FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

مغربی بنگال کا شعری مزاج

 

 

 

                مظفرؔ حنفی

(یہ ای بک کتاب  ’نگارشاتِ مظفر حنفی‘ سے علیحدہ شائع کی جا رہی ہے)

( مغربی بنگال اردو اکادمی کے سیمینار منعقدہ کلکتہ میں پڑھا گیا)

 

 

 

 

۱۹۴۷ء کے آس پاس مغربی بنگال میں موجود شعراء پر نگاہ پڑتے ہی احساس ہوتا ہے کہ ان کے مابین علامہ وحشتؔ کی حیثیت تقریباً وہی ہے جو ہمارے نظام شمسی میں آفتاب کی ہے۔ اس نظام میں عباس علی خاں بے خود، جمیلؔ مظہری، طاہر علی شاکرؔ، قمر صدیقی جیسے انفرادی تب و تاب رکھنے والے سیّارے گردش کرتے نظر آتے ہیں اور پھر ان کے گرد ذیلی سیاروں کا ایک ہجوم ہے۔ ان میں سے بعض پر وحشتؔ کے اثرات کے علاوہ آرزوؔ لکھنوی، اکمل کلکتوی اور ناطقؔ لکھنوی کی چھوٹ بھی پڑتی ہے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ہندوستان گیر پیمانے پر ترقی پسند ادبی تحریک کے آغاز کو کم و بیش بارہ سال ہوچکے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ وحشتؔ اور بے خودؔ نیز ان سے اثرات قبول کرنے والے کئی دوسرے قابلِ ذکر شاعروں نے اکثر مقامات پر اپنے وقت کی اس اہم ترین ادبی تحریک سے نا وابستگی اور مزاجی اختلاف کا ذکر کیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا واقعی وحشتؔ اور ان کے متعلقین اس تحریک سے دامن کش رہنے میں کامیاب ہو سکے۔ بالآخر یہ لوگ سبھاش چندر بوس، ابو الکلام آزادؔ  اور نذر الاسلام کے بنگال میں زندگی بسر کر رہے تھے، جس کے خمیر میں ذوقِ جمال اور لطافتِ طبع کے ساتھ ساتھ احتجاج، برہمی، جوش، ولولہ اور سرکشی داخل ہے اور جہاں کی سرزمین باغیانہ رجحانات کو ہمیشہ پروان چڑھاتی رہی ہے۔ کیا ممکن ہے کہ ایک اچھا اور سچا فنکار، اپنی زمین سے کٹ کر اور اپنے ماحول سے بے نیازی برت کر خالصتاً روایتی اور رسمی شاعری کرتا رہے۔ بلا شبہ وحشتؔ نے روایتی اور رسمی شاعری بھی کی لیکن کوئی تو وجہ ہو گی کہ اس فنکار نے جس کی ساری عمر ذہنی اور روحانی اذیتیں اور پریشانیاں برداشت کرتے گزری، میرؔ اور فانیؔ کی طرف للچائی ہوئی نظروں سے نہیں دیکھا۔ وحشتؔ گئے تو اس غالبؔ کے رنگ پر جن کی انیسویں صدی میں کلکتہ آمد پر ایک بڑے ادبی معرکے نے سر اٹھایا تھا۔ یعنی پیروی ایک علاقائی حریف کی کی جا رہی تھی۔ میرا خیال ہے یہ بنگال کی مٹی کا جادو تھا، اس زمین کے کردار میں جو عالی حوصلگی اور باغیانہ جوش و خروش ہے، اس نے وحشتؔ جیسے حرماں نصیب اور پریشان حال فنکار کو لا شعوری طور پر جوش و ولولے کے شاعر غالبؔ کے قریب کر دیا۔ اتنا قریب کہ اس دور کے اکابرین ادب نے جن میں حالیؔ، اقبالؔ، اور شبلیؔ جیسے دیو قامت فنکار بھی تھے، وحشتؔ کو غالبؔ دوراں تسلیم کر لیا۔ شعوری طور پر ترقی پسند تحریک کو نا پسند کرنے والے علامہ وحشتؔ کے کلام میں روایتی مضامین حسن و عشق ومسائلِ تصوّف اور غالبؔ کے اشعار پر چوڑی کی طرح بیٹھنے والے اشعار تلاش کرنے کی روش اتنی عام ہوئی کہ موصوف کے ایسے شعروں پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی گئی۔

غارت سے پہلے ہم نے چمن میں لگا دی آگ

صد شکر ہے دبے نہیں جورِ خزاں سے ہم

………

تو کسی کا ہوکے دیکھا اے شکوہ سنجِ روزگار

کیوں یہ کہتا ہے کہ دنیا میں مرا کوئی نہیں

………

دلیل پستیِ ہمت ہماری ظاہر ہے

شکایتِ ستم روزگار کرتے ہیں

………

کچھ سمجھ ہی کر ہُوا ہوں، موجِ دریا کا حریف

ورنہ میں بھی جانتا ہوں عافیت ساحل میں ہے

………

پابندیِ رسوم کو سمجھاہے بندگی

زُنّار چھین لیں گے ابھی برہمن سے ہم

یہ اس غزل گو کے اشعار میں جس نے کم و بیش پچیس برس تک اپنے بڑے بیٹے کے پاگل پن کی اذیت جھیلی ہے، جو مالی پریشانیوں کا شکار رہا ہے اور جسے بالآخر گردشِ زمانہ نے اس کلکتہ سے ہجرت پر مجبور کر دیا جو اسے جان سے زیادہ عزیز تھا۔ بہ ایں ہمہ ان اشعار کی حوصلہ مندی، بانکپن اور جذبے کی سر کشی گواہی دیتے ہیں کہ یہاں شاعر لاشعوری طور پر اس خطے کے اجتماعی شعور اور علاقائی مزاج کی نمائندگی کر رہا ہے جس کے آب و گل سے اس کا خمیر اٹھا ہے۔ ’دیوانِ وحشتؔ‘ کی بات میں نہیں کرتا کہ اس میں غالبؔ شریک غالبؔ ہے، لیکن ’ ترانۂ وحشت‘ میں بھی جس میں وحشتؔ نے غالبؔ سے آزاد رہ کر بھی شاعری کی ہے، اس قبیل کے بہت سے اشعار نکلیں گے۔ یہی صورتِ حال وحشتؔ کے تقریباً سبھی نامور شاگردوں کے یہاں نظر آتی ہے۔ مثلاً کیپٹن قمر صدیقی کو لے لیجیے جنھوں نے کہاتھا:

کمالِ نکتہ سنجی سے قمرؔ اپنا یہ دعویٰ ہے

کوئی وحشتؔ کو کیا سمجھے گا جیسا ہم سمجھتے ہیں

قمرؔ صدیقی نے کلاسیکی انداز میں ’ چمن میں ایک چاندنی رات‘ اور ’ ایک پردہ نشیں مغنیہ سے خطاب‘ قسم کی رومانی نظموں کے ساتھ ۱۹۰۹ء میں مزدور سے خطاب، جیسی ولولہ انگیز نظم بھی لکھی اور اپنی نظموں میں گل و بلبل اور لب و رخسار جیسے مضامین کوکلاسیکی درو بست کے ساتھ ادا کرتے ہوئے بہت سے اشعار اس رنگ کے بھی کہے :

کیا کوئی طوفان زدہ ساحل تک آسکتا نہیں

پھر ہیں کیوں حیران مجھ کو اہلِ ساحل دیکھ کر

………

جب خدا کے آسرے پر سوئے زنداں ہم چلے

حلقۂ زنجیر میں پیدا صدا ہم سے ہوئی

علامہ جمیلؔ مظہری بھی اسی نظامِ شمسی کا ایک روشن سیارہ ہیں۔ حال ہی میں ان کی شخصیت اور فن پر تین چار رسالوں کے خاص نمبر شائع ہو چکے ہیں، جن میں موصوف کی رومانیت، عقل پسندی، تصورِ عشق اور فلسفیانہ شاعری پر قابلِ قدر مضامین موجود ہیں۔ کلامِ جمیلؔ کے یہ پہلو میرے مقالے کے دائرے میں نہیں آتے۔ البتہ میں یہاں ان کی نظموں میں سے ’ وقت کا دھارا پھیرنے والے، ، ’ بھارت ماتا‘، ’ تعزیت‘، ’ بھوک‘، ’ غریبوں کی عید‘ کا ذکر ضرور کروں گا۔ جن میں خواہ شعریت اور فنی محاسن، اس پائے کے نہ ہوں، جیسے کہ ان کی رومانی نظموں میں پائے جاتے ہیں، لیکن غریبوں کے استحصال پر احتجاج، سرمایہ دارانہ نظام سے بغاوت اور پیامِ عمل کی روشن مثالیں موجود ہیں۔ نظموں سے اقتباسات پیش کرنا میری نظر میں مستحسن نہیں ہے کیونکہ نظم وحدتِ خیال کے اعتبار سے ایک اکائی ہوتی ہے اور ٹوٹ کر اس کا حسن زائل ہو جاتا ہے۔ البتہ جمیلؔ مظہری کی غزلوں کے یہ اشعار ثبوت کے طور پر پیش ہیں :

جبیں بہر حال جھک رہی ہے گلے بہر حال کٹ رہے ہیں

ہوئی جو بد نام تیغِ برّاں، تو عاقلوں نے قلم اٹھایا

………

سینۂ بیاباں سے اٹھ رہی ہے اک آندھی

بے قرار ذرّوں نے قافلہ بنایا ہے

………

اے میرے خدا جس مٹی سے جبّاروں کے دل بنتے ہیں

اس مٹی میں مجبوروں کے کچھ آنسو بھی شامل کر دے

………

جلانے والے جلاتے ہی ہیں چراغ آخر

یہ کیا کہا کہ ہوا تیز ہے زمانے کی

پروفیسر عباس علی بیخوؔد بھی اسی حلقے کے ایک ممتاز شاعر ہیں اور وحشت کی طرح انھوں نے بھی ترقی پسند تحریک سے اپنی نا وابستگی کا اعتراف کیا ہے۔ بے خودؔ کی شاعری کا عام انداز کچھ یوں ہے :

موت آ رہی ہے وعدہ پہ یا آرہے ہو تم

کم ہو رہا ہے درد دلِ بے قرار کا

………

لیکن زمین اور ماحول کے تقاضے اتنے شدید تھے کہ فن کار کی ارادی کاوشوں سے زیر نہ ہو سکے۔ چنانچہ بے خودؔ کلکتوی نے قدیم علامات اور غزلیہ روایات کا سہارا لے کر ہی سہی، بہت سے اشعار اس نوعیت کے بھی کہے ہیں :

غزل سرائی کی لذت ہے دیرپا بے خودؔ

مگر یہ دور نہیں بادۂ کہن کے لیے

………

دلِ حزیں کو امید نشاطِ فردا ہے

فریب خوردۂ رنگینیِ تمنا ہے

………

جوشِ جنوں میں تنگ ہیں صحرا کی وسعتیں

وحشی نے تیرے دشت کو زنداں بنا دیا

محمود طرزیؔ اسی صف کے شاعر ہیں۔ ان کی نظموں میں یہ رنگ اور زیادہ چوکھا نظر آتا ہے ایک شعر سنتے چلیے :

بس انتہا ہے کہ اک بد نصیب بیٹی نے

حیا کو بیچ دیا باپ کے کفن کے لیے

آزادیِ ہند کے فوراً بعد مغربی بنگال کے آسمانوں پر جگمگانے والے سب سے روشن ستارے وہ ہیں جنھوں نے براہِ راست وحشتؔ یا پھر ان کے تلامذہ سے اکتسابِ نور کیا ہے۔ ان میں طاہر علی شاکرؔ کی خدمات سب سے زیادہ وقیع ہیں کہ انھوں نے ماہنامہ’ شمس‘اور پھر ’ بزمِ شاکری‘ کے وسیلے سے شاعروں کی ایک بڑی نسل کی تربیت کی اور انھیں زبان کی نزاکتوں اور فن شعر کی لطافتوں سے روشناس کرایا۔ بزمِ شاکری کا فیضان آج تک جاری ہے۔ ان کے معاصرین اور قدرے جونیر شاعروں میں تاباں جمالی، ؔ آصفؔ بنارسی اور سلیمانؔ واصف بطور خاص قابلِ ذکر ہیں۔ ان شعراء کی بیشتر غزلیں، سلاست، شستگی اور صفائیِ زبان کی حامل ہیں۔ فن پر اس گروپ کی گرفت مضبوط ہے۔ یہ روایتی اور قدیم، مضامین کو اس خوبی سے باندھتے ہیں کہ نئے پن کا التباس پیدا ہوتا ہے۔ رچاؤ اور گھلاوٹ کی بھی ان کے شعروں میں کمی نہیں  لیکن ایسالگتا ہے کہ ان میں سے کوئی بھی وحشتؔ اور جمیلؔ مظہری جیساتخلیقی جوش نہیں رکھتا۔ ان شعراء کو خطۂ بنگال کے ذوقِ جمال اور نفاستِ طبع سے بیش از بیش حصہ ملا ہے لیکن حیرت ہے کہ برہمی اور احتجاج حوصلے اور جہد پیہم کے جذبات سے یہ لوگ یا تو صاف بچ نکلے ہیں یا ان کے زیادہ کلام تک دسترس نہ ہونے کی وجہ سے میں ہی صحیح نتیجہ تک نہیں پہنچ سکا ہوں۔ ان شاعروں کے مزاج سخن کا اندازہ ان اشعار سے ہو سکتا ہے :

تا بہ کے سُنتا رہے آخر کسی کا غم کوئی

مجھ سے آزردہ مراہر ہم نشیں ہونے لگا

(طاہر علی شاکر)

جوانی میں پینے سے انکار آصفؔ

یہ کفرانِ نعمت، مسلمان ہو کر

(واصفؔ بنارسی)

پھر سی رہا ہوں پیرہنِ تار تار کو

پھر داغ بیل ڈال رہا ہوں بہار کی

(سلیمان واصفؔ)

مجبور ہو کے ترکِ تمنا کروں جو میں

یہ بات بھی نہیں ہے مرے اختیار کی

( تاباں جمالیؔ)

بلا شبہ بر جستگی، روانی، محاورہ اور روز مرہ کی خوبیوں سے متّصف یہ اشعار اہلِ زبان سے ٹکر لیتے ہیں۔ اس صف میں جرمؔ محمد آبادی کا ذکر بھی کرنا چاہوں گا جو اعظم گڑھ کے باشندے اور آرزوؔ لکھنوی کے شاگرد ہیں لیکن تلاشِ معاش انھیں کلکتہ لے آئی تھی اور غالباً اپنے معاصرین میں ترقی پسندی کا اثر سب سے زیادہ انھیں نے قبول کیا ہے۔ ملاحظہ فرمائیے ان کے چند شعر، شاید آپ بھی میرے خیال سے اتفاق کریں :

منھ دیکھنے کا وقت نہیں ڈوبتی ہے ناؤ

تم نا خدا بنو تو سہی، جو خدا کرے

………

چمن کی دنیا میں خار وخس کو ملے گا جب تک نہ حقِ فطرت

ہمیشہ بجلی گرا کرے گی، ہمیشہ فتنے اٹھا کریں گے

………

تیری گلی کی دھُن میں جو نکلے ان کو اتنا ہوش کہاں

راہ میں کتنے کانٹے بچھے ہیں پاؤں میں کتنے چھالے ہیں

یہاں رضا مظہریؔ کا ذکر بھی لازمی ہے۔ ’خار و خس‘ میں ان کے عام کلام کا رنگ کلاسیکی ہے۔ قدیم روایات کی پاسداری، سوز و گداز  اور محزونیت ان کے اشعار سے نمایاں ہیں لیکن اسی ’خار و خس‘میں ایسے شرارے بھی دمکتے ہیں :

اپنے دامن کی طرف دیکھیں یہ فرصت ہے کہاں

ہمیں اوروں کے گریبان سِیے جانا ہے

………

ان کو خود لگن دل کی راستہ دکھاتی ہے

راہ رو جدھر جائیں راہ بن ہی جاتی ہے

………

منزل ہے ہماری اور آگے

جبریلؑ ابھی تو ہم قدم ہے

رضا مظہری نے نظمیں بھی کہی ہیں جن پر رومانویت غالب ہے۔ البتہ ’ شکریۂ آزادی‘ اور ’ شاہکار یزداں ‘میں بلند حوصلگی، احتجاج اور زمانے کو بدل ڈالنے کا جذبہ کار فرما ہے۔

انھیں کے ہم عصر، ابراہیم ہوشؔ ہیں جنھیں صحافت کے کل وقتی تقاضوں نے ادب پر یکسوئی کے ساتھ توجہ کرنے کا موقعہ نہیں دیا، دیکھیے کہ ان کے اشعار میں فنی التزامات کے ساتھ بنگال کا یہ مزاج کس طرح ابھر کر آیا ہے :

زندگی ہی نے خواب دِکھلائے

زندگی ہی نے چھین لی تعبیر

………

بڑی تیزی سے پردے اٹھتے جاتے ہیں حقائق سے

کہاں لے جائیں ہم اپنی روایاتِ کہن ساقی

………

میں نے سارے حصار توڑ دیے

شوق سے جاؤ اب جدھر جاؤ

………

اب تک جن شاعروں کا ذکر ہوا، وہ سب نہ تو ادبی اعتبار سے ہم قامت ہیں نہ ہم عمر ہیں، ان میں اچھے شاعر بھی ہیں اور اوسط درجے کے فنکار بھی۔ ان کے شاعرانہ امتیازات بھی مختلف ہیں۔ البتہ ان میں دو قدریں مشترک ہیں۔ پہلی یہ کہ ان پر اردو کی شعری روایت کی گرفت مضبوط ہے اس کے باوجود یہ شعوری یا لا شعوری طور پر بنگال کے عوامی مزاج اور عصری تقاضوں کے تحت ترقی پسندانہ عناصر کو بھی اپنے کلام میں جگہ دیتے ہیں حالانکہ مختلف فنکاروں کے یہاں ایسے خیالات کی مقدار کا اوسط مختلف ہے۔ دوسری بات یہ کہ ان لوگوں کی ادبی شناخت ۱۹۴۷ء کے پہلے ہی مستحکم ہو چکی تھی۔ حالانکہ ان میں سے اکثر آزادیِ ہند کے بعد بھی تشکیل و تکمیلِ فن میں مصروف رہے۔ اس دائرے کے بطن سے ابھرتا ہوا تخلیق کاروں کا دوسرا دائرہ ہے، جس میں پرویزؔ  شاہدی اور سالکؔ لکھنوی پیش پیش ہیں اور ان کے عقب سے سہیل واسطیؔ، رئیس الدین فریدی، غواصؔ قریشی، حرمتؔ  الاکرام، مظہرؔ امام، ناظر الحسینی، اقبال حسین اقبالؔ، حفیظؔ رزاقی، عبد اللہ ذاکرؔ، عطاء الرحمان عطاؔ، نظیرؔ جمیلی، حسن نجمی وغیرہ کے چہرے ابھرتے نظر آتے ہیں۔ اس گروہ کے فنکاروں میں کچھ تو وہ لوگ ہیں جنھوں نے اپنی ادبی زندگی کا آغاز ۱۹۴۷ء سے قبل کیا تھا، لیکن ادبی دنیا میں درجۂ اعتبار انھیں آزادی کے بعد حاصل ہوا۔ مثلاً پرویز شاہدیؔ، سالک لکھنوی اور حرمت الاکرام۔ بقیہ شاعروں نے اپنا تخلیقی سفر ۱۹۴۷ء کے بعد شروع کیا اور کہیں بیسویں صدی کی چھٹی دہائی میں ادبی حیثیت حاصل کر سکے۔ اس گروپ میں تابندہ ترین نام پرویزؔ شاہدی کا ہے جنھیں اس سرزمین کا پہلا باقاعدہ، ترقی پسند شاعر سمجھناچاہیے۔ انھوں نے اشتراکی نظریات کو نہ صرف سوچ سمجھ کر قبول کیا تھا بلکہ عملاً پارٹی کے شریک کار بھی رہے اور قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں۔ ہمارے مارکسی نقادوں نے اگر بروقت ان پر توجہ صرف کی ہوتی تو بلا شبہ ترقی پسند ادب میں ان کا مقام سردار جعفری سے کم تر نہ ہوتا۔ پرویز شاہدی کے ساتھ المیہ یہ ہوا کہ اُن کا پہلا مجموعۂ کلام’ رقصِ حیات‘ کہیں ۱۹۵۷ء میں شائع ہوا جب کہ بر صغیر میں ترقی پسند ادبی تحریک کی لو ٹمٹمانے لگی تھی اور اس کی سخت گیریوں اور غلط بخشیوں کے خلاف بڑے پیمانے پر ردِّ عمل شروع ہو چکا تھا ورنہ پرویزؔ  شاہدی ۱۹۳۵ء میں انجمن ترقی پسند مصنفین کے قیام کے فوراً بعد سے ذہنی، عملی اور جذباتی طور پر تحریک کے ساتھ تھے۔ ان کا دوسرا مجموعہ کلام’ تثلیثِ حیات‘ ۱۹۶۸ء میں منظرِ عام پر آیا تو ہندوستان پر چینی جارحیت کے نتیجے میں بیشتر ترقی پسندوں کے عقائد متزلزل ہو چکے تھے اور دوسری طرف جدیدیت کا رجحان بھی زور پکڑ چکا تھا۔ چنانچہ’ تثلیث حیات‘ پر ادبی حلقوں نے اتنی توجہ نہ کی جس کا یہ مجموعہ مستحق تھا۔ لے دے کر خلیل الرحمان اعظمی نے پرویزؔ کی نظم ’ بے چہرگی‘ کی تعریف کر دی، جو واقعتاً شاعر کی نمائندہ نظم نہیں ہے اور محض اس لیے پسند کی گئی کہ نقاد کے رجحانات سے مطابقت رکھتی ہے اور مظہر امام نے تو اپنی تبدیلیِ روش کو منصفانہ قرار دینے کے لیے اس تنظیم کو جدیدیت کا پیشرو کہہ دیا ہے۔ میرا خیال ہے کہ ۱۹۶۰ء کے آس پاس بدلتے ہوئے مزاجِ سخن کا ساتھ دینے کے لیے جس طرح شادؔ عارفی فیضؔ، سردارؔ، مخدومؔ اور کیفی وغیرہ نے شعوری طور پر علاقائی انداز اور رمزیہ پیرائے میں نظمیں کہی ہیں ’بے چہرگی‘ بھی ترقی پسندوں کے اسی رجحان کی غماز ہے۔ ایمان کی پوچھیے تو میں پرویز شاہدی کی نظموں میں ’ اسٹالن‘، ’ رجز انقلاب‘ اور ’یانگ سی کوسلام‘کوان کی نمائندہ نظمیں نہیں مانتا کہ ان میں اکثر جگہ بلند آہنگی نے نعرہ بازی کی حدوں کو چھو لیا ہے اور فنکار کی آواز پھٹ گئی ہے۔ ان کے برعکس ’ آشوبِ سخن‘، ’ آگ کی لکیر‘، ’میں اور ہم‘، ’ انتظار‘ وغیرہ شاعر کے دل کی آواز لگتی ہیں کہ ان میں نظریہ عقیدے میں اور عقیدہ جذبے میں تحلیل ہو گیا ہے۔ طبقاتی کشمکش، سرمائے اور محنت کی آویزش اور عوامی زندگی کی عکاسی کرنے والی، شدتِ جذبات سے لبریز، ان تخلیقات میں مطالباتِ فن اور شاعری نے ثانوی حیثیت نہیں اختیار کی اور فن کار نے اپنی زمین کے تقاضوں سے چشم پوشی بھی نہیں کی۔ یہ شاعر کی وہ نمائندہ نظمیں ہیں جو سیاسی و معاشرتی حالات کی تبدیلی کے بعد بھی زندہ رہنے والی ہیں۔ کچھ یہی کیفیت پرویزؔ شاہدی کی غزلوں کی ہے۔ ترقی پسند تحریک کے آغاز سے چار پانچ سال قبل انھوں نے کہا تھا:

کیا آگ جگر میں جل رہی ہے

ہر سانس سے لَو نکل رہی ہے

اور پھر یہ اشعار:

ہمارے پیچھے پیچھے کیوں پھرو سیّارہ سیّارہ

تمھیں تو صرف قبریں کھودنی ہیں آفتابوں کی

………

ہیں بہت آزردہ موجوں سے مگر دریا ہیں

ترکِ دنیا کرنے والے بھی اسی دنیا میں ہیں

………

سر پٹکنا اسیروں کو آتا نہیں

ورنہ دیوارِ زنداں بھی در ہی تو ہے

………

موقعۂ یاس کبھی تیری نظر نے نہ دیا

شرط جینے کی لگا دی مجھے مرنے نہ دیا

………

ان پڑھ آندھی گھس پڑتی ہے توڑ کے پھاٹک محلوں کے

’ اندر آنا منع ہے ‘ لکھ کر لٹکانے سے حاصل کیا

آخری شعر میں جو بے پناہ جوش اور تندی ہے، وہ اپنی رو میں بہانہ لے جائے، تو اس کی لفظیات پر غور کرنے سے کھلے گا کہ بندشِ الفاظ میں پختگی کی جگہ ذرا سا کچا پن ہے۔ اس کچے پن کو میں بے حد عزیز رکھتا ہوں، کہ اس سے اکثر تازگیِ ادا کے پہلو نکلتے ہیں لیکن سالکؔ لکھنوی بڑی چابک دستی کے ساتھ ایسے کچے پن سے گریز کرتے ہیں۔ وہ بھی باقاعدہ اعترافی ترقی پسند ہیں۔ لکھنؤ کی نفاست، شائستگی، نرم مزاجی اور شیریں کلامی کو ترقی پسندی کے خطیبانہ آہنگ سے ہم رشتہ کرنا کیسا دشوار مسئلہ ہے، تخلیق کاروں سے پوچھیے۔ سالکؔ لکھنوی نے یہ پل صراط بڑی کج کلاہی سے طے کیا ہے۔ یہ دوسری بات ہے کہ اہلِ نظر اس کے نیچے تنے ہوئے روایت کے اس جال کو بھی دیکھ لیں جو میر انیسؔ اور مرزا دبیرؔ کے رجزیہ کلام نے برسوں پہلے ایسے ہی مواقع کے لیے تیار کر دیا تھا۔ کہیں کہیں سالکؔ پر اقبالؔ کی چھوٹ بھی پڑتی نظر آتی ہے۔ البتہ نظریے نے زاویہ بدل رکھا ہے۔ میرے اس خیال کی تائید ان کی نظموں سے ہو گی جن کے عنوانات ہیں : ’ خونیں جشنِ آزادی‘، ’سورج کی تھالی‘ اور ’ خوابِ آزادی‘۔ یہاں ان کی نظم ’ ویت نام‘ کا ذکر بطور خاص کرنا چاہتا ہوں جواس موضوع پر غالباً اردو میں سب سے پہلی نظم ہے۔ اب ان کی غزلوں کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں :

ہمارے گھر جلیں، ہم قتل ہوں، مجرم بھی ہم ٹھہریں

جہاں میں ناتوانوں کا یہی انجام ہوتا ہے

………

اگر ہیں بیڑیاں باقی تو ہیں پائے جنوں حاضر

اگر دیوارِ زنداں ہے تو ہے شانوں پہ سر باقی

………

جو ملے ہیں وہ ظلم و ستم بانٹ لیں

آؤ آپس میں آج اپنے غم بانٹ لیں

………

اگر اپنی تخلیقی شخصیت کو مختلف حصوں میں نہ بانٹتے تو یقیناً سالکؔ لکھنوی کا ادبی قد اور بھی بلند ہوتا کہ وہ خاصے دلچسپ انشائیے بھی لکھتے ہیں۔ ’پس شعر‘ کے عنوان سے اشعار کے تجزیے، نثری نظموں کے انداز میں کرتے ہیں، مختلف انجمنوں کے انتظامات دیکھتے ہیں اور سماجی کاموں میں حصہ بھی لیتے ہیں۔ اگر انھیں یکسوئی کے ساتھ تخلیق شعر کے مواقع ملے ہوتے تو ان کی تخلیقی صلاحیتیں جہانِ تازہ آباد کرتیں۔

ہر چند کہ مظہر امام کا تعلق بہار سے ہے اور وہ مدتوں سے مغربی بنگال سے دور بھی ہیں لیکن ان کی ادبی شہرت نے بال و پر کلکتہ میں ہی نکالے ہیں۔ انھوں نے کلاسیکیت سے ترقی پسندی، ترقی پسندی سے جدیدیت، غزل سے آزاد غزل اور پھر کشمیر کی غزل تک پٹریاں اتنی تیزی سے بدلی ہیں کہ شبہ ہوتا ہے، انھیں اپنی منزل کا پتہ نہیں یا وہ ہوا کے رخ پر چلنا پسند کرتے ہیں۔ حالانکہ ان کی مدافعت میں کہا جا سکتا ہے کہ یہ سیماب صفتی، فنکار کی باغی فطرت کا اظہار ہے۔ ان کے کلام میں اس قسم کے شعر بھی ملتے ہیں :

فٹ پاتھوں پر نیند پڑی تھی

سورج سر پر آن کھڑا تھا

………

آج بھی جلتے ہیں آنکھوں میں تصور کے چراغ

تم تو کہتے تھے کہ سب اندھی ہوا لے جائے گی

یہاں نئی حسیت ان کی اختیار کردہ ہے لیکن عصری آگہی بہر صورت سر زمین بنگال ہی کی دین ہے۔ اگر وہ وفا داری بشرط استواری پر ایمان بھی رکھتے تو ان کی بالا قامتی ادب میں بھی ضرور تسلیم کی جاتی۔

مظہر امام کی طرح مرزا پور کے حرمت الاکرام نے بھی اپنی ادبی اہمیت قیام کلکتہ کے دوران تسلیم کرائی اور ’ کلکتہ ایک رباب‘جیسی تخلیق اسی کا فیضان ہے۔ اس طویل نظم میں کلکتہ کے روشن اور تاریک پہلو جس فنکاری کے ساتھ اجاگر کیے گئے ہیں معاشرتی، مسائل اور عوام کے دکھ درد کی جیسی سچی ترجمانی کی گئی ہے وہ اہلِ نظر سے پوشیدہ نہیں۔ حرمت الاکرام نے بھی شعوری طور پر جدید بننے کی کوشش میں اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو خاصا مجروح کیا۔ میرے خیال میں ان کا اصل رنگ وہی ہے جس میں مغربی بنگال کا شعری مزاج جھلکتا ہے۔ مثلاً:

یہ تضاد اور کیے جاتا ہے مجروح و فگار

آدمی خاک نشیں آدمی افلاک نشیں

………

سر سے اوپر پہنچا پانی کوئی پڑھے چہروں کی کہانی

امڈا ہے آنکھوں کا دوآبہ، دل کا نگر غرقاب ہوا ہے

………

نظیر جمیلیؔ، حسنؔ  نجمی، عبد اللہ ذاکرؔ، اقبال حسن اقبالؔ، عطاء الرحمان عطاءؔ، مضطر حیدریؔ،  اور ناظر الحسینی خواہ اتنے معروف نہ ہوں لیکن پانچویں اور چھٹی دہائی کے قابلِ ذکر شعراء میں سے ہیں۔ ناظر الحسینی کی نظم ’ بیداری‘ اپنے موضوع، مواد اور اسلوب کے اعتبار سے اچھی ترقی پسند نظموں کے زمرے میں آتی ہے۔ مذکورہ بالا دیگر شعراء کے رنگِ کلام کا اندازہ ان اشعار سے لگایا جا سکتا ہے۔

اہم تن آسانی کے خوگر ڈھونڈتے منزل کہاں

دور ہی سے گردِ راہِ کارواں دیکھا کیے

( حسن نجمی)

کیسی ہوا چلی تھی سب کچھ جھلس گئی ہے

رنگینیِ تمنّا، رعنائیِ جوانی

( نظیر جمیلی)

انگڑائی لے کے اٹھ ہی گئی میری بے کسی

اہلِ دول کا ظلم جو حد سے گزر گیا

( اقبال حسین اقبال)

ہمیں خوف کیا رقصِ موجِ بلا کو

سمجھتے ہیں ساحل کی روحِ رواں ہم

( حفیظ رزّاقی)

جیساکہ عرض کر چکا ہوں، آزادی کے آٹھ نو سال بعد، ہندوستان میں اس عہد کے کچھ جونیئر ترقی پسند فن کاروں نے جن میں خلیل الرحمان اعظمی، باقر مہدیؔ، وحید اختر وغیرہ کے نام نمایاں ہیں، ترقی پسند تحریک کے اکابرین کی نظریاتی سخت گیریوں اور مارکسی نقادوں کی غلط بخشیوں کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنی شروع کی، ادھر پاکستانی اہلِ قلم فوجی آمریت کی عائد کردہ پابندیوں میں آزادیِ فکر اور گفتار و اظہار کی گنجائش نہ پا کر اپنی بات نئے علاماتی انداز میں کہنے پر مجبور تھے۔ کچھ یہ بھی تھا کہ ترقی پسند تحریک کے زیراثر، ’ دار ورسن، اور ’ کوچہ قاتل‘ قسم کے جو علائم ادب میں رائج ہوئے تھے وہ تیس سالہ کثرتِ استعمال کی بنا پر ’ صیاد و آشیاں ‘ اور ’زلف و رخسار‘ جیسی علامتوں کی طرح اپنی تازگی اور معنویت کھو کر یک رخے اور بے کیف محسوس ہونے لگے تھے۔ ان سبھی اسباب نے اپنے ماحول سے مل جل کر ایک ایسی فضا تیار کی کہ اردو ادب میں جدیدیت کا رجحان تیزی سے فروغ پانے لگا اور دیکھتے ہی دیکھتے تمام اصنافِ ادب پر غالب آ گیا۔ ۱۹۳۵ء کے بعدسے ادب میں ایک خاص نظریے کی تبلیغ، جس میں اجتماعیت اور معاشرتی مفادات کو فوقیت دی جاتی تھی، اس بلند آہنگی سے کی جا رہی تھی کہ اکثر شعر پر سیاسی نعروں کا گمان ہونے لگا تھا۔ اس لیے نئے ادب میں ذات کے عرفان، انفرادیت پسندی، نفسیاتی پیچیدگیوں اور دروں بینی پر زیادہ توجہ دی گئی۔ چونکہ اس نئے رجحان کے علمبرداروں میں ترقی پسندی سے بغاوت کر نے والے فنکار پیش پیش تھے، اس لیے پورے ہندوستان میں جدیدیت کو عام طور پر، ترقی پسندی کی ضد اور اس سے متصادم اور متخالف رویہ سمجھ لیا گیا۔ اِکّا دُکّا استثنائی صورتوں کے علاوہ یہ خیال درست بھی تھا، لیکن مغربی بنگال کی ادبی صورتِ حال قطعی مختلف تھی۔ ساتویں دہائی کے ابتدائی برسوں میں اس خطے میں اردو کے مطلعِ ادب پر جو ستارے طلوع ہوئے ان میں تابناکی، اعزاز افضلؔ، علقمہؔ شبلی، قیصرؔ شمیم اور رونقؔ نعیم کے حصے میں زیادہ آئی۔ ان فنکاروں نے جدیدیت کو اپنے لیے سمتِ ممنوعہ نہیں قرار دیا اور اس سمت سے آنے والی تازہ ہوا سے اپنی شاعری کے برگ و بار کو شاداب کیا لیکن بہر طور ترقی پسندی کی زمین میں اپنی جڑوں کو پیوست رکھا، یہ ذات کی گہرائیوں میں غوطہ زنی بھی کرتے ہیں اور ذات سے کائنات کا رشتہ بھی نہیں ٹوٹنے دیتے۔ باطنی پیچیدگیوں کے شانہ بہ شانہ ان کے اشعار میں سماجی مقصدیت بھی شامل ہے۔ ان کے ہاں نئی علامتیں ترقی پسند نظریات کے گلے میں ہاتھ ڈال کر چلتی ہیں۔ یہاں جدیدیت ترقی پسندی سے متصادم نہیں ہے بلکہ دونوں ایک دوسرے میں اس طرح مدغم ہوئے ہیں کہ ایک بالکل نیا رنگ ابھر آیا ہے۔ علقمہؔ شبلی کی نظموں میں سے ’ مٹی‘، ’ تخلیق‘، ’ شہر تمنا‘، ’لوڈ شیڈنگ‘ اور ’ خوشۂ گندم‘ کا مطالعہ کیجیے، قیصر شمیم کی ’ تاش کے پتے ‘، ’تہذیب کا زندانی‘، ’ آج کا انسان‘ اور ’ پرازر پائن کی واپسی‘ پڑھیے یا رونقؔ نعیم کی نظموں میں ’ رشتے ناطے ‘، ’ موت‘، ’ناریل کے درختوں سے، اور آخری بیان‘ ملاحظہ فرمائیے۔ مغربی بنگال کی سرزمین، اس کے مسائل اس کے عوام کے چہرے ان میں واضح نظر آئیں گے اور اس ترجمانی کے لیے علامات اور اسالیب بیان وہ اختیار کیے گئے ہیں، جو جدیدیت کے عطا کردہ ہیں۔ تصدیق مزید کے طور پر غزلوں کے کچھ اشعار بھی پیش کرتا ہوں۔ اعزاز افضلؔ کہتے ہیں :

اک اشارے پہ چلتی ہیں سب انگلیاں

حرف اس کے نہیں جس کی تحریر ہے

………

یہ آ پڑے ہیں کہاں تجربوں کی دھوپ میں ہم

اب اعتبار کسی چھاؤں پر نہیں ہوتا

………

ہمیں معلوم ہے محفوظ کچھ ہم بھی نہیں لیکن

ہماری زندگی میں چور دروازہ نہیں ہوتا

………

قیصرؔ شمیم کا خیال ہے :

ہمارے جسم کو موجیں نگل گئیں قیصر

کہ ساعتوں کا سمندر بڑے جلال میں تھا

اور

میری زیست کا حال نہ پوچھو یہ ظالم تو ایسی ہے

جیسے کسی رستے کے کنارے برسوں کا بے برگ شجر

رونقؔ نعیم فرماتے ہیں :

بندھے ہوئے ہیں گھٹاؤں کے پاؤں میں گھنگھرو

کسے خبر تھی کہ سیلاب آنے والا ہے

………

ہم کوئی برگ خزاں ہیں کہ ہمیں

جس طرف چاہو اڑا لے جاؤ

اور علقمہؔ شبلی سوچتے ہیں :

کرنیں نئے سورج کی رکی ہیں نہ رکیں گی

گرتی ہوئی دیوار کو تم لاکھ سنبھالو

………

کل تک تو جھنکار سلاسل کی تھی جینے کا پیغام

آج یہ کیسا وقت پڑا ہے تم بھی چپ ہو ہم بھی چپ

………

آج کے ٹوٹتے لمحوں کی ہے دھڑکن جس میں

عصرِ نو کا وہ سلگتا ہوا لہجہ ہوں میں

آپ نے محسوس کیا ہو گا کہ اس سلگتے ہوئے لہجے  میں حوصلہ مندی اور حوادث سے نبرد آزما رہنے کا جذبہ کار فرما ہے اور اس میں قنوطیت، یاسیت پسندی اور زمانے کے جبر سے شکست کھا کر اپنی ذات کے خول میں سمٹ جانے کی وہ کیفیت نہیں ہے جس کے لیے عام طور پر جدید شاعری بدنام ہے۔ پیش کردہ اشعار اپنے پیشرو ترقی پسند شاعروں کے لہجے کی باز گشت بھی نہیں ہیں کیونکہ ان میں عصری آگہی کے ساتھ نئی حسّیت بھی کارفرما ہے۔ کم و بیش یہی خصوصیات وکیلؔ اختر کے کلام میں بھی نظر آتی ہیں جو چھٹی دہائی کے آخری برسوں میں جدید حسّیت سے روشناس ہوئے۔ ان کی نظموں میں ’ تبدیلی‘، ’ ایک سوال‘، ’ اور پھر‘ وغیرہ لائقِ ذکر ہیں۔ نیز غزلوں میں بھی اس نوع کے اشعار جھلک مارتے ہیں :

صاف کہتی ہے یہ تاریخ کہ منصوری سے

مضمحل سطوتِ اورنگ رہی ہے برسوں

بک چکے بہترین سب کپڑے

گرچہ نکلے نہیں ابھی مِل سے

………

سچ کا پودا لگا کے دیکھ لیا

اس میں کوئی ثمر نہیں ہوتا

………

افسوس کہ وکیل اخترؔ کی جوانامرگی نے نئی غزل کے بہت سے امکانات کو بروئے کار نہ آنے دیا جس کی ان کی صلاحیتوں سے توقع تھی۔ عین رشیدؔ بھی اسی دور کے شاعر ہیں، نئی علامات میں اپنے معاشرے کی عکاسی اور اپنی سرزمین کے جذبات کی ترجمانی جس کھولتے ہوئے لہجے میں انھوں نے کی ہے اس کی داد کئی ناقدین دے چکے ہیں۔ میں نثری نظم کا زیادہ قائل نہیں ہوں لیکن جب کبھی ساقیؔ فاروقی اور عین رشیدؔ کی  زبان سے ان کی نثری نظمیں سنتا ہوں تو اپنے اس تعصب میں خاصی کمی پاتا ہوں۔ بلا شبہ عین رشیدؔ کی نظم’ شہر‘ میں ان کے عہد کا کلکتہ اپنے تمام نشیب و فراز اور پیچ و تاب کے ساتھ منعکس ہوا ہے۔ عین رشیدؔ بہت کم کہتے ہیں لیکن بہت سوچ کر کہتے ہیں اور بہر اعتبار اپنی شاعری میں مغربی بنگال کے سچے شعری مزاج کی ترجمانی کرتے ہیں۔

۱۹۷۰ء تک کاروانِ ادب کے گرد و غبار میں جن شاعروں کے چہرے پہچان میں آنے لگے تھے ان میں غلام حسین ایازؔ، نشاط سعید، صادقؔ گیاوی، اشرفؔ چنگیزی، ناظمؔ سلطانپوری، بزمیؔ انصاری، کمترؔ عظیم آبادی، رئیسؔ  فریدی، بدنام نظرؔ، نسیمؔ سلطان پوری وغیرہ امتیازی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان میں سے اکثر نے شاکر کلکتوی یا بزم شاکری سے اکتساب فن کیا ہے اور بقیہ آرزوؔ لکھنوی یا ان کے کے ہم عصر کسی دوسرے استاد کے شاگرد ہیں۔ مولانا محمد حسین آزادؔ نے غلط نہیں کہا تھا کہ فیضانِ سخن رائیگاں نہیں جاتا۔ چنانچہ اساتذۂ سخن کے اثرات اس جماعت کے بیشتر شعراء کے کلام پر مثبت کلاسیکی رنگ کی شکل میں مرتسم ہوئے ہیں اور ہر عہد کی زندہ شاعری کی طرح ان کے اشعار میں نئی حسّیت کی کارفرمائی بھی نظر آتی ہے۔ بایں ہمہ اس علاقہ کا جوشیلا مزاج اور ترقی پسند خیالات بھی ان کی شاعری میں موجود ہیں، کلاسیکیت، ترقی پسندی اور جدیدیت کے امتزاج نے ان کے کلام میں بڑی تازگی اور جان پیدا کر دی ہے۔ کچھ نمونے ملاحظہ فرمائیں :

یہ خانماں خرابوں کی بستی ہے، اس طرف

کہہ دو کہ احتیاط سے بادِ صبا چلے

اور:

غور سے دیکھیے ان کرب زدہ چہروں کو

آپ کو اپنی ہی تصویر دکھائی دے گی

( غلام حسین آزادؔ)

سفید و سرخ لباسوں کا ذکر کیا صادقؔ

بہت دنوں سے ہے بستر پہ ایک ہی چادر

نیز یہ شعر:

ہم ملاقاتوں کے آنگن تک نہ آخر جا سکے

جانے کتنے روز و شب کی دھول دروازوں میں تھی

(صادق گیاویؔ)

ہمدمو ہم کیوں نہ ہٹ کر شاہراہ عام سے

صبح کی کرنیں تراشیں زندگی کی شام سے

………

اک شمعِ تبسم کی ضیا بھی نہیں ناظمؔ

دل ہے کہ کسی مفلس و نادار کا گھر ہے

(ناظمؔ سلطانپوری)

لکھا تھا اپنے خون سے میں نے بصد خلوص

افسانۂ بہار ابھی کل کی بات ہے

اور:

بگڑے ہوئے تیور ہیں نشاطؔ، آج ہوا کے

لگتا ہے کوئی شمع کہیں پھر سے جلی ہے

(نشاطؔ سعید)

روغن سے روشنی کا تعلق تو ہے مگر

بے تیل کا چراغ بھی جلتا ہے سو برس

………

چھوٹے سے ایک گھر میں ہزاروں ہیں مسئلے

ان مسئلوں کی بھیڑ میں تنہا ہے آدمی

(کمترؔ عظیم آبادی)

یہ فصلِ گل ہے حسن و عشق دونوں کو سنورنا ہے

تم اپنی زلف سلجھا لو، گریباں سی لیا میں نے

(بزمیؔ انصاری)

ساتویں دہائی کے اوائل میں اس خطّے کے جن شعراء نے ادبی حلقوں کو اپنی طرف متوجہ کیا ان میں نصر غزالیؔ، شمیم انورؔ، فاروق شفقؔ اور شاہینؔ بدر کے نام شامل ہیں۔ جذبات کی فراوانی، شدّتِ احساس، تازگیِ فکر اور ندرتِ ادا ان فنکاروں کے امتیازی نشانات ہیں۔ نصرؔغزالی کی علاماتی نظم ’ دودھ کا پیڑ‘ نثری نظم ’ گلیکسو بے بی‘ اور آزاد نظموں میں ’ اعتراف‘، ’ کلکتہ‘، ’لہوکا درد‘ میں ان کا عصر اپنی تمام پیچیدگیوں کے ساتھ زندہ ہے اور ان میں فن کار کی بلند ہمتی اور روشن مستقبل کی آرزو بھی جھلکتی ہے۔ شاہینؔ بدر کی نظمیں ’ فصیل شب کا اسیر‘ اور ’ زرد موسم کی ہوا‘ اپنے ماحول کی عکّاس ہیں۔ شمیم انورؔ کی بے عنوان منظومات خصوصاً ’ بیٹ جنریشن کی دو نظمیں ‘ میں ایک باغی شاعر کا غم و غصہ کھوتے ہوئے لاوے کی سی گرمی اور تندی رکھتا ہے۔ افسوس ہے کہ شمیم انورؔ شعلۂ مستعجل ثابت ہوئے اور غالباً ڈاکٹریٹ ملنے کے بعد انھوں نے اپنے اس مرض کا علاج کر لیا جو شاعری کی شکل میں انھیں لاحق ہو گیا تھا ورنہ ان کے ہاں بڑے امکانات تھے۔ بقیہ تینوں شعراء تیزی سے اپنی منزل کی جانب گامزن ہیں اور یقین ہے کہ ان کا فن بلندیوں کی خبر لائے گا۔ ان کی غزلوں کے اشعار بھی دیکھیے :

چلو ساحل سے ہم طوفان کی سوغات چن لائیں

وگر نہ لوگ ہم سے پہلے یہ تحفہ اٹھا لیں گے

………

کرفیو پیچھے پیچھے ہے سنّاٹے کی سرکار لیے

آگے سڑکیں بھاگ رہی ہیں جسموں کے انبار لیے

………

خود جن کی ہتھیلی میں ہوں سوراخ ہزاروں

وہ دینا بھی چاہیں گے تو کیا دیں گے کسی کو

(شمیمؔ انور)

میرے گھر سے دور ہوتی روشنی اے روشنی

طاقِ مفلس پر بھی اک جلتا دیا باقی رہے

………

اسی زمیں کے مکیں و مکاں کا قصہ ہیں

ہیں گرچہ شعر مرے انتخاب سے باہر

………

موڑ پر پہنچے تو دیکھو گے کہ ہر منزل ہے سہل

بس یہی اک راستہ ہے جو پریشانی کا ہے

(نصرؔ غزالی)

دھوپ کی شاخوں پہ پیلے پھل لگے اور گر پڑے

ہم یہ منظر گھر کے سونے لان سے دیکھا کیے

………

اب گفتگو میں بیچ سے غائب ہے آدمی

ہم تک تو آتے آتے روایت بدل گئی

………

اچھا سا سوٹ جسم پہ اپنے سجا کے وہ

خوش ہے کہ جیسے گھر کی بھی حالت بدل گئی

(فاروقؔ شفق)

ریشمی خیالوں کے نرم نرم بستر پر نیند کی کلی رکھ دو

تشنہ لب ہے تنہائی اس کے خشک ہونٹوں پر یاد کی نمی رکھ دو

…………

ایک بے نام منزل کی خوشبو لیے

قافلوں کا ہے جاری سفر دھوپ میں

(شاہینؔ بدر)

یہ رسائل میں چھپنے والے شاعر ہیں اور غالباً انھیں احساس ہے کہ عصری آگہی کا پتہ دینے والے ان کے اشعار نئی شاعری کے اکثر ناقدین کے نزدیک مستحسن نہ سمجھے جائیں گے۔ لیکن انتخاب سے باہر رکھے جانے کے خوف سے ان شعراء نے اپنی زمین کے تقاضوں سے انحراف نہیں کیا اور یہ خود اعتمادی ہی انھیں انتخاب کے اندر رکھنے کے لیے کافی ہے کیونکہ مجھ جیسے لوگ اسے بھی جدید شاعری کا ایک مثبت رویّہ سمجھتے ہیں۔

ادھر سات آٹھ برس کی مدت میں تازہ دم لکھنے والوں کی ایک بڑی کھیپ فنکاروں کے قافلے میں شامل ہوئی ہے۔ ان کے بارے میں ابھی وثوق سے کچھ کہنا مشکل ہے کہ کتنے اپنا ادبی سفر جاری رکھ سکیں گے اور کتنوں کو اپنی منزل مل سکے گی۔ اس بڑی جماعت میں جن تخلیق کاروں کی آواز زیادہ توانا اور جاندار ہے، ان کے نام ہیں، خالقؔ عبد اللہ، منور رانا، یوسف تقی، بدر الدین بدرؔ، قاصرؔ مکرم پوری، کمالؔ جعفری، حبیبؔ ہاشمی، رئیسؔ آنولوی بشیر آرویؔ، حامیؔ گورکھپوری، احسنؔ شفیق، معصوم شرقی، شہودؔ عالم آفاقی، گھائلؔ  اعظمی، اکبر حسین اکبرؔ، ایم۔ کے۔ اثرؔ، نورؔ پیکر، اشہرؔ ہاشمی، فیروز اختر، کامل حمیدی اور مشتاق جاوید۔ ان کے اشعار سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ شاعر نئے لہجے میں نئی بات کہنے کی کوشش کرتے ہیں اور اگر اپنے پیش روؤں کا کوئی خیال انھیں پسند بھی آتا ہے تو اپنے شعر میں اس کا کوئی نیا گوشہ نمایاں کرتے ہیں۔ بعض صفات تو ان کے یہاں بالکل نئی معلوم ہوتی ہیں۔ مثلاً منور راناؔ کے یہاں بہن کی محبت، پدرانہ شفقت اور ممتا کے جذبات کو شاعری کی زبان مل گئی ہے :

ماں باپ کی بوڑھی آنکھوں میں اک فکر سی چھائی رہتی ہے

جس کمبل میں سب سوتے تھے، اب وہ بھی چھوٹا پڑتا ہے

………

کھلونوں کے لیے بچے ابھی تک جاگتے ہوں گے

مجھے اے مفلسی کوئی بہانہ ڈھونڈھ لینا ہے

گاؤں پر شہر کی چیرہ دستی کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنا حبیب ہاشمی کا منفرد انداز ہے :

جب گزرنا کبھی تم شہر کے بازاروں سے

آرزوؤں کی ہری شاخ قلم کر لینا

………

روز اٹھتے ہیں یہاں جھوم کے بادل لیکن

سب کے سب گاؤں کے باہرہی برس جاتے ہیں

مقدس رشتوں کی بے حرمتی اور اخلاقی اقدار کی شکست و ریخت پر رئیس آنولوی بڑے خلاقانہ انداز میں نگاہ ڈالتے ہیں :

سینے پر ہر وار سہا جب دشمن کی تلوار اٹھی

ہمت اس دن ٹوٹی جس دن آنگن میں دیوار اٹھی

………

کہاں ہیں اس طرف بھی آئیں سایہ بانٹنے والے

مِرے بچے ابھی تک دھوپ کی شدت سے جلتے ہیں

اس صف کے سبھی شعراء کے کلام میں شگفتگی اور نُدرت کے ساتھ مشاہدے کی وسعت اور مضامین کے تنوع کا احساس ہوتا ہے۔ انھیں اپنی محرومیوں اور بے چارگیوں کے ساتھ، دوسروں کے دکھ درد کا بھی علم ہے۔ اپنے عہد کے تضادات اور بلندی و پستی پر ان کی نگاہ ہے، ان کی آرزو مندیوں میں حسرت ناکی اور المیہ کیفیت کے بجائے نبرد آزمائی کا جذبہ پنہاں ہے۔ اس نسل کے چند اشعار بھی ملاحظہ فرمائیے :

ہم فقیروں کو نہیں حاجتِ شاہی لیکن

بس سلامت رہے تن پر جو قبا باقی ہے

(خالقؔ عبد اللہ)

ان سوالوں کی بھیڑ میں یارو

چہرہ چہرہ عذاب جیسا تھا

(یوسفؔ  تقی)

مسئلہ در پیش ہے اب کے ہواؤں کے لیے

پر کٹے طائر اکٹھے ہیں اڑانوں کے لیے

(بدر الدین بدرؔ)

ملے ہیں مجھ کو ہرجانے کے پیسے

مگر اک ہاتھ میں انگلی نہیں ہے

(بشیر آروی)

ہو گئی تقسیم منزل سائلوں کے درمیاں

ہم انا والے تھے اپنے ہاتھ ملتے رہ گئے

(اکبر حسین اکبرؔ)

کبھی کبھی مجھے تنہائیوں کے آنگن میں

اداس کر گئی پہروں تمھارے نام کی دھوپ

(حبیب ہاشمی)

کارگاہِ دہر میں رہیے سدا گرمِ سفر

بے حسی سے زندگی کا حق ادا ہوتا نہیں

(معصومؔ شرقی)

پتہ چلا کہ ازل سے ہوں غیر کے گھر میں

نہیں تو اپنے ہی گھر میں یہ بے گھری کیوں ہے

………

ہم اہلِ جنوں بڑھتے رہے صورتِ طوفاں

کچھ لوگ کھڑی کرتے رہے ریت کی دیوار

(شہود عالم آفاقی)

میرے قدموں سے تھکن کا کوئی رشتہ کیوں ہو

دور منزل ہے مگر عزمِ جواں باقی ہے

(گھائل اعظمی)

چیخ کا سلسلہ نہیں رکتا

آ گئے لوگ روز محشر تک

………

منتشر اور منتظر سایہ مرا

ظلم کا زندہ نشاں ہے اور میں

(ایم۔ کے۔ اثرؔ)

کیوں بجھانے پہ ہو آمادہ لہو کی قندیل

اس اجالے کو سرِ راہِ گزر رکھنا ہے

(نور پیکرؔ)

ہے انتشار میں خود ساختہ امیر کی فوج

سنبھالے کون اب اس کا نشان گرتا ہوا

(اشہرؔ ہاشمی)

ہر اک مسئلے کا یہی ایک حل

امنگوں کی تیزی، حرارت، نظر

(فیروز اخترؔ)

ہر ایک موڑ پہ اک بھیڑ فاتلوں کی ہے

ہر ایک ہاتھ میں جنجر دکھائی دیتا ہے

(کمالؔ جعفری)

بات کرتے ہیں بزرگوں کی طرح

کس قدر ہوشیار بچے ہیں

(مشتاق جاویدؔ)

اس طرح شاہی پر اپنی قبا کو ترجیح دینا، بھیڑ کو سوالیہ نشان سمجھنا، پر کٹے طائروں کو ہوا کا مسئلہ بنا دینا، انگلی کٹنے پر ہرجانہ وصول کرنا، منزل کا سائلوں میں تقسیم ہو جانا، زندگی کو بے حسی کی جگہ گرمِ سفر رکھنا، گھر کی بے گھری کا احساس کرنا۔ چیخ کے لا متناہی سلسلے کو روزِ محشر تک پہنچانا، ظلم کے زندہ نشان سے منتشر سایوں کا نبرد آزما رہنا، لہو کی قندیل کو رہگزر پر روشن رکھنا، خود ساختہ امیروں کے نشان گرنے کی بشارت دینا، حرارت، نظر اور امنگوں کی شدت کو ہر مسئلے کا حل بتانا، قاتلوں کی بھیڑ اور ہاتھ کے خنجر سے خبردار رکھنا اور بچوں کی ہشیاری پر اظہارِ غم کرنا، گواہی دیتے ہیں کہ اس علاقے کے ہونہار شعراء کی جدید ترین نسل میں بھی وہ موروثی شعری مزاج تازہ خون کی طرح رواں ہے جو بنگال کی سرزمین سے منسوب ہے۔

میں سمجھتا ہوں گزشتہ چار دہائیوں پر محیط مغربی بنگال کے شعری ادب کا یہ سرسری جائزہ اب اختتام پر آ لگا ہے۔ یہاں پھر واضح کر دوں کہ مختلف ادوار، مختلف مزاج اور مختلف ادبی قامت رکھنے والے کہنہ مشق اور نیم پُخت، ان تمام فنکاروں کی حیثیت ایک رشتہ میں پروئے ہوئے چھوٹے بڑے، سستے مہنگے، نئے پرانے، آب دار اور کم آب رنگ برنگے نگینوں کی سی ہے اور یہ رشتہ ہے اس خطے کے اس شعری مزاج کا، جو ذوقِ جمال اور لطافتِ طبع کے، جوش، ولولہ اور سرکشی سے آمیز ہونے پر تشکیل پاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں کے نئے شاعر کسی تحریک کے بغیر ہی جدیدیت کے رجحانات کو اپنانے کے بعد بھی ترقی پسند رہتے ہیں۔ یہ شاعر معاشرے کی خوشحالی کے خواب کسی کے کہنے سے نہیں دیکھتے بلکہ اسی کی آرزو میں زندگی بسر کرتے ہیں، اپنے ماحول کے تقاضوں کو انھوں نے اپنے فن کے تقاضوں سے ہم آہنگ کر رکھا ہے۔ یہ رنگ ان میں کسی کے ہاں تیز اور کسی کے ہاں مدھم ہے، لیکن ہر جگہ موجود ہے۔ مزدور اور کسان ان کے لیے کتابی چیز نہیں کیونکہ ان میں سے بیشتر خود یا ان کے لواحقین مزدور یا کسان ہیں یا رہ چکے ہیں۔ انھوں نے اپنی سرزمین کے اجتماعی شعور اور علاقائی مزاج کے تحت عوام دوست اور فعال شاعری اس وقت کی ہے جب ترقی پسندوں کے چراغ ہندوستان کے دوسرے علاقوں میں ٹمٹمانے لگے ہیں۔ ایسے تازہ کار شاعروں کی اتنی بڑی تعداد، جو حوصلہ مندی کے جذبات، فنی اور شعری لوازمات کے ساتھ ادا کرتے ہوں، کسی اور خطے میں مشکل سے نظر آئے گی۔ جدیدیت کو ترقی پسندی کی توسیع کہنے والے اور شاعری میں برہمی کی تیسری آواز تلاش کرنے والے ناقدین کے لیے یہاں کثیر سرمایہ موجود ہے۔ حیرت ہے کہ یہ ناقدین خورد بین لے کر اٹھارویں صدی کے میر تقی میرؔ کے یہاں ’’ صناع ہیں سب خوار ازاں جملہ ہوں میں بھی‘‘قسم کے مصرعے کھوجتے ہیں، اور اسے ترقی پسند ثابت کرتے ہیں لیکن مغربی بنگال کے سچے باغی شاعروں پر ان کی نگاہ نہیں پڑتی۔ یہ زمین سے جڑے ہوئے فن کار ہیں اور اپنی اپنی انفرادی شان رکھنے کے باوجود ان سب میں مغربی بنگال کا شعری مزاج ایک قدرِ مشترک کی حیثیت رکھتا ہے۔

٭٭٭

تشکر: مصنف اور ان کے صاحبزادے پرویز مظفر جنہوں نے فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین ار ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید