FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

ملک کا خطرناک رخ اور دانشور طبقہ کی ذمہ داری

               مولانا سید ابو الحسن علی ندوی

 

 اپریل ۱۹۸۳؁ء میں حضرت مولاناؒ کی قیادت میں ’’حلقۂ پیام انسانیت‘‘ کے ایک وفد نے یوپی کے چند مغربی اضلاع کا تیز رفتار دورہ کیا، اس دورہ کا آخری اور اہم ترین مقام علی گڑھ تھا، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے کینیڈی ہال میں ۱۶؍ اپریل ۱۹۸۳؁ء کو یونیورسٹی کے طلبہ اور اساتذہ کے سامنے یہ تقریر کی گئی۔

ناشر: پیام انسانیت فورم، لکھنؤ

بشکریہ

www.abulhasanalinadwi.org

 

حمدو صلوۃ کے بعد

{فَلَوْلاَ کَانَ مِنَ الْقُرُونِ مِنْ قَبْلِکُمْ أُولُوْا بَقِیَّۃٍ یَّنْہَوْنَ عَنِ الْفَسَادِ فِي الْأَرْضِ إِلاَّ قَلِیْلاً مِّمَّنْ أَنْجَیْْنَا مِنْہُمْ  وَاتَّبَعَ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مَآ أُتْرِفُوْا فِیْہِ وَکَانُوْا مُجْرِمِیْنَ} (سورۃ ھود: ۱۱۶)

( جو نسلیں تم سے پہلے گزر چکی ہیں ، ان میں ایسے صاحب شعور کیوں نہ ہوئے جو ملک میں بگاڑ پھیلنے سے روکتے ؟ ہاں ایسے تھوڑے تھے جن کو ہم نے بچا لیا، اور جو ظالم تھے وہ عیش و آرام کے انھیں اسباب کے چکر میں پڑے رہے جو ان کے لیے مہیا کیے گئے تھے، اور وہ مجرم تھے۔)

            معزز اساتذہ اور عزیز طلبہ!

            میں نے آپ کے سامنے قرآن شریف کی ایک آیت پڑھی ہے، اس آیت میں جو درد ، جو جوش ، جو حقیقت اور طاقت ہے، میں اقرار کرتا ہوں کہ اس کو ترجمہ میں منتقل نہیں کرسکتا، میں قرآن مجید کا طالب علم رہا ہوں اور عربی زبان میں بھی شُدبُد رکھتا ہوں ، لیکن میں اعتراف کرتا ہوں کہ قرآن مجید کی اس آیت کے اندر درد کا لفظ استعمال کرنے سے میں ذرا ڈرتا ہوں کہ وہ خدا کا کلام ہے، لیکن درد انگیزی کہنے میں کوئی وجہ نہیں ) جو درد انگیزی ہے ، دوسری زبان میں اس کا منتقل کرنا بہت مشکل ہے۔

            اللہ تعالی فرماتا ہے کہ تم سے پہلے کی نسلوں میں ایسے اہل شعور کیوں نہیں رہے جنھیں کچھ بچا کھچا احساس تھا، کچھ ان کے دل پر چوٹ تھی، انسانیت کا کچھ درد تھا، زمین میں جو فساد پھیل رہا تھا، جو تباہی مچ رہی تھی، اس سے لوگوں کو منع کرتے، تھوڑے سے ان لوگوں کے علاوہ جو اس کام کے لیے کھڑے ہوئے، جن کو ہم نے بچا لیا تھا، باقی تمام لوگ وقت کے دھارے میں بہہ گئے، عیش و عشرت کے جن وسائل کی کثرت تھی، اور بگڑی ہوئی صورت حال سے فائدہ اٹھانے کے جو زریں مواقع حاصل تھے، ان سے فائدہ اٹھانے لگے اور بہتی گنگا میں ہاتھ دھوتے رہے، آپ جانتے ہیں کہ بگڑی ہوئی صورت حال سے فائدہ اٹھانا زیادہ آسان ہوتا ہے، دوسرے کے گھر ویران کر کے اپنے گھر کی تعمیر اور دوسروں کی لاشوں پر سے گزر کر اپنے مقاصد تک پہنچنے کے مواقع آسانی سے مہیا ہو جاتے ہیں ، {وَاتَّبَعَ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مَآ أُتْرِفُوْا فِیْہِ وَکَانُوْا مُجْرِمِیْنَ}جو ان کو سامان عیش و عشرت دیا گیا تھا، وہ اس میں پھنسے رہ گئے اور وہ مجرم تھے۔

اصل فکر و پریشانی کی بات اور خطرناک صورت حال

            حضرات! انسان کے لیے بیماری کوئی غیر فطری چیز نہیں ہے، صحت کا اعتدال سے ہٹ جانا اور بیماری کا شکار ہو جانا انسانی فطرت کے خلاف نہیں ہے، بلکہ یہ ایک طرح سے زندگی کی علامت ہے، پتھر غلطی نہیں کرسکتا، درخت غلطی نہیں کرسکتا، انسان ہی غلطی کرتا ہے، اس لیے غلطی زیادہ پریشانی کی بات نہیں ، اور اس پر مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ، انسانوں کی ایک بڑی جماعت کا کسی غلط راستہ پر پڑ جانا، اپنی سفلی خواہشات اور پست درجہ کے مقاصد کی تکمیل کے پیچھے دیوانہ ہو جانا، تاریخ انسانی کے لیے بھی اور تقدیر انسانی کے لیے بھی شدید تشویش کی بات نہیں ہے، تشویس کی بات یہ ہے کہ بگڑے ہوئے حالات سے پنجہ آزمائی کرنے، فساد و انتشار پیدا کرنے والی طاقتوں سے آنکھیں ملانے والے، اپنی سہولتوں ، عزتوں (اور بعض اوقات حکومت و اقتدار) کو خطرہ میں ڈال کر میدان میں اترنے والے نایاب ہو جائیں ، اصل تشویش کی بات یہ ہے۔

            انسان بارہا ایسی بدنیت، فساد انگیز و انتشار پسند طاقتوں ، قیادتوں یا سازشوں کے شکار ہو گئے ہیں ، اور ایسانظر آنے لگا ہے کہ انسانیت سکرات کے عالم میں ہے، وہ جلد دم توڑ دے گی، لیکن تاریخ یہ بتلاتی ہے کہ ایسے ہر موقع پر کچھ ایسے افراد میدان میں آ گئے جنہوں نے زمانہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر حالات کا مقابلہ کیا، ان غلط رہنمائیوں اور قیادتوں کے مد مقابل بن کر کھڑے ہو گئے اور انھوں نے جان کی بازی لگا دی، انسانی تہذیب کا تسلسل جو ابھی تک قائم ہے، محض نسلی تسلسل نہیں ، بلکہ انسانی خصوصیات کا تسلسل جو ہر دور میں رہا ہے، انسانی احساسات و جذبات، اعلیٰ مقاصد، اخلاقی تعلیمات اور ان کی بقا و ترقی کے لیے ہمت و جرأت اور قربانی کا جذبہ جو اس وقت تک چلا آ رہا ہے، یہ درحقیقت انھیں لوگوں کا رہین منت ہے جو بگڑے ہوئے حالات میں میدان میں آئے، اور انھوں نے زمانہ کے چیلنج کو قبول کیا، اور ان بگڑے ہوئے حالات سے پنجہ لڑایا، اور بعض اوقات زمانہ کی کلائی موڑ دی، انھیں لوگوں کی بدولت انسانیت زندہ ہے، ہر زمانہ کے شاعر، ہر زمانہ کے ادیب، اور ہر زمانہ کے اہل دل زمانہ کے بگاڑ کی شکایت کرتے چلے آئے ہیں ، لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ اس کے بعد بھی انسانی خوبیوں کا سرمایہ، انسانی احساسات و جذبات اور نیک انسان موجود رہے، یہ اصل میں انھیں لوگوں کی جد و جہد کا نتیجہ ہے جو اُس وقت اپنے مفادات سے آنکھیں بند کر کے میدان آ گئے، انھوں نے اپنے لیے بھی ، اپنے خاندانوں کے لیے بھی اور اپنی آئندہ نسلوں کے لیے بھی خطرہ مول لیا، زمانہ کا رخ موڑ دیا، اور انسانیت کی کھیتی ان کی کوششوں اور قربانیوں کے پانی سے ہری ہو گئی۔

انسانیت کی کھیتی ہر زمانہ میں کھاد چاہتی ہے

            حقیقت میں انسانیت کی کھیتی ہر زمانہ میں کھاد چاہتی ہے، جس طرح فرٹیلائزر (Fertilizers) زمین میں قوت نمو بڑھاتے ہیں ، پیداوار کو طاقت بخشتے ہیں ، اسی طرح انسانیت کی کھیتی کے لیے بھی کھاد کی ضرورت ہے، انسانیت کی کھیتی کے لیے کھاد ’’ذاتی مفادات‘‘ ہیں ، اغراض و مفادات کی یہ کھاد جب اس کھیتی میں پڑتی ہے تو وہ کھیتی لہلہا اٹھتی ہے، زمین اپنی پیداوار بڑھا دیتی ہے، اور انسانیت کی جھولی بھر جاتی ہے، انسانیت کو زندگی کی ایک نئی قسط عطا ہو جاتی ہے، انسانوں میں زندہ رہنے کا استحقاق اور زندہ رہنے کی صلاحیت پیدا ہو جاتی ہے۔

انسانیت کی بقا کی حقیقی ضمانت

            زیادہ سے زیادہ وسائل کی فراہمی، سائنس و ٹکنالوجی کی ترقی، علم، فلسفہ، ادب و شاعری کوئی چیز بھی انسانیت کی بقا کی ضمانت نہیں ، انسانیت کی بقا کی حقیقی ضمانت وہ جری، دلیر، جانباز اور دردمند انسان ہیں جو زخمی دل، اشکبار آنکھیں ، سلگتے اور جلتے ہوئے دل و دماغ رکھتے ہیں ، جو ناسازگار حالات کا سامنا کریں ، چوٹ کو برداشت کریں اور تاریخ کے دھارے کو بدلنے کے لیے جان کی بازی لگا دیں ، جب کبھی اس جنس کی کمی نظر آتی ہے تو پورا سماج، پورا معاشرہ خطرہ میں پڑ جاتا ہے، خواہ دیکھنے میں آپ کو فربہی نظر آئے جیسے ایک فربہ جسم جس کے اندر بیسیوں قسم کی بیماریاں پرورش پاتی ہیں ، لیکن اس کی فربہی سب پر پردہ ڈالے رہتی ہے، دیکھنے والوں کو دھوکا ہوتا ہے اور سمجھتے ہیں کہ یہ انسان تندرست ہے، لیکن حقیقت میں وہ بیماریوں کا مجموعہ ہے۔

سماج کی اصل روح

            ایسا ہی سماج کا معاملہ ہے، سماج پر بعض مرتبہ غیر طبعی (Unnatural) اور غیر معتدل فربہی طاری ہو جاتی ہے، اس کے چہرہ پر خون چھلکتا ہوا نظر آتا ہے، لیکن جیسے کہ اقبالؔ نے کہا ہے:

کچھ اور چیز ہے کہتے ہیں جان پاک جسے

یہ آب و رنگ فقط آب و ناں کی ہے بیشی

            یعنی پانی اور روٹی کی مقدار جسم میں زیادہ ہو گئی تو چہرہ پر تازگی اور رعنائی نظر آتی ہے، لیکن یہ جان پاک نہیں ہے، جان پاک تو کچھ اور ہی چیز ہے، سماج کی جان پاک اور سماج کی اصل روح اس کے اندر ایثار کا مادہ ہے، اس کے اندر کی قوت برداشت ہے کہ اس کے افراد کس طرح ناگوار باتوں کو برداشت کر لیتے ہیں ، کتنے کڑوے گھونٹ پی جاتے ہیں ، کتنے صدمے برداشت کر لیتے ہیں ، وہ جلد اشتعال میں نہیں آتے، آپے سے باہر نہیں ہوتے، سماج میں نیک انسان کی کتنی قدر پائی جاتا ہے، شرافت کی کتنی قدر ہے، اس کو لوگ کس نظر سے دیکھتے ہیں ، احسان کو وہ سماج کتنا مانتا ہے، ظلم سے اس کے اندر کتنی نفرت ہے؟

سماج کے لیے سب سے بڑا خطرہ

            کسی سماج کے لیے سب سے بڑا خطرہ (خواہ وہ دنیا کا قدیم سماج ہو یا جدید سماج ہو) یہ ہے کہ اس کے اندر ظلم کا مزاج پیدا ہو جائے، پھر اس سے زیادہ خطرناک بات یہ ہے کہ اس ظلم کو ناپسند کرنے والے اس معاشرہ میں انگلیوں پر بھی گنے نہ جا سکتے ہوں ، دور بین تو دور بین، خورد بین سے بھی ان کو دیکھا نہ جا سکتا ہو، پورے سماج میں چند درجن آدمی بھی ایسے نہ ہوں جو اس ظلم کو، اس سفاکی کو، اس قساوت اور سنگدلی کو، کمزوروں پر دست درازی کو ناپسند کرتے ہوں ، اور اپنی ناپسندیدگی کا اعلان کرتے ہوں ، گھر بیٹھ کر ناپسند کرنے والے تو مل جائیں گے، جو چار چھ آدمیوں کی موجودگی میں کہہ دیں کہ یہ ٹھیک نہیں ہو رہا ہے، بڑے خطرہ کی علامت ہے، لیکن اپنی ناپسندیدگی کا اعلان کریں اور اس کو لے کر میدان میں آ جائیں ، ایسے افراد کی جب کسی سماج میں ، کسی معاشرہ میں کمی ہوتی ہے تو اس سماج، اس معاشرہ اور اس سوسائٹی کو کوئی طاقت نہیں بچا سکتی ہے۔

            جب کسی معاشرہ میں ظلم پھیلنے لگا ہو اور پسندیدہ نگاہوں سے دیکھا جانے لگا ہو، جب ظلم کے لیے یہ معیار بن گیا ہو کہ ظالم کون ہے؟ ظالم کی قومیت کیا ہے؟ ظالم کا فرقہ کیا ہے؟ ظالم کی زبان کیا ہے؟ ظالم کس برادری سے تعلق رکھتا ہے؟ تو انسانیت کے لیے ایک عظیم خطرہ پیدا ہو جاتا ہے، جب انسانیت کو اس طرح خانوں میں بانٹا جانے لگے، اور ظالم کی بھی قومیت دیکھی جانے لگے، جب اس کا مذہب پوچھا جانے لگے، جب آدمی اخبار میں کسی فساد یا کسی ظلم و زیادتی کی خبر دیکھے تو پہلے اس کی نگاہیں یہ تلاش کریں کہ کس فرقہ کی طرف سے یہ بات شروع ہوئی، اس میں نقصان کس کو پہنچا، جب ظلم کے ناپنے اور ظالم ہونے کا فیصلہ کرنے کا یہ پیمانہ بن جاتا ہے کہ وہ کس قوم، فرقہ، طبقہ و برادری سے تعلق رکھتا ہے، تو اس وقت معاشرہ کو کوئی طاقت، کوئی ذہانت، کوئی سرمایہ اور بڑے بڑے منصوبے بچا نہیں سکتے۔

ذوق سلیم نے بارہا دھوکا کھایا ہے لیکن قلب سلیم دھوکا نہیں کھاتا

            اسلام سے پہلے عربوں کا ایک اصول اور مقولہ تھا جس نے محاورہ کی شکل اختیار کر لی تھی کہ ’’اپنے بھائی کی مدد کرو چاہے وہ ظالم ہو، چاہے مظلوم‘‘، اور جاہلیت (اسلام سے پہلے) کا عرب اسی اصول پر چل رہا تھا، وہ گویا ایک رہنما اصول تھا، اور اس نے مذہبی تعلیم کی حیثیت اختیار کر لی تھی، اور یہ بات ایسی مشہور تھی کہ کسی کے سوچنے اور غور کرنے کی ضرورت ہی نہیں تھی، ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کی مجلس میں فرمایا کہ اپنے بھائی کی مدد کرو، چاہے ظالم ہو چاہے مظلوم۔ عربوں کے لیے یہ ایسی جانی بوجھی حقیقت اور روزمرہ کی بدیہی بات تھی کہ اس پر سکوت طاری ہو جانا چاہیے، پھر اللہ کا رسول کہہ رہا تھا، جو غلط بات نہیں کہہ سکتا، لیکن رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کی جو تربیت کی تھی، اور ان کا جو ذہن بنایا تھا، وہ ذہن اس کو ہضم نہیں کرسکا، انھوں نے عرض کیا: نَنْصُرُہُ مَظْلُوْمًا، فَکَیْفَ نَنْصُرُہُ ظَالِمًا؟ (ہم مظلوم کی مدد تو کریں ، لیکن ظالم کی مدد کیسے کریں ؟)

            سوسائٹی اور معاشرہ کی جو سب سے مستحکم بنیاد ہے اور جس پر سب سے زیادہ اعتماد کیا جا سکتا ہے، وہ ایسی ہی تربیت ہے کہ اس کا ذوق سلیم، بلکہ اس کا قلب سلیم (ذوق سلیم نے بارہا دھوکہ کھایا ہے، لیکن قلب سلیم دھوکہ نہیں کھاتا) اس کا قلب سلیم اس پر جاگ جائے، چوکنا ہو جائے، اور پوچھنے لگے کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ معاشرہ میں ظلم ہوتا رہے، بڑھتا اور پنپتا رہے؟

اخلاقی تربیت اوراس کی کامیابی کا آخری نمونہ

            یہ اخلاقی تربیت اور اس کی کامیابی کا آخری نمونہ ہے، دنیا کی تاریخ میں ایسی تربیت کی مثال ملنی مشکل ہے کہ ایک طرف صحابہ کرام اطاعت و انقیاد کا بے مثال نمونہ تھے، وہ آنحضرت ﷺ پر پروانہ وار نثار ہوتے تھے، اور یہ نہیں پوچھتے تھے کہ ہمارا انجام کیا ہو گا؟ پروانے شمع پر گرتے ہیں اور جان دیتے ہیں اور انجام نہیں سوچتے، صحابہ کی جماعت رسول ﷺ کے کہنے کے بعد پھر غور کرنے کی ضرورت نہیں سمجھتی تھی، لیکن اب اس کے اندر ایسا انقلاب آ چکا تھا، معاشرہ کو ایسی مستحکم، ایسی بلند اور ایسی اصولی بنیاد پر اٹھایا گیا تھا کہ جب آپ ﷺ فرمایا کہ اپنے بھائی کی مدد کرو، چاہے ظالم ہو چاہے مظلوم، تو صحابہ کرام تڑپ اٹھے، اور پورے ادب سے کہا کہ یا رسول اللہ! آپ نے اب تک ہمیں یہ تعلیم دی ہے کہ ہم مظلوم کی مدد کریں اور ظالم کا ساتھ نہ دیں ، کیا ہم اپنی قوت سماعت پر شک کریں ، شاید ہمارے کانوں نے اسے صحیح نہ سنا ہو، آپ فرمائیں کہ ظالم کی مدد کیسے کی جائے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ہاں ، ظالم کی بھی مدد ہوتی ہے، مظلوم کی مدد یہ ہے اس پر ظلم نہ ہونے دو، ظالم کی مدد یہ ہے کہ اس کا ہاتھ پکڑ لو، اس کو ظلم نہ کرنے دو۔

اخلاقی جرأت و غیر جانب داری اور خلوص کی طاقت

            یہ وہ چیز ہے جو انسانی معاشرہ کو بچانے والی ہے کہ بلا تفریق مذہب و ملت، بلا تفریق قومیت، بلا تفریق ذات برادری، اپنے تعلقات کو بالکل نظر انداز اور مفادات کو بالکل فراموش کر کے یہ نہ دیکھا جائے کہ ظالم کون ہے اور مظلوم کون ہے؟ظالم کوئی بھی ہو، اپنی قوم کا محبوب ترین فرد ہو، قائد ہو، رہنما ہو، اس کو ظلم سے روکا جائے، اگر معاشرہ میں یہ اخلاقی جرأت، یہ غیر جانب داری اور خلوص کی یہ طاقت ہے تو معاشرہ بچ سکتا ہے، اور اگر یہ نہیں ہے تو دنیا کی کوئی طاقت اس معاشرہ کو نہیں بچا سکتی، آج ہندوستان میں کمی اسی چیز کی نظر آتی ہے، جس کی وجہ سے اس معاشرہ سے متعلق خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔

            جب کسی انسانی نسل پر کسی دور میں اخلاقی گراوٹ کا ایسا دورہ پڑتا ہے، یا وہ کسی انسانی سازش یا کسی انتشار پسند طاقت کا شکار ہوتی ہے، اس وقت دو طبقے میدان میں آتے ہیں ، ایک دانشوروں کا طبقہ اور ایک مذہبی انسانوں کا طبقہ، یہ دو طبقے ہیں جن میں بگاڑ (Corruption) سب سے اخیر میں داخل ہوتا ہے، تاریخ ہمیں بتاتی ہے، قیاس بھی یہی چاہتا ہے، اور عقل سلیم (Common Sense) کا فیصلہ بھی یہی ہے کہ سب سے اخیر میں جس طبقہ میں فساد داخل ہوتا ہے اور خرابی آتی ہے، وہ مذہبی آدمیوں کا طبقہ ہے، اس کے بعد دانشوروں کا طبقہ ہے، لیکن جب دانشوروں میں اور مذہبی انسانوں میں بھی بگاڑ (Corruption) آ جائے تو پھر اس معاشرہ کا (یہ تو میں نہیں کہہ سکتا کہ خدا حافظ ہے، خدا حافظ ہو تو اطمینان ہی اطمینان ہے) لیکن پھر اس معاشرہ کو کوئی چیز بچا نہیں سکتی۔

اس وقت کی ضرورت

            اس وقت ضرورت ہے کہ دانشور اور مذہبی انسان میدان میں آئیں ، اس وقت ضرورت ہے کہ ہماری یونیورسٹیوں سے، ہماری دانش گاہوں سے افراد نکلیں اور معاشرہ کو بچانے کی کوشش کریں ، مجھے ڈر معلوم ہوتا ہے کہ آئندہ کا مؤرخ جب اس معاشرہ کی تاریخ لکھے گا جس میں ہم اور آپ سانس لے رہے ہیں ، تو کہیں یہ نہ لکھے کہ یہ حادثہ اس وقت پیش آیا جب ملک میں مسلم یونیورسٹی موجود تھی، دار العلوم دیوبند موجود تھا، ندوۃ العلماء موجود تھا، اور جامعہ ملیہ موجود تھی، ان کی موجودگی بلکہ ان کی دیوار کے نیچے اور ان کے سایہ میں سب کچھ ہو رہا تھا، اس وقت ضرورت یہ ہے کہ آپ میدان میں آئیں اور بگاڑ کا، بے اصولی کا، بد دیانتی کا، رشوت خوری اور ذخیرہ اندوز کا، اقربا پروری اور خویش پروری کا، سنگ دلی کا اور (مجھے معاف کریں ) سب سے بڑھ کر سفاکی اور درندگی کا جو دھارا بہہ رہا ہے، اور ملک تباہی و بربادی کے جس رخ پر جا رہا ہے، اس کاراستہ روک کر کھڑے ہو جائیں ۔

            ایسے جوانمردوں کے لیے پہلی شرط تو یہ ہے کہ ان کے اندر اخلاقی جرأت ہو، اور وہ بے لوث ہوں ، وہ اس معاشرہ کو دینے کے لیے آئیں ، لینے کے لیے نہ آئیں ، اس بگڑے ہوئے نظام سے فائدہ اٹھانے کے لیے نہ آئیں ، بلکہ ان کی شان وہ ہو جو ایرانی شاعر عرفیؔ نے بیان کی ہے:

عدیل ہمت ساقیست فطرت عرفیؔ

کہ حاتم دگراں و گدائے خویشتن است

            ان لوگوں کی جو ایسے بحران (Crisis) کے موقع پر میدان میں آتے ہیں اور پورے معاشرہ کو اور پوری قوم کو موت کے منھ سے نکال دیتے ہیں ، ان کی تعریف یہ ہے کہ وہ ساقی کی فطرت اور مزاج رکھتے ہیں ، ساقی سب کو پلاتا ہے اور خود نہیں پیتا، یہ مرحلہ بہت مشکل ہے اور دل پر پتھر رکھے بغیر طے نہیں ہوسکتا، لیکن اس کے بغیر کام بھی نہیں چلتا۔

            میں اپنے عزیز طلبہ سے کہنا چاہتا ہوں کہ آج ہندوستان میں عزت کا مقام جبھی حاصل ہو گا جب آپ اس ملک کو بچانے کی مخلصانہ، جان فروشانہ، بے غرضانہ، اور اخیر میں کہتا ہوں کہ مجنونانہ کوشش کریں گے، کسی قوم کو، کسی جماعت کو عزت کا مقام اسی وقت ملتا ہے جب وہ کسی کو فائدہ پہنچائے اور خود فائدہ نہ اٹھائے، جب وہ اپنا دامن جھاڑ دے اور دوسروں کی جھولی بھر دے، وہ اپنے گھر میں اندھیرا پسند کرے اور دوسروں کے گھر میں چراغ جلائے، جب وہ اپنے بچوں کو بھوکا سلائے حضرت ابو طلحہ انصاریؓ کی طرح اور مہمانوں کو شکم سیرکر کے اٹھائے۔

اسباب کے پیچھے اسباب

            آپ تاریخ پڑھیں تو آپ پر بہت سے حقائق کھلیں گے، اور عبرت و موعظت کا بڑا سامان ملے گا، لیکن افسوس ہے کہ تاریخی واقعات کی تہہ میں اور انقلابات سلطنت کے پس پردہ جو حقائق (Factors) کام کرتے ہیں ، جو مخفی طاقتیں کام کرتی ہیں ، جو وقت کی رفتار بدل دیتی ہیں ، کسی ملک کی قسمت بدل دیتی ہیں ، ہمارے مؤرخوں کی نگاہ وہاں تک نہیں جاتی، وہ زیادہ تر یہی لکھتے ہیں کہ فلاں بادشاہ آیا اور فلاں بادشاہ گیا، فلاں نے فلاں ملک پر حملہ کیا اور فتح یاب ہوا، اور فلاں نے شکست کھائی، لیکن اس کے پیچھے کیا طاقتیں کام کر رہی تھیں ؟ حقیقی اسباب کیا تھے؟ پھراسباب کے پیچھے اسباب ہوتے ہیں ، جیسے مولانا رومؒ کہتے ہیں کہ گرمی کا زمانہ ہے اور ایک شخص پنکھا جھل رہا ہے، تو کوتاہ بیں یہ کہے گا کہ یہ ہوا اس پنکھے کی وجہ سے آ رہی ہے، لیکن جس کی نظر اور گہری ہو گی تو کہے گا کہ نہیں ، اصل میں اس ہاتھ کا کارنامہ ہے جو اس کو ہلا رہا ہے، پنکھا زمین پر رکھ دو تو ہوا نہیں آئے گی، اس سے بھی جس کی گہری نظر ہے وہ کہے گا کہ نہیں ، یہ ہاتھ بھی نہیں ، بلکہ انسان کا ارادہ ہے، اس کی نیک نیتی ہے اور خدمت کرنے کا جذبہ اصل میں اس کا سرچشمہ ہے، اگر کسی کی نظر اور گہری ہے تو وہ کہے گا کہ نہیں ، یہ نہ پنکھے کا کارنامہ ہے نہ ہاتھ کافی ہے، ہوا ضروری تھی، یہ ہوا ہے جو فضا میں ہے، یہ ہوا اصل میں محسن ہے، لیکن جس کی نظر اس سے بھی آگے ہے، وہ کہے گا: نہیں ، اس ہوا کا جو خالق ہے، اس ہوا کو جو حکم دینے والا ہے، جس نے اس کو طاقت دی ہے اور آزادی بخشی ہے کہ وہ چلے، وہ ہے محسن حقیقی۔

            تاریخ کا معاملہ بھی یہی ہے کہ واقعات کے پیچھے اسباب ہوتے ہیں ، ان اسباب کے پیچھے دوسرے اسباب ہوتے ہیں ، اور ان اسباب کے درمیان رشتہ ہوتا ہے، آپ جو یہ دیکھتے ہیں کہ دنیا میں کوئی سدھار پیدا ہوا اور کوئی سماج موت اور زندگی کی کشمکش میں مبتلا ہونے کے بعد اچانک تازہ دم ہو کر اٹھا، اور اس نے پھر زندگی کا سفر شروع کیا، اور اپنی صلاحیتوں کو اجاگر کرنا شروع کیا، اس کے پیچھے کسی ایسی جماعت، کچھ ایسے افراد کا ہاتھ ہوتا ہے جو اپنی زندگی کو خطرہ میں ڈالتے ہیں اور جو اپنے نفع سے آنکھیں بند کر لیتے ہیں ۔

اس ملک کی اخلاقی قیادت کا جھنڈا بلند کریں

            کسی ایسے ملک میں جیسے کہ ہندوستان ہے، جو مختلف تہذیبوں کا گہوارہ ہے، مختلف قوموں کا وطن ہے، اور یہاں کی ایک تاریخ ہے، یہاں کچھ غلط فہمیاں اور تلخیاں رہی ہیں ، کچھ سیاسی کشمکش رہی ہے، وہاں موجودہ حالات میں (میں آپ سے صفائی کے ساتھ کہتا ہوں ) کم سے کم مسلمانوں کے لیے کوئی راستہ عزت حاصل کرنے کا نہیں ہے، سوائے اس کے کہ وہ اس ملک کی اخلاقی قیادت کا جھنڈا بلند کریں اور اس ملک کو بچانے کی مخلصانہ کوشش کریں ، وہ ثابت کر دیں کہ ملک کو بچانے کے لیے اپنے کو خطرہ میں ڈال سکتے ہیں ، اور اس ملک کو بچانے میں ان کی کوئی گروہی و مذہبی، قومی غرض یا انفرادی غرض نہیں ہے، وہ اپنی کوششوں کا اجر صرف خدا سے چاہتے ہیں ، وہ ایک عقیدہ اور جذبہ کے تحت میدان میں آتے ہیں کہ یہ ملک امانت ہے، اس ملک کے باشندے خدا کے پیدا کیے ہوئے انسان ہیں ، ان کے ساتھ ہمیں رہنا ہے، اگر یہ نہ ہوں گے تو ہم بھی نہیں ہوں گے۔

            اس وقت ہندوستان میں یہ موڑ آ گیا ہے کہ پڑھے لکھوں کی جماعت، دانشوروں کی جماعت، ہماری جامعات اور دانش گاہوں کے فضلاء کی جماعت میدان میں آئے، اس وقت میدان دانشوروں کا ہے، مذہبی آدمیوں کا اور ایسے بے لاگ انسانوں کا ہے جو سیاسی پارٹیوں اور سیاسی مفادات سے بالکل آنکھیں بند کر لیں ، اس سے کوئی مطلب نہ رکھیں کہ ایسا کرنے سے ہماری پارٹی پاور میں آئے گی اور ہمیں حکومت ملے گی، ایسی مثالیں بھی تاریخ میں ملتی ہیں کہ جب موقع آیا انعام ملنے کا، اور جب حکومت تھالی میں رکھ کر پیش کی جانے لگی تو اللہ کے بندوں نے کہا کہ ہم نے اس لیے کام نہیں کیا تھا، ہم نے تو ہمدردی میں کیا تھا، خلوص کے ساتھ کیا تھا، خدا کی خوشنودی کے لیے کیا تھا، ہمیں اس کا انعام نہیں لینا ہے۔

ایک زریں موقع

            حضرات! یہ حقیقت ہے جسے ہمارے نوجوانوں کو خاص طور پر سمجھ لینا چاہیے کہ یہ بڑا اہم، بڑا قیمتی وقت ہے، ایسے زریں مواقع اقوام و ملل کی تاریخ میں اور ملکوں کی تاریخ میں کبھی صدیوں کے بعد آتے ہیں ، یہ ایک زریں موقع خدا کی طرف سے ہم کو اور آپ کو دیا گیا ہے، خدا کا شکر ہے، اس کا احسان ہے کہ اس نے آپ کو اس دور میں پیدا کیا، لوگ تو ہمدردی کریں گے، کہیں گے: ہم کاش ایسے دور میں نہ پیدا ہوئے ہوتے، لیکن جواں مردوں اور بلند ہمت لوگوں کے سوچنے کا طریقہ یہ نہیں ، میں آپ کو مبارک باد دیتا ہوں ، یہاں کے مسلمانوں کو مبارک باد دیتا ہوں ، میں یہاں کے تمام خیرپسند عناصر کو اور تمام انسانیت دوست جماعتوں اور دماغوں کو مبارک باد دیتا ہوں کہ خدا نے ان کو ایک ایسے دور میں پیدا کیا اور ایک ایسا موقع عطا کیا جسے ہمارے اسلاف بڑی بڑی عبادتوں سے حاصل نہیں کرسکتے تھے، وہ رات رات بھر جاگ کر نہیں حاصل کرسکتے تھے، وہ دن دن بھر روزہ رکھ کر نہیں حاصل کرسکتے تھے، آج وہ موقع ہم کو حاصل ہے کہ ہم آج انسانیت کی بے لوث خدمت کر کے اور ملک کو بچانے کے لیے جان لڑا کر اس ملک کو خطرہ کے دہانہ سے، اژدہے کے منھ سے نکال سکتے ہیں ۔

مجھے یہ ڈر ہے دل زندہ تو نہ مر جائے

            میں بغیر کسی معذرت کے صاف کہتا ہوں کہ میں نے تاریخ کا مطالعہ کیا ہے، میں نہیں سمجھتا کہ ہمارا ہندوستانی معاشرہ کبھی ایسے خطرہ سے دوچار ہوا ہو جیساکہ اس دور میں ، اس تیس پینتیس برس کے اندر ہوا ہے، میں بالکل اس پر معذرت نہیں کروں گا، ہندوستان کا جسم بارہا زار و نزار ہوا، ہندوستان نے شکست کھائی، ہندوستان پر برطانیہ کی بدیسی حکومت رہی، یہ سب تاریخی واقعات ہیں ، لیکن ہندوستان کی روح اور ہندوستان کا ضمیر اس طرح سے کمزور نہیں ہوا تھا کہ اس نے اپنا کام کرنا چھوڑ دیا ہو، ہندوستان کی تاریخ میں کبھی ایسا دور نہیں آیا کہ برائی کو اور ظلم کو اس آسانی کے ساتھ گوارا کر لیا گیا ہو جس آسانی کے ساتھ آج گوارا کیا جا رہا ہے، بلکہ اس کو فلسفہ بنایا جا رہا ہے، اس کے ذریعہ سے جماعتوں کومستحکم اور منظم کیا جا رہا ہے، اس کے ذریعہ ہندوستان میں حکومت کا استحقاق ثابت کیا جا رہا ہے، ہندوستان سیکڑوں مصیبتوں کا شکار ہوا ہے، لیکن ضمیر انسانی، ہندوستان کا Conscience زندہ رہا، اس نے اپنا کام کرنا، اپنا Function کبھی نہیں چھوڑا، اس وقت جو اصل خطرے کی چیز ہے:

مجھے یہ ڈر ہے دل زندہ تو نہ مر جائے

کہ زندگی ہی عبارت ہے تیرے جینے سے

            مجھے یہ ڈر ہے کہ ہندوستان کا ضمیر کہیں مر نہ گیا ہو، اس سے بڑھ کر کوئی خطرہ کی بات اور کیا ہوسکتی ہے کہ اتنے بڑے ملک میں کسی دل دردمند کی کراہ سننے میں نہیں آتی کہ تڑپ کر کسی نے فریاد کی ہو اور قلندرانہ شان سے میدان میں آ گیا ہو:

گوئے توفیق و سعادت درمیاں افگندہ اند

کس بمیداں در نمی آید سواراں راچہ شد

انسانی ضمیر کے کارنامے

            لیڈر اپنی جگہ پر، سیاسی جماعتیں اپنی جگہ پر، دانش گاہیں اپنی جگہ پر، لائبریریاں اپنی جگہ پر، خطیب و مقرر اپنی جگہ پر، ذہین (Intelligent) بلکہ Genius قسم کے انسان اپنی جگہ پر، لیکن وہ ضمیر کہاں ہے جو معاشرہ کی اس پستی پر، انسانیت کی اس پستی پر خون کے آنسو روئے؟ انسانیت کی حفاظت اسی ضمیر نے کی ہے، تفنگ و  شمشیر نے نہیں کی ہے، سپاہ اور فوج نے نہیں کی ہے، شاہی خزانوں اور دولت کی بہتات نے نہیں کی ہے، علم انسانی کی ترقی نے نہیں کی ہے، ٹکنالوجی اور سائنس نے نہیں کی ہے، بلکہ ایک ضمیر انسانی ہے جو سب پر غالب آیا، جہاں وسائل نہیں تھے اس نے وہاں وسائل پیدا کر لیے، آپ دیکھیے، جب کسی کے دل پر چوٹ لگتی ہے اور جب کوئی بے قرار ہوتا ہے وہ کیا کر لیتا ہے؟ ایک آدمی کے پاس وسائل کا ڈھیر ہے، لیکن اس کے دل میں درد نہیں ہے اور کچھ کرنے کا ارادہ ہی نہیں ہے، تو وقت گزر جاتا ہے اور وہ کچھ نہیں کرتا۔

            مجھے جو خطرہ ہے وہ یہ ہے کہ ہندوستانی معاشرہ کا ضمیر تعطل کا شکار ہو گیا ہے، اس نے اپنا کام کرنا چھوڑ دیا ہے، یہ خطرہ کی بات ہے، اس لیے کہ انسانیت کی آس اسی ضمیر سے ہے، اس دنیا میں جو کچھ خیر و فلاح کی امید ہے وہ اسی ضمیر سے ہے، جب یہ ضمیر بیدار ہوتا ہے تو اس کو خدا کی طرف سے روشنی ملتی ہے، پیغمبروں کی طرف سے اس کو غذا ملتی ہے، اور یہ دولت پرستی کا شکار نہیں ہوتا، طاقت پرستی کا شکار نہیں ہوتا، تو پھر یہ ضمیر وہ کام کرتا ہے جو بڑی بڑی سلطنتوں سے اور بڑی بڑی فوجوں سے نہیں ہوسکا، دیکھیے کچھ زندہ ضمیروں نے، کچھ صالح ضمیروں نے، کچھ درد مند ضمیروں نے اپنے اپنے زمانہ میں کیا کام کر لیا، یہ بزرگان دین کیا رکھتے تھے، ان کے پاس کیا سرمایہ تھا، لیکن انھوں نے ایک نیا معاشرہ پیدا کر دیا، ایک نیا دور اُن کی ذات سے شروع ہو گیا۔

انسانیت کی ڈوبتی کشتی ہمیشہ انہی لوگوں نے بچائی ہے

            آج ہمیں جس چیز کا شکوہ ہے، وہ یہ کہ ہر طرح کی آوازیں سننے میں آتی ہیں ، ہر طرح کے منشور (Manifestos) سامنے آتے ہیں ، ہر طرح کے اعلانات ہمارے سامنے آتے ہیں ، لیکن انسانیت کی پستی اور انسانی جان و مال اور انسانی حقوق کی پامالی پر کوئی رونے والی آنکھ اور کوئی درد محسوس کرنے والا دل نظر نہیں آتا، ہم سمجھتے ہیں کہ ایسی دانش گاہوں میں جہاں سب کچھ سکھایا پڑھایا جاتا ہے، وہیں ایسے لوگ ملنے چاہئیں ، وہیں ایسے لوگوں کو ڈھونڈنا چاہیے، چند نوجوان ہی سہی جو اپنے مستقبل کی طرف سے آنکھیں بند کر لیں ، جیسے کہ ایک پیغمبر نے اسی طرح کے ایک بگڑے ہوئے معاشرہ میں اصلاح کا کام شروع کیا تو ان کی قوم نے طعنہ دیا تھا، انھوں نے کہا: {قَدْ کُنتَ فِیْنَا مَرْجُوًّا قَبْلَ ہَذَا}(سورۃ ہود:۶۲) اے صالح! تم سے تو بڑی بڑی امیدیں وابستہ تھیں ، تم تو بڑے Promising آدمی تھے، تم سے تو بڑی بڑی توقعات قائم تھیں کہ تم اپنے گھر کو خوش حال بناؤ گے، تم اپنی قوم کا نام روشن کرو گے، اپنے وطن کا نام روشن کرو گے، یہ تم کیا لے بیٹھے؟ تم نے یہ جھگڑا کہاں شروع کر دیا؟ قوم کے نزدیک یہ جھگڑا تھا، لیکن انسانیت کی ڈوبتی کشتی ہمیشہ انھیں لوگوں نے بچائی ہے جنھوں نے اپنے مفاد کو نہیں دیکھا، معاشرہ کے مفاد کو دیکھا، لیکن جس قوم میں نام لینے کے لیے بھی ایسے چند آدمی نہ پائے جائیں جو کسی بڑے سے بڑے عہدہ اور منصب کو اپنے مقصد کے راستہ میں خاطر میں نہ لائیں تو ایسی جماعت اور ایسی قوم کے متعلق کوئی بڑی امید قائم نہیں کی جا سکتی، اور اس کا کوئی وزن نہیں ، خدا کے میزان میں بھی اور انسانیت کے میزان میں بھی، ایسے صاحب عزیمت اور با ہمت لوگ کم سے کم مسلمانوں میں ہر دور میں پائے گئے ہیں ، جنھوں نے سلطنتوں اور بادشاہوں کو منھ نہیں لگایا، آج پھر ان کی ضرورت ہے، کسی تعداد میں سہی، لیکن ایسے لوگ ہونے چاہئیں جو یہ کہہ سکیں :

برو ایں دام بر صید دگرنہ

کہ عنقا را بلند است آشیانہ

            آج مصیبت یہ آ گئی ہے کہ بار بار کے تجربوں سے مزاج دانوں اور تجربہ کاروں نے یہ سمجھ لیا ہے کہ اس معاشرہ میں ہر شخص کی ایک قیمت ہے، اگر وہ اتنے دام میں نہیں بک سکے گا تو اتنے دام میں ضرور بک جائے گا، لیکن خدا کے کچھ بندے ہمیشہ رہے اور رہنے چاہئیں جو کسی دام میں بھی نہ بک سکیں ، بڑے سے بڑا سنہراجال آپ ان کے سامنے ڈال کر دیکھیے، کہیں ان کے تصور میں بھی آ جائے کہ اعزاز قبول کر لو تو ان کی راتوں کی نیند اڑ جائے، میں کہتا ہوں کہ خدا کے فضل سے ابھی ایسے لوگ اس دنیا میں ہیں :

خاکساران جہاں را بحقارت منگر

تو چہ دانی کہ دریں گرد سوارے باشد

            ابھی ہماری نسل میں بھی ایسے لوگ ہیں کہ بڑے سے بڑا عہدہ اور منصب ان کو اپنے اس جادۂ حق سے اور مقام سے جس کو انھوں نے سوچ سمجھ کر اختیار کیا ہے، اپنے اس بوریائے فقر سے، اپنے خاک کی اس ڈھیر سے ہٹانے کی طاقت نہیں رکھتا، آج بھی خدا کے فضل سے ایسے لوگ موجود ہیں ، اس لیے ہر شخص کے متعلق یہ خیال کرنا کہ یہ کسی نہ کسی قیمت میں بک جائے گا، یہ ہما سہی لیکن ہما کے بھی شکاری ہوتے ہیں ، یہ ہما بھی دام میں آ جائے گی، یہ غلط ہے، ایسی ہما انسانیت کی آبرو ہے، آپ سے میں اس لیے نہیں کہتا کہ آپ ان کو تلا ش کریں ، میں کہتا ہوں آپ وہ ہما بنیں جس کو بڑے سے بڑا شکاری بھی شکار نہیں کرسکتا، پھر آپ وہ ہما بنیں گے کہ جس کے سر پر سے گزر جائے گی اس کے سر پر بادشاہی کا تاج رکھا جائے گا، وہ ہما ایک خیالی پرندہ ہے لیکن آپ حقیقی معنی میں ہما بن جائیں گے، آپ جس کے پاس سے گزر جائیں گے، اسے عزت ملے گی، طاقت ملے گی، اس کو اعتماد ملے گا، ایمان ملے گا۔

ہمارے ملک اور جاں بلب معاشرے کی اصل ضرورت

            آج ہمارے ملک اور ہمارے جاں بلب معاشرہ کو بڑے بڑے فاضلوں ، بڑے بڑے عالموں اور بڑے دانشوروں کی ایسی ضرورت نہیں جتنی صحیح اور دلیر انسانوں کی، قربانی کے لیے تیار ہونے والے انسانوں کی ضرورت ہے، اور میں سمجھتا ہوں کہ مسلم یونیورسٹی جس نے کبھی اس ملت اور اس ملک کو محمد علی جوہر جیسا فرزند دیا ہے، جنھوں نے اس ملک میں صحیح طور پر جمہوری زندگی کا آغاز کیا، یہاں عوامی سیاست در حقیقت مولانا محمد علی نے شروع کی، وہی گاندھی جی کو میدان میں لائے، یہ ایک تاریخی واقعہ ہے، ان سے پہلے سیاست دانشوروں اور دستور کی سمجھ رکھنے والوں میں تھی، دانشوروں کا ایک بہت اونچا طبقہ تھا جو سیاسی باتیں کرتا تھا، بازار میں سیاست کو لانے والے، پارکوں میں سیاست کو لانے والے، اور پبلک میں سیاست کو لانے والے محمد علی اور شوکت علی ہیں ، وہ آپ کی اسی یونیورسٹی کے فرزند تھے، جنھوں نے اس ملک میں حریت پسندی اور قومی و دینی غیرت کی آگ لگا دی، اور جنھوں نے تحریک خلافت شروع کی، اور پھر تحریک آزادی میں ہراول دستہ بلکہ قائد کا کردار ادا کیا۔

ہر وقت کی ایک دعوت اور ضرورت ہوتی ہے

            آج پھر ہندوستان کا معاشرہ طالب ہے، اس نے اپنا دامن پھیلا رکھا ہے، میں اس کی طرف سے ترجمانی کر رہا ہوں کہ ہمارا معاشرہ پھر آج آپ سے وقت کا سپاہی چاہتا ہے، ہر وقت کا ایک سپاہی ہوتا ہے، ہر وقت کی ایک دعوت ہوتی ہے، ہر وقت کی ایک ضرورت ہوتی ہے، جب ضرورت تھی تحریک آزادی کے سورماؤں کی، جب ضرورت تھی حریت کے صور پھونکنے والے سرفروشوں کی، تو اس وقت علی برادران میدان میں آئے، آج ملک کو اخلاقی زوال سے بچانے والوں کی ضرورت ہے، آج اس ملک میں ایثار و قربانی کا ایک مثالی نمونہ قائم کرنے والوں کی ضرورت ہے، آج اس ملک میں اصحاب کہف جیسے نوجوانوں کی ضرورت ہے جن کے بارے میں قرآن کہتا ہے:

{إِنَّہُمْ فِتْیَۃٌ آمَنُوْا بِرَبِّہِمْ وَزِدْنَاہُمْ ہُدًی، وَرَبَطْنَا عَلَی قُلُوْبِہِمْ إِذْ قَامُوْا فَقَالُوْا رَبُّنَا رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْأَرْضِ لَن نَّدْعُوَ مِن دُونِہِ إِلٰہاً لَقَدْ قُلْنَآ إِذًا شَطَطاً} (سورۃ الکہف:۱۳-۱۴)

(وہ چند نوجوان تھے کہ اپنے پروردگار پر ایمان لائے تھے، ہم نے انھیں ہدایت میں اور زیادہ مضبوط کر دیا، اور ان کے دلوں کی( صبر و استقامت سے) بندش کر دی، وہ جب (راہ حق)میں کھڑے ہوئے تو انھوں نے (صاف صاف) کہہ دیا: ہمارا پروردگار تو وہی ہے جو آسمان و زمین کا پروردگار ہے، ہم اس کے سوا کسی اور معبود کو پکارنے والے نہیں ، اگر ہم ایسا کریں گے تو یہ بڑی ہی بے جا بات ہو گی۔)

ملک کی اخلاقی گراوٹ

            آج ہمارے معاشرہ کو ایسے نوجوانوں کی ضرورت ہے جو میدان میں آئیں اور ملک کو اخلاقی زوال سے بچائیں ، اخلاقی زوال اپنی آخری حد تک پہنچ گیا ہے، ایک آدمی کسی حادثہ کا شکار ہو جائے تو یہ ایک ایسا واقعہ ہوتا ہے کہ اس کے قرب و جوار میں کہرام مچ جائے، لوگ جمع ہو جائیں ، مائیں اپنے گھروں سے نکل آئیں ، اپنے بچوں کو چھوڑ دیں ، کوئی پانی لے کر آئے، کوئی دوا لے کر آئے کہ ہمارے بھائی معلوم نہیں کہاں جا رہے تھے، حادثہ کا شکار ہو گئے، لیکن اس ملک کی اخلاقی گراوٹ کا حال یہ ہے کہ اس وقت ان مرے ہوئے، کچلے ہوئے انسانوں کے ہاتھوں سے گھڑیاں نکال لیتے ہیں ، اور ان کے پرس کی تلاشی لیتے ہیں ، اس وقت بجائے اس کے کہ ان کے خشک لبوں میں پانی کا ایک قطرہ ڈالیں ، وہ ظالم ان کی قیمتی چیزیں لوٹنے میں لگ جاتے ہیں ، آپ یہ واقعات تاریخ میں پڑھتے تو یقین نہ کرتے اور دوسرے ملک کے لوگ یقین نہیں کریں گے، لیکن ہم کیا کریں ، ریلوں میں بارہا ایسے حادثے پیش آتے ہیں اور قریب کی دیہاتی آبادی ہے، دیکھتی ہے کہ ایک آدمی دبا ہوا ہے، دو لکڑیوں کے بیچ میں اس کا بدن آ گیا ہے، وہ کہتا ہے کہ میرا سب کچھ لے لینا، لیکن کسی طرح مجھے اس شکنجہ سے نکال دو، تو انھوں نے اس کے ہاتھ سے گھڑی چھین لی، اور اس کی جیب سے کچھ روپے نکال لیے، اور اس کو مرتا ہوا چھوڑ کر چلے گئے، جو معاشرہ اس سنگ دلی کی حد تک پہنچ گیا ہو، اس معاشرہ کی کسی چیز کو دیکھ کر بھلا دل خوش ہوسکتا ہے؟ اس سے کچھ امید کی جا سکتی ہے کہ وہ معاشرہ دنیا میں باقی رہے گا؟ کوئی بڑا قیادت کا رول ادا کرے گا؟

ظلم سلطنتوں ، تہذیبوں اور معاشروں کے لیے پیغام موت ہے

            خدا کو انسان کی جو چیز سب سے زیادہ ناپسندہے، جس پر اس کی غیرت کو جوش آتا ہے، وہ ظلم ہے، سب کچھ و ہ معاف کرسکتا ہے، عقائد کی حد تک قرآن اعلان کرتا ہے کہ شرک معاف نہیں کرے گا، اور انسانوں کی قسمتوں کا جہاں تک تعلق ہے، سلطنتوں ، تہذیبوں اور معاشرے کی قسمتوں کا جہاں تک تعلق ہے، ظلم ان کے لیے پیغام موت ہے، ظلم کے بعد ان کو ڈھیل نہیں دی جاتی، تو میرے عزیزو! ہندو مسلمان نوجوانو! آپ اس معاشرہ کو ظلم سے بچانے کے لیے میدان میں آئیں ، دیہاتوں اور شہروں میں جائیں ، اور پکار لگائیں کہ یہ ظلم نہیں ہونا چاہیے، یہ فسادات نہیں ہونے چاہئیں ، اس میں بے گناہ مارے جاتے ہیں ۔

            میں نے کئی مرتبہ اس کا نقشہ کھینچا ہے کہ ایک مسافر بڑے ارمانوں کے ساتھ بمبئی سے آ رہا ہے، تھوڑی سے پونجی بچا کر، سنا ہے کہ ماں بیمار ہے، میں جاتے ہی دوا دلاؤں گا، وہ میری صورت دیکھ کر خوش ہوں گی، ان کے اندر طاقت آ جائے گی، وہ آنکھیں کھول دیں گی، ابھی وہ اسٹیشن سے چلا ہی تھا کہ اسے چھرا بھونک دیا گیا، ادھر ماں تڑپ رہی ہے اور یہاں بیٹے نے جان دے دی۔

            جس معاشرے میں یہ واقعات ہوں ، اس معاشرہ میں کیا کوئی بھی ترقی، اقتصادی، سیاسی ، علمی ترقی خوشی کی بات ہوسکتی ہے؟اس ملک میں جو یونیورسٹیوں کی تعداد بتلائی جاتی ہے، میں کہتا ہوں کہ اس کے دس گنا یونیورسٹیاں ہو جائیں تب بھی اس معاشرے کے لیے کوئی خوشی اور اطمینان کی بات نہیں ، کوئی عزت کی بات نہیں ، متوسط پڑھے لکھے لوگ ہوں ، مگر ظلم سے نفرت ہو، گناہ سے نفرت ہو، Corruption سے نفرت ہو، وہ معاشرہ زندہ ہے ، طاقتور ہے، اور ممکن ہے کہ دوسری قوموں کی قیادت کرے۔

ہماری سوسائٹی کا روگ

            میرے عزیز بھائیو! میرے محترم اساتذہ اور فضلاء، میں معافی چاہتا ہوں   ؎

رکھیو غالبؔ مجھے اس تلخ نوائی میں معاف

آج کچھ درد مرے دل میں سوا ہوتا ہے

            اگر میں نے اپنے حدود سے تجاوز کیا ہو، اگر میں نے بعض تلخ حقیقتیں تلخ انداز میں کہی ہوں تو مجھے معاف فرمائیں کہ جب حقائق کی تلخی حد سے بڑھ جاتی ہے تو کوئی شیریں کلامی اسے شیریں نہیں بنا سکتی، وہ فریب دہی ہوتی ہے، میں نے ایک تلخ حقیقت کو تلخ انداز میں کہا ہے، اس پر میں آپ سے معذرت خواہ ہوں ، ہماری سوسائٹی کا روگ یہ ہے کہ کوئی صاف بات نہیں کہتا، بہت دور چل کر، اپنی پارٹی اور اپنے فرقہ کو محفوظ رکھتے ہوئے، اس کو بچاتے ہوئے، ہزار احتیاط کے ساتھ ایک بات ایسی کہی جاتی ہے کہ پھر کوئی پکڑ نہ سکے، ان کو پکڑے جانے کی فکر زیادہ ہوتی ہے اور سوسائٹی کے تباہ ہونے کی فکر کم ہوتی ہے، لیکن جب آگ لگی ہو تو یہ تحفظات باقی نہیں رہتے، گفتگو کے آداب باقی نہیں رہ سکتے، جب آگ لگ جاتی ہے تو پھر کسی زبان میں کیسے ہی بے ڈھنگے طریقہ سے کہا جاتا ہے، بچہ بھی بول اٹھتا ہے کہ آگ لگی ہے، اس وقت صورت حال یہی ہے، نہ اس سے کم نہ اس سے زیادہ، اس وقت ہمارا معاشرہ کوہ آتش فشاں کے دہانہ پر پہنچ گیا ہے، اور کوئی تدبیر اس کو بچا نہیں سکتی، اگر کوئی چیز اس کو بچا سکتی ہے تو وہی مذہبی انسانوں ، دانشوروں اور بے غرض انسانوں کا میدان میں آنا اور حالات سے پنجہ آزمائی کرنا، اور اپنا عملی نمونہ دنیا کے سامنے اور کم از کم ہندوستان کے سامنے پیش کرنا۔

تو ہما کا ہے شکاری ابھی ابتدا ہے تیری

            میں پھر کہتا ہوں کہ اس یونیورسٹی نے محمد علی اور شوکت علی کو پیدا کیا ہے، حسرت موہانی اور مولانا ظفر علی خاں کو پیدا کیا ہے، اور ہمیں امید ہے کہ یہ جامعہ اب بھی ایسے آدمیوں کو پیدا کرسکتی ہے، اور اس میں پیدا کرنے کی صلاحیت ہے، میں آپ کے سامنے اقبالؔ کا یہ شعر پڑھوں گا  ؎

تو ہما کا ہے شکاری ابھی ابتدا ہے تیری

نہیں مصلحت سے خالی یہ جہانِ مرغ و ماہی

            آپ مرغ و ماہی پر اپنی طاقتیں صرف نہ کریں ، آپ نے اگر ایک چھوٹی سی چڑیا کا شکار کر بھی لیا تو کوئی فخر کی بات نہیں ، آپ کو سارا ہندوستان پیش نظر رکھنا چاہیے، اور آپ کو اپنی توانائی چھوٹے چھوٹے مسائل پر نہیں خرچ کرنا چاہیے، آپ کی طاقت بڑی قیمتی ہے، اس کا اصل مستحق آپ کا معاشرہ ہے، آپ کا یہ پورا عہد ہے، آپ کا یہ پورا ملک ہے، آپ کی ملت ہے، اس لیے آپ اپنے ساتھ بھی زیادتی کریں گے، اور ملک کی بھی حق تلفی کریں گے، اور ملت کی بھی حق تلفی کا ارتکاب کریں گے، اگر آپ نے چھوٹے چھوٹے مسائل میں اپنی طاقت صرف کر دی، یہ مسائل آپ کی عنقا شکار ہمت، آپ کی بلند نگاہی، اور آپ کی اندرونی صلاحیتوں اور جس ملت کی میراث آپ کو ملی ہے، اور جس کتاب الہی کے آپ حامل ہیں ، اس کے شایان نہیں ہے، جس کی آیت پڑھ کر میں نے آپ کو سنائی ہے: {فَلَوْلاَ کَانَ مِنَ الْقُرُونِ مِنْ قَبْلِکُمْ أُولُوْا بَقِیَّۃٍ یَّنْہَوْنَ عَنِ الْفَسَادِ فِي الْأَرْضِ} (سورۃ ھود: ۱۱۶)یعنی ان نسلوں میں ایسے کچھ بچے کھچے انسان تو ہوتے، درد مند انسان تو ہوتے، شعور والے انسان تو ہوتے، جو فساد سے لوگوں کو روکتے، منع کرتے، اگر وہ نہیں تھے تو ان قوموں کا تختہ الٹ دیا گیا، ان کی داستان بھی داستانوں میں نہیں رہی، وہ حرف غلط کی طرح تاریخ کے اوراق سے مٹا دیے گئے، اور ہمیں اندیشہ ہے کہ ہندوستان کا یہ موجودہ معاشرہ خدا نخواستہ کہیں ایسے ہی کسی انجام سے دوچار نہ ہو، اس لیے میں آپ سے یہ اپیل کرتا ہوں کہ آپ اپنی توانائی، اپنی ذہانت، اپنی قوت عمل، اپنی Energy اور اپنا Talent چھوٹے چھوٹے مسائل پر خرچ کرنے کے بجائے ہندوستان کو بچانے کے لیے، اور ملت کو اس کی عزت کا مقام دلانے کے لیے صرف کریں ۔

            میں آپ کا شکر گزار ہوں کہ آپ نے پورے صبر وسکون کے ساتھ، اور متانت و ثقاہت کے ساتھ -جو اس یونیورسٹی کی ہمیشہ روایت رہی ہے- میری معروضات سنیں ، وآخر دعوانا أن الحمد للہ رب العالمین۔

٭٭٭

تشکر: ابو الہادی الاعظمی جنہوں نے فائل فراہم کی

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید