FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

بقلم :شیخ عطیۃ اللّٰہ رحمہ اللّٰہ

اردو ترجمہ: انصار اللہ

محمدرسول اللہ ﷺ کا شجرہ نسب اس طرح ہے، آپ ﷺ بن عبداللہ بن عبدالمطلب بن ہاشم بن عبد المناف بن قصیٰ …

آپ ﷺ قریشی ،اسماعیلی اور ابراہیمی تھے۔

آپ ﷺ کا تعلق عرب کے مشہور شہر مکہ سے تھا جو کہ جزیرہ نما عرب میں واقع ہے(اس کا اکثر حصہ آج اس ریاست کی حدود میں واقع ہے جسے سعودی عرب کہا جاتا ہے)۔

بہت سے جغرافیہ دانوں ،ماہر ارضیات اور علم نجوم کے ماہرین کے مطابق مکہ دنیا کا مرکز ہے یا دوسرے الفاظ میں کہا جا سکتا ہے کہ مکہ تقریباً کرہ ارض کے مرکز میں واقع ہے۔یہ ایک پہاڑی اور بنجر صحرائی علاقہ ہے جو دور قدیم سے عرب نسل کے انسانوں کا مسکن ہے۔

پیغمبروں کے سردار سیدنا ابراہیم علیہ السلام سے بھی پہلے عرب موجود تھے اور دور قدیم کی شاندار اور مضبوط تہذیب رکھنے والے عجیب و غریب ان کے بڑے بڑے قبائل یہاں آباد تھے۔

مؤرخین کے مطابق تمام قدیم عرب قبائل یا ان میں سے بیشتر اب معدوم ہو چکے ہیں اور ان کا وجود ختم ہو چکا ہے اور موجودہ عرب دوسرے قبائل ہیں جنہوں نے عربی زبان قدیم قبائل سے سیکھی اور زیادہ تر عالی منصب پیغمبر اسماعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں جو اسحاق علیہ السلام کے بھائی اور ابراہیم علیہ السلام کے بیٹے تھے۔

مشرق وسطیٰ کہلانے والے اس علاقے، کرہ ارض کے مرکز اور پیغمبروں اور مقدس پیغامات کے گہوارے میں (صحیح لفظوں میں جزیرہ نمائے عرب میں) ان لوگوں نے فطر ت کے قریب اور شہری زندگی کی پیچیدگیوں سے دور سادہ زندگی بسر کی۔ یہی وجہ ہے کہ اپنی فطرت اور ذہنیت میں میانہ روی کی بنا پر ان کو نمایاں مقام حاصل ہے۔ اور انہیں اپنی حیرت انگیز خصوصیات مثلاً، ایمانداری، صاف گوئی، وفاداری، فیاضی، حوصلہ، عزت نفس، ظلم و ذلت کے استبداد، انسان دوستی، مردانہ وار خصوصیات، وعدوں کی پاسداری، عزم و ارادے کی مضبوطی، عظیم ولولے، فصاحت، ہوشیاری، فنون سے رغبت، حافظے کی تیزی اور پختگی کی بنا پر امتیازی وصف سے نوازا گیا حالانکہ یہ لکھنے کے فن سے نابلد تھے۔ یہ (اللہ تعالیٰ ) کی بہت بڑی حکمت تھی کہ زمین کے اس خطے کو تمام آسمانی پیغمبروں اور صحیفوں کے لیے چن لیا گیا تھا۔

محمدﷺ تمام مسلمان مؤرخین (جو آپ ﷺ کی نبوت پر یقین رکھتے ہیں اور آپ ﷺ کی پیروی کرتے ہیں) اور غیر مسلم مؤرخین (یہودی، عیسائی اور دیگر) کے نزدیک ایک عظیم انسان تھے۔ آپ ﷺ پیغمبر عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کے پانچ سو اکہتر برس بعد پیدا ہوئے اور یتیم بچے کی طرح پرورش پائی کیونکہ آپ ﷺ کے والد تب ہی وفات پا گئے تھے جب آپ ﷺ ابھی اپنی والدہ کے رحم میں تھے۔ بچپن میں ہی چھ برس کی عمر میں، آپ ﷺ کی والدہ بھی وفات پا گئیں۔ اسی طرح اپنے دادا کی وفات کے بعد آپ ﷺ نے یتیم بچے کی حیثیت سے اپنے چچا کی زیر نگرانی پرورش پائی حتیٰ کے آپ ﷺ جوانی کی دہلیز پر پہنچ گئے۔

چالیس سال کی عمر کو پہنچنے کے بعد، یعنی جب آپ ﷺ ایک مکمل آدمی بن گئے، زندگی اور اس کے تجربات سے واقف ہو چکے، شادی کر لی اور اپنے بچوں کی پرورش کر لی، معاشرے اور لوگوں سے آپ ﷺ اچھی طرح واقف ہو چکے اور معاشرہ اور لوگ آپﷺ سے متعارف ہو چکے تھے اور لوگوں کے درمیان آپ کا ایک مقام بن چکا تھا۔ ایک ایسا مقام جو تمام مورخین کے مطابق ایمانداری، اعتبار، ہوشیاری، پختہ ذہانت، خوش گفتاری، بہترین اطوار اور اعلیٰ اخلاقیات کے گرد گھوم رہا ہو۔ آپﷺ ایسی تمام خوبیوں سے سیر تھے جن کو پانے کے لئے انسان ایک دوسرے سے مقابلہ کرتے ہیں اور ان پر فخر کرتے ہیں مثلاً، فیاضی، ظلم و جبر اور ذلت کا انکار، ضرورت مندوں کا خیال رکھنا، کمزوروں سے ہمدردی کرنا، لوگوں کی مدد اور خدمت کرنا اور ان خامیوں، برائیوں اور قابل اعتراض خصلتوں سے پاک رہنا، جنہیں تمام ہوشیار لوگ قابل نفرت گردانتے ہیں۔ ان سب کے باوجود آپ ﷺ بھی باقی سب کی طرح (اپنے وقت کے بیشتر لوگوں کی طرح) ناخواندہ اور پڑھنے لکھنے سے قاصر تھے۔۔۔۔

اس عمر تک پہنچنے کے بعد آپ ﷺ نے اعلان کیا کہ آسمان سے آپ ﷺ پر وحی نازل ہو ئی ہے اور اللہ تعالی ٰ نے ایک فرشتے کو آپ ﷺ کی طرف بھیجا ہے جو آپ ﷺ کو دین کی تعلیم دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو دنیا والوں کے لیے پیغمبر کے طور پر چن لیا ہے اور آپ ﷺ رسولوں اور پیغمبروں پر مہر ہیں جن کے بعد کوئی رسول نہیں آئے گا۔

پہلے پہل آپ ﷺ نے اپنی تبلیغ کا اعلان خفیہ طور پر اپنے قابل اعتماد دوستوں، جاننے والوں اور رشتہ داروں کے سامنے کیا۔ مقامی آبادی کے مردوں اور عورتوں پر مشتمل ایک گروہ نے مثبت رد عمل کا اظہار کیا جس کے بعد آپ ﷺ نے اپنے پیغام کی اعلانیہ تشہیر شروع کر دی۔

یہ وہ وقت تھا جب لوگوں نے آپ ﷺ کی دعوت کے خاتمے کے لیے تمام ذرائع استعمال کرتے ہوئے ہٹ دھرمی کے ساتھ آپ ﷺ کی مخالفت کی، جھوٹا ہونے کا الزام لگایا اور ہر طرح کے الزامات سے آپ ﷺ پر بوچھاڑ کر دی۔ انہوں نے آپ ﷺ کو (نعوذ باللہ) جادو گر، جھوٹا اور پاگل کہا۔ انھوں نے آپ ﷺ پر فصیح شاعر ہونے کی تہمت لگائی جو اپنے کلام سے لوگوں پر جادو کر دیتا ہو۔ اسی طرح انھوں نے بہت سی دوسری متنازعہ باتیں بھی آپ ﷺ سے منسوب کیں۔

ان لوگوں نے آپ ﷺ کی نبوت کا انکار کیا، آپ ﷺ کی ساکھ اور احترام کو ٹھیس پہنچانے کی کوشش کی، حتیٰ کہ جسمانی اذیت بھی دی۔ آپ ﷺ نے صبر کے ساتھ اللہ کے نازل کردہ پیغام کو پھیلانے کے لیے ان الزامات کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ اگر آپ ﷺ نے یہ سب اتنے صبر و تحمل سے برداشت نہ کیا ہوتا اور انہی لوگوں میں سے اپنے حمایت کار نہ نکالے ہوتے تو یہ دعوت کبھی نہ پھیلتی۔

آپ ﷺ نے اپنے لوگوں کی طرف سے روا رکھے گئے ظلم و تشدد کا سامنا نرمی، عظمت، عفو و درگزر اور بردباری سے کیا۔ یہاں تک کہ یہ لوگ آپ ﷺ کو صدمہ پہنچاتے، آپ ﷺ کے کمزور ساتھیوں کو جسمانی اذیت دیتے، مذاق اڑاتے اور مضحکہ خیز حرکتیں کرتے، بائیکاٹ کرتے اور ان کا محاصرہ کرتے۔ اس کے باوجود آپ ﷺ ان کو نیکی کی دعوت دیتے اور جس پیغام کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے انھیں بھیجا اس کی وضاحت فرماتے۔ آپ ﷺ نے انھیں: ایک اللہ کی عبادت کی دعوت دی، جس کا کوئی ہمسر نہیں۔ آپ ﷺ نے انھیں ان کے آباء و اجداد کے معبودوں کی عبادت کرنے سے روکا جنہیں وہ اللہ کا ہمسر ٹھہراتے یا اللہ کے سوا ان کی عبادت کرتے۔ آپ ﷺ نے انھیں نمازوں کی پابندی، زکوۃ کی ادائیگی، ایمانداری اور پاکیزگی، عہدو پیمان کی پابندی، قرض کی ادائیگی، امانت کی ادائیگی اور اپنی رشتہ داریوں کواستوار کرنے اور نیکی کی بنیادوں کو مضبوط کرنے کا حکم دیا۔ ان کے نازیبا الفاظ کی پرواہ نہ کرتے ہوئے آپ ﷺ نے دن رات ان کو اس پیغام کی یاد دہانی کروائی اور ان کی بہتری چاہی۔ آپ ﷺ کی پکار میں یقیناً سچائی تھی لیکن انسان عام طور پر اس شے کا مخالف ہو جاتا ہے جس سے وہ بے خبر ہوتا ہے۔

آپ ﷺ نے ان کے لیے دنیا اور آخرت میں بھلائی، عزت، شرافت اور خوشی چاہی جبکہ انھوں نے اپنے لیے خسارے کے راستے کا انتخاب کیا۔ ان کے سرداروں اور بڑوں نے اپنی تمام طاقت اور مال کے ساتھ آپ ﷺ کے خلاف رسوا کن جنگیں لڑیں اور آپ ﷺ کو بدنام کرنے کے لیے دہشت انگیز خبریں پھیلائیں۔

حقیقتاً ! آپﷺ کے دور کے زیادہ تر لوگوں نے بہت سی ایسی وجوہات کی بنیاد پر،جنہوں نے ان کو گھیر رکھا تھا، جہالت اور گناہ کے پردے کی اوٹ لے رکھی تھی۔ جیسا کہ موجودہ زندگی کے ساتھ پہلے سے موجود تصورات اور انسانی وجود کے حقیقی مقصد سے بے خبری۔ نیز اپنے بزرگوں اور راہنماؤں کی تابعداری اور اطاعت، حالات کے بدل جانے کے بعد نتائج کا خوف اور اپنی موجودہ صورت حال پر اکتفاء کرنا۔ ان تمام غیر منصفانہ وجوہات کی بنیاد پر ان لوگوں نے تمام مواقع گنوا دئیے۔ اگر ان میں سے کوئی آج زندہ ہو جائے اور ہم اس سے سوال کریں تو ہمیں یقین ہے کہ وہ اپنے جرم اور مایوسی کی بے مثل حالت کو ہی بیان کرے گا۔

جہاں تک ان کے سرداروں اور بڑوں کا تعلق ہے تو وہ اس بات کے خوف سے کہ اگر انھوں نے محمد ﷺ کی بات مان لی تو ان سے ان کی امارت و قیادت چھن جائے گی، وہ راہ راست سے بھٹکے ہوئے تھے اور بے انتہا ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کر رہے تھے۔ لیکن کیا اس چیز نے انہیں کچھ فائدہ پہنچایا؟ اب صدیوں بعد ہم ان لوگوں کو یاد کر رہے ہیں، آپ ﷺ کو یاد کر رہے ہیں اور یہ یاد کر رہے ہیں کہ اس وقت کیا ہوا تھا؟ ان میں سے کون فاتح اور ہمیشہ کے لیے سرخرو ہوا، اور کون شکست خوردہ لعنت کا شکار ہو کر ہمیشہ کے لیے بدنام ہوا؟

محمد ﷺ پر جیسے جیسے وحی تھوڑی تھوڑی کر کے نازل ہوتی رہی درجہ بدرجہ اپنی تبلیغ کا اعلان جاری رکھا۔ آپ ﷺ نے لوگوں کو سچے دین کی تعلیم دیتے رہے۔ ایک ایسی تعلیم جو رحم، انصاف، سخاوت، بھلائی، عقلمندی اور اصلاحی خصوصیات اپنے اندر سموئی ہوئی تھی، اس پیغام کو اچھے نفوس نے پسند کیا جو ہر نیکی کا حکم دیتا اور ہر برائی سے روکتا تھا۔ آپ ﷺ نے اس دعوت کو اس وقت تک جاری رکھا جب تک آپ ﷺ اپنی قوم کے اسلام لانے سے مایوس نہیں ہو گئے۔ ان لوگوں نے آپ ﷺ کو قتل کرنے کی سازشیں کیں، اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو ہجرت کرنے کا حکم دیا۔ اس طرح آپ ﷺ نے مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی جہاں آج آپ ﷺ کا روضۂ مبارک اور مسجد موجود ہے۔

مدینہ میں کئی عرب قبائل آباد تھے، جن کے کچھ لوگ حج کے دنوں مکہ آنے کے دوران آپ ﷺ کو دیکھنے اور سننے کے بعد آپ ﷺ کی دعوت پر ایمان لا چکے تھے۔ اللہ کے رسول ﷺ نے انھیں جو دعوت دی تھی اس پر پختہ ایمان کی وجہ سے یہ لوگ ہر طرح سے آپ ﷺ کی مدد کرنے کے لیے جوشیلے ہو گئے۔ اسی لیے انھوں نے آپ ﷺ کو اپنے شہر مدینہ کی طرف ہجرت کرنے کی دعوت دی، جہاں آپ ﷺ رہ سکیں اور وہ لوگ آپ ﷺ کی مدد کر سکیں، آپ کو پناہ دیں سکیں اور آپ ﷺ وہاں سے اپنی دعوت کو پھیلا سکیں۔

محمد ﷺ نے فی الواقع ہجر ت کی اور اپنے ساتھیوں، جو ایسا کرنے کی استطاعت رکھتے تھے ان کو بھی اس کا حکم دیا۔ لہذا مردوں، عورتوں اور بچوں نے اپنے دین کی خاطر ہجرت کی۔ ان لوگوں کے ہجرت کرنے کا کوئی ذاتی یا دنیاوی، معاشی، سیاسی یا دوسرا کوئی اور سبب نہ تھا سوائے اس دین کے جس پر وہ ایمان رکھتے تھے اور اسے اللہ کے پیغام کے طور پر جانتے تھے۔ وہ اللہ جس نے انھیں پیدا کیا اور انسان بنایا اور ان سے مطالبہ کیا کہ صرف اس کی عبادت کریں، اور وہ انھیں دنیا کی آزمائشوں کے ذریعے پرکھ رہا تھا۔

ان سادہ عرب قبائل کے نہ ہی کوئی اعلیٰ سیاسی عزائم یا توسیع پسندانہ منصوبے تھے اور نہ ہی کوئی ایسی قابل ذکر تہذیب تھی جس کا دنیا کی تہذیبوں میں آج کوئی ذکر ہو۔ یہی وجہ ہے کہ حقیقت کے متعلق ان کے پختہ یقین اور حتمی سچائی پر ان کے عقیدے نے ان کی روحوں اور فطرت پر گہرا اثر ڈالا اور جس رد عمل کا انہوں نے اظہار کیا، بہت سے مورخین کے مطابق پہلے پیغمبروں کے چند پیروکاروں کے علاوہ اس کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔

وہ شہر جہاں آپ ﷺ نے ہجرت فرمائی، جہاں مہاجرین اور انصار دونوں رہتے تھے محمد ﷺ نے اس شہر کو اپنی ریاست کا مرکز بنایا۔ یہاں آپ ﷺ نے آزادی سے حق کا پیغام پھیلایا اور اپنے پیروکاروں کے لیے سماجی، معاشی اور سیاسی معاملات ترتیب دئیے۔ اللہ کے حکم اوراس کی وحی کی روشنی میں ان کے لیے ایسی قانون سازی اور شرعی احکام مرتب کیے جن سے وہ بتدریج مکمل ہونے لگے اور لوگوں کے نظریات، عقائد اور معاشرتی زندگی میں رفتہ رفتہ اپنی جگہ بناتے گئے۔

آپ ﷺ اپنی آبائی قوم (قریش) کے ان لوگوں کے ساتھ جنہوں نے آپ ﷺ کو اپنے آبائی وطن کو چھوڑ دینے پر مجبور کیا، ایسی جنگوں میں داخل ہوئے جن میں آپ ﷺ نے اپنی چھوٹی اور محدود لشکر کے ساتھ ان پر فتح پائی۔آپ ﷺ اور قریش کے درمیان پہلی جنگ، جنگ بدر تھی جس کو مسلمانوں کی زندگیوں میں اہم مقام حاصل ہے اور یہ جنگ تاریخ اسلام کا ایک اہم جز ہے۔ اس کے بعد آپ ﷺ اور ان کے درمیان یکے بعد دیگرے کئی جنگیں ہوئیں، کیونکہ ان (کفار) نے آپ ﷺ کو، آپ ﷺ کی تبلیغ کو، آپ ﷺ کے پیروکاروں کو اور آپ ﷺ کی قائم کردہ اسلامی ریاست کو ختم کرنے کی بھر پور کوششیں کیں یہاں تک اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کی مدد فرمائی اور آپ ﷺ نے دشمن کو شکست دے کر ان کے دارالحکومت (مکہ ) کو فتح کر لیا جو ان کا آبائی وطن تھا جس سے انھوں نے آپ ﷺ کو نکال دیا تھا، یعنی مکہ جو کہ دنیا کا مرکز ہے۔

آخر کار آپ ﷺ کی اپنی قوم کے ان لوگوں کے ساتھ جنگوں کا اختتام ہوا، جو عربوں میں نسب کے لحاظ سے اعلی اور محترم مقام کے حامل تھے کیونکہ یہ مکہ کے رہائشی اور کعبہ کے متولی تھے، جو کہ اللہ کا قدیم اور مقدس گھر تھا جسے حضرت ابراہیم ؑ اور حضرت اسماعیل ؑ نے تعمیر کیا تھا۔

اس پس منظر میں تقریباً پورا جزیرہ نمائے عرب دینِ محمد ﷺ کے دائرے میں داخل ہو گیا، وہ تمام لوگ آپ ﷺ پر ایمان لائے اور آپ ﷺ کی پیروی کی، دوسرے لفظوں میں تمام عرب، کیونکہ اس دور میں جزیرہ نمائے عرب کی حدود سے باہر عرب آباد نہیں تھے۔

پھر محمد ﷺ نے دوسری ریاستوں کے بادشاہوں کو خطوط بھجوانا شروع کیے جن میں انھیں دائرہ اسلام میں داخل ہونے اور اللہ تعالیٰ کے احکامات پر ایمان لانے کا کہا گیا، جو کہ آپ ﷺ پر نازل کیے گئے تھے۔

آپ ﷺ نے بازنطینی، رومی سلطنت کے بادشاہ، فارس کے بادشاہ اور دوسرے بادشاہوں کو خطوط بھجوائے۔

اسی اثنا میں نبی ﷺ وفات پا گئے اور آپ ﷺ ذاتی طور پر ان بڑی سلطنتوں کے ساتھ آخر تک مکمل برتاؤ کرنے تک زندہ نہ رہ سکے۔

اسلامی شریعت کی بنیادیں اور اصول جن کے ساتھ آپ ﷺ کو بھیجا گیا، ان کی روشنی میں خلافت سنبھالنے، یعنی آپ ﷺ کے بعد انتظامی امور چلانے کے لیے حاضرین نے آپ ﷺ کے دوست اور نائب سیدنا ابو بکر صدیق ؓ کا انتخاب کیا۔ سیدنا ابو بکر صدیق ؓ آپ ﷺ کے رفقاء میں سے سب سے پہلے ایمان لانے والے اور سب سے زیادہ قریبی ساتھی، عزیز و محبوب، اعلیٰ تعلیم یافتہ اور تمام ضروری خصوصیات اور خوبیوں کے مالک تھے۔

چنانچہ آپ ﷺ کے بعد مسلمانوں اور اسلامی ریاست کی بنیادیں قائم رہیں، جب بھی کسی خلیفہ کی وفات ہوتی تو دوسرا انتخاب کے ذریعے ان کی جگہ لے لیتا، یہاں تک کہ مسلمانوں کے درمیان جھگڑوں اور خانہ جنگیوں کا آغاز ہو گیا، جو کئی برس تک جاری رہنے کے بعد صلح اور امن سے اختتام پذیر ہوئی۔ اس کے بعد ایک خلیفہ نے حالات کے پیش نظر اجتہاد کرتے ہوئے اپنے بیٹے کو اپنا جانشین مقرر کر دیا۔ اس وقت سے اسلامی تاریخ میں موروثی بادشاہت کا آغاز ہوا اور اسلامی تاریخ میں یہ سلسلہ کافی عرصے تک جاری رہا۔

تاریخ کا پہیہ چلتا رہے گا جب تک کہ دنیا کے اختتام کا وقت نہ آن پہنچے، اسی لیے مسلمانوں کی تاریخ میں بھی مختلف ادوار آتے رہے، کچھ ان کے حق میں اچھے تھے اور کچھ اتنے اچھے نہ تھے۔ ان (بادشاہوں) میں سے کچھ نے دین اسلام اور نبی ﷺ کے لائے ہوئے پیغام کو مضبوطی سے تھامے رکھا اور کچھ نے دین کو نظر انداز کیا اور صرف دین کا نام اور اصل مقصد کے بغیر چند نعروں کو استعمال کیا۔۔۔۔

امت مسلمہ اپنی تاریخ میں سیاسی، فوجی، معاشی، ثقافتی، سماجی، نظریاتی، سائنسی اور دیگر مراحل میں کئی طاقتور اور کمزور ادوار سے گزری ہے۔

تاریخ میں ایک وقت وہ بھی تھا جب امت مسلمہ نے دنیا پر حکومت کی اور اسلامی حکومت کے زیر سایہ دنیا نے انصاف، رحم دلی اور سخاوت کا مزہ چکھا۔ یہ وہ تین صفات ہیں جن کے متعلق غیر جانبدار تاریخ دانوں کا کہنا ہے کہ یہ صفات سوائے اسلامی دورِ حکومت کے، کبھی دنیا میں اکٹھی نہیں پائی گئیں۔

خلفاء میں سے نیکوکار لوگوں نے محمد ﷺ کے اسوۂ حسنہ کو مضبوطی سے تھامے رکھا، اسلام کو پھیلایا اور لوگوں کو اس کی دعوت دی، اور دنیا کے بہت سے ممالک کو دین اسلام کے ذریعے فتح کیا۔ تاریخ میں ان کی فتوحات اور توسیعات منفرد ہیں۔ وہ فتوحات کسی معاشی سبب، سیاسی مفادات کی غرض سے، نفسیاتی خواہش کی تسکین یا کسی بدلے کے لیے نہ تھیں۔ بلکہ یہ دین حق کو اور اس اچھائی کو پھیلانے کے لیے تھیں جو نبی ﷺ لائے تھے۔ کمزوروں اور مظلوموں کو ہر ایسی طاقت سے، جو ان سے انتخاب کا حق چھین لیتی تھی، آزادی دلوا کر یہ اختیار مکمل طور پر انھی کو سپرد کر دیا کہ وہ چاہیں تو اس کو اپنا لیں اور چاہیں تواس کو چھوڑ دیں۔

بالآخر بہت سی وجوہات کی بنیاد پر مسلم مملکت کمزور پڑ گئی اور زوال کا شکار کئی وجوہات کی وجہ سے ہوئی جن میں سے بعض یہ ہیں: غرور، خود غرضی، بڑے بول، حصولِ شہرت، اپنے لئے بڑے بڑے القابات اور ناموں پر فخر کرنا، خواہشات نفس اور ہوس کے احساسات میں کھو جانا۔ اس کے علاوہ ان میں وہ خامیاں آ چکی تھی جو قوموں کے زوال کا باعث بنتی ہیں۔

تاہم امت مسلمہ ان تمام کمزوریوں اور خامیوں کے باوجود، جن سے وہ متاثر ہوئی تھی، مجموعی طور  پر یہ عزم و حوصلے کے ساتھ ان اصولوں، بنیادوں اور عملی ڈھانچے کے ساتھ مضبوطی سے چمٹی رہی جو نبی ﷺ لائے تھے۔ تاہم آج اپنے درمیان سے نئی تبدیلیوں کے ابھرنے اور سختیوں، جارحیت، ظلم و تشدد کا مزہ چکھنے کے بعد، جو کہ خاص طور پر یورپیوں نے روا رکھا، تو مسلمان اپنی حالت زار اور اپنے ارد گرد موجود دنیا سے واقف ہوئے اور یہ جان لیا کہ انھوں نے بہت سی چیزوں کو نظر انداز کر دیا ہے اور وہ اقوام کے مابین ترقی کی راہ میں پیچھے رہ گئے ہیں، تو اس احساس نے انھیں ہلا کر رکھا دیا، کہ سالوں کی پڑی یہ گرد اور بے قراری اب دور ہو گئی ہے اور یہ ایک بار پھر(انسانیت کی) راہبری کرتے نظر آ رہے ہیں۔ یہ شعور و آگاہی ایک نشاط ثانیہ کی گواہی دے رہی ہے۔

دعوتِ محمد ﷺ پر ایک نظر:

محمد ﷺ لوگوں کے پاس آئے اور ان سے کہا: ’’میں تم سب کی طرف اللہ کے دین اسلام کے ساتھ اللہ کا رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں۔ یہ وہی دین ہے جو مجھ سے پہلے اللہ کے بھیجے ہوئے پیغمبروں کا بھی تھا‘‘۔

آپ ﷺ نے فرمایا ’’تمام پیغمبر آپس میں بھائی ہیں۔ ہم سب کو اللہ تعالیٰ نے بھیجا ہے اور ہمارا لایا ہوا دین بھی ایک ہی ہے۔ یہ دین اللہ تعالیٰ کی وحدانیت ہے کہ صرف ایک اللہ کی عبادت کی جائے جس کا کوئی ہمسر نہیں، ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہیں کرتے اور نہ ہی اللہ کے ساتھ کسی شے کی عبادت کرتے ہیں بلکہ ہم اس کے سوا ہر معبود کی تکفیر کرتے ہیں۔ پس اللہ کے سوا ہر وہ چیز جسے پوجا جاتا ہے وہ باطل خدا ہے جو کہ عبادت کے لائق ہی نہیں۔ صرف اللہ عزوجل ہی عبادت کے لائق ہے اور اس میں اس کا کوئی شریک نہیں۔

یہ میرے لائے ہوئے دین کی بنیاد اور پیغام ہے۔ یہی دین مجھ سے پہلے آنے والے تمام رسولوں اور پیغمبروں کا دین ہے اور اس میں کوئی فرق نہیں‘‘۔ یہ دین لوگوں کو اللہ کے پیغمبروں اور ان پر نازل کردہ کتابوں پر ایمان لانے کی دعوت دیتا ہے اور ان کے درمیان فرق کرنے سے منع کرتا ہے کہ بعض پر ایمان لایا جائے اور بعض پر ایمان نہ لایا جائے، بلکہ اس بات کی تلقین کرتا ہے کہ یہ ایمان رکھا جائے کہ وہ سب سچے ہیں اور اللہ کی طرف سے بھیجے گئے ہیں۔

تمام پیغمبروں کا یہی دین تھا اور انہوں نے لوگوں کو یہی دعوت دی تھی کہ: صرف ایک اللہ کی عبادت کی جائےاور دوسروں کو اس کا شریک نہ ٹھہرایا جائے۔

جہاں تک قوانین، دستوروں اور ضابطوں کی بات ہے تو یہ ہر رسول کے لائے ہوئے پیغام میں مختلف ہو سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر عبادات کے ادا کرنے کے ضوابط مختلف ہو سکتے ہیں جیسا کہ نماز، روزہ، زکوٰۃ وغیرہ کا طریقہ، وقت، تعداد اور مقدار میں فرق ہو سکتاہے۔ نیز حلال اور حرام میں تبدیلیاں ہو سکتیں ہیں، کچھ قوانین ایک رسول کے پیغام میں دوسرے رسول کے لائے ہوئے پیغام سے مختلف ہوسکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کچھ لوگوں کو کسی خاص چیز سے منع فرماتا ہے جبکہ باقی تمام رسولوں کے پیغام میں منع نہیں فرماتا۔ اللہ تعالیٰ تمام حکمت کے مالک ہیں اور ہمارے لیے بہتری، رحمت اور فلاح چاہتا ہے۔

پہلے رسول صرف اللہ کی طرف سے اپنی اپنی قوموں کی طرف بھیجے گئے، لیکن محمد ﷺ جو اللہ کا آخری پیغام لائے فرماتے ہیں،: ’’میں اللہ کا آخری رسول ہوں جو کہ تمام لوگوں کی طرف بھیجا گیا ہوں، تمام رنگ و نسل کے لوگ چاہے وہ دنیا میں کہیں بھی ہوں، تب تک کے لیے جب تک یہ دنیا فنا ہو کر اپنے انجام کو پہنچ جاتی ہے۔ اسی لیے میرا پیغام آخری ہے چونکہ اس کے بعد اور کوئی پیغام نہ آئے گا اس لیے یہ کامل، انتہائی وسیع، اور بہت جامع پیغام ہے اور ساتھ ہی یہ بہت واضح، آسان اور سب سے زیادہ کامل خصوصیات رکھنے والا ہے‘‘۔ اس لیے دنیا پر بسنے والے ہر انسان کو محمد ﷺ اور جس پیغام کے ساتھ اللہ نے ان کو بھیجا ہے اس پر ایمان لانے کی دعوت دی جاتی ہے۔ یہ ہر انسان کا فرض ہے کہ وہ محمد ﷺ پر ایمان لائے اور جو پیغام وہ لائے ہیں اس کی پیروی کرے اور ایسا کرنے سے ہی وہ مسلمان ہو گا۔ اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ کسی سے کچھ اور قبول نہیں کرے گا۔

پیغمبر عیسیٰ ؑ کے پیروکار یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہم عیسیٰ علیہ السلام کے پیروکار ہیں اور عیسیٰ ؑ اور ان کی لائی ہوئی شریعت کی پیروی ہمارے لیے کافی ہے، کیونکہ ایسا کہنے سے وہ محمد ﷺ کو جھٹلانے اور ان کی تکذیب کے مرتکب ہوتے ہیں۔ پس جو کوئی بھی اللہ کے ایک بھی رسول یا پیغمبر کا انکاری ہوتا ہے تو وہ اللہ کا انکاری ہوتا ہے، جس نے انہیں بھیجا۔

اے کمزور، بے بس تخلیق کردہ انسان! تیرے بس میں نہیں کہ تو اللہ کے بھیجے ہوئے پیغام سے انکار کرے یا یہ کہے کہ میں اس رسول یا پیغام کو تسلیم نہیں کرتا۔

تیرے سامنے صرف دو ہی معاملے ہیں:

یا تو تم محمد ﷺ پر اور ان کے لائے ہوئے اللہ کے پیغام پر ایمان لے آؤ اور اس کی پیروی کرو جو وہ لیکر آئے، جیسا کہ آپ ﷺ نے فرمایا، ’’یہ پیغام اللہ کا آخری پیغام ہے، پس جو کوئی بھی اس کی مخالفت کرے گا وہ کالعدم اور باطل ہوگا۔ اللہ تعالیٰ صرف اسی پیغام کے مطابق ہونے والی عبادات قبول فرمائے گا۔‘‘

یا تو تم محمد ﷺ کا انکار کرو اور ان کی تردید کرو اور کہو کہ (نعوذ باللہ) آپ ﷺ جھوٹے ہیں، اللہ نے آپ ﷺ کو نہیں بھیجا ہے اور نہ ہی کچھ کرنے کا حکم دیا ہے!

اگر دوسرا معاملہ ہے تو آپ کی دو حالتوں میں سے ایک حالت ہوگی:

۱) یا تو آپ ہدایت نہیں چاہتے، نہ اسے تلاش کرتے ہیں اور نہ ہی اس کی کوئی پرواہ کرتے ہیں۔ آپ کی تمام ترتوجہ، آپ کا مقصد اور آپ کی اولین ترجیح صرف اپنی خواہشات کی تکمیل، عیاشی کرنا اور اپنے دنیاوی اور مادی معاملات کو طے کرنا ہے، اس صورت میں آپ ایک ایسے شخص ہو جو غفلت اور نشے سے صرف بستر مرگ پر پہنچ کر جاگتا ہے، جبکہ اس وقت کا شعور کسی کام کا نہیں کیونکہ امتحان کا وقت ختم ہو چکا ہو تا ہے۔ ایسے لوگ اللہ تعالیٰ کی قوت والی اور عظیم ذات کے غصے اور سزا کے حقدار ہیں، اور ان لوگوں کا انجام آگ ہے۔

۲) یا تم کہتے ہو کہ میں نے تلاش کی ہے لیکن محمد ﷺ کو اللہ کا رسول ماننے کا کوئی ثبوت نہیں پایا، جس کا ہم یہ جواب دیتے ہیں ’’کیا تم نے پیغمبرعیسیٰ ؑ کے رسول ہونے کا کوئی ثبوت پایا، جس کا تمہارے لوگ دعویٰ کرتے ہیں کہ (نعوذ باللہ) وہ اللہ کے بیٹے ہیں؟ کوئی ایسا ثبوت ہے جس سے تم کسی بھی نبی کی نبوت کا ثبوت پیش کر سکو جس پر تم یقین رکھتے ہو؟ اس ثبوت کا اطلاق محمد ﷺ پر بھی اسی طرح ہوتا ہے‘‘۔

اپنے آپ سے پوچھو! مثال کے طور پر :’’کیا تم نے پیغمبر نوح،  ابراہیمی، موسیٰ﷨، داؤد یا سلیمان﷨ یا عیسیٰ﷨ کی نبوت کی پڑتال کی ہے (یا ان میں سے کسی کی بھی جسے تم نبی مانتے ہو)؟ اگر ایسا ہے، تو تم اسے کیسے ثابت کر سکتے ہو؟ ’’اگر ایک بار تم نے اسے ثابت کر دیا، تو ہم تمہیں بتاتے ہیں کہ، ’’یہی ثبوت محمد ﷺ کی نبوت کو بھی ثابت کرتا ہے اور وہ اس کے زیادہ لائق ہیں‘‘۔ مزید ہم تمہیں بتاتے ہیں کہ، ’’اس ثبوت کو بغور دیکھو، جو یہ ثابت کرتا ہے کہ آپ ﷺ اللہ کے رسول ہیں، اگر تم چاہتے ہو کہ تم ان لوگوں میں سے ایک ہو جاؤ جو آخرت میں کامیاب ہونگے تو تمہیں اس معاملے میں تحقیق کرنی اور علم حاصل کرنا چاہیے۔ اس ہمیشہ رہنے والے معجزے قرآن کو دیکھو اور اسے پڑھو، جس میں ہدایت اور (علم کی) روشنی موجود ہے۔ پھر اس سوال کا جواب دو کیا یہ کسی انسان کا بیان ہو سکتا ہے؟ کیا کوئی فانی چیز اسے بنا سکتی تھی؟ اس نظام کو دیکھو جو آپﷺ لائے ہیں اور دیکھو کہ آپ کس چیز کی طرف بلاتے ہیں اور کس سے روکتے ہیں۔ آپﷺ کے دین اور شریعت میں موجود حکمت، بھلائی، انصاف اور درستگی دیکھو اور قانون، اور اس کے مضبوط شواہد اور منطق میں موافقت اور ان کی راست بازی دیکھو۔ پاکباز یہ جانتے ہیں اور جو ان سے پہلے آنے والے پیغمبر لائے۔ آپ ﷺ کی زندگی اور مسلمانوں کی تاریخ کو دیکھو اور اچھائی، پرہیزگاری، پاکیزگی، علم، حکمت، لگن اور نیکی کو دیکھو جو آپ کا خاصہ ہے۔

خلاصہ کلام

اسلام کہتا ہے کہ یہ زندگی جو ہم گزار رہے ہیں (جسے وہ دنیا کہتا ہے جو کہ ہماری پہلی قیام گاہ ہے) یہ عارضی اور ختم ہو جانے والا مسکن ہے اور یہاں ہم ہمیشہ نہیں رہیں گے، نہ ہی ہم اس میں رہنے کے لیے پیدا کیے گئے ہیں، بلکہ ہم اس میں سے گزر کر اس کو پار کرنے کے لیے اور اس میں مقدس احکامات اور تفویض شدہ (فرائض) کاموں کی کسوٹی پر پرکھنے کے لیے پیدا کیے گئے ہیں۔ جہاں تک ابدیت اور دائمی ٹھکانے کی بات ہے تو دائمی ٹھکانا وہ ہے جو موت اور حیات بعد از موت کے آگے ہے اور اس میں یا تو لوگ دائمی سعادت حاصل کریں گے یا مسلسل تکلیف دہ سزا پائیں گے۔ یہ حقیقی امتحان، آزمائش اور ذمہ داری ہے۔

ہمیں اللہ نے پیدا کیا ہے اور اس دنیا کو ہمارے لیے پیدا کیا پھر ہمیں اس میں بھیجا، تاکہ ہم آزمائے جائیں کہ ہم میں سے کون کسی کو اللہ کا شریک ٹھہرائے بغیر اس کی عبادت کرتا ہے، اس کا حکم مانتا ہے اور اس کے پیغمبروں اور کتابوں کی پیروی کرتا ہے، اور ہم میں سے کون ان باتوں کی پرواہ نہیں کرتا اور اپنے اعمال ان باتوں سے الگ رکھتا ہے۔ یہ بہت بڑا سچ ہے اور اگر آپ اس کو سمجھ جائیں تو آپ سکون پا جائیں گے اور بہت سے معاملات کی حقیقت سے آگاہ ہو جائیں گے، اور نہ ہی آپ کو دین کی اصل روح تک رسائی حاصل کرنے میں دقت ہو گی جو اللہ کو پسند ہے اور جس میں اس کی خوشنودی ہے، نہ ہی آپ اس عارضی ٹھکانے اور اس دنیا کی آرائشوں سے دھوکہ کھائیں گے۔

مثال کے طور پر آپ جان جائیں گے کہ اللہ کے نزدیک اور اس کی مخلوق میں سے اس کے ذہین ترین پیروکاروں کے مطابق ایک مفلس مسلمان جو افریقہ کے صحراؤں کو اپنا گھر کہتا ہے اور جو دنیا کے تمام معیارات کے لحاظ سے پسماندہ ہے۔ افریقہ میں قحط، غربت یا بیماری سے اس حال میں مرتا ہے کہ اس سچے عقیدے پر قائم ہے تو وہ ہر اس کروڑ پتی سے بہتر ہے جس کا اللہ پر ایمان نہیں، جس کا محمدﷺ پر ایمان نہیں اور وہ جو اسکینڈی نیویا یا لاس اینجلس میں رہتا ہے اور ہر طرح کے دنیاوی تعیش سے لطف اندوز ہوتا ہے مگر اس حال میں مرتا ہے کہ اس کا عقیدہ صحیح نہیں ہے۔

اس اثنا میں اسلام نہ تو یہ کہتا ہے کہ تم جاہل اور غریب بن جاؤ، نہ یہ کہ بھوک اور بیماری سے مر جاؤ: اس کے برعکس اسلام ہمیں بتاتا ہے کہ مضبوط، مکمل اور جامع بن جاؤ۔ اسلام یہ نہیں کہتا کہ اپنی جائیداد اور دولت چھوڑ دو۔

سب سے اہم آخرت اور ہمیشہ کی زندگی ہے۔ جہاں تک عارضی دنیا کا تعلق ہے، اس کی اہمیت حساب میں نظر انداز کئے گئے اعداد و شمار جتنی ہے (یعنی نہ ہونے کے برابر ہے)۔

اصل بات یہ ہے کہ اللہ کو کیا پسند ہے، نہ کہ وہ جو ہم خود اپنے ذہنوں سے تجویز کرتے ہیں۔ ہمارا ذہن ہمارے لیے اللہ کی رحمت ہے جو کہ اس لیے عطا کیا گیا کہ ہم اسے استعمال کر کے حق کو، سچائی کو پا سکیں اور یہ جان سکیں کہ اللہ ہم سے کیا چاہتا ہے۔ لہذا اگر ہم اس کو اللہ کے حکم کے خلاف استعمال کریں، تو پھر ہم نے اسے غیر قانونی طریقے سے استعمال کیا ہے جو کہ غلط نتیجے کی طرف لے جاتا ہے۔

کونسی چیز تمہیں دائرہ اسلام میں داخل ہونے سے روک رہی ہے؟

کوئی یہ کہہ سکتا ہے، ’میرا ایک ہی دین ہے اور وہ میرے آباؤ اجداد کا دین ہے اور صدیوں سے ہمارا دین چلتا آرہا ہے‘۔

اسلام ایسے شخص سے کہتا ہے، ’’تم کیا کہتے ہو اگر ہم تمہیں ایسے دین کی طرف بلائیں جو کہ زیادہ مناسب اور راہنمائی کرنے والا ہے، اس دین کی نسبت جس کی تم اور تمہارے آباؤ اجداد صدیوں سے پیروی کرتے آرہے ہیں‘‘۔

’’کیا تم حق کی تلاش کر رہے ہو، اور اس کی جو کہ بہترین ہے اور اس کی جو کہ تمہیں کامیابی اور فائدے کی طرف لے جائے گا؟ یا تمہاری نظروں میں یہ کچھ ادنیٰ اہمیت رکھتا ہے جیسے یہ ہمارا ہے، یہ ہماری شناخت ہے اور کچھ بھی نہیں‘‘؟

یہ ممکن ہے کہ تمہارے آباؤ اجداد اور دوسرے لوگ غلط ہوں۔ ہاں! ایسا ہونا ممکن ہے۔ اگر ایسا نہیں ہے تو کیوں تم کہتے ہو کہ تمام مسلمان غلطی پر ہیں؟ اور یہ بھی کہ کیوں اللہ نے اتنے سارے پیغمبروں کو بھیجا اور بہت سے لوگوں کو پچھلے زمانے میں تباہ کیا؟

‘‘اپنے باپ، دادا اور لوگوں کے دین کو بھول جاؤ۔ اپنے آپ کو ان زنجیروں سے آزاد کرو اور نکلو اور تلاش کرو تو تم نئی چیزیں دریافت کرو گے۔۔۔‘‘۔

ایک اور شخص کہتا ہے،’’اسلام ایک پسماندہ مذہب ہے‘‘۔

اس نے اپنے اس بیان کی بنیاد محض مسلمانوں کی حالت دیکھ کر رکھی، لیکن یہ ایک غلطی ہے، کیونکہ مسلمان جب تک اپنے دین سے جڑے رہے یہ تہذیب، شہری زندگی، صنعتی اور ثقافتی ترقی کے علمبردار رہے ہیں، کیونکہ دین اسلام علم حاصل کرنے اور اسے پھیلانے کے لیے ابھارتا ہے، اپنے لیے تمام دانائیاں حاصل کرنے، متحرک ہونے اور تمام تحقیق سے فائدہ اٹھانے، اور طاقت، شان و شوکت اور عظمت حاصل کرنے کی ہر ممکن کوشش کرنے پر زور دیتا ہے، اور انہیں کاہلی، تجاہل پسندی اور ضیاع سے چوکنا کرتا ہے۔

کیسے ایک غیر جانب دار متلاشی یہ کہہ سکتا ہے کہ اسلام ایک پسماندہ مذہب ہے۔ اگر وہ جانتا ہے کہ یورپ جو کہ جہالت، جبر و تشدد، ظلم، بادشاہوں، جاگیرداروں اور پادریوں کی آمریت کے دباؤ تلے زمانہ جاہلیت میں نڈھال پڑا تھا، اس وقت دین اسلام اور اسلامی ثقافت کی روشنی کی کرنوں سے منور ہوا، جو ہسپانیہ، مغرب اسلامی، سسلی، اناطولیہ، شام و فلسطین اور دوسری جگہوں پر جغرافیائی اور ثقافتی میل ملاپ کی وجہ سے پھیلیں۔

کیا یورپ ان ذرائع کے علاوہ جو اسے ملاقاتی مراکز میں مسلم عربوں سے ملے آئین ، قانونی چارہ جوئی اور تحقیق کے طریقوں، مشاہدوں اور تجزیہ نگاری سے واقفیت حاصل کر سکتا تھا؟

آج بھی محققین یہ کہتے ہیں کہ فرانسیسی، ہسپانوی اور سوئس قوانین اور آئین پر فقہ اسلامی کے مالکی مکتبہ فکر کے قوانین کے نقوش موجود ہیں، جو اسلامی اندلس اور اسلامی مغرب میں مسلمانوں کے عروج کے دنوں میں فقہ اسلامی کا مقبول مکتبہ تھا۔

جب مسلمان اندلس کی زمین پر عظیم تاریخی تہذیب کی بنیاد رکھ رہے تھے تو کیا وہ پسماندہ تھے؟

یہاں ہم نے صرف اپنی چیزوں کا تذکرہ کیا ہے جن کا آپ یورپ میں اندازہ لگا سکتے ہیں، حالانکہ اس کے علاوہ بھی بیان کرنے کے لیے بہت کچھ موجود ہے۔

جی! اسلام لوگوں کو یہ نہیں بتاتا کہ ’’اپنی روح کا تعلق صرف ہوس اور دنیاوی خوشی سے رکھو، اور اپنی ذات کو تمام زندگی کھیل تماشے میں ڈال کر وقت کا ہر لمحہ لطف اندوز ہونے میں جتنا تم برباد کر سکتے ہو کرو ! ‘‘۔ اسلام یہ نہیں کہتا، بلکہ یہ کہتا ہے کہ ’’ اپنے نفس اور اپنے مزے میں سے صرف اتنا حصہ لو جس کی اللہ نے تمھیں اجازت دی ہے، اور جس میں بہت بھلائی ہے اور جو تمہارے لیے کافی ہے اور اسے اپنا مقصد حاصل کرنے لیے استعمال کرو، اور اس مقصد کے حصول کو اپنی اولین ترجیح بناؤ۔ وہ مقصد یہ ہے کہ تم اللہ کی عبادت کرو اور اس کی پیروی کرو اور اللہ کے تابع دار رہتے ہوئے قیامت کے دن اس سے جا ملنے کی تیاری کرو تاکہ اللہ تم سے خوش ہو‘‘۔

سو جو اپنے لیے بھلائی چاہتا ہے: مسلمانوں کی پسماندگی کو بھول جائے اور صرف اپنی ذات کی فکر کرے اور دیکھے کہ وہ حق اور بھلائی کے لئے کیا کر رہا ہے اور کہاں کھڑا ہے؟ تم یہاں کیوں ہو؟ کس نے تمھیں پیدا کیا اور کیوں؟ موت کے بعد تم کہاں جاؤ گے؟

آخر میں، تم ایک مسلمان ہو سکتے ہو اور زیادہ بہتر ہوسکتے ہو، اگر تم چاہو۔ اگر تمہیں پسماندگی جو مسلمانوں کے اندر موجود ہے، پسند نہیں تو خود بہترین مسلمان بن جاؤ۔

ایک اور خاتون کہتی ہے، ’’اسلام عورت کی آزادی اور حقوق کا دشمن ہے‘‘۔

اولاً، اسلام اسے بتاتا ہے: یا تو اللہ پر، اس کی کتابوں پر اور پیغمبروں پر ایمان لاؤ، جس کا مطلب یہ کہ اپنی ذات کو اس کے سپرد کر دو جو اللہ کے پیغمبر لائے، یا کہو ’’میں وہ سب نہیں چاہتی جو اللہ کے پیغمبر لائے‘‘ اور ہماری مشکل آسان کر دو!

اگر سوال یہ جاننے سے متعلق ہو کہ کس چیز کا اللہ نے ہمیں حکم دیا ہے اور کس کی اجازت دی ہے اور اللہ کے قوانین کی حدود کیا ہیں تاکہ ہم ان سےجڑے رہ سکیں؟ تو یہ ایک سادہ معاملہ ہو گا۔ دوسری طرف اگر آپ کی توجہ صرف اپنے نفس کی خواہشات اور تعیشات پر ہے اور وہ حالات جن کی آپ عادی ہیں اور وہ رتبہ جو آپ نے حاصل کیا ، جس کا انحصار نفس اور تعیشات پر ہو، اور انہیں اللہ کے دین پر حاوی کرنا چاہتی ہو، تو آپ کسی صورت میں فائدہ نہ پاؤ گی اور اپنی ذات کو تھکا دو گی۔ تم شاید اپنی بہت سی بہنوں کو دھوکہ دے لو اور وہ شاید تمہاری پیروی کریں۔ ہاں، یہ ممکن ہے۔ لیکن! دوسری طرف آپ کہاں جا رہی ہو؟ کہاں ہے فلاں محترمہ، فلاں بیگم صاحبہ یا فلاں دوشیزہ (مرنے کے بعد)؟

اپنے آپ سے پوچھو اور کچھ وقت اس پرسوچو: کیا جس شے کی آپ آزادی اور حقوق نسواں کے نام پر طلب گار ہو، کیا وہ عورت اور بنی نوع انسان کی بھلائی کے لیے بہتر ہے؟ کیا یہ صحیح اور حکمت پر مبنی بات ہے؟ یا کیا بھلائی اور حق سر ے سے ہی کوئی اور ہی شے ہے؟

دوسری بات یہ کہ اسلام سے متعلق آپ کی سوچ غلط ہے۔ اسلام عورت کا دشمن نہیں، بالکل ویسے ہی جیسے یہ مرد کا دشمن نہیں۔ اس کے برعکس، یہ مردو عورت دونوں کی اس دنیا اور آخرت میں بھلائی کے لیے ہے، اور دونوں کو بہتر اور مؤثر حقوق اور فرائض دیتا اور ہر کسی کو انہی ذمہ داریوں کا بوجھ دیتا ہے جسے وہ (عورت یا مرد) ادا کرنے کے قابل ہوں اور جو ان کے لئے مناسب ہو اور جس کے لیے اس کا معاشرہ راضی ہو یا تشکیل دیا گیا ہو۔ تو پھر تم کس دشمن کی بات کر رہی ہو؟ یہ اور کچھ نہیں بلکہ غیر منصفانہ اور جاہلانہ الزام ہے۔

کیا اسلام وہ دین نہیں جو عورت کو عزت اور تحفظ دیتا ہےاور شرک، جہالت، توہم پرستی اور تعصب اور مخلوق کی غلامی کے اندھیروں سے آزادی بخشتا ہے، بالکل ویسے ہی جیسے یہ مرد کو آزادی دیتا ہے۔ کیا اسلام وہ دین نہیں جس نے عورت کو مرد کی بہن بنایا، اس کا مرتبہ بلند کیا اور اس کی عزت و وقار کو اہمیت دی؟ دین اسلام میں عورت کی مثالیں دیکھو!، یہ جاننے کے لیے کس اسلام اور کس عورت کے بارے میں تم بات کر رہی ہو۔

تیسری بات یہ کہ کیا تم نے سچے دین کی تلاش کی اور اسے جانا، سوچا اور سمجھا اور یہ پایا کہ اسلام دین حق ہے، اس کے علاوہ کہ تمہیں عورت کے موضوع پر کچھ پس و پیش ہے؟ کیا محض یہی ایک معاملہ ہے جو تمہیں راغب نہیں کرتا ؟ یا دین کی تمام باتیں ہی؟ اس سوال کو اپنے اوپر لاگو کرو، کیونکہ یہ تمہارے لیے بہتر ہے۔

اگر یہ صرف ایک موضوع ہے جو تمہارے لیے مسئلہ ہے، تو حکمت اور ثبوت تم سے یہ کہتے ہیں، ’’اس دین پر بے یقینی اور انکار صرف اس ایک سوال کی وجہ سے نہ کرو جو تمہارے لیے مسئلہ پیدا کرتا ہے اور تمہیں صحیح نہیں لگتا‘‘۔

اس کا جواب وہ ہو سکتا ہے جو ابھی تمہیں جاننا ہے، یا جس کی تمہیں صحیح طرح سمجھ نہیں آئی، یا شاید کچھ ذاتی مسائل کی وجہ سے جن کا تم پر اثر ہے تم اس سے قائل نہ ہو سکی، جیسا کہ روایات، عادات اور وہ تمام جس کی تم عادی ہو اور جسے تم اچھی طرح جانتی ہو، یا شاید تم لوگوں کی رائے کے برعکس خیال کرتی ہو اور جو کچھ بھی ہو سکتا ہے وغیرہ۔ پس اگر تم صحیح رستے پر رہنا چاہتی ہو، تو تمہیں چاہئیے کہ تم اس دین کو اس وقت تک تھامے رکھو جب تک کہ تمہیں اس کے متعلق صحیح راہنمائی نہ مل جائے اور تم اللہ کے دین حق کو جان نہ جاؤ۔ ہو سکتا ہے وقت کے ساتھ یہ مسئلہ ختم ہو جائے اور اللہ سے التجا کرو کہ وہ تمہارے لیے راستے کھول دے اور راہنمائی کرے۔

غافلوں کے لیے ایک پکار

جو کوئی تمہارے درمیان سننا چاہتا ہے، اسے سننے دو۔ تم جاہل اور اندھے ہو کیونکہ تم عیش پرستی میں رہ رہے ہو، کیونکہ تم مضبوط ریاستوں میں رہ رہے ہو جن کے سیاسی اور معاشی نظام مستحکم ہیں، جو کہ عارضی طور پر بدلتے رہتے ہیں، کیونکہ تم مسلمانوں کی کمزوریاں اور روزانہ کی زندگی میں ان کی پسماندگی دیکھتے ہو، اور کیونکہ تمہارے پاس زندہ رہنے کے لیے ایک محدود نظریہ ہے اور تم صرف دنیاوی زندگی کی طرف دیکھتے ہو۔ لیکن، یہ چیز سب کچھ نہیں ہے! اس قید سے باہر آجاؤاوراس نشے سے جاگ جاؤ، تم حقیقت پا لو گے، اور خود سے سوال کرو: ’’اگر اسلام مضبوط،غالب، امیر اور خوشحال اور دنیا کی راہبر ریاست ہوتا، تو کیا تم اسلام قبول کر لیتے‘‘؟ ہاں! تم میں سے بہت سے لوگ ایسا کرتے! لہذاپیمائش کے اپنے پیمانے نہ بنائیں، اس کی بجائے، حق کو مد نظر رکھو، کیونکہ یہی دائمی ہے، اور اس کے ساتھی وہی لوگ ہیں جو کامیاب اور خوش ہوں گے جب سب غمگین ہوں گے۔

ہم اللہ سے التجا کرتے ہیں کہ وہ تمہیں ہدایت سے نوازے۔

الحمدللہ الذی تتم الصالحات

٭٭٭

ماخذ:

http://bab-ul-islam.net/showthread.php?t=9892

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید