FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

فکر اقبال

 

 

                ڈاکٹر خلیفہ عبد الحکیم

جلد۔ ۲

 

 

 

 

 

چھٹا باب

 

شاعر انقلاب

 

 

اقبال ایک انقلابی شاعر ہے۔ ملت اسلامیہ نے اقبال کے لیے کئی القاب و خطابات تجویز کیے، کوئی انہیں حکیم ملت کہتا ہے اور کوئی ترجمان حقیقت، کوئی انہیں شاعر اسلام کہتا ہے۔ یہ تمام القاب بجا اور درست ہیں، لیکن اس کے علاوہ بھی صفات کے اور بہت سے پیرہن ہیں جو اس کے قامت پر راست آتے ہیں۔ وہ پیام بر خودی بھی ہے اور مبلغ ارتقاء بھی اور رمز شناس عشق بھی، لیکن اقبال کی تمام شاعری اور اس کے افکار اور جذبات پر جو چیز طاری معلوم ہوتی ہے وہ تمنائے انقلاب ہے۔ موجودہ دنیا کی کوئی حیثیت، کوئی شوکت، کوئی حکمت اور کوئی مذہب اس کو اطمینان بخشتا دکھائی نہیں دیتا، وہ مشرق و مغرب دونوں سے بے زار ہے، دونوں طرف زاویہ نگاہ اور نظریہ حیات اس کو غلط معلوم ہوتا ہے، تمام موجودہ زندگی پر اس کی تنقید مخالفانہ ہے، وہ صرف ملت اسلامیہ ہی میں نہیں بلکہ تمام دنیا میں اور اس کے ہر شعبے میں انقلاب کا آرزو مند ہے۔ عصر حاضر میں یا گذشتہ تین چار صدیوں میں جہاں جہاں انقلابی تحریکیں ہوئیں وہ پسندیدگی سے ان کا ذکر کرتا ہے۔ لوتھر کی اصلاح کلیسیا کی تحریک جس نے مغرب کے دینی تفکر کو بہت کچھ آزاد کر دیا اور حکمت و علم کی ترقی کے لیے راہیں کشادہ کر دیں، انقلاب فرانس جس میں حریت و مساوات و اخوت کا نعرہ بلند ہوا اور مغرب کی تمام زندگی تہ و بالا ہو گئی، مسولینی کی احیائے اطالیہ کی انقلابی کوشش، ان سب کا ذکر کرنے کے بعد وہ کہتا ہے کہ انقلابات نفوس میں ہیجان ہو اضطراب سے پیدا ہوتے ہیں۔ ملت اسلامیہ کچھ صدیوں سے ساکن و جامد تھی لیکن اب اس کے اندر ایک بیتابی نمایاں ہے، ضرور ہے کہ اس میں بھی انقلاب پیدا ہو۔ انقلابات جس جذبے سے پیدا ہوتے ہیں، اقبال اس جذبے کو عشق کہتا ہے۔ ٹھنڈی حکمت اور مفاد کوشی کبھی نظم حیات میں کوئی بنیادی تغیر پیدا نہیں کر سکتی۔ اقبال پوچھتا ہے کہ یہ کایا پلٹ کرنے والا جذبہ اب کس وادی اور منزل میں ہے؟ آخر ہماری طرف بھی متوجہ ہو گا:

کون سی وادی میں ہے کون سی منزل میں ہے

عشق بلا خیز کا قافلہ سخت جاں

دیکھ چکا المنی شورش اصلاح دین

جس نے نہ چھوڑے کہیں نقش کہن کے نشاں

حرف غلط بن گئی عصمت پیر کنشت

اور ہوئی فکر کی کشتی نازک رواں

چشم فرانسیس بھی دیکھ چکی انقلاب

جس سے دگرگوں ہوا مغربیوں کا جہاں

ملت رومی نژاد کہنہ پرستی سے پیر

لذت تجدید سے وہ بھی ہوئی پھر جواں

روح مسلماں میں ہے آج وہی اضطراب

راز خدائی ہے یہ، کہہ نہیں سکتی زباں

دیکھیے اس بحر کی تہ سے اچھلتا ہے کیا

گنبد نیلوفری رنگ بدلتا ہے کیا

اقبال کی زندگی ہی میں کئی اقوام میں انقلاب آیا اور بعض انقلابات اس کی وفات کے دس پندرہ سال کے اندر ہی واقع ہوئے۔ واٹرلو میں نپولین کو شکست فاش ۱۸۱۵ء میں ہوئی۔ اس کے قریبا ً ایک صدی بعد ۱۹۱۴ء میں پہلی جنگ عظیم واقع ہوئی۔ اس صدی میں چھوٹی بڑی جنگیں تو دنیا میں ہوتی رہی ہیں لیکن بحیثیت مجموعی دنیا کا ہر خطہ ایک خاص نظام کے اندر بغیر کسی بڑے ہیجان کے زندگی بسر کرتا رہا۔ ۱۹۱۴ء کی جنگ سے لے کر آج تک دنیا میں جو تلاطم بپا ہوا ہے اس کی مثال تاریخ کے کسی اور دور میں نہیں مل سکتی۔ دنیا کے تمام مغلوب گروہ انسانیت کے بنیادی حقوق طلب کرنے کے لیے آمادہ پیکار ہو گئے، ہر جگہ ملوکیت کے قصر میں زلزلہ آیا اور اس کے در و دیوار پیوند زمین ہو گئے، کاشتکار خون چوسنے والے زمینداروں سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے جہاد کرنے لگے، مزدوروں نے سرمایہ داروں سے اپنے حقوق چھینے۔ سیاست اور معاشرت ہی میں نہیں بلکہ علوم و فنون میں بھی انقلاب آیا، طبعی سائنس نے ذروں کا جگر چیر کر اس کے اندر پنہاں قیامت کو آشکار کیا۔ انیسویں صدی میں اہل فرنگ فقط اپنے آپ کو زندہ اور متحرک اور ترقی پذیر سمجھتے تھے، تمام ایشیا ان کے نزدیک جمود و سکون کا مجسمہ تھا، ترکی کو مغربی سیاستدان مرد بیمار کہتے تھے، جو چراغ سحری تھا اور اس کی وسیع سلطنت کے حصے بخرے کرنے کے لیے کرگسوں کی طرح اس کے گرد منڈلاتے تھے، چین کو زبردستی افیون کا عادی بنانے کے لیے اس کے خلاف جنگ کر دی۔ ہندوستان کے متعلق انگریزوں کا خیال تھا کہ چند مغربی تعلیم یافتہ غیر مطمئن لوگ سرکاری عہدوں اور اقتدار میں کچھ حصہ لینے کے لیے ہنگامہ بپا کرتے ہیں، باقی رعایا مطمئن اور برکات حکومت برطانیہ کے راگ گاتی ہے، ایران کو روسیوں اور انگریزوں نے اپنی خفیہ سیاست کی بساط پر تقسیم کر رکھا تھا، فرانسیسی سمجھتے تھے کہ ہند چینی میں ہمیشہ ان کا اقتدار قائم رہے گا۔ انڈونیشیا میں ولندیزی تین سو سال سے تمام ملک کی دولت کو سمیٹ کر اطمینان سے لطف اٹھاتے تھے کہ ان اقوام میں اندرونی ہیجان اور حقوق کا احساس بیدار ہونے میں صدیاں گزر جائیں گی۔ ہمارے دیکھتے دیکھتے یہ ہوا کہ صدیوں کی خفتہ قومیں بیدار اور ہشیار ہو گئیں اور آزادی کی جنگ میں ہر قسم کے ہتھیار استعمال کرنے لگیں۔ اقبال کے لیے ہر وہ تحریک خوش آئند تھی جو زندگی کے جمود کو توڑے، لیکن اس کی طبیعت ایسے ہمہ گیر انقلاب کی آرزو مند تھی جو صرف سیاست اور معاشرت ہی میں نہیں بلکہ انسان کی فطرت میں بھی کوئی نمایاں تبدیلی کرے۔ عالم اسلامی میں اقبال کے سامنے ایران اور ترکی میں انقلابی صورت پیدا ہوئی، وہ اس سے خوش تھے کہ ترکوں نے جہاد اور ایثار سے اپنے آپ کو مستحکم کر لیا۔ ایران کے انتشار میں رضا شاہ کی آمریت نے جو جمعیت پیدا کی وہ بھی اصلاح و ترقی کی طرف ایکج اہم قدم تھا، لیکن علامہ اقبال اسلامی ممالک میں ایسا انقلاب چاہتے تھے تو ملت کو نہ صرف مغربی سیاست کے پنجہ آہنی سے چھڑانے بلکہ مغربی مادیت، وطنیت اور الحاد سے بھی نجات دلوائے۔ مصطفی کمال اور رضا شاہ نے استحکام وطن کے لیے بہت کچھ کیا، لیکن مغرب سے سیاسی چھٹکارا حاصل کر کے تہذیب و تمدن میں فرنگ کی کورانہ نقالی اور تقلید شروع کر دی، اس بات کی تلقین شعوری یا غیر شعوری طور پر ان کے تمام کارناموں میں نظر آنے لگی کہ قوت و نجات اسی میں ہے کہ ہم بھی ہر حیثیت سے مغربی اقوام کے مشابہ و مماثل ہو جائیں۔ اسلامی زندگی کے مخصوص اقدار ان کی نظر سے اوجھل رہے، مشرق کے شعور میں ہمیشہ روحانی زندگی کو فوقیت حاصل رہی ہے، ہزاروں سال سے مشرق تمام ادیان عالیہ کا مولد اور گہوارہ رہا ہے، اسی لیے اقبال بعض اوقات روح اسلامی کی بجائے روح شرق کی اصطلاح بھی استعمال کرتا ہے۔ جب مصطفی کمال اور رضا شاہ اس کو زیادہ تر مغرب زدگی، نسلی قومیت کی پرستش اور وطنیت ہی نظر آئی تو وہ یہ پکار اٹھا:

نہ مصطفیٰ نہ رجا شاہ میں نمود اس کی

کہ روح شرق بدن کی تلاش میں ہے ابھی

پیام مشرق کی ایک نظم میں مصطفی کمال پاشا کو خطاب کیا ہے اور ’’ زایدہ اللہ‘‘ کہہ کر اس کے لیے دعائے ہدایت کی ہے۔ علامہ اقبال کو اس کا افسوس تھا کہ اس مرد غازی نے اپنی قوم کو فرنگ کے پنجے سے تو چھڑایا اور اس میں ملی استحکام پیدا کیا مگر وہ اپنی اصلاحات میں رو بہ فرنگ ہو کر اسلامی جذبات اور اسلامی نظریات سے غافل ہو گیا۔ دہلی کے لال قلعہ میں دیوان خاص کی دیواروں پر جو اشعار ثبت ہیں ان میں سے ایک شعر یہاں حسب حال معلوم ہوتا ہے جو غالباً فیضی کا ہے:

عزم سفر مشرق و رو در مغرب

اے راہرو پشت بہ منزل ہشیار

مصطفی کمال کو اس نظم میں اقبال یہ بھولی ہوئی حقیقت یاد دلا رہا ہے کہ مسلمان اقوام ایک امی کی حکمت و بصیرت سے رموز تقدیر سے آشنا ہوئیں اور اسی کی بدولت ان کو دنیا میں تفوق حاصل ہوا۔ وہ اس بارے میں مصطفی کمال سے اتفاق کرتا ہے کہ اسلام کو فقہائے تنگ نظر نے جامد بنا دیا اور اس میں سے وہ عشق ناپید ہو گیا جو افراد و اقوام کی زندگی کا سرچشمہ ہے، لیکن پیر حرم سے بیزار ہو کر اسلام ہی کی طرف سے منہ موڑ لینا ملت اسلامیہ کے لیے حقیقی فلاح کا باعث نہیں ہو سکتا۔ جس نبی ؐ کی بدولت ہمارے ذرے خورشید جہاں تاب بن گئے اس سے براہ راست کسب فیض دین و دنیا میں حقیقی کامیابی کا باعث ہو سکتا ہے۔ نقل فرنگ کی تدبیر اور کورانہ تقلید سے ملت کو حقیقی فروغ حاصل نہیں ہو سکتا، تقلید میں آخر مات ہی مات ہے:

امیے بود کہ ما از اثر حکمت او

واقف از سر نہاں خانہ تقدیر شدیم

اصل مایک شرر باختہ رنگ بودست

نظرے کرد کہ خورشید جہاں گیر شدیم

نکتہ عشق فروشست ز دل پیر حرم

در جہاں خوار باندازۂ تقصیر شدیم

’’ہر کجا راہ وہد اسپ برآں ناز کہ ما

بارہا مات دریں عرصہ بتدیر شدریم‘‘

(نظیری)

ایک اور شعر میں افسوس کیا ہے کہ ’’ ستارے جن کے نشیمن سے ہیں زیادہ قریب‘‘ ان ترکوں نے اپنے تئیں فرنگ کا ہمسایہ سمجھ رکھا ہے اور اس وہم باطل میں مبتلا ہو گئے ہیں کہ ہمارا شمار بھی اقوام فرنگ میں ہو۔

مصر اور ہندوستان کے مسلم راہنما بھی قوم کو جو سبق پڑھا رہے تھیا س میں اقبال کو ملت اسلامیہ کے لیے حقیقی ترقی کی شاہراہیں نظر نہ آتی تھیں، تہذیبی نقطہ نظر سے یہ بھی مغلوب الغرب ہی تھے۔ بانگ درا کی نظموں میں ایک قطعے میں یہ اشعار ملتے ہیں :

کلی ایک شوریدہ خواب گاہ نبیؐ پہ رو رو کے کہ رہا تھا

کہ مصر و ہندوستان کے ملسم بنائے ملت مٹا رہے ہیں

یہ زائران حریم مغرب ہزار رہبر بنیں ہمارے

ہمیں بھلا ان سے واسطہ کیا ہو جو تجھ سے نا آشنا رہے ہیں

ملتوں کے اندر اضطراب و تب و تاب، کشاکش، تراش خراش، شکست و فشار کے بغیر انقلاب پیدا نہیں ہو سکتا۔ سکونی حالت اور سکونی تصورات حالات میں کوئی تغیر پیدا نہیں کر سکتے۔ تعمیر کہن کی شکست و ریخت سے گھبرانا نہیں چاہیے، بقول عارف رومی:

ہر بناے کہنہ کا باداں کنند

اول آں تعمیر را ویراں کنند

نظام کہن کو برقرار رکھنے کے آرزو مند وہی لوگ ہیں جن میں حرارت حیات باقی نہیں ہوتی۔ اقبال انقلاب چاہتا ہے اور ارتقائی انقلاب جو محض تغیر حال نہ ہو بلکہ زندگی کے لیے نئی وسعتیں اور جدید قوتیں پیدا کرے۔ مسلمان عصر حاضر کے تزلزل سے پریشان دکھائی دیتے ہیں اور اس وہم باطل کا شکار ہو رہے ہیں کہ اس تخریب میں کوئی تعمیری صورت دکھائی نہیں دیتی لیکن رموز حیات سے آشنا اقبال ان کو سر ارتقاء سے واقف کرتا اور تسلی دیتا ہے کہ رسوم کہن کے انہدام سے زندگی فنا نہیں ہوتی بلکہ جادہ ارتقاء پر گامزن ہوتی ہے۔ بانگ درا میں ایک لاجواب نظم ہے جس کا عنوان ارتقاء ہے۔ یہ ایک مشہور فارسی شعر کی تضمین ہے:

’’مغان کہ دانہ انگور آب می سازند

ستارہ می شکند آفتاب می سازند‘‘

ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز

چراغ مصطفویٰؐ سے شرار بو لہبی

حیات شعلہ مزاج و غیور و شور انگیز

سرشت اس کی ہے مشکل کشی، جفا طلبی

سکوت شام سے تا نغمہ سحر گاہی

ہزار مرحلہ ہائے فغان نیم شبی

کشا کش زم و گرما تپ و تراش و خراش

ز خاک تیرہ دروں تا بہ شیشہ حلبی

مقام بست و شکست و فشار و سوز و کشید

میان قطرۂ نیسان و آتش عنبی

اسی کشاکش پیہم سے زندہ ہیں اقوام

یہی ہے راز تب و تاب ملت عربی

مغان کہ دانہ انگور آب می سازند

ستارہ می شکنند آفتاب می سازند

تہذیب حاضر کے پرستار نوجوان تقلید فرنگ میں اپنے آپ کو دھوکا دے رہے ہیں کہ ہم میں نئی روشنی اور علم و فن کی تنویر پیدا ہو گئی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ تمام نمائشی چہل پہل حیات مستعار ہے، ملت کے اپنے نفوس میں سے کچھ نہیں ابھرا، ایسے غلامانہ ذہنیت والے لوگوں کی بیداری بیداری نہیں اور ان کی آزادی غلامی کی پردہ دار ہے۔ یہ تازہ پرواز طیور کی دل کشی مے مسحور ہو کر اپنے آشیانے سے اتنا دور اڑ گئے ہیں کہ بھٹک جانے کی وجہ سے پھر اس پر واپس نہ آ سکیں گے۔ مادی خواہشات کی ہوس اس تہذیب کے مدعی طبقے میں تیز ہو گئی ہے، ایثار کی جگہ خود فروشی اور صبر و استقلال کی جگہ ناشکیبائی کا ظہور ہے۔ یہ اس دھوکے میں ہیں کہ ان کی زندگیوں میں ایک خوش آئند انقلاب پیدا ہو گیا ہے۔ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ قلب و نظر میں کوئی حیات آفریں تبدیلی نہیں ہوئی۔ ملت کے اندر سے کسی خلائی جذبے نے کام نہیں کیا۔ اس فروغ مستعار سے ذرے اس فریب میں مبتلا ہو گئے ہیں کہ ان میں جگنو کی سی فروزی ہے۔ تہذیب حاضر کے عنوان سے اقبال نے فیضی کے اس شعر کو تضمین کی ہے:

تو اے پروانہ ایں گری ز شمع محفلے داری

چو من در آتش خود سوز اگر سوز دلے داری

حافظ کا یہ شعر بھی اس مضمون کے قریب ہے:

آتش آن نیست کہ ہر شعلہ او خندو شمع

آتش آنست کہ اندر دل پروانہ زدند

حرارت ہے بلا کی بادۂ تہذیب حاضر میں

بھڑک اٹھا بھبوکا بن کے مسلم کا تن خاکی

کیا ذرے کو جگنو، دے کے تاب مستعمار اس نے

کوئی دیکھے تو شوخی آفتاب جلوہ فرما کی

نئے انداز پائے نوجوانوں کی طبیعت نے

یہ رعنائی، یہ بیداری، یہ آزادی، یہ بیباکی

تغیر آ گیا ایسا تدبر میں تخیل میں

ہنسی سمجھی گئی گلشن میں غنچوں کی جگر چاکی

کیا گم تازہ پروازوں نے اپنا آشیاں لیکن

مناظر دلکشا دکھلا گئی ساحر کی چالاکی

حیات تازہ اپنے ساتھ لائی لذتیں کیا کیا

رقابت، خود فروشی، ناشکیبائی، ہوسناکی

فروغ شمع نو سے بزم مسلم جگمگا اٹھی

مگر کہتی ہے پروانوں سے میری کہنہ ادراکی

’’تو اے پرواز این گرمی ز شمع محفلے داری

چو من در آتش خود سوز اگر سوز دلے داری‘‘

اقبال کو نہ مشرق کی کہنہ خیالی اور فرسودگی پسند ہے اور نہ فرنگ کی جدت طرازی۔ نہ مروجہ اسلام پسند ہے اور نہ سائنس کی پیدا کردہ تہذیب حاضر، نہ مغربی جمہوریت پسند ہے اور نہ روسی اشتراکیت۔ مغرب پر اقبال کی مخاصمانہ تنقید سے اقبال کا کلام لبریز ہے لیکن موجودہ مشرق کے لیے بھی اس کے ہاں کوئی مدح و ستائش نہیں :

بگذر از خاور و افسونی افرنگ مشو

کہ نیرزد بجوے ایں ہمہ دیرینہ و نو

اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ چاہتا کیا ہے؟ اس کا یہ جواب کافی ہو گا کہ وہ اصلی اسلام اور اس کے پیدا شدہ علم و فن اور سیاست و معاشرت کا آرزو مند ہے۔ یہ بیان بہت مہمل ہے اور جب تک کسی قدر تفصیل سے اس زندگی کے خد و خال کا خاکہ سامنے نہ آئے تب تک ذہن کو تشفی نہیں ہوتی۔

اقبال کے کلام میں سلبی تنقید بہت غالب معلوم ہوتی ہے لیکن ایجابی پہلو بھی غائب نہیں ہے۔ جس انقلاب کا نقشہ اس کے تخیل میں ہے اس کے تجزیے سے مفصلہ ذیل عناصر حاصل ہوتے ہیں :

۱۔ وہ حیات انسانی کی کسی ایک طرفہ ترقی کو مفید نہیں سمجھتا۔ زندگی نفس اور بدن دونوں پر مشتمل ہے اور حقیقت حیات و کائنات میں انفس بھی ہیں اور آفاق بھی۔ ماحول سے منقطع روحانیت، جسے رہبانیت کہتے ہیں، ایک حیات کش طریق حیات ہے جس میں زندگی کا مادی اور جسمانی پہلو فنا ہو جاتا ہے۔ بغیر اس کے کہ روح کو تقویت یا بصیرت حاصل ہو۔ اسلام کے نظریہ حیات میں ہمہ گیری ہے اور وہ ظاہر و باطن کو ایک ہی حقیقت کے دو پہلو قرار دے کر ان کو الگ الگ نہیں کرتا۔

۲۔ انسانی زندگی میں دو بڑی قوتیں کار فرما ہیں، ایک عقل ہے اور دوسری کا نام عشق ہے۔ ا یک کا تعلق دماغ سے ہے اور دوسری کا دل سے، مگر دل اس مضغہ گوشت کا نام نہیں جو سینے میں بائیں طرف دھڑکتا ہے۔ عقل بے عشق حقیقت رس نہیں ہو سکتی۔ خالی زیرکی سے نہ اقدار حیات کی آفرینش ہوتی ہے اور نہ زندگی کو حقیقی عروج حاصل ہوتا ہے بقول عارف رومی:

من شناسد ہر کہ از سر محرم است

زیرکی ز ابلیس و عشق از آدم است

ہر ایسی تعلیم ناقص ہے جو فقط مادی زندگی کے اغراض کے لیے مظاہر حیات کی پیمائش کرتی رہے اور حقیقت کے پہلو اس کے پیمانوں میں نہ آ سکیں، ان سے انکار کا شیوہ اختیار کر لے۔

۳۔ انسان کے اندر خدا نے لامتناہی قوتیں مضمر رکھی ہیں۔ ممکنات حیات کا کوئی اندازہ نہیں کر سکتا۔ حیات کا مقصود ان ممکنات کو مسلسل وجود میں لاتے رہنا ہے۔ حیات خود اپنا مقصود ہے اس کا کسی ایک صورت پر قائم ہو جانا اس کی نفی کا باعث ہوتا ہے۔ دین اور حکمت اور ہر قسم کی تعلیم و تربیت کا مقصود یہی ہونا چاہیے کہ انسان اپنی لا محدود خودی کو پہچان کر زندگی میں مسلسل ارتقاء پیدا کرتا رہے۔ خیر و شر کا معیار بھی یہیں سے حاصل ہوتا ہے۔ یہ بات غلط ہے کہ لذت فی نفسہ غیر ہے اور رنج و الم شر ہے۔ زندگی کو مسرت و کلفت کے پیمانوں سے نہیں ناپنا چاہیے۔ ہر وہ فکر یا عمل جو نفس انسانی یا خودی کو استوار کرے، خیر ہے اور ہر وہ فکر یا عمل جو اس میں انتشار یا ضعف پیدا کرے شر ہے۔ انسان کو خدا نے بالقویٰ مسخر کائنات بنایا ہے اس لیے عجز نہیں بلکہ قوت کے حصول کی طرف قدم اٹھنے چاہئیں۔

۴۔ چونکہ خدائے خلاق واحد ہے، اس لیے حیات و کائنات میں بھی کثرت و تنوع کے ساتھ ساتھ ایک وحدت پائی جاتی ہے۔ نوع انسان جو خدا کا مظہر عظیم ہے، وہ بھی ایک وحدت ہے۔ از روئے قرآن ایک نقش واحدہ تمام نوع انسان کا ماخذ ہے۔ اس لیے ہر وہ نظریہ حیات فساد انگیز ہے جو نوع انسان کو نسل یا رنگ یا زبان یا جغرافیائی حدود کی بنا پر ٹکڑے ٹکڑے کر دے۔ مغرب کی وطن پرستی اور قوم پرستی بت پرستی کے اقسام ہیں۔ وطن اور قوم، دیوتا اور معبود بن گئے ہیں۔ توحید الٰہی اور توحید انسانی کا عقیدہ اور اس پر عمل ہی اس بیماری کا علاج کر سکتا ہے۔

۵۔ وحدت انسانی کو قائم کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ تمام انسانوں کے بنیادی حقوق مساوی ہوں۔ دولت، انسانیت کے وقار کا معیار نہ ہو۔ نوع انسان کی پیدا کردہ دولت اور قوت میں سے سب انسانوں کو حصہ ملنا چاہیے۔

۶۔ اسی وجہ سے اقبال اشتراکیت کے اس پہلو کو پسند کرتا ہے کہ اس نے ملکیت زمین اور سرمایہ داری کا خاتمہ کر دیا، لیکن وہ اس سے بیزار بھی ہے کہ اس نے خواہ مخواہ مادیت اور الحاد کو اپنے نظریہ حیات اور طریق زندگی کا جزو لاینفک بنایا اور مساوات انسانی زیادہ تر مساوات شکم میں محدود ہو گئی۔ مادیت انسان کی لامتناہی روحانی قوتوں کی منکر ہے اور اس کا نقطہ نظر وہی ابلیس کا زاویہ نگاہ ہے، جو آدم کی لا محدود عرفانی قوتوں کے ممکنات کو نہ دیکھ سکا اور یہ کہنے لگا کہ مجھے تو یہ محض مٹی کا پتلا نظر آتا ہے۔

۷۔ مغربی تہذیب و تمدن کے کار ہائے نمایاں کا اقبال منکر نہیں، لیکن وہ اس ترقی کو یک طرفہ ترقی سمجھتا ہے۔ گزشتہ تین سو سال میں مغرب نے مسلسل مادیت کے نقطہ نظر کو استوار کیا ہے۔ طبعی سائنس کا تعلق ایک جزوی حقیقت سے ہے۔ لیکن رفتہ رفتہ مغرب کے دل و دماغ پر یہ غلط خیال مسلط ہو گیا کہ زندگی محض مادیت اور محسوسات کا نام ہے۔ وہ اس راز سے بیگانہ ہو گیا کہ حاضر کے مقابلے میں غیب لامتناہی ہے اور جسم و مادہ حیات لامتناہی کے عارضی اور ادنیٰ پہلو ہیں۔ اسی وجہ سے مغرب کی حکمت وہ حکمت نہ رہی جسے قرآن خضیر کثیر کہتا ہے۔

۸۔ صحیح تعلیم اور حیات بخش تہذیب وہ ہو گی، جس میں مادیت یا عقلیت روحانیت کے زیر نگیں ہو جسے اقبال عشق کہتا ہے۔ یہ تعلیم یا تہذیب اس دور میں نہ مشرق میں پائی جاتی ہے اور نہ مغرب میں۔ انسانیت کا مستقبل یہی ہے کہ خارجی فطرت کی تسخیر باطنی قوت اور بصیرت کے دوش بدوش کرتی کرے۔ ملت اسلامیہ کی بقا اس لیے ضروری ہے کہ فقط یہی ملت ہے جس کو از روئے وحی تعلیم دی گئی تھی اور اسی کی بدولت اس کو آناً فاناً حیرت انگیز عروج حاصل ہوا تھا۔ اسی ملت کے ضمیر میں یہ موجود ہے کہ رنگ اور نسل وغیرہ کے لحاظ سے انسانوں کی تقسیم نہ کی جائے۔ قومیت اور وطنیت کے خلاف اسی نے آواز بلند کی اور اس پر عمل کر کے دکھایا۔ عربوں کے قوت و اقتدار حاصل کرنے اور ہر طرح غلبہ پانے پر نبی عربی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے عرب ہونے پر فخر نہیں کیا بلکہ اعلان کیا کہ کسی عرب کو محض قوم و نسل کی بناء پر کسی عجمی پر فضیلت حاصل نہیں اور نہ عربی کو عجمی پر کوئی تفوق ہے۔ یہ سبق بعد میں مسلمان بہت کچھ بھول گئے لیکن اب بھی دوسری قوموں کے مقابلے میں ان میں یہ شعور بہت کچھ باقی ہے۔ نوع انسان کو وحدت کا عملی سبق دینے کے لیے یہ لازم ہے کہ یہ ملت مساوات انسانی کا اصلی اسلامی نقشہ پھر بطور نمونہ دنیا کے سامنے پیش کرے۔ مشہور انگریز مورخ نائن بی نے اس کا اقرار کیا ہے کہ میرے نزدیک ابھی اسلام کا وظیفہ حیات باقی ہے اور مستقبل میں بھی نوع انسان اس سے فائدہ اٹھا سکتی ہے اور وہ اس لیے کہ نسل اور رنگ اور قومیت کے تعصبات پر جس طرح اسلام اور اسلامی معاشرت غالب آئی ہے اس طرح کوئی اور تہذیب غالب نہیں آ سکی۔ مغرب کو اسی مرض نے فنا کیا ہے جو اس کی سیاست اور تمدن میں لا علاج سا معلوم ہوتا ہے۔ جب تک اس مرض کی خاطر خواہ علاج نہ ہو، نوح انسان کی بقا ہی ممکن نہیں ہوتی۔ ا سرار خودی کے انگریز مترجم پروفیسر نکلسن نے علامہ اقبال کو ایک خط میں لکھا کہ تمہارے مخاطب فقط مسلمان معلوم ہوتے ہیں اور فقط انہیں کی اصلاح و بقا تمہارے مد نظر ہے، تمہارا خطاب نوع انسان سے معلوم نہیں ہوتا۔ اس کے جواب میں علامہ مرحوم نے اس کو لکھا کہ نوع انسان میں خاص نظر اور طریق زندگی پیدا کرنے کے لیے یہ لازمی ہے کہ پہلے ایک ملت اس کا نمونہ پیش کرے اور میں سمجھتا ہوں کہ اپنے عقائد، اپنی تاریخ اور اپنی معاشرت کے مضمرات کی بناء پر اس ملت میں یہ صلاحیت ہے اور مزید پیدا ہو سکتی ہے کہ وہ ایک عالم گیر اخوت اور مساوات کی مثال پیش کر سکے، یہاں تک کہ اخوت اسلامی اخوت انسانی بن جائے۔

جب اقبال ملت اسلامیہ کا ذکر بڑے جوش اور جذبے کے ساتھ کرتا ہے تو اس کے سامنے اس ملت کا دور حاضر کا نقشہ نہیں بلکہ اس کی نظر اس اسلام اور اسلامی زندگی پر پڑتی ہے۔ جو رسول اکرم ؐ اور صحابہ کرام کی بصیرت اور ہمت سے ظہور میں آئی۔ جیسے جیسے زمانہ گزرتا گیا یہ صورت مسخ ہوتی چلی گئی۔ اسلام خاص بندگان میں رہ گیا اور جماعت کی زندگی اس سے بہت کچھ ہٹ گئی ہے۔ لیکن اسلام ایک ایسی ہمہ گیر انقلابی اور اسلامی چیز تھی کہ اس کی مدھم صورتوں نے بھی بحیثیت مجموعی صدیوں تک ملت اسلامیہ کو دیگر معاصرانہ ملتوں کے مقابلے میں پیش پیش ہی رکھا یا پھر اقبال کی نظر اس مستقبل پر ہے جس میں اسلام کے حقائق، جو زندگی کے ابدی حقائق ہیں، ارتقائے حیات سے تمام دنیا پر آشکار ہو جائیں گے۔ اقبال کسی خاص قوم یا ملت کا عاشق نہیں، وہ اسلام کا عاشق ہے خواہ وہ کہیں پایا جائے۔ اس وقت اس کو اسلام نہ مشرق میں نظر آتا ہے اور نہ مغرب میں اور مسلمان کہلانے والی ملت تو اس سے خاص طور پر محروم دکھائی دیتی ہے۔ ایک عام قاعدہ ہے کہ اپنی ملتوں کے پرستار ان کی نسبت بڑے کبر و ناز سے بات کرتے ہیں۔ ان کے عیوب کی پردہ پوشی کرتے اور ان کی اصلی یا موہوم خوبیوں کو وہ چند کر کے دکھاتے ہیں۔ اقبال کی یہ روش نہیں۔ اس کو تو ایک نصب العین اور زندگی میں اس کو متحقق کرنے والے افراد یا اقوام سے واسطہ ہے۔ دیکھئے اپنی ملت کی موجودہ حالت کے متعلق کس قدر افسوس اور قلب مجروح کے ساتھ کہتا ہے:

شوق بے پروا گیا فکر فلک پیما گیا

تیری محفل میں نہ دیوانے نہ فرزانے رہے

وہ جگر سوزی نہیں وہ شعلہ آشامی نہیں

فائدہ پھر کیا جو گرد شمع پروانے رہے

رو رہی ہے آج اک ٹوٹی ہوئی مینا اسے

کل تک گردش میں جس ساقی کے پیمانے رہے

آج ہیں خاموش وہ دشت جنون پرور جہاں

رقص میں لیلا رہی لیلا کے دیوانے رہے

وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا

کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا

نگاہیں نا امید نور ایمن، اور بجلیاں آسودہ دامان خرمن ہو گئی ہیں، ملتوں کی آبرو اور ان کا اقتدار ان کی جمعیت کی بدولت ہوتا ہے جس میں کوئی فرد اپنے تئیں محض ایک فرد نہیں بلکہ عضویہ نظام جماعت کا ایک عضو سمجھتا ہے۔ یہ بات مسلمانوں میں سے غائب ہو گئی ہے اور اسی وجہ سے وہ رسوائے دہر ہیں :

فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں

موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں

کبھی ہجوم یاس میں کہہ اٹھتا ہے:

زندہ پھر وہ محفل دیرینہ ہو سکتی نہیں

شمع سے روشن شب روشینہ ہو سکتی نہیں

جواب شکوہ میں خدا کی زبان سے اس ملت مرحومہ کے متعلق کیا کچھ نہیں کہا۔ خدا ایک نصب العینی آدم کی تعمیر کرنا چاہتا ہے لیکن اسے ملت کی مٹی اس قابل نہیں معلوم ہوتی:

جس سے تعمیر ہو آدم کی یہ وہ گل ہی نہیں

اس ملت کے ہاتھوں میں زور نہیں۔ دل الحاد سے خوگر ہیں۔ نمازوں اور روزوں کی کچھ باطنی یا ظاہری صورت کچھ غریبوں میں نظر آتی ہے۔ دولت و اقتدار والوں کے ہاں یہ شعائر غائب ہیں۔ نئی تعلیم و تہذیب کے دلدادہ مذہب سے روگرداں ہیں۔ علم و فن کی یہ حالت ہے کہ

جن کو آتا نہیں دنیا میں کوئی فن تم ہو

جیسے کفر کے متعلق کہا گیا ہے کہ ’’ الکفر ملۃ واحدۃ‘‘ اسی طرح اسلام اور ملت اسلامیہ کے متعلق یہ بات صحیح ہونی چاہیے تھی کہ ’’ الاسلام ملۃ واحدۃ‘‘ لیکن موجودہ حقیقت یہ نہیں ہے۔ ذات پات اور قبائل و اقوام کی غیر اسلامی تقسیم و تفریق میں مسلمان مسلمان کا بھائی نہیں رہا۔ شعائر اغیار بھی وہی آنکھوں میں سمائے ہیں جن کے اختیار کرنے میں کوئی نفع نہیں بلکہ صریح گھاٹا ہی گھاٹا ہے۔ نئی پود کی نگاہ طرز سلف سے بیزار اور ان کے انداز حیات کو فرسودہ سمجھتی ہے۔ کسی کے قالب میں سوز اور روح میں احساس نظر نہیں آتا۔ زبان سے کلمہ تو پڑھتے ہیں لیکن پیغام محمد ؐ کا کسی کو پاس نہیں۔ واعظ قوم جاہل اور خام خیال ہے، اس کے وعظ میں نہ حکمت کا ساز ہے اور نہ محبت کا سوز۔ موذن کی اذان میں روح ہلالی نہیں، استدلالی بھول بھلیوں والے فلسفے نظر آتے ہیں، لیکن کوئی غزالی اب ملت میں سے نہیں ابھرتا۔ نہ حیدری فقر ہے اور نہ دولت عثمانی۔ جسے دیکھو وہ ذوق تن آسانی میں مست ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس ملت نے خود کشی پر کمر باندھ رکھی ہے۔ غیور و خود دار مسلمان نظر نہیں آتے۔ ذرا ذرا سے اختلاف پر شیشہ اخوت پاش پاش ہو جاتا ہے، قوموں کی توقعات اپنے نوجوانوں کے ساتھ وابستہ ہوتی ہیں لیکن اس ملت کے نوجوانوں کا یہ حال ہے:

شوق پرواز میں مہجور نشیمن بھی ہوئے

بے عمل تھے ہی جواں دین سے بد ظن بھی ہوئے

ان کو تہذیب نے ہر بند سے آزاد کیا

لا کے کعبے سے صنم خانے میں آباد کیا

عہد نو کی بجلی تمام اقوام کہن پر گری ہے۔ تمام قدیم انداز و افکار حیات ایندھن کی طرح جل رہے ہیں۔ ملت اسلامیہ کے پیراہن میں بھی شعلے بھڑک اٹھے ہیں۔ اس آتش نمرود کو ابراہیمی ایمان ہی گلشن بنا سکتا ہے، لیکن اس ملت میں تو وہ ایمان نظر نہیں آتا۔ اصلاح کے آرزو مند کہتے تھے کہ قوم جاہل ہے، جب اس میں تعلیم عام ہو جائے گی تو اس کی حالت درست ہو جائے گی، لیکن تعلیم نے بھی مرض میں اضافہ ہی کیا ہے:

ہم سمجھتے تھے کہ لائے گی فراغت تعلیم

کیا خبر تھی کہ چلا آئے گا الحاد بھی ساتھ

گھر میں پرویز کے شیریں تو ہوئی جلوہ نما

لے کے آئی ہے مگر تیشہ فرہاد بھی ساتھ

ملت اسلامیہ میں اسلامیہ میں اقبال کو نام کے مسلمانوں اور درحقیقت غیر مسلموں کا ایک بے مقصود ہجوم نظر آتا ہے:

خوب ہے تجھ کو شعار صاحبؐ یثرب کا پاس

کہہ رہی ہے زندگی تیری کہ تو مسلم نہیں

جس سے تیرے حلقہ خاتم میں گردوں تھا اسیر

اے سلیماں ! تیری غفلت نے گنوایا وہ نگیں

وہ نشان سجدہ جو روشن تھا کوکب کی طرح

ہو گئی ہے اس سے اب نا آشنا تیری جبیں

دیکھ تو اپنا عمل، تجھ کو نظر آتی ہے کیا

وہ صداقت جس کی بے باکی تھی حیرت آفریں

تیرے آبا کی نگہ بجلی تھی جس کے واسطے

ہے وہی باطل ترے کاشانہ دل میں مکیں

صائب کا ایک شعر ہے:

ہماں بہتر کہ لیلیٰ در بیابان جلوہ گر باشد

ندارد تنگ نائے دہر تاب حسن صحرائی

بانگ درا میں اس پر تضمین کرتے ہوئے اقبال نے اپنی ملت کے متعلق مایوسانہا شعار کہے ہیں جن کا مضمون یہ ہے کہ تو ایسی ملت کو بیدار کرنے کے لیے کیا نوا گری کر رہا ہے جس میں کوئی احساس ہی باقی نہیں۔ اس کے جوان ہمت خواہ ہیں اور نہ اس کے پیر بیدار دل۔ اس محفل میں کوئی نشوونما کا تقاضا نہیں :

کہاں اقبال تو نے آ بنایاں آشیاں اپنا

نوا اس باغ میں بلبل کو ہے سامان رسوائی

شرارے وادی ایمن کے تو بوتا تو ہے لیکن

نہیں ممکن کہ پھوٹے اس زمین سے تخم سینائی

کلی زور نفس سے بھی وہاں گل ہو نہیں سکتی

جہاں ہر شے ہو محروم تقاضائے خود افزائی

قیامت ہے کہ فطرت سو گئی اہل گلستان کی

نہ ہے بیدار دل پیری نہ ہمت خواہ برنائی

دل آگاہ جب خوابیدہ ہو جاتے ہیں سینوں میں

نوا گر کے لیے  زہراب ہوتی ہے شکر خائی

نہیں ضبط نوا ممکن تو اڑ جا اس گلستان سے

کہ اس محفل سے خوشتر ہے کسی صحرا کی تنہائی

اقبال نے اپنا تمام کمال اور تمام جذبہ اپنی قوم کو بیدار کرنے میں صرف کیا۔ کبھی اس کو کامیابی کا گماں ہوتا تھا کہ قوم میں کچھ جنبش پیدا ہوئی ہے اور میری بانگ درا سے یہ کاروان خفتہ پھر جادہ پیمائی کے لیے تیار ہوا ہے۔ پھر کسی وقت چاروں طرف نظر دوڑاتا تھا تو عملی تبدیلی کے آثار کہیں نہ دکھائی دیتے تھے۔ ڈاکٹر تاثیر مرحوم اور ان کے کچھ احباب علامہ اقبال کی خدمت میں حاضر ہوئے اور تقاضا کیا کہ آج آپ سے کچھ تازہ اشعار رسالہ ’’ کارواں ‘‘ کے لیے لے کر ٹلیں گے۔ حسن اتفاق سے اس تقاضے کے دوران میں طبیعت میں کچھ تحریک پیدا ہوئی اور فی البدیہہ چند لمحات کے وقفوں میں پانچ سات اشعار کی وہ غزل ہو گئی جس کی ردیف اور قافیہ ہے سمجھتا تھا جب مقطع میں یہ شعر نکلا:

تھی کسی درماندہ رہرو کی صدائے درد ناک

جس کو آواز رحیل کارواں سمجھا تھا میں

تو اقبال پر ایسی رقت طاری ہوئی کہ زار و قطار رونے لگے۔

جاوید نامہ کے آخر میں جاوید اور نژاد نو کو خطاب کرتے ہوئے بہت دل افروز نصیحتیں کی ہیں اور بتایا ہے کہ زندگی کس قسم کے ذوق و شوق کا نام ہے، لیکن ساتھ ہی کہا کہ اس زندگی کو اگر مسلمانوں میں تلاش کرو گے تو نہیں ملے گی۔ یہ زندگی قرآن میں سے مل سکتی ہے، مگر قرآن پڑھانے والے روح قرآن سے بے نیاز ہیں۔ نور باطن اور تزکیہ نفس کے لیے اگر صوفیوں کی طرف رجوع کرو گے تو یہ لمبے بالوں والے پیر تجربے سے بھیڑیے ہی ثابت ہوں گے:

در مسلماناں مجو آن ذوق و شوق

آن یقیں آں رنگ و بو آں ذوق و شوق

عالماں از علم قرآں بے نیاز

صوفیاں وزندہ گرگ و مو دراز

گرچہ اندر خانقاباں ہائے و ہوست

کو جواں مردے کہ صۃبا در کدوست

ملا اور صوفی سے نا امید ہو کر اگر مغرب زدہ فرنگی مآب لیڈروں اور نوجوانوں کو دیکھو گے تو ان کو بھی دھوکوں میں مبتلا پاؤ گے۔ یہ موج سراب کو چشمہ کوثر سمجھ کر بے تابانہ اس کی طرف دوڑ رہے ہیں۔ اس سراب سے ان کے دل کی پیاس نہیں بجھ سکتی اور نہ ملت کا چمن سیراب ہو سکتا ہے۔ یہ طبقہ دین سے مطلق بیگانہ ہے، اسی بیگانگی کی وجہ سے ان میں محبت اور ایثار کا فقدان ہے۔ ان کے سینوں میں کینہ ہے عشق نہیں :

ہم مسلمانان افرنگی مآب

چشمہ کوثر بجویند از سراب

بے خبر از سر دین اند ایں ہمہ

اہل کین اند اہل کین اند ایں ہمہ

صوفی، ملا، جدید تعلیم یافتہ نوجوانوں کا طبقہ، بے درد زمینداروں کا طبقہ، جھوٹی جمہوریت میں ابھرنے والے لیڈروں کا گروہ، اگر تمام ملت انہی ’’ ظلوماً جہولا‘‘ پر مشتمل ہے تو احیاء نشاۃ ثانیہ اور بیداری کی توقع کس عنصر سے ہو سکتی ہے۔ میں نے ایک مرتبہ براہ راست علامہ سے عرض کیا کہ یہ ملت اگر ایسی ہی مردہ ہے تو آپ خواہ مخواہ اس کو انجکشن دے کر زندہ کرنے کی سعی لا حاصل کیوں فرما رہے ہیں۔ اس کے جواب میں علامہ نے فرمایا کہ تمام ملت ایسی نہیں ہے۔ اس ملت میں دین و دنیا کی رہبری کے مدعی تو سب ایسے ہی ہیں جیسا کہ میں نے ان کا نقشہ کھینچا ہے، لیکن اس کے عوام میں بہت اچھی صلاحیتیں مضمر ہیں۔ اگر اس کو کوئی صحیح قسم کے درویش منش، صاحبان بصیرت و ہمت راہبر توفیق الٰہی سے مل گئے تو حیات ملی میں بڑ ا انقلاب پیدا ہو جائے گا۔ اسی عقیدے کو انہوں نے کئی جگہ اردو اور فارسی کلام میں پیش کیا ہے۔ خطاب بہ جاوید ہی میں فرماتے ہیں :

خیر و خوبی بر خواص آمد حرام

دیدہ ام صدق و صفا را ور عوام

اردو میں بھی فرماتے ہیں :

نہیں ہے نا امید اقبال اپنی کشت ویراں سے

ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی

اقبال نے اپنی ملت کی حالت زبوں کا ایسا بھیانک نقشہ کھینچا ہے اور اس کی موجودہ حالت کو دیکھ کر اس کے دل میں ایسی بے زاری پیدا ہوئی ہے کہ اس ملت کے احیاء کی بجائے کبھی کہہ اٹھتا ہے کہ اے خدا اب تو اس کا صفایا ہی کر دے تو اچھا ہے:

کہ ایں ملت جہاں را بار دوش است

اس کی تعمیر کا اب ملبہ بن چکا ہے۔ یہ انسانیت کے راستے سے ہٹ ہی جائے تو اچھا ہے، لیکن اس قسم کی بد دعا اس کے دل سے نہیں نکلتی۔ یہ بد دعا ایسی ہی ہے جیسے غصے میں اپنے پیارے بچے کے لیے اس کی شرارتوں اور بد عنوانیوں سے تنگ آ کر ماں کی زبان سے کبھی کبھی نکلتی ہے کہ جا تیری ٹانگ ٹوٹے یا جا تجھے موت آئے، لیکن بچے کو اگر کانٹا بھی چبھ جائے تو وہ بے چین ہو جاتی ہے۔ اقبال کا دل اسلام اور مسلمانوں سے کبھی پوری طرح مایوس نہیں ہوتا۔ اس کا وظیفہ حیات ان یاس انگیز حالات کے باوجود قوم کے دل میں خود اعتمادی اور امید پیدا کرنا ہے۔ وہ یقین کامل رکھتا ہے کہ ملت اسلامیہ کا ایک درخشاں مستقبل ہے کیوں کہ اسلام ایک ابدی حقیقت ہے اور ہزار ٹھوکریں کھا کر بھی آخر اسی کو اسلام کا حامل اور علم بردار بننا ہے، وہ اس پیغام کو بار بار مختلف اشعار میں دہراتا ہے کہ

بے خبر تو جوہر آئینہ ایام ہے

تو زمانے میں خدا کا آخری پیغام ہے

’’جہاں کا فرض قدیم ہے تو ادا مثال نماز ہو جا‘‘

٭٭٭

 

 

 

ساتواں باب

 

مغربی تہذیب و تمدن پر علامہ اقبال کی تنقید

 

علامہ اقبال کے تبلیغی کلام میں دو چیزیں پہلو بہ پہلو ملتی ہیں، ایک تہذیب جدید پر مخالفانہ تنقید اور اس کے مقابلے میں اسلامی نظریہ حیات کی تعلیم۔

کم و بیش تین سو سال سے ایشیا مسلسل زوال پذیر رہا اور فرنگ میں فکر و عمل کی جدوجہد ترقی کرتی گئی، اسلامی دنیا میں تاتاری غارت گری کے بعد علوم و فنون نے ترقی کا کوئی قدم نہ اٹھایا، تصوف اور صوفیانہ یا متصوفانہ شاعری میں صاحبان کمال پیدا ہوتے رہے لیکن علمی ترقی بالکل رک گئی۔ مسلمانوں میں آخری بڑا مفکر ابن خلدون ہے جس کا زمانہ چودہویں صدی عیسویں ہے۔ سیاست میں تو خلافت راشدہ کے بعد ہی ملوکیت اور مطلق العنانی شروع ہو گئی تھی، لیکن فقہ چودہویں صدی تک آزادانہ تفکر سے حالات کے تغیرات کے ساتھ ایک معتدل توافق پیدا کرتی رہی، اس کے بعد سے ائمہ مجتہدین بھی نا پیدا ہو گئے، تحقیق ختم ہو گئی اور تقلید کا دور دورہ شروع ہوا۔ اس وقت سے لے کر آج تک راسخ العقیدہ مسلمان اسی یقین پر قائم ہیں کہ تفقہ فی الدین میں اجتہاد کا دروازہ بند ہو گیا ہے۔ اسلامی فقہ میں چونکہ دین اور دنیاوی معاملات میں کوئی حد فاصل نہیں ہے اور زندگی ہر شعبہ بالواسطہ یا بلا واسطہ اسلامی عقائد کے زیر نگیں ہے اس لیے تحقیق و اجتہاد کا دروازہ بند ہونے کے یہی معنی تھے کہ اصول اور فروع دونوں میں اب کسی کو نئے سرے سے سوچنے کی ضرورت نہیں۔ اسلاف کی کہی ہوئی باتوں کی فقط توضیح و تشریح اور حاشیہ نویسی علماء دین کا وظیفہ حیات بن گیا۔ حکومتوں میں استبداد اور مطلق العنان سلطانی کی وجہ سے سیاسی زندگی کی اصلاح کے لیے نہ افکار پیدا ہو سکتے تھے اور نہ کوئی انقلاب ممکن تھا، اس لیے مسلمانوں نے یہی شیوہ اختیار کر لیا کہ :

رموز مملکت خویش خسرواں دانند

گدائے گوشہ نشینی تو حافظا مخروش

سیاسی غلامی کا اثر انفرادی اور اجتماعی زندگی کے ہر پہلو پر پڑتا ہے، سیاسی استبداد کے ساتھ ساتھ دینی استبداد کا پیدا ہونا لازمی تھا، مطلق العنان حکومتوں کو اسی میں اپنا استحکام نظر آتا ہے کہ عوام و خواص جامد اور مقلد رہیں اور تقلید و اطاعت کو اپنا شیوہ بنا لیں۔ ارباب سیاست ہر جگہ اور ہمیشہ اس میں کوشاں رہے بیں کہ دین کو اپنے استبداد کا آلہ کار بنائیں۔ اس لیے دور استبداد میں علماء سو کی کثرت نظر آتی ہے جو حکمرانوں کی ہم زبانی کی بدولت فتویٰ فروشی سے اقتدار میں حصہ دار بن جاتے ہیں صرف یہی نہیں ہوتا کہ:

ہر کہ شمشیر زند سکہ بنامش خوانند

بلکہ ہر کامیاب تیغ زن کا خطبہ بھی مساجد کے ممبروں پر پڑھنا لازم ہو جاتا ہے، ہر فاتح خواہ وہ فاسق و فاجر ہی ہو ظل اللہ بن جاتا ہے اور اگر اکبر کی طرح اپنے مجتہد اعظم ہونے کا فتویٰ طلب کرے تو سب علماء اس مضر پر دستخط کر دیتے ہیں۔ الا ماشاء اللہ پھر کم ہی کوئی خدا کا آزاد بندہ ایسا دکھائی دیتا ہے جو سلطان جابر کے سامنے کلمہ حق کہنے کی جرأت کر سکے۔

مسلمانوں کے سلطانی ادوار میں ملت اسلامیہ کی جب یہ حالت تھی اس زمانے میں مغرب کی عیسوی دنیا کا حال اس سے بدتر تھا۔ اسلام اس قدر انقلاب آفریں اور فلاح کوش تحریک تھی کہ کوئی چھ صدیوں تک مسلمان اسلام سے بہت کچھ گریز کرنے کے باوجود اقوام عالم میں پیش پیش رہے۔ اسلامی زاویہ نگاہ کا جو قلیل حصہ بھی حیات اجتماعی میں باقی رہا گیا، اتنا حصہ بھی ملت اسلامیہ کو اپنی تمام کوتاہیوں کے باوجود معاصرانہ زندگی میں دوسروں سے کچھ قدم آگے ہی رکھتا تھا۔ اسلام کی پہلی چھد صدیاں علوم و فنون اور تہذیب و تمدن میں تاریخ انسانی کا ایک روشن باب ہیں، یہ زمانہ فرنگ میں مغربی تہذیب و تمدن کے جمود و زوال کا زمانہ ہے اور اس دور کو خود اہل فرنگ ’’ازمنہ مظلمہ‘‘ یعنی تاریکی کا دور کہتے ہیں۔ یونانی تہذیب و تمدن طلوع عیسائیت سے قبل ہی زوال پذیر تھا لیکن عیسائیت کے غلبے کے بعد اس کی تمام شان و شوکت و نحوست و ادبار میں بدل گئی، کلیسا کے استبداد نے تحقیق اور آزادی فکر کا خاتمہ کر دیا علوم و فنون کا چرچا ختم ہو گیا اور مسلمانوں کے مقابلے میں یورپ کی سیاسی قوت بھی اس قدر ضعیف پذیر ہوئی کہ یورپ کے تمام ملوک اپنے عساکر جمع کر کے بھی فلسطین میں ایک مسلمان مجاہد سلطان کے مقابلے میں کامیاب نہ ہو سکے۔ مغربی فرنگ میں اندلس پر مسلمان قابض ہو گئے جہاں انہوں نے ایک عظیم الشان تہذیب و تمدن پیدا کیا، جو تمام فرنگ کے لیے قابل رشک تھا اور علوم و فنون کے فرنگی شائق یہیں سے کسب فیض کرتے تھے۔ اندلس میں عربوں کے زوال پر فرنگ خوشیاں منا رہا تھا کہ عثمانی ترک یورپ کے مشرق میں داخل ہو گئے اور قسطنطنیہ کی فتح سے مشرقی روما کی بازنطینی سلطنت کا خاتمہ کر دیا۔ سولھویں بلکہ سترھویں صدی تک یورپ مسلمانوں کے مقابلے میں اپنے آپ کو بے بس پاتا تھا، ترکوں کہ جہانگیری اور جہاں داری سیاسی حیثیت سے شان دار تھی، لیکن ان کے دور عروج میں مسلمانوں نے علوم و فنون میں ترقی کا کوئی قدم نہ اٹھایا۔ مذہب میں جمود اور استبداد بدستور قائم رہا اور فقہ میں اجتہاد کا دروازہ بند رہا۔ تو ترکوں کی عسکری قوت کو ابھی زوال نہ آیا تھا کہ مغرب میں بیداری شروع ہوئی۔ مغرب کی اس بیداری کی ابتداء کو نشاۃ ثانیہ کہتے ہیں کیونکہ مردہ یورپ میں نئی زندگی کے آثار پیدا ہوئے، ان کی طویل شب تاریک کے بعد افق پر روشنی کی کرنیں دکھائی دینے لگیں۔ مغرب کے مورخ اس کا سبب زیادہ تر یہ بتاتے ہیں کہ مشرقی یورپ پر ترکوں کے قابض ہو جانے کی وجہ سے یونانی اور رومانی علوم و فنون کے ماہرین ہجرت کر کے اطالیہ اور مغربی فرنگ میں پھیل گئے، یونانی علوم کے ساتھ یونانی آزاد خیالی اور حکیمانہ تفکر بھی ساتھ آیا اور فنون لطیفہ کے اچھے نمونے بھی فن کاروں کے لیے سرمایہ حیات بنے۔ یونانی اور روحانی تہذیب، عیسوی رہبانی تہذیب کے مقابلے میں اس دنیا اور اس کی نعمتوں سے نفور نہ تھی، د نیاوی زندگی میں جمال پسندی اور عظمت پسندی اس کا شیوہ تھا اور مذہبی عقائد کے معاملے میں ہر گروہ کو کامل آزادی تھی۔ نشاۃ ثانیہ میں زندگی کے متعلق یہ تمام زاویہ نگاہ عود کر آیا۔ کلیسا کا اثر و رسوخ ابھی بہت کچھ باقی تھا لیکن فرنگ میں ذوق حیات کی ایک لہر دوڑنے لگی، زمانہ حال میں مغرب کے بعض مورخین نے فراخدلی سے اور آزادانہ تحقیق سے اس کا اقرار کیا ہے کہ فرنگ کی نشاۃ ثانیہ میں اسلامی علوم و فنون اور تہذیب و تمدن کا ایک موثر حصہ ہے۔ یورپ نے اس بیداری کے آغاز میں پہلے یہ کیا کہ علوم و فنون میں عربی کتابوں کے ترجمے لاطینی زبان میں کیے اور ایک عرصے تک یہی ترجمے مغرب کا علمی سرمایہ تھے۔ یونانی علوم کو بہت کچھ مسلمانوں نے محفوظ کیا تھا اور جا بجا اپنے اجتہاد سے ان میں اضافہ کیا تھا۔ یونانیوں کی بہت سی اصلی کتابیں جو اب ناپید ہیں فقط عربی حکماء کی تصانیف میں ان کا کھوج ملتا ہے۔ فقط یونانیوں کی کتابیں یا ان کے عربی ترجمے ہی اس نشاۃ ثانیہ میں نئی زندگی کے محرک نہیں ہوئے بلکہ مسلمانوں سے مغرب نے اس چیز کو بھی حاصل کیا جسے طبعی اور تجربی علم یا سائنس کہتے ہیں۔

مسلمانوں نے علوم و فنون کا مدار مشاہدے اور تجربے پر رکھا تھا اور یہ بات یونانیوں کے ہاں الشاذ  کالمعدوم تھی۔ یونانیوں کا عقیدہ تھا کہ حقائق عالم محسوسات سے حاصل نہیں ہوتے، ان کا مستقل وجودہ عالم عقلی میں ہے اس لیے خالی تعقل کی ترقی اور منطقی وجود استدلال سے انسان حقیقت رس ہو سکتا ہے۔ ریاضیات جو طبیعیات کی اساس ہے، یونانیوں میں بہت ترقی یافتہ نہ تھی، مسلمان ریاضیات کے بعض اہم شعبوں کے موجد ہیں۔ الجبرا (جبر و مقابلہ) مسلمانوں کی ایجاد ہے۔ یونانیوں اور مغربیوں کے ہاں ارتھمیٹک ابتدائی صورتوں سے آگے نہ بڑھ سکتی تھی، صفر کا علم نہ تھا جس کی بدولت اکائی، دہائی، سینکڑہ ہزار سے لے کر لامتناہی تک رقم لکھ سکتے ہیں۔ اس ایجاد کا سہرا اصل میں ہندوؤں کے سر ہے، مسلمانوں نے اس کو ہندوؤں سے حاصل کر کے مغرب کو سکھایا۔ جس کی بدولت ہر قسم کی جمع تفریق اور تقسیم آسان ہو گئی۔ اہل مغرب اس کو عربی رقم کہتے ہیں لیکن ہندسہ دراصل ہندسے آیا ہے۔ سارٹون نے جو سائنس کی مبسوط تاریخ لکھی ہے اس میں ریاضیات اور تجربی سائنس میں مسلمانوں کے کارناموں کی اچھی طرح داد دی ہے۔ مغرب کو عصر حاضر میں جو عروج اور قوت حاصل ہوئی وہ زیادہ تر تجربی سائنس کی رہین منت ہے جس کی ابتداء مسلمانوں نے کی، لیکن ابتدائی منازل طے کرنے کے بعد مسلمانوں کی ترقی رک گئی اور علوم کی مشعل فرنگ کے ہاتھ میں آ گئی۔ اس کے متعلق اقبال نے کہا ہے:

بجھ کے بزم ملت بیضا پریشاں کر گئی

اور دیا تہذیب حاضر کا فروزاں کر گئی

اب اگر کوئی یہ پوچھے کہ مسلمانوں کے ہاں تمام عالم اسلامی میں کیوں چراغ بجھ گئے اور بجھے بھی ایسے کہ بقول میر:

شام ہی سے بجھا سا رہتا ہے

دل ہوا ہے چراغ مفلس کا

تہذیبوں کی پیدائش اور ان کے عروج و زوال کے اسباب کا مسئلہ اس قدر پیچیدہ ہے کہ زمانہ حال میں فلسفہ تاریخ کے بڑے بڑے اکابر مفکر اسپنگلر، ٹائن بی وغیرہ منقاد نظریات پیش کرتے ہیں۔ کوئی نظریہ اس کا تسلی بخش جواب نہیں دیتا کہ بعض ادوار میں یک بیک کسی قوم میں ایک غیر معمولی زندگی پیدا ہو جاتی ہے، ہر شعبے میں غیر معمولی عبقری ابھرتے آتے ہیں، جمال اور عظمت و قوت میں روز افزوں اضافہ ہوتا ہے لیکن کچھ عرصہ گزرنے کے بعد ان پر پہلے خفتگی طاری ہوتی ہے اور پھر موت۔ ایک تہذیب ابھی مرنے نہیں پاتی کہ کسی جگہ غیر متوقع طور پر نئی زندگی پیدا ہوتی ہے اور ایک نیا دور شروع ہوتا ہے۔ اسپنگلر کی عالمانہ کتاب زوال مغرب میں یہی نظریہ متا ہے کہ ملتیں بھی نباتی یا حیوانی وجود کی طرح پیدا ہوتی ہیں اور طفولیت و شباب و  شیب کے ادوار سے گزرتی ہیں اور آخر میں مر جاتی ہیں۔ ان کی پیدائش میں جو ایک خاص قسم کی زندگی ان کے اندر سے ابھرتی ہے، اس کے اسباب و علل عقل کی گرفت سے باہر ہیں۔ یہ ایک سر حیات اور لاینحل عقیدہ ہے لیکن جن ادوار سے وہ گزرتی ہیں ان کی کیفیات مخصوص قوانین کے ماتحت ظہور میں آتی ہیں۔ اسپنگلر تاریخ میں ایک خاص قسم کے جبر کا قائل ہے۔ ہر دور میں علوم و فنون کا ایک خاص انداز ہوتا ہے، معاشرت میں جو تغیرات ہوتے ہیں وہ بھی لگے بندھے قوانین کے ماتحت ہوتے ہیں۔ بے انتہا تبحر علمی سے اس نے تمام بڑی بڑی گذشتہ تہذیبوں کا جائزہ لیا ہے اور آخر میں یہ نتیجہ نکالا ہے کہ مغربی تہذیب نشوونما کے تمام منازل طے کر کے اب زوال پذیر ہے اور عنقریب یہ بھی اسی طرح مٹ جائے گی جس طرح یونان و روما اور مصر و باطل کی تہذیبیں سپرد فنا ہوئیں۔ اسپنگلر کو پڑھ کر بعض اوقات یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ وہی بات نہیں جو قرآن حکیم نے بھی کہی کہ امتوں کے لیے بھی اسی طرح اجل ہے جس طرح افراد کے لیے ہے اور جب اجل کا وقت آن پہنچتا ہے تو پھر اس میں تعجیل و تاخیر نہیں ہو سکتی:

ولکل امۃ اجل۔ فاذا جاء اجلہم لا یستاخرون ساعتہ ولا یستقدمون

لیکن جب علامہ اقبال کے سامنے یہ خیال پیش کیا گیا تو انہوں نے فرمایا کہ درست ہے کہ امتوں کے لیے اجل تو ہے لیکن اہل مغرب نے جو یہ خیال پھیلا دیا ہے کہ کوئی امت دوبارہ زندہ نہیں ہو سکتی یہ غلط ہے۔ وہ فرماتے تھے کہ یہ خیال زوال یافتہ مشرقی اقوام کو مایوس کرنے کے لیے ان کے ذہنوں میں ڈالا گیا ہے۔ اسلام تو ساری دنیا کے مر کر دوبارہ زندہ ہونے کا قائل ہے، وہ امتوں کی حیات ثانی کا کیسے منکر ہو سکتا ہے؟ معلوم ہوتا ہے کہ خزاں میں درختوں پر موت طاری ہو گئی ہے لیکن بہار میں وہ پھر نئے برگ و بار پیدا کرتے ہیں۔ مٹی زرخیز ہونے کے باوجود نمی کی کمی سے مردہ دکھائی دیتی ہے، لیکن آبیاری کے بعد اس میں سے زندگی ابھر آتی ہے۔ اسی خیال کے ماتحت وہ ملت اسلامیہ کے متعلق فرما گئے ہیں :

نہیں ہے نا امید اقبال اپنی کشت ویراں سے

ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی

اقبال کے ہاں مغربی تہذیب کے متعلق زیادہ تر مخالفانہ تنقید ہی ملتی ہے اور یہ مخالفت اس کی رگ و پے میں اس قدر رچی ہوئی ہے کہ اپنی اکثر نظموں میں جا و بے جا ضرور اس پر ایک ضرب رسید کر دیتا ہے۔ مجموعی طور پر یہ اثر ہوتا ہے کہ اقبال کو مغربی تہذیب میں خوبی کا کوئی پہلو نظر نہیں آتا، اس کے اندر اور باہر فساد ہی فساد دکھائی دیتا ہے، گویا یہ تمام کارخانہ ابلیس کی تجلی ہے۔ بعض نظمیں تو خالص اسی مضمون کی ہیں۔ اپنی غزلوں میں بھی حکمت و عرفان، تصوف اور ذوق و شوق کے اشعار کہتے کہتے یوں ہی ایک آدھ ضرب مغرب کو رسید کر دیتے ہیں۔ بال جبریل کی اکثر غزلیں بہت ولولہ انگیز ہیں، اکثر اشعار میں حکمت اور عشق کی دلکش آمیزش ہے لیکن اچھے اشعار کہتے کہتے ایک شعر میں فرنگ کے متعلق غصے اور بے زاری کا اظہار کر دیتے ہیں اور پڑھنے والے صاحب ذوق انسان کو دھکا سا لگتا ہے کہ فرنگ عیوب سے لبریز سہی لیکن یہاں اس کا ذکر نہ ہی کیا جاتا تو اچھا ہوتا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مصفا آب رواں کا لب جو بیٹھے لطف اٹھا رہے تھے کہ اس میں یک بیک ایک مردہ جانور کی لاش بھی تیرتی ہوئی سامنے آ گئی۔ اگر کہیں ملا کو برا کہتا ہے جو تہذیب فرنگ کی طرح اقبال کے طعن و طنز کے تیروں کا ایک مستقل ہدف ہے تو اس کے ساتھ ہی فرنگ کو بھی لپیٹ لیتا ہے حالانکہ غزل کے باقی اشعار نہایت حکیمانہ اور عارفانہ ہوتے ہیں۔ مثلاً غزل کا مطلع ہے:

اک دانش نورانی اک دانش برہانی

ہے دانش برہانی حیرت کی فراوانی

باقی اشعار بھی اسی طرح کے بلند پایہ ہیں لیکن چلتے چلتے ایک یہ شعر بھی فرما دیا جس میں خواہ مخواہ اپنے آپ کو بھی متہم کیا ہے:

مجھ کو تو سکھا دی ہے افرنگ نے زندیقی

اس دور کے ملا ہیں کیوں ننگ مسلمانی

مگر فرنگ میں جو ظاہری پاکیزگی اور حسن و جمال ہے اقبال اس کا منکر نہیں۔ تمدن فرنگ کے اس پہلو کو جو اس کو ایشیا کی گندگی سے ممتاز کرتا ہے، اقبال بھی قابل رشک سمجھتا ہے اور چاہتا ہے کہ مشرق میں بھی جنت ارضی کے نمونے نظر آئیں :

فردوس جو تیرا ہے کسی نے نہیں دیکھا

افرنگ کا ہر قریہ ہے فردوس کی مانند

اسی غزل کے ایک شعر میں پھر تہذیب جدید اور ملائی پر بیک وقت ایک تازیانہ رسید کیا ہے:

کہتا ہوں وہی بات سمجھتا ہوں جسے حق

نے ابلہ مسجد ہوں نہ تہذیب کا فرزند

افغانستان کے سفر میں حکیم سنائی غزنوی رحمۃ اللہ علیہ کے مزار مقدس کی زیارت نصیب ہوئی اور اس عارف و حکیم کے پر تو فیض سے بہت اچھے اشعار اقبال کی زبان سے نکلے ہیں۔ مشرق کی جھوٹی روحانیت سے بیزاری ظاہر کی ہے لیکن فرنگ کو یہاں بھی نہیں بھولے:

یہی شیخ حرم ہے جو چرا کر بیچ کھاتا ہے

گلیم بوذر و  دلق اویس و چادر زہرا؟

بہت دیکھے ہیں میں نے مشرق و مغرب کے میخانے

یہاں ساقی نہیں پیدا وہاں بے ذوق ہے صہبا

پھر ایک شعر میں تہذیب حاضر کے متعلق وہ بات کہتے ہیں جسے انہوں نے اور جگہوں پر بھی دہرایا ہے کہ تہذیب حاضر نے بہت سے جھوٹے معبودوں کا خاتمہ کیا ہے۔ نفی کا یہ پہلو ضروری تھا لیکن اس کے بعد اثبات حقیقت کی طرف اس کا قدم نہیں اٹھ سکا اس لیے اس کی فطرت میں ایک واویلا پیدا ہو رہا ہے:

لبالب شیشہ تہذیب حاضر ہے مئے لا سے

مگر ساقی کے ہاتھوں میں نہیں پیمانہ الا

دبا رکھا ہے اس کو زخمہ ور کی تیز دستی نے

بہت نیچے سروں میں ہے ابھی یورپ کا واویلا

اور کئی غزلوں میں بھی یہی کیفیت ہے کہ بات کچھ بھی ہو رہی ہو لیکن ضرب لگانے کے لیے فرنگ کا ذکر کرنا لازمی ہے:

علاج آتش رومی کے سوز میں ہے ترا

تری خرد پہ ہے غالب فرنگیوں کا فسوں

یہ غزل کس قدر عرفانی اور لا مکانی ہے جس کے شروع کے دو اشعار یہ ہیں :

تو ابھی رہگزر میں ہے قید مقام سے گزر

مصر و حجاز سے گزر پارس و شام سے گزر

جس کا عمل ہے بے غرض اس کی جزا کچھ اور ہے

حور و خیام سے گزر بادہ و جام سے گزار

ایسی اونچی باتیں کہتے ہوئے پھر یک بیک فرنگ کی طرف پلٹتے ہیں :

گرچہ ہے دلکشا بہت حسن فرنگ کی بہار

طائرک بلند بال دانہ و دام سے گزر

بال جبریل میں ساتویں غزل ایسی ہے جس سے روح وجد کرنے لگتی ہے، نصف غزل میں بڑے موثر انداز میں اپنے من میں غوطہ لگانے کی تلقین کی ہے جو تمام اسرار الٰہیہ کا خزینہ ہے۔ من اور تن کے مقابلے کے یہ اشعار اقبال کے شاہکاروں میں سے ہیں :

اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغ زندگی

تو اگر میرا نہیں بنتا، نہ بن، اپنا تو بن

من کی دنیا؟ من کی دنیا سوز و مستی جذب و شوق

تن کی دنیا؟ تن کی دنیا سود و سودا مکر و فن

من کی دولت ہاتھ آتی ہے تو پھر جاتی نہیں

تن کی دولت چھاؤ ہے، آتا ہے دھن جاتا ہے دھن

مقطع میں خود داری کی ایسی تلقین ہے جو دل میں گھر کر جاتی ہے:

پانی پانی کر گئی مجھ کو قلندر کی یہ بات

تو جھکا جب غیر کے آگے نہ من تیرا نہ تن

لیکن ایسی عرفانی غزل میں بھی مقطع سے پہلے فرنگ پر ایک ٹھوکر مارنا لازمی سمجھتے ہیں، خواہ اس شکریے کے ساتھ ہی سہی کہ خدا کا شکر ہے کہ کم از کم من کی دنیا میں تو افرنگی کا راج نہیں :

من کی دنیا میں نہ پایا میں نے افرنگی کا راج

من کی دنیا میں نہ دیکھے میں نے شیخ و برہمن

افرنگی کا راج کچھ ختم ہو گیا اور باقی جاں بلب ہے، آئندہ نسلوں کے لیے افرنگی کا راج تاریخ کا ایک قصہ پارینہ بن جائے گا۔ اس زمانے میں اس شعر سے کون لطف اٹھائے گا؟ پچاس یا سوس سال کے بعد غالباً اس وجد آور غزل کو گانے والے اس شعر کو ساقط کر دیں گے لیکن غلبہ افرنگ نے بے چارے اقبال کو اس قدر بے زار کر رکھا ہے کہ وہ ایسی غزل میں بھی اس کے ذکر سے باز نہیں آ سکتا۔

بال جبریل کی اور غزلوں میں سے اس مضمون کے بعض اور اشعار یہاں یکجا درج کیے جاتے ہیں۔ مختلف اشعار سے اس کا کسی قدر اندازہ ہو سکتا ہے کہ اقبال تہذیب فرنگی کے کس کس پہلو کو قابل اعتراض سمجھتا ہے:

وہ آنکھ کہ ہے سرمہ افرنگ سے روشن

پرکار و سخن ساز ہے مناک نہیں ہے

یہ حوریان فرنگی دل و نظر کا حجاب

بہشت مغربیاں جلوہ ہائے پا برکاب

دل و نظر کا سفینہ سنبھال کر لے جا

مہ و ستارہ بیں بحر وجود میں گرداب

تو اے مولائے یثرب آپ میری چارہ سازی کر

مری فطرت ہے افرنگی مرا ایماں ہے زناری

سوال مے نہ کروں ساقی فرنگ سے میں

کہ یہ طریقہ رندان پاک باز نہیں

خیرہ نہ کر سکا مجھے جلوۂ دانش فرنگ

سرمہ ہے میری آنکھ کا خاک مدینہ و نجف

برا نہ مان ذرا آزما کے دیکھ اسے

فرنگ دل کی خرابی خرد کی معموری

جسے کساد سمجھتے ہیں تاجران فرنگ

وہ شے متاع ہنر کے سوا کچھ اور نہیں

مے خانہ یورپ کے دستور نرالے ہیں

لاتے ہیں سرور اول دیتے ہیں شراب آخر

اعجاز ہے کسی کا یا گردش زمانہ

ٹوٹا ہے ایشیا میں سحر فرنگیانہ

حکیم نطشہ کے متعلق:

اگر ہوتا وہ مجذوب فرنگی اس زمانے میں

تو اقبال اس کو سمجھاتا مقام کبریا کیا ہے

نہ کر افرنگ کا اندازہ اس کی تابناکی سے

کہ بجلی کے چراغوں سے ہے اس جوہر کی براقی

تازہ پھر دانش حاضر نے کیا سحر قدیم

گزر اس عہد میں ممکن نہیں بے چوب کلیم

ڈھونڈ رہا ہے فرنگ عیش جہاں کا دوام

وائے تمنائے خام! وائے تمنائے خام

عذاب دانش حاضر سے با خبر ہوں میں

کہ میں اس آگ میں ڈالا گیا ہوں مثل خلیل

مجھے وہ درس فرنگ آج یاد آتے ہیں

کہاں حضور کی لذت کہاں حجاب دلیل

پیر میخانہ یہ کہتا ہے کہ ایوان فرنگ

سست بنیاد بھی ہے آئینہ دیوار بھی ہے

ہوا نہ زور سے اس کے کوئی گریباں چاک

اگرچہ مغربیوں کا جنوں بھی تھا چالاک

یا عقل کی روباہی یا عشق ید اللھی

یا حیلہ افرنگی یا حملہ ترکانہ

خبر ملی ہے خدایان بحر و بر سے مجھے

فرنگ رہگزر سیل بے پناہ میں ہے

یہ مدرسہ، یہ جواں، یہ سرور و رعنائی

انہیں کے دم سے ہے میخانہ فرنگ آباد

نئی تہذیب تکلف کے سوا کچھ بھی نہیں

چہرہ روشن ہو تو کیا حاجت گلگونہ فروش

سرور و سوز میں ناپائدار ہے درد

مئے فرنگ کا تہ جرعہ بھی نہیں نا صاف

سمجھ رہے ہیں وہ یورپ کو ہم جوار اپنا

ستارے بن کے نشیمن سے ہیں زیادہ قریب

رہ و رسم حرم نا محرمانہ

کلیسا کی ادا سوداگرانہ

یقیں مثل خلیل آتش نشینی

یقیں اللہ مستی خود گزینی

سن اے تہذیب حاضر کے گرفتار

غلامی سے بتر ہے بے یقینی

کوئی دیکھے تو میری نے نوازی

نفس ہندی مقام نغمہ تازی

نگہ آلودۂ انداز افرنگ

طبیعت غزنوی قسمت ایازی

٭٭٭

اشتراکیت نے مغربی تہذیب و تمدن کے خلاف جو بغاوت کی اس کے وجوہ زیادہ تر وہی ہیں جن سے اقبال بھی متفق ہے۔ لینن نے خدا کے حضور میں اس تہذیب کا جو خاکہ کھینچا ہے اس میں اقبال لینن سے ہم نوا ہے:

مشرق کے خداوند سفیدان فرنگی

مغرب کے خداوند درخشندہ فلزات

یورپ میں بہت روشنی علم و ہنر ہے

حق یہ ہے کہ بے چشمہ حیواں ہے یہ ظلمات

رعنائی تعمیر میں، رونق میں صفا میں

گرہوں سے کہیں بڑھ کے ہیں بنکوں کی عمارات

ظاہر میں تجارت ہے حقیقت میں جوا ہے

سود ایک کا لاکھوں کے لیے مرگ مفاجات

یہ علم، یہ حکمت، یہ تدبر، یہ حکومت

پیتے ہیں لہو، دیتے ہیں تعلیم مساوات

بیکاری و عریانی و میخواری و افلاس

کیا کم ہیں فرنگی مدنیت کے فتوحات؟

وہ قوم کہ فیاض سماوی سے ہو محروم

حد اس کے کمالات کی ہے برق و بخارات

ہے دل کے لیے موت مشینوں کی حکومت

احساس مروت کو کچل دیتے ہیں آلات

آثار تو کچھ کچھ نظر آتے ہیں کہ آخر

تدبیر کو تقدیر کے شاطر نے کیا مات

میخانے کی بنیاد میں آیا ہے تزلزل

بیٹھے ہیں اسی فکر میں پیران خرابات

چہروں پہ جو سرخی نظر آتی ہے سر شام

یا غازہ ہے یا ساغر و مینا کی کرامات

تو قادر و عادل ہے مگر تیرے جہاں میں

ہیں تلخ بہت بندۂ مزور کے اوقات

کب ڈوبے گا سرمایہ پرستی کا سفینہ

دنیا ہے تری منتظر روز مکافات

٭٭٭

است نے مذہب سے پیچھا چھڑایا

چلی کچھ نہ پیر کلیسا کی پیری

ہوئی دین و دولت میں جس دم جدائی

ہوس کی امیری ہوس کی وزیری

ہوئی ملک و دیں کے لیے نامرادی

ہوئی چشم تہذیب کی نا بصیری

ترے صوفے افرنگی ترے قالیں ہیں ایرانی

لہو مجھ کو رلاتی ہے جوانوں کی تن آسانی

نہ ڈھونڈ اس چیز کو تہذیب حاضر کی تجلی میں

کہ پایا میں نے استغنا میں معراج مسلمانی

٭٭٭

ہوا اس طرح فاش راز فرنگ

کہ حیرت میں ہے شیشہ باز فرنگ

پرانی سیاست گری خوار ہے

زمیں میر و سلطاں سے بیزار ہے

گیا دور سرمایہ داری گیا

تماشا دکھا کر مداری گیا

٭٭٭

وہ فکر گستاخ جس نے عریاں کیا ہے فطرت کی طاقتوں کو

اسی کی بیتاب بجلیوں سے خطر میں ہے اس کا آشیانہ

جہان نو ہو رہا ہے پیدا وہ عالم پیر مر رہا ہے

جسے فرنگی مقامروں نے بنا دیا ہے قمار خانہ

٭٭٭

زہر اب ہے اس قوم کے حق میں مئے افرنگ

جس قوم کے بچے نہیں خود دار و ہنر مند

٭٭٭

اٹھا نہ شیشہ گران فرنگ کے احساں

سفال ہند سے مینا و جام پیدا کر

٭٭٭

جاں لاغر و تن فربہ و ملبوس بدن زیب

دل نزع کی حالت میں خرد پختہ و چالاک

ناپاک جسے کہتی تھی مشرق کی شریعت

مغرب کے فقیہوں کا یہ فتویٰ ہے کہ ہے پاک

٭٭٭

تاک میں بیٹھے ہیں مدت سے یہودی سود خوار

جن کی روباہی کے آگے ہیچ ہے زور پلنگ

خود بخود گرنے کو ہے پکے ہوئے پھل کی طرح

دیکھئے پڑتا ہے آخر کس کی جھولی میں فرنگ

(ماخوذ از نطشہ)

یہ اشعار فقط بال جبریل کی غزلوں اور نظموں میں سے چنے گئے ہیں۔ اقبال کے کلام کے اور مجموعوں میں بھی مغرب کی تہذیب اور نظریہ حیات پر مخالفانہ مگر حکیمانہ تنقید ملتی ہے۔ یہ مضمون اقبال کے محوری افکار میں سے ہے۔ اگر تمام اعتراضات کا استقراء کیا جائے تو مفصلہ ذیل نکات حاصل ہوتے ہیں :

مغربی تہذیب جس سے مرا زیادہ تر وہ تہذیب و تمدن ہے جو گزشتہ تین سو سال میں پیدا ہوا، زیادہ تر عقلیت، مادیت یا نیچریت کی پیداوار ہے۔ لیکن عقلیت جو اپنے کمال اور کلیت میں بھی پوری طرح حقیقت رس نہیں ہو سکتی اسے مغرب نے اور زیادہ محدود و محصور کر دیا۔ اس نے فقط مادی فطرت کے مظاہر کا مشاہدہ اور مطالعہ کیا اور اس کے قوانین کا ادراک کرنے کے بعد اس کو زیادہ تر مادی اور جسمانی اغراض کے لیے مسخر کیا۔ اس تسخیر نے مغرب کو مادی حیثیت سے غیر معمولی طاقت بخشی۔ اس اقتدار اور تسخیر سے سرشار ہو کر اس  نے علمی اور عملی طور پر نظریہ حیات قائم کر لیا کہ عالم مادی یا عالم محسوسات ہی حیثیت کلی ہے، حاضر کے باہر غائب کوئی چیز نہیں، یہاں تک کہ انسان اپنی روح ہی کے وجود سے منکر ہو گیا۔ اس کا نتیجہ وہی ہوا جو عارف رومی کے ارشادات میں ملتا ہے۔ علم ایک بے طرف قوت ہے۔ وہ حکمت روحانی اور عشق الٰہی کے ساتھ یار جان ہو سکتا ہے لیکن خالی علم و ہنر سے وہ زیر کی پیدا ہوتی ہے جو ابلیس کی صفت ہے:

می شناسد ہر کہ از سر محرم است

زیرکی ز ابلیس و عشق از آدم است

علم را برتن زنی مارے شود

علم را یرجاں زنی یارے شود

عشق سے معرا ہو کر تسخیر فطرت ایک قسم کی جادوگری ہے۔ جادو گر بھی غیر معمولی مادی اور نفسی قوتوں پر قابو پا کر ان کو فساد و تخریب میں استعمال کرتا ہے۔ مغرب میں طبعی سائنس نے جو قوتیں پیدا کیں انہوں نے ظاہری قوت اور شان و شوکت تو بہت پیدا کر دی لیکن انسانیت کے اصلی جوہر کو نقصان پہنچایا اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ ان قوتوں کی مالک اقوام نے ایک طرف ان اقوام کو مغلوب کر لیا جو ان رموز تسخیر سے آشنا نہ تھیں اور دوسری طرف یہ جنات اپنی قوت کے بل بوتے پر آپس میں اس طرح ٹکرائے کہ تمام عالم انسانی میں زلزلہ آ گیا اور خود اس سائنس کا پیدا کردہ تمدن پاش پاش ہو گیا۔ اس طبعی سائنس کی ترقی نے ایسا سامان پیدا کیا کہ ہر ذرے میں جو محشر پنہاں تھا وہ نمودار ہو گیا۔ مغرب کا انسان وہی کچھ بن گیا جس کے متعلق مرزا غالب فرما گئے کہ:

قیامت می دمد از پردۂ خاکے کہ انساں شد

اس عالم گیر علم کے ساتھ عالم گیر محبت پیدا نہ ہوئی، یہ علم رفتہ رفتہ عشق اور روحانیت سے ایسا بیگانہ ہوا کہ نہ صرف نوع انسان بلکہ تمام کرۂ ارض جماد و نبات و حیوانات سمیت معرض خطر میں پڑ گیا۔

انہیں آثار کو دیکھ کر اقبال نے قیام فرنگ کے دوران ہی میں یہ پیش گوئی کی تھی:

تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی

ہو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائدار ہو گا

جیسے جیسے زمانہ گزرتا گیا اور فرنگ روحانیت کی طرف لوٹتا نظر نہ آیا تو اقبال تیس برس تک اس پیش گوئی کو دہراتا چلا گیا کہ مجھے فرنگ رہگزر سیل بے پناہ کی زد میں آتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ اس کا تمدن سست بنیاد ہے اور اس کی دیواریں شیشے کی ہیں جو ایک دھماکے سے چکنا چور ہو جائیں گی۔ عقل بے عشق کی معموری دل کی خرابی میں اضافہ کرتی گئی، غیب کی منکر دانش حاضر انسان کے لیے عذاب بن گئی، محسوسات کے ادراک کے لیے آنکھیں روشن ہوتی گئیں لیکن درد انسان سے نمناک نہ ہوئیں اس تہذیب کی تجلی نے آنکھوں کو خیرہ اور دل کو اندھا کر دیا، بجلی کے چراغوں کی روشنی کو نور حیات سمجھ لیا گیا غیب اور مرئی عالم کا منکر ہونے کی وجہ سے فرنگ اس کوشش میں پڑ گیا کہ اسی دنیا کو جنت بنایا جائے اور اس چند روزہ زندگی میں اسی میں عیش کیا جائے۔ وہ اس سے غافل رہا کہ اس فردوس کی تعمیر میں خرابی کی مضمر صورتیں بھی اپنا پنہاں مگر موثر عمل کر رہی ہیں۔ جس فکر گستاخ نے فطرت کی طاقتوں کو عریاں کیا وہ اس سے بے خبر رہا کہ اس سے پیدا کردہ بجلیاں خود اس گلشن اور آشیانے کو راکھ کا ڈھیر بنا دیں گی اور دنیا جہنم کے کنارے تک پہنچ جائے گی۔

طبعی سائنس کی ترقی اور صنعت میں اس کے اطلاق نے مصنوعات کے عظیم الشان کارخانے بنائے جو بے درد سرمایہ اندوزوں کے ہاتھ میں آ گئے، کارخانوں میں کام کرنے والے مزدور ایک دوسری قسم کی غلامی میں آزادی اور خود داری سے محروم ہو گئے۔ صناعوں کی انفرادی جدت اور صناعی ختم ہو گئی۔ کارخانے کا ہر مزدور ایک بے پناہ مشین کا پرزہ بن گیا، اس کی انسانی انفرادیت رفتہ رفتہ سوخت ہوتی گئی۔ پہلے زمانے میں ممالک حکومت کرنے کے لیے فتح کیے جاتے تھے، اب کمزور اقوام پر ہر قسم کی یورش تجارت سے نفع اندوزی کی خاطر ہونے لگی کہ کمزور اقوام کو خام پیداوار کی غلامانہ مشقت میں لگایا جائے اور پھر مصنوعات کو انہیں کے ہاتھوں گراں قیمت میں فروخت کیا جائے۔ خود سرمایہ داروں میں گلا کاٹ مقابلہ اور مسابقت شروع ہو گئی جس کی وجہ سے ایسی دو عظیم جنگیں ہوئیں جن کے سامنے چنگیز، ہلاکو، تیمور اور نپولین کی ترکتاز بازیچہ اطفال معلوم ہوتی ہے۔ یہ جنگیں اس ظالمانہ سرمایہ داری کی پیداوار تھیں جس کو طبعی سائنس سے فروغ حاصل ہوا تھا۔ انسان کی ا پنی تسخیر فطرت کا ساتھ نہ دے سکی۔ الف لیلہٰ کی کہانی کا لوٹے میں مقید دیو آزاد ہو کر فضا میں پھیل گیا اور اسے دوبارہ لوٹے میں بند کرنے کا سحر ہاتھ نہ آیا۔

مغرب کے دین سے بیگانہ ہونے کے دو بڑے اسباب تھے، ایک سبب تو کلیسا کا استبداد تھا، جس نے ہزار سال سے زائد عرصے تک انسانوں کا دینی اور دنیاوی نظریہ حیات غلط کر دیا تھا۔ یہ استبداد کسی قدر یورپ کی نشاۃ ثانیہ کے دور میں ٹوٹا لیکن اس پر ایک کاری ضرب لوتھر کی پروٹسٹنٹزم (احتجاج) نے لگائی۔ اس کے بعد اسی اصلاح کے اندر سے ایک نئی آفت پیدا ہوئی اور نئے فرقے کچھ قدیم کلیسا کے خلاف اور کچھ آپس میں ایسے متعصبانہ انداز میں دست و گریبان ہوئے کہ طویل مذہبی جنگوں نے تمام یورپ کو تباہ کر ڈالا۔ یہ تباہی اتنی شدید تھی کہ اس کے خلاف زور شور کا رد عمل ہوا اور امن کی یہی صورت نظر آئی کہ دین کو سیاست سے الگ کر دیا جائے کیوں کہ سب سے زیادہ دینی عقائد کا اختلاف ہی عقل و صلح کا دشمن ہے۔ یورپ دین کے متعلق اسی نتیجے پر پہنچا جسے حالی نے اس شعر میں بیان کیا ہے:

فساد مذہب نے ہیں جو ڈالے نہیں وہ تا حشر مٹنے والے

یہ جنگ وہ ہے کہ صلح میں بھی یونہی ٹھنی کی ٹھنی رہے گی

دین سے اس بیزاری کے ساتھ ساتھ طبعی سائنس ترقی کرتی گئی، یہ ترقی نا ممکن تھی جب تک کہ بر خود غلط حامیان دین سے چھٹکارا حاصل نہ ہو جو تمام طبیعیات اور فلکیات کو بائبل کی کسوٹی پر پرکھتے تھے اور جن کا عقیدہ یہ تھا کہ انسان کو فقط روحانیت، الٰہیات اور اخلاقیات ہی از روئے وحی حاصل نہیں ہوئے بلکہ تمام طبعی علوم کے متعلق بھی وہی باتیں قابل یقین ہیں جو صحیفہ آسمانی میں د رج ہیں۔ سائنس کا ہر انکشاف قدم قدم پر اس جامد دین سے ٹکراتا تھا، جب اس قسم کے مذہب کو سائنس سے ٹکرایا گیا تو کلیسا کا جبر اوراس کی تلوار بھی مفکرین کا رخ حقائق کی طرف سے نہ پھیر سکیں۔ سرگزشت آدم میں اقبال کہتا ہے :

ڈرا سکیں نہ کلیسا کی مجھ کو تلواریں

سکھایا مسئلہ گردش زمیں میں نے

دین کی ایک تخریبی اور جامد صورت کو مغرب نے عین دین سمجھ لیا ہے علم کی روشنی میں جب وہ عقائد باطل ثابت ہوئے تو سائنس کی پیدا کردہ تہذیب نے دین ہی سے منہ پھیر لیا، حکومتیں غیر دینی اور سیکولر ہو گئیں مغرب اگر بودے دین کو چھوڑ کر دین کی حقیقت کی طرف آ جاتا تو خارجی فطرت کی تسخیر اور علوم و فنون میں اس کی غیر معمولی ترقی انسانیت کے غیر معمولی ارتقا کا باعث ہوتی لیکن مذہب کے بودا ہونے کی وجہ سے مغرب ظاہر کی روشنی کے باوجود باطن کو منور نہ کر سکا۔ سیاست نے دین سے معرا ہو کر ماکیاویلی کا ابلیسانہ مذہب اختیار کر لیا:

آن فلارنساوی باطل پرست

سرمہ او دیدہ مردم شکست

مغرب کے خلاف اقبال نے اس قدر تکرار کے ساتھ لکھا ہے کہ پڑھنے والا اس مغالطے میں مبتلا ہو جاتا ہے کہ اقبال بڑا مشرق پرست ہے۔ جامد ملا اور رجعت پسند ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اقبال نہ مشرق پرست ہے اور نہ مغرب پرست اور نہ وہ عقل کا ایسا مخالف ہے کہ اسے دین و دنیا کے لیے بے کار سمجھے۔ وہ اہل مشرق کے جمود ان کی پستی اور دین نما بے دینی سے کچھ کم بیزار نہیں۔ اقبال اسے سے بخوبی واقف ہے کہ گزشتہ تین صدیوں میں جن کے متعلق وہ کہتا ہے کہ:

تین سو سال سے ہیں ہند کے میخانے بند

جب مشرق اور جامد اور غافل اور خفتہ رہا مغرب میں طرح طرح کی حرکت پیدا ہوئی اور اس  کی ہر حرکت میں کچھ نہ کچھ برکت بھی تھی۔ نشاۃ ثانیہ سے لے کر آج تک یورپ میں طرح طرح کی ہلچل ہوئی اور رنگا رنگ کے انقلابات ظہور میں آئے۔ ہر انقلاب زندگی کے جمود اور استبداد کو بتدریج توڑتا گیا۔ دیکھیے اقبال جب اپنی ملت کے لیے انقلاب زندگی کے جمود اور استبداد کو بتدریج توڑتا گیا۔ دیکھیے اقبال جب اپنی ملت کے لیے انقلاب کا آرزو مند ہوتا ہے تو پہلے یورپ کے انقلابات پر نظر ڈالتا ہے۔ جن کی بدولت مغرب زندگی کے اسلوب بدلتا گیا اور فکر و عمل کی آزادی کی طرف قدم بڑھاتا گیا۔ لوتھر کی تحریک سے لے کر جس نے کلیسا پر ضرب لگائی انقلاب فرانس سے گزرتا ہوا مسولینی تک کی حرکت کا ذکر کرتا ہے اسی سلسلے میں روس کے زلزلے کا ذکر بھی ہو سکتاتھا لیکن وہ یہاں چھوٹ گیا ہے۔ اور جگہ کا کافی جائزہ لیا ہے اور اس کی داد دی ہے  کہ اس اشتراکی اتحادی نے بھی بڑے بڑے بت توڑے ہیں۔ ہر قسم کا انقلاب اسی جذبے اور اسی قوت کی بدولت ہوتا ہے جسے اقبال عشق کہتا ہے۔ اس کے نزدیک یورپ کی یہ تمام تحریکیں بھی عشق ہی کی بلا خیزی کا نتیجہ تھیں َ جن کی وجہ سے فکر انسان اور روح انسان استبداد کے طوق و زنجیر توڑتی چلی گئی۔

اقبال کا نظریہ حیات ارتقائی ہے اور یہ ارتقا انسان کو مسلسل زنجیر فطرت سے حاصل ہوتا ہے اس کے نزدیک زندگی مسلسل جدوجہد اور تخلیق کا نام ہے۔ فطرت کے جبر پر قابو پا کر خودی کی استواری اس کی تلقین کا اہم جزو ہے  کائنات انفس و آفاق پر مشتمل ہے۔ اور اقبال اس کو غلط اندیشی اور غلط روی قرار نہیں دے سکتا۔ اس کو صرف یہ شکایت ہے کہ اس یک طرفہ تسخیر نے اسنان کی روحانی زندگی کا توازن بگاڑ دیا ہے۔

حقیقت ازروئے قرآن بھی ظاہر ہے اور باطن بھی ظاہر و باطن ایک حقیقت کے دو پہلو ہیں اقبال نے یہ فلسفہ قرآن سے اخذ کیا ہے جو اس کائنات کو باطل نہیں سمجھتا اور حقیقت مطلقہ کی بابت ھو الظاہر و ھو الباطن کی تعلیم دیتا ہے۔ قرآن مظاہر فطرت کے سللس مطالعے اور اس کی کثرت کو ایک وحدت کی طرف راجع کرنے کی تلقین کرتا ہے۔ اپنے انگریزی خطبات اور اس کی کثرت کو اس نے وضاحت سے لکھا ہے کہ طبیعی اور تجربی سائنس مسلمانوں کی پیداوار ہے۔ جسے یورپ نے اولاً مسلمانوں سے حاصل کیا ہے اور اس کے بعد مسلمانوں کی خفتگی کی صدیوں میں اس کو بے انتہا ترقی دی۔ پہلے ہی خطبے میں کہا ہے کہ زمانہ حال میں مسلمانوں کے تفکر کا رخ مغرب کی طرف ہے اور میرے نزدیک یہ میلان خوش آئند ہے۔ کیوں کہ یہ انداز فکر یورپ نے خود مسلمانوں سے حاصل کیا ہے۔ اقبال مغرب سے یہ نہیں چاہتا کہ وہ علم و ہنر میں اپنی تمام ترقیوں کو حرف غلط کی طرح مٹا کر کسی قدیم روش پر آ  جائے۔ جب کہ انسان مظاہر فطرت اور اس کی قوتوں کے مقابلے میں اپنے آ پ کو بے بس پاتا تھا۔ یورپ کے علم و ہنر نے ظاہری زندگی میں صفائی پیدا کی ہے اور مشرق بدستور گندا ہے۔ اس نے بے شمار امراض کا علاج ڈھونڈا ہے مگر مشرق کی ارواح کی طرح اس کے ابدان میں بھی ضعیف اور طرح طرح کے امراض کے شکار ہیں۔ فرنگ کے ہر قریے کو فردوس کی مانند دیکھ کر اس کا جی یہ چاہتا ہے کہ ہماری بستیاں بھی جنت کا نمونہ بن جائیں۔۔ یورپ کے کافروں کو وہ اپنے مسلمانوں سے زیادہ عملاً اسلام کا پابند سمجھتا ہے۔ اور یورپ کو اس زندگی کو جو نعمتیں حاصل ہوئی ہیں ان کو وہ اس اسلام کا اجراء  شمار کرتا ہے جو ان کی زندگیوں کے بعض پہلوؤں میں پایا جاتا ہے:

مسلم آئیں ہوا کافر تو ملے حور و قصور

فارسی میں ایک جگہ وضاحت سے کہتا ہے ک فرنگ رقص دختراں کا نام نہیں اس کی طاقت کا سرچشمہ اس کے علوم و فنون ہیں۔ مشرقی انسان عام طور پر جب جدید تہذیب کا گرویدہ ہوتا ہے تو مغرب کے ظواہر کی نقالی کرتا ہے۔ جس کا نتیجہ یہی ہوتا ہے کہ:

چلا جب چال کوا ہنس کی اس کا چلن بگڑا

یورپ نے پہلے علم و ہنر سے فراواں سامان حیات پیدا کیا اور پھر وہ فراوانی اس کی رہائش اور خورد و نوش میں جلوہ افروز ہوئی۔ مشرق کا مفلس بغیر کچھ کیے دولت مند قوتوں کی نقالی کر کے اپنے تئیں اس کا مثیل سمجھنے لگتا ہے۔

مشرق صدیوں سے سیاسی استبداد میں آسودہ رسوائی رہا ہے لیکن مغرب میں انسانی حقوق اور مساوات کی جدوجہد نے جمہوریت کے تجربے کرنے شروع کیے۔ ابتدا میں ان جمہوریتوں میں بھی انسان کو مساوات حاصل نہ ہوئی۔ جس کی وہ توقع کرتا تھا اور بقول اقبال دیو استبداد ہی جمہوری قبا میں رقصاں رہا لیکن بقول عارف رومی:

کوشش بے ہودہ بہ از خفتگی

یہ نیم کامیاب کوششیں انگلستان میں اس انداز کی سوشلزم تک پہنچ گئیں جو اقبال کے نظریہ حیات کے مطابق اسام سے بہت قریب ہیں۔ اقبال کو مغرب کی تمام کوششوں میں کچھ نہ کچھ خلل نظر آتا ہے۔ خود مغرب کے مفکرین اور مصلحین بھی ان خرابیوں سے بخوبی آگاہ ہیں۔ اقبال نے جو تنقید مغرب پر کی ہے اس سے کہیں زیادہ مغربی مفکرین نے اپنے عیوب گنوائے اور ان کے علاج تجویز کیے ہیں۔

اقبال اس کا آرزو مند ہے کہ مغرب نے گزشتہ تین سو سال می سائنس اور علم و ہنر کی جو ترقی ک ہے مسلمان بھی اس سے بہرہ انداز ہوں لیکن دنیا کو سنوارنے میں وہ اپنی خودی اور اپنے خداسے غافل نہ ہو جائیں :

ست دنیا از خدا غافل شدن

نے قماش و نقرہ و فرزند و زن

مغربی مادیت اور حاضر پرستی کی معراج روسی اشتراکیت میں نظر آتی ہے۔ لیکن ابال اس کا بھی مداح ہے کہ اس نے سلبی کام بہت اچھا کیا ہے۔ اور اس نے کلیسا اور سرمایہ داری اور امتیاز رنگ و نسل اور تفوق طبقات کے بہت سے جھوٹے معبودوں کا قلع قمع کر دیا ہے۔ توحید کے کلمے میں لا الہ جز و ثانی الا اللہ سے پہلے اور مقدم ہے۔ مغرب نے عام طور پر اور روسی اشتراکیت نے خاص طور پر لا الہ کا کام بخوبی انجام دیا ہے۔ لیکن مغرب اس لا الہ کے دریا میں سے ابھی تک الا اللہ کے موتی نہیں نکال سکا۔ اس کے مقابلے میں مشرق کو ابھی بہت کچھ بت شکنی کرنی ہے۔ مغرب نے اپنے دینی جمود کو بہت کچھ رفع کر لیا اور بقول اقبال وہاں فکر کی کشتی نازک رواں ہو گئی لیکن لوتھر کی طرح کوئی تحریک ابھی مسلمانوں میں پیدا نہیں ہوئی جو ان کو جامد ملائیت اجتہاد دشمن تفقہ اور ٹیکس وصول کرنے والے پیروں سے نجات دلوا سکے۔ ترکوں نے ملائیت سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہا تو تحقیقی کی بجائے مغرب کی اندھی تقلید کو اپنا شعار بنا لیا۔ ترکوں کے بعض لیڈر اس کے مدعی ہیں کہ ہم اسلام کے پروٹسٹنٹ ہیں لیکن ان کا یہ ادعا غلط ہے۔ لوھتر نے کلیسا کے خلاف بغاوت اس بنا پر کی کہ عیسائیوں نے مسیح اور اس کی انجیل پر ایمانداری اور آزادی سے غور کرنے کی بجائے ارباب کلیسا کے پاس اپنا ذہن اور اپنا ضمیر بیچ رکھا ہے۔ لیکن توکوں نے جو ش تقلید فرنگ میں فقہ کے معاملے میں قرآن ہی کو بالائے طاق رکھ دیا۔ رضا شاہ نے مجتہدین ایران سے چھٹکارا حاصل کر کے ایرانیوں کو ایک ترقی پسند اور مہذب ملت بنانا چاہا تو وہ بھی مصطفی کمال کی طرح مغرب کے ظواہر کی تقلید میں پڑ گیا۔ اور یہ کوشش نہیں کہ اسلای اساس پر ایک تہذیب تعمیر کرے۔ جو شرق  و غرب کی موجودہ تہذیبوں پر فائق ہو:

نہ مصطفی نہ رضا شاہ میں نمود اس کی

کہ روح شرق بدن کی تلاش میں ہے ابھی

اقبال مغرب کے عیوب کے ساتھ ساتھ اس کی خوبیوں سے بھی بخوبی واقف اور ان کا مداح تھا،  وہ چاہتا تھا کہ مسلمان وہ خوبیاں اپنے اندر پیدا کر لیں علم مومن کا گم شدہ مال ہے علم جہاں سے بھی ملے فرنگ میں ہو یا چین میں مسلمان کو اسی طرف لپکنا چاہیے جس طرح انسان باز یافتہ گم شدہ مال کی طرف لپکتا ہے۔ اقبال نے محدود عقلیت اور مادیت کے خلاف بہت کچھ لکھا ہے۔ کیوں کہ انسان اس کے اندر محصور ہو کر رہ جائے تو اس کا اصلی جوہر گم ہو جاتا ہے۔ لیکن اقبال اس سے بھی آگاہ ہے کہ عقل اور مادی زندگی سے روگردانی کر کے خالی روحانیت میں کوشش کرنا بھی لاحاصل ہے۔ خدا نے جس حکمت کو خیر کثیر کہا ہے اس میں ظاہر اور باطن دونوں کا عرفان شامل ہے۔ اقبال کو شکایت ہے کہ مغرب مادی ترقی میں بے طرح الجھ گیا ہے اور عقل طبیعی پر اتنا بھروسہ کرنے لگا کہ روح انسانی کے غیر متناہی امکانات اس کی نظر سے اوجھل ہو گئے۔ عقل طبیعی نے عقل ایمانی کی طرف رہبری نہ کی۔

مغرب اور مشرق کی تہذیبوں اور ان کے انداز حیات کا موازنہ اور مقابلہ کرنے کے لیے یہ بات ضروری معلوم ہو جاتی ہے کہ اقبال کے کلام پر نظر ڈال کر دیکھا جائے تو عام طور پر مستشرق سے متعلق اور مشرق میں خاص طور پر ملت اسلامیہ کی موجودہ صورت حالت کے متعلق اس مبصر کی کیا رائے ہے۔ اس سے پہلے بیان ہو چکا ہے کہ اقبال نہ مشرق کا مداح  تھے اور نہ مغرب کا ستائش کرنے والا محقق اور مبلغ ہے۔ جو انسانی زندگی مین توازن پیدا کر سکتا ہے۔ اس لیے وہ جانبداری سے کام نہیں لے سکتا۔ ہر طرفدار آدمی جادہ صداقت سے ہٹ جاتا ہے۔ اسلام اور ملت اسلامیہ کے عشق کے باوجود بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ اسی عشق کی وجہ سے وہ کسی عیب کو صواب نہیں سمجھ سکتا۔ مرض کی حقیقت سے آنکھیں بند کر نے والا مریض یا طبیب نہ صحیح تشخیص کر سکتا ہے  اور نہ موثر علاج تجویز کر سکتا ہے۔ چونکہ زندہ اسلام کی ایک معین تصویر اس کی چشم باطن کے سامنے ہے وہ حیات المسلمین کے ہر پہلو کو بغور سے دیکھ کر اس تصویر سے مقابلہ کر کے دیکھتا ہے کہ کہاں کہاں وہ صورت دگرگوں ہو گئی ہے۔ جس طرح توحیدی مذاہب میں بھی رفتہ رفتہ خدا کا تصور کیا سے کیا ہو جاتا ہے۔ اسی طرح تعلیمات اور شعائر کی بھی نہ صرف صورت بدل جاتی ہے بلکہ صورت کے ساتھ ساتھ ہی معنی بھی متغیر ہو جاتے ہیں۔ عرفی نے اس بارے میں حکیمانہ رباعی کہی ہے:

حرم جویاں درے را می پرستند

فقیہاں دفترے را می پرستند

برافگن پردہ تا معلوم گردو

کہ یاراں دیگرے را می پرستند

اسی مضمون سے ملتا جلتا ایک اور دوسرا شعر ہے:

آنانکہ حسن روئے تو تفسیر می کنند

خواب ندیدہ را ہمہ تعبیر می کنند

اقبال محی املت بھی ہے اور محٰ الدین بھی۔ اسے اپنی ملت کی حالت ہر جگہ اور ہر پہلو میں ناگفتہ بہ معلوم ہوتی ہے۔ وہ دیکھتا ہے کہ شرق و غرب دونوں میں دین مسخ ہو گیا ہے۔ وہ ایک صحیح نظریہ حیات پر اپنی ملت کا بھی احیا کرتا ہے اور تمام نوع انسان کا ارتقاء بھی جو اس کے عقیدے کا ایک اساسی عنصر ہے۔ اسی صورت میں ممکن ہے کہ قدامت پرستی اور تقلید کی راہوں سے ہٹ کر انسان تحقیق اور حریت سے اپنی خودی استوار کرے۔ ملت اسلامیہ کے ماضی خصوصاً آغاز اسلام کا نقشہ اس کی روح میں اہتراز پیدا کرتا ہے۔ وہ یہ چاہتا ہے کہ روح اسلام نئے نئے قالب اختیار کرے اور زندگی کی تخلیقی اور جدت آفرین قوتوں سے نئے مظاہر اور نئے عوالم ظہور میں آئیں۔ وہ فردا کو دوش کے آئینے میں دیکھتا ہے۔ لیکن حیات انفرادی یا حیات اجتماعی کی صورتوں میں اعادے اور تکرار کا قائل ہے۔ کل یوم ہو فی شان کی قرآنی تعلیم کے مطابق صوفیہ کا عقیدہ اور تجربہ ہے کہ تجلی میں تکرار نہیں۔ حیات ازلی کے لامتناہی مضمرات ہمیشہ امکان سے وجود میں آتے رہتے ہیں۔ اقبال میں مجددانہ انداز ہے اور وہ زندگی کے ہر پہلو میں تجدید کا آرزو مند ہے۔ لیکن اصلی تجدید  وہ ہے جس میں روح خود ارتقاء کے لیے مناسب قالب اختیار کرے محض جدت آفرینی زندگی کا ثبوت نہیں بقول عارف رومی:

قالب از ما ہست شد نے ما ازو

بادہ از مامست شد نے ما ازو

اقبال نے مغرب میں حقیقت حیات سے جو بیگانگی دیکھی وہی محرومی اس کو مشرق میں بھی اور ملت اسلامیہ میں بھی نظر آئی ہے۔ جہاں قیس اس کے لیے پیدا نہیں ہو رہے کہ صحرا میں وسعت نہیں اور محمل لیلیٰ نہیں یعنی دل اور دماغ کے سامنے کو ئی مقصود اور نصب العین نہیں جو قلب کو گرما سکے اور روح کو تڑپا سکے۔ ظاہری خول اور چھلکے نظر آتے ہیں جن کے اندر مغز نابود ہے تیر ترکش کے اندر نہیں یا ہیں تو نیم کش ہیں کیوں کہ صیاد کی سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ کس ہدف کی طرف ان کو چلایا جائے۔ دینی زندگی کے کچھ ظواہر ہیں جو بے گوہر صدف ہیں۔ منہ سے توحید کا کلمہ پڑھنے والے طرح طرح کی بت گری اور بت پرستی میں مبتلا ہیں۔ دیر کے نقش و نگار میں کھوئے ہوئے خدا اور خودی سے غافل ہو گئے ہیں۔ جب ملت اسلامیہ کی اپنی یہ حالت ہے تو یہ ملت مغربیوں کی بے دینی پر کس منہ سے معترض ہو سکتی ہے۔ ملا اور صوفی اور سیاسی رہنما اور دولت میں مست افراد سب کا یہی حال ہے۔ مغربیوں نے کم از کم وہ کچھ تو کر دکھایا ہے جو خرد کے بس کی چیز تھی۔ مشرق میں تو روحانیت کے ساتھ عقلیت کا بھی فقدان ہے۔ مغرب کو تو اپن اصلاح کے لیے فقط اپنی عقلیت اور مادیت کی ترقی یافتہ صورتوں کو روحانیت کے زیر نگین لانا ہے لیکن مشرق کو اپنے باطن کے ساتھ ظاہر کرنے کی درستی کا کام بھی کرنا ہے۔ زندگی کی دوڑ میں مشرق مغرب سے بہت پیچھے رہ گیا ہے۔ مغرب کو جتنی اصلاح کی ضرورت ہے اس سے درجہا زیادہ مشرق اور ملت اسلامیہ اس کی محتاج ہے جس کے عوام و خواص کا یہ حال ہے:

میر سپاہ نا سزا لشکریاں شکستہ صف

آہ! وہ تیر نیم کش جس کا نہ ہو کوئی ہدف

تیرے محیط میں کہیں گوہر زندگی نہیں

ڈھونڈ چکا میں موج موج دیکھ چکا صدف صدف

عشق بتاں سے ہاتھ اٹھا اپنی خودی میں ڈوب جا

نقش و نگار دیر میں خون جگر نہ کر تلف

مشرق و مغرب دونوں میں سے کسی کی صفت قابل ترجیح دکھائی نہیں دیتی تو کہہ اٹھتا ہے کہ ان دونوں تہذیبوں کی قیمت دو جو کے برابر بھی نہیں :

بگذر از خاور و افسونی افرنگ مشو

کہ نیرزد بجوئے ایں ہمہ دیرینہ و نو

بہت دیکھے ہیں میں نے مشرق و مغرب کے میخانے

یہاں ساقی نہیں ہے وہاں بے ذوق ہے صہبا

مغرب نے غیب کی طرف سے آنکھیں بند کر کے عالم حاضر میں تو کچھ عیش و تنعم پیدا کر لیا ہے اس کی کوتاہی یہ ہے کہ ربنا اتنا فی الدنیا حسنتہ وفی الاخرۃ حسنتہ میں پہلے جزو کی تکمیل میں دوسرے حصے سے غافل ہو گیا ہوں۔ لیکن نصف کام تو اس نے مشرق سے بہت بہتر کر ڈالا ہے۔ گو اس کے عرفان حقیقت میں یہ خامی باقی ہے کہ وہ اسی عالم کے عیش کو اپنے لیے اور آئندہ نسلوں کے لے عیش تمام سمجھ کر اس کے دوام کے لیے کوشاں ہے:

ڈھونڈ رہا ہے فرنگ عیش جہاں کا دوام

وائے تمنائے خام وائے تمنائے خام!

مشرق مدت سے فرنگ کے سیل بے پناہ میں بہہ رہا ہے۔ اب اقبال کی پیش گوئی ہے:

خبر ملی ہے خدایان بحر و بر سے مجھے

فرنگ رہگزر سیل بے پناہ میں ہے

چلو قصہ تمام ہوا۔ ہم تو ڈوبے صنم تم کو بھی لے ڈوبیں گے۔ اقبال چاہتا ہے کہ یہ دونوں ڈوب کر پھر ایک تازہ انداز حیات میں ابھریں جس میں زندگی کے تمام طاہری  اور باطنی قوتیں نشوونما پا سکیں۔

اس موضوع پر ایک بات قابل توضیح باقی ہے کہ اقبال کے دل میں فرنگ کے خلاف ایسا شدید جذبہ کیوں ہے جو سینکڑوں غزلوں نظموں قطعوں اور رباعیوں میں بار بار ابھرتا ہے۔ اس کا سمجھنا کچھ زیادہ دشوار نہیں۔ اس مخالفانہ جذبے کی ایک وجہ سیاسی ہے۔ غلبہ فرنگ نے ایشیا اور افریقہ کی تمام اقوام کہن کو جو کسی زمانے میں مذاہب اور تہذیب و تمدن کا گہوارہ تھیں مغلوب کر لیا ہے ان اقوام میں پہلے سے انحطاط موجود تھا جس کی ذمہ دار مغربی اقوام نہ تھیں۔ علوم و فنون مردہ ہو چکے تھے۔ اور مطلق العنان حکومتوں کی وجہ سے رعایا میں اپنے حقوق و فرائض کا کوئی احساس نہ تھا۔ نہ دینی جذبہ ایسا قوی تھا کہ جو ملتوں کو متحد کر کے آمادہ ایثار کر سکے۔ اور نہ وہ قوم پرستی اور ملت پرستی تھی جس نے مغرب میں دین کی جگہ لے کر مغربی اقوام میں اتحاد اور قوت پیدا کر دی تھی۔ ہر جگہ جمود اور استبداد کا دور دورہ تھا۔ جب تک مغرب کی یورش ان اقوام پر نہیں ہوئی تب تک حیات اجتماعی کے پرانے ڈھانچے قائم تھے۔ اگرچہ ان میں ایسی استواری نہ تھی کہ منظم اور قوی اقوام کا مقابلہ کر سکیں۔ علم و ہنر نے جو نئی قوتیں پیدا کی تھیں ان کا یہاں فقدان تھا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ مشرق کی ایسی اقوام مٹھی بھر فرنگیوں کی حکمت اور قوت سے مفتوح و مغلوب ہو گئیں۔ ہندوستان کے تیس کروڑ انسانوں نے ایک لاکھ سے کم انگریزوں کی غلامی قبول کر لی۔ انگریزوں کی اجتماعی معاشی اور علمی زندگی ان تمام اقوام پر فائق تھی۔ اچھے دل و دماغ کے افراد ان اقوام میں بھی خال خال موجود تھے۔ لیکن اجتماعی زندگی بحیثیت مجموعی نہایت ضعیف اور غیر منظم تھی۔ اس تفاوت کی وجہ سے ہندوستان میں انگریزوں کی فوقیت کا سکہ دلوں پر بیٹھ گیا۔ ملک میں جو مصلحین پیدا ہوئے وہ بھی انگریزوں کی سیاسی قوت سے زیادہ ان کی تہذیب اور علوم و فنون سے مغلوب بلکہ مرعوب تھے۔ مسلمانوں میں احیائے ملت اور اصلاح قوم کا خیال سب سے پہلے سر سید احمد خان کے دل میں پیدا ہو ا تھا۔

وہ ملت کا دلدادہ اور اسلام کا شیدائی تھا۔ لیکن ان حالات میں مسلمانوں کے احیا کی صورت اس کی سمجھ میں بھی آئی کہ انگریزوں سے علم و فنون حاصل کیے جائیں اور ان کی تہذیب میں سے ان عناصر کو اپنایا جائے جو اسلام کے منافی نہیں ہیں بلکہ حقیقت میں اسلامی زندگی کا تقاضا ہیں۔ سرسید وار اس کے رفقا محسن الملک، چراغ علی، حالی، شبلی، نذیر احمد، مولوی ذکاء اللہ وغیرہ سرسید سے اس معاملے میں متفق تھے۔ وہ اپنی تحریروں میں جا بجا اپنی تہذیب کی پرستی اور فرو مائیگی اور مغربی تہذیب کے جمال و کمال کا بے دریغ اقرار کرتے ہیں۔ ان کی نیتیں نیک تھیں وہ ملت کے حقیقی خیر خواہ تھے اور بہت حد تک ان کا یہ  خیال درست تھا کہ مشرق کو جمود اور پستی سے نکالنے کے لیے مغربی افکار اور طریقوں کی ضرورت ہے۔ وہ ان چیروں کو اسلام کے منافی نہیں سمجھتے تھے۔ بلکہ یہ عقیدہ رکھتے تھ کہ ملت اسلامیہ جب زندہ اور ترقی پذیر تھی  تو اس میں یہی صفات پائے جاتے تھے۔ ان میں سے بعض برکات حکومت انگلشیہ کے راگ گاتے تھے۔ اور بعض ایسے تھے کہ جو شعوری اور غیر شعوری طور پر مغربی انداز تفکر سے علم و ادب میں نئی روح پھونکنا چاہتے تھے یہ لوگ اسلامی تعلیمات اسلامی علم و ادب اور اسلامی تاریخ کے عالم اور ادیب تھے اور غلامانہ ذہنیت کے مالک نہ تھے لیکن ایک ترقی یافتہ تہذیب و تمدن کی خوبیوں کے منکر نہ ہو سکتے تھ۔ یہ زمانہ مسلمانوں کی ملی خودی کو زور شور سے پیش کرنے کا عہد نہ تھا۔ چنانچہ اقبال نے بھی اسی دور میں علی گڑھ میں کالج کے طلبا کو جو پیغام بھیجا تھا اس میں آخر میں یہ نصیحت تھی:

بادہ ہے نیم رس ابھی شوق ہے نارسا ابھی

رہنے دو خم کے سر پر تم خشت کلیسیا ابھی

سید احمد خان اسی دور میں راہی ملک بقا ہوئے لیکن ان کے رفقا جو بعد میں تا دیر زندہ رہے ان میں غلبہ فرنگ کے خلاف احتجاج شروع ہو گیا۔ حالی اور شبلی آخر ایام میں انگریزوں کی حکومت سے بے زار ہونے لگے اس کے کئی وجوہ تھے۔ ایک وجہ یہ تھی کہ انگریزی تعلیم نے جدید تعلیم یافتہ طبقے میں وطنیت اور آزادی کے جذبے کی تربیت کی اور میکالے کی وہ پیش گوئی پوری ہونے لگی کہ انگریزی تعلیم کی بدولت ہندوستان میں ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ نئے تعلیم یافتہ لوگوں کے رنگ تو کالے اور سانولے ہوں گے لیکن وہ اپنی ذہنیت میں انگریز ہوں گے۔ اور اپنے ملک کی سیاست اور معاشرت میں ویسے ہی آزاد اداروں کا تقاضا کریں گے جو انگلستان نے اپنے ارتقا میں پیدا کیے ہیں َ سید احمد خان کا مقصد علی الاعلان ایسے ہی مسلمان پیدا کرنا تھا جو ذہنیت میں انگریز ہوں مگر پکے مسلمان بھی ہوں۔ ایک پوچھنے والے نے سید صاحب سے یہ دریافت کیا کہ آپ طلبا کی تعلیم و تربیت کس انداز کی چاہتے ہیں تو انہوں نے جواب دیا کہ میں اس کالج میں سے انگریز مسلمان پیدا کرنا چاہتا ہوں۔ مسلمانوں کی ترقی صدیوں سے رکی ہوئی تھی۔ چودھویں صدی کے بعد سے مسلمانوں نے علوم و فنون میں کوئی اضافہ نہ کیا تھا دینی علوم بھی جامد اور فرسودہ ہو گئے تھے اور ان میں نئے حالات سے توافق کی صلاحیت مفقود تھی۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ فقط مغربیوں کے ہاں مل سکتی تھی۔ تعلیم کے شائع جو کچھ تعلیم ہندوستان میں مل سکتی تھی اسے ناکافی سمجھ کر براہ راست علم کی پیاس بجھانے کے لیے یورپ چلے جاتے تھے۔ سید احمد خان خود اپنے دونوں بیٹوں کو اپنے ہمراہ انگلستان لے گئے جن میں سے ایک کی زندگی نے وفا نہ کی اور دوسرا سید محمود ایک یگانہ روز گار  بن گیا۔ جو بڑے بڑے فرنگی علما کا ہم پلہ تھا۔ خو د علامہ اقبال فلسفے کی اعلیٰ تعلیم کے لیے انگلستان گئے اور جاتے ہوئے کہتے گئے کہ:

چلی ہے لے کے وطن کے نگار خانے سے

شراب علم کی لذت کشاں کشاں مجھ کو

اقبال کے ز مانے میں بھی یورپ سے دو قسم کے ہندوستانی واپس لوٹتے تھے۔ ایک وہ جو پہلے سے مغلوب الغرب تھے۔ اور وہاں پہنچ کر اور زیادہ مرعوب ہو جاتے تھے نشست و برخاست، رہن سہن، طرز تفکر بلکہ بول چال میں بھی انگریزوں کی نقالی کو اپنے لیے باعث فخر سمجھتے تھے۔ لیکن کچھ نوجوان ایسے بھی تھے جو مغرب میں پہنچ کر مغربیت کے خلاف بغاوت کا جذبہ لے کر واپس آتے تھے۔ اس بغاوت کا سبب زیادہ تر اپنے ملک کی سیاسی غلامی تھی۔ دیکھتے تھے کہ مغرب کی ہر چھوٹی بڑی قوم آزاد ہے۔ اگرچہ مغربیوں  میں کوئی ایسی خاص باتی نہیں تھی جو ہم میں نہیں یا جو ہم پیدا نہیں کرسکتے۔ بشرطیکہ ہم کو بھی آزادی کے مواقع حاصل ہوں۔ اس کے علاوہ مغرب کو بہت قریب سے دیکھنے کی وجہ سے وہاں کی تہذیب کے تاریک پہلو بھی ان پر واضح ہو جاتے تھے۔ وہ محسوس کرتے تھے کہ عیوب ہم میں بھی ہیں لیکن یہ کہاں کے بے عیب ہیں کچھ باتیں ایسی ہیں جن میں ٰہ لوگ خاص تاریخی اسباب کی وجہ سے ہم سے آگے نکل گئے ہیں مگر بعض صفات ایسے ہیں جن میں ہم ان سے ہٹیے نہیں بلکہ وہ ہم سے کچھ سیکھنا چاہتے ہیں۔

مغرب کے خلاف بغاوت کے جتنے محرکات و عوامل ہو سکتے تھے۔ وہ اقبال کی طبیعت میں یک وقت جمع ہو گئے۔ انہوں نے مغرب کی تہذیب اور اس کے فکر و عمل کا پورا جائزہ لیا  اور انہیں مغرب ی تعمیر میں جو خرابی کی صورتیں مضمر تھیں نظر آنے لگیں اور وہیں سے انہوں نے پکارنا شروع کر دیا:

تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خو د کشی کرے گی

جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے کا ناپائدار ہو گا

انہوں نے دیکھا کہ کمزور اقوام کو غلام بنانا اور لوٹنا اس تہذیب کا شیوہ ہے۔ اور ان اقوام کی بہت سی دولت اسی لوٹ کھسوٹ سے حاصل ہوئی ہے۔ ان کے تمام فلسفے پر عبور حاصل کرنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچے کہ یہ سب مادی یا استدلالی عقل کا گورکھ دھندا ہے اور اس میں اس جوہر کا فقدان ہے جس کے لیے اقبال نے عشق کی اصطلاح اختیار کی:

رہ عقل جز پیچ در پیچ نیست

بر عاشقاں جز خدا ہیچ نیست

مغرب نے اپنی تمام عقل عالم محسوسات پر تصرف حاصل کر کے صرف کی ہے لیکن دماغ کی ترقی کے ساتھ ساتھ دل بے نور ہوتا گیا ہے۔ یہ حسی تہذیب عالم روحانی کی منکر اور الحاد کی طرف مائل ہے۔ اس کی ظاہری ترقی آنکھوں کو خیرہ کرتی ہے۔ لیکن اس میں حقیقت انسانیت کا جو ہر ماند پڑ گیا ہے۔ جس عقلیت نے مغرب کے فکر و عمل میں یہ انداز پیدا کیا اقبال مغرب ہی میں اس کا دشمن ہو گیا اور دل میں یہ ٹھان لی کہ ملت اسلامیہ کا احیاء مغرب کی اندھا دھند تقلید سے نہیں ہو سکتا۔ ملت میں اسلامی جذبے کو ابھارنا لازمی ہے تاکہ اپنے مخصوص جوہر کو ترقی دے سکے۔ مغرب کی تہذیب اور اس کا تمدن زوال آمادہ نظر آتا ہے۔ اور خود مغرب کے اہل نظر کو اس کا احساس پیدا ہو رہا ہے۔ اس قسم کی تہذیب کی نقالی سے مشرق کو کیا فائدہ پہنچے گا جو ظاہر پرست ہے اور جس کے اندر باطن کی پرورش نہیں ہوتی۔

اقبال کی طبیعت میں مغرب کے خلاف غصے اور احتجاج کا دوسرا بڑا سبب نہ صرف اپنے ملک و ملت کی غلامی تھی جو مغرب کے غلبے سے طبائع پر ظاہر ہو گئی تھی بلکہ تمام عالم اسلامی غلبہ فرنگ کی زد میں آ گیا تھا۔ بیسویں صدی کے آغاز تک ترکوں کی حکومت تین براعظموں تک پھیلی ہوئی تھی۔ ترکی کی معاشی سیاسی اور عسکری زندگی بے سکت ہو چکی تھی۔ لیکن آزادی و مملکت کا خارجی ڈھانچا بہت کچھ قائم تھا۔ انیسویں صدی میں دول یورپ نے قوت حاصل کرنے کے بعد سب سے زیادہ چھاپہ اسلامی ممالک پر مارا۔ ہندوستان میں مسلمانوں کی حکومتوں کو انگریزوں نے ملیا میٹ کر دیا اور جن ریاستوں کو باقی رکھا ان کو بھی کوئی حقیقی اقتدار حاصل نہ تھا۔ بقول مرزا غالب انگریزوں نے دیسی سیاستوں کو ویساہی اختیار دے رکھا ہے جیسا خدا نے بندوں کو دیا ہے صورت میں اختیار ہے اور حقیقت میں جبر۔ ایران کو روسیوں نے انگریزوں نے خفیہ معاہدوں میں تقسیم کر رکھا ہے۔

ساز عشرت کی صدا مغرب کے ایوانوں میں سن

اور ایراں میں ذرا ماتم کی تیاری بھی دیکھ

ایسی حالت میں شکستہ خاطر مسلمانوں کو اقبال تاریخی حوالے سے تسلی دیتا ہے کہ ایران مٹ جائے تو مٹ جائے لیکن اسلام تو نہیں مٹ سکتا۔ اسلام کو مٹانے والے تاتاریوں نے بہت جلد اسلام ہی کی حلقہ بگوشی اختیار کر لی تھی تاریخ پھر اپنے آپ کو دہرا سکتی ہے:

تو نہ مٹ جائے گا ایران کے مٹ جانے سے

نشہ مے کو تعلق نہیں پیمانے سے

ہے عیاں یورش تاتار کے افسانے سے

پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے

لیکن ان تسلیوں کے باوجود اقبال کا دل غلبہ افرنگ سے مجروح تھا۔ وہ اس کی تہذیب کی کیا داد دیتا جس کی بدولت مسلمانوں کی رہی سہی آزادی اور ملت کی خود داری غارت ہو رہی تھی۔

اقبال دیکھتا تھا کہ اسلامی ملتوں کی مغلوبی اور بے بسی کے باوجود جس کا ذمہ دار فرنگ تھا جدید تعلیم یافتہ طبقے کو فرنگ کی تہذیب سے کوئی منافرت نہیں اگر ان کو فرنگ کی طرف سے سیاسی آزادی بھی حاصل ہو جائے تو بھی ان کے قلوب فرنگ سے مغلوب ہی رہیں گے۔ اقبال اس ذہنی غلامی کو سیاسی غلامی سے بھی زیادہ خطرناک اور مضر سمجھتا تھا۔ اس کے دل میں یقین پیدا ہو چکا تھا کہ اگر مسلمان ذہنی طور پر آزاد ہو جائیں اور اپنے دلوں میں روح اسلام کی پرورش کریں تو وہ سیاسی اور معاشرتی غلامی سے بھی آزاد ہو جائیں گے ایک قسم کی قلید وہ تھی کہ جس نے دین داروں کو جامد کر کے مذہب کو بے معنی اور استخوان بے مغز بنا دیا تھا۔ دوسری طرف جدید تہذیب کے متوالوں کی تقلید شعاری تھی جو ایک بند سے چھٹکارا حاصل کرنے کی کوشش میں ایک دوسری قسم کی قید و بند میں گرفتار ہو رہے تھے۔ ایسے لوگوں کو شکار کرنے کے لیے مغرب کو کوئی زیادہ کوشش درکار نہ تھی۔ ان میں خود نخچیر بننے کا ذوق موجود تھا:

خود اٹھا لاتے ہیں جو تیر خطا ہوتا ہے

٭٭٭

ہمہ آہوان صحرا سر خود نہادہ بر کف

بخیال ایں کہ روزے بشکار خواہی آمد

مغربی تہذیب مخصوص خوبیوں سے معرا نہ تھی۔ اس نے بہت کچھ پیدا کیا تھا۔ جس کی ضرورت ملت اسلامیہ کو بھی تھی۔ لیکن مسلمانوں ک جو کیفیت تھی اس کو مد نظر رکھتے ہوئے مغرب کی خوبیوں اور اس کے کمالات کا راگ اپنا ان کی ذہنی معاشی اور تہذیبی زندگی کے لیے مفید نہ ہو سکتاتھا۔ علم و فن میں یورپ کے کمالات اقبال کی نظر سے اوجھل نہ تھے اور کبھی کبھی ان کی زبان سے اس کی بے اختیار داد بھی نکل جاتی تھی۔ لیکن قدر شناسی کا یہ پہلو اس کے کلام اور پیام ہی میں دبا رہا۔ مغرب کے حاصل کردہ کمالات کچھ اسی نظریہ حیات کی بدولت تھے جسے اقبال اسلامی سمجھتا تھا لیکن دین بے تعلق ہونے کی بنا پر مغرب ان قوتو ں کا صحیح استعمال نہیں کر رہا تھا۔ اقبال چاہتا تھا کہ مغرب انسانیت کی تکمیل میں روحانیت کے عنصر کو بھی ترقی دے اور مسلمان مغرب کی کورانہ تقلید کی صورت میں صورت پرست ہو کر روح حیات سے بیگانہ نہ ہو جائیں۔ بعض ناقدوں کا خیال ہے کہ مغرب کی تنقیص میں اقبال کی کیفیت کچھ جنونی سی معلوم ہوتی ہے۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ دیوانہ بکار خویش ہشیار۔ اس کا جنون بے مقصد نہ تھا۔ وہ اپنی قوم کو ایک قسم کی تقلید سے نکل کر دوسری قسم کی حیات کش تقلید میں مبتلا ہوتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔ اور ملی خودی کو استوار کرنے کے لیے یہ لازم تھا کہ ملت کو اپنے مخصوص زاویہ نگاہ کی طرف راغب کیا جائے تاکہ اغیار کی ستایش گری ان کو اندھے مقلد نہ بنا دے۔

اقبال کی خواہش یہ تھی کہ علم و فن یورپ سے حاصل کرو لیکن روحانیت اور اخلاقیات کا جو سرمایہ تم کو اسلام نے عطا کیا ہے اس بیش بہا وراثت کی قدر کرو تاکہ تم شر ق و غرب دونوں سے افضل اور مکمل تہزیب و تمدن پیدا کر سکو۔ مشرق و مغرب کے متعلق اپنے نظریات کو اپنے کلام میں منتشر کرنے کے علاوہ اقبال نے جاوید نامہ میں اس بارے میں اپنے مخصوص افکار کو ان ا شعار میں جمع کر دیا ہے جو سعید حلیم پاشا نے مفکر و مصلح ترکی کے خیالات کی ترجمانی کرتے ہوئے کہے ہیں َ سعید حلیم پاشا نے ترکوں کو جمود سے کلا کر شاہراہ ترکی پر گامزن کرانے کی کوشش کی مگر سلطانی استبداد اور ملائی جمود نے اس  کی کوششوں کو بارور نہ ہونے دیا۔ ترک مشرقی یورپ کے ایک حصے پر عرصے سے حکمرانی کرتے تھے دول یورپ نے قوت پکڑنے کے ساتھ ہی ان کے سیاسی اقتدار کو ختم کرنے کی کامیاب کوشش کی۔ ایک ایک کر کے مشرقی یورپ کی اقوام کو ترکوں کے خلاف ابھارا اور اپنی امداد سے ان کو آزاد کرایا۔ ترکوں کے صاحب بصیرت افراد عرصے سے یہ دیکھ رہے تھے کہ ترک روز بروز کمزور ہوتے جا رہے ہیں۔ ان کی کمزوری اور مملکت کے اختلال کے اور بھی بہت سے اسباب تھے لیکن ایک بڑا سبب یہ تھا کہ اس دو رمیں علم و حکمت اور صنعت کے بغیر کسی قوم میں محض ذاتی اور عسکری شجاعت کی بنا پر قوت پیدا نہ ہو کستی تھی۔ سعید حلیم پاشا نے اس مرض کی صحیح تشخیص کی اور مجرب علاج تجویز کیا۔ مگر ترکوں کی سلطانی سیاست بصیرت سے بالکل محروم تھی۔ اور ملائیت میں اسلام کی کوئی زندہ صورت نہ تھی۔ مستبد سلطانی اور جامد فقہ نے مل کر سلطنت پر ایسی ضرب کاری لگائی کہ وہ اس سے جانبر نہ ہو سکی۔ سعید حلیم پاشا کی تلقین یہ تھی کہ اسلام کی روحانیت اور اخلاقیات میں کوئی خلل نہیں اور نہ ہی اس کے نظری معیشت و معاشرت میں کوئی خامی اور کوتاہی ہے۔ ترکوں کے زوال کا اصلی سبب یہ ہے کہ جب مغرب جدید علوم و فنون پیدا کر رہا تھا تو ترک یورپ کا ہمسایہ ہونے کے باوجود اس  جدید دور کی اہمیت اور قوت آفرینی سے غافل رہے۔ مسلمانوں کو یورپ کے علوم و فنون حاصل کرنے کی ضرورت ہے جن کے ساتھ مل کر اسلام کی شریعت ایک صحت مندانہ معاشرت اور سیاست پیدا کر سکتی ہے۔ حقیقی ترقی کی تعمیر اسلام کی بنیادوں پر ہی ہو سکتی ہے مگر اسلام اور اس کی شریعت میں کوئی جامد شے نہیں تغیر حالات کے ساتھ وہ عروج کی نئی راہیں سمجھا سکتی ہے۔ قرآن کی تعلیم میں کئی کئی تہذیبوں اور تمدنوں کی تعمیر کے اساسی عناصر مل سکتے ہیں۔ اسلام ازمنہ ماضیہ کی کسی صورت کے ہو بہو احیاء کا تقاضا نہیں کرتا بلکہ ہر دور میں ایک نیا عالم پیدا کر سکتا ہے۔ روح اسلامی کی کسی ایک قالب کے ساتھ دوامی وابستگی نہیں رہتی۔ ترک اپنی اسلامی اور قومی خصوصیات کو قائم رکھتے ہوئے جدید علوم و فنون کی بدولت اعلیٰ درجے کی انفرادی اور اجتماعی زندگی پیدا کر سکتے ہیں۔ اقبال اس بات پر متاسف ہے کہ ترک سعید حلیم پاشا کے بتائے ہوئے راستوں پر نہ چلے اور محض نقل فرنگ پر قانع ہو گئے۔ اس نظم میں اقبال نے زیرکی اور عشق کی جو اصطلاحیں استعمال ک ہیں وہ عارف رومی کے اس شعر سے اخذ کردہ ہیں :

می شناسد ہر کہ از سر محرم است

زیرکی ز ابلیس و عشق از آدم است

وہ روحانیت جو زندگی میں تخلیقی اور انقلابی قوتیں پیدا کرتی ہے اقبال اسے عشق کہتا ہے اور وہ عقلیت جو عشق سے معرا ہواسے محض زیرکی قرار دیتا ہے۔ عقل زندگی کا ایک بیش بہا جوہر ہے لیکن زندگی کے بلند نصب العینوں سے بیگانہ ہو کر ہو بے قیمت رہ جاتا ہے۔ بلکہ مفید ہونے کی بجائے مضر ہو جاتا ہے۔ تمام ادیان عالیہ مشرق ہی میں پیدا ہوئے اس لیے اقبال مسلمانوں کے ساتھ ساتھ تمام اہل مشرق کو روحانیت کا وارث گردانتا ہے اور کہیں کہیں روح اسلام کی بجائے روح شرق کی اصطلاح بھی استعمال کرتا ہے۔ صرف عقل ہی عشق سے بے تعلق ہو کر بے کار نہیں ہو جاتی بلکہ عشق کی بھی یہ حالت ہے کہ اگر وہ عقل کو اپنا معاون اور شریک کار نہ بنائے تو وہ کوئی بھی اچھا نتیجہ پیدا نہیں کر سکتا۔ خالی عشق میں مست صوفی اور راہب انسانی زندگی کو آگے بڑھانے میں خاص کامیابی حاصل نہ کرسکے۔ مشرق نے عشق الٰہی میں غوطے لگائے اور مغرب نے ساری کائنات کے رموز کا انکشاف کیا۔ انسانیت کی تکمیل تبھی ہو سکتی ہے جب عشق و زیرکی کی آمیزش سے اکسیر حیات حاصل ہو:

سعید حلیم پاشا

شرق و غرب

غربیاں را زیرکی ساز حیات

شرقیاں را عشق راز کائنات

زیرکی از عشق گردد حق شناس

کار عشق از زیرکی محکم اساس

عشق چوں با زیرکی ہم بر شود

نقشبند عالم دیگر شود

خیز و نقش عالم دیگر بنہ

عشق را با زیرکی آمیز دہ

شعلہ افرنگیاں نم خوردہ ایست

چشم شاں صاحب نظر دل مردہ ایست

زخمہا خوردند از شمشیر خویش

بسمل افتادند چوں نخچیر خویش

سوز  ومستی را مجو از تاک شاں

عصر دیگر نیست در افلاک شاں

زندگی را سوز و ساز از نار تست

عالم نو آفرین کار تست

اس کے بعدافسوس کیا ہے کہ مصطفی کمال جو تجدید کا آرزو مند تھا اور رسوم و قیود کہن سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتا تھا اس نے حقیقی تجدید کی بجائے تقلید فرنگ کو اپنا شیوہ بنا لیا اور وہ باتیں بھی اختیار کرنے لگا جن سے خود فرنگ تلخ تجربوں کے بعد بیزار ہو چکا ہے۔ کعبے میں گھسے ہوئے پرانے مشرقی بتوں کو نکال کر مغرب سے آوردہ لات و منات کو اس میں متمکن کرنا کوئی تجدید نہیں محض تبدیلی اصنام سے اتاترک عشق اسلامی کے ساتھ اگر فرنگ عقل کی آمیزش کرتا ہے تو ایک جہان نو پیدا کر سکتا تھا:

مصطفی کو از تجدد می سرود

گفت نقش کہنہ را باید زدود

نو نگردود کعبہ را رخت حیات

گر ز افرنگ آیدش لات و منات

ترک را آہنگ نو در چنگ نیست

تازہ اش جز کہنہ افرنگ نیست

سینہ اور را مے دیگر نبود

در ضمیرش عالمے دیگر نبود

لا جرم با عالم موجود ساخت

مثل موم از سوز ایں عالم گداخت

طرفگی ہا در نہاد کائنات

نیست از تقلید تقویم حیات

زندہ دل خلاق اعصار و دہور

جانش از تقلید گردد بے حضور

چون مسلمانان اگر داری جگر

در ضمیر خویش و در قرآں نگر

صد جہان تازہ در آیات اوست

عصر با پیچیدہ در آنات اوست

یک جہانش عصر حاضر را بس است

گیر اگر در سینہ دل معنی رس است

بندہ مومن ز آیات خداست

ہر جہاں بر او چوں قباست

چوں کہن گردد جہانے در برش

می دہد قرآں جہانے دیگرش

اس کے بعد ’’زندہ رود‘‘ پوچھتا ہے کہ وہ جہان  دیگر جو قرآن پیدا کر سکتا ہے اس کا نمونہ تو مجھے کہیں مشرق و مغرب میں نظر نہیں آتا۔ اس کا جواب جمال الدین افغانی دیتے ہیں کہ وہ عالم ابھی سینہ مومن میں گم ہے۔ اس عالم میں نوع انسان کے خون و رنگ اور وطنیت کی تفریق فساد انگیز نہ ہو گی۔ ایک عالم گیر اخوت تمام عالم کی شیرازہ بند ہو گی۔ اس میں اس طرف سلاطین اور امرا اور دوسری طرف غلام نظر نہ آئیں گے۔ یہ عالم اسی انداز کا ہو گا جس کا تخم نبی صلعم کی نظر کیمیا اثر نے عمر فاروقؓ جیسے انقلاب آفریں انسان کی جان میں بو دیا تھا۔ یہی تخم اب کسی اور کی جان میں پڑ جائے تو وہ انقلاب سے ایک اور عالم پیدا کر دے۔ قرآن کے پیش نظر جو آدم ہے وہ کسی خاص نسل کاانسان نہیں ہے۔ نور الٰہی کی طرح وہ لاشرقیہ و لا غربیہ ہے۔ یہ وہ آدم ہے جس کے اندر کونین سما جاتے ہیں لیکن وہ کسی عالم کے اندر نہیں سما سکتا۔ اس کی رسائی وہاں تک ہے جہاں جبریل بھی بار نہ پا سکے۔ اسی آدم کی آفرینش اور اسی آدم کا احترام مقصود حیات ہے۔ اصل حکمت اور اچھی تعلیم و تہذیب وہی ہے جو اس قسم کے انسان کی آفرینش میں معاون ہو جب اس قسم کی آدمیت ظہور میں آئے گی تو اس  میں مردو  زن دونوں کا وقار قائم ہو گا۔ اس عالم میں کوئی شخص عورت کو حقیر اور ادنیٰ نہ سمجھے گا عورت اس معاشرے میں آتش زندگی کی نگہبان اور اسرار حیات کی محافظ ہو گی۔ عورت کی قدسیت یہ ہے کہ وہ نقش بند حیات ہے۔ عشق و حکمت کی آمیزش سے انسان اور زیادہ خلاق ہو جائے گا۔ اس کا علم لذت تحقیق ہے اور اس کا عشق لذت تخلیق سے بہرہ اندوز ہو گا۔ انسان کائنات میں نیابت الٰہی کے لیے پیدا کیا گیا ہے۔ جب تک انسان میں صفات و اخلاق الہیہ پیدا نہ ہوں تب تک وہ کائنات میں حاکم نہیں بلکہ محکوم رہے گا۔ نصب العینی تہذیب میں وہ جھوٹی مساوات نہیں ہو گی جو مغربی جمہوریت نے پیدا ک ہے۔ نصب العینی تہذیب میں عورتیں مائیں بننے سے گریز نہ کریں گی۔ جو صوت ہ تہذیب فرنگ میں پیدا ہو گئی ہے۔ یہ کیفیت سرمایہ داری اور ذاتی ملکیت کا اثر مسموم ہے۔ نصب العینی انسان زمین کی ملکیت کے لیے ایک دوسرے کی گردنیں نہیں کاٹیں گ۔ تمام ارض ملک خدا ہو گی۔ اگر کوئی پوچھے کہ ایسی تہذیب کا کہیں وجود بھی ہے یا اس کا کچھ امکان بھی ہے تو اس کا جواب عارف رومی کی زبان میں یہ ہو سکتا ہے:

گفتم کہ یافت می نشود جستہ ایم ما

گفت آں کہ یافت مے نشود آنم آرزوست

نصب العین کاکام زندگی کی سمت اور ارتقاء کے رخت کو معین کرنا ہے۔ کسی ایک  صورت مین اس کا تمام کمال تحقیق لازمی نہیں۔ جس طرح اقبال ایک نصب العینی تہذیب کا نقشہ کھینچتا ہے اسی طرح کوئی اڑھائی ہزار سال قبل سقراط نے جمہوریہ افلاطون میں بڑی بحث و تمحیص کے بعد مملکت اور ملت کا ایک نصب  العینی خاکا پیش کیا تھا۔ آخر میں ایک مخاطب نے سوال کیا ہے کہ ایسی مملکت کہاں سے ہے یا کیسے معرض وجود میں آ سکتی ہے سقراط نے اس کا جواب یہ دیا کہ خدا کے ہاں عادلانہ مملکت کا یہی خاکا ہے جو لوح محفوظ پر ثبت ہے۔ انسانی مملکتیں اسے سامنے رکھ کر عدل کی کوشش کریں۔ اقبال نے جو مرد مومن کے صفات جا بجا بیان کیے ہیں وہ بھی یکجا تو کسی ایک انسان میں نظر نہیں آتے۔ وہ بھی ایک نصب العینی نقشہ اور معیار کمال ہے مومن بننے کی کوشش میں ان میں جتنے صفات کو کوئی اپنا سکے اپنا لے۔ نصب العینی تہذیب کے متعلق جمال الدین افغانی کی زبان سے جاوید نامہ میں اقبال نے جو کچھ کہا ہے اس میں سے چند اشعار درج ذیل ہیں :

عالمے در سینہ ما گم ہنوز

عالمے در انتظار قم ہنوز

عالمے بے امتیاز خون و رنگ

شام اور روشن تر از صبح فرنگ

عالمے پاک از سلاطین و عبید

چوں دل مومن کرانش ناپدید

عالمے رعنا کہ فیض یک نظر

تخم او فگند در جان عمرؓ

لا یزال و وارداتش نو بنو

برگ و بار محکماتش نو بنو

باطن او از تغیر بے غمے

ظاہر او انقلاب ہر دمے

اندرون تست آں عالم نگر

می دہم از ممکنات او خبر

درد دو عالم ہر کچا آثار عشق

ابن آدم سرے از اسرار عشق

سر عشقاز عالم ارحام نیست

او ز سام و حام و روم و شام نیست

کوکب بے شرق و غرب و بے غروب

در مدارش نے شمال و نے جنوب

آنچہ در آدم بگجند عالم است

آنچہ در عالم نگنجد آدم است

٭٭٭

زندگی اے زندہ دل دانی کہ چیست؟

عشق یک بین در تماشائے دوئی است

مرد و زن وابستہ یک دیگراند

کائنات شوق را صورت گر اند

زن نگہ دارندہ نار حیات

فطرت او لوح اسرار حیات

آتش مارا بجان خود زند

جوہر او خاک را آدم کند

ارج ما از ارجمندی ہائے او

ما ہمہ از نقش بندیہائے او

ذوق تخلیق آتشے اندر بدن

از فروغ او فروغ انجمن

٭٭٭

عل و ہم شوق از مقامات حیات

ہر دومی گیرد نصیب از واردات

علم از تحقیق لذت می برد

عشق از تخلیق لذت می برد

٭٭٭

بندہ حق بے نیاز از ہر مقام

نے غلام و رانہ او کس را غلام

بندہ حق مرد آزاد است و بس

ملک و آئینش خدا داد ست و بس

٭٭٭

عقل خود بیں غافل از بہبود غیر

سود خود بیند نہ بیند سو غیر

وحی حق بینندہ سود ہمہ

در نگاہش سود و بہبود ہمہ

٭٭٭

وائے بر دستور جمہور فرنگ

مردہ تر شد مردہ از صور فرنگ

حقہ بازاں چو سپہر گرد گرد

از امم بر تختہ خود چیدہ نرد

شاطراں ایں گنج ور آں رنج بر

ہر زماں اندر کمین یک دگر

فاش باید گفت سر دلبراں

ما متاع و ایں ہمہ سوداگراں

گرچہ دارد شیوہ ہائے رنگ رنگ

من بجز عبرت نہ گیرم از فرنگ

سر گزشت آدم اندر شرق وغرب

بہر خاکے فتنہ ہاے حرب و ضرب

حق زمین راجز متاع ما نگفت

ایں متاع بے بہا مفت است مفت

وہ خدایا! نکتہ از من پذیر

رزو و گور ازوے بگیر اورامگیر

گفت حکمت را خدا خیر کثیر

ہر کجا ایں خیر رابینی بگیر

علم و حرف و صوت راشہپر دہد

پاکی گوہر بہ ناگوہر دہد

نسخہ او نسخہ تفسیر کل

بستہ تدبیر او تقدیر کل

دل اگر بندد بہ حق پیغمبری است

ور زحق بیگانہ گردد کافری است

علم را بے سوز دل خوانی شر است

نور او تاریکی بحر و بر است

٭٭٭

سینہ افرنگ را نارے ازوست

لذب شب خون و یلغارے اوست

سیر واژونے دہد ایام را

می برد سرمایہ اقوام را

قوتش ابلیس را یارے شود

نور نار از صحبت نارے شود

کشتن ابلیس کارے مشکل است

زانکہ او گم اندر اعماق دل است

خوشتر آں باشد مسلمانش کنی

کشتہ شمشیر قرآنش کنی

٭٭٭

 

 

 

 

 

آٹھواں باب

 

اشتراکیت

 

 

جسے جدید مغربی تہذیب و تمدن کہتے ہیں اس کا ارتقاء ازمنہ متوسط کے اختتام پر نشاۃ جدید سے ہوا اس کے بعد سے رفتہ رفتہ مختلف اقسام کے استبداد سے نجات حاصل کرنے کی جدوجہد جاری رہی معاشی زندگی میں تاجروں نے جاگیرداری کی قوت کو توڑا اور پروٹسٹٹنزم نے مذہبی فکر میں آزادی کو ترقی دی۔ اٹھارویں صدی میں جسے انلائٹن منٹ یا دور تنویر کہتے ہیں مذہب فلسفہ سیاست اور معیشت کے اہم مسائل آزادانہ طور پر حل کرنے کی کوشش کی گئی۔ گروٹیس والٹیر، روسو، ہیوم، اور کانٹ کی ان کوششوں کا یہ نتیجہ نکلا کہ انسان کے بنیادی حقوق کسی قدر وضاحت سے معین ہو گئے۔ پہلے امریکہ میں اور اس کے تھوڑے ہی عرصے بعد انقلاب فرانس میں عوام نے جابر حکومتوں بے رحم سرمایہ داروں اور جاگیر داروں کے خلاف دستور حکومت اور عدالت کے بارے میں بہت کچھ مساوات حاصل کر لی۔ اسی زمانے میں طبیعی علوم نے غیر معمولی ترقی کی اور صنعت پر ان کے اطلاق نے وسیع کارخانہ داری کو جنم دیا۔ اقوام مغربی میں خاص و عام کے دلوں میں یہ قوی امید پیدا ہو گئی کہ اب شاہی مطلق العنانی نہ رہے گی ہر جگہ دستوری حکومت ہو گی۔ تجارت اور صنعت پر سے رکاوٹیں ہٹ جائیں گی۔ مملکت کو کلیسا سے بے تعلق کرنے کی وجہ سے مذہبی استبداد ختم ہو جائے گا۔ اس ترقی کے دستور کچھ عرصے تک جار ی رہنے کی بدولت امن قائم ہو جائے گا اور زندگی کی نعمتیں وافر اور عام ہو کر غریبوں کے کلبہ احزان کو بھی جنت ارضی میں بدل دیں گی۔ لیکن یہ سہانا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوا۔ جاگیرداروں کے بعد تاجروں کا دور دورہ آیا اور تاجروں کے بعد قومی دولت کارخانہ داروں اور سرمایہ داروں کے ہاتھوں میں مرتکز ہونے لگی۔ وہ کاشتکار جنہوں نے جاگیرداروں اور بڑے بڑے زمینداروں کے پنجہ آہنیں سے نجات پائی تھی وہ زمینوں کو چھوڑ کر کارخانوں میں مزدور بن کر روز افزوں تعداد میں بھرتی ہوتے گئے۔ ایک قسم کی غلامی کے مقابلے میں بد تر اور انسانیت کش ثابت ہوئی۔ صنعتی انقلاب کی ابتدا انگلستان میں ہوئی۔ کارخانہ داروں کی بے دردی اور ظالمانہ زر اندوزی نے مزدوروں کے ساتھ جو برتاؤ کیا اس کو پڑھ کر بدن پر رونگٹے کھڑے ہوتے ہیں۔ عورتوں اور بچوں سے سوا سولہ گھنٹے تک مسلسل کام لیا جاتا تھا۔ ان کی رہائش کا کوئی انتظام نہ تھا۔ دھڑا دھڑ بیمار ہوتے اور بے علاج مرتے تھے۔ کارخانہ داروں کو اس کی کچھ پروا نہ تھی۔ بیماروں کو مالکان کارخانہ برخاست کر دیتے تھے۔ اور مرنے والوں کی جگہ لینے والے اور ہزاروں مل جاتے تھے انگلستان کے بعد فرانس اور جرمنی یورپ کے دیگر ممالک میں بھی جدید صنعتوں کی کارخانہ داری آتی گئی اور وہاں بھی وہی صورت حال پیدا ہوئی جو انگلستان میں خلق خدا کے لیے تباہی کا باعث ہوئی تھی۔ انسان دوست مصلحین نے اس کے خلاف شور سے احتجاج بلند کیا لیکن نقار خانوں میں طوطی کی آواز کسی نے نہ سنی جا بجا سوشلزم اور کہیں کمیونزم کی تحریکیں شروع ہوئیں۔ لیکن تمام ممالک کی حکومتیں ان میں حصہ لینے والوں کو مسفد اور باغی قرار دے کر ان کی سرکوبی میں کوشاں رہیں۔ پیرس میں اشتراکیوں نے اپنی حکومت قائم کر لی اور لیکن بہت جلد سے فنا کر دیا گیا۔ ایک المانوی یہودی کارل مارکس نے انگلستان میں سکونت اختیار کر کے کارخانہ داری زمینداری اور سرمایہ داری کے خلاف ایک مبسوط تحقیقی تصنیف مرتب کی جس کا نام ہی ڈاس کاپیٹل یعنی سرمایہ ہے۔ اس کتاب کو اشتراکیت کا صحیفہ گردانا جاتا ہے۔ اس کتاب کے مضمون کا لب لبا ب یہ ہے کہ کارخانہ داری زمینداری اور سرمایہ داری چوری اور ڈاکے کی قسمیں ہیں۔ ان کامدار مزدوروں اور کسانوں کا خون چوسنے پر ہے۔ جدید صنعتی سرمایہ داری میں رفتہ رفتہ یہ ہو گا کہ سرمایہ چند ہاتھوں میں مرتکز ہو جائے گا اور باقی تمام خلق خدا پر پرولیتار یہ بن جائے گی جو مطلقاً بے گھر اور بے زر ہو گی۔ مزدوروں کا گروہ ان کا محتاج اور بے بس ہو گا۔ جو غلامی اور جاگیرداری کے زمانے میں بھی نہ تھا۔ کارخانوں میں زیادہ سے زیادہ تعداد میں ہزاروں لاکھوں مزدوروں کا اجتماع ہو گا جو محتاجی اور بے بسی کے اسفل السافلین میں پہنچ کر متحد ہو کر آمادہ بغاوت ہوں گے۔ شروع میں حکومتیں جو سرمایہ داروں کے ہاتھوں میں ہوں گی ان کی سرکوبی کریں گی لیکن یہ سیلات آخر کناروں کو توڑ ڈالے گا۔

مغرب میں حکما اور مصلحین کی کوششوں سے جو جمہوری حکومتیں قائم ہوئیں ان پر بھی عوام کو دھوکا دے کر سرمایہ دار قابض ہو گئے پہلی حکومتوں میں اقتدار سلاطین اور جاگیر داروں کے ہاتھ میں تھا اب سرمایہ دار حکومتوں میں امیر وزیر و مشیر ہو گئے اور کوئی قانون ایسا وضع نہ ہو سکتا تھا جس سے ان کی نفع اندوزی پر زد پڑتی ہے۔ ایسی حالت میں یہ آواز بلند ہوئی کہ کوئی انقلاب تشدد کے بغیر پیدا نہ ہو سکے گا۔ تمام محنت کشوں کو متحد ہو کر بغاوت کرنی چاہیے تاکہ وہ تمام جانداروں اور کارخانوں پر قابض ہو جائیں۔

اشتراکیت آغاز میں ایک اقتصادی یا معاشرتی نظریے اور حصول حقوق کے لیے ایک لائحہ عمل تھا لیکن کارل مارکس اس کے رفیق کار انکل اور بعض دیگر اہل فکر نے اس کی تعمیر مضبوط کرنے کے لیے حیات و کائنات کی ایک ہمہ گیر نظریاتی اساس قائم کر دی جس نے اشتراکیوں کے نزدیک پہلے تمام ادیان اور ان کے فلسفوں کو منسوخ کر کے ان کی جگہ لی اس نظریہ حیات نے دین اور اخلاق کے متعلق یہ عقیدہ پیش کیا کہ تمام پہلی تہذیبوں اور تمدنوں کا قیام طبقاتی نفوق کا رہین منت تھا اور اپنی تعلیم کا زیادہ تر مصرف یہ تھا کہ استحصال بالجبر پر الٰہیاتی مہر لگا کر محتاجوں کو اس پر راضی کر ے کہ وہ خوشی سے اس کو قبول کر لیں منعمون سے کچھ رشک و حد نہ برتیں کیوں کہ یہ دنیا چند روز اور اس کی نعمتیں ناپائدار ہیں۔ آخرت میں ابدی جنت اور اس  کی مسرتیں سب ان محتاجوں کے لیے وقف ہیں جنہیں ہم اس دنیائے دوں میں کچھ حاصل نہیں ہوا۔ اخلاق میں صبر و قناعت، توکل اور تسلیم و رضا کو اعلیٰ اخلاقی اور روحانی اقدار قرار دے کر سلاطین اور امرا کے لیے حفاظت کا سامان پیدا کر دیا ہے۔ اشتراکیت نے تاریخ عالم پر نظر ڈال کر اس کا ثبوت پیش کیا کہ مذہبی پیشواؤں نے معاشی لوٹ کھسوٹ کے خلاف کبھی آواز بلند نہیں کی بعض قدیم اور جدید مذاہب فلسفہ بھی عوام کو انسانی اور مساواتی حقوق عطار کرنے کے خلاف تھے۔ جمہوریہ افلاطون میں عوام کو امور سلطنت میں حصہ لینے کی اجازت نہیں مشرق میں بھی حکمت عملی کا یہی تقاضا بن گیا تھا کہ رموز مملکت خویش خسروان دانند مگر یہ رموز غریب کشی کے سوا کچھ نہ تھے۔

اشتراکیت کے سر اٹھانے سے قبل ہی مغرب کے سائنسدانوں اور اہل فکر کے نزدیک مذہبی عقائد کے بہت کچھ دفتر پارینہ بن چکے تھے۔ اور عملاً بھی زندگی پر مادیت طاری ہو رہی تھی۔ اشتراکیت انہی میلانات کی پیداوار ہے۔ اشتراکیت نے الحاد اور مادیت کو یکجا کر دیا اور عوام کی حقوق طلبی میں اور شدت پیدا کر دی۔ اشتراکیت نے پہلی روحانیت قدیم اخلاقیت قدیم معاشرت قدیم سیاست، قدیم معاشیات  سب کے خلاف بیک وقت بغاوت کا علم بلندکیا۔ اس نے کہا کہ تدریجی اصلاحات کی تلقین بھی سرمایہ داروں کی ایک چال ہے۔ ایک ہمہ گیر انقلاب کے سوا چارہ نہیں جو حیات اجتماعی کے تمام قدیم ڈھانچوں کا قلع قمع کر دے۔

علامہ اقبال جب تک یورپ میں تھے سوشلسٹوں اور کمیونسٹوں کے گروہ جا بجا مصروف کار تھے لیکن ان کو کہیں اقتدار حاصل نہ تھا۔ اشتراکیوں کو پہلی زبردست کامیابی روس میں ہوئی۔ پہلی جنگ عظیم میں روس کا اندرونی معاشی اور سیاسی شیرازہ بکھر گیا تو کمیونسٹوں کے ایک گروہ نے لینن کی قیادت میں حکومت پر قبضہ کر کے اپنے پروگرام پر عمل درآمد شروع کیا۔ یورپ کی سرمایہ دارانہ حکومتوں نے ان کو کچلنے کی بہت کوشش کی لیکن ان کو کامیابی نہ ہوئی۔ روس کا علاقہ کرہ ارض کا پانچواں حصہ ہے۔ اس وسیع خطے میں جہاں نہ انسانوں کی تعداد قلیل ہے اور نہ فطرت کے مادی ذرائع کی کمی ہے زندگی کے تمام شعبوں میں نئے تجربے ہونے لگے۔ کوئی ادارہ اپنی پہلی حالت پر قائم نہ رہا۔ دنیا کے ہر سیاستدان اور ہر مفکر کو اس نئے تجربے کا جائزہ لینا پڑا اور تمام دنیا میں ہر سوچنے والا اس پر مجبور ہو گیا کہ وہ اس انقلابی نظریہ حیات اور انداز معیشت کے متعلق موافق یا مخالف خیالات کا اظہار کرے۔ شخصی ملکیت کے طرفداروں اور مذہب کے حامیوں نے اس کو خطرہ عظیم  سمجھا کیوں کہ اس کی کامیابی سے ان کا صفایا ہوتا ہوا نظر آتا تھا۔

اقبال نے مذہب و تہذیب کے تمام مسائل کو اپنا موضوع سخن بنایا تو یہ لازم تھا کہ اشتراکیت کے فطری اور عملی پہلوؤں پر غور کر کے اپنے نتائج فکری سے ملت کو آگاہ کرے۔ سب سے پہلے پیام مشرق میں اس نے رائے زنی شروع کی۔ ہم اس سے پہلے لکھ چکے ہیں کہ اقبال طبعاً انقلاب پسند تھا اس لیے یہ ضروری تھا کہ اس انقلاب عظیم کو اچھی طرح پرکھنے اور اس کے تعمیری اور تخریبی پہلو اور اس کے ایجابی و سلبی حیثیتوں کا موازنہ اور مقابلہ کرے۔

پیام مشرق میں اس موضوع کی تین نظمیں ہیں۔ پہلی نظم کا عنوان ہے ’’محاورہ بین حکیم فرانسی آگسٹس کومٹ و مرد مزدور‘‘ (فرانسیسی زبان میں اس فلسفی کا تلفظ کونت ہے۔ اقبال نے انگریزی تلفظ کے مطابق اس کو کومٹ لکھا ہے )۔

کونت، جون اسٹیورٹ، ہربرٹ سپنسر اور ڈارون وغیرہ کا معاصر ہے۔ اس کے فلسفے کو پورزیٹوزم یا ایجایبت کہتے ہیں۔ اس کے فلسفے کا لب لباب یہ ہے کہ انسانی تفکر مذہب اور مابعد الطبیعیات سے گزر کر محسوس کی طرف آ گیا ہے اوری اس کی ترقی کی آخری منزل ہے۔ انسان کو مذہب کی ضرورت ہے اس لیے ان دیوتاؤں اور ایک خدا اور آخرت کو چھوڑ کر انسانیت کو دین بنا دینا چاہیے۔ دنیا میں جو عظیم الشان انسان گزرے ہیں ان کی پرستش کے دن مقرر کر لینے چاہٍئیں۔ چنانچہ اس نے ایک کیلنڈر(جنتری) بھی بنایا تھا جس میں سال کا ہر دن کسی بڑے انسان کی یاد کا دن تھا۔ تمام نوع انسان کو ایک نفس واحد اور مختلف اعضا کا ایک جسم تصور کرنا چاہیے۔ جس طرح جسم انسانی میں ہر عضو کا ایک مخصوص وظیفہ ہے۔ اسی طرح معیشت کے کاروبار میں بھی فطری تقسیم کار ہے۔ بعض لو گ کارندے ہیں اور بعض کارفرما کوئی دماغ سے کام لیتا ہے اور کوئی ہاتھ پاؤں ہلا کر محنت مزدوری کرتا ہے۔ یہ تعلیم تہذیب و تمدن کے معاصرانہ ڈھانچے کو درست قرار دیتی ہے لیکن اقبال کے نزدیک یہ محنت کشوں کو دھوکا دینے والی بات ہے۔ کونت فلسفی سعدی کا ہم زباں ہو کر کہتا ہے:

بنی آدم اعضائے یک دیگر اند

ہماں نخل را شاخ و برگ و براند

مگر کونت کے نزدیک یہ نوع انسان کسی غیر مرئی خدا کی آفرینش نہیں ہے۔ بلکہ اپنی فطرت کی پیداوار ہے جو ہمارے گرد و پیش موجود ہے۔ فطرت نے تقسیم کار میں دماغ کو سوچنے کے لیے اور پاؤں کو چلنے کے لیے بنایا ہے۔ انسانوں میں جو تفاوت ہے وہ بھی فطری ہے۔ یہ تفاوت حسد اور کش مکش کا باعث نہیں ہونا چاہیے!

دماغ ار خرد زاست از فطرت است

اگر پا زمیں ساست از فطرت استر

یکے کار فرما یکے کار ساز

نیاید ز محمود کار ایاز

نہ بینی کہ از قسمت کار زیست

سراپا چمن می شود خار زیست

اس کے جواب میں مزدور کہتا ہے کہ حضرت کیوں حکمت کے پردے میں ہمیں دھوکا دے رہے ہو کہ یہ تفاوت فطری ہے اس لیے اس کو برقرار رہنا چاہیے۔ یہ ہمارے کارفرما اور سرمایہ اندوز انسانیت کا کوئی صحت مند عضو نہیں یہ تو چور ہیں۔ آپ کی عقل پر افسوس ہے کہ آپ نے چوروں کی حمایت کو حکمت کا لباس پہنایا ہے۔ (یہ خیال اقبال کو فرانس کے مشہور سوشلسٹ پرودھون نے سمجھایا جس کا مقولہ مشہور ہے کہ شخصی ملکیت چوری ہے)۔

فریبی بحکمت مرا اے حکیم

کہ نتواں شکست ایں طلسم قدیم

مس خام را از زر اندودہ

مرا خوئے تسلیم فرمودہ

کوہ کن کو یہ تلقین کرنا کہ پہاڑ کاٹ کر پرویز اور اس کی محبوبہ کے لیے جوئے شیر لاؤ اور اسے اپنا طری وظیفہ حیات سمجھو یہ  کہاں کی حکمت اور عدالت ہے ؟ مزدور حکیم کونت سے شاکی ہے کہ:

کند بحر را آبنایم اسیر

زخارا برد تیشہ ام جوئے شیر

حق کوہ کن دادی اے نکتہ سنج

بہ پرویز پرکار و نابردہ رنج

یہ سرمایہ دار جنہیں مفت خوری اور خواب خوش کے سوا کوئی کام نہیں یہ تو زمین کا بوجھ ہیں اور چور ہیں :

بدوش زمیں بار سرمایہ دار

ندارد گزشت از خور و خواب کار

جہاں راست بہروزی از دست مزد

ندانی کہ ایں ہیچ کار است دزد

مرد حکیم ہونے کے باوجود تم نے ایسا دھوکا کھایا ہے کہ ایسے مجرموں کے لیے عذر تراش رہے ہو:

پے جرم او پوزش آوردہ

بایں عقل و دانش فسوں خوردہ

پیام مشرق میں ہی کونت اور مزدور کے مکالمے کے چند صفحات بعد موسس اشتراکیت روسیہ موسیو لینن اور المانوی ملوکیت کے آخری نمائندے قیصر ولیم نے سیاست و معیشت کے اس انقلاب کے بارے میں اپنا اپنا زاویہ نگاہ پیش کیا ہے لینن کہتا ہے کہ عرصہ دراز سے انسان بھاری چکی کے دو پاٹوں کے درمیان پس رہا ہے۔ ایک طرف انسانیت کا خون چوسنے والی اور اس کو غلام بنانے والی ملوکیت ہے اوردوسری طرف کلیسا اور حامیان دین کا استبداد۔ خواجہ کی قبا محنت کشوں کے خون میں رنگی ہوئی ہے۔ بھوکے غلاموں نے آخر تنگ آمد بجنگ آمد پر عمل کر کے اس قبال کو چاک کر کے سرمایہ داروں کو ننگا کر دیا ہے۔ عوام و جمہور کی بھڑکائی ہوئی آگ نے ردائے پیر کلیسا اور قبائے سلطانی کو جلا کر راکھ کر دیا ہے۔ قیصر ولیم اس کے جواب میں کہتا ہے کہ غلامی تو سلطانی اور سرمایہ داری کی پیداوار نہیں یہ تو ایک نفسی چیز ہے عوام میں اکثر کی فطرت ہی غلامانہ ہوتی ہے جو مالکوں اور معبودوں کی تلاش میں رہتی ہے۔ جس طرح بعض ظالم اقتدار پسند لوگ غلاموں کی جستجو میں ہوتے ہیں اسی طرح بعض بندگی کیش فطری غلام انسانوں میں یا دیوتاؤں میں معبودوں کو ڈھونڈتے ہیں۔ ایسے دوں فطرت لوگ پرانے دیوتاؤں سے بے نیاز ہوتے ہیں تو نئے دیوتا تراش لیتے ہیں۔ تم کہتے ہو کہ اب اقتدار اور سلطانی جمہور کے قبضے میں آ گئی ہے۔ دیکھنا یہی لوگ ایک جدید انداز کا ظلم و استبداد پیدا کریں گے۔ اور انسانیت پھر سوخت ہو جائے گی۔ جب تک بعض انسانوں کے سینوں میں ہوس اور جذبہ اقتدار موجود ہے کوئی انقلاب خواجہ و غلام کے تفاوت کو نہیں مٹا سکتا۔ اگر بادشاہی نہ رہی تو مزدوروں میں سے اپنی نوع پر ظلم و جبر کرنے والے نمودار ہو جائیں گے۔ اسی سے ملتی جگی بات نپولین نے کہی تھی کہ انقلاب فرانس کے نتیجے کے طور پر جاگیرداروں کا تو خاتمہ ہو جائے گا۔ لیکن اس کی جگہ تاجر اور سرمایہ دار بورژوا لے لیں گے۔ یہ بات وہیں کی وہیں رہے گی۔

موسیو لینن

بے گذشت کہ آدم دریں سرائے کہن

مثال دانہ تہ سنگ آسیا بود است

فریب زاری و افسوں قیصری خورد است

اسیر حلقہ دام کلیسا بود است

غلام گرسنہ دیدی کہ بردرید آخر

قمیص خواجہ کہ رنگین ز خون ما بود است

شرار آتش جمہور کہنہ سامان سوخت

ردائے پیر کلیسا قبائے سلطاں سوخت

قیصر ولیم

گناہ عشوہ و ناز بتاں چیست

طواف اندر سرشت برہمن ہست

دما دم نو خداوندان تراشد

کہ یزار از خدایان کہن ہست

زجور رہرتاں کم گو کہ رہرو

متاع خویش را خود راہزن ہست

اگر تاج کئی جمہور پوشد

ہماں ہنگامہ ہا در انجمن ہست

ہوس اندر دل آدم نہ میرد

ہماں آتش میان مرزغن ہست

عروس اقتدار سحر فن را

ہماں پیچاک زلف پر شکن ہست

نماند ناز شیریں بے خریدار

اگر خسرو نباشد کوہکن ہست

پیام مشرق کے آخر میں دو اور نظمیں اسی موضوع کی ہیں جن کے اندر سرمایہ دار کے ظلم و مکر اور امروز کی بے بسی کا نقشہ کھینچا ہے۔ قسمت نامہ سرمایہ دار مزدور پر اقبال نے جو اشعار کہے ہیں وہ اسے فارسی کے اس شعر نے سمجھائے ہیں :

از صحن خانہ بہ لب بام ازان من

جوز بام تا بہ اوج ثریا ازان تو

دو بھائیوں کے مرحوم باپ کی جائداد کا ترکہ فقط ان کا رہائشی مکان تھا۔ اس کو دو مساوی حصوں میں تقسیم کرنا تھا۔ ایک بھائی مکار اور چالاک تھا اور دوسرا صلح پسند۔ مکار نے کہا کہ میں تو قانع آدمی ہوں اور سنگ و خشت کی ہوس نہیں رکھتا۔ صحن خانہ سے لے کر کوٹھے کی چھت تک مکان کا جو حصہ ہے وہ مجھے دے دو اور مکان سے اوپر لب بام سے اوج ثریا تک جو لامتناہی فضا ہے وہ میں کمال ایثار سے برضا و رغبت تمہارے حوالے کرتا ہوں۔ سب مال و دولت اور اسباب زندگی خود لپیٹ لیے ہیں۔ مگر مزدور کو یہ دھوکا دیتا ہے کہ جو کچھ تمہارے لیے چھوڑا ہے و ہ  اس متاع ناپائدار سے افضل ہے۔ کارخانوں کا غوغا اور ان کے انتظامات اور فکر نفع و نقصان کی دوسری میرے لیے رہنے دو۔ اس کے مقابلے میں تسکین دین اور ارغنون کلیسا کا روح پرور نغمہ لطف اندوزی کیلیے تم لے لو۔ جن باغوں پر سلطنت نے ٹیکس لگا رکھا ہے ا کی ملکیت ایک مصیبت ہے۔ اس بلا کو میرے لیے چھوڑ دو اور آخرت کے باغ بہشت پر کوئی محصول نہیں وہ غریبوں کی عطیاتی جاگیر ہے۔ اسے میں تمہارے حوالے کرتا ہوں۔ بقول سعدی درویش ہی کو حقیقی فراغ حاصل ہے:

کس نیابد بخانہ درویش

کہ خراج زمین و باغ بدہ

یا بہ تشویش و غصہ راضی شو

یا جگر بند پیش زاغ بنہ

دنیا کی شرابیں خمار آور ہوتی ہیں َ جنت میں آدم و حوا کو جو شراب طہور ملتی تھی اس کی لذت اور سرور کے کیا کہنے؟ دنیا کی یہ خمار والی شراب میرے لیے رہنے دو اور تم اس سے بہتر شراب کے لیے تھوڑا انتظار کر لو۔ صبر تلخ معلوم ہو تو سمجھ لو کہ اس کا پھل میٹھا ہوتا ہے۔ مرغابیاں اور تیتر بٹیر مجھے کھانے دو اور تم ان پرندوں کی تاک میں لگے رہو جو اس دنیا میں نظر نہیں آتے۔ یہاں ایک شاعری کے ساقی نامے کی مطلع یاد آ گیا ہے:

امروز ساقیا مجھے عنقا شراب دے

شاہانہ ہے مزاج ہما کے کباب دے

یہ دنیائے دوں میرے لیے چھوڑ دو باقی عرش معلیٰ تک جو کچھ ہے وہ تمہارا مال ہے۔ اس ساری تنظیم کا مضمون ائمہ اشتراکیت کا یہ مقولہ ہے کہ مذہب محتاجوں کے لیے افیون ہے اور مسجد مندر اور کلیسا میں اسی افیون کے ڈھیر لگے ہیں :

قسمت نامہ سرمایہ دار و مزدور

غوغائے کار خانہ آہنگری زمن

گلبانگ ارغنون کلیسا ازان تو

نخلے کہ شہ خراج برومی نہد زمن

باغ بہشت و سدرہ و طوطا ازان تو

تلخابہ کہ درد سر آرد ازان من

صہبائے پاک آدم و حوا ازان تو

مرغانی و تدرو و کبوتر ازان من

ظل ہما و شہپر عنقا ازان تو

ایں خاک و آنچہ در شکم و ازان من

وز خاک تا بہ عرش معلا ازان تو

اسی کے ساتھ ایک دوری نظم نوائے مزدور ہے جو دنیا کے محنت کشوں کے لیے پیام انتقام ہے۔ کھدر پوش مزدور کہتا ہے کہ ہماری محنت کے سرمایے سے ناکردہ کار سرمایہ دار ریشمیں قبا پہنتے ہیں۔ ان کے لعل و گہر ہمارے خون کے قطرے اور ہمارے بچوں کے آنسو ہیں۔ کلیسا بھی ایک جونک ہے جو ہمارا خون چوس کر موٹی ہو رہی ہے۔ سلطنتیں ہمارے قوت بازو سے مضبوط ہوتی ہیں َ لیکن ان سے ہمیں کچھ حاصل نہیں۔ یہ تمام باغ و بہار ہمارے گریہ سحر اور خون جگر کی پیداوار ہے۔ آؤ ان تمام اداروں کے ساغروں میں ایک شیشہ گداز شراب انڈیل دیں آؤ اس چمن حیات میں ہمارے خون جگر سے لالہ و گل پیدا کرنے والوں سے انتقام لیں َ بے درد شمعوں کے طواف میں اپنے آ پ کو پروانہ وار سوخت کرنا ختم کر دیں اور اپنی خودی سے آگاہ ہو کر خود داری اور آزادی کی زندگی بسر کریں۔

ز مزد بندہ کرپاس پوش و محنت کش

نصیب خواجہ نا کردہ کار رخت حریر

ز خوئے فشانی من لعل خاتم والی

ز اشک کودک من گوہر ستام امیر

ز خون من چو زاد فربہی کلیسا را

بزور بازوئے من دست سلطنت ہمہ گیر

خرابہ رشک گلستان ز گریہ سحرم

شباب لالہ و گل از طراوت جگرم

بیا کہ تازہ نوا می تراود از رگ ساز

مے کہ شیشہ گدازد بہ ساغر اندازیم

مغان و دیر مغاں را نظام تازہ دہیم

بناے میکدہ ہائے کہن بر اندازیم

ز رہرتاں چمن انتقام لالہ کشیم

بہ بزم غنچہ و گل طرح دیگر اندازیم

بطوف شمع چو پروانہ زیستن تا کے

ز خویش ایں ہمہ بیگانہ زیستن تا کے

اقبال کی ایک رباعی کا مضمون بھی اسی مقطع کے مضمون سے مماثل ہے۔ اپنی زندگی کو دوسروں کے استحصال ناجائز میں وقف کر دینا تضیع حیات ہے:

گل گفت کہ عیش نو بہارے خوشتر

یک صبح چمن ز روزگارے خوشتر

زاں پیش کہ کس ترا بہ دستار زند

مردن بکنار شاخسارے خوشتر

اشتراکیت کی تعلیم کا ایک بڑا اہم جزومسئلہ ملکیت زمین ہے۔ اس بارے میں ہر قسم کے سوشلسٹ بھی کمیونسٹوں کے ہم خیال ہیں کہ سرمایہ داری اور محنت کشوں سے ناجائز فائدہ حاصل کرنے کی یہ بدترین صورت ہے جس کے جواب کا از روئے انصاف کوئی پہلو نہیں نکلتا۔ اقبال جیسے مسلم سوشلسٹ کہنا چاہیے کہ ہر قسم کی سوشلزم اور کمیونزم سے اس مسئلے پر اتفاق رائے رکھتا ہے کہ زمین خاکی پیدا کی ہوئی ہے اور اس کی حیثیت ہوا اور پانی ک سی ہے جس پر کسی کی کوئی شخصی ملکیت نہیں۔ یہ درست ہے کہ زمین انسان کی محنت کے بغیر زیادہ رزق پیدا نہیں کرتی مگر از روئے انصاف محض افزائش سے فائدہ اسی کو حاصل ہے جس نے ہل جوتا آبیاری کی اور فصل کی نگہداشت کی۔ زمین کا غیر حاضر مالک اس کے لیے کچھ نہیں کرتا۔ پھر وہ ہاتھ پر ہاتھ رکھے کس کے حق سے اس میں سے ایک کثیر حصے کا طالب ہوتا ہے۔ ملکیت زمین کے بارے میں اسلامی فقہا کے درمیان ہمیشہ کم و بیش اختلاف رہا ہے۔ قرآن کریم کی تعلیم اس بارے میں کچھ اشارے کرتی ہے۔ جن کی تعبیر اپنے اپنے افکار و اغراض کے مطابق مسلمان مفسرین اور مفکرین مختلف کرتے ہیں۔ اس بارے میں اکثر احادیث کو لیے لیتا ہے جو اس کے مخالف معلوم ہوتی ہیں۔ ان کو یا ضعیف الاسناد بتاتا ہے یا ان کی تاویل کرتا ہے۔ زمین کے متعلق قرآن کریم میں جو اشارے ہیں وہ اس قسم کے ہیں الارض اللہ زمین اللہ کی ہے۔ جو شخص زمین میں شخصی ملکیت کو درست نہیں سمجھتا اس کے نزدیک اس کا مطلب یہ ہے کہ زمین کے معاملے میں ذاتی ملکیت جائز  نہیں۔ اس کا مخالف یہ کہتا ہے کہ اس آیت سے اس قسم کا کوئی مطلب حاصل نہیں ہو سکتا۔ اس لیے کہ قرآن بار بار کہتا ہے کہ للہ ما فی السموات و ما فی الارض زمین و آسمان میں جو کچھ ہے وہ اللہ ہی کا ہے۔ انسان نے کسی چیز کا پیدا نہیں کیا اس لیے وہ کسی چیز کا مالک حقیقی نہیں کہلا سکتا۔ لیکن سب کچھ خدا کا ہونے کے باوجود آخر باقی تمام اشیا میں اسی اسلام نے ذاتی ملکیت کوتسلیم کیا ہے۔ اور فقہ کا ایک کثیر حصہ اس ملکیت کے جھگڑوں کے چکانے کے لیے ہے۔ لیس للانسان الا ما سعی سے اس تعلیم کو اخذ کرسکتے ہیں بیں کہ جس چیز کے متعلق کسی انسان نے کچھ محنت نہیں کی اور اس چیز پر اس کا کوئی حق نہیں ہو سکتا۔ اگر کوئی شخص بادشاہوں کے عطیہ یا جبر و مکر اور ناجائز استعمال سے زمین کے وسیع قطعات پر قابض ہو گیا ہے اور اس  کی کاشت کے متعلق آپ خود کچھ نہیں کرتا بلکہ دوسروں کی محنت سے پیدا کردہ رزق اور دولت میں سے حصہ طلب کرتا ہے تو اس کا مطالبہ جائزہ۔ اس کتا ب میں اس بحث کا فیصلہ کرنا ہمارے احاطہ موضوع سے باہر ہے۔ یہاں فقط یہ عرض کرنا مقصود ہے کہ علامہ ابال زمین کے معاملے میں قومی ملکیت کے قائل ہیں۔ کاشتکار سے ملت کا خزانہ عامرہ تو بجا طور پر پیداوار کا کچھ حصہ طلب کر سکتا ہے لیکن کسی ناکردہ کار مالک کا اس  پر کوئی حق نہیں۔ اپنے اس خیال کو اقبال نے بڑے زور و شور سے کئی جگہ بیان کیا ہے چنانچہ الارض اللہ بال جبریل کی ایک نظم کا عنوان ہی ہے:

الارض اللہ

پالتا ہے بیج کو مٹی کی تاریکی میں کون؟

کون دریاؤں کی موجوں سے اٹھاتا ہے سحاب؟

کون لایا کھینچ کر پچھم سے اد سازگار؟

خاک یہ کس کی ہے؟ کس کا ہے یہ نور آفتاب؟

کس نے بھر دی موتیوں سے خوشہ گندم کی جیب؟

موسموں کو کس نے سکھلائی ہے خوئے انقلاب؟

وہ خدایا یہ زمین تیری نہیں تیری نہیں

تیرے آبا کی نہیں تیری نہیں میری نہیں

بال جبریل کی ایک دوسری نظم فرشتوں سے فرمان خدا ایسی ہیجان انگیز اور ولولہ انگیز ہے کہ اس کے جذبے کو برقرار رکھتے ہوئے اگر روسی زبان میں اس کا موثر ترجمہ ہو سکتا اور وہ لینن کے سامنے پیش کیا جاتا تو وہ اسے بین الاقوامی اشتراکیت کا ترانہ بنا دینے پر آمادہ ہو جاتا۔ اس کے کہ ملحد لینن کو اس میں یہ خلل نظر آیا کہ اس میں خدا یہ پیغام اپنے فرشتوں کو دے رہا ہے۔ اور اس کے نزدیک وجود نہ خدا کا ہے نہ فرشتوں کا۔ وہ کہتا ہے کہ افسوس ہے کہ خدا دشمن مگر انسان دوست انقلابی تعلیم کو بھی قدیم توہمات کے سانچوں میں ڈھالا گیا ہے۔ یہ نظم کمیونسٹ مینی فیسٹو(اشتراکی لائحہ عمل) کا لب لباب ہے اور محنت کشوں کے لیے ایک انقلاب بلکہ بغاوت کی تحریک ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ علامہ اقبال اشتراکیت کے تمام پہلوؤں سے اتفاق رائے رکھتے تھے سوا اس کے کہ اس تمام تنظیم جدید نے انسان کے دل و دماغ پر یہ غلط ملط عقیدہ مسلط کر دیا ہے کہ تمام زندگی مادی اسباب کی عادلانہ یا مساویانہ تقسیم سے فروغ اور ترقی حاصل کر سکتی ہے۔ علامہ اقبال انسانی زندگی کا مقصود جسمانی ترقی نہیں بلکہ روحانی ترقی سمجھتے تھے۔ روح انسانی آب و گل کی پیداوار نہیں اور اس کے لیے آب و گل میں پھنس کر رہ جانا اسے غائت حیات سے بے گانہ کر دیتا ہے۔ علامہ کے نزدیک اشتراکیت نے قدیم لغو طریقوں اور اداروں کی تخریب کا کام بہت کامیابی سے کیا ہے۔ جس مذہب نے اس کی تنسیخ کی ہے وہ قابل تنسیخ ہی تھا۔ اس نے سلطانی اور امیری اور سرمایہ داری کا خاتمہ کیا اور بہت اچھا کی۔ ا کیوں کہ ان طریقوں نے مل کر انسانوں کا درجہ حیوانوں سے بھی نیچے گرا دیا تھا۔ لیکن روٹی کپڑے اور رہائش کی آسودگی انسان کا مقصود حیات نہیں انسانی ارتقاء کے مدارج لامتناہی ہیں۔ اشتراکیت نے کچھ کام تعمیر ی کیا ہے اور کچھ تخریبی۔ اس کا ایک پہلو سلبی ہے اور دوسرا ایجابی۔ اس نے جن اداروں کا قلع قمع کیا ہے اور جن عقائد کو باطل قرار دیا وہ انسان کی روحانی ترقی کے راستے میں بھی سد راہ تھے لیکن اشتراکیت چونکہ مغرب کی مادی جدوجہد کی پیداوار تھی اور طبیعی سائنس کے اس نظریے سے پیدا ہوئی تھی کہ مادی فطرت کے علاوہ ہستی کی اور حقیقت نہیں۔ اس لیے وہ اس تاریخی حادثے کا شکار ہو گئی کہ مادی زندگی میں عادلانہ معیشت کو الحاد کے ساتھ وابستہ کر دیا حالانکہ یہ تمام انقلاب کا مادیت کے فلسفہ الحاد کے ساتھ کوئی لازمی رابطہ نہیں۔ اقبال کا عقیدہ تھا کہ یہ تمام انقلاب اسلام کے ساتھ وابستہ ہو سکتا ہے۔ بلکہ معاشی تنظیم اسلام کے منشا کے عین مطابق ہے۔ فرماتے تھے کہ خدا اور روح انسانی کے متعلق جو صحیح عقائد ہیں وہ اگر اس اشتراکیت میں شامل کر دیے جائیں تو وہ اسلام بن جاتی ہے اقبال کو اشتراکیت پر جو اعتراض ہے وہ ہم آگے چل کر پیش کریں گے۔ لیکن جس حد تک اسے اشتراکیت سے اتفاق ہے۔ اس حد تک اس کے افکار اور جذبات ایسے ہیں جو لینن اور کارل مارکس اور انگل کی زبان سے بھی ہو بہو اسی طرح ادا ہو سکتے ہیں۔ خدا فرشتوں کو جو کچھ حکم دے رہا ہے وہی  تقاضا ائمہ اشتراکیت کی تمام محنت کشوں سے کرتے ہیں۔ لیکن ان کے ہاں انسان انسان کو ابھار رہا ہے خدا کا اس میں کوئی دخل نہیں ہے۔ خدا سے وہ بس اس لیے بیزار ہیں اور اس کے وجود کے منکر ہیں کہ خدا کے نام کو زیادہ تر ہر قسم کے ظلم و استبداد ہی نے اپنے غرض کے لیے استعمال کیا ہے۔

اقبال کے نزدیک فرشتوں کو خدا جو پیغام دے رہا ہے کہ اسے انسانوں تک پہنچا دو۔ وہ درحقیقت اس اسلامی انقلاب کے پیغام کا ایک حصہ ہے جس کا اقبال آرزو مند تھا۔ یہ انقلاب ایسی معاشرت پیدا کرے گا جس میں غریبوں کی محنت سے پیدا شدہ ناکردہ کار امیری مفقود ہو جائے گی غلام اپنے ایمان کی قوت سے بڑ ے بڑے فرعونوں سے ٹکر لیں گے۔ اس میں اس انداز کی سلطانی جمہور پیدا ہوگی جو موجودہ مغربی انداز کی جمہوریت کی طرح سرمایہ داری کا دام فریب نہ ہو گی۔ بلکہ اس میں مساوات حقوق عوام کا وہ انداز ہو گا جو اسلام نے اپنی ابتدا میں رکھا تھا۔ جہاں امیر سلطنت بھی عوام کا ہم رنگ اور حقوق و فرائض میں ان کے برابر تھا۔ اس میں تمام فرسوہ رسوم و رواج اس طرح ملیا میٹ ہو جائیں گے کہ جس طرح اسلام نے زمانہ جاہلیت کے نقوش مٹا دیے۔ جہاں کاشتکار کی پیدا کردہ روزی کو نکھٹو زمیندار جبر سے حاصل نہ کر سکے گا۔ جہاں خالق اور مخلوق کے درمیان دیر و حرم کے دلال اور کمیشن ایجنٹ وسیلہ نجات بن کر حائل نہ ہوں گے۔ جہاں مذہب کے ظواہر پابندی سے ریاکار دیندار دوسروں پر اپنا سکہ نہ جما سکیں گے۔ اور جہاں ان جدید تہذیب کے پیدا کردہ ڈھونگ کا صفایا ہو جائے گا اور جس نے انسانوں کو ان کی اصلیت سے بے گانہ کر دیا ہے۔ اب اقبال کی اپنی زبان سے یہ پیغام سنیے:

فرمان خدا

(فرشتوں سے)

اٹھو مری دنیا کے غریبوں کو جگا دو

کاخ امرا کے در و دیوار ہلا دو

گرماؤ غلاموں کا لہو سوز یقین سے

کنجشک فرومایہ کو شاہیں سے لڑا دو

سلطانی جمہور کا آتا ہے زمانہ

جو نقش کہن تم کو نظر آئے مٹا دو

جس کھیت کے دہقاں کو میسر نہیں روزی

اس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلا دو

کیوں خالق و مخلوق میں حائل رہیں پردے

پیران کلیسا کو کلیسا سے اٹھا دو

حق را بسجودے صنماں را بطوافے

بہتر ہے چراغ حرم و دیر بجھا دو

میں ناخوش ہو بیزار ہوں مرمر کی سلوں سے

میرے لیے مٹی کا حرم اور بنا دو

تہذیب نوی  کار گہ شیشہ گراں ہے

آداب جنوں شاعر مشرق کو سکھا دو

اقبال نے منکر خدا لینن کو بھی آخرت میں خدا کے سامنے لا کھڑا کیا ہے۔ عاقبت میں عاصی و عابد و مومن و کافر سب کو خدا کے سامنے پیش ہونا ہے۔ بقول عارف رومی قیامت کے معنی انکشاف حقیقت کے ہیں خدا کے روبرو ہونے کے معنی حقیقت سے آشنا ہونا ہے کیوں کہ در اصل حقیقت خدا ہی ہے:

والسما انشقت آخر از چہ بود

از یکے چشمے کہ ناگہ بر کشود

پس قیامت شو قیامت را بہ بیں

دیدن ہر چیز را شرط است این

لینن نے خدا کے سامنے کفر کے اسبب بیان کر کے معذرت کی ہے اور جو انقلاب اور ہیجان اس نے پیدا کیا ہے اس کا جواز بھی دلنشین طریقے سے پیش کیا ہے۔ اس نے کفر و الحاد کے سوا باقی جو کچھ بھی کیا وہ حسن خدمت ہی تھا۔ جو عقوبت کی بجائے مستحق انعام ہے۔ اقبال بھی یہی چاہتا تھا کہ کوئی مرد مومن و مجاہد اس فرسودہ مشرقی اور جدید مغربی تہذیب کا تختہ الٹ دے؛ یہ کام لینن جیسے مجاہد نے کیا جسے مذہب کے استعمال کی استبداد نے ملحد بنا دیا تھا۔ بہرحال اس نے جو کام کیا ہے وہ اقبال کے نزدیک مستحسن اور ارتقائے انسانی کے لیے ایک لازمی جز تھا مگر اشتراکیت لا سے الا کی طرف قدم نہ بڑھا سکی۔ یہ کام آئندہ مستقبل قریب یا بعید میں ہو جائے گا لیکن قدیم استبدادو ں کا خاتمہ بہت کچھ اشتراکیت ہی نے کیا۔ اقبال کو افسوس ہے کہ توحید اور روحانیت سے معرا ہونے کی وجہ سے یہ اصلاحی کام ادھورا رہ گیا ہے اور اس کی وجہ سے اس میں ایک نئے استبداد کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے محض مادیات کی مساویانہ تقسیم سے روح کے اندر وہ جوہر پیدا نہیں ہو سکتا جسے اقبال عشق کہتا ہے۔ مادیات کی حرص انسان کو مسلسل ایک اسفل سطح پر کشمکش میں مبتلا رکھتی ہے ہر قسم کی تعمیر کے لیے پہلے شکست و ریخت ضروری ہوتی ہے۔ پہلا قدم سلبی ہوتا ہے اور دوسرا ایجابی بقول عارف رومی:

ہربنائے کہنہ کاباداں کنند

اول آں تعمیر را ویراں کنند

جس قسم کا انقلاب روس میں ہوا اس سے ملتا جلتا انقلاب اقبال ملت اسلامیہ میں بھی دیکھنا چاہتا ہے لیکن اس کا محرک اسلام ہونا چاہیے نہ کہ الحاد تاکہ لا کے بعد آسانی سے الا کی طرف قدم اٹھ سکے۔ بلکہ توحید ہی اس تمام انقلاب کی محرک ہو۔ اشتراکیت ابھی تک خود اور جبر سے خلاصی حاصل نہیں کر سکی۔ خالص روحانیت جو خلوص اور محبت انسان میں پیدا کرتی ہے وہ اس انقلابی معاشرت میں ابھی نظر نہیں آتی۔ اکابر ہوں یا عوام ایک دوسرے سے خائف رہتے ہیں افکار کی آزادی ناپید ہے ایک نئے جبر و ظلم نے قدیم جبروں کی جگہ لے لی ہے۔ اشتراکیت کے بڑے بڑے امام چشم زدن میں غدار بن جاتے ہیں۔ یا غدار شمار ہوتے ہیں۔ قبال انقلاب مغرب کی تہذیب اگر یک طرفہ تھی تو یہ نئی انقلابی تہذیب بھی ایک طرف سے ترقی اور دوسری طرف سے تنزل کا نقشہ پیش کرتی ہے اقبال نے مغربی تہذیب کی کہیں کم ہی تعریف کی ہے اگرچہ اس میں بھی خیر و شر دونوں طرف سے پہلو موجود ہیں لیکن اشتراکیت کے ذکر میں تعریف کا پہلو مذمت پر کسی قدر بھاری ہی معلوم ہوتا ہے۔ جو معاشرت و معیشت کے متعلق اپنے اقبال کے عقائد کی غمازی کرتا ہے۔ عام مغربی تہذیب کے ساتھ اس کو اسلام کا اتصال مشکل معلوم ہوتا ہے۔ لیکن زاویہ نگاہ کی ذرا سی تبدیلی سے اشتراکیت اسلام بن سکتی ہے یا اسلام اشتراکی ہو سکتا ہے۔

لینن خداسے یہ کہتا ہے کہ ہم مغرب کی طبیعی عقل کی بنا پر فقط خرد کو ذریعہ علم سمجھتے تھے۔ لیکن فقط خرد سے تجھ تک رسائی نہ ہو سکتی تھی اور ہمارے کفر کی دوسری وجہ یہ تھی کہ ہم نے مشرق و مغرب میں کبھی کسی کو بھی عقیدت کے ساتھ تیری پرستش کرتے ہوئے نہیں دیکھا پھر ہمیں کیسے یقین آتا کہ کوئی تو بھی کوئی معبود ہے۔ ہم نے مشرقیوں کو دیکھا وہ غلبہ فرنگ کی وجہ سے سفیدان فرنگی کی پوجا کر رہے ہیں اور مغرب کو دیکھا تو وہ فقط زر و مال کو قاضی الحاجات سمجھتا ہے۔ تیرا نام تو اکثر لوگوں کی زبان پر تھا لیکن وہ محض خود غرضی اقتدار کوشی اور ریاکاری کا پردہ تھا۔ پہلے زمانوں میں تجھ پر لوگوں کو کچھ واقعی ایمان ہو گا۔ کہ تیری پرستش کے لیے عظیم الشان معبد بناتے تھے۔ اب تو بنکوں کی عمارتوں گرجوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ جمیل و جلیل دکھائی دیتی ہیں َ یورپ میں علم و ہنر کی روشنی تو چکا چوند کر دینے والی ہے۔ لیکن روحوں کے اندر اندھیرا ہی اندھیرا تھا۔ اس ظلمات میں چشمہ حیوان کہیں بھی نہیں تھا۔ مساوات کی تعلیم دیتے تھے لیکن عملاً تجارت ہو یا زراعت یا سیاست سب میں غریبوں کا لہو پینے کی تدابیر تھیں۔ فرنگی مدنیت کے فتوحات میں بیکاری و عریانی و میخواری و افلاس ہی تھے۔ مشینوں کی حکومت نے تمام معاشرت اور مام افراد کو مشینیں بنا کر بے درد و بے روح کر دیا تھا۔ لینن خدا سے کہتا ہے کہ کسی قدر انقلاب تو پیدا کر آیا ہوں لیکن دنیا کے زیادہ حصے میں بندہ مزدور کے اوقات ابھی بہت تلخ ہیں۔ تیری دنیا روز مکافات کی منتظر ہے۔ تو عامل بھی ہے اور قادر بھی اس سرمایہ پرستی کی کشتی کو غرق کرنے میں کیوں دریغ کر رہا ہے؟ آخر کاہے کا انتظار ہے؟

اشتراکیت انقلاب کی انقلاب آفرینی اور اس کی بہت سی اصطلاحات کو نظر استحسان سے دیکھنے کے باوجود اور جا بجا لینن کا ہم زبان ہو کر بھی اقبال انسانوں کو اس خطرے سے آگاہ کرتا ہے کہ اس انقلاب کے بعد اگر لا سے الا کی طرف اور نفی سے اثبات کی طرف قدم نہ اٹھ سکے تو یہ تعمیر تخریب ہو کر رہ جائے گی۔ اشتراکیت سے قبل کی مغربی تہذیب اس کے لیے روح سے بے گانہ اور زوال آمادہ ہو گئی کہ وہ محسوسات و مادیات کے آگے نہ بڑھ سکی اور اس نے عالم مادی کی تسخیر کو غایت حیات بنا لیا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مادی اسباب کی تقسیم نے حرص و ہوس کو تیز کر کے ہلاکت کے سامان پیدا کر دیے۔ اس معاملے میں اشتراکیت بھی اگر اسی ڈگر پر پڑ گئی تو اس کی اصلاح بھی فسا د میں تبدیل ہو جائے گی۔ اور پھروہی صورت پیدا ہو گی جو ہمارے سامنے ہے۔ ظہر الفساد فی البر  والبحر ضرب کلیم میں لا و الا کے عنوان سے تین اشعار اسی مضمون کے ملتے ہیں :

فضائے نور میں کرتا نہ شاخ و برگ و بر پیدا

سفر خاکی شبسستان سے نہ کر سکتا اگر دانہ

نہاد زندگی میں ابتدا لا انتہا الا

پیام موت ہے جب لا ہوا الا سے بیگانہ

وہ ملت روح جس کی لا سے آگے نہیں بڑھ سکتی

یقین جانو ہوا لبریز اس ملت کا پیمانہ

اقبال نے کئی جگہ اس مضمون کو مختلف پیرایوں میں دہرایا ہے۔ کہ لا کے دریا میں نہاں موتی ہے الا اللہ کا مختلف اقوام کے تصوف کا لب لباب بھی یہی ہے۔ کہ حقیقی بقا فنا کے ذریعے ہی سے حاصل ہوتی ہے۔ زندگی خواہ نباتی ہو یا خواہ حیوانی اور انسانی اور خواہ اس سے بڑھ کر انسان روحانی بننا چاہیے کہیں بھی فی نفسہ فنا مقصود نہیں۔ زندگی جس صورت میں ہو وہ اپنی بقا چاہتی ہے لیکن بقا اور ارتقا کا راستہ یہی ہے کہ پہلی صورت کے افشا سے دوسری صورت پیدا ہو سکتی ہے۔ انسانی زندگی جب جامد صورت ہو جاتی ہے تو اس کی وجہ یہی ہوتی ہے کہ وہ معتاد طریقوں کو بدلنا نہیں چاہتی۔ اسے تغیر سے ڈر لگتا ہے۔ مذہب اور معاشرت کے قدیم رسوم و شعائر اور قدیم ادارے جامد ہو کر بے روح ہو جاتے ہیں۔ افکار و جذبات میں کوئی جدت نہیں رہتی زمانہ جب فرسودہ طریقوں سے بیزار ہو جاتا ہے تو مشیت الٰہی ان پر خط تنسیخ کھینچ دیتی ہے۔ اقبال روسی اشتراکیت کے اس پہلو کا مداح ہے کہ اس  نے مال اور سلطنت اور کلیسا کے متعلق قدیم عقائد کے خلاف احتجاج اور جہاد کیا ہے اور یہ اقدام انسانیت کو آزاد کرنے اور اس کی روحانی ترقی کا امکان پیدا کرنے کے لیے لازم تھا۔ جب تک یہ کام نہ ہو چکے آگے روحانیت کی طرف قدم اٹھانا دشوار ہے۔ روس نے سرمایہ داری کا خاتمہ کر دیا اور مال کے متعلق اس کے نظریے پر عمل کیا کہ جائز ضرورت سے زائد مال کسی فرد کی ملکیت نہیں رہ سکتا۔ اسے ملت کی عام احتجاج پر صرف ہونا چاہیے۔ اقبال کہتا ہے کہ مال کے متعلق یہ تعلیم عین قرآنی تعلیم ہے کہ مال کو چند امرا ء کے ہاتھوں میں گردش نہ کرنی چاہیے۔ اس کا فیضان دوران خون کی طرح جسم ملت کے ہر رگ و ریشہ میں پہنچنا چاہیے۔ لوگوں نے جب رسول کریم صلعم سے یہ سوال کیا کہ کس قدر مال خود صرف کرنا چاہیے اور کس قدر ملت کے احتجاج کے لیے ڈال دینا چاہیے تو اس کا جواب قرآن نے ا ن الفاظ میں دیا ہے قل العفو مومنوں سے کہہ دو کہ وہ اپنی جائز ضرورت سے جو کچھ بچ جائے وہ ضرورت مندوں کے حوالے کر دیا کریں۔ جس طرح بند پانی میں بدبو آنے لگتی ہے اور اس  میں زہریلے جراثیم پیدا ہو جاتے ہیں اوراسی طرح انفرادی خود غرضی سے روکی ہوئی دولت بھی صاحب مال کے لیے مسموم ہو جاتی ہے۔ مال کے اس اسلامی نظریے کو عارف رومی نے ایک بلیغ تمثیل کے ساتھ نہایت موثر انداز میں پیش کیا ہے کہ اچھا مال جو خدمت دین میں اور خدمت خلق میں صرف ہو وہ خدا کی نعمت ہے۔ مال فی نفسہ کوئی بری چیز نہیں، جس طرح کشتی چلانے کے لیے پانی کی ایک خاص مقدار کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح سفینہ حیات کسی قدر آب زر ہی سے روا ں ہو سکتا ہے لیکن پانی کشتی کے نیچے نیچے رہنا چاہیے اگر وہ کشتی کے اندر گھس آئے تو اس کو سنبھالنے کی بجائے غرق کر دیتا ہے:

مال را گر بہر دیں باشی حمول

نعم مال صالح گفتا رسولؐ

آب در کشتی ہلاک کشتی است

زیر کشتی بہر کشتی پشتی است

علامہ اقبال فرماتے ہیں کہ روس نے قرآن کی قل العفو کی تعلیم کے مطابق ایک معاشرت پیدا کی ہے اس لیے اس حد تک یہ عین اسلامی کام ہے۔ ضرب کلیم میں اشتراکیت کے عنوان سے جو اشعار لکھے ہیں ان کا موضوع یہی ہے:

اشتراکیت

قوموں کی روش سے مجھے ہوتا ہے یہ معلوم

بے سود نہیں روس کی یہ گرمی رفتار

اندیشہ ہوا شوخی افکار پہ مجبور

فرسودہ طریقوں سے زمانہ ہوا بیزار

انساں کی ہوس نے جسے رکھا تھا چھپا کر

کھلتے نظر آتے ہیں بتدریج وہ اسرار

قرآن میں ہو غوطہ زن اے مرد مسلماں

اللہ کرے تجھ کو عطا جدت کردار

جو حرف قل العفو میں پوشیدہ ہے اب تک

اس دور میں شاید وہ حقیقت ہو نمودار

اسلام ایک فطری مذہب ہے۔ اور جب کبھی انسان کا فکر صالح ہو جاتا ہے تو قرآن سے ناآشنا ہونے پر بھی وہ اسلام کے کسی نہ کسی پہلو کی صحت کا قائل ہو جاتا ہے۔ اور اسلام کے نام سے نہیں تو کسی اور عنوان سے اس پر عامل ہو جاتا ہے۔

کفر و دیں است در رہت پویاں

وحدہ لا شریک لہ گویاں

انسانی زندگی کی اصلاح کے لیے مختلف اقوام میں جو جدوجہد  ہو رہی ہے۔ اس کا جائزہ لیجیے تو آپ کو نظر آئے گا کہ اصلاح کر ہر قدم حقیقت میں اسلام کی طرف اٹھتا ہے۔ خواہ اس کے لیے کوشاں مصلحین غیر مسلم ہی کیوں نہ کہلاتے ہوں۔ اقبال نے کارل مارکس کی آوا ز کو بھی اپنی ہی آواز بنا کر پیش کیا ہے:

کارل مارکس کی آواز

یہ علم و حکمت کی مہرہ بازی یہ بحث و تکرار کی نمائش

نہیں ہے دنیا کو اب گوارا پرانے افکار کی نمائش

تری کتابوں میں اے حکیم معاش رکھا ہی کیا ہے آخر

خطوط خمدار کی نمائش! مریض و  کجدار کی نمائش

جہاں مغرب کے بتکدوں میں کلیساؤں میں مدرسوں میں

ہوس کی خوں ریز چھپاتی ہے عقل عیار کی نمائش

کارل مارکس بھی جہاں پیر کی موت کا آرزو مند ہے اور اقبال بھی۔ لیکن جہان نو کی تعمیر اور اس کی اساس کے متعلق دونوں میں اختلاف ہے۔ کارل مارکس نیا معاشی نظام قائم کرنا چاہتا ہے۔ اور اس سے آگے بڑھ کر اس کا کچھ مقصود نہیں۔ کیوں کہ وہ عالم مادی سے باہر اور فائق کسی اور عالم کا قائل نہیں۔ اقبال کے لیے عادلانہ معاشی نظام مقصود آخری نہیں بلکہ اسنان کے لامتناہی روحانی ارتقاء کے راستے میں ایک منزل ہے۔ ایک شخص نے زمانہ حال میں نبوت کا دعویٰ کیا ہے اور اپنے مقاصد میں ایک بڑا مقصد یہ بتایا کہ میں کلیسائی عیسائیت کا قلع قمع کرنے کے لیے مبعوث ہوا ہوں۔ اس کی تمام جدوجہد پادریوں سے مناظرہ کرنے تک محدود رہی ہے۔ اور صلیب کا کوئی کونا نہ ٹوٹا نہ گھسا۔ ایسی نبوت سے تو کلیسائی عیسائیت کا کچھ نہ بگڑا لیکن اقبال کہتا ہے کہ دیکھو قضائے الٰہی کی روش کیسی ہے کہ روس کی دہریت سے کسر چلیپا کا کام لیا گیا ہے جو نہ کسی مومن سے ہوا اور نہ کسی متنبی سے وہ کام کافروں نے کر ڈالا۔ کلیسا کا استبداد سب سے زیادہ روس میں تھا جو کرہ ارض کے پانچویں حصے کو گھیرے ہوئے ہے۔ وہیں پر مکمل بت شکنی ملحدوں نے کی ہے۔ مذہب مصلحین کبھی یہ کام نہ کر سکتے:

روش قضائے الٰہی کی ہے عجیب و غریب

خبر نہیں کہ ضمیر جہاں میں ہے کیا بات

ہوئے ہیں قصر چلیپا کے واسطے مامور

وہی کو حفظ چلیپا کو جانتے تھے نجات

یہ وحی دہریت روس پر ہوئی نازل

کہ توڑ ڈالے کلیسائیوں کے لات و منات

اقبال کے نزدیک اشتراکیت میں حق  و باطل کی آمیزش ہے۔ اس میں جو  دل کشی اور مفاد کا پہلو ہے وہ حق کے عنصر کی وجہ سے ہے۔ دنیا میں رزق کی عادلانہ تقسیم دین دین ہے اور اس معاملے میں روس نے جو کوشش کی ہے وہ سراہنے کے لائق ہے۔ حضرت مسیح نے فرمایا کہ انسان کی زندگی فقط روٹی سے نہیں اسے روحانی غذا کی بھی ضرورت ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ انسان روح کے علاوہ جسم بھی رکھتا ہے اور نفس و بدن کا رابطہ بھی کچھ اس قسم کا ہے کہ پیٹ میں روٹی نہ ہو تو انسان نہ حقوق اللہ ادا کر سکتا ہے اور نہ حقوق العباد۔ اسی لیے اسلام نے معاش و رزق کی عادلانہ تقسیم و تنظیم کو بھی جز و دین قرار دیا ہے۔ عیسائی بھی اپنی دعا میں خدا سے روز روٹی مانگتے ہیں۔ سعدی نے سچ فرمایا ہے ک بھوکا حضور قلب سے نماز بھی نہیں پڑ ھ سکتا:

شب چو عقد نماز بر بندم

چہ خورد بامداد فرزندم

خداوند روزی بحق مشتعل

پراگندہ روزی پراگندہ دل

رسول کریم صلعم نے فرمایا کہ زندگی کی بنیادی چیزوں کی محتاجی انسان کو کفر سے قریب لے آتی ہے۔ یہ فقر اضطراری ہے جس سے پناہ مانگنی چاہیے۔ فقر اختیاری دوسری چیز ہے۔ جس پر نبی کریم صلعم نے فخر کیا ہے ار جو اعلیٰ درجے کی روحانی زندگی کے لیے لازمی ہے۔ حضرت بابا فرید شکر گنج رحمۃ اللہ علیہ نے کیا خوب فرمایا ہے کہ عام طور پر پانچ ارکان مشہور ہیں لیکن درحقیقت چھ ہیں مریدوں نے پوچھا چھٹا رکن کون سا ہے۔ جواب دیا کہ روٹی اور یہ بہت اہم ہے۔ اس رکن کے گر جانے سے باقی پانچ چیزوں کی بھی خیریت نہیں۔ لیکن اس پر یہ بھی اضافہ کر سکتے ہیں کہ اگر طلب رز ق میں زیادہ انہماک ہو جائے تو وہ بھی اخلاق اور روحانی زندگی معرض خطر میں پڑ جاتی ہے۔ اقبال اشتراکیت کی اس کوشش کو مستحسن خیال کرتا ہے کہ انسانوں کی مادی ضروریات کے پورا کرنے کا کوئی عادلانہ نظام ہو لیکن انسانوں میں یہ عقیدہ رائج کر دینا غلط ہے کہ مادی ضروریات کے پورا کرنے سے زندگی کی تکمیل ہو جاتی ہے۔ تمام جدوجہد کو اسی میں صرف کرنا کہ بہتر روٹی اور کپڑا ملے اور رہائش کے لیے اچھا مکان مل جائے انسانی زندگی کی یہ غایت نہیں ہو سکتی۔ اکثر حیوانوں کو یہ چیزیں انسانوں سے بہت میسر ہیں۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ آخر انسان کی امتیازی خصوصیت اور مقصود کیا ہے۔ حیوانوں کے لیے فطرت نے از روئے جبلت جو سامان اور ذرائع مہیا کر دیے ہیں۔ اگر انسان بصد مشکل عقلی کوششوں سے وہی کچھ کر لے تو اس کو حیوانوں پر کیا تفوق ہے؟ مادی ضروریات کے حصول اور سامان حیات جسمانی کی مساویانہ تقسیم سے خاص انانی زندگی کی تو کوئی غایت پوری نہیں ہوتی۔ یہ سعی مساوات دلوں میں تو کوئی اخوت اور محبت کا جذبہ پیدا نہیں کر سکتی۔ رزق کی فراوانی اور اس کی بہتر تقسیم کو مقصود حیات بنا لینا اور نفس انسانی کے لامتناہی ممکنات کو امکان سے وجود میں لانے کی کوشش نہ کرنا بہت بڑا گھاٹا ہے۔ از روئے قرآن ایمان اور عمل صالح کے بغیر انسان کی زندگی دولت کی فراوانی کے باوجود خسران ہی خسران ہے۔ روح انسانی کا جوہر  طبیعی و زمان و مکان سے ماوریٰ ہے انسان کی منزل حیات جسمانی نہیں بلکہ خدا ہے منزل ما کبریاست قرالی ربک المنتہی۔

جاوید نامے میں اشتراکیت کے اندر جو حق اور باطل ہے دونوں کو وضاحت سے پیش کیا گیا ہے۔ کارل مارکس کے قلب میں مومنوں والا جذبہ ہے اور خلق خدا کے ساتھ انصاف ہونا چاہیے لیکن حیات و کائنات کی ماہیت اور خلق وجود سے نا آشنا ہونے کی وجہ سے اس کا فکر کافرانہ ہے۔

صاحب سرمایہ از نسل خلیل

یعنی آں پیغمبر بے جبرئیل

زانکہ حق در باطل او  مضمر است

قلب او مومن دماغش کافر است

غریباں گم کفردہ اند افلاک را

در شکم جویند جان پاک را

رنگ و بو از تن نگیرد جان پاک

جز بہ تن کارے ندارد اشتراک

دین آں پیغمبر حق نا شناس

بر مساوات شکم دارد اساس

تا اخوت را مقام اندر دل است

بیخ او در دل نہ در آب و گل است

جاوید نامے میں جمال الدین افغانی کا ایک پیغام ملت اروسیہ کے نام ہے۔ اس پیغام میں اقبال نے اسلام اور اشتراکیت کے نقطہ ہائے اتصال و افتراق کو بڑی وضاحت سے پیش کیا ہے اشتراکیت کے پرانے معبودوں اور فرسودہ اداروں کے انہدام میں سعی بلیغ کی ہے۔ اس کا فراخ دلی سے ذکر کیا ہے۔ لیکن اس کے بساتھ ہی اس ملت کو ان خطرات سے آگاہ کیا ہے کہ جو اس انقلابی تمدن و تہذیب کو پیش آسکتے ہیں۔ انقلابات کی تاریخ میں سب سے بڑا انقلاب اسلام تھا جس نے دیکھتے ہی دیکھتے کرہ ارض کے ایک وسیع حصے میں قدیم فکر و عمل کے حیات کش نقوش کو مٹا کر ایک جدید عالم گیر تہذیب کی بنیا د ڈالی۔ زندگی کے ہر شعبے کے متعلق اس کا زاویہ نگاہ نادر اور انقلابی تھا۔ اس ہمہ گیر انقلاب کے لیے انسانی طبائع پوری طرح آمادہ نہ تھیں اس لیے بہت جلد شکست خوردہ رسوم اور ادارے اور انسانی خو د غرضیاں بہت کچھ واپس آ گئیں اور اس انقلاب کے خلاف رفتہ رفتہ رد عمل شروع ہوا۔ اسلام کی اصل صورت بہت کچھ مسخ ہوتی گئی لیکن اسلام کا جتنا حصہ بھی اس رد عمل کے باوجود ملت اسلامیہ کی زندگی میں باقی رہ گیا اس کی بدولت مسلمان اپنی معاصر دنیا سے کوئی چھ سات صدیوں تک پیش پیش رہے۔ زندگی کا قانون یہ ہے کہ افراد یا اقوام کی زندگی ایک حالت پر قائم نہیں رہ سکتی۔ مسلسل تغیر پذیری آئین حیات ہے۔ اس لیے ہر لمحے میں انسان یا آگے بڑھ رہا ہے یا پیچھے ہٹ رہا ہے۔ حدیث شریف میں آیا ہے کہ جس انسان کے دو دن ایک جیسے ہوں یعنی اس نے ترقی کا کوئی قدم نہ اٹھایا ہو وہ شخص نہایت گھاٹے میں ہے۔ من ستوا یوما فہو مغبون اس اصول کے مطابق مسلمان صدیوں سے پیچھے ہی ہٹتے گئے اور مغربی اقوام آگے بڑھنا شروع ہوئیں۔ اب اس صدی میں مسلمانوں کو اپنے نقصان سپ ماندگی اور بے بسی کا احسا س شروع ہوا تو اس میں ہر جگہ کچھ نہ کچھ حرکت پیدا ہوئی۔

اسلام کے انقلاب کے بعد روسی اشتراکیت تک مشرق میں کوئی ایسی حرکت پیدا نہ ہوئی تھی۔ جسے انقلابی کہہ سکیں یعنی جس نے سیاست اور معیشت اور نظریات حیات کو یکسر بدل ڈالا ہو۔ مغرب میں از منہ متوسط کے جمود واستبداد کے بعد نشاۃ الثانیہ نے فکر و عمل میں ہیجان پیدا کیا اور رفتہ رفتہ خاص افراد اور خاص طبقات میں زندگی کے انداز بدلنا شرو ع ہوئے۔ اس کے کچھ عرصے بعد اصلاح کلیسا کی لوتھر تحریک سے کیسا میں زلزلہ آیا اور بقول اقبال فرنگ میں آزادی فکر کی نازک کشتی رواں ہوئی۔ ان تمام تحریکوں کا مجموعی نتیجہ انقلاب فرانس میں نکلا اور اس کے کچھ عرصے بعد انگلستان میں وہ انقلاب آیا جسے صنعتی انقلاب کہتے ہیں اور جس نے انگریزوں کی زندگی کے ہر شعبے میں کچھ نہ کچھ اچھا یا برا تاثر پیدا کیا۔

لیکن یہ تمام تحریکیں مجموعی طور پر بھی اتنی انقلاب آفریں نہ تھیں جتنی کہ اشتراکیت کی زلزلہ انگیز تحریک۔ بقول اقبال:

قہر او کوہ گراں را لرزہ سیماب داد

اس سے قبل کی تحریکوں سے ملوکیت کا خاتمہ نہ ہو سکا۔ جاگیرداری کی جگہ سرمایہ داری نے لے لی عوام کے حقوق طلبی اور جمہوریت کی کوششیں بھی اتنی بار آور نہ ہوئیں کہ ان کے لیے بنیادی انسانی حقوق محفوظ ہو سکتے صحیح معنوں میں انقلاب اسی کو کہتے ہیں کہ جو اشتراکیت نے پیدا کیا۔ اشتراکیت قدیم معاشرت میں محض رخنے بند کرنے اور ٹانکے یا پیوند لگانے کی قائل نہ تھی اس نے قدیم اداروں کی بیماری کا علاج کوئی دوا یا غذا تجویز نہ کیا بلکہ ایسی جراحی جو اعضائے فاسد کی قطع و برید سے دریغ نہ کرے۔ جہاں اشتراکیت  کو کامیابی ہوئی وہاں کوئی اور راہ اور کوئی طریقہ بھی اپنی پہلی حالت پر قائم نہ رہ سکا۔ قیصریت کا صفایا ہو گیا جاگیرداری کا خاتمہ ہوا سرمایہ داری کا نام و نشان مٹ گیا اور کلیسا عضو معطل بن گیا۔ مذہب کے خلاف ایسا شدید رد عمل ہوا کہ دین کی بیخ کنی کو روسی سیاست نے اپنے لائحہ عمل میں شامل کر لیا۔ پوجا پاٹ کی اجازت رہی مگر دین کی تبلیغ ممنوع ہو گئی۔ اشتراکی ارباب حل و عقد کے لیے یہ شرط لازمی ہو گئی کہ اعتقاداً اور عملا ً متحد ہوں اور مادیت کے قائل ہوں۔ اس طرح سے حق و باطل کی ایک عجیب قسم کی آمیزش ظہور میں آئی۔ سب سے بڑا ظلم جو اقدار حیات کو فنا کر دیتا ہے۔ اشتراکیت کا جبری نظام ہے۔ انسانوں کی نقل و حرکت پر قدغنیں لگ گئیں آزادی فکر آزادی ضمیر اور آزادی بیان جرم بن گئی۔ جمال الدین افغانی کی روح اس تمام انقلاب کا جائزہ لیتی ہے اور اس سلسلے میں وہ اس انقلابی ملت کے سامنے اسلام کی انقلاب آفریں تعلیم کو پیش کرتی ہے جس کا لب لباب ہے کہ تم نے تخریبی اور سلبی کام تو خوب یا لیکن اس کا ایجابی پہلو فقط اسلام پورا کر سکتا ہے۔ بقول غالب:

رفتم کہ کہنگی ز تماشا بر افگنم

در بزم رنگ و بو نمطے دیگر افگنم

در رقص اہل صومعہ ذوق نظارہ نیست

ناہید را بہ زمزمہ از منظر افگنم

افغانی بتاتا ہے کہ یہ نمطے دیگر کیا ہونا چاہیے افغانی کے پیغام کا حاصل مفصلہ ذیل ہے:

اے ملت روسیہ تو اسلام اور مسلمانوں کی تاریخ کی طرف نظر ڈال اور اس سے  کچھ سبق اور عبرت حاصل کر۔ مسلمانوں نے قیصر و کسریٰ کا طلسم توڑا لیکن بہت جلد ان کے تخت ملوکیت پر خود متمکن ہو گئے اور قیصریت کے جاہ و جلال کو اپنی شاہانہ شوکت سے مات کر دیا۔ فرعون کے آبنوس کے تخت کی جگہ نو کروڑ روپے کا تخت طاؤس شان اسلام کا مظہر بن گیا۔ ملوکیت کے عروج میں افراد کی حریت سوخت ہو گئی۔ تحقیق و اجتہاد کے دروازے بند ہو گئے۔ اس سے عجمی افکار اور غیر اسلامی طرز زندگی نے اسلام کے افکار کی طرف سے غفلت پیدا کر دی۔ ملوکیت وہ چیز ہے کہ جو سیاست اور انقلابی معیشت پر ہی اثر انداز نہیں ہوتی بلکہ عقل و ہوش اور رسم و رہ سب دگرگوں ہو جاتے ہیں۔ غرضیکہ اسلام کے انقلاب کو ملوکیت کھا گئی۔ ظالم اور مستبد سلاطین ظل اللہ بن گئے اور علمائے سو فقیہ اور فتویٰ فروش بن کر ان کے آلہ کار بن گئے جس طرح رومۃ الکبریٰ کے شہنشاہ دیوتا بن گئے تھے۔ جن کی پوجا رعیت کے ہر فرد پر لازم تھی اسی طرح مسلمان سلاطین علماء سے بھی سجدے کرانے لگے اور علماء سے یہ فتویٰ حاصل کر لیا کہ یہ سجدہ تعظیمی ہے۔ سجدہ عبادت نہیں۔ یہ سلاطین خلفا بن کر اس رسولؐ کی جانشینی کا دعویٰ کرتے تھے۔ جو راستہ چلتے ہوئے بھی اصحاب سے دو قدم آگے نہ چلتے تھے۔ اور محفل میں اپنی آمد کے  وقت تعظیماً اصحاب کو کھڑا ہونے سے منع کرتے تھے۔

خود طلسم قیصرو کسریٰ شکست

خود سر تخت ملوکیت نشست

تانہال سلطنت قوت گرفت

دین او نقش از ملوکیت گرفت

از ملوکیت نگہ گردد دگر

عقل و ہوش و رسم و رہ گردد دگر

اے ملت روشیہ کچھ کام تو تو نے وہی کیا ہے جو اسلام کرنا چاہتا تھا اور جس کا نمونہ کچھ عرصے کے لیے دنیا کے سامنے پیش بھی کیا گیا تھا۔ تو نے محمد صلعم اور ان کے خلفائے راشدین کی طرح قیصریت کی ہڈی پسلی توڑ ڈالی ہے مگر تجھ کو تاریخ اسلام سے عبرت حاصل کرنی چاہیے۔ کہن یہ نہ ہو کہ تو بھی عالمگیر اخوت کا دعویٰ کرتے کرتے ایک نئی قسم کی ملوکیت کا شکار ہو جائے تو بھی کہیں جبر و ظلم کے ساتھ جہانگیری نہ شروع کر دے۔ خوفناک آلات ہلاکت پیدا کر کے تو نوع انسان کو خوف زدہ نہ کر۔ قوت ضروری چیز ہے لیکن دنیا ایسی ملت کی طالب ہے جو صرف نذیر ہی نہ ہو بلکہ بشیر بھی ہو۔ تمہارے طریق عمل میں انسانوں کے لیے ایک اعلیٰ درجہ تر زندگی کی بشارت ہونی چاہے۔ تمہاری تقدیر اقوام مشرق کے ساتھ وابستہ ہے۔ اس لیے تمہارا رخ زیادہ تر ایشیا کی طرف ہونا چاہیے۔ جس کی روایات میں روحانیت کا بنیادی عنصر بھی موجود ہے۔ تمہارے سینے میں ایک سوز ہے۔ جو نئے شب و روز پیدا کرتا ہے افرنگ کا آئین و دین کہنہ اور فرسودہ ہو گیا ہے۔ اگر تم نے بھی اس کی نقالی شروع کر دی اور ایک طرف بے دینی کو ترقی دی اور دوسری طرف محض سامان حیات اور سامان حرب پیدا کرنے ہی کو مقصود بنا لیا تو تمہارا انجام بھی وہی ہو گا جو فرنگ کا ہوا ہے۔ تم اگر در حقیقت نئی تہذیب پیدا کرنا چاہتے ہو تو مغرب کی طرف مت دیکھو۔ اس تقلید اور مطابقت میں تم اسی رنگ میں رنگے جاؤ گے یہ مغرب الا سے الا کی طرف نہیں بڑھ سکا اور مادیت کے آب و گل میں ُھنس کر رہ گیا ہے ارتقائی زندگی کا ایک قدم نفی کی طرف تو دوسرا اثبات کی طرف اٹھتا ہے۔ اگر تم جدید نظام عالم پیدا کرنا چاہتے ہو تو اب وقت ہے کہ تم اثبات کی طرف آ جاؤ۔

کہنہ شد افرنگ را آئین و دیں

سوئے آں دیر کہن دیگر مبیں

کردہ کار خداونداں تمام

بگذر از لا جانب الا خرام

در گذر از لا اگر جویندہ

تا رہ اثبات گیری زندہ

جس انقلاب آفرینی پر تم فخر کرتے ہو اس  کا سبق دنیا کو سب سے پہلے قرآن نے پڑھایا تھا۔ اسی قرآن پڑھانے والے نبی صلعم نے یہ اعلان کیا تھا کہ لا قیصر و لا کسریٰ۔ اس نے حبشیوں کو روشن ضمیر بنا کر ان کی ظاہری سیاہی کو نور قلب سے بدل دیا تھا۔ اسی نے رنگ نسل کی تمیز کو حرام کیا تھا۔ فرنگی اقوام ابھی تک مساوات اور اخوت کے دعاوی کے باوجود کالوں کو گوروں کے مطابق حقوق دینے کی روادار نہیں۔ مغربیوں کی تمام سیاست ماکیاویلی جیسے ابلیس نے سکھائی ہوئی روباہی ہے۔ اس روباہی کا تمام فن دوسروں کو محتاج کو رکھ کر اپنے لیے سامان حیات کی فراوانی پیدا کرنا ہے:

گر ز مکر غریباں باشی خیبر

روبہی بگذار و شیری پیشہ گہر

چیست روباہی تلاش ساز و برگ

شیر مولا جوید آزادی و مرگ

قرآن نے جس فقر کو سراہا ہے وہ اصل شاہنشاہی ہے۔ جس کی بدولت خود مومن کو کائنات پر حکومت حاصل ہوتی ہے۔ ضعیف اقوام کو مغلوب کر کے ان پر حکومت شاہی نہیں بلکہ نفس دوں کی غلامی ہے مغرب نے محسوسات میں بہت تفکر کیا ہے اور محدود مادی خرد کے احاطے میں جو کچھ آ سکتا ہے اس کو فکر و عمل سے مسخر کر لیا ہے۔ لیکن فکر کے علاوہ ایک دوسری بیش قیمت چیز ہے جسے ذکر کہتے ہیں۔ یہ ذکر زبان سے کچھ کلمات دہراتے رہنے کا نام نہیں ہے۔ یہ ایک وجدان حیات ہے جس کا عرفان انسان کو مازکذ حیات و کائنات سے ہم آغوش کر دیتا ہے۔ یہ ذکر حیات لامحدود کے لیے ایک لامتناہی ذوق و شوق ہے۔ یہ انسانی روح کی غذا ور اس کا پر پرواز ہے۔ فکر انسانی زیادہ تر بدن کی زندگی میں الجھا رہتا ہے۔ لیکن ذکر دل کی زندگی ہے۔ اس سے وہ آگ پیدا ہوتی ہے جو آتش حیات ہے۔ تم بھی مادی عقلیت میں مغرب کی طرح ابھی تک ایسے الجھی ہوئی ہو کہ یہ بات ابھی تمہاری سمجھ میں نہیں آتی۔ با مزاج تو نمی سازد ہنوز۔

قرآن کی خوبی یہ ہے کہ وہ فکر و ذکر دونوں کی بیک وقت تلقین کرتا ہے۔ فکر بھی معرفت اور قوت تسخیر پیدا کرتا ہے اور نفس انسانی کا ایک امتیازی جوہر ہے۔ لیکن ذکر کے بغیر اس میں تنویر کامل پیدا نہیں ہوتی۔ رہبانی مذاہب نے فکر کو بالائے طاق رکھ کر خالی ذکر کو شغل بنا لیا ہے ور حکماء طبیعی فکر کے حدود سے باہر قدم نہ رکھا۔ قرآن نے جس شاہنشاہی فقر کی تعلیم دی ہے وہ فکر و عمل کی ہم آغوشی ہے جو انفس و آفاق دونوں کو محیط ہو جاتی ہے۔

فقر قرآن اختلاط ذکر و فکر

فکر را کامل ندیدم جز بذکر

ذکر؟ ذوق و شوق را دادن ادب

کارجان است ایں نہ کار کام و لب

اے ملت روشیہ تجھ کو ایک ایسا نظام قائم کرنا چاہیے کہ جس میں خواجگی اور بندگی انسانوں کے اعلیٰ اور اسفل گروہ نہ بنا دے یہ تعلیم بھی قرآنی ہے:

چیست قرآں خواجہ را پیغام مرگ

دستگیر بندہ بے ساز و برگ

یہ خواجگی ظالمانہ زر اندوزی سے پیدا ہوتی ہے۔ جس کی تمام راہبوں کو اسلام بند کرنا چاہتا تھا۔ اور اس کا معاشی نظام ایسا تھا کہ رہا اور دیگر ناجائز ذرائع سے دولت حاصل نہ ہوسکتی تھی۔ اور زکوٰۃ  و وراثت کے قوانین کی بدولت وہ چند ہاتھوں میں مرتکز نہ ہو سکتی تھی۔ اسلام نے دولت کو ملکیت نہیں بلکہ امانت قرار دیا ہے۔ از روئے اسلام ناکردہ کار افراد زمین کے وسیع قطعوں کے مالک نہ بن سکتے تھے۔ زمین کو خدا نے ملک نہیں بلکہ متاع کہا ہے یعنی فائدہ حاصل کرنے کی چیز اور یہ فائدہ بھی تمام خلق خدا کے لیے مساوی ہونا چاہیے۔ سورہ للسائلین مسلمان اس تعلیم کو بھول کر جاگیر دار اور سرمایہ دار بن گئے:

منزل و مقصود قرآن دیگر است

رسم و آئین مسلمان دیگر است

در دل او آتش سوزندہ نیست

مصطفیؐ در سینہ او زندہ نیست

اسی قران فراموشی کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمان کا ساغر حیات خالی ہے۔ اس میں نہ صاف شراب ہے اور نہ تلچھٹ میں جو پیغام تمہیں دے رہا ہوں وہ اسلام کا پیغام ہے۔ تم اس وقت کے مسلمانوں میں کوئی حیات افزا نمونہ نہ دیکھو گے۔ ان کی زندگی کے اس دور میں دیگر اقوام کو عبرت ہی حاصل ہو سکتی ہے حیات ملی کے اچھے نمونے اب علالم اسلامی میں ناپید ہیں :

دہ مومن ز قرآں بر نخورد

در ایاغ او نہ مے دیدم نہ درد

اے ملت روسیہ ! میں تمہیں اصل اسلام کی طرف بلا رہا ہوں جو تمہارے انقلاب کی تکمیل کر سکتا ہے۔ یہ اسلام عالمگیر حقائق کا نام ہے۔ کسی ایک ملت کے ساتھ اس کا ازلی و ابدی واسطہ نہیں۔ اس وقت جو قومیں مسلمان کہلاتی ہیں۔ اگر وہ اسی طرح خود فراموش اور خدا فراموش رہیں تو اسلام کو ان کی کچھ پروا نہ ہو گی۔ وہ بھی ملل ماضیہ کی طرح محض ایک عبرت انگیز افسانہ بن جائیں گی۔ اے ملت روسیہ! تم نے ہمت کر کے اسلام کے ایک حسے کو آئین حیات بنایا ہے۔ اگر تم باقی ماندہ حصے کو بھی اپنا لو تو اس فرسودہ ملت کی جگہ لے لو گے۔ قرآن جن صداقتوں کو پیش کرتا ہے وہ سرمدی حقائق ہیں وہ کسی خاص امت کا اجارہ نہیں۔ امتیں فانی ہیں لیکن اسلام ایک ابدی حقیقت ہے۔ جو امتوں سے بھی ماوریٰ ہے اور زمان و مکان سے بھی خود قرآن نے مسلمانوں کو آگاہ کر دیا تھا کہ تم اس آئین کے پابند نہ رہے تو اسے دوسروں کے حوالے کر دیا جائے گا جو اسے جزو حیات بنائیں گے۔ مسلمان میں تو اس وقت ایمان بالقرآن مفقود معلوم ہوتا ہے اس لیے مجھ ڈر لگتا ہے کہ اسے کہیں صفحہ ہستی سے نہ مٹا دیا جائے۔ اے ملت روسیہ! اگر تو اس پر پوری طرح عمل کر کے خیر امۃ اخرجت للناس بن سکتی ہے تو چشم ما روشن دل ما شاد ہماری محفل تو اس وقت بے مے اور بے ساقی ہے۔ لیکن سازقرآن بے نوا نہیں۔ اگر کسی ملت میں گوش حقیقت نیوش ہو تو وہ اس کے روح افزا نغموں سے حیات پیدا کر سکتی ہے۔ کیا معلوم کہ اسلام اب کس کے حوالے ہونے والا ہے۔ موجودہ ملت اسلامیہ تو تقلید کا شکار ہے:

محفل ما بے مے و بے ساقی است

ساز قرآں را نواہا باقی ست

زخمہ ما بے اثر افند اگر

آسماں دارد ہزاراں زخمہ ور

ذکر حق از امتاں آمد غنی

از زمان و از مکاں آمد غنی

ذکر حق از ذکر ہر ذاکر جداست

احتیاج روم و شام اور ا کجا است

حق اگر از پیش ما برداردش

پیش قومے دیگرے بگذاردش

از مسلمان دیدہ ام تقلید و ظن

ہر زماں جانم بلرزد در بدن

ترسم از روزے کہ محرومش کنند

آتش خود بر دل دیگر زنند

٭٭٭

 

 

 

 

 

نواں باب

 

جمہوریت

 

 

جمہوریت کی نسبت کلام اقبال میں موافق اور مخالف دونوں قسم کے تصورات ملتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جمہوریت بھی ان مبہم تصورات میں سے ہے جن کے کوئی معنی معین نہیں ہیں۔ اس وقت دنیا میں ہر قوم یا جمہوریت کی خواہاں اور اس کے حصول کے لیے کوشاں تھے یا اس بات کی مدعی ہے کہ صحیح جمہوریت صرف ہمارے پاس ہے۔ اس کے علاوہ اور اقسام کی جمہوریت کے دعوے سب بے بنیاد ہیں اور محض ابلہ فریبی ہیں۔ جمہوریت کا عام ترین مفہوم جس پر سب متفق معلوم ہوتے ہیں۔ یہ ہے کہ رعایا یا کوئی فرد یا کوئی طبقہ اس کی مرضی کے خلاف حکومت نہ کرے۔ ابراہیم لنکن کے قول کے مطابق حکومت عوام کی ہو اور عوام کے لیی ہو اور رفاہ عامہ اس کا مقصود ہو۔ جمہوریت وہ نظام ہے جس میں اقتدار اعلیٰ نہ سلاطین کو حاصل ہو اور نہ امرا کے طبقے کو۔ حکومت کی باگ ڈور نہ جاگیرداروں اور نہ زمینداروں کے ہاتھ میں نہ سرمایہ داروں اور نہ کارخانہ داروں کے ہاتھ میں۔ مجلس آئین ساز میں جو نمائندے ہوں وہ آزاد سے عوام کے منتخب کردہ اہل الرائے ہوں۔ اس قسم کے طرز حکومت قدیم دنیا میں بھی کہیں کہیں رہی ہے یونان کی یک شہری مملکتوں میں بھی جمہوریت کے انداز مختلف تھے۔ اسپارٹا جو ایتھنز کا حریف تھا۔ اس کا نظام نظام عسکری تھا۔ جو جدید زمانے کے فاشطی نظامات کے مماثل تھا۔ رومۃ الکبریٰ میں ابتدائی دور میں ایک ریپبلک تھی لیکن رومہ کی معاشرت میں بہت جلد خواص کا طبقہ عوام سے الگ ہو گیا۔ اور سینیٹ میں اونچے خاندانوں ہی کے نمائندے قانون ساز تھے۔ اور وہی حکمرانی کرتے تھے۔ سلطنت کی وسعت اور امرا کی باہمی آویزشوں کی وجہ سے آخر کار یہ جمہوریت شاہنشاہی میں تبدیل ہو گئی۔ اور شہنشاہ دیوتا سمجھ کر پوجے جانے لگے۔ ایک زمانہ آیا کہ رومۃ الکبریٰ کے شہری نیرو جیسے دیوانے اور ظالم کے مقابلے میں اپنے آ پ کو بے بس پاتے تھے۔ اسلام نے جو نظام قائم کیا تھا وہ بھی ایک خاص انداز کی جمہوریت تھی۔ اس کا دستور عوام کی رائے سے مرتب نہ ہوا تھا بلکہ ازروئے وحی آسمانی خدائے علیم و حکیم کا تلقین کردہ تھا یا نبی حکیم کی سنت پر مبنی تھا۔ سیاست و معیشت کے بنیادی اصول واضح وضع ہوتے تھے امیر خلافت مسلمانوں کی رضامندی سے منتخب ہوتا تھا۔ انتظام مملکت میں وہ اپنی صوابدید سے عمل کرتا تھا لیکن اس کے ذاتی اور حکومتی اعمال پر تمام مسلمانوں کی نگرانی تھی۔ وہ شرعی حدود کے باہر قدم نہ رکھ سکتاتھا۔ اسلام نے ششاہی اور امرائی حکومت کو منسوخ کر دیا تھا۔ اور یہ اصول مقرر کر دیا تھا کہ حکومت مسلمانوں کے مشورے سے ہونی چاہیے۔ تمام رعایا کے بنیادی حقوق مساوی تھے اس میں مسلم اور غیر مسلم کی تمیز نہ تھی۔ چونکہ حکومت اسلامی تھی اس لیے اتنا امتیاز باقی رکھنا لازمی تھا کہ کوئی غیر مسلم امیر المومنین نہیں ہو سکتا۔ باقی سلطنت اور معیشت کے ہر قسم کے کاروبار اور انتظامات میں خلیفے کو یہ حق حاصل تھا کہ کام کی نوعیت اور فرد ک ی استعداد کو مد نظر رکھتے ہوئے کوئی کام یا عہدہ مسلم کے سپرد کرے یا کسی ذمی کے جس پر امیر کو اعتبار حاصل ہو۔ دین اور ضمیر کے معاملے میں ہر شخص آزاد تھا غیر مسلموں کے قوانین شریعت اور طریق زندگی میں حکومت مزاحم نہ ہو سکتی تھی۔ رعایا کا غریب سے غریب فرد امیر المومنین پر نالش کر سکتا اور عدالت میں اسے جواب دہی پر مجبور کر سکتاتھا۔

افسوس ہے کہ یہ نصب  العینی نظام زیادہ دن تک قائم نہ رہ سکا۔ مملکت کے حدود بیک وسیع ہو گئے عرب کے قبائل کے علاوہ غیر عرب اقوام اسالم کے دائرے میں داخل ہو گئیں افراد کی اقتدار پسندی نے باہمی آویزش پیدا کی جو خانہ جنگی پر منتج ہوئ۔ قبائل اور اقوام کے تعصبات جسے اسلام نے دبا دیا تھا۔ پھر ابھر آئے پرانی خصومتوں نے پھر سراٹھا لیا۔ ایسی حالت میں کسی اتفاق رائے سے امیر کا انتخاب دشوار بلکہ محال ہو گیا ہزارو ں میلوں میں منتشر مسلمانوں کی رائے کس طرح حاصل ہو سکتی تھی۔ مسلمانوں کو ازروئے اسلام عقیدہ یہی تھا کہ امیر المومنین ملت کے مشورے سے منتخب ہو خواہ وہ عربی ہو یا عجمی سفید و سرخ رنگ کا ہو یا سیاہ فام حبشی اس کی اطاعت مسلمانوں پر لازمی تھی۔ لیکن شوری ٰ سے انتخاب کوئی عملی صورت نہ رہی۔ امیر معاویہ نے اس صورت حال کو دیکھ کر خلافت کو سلطنت میں بدل دیا اور اپنے بیٹے  یزید کو ولی عہد بنا کر عام و خاص سب کو ببجر اس پر راضی کر لیا کہ سو ان چند نفور قدسی کے جو اسلامی حریت کے جوہر کو کسی قیمت پر بیچنے کو تیار نہ تھے اور جنہوں نے اسلامی اصول کی مخالفت میں جان و مال کی قربانی سے دریغ نہ کیا تھا۔ خلافت کے سلطنت میں تبدیل ہونے کے ساتھ ہی ملوکیت کے انداز شروع ہو گئے اور سیاسی اور اجتماعی زندگی میں اسلام کا لائحہ عمل رفتہ رفتہ گلدستہ طاق نساں بن گیا۔ اس وقت سے زمانہ حال تک اچھے یا برے مطلق العنان سلاطین ہی نظر آتے ہیں۔ ملوکیت کے دباؤ نے علماء کی زبانیں بند کر دیں۔ سلطان فاسق و جابر کے سامنے کلمہ حق کہنے والا کوئی نہ رہا۔ علماء دین کا تمام تر تفقہ افراد کے شخصی معاملات میں محدود ہو کر رہ گیا۔ اس کے باوجود صدیوں تک مسلمانوں میں تہذیب و تمدن اور علوم و فنون میں ترقی ہوتی رہی۔ لیکن سیاسیات میں عوام تور برطرف خواص کو بھی کوئی دخل نہ رہا۔ اور عوام کے لیے یہی نصیحت رہ گئی کہ اگر بادشاہ دن کو رات کہے تو اس  کی تردید نہ کرو۔ بلکہ تائید میں کہو کہ ہاں مجھے بھی ستارے نظر آتے ہیں۔ سعدہ علیہ الرحمۃ بھی لوگوں کو یہی مصلحت اندیشی سکھاتے ہیں کہ:

خلاف رائے سلطان رائے جستن

بخون خویش باید دست شستن

بادشاہ کے خلاف رائے کا اظہار کرنا جان سے ہاتھ دھونا ہے۔ حافظ علیہ الرحمۃ بھی یہ کہتے ہیں کہ:

رموز مملکت خویش خسرواں دانند

گدائے گوشہ نشینی تو حافظا مخروش

بڑے بڑے مقدس ائمہ دین نے بھی یہی کیا ہے کہ سلطانی اگرچہ اسلامی چیز نہیں ہے۔ لیکن بد کردار سلاطین کی بھی اطاعت لازمی ہے کیوں کہ ان کی وجہ سے کچھ نہ کچھ نظم و نسق قائم تو رہتا ہے۔ سلاطین کے اخلاق کی وجہ سے ان کی اطاعت سے روگردانی کی جائے تو مسلسل فتنہ و فساد کا اندیشہ ہوتا ہے خوشامدی درباریوں اور امرا نے بادشاہ کو ظل اللہ قرار دے کر دین کے معاملے میں بھی مجتہد اعظم بنا دیا۔

ایسی مطلق العنانی میں مسلمانوں کی حکومتوں میں تو کسی قسم کی جمہوریت کا تقاضا پیدا نہ ہو سکتاتھا۔ البتہ مغرب میں جب زندگی میں حرکت پیدا ہوئی تو شاہی اور جاگیرداری اقتدار کے خلاف پہلے تاجروں اور سرمایہ داروں نے احتجاج شروع کیا۔ آغاز می عوام اس تقاضے میں بھی کہیں نہ تھے۔ انگلستان میں جو پارلیمانی حکومت کا آغاز ہوا وہ بھی جاگیرداروں اور بادشاہ کی کشمکش کا نتیجہ تھا۔ بادشاہی وہاں اس قدر قوی نہ تھی۔ کہ جاگیرداروں کی سرکوبی کر سکے۔ جاگیرداروں نے مل کر بادشاہ کو بے بس کر دیا اور شاہ جون کے حقوق کی وہ دستاویز حاصل کر لی جسے میگنا کارٹا کہتے ہیں انگلستان کی پارلمنٹ یورپ میں قدیم ترین پارلیمنٹ ہے۔ دوسرے ممالک میں ایسے نظام اسی کی تقلید میں ظہور میں آئے اس لیے انگریزی پارلیمنٹ کو تمام مجالس متفقہ کے مقابلے میں ام المجالس کہا جاتا ہے۔ مگر ابتدا میں وہ جمہوریت نہ تھی۔ جو دور حاضر میں عام و خاص کا نصب العین ہے۔ یہ جاگیرداروں اور بادشاہوں کی مجلس شوریٰ تھی جو بادشاہ کے مقابلے میں اپنے حقوق کی حفاظت کرتے تھے۔ عوام کے نمائندوں کو اس میں شامل کرنے کا کوئی تصور یا تقاضا صدیوں میں ظاہر نہ ہوا۔ یورپ میں جاگیرداروں اور بادشاہوں کا زور تاجروں اور سرمایہ داروں نے توڑا۔ انگلستان میں بھی یہی ہوا اور صنعتی انقلاب کے بعد کارخانہ دار بے انتہا امیر ہو گئے۔ تو پارلیمنٹ کا اقتدار بڑھ گیا۔ بادشاہوں کوپہلے جاگیرداروں نے بے بس کر دیا تھا۔ اب تاجروں اور سرمایہ داروں نے جاگیر داروں کو محروم اقتدار کر دیا۔ انگلستان میں بادشاہ موجود رہا لیکن شاہ شطرنج بن کر اور دار الامر بھی قائم رہا۔ لیکن رفتہ رفتہ قانون سازی میں وہ بے قوت ہوتا گیا، یہاں تک کہ جار ج پنجم کے زمانے میں دارالعلوم اور دار العمراء کی کشاکش کا یہ نتیجہ ہوا کہ قانون سازی کے معاملے میں دار العمراء کے اظہار خیال کا اڈا رہ گیا۔ مگر ابھی تک یہ دار العوام نہ تھا۔ لیبر پارٹی کے غلبے سے بیشتر پارلیمنٹ میں جو نمائندے آتے تھے وہ زیادہ تر آبزرورز آتے تھے۔ میکڈونلڈ اور ایٹلے کی قسم کے مفلس اس میں بصد مشکل داخل ہو سکتے تھے۔ لیکن اقتدار میں شریک نہ تھے۔ یورپ  میں دیگر ممالک میں جو پارلیمانی حکومتیں قائم ہوئیں ان کا بھی یہی حال ہوا کہ زیادہ تر ان میں سرمایہ داروں کی جنگ زر گری ہوتی تھی۔ امریکہ میں بھی جمہوری حکومت ہے۔ لیکن پریس اور دیگر اقسام کے پروپیگنڈے کے ذرائع سرمایہ داروں کے ہاتھوں میں ہیں۔ کروڑوں روپے کے فند پارٹی جمع ہوتے ہیں۔ امیدواروں کو منتخب کرنے اور ان کو کامیاب بنانے کے لیے ہر قسم کے وسائل جائز شمار ہوتے ہیں۔ لوگوں کے پاس معلومات پریس اور ریڈیو کے ذریعے سے پہنچتے ہیں اور ان پر سرمایہ داروں کا قبضہ ہے۔ مغربی جمہوریتوں کا عام طور پر یہی انداز ہے۔ محض علمی استعداد یا اخلاقی بلندی اور حق گوئی کی بنا پر کسی شخص کا پارلیمنٹ میں گھسنا ایک ناممکن سی بات ہے۔ جس پارٹی نے اپنے اغراض کی بنا پر کسی شخص کا پارلیمنٹ اس پر بے چون و چرا دستخط کیے بغیر کوئی منفرد آزاد انسان خواہ وہ امور سلطنت کا کتنا ہی ماہر کیوں نہ ہو مجالس تواب کا عضو نہیں بن سکتا۔ لطیفہ یہ ہے کہ اس کے باوجود عوام اس سے خوش اور مطمئن ہیں َ کہ حکومت ہماری ہے۔ اور حکمرانوں کے انتخاب میں ایک خاکروب کا بھی ایک ووٹ ہے۔ اور منتخب ہونے والے صدر جمہوریہ کا بھی ایک ووٹ ہے۔ یہ سطحی مساوات ایسی کامیابی سے فریب دہی کرتی ہے کہ کسی کو اس پر بے حقیقتی کا شبہ نہیں ہوتا۔

ایسی جمہوریتوں کے خلاف سوشلسٹوں اور اشتراکیوں نے یہ غوغا بلند کیا کہ یہ سب عوام کو دھوکا دینے کے سامان ہیں اور عوام کی حقیقی بھلائی ایسی جمہوریتیں میں کبھی نہیں ہو سکتی۔ یہ سب بورژوا لوگوں کی حکومتیں ہیں اور ناکردہ کار قومی دولت کا جو محنت کشوں کی پیدا کردہ ہے۔ سب سے زیادہ حصہ لپیٹ لیتے ہیں۔ مسولینی اور ہٹلر نے بھی اس نظام کو درہم برہم کر نے کی کوشش کی تاکہ آمریت اس  کی جگہ لے لے جس میں نیچے سے لے کر اوپر تک آمروں ہی کا ایک تدریجی سلسلہ ہو۔ مجلس شوریٰ بھی اس طرح بنائی جائے کہ ان آمروں کا کوئی مخالف اس میں منتخب نہ ہو سکے۔ اس کو فاشطی نظام کہتے ہیں۔ مسولینی اور ہٹلر دونوں اس کے مدعی تھے کہ یہ بھی جمہوریت ہی ہے۔ اور جو دوسری قسم کی جمہوریتوں پر فائق ہے۔ فاشطی نظریہ نسلی اور قومی تھا۔ اس کے برخلاف روس کا اشتراکی نظام ہے جو نسلی اور قومی نہیں بلکہ بین الاقوامی ہونے کا مدعی ہے۔ مگر انداز وہاں بھی آمرانہ ہے۔ تمام مملکت میں فقط ایک حکمران پارٹی ہے اس کا مخالف کسی پارٹی کا قیام ممنوع ہے۔ یہ پارٹی ایک پروگرام بناتی ہے اور جو شخص کامل اطاعت کا ثبوت نہ دے وہ کسی قسم  کی ذہنی اقتدار مجلس میں منتخب نہیں ہو سکتا۔ روس میں آزادی ضمیر ایک جرم ہے۔ آزادی گفتار بخون خویش باید دست شستن کے مترادف ہے۔ نقل و حرکت کی بھی آزادی نہیں۔ کوئی شخص حکومت کی اجازت کے بغیر ایک مقام سے دوسرے مقام پر نہیں جا سکتا۔ اور نہ اپنی مرضی سے اپنا پیشہ یا اپنا کام بدل سکتا ہے۔ ملک کے حدود سے باہر جانا ممنوع ہے۔ غرضیکہ نہ آزادی افکار ہے نہ آزادی گفتار نہ آزادی کار ہے اور نہ آزادی رفتار۔ غیر ممالک کے لوگ اس مملکت میں آزادی سے چل پھر نہیں سکتے اور کوئی شخص ڈر کے مارے ان سے اپنے دل کی بات نہیں کہ سکتا۔ کہ جو حکمران طبقے کے عقائد اور اغراض کے خلاف ہو۔ اس پر روس کا دعویٰ ہے کہ حقیقی جمہوریت فقط ہماری ہی مملکت میں پائی جاتی ہے۔

اس تمہید اور پس منظر کے بعد آسانی سے سمجھ میں آ سکتا ہے کہ اقبال کیوں جمہوریت کا آرزومند بھی ہے اور اس کی تمام موجودہ صورتوں کا مخالف بھی۔ اس کے ذہن میں جمہوریت کا وہ نقشہ ہے جسے اسلام نے کچھ عرصے تک دنیا کے سامنے پیش کیا۔ اس جمہوریت میں حکمرانوں کا کوئی طبقہ نہ تھا ہر طرح کی آزادی ضمیر تھی۔ مملکت رفاہی تھی جس کے اندر عمر فاروقؓ جیسا جلیل القدر انسان راتوں کو گردش کر کے دیکھتا تھا کہ کہیں ظلم تو نہیں ہو رہا ہے یا کسی غریب کے گھر میں فاقہ تو نہیں ہے۔ اگر کوئی غریب گھرانا نان شبینہ کا محتاج دکھائی دیا تو بیت المال سے اپنی پیٹھ پر لاد کر سامان خورد و نوش معذرت کے ساتھ وہاں پہنچا دیا۔ اگر کسی امیر یا گورنر نے کسی ذمی پر بھی ذرہ بھر ظلم کیا تو عمرؓ کے درے اس پر برسر عام بر س گئے۔ یہ تھی مساوات حقوق اور عوام کی حکومت عوام کے لیے۔ اقبال کو یہ صورت کہیں نظر نہیں آئی تھی نہ مشرق میں نہ مغرب میں۔ نہ ممالک اسلامیہ میں اور نہ فرنگ میں۔ وہ جمہوری نظام چاہتا تھا۔ جہان خلق خدا کے بنیادی حقوق محفوظ ہوں اور زندگی کی اساسی ضروریات عام ہوں جہاں حکمران علم و اخلاق کی بنا پر منتخب ہوں اور درویش منش ہوں خوشامد جبر یا زر پاشی سے عوام سے اپنے علم و اخلاق کی بنا پر منتخب ہوں اور درویش منش ہوں خوشامد جبر یا زر پاشی سے عوام سے اپنے حق میں ووٹ کے طالب نہ ہوں۔ اگر یہ صورت نہیں تو حریت اور مساوات سب دھوکا ہی دھوکا ہے۔ سب ملوکیت اور امرائیت کی بھیس بدلی ہوئی شکلیں ہیں۔ اقبال نے اس جمہوریت کے خلاف جو کچھ کہا ہے اس  کا انتخاب ذیل میں درج کیا جاتا ہے:

سیاسیات حاضرہ

می کند بند غلاماں سخت تر

حریت می خواندہ اور ا بے بصر

گرمی ہنگامہ جمہور دید

پردہ بر روئے ملوکیت کشید

سلطنت را جامع اقوام گفت

کار خود را پختہ کرد و خام گفت

در فضایش بال و پر نتواں کشود

با کلیدش ہیچ در نتواں کشود

گفت بامرغ قفس سے درد مند

آشیاں در خانہ صیاد بند

ہر کہ سازد آشیاں در دشت و مرغ

او نباشد ایمن از شاین و چرغ

از فسونش مرغ زیرک دانہ مست

نالہ ہا اندر کلوے خود شکست

حریت خواہی بہ پیچاکش میفت

تشنہ میر و برنم تاکش میفت

الحذر از گرمی گفتار او

الحذر از حرف پہلو دار او

چشم ہا از سرمہ اش بے نور تر

بندہ مجبور ازو مجبور تر

از شراب ساتگینش الحذر

از قمار بد نشینش الحذر

از خودی غافل نگردد مرد حر

حفظ خود کن حب افیونش نخور

خضر راہ

جب مغلوب اقوام میں بیداری پیدا ہوتی ہے اور وہ حکمران سے اقتدار میں حصہ طلب کرتے ہیں تو حکمران سب سے پہلے یہ چال چلتا ہے کہ بہت اچھا کہہ کر ایک مجلس آئین ساز بنا دیتا ہے۔ لیکن نمائندوں کے انتخاب کے قواعد ایسے بناتا ہے کہ اس میں حکومت کے پروردہ زمیندار یا سرمایہ دار لوگ ہی داخل ہو سکیں جن میں حکومت کے خلاف آواز اٹھانے کی ہمت ہی نہ ہو اس  طرح جمہوریت کا دھوکا بھی پیدا ہوتا ہے لیکن استبداد میں کوئی فرق نہیں آتا:

آ بتاؤں تجھ کو رمز آیہ ان الملوک

سلطنت اقوام غالب کی ہے اک جادوگری

خواب سے بیدار ہوتا ہے ذرا محکوم اگر

پھر سلا دیتی ہے اس کو حکمران کی ساحری

جادوئے محمود کی تاثیر سے چشم ایاز

دیکھتی ہے حلقہ گردن میں سازدلبری

ہے وہی ساز کہن مغرب کا جمہوری نظام

جس کے پردوں میں نہیں غیر از نوائے قیصری

دیو استبداد جمہوری قبا میں پائے کوب

تو سمجھتا ہے یہ آزادی کی ہے نیلم پری

مجلس آئین و اصلاح و رعایات و حقوق

طب مغرب میں مزے میٹھے اثر خواب آوری

گرمی گفتار اعضائے مجالس الاماں

یہ بھی اک سرمایہ داروں کی ہے جنگ زرگری

اس سراب رنگ و بو کو گلستاں سمجھا ہے تو

آہ! اے ناداں قفس کو آشیاں سمجھا ہے تو

ایک زمانہ ایسا آیا کہ غلط اندیش مشیروں کے مشورے سے علامہ اقبال بھی پنجاب کی مجلس مقننہ کی رکنیت کے لیے کھڑے ہو گئے۔ اس خانہ نشین حکیم ملت اور ترجمان حقیقت کو گلی گلی کوچے کوچے ووٹ کی طلب میں پھرنا پڑا۔ مخالفوں نے اس پر کیچڑ اچھالا طرح طرح کے الزامات تراشے اور ایسی ایسی لغو باتیں کہیں جو ناگفتہ بہ ہیں۔ عوام و خاص کی زیادہ تعداد اقبال کی دلدادہ تھی اس لیے وہ منتخب تو ہو گئے لیکن اور امیدواروں سے بہت کم سہی پھر بھی کوچہ رسائی میں سے گزرنا پڑا اور ان کی خود داری کو بہت ٹھیس لگی۔ اسمبلی کے سب نمائندے کسی نہ کسی پارٹی میں تھے اور پارٹی کے ہاتھوں میں اپنا دل و دماغ اور ضمیر بیچ چکے تھے۔ اقبال جیسا شخص بھلا کسی ایسی پارٹی میں کیسے شرکت کر سکتا ہے۔ مجلس قانون ساز میں انہوں نے اچھی اچھی تجویزیں پیش کیں کچھ منظور ہوئیں اور کچھ نامنظور لیکن بہرحال میدان  اس صاحب عرفان اور خلوص کیش مرد حکیم کی جولاں گاہ نہ تھا۔ آخر بیزار ہو کر اور تلخ تجربہ اٹھا کر پرھ اس ابلیسانہ سیاست کی طرف رخ نہ کیا۔ میں نے ان دنوں میں یہ عرض کیا کہ جناب تو ا ن مجلسوں کو حکومت کی دھوکا بازی اور سرمایہ داروں کے اڈے کہتے تھے پھر آپ کو کیا ہوا کہ ایسے خبائث کے مقام میں جا داخل ہوئے فرمایا کہ میں اس غرض سے گیا تھا کہ شاید وہاں کھڑا ہو کر حق گوئی سے اس خبائث کو کچھ کم کر سکوں اور اس اڈے والوں کو کسی قدر جھنجھوڑوں اور حقیقت یہ ہے کہ یہ اقدام علامہ اقبال کے منصب کے خلاف اور خدا کی طرف سے ان کے مخصوص وظیفہ حیات کے منافی تھا۔ خیر کر دے و گذشتے:

ایں ہم اندر عاشقی بالائے غم ہائے دگر

اوپر بیان ہو چکا ہے کہ مغربی جمہوریت اور مساوات کے مدعیوں نے محنت کشوں کے ساتھ انصاف نہیں کیا۔ اور محنت کشوں کو جو کچھ حاصل ہوا ہے وہ ان کی اپنی متحدانہ جدوجہد اور قربانیوں کا نتیجہ ہے ورنہ ملوکیت کا پردہ دار یہ خود غرض جمہوری نظام تو ان کے لیے نان شبینہ کا کفیل بننے کے لئے بھی آمادہ نہ تھا۔ خدا نے فرشتوں کو جو پیغام مزدوروں کی خود داری کو ابھارنے کے لیے دیا اور خضر نے جو پیغام شاعر اسلام کو دیا اس کا مضمون ایک ہی ہے۔ مگر طرز بیان میں ذرا فرق ہے۔ حضور فرماتے ہیں کہ اس مغربی جمہوری  اور اس کے ساتھ وابستہ تہذیب نے اخوت و مساوات کو انسانی کو ترقی دینے میں کچھ بھی نہیں کیا۔ انقلاب فرانس کا نعرہ، آزادی برادری اور برابری، سرمایہ داروں نے اور ملوکیت کے حامیوں نے اپنے اغراض کے لیے بلند کیا۔ محنت کش اس دھوکے میں آ گئے کہ یہ تصورات ان کی بپتا کو رفع کریں گے۔ یہ جمہوریت نہ نسلی تعصب مٹا سکی اور نہ قومیت کے تنگ دائرے سے نکال کر انسان کو عالم گیر اخوت کی طرف لا سکی۔ کلیسا کی ابلہ فریبی جوں کی توں قائم رہی۔ سفید اقوام کے تفوق کا باطل عقیدہ نہ مٹ سکا۔ خود مغربی اقوام کے اندر طبقاتی تفرقی بحال رہی۔ بھلا ایسی جمہوریت کی نقالی کر کے مشرق کو کیا حاصل ہو گا سوا اس کے کہ جاگیرداروں بڑے زمینداروں اور سرمایہ داروں کے طبقے سلطانی جمہور کے پردے میں اپنے اغراض کو مستحکم کریں۔ مشرق نے جہاں کہیں بھی اس طرز حکومت کی نقل کی ہے وہاں کی مجالس آئین ساز کا یہی حال ہے کہ ناکردہ کار زمین کے مالک اور دولت والے گروہوں کے سوا کوئی طبقہ یا کوئی فرد حکومت میں اقتدار حاصل نہیں کر سکتا۔ اور نہ کسی ایسے آئین کی تجویز تائید حاصل کر سکتی ہے۔ جس سے ان گروہوں کے اقتدار پر زد پڑتی ہو۔ اشتراکی مذہب کو غربا کے لیے افیون کہتے تھے۔ اقبال کہتا ہے کہ یہ مغربی جمہوریت بھی محتاجوں کے لیے مسکرات ہی کا کام کرتی ہے:

اے کہ تجھ کو کھا گیا سرمایہ دار حیلہ گر

شاخ آہو پر رہی صدیوں تلک تیری برات

دست دولت آفریں کو مزدیوں ملتی رہی

اہل ثروت جیسے دیتے ہیں غریبوں کو زکات

نسل قومیت کلیسا سلطنت تہذیب رنگ

خواجگی نے خوب چن چن کر بنائے مسکرات

کٹ مرا ناداں خیالی دیوتاؤں کے لیے

سکر کی لذت میں تو لٹوا گیا نقد حیات

مکر کی چالوں سے بازی لے گیا سرمایہ دار

انتہائے سادگی سے کھا گیا مزدور مات

مغربی جمہوریت کے ساتھ ساتھ معتصبانہ قوم پرستی بھی ترقی کر تی گئی۔ حکمت و صناعی اور تجارت نے ایک قوم کو دوسری اقوام سے قوی تر کرنے میں دوسروں پر سبقت حاصل کرنے کی کوشش کی۔ اور صناعی اور تجارت میں بھی ایک طرح کی قزاقی ہو کر رہ گئی۔ حکیم المانوی نطشہ نے کہا ہے کہ پہلے زمانے میں سمندروں میں بحری ڈاکو پھرتے تھے جو مال تجارت لے جانے والے جہازوں پر چھاپا مارتے تھے اور جدید تمدن نے جو ملک التجار پیدا کیے ہیں یہ وہی بھیس بدلے ہوئے ڈاکو ہی ہیں مغربی جمہوریتوں میں یہ ہلاکت انگیز تصادم جس نے دو عظیم جنگوں میں اس تمدن کو متزلزل کر دیا ہے۔ اسی ہوس کا نتیجہ ہے  جو اس کے خمیر میں پنہاں تھی۔ اس حکمت نے بعض انسانوں کو سائنس اور صنعت سے ابلیسانہ قوت بخش کر نوع انسا ن کا شکاری بنا دیا۔ یہ صناعی محض جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری ہے۔ جو نظر کو خیرہ کرتی مگر قلب کو تاریک بنا دیتی ہے:

وہ حکمت ناز تھا جس پر خردمندان مغرب کو

ہوس کے پنجہ خونیں میں تیغ کار زاری ہے

تدبر کی فسوں کاری سے محکم ہو نہیں سکتا

جہاں میں جس تمدن کی بنا سرمایہ داری ہے

سوال یہ ہے کہ اس مرد فریب جمہوریت کا طلسم مغرب میں جوں کا توں قائم ہے یا کہیں یہ طلسم ٹوٹا بھی ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ یہ جمہوریت بھی مغرب کے سیاسی اور معاشرتی ارتقا کی ایک منزل تھی۔ اس کی تعمیر میں خرابی کی ایسی صورتیں تھیں کہ وہ تا دیر ایک حالت میں قائم نہ رہ سکتی تھی۔ اپنے ارتقاء میں مغربی جمہوریتیں کہیں آگے بڑھیں اور بہت سی خرابیوں کو پھر رفع کرتی گئیں ، اور کہیں ان کے خلاف رد عمل ہوا گردش ایام کا پہیا الٹا پھر گیا۔ ہٹلر کی نازیت اور مسولینی کی فاشطیت نے نسلی حقوق اور قومیت کے جذبے کو ابھار کر اخوت اور مساوات کو از  روئے عقیدہ بھی ٹھکرا دیا اور جمہوریت نے آمریت کی صورت اختیار کر لی۔ جس نے تھوڑے عرصے تک قوم کو خوب ابھارا اور چمکایا۔ لیکن چونکہ عقیدہ باطل تھا اس لیے انجام کار اس نے یار و اغیار سب کو تباہ کر کے چھوڑا۔ روس نے بھی مغربی جمہوریت کے خلاف بغاوت کی اور محنت کشوں کی حمایت میں ایک آمرانہ نظام قائم کیا۔ اس نے بہت سے بت توڑے لیکن انسانوں کی آزادی کو سلب کرنے اور مادیت کو دین بنانے کی وجہ سے وہ خود ایک مردم خور دیوتا بن گئی۔

گو لاکھ دست ہوئے بت شکنی میں

ہم ہیں تو ابھی راہ میں ہیں سنگ گراں اور

اقبال نے جا بجا اشتراکی انقلاب کی ایجابی پہلو کی داد دی ہے اور اسے ارتقائے انسانی کا ایک اقدام قرار دیا ہے۔ اقبال کوافسوس ہے کہ اشتراکیت نے خورش پوشش اور رہائش کے مساویانہ نظم و نسق کو مقصود حیات قرار دیا اور انسانیت و الوہیت کے رموز سے بے گانہ رہ۔ مغربی جمہوریت کے خلاف یہ رد عمل ادھورا رہ گیا۔ اشتراکیت نے اگر روحانیت کے تمام راستے روک دیے تو یہ بھی نوع انسان کے آخت بن جائے گی۔ بہرحال جو معاشی انقلاب اس کی بدولت ہوا وہ قابل ستائش ہے۔ اور اقبال کے نزدیک اسنان کی مزید ترقی کے راستے سے اس کی بدولت بہت سی رکاوٹیں دور ہو گئی ہیں۔ اقبال اس سے بہت خوش نظر آتا ہے۔ کہ محنت کشوں نے شاہی اور سرمایہ داری کا خاتمہ کر دیا اور کلیسا کے استبداد پر بھی ضرب کاری لگائی۔ اشتراکی کہتے ہیں کہ مغربی جمہوریت ادھوری تھی ہم نے اس کو کمال تک پہنچایا ہے۔ اقبال کہتا ہے کہ تمہاری جمہوریت بھی انسانیت کے امتیازی جوہر کو اجاگر نہ کرنے کی وجہ سے حاضر پرستی اور مادہ پرستی کے سبب ابھی ادھوری ہی ہے۔ جو کچھ تم کر چکے ہو وہ خوب ہے لیکن اب اس سے آگے بڑھو:

افسر پادشہی رفت و بہ یغمائی رفت

نے اسکندری و نغمہ دارائی رفت

کوہکن تیشہ بدست آمد و پرویزی خواست

عشرت خواجگی و محنت لالائی رفت

یوسفی را ز اسیری بہ عزیی بردند

ہمہ افسانہ و افسوں زلیخائی رفت

راز ہائے کہ نہاں بود بیازار افتاد

آں سخن سازی و آن انجمن آرائی رفت

چشم بکشائے اگر چشم تو صاحب نظر است

زندگی در پے تعمیر جہان دگر است

مغربی جمہوریت نے اپنے بعض عیوب کو رفتہ رفتہ رفع کر کے ارتقا کی طرف جو صحیح قدم اٹھائے ہیں اس کا نمونہ انگریزوں کی موجودہ جمہوریت میں ملتا ہے انگریزوں کی قوم ہمیشہ سے یہ غیر معمولی صلاحیت رہی ہے کہ جو انقلاب کہیں دیگر اقوام میں بڑے ظلم و تشدد سے پیدا ہوتا ہے اور انقلاب کے بعد بھی نتائج حسب توقع نہیں نکلتے وہی انقلاب اعتدال اور خوش اسلوبی کے ساتھ انگریز اپنی سلامت روی سے پیدا کر لیتے ہیں۔ انقلاب فرانس سے فرانس کی سیاسی اور  معاشی زندگی کو اس قدر فائدہ نہ پہنچا جتنا کہ انگریزوں کو جنہوں نے نپولین کو شکست دے کر وہ تمام باتیں اپنے آئین میں داخل کر لیں جن کے لیے عوام دوسری جگہ ہیجان اور تشدد پیدا کر رہے تھے۔ روسی اشتراکی انقلاب کا اثر بھی بالواسطہ یا بلا واسطہ شرق و غرب کے ہر ملک پر پڑا ہے اور اس نے ہر ملک کو اس نئی روشنی میں اور نئے تقاضوں کے مطابق سوچنے اور عمل کرنے پر مجبور کیا ہے۔ لیکن سب سے زیادہ فائدہ انگریزوں نے اٹھایا ہے۔ جنگ کے بعد یہاں بھی محنت کشوں کی حکومت قائم ہو گئی ہے لیکن بغیر اس کے کہ سرمایہ داروں کے خون کا ایک قطرہ بھی بہایا جائے۔ انگلستان میں قدیم انداز کی امیری اب ختم ہے اور جنہیں امیر کہہ سکیں ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر رہ گئی ہے ارو یہ سب کچھ اس انداز سے ہوا ہے کہ افراد کے بنیادی حقوق برقرار رہے ہیں۔ آزادی ضمیر بدستور قائم ہے کسی کو جبر مذموم کی شکایت نہیں اور مملکت افراد کی بنیادی ضرورتوں کی کفیل ہو گئی ہے۔ جمہوریت کا یہ انداز اس تصور کے قریب پہنچ گیا ہے۔ جو اقبال کے ذہن میں تھا۔ اور جو اس کے نزدیک مقصود اسلام تھا۔ اقبال کو مغربی جمہوریت پر جو اعتراض تھا اس کا ایک پہلو یہ تھا کہ جمہوریت ملوکیت کی حامی ہے اور اس کو قوت پہنچاتی ہے۔ اس معاملے می بھی انیسویں صدی کی سب سے بڑی علمبردار ملوکیت انگریزوں کی قوم نے غیر اقوام پر استعماری حکمرانی سے دست برداری شروع کی اور ہندوستان جیسی وسیع سلطنت کو اپنی بلیغ حکمت عملی اور غیر معمولی سیاسی بصیرت کی بدولت چھوڑ دیا۔ فرانسیسیوں جیسے سیاسی احمقوں نے جنہوں نے سب سے پہلے یورپ میں آزادی برابری اور برادری کا اعلان کیا تھا۔ ابھی تک نہ انگریزوں سے کچھ سبق حاصل کیا اور نہ زمانے کی بدلتی ہوئی روشنی سے۔ وہ ابھی تک اپنی ملوکیت کو برقرار رکھنے کے لیے اپنا اور دوسروں کا خون بہا رہے ہیں۔

بہرحال حقیقت یہ ہے کہ دین کی طرح جمہوریت بھی ایک نصب العین ہے۔ کامل جمہوریت ابھی کہیں بھی نہیں تھوڑا بہت ذوق ملوکیت ابھی انگریزوں میں بھی باقی ہے۔ انگریزوں کے بعد زیادہ کامیاب جمہوریت امریکہ کے ممالک متحدہ میں نظر آتی ہے۔ لیکن وہاں بھی کالے اور گورے کا فرق ابھی معاشرت کے اندر ایک مسموم مادے کی طرح باقی ہے۔ امریکہ کے مصلحین اور روشن ضمیر لوگ بتدریج مساوات میں کوشاں ہیں تاہم ابھی اس کی تکمیل میں کچھ وقت لگے گا۔ لیکن وہ زمانہ دور نہیں جب کہ وہاں کے حبشیوں کو صرف قانوناً نہیں بلکہ عملاً بھ مساوات حاصل ہو جائے۔

علامہ اقبال مغربی جمہوریت کے اس طریق کار کے مخالف تھے جس کی وجہ سے قوم کے صالح اور عاقل افراد مجالس آئین ساز میں داخل نہیں ہو سکتے۔ بعض مشرقی ممالک نے مغربی طریق انتخاب اعضائے مجلس کا ڈھانچا تقلید میں اختیار کر لیا ہے یا ان کے گزشتہ فرنگی حکمران مصلحتاً اس کو رائج کر گئے ہیں۔ اس میں یہ عجیب و غریب نتیجہ نکلتا ہے کہ علم و فضل والے اہل الرائے لوگ منتخب نہیں ہو سکتے۔ ووٹ ایسے جاہل زمینداروں کو ملتے ہیں جو اپنا نام تک نہیں لکھ سکتے۔ کسی شخص کو نہ تو اس کے علم کی بنا پر نہ موجودہ سیاست و معیشت کے فہم کی بنا پر اور نہ اس کے اخلاق حسنہ کی بنا پر منتخب کر کے واضح قوانین بنا لیا جاتا ہے بلکہ کہیں ووٹ برادری کی بدولت ملتے ہیں کہیں زمینداری اور سرمایہ داری کی بدولت اور کہیں کہیں عوام کی ابلہ فریبی اور بے خلوص خطابت سے بھی مطلب حاصل ہوتا ہے۔ غرضیکہ نہ علم نہ سیرت نہ معاملہ فہمی یا زور زمین سے حکمرانی میں حصہ ملتا ہے۔ یا نہایت ذلیل دروغ بافی اور جذبات انگیزی سے۔ اسی جمہوریت کے متعلق علامہ فرماتے ہیں کہ اس میں انسانوں کو گنا جاتا ہے اور تولا نہیں جاتا اوراس قسم کے دو سو گدھے بھی اگر ایک ایوان میں ڈھینچوں ڈھینچوں کرنے کے لیے جمع ہو جائیں تو کوئی انسانیت کی آواز تو وہاں سے سنائی نہیں دے سکتی:

متاع معنی بیگانہ از دوں فطرتاں جوئی؟

ز موراں شوخی طبع سلیمانے نمی آید

گریز از طرز جمہوری غلام پختہ کارے شو

کہ از مغز دو صد خر فکر انسانے نمی آید

فکر صالح رکھنے والا ہر شخص سوچتا ہے کہ اگر مغرب کا یہ طر ز جمہوری ناقص ہے تو اس کا بدل کس طرح پیدا کیا جائے۔ مغرب تو آخر کار اس نتیجے پر پہنچا کہ اس کا جو بھی بدل ہو گا وہ اس سے ناقص تر اور اس سے زیادہ خطرات سے لبریز ہو گا۔ لہذا اسی ملسسل اصلاح کی جائے تاکہ یہ عیوب سے پاک ہو جائے اور تمام رعایا کے بنیادی حقوق کی حفاظت کا زیادہ سے زیادہ اور بہتر سے بہتر انتظام ہو سکے۔ اس جمہوریت سے مایوسی اور کامل بیزاری نے مغرب میں یا مسولینی اور ہٹلر پیدا کیے یا روسی اشتراکیت۔ اقبال نے ان سب کو ناقص سمجھا اور اپنے ذہن میں اسلامی جمہوریت کا ایک تصور جماتے رہے جس کی عملاً معین صورت اس وقت کسی کی سمجھ میں نہیں آ ئی۔ کوئی قابل عمل جدید اسلامی نظام کا خاکہ پیش کرنے کی بجائے اب وہ کہتے ہیں کہ اس طرز جمہوری سے گھاگ کر کسی پختہ کار کی غلامی اختیار کر لو۔ اس پختہ کار سے ان کی مراد کوئی عاقل و مجاہد درویش منش مرد مومن ہے۔ ایسا مرد کامل ملت اسلامیہ میں تو کہیں نظر نہیں آتا تو پھر کیا کیا جائے۔ سوائے اس کے کہ انتظار کریں :

مردے از غیب بروں

آید و کارے بکند

اقبال ہی کا نظریہ ہے کہ عصا نہ ہو تو کلیمی ہے کار بے بنیاد اگر کوئی کلیم پیدا بھی ہوا تو اس کے پاس عصا کہاں سے آئے گا۔ عصا تو اب فوج کے ہاتھ میں ہے۔ اور فوجی قوت سے جو عصا دار پیدا ہوتے ہیں وہ کلیم نہیں ہوتے۔ وہ یا ہٹلر ہوتے ہیں یا مسولینی یا مصطفی کمال یا رضا شاہ پہلوی یا نجیب و ناصر یا سوریا میں یکے بعد دیگرے پیدا ہونے والے ایک اور دوسرے کی گردن مارنے والے آمر۔ ایسوں سے بھی اقبال راضی نہیں ہو سکتا:

نہ مصطفی نہ رضا شاہ میں نمود اس کی

کہ روح شرق بدن کی تلاش میں ہے ابھی

اب عمر فاروقؓ کہاں سے آئیں گے اور اگر اس سیرت کا انسان پیدا بھی ہو تو اس کو وہ قوت کہاں نصیب ہو گی جو صحبت رسول صلعم اور زندہ اسلام کی بدولت اس کو حاصل تھی۔ اقبال کے ذہن میں ابوبکر و عمرؓ کی خلافت کی ابتدائی جمہوریت ہے۔ وہ کچھ اسی قسم کی چیز چاہتا ہے۔ لیکن کیا عصر حاضر میں اس کا اعادہ ہو سکتا ہے۔ مسلمانوں کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ معلوم نہیں ہوتا کہ وہ جمہوریت سے گریز کر کے ڈکٹیٹروں کی تلاش نہ کریں بلکہ عقل و ہمت اور ایثار سے اسی جمہوری نظام میں رفتہ رفتہ ایسی اصلاحات کریں کہ اس کی خوبیوں کا پلڑااس کے نقائص کے مقابلے میں بھاری ہو جائے۔ انگریزوں نے اپنی جمہوریت میں بتدریج بہت کچھ اسلامی انداز پیدا کر لیا ہے۔ کیا وجہ ہے کہ مسلمان ایسا بلکہ اس سے بہتر انداز پیدا نہ کر سکیں ؟ روح اسلام میں بہترین جمہوریت کے عناصر موجود ہیں اور بقول اقبال ان کو خاص اداروں میں مجمسم ہونے کی تلاش ہے آخر تمام رعایا کے لیے مساوات حقوق کا سبق اسلام ہی نے تو پڑھایا تھا اور اس پر عمل بھی کر کے دکھایا تھا۔ اسلام ہی نے ریپبلک کو اپنی دینی تعلیم کا لازمی رکن قرار دیا تھا۔ اسلام ہی نے یہ تعلیم دی تھ کہ حکومت مشورت سے ہونی چاہیے۔ اسلامی ہی نے یہ نمونہ پیش کیا تھا کہ امیر المومنین کو رعیت کا معمولی فرد عدالت میں جواب دہی کے لیے حاضر کرا سکتا تھا۔ آزادی ضمیر کا اعلان سب سے پہلے اسلام ہی نے کیا تھا۔ اسلام ہی نے سب سے پہلے رفاہی مملکت قائم کی تھی۔ جس کا کام صرف حفاظت مملکت اور نظم و نسق ہی نہ تھا بلکہ رعایا کی بنیادی ضرورتوں کا پورا کرنا بھی اس کے فرائض میں داخل تھا۔ اس جمہوریت میں رنگ و نسل کی کوئی تمیز نہ تھی عربی کو عجمی پر اور عجمی کو عربی پر کوئی فوقیت حاصل نہ تھی۔ ہر شخص دین کے معاملے میں اور طرز بود و باش میں آزاد تھا۔ اسلام ہی نے معاشیات میں یہ تعلیم دی تھی کہ قومی دولت کو چند ہاتھوں میں مرتکز نہ ہونا چاہیے۔ افسوس یہ ہے کہ خلافت کے سلطنت میں تبدیل ہو جانے کی وجہ سے اسلام کا یہ پروگرام بہت کچھ درہم برہم ہو گیا ہے۔ اسلامی معاشرت اور اس کے نصب العین کے مطابق اجتماعی زندگی بسر کرنے کے لیے جن اداروں اور جن روایات کی ضرورت تھی۔ وہ قائم اور مستحکم نہ ہو سکیں۔ لیکن قرآن اور اسلام کی تعلیم موجود ہے اور ملت اسلامیہ کا احیا اسی کی بدولت ہو سکتا ہے۔ مسلمانوں کو دوسروں سے جمہوریت حریت اخوت اور مساوات کا سبق حاصل کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ لیکن دوسروں نے جس حد تک اسلام پر عمل کر کے سیاسی اور معاشی زندگی کو درست کیا ہے اور صدیوں کے تجربے سے جو ادارے قائم کیے ہیں ان کا مطالعہ کرنا اور خذما صفا و دع ماکدر پر عمل کرنا مسلمان کے لیے لازمی ہے۔ اسلام کسی ایک ملت کے ساتھ وابستہ نہیں وہ کچھ اصول حیات کا نام ہے۔ جس نے بھی ان کو اپنایا ہے اس نے انسانیت کی خدمت کی۔ روح اسلام نے کئی قالب دوسری ملتوں میں بھی اختیار کیے ہیں جہاں کہیں وہ نظر آئیں وہ اسلام ہی ہیں۔ روح اسلام اب ملت اسلامیہ میں کیا قالب اختیار کرے گی اس کا علم خدا ہی کو ہے۔ لیکن روح اسلام میں بہترین قسم کی سوشلزم موجود ہے۔ اگر اسلام کو تنگ نظر فقیہوں کے جمود اور ان کی رجعت پسندی سے نجات حاصل ہو جائے اور مسلمان صورت پرستی کی بجائے روح پروری پر آمادہ ہو جائیں تو پھر دنیا کے سامنے انگریزوں اور امریکیوں کے نظام کم قیمت دکھائی دیں۔ لیکن جہاں حامیان دین کو باہمی تکفیر سے فرصت نہیں اور جہاں اجتہاد کا دروازہ بند ہو چکا ہے وہاں حیات نو کہاں سے پیدا ہو گی زانکہ ملا مومن کافر گراست:

دین کافر، فکر و تدبیر و جہاد

دین ملا فی سبیل اللہ فساد

لیکن مومن کو مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ اگر اسلام زندہ جاوید ہے توا س پر عمل کرنے والے بھی دنیا میں ہمیشہ موجو د رہیں گے۔ ہم نہ سہی کوئی اور سہی۔

گلشن راز جدید میں بھی سوال (۷) کے جواب میں فرنگ کی جمہوریت پر کچھ اشعار کہے ہیں ان کا لب لباب یہ ہے کہ عوام کو عالم محسوسات کا گرویدہ بنا کر اور اضافہ فرض سے ان کو حقوق طلب بنا کر فرنگ کی سیاست اور معاشرت نے انسانیت کی باگ  جو مادہ پرست جمہور کے ہاتھ میں دے دی ہے اس سے نوع انسان کو کسی خیر کی امید نہ رکھنا چاہیے۔ جب تک زندگی کے متعلق انسانوں کا زاویہ نگاہ درست نہ ہو اور ان کے قلوب اخوت و محبت سے لبریز نہ ہوں۔ تب تک جمہور کی سلطانی ایک دیو بے زنجیر کی تباہ کاری ہے:

فرنگ آئین جمہوری نہاد است

رسن از گردن دیوے کشاد است

چو رہزن کاروانے در تگ و تاز

شکم ہا بہر نانے در تگ و تاز

گروہے را گروہے در کمین است

خدایش یار اگر کارش چنین است

ز من وہ اہل مغرب را پیامے

کہ جمہور است تیغ بے نیامے

چہ شمشیرے کہ جاں ہا می ستاند

تمیز مسلم و کافر نداند

٭٭٭

 

 

 

 

 

دسواں باب

 

عقل پر اقبال کی تنقید

 

 

زندگی کے متعلق اقبال کا زاویہ نگاہ جیسے جیسے معین اور پختہ ہوتا گیا ویسے ویسے وہ عقل استدلالی کا نفاذ بنتا گیا۔ اقبال فلسفی بھی ہے اور شاعر بھ اور وہ نادر چیز بھی اپنے سینے میں رکھتا ہے جسے دل کہتے ہیں۔ مشہور ہے کہ شاعر بنانے سے نہیں بنتا جب تک کسی کو فطرت کی طرف سے یہ ملکہ عطا نہ ہو۔ وہ کوشش سے صناع قافیہ پیما اور ناظم تو بن سکتا ہے لیکن شاعر نہیں بن سکتا۔ فطرت کی طرف سے اگر کسی کو یہ جوہر عطا کیا گیا ہے تو مشق اور اصول فن سے اس میں جلا پیدا ہوتی ہے لیکن ہیرا اگر مبدا فیاض نے نہیں بنایا تو محنت اور تراش و خراش سے وہ شعاعوں کا منبع نہیں بن سکتا۔ شاعری میں اقبال کسی کا شاگرد نہیں ہے۔ مرزا داغ کو مراستل میں دو چار طالب علمانہ غزلیں بغرض اصلاح بھیجنے سے کوئی خاص تلمذ قابل ذکر پیدا نہیں ہوتا۔ شاگردی کی درخواست کرنے والوں کو فرمایا کرتے تھے کہ شاعری ایک بے پیرا فن ہے مطلب یہ تھا کہ شاگردی اس میں خدا کی ہی ہو سکتی ہے۔ اسی لیے شاعر کو تلمیذ الرحمن کہا گیا ہے اور شاعری کو جزو پیغمبری قرار دیا گیا ہے۔ شاعری اقبال کو مبداً فیاض سے عطا ہوئی۔ لیکن فلسفے کی تعلیم اس نے اساتذہ سے حاصل کی گورنمنٹ کالج لاہور میں آرنلڈ جیسے جید فلسفی سے فیض حاصل کیا۔ درسیات کے علاوہ اقبال کا شرق و غرب کے فلسفوں کا مطالعہ نہایت وسیع تھا فلسفیانہ ذوق بھی اقبال میں فطری تھا۔ اقبال کو یگانہ روزگار وجہ کمال اسی دو گونہ عطیہ فطری نے بنایا۔ اس کی شاعری کا بڑا حصہ فلسفیانہ شاعری ہے۔ جہاں کہیں دماغ دل کی تائید کرتا ہے اور کہیں دونوں حریف نظر آتے ہیں۔ اقبال آخر تک اسی کش مکش میں مبتلا رہا کہ کبھی عقل سے اسرار حیات کی گرہ کشائی کرنے میں کوشاں ہے اور کہیں اس سے بیزار و مایوس ہو کر عشق و وجدان کی طرف گریز کرتا ہے:

اسی کش مکش میں گزریں مری زندگی کی راتیں

کبھی سوز و ساز رومی کچھ پیچ و تاب رازی

عمر بھر کر اس پیکار کے انجام میں اس کو ایسا محسوس ہونے لگا کہ اس مصاف عقل و دل میں جیتا ہے رومی ہارا ہے رازی لیکن اقبال کی رفتار افکار کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ پچھاڑیں کھا کر بھی رازی بار بار زور آزمائی کے لیے آمادہ ہو جاتا ہے۔ اسلامی نظریہ حیات کی توجیہ نثر میں اقبال نے منظم طور پر صرف اپنے مدراس والے انگریزی خطبات میں کی ہے اور وہاں پیشہ ور فلسفی کی طرح فلسفیانہ استدلال کا تانا بانا بنا ہے۔ جس کا اہم حصہ غیر فلسفی کے لیے جہاں فہم بھی نہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ آخر تک اقبال کی وہی کیفیت ہے کہ :

طور ہوں یخ پیرہن عقل خنک فطرت سے ہوں

شاعری کا سرچشمہ وجدانات، تاثرات اور جذبات ہیں۔ ا چھی شاعری فلسفیانہ استدلال سے پید ا نہیں ہوتی محض علم کے زور پر جو شاعری کی جاتی ہے اور نہ دل نشین شعر۔ اقبال کو فطرت نے اگرچہ شاعر بھی بنایا تھا اور مفکر بھی لیکن اس کی طبیعت میں شعریت کو تفلسف پر غلبہ حاصل تھا۔ بعض نظموں اور بعض اشعار میں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ عارضی طور پر فلسفہ شعر پر غالب آ گیا ہے لیکن شاعر اقبال بہت جلد شعریت کی طرف عود کر آتا ہے کیوں کہ اس کی طبیعت کا اصل جوہر شعریت ہی ہے۔ کل شی یرجع الی اصلہ۔ فلسفے اور شاعری کے باہمی تعلق میں ایک تضاد ہے۔ کہین باہمی تعاون ہے اور کہیں باہمی تخالف۔ ان من الشعر حکمۃ وان من البیان سحرا میں اس حقیقت کا اظہار ہے۔ کہ اچھا شعر حکمت سے خالی نہیں ہوتا۔ اگر استدلال سے شعر کی آفرینش نہ بھی ہوئی ہو تو بھی اس میں سے حکمت اخذ کر سکتے ہیں۔ لیکن خشک فلسفہ اور استدلال اگر شعریت پر غالب آ جائے تو شعر کو شاعری کے پائے سے گرا دیتا ہے۔ فلسفے کے متعلق ایک عربی نقاد کا قول کس قدر صحیح ہے کہ فلسفے کی حیثیت کھاد کی سی ہے۔ علوم ہوں یا اشعار اگر ان میں فلسفے کی ایک مناسب مقدار میں آمیزش ہوتی تو ان کے نشوونما میں معاون ہوتی ہے۔ لیکن خالی استدلالی فلسفہ محض کھاد ہی کھاد ہے جس کی کثافت میں ہر کوئی جوہر لطیف مضمر ہے تو وہ محسوس و ظہور پذیر نہیں۔

اقبال نے کالج کی طالب علمی کے زمانے میں شاعری شروع کی اور اسی زمانے میں وہ فلسفے کی تعلیم بھی حاصل کر رہے تھے۔ کچھ اپنی فطرت کے تقاضے سے اور کچھ تعلیم کی بدولت یہ لازمی تھا کہ ابتدا ہی سے اقبال کی شاعری میں فکر اور تصور کا دل کش امتزاج پایا جائے۔ اردو کے شعرا میں اقبال نے غالب اور داغ دونوں کی مدح سرائی کی ہے۔ داغ کو ہوس کی شاعری میں استاد مانا ہے اگرچہ استاد کے احترام کی وجہ سے ہو س کی بجائے عشق کا لفظ استعمال کیا ہے:

ہو بہو کھینچے گا لیکن عشق کی تصویر کون

اٹھ گیا ناوک فگن مارے کا دل پر تیر کون

داغ کے ہاں لفظ آوارہ مجنونے رسوا سر بازارے، عشاق اور بازاری ہرجائی معشوقوں کے وصل اور رقابت کی تصویر کشی ہے۔ لیکن غالب کے ہاں اقبال کی طرح فلسفی بھی ہے اور شاعر بھی۔ اس لیے اقبال دل سے غالب ہی کا ستائش گر ہے۔ جسے وہ جرمنی کے مفکر شاعر گوئٹے کا ہم نوا قرار دیتا ہے  اور غالب کی خصوصیت بھی اقبال کے ہاں یہی ہے کہ اس کے کلام میں تصور اور فکر کی آمیزش ہے اور شاعری حکمت سے ہم آغوش معلوم ہوتی ہے:

آہ تو اجڑی ہوئی دلی میں آرامیدہ ہے

گلشن ویمر میں تیرا ہم نوا خوابیدہ ہے

لطف گویاء میں تیری ہمسری ممکن نہیں

ہو تخیل کا نہ جب تک فکر کامل ہم نشیں

آخری زمانے کے فارسی کلام میں بھی اقبال نے غالب کے فلسفیانہ اشعار کی توضیح میں لطیف نکتے پیدا کیے ہیں اور اسے مشرق اور مغرب کے اکابر شعرا کے دوش بدوش کھڑا کیا ہے:

شاعری کے اندر فلسفہ سنائی اور عطار میں بھی ہے اور رومی و جامی میں بھی۔ عرفی اور فیضی بھی حکمت پسند شعرا ہیں۔ فیضی اپنے حکیم ہونے کو شاعر ہونے سے افضل سمجھتا ہے۔ چنانچہ نل دمن کی تمہید میں فخریہ لکھتا ہے:

امروز نہ شاعرم حکیمم

دانندہ حادث و قدیم

بانگ درا کے مجموعے میں بڑی کثرت سے فلسفیانہ اشعار ملتے ہیں۔ اقبال کی طبیعت تصور ور تفکر کے درمیان رقص کرتی ہوئی معلوم ہوتی ہے۔ اس کی میزان طبیعت کے دو پلڑو میں ایک طرف فلسفہ ہے اور دوسری طرف شاعری۔ کبھی یہ پلڑا جھک جاتا ہے اور کبھی وہ۔ دل کا وجدان اور بلند پایہ عشق کا میلان جا بجا ابھرتا ہے لیکن عقل اس پر مخالفانہ تنقید کا زور شور نظر نہیں آتا جو بعد کے فارسی کلام اور اردو کلام میں دکھائی دیتا ہے۔ عقل و دل پر ایک نہایت صاف اور سلیس نظم ہے جس میں دونوں کا مقام بتایا گیا ہے۔ اس نظم کا حوالہ پہلے ایک اور ضمن میں کتاب میں آ چکا ہے۔ عقل نے اس میں یہ دعویٰ کیا ہے کہ میں بھولے بھٹکوں کی رہنما ہوں میں زمین پر ہوتے ہوئے فلک پیما بھی ہوں میں شان کبریا کی مظہر اور کتاب ہستی کی مفسر ہوں۔ دل نے کہا کہ یہ سب دعوے درست ہیں لیکن دانش اور بینش میں فرق ہے عین الیقین علم الیقین سے افضل ہے۔ تیرا کام مظاہر میں علت و معلول کے رشتے تلاش کرنا اور مظاہر کی کثرت کو آئین کی وحدت میں پرونا ہے لیکن میں براہ راست باطن ہستی سے آشنا ہوں۔ تو خدا ہو ہے میں خدا نما ہوں۔ رہ عقل جز پیچ در پیچ نیست اس کی وجہ سے تو مضطرب ہی رہتی ہے تیری بیتابی کا علاج فقط میرے پاس ہے۔ تو صداقت تلاش کرتی ہے وار میں کائنات کے حسن ظاہر و باطن کی محفل کا چراغ ہوں۔ تو محسوسات کے دائرے سے نہیں نکلتی جو زمان و مکاں سے رشتہ بپا ہیں اور میرا ادراک ان حقائق کا ہے جو نہ زمانی ہیں اور نہ مکانی میں رب جلیل کا عرش ہوں میرے مقام کی تو کہاں پہنچ سکتی ہے۔

اس نظم میں عقل کی نہ کوئی تنقیض ہے اور نہ اس کی کوتاہی اور حقیقت رسی پر وہ برہمی جو اقبال کے بعد کے کلام میں آتی ہے عقل و دل کے اس مکالمے میں اعتدال صلح مندی اور توازن ے۔ اقبال نے عقل اور عشق کے موازنے کے مقابلے میں سینکڑوں اشعار لکھ ڈالے اور دل نوا ز نکتے پیدا کیے ہیں لیکن ا ن سب کا لب لباب در حقیقت وہی ہے جو اس سادہ سی نظم میں آ گیا ہے۔

بانگ درا کی بعض نظموں سے اس کا پتا چلتا ہے کہ اقبال اس دور میں بھی ابھی تک زندگی کے متعلق مقام حیرت میں ہے۔ وہ سراپا استفسار معلوم ہوتا ہے وہ زندگی کے عقدوں کو کبھی سوچ بچار سے حل کرنا چاہتا ہے۔ اور کبھی دل کے وجدان سے اسرار حیات کی گرہ کشائی میں کوشاں ہے۔ اس کا نقش وجود مصور ازلی کی شوخی تحریر کا فریادی معلوم ہوتا ہے۔ وہ حیرت زدہ ہے مگر ابھی تک عقل کی حقیقت رسی سے مایوس نہیں۔ انسان کے عنوان سے جو نظم لکھی ہے وہ حقیقت میں اس کی اپنی کیفیت کا اظہار ہے:

قدرت کا عجیب یہ ستم ہے!

انسان کو راز جو بنایا

راز اس کی نگاہ سے چھپایا

بیتاب ہے ذوق آگہی کا

کھاتا نہیں بھید زندگی کا

حیرت آغاز و انتہا ہے

آئینے کے گھر میں اور کیا ہے؟

جس طرح بعد میں اقبال نے عقل کو عشق کا غلام بنایا ہے اس دور میں وہ عقل کو حسن کا غلام سمجھتا ہے۔ لیکن جس حسن مجازی اور حسن حقیقی کی طرف اس کا دل کھنچتا ہے اس کے حقیقی وجود کی نسبت ابھی تک اس کے دل میں یقین پیدا نہیں ہوا۔ تشکیک اور تذبذب بڑی بے تابی کے ساتھ نمایاں ہیں :

جلوہ حسن کہ ہے جس سے تمنا بیتاب

پالتا ہے جسے آغوش تخیل میں شباب

ابدی بنتا ہے یہ عالم فانی جس سے

ایک افسانہ رنگیں ہے جوانی جس سے

جو سکھاتا ہے ہمیں سر بگربیاں ہونا

منظر عالم حاضر سے گریزاں ہونا

دور ہو جاتی ہے ادراک کی خامی جس سے

عقل کرتی ہے تاثر کی غلامی جس سے

آہ موجود ابھی وہ حسن کہیں ہے کہ نہیں ؟

خاتم دہر میں یا رب وہ نگیں ہے کہ نہیں ؟

جب خاک و افلاک سے کوئی جواب نہیں ملتا اور زندہ انسانوں میں سے کوئی اسرار حیت کی گرہ کشائی نہیں کرتا تو قبرستان سے جا کر پوچھتا ہے کہ شاید کیفیت ماورائے حیات سے آشنا ہو کر موت کے ذریعے زندگی کا عقدہ کھل جائے۔ خفتگان خاک سے نہایت دلچسپ سوالات کیے ہیں جن میں اس زندگی کی کش مکش بیتابی اور ناردسائی کا اندوہ انگیز نقشہ ہے پوچھتا ہے کہ وہاں کچھ اطمینان ہے یا کہ یہیں کا ساپیچ و تاب ہے۔ خدا نہ کرے وہاں بھی یہاں کی سی الجھنیں اور کھکھیڑیں ہوں بقول غالب:

زاں نمی ترسم کہ گردد قعر دوزخ جائے من

وائے گر باشد ہمیں امروز من فردائے من

یا ذوق کا وہ واحد شعر جو غالب کو بھی پسند تھا:

اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے

مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے

اس تذبذب اور تشکیک اور اس استفہامی کیفیت کے باوجود بانگ درا ہی کی نظموں سے اقبال کی میلان طبع واضح ہوتا ہے۔ ابھی عقل سے بیزاری مایوسی اور بغاوت نمایاں نہیں لیکن عقل کے مقابلے میں دل کا تاثر وجدان اور عشق کو زیادہ حقیقت رس سمجھنے لگتا ہے۔ فلسفے کا ایک ابدی استفہام یہ ہے کہ اس کائنات کا جوہر ازلی کیا ہے اور اس میں جو نظم و نسق آئین و قوانین دکھائی دیتے ہیں ان کا ماخذ کیا ہے۔ یونانیوں نے جب اس پر غور شروع کیا تو کسی نے کہا کہ اصل پانی ہے جس سے تمام چیزیں بنی ہیں کسی نے کہا کہ پانی نہیں آگ ہے۔ کسی نے کہا مظاہر فطرت محبت اور نفرت کی باہمی آمیزش ہوتے ہیں۔ رفتہ رفتہ فلسفیانہ تفکر لطیف ہوتا گیا اور فیثا غورس نے کہا کہ جوہر وجود ریاضی ہے اور اعداد و ریاضیاتی تناسب ہی سے لامحدود اشیا و اشکلا وجود میں آئے۔ سقراط افلاطون اور ارسطو کے ہاں حقیقی وجود صرف عقل کا ہے اور ہر چیز مختلف مدارج میں عقل ہی کی مظہر ہے۔ بعد میں تمام فلسفے پر یونانی عقلیات کا ہی تسلسل رہا ہے اور اکثر حکما میں یہ عقیدہ واضح ہو گیا ہے کہ عقل ہی ماخذ وجود ہے اور عقل ہی معیار صداقت۔ مسلمانوں میں سے کسی نے یہ حدیث بھی وضع کر لی ہے کہ ابتدائے آفرینش میں خدا نے عقل ہی کو پیدا کیا ہے۔ اس کے مقابلے میں دوسرا نظریہ بھی کہیں کہیں پیدا ہو ا کہ اصل حقیقت عقل نہیں بلکہ عشق ہے یونانیوں کے ہا یہ نظریہ ناپسند تھا لیکن عقلیت کے مقابلے میں اس کو فروغ حاصل نہ ہوا۔ عیسائیت میں عقل کو کوئی مقام حاصل نہ ہوا اورس کی جگہ اس عقیدے کی تلقین کی گئی کہ خدا سراپا محبت ہے۔ اسلام نے عقل کو ایک بلند  مقام بخشا اور خدا کی مشیت کو عاقلانہ قرار دیا۔ لیکن صفات ربانی میں سب سے زیادہ اہم صفت رحمت کو بتایا جو تمام مخلوقات پر محیط ہے۔ جس طرح فیثا غورث ریاضی کو اور سقرا ط و افلاطون و ارسطو عقل کو تمام موجودات پر محیط سمجھتے تھے۔ ارسطو کے ہاں خدا تعقل محض ہے اور وہ آپ ہی اپنا معروض ہے فلسفے اور سائنس نے عقل کی مریدی اختیار کر لی اور دوسری طرف دین اپنی بلند اور عمیق صورتوں میں عشق کے مصدر حیات اور جوہر وجود ہونے کا قائل ہو گیا۔

اقبال کا میلان مذہبی اور روحانی ہے۔ اس لیے فلسفے کا ذوق رکھنے کے باوجود رفتہ رفتہ عقل طبیعی اور عقل استدلالی سے گریز کرتا ہوا عشق میں غوطہ زن ہو گیا جس کے مقابلے میں اسے عقل کی جدوجہد سطحی اور ہیچ نظر آنے لگی۔

مسلمانوں میں صوفیہ نے اس خیال کو زیادہ ترقی دی کہ محسوسات اور عقل کے علاوہ اور اس سے برتر و فائق ذریعہ معرفت اور وسیلہ انکشاف حقیقت الٰہی عشق ہے۔ حیات و کائنات کے اسرار عشق ہی کی بدولت روح انسانی پر فاش ہوتے ہیں عدم سے وجود میں آنے کا باعث بھی محبت ہی ہوئی جیسا کہ میر نے کہا ہے:

محبت نے ظلمت سے کاڑھا ہے نور

اسلام نے جو رحمت کو وجہ خلقت بتایا تھا اسی سے تصوف کے نظریات پیدا ہوئے۔ رحمت محبت ہی کا دوسرا نام ہے  اقبال نے بھی سیکڑوں اشعار میں عشق کو خلاق حیات قرار دیا ہے۔ اس مضمون کی ایک نظم بانگ درا میں محبت کے عنوان سے درج ہے جس کا مطلع ہے:

عروس شب کی زلفیں تھیں ابھی نا آشنا خم سے

ستارے آسماں کے بے خبر تھے لذت رم سے

ابھی دنیا امکان کے ظلمت خانے سے ابھری ہی تھی اس  میں مذاق زندگی پوشیدہ تھا۔ لیکن عدم سے وجود میں آنے یا ہیولیٰ کی صورت میں منتقل ہونے کی وجہ یہ ہوئی کہ عالم بالا میں ایک کیمیا گر تھا اس نے عرش کے پائے پر لکھا ہوا اکسیر کا ایک نسخہ پڑھ لیا۔ وہ محبت کا نسخہ تھا اس نسخے کے بہت سے اجزا تھے جو جگہ جگہ سے جمع کرنے پڑے۔ محبت میں نور بھی ہے اور نار بھی  بجلی کی تڑپ بھی ہے اور حور کی پاکیزگی بھی۔ اس میں مسیحائی بھی ہے عاجزی بھی اور افتادگی بھی جب یہ تمام مرکب تیار ہو گیا تو اس کو عالم کے اجزائے پریشان پر چھڑکا۔ جس کے ذروں میں ذوق وصال پیدا ہوا اور موجودات ظہور میں آئے۔ اگر ذروں میں باہمی کشش نہ ہو تو عالم کسی شے کا وجود بھی نہ ہو۔ آسمان کے ستارے اور زمین کے لالہ زار سب محبت ہی کا کرشمہ ہیں َ وجود آفرین بھی ہے اور حسن آفرین بھی:

ہوئی جنبش عیاں ذروں نے لطف خواب کو چھوڑا

گلے ملنے لگے اٹھ اٹھ کے اپنے اپنے ہمدم سے

خرام ناز پایا آفتابوں نے ستاروں نے

چٹک غنچوں نے پائی داغ پائے لالہ زاروں نے

محبت کے ساتھ ایک خاص انداز کا سوز و ساز اور درد و غم بھی وابستہ ہے جو تاثر کی گہرائیوں میں غوطہ زن ہو کر انسان کو زندگی کی حقیقت سے آشنا کر دیتا ہے:

جس طرح رفعت شبنم ہے مذاق رم سے

میری فطرت کی بلندی ہے نوائے غم سے

عقل خنک کے نزدیک غم ایک مہمل چیز ہے عقل کے نزدیک تمام قسم کے جذبات مخرب عقل  ہیں اس لیے حکما ہمیشہ جذبات کو دبانے کی تعلیم دیتے ہیں لیکن جس شخص نے عقل کی بجائے دل کی راہ ڈھونڈ لی ہو اس کے نزدیک عقل سے زیادہ غم عشق انسان کو زندگی کی گہرائیوں سے آشنا کرتا ہے۔ میاں فضل حسین کے نام ایک نظم بانگ درا میں موجود ہے۔ اس میں اس مضمون کو بڑی گہرائی اور خوبی سے ادا کیا ہے۔ کہ غم عشق ہی انسان کو رموز فطرت سے ہم آغوش کرتا ہے۔ کشف حقیقت نہ عقل سے ہوتا ہے اور نہ عیش و طرب سے۔ مسرت کوش انسان بھی فلسفی کی طرح زندگی کی سطحوں پر ہی تیرتا پھرتا ہے۔ اس کی گہرائیوں میں جو معرفت کے گوہر ہیں وہ اس کے ہاتھ میں نہیں آئے:

غم جوانی کو جگا دیتا ہے لطف خواب سے

ساز یہ پیدا ہوتا ہے اسی مضراب سے

طائر دل کے لیے غم شہپر پرواز ہے

راز ہے انساں کا دل غم انکشاف راز ہے

غم نہیں غم روح کا ایک نغمہ خاموش ہے

جو سرود بربط ہستی سے ہم آغوش ہے

جس کی شام آشنائے نالہ یا رب نہیں جس کی رات میں آنسوؤں کے ستارے نہیں چمکتے جس کا دل شکست غم سے نا آشنا ہے۔ جو سدا مست عیش و عشرت ہے۔ اس کے روز و شب میں کلفت غم نہ ہو گی لیکن زندگی کا را ز ابھی اس کی آنکھ سے مستور رہے گا۔ اسی خیال کو اقبال نے اور  مقامات پر بھی مختلف پیرایوں میں ادا کیا ہے:

تو بچا بچا کے نہ رکھ اسے ترا آئنہ ہے وہ آئنہ

جو شکستہ ہو تو عزیز تر ہے نگاہ آئنہ ساز میں

٭٭٭

محبت کے لیے دل ڈھونڈ کوئی ٹوٹنے والا

یہ وہ مے ہے جسے رکھتے ہیں نازک آبگینوں میں

٭٭٭

لاؤں وہ تنکے کہیں سے آشیانے کے لیے

بجلیاں بیتاب ہوں جن کے جلانے کے لیے

ایک طرف علوم و فنون اور قدیم و جدید تفلسف سے اقبال کے دماغ کی نشوونما ور تربیت ہوتی گئی اور دوسری طرف دل وجدان اور تاثر میں غوطہ زن ہوتا گیا۔ اقبال کا فلسفہ حیات یہ تھا کہ زندگی کے ارتقاء کے لیے تصادم اور پیکار نا گزیر ہے۔ یہ پیکار کبھی خارج میں ہوتی ہے اور کبھی باطن میں۔ کبھی فرد ماحول سے ستیزہ کار ہوتا ہے اور کبھی افکار باہم ٹکراتے ہیں۔ اگر زندگی کی کوئی ایک صورت اطمینان  کامل پیدا کر دے تو زندگی جامد ہو جائے۔ خواہ عقل ہو اور خواہ عشق اس کی حیات اور ترقی کا مدار انفس و آفاق کے مسلسل تصادم پر ہے۔ غازی شمشیر سے کفر کے خلاف جہاد کرتا ہے مگر یہ اس جہاد کے مقابلے میں جہاد اصغر ہے۔ جو انسان کو اپنے نفس کے خلاف کرنا پڑتا ہے۔ بقول غالب:

با غازیان ز شرح غم کار زار نفس

شمشیر را برعشہ ز تن جوہر افگنم

یہ نظریہ پیکار اقبال کے لیے کوئی محض علمی نظریہ نہ تھا۔ اس کے اندر بھی عمر بھر کشاکش رہی اور اس کے باہر بھی۔ یہ کشاکش اسے مضطرب بھی رکھتی تھی مگر یہی اس کا سرمایہ حیات بھی تھا:

پھونک ڈالا ہے مری آتش نوائی نے مجھے

اور میری زندگانی کا یہی ساماں بھی ہے

٭٭٭

یہ شہادت کہ الفت میں قدم رکھنا ہے

لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلماں ہونا

جدید نفسیات کا ایک مسلمہ نظریہ ہے کہ انسا ن جس چیز کے خلاف زور شور سے احتجاج کرتا ہے اور صبح و شام اس کے خلاف غم و غصہ کا اظہار کرتا ہے۔ وہ چیز اس کے اپنے نفس کے اندر تحت الشعور میں ابھی غیر مغلوب ہوتی ہے۔ اس کی قوت اور اس کے خروج سے وہ غیر شعوری طور پر خائف ہوتا ہے۔ اقبال جو ہزار جگہ ہزار پیرایوں میں خرد کی تحقیر اور تذلیل کو بڑے لطف اور جوش کے ساتھ بیان کرتا ہے اس کی وجہ غالباً یہ ہے کہ وہ ابھی تک اپنے اندر خرد کے غلبے کو محسوس کرتا ہے اور جس کی سرکوبی میں وہ لگاتار کوشش میں مصروف ہے۔ وقتاً فوقتاً وہ اس کا اقرار بھی کرتا ہے آخری ایام میں بھی وہ سوز و ساز رومی کے باوجود پیچ و تاب رازی سے چھٹکارا حاصل نہیں کر سکا اور جب اپنے متعلق بے غل و غش سچی بات کہتا ہے تو وہ یہی ہوتی ہے کہ:

طور ہوں یخ پیرہن عقل خنک فطرت سے ہوں

یا افسوس کے ساتھ یہ اقرار کرتا ہے کہ نگہ آلودہ انداز فرنگ:

تو اے مولائے یثرے آپ میری چارہ سازی کر

مری دانش ہے افرنگی مرا ایماں ہے زناری

عقلیت کے خلاف جہاد کی دوسری توجیہہ یہ ہو سکتی ہے کہ روحانی وجدان کی ایک کیفیت ہے جو تعقل سے ماوریٰ ہے اور مذہب کا سرچشمہ یہ وجدان ہے ج انبیا اور اولیا میں بدرجہ اولیٰ پایا جاتا ہے لیکن عام طور پر لوگ بھی تزکیہ باطن اخلاق محمودہ اور عبادت الٰہی کی بدولت کم و بیش اس سے بہر ہ اندوز ہو سکتے ہیں۔ جیسا کہ نماز کے متعلق ارشاد ہے کہ الصلوۃ المعراج المومنین یہ جنبش اعضا کی نماز  نہیں ہے۔ بلکہ حضور قلب کی نماز ہے جو انسان کے لیے رفتہ رفتہ باطن کے دروازے کھول دیتی ہے۔ مغرب میں گزشتہ تین سو سال سے خاص عقل استدلالی اور عقل طبیعی کی ترقی کا دور ہیں َ لیکن خارجی فطرت کی تسخیر نے انسان کو باطن کی طرف سے غافل کر دیا ہے اور انسان کی صرف خدا ہی کی نہیں بلکہ اپنے نفس اور تمام مابعد الطبیعیاتی حقائق کا منکر ہو گیا ہے۔ اس دور تعقل نے عالم مادی میں بہت کارہائے نمایاں کیے جن کا اقبال منکر نہ تھا اور  خود مذہب میں سے بھی بہت سے توہمات اس کی بدولت دور ہو گئے۔ اقبال نے سلام کے متعلق جو کہا ہے کہ:

جس کے ڈر سے وہم کا قصر کہن آئین گرا

گردن انساں سے طوق راہب خود بیں گرا

یہ کام مغرب نے بہت کچھ اٹھارویں اور انیسویں صدی میں عقلیت ہی کی بدولت کیا لیکن اصلاحات کے باوجود اس میں خرابی کا یہ پہلو بھی ترقی کرتا گیا کہ مادی عالم اور عقلیت کے سوا اور کوئی چیز حقیقی نہیں ملتی۔ اس تنگ نظر حکمت نے اسنان کی مزید ترقی روک دی اور روحانیت سے معرا ہونے کی وجہ سے مادی ترقی بھی فساد انگیز ہو گئی۔ انگریزی مثل ہے کہ نیم صداقت اور  ادھورا ایمان بہت خطرناک چیزیں ہیں۔ ہمارے ہاں بھی یہی مقولہ ہے کہ نیم حکیم خطرہ جان اور نیم ملا خطرہ ایمان۔ ہمارے ہاں نیم ملا خطرہ ایمان بن گئے اور مغرب میں نیم حکیم خطرہ جان بھی بنے اور خطرہ ایمان بھی۔ اقبال کو یہ خطرہ پیدا ہوا کہ سیاست فرنگ اور تہذیب مغرب کے غلبے کی وجہ سے عقلیت کے خلاف جہاد شروع کر دیا تاکہ مسلمانوں کو اس خطرے سے آگاہ کرے۔ اقبال کے بعض نقادوں نے کہا ہے کہ اقبال نے یہ اچھا کام نہیں کیا۔ کیوں کہ روحانیت تو مشرق کے خمیر میں موجود ہی تھی۔ خواہ وہ خالص حالت میں ہو یا خواہ کم و بیش توہم و تقلید کی آمیزش کے ساتھ مشرق کو خصوصاً ملت اسلامیہ کو بھی عقلیت اور مادیت میں ترقی کرنے کی ضرورت ہے۔ آخر یہ بھی زندگی کا ایک اہم پہلو اور تکمیل انسانیت کے لیے ایک لازمی چیز ہے۔ اقبال کی اس تلقین سے مسلمان کہیں اپنی بے عقلی انسانیت کے لیے ایک لازمی چیز ہے۔ اقبال کی اس تلقین سے مسلمان کہیں اپنی بے عقلی پر ہی نہ مطمئن ہو جائیں اور جو ہمہ طرفی ترقی اقبال چاہتا ہے اس میں رکاوٹ پیدا ہو جائے۔ اقبال کا حقیقی عقیدہ یہ تھا کہ عقل ایک خداداد نعمت ہے اور انسانوں اور حیوانوں میں تمیز و فرق قائم کرتی ہے۔ لیکن اس کی حقیقت کے کچھ حدود ہیں ان حدود سے باہر آ کر دعوے لا حاصل اور لایعنی ہو جاتے ہیں لیکن ان حدود تک عقل سے زندگی کا احاطہ کرنا اور فطرت خارجی کی تسخیر سے قوت حاصل کرنا انسان کے لیے لازمی ہے۔ مغرب کی تعلی آمیز اور مائل بہ الحاد عقلیت نے اس کو ایسا پریشان کیا کہ اس نے علی الاطلاق خرد کے خلاف اعلان جنگ کر دیا اور عقل کے نعم البدل یعنی عشق کی حمایت میں نعرے لگانے لگا۔ اقبال کو اس کا افسوس تھا کہ مغرب نے تو دنیا کو جنت بنانے کی کوشش میں عاقبت اور روحانی حقائق کو فراموش کر دیا لیکن مشرق کے ظاہر اور باطن دونوں میں فساد ہی فساد ہے۔ یہاں خسر الدنیا و الاخرۃ کا منظر اہل ذکر و فکر کو اندوہ گین بنا دیتا ہے۔ عشق کے متعلق اقبال کے کیا تصورات ہیں ان کو ہم بعد میں پیش کریں گے۔ لیکن عقل کے متعلق اور زیادہ تر اس کی مخالفت میں اس نے جو بے شمار اشعار کہے ہیں ان کا انتخاب ذیل میں درج کیا جاتا ہے:

عشق کی تیغ جگر دار اڑا لی کس نے؟

علم کے ہاتھ میں خالی ہے نیام اے ساقی

٭٭٭

خرد کی گتھیاں سلجھا چکا میں

مرے مولا مجھے صاحب جنوں کر

٭٭٭

خرد واقف نہیں ہے نیک و بد سے

بڑھی جاتی ہے ظالم اپنی حد سے

خدا جانے مجھے کیا ہو گیا ہے

خر د بیزار ہے دل خرد سے

٭٭٭

اک دانش نورانی اک دانش برہانی

ہے دانش برہانی حیرت کی فراوانی

٭٭٭

حیات کیا ہے خیال و نظر کی مجذوبی

خودی کی موت ہے اندیشہ ہائے گوناگوں

٭٭٭

علاج آتش رومی کے سوز میں ہے ترا

تری خرد پہ ہے غالب فرنگیوں کا فسوں

ضمیر پاک س نگاہ بلند و مستی شوق

نہ مال و دولت قاروں نہ فکر افلاطوں

٭٭٭

ہے ذوق تجلی بھی اسی خاک میں پنہاں

غافل! تو نرا صاحب ادراک نہیں ہے

وہ آنکھ کہ ہے سرمہ افرنگ سے روشن

پرکار و سخن ساز ہے نمناک نہیں ہے

٭٭٭

علاج ضعف یقیں ان سے ہو نہیں سکتا

غریب اگرچہ ہیں رازی کے نکتہ ہائے دقیق

٭٭٭

جہاں صوت و صدا میں سما نہیں سکتی

لطیفہ ازلی ہے فغان چنگ و رباب

خیرہ نہ کر سکا مجھے جلوہ دانش فرنگ

سرمہ ہے مری آنکھ کا خاک مدینہ و نجف

٭٭٭

برا نہ مان ذرا آزما کے دیکھ اسے

فرنگ دل کی خرابی خرد کی معموری

٭٭٭

عقل کو استاں سے دور نہیں

اس کی تقدیر میں حضور نہیں

علم میں بھی سرور ہے لیکن

یہ وہ جنت ہے جس میں حور نہیں

٭٭٭

نہ دیا نشان منزل مجھے اے حکیم تو نے

مجھے کیا گلہ ہو تجھ سے تو نہ رہ نشیں نہ راہی

٭٭٭

خرد کے پاس خبر کے سوا کچھ اور نہیں

ترا علاج نظر کے سوا کچھ اور نہیں

٭٭٭

خرد نے مجھ کو عطا کی نظر حکیمانہ

سکھائی عشق نے مجھ کو حدیث رندانہ

اس شعر میں اقبال نے خرد کی افادیت کا بھی اقرار کیا ہے اور اس نے جو کچھ عطا کیا ہے اس کا شکر گزار ہے مگر تکمیل نفس عشق کے بغیر نہیں ہوتی۔ یہ بھی فیضان الٰہی سے حاصل ہو گیا:

مقام عقل سے آساں گزر گیا اقبال

مقام شوق میں کھویا گیا وہ فرزانہ

اقبال اس کا منکر نہیں کہ خارجی فطرت کی تسخیر خرد ہی کی بدولت ہو سکتی ہے۔ اور یہ کام بھی کرنے کا ہے جسے فرنگ نے کیا ہے مگر مشرق سوتا ہی رہا۔ فطرت کی تنظیم اور اس کے آئین بہت دلکش اور نظر افروز ہیں مگر انسان عقل سے اس تنظیم میں بہتری پیدا کر سکتا ہے۔ تو شب آفریدی چراغ آفریدم کے مضمون کے پانچ سات اشعار فطرت خارجی میں انسان کی ترمیم و اصلاح کو دلکش انداز میں پیش کرتے ہیں :؛

فطرت کو خرد کے روبرو کر

تسخیر مقام رنگ و بو کر

بے ذوق نہیں اگرچہ فطرت

جو اس سے نہ ہو سکا وہ تو کر

٭٭٭

تازہ پھر دانش حاضر نے کیا سحر قدیم

گزر اس عہد میں ممکن نہیں بے چوب کلیم

عقل عیار ہے سو بھیس بنا لیتی ہے

عشق بیچارہ نہ ملا ہے نہ زاہد نہ حکیم

عقل کی عیاری کا ذکر اقبال نے اور بھی بعض اشعار میں کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ عقل بھی علم کی طرح ایک بے طرف قوت ہے۔ اس کی خوبی یا خرابی ان مقاصد پر منحصر ہے جن کے حصول کے لیے اسے استعمال کیا جائے۔ نفسیات کے بعض علماء اس طرف گئے ہیں کہ عقل میں فی نفسہ اپنی کوئی قوت نہیں۔ انسان کے اندر کچھ خواہشات اور جذبات موروثی اور جبلی ہیں اور انہیں کی بدنظمی اور یا امارگی سے بعض مفید آرزوئیں یا معاملات بھی پیدا ہو جاتے ہیں۔ عقل ان جذبات اور جبلتوں کی محض تماشائی ہے۔ جو تمنا دوسروں کو شکست دے کر قوی ہو جاتی ہے وہ عقل کو حصول مقصد کے لیے بطور آلہ کار بحیثیت غلام استمعمال کرتی ہے۔ عقل اس جذبے کے خیر و شر پر تنقید نہیں کرتی۔ فقط اپنی عیاری اور  ہوشیاری سے غرض کو پورا کرنے کی راہیں سمجھاتی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ عقل حیوانی سطح اسفل پر جذبات کی غلامی ہی کرتی ہے البتہ تزکیہ نفس سے عقل میں روحانی تنویر پیدا ہوتی ہے تو وہ اس  غلامی اور حیلہ سازی سے نجات حاصل کرتی ہے اور حکمت بالغہ کے حصول میں معاون بن جاتی ہے۔ اقبال جس عقل کی عیاری اور حیلہ گری کی طرف اشاعرہ کر رہا ہے وہ ابھی تک جذبات اسفل سے پا بہ زنجیر عقل ہے۔ نجات کا راستہ یہ ہے کہ انسان پہلے اپنی عقل کو آواز کرے اور یہ کام نہایت دشوار ہے۔ جو لوگ تعلی سے اپنے تئیں آزاد خیال سمجھتے ہیں وہ بھی غیر شعوری طور پر عقل سے یہی کام لے رہے ہوتے ہیں کہ وہ ان میلانات تعصبات اور آرزوؤں کی حمایت کرے۔ امراض نفسیات کی تحقیقات نے اس پر بہت روشنی ڈالی ہے کہ عقل کس کس طرح بھیس بدل کر اور قباحت کو لطافت کے رنگ میں پیش کر کے دھوکے پیدا کرتی ہے۔ یہی باتیں ہیں جنہیں من کی چوریاں کہتے ہیں۔ ذلیل و خبیث و ظالم انسان بھی اپنے عمال کے جواز میں بظاہر محکم دلائل تراش لیتے ہیں۔ جس کا نتیجہ بقول یہ ہوتا ہے کہ یہ شریر انسان شہر کو بوقت عمل خیر ہی سمجھ کر کرتا ہے۔ اس عقل کو عارف رومی زیرکی کہتا ہے جو روحانیت اور عشق سے معرا ہو کر امتیازی خصوصیت رہ جاتی ہے:

مے شناسد ہر کہ از سر محرم است

زیرکی زابلیس و عشق از آدم است

اقبال جو خودی کا پیغامبر ہے انسانوں کو تقویت و تکمیل نفس کا پیغام دیتا ہے۔ اس کو اس امر کا بخوبی احساس ہے کہ نفس انسانی کی انفرادی حیثیت کا ایک پہلو عقل کے استعمال اور علم کے حصول سے محکم ہوتا ہے۔ لیکن خالی فہم انسانی محرک عمل نہیں بن سکتی۔ انسان جو کچھ ہوتا ہے وہ کسی تاثیر اور جذبے کی بدولت کرتا ہے۔ اگر اس میں کمی ہو تو عقل زندگی کی تماشائی رہے گی یا اس کی نظری تنقید سے آگے نہ بڑھ سکے گی۔ مسلمان صوفیہ ور بعض حکماء نے جبرئیل کو عقل کا مظہر قرار دیا جو زندگی کے حقائق سے آشنا ہے اور ان میں سے بعض حقائق کو بحکم ایزدی انبیاء پر منکشف کرتا ہے جسے وحی کہتے ہیں۔ معراج نبوی کے بارے میں بعض مسلمانوں نے جو تخیل آرائی کی ہے اس میں اس بات کو بطور واقعہ پیش کیا ہے کہ رسول کریمؐ کی ہم رکابی میں وہ فرشتہ ایک مقام پر پہنچ کر رک جاتا ہے اور عرض کیا ہے ہک آپ آگے تشریف لے آئیے بندے کی پرواز کی آخری حد تو یہی تھی، اگر میں اس سے آگے اڑنے کی جرات کروں تو میرے پر جل جائیں گے:

اگر یک سر موئے برتر پرم

فروغ تجلی بسوزد پرم

عارف رومی نے بھی فیہ مافیہ میں بیان کیا ہے کہ ملائکہ عقل کل ہی کی متنوع اور متمثل صورتیں تھیں۔ جبرئیل ہوں یا اس سے کمتر درجے کے ملائکہ سب اس عقل ہی کی صورتیں ہیں جو  نظام عالم میں کارفرما ہے۔ اقبال نے بھی اسی تصور کو قبول کر کے اس شعر میں بیان کیا ہے:

خودی ہو علم سے محکم تو غیرت جبریل

اگر ہو عشق سے محکم تو صور اسرافیل

جبرئیل کا کام عاقلانہ پیغام پہنچانا ہے لیکن اسرافیل کا کام قیامت انگیزی ہے۔ یہ شعر خیزی انسان کی فطرت میں مضمر ہے۔ بقول غالب:

قیامت می دمد از پردہ خاکے کہ انسان شد

لیکن یہ قیامت جذبہ عشق سے بپا ہوتی ہے۔ عشق ہی خلاق و فعال ہے۔ محض عقل کی کیفیت انفعالی ہے۔ انسانی ارتقاء میں جو قدم بھی اٹھتا ہے۔ وہ جذبہ عشق کی بدولت اٹھتا ہے۔ عالم علم میں مست رہتا ہے۔ اور عابد عبادت میں لیکن عاشق عشق کے اندر لمحہ بہ لمحہ نئے احوال پیدا کرتا ہے  یہ انقلابات و تغیرات صرف نفس تک محدود نہیں رہتے بلکہ اپنے گرد و پیش کے عالم انسانی کی بھی کایا پلٹ دیتے ہیں۔ قیامت کے معنی ہیں پہلے عالم کی موت اور ایک دوسرے عالم کا ظہور۔ قیامت کبریٰ کی حقیقت خدا کے سوا کسی کو معلوم نہیں لیکن دنیا میں جو کبھی کبھی قیامت صغرا سی بپا ہو تی ہے اور کسی مر د مجاہد کی بدولت کوئی بڑا انقلاب ظہور میں آتا ہے۔ اس کا سرچشمہ عقل بلکہ عشق محشر انگیز ہوتا ہے:

بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق

عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی

عشق ابراہیمی نے عقل کے سمجھانے ہوئے مادی و جسمانی نفع و ضرر سے قطع نظر کرنے کی بدولت بت پرستوں کے اڈے میں توحید کا علم گاڑ دیا اور تربیت انسان کے لیے ایک ملت موحدہ کی بنیاد ڈالی۔ محمد رسول اللہ صلعم کے عشق نے اور زیادہ زور سے صور پھونکا جس سے صدیوں کی مردہ نفس ملتیں زندہ اور بیدار ہو گئیں :

سر مکنون دل او ما بدیم

نعرہ بیباکانہ زد افشا شدیم

لیکن خودی علم سے محکم اسی حالت میں ہوتی ہے کہ یہ علم عقل جزوی کی پیداوار نہ ہو جو انسان کو عالم مادی میں پا بگل کر دے۔ دانش برہانی روحانی اسی وقت بنتی ہے جب دل و دماغ کے تمام دریچے کھلے رہیں اور انفس و آفاق کے نور کی کرنوں کے سامنے دیواریں حائل نہ ہوں۔ محض مادی علوم کی تعلیم نے خودی کو مستحکم کرنے کی بجائے اس کو ضعیف کر دیا ہے مادی اسباب تو پیدا ہو گئے لیکن روح پژمردہ ہو کر رہ گئی۔ اقبال اس محدود دانش کے نتائج سے خوب آگاہ تھا:

عذاب دانش حاضر سے باخبر ہوں میں

کہ میں اس آگ میں ڈالا گیا ہوں مثل خلیل

اسی آگ کے متعلق اقبال کا دوسرا شعر ہے:

آج بھی ہو جو براہیم کا ایماں پیدا

آگ کر سکتی ہے انداز گلستاں پیدا

اقبال نے عالم عقلی کی بہت سیر کی ہے لیکن روحانیت کے بارے میں اس صحرا میں اس کو سراب ہی نظر آیا اگر اسی صحرا میں سرکرداں رہتا  تو تشنہ میری کے سوا چارہ نہ تھا۔ مغرب میں وہ فلاسفہ مغرب کی صحبت میں اسرار حیات کو دلائل سے فاش کرنے میں سعی بلی کرتا رہا ہے لیکن آخر میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ یہی وہ علم ہے جسے صوفیہ نے حجاب الاکبر کہا ہے:

فلسفی خود را ز اندیشہ بکشت

ہاں بگو اور ا سوئے گنج است پست

(رومی)

استدلال کی تقدیر میں حضور نہیں۔ استدلالیوں کا پائے چوبیں ان کو لنگڑاتے اور لڑکھڑاتے ہوئے چند قدم تک لے جاتا ہے لیکن کسی منزل پر نہیں پہنچاتا۔ دماغی کاوشوں سے دل کے اندر آب حیات کا چشمہ نہیں پھوٹتا۔ اقبال جب اپنے اس دور تفلسف پر ایک نگاہ باز گشت ڈالتا ہے۔ تو محسوس کرتا ہے کہ اس تگ و دو سے کچھ بھی حاصل نہ ہوا:

مجھے وہ درس فرنگ آج یاد آتے ہیں

کہاں حضور کی لذت کہاں حجاب دلیل

فلسفے نے اس کو آستانے تک لے جا کر چھوڑ دیا۔ درون خانہ داخل ہونے کا راستہ نہ بتایا:

عقل گو آستاں سے دور نہیں

اس کی تقدیر میں حضور نہیں

٭٭٭

رہ عقل جز پیچ در پیچ نیست

بر عاشقاں جز خدا ہیچ نیست

فکر کی خامی کا علاج ذکر ہے۔ عقل کی کمی کو نالہ شب گیر اور فغان صبح کا ہی ہی پورا کر سکتی ہے خرد زمان و مکان میں محدود ہو کر لا زمانی اور لامکانی حقیقت کو تلاش کرتی ہے اوراس میں کامیاب نہیں ہوتی۔

نگہ الجھی ہوئی ہے رنگ و بو میں

خرد کھوئی گئی ہے چار سو میں

نہ چھوڑ اے دل فغان صبح گاہی

اماں شاید ملے اللہ ہو میں

٭٭٭

ترے سینے میں دم ہے دل نہیں ہے

ترا دم گرمی محفل نہیں ہے

گزر جا عقل سے آگے یہ نور

چراغ رہ ہے منزل نہیں ہے

دین نے بھی عقل کو چراغ ہی قرار دیا ہے۔ انسان کی آخری منزل تو کبریا ہے اور وہاں تک مسافت دراز ہے بقول اقبال:

کار جہاں دراز ہے اب مرا انتظار کر

جب تک انسان منزل تک نہیں پہنچتا۔ تب تک راستے کی ظلمتوں کے لیے چراغ کی ضرورت ہے۔ جو شخص ابھی راستہ ہی طے کر رہا ہے مگر چراغ سے بے نیازی ظاہر کرتا ہے۔ وہ ضرور اندھیرے میں ٹھوکریں کھائے گا لیکن اس نے چراغ ہی کو مقصود و منتہا سمجھ لیا ہے وہ چراغ ہی کو معبود بنا لے گا۔ جیسا کہ بعض حکما نے کیا ہے۔ اسلام نے جو عقل کے استعمال پر زور دیا ہے وہ اسی لیے ہے کہ صراط مستقیم پر چلنے کے لیے وہ چراغ کا کام دے گی۔ قرآن کریم کا ارشاد یہ ہے کہ نجات یافتہ جنتیوں کا نور قلب راہنمائی کے لیے ان کے آگے آگے اور گرد و پیش ہو گا۔ نور  کا کام بہرحال راستے کو روشن کرنا ہے۔ نور فی نفسہ مقصود نہیں ہو سکتا۔ مقصود تو خدا ہے جس سے تمام انوار وجود کا اشراق ہوتا ہے:

نہ شب نہ شب پرستم کہ حدیث خواب گویم

ہمہ آفتاب بینم ہمہ آفتاب گویم

(رومی)

خرد کے چراغ راہ ہونے کے متعلق اقبال کا ایک دوسرا قطعہ بھی بصیرت افروز ہے:

خرد سے راہرو روشن بصر ہے

خرد کیا ہے چراغ راہ گزر ہے

درون خانہ ہنگامے ہیں کیا کیا

چراغ رہ گزر کو کیا خبر ہے

عقل اگر جذبات کی غلامی سے کور و تاریک نہ ہو گئی ہو اور جادہ حیات میں مسلسل رہنمائی کرتی رہے تو عقل کی منزل اور عشق کا حاصل ایک ہو جاتا ہے۔ علامہ اقبال نے اپنے انگریزی خطبات میں بھی اس کا اظہار ککیا ہے اور ویسے گفتگو میں بھی فرمایا ہے کہ عقل اپنے گماں میں وجدان میں مبدل ہو جاتی ہے۔ مرد مومن کے متعلق فرماتے تھے:

عقل کی منزل ہے وہ عشق کا حاصل ہے وہ

حلقہ آفاق میں گرمی محفل ہے وہ

اندلس کے مسلمان حکماء کی تعریف میں بھی کہتے ہیں :

جن کی نگاہوں نے کی تربیت شرق و غرب

ظلمت یورپ میں تھی جن کی خرد راہ بیں

یہ مادیات اور طبیعیات میں محصور خرد بے وحی و وجدان خدا کی ہستی کے متعلق یقین پیدا نہیں کر سکتی۔ اور انسان کو تشکیک اور تذبذب کی بھول بھلیوں سے نہیں نکال سکتی۔ اس عقیدے کو اقبال نے کئی جگہ مختلف پیرایوں میں بیان کیا ہے۔ لینن بھی خدا کے حضور میں یہی معذرت کرتا ہے کہ مغربی سائنس کے پاس  خرد کے سوا کوئی ذریعۂ علم نہ تھا اور خرد کے نظریات متغیر اور باہم متصادم تھے۔ ایسی حالت میں مجھے تیری ہستی کا یقین کہاں سے پیدا ہو سکتا تھا:

میں کیسے سمجھتا کہ تو ہے یا کہ نہیں ہے

ہر دم متغیر تھے خرد کے نظریات

فرشتوں کا گیت میں ملائکہ کی زبان سے اقبال اس پر افسوس ظاہر کرتا ہے کہ انسان ابھی عشق ہی میں خام نہیں بلکہ اس نے بھی عقل کا بھی صحیح اور پورا استعمال نہیں کیا۔ جب تک یہ دونوں خامیاں دور نہ ہوں گی اور عشق و عقل اپنے کمال میں ایک دوسرے کے معاون نہ بن جائیں تب تک انسانیت کی تکمیل نہیں ہو سکتی۔ عقل ابھی تک بے عنان، راہ شناس سواری کے جانور کی طرح ہے اور اس کی وجہ سے انسان کا وہی حال ہے جو غالب نے اس شعر میں بیان کیا ہے:

چلتا ہوں تھوڑی دور ہر ایک راہرو کے ساتھ

پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہبر کو میں

اور کچھ ایساہی حال عشق کا ہے کہ ادھر ادھر آنی جانی اشیا کے ساتھ لگاؤ پیدا کرتا ہے۔ ایک کو پکڑتا ہے اور دوسرے کو چھوڑتا ہے۔ ازیک بگستی بد گر پیوستی کہیں مطمئن نہیں ہوتا اس لیے کہ وہ اپنی منزل اور اپنے مقام سے آگاہ نہیں ہے۔ عشق خام بھی عقل خام کی طرح ہرزہ گرد اور ہرجائی ہے:

عقل ہے بے زمام ابھی عشق ہے بے مقام ابھی

نقش گر ازل ترا نقش ہے ناتمام ابھی

کوتاہ کمند خرد کی حکیمی اقبال کے نزدیک خودی کینامسلمانی ہے۔ محدود عقلیت کو جو اپنے محدود مشاہدات اور تجربات سے اصول حیات کا استقرا کرنا چاہتی ہے۔ نہ کسی ولی کی ولایت سمجھ میں آ سکتی ہے۔ اور نہ کسی نبی کی نبوت۔ ابلیس نے اسی محدود خرد سے آدم کو دیکھا تو اس کے اندر پھونکی ہوئی روح الوہیت اور ارتقا انسانی کے لامحدود امکانات اس  کی سمجھ میں نہ آ سکے۔ اسے نصب العینی آدم محض ایک خاک کا پتلا دکھائی دیا۔ آدم و ابلیس کا یہی قصہ تاریخ نے کئی بار دہرایا ہے۔ مسیح کو بنی اسرائیل نہ سمجھ سکے۔ ان کے نزدیک وہ منکر شریعت اور مخرب ملت ہونے کی وجہ سے سزائے موت کا مستوجب بنا۔ محمد صلعم بھی ابوجہل اور بولہب کے لیے قابل فہم نہ ہوئے۔ ان لوگوں میں محدود سی دنیاوی عقل تو تھی لیکن عشق الٰہی سے ان کا ضمیر خالی تھا:

تازہ مرے ضمیر میں معرکہ کہن ہوا

عشق تمام مصطفیٰ عقل تمام بولہب

خارجی فطرت کی تسخیر کی وجہ سے عقل طبیعی میں ایک قسم کا پندار پیدا ہو جاتا ہے۔ جس طرح پندار زہد اور فقیہانہ  غرور انسان کو روحانیت سے دور کر دیتا ہے۔ اسی طرح پندار عقل بھی انسان کو بیباک اور گستاخ کر دیتا ہے۔ روحانیت کے بغیر حکیم طبیعی میں جتنی قوت پیدا ہوتی ہے وہ ایک ساحر کی قوت کی طرح تخریب حیات میں صرف ہونے لگتی ہے۔ طبیعی سائنس اور فلسفہ کو س لمن الملک بجانے لگتا ہے اور اناربکم الاعلی کا نعرہ بلند کرنے لگتا ہے۔ یہ عقلیت فرعون کی طرح انا الحق کہہ کر انسانوں کو اپنا پرستار بنا نا چاہتی ہے۔ لیکن اس پرستاری کا انجام غرقابی اور تباہی کے سوا اور کچھ نہیں :

وہ فکر گستاخ جس نے عریاں کیا ہے فطرت کی طاقتوں کو

اسی کی بیتاب بجلیوں سے خطر میں ہے اس کا آشیانہ

روحانیت سے معرا محض عقلیت کی پیدا کردہ تہذیب کے متعلق اقبال کی پیش گوئی پہلے درج ہو چکی ہے جو اس کی زندگی ہی میں پوری ہونی شروع ہو گئی تھی:

تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی

جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائدار ہو گا

اقبال کے کلام میں کئی جگہ خبر اور نظر کا موازنہ ملتا ہے۔ اس کی کسی قدر توضیح کی ضرورت ہے۔ ایک موٹی سی بات یہ ہے کہ انسان کے پاس علم اور دو ذریعے ہیں۔ خود دیکھا ہوا اور محسوس کیا ہوا علم کم ہے اور دوسروں سے سنا ہوا کتابوں میں پڑھا ہوا یا روایات سے حاصل کردہ علم کی مقدار نسبتاً بہت زیادہ ہے۔ اکثر لوگوں کا دین بھی تقلیدی ہوتا ہے۔ محسوسات اور عقل کی بجائے اس کا مدار نقل پر زیادہ ہوتا ہے۔ جو خبریں لوگوں تک پہنچی ہیں ا ن میں سے بعض انبیا کی طرف بتحقیق یا بلا تحقیق منسوب ہیں اور بعض دیگر بزرگان دین اور ائمہ فقہ کی طرف۔ بعض اولیا کے روحانی تجربات اور وجدانات ہیں وہ بھی عام لوگوں کے لیے خبر ہی ہیں معقولات اور علوم طبیعی کا جو ذخیرہ ہے وہ بھی بہت حد تک بطور خبر ہی عوام تک پہنچتا ہے۔ حیات و کائنات کے بہت کم حقائق ایسے ہیں جن کا تجربہ کسی ایک انسان کو براہ راست ہو۔ ایک حکیم مغربی نے درست فرمایا ے کہ انسان کا اصلی علم جو جزو حیات پر اس کی زندگی میں موثر ہوا اتنا ہی ہوتا ہے کہ جتنا کہ اس کی اپنی زندگی کے تجربہ میں آ چکا ہے۔ باقی معلومات یوں ہی سطح شعور پر تیرتے رہتے ہیں۔ دنیا میں جو کثرت سے علماء بے عمل ملتے ہیں اس کی وجہ یہی ہے کہ ان کا علم بطور خبر ان تک پہنچتا ہے۔ اور وہ اس خبر کو دوسروں تک پہنچاتے رہتے ہیں۔ چونکہ وہ تلقین ان کے اپنے قلوب کی گہرائیوں میں سے نہیں ابھرتی اور خود ان کا کچھ تجربہ اور مشاہدہ نہیں اس کے لیے ان کا وعظ بھی دوسروں کے قلوب کو مرتعش نہیں کرتا۔

ایک گہری بات خبر و نظر کے متعلق یہ ہے کہ زندگی کے حوادث اور کائنات کے مظاہر انسان کو کسی حقیقت ازلی کی خبر دیتے رہتے ہیں۔ یہ آیات یا نشانیاں ہیں ان حقائق کی جو نظر سے اوجھل ہیں لیکن بصیرت پر منکشف ہو سکتے ہیں۔ آیات قرآنی کی طرح قرآن نے مظاہر فطرت کو بھی آیات کہا ہے۔ کیوں کہ یہ تمام نشانیاں ہیں جو ایک خلاق حکیم و رحیم کی طرف رہنمائی کرتی ہیں اور اس کا تقاضا کرتی ہیں کہ انسان میں وہ نظر پیدا ہو جائے کہ جو منظور حقیقی کو براہ راست دیکھ سکے۔ غرضیکہ تقلیدی دین کی طرح سائنس بھی خبر ہی خبر ہے۔ عقل طبیعی دین تقلیدی کی طرح خبر سے نظر کی طرف ترقی نہیں کرتی۔ حالانکہ انسان کا مقصود براہ راست وجدان حقائق ہے دین بھی اسی شخص کا خالص اور کامل ہے جس کے لیے دین ایک شخصی اور روحانی تجربہ اور وجدان ہے۔ تقلید سے تحقیق کی طرف ترقی علم انفس و آفاق کا جادہ ارتقاء اور منزل مقصود ہے جس طرح دین تقلید محض سے ناقص رہ جاتا ہے اور ایمان میں دین عین الیقین والی پختگی پیدا نہیں ہوتی اسی طرح حکیم طبیعی اگر مظاہر کی پیش کردہ خبر یا علامات سے آگے نہ بڑھ سکے و وہ بھی مقصود تک نہیں پہنچتا۔

مرید ہندی اور پیر رومی کے سوال و جواب میں اقبال نے مرشد سے ایک سوال کیا ہے کہ:

خاک تیرے نور سے روشن بصر

غایت آدم خبر ہے یا نظر

اس کا جواب عارف رومی یہ دیتے ہیں کہ:

آدمی دید است باقی پوست است

دید آں باشد کہ دید دوست است

فلسفہ اور سائنس دانش ہے اور وجدان و عرفان بینش حضرت ابو سعید ابو الخیر اور بو علی سینا کے مکالمے کا حال ہم پہلے درج کر چکے ہیں۔ جس میں جو کچھ بو علی سینا نے کہا وہ عقل کی خبر تھی لیکن جو کچھ ابوسعید جانتے تھے وہ چشم بصیرت کا براہ راست مشہود تھا شنیدہ کے بود مانند دیدہ۔

بال جبریل میں ایک نظم فلسفہ و مذہب کے عنوان سے ہے۔ اس میں فلسفی کے تذبذب کا حال تو اچھی طرح بیان کیا گیا ہے لیکن مذہب کی نظر بطور تقابل اس میں نہیں۔ صرف انتا کہا گیا ہے کہ بندہ صاحب نظر کہیں نظر نہیں آتا۔ کہ اس کی بدولت یا خود مجھ میں نظر پیدا ہو یا اس کی نظر یقین آفرین ہو:

یہ آفتاب کیا یہ سپہر بریں ہے کیا؟

سمجھا نہیں تسلسل شام و سحر کو میں

اپنے وطن میں ہوں کہ غریب الدیار میں

ڈرتا ہوں دیکھ دیکھ کے اس دشت و در کو میں

کھلتا نہیں مرے سفر زندگی کا راز

لاؤں کہاں سے بندہ صاحب نظر کو میں

رومی یہ سوچتا ہے کہ جاؤں کدھر کو میں

چلتا ہوں تھوڑی دور ہر ایک راہرو کے ساتھ

پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہبر کو میں

اقبال نے کئی اشعار میں اس خیال کا اظہار کیا ہے کہ بے یقینی فرد ملت اور دونوں کی موت ہے۔ اقبال نے اسی لیے ملت کو فلسفے سے گریز کی تعلیم دی۔ کہ عوام و خواص سب کا ایمان پہلے ہی ضعیف معلوم ہوتا ہے۔ اگر سوچنے والے اس حیرت میں پڑ گئے جو فلسفے کا آغاز اور اس کی انتہا ہے تو وہ پوری قوت کے ساتھ کوئی راہ عمل اختیار نہ کر سکیں گے۔ حکمت بے عشق کے متعلق بال جبریل کے آخری حصے میں فلسفی پر دو اشعار ہیں :

بلند بال تھا لیکن نہ تھا ؤجسور و غیور

حکیم سر محبت سے بے نصیب رہا

پھرا فضاؤں میں کرگس اگرچہ شاہین وار

شکار زندہ کی لذت سے بے نصیب رہا

یہ اشعار تھوڑی سی شرح کے محتاج ہیں۔ فلسفی کے بلند بال ہونے میں کیا شک ہے۔ فلسفی خاک سے افلاک تک اور ثریٰ سے ثریا تک مظاہر عالم کی پیمائش کرتا اور ان کو علت و معلول کے عالمگیر قوانین میں منسلک کر نے کی کوشش کرتا ہے۔ لیکن جرات رندانہ کی طرح جرات عارفانہ بھی ایک چیز ہے جو کشف حقائق کے لیے بہت ضروری ہے۔ فلسفی زمانی اور مکانی طبیعی اور مادی عالم سے آگے پرواز کرتے ہوئے گھبراتا ہے اور سمجھتا ہے  کہ جتنا عالم معقولات کے احاطے میں آ گیا ہے اس کے آگے خلا ہی خلا ہے۔ جن لوگوں نے اس سے آگے بھی کچھ دیکھا اور تجربہ کیا ہے ان کے مشاہدات و توہمات سمجھ کر ٹھکرا دیتا ہے۔ وہ خود اس  خوف میں مبتلا ہے کہ اگر محدود عقلیت کی زمین میرے پاؤں تلے سے نکل گئی تو میں خلائے لامتناہی میں گر جاؤں گا۔ وہ حاضر سے غائب کی طرف جرات کا قدم نہیں اٹھا سکتا۔ آگے اس کو تاریکی ہی نظر آتی ہے۔ اور تاریکی سے انسان فطرتاً خائف ہوتا ہے۔ ایک حکی عارف نے عالم مادی کو چمٹنے والے اوراس پر سے اپنی گرفت کو ڈھیلا نہ کرنے والے شخص کا حال ایک تمثیل میں بیان کیا ہے کہ کوئی شخص رات کے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں ایک پہاڑ کی چوٹی پر سے پھسلا نیچے گہری کھڈ تھی جس کے پہلو میں جا بجا درخت کھڑے تھے۔ تھوڑی دور لڑھکنے کے بعد ایک درخت کی شاخ پر اس  کا ہاتھ پڑ گیا۔ اس نے اس شاخ کو دونوں ہاتھوں سے بڑی مضبوطی کے ساتھ پکڑ لیا۔ زبردست قوت ارادی سے اپنے دونوں پنجوں کو پنجہ آہنیں کر کے تمام رات خوف سے لرزتا رہا اور لٹکتا رہا کہ اگر ہاتھ چھوٹ گئے تو ہزار فٹ نیچے گروں گا اور میرا خاتمہ ہو جائے گا۔ اسی حالت میں وہ صبح تک لٹکا رہا لیکن جب پو پھٹی اور کچھ دکھائی دینے لگا تو اس نے دیکھا کہ تھوڑی سی مسطح زمین اس کے قدموں کی طرف ایک فٹ نیچے تھی۔ خیر اس  کی جان میں جان آئی لیکن اپنی لاعلمی کی بدولت اس نے جو درد و کرب اور خوف میں رات گزاری تھی اس پر افسوس کرنے لگا۔ اندھیرے کی وجہ سے وہ جسارت نہ کر سکا تھا۔ اقبال  کے نزدیک معقولات میں محصور حکیم طبیعی کا بھی یہی حال ہے کہ وہ جسور نہیں۔ اگر جسارت کرے تو فنا نہیں بلکہ بقا کے قریب ہو جائے اور اس  خدا سے اقرب ہو جائے کہ جو کسی قعر عمیق میں نہیں اور نارسا بلندیوں پر عرش نشیں نہیں بلکہ شہ رگ کے قریب تر ہے۔

دوسرا اعتراض حکیم طبیعی پر اقبال نے یہ کیا ہے کہ ہو غیور نہیں۔ یہ اعتراض غور طلب ہے علم میں غیرت کا کیا سوال ہے اس غیرت کا تعلق اقبال کے فلسفہ خودی سے ہے۔ غیور انسان اپنی خودی کا محافظ ہوتا ہے۔ خودی کا گہرا تصور انسان کو دنیا و مافیہا سے بے نیاز کر دیتا ہے اس سے وقار نفس پیدا ہوتا ہے۔ لیکن وقار نفس اسی حالت میں پیدا ہو سکتا ہے کہ انسان اپنے نفس کو عالم طبیعی کی پیداوار نہ سمجھے اور حوادث کے تھپیڑے نہ کھاتا رہے۔ لیکن اگر نفس کی لامتناہی قوتوں پر ایمان نہ ہو و انسان ہر حادثے سے مرعوب اور مغلوب ہو جائے گا۔ وہ مادی قوتوں کے سامنے سر تسلیم خم کرے گا اور جابر یا ذی اقتدار انسانوں کے سامنے بھی اس کی گردن جھکی رہے گی۔ ایسے انسان کو غیور کیسے کہہ سکتے ہیں۔ اقبال نے ایک جگہ خوب کہا ہے کہ خدائے کائنات کے سامنے ایک سجدہ انسان کو ہزار سجدوں سے نجات دلواتا ہے۔ خدا کا پرستار ہی کسی مادی یا انسانی قوت کے سامنے نہیں جھکتا۔ تخلقوا باخلاق اللہ کی تعلیم کے مطابق خدا کے غیور ہونے کی صفت مرد مومن میں بھی پیدا ہوتی ہے۔ ماسویٰ اللہ کے سامنے جھکنے سے تن اور من دونوں جھوٹے معبودوں کی غلامی میں ذلیل ہو جاتے ہیں۔

پانی پانی کر گئی مجھ کو قلندر کی یہ بات

تو جھکا جب غیر کے آگے نہ تن تیرا نہ من

خرد کی کوتاہیوں کا ذکر اقبال عام طور پراس انداز سے کرتا ہے کہ اس میں خلل ہی خلل معلوم ہوتا ہے۔ اور کوئی خوبی دکھائی نہیں دیتی۔ لیکن حقیقت یہ ہے ک عقل خود اپنے حدود کے اندر بھی مسلسل اپنی خامیوں سے آگاہ ہوتی رہتی ہے۔ فلسفے پر عام طور پر اقبال کا اعتراض یہ ہے کہ استدلالی مکانی اور حیوانی عقلیت کے ماوریٰ نہ اس کو کچھ نظر آتا ہے اور نہ ہستی کے ان ماورائی پہلوؤں کا وہ قائل ہوتا ہے۔ یہ اعتراض فسفے کے کثیر حصے پر ضرور وارد ہوتا ہے۔ یونان میں فلسفہ ایک قسم کی مادیت سے شروع ہوا اور ترقی کرتا ہوا خالص عقلیت تک پہنچ گیا۔ لیکن سقراط و افلاطون کی عقلیت سے بھی ماورائے عقل کنہ وجود ے تصور سے مطلقاً معرا نہیں ہے۔ خود افلاطون کے ہاں ایروس یعنی عشق ازلی کا ایک بلند تصور ملتا ہے۔ سقراط نے بھی اقرار کیا ہے کہ میں ایک غیر معمولی عقلی الہام سے زندگی کے اہم موقع پر ہدایت حاصل کرتا ہوں۔ میرے اندر ایک دیوتا ہے جو مجھے ایسے اقدام سے ہمیشہ روک دیتا ہے کہ جو نامناسب اور نامعقول ہوں۔ میں اس مصدر ہدایت کے راز سے واقف نہیں ہوں۔ جو ہدایت مجھے ملتی ہے وہ استدلال کا نتیجہ نہیں ہوتی۔ اسی لیے کسی استدلال سے میں اس کی صحت کا ثبوت بھی پیش نہیں کر سکتا۔ یہ آواز مجھے کچھ کرنے کا حکم نہیں دیتی۔ اس میں کوئی امر نہیں ہوتا۔ خالص نہی ہوتی ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ میرے باطن میں الوہیت کا یہ سرچشمہ میری ایجابی زندگی کو اس مقصد کے موافق سمجھتا ہے جس کو پورا کرنے کا مشن میر ے حوالے کیا گیا ہے۔ لیکن جہاں غلط روی کا امکان ہو وہاں مجھے روک دیتا ہے۔ قدیم اور جدید فلاسفہ میں بڑے بڑے مفکرین ایسے گزرے ہیں جنہوں نے نظریہ علم میں یہی کام کیا ہے کہ عقل استدلالی اور زمان و مکان اور علت و معلول کے حدود کے اندر عمل کرنے والی خرد کی محدودی کو ثابت کیا جائے۔ زمانہ حال میں تنقید نظری کا عظیم الشان کام جرمنی کے امام فلسفہ کانٹ نے شروع کیا۔ اس کے بعد کے اکابر حکمائے مغرب میں بہت کم ایسے ہیں جنہوں نے محض طبیعی عقلیت کو اسرار حیات و کائنات کا کاشف قرار دیا ہو۔ ہیگل کی منطق بھی ارسطو کی سی جامد منطق نہیں ہے۔ اس کے ہاں فکر و حیات میں ہم آہنگی ہے دونوں کے اندر مسلسل تضادات پیدا ہوتے ہیں اور ایک اعلیٰ تر ترکیب کے اندر رفع ہوتے ہیں۔ گویا فکر بھی ایک مسلسل تخلیقی تحقیق ہے۔ جماد و نبات و حیوان و انسان سب کی تعمیر میں ایک خرابی کی صورت یہ پیدا ہوتی ہے کہ جس کو رفع کرنے میں وحدت ترکیبی پیدا کرنا روش حیات و کائنات ہے۔ مغرب میں خدا کے قائل فلسفیوں نے اس منطق سے موافق توحید نتائج اخذ کیے ہیں اگرچہ اس کے بعض پیرو مذہب سے دور ہو گئے المانوی فللاسفہ میں نطشے کا نظریہ حیات اقبال کے نظریہ حیات کے بہت مماثل ہے چنانچہ اسرار خودی کے بعض اشعار میں خودی کی بابت نطشے کا استدلال دلنشیں اشعار میں منتقل ہو گیا ہے۔ نطشے نفس الٰہی اور نفس انسانی کو از روئے ماہیت خلاق اور ارتقا کوش سمجھتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ ہستی خور ورشز تکمیل خودی کے لیے مزاحمتیں پیدا کرتی ہے۔ تاکہ ان پر غلبہ حاصل کر کے وہ قوی تر ہو جائے۔ اقبال کے ہاں بھی شر اور شیطان کا یہی صور ہے جس کی شان میں اس نے بہت کچھ لکھا ہے۔ اس کا یہ مقصود واضح کرنا ہے کہ اگر شر یا اس کے مشخص تصور شیطان کا وجود نہ ہوتا تو ہستی جامد اور بے حرکت ہو کر رہ جاتی۔ عقل طبیعی کا سب سے بڑا نقاس فلسفی برگساں ہے۔ جس سے بہتر کبھی کسی حکیم نے عقل اور وجدان کا موازنہ نہیں کیا اور وجدان حیات کو جو طبیعی اور استدلالی نہیں ہے وہ بھی اقبال کی طرح عشق خلاق ہی قرار دیتا ہے۔ امریکہ کا مشہور ماہر نفسیات اور فلسفی ولیم جیمز بھی طبیعی اور استدلالی عقل کو ہستی کے لامتناہی پہلوؤں کو مدرک نہیں سمجھتا۔ زمانہ حال میں جدید طبیعیات کے ماہرین میں ساڈنگٹن اور جیمز جیسے فلاسفہ پیدا ہو گئے ہیں جو طبیعیات کی ریاضیاتی عقل کو ایک ثانوی چیز قرار دیتے ہیں اور زندگی کو جو اپنا براہ راست وجدان حاصل ہے ان کے نزدیک وہ حقیقت حیات و کائنات سے زیادہ قریب ہے۔ ان تمام فلاسفہ میں کوئی نبی یا ولی نہیں ہے۔ خود عقل کے وسیع تر اطلاق نے اور خود عقل کے تجزیے نے ان کو ان حقائق کا قائل کر دیا جو عقل اور محسوسات اور زمان و مکان سے ماوریٰ اور نفس انسانی کی ماہیت سے قریب تر ہیں۔ جس حد تک اقبال عقل کا نقاد ہے وہ بھی ان حکما کی فہرست میں شامل ہے جو بعض اشعار میں اس نے انہی حکما کے افکار کو اپنے شعریت کے خم میں ڈبو کر رنگین کر دیا ہے۔ ان نظریات کو اقبال نے ایسے جوش اور ولولے کے ساتھ اورایسے دلکش انداز میں پیش کیا ہے کہ خود ان حکماء کا استدلال طبیعت پر ایسا گہرا اثر نہیں چھوڑتا کہ جتنا کہ اقبال کے شعر سے پیدا ہوتا ہے۔ اقبال خود فلسفی بھی ہے اور  شاعر بھی۔ اس کی طبیعت میں بو علی اور رازی کا انداز بھی ہے اور رومی کا سوز و گداز بھی۔ اسی آمیزش نے اس کے کلام کو الہامی بنا دیا ہے اقبال فلسفے اور شعر کے فر ق سے خوب واقف تھا لیکن اقبال کے اندر یہ تضاد قائم نہیں رہتا اور فلسفہ شعر بن کر دل رس ہو جاتا ہے۔ کیا خوب کہا ہے:

حق اگر سوزے ندارد حکمت است

شعر می کردد چو شوز از دل گرفت

بو علی اندر غبار ناقہ گم

دست رومی پردہ محمل گرفت

عقل کے بھی کئی مدارج ہیں۔ بعض حکماء نے ان مدارج کو مادے سے شروع کر کے خدا تک پہنچایا ہے۔ یہ تدرج بھی یونانیوں نے پیدا کی ہے۔ ان کے ہاں ہیولیٰ ہستی بے صورت کا تصور تھا جو عدم کے مترادف ہے ہستی اسفل ترینج مدارج میں وہاں سے شروع ہوتی ہے جہاں سے یہ ہیولیٰ یا عدم کسی تصور کے تحقق سے کوئی صورت اختیار کرتا ہے۔ یہ تصور عالم عقلی ہی کا عکس ہوتا ہے جو عدم پر پڑ کر اس کو وجود بخشتا ہے۔ غرضیکہ عقل کا ظہور جمادات سے شروع ہوتا ہے اور نبات میں کچھ ترقی یافتہ ہے اور حیوانات میں کچھ اور بڑھ گیا ہے۔ انسان میں پہنچ کر عقل کی ترقی انفس و آفاق پر محیط ہو جاتی ہے۔ لیکن ہر درجے میں عقل کے ساتھ مادے کی کچھ نہ کچھ آمیزش باقی رہتی ہے۔ سوا خدا کے جو عقل محض ہے۔ اس میں مادے کی کوئی آمیزش نہیں اور نہ مادے سے ملوث کوئی وجود اس کے علم کا معروض ہے۔ وہاں پہنچ کر عالم و معلوم کی تمیز مٹ جاتی ہے۔ خدا محض اپنا ہی عالم ہے ماسویٰ کا وجود چونکہ حقیقی نہیں اس لیے خدا کو اس کا علم بھی نہیں کیوں کہ اگر علم کا معروض غیر حقیقی ہو تو وہ علم علم ہی نہ رہے گا۔ ارسطو کے نظریہ علم کا لب لباب یہی ہے۔

اکثر حکماء عقل طبیعی اور عقل استدلالی پر آ کر رک گئے اور اس عقیدے کی تلقین کرنے لگے۔ کہ تمام عالم عقلی ہے اور اس کا ادراک بھی عقل کے سوااور کسی چیز سے نہیں ہو سکتا۔ لیکن امام غزالی جسیے حکماء صوفیا نے عقل جزوی اور عقل کلی میں فرق پیدا کیا ہے اور حکما طبیعین کی عقل کو وہ عقل جزوی کہتے ہیں َ جس سے عقل کلی ہونے کا مغالطہ پیدا ہو گیا ہے۔ امام غزالی فرماتے ہیں کہ عقل کے مدارج انسانوں بلکہ حکماء تک بھی ختم نہیں ہوتے۔ اس سے برتر بھی عقل کا ایک درجہ ہے جسے امام غزالی عقل نبوی کہتے ہیں اور رومی نے کہیں کہیں اسے عقل ایمانی کہا ہے۔ اقبال اپنے انگریزی خطبات میں روحانی وجدان کی بابت لکھا ہے کہ وہ بھی محض تاثر یا جذبہ نہیں ہے بلکہ حقائق حیات کی بابت اس میں وسیع تر علم اور عمیق تر بصیرت پائی جاتی ہے۔ یہاں بھی وجدان و عشق و سوز و گداز کے ساتھ ساتھ عقل و علم کی وسعتیں موجود ہیں۔ اقبال بار بار اس پر زور دیتا ہے کہ استدلالی اور طبیعی عقل ہی کو عقل نہ سمجھ لو اور چونکہ لوگوں نے اسی کو عقل سمجھ رکھا ہے جو اکثر حیوانی جذبات  کی غمازی کرتی اور اور زندگی کے متعلق انسان کی نظر میں تنگی پیدا کرتی ہے اور اس لیے وہ عقل کے مدارج کی توضیح کیے بغیر اس کی کوتاہی اور حقیقت نارسی ہی کا زور و شور سے اعلان کرتا ہے۔ جس سے عام پڑھنے والوں کو مغالطہ ہوتا ہے۔ کہ وہ علی الاطلاق ہر قسم کی عقل کو بیکار چیز سمجھجتا ہے۔ اور لوگوں کو اس سے بے راز کر کے بے سمجھے بوجھے ایمان لانے اور جذبہ عشق پیدا کرنے کی تلقین کرتا ہے۔ عقل جزوی وہ ہے جو خود اپنی نقاد اور اپنے حدود و مقام کی شناسانہیں بن سکتی۔ اس کو وہ کبھی الحاد آفریں کہتا ہے اور کبھی بہانہ جو اور فسوں گر مگر اعلیٰ درجے کے حکما اس فسوں گری کا شکار نہیں اور خود فلسفیانہ استدلال ہی سے انہوں نے غیر استدلالی حقائق کا ثبوت پیش کیا ہے۔ خود اقبال نے اپنے انگریزی خطبات میں ایسا ہی کیا ہے ان خطبات میں جو کچھ ہے وہ بھی فلسفہ ہی ہے۔ جسے اقبال نے الٰہیات کی معاونت میں استعمال کیا ہے۔ باقی رہے عقل جزوی یا عقل محدود کے فلسفے جو عقل ایمانی یا عقل نبوی کے قائل نہیں ان کی بابت اقبال مخالفانہ تنقید سے نہیں تھکتا۔ کیوں کہ ایسے فلسفے انسان کو حقیقت حیات خدا اور خودی سب سے بیگانہ کر دیتے ہیں :

چہ کنم کہ عقل بہانہ جو گرہے بروئے گرہ زند

نظریے! کہ گردش چشم تو شکند طلسم مجاز من

نرسد فسوں گری خرد بہ تپیدن دل زندہ

ز نشت فلسفیاں در آ بحریم سوز و گداز من

عقل کی تنقید ان دو چار مخصوص مضامین میں سے ہے جو اقبال کی خاص تبلیغ اور نظریہ حیات کے محور ہیں۔ جو اشعار منتخب کر کے پیش کیے گئے ہیں۔ ان کے علاوہ بھی اور بہت سا کلام ااسی موضوع پر مشتمل ہے۔ اس تنقید کو ختم کرتے ہوئے ہم پیام شرق میں مندرجہ ذیل نظم محاورہ علم و عشق قارئین کی لطف اندوزی اور بصیرت افروزی کے لیے پیش کرتے ہیں۔ اس کا لب لباب وہی ہے جو اس موضوع کے دوسرے اشعار میں بھی موجو د ہے۔ لیکن اقبال کے انداز شعریت میں ہمیشہ جلوہ تازہ بتازہ اور نو بنو ہوتا ہے۔ موضوع خواہ ایک ہی ہو لیکن انداز بیان کی بوقلمونی میں فرق نہیں آتا:

علم

نگاہم راز دار ہفت و چار است

گرفتار کمندم روزگار است

جہاں بینم بایں سو باز کردند

مرا با آنسے گردوں چہ کاراست

چکد صد نغمہ از سازے کہ دارم

بیازار افگنم رازے کہ دارم

عشق

ز افسون تو دریا شعلہ زار است

ہوا آتش گذار و زہر دار است

چو بامن یار بودی نور بودی

بریدی از من و نور تو نار است

بخلوت خانہ لاہوت زادی

ولیکن در نخ شیطاں فتادی

بیا ایں خاک داں را گلستاں ساز

جہان پیر را دیگر جواں ساز

بیا یک ذرہ از درد دلم گیر

تہ گردوں بہشت جاوداں ساز

ز زور آفرینش ہمدم استیم

ہماں یک نغمہ را زیر و بم استیم

علم دعویٰ کرتا ہے کہ میں ہفت افلاک اور چار عناصر یعنی خاک و افلاک کے رموز سے واقف ہوں۔ اور تمام زمانے کے احوال و حوادث میر احاطہ ادراک میں ہیں۔ مجھے بصیرت جہاں بینی کے لیے عطا ہوئی ہے سواس جہان کو سمجھنے کا کام میں نے بخوبی انجام دیا۔ ستاروں سے آگے اگر کوئی جہان ہیں یا کوئی لا زمانی و لا مکانی عوالم کہیں ہیں تو مجھے ان سے کیا واسطہ  میں اسرار کو سربستہ رکھنے کا قائل نہیں جو کچھ معلوم ہوتا ہے تمام ماننے والوں کے سامنے علی روس الاشہاد بیانگ کو اس کا اعلان کر دیتا ہوں۔ عشق اس کے جواب میں کہتا ہے کہ آ پ کی ساحرانہ قدرت کے توہم قائل ہیں مگر آپ ہم سے قطع تعلق کر کے دنیا کو نمونہ جہنم بنا لیا ہے۔ دریاؤں میں بھی آگ لگائی ہے اور ہواؤں  میں کہیں زہر پھیلایا ہے تو کہیں آتش فشاں مادوں سے فضا کو شعلہ زار بنا دیا ہے۔ جب تک ہم سے یاری قائم تھی تو نور تھا ہم سے الگ ہو کر نار بن گیا۔ میری طرح تو بھی لاہوت کے خلوت کدے میں پیدا ہوا تھا لیکن بدقسمتی سے تو شیطان کی لپیٹ میں آ گیا تلبیس ابلیس نے مجھے بھی شیطنیت سکھا دی۔ اب بھی اگر تو باز آ جائے تو پھر ہم اور تم بگڑی کو بنا سکتے ہیں۔ تو محض اپنی قدرت سے دنیا کو جنت بنانے کے وہم باطل میں مبتلا ہو گیا تھا۔ اب تو نے تجربہ کر لیا ہے کہ بے اعانت عشق خالی علم سے جنت کی بجائے دوزخ وجود میں آتی ہے۔ ابتدائے آفرینش میں خدا نے ہم دونوں کو ہمدم اور ایک دوسرے کا معاون بنایا تھا۔ اب بھی باہمی تعاون سے ہم اس  خاکدان کو جنت بنا سکتے ہیں۔ اور اس فرسودہ جہان میں حیات نو پیدا کر سکتے ہیں۔ علم بے محبت کچھ اچھے نتائج پیدا نہیں کر سکتا۔ تھوڑا سا درد دل مجھ سے لے کر پھر عمل کر تو دیکھ کہ اس گردوں کے نیچے بھی بہشت جاوداں کا لطف پیدا ہو جائے گا۔ زندگی میں دو عظیم الشان قوتیں ہیں ایک علم اور دوسری عشق۔ خدا نے ان کو توام پیدا کیا ہے۔ اور ان کا رابطہ اس قسم کا ہے کہ ایک دوسرے کے بغیر بے کار بلکہ ضرر رساں ہو جاتا ہے۔ ازروئے عقل اور بواسطہ ایمان و وجدان اقبال موحد ہے اور خداوند عالم روحانی کا قائل ہے۔ مذہب کی تلقین اپنے وجدان اور حقائق حیات پر غور کرنے کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ زندگی میں دو ہی اقدار اساسی ہیں ایک علم اور دوسرا عشق اور انسانی زندگی کے ہمہ سمتی کا ارتقا کا مدار انہیں اقدار کے تحقق پر ہے۔ لیکن ایک کافر طبیعی فلسفہ برٹرینڈ رسل بھی اپنے عقائد کے متعلق ایک چھورے رسالے میں یہی لکھتا ہے کہ زندگی کے اساسی اقدار علم اور عشق ہی ہیں اور اگر انسانیت اسی عقیدے کو اپنا دین قرار دے کر عمل کرے تو انسانی زندگی کے آلام و خبائث اور ظلم و جہالت سے پاک ہو سکتی ہے۔ برٹرینڈ رسل نہ حیات بعد الموت کا قائل ہے نہ خدا کو مانتا ہے ور نہ کسی روحانی عالم کے وجود کو تسلیم کرتا ہے۔ اس کے ہاں علم کا مفہوم بھی اقبال کے معاملے میں تنگ ہے۔ اور عشق بھی اس کے نزدیک انسانی محبت کے علاوہ اور کوئی حقیقت نہیں رکھتا۔ لیکن آزاد خیالی اور طبیعیاتی فلسفے نے بھی اس کو اقدار حیات کے متعلق روحانیین اور موحدین سے ایک گونہ متفق کر دیا۔ آزادانہ تحقق کی بدولت کفر اور ایمان کے ڈانڈے بھی مل جاتے ہیں :

کفر و دین است در رہت پویاں

وحدہ لا شریک لہ گویاں

٭٭٭

تشکر: فرخ منظور جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید