FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

مہاجرین

 

 

 

                راجندر سنگھ بیدی

 

 

 

 

وہ ایک دم پاکھا کے اسٹیشن پر اُتر پڑے— وہ مہاجرین جو ایک مرد، ایک عورت اور ایک ہی بچہ پر مشتمل تھے۔کوئی بڑے عزم والے لوگ نظر آتے تھے، سوائے اس بات کے اسٹیشن پر اُترنے سے پہلے عورت کچھ دیر کے لیے رُکی اور کوئی بات ان کے عزم اور استق لال کو نہیں جھٹلاتی تھی۔

مسافر اترے اور ان میں سے کچھ ترتیب اور کچھ دھکم پیل کے ساتھ باہر نکل گئے۔ لیکن مہاجرین ابھی وہیں کھڑے تھے اور اپنے عزم کے باوجود کچھ سوچ رہے تھے۔ ایک دو قلیوں نے اپنی خدمات پیش کیں۔ لیکن مرد نے بڑھ کر کہا۔ ’’نہیں میاں، میں اپنا قلی آپ ہوں ——‘‘ اور مہاجرین کے سازو سامان میں کچھ پھٹی پرانی کتابیں، کچھ تپائیاں، کچھ ٹرنک اور ایک دو تہ کیے ہوئے نمدے تھے۔ اس کے علاوہ ان کے سر پر محبت کا تمام بوجھ تھا، جو کوئی قلی نہیں اٹھا سکتا تھا۔

’’شاید ٹینکیوں کے لیے آئے تھے‘‘ داریش اسٹیشن ماسٹر نے سوچا۔

ان دنوں ٹینکیوں کی مرمت کے لیے بہت سے لوگ آ رہے تھے۔ سرکار ان لوگوں کی درآمد کی ذمہ دار تھی، لیکن پاکھا کے پتی داروں میں سے کوئی بھی انھیں راستہ دکھانے کے لیے نہ آیا تھا، اور اس کے لیے وہ بیچارے اِدھر اُدھر دیکھ رہے تھے۔ داریش نے رحم بھری نظروں سے انھیں دیکھا، اور بالکل مشینی انداز میں گاڑی کو چلے جانے کا سگنل دیتا رہا۔ ’’شاید رہائش کے بارے میں کوئی فیصلہ نہ ہوا ہو‘‘ داریش نے سوچا … تاہم یہ ممکن نہ تھا کہ لوگ پاکھا کے اسٹیشن پر اُگے ہوئے ہی اننّاس کو دیکھ کر اُتر پڑے ہوں۔ ہر مسافر کے دل میں منزل طے کی ہوئی بات ہوتی ہے، ورنہ وہ یوں ہی ساکھا، پاکھا، یا جھاکو لاڑی کے اسٹیشنوں پر نہیں اتر پڑتا۔ البتہ جب سردیاں چپکے چپکے، ہولے ہولے، گرمیوں کے ساتھ بغل گیر ہوتی ہیں، تو قدرت میں چاروں طرف اَن گنت خوشبوئیں پھیل جاتی ہیں۔ اس وقت ہو سکتا ہے کوئی مسافر کسی بھی اسٹیشن پر اتر جائے —— گودن وہی تھے، لیکن وہ مہاجرین یوں اُتر جانے والے نہیں تھے۔

داریش بدستور سگنل کرتا ہوا خانہ بدوشوں کے انداز میں سامنے کی شاملات کو دیکھنے لگا۔ بہی، اننّاس اور شاملات میں اُگے ہوئے بڑھلوں کی سرسبزی آنکھوں میں گپھی جا رہی تھی۔ داریش خالی خولی نگاہوں سے دیکھتا رہا۔ اُس وقت کیبن میں وزیرے نے کانٹا گِرا دیا اور سب کیبن کی طرف دیکھنے لگے،جس کے نیچے لکھا تھا ’’باکھا جنکشن‘‘ … اس کے قریب ہی مرمت طلب ٹینکی، جس میں پچیس ہزار گیلن پانی آسکتا تھا، رِس رہی تھی۔ داریش نے پھر اُس مرد اور ٹینکی کی طرف دیکھا —

’’آپ کہاں جائیں گے! داریش نے آگے بڑھتے ہوئے پوچھا۔‘‘

’’یہاں قریب کہیں آرام گاہ ہے—! ‘‘ اس مرد نے داریش کی پیش کش قبول کرتے ہوئے پوچھا ، وہ مرد گورکھپور اور اس کے نواح کی ہندستانی بول رہا تھا۔

داریش نے جواب دیا’’ اسٹیشن سے باہر نکلتے ہوئے ایک حجام کی دکان ہے— رنگون ہیرکٹنگ — اور اس کے پاس ایک ہوٹل ہے، لیکن گندہ ہے اور اس کے بالکل سامنے پاکھا کے کوئلے کی اَن لوڈنگ ہوتی ہے اور ……‘‘

’’کوئی بات نہیں، کوئی …‘‘ اسی مرد نے ٹوکا۔

داریش اس وقت تک گاڑی نکال چکا تھا۔ اس کے پاس فرصت کے چند لمحے تھے، جن کا وہ استعمال ایک عام متعجب آدمی کی طرح جاسوسی میں کرنا چاہتا تھا۔ یہ کون ہیں ؟ کیوں ہیں؟— کہاں جا رہے ہیں؟ اور اسی قسم کے واجب اور ناواجب سوال اس کے دماغ میں اُٹھ رہے تھے۔ دراصل داریش اس بات کو ماننا نہیں چاہتا تھا کہ یہ لوگ ایسے شخص کے پاس آئے ہیں، جنھیں وہ نہیں جانتا — وہ پاکھا کے ہر کُتّے پلّے سے واقف تھا، جس کا ثبوت یہ تھا کہ اس نے رنگون ہیر کٹنگ اور اَن لوڈنگ کے پاس تنور کا ذکر کرتے ہوئے شروع کیا —— ’’آپ کے ساتھ بچّہ ہے نا؟‘‘

اُس مرد نے اپنے بچے کی طرف دیکھا اور کہا ——! ’’ہاں اور بیوی بھی‘‘ اور پھر وہ بہت تھوڑا سا مسکرایا، جس کی وضاحت اس کی ہونٹوں کے کونوں نے کر دی۔ داریش نے دیکھا اور اس کے خاندان کی روایتی مہمان نوازی اُمڈ آئی۔

’’مجھے بچے سے غرض ہے ،بیوی سے مطلب؟ —— اس نے پھر سوچا اور شاید ہنسا بھی۔ گویا اس نے اس مرد سے بدلہ لے لیا ہو اور بولا

’’اُسی تنور کے نانبائی نے دو بلّے پال رکھّے ہیں جو اکثر دودھ کو منھ لگا جاتے …‘‘

بیگم نے داریش کا ساتھ دیتے ہوئے کہا:’’گڈو کو تنور کا دودھ نہیں پلائیں گے۔‘‘

بیگم کچھ آزادی محسوس کرنے لگی تھیں۔ ابھی تک وہ اپنی اَن جانی جمع تفریق کے ساتھ داریش کو اپنا بھائی بنا چکی تھیں۔

داریش نے سر ہلاتے ہوئے کہا: ’’بیگم سمجھتی ہیں۔ بیگم جانتی ہیں … بلّی کی مونچھ کا بال دودھ میں پڑ جائے تو …‘‘

’’نعوذ باللہ!‘‘ بیگم نے کہا: ’’کہتے ہیں مرگی کا ڈر ہوتا ہے۔‘‘

داریش مسکرا رہا تھا۔

بیگم ایک ٹوکری تھام کر بیٹھ گئی۔ اس ٹوکری میں کپڑوں کے بجائے بہت سے چیتھڑے نظر آتے تھے، جیسے بچّہ پیدا ہونے سے پہلے عورتیں جمع کر لیتی ہیں۔ ذرا مرد نے اِدھر اُدھر دیکھا تو داریش کو غور کرنے کا موقع ملا۔ مرد اتنا لانبا تھا کہ اونٹ کی دُم چومے، لیکن اس کے باوجود اتنا برا معلوم نہ ہوتا تھا، کیونکہ اس کے کندھے چوڑے تھے۔ اگر وہ دُبلا بھی تھا تو کفنی کی قسم کے لباس نے اس کا جسم چھپا رکھا تھا۔ مولویانہ داڑھی میں اس کی مضبوط ٹھوڑی محسوس ہوتی تھی، اور جس طرح قدرے شراب زیادہ پی لینے سے دوسرے آدمی کے خد و خال ٹیڑھے میڑھے اور نقوش کبھی واضح اور کبھی غیر واضح نظر آنے لگتے ہیں، اسی طرح اس کے چہرے کی باقی ’’چیزیں‘‘ اپنی اپنی جگہوں سے اِدھر اُدھر ہٹی معلوم ہوتی تھیں، اگرچہ غور کرنے پر پتہ چلتا تھا کہ وہ ’’چیزیں‘‘ وہیں تھیں جہاں انھیں ہونا چاہیے تھا۔

چوں کہ عورتیں دُنیا کے اس گوشے میں کم تھیں، اس لیے داریش کو وہ عورت خوبصورت نظر آئی، ورنہ وہ گڑھوالی سا چہرہ اور لباس میں تنگ سا اُریب پائجامہ اور اس کے نیچے گتھیلی جوتی اِن دِنوں کسے اچھی لگتی ہے۔ وہ عورت تھی اور یہ کافی تھا۔ پھر ایک بچے کی ماں تھی۔ یہ بہت تھا۔

’’آپ کا نام؟‘‘ داریش نے پوچھ لیا، اور پھر جواب کا انتظار کیے بغیر بولا۔ ’’آپ کسے ملنا چاہتے ہیں؟‘‘

گویا داریش سمجھتا تھا کہ اتنی جلدی نام پوچھ لینا بہت زیادہ دخل ہے۔ دوسرے سوال کا مطلب تھا، اگر آپ نام بتانا گوارا نہیں فرماتے تو دوسرے سوال کا جواب دینے میں گھبراہٹ کی کوئی بات نہیں — یوں ہی ہوا — نام بتاتے ہوئے اس شخص نے ہچکچاہٹ محسوس کی، لیکن دوسرے سوال کا جواب فوراً ہی دیتے ہوئے بولا:’’ کوئی خاص جگہ نہیں —— آپ یہاں ریلوے میں ہیں؟‘‘

اب داریش نے اپنے آپ کو محفوظ سمجھا اور بولا۔’’ میرا نام داریش ہے اور میں یہاں اسسٹنٹ ہوں۔‘‘

’’میرا نام آثم ہے، مولوی آثم۔‘‘ اس مرد نے آناً فاناً کہا، شاید اس لیے کہ کتنا عرصہ وہ نام کو چھپانے کی کوشش میں لگا ہوا تھا۔

’’مولوی آثم، خوب‘‘ اور داریش نے آثم کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے کہا: ’’بہت خوشی ہوئی —‘‘

’’تو آپ کبیرا کے ہاں جائیں گے — مسجد میں؟‘‘

’’نہیں بھیّا‘‘ بیگم بول اُٹھیں۔’’ہم ……‘‘

’’آپ نہیں بتائیے گا۔‘‘ داریش نے انگلی کے اشارے سے منع کرتے ہوئے کہا۔ ’’تو گویا آپ دو آبیوں کے مہمان ہیں؟‘‘

’’کون دو آبی؟‘‘

’’نہیں نہیں ٹھہریے —— آپ سلطان کے یہاں جا رہے ہیں، جو گھوڑوں کی کاٹھیاں بناتا ہے۔ نہیں تو جبّار کے یہاں اور یا پتّی داروں کے ہاں۔‘‘

مولوی آثم کھلکھلا کر ہنس رہے تھے اور داریش شرمندگی کو چھپانے کے لیے اس ہنسی میں شامل ہو گیا۔ مہاجرین میں سے عورت کے لیے ہجرت آسان ہو گئی تھی، اور وہ تھوڑی سی فرصت پاکر اپنے اِردگرد بکھرے ہوئے سامان کی طرف دیکھنے لگی، اور اپنے سامان کے سب سے پیارے اور بیڈھب حصّے کو چمکارنے لگی۔

’’بھوک لگی ہے میری گڈو کو؟ …… مولوی آثم دراصل کسی سے بے تکلّف ہونا نہیں چاہتے تھے۔ لیکن انھوں نے، جانے داریش میں کیا دیکھا کہ چھوٹتے ہی اپنا نام بتا دیا۔ شاید اس لیے کہ ایک آدھ آدمی تو اللہ میاں بھی راز داں بنا لیتے ہیں، لیکن یہی نام مولوی آثم کے لیے سب سے بڑا راز تھا۔ خصوصاً پاکھا کے اسٹیشن پر پہنچنے کے بعد یہ راز اور بھی اہمیت رکھتا تھا۔ مولوی آثم بولے۔

’’بھائی میں یہاں کسی کو نہیں جانتا …… میں یہاں کوئی کام کروں گا۔ ’’کوئی کام … ابھی تو مجھے ایک ٹھکانا چاہیے۔‘‘

’’پاکھا میں کام مل سکتا ہے؟‘‘ داریش نے حیران ہوتے ہوئے کہا — اَن لوڈنگ کے سوا اور تو یہاں کوئی کام نہیں، اور یا ٹنکیاں مرمت ہو رہی ہیں …… دراصل آپ کیا کام کریں گے؟‘‘

’’جو مل جائے گا۔‘‘

’’میں نہیں مانتا کہ آپ کوئی کام نہیں کرسکتے۔‘‘

’’یہ میں نے کب کہا؟ میں تو سب کچھ کرسکتا ہوں۔‘‘

’’آپ نے جو کہا جو کام ہو گا کریں گے … میرا مطلب ہے اتنی عمر میں آپ نے کوئی نہ کوئی ایسی بات تو سیکھی ہو گی جو آپ ہی کرسکتے ہیں اور …… اور مثلاً میں نہیں کرسکتا۔‘‘

’’ہاں سیکھی ہے — لیکن وہ بیکار ہے۔‘‘

’’  ہُف ہُف‘‘ داریش نے اپنی ہنسی کو دبایا — ’’ایسی بھی کوئی چیز ہے جو بیکار ہو … کیوں گڈو بی بی ،کیوں رو رہی ہے؟‘‘

گڈو رو رہی تھی،لیکن داریش کی دخل اندازی سے سہم گئی۔ بیگم بولیں ’’اِسے بھوک لگ رہی ہے نا۔‘‘

لیکن مولوی آثم بولے۔ ’’بھئی اب تمھیں کیا بتاؤں جو میں نے اب تک حاصل کیا ہے وہ بیکار ہے۔‘‘

’’اگر کوئی بہت راز کی بات ہے تو … ‘‘

’’نہیں تو، سن لو —— میں دلّی کے کوچہ چیلان میں رہتا تھا۔ اور شعر کہا کرتا تھا——‘‘

’’شعر۔‘‘

’’ہاں شعر۔‘‘

’’ارشاد فرمایے بھلا کوئی۔‘‘

’’میں کوئی اتنے پائے کا شاعر نہیں تھا بھائی۔ یوں ہی تک بندی کرتا تھا۔‘‘

’’نہیں آپ تو کسرِ نفسی کرتے ہیں۔ ماشا ء اللہ یوں تو ……

’’مولوی آثم نے جھلاّتے ہوئے کہا۔ ’’ بس میاں داریش، اسی بات سے گھبرا کر بھاگ آیا ہوں۔ ابھی میں نے شعر سنایا ہی نہیں اور آپ داد دینے کے لیے تیار ہو گئے۔ آپ نے فرض کر لیا کہ میں بہت بڑا شاعر ہوں۔ اور میرے جذبات کو ٹھیس نہیں لگنی چاہیے ۔ مجھے بہت کوفت ہوئی کیونکہ میں نے شعر کہا، نہ آپ نے سنا، آپ نے داد دی اور میں جھک کر آداب بجالانے کی فکر میں تھا —— یہ سب کچھ کس لیے، کیوں —— آخر کیوں؟‘‘

گاڑی سننے اور دیکھنے کے افق پر پہنچ چکی تھی۔ اب وہاں ہرے بھرے بہی اور بڑھل کے درمیان مہاجرین کھڑے تھے اور یا داریش تھا،جس کی سبز جھنڈی، بڑھل کا ایک پتہ دکھائی دے رہی تھی۔ انناس کے سوکھے ہوئے پھل ہوا کے کسی جھونکے سے گر کر اِدھر اُدھر بکھرنے لگے تھے۔ دور اَن لوڈنگ میں کوئلے کا دھواں سارے یارڈ پر چھایا ہوا تھا — ایک پل کے لیے داریش نے سوچا،کہیں یہ لوگ کمیونسٹ نہ ہوں — کیا پتہ کان کے مزدوروں کو منظم کرنے آئے ہوں —— پھر اس نے گڈو اور اس کی ماں کی طرف دیکھا۔ اور کہا ۔’’جانے یہ سب کچھ کیموفلاج  ہو، شعر وغیرہ کا ڈھونگ بھی اپنے اصل مقصد …… اور اس نے شک اور تاسف کی ملی جلی نگاہوں سے مولوی آثم کی طرف دیکھنا شروع کر دیا۔ مولوی آثم کا چہرہ تمتا رہا تھا۔ حیرت کی بات یہ تھی کہ داریش اور آثم دونوں فوری ضرورت کے متعلق بھول گئے تھے، حالاں کہ انھیں چاہیے تھا، سب سے پہلے کسی ٹھکانے کا بندوبست کرتے —— صلح ہو جائے جو لڑائی ہو کر — کچھ ایسی محبت پرورش پا رہی تھی۔

آخر دونوں نے ایک ساتھ سوچا کہ اس وقت کہاں جائیں۔ داریش بھلا اپنی روایات سے باہر کیسے جا سکتا تھا۔ جیسے داد وصول کرتے ہی مولوی آثم نے آداب بجا لانے کی کوشش کی تھی،اسی طرح مولوی آثم کے مدّعا زباں پر لاتے ہی داریش کے باپ دادا ، داریش کے ذریعے سے بولنے لگے تھے—

’’آپ میرے ہاں چلیے۔‘‘

مولوی آثم اور بیگم نے آنکھوں ہی آنکھوں میں شکریہ ادا کیا۔ آخر مولوی آثم بولے۔ ’’اگر میں اس وقت تکلف کروں تو یہ جھوٹی شرم ہو گی— لہذا اگر آپ اس وقت تک ہمیں پناہ دیں جب تک میں سامنے بازار میں اپنا ٹھکانا نہیں کر لیتا، تو میں آپ کا ممنون ہوں گا۔‘‘

داریش نے اسٹیشن کے ایک دو قلیوں کو آواز دی —  وزیرا کانٹا چھوڑ کر ادھر آ رہا تھا۔ وہ بھی اسسٹنٹ اسٹیشن ماسٹر کی بیگار میں شامل ہو گیا۔ کچھ سامان کو مولوی آثم نے ہاتھ لگایا، لیکن داریش نے منع کیا۔ جیسے داریش نے سامان اٹھایا، ویسے ہی اس کے مہمان نے۔ اس لیے آثم نے صرف داریش کی عزت کے لیے اٹھائے ہوئے نمدے نیچے رکھ دیے۔ اور سامان پر ہلکا سا ہات رکھے چپ راست چپ راست کرتا ہوا داریش کے ساتھ چل دیا۔ داریش سوچ رہا تھا، مولوی آثم نے کسی حد تک اپنی روایات کو خیرباد کہہ دیا ہے۔ مثلاً جب میں نے انھیں اپنے ہاں چلنے کی دعوت دی، تو انھوں نے اپنے روایتی انداز میں یہ نہیں کہا ’’نہیں جناب! آپ کو ناحق تکلیف ہو گی۔‘‘ اب وہ چیزوں کو حقائق کی نظروں سے دیکھنے لگے تھے۔ شاید مولوی آثم اور ان کی بیگم یہ بھی جانتے ہوں کہ کسی کو احسان کرنے کا موقع دینا چاہیے۔ جس پر احسان کیا جائے یہ اس کے لیے اتنا ضروری نہیں ہے، جتنا کہ احسان کرنے والے کے لیے — —  شاید — —  شاید — —  اور یہ وقت وہ تھا جب کہ داریش نے ان لوگوں کو مہاجرین کا خطاب دیا تھا۔

ابھی اسٹیشن کا پلیٹ فارم گزرا نہیں تھا کہ بِہی کے پودے کم ہونے شروع ہو گئے اور جنگلے کے پیچھے سے لائن کے متوازی پاکھا کا ریلوے بازار نظر آنے لگا۔ داریش کا بتایا ہوا ہوٹل — —  تنور، پھاٹک سے ایک طرف ہٹ کر تھا۔ البتہ رنگون ہیر کٹنگ بالکل سامنے تھا۔ اردگرد پرانے کپڑوں اور پرانے جوتوں کی دُکانیں تھیں، جن پر بہت سے کاریگر بیٹھے پرانی ٹوپیوں پر نیا کپڑا لگا رہے تھے۔ ان دکانوں کے پیچھے کوارٹر دور تک چلے گئے تھے۔ یہی پتّی داروں کے مکان تھے۔ انھیں میں دو آبیے ، سلطان اور جبّار رہتے تھے۔ یہیں چاروں طرف سے مکانوں میں گھری ہوئی کبیرا کی مسجد تھی، جس کا گبند یوں معلوم ہو رہا تھا جیسے بہت سے پتّوں میں کوئی رس بھرا خوشہ ہوتا ہے۔

ٹھیلے، گاڑیاں، اَن لوڈنگ کا سامان، بازار، ٹریفک… گڈو کثرت نظارہ سے گھبرا گئی تھی اور کسی حد تک دودھ کا خیال بھول چکی تھی۔ پہلا ریلا شاید جھوٹی بھوک کا تھا جس کی تسکین پانی کا ایک گھونٹ بھی کرسکتا تھا۔ البتہ سچی بھوک میں کثرت نظارہ سے توجہ منتشر نہیں ہو سکتی۔ گڈو کے ہاتھ میں کاغذ کی بنی ہوئی ایک کشتی تھی جسے وہ ہوا کے پانیوں میں تیرنے کے لیے چھوڑ دیتی، اور کبھی بیگم ، کبھی آثم، کبھی کوئی قلی ، یا داریش اُٹھا کر اسے دے دیتے — —  اس دفعہ اس نے کشتی داریش کی طرف بڑھائی — —  بیگم بولی ’’ماموں جان نہیں لیتے تمھاری پکھی — ۔‘‘

’’ماموں جان‘‘  داریش نے سوچا — —

تو ابھی تک بیگم کا دل، دلّی میں دھڑک رہا تھا اور پاکھا کی کوئی علامت اس میں نظر نہیں آتی تھی۔ نئی جگہ میں آنے سے اس کا دل مسرور بھی تھا اور مغموم بھی۔ اُس نے آثم کے آسرے پہ ہجرت کی تھی۔ مہاجرین میں وہ بچہ تھا — —  گڈو، یا آثم — —  اور بیگم ان کا ساتھ دے رہی تھیں۔ وہ دائرے سے نکلنے کی خواہشمند تھیں۔ لیکن آہستہ آہستہ ہولے ہولے ، کسی کو کانوں کان خبر نہ ہو! بالکل جیسے رسوم و روایات میں بندھی ہوئی کنواری چاہتی ہے کہ سوتے میں کوئی اس سے لپٹ جائے، تاکہ اس کا کوئی قصور نہ ہو، اور ……

مولوی آثم نے ابھی پاکھا کو محسوس نہیں کیا تھا، یا شاید کیا تھا، اسی لیے وہ بے پروائی اور عزم کے ساتھ گنگنا رہے تھے   ؎

گھُٹ کر مر جاؤں یہ مرضی مرے صیّاد کی ہے

اس بہ ظاہر بے بسی میں جو چیلنج تھا، وہ مولوی آثم کو بھی معلوم تھا، اور اس کے صیّاد کو بھی۔ وہ گا رہے تھے — —  بس یوں ہی محض گنگنانے کی غرض سے۔ شاید اس لیے کہ وہ آخری بار وہی کرنا چاہتے تھے جو کہ وہ زندگی بھر کرتے رہے تھے۔ زندگی بھر کا چور آخری فعل میں کب اپنے خدا کو دھوکا دیتا ہے۔ برخلاف اس کے ……… یہ سفر کوچہ چیلان سے شروع ہوتا تھا —  اور پاکھا پہنچ کر ختم ہو جاتا تھا۔ پاکھے کی موت تو صرف ایک خول تھی ، جس میں مولوی آثم کا کیڑا    بے حس و حرکت پڑا گا رہا تھا ، تاکہ وہ تیتری بن جائے۔

گھُٹ کر مر جاؤں یہ مرضی مرے صیّا دکی ہے

اتنی دیر میں اسباب رکھا جا چکا تھا، لیکن گڈو دودھ پی رہی تھی۔ اس دودھ میں نہ بِلّے کا ڈر تھا نہ کتّے کا ، نہ مرگی اور تشنج کا خطرہ۔ اور نہ ہائیڈروفوبیا کا خوف۔ داریش کے باپ دادا اِدھر اُدھر دوڑ رہے تھے کہ مہمانوں کو تکلیف نہ ہو۔ اور مولوی آثم ایک کرسی پر بیٹھے ہوئے اپنے عزم کے ساتھ ’’ہوں ہوں‘‘ کر رہے تھے، گویا آنے والی مصیبتوں کا ابھی سے مقابلہ کر رہے ہوں —

بیگم اٹھیں اور زنانے میں چلی گئیں، یوں ہی، ورنہ وہ مردانے میں بیٹھی رہ سکتی تھی۔ داریش نے اس وقت بیٹھتے ہوئے کہا ’’معاف کیجیے گا ، مجھ سے اس وقت گستاخی ہوئی تھی۔‘‘

’’نہیں، آپ کا کیا قصور؟‘‘ مولوی آثم نے داریش کی وکالت کرتے ہوئے کہا — ’’ہمارے ہاں قاعدہ یہی ہے کہ اگر کوئی یہ بتا دے کہ میں شاعر ہوں تو اس سے فرمائش کرنا ضروری سمجھا جاتا ہے۔‘‘

’’بس اسی لیے، اسی لیے — — ، داریش نے کرسی کھینچتے ہوئے کہا اور قلیوں سے بولا ’’بس جاؤ —  دیکھتے کیا ہو، اپنے ہی آدمی ہیں۔‘‘

مولوی آثم نے جیب سے پیسے نکالنے کی ضرورت ہی نہ سمجھی۔ یہ بری بات تھی،کیونکہ اس سے غلط فہمی کا احتمال ہو سکتا ہے۔ داریش اندازہ نہیں لگا سکتا تھا کہ لوگ کس حد تک ’’آزاد‘‘ ہو چکے ہیں۔ لیکن اگر پیسے نہ ہوں تو یوں ہی جیب کی طرف ہاتھ لے جانا اور میزبان کا یہ کہنا — ‘‘ نہیں جناب رہنے دیجیے‘‘  ایک ایسی چیز تھی جو پاکھے کی موت کے بعد ممکن نہیں تھی۔

جب مہمان نوازی ہو چکی تو داریش نے پوچھا — ’’تو آپ کیا کام کریں گے؟‘‘

’’میں سب کام کرسکتا ہوں۔‘‘

’’مثلاً؟‘‘

مثلاً — —  میں آپ کے جوتے اٹھا سکتا ہوں۔ آپ کی چلم بھرسکتا ہوں۔‘‘

داریش نے گھبرا کر مولوی آثم کی داڑھی کی طرف دیکھا۔ وہ چہرے سے اتنے باوقار آدمی نظر آتے تھے۔ داریش کہہ سکتا تھا، نہیں جناب — —  یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں۔ لیکن اس نے اپنے مقابل بیٹھے ہوئے آدمی کی بے تکلفی کے پیش نظر کچھ نہ کہا اور پھر مولوی آثم جو کہہ رہے تھے، اس میں شک بھی نہیں تھا۔وہ سب کچھ کر گزرنے کے لیے تیار تھے۔ کر گزرنے نہیں بلکہ کرنے کے لیے مستعد تھے۔

دور سے کہیں کھٹّے کے پودوں کی تیز سی خوشبو آئی ، جیسی کہ اکثر سردیوں اور گرمیوں کے ملاپ کے وقت آتی ہے۔ طبیعت میں ایک عجیب طرح کی بے تکلفی پیدا ہوئی۔ خوشگوار سردی میں تلخی کی ایک رمق — —  اور پھر تھوڑی دیر کے بعد درختوں کا جھاڑ گرا اور کچھ پتنگے سے اُڑے، کائنات میں سب کچھ پھل لا رہا تھا اور بے شمار کیڑے مکوڑے، ہزاروں شہد کی مکھیاں، اور تتلیاں ایک درخت ، ایک پودے، ایک پھول کی محبت کا پیغام دوسرے درخت، پودے اور پھول تک پہنچا رہی تھیں۔ ہوا کبھی ہلکی ، کبھی تیز ذخیرے سے اَن گنت درختوں کی زرد زرد محبت لائی تھی اور اسے اسٹیشن کے جنگلے پر جھکے ہوئے بِہی اور انناس پر قربان کر رہی تھی۔

کچھ دیر کے لیے مولوی آثم اور داریش دونوں چپ رہے۔ پھر داریش بولا۔

’’اِن دنوں ہماری ریلوے لائن پر کنکر ڈالنے کا کام ہے۔‘‘

’’آثم نے اُچھلتے ہوئے کہا۔ ’’میں کروں گا۔‘‘

داریش نے پوچھا۔ ’’ٹھیکہ لیں گے آپ۔‘‘

آثم نے کہا —  ’’نہیں بھائی — ٹھیکیدار کے نیچے کام کروں گا اور جب کام سیکھ لوں گا … پھر تھوڑا بہت پیسہ لگا کر، لائینوں میں کنکر ڈالنے کا ٹھیکہ لے لوں گا۔ اور پھر ……

اس وقت تک داریش قریب قریب اپنی تمام حیرت کھو چکا تھا۔ اس کا سوچنے کا انداز کچھ اس قسم کا تھا کہ دنیا میں سب کچھ ممکن ہے۔ وہ قدرت کی اس بے رحمی پر دل سے رو رہا تھا کہ وہ انسان کو کیا سے کیا بنا دیتی ہے اور کیا سے کیا بننے کے بعد بھی انسان خوش رہتا ہے۔ شعر اور کنکر کا فلسفہ سمجھنا کتنا مشکل تھا۔ لیکن داریش اب اس کی ایک جھلک پا سکتا تھا۔ آخر داریش بولا۔ ’’آپ کی عنایت سے میں اتنا قابل ہو گیا ہوں کہ ایک سانس میں شعر اور کنکر کا ذکر کرسکوں — —  اب کوئی شعر سنا دیجیے۔‘‘

داریش کے ساتھ مولوی آثم نے پُر جوش مصافحہ کیا، اور سوچ میں غرق ہو گئے۔

یوں معلوم ہوتا تھا کہ وہ اس غوطے کے بعد کوئی موتی ہی لائیں گے، لیکن جناب موتی کہاں آتا ہے، کروڑوں غوطے خالی جاتے ہیں اور ہر غوطے کے ساتھ فضول سے گھونگے، مونگے، سبز سیاہ جالے لپٹے، چلے آتے ہیں — —  مولوی آثم نے کہا —  مجھے افسوس ہے کہ پاکھا میں آ جانے کے بعد بھی میں شاعر ہی رہا۔ اس گرم جوش مصافحے نے میری ہجرت کو جھٹلا دیا ہے۔‘‘

’’میں شعر کو نہیں چھوڑ سکتا۔‘‘ مولوی آثم نے بیٹھتے ہوئے کہا— ’’لیکن کنکر اور شعر دونوں کو علاحدہ رکھوں گا۔‘‘

’’داریش نے کہا —— ’’میرا شعر؟‘‘

مولوی آثم بولے —— ’’میں آپ کو سب کچھ بتاؤں گا، سب کچھ۔‘‘ گویا وہ چاہتے تھے کہ کوئی اس قتل پر شاہد رہے۔ لیکن پھر ان میں ایک عزم پیدا ہوا، اور مولوی آثم بولے —

میں نے چاہا تھا کہ مرجاؤں اجازت نہ ملی

موت کو بھی وہ مرے دل کی تمنّا سمجھا

اور واقعی ہجرت کس حد تک ممکن تھی؟ جو کچھ مولوی آثم کے دل پر ہیبت رہی تھی، وہ جانتے تھے۔ داریش نے خجالت سی محسوس کی اور مولوی آثم جان کر آسمان سے زمین پر اترتے ہوئے بولے: — ’’اور بس اس کے بعد قافیہ بندی۔ اگر عیاں قافیہ ہوا تو آسماں، زماں ، تواں، استخواں، نہاں، رواں، امتحاں— رشکِ جہاں، خزاں، زباں، عیاں وغیرہ چلے آئے اور اگر اضطراب ہوا، تو انقلاب، عذاب، ابوتراب اور پھر آب آب ہو گئے۔‘‘

’’اور پھر جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ شعر ابھی سنایا نہیں اور داد ملنے لگی۔ گھر میں شعر و ادب کی محفلیں جمنے لگیں —— اجی واہ — ہ  — ہ! کیا کہنے، حاصلِ مشاعرہ ہے! کہہ گئے استاد کہہ گئے ، واہ وا — واہ اجی جناب آپ ہی کا حصہ ہے اور ایسے کلمے ابا جان سے ہمیں ترکہ میں ملے ۔ میں تو بے حد ذلیل شعر کہتا تھا، البتہ ابا جان کبھی کبھی اچھے شعر کہہ لیتے تھے، آخر میرزا سے تلمیذ کرتے تھے۔ بلکہ میرزا نے خطوط میں ان کا ذکر بھی کیا ہے۔ ابا جان ہی تھے جنھوں نے بچپن میں میرزا کو ’’بیسن کی روٹی‘‘ پہنچائی تھی !……

’’گویا جو لوگ آتے تھے ان کی خاطر مدارات ہوتی تھی۔ پان گلوری سے لے کر شروع کے تھانوں اور گھوڑوں، بچھیڑوں تک کو دیا جاتا تھا۔ لیکن ابا جان۔ آہ وہ شمع بھی خاموش ہو گئی، بقول میرزا   ؎

داغِ فراقِ صحبتِ شب کی جلی ہوئی!

وہ لد گئے لیکن ہم نے کفنانے دفنانے میں وضع داری کو قائم رکھا۔

مگر لوگ ہمیں اور ہمارے خاندان کی روایات کو جانتے تھے۔ وہ اُن روایات کو برقرار رکھنے پر اصرار کرتے تھے اور اس میں مرحومہ و مغفورہ والدہ صاحبہ اور ہمارے دوسرے عزیزوں کی تائید شامل ہوتی تھی۔ لوگ کہنے پر فوراً تیار ہوتے، اجی کہاں — فلاں اور کہاں ان کا بیٹا آثم۔ اس کے باوجود مرصع پاندان اور چنار اور کٹوریاں اور جانے کیا کیا چلتا رہا…

اسی طرح میں بھی اُنیس بیس کے فرق کے ساتھ ایک خاص انداز کا مالک ہو گیا۔ وہ انداز کیا تھا، یہ میں بھی نہیں جانتا۔ لیکن مجھے اتنا پتہ ہے کہ اگر میں بولتا تو پھر بولتا ہی چلا جاتا، اور چپ رہتا تو پہروں خاموش! اگر زیادہ بولتا تو لوگ کہتے

’’دیکھا مولوی آثم کو؟ ارے یار بڑا پھکّڑ ہے۔‘‘

’’اس کے باپ میں بڑی متانت تھی۔‘‘

’’کبھی بات کرتا تھا وہ — لیکن جب بات کرتا تو … سوچ کر ، کیا بات کرتا تھا، واہ —‘‘

’’مجھے یاد ہے اسی طرح خواجہ رفیع کے ہاں مشاعرہ ہو رہا تھا۔ سب ان کے مکان کے صحن میں کچھ چاندنی پر اور کچھ نیچے پھسکڑا مارے بیٹھے تھے، خوش گپیاں ہو رہی تھیں۔ ابھی صدر نہیں چنا گیا تھا۔ اس دن کنپٹی پھڑک رہی تھی اور اس سے پہلے میں کسی کی معرفت سٹہ ہار چکا تھا، اس لیے چپ رہا۔ وہاں ایک ذوق صاحب تشریف رکھتے تھے۔ وہ ذوق نہیں، جو بہت بڑے شاعر تھے۔ یہ کوئی نقال تھے۔ میری طرف دیکھا اور پیکدان میں تھوکتے ہوئے بولے:—

’’ارے میاں ہاشم ، تم چپ سادھے بیٹھے ہو؟‘‘

میں بھانپ گیا، مجھ پر نوازش ہو رہی ہے۔ یوں صاحب ابا جان کی دوستی کا دم بھرتے تھے، لیکن اتنا بھی تو نہ ہوا کہ صحیح نام جان لینے کی زحمت گوارا فرماتے۔ میں نے انکسار سے کام لیتے ہوئے کہا — ’’قبلہ کوئی بات کرنہیں آتی۔‘‘

فرمانے لگے —— ’’اپنی طرف سے کسرنفسی کر رہے ہو ——‘‘ اور اس کے بعد ہو ہو ہو …… اور قہقہے بلند ہوئے ،جن میں دل آزاری کے لیے والد صاحب کے تمام دوست شامل ہو گئے۔ اول تو میری عادت، جانی اور اَن جانی دونوں چیزوں کو اکٹھا کر لیتا۔ مثلاً جب شعر لکھتا اور اتفاق سے سیاہی کاغذ پر کہیں گرجاتی تو سمجھتا کہ لاکھ سر پٹکوں غزل ذلیل ہو گی۔ یہ قدرت نے تنبیہ کی ہے کہ گولی مارو اس شعر و شاعری کو۔ یہ تمھارے بس کا روگ نہیں ہے۔ کہہ گئے کہنے والے۔ اسی طرح اگر میں (کسی کی معرفت) سٹھ کھیلنے جاتا اور اوپر گلی کا کبوتر بیٹ کر دیتا ، تو مجھے پیسے گم کر دینے میں یقین ہو جاتا۔ کوئی اندرونی آواز کہنے لگتی۔ تم ذلت کے لیے پیدا ہوئے ہو، ورنہ تم پر پھول برستے اور کبھی تو یوں نہ ہوا کہ رخصت ہوتے ہوئے سامنے کھڑکی میں سے میری طرف دیکھ کر کوئی مسکرا دے … … اسی طرح جب پیکدان میں تھوکنے کے ساتھ یہ فقرے کسے گئے تو میں سب لوگوں کو ہنسی کے باوجود اُٹھ کر چلا آیا۔

گھر بھر میں میں پہلا آدمی تھاجس نے سارے خاندان کی مخالفت کے باوجود مسجد میں لڑکے پڑھانے شروع کیے۔ گھر میں جھنجی کوڑی نہ تھی، لیکن وضعداری کا یہ عالم تھا کہ کوئی کام کرنے سے ہچکچاتے تھے —— کوئی کیا کہے گا، حالاں کہ دلّی میں ہزاروں ایسے کام مل سکتے تھے جن سے آدمی عزت کی روٹی کھائے ۔ لیکن نہیں ہمارے گھر کے لوگ جاگیروں کے مالک تھے اور جاگیریں بک چکی تھیں، لیکن پھر بھی جاگیر دار کہلوانے کی خواہش دل میں لیے ہوئے تھے ——

لڑکے پڑھانے میں بھی ایک وضع قائم ہو گئی۔ دس سال یہ کام کیا، جب کہ انگریزی اسکول قائم ہو گئے۔ پہلی مخالفت نے ناطقہ بند کر دیا۔ اب لڑکے پڑھانے سے کچھ حاصل نہ ہوتا تھا، اب کیا کرتا۔سب دنیا کہتی تھی فلاں باپ کا بیٹا ہے جو میرزا سے تلمیذ کرتے تھے ……

اس وقت داریش کے کوارٹر میں گھنٹی بجی ، مولوی آثم نے سمجھا، شاید داریش کو زنانے میں کسی نے بلایا ہے۔ لیکن اس گھنٹی کا اسٹیشن سے کوئی تعلق تھا۔ مولوی آثم نے کہا۔ ’’آپ ہو آئیے‘‘ داریش جو نہایت انہماک سے مولوی آثم کی باتیں سن رہا تھا بولا:— ’’کوئی خاص بات نہیں، چھوٹا بابو ریٹرنز کے لیے چلاّ رہا ہو گا۔ میں وزیرے کو بھیج دوں گا۔ اور کاغذ یہیں منگوا لوں گا…‘‘ اس وقت ایک انجن جو ابھی تک دُور یارڈ میں کہیں کاڑیاں سارٹ کر رہا تھا، بہار کی مختلف خوشبوؤں کے ساتھ کوئلے اور تیل اور بھاپ کی بدبو ملاتا ہوا گزر گیا۔ کچھ دیر تک اس کا جسم اور آخر میں اس کی پشت دکھائی دیتی رہی اور پھر وہ مکمل طور پر نظروں سے اوجھل ہو گیا۔

مولوی آثم نے اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہا:— ’’اس کے بعد میں نے ’’اپنی زندگی‘‘ شروع کر دی، جس کے پہلے حصہ سے میں واقف ہوں ، لیکن بعد کے حصّے سے نہیں۔ البتہ مجھے ہاجرہ اپنی بیگم کی زبانی معلوم ہوا …… مجھ میں ایک عزم بیدار ہو رہا تھا۔ ’’اپنی زندگی‘‘ گذارنے کا عزم جس میں کسی کو کوئی دخل نہ ہو ۔ میں نے اپنے انگرکھے اور دوپلّی کو اُتار دیا۔ اس پر بہت لے دے ہوئی، لیکن چونکہ انگریزی تعلیم نے آسانیاں پیدا کر دی تھیں، اس لیے گھر کے لوگ بک جھک کر چپ ہو رہے۔

آخر مجھے وہ دن یاد آیا جب میرے چچا، جنھوں نے والد کی وفات کے بعد جائداد کا بہت سا حصہ غصب کر لیا تھا، میرے تہ بند کے خلاف کچھ بولے، غصہ کا ایک طوفان تھا جو اُمڈ آیا …… میں تہ بند اُتار، ننگا گلی میں چلا گیا۔

میں نے کہا۔ ’’میں فلاں فلاں کا بیٹا ہوں۔ فلاں فلاں کا بیٹا۔ فلاں کا دوہتا—— میرے نانا اورنگ آباد میں ناظم تھے اور یہ ہیں میرے چچا تمیزالدین صاحب، جو بدتمیزؔ تخلص کرتے ہیں … … اور میں نے چچا کو گلے سے پکڑا ہوا تھا، لیکن اس کے بعد جانے کیا ہوا، میں نے چچا کو چھوڑ دیا… حالاں کہ اگر چاہتا تو اسے گھر کے بادلے سے ٹکرا کر مار سکتا تھا۔ اس کی آنکھیں باہر نکلی ہوئی تھیں، جیسے پھانسی لگے ہوئے آدمی کی باہر آ جاتی ہیں۔ محلے کے سب مرد جمع ہو گئے، عورتیں منھ چھپانے لگیں۔ میں نے ان لوگوں کے چہروں پر مسکراہٹ دیکھی تھی، جن کی مسکراہٹ کے لیے میں ترس گیا تھا۔ اس کے بعد میں نے بے ربط فقرے کہنے شروع کیے — پیغمبرانہ فقرے— ’’تو مٹی سے کھیل، کہ تیرا خمیر مٹی سے اٹھایا گیا ہے۔‘‘

’’تو خدا اور اس کی دُنیا میں ننگا رہ  —— جو تجھے روکے گا، خدا اس سے بدلہ لے گا۔‘‘

’’اور ایسی واہی تباہی کی ۔ لوگوں نے کہا پاگل ہے۔ بہتوں نے کہا اسے کشف ہو رہا نے۔ میں ان کے سامنے کھڑا تھا —— ننگا —— مجسم کشف! — انھیں فقروں میں بہت سادگی نظر آتی تھی، جیسی دنیا کی عظیم ترین کتابوں میں ہے۔ چند ایک نے مجھے پکڑ کر پاگل خانے میں داخل کر دیا۔

’’ایک …… یا شاید ڈیڑھ برس میں وہاں رہا۔ پاگل خانے میں جاتے ہی تہبند باندھ لیا۔ وہاں مجھے سب لوگ سلجھے ہوئے نظر آتے تھے۔ شاید یہی میرے پاگل ہونے کی علامت تھی۔ لیکن وہاں کتنی آزادی تھی۔ جیسے کوئی چاہے رہے —— اپنی زندگی … بالکل اپنی … ‘‘

اس کے بعد میں وہاں سے چلا آیا۔ لیکن میں اپنا علاج سمجھ چکا تھا۔ چند حالات کی بنا پر مجھے دو تین برس دلی میں کام کرنا پڑا، اس عرصہ کے دوران میں میں نے ہاجرہ سے چکی پسوائی، خود سن بانٹی، دو کتابیں لکھیں جو کہ کسی حد تک مقبول ہوئی تھیں۔ مسجدوں میں وعظ کیے۔

’’میں جہاں چاہتا تھا جاتا تھا۔ اور جو جی چاہے کرتا تھا۔ مجھے کوئی روک نہیں سکتا تھا۔ آج میری ایک پوشش ہوتی تو کل دوسری ۔ لیکن میں نے دیکھا اہل خانہ نے مجھے سزا دینے کا ایک اور طریقہ سوچ لیا تھا، اور وہ یہ کہ وہ خود کڑھتے تھے۔ اوّل تو اس لیے کہ وہ مجھے پاگل سمجھتے، اور دوم جو مجھے پاگل نہ سمجھتے۔ وہ اپنے خاندان کے لیے مجھے باعث ننگ گردانتے—

’’یہ اپنی زندگی نہ تھی، جس میں مجھے ہمیشہ یہ خیال رہتا تھا کہ میں اگر اپنے آپ کو تکلیف نہیں دے رہا تو کسی کے لیے باعث تکلیف ہو رہا ہوں۔ اسی صدمے کے باعث میرے چچا تمیزالدین پاگل ہو گئے۔ چچی اور خالاؤں کا خیال تھا کہ چچا تمیز الدین اس دن سے اچھے نہیں ہوئے، جس دن میں اُنھیں گلے سے پکڑ کر گلی میں لے آیا تھا۔ وہ ہمیشہ کے لیے دیوانے ہو گئے اور میں ، جو دراصل دیوانہ تھا، صحیح سلامت ہو گیا۔‘‘

’’اس منزل پر پہنچ کر مجھے یقین ہو گیا کہ آج جس صورت میں میں نظر آ رہا ہوں، اسی صورت میں مجھے کل ہونا چاہیے، ورنہ میرے ہمسایہ حیران ہوں گے اور میرا حق کیا ہے کہ انھیں حیران کروں۔ میرا جو طرز عمل آج ہے، وہی کل ہونا چاہیے ۔ میرا کیا حق ہے کہ میں لوگوں میں رہ کر اپنی مرضی سے اپنا طرز عمل بدل کے انھیں پریشان کروں۔‘‘

’’اور اسی بات کو قبول کرتے ہوئے میں نے یہ فیصلہ کیا کہ ہجرت کر جاؤں ایسی جگہ جہاں مولوی آثم کو کوئی مولوی آثم کے طور پر نہ جانتا ہو۔ میں ایک نئی زندگی شروع کروں۔ دوسری جگہ جا کر میں ٹوکری ڈھوؤں، گملے اٹھاؤں، کچھ بھی کروں۔ میری وجہ سے کوئی پریشان نہ ہو گا۔ اور میں خود پریشان نہیں ہو سکتاکیونکہ میں اور ہاجرہ اس بات کو جان گئے ہیں کہ کوئی کام ذلیل نہیں—‘‘

اس وقت گڈو اچھلتی کودتی زنانے سے باہر چلی آئی۔ اس نے آتے ہی کہا۔ ’’ابا چلو۔‘‘

’’کہاں چلیں؟ مولوی آثم نے صحن میں اُگے ہوئے بڑھل کی طرف دیکھتے ہوئے کہا—

’’اپنے گھر۔‘‘

’’ساری دنیا ہمارا گھر ہے۔ بیٹا ! مولوی آثم نے کہا۔

داریش نے دل میں سوچا۔ اس کا مطلب ہے کہ رہنے کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ لیکن داریش نے مولوی آثم کے چہرے پر ایک غصہ اور ایک عزم دیکھا اور وہ مان گیا۔ اسے کچھ شکوک تھے۔ جو آثم کی شکل دیکھ کر رفع ہو گئے۔ آثم نے کہا۔

’’داریش صاحب: آپ وعدہ کیجیے کہ آثم اور اس کے ماضی کے متعلق کسی کے ساتھ بات نہیں کریں گے۔‘‘

داریش نے کہا۔ ’’میں وعدہ کرتا ہوں۔‘‘

اس کے بعد اجازت لے کر مولوی آثم باہر چلا گیا۔ اسی اثناء میں داریش نے وزیرے کو آواز دی تاکہ اسٹیشن سے ’’ریٹرنز ‘‘ کے کاغذ لے آئے ، اور جب کاغذوں کی خانہ پری کے بعد داریش نے باہر قدم رکھا تو دروازے پر ایک نووارد کھڑا تھا ۔ داریش نے کہا ’’فرمائیے‘‘ لیکن اگلے ہی لمحے اِسے پتہ چلا کہ نووارد مولوی آثم ہے جو سامنے ’’رنگون ہیر کٹنگ‘‘ سے داڑھی منڈوا کر آیا ہے، اور آج سے اس کا نام ’’حقی‘‘ ہے۔

٭٭٭

ماخذ:

http://baazgasht.com/tag/rajinder-sing-bedi/

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید