FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

فہرست مضامین

نقدِ فن

 

(پاکستان کی معتبر ادبی شخصیات کے حوالے سے تنقیدی شذرات کا مخزن )

 

حصہ دوم

 

 

 

               شبیر ناقِدؔ

 

 

 

 

سعید الظفرؔ صدیقی کی شگفتہ شاعری

 

صانعِ لوح و قلم کے الطاف و اکرام کا مجھ مشتِ خاک پر سلسلہ دراز رہا ہے جس کے باعث جہانِ ادب کے قلزمِ بیکراں کی غواصی کے بھر پور مواقع میسر آئے ہیں اور فکرو فن کے گوشوں کی تخلیقی و تنقیدی اور تحقیقی انداز میں سیر ہو کر سیر کی ہے مجھے میرے آموزگارِ ادب  ابو الیبان ظہور احمد فاتحؔ نے یہی سکھایا کہ ادب کی خدمت ایک عبادت ہے اور عبادت میں احساسِ سودو زیاں نہیں ہوتا فکر کے اس بسیط انداز نے مجھے شعرو ادب کی خدمت کا بے لوث جذبہ ودیعت فرمایا جو ہستیاں اس قسم کے احساسات سے سر شار ہوں وہ نمود و نمائش، شہرت و مقبولیت سے بے نیاز ہو کر گلشنِ شعرو ادب کی آبیاری خلوص و لگن سے کیا کرتی ہیں ایسی ہی اعلیٰ و ارفع خصوصیات سے متصف ہستیوں میں سعید الظفرؔ صدیقی کا شمار بھی ہوتا ہے جنہوں نے پور ے جوش و جذبے اور تندہی سے کشتِ سخن کو اپنی جانفشانی سے سینچا ہے بقول راقم الحروف    ؎

ہے کشتِ سخن ہم نے سینچی لہو سے

فقط فخر ہے اور شکایت نہیں ہے

ان کی فکری اُپچ عمومی شعری اظہار کی ڈگر سے ہٹ کر ہے جس میں برجستگی اور شگفتگی کا غالب عنصر پایا جاتا ہے ان کی شگفتہ مزاجی قاری کو چونکا دینے کی صلاحیت رکھتی ہے جس کے باعث وہ ورطۂ حیرت میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ ان کے ہاں الفاظ و خیالات کا تکراری پہلو معدوم ہے اور کسی قسم کی یکسانیت کا گماں نہیں گزرتا۔ وہ ایک کہنہ مشق اور قادر الکلام شاعر ہیں جن کی عرق ریزی مصرع در مصرع،  شعر در شعر اور غزل در غزل بین السطور ٹپک رہی ہے۔ وہ ایک عرصہ سے مصروفِ ریاض ہیں جن کے ابھی تک چار شعری مجموعے منصہ شہود پر آ چکے ہیں جن میں ’’غبارِ راہ میں ہے‘‘ مطبوعہ 1997ء ’’جنوں پہ ہے بہار‘‘ مطبوعہ 1999ء ’’مہر بلب ہونے تک‘‘ مطبوعہ 2008ء اور ’’چوٹ دل کو دکھاتی نہیں ہے‘‘ مطبوعہ 2011ء شامل ہیں۔ میں ان کے مؤخر الذکر مجموعۂ کلام کے ربع اوّل کی منتخب غزلیات کے منتخب اشعار مذکورہ موضوع کے تناظر میں شاملِ تجزیہ کرتا ہوں۔ کتابِ ہٰذا کے حوالے سے ڈاکٹر سلیم اختر،  عارف منصورؔ،  جاوید رسول جوہرؔ،  شاعر علی شاعرؔ اور نازیہ ممتاز ملک کے وقیع القدر شذرات مشمولات کا حصہ ہیں۔ شاعرِ ممدوح کثیر الجہات شخصیت کے حامل ہیں۔ انہوں نے شعرو سخن کی ریاضت کے پہلو بہ پہلو نثر نگاری میں بھی گراں قدر خدمات سر انجام دی ہیں۔ علاوہ ازیں وہ سائنس کے زیورِ تعلیم سے آراستہ ہیں۔ ان کی ایک حیثیت کیمیا دان کی سی بھی ہے۔ ادبی جریدہ ’’عالمی رنگِ ادب‘‘ کے سرپرست اور موحولیات کے موضوع پر شائع ہونے والے رسالے کے کالم نگار اور بائیو آملہ کمپنی کے ریسرچ ڈائریکٹر بھی ہیں۔ بنیادی اور مستقل طور پر ان کا تعلق کراچی سے ہے۔ اس کے علاوہ انہیں بھارت،  ناروے،  فرانس،  جرمنی،  دبئی،  ابو ظہبی اور ترکی جانے کے مواقع بھی میسر آئے، جس کے باعث ان کے تجربات و مشاہدات میں بے پناہ اضافہ ہوا۔

ان کے کلام میں شگفتگی کے پہلو بہ پہلو تحیر کا عنصر بھی وفور سے پایا جاتا ہے جو قاری کو بے ساختہ طور پر متوجہ کرانے کی صلاحیت سے مالا مال ہے جس کی وجہ سے وہ بسا اوقات سراپا سوال نظر آتے ہیں ان کی تلوّن مزاجی نئے نئے موضوعات کے در کھولتی نظر آتی ہے ان کے فکری کینوس میں بہت سے انسانی مصائب و آلام اور ان کا مداوا موجود ہے ان کی اولین غزل کے چار اشعار زیبِ قرطاس ہیں جن میں شگفتگی کا تاثر بھر پور نوعیت کا ہے    ؎

سایہ کہیں کسی کو میسر نہیں ہے کیا؟

سر پر جو آسمان تھا سر پر نہیں ہے کیا؟

اک دوسرے سے اپنا پتا پوچھتے ہیں لوگ

اب کوئی اپنے آپ کے اندر نہیں ہے کیا؟

ہم زندگی ترے لیے جاں سے گزر گئے

اب بھی ترا حساب برابر نہیں ہے کیا؟

اس دورِ ناسپاس کا ہونے سے تو سعیدؔ

مٹی میں ڈوب جائیں یہ بہتر نہیں ہے کیا؟

ان کے ہاں حیات و کائنات کے حوالے سے ایک مسلسل جستجو کا تاثر بھی ملتا ہے ان کا استفہامیہ انداز انسان کو سوچنے اور غورکرنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ جدید نوعیت کی اصطلاحیں بھی ہیں جیسا کہ متاثرہ بالا شعر میں مٹی میں ڈوب جانے کی اصطلاح برپائی گئی ہے ان کی شعری شگفتگی کا یہ عالم ہے کہ ان کے ہاں مکانی آشوب کی یکسر تردید ملتی ہے ان کا اظہار زیادہ تر داخلی نوعیت کا ہے وہ حزن و الم کو مشیت سے منسوب کرتے ہیں۔ مسئلہ جبر کی ایک جھلک ان کی غزل کے ایک شعر میں دیکھتے ہیں   ؎

زمیں پر اور کوئی دکھ نہیں ہے

بلائے آسمانی کے علاوہ

تخیلائی حوالے سے انہوں نے زیادہ تر توجہ داخلی امور پر مرکوز کی ہوئی ہے۔ ان کی سوچ کا سفر خارج سے شروع ہوتا ہے اور داخل کی بسیط گہرائیوں پر منتج ہوتا ہے۔ وہ عمومی خواہشات و توقعات اور خواب و خیال سے ماورا ہیں ، جس کے باعث ان کے تخیل کی شگفتگی کو مزید تقویت ملی ہے۔ ان کی ایک غزل کے دو اشعار انھی حوالوں سے لائقِ التفات ہیں   ؎

ہمیں تو دل کے اندر جھانکنا ہے

یہ چہرے دیکھنا کافی نہیں ہے

جسے ہیں لوگ آنکھوں میں سجائے

وہ ہم نے خواب دیکھا ہی نہیں ہے

وہ اپنی من موجی طبیعت کے باعث اور فطری شگفتگی کے علی الرغم کبھی رہنِ  یاس نہیں ہوتے ان کی زندہ دلی اُن کے لئے جشنِ کاسماں پیدا کرتی رہتی ہے اپنی روایات انہیں بہت عزیز ہیں اور وہ دنیا میں ان کی پاس داری کرتے ہیں۔ اس لیے وہ فعال بھی نظر آتے ہیں اگر انہیں روایت کا بھگت کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا اسی نسبت سے اُن کی غزل کے دو اشعار دامنِ دل تھامتے نظر آتے ہیں   ؎

کچھ نہیں ہے تو ہنسی اپنی اُڑائیں چلیے

اس بہانے ہی کوئی جشن منائیں چلیے

گر زمانے کو کچھ احساس نہیں ہے نہ سہی

ہم تو جو اپنی روایت ہے نبھائیں چلیے

انہوں نے سماجی روئیوں کی حقیقتوں کو آشکار کرنے کی زبردست کاوشیں کی ہیں جو ایک حقیقی تخلیق کار کا فرضِ منصبی ہے بالواسطہ طور پر ایک اصلاح،  ایک تبلیغ اور مشن بھی ہے یہ امر جہاں ان کی شگفتہ مزاجی کا مظہر ہے وہاں ان کے تنقیدی روئیوں کا مثیل بھی ہے، وہ سماج کے مصائب پر کڑی نگاہ رکھتے ہیں ، جن کے اظہار میں کسی نوع کے بخل سے کام نہیں لیتے، اسی نوعیت کا ان کی غزل کا ایک شعر دیدنی ہے    ؎

بنامِ ممبر و محراب،  واعظ

کبھی جبہ، کبھی دستار مانگے

اُن کی شعری شگفتگی قاری کے لیے نگہت بیز بھی ہے جس کے باعث لبوں پر بے ساختہ تبسم مچلنے لگتا ہے کہیں کہیں ان کا اظہار ظرافت کا حسیں روپ دھار لیتا ہے کہیں شکوہ و شکایت کی حکایت ہے تو کہیں عمیق رجائی امکانات ہیں جن سے بے پناہ عزم و حوصلہ جھانکتا ہوا دکھائی دیتا ہے وہ اپنی منکسر المزاجی کے ساتھ ساتھ سماج کے غرور کو بھی بین السطور لاتے ہیں۔

ان کی غزل کے چھ اشعار قارئین شعرو سخن کے ذوقِ طبع کی نذر ہیں   ؎

 

کسی کے ساتھ سفر میں نہ اپنے گھر میں ہیں

ہم آج آپ کے اخبار کی خبر میں ہیں

نہ اہتمامِ وفا نہ سرفروشیِ عشق

یہ کس قماش کے سودے ہمارے سر میں ہیں

یہ زندگی سے کہو تلخ گفتگو نہ کرے

ہم اب بھی ان کی محبت بھری نظر میں ہیں

 

 

جو تندو تیز ہواؤں کو زیرِ پا رکھیں

وہ حوصلے بھی ابھی بال و پر میں ہیں

ہم اب بھی خواب سویروں کے دیکھتے ہیں بہت

ہم اب بھی اپنی تمناؤں کے اثر میں ہیں

ہمارے عجز کو شاید ابھی وہ نہ سمجھے

ابھی وہ اپنی خدائی کے کروفر میں ہیں

 

سعید الظفرؔ صدیقی کی شگفتہ مزاجی کی مثیل ایک غزل بدونِ تبصرہ پیشِ خدمت ہے    ؎

 

کچھ بتاؤ تو سہی یہ واقعہ کیسے ہوا؟

تھا جو پتھر کا پجاری دیوتا کیسے ہوا؟

لوگ تو توبہ کے طالب آخری دم تک رہے

وہ فقط گنگا نہا کے پارسا کیسے ہوا؟

راستوں میں تو رہا ہو گا ہجومِ رفتگاں

پھر تمہارا خود سے اپنا سامنا کیسے ہوا؟

تم نشانہ باز تو سچے تھے پھر میری طرف

جو نشانہ تم نے باندھا تھا خطا کیسے ہوا؟

 

مشمولہ استخراجات سے یہ حقیقت اظہر من الشمس ہوتی ہے کہ سعید الظفرؔ صدیقی کا کلام اپنے جلو میں بے انت شگفتگیاں سمیٹے ہوئے ہے اور یہی امر انہیں دیگر ہم عصر شعر اسے ممتاز و ممیز کرتا ہے۔

٭٭

 

 

 

 

سعید سوہیہ… مضمون نگاری کے تناظر میں

 

مضمون نگاری ایک عمیق وبسیط فن ہے جو بیک وقت ایک تخلیقی، تنقیدی، تحقیقی اور وجدانی عمل ہے۔ اس کی مقتضیات میں عقل و بصیرت، دانش و حکمت، فہم و ذکاوت، بالیدہ فکری، مہارتِ فن، معائب و محاسن کا بیان، عصری ادراکات، علمِ تاریخ، توازن اور استخراجی نتائج شامل ہیں۔ مضمون نگاری کی مبادیات میں موضوع کا انتخاب، موضوع کی اہمیت و افادیت اور موضوع کی مکمل پاس داری شرط ہے۔ اس کے فنی معروضات میں یہ امر انتہائی ناگزیر ہے کہ مضمون کا ابتدائیہ، وسطانیہ اور اختتامیہ بھرپور، جان دار اور وقیع ہو۔ اسلوبیاتی حوالے سے لایعنی الفاظ و خیالات جس سے اسلوب کے سپاٹ ہونے کا قوی اندیشہ ہو، سے گریز لازم ہے۔ طرزِ اظہار منطقی اور استدلالی نوعیت کا ہونا چاہیے۔ ایک مضمون نگار کے اندر مذکورہ فکری و فنی خصائص کے پہلو بہ پہلو علم و ادب سے وسیع دلچسپی، صنائع بدائع اور رموز وقائع کا زبردست شعور ہونا چاہیے، جس سے علمِ بیان، علمِ معانی، فصاحت و بلاغت اور اختصار و جامعیت سے عہدہ برا ہوسکے۔ مذکورہ بالا تمہید ان تاثرات کا نتیجہ ہے جو سعید سوہیہ کے مضامین کے مجموعہ مطبوعہ 2012ء ’’مضامینِ سعید‘‘ کے غائرانہ مطالعہ کے بعد اقلیمِ خرد پر وارد ہوئے۔ سعید سوہیہ اپنے ہم عصر ادباء کے ساتھ ساتھ پہچان بنانے کے ابتدائی مرحلے سے گزر رہے ہیں۔ ان کا ارتقائی سفر حوصلہ افزا، اور طمانیت بخش ہے۔ موصوف پیشہ کے اعتبار سے وکیل ہیں۔ اس لیے کائنات و حیات کو حقیقت پسندانہ نگاہ سے دیکھتے ہیں اور بحرِ استدلات کے بحر کے شناور ہیں۔ مذکورہ کتاب کا انتساب اور مزاج ترقی پسند سوچ کا آئینہ دار ہے جس کا سبب دبستانِ خیالؔ سے ان کی گہری وابستگی اور فکری ہم آہنگی ہے۔ اس کے پہلو بہ پہلو جسارتؔ خیالی کی صحبت کا فیض بھی شامل ہے۔ ’’مضامینِ سعید‘‘ میں کل بیس مضامین شامل ہیں جو مقامی، ملکی اور بین الاقوامی ادبی اور سماجی نوعیت کے حامل ہیں۔ شذرہ ہذا میں ہم اُن کے چار منتخب مضامین کا فکری و فنی تجزیہ پیش کرنے کی سعیِ جمیل کرتے ہیں جو مذکورہ مجموعہ کا مجموعی طور پر خمس قرار پاتا ہے۔ تنقیدی اکائی کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اور قاری کی طبعِ نازک کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے طولِ بیاں سے گریز مطلوب ہے تاکہ قاری کی سعید سوہیہ کے مضامین سے دلچسپی برقرار رہے۔

’’فکرِ اقبال‘‘ کتابِ ہٰذا کا اوّلین مضمون ہے جس میں اقبال اور فکرِ اقبال پر روشنی پڑتی ہے۔ اقبال کی مقبولیت اور پسندیدگی کا جائزہ عالمی تناظر میں لیا گیا ہے۔ اس سے متعلق تمام اسباب و علل کو عند البیان سمویا گیا ہے۔ اقبالیاتی حوالے سے اجمالی تحقیقی کاوشوں کا مذکور بھی ہے۔ علاوہ ازیں پاکستان میں اقبال کے سراہے جانے کے انداز کو بھی بیان کیا گیا ہے۔ عصری حوالوں سے بھی اقبال کی اہمیت اجاگر کیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں عہدِ اقبال کے کردار کو بھی واضح کیا گیا ہے۔ اقبالیات کے متعلق عمیق و بسیط آراء بھی بین السطور موجود ہیں۔ اُمتِ مسلمہ کے حوالے سے اقبال کے افکار اور ہمدردیوں کا ذکرِ خیر بھی ہے۔ مختصر مگر جامع انداز میں اقبال کی علمی و ادبی بصیرت کو واضح کرنے کی ایک عمدہ کوشش کی گئی ہے اور قارئین کے لیے اقبال فہمی کے باب وا کرنے کی جسارت کی گئی ہے۔ مجموعی طور پر انتہائی عمدہ مضمون ہے جو بالیدہ فکری کے اعتبار سے اعلیٰ و ارفع مضامین کی فہرست میں شامل ہونے کا استحقاق رکھتا ہے۔ زبان و بیان کا معیار بھی عمدگی کا غماز ہے۔

کتاب کی ترتیب کے اعتبار سے پانچواں مضمون، ساحرؔ لدھیانوی کا صوفیانہ کلام ہے۔ متذکرہ موضوع سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ سعید سوہیہ موضوع کے انتخاب میں عمیق احتیاط کے قائل ہیں۔ عمومی طور پر ایسے موضوعات پر خامہ فرسائی کرتے ہیں جن پر قبل ازیں کام نہ ہوا ہو، یا بہت ہی کم ہوا ہو۔ یہی سبب ہے کہ ان کا موضوعاتی کینوس جاذبیت کی دولت سے مالا مال ہے۔ ساحرؔ لدھیانوی کی شاعری کے صوفیانہ تناظر میں معدودے چند ناقدانِ سخن نے دھیان دھرا ہے جب کہ ان کے کلام کے دیگر موضوعات کے حوالے سے بہت کچھ کام ہوا ہے کیونکہ ہمارے سماج اور دنیائے ادب کا ایک بہت بڑا فکری المیہ یہ ہے کہ جس شخص نے عملی طور پر مذہبی اور صوفیانہ انداز میں زندگی گزاری ہو تو اُسے اس تناظر میں دیکھا جاتا ہے۔ اگر کسی بھی شاعر، ادیب، نقاد یا دانشور کا اس سلسلے میں صرف فکری یا نظریاتی نوعیت کا کام ہو تو اسے اتنا قابلِ اعتنا نہیں سمجھا جاتا۔ لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمیں اپنی انتقادیات میں انقلابی اور حیرت انگیز نوعیت کی تبدیلیاں لانی ہوں گی۔ متذکرہ مضمون کے آغاز میں شعراء کے خصوصی فکری گوشوں کی انتہائی سرسری انداز میں صراحت کی گئی ہے۔ اس معاملے کو قاری کی ذہنی طمانیت کا سبب گردانا گیا جو امرِ واقعہ ہے جس سے شاعر کی منفرد شہرت و مقبولیت کے باب وا ہوتے ہیں۔ فکری اعتبار سے صوفیانہ اور ترقی پسند طرز کے افکار اس مضمون میں انتہائی کامیابی سے پہلو بہ پہلو چلتے ہیں جس سے سعید سوہیہ کی فنی چابکدستی کی غمازی ہوتی ہے۔ مذکورہ شذرہ میں ساحر لدھیانوی کا صوفیانہ اور ترقی پسندانہ طرزِ فکر کا حامل کلام بھی بطور استشہادات شامل کیا گیا ہے۔ مضمون کا اختتام تصوف کا جائزہ برصغیر پاک و ہند کی سطح پر انتہائی مختصر مگر جامع انداز میں کیا گیا ہے جس میں قاری کی نفسیاتی انداز میں پاس داری کی گئی ہے۔ موضوعاتی اور اسلوبیاتی اعتبار سے یہ ایک وقیع انداز کا مضمون ہے۔

اُن کا ایک اور مضمون ’’پہاڑ پور کی علمی و ادبی رونق جسارتؔ خیالی کے عنوان سے ہے۔ ان کا یہ مضمون فہرست کے لحاظ سے نویں نمبر پرہے جس میں ملک کے معروف نقاد و شاعر جسارتؔ خیالی کے ادبی کاموں کے تناظر میں ان کا مقام و مرتبہ واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے جس میں ڈاکٹر خیالؔ امروہوی اور خیالؔ اکیڈمی کے دیگر احباب کا ذکرِ خیر بھی ہے۔ اس مضمون کا آغاز جسارتؔ خیالی کے طبعی اور فکری تعارف سے انتہائی وقیع انداز میں ہوا ہے۔ بعد ازیں جسارتؔ خیالی کے ادبی کارناموں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ مستقبل میں ان کے ادبی ارادوں کی جانکاری بھی مضمونِ ہٰذا کا حصہ ہے۔ اس شذرہ کے اختتام پر جسارتؔ خیالی کے ادبی مقام و مرتبہ کو لیہ کے ادبی تناظر میں دیکھا گیا ہے جس کے باعث اس مضمون کی مقبولیت کے گراف میں کمی آئی ہے۔ اگر اسے ملکی سطح پر اجاگر کرنے کی کوشش کی جاتی تو مضمون کا معیار دوچند ہوسکتا تھا۔

کتابِ ہٰذا کا چودھواں مضمون ’’ناصرؔ ملک بطور ادیب و شاعر‘‘ ہے جس کے آغاز میں لیہ کی ادبی حقیقت و اہمیت کو موضوعِ بحث بنایا گیا ہے۔ بعدازیں لیہ کے دو جلیل القدر شعرا، نسیم ؔلیہ، خیالؔ امروہوی اور ان کے تلامذہ کا مذکور ہے چونکہ ناصرؔ ملک کا شمار ڈاکٹر خیالؔ امروہوی کے تلامذہ میں ہوتا ہے اس لیے ان کا مذکور کلیدی حوالے کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس مضمون کے تیسرے پیراگراف میں ناصرؔ ملک کے تعارف کا باضابطہ آغاز ہوتا ہے جس میں ان کے ادبی ارتقا کے سفر کو چوک اعظم سے ہوتا ہوا پھر لیہ اور بین الاقوامی ادبی افق پر دکھایا گیا ہے۔ اس مضمون میں ناصرؔ ملک کے علمی و ادبی کارناموں کا مجموعی طور پر احاطہ کیا گیا ہے۔ مختلف موضوعات کی تصریحات کے طور پر اُن کے منتخب اشعار بھی شامل کیے گئے ہیں۔ اس مضمون کا اختتام ناصرؔ ملک کے فن اور شخصیت کے حوالے سے استخراجی نوعیت کی رائے کی بجائے ان کے چند اشعار پر کر دیا گیا ہے۔

انتقادی نقطۂ فکر کے اعتبار سے اگر دیکھا جائے تو ان کے مضامین موضوعاتی اعتبار سے تین درجات میں منقسم کیے جا سکتے ہیں۔ اولاً کچھ مضامین ایسے ہیں جو مقامی، ادبی اور سماجی اہمیت کے حامل ہیں۔ دوسرے درجے میں وہ مضامین ہیں جن کے افکار برصغیر پاک و ہند کے تناظر میں ہیں۔ تیسرے درجے میں وہ مضامین شامل ہیں جو بین الاقوامی ادبی، سماجی اور سیاسی اہمیت کے حامل ہیں۔ مضامین کی درجہ بندی اس اعتبار سے کی گئی ہے جس تناسب سے اس کتاب میں شامل کیے گئے ہیں۔ پہلے نمبر پر اوّل الذکر درجے کے مضامین ہیں۔ اس کے بعد دوسرے اور تیسرے درجوں کا نمبر آتا ہے۔ اس کتاب کے حوالے سے کتاب کے پسِ ورق پر سہیل ثاقب کے انتہائی وقیع اور پُرمغز تاثرات ثبت ہیں۔ وہ کچھ یوں رقم طراز ہیں۔

’’مضامینِ سعید‘‘ بھرپور مطالعہ بخش کتاب ہے جس میں فاضل مصنف جناب سعید سوہیہ جو شائستہ بیاں قلم کار ہونے کے ساتھ ساتھ پروفیشنل وکیل بھی ہیں جنہوں نے زندگی اور زندگی سے لپٹے ہوئے مسائل کو بڑے قریب سے دیکھ رکھا ہے، نے اپنی فطری ادب دوستی کے جلو میں رقم کیا ہے اور جس موضوع کو زیرِ بحث لایا ہے اس سے عمدگی کے ساتھ انصاف کیا ہے۔

مذکورہ تصریحات میں اس امر کے قوی امکانات ہیں کہ سعید سوہیہ کے فکری و فنی ارتقا کا سفر حوصلہ افزا اور اطمینان بخش ہے۔ عمومی مشاہدے کے اعتبار سے کسی بھی تخلیق کار کی ابتدائی کاوش کا اتنا عمدہ معیار ہونا انتہائی حیرت انگیز امر ہے۔ عام طور پر پہلی تصنیف کا یہ معیار نہیں ہوتا جو سعید سوہیہ کے ہاں کارفرما ہے۔ جوں جوں ان کی خامہ فرسائیوں کا سفر آگے بڑھے گا، مشاطگیِ فکر و فن میں ندرت و بلاغت کے مظاہر آشکار ہوں گے۔ بقول ابوالبیان ظہور احمد فاتحؔ    ؎

نقشِ اوّل دیکھ آئے نقشِ ثانی دیکھنا

بہرحال سعید سوہیہ کی یہ کاوش اس قدر وقیع ہے کہ اسے پڑھا جائے اور سراہا جائے۔ کتابِ ہذا کے مطالعہ سے قاری کی کتاب دوستی کو تقویت ملتی ہے۔ صانعِ لوح و قلم سے استدعا ہے کہ ان کے فکر و فن کو افزودگی اور دوام سے نوازے۔ آمین

٭٭٭

 

 

 

 

 شاعر علی شاعرؔ … اقلیمِ غزل کی آبرو

 

غزل اُردو ادب کی محبوب ترین صفِ سخن ہے جو شعری تاریخ کے ہر عہد میں تندرست و توانا رہی ہے، اگرچہ ابتدائے آفرینش میں اسے تنگیِ داماں کی شکایت رہی مگر آہستہ آہستہ اس کا دامن وسیع تر ہوتا چلا گیا۔ اپنے ارتقاء کے باعث اب یہ محدودیت کے دائرے سے نکل کر  لامحدودیت سے ہم آغوش ہو چکی ہے۔ شذرہ ہٰذا میں ہم شاعر علی شاعرؔ کی غزل گوئی کے حوالے سے رقمطراز ہیں جو غزل سے والہانہ محبت رکھتے ہیں ، جن کی غزل تخلیقی اعتبار سے وسعتوں کی حامل ہے جو سو اشعار سے بھی تجاوز کر جاتی ہے، ان کا رہوارِ قلم تندو تیز ہے کہ جلد اس کا تھم جانا محال ہے۔ ان کی فنی نکتہ سنجی کا یہ عالم ہے کہ غزل چاہے پچیس اشعار کی ہو، یا پچاس اشعار کی ایک قافیے کو ایک غزل میں ایک بار در آنے کی جسارت ہوتی ہے، ان کی غزل میں موضوعات کے عمیق و بسیط دنیا آباد ہے۔ حیات و کائنات کے اکثر و بیشتر فلسفے جلوہ نما نظر آئے ہیں۔ ان کی غزل کے فکری و فنی خصائص میں داخلی و خارجی اظہار،  عصری آشوب،  فکری ندرت،  عمیق رومانیت،  جمالیاتی اقدار کا فروغ،  رجائی امکانات ،  عملی تجربات و مشاہدات کی جھلک ،  کتھارس کی اہمیت،  شعری پُر اسراریت،  بے ثباتیِ حیات،  فکری انقلاب،  دور اندیشی،  زمانہ شناسی،  ادراکِ زیست،  تلخ حقائق،  خود انحصاری کا شعور،  انسان دوستی،  پند و موعظت،  فکرو فلسفہ کی کار فرمائی،  کائناتی حقیقتوں کی بازیافت ،  حق گوئی و بے باکی،  احساسِ پندارِ انا،  ذاتی و کائناتی ادراکات کا شعور،  عرفان و آگہی،  فکری ہمہ گیری،  تخلیقی امکانات،  نادر النظیر قوافی اور ردیفوں کا استعمال،  منظر نگاری،  معاملہ بندی،  مکالمہ آرائی، تعلیاتی شواہد،  صنعتِ ایہام کا خوب صورت اہتمام  اور عروضی تلازمات کے فطری التزام کے کوائف پائے جاتے ہیں۔

شاعر علی شاعرؔ جنہیں سراپا شاعر کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا، وہ اسمِ بامسمی ہیں۔ ادبی حوالے سے ہمہ جہت شخصیت کے مالک ہیں۔ انہوں نے نظم و نثر کی اکثر و بیشتر اصناف میں انتہائی دل جمعی سے کام کیا ہے۔ وہ منزلِ شعرو ادب کے اَن تھک راہی ہیں جو خلوص،  ریاضت اور لگن کے اصولِ ثلاثہ پر عمل پیرا ہیں۔ ان کی بسیار گوئی کا عالم یہ ہے کہ عمرِ عزیز کے ۴۷ سالوں میں ۱۱۰(ایک سو دس) سے زائد شعری و نثری کتب منصۂ شہود پر لا چکے ہیں۔ علاوہ ازیں بین الاقوامی نوعیت کے حامل سہ ماہی جریدے ’’عالمی رنگِ ادب‘‘ جو کراچی سے نکلتا ہے کی ادارت بھی کر رہے ہیں۔ انہوں نے انواع و اقسام کے ادبی کام شروع کئے ہوئے ہیں۔ وقتاً فوقتاً شعری انتخابات کا اہتمام بھی کرتے رہتے ہیں۔ ملک کے طول و عرض اور بیرونِ ملک رہنے والے شعراء کو متعارف کرنے کا بیڑا بھی انہوں نے اٹھایا ہوا ہے۔ اگرچہ بظاہر ان پر متانت و سنجیدگی کی چھاپ ہے مگر خلوص و مروت کی دولت سے مالا مال ہیں۔ ادب کی خدمت اور دوستوں سے موانست میں روحانی آسودگی محسوس کرتے ہیں۔ شذرہ ہٰذا میں ہم ان کے شعری مجموعہ ’’ غزل پہلی محبت ہے‘‘ مطبوعہ جولائی 2011ء کی اوّلین چار غزلیات کے منتخب اشعار شاملِ تجزیہ کرتے ہیں۔ مذکورہ مجموعہ کا نام ہی ان کی غزل سے گہری محبت کا غماز ہے۔ کتابِ ہٰذا میں تمام تر طویل غزلیات شامل ہیں۔ اس مجموعے کے حوالے سے بر صغیر پاک و ہند کے چالیس سے زائد شعر اء و ادباء کی آراء بھی اس کتاب کا حصہ ہیں ، جس سے شاعر علی شاعرؔ کے ادبی قد و قامت کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔

شاعر علی شاعرؔ کے ہاں داخلی و خارجی اظہار کی یکساں تمثیلات ہیں۔ گویا ان کا تخیل داخلیت و خارجیت کا حسیں امتزاج ہے۔ ان کا کلام عصرِ حاضر کا خوب صورت ترجمان ہے۔ انہوں نے اپنے عہد کی انتہائی عمدگی کے پیرائے میں عکاسی کی ہے، جس میں عکسِ دوراں انتہائی صاف اور شفاف دکھائی دیتا ہے۔ ان کے شعری مخزن میں عصری آشوب کے بھر پور شواہد ملتے ہیں ، جس میں عصرِ حاضر کی دہشتوں ،  ظلمتوں اور آشوب زدگیوں کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔ ان کی قوتِ متخیلہ عمیق رومانیت کی غماز ہے، جس میں معاملہ بندی کی صنعت ایک شانِ دل آویزی کے ساتھ پائی جاتی ہے، جس میں وصال کی آسودگی کے پہلو بہ پہلو ایک کرب کی کیفیت بھی موجود ہے، جہاں جمالیاتی احساسات کے ساتھ ساتھ جمالیاتی اقدار کی حسین پاس داری ملتی ہے، اسی نسبت سے ان کی ایک طویل غزل کے دس منتخب اشعار جو مجموعی طور پر غزل کا ایک خمس بنتا ہے، قارئینِ شعر و سخن کی نذر ہے   ؎

دل میں سو ڈر جاگ رہے ہیں

جب سے کچھ شر جاگ رہے ہیں

کیسا خوف نے ڈیرا ڈالا؟

ہم تم شب بھر جاگ رہے ہیں

کس شئے کے مٹنے کا ڈر ہے؟

رہزن، رہبر جاگ رہے ہیں

تجھ بن کیسے زندہ رہیں گے؟

تجھ کو پا کر جاگ رہے ہیں

شاید چھت پر سویا ہے وہ

ماہ و اختر جاگ رہے ہیں

جاگتے تھے مظلوم بھی کل تک

آج ستم گر جاگ رہے ہیں

تیری جھلک پانے کی خاطر

حسن کے خوگر جاگ رہے ہیں

ناری سو گئی چین سے لیکن

اُس کے زیور جاگ رہے ہیں

اُس سے ملنے کیسے جاؤں ؟

نوکر چاکر جاگ رہے ہیں

دیکھ کے اُس کا جوبن شاعرؔ

آنکھ کے منظر جاگ رہے ہیں

آپ نے مشاہدہ کیا کہ انہوں نے سہلِ ممتنع کے رنگ میں ایک انتہائی مختصر بحر کو کتنی چابکدستی سے نبھایا ہے جو ان کی مشاطگیِ سخن کا اعجاز ہے۔ ان کے فکرو فن کا معیار یہ ہے کہ ان کے ہاں بھرتی کے اشعار تو بعید از قیاس معاملہ ہے ان کے شعری کینوس میں بھرتی کے الفاظ بھی معدوم ہیں ان کا ایک ایک لفظ جچا تلا اور بر موقع ہے، جہاں نہ ان کے شبدوں کے تغیر و تبدل کی گنجائش ہے، نہ ان کے مقامات میں تبدیلی کا امکان موجود ہے، جہاں تعقیدِ لفظی کا پورا اہتمام نہیں ملتا ہے۔ یہ امر فکری و فنی اعتبار سے کسی بھی سخنور کا کمالِ فن ہوا کرتا ہے جس سے ان کے لسانی تبحر اور زبان و بیان کے معیار کا اندازہ ہوتا ہے۔ مصرع در مصرع ،  شعر در شعر، غزل در غزل بین السطور ایک نادرہ کاری کا احساس ملتا ہے۔ شاعر علی شاعرؔ کے اظہار کی سب سے بڑی سچائی یہ ہے کہ انہوں نے اپنے اسلوب کو دقیقہ سنجی کے جھمیلوں سے مبرا و ماورا رکھا ہے اور ان کی یہ کاوش فطری نوعیت کی ہے مگر اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ وہ شوکتِ الفاظ کے قائل نہیں کہیں کہیں فطری انداز میں ان کے اسلوب میں لسانی تزئین و آرائش بھی پائی جاتی ہے جس سے  ان کا اسلوب سپاٹ،  بوجھل ، گنجلک اور قاری پر گراں گزرنے کی بجائے لطف آمیز کیفیت کا حامل ہوتا ہے۔

رجائی حوالے سے شاعر علی شاعرؔ کے ہاں بسیط امکانات کا ایک جہان آباد ہے۔ ذہنی تناؤ کے اس عہد میں ایسے افکار اعتبارِ ذوق اور افتخارِ زریں کا درجہ رکھتے ہیں۔ ان کی غزلِ عمیق مشاہدات و تجربات کی عمدہ غمازی کرتی ہے، جس سے ان کے ادراکِ زیست کی گہرائی و گیرائی کا اندازہ ہوتا ہے۔ کہیں کہیں ان کے اشعار میں تصوف کی فضا بھی پائی جاتی ہے، جس کی بدولت کتھارسس کی اہمیت و افادیت پر بھی روشنی پڑتی ہے۔ اسی تناظر میں ان کی ایک غزل کا ایک شعر لائقِ التفات ہے   ؎

دل کا سب میل نکل جائے گا

آنکھ اشکوں سے بھگو کر دیکھو

مزاحمتی یا انقلابی عوامل بھی ہمارے شاعرِ ممدوح کے ہاں فور سے پائے جاتے ہیں۔ بسا اوقات تو یہ امکان حدِ تیقن کو پہنچ جاتا ہے کہ اُن کی شاعری سراپا مزاحمت یا انقلاب ہے جس سے ان کے انسان دوست اور ترقی پسند شاعر ہونے کی غمازی ہوتی ہے۔ وہ انسانیت کا دردِ عمیق رکھتے ہیں ، بنی نوعِ انسان سے ان کی موانست لائقِ ستائش ہے۔ بین السطور کہیں کہیں بھر پور نوعیت کی فکری پر اسراریت پائی جاتی ہے جو عند البیان کی دل کشی کو دو بالا کر دیتی ہے۔ رجائی تناظر میں ان میں تمام تر امکانی عوامل پائے جاتے ہیں۔ ان کا آدرش پکار پکار کر انسان دوستی کا آدرش دے رہا ہے۔ وہ شبِ تیرہ کے زوال اور صبحِ درخشاں کے متمنی ہیں۔ ان کے تخیلات میں عاجزی و انکساری کا درسِ بلیغ ملتا ہے۔ وہ اپنے قاری کو روئے ارضی پر فروتنی سے رہنے کی تلقین کرتے ہیں۔ ان کے ہاں ایک ناصحانہ اور خطیبانہ اندازپند ومو عظت کی ردا اوڑھے ہوئے ملتا ہے۔ وہ سامراجی استعماریت اور فسطائیت کے شدید مخالف ہیں۔ اس لیے ان کے افکار میں ایک پندارِ اَنا کی آموزگاری ملتی ہے۔ اسی پسِ منظر میں ان کی ایک طویل ترین غزل کے دس اشعار بطورِ انتخاب دنیائے سخن کے متوالوں کے ذوقِ طبع کی خاطر پیشِ خدمت ہیں جو اپنے اندر ایک فکر انگیزی کی فضا سموئے ہوئے ہیں   ؎

یہ ظلمت کا نشاں کب تک رہے گا؟

ہر اک چہرہ دھواں کب تک رہے گا؟

امیرِ شہر اتنا تو بتا دے

یہ خطہ بے اماں کب تک رہے گا؟

زمیں کب تک رہے گی یوں ہی پیاسی

فلک کا یہ سماں کب تک رہے گا؟

فنا کا درس دیتی ہے ہر اک شئے

ترا پختہ مکاں کب تک رہے گا؟

بھلا دے گی یہ دنیا بے وفا ہے

ترا نام و نشان کب تک رہے گا؟

مسافر جانبِ منزل چلا چل

شجر کا سائباں کب تک رہے گا؟

کرے گا روح کا پنچھی بھی ہجرت

اسیرِ جسم و جاں کب تک رہے گا؟

کھلیں گے پھول کب میرے چمن میں ؟

یہاں دورِ خزاں کب تک رہے گا؟

خود اپنی منزلِ مقصود جانو

امیرِ کارواں کب تک رہے گا؟

شجر بن جائے گا یہ بیج اک دن

حقیر و ناتواں کب تک رہے گا

مذکورہ اشعار سے یہ اندازہ بہ خوبی ہوتا ہے کہ شاعر علی شاعرؔ بے انت تخلیقی صلاحیتوں کے امین ہیں۔ شعری ارتقاء کا یہ سفر انتہائی سرعت سے جاری و ساری ہے۔ یہ امر باعثِ طمانیت ہے کہ ان کے ہاں دور اندیشی کے امکانات بے حد و بے حساب ہیں ، جن میں ایک فلسفیانہ سوچ کارفرما ہے۔ وہ ماضی کا ادراک اور حال کا شعور رکھتے ہیں ، نیز فرد اسے بھی باخبر ہیں۔

پُر آشوب کیفیات کے باعث صنعتِ ایہام فطری طور پر ان کے کلام میں در آئی ہے جس کی وجہ سے ایک گو مگو کا عالم دکھائی دیتا ہے۔ ان کے افکار بسیط نوعیت کے ہیں ، حق گوئی و بے باکی ان کے کلام کا وصفِ خاص ہے۔ امامِ عالی مقام سے ان کی عقیدت و محبت والہانہ نوعیت کی ہے، جہاں ان کے کلام میں توانا و معتبر مجازی حوالے ہیں ، وہاں معرفت بھی اشعار کے پردے سے جھانکتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ خارجی عوامل ان کے قلم کو لکھنے کی تحریک دیتے ہیں ، اس لیے وہ اپنی سخن سنجی کو بے سبب نہیں گردانتے، اسی نسبت سے ان کی ایک غزل کے چھ اشعار قابلِ غور ہیں   ؎

اکائی کی طرح یکجا نہیں ہوں

مگر میں ٹوٹ کے بکھرا نہیں ہوں

مری وسعت تمہیں معلوم ہو گی

سمندر ہوں ، کوئی قطرہ نہیں ہوں

ہے یارو! حق پرستی میرا شیوہ

بتوں کے سامنے جھکتا نہیں ہوں

حسینی ہوں اسی نسبت سے بیعت

یزیدِ وقت کی کرتا نہیں ہوں

مری شہ رگ سے ہے نزدیک کوئی

میں لگتا ہوں مگر تنہا نہیں ہوں

میں خلاقِ سخن ہوں ایسا شاعرؔ

بنا تحریک کچھ لکھتا نہیں ہوں

مذکورہ استخراجات اس امر کی غمازی کرتے ہیں کہ شاعر علی شاعرؔ کا تخیل بے پناہ وسعتوں کا حامل ہے۔ ان کا اسلوب انتہائی سادہ اور دل کش ہے۔ ان کے بیان میں کسی قسم کا تصنع نہیں  بلکہ ایک فطری انداز کار فرما نظر آتا ہے۔ ان کے ہاں آمد ہے آورد نہیں۔ ان کی غزل تغزل کا حسین شاہ کار ہے، جس میں بھر پور نوعیت کی داخلیت بھی ہے اورخارجیت بھی۔ ان کا فکری کینوس متنوع اور بسیط ہے۔ ان کی طویل غزل نگاری عمیق ریاضت کی عکاس ہے۔ ان کا لہجہ بے تکان ہے۔ ان کے قلم میں بے انتہا جولانی و روانی پائی جاتی ہے۔ شاعر علی شاعرؔ ایک ایسے شاعر ہیں جو اپنے عہد کو زبردست انداز میں متاثر کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں ، جس کے باعث دنیائے شعر و ادب میں ان کی ایک واضح پہچان اُجاگر ہوئی ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

شاکرؔ کنڈان کی شعری ریاضت

 

دنیائے ادب میں بہت ہی کم شخصیات ایسی ہوتی ہیں جو ہمہ پہلو اور ہمہ جہت ہوتی ہیں جنھیں نظم و نثر دونوں پر دستگاہ حاصل ہوتی ہے جو تخلیقی صلاحیتوں کے ساتھ ساتھ نقدِ فن سے بھی آشنا ہوتی ہیں ایسے منفرد لوگوں میں سے شاکرؔ  کنڈان بھی ہیں جو ایک خوبصورت شاعر، نعت گو اور تنقید نگار کی حیثیت سے پہچانے جاتے ہیں ایک طویل عرصہ تک سہ ماہی جریدہ ’’عقیدت‘‘ بھی نکالتے رہے اور اسی کی ادارت بھی کرتے رہے جس نے اپنے عہد میں نعت گوئی کی روایت کو تقویت بخشی اس کے علاوہ ’’عساکر پاکستان ‘‘ کے نام سے افواج پاکستان سے وابستہ شخصیات کے تخلیق کردہ ادب کا تبصرہ و تجزیہ بھی تین جلدوں میں چھپ چکا ہے آج ہم ان کے شعری مجموعہ ’’ریاضت‘‘ کے منتخب غزلیہ اشعار کا تجزیہ پیش کرتے ہیں مجموعہ ہذا کی اشاعت 2011؁ء میں عمل میں آئی مذکورہ مجموعہ کلام میں صرف غزلیات شامل ہیں۔

شاکرؔ  کنڈان کے ہاں روایت کی خوبصورت پاسداری ملتی ہے وہ متنوع مزاج کے مالک ہیں اس لئے ان کے خیالات میں بھی ایک تنوع پایا جاتا ہے ان کے افکار میں متانت اور سنجیدگی کا چلن ملتا ہے ان کے احساسات میں ایک رفعتِ تخیّل کا پہلو بھی کارفرما نظر آتا ہے اسی حوالے سے ان کی غزل کا مطلع لائقِ التفات ہے۔

ہم نے سیکھا ہے بزرگوں سے محبت کا چلن

اور تقدیر سے بھی گاہے الجھ جانے کا فن

ان کے جذبات میں ایک جدّت و ندرت پائی جاتی ہے جو ان کی جودتِ طبع کی غمازی کرتی ہے انہوں نے فکر کے فرسودہ راستوں کو جادۂ منزل نہیں بنایا بلکہ نئی راہیں تلاش کی ہیں وہ عام ڈگر سے ہٹ کر سوچتے ہیں جو ان کی مقبولیت و پذیرائی کی دلیل ہے اس لئے وہ جلد ہی قاری کی ہمدردیاں حاصل کر لیتے ہیں ان کی غزل کے تین اشعار دیکھتے ہیں۔

اس لئے دشمن کو میں نے تیر پہ رکھا نہیں

وہ کہ معیارِ عداوت پر مِرے اترا نہیں

میں نے اک مہتاب کو دیکھا تھا آنکھیں کھول کر

اب نظر میں آفتابِ وقت بھی جچتا نہیں

جب سفر میں تھا تو کتنے سائباں تھے راہ میں ؟

تھک کے بیٹھا ہوں تو کوسوں دور تک سایا نہیں

افکار ایک تجسیم سے عاری حوالہ ہوتے ہیں انہیں مجسم کرنا کسی شاعر کا کمالِ فن ہوا کرتا ہے ان کے ہاں الفاظ کی حرمت ملتی ہے ان کی غزل کا مطلع قابلِ غور ہے۔

ہم کہ افکار کی تجسیم کیا کرتے ہیں

حرف و الفاظ کی تحریم کیا کرتے ہیں

وہ عسکریت پسند سوچ کے مالک ہیں ان کے ہاں ایک جوش و جذبہ اور ایک ہمت و ولولہ ہے جو بین اسطور مشاہدہ کیا جا سکتا ہے وہ فتح و شکست کو قدرت سے منسوب کرتے ہیں لیکن زورِ بازو پر بھی انہیں اعتماد ہے ان کے ہاں حُب الوطنی کے احساسات بھی نمو پاش ہوتے ہیں اور وہ وطن پر قربان ہونے کو جاہ و منزلت قرار دیتے ہیں اسے وجہِ توقیر گردانتے ہیں اسی نسبت سے ان کی غزل کے دو اشعار دیدنی ہیں۔

شکست و فتح تو قدرت کے ہاتھ میں ہے مگر

ذرا سا قوتِ بازو پہ انحصار تو ہو

یہ دیکھنا کہ پذیرائی کتنی ملتی ہے؟

تو ایک بار وطن پر ارے نثار تو ہو

ان کے ہاں سہل نگاری کی حسیں روایت بھی ہے اور دقیقہ سنجی کا خوبصورت فن بھی ہے اس لیئے اگر اسلو بیاتی حوالے سے دیکھا جائے تو ان کے اسلوب میں تنوع پایا جاتا ہے جو ان کی طویل المیعاد شعری ریاضت کا ثمر ہے وہ ادب برائے زندگی کے قائل ہیں اس لئے ان کے ہاں حقیقی زندگی کی حقیقی تصویریں ملتی ہیں۔ ہر چیز میں انہیں زندگی کی چمک دمک نظر آتی ہے اسی تناظر میں ان کی غزل کا مطلع ملاحظہ ہو۔

ہوا سے پھول سے اور روشنی سے

تعلق زندگی کا ہے سبھی سے

یہ تو شاکرؔ  کنڈان کے کلام سے چند جھلکیاں تھیں جو ہم نے نذرِ قارئین کی ہیں۔ ان کا تمام تر کلام جاذبیت کی دولت سے لبریز ہے۔ وہ ایک کہنہ مشق شاعر ہیں۔ انہیں نظم و نثر دونوں پر دسترس حاصل ہے۔ خدائے بزرگ و برتر سے دعا ہے کہ انہیں فکر و فن کے مزید معیارات سے نوازے۔ (آمین)

٭٭٭

 

 

 

ڈاکٹر سید شبیہ الحسن(شہید)…  عصری تنقید کا معتبر حوالہ

 

سر زمینِ تنقید بہت سنگلاخ ہے پھر بھی بہت سی قد آور شخصیات نے جنم لیا جن کے فیض گراں قدر سے اقلیمِ نقدِ فن مالا مال ہے انہیں اصحابِ تگ و تاز میں ڈاکٹر سید شبیہ الحسن ایک معتبر عصری تنقیدی حوالے کے طور پر سامنے آئے ہیں۔ اس ضمن میں ان کی دو درجن سے زائد تصانیف منصہ شہود میں آ چکی ہیں اور اربابِ ہنر سے دادِ ہنر وصول کر چکی ہیں جن کی تفصیل کچھ یوں ہے۔

۱۔         مفاہیم (تحقیقی و تنقیدی مقالات)

۲۔        ترجیحات (تحقیقی و تنقیدی مقالات(انعام یافتہ))

۳۔        اردو مرثیہ اور مرثیہ نگار (تحقیقی و تنقیدی مقالات)

۴۔        تصریحات (تحقیقی و تنقیدی مقالات ( انعام یافتہ))

۵۔        ترغیبات (تحقیقی و تنقیدی مقالات)

۶۔        جدید غزل اور اسلم کولسری کا شعری سرمایہ (تحقیق و تنقید)

۷۔        مختصر مرثیے کی روایت اور سید وحید الحسن ہاشمی ( تحقیق و تنقید)

۸۔        سید وحید الحسن کی شہری جہتیں (تحقیق و تنقید)

۹۔         طاہرین (سید وحید الحسن ہاشمی کی نعتیں ، مناقب اور سلام تجزیہ و تدوین)

۱۰۔       العطش (سید و حید الحسن ہاشمی کے چالیس مرثیوں کا تجزیہ و تدوین)

۱۱۔        آغا صاحب (ڈاکٹر آغا سہیل کی شخصیت و فن)

۱۲۔       آلِ رضا کا فن غزل گوئی (تحقیق و تنقید)

۱۳۔       باقیاتِ آلِ رضا (سید آلِ رضا کے غیر مطبوعہ کلام کی تدوین)

۱۴۔       کلیاتِ حبیب ( حبیب جونپوری کے کلام کی تدوین)

۱۵۔       شام و سحر کی باتیں ( ماہنامہ شام و سحر کے اداریئے)

۱۶۔       قیصرِ اقلیمِ مرثیہ (تحقیق و تنقید)

۱۷۔      جدید لہجے کا شاعر سیف زلفی ( شخصیت و فن)

۱۸۔       سیف زلفی کے مرثیے (تجزیہ و تدوین)

۱۹۔       قیصر بارہوی (قیصر بارہوی کے ترپن مرثیوں کی تدوین)

۲۰۔      حسن عسکری کا ظمی کی تخلیقی جہتیں ( تحقیق و تنقید)

۲۱۔       ادبی بیٹھک ( ادبی کالم)

۲۲۔      ادبی چوپال (ادبی کالم)

۲۳۔      مضافاتی شعر و ادب (تحقیق و تنقید)

۲۴۔      اُردو شعر و ادب کے سفیر

۲۵۔      اردو شعر ادب کی معمار خواتین ( مضامین)

۲۶۔      تعینات (مضامین)

ان مذکورہ بالا تصانیف کا بنظر غائر مطالعہ کرنے کے بعد یہ نتیجہ اخذ کرنا نہایت آسان ہے کہ ان کے ہاں معیار و مقدار دونوں عناصر بدرجہ اتم پائے جاتے ہیں۔

مسندِ تنقید پر فائز ہونا کارِ دشوار ہے اس فریضہ سے صحیح معنوں میں عہدہ برا ہونا بھی کٹھن ہے لیکن ڈاکٹر سید شبیہ الحسن نے اس مشکل کام کو احسن طریقے سے نبھایا ہے وہ جس ادبی شخصیت یا موضوع پر خامہ فرسائی کرتے ہیں اس کی مکمل تصویر زینتِ قرطاس کر دیتے ہیں عصری و تہذیبی خدوخال اجاگر کرتے ہیں تمام فکری و فنی پہلوؤں کو زیر تجزیہ لاتے ہیں ان کا اسلوب جاذبیت کے رنگ کا حامل ہے کہیں بھی اپنے اسلوب کو گنجلک نہیں ہونے دیتے دقیقہ سنجی سے شعوری طور پر گریز کرتے ہیں مشرقی علوم کی گہری واقفیت رکھتے ہیں صنائع بدائع رموز و  وقائع اور علمِ بیان پر خاصی دسترس رکھتے ہیں۔ آج کے شذرے میں ہم ان کی موخر الذکر تنقیدی تصنیف ’’ تعینات‘‘ کے تناظر میں ان کے فنِ تنقید کا تجزیہ پیش کریں گے۔

ڈاکٹر سید شبیہ الحسن کی نسبت سے سب سے پہلے معروف نقاد ڈاکٹر انور سدید کی رائے ملاحظہ ہو جائے۔

’’تعینات‘‘ کے مصنف ڈاکٹر سید شبیہ الحسن کو میں قدرت کا ایسا کرشمہ سمجھتا ہوں جو ناموران ادب کی خالی جگہ کو تکریم و تزئین سے پر کرنے کے لئے پیدا ہوئے ہیں وہ اپنی اعلیٰ ادبی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہیں اور زندگی کے متعدد پرکشش اور دلفریب گوشوں سے نظر بچا کر صرف اور صرف ادب سے لو لگائے ہیں اور ادب کی ہمہ وقت خدمت کو اپنی زندگی کا نصب العین بنا لیتے ہیں۔

’’تعینات‘‘ میں انہوں نے درج ذیل موضوعات و شخصیات پر خامہ فرسائی کی ہے۔

۱۔         پیغمبرِ شعرو سخن… مصطفی زیدی

۲۔        لکھنؤ تہذیب کا آخری چراغ سید آل رضا

۳۔        ڈاکٹر آغا سہیل کی افسانہ نگاری

۴۔        ایک گمشدہ تہذیب کا باشندہ ڈاکٹر سہیل احمد خان

۵۔        حفیظ تائب اور حبِ محمدؐ و آلِ محمدصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم

۶۔        ڈاکٹر سلیم اختر ایک تہذیبی افسانہ نگار

۷۔        ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا کے ’’آشوب‘‘ میں عصری آشوب

۸۔        طالب جوہری کے شعری جواہر

۹۔         غضنفر عباس کی شعری کائنات

۱۰۔       صحرائے قطر کا  آہو… محمد ممتاز راشد

۱۱۔        اقبال حیدر کی مرثیہ نگاری، چند معروضات

۱۲۔       کچھ ڈاکٹر محمد ہارون قادر کے بارے میں

۱۳۔       عرفی ہاشمی کے جدید مرثیے

۱۴۔       انسانی جذبات کا عکاس شاعر ڈاکٹر ندیم حسن گیلانی

۱۵۔       ڈاکٹر ابو الحسن نقوی کے مرثیوں میں عصری حسیت

۱۶۔       معاشرتی کرب اور ساجد پال ساجدؔ

۱۷۔      اعجازِ مودّت کی معجز نمائیاں

ڈاکٹر سید شبیہ الحسن کی تصانیف و موضوعات کی تفاصیل ملاحظہ کرنے کے بعد یہ امر اظہر من الشمس ہو جاتا ہے کہ ان کی خامہ فرسائیوں کی داستاں بہت طویل ہے ’’تعینات‘‘ کے حوالے سے مصنف کی رائے ملاحظہ کریں۔

’’تعینات بنیادی طور پر اپنے عہد کے تخلیق کاروں سے مکالمہ ہے میں نے اپنے ہر ممدوح کی کتاب سے گفتگو کی اور خود اس سوال کا کھوج لگایا ہے کہ اس صاحبِ فہم و فراست نے ہمارے عہد کے کن اہم مسائل و معاملات کو پیش کیا ہے اور کس طرح اپنے ناخن تدبیر سے ان پیچیدہ گرہوں کو کھولنے کی سعیِ مشکو ر کی ہے۔ آپ کے نزدیک ’’تعینات‘‘ کسی سماجی ناقد کے مضامین کا مجموعہ ہوسکتا ہے لیکن میرے نزدیک یہ ایک نئی تخیلی ادبی ریاست کا ’’ابتدائیہ‘‘ ہے۔ یہی سبب ہے کہ میں نے ’’تعینات‘‘ میں شامل ہر مضمون کے آغاز میں سماج کے کسی نہ کسی اہم رویئے کی نشاندہی کی ہے اور احساس دلایا ہے کہ ایک معتبر تخلیق کار ہی ان مسائل پر قابو پا سکتا ہے ہمارے عہد کے تخلیق کاروں کا اولین فریضہ یہ ہے کہ وہ اپنی تخلیقات میں روحِ عصر بھر دیں تاکہ آنے والے زمانوں میں اس کی باز گشت سنائی دے۔ ‘‘

مصنف کے موقف سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ وہ روحِ عصر اور اہم سماجی مسائل و معاملات کو مقتضیات ادب میں سر فہرست گردانتے ہیں اور ان کا یقین بھی ہے کہ ایک معتبر ادب اور معتبر تخلیق کار کی بدولت ان مسائل پر قابو پایا جا سکتا ہے وہ ایک دردمند دل رکھنے والے انسان تھے خیر خواہی اور انسان دوستی ان کی حیات کے مرکزی و کلیدی تلازمے ہیں جنہیں وہ آفاقی حیثیت سے پیش کرتے ہیں ایک مثبت سوچ اور طرز عمل رکھتے تھے ان کے نزدیک ایک ناقد کا اوّلین فرضِ منصبی یہ ہے کہ کسی بھی فن پارے کی خوبیوں کو اجاگر کرے۔

ڈاکٹر سید شبیہ الحسن مشرقی و مغربی ادب و تنقید کا وسیع ادراک رکھتے تھے جہاں انہوں نے مغربی نقادوں کے حوالے دیئے ہیں وہاں مشرقی ناقدانِ ادب کے معروضات کو بھی حوالے کے طور پر استعمال کیا ہے۔ بین التحریر ان کی کوشش ہوتی ہے ممدوح کے فکری و فنی گوشوں کی زیادہ سے زیادہ تصریح پیش کی جائے انہوں نے روایت و جدت کا تال میل پیش کرنے کی سعی جمیل کی ہے وہ چاہتے ہیں کہ جدت کی جڑیں روایت میں پیوست ہونی چاہیں انہوں نے اپنی تخلیقات میں سہل نگاری کے رجحان کو متعارف کرایا ہے کہیں بھی اپنے اسلوب کو ثقیل نہیں ہونے دیا ڈاکٹر سلیم اختر کے حوالے سے ان کا طرزِ استد لال ملاحظہ ہو۔

’’ڈاکٹر سلیم اختر ایک اسلوب ساز تخلیق کار ہیں ان کے اسلوب کا سب سے بڑا وصف یہ ہے کہ اس میں تخلیق کے عناصر موجزن ہیں ایک طویل عرصے کی تخلیقی ریاضت کے باعث ان کو زبان و بیان پر مکمل عبور حاصل ہے ’’درشن جھروکہ‘‘ میں اسالیب کے مختلف اور متنوع ذائقے ملتے ہیں کہیں سادہ بیانی ہے اور کہیں مرصع سازی، کہیں مدعانویسی ہے تو کہیں قافیہ پیمائی تاہم یہ بات طئے ہے کہ ڈاکٹر سلیم اختر ہر مقام پر اپنے اسلوب کو اپنے موضوع کے تابع رکھتے ہیں یہی سبب ہے کہ ان کے اسلوب اور فکر میں یگا نگت ملتی ہے۔ ‘‘

مشمولہ تصریحات کی روشنی میں یہ امر پایۂ اختتام کو پہنچتا ہے کہ ڈاکٹر سید شبیہ الحسن کو نقدِ فن پر مکمل دسترس حاصل تھی اور وہ اس حوالے سے نابغۂ روز گار شخصیت تھے دعا ہے کہ خدا ان کے فکری و فنی کارناموں کو بقائے دوام سے نوازے۔ آمین

٭٭٭

 

 

 

جدتِ فکر کا شا عر… شہزاد نیّرؔ

 

جب ہم جدتِ فکر کی بات کرتے ہیں تو ہماری مراد غیر معمولی سوچ اور غیر روایتی طرزِ فکر ہوتا ہے، جس میں ندرتِ صناع بدائع، رموز و وقائع، تشبیہات و استعارات اور ترکیبات بھی شامل ہیں۔ مذکورہ تمام معاملات کے ساتھ ساتھ لغت کا استعمال بھی نئے رنگ، ڈھنگ اور آہنگ کے ساتھ غیر معمولی نوعیت کا حامل ہوتا ہے۔ جملہ امور میں تخلیق کار، یا شاعر کی لا شعوری اور شعوری صلاحیتیں دخیل ہوتی ہیں۔ فطری اور کسبی عوامل فکر کے زاویئے متعین کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ جدت و ندرت جب تک قلمکار کے مزاج کا خاصہ نہیں بنتی، تب تک وہ کچھ نیا اور نادر النظیر تخلیق نہیں کر پاتا۔ ہم نے جب شہزاد نیرؔ کے کلام کا بنظرِ غائر مطالعہ کیا تو ہمیں وہ تمام عوامل نظر آئے جن کا ذکر ہم قبل ازیں کر چکے ہیں۔ آج کے شذرے میں ہم ان کے مجموعۂ کلام ’’چاک سے اترے وجود‘‘ جو غزلیات و نظمیات پر مشتمل ہے اور ’’برفاب‘‘ جو صرف نظمیات کا مجموعہ ہے، کے تناظر میں ان کی فکری ندرت کو زیرِ بحث لائیں گے  موخرالذکر  شعری مجموعہ 2006؁ء میں منصہ شہود پر آیا۔ جبکہ اول الذکر 2009؁ء میں زیورِ طباعت سے آراستہ ہوا۔ واضح رہے 2013؁ء میں ان کی نظمیات کا مجموعہ بعنوان ’’گرہ کھلنے تک‘‘ منظرِ عام پر آیا۔ ہم پہلے ’’چاک سے اترے وجود‘‘ کی غزلوں اور نظموں کو زیرِ غور لائیں گے۔ بعد ازیں ’’برفاب‘‘ کی نظموں کو زیرِ تجزیہ لائیں گے۔ کوشش رہے گی کہ طولِ بیان سے گریز کیا جائے۔ ندرتِ فکر کا حامل پہلی غزل کا پہلا شعر لائقِ التفات ہے۔

چلتے پھرتے اسے بندش کا گماں تک نہ رہے

اُس نے انسان کو اس درجہ کشادہ باندھا

شعرِ ہٰذا میں موصوف نے قدرت کی کرشمہ کاری بھی دکھا دی اور اپنی نادرہ کاری بھی۔ ایک شعر کے پیمانے میں مسئلہ جبرو قدر کے فلسفہ کو بھی سمیٹ لیا۔ بندش کے مقابلے میں کشادہ کا استعمال صنعتِ تضاد کا فطری التزام و انصرام ہے۔ پہلے مصرع میں ’’بندش‘‘ اور دوسرے میں ’’باندھا‘‘ بھی حسنِ مترادف پر دال ہے۔ مترادف اور تضاد کا ایک ہی شعر میں ورود بھی شاعر کی کہنہ مشقی اور مشا طگیِ فن کی غمازی ہے۔ چناں چہ گویا ہیں کہ خالقِ ارض و سمانے بنی نوح انسان پر ایسی پابندیاں عائد کی ہیں اور ایسے ضابطے مقرر کیے ہیں کہ اسے روزمرہ زندگی میں چلتے پھرتے کسی بھی بندش کا احساس نہیں ہوتا یعنی مالکِ کریم و رحیم نے اپنی بندشوں میں بھی وسعت کا پہلو کار گر رکھا ہے۔ اگر عمیق نظری سے اس شعر کا مشاہدہ کیا جائے تو اس میں مالکِ کائنات کی قدرت کا راز بھی مضمر ہے۔

قلب و خرد کے حوالے کا حامل شعر پیشِ خدمت ہے   ؎

جنون و عقل کی کیسی عجب لڑائی ہے

نظر بچا کے میں دونوں کے درمیان گرا

عام طور پر انسان افراط و تفریط کا شکار رہتا ہے۔ کبھی جنوں کی طرف جھکاؤ زیادہ ہو جاتا ہے یا پھر عقل کی طرف زیادہ راغب ہو جاتا ہے۔ دراصل حسنِ زیست، حسنِ توازن سے منسوب ہے۔ شعرِ ہٰذا میں بھی اس توازن کی بات کی گئی ہے کہ جنوں اور عقل کے درمیان عجیب و غریب لڑائی تھی لیکن میں نے کسی ایک طرف نظرِ التفات نہیں کی بلکہ میانہ روی اختیار کی۔ جیسے حدیثِ نبوی ہے۔ ’’ میانہ روی بہترین حکمتِ عملی ہے۔ ‘‘ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ شہزاد نیّرؔ کا کلام محض تفننِ طبع کے لیے نہیں ہے بلکہ شعورِ حیات کا پیغام ہے۔ ان کا ادراک مذہبی فکر اور نوعیت کا حامل بھی ہے۔

اُ ن کی سوچ کا ایک اور زاویہ دیکھتے ہیں  ؎

تیرے میرے درمیاں جو مدتوں حائل رہی

ایک ہی آنسو بہا کر بدگمانی لے گیا

یہ شعر خود میں کتھار سس کی اہمیت سموئے ہوئے ہے۔ ایسے اشعا ر راہِ  حیات میں رویہ سازی کے حوالے سے اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ رویہ سازی شخصیت سازی کی اہمیت کی حامل ہوتی ہے جس سے مفید کردار جنم لیتے ہیں۔ اس شعر میں یہی بات کی گئی ہے کہ تیرے میرے درمیاں مدتوں جو بدگمانی حائل رہی لیکن اسے ایک آنسو بہا کر لے گیا کیوں کہ دیدۂ تر اور اشکِ رواں صداقت کے اظہار کا مظہر بھی ہوا کرتے ہیں۔

اس غزل کا ایک اور شعر دیکھتے ہیں  ؎

تمہارے ہجر کے شانے پہ ہاتھ رکھتے ہیں

مرے بدن کا لرزتا ہوا مکان گرا

اس شعر کی ذرا فنی ندرت ملا خطہ ہو۔ ہجر ایک تجسیم سے عاری حوالہ ہے۔ اسے مجسم کرنا اور اسے اعضاء ودیعت کرنا، پھر اس کے شانے پر ہاتھ رکھنا، بدن کے لرزتے ہوئے مکان کا گرنا سماجی تفاعل کی عمدہ تمثیل ہے۔ مکان ایک بے جان استعارہ ہے۔ بدن کی لرزش اور تحرک نے لفظِ مکان جو جسم کے لئے مستعار لیا گیا ہے، جان دار بنا دیا ہے۔ یہ کسی شاعر کا کمالِ فن ہوا کرتا ہے کہ اپنی قرینہ کاری سے بے جان اشیا میں روح پھونک کر جان دار بنا دے۔ اس شعر کو امیجری اور تجرید ی آرٹ کا شاہکار قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس شعر میں وہ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ جب تمہارے ہجر سے پالا پڑا تو جسم لرزتے ہوئے مکان کی صورت گر پڑا۔ ساختیاتی حوالے سے بھی ان کا فکری و فنی تجزیہ دل چسپی کا حامل ہے۔

ایک اور غزل کا تنہا اورسرور ساماں شعر زیرِ غور ہے  ؎

میں اضطرابِ زمانہ سے بچ نکلتا ہوں

تمھارے قول کو دل کا قرار کرتے ہوئے

شعرِ ہٰذا کو معرفت و مجاز دونوں حوالوں سے مہمیز کرسکتے ہیں۔ کیوں کہ یہ شعر پہلو داری اور ایہام کا حامل ہے۔ اگر اسے معرفت سے تعبیر کیا جائے تو اس کی فکری صورت کچھ یوں بنتی ہے کہ مجھے اضطرابِ زمانہ سے مفر حاصل ہے۔ کیوں کہ میں نے تمہارے قول کو دل کا قرار کر لیا ہے، یعنی ارشادِ خداوندی کی طرف اشارہ ہے ’’لاتقنطو من رحمتہ اللہ ‘‘ اللہ کی رحمت سے  ناامید مت ہو۔ ‘‘ اس شعر سے رجائیت کی جڑ یں پھوٹ رہی ہیں۔ امید کی لویں ضو پاش ہو رہی ہیں۔ قنوطیت اوریاسیت کی تیر گی کے پردے چاک ہو رہے ہیں ، ناامیدی فرو ہو رہی ہے۔

ایک روایتی فکر کا حامل شعر لائقِ تبصرہ ہے  ؎

نہ اتنا ذکر ہو باغِ عدن کا

وہیں چھینی گئی پوشاک میری

شہزاد نیّرؔ انسانی نفسیات کا عمیق ادراک رکھتے ہیں اور یہی شعور اس شعر میں بھی جلوہ گر ہے۔ انسان کی جبلت میں یہ امر شامل ہے اور یہ اس کا فطری جذبہ ہے کہ وہ اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی کو اپنے فکری گوشے میں محفوظ رکھتا ہے۔ اسے فراموش نہیں کر پاتا۔ کیوں کہ اس کا حال، ماضی اور مستقبل دونوں سے جڑا ہوتا ہے۔ انسان کی یہی خصوصیت اس کے تہذیبی شعور میں بھی شامل ہوتی ہے۔ یہی عناصر اس شعر میں بھی جلوہ افروز ہو رہے ہیں۔ یہ شعر غیر روایتی نوعیت کا اس لیے ہے اور غیر معمولی اس لیے ہے کہ عمومی طور پر باغِ عدن یعنی بہشت کا تذکرہ بڑے شدومد اور کروفر سے کیا جاتا ہے لیکن وہ گویا ہیں کہ باغِ عدن کا تذکرہ ہمارے سامنے نہ کیا جائے۔ کیوں کہ وہاں ایک انسانی سانحہ وقوع پذیر ہوا تھا۔ انسان یعنی حضرت آدم علیہ السلام کو خلعت سے محروم کر دیا گیا تھا۔ اس لیے اس کا مذکور ہمارے لیے کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتا۔ یہ شعر ایک تلمیحی حوالے کا آئینہ دار بھی ہے۔

ساختیاتی اہمیت کا حامل ایک اور شعر دیدنی ہے  ؎

پیکارِ غم نصیب میں پیکانِ نم نقیب تھے

گفتارِ سم نصیب میں خنجر بجھا دیئے گئے

زیرِ تبصرہ شعر میں مصرعوں کی نشست وبرخاست سا ختیاتی حوالے سے خصوصی اہمیت کی حامل ہے۔ ترکیبات و استعارات کا حسن فکر و نظر پر خیرہ گری کا تاثر رکھتا ہے۔ پیکارِ  غم کے مقابلے میں ہم قافیہ گفتارِ سم کی ترکیب جہاں ایک صوتی حسن پیدا کر رہی ہے، وہاں ان دونوں تراکیب کا حسن بھی جاذبِ نظر اور فکر انگیز ہے۔ پیکانِ نم کی ترکیب بھی بہت دل کش اور لطف آمیز ہے۔ دوسرا مصرع بھی خود میں دل چسپی کا بحرِ بیکراں سموئے ہوئے ہے۔ موصوف یوں گویا ہیں کہ غم کی پیکار ہمارے نصیب میں تھی اور نیروں کے تیر ہمارے نقیب تھے۔ زہر آلود گفتگو ہمارا نصیب ہو چکی تھی، جس میں خنجر بجھا دئیے گئے۔ ایک گفتگو زہریلی تھی اور اس پر طُرہ یہ بھی ہے کہ اس زہریلی گفتگو کے زہر سے خنجر بجھا دئیے گئے۔ اس شعر میں بیان کی طرفگی اس کی ندرت پر دال ہے۔

تحریکِ عمل کے حوالے کا ایک شعر ملاحظہ ہو  ؎

زمانہ ریت کا طوفاں ہے جاگو!

اجل بن جائے گا سونا ہمارا

اس شعر میں ایک پیغامِ عمل ہویدا ہے۔ سعیِ پیہم کی ترغیب سے کہا گیا ہے، زمانہ یا وقت اتنی سرعت سے گزررہا ہے جیسے ریت کا کوئی طوفان ہو۔ اگر ہم نہ جاگے تو یہ ریت کا طوفان ہماری ہستی کو نیستی میں بدلنے پر قادر ہے۔ لہٰذا عصری تقاضا یہ ہے کہ خواب کی بجائے بیداری اختیار کی جائے۔ ورنہ زمانہ جو ریت کے طوفان کا مثیل ہے، ہماری خفتگی کو اجل میں بدل دے گا۔ حقیقت میں اس شعر میں بنی نوعِ انسان کو دعوتِ عمل بیک وقت خوب صورت اور بھیانک طریقے سے دی گئی ہے۔ بھیانک اس لیے ہے کہ پر خطر تشبیہ اور استعارہ لایا گیا ہے اور اس کی خوب صورتی یہ ہے کہ انسانی فطرت صرف وعید کی صورت میں درسِ عبرت لیتی ہے اور عمل کرتی ہے۔

ایک اور شعر لائقِ توجہ ہے  ؎

اب جو اُجڑا ہے تو کچھ تم پہ تو الزام نہیں

قریۂ دل تھا مرا وقفِ بلا پہلے سے

عام طور پر دل کی تباہی محبوب یا قسمت کے سر تھوپ دی جاتی ہے، یا مقدر کو موردِ الزام ٹھہرایا جاتا ہے، یا گردوں کو ہدفِ تنقید بنایا جاتا ہے اور یہ موضوع ہماری روایتی شاعری کا ہر دل عزیز ہے۔ جب کے اس شعر میں معاملہ کچھ اور ہی ہے۔ کہا گیا ہے کہ میری دل دھرتی تو پہلے ہی اجاڑ پن کا شکار ہے۔ یہ الزام میں کسی کو نہیں دیتا۔

غزل کے تین اشعار دامنِ التفات کھینچ رہے ہیں  ؎

یہ کائنات خواب ہے کہ وہ جہاں خیال

کچھ تو جواب دو اے خفتگانِ خاک

نقشِ قدم حضور کے یاں بھی، وہاں بھی ہیں

اک خاک آسمان ہے اک آسمانِ خاک

نیّرؔ نوائے حرف تو مٹی کی چیخ تھی

پندارِ فن کی بات ہے گویا گمانِ خاک

شعرِ اوّل میں اہلِ بر زخ سے خطاب ہے۔ ایک استفسار ہے، اصل میں موصوف دونوں جہاں کی حقیقت کے متلاشی ہیں۔ کہتے ہیں کہ اے اہلِ برزخ ہم پر اس راز کو افشا کرو۔ کیوں کہ تم تو اس دنیا میں بھی رہ چکے ہو، اور عالمِ برزخ میں بھی۔ لہٰذا تمہارا مشاہدہ عمیق ہے کہ یہ کائنات خواب ہے یعنی اس دنیا کی حقیقت خواب کی سی ہے، یا وہ جہاں جس سے تم اس وقت منسوب ہو، ایک خیال کی حیثیت رکھتا ہے۔ اے خاک میں سونے والو! اس اسرار سے پردہ اٹھاؤ اور ہمیں کچھ تو بتاؤ، شعرِ دوئم میں شاعرِ مذکور گویا ہیں۔ بہ نسبت حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اصل میں یہ شعر واقعۂ معراج کی نسبت سے ہے۔ جب حضور نے مکہ سے بیت المقدس، پھر ہفت افلاک کی سیر کی۔ سدرۃ المنتہٰی سے آگے کعبہ، کعبۂ قوسین کی صورت قربت الہٰی کا شرف حاصل کیا۔ اس حوالے سے وہ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نقشِ قدم یہاں بھی ہیں۔ یعنی اس کائنات میں بھی اور افلاک مع عرشِ بریں ، جو زمیں پر آپؐ کا نقشِ پا ہے۔ وہ آسمان کی خاک ہے اور جو افلاک پر ہے وہ خاک کا آسمان ہے۔ شعرِ ہٰذا میں انہوں نے لفظی تغیر و تبدیل یعنی رعایتِ لفظی سے حسنِ ایمائیت پیدا کیا ہے۔ شعرِ سوم میں قلہ دفن کی جڑیں خاک یا زمین میں پیوست ہیں یہ موضوع ان کی غزلیات اور نظمیات میں وفور سے پایا جاتا ہے وہ کہتے ہیں کہ اے نیئر حرف کی آواز اصل میں مٹی کی چیخ ہے چیخ کا لفظ تاثر میں اضافہ کرنے کے لیئے لایا گیا ہے اور فن کے انا کی بات اصل میں خاک کے گمان کی حیثیت رکھتی ہے شعر ہٰذا میں خاک کو ترجیح دی گئی ہے اصل میں ان کے شعور کی جڑیں زمین میں پیوست ہیں جو عاجزی انکساری اور خاکساری کی دلیل بھی ہیں حب الوطنی کا مظہر بھی۔ یہ امر لائقِ تحسین و صدستائش بھی ہے۔

غزلیات کے سلسلے کا آخری شعر اس مرحلے کی آخری کڑی کے طور پر نذرِ قارئین ہے۔

نیستی ہے کمال ہستی کا

انتہائے طرب اداسی ہے

شعرِ ہذا میں شاعر کی کہنہ کاری، کمال فن کاری اور فنی بلوغت پر دلالت کرتی ہے۔ ہر مصرع میں ایک بار صنعتِ تضاد کا بر جستہ اور فطری ورود ہوا ہے شعر میں دو بار اس صنعت کو بروئے کار لایا گیا ہے اس شعر میں ایک عمیق احساس نمو پاش ہو رہا ہے موصوف یہ کہہ رہے ہیں کہ ہم لوگ جسے مرگ تصور کرتے ہیں وہی زندگی کا کمال ہے کیونکہ اس کے بعد نہ زندگی کو زوال ہے بلکہ ہمیشہ رہنے والی حیات ہے یعنی نیستی ہی ہستی کا کمال ہے ہماری موجود ہ زیست جسے ہم انتہائے طرب سے موسوم کرتے ہیں اس کا انجام اداسی ہے یعنی بالآخر انجام موت ہی ہے درحقیقت اس شعر میں گہرائی و گیرائی کے حامل دو فلسفے بیان کیے گئے ہیں کیونکہ وہ حیات و کائنات کو فلسفی شاعر کے طور پر دیکھتے ہیں۔

مندرجہ بالا تصریحات شہزاد نیئرؔ کی غزل کی فکری و فنی ندرت کی نسبت سے تھیں ان کے علاوہ بھی ان کے متعدد اشعار ہیں جو حوالے کے طور پر استعمال ہونے کا اسحقاق رکھتے ہیں لیکن ہم اس امر سے بخوبی آگاہ ہیں کہ طولِ بیاں قاری کے لئے بار گراں ثابت ہو گا شہزاد نیرؔ کا ایک مخصوص رنگِ تغزل ہے جس میں ان کی جودتِ طبع اور نادرہ کاری نمایاں ہے وہ ایک منجھے ہوئے شاعر کی طرح اپنے بیاں میں تفنن پیدا کر دیتے ہیں اور اس سلسلہ میں مختلف طریقہ ہائے کار سے کام لیتے ہیں۔ نادر النظیر استعارات و تشبیہات و ترکیبات، ضائع بدائع، رموزو وقائع اور عروضی محاسن اُن کے کلام کے اوصافِ حمیدہ ہیں لفظوں کے معمولی ہیر پھیر سے وہ بہت بڑے فلسلفے تخلیق کرنے پر قادر نظر آتے ہیں جہاں ضرورت محسوس ہو وہاں رعایت لفظی اور کسر نفسی سے بھی کام لیتے ہیں قاری کے لیے ان کی لغت اور اسلوبِ نگارش خالی ازدلچسپی نہیں یعنی اسلو بیاتی حوالے سے بھی ان کا کلام لائقِ اعتنا ہے۔

اب ہم ان کی نظم کی بابت بات چلاتے ہیں شہزاد نیّرؔ کا شعری کینوس غزل کی نسبت نظم میں زیادہ وسیع و عمیق ہے اس کی اصل وجہ غزل و نظم کا صنفی مزاج ہے نظم کی نسبت غزل لطیف ضابطوں کی امین ہوتی ہے اس لیئے نظم کے قاری اور غزل کے قاری میں بھی بلحاظِ مزاج فرق پایا جاتا ہے غزل میں خیالات زیادہ جزئیات کے متحمل نہیں ہوسکتے اس کے برعکس نظم کا دامن کشادہ ہے غزل کے خیالات مختصر الفاظ کے متقاضی ہوتے ہیں جب کہ نظم کا پیرایۂ زبان و بیان پھیلاؤ کا حامل ہوتا ہے غزل میں کسی بھی موضوع کی مکمل جزئیات کو زیر بحث لانا محال ہوتا ہے جب کہ نظم ایک اتھاہ سمندر ہے جس کا کنارے سے مشاہدہ نہیں کیا جا سکتا نظم ایک بحرِ بیکراں ہے جس کا پہلا کنارہ تو نظر آتا ہے جبکہ دوسرا کنارہ بعید از بصارت و بصیرت اور قیاس آرائی ہے شہزاد نئیرؔ کی نظم میں موضوعاتی تنوع پایا جاتا ہے طوالت کے اعتبار سے انہوں نے ہر نوع کی نظمیات تخلیق کی ہیں مختصر و طویل اور درمیانے درجہ کی نظموں میں ان کی قوتِ متخیلہ فکری و فنی سمعی و بصری، لسانی و صوتی اعتبار سے ممتا ز و ممیز ہونے کے ساتھ ساتھ نادرو نظیر بھی ہے۔

ہم سب سے پہلے ان کے شعری مجموعہ ’’چاک سے اترے  وجود‘‘ کی چند نظمیات کو زیر بحث لائیں گے سب سے پہلے ہم ان کی نظم ’’مشینی ارتقائ‘‘ ہدیۂ قارئین کرتے ہیں۔

ستارے بجھتے جاتے ہیں

افق پر گرد اڑتی ہے

شفق کا رنگ کالا ہے

دھنک کے سرمئی گھونگھٹ میں ساتوں رنگ مدھم ہیں

فلک کے نیلگوں چہرے پہ اک مٹیالی چادر ہے

تپش خورشید میں ایسی

زمیں کی مانگ اجڑی ہے

گلوں کے رنگ پھیکے ہیں

صبا کی چال بوجھل ہے

ہوا خوشبو سے خالی ہے

مشینی کا لکوں سے اک ردائے تار ڈالی ہے

ہماری صبح کالی ہے ہماری شام کالی ہے

کثافت روک لو، اس سے ہوا کی سانس رکتی ہے

فلک کی سمت دیکھو تو مری آنکھیں سلگتی ہیں

زمیں کی گود میں لیٹوں

مگر رخسار جلتے ہیں

مر ے آگے دھند لکا ہے

مشینی ارتقا ہم کو یہ کس منزل پہ لے آیا؟

نظمِ ہٰذا فضائی آلودگی کے حوالے سے ’’مشینی ارتقائ‘‘ کے نام سے قلم بند کی گئی ہے اسے آپ ماحولیاتی تناظر میں شاہکار قرار دے سکتے ہیں اس میں قاری کی مناسبت سے ممکنہ تمام جزئیات ضبط تحریر میں لائی گئی ہیں اسلو بیاتی، ساختیاتی اور نفسیاتی حوالے سے دیکھیں یا نظری و عملی نقطہ نگاہ سے یہ نظم ایک نادر نمونے کی حیثیت رکھتی ہے یہ نظم منظر نگاری اور تجریدی آرٹ کا ایک دلکش مرقع ہے۔

شہزاد نیئرؔ نے جہاں طویل نظمیں لکھی ہیں وہا ں ان کی مختصر نظمیات اپنی عجب بہار دکھاتی نظر آتی ہیں وہ موضوع کو دفعتاً سمیٹنے کا فن جانتے ہیں مزے کی بات یہ ہے کہ اس کے باوجود بھی کوئی پہلو تشنہ نہیں رہتا۔

آئیے ایک اور نظم پڑھتے ہیں جو ’’گورستان‘‘ کے سرنامے سے عبارت ہے۔

میں نے کفنا کے تیری یادیں سبھی

اپنے سینے میں دفن کر ڈالیں

اب تو ہر ایک آشنا میرا

اپنی ٹوٹی ہوئی محبت کی

لاش کاندھے پہ لے کے آتا ہے

یہ نگر پھیلتا ہی جاتا ہے

قارئین کرام آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ شاعرِ مذکور نے نظم کی وسعتوں کو سمیٹنے کی کامیاب کوشش کی ہے اور فکر کا کوئی پہلو بھی تشنہ نہیں رہنے دیا۔

اب ان کے دوسرے مجموعہ کلام ’’برفاب‘‘ میں سے کچھ نظموں کا جائزہ لیتے ہیں اس مجموعۂ کلام میں زیادہ طویل اور درمیانے درجے کی نظمیں شامل ہیں وہ نظم میں موضوع کی جزئیات بیان کرتے ہوئے منظر نگاری کے دلکش نمونے بھی دکھا جاتے ہیں شہزاد نیّرؔ کی نظموں میں اپنی مٹی سے محبت اور مٹی کی خوشبو رچی بسی ہے وہ مر دِسخن کے ساتھ ساتھ اپنی دھرتی کے سپوت بھی ہیں غزلیات کی نسبتاً نظمیات میں مٹی سے محبت کے حوالے سے زیادہ گہرے ہیں ان کی نظم سیاہ چن کا وسطانیہ ملاحظہ ہوا۔

جہاں میں ہوں

وہاں سورج نظر آتا ہے مشکل سے

جہاں پر دھوپ میں بس روشنی کا نام ہوتا ہے

جہاں گرمی کے موسم پر گماں ہوتا ہے جاڑے کا

جہاں پارہ نہیں اٹھتا

جہاں سبزہ نہیں اُگتا

جہاں رنگوں کی پریوں کا کوئی میلہ نہیں لگتا

جہاں خوشبو گلابوں کی

پرندے تتلیاں جگنو

اُسی صورت پہنچتے ہیں

کہ جب اپنوں کے خط آئیں

عدو کی بے حسی ایسی

کہ اس اندھی بلندی پر

نہ جانے کتنے سالوں سے؟

فقط بارود کی صورت ہمارا رزق آتا ہے

آپ نے مشاہدہ کیا کہ اس نظم کا تانا بانا کتنا دلکش ہے، خیالات زنجیر کی کڑیوں کی صورت ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں اسلوب کی جاذبیت کے ساتھ ساتھ ان کی حزنیہ شعری طبع کی عکاسی ہوئی ہے امیجری اور منظر نگاری اپنی مثال آپ ہے اگر ان کی نظمیں طویل بھی ہوں تب بھی قاری کو بوریت کا احساس نہیں ہوتا اور نہ کہیں اسے سر سری گزر جانے کی اجازت دیتی ہیں۔

ان کی نظم ’’ نشہ‘‘ کا اوّلیں اقتباس ملاحظہ کریں۔

طلوعِ زماں سے غروبِ  مکاں تک

حکومت ہے غم کی لگاتار نم کی

ابد تاب صحرا کا پھیلاؤ دکھ ہے

سراب ایک سکھ ہے

محبت بھی غم اس کی غایت بھی غم

دل پرستو خوشی کی نہایت بھی غم

اُن کی ہر نظم میں اُ ن کی نادرہ کاری نمایاں ہے یہاں بھی اُن کی حزنیہ فکر ندرت کے ساتھ نموپزیر ہوئی ہے کہ قاری کو اُن کی فکر سے موانست ہونے لگتی ہے۔

علی ہٰذا القیاس ان کی تمام نظمیں حوالے کا درجہ رکھتی ہیں طوالت کا خوف دامن گیر ہے اس لیے مزید حوالہ جات سے گریز کیا جاتا ہے خالص نظم کا مزاج رکھنے والوں کے لیئے ان کا نظمیہ کلام ایک سوغات کا درجہ رکھتا ہے تخلیق و تنقید سے وابستہ تمام احباب کے لیے دعوت فکر ہے اور اکستاب فیض کا ساماں ہے۔

مشمولہ تمام استخراجات کی روشنی میں یہ بات اظہر من الشمس ہوتی ہے کہ شہزاد نیئر ندرت آمیز شعری طبع کے امین ہیں جدید طرز فکر اور فنی بلوغت اُ ن کے کلام سے آشکار ہے ان کے فکری و فنی گوشوں کی سیر کے دوران کہیں بھی دلچسپی کا دامن میلا نہیں ہوا اور نہ چھوٹنے پایا ہے ربِ ادب سے استدعا ہے کہ انہیں فکر و فن کی مزیدو سعتوں سے ہمکنار کرے (آمین)

٭٭٭

 

 

 

 

شہناز پروین کا اساسی افسانوی مزاج

 

 

ادب کی اساس حیات و کائنات پر رکھی گئی ہے اور یہ امر کسی قلم کار کی کامیابی و کامرانی کی نوید ثابت ہوتا ہے کہ اس کی تخلیقات میں ان امور کی مرصع کاری ہو، آج ہمارا موضوعِ بحث شہناز پروین کا افسانوی مزاج ہے جو اساسی نوعیت کا حامل ہے۔ ان کے افسانوں میں زندگی جیتی جاگتی، جگمگاتی اور اپنے حقیقی رنگوں میں ہویدا ہوئی ہے۔ شہناز پروین کا تعلق کراچی سے ہے اور معروف شاعرہ شمیم نسرین کی صاحب زادی ہیں جو 2010ء میں راہیِ ملک عدم ہوئیں۔ اس سے قبل کہ ہم ان کے افسانے کو تجزیاتی چھلنی سے گزاریں۔ اِن کی افسانہ نگاری کے حوالے سے معروف و معتبر اربابِ نقدو نظرکی آراء مختصراً ہدیۂ قارئین کرتے ہیں۔

’’مواد اور موضوع تو خیر بعض دوسرے افسانہ نگاروں کے ہاں بھی مل جاتے ہیں لیکن ’’حسنِ بیاں ‘‘ آپ کا اپنا ہے۔ ایسا تیکھا اور کار گر کہ قاری اپنے آپ کو افسانوں کی دا د دینے پر مجبور پاتا ہے اور یہ وصف تو ایسا ہے جو سب کو نہیں کسی کسی افسانہ نگار کو نصیب ہوتا ہے۔ ‘‘

(ڈاکٹر فرمان فتح پوری بحوالہ اولین افسانوی مجموعہ ’’سناٹا بولتا ہے‘‘ )

’’شہناز پروین کہانی اور اس کی تعمیر پر ماہرانہ دسترس رکھتی ہیں۔ وہ بڑے ہلکے پھلکے انداز میں کہانی سناتی ہیں لیکن ہلکے پھلکے انداز میں آہستہ آہستہ درد اور کرب کے پہلو نمایاں ہوتے جاتے ہیں اور کہانی کے اختتام تک پہنچتے پہنچتے ہمیں یہ احساس ہوتا ہے کہ یہ ہلکا پھلکا انداز بڑی گہری معنویت اور حالات کے جبرِ مسلسل سے عبارت ہے۔ ‘‘

(ڈاکٹر اسلم فرخی بحوالہ افسانوی مجموعہ ’’سناٹا بولتا ہے‘‘ )

’’شہناز پروین کی کہانیاں عام طور سے مختصر ہوتی ہیں۔ یہ کہانیاں قارئین پر آئینہ در آئینہ کھلتی ہیں۔ ان کا کھلنا قاری پر حیرت اور خوشی کے ملے جلے اثرات چھوڑتا ہے۔ شہناز پروین کی کہانیوں میں مکالمات لائے ہوئے نہیں ، آئے ہوئے معلوم ہوتے ہیں۔ یہ خوبی مکالمات میں تب داخل ہوتی ہے جب غیر ضروری کسب کا دخل در معقولات نہ ہو، بعض کہانیوں کی ابتداء معمولی ہوتی ہے لیکن اختتام تک پہنچتے پہنچتے یہ غیر معمولی بن جاتی ہیں۔ ان کی اکثر کہانیوں میں تمثیل کار فر ما ہوتی ہے اور اسے کہانی میں برتنا بھی جانتی ہیں۔ ‘‘

(ادیب سہیل بحوالہ افسانوی مجموعہ ’’سناٹا بولتا ہے‘‘ )

’’اگر مجھ سے یہ سوال کیا جائے کہ عصرِ حاضر کے افسانہ نگاروں میں کون افسانہ نگار ہے جو جدید افسانے کامیابی سے لکھ رہا ہے جس کے موضوعات میں تازہ کاری بھی ہے اور فن کاری بھی جو عصری مسائل کو کامیابی و خوش اسلوبی کے ساتھ اپنے افسانوں میں پیش کر رہے ہیں تو اسے افسانہ نگاروں میں ایک نام بلاتا مل لوں گی اور وہ نام ہے شہنا پروین کا کیونکہ وہ کہانی کہنے کا فن جانتی ہیں اور افسانہ نگاری کے نئے تقاضوں سے اچھی طرح واقف ہیں۔ اِن کا اسلوب بھی خوبصورت،  دلنشیں اور پُر اثر ہے۔ ‘‘

(افتخار اجمل شاہین بحوالہ افسانوی مجموعہ ’’سناٹا بولتا ہے‘‘ )

’’شہناز پروین کے مشاہدات و احساسات کا سبب ارد گرد کا ماحول ہے اور وہ قوت ہے جسے وہ اپنے ساتھ لے کر واقعات کی جزئیات تک پہنچ کر انہیں آسانی کے ساتھ تحلیل کر لیتی ہیں ،  شہناز پروین کے افسانوی کردار سے ملاقات کرتے ہوئے ہمیں کسی طرح کا تکلف محسوس نہیں ہوتا کیونکہ ان کا تعلق ہمارے اپنے معاشرے سے ہے۔ انہوں نے اپنے افسانوں میں معاشرتی،  اخلاقی،  اصلاح پسندی کی فضا بنا کر زندگی کی خارجی اور داخلی کیفیتوں کی عکاسی کی ہے جس میں سادگی اور خلوص شامل ہے۔

(عشرت رومانی بحوالہ چند ہم عصر افسانہ نگار)

مذکورہ اہلِ نقد و نظر کے گراں قدر اور وقیع تاثرات سے شہناز پروین کے افسانوی مقام و مرتبہ کی اہمیت و فوقیت مبینہ طور پر آشکار ہوتی ہے۔ مشمولہ آراء ان کے اوّلین افسانوی مجموعہ ’’سناٹا بولتا ہے‘‘ مطبوعہ جولائی 2000ء کے تناظر میں تھیں جو اِن کے افسانوی سفر کے نقشِ اوّل کی حیثیت رکھتا ہے۔

شہناز پروین کے دوسرے افسانوی مجموعہ ’’آنکھ سمندر‘‘ مطبوعہ جولائی 2005ء کے حوالے سے ڈاکٹر حنیف فوقؔ رقمطراز ہیں :

’’شہناز پروین افسانہ نگاروں کی اس نسل سے تعلق رکھتی ہیں جس کے سامنے افسانہ نگاری کی روایات کا ایک بڑا سرمایہ موجود ہے اور اس سرمائے میں انسان دوستی اور مثبت اقدار کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل تھی مگر نہ صرف باہر کی دنیا میں شکست و ریخت کا عمل جاری تھا بلکہ خود فنی اظہار کے سانچے بھی ٹوٹ رہے تھے اور افسانہ نگار کی نظر ہی پرچھائیوں میں الجھی ہوئی نہیں تھی اس کا باطنی نظام بھی درہم برہم ہو رہا تھا۔ ان حالات میں بھی شہناز پروین نے زندگی کی اچھائیوں سے اپنا واسطہ رکھا اور ٹوٹتے ہوئے انسانی رشتوں کے درمیان انسانیت کی تلاش کو فراموش نہیں کیا۔ ‘‘

شہناز پروین کے افسانے میں زندگی کے غائرانہ مطالعہ و مشاہدہ کے تجربات ملتے ہیں۔ انہوں نے اپنے افسانے کے توسط سے زیست کی چھوٹی چھوٹی سچائیوں کو سمیٹنے کی سعیِ مشکور کی ہے۔ ان کے ہاں انسان دوستی کے شواہد بھی وفور سے ملتے ہیں۔ اِن کا اسلوب ہر نوع کے تصنع ،  آلائش اور ماورائیت سے ماورا ہے۔ لا یعنی خیالات و احساسات سے ایک فطری گریز کا پہلو ملتا ہے۔

ان کے دوسرے افسانوی مجموعہ ’’ آنکھ سمندر‘‘ مطبوعہ جولائی 2005ء کے دو افسانے شاملِ تجزیہ ہیں۔ مجموعہ ہٰذا کا نام بھی اِن کی نظری وسعت کا غماز ہے۔

’’آنکھ سمندر‘‘ کتابِ مذکور کا اوّلین افسانہ ہے جسے اس مجموعہ کے نمائندہ افسانے کی حیثیت حاصل ہے، اس لئے اس افسانوی مجموعہ کا سرنامہ بھی قرار پایا ہے۔ اس کہانی کا پسِ منظر سیرو سیاحت سے منسوب ہے۔ یہ افسانہ انسانی مجبوریوں اور المیوں کی عکاسی کرتا ہے۔ اس کی کہانی ہمارے سماج کی جیتی جاگتی کہانی کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ افسانہ حزنیہ طرزِ فکر کا عکاس ہے۔ افسانے کے پلاٹ میں اس قدر تسلسل ہے کہ چھوٹی چھوٹی کہانیاں ایک دوسرے سے مربوط نظر آتی ہیں جن میں غیر ضروری پھیلاؤ کی گنجائش نہیں ہے جس میں شہناز پروین کے حسیاتی عمق کو بخوبی ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔ افسانے کا ایک اقتباس ملاحظہ کریں :

’’مجھے سونی کی بے حسی پر غصہ آ رہا تھا۔ میں نے اسے کچھ نہیں بتایا اور صبح کا اخبار اٹھا لیا۔ ایک خبر نے مجھے چونکا دیا۔ کسی خوبصورت لڑکی کی تصویر تھی۔ نیچے لکھا تھا ’’ کیتھرین پاگل خانے سے بھاگ گئی ہے۔ پولیس اور پاگل خانے کا عملہ اس کی تلاش میں ہے۔ کسی کو نظر آج ائے تو دیئے گئے نمبروں پر فوراً رابطہ کریں۔ ‘‘

اس افسانے میں حیا ت کے تلخ و مہیب روپ کو آشکار کرنے کی سعیِ جمیل کی گئی ہے جس میں وہ بخوبی کامیاب نظر آتی ہیں۔

’’آنسو بم،  ،  اس مجموعے کا دوسرا افسانہ ہے جو بین الاقوامی اہمیت کا حامل ہے جس میں نیو ورلڈ آرڈر کی واضح جھلکیاں محسوس کی جا سکتی ہیں۔ اس افسانے کی بدولت عصرِ حاضر کے بچوں کی حسیاتی بیداری کو نمایاں کیا گیا ہے۔ طفلانہ ادراکاتی سطح خود میں تحیر اور بصیرت کے خصائص رکھتی ہے۔ اس افسانے کا ایک مختصر اقتباس طالبِ التفات ہے۔

’’امی صیہونیت کیا ہوتی ہے؟ اسرائیلی مسلمانوں کو کیوں مارتے ہیں ؟ انڈیا پاکستان پر حملہ کیوں کرے گا؟ امریکہ سے سب کیوں ڈرتے ہیں ؟ اور امی پاکستان کے پاس بھی ایٹم بم ہیں لیکن ہم سوئٹزر لینڈ کیوں نہیں بن جاتے؟‘‘

مذکورہ اقتباس خود میں بسیط استفہامیہ اشارات رکھتا ہے جو عصرِ حاضر کے انسان کے لئے لمحۂ فکریہ کا درجہ رکھتے ہیں۔ بین الاقوامی عصری حالات و واقعات کی پر چھائیاں بھی واضح انداز میں اجاگر ہوئی ہیں جن میں سیاسی اور مذہبی عوامل جلوہ ساماں نظر آتے ہیں۔

شہناز پروین کی افسانہ نگاری کے حوالے سے شذرہ ہٰذا ایک تاثر کا درجہ رکھتا ہے۔ ’’ مشتے از خو وارے ‘‘ کے بمصداق صرف دو افسانوں کو شاملِ بحث کیا گیا ہے۔ اس افسانوی مجموعہ میں کل اکتیس افسانے شامل ہیں۔ اِن کے افسانوی مطالعہ سے یہ تاثر پایۂ تیقن کو پہنچتا ہے کہ شہناز پروین کا افسانہ زیست کا حقیقی اور اساسی مطالعہ پیش کرتا ہے اور ان کا افسانہ زندگی سے ہم آہنگ نظر آتا ہے جس سے زیست کے خد و خال نمایاں انداز میں مشاہدہ کئے جا سکتے ہیں۔ مزید افسانوی ریاضت اِن کی افسانوی اُفق پر رسائی کے سفر کو آسان کرے گی۔

٭٭٭

 

 

 

 

شادابؔ صدیقی… شاعرِ غم و الم

 

جب ربِ  دوجہاں نے بنی نوع انسان کو تخلیق فرمایا تو اسے عقلِ سلیم اور خوبصورت شبیہ بنایا مختلف حسیات و کیفیات بھی ودیعت فرمائیں ان میں مسرت و عسرت حیرت و استعجاب اور غم و الم بھی شامل ہیں سوزو گداز اور غم و الم کے علاوہ وہ باقی احساسات لمحاتی و وقتی نوعیات کے ہوتے ہیں لیکن غم و الم ایک ایسا جذبہ ہے جو دیرپا ہے اور اسے دوام بھی حاصل ہے خدائے سخن میرتقی میرؔ کی ادبی بقا میں فنی خصوصیات کے پہلو بہ پہلو یہ جذبہ بھی کار فرما ہے اگر آپ کسی آدمی سے اس کے پسندیدہ اشعار سنیں تو ان میں زیادہ تر ابیات حزن ہی ہوں گے یعنی غم و الم ایک لازوال اور امر جذبہ ہے کلاسیکی، نیو کلاسیکی اور جدید ادب کا دامن بھی اسی دولت سے مالا مال ہے ہم نے شادابؔ صدیقی کے شعری مجموعہ ’’آتشِ پنہاں ‘‘ مطبوعہ جنوری 2011ء کا بغور مطالعہ کیا اور ان کے فکری و فنی گوشوں کی سیر ہو کر سیر کی ان کے کلام میں حقیقی زندگی کے دیگر موضوعات بھی وفور کے ساتھ پائے جاتے ہیں کیونکہ وہ ادب برائے زندگی کے قائل ہیں کہیں کہیں ادب برائے ادب کی شمعیں بھی روشن نظر آتی ہیں کیونکہ تلامذۂ ادب کی تربیت ادب برائے ادب کے زمرے میں بھی کرنا چاہتے ہیں طولِ بیاں سے گریز کرتے ہوئے ہم اپنے عرضِ مدعا کی طرف مراجعت کرتے ہیں ہمیں شاداب صدیقی کے شعری مجموعہ ’’آتشِ پنہاں ‘‘ میں غم و الم کا موضوع واضح نظر آیا ہے جو ان کے مستقل حوالے کی حیثیت رکھتا ہے آج کے شذرے میں ہم ان کے فکر و فن کا تجزیہ اسی موضوع کی پاسداری کرتے ہوئے کریں گے بین السطور کوشش رہے گی کہ قارئین پر ان کے فنی خصائص بھی آشکار کیے جائیں۔

غم و الم کے حوالے کے حامل چار اشعار ملا خطہ ہوں   ؎

دعا رہائی کی مانگی تھی قید خانے سے

رہائی نہ مل سکی مجھ کو اس زمانے سے

کچھ اور زخم مرے دل کے کرگئی تازہ

نسیمِ صبح جو گزری غریب خانے سے

تمام شہر ہی ہے خوں میں نہایا ہوا

نکل کے جائیں کہاں اپنے آشیانے سے

یہ بات سچ ہے نہیں ہے مبالغہ اس میں

کمی نہ درد میں آئے گی غم چھپانے سے

شعرِ اوّل میں وہ حصارِ جہاں و زماں کو قید خانے سے تعبیر  کر رہے ہیں اور رستگاری کے لئے محو مناجات  ہیں لیکن انہیں زمانے سے رہائی نہیں مل رہی۔ شعرِ دوئم میں وہ نسیمِ صبح کی کرم نوازی کی بے مائیگی کا اظہار کر رہے ہیں کہ وہ میرے زخموں کو مندمل کرنے کی بجائے مزید  تازہ کر گئی ہے یعنی جب بھی بادِسحر کا گزر میرے غریب خانے سے ہوتا ہے میرے غموں میں اضافہ ہو جاتا ہے جب موسم سہانا ہو تو محبوب کی یاد آنا ایک فطری امر ہے پھر محبوب ہزار شیوہ کی یادوں کے ساتھ غمِ ہجراں حشر بپا کرتا ہے تیسرے شعر میں خار جیت کی بھر پور غمازی ہے اصل میں ان کا یہ خارجی رویہ ان کی داخلیت کی پیداوار ہے جب من کی دنیا میں آلام کے سائے  منڈلا رہے ہوں تو باہر کی دنیا میں بھی حشر سامانیاں نظر آتی ہیں جیسے راقم الحروف کا یہ مطلع ہے۔

جو میں مضطرب ہوں ، سماں مضطرب ہے

مجھے لگتا سارا جہاں مضطرب ہے

ماحول کی پر آشوبی شاداب صدیقی کو آشیانہ نشینی پر مجبور کر رہی ہے کیونکہ انہیں اپنے آس پاس کا ماحول خوں آلود نظر آتا ہے۔ شعرِ چہارم میں غم کی شدت کے باعث وہ مجبور بیاں ہیں کہ اس بات میں کوئی مبالغہ نہیں ہے یہ امر صداقت آمیز ہے کہ غم کی راز داری سے کیفیتِ حزن میں کسی قسم کی کمی واقع نہیں ہو گی۔

اب ذرا کتھارسس کی اہمیت کے حامل دو اشعار مشاہدہ کرتے ہیں۔

شبِ آنچل سے لپٹ کر رولوں

صبح کا چہرۂ غمگیں دھو لوں

کچھ تو نکلے دلِ مضطر کا غبار

غمِ ہستی ذرا ہلکا ہو لوں

زندگی کے روئیوں کی پیداوار رویئے ترجمان زیست ہوا کرتے ہیں جنھیں حیات کی جفا کاریوں کا سامنا ہو وہ شبِ آنچل سے لپٹ کر روتے ہیں اور حزیں رخِ سحر کو اپنی اشکباریوں سے دھوتے ہیں یہ کیفیت پہلے شعر میں بھی جلوہ افروز ہے کیوں کہ یہ طریقۂ وارداتِ غم غلط کرنے کے لئے کارگر اور موثر ہوا کرتا ہے جیسے راقم الحروف نے بھی اسی قسم کی خواہش اظہار کیا ہے۔

ہمیں رونے دیا جائے

الم ہلکا کیا جائے

اسی مضمون کو دوسرے شعر میں زیادہ موثر انداز میں پیش کیا گیا ہے کہ کچھ تو میرے دل مضطر کے غبار کا انخلا ہواور اے غمِ ہستی میں ذرا ہلکا ہونا چاہتا ہوں کیونکہ مصائب و آلام نے مجھے ہلکان کر دیا ہے۔ غزل کا ایک شعر لائقِ التفات ہے   ؎

کرشمہ ہے مرے اشکِ غم کا دیکھو

زمیں پر سبزہ روئیدہ ہے کتنا

موصوف کا یہ شعر ان کی قوت متخیلہ کا شاہکار ہے گویا ہیں کہ یہ میرے اشکِ غم کا کمال ہے کہ زمیں سبزے سے مالا مال ہے میرے سیلِ گریہ کی بدولت زمیں پر دیکھو کتنا سبزہ اُگ آیا ہے یہاں غم کی پر زور کیفیت کے ساتھ ساتھ ایک خوشگوار احساس پایا جاتا ہے۔

زندگی کے مصائب و آلام کی روداد اس غزل کے مطلع و مقطع میں ملاحظہ کریں  ؎

مکر و فریب درد کی ماری ہے زندگی

دیکھیں بغور گریہ و زاری ہے زندگی

دلِ تباہ کا کیا پوچھتے ہو حال؟

شادابؔ ہم پہ حشر سے بھاری ہے زندگی

شادابؔ صدیقی کی جب ہم حزنیہ شعری طبع کو دیکھتے ہیں تو وہ ہمیں مقلدِ میرؔ نظر آتے ہیں یعنی ان کے پاس میرؔ کا ساسوز و گداز ہے اور غم کی بھر پور آواز ہے۔ تہذیبی کرب کی داستان بھی ہے مطلع میں وہ گویا ہیں کہ زندگی مکرو فریب اور  درد زدہ ہے اگر حیات کا بغور مطالعہ و مشاہدہ کریں تو یہ گریہ و زاری سے عبادت ہے دوسرا شعر ان کے ذاتی کرب کا ایک حوالہ ہے وہ فرماتے ہیں کہ آپ دلِ تباہ کا حال کیا پوچھتے ہیں کہ زندگی کی نا چاکیاں حشر کی اذیت سے بھی فزوں تر ہیں یعنی ہمیں قیامت سے پہلے قیامت کا سامنا ہے ایسی کربناکی شاذ ہی کہیں پائی جاتی ہے۔

زیست کے ناروا روئیے کی عکاسی اس مقطع میں دامنِ توجہ تھام رہی ہے۔

رہائی اب ملے شادابؔ ہم کو

حصارِ ذات کی قیدِ گراں سے

جب زندگی ناگواریوں اور کٹھنائیوں کا مرقع بن جائے تو پھر انسان کا جی چاہتا ہے کہ اب شہنازِ مرگ کو اھلاًو سہلاً و مرحبا کہا جائے مقطع ہٰذا میں موصوف حصارِ ذات کی قید گراں سے رستگاری کیے خواہاں نظر آتے ہیں کیوں کہ تمناؤں کا خون ہوتے ہوتے زندگی کی رعنائی و دلکشی معدوم ہو گئی ہے۔ غم کی موصوف سے موانست دیدنی ہے   ؎

کیا تعلق نشاط سے اپنا

ہم سے مانوس غم کے میلے ہیں

شعرِ ہٰذا میں نشاط و مسرت سے لا تعلقی کا اظہار کیا گیا ہے کہ ہم سے غم کے میلے مانوس ہیں یہ ایک فطری امر ہے جب شب و روز شام و سحر غم سے واسطہ ہو تو غم انسان سے مانوس ہو جاتا ہے یہی کیفیت اس شعر میں کا رفرما ہے۔

ایک غزل کے تین اشعار پیشِ خدمت ہیں   ؎

لبوں پر جب کبھی موجِ تبسم رقص کرتی ہے

دلِ ناشاد پر اس دم قیامت سی گزر رہی ہے

اسیرِ دردِ الفت ہوں قیودِ غم سے کیوں نکلوں

ہمیشہ زندگانی میری تنہائی سے ڈرتی ہے

پریشاں لاکھ ہو انساں نہیں ہے اس کے کچھ بس میں

مگر تقدیر سے بگڑی ہوئی حالت سنو رتی ہے

شعرِ اوّل کے پہلے مصرع میں بہارافروز منظر پیش کیا گیا ہے جب کہ مصرع ثانی میں قیامت خیز صورت حال ہے خوشی اور غم کا امتزاج ایک دلچسپ ندرت پیدا کر رہا ہے شعرِ دوم میں ایک روایتی موضوع کو دلچسپ انداز میں برپا کیا گیا ہے گویا ہیں کہ میں اسیرِ دردِ الفت ہوں ایسا اسیر تاحیات اسیر رہتا ہے اور میں قیودِغم سے کیوں اور کیسے نکلوں میری تنہائی اتنی و حشت انگیز ہے کہ زندگی اس سے خائف اور لرزاں رہتی ہے شعرِ ثالث کے پہلے مصرع میں مسئلہ جبر بیان کیاگیا ہے کہ انسان لاکھ پریشان ہوتا رہے کسی بھی مسئلے کو نہیں سنبھال سکتا کیونکہ انسان کے اختیارات محدود نوعیت کے ہیں دوسرے مصرع میں ایک رجائی انداز کار فرما ہے کہ تقدیر بگڑے ہوئے حالات کو سنوارنے پر قادر ہے اس شعر میں بھی خوشی اور غم کا امتزاج بہت خوبصورت طرز کا حامل ہے۔ غزل کا مقطع لائقِ توجہ ہے۔

شکوہ زبان شوق پہ لائے نہ ہم کبھی

شاداب کتنے دور الم کے گزر گئے

وہ مصائب و آلام کی برسات کے باوجود زندگی اور غم سے شاکی نظر نہیں آتے اور زبانِ شوق پر شکوہ بھی نہیں لاتے لاکھ الم کے دور آئیں لیکن ہماری زبان نالہ و شیون سے قاصر رہے گی یہ شعر ان کی بلند حوصلگی کا غما ز ہے۔

غزل کے ان چار اشعار میں شادابؔ صدیقی کا اظہارِ غم دیکھیئے۔

بجھ بجھ کے جل رہا ہے میرے پیار کا دیا

اس حسنِ اتفاق پر دل مسکرا دیا

چہرے خود اپنے آئینے میں لوگ دیکھ لیں

کیا تھے انہیں زمانے نے کیسا بنادیا؟

داغِ جدائی، دردِ جگر، کثرتِ الم

برسوں کی چاہتوں کا ہمیں یہ صلہ دیا

یاد آئے اس قدر کہ اُڑیں نیندیں رات کی

چشمِ فغاں سے اشکوں کا دریا بہا دیا

پہلے شعر میں پیار کے دئیے کا بجھ بجھ کے جلنا اور حسنِ اتفاق سے دل کا مسکرانا دلچسپی کا حامل ہے دوسرے شعر میں ایک عمیق مشاہدے کی نشاندہی ہے زمانے کی ستم ظریفی کا تذکرہ ہے۔  وہ کہتے ہیں کہ لوگ آئینے میں اپنی تصاویر ملاحظہ کریں کہ مرورِ ایام سے ان کی تصویریں کتنی بدل گئی ہیں کیا تھیں اور کیا ہو گئی ہیں زندگی کی تلخیوں نے چہروں کو بھیانک کر دیا وقت گزرنے کے کرب نے چہرے کو کربناک بنا دیا غم کا باعث کچھ بھی ہوسکتا ہے محبت کا غم بھی ہوسکتا ہے اور کسبِ معاش کا غم بھی ہوسکتا ہے دکھ کوئی بھی ہو خوف کسی بھی نوعیت کا ہو وہ انسانی صورت بگاڑنے پر قادر ہوتا ہے راقم الحروف نے اسی موضوع کو اپنی ایک نظم ’’مٹتے ہیولے‘‘ میں یوں برپایا ہے آپ بھی دیکھیں۔

بھوک سے چہرے بھیانک ہو گئے

خوف کی گردش ہے ہر اک خون میں

اجلے اجلے چہرے کالے پڑ گئے

خوف سے کیوں رنگ پیلے پڑ گئے

نقش دھندلے ہو گئے ہیں ذات کے

تیسرے شعر میں بہت سے لوازمات پیش کیے گئے ہیں ایک شعر میں اتنے تلازمے لانا یقیناا کارِ اُستادی ہے وہ کہتے ہیں کہ برسوں کی چاہتوں کا صلہ مجھے داغِ جدائی، دردِ جگر اور کثرت الم کی صورت میں ملا اس شعر میں روایت کی خوبصورت پاسداری نظر آتی ہے چوتھے شعر میں غمِ محبوب کا حوالہ ہے آپ اسے تصوف اور عشقِ حقیقی پر مہمیز بھی کرسکتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ وہ مجھے اس قدر یاد آئے کہ میری رات کی نیندیں گئیں اور چین بھی میرا گیا میری چشمِ فغاں نے اشکوں کا دریا بہا دیا اس شعر میں غم کا بھرپور تاثر پایا جاتا ہے۔

زندگی کی بے مائیگی کا مذکور ان کی زبانی سنتے ہیں۔

حادثوں کی نذر ہستی ہو گئی

کس قدر بے قدر ہستی ہو گئی؟

خوب تھی رنگینیِ عہدِ شباب

تھی غزل اب نثر ہستی ہو گئی

پہلے شعر کے پہلے مصرع میں وہ فرماتے ہیں کہ میری زندگی حادثوں کی نذر ہو گئی ہے اور کس قدر بے قدر ہستی ہو گئی ہے دوسرے مصرع میں کس قدر ار بے قدر کا ایک ساتھ استعمال بھی چاشنی پیدا کر رہا ہے دوسرے شعر کے پہلے مصرع میں رنگینی عہد شباب کی تعریف کی گئی ہے جبکہ دوسرے مصرع میں زندگی کے ارتقاء کو ایک مصرع میں رقم کر دیا گیا جو شاعر کی قادر الکلامی اور عمیق فنی تجربے کی عکاسی ہے انہوں نے اس مصرع میں دریا کو کوزے میں بند کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے غزل اور نثر دو  اصنافِ ادب کا حوالہ دے کر زیست کی خوبصورت ترجمانی کی ہے۔

یہ تو چند اشعار تھے جو ہم نے شادابؔ صدیقی کی حزنیہ شعری طبع کے حوالے سے پیش کیے ان کے علاوہ بھی بے شمار اشعار ہیں جو حوالے کے طور پر دیئے جا سکتے ہیں لیکن طولِ بیاں سے  گریز بھی ناگزیر ہے شادابؔ صدیقی کا کلام سادگی کے رنگ کا حامل ہے جس میں غم سے بھرپور جذبوں کی عکاسی ملتی ہے ان کے اوّلین شعری مجموعہ میں تمام تر غزلیات شامل ہیں جو ان کی غزل سے عقیدت کا بین ثبوت ہے تغزل ان کی غزل کا وصفِ عالیہ ہے اگر ان کی مشق سخن جاری رہی تو ان کی غزل ان کو اس سے کہیں آگے لے جائے گی۔

٭٭٭

 

 

شفیق الرحمن الہ آبادی کا فنِ تنقید

 

ویسے تو دنیا کا کوئی کام چنداں سہل نہیں ہے کیوں کہ اس کی تکمیل میں بہت سی کٹھنائیاں پنہاں ہوتی ہیں۔ فنونِ لطیفہ کے تمام شعبے عمیق ریاضت کے متقاضی ہیں۔ شعر و ادب بھی فنونِ لطیفہ کی ذیل میں آتا ہے۔ نوعیت کے اعتبار سے اسے دو درجات میں منقسم کیا جاتا ہے۔ درجۂ اوّل میں تخلیقی اعمال شامل ہیں۔ جب کہ درجۂ دوم میں تالیفی معاملات ہیں۔ جب کہ تحقیق و تنقید بھی تالیفی امور کا حصہ ہے۔ خارزارِ ادب میں وارد ہونا ایک دشوار گزار عمل بھی ہے اور کرب انگیز بھی ہے۔ چاہے اس امر کا تعلق درجہ اوّل سے ہو، یا درجہ دوم سے۔ دونوں بسیط عرق ریزی کے خواستگار ہیں کیونکہ تخلیقی مشاہدات و تجربات کے بغیر کوئی بھی محقق یا تنقید نگار اپنے فرضِ منصبی سے عہدہ برا نہیں ہوسکتا۔ محقق یا ناقد کے لیے تخلیقی صلاحیتوں سے مرصع ہونا ناگزیر ہے۔ جب تک اس کی تخلیق یا تنقید سے تخلیقیت کی سطح اجاگر نہیں ہوتی اس کی کاوشیں کارگر ثابت نہیں ہوسکتیں۔ آج ہمارا موضوعِ بیان شفیق الرحمن الہ آبادی کا فنِ تنقید ہے۔ اس سے پہلے کہ ان کے تنقیدی و تحقیقی جواہر پر روشنی ڈالیں ، ان کا اجمالی تعارف ضروری سمجھتے ہیں۔ ان کا تعلق میلسی ضلع وہاڑی سے ہے اور شعبۂ تعلیم و تعلم سے منسلک ہیں۔ پیشہ ورانہ امور کا بسیط تجربہ رکھتے ہیں۔ ایک طویل عرصہ سے ان کی تنقیدات اخبارات و جرائد کی زینت بن کر قارئینِ ادب سے خراجِ تحسین سمیٹ رہی ہیں۔ فنِ تنقید میں ان کی کاوشیں بھرپور تنقیدی صلاحیتوں اور ان کی ژرف نگاہی کی غماز ہیں۔ ان کی ہر تحریر ان کی باریک بین طبع کی عکاس ہے۔ وہ کسی بھی تحریر یا فن پارے کے تمام پہلوؤں کو زیرِ بحث لاتے ہیں اور کسی بھی جہت کو تشنۂ وضاحت نہیں رہنے دیتے۔ ان کا مؤقف منطقی اور استدلالی نوعیت کا ہوتا ہے جسے دفعتاً سمیٹنے کے ہنر سے بھی بخوبی آشنا ہیں۔ تا دمِ تحریر ملک کی متعدد معتبر ادبی شخصیات کے حوالے سے اپنے تنقیدی شذرات پیش کر چکے ہیں جنہیں علمی و ادبی حلقوں کی طرف سے سراہا جا چکا ہے۔ شذرہ ہذا میں ہمارا موضوعِ بیان ان کی تحقیقی و تنقیدی نوعیت کی کتاب ’’شاعر علی شاعر کی تخلیقی جہتیں ‘‘ ہے۔ اس سے پہلے کہ ہم شفیق الرحمن الہ آبادی کی مذکورہ کتاب کے حوالے سے تنقیدی خصائص آشکار کریں ، متذکرہ کتاب کے ممدوح شاعر علی شاعرؔ کی ادبی خدمات کی اجمالی صراحت بھی ضروری ہے۔ موصوف ہمہ جہت ادبی شخصیت کے حامل ہیں۔ نظم و نثر کے میدان میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا چکے ہیں۔ مذکورہ شعبوں میں کمال قدرت رکھتے ہیں۔ بہت ہی کم عرصے میں انہوں نے اپنے آدرش میں بے پناہ وسعت پیدا کی ہے۔ تا دمِ تحریر جب کہ ان کی عمرِ عزیز چالیس سال ہے۔ باون سے زائد شعری و نثری تصانیف قارئینِ شعر و ادب کو مہیا کر چکے ہیں۔ اتنا ادبی سرمایا بہم پہچانا کسی معجزے سے کم نہیں اور ان کی بسیار نویسی کی بین دلیل ہے۔ اب ہم شفیق الرحمن الہ آبادی کی کتاب ’’شاعر علی شاعر کی تخلیقی جہتیں ‘‘ کی طرف مراجعت کرتے ہیں۔ کتابِ ہٰذا کی اشاعت مئی 2013ء میں عمل میں آئی۔ اس کا اہتمام ’’ظفر اکیڈمی‘‘ کراچی نے کیا ہے۔ دیباچہ ملک کے معروف شاعر اور نقاد خورشید بیگ میلسوی نے ’’شاعر علی شاعرؔ کا فکر پیما شفیق الرحمن الہ آبادی‘‘ کے عنوان سے لکھا ہے۔ جب کہ شفیق الرحمن الہ آبادی کا ایک اور تخلیقی کارنامہ‘‘ سے معنون ’’پروفیسر شاہدہ فیاض پرنسپل گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج برائے خواتین میلسی‘‘ کی آراء ثبت ہیں۔ جب کہ کتاب کا مقدمہ موصوف نے خود لکھا ہے۔

اس کتاب کو ناقدِ مذکورہ نے دس ابواب کی حسنِ ترتیب سے نوازا ہے جس کی تزئینِ عنوانات کچھ یوں ہے۔

بابِ اوّل:                      شاعر علی شاعر بحیثیتِ حمد و نعت گو

باب دوم:          غزل گو

باب سوم :           تروینی نگار

باب چہارم:         بچوں کا ادیب

باب پنجم:            افسانہ نگار

باب ششم:         ناول نگار

باب ہفتم:          ناولٹ نگار

باب ہشتم :          صحافی (ایڈیٹر)  مضمون نگار

باب نہم :                        محقق و مؤلف و مرتب

باب دہم:                      مینیجنگ ڈائریکٹر رنگ ادب پبلی کیشنز

کتاب کے آخر میں کتاب کے ممدوح شاعر علی شاعرؔ کا تعارف اور منتخب کلام شامل ہے۔ کتاب کی مذکورہ ترتیب اپنے ممدوح کی تمام تر ادبی جہات کی بھرپور عکاسی کرتی ہے اور کتاب کے نظم و ضبط و تزئین و آرائش کی ترجمان بھی ہے۔

بابِ اوّل شاعر علی شاعرؔ بحیثیت حمد و نعت گو کے حوالے سے ہے جس میں فاضل نقاد نے اپنے ممدوح کا جائزہ چار جہات سے پیش کیا ہے۔ جس میں شاعر علی َ شاعربطور حمد گو، بطور نعت گو، بطور منقبت نگار اور بطور سلام نگار شامل ہے جس میں مذکورہ حوالوں کی حامل کتب کا مذکور بھی ہے۔ ان کے حوالے سے شاعر علی شاعرؔ، دیگر ناقدین کی آراء اور موصوف کے تجزیات شامل ہیں۔ خالصتاً تحقیقی انداز کو مدِنظر رکھتے ہوئے کتب کے سنِ اشاعت بھی دئیے گئے ہیں۔

دوسرا باب شاعر علی شاعرؔ کی غزل گوئی کے حوالے سے ہے۔ شفیق الرحمن الہ آبادی کے طرزِ تحریر کا وصفِ خاص یہ ہے کہ وہ کسی بھی ہیت یا موضوع کے حوالے سے لکھتے ہوئے اوّل الذکر اس کا تنقیدی پس منظر واضح کرنے کی سعیِ جمیل کرتے ہیں جو ایک منجھے ہوئے نقاد کی علامت ہے۔ غزل کے باب میں انہوں نے شاعرِ مذکور کے مجموعہ ہائے غزل کا فرداً فرداً ذکر کیا ہے جس میں تواریخِ طباعت اور ناقدین کے تاثرات ثبت ہیں۔

تیسرا باب شاعر علی شاعرؔ کی تروینی نگاری کی نسبت سے ہے۔ یہ باب خصوصی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ تروینی دیگر اصنافِ سخن کی نسبت ایک نیا ہیتی اظہار ہے۔ اس حوالے سے شاعرؔ صاحب کو یہ اعجاز و امتیاز حاصل ہے کہ وہ عالمی سطح پر اُردو تروینی کے پہلے صاحبِ کتاب شاعر ہیں۔ بابِ ہٰذا میں شاعر علی شاعرؔ کی تروینی کے حوالے سے ڈاکٹر سید شبیہ الحسن اور دیگر ناقدین کے تجزیاتی تاثرات شامل ہیں۔ چوتھے باب میں شاعر علی شاعرؔ کی بچوں کے ادب کے حوالے سے نظمیات کا تذکرہ ہے جس میں شاعر علی شاعرؔ بچوں کے شاعر اور ادیب کے طور پر سامنے آئے ہیں کیونکہ انہوں نے نظمیں بھی کہی ہیں اور کہانیاں بھی لکھی ہیں اور بچوں کی کہانیوں کے حوالے سے ان کی کتب کی تفاصیل دی گئی ہیں جن میں کتابوں کے نام، سنِ اشاعت اور اس حوالے سے ناقدین کی آرا اس کتاب کا حصہ ہیں۔ اس کتاب میں بچوں کے ایک ناول ’’جنت کی تلاش کا خلاصہ بھی پیش کیا گیا ہے۔ لہٰذا کہانی، نظم اور ناول کے حوالے سے شاعر علی شاعرؔ کے ادبی مقام و مرتبے کو واضح کرنے کی کامیاب کوشش کی گئی ہے۔

باب پنجم شاعر علی شاعرؔ کی افسانہ نگاری کے متعلق ہے۔ باب کے آغاز میں افسانے کا اجتماعی انداز میں ایک ارتقائی اور تنقیدی جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ اس باب میں افسانہ نگار کی مذکورہ کتب اور افسانوں کی مختصر تفصیل پیش کی گئی ہے۔ اس حوالے سے ناقدین اور محققین کی آراء بھی شاملِ کتاب کی گئی ہیں۔

باب ششم شاعر علی شاعرؔ کی ناول نگاری کے حوالے سے ہے جس میں ناول کی مبادیات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ ان کے ناول ’’گہرا زخم‘‘ کا تنقیدی جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ باب کا اختتام فاضل ناقد کی استخراجی نوعیت کی آرا پر ہوتا ہے۔

باب ہفتم شاعر علی شاعرؔ کی ناولٹ نگاری پر مبنی ہے جس میں ان کی کتاب ’’پانچ ناولٹ‘‘ کا انتقادی جائزہ شامل کیا گیا ہے اور ہر ناولٹ کی کہانی کو زیرِ بحث لایا گیا ہے۔

باب ہشتم ممدوحِ مذکور کی صحافتی خدمات اور ان کی مضمون نگاری کی نسبت سے ہے۔ ان کے صحافتی کردار کو واضح کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ان کی مضمون نگاری کے حوالے سے جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں ان کی کالم نگاری اور اداریہ نویسی کا پس منظر بھی شامل ہے۔ اس باب کے آخر میں شاعر علی شاعرؔ نے جن معتبر ادبی شخصیات کے انٹرویو کیے ان کا حوالہ شامل ہے۔

باب نہم شاعرؔ صاحب بحیثیت محقق و مؤلف اور مرتب تجزیہ پیش کیا گیا ہے۔ ان کی محققانہ، مؤلفانہ اور مرتّبانہ حیثیتوں کو اجاگر کیا گیا ہے۔ بعدازیں ان کو بطور معلوماتی محقق پیش کیا گیا ہے۔ ان کے مختلف انتخاب ہائے غزل کا مذکور بھی اس باب میں شامل ہے۔ علاوہ ازیں ’’ایک چہرہ ایک کہانی‘‘ سے موسوم ان کے افسانوی انتخاب کا جائزہ لیا گیا ہے۔ اس باب کے اختتام پر ان کی کتاب ’’نیا اُردو افسانہ‘‘ کا مطالعاتی جائزہ پیش کیاگیا ہے جس میں افسانوی حوالے سے شاعر علی شاعرؔ کے تنقیدی کردار کو سراہا گیا ہے۔

باب دہم میں شاعر علی شاعرؔ بحیثیت مینجنگ ڈائریکٹر رنگ ادب پبلی کیشنز کے حوالے سے سامنے آتے ہیں۔ جس میں مجلہ ’’عالمی رنگ ادب‘‘ کی ادبی خدمات کا ذکر بھی ہے اور رنگِ ادب پبلی کیشنز کی مطبوعات کی تفصیل بھی شامل کی گئی ہے۔ کتاب کے آخر میں شاعر علی شاعرؔ کا تعارف اور منتخب کلام شامل کیا گیا ہے۔

مشمولہ استخراجات اس امر کے وقیع شاہد ہیں کہ شفیق الرحمن الہ آبادی نے اپنی کتاب ’’شاعر علی شاعرؔ کی تخلیقی جہتیں ‘‘ میں انتہائی عرق ریزی سے کام لیا ہے اور اپنے ممدوح کے کسی بھی ادبی اور شخصی گوشے کو تشنۂ تصریح نہیں رہنے دیا۔ یہ امر کسی ناقد کی ژرف نگاہی کا عکاس ہوتا ہے۔ انہوں نے اس تحقیقی و تنقیدی نوعیت کی کاوش کے باعث نہ صرف شاعر علی شاعرؔ کے ادبی مقام و مرتبے کو محفوظ کیا ہے بلکہ اپنے آپ کو بھی دنیائے تحقیق و تنقید میں معتبر حوالے کے طور پر امر کر لیا ہے۔ تحقیق و تنقید کی تاریخ میں ان کا نام ہمیشہ زندہ و تابندہ رہے گا۔ خدائے بزرگ و برتر سے دعا ہے کہ شفیق الرحمن الہ آبادی کی تحقیقی و تنقیدی صلاحیتوں کو مزید جلا بخشے۔ آمین

٭٭٭

 

 

 

شاعرؔ صدیقی کے حُزنیہ شعری امکانات

 

حُزن و ملال وہ پر تاثیر جذبہ ہے جو ہر عہد میں ترو تازہ رہتا ہے۔ جس کی پذیرائی کبھی ماند نہیں پڑتی اس کا شمار بنی نوعِ انسان کے فطری احساسات میں ہوتا ہے طرب و تمکنت کے برعکس اسے دوام حاصل ہے جس سے رفعتِ تخیل کو مہمیز ملتی ہے اور اسے فروغ میسر آتا ہے جس کی مثال دنیائے سخن سے خدائے سخن میر تقی میرؔ بھی ہیں جن کے عہد کو ڈیڑھ سو سال سے زائد کا طویل عرصہ بیت چکا ہے لیکن وہ ابھی تک ایک تازہ کار سخنور کی حیثیت سے زندۂ جاوید ہیں شدرہ ہٰذا میں ہم شاعرؔ صدیقی کے کلام کے حُزنیہ حوالے سے رقمطراز ہیں ان کا تیسری شعری مجموعہ ’’جگر لخت لخت‘‘ ہمارے زیر نظر ہے جو ہیتی اعتبار سے قطعات و رباعیات پر مشتملِ ہے واضح رہے قبل ازیں ان کے دو شعری مجموعے ’’آنکھوں میں سمندر‘‘ اور ’’ بجھتے سورج نے کہا‘‘ تھا، اربابِ نقد و نظر سے خراجِ تحسین کی دولت سمیٹ چکے ہیں۔ شاعرؔ صدیقی یکم فروری 1933ء کو کلکتہ میں پیدا ہوئے ان کا خاندانی نام عبدالرزاق ہے تعلیم و تربیت اور عملی زندگی کا آغاز کلکتہ سے ہوا لیکن زندگی کا بیشتر حصہ سابق مشرقی پاکستان میں گزرا پھر کراچی آگئے رسمی تعلیم ایم اے (اردو ادب)ہے ملازمت بھی کی اور صحافت سے بھی وابستہ رہے خامہ و قرطاس سے ان کا تعلق مضبوط بنیادوں پر استوار رہا،  شاعری اور تصنیف کا عمل جاری رہا ان کے مذکورہ شعری مجموعہ کے ثُلث اول کے منتخب قطعات بطور اشتہارات شامل تجزیہ کرتے ہیں ہیتی اعتبار سے قطعہ نگاری اور رباعی کے بعد دوسرا بڑا مشکل فن ہے قطعہ چار مصرعی نظم ہے جس کے دوسرے اور چوتھے مصرعے میں میں قافیہ ردیف کا اہتمام ہیتی پابندی کا حصہ ہے بعض اوقات پہلے مصرعے میں بھی قافیہ و ردیف کی پاسداری نظر آتی ہے بسا اوقات یوں بھی ہوتا ہے کہ پہلے اور تیسرے مصرع کا قافیہ الگ رکھا جاتا جبکہ دوسرے اور چوتھے مصرعے کا قافیہ الگ رکھا جاتا ہے جس سے قطعہ کے فنی حسن میں اضافہ ہو جاتا ہے رباعی کی طرح مخصوص بحور کی کوئی پابندی نہیں ہے کسی بھی بحر میں قطعہ لکھا جا سکتا ہے عہدِ متقدمین و متوسطین میں چار مصرعوں سے زائد بھی قطعات لکھے گئے ہیں۔

شاعرؔ صدیقی کے کلام میں حُزن و ملال کے قوی پہلو پائے جاتے ہیں جس سے قاری غم و الم سے مانوس ہوتا چلا جاتا ہے اور اُن کی اپنی شخصیت بھی نکھر کر سامنے آتی ہے غم و الم کے حوالے سے اُن کے ہاں ایک راز داری کا فلسفہ بھی ملتا ہے جو ان کی شخصی ذہانت و متانت کی بیّن دلیل ہے بسا اوقات مرزا اسد اللہ خان غالبؔ کی طرح اپنے حزن و ملال کا تمسخر اڑاتے ہوئے بھی نظر آتے ہیں اسی تناظر میں ان کا ایک قطعہ ملاحظہ کریں   ؎

مسکراہٹ مجھے نصیب کہاں

میں اسیرِ غم زمانہ ہوں

میں اُڑاتا ہوں اپنے غم کی ہنسی

تم سمجھتے ہو مسکراتا ہوں

شاعرِ موصوف کے ہاں حقیقت پسندی کا غالب عنصر نظر آتا ہے کچھ تلخ حقائق کا بیانِ ذیشان ہے ان کے ہاں عندالبیَّان مفلوک الحال طبقے کی غمازی ملتی ہے جو ان کی ترقی پسند فکر کی ترجمان ہے ان کی زیست کے تجربات و مشاہدات کا عکسِ جمیل بھی ہے غمِ ہستی کے پہلو بہ پہلو غمِ جاناں کے شواہد بھی بھر پور انداز میں پائے جاتے ہیں جس سے ان کے افکار کا حسن دوچند ہوتا ہوا دکھائی دیتا ہے جس میں حسرتوں کا سوگ اور دل کا روگ اپنی بہار دکھاتا ہوا نظر آتا ہے حُزنیہ طرزِ فکر میں رومان کی آمیزش زبردست اہمیت کی حامل ہے   ؎

تمناؤں کی دنیا میں سکوتِ مرگ طاری ہے

کوئی جھوٹی تسلی سے کہاں تک دل کو بہلائے؟

ابھی تو چاند بھی نکلا نہیں آکاش پر لیکن

ابھی سے پھیلتے جاتے ہیں تیری یاد کے سائے

اُن کے نزدیک غم باعث تگ و تازِ حیات ہے اور محرکِ کائنات ہے زیست کی چہل پہل اور گہما گہمی اسی کے باعث ہے جب آرزوئیں پایۂ تکمیل کو نہیں پہنچتیں تو دروں کی دنیا ناکام آرزوؤں کا جہاں بن جاتا ہے حسرتیں یاس و غم کے قالب میں ڈھل جاتی ہیں خونِ دل اور خونِ ارماں زندگی کے چراغ کو جلنے کی شکتی دیتے ہیں   ؎

دل میں ناکام آرزو کا جہاں

قالبِ یاس و غم میں ڈھلتا ہے

خونِ دل اور خونِ ارماں سے

زندگی کا چراغ جلتا ہے

شاعر صدیقی کے حُزنیہ عوامل لازوال اور ابدی رنگ میں دکھائی دیتے ہیں مسرت و شادمانی کے تمام امکانات معدوم نظر آتے ہیں اس پر طرۂ یہ بھی ہے کہ عالمِ ہجراں بھی قیامتِ صغریٰ کا مثیل ہے تصورِ یار اتنا راسخ ہو چکا ہے کہ لیل و نہار رتجگوں کی داستان بن گئے ہیں انہوں نے غمِ ذات اور غمِ جاناں کو انتہائی خوبصورتی سے ایک ساتھ بنھایا   ؎

داغِ دل،  داغِ جگر دھو نہ سکوں گا شاید

واقف امن و سکوں ہو نہ سکوں گا شاید

پھر تصور میں مرے چاند سی صورت ہے وہی

آج کی رات بھی میں سونہ سکوں گا شاید

شاعرِ مذکور کا ایک فطری اعجاز یہ بھی ہے کہ ان کا حُزن و الم یاسیت آمیز نہیں بلکہ ان کے ہاں لطیف احساسات کی بارہ دری بھی ہے جس سے بادِ نو بہاری کے تازہ جھونکے اقلیم قلب و خرد کو معطر و معنبر کرتے ہیں انہوں نے ایک خوشگوار شعری روایت کو پروان چڑھانے کی سعیِ بلیغ کی ہے رنج و ملال کا بیان طربیہ پیرایۂ اظہار میں انتہائی خوش آئند ہے بقول راقم الحروف   ؎

غموں نے مجھ کو امر کیا ہے

مرے دروں میں ہیں داغ روشن

انہیں احساسات کا بیان شاعرؔ صدیقی کے ہاں کچھ اس طرح پایا جاتا ہے   ؎

دِل تو ویران ہو چکا کب کا؟

اب بھی روشن ہیں حسرتوں کے داغ

جیسے صحرا میں کھل رہے ہیں گلاب

دشت میں جیسے جل رہے ہوں چراغ

ہماری حیاتِ چند روزہ مصائب و آلام سے مربوط ہے جس کے باعث ص رو تحمل اور استقامت کی اہمیت دو چند ہو گئی ہے اور ضبط مقتضیاتِ زیست کا حصہ بن چکا ہے جو دنیائے دروں میں کہرام بپا کر دیتا ہے جس کے خارجی تحرکات تو معدوم ہو جاتے ہیں لیکن داخلی اثرات قیامت خیز ہوتے ہیں اسی نسبت سے ان کا ایک قطع پیشِ نظر ہے   ؎

میں جنہیں پی گیا بظاہر وہ

گرم پانی کے چند قطرے تھے

آگ کیوں لگ رہی ہے سینے میں

مرے آنسو تھے وہ انگارے

مذکورہ استخراجات شاہد ہیں کہ شاعرؔ صدیقی کا سخن ایک گنجِ رنج ہے جس میں کیف و سرور کی فضا بھی ہے اسلوب سہلِ ممتنع کی ردا اوڑھے ہوئے ہے مفردو مرکب بحور میں احسن طریقے سے سخن سنجی کی ہے اُن کے کلام کے حُزینہ امکانات ان کے ادبی دوام میں ممد و معاون ثابت ہوسکتے ہیں۔

٭٭٭

 

 

 

 

شاہدؔ خاکوانی… مزاحمتی روئیوں کا شاعر

 

بہت ہی کم لوگ ہوتے ہیں جو دنیا کو بدلنا چاہتے ہیں اور اسے مثالی بہشت کے طور پر دیکھنا چاہتے ہیں ان کا طرزِ فکر انقلابی نوعیت کا حامل ہوتا ہے ان کے مزاج میں سماج کے ناروا روئیوں کے خلاف ایک مزاحمت کا عنصر پایا جاتا ہے وہ ترقی پسند سوچ کے آئینہ دار اور علمبردار ہوتے ہیں وہ نظامِ حکومت اور معاشرے کی ہر کج روی کے خلاف سراپا احتجاج ہوتے ہیں وہ معاشرے کی بے حسی کو ہدفِ تنقید بناتے ہیں ایسی ہی شخصیات تاریخ ساز اور زمانہ ساغر کہلاتی ہیں ایسی ہی طرزِ فکر رکھنے والے شعرا ترقی پسند، انقلابی یا مزاحمتی شاعر کہلاتے ہیں۔ جب ہم نے شاہدؔ خاکوانی کے شعری مجموعہ ’’ہمیں خوابوں میں رہنے دو ‘‘ کا بنظرِ غائر مطالعہ کیا تو ان کے کلام میں اسی نوع کے جذبات و تخیلات و فور سے نظر آئے ہیں آج ہم ان کے مذکورہ شعری مجموعہ کے تناظر میں متذکرہ موضوع کی مناسبت سے ان کی منتخب غزلیات کے منتخب اشعار کو برائے تجزیہ زیرِ استشہا دلائیں گے۔

ملک و قوم کی زبوں حالی ہر صاحبِ فکر کے لئے باعثِ کرب بنی ہوئی ہے ہر سو ظلم و دہشت کے سائے مہیب نظر آتے ہیں یاسیت و قنوطیت نے ہماری معاشرت میں اپنی جڑیں پیوست کر لی ہیں بے حسی نے اپنی راجدھانی قائم کر لی ہے اس بھیانک صورت حال میں ارباب فکر و دانش محوِ غور و فکر ہیں ہر سو نفرتیں اور کدورتیں ہیں اخلاقی اقدار پامال ہو چکی ہیں اس حوالے سے ان کی غزل کے تین اشعار نذرِ قارئین ہیں۔

امید کی شاخیں ٹوٹ چکیں ہر آنگن میں پت جھڑ ہے

تعبیر نہیں ہے خوابوں کی ہر آنکھ میں حسرت ملتی ہے

اب گلشن میں ویرانی ہے ہر شاخ پہ الّو بیٹھا ہے

اب جرم نہیں ہے جرم کوئی ہر جرم میں لذت ملتی ہے

احساس کے زیور سے عاری آزاد زمیں پہ پھرتے ہیں

ہر ہاتھ میں خنجر ملتا ہے ہر سوچ میں شدّت ملتی ہے

شاہدؔ خاکوانی نے دوہرے عمرانی روئیوں کو ہدفِ تنقید بنایا ہے وہ ہر قسم کی منافقت اور کھوٹ کو ناپسند کرتے ہیں وہ معاشرے کے نام نہاد فرشتہ صفت لوگوں کے خلاف سراپا احتجاج ہیں جن لوگوں کے قول فعل میں تضاد ہے جن کا عمل سے کوئی سروکار نہیں ہے جن کا تعلق محض نعرہ بازی سے ہے انہیں اپنی طنز اور تنقید کا ہدف بناتے ہیں اسی نسبت سے ان کی ایک غزل کے چار اشعار ملاحظہ ہوں۔

ظلمت کے مینار یہی ہیں اندھے گونگے بہرے لوگ

جھوٹ کے پیرو کار یہی ہیں اندھے گونگے بہرے لوگ

الفت کیا ہے چاہت کیا ہے ان کو اس سے مطلب کیا ؟

نفرت کا پر چار یہی ہیں اندھے گونگے بہرے لوگ

میرے دیس کے دامن پر یہ بدصورت سا دھبہ ہیں

پھولوں میں گو خار یہی ہیں اندھے گونگے بہرے لوگ

ان کے افکار اور ان کا طرزِ اظہار جدا گانہ نوعیت کا حامل ہے وہ سیدھے سادے انداز میں طنز کے نشتر برساتے ہیں جو قاری کو اپنے حصار میں لے لیتے ہیں ان کی ایک چہار شعری غزل بدونِ تبصرہ پیش خدمت ہے۔

جفارُتوں میں ہی پلنے والے وفا کا پرچار کیا کریں گے؟

جو لوگ ٹھہرے خدا کے منکر دعا کا پرچار کیا کریں گے؟

یہ کیسے لوگوں میں آپھنسا ہوں بُتوں میں جو رَبّ کو ڈھونڈتے ہیں ؟

سماعتوں سے جو عاری ٹھہرے صدا کا پرچار کیا کریں گے؟

یہ وقت مشکل جو آگیا ہے تو پھر سے کوئی کلیم ڈھونڈو

کہ کافروں سے بھی کیا توقع خدا کا پر چار کیا کریں گے؟

تم اپنے حصے کی روشنی کو اور اپنی منزل کو خود تلاشو

یہ ظلمتوں کے سفیر شاہدؔ ضیا کا پرچار کیا کریں گے ؟

شاہدؔ خاکوانی کے ہاں جہاں رومانوی افکار پائے جاتے ہیں وہاں مزاحمتی روئیے بھی اپنی بھرپور بہار دکھاتے نظر آتے ہیں ابھی ان کے شعری سفر کا نقطۂ آغاز ہے بہر حال ان کے کلام میں بہت سے بالیدگی کے شواہد موجود ہیں اگر ان کا شعری سفر فرطِ تسلسل سے جاری رہا تومرورِ ایّام کے ساتھ ساتھ ان کے کلام میں مزید نکھار آئے گا۔

٭٭٭

 

 

 

 شاہینؔ زیدی کے ناول  ’’ جدا منزلیں ، جدا راہیں ‘‘ کا اِنتقادی جائزہ

 

کسی بھی ناول کی کامیابی اس امر میں مضمر ہے کہ وہ کتنا قرینِ حقیقت ہے کیا وہ ہماری معاشرت کی عملی تصویر پیش کرتا ہے کیا اس کے کردار ہمارے سماج کے آئینہ دار ہیں کیا وہ فطری انداز میں مکالمہ کرتے ہیں کیا انہوں نے اپنی آنکھوں پر تصنع کے چشمے تو نہیں سجائے کیا وہ ہماری تہذیب و ثقافت کا ترجمان ہے کیا اس میں روحِ عصر کی ترجمانی ہوتی ہے جب ہم نے بیگم شاہین زیدی کے ناول ’’ جدا منزلیں ، جدا راہیں ‘‘ کا مطالعہ کیا تو ہمیں جملہ امور بدرجہ اتم نظر آئے۔

ناوِل ہٰذا ایک فطری پیرایۂ اظہار کا حامل ہے جس کا پلاٹ اس کی فنی عمدگی کا مظہر ہے جذبات و احساسات میں ایک حقیقی انداز پایا جاتا ہے اگرچہ یہ ایک بیانیہ طرز کا ناول ہے مگر اس میں منظر نگاری کا جوہر بھی موجود ہے جس میں معاشرے کے محاسن و معائب کا بیان بھی ہے جس میں چھوٹی چھوٹی کئی ذیلی کہانیاں ہیں ان کے اسلوب میں سلاست و سادگی پائی جاتی ہے جس میں ایک شاندار سسپنس اور کلائمکس بھی ہے جس سے ان کے تکنیکی ادراک کا اندازہ بھی ہوتا ہے، بعد ازیں ان کے متعدد ناول اور دیگر انواع کی کتب بھی منصہ شہود پر آ چکی ہیں اس ناول سے کہانی کا بہترین فن آشکار ہوتا ہے۔

اس کے کردار معاشرے کے جیتے جاگتے کردار ہیں جو ہماری طرح ہنستے، کھیلتے، روتے، جاگتے اور باتیں کرتے نظر آتے ہیں اس ناول کے مطالعے سے یہ حقیقت منکشف ہوتی ہے کہ وہ عمیق عمرانی شعور رکھتی ہے جس سے ان کی سنجیدہ شخصیت کی غمازی ہوتی ہے وہ زیست کے ہر پہلو کو کافی غور و خوض کے ساتھ دیکھتی ہیں ان کے جملوں کے درو بست سے اس بات کی عکاسی ہوتی ہے کہ وہ لِسانی اعتبار سے ایک اعلیٰ معیار رکھتی ہیں اس ناول میں مقصدیت کا پہلو بھی کار فرما نظر آتا ہے انہوں نے ناول کی زبان زیادہ ادبی بنانے کی کوشش نہیں کی بلکہ ان کا اسلوب عمومی کیفیت رکھتا ہے جو ہر قسم کے تصنع اور آلائش سے مُبرا و ماورا ہے ان کے ایک اقتباس میں ان کے سماجی شعور اور پیرایۂ اظہار کا رنگ دیکھتے ہیں۔

’’آپ کو اچھی طرح اس بات کا علم ہونا چاہیے کہ شادی بیاہ میں لوگوں کی شرکت برائے نام ہوتی ہے ان کا اصل مقصد تو اہم سیاسی شخصیات اور اعلیٰ حکام سے اپنے رُکے ہوئے کاموں  یا درخواستوں پر سائن کروانا ہوتا ہے بگڑے ہوئے کام بنوانا ہوتے ہیں لوگ تو شادی کے ایسے دعوت ناموں کو حاصل کرنے کے لئے پہلے ہی سے بھاگ دوڑ شروع کر دیتے ہیں کہیں کوئی وفاقی یا صوبائی وزیر شرکت کرے وہاں تو لوگوں کا ہجوم دیکھنے کے قابل ہوتا ہے اور یہاں تو وزیروں اور غیر ملکی باشندوں کے علاوہ خود صدر اور وزیر اعظم تک شریک تھے آپ نے اندازہ لگا ہی لیا ہو گا کہ دعوت کیسی رہی ‘‘ ؟

قارئینِ کرام آپ نے دیکھا کہ ان کے ناول میں کس قدر معاشرتی معاملات کا ادراک پایا جاتا ہے ان کے ناول میں معاشرت کی حقیقی تصویریں ملتی ہیں اور بھرپور طریقے سے روحِ عصر کی ترجمانی ہے انہوں نے سماج کی ناہمواریوں کی نشاندہی بھی کی ہے جس سے انسانی نفسیات کا عمیق ادراک آشکار ہوتا ہے شاہینؔ زیدی کے اس ناول کی اٹھان یہ خبر دیتی ہے۔

ہزاروں جناب کرے گی زخمی

جب اس کے خنجر میں آب ہو گی

مسلسل ریاضت سے ان کے فن میں مزید بلوغت کے آثار پیدا ہوں گے۔ بہرحال قوی امید کی جا سکی ہے کہ

اٹھیں گے پردہ ہائے بام و در آہستہ آہستہ

ہمیں یقین ہے کہ ناول کے جریدے کی یہ گائیڈ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ناول کی تکنیک پر پوری گرفت حاصل کرے گی اس کے مکالمات اور زیادہ جاندار ہو جائیں گے اس کی منظر نگاری کچھ اور نکھر جائے گی اس کے پلاٹ میں فزوں سے فزوں تر ربط کی فضا پیدا ہو گی بہر حال اس کی ناول نگاری لائق تحسین اور سراہے جلے جانے کے قابل ہے اور ناول نگاروں کی صف میں اپنا مقام بناتی ہوئی نظر آتی ہے۔

٭٭٭

 

 

 

شاہد رضوان کی افسانوی فضا اور عصری رویے

 

کاروبارِ لوح و قلم حضرتِ انسان کو با اعتبار اور ذی وقار بنا دیتا ہے اسے وسعتِ نظر اور صلابتِ فکر میسر ہوتی ہے وہ شعر ہو یا ادب،  ناول ہو یا افسانہ اپنی اپنی خاص فضا اور خصوصی رنگ کا حامل ہوتا ہے نگارش کا منفرد لب و لہجہ اور مخصوص ذائقہ ہوتا ہے جو اپنے لکھاری کے مزاج اور کیفیتِ ہنر کا عکاس ہوتا ہے آج شاہد رضوان کا افسانوی مجموعہ ’’ پہلا آدمی‘‘ برائے تبصرہ ہمارے روبرو ہے۔ کتاب کا یہ نام دراصل ان کے دسویں افسانے کا سر نامہ ہے اس سے پہلے کہ ہم ان کے افسانوں کے حوالے سے رقمطراز ہوں مناسب ہو گا کہ ان کی کتاب میں مرقوم مختصر شذرات میں سے مشتے از خوروارے ہدیۂ قارئین کرتے چلیں۔ فاضل نقاد ڈاکٹر سید شبیہ الحسن لکھتے ہیں۔

’’شاہد رضوان ایک ایسے تخلیق کار ہیں جنہیں نہ تو اپنی ذات سے کوئی غرض ہے اور نہ ناقدین سے کوئی سروکار وہ تو اپنے ارد گرد پھیلے ہوئے واقعات و حادثات کو کہانیوں کی شکل عطا کر دیتے ہیں جس طرح ایک کوزہ گر سادہ مٹی کو اپنے دستِ ہنر سے قابل توجہ کوزے کا روپ عطا کر دیتا ہے بالکل اسی طرح شاہد رضوان اپنی صناعانہ صلاحیتوں کی بدولت تمام قصے کو خاص کہانی بنا دیتے ہیں۔ ‘‘

ڈاکٹر قاضی عابد یوں رقمطراز ہیں :

’’یہ شاہد رضوان کی کہانیوں کا دوسرا مجموعہ ہے جسے ابھی تک اس کے پہلے مجموعے کے تسلسل میں ہی دیکھا جا سکتا ہے شاید وہ ابھی تک زندگی کے ان سادہ اور سادگی سے سمجھ آنے والی حقیقتوں کا ایسا اسیر ہے کہ وہ اپنی زندگی کی پیشکش کو فنی الجھاؤں میں خود کو یا اپنی کہانیوں کو الجھا نے پر مائل نہیں ہوسکا وہ زندگی کو معصومیت اور تحیر سے دیکھنے اور دکھانے کا قائل ہے۔ ‘‘

نیلم احمد بشیر نے موصوف کی نسبت سے یوں خیال آرائی کی ہے:

’’شاہد رضوان کا دوسرا افسانوی مجموعہ پڑھا تو دل کو ڈھارس ہو گئی کہ فنِ افسانہ نگاری ابھی نہ صرف زندہ ہے بلکہ ثابت قدمی سے پاؤں پاؤں چل کر آگے کی طرف رواں دواں ہے اور اس کے سفر کے دوران پیش آنے والی حیرتیں ابھی تک لکھنے والوں کو اپنے حصار میں جکڑے ہوئے ہیں اور اسے آزاد نہیں ہونے دے رہیں۔ ‘‘

یہاں ہم طاہرہ اقبال کی رائے سے صرفِ نظر کر کے آگے نہیں بڑھ سکتے ان کے بقول :

’’شاہد رضوان جدید عہد کا پر اعتماد قلم کار ہے وہ حالاتِ حاضرہ اور آج کے جدید انسان کی گنجلک نفسیات کا بخوبی ادراک رکھتا ہے۔ ‘‘

ڈاکٹر حمیرا اشفاق نے بڑی بر جستگی سے مؤلفِ مذکور کی افسانہ نگاری پر گفتگو کی ہے۔

’’کہانی کی سب سے بڑی خوبصورتی اس کا کہانی پن ہے اور شاہد رضوان کے پاس کہانی کا فن موجود ہے وہ ابھی اپنے اندر چھپے فنکار کو باہر لا رہا ہے اور آخر وقت آئے گا جب وہ اس شہکار کو سامنے لے آئے گی جو کسی فنکار کی پہچان بن جاتا ہے اس کی کہانی میں دورِ حاضر کے مسائل اپنی تمام تر جزئیات کے ساتھ نمایاں ہو جاتے ہیں۔ ‘‘

ہم نے شاہد رضوان کے افسانوں مجموعہ ’’پہلا آدمی‘‘ مطبوعہ 2013ء کے ابتدائی چار افسانوں کا تفصیلی مطالعہ کیا دراصل کتابِ ہٰذا چودہ افسانوں پر مشتمل ہے جن میں چار افسانے مزدور،  زندگی،  خواب گاہ اور سائیں جی برائے تنقید و تبصرہ زیرِ مطالعہ لائے گئے ہیں ہم نے محسوس کیا ہے کہ یہ چار افسانے زندگی کے بہت قریب ہیں حقیقت کے باعث ایک خاص دلچسپی کے حامل ہیں۔

افسانہ ’’ مزدور‘‘ ایک امیر خاندان کی خاتون کی ذہنی کیفیات کا عکاس ہے جس کا شوہر امریکہ گیا ہوا ہے اور رفتہ رفتہ بیوی سے لا تعلق ساہو گیا ہے البتہ معقول مقدار میں رقم ہر ماہ بھیج دیتا ہے جس سے دو افراد پر مشتمل گھرانہ بڑے آرام سے چل رہا ہے دوسرا فرد اس خاتون کی بوڑھی ساس ہے جس کی خدمت کے لئے اسے رہنا پڑ رہا ہے وہ سوچتی ہے کہ اس کا شوہر تو گوریوں میں گل چھرے اُڑا رہا ہے جبکہ وہ روکھی پھیکی اور غیر جنسی زندگی گزارنے پر مجبور ہے چنانچہ ایک دن وہ نفس اور شیطان کے اغواء میں آ جاتی ہے ساس کو نند کے گھر چھوڑ کر اور مزدور چوک سے ایک ہٹا کٹا مزدور کار پر ساتھ لے آئی اور اسے موقع پر کیاری کو گوڈی کرنے اور پانی دینے کا کام بتاتی ہے مگر جب وہ اس کے گھر آتا ہے تو ایسی کوئی کیاری نظر نہیں آئی وہ حیرت سے استفسار کرتا ہے تو اسے خوشخبری سنائی جاتی ہے کہ مزدوری دو سو کی بجائے چارسو روپے ملے گی شرط یہ ہے کہ بھر پور طریقے سے گوڈی کی جائے اور پانی دیا جائے کیاری کہاں ہے  جواب میں کمرے کے اندر کی طرف اشارہ کر دیتی ہے یوں افسانے کا اختتام ہیجان انگیز بن جاتا ہے اور انسان کافی دیر تک سوچتا رہ جاتا ہے کہ زندگی میں ایسے موڑ بھی آ جاتے ہیں اس موقع پر سعادت حسن منٹو کے قابلِ اعتراض افسانوں کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔

دوسرا افسانہ ’’ زندگی‘‘ کا ایک آسوہ حال خاندان کی شادی شدہ عورت کا ہے جو ایک متوسط درجے کے گھر میں بیاہی گئی ہے اور اسے شکایت ہے کہ اس کا شوہر ماں ،  بہنوں کا زیادہ خیال رکھتا ہے اور جو وعدے وعید یونیورسٹی کے زمانے میں شادی سے پہلے کئے گئے تھے وہ سب نظر انداز کر دیئے گئے ہیں وہ اس طرح زندگی برباد نہیں کرسکتی چنانچہ وہ فیصلہ کر لیتی ہے کہ اس سے تو بہتر ہے کہ اپنے میکے گھر جا کر رہا جائے چنانچہ وہ شوہر سے کہتی ہے کہ وہ اسے میکے چھوڑ آئے نہیں تو وہ خود چلی جائے گی کیونکہ اب مزید وہ اس کے ساتھ نہیں رہ سکتی شوہر سمجھانے بجھانے کی کوشش کرتا ہے۔ بہتر مستقبل کی بشارت دیتا ہے۔ منت سماجت کرتا ہے یہاں تک کہ اس کے آگے ہاتھ جوڑ دیتا ہے مگر اس ظالم حسینہ کو ترس نہیں آتا اور وہ ٹس سے مس نہیں ہوتی وہ ماں اور بہنوں کو صورتِ حال سے آگاہ کرتا ہے تو وہ اس کا مذاق اڑاتی ہیں اور طعن و تشنیع سے کام لیتی ہیں وہ بیوی کو خود چھوڑنے روانہ ہو جاتا ہے راستہ میں ایک ورکشاپ آ جاتی ہے جس میں گاڑی کا معائنہ کرانے کے لیے کچھ دیر انہیں رکنا پڑتا ہے وہاں قریب ہی زندگی کے چند حقائق وہ خاتون مشاہدہ کرتی ہے مثلاً کوڑے کرکٹ سے کباڑ اکٹھا کرنے والا بھوکا نوجوان جو کوڑے پر گرنے والی ایک ایسی روٹی جس میں دال پڑا ہوتا ہے خوشی سے کھا جاتا ہے اس طرح ایک بوڑھا جو اس میں پڑے ہوئے بال کی وجہ سے روٹی ادھوری چھوڑ دیتا ہے اور بہو سے برہمی کا اظہار کرتا ہے زندگی کی کٹھنائیوں اور تلخ حقیقتوں کو اتنا قریب سے دیکھ کر اسے اپنے رویے پر ندامت ہوتی ہے اور پھر وہ اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرتے ہوئے شوہر کو اپنے گھر واپس جانے کی ہدایت جاری کر دیتی ہے۔

تیسرا افسانہ ’’خواب گاہ‘‘ ایک ریٹائرڈ جج کی کہانی ہے جس نے بڑی بے دردی سے قانون اور انصاف کی دھجیاں بکھیریں اور ناجائز کمائی کی انتہا کر دی اسے اچانک ڈراؤ نے خواب نظر آتے ہیں دراصل یہ ردِ عمل ہے ان زیادتیوں کا جونا انصافیوں کی صورت میں پیسے کے لالچ میں اس نے لوگوں کے ساتھ کیں وہ اس صورتِ حال سے نجات پانے کے لئے چلہ کشی کی راہ اختیار کرتا ہے پہلے تو مارے خوف کے اسے چھوڑ بیٹھتا ہے پھر دوست کے ڈھارس بندھانے پر چلہ کاٹتا ہے اور اس میں کامیاب ہونے کے بعد ایک بزرگ کی زیارت ہوتی ہے جو اسے بتاتا ہے کہ میں نے چشمِ بصیرت سے دیکھا ہے کہ تمہاری صورتیں مسلسل بدلتی رہتی ہیں کبھی بلی،  کبھی کتا،  کبھی بندر،  کبھی سانپ اور کبھی بچھویوں اسے منصف کے لبادے میں کئے جانے والے مظالم کا انجامِ بدکا عکس دکھائی دیتا ہے اس افسانے سے یہ امر اظہر من الشمس ہوتا ہے کہ دنیا مکافاتِ عمل ہے انسان کو اپنے اعمال کی جزا یا سزا دنیا میں بھی ملتی ہے۔

چوتھا افسانہ ’’سائیں جی‘‘ ایک بچے کی غفلت اور نہ بتا کر گھر سے باہر جانے کی صورت میں اس کے والدین کی پریشانی اور پھر والدین کے اولاد کی محبت میں نقلی پیروں کے ہاتھوں ہونے والی تباہی کی کہانی ہے بچہ تو تیسرے روز واپس آجاتا ہے لیکن نقلی سائیں جی بستی کی ایک خوبصورت لڑکی سمیت تین لاکھ تاوان کے لے کر فرار ہو جاتا ہے یوں دو گھرانے توہم پرستی کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔

شاہد رضوان کے ان افسانوں سے ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ وہ عمدہ افسانہ لکھنے کا ہنر جانتے ہیں جو زندگی کے بہت قریب ہوتا ہے ان کا افسانہ تلخیِ حیات کا آئینہ دار ہے زیست کی کٹھنائیوں اور نشیب و فراز کا بہ خوبی احاطہ کرتا ہے کردار بڑے جاندار اور جیتے جاگتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ منظر نگاری پر انہیں دسترس حاصل ہے۔ جزئیات نویسی ان کے فن کا خاصہ ہے مکالمات بڑے دلکش اور چبھتے ہوئے ہوتے ہیں کہانی کا تانا بانا بڑی چابکدستی سے بنتے ہیں بین السطور کہیں خلا کا احساس نہیں ہوتا وہ اپنے افسانوں سے سبق آموزی کا کام بھی لیتے ہیں اگر یہ کہا جائے کہ ان کے افسانے ادب برائے زندگی کے پلڑے میں آتے ہیں تو بے جا نہ ہو گا انہیں ان کے اس افسانوں مجموعے کی عمدگی پر دادِ تحسین پیش کرتے ہیں اور ان سے اس سفر کے جاری رکھنے کی امید بھی کرتے ہیں۔

٭٭٭

 

 

 

صابر ظفرؔ کے صوفیانہ ادراکات

 

 

خالقِ موجودات و معدومات کی خلاقیت کا اعجاز و امتیاز یہ ہے کہ اس کے دستِ قدرت و ندرت نے اپنی ہر تخلیق کو نادر النظیر خلق فرمایا اور گوناں گوں ہئیتیں اور صورتیں ودیعت فرمائیں اپنے ہر ذی روح کو مختلف طباع سے نوازا جس سے مشیت کی نیرنگی فکر کی غمازی ہوتی ہے جس طبع کو اس حی و یا قیوم ذات نے اپنے زیادہ قریب تر کرنا چاہا اسے صوفیانہ طرزِ فکرو عمل سے آشنا کر دیا انہیں صوفیانہ طباع میں ایک نام صابرؔ ظفرکا بھی ہے جس کا سخن صوفیانہ ادراکات سے منور و مزین اور معطر و معنبر ہے اس وقت ہمارے پیشِ نظر ان کی طویل ترین غزل کا مجموعہ،  سرِ بازار می رقصم ’’مطبوعہ مارچ2013ء ہے جس سے ان کی عمیق صوفیانہ اور سماجی شعور کی غمازی ہوتی ہے ان کا تصوف اپنے اندر ایک وجدو حال کی کیفیت رکھتا ہے انھیں مذکورہ غزل اور کتاب کی تحریک شیخ عثمان مروندی المعروف شہباز قلندر کی فارسی غزل سے ملی کتابِ ہٰذا کا سر نامہ جو اس غزل کی ردیف بھی ہے شیخ عثمان مروندی کی فارسی غزل سے منسوب ہے جہاں تک شاعرِ ممدوح کے ادبی تعارف کا تعلق ہے تو ابھی تک ان کے تین شعری مجموعے منصہ شہود پر آ چکے ہیں علاوہ ازیں چھ شعری انتخاب بھی زیورِ طباعت سے آراستہ ہو چکے ہیں اتنا کثیر ادبی سرمایہ قارئینِ شعر و ادب کو بہم پہنچانا بھی کارِ فرہاد سے کم نہیں جہاں تک ان کے سوانحی کوائف کا معاملہ ہے تو اس حوالے سے کتابِ ہٰذا کے اوراق خالی ہیں ہم ان کے متذکرہ شعری مجموعہ سے چند منتخب اشعار برائے صراحت و تجزیہ شاملِ شذرہ کرتے ہیں ویسے تو ان کی یہ بسیط غزل سراپا انتخاب ہے۔

وہ بزمِ جہاں کو نگاہِ عشق و تحیر سے دیکھتے ہیں اور مظاہرِ فطرت کو بھی ہمنوا پاتے ہیں جن میں زمین و فلک اور سیارگان بھی شامل ہیں ان کے نقطۂ نگاہ کا کمال یہ ہے کہ وہ سنسار کی ہر شئے کو چشمِ تصوف سے دیکھتے ہیں جس کے باعث انہیں کائنات محوِ رقص اور وجدو حال کے عالم میں دکھائی دیتی ہے وہ تصوف کو ہی مقصدِ حیات گردانتے ہیں ان کے نزدیک ایک سالک ہی اپنے معبود کا عبدِ حقیقی ہے انہیں افکار کی پاسداری میں ان کی غزل کے تین اوّلین اشعار ملاحظہ ہوں   ؎

سرِ بزمِ تحیّر رو بروئے یار می رقصم

وفورِ عشق سے امشب ستارہ وار می رقصم

زمیں ہے اور میں رقصاں برنگِ گردش کوزہ

فلک ہے اور مثالِ گردشِ سیّارمی رقصم

مری قیمت و صولی جا رہی ہے مجھ کو نچوا کر

نہیں جب تک بکھرتے میرے تن کے تار می رقصم

اُن کی قوتِ متخیلہ کا کلیدی حوالہ رقص ہے جو بیک وقت وجدانی اور جنونی کیفیت کا حامل ہے جس میں عرفان و آگہی بھی ہے اور کیف و سرمستی بھی ہے وہ صوفیانہ نظریہ ہمہ ازا اوست کے شدت وحدت سے قائل ہیں اس لئے انہیں تمام تخلیقات میں خالقِ حقیقی کی جلوہ سا مانی نظر آتی ہے چاہے وہ گل و گلزار ہوں یا خزاں کے آثار ہوں ان کا تعلق اس ذاتِ کبریا سے مضبوط اور مستحکم بنیادوں پر استوار رہتا ہے ان کے ہاں عمرانی زندگی کا شعور بھی تصوف کے پیرائے میں ملتا ہے    ؎

دوبارہ شاخِ دل پر درد کے پتے نکل آئے

بُھلا دیتا ہوں یہ رنگ خزاں آثار می رقصم

کبھی چھت سے کبھی زینے سے مجھ کو چھپ کے تکتا ہے

وہ جس کے عشق میں پہروں پسِ دیوار می رقصم

جب اس سے انگ لاگا ہے تو مجھ کو رنگ لاگا ہے

وہ میرے سنگ جاگا ہے جو خوشبودار می رقصم

شگوفے پھوٹتے دوشیزگی کے جب نظر آئیں

میں ہو جاتا ہوں اک وحشت سے تازہ کار می رقصم

انہوں نے اپنی طویل ترین غزل جو ان کی عمیق شعری ریاضت کا ثمر بھی ہے جہاں غزل سے والہانہ محبت کا اظہار ہے وہاں حقیقی زندگی کی عملی تصویر تصوف آمیز نقطۂ نظر سے پیش کی ہے اگرچہ یہ بھی ایک بین حقیقت ہے مُلّائیت سے ان کی دور دراز کی نسبت نہیں ہے انہوں نے بین السطور تفہیم کے عمل کو سہل تر بنانے کے لئے انتہائی عمدگی سے شعری تمثیلات بھی بیان کی ہیں تصوف کے قلزمِ بیکراں کی غواصی میں مصروف و منہمک نظر آتے ہیں وہ فطری معجزات کو بھی عندالبیان لاتے ہیں   ؎

کسی خطبے سے ہر گز واسطہ میرا نہیں کوئی

سر منبر برنگِ شعلۂ بیدار می رقصم

پیالے کی طرح اُس کا بدن ہے میرے ہاتھوں میں

بہت مخمور می رقصم کہ بوسہ وار می رقصم

پہنچ کر سلبیل وکوثر و تسنیم کے رُخ پر

تڑختی تشنگی سے برسرِ پیکار می رقصم

دوبارہ زندگی ملنے پہ دیکھو سرخوشی میری

میں اپنے قتل پر تو صورتِ اغیار می رقصم

وہ اپنی بے خودی اور سرشاری کو اپنے محبوبِ حقیقی سے منسوب کرتے ہیں اور اسے اپنی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب تر پاتے ہیں ان کے تخیلات میں افکار کے جاودانی و امکانی پہلو مثلِ مشعلِ فروزاں نظر آتے ہیں۔ وہ اپنے آپ کو اپنے مرشد کا نابینا مجاور قرار دیتے ہیں جو درشن کی سوغات سے یکسر محروم ہے   ؎

سبب جن کی ہے سرشاری انھی کے سامنے رقصاں

مثالِ بوئے گل،  پیشِ گل و گلزار می رقصم

میں ایسا ہوں کہ وہ مجھ سے کبھی غافل نہیں رہتا

تو کیسا ہے؟ وہ جب کرتا ہے استفسار می رقصم

کچھ ایسی جاودانہ تازگی اور لہلہاہٹ ہے

بہارِ گل رُخاں میں صورتِ اشجار می رقصم

سرِ درگاہ نابینا مجاور کی طرح ہوں میں

کہیں ممکن کہ مرشد کا کروں دیدار می رقصم

الغرض بحر حزج مثمن سالم میں صابر ظفر کی کہی گئی یہ غزل جو چارسو اشعار پر مشتمل ہے نظریاتی اور فکری اعتبار سے تصوف کا ایک بیش بہا مخزن ہے سالکینِ تصوف کے لئے کتابِ ہٰذا جادۂ منزل بھی ہے اور ایک سوغات کا درجہ رکھتی ہے جس میں رقص و سرور بھی ہے کیف و مستی بھی ہے اور منازلِ عرفان و آگہی بھی ہیں جس میں حقیقی زندگی پوری آب و تاب سے سانس لیتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

ڈاکٹر طاہرؔ سعید ہارون…  دوہا نگاری کا سنگِ میل

 

میں نے جب دوہے کا نام سنا تھا تو ساتھ ہی ڈاکٹر طاہر سعید ہارون کا اسمِ گرامی بھی سماعت کیا تھا گویا موصوف اور دوہا ایک دوسرے کی پہچان قرار پائے ہیں انھوں نے گلشنِ سخن کی آبیاری میں پنتالیس سال کا خطیر عرصہ صرف کیا لیکن دوہا نگاری کی طرح 2001ء کو مائل ہوئے ڈاکٹر طاہر سعید ہارون سے قبل اس صنفِ سخن میں امیر خسرو،  بھگت کبیر،  گرونانک،  عبدالرحیم خان،  خاناں ،  میرا بائی،  بہاری داس،  متی رام،  سید غلام نبی،  خواجہ دل محمد،  جمیل الدین عالی،  عرش صدیقی اور الیاس عشقی وغیرہ حوالے کا درج حاصل کر چکے تھے ڈاکٹر طاہر سید ہارون نے فرطِ تسلسل سے دو ہا کی خدمت اور ریاضت کی جدید دو ہا نگاری کے تناظر میں ان کا کام اور نام نمایاں حیثیت کا حامل ہے ان کی دوہا نگاری کے حوالے سے لکھنے کے لئے تو دفتروں کے دفتر درکار ہیں ایک شذرے کے مختصر پیمانے میں جو کچھ لکھا جائے گا وہ ایک مختصر تاثر کہلانے کا استحقاق ہی پائے گا ان کے حوالے سے بہت کچھ کام کیا جا چکا ہے لیکن جتنا کئے جانے کی ضرورت ہے اس کا عشرِ عشیر بھی نہیں ہے اس حوالے سے ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی اور ثمینہ علیم کی مساعی قابلِ ذکر ہیں اول الذکر نے اپنی کتاب ’’ڈاکٹر طاہر سعید ہارون کی دوہا نگاری‘‘ مطبوعہ 2006ء جو نئی دہلی سے ایم آر آفیسٹ پرنٹرز نے شائع کی میں چالیس سے زائد مقالات آپ کی دوہا نگاری کے حوالے سے ہیں آپ کی فکری و فنی جہتوں کو اجاگر کرنے کی سعی بلیغ کی ہے جس سے آپ کی تخلیقیت کی سطح اُجاگر ہوئی ہے علاوہ ازیں گیارہ معتبر اربابِ نقد و نظر کے تاثرات بھی مذکورہ کتاب کا حصہ ہیں مقالہ جات سے قبل آپ کے انٹر ویو نے اس کتاب کو زینت بخشی گئی ہے ثمینہ علیم کا ایم فل مقالہ بعنوان ’’ڈاکٹر طاہر سعید ہارون کی دوہا نگاری‘‘ مطبوعہ 2002ء ماورا پبلشر لاہور میں بھی ان کی دوہا نگاری کے حوالے سے بنیادی مباحث بیان کئے ہیں جن میں اس صنفِ سخن کے حوالے سے لسانیاتی،  عروضی اور ہیئتی تناظر میں مواد فراہم کیا گیا ہے اور دوہے کے پس منظر اور ارتقائی سفر کو اجمالی اظہار کا روپ بخشا ہے حالاتِ زندگی کی معیت میں ڈاکٹر طاہر سعید ہارون کے فن کو بحیثیت شاعر اور دوہا نگار پیش کیا گیا ہے خالص تحقیقی انداز کو مد نظر رکھتے ہوئے محاکمات اور کتابیات کے شعبہ جات بھی قائم کئے گئے ہیں کتاب کے آغاز میں ڈاکٹر محمد کامران  نے ایک منفرد دوہا نگار کے سرنامے کے تحت لکھا ہے۔

پاکستانی دوہا نگاروں میں جلال مرزا خانقانی افضل پرویز،  قتیل شفائی،  الطاف پرویز ،  جمیل عظیم آبادی سید قدرت نقوی ،  ڈاکٹر وحید قریشی،  بشیر منذر ،  عرش صدیقی ،  عبدالعزیز خالد،  رشید قیصرانی،  تاج سعید اور ڈاکٹر طاہر سعید ہارون وغیرہ کے اسمائے گرامی قابل ذکر ہیں تا دمِ تحریر ان کے دوہوں کی تعداد گیارہ ہزار سے بھی تجاوز کر چکی ہے یہ اعجازو اعزاز کسی افتخار سے کم نہیں ہے ان کے دوہوں میں سے سات ہزار دوہا چھند اور مزید براں چار ہزار سر سی چند میں ہیں دوہا چھند سے مراد دوہے کی قدیمی بحر ہے جس کے ارکان کی ترتیب و تعدد کچھ یوں ہے جس کا وزن فعلن فعلن فاعلن فعلن فعلن فاع ہے اور کل چھ ارکان ہیں جن کا تعددی وزن جسے وزن کا جدید طریقہ گردانا جاتا ہے چوبیس ماترے ہے سرسی چھند جس کا پہلا نام عالی چال ہے جس کی عروضی اعتبار سے ارکان کی ترتیب و تعداد کچھ یوں ہے جس کا وزن فعلن فعلن فعلن فعلن فعلن فعلن فاع ہے ارکان کی تعداد سات تعددی وزن کے اعتبار سے ستائیس ماتروں پر مشتمل ہے۔

ڈاکٹر طاہر سعید ہارون کا کمالِ فن یہ ہے کہ انہوں نے بلحاظ عروض دونوں بحور دوہا چھند اور سر سی چھند میں انتہائی خوش اسلوبی سے دوہا نگاری کی ہے اور اپنی فنی چابکدستی کے جوہر دکھائے ہیں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے دوہا مورثی،  لسانی اور ہیئتی اعتبار سے خالصتاً ہندی صنفِ سخن ہے اسی ہندی اثر سے آزاد کرانے کا آغاز جمیل الدین عالی کی بابت کافی عرصہ قبل ہو گیا تھا ڈاکٹر طاہر ہارون سعید نے اپنے دیگر معاصرین میں اسے روایت کی حیثیت بخشی یوں اردو دوہا نگاری کا ارتقا سہل سے سہل تر ہو گیا ہندی لفظیات کا بوجھ ہلکا ہو گیا ان کی شعوری اور لاشعوری کا وشوں کے طفیل دو ہے میں فارسی اور عربی لفظیات کا چلن بھی نموپاش ہوا ہے ا ن کی کشیدِ جاں کی بدولت اب اردو دوہا بصد افتخار سر اٹھا کے جینے کے قابل ہو گیا اور ایک مضبوط روایت کا حامل ہو گیا ہے۔

کسی بھی تخلیق کار کے حوالے سے کسی ناقدِ واحد کی رائے اس کے مقام و مرتبے کے تعیّن کے حوالے سے مستندو معتبر نہیں ہوتی اس کی قدرو منزلت کے ادراک کے لئے ایک استخراجی اور اجتماعی تاثر کا قائم کرنا انتہائی ناگزیر ہے ڈاکٹر طاہرؔ سعیدہارون کی دوہا نگاری کے حوالے سے جلیل القدر ناقدین کی آرا حسبِ ذیل ہیں۔

’’طاہرؔ سعید ہارون نے لفظوں کے انتخاب میں منصوبہ بندی نہیں کی بلکہ چناؤ کو وہبی عمل کے تابع کیا ہے جس سے ان کی زبان میں تازگی اور تازہ کاری کا احساس ہوتا ہے دو ہے کی ہر لائن میں ’’بسرام‘‘ کا اہتمام کرے مگر اس خوبصورتی کے ساتھ لائن کی دولختگی کا احساس تک نہ ہو۔ طاہرؔ سعید ہارون اس معاملے میں بے حد کامیاب ہیں کہ ان کے دوہوں میں ایک انوکھا صوتی بہاؤ ہے جو قاری کو بہا لے جاتا ہے۔ ‘‘

(وزیر آغا بحوالہ کتاب طاہر سعید ہارون کی دوہا نگاری ڈاکٹر عاشق ہر گانوی )

’’طاہرؔ سعیدہارون کی دوہا نگاری میں مجھے تخلیقی کیفیت کی مسحور کن روانی نظر آئی ہے وہ جذبے کی رواں لہر میں ہمہ تن شرابور نظر آتے ہیں تو ان کے دوہے کیفِ مسلسل کے آئینہ دار بن جاتے ہیں۔ ‘‘

(انور سدید بحوالہ کتاب طاہرؔ سعید ہارون کی دوہا نگاری مرتبہ ڈاکٹر مناظرؔ عاشق ہر گانوی)

’’ڈاکٹر طاہر سعید ہارون نے دوہے کی صنف کو اتنی سنجیدگی اور اتنے فنی ریاض کے ساتھ اپنایا ہے کہ جدید دور میں ان کے بغیر دوہے کا تصور محال ہے۔ ‘‘

(ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا بحوالہ کتاب از ڈاکٹر مناظر عاشق ہر گانوی)

’’بلاشبہ ڈاکٹر صاحب کی شاعری میں وہ سب کچھ ہے جو آج کا قاری پرکھنا چاہتا ہے اس میں حیات و ممات کے مسائل بھی ہیں ارد گرد کا ماحول بھی اور اخلاقیات کا درس بھی مجھے قوی یقین ہے کہ دوہے کی صنف میں ڈاکٹر صاحب کا نام ایک اہم نام کے طور پر ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ ‘‘

(ڈاکٹر انعام الحق جاوید بحوالہ کتاب ڈاکٹر عاشق ہر گانوی )

’’آپ نے پر اثر دوہے کہے ہیں اور اس روایت میں سنجیدگی سے کوشش کی ہے اور اس روایت کو آگے بڑھایا ہے۔ ‘‘

(ڈاکٹر جمیل جالبی بحوالہ کتاب ڈاکٹر مناظرؔ عاشق ہرگانوی)

’’ڈاکٹر طاہرؔ سعید ہارون نے دوہوں میں اپنے عہد کے مزاج کو بر قرار رکھا اور ہندی شعروں کی کو ملتا اور مٹھاس سے اپنے قاری کو متعارف کروایا ہے لیکن انہوں نے ہندی تہذیب و تمدن کو اپنے دوہوں پر حاوی نہیں ہونے دیا بلکہ ثقالت اور غرابت کے عیب سے مبرا ان کے دوہے ہندی کے ساتھ ساتھ عربی و فارسی تہذیب کو ہمراہ لئے چلتے ہیں۔ ‘‘

(ڈاکٹر طاہرؔ سعید ہارون کی دوہا نگاری ازثمینہ علیم مطبوعہ 2012)

مذکورہ ناقدین نے اپنے احاطۂ ادراک کے مطابق ڈاکٹر طاہر سعید ہارون کی دوہا نگاری کے فکرو فن کے حوالے سے مختلف النوع آرا پیش کی ہیں جس سے ان کے فکری و فنی کینوس کا یقین آسان سے آسان تر ہو گیا ہے تا دم تحریر دوہا نگاری کے حوالے سے ان کے گیارہ مجموعے منصہ شہود پر آ چکے ہیں اور اربابِ نقد و دانش سے خراجِ دادو تحسین پانے میں بھر پور انداز میں کامیاب ہو چکے ہیں جنہیں قارئینِ شعرو سخن نے بے حد سراہا ہے جس کی وجہ سے ان کا حلقۂ قارئین بن چکا ہے اس سے بڑھ کر کامیابی کی اور کیا نوید و سعید ہوسکتی ہے۔

ابتداء میں دوہا صرف بحر دوہا چھند میں ہی لکھا گیا بعد میں جمیل الدین عالی کی اختراع کی بدولت عروضی تغیر رونما ہوا انہوں نے اس کا ایک اور وزن متعارف کرایا جسے عالی چال اور بعد ازیں اس بحر کو سرسی چھند کا نام دیا گیا ڈاکٹر طاہر سعید ہارون نے دونوں اوزان میں بطریقِ احسن سخن سنجی کی اور لسانیاتی و تہذیبی اعتبار سے اسے صرف ہندی کے زیر اثر نہیں رہنے دیا جس کی وجہ سے دوہے کے فکری و فنی کینوس میں بے پنا اضافہ ہوا روایتی دوہا جو بحر دوہا چھند میں لکھا گیا کافی عرصہ تک لکھا جاتا رہا اب بھی پاک بھارت میں دوہا نگاروں کی کثیر تعداد اسی انداز میں طبع آزمائی کر رہی ہے اولاً دوہے بلا عنوان لکھے گئے باضابطہ طور پر کسی سرنامے کے تحت لکھے جانے کا آغاز بہت بعد میں ہوا دوہے کے تمام قدماء نے اس کے ساتھ کسی موضوع کا باضابطہ اہتمام نہیں کیا جس کے باعث دوہے کے موضوعاتی ارتقا کو فروغ میسر نہیں ہوسکا لیکن ڈاکٹر طاہر سعید ہارون نے دوہے کو باقاعدہ عنوانات کے تحت لکھا اور یوں دوہے کا نظمیاتی روپ سامنے آیا اللہ کے فضل و کرم سے اب دوہا بحیثیت نظم زندہ رہنے کی پوری استعداد رکھتا ہے ڈاکٹر صاحب کے تمام مجموعوں میں دوہا عنوانات کی معیت میں اپنی پوری آن بان سے تاباں و فروزاں ہے دوہے کی یہ فرخندہ نصیبی بھی آپ کی مرہونِ منت ہے اب دوہا اپنے آپ کو نظمیاتی ہیئت کے طور پر منوانے کی بھر پور اہلیت رکھتا ہے جس سے مجموعی طور پر دوہے اور ڈاکٹر صاحب کے موضوعاتی کینوس کا مشاہدہ اور تجزیہ انتہائی آسان ہو گیا ہے۔

ڈاکٹر طاہرؔ سعید ہارون کے دوہوں کے مجموعوں کے مذکور کے بغیر ان کی دوہا نگاری کے حوالے سے بات کوئی جامع حیثیت نہیں رکھتی ان کے دوہوں کے مجموعوں کے نام بمع سن طباعت حسبِ ذیل ہیں۔

1۔       من موج                       2001ء

2۔      نیلا چندر ماں          2003ء

3۔       پریت ساگر        2004ء

4۔      من مانی              2005ء

5۔      میگھ ملھار                        2007ء

6۔       بھنور نگر                        2008ء

7۔       پریم رس                         2009ء

8۔      کوک                 2010ء

9۔       من دیپک                      2011ء

10۔    نیناں درپن         2011ء

11۔   روپ کرن                      2012ء

محققین کے مطابق دوہے نے ہندی تہذیب کی آغوش میں آنکھ کھولی اس لئے یہ اسی تہذیب رچاؤ کا حامل بھی ہے جسے ڈاکٹر سعید ہارون کے اسلوبیاتی اظہار اور زبان و بیان سے بخوبی ملاحظہ کیا جا سکتا جو ان کی فکری اُپج اور ذہنی کینوس کا غماز بھی ہے اس لئے ان کے ہاں ہندی لفظیات کا چلن عام ملتا ہے اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ ہمارے شاعر ممدوح کسی لسانی تعصب کا شکار ہیں عربی و فارسی کے الفاظ کی قرینہ کاری بھی دیدنی ہے لیکن لسانیاتی اعتبار سے ہندی بھاشا کی کو ملتا اور سندر تا نمایاں طور پر محسوس کی جا سکتی ہے اس لئے ان کے مجموعوں کے تمام نام ہندی نوعیت کے ہیں جس کے باعث ان کے شبدوں کی اثر آفرین ی دو چند ہوئی ہے اور قاری ایک سحر خیز کیفیت سے ہم آہنگ ہو جاتا ہے۔

ڈاکٹر طاہرؔ سعید ہارون کی دوہا نگاری کے حوالے سے تجزیہ و محاکمہ اور استخرابی نتائج کے حصول کے لئے انتہائی ناگزیر ہے کہ ان کے منتخب دوہوں کو تجزیات و تصریحات سے پیش کیا جائے ان کی فکری و فنی حیثیت کو اجاگر کیا جائے اس لئے ضروری سمجھتے ہوئے ان کے آخری مجموعہ ’’روپ کرن کے نصف اول کے منتخب دوہے شامل شذرہ ہیں۔

حمد کے زیرِ عنوان دیئے گئے ان کے چار دوہے طالبِ توجہ ہیں۔

مولا تیرے نور سے روشن ہے سنسار

جلوہ تیرا دیکھتا سمٹا ہے ہے اندھیار

 

سب دنیا حیران ہے کر دیکھی تحقیق

اک قطرہ سے تو کرے جیون کی تخلیق

 

اللہ تیرے ہاتھ ہے میری جیون ڈور

جب تو چاہے کھینچ لے مجھ کو اپنی اور

 

اس کو منزل مل گئی جس کا تو آدھار

اتم تیری رحمتیں اتم تیرا پیار

ڈاکٹر طاہرؔ سعید ہارون کے تخیّلاتی کینوس میں عارفانہ شواہد بدرجہ اتم پائے جاتے ہیں سنسار کے ذرے ذرے میں انہیں فطرت ضوفشانی کرتی نظر آتی ہے اور تیرگی کی بساط لپٹتی ہوئی دکھائی دیتی ہے جس کے باعث عالم محوِ تحیرّ ہے حیرت و استعجاب کی ایک فضا ہے جو چاروں اور سایہ فگن ہے معجزاتِ قدرت کا بیان ان کے تخلیقی وفور کا حصہ ہے آفرنیشِ بنی نوعِ انسان بھی ورطۂ حیرت سے ہم کنار کرنے والا معجزہ ہے حیات و ممات کے سب فیصلے بھی دست قدرت میں ہیں اور وہی سب کا معتبر و دائمی سہارا ہے بقول راقم الحروف

سہارے یہ سب عارضی سے ہیں ناقدؔ

سہارا ہے اک ان سہاروں سے آگے

اس کی رحمتِ کا ملہ بے مثل و باکمال ہے اس کا پیار لابدی ہے ممتا کی محبت سے بھی ستر گنا بڑھ کر ہے اس کی چاہت اور الفت بسیط ہے۔

ان کے تین نعتیہ دوہے جو عرفانِ نبی ختمی المرتبت سے سرشار ہیں نذرِ قارئین ہیں۔

لات و عزیٰ سرنگوں دوئی ہوئی بے نام

جگ کو بخشا آپ نے وحدت کا پیغام

 

جب سے میرے سائیاں دل میں تو آباد

بدلی میری زندگی رہتا ہوں دل شاد

 

چرچا ہے آکاس پر جگ میں تو محمود

اک نعمت سے کم نہیں آقا ترا درود

دوہا اوّل میں انقلابِ اسلام کی مکمل داستاں سمودی ہے فیضانِ مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اثرات و معجزات کا دستاویزی نوعیت کا اظہار ہے دوہا دوم حبِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی برکات و فیوض کا بیانِ عالی شان ہے مسرت و تمکنت اور شادمانی کا بھر پور حوالہ ہے تیسرے دوہے میں کائناتی حوالے سے مدحت بنی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا مذکور ہے۔

مذہبی حوالے سے ڈاکٹر طاہر سعید ہارون کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے مختلف آیاتِ قرآنی کے مفاہیم و مطالب کو اپنے دوہوں کے روپ میں پیش کیا ہے سورۂ الانفطار کی آیات 1تا 5دوہا کے رنگ میں ملاحظہ کریں۔

پھٹ جائے گا آسماں تارے بکھریں دور

ساگر جب بہہ جائیں گے کھولیں راز قبور

اس لمحے ہر آدمی جانے اپنا حال

پہلے اس نے کیا کیا پیچھے کیے اعمال

سورۂ العلق کی آیات 1تا 4دیکھیے

پڑھیئے رب کے نام سے پیدا جو فرمائے

وہ جو جمتے خوں سے آدم ذات بنائے

پڑھیئے رب کے نام سے جوہے بڑا کریم

خامہ سے انسان کو دیتا ہے تعلیم

قران مجید و فرقانِ حمید کی آیات کریمہ کو منظوم کرنا خاصا دقت طلب کام ہے اور عمیق احتیاط کا متقاضی ہے کیونکہ یہ بہت بڑا نازک معاملہ ہوتا ہے تھوڑی سی لغزش سے شاعر کی دنیا و عقبیٰ اکارت ہوسکتی ہے یہ انتہائی فنی چابکدستی کا معاملہ ہوتا ہے جسے ڈاکٹر طاہر سعید ہارون نے کمال فن سے پیش کیا ہے اور کہیں بھی اصل متن سے نہ ہٹنے کی نوبت آئی نہ کسی قسم کا اضافہ روا ہو ا ہے ہر قسم کی افراط و تفریط سے اپنا دامن بخوبی بچانے میں کامیاب ہوئے ہیں جس کی مثال بہت ہی کم سخنوران کے ہاں ملتی ہے۔

شاعرِ موصوف کا مزاج خالصتاً مذہبی رنگ ڈھنگ میں ڈھلا ہوا ہے اسلام کے الطاف و اکرام کی ضو پاشیاں ان کی نظم ’’ اسلام کی دین‘‘ کے چار دوہوں میں دیدنی ہیں۔   ؎

بھائی چارے کا سبق دیتا ہے اسلام

سارے ایک قطار میں آقا اور غلام

بن دیپک ایمان کا روں روں اجلا نور

نیناں نیناں چاندی سندرتا کے بھور

 

منزل کی پہچان دی راہیں کی آسان

سیدھا راستہ پا گیا گم گشتہ انسان

 

ٹوٹے رشتے جوڑنا رحمت کا پیغام

انسانوں سے پیار کا داعی ہے اسلام

مذہب و ملت کی محبت کے ساتھ ساتھ مادر گیتی سے الفت و موانست بھی ایک پوتر جذبہ ہے ان کے دو ہے اسی احساس کی پاسداری کرتے ہیں

مجھ کو تجھ پر مان ہے تجھ سے میری آن

تو میرا آدھار ہے میرے پاکستان

 

سندر تیری ناریاں گھبرو ترے جوان

کومل بالے بالیاں میرے پاکستان

 

تیری دھرتی باجرا گیہوں مَکَّا دھان

کیسی کیسی نعمت میرے پاکستان؟

ان کے احساس کی چاشنی و شیرینی سے یہ امرا ظہر من الشمس ہوتا ہے کہ وہ صحیح معنوں میں ایک دیش بھگت ہیں اور دیش بھگتی ہونے پر فاخر و نازاں بھی ہیں مذکورہ دوہوں میں پاک دھرتی کا لفظی نقشہ پیش کیا ہے۔ جس کی تصویر صاف و شفاف نظر آتی ہے۔

دیگر سنجیدہ موضوعات کے علاوہ انہوں نے زبردست رومان پروری بھی کی ہے رومانویت کی ایک بھر پور لہر ان کے ہاں مشاہدہ کی جا سکتی ہے ایک پریم ساگر ہے جس میں غواصی کے بعد ایک خوشگوار اور لطیف کیفیت محسوس ہوتی ہے اس حوالے سے ان کی نظم ’’پربت‘‘ کے تین دوہے پیشِ خدمت ہیں۔

روں روں میرے واسنا چاروں اور بہار

ناری تیرے پیار سے جیون ہے سرشار

 

کب آئے پھر لوٹ کر سپنے جیسی رات؟

مجھ سے کہہ دے سندری اپنے من کی بات

 

تیری خوشبو چار سو چندن ترا وجود

جاؤ ں میں جس اور بھی نازی تو موجود

 

مذکورہ استخراجات ان کی دوہا نگاری کے حوالے سے عکسِ خفیف کا درجہ رکھتی ہیں انہوں نے دوہے کے میدان میں ایک دستاویزی نوعیت کا کام کیا ہے جو قابلِ ستائش اور نا قابلِ فراموش ہے ان کے دوہوں میں ہندی تہذیب کا رچاؤ غالب ہے جس کی جاذبیت واضح طور محسوس کی جا سکتی ہے جس کے باعث مقبولیت و دلپذیری کے اسباب روشن ہوئے ہیں وہ دوہا نگاری میں ایک سنگِ میل کا درجہ رکھتے ہیں ربِ ادب سے استدعا ہے کہ ان کے فکری و فنی کارناموں کو دولتِ دوام سے نواز ے۔ آمین

٭٭٭

 

 

 

ڈاکٹر طاہرہ سرور…ایک معتبر عصری تحقیقی حوالہ

 

یہ زمانہ ایک معمل ہے اس کارخانے میں کارہائے گو ناگوں انجام پاتے رہتے ہیں ان  کاموں میں ادبی نوعیت کے اعمال بھی اپنی خاص پہچان رکھتے ہیں جنہیں ہم دو زمروں میں تقسیم کرسکتے ہیں زمرۂ اوّل میں تخلیقی نوعیت کے افعال آتے ہیں اور زمرہ ثانی میں تالیفی انداز شامل ہے جو تحقیق و تنقید سے بھی متضمن ہے۔

آج ہمارے زیرِ نظر ڈاکٹر طاہرہ سرور کی اسی نوعیت کی نگار شات ہیں جو تالیف و تنقید کی ذیل میں آتی ہیں موصوفہ لاہور کالج برائے خواتین یونیورسٹی میں بطور چئیرمین شعبۂ اُردو خدمات سر انجام دے رہی ہیں اور اس حوالے سے عمیق تجربہ رکھتی ہیں انہوں نے اپنے ادبی سفر کا آغاز 2005ء سے کیا تادمِ تحریر پانچ وقیع کتب شائع کرچکی ہیں ، پہلی کتاب ’’ تدوین کلامِ کسریٰ منہاس‘‘ ہے دوسری کتاب ’’اولیائے کرام (حیات و تعلیمات)‘‘ تیسری کتاب عزیز احمد کے ناول آگ کا تجزیاتی مطالعہ ہے چوتھی کتاب کا نام ’’تجزیات‘‘ ہے اور پانچویں کتاب ’’عساکر پاکستان کی ادبی خدمات اردو نثر میں ‘‘ ہے شذرہ ہٰذا میں موخر الذکر کتاب کے حوالے سے رقمطراز ہیں ’’عساکر پاکستان کی ادبی خدمت اردو نثر میں ‘‘ مطبوعہ 2013؁ء دراصل ڈاکٹر طاہرہ سرور کاپی ایج ڈی کا تحقیقی مقالہ ہے جس کی تدوین میں انہوں نے بڑی عرق ریزی سے کام کیا ہے جس کی بدولت نہ صرف انہوں نے عساکر پاکستان کی نثری ادبی خدمات کو تاریخ میں محفوظ کر لیا ہے بلکہ انہوں نے اپنے آپ کو معتبر تحقیقی کے حوالے کے طور پر بھی ثبت کر لیا ہے ادبی تاریخ کے آنے والے کسی بھی عہد میں جب عساکرِ پاکستان کی نثری ادبی کاوشوں کا ذکر ہو گا تو ڈاکٹر طاہرہ سرور کا نام بھی جلی حروف میں سامنے آئے گا مذکورہ کتاب کے نوابواب ہیں جن میں پہلا باب افواجِ پاکستان اور اردو ادب ہے جس کے مندرجات میں افواجِ پاکستان کا مختصر تعارف، عساکرِ پاکستان اور شعری ادب، قیام پاکستان سے قبل نامور شعرا اور قیام پاکستان کے بعد نامور شعرا ہیں اس طرح سے یہ باب ایک ادبی پس منظر کا درجہ رکھتا ہے دوسرے باپ کا عنوان بری فوج کی ایجوکیشن کور کے نثر نگار کے زیرِ عنوان ترتیب پایا ہے چوتھا باب بری فوج کی میڈیکل کور کے نثر نگار کے تحت معنون کیا گیا ہے پانچویں باب میں بری فوج کی آرٹلری کور کے نثر نگار شامل کیے گئے ہیں چھٹا باب بری فوج کی سگنل کور کے نثر نگار کے سرنامے سے مزّین ہے ساتویں باب میں بری فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ آئی ایس پی آر کے نثر نگار زیرِ بحث لائے گئے ہیں۔ آٹھویں باب میں پاک بحریہ کے نثر نگار زیرِ نظر لائے گئے ہیں باب نہم میں پاک فضائیہ کے نثر نگار زیر جائزہ آئے ہیں اس طرح یہ تبویب مختلف خانوں میں ادبا کی تقسیم کر کے ان کی درجہ بندی میں بازیافت کو آسان بنادیتی ہے اور اگر قاری تقابلی جائزہ لینا چاہے یا استخر اجی نتائج اخذ کرنا چاہے تو اس کے لئے سہل تر بنا دیا گیا ہے مزید برآں تحقیقی کی انداز میں ہر باب کے آخر میں متعلقہ حوالہ جات اور حواشی بھی دیئے گئے ہیں جن میں کتب، مضنفین، پبلشرزو توا ریخِ اشاعت کا باضابطہ اہتمام کیا گیا ہے جادٔہ تحقیق کے سالکین کے لئے یہ کتاب کافی مفید اور متداول ہے بسلسلہ ہٰذا پبلشر اکادمیات لاہور کی خدمات قابلِ تحسین ہیں جس کی زیر سرکردگی تحقیقی نوعیت کی یہ جامع کتاب جو سات سو تنتالیس صفحات پر مشتمل ہے مجلد اور رنگین گردپوش کی حامل ہے یہ ادبی سوغات مطبوعہ 2013ء صرف ایک ہزار ثمن میں دستیاب ہے کتاب ہٰذا میں دیگر تحقیقی کتب کی طرح فہرست کتابیات، اخبارات وجرائد، مخطوطات و مکتوبات اور انٹرویوز کے سلسلے بھی زیبِ تحریر ہیں جدید معاونات مثلا انگلش بکس اور انٹرنیٹ کے حوالے بھی شاملِ مقالہ ہیں ایسے عمدہ اور تاریخی ادبی مقالہ کی تحقیق و تدوین پر ڈاکٹر طاہر ہ سرور اور اس کے راہنما ہدیہ تبریک کے مستحق ہیں۔

اللہ کرے زور بیاں اور زیادہ

کھلتے رہیں اسرارِ نہاں اور زیادہ

٭٭٭

 

 

 

ظریفؔ احسن کی روایت پسندانہ شاعری

 

روایت ادب کی اساس ہے اور اثاثہ بھی ادب میں روایت کا کردار روحِ رواں کی حیثیت رکھتا ہے جو کام روایت کے توسط سے ہوا ہے اس سے مسابقت کے لئے جدیدیت کو عمرِ خضر درکار ہے گلشنِ ادب میں جدت کی حیثیت نو خیز کلی کی سی ہے جو کارنامے روایت پسندوں نے سر انجام دیئے جدت پسند طبقہ کے لئے ان کا تصور کرنا بھی کارِ محال ہے روایت وہ شاخِ ثمر بار ہے جو ہر عہد میں ترو تازہ اور سدا بہار رہی ہے آج ہم ظریفؔ احسن کی روایت پسندانہ سخن سنجی کے حولے سے خامہ فرسائی کر رہے ہیں جن کی پیدائش 25جولائی 1954ء میں مظفر گڑھ میں ہوئی تین سال بعد ان کے والدین نے بہتر معاشی مستقبل کے لئے کراچی میں اقامت اختیار کی تمام تعلیمی مدارج کراچی میں ہی طئے کئے اخبارات اور پی ٹی وی میں بھی کام کرنے کا اعزاز انہیں حاصل ہے تا دمِ تحریر اکاؤنٹ جنرل سندھ کراچی میں بطور سینئر ایڈیٹر گریڈسولہ میں کام کر رہے ہیں ان کے شعری مجموعہ ’’موسم موسم ملتے تھے‘‘ مطبوعہ 2007ء کے ثُلث اول اور دوم کی منتخب غزلیات کے منتخب اشعار مذکورہ موضوع کے تناظر میں برائے تجزیہ و توضیح پیشِ خدمت ہیں

ان کی ایک غزل کے دو اشعار نذرِ قارئین ہیں

اک عمر جن پہ جاں کو نچھاور کئے رہے

ان سے ہمارا حال بھی پوچھا نہیں گیا

کس طرح کر رہے ہیں بسر آپ زندگی؟

ہم سے تو اپنے دکھ کو چھپایا نہیں گیا

کلاسیکی شعرا کی یہ روایت رہی ہے کہ وہ اپنے عہد،  اہلِ زمانہ اور اپنے محبوب سے شاکی و نالاں رہے ہیں پہلے شعر میں محبوب کے حوالے سے شکوہ و شکایت کا پہلو ہے اہل جہاں کی ستم کیشی کی داستاں بھی ہے محبوب کی بے اعتنائی کا مذکور بھی ہے اپنی وفاؤں کی دل سوز بپتا بھی ہے ایک عصری رویہ ہے اور روحِ عصر کی بھر پور ترجمانی ہے ظریفؔ احسن زیست کو دقتِ نظر سے دیکھتے ہیں اور اس کے مصائب و مسائل کو عمیق نظری سے مشاہدہ کرتے ہیں محوِ حیرت و استعجاب نظر آتے ہیں اور سراپا سوال ہیں اپنے قاری سے محو کلام ہیں یا اپنے محبوب سے استفسار کر رہے ہیں کہ ہم زندگی کا دکھ درد چھپانے سے قاصر رہے ہیں ہم میں ضبط کا یارا نہیں رہا یہ معاملہ ہماری سمجھ سے بالا تر ہے کہ آپ حیات کیسے بتا رہے ہیں دوسرا شعر اسی تناظر کا عکاس ہے۔ ان کی غزل کا ایک مطلع لائقِ اعتنا ہے

آنکھ میں جب نمی نہ تھی پہلے

زندگی زندگی نہ تھی پہلے

ان کا بیشتر فکری کینوس روایت پسندانہ ہے ہماری روایتی شاعری میں حزن و ملال کے جذبوں کی بے حد وقعت و اہمیت ہے ہمارے شاعر موصوف بھی غم کی عظمت و افادیت کے معترف ہیں وہ غم کو زندگی کا لازمی جزو گردانتے ہیں ان کے نزدیک سوز و الم کے بغیر تعارف ہستی نا مکمل ہے۔

ایک اور غزل کا مطلع اور ایک شعر طالبِ التفات ہے   ؎

یہ مجھ میں کون ہے جو بولتا ہے

فصیلِ ذات کے در کھولتا ہے

یہ دل واقف ہے آداب جنوں سے

سنبھل جانے سے پہلے ڈولتا ہے

شاعری ہر عہد میں کتھارسس کا ایک اہم ذریعہ تسلیم کی جاتی رہی ہے اور رہے گی سخن سازی وہ ہنرِ باکمال ہے جس سے عرفانِ ذات کے باب وا ہوتے ہیں جن کے اسباب و وجوہات کے حوالے سے کچھ یقین سے نہیں کہا جا سکتا بہر حال قدرتِ کاملہ کا یہ گراں قدر عطیہ ہے یہی معاملہ شعرِ اول میں کارفرما ہے شعرِ ثانی میں آدابِ جنوں کا معتبر حوالہ ہے سخنوران ہر دور میں جنوں کے شیدا و شیفتہ رہے ہیں اور یہ ان کا مرغوب موضوع رہا ہے ظریفؔ احسن بھی اس حوالے سے کچھ یوں گویا ہیں کہ میرا دل آدابِ جنوں سے پیشگی طور پر واقف ہے میری حساسیت کی انتہا یہ ہے کہ احتیاط کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے میرا دل فرطِ خوف سے سنبھل جانے سے پہلے لرز جاتا ہے مذکورہ بالا اشعار میں شاعر ممدوح نے دو روایتی موضوعات کو بہ حسنِ خوبی بیان کیا ہے ان کا پیرایۂ اظہار بھی روایتی نوعیت کا صاف و شفاف شستہ اور رواں دواں ہے عروضی اعتبار سے انہوں نے مختلف بحور میں طبع آزمائی کی ہے۔

ایک اور غزل کے دو شعر مجبورِ تبصرہ کر رہے ہیں

رد کرے یا قبول،  اسی کا کام

مجھ کو مطلب،  فقط دعا سے ہے

 

وہ کسی اور سے کہاں ہو گی

ایک امید جو صبا سے ہے

انسانی فطرت کا تقاضا ہے کہ وہ مشیت پر شاکر و قانع رہے حقِ عبدیت بھی یہی ہے کہ انسان اپنی ضروریات و احتیاجات کے سلسلے میں محوِ استدعا رہے قبولیت یا عدم مقبولیت کا دارو مدار مالکِ کل کی صوابدید پر منحصر ہے شعرِ اول میں اسی نوعیت کا خیال جلوہ آرائی کر رہا ہے شعرِ ثانی امیدو رجا سے عبارت ہے ظریفؔ احسن کے ہاں یاسیت کی تیرگی نہیں بلکہ رجائیت کی کرنیں ضو پاشیاں کر رہی ہیں جو ایک خوش آئند امر ہے۔

زیاں چار سو ہے کدھر جائیں ہم؟

ادھر جائیں یا پھر ادھر جائیں ہم

 

یہی ایک خواہش رہی عمر بھر

بکھر نے سے پہلے سنور جائیں ہم

شعرِ اول میں عصری آشوب کی عمیق داستاں ہے آج کا انسان  ایک نفسیاتی ہیجان کا شکار ہے اور معاملہ نہ جائے رفتن نہ پائے ماندن کے مصداق ہے اور کچھ سجھائی نہیں دیتا ان کے ہاں ترقی پسند افکار کی جھلک ملتی ہے ان کی روایت پسندی کا یہ عالم ہے کہ ان کے تخیّلات روایت کی ردا اوڑھے ہوئے ہیں شعرِ ثانی میں ایک ترقی پسند سوچ کی غمازی موجود ہے۔

مشمولہ استشہادات شاہد ہیں کہ ظریفؔ احسن کے کلام میں روایت پسندی کے عوامل وفور سے پائے جاتے ہیں بہر حال مزید حوصلہ افزا امکانات کی امید کی جا سکتی ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

ڈاکٹر غنی عاصمؔ کا برجستہ اسلوبِ بیاں

 

مزاج کی بے تکلفی برجستہ گفتار و بیاں کو جنم دیتی ہے جس میں تدبر و تفکر اور فہم و فراست طویل المیعاد نوعیت کا نہیں ہوتا جس کے تحت پیرایۂ اظہار فطری نوعیت کا ہو جاتا ہے جو ہر قسم کے تصنع اور ملمع کاری سے مبرا و ماورا ہوتا ہے یہ تخلیق کا وہ وصفِ خاص ہے جو بہت ہی کم تخلیق کاروں کو ودیعت ہوتا ہے جس کے اسباب میں زود رس فکری میلان جو ہرِ وجدان اور جولانیِ طبع شامل ہیں فنِ شاعری میں ان اوصاف کے حامل شعراء کو شعوری ریاضت کی جاں سوز عرق ریزیوں سے نہیں گزرنا پڑتا اور قاری تک ترسیلِ تخیّل بھی براہِ راست اور مؤثر ہوتی ہے اسی قبیل سے تعلق رکھنے والے شعرا میں ایک نام ڈاکٹر غنی عاصم کا بھی ہے جن کا تعلق ڈیرہ غازی خان سے ہے شاعری کے ساتھ ساتھ ان کی نسبت شعبۂ چارہ گری سے بھی ہے اور ڈیرہ غازی خان میں اپنا ایک پرائیویٹ کلینک چلاتے ہیں اور دکھی انسانیت کی خدمت کرتے ہیں انتہائی با مروت اور خلیق انسان ہیں نفیس طبع کے مالک ہیں ان کے شخصی حوالے سے بہتر انداز میں تو کوئی ملاقاتی ہی بتا سکتا ہے ان کے اب تک چھ شعری شعری مجموعے منصہ شہود پر آچکے ہیں جن کے نام حسبِ ذیل ہیں۔

1۔       لبِ بستہ

2۔      امامِ شکستگان

3۔       صبا صبا تیرے ہاتھ

4۔      آنکھیں نہ کھولنا

5۔      نکہتِ بادِ بہاری

6۔      پشت آئینہ

اس وقت ان کا چھٹا شعری مجموعہ ’’پشت آئینہ‘‘

ہمارے زیر نظر ہے جس میں حمدو نعت اور نوحہ کے علاوہ زیادہ تر غزلیات شامل ہیں جس سے ان کے غزل سے فطری لگاؤ کا اندازہ ہوتا ہے کتابِ مذکور کے حوالے سے ڈاکٹر محمد ہاشم چشتی، ڈاکٹر محمد اشرف کمال اور شعیب جاذب کے تاثرات شاملِ کتاب ہیں۔

ڈاکٹر محمد ہاشم چشتی رقمطراز ہیں :

’’پشتِ آئینہ‘‘ غنی عاصم کی خوبصورت غزلوں پر مشتمل مجموعۂ کلام ہے ان کی ہر غزل تصنع سے پاک ہے ان کی سوچ میں رچا اخلاص بلا تکلف کسی بھی بات کو صاف صاف کہہ دینے میں ان کی معاونت کرتا ہے وہ پہیلیاں نہیں بھجواتے نہایت ہی سادگی ہی سادگی اور آسانی سے ہر مشکل بات بیان کر دیتے ہیں ابہام تو ان کی شاعری میں ڈھونڈنے سے نہیں ملتا ان کا شعر سنتے ہی دل میں اتر جاتا ہے۔ ‘‘

شعیب جاذب کچھ یوں لکھتے ہیں :

ان کے مجموعہ ہائے کلام میں روایت کا امتزاج تو ہے لیکن ان کا جدید اسلوب ہے جس کی بنیاد پر انہیں رویات کا شاعر نہیں کہا جا سکتا ’’پشتِ آئینہ کی ترکیب اور نام ہی ان کی جدت طرازی کا کھلا ثبوت ہے۔ ‘‘

ان کے مؤخر الذکر شعری مجموعہ ’’پشتِ آئینہ‘‘ مطبوعہ دسمبر 2013ء کی غزلیاتِ منتخبہ کے منتخب اشعار ان کے برجستہ اسلوبِ بیان کے تناظر میں شامل شذرہ ہیں۔ ان کی غزل کے تین اشعار نذرِ قارئین ہیں   ؎

خوشیاں کم ارمان بہت ہیں

جینے کے سامان بہت ہیں

چاک ہے دامن آنکھیں پر نم

یاروں کے احسان بہت ہیں

ایک ہے دل اور لاکھوں صدمے

گھر چھوٹا مہمان بہت ہیں

شعرِ اوّل حقیقی زندگی کا منظر نامہ پیش کر رہا ہے جو ان کی حُزنیہ شعری طبع کی عکاسی کرتا ہے اور ایک بے ساختگی کا پہلو بھی خود میں سموئے ہوئے ہے شعرِ ثانی میں عصری روئیوں کا حوالہ ہے اپنوں کی چیرہ دستیوں کا مذکور ہے بقول راقم الحروف

اگر غیر ہوتے شکایت بھی کرتے

ہمیں دکھ دیئے ہیں سدا دوستوں نے

حزن و ملال کی کیفیت ہے یاروں کے دیئے ہوئے دکھ درد کے لئے احسان کا لفظ لانا بھی خالصتاً طنزیہ انداز ہے شعرِ ثالث وفورِ غم کی غمازی کرتا ہے۔ دل کی تنگیِ داماں کی شکایت بھی موجود ہے۔ شعرِ ہٰذا میں صنعتِ لف و نشر مرتب کا اہتمام بھی کیا گیا ہے جو ان کی فنی قرینہ کاری کا مظہر ہے جس میں دل کے لئے ’’چھوٹا گھر‘‘ اور لاکھوں صدموں کے لئے ’’مہمان بہت‘‘ کے الفاظ برتے گئے ہیں۔ مجموعی طور پر یہ تمام غزل برجستہ اسلوبِ بیاں کے زمرے میں آتی ہے اسلوبیاتی حوالے سے بھی غنی عاصمؔ کا مطالعہ خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔

غزل کا مطلع جو عمیق حسیات کا مظہر ہے لائق توجہ ہے

مری ہی ذات کو مجھ پر اجاگر کیوں نہیں کرتا

خدا مجھ کو وہ اک لمحہ میسر کیوں نہیں کرتا

تخلیق کار کی دشتِ فکر میں اولین کاوش ادراکِ  ذات کا حصول ہوتا ہے اگر مذہبی حوالے سے دیکھا جائے تو قول مشہور ہے جس نے اپنے نفس کو پہچانا اس نے اپنے رب کو پہچانا بھی اسلام کی بنیادی تعلیم ہے غزل کے مذکورہ مطلع میں بھی اسی فلسفے کو نمایاں کیا گیا گویا اسلامی افکار بھی ان کے کلام میں خالص فطری پیرائے میں ملتے ہیں مذکورہ شعر کے دونوں مصرعوں میں استفہامیہ انداز بھی زورِ بیان پیدا کر رہا ہے

غزل کا ایک شعر زیبِ قرطاس ہے

سوچوں گا محبت کے بھی عنوان پہ لیکن

پہلے وہ مرے ساتھ عداوت تو نبھائے

شعرِ ہٰذا میں ایک عمیق فلسفہ کار فرما ہے فکری اعتبار سے محبت اور عداوت اس شعر کے مرکزی تلازمے ہیں یعنی دو بنیادی ستون ہیں جن پر پورے شعر کی عمارت کھڑی ہے اگر فنی حوالے سے دیکھا جائے تو صنعتِ تضاد کا ایک برجستہ التزام اس شعر کے حسن کو فزوں تر کر رہا ہے علاوہ ازیں تخیّل کی طرفگی بھی مشاہدہ کی جا سکتی ہے اصل میں محبت اور عداوت دو ایسے امور ہیں جو ضابطوں کے حامل ہیں شاعر کا عرضِ مدعا یہ ہے جو عداوت نبھانے کے سلیقے سے عاری ہے اسے محبت کا قرینہ کیسے آسکتا ہے۔ ان کے برجستہ اسلوبِ بیاں کے حامل غزل کے تین اشعار پیشِ خدمت ہیں۔

تھک گئیں آنکھیں روتے روتے

بوجھ غموں کا ڈھوتے ڈھوتے

ہاتھ پہ فصلیں اگ آئی ہیں

بیج وفا کا بوتے بوتے

ہجر نہیں تھا سہل مگر ہم

ہو گئے عادی ہوتے ہوتے

اگر اسلوبیاتی اعتبار سے دیکھا جائے تو فطری بے ساختگی مذکورہ اشعار کا وصفِ خاص ہے اور الفاظ کا تکراری پہلو بھی دلچسپی کا عنصر پیدا کر رہا ہے ہاتھ پہ فصلیں اگ آنا بھی ایک طرح کی کرشمہ کاری ہے اور جدت طرازی کی بین دلیل ہے ان اشعار کے غائرانہ مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ شاعر موصوف انسانی نفسیات کا عمیق ادراک رکھتے ہیں۔ فطری اظہار کا حامل ایک اور شعر دیکھیے  ؎

کر گیا بدگماں محبت سے

بات کر کے رقیب چھوٹی سی

اس شعر میں جہاں فکری اور اسلوبیاتی بر جستگی نمایاں ہے وہاں تجسس کا پہلو بھی کار گر نظر آتا ہے جس نے شعر کی اہمیت کو دو چند کر دیا ہے۔ ان کا ایک اور مقطع ملاحظہ ہو   ؎

مجھے عاصمؔ بہت ہی خوبرو دنیا سمجھتی ہے

مگر کم بخت میرا آئینہ کچھ اور کہتا ہے

شعر مذکور میں حقیقت پسندی کا غالب عنصر پایا جاتا ہے جس میں خود تنقیدی،  خود آموزی اور خود کلامی کے خصائص پائے جاتے ہیں عمومی تخیل کی بجائے ذاتی ادراک کی بالا دستی دکھائی گئی ہے جس میں تخیل کی نادرہ کاری کار فرما ہے

غزل کے تین اشعار دیدنی ہیں

سوچتا ہوں حسن کی یہ سلطنت

کس طرح اس سے سنبھالی جائے گی؟

 

جھوٹی قسموں کی اگر ہے ضد اسے

یہ قسم بھی آج کھا لی جائے گی

 

وصل کی شب دستکیں دینے لگی

آج ہر حسرت نکالی جائے گی

شعرِ اوّل طرفگیِ تخیل کا غماز ہے ایک حیرت و استعجاب کا عالم ہے شعرِ ثانی میں ایک فرماں برداری کا احساس ریز ہو رہا ہے شعرِ ثالث خود میں ایک عمیق رجائی حوالہ رکھتا ہے تینوں اشعار رومانوی اعتبار سے خصوصی اہمیت کے حامل ہیں۔

غزل کا مطلع طالبِ التفات ہے

کر تولیا اس نے کوئی وعدہ دلِ سادہ

میرے لئے یہ بھی ہے زیادہ دلِ ساہ

فکری اعتبار سے مطلع ہذا میں قناعت پسندی کا پہلو پایا جاتا ہے ’’دلِ سادہ‘‘ کی ردیف جہاں اظہارِ برجستگی ہے وہاں اسلوب کی شیرینی بھی نمایاں ہو رہی ہے اور بہت مزہ پیدا کر رہی ہے۔ ایک اور مطلع آپ کے ذوقِ طبع کی نذر ہے

روایات کی ترجمانی کریں

ادھر آؤ باتیں پرانی کریں

غنی عاصمؔ روایات کے شیدا و شیفتہ ہیں ایک کلاسیکی شعور رکھتے ہیں شعرو ادب میں روایت کی اہمیت و افادیت سے انکار ممکن نہیں ٹی ایس ایلیٹ کہتا ہے کہ اچھے ادب کی بنیاد روایت پر استوار ہوتی ہے۔

مشمولہ استخراجات سے یہ انکشاف ہوتا ہے کہ ڈاکٹر غنی عاصمؔ کا اسلوب بیاں برجستگی کا نادر نمونہ ہے مزید شعری ریاضت ان کے اس وصفِ سخن کو فزوں تر جلا بخشے گی اور فکرو فن کے نئے باب وا ہوں گے اور کچھ دیگر فکری و فنی محاسن پیدا ہوں گے۔

٭٭٭

 

 

 

 

فضاؔ اعظمی کی نظم اور فکری وسعت

 

نظم صنفی اعتبار سے فکری وسعت کی حامل ہوتی ہے اگر کسی شاعری کی قوت متخیلہ کا وسیع فکری تناظر میں جائزہ لینا ہو تو اس کی نظم کو زیر تجزیہ لانا ہو گا کیوں کہ تخیلات کے مکمل زاویے نظم کی بدولت دیکھے جا سکتے ہیں اور تخلیقی جوہر صحیح طور پر کھل کے سامنے آ جاتا ہے۔ آج ہم فضاؔ اعظمی کی نظم کے حوالے سے رقم طراز ہیں اگرچہ یہ امر ناقدانِ ادب کے ہاں متنازعہ ہے کہ وہ نظم کے شاعر ہیں یا غزل کے کیوں کہ انہوں نے غزل اور نظم دونوں میں ا پنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے اور ان کا کلام بین الاقوامی معیار کا حامل ہے فکری اعتبار سے ان کاسخن ہمہ گیر اور ہمہ پہلو ہے ہم ان کے شعری مجموعہ ’’آئینۂ امروز و فردا‘‘ کے تناظر میں ان کے منتخب منظوم اقتباسات کا تجزیہ پیش کرتے ہیں۔

فضاؔ اعظمی ایک جہاں دیدہ شخصیت اور شاعر ہیں انہوں نے تہذیبوں کے عروج و زوال کو بنظر غائر دیکھا ہے وہ تاریخِ عالم کا عمیق ادراک رکھتے ہیں قومیں ان کے سامنے بَنی اور مِٹی ہیں یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری میں ایک عالمی تہذیبی شعور ملتا ہے اسی حوالے سے ان کی نظم ’’رمزِ عروج و زوال‘‘ کا ایک اقتباس دیکھتے ہیں   ؎

عروج کیا ہے زوال کیا ہے؟

جو کل یقیں تھا وہ اب گماں ہے

وہ جام جمشید اب کہاں ہے؟

زوالِ آدم کی داستاں ہے

صداقتِ افتخار کیا ہے؟

حقیقت پائدار کیا ہے؟

وہ لمحۂ بے ثبات جو تھا

وہ لمحۂ بازیافت جو ہے

وہ صبحِ صادق وہ صبحِ کاذب

یقین محکم بھی مسئلہ ہے

یہ امر ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ جتنا بڑا شاعر ہو گا اس کے اندر اتنا ہی وسیع و عمیق تنقیدی شعور ہو گا ان کے تنقیدی ادراکات کی جھلک ان کی نظم ’’شاعری‘‘ کے نصف اول میں ملاحظہ کرتے ہیں   ؎

شاعری فلسفہ و فکر کی پروازِ خیال

شاعری عظمتِ گفتار کی معراجِ خیال

شاعری معجزۂ فن کا درخشاں الماس

شاعری بندشِ الفاظ کی بے مثل مثال

فکرِ شاعر جو چھوئے عرشِ معلی کی فصیل

شاعری منصبِ انسان کی اَن مول دلیل

شاعری غالبؔ و اقبالؔ کی میراثِ قدیم

شاعری فردِ خدا ترس کی میراثِ صمیم

شاعری دستِ وفا پیشہ میں شمعِ تنویر

شاعری جلوہ گہِ مرثیۂ مرگِ ضمیر

ان کے کلام میں حزنیہ تاثرات بھرپور انداز میں پائے جاتے ہیں ان کی حزنیہ شعری طبع بڑی بڑی حکمتیں تخلیق کرنے پر قادر ہوتی ہے۔ ان کی نظم ’’جبرِ تقدیر‘‘ میں انہوں نے مسئلہ جبر کو بخوبی پیش کیا ہے۔ اس حوالے سے ان کی نظم ’’جبرِ تقدیر‘‘ کا اوّلین اقتباس زیبِ قرطاس ہے   ؎

روح بے چین ہے غمناک ہے چشمِ شاعر

حافظہ زخم ہے احساس اُبلتا ناسور

ہوش تندور ہے اور سیخ پہ ہے مرغِ خیال

شوخیِ فکر ہے آوارۂ دشتِ لعنت

فہم و ادراک کی بستی جو خزاں دیدہ تھی

دھنس گئی زیرِ زمیں زلزلۂ قہر کے بعد

فضا اعظمی کے ہاں بلحاظ اصناف و موضوعات تنوع پایا جاتا ہے جو ان کی تلوّن مزاجی کی دلیل ہے ان کے ہاں صرف حزن و ملال، یاسیت و قنوطیت ہی نہیں بلکہ طربیہ رنگوں کی ایک قوس قزح بھی پائی جاتی ہے ان کی فکر اتنی وسیع و عریض ہے جس سے ان کی جزئیات نگاری کا فن آشکار ہوتا ہے۔ طربیہ تناظر میں ان کی نظم ’’خوشی‘‘ نذرِ قارئین ہے   ؎

خوشی ڈھلتے ہوئے سورج کا وہ بڑھتا ہوا سایہ

پسِ دیوار محرومی جو ہولے سے اترتا ہے

غموں کی مستقل موجودیت کا درس دیتا ہے

خوشی وہ لمحۂ نایاب جو مشکل سے ملتا ہے

جو دل کو چند لمحوں کے لیے مسرور کرتا ہے

وہ سرمایہ جو آخر سانس تک بھی کم نہیں ہوتا

جو قیدِ زندگی کی سب سے تابندہ حقیقت ہے

امڈتے بادلوں کے سیل میں جو ڈوب جاتا ہے

خوشی بس ایک ساعت،  ایک لمحہ،  اک دقیقہ،  ایک پل،  اک چھن

جو محرومی کے آنگن میں گھڑی بھر کو چھلکتا ہے

خدایا مجھ کو احساسِ مسرت کا ہنر دے دے

مجھے یک گونہ سرشاری کا فیضِ معتبر دے دے

فضاؔ اعظمی کی قوتِ متخیلہ ایک بحرِ بیکراں ہے جس کا پہلا کنارہ تو دیکھا جا سکتا ہے لیکن اس کا دوسرا کنارہ بعید از بصارت و بصیرت ہے ان کا فکری کینوس بے پناہ وسعت کا حامل ہے ان کے تخیلات قاری کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیتے ہیں ان کے افکار میں گہرائی و گیرائی پائی جاتی ہے ان کے جذبات و احساسات میں بلا کی روانی اور جولانی موجود ہے انہوں نے طوالت کے اعتبار مختصر، درمیانے اور طویل درجے کی نظمیں کہی ہیں لیکن طویل یک موضوعی نظموں میں ان کی فکر زیادہ کھل کر سامنے آئی ہے ان کے ہاں محاکات نگاری اور منظر نگاری بھی ہے کہیں کہیں ان کا کلام تجریدی آرٹ کا بہترین شاہکار نظر آتا ہے۔

ان کا فنی جوہر غزل اور نظم دونوں میں کھل کر سامنے آیا ہے اس لیے انہوں نے طویل غزلیں اور نظمیں کہی ہیں اگر عروضی اعتبار سے دیکھا جائے تو انہوں نے مفرد و مرکب بحور میں سخن سنجی کی ہے اور زحافات کا استعمال بھی انتہائی خوش اسلوبی سے کیا ہے۔ زبان و بیان سے ان کی لسانی تبحرِ علمی آشکار ہوتی ہے۔ ان کی تمام تر نظم سراپا انتخاب ہے قاری کی ذہنی نزاکتوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ہم نے صرف چند منظومات کے اقتباسات بطورِ استشہاد پیش کیے ہیں فکری و فنی اعتبار سے ان کی نظم عالمی معیار کی حامل ہے ان کی جزئیات نگاری ان کے افکار کی وسعت کی غمازی کرتی ہے۔ ان کی نظم میں فکری و فنی اور لسانی خصائص ان کی فن پر دسترس کے مظہر ہیں شعر و سخن کی تاریخ میں جب بھی نظم نگاری کا تذکرہ ہو گا تو ان کا نام نظم نگاروں کی فہرست میں نمایاں حیثیت سے شامل ہو گا۔

٭٭٭

 

 

 

 

فہیم شناسؔ کاظمی کی دل کش منظومات

 

میدانِ نظم بہت بسیط و عمیق ہے اس کے موضوعات کی وسعت ایک بحرِ ناپیدا کنار کی مثیل ہے نظم کے دامن کو رنگا رنگ افکار سے مسجع کرنا،  تخیل میں مضمون آفرین ی کا فن برجستہ و فطری انداز میں لانا ،  اسلوب کو جاذبیت سے لبریز کرنا اور قاری کو اپنے احساسات سے مسحور کرنا یہ نظم نگار کے وہ خصائص ہیں جو اسے دولتِ دوام سے ہمکنار کرتے ہیں عام مشاہدے کی بات ہے کہ کثرت سے غزل کہنے والے شعرا بہت ہی کم نظم کہہ پاتے ہیں جس کا اصل سبب یہ ہے کہ غزل ایجاذو اختصار اور جامعیت کی حامل ہوتی ہے غزل گو بحرِ کلیات کا شناور ہوتا ہے جب کہ نظم نگار جزئیات نگاری میں یہ طولیٰ رکھتا ہے ان امور کا تعلق غزل اور نظم کے صنفی مزاج کی تفریق کے باعث ہوتا ہے جذبات و احساسات کے رچاؤ اور تنوع کی معیت میں دلکش اسلوبیاتی پیرایۂ اظہار میں بھر پور انداز میں کثرت سے نظم کہنا فطری ابلاغ کی بین دلیل ہے جو مشیت سے ہر کہ و مہ کو ودیعت نہیں کیا جاتا فطرت کی طرف سے یہ سعادت کسی فرخندہ نصیب کو ہی میسر آتی ہے بقول کسے    ؎

ایں سعادت بزور بازو نیست

تا نہ بخشد خدائے بخشندہ

آج ہمارا موضوعِ شذرہ فہیم شناسؔ کاظمی کی دلکش منظومات ہیں اور یہ دلکشی فکرو فن دونوں پر محیط ہے ان کی نظم کے من حیث المجموع شعبہ جات چاہے ان میں زبان و بیان،  اسلوب،  احساسات،  ہیت اور دیگر فنی تلازمات سراہے جانے کا استحقاق رکھتے ہیں جزئیات نگاری،  محاکات نگاری،  منظر نگاری اور مکالمہ نگاری ان کی نظم کے فن کے کلیدی تلازمے ہیں قبل ازیں کہ ہم ان کی منتخب نظمیں زیر تجزیہ لائیں ان کے سوانحی کوائف پر غائرانہ نظر ڈالنا بھی ازحد ضروری ہے موصوف کا اصل نام سید فہیم شناسؔ کاظمی ہے 11مئی 1956ء میں نوابشاہ میں سید ناظم حسین شاہ کاظمی کے گھر پیدا ہوئے1982ء سے ادبی و صحافتی خدمات میں مصروف و منہمک ہیں روزنامہ جسارت کے ادبی کالم نگار بھی ہیں آرٹس کونسل آف کراچی پاکستان کے ممبر بھی ہیں ،  سہ ماہی اجرا ’’کراچی کے نائب مدیر بھی ہیں نواب شاہ کی معروف ادبی تنظیم اربابِ قلم کے بانی و جنرل سیکریٹری بھی ہیں سابق صدر ایوانِ صحافت نواب شاہ ہیں ان کا اوّلین شعری مجموعہ ’’سارا جہاں ہے آئینہ‘‘ 1999ء کو منصۂ شہود پر آیا ان کا مجموعہ ثانی ’’خواب سے باہر‘‘ 2009ء میں زیورِ طباعت سے آراستہ ہوا 2013ء میں ’’راہداری میں گونجتی نظم‘‘ نظمیہ مجموعہ منظرِ عام پر آیا علاوہ ازیں ’’سندھ کی آواز(جی ایم سید کے عدالتی بیان کا ترجمہ ) 2002ء میں شائع ہوا تالیفی اعتبار سے ان کی پانچ کتابیں چھپ چکی ہیں جن میں ’’تیرے عشق نے مالا مال کیا‘‘ (صابر ظفرؔ کی غزلوں اور گیتوں کا انتخاب مطبوعہ 2004)، ’’بوئے گل‘‘ جلد اوّل شیخ ایاز 2010‘‘، ’’حلقہ مری زنجیر کا‘‘، جلد دوم شیخ ایاز 2010ء ’’سارتر کے مضامین‘‘ 2012ء اور ’’سارتر کے بے مثال افسانے‘‘ 2012ء شامل ہیں۔ ان کے سوانحی کوائف کے بیان سے یہ غمازی ہوتی ہے کہ وہ بہت سی ادبی وابستگیوں کے حامل ہیں ادبی،  صحافتی تصنیفی اور تالیفی اعتبار سے انہوں نے ایک بھر پور زندگی گزاری ہے۔

اُن کی نظموں کا مجموعہ ’’راہداری میں گونجتی نظم‘‘ مطبوعہ 2013ء بار اول ہمارے زیرِ نظر ہے جس کے حوالے سے ڈاکٹر رشید امجد،  ڈاکٹر ابرار احمد اور رؤف نیازی جیسی معتبر شخصیات کی آرا ثبت ہیں۔ ’’میں اور نظم‘‘ سے موسوم شاعرِ مذکور کا اظہارِ خیال بھی مشمولات کا حصہ ہے جبکہ فلیپ ڈاکٹر وزیر آغا اور شمیم اقبال کا تحریر شدہ ہے ہم ان کے مذکورہ مجموعہ کے ثُلث اول کی منتخب نظمیات کے منتخب اقتباسات شامل تجزیہ کرتے ہیں۔

عرفانِ خالقِ کائنات اور اس ذاتِ کبریا کی مدح سرائی میں عمومی طور پر حمد گو شعرا تصوف کے دو نظریات ہمہ اوست اور ہمہ ازاوست کو اپنی نظم کا حصہ بناتے ہیں فصاحت و بلاغت کے تقاضے پورے کرنے کے لیے اور موضوع کے تاثر کو اجاگر کرنے کے لیے جزئیات نگاری کی اہمیت مسلمہ و مصدقہ ہے کسی بھی عقدہ کی کشود کے لیے اور تفہیم کے عمل کو آسان تر بنانے کے لیے جزئیات سے کلیات کا سفر ممد و معاون ہوتا ہے اس طرح سے اس عظیم ذات سے محبت کے تقاضے بھی نبھائے جاتے ہیں اسی پسِ منظر میں فہیم شناس کاظمی کی حمد ملاحظہ کریں   ؎

مہکے اُجلے خوابوں میں

خوشبودار گلابوں میں

سورج چاند ستاروں میں

ست رنگے سیاروں میں

دھول اڑاتی راہوں میں

دلکش سبزہ گاہوں میں

نیلم نیل سمندر میں

ہر منظر پس منظر میں

یا اللہ ہے تو ہی تو

شاعرِ مذکور کی نظمیات میں ایک بھر پور نوعیت کی جولانی اور روانی ہے اور طرزِ اظہار فطری انداز میں ڈھلا ہوا ہے اور فکری تاثر بھی مسحور کن ہے تسلسل ایسا ہے کہ خیالات ایک دوسرے کے ساتھ باہم مربوط ہیں مجموعی طور پر ان کی نظم کی بندش بہت چست اور عمدہ ہوتی ہے انہوں نے زبردست قسم کی کلائمکس نظمیں بھی کہی ہیں جو شعری تحیرّ اور تخلیقی پر اسراریت کی دولت سے مالا مال ہیں اسی تناظر میں ان کی نظم ’’چادر تہہ کر دی‘‘ کا اقتباسِ اولیٰ نذرِ قارئین ہے    ؎

کوئی آگ پیئے کہ زہر پیئے

یا سانپ ڈسے کی موت مرے

اب دھوپ کے جل تھل دریا سے

کوئی اپنے منہ سے ریت بھرے

ہم نے تو پیالہ اُلٹ دیا

اور اُلٹ دیا

ہر اک منظر

اُن کی نظمیات اپنے اندر ابلاغ کی بے پناہ قوت رکھتی ہیں وہ لسانی گورکھ دھندوں اور فلسفیانہ موشگافیوں سے اپنے آپ کو مبرا  و ماورا رکھتے ہیں قاری کی مزاجی نزاکتوں ،  لطافتوں اور نفاستوں کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہیں اُن کی نظم ’’خواب کوئی پناہ دیتا نہیں ‘‘ کا اقتباسِ اول زیبِ قرطاس ہے    ؎

ہم کسی راستے پہ چلتے ہوئے

داستاں سے اگر نکل جائیں

پھر ہمیں تم تلاش مت کرنا

داستاں سے نکلنے والوں کو

کوئی رستہ بھی راہ،  نہیں دیتا

وہ سمندر زمیں ہو یا افلاک

کوئی ان کو پناہ دیتا نہیں

فکری اعتبار سے جہان ان کے کینوس میں ایک پر تاثیر نوعیت کا تاریخی ،  تہذیبی و تمدنی شعور آشکار ہوتا ہے وہاں کچھ تلخ حقائق کی آگہی بھی ملتی ہے ان کی نظم ماضی،  حال اور مستقبل تینوں کی روداد معلوم ہوتی ہے ماضی کو مدِ نظر رکھیں تو سر گزشت ہے اگر حال کو دیکھا جائے تو کیفیات و واردات ہیں اور اگر مستقبل کے تناظر میں دیکھیں تو پیش گوئی ہے گویا ان کی نظم دیرو زو امروز و فردا کی ردا اوڑھے زمانی حدود و قیود سے بالا تر ہو کر انسانی شعور کی ترجمانی کر رہی ہے ان کی نظم ’’ہم کتنے پاگل ہیں ؟‘‘ لائقِ التفات ہے    ؎

ریت کے گھروندوں میں

اپنے خواب رکھ کے ہم

مطمئن کچھ ایسے ہیں

جس طرح سے یہ موجیں

کب انھیں چھوپائیں گی؟

کب انھیں مٹائیں گی؟

 

ہم بھی کتنے پاگل ہیں ؟

اپنے خواب رکھتے ہیں

ساحلِ سمندر پر

ریت کے گھروندوں میں

 

وہ اپنے موضوع کو انتہائی جامعیت کے ساتھ سمیٹنے کا فن جانتے ہیں اس سلسلے میں استشہاد کے طور پر ان کی ایک کلائمکس نوعیت کی نظم ’’ارتقا ‘‘ پیش کی جا سکتی ہے   ؎

 

وہ پھول چنتے چنتے

کتنی بدل گئی ہے ؟

خوشبو میں ڈھل گئی ہے

 

بہر حال فہیم شناسؔ کاظمی کی نظم بلحاظ فکرو فن اپنے اندر بے پناہ دلکشی سموئے ہوئے ہے انہیں متقدمین و متوسطین و متاخرین کی نظم کے مطالعے کی بے حد ضرورت ہے جس کے باعث اُن کی نظم کی مقبولیت کا گراف مزید اوپر جا سکتا ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

کاوشؔ عمر کی ولولہ آگیں شاعری

 

شاعر الفاظ کا بازی گر ہوتا ہے وہ نہ صرف الفاظ کے برتنے کا سلیقہ جانتا ہے بلکہ انتخابِ الفاظ بھی اس کی دستگاہ میں ہوتا ہے جس کا وہ اپنی افتادِ طبع کے مطابق استعمال کرتا ہے بعض شعرا کا کلام انتہائی غم انگیز ہوتا ہے اور بعض رومانویت کے علمبردار ہوتے ہیں آج ہم جس اہلِ سخن کا ذکرِ خیر کرنے چلے ہیں وہ استاد الشعرا حضرت کاوشؔ عمر ہیں ان کا اصل نام محمد مشتاق عالم ہے کاوشؔ عمر ان کا قلمی نام ہے ان کے والد محمد عمر فیضی ہو گزرے ہیں کاوشؔ عمر 1939ء میں پیدا ہوئے زندگی کا بڑا حصہ سابق مشرقی پاکستان موجود بنگلہ دیش کے شہر چاٹگام میں گزارا وہاں پیشۂ صحافت سے وابستہ رہے جہاں پیامِ مشرق (چاٹگام) ماہنامہ سیماب (چاٹگام) ماہنامہ روش(چاٹگام) روزنامہ پاسبان (ڈھاکہ) اور روزنامہ شجاعت (چاٹگام) میں کام کرتے رہے بعد ازاں کراچی شاہ ولی اللہ نگر کورنگی ٹاؤن میں منتقل ہو گئے یہاں بھی ایک وسیع حلقۂ احباب اور بہت سے شاگرد انہیں میسر آئے یوں حیاتِ ثمین شعرو ادب کی خدمت میں بسر ہوتی رہی۔

کاوشؔ عمر کا کلام خوب منجھا ہوا اور جاندار ہے ان کے سخن میں ولولے نموپاتے ہیں امنگیں جاگتی ہیں آہنگ پروان چڑھتا ہے آرزوئیں سانس لیتی نظر آتی ہیں اور تمناؤں کو مہمیز ہونے کا موقع ملتا ہے ان کی بحور خاصی طویل مقفیٰ و مسجع اور داخلی قوافی سے سرشار ہیں یوں لگتا ہے جیسے اشعار کا چشمہ ابل پڑا ہو طبیعت میں بلا کی روانی اور جولانی پائی جاتی ہے جس کی مثال شاذ ہی کہیں نظر آتی ہے ان کے وفور شعر نے انہیں ممتاز و منفرد بنا دیا ہے شذرہ ہٰذا میں ہم ان کے شعری مجموعہ ’’ سنگ و سمن‘‘ مطبوعہ 2010ء کے ربع اول کی منتخب غزلیات کے منتخب اشعار کا تجزیہ مذکورہ موضوع کے تناظر میں کرتے ہیں ان کے مجموعۂ کلام کا نام بھی ان کے منفرد شعری مزاج کا غماز ہے۔

فنِ شاعری کا وصف کمال یہ ہے کہ موضوعات دولتِ تاثیر سے مالا مال ہوں اور اپنی تمام تر جزئیات کے ساتھ جلوہ گر ہوں سخن ور اپنے تخیل کی اہمیت و افادیت کو باور کرانے کی اہلیت رکھتا ہو اس کے افکار بسیط رجائی اور طربیہ تاثرات کے حامل ہوں تاکہ وہ اپنے عہد کو اُمید افزا امکانات اور طرب خیز عوامل سے ہمکنار کرسکے تاکہ یاسیت و قنوطیت کو پنپنے کے مواقع میسر نہ آسکیں آس اور تمنا کی کرنیں ضو پاشیاں کرتی رہیں افسردگیاں اور بیزاریاں فروکش ہو جائیں خوشگوار احساسات کو فروغ نصیب ہو اس تناظر میں ان کی ایک غزل کے دو اشعار پیشِ خدمت ہیں جو ان کے ولولوں کی داستان کے عکاس اور ان کے شعری تموّج کی غمازی کرتے ہیں   ؎

 

ایک دن دورِ عیش و طرب کی طرح غم کے یہ سلسلے بھی گزر جائیں گے

اشک تھم جائے گا، آہ رک جائے گی، درد مٹ جائے گا، زخم بھر جائیں گے

 

اے دل اب ہجر کی کشمکش سے گزر ان کے آنے نہ آنے کی پروا نہ کر

ابرچھٹ جائے گا، وقت کٹ جائے گا، رات ڈھل جائے گی، دن گزر جائیں گے

 

ان کا سخن خارجیت اور داخلیت کا حسیں امتزاج ہے اور ایک زبردست قسم کا شعری وفور پایا جاتا ہے عند البیان قوافی کا استعمال بکثرت ملتا ہے ایک قادر الکلامی ہے جو اپنی بہار دکھاتی نظر آتی ہے داخلی اور خارجی جزئیات کا بیان پہلو بہ پہلو ملتا ہے حزنیہ افکار ہیں جن میں عصری آشوب کی پیوند کاری بھی پائی جاتی ہے نالہ و شیون کے حوالے ہیں کہیں کہیں تعلیاتی شواہد بھی پائے جاتے ہیں جس سے اندازہ ہوتا ہے شاعرِ موصوف اپنے فکری و فنی ادراکات کا بسیط شعور رکھتے ہیں اس نسبت سے ان کی ایک غزل کے دو اشعار دیدنی ہیں   ؎

 

کینہ پرور زمیں ،  فتنہ گر آسماں ، دل کا دشمن جہاں ،  دل امنگوں کا گھر

نو بہ نو خواہشیں ،  ضو بہ ضو حسرتیں ، آرزوئیں بہت، زندگی مختصر

 

 

یوں تو ہیں انجمن انجمن سینکڑوں خوش بیاں نکتہ داں نغز گو ذی سخن

پر حقیقت ہے کوئی تعلّی نہیں ہے سبھو سے جدا طرزِ کاوشؔ عمر

 

کاوشؔ عمر کا کمال یہ ہے کہ وہ شعر کے مختصر پیمانے میں بہت سے تلازمات کا اہتمام فنی چابکدستی سے کرتے ہیں مصرعوں کے درو بست میں استادانہ مہارت کا پہلو کار فرما ہے ان کے اشعار میں موضوعات سمٹتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں ان کی بحور طویل،  رواں دواں اور چست نوعیت کی ہیں اسلوب ایسا کہ جیسے مالا میں موتی پروئے گئے ہیں ، تسبیح کے دانوں کی طرح الفاظ کے مابین توازن کی ایک دلکش فضا پائی جاتی ہے، مصرع مصرع پکار پکار کر ان کے آموز گارِ فن ہونے کا دعویٰ کر رہا ہے۔ ان کے تخیلات میں رومانویت کی ایک بھر پور لہر پائی جاتی ہے پریم کے پوتر جذبات شعری وفور کے رنگ میں ملتے ہیں محبت ان کا دین دھرم ہے اخلاص کی پونجی پریم پرم ہے اس لئے وہ چاہت پر دنیا و عقبی قربان کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں رومان نگاری کی ذیل میں وہ متقدمین و متوسطین و متاخرین سے پیش رفت کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں اسلوبیائی اور عروضی اعتبار سے ان کا تمام تر کلام لہر بحر میں ہے۔ ایک موجِ مستی ہے، سوزو گداز ہے، تخیل محوِ پرواز ہے، بے کلی و بے خودی ہے، ایک کیفیتِ جنوں ہے، فزوں عشق کا فسوں ہے، عیاں جس سے رنگِ دروں ہے، ایک کیف و سرور ہے جو بین السطور ہے، انہیں اوصافِ حمیدہ کی جھلک ان کی ایک غزل کے تین اشعار میں ملاحظہ کریں   ؎

 

ننگ،  ناموس،  ایمان ،  غیرت ،  شرف ،  دین دل،  زندگی

عشق کے کھیل میں ایک ہی داؤ پرہنس کے ہار آئے ہیں

 

عقل،  دانش ،  خرد،  فہم،  ہوش ،  آگہی ،  علم ،  جودت ،  خبر

سب لُٹا کر تری مستیِ چشم پر مئے گسار آئے ہیں

 

تمکنت،  ناز،  غمزہ،  نزاکت،  پھبن،  شان ،  شوخی حیا

آنے والے اداؤں میں فتنے لیے بے شمار آئے ہیں

فطری طور پر انہوں نے ایک مشکل پسند اور مہم جو طبیعت پائی ہے۔ فکری و فنی اور اسلوبیاتی حوالے سے ان کا کلام مشکل پسندی کی ذیل میں آتا ہے۔ لسانی اعتبار سے ان کے ہاں ہندی اور فارسی لفظیات کا چلن عام ہے اس حوالے سے ان کا نظامِ ترکیبات بھی قابلِ ذکر ہے ان کی بحور میں تنوع ہے اور افکار میں ترفع ہے وہ عشق بھی کرتے ہیں تو اپنی تمام تر جسارتوں کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہیں کیونکہ وہ مردانہ وار زندگی کرنے کے قائل ہیں وہ اپنی فکری و فنی معاملات کی دقیقہ سنجی سے آشنا ہیں اور یہی امر کامیابی سے باور کراتے ہوئے بھی نظر آئے ہیں۔

انہیں احساسات کا رنگ ان کی ایک غزل کے تین اشعار میں لائقِ التفات ہے    ؎

 

منزلِ آرزو کا مسافر ہوں میں کب مجھے کوئی سہل ڈگر چاہیے

کوہ،  تل ،  دشت ،  دریا،  سمندر،  افق ،  جھیل وادی دمن پر خطر چاہیے

 

کیا خبر تجھ کو کیا کیا رہِ عشق میں اے مرے سادہ دل ہم سفر چاہیے

ولولہ ،  جوش ،  مستی،  جنوں ،  تمکنت،  حوصلہ،  عزم ،  ہمت جگر چاہیے

 

ہر سخن اہلِ دانش سے پنہاں نہیں ،  شاعری طرزِ کاوشؔ میں آساں نہیں

درک ،  احساس،  جذبہ،  تخیل،  عمق ،  اوج،  وسعت، رسائی، ہنر چاہیے

 

ان کے تخیلات میں عصری آشوب کے تلخ شواہد فرطِ تسلسل سے پائے جاتے ہیں عمرانی تنقیدی رویئے ہیں جو افکار کی شدت وحدت کو فزوں تر کر رہے ہیں اگرچہ احساسات روایتی نوعیت کے ہیں مگر پیش کش کا انداز جدید طرز کا حامل ہے۔

ان کی ایک غزل کے دو اشعار نذرِ قارئین ہیں    ؎

 

جام لبریز میں بے زروں کا لہو،  اہلِ زر میں نمایاں درندوں کی خو

خون پیتا ہے انسان انسان کا ،  کون کہتا ہے انسان انسان ہے

 

 

کس سے تیرہ نصیبی کا شکوہ کریں یہ اندھیروں میں ڈوبی ہوئی بستیاں

جگمگاتے ہوئے بام و در کی قسم،  روشنی صرف معراجِ ایوان ہے

 

کاوشؔ عمر کا فن کمالِ فن ہے جس میں درسِ انقلاب بھی ہے آشوبِ مغائرت بھی ہے، نادار سے ہمدردی و محبت اور زر دار کی خوئے استحصال کی فکرِ استیصال بھی ہے وہ ایک نمایاں قدو قامت کے شاعر ہیں انھیں اپنے استادِ ہنر ہونے کا ادراک ہے معراجِ سخن سے آشنا ئی ہے جس کے برعکس وہ اپنے مقام و مرتبے سے اچھی طرح روشناس ہیں جس کی شہادت ان کے اشعار میں عموماً اور مقاطع میں خصوصاً پائی جاتی ہے بقول ابوالبیان ظہور احمد فاتحؔ   ؎

 

مدتوں بعد جنم لیتے ہیں وہ دشت نورد

راستے جن کی کفِ پاسے چمک جاتے ہیں

 

وہ شہرت کے بامِ عروج پر نہیں پہنچ سکے جس کا وہ استحقا ق رکھتے تھے تاہم جن اہلِ نظر قارئین کو ان کا کلام پڑھنے کا موقع ملا وہ ضرور سوچنے پر مجبور ہوئے کہ کاوشؔ عمر ایک بہت بڑے شاعر ہیں ایک صاحبِ طرز سخن ور ہیں اور اپنا ایک خاص اسلوب رکھنے والے مہان قوی ہیں۔

٭٭٭

 

 

 

گل زیب عباسی کا افسانہ اور عمومی سماجی رویئے

 

کسی بھی افسانے کی کامیابی کا راز اس امر میں مضمر ہے کہ اس میں اس کا عہد جھانکتا ہوا دکھائی دے حقیق زندگی کی حقیقی تصویریں پیش کرے اپنے کرداروں کی بدولت عصری روئیوں کی عکاسی کرے افسانے کا پلاٹ اور کرداروں کے مکالمے فطری نوعیت کے ہوں کرداروں نے اپنی آنکھوں پر تصنع کے چشمے نہ سجائے ہوں معاشرے کے نشیب و فراز کا مذکور ہو محاسن کی حوصلہ افزائی ہو تاکہ انہیں فروغ میسر آسکے معائب کی حوصلہ شکنی ہوتا کہ ان کی مذمت کر کے ان کا تدارک کیا جائے یہی انکشافات گل زیب عباسی کے افسانوں مجموعہ ’’زہریلے پھول ‘‘ کے مطالعہ کے بعد اظہر من الشمس ہوئے مذکورہ مجموعہ کی طباعت مارچ 2013؁ء میں عمل میں آئی جس میں کل بیس افسانے شامل ہیں ہر افسانے میں کسی سماجی المیے کی بپتا ہے اسلوب فطری نوعیت کا ہے انہوں نے سہل نگاری کی روایت کو فروغ بخشا ہے محاورات کا استعمال فنی چابکدستی سے ہوا ہے ہر محاورہ بر موقع خوب جچ رہا ہے ان کے افسانوں میں عصرِ حاضر کی عمدہ تمثیلات ہیں جن میں زندگی جیتی جاگتی جگمگاتی نظر آتی ہے اعلیٰ اخلاقی اقدار کی پاسداری ملتی ہے ان کے افسانوں میں یہ جانکاری ملتی ہے کہ وہ انسانی نفسیات کا عمیق ادراک رکھتے ہیں منظر نگاری، محاکات نگاری اور تجریدی آرٹ کے شواہد بکثرت ملتے ہیں عمومی سماجی روئیوں کا مذکور بھرپور انداز میں ملتا ہے مذکورہ مجموعہ کے خمس اول کے افسانوں کو شاملِ تجزیہ کرتے ہیں۔

’’پارو‘‘ مجموعہ ہٰذا کا پہلا افسانہ ہے جس کے کردار خالص مضافاتی نوعیت کے ہیں افسانے کا پلاٹ فنی و پختگی کا مظہر ہے پارو ایک دیہاتی لڑکی ہے جو کسی صاحبِ ثروت کی حویلی میں کام کرنے کی غرض سے جاتی ہے حویلی کی چکا چوند اسے مرغوب کر دیتی ہے گھر جا کر وہ اپنی ماں سے حویلی میں لگے پھولوں کی خوبصورتی کا تذکرہ کرتی ہے اس کی ماں جو ایک جہاندیدہ خاتون ہے جواباً اسے کہتی ہے کہ حویلی میں پھول تو بہت خوبصورت ہوتے ہیں لیکن خوشبو سے محروم ہوتے ہیں وہ ماں کے اس تعجب آمیز جملے پر چونک جاتی ہے ایک دن جب پارو کو چوہدرانی کہتی ہے کہ آج چوہدری صاحب بہت پریشان ہیں ان کا ایک کام ہے کردو اگر تو ان کی پریشانی جاتی رہے گی پارو انتہائی معصومیت سے کہتی ہے کہ کام اگر میرے کرنے کا ہوا تو میں ضرور کروں گی اتنے میں چوہدری صاحب کہتے ہیں یہ دوائی ہے جو فلاں ڈاکٹر صاحب کے پاس فلاں جگہ پہچانی ہے پھر پارو تجسس آمیز انداز میں کہتی ہے جو پہلے دوائی لے جاتے تھے وہ کہاں گئے چوہدری برجستہ جواب دیتا ہے ان کی صحت خراب ہو گئی چوہدری منشیات کے پیکٹ دوائی کے طور پر دیتے ہیں کہ انہیں گگھو گھوڑوں کے خوانچے میں رکھ کر لے جائے پارو سخت برہم ہوتی ہے چوہدری کو سخت برا بھلا کہتی ہے وہ نوٹوں کی نتھی اور منشیات کے پیکٹ کو چوہدری کے منہ پر دے مارتی ہے پارو کا کردار ایک مضافاتی اور حب الوطن لڑکی کا کردار ہے بعد میں وہ یہی جملہ دہراتی ہے کہ ماں سچ کہتی ہے کہ بڑے گھروں میں پھول تو بے شمار ہوتے ہیں لیکن خوشبو سے محروم ہوتے ہیں یہ افسانہ حب الوطنی کا شاہکار ہے افسانے کا پلاٹ فنی چابک دستی کا مظہر ہے زبان و بیان کا معیار فطری نوعیت کا ہے۔

’’گندے لوگ‘‘ ان کا دوسرا فسانہ ہے یہ عمومی نوعیت کی کہانی ہے زیبی ایک مضافاتی کردار ہے جو زیورات سے لیس اپنے سسر کے ساتھ ٹرین میں سفر کر رہی ہے جو ماموں کے گھر بیاہی گئی ہے ماموں جو رشتے میں ان کے سسر بھی ہیں کے ہمراہ میکے سے پیکے کا سفر کر رہی ہے ٹرین میں لوگ حالات حاضر اور ہونے والی وارداتوں کے حوالے سے بحث کر رہے ہیں اور زیبی جس نے اپنا پورا بدن زیورات سے سجایا ہوا ہے خوفزدہ ہو کر سن رہی ہے جب رات کو وہ ریلوے اسٹیشن پر اترتے ہیں تو انہیں راستے میں ڈاکو پڑ جاتے ہیں جو زیبی کے زیورات چھیننے کی کوشش کرتے ہیں ، بالآخر ڈاکوؤں کی آپس کی لڑائی شروع ہو جاتی ہے جس کے نتیجے میں ایک ڈاکو مارا جاتا ہے زیبی کے زیورات واپس کیئے جاتے ہیں اور انہیں بحفاظت گھر پہنچا دیا جاتا ہے اس افسانے میں اچھائی اور برائی کی کشمکش دکھائی جاتی ہے بالآخر اچھائی جیت جاتی ہے اس افسانے میں اعلیٰ اخلاقی اقدار کا درس دیا گیا ہے۔

’’نالائق‘‘ ان کا تیسرا افسانہ ہے میاں جی اور صابرہ اس کے کلیدی کردار ہیں جو اپنی ن وبیاہی بیٹی ثانیہ کو اپنی عید کی خوشیوں میں شریک کرنے کے لئے اسے سسرال سے لانے جا رہے ہیں بس میں ڈکیتی کی واردات ہو جاتی ہے ڈاکوؤں میں سے ایک ڈاکو نے میاں جی کو پہچان لیا کیونکہ وہ ان کا نالائق شاگرد عدیل تھا اس نے لوٹا ہوا سامان میاں جی کے حوالے کر دیا۔ میاں جی کو سلیوٹ کرتے ہوئے چلتا بنا جس کے باعث اہلِ بس میاں جی کو مشکوک نگاہوں سے دیکھنے لگے۔ میاں جی نے انہیں حقیقت سے آشنا کیا اس افسانے میں اساتذہ کا احترام سکھایا گیا ہے یہ ایک فطری نوعیت کا افسانہ ہے۔

’’دو آنکھیں ‘‘ ان کا چوتھا افسانہ ہے اور شبو جس کا مرکزی کردار ہے جو بنیادی طور پر ایک طالب علم ہے عمر کے لا اُبالی حصے میں ہونے کی وجہ سے لڑکیوں کا پیچھا کرتا رہتا ہے۔ اس افسانے میں ایک ایسا ہی ماجرا بیان کیا گیا ہے جس میں ایک خوبصورت آنکھوں والی خاتون سے آنکھ مٹکے کے نتیجے میں ایک حیرت انگیز انکشاف ہوا جب خوبصورت آنکھوں والی نقاب پوش عورت نے نقاب اٹھایا تو وہ عمر رسیدہ خاتون تھیں اور جس کے چہرے پر بے شمار جھریاں تھیں پھر وہ اس سے جان چھڑانا چاہتا تھا یہ افسانہ نسل نو کی بے راہروی کا غمّاز ہے جو اپنے والدین، سماج، ملک و قوم کی امنگوں کو پس پشت ڈال دیتے ہیں جس کا نتیجہ رسوائی کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ گل زیب عباسی کے بیشتر افسانے مضافاتی زندگی سے تعلق رکھتے ہیں کیونکہ مضافات میں زندگی اپنی حقیقی صورت میں ملتی ہے جہاں خلوص و مروت اور رواداری کے استعارے ملتے ہیں۔

بقول راقم الحروف   ؎

خلوص و وفا اور مہر و محبت

یہ سب استعارے مضافات کے ہیں

ان کے افسانوں میں عمومی سماجی روئیے وفور سے پائے جاتے ہیں ان کا افسانہ اپنی معاشرت کا ترجمان ہے جس میں دھیمے دھیمے تاثرات ہیں جو متانت و سنجیدگی کی غمازی کرتے ہیں افسانوی اعتبار سے ابھی ان کے سفر کی ابتدا ہے ابھی انہوں نے افسانوی دنیا کے ہفت آسمان سر کرنے ہیں اگر ان کی لگن اور محنت جاری رہی تو ان کا افسانہ معیارات کی بلندیوں کو چھوتا ہوا نظر آئے گا۔

٭٭٭

 

 

 

 

ڈاکٹر مظہرؔ حامد کے سخن کی رومانی فضا

 

رومان جذبے شعری تاریخ کے ہر عہد میں روحِ رواں اور اعتبارِ ذوق رہے ہیں جن کے باعث فنِ شعر کی لطافتیں ،  نفاستیں اور نزاکتیں دو چند ہوئی ہیں اور یہ ہنر مرصع سازی کا مثیل قرار پایا ہے یہی سبب ہے کہ فنونِ لطیفہ کے تمام شعبوں میں شاعری نے نمایاں مقام پایا ہے فکری اعتبار سے شعر میں رومان کی پیوند کاری سے شعر کی فضا زعفران زار ہو جاتی ہے جبکہ اس کے بغیر شعر کا اسلوب بے جان اور سپاٹ ہو جاتا ہے پریم کے پوتر جذبات کو پیرایۂ اظہار میں لانے کے لیے احساسات کی شدت و حدت ناگزیر ہے جس کے لئے بھر پور اور توانا لہجہ کلیدی کردار ادا کرتا ہے شذرہ ہٰذا میں ہم ڈاکٹر مظہرؔ حامد کے کلام کی رومانی فضا کے حوالے سے رقمطراز ہیں جن کے سوانحی کوائف کی جھلک کچھ یوں ہے۔

موصوف کے والدِ محترم حضرت حافظ حامد علی خان نے دنیائے ادب میں ادیب فکری کے نام سے شہرت پائی اور 1950ء میں ہندوستان رام پور سے ہجرت کر کے مظفر گڑھ جنوبی پنجاب پاکستان میں مقیم ہوئے ڈاکٹر مظہر حامد کی پیدائش یکم ستمبر 1952ء کو مظفر گڑھ میں ہوئی قرآن مجید کی تعلیم اپنے والد صاحب سے حاصل کی 1960ء میں ان کے والدین کراچی میں اقامت پذیر ہوئے 1965ء میں پانچویں کلاس کا امتحان پاس کیا میٹرک کورنگی کے ایریا سکول سے 1971ء میں کیا 1974ء میں نجی طور پر انٹر میڈیٹ کا امتحان پاس کیا 1988ء میں ایم اے اردو کیا 2005ء میں پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی جس کا عنوانِ مقالہ ’’اردو نظم پر اقبال کے اثرات‘‘ تھا ادبی حوالے سے ان کا تعلق پروفیسر منظور حسین شورؔ اور پروفیسر ڈاکٹر ظفر اقبال کے حلقۂ تلمّذ سے ہے شدرہ ہٰذا میں ہم ان کے شعری مجموعہ ’’وقت کی دہلیز پر‘‘ مطبوعہ 2013ء کے ثُلث اول کی منتخب غزلیات کے منتخب اشعار شاملِ تجزیہ کرتے ہیں مذکورہ مجموعہ میں تمام تر غزلیات شامل ہیں جس سے شاعرِ موصوف کے غزل سے والہانہ پن کا اظہار ہوتا ہے۔

محبت انقلاب آفریں صورتِ حال اور جذب و شوق کی کیفیات سے عبارت ہے داخلی اور خارجی احساسات کی مکمل تبدیلی کا نام ہے وجدو حال کا عالم ہے زمین و آسمان اور دل و جاں میں ایک تغیرّ کی فضا محسوس ہوتی ہے ڈاکٹر مظہرؔ حامد کے ہاں دیوانگی اور فرزانگی پہلو بہ پہلو چلتی ہیں جس کی تمثیل شاذ ہی کسی سخنور کے ہاں مشاہدہ کی جا سکے گی وہ انسانی نفسیات اور رومانوی معاملات کا عمیق ادراک رکھتے ہیں جس سے ان کے تجربات و مشاہدات کا عکس جمیل عیاں ہوتا ہے اسی تناظر میں ان کی غزل کے دو اشعار نذرِ قارئین ہیں    ؎

زمیں کچھ اور یا پھر آسماں کچھ اور ہوتا ہے

محبت میں دل و جاں کا سماں کچھ اور ہوتا ہے

 

جنوں میں باخبر رہنا بھی معراجِ محبت ہے

کہ دیوانے کا اندازِ بیاں کچھ اور ہوتا ہے

کہیں کہیں بین السطور فلسفیانہ افکار کی جھلک بھی ملتی ہے جس سے ان کی بالیدہ فکری کی غمازی ہوتی ہے وہ شعر کے مختصر پیمانے میں بسیط و عمیق موضوع کو انتہائی قرینہ کاری کے انداز میں باندھتے ہیں ان کے تخیل کا تحیراتی پہلو یہ بھی ہے کہ محبوب بھی محب کے روپ میں جلوہ نما نظر آتا ہے    ؎

راز دل کا نظر سے کھلتا ہے

یہ معمہ اثر سے کھلتا ہے

 

جذبۂ عشق پہلے ہم تک تھا

اب درِ دل اُدھر سے کھلتا ہے

معراجِ محبت یہی ہے کہ محبوب اور اس کے متعلقات عزیزِ دل و جاں ٹھہریں جب انسان کو یہ مقام حاصل ہو جائے تو پھر وہ خالقِ دو جہاں سے اپنے محبوب کے لئے محوِ استدعا ہوتا ہے اسی نسبت سے ان کی ایک غزل کا مطلع لائقِ التفات ہے   ؎

جسم سارا جل رہا ہے دل میں ہے تصویرِ یار

میں اسے کیسے بچاؤں اے مرے پرور دگار

عالمِ ہجراں عشاق کے لئے ایک بہت بڑی افتاد ہوا کرتی ہے تمام رونقیں اور رعنائیاں ماند ہو جایا کرتی ہیں انجمن ویران ہو جاتی ہے اور فضا سنسان ہو جاتی ہے ایسی حالت میں قرب کے لمحے رہ رہ کر تڑپاتے ہیں۔

وہ کیف و سرور،  وہ ساقی و صہبا اور وہ ساغرو مینا جو وصل کے لوازمات ہوتے ہیں وہ سب یاد آتے ہیں اُن کی ایک غزل کا مطلع جو موضوع کے اعتبار سے تو روایتی ہے لیکن اُسے انتہائی خوبصورتی سے نبھایا ہے    ؎

اک تیرے نہ ہونے سے یہ ہے بزم کا عالم

وہ خم ہے نہ وہ بادہ،  نہ وہ مستیِ پیہم

اُن کے ہاں جذبوں میں ایک اخلاص اور رچاؤ پایا جاتا ہے جس سے کلام کا لطف دو بالا ہو جاتا ہے ایک جاذبیت و شیرینی ہے جو قاری کو مائل بہ التفات کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہے عندالبیَّان رومانی تنقیدی رویے بھی پائے جاتے ہیں جو انسانی کج روئیوں کے غماز ہیں ان کی ایک غزل کا مطلع اور ایک شعر دیدنی ہے   ؎

چاہت جو غرض کی ہو وہ چاہت نہیں رہتی

جب دل میں ہوس ہو تو محبت نہیں رہتی

 

دعویٰ تو محبت کا بہت ہی عام ہے لیکن

اخلاص نہ جب تک ہو رفاقت نہیں رہتی

ڈاکٹر مظہرؔ حامد کے ہاں محبت کا ایک عمیق احساس ضو پاشیاں کر رہا ہے بے لوث جذبے ہیں جو سخن کی شان بڑھا رہے ہیں ان کی ایک غزل کا مطلع درِ دل پر دق الباب کر رہا ہے   ؎

 

 

کوئی سمجھے یا نہ سمجھے دل تری محفل میں ہے

ہوں نہ ہوں میں تیرے دل میں تو مرے ہی دل میں ہے

 

عروضی محاسن کی پاسداری مفرد اور رواں دواں بحور کا انتخاب ان کی سخن سنجی کا خاصہ ہے جو اپنے اندر رومانویت کی ایک فضا سموئے ہوئے ہے اُن کے فکری کینوس میں ایک بو قلمونی ہے ان کے مزاج میں ایک تنوع ہے لیکن رومان کا رنگ سب سے چوکھا ہے ان کا فکرو فن بالیدگی کا مظہر ہے مزید شعری ریاضت سے امکانات کے فزوں تر ہونے کی امید کی جا سکتی ہے۔

٭٭٭

 

 

 

ڈاکٹر محبوب عالم کا نقدِ فن،  نعت نگاری کے تناظر میں

 

فنِ تنقید خاصہِ دقت طلب کام ہے اور بہت سی کٹھنائیوں سے عبارت ہے اگر معاملہ نعت نگاری کی تحقیق و تنقید کا ہو تو اور بھی زیادہ احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے ہمارے تنقیدی ادب میں نقدِ نعت کی صحت مند اور تندرست و توانا روایت موجود ہے اس حوالے سے کافی کام ہو چکا ہے جسے مزید کرنے کی بھی ضرورت ہے گذشتہ ادوار میں جن ناقدین نے اس سلسلے میں کام کیا ان میں شاکرؔ کنڈان، جاوید احسنؔ، ندیم ایزد دکھوسہ اور ڈاکٹر محبوب عالم کے اسمائے جلیلہ شامل ہیں شذرہ ہٰذا میں ہم ڈاکٹر محبوب عالم کی تنقیدی و تحقیقی نوعیت کی تصنیف ’’ڈیرہ غازی خاں میں نعت نگاری اور تنقیدِ نعت کی روایت ‘‘ مطبوعہ 2013؁ء ہے نعت نگاری کی تاریخ میں کتابِ ہٰذا ایک سنگِ میل کی حیثیت رکھتی ہے جس میں اجمالاً نعت نگاری کی تاریخ پر روشنی پڑتی ہے خصوصاً ڈیرہ غازی خاں کی نعت نگاری کے حوالے سے ڈاکٹر محبوب عالم کی یہ کاوش قابلِ تحسین ہے۔ وہ منطقی اور معروضی نوعیت کا استدلالی انداز رکھتے ہیں ان کی 2010؁ء میں ’’سخنورانِ پاکستان‘‘ کے نام سے ایک کتاب قارئین شعر و ادب سے دادو تحسین سمیٹ چکی ہے وہ راہِ ادب کے انتھک خادم ہیں۔ ان کے کام سے خلوص اور عمیق مشاہدات و تجربات کی جھلک ملتی ہے اس حوالے سے ان کی اہلیہ رابعہ خالد رانا کا ذکر نہ کرنا بھی ایک ادبی نا انصافی کے مصداق ہے تحقیق و تنقید کے اس دشوار گزار سفر میں انہوں نے ڈاکٹر محبوب عالم کا پورا پورا ساتھ دیا۔

کتابِ ہٰذا کے حصہ اول میں ایک درجن سے زائد شعرا کا نعتیہ کلام شامل ہے پیش لفظ ڈاکٹر محبوب عالم کا لکھا ہوا ہے عرضِ معاون سے معنون رابعہ خالد رانا کی آرا اس کتاب کا حصہ ہیں یہ کتاب دراصل چار ابواب پر مشتمل ہے بابِ اول میں نعت نگاری کی تاریخ کو مختصر مگر جامع انداز میں پیش کیا گیا ہے حمد و نعت کا اسلامی ادب سے تعلق واضح کرنے کی ایک اچھی کاوش کی گئی ہے نعت نگاری کے حوالے سے تحقیق و تنقید کی موجودہ صورت حال کا جائزہ لیا گیا ہے ڈیرہ غازی خان میں نعت نگاری اور تنقیدِ نعت کی روایت کو آغاز تا 2012؁ء و پیش کیا گیا ہے نعت نگاری کے حوالے سے شاعرات کے کردار کو واضح کیا گیا ہے ادبی تنظیموں ، جریدوں اور اخبارات کی اس سلسلے میں کی جانے والی کاوشوں کا بیان بھی شامل ہے۔

بابِ دوم میں ندیم ایزد کھوسہ کے نعتیہ تذکرہ ’’ور فعنالک ذکرک‘‘ پر ایک بسیط صراحت کی گئی ہے مشمولہ شعرا کے نعتیہ کلام کو بھی شامل کیا گیا ہے باب سوم میں وہ نعت گو یانِ ڈیرہ غازی خان جن کے نعتیہ مجموعے منصہ شہود پر آچکے ہیں کا تجزیہ شخصیت و فن کے تناظر میں کیا گیا ہے، بابِ چہارم میں ان شعرا پر روشنی پڑتی ہے جن کے نعتیہ مجموعے تادمِ تحریر شائع نہیں ہوئے اس کے بعد ایک نعتیہ شعری انتخاب پیش کیا گیا ہے۔

ڈاکٹر محبوب عالم کی اس کتاب کے ماخذات اور حوالہ جات سے اندازہ ہوتا ہے کہ انہوں نے اس کتاب کی تیاری میں کس قدر عرق ریزی سے کام لیا ہے تحقیق و تنقید سے انہماک رکھنے والوں کے لئے کتابِ ہٰذا ایک مخزنِ شوق ہے مالک ارض و سما سے استدعا ہے کہ ان کے فکرو فن کو دولتِ دوام سے نوازے اور ان کی کاوش دنیا و عقبیٰ کے سفر میں زاد راہ ٹھہرے۔ آمین

٭٭٭

 

 

 

نسیمؔ سحر کے فکر مندانہ افکار

 

فکر مندی دراصل انسانی طبع کی عمیق حساسیت کی غمازی کرتی ہے جس سے افکار میں وسعت کے باب وا ہوتے ہیں تخیل کی اڑان تا حدِ نگاہ سے کہیں آگے بعید از قیاس ہوتی ہے جو سخنور اس وصفِ خاص سے متصف ہوتے ہیں ان کا کلام انتہائی وقیع اور گراں قدر ہوتا ہے جس میں رفعتِ تخیّل کے شواہد بھی بھر پور انداز میں پائے جاتے ہیں شذرہ ہٰذا میں ہم نسیم سحر کی سخن سنجی کے حوالے سے رقمطراز ہیں جن کی شاعری کے باب میں گیارہ شعری کتب منصہ شہود پر آ چکی ہیں جنہوں نے زیادہ تر غزل میں طبع آزمائی کی ہے علاوہ ازیں انہوں نے حمدو نعت بھی لکھی ہے اور ہائیکو کو بھی مشقِ سخن بنایا ہے 15فروری 1944ء میں انہوں نے محمد نسیم ملک کے گھر راولپنڈی میں آنکھ کھولی بی اے تک رسمی تعلیم حاصل کی ادب کی مختلف اصناف میں کام کیا صحافت سے بھی ان کی دیرینہ وابستگی ہے پاکستان اور سعودی عرب سے نکلنے والے سہ ماہی جریدے ،  ’’سحاب‘‘ کے مدیر بھی ہیں نسیم سحر کے گیارہویں شعری مجموعہ ’’خواب سب سے الگ‘‘ کے ربع اول کی غزلیات کے منتخب اشعار مذکورہ موضوع کے تناظر میں شاملِ تجزیہ ہیں۔

ان کی ایک غزل کا مطلع اور ایک شعر لائقِ توجہ ہے

بے اماں اس نے میرا گھرانہ کیا اور میں چپ رہا

پھر ہوا نے سخن فاتحانہ کیا اور میں چپ رہا

غیر محفوظ مجھ پر ہوئیں شہر کی چار دیواریاں

آندھیوں نے مجھے بے ٹھکانہ کیا اور میں چپ رہا

مذکورہ بالا اشعار اپنے اندر صبر و تحمل کی عمیق داستان سموئے ہوئے ہیں سماج کی بیداد گری کی بپتا بھی ہوسکتی ہے اور مشیت سے شکوہ و شکایت کا پہلو بھی ہے افکار میں فکر مندی کے عوامل کے پہلو بہ پہلو مظاہرِ فطرت کی ستم کیشی کے شواہد بھی مشاہدہ کئے گئے ہیں۔

ایک اور غزل کے چار اشعار درِ التفات پر دق الباب کر رہے ہیں۔

 

آنے والی نسلیں شاید اس پر غور کریں ہم نے

جلتے تلوؤں سے دہکے انگاروں پر کیا لکھا ہے؟

 

اخباروں میں اپنی مرضی کی خبریں کیا دیتے ہو؟

یہ تو دیکھو شہر کی سب دیواروں پر کیا لکھا ہے ؟

 

نیند میں ڈوبے قافلے والے جان بھی سکتے تھے کیسے؟

شب خوں مارنے والوں کی تلواروں پر کیا لکھا ہے؟

 

کاش نسیمؔ کسی دن میرا چہرہ دیکھ کے سوچے وہ

بہتے اشکوں نے جلتے رخساروں پر کیا لکھا ہے؟

 

نسیم سحر کے شعری مخزن میں دیرو زو فردا کے ادراکات ایک خاص رنگ و آہنگ میں جلوہ سامانی کر رہے ہیں امروز بھی ان کے ہاں حالاتِ حاظرہ کے تناظر میں موجود ہے یوں ماضی و حال اور مستقبل سے باخبر نظر آتے ہیں ان کے فکری کینوس میں ایک زمانی تثلیث ہے جو ہر عہد سے ہمہ گیر اور ہمہ پہلو ہے عند البیَّان ایک مکمل تاریخ کا منظرنامہ موجود ہے جس پر شکوہ و شکایت کا عنصر غالب نظر آتا ہے حالانکہ خوشگوار احساسات بھی قاری میں لطیف جذبات اجاگر کرنے پر قادر ہوتے ہیں جس سے رجائی امکانات جلوہ ریز ہوتے ہیں اور معاشرہ مثبت اثرات قبول کرتا ہے بہتر نظری و عملی نتائج برآمد ہوتے ہیں انہوں نے عصری آشوب زدگی کو شد و مد سے پیش کیا ہے کربِ ذات کے مظاہر بھی پوری شدت و حدت سے موجود ہیں۔

غزل کے دواشعار ملاحظہ ہوں جن میں فکر مندی کا پہلو زیادہ نمایاں ہوا ہے۔

کسی کا جب کبھی پیمان ٹوٹ جاتا ہے

تو اس کے ساتھ وہ انسان ٹوٹ جاتا ہے

عجیب حلقۂ احباب ہے مقدر میں

قدم قدم پہ مرا مان ٹوٹ جاتا ہے

سماجی اقدار کی زبوں حالی درد کی آنچ کو شدید کرتی ہوئی محسوس ہوتی ہے جس سے وہ بالواسطہ طور پر مکارمِ اخلاق کی تعلیم دیتے ہیں آموز گاری کا یہ غیر محسوس انداز ہے جس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ شاعرِ موصوف انسانی نفسیات کا عمیق ادراک رکھتے ہیں عمرانی کج روی کو بھی انہوں نے موضوعِ بحث بنایا ہے جس سے عصری روئیوں کی عمدہ غمازی ہوتی ہے جس سے یہ اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ شاعرِ موصوف انسانی نفسیات کا عمیق ادراک رکھتے ہیں اور یہ انکشاف حدِ تیقن کو پہنچتا ہے کہ بسیط حساسیت نے ان کے کلام کو فکری بالیدگی سے ہم کنار کر دیا ہے۔ ایک اور غزل کا مطلع اولیٰ اور مطلع ثانی شاملِ شذرہ ہے   ؎

جتنے ہیں میری ذات کے پیکر سمیٹ لوں

یہ کائنات اپنے ہی اندر سمیٹ لوں

بکھرے ہوئے یہ قیمتی گوہر سمیٹ لوں

پھینکے ہیں دوستوں نے جو پتھر سمیٹ لوں

وہ اپنی ذات کی وسعتوں سے آشنا ہیں اور اپنے کمالات کی جانکاری بخوبی رکھتے ہیں انہیں حیات و کائنات کی وسعتیں ایک بحرِ بیکراں کی مانند نظر آتی ہیں شعر کے مختصر پیمانے میں افکار کے پھیلاؤ کو فنی چابکدستی سے سمیٹنے کا فن جانتے ہیں جو ان کی کمالِ فن کاری کا مظہر ہے ناروا رویوں کی مذمت کا کوئی پہلو ہاتھ سے نہیں جانے دیتے یوں وہ منفی افکار و معاملات کی انسداد میں پیش پیش ہیں۔

سلسلہ ہٰذا کی آخری کڑی کے طور پر غزل کا مطلع اور ایک شعر پیشِ نظر ہے۔

یہ کبھی جھوٹ نہیں بولتی،  سچ بولتی ہے

جھوٹ کے دور میں بھی شاعری سچ بولتی ہے

تبصرہ شہر کے حالات پہ یہ ہے میرا

لفظ جھوٹے ہیں مگر خامشی سچ بولتی ہے

وہ اپنے غیر معمولی تخیّلات کی پیشکش میں معمولی خیالات کو بھی بروئے کار لاتے ہیں پیرایۂ اظہار کے اعتبار سے ان کے ہاں ایک تنوع کا سماں ملتا ہے ان کا طرزِ اظہار قابلِ غور اور منطقی نوعیت کا حامل ہے وہ عام بات کو خاص انداز میں پیش کرنے کی بھی قدرت کرتے ہیں جس سے قاری کی توجہ کا حصول آسان تر ہو جاتا ہے اور بھر پور قسم کے تنقیدی زاوئیے بھی سامنے آتے ہیں۔

نسیم سحر کے کلام کے سیر حاصل مطالعہ کے بعد اس احساس کو تقویت ملتی ہے کہ وہ فنِ شعر پر دسترس رکھتے ہیں اور یہ اعزاز ان کے مسلسل ریاضِ شعر کا ثمر ہے ہر حساس آدمی کی طرح ان کے ہاں بھی فکر مندی کے عوامل بکثرت پائے جاتے ہیں مزید کاوشیں ان کے ہنر کو فزوں تر جلا بخشیں گی۔

٭٭٭

 

 

 

نوید سروشؔ کا حسرت آمیز کلام

 

 

مشیتِ ایزدی نے کار زارِ کائنات کا انصرام و انتظام کے لئے پیکرِ خاکی کی آفرینش کو تلازمہ قرار دیا اور حضرتِ انسان میں اس حوالے سے کچھ خواص رکھ دیئے جو انسانی تگ و تاز اور جدوجہد کے روپ میں ہویدا ہوئے کیونکہ طبعِ انسانی کچھ ضروریات و احتیاجات ،  امنگوں اور خواہشوں سے عبارت ہے جن کے باعث انسان ہمہ وقت مصروفِ عمل نظر آتا ہے۔ ان مقتضیات کی لا حاصلی لا محالہ طور پر حسرتوں کے وجود کو جواز بخشتی ہے۔ چنانچہ ہر سخنور میں اس نوع کے احساسات موجزن ہوتے ہیں۔ آج ہمارا موضوعِ بیان نوید سروشؔ کا کلامِ بلاغت نظام ہے جس میں حسرت آمیزی کے خصائص بدرجہ اتم پائے جاتے ہیں ، جن کا اصل نام نوید الاسلام ہے اور ادبی حلقوں میں نوید سروشؔ کے نام سے معروف ہیں۔ سرکاری ذرائع کے مطابق 6؍نومبر 1968ء میں فہیم الدین کے گھر میر پور خاص میں پیدائش ہوئی، ان کی والدہ محترمہ حمیدہ بیگم کے نام سے موسوم ہیں۔ انہوں نے اُردو ادبیات اور تاریخِ اسلام میں پوسٹ گریجویٹ کیا۔ شاہ عبد الطیف گورنمنٹ کالج، میر پور خاص میں اسسٹنٹ پروفیسر(شعبۂ اُردو) کے منصب پر فائز ہیں۔ ادبی اعتبار سے معروف العصر اور اُستاذ الشعراء ماہر اجمیری صاحب کے حلقۂ تلمذ سے تعلق رکھتے ہیں۔ عرصۂ بسیار سے شعرو سخن کی سیوا میں مصروف و منہمک ہیں اور ادبی حلقوں میں اپنی ایک واضح پہچان رکھتے ہیں۔ ملک کے معتبر اخبارات و جرائد اور شعری انتخابات میں اُن کا کلام تو اتر سے چھپتا رہتا ہے۔ ادبی حوالے سے ملک گیر رابطوں کے حامل ہیں۔ مارچ 2014ء اُن کا اوّلین شعری مجموعہ ’’ ہم نشینی‘‘ کے نام سے منصہ شہود پر آیا جس میں بیشتر غزلیات شامل ہیں۔ علاوہ ازیں حمدو نعت ، پابند و آزاد نظمیات ،  قطعات و متفرقات اور فردیات بھی مشمولات کا حصہ ہیں۔ کتابِ مذکورہ کے حوالے سے اربابِ نقد و نظر کی آراء حسبِ ذیل ہیں۔

معروف نقاد ڈاکٹر انور سدید رقمطراز ہیں :

’’نوید سروشؔ کی غزل میں رواں وقت نمودار ہوتا ہے۔ پھر ان کی تخلیقی ذات سامنے آتی ہے۔ ان کے اظہار و ابلاغ میں کوئی چیز رکاوٹ نہیں بنتی لیکن اس کے ساتھ ہی مجھے ان کی تخلیقی شخصیت زمانے کو نئے تقاضوں کے مطابق تبدیل کرنے میں کوشاں نظر آتی ہے۔ شاید یہ سندھ کی درویش دھرتی کے اثرات ہیں جو غزل کی امیجری میں ظاہر ہوتے ہیں تو دل پر مستقل اثر چھوڑ جاتے ہیں۔ میں کہہ سکتا ہوں کہ اکیسویں صدی کی غزل کا ایک روپ نوید سروشؔ نئے رنگوں میں ہمارے سامنے لا رہے ہیں۔ ان کے غرفۂ غزل سے جو کرنیں اُبھر رہی ہیں ، وہ نئے احساس کی آئینہ دار ہیں۔ میرا تاثر یہ بھی ہے کہ نوید سروشؔ جب غمِ زمانہ سے دو چار ہوں تو ان پر غزل اُترتی ہے لیکن جب اپنی ذات کی درزوں میں جھانکیں تو ان پر نظم نازل ہوتی ہے۔ ‘‘

نامور شاعرہ شبنمؔ شکیل کچھ یوں گویا ہیں :

’’نوید نے نشاط و غم کے جذبوں کو اپنے اندر سمو کر کچھ ایسی تصویر یں بنائی ہیں جو اس کی پہچان بن گئی ہیں۔ ‘‘

اِن کے مذکورہ شعری مجموعہ جو اِن کی اوّلین کتابِ شعر ہے، کے نصف اوّل کی منتخب غزلیات کے اشعارِ منتخبہ موضوعاتی تناظر میں برائے استخراجات شاملِ شذرہ ہیں۔

ابتدائی غزلوں میں سے ایک غزل کے دو اشعار لائقِ التفات ہیں   ؎

آسماں تک اُڑان کی حسرت

جسم پر جب کہ بال و پر بھی نہیں

وہ مرا اعتبار ہی کرتا

اب میں اس درجہ معتبر بھی نہیں

نوید کا فکری کینوس بے پناہ اظہاری جسارتوں سے مملو ہے جن کے پہلو بہ پہلو حسرتوں کی دل خراش صدائے بازگشت بھی ہے جس میں غم کی آنچ انتہائی گہری ہے جو معرفت و مجاز کے حوالے سے عبارت ہے جس میں ایک شکتی کا آدرش بھی پنہاں ہے اور انقلابی اندازِ فکر بھی ہے  ؎

کون توڑے گا یہ سکوت سروشؔ

آج بھی تم رہے اگر خاموش

اِن کے ہاں ایک دعوتِ تحرک،  غور و  خوض اور تفکر و تعقل کے خصائص پائے جاتے ہیں مگر کہیں کہیں بیم و رجا کی گومگوئی کیفیت بھی ہویدا ہوتی ہے جس سے ان کے کلام کی حسیاتی اور فلسفیانہ سطح بلند ہوتی ہوئی محسوس ہوتی ہے  ؎

عجیب ہوتے ہیں دل کے معاملے بھی سروشؔ

وہ مجھ کو پانہ سکا جس کے میں اثر میں ہوں

سروشؔ کا سخن تنوع و تلون کے خصائص رکھتا ہے جس کی بدولت ان کی شعری رنگا رنگی اور  بوقلمونی فزوں تر ہوئی ہے۔ ان کی غزل میں عصری رویوّں کے شواہد بھی صاف و شفاف صورت میں مشاہدہ کیے جا سکتے ہیں   ؎

غیروں کا کیا ہے اپنے بھی اپنے نہیں رہے

جب اوج پر ہمارا مقدر نہیں رہا

ان کا روایت سے رشتہ مضبوط اور مستحکم بنیادوں پر استوار ہے، اس لئے ان کے سخن سے کلاسیکی شعری رویے بھی آشکار ہوتے ہیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ فنِ شاعری کا تاریخی و تہذیبی شعور رکھتے ہیں لیکن ان کا حزن ملال انہیں رہین یاس نہیں رہنے دیتا  ؎

بیٹھا ہوں تری راہ میں اب آس لگائے

شاہد کہ کہیں سے تو چلا آئے کسی روز

نوید کے گنجِ شعر سے رجا کے چشمے پھوٹتے ہیں جو ان کا زندگی کرنے کا ایک معتبر حوالہ ہے۔ ان کا کلام ’’ ادب برائے زندگی‘‘ کے زمرے کا حامل ہے جس میں امیدوں اور تمناؤں کی چکا چوند قاری کو راغب کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہے   ؎

جب سزائے غمِ ہستی سے گزر جاؤں گا

میں اجالوں کی طرح اور نکھر جاؤں گا

میں اکیلا ہی رہِ زیست میں ہوں محوِ سفر

ہم سفر کوئی ملے گا تو ٹھہر جاؤں گا

اِن کا سخن صرف کلبۂ حزن و ملال نہیں ہے۔ نہ صرف وہ مایوسیاں اور افسر دگیاں بکھیرتے ہیں بلکہ خوشگوار اور لطیف احساسات کی مینا کاری بھی ملتی ہے۔ وہ غم کے تعمیری پہلوؤں سے بخوبی آشنا نظر آتے ہیں مگر بسا اوقات ان کے ہاں حزن و طرب کا امتزاج انتہائی دیدنی ہوتا ہے  ؎

کبھی روتے روتے گزاری ہیں راتیں

کبھی رات بھر خود پہ ہنستا رہا ہوں

وہ صرف غم و ملال سے شاکی و نالاں نظر نہیں آتے بلکہ مرزا غالبؔ کی طرف مصائب و آلام پر خندہ زن ہو کر تمسخر اُڑاتے ہیں جو ان کی مضبوط شخصیت کی بین دلیل ہے نیز وہ حزن کی افادیت و اہمیت کے قائل بھی ہیں۔

اگر ملی نہ محبت میں ہجر کی منزل

یقین کون کرے گا ترے فسانے کا؟

سروشؔ کی فنی چابکدستی کی عمدہ تمثیل یہ ہے کہ وہ زیست کے پیچیدہ اسرار و رموز کو بہ آسانی بیان کر جاتے ہیں جو ان کی قدرتِ اظہار کی برہانِ قاطع ہے  ؎

کارِ جہاں میں آج بھی دشوار کچھ نہیں

لیکن رہِ حیات میں ہموار کچھ نہیں

اِن کی قوتِ متخیلہ نہ صرف زیست کے وسیع و عریض فلسفوں کو احاطۂ اظہار میں لاتی ہے بلکہ انہیں تخلیق کرنے پر بھی قادر نظر آتی ہے، اس لئے وہ حسرت و امید کا حسیں امتزاج قاری کے خوانِ شعور پر رکھ جاتے ہیں   ؎

اک عمر ہوئی کوئی پیغام نہیں آیا

اے کاش صبا لے کر کچھ اس کی خبر آئے

حسرتوں کی دلدوز فضا ان کے سخن کی توانائی و پذیرائی کو فزوں تر کرنے میں مصروف و منہمک ہے جس کے باعث ان کا زورِ بیان وسیع تر ہو رہا ہے۔ اِن کا لہجہ دھیما نہیں بلکہ شدتِ تاثر سے مالا مال ہے اور بلند بانگ نوعیت کا حامل ہے جس میں سے عصری رویوں کی وار ہیں ہم واژگونی و سنگینی بھی نمایاں ہوئی ہے  ؎

زمیں پہ رہنے کا حق جس نے مجھ سے چھین لیا

وہ کوئی غیر نہیں صرف میرا بھائی ہے

شجر اُداس کھڑا کس کا منتظر ہے بھلا

شجر کی اپنے پرندوں سے کیا لڑائی ہے

شاعرِ موصوف کا شعری مزاج اپنی معاشرت سے ایک خاص جڑت رکھتا ہے۔ وہ تنقیدی رویوں کی بدولت مکارمِ اخلاق کی آموزش میں محو نظر آتے ہیں اس لئے ان کے سخن کا عمرانی مطالعہ بھی خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔ اِن کا حیران کن کمالِ فن یہ ہے کہ وہ مظاہرِ فطرت کو بروئے کار لا کر انسانی رویوں کی خوبصورت غمازی کرتے ہیں اور کچھ انقلابی نتائج سے بھی آگاہ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں  ؎

شہرتوں کو زوال آئے گا

شخصیت میں کمال آئے گا

دوستوں کو مری وفاؤں کا

اک نہ اک دن خیال آئے گا

وہ مضبوط حواس کے مالک ہیں ، اس لئے اِن کے ارادوں میں استحکام مضمر نظر آتا ہے کیوں کہ وہ وفاؤں کی پالنا پورے شوق و شغف سے کرنے کو لطفِ حیات گردانتے ہیں  ؎

نہ غم، نہ دل کو ملال دینا

نئی خوشی کا خیال دینا

جو ہوسکے تو اَنا کو اپنی

تم اپنے دل سے نکال دینا

اِن کے افکار مثالی اور آفاقی نوعیت کے ہیں ، لا یعنی اَنا کا تصور اِن سے گریز پا نظر آتا ہے، اس لئے وہ فضا میں خوشگواریاں اور لطافتیں بکھیرتے نظر آتے ہیں۔ اپنے درد و غم کے باعث ایک جذبۂ ہمدردی کی تخلیق میں کامیاب و کامران نظر آتے ہیں   ؎

تجھ سے ملنے کو میں جو آتا ہوں

میں بھی تیری طرح اکیلا ہوں

کاش ہوتا تجھے بھی یہ احساس

کس لئے روز تجھ سے ملتا ہوں

نوید سروشؔ کے بسیط شعری کینوس کے غائرانہ مطالعہ و مشاہدہ سے یہ بات طمانیت خیز انداز میں کہی جا سکتی ہے کہ وہ فکرو فن پر خاصی دستگاہ رکھنے والے سخن گستر ہیں جن کے موضوعاتی کینوس میں بے پناہ وسعت پائی جاتی ہے۔ اِن کا کلام خود میں حسرت آمیز کیفیات و واردات رکھتا ہے جس سے اِن کی حزینہ شعری طبع نمایاں ہوئی ہے۔ لسانی حوالے سے ایک تبحر اور قادر الکلامی مترشح ہوتی ہے۔ اگر اِن کا شعری ارتقا اسی سرعت سے جاری و ساری رہا تو نئی منزلوں کا سراغ لگانا اِن سے کچھ بعید نہ ہو گا۔

٭٭٭

 

 

 

ڈاکٹر وقار مسعود کی مزاح نگاری

 

معاشرے کی خوشی کے لئے وجود پانے والے فنون لطیفہ میں سے ایک فن مزاح نگاری بھی ہے جو اداسی و سوگواری پریشانی اور فکر مندی جیسے عوارض کا ایک دلچسپ علاج ہے روتے لوگوں کو ہنسانا، بسورتے چہروں پر تازگی لانا ایک دلکش فن کا درجہ رکھتا ہے اور ایسی شگفتہ و شوخ تحریریں کاغذ پر منتقل کرنا یقیناًکسی کمال سے کم نہیں ہے۔

قدرت نے اردو کو کئی مزاح نگاروں سے نوازا ہے ان میں سے ایک نام ڈاکٹر وقار مسعود کا بھی ہے جو اپنے قلم کی فیاضیوں سے دامن فطرت میں گل کاریاں کرتے رہتے ہیں۔ میں نے محسوس کیا ہے کہ ان کی تحریر سے ایک گد گدی سی بطن سنجیدگی پہ ہوتی ہے موصوف نے اپنے ادبی سفر کا آغاز 2001ء میں کیا ان کی کتاب ’’دال میں کچھ کالا ہے ‘‘ میرے زیر نظر ہے اگرچہ یہ ان کی پہلی کتاب ہے لیکن معیار کی بلندیوں کو چھوتی نظر آتی ہے ان کی تحریروں میں برجستگی، شستگی، بے ساختگی، نفاست و ذکاوت و ظرافت بدرجہ اتم پائی جاتی ہے۔

میں ہدایت خود فطرتاً سنجیدہ طبع کا حامل ہوں لیکن ان کی کتاب کے مطالعے کے دوران ان کے ہر مضمون نے میرے ہونٹوں پر تبسم کی لہریں بکھیر دیں طنز و مزاح کے ساتھ ان کے ہاں سنجیدگی کا بھی ایک غالب عنصر پایا جاتا ہے ان مضامین کے عنوانات حقیقی زندگی سے تعلق رکھتے ہیں انہوں نے اپنے مضامین کے ذریعے حقیقی زندگی کی ترجمانی کی ایک کامیاب کوشش کی ہے ان کے مضامین کی درجہ بندی کرنا قدرے مشکل کام ہے کیونکہ ہر مضمون اعلیٰ ادبی معیار کا حامل ہے اپنے مضمون ’’پبلک ٹرانسپورٹ‘‘ میں ڈرائیور کی تعریف و عکاسی کچھ اس طرح سے کرتے ہیں۔

’’یہ کسی بھی گاڑی کا وہ ڈھیٹ مسافر ہوتا ہے جو صبح سے شام تک نہایت ڈھٹائی سے ایک ہی سیٹ پر قبضہ جمائے بیٹھا رہتا ہے اس کے فرائض میں نہ صرف لوگوں کی نازک کمروں کو جھٹکے لگوانا شامل ہے بلکہ وقفے وقفے سے شیشے سے پیچھے بیٹھے مرد و زن پر نگاہ ڈال کر اطمینان قلب حاصل کرنا بھی اس کا ایک فریضہ ہے۔ ‘‘

موصوف کا ہر جملہ ہر پیراگراف اور ہر مضمون کے حوالے کے طور پر دیئے جانے کے قابل ہے لیکن خوف طوالت سے ایسا نہیں کیا جا سکتا۔

اس کتاب کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ مطالعے کے دوران قاری کی دلچسپی برقرار رہتی ہے تمام خیالات زنجیر کے کڑوں کی طرح ایک دوسرے سے جڑے ہوتے ہیں اس کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ مصنف حقیقی زندگی کا عمیق مشاہدہ رکھتا ہے ادب برائے زندگی کا قائل ہے امورِ حیات کا گہرا شعور بھی ان کی سب سے بڑی اور نمایاں خوبی ہے ان کا سب سے عمدہ اور اعلیٰ وصف یہ بھی ہے کہ انسانی نفسیات سے بخوبی واقف ہیں یہی وجہ ہے کہ جابجا ان کے ہاں فطری خیالات اور اسلوب کا ایک خاص رچاؤ ملتا ہے جو قاری کا دل موہ لیتا ہے رضی الدین رضیؔ اپنے تاثرات میں حق بجانب ہیں کہ ان کی رواں دواں شگفتہ تحریریں پڑھنے والوں کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہیں۔

انہوں نے اپنی نگارشات کی بدولت معاشرے کی ناہمواریوں کو بے نقاب کیا ہے ان کی تحریریں صرف وقتی چسکے کی چیز نہیں بلکہ سبق آموز ہیں وہ معاشرے کے ایک سلجھے ہوئے نقاد کی طرح اپنا کردار ادا کرتے ہوئے نظر آتے ہیں قاری ان کی تحریروں سے نہ صرف مزاح کا حظ اٹھاتا ہے بلکہ اسے زندگی کا گہرا شعور بھی ملتا ہے اگرچہ ان کا ادبی سفر بہت کم ہے لیکن انہوں نے بہت ہی تھوڑے عرصے میں اپنے آدرش میں وسعت پیدا کی بڑے یقین اور وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ آنے والا دور ڈاکٹر وقار مسعود کا ہو گا اور امید کی جاتی ہے کہ موصوف اپنے پورے جوش و جذبے کے ساتھ اپنا تخلیقی سفر جاری رکھیں گے۔

٭٭٭

 

 

 

 

یعقوب خاورؔ کی نادرہ کاریاں

 

معروف شاعر یعقوب خاور کا مجموعۂ کلام ’’حرفِ دلآرام‘‘ مطبوعہ 2010ء اس وقت ہمارے زیرِ نظر ہے خوبصورت نام والی یہ کتاب بہت سے خوبصورت اشعار کی امین ہے کتابِ ہٰذا میں شاعر نے ترتیبِ ابجد کے لحاظ سے اہتمامِ ردیف کیا ہے اور پھر اسے ردیف وار مرتب کیا ہے اگر پوری کتاب کا حاصلِ مطالعہ ہدیۂ قارئین کیا جائے تو طولِ بیان کا اہتمام لازم آتا ہے مشتے از خوروارے کے بمصداق ہم یہاں کتاب کا سُدس اول زیرِ نگاہ لا رہے ہیں جو ردیف الف پر مشتمل ہے کل ستائیس غزلیں ردیف الف کے حوالے سے شاملِ کتاب کی گئی ہیں جن میں شاعر نے جدتِ بیان اورمنفرداسلوب کی نسبت سے خیال آفرینی کی ہے دورانِ مطالعہ کچھ اشعار نے دامنِ دل کھینچ لیا اور ان کی دلکشی نے ہمیں مجبورِ تبصرہ کر دیا کم و بیش ایک درجن منتخب اشعار ہم اردو ادب کے متوالوں کی نذر کر رہے ہیں۔

سب سے پہلے یہ شعر ملاحظہ ہوں  ؎

امیرِ شہر کو خاورؔ نہ جانے کیا سوجھی؟

جو بے قصور تھے سب کو معاف کر ڈالا

ہر چند کے محالات میں سے ہے کہ امیرِ شہر تمام قصوروں کو معاف کر دے تاہم ایسا ہو گیا خدا جانے اس کا محرک کیا تھا اس شعر میں جہاں امیرِ شہر کی متلوّن مزاجی پر روشنی پڑتی ہے وہاں یہ بات بھی منکشف ہو جاتی ہے کہ صاحب نے بہت سے بے قصوروں کو قید کیا ہوا تھا بہر حال انت بھلے کا بھلا۔

ایک اور غزل کا شعر دیکھیے:

کبھی کہا نہ کسی سے وہ حرفِ دل آرا

جس ایک حرف نے مجھ کو کتاب کر ڈالا

ایک خوبصورت حرف ہما ری دسترس میں تھا جو راز کا درجہ رکھتا تھا چنانچہ کبھی کسی سے بیان نہ کیا لیکن وہ حرف اندار ہی اندر یوں نمو پاتا رہا اس نے خود ہمیں ہی کتاب بنا ڈالا اور اب ہم ایک کھلی کتاب کی صورت اہلِ جہاں کے سامنے ہیں۔

اب ان کی ایک غزل کا ایک شعر پیشِ خدمت ہے۔

ایک نگہ چھوڑ گئی مجھ کو دریدہ کر کے

اور اک حسنِ نظر نے مجھے تعمیر کیا

شعرِ ہٰذا میں سخنور نگاہوں کا فرق بیان کر رہا ہے جن سے وہ بہت زیادہ متاثر ہوا ایک نظر تو وہ تھی جو دل و جاں کو چاک کر گئی اور دوسری نگاہ وہ نگاہِ مشفقانہ جس نے تعمیرِ ذات کے تقاضے پورے کر دیئے گویا شاعر اس نظر کا بھی شکار ہوا جو ستم گرِ جاں ہے اور اس نگاہ سے بھی ہمکنار ہوا جو کرم گستر ہے پہلی نظر شگافِ ذات کا باعث بنی جب کہ دوسری نگاہِ حیات ساز ثابت ہوئی۔

یعقوب خاورؔ کا ایک اور دلکش شعر درد دل کھٹکھٹا رہا ہے۔

زمینِ شعر کا وارث ہے کاشتکارِ خیال

یہ فیصلہ مری تحریر سے طلوع ہوا

شاعر اپنے آپ کو کاشتکارِ خیال ثابت ٹھہرا رہا ہے اور یوں زمینِ شعر پر اپنی وراثت ثابت کر رہا ہے اور ساتھ ہی اس پر مہرِ ثبوت بھی ثبت کر رہا ہے کہ یہ سب کچھ ہنگامی طور پر نہیں ہوا بلکہ قدرت نے ابتدا سے ہی اس کا اہل ٹھہرا دیا تھا کہ رفعتِ خیال اور موزونیِ طبع کو بروئے کار لاتے ہوئے زمینِ ادب میں دلنشیں اشعار کاشت کروں۔

خاورؔ جی کا یہ مقطع بھی بڑا عجیب ہے

حضورِ حسن حالِ دل بیان کب ہو سکا خاورؔ؟

خموشی کا محل تھا اور سنانا بھی ضروری تھا

ہم اپنے محبوب کے حضور دل کا حال بیان نہیں کرسکے ہر چند خاموشی تھی لیکن ہوسکتا ہے جبری خاموشی ہو اور بقول اقبال ’’دستور زباں بندی‘‘ ٹھہرا ہو حالانکہ حال دل سنانا بھی ضروری تھا مگر ایسا کچھ نہیں ہوسکا عالمِ جبر ہمیشہ عشاق پر روا رہا ہے ابو البیان ظہور احمد فاتحؔ کا مشہور شعر ہے۔

دل مصر ہے چیخئے اور وہ مصر ہیں چپ رہو

اے خدا کس امتحاں میں آج ہم ڈالے گئے؟

یا یہ مشہور شعر

اظہار بھی مشکل ہے چپ رہ بھی نہیں سکتے

مجبور ہیں اف اللہ کچھ کہ بھی نہیں سکتے

ایک اور شعر موصوف کا سماعت ہو   ؎

بے توازن رہا یوں عمر کا منظر نامہ

زیست سرعت سے ہوئی شوق فراغت سے ہوا

خدا معلوم شاعر کیا کہنا چاہتا ہے جہاں تک ہم سمجھ پارہے ہیں وہ یہ ہے کہ ہماری زندگی ہمیشہ بے توازن سی رہی کبھی ادھر جھکا ہو گیا کبھی ادھر جھکا ہو گیا ہماری حیات بڑی تیزی سے گزرتی چلی گئی اور جتنی تیزی سے زندگی گزر ی شوق بھی اسی قدر وافر ہوتا چلا گیا مگر اپنا حال یہ رہا کہ با ایں ہمہ فارغ رہنے کا فرصت سے وقت گزارنے کا شوق بڑھتا چلا گیا گویا ہم نے دو متضاد راہوں پر قدم رکھ لیئے۔

اسی نوعیت کا ایک اور شعر دعوتِ تبصرہ دے رہا ہے۔

میں خاک زاد ابھی تک زمیں پہ رہتا ہوں

فلک نشیں کبھی موقع ملے تو آ جانا

صنعتِ تضاد کا حامل یہ شعر اپنے عجز اور محبوب کے افتخار کا مذکور ہے مصرعِ اول کی ساخت و پرداخت شاعر کے جذبۂ وفا کی غمازی کر رہی ہے کہ میں نے مٹی سے اپنا ناطہ نہیں توڑا اے میرے محبوب اگر تجھے موقع ملے یا طبیعت چاہے تو کچھ دیر آسمان سے میرے پاس زمین تک آ جانا چونکہ میں تو آسمان پر پہنچنے سے رہا۔

ندرتِ بیان کا حامل ایک اور شعر زیرِ نظر لاتے ہیں۔

گواہ رہنا ستم گر کہ تیرے عہد میں ہم

یہ جان ہارگئے حوصلہ نہیں ہارا

ہمت و مردانگی کاحامل یہ شعر بے حد حوصلہ افزا ہے۔ شاعر خود اپنے محبوب ستمگر کو شاہد  ٹھہرا رہا ہے کہ جملہ اسبابِ جبر و جور کے باعث ہم جان تو ہار گئے کیونکہ یہ ہمارے بس میں نہیں تھی لیکن تا دمِ آخر ہم نے ہمت نہیں ہاری ہم مایوس نہیں ہوئے مبتلائے بیم نہیں ہوئے۔

جناب خاورؔ کا یہ شعر بھی نرالا پن خود میں سموئے ہوئے ہے۔

ہم اہلِ دل کا مقدر بھی خوب ہے خاورؔ

کہ جس کو چاہیں وہی عمر بھر نہیں ملتا

انوکھے انداز میں اپنی نیرنگی قسمت کا گلہ کر رہے ہیں حالانکہ معاملہ کھٹائی کا ہے کیونکہ ہم جسے چاہتے ہیں ہماری چاہت کے علی الرغم وہ ساری زندگی ہمیں مل نہیں پاتا کسی نے کیا خوب کہا ہے۔

محبت رنگ دے جاتی ہے دل جب دل سے ملتا ہے

مگر مشکل بڑی یہ ہے کہ دل مشکل سے ملتا ہے

یا یہ شعر دیکھئے

یہاں کسی کو بھی کچھ حسب آرزو نہ ملا

کسی کو ہم نہ ملے اور کسی کو تو نہ ملا

شاعر مذکور کا یہ شعر بھی دامن دل کھینچ رہا ہے

کھلا ہوا ہے درِ دل کسی کی چاہت میں

نہ وہ ملا نہ کوئی دوسرا پسند کیا

سہلِ ممتنع ہے ایک سادہ سے خیال کو خوبصورت پیرائے میں پیش کیا ہے محبت میں قصرِ دل کا دروازہ کھلا رکھا ہے امکان یہی تھا کہ وہ دلبرِ ہوش ربا آئے گا مگر وائے افسوس وہ نہیں آیا ادھر المیہ یہ ہے کہ ہم کسی اور کو بھی پسند کرنے سے قاصر رہے ورنہ آسامی خالی نہ رہتی اور خلا پر کر دیا جاتا۔

اہلِ دل نے دل کی تکرار کا حامل ایک شعر لکھا ہے جو دل کو چھو رہا ہے لیجئے آپ بھی محفوظ ہوئیے۔

مستقل رکھتا ہے کیفیتِ دل پر بھی نگاہ

دل کسی اور پر دلبر نہیں جانے دیتا

یعنی ہمارا محبوب ہی بہت ہوشیار ہے ہر بات پر اسی کی نگاہ ہے خصوصاً دل کی حالت پر تو وہ گہری نظر رکھتا ہے جب سمجھتا ہے کہ دل کھٹا ہو رہا ہے تو تھوڑی سی خلوص کی شیر ینی شاملِ ادا کر لیتا ہے دل عاشق پھر محبوبِ خوش ادا سے جڑ جاتا ہے اور پھر اسی شدومد سے وظیفۂ الفت ادا کرنے لگتا ہے گویا وہ ستاتا بھی ہے اور پھر مجبور ہوتے دیکھ کر کرم فرمائیاں بھی کرنے لگتا ہے تاکہ دلِ وحشی کسی اور طرف راغب نہ ہو۔

ان کا یہ شعر بھی ذرا نوٹ کیجئے   ؎

جیسے میں جھنجھلا کے جاتا تھا سمندر کی طرف

کوئی بادل سا مرے گھر کی طرف آنے لگا

شاعر نے کسی کے آنے کو اپنے جانے سے مشابہ کرتے ہوئے عجیب بات کی ہے کہ جس طرح تنہائی اور گرمی کی شدت سے گھبرا کر جھنجھلاتے ہوئے صحرا کی راہ لیتا تھا آج کوئی بادل اسی ادا سے میرے گھر کی طرف بڑھ رہا ہے یہ میری خوش نصیبی ہے کہ آج کوئی میری جستجو میں بھی ہے وقت نے کیا خوب پلٹا کھایا کہ طالب کو مطلوب بنا دیا اور شارب کو مشروب بنادیا۔

مندرجہ بالا اشعار کے اشتہاد سے یہ امر پایۂ ثبوت کو پہنچا ہے کہ یعقوب خاورؔ ایک صاحبِ طرز شاعر ہے ان کی نگار شات میں ندرت کا رنگ چوکھا پایا جاتا ہے ان کے اشعار دفعتاً اپنی طرف متوجہ کر لیتے ہیں اور قاری کو سر سری گزر جانے کی اجازت نہیں دیتے کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی جہانِ استعجاب پڑھنے والے کو ورطۂ حیرت میں گم کر دینے کے لیئے ضروری موجود ہوتا ہے جیسے ایک تیراک اچانک گرداب کی زد میں آ جاتا ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

شبیر ناقدؔ کے سوانحی و فنی کوائف پر طائرانہ نظر

 

               شاعرعلی شاعرؔ(کراچی)

 

اصل نام غلام شبیر اور ادبی نام شبیر ناقدؔ ہے یکم فروری 1976ء کو جنوبی پنجاب کے مردم خیز خطے ڈیرہ غازی خاں کی تحصیل تونسہ شریف کے گاؤں ہیر و شرقی میں پیدائش ہوئی عہدِ طفولیت میں ہی فطری طور پر طبیعت لکھنے پڑھنے کی طرف راغب ہوئی گویا علم و ادب کا ذوق مشیت سے ودیعت ہوا عام بچوں کی طرح کھیل کود کے مشاغل میں ان کی دلچسپی انتہائی کم رہی لیل و نہار کا بیشتر حصہ حصولِ علم میں صرف ہوا میٹرک کا امتحان 1992ء میں گورنمنٹ ہائی اسکول ہیرو شرقی سے امتیازی نمبروں میں پاس کیا 1994ء میں گورنمنٹ کمرشل ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ تونسہ شریف سے ڈی کام کیا زمانۂ طالب علمی میں اپنے اساتذہ کے منظورِ نظر رہے شاعری کا با ضابطہ آغاز تو نویں جماعت سے ہی ہو گیا تھا اولاً انگریزی، اردو، سرائیکی اور پنجابی زبان میں طبع آزمائی کی۔ Beauty، ٹیپو سلطان اور حریت اس دور کی معرکۃ الآراء نظمیں ہیں لیکن سخن سازی کا با ضابطہ آغاز 1996ء میں کیا اور ادبی فیض استاذ الشعرا ابو البیان ظہور احمد فاتح سے پایا شبیر ناقدؔ کا شمار پروفیسر ظہور احمد فاتح کے ان تلامذہ میں ہوتا ہے جنہوں نے اپنے آموزِ گار ادب سے سب سے زیادہ اکتسابِ فیض کیا ہے اس لیے انہیں ممتازو منفرد مقام حاصل ہے ان کی بسیارگوئی بھی اپنے استادِ محترم سے کچھ نہ کچھ حد تک مماثلت رکھتی ہے ان کی پُر گوئی کا یہ عالم ہے کہ ان کے ابھی تک تین مجموعہ ہائے کلام زیورِ طباعت سے آراستہ ہوچکے ہیں لیکن ان کے غیر مطبوعہ کلام سے ایک درجن شعری مجموعے با آسانی ترتیب پا سکتے ہیں زبان و ادب کی خدمت کو احساس سودو زیاں سے بالا تر ہو کر روح کی ریاضت گردانتے ہیں اس لیے بلا امتیازِ شام و سحر گلشنِ شعر و ادب کی آبیاری میں منہمک رہتے ہیں ادب ان کا اوڑھنا بچھونا ہے ان کے معمولات ادبی خدمات سے عبارت ہیں ادبی اعتبار سے ملک گیر رابطوں کے حامل ہیں اگر کوئی تلمیذ ادب راہ نمائی کا خواستار ہو تو بصد خلوص اس کی حاجت کشائی کرتے ہیں ان کے شب و روز ان کی ادب سے وابستگی کے جنون کی حد تک غماز ہیں گویا شبیر ناقدؔ راہِ ادب کے ان تھک راہی ہیں جو خلوص اور ریاضت پر یقین رکھتے ہیں اس سلسلے میں وہ اپنے آرام اور صحت کی بھی پرواہ نہیں کرتے۔

جولائی 1999ء میں انہوں نے پاک آرمی میں شمولیت اختیار کی تادمِ تحریر خدمات سر انجام دے رہے ہیں ان کی شخصیت کی متنوع خصوصیت یہ بھی ہے کہ وہ صاحبِ سیف بھی ہیں اور اہلِ قلم بھی۔ یہ اعجاز و افتخار شاذہی کسی کے حصے میں آتا ہے 2001ء کو بی اے کا امتحان بہاوالدین زکریا یونیورسٹی ملتان سے نجی طور پر پاس کیا 2003ء کو جامعہ ہٰذا سے اردو ادبیات میں ایم اے کیا اور 2007ء کو مذکورہ یونیورسٹی سے پنجابی ادبیات میں ایم اے کیا۔

دسمبر 2007ء میں ان کا اولین شعری مجموعہ ’’صلیب شعور‘‘ جو غزلیات و نظمیات پر مشتمل تھا منصہ شہود پر آیا کتابِ ہٰذا کا وصفِ خاص یہ ہے کہ اس میں اردو ادب کی طویل ترین غزل جسے ’’غز لنامہ ‘‘ سے موسوم کیا گیا ہے بھی شامل ہے لفظ ’’غز لنامہ‘‘ بھی ان کی ذاتی اختراع ہے۔ یہ غزل ایک سو انتیس اشعار پر مشتمل ہے جس میں قوافی کا تکراری پہلو معدوم ہے اور فکری اعتبار سے کثیر الموضوعات بھی ہے حیات و کائنات سے متعلق اکثر و بیشتر موضوعات اس میں شامل ہیں اپریل 2010ء میں ان کا سرائیکی مجموعۂ کلام ’’من دی مسجد‘‘ زیورِ طباعت سے آراستہ ہوا جس میں غزلیں ، نظمیں ، گیت، قطعات اور دوہڑے شامل تھے اپریل2011ء میں ان کا دوسرا اردو مجموعۂ کلام اور مجموعی طور تیسری کتاب ’’آہنگِ خاطر‘‘ منظرِ عام پر آئی جس میں نظم کی بیشتر ہیئتوں اور غزلوں پر طبع آزمائی کی گئی ہے۔ نظم کے پہلو بہ پہلو نثر میں بھی ریاضت تواتر سے جاری و ساری ہے ان کی شعری و نثری تخلیقات ملک بھر کے ادبی جرائد اور اخبارات و رسائل کی زینت بنتی رہتی ہیں۔ تصنیفی اعتبار سے شبیر ناقدؔ کے لیے 2013ء کا سال بھر پور ثابت ہوا جس میں ان کی چار تنقیدی نوعیت کی تصانیف منصہ شہود پر آئیں کتابِ ہٰذا کی طباعت کے عمل کا آغاز بھی 2013ء کے اواخر میں ہوا جون 2013ء میں نثری اور تنقیدی نوعیت کی تصنیف ’’ابو البیان ظہور احمد فاتح کا کیفِ غزل ‘‘ سے موسوم زیورِ طباعت سے ہم آغوش ہوئی جس میں انہوں نے اپنے استاد گرامی پروفیسر ظہور احمد فاتح کی شخصیت اور ان کے دس شعری مجموعوں کی مشمولہ غزلیات کا انتہائی منطقی اور استدلالی انداز میں تجزیہ پیش کیا ہے جس میں ان کے نقد فن کا جوہر کھل کر سامنے آیا ہے اور تخلیقیت کی سطح بھی اجاگر ہوئی ہے جون 2013ء میں ہی ’’شاعرات ارض پاک‘‘ حصہ اول سے معنون تنقیدی مضامین و منتخب کلام مجموعہ شا ئع ہوا جس میں دو درجن شاعرات کے حوالے سے تنقیدی شذرات شامل ہیں جس میں نقاد عصر شبیر ناقد نے اپنی تنقیدات کے جوہر دکھائے ہیں اکتوبر 2013ء میں شاعرات ارض پاک کے تاریخی ادبی سلسلے کی دوسری کڑی کے طور پر شاعرات ارض پاک حصہ دوم منظر عام پر آئی جبکہ نومبر 2013ء میں مذکورہ سلسلہ کا تیسرا ایڈیشن شائع ہوا ان کی من حیث المجموع تصانیف کو علمی و ادبی حلقوں میں نگاہِ استحسان سے دیکھا جاتا ہے انہیں بہت ہی قلیل عرصے میں بے پناہ مقبولیت و پذیرائی میسر آئی جو ان کی شبانہ روز محنت شاقہ کا ثمر ہے نیٹ کے قارئین ’’اردو سخن ڈاٹ کام‘‘ پر ان کی تصانیف سے استفادہ اور اکستابِ فیض کرسکتے ہیں۔

آج کل شبیر ناقدؔ پاکستان کی شاعرات پر تنقیدی و تحقیقی نوعیت کا کام کر رہے ہیں اس سلسلے میں ’’شاعرات عرض پاک ‘‘ کے تین ایڈیشن چھپ کر قارئین شعر و ادب سے خراج تحسین کی دولت سمیٹ چکے ہیں ان کے مضامین میں تحقیق کی نسبت تنقید کا عنصر غالب رہتا ہے گویا ہمیں یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ شبیر ناقد اسم بامسمیٰ ہیں وہ ایک روکھے پھیکے ناقد نہیں بلکہ فطری نقاد ہیں مشیت نے انہیں طبیعت ہی تنقیدی نوعیت کی ودیعت کی ہے حتیٰ کہ ان کے کلام اور گفتگو میں بھی ناقدانہ افکار و فور سے ملتے ہیں کتابِ ہٰذا پچاس سے زائد تنقیدی شذرات کا مخزن ہے جس میں ادب کی مختلف اصناف سے تعلق رکھنے والی شخصیات کی تصانیف کے حوالے سے معروضی، منطقی اور استدلالی انداز میں خامہ فرسائی کی گئی ہے جسے شبیر ناقد کی مخصوص ناقدانہ حاشیہ آرائی نے چار چاند لگادیئے ہیں اس کتاب کے مطالعہ کے بعد قارئین اور ارباب دانش مصنف موصوف کی عرق ریزی کا اندازہ بہ خوبی لگا پائیں گے انہوں نے اپنے ہر شذرے کے آغاز میں کسی فنی یا سماجی مسئلے کو موضوعِ بحث بنایا ہے جس سے ان کی فکر و فن سے فطری و ابستگی کی عکاسی ہوتی ہے فطری اعتبار سے وہ ادب برائے زندگی کے قائل ہیں لیکن ادب برائے ادب کی شمعیں بھی فروزاں نظر آتی ہیں ان کا مقصد و مدعایہ ہے کہ تخلیق کار اپنی تخلیقات میں روح عصر کی بھر پور غمازی کریں سماجی مسائل اور عمرانی خبائث کا مداوا تلاش کریں جو ایک حقیقی تخلیق کار کا اولین فرضِ منصبی ہے اور وہ اس سے عہدہ برا بھی ہوسکتا ہے ان کی تنقیدی حوالے سے درج ذیل کتب زیر طبع ہیں :

۱۔         شاعرات ارض پاک (حصہ چہارم ) تنقیدی مضامین و منتخب کلام

۲۔        شاعرات ارض پاک        (جامع ایڈیشن حصہ اول)

100 شاعرات کے حوالے سے شذرات اور منتخب کلام

۳۔        میزانِ تنقید                    (تنقیدی مضامین)

۴۔        تجزیات             (تنقیدی مضامین)

۵۔        توضیحات                        (تنقیدی مضامین)

۶۔        زاوئیے              (تنقیدی مضامین)

۷۔        ابو البیان ظہور احمد فاتح کا منشور نظم (نظمیاتی تجزیہ)

۸۔        ابو البیان ظہور احمد فاتح فکرو فن کے آئینے میں (غزلیات و منظومات کا تجزیہ)

۹۔         تنقیدات(تنقیدی مضامین)

علاوہ ازیں بچوں کے لیے شاعری بھی کرتے ہیں ان کا کلام ملک بھر کے بچوں کے جرائد کی زینت بھی بنتا رہتا ہے شبیر ناقدؔ نے بہت ہی کم عرصے میں اپنے آدرش میں بے پناہ وسعت پیدا کی ہے تخلیق و تنقید دونوں میدانوں میں اپنی صلاحیتیوں کا لوہا منوایا ہے طبعاً سنجیدہ شخصیت کے مالک ہیں مگر بے تکلفی انہیں بہت مرغوب ہے۔ انہیں یہ اعزاز و افتخار حاصل ہے کہ اُن کی حیات پُر سعی علمی و ادبی  اور عسکری خدمات میں صرف ہو رہی ہے۔

الغرض شبیر ناقدؔ راہِ ادب کے ایک اَن تھک مسافر ہیں جو خلوص، محبت اور لگن کے اصول ثلاثہ پر یقین رکھتے ہیں ریاضت جس کا کلیدی تلا زمہ ہے ربِ ادب سے استدعا ہے کہ اُن کے فکر و فن کو دولتِ دوام سے نوازے۔ آمین

شبیر ناقدؔ کی دیگر تصانیف

شاعری

۱۔         صلیبِ شعور         (غزلیات و نظمیات)

۲۔        من دی مسجد       (سرائیکی شاعری)

(غزلیں ، نظمیں ، گیت، قطعات، دوہڑے، سرائیکو)

۳۔        آہنگِ خاطر        (غزلیات، نظمیات، گیت، قطعات، ہائیکو)

۴۔        جادۂ فکر             (غزلیات و نظمیات)                   زیرِ طبع

۵۔        صبحِ کاوش                       (غزلیات و نظمیات)                   زیرِ طبع

۶۔        دل سے دور نہیں ہو تم      (غزلیات و نظمیات)                   زیرِ طبع

۷۔        کتابِ وفا                        (غزلیات و نظمیات)                   زیرِ طبع

۸۔        روح دی روہی     (سرائیکی شاعری)

(غزلیں ، نظمیں ، قطعے، دوہڑے)سرائیکو                زیرِ طبع

تنقید

۱۔         ابوالبیان ظہور احمد فاتح کا کیفِ غزل

(سوانحی و فنی مطالعہ اور غزل کا انتقادی جائزہ)

۲۔        شاعراتِ ارض پاک        (حصہ اول)       تنقیدی مضامین و منتخب کلام

۳۔        شاعراتِ ارض پاک        (حصہ دوم)       تنقیدی مضامین و منتخب کلام

۴۔        شاعراتِ ارض پاک        (حصہ سوم)       تنقیدی مضامین و منتخب کلام

۵۔        شاعراتِ ارض پاک        (حصہ چہارم)     زیرِ طبع

۶۔        شاعراتِ ارض پاک        (حصہ پنجم)        زیرِ طبع

۷۔        شاعراتِ ارض پاک                    (جامع ایڈیشن، حصہ اول)   زیرِ طبع

100 شاعرات کے حوالے سے شذرات و منتخب کلام

۸۔        ابوالبیان ظہور احمد فاتح کا منشورِ نظم

(ظہور احمد فاتح کی نظم کا تنقیدی جائزہ)                    زیرِ طبع

۹۔         میزان تنقید                                (تنقیدی مضامین)           زیرِ طبع

۱۰۔       تنقیدات                                   (تنقیدی مضامین)           زیرِ طبع

۱۱۔        ابوالبیان ظہور احمد فاتح فکر و فن کے آئینے میں                       زیرِ طبع

(غزلیات و منظومات کا تجزیہ)

۱۲۔       توضیحات                                    (تنقیدی مضامین)           زیرِ طبع

۱۳۔       زاوئیے                          (تنقیدی مضامین)           زیرِ طبع

۱۴۔       تجزیات                         (تنقیدی مضامین)           زیرِ طبع

٭٭٭

تشکر: جلیل حیدر لاشاری جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید