FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

شہر چپ ہے

               مشرف عالم ذوقی

ساشا کے نام

پیش لفظ

ونیتا مکر جی کہتی ہیں :

’ یہاں دور تک، جہاں نظر دوڑاؤ، بانگڑو وہی بانگڑو بستے ہیں۔ خصوصی طور پر تمہارے ادب کی دنیا میں — ہر ہر قدم پر بانگڑو— جنم مرن سب کچھ بانگڑوؤں کے بیچ — ان بانگڑؤوں کے بیچ تمہارے سچ کی کوئی حیثیت نہیں ہے —‘

ونیتا میری دوست ہیں، کوئی دانشور یا نا مور فنکار نہیں۔ کوئی مفکر نہیں۔ جن کے اقوالِ زریں سے تنقیدی مضامین کی عمارتیں سجائی اور سنواری جاتی ہیں۔ بس ایک عام قاری ہیں ونیتا— اور بانگڑؤوں کے بیچ عام قاری کی بساط کیا —

بات ونیتا سے شروع ہوئی اور ایک لچکدار، الزام پر آ کر ٹھہر گئی۔ میں اپنی بات یہیں سے شروع کرتا ہوں — سب سے پہلی چیز جینوئن ہونا ہے اور ادب کے چھوٹے سے جہان میں بھی ہم اتنے سمجھوتے کرتے جاتے ہیں کہ جینوئن نہیں رہ پاتے۔ میں اپنی نظر میں اس شرط پر کھرا اتر تا ہوں — بہت باریکی سے اپنے ادب کا مطالعہ کرتا ہوں تو لگتا ہے … میں نے ادب جیا ہے … میرے لئے لمحے، پل اور برس کی کوئی قید نہیں رہی۔ میں ہر لمحہ پورے وجود کے ساتھ ادب میں رہا ہوں … اور جیتا رہا ہوں —

میرا پہلا ناول ’ عقاب کی آنکھیں ‘ تھا، جو میں نے سترہ سال کی عمر میں لکھا تھا —

’نیلام گھر ‘ اور ’شہر چپ ہے ‘ میرے کالج کے دنوں کی تخلیق ہے۔” نیلام گھر‘ ۱۹۹۲ء میں شائع ہوا۔ بغیر کسی ترمیم یا اضافے کے۔ میں چاہتا تو اس کو نظر ثانی کے بعد بھی شائع کرا سکتا تھا، مگر میں نے جان بوجھ کر ایسا نہیں کیا۔ میں اس لمحے پر ( نیلام گھر کی تخلیق کے ایام) ایک بن واس کی گرد نہیں ڈالنا چاہتا تھا۔(۸۰ سے ۱۹۹۴ء  کا تقابل کیجئے تو عمر ایک بن واس میں کھو جاتی ہے۔)’ نیلام گھر ‘ اور’ شہر چپ ہے ‘ دونوں ہی ۱۹۸۰ء کے آس پاس کی تخلیق ہیں — یہ وہ دور تھا جب عالمی ادب کے گرانقدر شہہ پارے اپنی چکا چوندھ سے مجھے گرما رہے تھے۔ اور سر پھری لہروں اور دھوپ کی تمازت کا مارا ایک نوجوان انہیں پڑھتا ہوا ناول کی تکنیک سیکھ رہا تھا۔

’شہر چپ ہے ‘ بھی بغیر کسی ترمیم یا تبدیلی کے آپ کے سامنے ہے — ایسا اس لئے بھی ہے کہ سوچتا ہوں کہ عمر کے پیروں کے بل چل کر جب کافی دور نکل آؤں تو کانوں پر ڈھیلے چشمے کو ٹھیک کرتا ہوا چندھی چندھی آنکھیں گڑا کر اپنا ہی محاسبہ کر سکوں کہ میں نے کب کیا سوچا اور کیا لکھا— یعنی پوری عمر کا محاسبہ اور حشر سے پہلے، جاگتی آنکھوں سے اپنے کل اور آج کا حساب لے سکوں۔

’نیلام گھر ‘ میں، میں البیر کامو کے THE PLAGUEسے متاثر ہوا تھا —

’شہر چپ ہے ‘ میں، میں دوستوفسکی کےCRIME  AND PUNISH- MENTسے۔

تب سے چودہ سال کے بن باس کی یہ کہانی بہت آگے بڑھ چکی ہے … پچھلے موسم کی ہوا میں اب صرف میری ایک کتاب رہ گئی ہے — عقاب کی آنکھیں — جسے ابھی نہیں، اپنی کچھ نئی اور تازہ کتابوں کے بعد شائع کرنے کا ارادہ ہے …

ابھی آگے بھی بہت کچھ کہنا ہے …

اس لئے کچھ باتیں فی الحال چھپا کر اپنے پاس رکھتا ہوں …

—— مشرف عالم ذوقی، نئی دہلی

۱

انیل کمرے میں چپ چاپ اداس بیٹھا ہوا تھا۔ صبح ہوئے کافی دیر ہو چکی تھی۔ کھڑکی سے سورج کی شعاعیں چھن چھن کر کمرے میں آ رہی تھیں۔ وقت سب سے بڑا زہریلا ناگ ہے۔ جب تک بابو جی ریٹائر نہیں ہوئے تھے، سوچ اور فکر سے پالا ہی نہیں پڑا تھا۔ اور فکر بھی کیسی — بابو جی نے کبھی سوچنے کا موقع ہی نہیں دیا۔ ہمیشہ خوش رہنے کی بات کی۔ ہمیشہ یہی کہتے رہے کہ بیٹا خوش رہو۔ ہنسو اور مسکراؤ کہ یہی زندگی ہے۔ چار دن کی ضرور ہے، مگر ہنس مسکرا لو گے تو چار سو برس کی ہو جائے گی۔ اس مقولے نے ہمیشہ اس کا ساتھ دیا۔ اور غم اس کے دل کی کتاب سے دور ہوتا چلا گیا— کبھی دوستوں کے جھرمٹ نے اُسے اس لفظ سے دور رکھا تو کبھی چھوٹے موٹے چائے کے ہوٹلوں اور سنیما ہال جیسی جگہ میں کبھی بھی دُکھ کا احساس سامنے نہیں آیا۔ اور وہ بابو جی کی آنکھ میں جھانک کر دیکھتا بھی کیسے کہ ہر وقت مسکراتے ہونٹوں پر کبھی کسی شکوے نے جگہ نہیں لی۔ بابو جی کی ہوئی کمر— چشمے کے فریم سے جھانکتی کمزور دھُندلی آنکھیں —— وہاں اور کچھ دیکھنے کے لئے باقی ہی کیا رہ جاتا ہے۔ یعنی ایک گرتی ہوئی عمارت رہ گئی تھی اور بچ گئے تھے کندھا دینے والے کمزور ہاتھ—

بچپن سے ایک ہی بات اس کے دماغ میں تھی۔ وہ عام بچوں سے مختلف سا ہے۔ بابو جی بھی دوسرے بچوں کے بابوؤں سے بالکل الگ تھے۔ پتنگوں کے موسم میں بالکل بچے بن جاتے تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ خود بھی لٹائی اور اُچکا تھام لیتے تھے۔ پتنگ خریدنے کے پیسے دیتے اور خود بھی بچے بنے دیر تک ’ واہ کاٹا، واہ کاٹا‘ کے شور چھت سے بلند کرتے رہتے —آس پاس کے چھتوں سے کئی مسکراتی آنکھیں رشک کرتی ہوئی بابو جی کے اُچکا تھامے ہوئے ہاتھوں اور بچوں کی طرح چیختے بابو جی کے چہرے پر ٹکی ہوتیں … اسے بڑا اچھا لگتا۔ ان گھروں میں اس کے ایسے بھی کئی دوست تھے جن کے پتا جی پتنگ اڑانے جیسی چیزوں کو بے وقوفی قرار دیتے، سخت منع کرتے اور ایسا کرنے پر غصے کا اظہار بھی کرتے تھے۔ اُن کی سمجھ میں بچوں کے ہاتھ میں صرف کتابیں ہی اچھی لگتی ہیں۔ کھیلنا کودنا بچوں کو ایک دم سے خراب کر دیتا ہے۔ اس کے بر خلاف بابوجی کتابی کیڑے بنے رہنے پر غصہ دکھاتے۔ یہ کیا کہ ہر وقت گھر میں گھسے پڑھ رہے ہو۔ جاؤ بھی باہر۔ کھیلو، کودو، ذرا کھلی ہوا کا لطف لو، صحت بناؤ، جب بھی اداس اور چپ بیٹھے ہوئے دیکھتے تو ناراض ہو جاتے۔ کہتے تھے۔ زندگی کا اصل لطف انہی باتوں میں ہے بیٹا۔ بچپن گزر گیا تو بعد میں بڑا پچھتاؤ گے۔

چھٹ کے تہوار کی ہمارے یہاں بات ہی اور تھی۔ اس دن کو پتنگوں کے خاص دن کے نام سے یاد کیا جاتا تھا۔ ہمارے شہر کی یہ پرانی روایت رہی ہے۔ انیل اس دن بابو جی کے چابکدست ہاتھوں کا دیر تک کرشمہ دیکھتا تھا اور خود پر فخر کرتا تھا۔ بابو جی ایک دن پہلے ہی "منجھا” کرتے اور پھر پتنگوں کے شور آسمان پر بلند ہوتے کہ خدا ہی حافظ ! شام میں قندیل اڑائی جاتی۔ اور ستاروں بھرے آسمان میں پتنگوں کے ساتھ اڑتی ہوئی قندیلوں کا نظارہ اتنا حسین لگتا کہ بیان نہیں ہو سکتا۔ جب تک پتنگیں اڑتی رہتیں چھوٹا بھائی عجیب طرح سے اُچھلتا کودتا اور ہنگامے کرتا رہتا۔ مگر اس کے مزاج میں اتنی شوخی نہیں تھی۔ انیل خاموشی پسند واقع ہوا تھا۔ وہ ایک جانب چپ چاپ بیٹھ جاتا۔ ہنستے ہوئے پتا جی اُس کے قریب آ جاتے۔ پھر اسے سمجھاتے ہوئے کہتے :

"یہ کیا بے وقوفی ہے انیل۔ چپ بیٹھے ہو۔ آدمی کو کبھی بھی خود پر بڑھاپا نہیں طاری کرنا چاہیے۔ ہمیشہ چست و چوکس بنے رہنا چاہیے۔ اور تمہاری عمر تو ابھی کھیلنے کودنے کی ہے۔ پھر یہ چپی کیسی— تم بھی اڑاؤ، ذرا ہاتھ پاؤں کو حرکت دو۔”

اوراس کے ساتھ ہی آسمان سے ایک اور شور بلند ہوتا … ’واہ کاٹا… واہ کاٹا…

پتا جی بہت خو ش ہوتے …

وہ آس پاس سے گھورتی ہوئی آنکھوں کو دیکھتا رہتا۔ ہونٹوں پر زبردستی ایک مسکراہٹ بکھر آتی۔ کیا کہتا …

زمانہ بدل رہا ہے …

پتا جی ! وقت بدل رہا ہے …

اور ہر بدلتا ہوا وقت ہونٹوں سے مسکراہٹ چھنتا جا رہا ہے …

ہم ابھی سے مسئلوں کی بو سونگھ چکے ہیں …

کتنا اندھیرا ہے بابو جی …

مگر نہیں — کچھ بھی تو پتا جی سے نہیں کہہ سکتا تھا۔

اور پتا جی مسکراتی آنکھوں سے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے کہہ رہے ہوتے …

"بیٹے ! مجھے دیکھو۔ عمر کی کتنی منزلیں طے کر چکا، مگر اب تک کتنا ہٹا کٹا ہوں۔ جبکہ میرے دوستوں کو دیکھو تو تعجب ہو گا سب کو بڑھاپے اور فکر نے توڑ ڈالا ہے۔ اس کی وجہ محض اتنی ہے بیٹے کہ میں نے کبھی خود کو کمزور نہیں بنایا۔ بلا وجہ فکر میں گرفتار نہیں ہوا اور خوش خوش رہنے کو ہی زندگی کا جوہر سمجھتا ہوں۔”

پتا جی نے واقعی خود کو کمزور نہیں بنایا تھا۔ اسے پتا جی کی اچھل کود یاد آتی تو اپنی جوانی پر نادم ہو جانا پڑتا۔ اور انیل بچپن کے ان دنوں کو بھلا کیسے فراموش کر سکتا تھا۔

اتوار کے دن پتا جی کے اسکول میں چھٹی رہتی تھی۔ اور سنیچر کو ہاف ڈے رسیوں کا کھیل، دوسرا کرسی کا۔ ایک بہن تھی اور ایک چھوٹا بھائی۔ پتا جی کے ساتھ ساتھ سب اس کھیل میں حصہ لیتے۔ اور اندر آنگن سے ماں جی کی آواز باہر رینگتی رہتی۔ ماں جی بولتی نہیں تھیں تو کیا ہوا۔ ان کی آنکھوں کی مسکراہٹ کتنے سچ ایک ساتھ اگل دیتی تھی۔

جو جتنی بار رسیاں کودتا اسے اتنے ہی انعام ملتے۔ اور یہ انعام ٹافیوں کی شکل میں ہوتا۔ جو سب سے زیادہ لاتا وہ اول قرار دیا جاتا۔ پتا جی اسکول میں ٹیچر ضرور تھے۔ مگر ان باتوں میں ان کا بیحد من لگتا تھا۔ جو اول آتا اسے بطور انعام دو روپئے کا نوٹ بھی ملتا۔ دو روپئے کے نوٹ کی اس وقت بہت اہمیت تھی۔ بابو جی نے کبھی بھی بچت کرنے کے بارے میں نہیں سوچا۔  وہ سب کچھ بچوں کی خوشی کے آگے لٹا دینا چاہتے تھے، ان کا کہنا تھا، جہاں محبت کی کمی ہوتی ہے وہیں کے بچے خراب نکلتے ہیں۔ میں اپنے بچوں کی محبت میں کوئی کمی نہیں لانا چاہتا۔

دھندلی دھندلی آنکھوں میں رسی کا کھیل اسے آج بھی یاد تھا۔

ککو بہن زوروں سے چیخا کرتی۔ پتا جی خود بھی دونوں ہاتھوں میں رسی کی ڈور تھام کر پھندا لگاتے۔

ایک … راما …

دو… راما…

تین … راما…

چار … راما…

پانچ … چھ… سات…

اور پتا جی آہستہ آہستہ کمزور پڑتے جاتے۔ ککو کے قہقہے اور تالیوں کی گونج بڑھتی جاتی۔پھر آٹھ اور نو آتے آتے پتا جی رسیوں میں الجھ جاتے۔ سانس تیز تیز چلنے لگتی اور پھر ایک جھٹکے سے وہ رسی کھینچ کر ہانپنے لگتے۔

"بس ہو گیا … اب تم لوگ کرو۔ دیکھ لیا نہ اس بڑھاپے میں کتنی رسیاں پھاند سکتا ہوں اور تم لوگ تو ابھی سے ایسے کمزور ہو گئے ہو کہ دوچار جھٹکے بعد ہی سانس پھولنے لگتی ہے۔ بھگوان جانے یہ اچھل کود کیسے جاری رہے گی …”

پتا جی کی تیز تیز چلتی ہوئی سانسوں کو دیکھ کر ککو خوب اچھلتی، خوب ناچتی … پھر شوخی سے کہتی۔ "بس پتا جی اتنے سے ہی میں ہار گئے۔ آپ اب میرا کھیل دیکھئے۔”

ککو انیل سے تھوڑی بڑی تھی۔ مگر بڑی شوخ طرار، بدن میں جیسے بجلی بھری تھی وہ اپنے ہاتھوں میں رسی کی موٹی گرہ تھام لیتی۔ اور دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر رسی کودنے لگتی۔ پتا جی مسکراتی آنکھوں سے گنتے رہتے ایک راما … دو راما … دس راما… بیس راما … پچیس راما …

اورککو کودتی ہی جاتی تھی۔

پتا جی ہنستے ہی جاتے تھے۔

اور اندر سے ماں کی آوازیں باہر آتی رہتی تھیں۔

"شرم نہیں آتی جی … اس بڑھاپے میں بچے بنے پھرتے ہو۔ دیکھنے والا کیا کہے گا، کیا سوچے گا۔ کچھ تو عقل کے ناخن لو … بڑھاپے میں یہ سب اچھا لگتا ہے کیا۔

پھر ککو کو ڈانٹتیں … کہیں کوئی ہڈی اپنی جگہ سے ہٹ گئی تو … اب تو بڑی ہو رہی ہے ککو… پھر شادی ہو گی…”

"دھت ” ککو رسی چھوڑ کر الگ ہو جاتی ہے۔ شرم سے لال سرخ ہو جاتی۔

"بیچ میں آ کر تم نے سارا کھیل بگاڑ دیا۔” پتا جی کہتے۔

"اب میری باری تھی ماں …” انیل معمولی غصے سے ماں کو دیکھتے ہوئے کہتا۔

"میرا کھیل ختم کہاں ہوا تھا۔”

ککو لڑنے پر آمادہ ہو جاتی۔” ماں نے ٹوک دیا تو تمہاری باری آ گئی۔”

"رسی تمہارے ہاتھ سے چھوٹ گئی تھی۔ ککو ” انیل غصے میں کہتا۔

"جی نہیں میرا کھیل باقی ہے۔”

پتا جی اس دلچسپ نوک جھونک کا مزہ لیتے رہتے …

اور ککو ہاتھوں میں رسی تھام کر پھر کھیل شروع کر دیتی …

آنکھوں میں کھیل اب بھی جاری ہے انیل۔ مگر اب دیر ہو چکی ہے۔ ککو تو  کب کی کلین بولڈ ہو چکی … صبح ہو چکی ہے۔ سورج کی شعاعیں دیر ہوئی سارے کمرے میں پھیل چکی ہیں … بچپن میرے ا رد گرد حصار کھینچ کر بیٹھ گیا ہے …

اور وہ دیکھ رہا ہے آنکھیں بند کئے … ککو رسیاں پھاند رہی ہے … مگر اچانک —

اُسے احساس ہی نہ تھا کہ پتا جی جیسے لوگ بھی کمزور ہو سکتے ہیں۔ اور ککو کے ہاتھوں سے رسی ہمیشہ کے لئے چھوٹ سکتی ہے۔ رسی کا گیم ہمیشہ کے لئے بند ہوسکتا ہے۔ ماں کی آنکھوں کی مسکراہٹ، تیکھی سر گوشیاں ایک طویل چپ میں بدل سکتی ہیں۔اور یہ گھر جہاں اس نے خوشی اور قہقہے کے علاوہ کبھی دوسری چیز دیکھی ہی نہیں … اُداسی اور ویرانی کے جھینگروں کی آماجگاہ بھی بن سکتی ہے۔ ان سب باتوں کا اسے کبھی خیال ہی نہ تھا۔

خیال ہی نہ تھا کہ ہنسی قہقہے سب کچھ ایک دن خواب بن جائیں گے۔

اور تاریخ کے اوراق پلٹتے ہوئے جسم میں جا بجا آبلے اُگ آئیں گے۔

کرسی کا کھیل بھی کم دلچسپ نہ تھا۔ ککو، شیامو، پتا جی اور انیل چاروں اس گیم میں حصہ لیتے۔ تین کرسی آنگن میں لگا دی جاتی۔ ریفری کا کام ممی انجام دیتیں۔ اُن کے سیٹی بجاتے ہی کھیل شروع ہو جاتا۔ ہم کرسی کے چاروں طرف بھاگنے لگتے۔ ممی ایک سے دس تک گنتیں۔پھر دس گنتے ہی ہم جلدی جلدی کرسی پر بیٹھنے کی کوشش کرنے لگتے۔ جو نہیں بیٹھ پاتا وہ ہار جاتا۔ ہنسی اور قہقہوں سے ہوتا ہوا کھیل شروع ہوتا۔ کھیلوں کے ایسے ہی کتنے رنگ تھے۔

ایک بار کی بات ہے انیل نے ککو کو دھکا دیا تھا اور اس کی کرسی ہڑپ لی تھی۔ ککو دیر تک روتی رہی تھی۔ فائن کے طور پر جب انیل کو کھیل سے ہٹا کر کنارے کھڑا کیا گیا تو انیل ککو سے لڑنے لگا تھا۔ اور پھر — ککو نے اپنی آنکھوں سے آنسو پونچھ لئے تھے۔ اور ممی نے انیل کے حق میں فیصلہ سنا دیا تھا۔

"نہیں ممی انیل نے دھکا نہیں دیا تھا۔ میں نے یونہی اسے دوشی ٹھہرایا۔”

ککو کے آنسو رک گئے۔ آنکھوں میں چمک لہرائی۔

مگر……

وقت گزر گیا تھا۔

اور پتا جی بیتے دنوں کی ان یادوں کو یاد کر کر کے روتے جا رہے تھے … آنسو رکتے ہی نہ تھے۔

گھر کی خوشی کو جیسے کسی کی نظر لگ گئی ہو۔

ایسا کیس ہو گیا۔ کسی کو امید ہی نہ تھی۔ ککو اچانک بیماری پڑی۔ یک ہفتہ بیمار رہی۔ مگر صحت پھر سے لوٹنے لگی تھی۔ اس دن انیل کالج میں تھا۔ محلے کا ایک آدمی بلانے گیا۔ اور جب گھر آیا تو معاملہ ہی الٹا تھا۔ ماں بے ہوش پڑی تھی۔ پتا جی کی ہچکیاں سارے کمرے میں گونج رہی تھیں۔ شیامو پھٹی پھٹی آنکھوں سے اُمڈ آئے آنسوؤں کو روکنے کی ناکام کوشش کر رہا تھا۔ آنگن کے ایک طرف ککو کی چادر ڈھکی ہوئی لاش پڑی تھی…

"دیدی …”

کتا ب ہاتھ سے چھوٹ گئی۔ انیل کی تیز، ہذیانی چیخ فضا میں گونج گئی۔پھر پاگل ہاتھی کی طرح وہ روکتے، سمجھاتے لوگوں کے ہاتھوں کو جھٹک کر ککو کے بے جان جسم کی طرف بڑھ گیا … اُس پر اچانک لرزہ طاری ہو گیا تھا۔ آنکھیں لہو لہو ہو گئی تھیں۔

"نہیں دیدی نہیں۔ یہ نہیں ہو سکتا۔”

اور دوسر ے ہی لمحے بہت سارے ہاتھوں کے بیچ اس کی فلک شگاف چیخ پورے مکان میں گونج اُٹھی تھی اور پھر انہی ہاتھوں میں وہ جھول گیا۔

اور جب ہوش آیا تو پتا جی زور زور سے چلا رہے تھے … بیٹے شیامو … تیری دیدی چلی گئی۔ میری دولت لٹ گئی۔

وہ پچھاڑیں کھا کھا کر رو رہے تھے۔ لوگ انہیں دلاسہ دے رہے تھے۔ سمجھانے کی کوشش کر رہے تھے۔ مگر پتا جی جیسے زمانے کی ساری تھکن آج اُتار دینا چاہتے تھے۔

میری دنیا لٹ گئی لوگو… میری ہنسی چھن گئی۔ میراسب کچھ تھی وہ۔ کوئی لے آؤ میری ککو کو۔

"پاگل ہو گئے ہیں آپ، ہوش میں آئیے ماسٹر جی!”

 مگر ماسٹر جی آج برسوں کا ہوش کھو بیٹھے تھے۔ بے حال ہوئے جا رہے تھے۔ جیسے خود پر بس نہ ہو۔ چیختے چیختے ان کی گھگھی بندھ گئی تھی۔

نحوست کی چھپکلی جانے کہاں سے آئی اور سارے گھر میں گھومنے لگی۔

ککو چلی گئی۔

لیکن اپنے ساتھ کچھ سمیٹ کر لے گئی۔ چیئر گیم، رسی کا کھیل، پتا جی کی مسکراہٹ سب کچھ لے گئی۔ دھریندر کپور چپ چاپ ایک کونے میں بیٹھے دیوار پر ٹنگی ہوئی ککو کی تصویر کو گھورتے رہے۔ اتنی دیر تک کہ ان کی آنکھیں درد سے بھر جاتیں۔ پھر تھکے بوجھل قدموں سے اٹھتے— تصویر تک جاتے اور آنکھیں اُمڈ آتیں …

ککو… سچ کہنا … آج سے قبل تو نے میری آنکھوں میں کبھی آنسو دیکھے تھے۔ مگر اب یہ بوڑھا باپ جو آج تک تم لوگوں سے کبھی جھوٹ نہیں بولا، آج یہ کہہ رہا ہے کہ اب کبھی بھی وہ ہنس نہیں سکے گا۔ ککو میں مکمل طور پر ٹوٹ گیا ہوں۔ تم سے قبل تو مجھے جانا تھا پگلی۔ تیری تو شادی ہونی تھی۔ پوری زندگی باقی تھی … ابھی تو نے دیکھا ہی کیا تھا کہ سانس سانس کا ادھار جوڑ کر اوجھل ہو گئی … قصوروار کو کیا ایسی سزادی جاتی ہے ککو … کوئی شکایت تھی تو اس کا اظہار لفظوں میں کیا ہوتا۔ مگر …

پتا جی !

انیل اور شیامو دونوں کھڑے ہیں۔” آپ اتنا گھبرائیں گے تو ماں کا کیا ہو گا؟” انیل کی آنکھیں ڈبڈبا آئیں … صبر نہیں کر سکتے پتا جی۔ میری سور گواسی بہن کی آتما کو شانتی پہنچے گی۔”

سچ مچ ککو سب کچھ لے گئی تھی۔ انیل کو رگھوبیر کی یاد آئی جو دم سادھے مون برت لئے ایک ہفتے تک اس کے ساتھ رہا۔ پر کچھ بولا نہیں۔ ہاں آنکھوں میں آشاؤں کے سارے دیپ بجھتے ہوئے دکھائی دیئے۔ ہاں اتنا ہی بولا تھا رگھوبیر … موت حقیقت ہے۔ سب کو جانا ہے۔ سب کو وہیں جانا ہے ایک دن …

اُس کی آنکھیں خشک تھیں اور بڑی ڈراؤنی لگ رہی تھیں۔ پھر رگھوبیر چلا گیا۔ اپنے اندھیرے گھر میں جہاں سے ہر دم روشنی کے لئے وہ اس کے گھر میں بھاگ آتا تھا۔ اور یہاں کی تیرگی اسے سڑکوں پر آوارہ پھرنے پر مجبور کر دیتی تھی۔

"کہیں بھی چین نہیں ہے۔”

اور موت کا ہاتھ بہت ہی دور ہے مجھ سے۔

رگھو بیر ہمیشہ کہتا تھا۔ "انیل ہم مسئلوں کے درمیان کے لوگ ہیں۔ کچھ کرو کہ گھر میں زندگی پیدا ہو جائے۔”

"پر اب زندگی آئے گی کہاں سے ؟”

دونوں سوچنے لگتے۔ اپنے اپنے گھر کی بات۔

اور انیل کو یاد آتا۔ پچھلی تمام کہانیوں میں اس کا رول کیا رہا ہے۔ ذمہ داریوں نے اس کے کندھے تو بھاری کر دیئے ہیں،لیکن وہ کتنی ذمہ داری اٹھا سکا ہے۔ یہی مجبوری دونوں کی تھی۔ اور دونوں کسی اندھیری سرنگ میں بڑھتے جا رہے تھے۔

گھر میں تھا ہی کیا۔ فانوس بجھ گئے۔ کمرے میں اندھیرا سمٹ آیا تھا۔ ککو کے بعد کچھ دنوں تک تو بڑا عجیب عالم رہا۔ پتا جی صحن میں کئی بار کرسیاں برابر کرتے ہوئے نظر آئے۔ بڑے افسردہ سے بجھے بجھے سے۔ ککو کی خاص کرسی پر دیر تک انگلیاں پھیر پھیر کر اس کی موجودگی کے لمس کو محسوس کرتے۔ پھر بجھے بجھے کمرے میں چلے آتے۔ کبھی کھیل والی کرسی کو اٹھاتے، پاگلوں کی طرح چومتے۔ آنکھوں میں آنسو بھر آتے تو اپنے کمرے میں بوجھل پن لئے لوٹ آتے۔

محلے والوں سے بھی یہی کہتے۔

"اب اسکول میں دل نہیں لگتا ہے۔ جو کچھ کما رہا تھا۔ اپنی ککو کے لئے۔ مگر وہی نہیں رہی۔ اب جی ٹوٹ گیا۔”

ہاں اسکول سے رشتہ قائم رکھا کہ دل بہلنے کا وہی سامان تھا۔ وہاں بچوں میں گھبراہٹ اور پریشانی کسی قدر دور ہو جاتی تھی۔

شیام کپور بھی اب بڑا ہو چکا تھا۔ ککو کے اچانک حادثے نے اسے بالکل ہی گونگا کر دیا تھا۔ اتنا ہنس مکھ شرارتی شیام اب پڑھائی کا کیڑا بن چکا تھا۔ انیل ایم۔ اے کے آخری سال میں تھا۔ سوچ اور فکر کے گھنے بادلوں نے ذہن میں ڈیرا ڈال دیا تھا۔ آگے کے نا ہموار راستے اور راستوں کی پریشانیاں سامنے تھیں۔ بار بار بابوجی کے جھکے ہوئے کندھے اور کمزور جسم کا خیال آتا۔ ماں کی دھندلی دھندلی آنکھیں انیل کا پیچھا کرتی رہتیں۔ پھر ایم۔ اے کے جنجال سے وہ باہر آ گیا۔ ایم۔ اے کرنے میں اس کی تقدیر کا بڑا ہاتھ تھا۔ کئی کئی ٹیوشنس نے اسے سہارا دیا تھا۔ اور وہ ا س لائق ہوا تھا کہ ایم۔ اے کے امتحان میں بیٹھ سکے۔ قسمت نے بھی اس معاملے میں اسکا ساتھ دیا تھا۔

رگھو بیر زندگی کے اس نا معلوم سفر میں انیل کے ہمراہ تھا۔

وہ اکثر کہتا تھا دوست! یہاں صرف پریشانیاں ہیں۔ قسمت بھی پھوٹی ہے۔ ہم ذمہ داریوں کی فصیل پر کھڑا بھی ہونا چاہیں تو مضبوط ہاتھ ہمیں دھکا دیکر گرا دیتے ہیں۔”

اس کی آنکھیں جلنے لگتیں۔ اور پھر رگھو بیر اپنے خاص انداز میں ہونٹ کو بھینچتے ہوئے بڑ بڑایا—” اب ہمیں ٹوٹنا نہیں ہے بلکہ سنبھل سنبھل کر چلنا ہے۔ نا امید نہیں ہونا ہے۔ بلکہ تاریک غار میں بھی امید کی شمع جلانی ہے۔”

"مگر سوچو دوست، کیا یہ محض باتیں ہیں، یا ایسا ممکن ہے تو کیسے — تھکنے سے پہلے کچھ حوصلہ چرا کے رکھنا ہے … تاکہ آگے کام آسکے …”

اور یہ رگھوبیر اور انیل تھے۔ یعنی زندگی کی سڑک پر خود سے کھڑے ہونے والے دوبے روز گار اپنے غموں کا خود ہی درماں بننا چاہتے تھے— اپنے اپنے گھر کا اندھیرا دونوں کے سامنے تھا۔ اور دونوں ہی اپنے اپنے گھر کے مسئلے کو خود سلجھانا چاہتے تھے۔ دونوں ہی کا معمول تھا۔ صبح ناشتے کے بعد گھر چھوڑ دیتے۔ پوسٹ آفس اور لائبریری تک دس چکر لگاتے۔ اخبارات دیکھتے کہ شاید زندگی کی گوٹی کہیں فٹ ہو جائے۔مگر نہیں، شاید زندگی کو ایک عجیب امتحان مقصود تھا۔

اور منزل ان سے دور کھڑی مسکرا رہی تھی۔

رگھوبیر کا چڑ چڑا پن روز بہ روز بڑھتا جا رہا تھا۔ اخبارات کی ایک جیسی اُداس اور باسی خبروں پر اس کا تیکھا تبصرہ سننے سے تعلق رکھتا تھا۔

ان اخباروں میں روزگار کے اشتہارات نہیں چھپتے۔ موت چھپتی ہے، ڈکیتی چھپتی ہے، قتل، رہزنی، ریپ کے واقعات چھپتے ہیں۔ ان خبروں کو غور سے دیکھو انیل— اور ملک کے مستقبل یعنی اپنے بارے میں خود ہی فیصلہ کر لو۔

ایک نوجوان نے قطب مینار سے کود کر خود کشی کر لی۔

پولیس کے تصادم میں کئی نوجوان مارے گئے۔

فسادات، ملک کا لہو لہان چہرہ، نا امیدی کی فصلیں، سرکاری غیر اطمینان بخش رویے اور اخباری سر خیوں میں نظر آنے والی موت …

نوجوان پر لاٹھی چارج —

فلم دیکھ کر دوبے روزگار نوجوان نے ایک لکھ پتی کی لڑکی کا اغوا کر لیا۔ گاڑی الٹ گئی — بس جلا دی گئی — خون — قتل — سو میں ننانوے خبریں بس اسی کی ہیں۔اب تم خود فیصلہ کرو۔ ہمارا ملک کہاں جا رہا ہے۔ ہم کہاں جا رہے ہیں۔ اخبار سے روز گار کی تلاش کہاں تک درست ہے۔ ہمیں فیوچر کہا جاتا ہے … بھوش، مستقبل کہا جاتا ہے۔ اور یہ مستقبل سڑے ہوئے ہوٹلوں میں محض چائے کی ایک پیالی کا قرض دار بن جاتا ہے۔ پاگلوں کی طرح کندھے پر جھولا ٹانگے سڑکوں پر آوارہ گردی کرتا پھرتا ہے۔”

"اور کیا راستہ ہے۔” انیل نے آہستہ سے اس کے چہرے کے اُتار چڑھاؤ کو پڑھتے ہوئے کہا۔

"راستہ۔” رگھو بیر کی آنکھوں میں چمک لہرائی۔” راستہ ہے۔”

’ ’مگر ہم کچھ کر بھی تو نہیں کر سکتے۔ اتنا پیسہ بھی نہیں کہ بزنس کر سکیں۔ ” انیل کی کمزور آواز پھر اُبھری۔ رگھوبیر چپ ہو گیا۔

"راستہ ہے۔” یہ بات وہ پہلے بھی کئی بار کہہ چکا تھا۔ اور ایسے ہر موقع پر اس کی آنکھوں میں عجیب سی چمک آ جاتی۔ مگر وہ انہیں لفظوں کا جامہ نہیں پہناتا تھا۔ایک دم سے گونگا ہو جاتا۔ سارے راستے کھویا کھویا چلتا۔ نہ ہی بات چیت ہوتی۔ نہ چائے پی جاتی۔ بس وہ گم سم ہو جاتا۔ اور صرف ا تنا بڑ بڑاتا… راستہ ہے … ہے راستہ …

یہ رگھو بیر کی پرانی عادت تھی۔ سمجھوتے کی، اس کے اندر بڑی کمی تھی۔ کبھی کبھی اس کے چہرے پر ابھر ے نقوش کو دیکھ کر انیل بھی ڈر جاتا۔ مگر کچھ کہتے ہوئے ڈرتا تھا۔ اسے اس حال میں چھیڑنا بھی مناسب نہ تھا۔ اسے چھیڑنا سانپ کے بل میں ہاتھ ڈالنا تھا۔ اتنا جانتا تھا کہ وہ اس سے کہیں زیادہ فریسٹریٹیڈ ہے۔ باپ کی نا گہانی موت اور ذمہ داری کے اچانک احساس نے اس کے سمجھوتے کی بنیاد کو کمزور کر دیا ہے۔ جس بنیاد پر رگھو بیر ایک مضبوط عمارت کی بنیاد رکھنا چاہتا تھا۔ وہ عمارت ہل چکی ہے۔ ٹوٹ چکی ہے۔ رگھو بیر کے گھر میں اس کے علاوہ صرف دو آدمی اور تھے۔ ایک مجبور ماں اور ایک بہن —— گھر میں ہر وقت عجیب سی ویرانی کا ڈیرا رہتا۔ انیل جب بھی اس کے گھر گیا۔ اس نے چپ ہونٹوں کے بے زبان مکالموں کو سنا۔ پھر جلدی ہی اسے گھبراہٹ کا احساس ہونے لگتا۔ یہاں بھی زندگی نہیں ہے۔ اس کے گھر کی طرح —پھر وہ گھر آ جاتا۔

رات کے اندھیرے میں چلتی ہوئی تیز ہوائیں۔ کتوں کے شور، کبھی کبھی سڑک سے بلند ہوئی موٹر گاڑی کی تیز ہارن کی آواز خاموشی میں خلل ڈالتی۔ پلنگ پر آسمان تاکتی ہوئی ماں کی دھندلی آنکھیں ہو تیں — چوکی پر تپا جی کا بڑھاپا —— بند کمرے میں مطالعہ میں مصروف ہوتا شیام۔

دھریندر کپور کو اب پنشن ملنے لگی تھی۔

وقت سب سے بڑا دوزخی ہے۔ جو زمانے کے تمام پرانے اصولوں کو توڑ دیتا ہے اور ایک نئی زندگی کا آغاز کر دیتا ہے۔ وقت کب کس موڑ کروٹ بدلے گا۔ کوئی نہیں جانتا ہے۔ اور وقت نے تیزی سے کروٹ بدل لی تھی۔ منحوس ساعتوں نے گھر میں اپنا ڈیرا ڈال دیا تھا —— اور ایک لمبی چپ بچھ گئی تھی۔

ایک آواز بار بار رات کی تنہائی میں انیل کا پیچھا کرتی…

"انیل !”

یہاں سب کچھ مردہ ہے۔

یہاں زندگی نہیں ہے۔

ککو دیدی صرف چیئر گیم اور رسی کا کھیل ختم نہیں کر گئیں۔

بلکہ یہاں سے زندگی کی تمام رونقیں بھی ساتھ لے گئی ہیں …

اندھیرے میں ذہن کے پردے پر رگھوبیر کی گمبھیر آواز گونجتی—

"راستہ ہے۔”

گھر کی یہ زندگی کب لوٹے گی ؟

پتا جی کھانستے ہوئے پوچھتے —— نوکری ملی ؟

پھر اس کی طویل چپ کو دیکھ کر امید سے بھری آواز کمزور پڑ جاتی۔ نظریں جھک جاتیں۔

پھر ماں کی آواز ابھرتی——” نعمت خانے میں کھانا رکھا ہے۔نکال کر کھالو۔”

 یہ روز کا قصہ تھا۔ وہ چپ چاپ آگے بڑھتا۔ سیڑھی کے پاس ہی رسوئی تھی۔ نعمت خانے سے وہ اپنی پلیٹ نکالتا۔ وہیں کھڑے کھڑے کسی طرح کھانا ہضم کرتا۔ چاپا نل سے ہاتھ دھوتا۔ اور سیڑھیوں کا فاصلہ طے کر کے اپنے کمرے میں چلا جاتا۔

تنہائی کے بستر پر رگھو بیر اس کے ساتھ ہی لیٹ جاتا اور پھر اس کا الجھا الجھا چہرہ اچانک اس کی آنکھوں کے سامنے آ کر روشن ہو جاتا…

"راستہ ہے۔ ہمیں یہ ڈرنے اور بھاگنے کا کھیل اب ختم کرنا چاہئے۔”

"مگر کیسے۔” اس کے آنکھوں سے شعلے نکل رہے ہوتے۔

وہ اپنی آنکھ بند کر لیتا … نہیں رگھوبیر نہیں …

"ہاں ” اس کی آنکھوں کی چمک مزید بڑھ جاتی۔ اور وہ سانپ کی طرح پھنکارتا۔

 "سن رہے ہو انیل !میری بات غور سے سنو”

یہ شہر مردہ ہے

یہاں کے لوگ مردے ہیں — بے حس اور بے جان —

اور اس گھر میں جہاں تم رہتے ہو اور وہاں جہاں میں رہتا ہوں، وہاں بھی زندگی نہیں ہے … زندگی کہیں نہیں ہے … کہیں زندگی نہیں ہے …

"اب سوچو زندگی آئے گی کہاں سے …”

اسے لگتا رگھوبیر کی آواز جیسے کسی اندھیرے کنوئیں سے ابھر رہی ہے اور آسمان میں دور تک ایک سرخ لکیر بچھ گئی ہے۔

٭٭

عام دنوں کی طرح وہ بھی ایک عام سا دن تھا۔

مگر اس دن ایک غیر معمولی واقعہ ہوا تھا۔ جو اپنے غیر معمولی ہونے کی بنا پر انیل اور رگھو بیر دونوں کو ہمیشہ یاد رہے گا۔

چھ دسمبر ۱۹۷۵ء

شہر چپ تھا — شہر کے مقامی کالج کے ایک طالب علم کا قتل ہو گیا تھا۔ اس واقعہ نے شہر میں اچھا خاصا ہنگامہ کھڑا کر دیا تھا۔ صبح میں شہر کے تمام کالج کے لڑکوں نے مل کر میلوں لمبا جلوس نکالا۔ اور شام تک کے لئے شہر کی ساری دکانیں بند کر دی گئی تھیں۔ بندوق دھاری پولیس والے جا بجا نکڑ پر کھڑے تھے۔ خوف میں ڈوبی آنکھیں شہر کے سونے پن کو تک رہی تھیں۔ پھر شام ہوتے ہی دکانیں کھلنے لگیں۔ شہر کی رونق لوٹنے لگی۔ سات بجے کے قریب رگھو بیر آیا۔ گمبھیر چہرہ لیے۔ انیل کے کمرے میں آ کر چپ چاپ کر سی پر بیٹھ گیا۔ اپنی انگلیوں سے اخبار نچاتا رہا۔

پھر انیل کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال دیں۔ اور اچانک قہقہہ مار کر ہنس پڑا۔

"عجیب بات ہے نا … آج شہر چپ ہے مگر میں ہنس رہا ہوں … جانتے ہو کیوں۔ نہیں نا … وہی بات ہے۔ میں کہتا نہ تھا۔ راستہ ہے۔ آج میں نے فیصلہ کر لیا ہے۔ اب کل سے نوکری کے لئے دوڑنے دھوپنے کا کام بند۔”

"مطلب؟” انیل نے عجیب نظروں سے اس کا مطالعہ کیا۔

"مطلب صاف ہے۔” اس نے کمرے کی ویرانی کا جائزہ لیتے ہوئے کہا۔ "ایسا ہی ویران اور چپ میرا بھی گھر ہے۔ ہمیں ان گھروں مے زندگی کی روح پھونکنی ہے اور روح پھونکنے سے قبل ہمیں طاقتور بننا ہو گا۔”

"میں اب بھی نہیں سمجھا۔”

انیل نے کمزور آواز میں کہا،” تمہاری طبیعت تو ٹھیک ہے نا …؟”

رگھو بیر کا چہرہ برابر بدل رہا تھا۔ جانے کتنی تصویریں وہاں بن رہی تھیں۔ مٹ رہی تھیں۔ کتنے رنگ آرہے تھے۔ جا رہے تھے۔ ہونٹوں کو وہ سختی سے بھینچے ہوئے تھا۔ پلکوں میں نمی سی لہرائی تو لپکتے ہوئے شعلوں نے وہ نمی غائب کر دی۔ اور پھر اس نے اپنے لہجے پر قابو پایا۔

دوست! میں جو کام کہوں گا، انکار مت کرنا۔ ایک مرتے ہوئے آدمی کو زندہ رہنے کے لئے اب صرف ایک بوند ہی رہ گئی ہے۔ پانی کی آخری بوند۔ تم جانتے ہو۔ ظلم کا ہماری زندگی سے خاص لگاؤ رہا ہے۔ہم دونوں نے کتنی فلمیں ایک ساتھ دیکھیں۔ کیسی کیسی کرائم فلمیں، کیسے کیسے بہترین دماغ، لوگ پیسوں کے لئے کیسے کیسے ہتھکنڈے اپناتے ہیں۔پھر صاف بچ جاتے ہیں۔ صرف چالاکی کی ضرورت ہے۔ آنکھیں کھول کر چلنے کی ضرورت ہے۔ اب ایسی ہی کتنی حقیقت روز ہمارے سامنے آتی ہے۔ مگر ہم آنکھیں موندے رہتے ہیں۔ مجھے خود پر شرم آتی ہے کہ میں بیکار ہی خود کو تھکاتا رہا۔ اور اس درمیان گھر سے بالکل لا تعلق ہو گیا۔ یہ بھی نہیں سوچا کہ وہاں دو مردے پڑے ہیں۔ جنہیں میرا انتظار ہو سکتا ہے۔

رگھو بیر نے ایک لمبی سانس کھینچی۔ اٹھتی گرتی سانسوں پر قابو پایا۔ پھر لفظ جوڑے اور انیل کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولا …

"اب میری بات غور سے سنو— میں نے شہر کے دور دراز علاقے میں تین چار روز کے لئے ایک مکان لے لیا ہے۔ کل شام دو تین گھنٹے کے لئے ایک گاڑی کرائے پر لے لی ہے۔ بس اب ہمت کی ضرورت ہے۔ ہم کسی بچے کو اغوا کریں گے۔ اور ان کے ماں باپ سے روپیہ مانگیں گے۔”

"نہیں۔”

انیل بالکل سناٹے میں آ گیا ” کیا بکتے ہو … رگھو بیر یہ جرم ہے۔ پھر پتہ چل گیا تو ؟

"نہیں بالکل پتہ نہیں چلے گا۔”

کمرے میں رگھو بیر کا تیز قہقہہ گونج گیا … اور اگر پتہ بھی چل گیا تو لوگ کہیں گے آج کا فیوچر سلاخوں میں قید ہے۔ جیل میں سڑ رہا ہے …”

رگھو بیر قہقہہ لگا رہا تھا۔

انیل کی آنکھوں کے آگے اندھیرا بڑھتا جا رہا تھا … سارے بدن میں جیسے تیز کپکپاہٹ دوڑ گئی تھی۔

(۲)

ایک تھے رام اوتار شاستری۔

رام اوتار شاستری جی کی بڑی پرانی عادت تھی۔ صبح کے چار بجتے ہی اُٹھ جاتے۔ انورادھا اور مینا کا کہنا تھا … پاپا جی کو تو نیند ہی نہیں آتی ہے۔

رات میں جانے کتنی ہی بار اٹھتے۔ اور چھت پر ٹہلتے رہتے۔ جب تھک جاتے تو پھر بستر پر گر جاتے۔ وہ خود بھی کہا کرتے تھے ——”سدا سے یہ میرا معمول رہا ہے۔ گاندھی جی کا چیلا ہوں نا …… نیند پر اپنا اختیار ہے۔ جب چاہا جاگ گئے۔

اس دن بھی یہی بات تھی۔ بستر سے کئی بار اٹھے۔ جب اٹھے تو ہلکی ہلکی چاندنی برقرار تھی۔ گھوم پھر کر دوبارہ بستر پر آ کر لیٹ جاتے۔ ان کے گھر کے آس پاس زیادہ تر خوب صورت اور پکے مکانات کا ایک لمبا سلسلہ تھا۔ گھر کے سامنے ایک بڑا سا میدان تھا۔ جس کے داہنی طرف ڈوم پٹی تھی۔ وہاں سے برتنوں کی اٹھا پٹخ اور بیلچے کینسٹر کے شور پانچ بجے بھور سے ہی شروع ہو جاتے تھے۔ یہ ڈوموں کا استھان تھا۔ کبھی کبھی جب وہ لوگ پی کر آتے اور ایک دوسرے پر کیچڑ مٹی ڈالنے کا کھیل کھیلتے تو انورادھا اور مینا دونوں کو کمرے میں بند کر لیتیں۔ پاپا! کتنا ڈرٹی محلہ ہے۔

ننگے ادھ ننگے بچے ہاتھ میں بیلچا اور کینسٹر لئے دیر تک ایک دوسرے کے ساتھ مار پیٹ کرتے رہتے۔پھر میونسپلٹی کے چاپا نل کے پاس برتن دھونے اور مچھلی بازار جیسا شور اٹھنے لگتا۔ یہ شور انورادھا اور مینا سے الگ شاستری جی کو بڑا اچھا لگتا۔ وہ بستر سے اٹھ کر ریلنگ کے پاس کھڑے ہو جاتے۔ اور مسکراتے ہوئے ان کی جانب دیکھتے رہتے۔

جب بیلچا اور کینسٹر کا شور شروع ہوا۔ اس وقت، ہلکی سفیدی پھیل چکی تھی شاستری جی ریلنگ کے پاس آ کر کھڑے ہو گئے۔

"کیا دیکھ رہے ہیں پا پا جی !”

انورادھا بھی اٹھ گئی۔ قریب آ کر اس نے پوچھا۔

"تم بھی دیکھو۔ یہاں سے ڈوموں کا کھیل کتنا اچھا لگ رہا ہے۔”

"اونہہ پاپا جی ! بڑے گندے ہو …”

انورادھا بناؤٹی مسکراہٹ سے بولی —— اس وقت تک اس نے جوڑا کھول لیا تھا۔ اس وقت بھی وہ نائٹی میں تھی۔ ریلنگ سے باہر اپنی بڑی بڑی آنکھیں گھما کر آس پاس کا جائزہ لیتی رہی۔ خالص فلمی انداز تھا۔ دونوں ہاتھوں کی کہنی ریلنگ پر ٹکا دی تھی۔ آس پاس کے کچھ گھروں میں بھی چہل پہل شروع ہو گئی تھی۔ بغل والے گھر سے ایک عورت نکلی۔ انورادھا کی طرف بڑی عجیب نظروں سے دیکھا۔ پھر چل دی۔ انورادھا نے کوئی نوٹس نہیں لیا۔ بس یونہی ہونٹ گول کئے مسکراتی آنکھوں سے آس پاس کا نظارہ دیکھنے میں مشغول رہی۔ جب تھک گئی تو کمرے میں واپس آ گئی۔

اس وقت تک مینا بھی اُٹھ گئی تھی۔

ساڑھے چھ بج گئے تھے۔

جاڑے کا موسم تھا۔ ٹھنڈی لہر چاروں طرف پھیل گئی تھی۔ ہوا کے سرد جھونکے بدن میں داخل ہو کر طوفان برپا کر رہے تھے۔ انورادھا کو شاید اس کا احساس نہیں تھا مگر اس کے بر خلاف مینا  پورا جاڑا ہی بنی ہوئی تھی۔ آتے ہی شاستری جی کے کندھوں پر جھول گئی …

"ڈیڈی! اب تو ٹی وی کا زمانہ آ گیا ہے۔ مگر آپ ایک ٹی وی بھی نہیں لائے۔ پتہ ہے، ٹی وی پر اس سنڈے کو امیتابھ بچن کی فلم آئی تھی۔ میری کتنی سہیلیوں کے گھر ٹی وی ہے۔ وہ سب کتنی تعریف کرتی ہیں، میرا مذاق اڑاتی ہیں۔

"اچھا بھائی آ جائے گا۔”

مسز شاستری بھی اس وقت تک آ چکی تھیں۔ مسکراتی ہوئی بولیں۔ "تجھے امیتابھ کافی یسندہے مینا ؟”

"کیا بات ہے امیتابھ کی۔ مرد لگتا ہے مرد۔” ایک دم سے مینا خوشی سے ناچتی ہوئی بولی۔

"اچھا …!”

شاستری جی مینا کے بے باکی پر مسکرائے۔” تو چھٹے کلاس میں ہے اور اتنا کچھ جانتی ہے ——”

"اس میں جاننے کی کیا بات ہے پاپا جی۔ کیا وہ سچ مچ ایسا نہیں ہے؟”مینا پھر چہچہاتی ہوئی بولی۔” میرے اسکول کی سہیلیاں اس سے چڑتی ہیں، جیا کہ وجہ سے۔”

اتنا کہہ کر مینا،قہقہے لگاتی ہوئی نیچے دوڑ گئی۔

شاستری جی بھی دیر تک قہقہہ لگاتے رہے۔ اچانک ہی انہیں یہ قہقہہ روک دینا پڑا۔ مسز شاستری مدہوش انگڑائیاں لیتی ہوئی ان کی جانب دیکھ رہی تھیں۔ شاستری جی کو اپنی طرف متوجہ پا کر اُن کے نقرئی قہقہے مچل گئے۔

"کتنا خوشگوار موسم ہے۔ ہے نا …؟ ہلکے ہلکے چھائے ہوئے بادل دور دور تک پھیلا ہوا کہا سا۔ جیسے آسمان میں شبنم کی چادر بچھ گئی ہو۔”

"واہ واہ۔ کیا خوب۔” شاستری جی نے تالی بجائی۔ کیا شاعری کی ہے۔ مجھے شادی سے پہلے معلوم ہوتا کہ آپ شاعرہ بھی ہیں تو اپنے دوست شاعر سے شاعری کی الف ب ضرور سیکھتا۔ "

"فضا خوشگوار ہو تو شاعری خوب بخود آ جاتی ہے۔” مسز شاستری نے پھر اپنے گلے کو حرکت دی،” بائی دوے، تمہیں یاد ہے۔ شادی کے وقت تم نے بھی کچھ شاعری کی تھی مگر اب لگتا ہے ساری شاعری ہی بھول گئے — تم میری شان میں قصیدے پڑھتے ہوئے کہتے تھے۔ تمہارے بال ہیں جیسے کہ رات کا آنچل، تمہاری مسکراہٹ ہے جیسے کہ صبح کا ابھی ابھی نکلتا ہوا سورج …”

مسز شاستری نے پھر ایک قہقہہ لگایا۔

شاستری جی ہنسے —— "بھئی بڑی پریکٹس کی تھی۔ دیکھا نہیں کیسے اٹکتے ہوئے بول رہا تھا۔ تمہیں دیکھتے ہی سارے مکالمے ادھر کے اُدھر ہو گئے۔ ٹھیک سے یاد کرو میں نے کیا کہا تھا۔ تمہارے بال ہیں جیسے صبح کا ابھی ابھی نکلا ہوا سورج۔ تمہاری مسکراہٹ ہے جیسے رات کا آنچل …”

شاستری جی کا بے باک قہقہہ گونجا۔ اور دونوں ہنستے ہنستے لوٹ پوٹ ہو گئے۔

"بارش ہو جائے تو کتنا اچھا ہو گا۔”

"تم نے میرے دل کی بات چھین لی۔ ” وہ آہستہ سے بولیں۔ پھر نظریں جھکا لیں "میرے سور گباشی ڈیڈی ممی کہا کرتے تھے۔ میں بچپن سے ہی حسن کی شیدائی رہی ہوں خاص کر فطری مناظر سے مجھے بے حد لگاؤ رہا ہے۔ پھولوں سے پتیوں سے۔پہاڑوں سے۔ ندی نالوں سے۔ جھرنوں سے، موسم سے … میں نے جنون کی حد تک پیار کیا ہے۔ بدصورتی مجھے کبھی پسند نہیں آئی۔ ایک بار ممی بتاتی تھیں کہ ان کی ایک رشتہ دار جو صورت شکل سے بد صورت واقع ہوئی تھیں مجھے پیار سے گود میں اٹھا لیا۔ مجھے پسند نہیں آیا۔ اور میں نے ایک زور دار چانٹا ان کے گال پر جما دیا —— اور "گندی بھدی” کہتی ہوئی ان کے گود سے اتر گئی۔”

"مسز شاستری نے پھر ایک قہقہہ لگا۔

شاستری جی نے بھی ان کا ساتھ دیا۔ اور مسکراتے ہوئے پوچھا۔” پھر کیا ہوا؟”

"ہونا کیا تھا۔ وہ بیچاری ایسی گئیں کہ اس دن کے بعد پھر نظر ہی نہیں آئیں۔”

اچانک ارمیلا کو جیسے کچھ یاد آ گیا۔

"کیوں جی یاد ہے۔ آج تمہیں گیس لانی ہے۔ گیس کب کی ختم ہو چکی ہے۔ اور ہاں بجلی کا بل بھی آ گیا ہے۔”

"وہ سب کام آج ہی ہو جائے گا۔ بندہ حاضر ہے۔”

 شاستری جی زبردستی مسکرائے۔ پھر تھکی تھکی سانس لیتے ہوئے بولے "ارمیلا، تم اس بڑھاپے میں بھی مجھ سے کتنا کام لیتی ہو۔”

"تم نو کر لاتے ہی نہیں۔ کتنی بار کہا۔ پھر کون جائے گا یہ سب کرنے۔”

"نوکر پر اب بھروسہ نہیں۔ شاستری جی پھسپھسائے۔” اب داماد کا انتظار ہے۔ تبھی چین کی سانس لوں گا۔”

"داماد کو نوکر بنانے کا خیال ہے کیا ؟”

شاستری جی نے زور دار قہقہہ لگایا ——” تم بھی خوب مطلب لیتی ہو۔ ارے میں تو کہہ رہا تھا، وہ ہماری ذمہ داریاں اٹھا لے گا،پریشانیاں اٹھا لے گا۔ تب ہمیں کتنا آرام ہو جائے گا۔”

"ابھی کون سے بوڑھے ہوئے ہیں ہم۔” شاستری جی نے محبت بھری نظروں سے ار میلا کو دیکھا۔

ارمیلا کو سچ مچ شرم آ گئی —— اب نیچے بھی چلو۔ مینا اور انو دو نوں چائے کے لئے نیچے انتظار کر رہے ہوں گے۔”

سیڑھیوں سے نیچے اترتے وقت ارمیلا آہستہ سے بولیں۔” جانتے ہو، مینا آج کل کافی بڑی ہو گئی ہے۔ وہ انورادھا کے رسالے خاص کر فلمی رسالے تو خوب پڑھتی ہے اور بڑی عجیب عجیب باتیں کرتی ہے۔ خیر بھگوان کا شکر ہے۔ ہم تو اپنی عمر سے کافی پیچھے رہ گئے۔ مگر مینا اس دوڑ میں پیچھے نہیں ہے۔ دس سال کی ہے مگر باتیں بڑی بڑی کر تی ہے۔”

"اچھا کیا کہتی ہے۔” شاستری پھیکی ہنسی ہنسے۔

"ایسی ایسی باتیں ! تم سنو تو حیران رہ جاؤ۔ مثلا اس دن اپنے دولہے کے ساتھ کسی ہل اسٹیشن میں ہنی مون منانے کی بات کر رہی تھی۔

ار میلا اتنا کہہ کر کھلکھلا کر ہنس پڑی۔

شاستری کچھ سوچ کر چپ ہو گئے۔ آہستہ سے بولے۔

"ابھی بچی ہے۔ کچھ سمجھ بوجھ نہیں۔ جو منہ میں آتا ہے، بول دیتی ہے۔ تم سکھاؤ اسے ارمیلا۔ یہ شہر بہت چھوٹا ہے۔ اور یہاں کے لوگ کافی چھوٹے دماغ کے ہیں۔ وہ اس چھوٹی سی معصوم بچی پر بھی تہمت اور الزام لگانے سے باز نہیں آئیں گے۔ "

"کیوں ؟”

ارمیلا کا منہ بن گیا۔ وہ غصے سے بولی۔” اور جانتے ہی کیا ہیں یہ شہر والے۔ الزام اور تہمت لگانے کے سوا انہیں آتا بھی کیا ہے۔ میری بچی جیسی بھی ہے پھوہڑا اور گنوار نہیں ہے۔ اسمارٹ ہے، خوب صورت ہے۔ پڑھی لکھی ہے۔ اچھا برا سب کچھ سوچ سکتی ہے۔ اور ابھی عمر ہی کیا ہے۔”

ار میلا دیوی نے مینا کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ایک کر دیئے۔ شاستری کچھ سوچتے رہے۔ ہونٹوں سے مسکراہٹ کو جانے نہ دیا۔ اور سیڑھیوں سے نیچے اتر آئے۔ مگر ایک بات دل کو لگ گئی تھی۔ مینا اچھا نہیں سوچتی ہے۔ وقت سے قبل عمر سے آگے نکل جانا عقلمندی نہیں۔ مگر وہ یہ بات کس سے کہیں۔ اور کیسے کہیں … سب برا مان جائیں گے —— چھوٹے شہر کی تنگ نظری سے ابھی یہ پوری طرح آگاہ بھی نہیں ہوئے ہیں۔ مگر پھر بھی چپ رہے۔

ڈرائنگ روم میں چائے سج چکی تھی۔

انو اور مینا ایک دوسرے سے کانا پھوسی کر رہے تھے۔ انو زبردستی اپنی ہنسی روکے ہوئے تھی۔ اور مینا کھلکھلائے جا رہی تھی۔

"کیا ہو رہا ہے بھائی ——” شاستری بچوں میں بچے بن گئے۔ "ہم بھی تو سنیں۔”

"آپ کے سننے کی بات نہیں ہے ڈیڈی۔ اپنے اسکول کے پاس سے گزرتے ہوئے لڑکوں کی عجیب عجیب نقل اڑا رہی ہے مینا۔”

انو نے مسکراتے ہوئے بتایا۔

"اچھا، اب لڑکوں کی نقل بھی اتارنے لگی ہے۔ ارمیلا ہنسی۔

"ہاں ممی۔ ایک دم سے دبو ہوتے ہیں لڑکے۔ ” مینا ہنسی،” ایسی ایسی پاگل حرکتیں کرتے ہیں کہ قہقہہ لگانے کو جی چاہتا ہے۔”

ارمیلا دیوی نے پوٹ سے پیالیوں میں چائے انڈیلی۔ اور سب کی جانب بڑھا دیں۔

"اپنی انو چائے بڑی اچھی بناتی ہے۔ یہاں سے جب سسرال چلی جائے گی۔ تو اس میٹھی چائے کا سلسلہ بھی ختم ہو جائے گا۔”

شاستری چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے بولے۔

انورادھا بناؤٹی غصے میں بولی ——”دیکھو نہ ممی۔ ڈیڈی ہمیشہ میرا مذاق اڑاتے ہیں۔”

مینا بولی۔ "لگتا ہے کسی تھرڈ کلاس گھر میں ڈال دیں گے۔ جہاں خود ہی چائے بنانا پڑے گی۔” پھر خود ہی ہنستی ہوئی بولی۔” مگر میرے ساتھ یہ نہیں چلے گا۔ مجھے تو ایروپلین والا دولہا چاہئے۔

اس کے بھولے پن پر سب ٹھہا کا مارکر ہنسنے لگے۔

مینا نے ایک ہی نشست میں چائے ختم کر دی۔ پھر بولی، "ممی آج فیس ڈے ہے۔ اسکول میں جلد ہی چھٹی ہو جائے گی۔ مگر میں ذرا دیر سے آؤں گی۔”

"کیوں ؟” شاستری نے دریافت کیا۔

"بس یونہی پایا——” مینا مسکرائی۔ ہمارے اسکول کے راستے میں ایک پارک پڑتا ہے۔ ایک دو بار اپنی سہیلیوں کے ساتھ وہاں گئی بھی تھی۔ بڑا اچھا لگتا ہے وہاں۔ لوٹتے وقت کچھ دیر وہاں جاتی ہوں تو مزہ آ جاتا ہے۔”

"مگر جلدی آ جانا۔ زمانہ خراب ہو گیا ہے۔”

شاستری جی نے سمجھانا چاہا تو مینا برا مان گئی۔

"آپ تو ایسے کہتے ہیں ڈیڈی جیسے میں کوئی ننھی سی دودھ پیتی بچی ہوں۔ جسے کوئی اٹھا کر لے جائے گا۔”

شاستری چپ ہو گئے۔ پھر سب چائے پینے میں لگ گئے۔ مینا ٹیبل پر انگلیاں نچاتی رہی اور شاستری کھڑ کی کے باہر دیکھتے رہے۔ پھر چائے کا خالی کپ ٹیبل پر رکھ کر اپنے کمرے میں چل دئیے۔ جانے کیا سوچنا چاہ رہے تھے۔ مگر سوچ نہیں پائے۔اسی وقت اخبار والا آ گیا۔ اخبار اٹھایا اور مطالعہ میں مصروف ہو گئے۔

اور مینا اسکول جانے کی تیاری میں لگ گئی۔

ٹھیک نو بجے وہ اسکول روانہ ہو گئی۔

(۳)

یہ گورنمنٹ گرلس ہائی اسکول تھا۔

چھوٹی بڑی بچیاں اسکول کے خاص یونیفارم میں رنگین تتلیوں کی طرح چہچہاتی پھر رہی تھیں۔ اسکو ل کا بڑا سا میدان تھا۔ میدان میں اُگی ہوئی ہری ہری گھاس پر مخمل کا گمان ہوتا تھا۔ میدان میں کئی سایہ دار برگد اور آم کے درخت تھے۔ ان درختوں کے نیچے بہت ساری لڑکیاں بیٹھی ہوئی آپس میں گپیں لڑانے میں مصروف تھیں۔ ہر طرف سے ہنسی قہقہے اور چلبلی باتیں سنائی دے رہی تھیں۔ میدان کے قریب والی شاہراہ سے گزرتے ہوئے لوگ ایک نظر لڑکیوں کے اسکول کی طرف ڈالنا نہ بھولتے۔ جھنڈ کی جھنڈ لڑکیاں ایسی بھلی معلوم ہوتیں۔ جیسے پریوں کے دیس سے آئی ہوں۔ ان کی معصوم باتیں اور نقرئی قہقہے فضا میں رس گھول رہے تھے۔ اچانک گھنٹی بجی اور سب بچیاں پرارتھنا کے لئے ایک قطار میں کھڑی ہو گئیں۔

پرارتھنا ختم ہو گئی تو لڑکیاں اپنے اپنے کلاس میں بٹ گئیں۔ فیس جمع کر دینے کے بعد اسکول میں چھٹی کر دی گئی۔ گھنٹی بجی اور لڑکیاں شور کرتی ہوئی کلاس روم سے باہر آ گئیں۔

مینا بھی لڑکیوں کے جھنڈ کے ساتھ باہر نکلی۔

ایک لڑکی نے پوچھا ——” آج کیا پروگرام ہے مینا۔

مینا چہچہاتے ہوئے بولی،” پروگرام کیسا۔ میں تو کچھ دیر تک پارک میں بیٹھوں گی۔ پھر گھر چلی جاؤں گی۔”

"آج میری ممی ڈیڈی کے فلم جانے کا پروگرام ہے۔” دوسری لڑکی بولی۔

"تم ہی کو مزہ ہے۔ خوب فلم دیکھتی ہو۔”

مینا شوخی سے بولی۔” میرے ڈیڈی پورے آرتھوڈوکس ہیں۔ فلم سے کوئی مطلب نہیں۔ جب ممی اور ا نو دیدی جاتی ہیں تبھی جانا پڑتا ہے۔”

"وہ دیکھ …… وہ دیکھ …”

ایک لڑکی نے مینا کو کہنی ماری اور اشارہ کیا۔ پھر سب کی نظریں اس جانب ہو گئیں۔ ایک سولہ سترہ سال کا دبلا پتلا لڑکا آنکھیں پھاڑے ایک ٹک لڑکیوں کی جانب دیکھے جا رہا تھا۔

"بے چارے کے منہ میں پانی آ رہا ہے۔” وہی لڑکی جس نے اشارہ کیا تھا۔ شرارت سے بولی۔

"ہمیں چاکلیٹ سمجھ رہا ہے کیا ؟” ایک شوخی سے ہنسی۔

"ہم چاکلیٹ سے بھی میٹھے ہیں۔”

مینا ہنسی، پھر لڑکے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے بولی،” اے … ادھر آؤ… آ… جاؤ…”

دوسری لڑکیاں بھی مینا کا اشارہ ملتے ہی ہاتھ دے دے کر اُسے آواز دینے لگیں۔ لڑکا پہلے جھینپا۔ پھر پانی پانی ہو گیا۔ اور تیز قدموں سے اُلٹے پاؤں دوڑ گیا۔

"ہا …ہَ…ہَ…”

لڑکیوں کا قہقہہ پھر گونج اٹھا

"کیسے بھاگ گیا۔”

"جیسے ہم کاٹ ہی  تو کھا رہے تھے۔”

"بے چارہ۔” اشارہ کرنے والی لڑکی کھلکھلائی۔

مینا شرارت سے بولی،” ایک بات کہوں شیلا۔ تو اس سے شادی کر لے۔”

"تو کر لے۔” شیلا بے حیائی سے بولی "چھی اتنا دبلا پتلا۔ اس سے شادی۔ "بے چارے کے بدن میں گوشت ہی نہیں چڑھا ہے۔”

"گال بھی کیسا پچکا تھا۔ جیسے غبارہ پھٹ گیا ہو…پھ…ٹ…”

"کیسے جانوروں کی طرح بھاگ گیا۔ بے وقوف کہیں کا۔”

ایک لڑکی بولی،” مینا تجھے لفٹ دینی چاہئے تھی۔ پھر مزہ آ جاتا۔”

"اس کو ؟” مینا نے طنز سے کہا — "کوئی ایروپلین والا ہوتا تو بات بھی ہوتی۔”

"ایروپلین والا !” لڑکیاں ہنسیں۔

"ہاں ایروپلین والا۔ میں اس سے کم کا خواب نہیں دیکھ سکتی۔ مجھے پھٹیچر دولہا نہیں چاہئے۔”

"اچھا چل۔ تیرے لئے وہی سہی۔ اب تلاش کرنے کا کام کرنا پڑے گا۔”

اس بات پر پھر ایک تیز ٹھہاکا پڑا۔ پھر یہ لڑکیاں باتیں بناتی ہوئی سڑک کے کنارے کنارے چلنے لگیں۔

اس طرف کوئی خاص آبادی نہیں ہے۔ دور تک پھیلا ہوا میدان ہے۔ میدان میں ایک خوب صورت سا پارک بھی بنا ہوا ہے۔ ادھر نہ دکانیں ہی ہیں اور نہ ہوٹل جیسی کوئی چیز۔ شام کے بعد یہ علاقہ ایک دم سناٹا اور ویران ہو جاتا ہے۔

باتیں بناتی ہوئی لڑکیاں پارک میں داخل ہو گئیں۔ پارک میں ایک دم سناٹا چھایا ہوا تھا۔ ہلکی ہلکی دھوپ بڑی بھلی لگ رہی تھی۔ ہوا جب کبھی تیز ہو جاتی تو سرد لہر جسم میں طوفان بر پا کر دیتی۔ مینا نے یونیفارم پر چھوٹی آستین کا اسکیوری پہن رکھا تھا۔ جو اس پر خوب جم رہا تھا۔ایک کونے میں دھوپ کا اندازہ لگاتی ہوئی لڑکیوں نے ایک بنچ ہڑپ لیا۔ پھر سب بیٹھ گئیں۔ سڑک کا منظر یہاں سے صاف تھا۔ کتابیں لے کر گزر تے ہوئے لڑکے، لڑکیوں کی قطار بھی صاف نظر آ رہی تھی۔ پارک کا سناٹا دیکھ کر ایک لڑکی تھوڑا ڈر رہی تھی۔ شاید گھر سے اسے اس طرح کی آزادی نہیں ملی تھی۔ اس لئے وہ خطرے کو محسوس کرتی ہوئی بولی۔

"مینا! یہاں سناٹے میں تجھے ڈر نہیں لگتا۔”

"ڈر کیسا ——؟” مینا شرارت سے مسکرائی ——” کوئی آ کر کیا کیا کر لے گا اور کر لے بھی تو…؟”

وہ بے حیائی سے مسکرائی۔ ایک بار پھر سب لڑکیاں قہقہہ لگا کر ہنس پڑیں۔ پھر مینا کچھ سوچنے لگی۔ سوچتے سوچتے اچانک ٹھہر گئی۔ پھر اس نے لڑکیوں کو دیکھا اور کہا—— "شیلا کی اس ڈر والی بات پر مجھے ایک کہانی یاد آ گئی۔ ابھی کچھ ہی دن ہوئے پاپا ایک میگزین لائے تھے۔ یہ کہانی اسی میں پڑھی تھی، سناؤں۔”

"سناؤ۔” لڑکیوں نے مزہ لیتے ہوئے کہا۔

"دو لڑکیاں تھیں۔ ایک بارہ سال کی اور دوسری چودہ سال کی۔ ایک دن ہلکا اندھیرا پھیلتے ہی ان کے گھر دو غنڈے گھس آئے۔ دونوں آئے تو تھے مال لینے لیکن جب بارہ سال کی جوان ہوتی لڑکی کو دیکھا تو اس کا ایمان ڈول گیا۔ مال کا خیال چھوڑ کر لڑکی کو لے جانے کے بارے میں سوچنے لگا۔ ٹھیک اسی وقت اس کی دوسال بڑی بہن نہانے کے لباس میں اس کے سامنے آ کر کھڑی ہو گئی۔ وہ اتفاقیہ طور پر شور سن کر وہاں آ گئی تھی۔ غنڈوں کی نیت اسی پر آ گئی۔ اور وہ اسے لے کر بھاگ چلے۔ دو دن بعد جب اس کی بڑی بہن واپس لوٹی تو جانتی ہو کیا ہوا —— چھوٹی بہن اس پر بہت غصہ ہوئی۔ صرف اس خیال سے کہ اگر نہانے کے لباس میں وہ سامنے نہ آئی ہوتی تو غنڈے اُسے ہی لے گئے ہوتے۔

"کیسی کہانی ہے، لڑکیو!”

مینا کہانی سنا کر ہنسی۔” مزے دار ہے نا ؟”

"بہت اچھی ہے۔ ” دوسری لڑکیوں کی آنکھوں میں چمک لہرائی۔

مگر وہ لڑکی جو تھوڑا ڈر رہی تھی، اس نے بالکل معصوم انداز میں دریافت کیا۔’ ’ مینا، میں تیری کہانی نہیں سمجھی۔ اس لڑکی نے ایسا کیوں سوچا؟”

"دھت” مینا شوخی سے بگڑی۔” بالکل بدھو ہو تم۔ اتنا بھی نہیں جانتی۔ ارے غنڈے لے جا کر اسے پیار جو کرتے۔ ” لڑکیوں کا ایک بار پھر ٹھہاکا پڑا۔

لیکن وہ لڑکی اب بھی معصوم بنی ہوئی تھی۔

سورج بالکل سر پر آ گیا تھا۔ ہوا کچھ اور شدت اختیار کر گئی تھی۔ پھر رفتہ رفتہ ساری لڑکیاں وہاں سے ایک ایک کر کے جانے لگیں، مگر مینا رکی رہی۔ آخر والی لڑکی بھی جب اوب کر جانے لگی بولی …

"تم جاؤ، میں ابھی بیٹھوں گی۔ بعد میں آؤں گی۔ ذرا ماحول کا لطف لینا چاہتی ہوں۔ دیکھو تو کیسی مست ہوائیں چل رہی ہیں۔”

پارک کے کنارے جو ندی تھی وہ کسی الھڑ دو شیزہ کی طرح مست گیت گانے میں مصروف تھی۔ لڑکی کے جانے کے بعد مینا اکیلی ہو گئی۔ اس نے زمین سے کچھ کنکریاں چنیں اور اپنی مٹھیوں میں بھر لیں —— اس کے دل میں بڑے عجیب عجیب خیالات اٹھ رہے تھے۔ اور اس کے دل کے پاس عجیب سی جلن ہو رہی تھی۔ جانے کیا سوچ کر اس کے ہونٹوں پر حسین سی مسکراہٹ سمٹ آئی اور اس نے مٹھی میں دبی ہوئی کنکریاں آہستہ آہستہ ندی کی طرف پھینکنا شروع کر دیا۔ جہاں کنکری گرتی وہاں بھنور بننے لگتا مگر مینا ان باتوں سے الگ، بہت عجیب محسوس کر رہی تھی۔ جانے کیوں وہ دو سخت ہاتھوں کا تصور کر رہی تھی۔ جو اسے اچانک ہی پکڑ لیتے اور پھر … اس کے سارے جسم میں عجیب سی سنساہٹ پیدا ہونے لگی۔ ہونٹ جلنے لگے۔ آنکھوں میں مد ہوشی سی چھانے لگی۔ اچانک وہ چونک اٹھی۔ یہ اس کے جسم میں کیا ہو رہا ہے۔ کیسی ہلچل ہے۔ بدن میں کیسی آگ بھر گئی ہے۔ پھر اسے انو دیدی کے لائے ہوئے میگزینس کا خیال آیا۔ میگزین کی کتنی ہی تصویریں اس کی نگاہوں میں گھوم گئیں۔

"یہ پیار کتنا اچھا ہوتا ہے۔”

وہ سوچ رہی تھی۔ اس وقت وہ معصوم سوالوں کی گرفت میں تھی۔ اور یہ گرفت ہر لمحہ سخت ہوتی جا رہی تھی۔

"وہ تصویریں کتنی اچھی تھیں۔ کتنی بار تو اسے بھی یہ خیال آیا کہ … کاش ان سچی کہانیوں کی طرح کوئی واقعہ اسے بھی پیش آتا۔ پھر کتنا مزہ آتا۔ ایڈونچر کا مزہ۔ وہ ہمیشہ کی شوقین رہی تھی۔ نئی باتوں میں، واقعات میں کتنا مزہ آتا ہے۔”

اچانک ہی مینا سنبھل گئی۔

اس کی سوچوں کا سلسلہ اچانک ہی منقطع ہو گیا۔ باہر ایک گاڑی رکی تھی۔ اس میں سے دو نوجوان نکلے۔ اور پھر اس کی جانب بڑھنے لگے۔ وہ ذرا بھی ڈری نہیں۔ اس کے بر خلاف اس نے بڑا عجیب محسوس کیا۔ میٹھی میٹھی سنسنا ہٹ پورے بدن میں پیدا ہو چکی تھی۔ اس کے ہونٹ تھر تھرائے۔ اندر ترنگیں پیدا ہو چکی تھیں۔

وہ دونوں ٹھیک اسی کی طر ف آرہے تھے۔

مینا کے اندر بجلی سی کوند گئی۔ ستیہ کتھا اور سچی کہانیوں سے نکلی کتنی ہی کہانیاں اس کی آنکھوں کے سامنے رینگ گئیں۔ ایک آوارہ خیال اس کے دل میں پیدا ہوا۔ یہ جہاں بھی لے جائیں، میں تو بس صاف کہہ دوں گی۔ بھائی مجھے اپنے گھر والوں سے بہت محبت ہے۔اس لئے جلدی سے پیار کرو اور گھر جانے دو۔ وہاں انتظار ہو رہا ہو گا۔

ابھی وہ سوچ ہی رہی تھی کہ دونوں نوجوان لڑکے اس کے پاس آ کر ٹھہر گئے اور اس سے پہلے کہ وہ اس سے کچھ کہیں مینا کی آنکھوں میں عجیب سی چمک لہرائی۔

و ہ بڑے بھولے پن سے بولی۔

"آپ مجھے اغوا کرنے آئے ہونا ؟”

(۴)

رگھو بیر کی جیب کے اندر کا چاقو کانپ گیا۔ اور انیل پھٹی پھٹی نظروں سے اس کی جانب اس طرح دیکھنے لگا جیسے خلاف توقع کئے گئے اس سوال نے اس کے اندر کے لہو کو منجمد کر دیا ہو۔

رگھوبیر کیا کیا سوچ رہا تھا۔ لڑکی کو رام کرنے کے لئے کیسے کیسے سوالوں میں کھویا ہوا تھا۔ ساری رات کانٹوں کے بستر پر لیٹا لیٹا پروگرام بنا رہا تھا۔ کسی لڑکی کو اکیلا پا کر اسے ڈرائیں گے۔ چیخنے پر کس طرح چاقو دکھائیں گے۔ جیب کے اندر بہت سے چاکلیٹ بھی تھے کہ چاکلیٹ دکھا کر بھی بہلانے کی کوشش کریں گے۔ مگر اغوا کو ناکام نہیں بننے دیں گے۔ پھر صبح میں انیل سے، پیش آنے والے واقعات کے تمام رخ پر تبصرہ بھی ہوا تھا۔ ہر جگہ چوکنا اور چوکس رہنے کا عہد کیا گیا تھا۔

مگر یہاں تو معاملہ ہی الٹا تھا۔

اور لڑکی خود اپنے اغوا کئے جانے کی بات کر رہی تھی …

"بولو نا … آپ مجھے اغوا کرنے آئے ہونا ؟”

لڑکی شرارت سے مسکرا رہی تھی۔

"مجھے اچھی طرح معلوم ہے۔ ایسی جگہ پر اور اس طرح اکیلے پارک میں کسی لڑکی کے پا س آنے کا کیا مقصد ہو سکتا ہے۔”

بچی کا نقرئی قہقہہ گونج اٹھا۔ اور اس نے پلٹ کر پھر سوال کیا۔

"تم لوگوں کی جیب میں چاقو اور ریوالور بھی تو ہو گا … نا … دکھاؤ…؟”

رگھو بیر پھر سن سا رہ گیا۔ اپنی جیب اسے بڑی سخت نظر آئی۔ وہ پسینے سے شرابور ہو گیا۔ سانس ڈوبنے چڑھنے لگی۔ چہرے کا رنگ فق تھا۔

اور یہی حالت انیل کی بھی تھی۔

"اوہ ! "

لڑکی نے اچانک پیچھے کی طرف دیکھا پھر بولی۔

"تم نے گاڑی باہر ہی چھوڑ دی۔ جبکہ تم بہ آسانی یہاں بھی گاڑی لا سکتے تھے؟”

دونوں سکتے کے عالم میں لڑکی کو دیکھ رہے تھے۔

لڑکی نے پھر کہا۔

"تم لوگ گھبراؤ نہیں۔ میں چیخوں گی چلاؤں گی بالکل نہیں۔ تم لوگ مجھے جہاں بھی لے چلو، مجھے خوشی منظور ہے۔”

لڑکی پھر ہنسنے لگی تھی۔

انیل پہلی بار پھنسی پھنسی آواز میں رگھو بیر کی آنکھوں میں جھانکتا ہوا بولا۔

"یہ کیا ہو رہا ہے ؟”

رگھو بیر چپ تھا۔ چہرہ جذبات سے عاری ہو رہا تھا۔وہ کچھ بولا نہیں۔ بلکہ لڑکی کے نقرئی قہقہوں اور بے خوف وجود کو تکتا رہ گیا تھا۔ وہ بالکل ننھے منے کھلونوں کے انداز میں دونوں کو تکے جا رہی تھی۔

پھر کچھ سوچتے ہوئے اس نے آنکھیں نچائیں۔ پھر ذرا ٹھہر کر ہنستی ہوئی بولی۔

"اوہ، اب سمجھی۔ تم سوچ رہے ہو گے کہ میں اتنا کچھ کیسے جانتی ہوں۔ کیوں ٹھیک ہے نا۔ یہی سوچ رہے ہو نا…”

ہونہہ…

"تم بالکل بدھو ہو، اتنا بھی نہیں جانتے۔ سوچ رہے ہو گے میں بچی جو ہوں … مگر میں بہت بڑی ہوں۔ تم ہی دیکھ لو۔ تم کو دیکھ کر میں بالکل نہیں ڈری۔ جب کہ میرے اسکول کی کوئی بھی لڑکی اس طرح تمہیں دیکھ کر چیخ بھی سکتی تھی۔ میں بتاتی ہوں۔ میں بھی تمہاری طرح کرائم کی فلمیں اور پرچے خوب پڑھتی ہوں۔ سچ مچ بڑا مزہ آتا ہے۔”

اس کے باوجود جب دونوں چپ رہے تو لڑکی نے باری باری دونوں کے گمبھیر چہرے کو دیکھا اور منہ بناتی ہوئی بولی۔

"اب چلو بھی۔ کب تک دیکھتے رہو گے … مجھے اٹھاؤ … یا پھر میرے ساتھ چلو… میں خود اغوا ہونے کے لئے بے چین ہو رہی ہوں۔”

دونوں نے ایک دوسرے کی جانب نا سمجھی سے دیکھا۔ پھر لڑکی کے معصوم سراپے کو۔ اب تک وہ خاموش رہ کر لڑکی کی بھولی بھالی معصوم باتوں کو سن رہے تھے۔ لڑکی اغوا ہونے کے لئے کتنی بے چین ہو رہی تھی۔

"ارے چلو بھی …”

لڑکی نے پھر ضد کی۔

انیل کو اپنی سانسیں ڈوبتی ہوئی محسوس ہوئیں۔ پنچ تنتر اور الف لیلوی کہانیوں میں بھی اسے اتنا مزہ نہ آیا تھا، نہ حیرت ہوئی تھی جتنی اسے اس لڑکی کی باتوں کو سن کر ہو رہی تھی۔ لڑکی کیا، پٹاخہ تھی۔ بغیر سوچے سمجھے بولے جا رہی تھی۔ کسی ضدی بچے کی طرح اغوا کئے جانے کو بے چین ہو رہی تھی۔

بہت دیر بعد رگھو بیر نے اپنی بڑی بڑی آنکھیں سیدھے لڑکی کی آنکھوں میں اُتار دیا …

"تم ایڈونچر کی شوقین معلوم ہوتی ہو لڑکی۔”

"ہاں، مگر پلیز۔ اس طرح مت دیکھو، ڈر لگتا ہے۔”

 لڑکی بڑی معصومیت سے بولی۔ دونوں کے ہونٹوں پر اچانک ہنسی رینگ گئی۔ مگر دونوں نے اس پر قابو پالیا۔

لڑکی پھر بولی، "مگر تم نے کیسے جانا۔ میں سچ مچ ایڈونچر کی بڑی شوقین ہوں۔ زندگی تو نام ہی ایڈونچر کا ہے۔”

اب وہ انیل کی ڈری ڈری اور سہمی سہمی آنکھوں میں جھانک رہی تھی۔ "میں نے ایڈونچر سے تعلق رکھنے والی جانے کتنی ہی کہانیاں پڑھی ہیں۔ رابنس کروسو، گولیورس ٹریویل، فائیوڈیزان بیلون… اور رائیڈر ہیگرڈس، بہت سارے دلچسپ ناول۔

لڑکی دیدے نچاتی ہوئی برق رفتاری سے بولے جا رہی تھی۔

انیل نے اس درمیان خود پر قابو پالیا تھا۔ اس کی گھبراہٹ میں کسی قدر کمی آ گئی تھی۔ لڑکی جس طرح اس سے بات کررہی تھی۔ کسی بھی دیکھنے والے کو یہ شک نہیں ہو سکتا تھا کہ دونوں بدمعاش بھی ہو سکتے ہیں۔ اور وہ اس لڑکی کا اغوا کرنے آئے تھے۔ جب انیل نے پوری طرح خود کو تیار کر لیا تو وہ لڑکی سے مخاطب ہوا۔

"تمہیں ہمارے ساتھ ڈر نہیں لگتا۔”

"ڈر کیسا ؟”

لڑکی کھلکھلائی۔”تم ہمیں مار تو نہیں دو گے۔ پیار ہی کرو گے نا …! پھر ڈر نے کی کیا بات ہے ؟ مگر …”

جانے کیا سوچ کر وہ کچھ اداس ہو گئی۔ اس کی بڑی بڑی آنکھیں بجھ سی گئیں۔ پھر اس نے خوف سے ان دونوں کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے کہا — "کچھ لوگ بڑے خراب ہوتے ہیں۔ وہ  لڑکی کو مار بھی دیتے ہیں۔ تم لوگ ایسا نہیں کرو گے نا…؟”

"نہیں، بالکل نہیں …”

رگھو بیر نے پھر اسی گمبھیر لہجے میں کہا،” ہم ایسے نہیں ہیں۔”

لڑکی پھر چہکنے لگی۔” تو چلو۔ بیٹھے کیوں ہو۔ جلدی چلو۔ ایڈونچر کے نام پر ہی میرے منہ میں پانی آ رہا ہے۔ "

"چلو انیل۔ "

اس بار رگھو بیر نے انیل کو اشارہ کیا۔

انیل چونکا۔ پھر آگے آگے چلنے لگا۔ لڑکی پیچھے پیچھے آنے لگی۔ پھر جانے کیا سوچ کر وہ تیز آواز میں بولی،

اوفوہ…کچھ بھی مزہ نہیں آ رہا ہے۔ تم ذرا ڈانٹو، مجھے کھینچو، کچھ غصہ ہو، میں ذرا چلاؤں گی، روؤں گی …”

انیل پھر حواس باختہ سا رگھو بیر کو گھورنے لگا۔

"بس خاموشی سے آؤ۔”

رگھو بیر نے لڑکی کو آنکھ دکھائی۔ اور لڑکی تیز قدموں سے کار کی طرف بڑھنے لگی۔

رگھو بیر نے دروازہ کھولا۔ انیل اور لڑکی گاڑی کی پچھلی سیٹ پر بیٹھ گئے۔ رگھوبیر نے اسٹیرنگ سنبھالی۔ انیل کا دل رہ رہ کر دھڑک رہا تھا، مگر لڑکی کے نڈر پن نے اس کا آدھا ڈر غائب کر دیا تھا۔ اسے لڑکی بڑی بھولی بھالی نظر آ رہی تھی۔ بس دل یہی چاہ رہا تھا۔ لڑکی بولتی رہے اور وہ سنتا رہے۔ اس نے پھر لڑکی کی طرف دیکھا۔ وہ بڑے اطمینان سے گاڑی کا معائنہ کر رہی تھی۔

"کرائے پر لائے ہو؟”

لڑکی نے گاڑی کی پھٹی ہوئی سیٹ اور اس کی خراب آواز کو محسوس کرتے ہوئے کہا۔

"ہاں۔” انیل نے آہستہ سے کہا۔

"اسی لئے کھٹارہ لگ رہی ہے۔” وہ ہنسی۔

پھر جانے کیا سوچ کر بولی،” اب تم لوگ مجھے کسی دور دراز مقام پر لے جاؤ گے۔ یا پھر کسی کرائے کے گھر میں ؟ پہلے سے ہی سب معلوم ہے۔”

"ہاں۔”

"ونڈر فل۔” لڑکی نے خوشی سے تالی بجائی۔” مجھے پہلے سے ہی سب معلوم ہے۔ مگر ہاں ذرا جلدی کرنا۔ پاپا جی گھر میں ناراض ہو جائیں گے۔”

رگھو بیر ایک دم سے گڑ بڑا گیا۔ اسٹیرنگ ہاتھ سے چھوٹ ہی تو گئی تھی۔ انیل بھی اس کے اس جملے پر چونک گیا۔ جانے لڑکی کیا سمجھ رہی تھی۔ اس کے بر خلاف لڑکی ہنستی ہوئی کہہ رہی تھی۔

"ارے ٹھیک سے چلاؤ، دھکا مار دو گے کیا۔ گاڑی تو کرائے کی ہے۔ کچھ خرابی آ گئی تو فائن بھرنا پڑے گا۔”

گاڑی کے شیشے چڑھے ہوئے تھے۔ لڑکی آہستہ آہستہ شیشے پر انگلیاں پھیرتی ہوئی مسکراتی جا رہی تھی۔

اس کے اس جملے پر انیل بھی اپنی مسکراہٹ نہ روک سکا تھا۔ ہاں، رگھوبیر کچھ زیادہ ہی سنجیدہ ہو گیا تھا۔ انیل کو مسکراتاپا کر لڑکی نے دوبارہ تالی بجائی۔

"اب اچھے لگ رہے ہو۔ بس تم چپ چاپ مت رہا کرو۔ ایسے بہت اچھے لگتے ہو۔”

انیل کو اس کی معصومیت پر پیار آ گیا۔ دل اب بھی دھڑک رہا تھا اور گاڑی ویران راستوں سے ہوتی ہوئی گزر رہی تھی۔

درختوں کا ایک لمبا سلسلہ دور تک چلا گیا تھا۔ کچھ بیل گاڑی والے اور ٹم ٹم والے سڑک کے کنارے کھڑے تھے۔ آگے کچھ چائے کے چھوٹے موٹے ہوٹل بھی تھے۔ اکا دکا رکشا بھی بغل سے گزرا تھا ——لڑکی کی دور نگاہیں چاروں طرف دوڑ رہی تھیں۔

"تم نے اچھی جگہ کا انتخاب کیا ہے۔” اس نے دیدے گھماتے ہوئے کہا۔

انیل کی سمجھ میں ہی نہیں آ رہا تھا کہ کس مٹی کی بنی یہ لڑکی ہے۔ اب رفتہ رفتہ اسے اپنے کئے پر پچھتاوا ہو رہا تھا۔ اُسے لڑکی پر رحم آنے لگا تھا۔ اس نے سوچ لیا تھا کہ اگر رگھو بیر نے پیسوں کے لئے لڑکی کو زیادہ دیر تک روکے رکھا تو وہ رگھوبیر سے اس نادان پیاری بچی کے لئے لڑ جائے گا۔ اور اسے گھر واپس بھیج دیگا۔

رگھو بیر لڑکی کے متعلق کچھ اور ہی سوچ رہا تھا۔ اس کے دل و دماغ نے جیسے اب کام کرنا ہی چھوڑ دیا تھا۔ سینے میں عجیب سی اتھل پتھل مچی ہوئی تھی۔ اندھیرے میں کہیں زور زور سے ڈھول پیٹا جا رہا تھا۔

اندھیرے کا دل رہ رہ کر دھڑک رہا تھا۔

گھر پر بوڑھی ماں اور مردہ بہن آبِ حیات کی منتظر ہیں …

ڈھول زور زور سے بج رہا ہے …

وحشت کا دیو ہر پل اسے نگلتا جا رہا ہے۔ اس دیو کی ہر حال میں شکست دینی ہے، گھر میں زندگی کی روح پھونکنی ہے — موت کی تاریکی دور کرنی ہے۔ اور اس کے لئے…

اندھیرے کا دل رہ رہ کر دھڑک رہا ہے۔

اور رگھو بیر سوچ رہا تھا۔ لڑکی کے بھولے پن اور معصومیت کے باوجود وہ کمزور نہیں بنے گا۔ بلکہ لڑکی کو وہاں رکھنے کے بعد کسی بھی پرائیویٹ بوتھ سے وہاں تک خبر کرے گا … کہ اتنا روپیہ لاؤ … تبھی لڑکی کو چھوڑا جائے گا۔ روپیہ کہاں لانا ہے، کب کیا کرنا ہے۔ منصوبہ پہلے سے ہی فٹ تھا۔ کہیں کوئی گڑبڑی نہیں تھی۔ جو گڑ بڑی ہوئی تھی وہ محض لڑکی کی وجہ سے کہ اس نے پہلے کے تمام منصوبوں پر پانی پھیر دیا تھا۔ خیر اس سے کیا مطلب ہے۔ آگے کا مرحلہ تو اب آیا ہے … اور اب آگے کے پروگرام میں کسی طرح کی گڑ بڑی نہیں چاہئے تھی۔ خلاف توقع سارا کام ٹھیک ہوتا گیا تھا۔ غلط کام کرو تو اوپر والا بھی مدد کرتا ہے۔

اندھیرے کا دل پھر دھڑکا ——

گھر آ گیا تھا ——

گاڑی کنارے کھڑی کر کے اس نے سائڈ کا دروازہ کھولا۔ انیل سے پہلے ہی لڑکی چہچہاتی ہوئی اتر گئی تھی۔ پہلے اس نے گھر کا معائنہ کیا۔ پھر گھر کی خستہ حالی اور ٹوٹی پھوٹی دیواروں کو دیکھ کر خوب ہنسی …

"تم نے بڑے اچھے گھر کا انتخاب کیا ہے۔ بالکل کسی انگریزی فلم کا سامزہ آ رہا ہے۔ ویسا ہی ٹوٹا پھوٹا اجاڑ… جیسے اسمگلروں کا خفیہ اڈا ہو۔

وہ ہنسی، پھر بولی۔

"اب کھڑے کیا ہو، اندر چلو۔”

اور اس کے ساتھ ہی وہ دوڑتی ہوئی سیڑھیاں طے کر کے بند دروازے کے پاس آ کر ٹھہر گئی۔

دروازے پر تالا جھول رہا تھا۔

"اف کتنا جھول ہے۔ جیسے برسوں سے صفائی نہیں ہوئی ہو۔”

رگھوبیر آگے بڑھا۔ پینٹ کی جیب سے کنجی نکالی۔

دروازہ کھل گیا تو لڑکی دوڑتی ہوئی اندر بھاگی۔ اندر پہلے سے ہی ایک چوکی پڑی تھی۔ اور چوکی پر ایک صاف چادر بچھی ہوئی تھی۔

"ٹھیک ہے۔ اب میں لیٹ جاتی ہو۔” لڑکی نے ہنستے ہوئے کہا۔” مگر میں بہت تھک گئی ہوں۔ پانی ملے گا۔”

رگھوبیر نے اشارہ کیا۔ انیل دوسرے کمرے سے پانی بھرا گلاس لے آیا۔

"پیو۔”

 "تھینک یو۔”

لڑکی شرارت سے بولی اور اس کے دیدے نچانے کا کام جاری رہا۔

"عجیب سر پھری لڑکی ہے۔” انیل آہستہ سے بڑ بڑایا۔

رگھو بیر اب بھی سر کھجاتا ہوا سوچ و فکر میں ڈوبا ہوا تھا۔ اندھیرے کے دل نے دھڑکنا اب بند کر دیا تھا۔ اور ڈھول باجے بجنے کی جو بے ہنگم بے سری آواز کانوں میں رینگ گئی تھی، اب رفتہ رفتہ وہ آواز کمزور پڑنے لگی تھی۔ لڑکی کی مسکراہٹ اور بھولے پن نے اب آہستہ آہستہ ایک مقناطیسی کشش اس کے دل میں پیدا کر دی تھی۔

یہ گنا ہ ہے۔

یہ جرم ہے۔

جانے کہاں سے یہ دو عجیب سے لفظ اس کے کانوں کے پاس ہتھوڑے کی طرح بجے۔ اس کی کنپٹیاں سرخ ہو گئیں۔

لڑکی کتنی معصوم ہے۔ کتنی پیاری ہے۔ عمر سے بھی بڑی بڑی کتابوں نے ——وقت سے پہلے اسے کتنا بڑا کر دیا ہے… مگر اس کے باوجود اس کی معصومیت اور بھولا پن برقرار ہے …

رگھو بیر کی سانسوں میں طوفان آ گیا تھا۔ آنکھیں پھیل گئی تھیں۔ اس نے پھر بچی کو دیکھا جو آنکھیں گھمائے، دونوں کی پر اسرار خاموشی کو دیکھتی ہوئی کہہ رہی تھی…

"اتنے چپ کیوں ہو۔ کچھ بولو بھی۔ بات بھی کرو۔ ورنہ میں تو بور ہو جاؤں گی۔”

 انیل نے پھر بے بسی سے رگھو بیر کو دیکھا۔

اور رگھو بیر نے سر جھکا لیا۔

"تمہارا نام کیا ہے ؟ ” انیل نے اپنی آنکھوں میں بلا کی محبت پیدا کرتے ہوئے کہا۔

"مینا۔”

وہ کھلکھلائی—— "اچھا ہے نا میرا نام۔ سبھی لوگ کہتے ہیں کہ اچھا ہے۔ پورا نام مینا شاستری ہے۔ گھر والے اور سہیلیاں صرف مینا کہتی ہیں۔ تم بھی اسی نام سے پکارو۔”

انیل کچھ چونکا ضرور، مگر چپ رہا۔ اب اسے لڑکی پر ترس آنے لگا تھا۔

"پکارو نا میرا نام؟” وہ انیل کے چہرے کے اتار چڑھاؤ کو پڑھ رہی تھی۔

"مینا …” انیل نے کچھ لرزتی ہوئی آواز میں پوچھا۔” تمہارے ڈیڈی کا نام کیا ہے ؟”

"رام اوتار شاستری۔”

اچانک انیل چونک پڑا۔ رگھوبیر بھی سناٹے میں آ گیا۔ شاستری جی کے گھر والوں سے وہ بخوبی واقف تھا۔ دونوں کو یہ سمجھتے دیر نہ لگی کہ مینا اتنی آزاد خیال کیوں ہے۔ شاستری جی کا خاندان اپنی آزاد خیالی کی وجہ سے سارے شہر میں مشہور تھا۔ ان کے گھر کولے کر طر ح طرح کی افواہیں بھی پھیلی ہوئی تھیں۔ کون تھا جو انہیں اچھے ناموں سے یاد کرتا تھا۔ چھوٹے سے محلے میں لوگ طرح طرح کی باتیں کرتے رہتے تھے۔ کوئی پردہ نہیں ہے۔ شرم لحاظ کچھ بھی نہیں ہے۔ گھر کی عورتیں خود سامان خریدنے باہر جاتی ہیں۔بے حیا ہیں۔ وغیرہ وغیرہ۔

"تم چپ کیوں ہو گئے ؟”

لڑکی نے انیل کے چہرے کا بغور جائزہ لیتے ہوئے پوچھا جو شاستری جی کا نام سن کر چونک گیا تھا۔

"تم میرے پاپا کو جانتے ہو ؟ سچ مچ وہ بڑے اچھے ہیں۔ اگر میں شام تک نہیں گئی تو پاپا بری طرح سے گھبرا جائیں گے۔ اس لئے …”

مینا پھر کچھ سوچتی ہوئی بولی۔” مگر …”

"مگر کیا ؟” انیل کی حالت بدتر ہو رہی تھی۔

"ایک پرابلم ہے۔”

مینا شرارت سے دونوں کی اڑی رنگت کو دیکھتی ہوئی بولی۔” تم دو ہو۔ اور میں ایک وقت میں دونوں سے پیار کیسے کر سکتی ہوں ؟”

دونوں ایک دم سے چونک گئے۔ جیسے سارا خون ہی منجمد ہو گیا ہو۔ ذہن ایک دم سناٹے میں آ گیا تھا —— اچانک … بالکل اچانک… لڑکی کے اس غیر متوقع لفظی حملے نے دونوں کو بوکھلا دیا تھا۔ وہ کہہ رہی تھی ——

"اس میں چونکنے کی بات ہی کیا ہے —— تم ہی کہو —— ایک وقت میں، میں تم دونوں سے پیار کیسے کر سکتی ہوں۔”

اب انیل کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا تھا۔ اس لفظی حملے نے رگھوبیر کی بھی سوچنے سمجھنے کی تمام صلاحیت چھین لی تھی۔

تو اصلیت یہ تھی —— لڑکی پیار کے خوبصورت نام سے تو واقف تھی —— لیکن پیار کے اس دوہرے رنگ کی قبل از وقت بد صورتی سے نا واقف تھی۔ فقط اس ایک لفظ کے لمس نے اسے متاثر کر رکھا تھا۔

لڑکی اب تک محبت بھرے انداز میں دونوں کو تک رہی تھی۔

رگھو بیر سر جھکائے جیسے فرد جرم کا اقرار کر رہا تھا —— آنکھیں جھک گئی تھیں —— شرمندگی اور ندامت کا ملا جلا رنگ بن گئی تھیں آنکھیں —— ہونٹوں کے لعاب سوکھے جان پڑ رہے تھے۔ اندر دل بڑے عجیب انداز میں دھڑک رہا تھا۔ اورایسے وقت میں اسے انیل کی کانپتی مگر مضبوط آواز سنائی پڑی …

"رگھوبیر میرے دوست… تم نے سنا، لڑکی کیا کہہ رہی ہے۔ اس ڈرامے کو یہیں پر ختم ہونا ہے۔ ہمیں لڑکی کو واپس کرنا ہو گا۔”

اور رگھو بیر جیسے کچھ بھی نہیں سن پا رہا تھا۔ یا سننے اور کہنے کی تمام طاقت مفلوج ہو کر رہ گئی تھی۔ آگے کا آسمان تاریکی میں کھو گیا تھا۔ اور آنکھوں کے آگے کا اندھیرا بڑھتا ہی جارہا تھا۔

"تم نے سنا … تم نے سنا۔ رگھو بیر میرے دوست۔”

انیل پھر بولا——

"لڑکی کو واپس کرنا ہو گا۔”

انیل کی آواز بھرا گئی——

اور لڑکی متعجب نظروں سے دونوں کو گھورے جا رہی تھی۔ جیسے ڈرامے کی اس سین سے بالکل ہی نا واقف ہو —— کچھ بھی سمجھ نہ پا رہی ہو …

اور پھر انیل نے دیکھا—— رگھو بیر کے چہرے پر اچانک بڑی عجیب تبدیلی ہوئی۔ ہونٹ بھنچ گئے۔چہرے پر ایک ساتھ کتنے ہی لہو رنگ موسم سمٹ آئے۔ نظریں اب بھی جھکی تھیں۔ اور پاؤں سختی سے زمین کرید رہے تھے۔ اچانک اس نے نظر اٹھائی۔جذبات سے عاری، نہیں پڑھا جانے والا سپید چہرہ سامنے موجود تھا۔

اور اس سے پہلے کہ انیل کچھ بول پاتا— رگھو بیر تیز قدموں سے دروازے کے باہر نکل گیا تھا۔

لڑکی اب حیرت سے انیل کو گھورنے لگی تھی۔

انیل بالکل چپ تھا۔

وہ اپنے دوست کے پاگل پن سے بخوبی واقف تھا۔ پھر دونوں نے گاڑی کے اسٹارٹ ہونے کی آواز سنی — دونوں دوڑتے ہوئے جب تک باہر آئے، گاڑی اسٹارٹ ہو کر دور جا چکی تھی۔ زمین سے دھول اڑ رہی تھی۔ اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے گاڑی نگاہوں سے اوجھل ہو گئی۔

"اب ہم چلیں گے کیسے ؟”

لڑکی کی آنکھوں میں بے چینی پھیل گئی تھی۔

"گھبراؤ نہیں مینا۔ سواری کی کمی نہیں ہے۔”

مینا پھر مطمئن سی ہو گئی — ذرا سوچتے ہوئے بولی — "تمہارا دوست کہاں چلا گیا؟”

انیل آہستہ سے بولا،” وہ پاگل ہے۔”

 اس کا دماغ تیزی سے کام کر رہا تھا۔

لڑکی پھر جیسے اپنی شوخی پر لوٹ آئی تھی ——” تم اکیلے پیار نہیں کرو گے ؟”

"آؤ مینا گھر چلتے ہیں۔”

انیل اس کا ہاتھ پکڑ کر باہر لے آیا۔ وہ اب بھی کچھ سمجھ نہیں پا رہی تھی — باہر آ کر انیل کچھ سوچتا رہا۔ اس کا دماغ برابر اسے پریشان کئے جا رہا تھا۔ وہ مینا کی معصوم نظروں کو ٹٹولتے ہوئے —— بڑے آہستہ اور قدرے غمگین آواز میں مخاطب ہوا۔

"مینا ! ہمیں معاف کر دو۔ جو کچھ بھی ہوا، ا ُسے بھول جاؤ۔ یہ ہماری زندگی کی پہلی غلطی ہے۔ ہم اپنے کیے پر نادم ہیں۔ مگر ہاں دیکھو— پہلے وعدہ کرو — کسی سے بھی تم آج کے واقعہ کا ذکر نہیں کرو گی —— میں تمہیں تمہارے گھر کے قریب چھوڑ دوں گا۔ تم چلی جانا۔”

مینا پھر شرارت سے مسکرائی۔” ایسے کام نہیں چلے گا۔ میں پاگل ہوں جو کسی سے اس کا تذکرہ کروں گی۔ مگر تمہیں میرے گھر چلنا پڑے گا۔اور اس سے پہلے پیار کرنا ہو گا۔”

انیل آہستہ سے مینا پر جھکا اور اُس کی پیشانی کا بوسہ لیتے ہوئے بولا۔

"اب تو خوش ہو۔”

مینا سچ مچ خوش ہو گئی تھی۔

"اب گھر چلو، پاپا جی انتظار کر رہے ہوں گے۔تم سے مل کر بہت خوش ہوں گے۔”

ایک بج گیا تھا۔ انیل نے بیچارگی سے مینا کو دیکھا۔ جس کی آنکھیں پھر سے چمکنے لگی تھیں۔ دھوپ سخت ہو گئی تھی۔ سرد لہر جسم میں گرم خون بن کر دوڑ رہی تھی —— اور یہ سخت دھوپ اس جاڑے کے موسم میں بھی بڑی بھلی لگ رہی تھی۔

آگے ہی موڑ پر سواری مل گئی۔اور دونوں گھر کے لئے روانہ ہو گئے۔

(۵)

سارے شہر میں لے دے کر ایک مسز ارونا کا گھر تھا، جن سے مسز شاستری اور ان کے گھر والوں کی خوب بنتی تھی۔ مسز ارونا کے شوہر ایک حادثے میں چل بسے تھے۔ اور اس طرح لاکھوں کی جائیداد کی وارث مسزارونا اور ان کی بیٹی بن گئی تھیں۔ شوہر کی ناگہانی موت نے مسز ارونا کو عظیم صدمے سے دوچار کیا مگر ان کے اندر کسی طرح نئی تبدیلی کو پنپنے نہیں دیا۔ مسز ارونا کافی اسمارٹ بنے رہنے کی ہمیشہ کوشش کیا کرتی تھیں۔ شہر میں لے دے کر ایک ہی کلب تھا۔ وہ کلب کی معزز ممبر تھیں۔ پہلی بار اسی کلب میں مسز شاستری سے ان کی ملاقات ہوئی تھی۔ دونوں کھلے دماغ کی اور آزاد خیال تھیں۔ اس لئے ایک دوسرے کو پہچاننے میں دیر نہ لگی۔ پھر دونوں خوب گھل مل گئیں۔

مسز ارونا کی لڑکی رتی بھی نئے مزاج کے نئے شہر کی پیداوار تھی۔ ہر وقت بنی ٹھنی رہتی۔ اور تتلیوں کی طرح شہر کی رنگینیوں میں کھوئی کھوئی رہتی۔ انورادھا کی اس سے خوب بنتی تھی۔ دونوں شہر کی بوڑھی روایات پر قہقہے بکھیرتی رہتیں۔ پھر لوگوں کی تنگ نظری اور دلوں میں تہہ در تہہ جمے میل پر بھی ان کا تیکھا تبصرہ ہوتا۔ جب رتی آتی تو گھر کا ماحول بھی بدل جاتا۔ اور تیز بہت تیز قہقہے شاستری ہاؤس میں گونجنے لگتے۔

مسز شاستری تو رتی کی اس ادا پر جان ہی دیتی تھیں۔

اس لئے جب شاستری جی اکیلے میں رتی کی بے ہنگم ہنسی کا تذکرہ کرتے تو وہ منہ بنائے بغیر نہیں رہتیں۔

"آخری اس میں غلطی ہی کیا ہے۔ جوان ہے۔ خوب صورت ہے۔ ہنستے کھیلتے زندگی گزارنا چاہتی ہے۔ اور پھر زندگی تو زندہ دل قہقہوں کا نام ہے۔ یہ کیا کہ سوچ کے ڈر سے ہونٹوں پر قفل لگا کر گھر کی چہار دیواری میں قید ہو گئے —— زندگی دوبارہ کہاں نصیب ہوتی ہے۔ جتنا قہقہہ لگانا ہے اسی عمر میں لگا لینا چاہئے۔”

شاستری جی بیچارے چپ ہو جاتے۔ کیا کہتے—— سیدھے، سادھے آدمی ٹھہرے۔ زیادہ کچھ کہتے تو آرتھوڈوکس اور اولڈ فیشنڈ بنا دئیے جاتے … وہ اور گالیاں تو برداشت کر جاتے مگر ان گالیوں سے بڑی وحشت سی ہوتی تھی۔ انہوں نے ہمیشہ خود کو جوان سمجھا۔ اور یہ بات ہمیشہ فخر سے کہتے رہے… کہ بھائی میں تو زمانے کے ساتھ چلنے اور وقت کے ساتھ سمجھوتہ کرنے کو ہی زندگی مانتا ہوں۔ قبیلہ کی پرانی رسموں اور بڑھاپے کی مصنوعی چپی سے مجھے جنم جنم کا بیر ہے۔

ہر آدمی کا اپنا الگ اصول ہوتا ہے۔ شاستری جی کا بھی تھا۔ جو تھوڑے بہت لوگ ان سے ملنے والے تھے وہ ان اصولوں کی سختی کی وجہ سے انہیں پسند بھی کرتے تھے—

آج پھر رتی گھر میں آئی ہوئی تھی ——

صبح سے ہی سارا گھر قہقہوں سے گونج رہا تھا۔ رتی کے جسم میں جیسے بجلی بھری تھی۔ کبھی ادھر جاتی کبھی اُدھر—— کبھی مسز شاستری سے مذاق پر اتر جاتی، کبھی شاستری جی کی دھوتی اور لمبا کرتا مذاق کا نشانہ بن جاتا۔ انورادھا بھی خوب چہک رہی تھی۔ شاستری جی کو مذاق کے نشانے پر لینے کی ایک خاص وجہ بھی تھی۔ شاستری جی کچھ کرتے دھرتے نہیں تھے۔ کھیت وغیرہ کافی تھا۔ اس لئے بنک بیلنس بھی تگڑا تھا۔ شروع شروع میں جوانی کے دنوں میں ایک چھوٹا سا کاروبار بھی کیا تھا۔ مگر طبیعت وہی بیٹھنے والی اور گپیں لڑانے والی تھی۔ اس لئے کاروباری زندگی راس نہ آئی۔ اس لئے کاروبار بند کر کے وہی آزادانہ زندگی گزارنے لگے۔ اس زندگی میں انہیں لطف آتا تھا۔ نہ فکر نہ غم! نہ زیادہ سوچنا —— کوئی لڑکا نہیں تھا۔ جس کے واسطے بزنس پھیلاتے اور زیادہ سے زیادہ دولت سمیٹنے کی کوشش کرتے۔

رتی شاستری جی کو خوب بناتی— انکل بالکل سست ہو گئے ہیں — بالکل دیہاتی عورتوں کی طرح ہر وقت گھر میں گھسے رہتے ہیں۔

کبھی کہتی —— انکل آج تو لڑکیاں بھی مشین بن گئی ہیں۔ ایک آپ ہیں۔

پھر ارمیلا آنٹی سے ہنستی ہوئی کہتی ——” آنٹی ! کبھی تو انکل کو باہر کی ہوا کھانے دیجئے۔ نہیں تو بدن میں چربی چڑھ جائے گی۔”

مسز شاستری کا چہرہ شرم سے لال بھبھوکا ہو جاتا۔ وہ شرما کر دونوں ہاتھوں سے اپنے چہرے کو چھپا لیتیں … "شیطان کہیں کی مجھ سے بھی مذاق سے باز نہیں آتی۔”

رتو پھر آنٹی کو آڑے ہاتھوں لیتی— آپ شاید سمجھتی ہیں کہ انکل پھر ایک نئی لے آئیں گے … یو آر سیلفش آنٹی — بس اتنی سی بات کے لئے انکل کی آزادی ختم کر دی۔”

رتو جب تک رہتی گھر قہقہے میں ڈوبا رہتا۔ نقرئی قہقہے چھن چھن کر دیواروں سے باہر بھی رینگتے رہتے۔ گھر میں جیسے بہار آ گئی ہو۔

باہر صحن میں کرسیاں لگ گئی تھیں۔ ہلکی ہلکی سرد ہوا جسم میں طوفان بھر دیتی۔ دھوپ سخت تھی۔ کھلے گلے کے بلاؤز میں رتی غضب ڈھا رہی تھی۔ انورادھا نے کتنی بار عجیب سی نظروں سے اس کے تنگ اور خوب صورت بلاؤز کا جائزہ لیا۔ مگر کچھ بولی نہیں۔ اچانک ہی رتی کو کچھ یاد آ گیا۔ وہ چونکتی ہوئی بولی —

"ارے آج اپنی دوست مینا نظر نہیں آرہی ہے۔ کہاں گئی ہے ؟”

"اسکول ” مسز شاستری مسکرائیں۔

"مگر آنٹی آج تو اسکول میں فوراً ہی چھٹی ہو گئی ہو گی۔”

"ہاں، مینا بھی تمہاری ہی دوست ہے۔ کل کہہ رہی تھی کہ گھر پر پڑے پڑے بور ہو جاتے ہیں۔ کچھ دیر تک پارک میں بیٹھوں گی، پھر آؤں گی۔”

"ویری نائس۔” رتی مسکرائی—— "مینا تو ہم سب سے بازی لے گئی۔ دیکھنا بڑی ہو کر ہم سب کے کان کاٹے گی۔”

"دھوپ کتنی سخت ہے—— ” انو رادھا نے اپنے کھلے ہوئے بالوں میں انگلیاں پھیریں۔

"بڑی پیاری دھوپ ہے ——” رتی ہنسی —— "خاص کر ایسی پیاری دھوپ میں سن ہاتھ (Sun bath) لینے کا الگ ہی مزہ ہے۔ بھائی مجھے تو سن باتھ لینے میں بڑا ہی مزہ آتا ہے۔” جیسے ہی سورج نکلتا ہے میں سوئمنگ ڈریس میں چھت پر لیٹ جاتی ہوں۔ اتنا اچھا لگتا ہے انو کہ بتا نہیں سکتی … سورج کی گرم گرم جلتی ہوئی شعاعیں جیسے سیدھے میرے جسم میں داخل ہو کر آگ بن جاتی ہیں۔ اور پھر اندر عجیب سی سنسناہٹ کو محسوس کرنے کے لئے میں روز ہی سورج کے سر کے سامنے آتے ہی چھت پر لیٹ جاتی ہوں — اور وہ جو سامنے اشوک پٹواری صاحب کا مکان ہے نا … اور ان کا جو لڑکا ہے … کیا نام ہے … ہاں یاد آیا … مکیش… مکیش پٹواری … ایک دن ایسا لگا، جیسے چھپ کر للچائی نظروں سے وہ مجھ کو گھور رہا ہے۔ اس دن سمجھا کہ وہم ہو گا… مگر ایک دن آخر اس کی چوری پکڑ ہی لی۔ بڑا غصہ آیا— پھر دل میں سوچا کہ ہونہہ… دیکھنے دو … دیکھو… دیکھو… اپنا کیا جاتا ہے … بے وقوف کہیں کا …”

رتو خوب زوروں سے کھلکھلائی۔ اور مسز شاستری کا تیز قہقہہ گونج گیا۔

انو نے ہلکے احتجاج کے بعد پوچھا —” وہ تجھے گھورتا ہے تو تجھے برا نہیں لگتا؟”

"برا کیوں لگے گا ؟ کیوں آنٹی۔ اور پھر دیکھنے والی چیز ہی تو دیکھی جاتی ہے۔ میں خوب صورت ہوں، اسمارٹ ہوں، سڈول بدن پایا ہے میں نے۔ آخر کمی کیا ہے … صرف جسم کا ہی نظارہ ہی تو کرتا ہے …”

رتو پھر قہقہہ مار کر ہنس پڑی۔ اور اس بار اس کے قہقہے میں ماں بیٹی دونوں شریک تھیں۔

ذرا ٹھہر کر رتی نے شرارتی انداز میں انورادھا کو دیکھا —” ایک بات کہوں انو ! تو بھی سن باتھ لینا شروع کر دے۔ دیکھنا کوئی نہ کوئی لڑکا تیرے جال میں ضرور پھنس جائے گا۔ پھر مزے کرنا …”

"دھت !”

انو رادھا بناؤٹی غصے میں بولی۔

اسی وقت شاستری جی باہر سے ٹہلتے ہوئے آ گئے …” دو بج گئے —ابھی تک مینا نہیں آئی۔ پتہ نہیں کیا بات ہے۔”

"آتی ہی ہو گی، گھبرانا کیا ہے۔ کسی سہیلی کے گھر چلی گئی ہو گی۔” مسز شاستری بولیں۔

"مگر پھر بھی سہیلی کے گھر کہہ کے جانا چاہئے تھا۔”

"اب لو … وہ ذرا ذرا سی بات ان سے کہہ کر جائے گی۔ ” مسز شاستری نے رتو کو دیکھ کر ہنستے ہوئے کہا … اس کے کھیلنے کھانے کی عمر ہے … گھوم رہی ہو گی۔ جائے گی کہاں …”

"اب میں چلوں گی آنٹی … دیر ہو رہی ہے۔ پھر آؤں گی۔ آج مینا کے نہیں رہنے سے مزہ نہیں آ رہا …”

رتو نے کہا۔ پھر نمستے کرتی ہوئی دروازے کی جانب بڑھ گئی۔

اس کے جانے کے بعد مسز شاستری آہستہ سے بڑ بڑائیں … بڑی تیز ہے جس گھر میں جائے گی، روشنی پھیلائے گی …”

شاستری جی کرسی پر بیٹھ گئے۔ جانے کیوں وہ کچھ پریشانی سی محسوس کر رہے تھے۔ چھوٹی سی بچی۔ زمانے کا تجربہ نہیں۔ کہیں کچھ ہو گیا تو ؟ اتنی آزادی ٹھیک نہیں۔ مگر وہ کر بھی کیا سکتے ہیں … گھر کے قہقہوں نے انہیں بے زبان بنا دیا ہے۔ وہ کسی بھی پہلو پر اپنی کوئی رائے پیش نہیں کر سکتے۔ ورنہ مینا اتنی آزاد خیال نہیں بنتی— بھلا دو بجے تک اسکول میں پڑھنے والی کوئی بچی بغیر ماں باپ کو بتائے کہیں جاتی ہے — جب کہ چھٹی تو دس ہی بجے ہو گئی ہو گی — اور لوگوں کا کیا ٹھکانا۔ زمانہ کیسا خراب آ گیا ہے۔ اکیلی بچی کو دیکھ کر کچھ کر دیا تو … دل میں طرح طرح کے خیال اٹھ رہے تھے۔ ٹھیک اسی وقت باہر رکشا رکا —

شاستری جی کی جان میں جان آئی۔ مگر اچانک وہ چونک گئے۔ مینا کے ساتھ رکشے سے ایک بائیس تیئس سال کا نوجوان خوب صورت لڑکا اتر رہا تھا… انورادھا اور مسز شاستری بھی حیرت سے دونوں کو دیکھ رہی تھیں …

اچانک مینا تیزی سے بھاگتی ہوئی آئی۔ آنکھیں خوب چمک رہی تھیں۔ جب کہ انیل دروازے کے پاس ٹھہر گیا تھا۔

"آؤ، آؤ۔” مینا چیخی۔

انیل کو بڑا عجیب سا لگ رہا تھا۔ مگر جب وہ آہی چکا تھا تو اخلاق کا تقاضا یہی تھا کہ سب سے مل کر جاتا۔ اس نے اپنے دونوں ہاتھ جوڑ دیئے … نمستے !

شاستری جی انیل کی سادگی دیکھ کر بے حد خوش تھے۔

"یہ مینا تمہیں کہاں ملی ؟”

"جی ! "

تب تک مینا بول اٹھی۔” پاپا، ہم دونوں دوست ہیں۔”

"دوست !”

"اس میں ہنسنے کی کیا بات ہے۔” مینا نے برا مانتے ہوئے کہا،” میرے دوست بڑے نہیں ہو سکتے ؟”

"مینا بہت پیاری لڑکی ہے۔”

انیل ٹھہر ٹھہر کر بولا …” پارک میں ہی ہم دونوں کی دوست ہوئی۔”

انورادھا اب بھی نظریں نیچی کئے انیل کو دیکھے جا رہی تھی۔ انیل کی شخصیت نے اُسے بہت متاثر کیا تھا۔ یہی حال مسز شاستری کا بھی تھا۔ وہ انیل کی سادگی اور بھولے پن پر ایک دم سے مر مٹی تھی۔

"بیٹھو … بیٹھو…”

"پہلی بار گھر آئے ہو۔کھڑے کھڑے تھک جاؤ گے بیٹے۔”

شاستری جی چہک اٹھے۔

انیل نے ایک کرسی لے لی۔ اور اطمینان سے بیٹھ گیا۔ یہ الگ بات تھی کہ اس کی سانس تیز تیز چل رہی تھی۔ مگر وہ اپنی گھبراہٹ پر قابو پائے ہوا تھا۔

پھر شاستری جی شروع ہو گئے … "تمہارا نام کیا ہے —؟ پتا جی کیا کرتے ہیں — ؟ تم کیا کرتے ہو … اب کیا کر رہے ہو —؟” وغیرہ شاستری جی کے تمام سوالوں کا جواب دیتا گیا …ہاں آخری سوال کے جواب میں وہ تھوڑا سا بجھ سا گیا … چہرے پر شکنیں رونما ہو گںیا — چہک غائب ہو گئی۔ بہت ہی کمزور آواز میں بولا۔

"ایم۔ اے ہسٹری کرنے کے بعد آج کل بالکل بے کار بیٹھا ہوں۔”

شاستری جی ہنسے، ابھی عمر ہی کیا ہے۔ اور نوکری کون سی دور بھاگی جا رہی ہے۔ مل ہی جائے گی۔ پھر ارمیلا کو دیکھ کر بولے۔

"کیوں جی — انیل کو بھوکے رکھنے کا ارادہ ہے کیا۔ کچھ چائے وائے پلاؤ۔”

اور اس بات پر پھر ایک قہقہہ لگا۔ مسز شاستری اُٹھ کھڑی ہوئیں۔ "ارے میں بھول ہی گئی …”

اب انیل کے لئے وقت تھا۔ اس نے انورادھا کا غور سے جائزہ لیا۔ا ٹھارہ بیس سال کی خوب صورت سی لڑکی۔ ہونٹ کچھ کہنے کے لئے کانپ گئے … ایک نظر میں انیل بھانپ گیا … انورادھا کے اوپر بھی ایک تہہ چڑھی ہوئی ہے۔ وہی معصومیت کی تہہ — وہی ڈرامے اور فلم سے نکلی ہوئی عورت اس کے اندر بھی دیکھنے سے نظر آ رہی تھی … یہ وہی کچھ تھا جو فلم اور ڈرامے کی چکا چوند اور گلیمر سے نکل کر چھوٹے شہر کے لوگوں کے اندر رچ بس جایا کرتا ہے … سب کچھ اتنا ARTIFICIALہوتا ہے کہ چھوٹے شہر کے لوگوں کے لئے ایک عجوبہ بن جاتا ہے۔ان سے کچھ الگ نہیں ہے انورادھا۔ نہ ہی مینا۔ نہ ہی مسز شاستری اور شاستری جی گھر میں کسی دوسرے مرد کی غیر موجودگی میں ایک بے زبان کردار سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتے۔ انیل نے یہ بات مکمل طور پر محسوس کی کہ سب کے سب اس کی راہ میں بچھے جا رہے تھے۔ یہ شاستری ہاؤس میں شاید کسی پہلے مرد کی موجود تھی سب کی خواہش بس اتنی تھی کہ وہ ہنستا رہے، کچھ بولتا رہے۔ اور اسی طرح بیٹھا رہے … شاستری جی بھی بات بے بات ہنس پڑتے… کبھی کبھی انورادھا کا دل کی گہرائیوں سے نکلا ہوا قہقہہ بھی ہوا کے دوش پر تھرک اٹھتا …

ایسا کیوں ہے ؟

ایک چھوٹا سا سوال انیل کے اندر پیدا ہوا … اب رفتہ رفتہ وہ خود کو اس ماحول کے لائق بنا رہا تھا۔ شرم و حیا کے گونگے طائر نے اپنی زبان کھولنے کے لئے پر پھیلانے شروع کر دیئے تھے۔ چھوٹے سے چھوٹے سوال کا بھی اس کے پاس صحیح حل موجود تھا۔ تمام باتوں کا حل اس نے صرف یہی ڈھونڈا تھا کہ یہاں ایک مرد کی کمی ہے۔ لے دے کر بس شاستری جی ہیں۔ اور شاستری جی بھی بوڑھے ہو چلے ہیں — ہزاروں ضرورتوں میں ایک ضرورت اس کے جیسے کسی لڑکے کی بھی ہے … جو اِن کی باتوں اور خیالوں کا رخ موڑ سکتا … وقت بے وقت مشورہ دے سکتا۔ مرد کے اندر یہ خوبی ہوتی ہے کہ وہ کسی نہ کسی پہلو سے دقیانوسی ضرور ہوتا ہے۔ خاص کر گھر کے معاملے میں — بچپن کی سرحد سے نکلنے کے بعد ہی یہ احساس ہونے لگتا ہے کہ اس کے گھر کی بڑی ہوتی ہوئی بہنوں کو پردہ چاہئے … شرم چاہئے … غیروں سے بچنا چاہئے۔ اور بہنیں اپنے گھر میں جوان بھائیوں کی موجودگی کو محسوس کرتے ہوئے اتنی آزاد خیال نہیں ہو پاتیں۔ بلکہ کسی حد تک اپنے برہنہ خیالات پر بھی قابو پا لیتی ہیں۔

"تو ان کا یہ غیر فطری انداز بھی مرد کی کمی کی وجہ سے ہے …”

 انیل اب بہت مطمئن تھا۔ دل و دماغ میں گھسا ہوا میل اب باہر نکل چکا تھا۔ چھوٹے شہر کی یہ روایت رہی ہے کہ وہ ذرا بھی داغ دیکھ کر کیچڑ اچھالنے سے باز نہیں رہتے۔ یہی شاستری جی کا خاندان تھا جس کے بارے میں کل تک ہزاروں افواہیں سننے میں آتی تھیں۔ مگر محبت کے اس جوشیلے ماحول کو دیکھنے کے بعد یہ نہیں کہا جا سکتا تھا کہ یہ وہی گھر ہے جو بدنام زمانہ رہا ہے … جس کے بارے میں یہ شہر کیسی کیسی نئی نئی باتیں کہتا پھر تا ہے۔

"پاپا جی ! انیل کو قصے کہانیاں خوب آتی ہیں۔” مینا پھر چہکنے لگی۔

شاستری جی نے ٹوکا — "بیٹے انیل نہیں بولتے۔ انیل بھیا بولتے۔”

مینا نے کچھ سوچا، پھر بولی۔” ٹھیک ہے۔ اب انیل بھیا ہی بولوں گی۔”

وہ پھر چپ ہو گئی۔ ذرا دیر بعد پھر پٹاخہ چھوڑتے ہوئے بولی … جانتے ہیں، انیل بھیا کے کہانی کہنے کا اپنا انداز ہے۔ خوب کہانیاں آتی ہیں ان کو۔ ایک دن پارک میں ہم سہیلیاں خوش گپیاں مار رہے تھے کہ انیل بھیا آ گئے۔ ہم نے شرارت سے منہ بنا لیا۔ انیل بھیا نے بالکل ہی برا نہ مانا۔ بلکہ تیز تیز چلتے ہوئے ہمارے پاس چلے آئے۔ اور ڈھیر ساری کہانیاں سنائیں۔

"اچھا ——؟” انورادھا مسکرائی

"کیسی کہانیاں بھائی۔ ہم تو سنیں۔” شاستری جی بولے …

"بس یونہی انکل۔”

انیل ہنسا…” کہانیاں، کیسی، ذرا ان بچوں کو خوش کر دیا۔ بس۔”

مسز شاستری پلیٹ میں پاپڑ لے آئی تھیں۔ ساتھ میں کچھ نمکین بسکٹ بھی تھے— ٹیبل پر ان پلیٹوں کے رکھنے کے بعد مسز شاستری نے اپنے جوڑے کو درست کیا۔ پھر آنکھیں مٹکاتی ہوئی بولیں۔

"ارے … کھاؤ بھی۔ شرم کیسی۔”

انیل نے ایک بسکٹ اٹھا لیا — پھر ان لوگوں سے مخاطب ہو کر بولا،

"آپ بھی لیجئے۔”

انو رادھا کی مخروطی انگلیوں نے بھی ایک بسکٹ اٹھا لیا۔ انیل کو یہ تیکھے نقشے والی دھان پان سی لڑکی بڑی پیاری لگ رہی تھی۔ جب کبھی دونوں کی نظریں مل جاتیں، انیل ایک عجیب سی ہلچل اپنے اندر محسوس کرتا۔ مینا کے اندر تو جیسے بجلی بھری تھی۔ بسکٹ کھاتی جا رہی تھی اور نئے نئے چٹکلے اور دلچسپ واقعات سناتی جا رہی تھی۔ اس درمیان مسز شاستری پوٹ اور پیالیوں والا طشت لے کر چلی آئیں۔ پوٹ سے پیالیوں میں چائے انڈیلی اور انیل کی طرف بڑھانا چاہ ہی رہی تھیں کہ مینا نے اچک لیا…

"ممی یہ کوئی بات نہیں ہوئی۔ لیڈیز فرسٹ کا زمانہ ہے۔”

شاستری جی کو برا لگا۔” مینا غلط بات ہے … انیل کیا سوچے گا …”

"اس میں غلطی ہی کیا ہے پاپا …”

انیل بھی ہنس پڑا۔” ٹھیک ہی تو کہہ رہی ہے مینا۔ آخر پرائم منسٹر بھی تو عورت ہی ہے نا …۱؎

۱؎ اس وقت اندرا گاندھی وزیر اعظم تھیں۔

پھر سب چائے پینے میں لگ گئے۔ اور شاستری جی اپنے زمانے کا قصہ لیکر بیٹھ گئے۔” بھائی ! اب تم سے کیا چھپانا۔ بچپن سے ہی میرا ایک اصول رہا ہے۔ خوب کھاؤ، خوب ورزش کرو، خوب کھیلو۔ اس لئے اسکول اور کالج کے زمانے میں تو میں چمپئن تھا۔ پورے ڈسٹرکٹ میں میرا نام تھا۔ جب کبھی بیمار ہوتا تو اسکول اور کالج کے پرنسپل تک میرے گھر چلے آتے۔ میری خوشامد کرتے کہ تمہارے دم سے ہی تو اسکول کا نام ہے۔ تم ہی نہیں کھیلو گے تو پھر ہماری جیت کیسے ہو گی۔ پھر میرے پتا جی سے کہتے کہ سمجھائیے نا رام اوتار کے بغیر کھیل کا میدان بالکل سونا لگتا ہے۔”

شاستری جی ہنسے۔

مسز شاستری کے ہونٹوں پر مسکراہٹ کھل گئی۔

مینا نے شرارت کی۔”انیل بھیا ! آگے تو پوچھئے۔ آگے کیا ہوا۔”

"ہاں انکل پھر کیا ہوا ؟”

"پھر کیا ہوتا۔ جب میں دیکھتا کہ اتنے سارے لوگ میرے لئے پریشان ہو رہے ہیں۔ تو میں ہاتھ جھٹک کر اٹھ کھڑا ہوتا … چلئے میں کھیلنے کے لئے تیار ہوں۔ اور ان کے چہرے پر وہ خوشی نمودار ہوتی جس کا بیان ہی فضول ہے۔”

"بالکل ہی فضول ہے۔” مینا نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا۔

"چو …پ… ” شاستری جی نے آنکھیں دکھائیں۔” باپ کی بات پر شک کرتی ہے۔”

مینا تالیاں بجانے لگی۔

"بس بیٹا انیل۔ اُس وقت تم ہوتے تو دیکھتے۔ مجھے کتنے ہی شیلڈ ملے۔ کیسے کیسے تمغے ملے۔ اس وقت کرکٹ، فٹ بال، والی بال اور ٹینس وغیرہ، سارے کھیلوں کا چمپئن تھا۔”

"اور گلی ڈنڈے کا بھی۔ ” مینا نے پھر چٹکی لی۔

"شیطان کہیں کی —” شاستری جی مارنے کے لئے دوڑے۔ اور مینا دوڑتی ہوئی اندر بھاگی۔

"ان کے قصے بس ایسے ہی ہوتے ہیں۔” مسز شاستری بولیں۔” کبھی ختم نہیں ہوں گے۔ ایورلاسٹنگ ٹاک کرتے ہیں یہ …”

"وہ سارے شیلڈ کیا ہوئے ڈیڈی۔ ہم نے تو کبھی نہیں دیکھے۔”

انو رادھا نے کافی دیر بعد مسکراتے ہوئے کہا۔

"دوست لے گئے۔”

شاستری جی بڑے اطمینان سے بولے۔ اور انیل بے ساختہ قہقہہ لگانے پر مجبور ہو گیا۔ اس کے ساتھ ہی شاستری جی سمیت تمام لوگوں کے تیز قہقہے فضا میں گونج گئے …

"اب ارادہ کیا ہے انکل ؟” انیل نے ہنستے ہوئے پوچھا۔

"اب لیڈر بننے کا شوق چرایا ہے۔” مسز شاستری نے چٹکی لی۔

"ہاں بیٹا۔ سوچ رہا ہوں، اگلے سال ایم۔ ایل۔ اے کے الیکشن میں کھڑا ہو جاؤں۔”

"پاپا وارڈ کمشنر کے الیکشن میں کھڑے ہوں گے تو زیادہ اچھا ہو گا۔محلے والے تو گیہوں اور چینی کی بلیک کر وا دیتے ہیں۔”

مینا معصومیت سے بولی۔

"اچھا، اب کافی دیر ہو گئی ——میں چلوں گا۔”

انیل نے چائے پینے کے بعد دھیمے لہجے میں کہا۔ شاستری جی کچھ بجھ سے گئے اور یہی بات سب کے ساتھ تھی۔ پھر اچانک ہی خوشیاں سب کے چہرے پر لوٹ آئیں دروازے تک سب اُسے چھوڑنے آئے۔

"دیکھو انیل ضرور آنا۔” مسز شاستری نے اداس لہجہ میں کہا۔

"کیسے نہیں آئیں گے۔ اب تو آنا ہی ہو گا۔ ورنہ ہم کئی ہو جائیں گے۔” مینا ہنستے ہوئے بولی۔

"آئیے گا۔”

یہ انورادھا تھی۔ نظریں جھکائے، ہاتھ جوڑے …

میں تو باہر تک چلوں گا۔ ” شاستری جی ہنسے۔

انیل نے باری بار ی سب کو ہاتھ جوڑ دیا۔

شاستری جی انیل کے ساتھ باہر نکل آئے۔ ذرا ٹھہر کر گمبھیر لہجے میں بولے …

"بیٹا ! موقع نکال کر برابر آ جایا کرو۔ دیکھا سب کیسے خوش ہو جایا کرتے ہیں۔یہاں لڑکے کی صورت میں کوئی نہیں ہے نا … اس لئے میں نے ان پر کسی طرح کی پابندی نہیں لگائی ہے۔”

ان کا لہجہ ذرا کمزور ہو گیا۔ انیل نے ان کے لہجے کی افسردگی بھانپ لی۔ مگر دوسرے ہی لمحے شاستری جی چہک اٹھے۔ اس کے کان کے پاس سر گوشی کرتے ہوئے بولے …

"کیسی کہانی تھی بیٹا !”

"کون سی ! ” انیل چونکنے والے انداز میں کہا …

"وہی۔ میرے شیلڈ جیتنے والی !” معصومیت سے بولے شاستری۔

"وہ کہانی تھی ؟” انیل ہنسا۔

"اور نہیں تو کیا ورزش تو کیا، میں آج تک دوچار قدم بھی نہیں دوڑ سکا۔ کھیلتا کیا۔ مگر ایک بات ماننی پڑے گی۔ کہانی کہنے کا فن ہے میرے پاس۔ تم بھی گڑ بڑا گئے۔”

انیل ہنس پڑا۔

شاستری جی پھر بجھ گئے —” مگر کیا کروں۔ روز ہی بس ایک جیسی کہانیاں۔ ان بچوں کو ہنسنے ہنسانے کے لئے گڑھنی پڑتی ہے۔ پھر ملوں گا۔ تم آتے رہنا …”

شاستری جی اتنا کہہ کر لوٹ گئے۔

وہ واپسی کے قدموں کو دیکھتا رہ گیا۔

ان قدموں کے بارے میں جو محلے میں گفتگو کا موضوع تھے — ان افواہوں کے بارے میں — جو شہر میں گشت کیا کرتی تھیں۔ کا ش وہ افواہیں پھیلانے والے ان قدموں کی افسردگی بھی دیکھ لیتے … ان زندہ دل قہقہوں کے اندر جھانک سکتے؟

(۶)

گھر کی جانب لوٹتے ہوئے انیل نے سوچا، رگھو بیر کے گھر پر بھی ایک نظر ڈالتا چلے۔ رگھو بیر کا دروازہ کھلا ہوا تھا۔ مگر وہاں وہی ویرانی اور وحشت خیمہ زن تھی۔ کچھ دیر تک کھڑا رہا۔ پھر خیال آیا، ابھی رگھوبیر کی ذہنی حالت — ٹھیک نہیں ہو گی۔ اس لئے ملنا مناسب نہ ہو گا یہی سوچ کر وہ آگے بڑھ گیا۔

شام کی ہلکی ہلکی پرچھائیوں نے شہر کو ڈھک لیا تھا۔ آسمان پر کالے کالے بادلوں کے جھنڈ نظر آرہے تھے۔ گھر کے اندر داخل ہو کر انیل نے دیکھا۔ شیام اور پتا جی کے درمیان آہستہ آہستہ کچھ بات چیت ہو رہی ہے … اسے دیکھ کر دونوں چپ ہو گئے۔

"کہاں سے آرہے ہو ؟”

ایک گمبھیر سی آواز اس کے کان سے ٹکرائی۔

مگر وہ چپ بنا رہا۔

آواز پھر آئی۔

"اس طرح ٹہلنے اور گھومنے سے نوکری نہیں ملتی ہے۔”

دھریندر کپور بستر سے اٹھ کر کمرے میں ٹہلنے لگے تھے۔ آنکھیں طنزاً مسکرائی تھیں۔ ماں نے کچھ کہنا چاہا مگر نہیں کہہ پائی۔ دھریندر کپور کچھ دیر تک سوچتے رہے۔ پھر اسی درد کے لہجے میں بولے …

"ایسا کب تک چلے گا بیٹے ! جب تک میں ریٹائر نہیں ہوا تھا۔ اس قسم کی کبھی کوئی بات تم سے نہیں کی۔ مگر اب تو اپنا مستقبل تمہیں خود دیکھنا ہے۔ یہ میری کمزوری تھی کہ میں ایمانداری کی روٹی کھاتا رہا۔ کچھ کما نہ سکا۔ کچھ بچا نہ سکا کہ تمہارے لئے دکان اٹھا دوں اور اس طرح تمہاری بیکاری کا خاتمہ کر دوں۔ یہ میرے اختیار سے باہر کی چیز تھی۔ جو میں نہیں کر سکا، اس لئے میرے لئے نہیں تو کم از کم اپنی ماں کیلئے تو سوچو گے نا … پنشن کا روپیہ ہی کتنا آتا ہے جو شامو کو پڑھا سکے۔ ماں کی بے زبانی کو آواز دے سکے … اس طرح گھر کب تک چل سکتا ہے۔”

پتا جی کی آواز میں درد تھا۔ اس کے دل کے ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے۔ وہ کچھ بولا نہیں۔ کتنے ہی نشتر اچانک دل میں اُتر گئے۔ وہ سرجھکائے کسی مجرم کی طرح کھڑا رہا۔

نوجوانی کے کاندھوں کا ایک غم یہ بھی ہوتا ہے کہ وجود میں اتر ے ہوئے نشتر کو باہر نہیں نکال پاتا اور نشتر اندر ہی اندر چیرتا جاتا ہے … ختم کرتا جاتا ہے …وہ کر بھی کیا سکتا ہے اس خونی فضا میں … اس نا ساز گار ماحول میں … اس نے اپنی ماں کا زرد زرد چہرہ دیکھا ہے۔ آنکھوں میں اترے ہوئے موتیابین کو دیکھا ہے … دھند میں ڈوبی اور سہارے تلاش کرتی ہوئی آنکھوں کے معصوم خواب دیکھے ہیں۔ شیام اپنی آواز تک بھول چکا ہے۔ اور ہنستے قہقہہ لگاتے بابو جی درد و غم کی مشترکہ تصویر بن گئے ہیں … اور اُسے — کتنے کمپٹیشن دینے ہیں۔ ابھی کتنا کچھ کرنا ہے۔ پتا جی اچانک کتنی بیماریوں کے شکار ہو گئے ہیں …… اور سب کے سب اسی کے آسرے بیٹھے ہیں — اور وہ سڑکوں کی دھول چاٹنے کے بعد شام گئے تھکا ہارا اپنے کمزور لاغر وجود کے ساتھ گھر میں ناکام و نامراد اخل ہو جاتا ہے …

آنکھوں کے آگے کا اندھیرا بڑھتا ہی جا رہا تھا۔

پتاجی اب دوبارہ بستر پر لیٹ گئے ہیں۔ آنکھیں شونیہ ہین ہو کر چھت کو تک رہی تھیں۔ شیام بوجھل بوجھل سا اپنے کمرے میں لوٹ گیا تھا۔ دروازہ بند کرنے کی ہلکی سی آواز بھی ابھری تھی — اور پھر ماں کی مہین سی آواز اس کے کانوں میں پڑی۔

"کھانا نعمت خانے میں رکھ دیا ہے۔ کھالو۔”

جاتے جاتے وہ پھر ٹھہر گیا۔ ماں کی آواز ذہن پر بار بار شب خون مارتی ہے۔

اُسے کیا اختیار ہے کھانے کا ؟

اس طرح کے ہزاروں سوال اس کے دل میں چوٹ کر رہے تھے۔ ایسے میں کتنی خواہش ہوتی ہے — زندگی اور مستقبل کی بات کرنے والے ماں باپ کے آگے اپنا دل نکال کر دکھا دے کہ دیکھ لو پتا جی — ماں جی !! دیکھ لو … اس دل میں تو اب کیڑے لگ چکے ہیں۔ یہ ہاتھوں کی ابھری نسوں کو دیکھو … یہ پیر دیکھو … دھول میں اٹے پیر … چھلے ہوئے تلوے … سڑکوں کی دھول نہیں پھانکی بلکہ اپنے پیروں کو تجربوں کی بھٹی میں سخت کرنے کا کام کر رہا ہوں آج کل — اور تم لوگ جتنا میرے بارے میں سوچتے ہو اتنا ہی تمہارے بارے میں میں بھی سوچتا ہوں … اپنے سے زیادہ تمہارے بارے میں۔ یہ الگ بات ہے کہ میرے گونگے جذبات کو زبان نہیں ہے کہ میں تمہیں بتا سکوں سڑکوں کی دھول پھانکتا پھانکتا— اور جھولا لٹکائے پھرتا پھرتا— جب میں تھک گیا اور تھک کے چور ہو گیا۔ تو آج جرم اور گناہ کی گندی سرزمین پر کھڑا ہونے کے لئے مجبور کر دیا گیا…

میری آنکھوں کو دیکھو۔

میرے دل میں رینگنے والے ہزاروں لاکھوں کیڑوں کو دیکھو— کیا تمہیں لگتا ہے … ماسٹر دھریندر کپور جی کا لڑکا جن کی ایمانداری اور شہرت کا ڈنکا سارے شہر میں بجتا ہے … ان کا لڑکا آج اپنے دوست کے ساتھ مل کر کسی لڑکی کا اغوا بھی کر سکتا ہے … تم سوچ سکتے ہو … مگر آج میں نے یہ بھی کر لیا پتا جی۔ یہ جرم سہی … گناہ سہی … مگر میں نے کیا … کہ شرافت سے مانگتے مانگتے اب تھک گیا تھا۔ گھر کی ویرانی اور تنہائی سے اب وحشت ہونے لگی تھی۔ میں گھر کے ان تاریک کمروں میں زندگی کی روح پھونکنا چاہتا تھا … وہ تو مینا کا احسان ہے — اس چھوٹی سی معصوم بچی کا— جسے بچپن کے نازک احساسات نے اور بڑی بڑی کتابوں نے قبل از وقت بوڑھا تو کر دیا … مگر جذبات کے نام پر وہی گونگا احساس رہنے دیا۔ جس کی زبان تجربے کے مفہوم کو سمجھنے میں نا کام تھی — وہ شکریہ کی مستحق ہے کہ آج اس نے دو مجرم بنتے ہوئے نوجوانوں کو راہ دکھائی ہے … ہاں میں واپس لوٹ آیا میرے بزرگو!

میں واپس لوٹ آیا …

جرم اور گناہ کی دلدل سے باہر نکل کر تمہارے سامنے تمہارے بغل والے کمرے میں موجود رہوں۔

اور میرا دوست رگھو بیر — شہر کے اس دور دراز مکان میں اپنی آواز ہمیں سونپ کر ہمارے بیچ سے اچانک گم ہو گیا ہے۔

تو میرے بھولے اور معصوم پتا جی !

کاش ! تم میرے جیسے نوجوان کی مجبوری اور جذبات کو سمجھ سکتے — تم صرف دکھوں کا حال کہو گے اور گھر کی ان دیواروں سے شکوہ کرو گے … بیچارگی کے آنسو بہاؤ گے … مگر ایک سوال کرتا ہوں تم سے — آنسو بہانے سے قبل تم ہماری کمزوریاں کیوں نہیں دیکھتے … ہمیں سڑکوں کا اٹھائی گیرہ سمجھنے سے قبل ہماری مجبوریوں پر ترس کیوں نہیں کھاتے …

صرف اس لئے —

کہ ہماری آنکھوں کے رت جگے نے تمہیں بیمار دبنا دیا ہے …

اور تمہیں ہماری بیکاری پر، ہماری نا اہلی پر اب جی بھر کر غصہ آنے لگا ہے …

سوال کتنے تھے مگر بزرگیت کی آنکھوں میں کیسے اُتارے جاتے۔ تھکے ہارے نڈھال قدموں سے آگے بڑھا انیل —— رسوئی سے کھانا نکالا … جیسے تیسے کھانا ہضم کیا اور افسردہ قدموں سے بالائی سیڑھیاں طے کرتا ہوا اپنے کمرے میں لوٹ آیا۔ سر بھاری بھاری تھا … نیند کہاں سے آتی … ایک دن میں ہوئے ہزاروں واقعات نے مل کر ذہن کو زخمی کر دیا تھا۔

صبح کا واقعہ ذہن کو بار بار زخمی کر رہا تھا۔ انیل سوچ رہا تھا۔ آخر یہ جرأت دونوں میں کہاں سے آ گئی۔ رگھو بیر نے ایسے خطرناک پلان کے بارے میں سوچا کیسے۔ سوچنا تو درکنار، عملی جامہ پہنانے کا ارادہ کیسے کر لیا —— اندر کی وہ کون سی ایسی کمزوری تھی جو اس کا محرک ثابت ہوئی۔ اور جرم کے لئے راستے کو ہموار کیا … رگھو بیر اس حد تک کیسے ٹوٹ گیا …

وہ دیر تک سوچتا رہا۔ اگر مینا کی جگہ دوسری لڑکی ہوتی تو ؟ اگر پکڑا جاتا تو—! ضمیر کی آواز کیا ایک دم ہی گونگی ہو گئی تھی۔ ہم زندہ کیسے رہتے، تھکے دماغ کو کیا کہہ کر سلاتے ؟ رگھو بیر تو سب سے پیارا دوست ہے … واقعات جیسے بھی رہے ہوں۔ ان واقعات کے درد ناک پہلو نے اُسے پوری طرح توڑ دیا ہو گا۔ تبھی وہ اس طرح کا پلان بنانے کے لئے مجبور ہوا ہو گا… رگھو بیر کو سمجھنا ہو گا … جانے کیوں جب وہ چپ ہوتا ہے تو اس کی بڑی بڑی آنکھیں اسے دوسرے عام لوگوں سے الگ کر دیتی ہیں … ان آنکھوں میں پوری دنیا سمٹ آتی ہے … ایسی آنکھیں کم از کم اس نے اپنی زندگی میں کبھی نہیں دیکھیں۔

انوکھی چمک …

جیسے وہ سب کچھ برہنہ برہنہ دیکھ رہا ہو۔

رگھو بیر کو اگر موقع دیا جائے تو وہ کتنا کچھ کر سکتا ہے … مگر افسوس حالات کی ستم ظریفی کا شکار ہو کر رہ گیا ہے … کیسا شاندار مقرر ہے … جب زمانے کی تلخیوں اور اپنی ناکامیوں پر بولنے کو آتا ہے … تو کیسے کیسے رُخ ان کے سامنے رکھ دیتا ہے … مگر یہاں ٹیلنٹ کی قدر نہیں ہے۔ پھر چاہے ٹیلنٹ برباد ہو جائے … اور جتنا غلط کرے … جیل ہے … قانون ہے …انصاف ہے … بڑی بڑی لمبی چوڑی باتیں ہیں، وکیلوں کے آرگو منٹ ہیں … اور ایک ٹیلنٹ جیل کے اندر بند کر دیا جاتا ہے…

ایسی ہی کتنی باتیں تھیں جو رات کو اس کے بستر پر اس کے ساتھ سوتی تھیں وہ ذہن کو جھٹکا دے کر ایسی باتوں کو سلانے کی کوشش کرتا … اس نے بستر پر لیٹ کر آنکھیں موند نے کی کوشش کی تو مینا سامنے آ کھڑی ہوئی … پھر انورادھا … مسز شاستری… اور شاستری جی … ایک خاندان کے اتنے سارے لوگ … سب کے الگ الگ رنگ … مگر محبت کا ایک ہی انداز … اس نے محسوس کیا … بناؤٹی پن تو انداز میں ہو سکتا ہے … خلوص میں نہیں ہوسکتا … انو رادھا کی آنکھیں … سنبھل سنبھل کر اٹھنے والا ہر قدم … مینا کی انوکھی شرارتیں … مسز شاستری کی بے باک ہنسی … سب کا دروازے تک چھوڑنے کے لئے آنا … شاستری جی کا اچانک خاموش ہو جانا …

افواہوں کا کیا ہے …

افواہیں تو جنگل کی آگ ہوا کرتی ہیں … بھڑک گئیں تو شہر کا شہر جل کر راکھ ہو جائے گا …

جانے کب تک یہی کچھ سوچتے سوچتے اس کی آنکھ لگ گئی۔ صبح میں روشنی کی شعاعیں جب چھن چھن کر کمرے میں آئیں تو اس کی نیند ٹوٹ گئی … ٹھیک اسی وقت نیچے دروازے پر دستک کے ساتھ ایک لرزتی ہوئی آواز گونجی …

"انیل بھیا …

وہ ہڑ بڑا کر نیچے اتر آیا …

آواز کچھ جانی پہچانی تھی … وہ اندر ہی اندر کا نپ گیا …

"کیا کوئی حادثہ پیش آ گیا ہے ؟”

(۷)

سامنے ہی رحیم کھڑا تھا۔ پریشان پریشان سا چہرے کا رنگ اڑا ہوا۔ رحیم نے کبھی اس کے ساتھ پڑھنا شروع کیا تھا۔ وقت اور غربت نے تین کلا س پاس کرنے کے بعد ہی اس کی پڑھائی چھڑا دی۔ اس وقت رحیم پڑھنے میں کافی تیز تھا۔ پڑھنے میں اس کا خوب دل لگتا تھا۔ مگر باپ کے اچانک انتقال نے اسے بالکل ہی توڑ کر رکھ دیا۔ اس کا باپ بانسری بنانے اور بیچنے کا دھندہ کیا کرتا تھا۔ چھوٹے سے رحیم پر غموں کا پہاڑ ٹوٹ گیا۔ پڑھائی طاق پر رکھی گئی۔ اور وہ اسی دھندے میں لگ گیا۔ خود ہی ’ سر کنڈے‘ لاتا، بانسری بناتا، رنگتا، بیلونوں کے گچھے ڈنڈوں میں باندھتا اور بیچنے نکل جاتا— راستے میں جب بھی انیل سے اس کی ملاقات ہوتی وہ ہمیشہ اس کی آنکھوں میں پڑھائی چھوٹنے کا غم دیکھا کرتا۔— جب وہ بانسری بجایا کرتا تب بھی اسے ایسا احساس ہوتا جیسے وہ درد و غم کے گیت چھیڑ رہا ہو — بانسری کا دھندہ کرنے کے بعد رحیم نے اس کے نام کے ساتھ لفظ بھیا جوڑ لیا تھا۔ چونکہ ایک ہی محلے کی بات تھی اس لئے رحیم رگھو بیر کا بھی دوست تھا۔ دونوں اسے اکثر سمجھایا کرتے کہ ہم تمہارے ساتھ پڑھے ہیں۔ یہ بھیا کا چکر چھوڑو…

مگر نہیں —— رحیم کی آنکھوں میں آنسو آ جاتے اور یہ آنسو جیسے چیخ چیخ کر کہتے … کہ وقت بدل گیا ہے۔ ایک ہی بینچ پر جب ہم بیٹھ کر پڑھائی کیا کرتے تھے تو ہم دوست تھے… مگر آج فرق آ گیا ہے۔

آخر دونوں نے یہ اعتراض کرنا بند کر دیا —

صبح ہی صبح رحیم کی لرزتی ہوئی آواز سن کر انیل چونک پڑا۔ پریشان پریشان سا رحیم دروازے سے ٹیک لگائے کھڑا تھا۔ آنکھیں نم تھیں۔ ہونٹ لرز رہے تھے۔ کسی قدر تھرائے لہجے میں اس نے کہا۔

رگھو بیر بے چارے کے ساتھ حادثہ پیش آ گیا ہے۔ اس کی ماں مر گئی اور…”

انیل ایک دم سناٹے میں آ گیا …

"مگر یہ ہوا کیسے ؟”

"جلدی چلو بھیا، رگھو کو اب تم ہی سنبھال سکتے ہو۔”

پیر میں ہوائی چپل ڈال کر وہ رحیم کے ساتھ تیز تیز قدموں کے ساتھ چل پڑا۔ سانس تیز تیز چل رہی تھی… سوچنے سمجھنے کی تمام صلاحیت جیسے ختم ہو گئی تھی۔

رگھو بیر کے دروازے پر ماتمی صدا بلند ہو رہی تھی۔ محلے کے کچھ لوگ کھڑے تھے۔ اور پیش آئے واقعات پر افسوس کرر ہے تھے۔ انیل ایک دم سے دہل گیا…

"یہ کیا ہو گیا؟”

بھیڑ ہٹاتا ہوا اندر داخل ہوا —— اور جیسے پتھر کی مورت کی طرح اپنی جگہ رگھوبیر منجمد ہو گیا۔

چار پائی پر چادر سے ڈھکی ہوئی رگھوبیر کی ماں کی لاش پڑی تھی۔ دوسرا بستر خالی پڑا ہے اور اس بستر پر رگھو بیر بالکل سکتے کے عالم میں بیٹھا ہوا تھا۔ اس کی آنکھیں ہونقوں کی طرح چھت کو گھورے جا رہی تھیں — مگر ان آنکھوں میں آنسوؤں کا ایک قطرہ بھی نہ تھا۔ شاید وہ جذبات سے اٹھی ہوئی تمام لہروں کو خشک کر چکا تھا۔ اس وقت وہ پتھر جیسا سخت نظر آ رہا تھا۔ کتنے ہی لوگوں کی آنکھیں اس پر ٹکی ہوئی تھیں۔ اور افسوس ظاہر کر رہی تھیں۔ مگر وہ ان جیسی تمام آنکھوں سے جیسے بیزاری ظاہرکر  رہا تھا…

"رگھو بیر !”

انیل نے بہت آہستہ سے پکارا۔ دل ڈوبتا جا رہا تھا۔

وہ ویسی ہی پر اسرارچپی خود پر طاری کئے چھت کو گھورتا رہا …

"رگھوبیر … رگھو بیر میرے دوست !!”

انیل نے پھر کانپتی آواز میں کہا، اور آہستہ سے اس کے پتھر ہوئے شانے پر ہاتھ رکھا۔ اور اچانک جیسے رگھوبیر کو بجلی کا کرنٹ لگ گیا ہو۔ وہ اس طرح ہٹ گیا جیسے کسی کو بھی جانتا نہ ہو … بپھرے ہوئے شیر کی طرح اس کے منہ سے عجیب سی ہونکار‘ نکلی — اور پھر وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے انیل کو گھورنے لگا … انیل نے بھیگی بھیگی آنکھوں سے اُسے غور سے دیکھا … آنکھوں ہی آنکھوں میں سمجھانا چاہا…

مگر وہ اب بھی ایک ٹک بس اسے دیکھے جا رہا تھا۔

"میرے دوست رگھو بیر ! دنیا بڑی عجیب شے ہے۔ اوپر والے کی مصلحت اس سے بھی عجیب ہے۔ وہ کب کیا کرے گا کوئی نہیں جانتا۔ کس کی تقدیر میں کتنی عمر لکھی ہے کوئی نہیں کہہ سکتا۔ کسی کو اپاہج بنا کر لمبی غم کی سوغات عطا کرتا ہے اور کسی کے ہنستے کھیلتے گھر سے اچانک خوشیاں چھین لیتا ہے … اور کسی کے کمزور وجود پر پتھر کی سل رکھ دیتا ہے …”

انیل نے کمزور آواز میں اسے سمجھایا۔

اور پھر رگھوبیر بچوں کی طرح اس سے لپٹ گیا۔ چیخ کر رونے لگا۔ اس کی سسکیاں تیز ہو گئی تھیں۔ اندر دبا لا وا اب پوری طرح پھٹ چکا تھا۔ انیل سکتے کے عالم میں اس کے لرزتے وجود کو سنبھال سکنے کی سعی کر رہا تھا۔ رگھوبیر کا چہرہ کتنی ہی لکیروں سے بھر گیا … اور وہ دہاڑ مار مار کر پاگلوں کی طرح رو رہا تھا۔ اپنے سر پر مکوں کی بارش کر رہا تھا، بال نوچ رہا تھا … شاید اب تک جتنے بھی غم اس نے سہے تھے،  جتنے بھی دکھ اس نے جھیلے تھے… وہ سارے کے سارے اچانک اُبل آئے تھے۔ انیل کا چہرہ بھی آنسوؤں سے تر تھا۔ اس کی بھی ہچکیاں بندھ گئی تھیں۔ مگر اب وہ خود پر قابو پاتے ہوئے اپنے دوست کی ہذیانی کیفیت کا جائزہ لے رہا تھا۔

"میں لٹ گیا دوست بر باد ہو گیا۔”

رگھو بیر نے بچے کی طرح انیل کے جسم کو جھنجھوڑتے ہوئے کہا۔

"انیل ! میں سچ مچ لٹ گیا۔ تم ہی بتاؤ۔ اب اتنی بڑی دنیا میں میں کہاں جاؤں، میں نے بڑی دیر کر دی انیل … اور جب میں بہت دیر کے بعد یہاں آیا تو معلوم ہوا، ماں میرا ساتھ ہمیشہ کے لئے چھوڑ چکی ہے۔ اور بہن کا بستر خالی ہے — شاید میری اپاہج بہن اپنی خود داری کے ساتھ مجھے کنگال سمجھ کر روانہ ہو گئی۔ جانے کہاں چلی گئی مجھے بتائے بغیر۔ میں اب اسے کہاں تلاش کروں۔ کہاں ڈھونڈوں — سوچا ہو گا کہ ایک بھائی اپنا جیب خرچ بھی ٹھیک طرح سے نہیں نکال پاتا ہے، وہ اس کی روٹیوں کا انتظام کیسے کر سکے گا … میں لٹ گیا انیل … مجھے اب کچھ بھی سمجھ میں نہیں آ رہا ہے۔ رگھوبیر ہچکیوں سے رو رہا تھا۔

انیل پھر سکتے میں آ گیا تھا …

آنکھوں میں اس ننھی سی سولہ سترہ سالہ بہن کی تصویر گھوم رہی تھی۔ جو مردہ سی پلنگ کے ایک جانب پڑی رہتی … ککو کے بعد یہ دوسرا حادثہ تھا۔ جس نے اس کے دل کو بھینچ لیا تھا … وہ جب بھی اس سے ملنے آتا … مینا کشی کی بڑی بڑی آنکھوں میں جیسے زلزلہ آ جاتا…” میرے خواب کہاں ہیں بھیا… بتلا سکتے … اماں کی لوہے والی پیٹی میں رکھا تھا۔ پیٹی میں رنگ لگ گیا … میرے خواب لادو نا  بھیا…”

اس دن سے اس نے مینا کشی کا منگل کشل پوچھنا ہی چھوڑ دیا تھا … صرف آتا اور اسے دیکھ کر چلا جاتا گھر کی ویرانی سے وحشت سی ہوتی … اور بار بار مینا کشی کے سوکھے ہونٹوں سے نکلا ہوا سوال اُسے ڈستا رہتا … میرے خواب کہاں ہیں بھیا…”

مینا کشی …

اس نے آہستہ سے کہنا چاہا تھا … ہم ہیں تیرے خواب میری بہن … ہم ہیں تیرے سپنے … تو انتظار نہیں کر سکتی … تیرے بھیا ابھی بہت کمزور ہیں۔ ابھی وہ سر اٹھانے کے قابل بھی نہیں ہوئے کہ ان کے ناتواں کندھوں پر تیرے پیار کی ذمہ داری آ گئی ہے … تو تھوڑا انتظار کر لے بہن … بس تھوڑا سا انتظار … ہم تیرے خواب ڈھونڈیں گے … ہم اور رگھوبیر …!”

مینا کشی لیٹ گئی۔ بستر پر مردہ سی … آنکھوں میں تیرتی تیرگی اب اس کے دل کی دھڑکنوں میں مزید اضافہ کر رہی تھی …

تم نہیں لا سکتے … ہاں یہ اس کی آواز تھی … کسی قدر مضبوط آواز میں اس نے کہا تھا … اور نہ ہی بھیا … تم دونوں میں سے کوئی بھی نہیں لا سکتا۔

مینا کشی چلی گئی …

انیل اب بھی حیران تھا۔رگھو بیر کی آنکھوں میں ایسی کتنی ہی یادیں پھر سے زندہ ہو گئی تھیں … انیل نے بہت آہستہ چبا چبا کر اپنے جملے کو پورا کیا … میرے دوست ! یہ غم میرا بھی ہے …

"نہیں —” رگھوبیر ایک جھٹکے سے الگ ہو گیا … "یہ غم صرف میرا ہے … اور اس غم پر رونے دھونے کا ادھیکار بھی صرف مجھے ہی ہے۔”

اس کی مٹھیاں بھینچ گئی تھیں …” میں نے مارا ہے مینا کشی کو … میں نے مارا ہے … ” اور پھر اس کی پاگل سسکیاں پورے کمرے میں گونج گئیں …

را م نام ستیہ ہے …

ارتھی اٹھی …شمشان گھاٹ سے ماں کی چتا کو آگ لگانے کے بعد رگھو بیر لوٹ آیا ہے۔ آنکھوں میں آنسوؤں کے قطرے تھم گئے ہیں … چہرہ اب بھی سرخ ہے اور ’شونیہ ہین  ہو کر فضا میں ٹوٹی ہوئی مورتیوں کی کرچیاں تلاش کر رہا ہے …

دونوں بستر بالکل خالی خالی ہیں۔

ایک عجیب سا ماتمی سناٹا پورے کمرے میں پھیلا ہوا ہے …

"اس پر میری ماں سوتی تھی۔”

رگھو بیر جیسے خواب میں بڑ بڑایا۔

"اور اس پر میری بہن …”

اور پھر جیسے اس نے ضبط کا ایک کڑوا گھونٹ پیا ——” میرے دوست انیل ! ایسا کیوں ہوتا ہے۔ بھگوان یہ رشتہ کیوں بناتا ہے … اور اگر رشتہ بنانا ہی مقصود ہو تو اسے ابدیت کیوں نہیں بخشتا … آج ماں اور بہن کی عدم موجودگی میں ایسا لگ رہا ہے جیسے دنیا سے میرا وجود ہی ختم ہو گیا ہو۔ ایسا احساس مجھے کیوں ہو رہا ہے ؟؟”

"اس لئے کہ تم ماں اور بہن کو بہت زیادہ چاہتے تھے۔”

"نہیں —— بالکل نہیں ——”

رگھو بیر کی ڈراؤنی آنکھوں کی تاب نہ لا کر اس نے نظریں جھکا لیں …

رگھو بیر نے کہا …” میرے خیال میں چاہنے جیسی کوئی بات اب نہیں رہ گئی۔ زمانے نے جو بے حسی ہمارے اندر بھر دی ہے، ہم انہیں کوئی عنوان نہیں دے سکتے … سماج کے بنائے ہوئے رشتے اب فرض نہیں رہ گئے … نہیں تو زندگی میں میری ماں اپنے ہونٹوں کو قوت گویائی سے محروم نہ کرتی … اور بہن اس طرح مجھ سے جدا نہیں ہوتی … در اصل ہم سب کمزور ہیں انیل ! اور اپنی کمزوری کو مختلف طرح سے چھپانے کی کوشش کرتے ہیں —— میری بات کے اندر جاؤ دوست اور محسوس کرو کہ یہ میری معصومیت کا وہ کون سا رخ ہے جو ماں کی موت کے بعد بالکل پر سکون ہو گیا ہے۔ یعنی میں خود کو ماں کی موجودگی اور غیر موجودگی سے کٹا کٹا محسوس کر رہا ہوں … یعنی اب موت جیسے اہم حادثے کے بعد بھی اندر کچھ ٹوٹتا نہیں بکھرتا نہیں … یعنی میں … رگھو بیر عام انسانی جذبات سے دور ہوتا جا رہا ہوں …

و ہ کھویا کھویا سا دکھ رہا تھا … اس کے ہونٹ تیزی میں حرکت کر رہے تھے۔ انیل نے پھر اپنا ہاتھ اس کے شانے پر رکھ دیا۔

"صبر بہت بڑی چیز ہے رگھو بیر …”

"میں کچھ اور سوچ رہا ہوں۔”

رگھو بیر بند آنکھوں سے بولا ——” اب اس گھر سے —— شہر سے —— میری طبیعت اُچاٹ ہو گئی ہے۔ میں نے فیصلہ کر لیا ہے۔ میں یہ گھر چھور دوں گا … یہ شہر چھوڑ دوں گا … اس تنہا کمرے کے دو بستر مجھے جینے نہیں دیں گے …”

 اس کی آنکھوں میں پھر آنسو سمٹ آئے تھے … اپنے لہجے کو قدرے مضبوط بناتا ہوا پھر گویا ہوا …

"میں یہ شہر چھوڑ دوں گا۔ کیوں کہ مجھے یہ محسوس کرنا ہے کہ ماں میرے دل میں اب بھی بسی ہے۔ بہن کا استھان میرے اندر ہمیشہ موجود رہے گا۔ رسموں اور رواجوں پر یقین نہیں رکھتا میں … شرادھ سے میری ماں واپس نہیں لوٹ آئے گی اور نہ TRANSMIGRATION OF SOULجیسے عقائد پر میں وشواس رکھتا ہوں۔ اب میرے جینے کا یہی بہتر طریقہ ہے کہ میں محسوس کرتا ہوں کہ ماں میرے اندر ہمیشہ رہے گی … ہمیشہ رہے گی … ہاں تو … اب میں جا رہا ہوں …”

اور اچانک ہی رگھو بیر پاگل پن کے انداز میں اٹھ کھڑا ہوا۔

"میں جا رہا ہوں انیل۔”

انیل پھر سکتے میں آ گیا … یہ تم کیا کہہ رہے ہو ؟”

"یہی کہ میں جا رہا ہوں۔ میں کہاں جاؤں گا۔ اس بارے میں خود مجھے بھی علم نہیں ہے۔ اور کیا کروں گا، میں یہ بھی جانتا … مگر …

رگھو بیر نے بڑے آہستہ لہجے میں کہا … مگر ایک بات ہے انیل ! میرے دوست —— اب وہ شخص مجھے سہارا دے رہا ہے جو کل لڑکی کے اغوا کرنے کے پروگرام میں میرے ساتھ ساتھ تھا —— وہ شخص اب بھی مجھے حرکت دے رہا ہے۔ ہوسکتا ہے۔ کل میں کچھ بن جاؤں … یا کچھ بھی نہیں بن پاؤں … بس تقدیر پر ضرور بھروسہ کرتا ہوں۔ اور اسی تقدیر کے بھروسے میں یہ بات دعوے کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ کل کبھی نہ کبھی تم سے ملاقات ضرور ہو گی … کہاں کس حال میں یہ بھی مجھے معلوم نہیں …”

 رگھو بیر کا گلا بھر آیا …

پھر اس نے ٹھہر ٹھہر کر انیل سے کہا … "مجھے تنہائی چاہئے …” مجھے تنہائی چاہئے دوست … ابھی جی بھر کر میں ان خالی خالی بستروں کو دیکھنا چاہتا ہوں … جاتے جاتے ان سونے بستروں سے خوب خوب  باتیں کرنا چاہتا ہوں … اس لئے پلیز مجھے اکیلا چھوڑ دو…”

وہ ان دونوں بستروں کے درمیان اس طرح کھڑا ہو گیا۔ جیسے ان سے محو کلام ہو۔ انیل بوجھل قدموں سے گھر کی جانب لو ٹ گیا۔

اس واقع کے تیسرے دن انیل کو معلوم ہوا —— رگھو بیر نے اونے پونے وہ گھر فروخت کر دیا ہے اور فروخت کر نے کے بعد وہ جانے کہاں چلا گیا …

ایک پتھر دل پر پھر لگا ——

رگھو بیر کی فطرت سے وہ بخوبی واقف تھا۔ آخری وقت کی ملاقات کی وہ تلخ باتیں اب تک اس کے ذہن پر شب خون ما رہی تھیں۔ آخر بچپن کا دوست تھا۔ اور یوں بھی رگھو بیر کے علاوہ اس نے کسی سے دوستی کی بھی نہیں تھی رگھو بیر کا پتھر چہرہ اب تک اس کی نگاہوں میں نا چ رہا تھا … جانے کیوں اسے لگا … اس کا دوست حادثات زمانہ کا شکار ہو کر ایک وحشی جانور بن چکا ہے۔ بھگوان اسے بچائے …

رگھو بیر کے جانے کی خبر سن کر وہ بہت کمزور لہجے میں بڑ بڑایا۔

’ ’ رگھو بیر، میرے دوست !!”

تم جہاں بھی رہو خوش رہو …

اور اپنے اسی وجود کے ساتھ جیو جو عام انسانی جذبات کا ترجمان ہے …

"ہم انسانوں کے بیچ ہی پلے بڑھے ہیں — میں اس لئے انسان بنے رہنے کا ہی اُپدیش دوں گا۔” ڈر تو یہ ہے کہ لوگ وحشی جنگلی جانوروں کو دیکھ کر گولی مار دیتے ہیں … تم ایسا مت کرنا …

تمہاری یاد سلامت ہے دوست ! اور سلامت رہے گی…

کہ تم ہمیشہ میرے لئے ایک اَن بجھی پہیلی رہے … تمہیں کبھی بھی سمجھ نہیں پایا … نہ تمہارے جذبات کو نہ احساسات کو … نہ تمہارے پاگل مکالموں کو … جو کبھی تم مجھ سے اور کبھی خود سے کیا کرتے تھے …

تم ہمیشہ میر ے لئے ایک پہیلی رہے …

اور یہ پہیلی ہمیشہ ہمیشہ اس دل کے قریب رہے گی …

آنکھوں سے آنسوؤں کے کتنے قطرے ٹپکے … اور وقت کی سیاہی نے انہیں اپنے میں جذب کر لیا۔

(۸)

 "اس پل سے اُس پل تک

ایک تھکا دینے والی جنگ ہے

اس جنگ میں شامل ہیں ہم سب

کیا وقت گزر گیا ——؟

نہیں وقت وہیں ہے

وہیں ٹھہرا ہوا

جہاں پہلے تھا …

وقت وہیں کہیں سمٹ کر رہ گیا ہے …

کیا ہم اس سے عبرت نہیں لیں گے

کہ محض آنکھیں ہونے سے

اور محض سوچنے سے، دکھنے سے

ہم اپنے انسان ہونے کے فریضہ کو پورا نہیں کر رہے

کیا ہم اس سے عبرت نہیں لیں گے

کہ نقلی پن کے خول میں ہمارا سب کچھ، سارا سرمایہ کھو گیا ہے

اور ہم پھر بھی زندہ ہیں … اور زندہ رہیں گے "

ہلکی ہلکی دھوپ چاروں طرف پھیل گئی تھی۔ پیلی صبح بڑی خوشگوار لگ رہی تھی۔ آج مینا اسکول بھی نہیں گئی تھی۔ شاستری ہاؤس صبح سے ہی شور اور ہنگاموں کی آماجگاہ بنا ہوا تھا۔ یوں یہ کوئی نئی بات نہ تھی۔ مینا جب کبھی گھر میں رہتی۔ سارا گھر سر پر اٹھائے رہتی۔ شاستری جی دو چار روز سے بس انیل کا جاپ کئے جا رہے تھے —— ایک دو بار سوچا بھی کہ انیل کے گھر چلے جائیں مگر پھر کچھ سوچ کر خاموش رہ گئے۔ کئی سوال اچانک ان کے سامنے آ کر کھڑے ہو گئے۔ جانے کیا بات ہے ؟ کیوں نہیں آ رہا ہے ؟ کیاسوچ لیا ہم لوگوں کے بارے میں … ایک دو بار مینا سے تذکرہ بھی ہوا مگر مینا ہر بار انیل کی بات کو مذاق میں ٹال دیتی … پول کے کھل جانے کا خطرہ بھی تھا۔ انیل بھیا سے اس کی ملاقات بھی تو ایک دم سے فلمی انداز سے ہوئی تھی اتنے فلمی انداز میں کہ سوچ کر ہی اس کے ہونٹوں پر ہنسی نمودار ہو جاتی۔ وہ اب بھی اپنے اغوا کئے جانے کی بات پوری طرح نہیں سمجھ پائی تھی۔ وہ لوگ اسے کیوں لے گئے پھر کس لئے واپس چھوڑ گئے ؟ یہ کچھ ایسے ٹیڑھے میڑھے سوال تھے جنہیں وہ لاکھ کوشش کے بعد بھی حل نہیں کر پا رہی تھی۔ پھر یہ کہہ کر اس نے اپنے دل کو بہلا لیا تھا کہ انیل بھیا اگر آ گئے تو وہ اکیلے میں مل کر خو د ہی دریافت کر لے گی۔

مسز شاستری بھی افسردہ تھیں۔ جانے کتنی ہی بار وہ یہ بات دہرا چکی تھیں۔ کہ انیل کے آنے سے اُس دن گھر میں کتنی رونق آ گئی تھی۔ کافی اسمارٹ نوجوان ہے اور انورادھا کا دل بھی رہ رہ کر دھڑک رہا تھا … انیل کو آنا چاہئے تھا … ایسا بھی کیا کام کہ آدمی اپنا وعدہ ہی بھول جائے … اس بیچ ایک دو بار تو بھی آئی —— وہی ہنسی اور قہقہے کا ساز لئے ہوئے … رِتوُ نے جب انیل کے متعلق سنا تو اپنی بڑی بڑی آنکھیں خوب نچائیں … اب تمہارے مزے ہیں انو رادھا … انیل صاحب پر اپنا جادو چلا دو … پھر دیکھنا … کبھی وہ الٹے طنز کرنے بیٹھ جاتی … بھئی لگتا ہے، تمہارا جادو انیل پر چل نہیں سکا ورنہ مہاراج سارا کام دھام چھوڑ کر بس تمہارے یہاں براجمان ہو جاتے … اور وہ اس دن سے ایسے رفو چکر ہیں جیسے پاتال چلے گئے ہوں۔

رِتوُ سچ مچ ایک قیامت تھی۔ مینا کو تو خوب اس نے آڑے ہاتھوں لیا… مگر مینا کے منہ سے جب کئی بار بھیا بھیا کی رٹ سنی تو منہ کچھ کسیلا سا ہو گیا۔ پھر جب انورادھا کے چہرے پر ہلکی سی شرم محسو س کی تو انو اس کی شرارتوں کا مرکز بن گئی۔… مسز شاستری بھی اس کے مذاق سے بچی نہ رہ سکیں … بات بات میں اشوک پٹواری کے لڑکے، مکیش پٹواری کا بھی ذکر ضرور آتا جو سن باتھ لیتے وقت برابر اسے گھورا کرتا تھا…

اب مجھے اچھا لگتا ہے۔”

جب رِتوُ ایسا کہتے ہوئے اچانک چپ ہو گئی تو انورادھا کو بڑا عجیب سا لگا۔

"کیوں ؟”

"جانے کیوں ؟” انورادھا کچھ سنجیدہ ہو گئی بس اچانک ہی —” شروع شروع میں تو میں خود بھی نہیں سمجھی کہ ایسی تبدیلی میرے اندر کیوں آئی۔ مگر اب اس کا ایسا کرنا مجھے بڑا اچھا لگتا ہے۔”

رِتوُ نے بالوں کی لمبی لٹ کو پیشانی سے ہٹاتے ہوئے کہا۔

"تو پگلی ہے تیری ساری باتیں ہی معمہ ہیں۔”

"یہ عمر ہی معمہ ہوتی ہے۔ واقعات سارے کے سارے سمجھ میں نہیں آیا کرتے۔ اب مجھے ہی دیکھو۔ کل تک ایک بات تھی کہ اگر میرے مکان کے سفید پتھروں والے چبوترے پر کوئی فقیر بیٹھ جاتا تو اُسے دھکے مار کر نکلوا دیتی تھی۔ انفیکشن کی وجہ سے مگر اب …

رِتو کچھ گمبھیر سی ہو گئی— اب میں ایسا نہیں کر پاتی … ایسے لوگوں کے لئے میں بڑی عجیب سی ہمدردی اپنے اندر محسوس کرتی ہوں۔”

پھر رتو ایک دم سے بدل گئی۔ پھر وہی بے باکی اس کی نس نس میں سرایت کر گئی۔اور ویسا ہی فلک شگاف قہقہہ بلند کرتی بولی … اب مکیش کو ہی دیکھ لو … کل تک وہ مجھے جنگلی، سڑک چھاپ اور آوارہ محسوس ہوتا تھا۔ مگر اب وہ اسمارٹ نظر آنے لگا ہے۔ شروع شروع میں میں نے اس کا ٹھیک طریقہ سے مطالعہ نہیں کیا۔ اب جب کرتی ہوں، وہ سیدھا سادہ شریف انسان نظر آتا ہے —— ایسا صر ف اس لئے ہے کہ اب میں نے سوچنا شروع کر دیا ہے —— محبت پر میرا پورا یقین ہے۔ اب تم محبت کو ہی لو۔ محبت ایک پاک جذبہ ہے۔ یہی مانتی ہونا؟ کیا ہوتا ہے جب اچانک کی محبت کے بے بعد ایک لڑکی اپنے محبوب کے بارے میں سوچنے لگتی ہے اور تنہائی میں شرم و حیا کا احساس اس کے اندر ایک عجیب سی گرمی بھر دیتا ہے … یہی سیکس ہے … جسے تم سیدھے سادھے جملوں میں اتیجنا یا ہلچل کہہ سکتی ہو… یعنی محبت کی پاکیزگی میں بھی سیکس چھپا ہے۔ میری پیاری دوست! اسی لئے میں مکیش کی فطری کمزوریوں پر اب اسے کوئی الزام نہیں دیتی کہ یہ تو فطری جذبہ ہے اور عین انسانی احساسات میں شامل ہے …”

"تو تم مکیش کے اس طرح دیکھنے اور اپنے جذبات کے اس طرح کمزور پڑ جانے کو محبت کا نام دیتی ہو ؟”

"نہیں۔ ہیومین ویکنیس…”

 رتو کھلکھلا کر ہنسی … محبت اور اس انسانی کمزوری میں اتنا قریبی رشتہ ہے کہ اکثر لوگ گڑبڑا جاتے ہیں —— محبت کچھ اور نہیں اسی کمزوری کا دوسرا نام ہے جو جذبات اور اشتعال اور طوفان پیدا کر دیتا ہے اور تم خود سوچو … دو مختلف جنس کے لوگ پہلی نظر کا شکار ہو کر اپنے اپنے انداز میں ایک دوسرے کو دیکھ رہے ہیں —— ایک دوسرے کے بارے میں گھنٹوں سوچ رہے ہیں … پھر بھوک نہیں لگتی ہے، نیندیں نہیں آتی ہے، کروٹ پر کروٹ بدلی جا رہی ہے۔ دماغی پریشانی کے امراض میں دونوں مبتلا ہیں … عجیب عجیب بے سر پیر کی باتوں میں پرانی ملاقات کا لمس تلاشا جا رہا ہو … تو یہ سب کیا ہے … وہی ہلچل … اتیجنا … یعنی سیکس…”

 رتو ہنسی … ہیومین ویکنیس پر میرا یقین ہے۔”

انورادھا سنجیدہ ہو گئی۔ کچھ دیر تک رتو کے اندر کی عورت کو ٹٹولتی رہی۔ وہ خود آزاد خیال تھی۔ مگر جانے کیوں رتو کی اس فلک شگاف ہنسی اور اس کی باتوں سے آج اس کو گھبراہٹ سی ہو رہی تھی … اندر ہی اندر ایک عجیب سی سنسناہٹ مچی تو اپنے مضبوط خیالات کی بنا پر انو رادھا نے اس سنسناہٹ پر قابو پا لیا۔ رتو کی باتوں سے وہ پاگل ہو جائے گی … کافی دیر تک وہ گم سم رہی —— پھر بولی ——

"تو اس کا مطلب ہوا کہ ہیومین ویکنیس سے تمہارا مطلب …”

"بیشک——” رتو نے پھر ایک آوارہ سا قہقہہ لگایا ——  "بے شک وہی ہے۔ پہلے تو میں مکیش کی حرکتوں کو غلط تصور کرتی تھی۔ پھر میں نے اپنے جسم کی بھوک کے بارے میں سوچا تو اس کا اس طرح سے گھورنا مجھے خراب نہیں لگا۔ بلکہ اچھا لگنے لگا … در اصل یہ بھوک بڑی خوب صورت ہے اور یہ ہمارے کلچر کی ہمیشہ سے کمزوری رہی ہے کہ اس طرح کی ضرور بھوک کو ہم نا جائز کہہ دیتے ہیں اور اس پر پہرہ بٹھا دیتے ہیں۔ بھوک کے ظاہر ہو جانے کا مطلب ہی ہے کہ ہم اب بڑے ہو گئے … اب تم مینا کو ہی لو …”

 رتو کہتے کہتے اچانک رک گئی۔

اور انو رادھا بڑے زور سے چونک گئی —— کیا مطلب ؟”

رتو نے اس کی آنکھوں میں جھانکا —جہاں اضطراب کی بڑی بڑی لہریں پیدا ہو گئی تھیں۔ اس نے بڑے مطمئن انداز میں کہا …

"مینا بارہ سال کی ہے اور انیل کے متعلق جیسا کہ تم نے کہا ۲۴۔۲۵ سال کا۔ تم ان دونوں کی دوستی کو کون سا نام دو گی ؟”

انو رادھا عجیب نظروں سے رتو کو گھورنے لگی۔ پھر اپنے سیلانی جذبات پر قابو پاتے ہوئے کہا۔

"دوستی ہی کہوں گی۔”

"تم اسے دوستی سمجھتی ہو ؟” رتو کھلکھلائی۔

"تمہارا مطلب کیا ہے ؟”

انو رادھا نے دھونکنی کی طرح چلتی ہوئی سانسوں پر قابو پاتے ہوئے کہا۔

"میرا مطلب ہے …”

انورادھا نے بڑے سپاٹ انداز میں جواب دیا——” مینا کے اندر بھی اب وہی بھوک جو ان ہو گئی ہے۔”

انورادھا ایک دم سے چونک گئی۔ جیسے کسی نے تیز جلتی ہوئی سلاخوں اس کے جسم میں پیوست کر دی ہو۔ اور اس کی گھبرائی گھبرائی حالت کا جائزہ لیتے ہوئے رتو کا پھر ایک تیز قہقہہ گونج اٹھا …

"بالکل پگلی ہو تم !”

 "نہیں، ایسا نہیں ہے، ایسا نہیں ہو سکتا۔”

انو رادھا نے بہت آہستہ سے کہا۔” مینا ابھی بچی ہے۔ ابھی بہت بچی ہے…”

یہ جملہ اس نے کئی بار دہرایا۔ آنکھوں کے آگے کتنے دھندلے خاکے تیر گئے … معصوم انیل کا سراپا اس کی نگاہوں کے سامنے آ کھڑا ہوا … اس نے اپنے لہجے کی تھرتھراہٹ محسوس کرتے ہوئے کہا …

"رتو … میں پھر کہتی ہوں … تم نے ان دونوں کی دوستی کو غلط سمجھ رکھا ہے … مینا کی ابھی عمر ہی کیا ہے کہ وہ ان باتوں کو سمجھ سکے۔”

 رتو نے جھنجھلاہٹ کے لہجے میں کہا —— کیا پاگل بے وقوف عورتوں کی طرح شرم اور برائیوں کا تذکرہ لئے بیٹھ گئی ہو۔ اس میں غلطی ہی کیا ہے۔ مینا کے اندر اگر وہ بھوک اس عمر میں جوان ہو گئی ہے تو اس میں خرابی کیا ہے۔ کبھی نہ کبھی تو جوان ہونا ہی ہے۔ سمجھنا ہی ہے … اور ایک دو سال میں تو وہ پوری سمجھ دار ہوہی جائے گی…”

"پھر بھی ایسا نہیں ہو سکتا۔”

انورادھا نے سر جھکا لیا۔ اپنے لہجے کی کمزوری کا احساس اسے بخوبی ہو گیا تھا۔ پہلی بار اس نے محسوس کیا تھا جیسے رتو کے طلسم نے اسے بھی توڑ دیا ہو … اور پرانی رسموں اور رواجوں کے وہ زیور جو شاستری ہاؤس میں رہنے والوں نے اپنے گلے سے اتار پھینکے تھے … اب پھر سے سجانے ہوں گے …

انیل …

اندر کی آواز یک بیک گونگی ہو گئی تھی —— ہونٹوں کا طائر اچانک خاموش ہو گیا تھا۔

سچ ہمارے کتنے قریب رہتا ہے …

مٹھیوں میں بند !

مٹھیاں کھل گئیں تو…

 تو …

سچ کا جادو ٹوٹ گیا تو …؟

یہ کیسی گھبراہٹ ہے ؟ پہلی بار اپنے آپ سے الگ یہ سب سوچتے ہوئے اسے بڑا عجیب سا لگ رہا تھا … ہونٹ خشک ہو گئے تھے … آنکھوں میں گزرے ہوئے دنوں کی کتنی ہی تصویریں  ساکت ہو گئی تھیں … مینا کی لمبی چوڑی شرارتوں کی ایک فلم تیار تھی … اور وہ بھی تو اس کے قہقہوں میں برابر کی شریک تھی … کیا جانتی تھی کہ ننھی سی مینا عمر کی ننھی سی دہلیز پر پیر رکھتے ہی اچانک اتنی بڑی ہو جائے گی… اتنی بڑی کہ اسے پتہ بھی نہیں چل پائے گا … آگے کا آسمان گرد و غبار میں کھو کر اتنا دھندلا ہو جائے گا کہ نظر ہی نہیں آئے گا …”

"کیا سوچنے لگی …”

 رتو نے اس کی لمبی چپ کو محسوس کرتے ہوئے کہا … "پاگل ہوئی ہے کیا ؟”

رتو ہنس رہی تھی۔ اس میں سیریس ہونے کی کیا بات ہے۔ عمر سے سمجھوتہ کس نے نہیں کیا۔ اور وہ … جو تو اپنے بچپن کی ایک بات بتاتی تھی کہ تیرے ایک انکل تھے… تو ان کی جانگھ پر چڑھ جایا کرتی تھی۔ جانگھ پر چڑھتے ہوئے کتنا مزہ آتا تھا… پگلی ! بچپن کی ان شرارتوں میں بھی سیکس کے جراثیم موجود تھے …”

انورادھا کا سر جھک گیا۔

اور اچانک اسے ایسا لگا جیسے رتو کے ہیجان خیز لباس سے زہریلی شعاعیں پھوٹ رہی ہوں … اس کے چہرے مہرے سے زہر کی بوچھار یں ہو رہی ہوں … اور اسے لگ رہا تھا …

رتو چھپ گئی ہے …

یہ کوئی نیا چہرہ ہے …

رتو کے اندر اس کی ہمجولی ساتھی چھپ گئی ہے …

یہ کوئی نئی عورت ہے …

نئی بہکی ہوئی عورت …

جس کی آنکھوں نے بے نام وحشتوں سے دوستی کر لی ہو …

جس کے دل نے خوب صورت مگر آوارہ نغموں کو اپنی گہرائیوں میں اتار لیا ہے …

اور جس کا جسم خوشبوؤں میں اڑا جا رہا ہے …

نہ خوشبو اصلی ہے …

نہ آنکھیں …

سب چکا چوند کا شکار ہیں …

سب مصنوعیت کی قید میں ہیں …

اور رتو کہہ رہی تھی— تو سچ مچ پاگل ہے … اسٹوپڈ… مین مائنڈیڈ…

مگر وہ چپ ہے کہ جذبات کو ہمیشہ سے عادت رہی ہے کہ وہ ہونٹ ہی سی دیتے ہیں۔ پھر بولے کیا … کہے کیا … مگر … انیل ایسا نہیں ہے … اور مینا بس ڈرامے اور فلم کی شکار ہے … اس سے زیادہ نہیں ابھی سوئی ہے، مگر جاگ جائے گی  وہ بھی تو اب تک سوئی تھی … مگر اب جاگ گئی ہے … جاگ رہی ہے …

رتو جا چکی ہے …

انو چپ چاپ اپنے کمرے میں لوٹ آئی ہے …

اب انیل آئے گا تو اندر کے سارے سوال سامنے کر دوں گی…تھکی ہوئی بوجھل سانسیں لے کر چپ چاپ بستر پر لیٹ جاتی ہے انورادھا۔

(۹)

انیل پھر آ گیا تھا۔

شاستری ہاؤس میں پھر ہنگامہ بر پا تھا۔

سر جھکائے خاموش خاموش سا انیل آج بڑا عجیب لگ رہا تھا۔ آنکھوں میں کتنے ہی دھندلے خاکے تیر رہے تھے … آتے ہی اس نے اتنے دنوں کی غیر موجودگی کی تمام کہانی سامنے رکھ دی تھی …

مینا کو بھی بڑا عجیب سا لگا … پچھلی تمام باتیں اُسے یاد آ گئیں رگھو بیر کا سہما سہما وجود نگاہوں میں گھوم گیا۔ چھوٹی سی مینا جذبات کے سمندر میں بہتی چلی گئی —

"تم کچھ پریشان سے ہو بیٹا!”

شاستری جی نے پوچھا۔

"ہاں انکل۔ اتنے دنوں کا ساتھ تھا۔ اس کے اچانک چلے جانے نے مجھے توڑ کر رکھ دیا ہے۔”

"مگر وہ اچانک اس طرح کیوں چلا گیا ؟

"بچپن سے ہی پاگل رہا ہے۔ اس کی پاگل حرکتیں بچپن سے ہی میں دیکھتا آ رہا تھا۔ عجیب طرح کی حرکتوں میں ہی اس کی اب تک کی زندگی گزری ہے۔ میں نے کبھی محسوس نہیں کیا کہ اچانک وہ اپنی الجھنوں اور کمزوریوں کے درمیان اس طرح بکھر جائے گا کہ خود سے سمجھوتہ ہی نہیں کر پائے گا … اور یہ شہر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے چھوڑ کر نکل جائے گا۔ جاتے وقت بھی کوئی بات نہیں ہوئی۔”

 "تم سے اس نے اس بارے میں پہلے کچھ تو کہا ہو گا۔”

"ہاں کہا تھا۔ مگر میں نے مذاق سے زیادہ اہمیت نہیں دی اس کی بات کو۔”

"شطرنج کھیلو گے ؟”

شاستری جی نے اچانک ہی سوال بدل دیا تھا۔

"جی !” انیل اس طرح چونک گیا جیسے اس سوال کی امید ہی نہ ہو۔

"ہاں۔ ہاں شطرنج۔ آج کچھ پریشان سے دکھ رہے ہونا … اس لئے کہا۔ شطرنج تمام پریشانیاں غائب کر دیتی ہے۔ بڑے سے بڑا صدمہ ہو، شطرنج کھیلتے ہوئے کچھ یاد ہی نہیں رہتا۔ میری بچپن سے عادت رہی ہے۔ اب تم دیکھتے ہو کہ کچھ لوگ غم اور پریشانی کو بھولنے کے لئے شراب کا سہارا لیتے ہیں۔ کچھ کتابوں کا … میرے ایک دوست کئی کئی گھنٹے موتی لال منجن استعمال کرتے ہیں۔ کچھ لوگ گل لگاتے ہیں۔ اور میں شطرنج میں اپنی تمام الجھنیں پیوست کرتا ہوں —— ذہن پر ایک بار شطرنج کی چالوں کا بوجھ ڈالو تو تمام پریشانیاں اور غم خود بہ خود اپنا راستہ بدل دیتے ہیں۔”

"پاپا شطرنج کے ماہر ہیں۔” مینا بولی —” آج تک انہیں کوئی بھی مات نہ دے سکا۔ اس بات کا فخر ہے پاپا کو۔”

"اچھا ——” انیل ہنسا۔

"ہاں ہاں بیٹے —— مینا سچ کہہ رہی ہے۔ مگر تمہارا جوان خون مجھے ضرور ہرا دیگا۔”

 "وہ کیوں انکل ؟”

"اس لئے کہ نئے دماغ ہم سے اچھا سوچتے ہیں، سمجھتے ہیں اور محسوس کرتے ہیں۔” در اصل یہ جنس کلچر والی نئی نسل، ہم دھوتی لنگی کلچر والی پرانی نسل سے کہیں زیادہ بہتر ہے۔”

شاستری جی سنجیدہ تھے۔

"انورادھا دکھ نہیں رہی ہے —” مسز شاستری نے بہت دیر بعد منہ کھولا۔

"اپنے کمرے میں کرشن چندر کا ناول پڑھ رہی ہو گی۔” مینا ہنستے ہوئے بولی۔” دیدی کو کرشن چندر کا ناول بہت پسند ہے۔ جب ایک بار کھو جاتی ہیں تو…

"ایسا بھی کیا کھونا۔ ابھی انیل آیا ہے۔ اوپر سے اترنا چاہئے تھا۔”

شاستری جی نے پلٹ کر آواز لگائی۔” انو بیٹی… او انو بیٹی …”

 مگر جواب میں خاموشی ہی ہاتھ لگی۔

انیل نے بھی محسوس کیا۔ آج انو رادھا نظر نہیں آ رہی ہے۔ آنکھیں دیر سے انورادھا کو ٹٹول رہی تھیں۔ سچ تو یہ ہے کہ آج وہ بھی کچھ بھلانے کے لئے ہی یہاں آیا تھا سوچا تھا کہ انورادھا کا ساتھ غم بھلا پانے میں ضرور معاون ثابت ہو گا —

مگر انو …”

مینا دوڑتی ہوئی چھت کی طرف بھاگی، پھر منہ بناتی ہوئی واپس لوٹ آئی … دیدی کہتی ہیں کہ طبیعت خراب ہے۔”

"اوہ —— کچھ درد ہو گا سر میں۔”

شاستری جی نے اطمینان سے کہا ——” کیا کیا جائے بیٹا ! آج کل دیکھو تو جوان جہان لڑکیاں روز روز ہی بیمار دکھتی ہیں۔ کبھی سر میں درد ہے، کبھی پیٹ میں، کبھی دوسری بیماریاں — سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کہ ایسا کیوں ہوتا ہے۔ ہمارے وقت میں تو ایسا کچھ بھی نہ تھا —— اب لگتا ہے کہ سب کچھ نقلی بننے لگا ہے۔”

"یہی  بات ہے۔”

مسز شاستری نے بالوں کو جھٹکا دیتے ہوئے کہا۔

"شطرنج نہیں کھیلو گے۔”

شاستری جی گھوم پھر کر اپنی بات پر واپس آ گئے تھے۔

"جی——!” انیل کو ایک دم سے خواہش نہیں ہو رہی تھی۔

"کوئی بات نہیں، پھر کسی دن کھیلیں گے۔ میں تمہاری دل جمعی کے لئے کہہ رہا تھا — کچھ پریشان سے دکھتے ہونا۔ آج بس اسی لئے سوچا کہ شطرنج سے بہل جاؤ گے۔”

چائے آ گئی تھی —سب چائے پینے میں لگ گئے۔

مسز شاستری چائے کی چسکیاں لیتی ہوئی آہستہ سے بولیں۔” آج میری خواہش فلم دیکھنے کی ہو رہی ہے۔ انیل چلتا تو زیادہ مزہ آتا۔”

"کیوں جاؤ گے انیل ” شاستری جی نے انیل کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔

انیل کچھ الجھن سی محسوس کر رہا تھا۔ اس لئے کچھ بولا نہیں۔ سرجھکائے سوچنے میں مصروف رہا۔

"انو کو آواز دو۔ شاید وہ بھی تیار ہو جائے۔”

مینا چہک اٹھی۔

"اب انکار نہیں چلے گا — آپ کو چلنا ہی ہو گا۔”

انیل سخت پس و پیش میں تھا۔ چھوٹا سا شہر ٹھہرا—— کسی نے دیکھ لیا تو ؟ کوئی دوست ہی مل گیا تو ؟ یا پھر کسی رشتہ دار ہی کی نظر پڑ گئی تو جانے کیا کیا بات نکلنی شروع ہو جائے — یہاں تو کوئی بات چھپتی ہی نہیں۔ کسی نے دیکھ لیا تو فوراً کانوں کان یہ خبر پھیلتی جائے گی کہ انیل صاحب شاستری جی کی فیملی کے ساتھ اب فلم بھی جانے لگے ہیں۔ یعنی کوئی تگڑا چکر چل رہا ہے۔ مگر انو کی موجودگی کا احساس اسے انکار سے دور رکھ رہا تھا۔

پھر خود ہی پروگرام بن گیا کہ میٹنی شو فلم چلیں گے۔

انو تھکی تھکی سی اوپر سے نیچے اُتر آئی۔

انیل نے صاف دیکھا اس کی آنکھوں میں کچھ شکایت سی تھی۔ شاید وہ کچھ کہنا چاہتی تھی۔ مگر نہیں کہہ پا رہی تھی۔

فلم کی بات سن کر انو پہلے ہچکچائی۔ پھر راضی ہو گئی۔

اس بار انیل بولا —” میں دروازے کے پاس ٹکٹ لے کر کھڑا رہوں گا۔”

"ساتھ نہیں چلو گے ؟”

مسز شاستری نے بڑی عجیب نظروں سے گھورتے ہوئے کہا …

انیل اپنے لہجے پر قابو پاتے ہوئے بولا — "جی بات ایسی ہے کہ فلم نئی ہے اور بھیڑ بہت زیادہ ہے۔ میں ٹکٹ کاؤنٹر کے پاس ہی ملوں گا ——

"ٹھیک ہے۔”

اور مقررہ وقت پر سب فلم کے لئے روانہ ہو گئے۔

فلم شروع ہونے میں ابھی دیر تھی۔ مگر بھیڑ زیادہ نہ تھی۔ بالکونی میں مسز شاستری اور انو دونوں شاید ایک دوسرے سے بازی لے جانے کی کوشش کر رہی تھیں۔ مسز شاستری نے آج خود کو خوب سنوارا تھا — بڑا سا جوڑا — غازے سے پتا ہوا چہرہ —— سلیویس ہرا بلاؤز — اور اس سے میچ کرتی ہوئی ساڑی۔ انورادھا بھی ہوا کے دوش پر بس اُڑی جا رہی تھی۔ تبھی لوگوں کی تیز نگاہوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اس کا شوخ قہقہہ فضا میں گونج اٹھا۔ مینا اور انو دونوں میں کافی دیر سے کھسر پھسر چل رہی تھی۔ انیل اس وقت ان لوگوں سے کچھ فاصلے پر رہنا ہی زیادہ پسند کر رہا تھا۔ وہ بہت دیر سے دیکھ رہا تھا کہ کئی جلتی ہوئی نگاہیں عجیب انداز سے ان لوگوں کا جائزہ لے رہی تھیں۔ بہت ساری نگاہوں کے جسم میں گڑے جانے کی وجہ سے وہ خود کو کچھ گھبراہٹ سی محسوس کر رہا تھا۔ شاید اُس نے یہاں ان لوگوں کے ساتھ آ کر اچھا نہیں کیا۔ اب اسے ان لوگوں سے نہیں ملنا چاہئے۔ یہ لوگ اس کے بارے میں جانے کیا کیا سوچ رہے ہوں گے۔ کچھ لوگ منہ پھیر کر شاید اسی کے بارے میں بات کر رہے تھے۔ سارے جسم میں وہ عجیب سی سنسنی محسوس کر رہا تھا — یوں بھی وہ فلم دیکھنے کے لئے تیار نہ تھا۔ مگر انو کی موجودگی نے اس کے قدم کو ڈگمگایا تھا۔ اب وہ پیچھے نہیں جا سکتا تھا۔ مگر وہ انو کو سمجھائے تو کیسے ؟ کیسے کہے کہ انو شہر کے مطابق رہو۔ اس شہر کا اپنا مزاج ہے۔ اپنا ماحول ہے۔ اس ماحول سے دور جانے کی کوشش کرو گی تو یہ شہر تمہیں اپنانے سے انکار کر دے گا— یہاں کے لوگ تمہیں اپنا سمجھنے کو تیار نہیں ہوں گے۔ اور شہر کی اونچی اونچی دیواروں سے واپس آتا ہوا تمہارا قہقہہ تمہیں خود بھی اتنا برہنہ دکھائی دے گا کہ تاب نہ لا سکو گی…

اس لئے انو ! اب بھی وقت ہے۔ راستہ بدل دو …

مگر وہ اپنے خیالات کو عملی جامہ پہنانے سے محروم رہا تھا۔ اور اس کے برعکس انو کا فلک شگاف قہقہہ اب بھی بالکونی کے سناٹے میں جذب ہو رہا تھا۔ اور وحشی نگاہیں برابر ان کے جسموں میں دھنسی جا رہی تھیں — اور پھر انورادھا نے پلٹ کر اچانک اس کی جانب دیکھا۔ اور اس کے چہرے پر آری ترچھی لکیروں کو دیکھ کر جانے کیوں وہ گھبرا سی گئی۔ اور ایک دم سے چپ ہو گئی۔ اس کے دل نے تیزی سے دھڑکنا شروع کر دیا۔ کہیں ایسا تو نہیں۔ انیل نے اس کے اس طرح ہنسنے کا برا مان لیا ہے۔ اسے اس طرح ہنسنا نہیں چاہئے تھا۔ آخر آس پاس کے لوگ کیا کہیں گے۔ یوں بھی انیل کتنا سنجیدہ ہے۔ شایداسے یہ سب پسند نہ ہو — رتو کی دلچسپی سے بھری باتیں اب تک اس کے کانوں میں گونج رہی تھیں — اور دل بس تیزی سے دھڑکتا جا رہا تھا۔

 "کیا بات ہے دیدی۔”

مینا نے اچانک اس کے شوخ چہرے پر سنجیدگی کو محسوس کرتے ہوئے کہا۔

"کچھ نہیں مینا —” پر سکون جواب تھا انو کا — "لوگ دیکھ رہے ہیں نا۔ برا لگ رہا ہے۔”

مینا ایک دم سے چونک پڑی۔ خود سے اس کے چہرے کو پڑھتی ہوئی بولی۔

"یہ تم کہہ رہی ہو دیدی … تم …مجھے یقین ہی نہیں آ رہا ہے۔ لیکن … دیکھنے دونا … ان جاہل گنوار لوگوں کا دوسرا کام ہی کیا ہے ؟”

انو نے سر جھکا لیا۔ جانے کیوں مینا کی بات اُسے پسند نہیں آئی تھی۔

مسز شاستری بھی حیران نگاہوں سے انو کا جائزہ لے رہی تھیں۔ انیل نے بھی یہ گفتگو سن لی تھی۔ اب وہ منہ پھیرے بالکونی کے نیچے سے گزرنے والی گاڑیوں کو دیکھ رہا تھا۔

اب وہ مطمئن تھا — انو کے سنجیدہ جواب سے ایک اُمید سی بندھی تھی —

فلم ختم ہو گئی مگر انو چپ تھی۔

ہلکا سا اندھیرا چاروں طرف پھیل گیا تھا۔ خاموشی سے سیڑھیاں طے کرتے ہوئے انیل نے پہلی بار انو کو دیکھا جو ایک گہری چپ اوڑھے پاکیزگی کی مورتی لگ رہی تھی —

انو —! اس نے اتنے آہستہ سے کہا کہ صرف انو ہی سن سکے۔

گھبرا کر اچانک انو رادھا نے اس کی جانب دیکھا۔

بھیڑ میں مسز شاستری اور مینا دوچار سیڑھیاں نیچے اتر گئے تھے — اور یہ دونوں ان سے پیچھے رہ گئے تھے —

"تم سے کچھ باتیں کرنی تھیں انو۔”

بس، اتنا ہی کہہ سکا وہ … ڈرتا ڈرتا … سہما سہما۔ انو نے بڑی پیاری نظروں سے اُسے دیکھا— جیسے سنیما ہال کا سارا خوف اچانک باہر نکل گیا ہو۔ اور دل نے ایک بار پھر بڑے زوروں سے دھڑکنا شروع کر دیا تھا۔

اور وہ سوچ رہی تھی — انیل کیا کہنا چاہتا ہے۔ کیا وہی کچھ … جو وہ محسوس کیا کرتی ہے …

(۱۰)

کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے جب زندگی قدم قدم پر امتحان لینے لگتی ہے۔ صرف چند دنوں میں وہ واقعات کے اتنے گھنے جنگل میں داخل ہو گیا تھا، جہاں زندگی کی نئی نئی راہوں میں گم ہونے کا خوف بھی تھا۔ شام کی ہلکی ہلکی پرچھائیوں نے شہر کو ڈھک لیا تھا تھکا ہارا انیل جب گھر میں داخل ہوا۔ ساڑھے دس بج گئے تھے۔ لیمپ پوسٹ کی ہلکی مدھم روشنی میں سڑکیں ایک دم سے ویران الگ رہی تھیں۔ گھر کے دروازے پر دستک دینے سے پہلے ہی وہ کانپ گیا۔ روزانہ کی طرح وہی سوال "کہاں سے آرہے ہو ؟” شاید وقت کے ساتھ بابو جی بھی سمجھوتہ نہیں کر پائے۔ ککو کے حادثے کے بعد اس گھر نے جو ویرانی کی ردا اوڑھی ہے اس میں کمی تو نہیں آئی۔ ہاں اضافہ ضرور ہوتا رہا۔ رگھوبیر کی موجودگی نے اس سناٹے کو مل کر بانٹا تو ضرور تھا مگر اب تو رگھوبیر بھی نہیں تھا۔

ڈرتے ڈرتے انیل نے دروازے پر ہاتھ رکھا، اور دھیرے سے آواز نکالی۔ دروازہ کھل گیا تھا۔ سامنے ہی دھریندر کپور کھڑے تھے، اس کے پتا جی — چہرہ پریشان لکیروں سے بھرا ہوا۔ ٹھہری ہوئی آنکھیں۔ اور ذرا دیر بعد ایک بوجھل آواز کمرے میں گونجی—

"آج پھر تم دیر سے آئے ہو بیٹے ؟”

"جی پتا جی۔” اس نے سر جھکا لیا۔

"کیا ہر روز اتنی دیر سے آنا تمہیں تمہاری منزل تک پہنچا سکتا ہے ؟”

دھریندر کپور کی آواز دب گئی تھی۔ شاید تم غلط راستے کی طرف جا رہے ہو۔ اور اس غلط راستے کی طرف جاتے ہوئے تم اس گھر کو، موتیابین کی ماری ہوئی ماں کو، اپنے بھائی شیامو کو اور سب کو فراموش کر دیتے ہو۔ میں تمہیں کچھ بھی کرنے سے منع نہیں کرتا۔ ظاہر ہے اس عمر میں انسان ہزاروں طرح کے خواب دیکھتا ہے۔ اور ان خوابوں کی تکمیل کو سچے آئینے میں ہی دیکھنا پسند کرتا ہے۔ تمہاری بھی کوئی منزل رہی ہو گی۔ کچھ مقصد ہو گا۔ اس سے پہلے میں نے تم سے کچھ زیادہ نہیں چاہا۔کچھ زیادہ نہیں کہا۔ مگر آج تم سے ایک سوال پوچھنا چاہتا ہوں۔ تم غلط تو نہیں جار ہے ہو۔ کسی غلط سلط راستے پر تو نہیں پڑ گئے ہو۔ اس لئے کہ آج شام رحیم آیا تھا تم سے ملنے کے لئے اور اُس نے مجھے بتایا کہ …”

"رحیم آیا تھا۔” اس نے چونکتے ہوئے پوچھا۔

"ہاں۔اِدھر اُس نے محلے میں چائے کی دکان کھول لی ہے۔ چلو، اچھا ہوا۔ بے چارہ غریب آدمی۔ کچھ پیسے آ جائیں گے تو بھلا ہو جائے گا۔ اُس نے پہلے تم کو تلاش کیا اور جب تم نہیں ملے تو اس نے کہا کہ شاید تم فلم دیکھنے گئے ہو …”

"فلم دیکھنے !!”

انیل اوپر سے نیچے تک پسینے پسینے ہو گیا تھا۔

"ہاں فلم دیکھنے۔ شاستری جی کی فیملی کے ساتھ۔ اس نے تمہیں سنیما ہال کے قریب دیکھا تھا۔ مگر یہ بات اُسے یاد نہیں رہی۔”

دھریندر کپور نے لمبی سانس بھری۔” ہوسکتا ہے وہ تمہیں دیکھنے کی بات بھولا نہیں ہو اور محض مجھے بتانے آیا ہو۔ تمہیں کھوجتے ہوئے۔ تم اس بات کو سمجھ رہے ہو ؟ — رحیم کی طرح کتنے لوگ ہوں گے جو اس حقیقت کو جان گئے ہوں گے کہ دھریندر کپور کے لڑکے نے اب عیاشی بھی شروع کر دی ہے "

"پتا جی —” انیل کی تیکھی غصے بھری مگر دبی ہوئی آواز اٹھی۔

"تم نے مجھے شرمندہ کیا ہے بیٹے ! ایک باپ کو جو زندگی بھر تم سے خوشی اور قہقہے کی بھیک مانگتا رہا۔ پہلے اس کی جھولی بھگوان نے چاک کی۔ پھر تم نے —— کیا چاہتے ہو —— بچی ہوئی عزت کی نیلامی دے کر کیا تم اس پورے ہنستے بولتے خاندان کو اُجاڑ دینا چاہتے ہو۔”

 "نہیں پتا جی۔” انیل نے کافی دیر بعد اس گفتگو میں حصہ لیا۔

"آپ جو سوچ رہے ہیں، ایسا نہیں ہے، ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ اس چھوٹے شہر کے لوگ ایک بند کمرے سے باہر نہیں گئے ہیں۔ وہ مجھے شاستری جی کی فیملی کے ساتھ سنیما ہال تک تو جاتے ہوئے دیکھ سکتے ہیں مگر ایک آدمی اور ایک خاندان کے پیچھے چھپے ہوئے بہت سارے مسئلوں کے حل نہیں کھوج سکتے۔ میں نے کوئی وقت نہیں برباد کیا ہے پتا جی۔ مجھے جو پانا ہے جو کرنا ہے میں اس کی تیاری میں لگا ہوں۔ صرف وہ لمحہ جس میں ایک چیختا ہوا پریشان حال نوجوان میرے اندر تھا۔ میں نے اس نوجوان کی تسلی کا سامان کیا ہے۔”

"شاید اب مجھے کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے۔” دھریندر کپور بے رُخی سے بولے۔

"اچھا برا تم خود بھی سوچ سکتے ہو۔ مگر میری عزت کا خیال رکھنا بیٹا۔”

دھریندر کپور اتنا کہہ کر لوٹ گئے۔

انیل کچھ دیر تک اپنی جگہ پر کھڑا رہا۔ دائیں طرف والے کمرے میں ماں سو گئی تھی۔ شامو کے کمرے کی لائٹ بھی گل ہو گئی تھی۔ کھانے کی خواہش نہیں ہوئی۔ وہ چپ چاپ اپنے کمرے میں لوٹ آیا۔ شاید وہ غلط نہیں ہے اور بابو جی بھی غلط نہیں ہیں۔ فرق اتنا ہے کہ دونوں اپنے اپنے زمانے کا سچ سمجھنے میں لگے ہوئے ہیں۔

اور سچ کیا ہے ؟

اور اچانک اسے یاد آیا۔ سنیما ہال میں انو کا ڈرا ڈرا لہجہ۔ جب اسے اپنے کپڑوں سے خوف محسوس ہونے لگا تھا۔

شاید انو لوٹ رہی ہے۔

انو تمہیں لوٹنا ہو گا…

نمائشی کپڑوں سے ہوتا ہوا وہ راستہ سچ کے دروازے تک نہیں جاتا۔ مصنوعیت کے چہروں میں چھپ جاتا ہے …

انو دیر تک ذہن میں چھائی رہی۔

وہ جان رہا تھا۔ انو ویسی نہیں ہے۔ بن گئی ہے، بنا دی گئی ہے۔ منی بھی، اُرمیلا آنٹی بھی۔ شاید کوئی بھی ویسا نہیں ہے۔ بلکہ بن گئے ہیں سب کے سب۔ پتہ نہیں، کیسے بن گے۔ اس چھوٹے سے شہر میں احساس کی یہ کیسی آندھی چلی جس نے سارے شاداب پیڑوں کو زرد بنا دیا۔

انو، تم لوٹو گی نا !

بولو انو ؟

اور دوسرے دن کو صبح وہ رات کی تمام تلخ باتوں کو بھول گیا تھا— چائے پینے، ناشتہ کرنے اور روزانہ کی روٹین سے فارغ ہونے کے بعد وہ شاستری ہاؤس میں پہنچ گیا تھا۔ مینا اسکول گئی تھی۔ انو شاید اپنے کمرے میں لیٹ تھی۔ شاستری جی سے اس کی بات چیت کی آواز سن کر وہ تیز تیز بھاگتی ہوئی آئی تھی۔ بال پیشانی پر بکھرے ہوئے تھے۔ آنکھیں سوئی سوئی تھیں۔

اس نے انو کو دیکھا۔ بڑی پیار بھری نظروں سے۔

شاستری جی صابن لانے باہر چلے گئے تھے۔ جاتے جاتے چٹکار چھوڑ گئے۔

"کیا کہوں بیٹا، گھر میں لے دے کر اکیلا مرد تو میں ہی ہوں۔ گیس ختم ہو گئی، بجلی کا بل بھرنا ہے، ڈاکٹر بلانا ہے۔ سب کام مجھے ہی انجام دینا پڑتا ہے۔ اب دیکھو، بے وقت نہانے کی سوجھی تو صابن ختم۔ اب صابن لانے جا رہا ہوں —”

لائیے نا انکل میں لادوں۔” انیل نے بڑی محبت سے کہا۔

"نہیں بیٹا ! مجھے اچھا لگتا ہے کام کرتے ہوئے۔ اب تو عادت بھی پڑ گئی ہے۔ صابن میں صابن ہے لائف بوائے…”

شاستری جی گاتے ہوئے بولے —” لائف بوائے ہے جہاں، تندرستی ہے وہاں "

اور گنگناتے ہوئے باہر چل دئے۔

انورادھا زور زور سے ہنس پڑی۔

انیل کا بھی قہقہہ گونج اٹھا۔

"بابو جی بڑے عجیب آدمی ہیں۔”

"عجیب! میں نے اتنا دلچسپ اور مخلص آدمی ساری زندگی نہیں دیکھا۔”

انو رادھا پاس ہی بیٹھ گئی تھی۔ نظریں جھکی تھیں۔

انیل نے بڑی میٹھی پیاری پیاری نظروں سے اس کے سلونے چاند جیسے مکھڑے کا جائزہ لیا۔شرمیلی شرمیلی دلہن کی طرح۔ صوفے کو انگلیوں سے نوچتی ہوئی۔ اس لڑکی میں تو ایسا کچھ بھی نہیں ہے، جسے نقلی کہا جائے …

انو…

انیل نے آہستہ سے کہا۔

ہاں …

بہت دھیمی ترنگوں جیسی آواز کمرے میں گونجی …

ذرا دیر کو خاموشی چھا گئی۔ انیل نے بڑے غور سے ایک بار پھر اُسے دیکھا اور اُس کے کانپتے ہوئے ہاتھوں کو دھیرے سے چھوتے ہوئے بولا۔

"اس لمحے کی طرح جس میں ہم تم سمٹ کر بیٹھے ہیں اور اس وقت کی طرح، جیسی تم لگ رہی ہو کیا ہمیشہ لگو گی … انو … بولو… میں تمہیں بس اسی طرح … اسی طرح کے لباس میں دیکھنا چاہتا ہوں …”

اس نے دیکھا … انو کے لب تھر تھرا رہے ہیں … شگاف پڑ گئے ہیں سرخ سرخ ہونٹوں میں … جانے کتنے بل … مگر انو بول نہیں پائی۔ کچھ بھی نہیں۔

"انو ! میں کنز رویٹیو نہیں ہوں، اس شہر کے دوسرے لوگوں کی طرح۔ مگر میں کچھ چاہتا ہوں … کچھ پسند ہے میری۔ کچھ خواب بچپن سے دیکھتا آیا ہوں … چاہتا ہوں تم اسی طرح رہو۔ تم ایسی ہی لگو …”

"تمہیں اچھی لگتی ہوں اس لباس میں۔” دنیا جہان کی تمام مسکراہٹ انو کے ہونٹوں پر اُتر آئی تھی بس اتنا ہی کہہ سکی۔لہجہ تھر تھرا گیا۔ نگاہیں جھک گئیں۔

اور اتنے میں سیڑھیوں پر سے اترتے ہوئے ارمیلا آنٹی کی آواز سنائی دی

"بھئی کون آیا ہے ؟”

انیل کو دیکھتے ہی بولیں،” ارے انیل مجھے کسی نے خبر نہیں کی …”

شاستری جی صابن لے کر لوٹ آئے تھے۔ وہ اب بھی اسی طرح ناچنے اور گانے کے موڈ میں تھے۔ لائف بوائے ہے جہاں …

"دیکھا … دیکھا …”

مسز شاستری ہنستے ہوئے بولیں … بڑھاپے میں ناچنے اور گانے کا شوق ہوا ہے۔

"بالکل غلط کوئی بوڑھا نہیں ہوتا، صرف عمر بڑھتی ہے۔ ” شاستری جی نے زندہ دل قہقہہ لگا یا۔

"عمر بڑھنا ہی تو بڑھاپا ہے انکل۔”

"نہیں بیٹا ! کچھ لوگ تو جوانی ہی میں بڑھاپا طاری کر لیتے ہیں۔ اب مجھے دیکھو کیا تم مجھے بوڑھا کہو گے۔”

"نہیں انکل، آپ تو … "

"ہزاروں میں ایک جوان ہیں۔”

مسز شاستری نے جملہ پورا کیا اور پورا کمرہ ایک ساتھ کئی قہقہوں سے گونج اٹھا۔

"تب مینا کے برتھ ڈے پر آرہے ہونا ؟”

مسز شاستری کو فرصت ملی تو بولیں۔ آج مینا اسکول سے آئے گی تو بہت خفا ہو گی کہ تم ہمیشہ اس کی غیر موجودگی میں ہی آتے ہو۔”

"ضرور آؤں گا آنٹی۔”

انیل اٹھ کھڑا ہوا تھا۔ اس نے دیکھا۔ دروازے سے سٹی ہوئی انورادھا سہمی سہمی کانپتی نظروں سے اسے الوداع کہہ رہی ہے …

"پھر آؤں گا۔ پھر جلد ملاقات ہو گی۔”

انورادھا کے کانپتے ہاتھوں کا جواب اُس نے گرم جوشی سے ٹاٹا کرتے ہوئے دیا۔ آج اس کے دل سے ایک بڑا بوجھ اتر گیا تھا۔ اب وہ گنگناتا ہوا بازار کی جانب جا رہا تھا۔

دروازے پر دیر سے بیل چیخ رہی تھی۔ مگر دروازہ کھولنے والا کوئی نہ تھا۔نوکر آج چھٹی پر تھے۔ اتوار کا دن تھا۔ کمرے کے اندر صوفہ سیٹ پر ٹائمس آف انڈیا کا مطالعہ کرتی ہوئی مسز ارونا نے پریشانی کے عالم میں رتی سے کہا۔

"پتہ نہیں باہر کون ہے۔ دیر سے بیل چیخ رہی ہے۔ جی چاہتا ہے بیل کو نکال کر پھینک دوں۔”

رتو جو اوندھے منہ دونوں پیر بستر سے اوپر ہلاتی ہوئی کچھ لکھنے میں مصروف تھی۔ ناگواری سے منہ بناتی ہوئی بولی۔

"کوئی سامان بیچنے والا ہو گا۔ ان لوگوں نے تو بیل کو جانے کیا سمجھ رکھا ہے۔”

"ہاں، پتہ نہیں کون ہے۔” مسز ارونا بولیں۔

گھنٹی مستقل بج رہی تھی۔

"کون ہے ؟”

رتو نے لکھنا بند کیا اور ننگے پاؤں باہر کی طرف دوڑتی ہوئی بھاگی۔ اس کے چہرے پر جھنجھلاہٹ سی سوار تھی۔ اس نے دروازہ ایک جھٹکے سے کھولی دیا اور اچانک حیران نظروں سے دیکھنے لگی۔

"تم مکیش ؟”

مکیش نے رتی کا سرسری جائزہ لیا جینس کی پینٹ اور ہاف آستین کی جرسی میں رتو اور لوگوں کے لئے بھلے قیامت ہو گی، مگر اس نے رتی کے اس لباس خاص پر کوئی توجہ نہیں۔

"کیا بات ہے۔”

رتو نے مسکراتی آنکھوں سے اس کا جائزہ لیتے ہوئے کہا، پتہ نہیں کیوں مکیش کی اچانک آمد نے ایک عجیب سی تبدیلی کا طوفان اس کے اندر برپا کر دیا تھا۔ وہ کچھ کہہ نہ سکی، مگر آنکھوں کی چمک نے بہت کچھ مکیش کے سامنے کھول کر رکھ دیا تھا۔ یہ الگ بات تھی کہ مکیش کو اس طرح کے دلی جذبات کو پڑھنے سے کوئی سروکار نہ تھا۔ اور نہ ہی اس وقت وہ اپنے قیمتی لمحات سے چند لمحے چرا کر یہاں آیا تھا وہ ان بے مقصد باتوں میں ضائع کرنا چاہتا تھا۔

"اندر آ جاؤ …”

رتو نے کافی دیر بعد مسکراتے ہوئے کہا۔

"کون ہے۔ اتنی دیر سے باہر کیا کر رہی ہو بیٹی ؟”

مسز ارونا کی ناگوار آواز اندر سے سنائی پڑی۔

"اشوک انکل کا لڑکا ہے مکیش۔”

جلدی میں رتو کے منہ سے نکلا —

"انکل…” مسز ارونا نے یہ ضرور محسوس کیا کہ پٹواری آج اچانک رتو کا انکل کیسے بن گیا۔ رتو میں یہ تبدیلی کیسے آ گئی۔ رتی کے بچنے پر پردہ مسکرا کر رہ گئیں۔ پھر چشمہ درست کرتی ہوئی اخبار پڑھنے میں مگن ہو گںیو۔

ڈرائنگ روم میں آرام سے بیٹھ گیا مکیش۔ اس وقت بھی وہ اپنے خاص لباس میں تھا۔ یعنی پائجامہ اور کرتا۔ بال بکھرے ہوئے۔ اس کے باوجود وہ اچھا لگ رہا تھا۔ رتی اس کے بارے میں اتنا ضرور جانتی تھی کہ اس پاگل سے لڑکے کو لکھنے کا خبط ہے۔ اکثر رسائل اور پرچوں میں وہ اس کے آرٹیکل اور کہانیاں پڑھتی آئی تھی۔ اس لئے رتی نے اس کے گندے کپڑے کی کوئی خاص نوٹس نہیں لی۔ وہ مکیش جیسے ادیبوں کی پاگل حرکتوں اور تربیتی سے مکمل طریقے سے واقف تھی۔ اسے اس بات کی خوشی تھی کہ اس طرح کا انٹلکچول للچائی نظروں سے اُسے چھپ چھپ کر تکا کرتا ہے۔ اور اب تو وہ خود بھی ایک نرم گوشہ اس کے لئے اپنے دل میں محسوس کرنے لگی تھی۔ اس کے اندر چپونٹیاں سی سرسرارہی تھیں۔

اس نے پھر مکیش کو کنکھیوں سے دیکھا جو بغور اس کا جائزہ لے رہا تھا۔ پھر اُس کی تیرتی ہوئی نگاہیں کتابوں والے ریک پر چلی گئیں۔ جہاں سجاوٹ کے طور پر موٹی موٹی شاندار جلدوں والی کتابوں کو ایک قطار میں لگایا گیا تھا۔

"لگتا ہے یہ کبھی پڑھی نہیں گئیں۔ ” مکیش نے کتابوں کو دیکھتے ہوئے کہا۔

"ہاں، یہ کتابیں ممی محض سجانے کے لئے لائی تھیں۔ بس کبھی کبھار ان کی ورق گردانی کی ہے میں نے۔ ان سے آنے والوں پر رعب پڑتا ہے۔”

"مگر مجھے افسوس ہے۔ کتابیں پڑھنے سے زیادہ اب سجانے کے کام آنے لگی ہیں۔ ہماری برسوں کی محنت اس طرح ڈرائنگ روم کی زینت بھی بن سکتی ہے۔ اس بارے میں میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔

رتو نے جب اس گفتگو میں تلخی سی محسوس کی تو گھبرا سی گئی۔ اس نے تو سوچا تھا۔ مکیش اس کی چاپلوسی کرے گا۔ اس سے عشق و شق کی باتیں جھاڑے گا۔ اُس سے اس انداز میں گفتگو کرے گا، وہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔

اچانک ہی جیسے مکیش کو کچھ یاد آ گیا۔ اس نے جیب سے ایک رسید نکالی۔ چہرے پر کچھ سنجیدگی سی آ گئی تھی۔ وہ اسے اَن دیکھا کرتا ہوا کہہ رہا تھا۔

"میں تمہیں اکثر دیکھتا ہوں۔ صبح میں جب تم چھت پر ’سن باتھ‘ لیا کرتی ہو، ٹھیک اُسی وقت میں اپنے خیالات کی دنیا کا تنہائی چاہتا ہوں اور قدرتی مناظر کا لطف لینا چاہتا ہوں۔ چھت سے مناسب جگہ کوئی دوسری نہیں۔ اور میری چھت ایسی جگہ واقع ہے جو گرمی اور جاڑا دونوں موسموں کے لئے ہر لحاظ سے بہتر ہے۔ میں نے کتنی ہی بار تمہاری الھڑ حرکتوں کو دیکھا ہے اور افسوس کیا ہے…”

"مطلب ؟”

رتو اچانک سکتے میں آ گئی تھی۔

"مطلب کہ تم آج کے دور میں ہنستی ہو مسکراتی ہو۔ جبکہ ایک عام ادنیٰ سا آدمی بھی جو زندگی کے نشیب و فراز سے واقف ہوتا جا رہا ہے۔ وہ ان قہقہوں کو بھولتا جا رہا ہے۔ میں ہنسنے اور قہقہہ لگانے کو منع نہیں کرتا۔ مگر ہم ایک دم سے خود کو بھول جائیں، زمانہ اور تبدیلیوں پر نگاہ نہیں رہے۔ ملک اور دنیاوی معاملات کے بارے میں نہیں سوچیں کہ ہم کہاں جا رہے ہیں۔ کیا ہماری تقدیر میں جنگوں اور لڑائیوں سے الگ کوئی جگہ نہیں۔ تعصبات کی میل رکھے بغیر ترقی ممکن نہیں — فرقہ وارانہ جنگیں اور سولی پر چڑھتے ہوئے مظلوم انسانوں کے لہو سے ہمیں کوئی سروکار نہیں۔ آنکھیں موندے بڑھتے رہنے کو میں زندگی نہیں سمجھتا۔ اور نہ ہی ترقی سمجھتا ہوں۔ خیر یہ تمہاری بات ہے اور تم پڑھی لکھی ہو اور جانے کیوں میں تمہارے اندر دوسروں سے زیادہ ذہانت محسوس کرتا ہوں۔”

"اس کا مطلب تم مجھے گھورتے رہتے ہو؟”

"ہاں پہلے تو یہ کہ تم میری پڑوسن ہو۔ میری نے بر (NEIGHBOUR)

اور دوسری بات میں کسی کو بلا وجہ نہیں دیکھتا۔ تمہارے اندر کچھ ایسا ضرور ہے جو مجھے دیکھنے پر مجبور کرتا ہے۔”

"میرا جسم …”

رتو نے شوخی سے کہا۔

"اس بارے میں، میں پورے طور پر مطمئن ہوں۔ کم از کم وہ تمہارا جسم نہیں ہے۔ ادب میں آنے کے بعد دیکھنے والی آنکھ کا زاویہ ہی بدل جاتا ہے۔ میں تمہیں دوسرے انداز میں دیکھتا ہوں۔ تم کہہ سکتی ہو۔ میں تمہیں ایک بھکاری کی آنکھوں سے روٹی کے روپ میں محسوس کرتا ہوں۔ مگر افسوس۔ میں دیکھا کرتا تھا، تم اپنے گھر آئے ہوئے بھکاریوں کو کس بری طرح سختی سے نکال دیا کرتی ہو۔ مگر دو چار روز سے میں خوش ہوں۔”

رتو کو یہ گفتگو بڑی عجیب سی لگ رہی تھی۔ اسے پہلے مکیش ہی اچھا لگتا تھا مگر مکیش کی باتیں تو اور زیادہ خوب صورت لگ رہی تھیں۔ کتنی بے باکی سے اس نے اپنی خوشی اور نا خوشی کا اظہار کر دیا تھا۔ سب کچھ عجیب سا لگ رہا تھا… گھمنڈی ہے… اس نے سوچا مگر کچھ بولی نہیں۔

"تم آج کے دور میں اپنے خوب صورت جسم کو بہت اہمیت دیتی ہونا۔”

مکیش پھر سنجیدگی سے بولا— مگر یہی دیکھو، مجھے ہر جسم کاٹ کھاتا ہے۔ تمہارا نہیں۔ جب چھت پر صبح کے وقت آرٹیکل لکھتے لکھتے دماغ کام  نہیں کرتا ہے، تب تمہاری سڈول، بھری بھری رانیں مجھ سے کچھ لکھا پانے میں کامیاب ہو جاتی ہیں۔ مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ ایک دم سے ایسا ہوں۔ فطری کمزوری — میرے اندر بھی ہے جو عام انسانی جذبات کی ترجمانی ہے۔ ہاں تو میں کہہ رہا تھا کہ یہی جسم طرح طرح کی بیماریوں سے گزرنے کے بعد کیسا لگتا ہے۔ کتنا گھناؤنا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کی ہیئت اور ساخت کیسی ہو جاتی ہے کتنی خوفناک؟ جب نہیں دیکھا تب ٹھیک نا… مگر میں ہمیشہ تمہیں اس صورت میں نہیں دیکھ سکتا…”

مکیش قہقہہ لگاتا ہے… اس لئے کہ ایک خاص وقت گزر جانے کے بعد نہ تم سَن باتھ لینا پسند کرو گی اور نہ تمہارا جسم ہی اس طرح دیکھنے کے لائق رہے گا۔ سب بدل جائے گا بے بی۔ سب بدل جائے گا…”

بڑے آسان لہجے میں مکیش بولا۔ اور بے بی ایک دم سے ڈر گئی۔ زندگی کی اس حقیقت سے وہ اس طرح کبھی روشناس نہیں ہوئی تھی۔ اُسے یاد آیا۔ کتنی ہی بار اسپتالوں میں اُسے کتنے ہی بیمار جسموں سے واسطہ پڑا تھا۔ جس کے بارے میں مکیش نے ابھی کہا ہے۔ کتنی ہی بار ان بیمار جسموں نے اُس کے اندر کراہیت پیدا کی تھی۔ جنرل وارڈ کے بے ترتیب سوئے ہوئے مریضوں نے کتنی ہی بار اُسے آنکھیں بند کرنے پر مجبور کیا ہے۔ رتی کانپ گئی۔ یک بار گی اس نے اپنے جسم کو دیکھا اور آنکھوں میں خوف کی پر چھائیاں سمٹ آئیں۔

"تم خوفزدہ تو نہیں ہو؟”

مکیش نے دھیمے لہجے میں کہا۔ جبکہ میں نے تو ایک بڑی معمولی بات کہی ہے۔ اب یہی دیکھو نا۔” حال ‘ اتنی جلد ’ماضی‘ ہو جاتا ہے کہ دنیا کی ترقی پر آنکھیں نہیں ٹکتیں۔ اور اب میں دیکھنے لگا ہوں کہ میرے ہزاروں سال بعد کی نسلیں اس شہر کے آنچل میں پرورش پا رہی ہیں۔ ہم سب لوگ گزری کہانی ہو گئے ہیں اور گزری کہانیاں کسی کو یاد نہیں رہتیں اور نہ کوئی یاد کرنے کی ضرورت محسوس کرتا ہے۔

"تم کیسی باتیں کر رہی ہو معموں جیسی۔”

رتو گھبرائی گھبرائی سی لگ رہی تھی۔” مجھے ڈر لگتا ہے۔”

"ہاں رِتو۔ یہ سچ ہے۔ زیادہ سوچ فکر انسان کو پاگل کر دیتی ہے۔ اب یہی دیکھو میزائل، بم اور اسلحوں کی اس اشانت فضا میں بھی قہقہے اچھا ل رہی ہو،جبکہ میں صحیح طور پر ہنسنا بھول گیا ہوں۔ میرا باپ نام کے ساتھ پٹواری لکھتا ہے، میں صرف مکیش لکھتا ہوں۔اب سوچتا ہوں صرف ’م‘ لکھوں کہ یہ نام وام کا چکر جو ملک میں کرا رہا ہے اس سے گردن شرم سے جھکی جا رہی ہے۔ کتنی ہی جگہوں پر دنگے ہوئے، فسادات ہوئے۔ ہر جگہ اپنی سطح پر ایک جنگ چل رہی ہے۔ اور جنگ میں کون پستا ہے۔ اور کون مارا جاتا ہے… خیر چھوڑو رتو … یہ باتیں کبھی ختم نہیں ہونے والی ہے۔ اور ان باتوں سے کبھی کوئی مسئلہ حل نہیں ہونے والا ہے۔ میں یہاں ایک ضروری کام سے آیا تھا… یاد آیا…”

مکیش نے کچھ ٹھہر کر کہا—”لیپروسی کے مریضوں کی مدد کے لئے تم سے کچھ پیسے چاہئیں۔ ایسے لوگوں کی مدد ضرور کرنا چاہئے، بھگوان بھی جن کی مدد کرنے سے ہاتھ کھینچ لیتا ہے۔ سوچا کہ تم میری’ نے بر‘ ہو۔ شاید کچھ مدد کرو۔ تو یہ تمہیں ضرور دعائیں دیں گے…”

"لیپروسی۔”

رتو نے جیسے کڑوی کسیلی گولی نگلی ہو۔

"تمہیں کہیں اس نام سے وحشت تو نہیں ہو رہی ہے۔ اوپر والے کی یہی ادا مجھے پسند نہیں آئی۔ میں اوپر والے کو ماننے والے ہر شخص سے پوچھتا ہوں کہ بھائی کیا تم اس وقت بھی بھگوان کو مانتے جب اوپر والے نے ان بھیانک بیماریوں کے ساتھ اس سر زمین پر بھیجا ہوتا۔ مگر کوئی میری اس بات کو سنجیدگی سے نہیں لیتا ہے…  سب زندگی کے کھلے ہوئے مذاق میں شریک ہو جاتے ہیں۔ آس پاس یہ بکھری ہوئی غریب زندگیاں انہیں دکھائی نہیں دیتیں۔

مکیش اچانک گمبھیر ہو گیا تھا۔

"رتو۔تم مجھے پسند ہو۔ اس لئے آج اس طرح کی باتیں تم سے کر رہا ہوں تمہارے سامنے ساری حقیقتیں کھول کے رکھ دینا چاہتا ہوں۔ تم چونکہ خود کو ابھی سمجھ نہیں پا رہی ہو اسلئے جو کچھ کر رہی ہو، اپنی نا سمجھی کی بنا پر کر رہی ہو۔ زندگی بڑی بھیانک ہے رتو، بڑی عجیب نا قابل فہم۔ کبھی کبھی تنہائی میں بیٹھا بیٹھا میں خود سے پوچھتا ہوں کہ میں مکیش ہی ہوں … تندرست جوان… جواب نہیں ملتا تو لیپروسیوں کی اندھی بستی کی ویرانی میں نکل جاتا ہوں۔ شہر کی آبادی سے نکالے گئے ناپاک کیڑوں کی بستی میں۔ انہیں چھوتا نہیں ہوں کہ چھوت کا اندھا ڈر میرے اندر بھی بستا ہے۔ مگر ان کے درد کو محسوس کرتا ہوں۔ جب کبھی یہ ہنستے ہیں قہقہہ لگاتے ہیں تو سمجھتا ہوں مجھے یہاں آنے کی قیمت مل گئی ہے۔ تمہارے جیسوں کے قہقہوں سے زیادہ اچھے اور بھلے لگتے ہیں … مجھے وہ قہقہے تم سے زیادہ اچھے اور بھلے لگتے ہیں۔ مجھے ننگی، کھلی اور گھاؤ سے بھری ہوئی رانیں جہاں کپڑا ہٹانے اور دکھانے کی ضرورت نہیں پڑتی ہے۔ جو اشتعال پیدا نہیں کرتیں۔ مگر تمہارے یہاں جذبات کے نام پر کوری دھوپ ہی نظر آتی ہے…”

مکیش بولے جا رہا تھا۔

رتو نے نظریں جھکا لی تھیں …

زندگی کا ایک سچ یہ بھی ہے نا…

مکیش جو کچھ کہہ رہا ہے… وہ سب سچ ہے نا…

پھر یہ سچ اس سے اوجھل کیوں رہا۔ دور کیوں رہا…؟

وہ اس سچ کو کیوں نہیں دیکھ پائی…

زندگی سے اتنی دور کیوں رہی…؟

زندگی کی یہ تمازت اس کے اندر کیوں نہیں بسی؟

کیا اب بہت دیر ہو گئی ہے؟

کیا بہت دیر ہو چکی ہے…

رتو سوچ رہی تھی …

اور مکیش کہہ رہا تھا— "تم ان کے اندر جھانکو تو زندگی کی سچائی تمہیں بھی نظر آ جائے گی۔ میں نے ان کے گھاؤ سے بہتے پیپ میں اپنے اندر جما لہو دیکھا ہے۔ کبھی اس اندازے سے کیوں نہیں دیکھتیں اور سوچتیں تم… کہ ہم محسوسات سے پرے ہوتے جا رہے ہیں۔ ان لیپروسیوں کو لو۔ غربت اور افلاس سے بلک بلک کر مرتے ہوئے لوگوں کو دیکھو۔ گاڑیوں کے الٹنے کی نئی نئی واردات کو لو۔ چوری، ڈکیتی، کمیونل ریٹ، ریپ کے واقعات۔ اب کیا ان پر آنکھیں نہیں بھیگیں گی رتو۔ کہیں کچھ برا نہیں لگے گا۔ ہم احساس کی وادی سے کیوں دور جا رہے ہیں۔ یہی احساس اور جذبات تو انسانی زیور ہیں۔ ہم نے کیوں اس زیور کی قدر نہیں کی۔بس اسی ناطے رتو میں چاہتا ہوں کہ تم ہنسو ضرور۔ قہقہہ بھی لگاؤ… مگر عام انسانوں کی طرح اپنے آپ کو اونچا نہ اٹھاؤ۔ دکھ درد اور غم کو پڑھو تو تمہیں بھی ایک سکون ملے گا۔ بڑا عجیب سا سکون۔ اور اب یہی دیکھو۔ اگر انہوں نے جانا کہ تم ان کا علاج کرا رہی ہو، ان کے دکھ درد کو محسوس کر رہی ہوتو یہ احسان پرست جانور کتوں سے زیادہ وفاداری کا مظاہرہ کریں گے۔ تمہارے آگے سب کچھ سہہ چائیں گے۔ اور تمہیں بھی ایک فرحت بخش احساس ہو گا اور تم اس خوب صورت احساس کے آگے ایسی ہزاروں زندگیاں قربان کرنے کو تیار ہو جاؤگی۔ بولو رتو…”

رتو آواز کے طلسم میں جیسے ڈوب گئی تھی— رتو… کیا اچھا لگتا ہے یہ نام مکیش کے منہ سے … آہستہ سے بولی…

"مکیش … آج پہلی بار تم نے اتنا کچھ کہا ہے… یا کسی نے اتنا کچھ کہا ہے … جتنا کسی نے کہنے یا بتانے کی ضرورت محسوس نہ کی…”

اُس نے سر جھکا لیا…” تم کہو مکیش اس رسید پر کتنا بھر دوں ؟”

"یہ تمہاری خواہش پر منحصر رہے رتو… یہ جو کچھ ہے لیپروسیوں کی مدد کے لئے ہے…”

"پانچ سو۔”

رتو نے آہستہ سے لکھا۔ نظریں نیچی کئے … کچھ کھونے کی فکر اور کچھ پانے کی تلاش میں …

لکھتے وقت اس نے رتو کو دیکھا… بڑے غور سے …ایسا لگا جیسے ایک دم سے رتو بچی بن گئی ہے۔ جینس کی پینٹ اور سلیولیس جرسی میں بھی اس کے اندر ایک مشرقی لڑکی سمٹ آئی ہے… جو ایک غیر مرد کے سامنے شرم اور جھجک محسوس کر رہی ہے۔

"میں ابھی آتی ہوں۔”

رتو اتنا کہہ کر اندر چلی گئی… لمبے لمبے ڈگ بھرتی ہوئی…

مکیش نے ایک ٹھنڈی سانس بھری، جیسے خود سے بولا…

میں خواب نہیں دیکھتا…

مگر اب تمہارے اندر ایک خواب دیکھ رہا ہوں رتو…

ایک حسین … بے حد حسین خواب…

رتو پیسے لے کر اندر سے آ گئی تھی۔ جیب کے حوالے کرتے وقت ایک بار پھر اس نے محبت بھری نگاہوں سے رتو کو دیکھا… اور اچانک چونک پڑا…

وہاں آنسوؤں کے موٹے موٹے ڈورے رقص کر رہے تھے…

"آج پہلی بار ایک استاد کی طرح تم سے کچھ سیکھنے کا موقع ملا ہے۔ پہلا لیسن ( سبق) دیا ہے تم نے … آگے بھی آنا مت بھولنا…”

مکیش نے پیار بھری ان آنکھوں کو جیسے اپنے اندر اُتار لیا۔ آہستہ سے رتو کا ہاتھ تھپتھپایا اور دروازے سے باہر نکل گیا۔

(۱۲)

اُس دن مینا کا برتھ ڈے تھا۔

مینا صبح سے ہی چہک رہی تھی۔ صبح سے ہی گھر میں ایک شور برپا تھا۔ انورادھا ناشتہ وغیرہ کی تیاری میں بے حد مشغول دکھ رہی تھی۔ یہاں تک جس وقت انیل آیا اس وقت بھی وہ باورچی خانے میں ہی اپنے کام میں لگی رہی۔ ہاں انیل کے آنے کی خبر سن کر اس کے دل میں کھلبلی سی ضرور ہوئی مگر پھر یہ خیال آیا کہ اگر وہ باورچی خانہ چھوڑ کر جائے گی تو لوگ کیا خیال کریں گے۔ ویسے اب تو گھر کے سارے لوگ دونوں کی محبت کے بارے میں جان چکے تھے۔ انیل کے اندر بھی ایک خاموش لاوا جو مہینوں سے پک رہا تھا، سامنے آ گیا تھا۔ ساری باتیں صاف ہو گئی تھیں۔ انورادھا کتنی خوش تھی۔ یہ وہی جان رہی تھی۔ کئی روز سے رتو بھی گھر نہیں آئی تھی۔ مینا اپنے برتھ ڈے کا کارڈ لے کر خود دینے گئی تھی۔ مگر معلوم ہوا رتو نہیں ہے۔ لیپروسی کیمپ میں گئی ہے جہاں پروگریسیو نوجوان لڑکے لڑکیاں اس طرح کے مریضوں کے لئے دوا فراہم کر رہے ہیں۔ چھوت جیسے خطرناک مرض کو جاننے کے باوجود ان میں دل چسپی لے رہے ہیں۔ اور ان کا علاج کرا رہے ہیں۔ حیرت میں ڈوب گئی تھی مینا۔ گھر آئی تو رتو کی اس عجیب سی تبدیلی کا سب سے ذکر کیا۔ انورادھا کو پہلے تو یقین ہی نہیں ہوا۔ نئی تہذیب کی دلدادہ رتو اس قدر بدل بھی سکتی ہے۔ یہ سچ مچ بڑے اچنبھے کی بات تھی۔ ذرا سی گندگی دیکھ کر مچل جانے والی رتو کیا سچ مچ تبدیلی کا یہ انوکھا دھواں پی سکتی ہے… مگر یہ سچ تھا۔

رتو سے ملنے کی بڑی خواہش تھی۔ اس نے کارڈ پر لکھ بھی دیا تھا۔

ڈیئر رتو!

مینا کی برتھ ڈے پر ضرور آنا۔

اس دن میں تمہیں ایک سر پرائز دینا چاہتی ہوں۔

پتہ نہیں کیوں اس سے آگے وہ نہیں لکھ سکی تھی۔ خود ہی شرما گئی۔ اور اب انورادھا بے چینی سے آنے والے مہمانوں کا انتظار کر رہی تھی۔

شام کے پانچ بجے سے ہی لوگوں کا آنا جانا شروع ہو گیا۔ انیل اس درمیان کتنی ہی بار آیا۔ اب تو وہ ایک طرح سے اس گھر کا ممبر بھی ہو گیا تھا۔ شاستری جی کو جیسے انیل کے روپ میں خزانہ مل گیا تھا۔ وہ جب بھی آتا شاستری جی شطرنج نکال کر بیٹھ جاتے۔ کبھی” لوڈو‘ اور "ٹریڈ ” پر گھر کے سارے ممبر جھک جاتے۔ ا ور دلچسپ مگر بوجھل طویل کھیل کا یہ لمبا سلسلہ بھی ہنسی اور قہقہوں میں ڈوب جاتا —شاید انیل کی مراد بر آئی تھی۔ یا جو بھی تھا مگر وہ محسوس کر رہا تھا کہ اب اس کی موجودگی میں اس گھر میں آیا ہوا فیشن کا اثر دو ر ہوتا جا رہا تھا۔ انو کی نگاہیں اُسے دیکھتے ہی جھک جاتیں … تبدیلیاں یوں تو سب کے اندر تھیں۔ مگر کچھ باتیں اب بھی ایسی تھیں جنہیں اسے دور کرنا تھا۔

انو جھکی جھکی نگاہوں سے دیر تک اس کا جائزہ لیتی رہتی۔

اس نے بھی صاف صاف لفظوں میں بتا دیا تھا…انو… زندگی کے تصور میں، بس تمہاری خواہش کی ہے میں نے …ایک شرمیلی شرمیلی سی مورتی کی… جو ہندوستانی عورتوں کی طرح گھر کا سارا کام انجام دے… جو صبح کے وقت گھریلو عورت بن جائے اورر ات کے وقت مشرقی عورت کی ذمہ داری سنبھالے اور جو گھر کی چہار دیواری میں اپنے نسوانی زیور کے ساتھ آباد رہے۔

انو نے نظریں جھکا لی تھیں … میں تمہارا مطلب سمجھتی ہوں انیل۔ وقت کے ساتھ ان تمام چھوٹی بڑی باتوں کو سمجھنے میں دیر تو ہو گئی مگر شکر ہے اب سنبھل گئی ہوں میں … تم مجھے اپنی امیدوں سے دور نہیں پاؤ گے…

لرزتے ہوئے نازک نازک سے ہاتھوں پر انیل نے اپنے ہاتھوں کی گرفت سخت کر دی۔ الجھنوں سے الگ یہ لمحہ بڑا قیمتی ہے جو خود کو محبت کی حسین دنیا میں گم کر دیا ہے۔ انورادھا سب کچھ یاد کرتی رہی تھی۔ مینا نے کتنی ہی بار انو کو چڑھایا… دیدی تو ایسے مشغول ہیں، جیسے ان کی شادی ہے …”

انو نے ہاتھ اٹھایا مارنے کے لئے… "تھپڑ دوں گی۔ پاگل کہیں کی۔”

مسز شاستری کا ہنستے ہنستے برا حال تھا۔

شاستری جی صبح سے دریافت کر رہے تھے…” رتو نہیں آئی۔ خفا ہے کیا؟”

"خفا کیوں ہو گی۔ آ ہی جائے گی۔” مسز شاستری بولیں۔

ٹھیک ساڑھے پانچ بجے مسز ارونا پہنچیں۔ خاموش، چپ چاپ۔ سب نے ان کے چہرے پر پھیلی ہوئی تبدیلی کو محسوس کیا۔ آتے ہی مینا نے سوالوں کی بوچھار شروع کر دی۔

"آنٹی! رتو دیدی کہاں ہیں ؟”

"ابھی آ جائے گی یا ہو سکتا ہے کچھ دیر ہو جائے۔”

"دیر کیوں ؟ اس دن بھی ملاقات نہیں ہوئی آنٹی؟”

مسز ارونا نے بوجھل سانس بھری۔ پانی کا ٹھنڈا گلاس مانگا۔ پھر ہلکے ہلکے پیتی ہوئی بولیں۔

"کیا کہوں۔ رتو اتنی بدلتی جا رہی ہے کہ دماغ ہی ماؤف ہو گیا ہے۔ پتہ نہیں کیا ہو گیا ہے۔ میری پھول سی بچی کو۔ سب سے الگ تھلک۔ پہلے کتنا ہنستی تھی۔ قہقہے لگاتی تھی مگر اب گم سی پڑی رہتی ہے۔ کچھ بولتی نہیں۔ سوشل ورک وغیرہ سے کبھی دور کا واسطہ بھی نہیں تھا۔ اب سارا سارادن ان ہی کاموں میں مصروف رہتی ہے۔ تم ہی بتاؤ اُرمیلا۔ میری اکلوتی لڑکی ہے۔ کیسے نہیں سوچوں گی اس کے بارے میں۔ اس کے علاوہ میرا ہے ہی کون دنیا میں اب، وہ بھی ایسی ہو جائے گی تو یہ باقی زندگی کیسے کٹے گی؟”

"بھگوان نہ کرے اُسے کچھ ہو۔”

مسز شاستری بولیں۔” آج کل کی لڑکیوں کا رنگ ڈھنگ کچھ پتہ نہیں چلتا۔ کب کیسی ہو جائیں، کیا سوچ لیں … کچھ بھی کہنا مشکل ہے۔ میں آج کل کی لڑکیوں کو معمہ کہتی ہوں۔ اور موسموں کی طرح سمجھ میں نہیں آنے والی، کب بدل جائیں گی۔ رتو بیٹی نے بھی موسمی طبیعت پائی ہے۔”

انورادھا نے جب یہ سنا تو پتہ نہیں کیوں اُسے غم نہیں ہوا۔ تبدیلی تو  آنی ہی تھی رتو میں۔ اس کی سہیلی جو تھی۔ پیاری پیاری سہیلی۔ اس کی پریشانی سن کر افسوس ضرور ہوا۔ آخر کون سی بات ہے۔ رتو اداس کیوں ہے۔ تبدیلی تو اچھی چیز ہے۔ مگر جیسا کہ ارونا آنٹی نے کہا۔ رتو پریشان رہتی ہے آج کل… آنے دو… اسی سے دریافت کروں گی…

سات بجتے بجتے محلے اور شہر کے دوسرے اہم لوگ شاستری ہاؤس میں پہنچ گئے تھے۔ سات بج کر دس منٹ پر ہی مینا پیدا ہوئی تھی۔ پورا ماحول رنگین بنا ہوا تھا۔ کیک پر تیرہ موم بتیاں سچی ہوئی تھیں۔ سات بج کر دس منٹ ہوتے ہی مسز شاستری اور دوسری عورتوں نے تالیاں بجانی شروع کر دیں۔ اور ان تالیوں کی گونج میں مینا نے تمام موم بتیاں بجھا دیں۔ ہیپی برتھ ڈے کا شور ماحول میں تیز تیز آواز میں گونج اٹھا…

"ہیپی برتھ ڈے ٹو یو…

مینا کی سہیلیوں نے زور زور سے تالیاں بجائیں۔ مسکراتے ہوئے مسز شاستری نے مینا کا ہاتھ پکڑ کر کیک کے دو ٹکڑے کئے۔

ایک بار پھر’ ہیپی برتھ ڈے‘ کا شور کمرے میں تیزی سے اٹھا۔ انیل نے بھی اپنا تحفہ آگے کیا۔ یہ دو خوب صورت قلم کا سیٹ تھا۔ مینا نے تمام مہمانوں کو کیک کھلائے۔ پھر ناشتہ چلا۔ ناشتے کے بعد چائے کا دور بھی چلا ٹھیک اسی وقت تیز تیز قدم اٹھاتی ہوئی رتو دروازے سے آتی ہوئی دکھائی دی۔

"رتو دیدی۔”

مینا تیزی سے باہر بھاگی۔ اور رتو کی بانہوں میں جھول گئی۔

اس کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ "اتنی دیر کیوں ہو گئی دیدی؟”

انورادھا بھی آگے بڑھی۔” کیا بات ہے رتو … دیر کیوں ہوئی؟”

"معاف کرنا مینا۔”

رتو نے مینا کا گال تھپتھپایا… مجھے دیر ہو گئی۔ یہ رہا تمہارا تحفہ۔”

انورادھا نے صاف محسوس کیا۔ رتو زبردستی مسکراناچاہ رہی ہے۔ مگر نہیں، درد کی لکیریں اس کے پورے چہرے پر پھیل گئی ہیں …

اور رتو بڑے پیار سے ہاتھوں کا ہار بنائے مینا کو لپٹاتی ہوئی کہہ رہی تھی۔” تو مجھ سے غصہ ہے تو معاف کر دینا۔ پگلی، مجھے تو صبح میں ہی آنا چاہئے تھا۔ مگر…

رتو نے انورادھا کی طرف دیکھا۔ پھر نظریں جھکا لیں۔” تم بھی مجھے معاف کر دینا انو۔ بس اتنا سمجھ لے کہ پاگل رتو نے اب زندگی کو نئے انداز میں دیکھنا شروع کر دیا ہے…”

انو پھر بھی نہیں سمجھی۔

دوسرے مہمان آپس میں سر گوشیاں کر رہے تھے۔ مسز ارونا نے رتو کو دیکھ کر آرام کی سانس بھری تھی۔ رتو پہلے ارمیلا آنٹی سے ملی۔ بڑے ادب سے نمستے کیا۔ پھر شاستری جی کے پیر چھوئے۔ اور دوسرے لوگوں سے ملنے کے بعد انو کو لے کر اس کے کمرے میں چلی گئی۔

"بات کیا ہے رتو۔ تو کچھ کہنا چاہتی ہے کیا۔”

"ہاں انو… بہت کچھ کہنا چاہتی ہوں تجھ سے۔” رتو اچانک سنجیدہ ہو گئی تھی۔

"یاد ہے میں تمہیں مکیش کے بارے میں بتایا کرتی تھی۔”

"ہاں۔”

"مکیش ایسا نہیں ہے جیسا کہ میں نے تمہیں بتایا تھا۔ وہ ایک مختلف لڑکا ہے انو۔ مجھے اُسے سمجھتے میں دیر ہو گئی۔ سچ مچ وہ ویسا ہے کہ میں بیان نہیں کر سکتی۔ اس کے عجیب عجیب شوق نے مجھے اس کا پاگل بنا دیا ہے۔ کچھ دنوں سے لیپروسی کیمپ اُس کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے، حیرت ہے نا…”

 رتو ٹھہر کر بولی۔’ ٹھٹھے چرکیدے‘ ہاتھوں والے کو ڑھیوں کے لئے وہ چندہ اکٹھا کرتا پھر رہا تھا۔ پھر ایک دن وہ مجھے لے کر وہاں گیا۔ وہاں اس کی طرح کے کئی نوجوان تھے۔ سچ کہتی ہوں انو… ایک نئی زندگی دیکھی ہاں۔ اور وہاں سے لوٹنے کے بعد… میں نے زندگی کو ان بے مطلب، بے ہنگم قہقہوں میں دیکھنا چھوڑ دیا ہے۔ مگر آج پورے ایک ہفتہ ہو گیا ہے اور مجھے مکیش نہیں ملا ہے…”

رتو کی آواز بھیگ گئی تھی۔ وہ اپنے آنسوؤں کو روک نہیں پائی تھی…

"انو… میں پاگل ہو گئی ہوں انو… اگر مکیش نہ ملا تو… مجھے مکیش چاہئے۔ مگر مکیش کہیں نہیں ہے… اس کے ڈیڈی کو بھی پتہ نہیں انہوں نے بس اتنا ہی کہا کہ پاگل لڑکا ہے … آرٹیکل لکھنے کے پیچھے دیوانہ رہتا ہے… کہیں کچھ کرنے گیا ہوا… کچھ آرٹیکل تیار کرنا ہو گا… مگر میں بے حد پریشان ہوں انو… ابھی بھی میں کتنی ہی جگہوں پر اُسے ڈھونڈ کر آ رہی ہوں … مگر وہ نہیں ملا۔ وہ کہیں نہیں ملا…

رتو رو رہی تھی… سسکیاں لے رہی تھی… جانتی ہو، میں کیوں پریشان ہوں ؟”

"نہیں۔”

 سسکیوں کے درمیان رتو نے لمبی گہری سانس بھری…

"تم نہیں جانتی۔ میں نے کیا دیکھا ہے … میں نے دیکھا ہے… مکیش کے چہرے اور ہاتھوں پر ویسے ہی داغ بننے لگے ہیں … اور پہلی بار جب میں نے اُسے یہ داغ دکھائے تو وہ اچانک زوروں سے چیخ اٹھا… اس کا چہرہ بالکل زرد ہو گیا… میں نے دیکھا … وہ خوفزدہ تھا… وہ اندر سے ٹوٹ رہا تھا… بڑے غور سے وہ ان داغوں کا معائنہ کر رہا تھا… پھر اچانک وہ پاگلوں کی طرح دوڑتا ہوا مجھ سے دور ہو گیا۔ میں زور سے چیخی… اس کے پیچھے دوڑی… اس وقت کیمپ میں تمام نوجوان لڑکے لڑکیاں اپنے اپنے کاموں میں مشغول تھے میری چیخ سن کر وہ لوگ دوڑے بھی،مگر مکیش اچانک سب کی نگاہوں سے اوجھل ہو گیا تھا … مجھے ڈر ہے…

رتو سسک رہی تھی… "مجھے ڈر ہے انو … کہیں مکیش …

اس کے آنسو رخسار پر پھیلتے جا رہے تھے…

"نہیں رے … ایسا کچھ بھی نہیں ہو گا۔ وہم ہے تیرا۔”

انو رادھا نے اسے لپٹا لیا… میری بہن… میری پیاری بہن… میری دوست… ایسا نہیں ہو سکتا۔ یقین رکھ ایسا نہیں ہو سکتا۔ اس سے پہلے ہم نے زندگی نہیں دیکھی تھی۔ نہ ہم نے۔ نہ تم نے … پہلی بار زندگی کا چہرہ ہم دونوں کو دکھایا گیا ہے۔ تو گھبراتی کیوں ہے۔ وہ تیرا شک ہے … ہے نا… مکیش کو بھگوان نہ کرے… تو اس سے پیار کرتی ہے نا…؟”

"ہاں۔” رتو کے آنسو خشک تھے… اب وہی میرا سب کچھ ہے۔”

"پھر یقین رکھ۔ وہ تجھے مل جائے گا۔”

انو نے اس کی تسلی دیتے ہوئے کہا۔

"کیسے یقین کروں۔ آج ایک ہفتہ ہو گیا ہے اور ایک ہفتے سے اس کی شکل نہیں دیکھی ہے۔”

اس کی معصوم سسکیاں پھر پورے کمرے میں گونج گئی تھیں۔ انو حیرت سے دیکھ رہی تھی۔ پاگل حرکتیں کرنے والی، زندگی کی مصنوعیت سے پیار کرنے والی اپنی دوست رتو کو… اس کی دل شگاف سسکیوں کو … دروازہ بند تھا۔ اور دروازے کے اندر رتو معصوم گڑیا بنی اپنی الجھنوں کی آنچ میں موم جیسی پگھلی جا رہی تھی…

ٹھیک اُسی وقت جس وقت دونوں باتیں کر رہی تھیں … باہر سے مینا کی زوردار چیخ سنائی دی۔

"انو دیدی۔ باہر آئیے۔ پاپا کو دل کا دورہ پڑا ہے …”

"کیا !”

رتو اور انو دونوں سکتے میں آ گئے تھے… انو حواس باختہ دروازے تک دوڑی۔ پیچھے پیچھے رتو بھی لپکی۔ ابھی کچھ دیرپہلے جہاں کیک کاٹا جاتا رہا  تھا— ہنسی اور قہقہے کے فوارے اُبل رہے تھے… اچانک یہ پورا منظر ایک سوگوار فضامیں تبدیل ہو گیا تھا۔ شاستری جی پر غشی طاری تھی۔ بری طرح سے سینہ تھامے چھٹپٹا رہے تھے… مینا نے دوڑ کر ٹیلیفون سے بغل والے ڈاکٹر کا نمبر ڈائیل کیا…

کچھ ہی دیر بعد ڈاکٹر صاحب بھی پہنچ گئے۔

مسز شاستری کو مسز ارونا سہارا دیئے ہوئے تھیں۔ اور وہ زارو قطار روئے جا رہی تھیں۔ انیل بھی پریشان پریشان سا کھڑا تھا۔

"یہ دل کا پہلا دورہ ہے۔ انہیں احتیاط اور آرام دونوں کی ضرورت ہے۔”

ڈاکٹر نے نسخہ لکھتے ہوئے کہا۔

"فی الحال گھبرانے جیسی کوئی بات نہیں ہے۔ میں دوا لکھ دیتا ہوں۔ مگر دوا سے زیادہ ضرور ت انہیں آرام کی ہے۔ دل کے مریض اگر آرام نہ کریں تو ان کے لئے اور پریشانی پیدا ہو جاتی ہے۔ زیادہ گھومنا اور وزنی سامان بھی اٹھانا ان کے لئے سخت منع ہے۔ آپ ایسا کیجئے کہ ہر وقت انہیں خوش رکھا کیجئے۔ بس یہی ان کا سب سے اچھا علاج ہے۔”

لوگ جا چکے ہیں۔

ڈاکٹر جا چکا ہے۔

شاستری جی نے پانی مانگا۔ مینا نے ڈبڈبائی آنکھوں سے پانی کا گلاس بڑھایا۔ شاستری جی اٹھ کر بیٹھ گئے۔ سب کا مطالعہ کیا۔ گھبرایا گھبرایا سا انیل۔ پریشان پریشان سی خود کو سنبھال پانے میں نا کام سی ارمیلا، انورادھا، مسز ارونا اور رتو… سب کی طرف دیکھا اور ہمیشہ کی طرح انوکھی سی مسکراہٹ ان کے ہونٹوں پر مچل گئی۔

"تم لوگ گھبرا گئی تھیں کہ مجھے کچھ ہو گیا ہے۔ کیوں ارمیلا؟”

شاستری جی ہنسے۔” پگلی! دل تو مردوں کا ہمیشہ سے کمزور رہا  ہے…”

پھر قہقہہ لگاتے ہوئے بولے۔” ایک بات مانو گے نا انیل۔ لڑکیاں اپنے نازک ہونے کی بات کرتی ہیں۔ مگر میرا کہنا ہے۔ لڑکیوں سے زیادہ مرد نازک ہوتے ہیں۔ اب دل کے دورہ کا ہی لو۔ دل کا دورہ زیادہ تر مردوں کو ہی کیوں ہوتا ہے۔ ہے نا… عجیب سی بات۔”

انیل بے ساختہ ہنس پڑا۔

مینا بھی روتے روتے ہنس پڑی۔

"رتو بیٹی! تم اتنی چپ کیوں ہو؟” شاستری جی نے رتو کو دیکھتے ہوئے پوچھا۔

"بس انکل۔ یونہی شاید اب وقت اور حالات کو سمجھنے لگی ہوں۔”

"بھگوان سب کی آنکھیں کھولے۔”

شاستری جی ایک دم سے سنجیدہ ہو گئے تھے۔

پھرتو اور مسز ارونا بھی گھر چلی گئیں۔ ساڑھے آٹھ بج گئے تھے۔ شاستری جی نے کھوئے کھوئے سے انیل کو پاس بلایا۔ سب کو جانے کا اشارہ کیا۔ پھر ٹوٹتے لفظوں میں کہا۔

"بیٹا… دل کی بیماری چھوٹی نہیں ہوتی۔ میں جانتا ہوں۔ جب تک چل رہا  ہوں، چل رہا ہوں۔ مگر خوشی ہے۔ تمہارے قدم نے اس گھر میں روشنی لادی ہے۔ سب کے سب بدل رہے ہیں۔ تم نے بھی محسوس کیا ہو گا… اس سے پہلے یہاں جو بھی کمی نظر آتی تھی وہ کمی تمہارے جیسے کسی لڑکے کی غیر موجودگی کی وجہ سے تھا۔ پھر لڑکیوں کا گھر اور کیسا دکھتا۔ لڑکا بہت بڑا سہاراہوتا ہے۔ مگر یہاں اس کی کمی تھی اور میں یہ کمی کیسے پوری کرتا۔ تمہارے آتے ہی اس گھر میں اچانک خوشگوار تبدیلیوں نے جنم لیا ہے۔ تم آتے ہو تو کوئی کیرم کھیلتا ہے، کوئی لوڈو، کوئی ٹریڈ… غرض سب کے سب بہت خوش ہو جاتے ہیں۔ اب یہی خواہش ہے…”

شاستری جی کچھ کہتے کہتے رک گئے۔

"میری زندگی کا کوئی ٹھکانا نہیں بیٹا۔ تم نے کئی بار اپنی بیکاری کا ذکر کیا ہے۔ یہ بوڑھا تمہارے باپ جیسا ہے۔ اگر کچھ کہے تو مانو گے؟”

"کیا بات ہے انکل؟”

انکل کا دل دھڑک رہا تھا۔

"صرف اتنی بات کہ تم میرے پیسے سے کاروبار شروع کر دو۔ دیکھو انکار مت کرنا۔”

"جی۔”

انیل اچانک سناٹے میں آ گیا تھا۔

"بیٹے انکار مت کرنا۔” شاستری جی کی آواز لڑکھڑا گئی تھی۔” انو کی آنکھوں میں تمہارے لئے جو خواب ہے اسے میں نے پڑھ لیا ہے… تم اس کا دل نہیں توڑو گے نا…”

 انیل نے سر جھکا لیا۔” مجھے آپ کی تمام باتیں منظور ہیں۔”

شاستری جی نے راحت کی سانس لی۔ "آج تم نے دل پر برسوں سے رکھا ہوا وزنی پتھر ہٹا دیا۔ ورنہ سوچا تھا خود تو کوئی کاروبار نہیں کر سکا، ان پیسوں کا حق کیسے لگے گا۔ تم کبھی یہ مت سوچنا کہ میں تمہیں خریدنے کی کوشش کر رہا ہوں بلکہ میں اپنے بینکوں میں سڑتے ہوئے روپیوں کو اس کے جائز مقام تک پہنچا رہا ہوں۔”

"اب تم گھر جا سکتے ہو۔ رات کافی ہو گئی ہے بیٹے۔”

شاستری جی نے ٹھنڈی سانس بھرتے ہوئے کہا۔

اور انیل لمبے لمبے قدم اٹھاتا ہوا گھر کی طرف روانہ ہو گیا۔

(۱۳)

شہر کے دور دراز علاقے میں وہ کیمپ لگا ہوا تھا۔ ٹھٹھے چرکیدے لوگوں کا یہ قافلہ زندگی کی بے معنویت کا دھواں پی رہا تھا۔ دستانے پہنے ہوئے بہت سے نوجوان زندگی سے اکتائے ہوئے لوگوں میں خوشیاں بانٹ رہے تھے۔ ایک طرف ڈاکٹروں کا ٹینٹ گڑا ہوا تھا۔ ہلکی ہلکی پر چھائیاں تیر نے لگی تھیں۔ کبھی کبھی چرکیدے لوگوں کے منہ سے نکلا ہوا کسیلا قہقہہ بھی فضا میں گونج جاتا۔ ان میں مرد بھی تھے، عورتیں بھی۔ نوجوان لڑکے بھی تھے اور لڑکیاں بھی۔ ان کے زخموں سے پیپ نکل رہے تھے۔ سڑے ہوئے گھاؤ ناسور بن گئے تھے… زخم آلودہ ہونٹوں سے پیلے نا ہموار دانتوں کی قطار بھی دکھائی دے رہی تھی۔

یہ وہ تھے جو شام گئے لال لال ٹوپیوں میں سڑکوں پر بچھ جاتے … اور اپنے زخموں سے بھرے ہوئے ہاتھوں اور پیروں کو دکھاتے ہوئے رحم کی بھیک مانگتے۔ آج انہیں کیمپ کے روپ میں ایک مکان مل گیا تھا۔ کچھ اپنے گھروں سے چارپائیاں لے آئے تھے۔ کہیں کہیں دری بھی بچھی ہوئی تھی۔ کیمپ کے آگے جگہ جگہ اشتہارات نظر آرہے تھے۔ جن میں موٹے موٹے حروف میں لکھا تھا:

"ان سے محبت کرو

کہ یہ محبت کے بھوکے ہیں۔”

"یہ نفرت کے نہیں

تمہاری پیار بھری نظروں کے منتظر ہیں۔”

جگہ جگہ اس طرح کے اشتہارات نوجوانوں میں کسی ناٹک کی طرح کام کر رہے تھے۔

"گاڈبلیس مائی چائلڈ” ڈاکٹر نے ایک نوجوان لڑکی کو دیکھتے ہوئے کہا۔” تم لوگوں کی محنت قابل دید ہے۔ خدا اس دنیا میں کیسے کیسے لوگوں کو بھیجتا ہے۔ ان بیمار لوگوں کو دیکھنے کے بعد زندگی کی حقیقت معلوم ہوتی ہے۔ خدا تمہیں خوش رکھے۔ تمہاری حفاظت کرے۔ تم لوگ ایک بڑا کارنامہ انجام دے رہے ہو۔”

کیمپ میں کافی چہل پہل نظر آرہی تھی۔ زندگی کی بے معنویت کا دھواں پیتے ہوئے چرکیدے لوگوں کی بانچھیں کھل گئی تھیں۔ ان کے درمیان پھر تقسیم کئے گئے، روٹیاں بانٹی گئیں۔ اور اب یہ لوگ کھانے میں لگ گئے تھے۔

ایک چھوٹے سے بچے نے کہا،” کتنا میٹھا ہے کیلا۔”

ایک بوڑھا اپنے زخمی ہاتھوں کو نچاتا ہوا کہہ رہا تھا… "سڑک سے اٹھا کر سڑے ہوئے کیلے تو خوب کھائے مگر اس مٹھاس کا اندازہ پہلے نہیں تھا۔”

"تم ہماری طرح ہی بولتے ہو۔” ایک نوجوان مسکرایا۔

بوڑھا زوروں سے ہنسا…” سب کچھ تمہاری طرح ہے۔ بیٹے صرف جسم کو چھوڑ کر…”

نوجوان کی آنکھیں روشن ہو گئیں — تمہیں اچھا کرنا تو اوپر والے کے اختیار میں ہے، مگر اب تم سے محبت کرنا ہم نے سیکھ لیا ہے۔”

بوڑھے نے ایک ٹھنڈی سانس بھری اور پھل کھانے میں لگ گیا۔

منہ چھپائے دستانہ پہنے لڑکے لڑکیاں گرم جوشی سے اپنے اپنے کام انجام دینے جا رہے تھے۔ انہیں انفیکشن کا کوئی ڈر نہ تھا۔ ہ جان گئے تھے کہ چھوت کا خوف بیکار ہی ان پر مسلط کیا گیا تھا۔ اور اچانک ہی ان کے درمیان وہ شخص آ گیا تھا۔ اپنے آپ کو چادر میں چھپائے ہوئے تیز قدموں سے وہ ان کی چارپائیوں کے درمیان سے ہوتا ہوا پاگلوں کی انداز میں اُن کے گلے سڑے جسموں کا معائنہ کر رہا تھا— اس کی سانس تیز تیز چل رہی تھی۔ اچانک آگے بڑھتے ہوئے ایک شخص نے اُسے روک لیا۔

"مکیش ٹھہر جاؤ…”

اُس شخص نے اپنے آپ کو چادر میں ڈھک لینا چاہا۔

آواز پھر ابھری۔

"مکیش میں تمہیں پہچان گیا ہوں۔ تم گئے تو اچھا نہیں ہو گا۔”

"سلیم تم ابھی تک ہو۔”

"ہاں میرے بھائی۔” سلیم نے نظریں نیچی کر لیں۔” انو بہن تمہیں کھوجنے آئی تھی مگر جیسا کہ تم نے کہا تھا۔ ہم نے کہہ دیا۔ تم یہاں کل سے دیکھے نہیں گئے۔ پھر وہ چلی گئی۔

"کیا وہ پہلے بھی آئی تھی؟”

"ہاں، روز ہی آتی ہے۔ کتنے ہی چکر لگا جاتی ہے۔ یہاں کے ان بیماروں کو پانی پلاتی ہے،بہلاتی ہے مگر اس کی آنکھیں بس تمہیں ہی تلاش کرتی رہتی ہیں۔”

مکیش نے لمبی سانس لی۔ پر بولا’ کچھ نہیں۔‘

"میرے دوست۔” سلیم نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ دیا اور مکیش اچانک ایک جھٹکے سے، اس کے قریب سے ہٹ گیا…

سلیم نے ڈبڈبائی آنکھوں سے مکیش کو دیکھا پھر بھرائے لہجے میں بولا۔ میرے بھائی۔ اس سے قبل میں نے صرف حضرت ایوبؓ کی کہانی پڑھی تھی، صبر ایوبی کی داستان سنی تھی۔آج زندگی میں دیکھ بھی لیا۔ لیپروسی کے مریضوں سے تمہاری محبت، عقیدت اس عہد کی زندہ مثال ہے۔

مکیش کی آنکھوں میں تھر تھراہٹ پیدا ہو گئی۔” پلیز سلیم۔ مجھے سوچنے کا موقع مت دو، میں ٹوٹتا جا رہا ہوں۔ پتہ نہیں کیوں اتنا کمزور ہو گیا ہوں۔”

"ابھی شروعات ہے دوست۔ سب ٹھیک ہو جائے گا۔”

چارپائیوں سے گزرتے ہوئے یہ لوگ آگے بڑھنے لگے۔

شام کی پر چھائیاں تیز ہوتی جا رہی تھیں۔

دونوں چپ چاپ خاموشی سے چل رہے تھے۔

سلیم نے ذرا ٹھہر کر پھر کہا—” میں نے بہت پہلے ایک کہانی پڑھی تھی دوست۔ ماں نے اپنے بیٹے کی جیسی تصویر اپنے ذہن میں سوچی تھی۔ اس کی محبت نے ویسا ہی بچہ جنا۔ تم نے ان بیمار مریضوں سے جیسی عقیدت رکھی، اسی محبت کا نتیجہ ہے کہ…”

مکیش کا سارا جسم لرز اٹھا۔ اس سے پہلے کہ سلیم کچھ کہے۔ سلیم نے دیکھا۔ چادر میں لپٹا ہوا شخص زوروں میں کانپنے لگا۔ اس کے چہرے کا رنگ ہر پل بدلتا ہی جا رہا تھا۔ اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہے مکیش تیز تیز دوڑتا ہوا اس کی آنکھوں کے سامنے سے نکل گیا۔ اور جانے کتنے ہی سڑے گلے جسم والے کوڑھیوں کے درمیان سے ہوتا ہوا کہیں کھو گیا۔

"اللہ تمہاری مدد کرے۔”

سلیم کی آنکھوں میں نمی تیر گئی تھی۔

مکیش سر پٹ دوڑ رہا تھا۔ اس کی سانس دھونکنی کی طرح سے چل رہی تھی۔ چھوٹے بڑے اُجلے اُجلے چکتوں اور داغوں نے اس کے ہاتھوں اور پیروں کو بدنما بنا دیا تھا۔ وہ کہاں جائے گا۔ زندگی کی اس جنگ میں وہ اتنا کمزور پہلے تو نہیں تھا۔ کیا وہ ہار جائے گا… اندر سے کتنی ہی آواز اُسے بار بار لہو لہان کر رہی تھی۔

مکیش زندگی اور موت کے اس درمیانی فاصلے سے ڈر گئے…

تم تو زندگی کے اندر جھانکنے کے عادی رہے ہو…

زندگی کے مکروہ چہرے نے تمہیں ڈرا دیا…

ذرا ٹھہر کر اس نے سانسیں درست کیں … اس حالت میں اُسے کوئی دیکھے گا تو کیا خیال کرے گا… مگر نہیں ! کئی دنوں سے وہ عجیب سی الجھن میں گرفتار ہے۔ ان داغوں کی وجہ سے اس نے کیمپ کی بنیاد تو ڈال دی، مگر ساری ذمہ داری دوستوں کے سپرد کر دی۔ اور خود منہ چھپائے ان لوگوں سے چل رہا تھا۔ رتو کی معصوم آنکھیں، نشتر کی مانند اس کے دل میں دھنسی جا رہی تھیں …

یہ مجھے کیا ہو گیا ہے…؟

کبھی وہ اپنے زخموں کو دیکھتا اور چیخ پڑتا۔

یہ مجھے کیا ہوتا جا رہا ہے؟

رات گئے وہ اپنے کمرے کو بند کئے لیٹا رہتا۔ شام کی پرچھائیاں جوں ہی لمبی ہو جاتیں وہ گھر چھوڑ دیتا۔ اور کیمپ کی خبر لینے پہنچ جاتا…

وہ کرے بھی تو کیا کرے…؟

کیا اب اسے بھی کیمپ میں بھرتی ہونا پڑے گا؟

نہیں … نہیں …

شریانوں میں خون کے لاوے جل اٹھتے… سانس تیز تیز چلنے لگتی… نہیں نہیں … مجھے خوف محسوس ہوتا ہے… مجھے ڈر لگتا ہے… رتو… شاید میں کمزور ہوتا جا رہا ہوں … میں زندگی کی یہ جنگ شاید اکیلے نہیں لڑ سکتا… مگر تم… نہیں اپنے کمزور بیمار جسم کو لے کر میں تمہارے سامنے بھی نہیں آنا چاہتا۔ اور نہ ہی اس لڑائی میں تمہیں شریک کرنا چاہتا ہوں۔ کیا زندگی سچ مچ مختلف ہے۔ جو ہم سوچتے ہیں، جو ہم دیکھتے ہیں، جو فلسفہ قائم کرتے ہیں، زندگی ان فلسفوں اور منطقوں کی دنیا سے الگ بالکل ایک مختلف چیز ہے۔ زندگی میں وہ آج تک نہیں ہارا۔ مگر اب ہار رہاہے۔

٭٭

سات بج گئے تھے۔

اندھیرے کی چادر سارے شہر نے اوڑھ لی تھی۔ دکانوں پر قمقمے روشن ہو گئے تھے۔ ایک سایہ چھپتا چھپتا آہستہ آہستہ گلی میں بڑھ رہا تھا… چادر سے منہ کو ڈھانپے… کمزور نڈھال قدموں سے … چوروں کی طرح…

ڈاکٹر نریندر…

اس بورڈ کو دیکھ کر وہ ٹھہر گیا۔ ڈاکٹر نریندر اسے اچھی طرح پہچانتے تھے۔ کتنی ہی بار اس کے گھر بھی آئے تھے۔ پاپا سے بھی اچھی ملاقات تھی۔ ڈاکٹر نریندر نے اس کے کارنامے اور کیمپ کے متعلق بھی بہت سن رکھا تھا، مگر وہ کیمپ کے لئے وقت نہیں نکال پاتے تھے۔ ہاں مستقبل میں تعاون دینے کا یقین دلایا تھا۔ وہ عجیب سے ڈر کے تحت کیمپ کے ڈاکٹری حلقے کی جانب نہیں گیا۔ یوں اب اس کے جسم پر نظر آنے والے داغوں کی بابت تقریبا سب کو معلوم ہو چکا تھا۔ کتنی ہی بار ڈاکٹروں نے اُسے روکنا بھی چاہا۔ اس کے دوستوں نے دوستی کے نام پر اُس کی زندگی کی بھیک مانگی۔ مگر پتہ نہیں کیوں اُسے اچھا نہیں لگا… کل یہ بات ایک خبر بن جائے گی۔ اس کے دوست جرنلسٹ موٹی سرخیوں میں ان خبروں کی پبلی سٹی کریں گے۔ اُسے چڑھ تھی ان باتوں سے جھوٹی سستی شہرت سے۔ ایک دو ایسے نامہ نگاروں کو اس نے جبراً ایسا کرنے سے منع کروایا تھا۔ یہ میری جنگ ہے… اسے میں خود جھیلوں گا… خود لڑوں گا…

ڈاکٹر نریندر بیدی… سائے نے بورڈ کو غور سے پڑھا۔ وہ اچھی طرح جانتا تھا۔ اس وقت ڈاکٹر صاحب مریضوں کو نہیں دیکھتے ہیں۔ بلکہ گھر پر آرام کرتے ہیں۔

یہی سب سوچ کر اس نے کال بیل پر انگلی رکھ دی…

گھنٹی بجتے ہی ایک چپراسی نے آ کر دروازہ کھول دیا… اور حیرت سے اُسے دیکھنے لگا۔

مکیش کا سارا جسم چادر میں لپٹا ہوا تھا۔

"کیا ہے بابا۔” چپراسی نے اسے گھورتے ہوئے کہا۔

"ڈاکٹر صاحب ہیں ؟”

"نہیں۔”

مکیش نے جیسے سنا نہیں اس نے بڑے یخ لہجے میں کہا۔

"میں ایک مریض ہوں۔ کہنا کہ مکیش آیا ہے۔ پٹواری صاحب کا لڑکا۔”

چپراسی منہ ہی منہ کچھ بڑبڑاتا ہوا اندر چلا گیا۔ کچھ ہی دیر بعد اندر سے جوتے بجنے کی آواز سنائی پڑی۔ ڈاکٹر نریندر تیز تیز قدموں سے باہر نکل کر اس کے سامنے آ گئے۔

پھر اچانک حیرت سے اُسے دیکھتے رہ گئے۔

"مکیش یہ تم ہو… کیا شکل بنا لی ہے… اس طرح چادر کیوں لپیٹے ہو… داڑھی کیوں بڑھا لی ہے؟”

"ڈاکٹر انکل !”

مکیش نے چبا چبا کر یہ الفاظ ادا کئے۔ اور ایک جھٹکے سے چادر اپنے جسم سے ہٹا دی۔

اُف… ڈاکٹر نریندر بیدی نے آنکھیں بند کر لیں … میرے بیٹے…یہ کیا۔۔۔

اور مکیش کی ہذیانی سسکیاں پورے کمرے میں گونج گئیں … ڈاکٹر صاحب … مجھے بچا لیجئے… مجھے کوڑھ نکل آئی ہے… مجھے بچا لیجئے … بچا لیجئے…

"بیٹھو، بیٹھو۔‘

 ڈاکٹر نریندر نے باہر کا دروازہ کھلوایا۔

سہما ہوا مکیش ایک جانب بیٹھ گیا۔

ڈاکٹر نریندر نے کچھ سوچتے ہوئے کہا،” جہاں تک مجھے یاد آتا ہے، تمہارے خاندان میں کسی کو یہ بیماری نہیں تھی۔”

"مجھے یاد نہیں ڈاکٹر صاحب۔”

ڈاکٹر نریندر نے تشویش ناک نظروں سے اس کا جائزہ لیا۔

"تمہارے ہاتھوں کے داغ بڑے بڑے ہو گئے ہیں۔ چہرے پر بھی یہ چکتے  بننے لگے ہیں۔ بھگوان تمہاری مد کرے میرے بچے… کل تم میری ڈسپنسری میں آ جاؤ۔ صبح کے وقت۔ کل ہی تمہیں پورے طور پر چیک اپ کروں گا۔”

"نہیں ڈاکٹر صاحب!”

 مکیش گھبرایا ہوا چادر لپیٹ کر کھڑا ہو گیا… مجھے صبح میں لوگوں کی چبھتی آنکھوں سے ڈر لگتا ہے۔ پلیز مجھے شام میں بلا ئیے۔”

 "ٹھیک ہے کل شام میں تمہارا انتظار کروں گا۔ گھبرانا نہیں۔ دنیا میں کوئی مرض ایسا نہیں جس کا علاج ممکن نہیں ہو۔ قسمت پر بھروسہ رکھو۔”

 "تھینک یو انکل۔”

 مکیش کا سایہ پھر سے تنہا گلیوں میں کھو چکا تھا۔ اب اسے اپنے آپ سے خوف محسوس ہو رہا تھا۔ چپ چاپ لوگوں کی چبھتی آنکھوں سے بچتا ہوا وہ گلیوں گلیوں اپنے گھر کا سفر طے کرنے لگا… اسی درمیان شہر کی لائٹ گل ہو گئی تھی— مکیش نے اپنے قدم تیز کر دئیے۔ جس وقت وہ اپنے گھر کے دروازے میں داخل ہو رہا تھا، ٹھیک اسی وقت ایک تیز آواز نے اس کا راستہ روک لیا۔

"مکیش… پلیز مکیش…”

ایسا لگا جیسے کسی نے دور سے آواز دی ہو…

مکیش تیز قدموں سے بھاگا…

آواز کچھ اور تیز ہو گئی… ’ ’ ٹھہر جاؤ مکیش… پلیز میری بات تو سنو۔”

اندر کی طرف لوٹتے ہوئے اس نے دیکھا۔ دروازے کے پاس اس کا بوڑھا نوکر رام دین کھڑا تھا…

"مالک…”

 "دیکھو رام دین… باہر ہو سکتا ہے رتو ہو۔ اسے واپس بھیج دینا… کہہ دینا، ابھی میں کسی سے نہیں ملوں گا، رتو سے بھی نہیں۔”

 رام دین نے حیرت سے مالک کے سراپے پر نظر ڈالی…

اور وہ تیز قدموں سے بالائی سیڑھیاں طے کرنے لگا۔ اس کی سانس پھول رہی تھی۔ لگ بھگ دوڑتا ہوا گرتے پڑتے وہ اپنے کمرے میں بھاگا۔ اور جلدی سے کمرے کا دروازہ بند کر لیا۔

دروازہ بند کر کے وہ وہیں ٹھہر کر لمبی لمبی سانس بھرنے لگا۔

دوڑتی ہوئی رتو دروازے کے اندر ہانپتی کانپتی داخل ہو گئی۔ دوڑتے دوڑتے اس کی سانس پھول گئی تھی۔ بوڑھے رام دین کا کانے اسے روکتے ہوئے کہا۔

"صاحب نے منع کیا ہے…”

"کیا …؟”رتو نے غور سے بوڑھے کا کا کو دیکھا۔

"رام دین کا کا مجھے جانے دو…”

 "صاحب کسی سے نہیں ملیں گے۔”

رتو نے آگے جیسے کچھ نہیں سنا۔ تیز تیز سیڑھیاں طے کرتی ہوئی مکیش کے کمرے کے پاس آ کر ٹھہر گئی۔ اس کا چہرہ پسینے پسینے ہو گیا تھا۔ جذبات نے اسے بے قابو کر دیا تھا۔

پھر لگاتار مکیش کے دروازے پر دستکوں کی بارش ہونے لگی۔

مکیش دروازہ کھولو۔

دورازہ کھولو مکیش۔

مکیش۔ میں ٹھہروں گی نہیں۔ میں چلی جاؤں گی مکیش…

پلیز میری بات تو سن لو…

میں کچھ پوچھنے آئی ہوں …

پلیز مکیش…

مگر دروازہ بند تھا اور دروازے سے ٹیک لگائے مکیش لمبی لمبی سانس لیتا ہوا اپنے جسم نوچ رہا تھا۔

اُس کے اندر جیسے شیطان داخل ہو گیا تھا…

"دروازہ کھولو۔” دستک پھر ہوئی…

وہ زور سے چیخا۔ نہیں کھلے گا… نہیں کھلے گا دروازہ … چلی جاؤ…

"پلیز۔”

"بھاگ جاؤ… ” مکیش زور سے دہاڑا…

"چلی جاؤ رتو… چلی جاؤ…

میرے جسم پر بڑے بڑے دانے اُگ آئے ہیں …

تم ان پھپھولوں کی تاب نہ لا سکو گی…

یہ پھپھولے تمہیں بھی ڈس سکتے ہیں …

میں اس گھر کے لئے۔۔۔۔ اس محلے کیلئے۔۔۔۔ سب کیلئے ایک خطرہ بنتا جا رہا ہوں

بھاگ جاؤ رتو … بھاگ جاؤ…

"مکیش … رتو رو پڑی … سسک اٹھی رتو… نہیں کھولتے ہو دروازہ … زندگی کی کتاب ابھی ختم نہیں ہوئی کہ تم نے راستہ بدلنے کا فیصلہ کر لیا…

رام دین آہستہ آہستہ چلتا ہوا اوپر آ گیا تھا…

"بیٹی … چلانے سے، دروازے پیٹنے سے کچھ نہیں ہو گا… محلے والے سن لیں گے۔۔۔بڑے صاحب ابھی گھر میں نہیں ہیں۔ اور آگے کی بات تم خود بھی جانتی ہو…”

 رتو نے آنکھیں ملیں۔ گہری سانس کھینچی… روتی آنکھوں سے رام دین کاکا کو دیکھا… کچھ بولی نہیں۔ جانے کیا سوچتی رہی۔ دروازے پر پھر ہلکے سے تھاپ پڑی…

"مجھے چھوڑ دو رام دین کاکا… محلے والوں کے بولنے کا میں نے ٹھیکہ نہیں لے رکھا ہے۔ مجھے مکیش سے ملنا ہے۔”

بوڑھا رام دین چپ چاپ نیچے اتر گیا تھا…

دروازے کے پاس جانے کتنی دیر تک نڈھال نڈھال سی رتی کھڑی رہی۔

مگر دروازہ بند رہا…

اندر سے بولنے بکنے کی آواز بھی اب خاموش ہو گئی تھی…

"ٹھیک ہے۔ میں جا رہی ہوں مکیش… مگر یاد رکھنا…یہ فیصلہ تمہیں بہت مہنگا پڑے گا…”

 آخر روتی ہوئی لڑکھڑاتے قدموں سے وہ سیڑھیاں پھلانگنے لگی۔

کمرے کے اندر کوئی منہ چھپائے زور زور سے سسکنے لگا تھا۔

(۱۴)

شاستری جی دل کا دورہ پڑنے کے بعد کافی کمزور ہو گئے تھے۔ ہنسنے ہنسانے کی فطرت تو نہیں گئی مگر اب بہت زیادہ سنجیدہ دکھنے لگے تھے۔ ہاں گھر میں آئی ہوئی تبدیلیوں سے بہت خوش تھے۔ ڈرائنگ روم کے پاس والے چھوٹے کمرے کو مندر کی شکل دے دی گئی تھی۔ ہنو مان جی، رام چندر جی اور سیتا جی کی مورتیاں اس کمرے میں آویزاں کر دی گئی تھیں۔ سب سے بڑا چیلنج اُرمیلا میں آیا تھا۔ اس خوشگوار تبدیلی سے سب سے زیادہ خوش شاستری جی تھے۔ کہاں سیر سپاٹے کی شوقین ارمیلا، اور کہاں اب وہ دن رات پوجا پاٹ میں مصروف رہتی۔ ہنسنے ہنسانے والی مینا بھی اب عمر کے ساتھ سنجیدگی کی سیڑھیوں پر قدم رکھنے لگی تھی۔ انیل کو جب بھی وقت ملتا ملنے چلا آتا۔ انو کو اب ملنے ملانے میں شرم سی محسوس ہونے لگی تھی۔ اُسے یہ خبر معلوم ہو گئی تھی کہ بابو جی نے انیل کے ساتھ اس کے رشتے کی بات پکی کر دی ہے۔

دھریندر کپور شروع میں ناراض ضرور تھے۔ وہ بزنس کرنے کے حق میں قطعی نہیں تھے۔ جس دن انیل نے ڈرتے ڈرتے ان سے یہ بات کی وہ اچانک برس پڑے۔

"ہمارے خاندان میں کسی نے آج تک تجارت نہیں کی۔ تم نے تجارت کی بات سوچی کیسے؟”

 "بابو جی۔” انیل نے سر جھکا لیا تھا۔

"ہمارے ہاں ہمیشہ پڑھنے لکھنے کا رواج رہا۔ تمہارا باپ بھی تعلیم کے شعبے سے جڑا رہا۔ اور تم تجارت کرنا چاہتے ہو۔ وہ بھی دوسروں کے پیسوں سے۔”

انیل کو یہ بات چبھ گئی تھی۔

دھریندر کپور دیر تک غصے کے عالم میں ٹہلتے رہے۔ "تم نے سوچا کیسے، ہمت کیسے کی مجھ سے یہ سب کہنے کی۔ اگر خود مختار ہو تو پھر مجھ سے صلاح و مشورہ کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے۔”

"زندگی کے کسی بھی راستے پر میں بغیر آپ کے مشورے کے نہیں چل سکتا۔” انیل نے دبی دبی زبان میں بات آگے بڑھائی۔” باپ کا بیٹے پر کوئی قرض نہیں ہوتا۔ باپ تو بیٹے کی ہمت ہوتا ہے۔ میں نے تو ہمیشہ آپ سے یہی سیکھا ہے کہ اچھے سے اچھے کی طرف مائل ہو، اچھے سے اچھے کوشش کرو۔ عمر بیتی جائے اور زندگی کو کوئی راستہ نہ ملے، کوئی منزل نہ ملے اور جن لوگوں نے مجھے محبت دی۔ آپ بابو جی… میری ماں … میری بہن… ان کے لئے بھی تو میرا کچھ فرض ہے۔ آپ سب لوگوں کے لئے…”

"تم کہنا کیا چاہتے ہو…” دھریندر کپور کچھ نرم پڑے۔

"بس اتنا کہ میں نے دوسروں کے پیسوں سے تجارت کرنے کے بارے میں سوچ کر آپ کی یا اپنی خود داری کو زخمی نہیں کیا ہے بابو جی… صرف ایک راستہ دینے کی کوشش کر رہا ہوں … وہ گھر غلط نہیں ہے بابو جی، لوگوں کے سمجھنے میں غلطی ہو گئی ہے۔ میں خود تو اپاہج زندگی جی سکتا ہوں۔ لیکن یہ برداشت نہ ہو گا کہ آپ اور گھر کے تمام لوگ اس دوزخ میں میرے شریکِ کار ہو…”

 آہستہ آہستہ بول رہا تھا انیل… یہ پہلا موقع تھا جب برسوں بعد بابو جی کو اس طرح کچھ بولنے کی نوبت آئی تھی۔ شروع میں وہ کتنا فری تھا، کتنا آزاد ماحول تھا۔ گھر کا۔ ککو کی موت نے سب کچھ ختم کر دیا…

دھریندر کپور اب تک ٹہل رہے تھے… چہرہ کتنی ہی لکیروں میں بٹ گیا تھا۔ شاید وہ خود سے سمجھوتہ نہیں کر پار ہے تھے…

انیل نے نظریں اٹھائیں … پھر جھکا لیں … اور بہت ہی ٹوٹے پھوٹے لہجے میں بولا،” میں نے یہ پسند نہیں کیا بابو جی کہ رگھو بیر کی کہانی ایک بار پھر دہرائی جائے…”

 "رگھو بیر۔”

دھریندر کپور ٹھہر گئے تھے…”

 لکیروں میں بٹے چہرے پر کچھ نرمی آئی تھی… غور سے انیل کو دیکھا۔ پھر کرسی پر بیٹھ گئے۔

"رگھو… ہاں رگھوبیر کہاں ہے۔”

"کچھ نہیں معلوم بابو جی۔ کہاں ہے۔ کس حال میں ہے؟”

 "بیچارہ۔”

 دھریندر کپور نے افسوس ظاہر کیا… افسوس ہے… کتنا پیارا لڑکا تھا۔ مگر زبردست خوددار ی اسے لے ڈوبی…

پتہ نہیں کن جذبات کے تحت انیل کی آنکھیں بھر آئی تھیں … رگھوبیر کو شاید اس درمیان وہ کبھی بھی اپنے دل سے جدا نہیں کرپایا تھا۔ آخر اتنے برسوں کا ساتھ جو رہا تھا ایسی دوستی کی تو لوگ مثال دیا کرتے تھے۔ زندگی بھر ساتھ ساتھ ایک ہی ڈگر پر چلنے کا دونوں نے فیصلہ کیا تھا…

مگر رگھو بیر نے اچانک ہی راستہ بدل دیا تھا…

’ ’ ہاں … نہیں نیند آ رہی ہے بیٹے … جاؤ سو جاؤ…”

 دھریندر کپور نے شاید اس کی آنکھوں کی نمی دیکھ لی تھی… کرسی سے ایک بار پھر اٹھ کھڑے ہوئے تھے…

"تمہیں مجھ سے ڈر لگتا ہے انیل؟”

"ڈر؟”انیل ایک دم سے چونک گیا تھا۔

"ہاں ڈر… میں جس طرح بہکی بہکی باتیں کرنے لگتا ہوں۔ شاید کل کے آئینے میں تم مجھے ہمیشہ سے دیکھتے آئے ہو اب نہیں دیکھ پاتے تو تم نے بھی مجھ سے ایک فاصلہ رکھ لیا ہے۔ اپنے باپ سے فاصلہ۔ ایک دوری قائم کر دی… نہیں …؟

"بابو جی…”

 "ہاں بیٹے … میں خود بھی بلڈ پریشر کا مریض ہوں نا … بھول جاتا ہوں کہ ایک باپ کو دوست بھی ہونا چاہئے… مگر کیا کروں … تم خود دیکھتے ہو یہ گھر جہاں موتیا بین کی ماری تمہاری ماں ہر وقت ککو کی یاد میں سو گوار رہتی ہے۔ شیامو پڑھائی کم ٹیوشن زیادہ کرتا ہے۔ کیسی ہیلتھ ہو گئی ہے بیچارے کی اور ایمانداری کی کمائی نے میرے بینک بیلنس کو ایک دم سے نل کر رکھا ہے اور پنشن سب کی ضرورت کو پورا نہیں کر پاتی … میں وہی ہرا بھرا گھر دیکھنا چاہتا ہوں بیٹے جو برسوں تمہاری ماں اور تم لوگوں کے ساتھ دیکھتا رہا…

دھریندر کپور کچھ دیر کے لئے خاموش ہوئے…

انیل حیران سا بابو جی کے آدرشوں کے لمبے قد دیکھ رہا تھا…

"اب میں پھر سے ایک دوست بن گیا ہوں۔ جانتا ہوں تمہارے اندر ایک ماسٹر کا خون ہے۔ ماسٹر دھریندر کپور کا… تم اپنی خود داری پر ایک آنچ برداشت نہیں کرو گے۔ اس لئے جو کرو گے ٹھیک کرو گے… کیا میں شاستری جی سے خود بات کر لوں …”

 بابو  جی…

انیل سے برداشت نہیں ہو سکا، جذبات پر قابو نہیں پا سکا۔ بابو جی کے گلے لگ گیا۔ اور اچانک آنسوؤں کی بارش دونوں طرف سے شروع ہو گئی۔

"بیٹا…  نعمت خانے میں کھانا رکھا ہے کھا لو…”

 انیل نے پلٹ کر دیکھا، دروازے پر ماں کھڑی تھی۔ ماں آج شانت لگ رہی تھی۔ بہت زیادہ شانت… شیامو کے کمرے کی لائٹ جل گئی تھی اور شیامو کمرے سے نکل کر باہر آ گیا تھا۔

"یہاں کیا ہو رہا ہے؟” وہ حیران حیران سا سب کو دیکھ رہا تھا۔ یہ منظر دیکھے  ہوئے کتنے دن ہو گئے تھے۔

"کچھ نہیں بھائی۔”

 دھریندر کپور اپنے خاص انداز میں بولے۔” بیٹے سے باتیں ہو رہی ہیں۔”

 شیامو ہنس دیا۔ ماں بھی مسکرا پڑی۔

"زندگی کے راستے بڑے مختلف ہوتے ہیں۔ اُف میں کتنا دبلا ہو گیا ہوں۔ اب تو رسی بھی نہیں پھاند سکتا۔ یہ سب تم لوگوں کی وجہ سے ہے۔ ارے بھائی ہنسو، ہنساؤ۔ … زندگی اسی کا نام ہے… پاروتی کل تم ڈاکٹر کے یہاں چلو گی۔ ڈاکٹر پانڈے سے تمہاری آنکھوں کے بارے میں بات چیت کی تھی۔ اور بھئی شامو ذرا ہیلتھ کا تو خیال رکھا کرو۔ اس عمر میں تو میں تاڑ کے درختوں پر بھی چڑھ جایا کرتا تھا…”

 "تاڑ کے درختوں پر ؟”

انیل مسکرایا…

"ہاں بھائی تاڑ کے درختوں پر۔ کچھ غلط خیال مت کرنا۔ بس یونہی شوق تھا جوانی کا۔ بہادری دکھانے کا۔ بس چڑھ جایا کرتا تھا…”

دھریندر کپور مسکرارہے تھے۔ انیل کے ساتھ سب قہقہہ مار کر ہنس پڑے۔ کتنے دن ہو گئے تھے۔ اس گھر میں خوشی کے فوارے دیکھنے کے لئے، شاید مدت ہو گئی تھی اور آج مدت کے بعد جیسے تیرگی کا یہ طلسم ٹوٹا تھا۔ پھر سب ایک ساتھ مل کر بیٹھ گئے۔ انیل کھانا کھاتا رہا۔ شیامو اپنے ٹیوشن کے تجربے بتاتا رہا۔ بیچ بیچ میں ماں بھی گفتگو میں شریک ہوتی رہی… انیل آج بہت خوش تھا۔ شاید اس لئے کہ زندگی کی اس جنگ میں وہ فتح یاب ہو گیا تھا۔

دوسرے دن دھریندر کپور ناشتے وغیرہ سے فارغ ہو کر شاستری جی کے یہاں پہنچ گئے۔ شاستری جی نے مسکراتے ہوئے ان کا خیر مقدم کیا۔ انو کی جیسے مراد بر آئی تھی۔ ارمیلا بھی خوش تھی۔ مینا بھی بڑھ چڑھ کر ناشتے وغیرہ کے انتظام میں حصہ بٹا رہی تھی۔

ناشتے وغیرہ سے فارغ ہو کر شاستری جی نے شطرنج نکال لیا۔

"بھائی تم بھی تو ریٹائر آدمی ہو۔ کیوں نہیں چلے آتے ہو شطرنج کھیلنے کے لئے بیکاری بانٹنے کا سب سے اچھا علاج ہے شطرنج… کیوں کیا خیال ہے۔”

دھریندر کپور ہنس پڑے۔ "مجھے تو ہمیشہ آؤٹ ڈور گیمس میں دلچسپی رہی۔ اب تو ہاتھ پیروں میں قوت ہی نہیں رہی۔”

پھر مہرے سچ گئے۔ آنکھیں مہروں پر ٹک گئیں۔ چال چلی جانے لگی۔ ذرا ٹھہر کر شاستری جی پھر بولے۔

"بھائی دیکھو، تم سے بغیر پوچھے ایک حق لیا ہے میں نے۔ میرا کوئی بیٹا نہیں تھا۔ انیل جس دن سے آیا ہے اس نے بیٹے کی کمی اسی دن سے پوری کر دی۔ ایک منٹ کے لئے بھی ہمیں یہ احساس نہیں ہونے دیا کہ ہم اس کے اپنے نہیں ہیں بھائی میں پوچھتا ہوں، کیا رشتے اوپر سے ہی بنے بنائے آتے ہیں۔

"دنیا میں جو رشتے خود بخود بن جائیں، میرے خیال میں زیادہ مضبوط ہوتے ہیں۔” دھریندر کپور بولے۔

"بس اسی لئے میرے بھائی۔ ایک باپ جیسا ہونے کے ناطے اگر میں اسے کچھ دوں تو احسان تو نہیں ہو گا نا …”

 "وہ آپ ہی کا لڑکا ہے، مجھے کیا اعتراض ہو سکتا ہے؟”

مہروں پر دوڑتے ہوئے ہاتھ ٹھہر گئے تھے۔

شاستری جی نے مسکراتے ہوئے دھریندر کپور کو دیکھا۔ پھر دوستانہ ہاتھ بڑھاتے ہوئے بولے … جلدہی انیل اسی شہر میں کپڑوں کا شوروم کھولنے والا ہے۔ شادی سے پہلے یہ مہورت ہو جائے تو کیا برا ہے۔”

"نہیں، مجھے ہمیشہ کی طرح کوئی اعتراض نہیں۔ وہ تو بغیر راستے کے بھٹکتا پھر رہا تھا۔ پھر اسے آپ مل گئے، آپ کا سہارا مل گیا…”

"سہارا نہیں کہو بھائی۔ چوٹ لگتی ہے۔ دھریندر کپور صاحب آپ نہیں جانتے بغیر بیٹے کے زندگی کیسی ہوتی ہے۔ ہم اسے کیا دے سکتے ہیں۔ اس نے جو کچھ مجھے دیا ہے اس گھر کو دیا ہے۔ وہ اس قدر زیادہ ہے کہ آپ فرض بھی نہیں کر سکتے اور ہم نے تو اپنی جانب سے محض اسے پیار اور خلوص دیا ہے۔ انیل نے تو اس پورے گھر کا نقشہ ہی بدل دیا ہے۔ پھر ان پیسوں کا کیا ہوتا جو بینکوں میں سڑ رہے تھے۔ میرے یہاں لڑکیوں کے علاوہ اور ہے ہی کون جو اس کا استعمال کرتا۔”

 شاستری جی سنجیدہ تھے۔ مگر اچانک ہی ان کی بشاشت لوٹ آئی۔ "تو آئیے، اسی بات پر ایک کپ اور چائے پیتے ہیں۔ اب ہم دونوں رشتے میں جو بندھ گئے ہیں …’‘

 اسی کے ساتھ شاستری جی نے تیز آواز لگائی۔” مینا… مینا بیٹی۔ چائے پھر لانا… شطرنج بغیر چائے کے نہیں کھیلی جا سکتی۔ دماغ جو صرف کرنا پڑتا ہے۔”

 شطرنج کی بازی پھر جم گئی تھی۔

دونوں پرانے تجربے کار کھلاڑیوں کی طرح اپنا اپنا کھیل دکھانے میں لگ گئے تھے۔

 ٹھیک اسی وقت باہر رکشا رکا۔ بال بکھرائے، پریشان حال مسز ارونا تیز تیز بھاگتی ہوئی اندر آئیں۔ اور اچانک ایک ساتھ سب کھڑے ہو گئے… مسز ارونا نے رونے کو تھیں۔ لرزتی کانپتی آواز میں چلائیں۔

"بیٹی انورادھا۔ جلدی چلو… رتو بے ہوش ہے…”

 پاس والی چارپائی پر دھم سے بیٹھ گئیں — مسز ارونا۔

ارمیلا تقریباً دوڑتی ہوئی باہر آئی۔

مینا نے پانی کا ٹھنڈا گلاس پیش کیا۔

آنکھیں آنسوؤں سے تر۔ ان چند دنوں میں ہی برسوں کی بیمار لگ رہی تھیں۔ مسز ارونا۔ سسکیاں لیتی ہوئیں … آنسوؤں کی بارش کے درمیان بولیں۔

"پتہ نہیں کیا ہو گیا ہے میری بچی کو… میری پھول سی بچی کو… کون سا غم کھائے جا رہا ہے … ابھی نوکروں کے سہارے چھوڑ کر آئی ہوں … ڈاکٹر بلانے بھی نہیں دیتی۔ ہوش آتی ہے پھر  بے ہوشی کا دورہ پڑ جاتا ہے…”

 "گھبراؤ مت ارونا… گھبراؤ مت… سب ٹھیک ہو جائے گا۔”

انو رادھا جلدی جلدی تیار ہو گئی۔

شطرنج کی بازی دوسرے دن کے لئے ملتوی کر دی گئی۔ دھریندر کپور صاحب اجازت لے کر واپس چلے گئے۔

اور یہ پورا گھر مسز ارونا کے یہاں اسی وقت چلنے کے لئے تیار ہو گیا۔

(۱۵)

زندگی عجیب عجیب جلوے دکھاتی ہے۔ کبھی کچھ بھی سمجھ میں نہیں آتا۔ شام کے سناٹے میں جب شاہ راہ پر تیرگی کے بت لوٹ رہے تھے۔ ہونقوں کی طرح بڑھی ہوئی داڑھی، الجھے ہوئے بال اور چادر لپیٹے ہوئے مکیش ڈاکٹر نریندر کی ڈسپنسری میں بیٹھا ہوا تھا۔ ڈاکٹر نریندر اس کا بغور جائزہ لے رہے تھے

 "میں تمہیں پڑھتا رہا ہوں بیٹے۔ بچپن سے تمہیں دیکھتا رہا ہوں۔ جب تم اسکول جایا کرتے تھے۔ تمہارے باپ کے گھر پر کتنی ہی بار میں نے تمہیں اپنی اندر کی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ اور سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ لوگ کہتے ہیں ڈاکٹر اپنے پیشے سے آگے کچھ نہیں دیکھتا۔ وہ ڈاکٹری کے پیشے میں آنے کے بعد ہی پروفیشنل بن جاتا ہے— جذبات اور احساسات کی دنیا سے اپنا رشتہ توڑ لیتا ہے۔میرے ساتھ یہی ٹریجڈی ہوئی بیٹے۔ میں یہ رشتہ نہیں توڑ سکا۔ جس دن پہلی بار میں نے اس پیشے میں آنے کا حلف لیا تھا۔ اسی دن سوچ لیا تھا، میں زندگی کو قریب سے دیکھنے کی کوشش کروں گا۔ زندگی کے اندر جاؤں گا۔ اور یہ پہلی بار ہے جب میں زندگی کے اندر داخل ہوا ہوں … مگر کیا تم تھک گئے ہو… ڈر گئے ہو اپنے آپ سے؟”

 "نہیں ڈاکٹر انکل —”

کمرے میں ایک گھبرائی ہوئی آواز گونجی۔ اپنے آپ پر ہونے والے ظلم کو تو بچپن سے سہنے کی عادت پڑی ہے اور حساس آدمی اپنا دکھ تو جھیل لیتا ہے… مگر اس بیماری نے ایک اکتاہٹ، اور عجیب طرح چڑ چڑاہٹ پیدا کر دی ہے۔ میرے اندر…”

مکیش ہانپ رہا تھا… کیا زندگی یہی ہے ڈاکٹر انکل— اصل زندگی کا چہرہ یہی ہے… مکیش نے اپنا ہاتھ آگے کیا… یہ بدنما… جراثیم سے بھرا گھناؤنا تو نہیں تھیں، جن میں، میں زندگی کی روح تلاش کیا کرتا تھا۔ بڑے بڑے فلسفوں میں … دوسروں کے اندر جھانک کر… مجھے اب ڈر لگتا ہے ڈاکٹر اگر زندگی یہی ہے … ایسی کراہیت آمیز تو وہ سب کیا ہے … اونچی اڑانیں … ترقی کے مینار … روز روز ہونے والی نئی ایجادیں … عشق… محبت…”

 آج کا دن صرف تمہارے لئے ہے … کہو … اندر جو بھی ہے … کھول کر رکھدو۔ انکل نہیں ایک دوست سمجھ کر…”

ڈاکٹر نریندر کے چہرے پر غضب کی سنجیدگی طاری تھی۔

"ان زخموں میں درد نہیں ہوتا ڈاکٹر… بے حس لگتے ہیں یہ داغ… مگر حس تو اندر کی جاگ اٹھتی ہے نا… ان زخموں اور پیپ دیتے ہوئے گھاؤ سے زیادہ تکلیف اندر کے آدمی کو ہوتی ہے۔ جب نفرت سے بھرا ہوا… کوئی ایک چہرہ بھی دکھائی دیتا ہے… جس نے ساری زندگی کتابیں پڑھیں … اب کتابوں کو جلا دینے کی خواہش ہوتی ہے۔ اس سے پہلے میں نے آئینہ اور اپنے درمیان کوئی رشتہ نہیں رکھا تھا… اب اس رشتے کو روز نبھاتا ہوں تو پوری انسان برادری سے نفرت کی تیز دھدھکتی ہوئی آگ میرے اندر روشن ہو جاتی ہے۔ میں بچپن سے اپنے فلسفوں میں گم رہا ہوں۔ اور یہ فلسفہ تھا محبت کا —جنگوں کے اس زخمی ماحول میں ہر آدمی کو محبت کے جذبے سے شرابور کر دینے کی خواہش تھی۔ ڈاکٹر انکل۔ آج آپ نے کہا ہے تو سب بتاتا ہوں آپ کو… ایک ایک بات…

مکیش کی سانس تیز تیز چلنے لگی تھی۔ چہرے پر آری ترچھی کتنی ہی لکیریں اُبھر آئی تھیں … وہ سوچ رہا تھا… اور سوچتے ہوئے… کتنا کچھ جھیلتے ہوئے بچپن کی حدوں میں داخل ہو گیا تھا…

"مجھے پتا جی کبھی سمجھ نہیں سکے۔ کیوں کہ پتا جی ایک مصروف انسان تھے۔ انہوں نے مجھے صرف پیدا کرنے اور کھلانے پلانے کا احسان کیا تھا۔ رہنے کے لئے ایک چھت دی تھی۔ اس کے علاوہ بھی بیٹے کی مزید ضرورتیں ہوتی ہیں۔ پتا جی نے کبھی محسوس نہیں کیا۔ وہ زیادہ تر باہر رہتے۔ بزنس ہی ایسا تھا۔ جب گھر آتے تب بھی ایک اجنبیت درمیان میں رہتی۔ وہ واحد شخصیت تھی ماں کی جس کی آنکھوں میں اپنے لئے کچھ خواب پڑھے تھے میں نے— ماں جو میری ذرا سی بیماری پر اپنی راتوں کی نیند حرام کر لیتی۔ ساری ساری رات میرے قریب بیٹھی رہتی۔ مجھے دوا کھلاتی۔ماں سے میں نے محبت کا سبق لیا اور پھر ایک دن جب ماں چھوڑ کر چلی گئی تو ایسی کتنی خواہشوں نے میرے اندر انگڑائی لی کہ اب اس گھر پر میرا کوئی حق نہیں ہے۔ میں ماں کی غیر موجودگی میں یتیم ہو گیا ہوں۔ بے سہارا —ماں کی موت پر بابو جی کی آنکھوں میں اترے ہوئے صرف ایک آنسو نے اچانک مجھے اس فیصلے سے روک لیا۔ یہ تیسرا دن تھا۔ صبح میں بابو جی گھر کی ہر شے میں ماں کا عکس تلاش رہے تھے۔ پھر میری طرف دیکھا لپٹایا اور پھر زور زور سے سسکیاں لے کر بچوں کی طرح رو پڑے۔ میں بھی دیر تک روتا رہا۔

"تو اکیلا ہو گیا ہے نا…بہت اکیلا…” یہ بابو جی نے کہا تھا۔ "مجھے افسوس ہے بیٹے میں اب تک تیرے لئے کچھ نہیں کر سکا۔ اور شاید آگے بھی۔ اس لئے کہ مجھے فرصت نہ مل سکی۔ بوڑھا رام دین تیرے لئے ہمیشہ موجود رہے گا۔ مگر وعدہ کر۔ اس بوڑھے کو کوئی اور غم نہ دے گا۔ یہ گھر چھوڑ کر نہیں جائے گا۔”

میں نے حیرت سے پتا جی کو دیکھا۔ پتہ نہیں کیسے انہوں نے میری آنکھوں میں گھر چھوڑ کر جانے کے فیصلے کو محسوس کر لیا تھا۔

"نہیں پتا جی نہیں۔ خود سے سمجھوتے کی عادت ڈال رہا ہوں۔”

"ہاں بیٹے، سمجھوتہ کر لے۔ جو ہو گیا سو ہو گیا۔ تجھ کو دیکھ کر چین سے زندگی کٹ جائے گی۔”

بڑی آسانی سے کہہ دی تھی یہ بات پتا جی نے۔ اور میں نے اپنی بات کا لحاظ رکھا۔ گھر نہیں چھوڑا۔ رام دین کا کا پر اب پوری ذمہ داری آ گئی تھی۔ تھوڑا سا ہوش سنبھالتے ہی ایک عجیب سی تبدیلی نے میرے اندر کروٹ لی۔ سماج کے گرے ہوئے طبقے سے میری محبت جاگی۔ اور پھر ایک دن میں نے عجیب نظارہ دیکھا۔ "مدد کرو” کی لال لال ٹوپیاں پہنے زخموں سے بھرا ہوا ایک قافلہ سڑک پار کر رہا ہے۔ جیب میں پڑے ہوئے سارے سکے میں نے ان کی جانب اچھا ل دئیے۔ بس اسی دن میں نے سنجیدگی سے انسانی برادری سے کٹے ہوئے اس حیوان نما مخلوق کے بارے میں سوچا۔

یہ کیوں جیتے ہیں …

کیا ان کی زندگی میں کوئی رنگ نہیں ہے…”

 اور یہ جانتے ہیں کہ یہاں کوئی خوشنما تبدیلی بھی سامنے نہیں آنے والی— ہم اور حکومت نے ان کے لئے کیا کیا ہے؟

کیا نفرت اور حقارت کے علاوہ بھی ان کے لئے کچھ کرنے کا بھی شوق جاگا ہے— ایسی زندگی سے موت بہتر ہے۔ پھر یہ جیتے کیوں ہیں ؟

مر کیوں نہیں جاتے…؟

 "ڈاکٹر انکل… اور مجھے ایک دن اس سوال کا بھی جواب مل گیا تھا۔ پڑھنے کے علاوہ ادب سے میرا رشتہ جڑ گیا تھا۔ نئے نئے لوگوں سے باتیں کرنا، ان کے مسئلے جاننا اچھا لگنے لگا تھا۔ ایک دن میں نے دیکھا… چوک کے قریب پل کے پاس … نالی سے تھوڑا ہٹ کر زمین پر گمچھا بچھائے ہوئے ایک بوڑھا کوڑھی اور اس کی عورت بیٹھی ہے… کوڑھی عورت کے ہاتھوں میں ہندی میں لکھا ہوا ایک بورڈ تھا۔

جس پر لکھا تھا:

"موت نہیں

روٹی چاہئے۔”

 اس جملے میں پتہ نہیں کیا تھا کہ میں رک گیا۔ دونوں کے قریب گیا۔ اور صرف اتنا پوچھ سکا۔” کیا تم روٹی چاہتے ہو، زندگی کیوں نہیں ؟”

 "مرنا کون چاہتا ہے بابو۔”

زخمی مسکراہٹ لئے، بوڑھا مسکرایا تھا——مجھے جواب مل گیا تھا۔ مرنا کوئی نہیں چاہتا۔ زندگی جیسی بھی ہو۔ پسند کوئی نہیں کرتا مگر جینا سب چاہتے ہیں۔ وہ اندھا بھی جس کی بینائی ختم ہو چکی ہے۔ جو دنیا نہیں دیکھ سکتا۔ پتہ نہیں اس کے لاشعور میں کیسی کیسی رنگینیاں چھپی ہوتی ہیں۔ جن کے سہارے وہ بھی جینا چاہتا ہے۔

اور بس اسی دن سے ڈاکٹر انکل… اس طرح کے لوگوں سے ایک عجیب سی انسیت اور عقیدت محسوس کی میں نے اپنے دل میں۔ میں نے کھوج کھوج کر شہروں کے ویران علاقوں میں ان جگہوں کا پتہ چلایا جہاں یہ بستے تھے۔ ویران مندروں میں ٹوٹے پھوٹے کھنڈروں میں۔ اور جہاں کوئی سائبان نہیں وہاں خیمہ گرائے… میں جاتا تھا… اور ان کی باتوں میں … کبھی کبھی جب یہ مسکراتے… تو مجھے یہاں آنے کا انعام مل جاتا تھا…”

 مکیش اتنا کہہ کر خاموش ہوا…

لرزتی ہوئی اس کی آواز اب لمبی لمبی چلتی ہوئی سانسوں میں الجھ گئی تھی۔ سب تھیوری ہے ڈاکٹر۔ خود پر جھیلنے کے بعد میں محسوس کرتا ہوں … اندر کا وہ انٹلکچول کہاں گیا؟ کہاں مر گیا۔ زندگی یوں بھی تو گزر سکتی ہے۔ جب اس قافلے کے ساتھ…

اچانک اس کی تیز ہذیانی چیخ ابھری… مگر بھیک ڈاکٹر انکل… میں بھیک نہیں مانگ سکتا… اور ایسی زندگی پا کر کون مجھے رکھے گا۔ سہارا دے گا۔ کھانا کھلائے گا … اور میں کسی کے سہارے کا محتاج بھی نہیں رہنا چاہتا۔”

"مگر تم امید کا دامن ابھی سے کیوں چھوڑنے لگے ہو۔”

ڈاکٹر نریندر مسکرائے۔” کوڑھ کا مرض کوئی ایسا مرض تو نہیں جو اچھا نہ ہو سکے۔ تم گھبراتے کیوں ہو۔ میں تمہارا علا ج کروں گا بیٹے… تم یہ کیوں نہیں سوچتے کہ تم بچپن سے ان کے قریب رہے۔ اور ان کی محبت کا یہ داغ اب جا کر تمہارے جسم میں پھوٹا ہے۔”

"ہاں ڈاکٹر انکل۔”

مکیش اچانک سارے درد اور تکلیف کو بھول کر زوروں سے ہنس پڑا۔ اسی لئے تو ڈاکٹر انکل… خود کشی کرنے کے بارے میں نہیں سوچ سکا۔ میں نے اب تک ہر طرح کی زندگی دیکھی۔ صر ف اس زندگی سے کٹا ہوا تھا۔ اب ان میں شامل ہو کر یہ ایڈونچر بھی جھیل لوں گا… وہ ہنسا اور بھکاریوں کے انداز میں گنگنایا… اللہ کا پیارا دے دے… بھگوان پیارا دے دے…

"گڈ… ویری گڈ میر ے بچے… اب آئے ہو زندگی کی طرف … تم نے اندر کے تمام سکھ اگر دوسروں کے نام لکھ دئیے ہیں تو اس دکھ سے گھبراتے کیوں ہو۔ میں کوشش کروں گا۔ اور نہیں ہوا بھی تو…”

بات ادھوری رہ گئی تھی۔

چپراسی نے آ کر خبر دی۔” ڈاکٹر صاحب کوئی آپ سے ملنا چاہتا ہے۔”

"نام؟ ” ڈاکٹر نریندر زور دے کر پوچھا۔

"سلیم۔”

"سلیم——” مکیش بڑبڑا کر اٹھ گیا تھا۔

"ٹھہر و…” ڈاکٹر نریندر نے غور سے مکیش کو دیکھا۔ اس درمیان وہ سلیم سے کئی بار مل چکے تھے۔ کچھ سوچتے ہوئے بولے…

"پریشان مت ہو مکیش …”

پھر چپراسی سے بولے۔”جاؤ اسے اندر بھیج دو۔”

 تھوڑی ہی دیر میں سلیم کمرے میں تھا۔ کمرے میں داخل ہوتے ہی سلیم مکیش کو دیکھ کر ٹھہر گیا۔

مکیش تم … میں تمہاری ہی خیریت پوچھنے آیا تھا۔”

مکیش ایک بار پھر گھبراہٹ اور پریشانی کے ملے جلے انداز میں کھڑا ہو گیا تھا۔

"رتو کیسی ہے ؟”

 "اب آیا ہے رتو کا خیال ؟”

سلیم کے لہجے میں درد ابھر آیا تھا۔” تم سے ہم نے زندگی کو نئے سرے سے جاننے کا راز پایا۔ اور تم اس معمولی سی بیماری سے گھبرا گئے۔ اور وہ بھی اس بیماری سے جس بیمار لوگوں میں تم نے صحیح طور پر انسانی عکس پایا تھا۔ تم ہی نے کہا تھا مکیش۔ ہندوستان صرف دلی، کلکتہ، بمبئی اور مدارس نہیں ہے۔ چھوٹے چھوٹے شہروں میں جاؤ، جہاں گھٹن ہے، غریبی ہے اور بجلی نہیں ہے۔ ہندوستان اور ہندوستانیوں کا صحیح چہرہ وہیں دکھائی دیتا ہے۔ اور اسی نسبت سے تم ان انسانی عکس کو کوڑھیوں میں دیکھنا شرو ع کیا تھا۔ اتنا سلجھا ہوا انسان بھی کبھی خود کو لے کر پریشان ہو سکتا ہے ! اس کا مجھ کو یقین نہیں تھا۔ میرے دوست مکیش، تمہارے اندر تو میں نے حضرت ایوبؓ کی کہانی کی صداقت دیکھی تھی۔

"رتو کیسی ہے؟” مکیش نے دوبارہ گمبھیر لہجے میں پوچھا۔

"بس موت نہیں آ رہی ہے۔ زندگی سے لڑنے کی کوشش کر رہی ہے۔ مجھے کئی بار بلوایا۔ شاید تمہاری خیریت میں ہی اس کی روح اٹکی ہوئی ہے۔ اُس سے نہیں ملو گے مکیش…”

مکیش نے سر جھکا لیا۔ اس کی سمجھ میں کچھ بھی نہیں آ رہا تھا…

یہ کیا ہے۔ زندگی کا یہ کیسا رخ ہے۔ اسے کیا فیصلہ کرنا چاہئے۔

"ڈاکٹر صاحب۔” سلیم اب ڈاکٹر نریندر سے مخاطب ہوا تھا۔ "میرا دوست اب اچھا ہو جائے گا نا ڈاکٹر۔”

"ہاں، کیوں نہیں۔”

ڈاکٹر نریندر مسکرائے۔ "تم بہت سارے دوستوں کی دعائیں جو ہیں۔ مگر زندگی سے لڑنے کی ہمت بھی تو ہونی چاہئے نا۔ مکیش شاید اب صرف اندھیرا دیکھنے لگا ہے… جبکہ اسے روشنی کی جستجو ہونی چاہئے۔”

"کیا ہم مکیش کو اپنے کیمپ میں …”

 "میری یہی خواہش ہے۔ وہاں وہ بہلتا رہے گا۔ اور صحیح طور پر اس کا علاج بھی ہوپائے گا۔”

سلیم نے مکیش کو دیکھا۔ مگر مکیش نے جیسے کچھ سنا نہیں …وہ تو کچھ اور ہی سوچ رہا تھا۔ کچھ اور ہی دیکھ رہا تھا۔ "کیا رتو مر جائے گی؟”

کیا وہ پاگل رتو جس نے اب بھی، اس حالت میں اس سے محبت کا دم بھر رکھا ہے۔

سلیم کچھ دیر تک سوچتا رہا پھر بولا…

"مکیش تم نے سنا۔ تم میرے ساتھ چل رہے ہو، کیمپ میں۔ وہ کیمپ تمہارا ہی ہے۔ تمہارا ہی قائم کردہ… آج خود ایک مریض بن کر تم دیکھ لو۔ اس کیمپ میں کیا ہو رہا ہے۔ کیا تمہیں خود پہ فخر نہ ہو گا کہ تم سچی آنکھوں سے سب کچھ دیکھ سکو گے، کوئی فیصلہ کر پاؤ گے۔”

مکیش کھڑا ہو گیا تھا۔

"ڈاکٹر صاحب ہم جا رہے ہیں۔” سلیم نے ہاتھ آگے بڑھایا۔

"میرے مہربان دوست، ہم پھر ملیں گے۔ میں کل ہی ایک ڈاکٹر کے روپ میں تمہارا کیمپ جوائن کر رہا ہوں۔ گڈ لک۔”

 "سب ملے گا۔ ہم ساتھ ساتھ چل رہے ہیں۔ گڈ بائی مکیش۔”

مکیش نے ہاتھ جوڑ لئے۔

دونوں ساتھ ساتھ چلتے ہوئے سڑک پر آ گئے۔

"رتو کیسی ہے ؟”

ذرا دیر بعد مکیش نے پھر کہا۔” اسے خبر کر دینا۔ میں کیمپ میں آ گیا ہوں۔ اب وہ مجھے دیکھ سکتی ہے… مجھ سے مل سکتی ہے۔”

پتہ نہیں کن جذبات کے تحت مکیش نے اپنے دونوں دانتوں کو ایک دوسرے پر دبایا تھا۔ شاید ایسا کرتے ہوئے وہ اندر کی تکلیف کوپی گیا تھا۔ رات کا سناٹا چاروں طرف پھیل گیا تھا۔ سلیم نے آگے بڑھ کر رکشا کر لیا۔ کچھ دکانیں کھلی تھیں۔ زیادہ تر بند ہو گئی تھیں۔ اکا دکا لوگ اب بھی سڑکوں پر گھوم رہے تھے۔ اور ان سے بے خبر دونوں رکشے پر پاس پاس بیٹھے کیمپ کی جانب بڑھ رہے تھے

(۱۶)

رتو کو ہوش آ گیا تھا۔ کسی انجانے خوف سے وہ اب تک لرز رہی تھی۔ مسز ارونا منہ ڈھانپے روئے جا رہی تھیں۔ ارمیلا نے چپ کرایا، تسلی دی۔ انورادھا بستر کے قریب کھڑی تھی۔ مینا کے بھی آنسو نکل آئے تھے۔ رتو کی محبت اور ماحول نے اسے بھی رونے پر مجبور کر دیا تھا۔ ایک طرف سر جھکائے انیل کھڑا تھا۔ اسے بھی رتو کی بیماری کی خبر مل گئی تھی۔ انل اور شاستری دھیمے لہجے میں ایک دوسرے سے باتیں کر رہے تھے۔ کچھ دیر پہلے شاستری جی کے زور دینے پر محلے کے ڈاکٹر کو بھی بلوا لیا گیا تھا۔ ڈاکٹر نے رتو کی کیفیت کو کسی خاص صدمے کا اثر بتایا تھا۔ ایسا صدمہ جس نے اس کے دل و دماغ پر گہرا اثر ڈالا تھا۔ ڈاکٹر نے یہ بھی کہا تھا کہ یوں تو یہ کوئی خاص مرض نہیں ہے، مگر دیکھئے تو بہت بڑا مرض ہے۔ اس طرح کا صدمہ دل پر گہرا اثر ڈالتا ہے۔ مریض کی ذہنی حالت ٹھیک نہیں رہ پاتی ہے۔ وہ یا تو پاگل ہو جاتا ہے یا پھر صدمہ اُس کی جان بھی لے لیتا ہے۔”

"کون سا غم ہے میری بچی کو۔”

مسز ارونا رونے لگی تھیں۔ شاستری جی نے سمجھایا تھا۔ ڈاکٹر نے دوائی دی انجکشن لگایا۔ اپنی فیس لی اور پھر چلے گئے۔

اور کچھ دیر بعد ہی رتو کو ہوش آ گیا تھا۔

وہ آنکھیں پھاڑے سب کو حیرت سے دیکھ رہی تھی۔ جیسے سب کچھ یاد کرنے کی کوشش کر رہی ہو۔ مہینوں کی بیمار لگ رہی تھی رتو۔ گال دھنسے ہوئے۔ آنکھیں حلقوں میں سمائی ہوئی۔ زرد رنگت۔

"کیا ہو گیا ہے میری بہن۔”

 انورادھا جھک گئی۔

رتو اُسے لپٹا کر رونے لگی۔

"پاگل ہو گئی ہو انو۔” شاستری جی نے ڈانٹا۔” یہ کیا نادانی ہے، کیا ہوا ہے میری بچی کو۔ دیکھنا ابھی ٹھیک ہو جائے گی۔”

 رتو نے غور سے دیکھا شاستری جی کو۔ کچھ بولنا چاہا، وہ کمزور اتنی تھی کہ آواز نہیں نکل پائی۔ پھر بھی کمزور ٹوٹے پھوٹے جملوں میں اتنا ضرور کہہ سکی۔

"انکل فی الوقت مجھے اور انو کو اکیلا چھوڑ دیجئے۔ کچھ باتیں کرنی ہیں۔”

 شاستری جی نے اشارہ کیا۔ آنکھیں پونچھتی ہوئی مسز ارونا نے رتو کے ماتھے پر ہاتھ رکھا۔ پھر سب دوسرے کمرے میں چلے گئے۔

"کیا بات ہے رتو۔” انو رادھا نے پریشان پریشان سے لہجے میں کہا۔

"میں شاید زیادہ نہ جی سکوں۔”

رتو کا لہجہ اداس تھا۔

"کیا بات کرتی  ہے میری بہن—” انو کی آواز بھرا گئی تھی۔

"ہاں انو… پتہ نہیں کیوں کچھ دنوں سے ایسا محسوس کرنے لگی ہوں میں۔ اور جب محسوس کرتی ہوں، دماغ اڑتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ نبض رکتی ہوئی جان پڑتی ہے۔”

 "تو اچھی ہو جائے گی میری بہن۔” انو کے آنسو بہہ چلے تھے۔

"نہیں اب کوئی خواہش نہیں رہ گئی۔ مکیش کے بغیر کوئی خواہش نہیں رہ گئی۔ وہ ایسا نہیں تھا انو۔ مگر پتہ نہیں کیوں اسے خود پر بھروسہ نہیں رہا۔”

 "تو بھروسہ رکھ، بھروسہ رکھ میری بہن۔”

 "اب بہت دیر ہو گئی ہے انو۔” رتو کی آنکھیں سرخ ہو گئی تھیں۔ "تو اس سے کہے گی نا۔ کہے گی نا کہ آخری وقت تک میں اس کی راہ تک رہی تھی۔ اُسے بھولی نہیں تھی۔ پاگل کہیں کا، اپنی بیماری کو پتہ نہیں کیا، سمجھ لیا۔ میں شاید جھیل نہیں سکوں گی۔ انو پیار کیا جسموں کا ملن ہے، بول نہ انو… پیار میں تو جسم ہوتا ہی نہیں ہے۔ وہ تو ایک بالکل ہی مختلف چیز ہے نا۔ کیا ضرورت ہے جسمانی بندھن اختیار کیا جائے۔ صرف ساتھ رہتے ہم۔ شادی بھی نہیں کرتے۔ بس دیکھتے رہتے، ایک دوسرے کو۔ پاس پاس رہتے۔ اس سے زیادہ میں نے کچھ تھوڑے ہی چاہا تھا۔ میں تو بس ہر پل اسے قریب دیکھنا چاہتی تھی۔ صرف پہلا لیسن دے سکا وہ۔ پہلا لیسن…”

 رتو رو رہی تھی… "پتہ نہیں کہاں چلا گیا مکیش۔ ایسی بھی کیا دوری کہ خبر تک نہ ہو، خیریت تک نہ معلو م ہو۔ ڈر رہی ہوں کہ کہیں سانس دھوکہ نہ دے جائے۔ اور مکیش کو نہ دیکھ سکوں۔

انو کے آنسو بھی تھم نہیں پا رہے تھے۔

"تو سمجھتی ہے، میں مذاق کر رہی ہوں۔ مجھے دیکھ نہ پگلی۔ ہڈیوں سے جھانکتی ہیں آنکھیں۔ صرف اسی کی راہ تک رہی ہیں جس نے مجھے جینے کا سلیقہ سکھایا تھا۔ اورسکھانے کے بعد خو د غائب ہو گیا۔ یہ بات پہلے اسی نے بتائی کہ ان کھلی کھلی رانوں اور پنڈیوں سے زیادہ بھلی اور اچھی لگتی ہیں … بیمار مریضوں کی کھلی ہوئی سوکھی ٹانگیں۔ اس لئے کہ وہ اشتعال پیدا نہیں کرتیں۔ اتنی اچھی اچھی باتیں بتائیں اس نے۔ پھر اپنے ہی جسم سے دھوکا کھا گیا۔ مجھے مکیش لادو انو… میرا مکیش لا دو انو…”

رتو کی ہزیانی سسکیاں گونج رہی تھیں … میں مر جاؤں گی انو… اُس کا بدن لرز رہا تھا…

"رتو دیدی۔” باہر سے آواز آئی۔

رتو ٹھہر گئی… کون ہے …سلیم ہے نا… میں نے اسے بھیجا تھا۔ مکیش کی خبر لانے کو، مگر کیا کرے گا بیچارا… وہ ملے گا تب نا… اس کی آنکھیں برس رہی تھیں … دستک دوبارہ ہوئی…”

 شاستری جی اور انیل دونوں نکل کر باہر آئے۔

مسز ارونا اور ارمیلا بھی کمرے میں آ گئی تھیں۔ مینا گھبرائی سی ایک طرف کھڑی تھی —سلیم ہانپتا ہوا اندر داخل ہوا۔ پہلے سب کے چہرے کو حیرانی سے پڑھا۔ پھر رتوکی طرف دیکھا جو امید افزا نظروں سے اس کی طرف دیکھ رہی تھی۔

"گھبراؤ مت دیدی۔ مکیش کا پتہ چل گیا ہے۔ وہ اپنے ہی کیمپ میں ہے۔ تم اسے دیکھ سکو گی دیدی۔ اس سے مل سکو گی۔”

(۱۷)

"کہاں ہے مکیش… میں اُس سے ابھی ملنا چاہتی ہوں۔ ابھی اسی وقت۔”

رتوہڑ بڑا کر اٹھ کھڑی ہوئی تھی۔ انو رادھا نے اسے سہارا دیا…” نہیں رتو ابھی نہیں۔ پلیز، لیٹ جاؤ۔ ہم کل صبح چلیں گے۔”

 "مگر میں ابھی ملنا چاہتی ہوں۔ کتنے دنوں سے اسے نہیں دیکھا۔”

 رتو کی آواز کانپ رہی تھی۔ قدموں میں لڑکھڑاہٹ پیدا ہو گئی تھی۔ وہ دوبارہ بستر پر بیٹھ گئی۔ اور سلیم کی آنکھوں میں جھانکتی ہوئی بولی۔” وہ اچھا ہے نا… وہ اچھا ہو جائے گا…”

 "ہاں دیدی… ہم لوگ جو ہیں۔ آپ فکر کیوں کرتی ہیں۔ وہ ایک دم اچھا ہو جائے گا… آپ بھی اچھی ہو جائیں گی…”

"میں بھی … ” رتو کے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل گئی تھی۔” کتنے دنوں کے بعد ملا ہے وہ۔ پھر یہ لوگ جانے کیوں نہیں دیتے۔”

 "ہم سب چلیں گے بیٹی۔ کل ہی۔ کل صبح۔”

 شاستری جی نے دلاسہ دیا…” اس وقت وہ سورہا ہو گا۔ کتنی رات ہو گئی ہے۔ ڈاکٹر نے اسے آرام کرنے کو کہا ہے۔ تجھے اچھا لگے گا اُسے سوتے میں جگاتے ہوئے…

"ہاں یہ تو ہے۔ اس وقت وہ سورہا ہو گا۔”

 رتو زیر لب مسکرائی…” کل ملوں گی،تم چلو نا انو…”

 "ہاں ہم سب چلیں گے رتو۔ہم سب چلیں گے میری بہن، میری پیاری بہن۔”

رتو دوبارہ لیٹ گئی تھی۔ انو اس کی پیشانی سہلا رہی تھی۔ اور رتو لڑکھڑاتی آواز میں بولے جا رہی تھی… وہ مل گیا ہے … اب میں چین سے مر سکوں گی بہن… کتنی خواہش تھی مرنے سے پہلے اسے دیکھنے کی… اپنے مکیش کو… پاگل ہے نا … جسم کو ہی سب کچھ سمجھتا ہے… جسم میں کیا رکھا ہے انو۔ کب تک سمجھتا رہے گا ایسا…جسم … کب تک اچھا لگتا ہے … ایک دن ہڈیوں کا ڈھانچہ بن جاتا ہے… میں بس اپنے مکیش کو دیکھنا چاہتی ہوں … اس کی آواز سننا چاہتی ہوں … ویسی ہی آواز… سنجیدگی سے بھری ہوئی… زندگی کی حرارت سے بھری ہوئی… کیا کل صبح ہی … میں مل سکوں گی… کل صبح ہو گی نا انو… کل میں اس سے مل سکوں گی نا!”

 "ہاں میری بہن…”

 انو دوسری جانب منہ کر کے سسکنے لگی تھی۔

"تو رو کیوں رہی ہے۔ کیا تو سمجھتی ہے میں نہیں مل سکوں گی۔”

 رتوکی کانپتی ہوئی آواز ابھری۔ انو خود کو روک نہیں پائی۔ بستر سے اٹھ کر دوسری جانب جا کر منہ چھپا کر زور زور سے سسک پڑی۔

"انکل انو کو سمجھائیے نا… وہ روتی کیوں ہے… اسے تو خوش ہونا چاہئے میرا مکیش مل گیا ہے۔”

 "پاگل ہے بیٹی وہ۔ نا سمجھ۔ کل ہم سب چلیں گے۔ مکیش اچھا ہو جائے گا بیٹی اور تو بھی اچھی ہو جائے گی۔ پھر وہی ہو گا جو تو چاہے گی…”

"کاش ایسا ہو، کاش۔”

 رتونے لمبی سانس لی۔ کمزوری نے اسے پوری طرح دبا دیا تھا… مینا بھی ہونٹ دابے ماحول کی درد ناکی کو جھیل رہی تھی… رتو یوں ہی دیر تک بڑبڑاتی رہی۔ پھر اسے شاید نیند آ گئی۔ ہلکے ہلکے خراٹے کمرے میں گونج گئے…

"ہم لوگ اب کل آئیں گے آنٹی۔”

 انو رادھا نے آنسو پونچھتے ہوئے کہا۔”رتو کو سونے دیجئے۔ ہم لوگ کل صبح میں پھر آ جائیں گے۔”

"تم رک جاؤ ارمیلا۔ ڈھارس ملے گی مجھے۔ میری بچی اگر رات میں جاگ گئی تو۔ اپنے ساتھ مجھے پاگل کر دے گی۔”

 "ٹھیک ہے۔”

ارمیلا وہیں رک گئی اور یہ چھوٹا سا قافلہ بوجھل قدموں سے گھر کی طرف روانہ ہو گیا۔ ان قدموں میں پہلے جیسی زندگی نہیں تھی۔ لیکن اب یہ قدم زندگی کی طرف لوٹ رہے تھے شاستری جی نے سوچا اچانک کی تبدیلیوں نے سب کچھ کتنا بدل دیا ہے۔ یقین نہیں آتا یہ وہی مسز ارونا ہیں، وہی رتو جو کل تک کلب، فلم اور ڈرامے کے علاوہ کچھ سوچتی ہی نہیں تھیں۔ زندگی کے اپنے انداز بھی اس سے الگ نہیں تھے۔ انہیں رنگوں میں رنگے ہوئے اور خود ان کا گھر— اُن کے پرانے سنسکار… سنسکار جو قہقہوں میں کھو گئے تھے۔ کبھی کبھی اٹ پٹا ضرور لگا۔ اور کبھی کبھی ہی کیوں … کتنی ہی بار… جب من میں کتنے ہی سوال سلگتے۔ ایک باپ ہوتے ہوئے ہر وقت خود سے سمجھوتے کی عادت پڑنے لگی…تنہائی میں کتنے ہی زخم جاگ اٹھتے۔ رام اوتار… تم سے محلے والے ملنے سے کتراتے کیوں ہیں۔تمہارے گھر کوئی نہیں آتا۔ سب ایک فاصلہ رکھتے ہیں۔ یہ چھوٹا سا شہر ہے رام اوتار… اور چھوٹا نہ بھی ہو تو… سنسکار نئے نہیں ہوتے … پرانے ہی ہوتے ہیں … زمانۂ قدیم سے چلے آرہے …تمہارے بچوں نے … گھر نے… نئی تہذیب کے شیش محلوں میں داخل ہو کر تمام پرانی رسموں کو خیر باد کہہ دیا ہے… کوئی معجزہ کب ہو گا— کب ہو گا…

اور یہ معجزہ ہی ہوا تھا۔

انیل کی آمد …

سارا گھر اچانک ہی تبدیلی کی دہلیز پر آکھڑا ہوا تھا۔

اور اس میں زیادہ حیرت انگیز تبدیلی ہوئی تھی رتو میں … اور رتو کی انوکھی تبدیلی کا بہت اثر پڑا تھا… اس گھر پر … شاید زندگی ایک نئے راستے میں داخل ہو رہی تھی۔

بھگوان بچائے میری بچی کو…شاستری جی کو بار بار رتو کا خیال آ رہا تھا۔ رتو کی حالت بار بار ان کی آنکھوں میں آنسو لادے رہی تھی۔

اور یہ دوسرے دن صبح کا واقعہ ہے۔

جب شاستری جی کی پوری فیملی رتو کے یہاں پہنچ گئی تھی۔ رتو کے بدن میں جیسے خون کا ایک قطرہ نہیں رہ گیا تھا۔ مگر ہونٹوں پر وہی مکیش کا نام تھا۔ مسز ارونا گھبرائی ہوئی تھیں …بھگوان بھلا کرے… پتہ نہیں کیا ہونے وا لا ہے۔

اور ادھر صبح کی روشنی میں بستر پر لیٹا ہوا ایک نوجوان ہونقوں جیسے انداز میں سلیم کو گھور رہا تھا…

وہ بیمار ہے … وہ بستر سے اٹھ نہیں سکتی۔ وہ زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہی ہے۔ پھر بھی وہ یہاں آئے گی۔ اس وقت صبح میں … تم ہوش میں تو ہو سلیم… تم نے رات کے سناٹے میں کیوں نہیں بلایا… صبح کے وقت مجھے ڈر لگتا ہے… اپنے اس گھنانے جسم سے… اور اس کا احساس مجھے جرم کی دنیا میں پہنچا دیتا ہے… میں کچھ بھی کر سکتا ہوں … قتل، خون رتو یہی کچھ دیکھنے آئے گی… اپنے بوائے فرینڈ کا سڑا ہوا جسم … کہہ دینا مکیش کے پاس کچھ بھی سلامت نہیں رہا۔”

کیمپ میں صبح کی روشنی کے ساتھ ہی زندگی لوٹ آئی تھی… الگ الگ بستر پر خوش گپیوں میں مصروف بوڑھے، جوان جسم والے … آرام سے بیٹھے ہوئے … پتہ نہیں زندگی کی کن رعنائیوں کا تذکرہ کر رہے تھے…

ایک آدمی کہہ رہا تھا۔ "شاید حکومت سے جلد ہی منظور ی مل جائے۔ چیف منسٹر کا خط آ گیا ہے۔ انہوں نے ہمارے اس قدم کو پوری طرح سراہا ہے۔”

"اسکا مستحق مکیش ہے۔ اس اکیلی ذات نے ہی یہ سب کچھ کیا ہے۔”

 اسکول کالج میں پڑھنے والے لڑکے اور لڑکیوں کی پوری فوج خدمت خلق کا جذبہ لئے ہوئے کیمپ کے آس پاس چکر لگا رہی تھی… ڈاکٹر نے قاعدے قانون اور بچاؤ کی تمام باتیں انہیں سمجھادی تھیں۔ اور سب سے بڑی بات اب ان بیمار سڑے ہوئے جسموں سے ان کے اندر نفرت نہیں تھی بلکہ محبت کرنا جان گئے تھے۔

کالج میں پڑھنے والا ایک لڑکا اپنی گرل فرینڈ سے کہہ رہا تھا۔ "کتنی عجیب بات ہے۔ ہے نا۔ مکیش بھیا نے یہ حفاظتی کیمپ تیار کیا۔ کیا معلوم تھا… یہ کیمپ وہ دوسروں کے لئے نہیں بلکہ خود اپنے لئے قائم کر رہے ہیں اور ایک روز مریض بن کر خود انہیں بھی یہ کیمپ جوائن کرنا ہو گا… بیچارے مکیش بھیا…”

دوڑتے ہوئے قدموں کی چاپ اچانک ٹھہر گئی تھی۔ رکشے پر تقریباً جھولتی ہوئی ایک لڑکی اور سہارا دیئے ہوئے انو نظر آئی۔ اس کے ٹھیک پیچھے ایک دو اور رکشے بھی تھے —دوڑنے بھاگنے والی کتنی ہی نظریں رکشے پر بیٹھی ہوئی ان لڑکیوں کو پہچان گئی تھیں …

"وہ آ گئی ہے…” سلیم کہہ رہا تھا۔

"آ گئی ہے … ” مکیش بڑ بڑا رہا تھا۔ کیا ضروری ہے ملنا۔ ملے بغیر چین نہیں آتا۔ وہ ٹھیک سے مرنے بھی نہیں دیتی… آخر کیا دیکھنا چاہتی ہے مجھ میں۔ میرے جسم میں …”

 "مکیش …!”

 ایک ٹھہری ہوئی آواز نے اچانک اس کی سوچ کا سلسلہ منقطع کر دیا تھا— لڑکے بھاگ کر کرسی لے آئے تھے۔ دو کرسیاں پاس پاس رکھ دی گئی تھیں۔ انو رتو کو سہارا دیتے ہوئے کرسی پر بیٹھ گئی۔ مکیش پاگلوں کی طرح رتو کو دیکھ رہا تھا… رتو بھی پاگلوں جیسی ہو رہی تھی بڑا عجیب منظر تھا۔ دونوں جیسے ایک دوسرے کے لمس کو حاصل کرنے کے لئے بے چین ہو رہے تھے۔ مگر کچھ سماجی قانون بھی ہوتے ہیں۔ بیماروں کے اپنے کچھ دائرے بھی ہوتے ہیں … رتو کی آنکھیں برسات بن گئی تھیں … چادر میں منہ دئیے بلک بلک کر رونے لگا تھا مکیش…

"سمجھاؤ سمجھاؤ اسے…” شاستری جی کہہ رہے تھے۔

رتو کچھ بول نہیں رہی تھی۔ سکتہ میں آ گئی تھی… آنکھیں پھیل گئی تھیں … صرف ایک ٹک … مکیش کے چہرے پر پھیلتے اجلے اجلے داغوں کو پڑھ رہی تھی… کبھی آنکھیں گھما کر اس کی آنکھوں میں جھانکتی …اس کے سراپے کا جائزہ لیتی… پھر اچانک کیا ہوا… کہ وہ انو کے بازوؤں میں جھول گئی …

"رتو بے ہوش ہو گئی ہے۔”

 انو چلائی۔ شاستری جی دوڑے …

جوان لڑکے لڑکیاں حرکت میں آ گئے تھے…

"رتو ہوش میں آؤ… ہوش میں آؤ…

"میری پیاری بہن … تجھے کیا ہو گیا ہے…”

 مینا رو رہی تھی… رتو دی … چلئے یہاں سے۔ یہاں سے چلئے… مکیش نے اپنے پورے وجود کو چادر میں چھپا دیا تھا۔ چادر کے اندر سے اس کے اٹ پٹے جملے باہر آرہے تھے…”

 "دیکھ لیا نا… تشفی ہو گئی۔ بڑی آئی تھیں۔ دیکھنے والی ان سڑے ہوئے انگوں کو… کیا ملا… ہوش کھو بیٹھیں نہ تم… چلی جاؤ یہاں سے۔ چلی جاؤ … میں کسی کو بھی دیکھنا نہیں مانگتا…”

 ڈاکٹر اشوک دوڑتے ہوئے آئے … "یہ آپ لوگ کیا کر رہے ہیں۔ یہاں کیوں بھیڑ لگائے ہیں … اس طرح کے مریضوں سے ہمدردی مت جتائیے… یہ پاگل ہوسکتے ہیں۔ وحشی بھیڑئیے بن سکتے ہیں … آپ لوگ جگہ چھوڑ کر بیٹھئے۔ اچھا ہو گا… اسے اکیلا چھوڑ دیجئے۔ ہم سب سے پہلے اسے نارمل کرنا چاہتے ہیں۔ اور اس بات کا احساس کہ یہ اچھا ہو جائے گا اور جب تک یہ احساس اس کے اندر پیدا نہیں ہو گا اور جب تک خود سے لڑنا نہیں سیکھے گا… زندگی کو جینے کی کوئی امنگ اس کے اندر پیدا نہیں ہو گی اس لئے پلیز…”

"ٹھیک ہے ڈاکٹر ہم جا رہے ہیں۔”

 رتو کو غش آ گیا تھا…وہ آنکھیں پھاڑے نا سمجھوں کی طرح ایک ٹک خلاء میں دیکھے جا رہی تھی… مکیش کی بدبداہٹ خاموشی میں بدل گئی تھی —رتو نے جاتے وقت کسی طرح کی مزاحمت نہیں کی۔ شاید مدافعت کے لئے ان کے اندر اب کچھ باقی نہیں رہ گیا تھا… جیسے رکشے پر بے سہاروں کی طرح اسے لادا گیا تھا۔ ویسے ہی سہارا دے کر اسے گھر پہنچا دیا گیا۔

آنکھیں ہلکے ہلکے بند ہو رہی تھیں۔ پانی کے قطرے بھی حلق سے نیچے نہیں جا رہے تھے۔ مسز ارونا پاگلوں کی طرح اپنی بچی کو ہلا رہی تھیں۔

"ہوش میں آ… ہوش میں آ میری بچی…”

 شاستری جی کے بدن میں جیسے کاٹو تو خون نہیں۔ انو سناٹے میں آ گئی تھی۔

رتو کی دونوں آنکھیں خلا میں تاک رہی تھیں۔

مینا ایک تیز چیخ مار کر رو پڑی۔

"ڈاکٹر ایک تیز چیخ مار کر رو پڑی۔

شاستری جی کانپتے ہوئے بستر پر بیٹھ گئے تھے۔ اور انو رادھا ہچکیاں لے کر رو پڑی تھیں۔

انیل نے نبض دیکھی… پھر لرزتا ہوا اٹھ کھڑا ہوا…” کوئی فائدہ نہیں … رتو ہم سب کو چھوڑ کر جا چکی ہے۔”

ٹھیک  اسی وقت ہچکیاں لیتے ہوئے کہہ رہے تھے… میری بچی کی آتما شاید مکیش میں اٹکی ہوئی تھی۔ مکیش سے مل لیا نا… اب چین پڑ گیا ہے۔ میری بچی کو…”

انو کی زوردار سسکیاں پورے کمرے میں گونج رہی تھیں …

"میری بہن … میری پیاری بہن…”

"زندگی ایک عجیب سی بھول بھلیاں ہے ا نو… کچھ سمجھ میں نہیں آتی زندگی۔ ہم کیوں بھیجے گئے ہیں۔ اس مختصر سے عرصے میں ہمیں کیا کارنامہ انجام دینا ہے۔ کبھی کبھی بھولے سے کسی موڑ پر کوئی اپنا مل جاتا ہے اور مصلحت کے ہاتھ ہمیشہ کے لئے ہمیں اس سے جدا کر دیتے ہیں …

انیل گم سم شاید یہی سوچ رہا ہے…

رتو، بہن … تم چلی گئیں …

تم نے چھوٹے سے شہر میں نقاب کی ضرورت کبھی محسوس نہیں کی… وہ نقاب جو دوسرے اوڑھتے ہیں۔ اپنا آپ چھپانے کے لئے…

تم نے تو بہت کچھ سکھایا۔ ابھی بہت کچھ سیکھنا تھا تم سے…

اپنی دوست، اپنی بہن کی شادی تک تو انتظار کیا ہوتا…

رتو سوگئی ہے…

بولتے بولتے ایک زندگی سو گئی ہے…

درو دیوار اور ماحول میں جاگ گئے ہیں … تیز تیز بولتے ہوئے آنسو… پھر ایک ان جانی سی دستک ابھری ہے…

"رتو دی…”

 یہ سلیم ہے… روتی ہوئی آنکھوں نے سب کچھ کہہ دیا ہے سلیم سے… ہانپتا ہوا سلیم رتو کے بستر کے قریب کھڑا ہو گیا ہے…

مکیش بھیا کو کیا جواب دوں گا میں، رتو دی… کتنا کم ساتھ تھا تمہارا۔ کاش کچھ اور دن توساتھ رہی ہوتی…

انجانے سفر پر نکل گئی ہے رتو… آخری سفر کی تیاریاں شروع ہو گئی ہیں …

بوجھ بوجھ آنکھوں سے سارے عزیز اپنی پیاری رتو… رتو دی کو الوداع کہہ رہے ہیں … نم اور سسکتی آنکھوں سے … بلکتے ہونٹوں سے…

جاؤ … الوداع… الوداع…

صبح نے شوخیاں چرائی تھیں تمہارے دم سے … تم نے یہ شوخیاں واپس لے لیں …

الوداع… الوداع…

شام ایسے کتنے منظروں کو چرا لیتی ہے…

رتو چلی گئی…

کانپتا لرزتا ہوا سلیم مکیش کو ڈھونڈتا ہوا کیمپ میں آ گیا… مگر نہیں۔ اپنے بستر پر موجود نہیں ہے مکیش … مکیش کہیں موجود نہیں ہے…

مکیش کہاں چلا گیا… کہاں چلا گیا مکیش…

اس کے نوجوان ساتھی… دوست، احباب … ڈاکٹر سب کے سب اُسے ہر جگہ تلاش کرتے پھر رہے ہیں۔ مگر مکیش نہیں ہے۔ مکیش کہیں نہیں ہے…

زندگی کا یہ باب بند ہوتا ہے۔ کتنے برس بیت گئے۔ مکیش کی کوئی خبر نہیں ملی۔ رتو کی کہانی اب بھی بہت سے گھروں میں دہرائی جاتی ہے۔ اور ہر ایسے موقع پر مکیش کی یاد، سب کو خون کے آنسو رونے پر مجبور کر دیتی  ہے… مکیش اس دن کے بعد صرف ایک دن دیکھا گیا۔ پتہ نہیں کس شہر میں اور کس نے دیکھا۔ مگر کانوں کان یہ خبر عام ہو گئی۔ کوڑھیوں کے قافلے میں سرجھکائے سڑے ہوئے جسم والے، الجھے ہوئے گندے میلے بالوں والے ایک آدمی کو دیکھا گیا تھا… برسوں پہلے …

اور یہ آدمی مکیش تھا…

شہر شہر پھرنے والا یہ قافلہ پتہ نہیں اب کون سے شہر میں تھا… کون سے مقام پرتھا … مگر ا ٓج بھی شہر والے یاد کرتے ہیں کہ زندگی نے کبھی کس طرح سے کروٹ لی تھی۔ حکومت نے مکیش کی یادگار ضرور قائم کر دی۔ مگر اس کے قائم ہونے میں اس بڑھیا کا ہاتھ ضرور تھا جس کا دن رات آج کل پوجا پاٹ میں صرف ہوتا ہے۔ سفید ساڑی میں ملبوس… کھوئی کھوئی رہنے والی یہ عورت مسز ارونا ہو سکتی ہیں۔ کل محض خواب و خیال کی بات تھی…

آٹھ سال گزر گئے—

اس درمیان وقت نے جانے کتنی ہی کروٹ لی۔ شاستری دنیا چھوڑ کر چلے گئے۔ مینا جوانی کی حد میں داخل ہو گئی۔ انیل کا بزنس چمک گیا۔ دھریندر کپور بھی موت کی آغوش میں سوگئے۔ تبدیلیوں نے زندگی کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا…

اور پھر انیل کو ایک خط ملا۔

پرانی کہانیوں نے جیسے خود کو پھر سے ایک بار جوڑنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ یہ خط رگھوبیر کا تھا۔ انیل کے ہاتھوں میں چند لمحوں تک یہ خط کانپتا رہا۔ تحریر جیسے بجلی گراتی رہی۔

کتنا بڑا آدمی بن گیا رگھو بیر۔ فرطِ جذبات کے تحت اس نے خط کو چوم لیا اور ایک بار پھر پڑھنا شروع کیا۔

"جان سے پیارے دوست انیل!

"یاد ہو گا تم سے بچھڑتے وقت میں نے کہا تھا۔ ایک بار زندگی میں کم از کم ملاقات ضرور ہو گی۔ مگر ملاقات اس قدر جلد ہو گی مجھے اس کی امید نہ تھی۔ مگر میں اس خوب صورت موقع کی تلاش میں تھا جب خود کو اچانک تمہارے سامنے لا کر سرپرائز دیتا۔ شاید اب وہ موقع مل گیا ہے۔ تمہارے ہی شہر میں ( جو کبھی اپنا بھی تھا) میں ایک ضروری کانفرنس اٹینڈ کرنے آ رہا ہوں۔ جہاں مجھے اپنی تازہ کتاب کے بارے میں تقریر کرنی ہے۔ اس پروگرام کے سب سے اہم مہمان تم ہو گے۔ میں تمہارے اندر آج سے آٹھ سال پہلے والے انیل کا عکس تلاش کرنا چاہتا ہوں۔ اس درمیان اگر تمہاری شادی ہو گئی ہو، بچے ہو گئے ہوں … تو انہیں بھی لانا … تاکہ گزرے ہوئے آٹھ سالوں کے فاصلے کو کم کیا جا سکے۔ آؤ گے نا…”

یہ خط انیل کے پرانے گھر کے پتے پر لکھا گیا تھا۔ جہاں آج کل شیامو رہ رہا تھا۔ شیامو نے بنک میں سروس کر لی تھی…

انیل شدت ِ جذبات سے کانپتا ہوا چیخ پڑا۔

"انو… انو یہاں آنا… میں تمہیں سرپرائز دینا چاہتا ہوں۔” اور کچھ ہی دیر بعد مسکراتی ہوئی انو اس کے سامنے کھڑی تھی۔

وقت کتنی جلدی بدل گیا تھا۔

دروازے پر اس کی ننھی سی بٹیا شانتی مسکرا رہی تھی۔

(۱۸)

انیل نے آگے بڑھ کر شانتی کو گود میں اٹھا لیا۔ جذبات کی شدت نے اُسے ناچنے پر مجبور کر دیا تھا۔

"تو جانتی ہے میری ننھی سی بٹیا رانی۔ تیرے انکل آرہے ہیں …”

"انکل آرہے ہیں۔” شانتی کی پیاری سی توتلی آواز لہروں کی طرح فضا میں گونج گئی۔

"وہاں، انکل۔ تیرے لئے مٹھائیاں لائیں گے، ٹافی لائیں گے۔”

"ا تنی ساری۔” شانتی نے دونوں ہاتھوں کو پھیلایا…

انو باہر نکل کر آئی۔ کیا بات ہے۔ اتنے خوش نظر آرہے ہو۔ کون ٹافیاں لائے گا؟”

"رگھوبیر آ رہا ہے۔”

انیل مسکرایا۔ میرا بچپن کا دوست رگھوبیر۔ سچ تو یہ ہے انو کہ زندگی نے مجھے آج جو بھی دیا ہے وہ سب رگھوبیر کی وجہ سے ہے۔ ہماری اس نئی خوب صورت زندگی پر رگھوبیر کی مہر لگی ہوئی ہے۔پتہ نہیں کیسا ہو گا وہ۔ کتنا بدلا ہو گا… مگر مجھے یقین ہے سب کچھ پہلے جیسا ہو گا۔”

"تمہیں یقین ہے وہ تمہیں پہچان جائے گا؟”

"تم یقین کی بات کرتی ہو۔ تم نے شاید رگھوبیر کو جانا نہیں ہے۔ وہ عام دوستوں سے الگ ہے انو، بدلتا ہوا، قہقہے لگاتا ہوا۔ زندگی کوسروں میں جاننا میں نے اسی سے سیکھا۔ لیکن ایک دن اس نے یہ ساز توڑ دیا۔ اکیلے رخصت ہو گیا۔ اب آٹھ سال کی طویل غیر حاضری کے بعد لگتا ہے کہ ایک بار پھر گزرے ہوئے وقت کو آواز دی جائے۔ دیکھنا تم سے مل کر کتنا ہوش ہو گا وہ۔ لکھا ہے اگر شادی ہو گئی ہو اور بچے بھی ہو گئے ہوں تو انہیں بھی لے آنا۔”

"لے آنا سے مطلب ؟” انو نے حیرت سے پوچھا۔

"مطلب یہ کہ کل اس کی کتاب پر یہاں ایک کانفرنس ہو رہی ہے۔ وہ اسی تقریب میں شرکت کرنے آیا ہے۔”

انو نے مذاق اڑایا—” اس کا مطلب وہ خاص طور پر تم سے ملنے نہیں آیا۔”

"ا ڑا لو  مذاق—انیل ہنسا… وہ جب ملے گا تو پرانا سارا حساب بے باک کر دے گا۔”

 وہ کیوں نہیں ملا اس کے پیچھے کوئی وجہ بھی تو ہو سکتی ہے۔

"انکل کب آئیں گے؟”

ننھی سی شانتی انل کی گود میں مچل گئی تھی۔

"کل ہی… کل آئیں گے بیٹی۔ ہم انہیں گھر لے آئیں گے۔”

"ہم بھی چلیں گے پاپا۔”

"نہیں اس وقت آپ اسکول جائیں گی۔ جب آئیں گی تب انکل سے پیاری پیاری باتیں کریں گے…”

شانتی دوڑتی ہوئی کھیلنے میں مصروف ہو گئی۔

"کبھی کبھی سب کچھ ایک خواب لگتا ہے۔ لگتا ہے نا … ایسے میں جانے کہاں سے اچھلتی کودتی قہقہے لگاتی ہوئی رتو آ جاتی ہے… ممی اور پاپا کے کھوئے ہوئے قہقہے پھر سے کانوں میں بجنے لگتے ہیں … زندگی نے کتنا کچھ چھینا ہے اور کتنا کچھ دیا ہے… انیل ایک بات پوچھوں۔ کیا جو گزر گیا ہے، اُسے بھول جانا چاہئے…”

"نہیں انو… ایسا ہوا تو ایک دن لوگ ہمیں بھی تو بھول سکتے ہیں۔ ہماری داستان کو… ” انیل مسکرایا… گزرے ہوئے کو ہمیشہ ساتھ لے کر چلنا چاہئے۔ ہفتہ میں کم از کم ایک دن ایسا ضرور ہونا چاہئے۔ جب گزرے ہوؤں کو ہم سب بیٹھ کر یاد کریں … پرانی یادوں کو تازہ کرتے ہوئے پرانے دنوں میں لوٹ جائیں … مجھے سب کچھ یاد آ رہا ہے۔ اپنا اور رگھوبیر کا بچپن…”

جیسے تیسے رات کٹی۔ صبح ہوتے ہی انیل تیاری میں لگ گیا۔ وہ ایک اچھا باتھ روم سنگر تو تھا ہی، مگر آج کچھ زیادہ موڈ میں تھا۔ انورادھا اس کے بچپنے پر مسکرا پڑتی تھی۔

"بالکل بچے ہو گئے ہو تم۔”

 "اب تیار بھی ہو جاؤ۔ کارڈ پر لکھا ہے، دس بجے تک تمہارے دوست کی تقریر شروع ہو جائے گی۔”

"بس نہا دھوکر ابھی تیار ہوتا ہوں۔”

پھر جلد ہی دونوں تیار ہو گئے۔ شانتی اسکول کی گاڑی میں اسکول روانہ ہو گئی۔ دس بجے تک یہ میٹنگ ہال میں پہنچ گئے۔ تمام کرسیاں کھچا کھچ بھر گئی تھیں … پورا ہال لوگوں کی بات چیت سے گونج رہا تھا۔ بات چیت کے لئے سب کے پاس بس یہی موضوع تھا اور وہ تھا— پروفیسر رگھوبیر کی تازہ کتاب—” ہم سب مجرم ہیں ” ہر شخص اس کتاب کی دل کھول کر تعریف کر رہا تھا۔ بھیڑ کے بیچ سے ہوتے ہوئے دونوں آگے بڑھے۔ اور آگے کی دو کرسیوں پر جم گئے۔ سامنے ہی اسٹیج بنا ہوا تھا۔ انیل کی نظریں بھیڑ میں پتہ نہیں کسے تلاش کر رہی تھیں … اور اچانک اُس کے چہرے پر چمک آ گئی تھی۔

"وہ رہا… وہ رہا میرا دوست رگھو بیر…”

انو نے غور سے گمبھیر گمبھیر نظر آنے والے اس پروفیسر کو دیکھا۔

اور پھر دونوں تقریب کے شروع ہونے کا انتظار کرنے لگے۔

(۱۹)

دس بجے کارروائی شروع ہوئی۔ سب سے پہلے گلے میں پھولوں کا ہار ڈالنے کی رسم پوری ہوئی۔ ایک بڑی سی مالا رگھوبیر کے گلے میں ڈالی گئی۔ اور اتنی شاندار تخلیق، اس کی اہمیت اور سرکار کے ذریعہ دیئے گئے اعزاز کے لئے انہیں مبارکباد پیش کی گئی۔ پھر درمیان سے ایک شخص اٹھا۔ انہوں نے مائیک سنبھالا اور مسکراتی آنکھوں سے بیٹھے ہوئے تمام لوگوں پر مسکراتی ہوئی نظر ڈالتے ہوئے گویا ہوئے۔

"حاضرین جیسا کہ آپ لوگوں کے علم میں ہے۔ یہ تقریب پروفیسر رگھو بیر کے اعزاز میں رکھی گئی ہے۔ پروفیسر صاحب کی یہ کتاب صرف ادب کے میدان میں ہی نہیں بلکہ عام انسان کے جذبات کو سچے طور پر سمجھنے کے لئے بھی خاص اہمیت کی حامل ہے۔یہ کتاب ہمارے لئے اس لئے بھی اہمیت رکھتی ہے کہ اس میں جرم، جرم کی نوعیت اور ان وجوہات پر خوب صورتی سے روشنی ڈالی گئی ہے۔ جہاں ہمارے یقین کو تقویت پہنچتی ہے کہ جرم بظاہر کوئی چیز نہیں ہے۔ در اصل یہ نام جرم ہی غلط ہے۔ کوئی بھی پیدائشی مجرم نہیں ہوتا۔ بلکہ حالات، واقعات اور حادثات اسے مجرم بنا دیتے ہیں۔ جس سے اس شخص کی ذہنی رو متاثر ہوتی ہے۔ اور اس کے سوچنے سمجھنے کا انداز بدل جاتا ہے۔ وہ غلط زاوئیے سے سوچنے لگتا ہے۔ اور اصل میں اسی غلط زاوئیے سے سوچنا۔ اُسے مجرم بنا دیتا ہے۔ میں پروفیسر رگھوبیر کی اس حقیقت پسندی کی پر زور تائید کرتا ہوں اور حکومت سے اپیل کرتا ہوں کہ لفظ مجرم لغت اور ڈکشنری سے نکال دیا جائے۔ قانون کی کتابوں سے ہٹا دیا جائے۔ اس کا نفسیاتی تجربہ یقینا خوش آئند مستقبل کی ضمانت بن جائے گا۔چونکہ اس کتاب میں جیسا کہ پروفیسر صاحب نے لکھا ہے، بہت سی باتیں انہوں نے اپنے تجربوں اور ذاتی زندگی سے بیان کی ہیں۔ اس لئے ان کی زبانی ہم لوگ خود یہ جاننا چاہیں گے کہ وہ کون سے ایسے واقعات اور حادثات تھے۔ جو اس کتاب کو لکھنے کی وجہ ثابت ہوئے… میں اب آپ کا زیادہ وقت نہیں لوں گااور اسی کے ساتھ میں پروفیسر رگھوبیر کو مائیک پر آنے کی دعوت دیتا ہوں۔”

اسی کے ساتھ پروفیسر رگھو بیر اپنی جگہ سے اٹھے۔ ہال تالیوں کی گڑگراہٹ سے گونج اٹھا۔ پروفیسر آہستہ آہستہ چلتے ہوئے مائیک پر آئے۔ ایک نظر ہال کی طرف ڈالی۔ پھر نظریں جھکا لیں،جیسے اپنے جذبات کو زبان دینے کی کوشش کر رہے ہوں … پھر آہستہ آہستہ کہنا شروع کیا۔

میرے دوستو!

"آپ نے جو مجھے عزت دی ہے۔ محبت دی ہے۔ سب سے پہلے میں تہہ دل سے اس کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔” ہم سب مجرم ہیں اور ہم سب مجرم نہیں ہیں۔” کے بارے میں جیسا کہ میرے قابل دوست نے قبل عرض کیا۔ واقعی یہ کتاب ایسی ہے کہ ایک طرح سے آپ اسے میری خود نوشت یا سوانح حیات بھی کہہ سکتے ہیں۔ میں نے اُن تمام تر حالات کا، جن کا شکار میں خود رہا ہوں اور حالات کے بنائے گئے جذباتی موڑ کا بغور مطالعہ کیا ہے کہ یہ عجیب و غریب حالات اور انوکھے موڑ قدم قدم پر میرے ساتھ رہے ہیں۔ اور جب میں نے دیکھا اور محسوس کیا کہ میرے جیسا ایک شخص کیا کیا سوچ سکتا ہے۔ اور کیا کیا عمل کر سکتا ہے اور اس کے کیا کیا نتائج بر آمد ہوسکتے ہیں، تو میں نے اپنی اس کیفیت کو لفظی جامہ پہنانے کا ارادہ کر لیا۔ اگر میں اختصار سے کام نہ لوں تو آپ کو وہ پورا قصہ سنا دوں جس نے میری زندگی میں یہ رنگینی بھری ہے تو آئیے گزرے ہوئے دنوں کا دھندلا سا خاکہ میں آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں …

 "آج آپ نے مجھے عزت دی ہے۔ مجھے صدارتی کرسی بخشی ہے۔ مگر یقین جانئے کل تک میں ایسا سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ کل میرے سامنے ایسی کوئی روشنی نہیں تھی جو مجھے گمراہی کے راستے سے موڑ سکتی اور مجھے ایک عجیب ا عزاز دیا ہے، کل میرے کارناموں پر وہ مجھے جیل بھی بھجوا سکتی تھی۔ اور اسی لئے میں نے جرم اور جرم کا نفسیاتی تجزیہ شروع کیا۔ اور بالآخر اس خیال پر پہنچا کہ جرم کے نام کی جو دہشت ہمارے دلوں میں پید اکی گئی ہے وہ دہشت ہی غلط ہے۔ وہ خوف جو ہمارے دلوں پر مسلط کیا گیا ہے۔ وہ خوف غلط ہے۔ بچپن سے لے کر اب تک کے گزرے ہوئے واقعات کا اگر آپ بھی جائزہ لیں تو آپ کو اپنے آپ میں کہیں نہ کہیں ایسی کوئی جھلک ضرور نظر آئے گی جو کسی نہ کسی موڑ پر آپ کو بھی ایک مجرم ٹھہرائے گی۔ پھر کیا آپ مجرم ہو گئے؟ نہیں نا۔ تو جس طرح یہ لفظ آپ کو چوٹ پہنچاتا ہے ویسے ہی یہ لفظ قید خانوں اور جیل خانوں میں ڈالے گئے ان آدمیوں کو بھی چوٹ پہنچاتا ہے۔ جنہیں مجرم کہا گیا ہے۔ مگر رفتہ رفتہ وہ اس لفظ کے عادی ہو جاتے ہیں۔ لفظ مجرم اس طرح ان کے دماغ میں بھر دیا جاتا ہے کہ وہ اس لفظ کے قید خانے سے باہر نہیں آپاتے۔ اسی لئے میں نے سرکار سے یہ اپیل کی ہے اور آپ تمام لوگوں سے بھی میرے یہی درخواست ہے کہ آپ اس لفظ کو ہٹا کر دیکھیں، کچھ سمجھنا سیکھیں پھر دیکھیں۔ یہ تو پانیوں کی شکلیں ہیں آپ جس برتن میں ڈھال دیں گے۔ آپ یہ ’مجرم‘ وہی شکل اختیار کر لیں گے۔

"میری کہانی ان مجرمانہ ذہنیت رکھنے والوں سے زیادہ الگ نہیں ہے۔ یہ اور بات ہے کہ میں مجرم ہوتے ہوتے رہ گیا اور اچانک جاگ گیا۔ تعلیم کے دوران ہی پتا جی میرا ساتھ چھوڑ گئے۔ کسی طرح میں نے ایم۔ اے۔ کیا اور بیکاری مقدر میں لکھ دی گئی۔ اس وقت میرا صرف ایک ہی دوست تھا اور وہ تھا انیل۔ اپنے ماحول اپنے حالات سے جتنا فکر مند میں رہتا تھا اتنا ہی فرسٹرینڈ انیل بھی تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ میں جرم کی سطح پر خود کو کافی حد تک مضبوط کر چکا تھا۔ اور اس کے اندر یہ شے آہستہ آہستہ پلنی شروع ہوئی تھی۔ یعنی اس کا مادہ اس کے اندر بھی تھا۔ ایسا اس لئے میں کہہ رہا ہوں کہ بہت ساری باتیں جو میں آگے بتانے والا ہوں، اس سے یہ حقیقت آپ پر بھی واضح ہو جائے گی۔

"تو میں کہہ رہا تھا کہ ان دنوں ہم دونوں بے کار تھے۔ کندھے پر تھیلا ٹانگے، ہوائی چپل گھسیٹتے صبح میں گھر چھوڑ دیتے اور شام ڈھلے بوجھل قدموں سے نا مراد واپس لوٹ آتے۔ میرے گھر میں دو زندہ لاشیں پڑی تھیں۔ ایک بیمار ماں دوسری حالات کے چوراہے پر کھڑی اپاہج بہن—گھر میں ہر وقت ویرانی اور تاریکی کی حکومت رہتی۔ میں اس تاریکی سے خوف کھاتا تھا۔ اندھیرے کا یہ جنگل مجھے برابر ڈستا رہتا تھا۔ اور مجھے غلط کرنے کی ترغیب دیا کرتا تھا۔ میرے چاروں طرف اندھیرا ہی اندھیرا تھا۔ اور اندھیرے کے سوا مجھے کچھ بھی نظر نہیں آتا تھا۔ یعنی آپ کہہ سکتے ہیں میرے سامنے صرف اندھیرے کا پہلوDARK SIDEتھا اور میں اسی ڈارک سائیڈ کو دیکھ رہا تھا۔

ایسے ہی ایک موقع پر میرے شہر میں ایک واردات ہوئی۔ یوں تو اس واردات کی کوئی زیادہ اہمیت نہیں ہے، مگر ہمارے لئے اس کی اہمیت بہت زیادہ تھی ایک نوجوان اسٹوڈنٹ مارا گیا تھا۔ اس وقت ہم نئے نئے کالج کے نوجوانوں پر انٹلکچول ہونے کا بھرم سوار تھا۔ ہم بڑی بڑی باتوں میں الجھتے، ملک کے فیوچر کی بات کرتے۔ میرے ذہن میں اس حادثے سے جو بات پیدا ہوئی وہ کافی سنگین تھی۔ ملک ہمیں مستقبل اور فیوچر کہتا ہے۔ اور حالات اس فیوچر کو قید خانے میں زنجیریں پہنا دیتے ہیں۔ سڑکوں پر مار ڈالتے ہیں۔ اور جب اس سے آگے غور کرنا شروع کیا تو میرا سامنا خوفناک اندھیرے سے ہوا۔ اور اس خوف ناک اندھیرے نے نوکری کا خیال چھین لیا۔ اور ایک جرم کا خیال اندر پیدا کر دیا۔ جو اسی ڈارک سائڈ یعنی اندھیرے کی دین تھی۔ میں انیل کے پاس آیا۔ اس کے کمرے کی ویرانی دیکھی، درو دیوار سے ٹپکتی ہوئی وحشت دیکھی۔ اور اسے بتایا کہ ایسی ہی وحشت میرے گھر میں بھی ڈیرا ڈالے ہوئی ہے۔ میں نے اس سے کہا کہ آؤ، اپنے اپنے گھر میں زندگی کی روح پھونکیں۔ پھر میں نے اسے اس بات کا قائل کیا کہ فلم اور ڈراما زندگی سے خاص تعلق رکھتے ہیں۔ کتنے ہی واقعات اس سے بھرے پڑے ہیں۔ ہم شہر کی کسی امیر لڑکی کو اغوا کریں گے اور اس کے باپ سے روپیہ وصول کریں گے…” رگھوبیر اتنا کہہ کر کچھ دیر کے لئے ٹھہرا۔

حاضرین کو جیسے سانپ سونگھ گیا تھا۔ سب کے سب سناٹے میں آ گئے تھے۔

"ہاں تو میرے دوستو! کچھ ایسا ہی موڑ دیا تھا زندگی نے۔ حالات نے اور وقت نے۔ اور تب میں نے انیل کا تجزیہ کیا۔ اس کے اندر اور باہر کا بغور مطالعہ کیا۔ اس کی نبض پر ہاتھ رکھا، اسے ٹٹولا تو معلوم ہوا کہ مجرم تو اس کے اندر بھی چھپا بیٹھا تھا۔ بس سامنے آنے کی دیر تھی۔ پھر میں نے ان تمام واقعات کی ورق گردانی شروع کی۔ جو ہماری بے کاری سے اپجے تھے، پیدا ہوئے تھے۔ انیل اور میرا ساتھ ساتھ اخبار پڑھنا، جرائم کے واقعات پر میری مٹھیوں کا سخت ہونا… انیل کا ٹھنڈا پن… سرد لہجہ … مگر کبھی کبھی اس کی آنکھوں میں جھانکنے پر ان واقعات کا رد عمل ضرور ملتا۔ یعنی وہی وحشت وہی دہشت جو اندھیرے میں دیکھنے پر مجبور کرتی ہے۔ جو جرم کو پناہ دیتی ہے۔ وہاں ضرور پاتا۔ اس سے میرے اس خیال کو تقویت ملی اور میں نے انیل کو اپنے جرم کا ساجھی دار بنا لیا پھر آپ یقین کریں، جو کچھ ہوا وہ بہت عجیب تھا۔ بہت دلچسپ، بہت تعجب خیز…

"یعنی ہم نے شہر کے دور دراز علاقے میں ایک ایسی پناہ گاہ ڈھونڈ لی، جہاں تین چار روز کے لئے کسی بچے کو اغوا کر کے رکھا جائے۔ پھر کرائے پر ایک گاڑی ٹھیک کر لی، کیونکہ سنیما اور اس طرح کی ہزاروں کتابوں کے مطالعے نے مجھے سب کچھ سکھا دیا تھا۔ اور اغوا اور اس کی نوعیت کے بارے میں سب کچھ جان رہا تھا۔ آپ کہہ سکتے ہیں، میں اسی اندھیرے کے دل کے اندر  اس تیزی سے داخل ہو گیا تھا۔ جس سے ایک مجرم میرے اندر بھی پلنے بڑھنے لگا تھا۔ اور اب وہ آہستہ آہستہ میرے اندر کے کمزور آدمی پر فتح پائے جا رہا تھا۔ وہ مجھے نئی نئی چالاکیوں سے آگاہ کرتا۔ ساتھ ہی خطرات سے بچنے کی نئی نئی راہوں سے متعلق بھی بتاتا جاتا۔ میں سچ مچ ایک خطرہ بن گیا تھا۔ اور انیل کا ڈر پوک وجود میرے ساتھ تھا۔ پھر میں نے ہمت جتائی۔ اور اپنے ارادے کو عملی جامہ پہنانے کا فیصلہ کر لیا۔ ہم نے گاڑی ٹھیک کی۔ ڈرائیونگ میں جانتا تھا۔ میری مسکراہٹ اڑ گئی تھی مگر پھر بھی مسکرانے کی حتی الامکان کوشش کر رہا تھا۔ گاڑی میں ہی چلا رہا تھا۔ مگر انیل کے دل کی دھڑکنیں مجھ سے زیادہ تیز تھیں۔ پھر ہم نے گاڑی ایک پارک کے قریب روک لی۔ پارک میں اس وقت کوئی نہ تھا، مگر ایک چھوٹی سی بچی بیٹھی تھی۔ جو اپنے لباس سے کسی اچھے بڑے گھر کی معلوم ہو رہی تھی۔ ہم اس چھوٹی بچی کے پاس گئے، سوچا تو یہ تھا کہ کچھ بہلا پھسلا کر یا اس کے ممی ڈیڈی کے اچانک ایکسی ڈینٹ(Accident) کی خبر سنا کر اسے گاڑی میں بٹھا لیں گے یا پھر اُسے چاقو دکھائیں گے جواس وقت احتیاط کے طور پر میری جیب میں موجود تھا۔ مگر آپ حیرت کریں گے کہ ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ اس کے بر خلاف اس چھوٹی سی لڑکی نے عجیب سی مسکراہٹ سے ہماری طرف دیکھا۔ پھر باہر کھڑی ہوئی گاڑی کو اور پھر —ہماری امید سے الگ یہ کہہ کر اس نے ہمیں حیران کر دیا کہ آپ ہمیں اغوا کرنے آئے ہو نا… تو چلو… میں تیا رہوں …

"یہ دوسرا موقع تھا جب میرے اندھیرے کے دل DARK SIDE پر کسی فرشتے نے ہتھوڑا پٹکا۔ میرے ساتھ ساتھ انیل بھی سناٹے میں آ گیا تھا۔ دس بارہ سال کی بچی کا خلاف توقع یہ جواب حیرت میں ڈال گیا تھا۔ اس سے پہلے کہ میرے چہرے پر اس کی معصومیت سے نکلے ہوئے نشتر کار د عمل ہو، میرے اندر کے گھپ اندھیروں سے اُس پر قابوپالیا۔ آس پاس اس وقت کوئی بھی نہیں تھا۔ وہ لڑکی بغیر ڈر اور خوف کے میرے ساتھ ساتھ چلتی ہوئی گاڑی میں بیٹھ گئی۔ انیل نے تعجب سے میری طرف دیکھا۔و وہ نقلی شہر کی اس انوکھی بیماری سے جس میں یہ لڑکی مبتلا ہو چکی تھی۔ اب تک واقف نہیں ہوا تھا۔ جب کہ مجھے اس حادثے کے فوراً بعد ہی اس بیماری سے اچھی خاصی واقفیت ہو چکی تھی۔

"تب میں نے اپنے دل کو ٹٹولا اور حیران ہوا کہ میرے اندر تو’مسٹر جیکل‘ بھی تھے۔ یہ الگ بات تھی کہ مسٹر جیکل چھپے ہوئے تھے اور ہائیڈ سامنے آ گیا تھا۔”

پروفیسر رگھو بیر تھوڑا ٹھہرے۔ پھر حاضرین کو مخاطب کر کے بولے:

"حاضرین! آپ نے بھی آر ایل اسٹیونسن کی شہرہ آفاق تصنیف ڈاکٹر جیکل‘ اور ’مسٹر ہائیڈ‘ کا مطالعہ ضرور کیا ہو گا۔ ڈاکٹر جیکل ایک دوا ایجاد کرتا ہے۔ جس کو پینے کے بعد وہ شیطان بن جاتا ہے۔ ایک خاص مدت گزرنے کے بعد وہ پھر انسان بن جاتا ہے۔ مگر دوا اپنا رنگ دکھاتی ہے۔ اور وہ پوری طرح ہائیڈ کے قبضے میں آ جاتا ہے۔ اور شیطان ہو جاتا ہے۔ ہر دور میں انسان پر شیطان کا غلبہ رہا ہے اور ایک وقت آتا ہے جب حادثات اور واقعات ملبے میں دب کر مر جاتا ہے اور شیطان بچ جاتا ہے۔

"تب میں نے اپنے بارے میں سوچا۔ اپنا جائزہ لیا تو اندھیرے کا ایک خوفناک چہرہ میرے وجود سے ہٹتا ہوا محسوس ہوا۔ اور اس دور ہوتے ہوئے اندھیرے میں، میں نے دھندلا سا اپنا چہرہ دیکھا۔ اور مطمئن ہوا کہ میرے اندر کا مسٹر جیکل ابھی پوری طرح سے مرا نہیں تھا۔ مگر ہائیڈ نے اس پر پوری طرح قابو پا لیا تھا۔ پھر میں نے اُس لڑکی کے متعلق سوچنا شروع کیا۔ جیسے جیسے سوچتا تھا ویسے ویسے میری حیرت میں اضافہ ہوتا جاتا تھا۔ صاف ظاہر تھا یہ لڑکی اس گھر سے تعلق رکھتی ہے۔ جہاں ڈرامے اور فلم کو بہت دخل ہے جہاں کا ہر انداز ڈرامائی ہے۔ گھر میں جینے کا طریقہ اور تھا۔ باہر کا اور تھا۔ یہاں تک کہ دونوں جگہ کا لہجہ بھی مختلف تھا۔ صاف ظاہر تھا کہ اندر اور باہر یہ دو طرفہ زندگی جی رہے ہیں۔ در اصل ہماری زندگی کی اس ڈرامائیت کے مجرم وہ واہیات ڈرامے اور فلم ہیں۔ وہ لغو بے سر پیر کی کہانیاں ہیں۔ جو زندگی کو سمجھنے نہیں دیتیں۔ سیکس، فسادات اور قتل و غارت کے بیچ عام ذہن سے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ختم کر دیتی ہے اور ذہن پراگندہ ہو جاتا ہے۔ ہم اپنے انداز نہیں بدلتے۔ بلکہ اپنے صحیح انداز کو زخمی کر لیتے ہیں۔ ہم اپنی عادتیں نہیں بدلتے۔ بلکہ عادتوں پر مصنوعیت کے لیبل لگاتے ہیں۔ ڈارک سائیڈ کا ایک پہلو یہ مصنوعیت بھی ہے۔ اور یہ بھی جرم کا ایک خطر ناک رخ ہے۔”

 حاضرین چپ تھے۔ ماحول میں سناٹا بکھرا ہوا تھا۔ کیا جو کچھ پروفیسر رگھوبیر کہہ رہے تھے، وہ سب سچ ہے۔ سب یہی سوچ رہے تھے… اور اگر سچ ہے تو یہ سچ کس قدر خوفناک ہے۔ کس قدر حیرت انگیز …

پروفیسر رگھوبیر ذرا ٹھہرے۔ گزرے ہوئے واقعات جیسے ایک ایک کر کے ان کی آنکھوں میں دوڑ رہے تھے۔ اپنی اٹھتی چڑھتی سانسوں پر قابو پاتے ہوئے انہوں نے آگے کہنا شروع کیا۔

"تو دوستو! میں کہہ رہا تھا کہ ہمارے جینے کا یہ مصنوعی انداز، یہ ڈرامائی طریقہ بھی مجرم ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ یہ جرم ہم بڑے قرینے سے اور سلیقے سے انجام دے رہے ہیں۔ اور بغیر سمجھے بوجھے اس قسم کی سازش کا شکار ہو جاتے ہیں۔ یہ بھی نہیں سوچتے کہ ہماری آنے والی نسلیں ہماری ان عادتوں اور بیماریوں سے کس قدر گناہ کے دلدل میں پھنسی جا رہی ہیں۔ وہ لڑکی جس کا اغوا کیا جا رہا تھا۔ آرام سے تھی۔ جب کہ ہم ڈرے ہوئے تھے، سہمے ہوئے تھے۔ ہے نا عجیب بات۔ اور اس سے بھی عجیب بات اس وقت ہوئی، جب ہم نے شہر کے اُس کے دور دراز والے علاقے کے خالی مکان میں جو بطور کرایہ ہم نے حاصل کیا تھا، گاڑی کھڑی کی۔ لڑکی چپ چاپ اتری۔ اندر داخل ہوئی۔ اور اندر داخل ہونے کے بعد اس کا پہلا سوال تھا۔ آپ ہمیں پیار کریں گے نا … مگر میں دو آدمیوں سے ایک وقت میں پیار کیسے کروں گی…؟

"یہ دوسری چوٹ تھی۔ مجھ پر پاگل پن سوار ہو گیا۔ میں سمجھ گیا۔ لڑکی سچ مچ فلمی اور جاسوسی قسم کے رسائل و جرائد کی ماری ہوئی ہے۔ گھر سے کافی آزاد ہے۔ لوٹ مار، کرائم، ریپ تک کے واقعات اس نے سن رکھے ہیں۔ پڑھ رکھے ہیں۔ اور ان واقعات نے اسے بری طرح متاثر کیا ہے۔ تو حاضرین ہم ایک جرم یہ بھی کرتے ہیں کہ اس طرح کے رسالوں کو پڑھتے ہیں۔ جبکہ غور سے دیکھئے تو یہ بھی جرم ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ اپنی اس ادا کو جرم کون کہے۔ لڑکی معنی خیز مسکراہٹ کے ساتھ ہماری طرف دیکھ رہی تھی۔ تب انیل نے عجیب نظروں سے میری طرف دیکھا۔ اور کنارے لے جا کر بولا… اسے واپس کرنا ہو گا رگھوبیر اسے واپس کرنا ہو گا… اس نے لڑکی سے نام پوچھا۔ وہ شہر کے ایک معزز شخص کی چھوٹی لڑکی تھی۔ انیل نے اس کی فطرت میں کیا محسوس کیا۔ میں نہیں کہہ سکتا۔ مگر میں اس چھوٹی سی لڑکی میں اُن گھنگھروؤں کے سرتال سن رہا تھا جو کل اُسے کسی بھی موڑ پر پہنچا سکتے تھے، اور پھر جیسے میں اندر ہی اندر کانپ گیا۔ انیل نے پھر کہا لڑکی کو واپس کرنا ہو گا۔ اور تب میں بالکل ہی کمزور پڑ گیا۔ کیونکہ اس وقت تک میرے اندر کا تھوڑا سا اچھا آدمی سامنے آ گیا تھا۔ بغیر کچھ کہے میں وہاں سے نکل گیا اور دوڑتا ہوا شہر کی گلیوں میں کھو گیا۔

"جرم اور جرم کے بارے میں میری تفتیش یہیں سے شروع ہوتی ہے۔ میری طرح جرم سے لڑ کر بھاگنا ہر شخص کی قسمت میں نہیں ہوتا۔ نہ ہی اتنے عجیب و غریب واقعات ہر شخص کی زندگی میں آتے ہیں۔ میرے ساتھ جو کچھ ہوا وہ سچ مچ حیرت انگیز تھا۔ تب میں نے چہروں کو اور حالات کو پڑھنا شروع کیا۔ مجھے ہر شخص میں انیل نظر آتا۔ جہاں جرم چھپا ہوا بیٹھا تھا۔ اور میرے اکسانے پر سامنے آ گیا تھا۔ ہم زندگی جیتے ہوئے بہت سی چھوٹی چھوٹی باتیں محسوس نہیں کر پاتے۔ بعض دفعہ بولا ہوا معمولی سا جھوٹ بھی جرم بن جاتا ہے۔ زندگی میں ایسے مواقع کی کمی نہیں جب ہمیں کسی نہ کسی راز کی پردہ پوشی کے لئے جھوٹ کا سہارا لینا پڑتا ہے اور اپنی نظر میں مجرم بن جانا پڑتا ہے اور جیسا کہ میں نے اپنے اس تحقیقی مضمون میں بیان کیا ہے کہ جرم کی کوئی عمر نہیں ہوتی۔ بس جس دن سے عقل آئی، ہتھکنڈے شروع ہو جاتے ہیں۔ مگر مجرم بننے کی داغ بیل بچپن اور نوجوانی کے بیچ کی سرحد ہوتی ہے۔ جہاں یہ معمولی ہتھکنڈے ایک خطرناک رخ اختیار کر لیتے ہیں۔ اور یہیں پر سنبھلنا پڑتا ہے۔ کوئی واقعہ اور کوئی حادثہ اچانک اسے ایک ذہنی جھٹکا لگاتا ہے۔ اور اسے جرم کی دنیا سے دور لے جاتا ہے… اور کوئی حادثہ جرم کی دنیا کے نزدیک لے جاتا ہے۔

"تو دوستو! میں آپ کو بتا رہا تھا کہ اغوا کی گئی لڑکی کی عجیب عجیب باتیں اس واقعے کے بعد بھی مجھے پریشان کرتی رہیں۔ اور میری یہ دوڑ دھوپ جاری تھی اور ایک دن جب میں گھر آ گیا تو دیکھا میری بوڑھی ماں میرا ساتھ چھوڑ کر جا چکی ہے۔ اور میری بہن کا بستر خالی ہے۔ میں جان گیا کہ میری بہن بڑی خود دار ہے۔ اس نے یہ سمجھا ہو گا کہ جب میں اپنا جیب خرچ پوری طرح نہیں نکال پاتا ہوں تو پھر اس کا بوجھ کیسے سنبھال سکتا ہوں۔ ماں کا حادثہ اپاہج بہن کے سامنے پیش آیا ہو گا۔ اور وہ یہ گھر چھوڑ کر چلی گئی۔ یہ ایک امتحانی وقت تھا۔ میں ذہنی کشمکش میں الجھا ہوا تھا۔ شاید میں مجرم بن ہی جاتا۔ ماں کی آخری رسوم سے فارغ ہو کر سب سے پہلا مسئلہ پیٹ کا آ کھڑا ہوا۔ بوجھل قدموں سے کسی فیصلے کے بعد میں اٹھ کھڑا ہوا۔ یہ ایک بڑی سی دکان تھی جہاں کئی لوگ کھڑے تھے۔ قاب میں مٹھائیاں سجی تھیں۔ کیک رکھا تھا۔ میں یہ جاننا چاہ رہا تھا کہ میری موجودگی کو دوکان دار جرم سمجھ رہا ہے یا نہیں۔ مگر نہیں۔ اس کا برتاؤ ایک عام خریدارجیسا تھا۔ اس بیچ میں نے ایک ترچھی نظر ایک کیک پر ڈالی اور اسے اٹھا لیا۔ کچھ دیر کھڑا رہا پھر سیڑھیوں سے نیچے اتر گیا۔ نیچے اترنے کے بعد پھر دکان دار کا جائزہ لیا۔ اس نے شاید مجھے دیکھا تھا۔ اور دیکھنے کے بعد بھی اپنے کام میں جٹا ہوا تھا۔

"یہ میرے لئے ایک حیرت انگیز انکشاف تھا۔ میں جو اس وقت ایک مجرم تھا۔ کیک چرانے کا مجرم۔ مگر دکاندار نے مجھے مجرم نہیں سمجھا تھا۔ بس یہی سوال تھا اور محض اس سوال نے مجھے مجرم نہیں سمجھا تھا۔ بس یہی سوال تھا اور محض اس سوال نے میری زندگی بدل دی تھی۔ میرے سامنے کئی روشن رخ کھول دئیے تھے۔ جیسے اب اسی سوال کے جواب کے طور پر میں نے اپنے لباس کا جائزہ لیا۔ صاف کرتا پائجامہ، اچھی ہائیٹ، شکل بھی بری نہیں۔ یعنی کسی بھی زاوئیے سے میں مجرم نہیں لگ رہا تھا۔ اور اسی لئے دکاندار کو بھی میں مجرم نہیں لگا۔ دوسرا سوال دکاندار کی خاموشی کا تھا۔ اس نے اگر مجھے دیکھا تو ٹوکا کیوں نہیں ؟ اس کا آسان جواب یہ تھا کہ اس نے بھی اپنے طور پر دو رائیں قائم کی ہوں گی۔ پہلی تو یہ کہ میں اچھے گھر کا لڑکا ہوں۔ ہوسکتا ہے، کیک کا پیسہ پہلے ہی دے دیا ہو۔ اور اسے یاد نہ رہا ہو۔ اور اسی لئے اس نے ٹوکنا مناسب نہیں سمجھا ہو اور دوسرا نظریہ اس سے بھی زیادہ مستحکم تھا کہ شہر ہی کتنا سا ہے اور لے دے کر اچھا سا مارکیٹ بس یہی ہے۔ سوچا ہو گا کہ ابھی پیسے نہیں ہیں تو بعد میں دے دوں گا۔ آخر رہنا تو اسی شہر میں ہے… اور بہت سے لوگ بھی ایسا کرتے ہیں۔ اور ان سوالوں کا جواب پانے کے بعد میں نے پھر اپنے اندر کے اندھیروں پر غور کرنا شروع کر دیا۔ یہ ہماری کتنی بڑی بدنصیبی ہے کہ ہم ہر واقعے کا تاریک پہلو ہی سامنے رکھتے ہیں۔ جیسے کسی عزیز کے آنے کی خبر سنتے ہیں اور وہ مقررہ وقت پر نہیں پہنچ پاتا ہے تو فوراً یہ بات دل میں آتی ہے کہ گاڑی تو نہیں الٹ گئی۔ کوئی حادثہ تو نہیں ہو گیا۔ کوئی شخص بیمار پڑتا ہے اور اچھا ہونے میں کئی روز لگ جاتے ہیں۔ تو یہ سوال اٹھتا ہے کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ یہ نہیں بچے گا۔ جب کہ ہمارے سامنے اس تاریک پہلو کے علاوہ روشن پہلو بھی ہوتے ہیں مگر ہم ہمیشہ اس تاریک پہلو کے بارے میں سوچنے کے عادی رہے ہیں۔ یہ ہماری سب سے بڑی کمزوری ہے۔ اور یہ کمزوری بھی ایک طرح کا جرم ہے۔ اور یہ جرم انجانے میں کب کیسے ابھر جائے، آپ سوچ بھی نہیں سکتے ہیں۔

"تو میرے عزیز دوستو! میں آپ کو بتا رہا تھا کہ اپنے اندر شیطان کے پوری طرح چھا جانے کے باوجود میرے اندر ایک شریف آدمی بھی تھا۔ جو روشن پہلوؤں کے بارے میں غور کر رہا تھا۔ تب میں نے ذہنی سطح پر بلند اور مضبوط ہونے کا فیصلہ کیا۔ سب سے بیمار چیز نفس ہوا کرتی ہے۔ میں نے نفس کو اپنے اختیار میں کرنے کا فیصلہ کیا۔ نفس کی کمزوری ہی اندھیرے کی بنیاد ڈالتی ہے۔ اور جب میں نے اپنی ذہنی سطح کی مضبوطی پالی تو نفس میرے اختیار میں ہو گیا اور پھر میں نے محسوس کیا کہ میں نے صرف نفس کو ہی اپنی مٹھی میں قید نہیں کیا ہے بلکہ ایسا کرتے ہوئے میں نے اپنے مستقبل کو بھی اپنی مٹھی میں قید کر لیا ہے۔ اب میرا مستقبل میرے ساتھ ساتھ چلے گا۔ نفس کو قابو کرنے کے لئے میں نے کئی بار خود کی آزمائش کی۔ پیٹ کو بھوک کا غلام نہیں بنایا۔ میں بھوکا رہتا اور اپنے احساس کو ڈانٹتا رہتا کہ میں بھوکا نہیں ہوں، میرا پیٹ بھرا ہوا ہے۔ پھر نیند میرے اختیار میں ہوئی، اپنی تساہلی مٹائی۔ جب چاہتا جاگ جاتا۔ اب میں ذہنی طور پر صحت مند تھا۔ ایم۔ اے تھا ہی۔ کالج میں خالی جگہ دیکھ کر لیکچر شپ کے لئے کوشش کرنا شروع کی۔ ٹیوشن کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔ اپنے آپ کو ٹوٹنے نہیں دیا۔ رات کا سناٹا اور تلخی مٹانے کا سامان کتابوں نے کیا۔ غرض کہ میں اب مکمل طور پر صحت یاب ہو چکا تھا۔ اور پھر ایک شام گھر کے دروازے پر میری نوکری کی منظوری کا پروانہ رکھا ہوا تھا۔

"لکچرر بن جانے کے بعد بھی میں اپنے ذہن سے ان واقعات کی گرد نہیں مٹا سکا۔ مجھے مجرموں سے دلچسپی پیدا ہو چکی تھی۔ کیونکہ میں جان رہا تھا، بظاہر یہ لفظ ہی غلط ہے۔ حالات کی مختلف شکلیں ہوا کرتی ہیں۔ تقریباً ہر انسان کے اندر ایک وحشی چھپا ہوتا ہے۔ جو اچھے برے کی تمیز نہیں کرتا۔ کسی کو بھی ڈانٹ دینا، مار دینا، کسی پر بھی غصہ اتارنا۔ حالات کی یہی شکلیں ہوا کرتی ہیں۔ جو جرم کا سبب بنتی ہیں۔ آپ کسی بھی امیر آدمی سے ملئے یا کسی بھیانک قسم کے مجرم سے ملئے۔ بھلے ہی آپ کے ساتھ برتاؤ جیسا بھی ہو لیکن ایک قدر مشترک سب میں ہے۔ چاہے غریب ہو، چاہے امیر۔ سب ہنستے ہیں اور یہ ہنسی فطری ہے۔ سب روتے ہیں اور یہ رونا فطری ہے۔ فطری اور اٹل قانون کی پیروی سب کرتے ہیں۔ اور سب کبھی نہ کبھی بالکل ایک جیسی باتیں کرتے ہیں۔ در اصل ہم میں سے کوئی بھی مجرم نہیں ہے۔ اور سب کے سب مجرم ہیں۔

"کتاب لکھنے کے دوران میں نے اس طرح کے کئی تجربے کئے۔ میں ایک قیدی سے ملا۔ میرا برتاؤ نرمی اور محبت کا تھا۔ اور تب مجھے اس کے بھولے پن کا بڑا عجیب احساس ہوا۔ وہ خطرناک قسم کا قیدی بالکل کسی نادان بچے کی طرح مجھے اپنے عشق کی کہانی سنانے لگا۔ میں تعجب سے دیکھ رہا تھا۔ محض میرے اچھے برتاؤ کی وجہ سے وہ اپنی راز کی باتیں مجھے بتا رہا تھا میں نے اس کی پیٹھ تھپتھپائی اور چلا گیا۔ دوسرے دن میں نے ایک دوسرا تجربہ کیا۔ اسی قیدی سے ملا، اور برا برتاؤ کیا۔ بے رحمانہ برتاؤ کیا، شاید اسے میرے اس برتاؤ کی توقع نہ تھی وہ اچانک کل کا بھولاپن بھول گیا۔ اور اس کی آنکھوں میں خون ا تر آیا۔ کل میرے اچھے برتاؤ کی وجہ سے وہ مجرم نہیں تھا۔ مگر آج میرے خراب رویئے نے اس کے اندر کے مجرم کو زندہ کر دیا تھا۔

” اس طرح کئی قیدیوں سے ملا اور میرا یہ نفسیاتی تجربہ بے حد کامیاب رہا۔ اب میں نے ایک تجربہ اپنے قابل دوست پر کیا۔ وہ دوست مجھ سے آج بھی بدظن ہیں۔ مگر میری کتاب کی اُن سطور کو پڑھنے کے بعد ممکن ہے ان کا غصہ دور ہو جائے۔ میرے پروفیسر بن جانے کے بعد میرے سب سے قریبی عزیز وہی تھے۔ بڑی محبت سے پیش آتے تھے۔ بڑے خوش اخلاق تھے۔ میں نے ان کا بھی ہلکا سا امتحان لینے کا ارادہ کیا۔ پھر ایک دن بال بکھرائے ہوئے پاگل پن کی حالت میں ان کے یہاں پہنچ گیا۔ وہ باہر ہی تشریف رکھتے تھے۔ میں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ اُن پر جھوٹ، فریب اور تہمتوں کی بارش شروع کر دی۔ انہوں نے کچھ دیر تک تو یہ سب برداشت کیا۔ پھر ان کا چہرہ غصہ سے سرخ ہو گیا۔ اور وہ گندی گندی گالیوں پر اُتر آئے— مارنے پیٹنے کو تل گئے۔ مجھے گیٹ آؤٹ کہا۔ میں گیٹ سے باہر آ کر خوش تھا۔ اس لئے کہ میں نے اپنے پیارے دوست کے اندر کے مجرم کو دیکھ لیا تھا۔

"تو میرے دوستو! یہی تمام تر واقعات تھے جنہوں نے مجھے یہ کتاب لکھنے پر مجبور کیا۔ جو مجھے بار بار اکیلے میں اس کتاب کو لکھنے پر مجبور کرتے رہے… مجھ سے کہتے رہے کہ جرم کی دنیا پر کچھ لکھو… جو غلط سوچ ہماری ذہنیت کو ڈس رہی ہے اس پر لکھو… جرم کی اس حقیقت کو بتاؤ کہ جرم بظاہر کوئی چیز نہیں ہے…مجرموں سے محبت سے پیش آنا سیکھو۔خطا سر زد ہونے کے بعد بھی وہ آدمی ہے۔ کبھی بھی، کوئی بھی اچانک کا حادثہ اسے پیچھے لوٹنے پر مجبور کرسکتا ہے۔ جس طرح ایک اچھے شخص کے اسباب چھین لو اور ستاؤ تو وہ برائی اور گناہ کی طرف مائل ہوسکتا ہے۔ اس کے لئے ہم سب کے اندر دونوں رخ ہر وقت موجود رہتے ہیں۔ اچھا رخ اور برا رخ، دونوں برابر ہیں۔ ا یک ہی دن میں سینکڑوں بار دونوں رُخ اپنی جھلک دکھاتے ہیں۔ اور چھپ جاتے ہیں۔ دونوں رخ ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ مگر ہم اپنے سماج، اپنے گھر کی وجہ سے اُس برے رخ کو دبا پانے میں کسی قدر کامیاب ہو جاتے ہیں۔ ہم ڈاکہ تو نہیں ڈال سکتے۔ چوری تو نہیں کر سکتے۔ مگر اپنے بال بچوں پر، سامان بیچنے والوں پر کسی وقت غصہ یا دل کی بھڑاس اُتار کر اندر کے آدمی کی شناخت ضرور کر لیتے ہیں، یہی برا رخ ہوتا ہے جو ہمیشہ ہمارے اندر موجود رہتا ہے اور ہم کئی بار اُس پر چاہنے کے باوجود بھی قابو نہیں رکھ پاتے ہیں۔ مجرموں کو بھی لفظ مجرم سے دور کر کے پیار و محبت کے خوب صورت ماحول میں اگر اس طرح کے تجربے کئے جائیں تو آپ دیکھیں گے کہ بھیانک سے بھیانک مجرم پر یہ تجربہ کس قدر کامیاب رہے گا۔

"بس یہی چند باتیں تھیں جو میری اس کتاب کو لکھنے کی وجہ ثابت ہوئیں۔ آپ نے مجھے حوصلہ دیا۔ مجھے محبت دی، میری کتاب پڑھی اس لئے میں ایک بار پھر آپ تمام لوگوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور اس جملے کے ساتھ آپ سے اجازت لیتا ہوں کہ ایک بار پھر آپ میری بات پر غور کریں اور یہ لفظ اپنی قانون کی کتاب سے نکال کر دیکھیں …

"بس مجھے اتنا ہی کہنا تھا؛

شکریہ … شکریہ…”

(۲۰)

پروفیسر رگھوبیر ایک گھنٹے کی لمبی تقریر کے بعد اپنی کرسی پر بیٹھ گئے اور پورا ہال زور دار تالیوں کی گڑگڑاہٹ کے ساتھ ایک بار پھر گونج اٹھا۔ پانچ سات منٹ تک بجتی ہوئی تالیاں پروفیسر کی شاندار تقریر کا استقبال کرتی رہیں۔ چند ضروری کارروائیوں کے بعد نشست کے خاتمے کا اعلان کر دیا گیا۔ تالیوں کی تیز آواز کمرے میں پھیل رہی تھی۔ ا نیل انورادھا کی جانب دیکھ رہا تھا۔ جو مسکراتی آنکھوں سے اس کی طرف سوالیہ نشان بنا رہی تھی۔ اس کی چمکتی آنکھیں رگھوبیر کی قابلیت کی تعریف کر رہی تھیں۔ ان آنکھوں میں جانے کتنے ہی سوال پوشیدہ تھے۔ جو انیل نے انورادھا کو نہیں بتائے تھے۔ بھیڑ چھٹنے لگی تھی۔ اسٹیج کے پاس پروفیسر رگھوبیر کو گھیرے ہوئے بہت سارے لوگ محو گفتگو تھے…

"آؤ انو… یہی وقت ہے پروفیسر سے ملنے کا…”

 انیل نے مسکراتے ہوئے اپنی بیوی کی طرف دیکھا، وہ ساڑی سمیٹتی ہوئی اٹھ کھڑی ہوئی تھی۔ پھر دونوں اسٹیج کی طرف بڑھے۔ باتیں کرتے ہوئے اچانک رگھوبیر نے اس کی طرف دیکھا اور جیسے دوسرے لوگوں سے ایک دم کٹ گیا۔ اس کی آنکھوں میں عجیب سی چمک نمودار ہوئی۔ پھر وہ بغل گیر ہونے کے لئے تیزی سے اس کی طرف لپکا۔

"انیل میرے دوست۔ میرے بھائی!

وہ اس کے گلے لگ گیا تھا۔

رگھوبیر کی آنکھوں میں آنسوس تھے۔” میرے بھائی تم سے بہت کچھ کہنا ہے۔ ابھی تو بہت کچھ حساب چکانے ہیں۔”

اس کی آنکھیں بھر آئی تھیں۔ لہجہ بھرا گیا تھا۔ اور دیکھنے والے اپنے قابل پروفیسر کی آنکھوں میں تیرتے ہوئے آنسوؤں کو صاف دیکھ رہے تھے۔ یہ نظارہ ان کے لئے بالکل نیا اور چونکا دینے والا تھا۔

"یہ کون ہیں پروفیسر ؟”

ایک شخص نے آہستہ سے انیل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھا۔

"میری زندگی کی کتاب کا واحد ہیرو۔”

پروفیسر رگھوبیر جوش اور محبت سے بولا۔

"یعنی مسٹر انیل۔”

اس شخص نے غور سے انیل کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے کہا۔

"ہاں، میرا دوست۔ میرے بچپن کا بھائی۔”

"مسٹر انیل میں آپ سے کچھ پوچھ سکتا ہوں۔”

 "پھر کسی دن پوچھنا۔”

 "پروفیسر رگھوبیر مسکرائے۔” انیل بھاگ ہی کہاں رہا ہے۔ برسوں بعد تو مجھے اپنے دوست کا ساتھ ملا ہے۔ ٹھیک سے مل لینے تو دو۔”

پھر پروفیسر رگھوبیر نے اپنے دوسرے دوستوں اور مداحوں سے معذرت طلب کی اور انیل کے ہمراہ چلتے ہوئے باہر آ گئے۔ باہر ان کی گاڑی کھڑی تھی۔

"تو تم نے گاڑی بھی لے لی۔”

بہت دیر بعد انیل رگھوبیر سے مخاطب ہوا۔

"اکیلا آدمی ہوں، خرچ ہی کتنا ہے۔”

رگھوبیر مسکرائے، پھر اچانک ہی اس کی نظر انورادھا پر پڑی۔

"ارے۔ میں تو بھول ہی گیا۔ یہ تمہاری…” وہ مسکراتا ہوا انیل کی طرف دیکھ رہا تھا۔ "تو تم نے بازی مار لی، شادی بھی کر لی۔ مبارکباد میرے دوست اور بتاؤ تم نے کیا کیا کیا؟”

 "ایک چھوٹی سی بچی بھی ہے۔ مگر ساری باتیں ابھی ہی پوچھ لو گے یا گھر بھی چلو گے۔”

"نہیں نہیں —” پروفیسر مسکرایا۔ پہلے میں جہاں ٹھہرا ہوا ہوں وہاں چلیں گے۔ وہیں باتیں ہوں گی۔”

ڈرائیونگ رگھوبیر نے ہی سنبھال لی تھی۔ اچانک کار چلاتے چلاتے اسے کچھ یاد آ گیا۔ وہ انیل کی طرف مڑا۔

"تمہیں یاد ہے میرے دوست۔ اُس دن جب وقت ہماری کہانی کا وہ سیاہ صفحہ لکھنے جا رہا تھا۔ اس دن بھی ڈرائیونگ میں ہی کر رہا تھا۔ اس دن ہاتھ کیسے کانپ رہے تھے۔”

انورادھا نے پلٹ کر انیل کو سوالیہ نگاہوں سے دیکھا۔

انیل نے آہستہ سے اُسے کہنی ماری۔ اور بھولے پن سے مسکراتا ہوا بولا۔ "بابا ! اب تم اپنی دریافت ہو۔ تمہیں سب بتا دوں گا۔ اور تم سے چھپانا بھی کیا۔”

انورادھا چپ ہو گئی تھی۔

رگھو بیر کی آواز پھر ابھری۔” تو بھابھی کو کچھ نہیں معلوم۔ اب بتا دینے سے کچھ نقصان بھی نہیں ہے۔ اس لئے کہ اب جرم نہ تمہارے اندر ہے اور نہ میرے اندر۔”

انورادھا  پھر چونک گئی تھی۔

"گھر چل کر سب تمہیں بتا دوں گا۔”

 انیل نے پھر اُسے کہنی ماری۔ اور وہ چپ ہو گیا۔

گاڑی مختلف شاہراہوں سے ہوتی ہوئی بھاگتی رہی… بہت دنوں بعد رگھوبیر کے ساتھ سیر کا لطف مل رہا تھا۔ پرانی یادیں پھر سے تازہ ہو گئی تھیں۔

"آج کل کیا کر رہے ہو؟”

رگھوبیر ن چلتے چلتے ٹھہر کر پوچھا۔

"بزنس کر رہا ہوں۔”

 "اچھا۔”

 رگھوبیر نے بڑی خوبصورتی سے ہونٹ دابے۔” تمہیں یاد ہے انیل۔ ایک بار ہم لوگوں میں کیا وعدہ ہوا تھا۔ ہم دونوں شادی کرنے کے بعد جب یکجا ہوں گے تو خوب تفریح کریں گے۔ سب مل کر کھانا بنائیں گے اور مزے کریں گے۔ میں نے شادی تو نہیں کی، مگر وقت اور تجربے نے کھانا بنانا سکھا دیا ہے۔ تم کسی دن پارٹی دو۔ پھر ہم سب مل کر بنائیں گے۔ خوب مزہ آئے گا۔”

 انورادھا نے مسکرا کر انیل کی طرف دیکھا۔

انیل بھی ہنستے ہوئے بولا۔” بھائی تم جس دن کہو۔ پارٹی ہی پارٹی ہے۔ تم نے کہا اور سمجھو پارٹی ہو گئی۔”

 رگھو بیر کھلکھلا کر ہنس پڑا۔

اچانک اُسے جیسے کچھ یاد آ گیا۔ پلٹ کر بولا۔” ارے ہاں، تم نے اپنی بیوی کے متعلق کچھ نہیں بتایا۔”

 "حیران نہیں ہو تو بتاؤں۔” انیل ہونٹ داب کر مسکرایا۔” یہ مینا کی بڑی بہن ہے۔”

"مینا کی بڑی بہن!”

رگھوبیر جیسے اسٹیرنگ چھوڑ کر اچھل پڑا۔ اور گاڑی پول سے ٹکراتی ٹکراتی بچی۔

انو رادھا پھر ایک بار چونک کر غلط انداز میں انیل کی طرف دیکھنے لگی۔ انیل نے پھر اس کا گال سہلایا۔

"پیاری، تمہیں کل سب کچھ بتا دوں گا، گھبراتی کیوں ہو۔”

 وہ ایک بار پھر مطمئن ہو گئی۔

"گاڑی ٹھیک سے چلاؤ یار۔ ایکسیڈنٹ کرنے کا ارادہ ہے کیا۔”

"یہ بتاؤ مینا کیسی ہے۔” رگھوبیر شرارت سے بولا۔

"بہت ٹھیک۔ اب پڑھائی میں دل لگانے لگی ہے۔”

 "وہ میری سب سے بڑی استاد ہے۔ اس سے ملنے کو بڑا دل چاہتا ہے۔” رگھوبیر ہنسا۔

اور انورادھا ایک بار پھر چونک گئی۔ انیل نے پھر اسے کہنی ماری۔ تم اس قدر چوکنا رہو گی تو گاڑی آگے کیسے چلے گی۔ میں نے پرامس کیا ہے۔ تمہیں سب کچھ بتا دوں گا۔”

 "ٹھیک ہے۔”

 وہ مطمئن ہو کر بیٹھ گئی تھی۔

ہوٹل آ گیا تھا۔ جہاں پروفیسر ٹھہرا ہوا تھا۔ باہر پروفیسر کے کتنے ہی ملاقاتی کھڑے تھے۔ پروفیسر نے ایک بار پھر سب سے معذرت کر لی۔

"بھائی آج نہیں۔ شام کے بعد میں آپ لوگوں سے ملاقات کروں گا، اور تمام باتوں کا جواب بھی دوں گا۔ فی الحال تھک گیا ہوں۔ مجھے اب معاف کریں۔”

پھر وہ تیز قدموں سے دونوں کے ہمراہ اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔ اندر آتے وقت پروفیسر نے بیرے کو اچھے خاصے ناشتے کا آرڈر بھی دے دیا تھا۔ اور صاف لفظوں میں کہہ دیا تھا۔ کسی بھی ملاقاتی کو اوپر نہیں آنے دیا جائے۔ اس وقت میں اپنے دوست سے پرانی ملاقات کی یاد تازہ کر رہا ہوں۔”

پروفیسر بیحد خوش تھا۔ انیل کا بھی وہی حال تھا۔ بچپن کا وہ دوست جس کے ساتھ جانے کتنے ہی خوش گوار لمحے گزرے تھے۔ کتنے ہی لمحے تاریخ بن کر دونوں کی یادوں کا حصہ بن گئے تھے۔ اور دونوں کے ساتھ ہونے والا محض ایک چھوٹا سا حادثہ دونوں کی زندگی میں ایک نیا انقلاب لے آیا تھا۔

"اب بتاؤ انیل اچھے تو ہو نا…”

پروفیسر نے پیار سے اس کے کاندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔

"ویری فائن۔ سب انو کا کرشمہ ہے۔”

 انیل مسکراتے ہوئے بولا۔

پروفیسر پھر بولا۔

"اگر اس دن وہ حادثہ پیش نہ آیا ہوتا تو شاید ہم دونوں نا مکمل ہوتے۔”

"کون سا حادثہ ؟”

 انو نے پھر حیرت ظاہر کی۔

"با با سب بتا دوں گا، پہلے گھر تو چلو۔”

 پروفیسر ٹھہاکہ لگا کر ہنسا،” حادثے کی بات پر بھابھی تو بے قرار ہوئی جا رہی ہیں مگر میں یہ نہیں کہوں گا کہ کچھ بننا ہو تو ایسے حادثات کا شکار ہونا ضروری ہے۔ ایسی بات نہیں کہوں گا۔”

 "مگر یہ تو مان کر چلنا پڑے گا رگھوبیر، اس واقعے نہ ایک ساتھ ہم دونوں کو متاثر کیا ہے۔ اس حد تک کہ نئی زندگی سے روشناس کرایا۔”

 "اب میں اس کے حق میں کچھ بولوں گا تو پھر پریس والے لکھ کر بدنام کر دیں گے اور جرم کو پھر سے تقویت مل جائے گی۔”

 پروفیسر زوروں سے ہنسا— مگر یہ صحیح ہے انیل! کہ اُس دن اگر اتفاقیہ طور پر مینا نہیں ملی ہوتی تو آج میں اس موڑ پر نہیں ہوتا۔ مینا نے زندگی بدلی ہے۔ میں اس موقع پر اپنے جذبات کو زیادہ اہمیت دیتا ہوں۔ اس نے قدم قدم پر میری رہبری کی ہے۔ اور جرم کرتے چلے جانے کے بعد میں نے ایک ایک پل کا خود سے حساب طلب کیا ہے۔ اور بالآخر جرم کی کینچلی سے باہر آ گیا۔”

 "تمہارے جرم کی نوعیت کو اپنا کر اگر کوئی دوسرا تم سابننے کی کوشش کرے تو…؟”

پروفیسر مسکرایا۔” وہ صرف میری کہانی سے سبق لے۔ کوئی ضروری نہیں ہے کہ ہر ایسے آدمی کا سابقہ مینا جیسی لڑکی سے ہی پڑے۔ اور ہر مجرم ہماری طرح حساس ہو۔ اس لئے میں نے پہلے بھی کہا ہے۔ میں اس کے حق میں فیصلہ نہیں دوں گا۔”

پروفیسر کچھ سوچتے ہوئے بولا۔

"مینا سے ملنے کی بڑی خواہش ہے۔”

 "شاید اتنا ہی مینا بھی تم سے ملنے کی خواہش رکھتی ہے۔” انیل ہنسا۔

"سچ۔”

رگھو بیر کا چہرہ اچانک لال ہو گیا تھا۔ "میں آج ہی شام میں ملوں گا۔ سیدھے یہاں سے تمہارے گھر پہنچوں گا، پھر جم کے باتیں ہوں گی۔”

 "میرے گھر نہیں، مینا کے گھر۔” انیل ہنسا۔” آج کل وہی میرا گھر ہے میں وہیں رہتا ہوں۔”

 دونوں نے ایک ساتھ قہقہہ لگایا اس کے بعد انیل اور انو جانے کے لئے اُٹھ کھڑے ہوئے۔

پروفیسر نے د وسرے دن شام میں آنے کا وعدہ کر لیا تھا۔

(۲۱)

شاستری ہاؤس میں صبح سے ہی چہل پہل نظر آ رہی تھی۔ انیل دوست کی خاطر تواضع کے لئے پریشان ہو رہا تھا۔ مینا کتنی ہی بار پوچھ چکی تھی۔ آپ کے دوست کب آئیں گے۔ آج سچ مچ وہ بڑی پیاری لگ رہی تھی۔ اس نے سرخ کرتا اور شلوار پہن رکھی تھی۔ اس لباس میں وہ بالکل مشرقی گڑیا معلوم ہو رہی تھی۔ انیل کو پتہ نہیں کیوں سابقہ دنوں سے وہ سگھڑ اور اچھی معلوم ہوئی۔ آج اس کی ایک ایک ادا میں گھریلو لڑکیوں کا عکس نظر آ رہا تھا۔ جانے کیا سوچ کر وہ نئی نویلی دلہن کی طرح سجی ہوئی تھی۔اس کی دھڑکنیں تیز تیز چل رہی تھیں۔

انیل نے مذاق بھی کیا۔ کس لئے بھائی۔ میرے دوست کا اتنی بے چینی سے انتظار کیوں ہو رہا ہے؟”

مینا کے چہرے پر ہلکی لالی سمٹ آئی تھی۔

گھبراتے ہوئے اس کے منہ سے نکلا” انہیں میرا بچپن آج بھی یاد ہو گا۔”

 "تو کون سی بہت بڑی ہو گئی ہے۔ اور بھی سال ہی کتنے ہوئے ہیں۔”

مگر مینا ڈر رہی تھی۔ اس ڈر میں عجیب سی لذت پوشیدہ تھی۔ رگھوبیر کا چپ چاپ خاموش چہرہ اس کی نگاہوں میں سمایا ہوا تھا۔ کتنا سنجیدہ تھا اس دن۔ کیسی بڑی بڑی آنکھیں تھیں۔ اور آنکھوں میں کتنا کچھ تھا۔ اب بدلنے کے بعد وہ کیسا دکھتا ہو گا۔ کیا رگھوبیر کو بھی سب کچھ یاد ہو گا… زندگی میں آئے ہوئے اس سیاہ دن کے طوفان کے خوف سے وہ اب بھی ڈر رہی تھی۔

شام کے پانچ بج گئے۔

ٹھیک اسی وقت دروازے پر ہارن چیخ اٹھا۔ انیل اور انو دونوں سنبھل گئے۔

مینا نے دروازے سے جھانک کر دیکھا۔ اور پھر انجانے طور پر اس کی ہلکی سی چیخ نکل گئی۔

"وہ آ گئے۔”

 "کون؟ ” انیل نے شرارت سے پوچھا۔

وہ شرما کر اپنے کمرے میں جا چھپی۔ کچھ دیر کے لئے اُسے خود سے بھی شرم آ گئی۔وہ آج ایسے کیوں ہو رہی ہے۔ جھانک کر پروفیسر کو دیکھا۔ انیل سے باتیں کرتے ہوئے پروفیسر ڈرائنگ روم میں قدم رکھ رہا تھا۔ مینا چونک سی گئی۔ ایک پر وقار  چہرہ… سنجیدہ، متین با رعب ا مرد اس کے سامنے تھا۔ ایک عجیب سا ٹھہراؤ اور کشش لئے ہوئے…

"کیا یہی رگھوبیر  ہے…”

 اس نے غور سے دیکھا۔ اور بہت مشکل سے پرانے رگھوبیر کو اس کے اندر پڑھنے میں کامیاب ہو گئی۔ کتنا بدل گیا ہے۔ اب کیسا صحت مند نظر آ رہا ہے۔ شخصیت بھی کتنی با رعب ہو گئی ہے۔ وقت کے ساتھ سب کچھ بدل گیا… وہ بھی تو بدل گئی۔ پھر رگھوبیر کیسے نہیں بدلتا۔ اور اب تو وہ کہاں سے کہاں پہنچ گیا ہے…

اور تب ہی اس نے کھنکتی ہوئی گمبھیرآواز سنی۔ ویسی ہے جیسی اُس نے کبھی کار میں سنی تھی۔ "چپ چاپ بیٹھو…” اسٹیرنگ تھامے ہوئے اس کا اغوا کرنے والے نوجوان نے اسے آنکھیں دکھائی تھیں۔ کچھ دیر کے لئے وہ ڈر بھی گئی تھی۔

یہی رگھوبیر ہے …

وہ ساری شرم و حیا چھوڑ کر پردے کے پیچھے اسے گھورے جا رہی تھی۔ اور پھر ا سے وہی گمبھیر آواز سنائی دی۔

"مینا کہاں ہے ؟”

"ابھی تو یہیں تھی۔” انیل ہنسا۔ شام پچاسوں بار تمہارے بارے میں پوچھ چکی ہے کہ کب آؤ گے۔ تمہارے آنے کی اطلاع بھی اسی نے دی۔ پھر جانے کہاں بھاگ گئی۔”

"بلاؤں کیا؟” انورادھا نے پوچھا۔

"ہاں … ” پروفیسر جیسے بولتے اٹک گیا تھا۔ "بھائی! جانے کیوں اتنی بڑی بڑی کتابیں لکھنے کے بعد اس چھوٹی سی، پیاری سی ذات سے ملنے میں ڈر سا محسوس کر رہا ہوں میں … ایک بار پھر وہی پرانے دن کا رگھوبیر مجھے واپس مل گیا ہے… کیسے آنکھ ملاؤں گا میں ؟”

 "کیا … ” مینا بھی چونک گئی۔ تو یہی حال پروفیسر کا بھی ہے۔ اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ رینگ گئی۔ یعنی وہ اکیلی پریشان نہیں ہے۔ یہ موٹی موٹی کتابیں لکھنے والا شہرت یافتہ پروفیسر بھی اسے لیکر اتنا ہی پریشان ہے… اس کے دل میں میٹھی میٹھی سنسناہٹ اتر رہی تھی…

"مینا… "

 تبھی اسے انو دی کی آواز سنائی دی۔

کہاں ہو بھئی…”

اور پھر اس نے پروفیسر کو دیکھا۔ جو تن کر بیٹھ گیا تھا۔ پھر اس نے ٹائی کی گرہ درست کی، جیسے خوف کھا رہا ہو۔

مینا نے پہلے خود کو ٹھیک کیا۔ پھر سانسوں کی رفتار پر قابو پایا۔ آئینہ کے سامنے خود کا جائزہ لیا۔ اور اس کے بعد آہستہ آہستہ چلتی ہوئی دروازے کے قریب بڑھنے لگی۔ پردہ ہٹا کر جیسے ہی وہ آگے بڑھی، مشینی طور پر کانپتے ہوئے اس کے ہاتھ اٹھ گئے تھے…

"نمستے !”

 پروفیسر اچانک گڑ بڑا گیا تھا۔ پھر خود پر قابو پاتے ہوئے کھڑا ہو گیا۔ اور جواب میں دونوں ہاتھ جوڑ دیئے …

"اچھی ہو…” پروفیسر اٹکتے اٹکتے بولا۔

مینا کے ہونٹ پر کانپتی ہوئی مسکراہٹ رینگ گئی۔ اس نے ہاں میں سرہلادیا۔ کچھ بولی نہیں۔

پروفیسر نے نظریں جھکا لیں۔

انیل نے پروفیسر کے شانے پر ہاتھ مارا۔

"سالے میری سالی سے شرماتا ہے۔”

پروفیسر کچھ اور بھی نروس نظر آنے لگا تھا۔ ٹوٹے پھوٹے لہجے میں بولا،” پتہ نہیں کیوں … آج … بہت دنوں بعد … پہلی بار میں خود کو اس طرح نروس محسو کر رہا ہوں۔”

 مینا کو دیکھ کر انیل ہنسا۔

پروفیسر نے پھر اپنی نگاہیں نیچی کر لی تھیں۔

انورادھا اب ساری کہانی جان گئی تھی۔ اب دونوں کی باتوں کا مزہ لے رہی تھی۔ اور مینا کی گھبراہٹ سے لطف بھی اٹھا رہی تھی…

"کیوں بچو! ایوارڈ لیتے وقت گھبراہٹ کا احساس نہیں ہوا تھا۔” انیل نے پھر شرارت کی۔

"میں چائے بناتی ہوں۔” مینا نے چائے کے نام پر اٹھنا چاہا۔

"تم ٹھہرو۔ میں بنا کر لاتی ہوں۔” ہونٹوں پر عجیب سی مسکراہٹ لئے انورادھا اٹھ کھڑی ہوئی۔

اب تک پروفیسر خود پر قابو پا چکا تھا۔ مینا شرمیلی دلہن کی طرح سر جھکائے بیٹھی تھی۔ اس کی سانس تیز تیز چل رہی تھی۔

"میں تمہارا کیسے شکریہ ادا کروں مینا۔”

پروفیسر نے نظریں جھکائے ہوئے بولنا شروع کیا… یہ سب کچھ تمہاری وجہ سے ہے۔ مجھے جو بھی شہرت ملی، اس کی سب سے بڑی حقدار تم ہو۔”

مینا کا چہرہ لال سرخ ہو گیا تھا۔ کانپتے ہوئے بس اتنا کہہ سکی۔

"آپ کہاں سے کہاں پہنچ گئے۔”

 یہ سب تمہاری بدولت ہے مینا۔”

 رگھوبیر نے زور دیتے ہوئے کہا۔” میرا اس شہر میں آنے کا مقصد صرف تم سے … اور تم سے ملاقات کی خواہش تھی۔ میں انیل سے ملنے کا اس قدر متمنی نہ تھا۔ جتنا کہ ملنے کا خواہش مند تھا۔ اس کا واحد سبب یہی ہے کہ میں آج جو بھی ہوں، اس میں تمہارا بہت بڑا ہاتھ ہے۔”

 پروفیسر رگھوبیر گہری سوچ میں ڈوب گیا تھا۔ جلد ہی وہ اپنے خیالات کی دنیا سے باہر نکل آیا۔

"مگر اب تو تم بالکل ہی بدل گئی ہو۔ تمہاری وہ شوخی…” کہتے کہتے پروفیسر ایک بار پھر اٹک گیا تھا۔

اور مینا شرم کے مارے دلہن کی طرح سمٹ گئی۔

انورادھا چائے لے کر آ گئی تھی۔

انیل پھر قہقہہ لگا کر ہنس پڑا۔ اور انو سے مخاطب ہوتے ہوئے بولا۔” رگھوبیر بیچارے کی بولی نہیں نکل رہی ہے۔ اب کیا کیا جائے۔ تمہارا کیا خیال ہے؟”

 "ٹھہرو۔” انو نے جیسے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔” فیصلہ اکیلے نہیں ہوتا۔ ہمیں مینا سے رائے لینی ہو گی۔”

 "مطلب؟” رگھوبیر ایک دم سے چونک پڑا تھا۔

مینا سرجھکا کر اچانک ہی دروازے کی طرف بھاگ گئی تھی۔

"یہ سب کیا ہے؟ ” رگھوبیر کے اندر بھی جیسے طوفان آ گیا تھا۔

"مطلب تو خوب سمجھتا ہے بے وقوف۔ تو ۳۳ سال کا ہو گیا اور تو نے اب تک شادی کیوں نہیں کی۔”

 "مگر شادی کا اس سے …”

 "پورا تعلق ہے۔” انیل ہنسا۔” تو یہاں سے اکیلے نہیں جائے گا۔ تیرے ساتھ مینا بھی جائے گی۔”

 رگھوبیر ایک بار پھر سناٹے میں آ گیا تھا۔ بدن میں خون تیزی سے گردش کرنے لگا تھا۔ کیا وہ سچ سن رہا ہے۔ کیا انجانے طور پر کیا گیا یہ فیصلہ صحیح ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ وہ خود بھی یہی چاہتا ہے۔ آج پہلی بار مینا کو دیکھنے کے بعد اس کے اندر اس خواہش نے جنم لیا ہے۔ اس حادثے نے مینا کو آگے کی راہ متعین کرنے والا استاد بنا یا تھا۔ مگر آج…

وہ کچھ گڑ بڑا سا گیا۔

"مگر میری عمر کے بارے میں بھی تو سوچو… مینا مجھ سے عمر میں کتنی چھوٹی ہے۔”

 "زیادہ سے زیادہ دس گیارہ سال۔ بس کچھ اور پوچھنا چاہتا ہے۔”

پروفیسر ٹھہر گیا۔ شرمیلی سی مینا بار بار اس کی نگاہوں میں گھوم رہی تھی۔ مٹھائی کا ایک ٹکڑا اس نے کانپتے ہاتھوں سے اپنے منہ کے حوالے کیا۔ پھر بولا…

"دوست میرے اس سفر کا مقصد آج پورا ہوا ہے۔ میں نے کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ میری زندگی بنانے والی کبھی میری شریک حیات بھی بن سکتی ہے۔”

 "تیرا سفر تو شروع ہو گیا۔ مگر مسئلے ہمارے پیدا ہو گئے۔”

 "وہ کیسے؟” اس بار پروفیسر نے بھی قہقہے میں ان دونوں کا پورا ساتھ دیا تھا

"ایسے… انیل نے پردہ سے جھانکتے ہوئے مینا کی چوری پکڑ لی کہ یہاں بھی گھر میں صرف دو ہیں۔ اور دو ہم لوگ۔ تمہاری اور مینا کی شادی ہونی ہے۔ اب سوال ہے کہ میں کس کا ساتھ دوں۔ اور انوکس کا ساتھ دے۔

"میں مینا کا ساتھ دوں گی۔” انو بولی۔

"تو ٹھیک ہے میں رگھوبیر کے ساتھ ہوں۔ چلو دوست!” انیل شرارت سے بولا۔

"کہاں۔” رگھوبیر اس مذاق پر چونک گیا۔

"تمہارے گھر۔”

مگر اس سے پہلے ہی انو نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا تھا۔” ابھی نہیں انیل ابھی تو آپ کو شادی کے سارے انتظامات کرنے ہیں۔”

 "مجبوری ہے۔”

انیل نے بے بسی سے کہا۔

اور کمرہ ان کے زندہ دل قہقہوں سے گونج اٹھا۔

٭٭٭

تشکر: مصنف جنہوں نے فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید