو سکتے تھے لیکن مل نہیں سکتے تھے۔ یہ مجبوری ان کے لیے عذابِ جانکاہ بن گئی تھی۔ قربت نے فاصلوں کے کرب میں بے پناہ اضافہ کر دیا۔ کالاہانڈی کے اندر تو اپنے سینے پر صبر کا سِل رکھ لینا کسی قدر آسان تھا لیکن یہاں یہ کام بے حد مشکل ہو گیا تھا۔ صبر کا دامن ہاتھ سے چھوٹا جاتا تھا۔ میتھی کا جی چاہ رہا تھا کہ دوڑ کر اپنے کھیتو سے لپٹ جائے اور کھیتو بھی یہی چاہتا تھا لیکن وہ سب ایسی زنجیروں میں جکڑے ہوئے تھے جو نظر تو نہ آتی تھیں لیکن ہلنے جلنے تک کی اجازت بھی نہ دیتی تھیں۔ ننھا جیتو دور سے ہی اپنے والد کو دیکھ کر بلک بلک جاتا تھا اور اس کا ایسا کرنا غیر شعوری طور پر میتھی کے زخموں پر نمک پاشی کا کام کر رہا تھا۔ عدالت میں موجود سبھی کی کم و بیش یہی حالت تھی ہر کوئی اداس تھا۔ رجنی بھی ان کے غم میں برابر کی شریک تھی۔

عدالت کی کارروائی اس خاموشی کے ساتھ ہو رہی تھی کہ کسی کی سمجھ میں کچھ نہ آتا تھا۔ پیش کار آہستہ سے کچھ کہتا تھا۔ اس کے جواب میں سرکاری وکیل آکاش آنند کوئی کاغذ ان کی جانب بڑھاتا تھا۔ جج صاحب درمیان میں کوئی سوال کرتے تو وہاں موجود پولس اہلکار کچھ جواب دے دیتے۔ ساری کارروائی نہایت سکون و اطمینان سے پراسرار انداز میں چلتی رہی۔ قبائلی لوگوں کی ساتھ رجنی بھی پہلی مرتبہ عدالتی نشیب و فراز کا مشاہدہ کر رہی تھی۔ اسے حیرت اس بات پر تھی آکاش آنند جیسا خوش مزاج آدمی کیونکر اس قدر سنجیدہ ہو گیا تھا۔ ایک ایک کر کے ملزمین کو پیش کیا گیا تھا اور پھر انہیں واپس پولس کی گاڑی میں پہنچا دیا گیا۔ کسی کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ یہ اونٹ آخر کس کروٹ بیٹھے گا اسی کے ساتھ لوگوں نے دیکھا کہ جج صاحب منھ ہی منھ میں کچھ بدبدانے کے بعد اپنی جگہ سے اٹھ عقب میں بنے کمرے کی جانب چل دئیے۔ رجنی نے سوچا جج صاحب تو چلے گئے اب ان قبائلی لوگوں کو لے کر کہاں جایا جائے ؟ اس لئے کہ اب ہفتے بھر اسکول چلے گا۔

جج صاحب کے جاتے ہی عدالت کے کمرے میں چہل پہل ہونے لگی لوگ ایک دوسرے بات کرنے لگے۔ رجنی نے آکاش آنند کے پاس جا کر کہا اب کیا ہو گا ؟ آکاش بولا وہی ہو گا جو منظورِ خدا ہو گا۔ وہ تو مجھے پتہ ہے۔ اگر پتہ ہے تو پوچھ کیوں رہی ہو؟ اسلئے کہ اگر تمہیں پتہ ہو تو بتاؤ کہ اب ان لوگوں کو ہم لے کر کہا ں جائیں گے ؟ ہمیں انہیں لے کر کیوں جائیں ؟ یہ خود اپنے اعزہ و اقارب کو لے کر کالا ہانڈی چلے جائیں گے۔ رجنی اپنی جگہ پر اچھل پڑی سچ؟ جی ہاں بالکل سچ۔ جج صاحب نے ان کی ضمانت منظور کر لی ہے اس لئے اب یہ لوگ اپنے گھر جا سکتے ہیں ؟ اچھا اگر ایسا ہے تو آپ نے مجھے کیوں نہیں بتایا ؟ رجنی نے منھ بگاڑ کر کہا تم نے پوچھا ہی کب؟

رجنی بولی اچھا بابا غلطی ہو گئی لیکن پھر وہ ملزم پولس کی گاڑی میں کیوں ہیں ؟ اس لئے کہ ضروری کاغذی کارروائی باقی ہے۔ اس کے بغیر جیل سے کوئی نہیں جا سکتا۔ رجنی نے کہا یہ تو خوب جیل ہے کہ جہاں بغیر کسی کارروائی کے انسان آ تو جاتا ہے لیکن یہاں سے جا نہیں سکتا ؟ جی ہاں رجنی تم نے درست کہا لیکن دنیا کی جیل کا بھی تو یہی حال ہے کہ یہاں انسان بغیر کسی کاغذی کارروائی کے آ تو جاتا ہے لیکن لوٹتے وقت بہت سارے کاغذات لازمی ہو جاتے ہیں۔ آپ تو فلسفہ بگھارنے لگے۔ رجنی بولی تو کیا میں میتھی اور اس کے ساتھیوں کو بتلا دوں ؟ تمہاری مرضی۔ اگر تم نہیں بتاؤ گی تب بھی کچھ دیر میں انہیں پتہ چل ہی جائے گا۔ آکاش تم جو ہو نا۰۰۰۰۰۰۰۰۰ رجنی رک گئی اور پھر بولی بڑے پتھر دل انسان ہو۔

آکاش بولا جی نہیں میں ایک رحمدل پتھر ہوں۔ رجنی نے کہا ایک ہی بات ہے اور جا کر میتھی کو بتا دیا کہ شام تک سارے قیدی رہا ہو جائیں گے اور وہ سب اپنے اہل خانہ کے ساتھ واپس لوٹیں گے۔ اس خبر نے فرحت و مسرت کی ایک لہر دوڑا دی۔ ہر کوئی خوشی سے جھوم اٹھا۔ میتھی نے جب یہ سنا تو وہ رجنی سے لپٹ کر بہت روئی۔ یہ خوشی کے آنسو تھے۔ رجنی بھی خوشی سے پھولی نہیں سما رہی تھی۔ ایسا لگ رہا تھا گویا ساری زنجیریں ایک جھٹکے سے ٹوٹ کر بکھر گئیں اور سارے پرندے ایک ساتھ آزاد ہو گئے ہیں۔ ان کے پیر اپنی جگہ ساکت و جامد تھے۔ اس کے باوجود اپنے تصورِ خیال میں وہ سب نئی ہواؤں اور نئی فضاؤں میں محو پرواز تھے۔

رجنی جب واپس لوٹ کر آئی تو لوگ اِدھر اُدھر بکھر چکے تھے۔ اس نے آکاش کے بارے میں پوچھا تو اہلکاروں نے بتلایا کہ وہ عدالت کے اندر موجود اس کے لیے مختص کردہ کمرے میں جا چکا ہے۔ رجنی اس کمرے میں پہنچ گئی تو کیا دیکھا آکاش اپنے کمپیوٹر پر مصروفِ عمل ہے۔ رجنی اس کے سامنے بیٹھ گئی اور سوال کیا اچھا یہ بتائیے کہ اب یہ لوگ جائیں گے کیسے ؟ آکا ش بولا رجنی آج تمہیں یہ کیا ہو گیا کہ بے سر پیر کے سوال کئے جا رہی ہو۔ یہ لوگ جیسے آئے ہیں ویسے ہی واپس جائیں گے۔ کیا مطلب پولس کی گاڑی انہیں اپنے گھر تک پہنچا کر آئے گی ؟ آکاش نے حیرت سے پوچھا پولس کی گاڑی کیوں ؟

رجنی بولی کیوں نہیں۔ یہ سارے ملزم پولس کی گاڑی میں کالا ہانڈی سے یہاں لائے گئے۔ ان کے اعزہ بھی پرسوں پولس کی گاڑی میں بیٹھ کر امر جوان چوک گئے وہاں سے واپس پولس تھانے اور ہمارے اسکول بھی اسی گاڑی میں آئے بلکہ آج صبح بھی عدالت میں انہیں پولس کی گاڑی ہی لائی تو اب کالا ہانڈی تک کیوں نہیں ؟ آکاش آنند بولا مجھے تو ایسا لگنے لگا ہے کہ ان کا وکیل میں نہیں تم ہو ؟

رجنی بولی اچھا اگر ایسا ہے تو تم کون ہو؟ میں ۰۰۰۰۰۰میں تو فقط وکیل کا سعادتمند نائب یعنی اس کا فرمانبردار شوہرِ نامدار ہوں۔ آپ عدالت کے اس کمرے میں ایسا مذاق کرتے ہیں آپ کو شرم نہیں آتی۔ آکاش آنند نے ہنس کر غالب کا شعر پڑھا ’’پہلے آتی تھی حالِ دل پہ شرم اب کسی بات پر نہیں آتی‘‘۔ رجنی ہنس کر بولی شرم نہیں ہنسی۔ جی ہاں ایک ہی بات ہے لیکن ایک بات بولوں۔ ہاں ہاں کیوں نہیں بے شرم ہو کر میرا مطلب ہے بے تکلف بولئے۔ تم ان لوگوں کی واپسی کے بارے میں اس طرح فکر مند ہو گویا تمہیں خود بھی ان کے ساتھ جانا ہے ؟ رجنی بولی وکیل صاحب آپ تو صحیح معنوں میں انتریامی ہیں۔ آپ کو اپنے مخاطب کے دل کی بات کا پتہ چل جاتا ہے ؟میں سوچ ہی رہی تھی کہ آپ کو کیسے بتاؤں لیکن آپ نے میرا مسئلہ حل کر دیا۔

آکاش آنند کو اس جواب کی توقع ہرگز نہیں تھی۔ اس نے سوچا یا تو رجنی اس کے ساتھ دل لگی کر رہی ہے یا اس کا دماغ خراب ہو گیا ہے۔ آکاش آنند نے سوال کیا رجنی سب کچھ ٹھیک تو ہے نا ؟ آپ یہ سوال کیوں کر رہے ہیں ؟رجنی نے نہایت سنجیدگی سے پوچھا۔ تو کیا واقعی تم کالا ہانڈی جانا چاہتی ہو ؟ جی ہاں اس میں کیا شک ہے ؟ اگر میں اجازت نہ دوں تب بھی تم کالا ہانڈی جاؤ گی ؟ آکاش آنند نے ایک اٹ پٹا سا سوال نہ جانے کیوں کر دیا۔ رجنی بولی جی ہاں ویسے مجھے یقین ہے کہ آپ مجھے اجازت دیں گے لیکن بفرضِ محال اگر آپ نے ایسا نہیں کیا تب بھی. ۰۰۰۰۰۰۰۔

آکاش آنند کو حیرت کا ایک اور جھٹکا لگا۔ وہ سمجھ گیا کہ رجنی مذاق نہیں کر رہی۔ وہ اپنے ارادوں میں سنجیدہ ہے او ر شاید اس کا دماغ واقعی خراب ہو گیا ہے۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ اس کا دماغ درست کیا جائے۔ اس غرض سے آکاش نے سوال کیا رجنی تم تو میری اجازت کے بغیر اپنے میکے بھی نہیں جاتیں تو کیا کالا ہانڈی جانا اس سے زیادہ اہم ہے ؟رجنی کچھ دیر آسمان میں دیکھتی رہی اور پھر اس کے بعد اپنے آکاش کے پاس لوٹ آئی۔ اس نے جواب دیا جی ہاں میرے سرتاج مجھے لگتا ہے کہ فی الحال میرا کالا ہانڈی جانا میکے جانے سے زیادہ اہم ہے۔

آکاش بولا میں تمہاری بات نہیں سمجھا۔ تمہارا میکہ تمہارے ماضی کی اہم ترین سوغات ہے۔ جی ہاں میں اس سے صد فیصد اتفاق کرتی ہوں۔ میکہ میرا ماضی ہے جبکہ کالا ہانڈی میرا مستقبل ہے۔ آپ تو جانتے ہی ہیں کہ مستقبل کو ماضی پر سبقت حاصل ہوتی ہے۔ اس لئے کہ ماضی موت کی اور مستقبل زندگی کی علامت ہے۔ آکاش کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ آج رجنی کو یہ کیا ہو گیا ہے ؟ اس نے کہا اگر ایسا ہے تو بیشک تم جا سکتی ہو میں تمہیں روکنے والا کون ہوتا ہوں ؟ رجنی بولی آپ ۰۰۰۰۰۰آپ تو میری زندگی ہیں۔ آپ میرے سب کچھ ہیں لیکن مجھے پتہ ہے کہ آپ مجھے کالا ہانڈی جانے سے نہیں روکیں گے۔

اچھا تمہیں یہ کیسے پتہ چل گیا ؟آکاش نے سوال کر دیا۔ میں آپ کے ساتھ زندگی گزار چکی ہوں۔ آپ نے مجھے آج تک ایسے کسی کام سے منع نہیں کیا جو مجھے پسند تھا تو اب آپ اس کارِ خیر سے کیوں روکیں گے ؟ آکاش کو اپنی بیوی پر پیار آ گیا۔ وہ بولا دیکھو رجنی یہ صحیح ہے کہ میں نے تم کو کبھی نہیں روکا لیکن اسی کے ساتھ یہ بھی تو سچ ہے کہ تم نے مجھ سے کوئی ایسا مطالبہ بھی نہیں کیا جو میرے لئے ناگوار ہو۔ اگر تم اپنے مستقبل میں بھی اس رویہ پر قائم رہیں تو مجھے کبھی اس کی ضرورت ہی پیش نہیں آئے گی کہ میں تمہارے راستے کا روڑا بنوں۔

رجنی بولی میرے آکاش آپ میرے راستے کی رکاوٹ کیسے بن سکتے ہیں ؟ آپ تو میرے راستے کی منزل ہیں۔ میں دھرتی ہوں بلکہ دھرتی پر کھلا ہوا ایک معمولی سا پھول رجنی گندھا جسے ایک دن مٹی میں مل جانا ہے لیکن آپ ۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰ تو آکاش ہیں۔ آکاش جس نے زمین کو اپنی آغوش میں لے رکھا ہے۔ میرے اندر پائے جانے والے سارے آنند کا منبع اور مرجع میرا آکاش ہی تو ہے۔ میرا آکاش آنند۔ آکاش آنند کو ایسا لگا کہ رجنی شاعری کر رہی ہے لیکن رجنی ۰۰۰۰۰۰۰۰وہ تو اپنے قلبی احساسات و جذبات بیان کر رہی تھی۔

شام تک سارے قیدی رہا ہو چکے تھے۔ آکاش آنند نے ان سب کے لیے بلکہ اپنی شریکِ حیات رجنی گندھا کے لیے ایک نہایت آرام دہ بس کا بندو بست کر دیا تھا۔ رات کا کھانا سارے قیدیوں اور ان کے رشتے داروں نے آکاش گندھا نامی کوٹھی کے لان میں نوش فرمایا اور اس کے بعد رجنی گندھا اس قبائلی قافلے کے ساتھ کالا ہانڈی کے لیے روانہ ہو گئی۔ رجنی گندھا نہیں جانتی تھی کہ وہ کس انجانے جہاں میں جا رہی ہے ؟ وہ وہاں پر کہاں قیام کرے گی ؟ وہاں اس کا گزر بسر کیسے ہو گا ؟ وہ وہاں جا کر ان قبائلی لوگوں کے لیے کیا کرے گی ؟ وہ کچھ بھی نہیں جانتی تھی لیکن آکاش آنند کو یقین تھا کہ رجنی بہت جلد کالا ہانڈی سے بیزار ہو کر اس کے پاس لوٹ آئے گی۔

 

 

 

رجنی گندھا

 

بس اس قدر کشادہ تھی اور مسافر اتنے کم تھے کہ ایک نشست پر صرف ایک شخص کے بیٹھنے پر بھی کئی نشستیں خالی رہ گئی تھیں۔ کچھ دیر تک لوگ ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھ کر باتیں کرتے رہے لیکن پھر ایک ایک کر کے اپنی اپنی نشست پر سونے لگے ، رجنی گندھا سب سے پہلے نیند کی آغوش میں پہنچ گئی تھی۔ کھیتو اور میتھی کے درمیان دیر تک کھسر پھسر چلتی رہی پھر کھیتو کی پلکیں بھی بھاری ہونے لگیں۔ جیل میں پیر پسار کر سونے کی سہولت تھی لیکن کھیتو تارے گنتا رہتا تھا اور یہاں چلتی بس میں کھڑ کھڑاہٹ بھڑ بھڑ اہٹ کے باوجود وہ کرسی کے اوپر پیر رکھ کر جمائیاں لے رہا تھا۔ جیتو نہ خود سورہا تھا اور نہ کھیتو کو سونے دے رہا تھا اس لئے میتھی اسے لے کر ایک اور نشست پر پہنچ گئی۔ اسی کے ساتھ کھیتو کے مدھم خراٹے فضا میں گونجنے لگے۔

میتھی کی گود میں جیتو کھیل رہا تھا اور وہ سوچ رہی تھی۔ بائی جی نے کالا ہانڈی چلنے کا فیصلہ کیوں کر لیا؟ میتھی نے رجنی کی شاندار کوٹھی دیکھی ہوئی تھی جہاں ہر طرح کی عیش و عشرت کا سامان تھا لیکن کالاہانڈی میں تو ایسا کچھ بھی نہیں تھا۔ وہ فکر مند ہو گئی کہ رجنی وہاں کیوں کر ٹک سکے گی۔ اسے خوف تھا کہ کہیں رجنی اسی بس سے واپس نہ چلی جائے۔ دراصل میتھی نہیں چاہتی تھی کہ رجنی فوراً واپس جائے۔ وہ رجنی کی خدمت کرنا چاہتی تھی۔ اسے اپنا مہمان بنانا چاہتی تھی۔ اس کے احسانات کا بدلہ چکانا چاہتی تھی بلکہ وہ تو چاہتی تھی کہ رجنی کالا ہانڈی ہی میں رہے اور کبھی بھی لوٹ کر واپس نہ جائے !!! لیکن پھر میتھی نے سوچا یہ کیونکر ممکن ہے۔ اگر وہ خود اپنے کھیتو سے دور نہیں رہ سکتی تو رجنی آ کاش سے دور کیسے رہ سکتی ہے ؟

رجنی کا رائے پور اپنے آ کاش کے پاس لوٹ جا نا نہایت فطری امر تھا۔ لیکن پھر میتھی کے دل میں ایک عجیب و غریب خیال آیا۔ ایک ساتھ رہنے کے لیے رجنی کا آ کاش کے پاس جانا کیا ضروری ہے ؟ کیا یہ نہیں ہو سکتا کہ آ کاش کالا ہانڈی میں آ کر اپنی رجنی کے پاس رہے ؟ اپنے اس احمقانہ تصوّرِ خیال پر میتھی کو ہنسی آ گئی۔ آ کاش آنند اور کالا ہانڈی۔ میتھی کھلی آنکھ سے خواب دیکھ رہی تھی۔ یہ تو ناممکن تھا بالکل ناممکن۔ اسے اس بات کا یقین تھا کہ آکاش آنند کالا ہانڈی آئے گا لیکن وہاں رہنے کے لیے نہیں بلکہ رجنی کو اپنے ساتھ لے جانے کے لیے۔ اب میتھی چاہتی تھی کہ آکاش کالا ہانڈی نہ آئے کبھی نہ آئے اور رجنی اس کے ساتھ رائے پور نہ جائے کبھی نہ جائے۔ میتھی سوچتے سوچتے بہت دور نکل گئی تھی۔ وہ اپنی منزل سے بھی آگے جا چکی تھی کالاہانڈی اس کے پیچھے نہ جانے کہاں رہ گیا تھا۔ جیتو کب کا سوچکا تھا۔ آسمان پر شفق کی لالی نمایا ں ہو رہی تھی اس بیچ میتھی کی آنکھ لگ گئی۔

رجنی اپنے خواب میں بھی بس کے اندر سوار تھی اس نے دیکھا کہ بس اوبڑ کھابڑ پہاڑی راستے پر رواں دواں ہے۔ پہاڑوں کا ایک طویل سلسلہ بس کے ساتھ دوڑ رہا ہے اور اس کے پیچھے سورج آنکھیں مل رہا ہے۔ اس کی روشنی آسمان کو منور کر رہی ہے اور تمازت زمین کو گرما رہی ہے۔ رجنی کے دل میں سورج کو قبل از طلوع دیکھنے کی خواہش کیا پیدا ہوئی کہ بس کو پر لگ گئے۔ اب رجنی کی بس آسمان کی جانب رواں دواں تھی۔ بس کا درجۂ حرارت بتدریج کم ہوتا جا رہا تھا۔ رجنی سوچ رہی تھی یہ کیسا آگ کا گولا ہے ؟ انسان جب اس کی جانب رختِ سفر باندھتا ہے تو گرمی کے بجائے سرد فضا میں داخل ہو جاتا ہے۔ سورج کی قربت کے باوجود وہ ٹھٹھر نے لگتا ہے۔

رجنی کو بلندیوں کا یہ حیرت انگیز سفر ایک خاص قسم کی وسعتِ نظری عطا کر رہا تھا۔ دنیا کی بڑی بڑی چیزیں ہر لمحہ مختصر سے مختصر تر ہوتی چلی جاتی تھیں۔ انسانوں کے درمیان پائے جانے والے طول طویل فاصلے سمٹنے لگے تھے۔ رنگ و نسل کا فرق مٹنے لگا تھا۔ ممالک کے درمیان کھنچی سرحدوں کی لکیر دھندلی ہوتی چلی گئی تھیں۔ رجنی کی نگاہوں میں آسمان پھیلنے لگا تھا اور زمین سمٹنے لگی تھی۔ یہاں تک کہ وہ ایک تاریک گیند میں تبدیل ہو گئی اور انسان چیونٹیوں کی مانند نظر آنے لگے۔ رجنی کو انسانوں کی اس کیفیت پر اسی طرح ہنسی آ گئی جیسی کہ لشکر جرار کے مالک حضرت سلیمان ؑ کو چیونٹیوں کی ملکہ کے فقرے پر ہنسی آئی تھی۔ رجنی اپنے تصورِ خیال کے اندر دور آکاش میں مسکرا رہی تھی۔

خوابوں کے اس سفر میں ایک وقت ایسا آیا کہ بس ڈرائیور کے علاوہ ہر کوئی سو رہا تھا۔ وہ جاگ رہا تھا اور بس جاگ رہی تھی۔ وہ بھاگ رہا تھا اوربس بھاگ رہی تھی۔ بلکہ بس بھاگ رہی تھی اس لئے وہ بھاگ رہا تھا لیکن بس بھی تو اسی کے مرضی سے بھاگ رہی تھی اس لئے کون کس کے پیچھے بھاگ رہا تھا اس کا فیصلہ کرنا مشکل تھا۔ ان دونوں کے علاوہ راستہ اور منزل کے درمیان بھی ایک دوڑ لگی ہوئی تھی۔ راستہ پیچھے کی جانب تو منزل آگے کی جانب دوڑ رہی تھی۔ راستہ کم ہوتا جا رہا تھا اور منزل قریب ہوتی جا رہی تھی۔ یہاں تک کہ بس کی رفتار نے فاصلے کو پوری طرح نگل لیا۔ اب منزل اس کے سامنے کھڑی مسکرا رہی تھی راستے پر اپنی فتح کی خوشی منا رہی تھی۔

بس کے ٹھہر جانے کا وقت آ گیا تھا لیکن یہ کیا ؟ ڈرائیور نے بس روکنے سے قبل اس کو مخالف سمت میں موڑ دیا۔ ڈرائیور کی اس معصومانہ حرکت نے منزل کی فتح کو شکست میں بدل دیا تھا۔ پھر ایک بار منزل کوسوں دور پہنچ گئی تھی۔ اب راستہ اپنی فتح کا جشن منا رہا تھا اور منزل اپنی ناکامی پر آنسو بہا رہی تھی۔ آکاش اور رجنی کی زندگی بھی ایک دوسرے کے ساتھ راستے اور منزل والی آنکھ مچولی کھیل رہی تھی۔ نادانستہ طور پرایک کی فتح دوسرے کو شکست سے دوچار کر دیتی تھی۔ شاید اس لئے کہ ڈرائیور ہی کی طرح رجنی نے بھی اپنی زندگی کا رخ اچانک بدل دیا تھا جس کے نتیجے میں آکاش آنند کی عدالت میں حاصل کردہ کامیابی از خود اس کی ناکامی میں بدل گئی تھی۔

بس کا انجن کیا بند ہوا کہ سارے مسافروں کی آنکھیں کھل گئیں۔ وہ انجن جو شروع میں نیند کا دشمن بنا ہوا تھا نہ جانے کب مسافروں کو لوری سنانے لگا تھا اور اب جیسے ہی لوری کی سریلی آواز بند ہوئی سارے لوگ جاگ گئے۔ شاید اس کی ایک اور وجہ یہ تھی کہ ان کہ نیند پوری ہو چکی تھی۔ انسان کی بھوک کی طرح نیند بھی محدود ہے۔ بلکہ اس فانی دنیا میں کون سی شہ ہے جو حدود و قیود کی پابند نہیں ہے ؟ سوائے انسانی خواہشات کے وہ کسی پابندی کے قائل نہیں۔ انسانی خواب جو لامحدود ہیں اور ایک لامحدود ذات کے وجود کا پتہ دیتے ہیں۔ اس حی والقیوم ذات کی معرفت کرواتے ہیں جو ہمیشہ سے زندہ ہے اور ہمیشہ تابندہ رہنے والی ہے۔ خواب خود اس کے دیکھنے والے انسان کے قبضۂ قدرت سے پرے ہیں۔ وہ نہ ان پر کوئی اختیار رکھتا ہے اور نہ ان کے لئے جوابدہ ہے مگر اس میں شک نہیں کہ خواب ہی انسانوں کو ان حقائق سے روشناس کراتے ہیں جو عقل و شعور کے وسیع و عریض افق سے آگے ہوتے ہیں۔ یہ حسنِ اتفاق ہے کہ انسان کھلی آنکھوں سے جن منازل کو عبور نہیں کرسکتا آنکھیں موند کر ان سے آگے نکل جاتا ہے۔ رجنی بھی کچھ انجانے سے خواب سجائے بس سے اتر رہی تھی۔

قبائلی لوگوں کے لیے کالا ہانڈی میں کچھ بھی نیا نہیں تھا مگر رجنی کے لیے سب کچھ بالکل نیا نیا تھا۔ وہ ششدر و حیران فطرت کی رعنائیوں سے محظوظ ہو رہی تھی۔ ویسے آکاش کے ساتھ اس نے بھی کئی مرتبہ پہاڑی مقامات کی سیاحت کی تھی لیکن کالاہانڈی کے آگے وہ سارے مناظر پھیکے نظر آ رہے تھے۔ قدرت کے اس حسین چہرے پرنہ کوئی غازہ تھا اور نہ لالی تھی۔ اپنی حقیقی شکل و صورت میں اس کا حسن و جمال بے مثال تھا۔ یہاں پر سب کچھ اصلی تھا مصنوعی کچھ بھی نہیں تھا۔ انسانی احساسات و جذبات بھی ہر طرح کے تصنع اور ملمع سازی سے پاک صاف ان چھوئی دوشیزہ کی مانند جو اپنے پیا کی منتظر ہو۔

بس ایک پیڑ کے نیچے میدان میں کھڑی تھی سارے لوگ رجنی کے آس پا س کھڑے یا بیٹھے تھے۔ رجنی نے میتھی سے پوچھا یہ لوگ اپنے گھر کیوں نہیں جاتے ؟ میتھی بولی بائی جی یہ لوگ آپ کو یہاں چھوڑ کر کیسے جا سکتے ہیں ؟ اچھا تو یہ کیا چاہتے ہیں ؟ یہ آپ کو اپنے ساتھ اپنے گھر لے جانا چاہتے ہیں۔ لیکن ان میں سے ہر ایک کا گھر تو مختلف ہو گا ؟ جی ہاں ایسا ہی ہے۔ تب میں ان سب کے گھر کیسے جا سکوں گی؟لیکن آپ کسی نہ کسی کے گھر تو جائیں گی ؟ یہ چاہتے ہیں کہ آپ کسی اور کے بجائے ان کے گھر جائیں۔ لیکن میں ان میں سے کسی کے گھر نہیں جاؤں گی۔ میتھی نے سوچا کہ شاید رجنی نے واپس جانے کا ارادہ کر لیا۔ اس نے مایوس ہو کر کہا مگر۰۰۰۰۰۰۰وہ رک گئی۔ مگر کیا میتھی؟ مگر کچھ نہیں بائی جی۔

رجنی نے پوچھا۔ کیا تم چاہتی ہو کہ میں ان میں سے کسی کے گھر چلی جاؤں ؟ میتھی کچھ سوچ کر بولی میں تو یہ چاہتی ہوں کہ بس آپ لوٹ کر واپس نہیں جائیں۔ رجنی نے حیرت سے پو چھا لیکن میتھی تم سے کس نے کہہ دیا کہ میں لوٹ کر جا رہی ہوں ؟ کسی نے نہیں کہا۔ لیکن اگر آپ کسی کے گھر نہیں جائیں گی تو پھر کیا یہیں پیڑ کے نیچے قیام کریں گی؟ یہ میں نے کب کہا۔ رجنی بولی۔ بائی جی میری سمجھ میں کچھ نہیں آتا اور کسی کی کچھ سمجھ میں بھی نہیں آ رہا ہے کہ آپ کیا چاہتی ہیں ؟ میں تو۰۰۰۰۰۰ رجنی نے کہا ان کے بجائے تمہارے گھر جانا چاہتی ہوں۔ میتھی شرما گئی۔ وہ بولی بائی جی میں بھی تو انہیں میں سے ایک ہوں۔ اس کی آنکھوں میں ستارے چمک رہے تھے۔ وہ سارے لوگوں کی جانب مڑ کر بولی سن لیا تم لوگوں نے بائی جی میرے ساتھ جا رہی ہیں اب تم سب لوگ جا سکتے ہو۔ کھیتو، میتھی اور جیتو مع رجنی اپنی کٹیا کی جانب چل دئیے۔

منگو بولا اچھا بائی جی نہ سہی تو ہم ڈرائیور صاحب کو ہمارا مہمان بنا لیتے ہیں۔ ڈرائیور بولا دیکھو بھائی اس طفیلی مہمانی سے تو میں اس پیڑ کے نیچے ہی بہتر ہوں۔ کیسی باتیں کرتے ہیں صاحب آپ ہمارے گاؤں آئے ہیں۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے ہم آپ کو یہیں چھوڑ دیں ؟ ڈرائیور بولا تم اپنی سوچ رہے ہو میری نہیں سوچتے۔ میری بھلائی اسی میں ہے کہ جلد از جلد یہاں سے نکل جاؤں۔ دن کے وقت راستے میں سواریاں ملتی رہیں گی چار پیسہ آمدنی ہو جائے گی۔ رات گھر پہنچ کر سو جاؤں گا اور پھر کل صبح سے یہی چکر۔ منگو بولا وہ سب تو ٹھیک ہے ڈرائیور صاحب۔ جس چکر کی بات آپ کر رہے ہیں وہ تو آپ کی گاڑی کے پہیوں کی مانند ہمیشہ چلتا ہی رہے گا لیکن آپ رات بھر کے جگے ہیں۔ تنیک آرام کر لینے میں آپ کی اور مسافروں کی دونوں کی بھلائی ہے۔

ہاں ہاں میں جانتا ہوں ڈرائیور بولا لیکن اس کے لیے تمہارے گھر جانا کیا ضروری ہے ؟ اسی پیڑ کے نیچے کچھ دیر کے لیے پیر پسار لوں گے اور پھر اپنی منزل کی جانب چل پڑوں گا۔ منگو بولا یہ بھی ٹھیک ہے اس بیچ میں آپ کے لیے کچھ ناشتے کا بندو بست کرتا ہوں لیکن ایک بات یاد رکھئے آپ میرے ساتھ ناشتہ کئے بغیر نہیں جائیں گے۔ ڈرائیور بولا دیکھو منگو وقت اور سواری کسی کا انتظار نہیں کرتی۔ میں ایک گھنٹے بعد یہاں سے چلوں گا اگر اس وقت تک تم آ گئے تو تمہارے ناشتے کا خیرمقدم ہے ورنہ میرا جانا مقدمّ ہے۔ منگو سمجھ گیا کہ یہ سمجھنے والی اسامی نہیں ہے۔ وہ بولا ٹھیک ہے میں ایک گھنٹے سے پہلے حاضر ہو جاؤں گا۔ ڈرائیور بولا بہت شکریہ اور گاڑی کے اندرسے ایک سیٹ و تکیہ نکال کر باہر پیڑ کے نیچے لے آیا۔ منگو کے گھر پہنچنے سے قبل وہ سوچکا تھا۔

منگو نے اپنی بیوی منکی سے پوچھا ناشتے کے لیے کچھ ہے ایک مہمان میرے ساتھ ہے۔ منکی بولی مہمان کون مہمان ؟ کسی چڑیل کو اپنے ساتھ لے آئے ہو جو مجھے نظر نہیں آتی؟منگو بولا منکی تمہارا دماغ خراب ہو گیا ہے۔ تمہارے ہوتے مجھے کسی چڑیل کو لانے کیا ضرورت ؟ منکی چڑ کر بولی اچھا دو دن شہر رہ کر کیا آئے کہ میں تمہیں چڑیل لگنے لگی؟اب تو مجھے یقین ہو گیا کہ کسی چڑیل کے چکر میں پڑ گئے ہو۔ منگو بولا اب بھوت پریت کا چکر چھوڑو ادھر میدان میں بس ڈرائیور ناشتے کا انتظار کر رہا ہے۔ جلدی سے کچھ بنا کر دو ورنہ وہ چلا جائے گا۔ اچھا تو یہ کیوں نہیں کہتے کہ مہمان میدان میں ہے۔ تم نے تو کہا تھا مہمان تمہارے ساتھ ہے۔ جی ہاں بابا غلطی ہو گئی معاف کر دو۔ منگو ہاتھ جوڑ کر بولا۔ منکی بولی گھر میں صرف مٹھی بھر چنے ہیں۔ میں انہیں بھون کر دئیے دیتی ہوں۔ تم اسے کھلاؤ تب تک پڑوس سے پتیّ ادھار لے کر چائے بنا دوں گی۔

منگو بولا ایسی بھی جلدی نہیں ہے وہ ایک گھنٹہ آرام کرے گا۔ منکی بولی تو پھر تم کیوں شور مچا رہے ہو۔ تم بھی آرام کر لو۔ رات بھر کا سفر کر کے آئے ہو۔ نہ بابا نہ۔ پہلے اس کو ناشتہ کرا دوں تب سوؤں گا مبادا آنکھ لگ جائے اور نہ کھلے۔ ارے میرے احمق منگو۔ منکی نے مٹک کر کہا میں تو جاگ رہی ہوں میں تمہیں جگا دوں۔ اب سو جاؤ گھوڑے بیچ کر اور چنے کھا کے۔ یہ چنے کھا کے کیوں ؟ منکی بولی جب گھوڑے بک گئے تو اب چنے کون کھائے گا؟ منگو ہنس کر بولا چنے ڈرائیور کھائے گا۔ گھوڑا نہ سہی کوچوان سہی کیا فرق پڑتا ہے ؟ جی ہاں منکی بولی کوچوان اور ڈرائیور میں کوئی فرق نہیں ہے اب تم سو جاؤ۔ ایک گھنٹے بعد جب بھنے ہوئے چنے اور چائے کی کیتلی لے کر منگو پیڑ کے قریب پہنچا تو ڈرائیور منھ دھو رہا تھا۔ منگو نے زمین پر پڑی سیٹ کے قریب دو چار بڑے بڑے پتے رکھے یہ گویا دسترخوان تھا اور ایک ٹیڑھی میڑھی پیتل کی طشتری میں چنے ڈال دئیے۔

چنوں سے بھاپ نکل رہی تھی ڈرائیور انہیں چباتے ہوئے سوچ رہا تھا ان چنوں میں آج اس قدر ذائقہ کیوں ہیں ؟اس کا دل کہہ رہا تھا کہ منگو کے اخلاص نے ان کو مزیدار بنا دیا ہے ورنہ اخلاص و محبت کے علاوہ ان میں کوئی مصالحہ نہیں پڑا تھا بس اپنے بطن میں چولہے کی آگ سمیٹے چنے تھے۔ شعلوں کی تپش نے چنوں کو نرم کر دیا تھا تاکہ وہ ڈرائیور کے پیٹ کی آگ بجھا سکیں۔ نہایت پتلی چائے جس میں برائے نام پتی، شکر اور دودھ تھا لیکن اس کا مزہ بھی بہت خوب تھا۔ منگو مسرت سے ڈرائیور کو دیکھ رہا تھا۔ اسے اس بات کا کوئی افسوس نہیں تھا کہ وہ ڈرائیور کی کوئی خاص ضیافت نہ کرسکا بلکہ وہ اس بات سے خوش تھا کہ کم از کم چنے ہی میسر آ گئے۔

ڈرائیور جب ناشتے سے فارغ ہو کر بس میں بیٹھنے لگا تو کھیتو اس کے لیے ایک پوٹلی لے آیا۔ ڈرائیور نے پوچھا یہ کیا ہے ؟ وہ بولا آپ کا ناشتہ ہے صاحب ستو اور گڑ ہے۔ پھانک لیجئے میتھی چائے لے کر آ رہی ہے۔ ڈرائیور بولا ناشتہ تو میں منگو کے ساتھ کر چکا اور چائے بھی ہو چکی۔ یہ سن کر کھیتو کا منھ لٹک گیا۔ وہ بولا تو میں اس کا کیا کروں ؟ ڈرائیور نے کہا مجھے دے دو میں اپنے ساتھ لے جاتا ہوں دوپہر کو جب راستے میں بھوک لگے گی تو کھالوں گا۔ کھیتو نے پوٹلی اسے تھما دی۔ ڈرائیور نے گاڑی اسٹارٹ کر کے کہا اچھا تو تم اپنی میتھی کو میرا سلام کہہ دینا اور شکریہ ادا کر دینا خدا حافظ۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۔

 

 

 

 

کالاہانڈی

 

رجنی جب فطری مناظر کے سحر سے نکل کر حقیقت کی دنیا میں آئی تو سب کچھ بدل گیا تھا۔ قدرتی وسائل سے مالامال اس خطے کے باشندے مفلوک الحال تھے۔ تہذیب نو کی برکات سے بے بہرہ یہ لوگ کئی ہزار سال پرانے زمانے میں زندگی گزار رہے تھے۔ پہلے تو کسی نے ان کی جانب توجہ دینے کی زحمت نہیں کی اور اب اس علاقے کی طرف لوگ آئے بھی تو ان کی نظر عوامی فلاح و بہبود کے بجائے زیر زمین وسائل پر تھی۔ ان نو واردوں کے لیے مقامی لوگوں کی اہمیت ان کی مشین کے کل پرزوں سے بھی کم تھی۔ رجنی کو اس حالتِ زار نے غمگین کر دیا۔ اسے سب سے زیادہ حیرت اس بات پر تھی کہ اس علاقے سے اس قدر قریب رہنے کے باوجود وہ ان حقائق سے یکسر نابلد تھی حالانکہ ہر روز اس کا اچھا خاصہ وقت اخبار بینی اور ٹیلی ویژن کی نذر ہو جاتا تھا۔ اس کا شمار شہر کے با شعور لوگوں میں ہوتا تھا اس کے باوجود رجنی کا یہ حال تھا تو جو وہ لوگ جو بے شعوری کے عالم میں بھیڑ بکریوں کی مانند زندگی گزار رہے تھے ان کا کیا؟

رجنی کو یقین ہو گیا تھا آکاش آنند جو رائے پور کے دانشور طبقے سے تعلق رکھتا ہے وہ بھی یہاں کی صورتحال سے واقف نہیں ہو گا ورنہ یہ ممکن نہیں تھا کہ وہ اس بابت رجنی سے گفت و شنید نہ کرتا۔ آکاش اس قدر دردمند انسان تھا کہ وہ محض زبانی جمع خرچ پر اکتفا کرنے کے بجائے یہاں کے لوگوں کے لیے بھی کچھ نہ کچھ ضرور کرتا۔ رجنی کے ذہن میں اچانک ایک سوال بجلی کی مانند کوند گیا۔ اس نے سوچا کہ اگر آکاش ان حالات کو جان جاتا تو کیا کرتا؟ وہ بہت دیر اس سوال کے مختلف جوابات میں الجھی رہی۔ یہاں کرنے کے لیے اس قدر مواقع تھے کہ اس کا ذہن بار بار اِدھر اُدھر نکل جاتا تھا۔ اب اس نے اپنے آپ سے ایک نیا سوال کیا؟ آکاش آنند اپنے کام کی ابتداء کہاں سے کرتا ؟ اس سوال کا صرف اور صرف ایک جواب اس کے دل میں آیا۔ وہ یہاں بھی سب سے پہلے ایک اسکول کھولتا۔ ان بے زور لوگوں کو زور آور بنانے کے لیے تعلیم کی دولت سے مالا مال کرنا بے حد ضروری تھا۔

رجنی کورائے پور کے اندر آکاش کے ہمراہ آدرش اسکول چلانے کا تجربہ تھا۔ اس نے سوچا کیوں نہ اسی کی ایک شاخ کالا ہانڈی میں قائم کی جائے اور پھر اس جال کو پورے خطے میں پھیلا دیا جائے ؟ رجنی نے سوچ لیا تھا کہ اب اسے کیا کرنا ہے ؟ اس ادھیڑ بن میں رجنی کا ایک ہفتہ کہاں گیا اسے پتہ ہی نہ چلا لیکن اس دوران آکاش آنند پریشان ہو گیا کہ رجنی لوٹ کر کیوں نہیں آئی۔ اسے اندیشے ستانے لگے کہ خدا نخواستہ اس کی بس کسی حادثے کا شکار تو نہیں ہو گئی۔ آکاش نے سب سے پہلے اس ڈرائیور سے رابطہ کیا جو رجنی اور دیگر قبائلی لوگوں کے ساتھ کالا ہانڈی گیا تھا۔ بس ڈرائیور نے اسے بتایا کہ وہ تمام مسافروں کو بخیر و عافیت کالاہانڈی چھوڑ کر واپس آیا ہے۔ کالاہانڈی کا کوئی فون نمبر آکاش کے پاس نہیں تھا اس لئے کہ کالا ہانڈی میں کوئی فون لائن ہی نہیں تھی لیکن پھر اسے کان کنی کا سروے کرنے والی کمپنی لارسنس کا خیال آیا۔ آکاش نے ان کے دفتر سے رابطہ کیا اور گزارش کی کہ اگر ممکن ہو سکے تو کالاہانڈی میں رجنی سے رابطہ کریں۔

قبائلی لوگوں کی عدالتی پیروی کے باعث لارسنس کے لوگ آکاش آنند سے واقف ہو گئے تھے۔ وہ آکاش کے اندر اپنے عزائم کی راہ میں خطرات کی بوباس محسوس کر رہے تھے۔ وہ خود اس فکر میں تھے کہ کسی طرح تھا اس سے رابطہ کر کے اسے اپنا ہمنوا بنا لیا جائے۔ جب انہوں نے دیکھا کہ شکار از خود دامِ فریب میں آ رہا ہے تو ان کی بانچھیں کھل گئیں لیکن اسی کے ساتھ رجنی کے کالاہانڈی میں قیام کی خبر نے انہیں مزید شکوک و شبہات کا شکار کر دیا۔ امریکہ میں واقع کمپنی کے صدر دفتر میں جب یہ خبر پہنچی تو اس کا بڑی سنجیدگی سے نوٹس لیا گیا۔ اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے ایک خصوصی نشست کا اہتمام ہوا۔ چند لوگوں کو یہ ذمہ داری سونپی گئی کہ وہ پتہ لگائیں کہیں آکاش آنند مسابقین کا آلۂ کار تو نہیں ہے ؟ اس نے اپنی بیوی کو کالا ہانڈی کیوں روانہ کیا ہے اور وہ کیا چاہتا ہے ؟ آکاش آنند کی حقیقت کو جاننے کا ایک ذریعہ تو پولس کے توسط سے معلومات کا حصول تھا جو نہایت سہل کام تھا۔ لارسنس کے کئی پولس افسران سے قریبی تعلقات تھے۔ حالیہ حادثے کے بعد ان تعلقات میں خاصی گرمجوشی پیدا ہو گئی تھی اس لئے کہ لارسنس نے اپنے قصور کی پردہ پوشی کے لیے ان کے ہاتھ خوب گرم کئے تھے۔

پولس کے ذریعہ ہاتھ آنے والی معلومات نے لارسنس انتظامیہ کو مایوس کیا تھا۔ خفیہ اداروں کے مطابق آکاش آنند محض ایک کامیاب وکیل اور سماجی کارکن تھا۔ اس کا تعلق حقوق انسانی کے لیے کام کرنے والی تنظیم ہم ہندوستانی سے بھی تھا لیکن کسی بین الاقوامی تجارتی ادارے سے اس کا کوئی رابطہ نہیں تھا۔ پولس دراصل اس بات سے واقف تک نہیں تھی کہ آکاش آنند کی بیوی فی الحال کالا ہانڈی میں مقیم ہے اس لئے اس کے ذریعہ رجنی کے عزائم کا پتہ لگانا احمقانہ توقع تھی۔

لارسنس نے اب اپنی حکمتِ عملی میں تبدیلی کی اور ذرائع ابلاغ میں موجود اپنے زر خرید صحافیوں کی مدد لینے کا فیصلہ کیا۔ ان کو یہ ذمہ داری سونپی گئی کہ وہ الگ الگ دونوں میاں بیوی سے رابطہ قائم کر کے انٹرویو لیں اور ان کا ذہن ٹٹولیں۔ آکاش آنند سے ملاقات آسان تھی اس لئے اس کا انٹرویو دوسرے ہی دن رائے پور شہر کے ایک نامور صحافی نے لے لیا۔ جس میں مختلف سوالات کے پردے میں رجنی کو کالاہانڈی روانہ کرنے کی وجہ بھی دریافت کی گئی۔ آکاش آنند کا جواب یہ تھا کہ میتھی کے ساتھ رجنی اس علاقہ میں سیروسیاحت کے لیے گئی ہے چند روز کے اندر واپس آ جائے گی۔

لارسنس انتظامیہ آکاش آنند کے جوابات سے مطمئن نہیں ہوا۔ لارسنس والوں کو یقین ہو گیا کہ آکاش کسی بات کو چھپا رہا ہے اور اس کا یہ عمل خود اس بات کا شاہد ہے کہ دال میں کالا ہے۔ ورنہ عدالت میں ان لٹے پٹے قبائلی لوگوں کی پیروی کے لیے راضی ہو جانا اور انہیں رہا کرانے کے لیے پولس کو رام کر کے اس آسانی کے ساتھ چھڑا لینا کوئی معمولی بات نہیں تھی۔ لارسنس کا اندیشہ اب یقین میں بدل رہا تھا وہ جاننا چاہتے کہ اس کے پیچھے وہ کون سا مفاد کارفرما ہے جو آگے چل کر عذابِ جان بن سکتا ہے۔ لارسنس انتظامیہ اپنے خودساختہ خیالی جال میں پھنس چکا تھا اور ایک ایسی مصیبت سے بچنے کے لیے نت نئی تدابیر کرنے میں لگ گیا تھا جس کا کوئی وجود نہیں تھا۔ ان کے اندر پایا جانے والا احساسِ جرم ان کے لیے وبالِ جان بن گیا تھا۔ وہ آکاش آنند کو بھی اپنی ہی طرح کا مجرم سمجھنے لگے تھے جب کہ حقیقت اس کے بر عکس تھی۔

آکاش آنند فون پر رجنی سے رابطے کا منتظر تھا کہ اسے رجنی کا طول طویل خط موصول ہوا۔ یہ خط کیا تھا ایک داستان تھی۔ کالا ہانڈی کے قدرتی ما حول کی منظر کشی تھی۔ وہاں کے باشندوں کا رنگ ڈھنگ، حال احوال، عادات و اطوار اور تہذیب و معاشرت ہر چیز کا احاطہ کیا گیا تھا۔ اس کے بعد رجنی نے قبائلی لوگوں کے بے شمار مسائل کو بیان کرنے کی حتی الامکان کوشش کی تھی اور وہاں پر فلاح و بہبود کے کام کرنے کا ارادہ ظاہر کیا تھا۔ اس نے ابتداء میں آدرش اسکول کی طرز پر مدرسہ قائم کرنے کی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے آکاش کو دعوت دی تھی کہ وہ بھی کالا ہانڈی میں آ کر بس جائے تاکہ دونوں مل کر ایک دوسرے کی مدد سے اس کام کو کرسکیں۔ خط کا خاتمہ پر تنہائی کا غم بیان کرنے کے بعد ہجر کا شکوہ کیا گیا تھا۔ آکاش نے سوچا عجیب احمق عورت ہے۔ پہلے اپنے آپ پر تنہائی مسلط کرتی ہے اور پھر اس کے بعد ہجر کا شکوہ بھی کرنے سے نہیں چوکتی۔ رجنی کی حماقتیں آ کاش کے لیے نئی نہیں تھیں وہ برسوں سے انہیں جھیل رہا تھا بلکہ ان سے لطف اندوز ہو رہا تھا۔ اس لئے کہ رجنی بشمول اپنی حماقتوں کے اسے بہت اچھی لگتی تھی۔

رجنی کا خط آکاش کے پاس پہنچنے سے قبل خفیہ ایجنسی کے دفتر میں پہنچا دیا گیا تھا۔ ان لوگوں نے اس کی ایک نقل اپنی فائل میں رکھی اور ایک کو لارسنس کے دفتر میں فیکس کے ذریعہ روانہ کر دیا۔ اس بات کی ہدایت انہیں اعلیٰ افسران کی جانب سے دی گئی تھی۔ آکاش آنند کی ہر حرکت زیرِ نگرانی تھی۔ سرکار ی سطح پراس کا شمار خطرناک قسم کے دہشت گردوں میں ہونے لگا تھا۔ رجنی کا خط دیکھنے کے بعد لارسنس والوں نے کالا ہانڈی میں موجود اپنے رابطہ عامہ کے افسر کو حکم دیا کہ وہ رجنی سے ملاقات کرے اور اس کو دفتر میں بلوا کر آکاش سے اس کی بات کروائے۔

لارسنس کی گاڑی جب کھیتو کے گھر کے سامنے آ کر رکی تو سارے لوگ گھبرا گئے۔ انہیں لگا اب کوئی نئی مصیبت آنے والی ہے۔ گاڑی کے اندر ایک مقامی شخص باہر آیا اور اس نے رجنی کے بارے میں دریافت کیا۔ خطرے کو بھانپ کر میتھی باہر آئی اور بولی بائی جی اندر موجود ہے لیکن ان تک پہنچنے کے لیے تمہیں میری لاش پر سے گزرنا پڑے گا۔ جب تک میں زندہ ہوں بائی جی کو تمہارے حوالے نہیں کروں گی۔ میتھی غصے سے آگ بگولا ہو رہی تھی۔ لارسنس کے ملازم گھسیا نے میتھی کو ڈانٹ کر کہا باؤلی نہ بن تمہاری بائی کے پتی نے رائے پور سے ہمیں فون کر کے پرارتھنا(درخواست) کی ہے کہ اس سے بات کرائیں اسی کارن ہم آئے ہیں ورنہ ہمیں تمہاری بائی میں کوئی دلچسپی نا ہے۔ اب تو یہ کر کے اپنی بائی سے پوچھ اگر وہ نہیں آنا چاہتی تو ہم جائے کے اس کے پتی دیو سے کہہ دیں گے بس کام کھتم۔

میتھی نے سوچا یہ کہیں کوئی چال تو نہیں ؟لیکن پھر رجنی کے پاس آئی اور بولی بائی جی کمپنی سے آدمی آیا ہے۔ وہ کہتا ہے آپ کے صاحب فون پر آپ سے بات کرنا چاہتے ہیں۔ رجنی بولی یہ تو بہت اچھی بات ہے میں بھی ان سے بات کرنا چاہتی ہوں لگتا ہے میرا خط ان کو مل گیا ہے۔ لیکن بائی جی اس کے لیے آپ کو کمپنی کے دفتر جانا ہو گا۔ میتھی بولی۔ تو اس میں کون سی بڑی بات ہے۔ کیا ان کا آفس بہت دور ہے ؟ دور کا سوال نہیں ہے بائی جی۔ دفتر سے گاڑی آئی وہ آپ کو پھرُ سے پہنچا دے گی۔ تب پھر سمسیاّ کیا ہے ؟ میتھی نے کہا بائی جی مجھے ڈر لگتا ہے۔ ٖڈر ؟ کیسا ڈر؟ رجنی نے چونک کر پوچھا۔ میتھی بولی مجھے نہیں معلوم کیوں ڈر لگتا ہے۔ وہ لوگ بہت خطرناک ہیں مجھے ان سے بہت ڈر محسوس ہوتا ہے۔ رجنی ہنس کر بولی اگر وہ خطرناک ہیں تو میں بھی کون سی کم ہوں ؟ آپ!!!آپ بائی جی آپ تو دیوی سمان ہیں لیکن وہ راکشس لوگ ہیں۔ رجنی بولی دیکھو میتھی یہ سب وہم و گمان کی باتیں ہیں۔ راکشس واکشس کچھ بھی نہیں ہوتا اور اگر ہوتا بھی ہو گا تو انسان سے ڈرتا ہو گا۔

میتھی جب ہار گئی تو بولی ٹھیک ہے اگر آپ کو جانا ہی ہے تو کیا میں آپ کے ساتھ چل سکتی ہوں ؟ کیوں نہیں ضرور چلو لیکن ہاں جب ہم پتی پتنی آپس میں بات کرنے لگیں تو تم اپنی آنکھ بند کر لینا۔ میتھی بولی آنکھ نہیں بائی جی کان۔ رجنی ہنس کر بولی وہی میرا مطلب ہے تم ہماری باتیں نہ سن لینا۔ میتھی نے کہا اور آپ جو میری اور کھیتوسے بات چیت سنتی ہیں اس کا کیا؟ رجنی بولی چل بدمعاش۔ اسی کے ساتھ وہ دونوں سہیلیاں باہر آ گئیں اور گاڑی میں بیٹھ کر لارسنس کے دفتر کی جانب روانہ ہو گئیں۔ وہاں پہنچنے پر دونوں کا استقبال کیا گیا۔ ان کی خاطر داری کے بعد رجنی کو ایک خالی کمرے میں بھیج کر آکاش کا فون جوڑ دیا گیا۔ میتھی استقبالیہ میں بیٹھی اس کا انتظار کرنے لگی۔

رجنی آکاش سے بات کر کے پھولی نہیں سما رہی تھی۔ وہ بے تکان بولے جا رہی تھی اس کا اپنے آپ پر قابو نہیں تھا اور اس کے پاس بولنے کے لیے اتنا کچھ تھا کہ گویا ایک طغیانی کی کیفیت تھی۔ ایک آتش فشاں تھا جو پھٹ پڑا تھا۔ آکاش کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ رجنی کے اس تازہ جنون کا علاج کیسے کرے ؟ ایک تو اس نے خود اپنے آپ کو بادیہ نشین کر لیا تھا اور اوپرسے اسے بھی راہب بنانے پر تلی ہوئی تھی۔ کوئی اور ہوتا تو آکاش اسے بری طرح ڈانٹ دیتا لیکن رجنی کے ساتھ وہ غضبناک ہونے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ اسے ڈر تھا کہ اگر اس نے ناگواری کا اظہار کیا تو فون پر رونے لگے گی اور اس کے آنسووں کے سیلاب میں بہہ کر وہ کالا ہانڈی پہنچ جائے گا۔ آکاش نے اپنے آپ کو سنبھالا اور بولا دیکھو رجنی میں تمہارے عزائم کی قدر کرتا ہوں۔ لیکن یہ جو اسکولوں کا جال پھیلانے کا خواب تم دیکھ رہی ہو اس میں وقت لگے گا اور وسائل درکار ہوں گے۔ یہ کوئی کاغذ کی کشتی نہیں ہے کہ یوں بنی اور چل دی۔ اس لئے تم ایسا کرو کہ رائے پور لوٹ آؤ یہاں بیٹھ کر ہم اس کے لیے وسائل جمع کرتے ہیں اور پھر اس کام کو آگے بڑھاتے ہیں۔

آکاش کا خیال تھا کہ رجنی اس کے جال میں پھنس کر رائے پور لوٹ آئے گی اور ایک بار یہاں آ گئی تو واپس جانے کا خیال اپنے ذہن سے نکال دے گی لیکن اس کا داؤں الٹا پڑا رجنی نے خوش ہو کر اس کا شکریہ ادا کیا اور بولی آ کاش مجھے تم سے یہی امید تھی۔ جہاں تک وسائل کے جمع کرنے کا سوال ہے وہ ضروری تو ہے لیکن میں اس سلسلے میں کوئی خاص تعاون نہیں کرسکتی اس لئے ایسا کرتے ہیں کہ اس پورے کام کو آپس میں تقسیم کر لیتے ہیں۔ میں یہاں رہ کر زمین ہموار کرتی ہوں۔ مختلف گاوں میں جا کر وہاں موجود امکانات کا جائزہ لیتی ہوں۔ وہ جو لوگ ہمارے کام کے ہیں ان سے رابطہ کرنے کی کوشش کرتی ہوں تاکہ جب وسائل کا بندوبست ہو جائے تو ہمارے پاس ایک عملی نقشۂ کار موجود ہو اور ہم اس پر فوراً عمل درآمد کرسکیں۔ یہ علاقہ کافی پھیلا ہوا ہے۔ یہاں آمدورفت کے ذرائع ناپید ہیں اس لئے اس کام میں خاصہ وقت لگے گا۔ میرا خیال ہے جب تک میں اس کام کو مکمل کروں گی تم اپنی کوششوں سے وسائل کا انتظام کر لو گے۔

آکاش نے ٹھنڈی آہ بھر کر کہا ٹھیک ہے۔ جیسا تم کہتی ہو ویسا ہی ہو گا۔ میری نیک خواہشات تمہارے ساتھ ہیں۔ رجنی بولی اور میری بھی اس لئے کہ ہم دونوں ساتھ ساتھ ہیں۔ آکاش فون بند کر کے سوچ رہا تھا کہ یہ عجیب حالت ہے کہ وہ رجنی سے دور بھی ہے اوراس کے ساتھ بھی ہے۔ رجنی بے حد خوش تھی۔ اسے امید نہیں تھی کہ آکاش اس قدر آسانی سے راضی ہو جائے گا۔ اسے خوف تھا کہ کہیں آکاش رائے پور آنے کے لیے ضد نہ کر بیٹھے اور مبادا اسے لوٹ جانا پڑے اس لئے کہ آکاش کی بات کو ٹالنا کم از کم رجنی کے بس کی بات نہیں تھی۔ وہ کسی صورت اپنے آکاش کو ناراض نہیں کرنا چاہتی تھی۔ وہ بیچاری نہیں جانتی تھی اپنی تمام تر خواہش کے باوجود اس نے آکاش کو غمگین کر دیا تھا۔ وہ نہیں جانتی تھی کہ باہر یہ جو رم جھم بارش ہو رہی ہے وہ دراصل آسمان کے آنسو ہیں۔ اس کے اپنے آکاش کے دیدۂ تر سے بہنے والا نمکین پانی۔ رجنی تو موسم کی اس تبدیلی پر بغلیں بجا رہی تھی کہ جب وہ کمرے کے اندر فون پر آئی آسمان پر تیز دھوپ تھی اور جب باہر نکلی تو بارش کی پھوار۔ موسم کس قدر خوشگوار ہو گیا تھا۔   رجنی اور آکاش کی بات چیت کو امریکہ میں بیٹھے ہوئے لارسنس کے آقاؤں نے سن لیا تھا۔

 

 

 

 

 

میتھی

 

رجنی نے انتظار گاہ میں آ کر چہار جانب دیکھا مگر اسے میتھی کہیں نظر نہ آئی۔ یہ معاملہ خلاف توقع تھا۔ اس نے وہاں موجود عملہ سے میتھی کے بارے میں پوچھا تو ان لوگوں نے اپنی لاعلمی کا اظہار کیا۔ رجنی سوچنے لگی میتھی کہاں غائب ہو گئی ؟ اسے زمین نے نگل لیا یا آسمان نے اچک لیا؟ وہ کہاں چلی گئی اور کیوں ؟ اس کا دل کہہ رہا تھا کہ وہ کہیں نہیں گئی۔ اگر اسے جانا ہی ہوتا تو وہ یہاں آتی ہی کیوں ؟ میتھی سے یہاں آنے کے لیے کسی نے نہیں کہا تھا۔ یہ اس کا اپنا فیصلہ تھا۔ رجنی سر پکڑ کر بیٹھ گئی۔ گھسیا کھڑکی کے باہر سے یہ منظر دیکھ رہا تھا۔ چند لمحوں کے بعد وہ اندر آیا۔ سلام کیا اور بولا بائی جی آپ کب چلیں گی؟ گاڑی تیار ہے۔ رجنی بولی میں تو چلنے کے لیے تیار ہوں لیکن میتھی کہاں ہے ؟ میں اس کے ساتھ آئی ہوں اس لئے اسے چھوڑ کر نہیں جا سکتی۔ گھسیا بولا لیکن بائی جی وہ تو چلی گئی آپ اس کے ساتھ کیسے جا سکتی ہیں ؟

رجنی نے پوچھا چلی گئی۔ تمہیں کیسے پتہ ؟ کیا تم اسے گھر پر چھوڑ کر آئے ہو ؟ جی نہیں بائی جی۔ ہمیں حکم دیا گیا تھا کہ ہم آپ کے فارغ ہونے تک یہیں انتظار کریں اس لئے ہمارے لئے یہاں سے ہٹنا ممکن نہیں تھا۔ رجنی نے پھر سوال کیا تب پھر وہ کیسے جا سکتی ہے ؟ گھسیا بولا پیدل چلی گئی ہو گی۔ ہم پہاڑی لوگ پیدل سفر کے عادی ہیں۔ یہ گاڑی تو آپ جیسے شہری لوگوں کے لیے ہے۔ لیکن اتنا طویل فاصلہ وہ پیدل کیسے طے کرے گی؟ گھسیا بولا یہ طویل سڑک گاڑی کے لیے ہے۔ پیدل چلنے والے پہاڑوں اور وادیوں کے درمیان سے مختصر راستہ بنا لیتے ہیں جیسے پانی اپنا راستہ بنا لیتا ہے۔ رجنی کو ایسا لگ رہا تھا گویا گھسیا جھوٹ بول رہا ہے۔ وہ اسے بے وقوف بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔ وہ بولی لیکن جب گاڑی موجود ہو تو اس کے پیدل جانے کی کوئی وجہ بھی تو ہونی چاہئے ؟ گھسیا کا جواب تھا اسے کوئی ضروری کام یاد آ گیا ہو گا۔ لیکن اسے اگر جانا ہی تھا تو مجھے بتا کر جاتی؟ لیکن آپ ہی نے تو کہا تھا ۰۰۰۰۰۰۰۰۰ رجنی سوچنے لگی اسے کیسے پتہ چلا کہ اس نے میتھی کو فون سننے سے منع کیا تھا اور وہ بھی ایک مذاق کی بات تھی۔

رجنی سوچ رہی تھی کہ اب کیا کرے ؟ گھسیا حکم کی تعمیل میں اس کے سامنے سر جھکائے کھڑا تھا۔ میتھی کے دل کا ڈر رجنی کے اندر حلول کر رہا تھا۔ آتے وقت وہ بے دھڑک میتھی کے ساتھ نکل آئی تھی لیکن اب واپسی کا سفر اسے تنہا کرنا تھا۔ رجنی کو یقین ہوتا جا رہا تھا کہ یہ خطرناک لوگ ہیں یہ انسان نہیں شیطان ہیں۔ ایسا کیوں ہو رہا تھا وہ نہیں جانتی تھی۔ رجنی نے گھسیا سے کہا چلو اور راستے میں دیکھتے ہوئے چلنا اگر میتھی نظر آ جائے تو اسے ساتھ لے لینا۔ گھسیا نے تائید میں سر کو جنبش دی اور دونوں گاڑی کی جانب بڑھ گئے۔ راستے بھر رجنی اِدھر اُدھر نظر دوڑاتی رہی لیکن میتھی کہیں نظر نہیں آئی۔ رجنی کو امید تھی کہ میتھی گھر پر اس کا انتظار کر رہی ہو گی لیکن ایسا بھی نہیں ہوا۔ گھسیا جب اجازت لینے لگا تو رجنی نے پوچھا میتھی نہ راستے میں تھی اور نہ گھر میں ہے ؟ گھسیا بولا بائی جی گاڑی کا اور پیدل راستہ مختلف ہوتا ہے۔ نیز مختصر ترین پیدل راستہ بھی زیادہ وقت لیتا ہے۔ آپ فکر نہ کریں وہ آتی ہی ہو گی۔

گھر پر صرف جیتو، چنگو اور منکی تھے۔ کھیتو باہر کام پر گیا ہوا تھا۔ رجنی نے منکی کو میتھی کے بارے میں بتایا تو وہ سرد آہ بھر کر بولی اب شاید میتھی کبھی نہیں آئے گی۔ رجنی کو اس سپاٹ جواب کی توقع نہیں تھی۔ وہ بولی کیوں ؟تم نے اتنی آسانی سے اتنی بڑی بات کہہ دی؟ منکی بولی یہ بات نہ بڑی اور نہ چھوٹی یہ ایک عام سی بات ہے جو مبنی بر حقیقت ہے۔ لیکن اس کی کوئی وجہ بھی تو ہونی چاہئے ؟ منکی بولی دیکھو بہن ہم لوگ جنگل میں رہتے ہیں اور یہاں جنگل میں وحشی جانور بھی بستے ہیں۔ اسلئے کسی کا اس طرح راستے سے غائب ہو جانا اور کبھی واپس نہ آنا کوئی غیر متوقع بات نہیں تھی لیکن پہلے ایسا شاذو نادر ہی ہوتا تھا۔ جب سے یہ کمپنی یہاں آئی ہے اس طرح کے واقعات میں غیر معمولی اضافہ ہو گیا اس لئے ہم لوگوں نے سنسان راستوں پر تنہا سفر کرنا بند کر دیا ہے۔

میتھی اور منکی کے اندر کس قدر فکری ہم آہنگی تھی اور اب وہ خود بھی ان سے اتفاق کرنے لگی تھی۔ جب شام کے سائے طویل ہونے لگے تو رجنی نے منکی سے کہا تم اپنے گھر جاؤ منگو واپس آ رہا ہو گا میں جیتو کو سنبھال لوں گی۔ آپ جیتو کو سنبھالیں گی؟ منکی نے حیرت سے سوال کیا۔ کیوں ؟ میں کیوں نہیں ؟ جس کام کو تم اور میتھی کرسکتی ہو میں کیوں نہیں کرسکتی؟ لیکن آپ ۰۰۰۰۰۰۰؟ رجنی نے پوچھا میں کیا؟۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰آپ ہماری مہمان ہیں۔ اچھا تو تم اب بھی مجھے مہمان سمجھتی ہو؟ میتھی تو ایسا نہیں سمجھتی تھی۔ مگر آپ کو دقت نہیں ہو گی؟ دیکھو منکی تم یہ نہ بھولو کہ میں بھی تمہارے اور میتھی کی طرح ایک عورت ذات ہوں۔ میں وہ تمام کام کرسکتی ہوں جو تم دونوں کرسکتی ہو؟ منکی نے چنگو کو گود میں لے کر کہا ٹھیک ہے بائی جی اب میں چلتی ہوں کل صبح میں آپ کے پاس آؤں گی۔ منکی کے چلے جانے کے بعد رجنی کو احساس ہوا کہ اس نے جھوٹ کہا۔ جو کام میتھی اور منکی کر چکی ہیں اس کام کو وہ ابھی تک نہیں کرسکی۔ اس کی گود میں نہ جیتو ہے اور نہ چنگو۔ لیکن پھر اس نے سوچا جو کچھ اپنے اختیار میں نہ ہو اس کے بارے میں کیا سوچنا؟ اور کیوں سوچنا؟

کھیتو واپس آیا تو رجنی نے اسے دن بھر کی داستان سنا ڈالی۔ وہ سر پکڑ بیٹھ گیا۔ اس کے اور منکی کے رد عمل میں کوئی فرق نہیں تھا۔ رجنی نے اس سے کہا کھیتو یوں سر پکڑ کر بیٹھنے سے کیا ہو گا ؟ تم پولس تھانے اپنی شکایت درج کرانے کیوں نہیں جاتے ؟ پولس؟ پولس تو ہماری دشمن ہے بائی جی۔ رجنی نے حیرت سے پوچھا کیوں ؟ بائی جی ایسا ہے کہ وہ لوگ ہمیں اپنا دشمن سمجھتے ہیں اس لئے ہم بھی انہیں اپنا دشمن ہی سمجھتے ہیں۔ تو پھر سرکاری دفتر کے دروازے پر جا کر دستک دو۔ سرکار !!!کیسی سرکار بائی جی یہاں کوئی سرکار نہیں ہے۔ تو ایسا کرتے ہیں کہ عدالت کا دروازہ کھٹکھٹاتے ہیں۔ چھوڑئیے بائی جی عدالت اس قدر دور ہے اور انصاف اس قدر دشوار گزار ہے کہ ہم اس پر صبر کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔

رجنی بولی میرا خیال ہے اگر ذرائع ابلاغ میں یہ مسئلہ اچھل جائے تو حکومت اور انتظامیہ از خود اس جانب متوجہ ہو جائیں گے۔ بائی جی ہمارے یہاں نہ ریڈیو ہے اور نہ ٹی وی۔ اس بار جب ہم لوگ رائے پور آئے تھے تو اہم نے ان چیزوں کو دیکھا۔ ذرائع ابلاغ پر دکھلائے جانے والے اشتہارات کی پذیرائی یہاں نہیں ہوسکتی اس لئے بھی کہ ہمارے پاس قوت خرید ہی نہیں ہے۔ غالباًاسی لئے میڈیا ہماری جانب توجہ نہیں دیتا۔ رجنی نے سوچا کھیتو کی بات درست ہے ٹی وی کے ناظرین کو شہروں کی بے وقعت خبروں میں تو دلچسپی ہے لیکن دیہاتوں کے ٹھوس حقائق ان کے لیے بے معنیٰ ہیں اس لئے میتھی کے غائب ہونے کو کیونکر اہمیت حاصل ہو سکتی ہے ؟ رجنی نے محسوس کیا کہ وہ ایک بند گلی کے آخری سرے پر کھڑی ہوئی۔ اس اندھیرے کنویں میں صرف تاریکی ہی تاریکی ہے روشنی کا کوئی نام و نشان نہیں ہے اور اسی تاریکی نے میتھی کو اپنے اندر نگل لیا ہے۔ کالا ہانڈی کی کالک نے کل کائنات کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا رجنی بھی اس کے اندر نہ جانے کہاں کھو گئی تھی۔ کھیتو اپنے جیتو کو سینے سے لگائے سورہا تھا۔

میتھی کے غائب ہونے کی خبر دوسرے دن سارے گاؤں میں پھیل چکی تھی۔ اس کے خلاف حسبِ توقع کوئی رد عمل نہیں ہوا تھا سارے کام معمول کے مطابق چل رہے تھے۔ ہر کوئی میتھی کی لاش کا منتظر تھا سوائے رجنی کے جسے یقین تھا کہ میتھی صحیح سلامت لوٹ آئے گی لیکن چار دنوں کے بعد رجنی کی خوش فہمی دور ہو گئی۔ گھسیا نے ایک لا وارث لاش کی خبر رنگلو کو دی۔ اس نے منگو کو بتایا۔ منگو نے اس کی اطلاع منکی کو دی اور اس طرح یہ خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی۔ کھیتو کو جیسے ہی اس کا پتہ چلا وہ دیوانہ وار دوڑتا ہوا جائے حادثہ پر پہنچا اور اپنی میتھی سے لپٹ کر رونے لگا۔ دیر تک بہنے کے بعد جن آنسوؤں کا طوفان تھما تو رنگلو اور منگو نے اسے دلاسہ دیا۔ گھسیا کمپنی کی لاش گاڑی لے آیا اور اس طرح میتھی کی مٹی اپنے گھر پہنچ گئی۔ ننھا جیتو اسے بار بار جگانے کی کوشش کرتا تھا۔ وہ معصوم نہیں جانتا تھا اس ابدی نیند سے کوئی بیدار نہیں ہوتا۔

آخری رسومات کی ادائے گی میں سارا گاؤں شریک تھا۔ ہر ایک نے فرداً فرداً کھیتو کو پرسہ دیا لیکن اس کا غم تھا کہ غلط ہونے کا نام نہ لیتا تھا۔ میتھی کے ارتھی کے شعلے اس کے غم کو بھڑکاتے جاتے تھے۔ میتھی کے ساتھ ساتھ کھیتو کے سارے ارمان خاک میں مل گئے۔ وہ دنیا میں یکہ و تنہا ہو گیا۔ جب سب لوگ چلے گئے تو گھر میں صرف منکی اور رجنی رہ گئے۔ رجنی نے پوچھا منکی اپنے من سے بولو کیا میتھی کی لاش پر واقعی بھیڑئیے کے ناخون تھے۔ منکی بولی جی ہاں اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کی لاش پر بھیڑیوں کے دانت اور ناخون کے نشان تھے۔ تو گویا تمہیں یقین ہے کہ میتھی بھیڑیوں کا شکار ہوئی۔ جی نہیں بائی جی میں نے یہ نہیں کہا۔ تو پھر جو کہا وہ میری سمجھ میں نہیں آیا۔ منکی بولی یہ بھی تو ہوسکتا کسی اور نے شکار کر کے اسے بھیڑیوں کے آگے ڈال دیا ہو۔ لیکن ایسا کون کرے گا اور کیوں کرے گا؟ منکی بولی بائی جی یہ کمپنی والے بہت خطرناک لوگ ہیں۔ یہ بھیڑئیے پالتے ہیں۔ یہ بھیڑیوں کی مدد سے شکار کرتے ہیں۔ یہ بھیڑئیے ہیں۔ یہ کہہ کر منکی چہار جانب دیکھا۔ رجنی نے پوچھا یہ آس پاس کیا دیکھ رہی ہو منکی؟ یہی کہ کوئی انسان نما بھیڑیا تو ہماری سن گن نہیں لے رہا ہے۔

رجنی نے موضوع بدلتے ہوئے پوچھا اب اس کھیتو کا کیا ہو گا ؟ یہ تو بالکل ٹوٹ سا گیا ہے۔ منکی بولی یہ مردوں کی ذات ہے بائی جی۔ کیا مطلب ؟ رجنی نے سوال کیا۔ یہی کہ گھڑی میں تولہ گھڑی میں ماشہ۔ آج یہ منھ لٹکائے ہوئے ہے کل یہ منھ اٹھا کر کسی اور سے بیاہ رچا لے گا۔ ہمارے قبیلے میں کوئی بلا شادی شدہ نہیں رہتا۔ اچھا تو یہ کسی اور کو میتھی کے اس گھر میں لے آئے گا؟ جی نہیں یہ میتھی کا گھر ہے اس میں کوئی اور عورت نہیں آسکتی۔ اگر میتھی کی کوئی لڑکی ہوتی تو وہ اس کی مالک بن جاتی لیکن چونکہ اس کا صرف ایک بیٹا جیتو ہے اس لئے وہ اس گھر کا مالک بن جائے گا۔ تو پھر کھیتو؟ کھیتو اپنی ہونے والی بیوی کے گھر چلا جائے گا۔ یہ کیسی عجیب بات کر رہی ہو تم منکی۔ اس میں عجیب کیا ہے ؟ جس طرح منگو شادی کے بعد میرے گھر آ گیا اسی طر ح کھیتو نکاح کے بعد میتھی کے گھر آ گیا تھا۔ اب جو عورت کھیتو سے نکاح کرے گی وہ اپنا گھر کیوں چھوڑے گی؟کھیتو کو اس کے گھر میں جانا ہی ہو گا۔ رجنی کا منھ حیرت سے کھلا کا کھلا رہ گیا تھا۔ منکی بولی بائی جی آپ کو اس قدر تعجب کیوں ہے ؟ کیا آپ کے شہر میں ایسا نہیں ہوتا؟ رجنی خاموش رہی منکی اپنے گھر چلی گئی۔

منکی کی بات حرف بحرف درست ثابت ہوئی چار دنوں کے اندر کھیتو کا بیاہ طے ہو گیا اور میتھی کی موت کے ساتویں دن صبح سوگ ختم ہوا شام میں کھیتو کا نکاح مینگھی سے ہو گیا۔ مینگھی عمر میں کھیتو سے بڑی تھی لیکن جب رجنی نے غور کیا تو اسے پتہ چلا کہ کالاہانڈی کے تمام ہی شادی شدہ جوڑوں میں بیوی کی عمر زیادہ ہوتی تھی۔ میتھی اپنے حسن و جمال کے سبب کھیتو سے کم سن لگتی تھی لیکن ممکن ہے وہ بھی حقیقت میں اس سے عمر دراز رہی ہو۔ جیتو ویسے تو رجنی سے رائے پور قیام کے دوران ہی کافی گھل مل گیا تھا مگر گزشتہ گیارہ دنوں سے وہ بالکل اس کی ماں بن گئی تھی۔ رجنی کو ایسا لگنے لگا تھا کہ جیتو واقعی اس کا بیٹا ہے۔ اب جیتو اس کو ممی کہہ کر پکارنے لگا تھا۔ مینگھی نے جب اسے اپنے ساتھ لے جانے کی کوشش کی تو وہ مچل گیا اور چیخ چیخ کر رونے لگا۔ رجنی بولی اگر آپ لوگوں کو اعتراض نہ ہو تو میں اسے اپنے پاس رکھوں ؟ کھیتو بولی ہمیں کیا اعتراض ہو سکتا ہے۔ یہ گھر اب جیتو کا ہے آپ جب تک چاہیں اس میں اس کے ساتھ رہیں۔ جب آپ کا من بھر جائے تو اسے لا کر ہمارے پاس چھوڑ دیں۔ مینگھی کا گھر تو آپ نے دیکھا ہی ہوا ہے۔

جیتو استفہامیہ انداز میں منھ پھلا کر رجنی کی جانب دیکھ رہا تھا گویا پوچھ رہا ہو کہ آپ کا دل مجھ سے کب بھر جائے گا؟ اور آپ کب مجھے مینگھی کے حوالے کر دیں گی؟ رجنی نے اسے پچکار کر سینے سے لگا لیا۔ جیتو کو ایسا لگا گویا رجنی اس سے کہہ رہی ہے نہیں بیٹے نہیں۔ میرا دل تم سے کبھی نہیں بھرے گا۔ اب میں جہاں بھی جاؤں گی تم میرے ساتھ جاؤ گے۔ میتھی کی موت کے بعد رجنی کو ایک مکان مل گیا تھا جس میں وہ آدرش اسکول قائم کرسکتی تھی۔ رجنی چاہتی تھی کہ وہ فون کر کے ان واقعات کی خبر آکاش کو دے لیکن اس کے دل میں لارسنس کے دفتر کا ایسا خوف بیٹھ گیا تھا کہ وہ اس جانب رخ کرنا ہی نہیں چاہتی تھی۔ رجنی نے نہایت محتاط انداز میں ایک خط لکھا کہ اسکول کے لیے کالاہانڈی میں ایک کمرہ مل گیا ہے۔ اس لئے بنیادی لوازمات مثلاً اول درجہ کی کتابیں وغیرہ روانہ کرے تاکہ اسکول شروع کیا جا سکے۔ ایک کمرے کا مثالی اسکول قائم ہو گیا جس میں بیس بچے اور ایک استانی تھی جو اپنے منھ بولے بیٹے کے ساتھ وہیں رہتی بھی تھی۔ وہی اس کی پرنسپل اور وہی اس کی اردلی تھی۔

اسکول کو کھلے ابھی ایک ہفتہ بھی نہیں ہوا تھا کہ اچانک اسکول کے اندر بچوں کی تعداد میں دن بدن کمی واقع ہونے لگی۔ پہلے تو رجنی نے سوچا یہ اتفاقی واقعہ ہے لیکن جب اس نے دیکھا کہ یہ سلسلہ بڑھتا ہی جا رہا ہے تو شام کے وقت منکی کے گھر پہنچ گئی۔ رجنی نے منکی سے پوچھا کیا گاؤں والے اس سے ناراض ہیں۔ منکی نے کہا ناراض نہیں بلکہ خوفزدہ ہیں۔ رجنی کے لیے یہ حیرت انگیز انکشاف تھا۔ مجھ سے کیوں خوفزدہ ہیں میں نے کسی کا کیا بگاڑا ہے ؟ آپ نے کسی کا کچھ بگاڑا تو نہیں ہے لیکن لوگوں کو یہ لگتا ہے کہ آپ ایسا کرسکتی ہیں۔ لیکن لوگوں کو ایسا کیوں لگتا ہے ؟ بلاوجہ یا اس کی کوئی وجہ بھی ہے ؟ رجنی نے پوچھا۔ منکی بولی بائی جی دراصل آج کل کالا ہانڈی میں ایک عجیب و غریب افواہ گشت کر رہی ہے۔ جس نے لوگوں کو دہشت زدہ کر دیا ہے اور اگر یہ سلسلہ نہیں رکا تو مجھے ڈر ہے کہ ۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۔

تمہیں کس بات کا ڈر ہے منکی؟ مجھے کئی اندیشے ہیں مثلاً آپ کا اسکول بند ہو جائے۔ اسکول کیونکر بند ہو سکتا ہے ؟کھیتو اور جیتو کو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ جی ہاں لیکن اگر لوگ اپنے بچے ہی نہ بھیجیں تو اسکول کیسے چلے گا۔ جی ہاں یہ تو ہے۔ منکی بولی لیکن مجھے اس سے بھی بڑا خطرہ نظر آ رہا ہے۔ اس سے بڑا خطرہ؟ وہ کون سا ہے ؟یہی کہ کہیں آپ کے ساتھ کچھ اونچ نیچ نہ ہو جائے۔ میرے ساتھ۰۰۰۰۰۰مجھے کوئی کیا کرسکتا ہے ؟منکی بولی وہ ایسا ہے نا بائی جی کہ بھیڑیوں کے بارے میں کیا کہا جا سکتا ہے ؟ وہ کبھی بھی کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ یہ سن کر رجنی کے اندر خوف کی ایک لہر دوڑ گئی لیکن دل کڑا کر کے وہ بولی دیکھو منکی میں کسی بھیڑئیے سے نہیں ڈرتی۔ مجھے اس کی کوئی پرواہ نہیں کہ جو کچھ میتھی کے ساتھ ہوا ہے وہ میرے ساتھ بھی ہو جائے لیکن جب تک میری سانس میں سانس یہ اسکول بند نہیں ہو گا کیا سمجھیں۔ منکی بولی سمجھ گئی۔ ہم جیسی بکریاں بھیڑیوں سے ڈرتی ہیں لیکن آپ شیرنی ہیں آپ نہیں ڈرتیں بلکہ بھیڑیا بھی آپ سے خوف کھاتا ہو گا۔

رجنی بولی اب بھیڑئیے اور شیر کی کہانی چھوڑو اور مجھے یہ بتاؤ کہ آخر وہ افواہ کیا ہے جو فی الحال گردش کر رہی ہے۔ منکی نے کہا بائی جی خبر یہ ہے کہ کسی کی ملاقات اچانک جنگل میں میتھی کی آتما سے ہو گئی اور میتھی کی آتما نے اسے بتایا کہ رجنی منحوس ہیں۔ وہ بھوت پریت کو اپنے قابو میں رکھتی ہے اور انہیں میں سے ایک نے اس کی جان لی ہے۔ اس لئے میتھی کی موت کے لیے اصل ذمہ دار بھیڑئیے نہیں بلکہ رجنی ہے۔ رجنی حیرت سے یہ کہانی سن رہی تھی جس کا مرکزی کردار خود اس کی اپنی ذات تھی۔ اس نے پوچھا منکی کیا تمہیں اس خبر پر یقین ہے۔ جی نہیں بائی جی میں اسے سچ نہیں مانتی لیکن گاؤں میں ایسے بہت سے لوگ ہیں جواس بات کو درست جانتے ہیں کہ آپ کا منحوس وجود جب تک گاؤں میں رہے گا اس طرح کے حادثات رونما ہوتے رہیں گے۔ یہ افواہ دیکھتے دیکھتے جنگل کے آگ کی طرح پھیل گئی ہے اور دبے لفظوں میں یہ مطالبہ بھی زور پکڑنے لگا ہے کہ آپ کو گاؤں سے نکال دیا جائے۔

رجنی نے اچانک اپنے آپ کو کالا ہانڈی میں اجنبی محسوس کیا وہ بولی منکی تم کیا سوچتی ہو؟ منکی نے کہا بائی جی میں تو سوچتی ہوں کہ آپ کا چلا جانا نہ صرف کالا ہانڈی بلکہ اس پورے خطے کے لیے نہایت منحوس فال ہو گا۔ ان نازک حالات میں ایک شیر ہی بھیڑیوں سے ہماری حفاظت کر سکتا ہے جب آپ چلی جائیں گی تو ہم سب ان کے لیے نرم چارہ بن جائیں گے اور یہ ہم میں سے جس کو چاہیں گے جب چاہیں گے چٹ کر جائیں گے۔ منکی کی بات نے رجنی کا من موہ لیا وہ بولی اچھا تو منکی اب اس مسئلہ کا حل کیا ہے یہ بھی بتا دو۔ منکی بولی قبائلی معاشرے میں اس کا حل پنچایت ہے لیکن پنچایت اسی وقت بلائی جاتی ہے جب کم از کم پانچ لوگ اس کا مطالبہ کرتے ہیں۔ اچھا تو یہ پانچ لوگ کہاں سے آئیں گے ؟ میں اس کا انتظام کروں گی۔ ایک تو میں ہوں اور میرا حکم ٹالنے کی جرأت منگو نہیں کرسکتا۔ مجھے لگتا ہے کھیتو اس کے لیے تیار ہو جائے گا اور مینگھی کو بھی راضی کر لے گا۔ پانچویں کا انتظام بھی ہو جائے گا آپ فکر نہ کریں۔ منکی نے کمال ہوشیاری سے گھسیا کو بھی اپنے ساتھ مطالبہ کرنے والوں میں شامل کر لیا جس سے مخالفت کی توقع تھی۔

کسی غیر قبائلی کو پنچایت میں شرکت کی اجازت نہیں تھی اس لئے رجنی جیتو کے ساتھ گھر ہی پر تھی۔ پنچایت میں منکی نے اس افواہ کا منبع تلاش کرنے کا مطالبہ کرڈالا۔ اس طرح ہر شخص جس نے اس کی روایت کی تھی اس سے پوچھا گیا کہ اسے کیسے پتہ چلا۔ جب کوئی کسی کا نام لیتا تو پھر اس شخص سے سوال کیا جاتا کہ اس سے کس نے کہا پانچ لوگ یکے بعد دیگرے ایسے نکل آئے جن کا آخری سرا رنگلو پر جا کر ختم ہوا۔ اب پنچایت کے اندر رنگلو کو اپنی بیوی کے سر پر ہاتھ رکھ کریہ بتانا تھا کہ کیا واقعی اس کی ملاقات میتھی کی آتما سے ہوئی یا کسی اور نے اسے اس کی اطلاع دی تھی۔ قبائلی توہمات کے مطابق اگر پنچایت میں کوئی مرد اپنی بیوی یا کوئی عورت اپنے شوہر کے سرپر ہاتھ رکھ کر جھوٹ بولے تو جس کے سر پر ہاتھ رکھا ہوتا ہے اس کی موت واقع ہو جاتی ہے۔ رنگلو کی بیوی اسے گھور کر دیکھ رہی تھی اور اس کے چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں۔ رنگلو نے کہا جی نہیں میری ملاقات میتھی کی روح سے نہیں ہوئی۔ تب پھر یہ خبر تمہیں کس نے دی؟اس سوال کے جواب میں وہ کچھ دیر خاموش رہا اور پھر لارسنس کے ایک افسر کا نام لے کر پنچایت سے معافی کی درخواست کی۔ اس کی درخواست قبول کر لی گئی اور فیصلہ ہو گیا کہ رجنی بے قصور ہے میتھی کا قتل اس نے نہیں کیا۔

لارسنس کے جاسوسوں نے فوراً جا کر پنچایت کے فیصلے کی اطلاع دے دی۔ کمپنی کی یہ حکمت عملی الٹی پڑی تھی۔ اس افواہ سے ایک طرف تو لوگ کمپنی سے مزید بد ظن ہو گئے دوسری جانب پنچایت کے فیصلے نے رجنی کی مقبولیت میں غیر معمولی اضافہ کر دیا۔ وہ لوگ جو اسکول کے بارے میں نہیں جانتے تھے وہ بھی اس سے واقف ہو گئے تھے۔ اسکول میں بچوں کی تعداد یکلخت دوگنی ہو گئی تھی۔ چھوٹے بڑے ہر عمر کے بچے داخل ہو گئے تھے۔ رجنی نے ان کو مختلف جماعتوں میں تقسیم کرنے کا فیصلہ کیا اور آکاش آنند کو خط لکھ کر استدعا کی کہ کم از کم ایک استانی کو یہاں روانہ کرے تاکہ اسکول ٹھیک سے چل سکے۔ آکاش کو اندیشہ تھا کہ رجنی کو اسکول کے جگہ نہیں ملے گی۔ طلبہ میسر نہیں آئیں گے اور وہ لوٹ آئے گی لیکن اس کے برعکس رجنی کی جانب سے مطالبات میں اضافہ اس بات کا ثبوت تھا کہ اسکول دن بدن ترقی کر رہا ہے۔ آکاش کے دل میں بھی اب اس پروجکٹ کے حوالے سے جگہ بننے لگی تھی۔ وہ اس معاملے میں سنجیدہ ہوتا جا رہا تھا بلکہ ایک بار کالا ہانڈی کا سفر کرنے کی خواہش بھی اس کے دل میں ابھرنے لگی تھی۔

 

 

 

لاجپت رائے

 

لارسنس انتظامیہ کو اندازہ ہو گیا تھا کہ رجنی اور آکاش آسانی سے قابو میں آنے والی اسامیاں نہیں ہیں۔ اس لئے ان لوگوں نے ڈرانے دھمکانے کے بجائے بہلا پھسلا کر انہیں اپنے دام میں گرفتار کرنے کی تدبیر سوچی۔ آکاش کی فون والی گفتگو اور رجنی کے خطوط دونوں وسائل کی ضرورت اور تنگی کی جانب اشارہ کرتے تھے۔ لارسنس انتظامیہ نے سوچا کیوں نہ ان پر احسانات کی بارش کر کے ہمنوا بنانے کی کوشش کی جائے۔ انہیں احساس تھا کہ براہ راست تعاون خطرات کا پیش خیمہ ہو سکتا ہے۔ اس لئے ایک بین الاقوامی غیرسرکاری تنظیم کے توسط سے آکاش کے ساتھ رابطہ کیا گیا۔ اس تنظیم کی جانب لکھے گئے ایک خط میں آکاش آنند کو کالاہانڈی کے بے قصور لوگوں کو رہا کرانے کی کامیاب کوشش کو سراہا گیا نیز اس بات کا اشارہ بھی دیا گیا کہ اگر وہ قبائلی لوگوں کے لیے فلاح بہبود کے کام مثلاً تعلیمی و طبی میدان میں کوئی کام کرنے کا خواہشمند ہے تو اس سے تعاون بھی کیا جا سکتا ہے۔

آکاش آنند اس خط کو پا کر بہت خوش ہوا اس نے جواباً شکریہ ادا کیا اور باہمی اشتراک پر غور کرنے کی یقین دہانی کی۔ آکاش آنند نہ جانے کیوں اس معاملے میں کچھ محتاط ہو گیا تھا۔ اس کے دل میں یکبارگی خیال ضرور آیا تھا کہ کیوں نہ رجنی گندھا کے آدرش اسکول کے لیے تعاون طلب کیا جائے لیکن پھر سمندر پار کے اجنبی لوگوں کے تئیں اندیشے اس کے پیروں کی زنجیر بن گئے۔ ویسے رائے پور کے اندر اس کی کوششیں جاری تھیں۔ اس نے اپنے ادارے آدرش ٹرسٹ کے سارے ارکان کو کالاہانڈی کے علاقے میں تعلیمی مہم کے لیے راضی کر لیا تھا۔ آدرش ٹرسٹ کے سکریٹری لاجپت رائے سبکدوش سرکاری ملازم تھے۔ انہوں نے اپنی زندگی کا بڑا حصہ ریاستی سکریٹریٹ میں گزارہ تھا اور مختلف محکموں میں کام کیا تھا۔

اپنی ملازمت کے ابتدائی دنوں میں لاجپت رائے نے چند سال قبائلیوں کے فلاح بہبود کی خاطر قائم کردہ وزارت آدیباسی کلیان منتری کے دفتر میں بھی صرف کئے تھے لیکن چونکہ ان کا تعلیمی پس منظر معاشیات سے متعلق تھا اس لئے ان کا زیادہ تر وقت شعبۂ مالیات یا وزارتِ صنعت و حرفت میں گزرا تھا۔ لاجپت رائے گو کہ ایسی وزارتوں میں کام کرتے رہے جہاں بدعنوانی اور رشوت خوری کا بول بالا تھا مگر ان کی طبیعت میں ایک خاص قسم کی اصول پسندی پائی جاتی تھی اور بہت جلد وہ اپنی اس صفت کے سبب معروف و مشہور ہو گئے تھے۔ دوسرے افسران اور وزراء ان کی خداداد صلاحیتوں کا استعمال کر کے ان سے مختلف کام تو کرواتے تھے مگر جن کچھ لین دین کا معاملہ آتا انہیں کنارے کر دیا جاتا اس لئے کہ لاجپت رائے کے بارے میں سبھی جانتے تھے وہ بھوکا مر جائے گا لیکن حرام کا ایک لقمہ اپنے حلق سے نیچے نہیں اتارے گا۔ آدرش ٹرسٹ کے اجلاس میں یہ فیصلہ ہوا کہ لاجپت رائے وزارتِ قبائلی فلاح بہبود سے رابطہ قائم کر کے اس سے تعاون حاصل کرنے کی سعی کرے۔

آدیباسی منتری رام جنک کا شمار بدعنوان ترین وزراء میں ہوتا تھا۔ اس کا تعلق گو کہ قبائلی سماج سے تھا لیکن اس کی ساری زندگی شہر میں گزری تھی۔ اس کے والد رنگا نے اپنی عمر کا بڑا حصہ کھوپرا پار کے علاقے میں واقع ڈاک بنگلہ کے اندر گزارا تھا۔ آخری عمر میں ایک وزیر نے خوش ہو کر اس کا تبادلہ رائے پور شہر میں کروا دیا۔ جس وقت رنگا شہر آیا جنکو نوعمر تھا۔ جب اس کا داخلہ سرکاری اسکول میں کروایا گیا تھا تو اسکول کے صدر مدرس نے کہا اس کا نام بدل دو ورنہ سارے طلباء اس کا مذاق اڑائیں گے۔ رنگا نے انہیں سے کوئی مناسب نام تجویز کرنے کی فرمائش کی تو انہوں نے جنکو کو رام جنک بنا دیا۔ اس طرح رام کے نام پر اسے بھی مریادہ(عزت ) حاصل ہو گئی۔

آزادی کے بعد ایک عرصہ تک ان قبائلی علاقوں کی نمائندگی بھی شہری لوگ کرتے رہے جو قبائلی تہذیب و تمدن بلکہ ان کے مسائل تک کی ابجد سے ناواقف تھے۔ اس کے بعد جب آدیباسیوں کے حلقہائے انتخاب کو ان کے لیے مختص کر دیا گیا تو امیدوار نہ ملتا تھا۔ حد تو یہ ہے کہ دہلی میں بر سرِ اقتدار جماعت نے رنگا کو پیشکش کر دی کہ وہ انتخاب لڑے لیکن رنگا نے یہ کہہ کر معذوری ظاہر کی کہ وہ عمر کے آخری حصے میں اپنی مٹی خراب کرنا نہیں چاہتا اس لئے اگر ضروری ہو تو رام جنک کو لڑا دیا جائے۔ رام جنک کی سیاسی زندگی ابتداء ہی دھوکہ دھڑی سے ہوئی اس کی عمر جو ۲۰ سال سے کم تھی مگر ۲۱ سال سے زیادہ بتلائی گئی اور وہ دو بیلوں کی جوڑی پر سوار ہو کر ریاستی اسمبلی میں پہنچ گیا۔

پہلے پہل تو اس کی سمجھ میں کچھ نہ آتا تھا لیکن وقت کے ساتھ بدعنوان افسران نے اسے ماہر رشوت خور بنا دیا۔ رام جنک گویا کھوپرا پار سے لے کر کالا ہانڈی تک کا بے تاج بادشاہ تھا۔ وہ اپنے علاقے میں قبائلی زبان اور شہر میں فراٹے سے ہندی بولتا اور میز کے اوپر نیچے دونوں جانب سے دولت سمیٹتا۔ جب سے یوروپی کمپنیوں نے اس کے علاقے میں کاروبار شروع کیا تھا وہ انگریزی زبان سے بھی لیس ہو چکا تھا اور پھر کیا تھا اب تو اس پر ڈالر کی برسات ہونے لگی تھی جو براہِ راست اس کے سوئزرلینڈ میں واقع بنک کھاتے میں جمع ہو جاتے تھے۔

لاجپت رائے نے جنک رام سے ملاقات کر کے اسے کالاہانڈی کے علاقے میں آدرش ٹرسٹ کے عزائم سے روشناس کرایا تو جنک رام کو اس سے کوئی خوشی نہیں ہوئی۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ قبائلی تعلیم کے زیور سے آراستہ ہوں اس لئے کہ جاہل آدیباسیوں کے مقابلے تعلیم یافتہ رائے دہندگان کا استحصال کسی قدر مشکل تھا۔ اس کے باوجود جنک رام نے لاجپت رائے کا منافقانہ شکریہ ادا کیا اور اس سے پوچھا کہ آخر آدرش ٹرسٹ نے رائے پور سے نکل کر اس دور دراز کے خستہ حال علاقے کا انتخاب کیوں کیا؟ جبکہ رائے پور اور جبلپور وغیرہ میں تعلیم کا کاروبار زور شور سے پھلنے پھولنے لگا ہے۔ انگریزی اسکول کے مالکین طلباء کے والدین سے منھ مانگی فیس وصول کرتے ہیں۔ سرکار سے مراعات بھی حاصل کرتے ہیں اور اساتذہ کا استحصال ہوتا ہے اس طرح چہار جانب سے ان کے وارے نیارے ہیں۔

لاجپت رائے نے جنک رام کو بتلایا کہ آدرش ٹرست کوئی کاروباری ادارہ نہیں ہے بلکہ ایک تعلیمی تحریک ہے۔ اس نے قبائلی علاقہ کا انتخاب اس لئے کیا کہ وہی ان کی توجہات کا سب سے زیادہ مستحق ہے۔ جنک رام کے یہ پوچھے جانے پر کہ آخر اس سے کیا فائدہ ہو گا ؟ لاجپت رائے نے آگاہ کیا کہ قبائلی سماج کے فلاح بہبود کی کنجی تعلیم و تربیت ہی ہے۔ اس سے آراستہ ہو کر وہ نوجوان خود کفیل ہو جائیں گے۔ اپنے حقوق کو پہچانیں گے اور اپنے پیروں پر کھڑے ہو جائیں گے۔ جنک رام کو ایسا لگا کہ لاجپت رائے اب کہہ دے گا کہ پھر انہیں تمہاری مطلق ضرورت باقی نہیں رہے گی اور تمہاری یہ بدعنوانی کی دوکان آپ سے آپ بند ہو جائے گی۔

رام جنک کا خون کھول رہا تھا مگر کسی طرح وہ اپنے آپ کو قابو میں رکھے ہوئے تھا۔ اس کے ساتھ بیٹھا سکریٹری برائے آدیباسی فلاح و بہبود مکیش ترویدی اس صورتحال کو بھانپ گیا۔ وہ لاجپت رائے کی اصول پسند شخصیت سے بھی واقف تھا اس لئے اس نے درمیان میں مداخلت کرتے ہوئے کہا کہ ہماری وزارت تو اسی کے لیے قائم کی گئی ہے اور ہم اس کارِ خیر میں بھر پور تعاون کریں گے بشرطیکہ آپ منتری جی کے ایک آدمی کو ٹرسٹ میں شامل فرمالیں۔

لاجپت رائے اس تجویز پر چونک پڑا۔ اس نے سوال کیا کہ کیا یہ لازم ہے ؟ وزارت کے اصول و ضوابط میں یہ درج ہے ؟ اس پر مکیش ترویدی نے مسکرا کر کہا آپ تو جانتے ہی ہیں بہت سارے ضابطے لکھے نہیں جاتے مگر ان پر عمل درآمد ہوتا ہے اور کئی باتیں دستور میں درج ہوتی ہیں جن کو کوئی نہیں پوچھتا۔ لاجپت رائے اس جواب سے مطمئن نہ ہوسکا وہ بولا لیکن آپ لوگوں نے یہ ضابطہ کیوں وضع کیا ؟ کہیں اس کی بنیاد عدم اعتماد پر تو نہیں ہے ؟ اگر ایسا ہے تو ہمیں آپ کی کوئی مدد نہیں چاہیے۔

مکیش ترویدی کا کام ہو گیا تھا۔ اس نے کہا عوامی فلاح بہبود کی راہ میں انا کی دیوار کو حائل نہیں ہونا چاہیے۔ اگر آپ لوگوں کے سارے معاملات صاف و شفاف ہیں تو خوف کیسا ؟ ہمارا ایک آدمی رہے گا تو ہمیں براہ راست ساری سرگرمیوں کا علم ہوتا رہے گا۔ یہ عدم اعتماد کے بجائے باہمی اعتماد میں اضافے کا سبب بنے گا۔ مکیش کو یقین تھا کہ لاجپت رائے کی عزت نفس اس اہانت آمیز شرط کو کسی صورت گوارا نہیں کرے گی۔

مکیش کی توقع پوری ہوئی لاجپت رائے نے جواب دیا مکیش جی یہ ٹرسٹ میرے باپ کی جاگیر نہیں ہے کہ اس میں کسی کو شامل کرنے کا یا کسی کو اس میں سے نکالنے کا فیصلہ میں خود کر لوں۔ یہ فیصلے تو سارے ارکان مل کر اتفاق رائے یا کثرتِ رائے سے کرتے ہیں۔ مکیش پھر ایک بار مسکرا کر بولا کہ میں نے آپ سے کب کہا کہ آپ ابھی فوراً اس بات کا فیصلہ کریں۔ آپ لوگ اپنے ارکان کی نشست میں اس تجویز پر ٹھنڈے دل سے غور کریں اور آزادانہ فیصلہ کریں ہماری جانب سے اس بابت کوئی زور زبردستی نہیں ہے۔ بس بات یہ ہے کہ اگر فیصلہ مثبت ہوتا ہے تو ہمیں آگاہ کر دیں ورنہ ہمارے تعاون کے بغیر بھی آپ لوگوں کا کام چل ہی رہا ہے اور ہماری وزارت بھی اپنی ذمہ داریاں ادا کرہی رہی ہے۔ لاجپت رائے ایک ایسی اندھی سڑک پر ڈھکیل دیا گیا تھا کہ اب اس کے سارے دروازے بند تھے۔ وہ اپنی جگہ سے اٹھا اور شکریہ ادا کر کے باہر چلا آیا۔

لاجپت رائے کے چلے جانے کے بعد جنک رام بولا مجھے یہ آدمی خطرناک معلوم ہوتا ہے۔ یہ ہمارے سیدھے سادے رائے دہندگان میں بغاوت کے بیج بونا چاہتا ہے۔ اس کو ہمارے اصول ضوابط قابلِ قبول نہیں ہیں۔ یہ ہماری نگرانی میں کام کرنا نہیں چاہتا بلکہ اس کو ہم پر اعتماد نہیں ہے۔ جب وہ کہہ رہا تھا کہ یہ ٹرسٹ میرے باپ کی جاگیر نہیں ہے تو مجھے ایسے لگا جیسے بول رہا ہو یہ تمہارے باپ کی جاگیر نہیں ہے کہ جس کو چاہو اس میں شامل کر دو۔ اس کی یہ بات سن کر میرا تو جی چاہ رہا تھا کہ اسے دھکے مار کر نکال باہر کروں۔

مکیش بولا میں سمجھ گیا تھا سرکار کہ آپ کیا سوچ رہے ہیں اور کیا کرنے جا رہے ہیں لیکن لا جپت رائے کے ساتھ اگر کوئی بدسلوکی سرزد ہو جاتی تویہ ذرائع ابلاغ میں ہماری زبردست بدنامی کا سبب بنتی۔ وہ زبان کا دھنی ہے اس پر سارے لوگ بھروسہ کرتے ہیں اور ہم پر کوئی نہیں کرتا۔ اسی لئے میں نے ایسا جال پھینکا کہ وہ خود اس دام میں گرفتار ہو گیا اور دیکھا آپ نے سانپ بھی مر گیا اور لاٹھی بھی نہیں ٹوٹی۔ جنک رام مسکرا کر بولا مان گئے استاد۔ چانکیہ کی چوٹی سر کے اوپر ہوا کرتی تھی لیکن تمہاری اندر ہے۔

مکیش نے مسکرا کر شکریہ ادا کیا اور بولا جناب بات دراصل یہ ہے کہ چانکیہ کا جنم ملوکیت کے دور میں ہوا تھا اس لئے اسے منافقت کی چنداں ضرورت پیش نہیں آئی لیکن یقین کریں کے اگر چانکیہ کا دوسرا جنم اس جمہوریت کے دور میں ہو جائے تو اس کی چوٹی کبھی باہر نہیں آئے گی۔ رام جنک بولا مجھے تو یقین ہے کہ چانکیہ کا پونر جنم ہو چکا ہے اور وہ میرے سامنے بیٹھا ہوا ہے۔

لاجپت رائے سکریٹریٹ سے اپنے گھر جانے بجائے سیدھا آکاش آنند کے پاس آیا تاکہ اپنا غم غلط کرسکے۔ آ کاش آنند نے جیسے ہی لاجپت رائے کو دیکھا اس کی باچھیں کھل گئیں۔ وہ بولا یار تم بڑے اچھے وقت میں آئے میں تم سے ملاقات کا شدید خواہشمند تھا۔ لاجپت رائے نے سردمہری سے کہا کیوں خیریت توہے ؟ آکاش بولا اقوام متحدہ کے بچوں کی فلاح و بہبود کے شعبے کی جانب سے ہمیں دعوت آئی ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ دو ماہ بعد پیرس میں ہونے والی بین الاقوامی کانفرنس میں ہم یہاں کے قبائلی علاقوں کی تعلیمی صورتحال پر ایک مقالہ پیش کریں اور اور آدرش ٹرسٹ کے عزائم سے بھی روشناس کرائیں تاکہ اقوام متحدہ کی سرپرستی میں انجام دئیے جانے والے منصوبوں سے آدرش ٹرسٹ بھی مستفید ہو سکے۔ میں نے تم سے پوچھے بغیر اپنا اور تمہارا نام روانہ کر دیا ہے۔ اب ہمیں ٹھیک ٹھاک تیاری کر کے دو ماہ کے اندر وہاں جانا ہے۔ آ کاش آنند خوشی پھولا نہیں سما رہا تھا۔

لاجپت رائے بولا یار میں نے تو آدرش ٹرسٹ سے استعفیٰ دینے کا ارادہ کر لیا ہے اور تم مجھے اپنے ساتھ پیرس لے جانے پر تلے ہوے ہو۔ آکاش اس بم دھماکے کے لیے تیار نہیں تھا وہ چونک کر بولا کیوں خیریت؟اس لئے کہ لاجپت رائے ٹرسٹ کے بانیوں میں سے ایک تھا۔ لاجپت رائے کی داستان سننے کے بعد وہ بولا بھئی لاجپت رائے میں تو تمہیں بہت ہی سلجھا ہوا آدمی سمجھتا لیکن تم بھی میری طرح جذباتی نکلے۔ سچ تو یہ ہے کہ تم جسے اپنی توہین سمجھ رہے ہو اس میں سرے سے اس کا کوئی شائبہ نہیں ہے۔ میرے خیال میں ان کی شرائط کو ان کے منھ پر مار کر تم نے ان کی توہین کر دی اور اچھا کیا۔ اب ہمیں ان ذلیل لوگوں کے کسی تعاون کی مطلق ضرورت نہیں ہے۔ اوپر والے کی مہربانی سے ہم ان سے آگے نکل چکے ہیں اور کسی نے سچ کہا ہے ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں۔

لاجپت رائے مسکرا کر بولا وہ تو اچھا ہوا کہ تم نے اسی قدر سنا آگے نہیں سنا۔ اچھا تو آگے کیا ہے ؟آکاش آنند نے سوال کیا۔ لاجپت رائے بولا ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں۔ آکاش بولا یا ر اس میں عشق کا چکر کہاں سے آ گیا؟ لاجپت رائے بولا شاعر نے یہ شعر تمہاری اس صورتحال کا بیان کرنے کے لیے تو کہا نہیں۔ وہ تو تم نے از خود اچک کر یہاں بٹھا دیا۔ دوسرے اس میں عشق سے مراد وہ عاشقی نہیں ہے جو تمہارے اور رجنی کے درمیان ہے۔ آکاش کو اپنی غلطی کا احساس ہو گیا وہ بولا بھئی ہم وکیل آدمی کیا جانیں شعر شاعری کیا ہوتی ہے ؟ بس یاد آیا تو ٹھونک دیا۔ لاجپت رائے نے کہا ویسے تم نے غلطی سے صحیح شعر کہہ دیا میری رائے یہ کہ تم عشق کے ان امتحانوں سے اپنی رجنی کے ساتھ گزرو۔ پیرس سے آگے ستاروں کی سیر کرو اور مجھے اس زحمت سے معاف رکھو۔

آکاش بولا یار یہ نہیں ہو سکتا یہ سارا منصوبہ تمہارے ذہن کی اپج ہے۔ میں اسے پڑھ کر سنا بھی دوں تو اس پر ہونے والے سوالات کے جوابات نہیں دے سکتا اس لئے تمہیں تو جانا ہی چاہئے۔ لاجپت رائے بولا اور اسے نہیں جانا چاہئے جس کے تصورِ خیال میں سب سے پہلے یہ خواب آیا۔ جس نے ہمیں اس کام پر آمادہ کیا اور جو نہ صرف حقیقتِ حال سے واقف ہے بلکہ اس کو عملی جامہ پہنانے والی ہے۔ میرے خیال میں رجنی کے بغیر یہ سب ادھورا ہے اس لئے کوئی اور پیرس جائے یا نہ جائے اسے تو جانا ہی چاہئے۔ بات جلیبی کی طرح الجھ چکی تھی۔ رجنی اور لاجپت رائے دونوں کا پیرس جانا ضروری تھا لیکن دعوت نامہ آکاش کے نام آیا تھا اور اسے کسی ایک ساتھی کو اپنے ساتھ لے کر جانے کی اجازت تھی۔

لاجپت رائے اجازت لے کر روانہ ہو گیا مگر آکاش آنند کو عجیب و غریب شش و پنج میں گرفتار کر گیا۔ آکاش آنند کو یہ بات تو سمجھ میں آ رہی تھی کہ اس پراجکٹ کی پیشکش میں اس کا کوئی کردار نہیں ہے لیکن آدرش ٹرسٹ کے صدر کی حیثیت سے تمام خط و کتابت اسی کے ذریعہ ہو تی تھی۔ نیز رجنی کے علاوہ کوئی اور ہوتا تو وہ اسے لاجپت رائے کے ساتھ روانہ کر دیتا لیکن رجنی کو اس کے لیے راضی کرنا ناممکن تھا۔ پھر بھی اس نے کوشش کرنے کا ارادہ کیا اور لارسنس کو فون کر کے رجنی سے بات کرنے کی خواہش کی۔

لارسنس کا ہر کارہ جب رجنی کے پاس پہنچا تو اس کے ہاتھ میں ایک خط تھا۔ اس خط میں اس کو دو ماہ بعد پیرس جانے والے لارسنس کے وفد میں شامل ہونے دعوت دی گئی تھی۔ اقوام متحدہ کی کانفرنس کا اہتمام کرنے والے اسپانسرس میں سے ایک لارسنس بھی تھی اور ساری دنیا سے اس کے دس لوگوں کو کانفرنس میں شامل ہونے کی اجازت تھی۔ رجنی سوچ رہی تھی کہ وہ آکاش کے بغیر یہ دور دراز کا سفر کیسے کرسکتی ہے ؟ اور ممکن ہے آکاش کو یہ ناگوار ہوپھر بھی اس نے سوچا فون پر وہ اس کا ذکر ضرور کرے گی۔

فون پر رجنی آ تو گئی لیکن آکاش اس سے پیرس جانے کے بارے میں کہنے کے بجائے لاجپت رائے داستان سنانے لگا۔ رجنی کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے پہلی مرتبہ وہ اپنے اندر ایک جھجک محسوس کر رہا تھا۔ اس بیچ رجنی بول پڑی دیکھو یہ لارسنس والے پاگل ہو گئے ہیں۔ آکاش نے پوچھا کیوں ؟ وہ دراصل مجھ کو اپنے وفد میں شامل کر کے پیرس بھیجنا چاہتے ہیں۔ اب تم ہی بتاؤ کہ میں بھلا اکیلی وہاں کیسے جا سکتی ہوں ؟ آکاش کے لیے یہ ایک نہایت ہی خوشگوار انکشاف تھا۔ اس نے کہا کیوں تم کیوں نہیں جا سکتیں ؟ جتنا وقت تمہیں رائے پور سے کالاہانڈی پہنچنے میں لگا ہے اس سے کم وقت میں تم دہلی سے پیرس پہنچ جاؤ گی۔ سوال وقت کا نہیں ہے۔ رجنی بولی۔ آکاش نے کہا ہاں آرام بھی تمہیں پیرس کے سفر میں زیادہ ملے گا۔ نہ ٹوٹی پھوٹی سڑک اور نہ بس کا شور شرابہ بالکل اڑن کھٹولے پر سوار ہو کر ہماری رانی نیلے آکاش کی سیر کرے گی۔

رجنی نے چونک کر کہا یہ رانی کون ہے ؟ان دو ماہ کے اندر ہی تم آکاش سے راجہ بن گئے کیوں ؟ آکاش بولا ارے بھئی رجنی کے بدلے منھ سے رانی نکل گیا تو تم ناراض ہو گئیں۔ چلو غلطی ہو گئی مہارانی بندہ معافی چاہتا ہے۔ اس کی ضرورت نہیں لیکن یہ پردیس کا سفر مجھ سے تو نہیں ہو گا۔ آکاش بولا اور اگر میں ساتھ چلوں تو؟ تم ۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰؟ جی ہاں میں ! اگر تم جا سکتی ہو تو میں کیوں نہیں۔ جی، جی نہیں ایسی بات نہیں۔ دراصل بات یہ ہے کہ رجنی رک گئی۔ اس کی زبان لڑکھڑا رہی تھی الفاظ ساتھ نہیں دے رہے تھے۔ آکاش بولا وہ اقوام متحدہ کی کانفرنس ہے اور اس میں وہی لوگ شریک ہو سکتے ہیں جنہیں مدعو کیا گیا ہو؟ رجنی نے چونک کر پوچھا لیکن آپ کو کیسے پتہ ؟ میں نے آپ کو ابھی تک نہیں بتایا۔ آکاش کا زوردار قہقہہ فضا میں گونجا۔ وہ بولا بھئی کیا یہ نہیں ہو سکتا کہ جن لوگوں نے تمہیں بتلایا ہو وہی لوگ مجھے بھی دعوت دیں۔

کیا لارسنس ؟ جی نہیں یہ کانفرنس لارسنس کی نہیں اقوام متحدہ کی ہے۔ اس میں جس طرح لارسنس کا وفد شریک ہو رہا ہے اسی طرح آدرش ٹرسٹ کے وفد کو بھی شرکت کی دعوت دی گئی ہے۔ ہم دونوں کا میزبان مشترک ہے۔ رجنی بولی سچ ! یہ کس قدر حسین اتفاق ہے آکاش۔ ایسا بھی ہوسکتا ہے ۰۰۰۰۰۰ میں نے کبھی بھی نہیں سوچا تھا کہ ایسا بھی ہو سکتا ہے۔ میں تو انہیں منع کرنے جا رہی تھی۔ جی نہیں اس کی ضرورت نہیں اور سنو اس سفر میں ہمارے کباب میں ایک ہڈی بھی ہو گا ؟ اچھا وہ کون ہے بھلا؟ اس سوال کا جواب سوچنے کے لیے تمہیں کل تک کا وقت ہے۔ اگر کل تک صحیح جواب نہ دے سکیں تو پیرس کا ٹکٹ منسوخ۔

رجنی بولی مجھے اس کے لیے ۲۴ گھنٹے نہیں ۲۴ سیکنڈ کافی ہیں۔ اچھا تو بتاؤ صحیح جواب۔ لاجپت رائے۔ تمہارا عزیز دوست جس کے بغیر تم یہ سفر نہیں کرسکتے۔ مجھے یقین ہے کہ تم اس کانفرنس میں میرے بغیر تو شریک ہوسکتے ہو لیکن لاجپت رائے کے بغیر ! ہر گز نہیں۔ آکاش نے سوچا کس قدر بے وقوف ہے یہ رجنی لیکن پھر کہا رجنی تم بلا کی ذہین ہو۔ اس سفر میں ہم تینوں ایک ساتھ ہوں گے۔ منصوبہ بنانے والا۔ اس پر عمل درآمد کرنے والا اور۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰اس کا روح رواں آکاش آنند۔ رجنی نے جملہ پورا کیا اور خدا حافظ کہہ کر فون رکھ دیا۔

 

 

 

 

 

لاجونتی

 

لاجپت رائے بڑی سنجیدگی کے ساتھ اپنے مقالے کی نوک پلک درست کرنے میں لگا ہوا تھا لیکن اسے اطمینان نہیں ہو رہا تھا۔ اسے خوف تھا کہ کہیں شرکائے اجلاس کی جانب سے کوئی ایسا سوال سامنے نہ آ جائے جس کا جواب اس سے نہ بن پڑے۔ اسی ادھیڑ بن میں اس نے ایک دن آکاش آنند کے سامنے یہ تجویز رکھی کہ کیوں نہ پیرس جانے سے قبل کالاہانڈی اور اس کے قرب و جوار کا دورہ کر لیا جائے ؟آکاش نے پوچھا اس کی کیا ضرورت ہے ؟ رجنی تو وہاں موجود ہی ہے۔ اگر کوئی معلومات درکار ہو تو اس سے منگوائی جا سکتی ہے۔ آکاش نے یہ بھی بتایا کہ جلد ہی لارسنس والے رجنی کی رہائش گاہ یعنی جیتو کا گھر پر ٹیلی فون کی لائن لگانے والے ہیں تاکہ دفتر جانے زحمت سے نجات حاصل ہو جائے۔ لاجپت رائے کو آکاش کی دلیل سے اطمینان نہیں ہوا وہ بولا دیکھو آکاش عین الیقین ہی حق الیقین کا پہلا درجہ۔ اگر کسی نے مجھ سے پوچھ لیا کہ کیا میں نے وہ علاقہ دیکھا ہے تو مجھ سے جھوٹ بولا نہ جائے گا اور یہ کس قدر شرمناک بات ہے کہ ہم ہزاروں میل کا سفر کر کے پیرس تو پہنچ گئے لیکن اپنی کرم بھومی کالاہانڈی نہ جا سکے۔

آکاش کو اس منطق پر ہنسی آ گئی وہ بولا یار تم بھی رائے صاحب کے رائے صاحب ہی رہے۔ ہم لوگ پیرس اس لئے جا رہے ہیں کہ اجلاس پیرس میں ہے اگر وہ رائے پور میں ہوتا تو یہیں رہتے اس میں پریشانی کی کیا بات ہے ؟ لاجپت رائے نے کہا یار آکاش یہ بتاؤ کہ کیارائے پور میں بھی کبھی اقوام متحدہ کا اجلاس منعقد ہوسکتا ہے ؟ تم بھی کن خواب و خیال کی باتیں کرتے ہو؟ نہیں رائے صاحب ایسی بات نہیں۔ کون سوچ سکتا تھا کہ کالاہانڈی جیسے دور دراز سے کوئی خاتون اقوام متحدہ کے اجلاس میں شرکت کے لیے پیرس جا سکتی ہے لیکن اگر یہ ہو گیا تو وہ کیوں نہیں ہوسکتا؟ میں تو کہتا ہوں کہ اس دنیا میں کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ کچھ بھی! لاجپت نے بات اچک لی اور بولا لیکن یہ نہیں ہوسکتا کہ ہم کالاہانڈی کا دورہ کر آئیں۔ آکاش کا جی چاہا کہ وہ لاجپت سے کہے اگر تمہیں دشت نوردی کا اس قدر شوق ہے تو خود ہو آؤ مجھے اس میں کوئی دلچسپی نہیں لیکن رجنی کے خیال نے اس کی زبان پر قفل لگا دیا۔

آکاش نے کہا ایسا کرتے ہیں دوچار دن بعد بس سے چلے چلتے ہیں ویسے ٹرین بھی جاتی ہے لیکن بہت وقت لگاتی ہے۔ پسنجر گاڑی ہے جب چاہتی جہاں چاہتی ہے ٹھہر جاتی ہے۔ لاجپت رائے بولا میرا خیال ہے ہمیں گاڑی سے جانا چاہئے اس لئے کہ اس سے ہم اپنی مرضی سے رکتے چلتے جا سکیں گے اور وہاں جانے کے بعد بھی مقامی سفر کے لیے سہولت رہے گی۔ آکاش نے محسوس کیا کہ لاجپت رائے محض رسماًاس دورے کا خواہشمند نہیں ہے بلکہ اس بابت خاصہ سنجیدہ ہے۔ آکاش کے لیے گاڑی مع ڈرائیور کی فراہمی ایک مشکل کام تھا لیکن اس کا حل اس نے نکال لیا۔ آکاش آنند کا ایک مؤکل لکشمی چند اس سے بہت خوش تھا۔ اسے ہمیشہ شکایت رہتی تھی وکیل صاحب خدمت کا کوئی موقع نہیں دیتے۔ آکاش نے سوچا کیوں نہ اس کی شکایت دور کر دی جائے۔ اس کے پاس نہ جانے کتنی گاڑیاں اور ڈرائیورس تھے۔

جب رجنی کو پتہ چلا کہ آکاش آنند از خود کالا ہانڈی آ رہا ہے تو وہ بہت خوش ہوئی۔ وہ خود چاہتی تھی کہ اس علاقے کا دورہ کر کے زمینی حقائق کو جانے لیکن عوامی مواصلات کا نظام اس قدر گیا گزرا تھا کہ کہیں جا کر اسی دن واپس آنا ناممکن تھا۔ اب اگر انسان کہیں جائے اور دوسرے دن لوٹے تو ٹھہرے کہاں ؟ یہ مسئلہ تھا۔ یہاں کوئی مسافرخانہ یا ہوٹل وغیرہ تو تھا نہیں اس لئے لوگ زیادہ تر انہیں علاقوں میں جاتے جہاں ان کے اعزہ و اقارب ہوتے یا جہاں سے پیدل لوٹ کر واپس آیا جا سکے۔ ویسے ان قبائلی لوگوں کے لیے ایک دن میں بیس پچیس میل پیدل چل لینا معمولی بات تھی اس لئے کہ وہ اس کے عادی تھے لیکن رجنی جیسی شہری خواتین کے لیے اس کا تصور بھی محال تھا۔

لاجپت رائے اور آکاش آنند کی کالاہانڈی یاترا نے ان کے دل کو بدل کر رکھ دیا ہے۔ اول تو ان پر ایک ایسے تہذیب و تمدن کا انکشاف ہوا جو بالکل مختلف اور منفرد تھا۔ بظاہر نیم وحشی نظر آنے والے لوگوں کے اندر پائے جانے انسانی اقدار کا پاس و لحاظ شہری معاشرت سے برتر و ارفع تھا۔ فطرت سے ہم آہنگ ان لوگوں کا ظاہر و باطن بالکل یکساں تھا۔ نفاق کی بیماری میں وہ لوگ ابھی تک ملوث نہیں ہوئے تھے جو کچھ ان کے دل میں ہوتا تھا اسی کا اظہار ان کی زبان سے بھی ہو جاتا تھا۔ یہ لوگ نہایت مفلوک الحال مگر بلا کے مہمان نواز تھے۔ جہاں کہیں آدرش کی گاڑی ٹھہرتی پہلے تو لوگ اسے کمپنی کی سمجھ کر بدک جاتے تھے لیکن جب اس میں سے رجنی کو برآمد ہوتے ہوئے دیکھتے تو ان کے سارے خدشات دور ہو جاتے اور ساری بستی میں موجود لوگ ان کے آس پاس آ کر جمع ہو جاتے۔

اس قافلے کا ہر مقام پر غیر معمولی استقبال ہوا۔ انہیں اندازہ ہوا کہ بھوت پریت کے واقعہ نے رجنی اور اس کے اسکول کو خاصہ مشہور کر دیا ہے۔ رجنی کے تئیں ان کے دلوں میں بے حد عقیدت و محبت پائی جاتی تھی وہ لوگ اسے اپنا بہی خواہ سمجھنے لگے تھے۔ لاجپت رائے اپنے مقالے کے پیشِ نظر ان سے طرح طرح کے سوالات کرتا۔ رجنی ان کے بچوں اور عورتوں سے بات کرتی اور آکاش آنند وہاں کے قدرتی مناظر میں کھویا رہتا۔ چار دنوں کے اندر ان لوگوں نے سارے علاقے کو کھنگال کر رکھ دیا تھا۔ اس دورے میں کھیتو اور منکی ان کے گائیڈ بنے ہوئے تھے۔ یہ دورہ ان کے اپنے لئے بھی بڑا سبق آموز تھا لیکن اس دوران سب سے زیادہ لطف اندوز ہونے والا ننھا جیتو تھا جو نہ جانے کس بات پر خوش ہوتا رہتا تھا۔ ہر جگہ اس کی خوب خاطر مدارات جو ہوتی تھی۔

سچ تو یہ ہے کہ اس طرح کا دورہ اس علاقے سے کامیاب ہونے والے ان کے رکنِ اسمبلی جنک رام نے بھی کبھی نہیں کیا تھا۔ انتخاب کے دوران وہ کچھ علاقوں میں جا کر عوامی جلسوں سے خطاب کرتا اور رائے پور لوٹ آتا لیکن اپنے رائے دہندگان کے درمیان بیٹھ کر ان کے مسائل کو سمجھنے کی توفیق اسے کبھی نہیں ہوئی تھی۔ وہ بچپن ہی سے چونکہ شہر میں پلا بڑھا تھا اس لئے قبائلی زندگی سے اس کی واقفیت کچھ زیادہ نہیں تھی۔ وہ تو بس نام کا آدیباسی تھا اس کے باوجود ان کا نمائندہ بنا پھرتا تھا۔ جنک رام کو پہلے ہی دن اس دورے کی بھنک لگ گئی۔ اس نے سوچا کہ یہ لارسنس والوں کی کارستانی ہے۔

اس کے سیاسی ذہن نے فوراً اس دورے کا یہ مطلب نکالا کہ اس دورے کے ذریعہ اس کے اثرات کو زائل کرنے کی سازش کی جا رہی ہے لیکن جب اس نے لارسنس کے اندر اپنے خاص آدمیوں سے اس بابت دریافت کیا تو پتہ چلا کہ ان کے فرشتوں کو بھی اس کا علم نہیں تھا۔ وہ تو جب لاجپت رائے اور آکاش آنند وہاں پہنچ گئے تو انہیں آمد کی اطلاع ملی۔ ویسے ان کے اغراض و مقاصد کو جاننے کے لیے انہیں دفتر میں آنے کی دعوت دی گئی تو ان لوگوں نے مصروفیت کا بہانہ بنا کر ٹال دیا اور واپسی سے قبل وقت ملا تو آنے کا وعدہ کر دیا۔ لارسنس کے مقامی جاسوس سائے کی طرح ان کے پیچھے لگے ہوئے رہے لیکن مقصد کے حوالے سے کوئی ٹھوس خبر نہ لا سکے۔ جنک رام کے لیے لارسنس کی پشت پناہی قدرے اطمینان کا سبب تھی۔

لارسنس جنک رام کے لیے سونے کا انڈے دینے والی مرغی تھی حالانکہ وہ اس حقیقت سے ناواقف تھا کہ لارسنس کے نزدیک اس کی ساری اہمیت اور وقعت اسمبلی کی رکنیت کے سبب ہے اور وہ رکنیت رائے دہندگان کے مرہونِ منت ہے۔ کل کو اگر عوام اس سے منھ پھیر لیں تو لارسنس اسے ٹائلٹ پیپر سے زیا دہ حیثیت دینے کے روادار نہیں ہو گی۔ وہ احمق عوام کی قوت پر لارسنس کا وفادار اور پشت پناہ بنا ہوا تھا۔ لارسنس کو اس دورے سے کوئی اندیشہ اس لئے بھی نہیں تھا کہ اب انہیں یقین ہو چلا تھا کہ جنک رام ہی کی مانند رجنی اور اور آکاش بھی ان کے دامِ فریب میں گرفتار ہو چکے ہیں۔ لارسنس کا انتظامیہ اپنے سارے انڈے کسی ایک گھونسلے میں رکھنے کے بجائے مختلف گھونسلوں رکھنے کے قائل تھا تاکہ جس گھونسلے سے بھی چوزے برآمد ہوں وہ سب ان کے وفادار اور اطاعت شعار ہوں۔ اسی حکمت عملی کے سبب لارسنس کا شمار معدنیات کے میدان میں دنیا کی سب سے بڑی کمپنیوں میں ہوتا تھا۔

آکاش اور لاجپت رائے اسکول سے بھی بہت متاثر ہوئے تھے۔ ان لوگوں نے فیصلہ کر لیا تھا کہ واپس جانے کے بعد سب سے پہلے رجنی کے ساتھ کام کرنے کے لیے ایک استانی کو فراہم کریں گے تاکہ وہ اس کی غیر موجودگی میں بھی اس کام کو جاری رکھ سکے۔ پیرس کا سفر قریب آ لگا تھا اور وہ نہیں چاہتے تھے کہ اس دوران یہ مدرسہ تعطل کا شکار ہو۔ اس وادیِ غیر ذی ذرع میں کسی خاتون کا آنے کے لیے راضی ہونا ایک بہت بڑا مسئلہ تھا۔ غیر شادی شدہ لڑکی کو اس کے ماں باپ اجازت نہیں دے سکتے تھے اور خانہ دار خاتون کے لیے اپنے شوہر اور بچوں کو چھوڑ کر یہاں آنا ناممکن تھا۔ ایک طرف حالات کی تنگی اور دوسری جانب سہولیات کا فقدان ایسے میں کوئی فنا فی مقصد ہی یہاں آنے کا قصد کرسکتا تھا۔

لاجپت رائے کو یاد آیا کہ کسی زمانے میں اس کے ساتھ منترالیہ میں کام کرنے والی نینسی نے دنیا سے بیزار ہو کر رہبانیت اختیار کر لی تھی اور غالباً رائے پور کے عیسائی مشن اسکول میں تعلیم وتدریس کا کام کرتی تھی۔ اس نے آکاش سے کہا کہ وہ نینسی سے رابطہ کر کے اس کے سامنے کالاہانڈی جانے تجویز رکھے ممکن ہے وہ اس کام کے لیے راضی ہو جائے۔ نینسی تیار تو ہو گئی لیکن وہ بغیر چرچ کے زندگی نہیں گزار سکتی تھی اور کالا ہانڈی کے قرب و جوار میں کوئی چرچ نہیں تھا۔ آکاش آنند نے سوچا کیوں نہ اس بارے میں لارسنس سے رابطہ کیا جائے ممکن ہے ان کے کیمپ میں کوئی عارضی نوعیت کا گرجا گھر ہو یا مستقبل قریب میں وہ اس کا انتظام کرنے والے ہوں لیکن آکاش آنند کو یہ جان کر حیرت ہوئی کہ لارسنس کیمپ میں نہ صرف ایک عارضی گرجا گھر موجود تھا بلکہ با قاعدہ چرچ کی عمارت بھی بہت جلد مکمل ہوا چاہتی ہے اور وہ لوگ اس کے لیے کسی پادری کی تلاش میں ہیں۔

اس خوشخبری نے آدرش ٹرسٹ کونینسی کی کفالت سے بھی نجات دلا دی اور نینسی کا چرچ والا مسئلہ بھی حل ہو گیا۔ نینسی کو کیمپ کے اندر رہائش گاہ فراہم کر دی گئی اور وہ کالاہانڈی میں رجنی کی دست راست بن کر وارد ہو گئی۔ اس نے بتایا کہ لارسنس والے چرچ کے ساتھ ہی ایک اسکول بنانے کا بھی منصوبہ رکھتے ہیں۔ اس طرح گویا آدرش ٹرسٹ کے ساتھ ساتھ لارسنس کا خواب بھی اپنے آپ شرمندۂ تعبیر ہونے لگے۔ دونوں غیر شعوری طور سے ایک دوسرے کا تعاون کر رہے تھے۔ لارسنس انتظامیہ کو کوئی جلدی نہیں تھی وہ پھونک پھونک کر قدم بڑھا رہا تھا اور نہیں چاہتا تھا کہ آدرش ٹرسٹ کو ان پر کسی شک کا شائبہ گزرے۔ انہیں یقین ہوتا جا رہا تھا کہ وقت کے ساتھ آدرش مکمل طور پر ان کا آلۂ کار بن جائے گا اور اسی طرح ان کے اشارے پر کام کرنے لگے گا جس طرح جنک رام کرتا ہے۔

لارسنس کے عزائم سے بے نیاز نینسی اور رجنی میں بہت جلد گہری دوستی ہو گئی۔ ان دونوں میں ایسی گاڑھی چھننے لگی تھی کہ نینسی ایک ہفتے بعد رجنی کو بھی کیمپ میں منتقل ہونے کی دعوت دے دی۔ رجنی نے نینسی کی اس پیشکش کو نامنظور کرتے ہوئے اسے اپنے پاس آنے کے لیے کہا۔ نینسی اس کے لیے راضی ہو گئی اور اپنا بوریہ بستر اٹھا کر رجنی کے پاس چلی آئی۔ اس طرح اب وہ ہفتے کے چھے دن کیمپ سے اسکول آنے کے بجائے ہفتے میں ایک دن کیمپ کے اندر چرچ میں جانے لگی۔ ایک مختصر سے عرصے میں یہ دونوں خواتین ایک جان دو قالب بن چکی تھیں اور اب اسکول کا مشن ایک کے بجائے ایک اور ایک گیارہ ستونوں پر کھڑا ہو گیا تھا۔ نینسی کی خدا ترسی اور رجنی کے عزم و حوصلہ نے کالا ہانڈی کے آدرش اسکول میں ایک نئی جان ڈال دی تھی۔

رجنی کے پیرس جانے کی تاریخ قریب آئی تو اسے رائے پور لے جانے کے لیے لارسنس کی جانب سے گاڑی مہیا کی گئی۔ اس گاڑی کو چونکہ کالا ہانڈی واپس آنا تھا اسلئے نینسی نے بھی رخت سفر باندھ لیا۔ وہ اپنے سابقہ چرچ کے رفقائے کار سے ملاقات کرنا چاہتی تھی۔ رجنی گھر آنے کے بعد آکاش کے ساتھ راز و نیاز میں گم ہو گئی۔ نینسی نے ٹیلی ویژن کھول کر اپنے آپ کو مصروف کر لیا۔ ایک طویل وقفہ کے بعد ٹیلی ویژن اسے کچھ عجیب سا لگ رہا تھا۔ کالاہانڈی کی زندگی ان خرافات سے یکسرپاک تھی۔ وہ سوچنے لگی کس قدر صاف و شفاف زندگی تھی کالاہانڈی کی۔ جس میں تصاویر کے بجائے حقائق چلتے پھرتے نظر آتے تھے۔ وہ حقائق جن میں انسان جیتا بستا تھا۔ وہ لوگ کو اس کے آس پاس ہوتے تھے جن پر وہ اثر انداز ہوسکتی تھی اور جو اس کو متاثر کرتے تھے۔ اس کے برعکس یہ تصاویر کی مصنوعی دنیا جس میں انسان اپنوں سے کٹ غیروں میں کھویا رہتا ہے۔ نینسی نے ریموٹ کا بٹن دبا کر ٹی وی بند کیا تو دیکھا کہ لاجپت رائے دیوان خانے کے دروازے پر کھڑا اندر آنے کی اجازت طلب کر رہا ہے۔

برسوں بعد دو رفقائے کار اجنبیوں کی طرح ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے۔ آپ ! ا ٓپ رائے صاحب ؟ آپ بالکل نہیں بدلے۔ لاجپت رائے نے مسکرا کر کہا یہ تمہارا فریب نظر ہے نینسی۔ سچ تو یہ ہے کہ اس دوران سب کچھ بدل گیا۔ سب کچھ! آپ نے مجھے پہچان لیا۔ پہلی ہی نظر میں آپ نے مجھے پہچان لیا حالانکہ میں کس قدر بدل گئی ہوں۔ اس طویل وقفے کے بعد اگر میرے مرحوم والدین بھی مجھے دیکھتے تو نہیں پہچان پاتے۔ نینسی کی بات درست تھی اگر لاجپت رائے کو اس بات کا علم نہ ہوتا کہ آکاش نے اسے رجنی کے ساتھ کام کرنے کے لیے راضی کر لیا ہے تو وہ یقیناً نینسی کو پہچان نہیں پاتا لیکن اس نے بات بناتے ہوئے کہا نینسی میں تمہارے والدین کے بارے میں تو کچھ نہیں کہہ سکتا لیکن اپنے بارے میں یہ ضرور کہہ سکتا ہوں کہ اگر تم سے میری ملاقات روزِ محشر میں ہو جاتی تب بھی میں تمہیں پہچان جاتا۔

لاجپت نے نینسی کو خوش کرنے کے لیے ایسا مبالغہ استعمال کیا کہ وہ خوشی سے باؤلی ہو گئی۔ وہ خوشی سے پھولی نہیں سما رہی تھی۔ اسے گمان بھی نہیں تھا کہ اس طرح اس کی خزاں رسیدہ زندگی میں چپکے سے بہار چلی آئے گی۔ اس نے پوچھا آپ!آپ یہاں کیسے ؟ لاجپت رائے نے بتلایا کہ آکاش اس کا دیرینہ دوست ہے اور وہ دونوں آدرش ٹرسٹ میں ایک دوسرے کے ہمنوا ہیں۔ یہ سن کر نینسی اور بھی خوش ہو گئی اور کہنے لگی تب تو آپ رجنی کو بھی جانتے ہوں گے ؟ میں آج کل اس کے ساتھ کالاہانڈی اسکول میں کام کر رہی ہوں لیکن اس نے کبھی آپ کا ذکر نہیں کیا۔ لاجپت رائے کا زوردار قہقہہ فضا میں بلند ہوا اور نینسی کو ماضی دھندلکوں میں لے گیا۔ یہ وہی لاجپت رائے تھا جس کے قہقہوں سے سکریٹریٹ گونجا کرتا تھا اور وہ ان سے کانپ اٹھتی تھی۔ اسے ڈر لگا رہتا تھا کہ کہیں کوئی لاجپت رائے سے اس کی زندہ دلی نہ چھین لے۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب لاجپت رائے سے منسوب لاجونتی اس سے ملنے کبھی کبھار دفتر میں آ جایا کرتی تھی اور اسے دیکھ کر نینسی کو لگتا یہی وہ ڈائن ہے جو لاجپت رائے کی ہنسی کو چھین لے گی۔ لاجونتی نے لاجپت رائے کی ہنسی کے بجائے نینسی سے اس کی ملازمت چھین لی۔ اس کی شادی کا رقعہ دیکھ کر نینسی نے راہبہ بننے کا فیصلہ کر لیا۔

لاجپت رائے نے نینسی کو جواب دیا بھئی ہم جیسی نا چیز ہستی کو بھلا کون یاد کرتا ہے ؟ نینسی بولی جی نہیں ایسی بات نہیں۔ کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جنہیں آپ بھلائے نہیں بھولتے۔ لاجپت رائے کو گمان گزرا کہیں نینسی یہ بات خود اپنے بارے میں تو نہیں کہہ رہی لیکن پھر اس نے اس خیال کو اپنے ذہن سے جھٹک دیا۔ نینسی نے پھر سوال کیا رائے صاحب ہماری بھابی لاجونتی کیسی ہیں ؟ لاجونتی !کون لاجونتی۔ نینسی نے چونک کر پوچھا کیا؟ لاجپت رائے نے اپنے آپ کو سنبھالا اور بولا معاف کرنا نینسی ۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰لاجونتی اب کہاں ہے ؟ زمانہ ہوا اس کا سورگ باس ہو گیا۔ نینسی نے پھر سے چونک کر پوچھا کیا؟؟ ؟ جی ہاں نینسی شادی کے ایک سال بعد میرے بچے کو جنم دیتے سمے اس کا دیہانت ہو گیا۔ وہ کیا گئی کہ اپنے ساتھ میرا ماضی اور مستقبل سب کچھ لے گئی۔ میرا بچہ بھی اپنی ماں کے پیچھے پیچھے مجھے چھوڑ کر چلا گیا اور اس کے بعد میں تنہا ہو گیا۔ بالکل تنہا۔ نینسی کی زبان سے بے ساختہ نکلا میری طرح۔ لاجپت رائے نے کہا جی نہیں نینسی تم سے بھی زیادہ تنہا اور پھر ایک بار لاجپت رائے کا قہقہہ فضا میں گونجا۔

اسی لمحہ رجنی کمرے میں داخل ہو ئی اور بولی اوہو رائے صاحب۔ آج کتنے سالوں کے بعد میں نے یہ جانا پہچانا قہقہہ سنا ہے۔ میں تو بھول ہی گئی تھی کہ کسی زمانے میں آپ اپنے قہقہوں کے لیے مشہور تھے۔ سچ تو یہ ہے کہ لاجو بھابی کے انتقال کے بعد پہلی مرتبہ۰۰۰۰۰۰۰۰رجنی رک گئی۔ لاجپت رائے بولے چھوڑو رجنی کیوں بلاوجہ غریب آدمی کا مذاق اڑاتی ہو؟ اچھا یہ بتاؤ کہ یہ تمہاری نئی سہیلی کون ہے ؟ کیا تم ان کا ہم سے تعارف نہیں کراؤ گی ؟ نینسی سمجھ گئی کہ لاجپت رائے بات بدلنے کے لیے سوال کر رہے ہیں۔ جی !جی یہ نینسی ہے کالاہانڈی اسکول میں میری شریکِ کار اور نورِ نظر، لخت جگر اور نہ جانے کیا کیا۔ نینسی سوچ رہی تھی اس کا اندازہ کس قدر صحیح تھا کہ لاجونتی ایک دن لاجپت رائے کی ہنسی چھین لے گی لیکن وہ ڈائن نہیں بلکہ پری زاد تھی جو ہوا کے جھونکے کی مانند لاجپت رائے کی زندگی میں آئی اور اسے باغ و بہار کر کے چلی گئی۔ نینسی سوچ رہی تھی کہ شاید اس نے جلد بازی سے کام لیا تھا۔ اسے استعفیٰ دینے میں مزید ایک سال تاخیر کرنی چاہئے تھی۔

رجنی بولی ہمارے فرانس دورے کے دوران اسکول کا کام کاج یہی سنبھالیں گی۔ آپ لو گ بات کریں میں چائے پانی کا بندوبست کرتی ہوں۔ رجنی کے اندر چلے جانے کے بعد نینسی نے پوچھا کیا آپ بھی فرانس جا رہے ہیں ؟ لاجپت رائے نے تائید کی اور کہا جی ہاں کاش کے تم بھی ہمارے ساتھ چلتیں۔ میں ! آپ کے ساتھ؟ نینسی بولی جی نہیں رائے صاحب اب بہت دیر ہو چکی ہے۔ باورچی خانے کے اندر رجنی آکاش سے پوچھ رہی تھی۔ آپ نے رائے صاحب کو نینسی کے بارے میں نہیں بتایا؟ آکاش نے حیرت سے کہا کیسی باتیں کرتی ہو رجنی، لاجپت رائے ہی نے تو مجھے نینسی کے بارے میں بتایا تھا۔ رجنی کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا۔ آکاش کچھ اور کہہ رہا تھا اور لاجپت کچھ اور۔ وہ بولی خیر آپ دیوان خانے میں جا کر ان کے ساتھ بیٹھیں میں ناشتہ چائے لے کر آ رہی ہوں۔ آکاش باہر آیا تو وہاں صرف نینسی بیٹھی ہوئی تھی۔ تنہا نینسی۔ اس کی سمجھ میں نہیں آیا کہ رجنی کس لاجپت رائے کی بات کر رہی ہے۔ رجنی نے دیوان خانے میں داخل ہوتے ہوئے پوچھا ارے یہ کیا ؟ رائے صاحب چلے گئے۔ بنا بتائے چلے گئے۔ اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ لاجپت رائے کیوں چلا گیا کسی کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا۔

 

 

 

 

پیرس

 

پیرس کا جادو سر چڑھ کر بول رہا تھا۔ اس دوران آکاش، رجنی اور لاجپت رائے نے یہ سوچنا بھی گوارہ نہیں کیا تھا کہ یہ سب محض ایک حسنِ اتفاق ہے یا کوئی منصوبہ بند سازش؟ آکاش نے ایک بین الاقوامی غیرسرکاری تنظیم کو شکریہ کا خط ضرور لکھا تھا لیکن اپنے تعلیمی منصوبے سے آگاہی نہیں دی تھی اس کے باوجود اقوام متحدہ کی جانب سے انہیں تفصیلی منصوبہ پیش کرنے کی گزارش موصول ہو گئی تھی۔ لارسنس کا انتظامیہ جو کل تک رجنی اور اس کے اسکول کے خلاف نت نئی افواہیں پھیلا کر عوام کو اس سے بد ظن کرنے پر تلا ہوا تھا آج اچانک اس قدر مہربان کیوں ہو گیا تھا کہ رجنی کو اپنے وفد کا رکن نامزد کر دے ؟ رجنی کے ساتھ ان کا رابطہ بس اس حد تک تھا کہ وہ کبھی کبھار ان کے دفتر آ کر آکاش سے بات چیت کر لیتی تھی اور یہ زن و شو کے درمیان ذاتی گفتگو ہوا کرتی تھی۔ ویسے اس گفتگو کے دوران کالاہانڈی کے مسائل اور تعلیمی مہم کا ذکر بھی ہو جاتا تھا لیکن اسے سننے کا حق کسی کو حاصل نہیں تھا نیز ان دونوں میں سے کسی نے با قاعدہ لارسنس کو اپنی کارکردگی یا منصوبہ جات سے آگاہ نہیں کیا تھا اس کے باوجود یہ پذیرائی شکوک و شبہات کو جنم دیتی تھی مگر اس جانب توجہ دینے کی فرصت کسی کے پاس نہیں تھی۔

لاجپت رائے کو اپنی طویل سرکاری ملازمت کے دوران کبھی بھی غیر ملکی دورہ کرنے کا موقع نہیں ملا تھا اس لئے کہ وہ کسی وزیر کا منظورِ نظر نہ بن سکا تھا۔ اس کی دوڑ زیادہ سے زیادہ دہلی تک پہنچ کر دم توڑ دیتی تھی اور آکاش و رجنی نے تو کبھی خواب میں بھی بدیس کی سیر کا خواب نہیں سجایا تھا۔ اس لئے یہ مثلث تصورِ خیال میں ویزہ لگنے سے قبل ہی پیرس پہنچ گیا تھا۔ لارسنس کے دفتر نے جب رجنی سے پاسپورٹ طلب کیا تھا تو اس نے بتایا رائے پور میں ہے۔ اس پر اس سے کہا گیا کہ وہ لوگ خود بھی اسے رائے پور کے صدر دفتر میں بھجوانے والے تھے اس لئے بہتر یہی ہے کہ براہِ راست وہیں جمع کروا دے۔ اس بیچ اقوام متحدہ سے آکاش کو پیغام موصول ہوا کہ وہ ویزا کی کارروائی کے لیے اپنا اور لاجپت رائے کا پاسپورٹ لارسنس کے صدر دفتر رائے پور میں بھجوا دے اس طرح گویا ساری کاغذی کارروائی لارسنس کے حوالے ہو گئی تھی۔ اب تو بس ٹکٹ کا انتظار تھا۔ انہیں یقین تھا کہ ٹکٹ بھی لارسنس کے دفتر ہی سے ملیں گے اور وہ تینوں ایک ساتھ ہی سفر کریں گے۔ رجنی کو یہ بتلا دیا گیا تھا لیکن آکاش کو ہنوز اس کی اطلاع نہیں ملی تھی۔

پیرس کے اندر اقوام متحدہ کی کانفرنس ایک عالمی میلا تھا۔ اس میں کئی ممالک کے سربراہانِ مملکت کے علاوہ وزرائے خارجہ، اعلیٰ سرکاری افسران، غیر سرکاری تنظیموں میں کام کرنے والے ماہرین، ذرائع ابلاغ اور اس تقریب کی کفالت کرنے والے تجارتی اداروں نمائندے شریک تھے۔ لارسنس کو بھی پانچ میں سے ایک طلائی کفیل ہونے سعادت حاصل تھی۔ پروگرام کا ابتدائی حصہ سیاسی رہنماؤں کے لیے مختص تھا۔ درمیان میں غیر سرکاری تکنیکی ماہرین کو موقع دیا گیا تھا اور آخر میں قرارداد مرتب کر کے پیش کرنے کی ذمہ داری اعلیٰ افسران کی تھی تاکہ وہ اپنی حکومتوں موقف کو اس میں شامل کر کے متفقہ قرارداد کو حتمی شکل دیں۔ ذرائع ابلاغ کی تمام تر توجہ ابتداء اور انتہا پر مرکوز تھی وسطی حصے میں کسی کو کوئی خاص دلچسپی نہیں تھی اس لئے کہ ان کے ناظرین اور قارئین وہی دیکھنا اور پڑھنا چاہتے تھے۔

کانفرنس کے دوسرے دن دوپہر کے وقت مختلف ترقی پذیر ممالک سے آئے ہوئے غیر سرکاری تنظیموں کے نمائندوں کو اپنے مقالہ جات پیش کرنے تھے۔ لاجپت رائے کو اسی سیشن میں اپنے جوہر دکھانے کا موقع ملا۔ اس کا مقالہ پاور پوائنٹ سلائیڈس کی مدد سے پیش کیا گیا تھا۔ اس میں زمینی حقائق کی مددسے نہ صرف قبائلی علاقے کے معاشی اعداد و شمار بلکہ سماجی صورتحال کی عکاسی بھی شامل کی گئی تھی۔ ان میں سے کچھ تصاویر تو ایسی تھیں کہ وہ کسی تفصیل کی طالب نہ تھیں۔ لاجپت رائے نے اپنے دورے کے دوران انہیں خود کھینچا تھا۔ اس کے بعد وہ تفصیل کے ساتھ تعلیمی منصوبہ تھا جس کے ایک ایک لفظ کو لاجپت رائے نے بڑے غور و خوض کے بعد تراش کر سجایا تھا۔ اس منصوبے میں کوئی ایک بھی شہ خیالی اندازوں پر منحصر نہیں تھی بلکہ ہر چیز کی ضروری معلومات آخر میں منسلک تھی۔

تالیوں کی زبردست گونج میں لاجپت رائے نے شرکاء کا شکریہ ادا کیا اور ناظم نے سوالات کے لیے سیشن کو کھول دیا۔ کچھ تاثراتی قسم کے سوالات تھے جن میں لاجپت رائے کی حوصلہ افزائی اور تعریف توصیف کی گئی تھی۔ کچھ لوگوں اپنی نیک خواہشات کے ساتھ ضروری مشوروں سے نوازہ تھا۔ ان لوگوں کے لیے لاجپت رائے کے پاس سوائے شکریہ کے کوئی اور جواب نہیں تھا۔ جو لوگ تکنیکی اور عملی قسم کا استفسار کر رہے تھے لاجپت رائے بڑی خندہ پیشانی سے ان کا جواب دے رہا تھا کہ ایک نہایت اہانت آمیز سوال نے اچانک سر ابھارا۔

برطانیہ کے ایک خودسر افسر نے سوال کیا جناب لاجپت رائے ! ہندوستان کے اندر پائے جانے والے بدعنوانی کے عفریت سے ساری دنیا واقف ہے۔ اس کے چلتے جو رقم عوامی فلاح و بہبود کے لیے مختص کی جاتی ہے اس کا ایک قلیل حصہ مستحقین تک پہنچتا ہے اور بڑا حصہ درمیان میں غائب ہو جاتا ہے۔ آپ کے وزیر اعظم بھی اس کا اعتراف کر چکے ہیں۔ اب آپ یہ بتائیں کے اس پراجکٹ کو بدعنوانی کے سیلاب سے محفوظ رکھنے کے لیے آپ نے کون سی احتیاطی تدابیر کی ہیں ؟

اس سوال کو سنتے ہی لاجپت رائے کا چہرہ اس طرح سرخ ہو گیا جیسے کسی نے بھری محفل میں اسے طمانچہ مار دیا ہو۔ آکاش نے یہ منظر دیکھا تو فوراً اٹھ کر مائک پر آیا اور بولا میرا نام آکاش آنند ہے ، ابھی جو مقالہ آپ نے سنا وہ ہم دونوں کی مشترکہ پیش کش ہے اس لئے اس سوال کا جواب دینے کی کوشش میں کروں گا اور کوئی کمی رہ جائے تو میرے ساتھی رائے صاحب اسے پورا کریں گے۔ بدعنوانی کے حوالے سے جو بات کہی گئی اس سے کوئی انکار نہیں کرسکتا لیکن اس کے چلتے یہ سمجھ لینا کہ ہندوستان کے سارے ہی ادارے بدعنوانی میں غرق ہیں سراسر بہتان ہے۔

میں آپ لوگوں کو بتلا دوں کہ آدرش ٹرسٹ اس پراجکٹ کے لیے عالمِ وجود میں نہیں آیا بلکہ اس کی بیس سالوں کی تاریخ ہے۔ یہ رائے پور کا ایک بڑا تعلیمی ادارہ ہے جس کے تحت کئی اسکول اور ایک کالج چل رہا ہے۔ اس طویل عرصے میں ہمارے خلاف کوئی ایک بھی بدعنوانی کا الزام منظر عام پر نہیں آیا ہے۔ اس لئے اس بات کی توقع کرنا کہ ہمارے اس نئے پراجکٹ میں جو قبائلی فلاح و بہبود کے لیے شروع کیا جا رہا ہے بدعنوانی ہو گی مناسب نہیں ہے۔

اس کے بعد آکاش نے لاجپت رائے کی جانب دیکھا جواس دوران اپنے آپ کو سنبھال چکا تھا۔ اب وہ گویا ہوا میرے دوست آکاش کے جواب میں تین اضافے میں ضروری سمجھتا ہوں تاکہ آپ کو پتہ چل سکے کہ آدرش ٹرسٹ بدعنوانی سے کیوں پاک ہے ؟ اول تو اس ٹرسٹ کا کوئی ذمہ دار اس ادارے کا ملازم نہیں ہے۔ اس کے تمام ذمہ داران اپنی معاشی ضرورت کے حوالے سے خود کفیل ہیں اور اپنی جائز آمدنی پر قانع و مطمئن ہیں۔ دوسرے یہ کہ ہم اپنے وسائل کے مطابق کام کرنے کے قائل ہیں میرا مطلب ہے اپنی چادر کے مطابق پیر پھیلاتے ہیں اور تیسری اور آخری بات یہ ہے کہ ہم کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتے۔ جو لوگ ہم پر اعتماد کرتے ہیں ان کا تعاون لیتے ہیں جو نہیں کرتے ان سے کوئی گلہ شکوہ نہیں کرتے۔

لاجپت رائے نے اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا اگر ہمارے اس پراجکٹ کی یہاں پذیرائی نہیں ہوتی تو کہیں اور ہو جائے گی اور کہیں بھی نہ ہو تب بھی ہمارا کام جیسے گزشتہ بیس سالوں سے چل رہا ہے چلتا رہے گا اور نہ بھی چلے تو ہمیں اس کا کوئی حزن و ملال نہ ہو گا اس لئے کہ ہمارا کام کوشش کرنا ہے۔ اس جواب کے بعد سائل کا چہرہ لال ہو گیا تھا اور پہلی مرتبہ سوالات جوابات کے سیشن میں سارا ہال تالیوں کی گڑگڑاہٹ سے گونج رہا تھا۔

اگلے دن کانفرنس کی دیگر خبروں کے ساتھ لاجپت رائے کا جواب بھی اخبارات کی زینت بنا تھا اور ہندوستانی سرکاری وفد کے ذمہ داروں نے اس سے ملاقات کر کے اسے وزیر اعظم کی جانب سے ستائش کا پیغام دیا تھا۔ اس طرح گویا لاجپت رائے کانفرنس کا ہیرو بن چکا تھا لیکن اسی کے ساتھ اس روز اخبار ات میں افریقہ کے ایک ملک کانگو میں کونسانٹو نامی کھاد بنانے والی کمپنی کے اندر سے اچانک گیس لیک ہونے کی بھی خبر تھی۔ اس زہریلی گیس سے جہاں بے شمار عام شہری ہلاک اور بیمار ہوئے وہیں اس کے قریب میں واقع ایک اسکول کے سو سے زیادہ طلبا ء بھی جان بحق ہو گئے تھے۔ کونسانٹو بھی اس بچوں کی فلاح و بہبود کی خاطر منعقد ہونے والے اجتماع کے اسپانسرس میں سے ایک تھی۔

اس حادثے کے متاثرین کے ساتھ اظہار یکجہتی کرنے کی خاطر اور کونسانٹو کو قرار واقعی سزا دلانے کے لیے فرانس کے حقوقِ انسانی کی تنظیموں اور حزب اختلاف جماعت نے کانفرنس ہال کے قریب ایک زبردست مظاہرے کا اہتمام کیا اور کونسانٹو کی اسپانسرشپ کو فی الفورمنسوخ کر کے اس پر کڑی کارروائی کرنے کا مطالبہ کر دیا۔ کونسانٹو نے امریکی حکومت کے ذریعہ منتظمین پر دباؤ ڈالا کہ جب تک تحقیقات مکمل نہیں ہو جاتیں اس وقت تک کوئی کارروائی نہیں کی جائے۔ اسی کے ساتھ زر خرید ذرائع ابلاغ کے اندر کونسانٹو انتظامیہ نے غلط فہمیاں پیدا کرنا شروع کر دیں اور مظاہرین کو اپنے کاروباری حریفوں کا دلال قرار دے دیا۔

کونسانٹو کے خلاف ہونے والا مظاہرہ ویسے تو بڑا کامیاب رہا لیکن اچانک اس کے آخری مرحلے میں تشدد پھوٹ پڑا۔ منتظمین بار بار شرکاء کو پرامن رہنے کی اپیل کرتے رہے لیکن ایک گروہ ایسا تھا کہ مان کر نہیں دیتا تھا۔ یہ سلسلہ جاری ہی تھا کہ اچانک پولس کی کمک پہنچ گئی اور اس نے مظاہرین پر اندھا دھند طاقت کا استعمال کیا بات دیکھتے دیکھتے پانی کے فواروں سے آنسو گیس اور گولی باری تک جا پہنچی اور یہ سب اس قدر جلدی ہوا کہ کسی کو کچھ پتہ نہ چلا۔

تیسرے دن کا موضوع مزدوریِ اطفال تھا جس میں نہ ہی آکاش کو دلچسپی تھی اور نہ لاجپت رائے کو۔ اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے آکاش رجنی کے ساتھ پیرس کی سیر کو نکل گیا تھا۔ لاجپت رائے کانفرنس میں شریک تھا لیکن جب اس کی طبیعت اکتانے لگی تو وہ باہر آ کر مظاہرہ دیکھنے لگا اور نہ جانے کب مظاہرین میں شامل ہو گیا۔ اتفاق سے کچھ متشدد حضرات اس کے آس پاس بھی تھے اور وہ خود بھی انہیں منع کرنے کی کوشش کر رہا تھا لیکن اس نے دیکھا کہ پولس کے آتے ہی وہ فسادی گروہ اچانک گدھے کے سر سے سینگ کی مانند غائب ہو گیا۔ پولس اپنا سارا زور ان لوگوں کے خلاف استعمال کرتی رہی جو تشدد میں کسی طور ملوث نہیں تھے۔ وہی بیچارے زخمی بھی ہوئے اور ان کے رہنما ؤں کو تشدد کے الزام میں گرفتار بھی کر لیا گیا۔

لاجپت رائے کے لیے یہ سب حیرت انگیز مشاہدہ تھا اس نے اپنے تئیں فیصلہ کر لیا کہ اس ظلم و جبر کے خلاف اپنی صدائے احتجاج بلند کرے گا۔ اس کا بہترین موقع قرارداد کی تدوین کے وقت تھا۔ تیسرے دن شام میں تمام شرکاء سے گزارش کی گئی وہ اپنے طور پر قرار داد کے لیے تجاویز پیش کریں جس پر انتظامیہ کمیٹی غور کرے گی اور جن پر اتفاق رائے ہو جائے گا وہ اجلاس کے آخری یعنی پانچویں دن شرکاء کے سامنے رکھ دی جائیں گی تاکہ ان کی توثیق کے بعد مشترکہ اعلامیہ جاری کیا جا سکے۔

اکثر و بیشتر شرکاء نے اس اعلان کی جانب توجہ نہیں دی چند نے اپنی قومی پالیسی کے حق میں قرارداد پیش کی اور کچھ اپنے ذاتی مفاد کے پیش نظر بھی تھیں لیکن لاجپت رائے کی تجویز نے سارے منتظمین کو چونکا دیا۔ اس نے نہ صرف کونسانٹو کو فی الفور معطل کرنے کا مطالبہ کیا تھا بلکہ پولس کے رویہ کی بھی سخت مذمت کی تھی اور مظاہرین سے ہمدردی کا اظہار کیا تھا۔ آخر میں اس نے کانگو کے متاثرین کے لیے امداد کی جانب بھی توجہ مبذول کرائی تھی۔

لاجپت رائے نے گویا شہد کے چھتے میں ہاتھ ڈال دیا تھا۔ اس قرار داد سے سب زیادہ پریشانی لارسنس کے نمائندے کو ہوئی تھی۔ اس لئے کہ اس طرح کی سوچ ان کے اپنے مفادات سے متصادم ہو سکتی تھی۔ ان لوگوں کا ایک خصوصی اجلاس ہوا جس میں لاجپت رائے سے نمٹنے کے لیے مختلف تجاویز پر غور ہوا۔ کچھ لوگ تو اس کے حق میں تھے کہ اسے کسی جعلی اسکینڈل میں پھنسا کر بدنام کر دیا جائے۔ چند لوگوں کی رائے تھی اسے نکسلوادی دہشت گردوں کا ہمنوا ٹھہرا کر ہندوستان پہنچتے ہی گرفتار کروا دیا جائے لیکن یہ دونوں تجاویز رد ہو گئیں اور یہ طے ہوا کہ اسے اقوام متحدہ کے جینوا دفتر میں تعلیم کے شعبے سے منسلک کر کے افریقی علاقوں میں مصروف کر دیا جائے جس سے ہندوستان میں اس کے اثرات زائل ہو جائیں۔ اس کی تعیناتی کے سبب اقوام متحدہ پر پڑنے والے معاشی بوجھ کو لارسنس برداشت کر لے۔ یہ ایک ایسا طریقہ کار تھا جس سے نہ سانپ مرتا تھا اور نہ لاٹھی ٹوٹتی تھی بس اس کے زہر کا اندیشہ ختم ہو جاتا تھا۔

لاجپت رائے کی قرارداد کو یہ کہہ کر واپس کر دیا گیا کہ اسے سیاسی شعبہ کو بھیج دیا جائے وہی اس پر غور کر کے ضروری اقدام کرسکتا ہے۔ یہ اجلاس چونکہ شعبۂ خدمت خلق کے تحت ہو رہا اس لئے یہاں اس پر گفتگو نہیں ہوسکتی لیکن اسی کے ساتھ اس کے مقالے کو سراہا گیا اور اس کو پیش کش کی گئی کہ وہ جینوا میں آ کر عالمی سطح پر اپنی خدمات سے ساری دنیا کو استفادے کا موقع دے۔ لاجپت رائے اور آکاش آنند کے لیے یہ ایک حیرت کا جھٹکا تھا اس لئے کہ وہ دونوں توقع کر رہے تھے ان کا نام مستقل طور پر شرکاء کی فہرست سے خارج کر دیا جائے گا۔ رجنی ان کے اس خیال سے متفق نہیں تھی اس کا کہنا تھا کہ مغربی دنیا کے روشن خیال لوگ نہایت کشادہ دل ہیں۔ وہ اختلاف کو نہ صرف برداشت کرتے ہیں بلکہ اس کی قدردانی بھی کرتے ہیں۔ اس لئے لاجپت رائے کو یہ سنہری موقع نہیں گنوانا چاہئے۔ اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہو گا کہ بین الاقوامی تنظیموں سے ان کا براہِ راست تعلق جڑ جائے گا اور لارسنس پر ان کا انحصار کم ہو جائے گا حالانکہ حقیقت حال اس کے بالکل برعکس تھی۔

لاجپت رائے کو رجنی نے مخمصے میں ڈال دیا اور وہ سنجیدگی کے ساتھ اس تجویز پر غور کرنے لگا۔ اپنی عمر کے اس حصے میں اپنے وطن سے دور دراز کا سفر کرنا اور وہیں بس رہنے کی بات اس کے گلے نہیں اتر رہی تھی لیکن رجنی کے الفاظ بار بار اس کے ذہن میں گونج رہے تھے وہ دیر تک بستر پر کروٹ بدلتا رہا اور اس بابت غور و فکر کرتا رہا یہاں تک کہ اس کی آنکھ لگ گئی۔ پلکوں کا پردہ گرتے ہی اس پر ایک نئی فلم چل پڑی۔ اب وہ اپنے دفتر میں بیٹھا کسی دستاویز کا مطالعہ کر رہا تھا کہ وزیر تعلیم نے اسے فوراً اپنے دفتر میں طلب کیا۔ لاجپت رائے وزارتِ تعلیم میں پہنچا تو وہاں نینسی نے اس کا راستہ روک لیا اور بولی کہاں چلے جا رہے ہیں رائے صاحب۔ یہ آپ کا آب رسانی کا شعبہ نہیں وزارتِ تعلیم ہے۔ لاجپت رائے بولا تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ نینسی بولی فرق کیوں نہیں پڑتا ؟ پانی کا کیا ہے وہ ہر حال میں اپنا راستہ بنا لیتا ہے تعلیم کے میدان میں آداب کا پاس و لحاظ ضروری ہوتا ہے۔

لاجپت رائے نے کہا اچھا اب ہمیں بھی یہاں کے آداب و اطوار سکھلادواور اسی کے ساتھ ایک زوردار قہقہہ بلند ہوا۔ نینسی بولی بہت خوب اس مشق کا پہلا سبق یہ ہے کہ یہاں میری اجازت کے بغیر کوئی پرندہ بھی پر نہیں مارسکتا۔ اس لئے آپ جہاں بھی جانا چاہتے ہیں پہلے با ادب اجازت طلب کیجئے۔ لاجپت رائے بولا دیکھئے محترمہ پرندوں کی حد تک آپ کی بات صحیح ہو سکتی ہے لیکن میں تو ایک انسان ہوں جس کے متعلق ڈارون کا خیال ہے کہ ۰۰۰۰۰۰۰نینسی نے جملہ کاٹ دیا آپ مجھے ڈارون کی مدد سے مرعوب کرنے کی کوشش نہ کریں اور یہ بتلائیں کہ کہاں ؟ اور کس سے ؟؟ اور کیوں ملنے جانا ہے ؟؟ ؟ لاجپت رائے سے کوئی پہلی مرتبہ اس طرح کے تحکمانہ انداز میں گفتگو کر رہا تھا لیکن اس کے باوجود حیرت کی بات یہ تھی کہ اسے نینسی پر غصہ نہیں آ رہا تھا۔ نینسی تھی ہی کچھ ایسی۔

لاجپت رائے نے مسکرا کر کہا مجھے وزیر تعلیم رگھوپتی سہائے سے ملنے کے لیے جانا ہے اس لئے کہ انہوں نے مجھے بلایا ہے۔ نینسی بولی کیا آپ جانتے ہیں کہ آپ کی یاد فرمائی کیوں ہوئی ہے ؟ لاجپت رائے بولا جی نہیں مجھے نہیں پتہ۔ نینسی بولی لیکن مجھے پتہ ہے خیر اب آپ جا سکتے ہیں۔ لاجپت رائے شکریہ ادا کر کے آگے بڑھ گیا۔ یہ ان دونوں کی پہلی ملاقات تھی۔ لاجپت رائے کو وزیر تعلیم نے بتلایا کہ اس کا تبادلہ عالمی بنک کے ہندوستانی شعبے میں کر دیا گیا ہے اور ایک ماہ کے اندر اسے نیویارک کے دفتر میں جا کر رجوع کرنا ہے۔ لاجپت رائے کے لیے یہ دوسرا جھٹکا تھا۔ وہ بولا جناب آپ مجھ کو اطلاع دے رہے ہیں یا حکم صادر فرما رہے ہیں۔ وزیر موصوف مسکرا کر بولے دونوں سمجھ لو۔ مجھے پتہ ہے کہ اس دفتر کا ماحول تمہاری طبیعت کو راس نہیں آ رہا ہے اور نہ آئے گا۔ اس لئے میں سوچتا ہوں کہ شاید تم وہیں جا کر اپنا اور عالمِ انسانیت کا کچھ بھلا کر دو۔ ویسے میں ایک بات بتلا دوں کہ وہاں تنخواہ ڈالر میں ملے گی میرا مطلب ہے جتنے روپئے یہاں اتنے ہی ڈالر وہاں اور تم تو جانتے ہی ہو کہ ایک ڈالر کے فی الحال ۴۰ روپئے بنتے ہیں۔

لاجپت رائے نے کہا وہ تو ٹھیک ہے صاحب لیکن خرچ بھی تو ڈالر میں ہو گا اس لئے بات برابر ہو گئی۔ وزیر جہاندیدہ انسان تھے وہ بولے لاجپت رائے تم ابھی نوجوان ہو اس لئے آمدنی اور خرچ کے چکر میں پڑے ہوئے ہم جیسے تجربہ کار لوگ بچت کو اہمیت دیتے ہیں۔ وہاں چونکہ بچت بھی ڈالرس میں ہو گی اس لئے یہاں پر اس کی قیمت چالیس گنا بڑھ جائے گی۔ لاجپت رائے نے کہا وہ تو اس وقت ہو گا کہ جب انسان کچھ بچائے اور اسے لے کر واپس آئے۔ میرا تو خیال ہے کہ وہاں نہ ہی کچھ بچتا ہے اور نہ کوئی وہاں سے لوٹ کے واپس آتا ہے۔ وزیر موصوف زچ ہو گئے انہوں نے کہا لاجپت رائے آخر تم چاہتے کیا ہو؟ اگر میں آج اس اسامی کا اعلان کر دوں تو اس کے دس دعویدار کھڑے ہو جائیں گے لیکن میں سوچتا ہوں کہ ان بدعنوان لوگوں کی بہ نسبت تم اس کے سب سے زیادہ مستحق ہو۔

لاجپت رائے نے کہا جناب ذرہ نوازی کا شکریہ لیکن میں اپنے ملک میں رہ کر اپنے عوام کی خدمت کرنا چاہتا ہوں۔ وزیر بولے دیکھو لاجپت رائے خدمت میں کوئی رنگ بھید نہیں ہوتا وہ زمان و مکان کی پابند نہیں ہوتی۔ انسان آخر انسان ہوتا ہے اور وہ جہاں بھی رہے اسے انسانوں کی خدمت کرنی چاہئے۔ ویسے تمہاری مرضی۔ لاجپت رائے شکریہ ادا کر کے باہر استقبالیہ میں آیا اور سر پکڑ کر بیٹھ گیا وزیر تعلیم کا وہ بے حد احترام کرتا تھا ان کے کسی مشورے یا ہدایت کو کبھی نہیں ٹھکراتا تھا لیکن اس بار انہوں نے اس کے سامنے ایک ایسی تجویز رکھ دی جس کو تسلیم کرنا اسے ناممکن لگ رہا تھا۔ وہ آنکھیں بند کر کے اپنے تاریک مستقبل کو دیکھ رہا تھا کہ اس کے کانوں میں ایک آواز ٹکرائی۔ کیوں جناب کیا سوچ رہے ہیں ؟ رائے صاحب آج پہلی مرتبہ اس قدر فکر مند نظر آ رہے ہیں خیریت تو ہے ؟یہ نینسی کی آواز تھی۔

لاجپت رائے نے ہنس کر کہا تم تو سب جانتی ہو پھر کیوں پوچھ رہی ہو؟ نینسی بولی میں یہ ضرور جانتی ہوں کہ تمہارے زیر غور تجویز کیا ہے ؟ لیکن یہ نہیں جانتی کہ اس میں ایسی پریشانی کی کون سی بات ہے جس پر انسان سر پکڑ کر بیٹھ جائے۔ لاجپت رائے پھٹ پڑا۔ وہ بولا کیا پریشانی کی کوئی بات نہیں۔ میرے لئے تو وہ کالے پانی کی سزا ہے۔ سات سمندر پار ایک ایسے دیس میں جہاں میں کسی کو نہیں جانتا۔ میں چلا جاؤں اور وہاں تنہا بس رہوں۔ بھئی یہ مجھ سے نہیں ہو گا ہر گز نہیں ہو گا۔ اپنے دل کی وہ بات جو لاجپت رائے وزیر تعلیم سے نہیں کہہ سکا اس نے نینسی کہہ دی۔ نینسی بولی تنہا! تنہا کیوں ؟ میں ہوں نا۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۔ میں ہوں نا؟ میں سمجھا نہیں لاجپت رائے نے کہا کیا تمہارا بھی تبادلہ ہو گیا ہے ؟ نینسی مسکرا کر بولی کیا تبادلہ ہونا ضروری ہے ؟ لاجپت رائے کی سمجھ میں نہیں آیا کہ بغیر تبادلے کہ یہ عورت کیونکر نیویارک جا سکتی ہے ؟ اس نے اپنے دفتر میں آنے کے بعد نیویارک جانے سے انکار کر دیا۔

لاجپت رائے کی آنکھ کھلی تو اس کے کانوں میں نینسی کے الفاظ گونج رہے تھے۔ ’’میں ہوں نا‘‘ اسے حیرت تھی کہ اس معمہ اس کو سلجھانے میں اس نے اس قدر طویل وقت صرف کر دیا۔ سچ تو یہ ہے کہ اس نے اس پر کبھی سنجیدگی سے غور ہی نہیں کیا تھا۔ حالات اس قدر تیزی سے بدلے کے ایک سال کے اندر اس کی لاجونتی سے شادی ہو گئی اسی کے ساتھ نینسی نے ملازمت کو خیرباد کر دیا۔ پھر اس کے بعد یہ ہوا کہ لاجونتی بھی اس کی زندگی کو خزاں رسیدہ کر کے رخصت ہو گئی۔ اسی کے ساتھ وہ اپنے ماضی سے بیزار ہو گیا۔ اب اس نے پیچھے مڑ کر دیکھنا چھوڑ دیا اور آگے ہی آگے بڑھتا چلا گیا۔ یہاں تک ایک ہفتہ قبل آکاش کے گھر پر اس کی ملاقات اپنے ماضی سے ہو گئی اور اب وہ ماضی مستقبل بن کر اس کی آنکھ میں کھٹکنے لگا۔ لاجپت رائے نے اقوام متحدہ کی تجویز کو نینسی مشروط کر دیا۔ اگر وہ اب بھی اپنے ’’میں ہوں نا ‘‘ کے وچن پر قائم ہو گی تو وہ اسے قبول کر لے گا ورنہ ٹھکرا دے گا۔

کانفرنس کے ختم ہو جانے کے بعد شرکاء کے لیے کم از کم ایک ہفتہ وہاں رک کر سیر و تفریح کا موقع تھا۔ ہندوستانی سفارتخانے نے اپنے مندوبین کے لیے ایک خصوصی عشائیہ کا اہتمام کیا تھا اور اعلان کر دیا کہ جو بھی یوروپ کے کسی بھی ملک کی سیر کرنا چاہتا ہے ، سرکاری خرچ پر اس کا اہتمام کیا جا سکتا ہے۔ رجنی کو آکاش کے ساتھ اٹلی اور روم کے سفر کی دعوت موصول ہو گئی اس سفر کے سارے اخراجات لارسنس نے اپنے ذمہ لے لئے تھے۔

٭٭٭

تشکر: مصنف جن سے اس کی فائل فراہم ہوئی۔

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید