FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

میرا جی اور وزیر آغا

 

 

 

طارق حبیب اور ڈاکٹر وزیر آغا

جمع و ترتیب: اعجاز عبید

 

ماخذ: جدید ادب، جرمنی، میرا جی نمبر

مدیر: حیدر قریشی

 

 

 

’’میراجی شناسی‘‘  میں ڈاکٹر وَزیر آغا کا حصہ

 

                طارق حبیب

 

۲۵ مئی ۱۹۱۲ء کو میرا جی،  جن کا اصل نام محمد ثناء اﷲ ڈار تھا، لاہور میں پیدا ہوئے۔ اُن کے والد منشی مہتاب الدین نے حسین بی بی سے شادی کی۔ حسین بی بی سے دو لڑکے محمد عطاء اﷲ ڈار اور محمد عنایت اﷲ ڈار ہوئے۔ حسین بی بی کی وفات کے بعد منشی مہتاب الدین نے زینب بیگم عرف سردار بیگم سے شادی کی، جن سے محمد ثناء اﷲ ڈار،  عزیز ثریا، محمد اکرام اﷲ کامی(لطیفی)، انعام اﷲ کامی، محمد شجاع اﷲ نامی، محمد ضیاء اﷲ اور محمد کرامت اﷲ پیدا ہوئے۔ میراجی کے والد ریلوے میں اسسٹنٹ انجینئر تھے اور ملازمت کے باعث کئی مقامات پر تعینات (اور اپنے خاندان کے ساتھ وہاں مقیم) رہے ؛ تاہم میراجی نے اِس آوارہ گردی میں زمانے کی کافی سیر کی اور اِس سلسلے میں وہ گودھرہ ضلع پنج محل، گجرات کاٹھیاواڑ، اپاوہ گڑھ کا قصبہ ہالول، بوستان (بلوچستان)،  سکھر، جیکب آباد، ڈھابے جی وغیرہ میں قیام پذیر رہے،  بعد ازاں خودمختار حیثیت سے میراجی دہلی، بمبئی اور پونا میں مقیم رہے۔

آٹھویں نویں جماعت ہی میں میراجی شعر کہنے اور ’’ساحری‘‘ تخلص کرنے لگے،  یہی وہ زمانہ ہے،  جب محمد ثناء اﷲ ڈار،  میراجی کے روپ میں متشکل ہوئے۔ مختلف تحقیقی روایات سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ ۲۶ مارچ ۱۹۴۶ء کو جب محمد ثناء اﷲ ڈار میٹرک میں تھے،  ایک سانولی سلونی بنگالی لڑکی ’’میراسین‘‘ کی ایک جھلک دیکھ کر اُس پر فریفتہ ہو گئے، ’’میراسین‘‘ کی سہیلیاں میراسین کو ’’میراجی ‘‘ کہا کرتی تھیں،  یوں ’’میراسین‘‘ کی نسبت سے محمد ثناء اﷲ ڈار ہمیشہ کے لیے میراجی ٹھہرے اور پھر :

نگری نگری پھرا مسافر گھر کا رستہ بھول گیا

کون ہے تیرا،  کون ہے میرا،  اپنا پرایا بھول گیا

یوں میراجی کا لبادہ اوڑھے ہوئے اُنھوں نے فکر و فن کی آب یاری میں اپنا سارا جیون بِتا دیا۔ روایات کے مطابق ’’میراسین‘‘ اِس تمام واقعے سے ہمیشہ بے خبر رہی۔ میرا جی کی تعلیم کا سلسلہ بھی اِس وارداتِ قلبی کے بعد فوت ہوا، حتیٰ کہ وہ میٹرک بھی نہ کر سکے۔ میرا جی تنہا اور یک طرفہ اِس عشق کی آگ میں جلتے رہے۔ زندگی کے آخری ایّام اُنھوں نے سخت اذیت اور بیماری کی حالت میں گزارے، یہاں تک کہ اُن کے وجود میں جلنے والی عشق کی آگ ۳۔ نومبر ۱۹۴۹ء کو ٹھنڈی پڑ گئی اور اُنھیں بمبئی کے میری لائن قبرستان میں دفن کر دیا گیا،  اُن کے جنازے میں صرف پانچ لوگوں نے شرکت کی۔ (۰۱)اُن کی زندگی کے آخری لمحات غالب کے اِس شعر کی منہ بولتی تصویر ہیں :

پڑیئے گر بیمار تو کوئی نہ ہو تیمار دار

اور اگر مر جائیے تو نوحہ خواں کوئی نہ ہو

میراجی نے تمام عمر میراسین سے عشق کرنے میں گزار دی، یہاں تک کہ شادی بھی نہ کی۔ پھر یہی ’’میراسین‘‘ علم و ادب کی علامت بن کر اُبھری۔ یوں میراجی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے علم و ادب کے ہو گئے۔ میراجی نے اگرچہ رسمی تعلیم تو قابلِ قدر حاصل نہ کی،  لیکن اُن کا مطالعہ قابلِ قدر تھا اور وہ بلاشبہ وسیع المطالعہ شخص تھے۔ (۰۲) ۱۹۴۰ء میں اُنھوں نے قیوم نظر کی وساطت سے ’’ حلقہ اربابِ ذوق‘‘ میں شمولیت اختیار کی اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے حلقے کی روحِ رواں بن گئے۔ ’حلقہ اربابِ ذوق‘ اور ’میراجی‘ دونوں کو ایک دوسرے کے وجود سے تقویت اور بقائے حیات میسر آئی۔

میراجی کئی برس مولانا صلاح الدین احمد کے ادبی رسالے ’’ادبی دنیا‘‘سے بھی وابستہ رہے۔ اُنھوں نے نثر و نظم میں منفرد مقام و مرتبہ حاصل کیا۔ اُن کا تنقیدی شعور انتہا کو پہنچا ہوا تھا، اِسی باعث وہ تخلیقی سطح پربھی بے حد اثر انداز ہوئے۔ ’ادبی دنیا‘ میں اُن کے تنقیدی مضامین،  جو اُن کے تنقیدی شعور اور وسعتِ مطالعہ کے غماز ہیں،  ’’بسنت سہائے ‘‘ کے قلمی نام سے شائع ہوتے رہے۔ اور اُن کے تنقیدی مضامین ’’مشرق و مغرب کے نغمے ‘‘ کے زیرِ عنوان چھپ چکے ہیں (۰۳)۔ میرا جی نے ’ادبی دنیا‘ میں ’’اِس نظم میں ‘‘ کے عنوان سے متعدد تجزیے بھی تحریر کیے، یہ تجزیاتی مطالعے اِسی نام سے کتابی شکل میں دست یاب ہیں۔ (۰۴) مذکورہ بالا تنقیدی مضامین ہی میرا جی کی شہرت کا ابتدائی حوالہ بنے۔ بعد ازاں وہ جدید اُردو نظم کے فکری اور فنی علم بردار کی حیثیت اختیار کر گئے اور اُن کا اُسلوب آزاد نظم کی راہیں متعیَّن کرنے میں معاون ثابت ہوا۔

٭ ٭

 

ڈاکٹر وزیر آغا۱۸۔ مئی ۱۹۲۲ء کو وزیر کوٹ (ضلع سرگودھا، پنجاب،  پاکستان) میں پیدا ہوئے۔ گورنمنٹ ہائی سکول سرگودھا سے میٹرک،  گورنمنٹ کالج جھنگ سے انٹر میڈیٹ اور گورنمنٹ کالج لاہور سے ایم۔ اے تک تعلیم حاصل کی۔ ایم اے اُنھوں نے ۱۹۴۳ء میں معاشیات کے مضمون میں کیا اور پھر ۱۹۵۶ء میں ’’اردو ادب میں طنزو مزاح ‘‘ کے زیرِ عنوان پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ ڈاکٹر وزیر آغا اپنے فکری و فنی تنوع کے اعتبار سے اُردو ادب میں ایک واضح اور منفرد شناخت رکھتے ہیں۔ شاعری،  تنقید، اِنشائیہ، سفر نامہ اور آپ بیتی جیسی اصنافِ ادب کے ساتھ ساتھ مجلّہ ’’اوراق‘‘ کی ادارت کے ذریعے سے رُجحان سازی کے باعث اُن کی خدمات تاریخِ زبان و ادب کا بیش قیمت سرمایہ ہیں۔

’اردو ادب میں طنز و مزاح‘ کے علاوہ’ نظمِ جدید کی کروٹیں ‘، ’اردو شاعری کا مزاج‘، ’ تنقید اور احتساب‘، ’ نئے مقالات‘، ’تخلیقی عمل‘، ’تصوراتِ عشق و خرد‘، ’ نئے تناظر‘، ’ تنقید اور مجلسی تنقید‘، ’دائرے اور لکیریں ‘، ’ تنقید اور جدید اُردو تنقید‘، ’ انشائیہ کے خدوخال‘، ’ مجید امجد کی داستانِ محبت‘،  ’ساختیات اور سائنس‘، ’ غالب کا ذوقِ تماشا‘،  ’معنی اور تناظر‘ اور ’ امتزاجی تنقید کا فکری تناظُر‘ ڈاکٹر وزیر آغا کا تنقیدی اثاثہ ہے،  جس میں بلاشبہ دل نشیں اُسلوبیاتی طرزِ عمل کے ساتھ جداگانہ تنقیدی نظام وضع کیا گیا ہے۔

’ دستک اُس دروازے پر ‘اور ’شام کی منڈیر سے ‘ بالترتیب فکری،  سوانحی کتابیں ہیں، جب کہ ’پگڈنڈی سے روڈ رُولر تک‘ انشائیوں کے چار مجموعے (’خیال پارے ‘، ’ چوری سے یاری تک‘، ’ دوسرا کنارہ‘،  ’سمندر اگر مرے اندر گرے ‘ اور ۱۹۸۹ء کے بعد کے دو انشائیے ) ایک ہی جلد میں پیش کیے گئے ہیں۔

وزیر آغا کے شعری سفر میں ’شام اور سائے ‘، ’ دن کا زرد پہاڑ‘، ’ نردبان‘، ’ آدھی صدی کے بعد‘، ’گھاس میں تتلیاں ‘، ’ہم آنکھیں ہیں ‘،  ’غزلیں ‘، ’ اک کتھا انوکھی‘، ’ یہ آواز کیا ہے ‘، ’ عجب اک مسکراہٹ‘، ’چنا ہم نے پہاڑی راستہ‘، ’دیکھ دھنک پھیل گئی‘ اور ’چٹکی بھر روشنی ‘شامل ہیں۔

’’چہک اُٹھی لفظوں کی چھاگل‘‘ اُن کی غزلیات کی کلیات ہے اور اِسی نام سے نظموں کی کلیات زیرِ طبع ہے۔ ’’واجاں باجھ وچھوڑے ‘‘ اُن کا پنجابی شعری مجموعہ ہے۔

یہ بات بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ ڈاکٹر وزیر آغا نے اُردو سفرنامہ نگاری میں بھی اپنا خاطر خواہ حصہ ڈالا ہے۔ ۱۹۹۶ء میں اُن کے تین اسفار پر مشتمل ایک کتاب ’تین سفر‘ منظرِ عام پر آئی۔ اِس تخلیقی منظر نامے کے علاوہ ماہ نامہ ’’اوراق‘‘ کی چالیس سالہ ادارت بھی ڈاکٹر وزیر آغا کی اہم ادبی خدمات میں سے ایک ہے۔ سال ۲۰۰۰ء میں ’’اوراق‘‘ میں لکھے جانے والے ’’اداریے ‘‘ بھی کتابی صورت میں شائع ہو چکے ہیں،  جو کئی فکری پہلوؤں کو ہوا دیتے ہیں (۰۵)۔ وزیر آغا کی نظموں کے تراجم بھی دُنیا کی کئی زبانوں میں ہو چکے ہیں اور یہ امر بھی یقیناً اُردُو زبان و ادب کے لیے خوشی اور خوش نصیبی کا باعث ہے۔ بھارت میں ڈاکٹر وزیر آغا کی علمی و ادبی خدمات کے حوالے سے ڈاکٹریٹ کے مقالے بھی قلم بند کیے جا چکے ہیں اور پاکستان میں اُن کے حوالے سے ایم اے اور ایم فل کی سطح پر متعدّد تحقیقی و تنقیدی مقالہ جات اور کئی کتب زیورِ اشاعت سے آراستہ ہو چکی ہیں۔ (۰۶)

٭٭

 

میرا جی کے فکر و فن کے حوالے سے ڈاکٹر وزیر آغا کے پانچ مقالات ہمیں دست یاب ہوئے ہیں،  یہ مقالات مختلف اوقات میں مختلف رسائل میں شائع ہوئے اور بعد ازاں ڈاکٹر صاحب کی تنقیدی کتابوں کی زینت بنے (۰۷)۔

اگرچہ میراجی کی سوانح،  فکر اور فن پر تنقید کرنے والوں کی ایک طویل فہرست ہے اور ایک محتاط اندازے کے مطابق تقریباً سو کے لگ بھگ مضامین میراجی پر لکھے جا چکے ہیں، تاہم مزاج کے اعتبار سے ڈاکٹر وزیر آغا کے مضامین کی حیثیت مختلف بھی ہے اور نمایاں بھی۔ اِن مضامین کی ایک خوبی یہ ہے کہ اِن کا تعلق میراجی کی ذاتیات سے ہرگز نہیں اور نہ ہی وزیر آغا نے ایسی کوئی ٹوہ لگانے کی کوشش ہی کی ہے،  جس سے میراجی کی شخصیت پر مزید حرف آنے کا امکان پیدا ہوتا۔ یہ خالصتاً علمی اور فکری نوع کے مضامین ہیں،  اِس لیے اِن مضامین کی حیثیت تاثراتی ہرگز نہیں۔ ڈاکٹر وزیر آغا کا کام اِس لیے بھی اعتبار کا حامل ہے کہ وہ نہ صرف خود آزاد نظم کے صاحبِ اُسلوب شاعر ہیں،  بلکہ ادبیاتِ اُردُو کے ایک معتبر نقاد کا بھی درجہ رکھتے ہیں۔

یہ پہلو بھی غور طلب ہے کہ مذکورہ بالا مضامین بعد کے کئی ناقدین کے لیے مآخذ کا درجہ رکھتے اور کئی ایک رہ نما اُصول بھی مہیا کرتے ہیں،  جیسا کہ بہت سے ناقدین نے میراجی پر لکھتے ہوئے ڈاکٹر وزیر آغا کے قائم کردہ نتائج سے مدد لینے کی کوشش کی ہے۔ کچھ متاخرین نے استفادہ تو ضرور کیا ہے، مگر اصل منابع کی نشان دہی کرنا مناسب خیال نہیں کیا، بہرحال اِن تمام پہلوؤں سے چشم پوشی اختیار کر بھی لی جائے،  تو بھی میراجی کی بنیادی تفہیم کے ضمن میں اِن مضامین کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔

زمین اور دھرتی کے اپنے بھید اور اسرار ہوا کرتے ہیں اور زمین کے اثرات کا مطالعہ جہاں دل چسپی کا باعث ہے،  وہاں کچھ مشکلات کا داعی بھی ہے،  تاہم زبان و ادب کو تہذیبی زاویے سے دیکھنے اور پرکھنے کا انداز ڈاکٹر وزیر آغا کا پسندیدہ موضوع بھی ہے اور وہ اِس پر گہری نظر بھی رکھتے ہیں،  یہی وجہ ہے کہ اُنھوں نے میراجی کو سب سے پہلے تہذیبی پس منظر میں سمجھنے اور سمجھانے کی سعی کی ہے۔ ’’دھرتی پوجا کی ایک مثال ‘‘، صرف میراجی کی فکر کو سمجھنے کے حوالے سے اہم نہیں،  بلکہ قدیم ہندوستانی طرزِ معاشرت و ثقافت،  اُسلوبِ حیات اور علامات کے بنیادی تصور کو سمجھنے میں بھی معاون ہے۔

میراجی کا باقاعدہ تعارُف ’ادبی دنیا‘سے ہوا، ڈاکٹر وزیر آغا بھی آغازِ کار میں ’ادبی دنیا‘ سے وابستہ رہے۔ (۰۸) اِس لیے میراجی کے ادبی مقام کے تعیُّن کے پہلے ہی مرحلے میں ڈاکٹر وزیر آغا نے میراجی کی تفہیم کا سرا ڈھونڈنے کی کوشش کی۔ شاعری کو تہذیبی اور زمینی پس منظر میں دیکھنے کا انداز مشکل بھی ہے اور منفرد بھی،  تاہم ڈاکٹر وزیر آغا نے اِس مشکل پسندی اور انفرادیت کو بڑے عمدہ اُسلوب میں نبھایا،  اِس ضمن میں اُن کی کتاب ’’اردو شاعری کا مزاج‘‘ یقیناً ایک اہم ادبی معرکے کی حیثیت رکھتی ہے۔

فن کار کو پرکھنے کا ایک ریاضیاتی انداز ہوتا ہے اور ایک حیاتیاتی انداز۔ ریاضیاتی انداز یہ ہے کہ پہلے ایک کلیہ وضع کیا جائے اور پھر اُسے زندگی پر لاگو (Apply) کر کے دیکھا جائے اور پھر زندگی سے حاصل شدہ نتیجے سے اُس کلیے کی طرف مراجعت کی جائے۔ افلاطون چوں کہ ریاضی دان تھا، اِس لیے یہ طریقِ کار افلاطون سے منسوب ہے۔ حیاتیاتی نقطۂ نظر یہ ہے کہ زندگی سے کلیے کی طرف سفر کیا جائے اور پھر کلیے سے واپس زندگی کی طرف لوٹا جائے۔ ارسطو چوں کہ بنیادی طور پر ماہرِ حیاتیات تھا، اِس لیے یہ اُسلوب ارسطو کے نقطۂ نظر کو واضح کرتا ہے۔ تاہم نقاد اگر ذرا سا بھی کمزور ثابت ہو، تو وہ حیاتیاتی طریقِ کار کی پیچیدگیوں میں پھنس کر رہ جاتا ہے اور فن کار کی نفسیات اور ذاتیات میں بہت زیادہ اُلجھ کر اکثر تفہیم کا دائرہ مکمل نہیں کر پاتا۔ ریاضیاتی چلن بہت ٹھوس ہے اور اس میں زیادہ گمراہ ہونے کا خدشہ بھی کم ہے،  یعنی فکر سے شخصیت دریافت کی جائے اور پھر شخصیت سے فکر کی طرف رجوع کیا جائے۔ ’’دھرتی پوجا کی ایک مثال۔ میراجی ‘‘ میں ڈاکٹر وزیر آغا نے اِسی اُصول کو مدِّ نظر رکھا ہے۔

ڈاکٹر وزیر آغا نے میراجی کی فکر سے میراجی کی تخلیقی شخصیت کی طرف سفر کیا اور پھر واپس میراجی کی فکر تک۔ مضمون کے شروع میں اُنھوں نے زمین سے وابستہ شاعروں نظیر اکبر آبادی، محمد حسین آزاد، الطاف حسین حالی، اسماعیل میرٹھی، چکبست، تلوک چند محروم، محمد اقبال اور ن م راشد کا ذکر کرتے ہوئے یہ واضح کیا ہے کہ اِن شعراء میں دھرتی سے وابستگی کی کئی ایک مثالیں تو دست یاب ہیں،  مگر اِن شعراء کا کوئی واضح تعہد (Commitment) اور کوئی جذباتی تعلق دھرتی سے،  اِس کی رسوم سے اور اِس کے تہذیبی پس منظر سے ثابت نہیں ہوتا۔ میراجی وہ پہلے شاعر ہیں،  جنھوں نے اپنی روح کو دھرتی کی روح سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی اور تہذیبی سمندر کے اندر ایک گہرا غوطہ لگایا:

’’دوسرے لفظوں میں میراجی نے ایک بھگت، درویش یا جان ہار پجاری کی طرح اپنی دھرتی کی پوجا کی ہے،  محض رسمی طور پر وطن دوستی کی تحریک کا ساتھ نہیں دیا۔ یہی وجہ ہے کہ اُس کی نظموں کی روح، فضا اور مزاج،  سرزمینِ وطن کی رُوح،  فضا اور مزاج سے پوری طرح ہم آہنگ ہے اور اِس خاص میدان میں اُسے کسی حریف کا سامنا نہیں۔ ‘‘ (۰۹)

ڈاکٹر وزیر آغا کا موقف یہ ہے کہ میراجی کا فکری پس منظر میراسین کی عطا نہیں،  بلکہ یہ سب کچھ تو میراجی کے اندر پہلے سے موجود تھا، جسے اظہار کا موقع میراسین کے بہانے سے میسر آیا، گویا اِس کیمیائی عمل میں میراسین کی حیثیت محض عمل انگیز (Catalyst) کی ہے (عمل انگیز کہ کر ہم کسی چیز کی نفی نہیں کرتے،  بلکہ مقرر دائرے میں اُس کی اہمیت کوتسلیم کر رہے ہوتے ہیں )۔ یہ موقف اِس لیے بھی وزن رکھتا ہے کہ کسی بھی اِنسان کا فطری رُجحان ہی بنیادی حیثیت اور اہمیت کا حامل ہوتا ہے، یہی رُجحان بعد ازاں اُسے کسی میراسین جیسے طوفان سے آشنا کرتا ہے، جہاں عاشق تھوڑی دیر ٹھہرتا اور پھر اپنے جذبے کے تعاقب میں آگے بڑھ جاتا ہے ( اس لیے کہ عشق، مقصود بالذّات ہوا کرتا ہے،  البتہ معشوق کے وجود کی نفی نہیں کی جا سکتی )۔ گویا میراجی کی آتما ’آریائی اصل‘ اور ’ویشنو مت‘ کی پجاری تھی، جو کسی اور جنم میں کسی اور زمان و مکان میں بھٹکتی پھر رہی تھی اور اپنی اصل میں ضم ہونے کے لیے بے تاب تھی۔

کچھ ناقدین نے میراجی کے ہاں ’’میلارمے ‘‘ کے حد سے بڑھے ہوئے اثرات کی اطلاع دی ہے، مگر ڈاکٹر وزیر آغا اِن اثرات کی نفی کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ہر دو کے ابہام کی نوعیتیں ہی مختلف ہیں۔ اِسی طرح ’بودلیئر‘ کے اثرات کی براہِ راست نفی اِس لیے کی گئی ہے کہ خود بودلیئر کے ہاں جنسی موضوعات بنگال کی فضا اور ماحول کی دین تھے،  گویا میراجی نے یہ اثر لیا بھی ہے،  تو یہ بالواسطہ اثر کی حیثیت رکھتا ہے،  یا اسے کسی خاص داخلی نسبت کا اثر بھی کہا جا سکتا ہے۔

ڈاکٹر وزیر آغا نے قدیم ہندوستانی تہذیبی پس منظر پر گہری روشنی ڈالی اور ویشنو مت فلاسفی سمجھنے میں ہماری مدد کی ہے۔ اُنھوں نے ویشنو مت کی چار اہم صورتوں کی طرف اشارہ کیا ہے : بیاہتا محبت، ناجائز سمبندھ، شو اور شکتی۔ میراجی کے ہاں رادھا اور کرشن کی محبت اور شکتی کے منفی روپ ’کالی ‘ کے اثرات واضح ہیں اور انھی کی علامات اور جنسی اثرات میراجی کی نظموں میں صاف دکھائی دیتے ہیں اور یہی اثر میراجی کو میرا بائی اور چنڈی داس وغیرہ کے بھی نزدیک کرتا اور اذیت کوشی کی طرف مائل کرتا ہے،  تاہم یہ دھرتی پوجا کے اثرات ہیں،  جو ایک پہلو کی حیثیت رکھتے ہیں۔

دھرتی پوجا کا دوسرا پہلو ہندوستانی فضا ہے،  جو جنگل کی تہذیب کی طرف اشارہ کرتی ہے،  جس میں تاریکی کا عنصر غالب ہے اور جہاں ہزار منزلوں کے بعد روشنی کا گیان میسر آتا ہے۔ جنگل کی جزئیات علامات کا روپ لے کر میراجی کی تخلیقی زندگی میں بھی اُجاگر ہوئی ہیں اور خود میراجی کی شخصی زندگی میں بھی۔

اِس مقالے کے آخر میں ڈاکٹر وزیر آغا نے اُن اساطیری،  قدیم دیو مالائی اور ویشنو مت کی تہذیبی اصطلاحات و تلمیحات وغیرہ کا ذکر کیا ہے،  جنھیں میراجی نے اپنی نظموں میں علامات کے طور پر باندھا ہے اور جن کے استعمال سے میراجی کی اس قدیم تہذیبی پس منظر سے گہری وابستگی اظہر من الشمس ہے۔ اِس اُسلوب کی اہمیت اس لیے بھی بڑھ جاتی ہے کہ میراجی سے پہلے اِس شدت کے ساتھ ایسی کوئی مثال موجود نہ تھی،  جس کی وہ تقلید کرتے، یوں میراجی کی تخلیقات اِس لحاظ سے منفرد بھی ہیں اور تازہ بھی۔ اِس تمام پس منظر میں میراجی کو تہذیبی سطح پر سمجھنے کے لیے ڈاکٹر وزیر آغا کا یہ مضمون بہت اہم ہے، جو میراجی پر پڑے ہوئے افسانوی پردے کو چاک کر کے اصلیت تک ہماری رسائی ممکن بنا تا ہے۔ نیز میراجی کے ابہام کے حوالے سے یہ بات یقیناً اہم ہے کہ جب تک قاری آزاد نظم پڑھنے کی تربیت،  لفظوں کی نئی معنویت اور علامتی پس منظر سے شناسائی حاصل نہیں کر لیتا،  اُس کے لیے میراجی کے ابہام کی گرہ کشائی اور اُس کے موضوعات کی تفہیم مشکل ضرور ہے۔

٭٭

 

ڈاکٹر وزیر آغا کی کتاب ’’اُردو شاعری کا مزاج ‘‘ شخصیات کے نجی کوائف سے بحث نہیں کرتی،  بلکہ تہذیبی اور زمینی پس منظر میں رُجحانات کی ترجمان ہے،  تاہم اِس میں میراجی کے لیے پندرہ صفحات مختص کئے گئے ہیں کیوں کہ نئی نظم کی تشکیل اور رُجحان سازی میں میراجی کا نہایت اہم اور بنیادی کردار رہا ہے اور وزیر آغا نے بجا طور پر یہ حق میرا جی کو دیا ہے۔ اِن پندرہ صفحات کے اقتباس اور گزشتہ مقالے کے بارے میں بعض قارئین کا یہ خیال ہوسکتا ہے کہ دونوں ایک ہی طرح کی تحریریں ہیں،  لیکن ایسا ہرگز نہیں۔ دونوں تحریروں میں ایک فکری اشتراک تو ضرور پایا جاتا ہے،  تاہم دونوں میں تکرار کا کوئی پہلو موجود نہیں۔ گزشتہ مضمون اور زیرِ بحث اقتباس کی اپنی اپنی جگہ اہمیت مسلّم ہے۔

’’اردو شاعری کا مزاج ‘‘ میں گیت، غزل اور نظم کے تہذیبی اور زمینی حوالے سے تفصیلی مطالعے کے بعد اُنھوں نے ’نئی نظم‘ کی وضاحت کے در وا کرتے ہوئے بیان کیا ہے کہ نئی نظم کا اصل مزاج اور سفر خارج سے داخل کی طرف ہے اوراِس مزاج کے سب سے بڑے علمبردار میراجی تھے۔ اُنھوں نے اقبال کے بعد اُردو نظم کو دو سطحوں میں تقسیم کیا ہے۔ پہلی سطح اقبال سے متاثرین اور دوسری غیر متاثرین کی، یا داخلیت پسندوں کی ہے۔ پہلی سطح میں سفر باطن سے خارج کی طرف اور دوسری سطح میں خارج سے باطن کی طرف کا ہے :

’’باہر کی طرف بڑھنے میں اُمید،  رجائیت،  تحرک اور گونج کی صفات پیدا ہوتی ہیں،  جب کہ اندر کی طرف آنے میں مدافعتی انداز،  یاس،  کسک، خوف،  دبے پاؤں چلنے کا انداز اور لہجے کی لطافت اور لوچ جنم لیتا ہے …… اندر کو آنے والا ذات اور نسل، جبلت اور ثقافتی بنیادوں سے منسلک ہو کر گویا انسان کے ماضی کی طرف لوٹتا ہے۔ ‘‘ (۱۰)

نظم کے اِس بنیادی مزاج کو اگر اچھی طرح سمجھ لیا جائے،  تو کسی بھی نظم گو کو سمجھنا نسبتاً آسا ن ہو جاتا ہے۔ خارج اور داخل کا یہ سفر’قوس‘ کا سفر ہے۔ قوس کا پہلا نصف خارجی اور دوسرا نصف داخلی جہت کو واضح کرتا ہے۔ میرا جی کا سفر سر تاسر اندر کی طرف تھا، یعنی قوس کا دوسرا نصف۔ یعنی:’’مدافعتی انداز،  یاس،  کسک، خوف،  دبے پاؤں چلنے کا انداز‘‘ میراجی کی نظموں کا بنیادی مزاج ہے،  اِسی تناظر میں میراجی کے ہاں وہ علامات اُبھریں،  جن کا گزشتہ سطور میں ذکر ہوا ہے،  لیکن میراجی کے ہاں اگر یہی کچھ ہوتا،  تو میراجی کا فکر و فن مٹی ہو گیا ہوتا،  میراجی نے اِن تمام الجھنوں،  نفسیاتی پیچیدگیوں کا بڑی جرأت اور حوصلہ مندی سے مقابلہ کیا اور یہی وجہ ہے کہ میراجی کی نظم ترقی پسندانہ رویے کے بھی مقابل ہے،  کیوں کہ میراجی کی نظم داخلی سطح پر اظہارِ ذات کی معراج ہے :

’’ نظم تو زندگی اور موت کے تصادُم سے عبارت ہے۔ قوس کے نصف آخر میں جب یہ تصادُم ایک شدید کرب کی صورت اختیار کرتا ہے،  تو نظم میں گہرائی،  استحکام اور توازُن پیدا ہوتا ہے،  یہی میراجی کی نظم کا بنیادی مزاج ہے کہ اُس کا رُخ موت کی طرف ہے،  لیکن میراجی نے ہر ہر قدم پر موت سے پنجہ آزمائی کی ہے،  یوں اُس کے ہاں ایک شدید نفسیاتی تصادُم وجود میں آیا ہے۔ ‘‘ (۱۱)

آگے چل کر میراجی کے ہاں استعمال ہونے والی علامات اور حیات و موت کی نفسیاتی کشمکش پر بحث کی گئی ہے۔ اُنھوں نے جنسی موضوع کو بھی میراجی کی جوانی کے تقاضوں کے بجائے،  میراجی کی نفسیاتی ضرورت کے تابع قرار دیا ہے۔ پھر میراجی کے ہاں حبُّ الوطنی کا اشارہ کرتے ہوئے ویشنو مت سے میراجی کے تعلقِ خاطر پر روشنی ڈالی گئی ہے کہ اِسی سے میراجی کے ہاں رادھا کرشن اورہندوستانی تہذیب کے عناصر جنسی علامات میں ڈھل کر ظاہر ہوئے ہیں۔ ڈاکٹر وزیر آغا نے بڑی اہم بات اجاگر کی ہے کہ اِن تمام پہلوؤں کا یہ مطلب بھی نہیں کہ میرا جی کا خارج سے رابطہ بالکل ہی منقطع ہو گیا تھا اور اُن کے ہاں زندگی کا تحرک موجود نہیں رہا تھا، بلکہ میراجی کے ہاں ہر دو سطح پر یہ کشمکش پوری شدومد کے ساتھ موجود تھی اور میراجی کے ہاں ’’تحفظِ ذات‘‘ کا شدید احساس کہیں ختم نہیں ہوتا۔

آخر میں ڈاکٹر وزیر آغا نے اِس غلط العوام اور غلط العام نظریے کی طرف بھی اشارہ کیا ہے کہ شاعری میں شاعر کی شخصیت کا پہلو ہونا بھی نظم کے مزاج کے لیے فطری سی بات ہے،  نیز ٹی ایس ایلیٹ کے شخصیت سے فرار کے نقطۂ نظر کو شخصیت کی نفی قرار دینا بھی درست نہیں ہے،  حتیٰ کہ خود ایلیٹ کا یہ نظریہ اِس قدر قابلِ قبول نہیں ہے۔ تاہم ڈاکٹر وزیر آغا نے میراجی کو حیات،  روشنی یا امید کا ہی شاعر قرار نہیں دیا اور نہ ہی سراسر موت،  تاریکی اور مایوسی کا علم بر دار گردانا ہے،  بلکہ روشنی اور تاریکی کا بڑا مضبوط سنگم خیال کیا اور میراجی کو داخلیت پسندی کے اعتبار سے ایک کامیاب اور دیرپا نظم گو تسلیم کیا ہے،  جن کے اثرات بعد میں آنے والے شعراء کی ایک پوری نسل پر ثبت ہوئے۔

٭٭

 

یہ حقیقت ہے کہ میراجی کو سمجھنے میں بڑی غیر ذمہ داری کا ثبوت دیا گیا ہے اور یہ بھی سچ ہے کہ اِس کی ذمہ داری سب سے زیادہ خود میراجی پر عاید ہوتی ہے،  جنھوں نے یہ بہروپ بھرا اور اپنی شخصیت کے حوالے سے ایک غلط نظریہ قائم کرنے کی دعوت دی۔ فروری ۱۹۷۲ء میں ڈاکٹر وزیر آغا کی کتاب ’’نئے مقالات‘‘ میں ایک مضمون : ’’میراجی کا عرفانِ ذات‘‘ شائع ہوا۔ یوں تو میراجی کے حوالے سے اُن کے سارے مضامین ہی اہم ہیں،  لیکن اُن کا یہ مضمون میراجی کی شخصیت کی تفہیم کے ضمن میں خاص حیثیت و اہمیت کا حامل ہے۔ اِس کے مطالب کا بغور جائزہ لیا جائے، تو میراجی کے بارے میں کئی ایک غلط فہمیوں کا ازالہ ممکن دکھائی دیتا ہے۔ اِس مضمون کو سمجھنے کے لیے اِس کی ابتدائی سطور بہت اہم ہیں :

’’ہر آبی طوفان کی ایک اپنی آنکھ ہوتی ہے،  جس کے گرد ہوائیں چنگھاڑتی پھرتی ہیں،  لیکن آنکھ کے اندر جوگی کے استھان کا سا سکوت قائم رہتا ہے۔ مجھے جب کبھی میراجی کا خیال آیا، تو اِس کے ساتھ ہی آبی طوفان کا منظر بھی میری نگاہوں میں گھوم گیا اور میں نے سوچا کہ یہ کیسے ظلم کی بات ہے کہ ہم طوفان کو دیکھنے میں اِس قدر منہمک ہوں کہ اُس ’’آنکھ‘‘ کو دیکھ ہی نہ سکیں،  جو اِس طوفان کا مرکز ہے اور جس میں ایک عارفانہ سکوت کی سی کیفیت سدا قائم رہتی ہے۔ ‘‘(۱۲)

ڈاکٹر وزیر آغا کا یہ موقف نہایت درست ہے کہ میراجی کے ساتھ ’عرفان‘ وغیرہ کی بات پر طبیعتوں میں ایک خاص نوع کا مجادلہ شروع ہو جاتا ہے اور اِس کی وجہ وہ بہت سے غیر متوازن واقعات ہیں،  جو اُن کے دوستوں نے اُن سے وابستہ کر رکھے تھے۔ اِنھی واقعات نے میراجی کے باطن تک رسائی کو مشکل تر بنا دیا۔ چوں کہ اِس تمام واردات میں خود میراجی بھی برابر کے شریک ہیں،  اِس لیے ڈاکٹر وزیر آغا کا یہ کہنا بعید از قیاس نہیں کہ میرا سین کا تصور،  میراجی کے اپنے ہی ذہن کا زائیدہ تھا، جس کی آڑ میں میراجی کچھ خاص منازل طے کرنا چاہتے تھے۔ ’’تو پھر یہ سوال کہ کیا آبی طوفان کی آنکھ محض اپنے ارد گرد کا تلاطم پیش کر رہی تھی، یا اِس کا کوئی منفرد زاویۂ نگاہ بھی تھا۔ ‘‘ (۱۳)بڑا اہم ہو جاتا ہے۔

ڈاکٹر وزیر آغا کے مطابق میراجی صرف دُنیا ہی نہیں، بلکہ دنیا کے ہر پہلو اور زندگی کی ہر کروٹ کا مطالعہ شوق سے کرتے ہیں۔ تغیر کا عمل اُنھیں بہت مرغوب ہے اور اِس مطالعے کے لیے ’تنہائی‘ اُن کا بہترین پلیٹ فارم ہے،  تاہم تنہائی کے عمل میں بھی اُنھوں نے کسی کی مداخلت اور مشارکت قبول نہیں کی۔ دراصل میراجی کے باطن میں ایک اور دُنیا آباد تھی،  جو عرفانِ ذات کی متلاشی تھی، مگر اُنھوں نے خود کو کئی لبادوں میں چھپا رکھا تھا۔ اُن کا خارج اور داخل مضبوط باہمی ربط کے باوجود علیحدہ علیحدہ سمتوں کا مسافر تھا، مطلب یہ کہ خارج کے حالات میں شریکِ کار ہونے کے باوجود وہ اِس سے کسی قدر اُوپر اُٹھ کر اِن کا جائزہ لے رہے تھے اور اپنے فکر و فن کی آب یاری میں مصروف تھے۔ یوں بھگتی تحریک کے زیرِ اثر وہ ایک بھگت کی طرح گیان تو ضرور حاصل کرنا چاہتے تھے اور اِس کے لیے اُنھوں نے جتن بھی کیے،  لیکن اپنی ذات کی انفرادیت کے باعث وہ اِس کے حصول میں پوری طرح کامیاب نہ ہوسکے۔ دراصل وہ کامیاب ہونا ہی نہ چاہتے تھے،  بلکہ گیان دھیان کا مسلسل سفر ہی اُن کا مقصودِ نظر تھا:

’’خوبی کی بات یہ ہے کہ میراجی نے اپنی تگ و دو کو کسی منزل تک پہنچنے کے لیے وقف نہیں کیا، بلکہ محض اُس خلا کو جنم دینے میں صَرف کیا ہے،  جو سالک اور منزل میں کچی ڈور کا رشتہ تو قائم کرتا ہے،  لیکن اِن دونوں کے درمیانی فاصلے کو کم نہیں ہونے دیتا۔ ‘‘ (۱۴)

جہاں تک ہماری ذاتی رائے ہے، میراجی کے ہاں خود پسندی،  بلکہ خود پرستی کا عنصر اتنا غالب تھا کہ وہ کسی اور کی پرستش کر ہی نہ سکتے تھے اور شاید یہی وجہ ہے کہ اُنھوں نے میراسین کا بھی محض بت تراش رکھا تھا اوربالواسطہ طور پر اپنی ہی ذات کی پوجا میں کامل گیان دھیان سے لگے ہوئے تھے۔ یاد رہے کہ عارف کے درجے تک رسائی حاصل کرنے کے لیے اپنی ذات کی نفی بے حد ضروری قرار پاتی ہے، من و تُو کے درمیان خطِ تنسیخ کھینچے بغیر تصوف کے راستے پر چلنا ناممکن ہو جاتا ہے،  تاہم میراجی اِس راستے کے اِس انداز سے مسافر تھے ہی نہیں : ’’اِک خلش کو حاصلِ عمرِ رواں رہنے دیا‘‘، والا معاملہ ہی دراصل اُن کا بنیادی مسئلہ تھا۔ اِس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ میراجی اِن معاملات سے آگاہ نہ تھے،  یا اُنھیں حقائق کی خبر نہ تھی، لیکن یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اُنھیں تصوُّف کی حقیقی روح سے واقعی آشنائی میسر نہ ہو اور ایک مضبوط خیال یہ بھی ہے کہ میراجی میں اپنی ذات کی نفی کا شاید حوصلہ ہی نہ تھا، یا یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ وہ اپنے وجود کو ختم ہوتے دیکھ ہی نہ سکتے تھے۔ ہر قیمت پر اپنے وجود کا اثبات اُنھیں عزیز تھا اور ہماری رائے میں یہی وہ فکری موڑ ہے،  جو میراجی اور اقبال میں ایک قدرِ مشترک پیدا کرتا ہے۔

ڈاکٹر وزیر آغا کے مضمون کے مندرجات کی طرف واپس چلتے ہیں،  جس میں اہم ترین بات یہ ہے کہ ڈاکٹر وزیر آغا نے قطعاً یہ ثابت نہیں کیا کہ میراجی کسی نوع کے باقاعدہ صوفی تھے اور معرفت کے جملہ مراحل طے کر گئے تھے۔ وہ بڑی دیانت داری سے اِس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ میراجی اِس راستے کے جویا ہونے کے باوجود نہ تو اِس منزل کو پا سکے اور نہ ہی یہ اُن کا مقصود تھا، اُن کا مقصد تو گیلی لکڑی کی طرح سلگنا اور خود کو مرکز مان کر کائنات کا مشاہدہ کرنا تھا، جو اُنھوں نے بھرپور طریق سے کیا۔ تاہم کچھ ناقدین نے میراجی کو باقاعدہ یا بے قاعدہ صوفی ثابت کرنے کی کوشش بھی کی ہے، جو ہمارے نزدیک ایک فکری اشتباہ ہے،  یہ التباس ڈاکٹر وزیر آغا کے مذکورہ بالا مضمون کے مطالعے کی روشنی میں دور کیا جا سکتا ہے،  کیوں کہ حق یہی ہے کہ میراجی گیانی تو تھے،  صوفی بہرحال نہیں تھے۔ اِسی بات کی مزید وضاحت ڈاکٹر وزیر آغا اپنے اگلے مضمون:’’میراجی‘‘ میں بھی بیان کرتے ہیں۔

٭٭

 

ڈاکٹر وزیر آغا کی معروف کتاب ’’تنقید اور مجلسی تنقید‘‘ میں بھی ’’میراجی ‘‘کے زیرِ عنوان ایک مضمون شامل ہے (۱۵)۔ اِس مضمون کا آغاز اِس مفروضے کی تردید سے کیا گیا ہے کہ میراجی کی موت سست روی کے باعث واقع ہوئی۔ اُن کا موقف یہ ہے کہ میراجی کی موت تیز رفتاری اور قوانینِ حیات سے بغاوت کا حاصل ہے اور یہ بغاوت اور انقطاع سوچے سمجھے منصوبے کے تحت عمل میں آیا۔

میراجی سے قبل بھی تیز رفتاری کی مثالیں موجود ہیں،  فرق یہ ہے کہ وہ سب کسی خاص سمت میں سفر کر رہے تھے،  جب کہ میراجی کا سفر ایک سے زیادہ جہتوں اور سمتوں کا حامل تھا، تاہم میراجی سیدھی لکیر کے مسافر نہ تھے،  اُنھیں پیچ وخم مرغوب تھے،  زندگی میں بھی اور فن میں بھی۔ اِس تیز رفتار مزاج کے تحت میراجی کی نظموں کو سمجھنے میں ایک خاص آسانی میسر آتی ہے۔ اِس کے بعد ایک اور اہم بات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ میراجی ’ماضی‘ کے راستے ’بستی‘ اور ’جنگل‘ کی فضا میں اُترتے چلے گئے،  اُن میں گوتم کی طرح عرفان پانے کی لگن بھی تھی،  تاہم وہ جنگل تک تو پہنچ گئے،  مگر مراجعت نہ کر سکے،  لہٰذا گوتم کی طرح کامیاب نہ ہوئے،  شاید اُن میں اتنی روحانی شکتی نہ تھی اور یہ بڑا اہم نقطہ ہے کہ میراجی کے اندر کھوجنے کا جذبہ تو تھا، مگر وہ اُس عرفان یا گیان کو پوری طرح پانہ سکے،  تاہم ڈاکٹر وزیر آغا اِسی نہ پا سکنے کو میراجی کے حق میں بہتر تصور کرتے ہیں کہ اگر وہ بہت زیادہ کامیاب ہو جاتے،  تو شاید فن کار نہ رہتے۔ البتہ حیرت ہے کہ کئی ناقدین نے میراجی کو باقاعدہ صوفی ثابت کرنے کی کوشش بھی کی ہے،  جو عجیب دکھائی دیتا ہے ؛ مثلاً فتح محمد ملک لکھتے ہیں :

’’میراجی کی فطرت باغیانہ نہیں تھی، اِس لیے اُنھوں نے صوفی بننے کی ٹھانی…… اِس طرزِ فکر کے علاوہ میراجی کا طرزِ حیات اور شاعرانہ کمال اِس حقیقت کا غماز ہے کہ میراجی ایک صوفی شاعر ہیں۔ ‘‘ (۱۶)

میراجی کے قارئین جانتے ہیں کہ میراجی نے نظامِ حیات اور معاشرتی دروبست سے کس واضح انداز میں بغاوت کا اظہار کیا ہے اور یہ سب اُن کی باغیانہ فطرت کے تحت ہی ہوا تھا، دوسری بات یہ ہے کہ ایک صوفی بھی تو مادی رسوم و رواج کا باغی ہی ہوا کرتا ہے،  منصور کا نعرۂ انا الحق اپنے عہد کے نظامِ اقتدار سے بغاوت ہی کی آواز تھی اور اِس حق گوئی کے نتیجے میں اُنھیں اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنا پڑا، بہرحال اِس میں کوئی شک نہیں کہ میراجی کے ہاں ایسے عناصر ضرور پائے جاتے ہیں، جو اُنھیں تصوف کی طرف لے جا سکتے تھے، لیکن اُن کی زندگی کے اُسلوب اور شاعری کے سرمائے سے اُن کا صوفی ہونا قطعاً ثابت نہیں ہوتا۔ خبر نہیں کہ فتح محمد ملک کو میراجی کے ’طرزِ حیات‘ پر صوفی ہونے کا ایسا کیا شبہ ہوا کہ اُنھوں نے کمال تیقن سے میراجی کو ’صوفی شاعر‘ قرار دیا،  جب کہ ہم تو خواجہ میر درد کو بھی ابھی تک(اُن کی شاعری کے حوالے سے ) ’’صوفی شاعر‘‘ کا درجہ دینے کے لیے پوری طرح تیار نہیں ہیں (۱۷)،  چہ جائیکہ میراجی کو صوفی شاعر کہنے لگیں،  میراجی کو تو ملامتی صوفی درویش کا درجہ بھی اتنی آسانی سے نہیں دیا جا سکتا کہ بہرحال تصوف اور فقر ایسی بھی چھپی ہوئی اور ادنیٰ حقیقتیں نہیں کہ آپ اپنا تعارُف نہ بن سکیں،  اِس لیے فتح محمد ملک کا مضمون اپنی جگہ بجا سہی،  لیکن اُن کے نقطۂ نظر سے اتفاق نہیں کیا جا سکتا۔ واﷲ اعلم بالصواب۔

٭٭

 

ڈاکٹر جمیل جالبی کی مرتبہ کتاب :’’میراجی۔ ایک مطالعہ‘‘ میں ’’میراجی کی اہمیت‘‘ کے نام سے ڈاکٹر وزیر آغا کالکھا ہوا مضمون شامل ہوا ہے،  جو ہماری آج کی بحث کا نقطۂ انجام ہے۔ زیرِ تذکرہ مضمون میں ڈاکٹر وزیر آغا نے میراجی کے عہد میں شاعری کے تین ایسے مکاتبِ فکر و فن کا ذکر کیا ہے،  جو اپنے نقطۂ کمال تک پہنچ چکے تھے : اختر شیرانی، اقبال اور فیض احمد فیض۔ یہ سب شعرا ریلوے ٹرمینس کی طرح تھے،  جن پر ایک خاص نوع کا سفر انجام کو پہنچتا ہے اور اِن کی تقلید کرنے والا آسانی سے اپنا کوئی نیا راستہ دریافت نہیں کر پاتا۔ میراجی اِن تینوں مکاتب سے ہٹ کر ایک نئی راہ کے مسافر تھے (جس کا گزشتہ صفحات میں وضاحت کے ساتھ ذکر ہو چکا ہے )، تاہم ڈاکٹر وزیر آغا نے میراجی کو اِن تینوں کی ضد قرار دیا ہے،  مگر سب سے اہم بات جو اُنھوں نے کی، وہ یہ ہے کہ اختر شیرانی،  اِس اندا زِ نظر کا نقطۂ آغاز ہے۔ تاہم میراجی اِن شعرا کے مقابل ٹرمینس کی بجائے ایک بڑے جنکشن کی حیثیت رکھتے ہیں، جہاں سفر ختم نہیں ہوتا، بلکہ متعدد نئے امکانات کے دروازے کھلتے چلے جاتے ہیں۔ چوں کہ میراجی کے فکر و فن کی مختلف جہتیں ہیں،  اِس لیے اُن کی تفہیم بھی آسان نہیں ہے،  تاہم ڈاکٹر وزیر آغا نے بڑے انصاف کی بات کہی ہے کہ میراجی اپنی کسی جہت میں بھی کمال کو پہنچے ہوئے نہیں ہیں، بلکہ امکانات کا ایک جہان اپنے اندر مخفی رکھتے ہیں اور اِسی لیے زندہ ہیں اور اپنے اثرات مسلسل پھیلاتے چلے جا رہے ہیں اور یہ اثرات بھی ہمہ جہت ہیں،  کسی خاص سمت میں نہیں ہیں، کسی خاص حوالے سے نہیں ہیں،  دھرتی کے اثرات، دیگر ارضی پہلو، جسم اور حسیات کے اثرات وغیرہ سب اِس میں داخل ہیں اور سب سے اہم بات داخلیت کا وہ رُجحان ہے،  جو نظم کا بنیادی مزاج کہلاتا ہے اور بلا شبہ نظم کا یہ بنیادی مزاج میراجی ہی کی دین ہے۔ (۱۸)

٭٭

 

ڈاکٹر وزیر آغا کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اُنھوں نے آزاد نظم گو شعراء بالخصوص میرا جی،  ن م راشد اور مجید امجد کے افکار سمجھنے اور سمجھانے کی اُس وقت کوشش کی،  جب اِن شعراء کی تفہیم کا باقاعدہ سلسلہ ابھی شروع نہیں ہوا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ بعد کے بیشتر ناقدین نے ڈاکٹر وزیر آغا کے قائم کردہ نتائج سے خاطر خواہ استفادہ کیا،  بلکہ بعض نے تو انھی خیالات کی ترویج و اشاعت کو کافی سمجھا ہے (۱۹)۔ تاہم میراجی کی بنیادی تفہیم میں ڈاکٹر وزیر آغا کے مقالات کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ میراجی کے حوالے سے اُن کی خدمات ہمیشہ یاد گار رہیں گی۔

٭٭٭

 

                حوالہ جات و حواشی

 

۰۱۔  میرا جی کی سوانح،  شخصیت اور فکر و فن کے مطالعے کے لیے فہرستِ مآخذ:

ا۔  ’’اشارات‘‘،  از: آفتاب احمد،  ڈاکٹر، کراچی، مکتبہ دانیال، اشاعت اول: اگست ۱۹۹۶ء(بہ طورِ خاص مضمون: ’’حلقہ اربابِ ذوق‘‘)

ب۔   ’’پاکستانی ادب کے معمار: میراجی ؛ شخصیت اور فن ‘‘، از، رشید امجد، ڈاکٹر،  اسلام آباد، اکادمی ادبیات پاکستان،  اشاعت اوّل: ۲۰۰۵ء

ج۔   ’’میرا جی۔ ایک بھٹکا ہوا شاعر‘‘،  از: انیس ناگی،  لاہور،  پاکستان بکس اینڈ لٹر یری ساؤنڈز،  اشاعت اول : ۱۹۹۱ء

د۔   ’’میراجی۔ ایک مطالعہ‘‘، مرتب: جمیل جالبی، ڈاکٹر، لاہور، سنگِ میل پبلی کیشنز، ۱۹۹۰ء

ہ۔  ’’میراجی۔ شخصیت اور فن’‘، از: رشید امجد،  ڈاکٹر، لاہور، مغربی پاکستان اُردو اکیڈمی،  اشاعت اول: ۱۹۹۵ء

۰۲۔  میرا جی خود تو چاہے میٹرک نہ کر سکے،  یا اُنھوں نے میٹرک نہ کیا، لیکن اُن کے علمی مقام و مرتبے پر  بعد ازاں پاکستان اور بھارت میں لوگوں نے پی ایچ ڈی کے مقالے ضرور قلم بند کیے ہیں۔

۳ ۰۔  میراجی،  ’’مشرق و مغرب کے نغمے ‘‘، کراچی، ’’آج کی کتابیں ‘‘، دوسری اشاعت: نومبر ۱۹۹۹ء

۰۴۔  میراجی، ’’اِس نظم میں ‘‘، کراچی، آج کی کتابیں ‘‘، دوسری اشاعت: ۲۰۰۲ء

۰۵۔ ’’اوراق کے اداریے ‘‘، از: وزیر آغا، ڈاکٹر، مرتب: اقبال آفاقی، پروفیسر،  لاہور، کاغذی پیرہن، بیڈن روڈ، اشاعت اوّل : اکتوبر ۲۰۰۰ء

۰۶۔  ڈاکٹر وزیر آغا کی سوانح اور فکر  وفن سے متعلق تفصیلی تنقیدی مطالعے کے لیے کتب :

ا۔  ’’بیاضِ شب و روز‘‘، از: ارمان نجمی، لاہور، کاغذی پیرہن، بیڈن روڈ،  اشاعت اوّل :مارچ ۲۰۰۱ء

ب۔ ’’پاکستانی ادب کے معمار:ڈاکٹر وزیر آغا ؛ شخصیت اور فن ‘‘، از، رفیق سندیلوی،  اسلام آباد، اکادمی ادبیات پاکستان،  اشاعت اوّل: ۲۰۰۶ء

ج۔  ’’دن ڈھل چکا تھا‘‘، از:ناصر عباس نیر، سرگودھا، مکتبہ نردبان،  طبع اول: جون ۱۹۹۳ء

د۔   ’’ڈاکٹر وزیر آغا اور ہمارا عہد‘‘، از: رشید نثار، راولپنڈی، پنڈی اسلام آباد ادبی سوسائٹی(پیاس)، پہلی بار :۱۹۹۸ء

ہ۔ ’’ڈاکٹر وزیر آغا ؛ اہلِ قلم کی نظر میں ‘‘، مرتب: گل بخشالوی، کھاریاں،   قلم قافلہ ادبی ویلفیئر سوسائٹی، اشاعت: ۱۹۹۷ء

و۔   ’’ڈاکٹر وزیر آغا ؛ عہد ساز شخصیت‘‘، از: حیدر قریشی، خان پور، نایاب پبلی کیشنز،  اشاعت اوّل : ۱۹۹۵ء

ز۔ ’’شام کا سورج‘‘، مرتب: انور سدید، ڈاکٹر، لاہور، مکتبہ فکر و خیال، جنوری ۱۹۸۹ء

ح۔ ’’کاغذی پیرہن‘‘، ماہ نامہ، لاہور، ’’وزیر آغا نمبر‘‘،  جلد: ۵، شمارہ: / ۷ ۸،   مئی جون ۲۰۰۵ ء

ط۔ ’’وزیر آغا کی بائیس نظمیں ‘‘، مرتب: عابد خورشید، سرگودھا، مکتبہ نردبان،  اشاعت اوّل: جنوری ۲۰۰۷ء

۰۷۔ یہ پانچوں مقالات زیرِ نظر رسالے میں ماخذ کی اطلاع کے ساتھ شائع کیے جا رہے ہیں۔

۰۸۔ ڈاکٹر وزیر آغا ’’ادبی دنیا‘‘ میں مولانا صلاح الدین احمد کے ساتھ شریک مدیر کے طور خدمات  انجام دیتے رہے اور اُن کی خدمات کے اعتراف کے طور پر مولانا صلاح الدین احمد کی یاد میں  ڈاکٹر وزیر آغا نے ’’اوراق‘‘ کا اجرا کیا، جو گزشتہ چالیس برسوں سے شائع ہو رہا ہے اور جدید ادبی  رجحانات کے تعارُف اور ترویج میں معاون رہا ہے۔

۰۹۔  وزیر آغا، ڈاکٹر، مضمون: ’’دھرتی پوجا کی ایک مثال۔ میراجی‘‘،  مشمولہ:’’نظمِ جدید کی کروٹیں ‘‘،   لاہور، ادبی دنیا، س ن، ص: ۷۷

۱۰۔  وزیر آغا، ڈاکٹر، ’’اردو شاعری کا مزاج‘‘،  لاہور، مکتبہ عالیہ، گیارھواں ایڈیشن : ۱۹۹۹ء، ص: ۳۸۲

۱۱۔  وزیر آغا،  ڈاکٹر، ’’اردو شاعری کا مزاج‘‘،  ص: ۳۸۶/ ۳۸۵

۱۲۔  وزیر آغا، ڈاکٹر، مضمون: ’’میراجی کا عرفانِ ذات‘‘،  مشمولہ: ’’نئے مقالات‘‘،  سرگودھا،  مکتبہ اُردُو زبان، اشاعت اول: فروری ۱۹۷۲ء، ص: ۸۱

۱۳۔ ایضاً، ص: ۸۴ / ۸۵

۱۴۔  ایضاً، ص: ۸۷

۱۵۔  ’’تنقید اور مجلسی تنقید‘‘،  وزیر آغا، ڈاکٹر، سرگودھا، مکتبہ اُردو زبان، طبع اوّل: جنوری ۱۹۷۶ء

۱۶۔ فتح محمد ملک، ’’میراجی کی کتابِ پریشاں ‘‘،  مشمولہ: ’’میراجی۔ ایک مطالعہ‘‘،

۱۷۔  تفصیل کے لیے درج ذیل مقالہ جات ملاحظہ ہوں :

ا۔  طارق حبیب، ’’تسکینِ نا تمام کی کیفیتوں کا شاعر‘‘، مشمولہ: ’’ماہِ نو‘‘، لاہور، ماہنامہ، جلد: ۴۷، شمارہ: ۵، مئی ۱۹۹۲ء

ب۔ طارق حبیب، ’’خواجہ میر درد : ایک مفروضے کی نفی‘‘،  مشمولہ : ’’حق نما‘‘، لاہور،  ماہنامہ،  جلد: ۶، شمارہ : ۲/ ۱، جنوری فروری ۱۹۹۸ء

۱۸۔ آزاد نظم کے اِس بنیادی مزاج کو سمجھنے کے لیے زیرِ نظر رسالے میں شامل کیے گئے ڈاکٹر وزیر آغا  کے اُن مقالات کا مطالعہ کیجیے،  جو نظم کی بحث سے متعلق ہیں۔

۱۹۔   راقم نے آزاد نظم گو شعرا ء پر ہونے والی تنقید کے تحقیقی و تنقیدی جائزے کے حوالے سے   ایم فل (اردو) کا مقالہ قلم بند کرتے ہوئے اِن حقائق تک رسائی حاصل کی، اِس لیے مقالہ نگار کی اِس رائے کو محض مفروضہ (Hypothesis) خیال نہ کیا جائے۔

٭٭٭

 

 

 

 

دَھرتی پُوجا کی ایک مثال۔ میرا جی

 

 

[اِس مضمون میں دھرتی پوجا کی ترکیب، ارض کے رُوحانی ارتقا کے معنوں میں استعمال ہوتی ہے۔ دھرتی پوجا کا منفی مفہوم،  ارض سے ایک ایسی جسمانی وابستگی پر منتج ہوتا ہے، جو رُوح کی خوشبو سے بیگانہ ہوتی ہے۔ اِس قسم کی وابستگی مادہ پرستی کی ایک صورت ہے اور ایسی فضا میں فنونِ لطیفہ بالخصوص شاعری کے خلق ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ چناں چہ زیرِ نظر مضمون میں دھرتی پوجا سے مراد جذبے اور ارض کا وہ رُوحانی ارتقا ہے،  جو فنونِ لطیفہ کے پیکروں میں ڈھل کر سامنے آتا ہے۔ (وزیر آغا) ]

اُردُو نظم میں سر زمینِ وطن، اِس کے مظاہر،  رُسوم اور دیو مالا سے وابستگی اور لگاؤ کی متعدد مثالیں موجود ہیں،  مثلاً نظیر اکبر آبادی کے ہاں مُلکی تہواروں،  بالخصوص ہولی،  دیوالی، بسنت وغیرہ کے ہنگاموں سے تحصیلِ مسرت کا رُجحان بڑا واضح ہے اور نظیر نے ایک صحت مند لڑکے کی طرح اِن مختلف تہواروں میں شرکت کی ہے،  تاہم نظیر کی یہ وابستگی ایک بڑی حد تک سطحی ہے۔ اُس نے زیادہ سے زیادہ مختلف رسوم کی ہنگامی نوعیت اور انبوہ کے اجتماعی ردِ عمل تک خود کو محدود رکھا ہے،  لیکن خود کو احساسی طور پر اِن تہواروں کے پس منظر سے ہم آہنگ نہیں کیا۔ اُس دور کی بعض منظوم کہانیوں، مثلاً مثنوی سحرالبیان یا گلزارِنسیم میں اگرچہ بعض مُلکی رسوم اور عقائد سے آشنائی کے شواہد ملتے ہیں اور بالخصوص داستان کی مختلف کڑیوں میں پرانی کہانیوں اور اِن کے مابعد الطبیعیاتی عناصر کی فراوانی بھی اِس وابستگی کا ایک ثبوت ہے ؛ تاہم یہاں بھی پس منظر میں غوطہ لگانے کا رُجحان کچھ زیادہ نمایاں نہیں۔ غدر کے بعد کے دور میں آزاد، حالی اور اسمٰعیل میرٹھی کی مساعی سے مظاہرِ فطرت میں دلچسپی لینے کا رُجحان اُبھرتا ہے اور ملک کے پہاڑوں،  میدانوں،  مرغزاروں اور مُلکی موسم کے بعض نمایاں مظاہر مثلاً؛ برسات، گرمی وغیرہ کو نظم کا موضوع بنانے کی روش بھی وجود میں آتی ہے،  مگر یہ ساری تحریک ایک بڑی حد تک مغربی شاعری کے بعض رُجحانات کی تقلید میں ظاہر ہوئی ہے۔

دوسرے سرزمینِ وطن سے اِس کی وابستگی بھی بڑی حد تک سطحی ہے،  اِسی لیے اِس میں غوّاصی اور ڈوبنے کا عمل نمایاں نہیں ہوسکا۔ چکبست کے ہاں پہلی بار مُلکی روایات سے ایک گہری وابستگی ظاہر ہوتی ہے،  جب کہ وہ رام اور سیتا کی کہانی کو نظم کرتے ہیں،  تاہم چکبست کی یہ کاوش بھی اوّل تو انیس اور دبیر کے تتبع میں ہے،  دوم یہ بھی محض کہانی کی مختلف کڑیوں کا احاطہ کرنے تک محدود ہے۔ اِسی دوران میں غیر ملکی حکومت کے استبداد کے خلاف جو ردِ عمل وجود میں آیا، اُس کا ایک نمایاں پس منظر وطن دوستی اور وطن پرستی کے میلان کی صورت میں ہمارے پیشِ نظر ہے،  گویا یہ ردِ عمل غیر ملکی غلبے اور مغربی تہذیب کے نفوذ کے خلاف اہلِ وطن کی وہ سعی ہے،  جسے نفسیات کی اصطلاح میں ’’تحفظِ ذات‘‘ کا نام دینا چاہیے،  چناں چہ اِس کے تحت بہت سے نظم گو شعراء نے حبُ الوطنی کے جذبات کا اظہار کیا۔ محروم، اقبال اور راشد کے ہاں بالخصوص یہ رُجحان بہت قوی تھا؛ تاہم یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ یہ رُجحان دراصل غیر مُلکی، سیاسی اور تہذیبی دباؤ کے خلاف عمل کی ایک صورت تھی، سرزمینِ وطن سے کسی مثبت شغف اور لگاؤ سے اِس کو تحریک نہیں ملی تھی اور نہ اِن شعراء کے ہاں اِس رُجحان کی جڑیں ہی مضبوط تھیں،  چناں چہ خود اقبال جو شروع شروع میں وطن دوستی کے ایک بہت بڑے علم بردار تھے، جب نظریاتی تصادُم میں مبتلا ہوئے،  تو وطن دوستی کے بجائے ملت پرستی کی طرف مائل ہو گئے اور اِن کے ہاں ہمالہ، جنگل اور کٹیا کی بجائے صحرا، کارواں اور خیمے کی علامتیں ابھرتی چلی آئیں۔

اُردُو نظم کے اِس پس منظر میں میراجی کی نظمیں دھرتی پُوجا کی ایک انوکھی مثال پیش کرتی ہیں، بلکہ یہ کہنا شاید زیادہ صحیح ہو گا کہ اُردو نظم میں میراجی وہ پہلا شاعر ہے،  جس نے محض رسمی طور پر مُلکی رسوم، عقائد اور مظاہر سے وابستگی کا اظہار نہیں کیا اور نہ مغربی تہذیب سے ردِ عمل کے طور پر اپنے وطن کے گُن گائے ہیں،  بلکہ جس کی روح دھرتی ماتا کی روح سے ہم آہنگ اور جس کا سوچنے اور محسوس کرنے کا انداز قدیم مُلکی روایات، تاریخ اور دیومالا سے مملو ہے۔ دوسرے لفظوں میں میراجی نے ایک بھگت، درویش یا جان ہار پجاری کی طرح اپنی دھرتی کی پوجا کی ہے،  محض رسمی طور پر وطن دوستی کی تحریک کا ساتھ نہیں دیا۔ یہی وجہ ہے کہ اُس کی نظموں کی روح، فضا اور مزاج، سرزمینِ وطن کی روح، فضا اور مزاج سے پوری طرح ہم آہنگ ہے اور اِس خاص میدان میں اُسے کسی حریف کا سامنا نہیں۔

میراجی کے اِس انوکھے رُجحان کے بارے میں عام روایت یہ ہے کہ جوانی کے آغاز میں اُس نے ایک بنگالی لڑکی، میراسین کو دیکھا اور اُس کے عشق میں اِس درجہ اسیر ہوا کہ اُس نے نہ صرف اپنی ہیئت تبدیل کر لی،  نہ صرف ثناء اﷲ سے میراجی بن گیا،  بلکہ محبوبہ کی ہر شے،  حتیٰ کہ اُس کی زبان، مذہب اور مذہبی روایات بھی اُسے عزیز ہو گئیں۔ یہ بات اِس حد تک تو درست ہے کہ میراسین سے اُس نے عشق کیا اور اِس عشق میں اپنا نام تبدیل کر لیا، بال بڑھا لیے اور گلے میں مالا ڈال لی، لیکن یہ کہنا کہ ہندو دیو مالا، قدیم روایات اور ملکی مظاہر سے اُس کی وابستگی محض اِس جذبۂ عشق کی رہینِ منت تھی، کچھ ایسا صحیح نہیں۔ اوّل تو یہی سوال قابلِ غور ہے کہ میراجی نے عشق میں مبتلا ہو کر ایسے عجیب و غریب ردِ عمل کا اظہار کیوں کیا کہ محبوبہ کے علاوہ، بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ محبوبہ سے کہیں زیادہ،  اُس کے مذہبی اعتقادات، رسوم اور فضا کو اپنی ذات سے ہم آہنگ کر لیا۔ میری رائے میں میراسین زیادہ سے زیادہ ایک تحریک تھی، جس نے میراجی کے ہاں اُس چنگاری کو ہوا دی تھی،  جو ایک مدت سے اُس کے دل،  روح، بلکہ خون میں سلگ رہی تھی۔ یُنگ کے انکشافات کی روشنی میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ میراجی چوں کہ اِس دھرتی کا باسی تھا اور اُس کا خون، گوشت،  پوست اور مزاج اِس دھرتی کے نمک، ہوا، پانی اور مٹی سے تشکیل ہوا تھا، اِس لیے یہ غیر اغلب نہیں کہ اس کے اجتماعی لاشعور (Collective Unconscious) میں بھی ماضی اور ماضی کی روایات کے وہ سارے نقوش موجود تھے،  جو روشنی میں آنے کے لیے بے تاب تھے۔ میراسین کی ہستی محض اس لاشعوری رُجحان کو جنبش میں لانے کا موجب بنی اور میراجی نے اپنی نظم کے وسیلے سے اِس صدیوں پرانی وابستگی اور پوجا کے رُجحان کو کاغذ پر منتقل کر دیا۔ دوسری بات یہ ہے کہ بچپن کے حالات و واقعات بالعموم باقی زندگی پر اثرانداز ہوتے اور اس کی ایک خاص ڈھب سے تشکیل کرتے ہیں۔ میراجی کا بچپن گجرات کاٹھیاواڑ میں گزرا تھا اور وہ ایک طویل عرصے تک دوارکا کے قریب بھی رہا تھا۔ دوارکا نہ صرف کرشن مہاراج کی جنم بھومی ہے،  بلکہ یہاں کی ساری فضا بھی قدیم آریائی فضا سے مماثل ہے۔ یہاں جنگل تھے،  برسات تھی اور پھر پربت بھی تھے اور اِن میں سے ایک پربت پر کالی کا مندر بھی تھا۔ ظاہر ہے کہ ان تمام باتوں نے میراجی پر گہرے اثرات مرتسم کئے ہوں گے۔ بے شک میراجی نے اپنی نظموں کے مجموعے میں اِس بات کا اظہار بھی کیا ہے :

’’ایک ہی بار مشرقی ہندوستان کی ایک عشرت انگیز مورت (یعنی میراسین) کی طرف توجہ کی اور ہزیمت کا منہ دیکھا …… اور آج ذہنی تلخی کو کم کرنے کے لیے اپنی شکست کے احساس سے رہائی حاصل کرنے کے لیے میرا ذہن ادبی تخلیقات میں مجھے بار بار پرانے ہندوستان کی طرف لے جاتا ہے۔ مجھے کرشن کنھیا اور برندابن کی گوپیوں کی ایک جھلک دکھا کر ویشنو مت کا پجاری بنا دیتا ہے۔ ‘‘(میرا جی کی نظمیں۔ ص: ۱۱ )

لیکن شاید خود شاعر اپنے بعض غیر شعوری رُجحانات کا صحیح ناقد نہیں ہوتا۔ میراجی نے پرانے ہندوستان سے اپنی وابستگی کو میراسین کی عطا سمجھا (اور بیشتر نقادانِ ادب نے میراجی کی اِس بات کو استخراجِ نتیجہ کے لیے بنیاد قرار دے لیا ہے )،  لیکن یہ حقیقت ہے کہ اِس رُجحان کی جڑیں میراجی کی اپنی روح کی گہرائیوں میں بہت دور تک اُتری ہوئی تھیں، ورنہ یہ رُجحان اِس شدت اور نکھار کے ساتھ کبھی ظاہر نہ ہوتا۔ نظموں کے اِسی دیباچے میں خود میراجی کے قلم سے غیر شعوری طور پر ایک ایسی بات بھی نکل گئی ہے،  جو اِس حقیقت کی طرف ایک بلیغ اشارہ ہے،  وہ لکھتا ہے :

’’میرے آباء و  اجداد آریہ نسل کے انسان تھے۔ وہ آریہ جو وسط ایشیا سے چل کر جب جنوب کی طرف روانہ ہوئے تو اُن کا سفر کہیں رُکنے میں نہیں آتا تھا۔ اُنہی کی ذہانت، اُنہی کا حافظہ اور اُنہی کی طبیعت نسل در نسل مجھ تک پہنچی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ میرا ذہنی سفر بھی پنجاب سے جنوب کی طرف رہا ہے۔ ‘‘ (میراجی کی نظمیں۔ ص: ۱۱ )

اِس انکشاف کی روشنی میں یہ کہنا شاید زیادہ صحیح ہو کہ پرانے ہندوستان کی طرف میراجی کا رُجحان ایک بنیادی رُجحان تھا، حتیٰ کہ میراسین سے محبت بھی دراصل اِس رُجحان ہی کا ایک نتیجہ تھا۔ میراسین کے ساتھ عشق کو قدیم ہندوستان کی طرف میراجی کی ذہنی مراجعت کا بنیادی سبب قرار دینے کی اِس غلط روایت کے ساتھ ساتھ ایک یہ خیال بھی نقادانِ ادب کے ہاں بڑا قوی ہے کہ میراجی کی نظم ایک بڑی حد تک فرانس کے شعراء ملارمے اور بودلیئر سے متاثر ہے،  مثلاً یہ بات عام طور سے کہی جاتی ہے کہ میراجی کی نظموں کا ابہام ملارمے کے ابہام سے ایک شدید مماثلت رکھتا ہے۔

میراجی نظم کا ایک زیرک طالبِ علم تھا اور اُس نے مشرق و مغرب کے بہت سے شعرا کا کلام پڑھا تھا اور اُن میں سے بیشتر سے متاثر بھی ہوا تھا۔ ظاہر ہے کہ وہ ملارمے سے بھی متاثر ہوا ہو گا، لیکن میراجی کے ابہام کو ملارمے کے ابہام یا طریقِ کار سے کوئی نسبت نہیں۔ اوّل تو یہی بات قابلِ غور ہے کہ ملارمے کا کلام بے حد پیچیدہ اور گنجلک ہے اور آخر آخر میں تو ناقابلِ فہم ہو گیا ہے، جب کہ میراجی کے ہاں ابہام محض نئی علامتوں کے استعمال کی حد تک ہے ؛ اگر ان علامتوں کو سمجھ لیا جائے اور اُس پس منظر کا بھی احاطہ کر لیا جائے جو، میراجی کا ہے،  تو یہ نظمیں بڑی حد تک واضح ہو جاتی ہیں۔ اِس کے باوجود جہاں کہیں ابہام باقی رہتا ہے،  ابلاغ کا ابہام ہے،  تاثر کا نہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ ملارمے زبان کے قواعد سے بے نیاز تھا اور وہ بالعموم الفاظ کو اِس طرح استعمال کرتا تھا کہ اُن کے معانی تبدیل ہو جاتے تھے، جب کہ میراجی کے ہاں یہ بغاوت اور انحراف موجود نہیں۔ تیسری بات یہ ہے کہ شعر کو اُس کی خالص صورت میں پیش کرنے کی دھُن میں ملارمے نے موضوع سے بے اعتنائی کی روش کو اختیار کیا تھا، جب کہ میرا جی کی نظموں میں بالعموم اور گیتوں میں بالخصوص،  موضوع کے وجود کے ضمن میں کسی قسم کے شک و شبہ کی گنجائش نہیں۔ نظم میں ابہام کا مسئلہ تو خیر  زیرِ نظر مضمون سے کچھ زیادہ متعلق نہیں،  البتہ میراجی کی نظم میں جنسی موضوعات یا اذیّت پرستی کے رُجحانات کے ضمن میں بھی یہ بات محلِ نظر ہے کہ وہ اِس خاص میدان میں بودلیئر سے متاثر تھا۔ بے شک اِن دونوں شعراء کے ہاں جنسی جذبے کی یہ خاص صورت بڑی نمایاں ہے اور غالباً اِسی لئے بعض نقادوں نے میراجی کو بودلیئر کا مقلد قرار دیا ہے،  تاہم دیکھنے کی بات یہ ہے کہ خود بودلیئر کے ہاں جنسی جذبے کی یہ مخصوص صورت کہاں سے آئی؟

جیسا کہ نظم کا ہر طالب علم جانتا ہے کہ خود بودلیئر بیس برس کی عمر میں بنگال آیا(۱) اور ایک سال سے زیادہ عرصے تک یہاں مقیم رہا، پھر یہ مثل بھی بہت عام ہے کہ بنگال میں داخل ہونے کے تو کئی راستے ہیں، لیکن یہاں سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں،  اِس لئے اگر بودلیئر یہاں آ کر ہندوستان کی دیومالائی فضا، بنگال کے سانولے حُسن اور مندروں کی مخصوص خوشبو سے متاثر ہوا تو یہ کوئی غیر اغلب بات نہیں،  چناں چہ کلکتے سے واپسی کے بعد اُس کی نظموں میں سانولی محبوبہ کے بار بار ذکر کی ایک اہم وجہ یہی ہے۔

۱۔  ’’ایک روایت یہ بھی ہے کہ وہ بنگال تک پہنچے بغیر ہی واپس چلا گیا تھا، مگر اِس بات سے انکار مشکل ہے کہ اُس کے دل میں بنگال کے لیے بے پناہ کشش ضرور موجود تھی، ورنہ وہ یہ طویل اور مشکل سفر کیوں اختیار کرتا‘‘۔ وزیر آغا

بودلیئر تو خیر سات سمُندر پار سے ہندوستان میں آیا اور اُس نے یہ اثرات ایک خاص حد تک قبول کئے، لیکن میراجی کی تو یہ جنم بھومی تھی، وہ کس طرح اِن اثرات سے محفوظ رہ سکتا تھا، وہ بودلیئر سے کہیں زیادہ اِس فضا سے قریب تھا، چناں چہ اُس کی نظموں میں جنسی موضوعات کا وجود براہِ راست ہندوستان کی دیومالا اور ویشنو مت کے بعض میلانات سے متعلق ہے۔ بودلیئر کے طریقِ کار اور جنسی رُجحان سے اِس کا کوئی تعلق قائم کرنا قطعاً بعید از قیاس ہے۔

لیکن اِس سے قبل کہ میراجی کی نظموں میں ویشنو مت کے اثرات کا کھوج لگایا جائے، یہ ضروری ہے کہ پہلے ویشنو مت کے بارے میں کچھ باتیں کر لی جائیں۔ جیسا کہ ہر شخص جانتا ہے ہندوستان کے قدیم باشندے آریہ نہیں،  بلکہ کول اور دراوڑ تھے،  جو آریاؤں کی آمد سے پہلے اِس برِ عظیم میں رہتے تھے۔ موہنجوڈرو اور ہڑپہ کی کھدائی سے ہندوستان کے قدیم باشندوں کی تہذیب اور تمدُّن پر خاصی روشنی پڑتی ہے۔ جب آریہ آئے،  تو اُنھوں نے اِن قدیم باشندوں کو جنوب کی طرف دھکیل دیا اور خود شمالی ہندوستان پر قابض ہو گئے،  پھر اِس خیال سے کہ کہیں کالے رنگ کے اِن لوگوں سے اختلاط کے باعث اُن کی نسل دوغلی نہ ہو جائے،  اُنھوں نے اپنے سماج کو چار طبقوں میں تقسیم کیا اور ہندوستان کے اِن اصلی باشندوں کو شودر کا درجہ دے دیا، تاہم آریہ اِن لوگوں پر اپنی تہذیب کو پوری طرح مسلط نہ کر سکے اور یہ بات آریاؤں ہی تک ہی محدود نہیں رہی، بلکہ بعد ازاں بھی جو حملہ آور ہندوستان میں آئے،  اِس کے باشندوں کو فتح کرنے کے بعد خود اُن کی تہذیب کے ہاتھوں شکست کھا گئے۔ بہت عرصے بعد یہی صورت ایرانیوں اور عربوں کے معاملے میں بھی پیش آئی، جب کہ عربوں نے ایران فتح تو کر لیا، لیکن ایرانی تہذیب کے فروغِ بے مثال کے راستے میں کوئی بند نہ باندھ سکے۔ بہرحال یہاں ذکر قدیم ہندوستان کے باسیوں کاہے، جن پر آریاؤں نے جسمانی فتح تو حاصل کی، لیکن جنھیں وہ تہذیب کی جنگ میں شکست نہ دے سکے،  چناں چہ جب ایک طویل عرصے کے بعد آریاؤں کی تہذیب قدیم ہندوستانی تہذیب میں جذب ہونا شروع ہوئی،  تو نہ صرف سنسکرت کے مقابلے میں پراکرتوں کا رواج ہوا (پراکرتیں یہاں کی دیسی بولیاں تھیں اور اِن کا ماخذ سنسکرت زبان نہیں تھی۔ سنسکرت ایک ترقی یافتہ زُبان تھی اور کوئی ترقی یافتہ زبان بولیوں سے مدد تو لیتی ہے،  لیکن اُن میں ڈھل کر ظاہر نہیں ہوتی۔ )، بلکہ مذہبی خیالات کے ضمن میں بھی ہندومت نے ویشنو مت کی صورت میں اپنا اظہار کیا۔ دراصل اُس زمانے میں عوام کو ایک شخصی خدا کی ضرورت تھی اور ویشنو مت نے اِس ضرورت کو پورا کیا۔ پھر عجیب بات یہ ہے کہ ویشنو مت نے سنسکرت کی بجائے پراکرتوں کو ترسیلِ مطلب کے لیے استعمال کیا۔ اِس کے علاوہ ویشنو مت کا آغاز بھی جنوبی ہند سے ہوا اور یہی وہ خطہ تھا، جہاں آریاؤں نے ہندوستان کے قدیم باشندوں کو شمالی ہند سے دھکیل کر پہنچا دیا تھا، چناں چہ یہ بات بڑے وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ ویشنو مت دراصل قدیم ہندوستانیوں کے تہذیبی اُبال کی ایک صورت تھی، جو براہمنوں کی اجارہ داری کے مقابلے میں ذات پات کو ختم کرنے کے رُجحان، آریاؤں کی خاص مذہبی روایات کے مقابلے میں زمین کی زرخیزی سے متعلق دیوتاؤں اور اوتاروں کی تخلیق اور سنسکرت کے مقابلے میں دیس کی اپنی بولیوں کے احیاء میں ڈھل کر نمودار ہوئی اور جسے دیکھتے دیکھتے سارے ہندوستان نے قبول کر لیا، گویا ایک طویل مدت سے اہلِ ہند کو اِس مت کا انتظار تھا۔

ویشنو تحریک دکن سے شروع ہوئی اور اِس کا پہلا علم بردار ارمان تھا۔ یہاں سے یہ تحریک شمالی ہندوستان میں پہنچ گئی۔ نابھاجی نے اپنی تصنیف ’’بھگت جال‘‘ میں رامانند سے لے کر سترھویں صدی تک کے شاعر بھگتوں کے ایک طویل سلسلے کا ذکر کیا ہے،  جو ویشنو مت اور بھگتی تحریک کا پرچار کرتے رہے،  تاہم آخر آخر میں ویشنو مت نے چار اہم صورتیں اختیار کر لیں۔ شمالی ہندوستان میں رامانند، کبیر اور تلسی داس نے وشنو مت کی اِس تحریک کو پروان چڑھایا،  جس کے تحت رام اور سیتا کی پرستش ہوتی تھی۔ یہ بیاہتا محبت کی ایک کہانی تھی اور اسی لیے اِس کے علم بردار شعراء کے کلام میں وہ شدت اور گہرائی موجود نہیں،  جو مثلاً کرشن اور رادھا کی کہانی میں موجود ہے اور جو دراصل معاشقے کی ایک داستان ہے۔ اِس تحریک کے علم برداروں میں سورداس، میرا بائی، ودیاپتی، چنڈی داس، تکارام، نام دیو اور پریم نندا کے نام مشہور ہیں۔ ویشنو مت کی تیسری صورت شِو کی پوجا تھی اور چوتھی صورت شکتی (Sakti) کے روپ میں ظاہر ہوئی،  پھر شکتی کی بھی دو صورتیں تھیں : ایک دُرگا یا اوما، اور یہ شکتی کا مثبت روپ تھا اور دوسری کالی یا تارا، اور یہ شکتی کے منفی روپ کی علامت تھی۔

میرا جی کی نظموں کے مطالعے کے سلسلے میں ویشنو مت کے دو پہلو زیادہ اہم ہیں کہ یہی دو پہلو میراجی کو بہت مرغوب تھے۔ اِن میں سے ایک تو کرشن اور رادھا کی محبت سے متعلق ہے۔ کرشن ایک چرواہا تھا اور رادھا ایک بیاہتا شہزادی تھی اور اُن کی محبت ملن اور سنجوگ سے کہیں زیادہ فراق اور دوری اور مفارقت کی محبت تھی، پھر جہاں ملن کے سمے آتے تھے،  وہاں کہانی کا وہ پہلو زیادہ نمایاں ہوتا تھا، جسے ’’مدھر‘‘ کا نام دیا گیا ہے اور جو دراصل مرد اور عورت کی جنسی محبت کے والہانہ پن اور شدت کو اُجاگر کرتا ہے۔ ’’مدھر‘‘ میں جنسی ملاپ کی پوری عکاسی موجود ہے۔

دوسرا پہلو کالی اور شِو سے متعلق ہے اور اِس کی جنسی علامتوں کے بارے میں کچھ زیادہ کہنے سننے کی گنجائش نہیں۔ کالی اور شو لنگ کی پوجا اِس رُجحان کی بڑی اچھی غمازی کرتی ہے۔ دراصل ویشنو مت میں جنسی پہلو کو نمایاں کرنے کی اِس روش کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ ہندوستان ایک زرخیز خطہ تھا اور یہاں وہی علامتیں رائج ہوسکتی تھیں،  جو زرخیزی اور پیدائش سے متعلق تھیں۔ خود کرشن اور رادھا کے سلسلے میں دیکھئے کہ کرشن کا رنگ نیلا ہے اور یہ نیلا رنگ آسمان کا ہے۔ دوسری طرف رادھا میں مور کا رقص، کونپل کی لچک اور ہرنی کی لپک ہے اور یہ تمام باتیں زمین سے متعلق ہیں، پھر خود رادھا کا رنگ بھی تو زمین کا رنگ ہے،  چناں چہ ہم کہ سکتے ہیں کہ کرشن اور رادھا کا ملاپ دراصل آسمان اور زمین کا ملاپ ہے۔ آسمان سے سورج کی روشنی بھی آتی ہے اور برکھا کی رحمت بھی اور اِن دونوں چیزوں پر ہندوستان کی زراعت کا ہمیشہ سے انحصار رہا ہے،  چناں چہ کرشن اور رادھا،  یا آسمان اور زمین کے اِس ملاپ میں زرخیزی کا پہلو ہی سب سے نمایاں پہلو ہے۔

بہرحال یہ بات طے ہے کہ ویشنو مت کے اِن تصورات میں جنسی پہلو بڑی شدت کے ساتھ اُجاگر ہوا ہے اور میراجی کی نظموں میں جنسی پہلو کو نمایاں کرنے کی دھُن دراصل ویشنو مت کے اِن اثرات ہی کا نتیجہ ہے۔ عورت اور مرد کی محبت میں جنسی تعلقات اور اُن کو سراہنے کی روش میراجی کی نظموں میں عام ہے،  مثلاً میراجی کی نظم ’’حرامی‘‘ دیکھئے،  جس میں شاعر نے ناجائز جنسی تعلقات کے ثمر کو زندگی کا حاصل قرار دیا ہے،  چناں چہ یہاں بھی ویشنو مت کا وہ بنیادی تصور جس کے تحت زرخیزی اور افزائش کو باقی سب باتوں پر فوقیت حاصل ہے،  اُبھر کر نمایاں ہو گیا ہے اور میراجی نے ناجائز محبت کے ضمن میں عام سماجی ردِ عمل کو قطعاً نظر انداز کر دیا ہے :

 

قدرت کے پرانے بھیدوں میں جو بھید چھپائے چھپ نہ سکے

اُس بھید کی تو رکھوالی ہے

اپنے جیون کے سہارے کو اِس جگ میں اپنا کر نہ سکی

یہ کم ہے،  کوئی دن آئے گا، وہ نقش بنانے والی ہے

جو پہلے پھول ہے کیا ری کا

پھر پھلواری ہے،  مالی ہے

غیروں کے بنائے،  بن نہ سکے

اپنوں کے مٹائے،  مٹ نہ سکے

جو بھید چھپائے،  چھپ نہ سکے

اُس بھید کو تو رکھوالی ہے

یہ سکھ ہے،  دکھ کا گیت نہیں

کوئی ہار نہیں، کوئی جیت نہیں

جب گود بھری،  تو مانگ بھری

جیون کی کھیتی ہو گی ہری

’’حرامی‘‘

 

اِس نظم میں گود بھری کے تصور کا، کھیتی کے ہرا ہونے کے تصور سے میرا جی نے جو تعلق قائم کیا ہے، دراصل زمین اور اُس کی زرخیزی کے بنیادی تصور سے ہم آہنگ ہے اور اِس نکتے کو ملحوظ رکھنا بھی ضروری ہے۔ ناجائز محبت کی بازگشت میراجی کی لاتعداد نظموں میں سنائی دیتی ہے۔ اُن کی نظموں کی عورت، یا تو طوائف ہے،  یا ’’دوسری عورت‘‘ ہے اور یہ تعلق بیاہتا محبت کی بجائے ناجائز معاشقے،  بالخصوص کرشن اور رادھا کے معاشقے کا پرتو ہے۔ طوائف کے ہاں جانے کا تصور میراجی کی اُس نظم میں بہت نمایاں ہے،  جو اخلاق کے نام ہے اور جس میں میراجی نے اُس رنگیلے رسیا کا ذکر کیا ہے،  جو ہر شام بن سنور کر نکلتا ہے اور ایک نئے ’’کوٹھے ‘‘ پر جا پہنچتا ہے۔ ’’دوسری عورت‘‘ میں بھی کچھ ایسی ہی کیفیت اُبھری ہے۔ اِس نظم کا ہیرو بھی ایک مسافر ہے،  جو پل بھر کے لیے پیڑ (عورت) کی گھنی چھاؤں میں رکتا ہے اور پھر چل دیتا ہے :

میں تھکا ماندہ مسافر ہوں، چلا جاؤں گا

اک گھڑی راہ میں تم،  مجھ کوبسر کرنے دو

…………………………………………

جانی پہچانی ہر اک بات ہوا کرتی ہے

جانی پہچانی ہر اک بات سے کیا رغبت ہو

پَل کا جادو ہے،  انوکھا جادو

نت نئی باتوں کو لے آتا ہے

ایک پل شرم کا دشمن ہے کہ جیسے کبھی خلوت سے کوئی دوشیزہ

پیرہن سیج پہ رکھ دے،  درِ استادہ سے باہر آئے

اور باہر ہو ہجوم

اپنے حلقوں سے نکلتی ہوئی آنکھوں کا ہجوم

لمحہ بھر کا کیف، ایک پل کا سکھ اور اُس کے بعد مفارقت،  دوری اور دکھ کی گھنگھور گھٹا

یہ ہے میراجی کی محبت کا سب سے نمایاں پہلو اور یہ پہلو اُن کی تقریباً ہر اُس نظم میں ابھرا ہے،  جو محبت سے متعلق ہے،  مثلاً ’’چل چلاؤ‘‘ میں دیکھئے :

طوفان کو چنچل دیکھ ڈری،  آکاش کی گنگا دودھ بھری

اور چاند چھپا،  تارے سوئے،  طوفان مٹا، ہر بات گئی

دل بھول گیا،  پہلی پوجا، من مندر کی مورت ٹوٹی

دن لایا باتیں انجانی، پھر دن بھی نیا اور رات نئی

پیتم بھی نئی، پریمی بھی نیا،  سکھ سیج نئی، ہر بات نئی

……………………………………………………

ہر منظر،  ہر انساں کا دیا اور میٹھا جادو عورت کا

اک پل کو ہمارے بس میں ہے،  پل بیتا سب مٹ جائے گا

میراجی کی اِن نظموں میں سب سے اہم بات یہ نہیں کہ شاعر پَل بھر کے اِس کیف زا لمحے سے مسرت کا رس نچوڑتا ہے،  بلکہ یہ ہے کہ وہ اُس دوری اور مفارقت میں کھو جاتا ہے،  جو اُس لمحے کے فوراً بعد نازل ہوتی ہے اور جو دراصل ملن اور سنجوگ سے کہیں زیادہ دیر پا اور لذت بخش ہے۔ خود میراجی ایک جگہ لکھتا ہے :

ہاں جیت میں نشّہ کوئی نہیں،  نشّہ ہے جیت سے دوری میں

جو راہ رسیلی چلتا ہوں،  اس راہ پہ چلتا جانے دے

چناں چہ میراجی کی نظموں میں ایک تو اذیّت پسندی کا یہ رُجحان بڑا واضح ہے اور ضمناً یہ بات بھی بھولنی نہیں چاہیے کہ خود بھگتی تحریک کا اہم ترین پہلو اذیّت کوشی ہے۔ دوسرے اِس محبت میں دُوری اور مفارقت کا پہلو بہت نمایاں ہے، خود رادھا اور کرشن کی محبت میں لمحہ بھر کے ملاپ کے بعد ایک طویل مفارقت کا وقفہ آتا ہے،  جو ملن کے آنے والے لمحات کی شدّت کودو چند کر دیتا ہے۔ یوں بھی جیسا کہ اوپر ذکر ہوا،  رادھا اور کرشن کا ملاپ زمین اور آسمان کا ملاپ ہے اور زمین اور آسمان اُفق کے قریب لمحہ بھر کے لیے ملتے تو ہیں،  لیکن اُن کی دائمی مفارقت ہی دراصل بنیادی چیز ہے۔ میراجی کی نظموں میں دُوری اور مفارقت کی اِس کیفیت کے چند نمونے دیکھئے :

 

ایک تُو ایک میں،  دور ہی دور ہیں

آج تک دُور ہی دُور ہر بات ہوتی رہی

دور ہی دُور جیون گزر جائے گا اور کچھ بھی نہیں

 

’’دور کنارا‘‘

٭

 

پھر جان لیں گے

ہر سانس کیسے

آنکھیں جھپکتے

اَن مٹ بنا تھا

لیکن محبت

یہ کہہ رہی ہے

ہم دُور ہی دُور

اور دُور ہی دُور

چلتے رہیں گے

 

’’ایک نظم‘‘

٭

 

ہوا کے جھونکے اِدھر جو آئیں،  تو اُن سے کہنا

ہر اِک جگہ دام دُوریوں کا بچھا ہوا ہے

 

’’عدم کا خلا‘‘

٭

 

ترا دل دھڑکتا رہے گا

مرا دل دھڑکتا رہے گا

مگر دُور دُور !

زمیں پر سہانے سمے آ کے جاتے رہیں گے

یونہی دُور دُور !

ستارے چمکتے رہیں گے

یونہی دُور دُور !

ہر اِک شے رہے گی

یونہی دُور دُور !

مگر تیری چاہت کا نغمہ

رہے گا ہمیشہ

مرے دل کے اندر

مرے پاس پاس

 

’’دور و نزدیک‘‘

 

میراجی کی نظموں میں دھرتی پوجا کا دوسرا پہلو اُس خالص ہندوستانی فضا کی عکاسی ہے، جس نے اُس کے باسیوں کے مزاج، طور اطوار اور فلسفۂ حیات پر نمایاں اثرات مرتسم کئے ہیں۔ یہ فضا دراصل جنگل کی فضا ہے اور جنگل وحدت کی بجائے کثرت کی علامت ہے۔ جنگل میں ندیاں ہیں،  نالے ہیں،  جھاڑیاں،  درخت، اُن کی ٹہنیاں اور پتے ہیں اور جیسے جیسے کوئی مسافر جنگل کے اندر بڑھتا جاتا ہے،  ماحول پر اندھیرا چھانے لگتا ہے۔ جنگل کی اِسی کثرت اور تاریکی اور اُجالے کی آویزش نے ہندومت پر اِس طور اثرات مرتسم کئے ہیں کہ وہاں نہ صرف ’’مکتی‘‘ کا تصور تاریکی سے نکل کر روشنی تک پہنچنے کی صورت سے مماثل ہے،  نہ صرف وہاں اِس مکتی کے لیے آرزوؤں کے جنگل کو تیاگنے پر زور دیا گیا ہے،  بلکہ وہاں ایک ذات کی بجائے لاتعداد دیوتاؤں، دیویوں،  اوتاروں اور رِشیوں کی پوجا کا تصور اُبھرا ہے۔ برعکس اِس کے عرب کے ریگستان میں جہاں زمین چٹیل اور آسمان لامحدود ہے،  خدا کی وحدانیت کا پاکیزہ تصور وجود میں آیا ہے۔ دوسرے جنگل کی یہی کثرت مندر کی دیواروں پر نقش و نگار کی صورت میں نمایاں ہیں،  جب کہ صحرا کی عبادت گاہوں میں نسبتاً سادگی اور کھلی کھلی کیفیت ہے۔ مندر ایک لحاظ سے جنگل کی علامت ہے اور جیسے جیسے اس کے اندر جائیں،  تاریکی بڑھتی چلی جاتی ہے،  تا آں کہ اِس کے آخری حجلے میں وہ بت نظر آتا ہے،  جس کی پوجا ہوتی ہے۔ ہندو فلسفہ میں یہی صورت اِس طور اُبھری ہے کہ جسم اور رُوح کے ہزار غلافوں کے اندر ’’آتما‘‘ ہے،  جس تک پہنچنا ’’پُرش‘‘ کا سب سے بڑا کام ہے اور جہاں پہنچ کر اُسے ’’روشنی‘‘ حاصل ہو جاتی ہے۔

میراجی کی نظموں میں جنگل کی یہ فضا اپنی ساری متنوع کیفیتوں کے ساتھ بڑے بھرپور انداز میں نمایاں ہوئی ہے،  بلکہ یہ کہنا شاید زیادہ موزُوں ہو گا کہ جنگل کی طرف میراجی کی مراجعت دراصل قدیم ہندوستان کی مخصوص فضا کی طرف مراجعت ہے،  اِسی لیے میراجی کے ہاں بار بار تاریکی میں سمٹنے کا رُجحان ملتا ہے،  جو نہ صرف جنگل کی تاریکی میں ضم ہونے کا رُجحان ہے،  بلکہ جو ماضی کی تاریکی میں کھو جانے کی آرزو پر بھی دلالت کرتا ہے، پھر خلوت، تنہائی اور روزن میں گھس جانے کی آرزو بھی دراصل اِسی جنگل کی خلوت، تنہائی اور مندر یا غار کی پہنائیوں میں گم ہو جانے کی آرزو ہے۔ میراجی کی نظموں میں جنگل کی یہ فضا اپنی تمام متنوع کیفیات کے ساتھ اِس طور قائم ہے کہ اِس کے ثبوت میں میراجی کی قریب قریب ہر نظم کو پیش کیا جا سکتا ہے،  تاہم یہ چند ٹکڑے اِس نکتے کی وضاحت کے لیے کافی ہیں :

 

کچھ چاند کی پریاں مندر میں کل رات بلائی جائیں گی

ساری دیواریں پھولوں اور کلیوں سے سجائی جائیں گی

کچھ کومل نرم ہرے پتوں کے فرش بچھائے جائیں گے

اور ہلکے ہلکے میٹھے رسیلے ساز بجائے جائیں گے

پھر دھیرے دھیرے اُڑتی بہتی چاند کی پریاں آئیں گی

اور مندر کی سب دیواریں جنگل کے گیت سنائیں گی

’’جنگل میں ویران مندر ‘‘

 

سیمابی اور عنّابی چیتے ہیں اندھیری راتوں کے

جیسے منتر ہوں جنگل کے،  جادو گر کی باتوں کے

یا ساون میں کالی گھٹاؤں کی تیکھی برساتوں کے

’’برہا‘‘

 

دھرتی پر پربت کے دھبے،  دھرتی پر دریا کا جال

گہری جھیلیں،  چھوٹے ٹیلے،  ندی نالے،  بادل تال

کالے ڈرانے والے جنگل، صاف چمکتے سے میدان

لیکن من کا بالک اُلٹا ہٹ کرتا جائے ہر آن

انوکھا لاڈلا، کھیلن کو مانگے چندر مان

’’کٹھور‘‘

 

میں تو اِک دھیان کی کروٹ لے کر

عشق کے طائرِ آوارہ کا بہروپ بھروں گا پل میں

اور چلا جاؤں گا اس جنگل میں

’’شام کوراستے پر‘‘

 

اُس زمانے میں کہ جنگل تھا یہ باغ

گلّے بانوں نے ستاروں سے لگایا تھا سراغ

بھولے رستوں کا، جو بے دھیانی میں کھو جاتے ہیں

’’تفاوتِ راہ‘‘

 

فضا میں سکوں ہے

المناک، گہرا، گھنا، ایک اِک شے کو گھیرے ہوئے،  ایک اِک

شے کو افسردگی سے مسل کر مٹاتا ہوا

بے محل، نور سے دُور

پھیلی فضا میں سکوں ہے

اجالے کی ہر اِک کرن جیسے ٹھٹکی ہوئی ہے

اندھیرے سے بڑھ کر اندھیرا ہے

’’تنہائی‘‘

 

قدیم ہندوستان کی عام فضا، بالخصوص جنگل کی طرف میراجی کا جھکاؤ بعض اور علامتوں سے بھی واضح ہوتا ہے مثلاً، میراجی کے ہاں پنچھی اور پیرہن کے الفاظ اُبھرے ہیں،  جو براہِ راست جنگل کی فضا سے متعلق ہیں۔ پنچھی کا وجود نہ صرف اِس بات پر دلالت کرتا ہے کہ میراجی نے جنگل کی زندگی سے گہرے اثرات قبول کیے ہیں، بلکہ پنچھی کی آوارہ خرامی، اُڑان اور ایک منزل سے دوسری منزل تک بڑھے چلے جانے کی روش اُس درویشی اور آوارگی کے رُجحان سے بھی مماثل ہے،  جو ہندوستان میں سادھوؤں،  درویشوں اور فقیروں کی مستقل آوارگی کی صورت میں ہمیشہ سے موجود رہا ہے۔ خود میراجی کی زندگی بھی اِس آوارگی کی دلیل ہے اور بقولِ شاعر، خود اُس کا ذہنی اور مادی سفر بھی ہمیشہ شمال سے جنوب کی طرف رہا ہے۔ میراجی کی شاعری میں یہی رُجحان پنچھی کی علامت بن کر نمودار ہوا ہے۔

اِسی طرح ’’پیرہن‘‘ کا لفظ بھی میرا جی کے ہاں بار بار استعمال ہوا ہے اور خود میراجی نے انسانی پیرہن کو درختوں کے اُس پیرہن کی صورت قرار دیا ہے،  جو پتوں کی صورت میں اُنھیں حاصل ہوا ہے،  پھر سال میں ایک بار یہ درخت اپنے پتوں کو گرا دیتے ہیں اور زرد پتوں کے گرنے اور درختوں کے ننگا ہو جانے کی اِس صورت نے میراجی کی نظموں پر گہرے اثرات مرتسم کئے ہیں اور اُس کے ہاں بار بار پھسلتے ملبوس کے تصور کو اُبھارا ہے۔ میراجی کی نظموں میں ایک اور علامت بھی اُبھری ہے۔ یہ علامت بھی دراصل جنگل اور برسات سے متعلق ہے اور اِس کے شواہد بھی برسات کے قطروں اور اوس کی بوندوں کی صورت ہی سے متعلق ہیں۔ یہ چند مثالیں اِن رُجحانات کو ظاہر کرتی ہیں۔ سب سے پہلے کچھ پیرہن یا ملبوس کے بارے میں :

 

پہلے پھیلی ہوئی دھرتی پہ کوئی چیز نہ تھی

صرف دو پیڑ کھڑے تھے چپ چاپ

اُن کی شاخوں پہ کوئی پتے نہ تھے

اُن کو معلوم نہ تھا،  کیا ہے خزاں،  کیا ہے بہار

پیڑ نے پیڑ کو جب دیکھا،  تو پتے پھوٹے

وہی پتے،  وہی بڑھتے ہوئے ہاتھوں کے نشاں

شرم سے بڑھتے ہوئے،  گوہرِ تاباں کو چھپاتے ہوئے، سہلاتے ہوئے

وقت بہتا گیا،  جنت کا تصور بھی لڑھکتے ہوئے پتھر کی طرح

دُور ہوتا گیا، دھندلاتا گیا

پتے بڑھتے ہی گئے،  بڑھتے گئے

نت نئی شکل بدلتے ہوئے کروٹ لیتے

آج ملبوس کی صورت میں نظر آتے ہیں

’’برقع‘‘

 

کوئی پیڑ کی نرم ٹہنی کو دیکھے

لچکتی ہوئی نرم ٹہنی کو دیکھے

مگر بوجھ پتوں کا اُترے ہوئے پیرہن کی طرح سیج کے ساتھ ہی

فرش پر ایک مسلا ہوا

ڈھیر بن کر پڑا ہے

’’اس کی انوکھی لہریں ‘‘

 

اور اب کچھ آنسو کے بارے میں :

 

بہتے آنسو کو کوئی روک نہیں سکتا ہے

بند آنکھوں کے پپوٹوں سے وہ رستے ہوئے،  پلکوں کو بھگوتے ہوئے

رخسار کی ڈھلوان پہ آ جاتے ہیں

’’مجاور‘‘

 

کبھی کسی نے دیکھا ہے کہ برشگال میں

ہر ایک قطرہ ابر سے ٹپکتا ہے

ردائے آب اس کو اپنے سینے میں سموتی ہے

مگر یہ کوئی سوچتا نہیں کہ لوگ جلترنگ کس طرح بجاتے ہیں

ٹپکتے آنسوؤں کو کوئی دیکھتا نہیں ہے۔ ایک ایک کر کے گرتے ہیں !

’’آدرش‘‘

 

اسی طرح ’’آوارہ پنچھی‘‘ کے ضمن میں :

 

آپ ہی آپ میں رستی ہوئی بوندوں کی طرح

سوچتے سوچتے رُک جاتا تھا

آپ ہی آپ اُبلتی ہوئی چشمِ نمناک

یاد کے دامنِ بوسیدہ سے

خشک ہونے کے لیے پل کو لپٹ جاتی تھی

آپ ہی آپ میں اُڑتے ہوئے طائر کی طرح

بہتے بہتے کسی ٹہنی پہ بسیرا لے کر

جھولتی ٹہنی سے لپٹی ہوئی،  پھیلی ہوئی، بے جان زمیں کے اوپر

اپنی ہستی کو گرا دیتا تھا

’’رُخصت‘‘

 

میری آنکھوں میں ہیں بازو اپنے

جیسے اک پیڑ کے ٹہنے ہوں کہیں پھیلے ہوئے

جن پہ طائر کا نشیمن کبھی بنتا ہی نہ ہو

سوکھتے جاتے ہوں،  ٹہنے غمِ محرومی سے !

’’ہندی نوجوان‘‘

 

میراجی کے ہاں دھرتی پوجا کے اِس رُجحان کے مظاہر اگر محض علامتوں تک محدود ہوں،  تو اعتراض کی گنجائش باقی رہ جاتی ہے،  کیوں کہ اِن علامتوں کی توضیح و تشریح کے سلسلے میں ضروری نہیں کہ لوگ مختلف الخیال نہ ہوں،  لیکن علامتوں کی تشریح کے سلسلے میں بہرحال شاعر کے ذہنی پس منظر اور عام زندگی میں اُس کے رُجحانات کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے،  کیوں کہ صرف اِسی طرح ہم سچائی کی تلاش میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔ عام زندگی میں میراجی نے جس طرح ایک خاص کلچر سے لگاؤ اور وابستگی کا مظاہرہ کیا،  اُس کے بارے میں اب مزید تحقیق و تفتیش کی گنجائش نہیں، لیکن اُس کے ذہنی پس منظر کے ضمن میں بھی اِس رُجحان کے وجود کی نفی ناممکن ہے۔ نہ صرف یہ کہ اپنے بہت سے مضامین میں اُس نے ویشنو مت اور ہندو فلسفے سے اپنا تعلقِ خاطر بیان کیا ہے،  بلکہ اُس کے اُن مضامین سے بھی،  جو اُس نے امارو، چنڈی داس اور ودیاپتی کے بارے میں لکھے ہیں،  اِس وابستگی اور لگاؤ پر خاصی روشنی پڑتی ہے۔

میراجی کی کتاب ’’مشرق و مغرب کے نغمے ‘‘میں یوں تو مشرق اور مغرب کے بہت سے عظیم شعرا کے نہایت نفیس مطالعے موجود ہیں،  تاہم قدیم ہندوستان کے شاعر امرد اور کرشن رادھا کے پجاری شعرا چنڈی داس اور ودیاپتی کے گیتوں کا تذکرہ کرتے وقت میراجی کے دل کی دھڑکن بڑی واضح ہو گئی ہے اور اُس نے یہ مضامین اِس قدر ڈوب کر لکھے ہیں کہ دوسرے مضامین سے بالکل علیحدہ نظر آتے ہیں۔ ذہنی پس منظر کی آخری صورت وہ بہت سی تلمیحات اور اشارے ہیں، جو ہندو مذہب کی قدیم اساطیر اور دیو مالا، بُدھ مت اور خاص طور پر وشنو مت کے بارے میں ہیں اور جنھیں میراجی نے اپنی نظموں میں بڑی فراخ دلی سے استعمال کیا ہے،  اِن نظموں میں نہ صرف مندِر، پجاری، راجہ، رانی،  پروہت، آرتی، جمنا تٹ، گیانی، سنکھ، دیوداسی اور رقص اور راگ کی خاص صورتوں کی طرف واضح اشارے ہیں،  جو اِس بات پر دال ہیں کہ میراجی کے ذہنی پس منظر میں ایک خاص کلچر کے نقوش بڑے نمایاں ہیں،  بلکہ کرشن اور رادھا، برندابن، اجنتا اور پانڈونگ، یشودھا، کپل وستو اور دریودھن وغیرہ کے ذکر سے بھی میراجی کے اِس ذہنی پس منظر کے نقوش واضح ہو جاتے ہیں۔ یہ چند مثالیں دیکھئے :

 

اور بادل کے گھونگھٹ کی اوٹ سے ہی تکتے تکتے چنچل چندا کا روپ بڑھا

یہ چندا کرشن

ستارے ہیں جھرمٹ برندا کی سکھیوں کا

اور زہرہ نیلے منڈل کی رادھا بن کر کیوں آئی ہے

’’سنجوگ‘‘

 

اُس کو ہاتھ لگایا ہو گا ہاتھ لگانے والے نے

پھول ہے رادھا، بھنورا،  بھنورا،  بھنورے نے ہاں کالے نے

جمنا تٹ پر ناؤ چلائی ناؤ چلانے والے نے

دھوکا کھایا، دھوکا کھایا، دھوکا کھانے والے نے

’’ترقی پسند ادیب‘‘

 

جھومی گیسو کی چھایا تو دھیان انوکھا آیا

نٹ کھٹ برندا بن سے ساتھ میں رادھا کو بھی لایا

رادھا مکھ کی اُجلی صورت، شیام گیسو کا سایا

’’ایک منظر‘‘

 

پھر وہی دور پلٹ آیا ہے،  اب راج کمار

رشکِ فردوس محل کی زینت

یعنی شہزادی یشودھا کو لیے آتا ہے

’’اجنتا‘‘

 

جب بھی دیکھا ایک ہی الجھن نئے روپ میں آئی

کنبھ کرن کی نیند سے صدیوں کا سویا دریودھن جاگا

سب سکھ بھاگا

پورب پچھم ہا ہا کار مچائی

راجا ڈوبے،  پرجا ڈوبی،  بولی رام دہائی

’’ایک ہی کہانی‘‘

 

میراجی کی نظموں اور گیتوں کی ایک مخصوص فضا، ہندو دیو مالا اورفلسفے سے میراجی کی جذباتی ہم آہنگی نیز کرشن رادھا کے پجاری شاعروں سے اُس کا تعلقِ خاطر یہ سب باتیں اِس چیز پر دلالت کرتی ہیں کہ میراجی نے دھرتی پوجا کی ایک اہم مثال قائم کی ہے اور لطف کی بات یہ ہے کہ اِس خاص میدان میں (جہاں تک اُردو نظم کا تعلق ہے ) میراجی کی حیثیت منفرد اور یکتا ہے۔ اُردو نظم گو شعرا میں سے شاید ہی کسی نے اپنے موضوع سے اِس قسم کی جذباتی وابستگی،  شغف اور سرزمینِ وطن سے ایسے گہرے لگاؤ کا ثبوت بہم پہنچایا ہو، جیسا کہ میراجی کے ہاں نظر آتا ہے۔

دوسرے لفظوں میں،  میراجی کی شاعری نے اُس کی اپنی جنم بھومی سے خون حاصل کیا ہے اور اِسی لیے اُس میں وطن کی خوشبو، حرارت اور رنگ بہت نمایاں ہے۔ میراجی کی عظمت ایک بہت بڑی حد تک اُس کے اِسی رُجحان کے باعث ہے۔ پھر دیکھنے کی بات یہ ہے کہ میراجی کے بعد آنے والے بہت سے نظم گو شعرا نے میراجی سے بڑے واضح اثرات قبول کئے ہیں اور اُس کی علامتوں،  اشاروں،  سوچنے کے خاص انداز اور بیان کے مخصوص پیرائے کو پیشِ نظر رکھا ہے۔ چناں چہ اُردو نظم کا وہ طالب علم، جس نے میراجی کی نظموں کا مطالعہ کیا ہے،  بڑی آسانی سے جدید نظم گو شعرا کے ہاں میراجی کے اثرات کی نشان دہی کر سکتا ہے، لیکن خود میراجی کے سامنے اُردو نظم کے میدان میں ایسی کوئی مثال نہیں تھی، جس کو سامنے رکھ کر وہ نظم کے اِس خاص انداز کو رواج دینے کی کوشش کرتا، چناں چہ یہ بات بڑے وثوق کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ اُردو نظم میں میراجی کا یہ رُجحان ایک بالکل نیا رُجحان تھا اور میراجی جب اِس خاص رُجحان کے تحت اُردُو نظم کو ایک نئے مزاج،  ایک نئے ذائقے سے آشنا کر رہا تھا،  تو دراصل ایک ایسا نیا بند باندھ رہا تھا، جس کو نظم کے دھارے کا رُخ ہی موڑ دینا تھا۔

٭٭

ماخذ:

۱۔   ’’نظمِ جدید کی کروٹیں ‘‘، ڈاکٹر وزیر آغا، لاہور، ادبی دنیا، س۔ ن۔ ص: ۷۵ تا ۹۹

۲۔   ’’ڈاکٹر وزیر آغا کے تنقیدی مضامین‘‘، مرتب: سجاد نقوی، لاہور، اُردو بازار مکتبہ عالیہ،  اشاعت اوّل: ۱۹۹۵ء،  ص: ۱۲۷ تا ۱۴۸

٭٭٭

 

 

 

 

میرا جی اور ’’اُردُو شاعری کا مزاج‘‘

 

 

[’’اُردو شاعری کا مزاج‘‘ ڈاکٹر وزیر آغا کے تنقیدی سرمائے کے ساتھ ساتھ اُردو ادب میں بھی گرّاں قدر اضافہ ہے۔ بلاشبہ یہ کتاب ادب کے طالب علموں کے لیے بنیادی اور لازمی مطالعے کی حیثیت رکھتی ہے،  جس میں گیت،  غزل اور نظم کا ارتقائی سفر اِن کے مزاج کے اعتبار سے زیرِ بحث لاتے ہوئے نہایت عمدگی سے واضح کیا گیا ہے ……ذیل میں دیا گیا اقتباس،  اِسی کتاب سے منتخب کیا گیا ہے،  جس میں ڈاکٹر وزیر آغا نے آزاد نظم کے ابتدائی مباحث کے پیشِ نظر میراجی پر سیر حاصل گفتگو کی ہے۔ یہ بحث میراجی اور آزاد نظم دونوں کی تفہیم میں بے حد معاون ہے۔ ]

 

اقبال کے بعد اُردُو نظم کی دو سطحیں وجود میں آئی ہیں : پہلی سطح اقبال کے لہجے اور جہت سے متاثر ہے،  دوسری سطح داخلیت کے اُس رُجحان کی نشان دہی کرتی ہے،  جس نے اقبال کے دکھائے ہوئے راستے کو ترک کر کے اپنے لئے ایک نئی راہ تراشی ہے۔ پہلی سطح کی ایک سے زیادہ تہیں ہیں، مثلاً اِس کی ایک تہ ترقی پسند نقطۂ نظر کی غماز ہے۔ یہاں لہجے کی بلند آہنگی تو واضح طور پر اقبال سے مستعار ہے اور جہت بھی وہی ہے،  یعنی خارج کے موضوعات کی طرف پیش قدمی! تاہم منزل کا تصور اقبال سے مختلف ہے۔ نظم نگاری کی یہ رَو فیض،  ندیم، مجاز، سردارجعفری، احسان دانش اور اِن کے معاصرین سے لے کر ظہیر کاشمیری، عارف عبدالمتین، جمیل ملک، فارغ بخاری، احمد فراز، مخدوم محی الدین، ظہور نظر، قتیل شفائی، حمایت علی شاعر اور دوسرے شعراء تک پھیلتی چلی گئی ہے۔ اِن میں سے بعض شعرا نے تو خود کو بڑی سختی سے اپنے مسلک کے ساتھ وابستہ رکھا ہے اور بعض نے ایک داخلی دباؤ کے تحت قید و بند کی حالت کو پسند نہیں کیا اور آگے چل کر اپنی جہت کو بدلا ہے۔

اِس سطح کی دوسری تہ وہ ہے،  جس کے تحت جوش، حفیظ اور اِن کے بعد جگن ناتھ آزاد، مصطفے ٰ زیدی، جعفر طاہر، شور علیگ، عبدالعزیز خالد،  رفیق خاور اور بعض دوسرے شعرا نے نظمیں لکھی ہیں۔ اِن کے ہاں لہجے کی بلند آہنگی اور لفظوں کا شکوہ اور کرّ و فر موجود ہے اور اِن کے موضوعات بھی زیادہ تر خارجی ہیں،  تاہم اِن کے ہاں ترقی پسند شعرا کی طرح کسی خاص منزل کا تصور نہیں اُبھرا۔ اُنھوں نے انقلاب کے گُن بھی گائے ہیں،  حُبُّ الوطنی کے تحت بھی نظمیں لکھی ہیں، اَسلاف کے کارناموں کو بھی سراہا ہے اور تاریخِ ثقافت اور اساطیر سے بھی اپنے لیے موضوعات تلاش کئے ہیں۔ اِن میں مشترکہ صفت لہجے کی گونج اور خارجی موضوعات کو نظم کرنے کا رُجحان ہے۔

اِس سطح کی تیسری تہ،  اُن طنزیہ اور مزاحیہ نظموں پر مشتمل ہے،  جن کے ساتھ راجہ مہدی علی خان، نذیر شیخ، سید محمد جعفری، مجید لاہوری، شاد عارفی، مخمور جالندھری اور ضمیر جعفری کے نام وابستہ ہیں۔ طنز ایک بلند ٹیلے پر سے ماحول کو دیکھنے کا زاویہ ہے اور طنز نگار انکشافِ ذات کے بجائے خارجی زندگی کی ناہمواریوں کو نظر کے سامنے لاتا ہے۔ دیکھنے کا یہ زاویہ ایک حد تک اقبال کے طریقِ کار کے مماثل ہے کہ اقبال نے بھی ایک بلند جگہ سے خارجی زندگی کو نظر کی گرفت میں لیا ہے اور اُس کے ہاں بھی جگہ جگہ مغربی تہذیب کو ہدفِ طنز بنانے کا رُجحان اُبھرا ہے،  مگر اِسے کُلیتاً اقبال کی عطا قرار دینا مناسب نہیں اور یہ اِس لیے کہ اِس کے ڈانڈے اقبال سے قبل اکبر الہ آبادی اور اودھ پنچ کے معاونین سے ملے ہوئے ہیں۔

دوسری سطح داخلیت کا وہ رُجحان ہے،  جس کا سب سے بڑا علم بردار میراجی تھا۔ واضح رہے کہ یہ دونوں سطحیں باطن اور خارج کے ربطِ باہم ہی کو اُجاگر کرتی ہیں،  فرق صرف جہت کا ہے۔ پہلی سطح باطن کی دنیا کو خارج کی اشیا یا موضوعات سے منسلک کرنے کی ایک کاوش ہے،  اِس طور کہ خارج کا تسلط صاف محسوس ہوتا ہے۔ دوسری سطح خارج کی دنیا کو باطن سے منسلک کرتی ہے،  اِس طور کہ داخلی دنیا غالب نظر آتی ہے۔ نظم کی اصل جہت باہر سے اندر کی طرف ہے اوریوں نظم اپنے سفر کے دوران میں خارجی زندگی سے تجربات حاصل کر کے باطن کی آگ میں اُنھیں صیقل کرتی ہے۔ اگر نظم کسی آدرش، نقطۂ نظر یا کسی خارجی شے کو اپنی منزل بنا کر باہر کو لپکے،  تو اِس میں مقصد کی وہ گونج اور لہجے کی وہ بلند بانگ کیفیت جنم لے گی، جو نظم کے اصل مزاج کے منافی ہے۔ جہت کا یہ فرق موضوع پر بھی اپنے اثرات مرتسم کرتا ہے۔ باہر کی طرف بڑھنے میں اُمید، رجائیت، تحرک اور گونج کی صفات پیدا ہوتی ہیں،  جب کہ اندر کی طرف آنے میں مدافعتی انداز، یاس، کسک، خوف، دبے پاؤں چلنے کا انداز اور لہجے کی لطافت اور لوچ جنم لیتا ہے۔ باہر کو بڑھنے والا، سماجی نظام اور اُس کے مستقبل سے اپنا رشتہ اُستوار کرتا ہے،  لیکن اندر کو آنے والا ذات اور نسل، جبلت اور ثقافتی بنیادوں سے منسلک ہو کر گویا انسان کے ماضی کی طرف لوٹتا ہے۔

نظم کے تدریجی ارتقاء کو ملحوظ رکھیں،  تو اِس میں ایک قوس کا سا انداز نظر آئے گا، یعنی اِس کا ابتدائی حصہ تحرک، گونج اور ایک حد تک شعوری یلغار کی غمازی کرے گا اور دوسرا (اور اصل حصہ) بے بسی، کسک، مدافعت اور دھیمی لے کا۔ خود اُردُو نظم میں میراجی کی داخلیت پسندی قوس کے اُس مقام کی نشان دہی کرتی ہے،  جہاں سے اُس نے مُڑ کر اندر کی طرف بڑھنے کا آغاز کیا ہے۔

اُردُو نظم میں داخلیت کی اِس رَو نے تا حال دو واضح لہروں کی صورت اختیار کی ہے اور تیسری لہر بڑی تیزی سے سطح پر آ رہی ہے۔ پہلی لہر میراجی اور اُس کے معاصرین یعنی ن م راشد اور تصدق حسین خالد وغیرہ کی نظموں پر مشتمل ہے۔ دوسری مجید امجد، قیوم نظر، یوسُف ظفر، اختر الایمان، مختار صدیقی، ضیاء جالندھری، محمد صفدر، عارف عبدالمتین، ظہور نظر، بلراج کومل، منیر نیازی، خلیل الرحمن اعظمی، قاضی سلیم، محمد علوی وغیرہ کی نظموں سے عبارت ہے اور آخری لہر ابھی طوفان اور تخریب کے مراحل سے گزر رہی ہے،  جیسے ہی اِس لہر میں اعتدال اور سکون پیدا ہوا، تو دیکھنے والے دیکھ سکیں گے کہ اِس نے ساحل پر کوئی موتی بھی پھینکا، یا محض خس و خاشاک کے ڈھیر لگا دیے۔

میراجی اُردُو نظم میں داخلیت کا ایک اہم علم بردار ہے،  لیکن اِس ضمن میں تصدق حسین خالد اور ن م راشد کی عطا کو نظرانداز کرنا بھی ممکن نہیں۔ میراجی کی طرح اِن دونوں شعراء نے بھی نظمِ آزاد اور مُعرّا کو بڑی اہمیت دی ہے،  بلکہ بعض لوگوں کاتو یہ خیال ہے کہ جدید دور میں آزاد نظم کو رائج کرنے والا تصدق حسین خالد تھا، میراجی اور ن م راشد اِس کے بعد میدان میں آئے۔

موجود ہ بحث کے لیے پہلے اور بعد کا یہ مسئلہ کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ دیکھنا صرف یہ ہے کہ اِن میں داخلیت کے رُجحان کو کس نے کس حد تک اپنایا۔ خالد اور راشد دونوں کے ہاں فرد کی کلبلاہٹ موجود ہے،  جو گویا انفرادیت کی نمو پر دال ہے۔ خالد کی نظمیں،  ’’ایک کتبہ‘‘ اور ’’حسنِ قبول‘‘، کتبے اور پیڑ کو علامتی رنگ تفویض کر کے فرد کی بے اطمینانی اور ناآسودگی ہی کو پیش کرتی ہیں۔

راشد کے ہاں بے اطمینانی کی لہر نسبتاً زیادہ شدید ہے،  یہ بے اطمینانی خارجی سطح پر بھی موجود ہے اور داخلی سطح پر بھی۔ خارجی سطح پر تو وہ اجنبی حکومت سے برسرِپیکار ہے اور داخلی سطح پر مروّجہ نظریات سے۔ اِسی طرح فن کی سطح پر وہ روایتی اُسلوب اور گھسی پٹی تراکیب کے خلاف ہے اور اپنے اظہار کے لیے نئے نئے سانچوں کی تخلیق پر مائل! رومانی اندازِ نظر کا سارا ہیجان، تخلیقی اُبال، تندی اور برہمی راشد کے ہاں موجود ہے۔ اُس نے فراز سے ماحول کا نظارہ نہیں کیا، بلکہ ہموار زمین پر کھڑے ہو کر اِس سے متصادم ہوا ہے،  اِسی لیے اُس نے حُبُ الوطنی کے تحت ایک بلند آدرش کا پراپوگنڈہ کرنے کے بجائے اجنبی حکمرانوں سے انتقام لینے کی کوشش کی ہے،  عشق کی روائی عمومیت میں مبتلا ہونے کے بجائے ایک گوشت پوست کی عورت سے اپنے قرب کا احساس دلایا ہے اور مروّجہ طریقِ فکر کو تسلیم کرنے کے بجائے ذہن کو بغاوت پر اُکسایا ہے۔

اُردو نظم کو نقطۂ نظر کے انجماد اور رُومان کی بوجھل فضا سے باہر نکالنے میں راشد کے اقدام کو بطورِ خاص اہمیت حاصل ہے کہ یوں راشد نے فرد کو اپنی ذات کے اظہار کی طرف مائل کر کے نظم کی داخلیت پسندی کے رُجحان کو تحریک دی ہے،  لیکن راشد کے ہاں برہمی اور تخریب کا انداز شعور کی سطح سے نیچے نہیں جا سکا۔ اُس کے ہاں فرد یکایک جاگ تو اُٹھا ہے،  لیکن یوں محسوس ہوتا ہے، جیسے وہ کچی نیند سے بیدار ہو گیا ہو اور اب برہم سا ہو کر ہر شے کو توڑنے پھوڑنے پر تُل گیا ہو، یہ نہیں ہوا کہ بیدار ہونے پر اُس فرد نے اپنی ذات کی سیاحت کا آغاز بھی کر دیا ہو، اگر ایسا ہوتا،  تو راشد کے ہاں نہ صرف لہجے کی گونج کم ہو جاتی، بلکہ وہ خارجی مسائل کی بہ نسبت داخلی واردات کو زیادہ اہمیت دینے لگتا۔ اب صورت یہ ہے کہ خارجی زندگی کے جن پہلوؤں کے خلاف راشد نے جہاد کیا،  وہ زمانے کی ایک ہی کروٹ سے مٹ چکے ہیں اور یوں اب راشد کے جہاد کی عمومی اپیل بھی از خود ختم ہو گئی ہے۔ با ایں ہمہ راشد کی یہ عطا کچھ کم نہیں کہ اُس کے ہاں سماج اور ماحول سے سمجھوتہ کرنے اور ایک پُرزے کی طرح مشین میں کام کئے جانے کا رُجحان نہیں اُبھرا، بلکہ اُس کے کلام میں تو ایک بسورتے،  کراہتے اور تڑپتے ہوئے فرد کے وجود کا احساس ہوتا ہے (نظمِ جدید کی کروٹیں۔ از: مصنف۔ ص:۷۴)۔ یہ چند مثالیں قابلِ غور ہیں :

 

ایک لمحے کے لیے دل میں خیال آتا ہے

تُو مری جان نہیں

بلکہ ساحل کے کسی شہر کی دوشیزہ ہے

اور ترے ملک کے دشمن کے سپاہی ہوں میں

 

بے کراں رات کے سنّاٹے میں

میرا عزمِ آخری ہے یہ کہ میں

کود جاؤں ساتویں منزل سے آج

آج میں نے پا لیا ہے زندگی کو بے نقاب

خود کشی

 

نہیں اِس دریچے کے باہر تو دیکھو

خدا کا جنازہ لیے جا رہے ہیں فرشتے

پہلی کرن

 

بس ایک ہی عنکبوت کا جال ہے کہ جس میں

ہم ایشیائی اسیر ہو کر تڑپ رہے ہیں

ایران میں اجنبی

 

تصدق حسین خالد اور ن م راشد نے اظہارِ ذات کے لیے زمین ہموار کی تھی، لیکن میراجی نے اِس اظہار کی تکمیل کی۔ میراجی کی نظم ترقی پسند نقطۂ نظر کی بھی ضد ہے۔ ترقی پسند نظم میں تحرک اور تجزیاتی میلان موجود ہے،  لیکن آدرش اور نقطۂ نظر کی چندھیا دینے والی روشنی ہر شے پر مسلط ہے۔ جہاں کہیں اِس نظم نے باطن سے اپنا تعلق ٹوٹنے نہیں دیا، اِس کی فنی اہمیت برقرار رہی ہے،  لیکن جہاں یہ باطن سے کٹ کر کسی خاص منزل کی طرف ارادی طور پر بڑھی ہے،  اِس کی ادبی حیثیت کو سخت نقصان پہنچا ہے۔

بحیثیتِ مجموعی،  ترقی پسند نظم قوس کے پہلے نصف کی نشان دہی کرتی ہے۔ میراجی کی نظم اُس مقام سے شروع ہوتی ہے، جہاں سے قوس نے اپنے دوسرے نصف کا آغاز کیا ہے،  یعنی اب اُوپر کو جانے کے بجائے مڑ کر نیچے کی طرف آنا شروع ہوئی ہے،  بالکل جیسے سورج نصفُ النہار پر پہنچنے کے بعد رُو بہ زوال ہو جاتا ہے۔ ڈھلتے ہوئے سُورج کی منزل، رات ( سمندر، زمین یا رحمِ مادر) کے سوا اور کچھ نہیں اور جیسے جیسے وہ زمین سے قریب آتا ہے،  اُس کی درخشندگی ماند پڑتی جاتی ہے اور اُس پر رات غالب آنے لگتی ہے۔ میراجی کی نظم کسی چمکتے ہوئے آدرش کی شاعری نہیں،  بلکہ رُو بہ زوال سُورج کی کہانی ہے اور اِس لیے اِس کا رُخ واضح طور پر باہر کے بجائے اندر (ذات، لاشعور، گریٹ مدر) کی طرف ہے۔ نظم کی اِس خاص جہت نے میراجی کے ہاں باطن کی دُنیا کو برانگیختہ کر دیا ہے۔ خود انسانی زندگی میں جب جوانی کا زور ٹوٹتا ہے،  تو آنے والی موت کے سائے نظر آنے لگتے ہیں۔ جوانی اپنے ہیجان اور زور میں بالکل اندھی تھی، اُسے عافیت یا خوف سے کوئی غرض نہیں تھی، لیکن عمر کے ڈھلتے ہی انسان گویاقوس کے دوسرے نصف کے ساتھ چلنے لگتا ہے اور موت کا خوف ایک ذہنی خلفشار کو جنم دے دیتا ہے۔ نظم میں یہی چیز جبلّتِ مرگ کی برانگیختگی پر دال ہے۔

قوس کے پہلے نصف نے نظریاتی تصادُم سے قوت اور موضوع اخذ کیا تھا، لیکن دوسرا نصف نفسیاتی تصادُم سے خون حاصل کرتا ہے،  چناں چہ پہلا حصہ اُمید اور رجائیت کا علم بردار ہے،  جب کہ دوسرے حصے میں مدافعت، خوف، بے بسی، یاس اور موت کی آمد کا احساس اُبھر آتا ہے۔ پہلے حصے پر اگر ہیجان اور رجائیت کا عُنصر پوری طرح مسلط ہو جائے،  تو کم تر درجے کی نظم وجود میں آئے گی۔ دوسرے حصے میں اگر مدافعت کی کوئی صورت نہ اُبھرے،  تو بھی عمدہ نظم تخلیق نہ ہو گی۔ نظم تو زندگی اور موت کے تصادُم سے عبارت ہے۔ قوس کے نصف آخر میں جب یہ تصادُم ایک شدید کرب کی صورت اختیار کرتا ہے،  تو نظم میں گہرائی،  استحکام اور توازُن پیدا ہوتا ہے۔ یہی میراجی کی نظم کا بنیادی مزاج ہے کہ اِس کا رُخ موت کی طرف ہے،  لیکن میراجی نے ہر ہر قدم پر موت سے پنجہ آزمائی کی ہے،  یوں اُس کے ہاں ایک شدید نفسیاتی تصادُم وجود میں آیا ہے۔

میراجی کے ہاں جبلّتِ مرگ کی شدت کا اندازہ اُن بہت سے مظاہر سے ہوتا ہے،  جو موت کی علامتیں بن کر نمودار ہوتے ہیں،  مثلاً: جنگل، تیرگی، بھُوت، ڈائن، سمندر،  غار، خون،  سایہ یہ تمام چیزیں روشنی کے بتدریج ماند پڑنے پر اپنے سارے بہیمانہ نقوش کے ساتھ اُجاگر ہوتی ہیں۔ میراجی کی نظم میں یہ سب علامتیں،  زوال کی جہت کو نمایاں کر کے ظاہر سے باطن کی طرف شاعر کی پیش قدمی کو سامنے لاتی ہیں۔ جنگل، تیرگی، سمُندریا غار وغیرہ ماں کے کالی روپ کی علامتیں بھی ہیں اور اِس بات کو ثابت کرتی ہیں کہ میراجی کے ہاں واپسی کا عمل کسی قدر توانا ہے، لیکن یہ میراجی کے ساتھ بڑی زیادتی ہو گی، اگر یہ فرض کر لیا جائے کہ وہ بڑی بے بسی سے موت و رحمِ مادر، تیرگی، جنگل میں بغیر کوئی مدافعتی سرگرمی دکھائے،  گرتا چلا گیا ہے۔ ایسا ہونا ممکن تھا اور عام زندگی میں کئی بار ایسا ہوتا ہے،  لیکن ایسی صورت میں اعلیٰ فن پیدا نہیں ہوسکتا۔ میراجی کی جیت اِس بات میں ہے کہ اُس نے موت کی آواز کو سُنا ہے،  اُس کی مقناطیسی کشش کو محسوس کیا ہے،  موت کی مختلف علامتوں کو بڑے قریب سے دیکھا ہے،  لیکن اپنی ذات کے تحفُظ کے لیے مدافعتی سرگرمی بھی دکھائی ہے۔ جبلتِ حیات اور جبلّتِ مرگ کی اِسی کشمکش سے میراجی کی نظم کا سارا استحکام عبارت ہے۔ اِس تصادُم کو میراجی کی نظم ’’سمُندر کا بلاوا‘‘ بڑی اچھی طرح اجاگر کرتی ہے :

 

یہ سرگوشیاں کہ رہی ہیں اب آؤ کہ تم کو بلاتے بلاتے مرے

دل پہ گہری تھکن چھا رہی ہے

کبھی ایک پل کو،  کبھی ایک عرصہ صدائیں سُنی ہیں،  مگر یہ انوکھی ندا آ رہی ہے

بلاتے بلاتے تو کوئی نہ اب تک تھکا ہے،  نہ آئندہ شاید تھکے گا،

’’مرے پیارے بچے،  مجھے تم سے کتنی محبت ہے ! دیکھو اگر یوں کیا تو برا مجھ سے

بڑھ کر نہ کوئی بھی ہو گا

خُدایا! خدایا!‘‘

کبھی ایک سسکی، کبھی اک تبسُم، کبھی صرف تیوری

مگر یہ صدائیں تو آتی رہی ہیں

اِنہی سے حیاتِ دو روزہ ابد سے ملی ہے

مگر یہ انوکھی ندا، جس پہ گہری تھکن چھا رہی ہے

یہ ہر اِک صدا کو مٹانے کی دھمکی دئے جا رہی ہے

اب آنکھوں میں جُنبش،  نہ چہرے پہ کوئی تبسُم،  نہ تیوری

فقط کان سنتے چلے جا رہے ہیں

یہ اک گلستاں ہے

ہوا لہلہاتی ہے،  کلیاں چٹکتی ہیں،

غنچے مہکتے ہیں اور پھول کھلتے ہیں،  کھِل کھِل کے مُرجھا کے

گرتے ہیں، اِک فرشِ مخمل بناتے ہیں جس پر

مری آرزوؤں کی پریاں عجب آن سے یوں رواں ہیں

کہ جیسے گُلستاں ہی اِک آئنہ ہے،

اِسی آئینے سے ہر اِک شکل نکھری، سنور کر مٹی اور مٹ ہی گئی، پھر نہ اُبھری

یہ پربت ہے

خاموش، ساکن،

کبھی کوئی چشمہ اُبلتے ہوئے پوچھتا ہے کہ اِس کی چٹانوں کے اُس پار کیا ہے ؟

مگر مجھ کو پربت کا دامن ہی کافی ہے،  دامن میں وادی ہے، وادی میں ندی

ہے،  ندی میں بہتی ہوئی ناؤ ہی آئینہ ہے

اِسی آئینے میں ہر اِک شکل نکھری، مگر ایک پَل میں جو مٹنے لگی ہے، تو

پھر وہ نہ اُبھری

 

یہ صحرا ہے

پھیلا ہوا خشک بے برگ صحرا

بگولے یہاں تُند بھُوتوں کا عکسِ مجسم بنے ہیں

مگر میں تو دُور

ایک پیڑوں کے جھرمٹ پہ اپنی نگاہیں جمائے ہوئے ہوں

نہ اب کوئی صحرا، نہ پربت،  نہ کوئی گلستاں

اب آنکھوں میں جنبش، نہ چہرے پہ کوئی تبسُم، نہ تیوری

فقط اک انوکھی ادا کہ رہی ہے کہ تم کو بلاتے بلاتے مرے دل پہ

گہری تھکن چھا رہی ہے،

بلاتے بلاتے تو کوئی نہ اب تک تھکا ہے، نہ شاید تھکے گا

تو پھر یہ ندا آئینہ ہے،  فقط میں تھکا ہوں

نہ صحرا نہ پربت،  نہ کوئی گلستاں،  فقط اب سمندر بلاتا ہے مجھ کو

کہ ہر شے سمندر سے آئی، سمندر میں جا کر گرے گی۔

 

میراجی کی یہ نظم بڑی پہلو دار ہے : ایک طرف تو اِس میں شاعر کو سمندر، موت یا ماں اپنی طرف بلاتی ہے اور دوسری طرف خود شاعر کے ہاں، موت یا ماں کی آغوش میں جانے کی آرزُو اُبھرتی ہے (واضح رہے کہ میراجی نے یہ نظم اپنی زندگی کے آخری ایام میں لکھی تھی)، لیکن اِس نظم میں گلستان،  ناؤ اور پیڑوں کے جھرمٹ پر نگاہیں مرکوز رکھنے کی خواہش، جبلّتِ حیات کی کارفرمائی کی بھی غماز ہے۔ یوں اِس نظم نے ایک کرب انگیز داخلی تصادُم کو بڑے فنکارانہ انداز میں پیش کر دیا ہے۔

اِس نظم کا ایک اور پہلو بھی ہے یعنی اِس میں ماں کے اناپورنا (مثبت روپ) کے نقوش بھی ملتے ہیں۔ وہ نقوش،  جو آسودگی، حیاتِ نو اور تازگی کی نشان دہی کرتے ہیں،  چناں چہ شاعر موت کی طرف آتے ہوئے تجدیدِ حیات(Rejuvenation) کا بھی متمنی ہے۔ خود جبلتِ مرگ میں بھی موت اور حیاتِ نو کا تصادُم موجود ہے،  جو دوہرے نفسیاتی کرب کو وجود میں لاتا ہے۔ میراجی کے ہاں یہ کرب بدرجۂ اتم موجود ہے۔

میراجی کی نظموں میں جنس کا موضوع بہت نمایاں ہے۔ بعض لوگوں نے اِس سلسلے میں نفسیات سے میراجی کے گہرے شغف اور ملارمے وغیرہ کے اثرات کا ذکر بھی کیا ہے،  لیکن حقیقت یہ ہے کہ نظم میں کسی خاص رُجحان کی نمو کبھی اکتسابی نہیں ہوتی، اِس کا نہایت گہرا تعلُق شاعر کی ذات سے ہوتا ہے۔ میراجی کا جنس اور اِس کی علامات کو برتنا دراصل ایک اہم نفسیاتی ضرورت کے تابع تھا۔ ان جنسی علامات میں روزن، دوسری عورت،  گود اور من کے بالک کا ’’کھیلن کو چندرمان‘‘ مانگنا، یہ سب باتیں ’’ماں کی دنیا‘‘ کی جانب لوٹنے کے عمل ہی کو ظاہر کرتی ہیں۔ لاشعور کی اِس مقناطیسی کشش کے مقابلے میں شاعر کا مدافعتی عمل اُن بہت سی جنسی الجھنوں اور پیچیدگیوں کو وجود میں لاتا ہے،  جو میراجی کی نظموں میں بکھری پڑی ہیں۔ تاہم میراجی کے ہاں جنسی موضوعات سے وابستگی کو محض جوانی کے اظہار تک محدود کرنا بڑی سطحی سی بات ہو گی۔

اصل بات یہ ہے کہ میراجی ’’اندر‘‘ کی دنیا کی طرف مڑتے ہوئے بڑے فطری انداز میں ’’عورت‘‘ کے کُل کی طرف مڑ گیا ہے اور عورت سے وابستہ بہت سی جنسی علامات از خود اُسی کی نظموں میں اُبھرتی چلی آئی ہیں، لیکن میراجی کی اِس خاص جہت کی ایک گہری تہ بھی ہے۔ یہ تہ تہذیب کے ماضی کی طرف میراجی کی مراجعت کو ظاہر کرتی ہے۔ عجمی اثرات نے ایک طویل مدت تک اُردُو نظم کو وطن کی دھرتی سے قریب آنے کی اجازت نہیں دی تھی، حتیٰ کہ حُبُ الوطنی کے جذبے کے تحت لکھی گئی بیشتر نظمیں بھی دراصل ایک اُونچے سنگھاسن سے اپنے وطن کے گُن گانے اور اِسے دوسرے ممالک سے برتر ثابت کرنے کی ایک کاوش کے سوا اور کچھ نہیں تھیں۔ میراجی کے ہاں پہلی بار دھرتی کا لمس اور اِس کی خوشبو بڑے بھرپور انداز میں ظاہر ہوئی۔ ثبوت اِس کا یہ ہے کہ میراجی نے نہ صرف ہندوستان کے ارضی مظاہر کو اپنی نظموں میں سمویا ہے،  بلکہ تلمیحات اور استعارات کے سلسلے میں بھی زیادہ تردیسی اثرات ہی کو قبول کیا ہے،  یوں محسوس ہوتا ہے،  جیسے میراجی نے جب قوس کے دوسرے نصف کے ساتھ چلنا شروع کیا،  تو آسمان کی طرف پرواز کرنے کے بجائے اپنے وطن کی دھرتی پر اترتا چلا آیا اور ایسا کرنے میں اُس نے اپنی زمین کے غالب اثرات کو بڑی فراخ دلی سے قبول کر لیا۔

ویشنو بھگتی تحریک سے میراجی کا تعلُقِ خاطر بھی دراصل اپنی تہذیب کے ماضی کی طرف اُس کی مراجعت ہی کو ظاہر کرتا ہے،  پھر خود ویشنو بھگتی تحریک میں تقسیم، زرخیزی، بُت پرستی، چمٹنے اور لپٹنے کے جو اوصاف موجود تھے،  میراجی کے ہاں بھی ابھرتے چلے آئے ہیں۔ جنس کے بارے میں میراجی کی مخصوص جہت بھی ایک بڑی حد تک ہندوستانی تہذیب کے ماضی کی طرف اُس کی ذہنی مراجعت ہی کا ایک نتیجہ ہے،  مثلاً کرشن اور رادھا کے معاشقے نے اُس پر گہرے اثرات مرتسم کیے ہیں اور ہندو مندروں میں متھن کی روایت،  کالی اور شو لنگ کی پوجا کے رُجحان اور جنگل کے معاشرے نے اُس کی نظم کے جنسی پہلوؤں کو ایک خاص صورت عطا کی ہے۔

جنگل کے معاشرے کے اثرات تو میراجی کے ہاں بہت ہی ہیں۔ ’’میراجی کی نظموں میں جنگل کی یہ فضا اپنی ساری متنوع کیفیتوں کے ساتھ بڑے بھرپور انداز میں نمایاں ہوئی ہے،  بلکہ یہ کہنا شاید زیادہ موزوں ہو گا کہ جنگل کی طرف میراجی کی مراجعت دراصل قدیم ہندوستان کی فضا کی طرف مراجعت ہے،  اِسی لیے میراجی کے ہاں بار بار تاریکی میں سمٹنے کا رُجحان ملتا ہے،  جو نہ صرف جنگل کی تاریکی میں ضم ہونے کا رُجحان ہے،  بلکہ جو ماضی کی تاریکی میں کھو جانے کی آرزو پر بھی دلالت کرتا ہے،  پھر خلوت، تنہائی اور روزن میں گھس جانے کی آرزو بھی دراصل اِسی جنگل (جنگل رحمِ مادر کے لیے ایک علامت بھی ہے ) کی خلوت، تنہائی اور مندر یا غار کی پہنائیوں میں گُم ہو جانے کی آرزو ہے۔ میراجی کی نظموں میں جنگل کی یہ فضا اپنی تمام متنوع کیفیات کے ساتھ اِس طور قائم ہے کہ اِس کے ثبوت میں میراجی کی قریب قریب ہر نظم کو پیش کیا جا سکتا ہے۔ ‘‘ (نظمِ جدید کی کروٹیں )

جنگل کی طرف میراجی کی یہی وہ مراجعت ہے، جس کے باعث اُس کی نظم میں جنگل سے وابستہ مظاہر یعنی ڈائنیں،  بھوت، چیتے،  خون اور خوف کے جُملہ عناصر اُبھر آئے ہیں۔ مبادا اِس سے یہ خیال پیدا ہو کہ میراجی مادی دنیا سے ہٹ کر اپنے لاشعور میں قطعاً گُم ہو گیا ہے،  تو اِس سلسلے میں اِس بات کا اعادہ ضروری ہے کہ میراجی نے خارجی مظاہر سے اپنا تعلُق شروع سے آخر تک قائم رکھا ہے،  وہ نہ صرف جسمانی طور پر متحرک رہا ہے اور بقول خود اُس کا ’’جسمانی اور رُوحانی سفر شمال سے جنوب کی طرف تھا‘‘، بلکہ اُس نے ’’زندگی‘‘ کے بہت قریب آ کر خود تجربات بھی حاصل کئے ہیں۔ یہ تجربات گھناؤنے اور مکروہ بھی ہیں اور اعلیٰ و ارفع بھی! تاہم اِن سے یہ بات ضرور ثابت ہوتی ہے کہ میراجی کی نظم میں خارجی زندگی اور داخلی زندگی کا تصادُم اُبھرا ہے،  نہ کہ محض آزاد تلازمۂ خیال کا رُجحان،  جو اُس سے منسوب کر دیا گیا۔

جدید اُردُو نظم میں فراز سے نشیب کی طرف لڑھکنے کا آغاز میراجی سے ہوتا ہے،  لیکن میراجی نے اپنی مدافعتی قوتوں کی مدد سے تحفّظِ ذات کی کوشش بھی کی ہے،  جس کے نتیجے میں تصادُم اور آویزش کے متعدد پہلو اُس کی نظموں میں اُبھرتے چلے آئے ہیں۔ بڑی بات یہ ہے کہ میراجی سے اُردو نظم کی ایک نئی جہت کا آغاز ہوتا ہے،  جہت جو کسی روشن سحر یا درخشاں منزل کے نشانات کو ظاہر نہیں کرتی، بلکہ وقت کی گزران کا احساس دلا کر فنا اور موت کی حقیقت کو نظر کے سامنے لاتی ہے، خود انسانی زندگی میں اُمید اور رجائیت کا دَور بے حد مختصر ہے اور باطن کی ایک معمولی جست کا غماز ہے۔ شاعر کا باطن پوری طرح صرف اُس وقت اُبھرتا ہے،  جب اُسے کسی بُحران کا سامنا ہو اور خود شاعر کی بقاء معرضِ خطر میں پڑ جائے ! چناں چہ ’’زوال‘‘ سے مراد قویٰ کا مضمحل ہونا نہیں، بلکہ کسی ایسے بُحران کی آمد ہے،  جوانسان کی نظروں کو باہر سے ہٹا کر اندر کی طرف منعطف کر دے۔ یہ بحران کوئی حادثہ بھی ہوسکتا ہے،  جیسے محبت میں ناکامی، کسی عزیز کی موت،  جنگ یا جسم و جان کے رشتے کو برقرار رکھنے کے لیے ایک طویل تگ و دو اور وقت کی گزران اور موت کی آمد کا وہ احساس بھی،  جو زیادہ حسّاس اذہان میں بہت جلد پیدا ہو جاتا ہے۔ بہرحال یہ بُحران انسان کو تحفّظِ ذات کی طرف مائل کرتا اور اُس کی ذات کی بہت سی چھپی ہوئی قوتوں کو برانگیختہ کر دیتا ہے،  کسی واضح منزل کی طرف بڑے پُر اُمید انداز میں، جذبے اور جوش کی گھن گرج کے ساتھ بڑھنے اور کسی بحرانی کیفیت سے نبرد آزما ہونے کے لیے باطن کی تمام تر قوتوں کو بروئے کار لانے میں بڑا فرق ہے اور یہی فرق نظم کے دو مختلف نمونوں کو وجود میں لاتا ہے۔ پہلے نمونے میں جوش اور ولولے کی ایک نمائشی جست اُبھرتی ہے، دوسرے نمونے میں حسرت، کسک، غم اور مدافعت کے وہ قیمتی عناصر نمودار ہوتے ہیں،  جو ایک قوی تر حریف سے شاعر کے تصادُم کی پیداوار تھے۔ میراجی کی نظم موخرالذکر نمونے کو پیش کرتی ہے اور اُس کی اِس جہت نے جدید اردو نظم پر گہرے اثرات ثبت کئے ہیں۔

میراجی کی نظم کی جہت باہر سے اندر کی طرف ہے اور یہی نظم کی بنیادی جہت بھی ہے۔ ظاہر ہے کہ اِس جہت کو اختیار کرنے سے نظم میں ’’باطن کی دنیا‘‘ نسبتاً زیادہ اُجاگر ہوتی ہے،  پھر چوں کہ نظم کا شاعر ایک منفرد ’’کُل‘‘ کی حیثیت میں اُبھرتا ہے اور اُس کا باطن اپنے خصوصی کوائف، حالات، کسی خاص حس کی برانگیختگی اور موروثی عناصر کے باعث دوسروں سے قطعاً مختلف ہوتا ہے،  اِس لیے جب اُس باطن سے نظم جنم لیتی ہے،  تو لامحالہ اُس کا ذائقہ بھی منفرد ہوتا ہے، اگر باطن کی یہ ’’ انفرادیت ‘‘ موجود نہ ہو، تو تمام شعراء کے ہاں ایک سی نظمیں تخلیق ہوں۔

بعض اُردُو نقاد نظم میں شخصیت کے اظہار کو مستحسن نہیں سمجھتے۔ اُن کا خیال ہے کہ شاعر کو غیر شخصی اظہارِ فن کے تابع ہو کر شخصیت سے فرار حاصل کرنا چاہیے۔ شخصیت سے فرار کا یہ نظریہ دراصل ٹی ایس ایلیٹ نے پیش کیا تھا اور اُردو کے بعض نقادوں نے ’’وفادار مریدوں ‘‘ کی طرح اِسے، اِس حد تک اپنایا ہے کہ شاعری میں انفرادیت یا داخلیت کی بھی نفی کر دی ہے،  حالاں کہ خود ٹی ایس ایلیٹ کا بھی یہ موقف ہرگز نہیں تھا۔ ایلیٹ نے جب شخصیت سے فرار کو شاعری کے لیے ضروری قرار دیا تھا، تو اُس کا مطلب محض یہ تھا کہ اگر جذبہ اپنی بوجھل کیفیات سمیت فن میں داخل ہو گا، یا شاعر کے نجی حالات اور واقعات بجنسہٖ شعر کا موضوع بنیں گے،  تو لامحالہ، فن اِس سے مجروح ہو گا۔

دراصل یہ ساری اُلجھن شخصیت کے لفظ کو اُس کی محدود حیثیت میں استعمال کرنے سے پیدا ہوئی ہے، ورنہ اگر شخصیت کو وسیع تر معنوں میں استعمال کیا جائے،  تو ذہن شاعر کے نجی حالات و واقعات کے بجائے اُس کی اُس ’’ذات‘‘ کی طرف منتقل ہو گا، جو ان حالات، واقعات، تاثرات،  تجربات اور ہزار دوسری باتوں سے مل کر وجود میں آتی ہے،  اِس ضمن میں ایلیٹ نے شاعر کی شخصیت کے بجائے شاعر کو بحیثیت ایک ذریعہ(Medium) پیش کرنے پر زور دیا ہے اور کہا ہے کہ شاعر اپنی شخصیت کا اظہار نہیں کرتا، بلکہ اُس میڈیم کا اظہار کرتا ہے،  جس میں تاثرات اور تجربات قطعاً غیر متوقع انداز میں مجتمع ہو جاتے ہیں۔

لیکن یہ میڈیم کیا ہے ؟ کیا یہ میڈیم شاعر سے الگ کوئی چیز ہے اور کیا خود اِس کی تعمیر میں شاعر کی زندگی کی مختلف کروٹوں، اُس کی حسیّات،  موروثی عناصر، حتیٰ کہ اُس کے مطالعہ، عادات و اطوار اور ہزار دوسری باتوں کا ہاتھ نہیں ہوتا؟ دوسرے لفظوں میں اگر اُس میڈیم کی حیثیت ایک الگ پردے کی سی ہے،  تو کیا اُس پردے پر خارجی اور داخلی زندگی کے تمام عناصر، نقوش اور علامتوں کی صورت میں ظاہر نہیں ہوتے ؟ ایلیٹ کا خیال ہے کہ جب شاعر شعر کہتا ہے، تو اُن جذبات کا اظہار تک نہیں کرتا، جو اُسے عام زندگی میں عزیز تھے،  گویا شعر کی دنیا شاعر کی نجی زندگی سے قطعاً مختلف ہے،  مگر ایلیٹ کی یہ منطق اِس لیے قابلِ قبول نہیں کہ شعر میں جن احساسات کا اظہار ہوتا ہے، وہ کسی نہ کسی حد تک شاعر کی عام زندگی کے جذبات سے ضرور متعلق ہوتے ہیں،  البتہ میڈیم کی مشین سے گزرنے کے بعد اُن کی صورت کچھ یوں بدل جاتی ہے کہ پہچانے تک نہیں جاتے۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے، جیسے کوئی رات کو خواب دیکھے اور اُسے اپنی عام زندگی سے ایک بالکل مختلف تجربہ قرار دے،  حالاں کہ حقیقت یہ ہے کہ خواب عام زندگی کے تجربات، واقعات اور لاشعوری خواہشات ہی کا ایک علامتی اظہار ہے۔ ایک اچھے خواب بین کی طرح نظم کے ایک عمدہ شاعر کے ہاں بھی واقعات و حالات کی تہذیب ہو جاتی ہے اور بوجھل جذبہ، سُبک اور لطیف احساس میں ڈھل جاتا ہے،  گویا شروع سے آخر تک یہ ایک مثبت عمل ہے،  اِسے شخصیت یا ذات سے فرار کا مترادف قرار دینا ہرگز مستحسن نہیں۔

جدید اُردو نظم پر میراجی کی داخلیت پسندی کے رُجحان نے جو اثرات ثبت کئے،  اُنھیں دو زاویوں سے دیکھنے کی ضرورت ہے : ایک یوں کہ میراجی کے بعد اُردو نظم نے کس حد تک اِس کی خاص جہت کو قبول کیا، دوسرے اِس اعتبار سے کہ اُس دور کے بعض نظم گو شعراء کے ہاں تصادُم اور آویزش نے کس قسم کے ردِ عمل کو تحریک دی؟ پہلا زاویہ محض جہت کے عام انداز کی نشان دہی کرے گا اور نظم میں وقت کی گزران، فنا کے احساس اور موت کے مختلف مظاہر کو سامنے لائے گا اور دوسرا زاویہ اِس خاص جہت کے علم بردار شعراء کے ہاں اُس ردِ عمل کو اجاگر کرے گا، جو باطن اور خارج کے تصادُم سے وجود میں آتا اور شاعر کے کلام کو ایک منفرد مزاج عطا کر دیتا ہے۔

جدید اُردو نظم میں داخلیت کے علم بردار شعرا کی تخلیقات پچھلے بیس پچیس برس کے عرصہ پر پھیلی ہوئی ہیں۔ یہ عرصہ قومی اور بین الاقوامی دونوں اعتبار سے بڑا اہم ہے اور اِس نے نظم کی اِس خاص جہت کو اُبھرنے میں مدد دی ہے، مثلاً اِس عرصہ میں دوسری جنگِ عظیم لڑی گئی اور اس میں کشت و خون ہوا اور اس کے آخری سال میں امریکہ جس شقاوتِ قلب کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہیرو شیما اور ناگا ساکی پر بم گرائے،  اِن تمام باتوں نے حسّاس اذہان کو بری طرح جھنجھوڑ دیا۔ ایٹم بم کا یہ حادثہ بین الاقوامی سطح پر ایک بہت بڑا المیہ تھا۔ قومی سطح پر ۱۹۴۷ء میں برِّ صغیر تقسیم ہوا اور ’’اہلِ وطن‘‘ نے صدیوں کے رکھ رکھاؤ اور تہذیبی مفاہمت کو بالائے طاق رکھ کر بربریت کا وسیع پیمانے پر مظاہرہ کیا اور انسانیت پر ایسا زخم لگایا،  جو عام لوگوں کے ہاں تو کچھ عرصہ کے بعد مندمل ہو گیا،  لیکن جسے معاشرے کے حسّاس طبقے نے کبھی فراموش نہ کیا۔ تقسیم کے بعد ملک میں خود غرضی،  اقربا نوازی،  دھاندلی،  زبان بندی اور شخصی آزادی کو مفلوج کرنے کی ایک ایسی رَو چلی،  جس نے حسّاس طبقے کو رُکنے اور اپنے اندر جھانکنے پر مجبور کر دیا۔ تاریخِ تہذیب میں ہمیشہ یہ ہوتا آیا ہے، جب تہذیبی اقدار محض رسوم کی ادائی تک محدود ہو کر رہ جاتی ہیں اور سوسائٹی اپنے ابتدائی حیوانی مزاج کی طرف مراجعت کرتی ہے،  تو قدرتی طور پر حسّاس اذہان انبوہ کے عام رُجحانات سے دست کش ہو کر اپنی ذات میں اُترتے اور وہیں نئی قدروں کی تلاش کرتے ہیں۔ میراجی کے بعد جدید اُردو نظم میں ’’اندر‘‘ کی طرف آنے کا رُجحان اِن قومی اور بین الاقوامی حالات کا ایک نتیجہ بھی ہے،  تاہم محض یہ حالات ہی اس کی نمو کا باعث نہیں بنے۔ ایک تدریجی ارتقاء کا بھی تقاضا تھا کہ نظم زُود یا بدیر اپنے اصل مزاج کو دریافت کرتی۔ اُردو نظم ایک طویل عرصہ تک خارجی مسائل،  مقاصد اور نقطہ ہائے نظر کے تحت تخلیق ہوتی رہی تھی، لیکن ایک وقت ایسا بھی آیا کہ اس نے اپنی اصل جہت دریافت کر لی اور بتدریج خارج کو باطن سے منسلک کرتی چلی گئی۔ جدید اُردو نظم میں یہ جہت پوری طرح منظرِ عام پر آئی ہے،  لیکن اِن تمام پہلوؤں کے با وصف اِس حقیقت سے انکار مشکل ہے کہ غوّاصی کا یہ عمل خود شاعر کی مخصوص اُفتادِ طبع کا منت کش بھی ہے۔

جدید اُردُو نظم کے حق میں یہ ایک نیک فال ہے کہ میراجی کے بعد اِسے درجنوں ایسے شعراء مل گئے،  جن کے ہاں باہر سے اندر کی طرف آنے کی نہج بہت نمایاں تھی …… ……تاہم اِس بات سے انکار مشکل ہے کہ میراجی وہ پہلا شاعر تھا،  جس نے اِس جہت کی نشاندہی کی اور اُردُو نظم کے دھارے کا رُخ ذات کی طرف پوری طرح موڑ دیا۔ ٭٭٭

ماخذ:

’’ اردو شاعری کا مزاج‘‘،  وزیر آغا، ڈاکٹر، لاہور، مکتبہ عالیہ،  گیارھواں ایڈیشن: ۱۹۹۹ء،  ص: ۳۸۱تا ۴۰۷

٭٭٭

 

 

 

 

 

میراجی کا عرفانِ ذات

 

 

ہر آبی طوفان کی ایک اپنی آنکھ ہوتی ہے،  جس کے گرد ہوائیں چنگھاڑتی پھرتی ہیں،  لیکن آنکھ کے اندر جوگی کے استھان کا سا سکوت قائم رہتا ہے۔ مجھے جب کبھی میراجی کا خیال آیا،  تو اِس کے ساتھ ہی آبی طوفان کا منظر بھی میری نگاہوں میں گھوم گیا اور میں نے سوچا کہ یہ کیسے ظلم کی بات ہے کہ ہم طوفان کو دیکھنے میں اِس قدر منہمک ہوں کہ اُس ’’آنکھ‘‘ کو دیکھ ہی نہ سکیں،  جو اِس طوفان کا مرکز ہے اور جس میں ایک عارفانہ سکوت کی سی کیفیت سدا قائم رہتی ہے۔

یہ آنکھ کیا ہے ؟ یہ کیا دیکھتی اور محسوس کرتی ہے ؟ کہیں اپنی ہی ذات کے زندان میں قید تو نہیں ؟ یا کہیں ایسا تو نہیں کہ اِسے عرفان حاصل ہو چکا ہو اور اِس نے اپنا ایک مخصوص زاویۂ نگاہ بھی مرتب کر لیا ہو؟مصیبت یہ ہے کہ جب میراجی کے سلسلے میں عرفان، زاویہ اور ترتیب ایسے الفاظ استعمال ہوتے ہیں،  تو طبیعت ایک نمایاں ردِ عمل کا اظہار کرتی ہے اور اِس کی وجہ محض یہ ہے کہ میراجی کا ذکر آتے ہی ایک ایسے شخص کے نقوش ابھر آتے ہیں،  جس میں ہیجان،  بغاوت، پاگل پن اور نہ جانے کیا کیا کچھ سمایا ہوا تھا اور ذہن سوچ بھی نہیں سکتا کہ اِس طوفانی انتشار اور بے ترتیبی کے پیچھے کوئی نظم و ضبط بھی موجود ہو گا۔

اِس رویے کی نمود میں کچھ قصور تو میراجی کے دوستوں کا ہے،  جنھوں نے اُس کے ساتھ ایسی ویسی باتیں منسوب کر کے اُسے ایک متھ( Myth) بنا دیا اور کچھ قصور میراجی کا اپنا بھی ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ میراجی کے احباب نے غلط بیانی سے کام لیا،  لیکن چوں کہ اُنھوں نے میراجی کی ذات سے لگاؤ کے باعث اُس کی بیشتر حرکات و سکنات کے موزوں جواز تلاش کرنے کی کوشش کی،  اِس لیے میراجی کے بارے میں ایسے غلط مباحث کا آغاز ہو گیا، جو زیادہ تر میر ا جی کی شخصیت کے گر د ہی گھومتے رہے،  لیکن جو اُس کے باطن کو مس نہ کر سکے۔

میراجی کے بارے میں اِس قسم کے ارشادات کہ اُس کی لمبی لمبی زلفیں تھیں،  گلے میں مالا اور ہاتھوں میں لوہے کے گولے تھے،  وہ شراب اور بھنگ کا رسیا تھا، طوائف کے کوٹھے پر بھی چلا جاتا تھا، جے جے ونتی سن کر گھنٹوں روتا رہتا،  کسی بلند و بالا عمارت کی سیڑھیوں پر بیٹھ کر مالا جپتا، تانگے والے کو اپنا کُل اثاثہ تھما دیتا،  یا پھر چوراہے پہ کھڑے ہو کر عجیب و غریب حرکات کا مرتکب ہوتا وغیرہ اور پھر اِن حرکات کے جواز میں یہ لطیف نکات کہ وہ تو ایک عظیم فنکار تھا،  جسے اپنی سدھ بدھ ہی نہ تھی، اُس کے اندر تو ایک ایسا ہیجان برپا تھا، ایک ایسی آگ لگی ہوئی تھی کہ اُس کا سارا وجود ہی جل کر راکھ ہو گیا تھا۔

یہ تمام ارشادات اور نکات اپنی جگہ درست اور دلچسپ سہی، لیکن یہ کسی نے نہ سوچا کہ اِن کے ذکر سے میراجی کے باطن کو سمجھنا کس طرح ممکن ہو گا، یا کہیں ایسا تو نہیں ہو گا کہ اِن کے مسلسل اور متواتر ذکر سے میراجی کا ایسا ہیولا مرتب ہو جائے گا،  جو اُس کے فن کی پرکھ میں مزاحم ہو جائے گا؟ دوسری طرف خود میراجی نے بھی اپنی ذات کے گرد ایک حصار سا قائم کیا۔ یہ دیکھ کر طبیعت محظوظ ہوتی ہے کہ میراجی کچھ تو اپنی فطری بے قراری سے ایک ہنگامہ برپا کر رہا تھا اور کچھ دانستہ ہاتھ پاؤں مار کر۔

میراسین سے اُس کے عشق کی ساری داستان میراجی کے اپنے ذہن کی اختراع معلوم ہوتی ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے میراسین محض اُس کا ایک خواب تھا، جسے اُس نے ایک حقیقت بنا کر پیش کیا اور جب خواب کا زور ٹوٹ گیا، تو بھی وہ اُسے قائم رکھنے کی برابر کوشش کرتا رہا، مثلاً قیوم نظر کو ایک خط میں لکھا کہ : ’’پرسوں بیس مارچ تھی،  میراسین کی سروس میں ۱۴ سال ہوئے۔ ‘‘

اِس فقرے میں نہ صرف ’’سروس‘‘ کا لفظ میراسین کا مذاق اڑاتا ہوا نظر آتا ہے،  بلکہ عشق کی سال گرہ منانے کا اہتمام بھی اِس بات پر دال ہے کہ میراجی نے اِس ’’عشق‘‘ کو اپنے خاص ’’اُسلوبِ حیات‘‘ میں فٹ کر رکھا تھا۔ یہ اُسلوبِ حیات اپنا نام بدلنے،  بال بڑھانے،  شراب نوشی کا بڑے التزام سے ذکر کرنے،  گولوں سے کھیلنے اور ہر لحظہ عجیب و غریب حرکات کرنے پر مشتمل تھا اور میراجی کی ہمیشہ یہ کوشش ہوتی تھی کہ لوگ اُس کے اِس اُسلوبِ حیات کی طرف متوجہ ہوں اور اُس پر حیرت و استعجاب کا اظہار کریں۔ مجھے تویوں لگتا ہے،  جیسے میراجی نے جان بوجھ کر یہ سب نقاب اوڑھ رکھے تھے اور خود کو ایک بہروپئے کے لبادے میں پیش کر دیا تھا۔ یہ میں اِس لیے بھی کہتا ہوں کہ میراجی خود کو جس بے راہ روی کی تصویر بنا کر پیش کر رہا تھا،  اُس میں اکثر و بیشتر دراڑیں سی پڑ جاتی تھیں اور اُس کے اندر چھپا ہوا انسان اپنی جھلک دکھانے لگتا تھا۔ واقعہ یہ ہے کہ میراجی اندر سے ایک بالکل مختلف ہستی تھا، جسے چھپانے کے لیے اُس نے عشق،  شراب،  بھنگ،  منکوں،  بالوں،  گولوں اور متعدد عجیب و غریب حرکات سے خود کو لیس کر رکھا تھا۔

سوال یہ ہے کہ اِس لبادے کے نیچے کس قسم کی ہستی چھپی بیٹھی تھی، یا اگر ابتدائی تمثیل کو ملحوظ رکھ کر بات کی جائے،  تو پھر یہ سوال کہ کیا آبی طوفان کی آنکھ محض اپنے ارد گرد کا تلاطم پیش کر رہی تھی،  یا اُس کا کوئی منفرد زاویۂ نگاہ بھی تھا؟

میراجی کی تحریروں کا مطالعہ کریں،  تو صاف محسوس ہوتا ہے کہ نہ تو باہر کا تلاطم اُس کی شخصیت میں منعکس ہو رہا تھا اور نہ میراجی کی شخصیت اِس تلاطم کو راستہ دکھا رہی تھی۔ اِس کے برعکس میراجی کے ہاں خارج اور باطن کا رشتہ ناظر و منظور کے رشتہ کی صورت اختیار کر گیا تھا اور میراجی کی شخصیت ایک بیدار آنکھ کی طرح موجود کے جزر و مد کو دیکھنے لگی تھی۔ اِس میں کوئی شک نہیں کہ اُس کا یہ زاویۂ نگاہ بھگتی تحریک کے اثرات کا ثمر تھا اور وہ بعض اوقات قطعاً غیر شعوری طور پر مظاہر کو مایا، یا سراب بھی قرار دے ڈالتا تھا (یہ بات اُس کے گیتوں میں مشاہدہ کی جا سکتی ہے )، لیکن بھگتی تحریک کا یہ نکتہ کہ بھگت ایک جان ہار پجاری کی طرح اپنی ذات کو معبود میں ضم کر دے،  میراجی کے ہاں پوری طرح اجاگر نہ ہوا، گو میراجی نے اِس کے لیے شعوری کوشش ضرور کی،  مثلاً میراسین کو تخلیق کیا، بھگت کی سی صورت بنائی،  گلے میں مالا ڈالی،  منشیات کا استعمال کیا اور بھگت کی مثالی آوارہ خرامی کو مدِ نظر رکھتے ہوئے شمال سے جنوب کی طرف سفر بھی کیا، لیکن اُس کے باطن میں انفرادیت اور اثباتِ ذات کا جو عنصر پنہاں تھا، وہ اِن اقدامات سے دب نہ سکا اور اِس لیے جب میرا جی نے معروضی زندگی سے ایک رشتہ قائم کیا،  تو ہر چند کہ یہ ناظر و منظور کا رشتہ تھا،  تاہم اِس میں میراجی کی ذات کا جوہر اپنا اظہار ضرور کرتا رہا، مثلاً الطاف گوہر کے نام اپنے ایک خط میں لکھا کہ :

’’ہست کی طرح نیست بھی محدود ہے،  کیوں کہ نیست کے آگے کچھ نہیں،  کچھ بھی نہیں،  مختلف گھیروں کا یہ سفر جب ایک نقطے پر جا کر ختم ہو جاتا ہے،  جس کے آس پاس صرف ایک ہی دائرہ ہے،  تو وہ دائرہ بھی ایک نقطہ بن کر رہ جاتا ہے اور اُس نقطے پر پہنچ کر یادیں ہی ایک سہارا ہوتی ہیں۔ ‘‘

غور کیجئے میراجی کی سوچ کس قدر منفرد حیثیت اختیار کر گئی تھی،  وہ ہست اور نیست کے جھگڑوں میں پڑنے کے بجائے ایک ایسے نقطے پر آ کھڑا ہوا تھا،  جو اِن دونوں سے ماورا تھا اور ایک کھلی ہوئی آنکھ کی حیثیت رکھتا تھا، مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ نقطہ میراجی کی اپنی ذات کا مرکزی نقطہ بھی تھا، گویا میراجی نے نہ تو ایک بھگت کی طرح اپنی ’’جھوٹی مَیں ‘‘ کو ’’بڑی مَیں ‘‘ کے تابع کیا اور نہ صوفی کی طرح اِسے ذاتِ واحد میں ضم کر دیا،  بلکہ اِسے اثباتِ ذات کا مفہوم عطا کر کے عرفان کی ایک نئی سطح دریافت کر لی۔

میراجی نے اپنے اِس انوکھے گیان کو اپنی کتاب ’’گیت ہی گیت‘‘ کے دیباچے میں بھی ایک حد تک واضح کیا ہے،  جہاں اُس نے خود کو ایک بالک کی طرح جیون ندی کے کنارے پر کھڑے پایا ہے،  جہاں سے وہ ایک متعین وقفے کے بعد کاغذ کی ایک ناؤ لہروں کے سپرد کر دیتا ہے،  یہ ناؤ اپنا رنگ روپ بدلتی رہتی ہے،  لیکن ناظر کا بالک پن اپنی وضع نہیں بدلتا۔ ہر ناؤ ایک خیال کی طرح ہے،  ایک آشا، ایک یاد کے مانند ہے اور بالک اِسے بہتے ہوئے دیکھ کر لطف حاصل کرتا ہے اور پھر یکایک اُسے یہ گیان حاصل ہوتا ہے کہ جیون ندی کے کناروں پر بالک ہی بالک کھڑے ہیں،  جو اَن گنت کشتیوں کی روانی میں کھوئے ہوئے ہیں۔

عرفان کا یہ لمحہ میراجی کے ہاں اثباتِ ذات کا لمحہ بھی ہے۔ اُس نے نہ تو جیون ندی کو غیر حقیقی قرار دیا ہے،  نہ کاغذ کی رنگ بدلتی ناؤ کو سرابی کیفیات کا حامل کہا ہے اور نہ بالک کے بالک پن کا مذاق اڑایا ہے،  اُس کے نزدیک یہ سارا ناٹک ضروری بھی ہے اور دلچسپ بھی! اور یہی وہ مقام ہے،  جہاں میراجی مروجہ صوفیانہ مسلک سے بالکل الگ ہو جاتا ہے۔

یوں لگتا جیسے میراجی نے زندگی کو اُس کے دکھوں اور خوشیوں،  مثبت اور منفی زاویوں سمیت قبول کر لیا ہے،  بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ اُس نے چاروں طرف بکھری ہوئی زندگی سے خود کو پوری طرح منسلک کر لیا ہے۔ خوبی کی بات یہ ہے کہ میراجی نے اپنی تگ و دو کو کسی منزل تک پہنچنے کے لیے وقف نہیں کیا، بلکہ محض اُس خلا کو جنم دینے میں صرف کیا تھا، جو سالک اور منزل میں کچی ڈور کا رشتہ تو قائم کرتا ہے، لیکن اِن دونوں کے درمیانی فاصلے کو کم نہیں ہونے دیتا،  یہ اس لیے کہ میراجی جانتا ہے کہ تکمیلِ آرزو کا تصور ہی غیر ضروری،  بلکہ ایک بے معنی سی بات ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ آنکھ بیدار ہو،  اپنے مرکزی نقطے پر ایستادہ ہو اور اُس کے اور باہر کی دنیا کے درمیان تار ہائے نظر کے رشتے بار بار بنتے اور مٹتے اور پھر بنتے چلے جائیں۔ میراجی کے فکری نظام میں ’’فاصلے ‘‘ یا دُوری کا یہ عنصر ایک خاص اہمیت رکھتا ہے۔ اُس کے اِس قسم کے اشعار کہ:

 

ہاں جیت میں نشہ کوئی نہیں، نشہ ہے جیت سے دُوری میں

جو راہ رسیلی چلتا ہوں،  اُس راہ پہ چلتا جانے والے

یا

ہوا کے جھونکے ادھر جو آئیں،  تو اُن سے کہنا

ہر اک جگہ،  دام دُوریوں کا بچھا ہوا ہے

یا

ایک تُو،  ایک میں،  دُور ہی دُور ہیں

آج تک دُور ہی دُور ہر بات ہوتی رہی

دُور ہی دُور جیون گزر جائے گا اور کچھ بھی نہیں

 

اِس بات کو ثابت کرتے ہیں کہ میراجی نے دُوری اور مفارقت کو حیات کا المیہ قرار نہیں دیا، بلکہ جیون جال کی ایک ریشمی ڈور تصور کیا ہے۔ وہ نہ تو ’’مایا‘‘ کا قائل ہے کہ مایا میں دھاگے کا ایک سرا خود بخود ختم ہو جاتا ہے اور نہ ہی وہ ایکتا کا گرویدہ ہے کہ ایکتا میں دھاگے کا وجود ہی ختم ہو جاتا ہے،  میراجی تو مقناطیس کے پراسرار عمل کو پسند کرتا ہے،  ایک ایسا عمل جس کے باعث دو کناروں میں ایک نامعلوم سا رشتہ قائم ہو جاتا ہے،  یہی رشتہ میراجی اور اُس کے چاروں طرف پھیلی ہوئی کائنات میں قائم ہوا ہے اور یہی رشتہ میراجی کو عزیز بھی ہے۔ ویسے دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ یہ رشتہ کھیل اور کھلاڑی کا بھی ہے۔ کھلاڑی نہ صرف کھیل میں شریک ہوتا ہے،  بلکہ اپنی ذات کے مرکزی نقطے پر کھڑے ہو کر کھیل کا نظارہ بھی کرتا ہے۔ میراجی دنیا کو بازیچۂ اطفال تو قرار دیتا ہے،  لیکن اُس کے اِس تاثر میں تحقیر یا نفی کا عنصر شامل نہیں ہوتا،  وہ تو اِس کھیل کو پسند بھی کرتا ہے اور اِس کی بقا کا خواہش مند بھی ہے۔

میراجی کے اِس منفرد فکری نظام کے متعدد پہلو اور بھی ہیں،  مگر میرے لیے اِس مختصر سے مضمون میں اُن سب کا احاطہ کرنا بے حد مشکل ہے،  تاہم دو اور پہلوؤں کی طرف محض ایک ہلکا سا اشارہ کر کے اپنی بات ختم کر دوں گا۔ اِن میں سے ایک تو یہ کہ میراجی رنگ بدلتی ہوئی دُنیا کی کسی کروٹ کو بھی نظر انداز نہیں کرتا،  اس سلسلے میں اُس کی آنکھ حد درجہ حسّاس ہے۔ اُس کے گیت کا بند ہے :

 

جگ جیون کا گورکھ دھندا

رنگ برنگا اُس کا پھندا

جب یہ جال بچھانے آئے،  کوئی نہ بچنے پائے

جیون رنگ بدلتا جائے

 

اور گو یہ بند شعریت کے اعتبار سے خاصا ٹھس اور بے مزہ ہے،  مگر اِس سے میراجی کی خاص فکری جہت کا یقیناسراغ ملتا ہے۔ میراجی رنگ بدلتے،  دھوکہ دیتے ہوئے جیون سے نفرت کا اظہار نہیں کرتا،  بلکہ اُس کی ہر ادا کو پسند کرتا ہے،  اِس قدر کہ اُس نے طوائف کو ایک مثالی عورت کے رُوپ میں محض اِس لیے پیش کیا کہ وہ بھی رنگ بدلتے،  دھوکہ دیتے جیون کی طرح سدا تغیر پذیر رہتی ہے۔

دوسرا پہلو یہ ہے کہ میراجی ’’تنہائی‘‘ کے اُس مقام سے،  جو صرف اُسی کی ملکیت ہے اور جس میں وہ کسی دوسرے کی مداخلت کو پسند نہیں کرتا،  بہت کم نیچے اُترتا ہے۔ اُس نے اِس مقام کی نشاندہی جنگل، پل، دل،  ندی، آشرم اور اِسی وضع کے متعدد دوسرے ناموں سے کی ہے اور میں نے اِسے ’’آبی طوفان‘‘ کی آنکھ کا نام دیا ہے،  مگر نام سے کیا ہوتا ہے،  اصل بات یہ ہے کہ یہ وہ مقام ہے کہ جہاں کھڑے ہو کر میراجی نے عرفان حاصل کیا۔

٭٭٭

ماخذ:

’’نئے مقالات‘‘، وزیر آغا، ڈاکٹر، سرگودھا، مکتبہ اردو زبان،  اشاعت اوّل: فروری ۱۹۷۲، ص: ۸۱ تا ۹۰

٭٭٭

 

 

 

 

میرا جی کی اہمیت

 

 

میرا جی کے زمانے میں اردو شاعری کے تین مکاتب تکمیل کے مراحل طے کر چکے تھے۔ ان میں سے ایک مکتب اختر شیرانی کا تھا جس نے محبت کے جذبے کو رفعت اور عظمت سے مملو کر دیا تھا اور گوشت پوست کے جسم اور اس کے ارضی مقاصد کے مقابلے میں ایک مثالی اور ارفع دنیا کو اپنی منزل قرار دے لیا تھا۔ اس زاویہ نگاہ کی ابتداء رومانی تحریک کی ترویج اور فروغ سے ہوئی۔ لیکن اختر شیرانی پر اس کی تکمیل ہو گئی۔ دوسرا مکتب علامہ اقبال کا تھا۔ جس نے آسمان کی رفعت اور مقصد کی طہارت کو باقی تمام اشیا پر ترجیح دے دی تھی اور ایک مثالی اسلوبِ حیات کو اپنا مطمح نظر قرار دے لیا تھا۔ اس مکتب کی ابتدا حالی اور اس کے رفقا سے ہوئی لیکن اسے تکمیل علامہ اقبال نے دی۔ تیسرا مکتب ترقی پسند نقطۂ نظر کا علم بردار تھا۔ اور خارجی زندگی میں ایک مثالی معاشرے کی تعمیر اس کا منتہائے مقصود تھا۔ اردو شاعری میں اس کے لاتعداد علم بردار تھے۔ لیکن فیض کے ہاں اس کی تکمیل ہوتی نظر آ رہی ہے۔۔۔ گویا ان تینوں مکاتبِ شعر کا اپنا اپنا میدان عمل تھا۔ تاہم ان میں چند باتیں ایک قدر مشترک کی حیثیت رکھتی تھیں۔ اول یہ کہ وہ خیال کی ہمہ جہتی اور انتشار پسندی کے بجائے ایک مثالی ہمہ اوست اور یک جہتی کے قائل تھے۔ دوسرے اسلوب شعر کے ضمن میں ایک کلاسیکی رکھ رکھاؤ، تراش خراش اور انضباط کے داعی تھے۔ آخری یہ کہ اختر شیرانی، اقبال اور فیض میں ان مکاتب کی تکمیل کی صورت پیدا ہو گئی تھی۔

ایسے میں میراجی کا مکتب شعر وجود میں آیا جو مزاجاً ان تینوں کی ضد تھا۔ مثلاً اختر شیرانیؔ نے محبت کی ارفع اور مثالی صورت پیش کی تھی جب کہ میرا جی نے محبت کے ارضی پہلوؤں کو اہمیت دی۔ پھر جہاں اقبال نے زمین کو آسمان کے تابع کر کے ایک مثالی اسلوب حیات کو ارضی حد بندیوں سے ماورا قرار دیا تھا، وہاں میراجی کے ہاں ارض اور اس کا کلچر ایک قوی تر روپ میں ابھر آئے۔ اسی طرح فیض نے تو خارجی زندگی میں ایک مثالی معاشرے کی تکمیل کا خواب دیکھا جب کہ میرا جی کے ہاں داخلی زندگی کی پیچیدگیاں اور اسرار زیادہ جاذب نظر متصور ہوئے۔ آخری یہ کہ اختر شیرانی،  اقبال اور فیض پر ان مکاتبِ شعر کا اختتام ہوا۔ مگر میرا جی اپنے مکتب شعر کا نقطہ آغاز ثابت ہوا۔

اختر شیرانی، اقبال اور فیض۔۔۔ ان میں سے ہر ایک ریلوے ٹرمینس کی طرح تھا۔ یہاں ریلوے لائن اختتام پذیر ہو گئی تھی۔ مسافر اپنی منزل پر پہنچ گیا تھا اور سفر کی آرزو اور منزل کی تشنگی باقی نہیں رہی تھی۔ ریلوے ٹرمینس کا یہ ایک امتیازی وصف ہے کہ مسافر کو کسی اور منزل کی طرف راغب ہونے کی اجازت ہی نہیں دیتا۔ یہاں سے کوئی لائن کسی نئے دیس کی طرف نہیں جاتی۔ یہ گویا اختتام اور تکمیل کا نشان ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان شعراء کا کلام نظریاتی طور پر ہی نہیں،  فنی اعتبار سے بھی تکمیل کا احساس دلاتا ہے۔ تراکیب کی ساخت، مصرعوں کی ترتیب اور لفظوں کی تراش خراش میں ایک آشنا ضبط اور ایک مضبوط گرفت کا احساس ہوتا ہے۔ پیکر جھول سے محفوظ اور فکر ابہام سے ناآشنا ہے۔ ہر چیز پر ٹریڈ مارک ثبت ہے۔ اور اس لیے کوئی دوسرا ن کی تقلید نہیں کر سکتا۔ اعلیٰ پائے کے شعراء کا یہ ایک نمایاں وصف ہے کہ وہ راستوں کو مسدود کرتے ہیں اور مسافروں کے سامنے بند گلی کا سا منظر لا کھڑا کرتے ہیں۔ اگر کوئی ان کی تقلید کرنے کی کوشش کرے تو اس کا وہی حشر ہوتا ہے جو ساحر لدھیانوی اور مخدوم محی الدین کا ہوا۔ جب انھوں نے فیض کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کی، امین حزیں ؔ اور اثر صہبائی کا ہوا جب انھوں نے اقبال کے رنگ کو اختیار کیا اور متعدد شعراء کا ہوا جب انھوں نے اختر شیرانی کے رومانی انداز کو اپنانے کی کوشش کی۔

ان تینوں کے برعکس میرا جی ایک ریلوے ٹرمینس کی طرح نہیں بلکہ ایک بہت بڑے ریلوں کے جنکشن کی مانند تھا اور یہاں سے متعدد لائنیں مختلف اطراف سے نکل گئی تھیں،  ریلوے ٹرمینس صرف ماضی سے وابستہ اور بیک وقت کئی سطحوں پر موجود ہوتا تھا اور ایک جہتی سوچONE TRACK MINDکا غماز ہے جب کہ جنکشن کی امتیازی خوبی یہ ہے کہ یہ مستقبل سے وابستہ اور بیک وقت کئی سطحوں پر موجود ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میراجی کے کلام کو آسانی سے گرفت میں لینا مشکل ہے کہ یہاں لائنیں ایک دوسری کو کاٹتی، ایک دوسری سے ملتی اور پھر جدا ہوتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ وہ گویا ایک کٹھالی میں ہے۔ کوئی بات بھی تکمیل کی حامل نہیں۔ اس کی شعری زبان کو لیجیے تو نظم و ضبط سے عاری ہے،  تصورات کو دیکھیے تو نئے نئے ماخذ کا پتہ دیتے ہیں،  افکار کو جانچیے تو ایک عجیب سی آویزش کا احساس ہوتا ہے۔ زبان کی شکست و ریخت تصورات کی فراوانی اور افکار کی مبہم پرچھائیں۔۔۔ یہ میراجی! لیکن اسی میراجی میں امکانات کا ایک جہانِ نو بھی پوشیدہ ہے۔ وہ ہر لحظہ ٹوٹتا بنتا چلا جاتا ہے اور یہی داخلی تموج اس کے کلام پر بھی اثر انداز ہوا ہے۔ یہ نتیجہ ہے کہ ایک عام ساقاری اس کے کلام سے پوری طرح لطف اندوز نہیں ہو سکتا کہ اس کلام میں لفظوں کی وہ چمک دمک اور آہنگ اور فکر کی وہ خاص نہج موجود نہیں جس کا وہ عادی ہو چکا ہے۔ مگر اسی میں میراجی کی جیت بھی ہے کہ وہ رکا ہوا شاعر نہیں بلکہ ایک زندہ اور متحرک شاعر ہے۔ اس کا ایک ادنیٰ ثبوت یہ ہے کہ جہاں پچھلے بیس برس میں اردو شاعری پر اقبال، اختر شیرانی اور فیض کے اثر بتدریج کم ہوتے چلے گئے ہیں وہاں میراجی کے اثرات روز افزوں ہیں اور آج کی اردو شاعری میراجی کے دکھائے ہوئے راستوں پر ہی گامزن ہے۔

اردو شاعری پر میراجی کے اثرات متنوع اور لامحدود ہیں۔ ان اثرات کی ایک سطح تو نظام فکر میں ارضی پہلوؤں کی آمیزش کا باعث بنی ہے اب اردو کا شاعر اپنے مابعد الطبیعیاتی انہماک سے بیدار ہو کر وطن کی دھرتی پر اترنے اور اس دھرتی کی باس سونگھنے پر مجبور ہو گیا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ سامنے کی چیزیں نئے نئے علائم میں ڈھل کر اس کی شاعری کا جزو بدن بننے لگی ہیں۔ یہی نہیں بلکہ وطن کی تاریخ، تلمیحات اور اس کے کلچر کی بوباس بھی بڑے واضح انداز میں ظاہر ہونے لگی ہے۔۔۔ ایک ایسا کلچر جو جنگلی اور زرعی معاشرے کی پیداوار ہے اور جس میں جنگل کا عمق اور پودے کی بوقلمونی اپنے عروج پر ہے۔ اسی چور دروازے سے مذہب الارواح کے میلانات اور ان کے نتیجہ میں ڈائنوں،  چڑیلوں اور بد روحوں کی پرچھائیں نیز دھرتی کا مزاج بھی اردو شاعری میں شامل ہو رہا ہے اور شعراء نے اس سارے پس منظر کو بڑے لطیف علامتی انداز میں پیش کرنا شروع کر دیا ہے۔ کینوس کی یہ وسعت میراجی کا فیض ہے۔

دوسری سطح جسم اور حسیات سے متعلق ہے۔ اب اردو شاعری میں جسم کو گناہ آلود اور ناپاک قرار دینے کا رجحان ناپید ہو رہا ہے جو کہ عرصہ سے رومانیت اور ماورائیت کی تحریکات کے تحت عام ہو گیا تھا۔ اس کی جگہ جسم کے روحانی ارتقا کا نظریہ غالب آ رہا ہے۔ دراصل ہم کچھ زیادہ ہی جسم کی دنیا سے فرار حاصل کرنے میں مصروف رہے اور روح کے تجریدی رنگ کو تمام تر اہمیت دیتے رہے لیکن میراجی نے ہمارے میلانات کا رخ موڑ کر ہمیں جسم کے لیے بے پناہ امکانات اور اس کی قوتوں کا احساس دلایا۔ یہاں اشارہ ان نظموں کی طرف نہیں جن میں میراجی نے جسم کو حصول لذت کا وسیلہ بنایا بلکہ ان نظموں کی طرف ہے جن میں اس نے خود جسم کو آکاش تک اوپر اٹھایا اور اسی طریق سے عرفان حاصل کیا۔ میرا جی کا کلام تعاقب کا داعی ہے،  فرار کا نہیں اور جدید اردو شاعری نے یہ نکتہ میراجی میں سے اخذ کیا ہے۔

تیسری قابل ذکر سطح اس شدید داخلی رجحان سے متعلق ہے جو میراجی کے کلام کا ایک قیمتی عنصر ہے۔ میراجی خارج کے ہنگامی مسائل اور ان کی کروٹوں کا شاعر نہیں بلکہ باطن کے ان اسرار و رموز کا شاعر ہے جو بہرحال خارجی محرکات میں سے برانگیختہ ہوتے ہیں اور آج اردو شاعری کی اہم ترین جہت خارج سے باطن کی طرف ہے جو میراجی کے اثرات ہی کو ظاہر کر رہی ہے۔

٭٭٭

ماخذ:

’’ میراجی ایک مطالعہ‘‘، مرتبہ: ڈاکٹر جمیل جالبی، لاہور، سنگ میل، اشاعت: ۱۹۹۰ء، ص: ۳۵۵ تا ۳۵۹

٭٭٭

 

 

 

میرا جی

 

 

اکثر لوگوں نے میراجی کی موت کو ایک حادثہ قرار دیا ہے۔ حادثہ،  جس کا باعث وہ سست روی تھی، جو ایک بوجھل تھکاوٹ کی صورت، میراجی کے رگ و پے میں سرایت کر گئی اور وہ ذہنی اور جسمانی طور پر نڈھال ہو کر رہ گیا، مگر میرا خیال یہ ہے کہ میراجی کی موت کا حادثہ سُست روی کے باعث نہیں،  بلکہ تیز رفتاری کی وجہ سے رُو نما ہوا، ایک ایسی تیز رفتاری،  جو زندگی کی ٹریفک کے صدیوں پرانے قوانین کی صریحاً خلاف ورزی تھی۔ اِس بات سے کون انکار کرے گا کہ زندگی کی شاہ راہ پر سفر کرنے والے ہر مسافر کیلئے لازم ہے کہ وہ سفر کے آداب سے واقف ہو، ایک خاص شریفانہ رفتار سے تجاوز نہ کرے،  سرخ آنکھ نظر آئے،  تو رُک جائے،  سبز آنکھ نمودار ہو، تو چل پڑے۔ دائیں طرف مڑنا ہو، تو پہلے اپنی نیت کا اعلان کرے،  بائیں جانب جانا ہو، تو بلا اجازت مڑ جائے وغیرہ۔ مگر المیہ یہ ہے کہ کچھ ہی عرصہ کی تابع داری کے بعد ٹریفک کے اُصول ایک آسیب کی طرح اُسے اپنی گرفت میں لے لیتے ہیں اور وہ بغیر سوچے سمجھے ایک مشین کی طرح کام کرنے لگتا ہے۔ اِس سے جسم کو ’’حیاتِ ابدی‘‘ اور روح کو ’’مرگِ دوام‘‘ کا عطیہ ملتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں ایک نارمل انسان زندگی کی رسوم اور آداب کے تابع ہوتا ہے۔ وہ ایک صدیوں پرانا،  مگر آزمودہ زرہ بکتر پہن کر باہر نکلتا ہے،  جو اُسے حادثات سے بچاتا اور طبعی موت سے پہلے مرنے نہیں دیتا۔

ہائیڈ گر کا خیال ہے کہ ایسا شخصForgetfulness of Existence میں مبتلا ہوتا ہے،  یعنی روزمرہ کی تکرار کا اِس درجہ اسیر ہوتا ہے کہ حقیقت کو دیکھ ہی نہیں سکتا، مگر سب لوگ تو نارمل نہیں ہوتے،  اُن میں کہیں نہ کہیں کوئی پگلا چنڈی بھی جنم لیتا ہے،  جو رسوم اور آداب کو زنجیریں اور سلاسل سمجھتا ہے اور جسے ہر دم یہ احساس ستاتا ہے کہ وہ اپنے ہی جسم کی خانقاہ میں ایک راہب کی طرح قید ہے،  تب کسی روز اُس کے اندر کا لہو ایک دم بول اُٹھتا ہے اور اُس کی رفتار زندگی کی عام رفتار سے تیز ہو جاتی ہے،  یوں وہ شاہ راہِ حیات پر چلنے والے دوسرے مسافروں ہی سے نہیں ٹکراتا، کبھی کبھی سنتری بہادُر سے بھی اُلجھ جاتا ہے۔ میرا جی ایک ایسا ہی مسافر تھا،  جس نے اپنی تیز رفتاری کے باعث نہ صرف اپنے زمانے کی با عصمت سوسائٹی کے لیے مسائل پیدا کر دیے،  بلکہ جو خود اپنی ذات کے لیے بھی خطرہ بن گیا اور بالآخر اُس جِٹ ہوائی جہاز کی طرح،  جو آواز کی رفتار سے زیادہ تیز اُڑنے کی خواہش میں اپنے لیے ایک ساؤنڈ بیریئر (Sound Barrier) پیدا کر لیتا ہے۔ میرا جی نے بھی ایک ایسی ہی رُکاوٹ خود اپنے ہاتھوں تعمیر کر لی،  پھر جب اُس نے اِس ساؤنڈ بیرئیر کو عبور کرنے کی کوشش کی،  تو ایک دھماکے کے ساتھ ٹکڑے ٹکڑے ہو کر فضا میں بکھر گیا۔

اُردُو ادب میں تیز رفتاری کے باعث پیش آنے والا یہ پہلا حادثہ نہیں تھا، کیونکہ میراجی کے علاوہ بھی ہمیں بعض ایسے لوگ نظر آتے ہیں،  جو دوسروں سے زیادہ تیز رفتار تھے اور اِس لیے حادثات کی زد میں آ کر وقت سے پہلے ہی رخصت ہو گئے،  مگر اِن میں سے ہر ایک کا سفر کسی سمت کے تابع ضرور تھا،  جب کہ میرا جی نے بیک وقت کئی سمتوں میں ایک سی تیزی کے ساتھ سفر کیا۔ جسمانی سطح پر اُس کا سفر بظاہر شمال سے جنوب کی طرف تھا اور اِس بات پر اُسے فخر بھی تھا،  کیوں کہ وہ کسی نہ کسی حد تک آریاؤں کے نسلی برتری کے تصور میں مبتلا تھا اور اپنے سفر کو ہزاروں برس پہلے کی آریائی یلغار سے منسلک کر کے خود کو تاریخ کے دھارے کی ایک لہر قرار دینے میں خوشی محسوس کر رہا تھا، مگر حقیقت یہ ہے کہ میراجی کا احساسی سطح کا یہ سفر بھی سیدھی سڑک پر طے نہ ہوا، بلکہ اُس کی شخصیت کی طرح لاتعداد قوسوں میں خود کو بار بار کاٹتا رہا۔ ویسے بھی میراجی کو موڑ اور قوسیں زیادہ پسند تھیں،  یہ بات اُس کی نظموں سے بھی عیاں ہے،  جو سیدھے خطوط کی نظمیں نہیں،  بلکہ سدا مڑتی، کاٹتی اور بل کھاتی ہوئی ناگنیوں کی طرح ہیں اور اُس کے عام مزاج اور پسند سے بھی! مثلاً بقول میرا جی اُسے عورتوں کے پہناوے میں راجپوتانی لہنگے کا پیچ و تاب بطورِ خاص پسند تھا۔ اِس کے بارے میں میراجی کا خیال ہے کہ یہ کوئی طوفانی شے ہے،  جس میں جنگل کا گھنا گرم جادو بھی ہے اور سمُندر کا تلاطم بھی! یہی حال اُس کے ذوقِ سفر کا تھا کہ اُس نے گرینڈ ٹرنک روڈ پر زیادہ سفر کرنا کبھی پسند نہ کیا، چناں چہ آپ دیکھئے کہ اُس کی پیدائش پنجاب میں ہوئی،  بچپن گجرات کاٹھیاواڑ میں بسر ہوا،  لڑکپن نے سندھ کے ریگستانوں میں آنکھ کھولی، جوانی لاہور میں بیدار ہوئی، پھر وہ دِلّی پہنچا۔ دلّی میں اُس کے اندر کا محمد تغلق جاگ اُٹھا اور وہ جنوب کی طرف روانہ ہو گیا،  پھر بمبئی پہنچا۔ اگر زندگی بہ عجلت ساتھ نہ چھوڑ دیتی،  تو وہ غالباً جنوبی ہندوستان کے وسیع و شاداب علاقوں میں نکل جاتا، جہاں کی قدیم مندروں سے اَٹی ہوئی ہزاروں برس پرانی فضا اُسے ضرور راس آتی اور پھر پورب کی طرف بنگال تھا،  جس میں داخل ہونے کے کئی راستے تھے اور نکلنے کا راستہ کوئی نہیں تھا، مگر مجھے یقین ہے کہ میراجی وہاں بھی نہ رکتا،  کیوں کہ سمندر کے بلاوے میں بڑی جان تھی اور سمندر کا بلاوا دراصل ماں کا بلاوا تھا اور ماں لاہور میں رہتی تھی:

 

یہ سرگوشیاں کہہ رہی ہیں اب آؤ کہ برسوں سے تم کو بلاتے بلاتے مرے

دل پہ گہری تھکن چھا رہی ہے

کبھی ایک پل کو کبھی ایک عرصہ صدائیں سنی ہیں،  مگر یہ انوکھی ندا آ رہی ہے

بلاتے بلاتے تو کوئی نہ اب تک تھکا ہے،  نہ آئندہ شاید تھکے گا

’’مرے پیارے بچے ‘‘،  ’’مجھے تم سے کتنی محبت ہے۔ ‘‘ ’’دیکھو اگر یوں کیا، تو

برا مجھ سے بڑھ کر نہ کوئی بھی ہو گا۔ ‘‘ خُدایا ! خُدایا!!

 

سفر انقطاع کی ایک صورت ہے،  جب کوئی خدا کا بندہ سفر اختیار کرتا ہے،  تو عارضی طور پر سہی، اُس خول کو ضرور توڑتا ہے،  جس نے گھر، محلہ، شہر یا وطن کی صورت میں اُسے اپنی مُٹھی میں لیا ہوتا ہے،  مگر جب سفر جسمانی سطح سے آگے بڑھ کر اَخلاقی اور اخلاقیاتی سطح پر آ جائے،  تو ایک مزے دار صورتِ حال جنم لیتی ہے۔

میراجی نے محض جسمانی سطح پر سفر کر کے خود کو بار بار مختلف جگہوں ہی سے منقطع نہ کیا، بلکہ زمانے کی مروّجہ رسوم اور اخلاقی تقاضوں اور معیاروں کو بھی توڑا۔ اِس کی ایک صورت تو یہ تھی کہ اُس نے ازدواجی زندگی کے اُس ادارے سے بغاوت کی،  جس پر معاشرے کی بقا کا سارا دارومدار ہے،  پھر اُس نے جذباتی بے راہ روی کی وہ روش اختیار کی، جسے سوسائٹی نے ہمیشہ قابلِ اعتراض سمجھا ہے۔ منشیات کی طرف میراجی کا جھکاؤ بھی انقطاع ہی کی ایک صورت تھی، پھر اُس نے لباس اور وضع قطع کے ضمن میں بھی سوسائٹی کے مروّجہ آداب سے انحراف کیا اور خود کو اجتماع کی بھیڑ چال سے الگ کر کے ایک طرح کی بغاوت کا اعلان کر دیا۔ میرا اندازہ ہے کہ سماجی سطح پر میراجی کی یہ بغاوت ایک سوچے سمجھے ہوئے منصوبے کے مطابق تھی، مگر اُس کے پیچھے جو جذبہ کارفرما تھا، وہ میراجی کے غیر شعوری،  مگر تیز رفتار میلانِ سفر ہی سے منسلک تھا۔

یہ تو ہوئی میراجی کے اُفقی سفر کی رُوئداد! اب اُس کے عمودی سفر کا حال سنئے۔ میراجی نے اپنا عمودی سفر اُس دیار میں کیا،  جسے انسان کے خواب ناک ماضی کا دیار کہنا چاہیے۔ اِس سفر کی ایک صورت تو یہ تھی کہ میراجی ایک جہاں گرد کی طرح گیتوں کی تلاش میں روانہ ہوا اور اُس نے دیس دیس کی شاعری سے اَنمول موتی اکٹھے کئے۔ بعد ازاں مولانا صلاح الدین احمد صاحب نے میراجی کے اِس عمودی سفر کو’’ مشرق و مغرب کے نغمے ‘‘ میں محفوظ کر دیا۔ میراجی کے اِن مضامین کو پڑھیں، تو اِس بات کا کچھ اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی نوع کے انسانوں سے کس قدر وابستہ تھا اور جہاں کہیں اُسے کوئی نازُک دل، شعر کی تال پر دھڑکتا ہوا ملتا تھا، وہ کس والہانہ پن سے آگے بڑھ کر اُس کا ہم رقص بن جاتا تھا۔ دراصل ’’مشرق و مغرب کے نغمے ‘‘ بجائے خود ماضی کی لطیف اور مترنَّم آوازوں کا ایک جھرمٹ ہے،  جس میں میراجی نے اپنی آواز شامل کر کے اُسے مکمل کر دیا ہے۔ پھر دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ میراجی نے اِس کتاب میں زیادہ تر اُنھی شعرا کے نغمے سنائے ہیں،  جن سے وہ خود جذباتی طور پر منسلک تھا اور جو اُسی کی طرح جہاں گرد، حسّاس اور باغی تھے۔ پشکن،  بودلیئر، والٹ وہٹ مین، چنڈی داس اور بارہویں صدی کے لاطینی گیت گانے والے جہاں گرد اور خانہ بدوش یورپی طلباء، اِن سب کی آوارہ خرامی میں میراجی کو خود اپنی آوارہ خرامی کا عکس دکھائی دیا اور وہ اِن کی معیت میں تا دیر سفر کرتا چلا گیا۔

میرا جی کے عمودی سفر کی دوسری صورت یہ تھی کہ وہ نسل کے خواب ناک ماضی میں داخل ہو گیا۔ ماضی جو اِس برِّصغیر کی ہزاروں برس پر پھیلی ہوئی تہذیب کا مدفن تھا۔ جب میراجی اپنے اِس ماضی سے متعارَف ہوا،  تو اُس کے پوروں کے لمس نے ہر مُردہ شے میں گویا جان سی ڈال دی اور اُس کے رُو برُو سارے کا سارا ماضی زندہ ہو کر آ گیا، تب ماضی کی اُس فضا میں شریک ہونے کے لیے میراجی نے اپنا حلیہ تبدیل کیا۔ سر پر جٹائیں،  گلے میں مالا، ہاتھوں میں تین گولے ( جو ترشول کی ماڈرن صورت تھی) اور گھر کے بندھنوں سے بے نیازی !

ماضی کے مرکزی کرداروں یعنی سنیاسیوں اور بھگتوں کا سا یہ حُلیہ، میراجی کے لیے ماضی کے دیار میں گویا ’’داخلے کا ٹکٹ‘‘ تھا،  مگر ماضی کی اِس خواب ناک فضا کے بھی دو رُوپ تھے : ایک بستی کی فضا، دوسری جنگل کی فضا!

بستی کی فضا گیت اور جھنکار،  بدن اور شراب، گھر اور اُس کے کرداروں کی فضا تھی اور جنگل کی فضا سے تیاگنے اور جسم سے اوپر اٹھنے کا رویہ منسلک تھا۔ بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ میراجی نے خود کو صرف بستی کی فضا تک محدود رکھا، چناں چہ اُس کی شاعری میں بے راہ رَوی اور لذت کوشی کے رُجحان کا یہی سبب تھا، مگر حقیقت یہ ہے کہ میراجی کے ہاں تیاگنے اور عرفان حاصل کرنے کا میلان خاصا توانا تھا، جو ماضی بعید کی فضا میں بھی ایک مرکزی میلان کی حیثیت رکھتا تھا۔ اِس فضا کا مرکزی کردار گوتم ہے، جو بستی کو چھوڑ کر جنگل کی راہ لیتا ہے اور پھر جنگل کے سب سے بڑے اور گھنے درخت یعنی بڑ کے نیچے بیٹھ کر عرفان حاصل کرتا ہے۔ درخت کی آغوش میں سمٹنا’’ماں ‘‘ کی اُس دنیا میں جانے کے مترادف ہے،  جو تخلیق کا منبع ہے اور جو، ہر اِنسان کی ذات میں ہمیشہ سے موجود رہی ہے،  گویا بستی سے جنگل کی طرف سفرغیر ذات سے ذات کی طرف ایک سفر ہے۔ میراجی کے ہاں اِس سفر کو بڑی اہمیت ملی ہے۔ اپنی نظم ’’اجنتا کے غار‘‘ میں وہ لکھتا ہے

:

چھوڑ کر زیست کے ہنگاموں کو

چل دیا دُور کہیں،  دُور بہت،  دُور کہیں

سوچتا جاتا ہے

وہ پاؤں زمیں پر اُس کے

گرتے پھولوں کی طرح پڑتے ہیں

گرتے پھولوں کو مگر داسیاں چُن لیتی ہیں

 

گویا میراجی کی نظروں میں گوتم کا گھر بار تیاگنے اور بیوی بچوں سے منہ موڑ کر جنگل کی طرف جانے کا اقدام ایک مبارک بات تھی، نہ کہ فرار اور انحراف کی صورت ! چناں چہ وہ اپنی نظم ’’ترقی‘‘ میں لکھتا ہے :

 

اور وہ بڑھتا گیا

پیڑ کی چھاؤں تلے سوچ میں ایسا ڈوبا

بن گیا فکرِ ازل،  فکرِ ابد

اور جنگل سے نکل آیا، تو اُس نے دیکھا

بستیوں میں بھی اُسی چاہ کے انداز نرالے پھیلے

مگر جنگل سے گوتم کی واپسی ایک ایسا واقعہ ہے،  جس سے (کم از کم میراجی کے سلسلے میں ) ہمیں کوئی غرض نہیں ؛ وجہ یہ کہ میراجی کے ہاں یہ مراجعت وجود ہی میں نہ آ سکی۔ میراجی کی کہانی تو گیان کے کوندے سے متعارف ہونے کی حد تک ہے۔ گوتم کی واپسی اور پھر انسانوں کی نجات کے لیے تگ و دو سے اُسے کوئی علاقہ نہیں۔ چلئے گیان کے کوندے کی حد تک ہی سہی! مگر سوال یہ ہے کہ گیان کے اِس لمحے کی نوعیت کیا ہے ؟

نوعیت یہ ہے کہ وہ جو ’’مبتلا‘‘ تھا، اُسے اپنے مبتلا ہونے کا عرفان حاصل ہو گیا، یعنی اُس کی تیسری آنکھ یکایک کھُل گئی اور اُس نے خود کو ’’مکروہاتِ دنیا‘‘ میں گرفتار دیکھ لیا۔ یہ بالکل ایسے ہی تھا، جیسے کوئی روزنِ در سے ہمسائے کے آنگن کا نظارہ کرے اور پھر یکایک خود کو ’’روزنِ در‘‘ سے جھانکتے ہوئے دیکھ لے۔ اِسی چیز کو Ouspensky نے Self-Remembering کا نام دیا ہے۔ روحانی سطح پر یہی Self-Remembering عرفان کے لمحے پر منتج ہوتی ہے۔ خود میراجی نے اپنی کشتیوں والی تمثیل میں اِس کیفیت کو بڑی خوبی سے بیان کیا ہے۔ میراجی لکھتا ہے :

’’اور یوں پہلی ناؤ بنانے والے کو جب ہر طرف بالک ہی بالک دکھائی دینے لگے،  تو پھر ناؤ کی گنتی کسی کے بس کی بات نہ تھی۔ پھیلے آکاش پر دوڑتے پھرتے ہوئے بادلوں کی طرح جدھر دیکھو،  ایک نئی ناؤ تھی، ایک نیا گیت تھا۔ گیت ہی گیت،  مگر وہ بالک جو کھیل پورا کر چکا، جس کا جی کھیل سے بھر گیا،  اُسے تو گیت دکھائی نہیں دیتے،  اُسے تو ہر طرف بالک ہی بالک دکھائی دیتے ہیں اور اُن کے ہر طرف بکھرے ہوئے ٹوٹے ہوئے کھلونے !‘‘

یہ تو تھا عرفان کا وہ لمحہ، جو ایک لمحۂ حیرت بن کر میرا جی کے سامنے آ کر کھڑا ہوا، مگر جسے میراجی،  گوتم کی طرح عبور نہ کر سکا۔ یہ اچھا بھی ہوا کیوں کہ اگر وہ اُسے عبور کر جاتا،  تو پھر فن کار نہ رہتا، ایک نجات دہندہ کے منصب کو اپنا لیتا اور یہ بات اُس کے فن کے لیے یقیناً مضر ثابت ہوتی۔ میراجی جب تک جیا، اپنی ذات کے مرکزی نقطے پر کھڑے ہو کر جیا اور یہیں سے وہ اپنی تیسری آنکھ کو بروئے کار لا کر تار ہائے نظر کے رشتوں کو بنتے،  مٹتے اور پھر مٹتے،  بنتے دیکھتا رہا۔

یوں سوچئے، تو وہ منسلک بھی تھا اور منحرف بھی اور اپنی اِن دونوں حیثیتوں کا ناظر بھی! عرفان کے اِس لمحے کی چکا چوند میں زیادہ دیر صرف وہی ہستی رہ سکتی ہے،  جسے ایک پیغمبر کی سی روحانی شکتی حاصل ہو اور میراجی ایک خاکی انسان تھا، لہٰذا وہ اِس لمحے کی تپش میں بڑی تیزی سے تڑخنے اور ٹوٹنے لگا اور پھر ایک روز اپنے ہی ایغو کے ساؤنڈ بیریئر سے ٹکرا کر پاش پاش ہو گیا۔

٭٭٭

ماخذ:

’’تنقید اور مجلسی تنقید‘‘،  وزیر آغا، ڈاکٹر، سرگودھا، مکتبہ اُردو زبان، طبع اوّل: جنوری ۱۹۷۶ء،  ص: ۶۱ تا ۶۹

 

٭٭٭

ماخذ: جدید ادب، جرمنی، میرا جی نمبر

تشکر: وقاص،پنجند لائبریری جنہوں نے جدید ادب، میرا جی نمبر کی فائل فراہم کی

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید