FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

میرا ہندوستان

جم کاربٹ

مترجم: محمد منصور قیصرانی

ڈاؤن لوڈ کریں

پی ڈی ایف فائل

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل

ٹیکسٹ فائل

مکمل کتاب پڑھیں

انتساب

اگر آپ ہندوستان کی تاریخ پڑھنا چاہتے ہیں یا پھر برطانوی راج کے عروج و زوال کی وجوہات تلاش کر رہے ہیں یا پھر یہ جاننا چاہتے ہیں کہ کیسے برِصغیر دو دشمن ریاستوں میں تقسیم ہوا اور اس کے نتیجے میں دونوں ریاستوں اور انجام کار ایشیا میں کیوں تشدد ہوا تو آپ کو مایوسی ہوگی کہ اگرچہ میں نے پوری زندگی اس ملک میں گزاری ہے اور ان واقعات کو بہت قریب سے وقوع پذیر ہوتے دیکھا ہے مگر میں نے اتنا قریب سے مشاہدہ کیا ہے کہ میری رائے اس بارے غیر جانبدارانہ نہیں رہ سکتی۔

’’میرا ہندوستان‘‘ میں، میں نے اس ہندوستان کے بارے بات کی ہے جو میں جانتا ہوں اور جس میں چالیس کروڑ انسان آباد ہیں اور ان میں نوے فیصد انتہائی سادہ، ایماندار، بہادر، وفا دار اور جفا کش ہیں اور روزانہ عبادت کرتے ہیں اور انہیں اور ان کی ملکیت کا تحفظ حکومتِ وقت کا کام ہوتا ہے تاکہ وہ اپنی محنت سے لطف اندوز ہو سکیں۔ یہ لوگ بلاشبہ غریب ہیں اور انہیں ’ہندوستان کی بھوکی عوام‘ کہا جاتا ہے اور ان کے درمیان میں نے زندگی گزاری ہے اور مجھے ان سے محبت ہے اور یہ کتاب میں ان لوگوں کے نام منسوب کرتا ہوں جو ہندوستان کے غریب ہیں۔

اجزا

۰۰

۔ تعارف

۰۱۔ گاؤں کی رانی

۰۲۔ کنور سنگھ

۰۳۔ موٹھی

۰۴۔ قبل از سرخ فیتہ زمانہ

۰۵۔ جنگل کا قانون

۰۶۔ سلطانہ، ہندوستان کا رابن ہُڈ

۰۷۔ وفا داری

۰۸۔ بُدھو

۰۹۔ لالہ جی

۱۰۔ چماری

۱۱۔ موکمہ گھاٹ کے شب و روز

تعارف

انتساب پڑھ کر آپ شاید یہ پوچھیں کہ ’’ہندوستان کے غریب کون ہیں، جن کا ذکر ہو رہا ہے؟‘‘ ’’میرا ہندوستان سے کیا مراد ہے؟‘‘ یہ سوال مناسب ہیں۔ دنیا میں ہندوستانی کا لفظ ایک بہت بڑے جزیرہ نما علاقے کے لیے استعمال ہوتا ہے جو شمال سے جنوب دو ہزار میل سے زیادہ لمبا اور مشرق سے مغرب تک اتنا ہی چوڑا ہے۔ جغرافیائی اعتبار سے تو شاید یہ لفظ اپنا مفہوم ادا کر دے مگر لوگوں کے حوالے سے ایسا کہنا ممکن نہیں۔ چالیس کروڑ انسان نسل، قبیلے اور ذات پات کے ذریعے یورپ سے کہیں زیادہ منقسم ہیں اور اس کے علاوہ مذہبی طور سے بھی ایک دوسرے سے انتہائی فرق ہیں۔ یہ نسل نہیں بلکہ مذہب تھا جس نے ہندوستان کی سلطنت کو دو ممالک یعنی پاکستان اور بھارت میں تقسیم کیا۔

اب میں اس کتاب کے عنوان کی وجہ تسمیہ بیان کرتا ہوں۔

’’میرا ہندوستان‘‘ میں، میں نے دیہاتی زندگی اور اس سے متعلق امور کے بارے بات کی ہے اور اس میں ان مقامات کا تذکرہ ہے جہاں میں نے اپنی پوری زندگی بسر کی تھی اور جہاں میں نے کام کیا تھا اور ان سادہ لوح لوگوں کا بھی تذکرہ ملے گا جن کے درمیان میں نے لگ بھگ ستر سال بسر کیے۔ ہندوستان کے نقشے پر نظر ڈالیے۔ اس جزیرہ نما کا انتہائی جنوبی مقام راس کماری ہے اور پھر آپ اس سے اوپر دیکھتے جائیں حتیٰ کہ ہمالیہ کے عظیم الشان سلسلے تک پہنچ جائیں گے جو صوبجات متحدہ کے شمال میں ہے۔ یہاں آپ کو نینی تال دکھائی دے گا جو صوبجات متحدہ کے گرمائی صدر مقام کا درجہ رکھتا ہے اور اپریل سے نومبر تک یورپیوں اور امیر ہندوستانیوں سے بھرا رہتا ہے جو میدانی علاقوں کی گرمی سے جان چھڑانے یہاں پہنچ جاتے ہیں۔ سردیوں میں محض چند مستقل افراد رہتے ہیں اور ان میں سے میں بھی ایک تھا۔

اب اس پہاڑی مقام سے ہٹ کر اپنی نظریں دریائے گنگا پر دوڑائیں جو الہ آباد، بنارس اور پٹنہ سے ہوتا ہوا سمندر کو گامزن ہوتا ہے۔ یہاں آپ کو پٹنہ کے بعد موکمہ گھاٹ دکھائی دے گا جہاں میں نے ۴۱ سال کام کیا۔ میرے بیان کردہ واقعات انہی دو مقامات یعنی نینی تال اور موکمہ گھاٹ سے متعلق ہیں۔

بہت سارے پیدل راستوں کے علاوہ نینی تال تک باقاعدہ سڑک بھی جاتی ہے جس پر ہمیں فخر ہے کہ یہ پہاڑی سڑک پورے ہندوستان میں سب سے اچھی بنی ہوئی ہے اور سب سے اچھی طرح اس کی دیکھ بھال کی جاتی ہے۔ کاٹھ گودام میں جہاں ریل کی پٹڑی ختم ہوتی ہے، وہاں سے یہ سڑک شروع ہو کر بائیس میل تک گھنے جنگلوں سے گزرتی ہوئی ۴،۵۰۰ فٹ کی اونچائی چڑھتی اور آسان موڑوں پر گھومتی ہوئی نینی تال پہنچتی ہے۔ راستے میں بعض اوقات آپ کو شیر اور شیش ناگ بھی دکھائی دے سکتے ہیں۔ نینی تال ایک کھلی وادی ہے جو مشرق سے مغرب کی سمت پھیلی ہوئی ہے اور اس کے تین جانب پہاڑ ہیں جن میں سب سے بلند پہاڑ چینا ہے جو ۸،۵۶۹ فٹ بلند ہے۔

اس کا نچلا سرا کھلا ہے جہاں سے سڑک آتی ہے۔ وادی میں ایک جھیل بھی ہے جو دو میل سے تھوڑی زیادہ جگہ گھیرے ہوئے ہے۔ اس جھیل میں پانی بالائی سرے سے سارا سال آتا ہے اور اضافی پانی سڑک والے سرے سے نکل جاتا ہے۔ وادی کے بالائی اور نچلے حصے پر بازار ہیں اور اطراف کی پہاڑیوں پر رہائشی گھر، چرچ، اسکول، کلب اور ہوٹل پھیلے ہوئے ہیں۔ جھیل کے کنارے پر بوٹ ہاؤس، ایک ہندو مندر اور ایک انتہائی مقدس مقام ہے جس کو میرا پرانا دوست اور برہمن پجاری سنبھالتا ہے۔

ماہرینِ ارضیات اس جھیل کی ابتدا کے بارے مختلف نظریات رکھتے ہیں۔ بعض کے مطابق یہ گلیشیر اور لینڈ سلائیڈ سے بنی ہے تو بعض اسے آتش فشانی عمل کا نتیجہ بتاتے ہیں۔ ہندو روایات کے مطابق یہ جھیل تین قدیم گیانیوں اتری، پلاستیا اور پُلاہا نے بنائی تھی۔ سکندا پران نامی مقدس کتاب میں درج ہے کہ یہ تین گیانی چینا کی ڈھال پر پہنچے اور انہیں پینے کو پانی نہ مل سکا۔ اس لیے انہوں نے یہاں گڑھا کھود کر تبت کی ایک مقدس جھیل مان سروور سے پانی یہاں منتقل کر دیا۔ ان کے جانے کے بعد نینی دیوی آئی اور اس جھیل کے پانیوں میں رہنے لگی۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس جھیل سے نکلی ہوئی مٹی پر جنگل اگ آئے اور پھر پانی اور سبزے کے باعث جانور اور پرندے بھی بڑی تعداد میں آ کر رہنے لگے۔ دیوی کے مندر سے چار میل کے دائرے میں میں نے بہت دیگر جانوروں کے علاوہ شیر، تیندوے، ریچھ اور سانبھر بھی دیکھے ہیں اور اسی علاقے میں ۱۲۸ مختلف اقسام کے پرندے بھی شمار کیے ہیں۔

جب اس جھیل کے بارے معلومات ہندوستان کے ابتدائی حکمرانوں کو ملیں اور چونکہ مقامی لوگ اپنی مقدس جھیل کا محلِ وقوع بتانے سے کتراتے تھے، ۱۸۳۹ میں ایک حاکم نے اس جھیل کو تلاش کرنے کا انوکھا طریقہ سوچا۔ اس نے ایک مقامی بندے کے سر پر بہت بھاری پتھر رکھا اور اسے کہا کہ وہ نینی تال جھیل پر پہنچ کر ہی اسے اتار سکے گا۔ کئی دن تک آس پاس پہاڑیوں میں پھرتے رہنے کے بعد اس بندے کی ہمت جواب دے گئی اور وہ ان لوگوں کو جھیل تک لے گیا۔ جب میں بچہ تھا تو مجھے وہ پتھر دکھایا گیا۔ یہ پتھر بہت بڑا تھا اور اکیلا آدمی اسے نہ اٹھا پاتا۔ اس کا وزن اندازاً چھ سو پاؤنڈ ہوگا۔ جب میں نے اس پتھر کو دکھانے والے مقامی پہاڑی بندے سے کہا کہ یہ پتھر ایک آدمی سے تو نہیں اٹھ سکتا۔ تو اس نے جواب دیا، ’’بے شک پتھر بہت بڑا ہے مگر اُس دور کے لوگ بھی بہت مضبوط ہوتے تھے۔‘‘

اپنے ساتھ اچھی دوربین لے کر میرے ساتھ چینا کی چوٹی کو چلیں۔ اس جگہ آپ کو نینی تال کے آس پاس پر طائرانہ نگاہ ڈالنے کا موقع مل جائے گا۔ سڑک کی چڑھائی کافی سخت ہے، اگر آپ پرندوں، درختوں اور پھولوں میں دلچسپی رکھتے ہوں تو تین میل کا یہ سفر طے کرنے میں کوئی دشواری نہیں ہوگی۔ اگر چوٹی پر پہنچ کر ان تین گیانیوں کی طرح آپ بھی پیاسے ہوں تو میں آپ کو پیاس بجھانے کے لیے انتہائی سرد چشمہ دکھاؤں گا۔ آرام کرنے اور کھانا کھانے کے بعد ہم شمال کا رخ کریں گے۔ ہمارے بالکل نیچے گہری اور گھنے جنگلات سے گھری وادی ہے جس میں دریائے کوسی بہتا ہے۔ اس دریا کے پیچھے پہاڑ پر چھجے سے ہیں جن پر مختلف دیہات آباد ہیں۔ انہی میں سے ایک پر الموڑہ کا قصبہ ہے اور ایک دوسرے پر رانی کھیت کا کینٹ ہے۔ ان کے پیچھے مزید چھجے ہیں جن میں سے سب سے بلند ڈنگر بقول کہلاتا ہے اور ۱۴٫۲۰۰ فٹ بلند ہے اور اس کے پیچھے انتہائی بلند مستقل برف پوش ہمالیہ کے پہاڑ موجود ہیں۔

یہاں ہم سے شمال کی جانب ساٹھ میل دور تری سول ہے اور اس کے مشرق اور مغرب میں ۲۳٫۴۰۶ فٹ بلند پہاڑ کئی سو میل تک چلے جاتے ہیں۔ تری سول کے مغرب میں جب برف نظروں سے اوجھل ہوتی ہے، میں سب سے پہلے گنگوتری گروپ آتا ہے، پھر گلیشیر اور پہاڑ دکھائی دیتے ہیں جو کیدار ناتھ اور بدری ناتھ کے مقدس مقامات ہیں۔

تری سول کے مشرق میں مزید پیچھے آپ کو نندہ دیوی (۲۵٫۶۸۹ فٹ) دکھائی دے گی جو ہندوستان کا سب سے اونچا پہاڑ ہے۔ ہمارے سامنے دائیں جانب نندہ کوٹ ہے جو پراوتی دیوی کا تکیہ کہلاتا ہے۔ ان سے ذرا مشرق کی جانب پنچولی کی خوبصورت چوٹیاں ہیں جو ’پانچ چولہوں‘ کے نام سے مشہور ہیں۔ طلوعِ آفتاب کے وقت جب چینا اور درمیان کی چوٹیاں ابھی تاریکی میں چھپی ہوتی ہیں، برف پوش چوٹیاں جامنی نیلے سے گلابی رنگ تک رنگ بدلتی جاتی ہیں اور جب سورج سب سے بلند چوٹی سے ابھرتا ہے تو گلابی رنگ بتدریج آنکھیں خیرہ کر دینے والے سفید رنگ میں بدل جاتا ہے۔ دن کے وقت پہاڑ سرد اور سفید دکھائی دیتے ہیں اور ہر چوٹی برف پوش ہوتی ہے مگر غروب ہوتے سورج سے پھر ان کا رنگ گلابی، سنہرا یا پھر سرخ ہو جاتا ہے۔

اب اپنا رخ موڑیں اور جنوب کا رخ کرتے ہیں۔ ہماری حدِ نگاہ پر تین شہر دکھائی دیں گے، بریلی، کاشی پور اور مراد آباد۔ ان تین شہروں میں نزدیک ترین کاشی پور ہے جو ہم سے سیدھا پچاس میل دور ہے۔ یہ تینوں شہر کلکتہ اور پنجاب کے درمیان چلنے والی ریلوے پر بسائے گئے ہیں۔ ریلوے اور پہاڑ کے دامن کے درمیان تین پٹیاں دکھائی دیں گی، پہلی پٹی مزارعہ زمین کی ہے جو بیس فٹ چوڑی ہے، پھر دس میل چوڑی گھاس کی پٹی آتی ہے جسے ’ترائی‘ کہا جاتا ہے، تیسری پٹی دس میل چوڑی ، درختوں سے بھری اور ’بھابھر‘ کہلاتی ہے۔ بھابھر کی پٹی سیدھی پہاڑ کے دامن تک جاتی ہے اور اس میں کئی جگہوں پر جنگل صاف کر کے زرخیز مٹی اور پہاڑی ندیوں کے چشموں کے پانی سے سیراب کر کے مختلف سائز کے دیہات بس گئے ہیں۔ ان دیہاتوں کا سب سے قریبی مجموعہ کالا ڈھنگی کہلاتا ہے جو نینی تال سے سڑک کے راستے پندرہ میل دور ہے اور ان دیہاتوں میں سب سے اوپر والا دیہات چوٹی ہلدوانی کہلاتا ہے جو ہمارا گاؤں ہ جس کے گرد تین میل لمبی سنگی دیوار ہے۔ اس گاؤں میں ہمارے گھر کی چھت درختوں کے درمیان دکھائی دیتی ہے اور ہمارا گھر نینی تال سے آنے والی سڑک اور پہاڑوں سے گزرنے والی سڑک کے سنگم پر ہے۔ یہ سارے پہاڑ ہی لوہے کے ذخائر سے مالا مال ہیں اور شمالی ہندوستان میں سب سے پہلے کالا ڈھنگی میں لوہے کو نکالنے کا کام شروع ہوا۔ اس کے لیے لکڑی کو بطور ایندھن استعمال کیا جاتا تھا اور کماؤں کے بادشاہ جنرل سر ہنری ریمزے نے اس خیال سے کہیں یہ صنعت بھابھر کے سارے ہی جنگل نہ صاف کر جائے تو انہوں نے اسے یکسر بند کرا دیا۔ کالا ڈھنگی اور چینا پر ہماری موجودگی کے درمیان چھوٹی پہاڑیاں ہیں جو سال کے درختوں سے بھری ہوئی ہیں اور یہ درخت ریلوے کو سلیپر مہیا کرتے ہیں اور ساتھ والی پہاڑی پر کھرپہ تال نامی چھوٹی سی جھیل ہے جو کھیتوں سے گھری ہوئی ہے اور یہاں ہندوستان کا بہترین آلو پیدا ہوتا ہے۔

دائیں جانب بہت دور سورج کی روشنی میں چمکتا ہوا دریائے گنگا دکھائی دیتا ہے اور بائیں جانب دریائے سردا چمک رہا ہے۔ جن مقامات سے دونوں دریا پہاڑوں سے نکلتے ہیں، کا درمیانی فاصلہ اندازاً دو سو میل بنتا ہے۔

اب مشرق کی جانب رخ کرتے ہیں اور ہمارے سامنے موجود علاقہ وہ ہے جسے گزیٹیر میں ’ساٹھ جھیلوں کی سرزمین‘ کہا جاتا ہے۔ میرے سامنے ہی ان میں سے بہت ساری جھیلیں مٹی بھر جانے سے ختم ہو گئی ہیں اور باقی بچنے والی جھیلوں میں نینی تال، ست تال، بھیم تال اور نکوچیا تال ہیں۔ نکوچیا تال سے آگے تکون شکل کی پہاڑی ہے جسے چوٹی کیلاش کہتے ہیں۔ اس مقدس پہاڑی پر دیوتا کسی پرندے یا جانور کی ہلاکت کو پسند نہیں کرتے اور آخری بار اس کی خلاف ورزی کرنے والا ایک فوجی جو جنگ سے چھٹی پر آیا ہوا تھا، اپنے ساتھیوں کے ساتھ ایک پہاڑی بکری ہلاک کرتے ہی پیر پھسل جانے کے سبب ہزار فٹ نیچے وادی میں گر کر ہلاک ہو گیا۔

چوٹی کیلاش کے بعد کالا آگر کی پہاڑی آتی ہے جہاں میں نے چوگڑھ کی آدم خور شیرنیوں کا دو سال تک پیچھا کیا تھا اور اس کے پیچھے پھر نیپال کے پہاڑ شروع ہو جاتے ہیں۔ اب ہم مغرب کو رخ کرتے ہیں۔ مگر اس سے پہلے ہم چند سو فٹ نیچے اترتے ہیں اور دیوپٹہ پہنچیں گے جو ۷٫۹۹۱ فٹ بلند پتھریلی چوٹی ہے اور چینا سے ملحق ہے۔ ہمارے بالکل نیچے گہری، وسیع اور گھنے جنگلات سے بھری ہوئی وادی ہے جو چینا اور دیوپٹہ کو ملانے والے مقام سے شروع ہوتی ہے اور دچوری سے کالا ڈھنگی تک پھیلی ہوئی ہے۔ یہ وادی ہمالیہ کی کسی بھی دوسری وادی سے زیادہ نباتات اور حیوانات سے بھری ہوئی ہے اور اس خوبصورت وادی کے بعد پہاڑیاں دریائے گنگا تک چلی جاتی ہیں جس کے پانیوں کو سورج کی روشنی سو میل دور چمکتا ہوا دیکھ سکتے ہیں۔ دریائے گنگا کی دوسری جانب شوالک کا پہاڑی سلسلہ ہے جو ہمالیہ سے بھی قدیم تر ہے۔

۰۱۔ گاؤں کی رانی​

چینا پر بیٹھ کر ہم نے جن دیہاتوں کو دیکھا تھا، آئیے، ان میں سے ایک کی طرف چلتے ہیں۔ کھیتوں پر کھینچی ہوئی متوازی لکیریں کھیتوں کو ظاہر کرتی ہیں۔ ان میں سے بعض محض دس فٹ چوڑے ہیں اور انہیں پتھر کی دیواریں سہارا دیے ہوئے ہیں جن کی اونچائی تیس فٹ تک ہے۔ ان تنگ کھیتوں میں ہل چلانے کے لیے کہ جن کے ایک طرف پہاڑی اور دوسری طرف عمودی ڈھلوان ہو، کافی خطرناک کام ہے اور اس کے لیے چھوٹا ہل اور مقامی طور پر پائے جانے والے مویشی ہی استعمال ہوتے ہیں جو سخت جان اور مختصر جسامت کے ہوتے ہیں اور ان کو پہاڑی ڈھلوان پر چلنے کی عادت ہوتی ہے۔ وہ جفا کش لوگ جو ان کھیتوں کو بناتے اور کاشت کرتے ہیں، خود پتھر سے بنے گھروں کی قطاروں میں رہتے ہیں جن پر سلیٹ کی چھتیں ہوتی ہیں۔ یہ گھر بھابھر سے میدان کو جانے والی تنگ اور خستہ حال سڑک پر بنے ہوتے ہیں۔ اس دیہات کے لوگ مجھے پہچانتے ہیں کہ ایک بار جب انہوں نے ہرکارے کے ذریعے نینی تال سے مجھے تار بھجوایا تھا اور میں موکمہ گھاٹ سے فوراً ہی آدم خور سے ان کی جان بچانے پہنچ گیا تھا۔

مجھے اس طرح بلوانے کا سبب جو واقعہ بنا، وہ دوپہر کے وقت ان گھروں کے عین پیچھے ایک کھیت میں ہوا تھا۔ ایک عورت اپنی بارہ سالہ بیٹی کے ساتھ گندم کاٹ رہی تھی کہ اچانک شیر نمودار ہوا۔ لڑکی بچاؤ کے لیے اپنی ماں کی سمت بھاگی اور شیر نے اس پر پنجہ مار کر اس کا سر تن سے الگ کر دیا اور ابھی اس بچی کی لاش زمین پر نہیں گری تھی کہ شیر اسے اٹھا کر بھاگ گیا۔ اس بچی کا سر اس کی ماں کے قدموں کے پاس جا گرا۔ ہنگامی تار بھی ترسیل میں بہت وقت لگاتے ہیں اور مجھے ہزار میل سے زیادہ کا فاصلہ بذریعہ ریل طے کر کے آنا تھا اور آخری بیس میل کا پیدل سفر بھی تھا۔ سو تار کی روانگی سے میری آمد کے درمیان ایک ہفتہ گزر گیا تھا اور اس دوران آدم خور نے ایک اور شکار کر لیا تھا۔

اس بار ایک عورت اس کا شکار بنی جو اپنے شوہر اور بچوں کے ساتھ برسوں تک نینی تال میں ہمارے صحن سے ملحق ایک گھر میں رہتی تھی۔ یہ عورت کئی دوسری عورتوں کے ساتھ گاؤں کے اوپر پہاڑی پر گھاس کاٹ رہی تھی شیر نے حملہ کیا اور اس کی ساتھی عورتوں کے سامنے اٹھا کر بھاگ گیا۔ عورتوں کی ڈری ہوئی چیخوں کی آواز سن کر گاؤں سے مرد جمع ہوئے اور انہوں نے نہایت بہادری سے شیر کو بھگا دیا۔ ہندوستانیوں کے اعتبار سے کہ میں ان کا تار ملتے ہی پہنچ جاؤں گا، انہوں نے اس عورت کی لاش کو چادر میں لپیٹ کر ایک تیس فٹ اونچے درخت کی بالائی شاخ سے لٹکا دیا۔ بعد کے واقعات سے اندازہ ہوا کہ شیر کہیں پاس لیٹ کر یہ سب دیکھ رہا تھا کہ بصورتِ دیگر شیروں میں سونگھنے کی حس نہیں ہوتی اور وہ اس لاش کو کبھی تلاش نہ کر پاتا۔

جب ان عورتوں نے نینی تال یہ اطلاع دی، متوفیہ کا شوہر میری بہن میگی کے پاس آیا اور اسے اس واقعے کی اطلاع دی۔ اگلی صبح پو پھٹتے ہی میگی نے ہمارے کچھ آدمیوں کو اس لاش والے درخت مچان بنانے کو بھیج دیا کہ میں اس روز پہنچنے والا تھا۔ گاؤں سے مچان کا سامان لے کر یہ لوگ دیہاتیوں کے ساتھ لاش والے درخت کو پہنچے تو دیکھا کہ شیر نے اس درخت پر چڑھ کر کمبل پھاڑا اور لاش کو لے کر فرار ہو گیا تھا۔ ایک بار پھر انتہائی دلیری سے، کہ وہ سب غیر مسلح تھے، انہوں نے نشانات کا پیچھا کیا اور ادھ کھائی لاش تلاش کر کے اس کے ساتھ موجود درخت پر مچان باندھ دی۔ جونہی مچان مکمل ہوئی، نینی تال سے ایک شکاری اتفاق سے وہاں آن پہنچا اور میرے ساتھیوں سے کہا کہ وہ میرا دوست ہے اور انہیں واپس بھیج کر خود مچان پر بیٹھ گیا۔ جب میرے آدمی واپس نینی تال پہنچے تو میں آ چکا تھا اور انہوں نے مجھے بتایا کہ وہ بندہ اپنے بندوق بردار اور سامان اٹھانے والے بندے کے ساتھ مچان پر بیٹھ چکا ہے۔

راتیں تاریک تھیں کہ چاند نہیں تھا اور اندھیرا چھانے کے ایک گھنٹے بعد بندوق بردار نے شکاری سے شکایت کی کہ اس نے آدم خور کو لاش کیوں لے جانی دی اور گولی کیوں نہیں چلائی۔ شکاری کو اس بات پر یقین نہیں آیا کہ شیر آیا ہوگا، اس نے لالٹین جلا کر رسی سے نیچے لٹکایا تاکہ لاش کو دیکھ سکے کہ رسی اس کے ہاتھ سے چھوٹی اور جلتا ہوا لالٹین نیچے گر گیا اور وہاں جھاڑ جھنکار کو آگ لگ گئی۔ اس وقت ہمارے جنگل انتہائی خشک تھے اور مئی کا مہینہ تھا۔ انتہائی بہادری سے وہ نیچے اترا اور اپنے کوٹ سے آگ بجھانے کی کوشش کی کہ اسے آدم خور یاد آ گیا اور وہ واپس مچان پر لوٹ آیا۔ نیچے اس کا مہنگا کوٹ جل رہا تھا۔

آگ کی روشنی سے صاف دکھائی دیا کہ لاش غائب تھی مگر اب شکاری کو شکار کی بجائے اپنے تحفظ اور سرکاری جنگل کو آگ سے ہونے والے نقصان کی فکر پڑ گئی تھی۔ تیز ہواؤں سے آگ درخت کی مخالف سمت بڑھنے لگی اور آٹھ گھنٹے بعد جب تیز بارش اور ژالہ باری سے آگ بجھی تو کئی مربع میل کا جنگل جل کر تباہ ہو چکا تھا۔ آدم خور کے سلسلے میں یہ اس شکاری کا پہلا اور آخری تجربہ تھا جس میں وہ پہلے زندہ جلنے اور پھر ٹھٹھر کر مرنے سے بال بال بچا۔ اگلی صبح جب وہ تھکا ہارا ایک راستے سے نینی تال لوٹ رہا تھا تو میں اس سے بے خبر دوسرے راستے سے وہاں جا رہا تھا۔

میری درخواست پر دیہاتی مجھے اس درخت کو لے گئے جہاں لاش لٹکائی گئی تھی اور میں شیر کی ہمت دیکھ کر حیران ہوا کہ شیر نے کتنی محنت سے لاش پائی ہوگی۔ پھٹا ہوا کمبل زمین سے کم از کم 25 فٹ اونچائی پر تھا اور درخت پر لگے ناخنوں کے نشانات اور نرم زمین کی حالت اور جھاڑیوں کی حالت سے اندازہ ہوا کہ شیر کم از کم بیس مرتبہ درخت سے گرا ہوگا کہ پھر اس نے جا کر کمبل پھاڑا اور لاش نکالی ہوگی۔

اس مقام سے شیر لاش کو نصف میل دور مچان والے درخت تک لے گیا تھا۔ آگے کے نشانات آگ سے مٹ گئے تھے۔ مگر اندازے سے شیر کی متوقع سمت کو چلنے پر ایک میل دور مجھے اس عورت کا جلا ہوا سر ملا۔ اس سے ایک سو گز آگے گھنا جنگل تھا جہاں تک آگ نہیں پہنچی تھی اور کئی گھنٹے تک میں اس میں شیر کو تلاش کرتا رہا مگر ناکام رہا (شکاری کی مچان پر آمد سے شیر کی ہلاکت تک پانچ مزید انسان اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔)

شیر کی تلاش میں ناکام ہونے کے بعد میں شام گئے واپس اس دیہات آیا تو نمبر دار کی بیوی میرے لیے کھانا تیار کر چکی تھی اور اس کی بیٹیوں نے تانبے کی پلیٹوں میں مجھے کھانا پیش کیا۔ سارا دن کچھ نہ کھانے کی وجہ سے مجھے سخت بھوک لگی تھی۔ کھانا کھانے کے بعد میں پلیٹوں کو دھونے کی نیت سے اٹھا ہی تھا کہ نمبر دار کی بیٹیاں بھاگ کر آئیں اور ہنستے ہوئے یہ کہہ کر پلیٹیں لے لیں کہ سفید فام سادھو کی کھائی پلیٹوں کو دھونے سے ان جیسے برہمنوں کی ذات بھرشٹ نہیں ہوگی۔

نمبر دار اب زندہ نہیں اور اس کی بیٹیاں شادی کے بعد اس گاؤں سے جا چکی ہیں مگر اس کی بیوی ابھی زندہ ہے اور ہماری آمد پر ہمارے لیے چائے لازمی بنائے گی جو پانی کی بجائے دودھ سے بنی ہوگی اور اس میں چینی کی بجائے گُڑ ہوگا۔ ڈھلوان سے اترتے ہوئے گاؤں والے ہمیں دیکھ لیں گے اور ہماری آمد سے قبل ہی قالین کا ایک ٹکڑا بچھا کر اس پر دو موڑھے رکھ دیے جائیں گے جن پر گڑھل کی کھالیں منڈھی ہوں گی۔ ان کے ساتھ کھڑی نمبر دار کی بیوی ہمیں خوش آمدید کہے گی کیونکہ یہاں پردے کا رواج نہیں اور آپ اسے نظر بھر کر دیکھ سکتے ہیں کہ وہ بہت خوبصورت ہے۔ اس کے بال اب برف کی مانند سفید ہو گئے ہیں مگر جب میں نے پہلی بار دیکھا تھا، سیاہ کالے تھے اور اس کی گالیں جو اب سفید ہیں اور جھریوں سے پاک، تب سرخ ہوا کرتی تھیں۔ سو نسلوں سے برہمنوں کی بیٹی کی رگوں میں دوڑتا خون اتنا ہی خالص تھا جتنا کہ سو نسل قبل تھا۔

ہر انسان اپنی خالص نسل پر فخر کرتا ہے اور ہندوستان سے زیادہ خالص نسل کو کہیں اور عزت نہیں ملتی۔ اس گاؤں میں بہت ساری ذاتوں کے لوگ موجود ہیں مگر یہ خاتون ان سب پر حاکم ہے۔ مگر اس کی وجہ صرف اس کا برہمن ہونا ہے جو ہندوستان میں سب سے معزز نسل سمجھی جاتی ہے۔

حالیہ برسوں میں زرعی اجناس کی بڑھتی قیمتوں کی وجہ سے اس گاؤں میں بھی خوشحالی آئی ہے اور اس خاتون کو بھی پورا حصہ ملا ہے۔ اس کی گردن میں اس کے جہیز سے آیا سونے کے منکوں کا ہار موجود ہے۔ چاندی کے زیورات اس خاندان کے دیگر قیمتی سامان کی مانند چولہے کے ساتھ موجود سوراخ میں دفن ہیں مگر اب اس کی گردن میں ٹھوس سونے کے زیور ہیں۔ پہلے اس کے کان خالی ہوتے تھے مگر اب سونے کے کئی جھمکے اور بالیاں پہنے ہوئے ہے۔ اس کی ناک میں موجود چوڑی پانچ انچ چوڑی ہے اور اس کا وزن سہارنے کو اس کے دائیں کان سے سونے کی باریک زنجیر لٹکی ہوئی ہے۔ اس کا لباس دیگر اونچی ذات والی پہاڑی خواتین جیسا ہے جو ایک شال، گرم کپڑے سے بنے لباس پر مشتمل ہے۔ اس کے پاؤں ننگے ہیں کہ آج بھی ان پہاڑوں پر جوتے پہننے والے کو کم ذات سمجھا جاتا ہے۔

یہ بوڑھی خاتون اب گھر کے اندر جا کر ہمارے لیے چائے بنا رہی ہے اور جب تک وہ مصروف ہے، آئیے ہم بنیا کی دکان کو دیکھتے ہیں جو اس تنگ سی سڑک کی دوسری جانب ہے۔ بنیا میرا پرانا دوست ہے۔ اس نے ہمیں سلام کیا اور سگریٹ کا پیکٹ تھما کر واپس اپنی چوکی پر پالتی مار کر بیٹھ گیا جہاں اس کا سامانِ تجارت موجود ہے۔ اس کے پاس دیہاتیوں اور مسافروں کی ضرورت کی عام چیزیں رکھی ہیں جو آٹا، چاول، دال، گھی، نمک، دیہاتی مٹھائیاں (جو اس نے نینی تال کے بازار سے سستے داموں خریدی ہیں)، پہاڑی آلو جو بہترین ہیں، بہت بڑی اور تیز مولیاں، سگریٹ، ماچسیں، مٹی کے تیل کا ڈبہ اور اس کے عین ساتھ ہی ہلکی آنچ پر لوہے کی پتیلی میں دودھ کاڑھا جا رہا ہے جو سارا دن رکھا رہتا ہے۔

جب بنیا اپنی چوکی پر بیٹھتا ہے تو اس کے گاہک پہنچ جاتے ہیں۔ سب سے پہلے ایک چھوٹا بچہ ہے جو اپنی چھوٹی بہن کے ساتھ آیا ہوا ہے۔ اس کے ہاتھ میں ایک پیسہ (ایک پیسہ بہت چھوٹی سی رقم ہے مگر اس میں مزید تین چھوٹے سکے یا تین پائیاں ہوتی ہیں۔ چار پیسے مل کر ایک آنہ بناتے ہیں، سولہ آنے کا ایک روپیہ بنتا ہے ) ہے جس سے وہ مٹھائی خریدے گا۔ اس کے ہاتھ سے سکہ اٹھا کر بنیے نے ڈبے میں رکھا۔ پھر اس نے مٹھائیوں پر ہاتھ سے مکھیاں اور بِھڑ اڑائے اور پھر گڑ سے بنی ایک مٹھائی کا ٹکڑا اٹھا کر اسے دو حصوں میں توڑ کر دونوں بچوں کو ایک ایک حصہ تھما دیا۔

اگلی گاہک ایک اچھوت ذات کی عورت ہے جس کے پاس دو آنے ہیں۔ وہ ایک آنے کا آٹا لے گی جو موٹا پسا ہوا اور ہمارے پہاڑیوں کی عام خوراک ہے اور دو پیسے سے وہ سب سے سستی دال خریدے گی اور باقی کے دو پیسے سے وہ تھوڑا سا نمک اور ایک مولی لے گی اور پھر بنیے کو احترام سے سلام کر کے کہ سبھی بنیے کا احترام کرتے ہیں وہ اپنے گھر والوں کا کھانا بنانے چلی جائے گی ۔

جتنی دیر اس عورت نے سامان خریدا، سیٹیوں اور شور سے پتہ چلا کہ مال بردار خچروں کی قطار پہنچنے والی ہے جو مراد آباد سے دستی کھڈیوں پر بنا کپڑا لا رہے ہیں۔ سخت چڑھائی کی وجہ سے خچر پسینے میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ جتنی دیر خچروں کو سانس لینے کا موقع ملا، اتنی دیر ان کے ساتھ موجود چار آدمی بنیے کے ساتھ رکھی بنچ پر بیٹھ گئے اور سگریٹ اور دودھ کا مزہ اٹھانے لگے۔ اس دکان پر دودھ سے زیادہ بہتر کوئی مشروب نہیں بکتا۔ پہاڑی علاقوں میں بنیے کی سینکڑوں دکانوں میں کسی کسی پر شراب بکتی ہے کہ ہمارے پہاڑی بالعموم شراب نہیں پیتے۔

میرے ہندوستان میں عورتیں کبھی شراب نہیں پیتیں۔ دیہاتوں میں کوئی اخبار نہیں آتے اور واحد خبر جو پہنچتی ہے، وہ نینی تال جانے والے کسی دیہاتی یا راہ گزرتے مسافروں سے آتی ہے جن میں مال بردار تاجر اہم ترین ہیں۔ پہاڑوں کو آنے والے یہ تاجر دور دراز کے میدانی علاقوں کی خبریں اپنے ساتھ لاتے ہیں اور مہینہ یا دو بعد واپسی پر پہاڑوں کی خبریں ان کے ذریعے میدانی علاقوں تک پہنچتی ہیں۔

ہماری میزبان نے ہمارے لیے چائے بنا لی ہے۔ لبا لب بھرے ہوئے پیالے سے چائے پیتے ہوئے احتیاط کیجیے گا کیونکہ وہ بہت گرم ہے۔ اب لوگوں کی توجہ تاجروں سے ہٹ کر ہم پر مرکوز ہو چکی ہے اور واضح رہے کہ آپ کو چاہے پسند ہو یا نہ ہو، آپ کو اس گرم اور میٹھے مشروب کا آخری قطرہ تک پینا ہوگا کہ پورا گاؤں ہمیں دیکھ رہا ہے اور ہم ان کے مہمان ہیں۔ اگر آپ نے تھوڑی سی بھی چائے بچا دی تو یہ تاثر جائے گا کہ یہ چائے آپ کے معیار کے مطابق نہیں تھی۔

دوسرے تو شاید یہ غلطی کر جائیں، مگر ہم کسی بھی قیمت پر اس معزز خاتون کو چائے کی قیمت دینے کی کوشش نہیں کریں گے اور نہ ہی بنیے کو سگریٹ کی قیمت۔ یہ لوگ اپنی مہمان نوازی پر بہت فخر کرتے ہیں اور قیمت کا تذکرہ بھی ان کے لیے ذلت کا سبب ہوگی۔ یہ گاؤں ان ہزاروں دیہاتوں میں سے ایک ہے جو ہم نے چینا پر بیٹھ کر دوربین سے اس وسیع علاقے میں دیکھے تھے۔ میں نے اپنی زندگی کا زیادہ تر حصہ یہیں گزارا ہے اور ہر بار یہاں آتے ہوئے آپ کو ایسا ہی استقبال ملے گا اور روانگی پر دوبارہ جلد لوٹنے کی تاکید بھی کی جائے گی۔ یہی وہ جذبات ہیں جو ہندوستان کے لوگ خوشی خوشی ظاہر کرتے ہیں۔

۰۲۔ کنور سنگھ​

ذات کا ٹھاکر کنور سنگھ چاندنی چوک کا نمبر دار تھا۔ یہ تو کہنا ممکن نہیں کہ وہ اچھا نمبر دار تھا کہ برا۔ میرے لیے اس کی اہمیت یہ تھی کہ کالا ڈھنگی کا سب سے کامیاب چور شکاری تھا اور میرے بڑے بھائی ٹام سے لگاؤ رکھتا تھا۔ ٹام بچپن سے ہی میرا ہیرو ہے۔

کنور سنگھ نے مجھے ٹام کے بہت سارے واقعات سنائے ہیں کیونکہ وہ دونوں شکار پر برسوں تک ایک ساتھ جاتے رہے تھے۔ ان میں سے سب سے زیادہ مجھے ایک واقعہ پسند ہے جو کنور سنگھ نے بہت مرتبہ سنایا ہے کہ کیسے میرے بھائی ٹام اور ایک بندہ ایلیس سے متعلق ہے۔ میرے بھائی نے اس بندے کو ایک مقابلے میں ایک پوائنٹ سے ہرایا تھا۔ یہ مقابلہ پورے ہندوستان میں رائفل کے بہترین نشانے سے متعلق تھا۔

ٹام اور ایلیس ایک بار گروپو کے جنگل میں شکار کھیل رہے تھے کہ ایک صبح ان کا سامنا ہو گیا۔ اس وقت کہرا اٹھنا شروع ہو گیا تھا۔ ان کی ملاقات والی جگہ کے سامنے کافی بڑا نشیب تھا جہاں علی الصبح سور اور ہرن عام ملتے تھے۔ ٹام کے ساتھ کنور سنگھ اور ایلیس کے ساتھ نینی تال کا ایک شکاری بدھو تھا۔ کنور سنگھ کو بدھو سے نفرت تھی کہ وہ کم ذات ہونے کے علاوہ جنگل سے متعلق امور سے قطعاً ناواقف تھا۔

سلام دعا کے بعد ایلیس نے ٹام سے کہا کہ اگرچہ مقابلے میں وہ محض ایک پوائنٹ سے ہارا ہے مگر وہ آج دکھائے گا کہ وہ بہتر شکاری ہے۔ اس نے تجویز پیش کی کہ دونوں دو دو فائر کریں گے۔ قرعہ اندازی سے ایلیس جیتا اور اس نے پہلے فائر کرنے کا ارادہ کیا۔ احتیاط سے بڑھتے ہوئے اس نشیب پر پہنچے۔ ایلیس کے پاس مقابلے والی اعشاریہ 450 بور کی ہنری مارٹینی رائفل تھی جبکہ ٹام کے پاس اعشاریہ 400 کی د ونالی ویسٹلی رچرڈز تھی۔ ٹام کو یہ فخر تھا کہ یہ رائفل پورے ہندوستان میں اس وقت تک چند ہی افراد کے پاس تھی۔ شاید انہوں نے بڑھتے ہوئے غلطی کی یا پھر ہوا کا رخ غلط تھا، جب وہ نشیب کو پہنچے تو وہ خالی تھا۔

نشیب کے قریبی جانب خشک گھاس کی پٹی تھی جس کے بعد والی گھاس جلی ہوئی تھی اور وہاں نئی گھاس اگ رہی تھی اور صبح اور شام کو جانور عام ملتے تھے۔ کنور سنگھ کا خیال تھا کہ ابھی اس پٹی میں شاید کچھ جانور ہوں۔ اس نے بدھو کے ساتھ مل کر اسے آگ لگا دی۔

جب گھاس کو خوب آگ لگ گئی تو پرندے گھاس سے فرار ہونے والے ٹڈوں اور دیگر حشرات کو کھانے کو جمع ہو گئے۔ اس وقت گھاس کی دوسری جانب حرکت دکھائی دی اور دو سور مخالف سمت جاتے ہوئے دکھائی دیے۔ آرام سے زمین پر گھٹنا ٹیک کر ایلیس نے رائفل اٹھائی اور نشانہ لے کر گولی چلائی۔ فوراً ہی پچھلے سور کی پچھلی ٹانگوں کے درمیان سے مٹی اڑتی دکھائی دی۔ ایلیس نے رائفل جھکا کر پتی کو دوسو گز پر اٹھایا اور خالی کارتوس نکال کر دوسری گولی چلائی۔ دوسری گولی سے اگلے سور کے سامنے سے دھول اڑتی دکھائی دی۔ سوروں کا رخ ایک جانب ہو گیا اور رفتار بھی تیز ہو گئی۔ اب سور شکاریوں کے سامنے اڑے آ گئے۔

اب ٹام کی باری تھی اور اس نے گولی چلانے میں جلدی کرنی تھی کہ جنگل قریب تھا اور سور رائفل کی مار سے نکل رہے تھے۔ کھڑے کھڑے ٹام نے رائفل اٹھائی اور دو گولیاں چلائیں اور دونوں سور سر میں گولیاں کھا کر وہیں گر گئے۔ یہاں پہنچ کر کنور سنگھ بتاتا ہے کہ اس نے شہر میں پلے کم ذات بدھو کو مخاطب کیا کہ جس کے تیل لگے بالوں کی بو سے بھی اسے نفرت تھی، ’’دیکھا؟  تم کہتے تھے کہ تمہارا صاحب میرے صاحب کو شکار کھیلنا سکھائے گا؟  اگر میرا صاحب تمہارے صاحب کے منہ پر کالک ملنا چاہتا تو ایک ہی گولی سے دونوں سور گرا دیتا۔‘‘

اب یہ کیسے ممکن ہو پاتا، اس بارے کنور سنگھ نے کبھی روشنی نہ ڈالی تھی اور نہ ہی میں نے کبھی پوچھا کیونکہ مجھے اپنے بھائی پر پورا بھروسہ تھا کہ اگر وہ چاہتا تو دونوں سور ایک ہی گولی سے مار لیتا۔ جب مجھے پہلی بندوق ملی تو کنور سنگھ سب سے پہلے اسے دیکھنے آیا۔ وہ علی الصبح پہنچا اور میں نے بڑے فخر سے اپنی دو نالی مزل لوڈر اسے تھمائی تو اس نے اشارتاً بھی دائیں نال میں موجود بڑے شگاف کی طرف توجہ نہیں کی اور نہ ہی تانبے کی تار کو دیکھا جو کندے کو نالی سے جوڑے رکھنے کے لیے استعمال کی گئی تھی۔ اس نے محض بائیں نال کی خوبیوں پر بات کی کہ یہ کتنی عمدہ ہے اور کتنا عرصہ مزید نکال سکے گی اور اس سے کیا کیا کام لیا جا سکتا ہے۔ پھر اس نے بندوق ایک طرف رکھ کر میری طرف رخ کیا اور یہ کہہ کر مجھے خوشی سے باغ باغ کر دیا:

’’اب تم لڑکے نہیں رہے بلکہ مرد بن گئے ہو۔ اس عمدہ بندوق کے ساتھ اب تم کسی جنگل میں کہیں بھی بلا خوف جا سکتے ہو، بس درخت پر چڑھنا سیکھ لو۔‘‘

اس وقت میری عمر آٹھ برس تھی۔ پھر اس نے بتایا، ’’اب میں تمہیں بتاتا ہوں کہ جنگل میں جانے والے ہم شکاریوں کے لیے درخت پر چڑھنا کتنا ضروری فن ہے۔ ہار سنگھ اور میں ایک پچھلے سال اپریل میں شکار کھیلنے گئے تھے۔ اگر گاؤں سے نکلتے ہوئے لومڑی ہمارا راستہ نہ کاٹتی تو سب ٹھیک ہی ہوتا۔ ہار سنگھ کے بارے تمہیں علم ہے کہ اسے جنگل کے بارے زیادہ علم نہیں۔ جب میں نے لومڑی کو دیکھا تو واپس جانے کا مشورہ دیا۔ مگر وہ میری بات پر ہنسا اور بولا کہ بچگانہ بات ہے کہ لومڑی دیکھنے سے کوئی مشکل آئے گی۔ سو ہم نے سفر جاری رکھا۔ جب ہم نکلے تو ستارے مدھم ہو رہے تھے۔ گروپو کے نزدیک میں نے پہلے چیتل پر گولی چلائی اور بغیر کسی وجہ کے خطا کی۔ پھر ہار سنگھ نے گولی سے ایک مور کا پر توڑا مگر ہم نے جتنی بھاگ دوڑ کی، مور گھاس میں گم ہو گیا۔ پھر ہم نے پورا جنگل چھان مارا مگر کوئی جانور یا پرندہ نہ دکھائی دیا۔ سو شام کو ہم نے منہ لٹکائے واپسی کا رخ کیا۔‘‘

’’چونکہ ہم دو گولیاں چلا چکے تھے، اس لیے ہمیں ڈر تھا کہ فارسٹ گارڈ ہماری واپس کے منتظر ہوں گے اور ہم نے راستہ چھوڑ کر ایک ریتلے نالے کا رخ کیا جو گھنے جھاڑ جھنکار اور خار دار بانس کے جنگل سے ہو کر گزرتا ہے۔ ہم اپنی قسمت کو کوستے جا رہے تھے کہ اچانک ہمارے سامنے نالے سے شیر نکلا اور ہمارے سامنے کھڑا ہو گیا۔ کچھ دیر تک ہمیں دیکھتے رہنے کے بعد شیر واپس مڑ کر نالے سے باہر چلا گیا۔ تھوڑی دیر تک انتظار کرنے کے بعد ہم آگے بڑھے اور شیر پھر اچانک نالے میں نکل آیا اور اس بار ہمیں گھورنے کے علاوہ اس نے غرانا اور دم ہلانا بھی شروع کر دی۔ ہم پھر رک گئے اور کچھ دیر بعد شیر خاموش ہو کر نالے سے نکل گیا۔ تھوڑی دیر بعد ساتھ کے جنگل سے کافی مور شور مچاتے اڑے۔ شاید شیر نے انہیں ڈرایا ہوگا۔ ان میں سے ایک ہمارے سامنے دائیں جانب ہلدو کے درخت پر بیٹھ گیا۔ اسے دیکھتے ہی ہار سنگھ نے کہا کہ وہ اسے مارتا ہے تاکہ خالی ہاتھ گھر نہ جائیں۔ اس نے یہ بھی کہا کہ گولی کی آواز سے شیر بھی بھاگ جائے گا۔ قبل اس کے کہ میں روک پاتا، اس نے گولی چلا دی۔‘‘

’’اگلے لمحے جھاڑیوں سے شیر کی دہشت ناک غراہٹ ہماری جانب آتی سنائی دی۔ یہاں نالے کے کنارے کچھ کاجو کے درخت تھے اور میں نے ایک درخت کا رخ کیا اور ہار سنگھ نے دوسرے درخت کو چنا۔ میرا درخت شیر کے قریب تر تھا اور اس کی آمد سے قبل ہی میں درخت پر اونچا چڑھ گیا۔ ہار سنگھ نے بچپن میں درختوں پر چڑھنا نہیں سیکھا تھا اور جب وہ زمین پر کھڑا چھلانگ لگا کر شاخ پکڑنے کی کوشش کر رہا تھا کہ شیر پہنچ گیا اور اس نے جست لگائی۔‘‘

’’شیر نے نہ تو ہار سنگھ کو کاٹا اور نہ ہی پنجے مارے بلکہ اس نے پچھلی ٹانگوں پر کھڑے ہو کر درخت پر اگلے پنجے جما دیے اور ہار سنگھ شیر اور درخت کے درمیان پھنس گیا۔ پھر شیر نے درخت پر پنجے مارنا شروع کر دیے۔ شیر غراتا رہا اور ہار سنگھ چیختا رہا۔ میں اپنی بندوق ساتھ درخت پر لے گیا تھا اور اسے اپنے پیروں میں تھام کر میں نے اسے بھرا اور ہوا میں گولی چلا دی۔ اتنے قریب سے گولی کا دھماکہ سن کر شیر فرار ہو گیا اور ہار سنگھ زمین پر گر پڑا۔‘‘

جب شیر چلا گیا تو کچھ دیر بعد میں خاموشی سے اترا اور ہار سنگھ کے پاس گیا۔ میں نے دیکھا کہ شیر کا ایک ناخن اس کے پیٹ پر ناف کے قریب لگا اور اس نے پیچھے تک چیر دیا تھا اور آنتیں وغیرہ باہر نکل آئی تھیں۔ اب مسئلہ پیدا ہو گیا۔ میں اسے چھوڑ کر نہیں جا سکتا تھا اور نہ ہی مجھے ایسے امور کا کوئی تجربہ تھا۔ سو میں یہ فیصلہ نہیں کر پایا کہ آیا تمام آنتیں وغیرہ اس کے کھلے پیٹ میں ڈال دوں یا پھر انہیں کاٹ دوں میں نے شیر کے ڈر سے سرگوشیوں میں ہار سنگھ سے مشورہ کیا تو اس نے کہا کہ یہ سب چیزیں اندر ڈال دینی چاہئیں۔

سو ہار سنگھ زمین پر لیٹا رہا اور میں نے سارے اندرونی اعضا اور ان سے چپکے گھاس پھونس اور ٹہنیاں اندر ڈال دیں اور پھر اپنی پگڑی سے اس کے پیٹ کو مضبوطی سے باندھ دیا تاکہ پھر نہ باہر نکل آئیں۔ پھر ہم سات میل طویل سفر پر روانہ ہو گئے۔ میں نے دونوں بندوقیں اٹھائی ہوئی تھیں جبکہ ہار سنگھ میرے پیچھے چل رہا تھا۔ ہم آہستہ آہستہ چل رہے تھے کہ ہار سنگھ نے پگڑی کو سنبھالا ہوا تھا۔ راستے میں ہی رات ہو گئی اور ہار سنگھ کا خیال تھا کہ ہم سیدھا کالا ڈھنگی کے ہسپتال جائیں سو میں نے بندوقیں چھپا دیں اور ہم تین میل مزید سفر پر روانہ ہو گئے۔

جب ہم پہنچے تو ہسپتال بند ہو چکا تھا مگر ڈاکٹر بابو ساتھ ہی رہتا تھا اور ابھی سویا نہیں تھا اور جب اس نے ہماری بپتا سنی تو اس نے مجھے تمباکو فروش اللہ دیا کو بلانے بھیج دیا جو کہ کالا ڈھنگی کا پوسٹ ماسٹر بھی ہے اور اسے ہر ماہ حکومت سے پانچ روپے ملتے ہیں اور اس دوران ڈاکٹر نے لالٹین جلائی اور ہار سنگھ کو لے کر ہسپتال چلا گیا۔ جب میں اللہ دیا کے ساتھ واپس لوٹا تو ڈاکٹر نے ہار سنگھ کو چٹائی پر لٹا دیا تھا۔ پھر اللہ دیا نے لالٹین پکڑا اور میں نے ہار سنگھ کے زخم کے دونوں سرے تھامے اور ڈاکٹر نے اسے سینا شروع کر دیا۔ زخم سینے کے بعد جب میں نے ڈاکٹر کو دو روپے دیے تو اس شریف جوان نے لینے سے انکار کر دیا اور اس نے ہار سنگھ کو درد کُش دوا پلائی اور پھر ہم لوگ اپنے گھروں کو لوٹ آئے تو دیکھا کہ ہماری بیویاں بین کر رہی تھیں کہ شاید ہمیں ڈاکوؤں یا جنگلی درندوں نے مار دیا ہوگا۔ اس لیے صاحب، تمہیں اندازہ ہو گیا ہوگا کہ جنگل میں شکار کھیلنے کے لیے درخت پر چڑھنا جاننا کتنا اہم ہے، اگر ہار سنگھ کو بچپن میں کسی نے یہ بات سمجھائی ہوتی تو ہم پر یہ مصیبت نہ پڑتی۔

ابتدائی مزل لوڈر دور میں میں نے کنور سنگھ سے بہت کچھ سیکھا ہے جن میں سے ایک ذہنی نقشے بنانا بھی ہے۔ میں بہت بار کنور سنگھ کے ساتھ اور بہت مرتبہ اکیلا بھی ان جنگلوں میں شکار کھیلنے جاتا تھا کہ کنور سنگھ کو ڈاکوؤں کا خوف تھا اور کئی کئی ہفتے گاؤں سے باہر نہ نکلتا۔ جن جنگلوں میں ہم شکار کھیلتے تھے، وہ کئی سو مربع میل پھر پھیلا ہوا تھا۔ بہت مرتبہ میں سانبھر، چیتل یا سور مار کر آتا تو راستے میں کنور سنگھ کو بتا دیتا کہ شکار کہاں پڑا ہے۔ اس کا گاؤں میرے گھر کی نسبت جنگل سے تین میل قریب تر تھا۔

کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کنور سنگھ شکار کردہ جانور نہ اٹھا سکا ہو، چاہے جنگل میں وہ کہیں بھی پڑا ہو اور اسے میں کیسے چھپا کر آیا ہوں کہ گِدھ نہ دیکھ سکیں۔ ہم نے ہر غیر معمولی درخت، چشمے، راستے اور نالے کا نام رکھا ہوا تھا۔ فاصلوں کا اندازہ کرنے کے لیے ہم نے مزل لوڈر کی گولی کا حساب رکھا ہوا تھا اور سمت کا تعین کرنے کے لیے ہم نے کاجو کے اس درخت کو مرکز مانا ہوا تھا جس پر ہار سنگھ پر حملہ ہوا تھا۔ اس شیرنی کے کچھ وقت قبل ہی بچے پیدا ہوئے تھے اور اسی وجہ سے وہ انسانی موجودگی سے پریشان تھی۔ کاجو کا یہ درخت ڈیڑھ فٹ موٹا تھا اور شیرنی نے غصے کے مارے اس کا ایک تہائی تنا تباہ کر دیا تھا۔

یہ درخت گروپو میں شکار کرنے والے تمام شکاریوں اور چور شکاریوں میں مشہور تھا اور 25 سال بعد جا کر جنگل کی آگ میں جل کر تباہ ہو گیا۔ ہار سنگھ کو ملنے والی ابتدائی طبی اور پھر ڈاکٹری امداد چاہے جیسی رہی ہو اور اس کے اندر جھاڑ جھنکار اور ٹہنیاں بھی چلی گئی تھیں، پھر بھی طویل عمر جیا۔ سمت نما کی چار سمتیں۔ جب میں نے کوئی جانور چھپایا ہوتا یا کنور سنگھ کو فضا میں گِدھ منڈلاتے دکھائی دیتے اور اندازہ ہوتا کہ شیر یا تیندوے نے جانور مارا ہوگا تو چاہے دن ہو یا رات، ہم پورے اعتماد کے ساتھ اسے تلاش کرنے نکل کھڑے ہوتے۔

جب میں سکول سے نکلا اور بنگال میں کام شروع کیا تو ہر سال محض تین ہفتے کے لیے کالا ڈھنگی واپس آتا۔ ایک بار واپسی پر یہ دیکھ کر مجھے سخت تکلیف ہوئی کہ کنور سنگھ افیون کی لعنت کا شکار ہو چکا ہے۔ مسلسل ملیریا سے کمزور ہونے کے بعد یہ عادت مزید پختہ ہوتی گئی۔ اس نے کئی بار مجھ سے وعدہ کیا کہ اسے چھوڑ دے گا مگر ناکام رہا۔ جب ایک بار فروری میں کالا ڈھنگی آیا تو یہ جان کر کوئی حیرت نہیں ہوئی کہ کنور سنگھ سخت بیمار ہے۔ رات کو میری آمد کی خبر سن کر اگلے روز کنور سنگھ کا سب سے چھوٹا بیٹا جو اٹھارہ برس کا تھا، بعجلت میرے پاس پہنچا کہ اس کا باپ مرنے والا ہے اور مرنے سے قبل مجھ سے ملنا چاہتا ہے۔

چاندنی چوک کے نمبر دار ہونے کی حیثیت سے وہ حکومت کو چار ہزار روپے کا مالیانہ ادا کرتا تھا اور اہم بندہ شمار ہوتا تھا اور اس کا گھر پختہ اور سلیٹ کی چھت والا تھا جہاں میں بہت مرتبہ گیا ہوں۔ جب میں اس کے بیٹے کے ساتھ گھر کو گیا تو عورتوں کے بین کی آواز اس کے گھر کی بجائے اس ایک کمرے والے جھونپڑے سے آ رہی تھیں جو کنور سنگھ نے اپنے ایک ملازم کے لیے بنوایا تھا۔ اس کے بیٹے نے بتایا کہ اس کا باپ اس لیے یہاں منتقل ہوا ہے کہ گھر میں بچوں کے شور سے اس کی نیند خراب ہوتی تھی۔ ہمیں آتے دیکھ کر کنور سنگھ کا بڑا بیٹا باہر نکلا اور بولا کہ کنور سنگھ بے ہوش ہے اور چند منٹ میں مرنے والا ہے۔ میں نے دروازے میں قدم رکھا اور جب نیم تاریکی سے میری آنکھیں دیکھنے کے قابل ہوئیں تو دیکھا کہ پورے کمرے میں گہرا دھواں چھایا ہوا ہے اور کنور سنگھ زمین پر ننگا پڑا ہوا ہے اور اس پر ایک چادر پڑی تھی۔ اس کے بے جان ہاتھ کو اس کے پاس بیٹھے ایک بوڑھے آدمی نے تھاما ہوا تھا اور اس کے ہاتھ میں گائے کی دم تھی (ہندو مذہب میں مرتے ہوئے ا نسان کو گائے، ترجیحاً کالی گائے کی دم پکڑائی جاتی ہے تاکہ مرنے کے بعد اس کی روح خون کا دریا عبور کر کے منصف تک پہنچ سکے۔ گائے کی دم تھامنے سے اس دریا کو عبور کرنے میں آسانی ہوتی ہے، اگر لواحقین ایسا کرنے میں ناکام رہیں تو متوفی کی روح ان سے انتقام لینے کے لیے بھٹکنے لگتی ہے )۔

کنور سنگھ کے سر کے پاس ایک انگیٹھی رکھی تھی جس میں اُپلے سلگ رہے تھے اور اس کے پاس بیٹھا پنڈت اشلوک پڑھتے ہوئے گھنٹی بجا رہا تھا۔ کمرے میں مرد اور عورتیں ٹھنسے ہوئے تھے اور بین کرتے ہوئے چلا رہے تھے، ’’چلا گیا، چلا گیا!‘‘

مجھے علم ہے کہ ہندوستان میں ہر روز اسی طرح انسان مرتے ہیں مگر میں نے ایسا نہیں ہونے دینا تھا۔ میں نے جلتی ہوئی انگیٹھی اٹھائی جو میری توقع سے زیادہ گرم تھی اور میرے ہاتھ جل گئے، اور اسے دروازے سے باہر پھینک دیا۔ پھر درخت کی چھال سے بنی رسی کاٹ کر گائے کو باہر نکالا جو وہیں فرش میں گڑے کھونٹے سے بندھی ہوئی تھی۔

میں نے یہ دونوں کام انتہائی خاموشی سے کیے اور سب لوگ مجھے دیکھنے اور سرگوشیاں کرنے لگے۔ جب میں نے پنڈت کا ہاتھ پکڑ کر اسے کمرے سے نکالا تو خاموشی چھا گئی۔ پھر دروازے پر کھڑے ہو کر میں نے سب کو کمرے سے باہر نکلنے کو کہا جس پر سب نے فوراً اور خاموشی سے عمل کیا۔ اس کمرے سے نکلنے والے افراد کی تعداد ناقابلِ یقین تھی۔ جب کمرہ خالی ہو گیا تو میں نے کنور سنگھ کے بڑے بیٹے کو تازہ اور گرم دودھ کی دو گڑویاں فوراً سے پیشتر لانے کو کہا۔ اس نے حیرت سے مجھے دیکھا مگر جب میں نے اپنی بات دہرائی تو وہ بھاگ پڑا۔ پھر میں کمرے میں دوبارہ داخل ہوا اور کونے میں کھڑی چٹائی کھول کر کنور سنگھ کو اٹھا کر اس پر رکھا۔

بہت ساری تازہ ہوا کی فوری ضرورت تھی اور میں نے ایک چھوٹی کھڑکی دیکھی جو تختوں سے بند کی گئی تھی۔ میں نے تختے اکھاڑے اور فوراً تازہ ہوا کی گردش شروع ہو گئی جو جنگل سے آ رہی تھی۔ کمرے میں انسانی بو، اپلوں کا دھواں، جلتے گھی اور دیگر خوشبویات کا اثر کم ہونے لگا۔ جب میں نے کنور سنگھ کو اٹھایا تھا تو مجھے علم تھا کہ اس میں بہت تھوڑی جان بچی ہے کہ اس کی آنکھیں دھنسی ہوئی اور ہونٹ نیلے تھے اور سانس رک رک کر آ رہا تھا۔

تاہم تازہ ہوا سے جلد ہی اس کی حالت بہتر ہونے لگی اور سانس بحال ہونے لگا۔ پھر اس کے ساتھ چٹائی پر بیٹھ کر میں نے دروازے کے باہر ہونے والی آوازوں کو سنا جو ’مقتل گاہ‘ سے نکالے جانے والے لوگوں کی گفتگو تھی کہ مجھے احساس ہوا کہ کنور سنگھ نے آنکھیں کھول لی ہیں۔ سر موڑے بغیر میں نے بولنا شروع کیا، ’’چچا، وقت بدل گیا ہے اور تم بھی بدل گئے ہو۔ ایک وقت تھا جب تمہیں کوئی تمہارے گھر سے نکالنے کے بارے سوچ بھی نہیں سکتا تھا اور اب تم ملازم کے کمرے میں پڑے موت کے قریب ہو، جیسے تم کوئی کم ذات فقیر ہو۔ اگر تم نے میری بات پر توجہ دی ہوتی اور افیون چھوڑ دی ہوتی تو آج یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔ اگر میں آج آنے میں چند منٹ کی تاخیر بھی کرتا تو اس وقت تم شمشان گھاٹ کو لے جائے جا رہے ہوتے۔ چاندنی چوک کے نمبر دار اور پورے کالا ڈھنگی کے بہترین شکاری ہونے کی وجہ سے لوگ تمہاری عزت کرتے تھے۔ اب تمہاری عزت کوئی نہیں کرتا اور جب تم طاقتور تھے تو تم نے ہمیشہ بہترین خوراک کھائی اور اب جیسا کہ تمہارے بیٹے نے بتایا، سولہ دن سے تم نے کچھ نہیں کھایا۔ مگر تم ابھی نہیں مرو گے۔ تم ابھی بہت برس جیو گے اور اگرچہ ہم پھر کبھی شکار پر ایک ساتھ نہیں جا سکیں گے مگر میں اپنا شکار تمہارے ساتھ تقسیم کیا کروں گا۔ اب تم اس کمرے میں مقدس رسی تھامے اور پیپل کا پتہ ہاتھ میں لیے اپنے بڑے بیٹے کے سر کی قسم کھا کر کہو کہ تم اب افیون کے قریب بھی نہیں پھٹکو گے۔ اس بار تم اس قسم کو نہیں توڑو گے۔ اب جتنی دیر میں دودھ آتا ہے، ہم سگریٹ پئیں گے۔‘‘

جتنی دیر میں بولتا رہا، کنور سنگھ کی نظریں میرے چہرے پر مرکوز رہیں اور پھر پہلی بار وہ بولا، ’’دم توڑتا بندہ کیسے سگریٹ پیے گا؟‘‘

میں نے جواب دیا، ’’موت کے بارے ہم بعد میں بات کریں گے کہ ابھی نہیں مرو گے۔ سگریٹ کیسے پینی ہے، یہ میں دکھاتا ہوں۔‘‘

یہ کہہ کر میں نے اپنا سگریٹ کیس کھولا اور دو سگریٹ نکالے۔ پھر ایک سگریٹ جلا کر اس کے ہونٹوں میں دبا دیا۔ اس نے ہلکا سا کش لگایا اور کھانسنے لگا۔ پھر لاغر ہاتھ سے اس نے سگریٹ منہ سے نکالا اور جب کھانسی کا دورہ تھما تو اس نے پھر سگریٹ ہونٹوں میں رکھ کر کش لینے شروع کر دیے۔ ابھی سگریٹ ختم نہیں ہوئے تھے کہ کنور سنگھ کا بیٹا کمرے میں دودھ کی پتیلی لیے داخل ہوا۔ اگر میں بڑھ کر پتیلی تھام نہ لیتا تو حیرت کے مارے اس کے ہاتھوں سے چھوٹ گئی ہوتی۔ اس کی حیرت بجا تھی کہ چند منٹ قبل وہ اپنے باپ کو مرتا چھوڑ کر گیا تھا اور اب وہ بستر پر لیٹا سگریٹ پی رہا تھا۔ چونکہ پتیلی سے دودھ پینا ممکن نہیں تھا، اس لیے میں نے اسے پیالہ لانے بھیج دیا۔ جب پیالہ آیا تو میں نے کنور سنگھ کو گرم دودھ پلایا۔

میں رات گئے تک اس کمرے میں رکا رہا اور اس دوران کنور سنگھ نے پوری پتیلی دودھ کی پی لی تھی اور گرم بستر میں سکون سے سو رہا تھا۔ نکلنے سے پہلے میں نے اس کے بیٹے سے کہا کہ کسی کو اس کمرے کے قریب بھی نہ پھٹکنے دے اور باپ کے ساتھ بیٹھ جائے۔ جب بھی وہ نیند سے بیدار ہو، اسے دودھ پلاتا رہے۔ اگر صبح میری واپسی پر کنور سنگھ زندہ نہ ہوا تو میں پورا گاؤں جلا دوں گا۔ اگلے روز سورج نکلنے والا تھا کہ میں چاندنی چوک پہنچا اور دیکھا کہ باپ بیٹا دونوں گہری نیند سو رہے تھے اور دودھ کی پتیلی خالی تھی۔ کنور سنگھ نے اپنے وعدے کا پاس رکھا اور اگرچہ وہ کبھی اتنی طاقت نہ پا سکا کہ شکار کو جا پاتا، مگر وہ اکثر میرے پاس آتا رہا اور چار سال بعد اپنے گھر اور اپنے بستر میں فوت ہوا۔

۰۳۔ موٹھی​

ہندوستان کی دیگر اعلیٰ ذاتوں کی مانند موٹھی نازک اندام اور تیکھے نقوش کا مالک تھا اور ابھی لڑکپن کے دور میں ہی تھا کہ اس کی ماں اور باپ پورے خاندان کی ذمہ داری اس پر چھوڑ کر مر گئے۔ خوش قسمتی سے خاندان چھوٹا تھا اور اس کو صرف ایک بھائی اور ایک بہن کی دیکھ بھال کرنا تھی۔ موٹھی کی عمر اس وقت چودہ برس تھی اور اس کی شادی کو چھ برس بیت چکے تھے۔ خاندان کا سربراہ بنتے ہی اس نے پہلا کام یہ کیا کہ اپنی بارہ سالہ دلہن کو رخصت کرا کے گھر لے آیا۔ شادی کے بعد اس نے پہلی بار اپنی دلہن کو دیکھا تھا۔ اس کا سسرال کوٹا دون میں رہتا تھا جو کالا ڈھنگی سے بارہ میل دور ہے۔

چونکہ چھ ایکڑ کی کاشتکاری چار بچوں کے بس سے باہر تھی، سو اس نے اپنی مدد کے لیے آگی کو ملازم رکھ لیا جو خوراک اور رہائش کے علاوہ فصل سے نصف آمدنی لیتا تھا اور دونوں مل جُل کر کام کرتے تھے۔ رہائشی جھونپڑوں کو بنانے میں بانس اور گھاس استعمال ہوتی ہے جو اجازت نامے کے بعد جنگل سے لائے جاتے ہیں اور ان کو طویل فاصلے سے سر اور کندھوں پر اٹھا کر لایا جاتا ہے اور پہاڑوں کے دامن میں آنے والے طوفانوں کی وجہ سے ان کی مسلسل مرمت ہوتی رہتی ہے، سو موٹھی اور اس کے مددگار کے لیے یہ کام کافی محنت طلب ہو رہا رہا، سو انہیں اس مشکل سے نکالنے کے لیے میں نے انہیں پختہ گھر بنوا دیا جس میں تین کمرے اور ایک برآمدہ تھا اور اس کی بنیاد زمین سے چار فٹ اونچی تھی۔ موٹھی کی بیوی چونکہ بلند مقام سے آئی تھی، سو اس کے سوال باقی ہر بندہ مستقل ملیریا سے کمزور تھا۔

اپنی فصلوں کو بچانے کے لیے مزارع پورے گاؤں کے گرد خاردار جھاڑیوں سے باڑ بنا دیتے تھے مگر اس پر کئی ہفتے لگتے اور آوارہ مویشی اور جنگلی جانوروں سے کم ہی بچت ہو پاتی۔ سو جب فصلیں تیار ہونے لگتیں تو مزارع یا ان کے گھر والے مل کر کھیتوں میں رت جگا کرتے۔ آتشیں ہتھیاروں پر سخت پابندی تھی، سو ہمارے چالیس مزارعوں کے لیے حکومت کی جانب سے صرف ایک مزل لوڈر بندوق کی اجازت تھی۔ سو ایک بندہ اپنی فصلیں تو بچا لیتا مگر دیگر انتالیس افراد کی فصلیں بچانے کا ایک ہی طریقہ تھا کہ ساری رات بیٹھ کر ٹین ڈبے کھڑکاتے رہیں۔ اگرچہ بندوق سے سیہ اور سؤروں کی کافی تعداد ہلاک ہوتی تھی مگر پھر بھی نقصان خاصا ہوتا رہا کیونکہ اس گاؤں کے ارد گرد جنگل ہی جنگل تھا۔ سو جب موکمہ گھاٹ پر میرے ٹھیکے سے آمدنی شروع ہوئی تو میں نے گاؤں کے گرد پختہ دیوار بنوانا شروع کر دی۔ جب یہ دیوار مکمل ہوئی تو یہ چھ فٹ اونچی اور تین میل طویل تھی۔ اس کی تکمیل پر دس سال لگے کہ میری آمدنی کافی محدود تھی۔ اگر آج آپ ہلدوانی سے رام نگر براستہ کالا ڈھنگی جائیں تو دریائے بور عبور کر کے جنگل میں داخل ہونے سے قبل آپ اس دیوار کے بالائی سرے کے قریب سے مڑیں گے۔

ایک بار دسمبر کی سرد صبح کو میں اپنے شکاری کتے روبن کے ساتھ سیر کر رہا تھا اور روبن میرے سامنے سفید تیتروں کے جھنڈ اڑاتا جا رہا تھا جنہیں روبن سے پہلے کسی نے تنگ نہیں کیا تھا کیونکہ دیہاتی لوگ صبح اور شام ان تیتروں کی آواز کو بہت شوق سے سنتے ہیں۔ یہیں آبپاشی کی ایک نالی کے کنارے میں نے سور کے پگ دیکھے۔ اس سور کی کچلیاں بہت بڑی، مڑی ہوئی اور خوفناک تھیں اور ہر کوئی اسے بخوبی جانتا تھا کہ یہ سور بچھڑے کے حجم کا ہو چکا تھا اور خاردار باڑ میں سوراخ کر کے اور فصلیں کھا کھا کر خوب موٹا ہو چکا تھا۔ اگرچہ پختہ دیوار سے شروع شروع میں وہ پہلے پہلے تو مشکل کا شکار ہوا تھا مگر پھر وہ دیوار پر چڑھنا سیکھ گیا۔ بہت مرتبہ چوکیداروں نے اس پر گولی چلائی تھی اور ایک بار تو اس کے پیچھے خون کی لکیر بھی دکھائی دی تھی مگر کوئی بھی زخم کاری نہ ثابت ہو سکا اور نتیجتاً وہ اور بھی محتاط ہو گیا۔

اس روز سور کے پگ موٹھی کے کھیتوں کو جا رہے تھے اور جونہی میں اس کے گھر پہنچا تو اس کی بیوی کھڑی دکھائی دی جو اپنے ہاتھ کمر پر رکھے کھڑی آلو کے کھیت میں ہونے والی تباہی کا جائزہ لے رہی تھی۔ چونکہ آلو ابھی پوری طرح تیار نہیں ہوئے تھے اور سور بہت بھوکا تھا، سو اس نے پورا کھیت اجاڑ کر رکھ دیا۔ جتنی دیر روبن سور کی روانگی کی سمت کا اندازہ لگاتا، اس عورت نے اپنا غصہ نکالنا شروع کیا:

’’یہ سب پنوا کے باپ کا قصور ہے۔ رات کو بندوق کی باری اس کی تھی اور بجائے اس کے کہ گھر رک کر اپنے کھیت کی حفاظت کرتا، اس نے کہا کہ کالو کے گندم کے کھیت کی نگرانی کرے گا کہ وہاں سانبھر کے آنے کا امکان ہے۔ جتنی دیر وہ باہر رہا، دیکھیں کہ شیطان کتنا نقصان کر گیا۔‘‘

ہندوستان میں کوئی عورت اپنے شوہر کا نام نہیں لیتی اور نہ ہی اسے نام لے کر مخاطب کرتی ہے۔ بچوں سے پہلے اسے سرتاج اور پھر بعد میں پہلے بچے کے باپ کے نام سے مخاطب کرتی ہے۔ موٹھی کے تین بچے پیدا ہو چکے تھے جن میں سے پنوا سب سے بڑا تھا اور اس کی بیوی اسے پنوا کا باپ کہتی تھی اور خود اسے سارا گاؤں پنوا کی ماں کہتا تھا۔

پنوا کی ماں پورے گاؤں میں سب سے زیادہ محنتی ہونے کے علاوہ سب سے تلخ زبان کی مالکن بھی تھی۔ اس نے پنوا کے باپ کو بہت کچھ کہنے کے بعد میری جانب رخ کیا اور کہا کہ میں نے اس دیوار پر پیسے ضائع کیے ہیں کہ سور اس پر چڑھ کر اس کے آلو کھا گیا ہے۔ اب یہ میرا فرض ہے کہ اس سور کو شکار کروں اور اگر ایسا نہیں کر سکتا تو دیوار کو مزید چند فٹ اونچا کرا دوں تاکہ سور نہ چڑھ سکے۔ شکر ہے کہ موٹھی واپس آ گیا اور اس کی بیوی کے غصے کا رخ اس کی جانب ہو گیا۔ روبن کو سیٹی بجا کر میں نے واپسی کا رخ کیا۔

اس شام میں نے دیوار کی دوسری جانب سے سور کے پگ کا تعاقب شروع کیا اور دو میل تک اس کا پیچھا کرتا رہا، آخرکار یہ نشانات امبل کی خار دار جھاڑیوں تک جا پہنچے۔ اس جگہ میں ایک بڑے پتھر کے پیچھے آرام سے چھپ گیا کہ اس بات کا کافی امکان تھا کہ اندھیرا چھانے سے قبل ہی سور باہر نکل آتا۔ دریائے بور کے کنارے سا پتھر کے پیچھے چھپ کر بیٹھے ہوئے مجھے کچھ ہی دیر ہوئی تھی کہ مادہ سانبھر جنگل کے بالائی سرے سے بولنے لگی جہاں کئی برس بعد میں نے پوال گڑھ کے کنوارے شیر کو شکار کیا تھا۔ مادہ سانبھر جنگلی جانوروں کو شیر کی موجودگی سے خبردار کر رہی تھی۔ دو ہفتے قبل تین شکاری آٹھ ہاتھیوں کے ہمراہ کالا ڈھنگی پہنچے اور انہوں نے اس جنگل میں رہائش پذیر شیر کا شکار کرنا تھا جس جنگل میں شکار کا اجازت نامہ میرے پاس تھا۔

دریائے بور میرے جنگل اور دوسرے جنگل کے درمیان حد کا کام کرتا تھا اور یہ شکاری دوسرے جنگل میں شکار کا اجازت نامہ لے کر آئے تھے۔ انہوں نے دریا کی دوسری جانب 14 بھینسے باندھ کر شیر کو گارے کی دعوت دی تھی۔ دو بھینسے شیر کے ہاتھوں مارے گئے تھے اور باقی بارہ بے توجہی سے ہلاک ہوئے اور رات کو نو بجے مجھے بھاری رائفل کی آواز سنائی دی تھی۔ میں اس پتھر کے پیچھے دو گھنٹے بیٹھا سانبھر کی آواز سنتا رہا مگر سور دکھائی نہ دیا۔ جب گولی چلانے کے قابل روشنی نہ رہی تو میں نے دریا عبور کیا اور کوٹا سڑک پر چل پڑا۔ راستے میں جن غاروں میں بڑا اژدہا رہتا ہے، وہاں سے اور جس جگہ ایک ماہ قبل محکمہ جنگلات کے بل بیلی نے 12 فٹ لمبا شیش ناگ مارا تھا، محتاط ہو کر گزرا۔ گاؤں میں داخل ہو کر موٹھی کے گھر پر رکا اور اسے آواز دی کہ اگلی دن صبح پو پھٹتے ہی میرے ساتھ چلنے کو تیار رہے۔

بہت سالوں سے موٹھی میرے ساتھ ان جنگلات میں شکار کے لیے جاتا رہا تھا۔ موٹھی ذہین اور پر تجسس تھا اور اس کی بصارت اور سماعت بھی اچھی تھیں اور جنگل میں خاموشی سے چلنے کے علاوہ بہادر بھی تھا۔ کبھی وہ طے کردہ وقت سے تاخیر سے نہیں پہنچا۔ شبنم سے بھیگے جنگل میں چلتے ہوئے اور جنگلی جانوروں اور پرندوں کی آوازیں سنتے ہوئے میں نے اسے بتایا کہ گذشتہ شام میں نے مادہ سانبھر کی آواز کافی دیر تک سنی تھی، شاید شیر نے اس کے بچے کو شکار کیا ہوگا اور وہاں رک کر اس نے شیر کو پیٹ بھرتے دیکھا ہوگا۔ یہ جنگلی جانوروں کا عام رویہ ہے اور مجھے اس کے علاوہ سانبھر کی مسلسل آواز کی کوئی وجہ نہیں سمجھ آئی۔

موٹھی کو تازہ شکار کی امید سے بہت خوشی ہوئی کیونکہ اس کی محدود آمدنی سے وہ مہینے میں محض ایک بار ہی گوشت خرید سکتا تھا اور سانبھر ہو یا چیتل یا سور، چاہے اسے شیر نے مارا ہو یا پھر تیندوے نے، اس کے لیے نعمتِ خداوندی تھی۔ میں نے گذشتہ رات سانبھر کی آواز کا اندازہ اپنی نشست سے پندرہ سو گز شمال کی جانب لگایا تھا۔ جب ہم اس جگہ پہنچے تو کسی جانور کی لاش نہ دکھائی دی اور ہم نے زمین پر خون یا گھسیٹنے کے نشانات تلاش کرنا شروع کیے تاکہ لاش تک پہنچ سکیں کہ مجھے ابھی بھی یقین تھا کہ شیر نے ہی یہ شکار کیا ہوگا اور ہم لاش پا لیں گے۔

اس جگہ چند سو گز دور پہاڑی سے آنے والے دو نشیب ملتے تھے۔ دونوں نشیب تیس گز کے فاصلے سے متوازی آ رہے تھے۔ موٹھی نے کہا کہ وہ دائیں جانب والے نشیب کو دیکھتا ہے جبکہ میں بائیں کو دیکھوں۔ چونکہ درمیانی فاصلہ کم اور چند ہی جھاڑیاں تھیں، سو ہم ایک دوسرے کو دیکھ بھی سکتے تھے، میں نے حامی بھر لی۔

سو گز تک ہم پوری توجہ سے زمین کو دیکھتے ہوئے آگے بڑھے اور ہماری رفتار کافی سست تھی، جب میں نے سر موڑ کر موٹھی کو دیکھا تو عین اسی لمحے اس نے چلاتے ہوئے واپس بھاگنا شروع کیا۔ اس کے ہاتھ ایسے ہل رہے تھے جیسے مکھیاں اڑا رہا ہو اور چلاتا جا رہا تھا۔ اس خاموش جنگل میں اچانک انسانی چیخوں کی آواز آنا کافی خوفناک ہوتا ہے اور اس کو الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ فوراً ہی مجھے اندازہ ہو گیا کہ کیا ہوا ہوگا۔ زمین پر توجہ سے بال یا خون کے نشانات دیکھتے ہوئے موٹھی سامنے کا اندازہ نہ کر سکا ہوگا اور سیدھا شیر تک جا پہنچا ہوگا۔ اسے کوئی زخم پہنچے یا نہیں، اس وقت کہنا مشکل تھا کہ مجھے اس کے کندھے اور سر دکھائی دے رہے تھے۔ میں نے رائفل سے اس کے عین پیچھے کا نشانہ لیا اور منتظر رہا کہ کوئی حرکت دکھائی دے تو گولی چلاؤں مگر خوشی ہوئی کہ کوئی حرکت نہ دکھائی دی۔ جب موٹھی سو گز دور پہنچا تو میں نے جان لیا کہ وہ اب محفوظ ہے۔ پھر میں نے چلا کر اسے رکنے کو کہا اور بتایا کہ میں آ رہا ہوں۔ چند گز پیچھے کو چل کر کہ مجھے علم نہیں تھا کہ شیر کہاں ہوگا، میں موٹھی کی طرف بعجلت چل پڑا۔ درخت سے کمر لگائے وہ کھڑا دکھائی دیا اور اس کے کپڑوں پر اور زمین پر خون کا کوئی دھبہ نہ دیکھ کر مجھے سکون ملا۔ جب میں اس کے قریب پہنچا تو اس نے پوچھا کہ کیا ہوا، اور میں نے جب اسے بتایا کہ کچھ بھی نہیں ہوا تو وہ بہت حیران ہوا۔ پھر اس نے پوچھا کہ شیر نے جست نہیں لگائی یا پیچھا نہیں کیا تو میں نے جواب دیا کہ تمہاری پوری کوشش تھی کہ شیر ایسا کرتا، مگر اس نے ایسا نہیں کیا۔ اس نے جواب دیا، ’’مجھے علم ہے صاحب کہ مجھے ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا، مگر۔ ۔ ۔ میں۔ ۔ ۔ خود۔ ۔ ۔ کو۔ ۔ ۔ روک۔ ۔ ۔ نہ۔ ۔ ۔ پایا۔ ۔ ۔ ۔‘‘ یہ کہتے ہوئے وہ اچانک بیہوش ہو کر زمین پر گرنے لگا کہ میں نے اسے تھام لیا۔ کافی دیر تک وہ بے حس و حرکت پڑا رہا اور مجھے خوف ہوا کہ کہیں اس صدمے سے وہ مر تو نہیں گیا۔

ایسی صورتحال میں جنگل میں کم ہی کچھ کیا جا سکتا ہے اور میں نے وہ سب کچھ کیا۔ میں نے موٹھی کو پیٹھ کے بل لٹایا اور اس کے کپڑے ڈھیلے کر کے اس کے دل کی مالش کی۔ جب میں امید کا دامن چھوڑنے لگا تھا کہ اب اس کی لاش کو اٹھا کر گاؤں لے جاتا ہوں کہ اس نے آنکھیں کھول دیں۔ جب آرام سے درخت سے کمر ٹکا کر بیٹھنے کے بعد اس نے نصف سگریٹ پی لیا تو میں نے اس سے پوچھا کہ کیا ہوا تھا۔ اس نے بتایا:

’’میں بال اور خون تلاش کرتے ہوئے تھوڑا ہی فاصلہ گیا ہوں گا مجھے ایک پتے پر ایسا لگا کہ خون کا خشک دھبہ موجود ہے۔ میں نے جھُک کر اسے دیکھا اور جب نظریں اٹھائیں تو میرے عین سامنے شیر تھا۔ شیر میری جانب منہ کیے تین یا چار گز دور بیٹھا تھا۔ اس کا سر زمین سے تھوڑا سا بلند تھا اور منہ کھلا ہوا اور اس کی تھوڑی اور سینے پر خون ہی خون تھا۔ اس نے مجھے ایسے دیکھا کہ جست کرنے ہی لگا ہو، سو میں نے حواس باختہ ہو کر دوڑ لگا دی۔‘‘

اس نے سانبھر کی لاش نہیں دیکھی۔ اس نے بتایا کہ اس جگہ جھاڑیاں نہیں تھیں اور کھلا نشیب تھا، سو سانبھر کی لاش نہیں دکھائی دی۔

موٹھی کو وہیں رکنے کا کہہ کر میں نے اپنی سگریٹ بجھائی اور معاملے کو دیکھنے چل پڑا۔ مجھے سمجھ نہیں آئی کہ کیسے کھلے منہ والا شیر، جس کی تھوڑی اور سینے پر خون ہو، کیسے موٹھی کو چند قدم کے فاصلے تک آنے دیتا اور پھر جب وہ چیخنے لگا تو اسے واپس کیسے جانے دیا؟ انتہائی احتیاط کے ساتھ اس جگہ پہنچا جہاں کھڑے ہو کر موٹھی نے چلانا شروع کیا تھا اور دیکھا کہ سامنے خالی زمین تھی جس پر شیر نے خشک پتے جمع کر کے ان پر لوٹنیاں لگائی تھیں اور اس کے ساتھ خون کا نصف دائرہ سا بنا ہوا تھا۔ شیر کے لیٹنے کی جگہ سے بچ کر میں دوسری جانب پہنچا تاکہ نشانات خراب نہ ہوں، اور دیکھا کہ دوسرے سرے سے خون کی تازہ لکیر جا رہی تھی جو بظاہر بغیر کسی وجہ کے آڑی ترچھی جا رہی تھی۔ اس کا رخ پہاڑی کی جانب تھا اور پھر یہ لکیر پہاڑ کے دامن میں ایک جانب کو مڑ کئی سو گز متوازی چلتے ہوئے پھر ایک گہری اور تنگ وادی میں داخل ہو گئی جہاں چشمہ موجود تھا۔ یہ وادی پہاڑوں سے آ رہی تھی اور شیر اوپر کی جانب گیا تھا۔ پھر میں واپس لوٹا اور دیکھا کہ جہاں شیر لوٹنیاں لگاتا رہا تھا اور نشانات کا تفصیلی معائنہ کیا۔ یہاں جمے ہوئے خون میں چند دانت اور ہڈیوں کے ریزے بھی پڑے تھے۔ ان شواہد سے مجھے جواب مل گیا۔ دو رات قبل والی رائفل کی گولی نے شیر کا نچلا جبڑا توڑ دیا ہوگا اور شیر نے اپنی قیام گاہ والی وادی کا رخ کیا ہوگا۔ جتنی دیر اس کی برداشت اور جریانِ خون نے اجازت دی ہوگی، وہ گیا ہوگا اور پھر تکلیف کی شدت سے وہیں لیٹ گیا اور یہاں مادہ سانبھر اسے دیکھ کر بولنے لگی۔ تیس گھنٹے بعد موٹھی یہاں اس کے قریب پہنچا۔

کسی جانور کے لیے سب سے زیادہ تکلیف دہ زخم اس کے نچلے جبڑے کا ٹوٹنا ہوتا ہے اور جب موٹھی شیر کے قریب پہنچا ہوگا تو بیچارہ شیر نیم بیہوشی کی حالت میں ہوگا کہ موٹھی نے شور مچانا شروع کیا۔ سو شیر اٹھا اور ٹھوکریں کھاتا اس وادی کی جانب چل پڑا جہاں اسے علم تھا کہ پانی موجود ہے۔

اپنے اندازے کی درستی جاننے کے لیے میں نے موٹھی کے ساتھ دریا عبور کیا اور ساتھ والے جنگل میں گھسا جہاں چودہ بھینسے باندھے گئے تھے۔ یہاں ایک اونچے درخت پر بندھی مچان دکھائی دی جہاں تین شکاری بیٹھے تھے اور جب شیر گارے کو کھانے آیا تو اس پر گولی چلائی۔ اس جگہ سے خون کی موٹی لکیر دریا تک آئی تھی اور اس لکیر کے دونوں اطراف میں ہاتھیوں کے قدموں کے نشانات موجود تھے۔ موٹھی کو دائیں کنارے پر چھوڑ کر میں نے پھر دریا عبور کر کے اپنے جنگل کا رخ کیا اور دیکھا دوسری جانب خون کی لکیر اور ساتھ ساتھ ہاتھیوں کے نشان بھی چل رہے تھے جو پانچ یا چھ سو گز دور گھنی جھاڑیوں تک گئے تھے۔ اس جگہ ہاتھی کچھ دیر تک رکے رہے اور پھر دائیں جانب مڑ کر کالا ڈھنگی کو چل دیے۔ یہاں کچھ دیر میری ان سے ملاقات ہوئی تھی کہ میں اس وقت اس بوڑھے سور کے شکار کی نیت سے آ رہا تھا۔ جب ان شکاریوں نے پوچھا کہ میں کہاں جا رہا ہوں تو میرا جواب سن کر ایک شکاری نے کچھ بتانے کی کوشش کی تھی مگر اس کے ساتھیوں نے اسے فوراً روک دیا تھا۔ جب یہ تینوں شکاری فارسٹ بنگلے کو اپنے ہاتھیوں سمیت روانہ ہو گئے، میں پیدل اور بغیر کسی تنبیہ کے اس جنگل کو روانہ ہو گیا جہاں وہ زخمی شیر کو چھوڑ کر آئے تھے۔

جہاں موٹھی میرا منتظر تھا، وہاں سے گاؤں تین میل دور تھا اور ہمیں تین گھنٹے لگ گئے کہ موٹھی کی حالت بہت کمزور تھی۔ اسے اس کے گھر چھوڑ کر میں سیدھا فارسٹ بنگلے کو گیا اور دیکھا کہ تینوں شکاری اپنا سامان باندھے روانہ ہونے کو تیار تھے تاکہ ہلدوانی سے ٹرین پکڑ سکیں۔ برآمدے کی سیڑھیوں پر ہم نے کچھ دیر بات کی، زیادہ تر میں ہی بولتا رہا۔ جب مجھے علم ہوا کہ شیر کو ہلاک نہ کرنے کی وجہ محض ایک عام سی تقریب میں شرکت ہے، تو میں نے واضح طور پر انہیں بتا دیا کہ اگر صدمے سے موٹھی کی جان گئی یا پھر شیر نے میرے کسی مزارع کو ہلاک کیا تو میں ان پر قتل کا مقدمہ چلاؤں گا۔

اس بات کے بعد وہ روانہ ہو گئے اور اگلی صبح میں بھاری رائفل لے کر اس کھائی میں گھسا جہاں شیر گیا تھا۔ میری نیت ان شکاریوں کے لیے شیر کی کھال لانا نہیں تھی بلکہ میرا مقصد زخمی شیر کو اس کی تکلیف سے نجات دلانا تھا۔ پھر میں اس کی کھال جلا دیتا۔ تاہم میں نے کھائی کو نیچے سے اوپر تک اور دونوں اطراف کی پہاڑیوں پر چھان مارا، مگر سارا دن مجھے شیر کا کوئی نشان نہ ملا۔ کھائی میں شیر کے داخل ہوتے ہی شیر کے خون کی لکیر ختم ہو گئی تھی۔

دس دن بعد ایک فارسٹ گارڈ گشت پر تھا کہ اس نے شیر کی باقیات دیکھیں جن پر گدھ اپنا کام دکھا چکے تھے۔ اسی سال موسمِ گرما میں حکومت نے قانون بنایا کہ غروبِ آفتاب سے طلوعِ آفتاب تک شیر کے شکار کے لیے مچان پر بیٹھنے پر پابندی ہوگی اور کسی بھی زخمی جانور کو ہلاک کرنے کے لیے شکاری ہر ممکن کوشش کرے گا اور ایسے کسی واقعے کی اطلاع فوری طور پر نزدیکی افسرِ جنگلات اور پولیس چوکی کو بھی دے گا۔ موٹھی کے ساتھ یہ واقعہ دسمبر میں پیش آیا اور جب اپریل میں وہ کالا ڈھنگی سے نکلا تو اس کی حالت پہلے سے بہتر تھی۔ مگر قسمت اس کا ساتھ چھوڑ چکی تھی۔ مہینہ بعد اس نے کھیت کی نگرانی کے دوران ایک تیندوے پر گولی چلائی اور اگلی صبح جب اس کی تلاش میں نکلا تو تیندوے نے اسے بری طرح گھائل کیا۔ ابھی وہ ان زخموں سے بمشکل صحت یاب ہوا تھا کہ ایک گائے کی ہلاکت اس کے گلے پڑ گئی جو کسی ہندو کے لیے سب سے بڑا گناہ سمجھا جاتا ہے۔ یہ گائے بہت بوڑھی اور بیکار تھی اور ساتھ والے گاؤں سے آوارہ پھرتی موٹھی کے کھیت میں چرنے جا پہنچی۔ جب موٹھی نے اسے بھگانے کی کوشش کی تو اس گائے کا پیر چوہے کے بل میں پھنس کر ٹوٹ گیا۔ کئی ہفتے تک یہ گائے موٹھی کے کھیت میں لیٹی رہی اور موٹھی اس کی دیکھ بھال کرتا رہا۔ آخرکار یہ گائے مر گئی اور چونکہ یہ معاملہ گاؤں کے پجاری کے بس سے باہر تھا، سو اس نے موٹھی کو ہردوار یاترا جانے کا کہا۔ یاترا کے لیے رقم ادھار لینے کے بعد موٹھی ہردوار کو روانہ ہو گیا جہاں اس نے بڑے پنڈت سے ملاقات کی اور اپنے جرم کا اقرار کیا۔ کافی غور و فکر کے بعد پنڈت نے اسے مندر کو دان چڑھانے کو کہا اور کہا کہ اس طرح اس کا پاپ مٹ جائے گا مگر اسے پچھتاوا بھی ظاہر کرنا ہوگا۔ پنڈت نے پھر پوچھا کہ اسے کس چیز سے سب سے زیادہ لطف آتا ہے۔ موٹھی نے بلا جھجھک کہا کہ وہ شکار کھیلنے اور گوشت کھانے سے لطف اندوز ہوتا ہے۔ پنڈت نے موٹھی کو تا دمِ مرگ ان دونوں چیزوں سے اجتناب برتنے کا حکم دیا۔

یاترا کے بعد جب موٹھی گاؤں واپس لوٹا تو گناہوں سے پاک مگر عمر بھر کی سزا کے ساتھ آیا۔ شکار کا موقع اسے کم ہی ملتا تھا کہ مزل لوڈنگ بندوق پورے گاؤں میں باری باری پھرتی تھی اور اسے شکار کے لیے گاؤں کے آس پاس ہی رہنا ہوتا تھا کہ اس کی حیثیت کا بندہ سرکاری جنگلات میں شکار کھیلنے کا خواب بھی نہیں دیکھ سکتا تھا۔ پھر بھی اس پرانی مزل لوڈنگ بندوق یا کبھی کبھار اسے میں سرکاری قوانین کے برعکس اپنی رائفل سے بھی شکار کا موقع دیا کرتا تھا، اسے اس میں بہت مزہ آتا تھا۔ سزا کا یہ حصہ تو بہت سخت تھا ہی مگر دوسرا حصہ اس سے بھی سخت تر تھا کہ اس کی صحت پر اثر پڑنے لگا۔ اگرچہ اس کی آمدنی میں گوشت کم ہی خریدا جا سکتا تھا مگر سیہ اور سور بکثرت تھے اور کبھی کبھار رات کو ہرن بھی کھیتوں میں آ جاتے۔ یہ ہمارے گاؤں کا رواج تھا جس پر میں بھی عمل کرتا تھا کہ ایک بندے کا شکار سب میں تقسیم ہوگا، سو موٹھی کو ہمیشہ گوشت خریدنے کی ضرورت نہیں پڑتی تھی۔ ہردوار کی یاترا والے سال اسے شدید کھانسی لاحق ہو گئی۔ جب عام ٹوٹکے ناکام ہو گئے تو میں نے ان دنوں کالا ڈھنگی سے گزرنے والے اپنے ایک ڈاکٹر دوست سے اس کا معائنہ کرایا تو پتہ چلا کہ اسے تپ دق ہو گئی ہے۔ ڈاکٹر کی تجویز پر میں نے موٹھی کو بھوالی کے سینی ٹوریم بھجوا دیا جو تیس میل دور تھا۔ پانچ روز بعد وہ اس ہسپتال کے سربراہ کا خط لے کر آیا کہ موٹھی کے بچنے کا کوئی امکان نہیں اس لیے وہ اسے داخل نہیں کر سکتے۔ ان دنوں ہمارے ساتھ ایک میڈیکل مشنری تھا جو کئی سال تک سینی ٹوریم میں کام کر چکا تھا۔ اس نے مشورہ دیا کہ موٹھی کو کھلی فضا میں سلائیں اور ہر روز ایک کلو دودھ میں چند قطرے پیرافین کے ڈال کر پلائیں۔ سو سردیوں کے بقیہ دن موٹھی کھلے میں سوتا رہا اور علی الصبح برآمدے کی سیڑھیوں پر میرے ساتھ سگریٹ پیتے ہوئے ہماری گایوں کا دودھ پیتا۔

ہندوستان کے غریب تقدیر پر یقین رکھتے ہیں اور ان میں بیماریوں کا سامنا کرنے کی ہمت نہیں ہوتی۔ جب ہم گرمیوں میں اپنے گرمائی گھر کو روانہ ہوئے تو موٹھی کے ساتھ ہماری ملاقاتیں تو ختم ہو گئیں مگر ہمارا تعلق اور تعاون جاری رہا۔ ایک ماہ بعد موٹھی اس جہان سے گزر گیا۔ ہمارے پہاڑی دیہاتوں کی خواتین بہت محنتی ہوتی ہیں اور موٹھی کی بیوہ یعنی پنوا کی ماں ان سے زیادہ محنتی تھی۔ چھوٹی جسامت کی اور مضبوط خاتون جس کی عمر بھی زیادہ نہیں تھی، اپنی ذات پات کے قوانین کی وجہ سے دوبارہ شادی نہ کر سکتی تھی، نے اپنے بچوں اور ہمسائیوں کی مدد سے ہل چلانے اور کاشتکاری کے دیگر کام کرنا شروع کر دیے۔

کنٹھی کی عمر دس برس تھی اور اس کی شادی ہو چکی تھی مگر رخصتی میں ابھی پانچ سال باقی تھے، ہر کام میں اپنی ماں کی مدد کرتی جن میں کھانا پکانا اور برتن دھونا، کپڑے دھونا اور ان کو رفو کرنا کہ ان کی ماں کو اپنے بچوں کے کپڑوں کی بہت فکر ہوتی تھی اور چاہے وہ جتنی مرتبہ بھی رفو کیے ہوئے ہوں، مگر ہمیشہ صاف اور اجلے ہوتے تھے، دریائے بور سے پانی بھر کر لانا، آگ کی خاطر جنگل سے لکڑیاں لانا، دودھیل گایوں اور بچھڑوں کے لیے جنگل سے گھاس اور نرم پتے لانا، فصل سے جڑی بوٹیاں نکالنا اور فصل کی کٹائی، گندم کی بالیوں سے دانے نکالنا (پتھر میں سوراخ کر کے اس میں لوہے کے بھاری ڈنڈے سے کام کرنا، جو طاقتور انسان کو بھی تھکا دیتا ہے )، پنوا کے لیے گندم کے دانے چھانٹنا تاکہ وہ پن چکی سے پسوا لائے، اکثر دو میل دور بازار سے جا کر بھاؤ تاؤ کر کے خوراک اور کپڑے وغیرہ لانا بھی اسی کے ذمے تھا۔ تیسرا بچہ شیر سنگھ تھا جو سب سے چھوٹا تھا، اس کی عمر آٹھ سال تھی۔ صبح آنکھ کھلنے سے رات کا کھانا کھا کر سونے تک وہ ہر وہ کام کرتا جو اس کی عمر کے بچے کر سکتے ہیں۔ بعض اوقات تو وہ اپنے بڑے بھائی کے ساتھ ہل بھی چلاتا کہ جب بیلوں کو موڑنا ہوتا تو پنوا ہل کو قابو نہ کر سکتا تھا۔

شیر سنگھ کو دنیا کی کوئی فکر نہ تھی اور اس سے زیادہ خوش بچہ پورے گاؤں میں نہ تھا۔ جب بھی وہ نظروں سے اوجھل ہوتا تو اس کی آواز سنائی دیتی کہ اسے گانے کا بہت شوق تھا۔ ان کے مویشیوں میں چار بیل، بارہ گائیں، آٹھ بچھڑے اور لالو نامی ایک بیل تھا جو اس کی خصوصی توجہ کا مرکز تھا۔ ہر صبح دودھ دوہنے کے بعد وہ باڑے کا دروازہ کھول کر جانوروں کو باہر نکالتا اور پھر باڑے کی صفائی میں لگ جاتا۔ جب ناشتے کا وقت ہوتا تو کنٹھی یا پنوا اسے بلاتے اور وہ دودھ کا کنستر اٹھا کر گھر کو بھاگتا۔ ناشتے میں تازہ چپاتیاں اور دال ہوتی جس میں خوب ہری مرچیں اور نمک ہوتا اور دال سرسوں کے تیل میں پکی ہوتی۔ ناشتے کے بعد گھر کے دیگر چھوٹے موٹے کام کر کے وہ دن کے اصل کام کو نکلتا۔ یہ کام مویشیوں کو جنگل میں چرانے لے جانا تھا اور انہیں گم ہونے سے اور تیندوؤں اور شیروں سے بچانا تھا۔ چاروں بیل اور بارہ گائیں باڑے کے ساتھ ہی میدان میں لیٹ کر دھوپ سینک رہے ہوتے تھے اور کنٹھی کو بچھڑوں کا خیال رکھنے کا کہہ کر شیر سنگھ مویشیوں کے ساتھ کندھے پر کلہاڑی رکھ کر سب جانوروں کو اپنے آگے ہنکاتا ہوا چلتا اور لالو اس کے پیچھے چلتا۔ ان کا رخ دریائے بور کو عبور کر کے دوسری جانب جنگل کو ہوتا۔ شیر سنگھ ہر جانور کو اس کے نام سے مخاطب کرتا تھا۔ لالو سب سے کم عمر بیل تھا جس نے آگے چل کر ہل چلانے کا فریضہ سرانجام دینا تھا اور وہ شیر سنگھ کا دودھ شریک بھائی تھا کہ دونوں نے ایک ہی گائے کا دودھ پیا تھا۔ تاہم جس وقت کے بارے میں لکھ رہا ہوں، اس وقت یہ بیل ہر فکر سے آزاد اور شیر سنگھ کا غرور تھا۔ شیر سنگھ نے اس کا نام لالو رکھا تھا جس کا مطلب سرخ ہے۔ تاہم لالو سرخ نہیں تھا۔ اس کا رنگ سرمئی تھا اور کندھوں پر نشانات پڑے تھے اور پوری کمر پر تقریباً کالی لکیریں تھیں۔ اس کے سینگ چھوٹے، مضبوط اور نوکیلے تھے۔ اس کے سموں پر لکیریں بنائی گئی تھیں۔ جب انسان اور جانور ایسی جگہ رہیں جہاں دونوں کو مشترکہ خطرات کا سامنا کرنا پڑتا ہو، دونوں ایک دوسرے میں ہمت اور اعتماد پیدا کرتے ہیں۔ شیر سنگھ کے اجداد ہمیشہ سے جنگلوں میں رہتے آئے تھے، سو اسے جنگلی جانوروں کا کوئی خوف نہیں تھا اور لالو نوجوان اور تیکھے مزاج کا تھا، کو خود پر لامحدود غرور تھا۔ سو شیر سنگھ نے لالو کو حوصلہ دیا اور لالو نے شیر سنگھ کو اعتماد دیا۔ نتیجتاً شیر سنگھ کے مویشی جنگل میں اتنی دور تک جاتے تھے کہ جہاں کوئی اور بندہ اپنے مویشی نہیں لے جاتا تھا اور اس کے مویشی دوسروں سے زیادہ موٹے تازے تھے اور شیر سنگھ کو اس بات پر بجا فخر تھا کہ کبھی کسی شیر یا تیندوے نے اس کے مویشیوں پر بری نگاہ نہیں ڈالی تھی۔ ہمارے گاؤں سے چار میل کے فاصلے پر پانچ میل لمبی ایک وادی تھی جو شمالاً جنوباً تھی اور خوبصورتی اور جنگلی حیات میں پورے صوبجات متحدہ کے پانچ ہزار مربع میل میں اس کا کوئی ثانی نہیں۔ اس وادی کے بالائی سرے سے ایک چشمہ نکلتا ہے جو بتدریج بڑا ہوتا جاتا ہے اور جہاں اژدہا رہتا ہے، وہاں ایک غار سی بناتا ہے اور اس کے اوپر جامن کا پرانا درخت ہے۔ اس چشمے کے پانی میں جگہ جگہ چھوٹی مچھلیاں پائی جاتی ہیں جن پر پانچ مختلف اقسام کے کنگ فشر پلتے ہیں۔

وادی میں پھولدار اور پھلدار درخت اور جھاڑیاں ہیں جن کا رس پینے کو بے شمار پرندے اور انہیں کھانے بے شمار جانور آتے ہیں اور نتیجتاً شکاری پرندے اور درندے بھی اپنا پیٹ بھرنے کو اِدھر کا رخ کرتے ہیں۔ گھنی جھاڑیوں میں انہیں خوب چھپنے کی جگہ مل جاتی ہے۔ جگہ جگہ ندی کی وجہ سے چھوٹی چھوٹی آبشاریں بن گئی ہیں جہاں چوڑے پتوں والی خودرو گھاس اگ آتی ہے جو کاکڑ اور سانبھروں کو بہت پسند ہوتی ہے۔ یہ وادی میری پسندیدہ شکار گاہ ہے۔ ایک بار سردیوں میں کالا ڈھنگی سے آنے کے بعد میں ایک جگہ کھڑا وادی کا جائزہ لے رہا تھا کہ میرے بائیں جانب گھاس کے قطعے میں حرکت محسوس ہوئی۔ کافی دیر تک غور کرنے کے بعد پتہ چلا کہ اس انتہائی ڈھلوان قطعے پر ایک جانور اپنا پیٹ بھر رہا ہے۔ ا س جانور کا رنگ سانبھر سے بہت ہلکا اور کاکڑ سے زیادہ بڑا تھا، سو میں چھپ کر اس کو دیکھنے نکل کھڑا ہوا۔ جونہی میں روانہ ہوا تو نیچے وادی میں شیر کی آواز آنے لگی جو مجھ سے چند سو گز نیچے تھا۔ جب اس جانور نے شیر کی آواز سنی تو سر اٹھایا اور مجھے یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ وہ لالو تھا۔ سر اٹھائے وہ بالکل بے حرکت کھڑا شیر کی آواز سنتا رہا اور جب شیر نے بولنا بند کیا تو اس نے پھر گھاس کھانا شروع کر دی۔ لالو کے لیے یہ مقام ممنوع تھا کہ حکومتی محفوظ جنگلات میں مویشی چرانے کی ممانعت ہے اور لالو کو شیر سے خطرہ بھی تھا۔ سو میں نے لالو کو نام لے کر پکارا ور تھوڑی جھجھک کے بعد وہ میرے قریب آ گیا اور ہم دونوں مل کر گاؤں کو روانہ ہو گئے۔ شیر سنگھ اپنے مویشی باڑے میں باندھ رہا تھا کہ ہم پہنچے۔ جب میں نے اسے بتایا کہ لالو کہاں ملا ہے تو وہ ہنس کر بولا، ’’صاحب، پریشان نہ ہوں۔ فارسٹ گارڈ میرا جاننے والا ہے اور لالو کو پھاٹک نہیں بند کرے گا اور شیر کے لیے لالو اکیلا ہی کافی ہے۔‘‘

اس کے کچھ عرصے بعد جنگلات کے چیف کنزرویٹر سمیدیز اپنی بیوی کے ساتھ کالا ڈھنگی کے دورے پر آئے اور جب ان کا سامان لانے والے اونٹ دریائے بور سے جنگل والی سڑک پر پہنچے تو ان کے سامنے ہی سڑک پر شیر نے ایک گائے شکار کی ہوئی تھی۔ اونٹوں کی آمد اور انسانی شور سے گھبرا کر شیر نے گائے کو سڑک پر چھوڑا اور خود جست لگا کر جھاڑیوں میں چھپ گیا۔ میاں بیوی ہمارے برآمدے میں صبح سویرے کافی پی رہے تھے کہ اونٹوں والے بندوں نے آ کر گائے کی ہلاکت کے بارے بتایا۔ مسز سمیدیز کو شیر کے شکار کا بہت شوق تھا، سو میں اپنے دو ملازمین کے ساتھ ان کے لیے مچان بنانے چل پڑا۔ جب مچان بن گئی تو میں نے انہیں بلوا بھیجا اور انہیں مچان پر بٹھا کر میں نے ان کے ساتھ فارسٹ گارڈ کو بھی بٹھایا اور خود سڑک کے کنارے ایک درخت پر بیٹھ گیا تاکہ شیر کی آمد پر اس کی تصویر بنا سکوں۔

چار بج گئے تھے۔ ہم ابھی نصف گھنٹہ ہی بیٹھے تھے کہ کاکڑ اس سمت سے بولنے لگا جہاں مجھے علم تھا کہ شیر لیٹا ہوا ہے۔ اچانک سڑک پر لالو نمودار ہوا۔ سڑک پر جہاں گائے ہلاک ہوئی تھی، اس نے زمین کو بغور سونگھا اور خون سے بنا تالاب بھی دیکھا اور گھسیٹنے کے نشانات پر چل پڑا۔ جب اس نے مردہ گائے دیکھی تو اس کے گرد چکر لگایا اور سموں سے مٹی اکھاڑتا رہا۔ پھر اس نے سڑک کے کنارے کا رخ کیا اور غصے سے پھنکارنے لگا۔ کیمرے کو ایک ٹہنی سے باندھ کر میں نیچے اترا اور بمشکل تمام لالو کو گاؤں کے کنارے چھوڑ آیا۔ ابھی میں دوبارہ اپنی شاخ پر بیٹھا ہوں گا کہ لالو پھر پہنچ گیا۔ اس بار مسز سمیدیز نے فارسٹ گارڈ کو بھیجا کہ وہ لالو کو بھگائے۔ جب وہ بندہ میرے درخت کے نیچے سے گزرا تو میں نے اسے کہا کہ وہ دریائے بور کے پل کو عبور کر کے دوسرے کنارے پر ہاتھی کے ساتھ رک جائے۔ یہ ہاتھی بعد میں مسز سمیدیز کو لانے کے لیے روکا گیا تھا۔ کاکڑ کچھ دیر ہوئی، خاموش ہو گیا تھا اور مچان سے چند گز پیچھے جھاڑیوں سے جنگلی مرغ بولنے لگے۔ اس جانب اپنا کیمرہ کیا تو دیکھا کہ مسز سمیدیز نے رائفل سیدھی کی اور عین اسی وقت لالو تیسری بار نمودار ہوا (بعد میں ہمیں علم ہوا کہ جب لالو کو دریا کے دوسری جانب بھیجا گیا تو وہ چکر کاٹ کر پھر دریا کو عبور کر کے جنگل میں غائب ہو گیا تھا)۔ اس بار لالو دوڑتا ہوا گائے کی لاش تک پہنچا اور شیر کی بو سونگھ کر یا اسے دیکھ کر اس کا پارہ مزید اونچا ہو گیا اور اس نے زور سے پھنکارتے ہوئے جھاڑیوں پر حملہ کیا۔ اس نے تین بار حملہ کیا۔ ہر بار پھر الٹے قدموں واپس لوٹ کو سر کو جھکا کر اور سینگ آگے کر کے پھر حملہ کیا۔ میں نے بھینسوں کو شیر بھگاتے دیکھا ہے اور ایک مویشیوں کو بھی تیندوے بھگاتے دیکھے ہیں، مگر ہمالیہ کے ریچھ کے علاوہ کسی اور اکیلے جانور کو شیر کو اس کے شکار کردہ جانور پر سے بھگاتے نہیں دیکھا۔ اب لالو یہی کام کر رہا تھا۔

لالو کی بہادری اپنی جگہ، مگر شیر سے اس کا کوئی جوڑ نہیں تھا۔ اب شیر کا غصہ بہت بڑھ گیا تھا اور لالو کی پھنکاروں کا جواب دھاڑ سے دے رہا تھا۔ یہ سوچ کر کہ اگر لالو کو کچھ ہو گیا تو شیر سنگھ کتنا اداس ہوگا، میں لالو کو ہٹانے کے لیے اترنے لگا تھا کہ مسز سمیدیز نے انتہائی کشادہ دلی سے شیر کے شکار کا فیصلہ ترک کر دیا۔ اس لیے میں نے ہاتھی کو بلانے کے لیے مہاوت کو آواز دی۔ لالو جب میرے پیچھے چلا تو بہت آرام سے آ رہا تھا اور ہم سیدھا اس کے باڑے پہنچے جہاں شیر سنگھ اسے باندھنے کے لیے تیار کھڑا تھا۔ اگر شیر حملہ کر دیتا تو لالو کا بچنا امرِ محال تھا۔ شیر اس رات اور اگلی شام کو بھی گائے سے پیٹ بھرتا رہا اور مسز سمیدیز نے ایک بار پھر شکار کی ناکام کوشش کی۔ اس دوران میں نے شیر کی فلم بھی بنا لی جو میرے قارئین میں سے کئی نے دیکھی ہوگی۔

اس وڈیو میں شیر ڈھلوان سے اتر کر چھوٹے تالاب سے پانی پی رہا تھا۔ یہ جنگل شیر سنگھ کے کھیل کا میدان تھا اور یہ جنگل میرا بھی کھیل کا میدان رہ چکا تھا اور دیگر لڑکوں کا بھی، اور ہمیں اس سے زیادہ کہیں اور مزہ نہیں آیا۔ ذہین اور متجسس ہونے کی وجہ سے جنگل کے بارے اس کا علم وسیع تھا۔ اس کی نگاہ سے کچھ بھی نہیں بچ سکتا تھا اور اپنے نام والے جانور یعنی شیر کی طرح نڈر تھا۔ شام کو ہم سیر کرنے کے لیے دریائے بور کے دوسری جانب تین سڑکوں میں سے کسی ایک پر چل پڑتے تھے۔ یہ سڑکیں مراد آباد، کوٹا اور رام نگر کو جاتی تھیں۔ اکثر غروبِ آفتاب کے وقت ہم شیر سنگھ کو دیکھنے سے پہلے سن لیتے تھے کہ وہ اپنی بلند اور صاف آواز میں گاتا ہوا مویشی واپس لا رہا ہوتا تھا۔ مسکراتے ہوئے ہمیشہ وہ ہمیں سلام میں پہل کرتا اور ہمیشہ ہی اس کے پاس بتانے کو کچھ نہ کچھ خاص ہوتا۔

ایک بڑے شیر کے پگ اسے صبح کو کوٹا سے نیا گاؤں کی جانب جاتے ہوئے دکھائی دیے اور دوپہر کو یہی شیر دھونی گڑھ کے نیچے کی جانب دھاڑ رہا تھا۔‘‘

’’میں نے سریا پانی کے نزدیک سینگ ٹکرانے کی آواز سنی اور درخت پر چڑھ کر دیکھا تو دو نر چیتل سینگ لڑا رہے تھے۔ ایک کے سینگ تو بہت بڑے تھے اور خوب پلا ہوا تھا۔ میں نے بہت دن سے گوشت نہیں کھایا۔‘‘

’’میرے ہاتھوں میں کیا ہے؟‘‘ اس کے الجھے بالوں پر بڑے بڑے پتوں میں کچھ چھپا ہوا تھا جو اس نے چھال سے لپیٹ کر یکجا کیے ہوئے تھے۔

’’میں نے سور کی ران اٹھائی ہوئی ہے۔ میں نے درخت پر بیٹھے چند گِدھ دیکھے پاس جا کر دیکھا تو پچھلی رات تیندوے کا شکار کردہ سور دکھائی دیا جس سے تیندوا اپنا پیٹ بھر چکا تھا۔ اگر آپ تیندوے کا شکار کھیلنا چاہیں تو وہاں لے جاؤں؟‘‘

’’آج میں نے ہلدو کے پرانے اور کھوکھلے تنے میں شہد کا چھتہ دیکھا۔ میں آپ کے لیے شہد لایا ہوں۔‘‘

اس کے ہاتھوں میں کانٹوں سے پروئے ہوئے چوڑے پتوں پر برف جیسا سفید چھتا رکھا تھا۔ پھر میرے ہاتھ میں رائفل دیکھ کر اس نے مزید کہا۔

’’میں اپنا کام پورا کر کے یہ شہد آپ کے گھر پہنچا دوں گا کہ ابھی اگر آپ کو راستے میں کاکڑ یا سور دکھائی دیا تو آپ اس پر گولی نہیں چلا سکیں گے۔‘‘ ہلدو کے درخت سے چھتے کو اپنی چھوٹی کلہاڑی سے کاٹتے ہوئے اسے دو گھنٹے تو لگ ہی گئے ہوں گے اور اس نے مکھیوں کے خوب ڈنک کھائے تھے کہ دونوں ہاتھ خوب سوجے ہوئے تھے اور ایک آنکھ بھی سوجن کی وجہ سے بند تھی۔ مگر اس بارے اس نے کچھ نہیں کہا اور اگر میں کچھ کہتا تو اسے شرمندگی ہوتی۔

شام کو جب ہم کھانا کھا رہے تھے تو وہ خاموشی سے پیتل کی ٹرے میں چھتا لیے کمرے میں داخل ہوا۔ ٹرے کو خوب چمکایا گیا تھا اور وہ سونے کی طرح دمک رہی تھی۔ پھر اس نے اپنے بائیں ہاتھ کی انگلیوں سے دائیں کہنی کو چھو کر متروک ہوتے ہوئے روایتی طریقے سے سلام کیا۔ اس شاندار تحفے کو میز پر رکھ کر وہ مڑا اور دروازے میں جا کر رکا اور نیچے دیکھتے اور پیر کے انگوٹھے سے قالین کھرچتے ہوئے بولا،

’’اگر آپ صبح پرندوں کے شکار پر جا رہے ہوں تو میں مویشیوں کو کنٹھی کے ساتھ بھیج کر آپ کے ساتھ شکار پر چلوں گا۔ مجھے علم ہے کہ بہت سے پرندے کہاں ملیں گے۔‘‘

گھر کے اندر وہ ہمیشہ جھجھکتا تھا اور اس کی آواز ہکلانے لگتی تھی جیسے بہت سارے الفاظ اس کے منہ میں پھنس گئے ہوں۔

پرندوں کے شکار پر شیر سنگھ کے جوہر خوب کھلتے۔ ہم سب اس شکار سے لطف اندوز ہوتے تھے کہ نہ صرف شکار کی سنسنی ہوتی تھی بلکہ اکثر ہر لڑکا ایک آدھ پرندہ اپنے ساتھ گھر بھی لے جاتا۔ دوپہر کو ہم کھانا کھانے رکتے جو ہمارا ملازم لے کر آتا۔ کھانے میں محض تازہ مٹھائیاں اور بھنے چنے ہوتے۔

جب میں مطلوبہ مقام پر پہنچ گیا تو شیر سنگھ نے دیگر بچوں کے ساتھ ہانکا شروع کیا اور سب سے اونچی آواز شیر سنگھ کی تھی۔ جب کوئی پرندہ اڑتا تو وہ چلا کر مجھے بتاتا کہ صاحب، پرندہ آ رہا ہے، پرندہ آ رہا ہے۔ جب کوئی بھاری جانور جھاڑیوں میں بھاگتا تو اس کی آواز سنتے ہی وہ اپنے ساتھیوں کو بتاتا کہ ڈرو مت، یہ چیتل، سانبھر یا سور تھا۔ دن بھر ہم گھاس کے دس یا بارہ قطعوں کا ہانکا کرتے اور دس بارہ مور اور جنگلی مرغ شکار ہو جاتے اور اکثر دو تین خرگوش اور چھوٹا سور یا سیہ بھی اکثر ہاتھ لگ جاتے۔ دن کے اختتام پر شکار کو شکاریوں اور ہانکے والوں میں بانٹا جاتا اور اگر کم شکار ہاتھ لگتا تو صرف ہانکے والوں کو شکار ملتا۔ جب شیر سنگھ دن کے اختتام پر خوبصورت مور کو کندھے پر لٹکائے گھر جا رہا ہوتا تو اس سے زیادہ خوش اور کوئی نہیں ہوتا تھا۔

پنوا کی شادی ہو گئی تھی اور وہ وقت قریب تھا کہ شیر سنگھ کو گھر سے نکلنا پڑتا کہ چھ ایکڑ کی زمین دو بھائیوں کے لیے ناکافی ہوتی۔ مجھے علم تھا کہ اس گاؤں سے اور ان جنگلوں سے شیر سنگھ کو کتنی محبت ہے اور انہیں چھوڑتے ہوئے اسے کتنی تکلیف ہوگی، میں نے سوچا کہ اسے تربیت کے لیے اپنے ایک دوست کے پاس کاٹھ گودام رکھوا دوں گا۔ اس دوست کا گیراج بھی تھا اور نینی تال کے لیے اس کی کاریں بھی چلتی تھیں۔ میرا ارادہ تھا کہ تربیت مکمل ہونے پر شیر سنگھ ہماری کار چلائے گا اور سردیوں میں میرے ساتھ کالا ڈھنگی شکار پر جائے گا اور گرمیوں میں جب ہم نینی تال جائیں گے تو وہ ہمارے گھر اور باغیچے کا خیال رکھے گا۔ جب میں نے اسے اپنے ارادے سے آگاہ کیا تو خوشی کے مارے اس کی زبان گنگ ہو کر رہ گئی۔ اس طرح اسے اپنے محبوب جنگلات اور گاؤں کو چھوڑنے کی ضرورت ہی نہ پڑتی کہ وہ یہاں سے کبھی باہر نہیں گیا تھا۔

انسان زندگی میں بہت سارے منصوبے بناتا ہے اور جب وہ پورے نہ ہوں تو تکلیف اور پچھتاوا بھی ہوتا ہے۔ نومبر میں جب ہم کالا ڈھنگی لوٹتے تو شیر سنگھ کی تربیت شروع ہونی تھی۔ اکتوبر میں اسے وبائی ملیریا لاحق ہوا جو نمونیہ میں تبدیل ہو گیا اور ہماری آمد سے چند روز قبل وہ مر گیا۔ بچپن سے وہ دن بھر گانے کا عادی تھا اور ہمیشہ خوش رہتا۔ کون جانے کہ اگر وہ زندہ رہتا تو اس بدلتی ہوئی دنیا میں بھی وہ اتنا ہی خوش ہوتا جتنا اپنی مختصر زندگی کے ابتدائی سالوں میں خوش رہا۔

ہٹلر کی جنگ میں کھوئی ہوئی صحت کی بحالی کی خاطر جانے سے قبل میں نے تیسری بار اپنے مزارعین کو جمع کیا اور بتایا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ اب وہ ان زمینوں کے مالک بن جائیں اور گاؤں کے امور کو خود سنبھالیں۔ پنوا کی ماں اس بار مزارعین کی نمائندگی کر رہی تھی۔ جب میں بات پوری کر کے بیٹھا تو وہ کھڑی ہوئی اور بولی،

’’آپ نے ہمیں بیکار بلایا ہے۔ ہم آپ کو بہت مرتبہ بتا چکے ہیں کہ ہم آپ کی زمین نہیں لیں گے کیونکہ اگر ہم نے زمین لے لی تو اس کا مطلب ہوگا کہ ہم آپ کے ملازم نہیں رہے۔ اب صاحب، اس سور کا کیا کیا جائے؟  اس شیطان کی اولاد نے دیوار پر چڑھنا سیکھ لیا ہے اور میرے آلو کھائے جا رہا ہے۔ پنوا اور دیگر شکاری تو اسے مار نہیں سکتے اور میں ساری رات بیٹھ کر ٹین کھڑکانے سے بیزار آ گئی ہوں۔‘‘

میگی اور میں ایک فائر ٹریک پر چل رہے تھے جو پہاڑوں سے آتا ہے اور ہمارا کتا ڈیوڈ ہمارے پیچھے تھا کہ ’شیطان کی اولاد‘ سور جو اب بوڑھا ہو چکا تھا اور جسم میں چھرے ہی چھرے تھے، راستے کو ہمارے سامنے عبور کرنے لگا۔ اس کا باپ یعنی ’شیطان‘ کئی برس قبل ساری رات جاری رہنے والی لڑائی میں شیر کے ہاتھوں ہلاک ہوا تھا۔

سورج غروب ہو چکا تھا اور فاصلہ زیادہ یعنی تین سو گز تھا، مگر چونکہ سور کا رخ گاؤں کی جانب تھا، سو گولی چلانے کی معقول وجہ تھی۔ میں نے فاصلے کی پتی چڑھائی اور رائفل کو درخت کے تنے پر رکھ کر نشیب کے کنارے پر سور کے رکنے کا انتظار کیا۔ جب میں نے گولی چلائی تو سور نے گڑھے میں جست لگائی اور پوری رفتار سے دوسرے کنارے سے نکل کر بھاگا۔

’’کیا گولی خطا گئی؟‘‘ میگی نے پوچھا اور ڈیوڈ کی آنکھوں میں یہی سوال تھا۔ فاصلے کے اندازے میں غلطی کے سوا اور کوئی وجہ سمجھ نہیں آئی کہ گولی کیوں خطا گئی ہوگی کہ میرے سفید رنگ والے دیدبان سور کی کالی جلد پر صاف دکھائی دے رہے تھے اور درخت پر رکھنے کی وجہ سے ہاتھ کی جنبش بھی ممکن نہیں تھی۔ خیر، گھر جانے کا وقت ہو رہا تھا اور سور جس راستے پر چل رہا تھا، ہم نے اسے پر گاؤں جانا تھا۔ اس لیے ہم اس جگہ کا جائزہ لینے چل نکلے۔ سور کے بھاگنے کے مقام پر اس کے کھروں کے واضح نشانات تھے اور نشیب کی دوسری جانب جہاں وہ نکلا تھا، وہاں خون دکھائی دیا۔ دو سو گز دور اسی سمت میں گھنی جھاڑیاں تھیں۔ چونکہ خون کے نشانات کافی زیادہ تھے، میں نے سوچا کہ صبح سویرے آ کر اس کی لاش تلاش کروں گا۔ اگر وہ زندہ بھی ہوتا تو کوئی فرق نہ پڑتا کہ میگی ساتھ نہ ہوتی اور گولی چلانے کے لیے روشنی بھی بہتر ہوتی۔

پنوا نے گولی کی آواز سنی تھی اور پُل پر میرا منتظر تھا۔ اس کے سوال پر میں نے بتایا، ’’ہاں، اسی بوڑھے سور پر گولی چلائی تھی اور خون کے نشانات سے پتہ چلتا ہے کہ زخم کاری لگا ہوگا۔ کل صبح یہیں ملو تو میں تمہیں وہ جگہ دکھاؤں گا اور دن کو جا کر وہ دیگر ساتھیوں سمیت سور کی لاش لے آئے۔‘‘

اس نے پوچھا، ’’میں بوڑھے حوالدار کو لاؤں؟‘‘

میں نے اجازت دے دی۔ بوڑھا حولدار گورکھا تھا جو فوج سے ریٹائر ہونے کے بعد پولیس میں کام کرنے لگا اور اس سے پچھلے سال ریٹائر ہوا تھا اور پورا گاؤں اس کی عزت کرتا تھا۔ اسے میں نے رہنے کے لیے جگہ اور زمین دی، جہاں وہ اپنی بیوی اور دو بیٹوں کے ساتھ آباد ہو گیا تھا۔ دیگر گورکھوں کی مانند اسے بھی سور کے گوشت سے انتہائی رغبت تھی اور چاہے جس کا حصہ بھی کم پڑ جاتا، حولدار کو اس کا حصہ ہمیشہ ملتا۔

اگلی صبح پنوا اور حوالدار پُل پر منتظر ملے۔ مویشیوں کی پگڈنڈی پر چلتے ہوئے ہم اس جگہ پہنچے جہاں پچھلی شام خون دکھائی دیا تھا۔ اس جگہ سے ہم خون کے واضح نشانات پر چل پڑے جو سیدھے انہی گھنی جھاڑیوں کو جا رہے تھے۔ میں نے اپنے ساتھیوں کو جھاڑیوں کے کنارے پر روکا کہ ریچھ کے علاوہ سور واحد جانور ہے زخمی ہونے کے بعد انسان پر حملہ کر کے اسے گرانے کے بعد مزید بھنبھوڑتا ہے۔ اسی وجہ سے زخمی سور اور بالخصوص جس کے دانت بڑے ہوں، ہمیشہ احتیاط سے پیچھا کرنا چاہیے۔ جہاں میرا اندازہ تھا، سور وہیں جا کر رکا مگر مرا نہیں۔ اگلی دن صبح سویرے اس جگہ کو چھوڑ کر آگے گیا۔ میں نے پنوا اور حوالدار کو سیٹی بجا کر بلایا اور ہم تلاش کرنے چل پڑے۔

یہ راستہ ہمیں فائر ٹریک کو لے گیا جہاں سمت سے اندازہ ہو گیا کہ سور کا رخ پہاڑی کی دوسری جانب والے گھنے جنگل کی طرف ہے اور میرا اندازہ تھا کہ وہ پچھلی شام وہیں سے نکل کر آیا ہوگا۔ صبح کو بننے والی خون کی لکیر پتلی تھی اور جوں جوں ہم آگے بڑھتے گئے، وہ مزید پتلی ہوتی گئی اور درختوں کے جھنڈ کو پہنچ کر بالکل ہی ختم ہو گئی۔ اس جگہ پتے گرے ہوئے تھے جنہیں ہوا نے الٹ پلٹ دیا تھا۔ اس جگہ انتہائی خشک گھاس تھی جو کمر تک اونچی تھی۔ چونکہ میرا اندازہ تھا کہ سور کا رخ پہاڑی کے دوسری جانب والے گھنے جنگل کو ہے، سو میں نے سوچا کہ گھاس کے دوسرے سرے سے جا کر مزید نشانات اٹھاتا ہوں۔

حوالدار کچھ پیچھے رہ گیا تھا جبکہ پنوا میرے عین پیچھے چل رہا تھا۔ ابھی ہم چند گز ہی گئے ہوں گے کہ میری جرابیں ایک خاردار جھاڑی میں الجھ گئیں۔ جتنی دیر میں کانٹوں سے جرابیں چھڑاتا، پنوا اس جھاڑی کا چکر کاٹ کر دائیں جانب چند گز دور چلا گیا۔ ابھی میں کانٹوں سے چھوٹ کر سیدھا ہو ہی رہا تھا کہ گھاس سے زخمی سور گولی کی طرح نکلا اور سیدھا پنوا پر جھپٹا جس نے سفید رنگ کی قمیض پہنی ہوئی تھی۔ پھر میں نے وہی کچھ کیا جو میں ہمیشہ خطرناک شکار پر جاتے ہوئے اپنے ساتھیوں کو بتاتا آیا ہوں کہ اگر مجھ پر کوئی زخمی جانور حملہ کرے تو وہ یہی کچھ کریں۔ میں نے رائفل کی نالی ہوا میں اٹھا کر اور زور سے شور کرتے ہوئے لبلبی دبا دی۔

اگر کانٹوں میں الجھ کر میں یہ چند سیکنڈ نہ گنواتا تو سب ٹھیک رہتا کہ میں پنوا تک پہنچنے سے قبل ہی سور کو ہلاک کر لیتا۔ مگر ایک بار جب سور اس کے قریب پہنچ گیا تو پھر میرا کام محض مداخلت کرنا تھا تاکہ سور پنوا پر حملے سے باز رہے۔ سور پر گولی چلانے سے پنوا کی جان کو شدید خطرہ لاحق ہو جاتا۔ جب میری رائفل سے نکلی گولی میل بھر دور گر رہی تھی تو پنوا کے منہ سے ’صاحب‘ چیخ کی طرح نکلا اور وہ گھاس میں گر گیا اور سور سیدھا اس پر تھا۔ مگر رائفل کا دھماکہ سنتے ہی سور مڑا اور سیدھا میری جانب آیا۔ قبل اس کے کہ میں اعشاریہ 275 بور کی رائفل سے چلا ہوا کارتوس نکال کر نیا بھرتا، سور مجھ تک پہنچ گیا۔ رائفل سے دائیاں ہاتھ ہٹا کر میں نے سامنے پھیلایا تو جونہی میری ہتھیلی سور کے ماتھے سے لگی، سور وہیں رک گیا۔ سور اتنا بڑا تھا کہ گھوڑا گاڑی کو بھی آسانی سے الٹ سکتا تھا، مگر شاید میرا وقت نہیں آیا تھا۔ سور کا سر مسلسل ہل رہا تھا اور وہ ہوا کو کاٹنے کی کوشش کر رہا تھا۔ میرے ہاتھ کی جلد زخمی ہو گئی۔ پھر بغیر کسی وجہ کے سور مڑا اور دوڑا ہی تھا کہ میں نے دو گولیاں اس کے جسم میں اتار دیں۔ سور سیدھا نیچے گرا اور مر گیا۔

اس ایک چیخ کے بعد سے پنوا بالکل خاموش اور بے حس و حرکت پڑا تھا۔ مجھے خوف تھا کہ میں اس کی ماں کو کیا جواب دوں اور وہ مجھے کیا کہے گی، میں خوف سے کانپتا ہوا پنوا کے قریب گیا تو توقع تھی کہ اس کا سارا جسم کٹا ہوا ہوگا۔ پنوا پشت کے بل لیٹا ہوا تھا اور مجھے یہ دیکھ کر انتہائی سکون ملا کہ اس کے سفید کپڑوں پر خون کا کوئی نشان نہیں تھا۔ میں نے اسے کندھے سے ہلایا اور پوچھا کہ کیسا ہے اور کہاں چوٹ لگی ہے۔ لیٹے لیٹے اس نے انتہائی کمزوری سے کہا کہ وہ مر چکا ہے اور اس کی کمر ٹوٹ گئی ہے۔ میں نے آہستہ سے اسے اٹھا کر بٹھایا اور یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ وہ میرے سہارے کے بغیر بھی بیٹھنے کے قابل ہو گیا تھا۔ اس کی کمر پر ہاتھ پھیر کر میں نے تسلی کی کہ اس کی ریڑھ کی ہڈی نہیں ٹوٹی اور پھر پنوا نے خود اپنا ہاتھ پھیر کر بھی تسلی کی۔ پھر اس نے مڑ کر اس دو یا تین انچ موٹی جڑ کو دیکھا جس پر وہ گرا تھا۔ شاید جب سور نے اسے گرایا تو وہ بیہوش ہو گیا تھا اور جب ہوش آیا تو پیٹھ کے نیچے اونچی جڑ کی وجہ سے سمجھا کہ اس کی کمر ٹوٹ گئی ہے۔ اس طرح وہ شیطان کا بیٹا اپنے انجام کو پہنچا اگرچہ اس دوران اس نے ہم دونوں کی جان بھی تقریباً نکال ہی لی تھی۔ میری ہتھیلی کی کھال کو تھوڑا سا نقصان پہنچا اور پنوا کو خراش تک نہ آئی تھی اور اس کے پاس سنانے کو شاندار داستان تھی۔ حوالدار انتہائی عقلمند تھا اور سامنے نہیں آیا تھا۔ پھر بھی اس نے سور کے گوشت سے بڑا حصہ مانگا کہ کیا وہ ہمارے ساتھ نہیں کھڑا تھا؟  اگر ہم مدد مانگتے تو وہ مدد نہ کرتا؟  کیا یہ رواج نہیں کہ شکار پر ساتھ جانے والے افراد کو دوگنا حصہ ملتا ہے؟  ویسے بھی گولی چلتے دیکھنے یا سننے میں کیا فرق ہے کہ سور تو اسی گولی سے مرا تھا؟  اس لیے اسے دوگنا حصہ ملا اور اس کے پاس بھی سنانے کو شاندار داستان تھی۔

پنوا اب اس گھر میں رہتا اور اپنے خاندان کو پالتا ہے جو میں نے اس کے باپ کو بنوا کر دیا تھا۔ کنٹھی کی رخصتی ہو گئی تھی اور شیر سنگھ اگلے جہاں میرا منتظر ہوگا۔ پنوا کی ماں ابھی زندہ ہے اور اگر آپ گاؤں کے داخلی دروازے پر رک کر کھیتوں میں سیر کریں گے تو پنوا کے گھر میں وہ گھر کی دیکھ بھال کرتی ملے گی، حالانکہ دن بھر اسے ہزار کام کرنے ہوتے ہیں، جو وہ رخصتی کے دن سے کرتی آئی ہے۔

جنگ کے دوران جب میں کئی سال باہر رہا تو میگی ہمارے گھر کالا ڈھنگی میں رہی اور نزدیک ترین آبادی بھی چودہ میل دور تھی، مگر مجھے اس کے بارے کبھی تشویش نہیں ہوئی کہ وہ میرے دوستوں، ہندوستان کے غریبوں کے ساتھ رہ رہی تھی۔

٭٭٭

۰۴۔ سرخ فیتے سے قبل کا دور​

ایک بار موسمِ سرما میں ترائی میں اینڈرسن اور میں مقیم تھے جو کہ ہمالیہ کے دامن میں پٹی ہے۔ ایک بار جنوری میں صبح صبح ہم بندو کھیڑا سے ناشتہ کر کے نکلے اور بکسر کی جانب لمبا چکر کاٹ کر گئے، جو ہمارے اگلے کیمپ کا مقام تھا۔ لمبے چکر کی وجہ یہ تھی کہ ہمارے ملازمین کو خیمے اکھاڑنے، منتقل کرنے اور پھر دوبارہ نصب کرنے کا وقت مل جاتا۔ بندو کھیڑا اور بکسر کے درمیان دو دریا تھے جن پر پُل نہیں تھے اور دوسرے دریا کو عبور کرتے ہوئے ہمارے خیموں والا اونٹ پھسل گیا اور سارا سامان پانی میں ڈوب گیا۔ اس کو نکالنے میں کافی تاخیر ہوئی اور جب ہم پورا دن کالے تیتر کا بہترین شکار کر کے پہنچے تو ہمارا سامان تب جا کر اترنے لگا تھا۔ یہ مقام بکسر کے گاؤں سے چند سو گز دور تھا اور اینڈرسن کی آمد معمولی واقعہ نہیں تھا، اس لیے پورے گاؤں کی آبادی ہمیں خوش آمدید کہنے اور خیموں کی تنصیب میں مدد کرنے آ گئی۔

سر فریڈرک اینڈرسن اس وقت ترائی اور بھابھر کے حکومتی سربراہ تھے اور کئی ہزار مربع میل پر رہنے والے ہر قوم، نسل اور مذہب کے افراد سے ملنے والی محبت سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ عوام سے کتنے قریب تھے۔ ان کی مہربان طبعیت کے علاوہ اینڈرسن بہت اچھے منتظم تھے اور ان کی یادداشت کا مقابلہ صرف سر ہنری ریمزے سے کیا جا سکتا ہے جو اینڈرسن سے قبل اٹھائیس سال تک اسی جگہ کے حکمران تھے۔ سر ہنری ریمزے کو کماؤں کا غیر اعلانیہ بادشاہ مانا جاتا تھا۔ ریمزے اور اینڈرسن سکاٹش تھے اور دونوں کے بارے مشہور تھا کہ انہیں کوئی شکل اور نام نہیں بھولتا۔ ہندوستان کے غریب اور مسکین لوگوں سے تعلق رکھنے والا ہر انسان جانتا ہے کہ جب ان لوگوں کو ملاقات پر ان کے نام سے بلایا جائے یا ان سے ملاقات یاد رکھی جائے تو یہ کتنا خوش ہوتے ہیں۔ جب بھی ہندوستان میں برطانوی راج کے عروج و زوال پر لکھا جائے گا، برطانوی راج کے زوال کے اسباب میں سرخ فیتے کی اہمیت پر بھی لکھا جائے گا۔ ریمزے اور اینڈرسن نے جب کام کیا تھا تو اس دور میں سرخ فیتہ دور دور تک نہیں تھا۔ بطور منتظم ان کی شہرت اور ان کی کامیابی کی وجہ ہی یہی تھی کہ ان کے ہاتھ سرخ فیتے سے نہیں بندھے تھے۔

ریمزے کماؤں کے جج، میجسٹریٹ، پولیس، فارسٹ آفیسر اور انجینیر بھی تھے اور ان کی ذمہ داریاں مختلف النوع تھیں اور اکثر ایک کیمپ سے دوسرے کو چلتے ہوئے وہ انہیں سرانجام دیتے جاتے تھے۔ عموماً ان کے ساتھ لوگوں کا ہجوم چلتا تھا اور اسی دوران وہ فوجداری اور دیوانی مقدمات کا فیصلہ کرتے جاتے تھے۔ پہلے مدعی اور گواہان کو سنا جاتا اور پھر ملزم اور اس کے گواہان کو اور پھر مناسب سوچ بچار کے بعد فیصلہ سنایا جاتا جو قید یا جرمانہ بھی ہو سکتا تھا۔ کبھی ان کے فیصلے پر اعتراض نہ ہوا اور نہ ہی جس بندے کو انہوں نے قید یا جرمانے کا فیصلہ سنایا ہو، نے فوراً خزانے جا کر جرمانہ نہ بھرا ہو یا عام قید یا با مشقت کی صورت میں بھی جا کر خود کو نزدیکی جیل داخل نہ کرایا ہو۔ ترائی اور بھابھر کے سپرنٹنڈنٹ ہونے کی وجہ سے انہیں سابقہ منتظم یعنی سر ریمزے کی نسبت کم ذمہ داریاں ملی ہوئی تھیں مگر ان کے اختیارات زیادہ وسیع تھے۔ شام کو جب بکسر کے کیمپنگ گراؤنڈ میں ہمارے خیمے لگ رہے تھے تو اینڈرسن نے لوگوں کو جمع ہو کر سامنے بٹھایا اور کہا کہ وہ ان کی شکایات سننا چاہتے ہیں۔ پہلی شکایت بکسر کے ساتھ والے دیہات کے نمبر دار کی تھی۔ بکسر اور دوسرے دیہات کو بکسر سے بہنے والی ندی سے پانی ملتا تھا۔ بارشوں کی کمی کی وجہ سے ندی کا پانی دونوں دیہاتوں کے لیے ناکافی تھا اور بکسر نے سارا پانی استعمال کر لیا تھا۔ نتیجتاً زیریں گاؤں کے چاول کی فصل تباہ ہو گئی تھی۔ بکسر کے نمبر دار نے تسلیم کیا کہ ان لوگوں نے سارا پانی خود ہی استعمال کر لیا تھا کیونکہ اگر پانی کو برابر تقسیم کیا جاتا تو دونوں دیہاتوں کی فصلیں پانی کی کمی سے تباہ ہو جاتیں۔ چند روز قبل بکسر کی فصل کٹ چکی تھی۔ ریمزے نے دونوں فریقین کی بات سن کر فیصلہ دیا کہ بکسر کی فصل رقبے کے اعتبار سے دونوں دیہاتوں میں تقسیم کی جائے گی۔ بکسر والوں نے اس انصاف کو سراہا اور کہا کہ چونکہ انہوں نے کاشتکاری کی محنت کی ہے، سو انہیں اس کا معاوضہ ملنا چاہیے۔ اس پر زیریں گاؤں والوں نے اعتراض کیا کہ بکسر والوں نے ان سے مدد کا کہا ہی نہیں تھا۔ اینڈرسن نے اس اعتراض کو تسلیم کیا اور پھر دونوں نمبر دار ایک طرف جا کر فصل کو تقسیم کرنے لگے۔ اگلی شکایت پیش ہوئی۔

یہ شکایت چاڈی نے پیش کی کہ کالو نے اس کی بیوی تلنی کو اغوا کیا ہے۔ اس نے بتایا کہ تین ہفتے قبل کالو نے اس کی بیوی کی طرف پیش قدمی کی اور نتیجتاً اس کی بیوی اس کا گھر چھوڑ کر کالو کے گھر رہنے چلی گئی ہے۔ جب اینڈرسن نے پوچھا کہ کالو کہاں ہے تو ہمارے سامنے نیم دائرے کے ایک کنارے سے بندہ اٹھ کر بولا کہ وہ کالو ہے۔

جب فصل کا مقدمہ زیرِ سماعت تھا تو سامنے جمع عورتوں اور لڑکیوں نے توجہ نہیں دی تھی۔ اب چونکہ ایک عورت کا مقدمہ سامنے تھا تو وہ پوری طرح متوجہ ہو گئیں۔ ان کے تیز چلتے سانسوں سے اندازہ ہو رہا تھا کہ انہیں اس مقدمے سے کتنی دلچسپی ہے۔ جب اینڈرسن نے کالو سے پوچھا کہ آیا وہ الزام کو تسلیم کرتا ہے تو اس نے بتایا کہ تلنی اس کے گھر رہ رہی ہے مگر اس نے اغوا کی بات سے یکسر انکار کیا۔ جب اینڈرسن نے پوچھا کہ کیا تلنی اپنے شوہر کے پاس واپس بھیج دی جائے تو اس نے بتایا کہ تلنی اپنی مرضی سے آئی ہے، سو وہ اسے واپس جانے پر مجبور نہیں کر سکتا۔ اینڈرسن نے پوچھا، ’’تلنی کہاں ہے؟‘‘ عورتوں سے ایک لڑکی اٹھ کر سامنے آئی اور بولی، ’’میں تلنی ہوں۔ فرمائیے۔‘‘

تلنی اٹھارہ برس کی خوبصورت لڑکی تھی۔ اس کے بال ترائی کی خواتین کی مانند سر پر ایک فٹ اونچے منارے کی شکل میں تھے اور اس نے سفید گوٹے والی کالی ساڑھی پہن رکھی تھی اور سرخ قمیض، خوبصورت رنگوں والی چادر اوڑھی ہوئی تھی۔ جب اینڈرسن نے پوچھا کہ وہ اپنے شوہر کو کیوں چھوڑ آئی ہے تو اس نے چاڈی کی طرف اشارہ کیا اور بولی، ’’اسے دیکھیں۔ یہ کتنا غلیظ ہے اور کنجوس بھی۔ دو سال سے میں اس کی بیوی ہوں اور اس نے ایک بار بھی کپڑے یا زیور نہیں دیے۔ یہ جو کپڑے اور زیورات آپ دیکھ رہے ہیں، مجھے کالو نے دیے ہیں۔‘‘

اس کا اشارہ چاندی کی چوڑیوں اور شیشے کے موتیوں کے کئی ہاروں کی جانب تھا۔ جب اینڈرسن نے پوچھا کہ آیا وہ اپنے شوہر چاڈی کے پاس جانا چاہتی ہے تو اس نے صاف انکار کیا اور بولی کہ کسی قیمت پر بھی واپس نہیں جائے گی۔

یہ مقامی قبیلہ ترائی کے مضرِ صحت مقام پر آباد تھا اور ان کی دو خوبیاں مشہور تھیں۔ ایک ان کی صاف ستھرا رہنے کی عادت اور دوسرا خواتین کا آزاد ہونا۔ ہندوستان کے کسی دوسرے مقام پر لوگ ترائی کی مانند بے داغ کپڑے پہنے نہیں دکھائی دیتے اور نہ ہی کسی اور جگہ کوئی لڑکی اتنی ہمت کرتی کہ مرد و زن کے ہجوم کے سامنے کھڑی ہوتی جس میں دو سفید فام اس کا مقدمہ سن رہے ہوں، اسے اس بات کی اجازت بھی مل پاتی۔ پھر اینڈرسن نے چاڈی سے پوچھا کہ وہ کیا تجویز کرتا ہے تو اس نے جواب دیا۔

’’حضور، آپ میرے مائی باپ ہیں۔ میں آپ کے پاس انصاف کے لیے آیا ہوں۔ اگر آپ میری بیوی کو واپس لوٹنے پر مجبور نہیں کر سکتے تو مجھے اس کا معاوضہ دلائیں۔‘‘

اینڈرسن نے پوچھا، ’’کیا معاوضہ چاہتے ہو؟‘‘

چاڈی بولا، ’’مجھے ایک سو پچاس روپے چاہیں۔‘‘

اس پر مجمعے میں سرگوشیاں ہونے لگیں۔ ’’بہت زیادہ ہے۔‘‘ ’’اتنا زیادہ معاوضہ؟‘‘ ’’اس کی یہ قیمت غلط ہے۔‘‘ جب اینڈرسن نے کالو سے پوچھا کہ آیا وہ تلنی کے لیے ڈیڑھ سو روپے ادا کرنے کو تیار ہے تو اس نے جواب دیا کہ یہ قیمت بہت زیادہ ہے اور بتایا کہ بکسر کے ہر انسان کو علم ہے کہ چاڈی نے تلنی کے ایک سو روپے دیے تھے۔ اس نے دلیل دی کہ ایک سو روپے ’کنواری‘ کے تھے اور چونکہ اب وہ کنواری نہیں ہے، سو وہ محض پچاس روپے ادا کرے گا۔ اب مجمع دو حصوں میں بٹ گیا۔ کچھ کا خیال تھا کہ ڈیڑھ سو روپے بہت زیادہ ہیں اور کچھ یہ کہہ رہے تھے کہ پچاس روپے بہت کم ہیں۔

آخرکار دونوں اطراف کی باتیں سن کر، جن میں انتہائی باریک اور ذاتی تفاصیل بھی شامل تھیں اور جنہیں تلنی نے انتہائی دلچسپی سے سنا، اینڈرسن نے تلنی کی قیمت 75 روپے مقرر کی، جو کالو نے چاڈی کو دینے تھے۔ کالو نے نیفے سے تھیلی نکال کر اینڈرسن کے سامنے قالین پر خالی کر دی۔ کل رقم چاندی کے باون کل دار روپے بنی۔ پھر کالو کے دو دوست اس کی مدد کو آئے اور تیئس روپے شامل کر دیے اور اینڈرسن نے چاڈی کو رقم لینے کا کہا۔ جب اس نے رقم گن کر تسلی کر لی تو میں نے دیکھا کہ وہ عورت جو بہت کمزور عورت انتہائی تکلیف سے چل کر گاؤں سے ہماری جانب آئی تھی اور دیگر لوگوں سے ہٹ کر بیٹھی رہی، بمشکل اٹھ کھڑی ہوئی اور بولی، ’’اور میرا کیا ہوگا مائی باپ؟‘‘

اینڈرسن نے پوچھا، ’’تم کون ہو؟‘‘

اس نے جواب دیا، ’’میں کالو کی بیوی ہوں۔‘‘

یہ طویل قامت اور انتہائی کمزور خاتون تھی جس کے تن سے جیسے تمام تر لہو نچوڑ لیا گیا ہو۔ اس کا چہرہ بالکل سفید تھا اور انتہائی بڑھی ہوئی تلی کی وجہ سے اس کا پیٹ نکلا اور پیر سوجے ہوئے تھے جو ملیریا کی وجہ سے ہوتا ہے۔ ترائی میں ملیریا کی بیماری عام ہے۔ تھکی ہوئی آواز میں اس نے بتایا کہ اب کالو نے دوسری بیوی خرید لی ہے تو وہ بے گھر ہو جائے گی۔ چونکہ اس کے کوئی رشتہ دار اس گاؤں میں نہیں رہتے اور بیماری کی وجہ سے وہ کام کے قابل بھی نہیں رہی تو وہ عدم توجہی اور بھوک سے مر جائے گی۔ پھر اس نے اپنا چہرہ ڈھانپا اور سسکیاں لینے لگی۔ اس کا پورا بدن لرز رہا تھا اور آنسو نیچے گر رہے تھے۔

یہ غیر متوقع اور پیچیدہ صورتحال تھی اور اینڈرسن کے لیے اس کا حل نکالنا آسان نہ تھا۔ جتنی دیر کالو کا مقدمہ چلتا رہا، کسی نے اشارتاً بھی کالو کی پہلی بیوی کا نہیں بتایا تھا۔ اس عورت کی تکلیف دہ سسکیوں کو زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ تلنی جو ابھی تک کھڑی تھی، بھاگ کر اس بیچاری عورت کے قریب گئی اور اسے اپنی بانہوں میں لے کر بولی، ’’بہن، رو مت۔ ایسے مت کہو کہ تم بے گھر ہو، میں کالو کے دیے ہوئے جھونپڑے میں تمہارے ساتھ رہوں گی اور میں خود تمہارا خیال رکھوں گی اور کالو جو بھی مجھے دے گا، اس میں سے آدھا تمہارا ہوگا۔ میری بہن، مت رو۔ آؤ میرے ساتھ میرے جھونپڑے کو چلو۔‘‘

جب تلنی اور بیمار خاتون چلی گئیں تو اینڈرسن نے کھڑے ہو کر زور سے اپنا ناک صاف کیا اور کہا کہ پہاڑی ہوا بہت سرد ہے اور آج کی سماعت یہیں تمام ہوتی ہے۔ شاید پہاڑی ہوا نے دیگر افراد پر بھی اینڈرسن کی طرح اثر کیا تھا کیونکہ بہت سارے دیگر لوگ بھی اپنا ناک صاف کر رہے تھے۔ مگر سماعت ابھی ختم نہیں ہوئی تھی کہ چاڈی اینڈرسن کے پاس پہنچ کر بولا کہ وہ اپنا مقدمہ واپس لیتا ہے۔ اس نے اپنی عرضی پھاڑ ڈالی اور اپنے نیفے سے پچھتر روپے نکال کر بولا”

’’کالو اور میں ایک ہی گاؤں سے ہیں اور اب چونکہ اس نے دو پیٹ بھرنے ہیں اور ایک کو زیادہ طاقت والی خوراک درکار ہے، سو اسے یہ رقم درکار ہوگی۔ مائی باپ، آپ کی اجازت سے میں یہ رقم اسے واپس کرتا ہوں۔‘‘

سرخ فیتے سے قبل اینڈرسن نے باہمی اتفاق سے سینکڑوں، بلکہ ہزاروں ایسے مقدمات نمٹائے تھے جن میں فریقین کو ایک پائی کی فیس بھی ادا نہیں کرنی پڑی۔ چونکہ اب سرخ فیتہ متعارف ہو چلا ہے، سو ان مقدمات کو عدالت لے جانا پڑتا ہے اور اس دوران فریقین سے بھاری خراج وصول کیا جاتا ہے جہاں سے نفرت اگتی ہے اور نتیجتاً مزید مقدمات کا سلسلہ شروع ہوتا ہے جو غریب، سادہ اور ایماندار محنت کشوں کو دیوالیہ اور وکلاء کو امیر بناتا جاتا ہے۔

٭٭٭

۰۵۔ جنگل کا قانون​

ہرکور اور کنٹھی کی شادی جب ہوئی تو ان کی کل عمروں کا مجموعہ دس سال سے کم تھا۔ ان دنوں اس عمر میں شادی ہندوستان کا عام رواج تھا۔ اگر مہاتما گاندھی اور مس مایو یہاں نہ پیدا ہوتے تو یہ رواج اب تک چل رہا ہوتا۔

ہرکور اور کنٹھی کے گاؤں دناگری پہاڑ کے دامن میں ایک دوسرے سے چند میل کے فاصلے پر تھے۔ دونوں نے پہلی بار ایک دوسرے کو تب دیکھا جب دونوں رشتہ داروں اور دوستوں کے مجمع میں دلہا دلہن بنے۔ یہ دن ان کی یادداشت میں ہمیشہ یاد رہے گا کہ اس روز انہوں نے حلوہ پوری اتنی زیادہ کھائی کہ ان کے ننھے ننھے پیٹ پھٹنے کو آ گئے۔ یہ دن ان کے باپوں اور گاؤں کے بنیوں کو بھی ہمیشہ یاد رہے گا کہ بنیا چونکہ ان کا مائی باپ ہے، نے ان کی مجبوری کو سمجھا اور چند روپے قرض دیئے۔ ان روپوں کی مدد سے ہی وہ اپنے بچوں کی شادی اس عمر میں کرنے کے قابل ہوئے کہ جس عمر میں بچوں کی شادی ہو جانی چاہیئے۔ اس خوش نصیب دن کا انتخاب گاؤں کے پنڈت نے کیا۔ بنیئے نے اپنے رجسٹر میں ان کے نام درج کر دیئے۔ بے شک پچاس فیصد سود بہت مہنگا تھا لیکن اس کی ادائیگی بھی لازمی تھی کہ دیگر بچے بھی جلد ہی شادی کی عمر کو پہنچنے والے تھے۔ ان کی بار بھی بنیا ہی کام آتا۔

شادی کے بعد کنٹھی پھر اپنے باپ کے گھر کو چلی گئی جہاں وہ اگلے کئی سال تک ہر وہ کام کرتی رہی جو غریبوں کے بچے اپنے گھروں میں کرتے ہیں۔ تاہم کنواری لڑکیوں کے برعکس اب کنٹھی کو محض ایک کپڑے سے اپنا جسم ڈھانکنے کی اجازت نہیں تھی۔ اس کا نیا لباس ایک ڈیڑھ گز لمبی چادر، جس کا ایک سرا سکرٹ میں اور دوسرا سرا سر پر تھا، ایک بغیر بازو کی قمیض اور ایک چند انچ لمبا سکرٹ تھا۔

اس طرح کئی سال گذر گئے۔ ۔ جب کنٹھی کی عمر اتنی ہو گئی کہ وہ اپنے خاوند کے ساتھ اپنی نئی زندگی کا آغاز کر سکے، اس کی رخصتی کا دن آ گیا۔ ایک بار پھر بنیا ان کی مدد کو آیا اور اس نے دلہن کے لئے نئے کپڑوں کا انتظام کیا اور آنسو بھری آنکھوں کے ساتھ اپنے پیا کے گھر سدھار گئی۔ اس منتقلی کا صرف اتنا سا اثر ہوا کہ ہر وہ کام جو کنٹھی اپنے باپ کے گھر کرتی تھی، اب اپنے سسرال میں سرانجام دینے لگی۔ ہندوستان میں غریب لوگوں کے گھر چھوٹے بڑے کی کوئی تمیز نہیں ہوتی اور ہر فرد کو اپنی اپنی ذمہ داری بخوشی سرانجام دینی ہوتی ہے۔ کنٹھی اب کھانا پکانے کی عمر کو پہنچ چکی تھی۔ ناشتے کے بعد ہر وہ فرد جو مزدوری کر سکتا، مزدوری کرنے نکل جاتا اور چاہے ان کی مزدوری کی اجرت کتنی ہی کم کیوں نہ ہو، گھر کو چلانے میں اہم کردار ادا کرتی۔ ہرکور کا باپ مستری تھا اور ایک امریکی مشن سکول کی تعمیر میں کام کر رہا تھا۔ جب ہرکور بڑا ہوتا تو اپنے باپ کے پیشے کو ہی جاری رکھتا۔ تاہم ابھی اس کا کام اپنے باپ اور دیگر مستریوں کو تعمیراتی ساز و سامان لا کر دینا تھا۔ دس گھنٹے طویل اس مزدوری کے بدلے اسے دو آنے ملتے۔ کھیتوں میں فصلیں تیار ہونے والی تھیں۔ ناشتے کے بعد جب کنٹھی برتن دھو مانجھ لیتی تو اپنی ساس اور بہت ساری نندوں کے ہمراہ نمبر دار کے کھیتوں کو چل دیتی جہاں گاؤں کی دیگر عورتیں بھی فصل کاٹنے کو آئی ہوئی ہوتیں۔ یہاں کنٹھی دس گھنٹے کام کرتی اور اس کے بدلے اسے محض ایک آنہ ملتا۔ اندھیرا ہونے کے بعد یہ عورتیں اور کنٹھی اپنے گھر آن پہنچتیں۔ یہ گھر نمبر دار کی مہیا کردہ جگہ پر ہرکور کے باپ نے بنایا تھا۔ بڑوں کی عدم موجودگی میں بچوں نے خشک لکڑیاں جمع کی ہوتی تھیں جن کی مدد سے رات کا کھانا پکتا اور کھایا جاتا۔ رات کے کھانے کے بعد جب برتن دھو مانجھ لئے جاتے تو کنٹھی دیگر لڑکیوں کے ہمراہ ایک کونے میں جبکہ ہرکور اپنے بھائیوں اور باپ کے ساتھ دوسرے کونے میں جا کر سو جاتا۔ جب ہرکور کی عمر اٹھارہ اور کنٹھی کی عمر سولہ سال ہوئی تو دونوں اپنی چند اشیا اٹھا کر گھر سے نکلے۔ رانی کھیت کی چھاؤنی سے تین میل دور ہرکور کے چچا نے اسے جھونپڑا بنانے کے لئے جگہ فراہم کی تھی۔ اس جگہ کئی بیرکیں زیر تعمیر تھیں اور بہ آسانی ہرکور کو مستری کی جگہ مل گئی اور کنٹھی بطور مزدور کام کرنے لگی۔ اس کے ذمے پتھر اٹھا کر مستریوں کے پاس زیر تعمیر جگہ تک لے جانا تھا۔

چار سال تک یہ جوڑا رانی کھیت کی چھاؤنی میں کام کرتا رہا۔ اس دوران کنٹھی کے ہاں دو بچے پیدا ہوئے۔ چوتھے سال نومبر کے وقت چھاؤنی کی تعمیر مکمل ہو گئی اور ہرکور اور کنٹھی کو اب کسی نئی جگہ کام کی تلاش کرنی تھی۔ ان کے پاس جو تھوڑی بہت جمع پونجی تھی وہ چند دن تک ہی خوراک کے لئے کافی ہوتی۔

اس سال سردیاں جلدی شروع ہوئیں اور اندازہ تھا کہ اس بار سردیاں بہت شدید ہوں گی۔ اس خاندان کے پاس گرم کپڑے نہیں تھے اور ہفتہ بھر مزدوری کی ناکام تلاش کے بعد ہرکور نے تجویز پیش کی کہ اس نے سنا ہے کہ پہاڑ کے دامن میں نہر کی تعمیر جاری ہے اور وہاں مزدوری کی کمی نہیں۔ کیوں نہ وہ لوگ وہاں منتقل ہو جائیں؟  سو دسمبر کے شروع میں یہ پورا خاندان بلند حوصلوں کے ساتھ دامن کی طرف چل پڑا۔ ان کے گاؤں اور پہاڑ کے دامن یعنی کالا ڈھنگی گاؤں جہاں نہر کا کام ہو رہا تھا، کا درمیانی فاصلہ پچاس میل بنتا ہے۔ رات کو درختوں کے نیچے سوتے، دن کے وقت پہاڑ کی چڑھائیاں اترائیاں طے کرتے اور اپنے سارے سامان اور بچوں کو باری باری اٹھاتے ہوئے یہ لوگ چھ دن بعد کالا ڈھنگی پہنچے۔

اچھوت ذات کے دیگر بے زمین افراد بہت پہلے ہی ادھر ہجرت کر آئے تھے اور انہوں نے اپنے واسطے جھونپڑے تعمیر کر لئے تھے۔ ہر جھونپڑے میں تیس تک افراد رہ سکتے تھے۔ یہاں ہرکور اور کنٹھی کو رہائش نہیں ملی۔ انہوں نے اپنے لئے اپنا جھونپڑا تعمیر کرنے کا سوچا۔ انہوں نے جنگل کے کنارے ایک جگہ منتخب کی جہاں ایندھن کی فراوانی اور بازار کا قرب تھا۔ علی الصبح اور شام کو کام کرتے ہوئے انہوں نے پتوں اور شاخوں سے اپنا چھوٹا سا جھونپڑا بنایا۔ ان کے پاس رقم نہیں تھی اور یہاں کوئی بنیا بھی نہیں تھا کہ جس سے مدد مانگی جاتی۔

وہ جنگل جس کے کنارے انہوں نے ا پنا جھونپڑا بنایا، میری پسندیدہ شکار گاہ تھی۔ اس جنگل میں پہلے پہل میں مزل لوڈر بندوق لے کر گھر کے کھانے کے لئے سرخ جنگلی مرغ مارنے نکلتا تھا اور بعد ازاں بڑے شکار کی تلاش میں جدید رائفل کی مدد سے میں نے اس کا کونہ کونہ چھان مارا۔ جس وقت ہرکور اور کنٹھی نے اس جنگل کے کنارے ڈیرہ جمایا، اس وقت ان کے دو بچے تھے۔ لڑکا پنوا تھا جو تین سال کا تھا اور پتلی جو دو سال کی لڑکی تھی۔ اس وقت میرے علم کے مطابق جنگل میں کم از کم پانچ شیر، آٹھ تیندوے، چار ریچھوں کا خاندان، دو ہمالیائی کالے ریچھ، جو اونچے علاقوں سے یہاں آلوبخارے اور شہد کی تلاش میں آئے تھے، بے شمار لگڑبگڑ جو پانچ میل دور اپنی کھوؤں میں رہتے تھے اور شیروں اور تیندوؤں کے شکار پر ہاتھ صاف کرتے تھے، دو جنگلی کتے، بے شمار گیدڑ، لومڑیاں اور پائن مارٹن تھے، بھیڑیئے اور دیگر اقسام کی بلی کے خاندان کی مخلوقات بھی تھیں۔ اس کے علاوہ یہاں دو پائتھن، بے شمار دیگر اقسام کے سانپ، بازوں کی کئی اقسام اور سینکڑوں گدھ بھی موجود تھے۔ میں نے ہرن، بارہ سنگھوں، سور اور بندروں کا ذکر نہیں کیا کہ وہ انسان کے لئے خطرہ نہیں ہوتے، اس لئے ان کا تذکرہ فضول ہے۔

جس دن ان کا جھونپڑا مکمل ہوا، ہرکور کو آٹھ آنے روز کی مزدوری پر باقاعدہ مستری کی ملازمت مل گئی اور کنٹھی نے دو روپے بھر کر حکومت کے محکمہ جنگلات سے گھاس کاٹنے کا اجازت نامہ لے لیا۔ یہ گھاس بازار میں دوکان دار بطور چارہ بیچتے تھے۔ اس کا سبز گھاس کا بنڈل جو شاید تیس سے چالیس کلو تک وزنی ہوتا تھا اور جس کے لئے اسے کم از کم دس سے چودہ میل کا سفر طے کرنا ہوتا تھا جس کا زیادہ تر حصہ چڑھائی اور اترائی تھی، کنٹھی کو چار آنے ملتے۔ ایک آنہ وہ بندہ لے جاتا جو حکومت کی طرف سے بازار میں گھاس کی فروخت کا ٹھیکہ لئے ہوئے تھا۔ آٹھ آنے جو ہرکور کماتا تھا اور تین آنے جو کنٹھی کماتی تھی، چار افراد کا خاندان آرام اور سکون سے گذر بسر کر رہا تھا۔ اس وقت خوراک عام اور سستی تھی۔ اب پہلی بار وہ مہینے میں ایک بار گوشت کھانے کے قابل ہو گئے تھے۔

ہرکور اور کنٹھی نے یہاں تین ماہ رہنے کا سوچا تھا اور اس کے دو ماہ ہنسی خوشی گذر گئے۔ کام کا دورانیہ بہت طویل تھا اور اس میں کوئی وقفہ نہیں تھا لیکن وہ لوگ بچپن سے اس زندگی کے عادی تھے۔ موسم بہترین تھا اور بچے بھی اچھی حالت میں تھے۔ یہاں آنے کے بعد جھونپڑے کی تعمیر پر لگنے والے چند دنوں کے سوا وہ بھوکے نہیں رہے تھے۔

شروع شروع میں بچوں کی وجہ سے پریشانی ہوئی تھی کہ وہ نہ تو ہرکور کے ساتھ اس کے کام پر جا سکتے تھے اور نہ ہی کنٹھی کے ساتھ گھاس کی تلاش میں لمبے سفر پر جانا ان کے لئے ممکن تھا۔ پھر چند سو گز دور ایک اور جھونپڑے میں رہنے والی ایک بوڑھی عورت ان کی مدد کو آئی اور انہیں کہا کہ ان کی غیر موجودگی میں وہ ان بچوں پر عمومی نظر رکھے گی۔ دو ماہ تک یہ سلسلہ بخوبی چلتا رہا اور ہر شام کو پہلے چار میل کا فاصلہ طے کر کے ہرکور واپس آتا اور اس کے کچھ دیر بعد کنٹھی بھی گھاس بیچ کر آ جاتی۔ پنوا اور پتلی بے چینی سے ان کی واپسی کا انتظار کرتے۔

جمعے کے دن کالا ڈھنگی میں بازار لگتا اور آس پاس کے دیہاتوں سے لوگ ادھر بازار کا رخ کرتے جہاں سستی خوراک، پھلوں اور سبزیوں کے لئے عارضی دکانیں بنتیں۔ جمعے کے دن ہرکور اور کنٹھی اپنے معمول کے وقت سے نصف گھنٹہ پہلے آ جاتے تاکہ اگر کوئی سبزی باقی بچی ہو تو اسے کم قیمت پر خریدا جا سکے۔ اس کے بعد یہ عارضی دکانیں رات کے لئے بند ہو جاتیں۔

ایک خاص جمعے کے دن جب ہرکور اور کنٹھی بازار سے ضرورت کے مطابق سبزی اور پاؤ بھر بکری کا گوشت لے کر پہنچے تو پنوا اور پتلی گھر پر نہ تھے۔ ہمسائی بوڑھی عورت سے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ دوپہر سے اس نے بچوں کو نہیں دیکھا۔ اس نے یہ بھی بتایا کہ شاید بچے بازار میں جھولے جھولنے دیگر بچوں کے ہمراہ چلے گئے ہوں گے۔ چونکہ یہ عام فہم بات تھی، اس لئے ہرکور بچوں کو ڈھونڈنے بازار کو چل دیا جبکہ کنٹھی کھانا بنانے گھر کو چل دی۔ ایک گھنٹے بعد ہرکور واپس آیا۔ اس کے ساتھ بہت سارے آدمی تھے جنہوں نے بچوں کی تلاش میں اس کی مدد کی تھی۔ انہوں نے بتایا کہ وہ بچوں کو تلاش کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ جتنے بھی آدمیوں سے انہوں نے پوچھا، کسی نے بھی بچوں کو نہیں دیکھا تھا۔

ان دنوں یہ افواہ پھیلی ہوئی تھی کہ فقیر بچوں کو اغوا کر کے صوبہ سرحد میں غیر اخلاقی کاموں کے لئے بھیج دیتے ہیں۔ میں یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ اس افواہ میں کتنی صداقت تھی تاہم اخبار میں یہ خبریں پڑھنا عام معمول تھا کہ اکثر جگہوں پر لوگوں نے فقیروں پر تشدد کیا ہے اور پولیس اگر ان کی مدد نہ کرتی تو شاید یہ فقیر مار دیئے جاتے۔ ان دنوں ہندوستان میں تمام والدین ان افواہوں سے متاثر تھے۔ جب ہرکور واپس لوٹا تو اس نے اپنے خدشات کا اظہار کیا کہ شاید میلے میں اغوا کی نیت سے آنے والے فقیروں نے ان کے بچوں کو اغوا کر لیا ہے۔

گاؤں کے نچلے سرے پر پولیس کی ایک چوکی تھی اور وہاں ہیڈ کانسٹیبل اور دو کانسٹیبل متعین تھے۔ بہی خواہوں کے ہجوم کے ساتھ ہرکور اور کنٹھی پولیس سٹیشن پہنچے۔ ہیڈ کانسٹیبل ایک نرم دل کا بوڑھا آدمی تھا جو خود بھی صاحب اولاد تھا۔ اس نے ہرکور اور کنٹھی کی بات آرام سے سنی اور ان کے بیان کو اپنی ڈائری میں لکھ دیا اور بولا کہ ابھی تو رات ہو رہی ہے۔ ابھی کچھ کرنا مشکل ہے۔ تاہم اگلی صبح وہ ڈھنڈورچی کو آس پاس کے تمام دیہاتوں میں بھیجے گا۔ اس نے مشورہ دیا کہ بچوں کی بحفاظت واپسی کے لئے ضروری ہے کہ پچاس روپے کا انعام بھی رکھا جائے۔ ہرکور اور کنٹھی پچاس روپے کا نام سن کر ششدر رہ گئے۔ انہیں علم ہی نہیں تھا کہ دنیا میں اتنی بڑی رقم بھی ہو سکتی ہے۔ تاہم اگلے دن ڈھنڈورچی آس پاس کے تمام دیہاتوں میں جا کر ڈھنڈورا پیٹ کر آ گیا اور اس نے پچاس روپے انعام کا بھی اعلان کیا۔ ہیڈ کانسٹیبل کی تجویز سن کر کالا ڈھنگی کے ایک آدمی نے یہ رقم دینے پر آمادگی ظاہر کر دی تھی۔

اس رات کا کھانا دیر سے کھایا گیا۔ بچوں کا حصہ الگ سے رکھ دیا گی۔ ساری رات سردی سے بچاؤ کے لئے آگ جلائی رکھی گئی۔ وقفے وقفے سے ہرکور اور کنٹھی باہر جا کر بچوں کو آواز دیتے اگرچہ انہیں علم تھا کہ انہیں کوئی جواب نہیں ملنا۔

کالا ڈھنگی میں دو سڑکیں ایک دوسرے کو زاویہ قائمہ پر کاٹتی ہیں۔ ایک سڑک ہلدوانی سے رام نگر کو پہاڑ کے دامن سے گذر کر جاتی ہے اور دوسری نینی تال سے بزپور کی طرف۔ جمعے کی رات ہرکور اور کنٹھی آگ کے پاس بیٹھے رہے کہ سردی بہت شدید تھی۔ انہوں نے سوچا کہ اگر بچے صبح تک نہ آئے تو وہ پہلی سڑک پر جائیں گے اور راستے میں لوگوں سے پوچھتے جائیں گے۔ اغوا کنندگان کے لئے یہ سڑک ممکنہ راستہ ہو سکتی تھی۔ ہفتے کی صبح سویرے پو پھٹتے ہی وہ کانسٹیل کی طرف گئے تاکہ اسے اپنے پروگرام کا بتا سکیں اور راستے میں رام نگر اور ہلدوانی میں بھی پولیس کو رپورٹ درج کرا سکیں۔ نرم دل پولیس ہیڈ کانسٹیبل نے بتایا کہ وہ ہلدوانی کے انسپکٹر صاحب کو خط بذریعہ ہرکارہ بھیج رہا ہے تاکہ وہ تمام ریلوے جنکشنوں پر تار سے اطلاع کرا دیں تاکہ بچوں کی تلاش کا دائرہ بڑھایا جا سکے۔ خط میں وہ بچوں کا حلیہ بھی لکھ رہا ہے۔

اس روز سورج غروب ہوتے وقت کنٹھی اپنی چوبیس میل لمبے سفر سے واپس آئی۔ وہ ہلدوانی کے پولیس سٹیشن سے ہو کر آئی تھی تاکہ اپنے بچوں کے بارے اطلاع کر سکے اور واپس آ کر اس نے ہیڈ کانسٹیبل کو اپنی ناکامی کا بتایا ۔ اسی وقت ہرکور اپنے چھتیس میل لمبے سفر سے واپس آیا۔ وہ رام نگر براہ راست پولیس سٹیشن گیا تھا تاکہ بچوں کے بارے معلوم کر سکے اور ان کی گمشدگی کی اطلاع بھی دے سکے۔ اگرچہ اسے ناکامی ہوئی تاہم اس نے ویسے ہی کیا جیسا کہ اسے ہیڈ کانسٹیبل نے بتایا تھا۔ اسی اثناٗ میں بہت سارے بہی خواہ اور آس پاس کی مائیں ، جن کو اپنے بچوں کی فکر لگ گئی تھی، ان کے جھونپڑے کے سامنے جمع تھے تاکہ ہرکور اور پنوا کی ماں سے افسوس کر سکیں۔ ہندوستان میں شادی کے بعد عورت اپنا پیدائشی نام گنوا دیتی ہے۔ کنٹھی کو شادی کے بعد پہلے پہل ’ہرکور کی بیوی‘ اور پنوا کی پیدائش کے بعد سے ’پنوا کی ماں‘ کہا جاتا تھا۔

اتوار کا دن ہفتے کے دن کی طرح گذرا۔ فرق صرف اتنا تھا کہ اس بار کنٹھی اور ہرکور شرقاً غرباً کی بجائے شمالاً جنوباً گئے۔ کنٹھی نینی تال کی طرف اور ہرکور بزپور کو گیا۔ کنٹھی کا سفر تیس میل کا تھا اور ہرکور کا بتیس میل۔ صبح سویرے نکلنا اور رات گئے کو واپس آنا، ان دونوں نے سفر کا بڑا حصہ جنگلی پگڈنڈیوں پر طے کیا جہاں عموماً لوگ بڑی جماعتوں کی شکل میں جاتے تھے اور جہاں سے اکیلے گذرنے کا خواب بھی ہرکور اور کنٹھی نہ دیکھ پاتے اگر انہیں بچوں کی پریشانی نہ ہوتی۔ جنگل میں جنگلی درندوں اور ڈکیتوں کا خطرہ تھا۔

اتوار کی رات کو جب وہ نینی تال اور بز پور سے ناکام واپس آئے تو انہیں پتہ چلا کہ پولیس کی تفتیش اور ڈھنڈورچی کو بھی ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ یہ سنتے ہی ان کا حوصلہ جواب دے گیا۔ انہوں نے سوچا کہ شاید اب وہ پنوا اور پتلی کو کبھی نہ دیکھ سکیں۔ یقیناً یہ ان کے دیوتاؤں کا قہر تھا کہ ایک فقیر ان کے بچے دن دیہاڑے اغوا کر گیا۔ اپنی لمبے سفر کا آغاز کرنے سے قبل انہوں نے گاؤں کے پنڈت سے مشورہ کیا تھا۔ جس نے مبارک دن کا انتخاب کر کے بتایا۔ راستے میں آنے والے ہر مندر پر وہ کچھ نہ کچھ دان کرتے اور کسی جگہ خشک لکڑیاں، کسی جگہ کنٹھی کی چادر سے کپڑے کی دھجی، کہیں ایک اور دھجی، کہ اس سے زیادہ ان کے بس میں نہیں تھا۔ کالا ڈھنگی میں ہر وہ مندر جہاں وہ اپنی اچھوت ذات کی وجہ سے داخل نہ ہو پاتے، ہاتھ اٹھا کر اپنی حاضری لگواتے جاتے۔ پھر کیوں ان پر یہ بدقسمتی نازل ہوئی؟  انہوں نے تو کبھی کسی کا کچھ نہ بگاڑا تھا۔

پیر کے دن وہ اتنے مایوس اور اتنے بد دل تھے کہ جھونپڑے سے باہر نہ نکلے۔ خوراک ختم ہو چکی تھی اور جب تک وہ کام پر واپس نہ جاتے، پیسے یا خوراک کا تصور ناممکن تھا۔ پر اب کام کا کیا فائدہ کہ کام تو وہ اپنے بچوں کے لئے کر رہے تھے۔ دوستوں کا آنا جانا لگا ہوا تھا۔ ہر ممکن طریقے سے وہ اپنی ہمدردی کا اظہار بھی کرتے رہے۔ ہرکور دروازے پر بیٹھا اپنے تاریک مستقبل کو تک رہا تھا جبکہ کنٹھی کے تو آنسو بھی خشک ہو چکے تھے۔ کونے میں بیٹھی ادھر ادھر جھول رہی تھی۔

پیر کے دن صبح کو میرا ایک واقف بندہ اپنی بھینسوں کو لے کر جنگل میں چرانے گیا تھا۔ اس جگہ جنگلی جانور اور پرندے بھی موجود تھے، جیسا کہ میں پہلے بتا چکا ہوں۔ یہ بندہ سادہ سا تھا اور اپنی زندگی کا بڑا حصہ جنگل میں بھینسوں کو چراتے ہوئے گذار چکا تھا۔ یہ بھینسیں پتاب پور کے نمبر دار کی تھیں۔ اسے شیروں سے لاحق خطرات کا بخوبی اندازہ تھا اور سورج غروب سے ذرا پہلے اس نے اپنی بھینسیں جمع کیں اور جنگل سے گذرنے والی پگڈنڈی لے کر گاؤں کو لوٹا۔ اچانک اس نے دیکھا کہ ہر بھینس راستے پر ایک جگہ رک کر دائیں گردن موڑ کر کچھ دیکھتی۔ جب پچھلی بھینس اسے دھکیلتی تو وہ آگے بڑھتی۔ جب وہ اس جگہ پہنچا تو اس نے بھی دائیں جانب مڑ کر دیکھا۔ دائیں طرف پگڈنڈی کے ساتھ ہی ایک نشیب سا تھا جہاں دو بچے لیٹے ہوئے تھے۔

اگرچہ ہفتے کے دن ڈھنڈورچی کے اعلان کے وقت وہ جنگل میں تھا تاہم اس رات اور اگلی رات ہرکور کے بچوں کی گمشدگی ہر ایک کی زبان پر تھی۔ درحقیقت یہ پورے کالا ڈھنگی کی اہم خبر بن چکی تھی۔ یہ ہی وہ بچے تھے جن پر پچاس روپے کا انعام رکھا گیا تھا۔ لیکن انہیں قتل کر کے اتنی دور کیوں لا کر پھینکا گیا تھا؟  بچے ننگے بدن تھے اور ایک دوسرے کی بانہوں میں چھپے ہوئے تھے۔ اسے اس بات کا یقین تھا کہ بچے مر چکے ہیں۔ تاہم قریب سے دیکھتے ہوئے اس نے محسوس کیا کہ بچے سانس لے رہے ہیں۔ درحقیقت وہ مردہ نہیں تھے بلکہ سو رہے تھے۔ چونکہ وہ خود بھی صاحب اولاد تھا، اس نے نرمی سے بچوں کو چھو کر جگایا۔ اگرچہ وہ خود اعلیٰ ذات کا برہمن تھا اور ان اچھوت بچوں کو چھونا اس کے لئے جرم تھا، تاہم اس طرح کے حالات میں کون دیکھتا ہے۔ بھینسوں کو ان کے حال پر چھوڑ کر کہ وہ خود اپنا راستہ جانتی ہیں، اس نے بچوں کو اٹھایا اور کالا ڈھنگی بازار کو چل دیا۔ دونوں بچے اس کے کندھوں پر تھے۔ یہ آدمی بیچارہ اتنا توانا نہ تھا کہ ہمارے پہاڑیوں کی طرح یہ بھی ملیریا کا شکار تھا۔ بچے اس پر ایک ناقابل برداشت بوجھ تھے اور ان کو اٹھائے رکھنا بہت مشکل تھا۔ اس کے علاوہ جنگل میں موجود پگڈنڈیاں شمالاً جنوباً تھیں جبکہ اسے مشرق سے مغرب کو جانا تھا۔ اس لئے اسے بار بار راستہ بدلنا پڑتا تاکہ گھنی جھاڑیوں اور گہری کھائیوں سے بچ سکے۔ تاہم بار بار رکتے ہوئے اس نے اپنا سفر جاری رکھا۔ پتلی بولنے کے قابل نہیں تھی لیکن پنوا تھوڑا بہت بول سکتا تھا اور اس نے بتایا کہ وہ کھیل رہے تھے کہ راستہ بھول گئے۔

ہرکور دروازے پر بیٹھا تھا اور رات کی تاریکی کو گھورے جا رہا تھا جہاں اب لالٹین کی روشنیاں یا ادھر ادھر جلتی ہوئی آگ دکھائی دے رہی تھی۔ پھر اس نے بازار کی طرف سے ایک چھوٹے ہجوم کو آتے دیکھا۔ ہجوم کے سامنے ایک بندہ چل رہا تھا جس کے دونوں کندھوں پر کچھ لدا ہوا تھا۔ آس پاس اور ہر طرف لوگوں کی آواز آ رہی تھی کہ ہرکور کے بچے، ہرکور کے بچے۔ اسے اپنے کانوں پر یقین نہ آیا۔ تاہم جلوس سیدھا اس کی طرف ہی آ رہا تھا۔

کنٹھی بے چاری اپنے ذہنی اور جسمانی تھکن سے نڈھال ہو کر سو چکی تھی۔ ہرکور نے اسے جھنجھوڑ کر جگایا اور اس وقت وہ دروازے کو پہنچے جب چرواہا بچوں کو کندھے پر لادے وہاں پہنچا۔

آنسوؤں سے بھری مبارکبادیں، دعائیں اور شکریوں کے بعد اور لوگوں کی مبارکبادیوں کے بعد جب کچھ سکون ہوا تو ہجوم میں سے کسی نے انعام کی رقم کی بات چھیڑ دی۔ اس جیسے غریب آدمی کے لئے پچاس روپے خزانے کے برابر تھی۔ اس سے وہ تین بھینسیں یا دس گائیں خرید سکتا تھا اور ساری زندگی کے لئے بے فکر ہو جاتا۔ تاہم یہ شخص ہجوم کی توقعات سے بڑھ کر شریف تھا۔ اس نے کہا کہ دعائیں اور شکریہ اس کے لئے انعام ہیں اور پچاس روپیوں میں سے وہ ایک پائی بھی نہیں لے گا۔ ہرکور اور کنٹھی بھی اس رقم کو بطور تحفہ یا ادھار لینے کو تیار نہیں تھے۔ انہیں ان کے بچے مل گئے تھے جب وہ انہیں دوبارہ پانے کی تمام تر امیدوں سے مایوس ہو چکے تھے۔ اب وہ اپنا کام دوبارہ شروع کر سکتے تھے۔ اس دوران ہجوم میں سے چند افراد دودھ، مٹھائیاں اور پوریاں لے آئے تھے جو اس خاندان کے لئے کافی تھیں۔

دو سالہ پتلی اور تین سالہ پنوا جمعہ کو دوپہر کے وقت گم ہوئے اور چرواہے نے انہیں پیر کے دن پانچ بجے دیکھا۔ اس بات کو تقریباً بہتر گھنٹے گذر گئے تھے۔ میں آپ کو پہلے بتا چکا ہوں کہ اس جنگل میں کون کون سے جانور موجود تھے جہاں بچوں نے یہ وقت گذارا۔ یہ فرض کرنا غلط ہوگا کہ اس سارے عرصے انہیں کسی جانور نے نہیں دیکھا، سنا یا سونگھا نہیں ہوگا۔ پھر بھی جب چرواہے نے بچوں کو والدین کے حوالے کیا تو ان کے جسم پر ایک بھی خراش نہ تھی۔

ایک بار میں نے ایک ماہ عمر کے بکری کے ایک بچے پر شیرنی کو گھات لگاتے دیکھا۔ زمین کھلی تھی اور میمنے نے شیرنی کو آتے دیکھ لیا اور ممیانے لگا۔ فوراً ہی شیرنی نے حملے کا ارادہ ترک کر دیا اور عام رفتار سے چلتی ہوئی اس تک جا پہنچی۔ چند گز دور پہنچ کر شیرنی نے گردن بڑھا کر اسے سونگھا۔ میمنہ چل کر اس تک پہنچا اور اور چند سیکنڈ تک میمنہ اور جنگل کی ملکہ ایک دوسرے کے سامنے کھڑے رہے۔ پھر شیرنی مڑی اور چل کر دوسری طرف جنگ میں غائب ہو گئی۔

ہٹلر کی جنگ ختم ہونے والی تھی۔ ایک بار میں نے برطانیہ کے تین عظیم ترین لوگوں کی تقاریر کا خلاصہ پڑھا جس میں انہوں نے جنگ کے مظالم کے بارے بتاتے ہوئے دشمن پر ’جنگل کے قانون‘ کو متعارف کرانے کا الزام لگایا۔ اگر خدا نے انسانوں کے لئے بھی وہی قوانین بنائے ہوتے جو اس نے جنگلی جانوروں کے لئے بنائے ہیں، دنیا میں کبھی بھی جنگ نہ ہوتی کیونکہ ہر طاقتور انسان دوسرے کمزور انسان کا ویسے ہی خیال کرتا جیسے جنگل میں ہوتا ہے۔

٭٭٭

۰۶۔ بھائی​

جنگلوں میں لڑکوں کو جنگی تربیت کا تمام ہوئے کچھ عرصہ بیت گیا تھا اور ایک صبح ہم اپنے گھر کالا ڈھنگی کے برآمدے میں ناشتے کے بعد بیٹھے تھے۔ میری بہن میگی میرے لیے خاکی کمبل بن رہی تھی اور میں اپنی پسندیدہ بنسی کی مرمت کر رہا تھا جو کئی برس سے میرے استعمال میں تھی۔ صاف ستھرے مگر پیوند لگے کاٹن کے کپڑوں میں ملبوس ایک آدمی سیڑھیوں پر چڑھا اور چہرے پر بڑی مسکراہٹ سجائے سلام کر کے بولا کہ آپ کو میں یاد ہوں؟

صاف ستھرے اور غلیظ، امیر اور غریب (زیادہ تر غریب)، ہندو، مسلمان اور عیسائی ان سیڑھیوں سے چڑھ کر آتے تھے کہ ہمارا گھر چوراہے پر تھا جہاں جنگلات سے آبادی کو جانے والی سڑکیں ملتی تھیں۔ ہر بندہ جو چاہے بیمار ہو یا مدد کا طلبگار ہو یا محض بات کرنا چاہتا ہو یا چائے پینی ہو، چاہے آبادی سے آیا ہو یا جنگلات سے محض مسافر ہو، ہمارے گھر کا چکر لگا جاتا تھا۔ اگر محض بیمار اور زخمیوں کے علاج کا رجسٹر ہوتا تو وہ تعداد ہزاروں میں ہوتی۔ ہر قسم کے زخموں اور بیماریوں کے علاج کے لیے ہر ممکن دوائی استعمال ہوتی تھی کہ جب آپ مضرِ صحت علاقوں میں رہتے ہوں یا ایسے جنگلات میں کام کرتے ہوں جہاں بعض اوقات درندوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو جاتا ہو۔

ایک بار ایک عورت کو ہم نے اس کے بچے کے پھوڑے پر لگانے کے لیے السی کا مرہم دیا تھا اور اگلے دن وہ آئی کہ اس کا بچہ دوائی نہیں کھا رہا تھا اور کھانے کے بعد بھی اس سے کوئی فائدہ نہیں ہوا، سو دوائی بدل دیں۔ ایک بار ایک مسلمان عورت دھاڑیں مارتی میگی کے پاس آئی کہ اس کے شوہر کو نمونیہ ہو گیا ہے اور وہ مر رہا ہے۔ پھر اس نے M. & B. 693 (اس دور کی مشہور ترین اینٹی بیکٹیریل دوا) کی شیشی کی طرف دیکھا اور پوچھا کہ صرف یہی ایک دوائی مرتے ہوئے انسان کو بچانے کے لیے استعمال ہوتی ہے؟  اگلے دن وہ اپنی چار سہیلیوں کے ساتھ آئی کہ اس کا شوہر ٹھیک ہو گیا ہے اور چونکہ اس کی سہیلیوں کے شوہر اس کے شوہر کے ہم عمر ہیں اور انہیں کسی وقت بھی نمونیہ ہو سکتا ہے، سو ان کے لیے ابھی سے دوائی دے دیں۔ ایک بار ایک آٹھ سالہ بچی بمشکل ہمارے گیٹ کو کھول کر برآمدے میں آئی۔ اس نے ایک چھ سالہ لڑکے کا ہاتھ پکڑا ہوا تھا اور بولی کہ وہ اس بچے کی آشوبِ چشم کی وجہ سے خراب آنکھوں کی دوائی لینی آئی ہے۔ پھر اس نے زمین پر بیٹھ کر بچے کو زمین پر لٹایا اور اس کے سر کو اپنے زانو پر رکھ کر بولی، ’’مس صاحب، آپ اب اس کا علاج کریں۔‘‘

یہ بچی چھ میل دور ایک گاؤں کے نمبر دار کی بیٹی تھی۔ اس کی جماعت کے اس بچے کی آنکھیں خراب تھیں تو وہ اس کے علاج کے لیے خود ہی اسے لے آئی۔ علاج پر پورا ایک ہفتہ لگ گیا اور وہ بچی ہر روز اس بچے کو لاتی رہی، حالانکہ اس طرح روز اسے چار میل اضافی چلنا پڑتا تھا۔

پھر ایک بار دلی سے آیا ہوا لکڑہارا ہمارے صحن میں رینگتے ہوئے داخل ہوا۔ اس کی دائیں ٹانگ ایڑی سے گھٹنے تک کھلی ہوئی تھی۔ اس پر سور نے حملہ کیا تھا۔ جتنی دیر اس کے زخم کی مرہم پٹی ہوتی رہی، اتنی دیر یہ بندہ اس پلید جانور کو گالیاں دیتا رہا کہ وہ مسلمان تھا۔ اس نے بتایا کہ ایک روز قبل گرائے ہوئے درخت کو آرے سے کاٹنے پہنچا تو اس کی شاخوں میں چھپا ہوا سور اس پر حملہ آور ہو گیا۔ جب میں نے بتایا کہ شاید یہ اس کی اپنی غلطی ہوگی کہ وہ سور کے راستے میں آیا تو وہ بولا، ’’پورا جنگل موجود تھا، مگر پھر بھی اس جانور کو مجھ پر ہی حملہ کرنا تھا، میں نے تو اسے حملے کے بعد ہی دیکھا تھا۔‘‘

ایک اور لکڑہارا بھی تھا۔ ایک تنے کو الٹاتے ہوئے اس کے نیچے چھپے بچھو نے اس کی ہتھیلی پر ڈنک مارا تھا جو بہت بڑا تھا۔ علاج کے بعد وہ فرش پر لوٹنیاں لگاتا اور زور زور سے اپنی قسمت کو کوستا رہا اور بتاتا رہا کہ دوائی سے کوئی فرق نہیں پڑ رہا۔ اچانک اس نے قہقہے لگانا شروع کر دیے۔ اس روز بچوں کا میلہ تھا اور بھاگ دوڑ کے کھیلوں کے بعد سب بچے اور ان کی مائیں دائرے میں کھڑے ہو گئے۔ درمیان میں دو لمبے بانسوں پر کاغذی تھیلے میں مختلف میوے بھر کر لٹکا دیے گئے اور ایک بچے کی آنکھوں پر پٹی باندھ کر اسے کہا گیا کہ وہ ڈنڈے سے اس تھیلے کو پھاڑے۔ ان بانسوں کو دو بندے تھامے کھڑے تھے۔ اچانک بچے کا ڈنڈا ایک بندے کے سر پر لگا جسے دیکھ کر بچھو والے بندے نے قہقہے لگانا شروع کر دیے۔ جب اس سے پوچھا گیا کہ تکلیف کیسی ہے تو وہ بولا کہ اب اسے تکلیف کی کوئی پروا نہیں رہی کہ اتنا اچھا تماشہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔

میری بہنیں میڈیکل مشنری تھیں اور ہندوستان کے غریب لوگوں کی یادداشت بہت اچھی ہوتی ہے اور جب ان پر کوئی مہربانی کی جائے تو وہ کبھی نہیں بھولتے، چاہے وہ کتنی ہی معمولی کیوں نہ ہو۔ سو ہمارے مہمان ہمیشہ بیمار یا زخمی نہیں ہوتے تھے۔ بہت سارے افراد تو کئی کئی دن کا پیدل سفر چل کر ہمارا شکریہ ادا کرنے آتے کہ ہم نے پچھلے سال یا کئی سال قبل ان پر کوئی مہربانی کی تھی۔

ایک بار سولہ سالہ لڑکا اپنی ماں کے ساتھ کئی روز سے ہمارے گاؤں مقیم تھا کہ میری بہن اس کی ماں کے انفلوئنزا اور آشوب چشم کا علاج کر رہی تھی۔ کچھ عرصے بعد وہ لڑکا کئی دن پیدل چل کر ہمارے پاس شکریہ ادا کرنے آیا اور ساتھ تحفے کے طور پر کئی انار تھے جنہیں اس کی ماں نے ’اپنے ہاتھوں‘ سے توڑے تھے۔ اوپر بیان کیے گئے پیوند لگے کپڑوں والے بندے سے ایک گھنٹہ قبل ہی ایک بندہ ہمارے برآمدے میں پہنچا اور ایک ستون سے ٹیک لگا کر کچھ دیر مجھے دیکھتا رہا اور پھر مایوسی سے سر ہلا کر بولا، ’’صاحب، آپ بوڑھے ہو گئے ہیں۔ پچھلی بار جب آپ کو دیکھا تھا تو آپ جوان تھے۔‘‘

میں بولا، ’’ہاں، سبھی دس سال بعد بوڑھے لگتے ہیں۔‘‘

اس پر وہ بولا، ’’دس نہیں، بارہ سال صاحب۔ اُس بار میں بدری ناتھ یاترا کے بعد لوٹ رہا تھا اور آپ کا کھلا ہوا پھاٹک دیکھ کر اندر چلا آیا کہ میں بہت تھکا ہوا تھا اور مجھے دس روپے اشد درکار تھے۔ آپ سے کچھ آرام کرنے کی اجازت لی تھی اور آپ سے دس روپے بھی مانگے تھے جو آپ نے دے دیے تھے۔ اب میں دوسری یاترا سے بنارس سے واپس آ رہا ہوں۔ اس بار مجھے پیسے درکار نہیں ہیں اور میں آپ کا شکریہ ادا کرنے اور یہ بتانے آیا ہوں کہ میں بخیریت گھر پہنچ گیا تھا۔ سگریٹ پینے اور تھوڑا آرام کرنے کے بعد میں اجازت چاہوں گا کہ میرے گھر والے ہلدوانی میرے منتظر ہوں گے۔‘‘ ہلدوانی کا یک طرفہ سفر یہاں سے چودہ میل بنتا ہے۔ اگرچہ وہ کہہ رہا تھا کہ بارہ برس یا چودہ میل کے سفر سے اسے کوئی فرق نہیں پڑا، مگر وہ بہت ضعیف تھا۔

اگرچہ اس پیوند لگے کپڑوں والے بندے کا چہرہ ہلکا سا واقف لگ رہا تھا مگر ہماری یادداشت میں ملاقات کی کوئی یاد نہیں تھی۔ جب اس نے اندازہ لگا لیا کہ ہم اسے نہیں پہچان سکے تو اس نے اپنی صدری اتاری اور قمیض کھول کر اپنا سینہ اور دائیاں کندھا سامنے کیا۔ کندھے سے ہمیں فوراً سب یاد آ گیا۔ اس کا نام نروا تھا۔ نروا، چابیاں بنانے والا، اسے ہم نے چھ سال قبل دیکھا تھا جب وہ محض ہڈیوں کا ڈھانچہ تھا اور چلنے میں انتہائی دشواری ہوتی تھی اور لاٹھی کے سہارے چلتا تھا۔ اب اس کے شانے کو دیکھا تو سب یاد آ گیا کہ کیسے تین ماہ تک وہ زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا رہا اور ہم اس کی دیکھ بھال کرتے رہے۔ اس نے اب اپنے بازو کو اوپر نیچے اور مٹھی کھول اور بند کر کے دکھایا کہ کیسے اس کا ہاتھ ٹھیک ہوا ہے۔ اس کی انگلیاں بھی ٹھیک کام کر رہی تھیں حالانکہ ہمیں ڈر تھا کہ شاید اس کی انگلیاں اکڑ جائیں۔ اب وہ اپنا کام کرنے کے قابل ہو گیا تھا۔ اب وہ ہمیں یہ بتانے آیا تھا کہ وہ ٹھیک ہو چکا ہے اور اب میگی کا شکریہ ادا کرنے آیا ہے کہ میگی نے تین ماہ تک اس کی دیکھ بھال اور علاج کے علاوہ اس کی بیوی اور بچوں کی ضروریات کا بھی خیال رکھا تھا۔

نروا اور ہریا سگے بھائی تو نہیں تھے مگر خود کو سگے بھائی کہتے تھے۔ دونوں الموڑا کے قریب ایک ہی گاؤں میں پیدا ہوئے اور پلے بڑھے۔ جب کام کرنے کی عمر کو پہنچے تو انہوں نے ایک ہی کام شروع کیا جو ٹوکریاں بنانا تھا۔ صوبہ جاتِ متحدہ میں ٹوکریاں بنانے کا کام محض اچھوت کرتے تھے، سو یہ بھی اچھوت تھے۔

گرمیوں کے دوران نروا اور ہریا اپنا کام الموڑا کے قریب اپنے دیہات میں کرتے تھے اور سردیوں میں نیچے اتر کر کالا ڈھنگی چلے جاتے جہاں بڑی ٹوکریوں کی بہت مانگ تھی جو پندرہ فٹ چوڑی ہوں۔ ان ٹوکریوں میں دیہاتی لوگ اپنا غلہ رکھتے تھے۔ الموڑا کے قریب اپنے گاؤں میں ان کی ٹوکریاں رنگل یعنی پہاڑی بانس سے بنتی تھیں جو ایک انچ موٹا اور لگ بھگ بیس فٹ لمبا ہوتا ہے اور یہ بانس چار ہزار سے دس ہزار فٹ کی اونچائی پر اگتا ہے۔ یہ بانس مچھلیاں پکڑنے کی بنسیوں کے لیے بھی بہترین ہے۔

کالا ڈھنگی میں یہ بانس سرکاری جنگلات میں اگتا ہے اور ہم جیسے لوگ جو سرکاری جنگلات کے قریب کاشتکاری کرتے ہیں، کو ذاتی استعمال کے لیے ایک خاص تعداد میں ہر سال بانس کاٹنے کی اجازت ملتی ہے۔ تجارتی مقاصد کے لیے ایک گٹھری کی قیمت دو آنہ مقرر ہے اور یہ لائسنس فارسٹ گارڈ سے ملتا ہے۔ لائسنس کی خانہ پری کرنے کے لیے فارسٹ گارڈ کو بھی کچھ معاوضہ مل جاتا ہے۔ اس بارے ایک اندازہ لگا لیا جاتا ہے کہ ایک بندہ ایک وقت میں کتنے بانس اٹھا سکتا ہوگا اور لائسنس میں اتنے ہی مقرر ہوتے ہیں۔ یہ بانس دو سال کے ہوں تو کاٹ لیے جاتے ہیں اور ٹوکری بنانے کے لیے بہترین شمار ہوتے ہیں۔

ایک بار صبح پو پھٹتے ہی ۲۶ دسمبر ۱۹۳۹ کو نروا اور ہریا اپنے مشترکہ جھونپڑے سے نکلے جو کہ کالا ڈھنگی کے بازار کے قریب تھا، تاکہ آٹھ میل دور نلنی دیہات جا کر فارسٹ گارڈ سے لائسنس لیں اور پھر دو گٹھڑیاں بانسوں کی کاٹ کر شام کو گاؤں واپس لے آئیں۔ چونکہ صبح بہت سرد تھی، اس لیے انہوں نے کھیس لپیٹ رکھے تھے۔ ایک میل تک ان کا راستہ نہر کے کنارے چلتا رہا۔ پھر ہیڈورکس کی دیواریں عبور کر کے وہ لوگ اس راستے پر چڑھے جو گھنی جھاڑیوں والے جنگل اور دریائے بور کے پتھروں سے بھرے کناروں سے گزرتا تھا۔ اس جگہ دریا پھیل جاتا تھا اور یہاں اودبلاؤ کا جوڑا رہتا تھا جو علی الصبح تیرتا دکھائی دیتا تھا۔ یہاں تین یا چار پاؤنڈ وزنی مہاشیر بھی آسانی سے پکڑی جا سکتی ہیں۔ مزید دو میل آگے جا کر انہوں نے دریا کو کم گہری جگہ سے عبور کر کے دریا کے بائیں کنارے کا رخ کیا اور درختوں اور گھاس کے جنگل میں داخل ہو گئے۔ صبح اور شام اس جگہ چیتلوں اور سانبھروں کے کئی چھوٹے مندے دکھائی دیتے تھے اور بسا اوقات کاکڑ، شیر اور تیندوے بھی دکھائی دیے جاتے تھے۔ اس جگہ ایک میل دور وہ اس جگہ پہنچے جہاں پہاڑیاں مڑتی ہیں اور یہاں کئی سال پہلے روبن نے پہلی بار پوال گڑھ کے کنوارے شیر کے پگ تلاش کیے تھے۔ اس جگہ سے وادی کھلنا شروع ہو جاتی ہے اور مویشی چرانے والے اور چور شکاری، سبھی اس جگہ کو سمل چور کہتے تھے۔ اس جگہ چلتے ہوئے محتاط رہنا پڑتا ہے کہ یہاں شیر بکثرت پگڈنڈیوں پر چلتے ہیں۔

وادی کے بالائی سرے پر راستہ گھنی گھاس کی پٹی سے گزرتے ہوئے پھر دو میل کی سخت چڑھائی سے ہوتا ہوا نلنی پہنچتا ہے۔ یہ گھاس آٹھ فٹ اونچی اور یہ پٹی تیس گز لمبی اور راستے کے دونوں اطراف پچاس پچاس گز تک پھیلی ہوئی ہے۔ چڑھائی کا خیال کرتے ہوئے گھاس سے ذرا پہلے نروا نے اپنا کھیس اتارا اور تہہ کر کے اپنے دائیں کندھے پر ڈال لیا۔ ہریا آگے چل رہا تھا اور نروا چند قدم پیچھے۔ ابھی وہ گھاس میں تین یا چار گز چلا ہوگا کہ اسے شیر کی دھاڑ سنائی دی اور نروا کی چیخ بھی۔ ہریا مڑ کر دوڑا اور گھاس کے کنارے پہنچ کر دیکھا کہ نروا پشت کے بل لیٹا ہے اور ایک شیر اس کے اوپر موجود تھا۔ نروا کے پیر قریب تھے، اس لیے ہریا نے نروا کے پیر پکڑے اور اسے گھسیٹنا شروع کیا۔ شیر اٹھ کر دھاڑنا شروع ہو گیا۔ نروا کو کچھ دور لے جا کر اس نے اسے بٹھانے کی کوشش کی مگر نروا نقاہت کی وجہ سے چلنے یا کھڑا ہونے سے معذور تھا۔ اس لیے ہریا کبھی اسے گھسیٹتا اور کبھی اٹھا کر چلنا شروع ہو گیا۔ شیر مسلسل دھاڑ رہا تھا۔ پھر اس نے نلنی کا راستہ لیا۔

ہریا حیران کن قوت سے نروا کو لے کر نلنی پہنچا۔ دیکھا گیا کہ کھیس کی آٹھ تہوں سے شیر کے چاروں بڑے دانت گزر گئے تھے اور کندھے کی ہڈیاں توڑ دی تھیں اور سینے اور پشت کے دائیں جانب کی ہڈیاں دکھائی دے رہی تھیں۔ اگر کھیس نہ ہوتا تو نروا کے زخم مہلک ہوتے۔ چونکہ فارسٹ گارڈ اور مقامی افراد کچھ کرنے سے قاصر تھے، اس لیے ہریا نے دو روپے کے عوض خچر کا بندوبست کیا اور نروا کو لے کر کالا ڈھنگی روانہ ہوا۔

یہ فاصلہ آٹھ میل بنتا تھا مگر شیر سے بچنے کے لیے ہریا نے مسابنگا دیہات کے راستے لمبا چکر کاٹا جس سے یہ تکلیف دہ سفر دس میل طویل ہو گیا۔ نلنی میں زین نہیں تھی، سو نروا کو خچر کی پشت پر سوار ہو کر آنا پڑا۔ پہلے نو میل انتہائی دشوار راستے سے گزرتے تھے۔

میگی ہمارے برآمدے میں بیٹھی چائے پی رہی تھی کہ یہ لوگ آن پہنچے۔ نروا خون میں تر تھا اور اسے ہریا نے تھام رکھا تھا۔ ایک نظر ڈالتے ہی اسے علم ہو گیا کہ یہ زخم اس کے بس سے باہر ہیں، سو میگی نے نروا کو خوشبو دار نمک سنگھایا تاکہ اس کے حواس بحال ہوں اور پھر اس کے بازو کو پٹی سے لٹکا دیا اور بستر کی چادر پھاڑ کر زخم کے لیے پٹیاں بنائیں۔ پھر اس نے خط لکھ کر کالا ڈھنگی کے اسسٹنٹ سرجن کی طرف نروا کو ایک ملازم کے ساتھ بھیج دیا۔

میں اس روز پرندوں کے شکار پر نکلا تھا کہ میرے کئی دوست کرسمس کی تعطیلات پر کالا ڈھنگی آئے ہوئے تھے۔ میری واپسی رات گئے ہوئی۔ اگلی صبح میں ہسپتال گیا تو ایک نوجوان اور انتہائی نا تجربہ کار کار ڈاکٹر نے بتایا کہ اس نے ہر ممکن کوشش کی ہے اور چونکہ اس امید نہیں تھی کہ نروا بچ سکے گا، اس نے نروا کو گھر واپس بھیج دیا کہ ہسپتال میں داخلے کا کوئی انتظام نہیں تھا۔

بڑے مشترکہ گھر میں بیس خاندان آباد تھے اور اس کے ایک کونے میں نروا چٹائی پر پڑا تھا۔ اتنی تکلیف دہ حالت میں ایسی جگہ ہونا کسی ڈراؤنے خواب سے کم نہیں تھا اور اس کے زخموں میں پیپ کے آثار واضح تھے۔ ایک ہفتے تک نروا ایسی کیفیت میں پڑا رہا کہ کبھی تیز بخار ہوتا تو کبھی بے ہوشی میں ہوتا۔ اس دوران اس کا خیال اس کی بیوی اور اس کا منہ بولا بھائی ہریا کرتے رہے۔ میری نا تجربہ کار نگاہوں کو بھی صاف پتہ چل رہا تھا کہ ہریا کے زخموں میں پیپ پڑ گئی ہے اور اگر انہیں کھول کر صاف نہ کیا گیا تو ہریا کے بچنے کا کوئی امکان نہیں۔ سو میں نے اس کی ہسپتال منتقلی کا انتظام کیا۔ ڈاکٹر کی مہارت تسلیم کرنی پڑتی ہے کہ جب اس نے ذمہ داری اٹھائی تو نروا کے آپریشن کو بخوبی سرانجام دیا۔ نروا کے جسم پر موجود کئی لمبے زخم شیر سے نہیں بلکہ ڈاکٹر کے نشتر سے لگے تھے۔ یہ زخم شمشان گھاٹ تک نروا کے ساتھ جائیں گے۔

ہندوستان میں بھکاریوں کے علاوہ غریب اس وقت کھاتے ہیں جب انہیں کوئی کام ملے۔ چونکہ نروا کی بیوی مستقل ہسپتال میں اپنے شوہر اور اپنی تین سالہ بیٹی اور بچے کی دیکھ بھال میں لگی ہوئی تھی، میگی نے ان کی تمام ضروریات کا خیال رکھا (ہندوستان میں چھوٹے ہسپتالوں میں مریضوں کے لیے تیمار دار اور کھانے کا کوئی انتظام نہیں ہوتا)۔ تین ماہ بعد، ہڈیوں کا ڈھانچہ بنا اور دائیں بازو لٹکائے کہ جیسے دوبارہ کبھی استعمال نہیں کر پائے گا، نروا جھونپڑے سے رینگتا ہوا ہمارے گھر آیا اور جانے کی اجازت مانگی۔ اگلی صبح وہ اور ہریا اپنے خاندان سمیت اپنے گاؤں کو الموڑا کی سمت چل دیے۔

پہلی بار جب میں نروا سے ملنے اس کے جھونپڑے گیا تو میں نے ہریا سے سارا واقعہ پوچھا۔ واقعہ سن کر میرا خیال تھا کہ نروا کے ساتھ شیر کی مڈبھیڑ اتفاقیہ تھی۔ تاہم اپنی تسلی کے لیے میں جائے وقوعہ کو چل دیا تاکہ اگر شیر کی شرارت ہو تو اسے ہلاک کروں۔ ان کے نقشِ قدم پر چلتا ہوا روانہ ہو گیا۔ نلنی کی چڑھائی سے قبل چند گز تک راستہ گھاس کے ساتھ چلتا ہوا دائیں مڑ کر گھاس میں داخل ہوتا ہے۔ ہریا اور نروا کی آمد سے ذرا قبل ہی شیر نے ایک نر سانبھر مارا تھا اور اسے اٹھا کر راستے کے قریب گھاس کے قطعے میں گھسا۔ جب ہریا مڑ کر گھاس میں داخل ہوا تو آواز سن کر شیر باہر نکلا اور سامنے نروا تھا۔ یہ سامنا اتفاقیہ تھا کیونکہ گھاس بہت گھنی اور بہت اونچی تھی۔ اس کے علاوہ شیر نے نروا کو بھنبھوڑنے کی کوشش بھی نہیں کی اور جب ہریا نے اسے گھسیٹنا شروع کیا تو شیر نے اسے نہیں روکا۔ اس لیے میں نے شیر کو کچھ نہیں کہا۔ بعد میں یہی شیر ان شیروں میں شامل ہوا جن کا ذکر میں نے کماؤں کے آدم خور میں ’صرف شیر‘ کے عنوان میں کیا ہے۔

بہادری کے جتنے واقعات کے بارے میں نے سنا ہے یا خود دیکھے ہیں، میرے نزدیک ہریا کا یہ فعل سب سے بہادرانہ ہے۔ اتنے وسیع جنگل میں تنہا اور نہتا ہونے کے باوجود غصے سے دھاڑتے شیر کے نیچے سے اپنے ساتھی کو گھسیٹ کر نکالنا اور پھر اسے دو میل کی کٹھن چڑھائی تک لے کر جانا اور یہ جانے بغیر، کہ آیا شیر تعاقب کر رہا ہے یا نہیں، میرے نزدیک کوئی کوئی انسان اتنا بہادر ہو سکتا ہے۔ جب میں نے ہریا سے تفصیلات پوچھیں اور جن کی حرف بحرف تصدیق بعد ازاں نروا نے بھی کی۔ جب میں نے اسے بتایا کہ اس نے کتنا بڑا کام کیا ہے تو اس نے جواب دیا، ’’صاحب، میں نے تو کچھ بھی نہیں کیا کہ مجھے یا نروا کو مشکل ہو؟‘‘ ایک ہفتے بعد جب میں نے نروا سے بیان لیا تو اس کی تکلیف کے پیشِ نظر مجھے یہ اس کا نزاعی بیان لگ رہا تھا۔ اس نے انتہائی کمزور آواز میں کہا، ’’صاحب، میرے بھائی کو کوئی مشکل نہ ہو۔ اس نے میری جان بچانے کے لیے اپنی جان خطرے میں ڈالی تھی اور اس کا کوئی قصور نہیں۔‘‘

مجھے یہ بتا کر بہت خوشی ہوتی کہ ان کی بہادری کے عوض حکومت نے انہیں کوئی امداد، انعام یا تمغہ دیا ہوتا، مگر سرخ فیتہ میرے بس سے باہر تھا اور حکومت کسی ایسی چیز کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں تھی کہ جس کے لیے کوئی غیر جانبدار گواہ نہ ہو۔

انسانی تاریخ کے چند انتہائی نڈر واقعات میں سے ایک واقعہ تسلیم نہ ہو سکا کہ اس بارے کوئی ’آزاد اور غیر جانبدار‘ گواہ نہیں تھا۔ ہریا زیادہ مستحق تھا کہ اس کے پاس کوئی ثبوت نہیں تھا اور نروا کے پاس اس کے زخم اور خون سے لتھڑا کھیس تو تھا۔

کئی روز تک میں اس فیصلے کے خلاف شاہِ انگلستان سے اپیل کا سوچتا رہا مگر پھر جنگِ عظیم کے آغاز پر میں نے یہ خیال دل پر پتھر رکھ کر چھوڑ دیا۔

۰۷۔ سلطانہ، ہندوستان کا رابن ہُڈ

ہندوستان جیسے بڑے ملک کا بڑا حصہ جنگلات سے بھرا ہے اور ذرائع نقل و حمل کم ہیں اور آبادی کا بہت بڑا حصہ خطِ غربت سے نیچے زندگی بسر کرتا ہے اور یہ اچنبھے کی بات نہیں کہ لوگ جرائم کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں اور حکومت کو ان کی سرکوبی میں مشکل پیش آتی ہے۔

عام جرائم پیشہ افراد ہر ملک میں پائے جاتے ہیں مگر ہندوستان میں باقاعدہ قبائل بھی ہیں جو مختلف جرائم میں مہارت رکھتے ہیں۔ حکومت ان قبائل کو عام آبادیوں سے الگ رکھتی ہے اور ان کے جرائم کی نوعیت کے مطابق سختی بھی روا رکھتی ہے۔ پچھلی جنگ کے اختتام کے دوران میں فلاحی کاموں میں مصروف تھا تو ایسی کئی آبادیوں میں جانے کا موقع ملتا رہا۔ ان لوگوں کو نظربند نہیں رکھا جاتا اور ان لوگوں اور ان کی نگرانی کرنے والے حکومت نمائندے کے ساتھ میری اچھی بحثیں ہوتی رہیں۔ ان لوگوں کی جرائم پیشہ عادات چھڑانے کے لیے حکومت نے دریائے جمنا کے بائیں کنارے پر ضلع میرٹھ میں زرخیز زمین مفت دی ہوئی ہے۔ اس زمین پر گنے، گندم، جو اور دیگر غلہ جات کی بہترین فصلیں اگتی تھیں مگر جرائم بھی موجود تھے۔ حکومتی نمائندے نے اس کی ذمہ داری مقامی لڑکیوں پر عائد کی کہ وہ محض ماہر مجرموں سے ہی شادی کرنے کو تیار ہوتی ہیں۔ یہ قبیلہ ڈاکہ زنی کا ماہر تھا اور اس میں بڑے بوڑھے نئے جوانوں کی تربیت کرتے تھے اور ان کی کمائی سے حصہ وصول کرتے تھے۔

اس آبادی سے مردوں کو مخصوص مدت کے پروانے دے کر باہر جانے کی اجازت دی جاتی تھی مگر عورتیں نہیں جا سکتی تھیں۔ اس قبیلے کے بزرگ تین اصولوں پر سختی سے عمل کرتے تھے، پہلا، تمام لوٹ مار اکیلا بندہ کرے گا، دوسرا یہ کہ جائے واردات ان کی رہائش گاہ سے جتنی دور ہو، اتنا بہتر سمجھا جاتا تھا اور تیسرا یہ کہ کسی بھی حالت میں تشدد نہیں کیا جائے گا۔ ان کے جرائم کا طریقہ یہ ہوتا تھا کہ نوجوان تربیت مکمل کر کے کلکتہ، بمبئی یا کسی دوسرے بڑے اور دور دراز کے شہر میں کسی امیر بندے کے ہاں ملازمت کر لیتے تھے اور جب بھی موقع ملتا، ان کا قیمتی سامان مثلاً سونا، زیورات یا قیمتی جواہرات چرا کر بھاگ جاتے۔ ایک بار میں اس قبیلے کے کئی نوجوانوں کے ساتھ کالے تیتر کا شکار کھیل رہا تھا۔ دن کے اختتام پر میں نے انہیں مزدوری دی۔ ایک نوجوان کو میں نے دن کی مزدوری آٹھ آنے اور ایک زخمی تیتر کو تلاش کرنے پر الگ سے دو آنے دیے۔ بعد میں مجھے حکومتی نمائندے نے بتایا کہ یہ نوجوان ایک سال غائب رہنے کے بعد چند روز قبل لوٹا ہے اور اس کے پاس چرایا ہوا کم از کم تیس ہزار روپے مالیت کا ہیرا بھی تھا۔

قبیلے کے بڑے بوڑھوں نے ہیرے کو اچھی طرح پرکھا اور پھر اسے چھپا دیا۔ قبیلے کی سب سے خوبصورت لڑکی نے اعلان کیا کہ وہ سب سے ماہر چور سے شادی کے موسم میں شادی کرے گی۔ ایک نوجوان جو ہمارے ساتھ شکار میں تو شامل نہیں تھا، مگر ساتھ ہی کھڑا تھا، کے بارے پتہ چلا کہ اس نے منصوبہ بنایا ہوا ہے کہ وہ کلکتہ سے چوری کی ہوئی بالکل نئی کار کو انتہائی خراب پگڈنڈی پر چلا کر اس آبادی تک لائے گا تاکہ اس لڑکی سے شادی کر سکے۔ اس مقصد کے لیے پہلے اسے ڈرائیونگ سیکھنی پڑے گی۔

بعض جرائم پیشہ قبائل کے لوگوں پر زیادہ پابندی نہیں ہوتی اور یہ لوگ گھروں میں چوکیدار کی ملازمت اختیار کر لیتے ہیں۔ مجھے اس بات کا علم ہے کہ بہت سی جگہوں پر چوکیدار کے جوتے سیڑھیوں پر رکھ دیے جائیں تو چوری سے بچاؤ کے لیے کافی رہتے ہیں۔ عموماً چوکیدار کی ماہانہ تنخواہ تین سے پانچ روپے ہوتی ہے سو چوکیدار رات کو جوتے رکھ جاتے ہیں اور صبح آ کر اٹھا لے جاتے ہیں۔

صوبجات متحدہ میں بھنٹو قبیلہ پر تشدد جرائم کے لیے مشہور ہے اور ان کی سخت نگرانی کی جاتی ہے۔ سلطانہ ڈاکو جو تین سال تک حکومت کے ہاتھ نہ آیا، اسی قبیلے سے تعلق رکھتا تھا۔ یہ داستان سلطانہ ڈاکو کے بارے ہے۔ نیا گاؤں کو میں تب سے جانتا ہوں جب وہ ترائی اور بھابھر کا سب سے خوشحال گاؤں تھا۔ ترائی اور بھابھر دراصل ہمالیہ کے دامن میں موجود زمینی پٹی کو کہا جاتا ہے۔ گھنے جنگل سے نکالی گئی انتہائی زرخیز زمین کے چپے چپے پر کاشتکاری ہوتی ہے اور سو سے زائد رہائشی خوشحال، مطمئن اور خوش باش تھے۔ سر ہنری ریمزے، کماؤں کے بادشاہ ان لوگوں کو پہاڑوں سے نیچے لائے تھے اور اپنی محنت کے بل بوتے پر ایک ہی نسل میں یہ لوگ خوشحال ہو گئے۔

اس دور میں ملیریا کو بھابھر بخار کہا جاتا تھا اور اس وسیع علاقے میں ڈاکٹر اکا دکا ہی تھے اور لوگ اس بیماری کا مقابلہ نہ کر سکتے تھے۔ جنگل کے عین وسط میں واقع نیا گاؤں اس بیماری کے ہاتھوں اجڑنے والا پہلا دیہات تھا۔ کاشتکاروں کے مرنے پر یکے بعد دیگر کھیت اجڑتے گئے اور بہت کم آبادی بچی۔ جب ان بچے کھچے لوگوں کو ہمارے گاؤں میں پناہ اور زمین دی گئی تو یہ گاؤں اجڑ کر پھر سے جنگل کا حصہ بن گیا۔

کئی برس بعد پنجاب کے ایک ڈاکٹر نے ان زمینوں کو آباد کرنے کا سوچا مگر پہلے اس کی بیٹی، پھر بیوی اور پھر وہ خود ملیریا سے ہلاک ہوئے اور نیا گاؤں ایک بار پھر سے جنگل بن گیا۔ انتہائی محنت سے صاف کی گئی زمین پر جہاں گنے، گندم، سرسوں اور چاول وغیرہ کی کاشت ہوتی تھی، اب وہاں لہلہاتی گھاس اگ آئی۔ اس گھاس کو دیکھتے ہوئے تین میل دور ہمارے گاؤں سے مویشی یہاں چرانے کو بھیجے جانے لگے۔ جب مویشی جنگل سے گھرے قطعوں میں طویل عرصے تک چرتے رہیں تو درندوں کا متوجہ ہونا فطری بات ہے۔ ایک سال جب ہم نینی تال میں اپنے گرمائی گھر سے اتر کر نیچے کالا ڈھنگی آئے تو پتہ چلا کہ ایک تیندوے نے پاس موجود جنگل میں رہائش اختیار کر لی ہے اور ہمارے مویشیوں سے بھاری خراج وصول کر رہا ہے۔ چونکہ گھاس کے میدان میں کوئی درخت نہیں تھا، اس لیے تیندوے کے شکار کردہ جانور پر مچان باندھنا ممکن نہ تھا۔ واحد طریقہ یہ تھا کہ صبح سویرے جب تیندوا پیٹ بھرنے کے بعد دن کو گھنی جھاڑیوں میں آرام کرنے جا رہا ہو یا پھر جب شام کو وہ تازہ شکار کی تلاش میں نکلا ہو۔ مگر دونوں طریقوں کے لیے یہ جاننا ضروری تھا کہ تیندوا اردگرد کے جنگلوں میں کس جگہ رہتا ہے۔ اس لیے علی الصبح میں اور روبن یہ جاننے کے لیے نکل کھڑے ہوئے۔

اگرچہ کاشتکاری متروک ہو چکی ہے مگر نیا گاؤں کا نام ابھی تک مستعمل ہے۔ اس کے شمال سے گزرنے والی سڑک کو کندی سڑک کہتے ہیں اور مشرق میں پرانی جی ٹی روڈ گزرتی ہے جو ریلوے لائن تعمیر ہونے سے قبل کماؤں کے اندرونی علاقوں کو میدانی علاقوں سے ملاتی تھی۔

نیا گاؤں جنوب اور مغرب کی سمت میں گھنے جنگل سے گھرا ہے۔ کندی سڑک اور ٹرنک روڈ اُن دنوں کم ہی استعمال ہوتی تھیں۔ اس لیے میں نے جنوب اور مغرب کی بجائے اس آسان جانب کو پہلے دیکھنے کا فیصلہ کیا۔ دونوں سڑکوں کے سنگم پر کہ جہاں کچھ عرصہ قبل ڈکیتوں سے بچاؤ کے لیے پولیس گارد ہوتی تھی، روبن اور میں نے مادہ تیندوے کے پگ دیکھے۔ روبن اور میں ان پگوں کو بخوبی پہچانتے تھے کہ یہ مادہ تیندوا کئی برس سے ہمارے گاؤں کے زیریں جانب لانتانا کی جھاڑیوں میں رہتی تھی۔ اس نے ہمارے مویشیوں کو کبھی نقصان نہیں پہنچایا تھا اور سوروں اور بندروں کو کھا کر وہ ہماری فصلیں بھی بچاتی رہی تھی۔ اس لیے ہم نے اس کے پگوں کو نظرانداز کیا اور ٹرنک روڈ پر گروپو کی طرف چل دیے۔ چونکہ پچھلی شام سے یہاں سے کوئی انسان نہیں گزرا تھا، اس لیے تب سے گزرنے والے تمام جانوروں کے پگ محفوظ تھے۔

روبن بہت عقلمند کتا تھا اور میرے ہاتھوں میں رائفل دیکھ کر اسے علم ہو گیا تھا کہ ہم پرندوں کے شکار پر نہیں نکلے اور اس نے راستے پر موجود موروں اور آس پاس چگتے جنگلی مرغوں کو نظر انداز کرتے ہوئے چلنا شروع کیا۔ راستے میں اس کی توجہ ایک شیرنی اور اس کے دو بچوں کے پگوں کو مبذول ہوئی جو ہم سے ایک گھنٹہ قبل یہاں سے گزرے تھے۔ اس چوڑی سڑک پر کئی جگہ چھوٹی مگر گھنی گھاس اگی ہوئی تھی۔ شبنم سے بھری ہوئی اس گھاس میں شیرنی کے بچوں نے لوٹنیاں لگائی تھیں اور یہاں رک کر روبن نے ان کی بو کو اچھی طرح سونگھا۔ ایک میل تک سڑک پر چلنے کے بعد شیرنی اپنے بچوں سمیت جانوروں کی ایک گزرگاہ کو مڑ گئی۔ سنگم سے تین میل اور گروپو سے دو میل اوپر جانوروں کی ایک گزرگاہ جو نیا گاؤں سے آ رہی تھی، نے سڑک کو کاٹا۔ اس گزرگاہ پر ہمیں ایک بڑے نر تیندوے کے پگ دکھائی دیے۔ یہ تیندوا پوری طرح جوان گائے ہلاک کرنے پر قادر تھا اور اس علاقے میں ایک ہی جسامت کے دو تیندوے ہونا لگ بھگ ناممکن ہی تھا۔ روبن ان نشانات کا پیچھا کرنا چاہتا تھا مگر تیندوے کا رخ گھنے اور جھاڑیوں سے بھرے جنگل کی جانب تھا، جہاں کئی برس پہلے کنور سنگھ اور ہار سنگھ کے ساتھ اوپر بیان کیا گیا حادثہ پیش آیا تھا۔ یہ جنگل تیندوے جیسے ہوشیار جانور کا پیچھا کرنے کے لیے مناسب نہیں تھا۔ اس کے علاوہ میرے پاس زیادہ آسان حل موجود تھا، سو ہم ناشتہ کرنے گھر کو روانہ ہو گئے۔

دوپہر کا کھانا کھا کر میگی اور روبن کے ساتھ میں اس جگہ لوٹا۔ اگرچہ گزشتہ روز تیندوے نے کوئی مویشی نہیں شکار کیا تھا مگر ہو سکتا ہے کہ اس نے کوئی چیتل مارا ہوتا جو مویشیوں والی جگہ پر ہی چرتے تھے کہ جس کو کھانے لوٹتا، پھر بھی اس کی واپسی کے اچھے امکانات تھے۔ میگی اور میں راستے کے ساتھ جھاڑی کے پیچھے چھپ کر بیٹھ گئے اور روبن ہمارے درمیان لیٹا ہوا تھا۔ تیندوا صبح جس گزرگاہ سے گیا تھا، وہ یہاں سے سو گز دور تھی۔ ہم ایک گھنٹہ بیٹھے پرندوں کی آوازیں سنتے رہے کہ ایک مور ہمارے سامنے اپنے خوبصورت پروں کی نمائش کرتا ہوا گزرا۔

میرے اندازے کے مطابق تیندوا جنگل میں جس مقام پر تھا، کچھ دیر بعد اس سمت سے دس بارہ چیتلوں کی آواز آئی جو جنگل والوں کو تیندوے کی موجودگی کا بتا رہے تھے۔ دس منٹ بعد ہمارے قریب سے ایک چیتل نے خطرے کی آواز نکالی۔ تیندوا چلتا ہوا ہماری جانب آ رہا تھا اور چونکہ اس کی آمد خفیہ نہیں تھی، شاید وہ اپنے شکار کردہ کسی جانور کو لوٹ رہا ہوگا۔ روبن ہمارے درمیان آرام سے لیٹا ہوا آوازیں سنتا رہا تھا کہ میں نے اپنی ایک ٹانگ کھڑی کر کے گھٹنے پر رائفل رکھی تو اس کا جسم کانپنے لگا۔ تیندوے سے زیادہ روبن کو کسی چیز سے ڈر نہیں لگتا تھا۔ اسے علم تھا کہ تیندوا سڑک پر آنے سے قبل جھاڑیوں سے سر نکال کر جائزہ لے گا اور پھر باہر نکلے گا اور چاہے گولی لگتے ہی ہلاک ہو جائے یا کچھ دیر تڑپ کر مرے، روبن ذرا سا بھی نہیں ہلتا۔ یہ ایک ایسا کھیل تھا کہ جس کے ہر پہلو سے روبن بخوبی واقف تھا اور اس سے جتنا لطف اندوز ہوتا، اتنا ہی خوفزدہ بھی ہوتا۔

گزرگاہ پر کچھ دیر چلنے کے بعد مور آلوبخارے کے درخت پر چڑھا اور پکے ہوئے آلو بخارے کھانے لگا۔ اچانک شور مچاتے ہوئے اس نے اڑان بھری اور ایک مردہ درخت پر جا کر بیٹھ گیا اور چیخنے لگا۔ چند منٹ، شاید پانچ منٹ بعد، کہ تیندوے بہت آہستہ اور محتاط ہو کر سڑک کو عبور کرتے ہیں، میں نے گوشہ چشم سے سڑک پر ایک حرکت دیکھی۔ ایک بندہ سڑک پر دوڑتا آ رہا تھا اور بار بار پیچھے کو مڑ کر دیکھتا۔

غروبِ آفتاب کے وقت اس سڑک پر کسی آدمی کو دیکھنا غیر معمولی بات تھی اور اس کا اکیلا ہونا بھی عجیب لگا۔ اس آدمی کے اٹھائے ہوئے ہر قدم پر تیندوے کے شکار کا امکان کم سے کم ہوتا گیا۔ تاہم اس بندے کے انداز سے ظاہر تھا کہ وہ کسی مصیبت میں ہے، شاید اسے مدد درکار ہو۔ ابھی وہ کچھ فاصلے پر تھا کہ میں نے اسے پہچان لیا۔ وہ ہمارے ہمسایہ گاؤں کا کسان تھا اور سردیوں میں گروپو میں مویشی چراتا تھا۔

ہماری جھلک دیکھتے ہی وہ ٹھٹھکا مگر جب اس نے پہچانا تو پھر ہمارے پاس آ کر ہیجان بھرے انداز میں بولا، ’’صاحب، بھاگو۔ سلطانہ کے آدمی میرا پیچھا کر رہے ہیں۔‘‘

اس کی ہوا بگڑی ہوئی تھی اور مصیبت میں لگ رہا تھا۔ میں نے اسے بیٹھنے کا کہا تو اس نے انکار کیا اور اپنی ٹانگ موڑ کر مجھے دکھائی اور بولا، ’’دیکھیں انہوں نے کیا کیا ہے۔ اگر وہ مجھے پا لیں تو یقیناً مار ڈالیں گے اور آپ بھی اگر نہ بھاگے تو مفت میں مارے جائیں گے۔‘‘ اس کی ٹانگ کا عقبی حصہ ایڑی سے گھٹنے تک کھل گیا تھا اور خون بہہ رہا تھا۔ میں نے اس بندے کو کہا کہ اگر وہ بیٹھ نہیں سکتا تو کم از کم اسے دوڑنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ پھر میں نے جھاڑیوں سے نکل کر سڑک کا جائزہ لیا اور وہ وہ بندہ لنگڑاتا ہوا گاؤں کو چل دیا۔

نہ تیندوا اور نہ ہی سلطانہ کے آدمی دکھائی دیے اور جب شکار کے لیے روشنی ختم ہو گئی تو میگی اور روبن کے ساتھ میں کالا ڈھنگی گھر کو لوٹا۔ اگلی صبح مجھے اس بندے کی کہانی پتہ چلی۔ وہ گروپو کے پاس مویشی چرا رہا تھا اس نے بندوق چلنے کی آواز سنی۔ اس گاؤں کے نمبر دار کا بھتیجا چیتل کے چور شکار کی نیت سے آیا ہوا تھا۔ یہ بندہ آواز سن کر درخت کے نیچے بیٹھ کر سوچ رہا تھا کہ آیا چیتل شکار ہوا ہوگا یا نہیں اور یہ بھی کہ کیا مویشیوں کے باڑے میں اس کے لیے شام کو کچھ گوشت باقی بچا ہوگا کہ اس نے اپنے پیچھے ہلکی سی آواز سنی۔ پیچھے مڑ کر دیکھا تو پانچ آدمی کھڑے تھے۔ انہوں نے حکم دیا کہ اس جگہ تک لے جائے جہاں بندوق کی آواز آئی تھی۔ اس بندے نے عذر پیش کیا کہ میں سو رہا تھا، ابھی جاگا ہوں۔ مجھے بندوق کے بارے کوئی علم نہیں۔ اس پر انہوں نے کہا کہ باڑے کو چلو کہ شاید بندوق بردار وہاں آیا ہو۔ ان کے پاس کوئی آتشیں اسلحہ نہیں تھا مگر ان کے سردار کے پاس ایک تلوار تھی اور اس نے دھمکی دی کہ اگر شور مچایا یا بھاگنے کی کوشش کی تو وہ اس کا سر قلم کر دے گا۔

جب وہ باڑے کو جا رہے تھے تو ان بندوں نے بتایا کہ وہ سلطانہ کے ساتھی ہیں اور سلطانہ یہیں قریب ہی مقیم ہے۔ جب سلطانہ نے بندوق کی آواز سنی تو اس نے بندوق بردار کو لانے کا حکم دیا۔ اگر کسی نے باڑے میں مزاحمت کی تو وہ باڑے کو جلا کر اس رہنما کو قتل کر دیں گے۔ اس بات سے یہ بندہ جھجھک گیا۔ اسے علم تھا کہ باڑے میں رہنے والے افراد نڈر اور طاقتور ہیں، اگر انہوں نے مزاحمت کی تو یہ بندہ تو مارا ہی جائے گا۔ اگر انہوں نے مزاحمت نہ بھی کی تو بھی اسے تا حیات اس بات پر کبھی معاف نہیں کیا جائے گا کہ وہ سلطانہ کے بندوں کو وہاں تک لے گیا تھا۔ ابھی وہ یہ سوچتا جا رہا تھا کہ ایک چیتل اور اس کے پیچھے لگے جنگلی کتے چند گز کے فاصلے سے گزرے۔ اس کے اغوا کار یہ منظر دیکھنے لگے تو اس بندے نے لمبی گھاس میں جست لگائی اور اس بندے کی تلوار سے لگنے والے زخم کے باوجود اس نے تعاقب والوں کو جھٹک دیا اور ٹرنک روڈ پہنچ کر دوڑتا ہوا وہ ہم تک پہنچا تھا جہاں ہم تیندوے کے منتظر تھے۔

سلطانہ بھنٹو قبیلے سے تعلق رکھتا تھا جو جرائم پیشہ مشہور ہے۔ مجھے اسے بات سے غرض نہیں ہے کہ کسی پورے قبیلے کو کیوں جرائم پیشہ کہا جاتا ہے یا پھر انہیں نجیب آباد کے قلعے میں کیوں رکھا جاتا ہے۔ سلطانہ کو اس کی نوجوان بیوی اور شیرخوار بیٹے کے ہمراہ قلعے میں سالویشن آرمی کی نگرانی میں رکھا گیا تھا۔ قید سے تنگ آ کر ایک روز اس نے قلعے کی مٹی سے بنی دیوار میں سوراخ کیا اور نکل گیا۔ اب سلطانہ کو فرار ہوئے ایک سال ہو گیا تھا اور اس دوران اس نے ایک سو سے زیادہ بندے جمع کر لیے تھے جن کے پاس بندوقیں بھی تھیں۔ ان کا مقصد ڈکیتیاں تھا اور یہ لوگ ترائی اور بھابھر کے جنگلات میں زندگی بسر کرتے تھے اور ان کی سرگرمیاں گونڈا سے سہارنپور تک پھیلی ہوئی تھیں جو کئی سو میل بنتا ہے اور بعض اوقات وہ پاس والے صوبے پنجاب میں بھی واردات کرتے تھے۔

سرکاری دفاتر میں سلطانہ کی سرگرمیوں سے متعلق کئی موٹی فائلیں موجود ہیں۔ مجھے ان فائلوں تک رسائی نہیں اور اگر میری کہانی کسی بھی طور سرکاری تفصیلات سے فرق ہو تو میں اس پر افسوس کا اظہار تو کر سکتا ہوں، مگر اپنے ایک حرف سے بھی لاتعلقی اختیار نہیں کروں گا۔

سلطانہ کے متعلق پہلی بار تب سنا جب وہ گروپو جنگلوں میں ہمارے کالا ڈھنگی والے گھر سے چند میل دور مقیم تھا۔ اس وقت کماؤں کے کمشنر پرسی ونڈہم تھے۔ چونکہ سلطانہ کی سرگرمیاں ترائی اور بھابھر سے متعلق تھیں جو ان کے ماتحت علاقہ تھا، اس لیے پرسی نے فریڈی ینگ کی خدمات حاصل کرنے کے لیے حکومت سے درخواست کی۔ فریڈی ینگ کئی برس سے صوبجات متحدہ میں کام کر رہا تھا۔ حکومت نے یہ درخواست قبول کرتے ہوئے ڈکیتیوں کے خلاف باقاعدہ تین سو منتخب افراد کو فریڈی کے حوالے کر دیا۔ اس بارے فریڈی کو آزادی تھی کہ وہ کون سے تین سو افراد چنتا ہے۔ چونکہ فریڈی نے آس پاس کے محکمہ پولیس سے بہترین افراد چنے، اس لیے ہم پیشہ افراد اسے زیادہ پسند نہیں کرتے تھے۔ چونکہ سلطانہ کی گرفتاری پر بھاری انعام مقرر تھا، اس لیے تمام متعلقہ افراد اس کے پیچھے لگے ہوئے تھے اور اب فریڈی ان سے ان کے بہترین ماتحت لے گیا۔

جب فریڈی ماتحت منتخب کر رہا تھا تو اس وقت سلطانہ ترائی اور بھابھر کے چھوٹے چھوٹے دیہاتوں میں لوٹ مار میں مصروف تھا۔ فریڈی نے سلطانہ کو پکڑنے کی پہلی کوشش رام نگر کے مغرب کے جنگلات میں کی۔ انہی دنوں محکمہ جنگلات نے ان جنگلات کی کٹائی شروع کرائی تھی اور ایک ٹھیکیدار کو کہا گیا کہ وہ سلطانہ کو مدعو کرے جو ان دنوں قریب ہی کہیں مقیم تھا۔ دعوت میں پہلے ناچ گانا اور پھر کھانا تھا۔ سلطانہ اور اس کے ساتھیوں نے بخوشی یہ دعوت قبول کر لی اور دعوت شروع ہونے سے ذرا قبل اس نے میزبان کو کہا کہ وہ پہلے کھانا کھائیں گے تاکہ پھر ناچ گانے سے اچھی طرح لطف اندوز ہو سکیں۔

یہاں یہ وضاحت کرنا ضروری ہے کہ مشرق میں مہمانوں کو ناچ پر بلانے کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ مہمان بھی ناچیں گے۔ ناچنے کا کام پیشہ ور خواتین کرتی ہیں اور ان کے ساتھ مرد سازندے ہوتے ہیں۔ مخبری پر انعام دونوں جانب سے دیا جاتا تھا اور اس بارے دونوں کے اپنے اپنے خفیہ مخبر تھے۔ سلطانہ کو فائدہ یہ تھا کہ وہ نہ صرف مخبری پر انعام دیتا بلکہ اطلاع چھپانے پر یا غلط مخبری پر سزا بھی دیتا تھا جبکہ فریڈی کے پاس صرف انعام دینے کا اختیار تھا۔ جب سلطانہ کی طرف سے دی جانے والی سزاؤں کی خبریں پھیلنے لگیں، لوگ مخبری کرنے سے کترانے لگے۔

نجیب آباد کے قلعے میں رہتے ہوئے سلطانہ کو بخوبی علم تھا کہ غربت کیا ہوتی ہے اور اسے غریبوں سے دلی ہمدردی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ سلطانہ نے کبھی کسی غریب سے ایک آنہ بھی نہیں چھینا، کبھی مدد کی درخواست رد نہیں کی اور چھوٹے دوکانداروں سے خریدی گئی ہر چیز کی دوگنی قیمت ادا کی۔ ظاہر ہے کہ اس کے مخبروں کی تعداد سینکڑوں میں تھی اور اسے بخوبی علم تھا کہ ناچ اور کھانے کی دعوت کے پیچھے فریڈی ہے۔

دعوت کے انتظامات جاری تھے۔ ٹھیکیدار امیر بندہ تھا، سو اس نے اپنے دوستوں کو رام نگر اور کاشی پور سے بلوا بھیجا اور ناچ کے لیے بہترین خواتین اور سازندے منگوائے۔ کھانے پینے کا سامان اور شراب کو بیل گاڑیوں پر لاد کر جنگل پہنچایا گیا۔

رات کو مطلوبہ وقت پر ٹھیکیدار کے مہمان جمع ہوئے اور دعوت شروع ہوئی۔ ٹھیکیدار کے مہمانوں سے سلطانہ اور اس کے آدمیوں کو چھپایا جانا مشکل نہیں تھا کہ ہندوستان میں مختلف ذاتوں کے الگ الگ بیٹھنے کی جگہیں تھیں اور الاؤ اور چند لالٹینوں کی روشنی قطعی ناکافی تھی۔ سلطانہ اور اس کے ساتھیوں نے کھانے پینے اور شراب کے استعمال میں عقلمندی دکھائی اور طعام اختتام پذیر ہو رہا تھا تو سلطانہ نے اپنے میزبان کو ایک طرف لے جا کر اس کا شکریہ ادا کیا اور بتایا کہ انہیں طویل سفر درپیش ہے اور وہ اب رخصت چاہیں گے۔ اس نے درخواست کی کہ باقی ساری دعوت حسبِ معمول چلتی رہے۔ سلطانہ کی درخواست کوئی رد نہیں کر سکتا تھا۔

ناچ کے دوران سب سے زیادہ آواز ڈھول کی ہوتی ہے اور فریڈی کے لیے یہی اشارہ مقرر تھا کہ وہ اپنی کمین گاہ سے نکل کر دعوت کے مقام کا گھیراؤ کر لے۔ اس کی سپاہ کا ایک حصہ ایک مقامی فارسٹ گارڈ کے ذمے تھا جو تاریک رات میں راستہ بھول گیا۔ اس حصے کا کام سلطانہ کے فرار کا راستہ روکنا تھا مگر ان کی ساری رات راستہ تلاش کرتے ہوئے گزری۔ یہ فارسٹ گارڈ سلطانہ کی طرح اسی جنگل میں رہتا تھا اور اسے راستہ بھولنے کی ضرورت نہیں تھی کہ اس کی مخبری پر ہی سلطانہ نے اپنے پروگرام میں معمولی سی تبدیلی کر کے اپنا بچاؤ کر لیا تھا۔ سو جب یہ سب انتہائی دشوار جنگلات سے راستہ بناتے جب مطلوبہ مقام پر پہنچے تو وہاں محض متحیر تماشائی اور گھبرائی ہوئی لڑکیاں اور ان کے سازندے ہی ملے۔

رام نگر کے جنگلات سے فرار ہو پنجاب چلا گیا جہاں اس کے چھپنے کے لیے کوئی جنگلات نہیں ہیں۔ اس لیے وہاں مختصر قیام کے بعد جب سلطانہ صوبہ جاتِ متحدہ کے گھنے جنگلات کو لوٹا تو اس کے پاس ایک لاکھ روپے سے زیادہ مالیت کے طلائی زیورات تھے۔ پنجاب سے واپسی پر اسے دریائے گنگا عبور کرنا تھا اور تمام ایسے پُلوں پر پہرہ تھا جہاں سے اس کے گزرنے کے امکانات تھے۔ یہ پُل چار چار میل کے فاصلے پر بنے تھے۔

اپنے مخبروں کی مدد سے ان پلوں سے بچ کر سلطانہ نے ایسی جگہ سے عبور کیا جہاں چوکی پہرہ نہیں تھا اور عبور کرتے ہوئے وہ ایک بڑے دیہات کے قریب سے گزرا جہاں سے موسیقی سنائی دے رہی تھی۔ جب سلطانہ کو علم ہوا کہ ایک امیر آدمی کے بیٹے کی شادی ہے، سو اس نے وہاں کا رُخ کیا۔

شادی کی تقریب گاؤں کے وسط میں میدان میں ہو رہی تھی اور ہزاروں مہمان جمع تھے۔ جب سلطانہ تیز روشنی کے دائرے میں داخل ہوا تو اس وضع قطع سے لوگ گھبرا گئے۔ مگر سلطانہ نے انہیں بیٹھے رہنے کا کہا اور بولا کہ اگر اس کے مطالبات تسلیم کر لیے گئے تو کسی کو کوئی خطرہ نہیں۔ پھر اس نے گاؤں کے نمبر دار اور دولہے کے باپ کو بلا کر بولا کہ یہ خوشحالی کا وقت ہے اور تحفے دینے اور لینے کا بھی۔ اس لیے وہ نمبر دار کی حالیہ خرید کی گئی بندوق اپنے لیے اور اپنے آدمیوں کے لیے دس ہزار روپے چاہتا ہے۔ فوراً سے بیشتر بندوق اور دس ہزار روپے پیش کیے گئے اور مجمعے کو شب بخیر کہتے ہوئے سلطانہ اور اس کے آدمی چلے گئے۔ اگلی صبح جا کر سلطانہ کو علم ہوا کہ اس کے نائب پیلوان نے دلہن اغوا کر لی تھی۔ سلطانہ کسی قیمت پر خواتین کی بے حرمتی برداشت نہیں کرتا تھا اور اس نے پیلوان کو سخت سزا دی دلہن کو اس تکلیف کے بدلے مناسب تحائف کے ساتھ واپس بھیج دیا۔

چرواہے کی ٹانگ زخمی کرنے کے واقعے کے بعد سلطانہ کچھ عرصہ اس مقام پر رہا۔ اس کی قیام گاہ اکثر بدلتی رہتی تھی اور کئی بار شکار کے دوران میں نے اس کی چھوڑی ہوئی قیام گاہیں دیکھی تھیں۔ ایک بار ایسے موقع پر دلچسپ تجربہ ہوا۔

ایک بار میں نے فائر ٹریک پر گھر سے پانچ میل دوری پر خوبصورت تیندوا مارا اور چونکہ گھر جا کر ملازمین کو لانے کا وقت نہیں تھا، اس لیے میں نے وہیں اس کی کھال اتاری اور گھر روانہ ہو گیا۔ گھر پہنچ کر معلوم ہوا کہ میرا پسندیدہ شکاری چاقو وہیں رہ گیا ہے۔

اگلی صبح میں بہت جلدی چاقو لانے روانہ ہوا اور جب اس جگہ پہنچا تو مجھے جنگل کے ایک قطعے سے روشنی جھلملاتی دکھائی دی جو اس مقام سے کچھ دور تھی۔ سلطانہ کی موجودگی کے بارے کئی دن سے اطلاعات مل رہی تھیں اور نجانے کس خیال کے تحت میں نے جا کر دیکھنے کا فیصلہ کیا۔ شبنم کی وجہ سے پتہ نرم ہو چکے تھے اور انتہائی خاموشی سے میں ان کے قریب جا پہنچا۔ وہاں ایک چھوٹے سے نشیب میں بیس پچیس افراد دائرے کی صورت میں آگ کے گرد بیٹھے تھے۔ ان کے ساتھ ایک درخت کے ساتھ بندوقیں کھڑی کی ہوئی تھیں اور ان کی نالیاں آگ کی روشنی منعکس کر رہی تھیں۔ سلطانہ موجود نہیں تھا۔ مجھے سلطانہ کا حلیہ معلوم تھا کہ وہ دبلا پتلا اور پھرتیلا جوان ہے اور اس نے ہمیشہ خاکی کپڑے پہنے ہوتے ہیں۔

صاف لگ رہا تھا کہ یہ لوگ اس کے گروہ کا حصہ ہیں، مگر ان کا کیا کیا جائے؟  کالا ڈھنگی میں بوڑھا ہیڈ کانسٹیبل اور اس کے دو سپاہی بیکار تھے۔ نزدیکی چوکی پھر پندرہ میل دور ہلدوانی میں تھی۔ ابھی میں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ ایک بندے نے کہا کہ چلنا چاہیے۔ اب اگر میں چھپنے کی کوشش کرتا تو پکڑا جاتا اور مشکلات بڑھ جاتیں۔ میں نے تیز تیز چند قدم اٹھائے اور سیدھا ان بندوں اور ان کی بندوقوں کے درمیان پہنچ گیا۔ مجھے دیکھتے ہی ان کے چہروں پر حیرت کے آثار نظر آنے لگے کہ میں تھوڑا بلندی پر تھا۔ جب میں نے ان سے پوچھا کہ وہ یہاں کیا کر رہے ہیں تو انہوں نے ایک دوسرے کو دیکھا اور آخرکار ایک بولا، ’’کچھ بھی نہیں۔‘‘ مزید سوال جواب کرنے پر پتہ چلا کہ یہ لوگ بریلی سے آئے ہیں اور لکڑی جلا کر کوئلہ پیدا کرنا ان کا پیشہ ہے۔ راستہ بھول کر یہاں پہنچ گئے ہیں۔ پھر میں نے مڑ کر ان کی بندوقوں کی جانب دیکھا تو وہ ان کی کلہاڑیاں تھیں جن کے مسلسل استعمال سے چمکتے ہوئے دستے مجھے پہلی نظر میں بندوقوں کی نالیاں محسوس ہوئی تھیں۔ میں نے انہیں بتایا کہ میرے پیر ٹھنڈے اور بھیگے ہیں سو میں پیر سینکنے ان کے ساتھ بیٹھ گیا۔ جب میرے دیے ہوئے سگریٹ پینے اور گپ شپ سے فراغت ہوئی تو میں نے انہیں ان کی منزل کا راستہ سمجھا دیا۔ پھر میں نے اپنا چاقو تلاش کیا اور گھر لوٹ آیا۔ جب سنسنی خیز صورتحال ہو تو انسانی تصور عجب تماشا دکھاتا ہے۔ ایک بار شیر کے شکار کردہ سانبھر کے قریب میں زمین پر چھپ کر بیٹھا تھا اور شیر کو آتے سنا جو مسلسل آئے جا رہا تھا مگر کسی طور بھی فاصلہ کم نہیں ہو رہا تھا۔ جب تجسس ناقابلِ برداشت ہو گیا تو میں نے اِدھر اُدھر دیکھا تو پتہ چلا کہ ایک چھوٹا سا کیڑا میرے سر کے قریب ایک خشک پتے کو کتر رہا تھا۔ ایک بار اور بھی جب شیر اپنے شکار کردہ جانور کو لوٹنے والا تھا تو میں نے گوشہ چشم سے ایک بڑے جانور کو آتے دیکھا۔ جب میں رائفل کو تان کر گولی چلانے کو تیار ہو رہا تھا کہ میں نے غور کیا کہ میرے سر کے پاس موجود ایک خشک ٹہنی پر چیونٹی چل رہی تھی۔ سلطانہ کے بارے سوچتے ہوئے جب میں نے کلہاڑیوں کے چمکدار دستے چمکتے دیکھے تو انہیں بندوقوں کی نال سمجھا اور ان کی طرف دوبارہ تب دیکھا جب ان افراد نے بتایا کہ وہ کوئلہ جلانے والے ہیں۔

منظم ہونے کے علاوہ بہتر ذرائع نقل و حمل کی وجہ سے فریڈی کا دباؤ سلطانہ پر پڑنے لگا اور اس سے بچنے کے لیے سلطانہ نے اپنے ہمراہیوں کے ساتھ ضلع کے مشرقی کنارے پر پیلی بھیت کا رخ کیا۔ اُس وقت تک سلطانہ کے کافی ساتھی یا تو اس کا ساتھ چھوڑ گئے تھے یا گرفتار ہو گئے۔ پیلی بھیت میں چند ماہ قیام کے دوران سلطانہ پیلی بھیت گورکھا پور تک وارداتیں کرتا اور سونا جمع کرتا رہا۔

ہمارے علاقے کے جنگلات کو واپسی کے بعد اسے پتہ چلا کہ ریاست رام پور کی ایک بہت امیر ناچنے والی لڑکی لام چور گاؤں کے نمبر دار کے پاس رہنے آ گئی ۔ یہ گاؤں ہمارے گھر سے سات میل دور تھا۔ متوقع حملے کے پیشِ نظر نمبر دار نے تیس مزارعوں کو چوکیداری پر لگا دیا۔ چوکیداروں کے پاس کوئی اسلحہ نہیں تھا اور جب سلطانہ پہنچا تو جتنی دیر وہ اس گھر کا محاصرہ کرتے، وہ لڑکی اپنے زیورات کے ساتھ پچھلے دروازے سے فرار ہو گئی۔ جب نمبر دار اور اس کے ملازمین نے لڑکی کے وجود سے لاعلمی ظاہر کی تو سلطانہ نے حکم دیا کہ ان سب کو باندھ کر تشدد کیا جائے۔ اس پر مزارعین نے اعتراض کیا کہ وہ ملازمین کے ساتھ جو چاہے کرے، مگر نمبر دار کی اس طرح بے عزتی نہیں کر سکتا۔ سلطانہ نے اس بندے کو بکواس بند کرنے کو کہا۔ ایک ڈاکو رسی لے کر نمبر دار کی طرف بڑھا تو اس مزارع نے دیوار سے ٹکا باس اٹھا کر اس پر حملہ کیا۔ اسی اثنا میں ایک اور ڈاکو نے اس پر گولی چلا دی جو مزارع کی چھاتی میں لگا۔ سلطانہ کو یہ ڈر لگا کہ کہیں گاؤں والے گولی کی آواز سے خبردار ہو کر حملہ نہ کر دیں، یہ لوگ فرار ہو گئے۔ مگر فرار ہوتے ہوئے نمبر دار کے نئے گھوڑے کو ساتھ لیتے گئے۔ اگلی صبح مجھے اس بہادر مزارع کے قتل کا پتہ چلا۔ میں نے اس کے خاندان کے بارے معلومات لینے ایک بندہ بھیجا اور آس پاس کے تمام دیہاتوں کے نمبرداروں کو کھلا خط بھیجا کہ وہ متوفی کے خاندان کے لیے چندہ جمع کرنا چاہیں تو کریں۔ میرے خط کا جواب بہت فراخ دلانہ تھا کہ ہندوستان کے غریب ہمیشہ سخی ہوتے ہیں۔ مگر یہ چندہ جمع کرنے کی نوبت نہیں آئی کہ اپنے مالک کے لیے جان دینے والا یہ بہادر آدمی ۲۰ برس قبل نیپال سے آیا تھا اور اس کے دوستوں اور نیپال سے میرے استفسار پر اس کے بیوی بچوں کے بارے کوئی پتہ نہ چل سکا۔

اس واقعے کے بعد میں نے فریڈی کی درخواست قبول کر لی کہ سلطانہ کے خلاف اس کی مدد کروں۔ ایک ماہ بعد میں ہردوار اس کے صدر دفتر پہنچا۔ مرزا پور میں اپنی تعیناتی کے اٹھارہ برس کے دوران ونڈہم نے دس کول اور دس بھونیوں کو شیروں کے شکار کے لیے بھرتی کیا تھا۔ یہ لوگ مرزا پور کے جنگلات میں رہتے تھے۔ ان میں چار بہترین لوگ جو میرے دوست بھی تھے، کو ونڈہم نے فریڈی کے حوالے کیے تھے اور وہ لوگ ہردوار میرے منتظر تھے۔

فریڈی کا منصوبہ یہ تھا کہ میں اور یہ چار افراد مل کر سلطانہ کو تلاش کریں اور جب اس کا اتہ پتہ مل جائے تو ہم فریڈی کے مسلح ساتھیوں کو مناسب مقام تک لے جائیں جہاں سے حملہ کیا جا سکے۔ جیسا کہ میں پہلے بتا چکا تھا، یہ دونوں کام رات کے وقت ہونے تھے۔ سلطانہ مسلسل حرکت میں رہتا تھا۔ شاید وہ پریشان تھا یا پھر اسے فریڈی کے منصوبوں کے بارے قبل از وقت علم ہو جاتا تھا، اس نے ایک روز سے زیادہ وقت کہیں نہیں گزارا اور رات کو ہمیشہ طویل سفر پر نکل جاتا تھا۔

موسم انتہائی گرم تھا اور بیکار بیٹھے رہنے کی وجہ سے ہم تھک گئے تھے۔ اس لیے اُس رات کھانے کے بعد میں اپنے ساتھیوں سے مشورہ کر کے فریڈی سے بات کی۔ فریڈی برآمدے میں ایسی جگہ بیٹھا جہاں سے کوئی ہماری گفتگو نہ سن سکتا، میں نے اس کے سامنے یہ منصوبہ پیش کیا۔ فریڈی یہ بات پھیلاتا کہ ان چار افراد اور مجھے ونڈہم نے شیر کے شکار پر بلایا ہے اور ہمارے لیے ہلدوانی کے لیے ٹکٹ خریدے جائیں اور ہم رات کی ٹرین پر روانہ ہو جاتے۔ تاہم اگلے سٹیشن پر اتر کر میں اپنی رائفل اور میرے ساتھی فریڈی کی دی ہوئی بندوقوں کے ہمراہ ٹرین سے اتر جاتے۔ اس کے بعد ہمیں کھلی اجازت ہوتی کہ زندہ یا مردہ، جیسا بھی ہو، ہم سلطانہ کو لے آتے۔

میری تجویز سن کر فریڈی نے کافی دیر تک آنکھیں بند کر کے سوچ بچار کیا۔ اس کا وزن بیس سٹون اور چار پاؤنڈ (۱۲۷ کلو) تھا اور ظاہر ہے کہ کھانے کے بعد غنودگی طاری ہو گئی ہوگی۔ مگر وہ پوری طرح ہوشیار تھا کہ اچانک سیدھے ہوتے ہوئے اس نے کہا، ’’نہیں۔ میں آپ لوگوں کی زندگیوں کا ذمہ دار ہوں اور اس پاگل پن کی اجازت نہیں دوں گا۔‘‘

چونکہ اس کے ساتھ بحث کا کوئی فائدہ نہیں تھا، سو اگلی صبح ہم پانچوں افراد بذریعہ ٹرین واپس گھروں کو لوٹ گئے۔ میری تجویز غلط تھی اور فریڈی نے اسے رد کر کے بالکل ٹھیک کیا تھا۔ ہماری کوئی سرکاری حیثیت نہیں تھی اور سلطانہ کو پکڑنے یا ہلاک کرنے کی کوششوں کی صورت میں ہمیں کوئی سرکاری تحفظ نہ ملتا۔ اس کے علاوہ یہ بھی طے تھا کہ سلطانہ کو زندہ گرفتار کرنا ہے۔ چونکہ سلطانہ کی جان یا ہمیں کوئی خطرہ نہیں تھا، اس لیے فوری کوئی مجبوری نہیں تھی۔

تین ماہ بعد جب برسات پورے عروج پر تھی، فریڈی نے محکمہ جنگلات کے ہربرٹ سے کو ترائی اور بھابھر کے سپرنٹنڈنٹ فریڈ اینڈرسن کو مانگا اور مجھے بھی ہردوار بلا بھیجا۔ وہاں پہنچ کر پتہ چلا کہ فریڈی نے سلطانہ کی مستقل قیام گاہ کا پتہ چلا لیا ہے جو نجیب آباد کے جنگلات میں تھی اور ہمیں اپنی مدد کو بلوایا تھا تاکہ ہم جنگل میں اس کا گھیراؤ کر کے فرار کا راستہ مسدود کر سکیں۔

ہربرٹ پولو کا مشہور کھلاڑی تھا اور اسے پچاس مسلح گھڑ سواروں کے ساتھ سلطانہ کے فرار کا راستہ مسدود کرنا تھا جبکہ اینڈرسن اور میں فریڈی کے ساتھ رہتے اور گھیراؤ میں مدد کرتے۔ اب فریڈی کو سلطانہ کے مخبروں کے بارے کوئی شبہ نہیں رہ گیا تھا اور فریڈی کے دو نائبین اور ہم تین کے علاوہ کسی کو اس حملے کے بارے علم نہیں تھا۔ ہر روز شام کو پولیس کے مسلح دستے طویل گشت پر بھیجے جاتے اور ہم بھی الگ سے گشت پر نکلتے اور اندھیرا چھانے پر ہم ڈیم بنگلے کو لوٹ جاتے جہاں ہمارا قیام تھا۔ مطلوبہ رات کو بجائے گشت پر جانے کے، ہم نے انہیں ہردوار کے گودام کی طرف بھیجا جہاں کئی بوگیاں کھلے دروازوں کے ساتھ کھڑی تھیں۔ یہ دروازے دفتری عمارات کی مخالف سمت تھے۔ انجن اور دیگر لوازمات بھی موجود تھے۔ جب ہم پہنچے تو پورا دستہ سوار ہو چکا تھا اور دروازے بند ہو رہے تھے۔ ہم لوگ گارڈ کی بوگی میں سوار ہوئے اور بغیر کسی سیٹی کے ٹرین چل پڑی۔ کسی قسم کے شک سے بچنے کے لیے ہم نے ہر کام معمول کے مطابق کیا تھا، چاہے وہ جوانوں کے کھانے کا معمول ہو یا پھر ہمارا۔

ہم نے تاریکی چھانے کے ایک گھنٹے بعد سفر شروع کیا۔ نو بجے ٹرین جنگل کے وسط میں موجود دو سٹیشنوں کے درمیان رک گئی۔ ہم نے پیغام بھجوایا کہ تمام افراد اتر جائیں اور پھر ٹرین آگے روانہ ہو گئی۔

فریڈی کے دستے کی تعداد ۳۰۰ مسلح جوان تھی اور ان میں سے پچاس ہربرٹ کے زیرِ کمان تھے۔ ہربرٹ پہلی جنگِ عظیم میں ہندوستانی گھڑ سوار دستے کے ساتھ فرانس میں جنگ لڑ چکا تھا۔ ان لوگوں کو ایک رات قبل ہی طویل چکر کاٹ کر ان کے گھوڑوں کی جانب بھیج دیا گیا تھا۔ اب باقی کے اڑھائی سو جوان اور ہم لوگ بیس میل کے سفر پر روانہ ہو گئے۔ فریڈی سب سے آگے اور میں سب سے پیچھے تھا۔ سارا دن بادل جمع ہوتے رہے تھے اور جب ہم روانہ ہوئے تو موسلا دھار بارش شروع ہو گئی۔

ہم نے شمال کی جانب ایک میل، پھر دو میل مشرق، پھر دو میل مغرب اور پھر باقی کا سفر شمال کو طے کرنا تھا۔ مجھے علم تھا کہ سمتوں کی تبدیلی کی وجہ ان دیہاتوں سے بچ کر گزرنا تھی جہاں سلطانہ کے مخبر موجود تھے۔ اس سفر کو جتنی مہارت سے طے کیا گیا، اس کا ثبوت اس بات سے ملتا ہے کہ ایک بار بھی کوئی مقامی کتے، جو کہ دنیا کے بہترین چوکیدار کتے ہیں، نہیں بھونکے۔ گھنٹوں پر گھنٹے گزرتے گئے اور ہمارا مارچ جاری رہا۔ میرے سامنے زمین دلدل بنی ہوئی تھی جہاں ہر دوسرا قدم گھٹنے تک کیچڑ میں دھنس جاتا کہ اس کیچڑ پر اڑھائی سو افراد مجھ سے قبل چل کر گئے تھے۔ کئی میل کا سفر ایلیفنٹ گھاس میں ہو کر گزرا جو میرے قد سے زیادہ اونچی تھی اور وہاں ایک ہاتھ سے اپنی آنکھیں بچائے اور بمشکل توازن برقرار رکھے جا رہا تھا۔ اس روز مجھے فریڈی کی ہمت پر حیرت ہوئی کہ اگرچہ اس کے سامنے کیچڑ زیادہ نہیں تھا مگر اس کا وزن مجھ سے لگ بھگ نو سٹون یعنی ۴۵ کلو زیادہ تھا۔ سارا سفر ہم نے رکے بنا طے کیا۔

ہم لوگ نو بجے روانہ ہوئے تھے اور دو بجے میں نے فریڈی کو زبانی پیغام بھجوایا کہ کیا ہم درست سمت جا رہے ہیں؟  اس کی وجہ یہ تھی کہ ایک گھنٹہ قبل ہم نے شمال کی بجائے مشرق کو رخ کر لیا تھا۔ طویل وقفے کے بعد جواب آیا کہ کپتان صاحب نے کہا ہے کہ سب ٹھیک ہے۔ مزید دو گھنٹے ہم گھنے جنگلات اور گھاس کے میدانوں سے گزرے اور پھر میں نے دوسرا پیغام بھجوایا کہ سب رک جائیں، میں اس سے بات کرنے آ رہا ہوں۔ روانگی کے وقت سے ہم خاموش تھے اور میں خاموش اور تھکے ہوئے جوانوں کے پاس سے گزرتا ہوا آگے گیا جن میں سے کچھ گیلی زمین پر بیٹھے تھے تو کچھ نے درختوں سے ٹیک لگائی ہوئی تھی۔

فریڈی اور اینڈرسن چار رہنماؤں کے ساتھ کھڑے تھے۔ جب فریڈی نے پوچھا کہ کیا بات ہے تو میں نے بتایا کہ جوان تو سب ٹھیک ہیں مگر باقی سب غلط ہے کہ ہم دائروں میں گھوم رہے تھے۔ جنگلات میں ساری زندگی رہنے کی وجہ سے مجھے سمتوں کا تعین کرنے کی عادت ہو گئی تھی اور یہ صلاحیت دن اور رات، ہر وقت بخوبی کام کرتی تھی۔ سفر کے شروع میں سمت کی تبدیلی اتنی ہی واضح تھی جتنی کہ دو گھنٹے قبل شمال سے مشرق کی سمت تبدیلی۔ اس کے علاوہ ایک گھنٹہ قبل جب میں نے رکنے کا پیغام بھجوایا تھا تو میں سیمل کے درخت کے نیچے تھا جس پر گدھ کا گھونسلہ بنا ہوا تھا اور پہلا پیغام بھجواتے وقت بھی میں اسی درخت کے نیچے تھا۔

ہمارے چار رہنماؤں میں سے دو بھنٹو تھے جو سلطانہ کے ساتھ رہ چکے تھے اور انہیں چند روز قبل ہردوار کے بازار سے گرفتار کیا گیا تھا اور انہی کی معلومات پر اس حملے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ یہ لوگ دو سال سے وقتاً فوقتاً سلطانہ کے ساتھ کام کر چکے تھے اور آج رات کی کامیابی پر ان کو چھوڑ دینے کا وعدہ تھا۔ دیگر دو افراد مقامی چرواہے تھے جو ساری عمر انہی جنگلوں میں مویشی چراتے رہے تھے اور سلطانہ کو روزانہ دودھ بھجواتے تھے۔ چاروں سے جب پوچھا گیا تو انہوں نے سختی سے راستہ بھولنے سے انکار کیا۔ تاہم جب سختی کی گئی تو جھجھک کر بولے کہ اگر انہیں پہاڑ دکھائی دیں تو وہ راستہ بہتر جان سکیں گے۔ اندھیری رات میں تیس میل دور پہاڑ کسی طور بھی دکھائی نہیں دے سکتے تھے کہ دھند اترنا شروع ہو گئی تھی۔ اس طرح فریڈی کا شب خون کا سارا منصوبہ خطرے میں پڑ گیا۔ یہ بات ہمارے رہنما واضح کر چکے تھے کہ دن کے وقت اس سمت سے پیش قدمی ممکن نہیں تھی کہ اونچے درخت پر بنی مچان پر سلطانہ کے دو آدمی مستقل نگرانی کرتے تھے۔

ہمارے رہنما بھٹکنے کے بارے بتا چکے تھے اور اب ہمارے پاس ایک گھنٹہ بچا تھا کہ پھر روشنی ہونے لگ جاتی اور ابھی ہمیں یہ بھی علم نہیں تھا کہ ہم مطلوبہ مقام سے کتنی دور ہیں۔ ہر گزرتا لمحہ ہماری ناکامی کے امکانات بڑھاتا جا رہا تھا۔ پھر مجھے ایک خیال آیا۔ میں نے ان لوگوں سے پوچھا کہ کیا مطلوبہ سمت میں کوئی پگڈنڈی یا کوئی ایسی بڑی علامت ہے کہ جہاں سے وہ راستہ پہچان سکیں۔ انہوں نے بتایا کہ سلطانہ کے کیمپ سے ایک میل جنوب میں بیل گاڑیوں کا راستہ گزرتا ہے۔ فریڈی کی اجازت سے میں نے رہبری سنبھالی اور سارے جوان میرے پیچھے چل پڑے۔ میں نے رفتار تیز رکھی اور میرے علاوہ شاید سبھی یہ سوچ رہے تھے کہ ہمارا رخ واپسی کی جانب ہے۔ بارش رک گئی تھی اور تازہ ہوا کی وجہ سے بادل چھٹ گئے تھے اور مشرق میں روشنی نمودار ہونے لگی تھی میں بیل گاڑی والے راستے پر پہنچا۔ اسی راستے کے بارے ہمارے رہنماؤں نے کہا تھا۔ راستے کو دیکھتے ہی ان کی خوشی سے اندازہ ہو گیا کہ وہ سچ بول رہے ہیں اور وہ جان بوجھ کر راستہ نہیں بھولے۔ یہاں سے انہوں نے رہنمائی کا فریضہ سنبھال لیا اور ایک میل دور جا کر انہوں نے جنگلی جانوروں کی ایک پگڈنڈی سنبھالی۔ نصف میل آگے جا کر تیس فٹ چوڑی ندی آئی اور مجھے یہ دیکھ کر انتہائی خوشی ہوئی کہ ہمیں یہ ندی عبور نہیں کرنی ہوگی۔ ترائی کی ندیوں سے مجھے ہمیشہ خوف آتا ہے کہ ان کے کناروں اور بہاؤ میں بڑے اژدہے دیکھے ہیں۔ ہمارا راستہ اس ندی کے دائیں کنارے کو مڑا جہاں ہمارے کندھوں تک گھاس آ رہی تھی۔ چند سو گز آگے جا کر ہمارے رہنما آہستہ ہو گئے اور مسلسل بائیں جانب دیکھنے لگے۔ اس سے مجھے اندازہ ہوا کہ ہم قریب پہنچ رہے ہیں۔ اب روشنی ہو چکی تھی اور سورج درختوں سے بلند ہو گیا تھا۔ اب مچان سے دیکھ لیے جانے کا پورا امکان تھا۔ اچانک اگلا بندہ زمین پر بیٹھ گیا اور اس کا ساتھی بھی بیٹھ گیا۔ پھر اس نے مڑ کر ہمیں بلایا۔

سب کو رکنے کا اشارہ کر کے فریڈی، اینڈرسن اور میں احتیاط سے آگے پہنچے۔ ان کے پاس لیٹ کر ہم نے گھاس سے جھانکا تو دیکھا کہ ایک بڑے درخت کی بالائی شاخوں پر زمین سے تیس یا چالیس فٹ بلندی پر مچان بنی ہوئی تھی۔ مچان پر دو آدمی تھے جن میں ایک کا دائیاں شانہ ہماری جانب تھا اور وہ حقہ پی رہا تھا جبکہ دوسرا بندہ پشت کے بل لیٹا ہوا تھا۔ یہ درخت عین اس جگہ تھا جہاں گھاس کا میدان اور جنگل ملتے تھے۔ رہنماؤں کے بقول سلطانہ کا کیمپ مزید تین سو گز جنگل کے اندر تھا۔

پہلا خیال تو یہ تھا کہ ہم جہاں لیٹے تھے، وہاں بیس گز چوڑی اونچی گھاس کی پٹی تھی جو سیدھا نہر تک جاتی تھی۔ ہم لوگ تھوڑا پیچھے جا کر ندی عبور کرتے اور مخالف سمت سے سلطانہ کے کیمپ کو پیش قدمی کرتے مگر رہنماؤں نے بتایا کہ ایسا ممکن نہیں۔ ندی بہت گہری تھی اور دوسرے کنارے پر دلدل بھی تھی۔ واحد امکان یہی تھا کہ ہم پورے دستے کو اس گھاس سے گزارتے مگر نگران کسی وقت بھی ہماری جانب دیکھ سکتے تھے۔

فریڈی کے پاس سروس ریوالور تھا اور اینڈرسن غیر مسلح۔ پورے دستے میں میں واحد بندہ تھا جس کے پاس رائفل تھی۔ پولیس والوں کے پاس بارہ بور کی بندوقیں اور بک شاٹ یعنی گراپ والے کارتوس تھے جو ساٹھ سے اسی گز تک موثر ہوتے ہیں۔ سو ان دو چوکیداروں سے مجھے ہی نپٹنا تھا۔ رائفل کی آواز سلطانہ کے کیمپ تک جاتی تو سہی مگر ہمارے رہنماؤں کا خیال تھا کہ جب رائفل کی آواز سننے کے بعد چوکیدار کیمپ نہ پہنچے تو پھر کیمپ سے صورتحال جاننے کے لیے بندے بھیجے جائیں گے۔ ان کے خیال میں یہ وقفہ ہمیں محاصرے کے لیے درکار وقت دے سکتا تھا۔

مچان پر بیٹھے دونوں بندے عادی مجرم اور قاتل تھے اور اپنی رائفل سے میں چاہتا تو ایک کے ہاتھ سے حقہ اور دوسرے کے جوتے کی ایڑی اڑا دیتا اور انہیں کوئی گزند نہ پہنچتا مگر کسی انسان کو قتل کرنا میرے بس سے باہر تھا۔ اس لیے میں نے متبادل تجویز پیش کی، فریڈی کی اجازت سے میں چھپتا چھپاتا ان کی طرف جاتا ہوں جو کہ میرے آسان کام تھا کیونکہ جنگل کی اونچی گھاس اس درخت تک پھیلی ہوئی تھی اور شبنم نچڑ رہی تھی۔ وہاں پہنچ کر میں مچان پر قبضہ کر لیتا اور فریڈی کے ساتھی محاصرے کا کام کر لیتے۔ پہلے پہل فریڈی نے ہچکچاہٹ دکھائی کہ مچان پر دو بندوقیں بھی تھیں، پھر اس نے اجازت دے دی۔ میں فوراً روانہ ہو گیا کہ رہنماؤں نے بتایا کہ چوکیداروں کی تبدیلی کا وقت ہو چکا تھا۔

ایک تہائی راستہ طے ہو چکا تو میں نے اپنے پیچھے آہٹ سنی اور مڑ کر دیکھا کہ اینڈرسن بعجلت چلا آ رہا تھا۔ اینڈرسن اور فریڈی کے درمیان کیا بات چیت ہوئی تھی، اس بارے کچھ کہنا ممکن نہیں کہ دونوں بہترین دوست تھے۔ خیر، اینڈرسن میرے ساتھ رہنے پر مصر تھا۔ اس نے اعتراف کیا کہ وہ جنگل میں خاموشی سے نہیں گزر سکتا سو اس بات کا کافی امکان تھا کہ مچان والے بندے آہٹ سن کر ہمیں دیکھ لیتے یا نئے آنے والے چوکیدار ہمیں دیکھ لیتے یا یہ بھی ممکن تھا کہ درخت کے پاس چاروں چوکیدار ایک ساتھ کھڑے ملتے۔ نہتا ہونے کی وجہ سے اینڈرسن اپنا دفاع کرنے کے قابل نہ ہوتا مگر پھر بھی میری خاطر وہ آن پہنچا۔ اینڈرسن سے زیادہ ضدی کوئی نہیں۔

مایوسی کی حالت میں میں نے واپسی کا سفر اختیار کیا تاکہ فریڈی کی مدد لے سکوں۔ فریڈی اس دوران مجھے اجازت دینے کے فیصلے پر نظر ثانی کر چکا تھا (بعد میں مجھے پتہ چلا کہ بھنٹو رہنماؤں نے بتایا تھا کہ مچان والے چوکیداروں کا نشانہ بہت عمدہ ہے ) اور جب اس نے ہمیں واپس آتے دیکھا تو اس نے حملے کا حکم دے دیا۔

پچاس یا اس سے زیادہ افراد کھلا میدان عبور کر چکے تھے اور سب سے آگے والے کیمپ سے ۲۰۰ گز دور تھے کہ ایک پر جوش جوان کانسٹیبل نے مچان کو دیکھتے ہی اس پر اپنی بندوق سے گولی چلا دی۔ مچان پر موجود چوکیدار ایک لمحے میں زمین پر پہنچ گئے اور وہاں بندھے گھوڑوں کو کھول کر ہوا ہو گئے۔ اب چونکہ خاموشی کی کوئی ضرورت نہیں تھی، اس لیے فریڈی نے اپنی بلند آواز میں حملے کا حکم دے دیا۔ ایک سیدھی قوس کی شکل میں ہم سب کیمپ جا پہنچے۔

کیمپ چھوٹے سے قطعے پر بنا تھا اور میں تین خیمے اور ایک گھاس پھونس سے بنا جھونپڑا تھا جو باورچی خانے کے طور پر استعمال ہوتا تھا۔ ایک خیمے میں آٹا، چاول، دال اور چینی کی بوریوں کے علاوہ گھی کے ڈبے، دو بڑے ڈبوں میں بارہ بور کے کئی ہزار کارتوس بھی تھے اور گیارہ بندوقیں ڈبوں میں بند تھیں۔ دیگر دو خیمے بطور خوابگاہ استعمال ہوتے تھے جہاں کپڑے اور کمبل وغیرہ بکھرے ہوئے تھے۔

باورچی خانے کے پاس ہی ایک درخت سے تین کھال اتری بکریاں ٹنگی ہوئی تھیں۔ عین ممکن تھا کہ چوکیداروں کی آمد پر گھبرا کر کچھ لوگ نیند سے بیدار ہوتے ہی بھاگ کر کیمپ کے پاس موجود گھاس میں چھپ گئے ہوں، سو ایک لمبی قطار کی کل میں جوانوں کو جنگل کی تلاشی کا حکم دیا گیا۔ یہ تلاشی ہربرٹ اور اس کے جوانوں کے مقام تک جانی تھی۔ جب تک قطار بنتی، میں نے اس کیمپ کے گرد چکر لگا کر قدموں کے نشانات تلاش کیے۔ دس بارہ افراد ننگے پیر بھاگتے ہوئے پاس موجود نالے میں گھسے تھے۔ میں نے فریڈی سے کہا کہ چل کر دیکھتے ہیں کہ یہ نشان کہاں جاتے ہیں۔ نالہ پندرہ فٹ چوڑا اور پانچ فٹ گہرا تھا اور فریڈی اور اینڈرسن کے ہمراہ میں اس کے کنارے کنارے چل پڑا۔ دو سو گز آگے جا کر پتھریلی سطح آئی جہاں نشانات گم ہو گئے۔ اس جگہ سے آگے نالہ پھیل جاتا تھا اور جہاں ہم کھڑے تھے، اس کے مقابل دوسرے کنارے پر برگد کا ایک بہت گھنا درخت تھا جس کے کئی تنے تھے اور شاخیں زمین پر لٹک رہی تھیں۔ مجھے یہ جگہ چھپنے کے لیے انتہائی مناسب نظر آئی۔ کنارے پر پہنچ کر دیکھا تو وہ میری تھوڑی تک آتا تھا۔ میں نے چڑھنے کی کوشش کی۔ کنارے پر گرفت کے لیے کوئی چیز نہیں تھی اور کنارے میں قدم جمانے کی گنجائش نہیں تھی کہ مٹی بہت بھربھری تھی۔ میں ابھی یہ سوچ رہا تھا کہ تھوڑا آگے جا کر کنارے پر چڑھوں اور پھر لوٹ کر اس جگہ کو دیکھوں کہ اچانک کیمپ کی سمت سے کئی بندوقوں کی آواز آئی۔ ہم نے بھاگم بھاگ کیمپ کا رخ کیا تو دیکھا کہ ایک حوالدار کو سینے میں بندوق کے چھرے لگے ہیں اور اس کے پاس ہی ایک ڈاکو پڑا تھا جس کی دونوں ٹانگوں پر بندوق کے چھرے لگے تھے۔ حوالدار درخت سے ٹیک لگائے بیٹھا تھا اور اس کی چھاتی پر بائیں جانب خون کا بڑا نشان تھا۔ فریڈی نے اپنی چھوٹی بوتل کھول کر حوالدار کے منہ سے لگائی مگر حوالدار نے اپنا منہ موڑ کر کہا،

’’صاحب، یہ شراب ہے، میں نہیں پی سکتا۔‘‘

جب ہم نے اصرار کیا تو وہ بولا، ’’ساری عمر میں نے شراب نہیں چکھی۔ اب میں اپنے ہونٹوں پر شراب لے کر خالقِ حقیقی سے کیسے ملوں؟  مجھے پیاس لگی ہے، تھوڑا سا پانی پلا دیں۔‘‘

اس کا بھائی ساتھ ہی کھڑا تھا کسی نے اپنا ہیٹ اتار کر اسے دیا جو وہ بھاگ کر ندی کے گدلے پانی سے بھر لایا۔ یہی ندی پہلے ہمارے لیے مشکلات کا سبب دکھائی دیتی تھی۔ اس کے زخم کا سبب ایک گراپ بنا تھا اور جب میں نے اسے کھال کے نیچے ٹٹولنے کی کوشش کی تو نہیں ملا۔ میں نے کہا، ’’حوالدار صاحب، حوصلہ رکھو۔ نجیب آباد کا ڈاکٹر تمہیں ٹھیک کر دے گا۔‘‘ مسکراتے ہوئے وہ بولا، ’’صاحب، میں حوصلہ رکھے ہوئے ہوں۔ مگر کوئی ڈاکٹر میرا علاج نہیں کر سکتا۔‘‘

ڈاکو کو شراب کی کوئی ممانعت نہیں تھی سو اس نے فوراً ہی بوتل خالی کر دی۔ شاید اسے اس کی ضرورت بھی تھی کہ بارہ بور کے گراپ بہت قریب سے لگے تھے۔

سلطانہ کے کیمپ سے سامان لے کر دو سٹریچر بنائے گئے اور پولیس کے جوانوں نے ذات پات کو بھلا کر اس نچلی ذات والے ڈاکو اور حوالدار کو اٹھایا اور ان کے ساتھ اضافی بندے بھی تھے۔ یہ جماعت جنگلوں سے ہوتی ہوئی بارہ میل دور نجیب آباد کے ہسپتال کو روانہ ہو گئی۔ ڈاکو تو راستے میں ہی صدمے اور جریانِ خون سے مر گیا اور حوالدار ہسپتال میں داخلے کے چند منٹ بعد فوت ہوا۔  تلاشی کا کام ختم کر دیا گیا۔ ہربرٹ کو کچھ کرنے کی ضرورت ہی نہیں پڑی کہ سلطانہ کو اس کی خبر پہلے مل چکی تھی اور کسی بھی ڈاکو نے ان کی قطار کا رخ نہیں کیا۔ انتہائی احتیاط سے منصوبہ بندی اور اس پر عمل درآمد بیکار گئے جبکہ کسی کی کوئی غلطی بھی نہیں تھی۔ ہمارے ہاتھ محض سلطانہ کا سامان اور چند بندوقیں لگیں اور دو جانیں ضائع ہوئیں۔ ایک بیچارہ غریب آدمی جو نجیب آباد کے قلعے میں قید سے تنگ آ کر فرار ہوا اور زندہ رہنے کے واحد طریقے کو اپنانے کے بعد اب ہلاک ہوا اور اس کی بیوہ نجیب آباد کے قلعے میں سوگ منائے گی۔ دوسرا بندہ جس کے افسران اس کو پسند کرتے اور اس کے ماتحت اس سے محبت کرتے تھے اور اس کی بیوہ کی دیکھ بھال سرکاری فریضہ بن گئی تھی اور وہ اپنے اصول کی خاطر مرا، ورنہ چاہتا تو وہ شراب پی لیتا اور عین ممکن تھا کہ شراب اسے اتنی توانائی پہنچاتی کہ وہ جراحی تک زندہ رہتا۔

تین دن بعد فریڈی کو سلطانہ کا خط ملا جس میں اس نے پولیس کے پاس اسلحے کی کمی کا مذاق اڑایا تھا اور پیشکش کی تھی کہ آئندہ پولیس کو جس اسلحے کی ضرورت ہو، سلطانہ کو بتا دیا کرے تاکہ مطلوبہ اسلحے کا بندوبست پیشگی ہو سکے۔

اسلحے والا نکتہ فریڈی کی دکھتی رگ تھا۔ اسلحے کے بارے تمام اسلحہ برداران اور تاجران کو سختی سے احکامات دیے گئے تھے مگر سلطانہ کے علاقے میں بسنے والا کوئی شخص اس کے حکم پر اسلحہ دینے سے انکار نہیں کر سکتا تھا۔ ورنہ اس کے گھر ڈکیتی پڑتی اور عین ممکن ہے کہ اسے اپنی جان سے بھی ہاتھ دھونے پڑتے۔ اس لیے حکومتی ناراضگی کی کسی کو پروا نہیں تھی۔ سو یہ بات فریڈی کو سخت ناگوار گزری کہ وہ خصوصی طور پر ڈکیتی کے انسداد کے محکمے کا سربراہ تھا۔

پناہ گاہ چھن جانے کے بعد ترائی اور بھابھر کے کونے کھدرے میں پناہ کی تلاش میں سرگرداں سلطانہ کے ساتھ اب محض چالیس بندے رہ گئے تھے جو پوری طرح مسلح تھے۔ ڈاکوؤں نے اسلحے کی کمی بخوبی پوری کر لی تھی۔ فریڈی کا خیال تھا کہ اب سلطانہ کی گرفتاری قریب تھی۔ سو حکومت سے منظوری کے بعد فریڈی نے سلطانہ کو ملاقات کے لیے بلوایا کہ وہ جب اور جہاں چاہے، فریڈی ملنے کو تیار ہے۔ حکومت نے اس شرط پر اجازت دی تھی کہ اس کے نتائج و عواقب کی ذمہ داری فریڈی پر ہوگی۔ سلطانہ نے دعوت قبول کر لی اور مطلوبہ جگہ اور وقت کے بارے بھی بتا دیا۔ یہ بھی طے ہوا کہ دونوں اکیلے اور غیر مسلح ہو کر آئیں گے۔ مطلوبہ وقت پر کھلے قطعے کے ایک جانب سے فریڈی نمودار ہوا اور دوسرے س ے سلطانہ۔ دونوں وسط میں موجود واحد درخت کے نیچے بیٹھ گئے اور سلطانہ نے فریڈی کو تربوز پیش کیا۔ دونوں کی ملاقات دوستانہ تھی، جیسا کہ مشرق میں رہنے والے افراد جانتے ہیں۔ ایک بندہ توانائی سے بھرپور اور پوری حکومتی مشینری کے ساتھ تھا اور دوسرا غریب آدمی جس کے سر پر انعام مقرر تھا۔ ملاقات بلا نتیجہ رہی کہ سلطانہ غیر مشروط طور پر ہتھیار ڈالنے کے خلاف تھا۔ اسی ملاقات میں سلطانہ نے فریڈی کو غیر ضروری خطرات مول لینے سے منع کیا۔ اس نے بتایا کہ حملے والے روز سلطانہ اور اس کے دس مسلح ساتھی اسی برگد کے درخت کے نیچے چھپے ہوئے تھے جہاں میں کنارے پر چڑھنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اس نے بتایا کہ انہوں نے تین صاحب آتے دیکھے تھے اور اگر کنارے پر چڑھنے کی کوشش کرنے والا صاحب کنارے پر چڑھ جاتا تو سلطانہ اور اس کے ساتھیوں کو تینوں صاحبوں کو گولی مارنی پڑتی۔

سو آخری مقابلے کا وقت آن پہنچا اور فریڈی نے ونڈہم اور مجھے ہردوار بلوا بھیجا تاکہ ہم اس کا ساتھ دے سکیں۔ سلطانہ اور اس کے بقیہ ساتھی اب بہت محتاط ہو گئے تھے اور ان کی رہائش اب نجیب آباد کے جنگلات کے عین وسط میں ایک باڑے میں تھی۔ فریڈی کا منصوبہ تھا کہ پورے دستے کو کشتیوں کی مدد سے دریائے گنگا سے گزار کر کسی مناسب مقام پر اتارا جائے اور اس باڑے کا محاصرہ کر لیا جائے۔ پچھلی مرتبہ کی طرح یہ حملہ بھی رات کو ہونا تھا۔ تاہم اس بار حملے کا وقت ایسا تھا کہ چودہویں کا چاند نکلا ہوتا۔

مطلوبہ روز تین سو افراد کے دستے کے ساتھ فریڈی کا عم زاد، ونڈہم اور میں بھی ساتھ روانہ ہوئے اور رات شروع ہو رہی تھی کہ ہم کشتیوں پر سوار ہوئے۔ یہ کشتیاں دریائے گنگا کے دائیں کنارے پہلے ہی ایک سنسان جگہ پر جمع تھیں۔ یہ مقام ہردوار سے چند میل نیچے تھا۔ میں اگلی کشتی میں تھا۔ سفر بخوبی شروع ہوا اور جب ہم بائیں کنارے سے نکل کر چھوٹی شاخ میں گھسے تو سفر کا انتہائی خطرناک مرحلہ شروع ہوا۔ خشکی سے ہٹ کر یہ تجربہ سب سے زیادہ خطرناک رہا۔ چند سو گز تک کشتی چاندنی میں چمکتے پانی پر پھسلتی رہی جس پر کوئی لہر یا موج نہیں تھی اور کناروں پر درختوں کے سائے پڑ رہے تھے۔

آہستہ آہستہ یہ شاخ تنگ سے تنگ تر ہوتی گئی اور ہمیں دور سے پانی کا شور بھی سنائی دینے لگا۔ ان کناروں پر میں نے بہت مرتبہ مچھلی کا شکار کیا تھا کہ مچھلی دریا کی نسبت ان شاخوں میں زیادہ پائی جاتی ہے اور آنے والی لہروں کے بارے سوچ سوچ کر مجھے ملاحوں کی ہمت پر حیرت ہونے لگی کہ وہ کیسے اپنی جان اور کشتی کو خطرناک مقام کو لے جا رہے ہیں۔ یہ دس کشتیاں دریائے گنگا پر سامان کی منتقلی کے لیے بہترین تھیں مگر اس تنگ شاخ میں جہاں پانی کا بہاؤ تیز ہے، کو سنبھالنا انتہائی دشوار کام تھا۔ جگہ جگہ تہہ میں موجود پتھروں سے کشتی کا پیندا ٹکراتا تو خوف آتا کہ کہیں کشتی الٹ یا ڈوب نہ جائے۔ کپتان اور ملاح مسلسل کشتی کو پتھریلے کناروں سے دور اور بہاؤ کے وسط میں رکھنے کی کوشش کرتے تھے اور جب بھی کشتی پہلو کے بل دریا کے پیندے سے ٹکراتی تو ڈر لگتا کہ الٹ نہ جائے۔ بھیانک خواب ختم ہو جاتے ہیں۔ اگرچہ یہ رات بہت طویل محسوس ہوئی تھی کہ ہمیں بیس میل کا سفر طے کرنا تھا اور زیادہ تر حصہ پانی ساکن نہیں تھا، مگر پھر ایک ملاح بائیں کنارے پر اترا اور کشتی کو رسی کی مدد سے ایک درخت سے باندھ دیا۔ ساری کشتیاں یکے بعد دیگرے اس جگہ کنارے سے باندھی جانے لگیں۔

سارا دستہ اترا اور سفر کے دوران لگنے والے تمام زخموں اور چھالوں کی مرہم پٹی ہو گئی تو ملاحوں کو پانچ میل مزید نیچے جا کر انتظار کرنے کا حکم ملا۔ ہم ایک قطار کی شکل میں نصف میل انتہائی دشوار گزار ایلیفنٹ گھاس سے گزرے۔ گھاس کی اونچائی دس سے بارہ فٹ تھی اور دریائی کہرے اور شبنم سے جھکی پڑی تھی۔ سو گز بھی طے نہیں ہوئے تھے کہ ہمارے کپڑے مکمل طور پر بھیگ گئے۔ ہمارے سامنے اچانک پانی کا بہت بڑا تالاب آ گیا۔ ہم نے سوچا کہ یہ دریائے گنگا کا پرانا بہاؤ ہوگا۔ سو فریڈی نے کچھ لوگوں کو دائیں اور کچھ کو بائیں جانب بھیجا تاکہ وہ جا کر عبور کرنے کا کوئی مقام تلاش کریں۔ دائیں جانب والے پہلے آئے اور بولا کہ چوتھائی میل دور ’جھیل‘ کا بہاؤ تنگ ہو گیا تھا اور اس جگہ پانی کا بہاؤ بہت تیز تھا۔ جلد ہی دوسری جماعت بھی واپس آ گئی اور بولی کہ جھیل کے بالائی سرے پر دریا کا بہاؤ ناقابلِ عبور ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ جان بوجھ کر یا غلطی سے، ملاح ہمیں ایک جزیرے پر چھوڑ گئے تھے۔

کشتیاں چلی گئیں اور دن نکلنے میں زیادہ وقت نہیں رہا، سو ہم نے دائیں جانب رخ کیا تاکہ جا کر دیکھیں کہ کہیں سے دریا عبور ہو سکتا ہے یا نہیں۔ جہاں بہاؤ تنگ ہو گیا تو ایک جگہ اسے عبور کرنا ممکن دکھائی دینے لگا۔ اس سے اوپر پانی کی گہرائی بیس فٹ اور نیچے بہاؤ بہت تیز تھا۔ جتنی دیر ہم کھڑے ہو کر بہاؤ کا جائزہ لیتے، ونڈہم نے کپڑے اتار لیے۔ میں نے اسے کہا کہ کپڑے تو پہلے ہی پوری طرح بھیگے ہیں، اتارنے سے کیا فائدہ تو اس نے جواب دیا کہ وہ کپڑوں کے بارے نہیں بلکہ اپنی جان کے بارے فکرمند ہے۔ تمام کپڑے اتار کر اس نے اپنی قمیض میں باندھ کر گٹھڑی بنا کر سر پر رکھی اور پاس کھڑے ایک جوان کانسٹیبل کا بازو پکڑ کر بولا، ’’چلو۔‘‘

کمشنر صاحب کے ساتھ ڈوبنے کی عزت ملنے پر وہ کانسٹیبل ہکا بکا رہ گیا اور کچھ نہ کہہ سکا۔ ونڈہم نے اس کے بازوؤں میں بازو ڈالے اور دونوں پانی میں اتر گئے۔ جتنی دیر وہ دریا عبور کرتے، ہمارے سانس رکے رہے۔ پانی کا بہاؤ تیز تھا اور کبھی ان کی کمر تک تو کبھی ان کی بغلوں تک آ جاتا۔ اگر ان کا پیر پھسلتا تو آگے پانی کا بہاؤ اتنا تیز تھا کہ وہ زندہ نہ بچ سکتے۔ ثابت قدمی سے دونوں بہادر دوسرے کنارے پر پہنچ گئے حالانکہ ایک ہماری جماعت کا معمر ترین اور دوسرا شاید سب سے کم عمر تھا۔ ان کو بحفاظت دوسرے کنارے پر پہنچتا دیکھ کر ہماری جان میں جان آئی۔ اگر ہمیں خاموشی کا حکم نہ ہوتا تو ہمارے خوشی بھرے نعرے بلا مبالغہ بیس میل دور ہردوار تک سنائی دیتے۔

جب دو افراد دریا عبور کر سکتے تھے تو باقی تین سو کو کیا مشکل تھی۔ زنجیر سی بنا دی گئی اور بعض اوقات کچھ لوگوں کے پیر پھسلتے رہے، مگر زنجیر قائم رہی اور پورا دستہ بعافیت دوسرے کنارے پہنچ گیا۔ وہاں ہمیں فریڈی کا ایک انتہائی قابلِ بھروسہ مخبر ملا جس نے ابھرتے سورج کو اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے بہت دیر کر دی ہے اور کھلے قطعے سے گزرتے ہوئے تین سو آدمی فوراً مقامی چرواہوں کو دکھائی دے جائیں گے۔ واحد حل واپس جزیرے کو جانا تھا۔ اس بار واپسی پر زیادہ دقت نہیں ہوئی اور ہم جزیرے کو پہنچ گئے۔

ایلیفنٹ گھاس میں پہنچ کر ہم نے اپنے کپڑے خشک کیے کہ سورج کی حدت اب تیز ہو گئی تھی۔ پھر فریڈی نے اپنے تھیلے سے ایک مرغی اور ڈبل روٹی نکالی اور ہم نے اس سے پورا انصاف کیا۔ میں کسی وقت اور کہیں بھی سو سکتا ہوں، سو ایک ریتلے گڑھے میں آرام سے سو گیا۔ سہ پہر کو میری آنکھ چھینک کی آواز سے کھلی۔ جب اپنے ساتھیوں کے قریب گیا تو دیکھا تینوں کو الرجی یعنی ہے فیور ہو چکا ہے۔ ہم جس گھاس میں تھے، اس سے زردانے نکلتے تھے اور صبح جب ہم یہاں سے گزرے تو شبنم کی وجہ سے یہ گیلے تھے۔ مگر دن میں خشک ہو کر جب یہ اڑنا شروع ہوئے تو میرے ساتھیوں کا حشر برا کر دیا۔

ہندوستانی افراد کو یہ بیماری نہیں ہوتی اور مجھے بھی کبھی نہیں ہوئی۔ مگر اس روز میں نے جب پہلی بار کسی کو یہ بیماری ہوتے دیکھی تو میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ فریڈی کا عم زاد جو بنگال میں پلانٹر تھا، کی حالت سب سے خستہ تھی۔ اس کی آنکھوں سے مسلسل پانی بہہ رہا تھا اور اتنی سوج گئی تھیں کہ اسے کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ فریڈی تھوڑا بہت دیکھ تو سکتا تھا مگر اس کی چھینکیں نہیں رک رہی تھیں اور جب بھی وہ چھینکتا، دھرتی ہل جاتی۔ ونڈہم سخت جان تھا مگر اس کا رومال اس کی آنکھوں اور ناک پر ہی تھا۔ سوچیے کہ پہلے کھلی کشتی کا سفر، پھر بیابان جزیرے میں اترنا اور پھر تیز بہاؤ والے دھارے کو دو بار عبور کرنا مشکل تھا تو اب ہماری مشکلات کا عروج ہو گیا۔ تین اندھوں کو چلا کر ہردوار تک پہنچانا اور اپنے پیچھے تین سو سپاہیوں کے ساتھ یہ سفر کرنے کا خیال ہی ڈرا رہا تھا۔ خیر، شام ہوتے ہوتے ان کی حالت بہتر ہوتی گئی اور ہم نے تیسری بار دھارا عبور کیا تو فریڈی اور ونڈہم ٹھیک ہو چکے تھے اور فریڈی کے عم زاد کو اب دکھائی دینے لگ گیا تھا۔

فریڈی کا مخبر اور ایک رہنما ہمارے منتظر ملے اور ہمیں خشک بہاؤ سے ہوتے ہوئے لے چلے۔ یہ بہاؤ سو گز چوڑا تھا۔ چاند نکل آیا تھا اور اب دور تک بخوبی دکھائی دیتا تھا۔ ایک موڑ مڑتے ہی ہمیں ایک ہاتھی دکھائی دیا۔ ہمیں بتایا گیا تھا کہ اس علاقے میں ایک مست ہاتھی موجود ہے۔ اس کے دانت چاندنی میں چمک رہے تھے اور کان آگے کو پھیلے ہوئے اور ہاتھی شور مچا رہا تھا۔ ہمارے رہنما نے بتایا کہ یہ ہاتھی کئی بندے مار چکا ہے اور اب ہماری خیر نہیں۔ پہلے پہل تو ایسا لگا کہ ہاتھی حملہ کرے گا کہ اس نے سونڈ اٹھا کر چند قدم ہماری جانب اٹھائے۔ پھر مڑ کر جنگل میں شور مچاتا غائب ہو گیا۔

ایک میل آگے جا کر ایک ندی دکھائی دی اور اس جگہ ہمارے رہنما نے ہمیں ایک فائر ٹریک دکھایا۔ یہاں سفر بہت آسان ہو گیا کہ قدموں تلے پستہ قامت ہری گھاس تھی اور چاند خوب روشن تھا۔ اس خوبصورت جنگل میں عین ممکن تھا کہ ہم اپنا مقصد بھول جاتے۔ جلی ہوئی گھاس کے ایک قطعے کو پہنچے تو ٹنڈ منڈ درخت پر موجود مور خطرے کا اعلان کرنے لگا۔ پھر دو تیندوے جنگل سے نکل کر فائر ٹریک پر آئے اور ہمیں دیکھ کر واپس جنگل میں غائب ہو گئے۔ یہاں تک میں اپنے عنصر سے باہر تھا مگر ہاتھی کو دیکھتے ہی میں واپس اپنے عنصر کو لوٹ آیا۔ مجھے بخوبی علم تھا کہ ہاتھی محض تجسس کی وجہ سے ہمیں دیکھنے آیا تھا اور اس کی نیت بری نہیں تھی اور پھر مور جنگل کے باسیوں کو خطرے سے آگاہ کرنے لگا اور پھر تیندوے دکھائی دیے۔

مشرق سے مغرب کو جانے والے راستے سے اتر کر رہنما ہمیں شمال کو ایک میل لے گیا اور یہ راستہ جھاڑیوں اور درختوں پر مشتمل تھا پھر ہمارے سامنے ایک چھوٹی سی ندی آئی جس پر برگد کا بہت بڑا درخت چھایا ہوا تھا۔ اس جگہ ہمیں رکنا تھا تاکہ ہمارا رہنما باڑے کو جا کر اپنے بھائی سے معلومات لے آئے۔ طویل انتظار اور بھوک سے ہمارا برا حال تھا کہ ہم نے مرغی کے علاوہ اور کچھ نہیں کھایا تھا اور اب نصف شب ہو رہی تھی۔ مزید یہ کہ میں واحد بندہ تھا جو تمباکو نوشی کرتا تھا اور میرے سگریٹ ختم ہو گئے تھے۔ صبح سے کچھ دیر پہلے رہنما واپس لوٹا اور بولا کہ سلطانہ اور اس کے ساتھی جو کہ اب نو بچے تھے، پچھلی شام کو ہردوار کی جانب ڈکیتی کرنے گئے تھے اور کسی وقت بھی لوٹ سکتے ہیں۔

چونکہ ہمیں بہت بھوک لگی تھی، رہنما کھانے کا انتظام کرنے چلا گیا اور بتا گیا کہ یہ علاقہ سلطانہ کا ہے، سو کوئی شخص برگد کی چھاؤں سے باہر نہ نکلے۔

ایک اور طویل ترین دن گزرا۔ ونڈہم کے ساتھ یہ آخری دن تھا کہ کماؤں کے کمشنر کے علاوہ وہ ریاست تہری کا پولیٹکل ایجنٹ بھی تھا اور دو روز بعد اسے نریندرا نگر کے راجہ سے ملنے جانا تھا۔ رات کو گھاس سے بھری بیل گاڑی آئی۔ گھاس کو ہٹایا تو نیچے سے چالیس پاؤنڈ گڑ اور بھنے ہوئے چنوں کے چند تھیلے نکلے۔ یہ سب کھانا جوانوں میں تقسیم کیا گیا۔ رہنما کو صاحب بھی یاد رہے تھے اور جانے س ے قبل اس نے بوسیدہ کپڑے میں لپٹی چند روٹیاں فریڈی کو تھما دیں۔ ہر موضوع پر گفتگو کے بعد ہم زمین پر لیٹ کر ہردوار میں گرم بستروں اور عمدہ کھانوں کے تصور میں کھوئے ہوئے تھے کہ مجھے چند سو گز دور تیندوے کے ہاتھوں چیتل کے مرنے کی آواز آئی۔ یہاں اب مناسب کھانے کا موقع پیدا ہو گیا کہ چپاتیوں نے میری بھوک مٹانے کی بجائے اس میں اضافہ ہی کیا تھا۔ میں اٹھا اور فریڈی سے اس کی ککری مانگی۔ اس کا پہلا سوال تھا کہ کیوں؟  میں نے اسے بتایا کہ تیندوے نے ابھی جو چیتل مارا ہے، میں اس کی پچھلی ٹانگیں کاٹ کر لاتا ہوں۔ فریڈی بولا، ’’کیا کہہ رہے ہو؟ کون سا تیندوا اور کون سا چیتل؟‘‘

ظاہر ہے کہ اس نے چیتل کی آواز تو سنی تھی مگر کیا چیتل سلطانہ کے آدمیوں کو دیکھ کر نہیں بول رہے جو ہمیں گھیرے میں لینے کے لیے آ رہے ہوں؟  دوسرا اگر فرض کریں کہ میری بات درست بھی ہو تو بھی میں کیسے تیندوا کو بھگا کر چیتل کی ٹانگیں کاٹ کر لاتا کہ ہم باڑے کے اتنے قریب تھے کہ بندوق استعمال نہیں ہو سکتی (میں اس بار جان بوجھ کر رائفل گھر رکھ کر آیا تھا کہ مجھے معلوم نہیں تھا کہ کب اور کس مقصد کے لیے میری رائفل استعمال ہوگی)۔ اس نے سارے خیال کو بکواس قرار دے دیا۔ مایوسی سے میں پھر جا کر لیٹ گیا۔ اب جو بندہ جنگل کی زبان سے واقف ہی نہیں ہے، اسے میں کیسے سمجھاتا کہ چیتل انسانوں کو دیکھ کر نہی بلکہ اپنے ساتھی کو تیندوے کے ہاتھوں مرتا دیکھ کر بول رہے تھے اور تیندوے سے اس کے شکار کا کچھ حصہ لانا ہرگز کسی طور خطرناک نہ ہوتا۔

رات سکون سے گزری اور اگلی صبح نور کے تڑکے میں ونڈہم کے ساتھ ہردوار پہنچا۔ ہم نے دریائے گنگا کو بھیم گوڑا ڈیم سے عبور کیا اور ڈیم کے بنگلے پر کھانا کھانے کے بعد ہم نے شام کو ڈیم کے اوپر مچھلی کا یادگار شکار کھیلا۔ اگلی صبح جب ونڈہم مہاراجہ نریندرا سے ملنے روانہ ہونے لگا اور میں اپنے ساتھیوں کے لیے کھانے کا سامان جمع کر رہا تھا کہ ہرکارے نے اطلاع پہنچائی کہ فریڈی نے سلطانہ کو گرفتار کر لیا ہے۔

سلطانہ گزشتہ شام کو واپس لوٹا تھا۔ فریڈی کے جوانوں نے محاصرہ کر لیا اور فریڈی نے اندر جھانکا تو وہاں واحد چارپائی پر ایک بندہ چادر لپیٹے سویا دکھائی دیا۔ فریڈی اس پر بیٹھ گیا۔ اتنا وزن ہونے کی وجہ سے سلطانہ ہل بھی نہ سکا اور نہ ہی اپنی قسم پوری کر سکا کہ وہ زندہ کبھی گرفتار نہیں ہوگا۔

جھونپڑے میں چھ ڈاکو موجود تھے جن میں سے چار گرفتار ہوئے اور باقی دو بابو اور پیلوان پولیس کے محاصرے کو توڑ کر بھاگے۔ ان پر گولیاں بھی چلائی گئیں جو انہیں نہ روک سکیں۔

سلطانہ نے کتنے قتل کیے، اس کے بارے مجھے علم نہیں، مگر اس پر مقدمہ اس قتل کا چلا جو اس کے ایک ساتھی نے لام چور کے نمبر دار کے مزارع کا کیا تھا۔ سلطانہ نے جیل میں فریڈی کو بلوایا اور اپنی بیوی، بیٹے اور اپنے پالتو کتے کی دیکھ بھال کی درخواست کی۔

فریڈی نے کتے کو پال لیا اور یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ فریڈی نے سلطانہ کے گھر والوں کا پوری طرح خیال رکھا۔ بعد میں فریڈی شہنشاہِ انگلستان کے ہاتھوں C.I.E. بننے والا ہندوستانی پولیس سروس میں سب سے کم عمر افسر بنا۔ چند ماہ بعد فریڈی پولیس ویک میں شرکت کرنے مراد آباد پہنچا۔ یہاں ایک دعوت بھی تھی جس میں پورے صوبے کے پولیس افسران کو مدعو کیا گیا تھا۔ اس کھانے کے دوران فریڈی کو ایک بیرے نے کان میں بتایا کہ اس کا اردلی بلا رہا ہے۔ سلطانہ کے تعاقب کے دوران یہی اردلی فریڈی کے ساتھ تھا۔ چونکہ شام کو اسے فرصت تھی، اس نے مراد آباد ریلوے سٹیشن تک چہل قدمی کی۔ اس جگہ ایک ٹرین آئی اور وہ ایسے ہی مسافروں کو اترتے دیکھنے لگا۔ اس کے ساتھ والے ڈبے سے دو مسافر اترے۔ ان میں سے ایک مسافر نے بعجلت اپنے منہ پر رومال رکھا مگر اردلی نے دیکھ لیا کہ اس بندے کی ناک میں کپاس رکھی ہوئی تھی۔ اردلی نے اس بندے پر توجہ رکھی اور جب وہ دونوں ایک کونے میں اپنے ڈھیروں سامان کے ساتھ آرام سے بیٹھ گئے تو اردلی نے اکہ منگوایا اور فریڈی کو بتانے آن پہنچا۔

سلطانہ کے دو ساتھی بابو اور پہلوان جب باڑے سے فرار ہوئے تو ان پر گولی چلائی گئی تھی۔ اس کے کچھ دیر بعد نجیب آباد کی ڈسپنسری میں ایک بندہ اپنے ناک کا علاج کرانے آیا تھا کہ اس کی ناک بقول اس کے کتے کے کاٹنے سے زخمی ہوئی تھی۔ کمپاؤنڈر نے پولیس کو اطلاع دی کہ یہ زخم کتے کی بجائے چھرے کا لگ رہا تھا۔ پورے صوبے کی پولیس اب زخمی ناک والے کی تلاش میں تھی اور یہ بات بھی اہم تھی کہ سلطانہ کے گروہ میں زیادہ تر قتل بابو اور پیلوان نے ہی کیے تھے۔

اردلی کی بات سنتے ہی فریڈی کار میں سوار ہو کر سیدھا وہاں پہنچا۔ جب فریڈی کو جلدی ہو تو ٹریفک اور موڑ ختم ہو جاتے ہیں۔ سٹیشن میں اس نے فرار کے تمام راستوں پر پہریدار مقرر کیے اور خود جا کر ان دونوں سے پوچھا کہ وہ کون ہیں۔ ان کا جواب تھا وہ تاجر ہیں اور بریلی سے پنجاب کو جا رہے ہیں۔ فریڈی نے پوچھا کہ پھر وہ ایسی ٹرین پر کیوں سوار ہوئے جو مراد آباد رک جاتی ہے؟  جواب ملا کہ بریلی میں پلیٹ فارم پر دو ٹرینیں تھیں اور انہیں غلط ٹرین پر سوار کرایا گیا۔ جب فریڈی کو علم ہوا کہ دونوں مسافر بھوکے ہیں اور اگلی ٹرین صبح کو آئے گی تو فریڈی نے انہیں بنگلے پر چلنے کی دعوت دی۔ اس پر وہ ہچکچائے مگر پھر بولے، ’’جیسے آپ کی مرضی صاحب۔‘‘

واپسی کا سفر سست رفتار سے طے ہوا اور فریڈی ان سے کرید کرید کر سوال کرتا رہا اور ہر سوال کا تسلی بخش جواب ملتا رہا۔ پھر ایک بندے نے پوچھا کہ کیا یہ یہاں کی روایت ہے کہ صاحب رات کو ریلوے سٹیشن کا چکر لگا کر مسافروں کو ساتھ لے جائیں جبکہ ان کا سامان وہیں چوروں کے رحم و کرم پر پڑا رہے؟  فریڈی کو علم تھا کہ وارنٹ کے بغیر اس کا یہ فعل اس کے لیے مشکلات پیدا کر سکتا ہے اور اگر سلطانہ کے گرفتار ساتھی انہیں نہ پہچانتے تو فریڈی کے لیے مشکلات مزید بڑھ جاتیں۔ ابھی وہ یہ سوچتا جا رہا تھا کہ فریڈی کے عارضی قیام والا بنگلہ آ گیا۔ تمام کتے فریڈی کو پسند کرتے ہیں اور سلطانہ کا کتا بھی اس سے بہت ہل گیا تھا۔ یہ عام دیہاتی کتا تھا جس میں ٹیریئر کا کچھ خون بھی پایا جاتا تھا۔ جب یہ لوگ نیچے اترے تو کتا سیدھا فریڈی کی جانب بھاگا اور قریب پہنچ کر حیرت سے رک گیا اور پھر پیلوان کے قدموں میں لوٹنے لگا۔ فریڈی اور دونوں مسافر کچھ دیر ایک دوسرے کو دیکھتے رہے۔ اپنی قسمت سے آگاہ پیلوان نیچے بیٹھ کر کتے کو پیار کرتے ہوئے بولا، ’’اس وفا دار گواہ کی موجودگی میں کیسے انکار ہو سکتا ہے ہم ہی آپ کے مطلوبہ آدمی ہیں صاحب۔‘‘

معاشرہ جرائم پیشہ افراد سے تحفظ مانگتا ہے اور سلطانہ مجرم تھا۔ اس پر قانون کے مطابق مقدمہ چلایا گیا اور مجرم قرار پایا اور اس کو سزائے موت ملی۔ تاہم تین سال تک پوری حکومت کو تگنی کا ناچ نچانے والے اس عام سے بندے کی میں ہمیشہ تعریف کروں گا اور اس کی بہادری کی تعریف کال کوٹھڑی کے نگران بھی کرتے تھے۔

میری خواہش ہے کہ قانون سلطانہ کو بیڑیاں پہنا کر عوام کے سامنے تماشا بنا کر نہ پیش کرتا اور وہ لوگ جو اس کے نام سے لرز جاتے تھے، اب اس کا مضحکہ اڑانے آتے تھے۔ میری یہ بھی خواہش ہے کہ اسے نرم سزا ملتی کہ اسے پیدا ہوتے ہی مجرم قرار دے دیا گیا تھا اور اس کے مقدمے میں شفافیت نہیں تھی اور جب وہ آزاد تھا، اس نے کبھی کسی غریب پر ظلم نہیں کیا تھا اور جب میں برگد کے درخت کے قریب تھا تو اس نے میری اور میرے دوستوں کی جان بخشی کی تھی۔ مزید یہ کہ جب فریڈی نے اسے ملاقات کو بلایا تو وہ چاقو یا ریوالور کی بجائے تربوز لے کر آیا تھا۔

 ٭٭٭

۰۷۔ وفا داری

میل ٹرین اپنی حدِ رفتار یعنی تیس میل فی گھنٹہ سے رواں دواں تھی اور یہ علاقہ میرے لیے اجنبی نہیں تھا۔ اپریل کا مہینہ تھا اور ٹرین دریائے گنگا کے طاس سے گزر رہی تھی اور لوگ علی الصبح اپنی گندم کی فصل کاٹ رہے تھے۔

پچھلا سال ہندوستان کی تاریخ کا بدترین قحط میں گزرا۔ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا کہ پورے دیہات کے لوگ درختوں کی چھال اور زمین کی دراڑوں سے غلے کے دانے چنتا اور جنگلی آلوبخارے کھا کر زندہ رہے تھے۔ شکر ہے کہ موسم بدل گیا اور سرما میں خوب بارشیں ہوئیں اور اب زرخیز زمین پر بہترین فصل کٹنے کو تیار کھڑی تھی۔ اگرچہ صبح ابھی ہوئی تھی مگر پھر بھی لوگ انتہائی جوش و خروش سے فصل کاٹنے میں لگے ہوئے تھے اور ہر بندہ اپنے حصے کا کام کر رہا تھا۔ کٹائی کا کام عورتیں کر رہی تھیں جن کی اکثریت بے زمین مزدوروں پر مشتمل تھی جو جگہ جگہ پکتی ہوئی فصل کاٹنے کے لیے سفر میں رہتی تھیں۔ ان کی محنت صبح سورج نکلنے سے سورج ڈوبنے تک جاری رہتی تھی اور انہیں کاٹی ہوئی فصل کے بارہویں سے سولہویں حصے تک مزدوری ملتی تھی۔

کھڑکی کوئی جنگلا نہیں تھا اور جہاں تک نگاہ جاتی تھی، کسی قسم کی مشینیں استعمال نہیں ہو رہی تھیں۔ ہل چلانے کا کام بیلوں سے لیا جاتا جو ہر ہل کے ساتھ جوڑی کی شکل میں ہوتے تھے اور کٹائی کا کام درانتی سے کیا جاتا ہے جو ڈیڑھ فٹ لمبی ہوتی تھیں۔ کٹی ہوئی فصل کے پولے بنا کر گندم کے پودوں سے باندھ دیے جاتے اور پھر انہیں بیل گاڑیوں پر لاد کر صاف میدان کو لایا جاتا جسے گائے کے گوبر سے لیپا ہوا ہوتا تھا۔ اس میدان پر بیل تیار کھڑے ہوتے جو میدان کے وسط میں موجود کھونٹے سے بندھے ہوتے تھے۔ ان کا کام گندم کے پولوں پر چل کر دانے اور بھوسہ الگ کرنا تھا۔ جب کھیت سے فصل کٹ جاتی تو لڑکے مویشی چھوڑ دیتے جو ٹھونٹھوں کو کھاتے اور ان کے پیچھے بوڑھی عورتیں زمین پر رینگ کر گرے ہوئے دانے جمع کرتی جاتیں۔ ان کا جمع کیا ہوا غلہ نصف زمیندار لے جاتا اور نصف ان عورتوں کو ملتا جو عموماً نصف سے ایک کلو ہوتا تھا۔ اگر سورج کی شدت سے زمی پھٹی ہوئی ہوتی تو اس سے بھی کم غلہ ملتا۔

میرا سفر ۳۶ گھنٹے طویل تھا۔ ڈبے میں میں اکیلا مسافر تھا اور ٹرین ناشتے، دوپہر اور رات کے کھانے کے لیے رکتی تھی۔ سارا سفر انتہائی دلچسپ مناظر پر مشتمل تھا مگر میں خوش نہیں تھا۔ میری پریشانی کا سبب میری نشست کے نیچے رکھا ہوا فولادی صندوق تھا جس میں دو سو روپے تھے جو میرے نہیں تھے۔ ڈیڑھ سال قبل میں نے ریلوے میں فیول انسپکٹر کی ملازمت کی تھی۔ سکول سے براہ راست میں اس ملازمت میں گیا تھا اور یہ ڈیڑھ سال میں نے جنگل میں گزارے تھے۔ میرے ذمے پانچ لاکھ مکعب فٹ لکڑی کٹوانا تھیں جو ریلوے انجنوں میں بطور ایندھن استعمال ہونی تھی۔ درخت گرانے کے بعد ان کو ڈیڑھ فٹ لمبے ٹکڑوں میں کاٹنا تھا اور پھر اسے دس میل دور ریلوے کی پٹڑی تک پہنچانا تھا جہاں انہیں جمع کر کے ان کی پیمائش کی جاتی اور پھر مطلوبہ سٹیشنوں کی جانب بھیج دیا جاتا۔ ڈیڑھ سال کا عرصہ بہت مشکل تھا مگر میں نے اس سے خوب لطف اٹھایا۔ جنگل میں چیتل، چوسنگھے، سور اور مور بکثرت تھے اور جنگل کے کنارے دریا بھی تھا جہاں کئی اقسام کی مچھلیاں پائی جاتی تھیں اور بہت سارے مگرمچھ اور اژدہے بھی تھے۔ میرا کام چونکہ سارا دن جاری رہتا، سو شکار کے لیے مجھے صرف چاندنی راتیں ہی ملتیں۔ مور جب درخت پر سوئے ہوتے تو میں انہیں شکار کرتا۔ مجھے یہ تسلیم کرنے میں کوئی عار نہیں کہ یہ ڈیڑھ سال میں نے اسی طرح ’قتل‘ کر کے گوشت کھایا۔ تاہم جب چاند نہ ہوتا تو وہ راتیں میں سبزی خور رہتا۔

جنگل کی کٹائی سے جنگلی حیات بہت متاثر ہوئی اور مجھے کئی جانوروں اور پرندوں کے بچوں کی دیکھ بھال کرنی پڑی جو میرے ساتھ میرے خیمے میں آ گئے تھے۔ ان دنوں میرے پاس کالے تیتر اور سفید تیتر کے بچے، مور کے چار بچے، خرگوش کے دو بچے اور چوسنگھے کے دو بچے قیام پذیر تھے اور اچانک ایک روز ریکس اژدہا بھی رہائش کے لیے آن پہنچا۔ چوسنگھے کے بچے اتنے چھوٹے تھے کہ بمشکل اپنے پیروں پر کھڑے ہوتے تھے۔ ایک رات میں مغرب کے ایک گھنٹے بعد پہنچا اور چو سنگھے کے بچوں کو دودھ پلا رہا تھا کہ لالٹین کی روشنی میں ایک کونے سے کچھ چمک دکھائی دی۔ پاس جا کر دیکھا کہ چوسنگھے کے بچوں کے بستر پر ریکس براجمان تھا۔ میں نے بعجلت گنتی تو سارے جانور پورے نکلے، سو میں نے ریکس کو اس کے حال پر چھوڑ دیا۔ اگلے دو ماہ تک ریکس روزانہ دھوپ سینکنے صبح کو باہر جاتا اور مغرب کو واپس لوٹ آتا اور اس سارے عرصے میں اس نے کسی جانور یا پرندے کو نقصان نہیں پہنچایا۔

ان تمام بچوں کی دیکھ بھال کرنے کے بعد جب وہ اپنا خیال رکھنے کے قابل ہو گئے تو میں نے انہیں جنگل میں جا کر چھوڑ دیا۔ چوسنگھے کے ایک بچے نے میرا ساتھ چھوڑنے سے انکار کر دیا۔ جب ہم ریلوے لائن کے ساتھ منتقل ہوئے تو وہ بھی میرے ساتھ آئی۔ چونکہ اس کی پرورش انسانوں کے ساتھ ہوئی تھی، سو اسے انسانوں سے کوئی ڈر نہیں تھا۔ ایک بار جب وہ ایک انسان کے قریب پہنچی تو اس نے اسے جنگلی سمجھ کر مارنا چاہا۔ جب میں خیمے کو لوٹا تو دیکھا کہ وہ میرے بستر کے پاس بیٹھی تھی۔ جب اسے اٹھایا تو دیکھا کہ اس کی اگلی ٹانگیں ٹوٹ چکی تھیں اور ہڈیوں کے نوکیلے سرے کھال سے باہر نکل آئے تھے۔ میں نے اسے دودھ پلایا اور ہمت جمع کرتا رہا کہ اب اسے اس کی تکلیف سے نجات دلانا لازمی تھا۔ میرا نوکر اتنے میں ایک بندے کے ساتھ آیا جس نے اقرار کیا کہ اس نے اسے مارنے کی کوشش کی تھی۔ وہ بندہ کھیت میں کام کر رہا تھا کہ اسے یہ ہرن دکھائی دیا۔ اس نے سمجھا کہ یہ جانور راہ بھٹک کر آ گیا ہے اور اسے مارنے کی کوشش کی۔ جب یہ جانور بھاگ کر میرے خیمے میں گھسا تو اسے اپنی غلطی کا احساس ہوا۔ میرے ملازم نے اسے میری آمد سے قبل جانے کا مشورہ دیا تھا مگر وہ بندہ وہیں رکا رہا۔ جب اس نے اپنی پوری کہانی بتائی تو پھر بولا کہ وہ صبح گاؤں سے ایک بندے کو ساتھ لے کر آئے گا جو ہڈیاں جوڑنے کا ماہر ہے۔ چونکہ اس ہرن کے لیے آرام دہ جگہ بنانے کے علاوہ میں کچھ اور نہیں کر سکتا تھا، سو اسے میں وقفے وقفے سے دودھ پلاتا رہا۔ اگلی صبح وہ بندہ اپنے ساتھی کے ہمراہ لوٹا۔

ہندوستان میں کسی کی ظاہری شکل و صورت سے اندازہ لگانا غلط ہے۔ ہڈی جوڑ بندہ بوڑھا اور کمزور تھا اور اس کے پیوند لگے کپڑوں سے غربت صاف جھلک رہی تھی۔ تاہم وہ کم گو اور اپنے کام میں ماہر تھا۔ اس نے مجھے کہا کہ اس ہرن کو اٹھاؤں۔ چند منٹ تک اسے دیکھنے کے بعد اس نے کہا کہ وہ دو گھنٹے بعد آئے گا۔ چونکہ میں کئی ماہ سے ہر روز کام کر رہا تھا، اس لیے چند گھنٹے آرام کے لے لیے۔ اس بندے کی واپسی سے قبل میں نزدیکی جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر کھونٹے بنائے اور خیمے کے گوشے میں ایک جگہ گاڑ کر وہ جگہ الگ کر دی۔ وہ آدمی واپس لوٹا تو اس کے پاس پٹ سن کے کچھ خشک تنے تھے جن سے چھال اتری ہوئی تھی اور اس کے علاوہ دھتورے کے کچھ نئے پتے جو تھالی کے برابر ہوں گے اور پٹ سن کی پتلی رسی کا ایک گولہ بھی ساتھ تھا۔ م بستر کے کنارے پر بیٹھ کر میں نے ہرن کو میری ٹانگوں پر اس طرح بٹھایا کہ پچھلی ٹانگیں زمین سے لگ رہی تھیں اور اگلی ٹانگیں کی بجائے میرے گھٹنے اس کے جسم کو سہارے ہوئے تھے۔ میرے سامنے زمین پر بیٹھ کر اس بندے نے اپنا سامان ساتھ رکھا۔

دونوں ٹانگوں کی ہڈیاں گھٹنوں اور کھروں کے درمیان سے ٹوٹ گئی تھیں اور ٹوٹے ہوئے حصے کئی مرتبہ بل کھا چکے تھے۔ اس بندے نے انتہائی نرمی سے ان ٹانگوں کے بل کھولے اور ان پر گھٹنے سے کھروں تک سبز رنگ کا ملغوبہ سا لگایا اور پھر ان پر دھتورے کے پتے جما دیے اور پھر ان پتوں پر پٹ سن کے تنے لگا دیے اور پھر انہیں پٹ سن کی رسی سے باندھ دیا۔ اگلی صبح اس نے پٹ سن کے مزید کٹے ہوئے تنے آ کر لگائے تو ہرن اپنے گھٹنے موڑنے اور قدم رکھنے کے قابل ہو گئی تھی۔

اس بندے کا معاوضہ ایک روپیہ تھا اور دو آنے اس نے سامان کے لیے کیونکہ اس نے یہ سامان بازار سے خریدا تھا۔ تاہم جب تک پٹیاں اتر نہ گئیں اور ہرن پھر سے اچھلنے کودنے کے قابل نہ ہو گئی، اس بندے نے نہ تو اپنا معاوضہ لیا اور نہ ہی وہ تحفہ قبول کیا جو میں نے اسے دینے کی کوشش کی تھی۔

تاہم میرا کام کہ جس سے میں خوب لطف اندوز ہوتا تھا، اب ختم ہو چکا تھا اور میں صدر دفتر کو روانہ ہو گیا تاکہ اپنے اخراجات کا حساب دے سکوں اور کوئی نئی ملازمت تلاش کر سکوں کہ انجن اب کوئلوں پر چلنے کے قابل بنائے جا رہے تھے اور لکڑی کی ضرورت ختم ہو گئی تھی۔ میرا حساب کتاب بالکل درست تھا اور مجھے علم تھا کہ میں نے اپنا کام بہترین طور پر سرانجام دیا تھا کیونکہ میں نے ڈیڑھ سال میں وہ کام پورا کیا تھا جو دو سال میں ہونا تھا۔ مگر پھر بھی نشست کے نیچے موجود رقم کے صندوق سے مجھے پریشانی ہو رہی تھی۔

صبح نو بجے میں اپنی منزل سمستی پور پہنچا اور انتظار گاہ میں اپنا سامان رکھ کر میں نے اپنے آجر کے دفتر کا رخ کیا اور میرے ساتھ میرے بہی کھاتے اور دو سو روپوں کا تھیلا بھی تھا۔ دفتر پہنچا تو چپراسی نے مجھے کہا کہ صاحب مصروف ہیں اور میں بیٹھ کر انتظار کروں۔ کھلے برآمدے میں گرمی تھی اور ہر گزرتا لمحہ میری پریشانی میں اضافہ کرتا گیا۔ جس پرانے ریلوے ملازم نے بہی کھاتے بنانے میں میری مدد کی تھی، اس نے مجھے ہدایت کی تھی کہ بہی کھاتے پیش کرنے کے بعد جب میں دو سو روپوں کا تذکرہ کروں گا تو میری پریشانیاں بہت بڑھ جائیں گی۔ آخرکار دروازہ کھلا اور بہت پریشان حال بندہ باہر نکلا۔ ابھی دروازہ بند نہیں ہوا تھا کہ اندر سے کسی نے دھاڑ کر مجھے اندر بلایا۔

رائلز بنگال اور شمال مغربی ریلوے کے محکمے کا سربراہ تھا اور اس کا وزن ایک سو کلو سے اوپر ہی تھا اور اس کی آواز مخاطب کے دل میں دہشت بٹھا دیتی مگر اس کا دل سونے کا تھا۔ مجھے بیٹھنے کا اشارہ کر کے اس نے بہی کھاتے اپنی سمت کھینچ کر ایک کلرک کو بلایا جس نے میرے حساب کتاب کو مختلف سٹیشنوں سے وصول شدہ حساب کتاب سے ملایا۔ اس سے فارغ ہو کر اس نے مجھے بتایا کہ اسے افسوس ہے کہ میری ملازمت ختم ہو چکی اور مجھے فارغ خطی کے احکامات دن کے وقت مل جائیں گے اور یہ ملاقات بھی تمام ہو گئی ہے۔ فرش سے اپنا ہیٹ اٹھا کر میں روانہ ہونے لگا تھا کہ اس نے مجھے بلایا کہ میں اپنا رقم کا تھیلا بھولے جا رہا ہوں۔ میری حماقت سمجھ لیجیے کہ میں دو سو روپے کا تھیلا وہیں میز پر چھوڑ کر آ رہا تھا کہ شاید کوئی اس پر توجہ نہ دے گا۔ عین وقت پر مجھے رائلز نے واپس بلا لیا۔ سو واپس لوٹ کر میں نے اسے بتایا کہ یہ رقم ریلوے کی ملکیت ہے اور مجھے چونکہ علم نہیں تھا کہ بہی کھاتوں میں اسے کہاں رکھوں، اس لیے اس رقم کو الگ سے لایا ہوں۔ رائلز بولا، ’’اگر تم نے اپنے حساب میں گڑبڑ نہیں کی ہے تو پھر بتاؤ کہ یہ کہاں سے آئی؟‘‘

تیواری نامی ہیڈ کلرک کاغذات سے بھری ٹرے لے کر رائلز کے پیچھے کھڑا ہوا اور اس کی مہربان نگاہیں میری ہمت بندھا رہی تھیں۔ میں نے حساب کچھ یوں دیا،

میرا کام پورا ہونے والا تھا کہ پندرہ گاڑی بان میرے پاس رات کو آئے اور بولے کہ انہیں ان کے گاؤں فصلوں کی کٹائی کا پیغام ملا ہے اور انہیں فوراً روانہ ہونا ہے۔ یہ گاڑی بان جنگل سے ریلوے لائن تک ایندھن والی لکڑیاں منتقل کرنے کا کام کرتے تھے۔ چونکہ ان کا منتقل شدہ ایندھن کافی بڑے رقبے پر پھیلا ہوا تھا اور ان کی پیمائش کے کام پر کئی دن لگ جاتے، سو انہوں نے مجھے کہا کہ اندازے سے میں ان کے معاوضے کی ادائیگی کر دوں کہ صبح سویرے انہوں نے روانہ ہو جانا تھا۔ رات تاریک تھی اور میں مکعب میٹروں میں پیمائش کرنے سے قاصر تھا، سو میں نے انہیں کہا کہ ان کا اندازہ مجھے قبول ہوگا۔ دو گھنٹے بعد وہ میرے پاس آئے اور ان کے بتائے ہوئے اندازے کے مطابق میں نے فوراً ادائیگی کر دی۔ فوراً ہی وہ لوگ روانہ ہو گئے۔ تاہم جب بعد میں پیمائش کی گئی تو پتہ چلا کہ ان کا اندازہ اصل سے دو سو روپے کم تھا۔

میری کہانی سن کر رائلز نے کہا کہ ایجنٹ عزت اگلے روز سمستی پور آنے والا ہے اور وہ میرے بارے فیصلہ کرے گا۔ عزت جو انڈیا کی تین ریلوں کا ایجنٹ تھا، اگلی صبح پہنچا اور دوپہر کو مجھ رائلز کے دفتر پہنچنے کا حکم ملا۔ عزت چھوٹے قد کا اور صاف ستھرا بندہ تھا اور رائلز کے دفتر میں اکیلا ملا۔ اس کی آنکھیں برچھیوں کی طرح تیز تھیں۔ اس نے مجھے اپنا کام چھ ماہ پہلے ہی پورا کرنے پر مبارکباد دی اور بتایا کہ رائلز نے اسے میرے بہی کھاتے دکھا کر رپورٹ دی ہے۔ پھر اس نے کہا کہ اسے ایک سوال کا جواب چاہیے۔ میں نے یہ دو سو روپے اپنی جیب میں ڈال کر خاموشی کیوں نہیں اختیار کر لی؟  میرا جواب شاید تسلی بخش رہا ہوگا کہ شام کو بے یقینی سے انتظار کرتے ہوئے مجھے دو خط ملے، پہلا خط تیواری کی جانب سے تھا جس میں اس نے ریلوے کی بیواؤں اور یتیموں کے فنڈ کے لیے دو سو روپے کے عطیے کا شکریہ ادا کیا تھا کہ وہ اس کا اعزازی سیکریٹری تھا اور دوسرا خط عزت کی جانب سے تھا کہ میری ملازمت ختم نہیں ہوئی اور یہ کہ میں رائلز سے جا کر ملوں۔

ایک سال تک میں ریلوے پر مختلف نوعیت کی ملازمتیں کرتا رہا اور بعض اوقات مجھے انجن میں کوئلے کے استعمال کی مقدار کا جائزہ لینا تھا اور مجھے یہ کام بہت پسند تھا کہ مجھے انجن چلانے کی اجازت ہوتی تھی، بعض اوقات مال گاڑی پر گارڈ کا کام کرنا ہوتا تھا جو کافی مشکل کام تھا۔ ان دنوں ریلوے میں ملازمین کی قلت تھی اور بعض اوقات مجھے اڑتالیس گھنٹے لگاتار کام کرنا پڑتا۔ بعض اوقات میں اسسٹنٹ سٹور کیپر بنتا تو کبھی اسسٹنٹ سٹیشن ماسٹر۔ ایک دن مجھے حکم ملا کہ موکمہ گھاٹ جا کر سٹورر سے ملوں جو وہاں فیری سپرنٹنڈنٹ تھا۔ بنگال اور شمال مغربی ریلوے دریائے گنگا کے طاس سے دریا سے مختلف فاصلوں سے گزرتی ہیں اور بہت جگہوں پر یہ پٹڑیاں اصل لائن سے الگ ہو کر دریا تک جاتی ہے اور پھر کشتیوں کے ذریعے اسے دائیں کنارے کے براڈ گیج سے منسلک کر دیا جاتا ہے۔

دریائے گنگا کے دائیں کنارے پر موکمہ گھاٹ ان میں سب سے زیادہ اہم تھا۔ میں علی الصبح سمستی پور سے نکلا اور لائن کے اختتام پر سماریہ گھاٹ پر جا کر اترا اور ایس ایس گورکھا پور پر سوار ہوا۔ سٹورر کو میری آمد کی اطلاع تو تھی مگر مقصد نہیں بتایا گیا تھا اور مجھے بھی کوئی علم نہ تھا، سو ہم نے بقیہ دن کا کچھ حصہ سٹورر کے گھر اور کچھ حصہ گوداموں کا جائزہ لیتے گزارا جہاں بہت زیادہ سامان ٹھنسا ہوا تھا۔ دو دن بعد مجھے گورکھا پور جانے کا حکم ملا جو ریلوے کا صدر مقام تھا۔ یہاں مجھے موکمہ گھاٹ میں سامان کی منتقلی کا انسپکٹر بنا دیا گیا اور میری تنخواہ بھی ایک سو روپے سے بڑھ کر ڈیڑھ سو روپے ماہوار ہو گئی۔ مجھے ذمہ داریوں کو سنبھالنے کے لیے ایک ہفتے کا وقت ملا۔

سو میں موکمہ گھاٹ واپس رات کے وقت پہنچا تاکہ ایسی ذمہ داری اٹھا سکوں جس کے بارے مجھے کوئی علم نہیں تھا اور ایسا ٹھیکہ ملا جبکہ مجھے یہ بھی علم نہیں تھا کہ مزدور کہاں سے لاؤں گا اور میرے پاس کل سرمایہ ڈیڑھ سو روپیہ تھا جو میں نے اڑھائی سال کی ملازمت میں بچایا تھا۔ سٹورر میری آمد کی توقع تو نہیں تھی مگر اس نے مجھے کھانا کھلایا ۔ جب میں نے اسے اپنی آمد کا سبب بتایا تو ہم نے برآمدے میں کرسیاں سنبھال لیں۔ سٹورر کی عمر میں مجھ سے دو گنا بڑا تھا اور کئی سال سے موکمہ گھاٹ پر کام کر رہا تھا۔ اس کے ذمے بنگال اور شمال مغربی ریلوے (میٹر گیج) کے علاوہ کئی سٹیمر اور بارج بھی تھے۔ مسافروں کو کشتیوں کی مدد سے اور سامان کو بارجوں کی مدد سے سامان سماریہ گھاٹ اور موکمہ گھاٹ کے درمیان منتقل کیا جاتا۔ اس نے یہ بھی بتایا کہ طویل فاصلے کی بنگال اور شمال مغربی ریلوے کی ٹریفک کا اسی فیصد موکمہ گھاٹ سے گزرتا ہے اور ہر سال مارچ سے ستمبر کے دوران سامان کی منتقلی کا کام رک سا جاتا ہے اور ریلوے کو شدید خسارہ ہوتا ہے۔

موکمہ گھاٹ پر سامان کی مختلف گیج والی ٹرینوں میں منتقلی کا کام ایک لیبر کمپنی کے ذمے تھا جو تمام تر براڈ گیج پر سامان کی منتقلی کی ذمہ دار تھی۔ سٹورر کا خیال تھا کہ اس کمپنی کی لاپرواہی کے علاوہ سالانہ فصلوں کی کٹائی کا موسم بھی اس نقصان کا سبب تھا کیونکہ دریائے گنگا کے طاس میں فصلیں اس موسم میں کٹائی کے لیے تیار ہوتی تھیں۔ یہ سب معلومات دے کر سٹورر نے واضح الفاظ میں پوچھا کہ وہ کام جو لیبر کمپنی اپنے تمام تر سرمائے اور وسائل کے ساتھ نہیں کر سکی، وہ میں کیسے کر سکتا ہوں جبکہ یہ علاقہ میرے لیے نیا ہے اور سرمائے کے نام پر کچھ نہیں (اس نے میری محنت سے کمائی ہوئی ڈیڑھ سو روپے کی رقم کو یکسر بھلا دیا)۔ اس نے یہ بھی بتایا کہ موکمہ گھاٹ میں گودام چھت تک سامان سے بھرے ہوئے ہیں اور اس کے علاوہ چار سو بوگیاں خالی ہونے کی منتظر کھڑی ہیں اور ایک ہزار بوگیاں دریا کے دوسرے کنارے پر منتقلی کی منتظر ہیں۔ اس نے آخر میں کہا، ’’میری نصیحت سمجھو اور کل صبح سماریہ گھاٹ جانے والا سٹیمر پکڑو اور سیدھا گورکھا پور چلے جاؤ اور جا کر ریلوے کو بتاؤ کہ یہ کام تمہارے بس سے باہر ہے۔‘‘

اگلی صبح میں جلدی روانہ تو ہوا مگر میرا رخ سماریہ گھاٹ والے سٹیمر کی جانب نہیں بلکہ میں گوداموں اور دیگر مقامات کا جائزہ لینے گیا تھا۔ سٹورر نے ہرگز غلط بیانی نہیں کی تھی بلکہ حالات اس سے زیادہ خراب تھے۔ نہ صرف چار سو میٹر گیج بوگیاں خالی ہونے کی منتظر تھیں بلکہ چار سو براڈ گیج کی بوگیاں بھی خالی ہونے کے انتظار میں کھڑی تھیں۔ میں نے اندازہ لگایا کہ کم از کم پندرہ ہزار ٹن جتنا سامان یہاں پھنسا ہوا ہے اور مجھے اس کی صفائی کو بھیجا گیا ہے۔ خیر، میں ابھی بیس سال کا تھا اور بہار کا موسم تھا جب ہم سبھی تھوڑے سے کھسک جاتے ہیں۔ جب رام سرن سے میری ملاقات ہوئی تو میں یہ ذمہ اٹھانے کا فیصلہ کر چکا تھا، نتیجہ چاہے جو بھی نکلتا۔

رام سرن دو سال سے موکمہ گھاٹ کا سٹیشن ماسٹر تھا۔ اس کی عمر بیالیس کے لگ بھگ ہوگی اور بہت گھنی کالی داڑھی اور پانچ بچوں کا باپ بھی تھا۔ اسے میری آمد کی اطلاع کا تار مل گیا تھا مگر اسے میری ذمہ داری سے آگاہ نہیں کیا گیا تھا۔

جب میں نے اسے اپنی آمد کا مقصد بتایا تو اس کا چہرہ کھل اٹھا اور بولا، ’’واہ، بہت خوب جناب۔ ہم سنبھال لیں گے۔‘‘ میرا دل لفظ ’ہم‘ پر باغ باغ ہو گیا اور پینتیس سال بعد اس کی وفات تک میرے جذبات نہیں سرد پڑے۔ جب میں نے ناشتے کے دوران سٹورر کو اپنے فیصلے کے بارے آگاہ کیا تو اس کا جواب تھا کہ احمق کبھی مشورہ نہیں مانتے۔ تاہم اس نے ہر ممکن مدد کا وعدہ کیا اور اس پر پوری طرح کاربند بھی رہا۔ اگلے کئی ماہ تک اس نے دن رات سٹیمروں کو رکنے نہ دیا اور میرے لیے سامان لاتا رہا۔

گورکھا پور سے واپسی کا سفر دو روز کا تھا اور جب میں موکمہ گھاٹ پہنچا تو پانچ دن بچے تھے۔ اس دوران مجھے اپنی ذمہ داریاں سمجھ کر ٹھیکے کو سنبھالنا تھا۔ پہلے دو دن تو میں نے اپنے سٹاف سے جان پہچان میں گذارے۔ رام سرن کے علاوہ ایک اسسٹنٹ سٹیشن ماسٹر جو کافی معمر تھا، پینسٹھ کلرک، ایک سو دیگر ملازمین بشمول شنٹر، پوائنٹس مین اور چوکیدار بھی میرے حوالے ہوئے۔ چونکہ میری ذمہ داری دونوں کناروں پر تھی، سو دوسری جانب بھی عملے کی تعداد سو سے کم نہیں تھی۔ ان دو عملوں کو سنبھالنا بذاتِ خود کارِ دارد تھا۔ اس کے علاوہ مجھے اتنے مزدور بھی جمع کرنے تھے کہ ہر سال موکمہ گھاٹ سے پانچ لاکھ ٹن سامان کی منتقلی ممکن ہو پاتی۔

لیبر کمپنی کے ملازمین کو کام پر معاوضہ ملتا تھا اور چونکہ کام رکا ہوا تھا، سو یہ ملازمین بیکار بیٹھے تھے۔ جب انہیں پتہ چلا کہ میں کیوں آیا ہوں تو بہت سارے ملازمین میرے لیے کام کرنے کو تیار ہو گئے۔ اگرچہ مجھے لیبر کمپنی کے ملازمین کو بھرتی کرنے کی ممانعت نہیں تھی مگر میں نے احتراز ہی کیا۔ البتہ ان کے رشتہ داروں اور دوستوں کو بھرتی کرنے سے مجھے کوئی تامل نہ تھا۔ سو تیسرا دن میں نے بارہ آدمی چن کر انہیں نگران بنا دیا۔ ان میں سے گیارہ کے ذمے دس دس افراد مہیا کرنا تھا تاکہ سامان کی منتقلی کا کام شروع ہو سکے اور براہویں کو کہا کہ وہ ساٹھ مرد اور عورتیں جمع کرے جو کوئلے کی منتقلی کا کام کر سکیں۔ سامان کی نوعیت مختلف تھی اور مختلف قسم کے سامان کی منتقلی کے لیے مختلف ذاتوں کے افراد بھرتی کرنے تھے۔ سو بارہ نگرانوں میں سے آٹھ ہندو تھے، دو مسلمان اور دو کا تعلق اچھوت ذاتوں سے تھا۔ چونکہ ان میں سے صرف ایک نگران ہی خواندہ تھا، میں نے ان کے بہی کھاتوں کے لیے ایک ہندو اور ایک مسلمان کلرک بھرتی کیے۔

لیبر کمپنی دونوں ریلوے کے درمیان سامان کی براہ راست منتقلی کرتی تھی اور سامان بوگی سے بوگی میں منتقل ہوتا تھا۔ اب دونوں کا سامان بوگی سے گودام اور پھر گودام سے بوگی کو منتقل ہونا تھا۔ مجھے ہزار من سامان کی منتقلی پر ایک روپیہ سات آنے ملنے تھے تاہم بھاری سامان اور کوئلے پر مجھے ایک روپیہ چار آنے فی ہزار من ملتا کیونکہ یہ سامان یک طرفہ ٹریفک تھا اور اسے براہ راست بوگی سے بوگی میں منتقل کیا جاتا تھا۔ ایک من میں اسی پاؤنڈ ہوتے ہیں اور ہزار من پینتیس ٹن سے زیادہ بنتا ہے۔ اگر آپ کو ان نرخوں پر یقین نہ ہو تو آپ ریلوے کے ریکارڈ دیکھ سکتے ہیں۔ آخری شام کو میں حاضری لگائی تو پتہ چلا کہ گیارہ نگرانوں کے پاس دس دس مزدور اور بارہویں کے پاس ساٹھ مرد و زن جمع ہو گئے ہیں۔ دو کلرک ملا کر میرا عملہ پورا ہو گیا۔ اگلے دن صبح سویرے میں نے گورکھا پور تار بھیجا کہ میں نے سامان کی منتقلی کے انسپکٹر کی ذمہ داری سنبھال لی ہے اور کام شروع ہو گیا ہے۔

رام سرن کے مدِ مقابل دوسرے کنارے پر آئرش بندہ ٹام کیلی تھا۔ کیلی کو موکمہ گھاٹ پر کام کرتے کئی برس ہو گئے تھے اور اگرچہ اسے میری کامیابی پر بہت شک تھا مگر اس نے ہر ممکن مدد کا وعدہ کیا۔ چونکہ گودام سارے سامان سے بھرے ہوئے تھے اور چار سو بوگیاں مزید بھی منتظر تھیں، سو ہمیں بڑا قدم لینا پڑا تاکہ گودام میں جگہ بنے اور سامان کی نقل و حرکت شروع ہو جائے۔ سو کیلی سے طے ہوا کہ میں ایک سمت میں ہزار ٹن گندم گودام سے نکال کر باہر رکھوں گا تاکہ کیلی مجھے ہزار ٹن نمک اور چینی وہاں رکھنے کو بھیج دے۔ پھر کیلی خالی بوگیوں کی مدد سے شیڈز میں میرے لیے جگہ بنائے گا۔ یہ منصوبہ خوبصورتی سے پورا ہوا۔ شکر ہے کہ جتنی دیر میری جانب ہزار ٹن گندم کھلے آسمان تلے پڑی رہی، بارش نہیں ہوئی۔ دس روز میں ہم نے نہ صرف جمع شدہ سامان روانہ کر دیا بلکہ ویگنیں بھی خالی ہو گئیں۔ پھر ہم نے اپنے متعلقہ صدر دفاتر کو تار بھیجے کہ موکمہ گھاٹ سے وہ سامان کی بکنگ شروع کر دیں۔ سامان کی منتقلی کو رکے دو ہفتے ہو گئے تھے۔

میں نے گرمیوں کے شروع میں ٹھیکہ لیا جب ہندوستانی ریلوے سب سے زیادہ مصروف ہوتی ہے اور جونہی بکنگ شروع ہوئی، سامان کا سیلاب آ گیا۔ مجھے دیے جانے والا معاوضہ پورے ہندوستان میں سب سے کم تھا اور کام جاری رکھنے کے لیے مجھے مزدوروں کی تعداد ہر ممکن طور پر کم سے کم رکھنی تھی اور انہیں محنت پر آمادہ کرنے کے لیے دوسروں کے برابر یا تھوڑا سا زیادہ معاوضہ دینا تھا۔ موکمہ گھاٹ پر کام کا معاوضہ ملتا تھا اور پہلے ہفتے کے اختتام پر یہ جان کر میرا عملہ بہت خوش ہوا کہ حساب کتاب کے مطابق انہیں لیبر کمپنی کے مزدوروں سے پچاس فیصد زیادہ معاوضہ ملنا ہے۔

میرا کام شروع ہوتے وقت ریلوے نے وعدہ کیا تھا کہ وہ مجھے ہفتہ وار ادائیگی کریں گے اور میں نے اپنے عملے سے بھی یہی کہا تھا۔ تاہم وعدہ کرتے ہوئے ریلوے کو یہ بات یاد نہ رہی کہ ایک ٹھیکیدار سے دوسرے کو منتقلی کے نتیجے میں آڈٹ کی پیچیدگیاں پیدا ہوں گی اور ان کو حل کرنے میں وقت لگے گا۔ ریلوے کے لیے تو یہ عام سی بات تھی مگر میرے لیے بہت بڑا مسئلہ تھا۔ میرا کل سرمایہ ڈیڑھ سو روپے تھا اور پوری دنیا میں کسی سے ادھار ملنے کی توقع نہیں تھی۔ سو جب تک ریلوے مجھے ادائیگی نہ کرتی، میں اپنے مزدوروں کو ادائیگی نہیں کر سکتا تھا۔

میں نے اس کہانی کا نام ’وفا داری‘ اس لیے رکھا ہے کہ مجھ سے زیادہ شاید ہی کسی کو وفا داری ملی ہو جو نہ صرف میرے مزدوروں کی تھی بلکہ ریلوے کے ملازمین کی جانب سے بھی تھی جو میرے کام شروع ہونے کے ابتدائی تین ماہ میں تھی۔ مجھے یقین ہے کہ کبھی کسی نے اس سے زیادہ محنت سے کام نہیں کیا ہوگا۔ ہفتے میں سات روز کام صبح چار بجے شروع ہوتا اور بغیر کسی وقفے کے رات آٹھ بجے تک جاری رہتا۔ سامان کا حساب کتاب رکھنے والے کلرک مختلف اوقات پر کھانا کھاتے تاکہ کام نہ رکے اور مزدور اپنا کھانا وہیں کھاتے جو ان کی بیویاں، بیٹیاں، مائیں اور بہنیں لاتیں۔ اس دور میں کوئی ٹریڈ یونین نہیں ہوتی تھی اور ہر کوئی اپنی مرضی سے کام کرنے میں آزاد تھا کہ وہ جتنے گھنٹے چاہے، کام کرتا۔ ہر انسان کو کام کے بدلے بہتر معاوضے کی توقع تھی چاہے وہ بہتر خوراک کا حصول ہو، خاندان کے لیے بہتر کپڑے ہوں یا ہل چلانے کے لیے نیا بیل خریدنا ہو۔ بہتر معاوضے کے بغیر کوئی انسان پوری محنت نہیں کرتا۔ دن کے اختتام پر میرا اور رام سرن کا کام جاری رہتا کہ ہمیں خط و کتابت بھی کرنی ہوتی تھی اور اگلے دن کی منصوبہ بندی بھی۔ پہلے تین ماہ ہم دونوں میں سے کوئی بھی چار گھنٹے سے زیادہ نہیں سویا۔ میری عمر بیس سال تھی اور سخت جان تھا مگر رام سرن چالیس سے اوپر کا تھا اور اتنا سخت جان نہیں رہا۔ تین ماہ بعد اس کا وزن ۱۴ کلو کم ہو چکا تھا مگر اس کی خوش طبعی جاری رہی۔

رقم کی کمی ہر گزرے ہفتے میرے لیے پریشانیوں میں اضافہ کرتی جا رہی تھی۔ پہلے پہل نگرانوں اور پھر مزدوروں نے اپنے زیورات گروی رکھوائے اور پھر وہ بھی ختم ہو گئے۔ اس دوران لیبر کمپنی کے مزدوروں نے میرے عملے کا مذاق اڑانا شروع کر دیا کہ وہ میرے عملے کے بہتر معاوضے سے جلتے تھے۔ کئی بار بمشکل لڑائی ہوتے ہوتے بچی۔ خوراک کی کمی کے باوجود میرے عملے کی وفا داری پر کوئی فرق نہیں پڑا اور وہ ہر اس انسان سے لڑنے پر تیار ہو جاتے جو انہیں کہتا کہ میں ان کے ساتھ دھوکہ کر رہا ہوں اور انہیں کبھی ایک پائی بھی نہیں ملے گی۔

مون سون تاخیر کا شکار ہو گئی اور سورج آسمان پر دہکتا گولہ دکھائی دیتا تھا اور لو اتنی گرم ہوتی جیسے کسی بھٹی سے نکل رہی ہو۔ ایک بار طویل اور گرم دن کے اختتام پر مجھے سماریہ گھاٹ سے تار ملا کہ سامان کو موکمہ گھاٹ لانے والا ایک انجن پٹڑی سے اتر گیا ہے۔ کشتی سے دریا عبور کر کے میں وہاں پہنچا اور تین گھنٹوں میں دو مرتبہ انجن کو دوبارہ پٹڑی پر چڑھایا مگر وہ پھر اتر جاتا۔ شام کو جب ہوا کی رفتار کم ہو گئی اور ریت کو چوبی سلیپروں کے نیچے اچھی طرح جما دیا تو پھر تیسری بار انجن کو پٹڑی پر چڑھایا اور کام بحال ہوا۔ تھکن سے بے حال اور ریت اور ہوا کی وجہ سے آنکھیں سوجی ہوئی اور سرخ تھیں، میں اس روز پہلی بار کھانا کھانا اپنے خیمے میں بیٹھا تو میرے بارہ نگران خیمے میں داخل ہوئے اور جب دیکھا کہ نوکر میرے سامنے کھانے کی تھالی رکھ رہا ہے تو رواج کے مطابق باہر نکل گئے۔ پھر میں نے کھانا کھاتے ہوئے یہ گفتگو سنی،

ایک نگران، صاحب کے سامنے تھالی میں کیا ہے؟

نوکر، ایک چپاتی اور تھوڑی سی دال۔

ایک نگران، صرف ایک چپاتی اور تھوڑی سی دال؟

نوکر، کیونکہ اس سے زیادہ کے پیسے نہیں ہیں۔

ایک نگران، صاحب اور کیا کھاتے ہیں؟

نوکر، کچھ بھی نہیں۔

تھوڑی دیر خاموشی رہی اور پھر سب سے معمر نگران کی آواز سنائی دی جو مسلمان تھا اور اس کی لمبی داڑھی مہندی سے رنگی ہوتی تھی۔ اس نے اپنے ساتھیوں سے کہا، ’’گھر جاؤ، میں یہیں رک کر صاحب سے بات کرتا ہوں۔‘‘

جب نوکر نے خالی پلیٹ ہٹائی تو وہ بوڑھا نگران اجازت لے کر اندر داخل ہوا اور میرے سامنے کھڑا ہو کر بولا، ’’ہم آپ کو یہ بتانے آئے تھے کہ بھوک سے ہم لوگ نڈھال ہیں اور کل ہم سے کام نہیں ہو سکے گا۔ مگر اب دیکھا ہے کہ آپ کا حال ہم جیسا ہی ہے تو ہم اپنا کام تب تک جاری رکھیں گے جب تک ہماری ہمت ساتھ دے گی۔ اب آپ سے اجازت چاہوں گا مگر صاحب، خدا کے لیے، ہمارے لیے کچھ کیجیے۔‘‘

کئی ہفتوں سے میں ہر روز گورکھا پور پیغام بھیجتا کہ رقم کا بندوبست کریں اور ہر روز جواب آتا کہ اقدامات کیے جا رہے ہیں۔

جب یہ نگران چلا گیا تو میں نے سیدھا تار گھر کا رخ کیا جہاں تار بابو حسبِ معمول میری جمع کرائی ہوئی روز کے کام کی رپورٹ بھیج رہا تھا۔ میں نے میز سے فارم اٹھایا اور اسے کہا کہ گورکھا پور کے لیے ارجنٹ تار کے لیے لائن خالی کرے۔ نصف شب کو چند منٹ گزرے ہوں گے کہ میرا یہ تار روانہ ہوا، ’’اگر صبح کی ٹرین سے بارہ ہزار روپے روانہ نہ ہوئے تو موکمہ گھاٹ پر کام آج دوپہر کو روک دیا جائے گا۔‘‘ تار بابو نے پیغام پڑھا اور مجھے دیکھ کر بولا، ’’صاحب اگر آپ اجازت دیں تو میرا بھائی اس وقت دوسری جانب ڈیوٹی پر ہے اور وہ یہ پیغام صبح کی بجائے ابھی بھجوا دے؟‘‘

تار روانگی کے دس گھنٹے بعد اور میرے دیے ہوئے الٹی میٹم کی میعاد ختم ہونے سے دو گھنٹے قبل میں نے دیکھا کہ تار گھر کا ایک ملازم بھورے رنگ کا لفافہ لیے میری جانب دوڑا آ رہا ہے۔ جہاں جہاں سے وہ گزرتا، لوگ اپنا کام روک کر اسے دیکھنے لگتے کہ پورے موکمہ گھاٹ کو پتہ چل چکا تھا کہ میں نے رات کو کیا تار بھیجا تھا۔ جب میں نے تار پڑھ لیا تو اس نے پوچھا کہ اچھی خبر ہے؟  یہ لڑکا میرے دفتری چپراسی کا بیٹا تھا اور جب میں نے تصدیق کی تو وہ خوشی سے دوڑ پڑا اور جہاں جہاں سے گزرتا، لوگ خوشی کے نعرے لگاتے جاتے۔ رقم اگلے روز آنی تھی مگر جہاں کئی مہینے گزر گئے، ایک روز اور بھی گزر ہی جاتا۔

اگلی صبح تنخواہ دینے والا کلرک میرے دفتر پہنچا اور اس کے پیچھے میرے کئی آدمی تھے جنہوں نے بانس سے لٹکی ہوئی تجوری اٹھائی ہوئی تھی اور دو پولیس والے اس کی حفاظت کر رہے تھے۔ یہ بندہ ہندو تھا اور خوش مذاق بھی۔ مجھے وہ ہمیشہ عینک پہنے ہوئے دکھائی دیا۔ دفتر کے فرش پر بیٹھ کر اس نے اپنے گریبان میں رسی سے بندھی چابی نکالی اور تجوری کھول کر بارہ تھیلے نکالے۔ ہر تھیلے میں ایک ہزار روپے کے نئے نکور سکے تھے۔ پھر اس نے میرے دستخط شدہ کاغذ پر تھوک سے ٹکٹ لگائی اور پھر اپنی بہت گہری جیب سے ایک لفافہ نکالا جس میں ساڑھے چار سو روپے کے نوٹ تھے جو میری تین ماہ کی تنخواہ تھی۔

میرا خیال ہے کہ رقم دیتے ہوئے کبھی کسی کو اس سے زیادہ خوشی نہیں ہوئی ہوگی جتنی مجھے اس روز ہوئی۔ میں نے ہر نگران کو ایک ہزار روپے کا تھیلا پکڑایا اور مجھے نہیں لگتا کہ رقم وصول کرتے ہوئے ان سے زیادہ کوئی خوش ہوا ہوگا۔ چونکہ کلرک اور رقم کی آمد سے قبل پریشانی اپنی انتہا کو پہنچ چکی تھی، سو اب کوئی تقریب ضروری تھی۔ سو باقی کا پورا دن چھٹی دے دی گئی اور ہم لوگ پچانوے روز سے بلا ناغہ کام کر رہے تھے۔ باقیوں کا تو پتہ نہیں میں نے یہ وقت سو کر گزارا۔ اکیس سال تک میری یہ ذمہ داری چلتی رہی اور اس دوران میں نے پہلی جنگِ عظیم کے چار سال وزیرستان اور فرانس میں بھی گزارے مگر ایک بار بھی کام میں خلل نہیں آیا۔ جب میں نے کام سنبھالا تو چار سے پانچ لاکھ ٹن سامان موکمہ گھاٹ سے گزرتا تھا اور جب میں نے کام ختم کیا تو یہ مقدار دس لاکھ ٹن سے زیادہ ہو چکی تھی۔

 ٭٭٭

۰۸۔ بُدھو​

بدھو ذات کا اچھوت تھا اور جتنے سال وہ میرے پاس کام کرتا رہا، ایک بار بھی نہیں مسکرایا کہ اس کی زندگی اتنی مشکل تھی۔ اس کی عمر پینتیس برس تھی اور لمبا اور دبلا تھا۔ اس کی بیوی اور دو بچے بھی اس کے ساتھ تھے جب وہ میرے پاس ملازمت کے لیے آیا۔ چونکہ وہ چاہتا تھا کہ اس کی بیوی اس کے ساتھ کام کرے، سو میں نے اسے واحد ممکن کام پر لگا جو براڈ گیج سے میٹر گیج والی بوگیوں میں کوئلے کی منتقلی تھا۔ دونوں بوگیوں میں چار فٹ کی ڈھلوان ہوتی تھی اور کوئلہ کچھ تو پھینک کر اور کچھ ٹوکریوں میں اٹھا کر منتقل کیا جاتا تھا۔

یہ کام انتہائی دشوار تھا کہ پلیٹ فارم پر چھت نہیں تھی۔ سردیوں میں یہ لوگ شدید سردی میں کام کرتے اور اکثر کئی کئی روز مسلسل بارش میں بھیگتے رہتے اور گرمیوں میں اینٹوں کے پلیٹ فارم اور دھاتی بوگیوں سے نکلنے والی شدید گرمی ان کے ننگے پیروں پر چھالے ڈال دیتی۔ اپنے بچوں کے لیے روٹی کے حصول کی خاطر نووارد کے ہاتھوں میں بیلچہ انتہائی ظالم اوزار ہے۔ پہلے روز کے کام کے بعد کمر درد سے ٹوٹ رہی ہوتی ہے اور ہتھیلیاں سرخ ہو چکی ہوتی ہیں۔ دوسرے روز ہاتھوں پر چھالے پڑ جاتے ہیں اور کمر کا درد اور بھی شدید تر ہو جاتا ہے۔ تیسرے روز چھالے پھٹ جاتے ہیں اور ان میں پیپ پڑ جاتی ہے اور کمر سیدھی کرنا دشوار ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد ہفتے یا دس دن انسان محض ہمت کے بل بوتے پر کام جاری رکھ سکتا ہے۔ یہ بات میں اپنے ذاتی تجربے سے بتا رہا ہوں۔

بدھو اور اس کی بیوی انہی مراحل سے گزرے اور اکثر انہیں سولہ گھنٹے کام کرنا پڑتا تھا اور بمشکل خود کو گھسیٹ کر وہ اس کوارٹر تک جاتے جو میں نے انہیں رہائش کے لیے دیا تھا۔ میں نے انہیں کئی بار بتایا کہ یہ کام ان کے بس سے باہر ہے اور وہ کوئی دوسرا اور نسبتاً آسان کام دیکھیں، مگر بقول بدھو، اس نے آج تک اتنے پیسے نہیں کمائے تھے، سو میں نے انہیں کام جاری رکھنے کی اجازت دی۔ مگر ایک دن آ گیا کہ ان کی کمر کا درد ختم ہو گیا اور وہ کام سے جاتے ہوئے اتنے خوش ہوتے جتنا کام پر آتے ہوئے ہوتے تھے۔

اُس وقت میرے پاس دو سو افراد کوئلے کی منتقلی کے لیے کام کر رہے تھے کہ کوئلے کی مقدار بہت زیادہ تھی اور کوئلہ ہمیشہ گرمیوں میں زیادہ بھیجا جاتا ہے۔ ہندوستان اُس دور میں سامانِ تجارت برآمد کر رہا تھا سو غلے، افیون، نیل، کھالوں اور ہڈیوں سے بھری ویگنیں کلکتہ جاتیں اور واپسی پر ان میں کوئلہ لدا ہوتا اور کانوں سے کوئلہ آتا۔ اس میں سے پانچ لاکھ ٹن موکمہ گھاٹ سے گزرتا۔

ایک روز بدھو اور اس کی بیوی کام پر نہ آئے۔ کوئلے والے مزدوروں کے نگران چماری نے بتایا کہ انہیں پوسٹ کارڈ ملا اور وہ یہ کہہ کر چلے گئے کہ جتنی جلدی ممکن ہوا، واپس لوٹ آئیں گے۔ دو ماہ بعد دونوں واپس لوٹے اور اپنے کوارٹر میں رہنے اور کام کرنے لگے۔ اگلے سال تقریباً اسی وقت یہ لوگ پھر غائب ہو گئے۔ تاہم اب ان کی صحت بہتر ہو گئی تھی۔ اس بار وہ لوگ تین ماہ غائب رہے اور واپسی پر تھکے ماندہ اور پریشان حال آئے۔ میری عادت ہے کہ جب تک مشورہ نہ لیا جائے یا کوئی اپنے حالات خود نہ بتائے، میں اپنے عملے کے ذاتی معاملات میں مداخلت نہیں کرتا۔ ہندوستانیوں کے لیے یہ دکھتی رگ ہوتی ہے۔ اس لیے مجھ علم نہ ہو سکا کہ ہر سال پوسٹ کارڈ ملنے پر بدھو کہاں جاتا ہے اور کیا کرتا ہے۔ میرے ملازمین کی ڈاک ان کے نگرانوں کو دے دی جاتی تھی جو متعلقہ بندے کو پہنچاتے تھے۔ اس لیے میں نے چماری کو ہدایت کی کہ جب بھی بدھو کو اگلا پوسٹ کارڈ ملے، وہ بدھو کو میرے پاس بھیج دے۔ نو ماہ بعد جب کوئلے کی آمد و رفت معمول سے زیادہ تھی اور ہر آدمی اپنی بساط سے بڑھ کر کام کر رہا تھا، بدھو پوسٹ کارڈ لیے میرے کمرے میں داخل ہوا۔ پوسٹ کارڈ کی زبان مجھے نہیں آتی تھی سو میں نے بدھو سے کہا کہ وہ پڑھ کر سنائے۔ تاہم وہ خواندہ نہیں تھا اس لیے اس نے بتایا کہ چماری نے پڑھ کر اسے سنایا تھا کہ اس کے مالک کی فصل تیار تھی اور وہ فوراً اسے بلا رہا تھا۔ پھر بدھو نے اس روز مجھے اپنی کہانی سنائی جو ہندوستان کے لاکھوں غریبوں کی کہانی ہے۔

’’میرا دادا کھیت مزدور تھا اور اس نے گاؤں کے بنیے سے دو روپے ادھار لیے تھے۔ بنیا نے ایک روپیہ ایک سال کے سود کے طور پر پیشگی رکھوا لیا اور میرے دادا سے بہی کھاتے پر انگوٹھا لگوا لیا (حساب کتاب کا کھاتہ)۔ جب بھی ممکن ہوتا، میرا دادا چند آنے سود کے نام پر ادا کرتا رہا۔ دادے کی وفات پر یہ ادھار میرے باپ کو منتقل ہوا اور اُس وقت تک یہ ادھار پچاس روپے بن چکا تھا۔ اس دوران بوڑھا بنیا بھی مر گیا اور اس کے بیٹے نے اس کی جگہ سنبھالی اور کہا کہ چونکہ ادھار بہت بڑھ گیا ہے، سو نئے سرے سے معاہدہ کرنا ہوگا۔ میں نے یہ معاہدہ کیا اور چونکہ میرے پاس سٹامپ پیپر کے لیے پیسے نہیں تھے، سو بنیے کے بیٹے نے وہ بھی سود اور اصل رقم کے ساتھ لکھ لیے جو اب ایک سو تیس روپے سے زیادہ تھا۔ بنیے کے بیٹے نے ایک شرط پر سود کی شرح پچیس فیصد کرنے کی پیشکش کی کہ میں اپنی بیوی کے ساتھ ہر سال اس کی فصلیں کاٹنے کے لیے آیا کروں۔ جب تک سارا ادھار اتر نہ جائے، ہمیں یہ کام کرتے رہنا ہے۔ اس معاہدے کے مطابق مجھے اور میری بیوی کو بنیے کی فصلیں مفت میں کاٹنی ہوتی ہیں جو الگ کاغذ پر لکھا گیا تھا اور اس پر میرا انگوٹھا لگایا گیا۔ ہر سال کام کے بعد بنیے کا بیٹا کاغذ کی پشت پر حساب کتاب کر کے میرے انگوٹھے لگواتا ہے۔ علم نہیں کہ ادھار اب کتنا بڑھ چکا ہوگا کیونکہ میں نے ابھی تک کوئی پیسہ واپس نہیں کیا۔ اب چونکہ میں آپ کے پاس کام کر رہا ہوں، سو میں نے پانچ، سات اور تیرہ، کل مل ملا کر پچیس روپے ادا کیے ہیں۔ ‘ بدھو نے کبھی اس ادھار کی ادائیگی سے انکار کا سوچا بھی نہیں۔ ایسی سوچ ممکن بھی نہیں تھی کہ اس طرح نہ صرف اس کا منہ کالا ہوتا بلکہ اس کے آباؤ اجداد کے نام پر بھی دھبہ لگ جاتا۔ اس طرح وہ نقد اور محنت، ہر ممکن طور پر ادھار کی ادائیگی کرتا رہا اور اسے علم تھا کہ کبھی اس ادھار کو ادا نہیں کر پائے گا اور یہ اس کے بیٹے کو منتقل ہو جائے گا۔

بدھو سے پتہ چلا کہ بنیے کے دیہات میں ایک وکیل بھی رہتا ہے، میں نے اس کا نام اور پتہ لیا اور بدھو کو کام پر لوٹ جانے کا کہا اور اسے یقین دلایا کہ میں بنیے کا معاملہ سنبھالتا ہوں۔ اس کے بعد وکیل سے طویل خط و کتابت شروع ہو گئی۔ وکیل مضبوط اعصاب کا برہمن تھا جسے بنیے سے نفرت تھی کہ بنیے نے اسے گھر سے باہر بلا کر اس کی بے عزتی کی تھی اور کہا تھا کہ وہ اپنے کام سے کام رکھے۔ وکیل نے بتایا کہ بہی کھاتا جو وراثت میں ملا تھا، وہ عدالت میں پیش نہیں کیا جا سکتا کہ اس پر لگے انگوٹھوں والے افراد مر چکے ہیں۔ بنیا نے بدھو کو دھوکہ دے کر اس سے نئے کاغذ پر دستخط کرائے جس کے مطابق بدھو نے بنیا سے پچیس فیصد شرح سود پر ڈیڑھ سو روپے ادھار لیے تھے۔ وکیل نے بتایا کہ اس کاغذ کو ہم نظرانداز نہیں کر سکتے کہ بدھو اس کی تین قسطیں ادا کر چکا تھا اور ان قسطوں کے ثبوت کے طور پر اس کے انگوٹھے بھی لگے تھے۔ جب میں نے وکیل کو پورے ادھار کی رقم اور پچیس فیصد سود کی رقم بھی بھیجی تو بنیا نے سرکاری کاغذ تو دے دیا مگر وہ ذاتی معاہدہ دینے سے انکار کر دیا جس کے مطابق بدھو اور کی بیوی اس کی فصلیں مفت کاٹتے۔

جب وکیل کے مشورے پر میں نے بنیے کو بیگار کے مقدمے کی دھمکی دی تو پھر جا کر اس نے معاہدہ ہمارے حوالے کیا۔

جتنی دیر ہماری خط و کتابت ہوتی رہی، بدھو بہت پریشان رہا۔ اس نے مجھ سے اس بارے ایک لفظ بھی نہیں کہا مگر جس طور وہ مجھے دیکھتا تھا، واضح کرتا تھا کہ اس نے طاقتور بنیے کے ساتھ معاملات طے کرنے کے لیے مجھ پر شاید بھروسہ غلط کیا ہے۔ اسے یہ بھی فکر ہوگی کہ اگر کسی وقت بنیا آ کر اس سے پوچھے کہ یہ سب کیا ہے تو وہ کیا جواب دے گا۔ ایک روز مجھے مہر لگا ایک موٹا لفافہ ملا جس میں انگوٹھوں کے نشانات سے بھرے کاغذات تھے اور وکیل کی فیس کی ایک رسید بھی شامل تھی اور بدھو کے لیے ایک خط بھی، کہ وہ اب آزاد ہو چکا ہے۔ اس سارے معاملے پر مجھے سوا دو سو روپے ادا کرنے پڑے۔

اس روز شام کو بدھو کام سے گھر جا رہا تھا کہ میں اسے ملا اور لفافے سے کاغذات نکال کر اسے دیے اور ایک ماچس بھی دی کہ اسے جلا دے۔ اس نے کہا: ‘نہیں صاحب۔ آپ ان کاغذات کو نہ جلائیں۔ آج سے میں آپ کا غلام ہوں اور خدا جانتا ہے کہ ایک روز میں آپ کا ادھار واپس کر دوں گا۔ ‘ بدھو نہ صرف کم گو تھا بلکہ کبھی مسکرایا بھی نہیں تھا۔ جب میں نے اسے بتایا کہ وہ انہیں جلانا نہیں چاہتا تو اپنے پاس رکھ لے۔ اس نے ہاتھ جوڑ کر میرے پاؤں چھوئے اور جب سیدھا ہو کر گھر جانے کو مڑا تو اس کے کوئلے سے بھرے چہرے سے آنسوؤں کی دھاریں بہہ رہی تھیں۔

تین نسلوں سے غلامی کی زنجیر میں جکڑا ایک انسان آزاد ہوا مگر لاکھوں ابھی تک قید تھے۔ مگر مجھے اس سے زیادہ کبھی خوشی نہیں ہوئی تھی اور نہ ہی کوئی الفاظ بدھو کے خاموش جذبات سے ہوئی تھی جب وہ آنسو بھری آنکھوں سے ٹھوکریں کھاتا اپنی بیوی کو یہ بتانے گیا کہ بنیے کا ادھار اتر چکا ہے اور وہ اب آزاد ہیں۔

 ٭٭٭

۰۹۔ لالہ جی​

سماریہ گھاٹ سے مسافر کشتی شام گئے آ رہی تھی۔ میں اس جانب کھڑا تھا جہاں سے مسافر اترتے ہیں اور مسافروں کو اترتے دیکھتا رہا جو نیچے اتر کر براڈ گیج لائن کی طرف بڑھ جاتے جو ان کی خاطر میں نے چند منٹ تاخیر سے روانہ کرنے کا کہا تھا۔ سب سے آخر میں اترنے والے مسافر کی آنکھیں دھنسی ہوئی تھیں اور یہ دبلا پتلا بندہ پیوند لگے کپڑے پہنے ہوئے تھا جو کبھی سفید رہے ہوں گے۔ اس نے رنگدار رومال کی پوٹلی اٹھائی ہوئی تھی۔ گینگ وے کی ریلنگ کو پکڑ کر اس نے آہستہ آہستہ چلنا شروع کیا۔ مگر نیچے اترنے کی بجائے وہ دریا کے کنارے بمشکل پہنچا۔ صاف لگ رہا تھا کہ وہ بہت بیمار ہے۔ دریا پر اکڑوں بیٹھ کر اس نے منہ دھو کر اپنی پوٹلی کھول کر ایک چادر نکالی اور کنارے پر پھیلا کر اس پر لیٹ گیا۔ گنگا کا پانی اس کے پیروں سے ٹکرا رہا تھا۔ صاف لگ رہا تھا کہ اسے ٹرین سے کوئی دلچسپی نہیں اور جب روانگی کی گھنٹی بجی اور ٹرین نے سیٹی ماری تو اس نے توجہ نہیں دی۔ وہ پیٹھ کے بل لیٹا تھا اور جب میں نے اسے بتایا کہ اس کی ٹرین چھوٹ گئی ہے تو اس نے اپنی آنکھیں کھول کر مجھے دیکھا اور بولا، ’’کیسی ٹرین صاحب، میں مرنے والا ہوں۔ ’’

آموں کا موسم تھا اور یہ سال کا گرم ترین موسم ہوتا ہے اور ہیضہ اپنے عروج پر۔ جب یہ بندہ میرے قریب سے گزر کر نیچے اترنے لگا تو مجھے شکل تھا کہ اسے ہیضہ ہے اور اب میرے خدشات درست ثابت ہوئے۔ میرے سوالات پر اس نے بتایا کہ وہ اکیلا سفر کر رہا ہے اور موکمہ گھاٹ میں اس کے کوئی دوست احباب نہیں۔ میں نے اسے سہارا دیا اور اسے دو سو گز دور اپنے گھر کی طرف لایا اور اپنے پنکھا جھلنے والے قلی کے خالی کوارٹر میں لٹا دیا۔ یہ کوارٹر دیگر سے الگ تھلگ تھا۔ میں دس سال سے موکمہ گھاٹ پر کام کر رہا تھا اور کافی تعداد میں عملہ کام کرتا تھا۔ کچھ لوگ میرے مہیا کردہ گھروں میں رہتے تو باقی آس پاس کے دیہاتوں میں۔ میں نے اپنے عملے اور دیہاتوں میں ہیضے کے اتنے مریض دیکھے تھے کہ میری دعا تھی کہ اگر مجھے ہیضہ ہوا تو کوئی ہمدرد میرے سر میں گولی پیوست کر کے مجھے اس کی تکلیف سے نجات دلا دے یا افیون کی زیادہ مقدار سے میری مشکل آسان کر دیتا۔ کئی لوگ اس بات سے اتفاق کریں گے کہ ہر سال ہزاروں لوگ جو ہیضے سے مرتے ہیں، ان میں نصف سے زیادہ افراد بیماری کی بجائے اس کی دہشت سے مرتے ہیں۔ ہم جو ہندوستان میں رہتے ہیں، قسمت کو مانتے ہیں کہ کوئی بھی انسان اپنے مقررہ وقت سے پہلے نہیں مر سکتا، مگر وبائی امراض سے ہمارا خوف فطری ہے۔ ہیضے سے پورے ملک کے لوگ ڈرتے ہیں اور جب اس کی وبا آتی ہے تو بہت سارے لوگ بیماری کی بجائے اس کے ڈر سے مر جاتے ہیں۔

یہ بندہ ہیضے کا شکار تھا اور اس کے بچنے کی امید اس کی ہمت اور میرے ٹوٹکوں پر منحصر تھی۔ کئی میل تک طبی امداد کا واحد امکان ایک ظالم ڈاکٹر تھا جو بیکار اور فضول انسان تھا۔ اگر میرے پاس تربیت کے لیے ایک نوجوان کلرک نہ بھیجا جاتا جس نے اس ڈاکٹر سے نجات کا بہتر طریقہ پیش کیا، میں کسی دن اس کے گلے کو بخوشی کاٹ دیتا۔ سارا عملہ اس سے نفرت کرتا تھا۔ اس کلرک نے ڈاکٹر اور اس کی بیوی کا اعتماد حاصل کر لیا جنہوں نے بخوشی بتایا کہ موکمہ گھاٹ آنے سے قبل وہ مصر میں تھے اور بہت عیش کرتے تھے۔ دونوں میاں بیوی اخلاقی اعتبار سے دیوالیہ تھے۔ اس پر کلرک نے سوچنا شروع کر دیا اور چند روز بعد رات کو جب آخری سٹیمر سماریہ گھاٹ کے لیے روانہ ہونے والا تھا کہ ڈاکٹر کو ایک خط ملا جسے پڑھتے ہی ڈاکٹر نے اپنی بیوی کو کہا کہ وہ ایک مریض کو دیکھنے جا رہا ہے اور ساری رات غائب رہے گا۔ پھر خوب بن ٹھنک کر ڈاکٹر باہر نکلا تو کلرک منتظر تھا جو اسے انتہائی راز داری سے ایک خالی کمرے میں لے گیا جہاں چند رات قبل میرا ایک ملازم کوئلے کی گیس سے ہلاک ہوا تھا۔

ڈاکٹر کچھ دیر اس کمرے میں منتظر رہا۔ اس کمرے میں ایک مضبوط دروازہ تھا اور ایک چھوٹی سی سلاخوں والی کھڑکی۔ پھر دروازہ کھول کر ایک برقعہ پوش ہیولہ اندر داخل ہوا اور باہر سے دروازے کو بند کر کے قفل لگا دیا گیا۔

اس رات میں گوداموں کی جانب سے کافی دیر کو واپس لوٹ رہا تھا کہ اس نئے کلرک اور اس کے ساتھی کے درمیان ہونے والی گفتگو سنائی دی۔ اگلی صبح کام پر جاتے ہوئے میں نے اس کمرے کے باہر ایک ہجوم دیکھا۔ پوچھا تو پتہ چلا کہ اندر کوئی موجود ہے مگر باہر سے تالا لگا ہوا ہے۔ میں نے اسے ہتھوڑا لانے کو بھیجا تاکہ تالا توڑا جائے۔ یہ حکم دے کر میں نے دوڑ لگا دی کہ مجھے علم تھا کہ اب کیا ہونے والا ہے۔ اس روز میری ڈائری پر تین مندرجات ہیں:

۱۔ ڈاکٹر اور اس کی بیوی کسی ذاتی کام سے بعجلت روانہ ہو گئے۔

۲۔ شیو دیو نامی عارضی کلرک کو بیس روپے ماہانہ پر مستقل ملازمت دی گئی۔

۳ ۔ تالے، کنڈی اور دیگر متعلقہ سامان پر انجن چڑھ گیا تھا جو بدل دیا گیا۔

ذلیل ڈاکٹر اور اس کی بیوی پھر کبھی موکمہ گھاٹ پر نہیں دکھائی دیے۔ یہ شخص اس معزز پیشے کے لیے ذلت کا سبب تھا۔

اس بندے کی دیکھ بھال کے لیے زیادہ وقت نکالنا ممکن نہیں تھا کہ میرے پاس تین مریض اور بھی تھے اور کسی دوسرے سے مدد مانگنا ممکن نہیں تھا کہ میرے ملازمین کی ذاتیں مختلف تھیں اور ویسے بھی کسی دوسرے کو بیماری کیوں پھیلے۔ تاہم اس کی ضرورت بھی نہیں تھی۔ میں نے اس بندے پر واضح کیا کہ میں اسے مرنے کے لیے یہاں نہیں لایا کہ اسے پھر جلانا بھی مجھے ہی پڑے۔ یہاں وہ صحت یاب ہونے آیا تھا سو اس کا تعاون اہم تھا۔ پہلی رات تو مجھے خوف ہوا کہ وہ بندہ مر جائے گا۔ مگر دوسری صبح اس کی حالت بہتر ہونے لگی اور باقی کام محض اس کی صحت کی بحالی کا رہ گیا تھا۔ ہیضہ کسی دوسری بیماری کی نسبت زیادہ تیزی سے انسان کے جسم سے توانائی چوس لیتا ہے۔ ابھی ایک ہفتہ بھی نہ گزرا تھا کہ وہ مجھے اپنی پوری کہانی سنانے کے قابل ہو گیا۔

وہ لالہ تھا، یعنی تاجر اور کچھ عرصہ قبل تک غلے کا بہت کامیاب تاجر تھا۔ پھر اس نے غلطی سے ایک ایسے بندے کو ساجھی دار بنا دیا جسے اس کام کی الف بے بھی نہیں آتی تھی۔ چند سال تک کاروبار چلتا رہا مگر ایک دن جب وہ طویل سفر سے واپس آیا تو دیکھا کہ اس کی دکان خالی تھی اور اس کا ساتھی غائب تھا۔ اس کی پس انداز شدہ رقم فوری ضرورتوں کے لیے ناکافی تھی اور ادھار نہ مل سکنے پر اسے ملازمت کرنی پڑی۔ اس نے اپنے ساتھی تاجر کے ہاں سات روپے مہینہ پر ملازمت کر لی۔ اس تاجر کے ساتھ وہ دس سال سے تجارت کر رہا تھا۔ یہ رقم اس کے اور اس کے بیٹے کے گزارے کے لیے کافی تھی کہ اس کی بیوی اس دھوکے کے بعد مر چکی تھی۔ وہ اپنے آجر کے کام سے مظفر پور سے گیا جا رہا تھا کہ ٹرین پر بیمار ہو گیا۔ سٹیمر پر پہنچتے پہنچتے اس کی حالت خراب ہو گئی تھی، سو وہ مقدس دریا کے کنارے مرنے کے لیے لیٹ گیا۔

لالا جی کو میں ہمیشہ اسی نام سے یاد رکھتا ہوں، میرے پاس ایک مہینہ رہا اور پھر اس نے گیا جانے کے لیے اجازت مانگی۔ اب لالا جی کی صحت اتنی بہتر ہو گئی تھی کہ وہ میرے ساتھ شیڈز تک چہل قدمی کر لیتا تھا۔ میں نے اسے بتایا کہ اگر اس کی واپسی پر اس کی جگہ دوسرا ملازم رکھ لیا گیا ہو تو کیا ہوگا۔ اس نے کہا کہ کوئی بات نہیں، وہ کوئی اور ملازمت تلاش کر لے گا۔ میں نے پوچھا، ’’تم کسی سے مدد کیوں نہیں مانگتے، کہ پھر سے تجارت شروع کر سکو؟‘‘

اس نے جواب دیا، ’’تجارت پھر سے شروع کرنے اور اپنے بیٹے کو پڑھانے کی خواہش دن رات ساتھ لگی ہوئی ہے مگر صاحب، پوری دنیا میں میرا کوئی نہیں اور سات روپے ماہوار تنخواہ والے ملازم کو کون ادھار دے گا؟ مجھے کاروبار شروع کرنے کے لیے کم از کم پانچ سو روپے درکار ہوں گے۔‘‘

گیا کے لیے ٹرین آٹھ بجے رات کو روانہ ہوئی اور میں اس سے ذرا قبل گھر آیا اور لالا جی نئے کپڑے پہنے اور پہلے سے بڑی پوٹلی اٹھائے برآمدے میں منتظر ملا۔ جب میں نے اس کے ہاتھ پر ٹرین کا ٹکٹ اور پانچ سو روپے کے نوٹ رکھے تو بدھو کی طرح اس کی زبان بھی گنگ ہو کر رہ گئی۔ بار بار وہ ان نوٹوں کو اور پھر مجھے دیکھتا۔ جب ٹرین کی روانگی سے پانچ منٹ قبل والی گھنٹی بجی تو اس نے اپنا سر میرے پیروں پر رکھا اور بولا، ’’ایک سال کے اندر اندر آپ کا غلام آپ کی رقم لوٹا دے گا۔‘‘

اس طرح لال اجی روانہ ہوا اور اپنے ساتھ میری بچت کا بڑا حصہ بھی لے گیا۔ مجھے اس کی واپسی پر کوئی شبہ نہیں تھا کہ ہندوستان کے غریب کبھی مہربانی کو نہیں بھولتے، مگر لالا جی نے جو رقم لوٹانے کا وعدہ کیا تھا، وہ مجھے اس کے بس سے باہر کی بات لگا۔ تاہم یہ میری غلط فہمی تھی۔ ایک روز شام کو گھر واپس لوٹا تو بے داغ کپڑوں میں ملبوس ایک آدمی برآمدے میں منتظر ملا۔ چونکہ روشنی اس کے عقب سے آ رہی تھی، سو اس کی آواز سنی تو پھر کر پہچانا۔ یہ وہی لالا جی تھا جو اپنی مقرر کردہ مدت سے چند روز قبل آ پہنچا تھا۔ رات کو وہ میری کرسی کے پاس زمین پر بیٹھ کر مجھے اپنے کاروبار کے بارے بتانے لگا کہ کیسے اسے کامیابی ہوئی ہے۔ اس نے چند بوری غلہ سے کام شروع کیا تھا اور ہر بوری پر چار آنہ منافع رکھتا تھا۔ آہستہ آہستہ اس نے ترقی کی اور تیس ٹن تک کے سودے کرنے لگا۔ اسے فی ٹن تین روپے کا منافع ہوتا تھا۔ اس کا بیٹا اچھے سکول میں تھا اور اب اس نے پٹنہ کے ایک امیر تاجر کی بیٹی سے بیاہ بھی کر لیا تھا۔ یہ سب کامیابیاں اس نے بارہ ماہ سے بھی کم مدت میں حاصل کر لی تھیں۔ جب اس کی ٹرین کا وقت قریب آیا تو اس نے میرے زانو پر سو سو کے پانچ کڑکڑاتے نوٹ رکھ دیے۔ پھر اس نے اپنی جیب سے تھیلا نکالا اور میرے سامنے رکھ کر بولا، ’’پچیس فیصد کے حساب سے سود یہ رہا۔‘‘ جب میں نے اسے بتایا کہ ہمارے ہاں دوستوں سے سود لینے کا کوئی رواج نہیں تو مجھے شک ہے کہ اس کی خوشی آدھی رہ گئی ہوگی۔ روانگی سے قبل اس نے بتایا کہ ایک ماہ جو اس نے یہاں گزارا تھا، اس نے میرے ملازمین سے گپ شپ بھی کی تھی اور اسے علم ہوا کہ ’’ایک وقت ایسا بھی تھا کہ جب نوبت ایک چپاتی اور تھوڑی سی دال تک پہنچ گئی تھی۔ بھگوان نہ کرے، ایسا کوئی وقت آیا تو میں اسے یاد کروں اور وہ اپنا سارا سرمایہ میرے قدموں پر نچھاور کر دے گا۔‘‘

گیارہ سال بعد میں موکمہ گھاٹ سے نکلا اور اس دوران ہر سال لالا جی کے اپنے باغ سے بہترین آموں کا بڑا ٹوکرا وہ میرے لیے بھجواتا تھا کہ میں نے اس کو دوبارہ پیروں پر کھڑا ہونے میں مدد دی تھی اور وہ دوبارہ اس مقام پر جا پہنچا جہاں اس کے ساجھی نے دھوکے سے اس سے سب کچھ لے لیا تھا۔

٭٭٭

۱۰۔ چماری​

جیسا کہ نام سے ظاہر ہے، چماری کا تعلق ہندوستان کے ساٹھ لاکھ اچھوتوں سے تھا۔ اپنی بیوی کے ساتھ، کہ جس کے چہرے پر غربت کے گہرے نقوش تھے اور اس کے دو بچے جو اپنی ماں کی پھٹی ہوئی قمیض تھامے ہوئے تھے، اس نے مجھ سے نوکری مانگی۔ چماری چھوٹی جسامت کا اور کمزور انسان تھا۔ چونکہ وہ شیڈز میں کام کے قابل نہیں تھا، اس لیے میں نے اسے اور اس کی بیوی کو کوئلہ ڈھونے کے کام پر لگا دیا۔ اگلی صبح میں نے انہیں ٹوکریاں اور بیلچے تھمائے اور انہوں نے اپنی طاقت سے بہت باہر والا کام شروع کیا۔ شام کو مجھے ان کی مدد کے لیے اضافی بندے لگانے پڑے ورنہ پچاس بوگیوں کا کام ان کی وجہ سے رک جاتا اور کئی سو مزدور متاثر ہوتے۔ ایک دو روز تک چماری اور اس کی بیوی اپنا کام پوری محنت سے کرتے رہے مگر ناکام رہے۔ تیسری صبح ان کے چھالوں والے ہاتھ دھجیوں میں لپٹے تھے اور وہ کام دیے جانے کے منتظر تھے کہ میں نے چماری سے پوچھا کہ آیا وہ لکھ پڑھ سکتا ہے۔ اس پر وہ بولا کہ اسے تھوڑی بہت ہندی آتی ہے۔ میں نے اسے ہدایت کی کہ ٹوکریاں اور بیلچے سٹور میں جمع کرا کے میرے دفتر مزید احکامات کے لیے آئے۔ کچھ دن قبل میں نے ا یک نگران فارغ کیا تھا کہ اس کا رویہ بہت غیر مناسب تھا۔ یہ واحد بندہ تھا جسے میں نے نوکری سے نکالا۔ اب میں نے دیکھا کہ چماری اور اس کی بیوی کوئلے کا کام نہیں کر سکتے، سو میں نے چماری کو تجربے کے طور پر نگران بنانے کا فیصلہ کیا۔

چماری کو خوف ہوا کہ میں شاید اسے نوکری سے نکال رہا ہوں، مگر جب میں نے اسے بہی کھاتے کا رجسٹر تھمایا اور پنسل دے کر بولا کہ جا کر براڈ گیج بوگیوں کی گنتی کرے جن سے کوئلے کو اتارنا تھا اور ہر بوگی پر کام کرنے والے مرد اور عورت کا نام بھی لکھ کر لائے۔ انتہائی فخر سے وہ میرے دفتر سے نکلا۔ نصف گھنٹے بعد وہ مطلوبہ معلومات کے ساتھ واپس لوٹا اور یہ سب تفصیلات انتہائی صاف طور پر تحریر تھیں۔ جب میں نے ان کی تصدیق کر لی تو میں نے یہ رجسٹر اسے تھما دیا اور بتایا کہ وہ کوئلے والے عملے کا نگران بن گیا ہے جو اس وقت دو سو مرد و زن پر مشتمل تھا۔ پھر میں نے اسے اس کی ذمہ داریاں تفصیل سے سمجھائیں۔ پیدائش سے ذلت کا شکار ہونے والا یہ شخص ایک گھنٹہ قبل ہر اعتبار سے ناکام شمار ہوتا تھا، اب میرے دفتر سے نکلا تو رجسٹر اس کی بغل میں، پنسل کان کے پیچھے اڑسی ہوئی اور زندگی میں پہلی بار سر فخر سے بلند تھا۔

میں نے آج تک چماری سے زیادہ محنتی اور محتاط بندہ ملازم نہیں رکھا۔ کوئلے کے عملے میں ہر ذات بشمول برہمن، چھتری اور ٹھاکر مرد اور عورتیں کام کرتے تھے اور کبھی چماری نے کسی اونچی ذات والے کی عزت میں کمی نہیں کی اور نہ ہی کبھی کسی نے اس کے احکامات کے خلاف کچھ کیا۔ اس کے ذمے عملے کے ہر فرد کے کام کی تفصیل لکھنا تھی اور بیس سال اس نے میرے ساتھ کام کیا اور کبھی اس کے لکھے ہوئے کام پر کوئی اعتراض نہیں اٹھا۔

ہر اتوار کی شام میں سٹول پر اور چماری چٹائی پر بیٹھتے اور ہمارے سامنے تانبے کی پائیوں کا اونچا ڈھیر لگا ہوتا تھا اور کالک سے لپے ہوئے چہروں والے مرد و زن پورے ہفتے کی مزدوری لینے کے منتظر دائرے کی شکل میں بیٹھ جاتے۔ مجھے اس وقت ان لوگوں کے جیسی ہی خوشی ہوتی کہ ان لوگوں کی یہ کمائی خون پسینے کی کمائی ہوتی تھی۔ سو انہیں لیتے ہوئے جتنی خوشی ہوتی، اتنی خوشی مجھے دیتے ہوئے ہوتی۔

سارا ہفتہ یہ لوگ نصف میل طویل پلیٹ فارم پر کام کرتے اور بعض میرے مہیا کردہ کوارٹروں میں رہتے تو بعض کا قیام پاس کے دیہاتوں میں ہوتا۔ سو سماجی سرگرمیوں کے لیے ان کے پاس وقت نہیں ہوتا تھا۔ اتوار کی شام ان کی یہ کمی کسی حد تک پوری ہو جاتی۔ محنتی لوگ ہمیشہ خوش رہتے ہیں کہ ان کے پاس فرضی تکالیف اور مشکلات کے بارے سوچنے کا وقت نہیں ہوتا۔ فرضی مشکلات حقیقی مشکلات سے ہمیشہ بری ہوتی ہیں۔ میرے ملازمین انتہائی غریب تھے اور ان کی اپنی مشکلات ہوتی تھیں مگر وہ پھر بھی ہمیشہ خوش رہتے اور چونکہ مجھے ان کی زبان آتی تھی، اس لیے میں ان کی گفتگو سمجھتا اور ان کے لطائف سے حظ اٹھاتا۔ ریلوے مجھے وزن کے حساب سے ادائیگی کرتی تھی اور میں ان لوگوں کو چاہے وہ کوئلے پر کام کرتے ہوں یا پھر شیڈز پر، بوگیوں کے حساب سے ادائیگی کرتا تھا۔ میں ہر عملے کے معاوضے کی ادائیگی ان کے نگران کو کرتا جو آگے رقم تقسیم کر دیتا۔ مگر کوئلے والے عملے کی ادائیگی میں الگ سے اور خود کرتا تھا۔ چماری کو میں نوٹ دیتا جو بازار سے تڑوا لاتا اور اتوار کی شام کو بیٹھ کر ہم مزدوری تقسیم کرتے۔ پیسوں کا ڈھیر سامنے رکھ کر چماری متعلقہ بندے یا بندی کا نام پکارتا اور میں فوراً ذہن میں اس کے پورے ہفتے کے کام کا اندازہ لگا کر معاوضہ اسے دے دیتا۔ ہر بوگی پر میں چالیس پیسے یعنی دس آنے دیتا تھا۔ بعض اوقات پیسے پوری طرح تقسیم نہ ہو پاتے کہ کام کرنے والوں کی تعداد کچھ ایسی ہوتی تو ایک پیسہ اضافی دے دیتا تھا جس سے ایک بندہ نمک لے کر سب میں بانٹ دیتا۔ اس نظام سے ہر کوئی خوش تھا اور اگرچہ کام بہت مشکل اور دن طویل ہوتے، مگر کھیت میں کام کی نسبت انہیں تین گنا زیادہ معاوضہ ملتا اور کھیت کا کام موسمی اور عارضی تھا جبکہ میرا کام مستقل۔

میں نے چماری کی ابتدائی تنخواہ پندرہ روپے ماہوار مقرر کی اور بتدریج بڑھاتے ہوئے چالیس تک لے گیا جو اس وقت ریلوے کے زیادہ تر کلرکوں سے زیادہ تھی۔ اس کے علاوہ میں نے اسے شیڈز میں کام کرنے کے لیے دس افراد مزید بھرتی کرنے کا بھی اختیار دے دیا تھا۔ ہندوستان میں کسی انسان کی وقعت اس کی آمدنی اور اخراجات کی بنا پر ہوتی ہے۔ چماری کو اس کی آمدنی کی وجہ سے بہت عزت ملتی تھی مگر اس کے اخراجات کی بنا پر اسے اور زیادہ عزت ملتی تھی۔ بھوکا وقت گزارنے کی وجہ سے چماری کو بھوک کا علم تھا اور اس نے یہ اپنا نصب العین بنا لیا تھا کہ اس کے اردگرد کوئی انسان بھوکا نہیں رہے گا۔ اس کا دروازہ اس کی ذات کے ہر فرد کے لیے ہر وقت کھلا تھا اور وہ کسی بھی وقت آ کر کھانا کھا سکتے تھے۔ جن کی ذات اس بات کی اجازت نہ دیتی کہ وہ اچھوت کے ہاتھ کا پکا کھا سکیں، چماری انہیں کھانے کا سامان دے دیتا اور وہ اپنا کھانا خود بنا لیتے۔ ایک بار چماری کی بیوی کے کہنے پر میں نے چماری سے اس کے اخراجات کے بارے بات کی تو اس نے بتایا کہ جب میں نے اسے پندرہ روپے ماہانہ پر بھرتی کیا تھا تو وہ تنخواہ اس کے پورے خاندان کے لیے کافی تھی۔ اس سے زیادہ پیسے سے اس کی بیوی فضول خرچ ہو جاتی کیونکہ اب بھی وہ مستقل سناتی رہتی تھی کہ اس کے ماتحتوں کا لباس اس سے بہتر ہوتا ہے جبکہ چماری کا خیال تھا کہ غریبوں پر صرف کی گئی رقم نئے کپڑوں پر خرچ کرنے سے بہتر ہے۔ پھر اس نے اپنی دلیل کی مضبوطی کی خاطر کہا، ’’دیکھیں مہاراج، آپ کتنے برسوں سے ایک ہی جوڑا پہن رہے ہیں۔ اگر آپ پہن سکتے ہیں تو میں کیوں نہیں؟‘‘

اس نے مجھے پہلے روز سے مہاراج کہنا شروع کیا تھا اور آخر دم تک یہی کہتا رہا۔ مگر اسے غلط فہمی ہوئی تھی کیونکہ میرے پاس ایک ہی جیسے دو جوڑے تھے۔ ایک دھلنے جاتا تو میں دوسرا استعمال کرتا تھا۔

مجھے موکمہ گھاٹ پر سولہ سال ہو گئے تھے کہ قیصر ویلہم نے جنگ چھیڑ دی۔ ریلوے والے جنگ میں میری شمولیت کے مخالف تھے مگر جب میں نے معاہدہ جاری رکھنے کا وعدہ کیا تو وہ مان گئے۔ جب لوگوں کو جمع کر کے میں نے بات کی تو انہیں جنگ کی مشکلات کی سمجھ نہیں تھی۔ تاہم ہر ایک میری غیر موجودگی میں اپنا کام کرنے کو تیار تھا اور جتنے برس میں نے جنگ میں گزارے، موکمہ گھاٹ پر کام ایک بار بھی نہیں رکا اور اس کی وجہ ان کی وفا داری ہے۔ پہلے میں فرانس اور پھر وزیرستان میں جنگ لڑتا رہا۔ رام سرن میری عدم موجودگی میں میری ذمہ داریاں پوری کرتا رہا اور جب چار سال بعد لوٹ کر میں نے اپنی ذمہ داریاں سنبھالیں تو لوگوں کی محبت سے مجھے ایسا لگا کہ جیسے میں ایک دن ہی ان سے دور رہا ہوں۔ میری بحفاظت واپسی کو انہوں نے مندروں، مسجدوں اور درگاہوں میں مانگی گئی میری سلامتی کی دعاؤں سے منسوب کیا۔

میری واپسی کے بعد موسمِ گرما میں پورے بنگال میں ہیضہ اپنے عروج پر تھا ایک وقت ایسا بھی تھا کہ میرے عملے میں دو عورتیں اور ایک مرد بیک وقت اس سے متاثر ہوئے۔ چماری اور میں باری باری ان کی دیکھ بھال کرتے رہے اور ان کی ہمت بڑھاتے رہتے اور خوش قسمتی سے وہ بچ گئے۔ اس سے کچھ دن بعد رات کو میں نے برآمدے میں آواز سنی۔ سٹورر ترقی پا کر یہاں سے چلا گیا تھا اور پورا بنگلہ میرے استعمال میں رہتا تھا۔ جواب ملا کہ میں چماری کی بیوی ہوں اور آپ کو بتانے آئی ہوں کہ چماری کو ہیضہ ہو گیا ہے۔ اسے وہیں رکنے کا کہہ کر میں جلدی جلدی کپڑے بدلے اور لالٹین جلا کر لاٹھی اٹھائی اور چل پڑا۔ موکمہ گھاٹ میں زہریلے سانپ بکثرت تھے۔

چماری سارا دن کام کرنے کے بعد سہ پہر کو میرے ساتھ پاس والے دیہات گیا تھا جہاں ہماری ایک مزدور خاتون سخت بیمار تھی۔ پربتی تین بچوں کی ماں اور بیوہ تھی۔ موکمہ گھاٹ پر جب میں نے کام شروع کیا تھا تو یہ پہلی خاتون تھی جس نے میرے لیے کام کرنے کی حامی بھری تھی اور پورے بیس سال اسی لگن اور تندہی سے کام کرتی رہی۔ ہمیشہ خوش رہتی اور ہر ایک کی مدد کرتی تھی۔ اتوار کی شام کو ہمارے ’جلسے ‘ کی روح ہوتی تھی۔ بیوہ ہونے کی وجہ سے انتہائی محتاط زندگی گزارتی تھی۔ جس بچے نے اس کی بیماری کی خبر لا کر دی، وہ بیماری کی نوعیت کے بارے کچھ نہ کہہ سکا۔ سو میں نے چند ٹوٹکے اپنے ساتھ لیے اور چماری کو بلا کر اس گاؤں کو روانہ ہو گیا۔ پربتی فرش پر پڑی تھی اور اس کا سر اس کی کھچڑی بالوں والی ماں کی گود میں رکھا تھا۔ وہ تشنج کا پہلا مریض تھی جو میں نے اپنی زندگی میں دیکھا تھا اور خلوصِ دل سے دعا ہے کہ دوبارہ کبھی ایسا منظر نہ دیکھنے کو ملے۔ پربتی کے دانت کسی فلم سٹار کو شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیتے مگر اب کسی نے پانی پلانے کی خاطر اس کا منہ کھولنے کے دوران توڑ دیے تھے۔ وہ ہوش میں تھی مگر بولنے کے قابل نہیں تھی اور اس کی تکلیف کو لفظوں میں بیان کرنا ممکن نہیں۔ چونکہ اس وقت میں محض اس کے گلے کے عضلات کی مالش ہی کر سکتا تھا تاکہ اس کا سانس بحال ہو، سو میں نے مالش شروع کر دی۔ اسی دوران اس کے جسم کو ایسا زوردار جھٹکا لگا جیسے بجلی کا جھٹکا لگا ہو۔ خدا کا شکر ہے کہ عین اسی وقت اس کا دل رک گیا اور اس کی تکلیف ختم ہو گئی۔ اس کو جلانے کی تیاریاں شروع ہو گئی تھیں جب چماری اور میں خاموشی سے واپس لوٹے۔ اگرچہ اس اونچی ذات کی عورت اور ہمارے درمیان ذات پات کی وسیع خلیج حائل تھی، مگر ہم سبھی اس سے لگاؤ رکھتے تھے اور ہمیں علم تھا کہ ہم اسے کتنا یاد کریں گے۔ اس کے بعد مجھے سماریہ گھاٹ جانا پڑا اور چماری کو پھر نہیں دیکھا۔ اب رات کو اس کی بیوی اس کی بیماری کی خبر لائی تھی۔

ہم ہندوستان کے باشندے ہیضے سے خوف کھاتے اور نفرت کرتے ہیں مگر قسمت پر بھروسہ کرنے کی وجہ سے شاید ہمیں اس بیماری کے لاحق ہونے سے اندیشے سے ڈر نہیں لگتا۔ سو مجھے یہ دیکھ کر حیرت نہیں ہوئی کہ چماری کے بستر کے اردگرد بہت سارے لوگ بیٹھے تھے۔ کمرے میں روشنی کم تھی مگر شاید میرے لالٹین کی روشنی میں چماری نے مجھے پہچان لیا اور بولا، ’’صاحب بے وقت تکلیف دینے کے لیے اس خاتون کو معاف کر دیجیے (رات کے دو بج رہے تھے)، میں نے اسے منع بھی کیا تھا کہ صبح تک رک جائے مگر اس نے میری بات نہیں مانی۔‘‘

دس گھنٹے قبل چماری جب گیا تو اس کی صحت قابلِ رشک تھی۔ دس گھنٹوں میں ہونے والی تبدیلی خوفناک تھی۔ اگرچہ وہ ہمیشہ سے دبلا پتلا تھا مگر اب وہ اپنی اصل جسامت کا بھی نصف رہ گیا تھا۔ اس کی آنکھیں حلقوں میں دھنس گئی تھیں اور اس کی آواز محض سرگوشی سے مشابہ تھی۔ کمرے میں شدید گرمی تھی اس لیے میں نے اس کے جسم کو چادر سے ڈھک دیا اور پاس موجود بندوں سے کہا کہ وہ اس کی چارپائی کو باہر لے آئیں۔ اگرچہ بیمار آدمی کو کھلے میں لانا بہت اچھی بات نہیں تھی مگر پھر بھی ایسے کمرے سے تو بہتر ہی تھا جہاں سانس لینا دشوار ہو رہا تھا۔

چماری اور میں نے ایک ساتھ ہیضے کے بہت سارے مریضوں کی دیکھ بھال کی تھی اور اسے بخوبی علم تھا کہ ہیجان اور پریشانی سے زیادہ کوئی نقصان دہ چیز نہیں۔ اسے میرے بنائے ہوئے ٹوٹکوں پر پورا یقین رکھنا تھا۔ اس نے ہمت نہیں ہاری اور ہر وہ چیز جو میں نے اسے دی، اس نے پوری ہمت کے ساتھ کھائی۔ اتنی شدید گرمی کے باوجود اس کا جسم ٹھنڈا تھا اور دہکتے کوئلوں کی انگیٹھی اس کے پاس رکھنے سے اس کے جسم کا درجہ حرارت کچھ بڑھا۔ میں نے آس پاس لوگوں سے اس کے پیروں اور ہتھیلیوں پر پسی ہوئی ادرک ملنے کا کہا۔ یہ کشمکش ۴۸ گھنٹے جاری رہی اور ہر لمحہ اس کی جنگ موت کے ساتھ تھی۔ پھر یہ بہادر آدمی بیہوش ہو گیا اور نبض مدھم ہوتی گئی اور سانس بھی کم ہوتا گیا۔ نصف شب سے صبح چار بجے تک وہ اسی حالت میں لیٹا رہا اور مجھے علم ہو گیا تھا کہ میرا دوست جانے والا ہے۔ آس پاس موجود لوگ اس دوران خاموشی سے ہمیں دیکھتے رہے۔ اچانک چماری اٹھ کر بیٹھ گیا اور عام آواز میں بولا، ’’مہاراج، مہاراج! آپ کہاں ہیں؟‘‘ میں اس کے سرہانے کھڑا تھا، سو میں نے جھک کر اس کے شانے پر ہاتھ رکھا تو اس نے دونوں ہاتھوں سے تھام لیا اور بولا، ’’مہاراج، پرمیشور مجھے بلا رہا ہے، مجھے جانا ہے۔‘‘

پھر اس نے دونوں ہاتھ جوڑ کر اپنا سر جھکایا اور بولا، ’’پرمیشور، میں آ رہا ہوں۔‘‘ جب میں نے اسے لٹایا تو اس کی جان نکل چکی تھی۔ مختلف ذاتوں سے تعلق رکھنے والے کم از کم سو افراد نے چماری کی یہ بات سنی اور ان میں سے ایک اجنبی بھی تھا جس کے ماتھے پر صندل کے نشانات اس کی ذات کا بتا رہے تھے۔ جب میں نے چماری کے بے جان جسم کو لٹایا تو اس بندے نے پوچھا کہ یہ کون تھا۔ میں نے بتایا کہ چماری تھا تو وہ بولا:

’’میری طویل تلاش ختم ہوئی۔ میں کاشی میں وشنو کے بڑے مندر کا پجاری ہوں۔ میرے آقا جو کہ مہا پجاری ہیں، نے اس نیک انسان کی بہت تعریف سنی تھی اور مجھے بھیجا تاکہ میں اسے تلاش کر کے مہا پجاری کے پاس لے جاؤں۔ وہ اس کے درشن کرنا چاہتے تھے۔‘‘

یہ کہہ کر اس نے اپنی پوٹلی زمین پر رکھی اور اپنی کھڑاؤں اتار کر پائنتی کی جانب آ کر اس اچھوت کو ڈنڈوت کیا۔

موکمہ گھاٹ پر چماری کے جنازے جیسا جنازہ پھر کبھی نہیں ہوگا کہ اس میں ہر ذات کے، امیر اور غریب، ہندو، مسلمان، اچھوت اور عیسائی، سبھی شریک ہوئے۔ یہ بندہ جب آیا تو اس کا کوئی دوست نہیں تھا اور ہر طرح سے ناکارہ سمجھا جاتا تھا اور جب گیا تو ہر کوئی اس کی عزت کرتا اور اس سے پیار کرتا تھا۔ ہمارے عیسائی عقیدے کے مطابق چماری بے دین اور ہندوستان میں اسے اچھوت سمجھا جاتا تھا مگر جہاں وہ گیا، میں وہاں بخوشی جانے کو تیار ہوں۔

٭٭٭

۱۱۔ موکمہ گھاٹ کی زندگی​

موکمہ گھاٹ پر میرا یا میرے عملے کا سارا وقت کام یا سو کر ہی نہیں گزرتا تھا۔ شروع میں ہم سب کے لیے کام بہت مشکل تھا اور مشکل ہی رہا مگر جوں جوں وقت گزرتا رہا، ہمارے ہاتھ سخت اور عضلات مضبوط ہوتے گئے، ہم لوگ آگے بڑھتے گئے کہ ہمارا مقصد ایک ہی تھا کہ ہم اپنے متعلقین کے لیے بہتر زندگی پیش کر سکیں۔ کام تسلسل سے جاری رہا اور درمیان میں ہمیں تفریح کا بھی کچھ وقت ملنا شروع ہو گیا۔ موکمہ گھاٹ میں پھنسے ہوئے سامان کی کامیاب ترسیل اور پھر بعد میں سامان کی متواتر اور کامیاب منتقلی کی وجہ سے ہماری شہرت پھیل گئی اور یہ ہم سب کی مشترکہ کامیابی تھی اور ہم اسے برقرار رکھنے کے لیے کوشاں تھے۔ سو جب کوئی بندہ کسی ذاتی کام سے چھٹی کرتا تو اس کا کام اس کے ساتھی بخوشی کر لیتے۔ جب مجھے کچھ وقت ملنے لگا اور کچھ پیسے بھی جمع ہو گئے، اولین کاموں میں سے ایک میں نے اپنے ملازمین اور ریلوے کے نچلے عملے کے بیٹوں کے لیے سکول شروع کیا۔ یہ خیال رام سرن کا تھا جو تعلیم کا بڑا حامی تھا اور تعلیم کی وجہ سے وہ موجودہ مقام پر پہنچا تھا۔ ہم دونوں نے مل کر ایک جھونپڑا کرائے پر لیا اور ایک استاد کا بندوبست کیا۔ بعد میں یہ سکول رام سرن کے نام سے مشہور ہوا، میں ابتدا میں بیس بچے داخل ہوئے۔ پہلا مسئلہ ذات پات سے متعلق تھا مگر ہمارے استاد نے جھونپڑے کی دیواریں ہٹا دیں۔ چونکہ اونچی اور نیچی ذات کے بچے ایک ہی جھونپڑے میں نہیں بیٹھ سکتے تھے اس لیے ان کے لیے چھپر میں بیٹھنا ممکن ہو گیا۔ ابتدا سے ہی سکول بہت کامیاب رہا اور اس کا سہرا رام سرن کے سر تھا۔

جب مناسب عمارت کھڑی ہو گئی تو سات دیگر استاد بھی رکھ لیے گئے اور طلباء کی تعداد دو سو تک بڑھ گئی اور حکومت نے اس سکول کی معاشی ذمہ داری ہم سے لے لی۔ حکومت نے اس کو مڈل سکول کا درجہ دیا اور رام سرن کو ’رائے صاحب‘ کا خطاب عطا کیا۔

رام سرن کا مقابل دوسرے کنارے پر رام سرن تھا جو براڈ گیج کو سنبھالتا تھا۔ وہ بہت اچھا شکاری تھا اور ہم دونوں نے مل کر تفریحی کلب شروع کیا۔ ہم نے زمین کا ایک گوشہ خالی کیا اور اس پر فٹبال اور ہاکی کی لکیریں کھینچیں اور گول پوسٹ بنا دیے اور پھر فٹ بال اور ہاکیاں خرید کر اپنی اپنی فٹبال اور ہاکی کی ٹیموں کی تربیت شروع کر دی۔ فٹبال کی تربیت آسان تھی مگر ہاکی میں مشکل پیش آئی۔ چونکہ ہمارے پاس اصلی ہاکیاں خریدنے کے پیسے نہیں ہوتے تھے، ہم نے خالصہ ڈنڈے خریدے تھے جو پنجاب میں کیکر یا بلوط سے بنتے تھے اور آگے سے مڑے ہوتے تھے۔ شروع شروع میں زخمی ہونے کا تناسب بہت زیادہ یعنی ۹۸ فیصد تھا کہ یہ ڈنڈے بھاری اور لکڑی سے بنے ہوتے تھے اور گیند لکڑی کی۔ جب ہماری ٹیموں نے بنیادی باتیں سیکھ لیں یعنی گیند کو کس سمت میں لے جانا ہے تو ہم نے انٹر ریلوے میچ شروع کرا دیے۔

ان میچوں کو نہ صرف کھلاڑی بلکہ تماشائی بھی دل و جان سے پسند کرنے لگے۔ کیلی ہمیشہ اپنی ٹیم کا گولی بنتا اور اگر ہمارا میچ دوسری ٹیم سے ہوتا تو وہ ہمارا گولی بنتا۔

میں دبلا پتلا تھا اور سینٹر فارورڈ کھیلتا اور جب ہاکی یا ٹھوکر سے گرتا تو کیلی کے سوا دونوں ٹیموں کے سبھی کھلاڑی بھاگ کر مجھے کھڑا کرتے اور میرے کپڑے جھاڑتے تو مجھے شدید شرمندگی ہوتی۔ ایک بار ایسے ہی موقع پر مخالف ٹیم کے کھلاڑی نے گول کرنے کی کوشش کی تو تماشائیوں نے گیند اور کھلاڑی، دونوں کو پکڑ لیا۔

ابھی اس کلب کو شروع ہوئے کچھ عرصہ گزرا تھا کہ بنگال اور شمال مغربی ریلوے کے یورپی عملے کے لیے ایک کلب اور ٹینس کورٹ بنایا گیا جو مجھ سمیت کل چار تھے۔ کیلی کو اس کلب کا اعزازی ممبر بنایا گیا اور وہ بہت مفید ثابت ہوا کہ وہ بلیئرڈ اور ٹینس، دونوں کا ماہر تھا۔ کیلی اور میں مہینے میں بمشکل دو یا تین بار ٹینس کھیل پاتے تھے مگر شام گئے کام سے فارغ ہو کر ہم اکثر بلیئرڈ کھیلتے تھے۔

موکمہ گھاٹ پر شیڈز کی طوالت ڈیڑھ میل تھی اور کیلی کو بار بار کی زحمت سے بچانے کے لیے ریلوے نے ایک ٹرالی اور چار مزدور دیے ہوئے تھے جو ٹرالی کو دھکا لگاتے۔ یہ ٹرالی ہمارے لیے بہت بڑی سہولت تھی کہ سردیوں میں ہم چاندنی راتوں میں نو میل دور جا کر چھوٹے تالابوں پر مرغابیوں کا شکار کھیلتے۔ بعض تالاب چند گز چوڑے ہوتے تو بعض کی وسعت ایکڑ سے بھی زیادہ ہوتی۔ ان تالابوں کے پاس دالوں کی فصل اگی ہوتی تھی جہاں ہمیں چھپنے کے لیے مناسب جگہ مل جاتی۔ ہماری آمد غروبِ آفتاب کے ساتھ ہی ہوتی اور ہم دو مختلف تالابوں پر بیٹھتے تو مرغابیاں آنا شروع ہو جاتیں۔

ان مرغابیوں کی تعداد ہزاروں میں ہوتی اور دن کا وقت یہ دریائے گنگا میں بنے جزیروں پر گزارتیں اور شام ہوتے ہی یہاں پیٹ بھرنے پہنچ جاتیں۔ ریلوے لائن ہماری کمین گاہوں اور گنگا کے وسط میں تھی اور یہاں پہنچ کر مرغابیاں نیچے ہونا شروع ہو جاتیں اور ہمارے سروں سے گزرتے ہوئے وہ آسانی سے مار کھا جاتیں۔ چاندنی رات میں شکار کے لیے کچھ احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے اور اوپر سے گزرتے پرندے اصل مقام سے زیادہ دور دکھائی دیتے ہیں۔ اسی وجہ سے اکثر لوگ زیادہ آگے کا نشانہ لے کر فائر کرتے ہیں۔ اگر ایسا ہو تو مرغابیاں بندوق کا جھماکہ دیکھ کر اور دھماکہ سن کر سیدھا اونچائی کو چلی جاتی ہیں اور بندوق کی مار سے نکل جاتی ہیں۔ موکمہ گھاٹ میں گزارے ہوئے وقت میں ایک بہترین یادیں ان چاندنی راتوں کی ہیں جب چاند درختوں کے اوپر سے نکل رہا ہوتا تھا اور سینکڑوں کی تعداد میں مرغابیاں شور مچاتی اوپر سے گزرتی تھیں۔

میرا کام ہمیشہ دلچسپ ہوتا تھا اور وقت گزرنے کا پتہ بھی نہیں چلتا تھا۔ سامان کو دریائے گنگا کے پار لے جانے، کئی لاکھ ٹن سامان کی ترسیل کے علاوہ مجھے ہر سال کئی لاکھ مسافروں کی دریا کو عبور کرنے کے لیے کشتیاں بھی چلوانی ہوتی تھیں۔ ہمالیہ پر بارشیں ہوتیں تو دریا کا پاٹ چار سے پانچ میل چوڑا ہو جاتا اور مجھے نہ صرف آرام کرنے کا زیادہ وقت ملتا بلکہ اپنے مشاغل میں سے ایک، انسانوں کا مطالعہ کرنے کا بھی وقت مل جاتا۔ شمال سے جنوب آنے جانے والی دو ریلوے کو یہ کشتیاں ملاتی تھیں اور ہر بار سات سو مسافر دریا عبور کرتے جن کا تعلق نہ صرف ہندوستان کے مختلف علاقوں سے ہوتا بلکہ دیگر ممالک سے بھی۔

ایک بار صبح کے وقت میں بالائی عرشے پر جھکا ہوا تیسرے درجے کے مسافروں کو نشستوں پر بیٹھتے دیکھ رہا تھا۔ میرے ساتھ انگلستان سے آیا ایک نوجوان بھی تھا جس نے حال ہی میں ریلوے میں ملازمت اختیار کی تھی اور وہ موکمہ گھاٹ میں کام سیکھنے آیا تھا۔ وہ میرے ساتھ دو ہفتے رہا اور اب میں اسے سماریہ گھاٹ چھوڑنے جا رہا تھا جہاں سے وہ گورکھا پور کے طویل سفر پر روانہ ہوتا۔ ہمارے سامنے آلتی پالتی مارے ایک ہندوستانی نچلے عرشے پر بیٹھا تھا۔ میرے ہمراہی کا نام کراستھویٹ تھا اور اسے اس ملک کی ہر چیز جاننے کا شوق تھا اور وہ لوگوں کو باتیں کرتا سنتا رہا اور پھر بولا کہ کاش وہ لوگوں کی زبان سمجھ سکتا کہ وہ کیا کر رہے ہیں اور ان کے سفر کی غایت کیا ہے۔ مجمع اب سارڈین مچھلیوں کی طرح گتھا ہوا تھا سو میں نے کہا کہ میں اسے بتاتا ہوں۔ میں نے کہا کہ دائیں سے شروع کرتے ہیں اور ان لوگوں کو دیکھتے ہیں جو بیرونی جنگلے سے پشت ٹکائے کھڑے ہیں۔ ہمارے قریب ترین تین برہمن ہیں اور ان کے پاس گیلی مٹی سے منہ بند پیتل کے برتنوں میں گنگا جل ہے جس کو وہ پوری احتیاط سے لے جا رہے ہیں۔ دریائے گنگا کے دائیں کنارے کا پانی زیادہ مقدس سمجھا جاتا ہے۔ یہ تینوں ایک مشہور مہاراجہ کے بندے ہیں اور یہ پانی بذریعہ ریل اسی میل دور لے جائیں گے اور یہ پانی مہاراجہ کے ذاتی استعمال کے لیے ہے۔ مہاراجہ چاہے سفر میں ہو یا گھر پر، ہمیشہ گنگا جل استعمال کرتا ہے۔ ان کے پاس مسلمان بیٹھا ہے جو دھونی ہے اور مختلف سٹیشنوں پر اتر کر پرانے لحافوں کی روئی دھنکتا ہے۔ اس کا اوزار ساتھ ہی رکھا ہے۔ اس کے ساتھ تبت سے آئے دو لاما ہیں جو گیا کے مقدس مقام کی زیارت کے بعد واپس جا رہے ہیں اور اتنی سردی میں بھی انہیں گرمی لگ رہی ہے اور ان کے گنجے سروں پر پسینہ چمک رہا ہے۔ ان کے ساتھ چار مرد بیٹھے ہیں جو بنارس سے یاترا کر کے واپس نیپال میں اپنے گاؤں کو لوٹ رہے ہیں۔ ہر بندے کے پاس بنارس کے مقام پر گنگا جل سے بھرے گئے شیشے کے دو مرتبان ہیں جو ٹوکریوں میں محفوظ کر کے بانس سے لٹکائے گئے ہیں۔ اپنے دیہات اور دیگر دیہاتوں میں جا کر یہ لوگ قطرہ قطرہ کر کے یہ مقدس پانی مذہبی رسومات کے لیے بیچیں گے۔ اسی طرح لوگوں کے بارے بتاتے بتاتے بائیں جانب کے آخری بندے کی باری آئی۔ میں نے بتایا کہ یہ بندہ میرے ایک ملازم کا باپ اور میرا دوست ہے اور دریا کے دوسرے کنارے پر ہل چلانے جا رہا ہے۔ کراستھویٹ نے یہ سب باتیں نہایت اشتیاق سے سنیں اور پھر پوچھا کہ ہمارے قریب بنچ پر کون بیٹھا ہے۔ میں نے بتایا، ’’اوہ، یہ مسلمان ہے۔ کھالوں کا تاجر، گیا سے مظفر پور جا رہا ہے۔‘‘ جونہی میں رکا، اس بندے نے اپنی ٹانگیں سیدھی کیں اور ہنسنے لگا۔ پھر میری جانب رخ کر کے اس نے بے داغ انگریزی میں کہا، ’’میں آپ دونوں کی گفتگو بغور سن رہا تھا۔ میرا اندازہ ہے کہ ایک کو چھوڑ کر باقی سب تفصیلات آپ نے بالکل درست بتائی ہیں۔ میں مسلمان ہوں اور گیا سے مظفر پور جا رہا ہوں، اگرچہ مجھے علم نہیں کہ آپ کو کیسے پتہ چلا؟  میں نے ٹکٹ گیا سے خریدی تھی اور کسی کو نہیں دکھایا۔ تاہم میں کھالوں کی تجارت نہیں بلکہ تمباکو کی تجارت کرتا ہوں۔‘‘ میرا رنگ ایسا ہے کہ شرمندگی سے لال نہیں پڑ سکتا۔

بعض اوقات خاص شخصیات کے لیے خصوصی ٹرینیں چلائی جاتی تھیں اور ان کی خاطر خصوصی کشتی کا بندوبست کرنا بھی میری ذمہ داری تھی۔ ایک بار دوپہر کو میں نے ایسی ہی ٹرین دیکھی جو نیپال کے وزیرِ اعظم کو لا رہی تھی اور اس کے حرم کی بیس خواتین کے علاوہ سیکریٹری اور بہت سارے ملازمین بھی نیپال کے دار الحکومت کھٹمنڈو سے ساتھ کلکتہ کے سفر پر آئے تھے۔ جب ٹرین رکی تو سفید بالوں والا ایک دیو زاد نیپال کے قومی لباس میں ٹرین سے باہر نکلا اور وزیرِ اعظم کی بوگی کی جانب لپکا۔ وہاں پہنچ کر اس نے بڑی چھتری کھولی اور پھر اپنا دائیاں ہاتھ اپنے کولہے پر رکھ لیا اور بوگی کی جانب پشت کر لی۔ پھر دروازہ کھلا اور وزیرِ اعظم نمودار ہوا اور سہولت سے اس بندے کی بغل میں سوار ہو گیا۔ جب وزیرِ اعظم بیٹھ گیا تو اس دیو زاد نے چھتری کو وزیرِ اعظم کے سر پر تانا اور چلنے لگا۔ انتہائی آسانی سے اس نے وزیرِ اعظم کو تین سو گز نرم ریت پر اٹھا کر چلتے ہوئے کشتی تک پہنچایا جیسے وہ کوئی ربر کی گڑیا ہو۔ جب میں نے وزیرِ اعظم کے سیکریٹری، جو کہ میرا جاننے والا تھا، سے کہا کہ یہ بہت طاقتور انسان ہے۔ اس پر وہ بولا کہ جب کوئی اور سواری نہ ملے تو وزیرِ اعظم اسی دیو زاد پر سوار ہوتا ہے۔ مجھے بتایا گیا کہ یہ بندہ نیپالی ہے مگر میرا اندازہ ہے کہ وہ شمالی یورپ کا باشندہ ہے جو معلوم نہیں کس وجہ سے نیپال میں یہ ملازمت کر رہا تھا۔

جتنی دیر وزیرِ اعظم کو کشتی پر پہنچایا جاتا، اتنی دیر میں چار ملازمین کالے ریشم کا چوکور ٹکڑا لائے جو بارہ فٹ لمبا اور آٹھ فٹ چوڑا تھا۔ ہر طرف سے بند بوگی کے سامنے انہوں نے یہ کپڑا زمین پر رکھا۔ اس کے چاروں کونوں پر ڈنڈوں کے لیے جگہ بنی ہوئی تھی۔ جب چاندی کے بنے آٹھ آٹھ فٹ لمبے چار ڈنڈوں پر بنے آنکڑے ان جگہوں پر پھنسا کر انہیں کھڑا گیا گیا تو مستطیل ڈبہ سا بن گیا۔ پھر ایک سرے کو اٹھا کر اس بوگی کے دروازے سے لگا دیا گیا اور حرم کی بیس خواتین اتر کر اس مستطیل میں داخل ہو گئیں۔ اس طرح یہ ڈبہ حرکت میں آ گیا اور نیچے سے محض ان خواتین کے پیٹنٹ لیدر والے جوتے دکھائی دے رہے تھے۔ اس کا رخ سٹیمر کی جانب تھا۔ سٹیمر کے نچلے عرشے کے قریب اس کا ایک کونا اٹھایا گیا اور یہ خواتین بمشکل سولہ سے اٹھارہ سال کی ہوں گی اور آسانی سے بالائی عرشے کو جانے والی سیڑھیوں پر چڑھ گئیں۔ میں وزیرِ اعظم سے بات کر رہا تھا۔ پچھلی بار ایسے ہی موقع پر میں نے اجازت چاہی تھی کہ خواتین بالائی عرشے پر آ رہی تھیں مگر وزیرِ اعظم نے کہا کہ اس کی ضرورت نہیں کیونکہ پردے کا انتظام محض عام لوگوں کی نگاہوں سے خواتین کو بچانے کے لیے کیا جاتا ہے۔ ان خواتین کے لباس کی تفصیل بتانا میرے بس سے باہر ہے مگر یوں سمجھ لیں کہ شوخ بھڑکیلے کپڑوں سے بنے لباس اوپری جسم سے چپکے ہوئے تھے اور نیچے بہت گھیر دار غرارے تھے۔ ہر غرارہ کم از کم چالیس گز چوڑے ریشمی کپڑے سے بنا تھا۔ یہ خواتین ایک سمت سے دوسری کی طرف بھاگ دوڑ رہی تھیں تاکہ زیادہ سے زیادہ مناظر دیکھ سکیں۔ ایسے لگتا تھا کہ جیسے بہت نایاب قسم کی خوبصورت تتلیاں اڑ رہی ہوں۔ موکمہ گھاٹ پر عین یہی عمل دہرایا گیا جہاں ایک اور خصوصی ٹرین منتظر تھی۔ سامان کا پہاڑ بھی ساتھ منتقل ہوا اور یہ سب کلکتہ روانہ ہو گئے۔ دس روز بعد ان کی واپسی ہوئی اور وہ کھٹمنڈو چلے گئے۔

چند روز بعد میں ایک رپورٹ تیار کر رہا تھا جو اسی رات روانہ ہونی تھی کہ میرا واقف نیپالی وزیرِ اعظم کا سیکریٹری کمرے میں داخل ہوا۔ اس کے کپڑے میلے اور سلوٹوں سے بھرے تھے اور ایسے لگ رہا تھا جیسے وہ کئی راتوں سے نہیں سویا۔ پچھلی مرتبہ کی نسبت اس کا حلیہ یکسر تبدیل تھا۔ میرے کہنے پر کرسی پر بیٹھا اور فوراً ہی بتایا کہ وہ بہت مشکل میں ہے۔ پھر اس نے یہ بتایا، ’’پچھلی مرتبہ جب ہم یہاں سے گزرے تو وزیرِ اعظم اپنی ایک خاتون کو ہیملٹن اینڈ کو سے خریداری کرانے لے گئے جو اس وقت شہر میں مشہور سنار کی دکان تھی۔ وہاں انہوں نے بہترین جواہرات خریدے۔ ادائیگی چاندی کے سکوں کی صورت میں ہوئی جو ہمیشہ وافر مقدار میں ہم ساتھ لے جاتے ہیں۔ جواہرات کے انتخاب، ان کی ادائیگی، ان کو مخصوص ڈبے میں بند کرنے اور پھر ڈبے پر سنار کی مہر لگانے تک ہماری توقع سے کہیں زیادہ وقت لگا۔ سو ہم بعجلت ہوٹل پہنچے جہاں سامان اکٹھا کر کے ہم نے سٹیشن کا رخ کیا جہاں ہماری خصوصی ٹرین منتظر کھڑی تھی۔

جب ہم رات گئے کھٹمنڈو پہنچے تو اگلی صبح وزیرِ اعظم نے مجھے بلا بھیجا کہ جواہرات والا صندوق کہاں ہے۔ محل کے ہر کمرے کی تلاشی لی گئی اور ہر بندہ جو اس سفر پر ہمارے ساتھ تھا، سے پوچھ گچھ ہوئی مگر صندوق نہ ملا اور نہ ہی کسی نے اسے دیکھا تھا۔ مجھے اتنا یاد ہے کہ ہوٹل پہنچ کر میں نے وہ صندوق کار سے نکالا تھا مگر پھر مجھے یاد نہیں کہ کہیں دیکھا ہو۔ چونکہ اس صندوق اور اس کے اندر موجود اشیا کی ذمہ داری مجھ پر عائد ہوتی ہے، سو صندوق نہ ملا تو نہ صرف مجھے ملازمت سے ہاتھ دھونے پڑیں گے بلکہ ہمارے ملکی قوانین کے مطابق مجھے بہت بڑا مجرم شمار کیا جائے گا۔

نیپال میں ایک بزرگ ہے جو غیب کا حال جانتا ہے اور دوستوں کے کہنے پر میں اس کے پاس گیا۔ وہ ضعیف آدمی پھٹے پرانے کپڑوں میں ملبوس تھا اور پہاڑ کی ایک غار میں رہتا تھا۔ میں نے اسے اپنی بپتا سنائی۔ اس نے خاموشی سے میری بات سنی اور اگلے روز صبح کو آنے کا کہا۔ اگلی صبح میں گیا تو اس نے بتایا کہ اسے نیند میں ایک منظر دکھائی دیا ہے۔ اس نے صندوق اور اس پر لگی ہوئی مہر کو صحیح سلامت دیکھا جو بہت سارے سامان سے بھرے کمرے کے ایک کونے میں پڑا تھا۔ یہ کمرہ ایک بڑے دریا کے پاس تھا اور اس میں صرف ایک ہی دروازہ تھا جس کا رخ مشرق کو تھا۔ اس بزرگ نے اتنا بتایا تھا۔ سو میں ایک ہفتے کی رخصت لے کر نیپال سے آپ کے پاس آیا ہوں کہ عین ممکن ہے کہ وہ بڑا دریا گنگا ہی ہو۔‘‘ اس نے ہچکیاں لیتے ہوئے بات پوری کی۔

ہمالیہ میں ایسے افراد پر اندھا اعتقاد کیا جاتا ہے جو غیب کا حال جاننے کا دعویٰ کرتے ہیں اور گمشدہ چیزوں کی تلاش میں مدد دیتے ہیں۔ سیکریٹری کو اس پر پورا یقین تھا سو اس کی پریشانی اس صندوق کی تلاش تھی جس میں کم از کم ڈیڑھ لاکھ روپے (اُس وقت کے دس ہزار پاؤنڈ) رقم کے مساوی زیورات تھے۔ اگر وہ کسی چور کے ہاتھ لگتا تو وہ چمپت ہو جاتا۔

موکمہ گھاٹ پر متفرق سامان سے بھرے بہت سارے کمرے تھے مگر کسی کمرے پر اس بزرگ کی بیان کی تفصیل پوری نہیں آتی تھی۔ مگر مجھے علم تھا کہ ایک ایسا کمرہ یہاں سے دو میل دور ہے جو موکمہ جنکشن پر واقع ہے۔ کیلی کی ٹرالی مانگ کر میں نے رام سرن کے ساتھ سیکریٹری کو بھیجا۔ پارسل آفس کے کلرک نے ایسے کسی ڈبے یا صندوق سے لاعلمی کا اظہار کیا مگر اس نے تلاش کرنے سے نہیں روکا۔ سارا سامان نکالا گیا تو وہ صندوق اسی طرح مہر لگا نکل آیا۔

اب سوال یہ کھڑا ہوا کہ کلرک کی لاعلمی میں یہ صندوق یہاں تک کیسے پہنچا۔ سٹیشن ماسٹر بھی پہنچ گیا تھا اور اس کی پوچھ گچھ سے پتہ چلا کہ ڈبوں کی صفائی کرنے والا خاکروب لایا تھا کہ جب وہ وزیرِ اعظم کی کلکتہ سے موکمہ گھاٹ آنے والی ٹرین کی صفائی کرنے لگا تو یہ ڈبہ سیٹ کے نیچے پڑا ملا۔ یہ بندہ پورے عملے میں سب سے کم تنخواہ پاتا تھا۔ جب وہ صفائی کر کے فارغ ہوا تو اس صندوق کو لے کر دفتر آیا اور چونکہ دفتر میں کوئی موجود نہیں تھا، اس لیے اس نے ایک کونے میں رکھ دیا۔ اس خاکروب نے شرمندگی ظاہر کی کہ اس کی وجہ سے سب کو اتنی تکلیف اٹھانی پڑی۔

چھڑے بندے اور ان کے ملازمین کی عادات عموماً ملتی جلتی ہوتی ہیں اور میں اور میرے ملازمین اس سے مستثنیٰ نہیں۔ اگر کام بہت زیادہ نہ ہوتا تو میں عموماً آٹھ بجے رات کو گھر لوٹ آتا تھا اور میرا ملازم برآمدے میں میرا منتظر ہوتا۔ مجھے آتا دیکھ کر بہشتی کو غسل کا پانی تیار کرنے کا حکم دیتا۔ گرمی ہو یا سردی، میں ہمیشہ گرم پانی سے غسل کرتا ہوں۔ گھر کے سامنے کے حصے میں تین کمرے تھے جو برآمدے میں کھلتے تھے۔ ایک کھانے کا کمرہ، ایک نشست کا اور ایک سونے کا۔ خوابگاہ کے ساتھ چھوٹا سا غسل خانہ بھی تھا جو دس فٹ لمبا اور چھ فٹ چوڑا تھا۔ اس غسل خانے کے دو دروازے اور ایک کھڑکی تھی۔ ایک دروازہ برآمدے کو کھلتا تھا اور دوسرا خوابگاہ میں۔ کھڑکی خوابگاہ کی مخالف سمت تھی اور کافی اونچی تھی۔ غسل خانے میں لکڑی سے بنا بیضوی ٹب تھا جس میں بیٹھ کر غسل کیا جا سکتا تھا اور فرش پر لکڑی کا فرش تھا جس میں پانی کی نکاسی کے سوراخ بنے ہوئے تھے۔ ساتھ ہی ٹھنڈے پانی کے دو گھڑے رکھے ہوتے تھے۔ بہشتی کے پانی بھرنے کے بعد میرا ملازم غسل خانے کے بیرونی دروازے کو باہر سے کنڈی لگا کر خوابگاہ سے میرے جوتے اٹھاتا اور باورچی خانے میں انہیں صاف کر کے میرا انتظار کرتا کہ میں کھانے کے لیے کب بلاتا ہوں۔

ایک رات جب میرا ملازم باورچی خانے چلا گیا تو میں نے چھوٹا دستی لیمپ اٹھایا اور غسل خانے جا کر اسے فرش کے قریب چھ انچ اونچی اور نو انچ چوڑی منڈیر پر رکھ دیا۔ پھر میں نے کنڈی لگائی کیونکہ ہندوستان میں اکثر دروازے کنڈی لگائے بغیر بند نہیں رہتے۔ دن کا زیادہ تر وقت میں نے کوئلے کے پلیٹ فارم پر گزارا تھا سو ابھی نہاتے ہوئے میں نے خوب صابن استعمال کیا۔ سر اور منہ پر خوب جھاگ بن گیا تو میں نے آنکھیں کھول کر صابن کو فرش پر رکھنا چاہا تو میرے عین سامنے پیر سے چند انچ دور سانپ کا سر دکھائی دیا۔ شاید پانی انڈیلنے اور صابن لگانے کی حرکات کی وجہ سے سانپ کو غصہ آ گیا تھا۔ یہ کوبرا سانپ اپنا پھن پھیلائے غصے سے پھنکارنے لگا اور دو مونہی زبان حرکت کر رہی تھی۔ اگر میں اپنے ہاتھوں کی حرکت جاری رکھتے ہوئے آہستگی سے اپنے پیر سمیٹتا اور پھر آہستگی سے اپنے پیچھے موجود دروازے سے نکل جاتا تو سب خیریت رہتی۔ مگر میں نے حماقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ٹب کی اطراف کو پکڑا اور کھڑے ہوتے ہوئے منڈیر کا رخ کیا۔ منڈیر پختہ تھی اور میرا پیر پھسلا۔ توازن برقرار رکھنے کی کوشش میں میری کہنی سے پانی کا فوارہ اچھلا اور لیمپ کو بجھا گیا۔ اب چھوٹے اور گھپ اندھیرے کمرے میں میں ہندوستان کے زہریلے ترین سانپوں میں سے ایک کے ساتھ قید ہو گیا۔ ایک قدم بائیں یا ایک قدم پیچھے اور میں دروازے تک پہنچ جاتا مگر مجھے سانپ کے بارے علم نہیں تھا کہ وہ کہاں ہوگا۔ دونوں دروازوں کی کنڈی نیچے سے لگتی تھی۔ اگر میں سانپ سے بچ کر دروازے تک پہنچ بھی جاتا تو کنڈی تلاش کرتے ہوئے عین ممکن تھا کہ سانپ وہیں موجود ہوتا۔

ملازموں کے کمرے کم از کم پچاس گز دور صحن کے دوسرے سرے پر تھے اور واحد امید میرے اس ملازم سے تھی جو کھانے کے لیے میرا منتظر تھا۔ عین ممکن تھا کہ کوئی دوست ملاقات کو آ جاتا۔ میں خلوصِ دل سے توقع کر رہا تھا کہ ایسا سانپ کے کاٹنے سے پہلے ہوتا۔ مجھے یہ حقیقت بھی ڈرا رہی تھی کہ میری مانند سانپ بھی یہاں قید ہے۔ چند روز قبل ہی میرے ایک ملازم کے ساتھ یہی کچھ ہوا تھا۔ دوپہر کے وقت میں نے اسے مزدوری دی تھی اور وہ اسے رکھنے گھر آیا۔ صندوق کھولتے وقت پیچھے سے پھنکار سنی تو مڑ کر دیکھا کہ کوبرا اس کمرے کے واحد کھلے دروازے سے ہو کر اسی کی جانب آ رہا ہے۔ بدقسمت انسان نے اپنے ہاتھوں سے سانپ کو بھگانا چاہا اور سانپ نے اس دوران اسے بارہ مرتبہ ہاتھوں اور ٹانگوں پر ڈسا۔ اس کی چیخیں سن کر ہمسائے آئے تو وہ بندہ چند منٹ بعد مر گیا۔

اس رات مجھے علم ہوا کہ چھوٹے واقعات بسا اوقات بڑے واقعات سے زیادہ ہیجان اور پریشانی کا سبب بن سکتے ہیں۔ میری ٹانگوں پر پھسلتا ہوا پانی کا ہر قطرہ مجھے سانپ کی زبان لگتا جو ڈسنے سے قبل معائنہ کر رہا ہو۔ مجھے علم نہیں کہ میں یہاں کتنا دیر رہا۔ بعد میں مجھے ملازم نے بتایا کہ نصف گھنٹہ گزرا ہوگا۔ انتہائی طویل محسوس ہونے والے انتظار کے بعد مجھے ملازم کی آواز آئی کہ کھانا میز پر آ گیا ہے۔ میں نے اسے قریب بلایا اور اپنی صورتحال بتائی اور کہا کہ وہ لالٹین اور سیڑھی لے آئے۔ کافی طویل انتظار کے بعد باہر سے آوازیں آئیں اور پھر بیرونی دیوار سے سیڑھی لگنے کی آواز آئی۔ پھر لالٹین کھڑکی پر آئی جو زمین سے دس فٹ بلند تھی۔ مگر اس سے روشنی اندر نہ آ سکی۔ میں نے کہا کہ شیشہ توڑ کر لالٹین اندر داخل کریں۔ کھڑکی کا سوراخ چھوٹا تھا، سو کئی بار لالٹین بجھنے کے بعد اندر داخل ہوا۔ مجھے ڈر تھا کہ سانپ میرے پیچھے نہ ہو، مگر مڑ کر دیکھا تو وہ دو فٹ دور فرش پر لیٹا ہوا تھا۔ آہستگی سے جھک کر میں نے بھاری باتھ میٹ اٹھایا اور احتیاط سے نشانہ لے کر سانپ پر پھینک دیا جو اب میری جانب آ رہا تھا۔ خوش قسمتی سے میرا نشانہ درست تھا اور سانپ کے سر سے چھ انچ پیچھے لگا۔ جتنی دیر سانپ اس پر حملہ کرتا، میں نے باہر والے دروازے کو کھول کر جست لگائی اور برآمدے میں پہنچ گیا جہاں ایک ہجوم لاٹھیاں اور لالٹینیں اٹھائے منتظر کھڑا تھا۔ انہیں خبر ملی تھی کہ میں ایک بند کمرے میں سانپ کے ساتھ زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہا ہوں۔

سانپ کو مار کر اور میری جان بچنے پر مبارکباد دیتے ہوئے جب سبھی لوگ چلے گئے تو مجھے احساس ہوا کہ میرے سر پر صابن کا جھاگ ہے اور جسم پر ایک دھجی بھی نہیں۔ سانپ غسل خانے میں کیسے گھسا ہوگا، مجھے علم نہیں۔ شاید کسی دروازے سے آیا ہو یا پھر چھت سے گرا ہو کیونکہ چھت گھاس پھونس سے بنی تھی جس میں چوہے اور گلہریاں بکثرت رہتے تھے اور جگہ جگہ چڑیوں کے گھونسلے بھی بنے ہوئے تھے۔ خیر، میں اور میرا ملازم دونوں خوش تھے کہ اس روز ہم موت کے بہت قریب پہنچ گئے تھے۔

موکمہ گھاٹ پر ہندو یا مسلم تہوار منانے کی گنجائش نہیں تھی کہ ہر روز کام ہوتا تھا۔ تاہم پورے سال میں ایک دن کا نہ صرف انتظار ہوتا بلکہ اس کو منانے کی تیاریاں بھی زور و شور سے کی جاتیں۔ یہ کرسمس تھی۔ اس روز یہ رواج تھا کہ دس بجے تک میں اپنے گھر سے نہ نکلتا اور عین اس وقت رام سرن بہترین کپڑے پہن کر اور بہت بڑی گلابی پگڑی باندھ کر مجھے دفتر کے لیے لینے آتا۔ یہ پگڑی اس نے اسی مقصد کے لیے رکھی ہوئی تھی۔ ہمیں جھنڈیاں نہیں لینی پڑتی تھیں کہ ہمارے پاس سرخ اور سبز رنگ کی جھنڈیوں کی بہت بڑی تعداد تھی اور ان جھنڈیوں کو یاسمین کے پھولوں کے ساتھ دھاگوں میں پرو کر رام سرن اور اس کے ساتھی دفتر اور آس پاس کی جگہوں کو بہت خوبصورت طور پر سجا دیتے۔ یہ کام وہ علی الصبح شروع کرتے تھے۔ دفتر کے قریب ہی کرسی اور میز رکھی ہوتی تھی اور میز پر دھاتیا مرتبان میں میرے پسندیدہ گلابوں کو بیل سے باندھ کر رکھا ہوتا تھا۔ میز کے سامنے ریلوے کا عملہ، میرے نگران اور سبھی مزدور سامنے ہوتے۔ ان سبھی افراد نے صاف ستھرے کپڑے پہنے ہوتے تھے کیونکہ سارا دن چاہے میلے کچیلے کپڑے ہوتے، کرسمس کے روز ہم صاف ستھرے ہوتے۔

جب میں کرسی پر بیٹھتا تو رام سرن یاسمین کے پھولوں کا ہار میرے گلے میں ڈالتا اور پھر رام سرن کی طویل تقریر سے تقریب کا آغاز ہوتا اور پھر میں مختصر تقریر کرتا۔ پھر بچوں میں مٹھائیاں بانٹی جاتیں اور جب یہ کام تسلی بخش انداز میں ہو جاتا تو اصل کام شروع ہوتا۔ میں رام سرن، عملے اور مزدوروں میں سالانہ بونس تقسیم کرتا۔ ریلوے سے مجھے انتہائی کم معاوضہ ملتا تھا اور سب لوگوں کی مشترکہ کوشش سے مجھے معمولی سا منافع ہوتا جس کا اسی فیصد میں کرسمس کے روز بانٹ دیتا۔ یہ بونس معمولی سا ہوتا اور اس کی مقدار کبھی ایک ماہ کی تنخواہ یا معاوضے سے زیادہ نہیں رہی۔ مگر یہ سب لوگوں کو خوش کرتا تھا اور اسی وجہ سے اکیس سال تک ہر سال دس لاکھ ٹن سامان کی ترسیل کبھی متاثر نہیں ہوئی اور نہ ہی کبھی ایک دن کے لیے کام رکا۔

٭٭٭

ماخذ:

https://shikariyat.blogspot.com تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

ڈاؤن لوڈ کریں

پی ڈی ایف فائل

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل

ٹیکسٹ فائل