FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

فہرست مضامین

شبیر ناقدؔ کی اردو تنقید نگاری کا جائزہ

(ابو البیان ظہور احمد فاتحؔ کے کیفِ غزل اور نقدِ فن کے تناظر میں)

غلام عباسؔ

ڈاؤن لوڈ کریں 

ورڈ فائل 

ای پب فائل 

کنڈل فائل

انتساب

میدانِ تنقید کے شہسواروں کے نام

باب اول

مبادیاتِ تحقیق

ایسا تمام تر مواد جو تحقیق کے بنیادی تصورات اور طریقہ کار پر مبنی ہو اسے مبادیات تحقیق کہتے ہیں اور اس کی بنیادی اصطلاحات کو مبادی اصطلاحات کا نام دیا جاتا ہے جو ذیلی مواد میں ملاحظہ فرمائیں۔

تحقیق کیا ہے؟

تحقیق سے مراد کسی شے کی حقیقت کا اثبات، حقائق کی بازیافت حقائق کا تعین اور ان سے نتائج کا استخراج حق کی جستجو، تجبر یا شک کو دور کرنا، یقین کو حاصل کرنا بار بار تلاش وجستجو کرنا تاکہ حقیقت یا حق واضح ہو جائے۔ عہد موجود کی سائنسی ایجادات تحقیق ہی کی مرہون منت اور ثمرات کا نتیجہ ہیں لیکن مواد جمع کرنا ہی اصل تحقیق نہیں بلکہ متعلقہ جمع شدہ مواد سے کوئی نتیجہ اخذ کرنا تحقیق ہے۔

بلحاظ ادب تحقیق (Research) کو ہمیشہ ایک فن تسلیم کیا گیا ہے اور تحقیق کنندہ کے لیے فنی اصطلاح ’’محقق‘‘ مدتوں سے رائج ہے۔ تحقیق عربی زبان کا لفظ ہے۔ اس کا اصل ’’حق‘‘ ہے جس کے اصلی حروف ’’حقق‘‘ ہیں۔ حق سے تحقیق بنا ہے جس کا مطلب ہے حق کو تلاش کرنا یا حق کی طرف پھیرنا۔ حق کے معنی سچ ہیں۔ مادہ حق سے دوسرا لفظ حقیقت بنا ہے جس کے معنی ہیں کہ تحقیق سچ یا حقیقت کی شناخت کا عمل ہے۔

تحقیق کے لیے انگریزی زبان میں جو لفظ مستعمل ہے وہ Research ہے جس کے معنی ہیں تحقیق حقائق یا اصول کی تلاش میں پر معز تفتیش/کھوج ایک تجزیاتی تحقیق /چھان بین تحقیق علمی جب کہ تحقیق کرنے والا محقق Research Worker or Researcher کہلاتا ہے۔ اردو میں محقق کے لیے کھوجی اور تفتیش کنندہ بھی استعمال کیا جاتا ہے۔

ریسرچ (Research) دو الفاظ Re اور Search کا مجموعہ ہے۔ Re کا مطلب ہے دوبارہ اور Search کا مطلب ہے تلاش، جستجو، کھوج اگر لفظی معنی پر غور کریں تو ریسرچ (Research) کا مطلب ہے ’’دوبارہ تلاش کرنا‘‘ لیکن اصطلاح میں ریسرچ (Research) انتہائی سچائی اور حقائق کی تلاش و جستجو کا نام ہے۔ انسان چونکہ فطرتاً اور طبعاً حقیقت کی جستجو میں سرگرم عمل رہتا ہے۔

وہ ہمیشہ شدہ علم اور معلومات کی تصدیق کا خواہش مند رہنا اس کی فطرت میں شامل ہے گویا تحقیق انسان کے فطری خصائص اور تلازمات کا حصہ ہے لہٰذا مطلوبہ مقاصد کے حصول کے لیے تحقیق (Research) کی جاتی ہے۔

فرہنگ آصفیہ میں تحقیق کے معنی کچھ یوں ہیں،

 ’’تلاش، تجسس، تفتیش، چھان بین، کھوج، سراغ، دریافت، اور جانچ‘‘(۱)

فیروز اللغات میں تحقیق کے معنی یہ بتائے گئے ہیں،

۱)    اصلیت معلوم کرنا، دریافت     

۲)    درستگی، صحت  

۳)    تفتیش، جانچ پڑتال

۴)    سچائی صداقت، اصلیت         

۵)    یقین         

۶)    پایہ ثبوت کو پہنچنا

۷)    درست، ٹھیک، سچا‘‘ (۲)

آکسفورڈ ڈکشنری میں تحقیق کے مفاہیم و مطلب کے تراجم کچھ یوں ہیں۔

 ’’ کسی مخصوص چیز یا شخص سے متعلق گیرائی و گہرائی یا محتاط تلاش کا عمل ۲)۔ کسی حقیقت کے انکشاف کی غرض سے بسیط اور محتاط غور و فکر یا کسی مضمون کے مطالعے کے ذریعے تلاش یا چھان بین یا مسلسل مطالعہ دوسری بار یا بار بار کی تلاش‘‘ (۳)

Merrian websites online dictionary میں تحقیق کے بارے میں یوں لکھا ہے۔

 ’’Research‘‘

1. Careful or Diligent Search

2. Studies Inquiry or Examination Especially: Investigation or experimentation at the discovery and interpretation of facts, revision of accepted theories or laws in the light of new facts or application of such new or revised theories or practical laws.

3. The collecting of information about a particular subject‘‘

ڈاکٹر عبدالرازق قریشی اس کا ترجمہ اپنی کتاب ’’مبادیات تحقیق‘‘ میں یوں کرتے ہیں،

۱)۔ محتاط یا سرگرم تلاش، گہری جستجو

۲)۔ انہماک و شغف کے ساتھ جستجو یا چھان بین، بالخصوص یا عموماً محققانہ و ناقدانہ اور سیر حاصل عمل تحقیق  و تفتیش و جستجو جس کا مقصد نئے حقائق کا انکشاف اور ان کی صحیح و معتبر تاویل اور پھر نئے حقائق کے انکشاف کی روشنی میں مروجہ و مستعملہ حقائق و نتائج۔ نظریات و قوانین پر نظر ثانی کرنا یا نظر ثانی کئے ہوئے نتائج کا عمل اطلاق کرنا۔

۳)۔ نیز کسی شخصیت یا مضمون یا کسی قبیل یا زمرے کی کسی دوسری چیز سے متعلق مخصوص چھان بین‘‘

Cambridge Advanced Learner’s Dictionary میں ریسرچ کے متعلق یوں بیان کیا گیا ہے۔

"Research:

Research is a detailed study of a subject, especially in order to discover new information or reach a new understanding” (5).

’’تحقیق خاص طور پر نئی معلومات کی دریافت کرنے یا نئی فہم تک پہنچنے کے لیے ایک موضوع کا تفصیلی مطالعہ ہے‘‘

قاضی عبدالودود تحقیق کے حوالے سے لکھتے ہیں۔

 ’’تحقیق کسی امر کو اس کی اصلی شکل میں دیکھنے کی کوشش ہے کوشش کامیاب بھی ہوتی ہے اور ناکام بھی حقیقت موجود ہے۔ یہ دوسری بات ہے کہ ہمارے پاس اس کے دریافت کرنے کے نامکمل ذرائع ہیں‘‘(۷)

مالک رام تحقیق کے حوالے سے رقم طراز ہیں۔

 ’’تحقیق عربی زبان کا لفظ ہے جس کا مادہ ’’حق ق‘‘ ہے جس کے معنی کھرے کھوٹے کی چھان بین یا کسی بات کی تصدیق کرنا، دوسرے لفظوں میں تحقیق کا مقصد یہ ہونا چاہیے کہ ہم اپنے علم و ادب میں کھرے کو کھوٹے سے، مغز کو چھلکے سے اور حق کو باطل سے الگ کریں انگریزی لفظ ریسرچ (Research) کے بھی یہی معنی اور مقاصد ہیں۔‘‘(۸)

ڈاکٹر گیان چند قاضی عبدالودود کی متعین کردہ تعریف کو ناکافی سمجھتے ہوئے کہتے ہیں،

 ’’اگر حقیقت افشا ہے تو اس کی اصلی شکل کو دیکھنا تحقیق نہیں، کہنا یہ چاہیے جب کسی امر کی اصل شکل پوشیدہ یا مبہم ہو تو اس کی اصلی شکل کو دریافت کرنے کا عمل تحقیق ہے۔‘‘(۹)

کسی بھی حقیقت کو پوشیدہ یا مبہم بنانے میں انسانی زاویہ نگاہ بنیادی کردار ادا کرتا ہے ایک چیز میں دو مختلف زاویہ نگاہ رکھنے والے افراد کے لیے مختلف حقیقتیں پنہاں ہو سکتی ہیں یا ایک حقیقت ایک زاویے سے صاف اور واضح جب کہ دوسرے زاویے سے مبہم بھی نظر آ سکتی ہے۔

نذیر احمد اس بات کو مزید وسعت دیتے ہوئے بیان کرتے ہیں۔

 ’’حقیقت خواہ کسی بھی قسم کی ہو، اس کے سلسلے میں جو کوشش کی جائے وہ تحقیق کی حد میں شامل ہو گی۔ بسا اوقات محقق جس نتیجے پر پہنچتا ہے در اصل حقیقت نہیں ہوتی بلکہ محدود ذرائع و وسائل کو محقق کی بناء پر انہیں حقیقت کا نام دینا پڑتا ہے۔‘‘(۱۰)

ڈاکٹر سید عبداللہ اپنے مضمون ’’تحقیق و تنقید‘‘ میں بیان کرتے ہیں،

 ’’تحقیق کے لغوی معنی کسی شے کی حقیقت‘‘ کا اظہار یا اس کا اثبات ہے۔ اصطلاحاً یہ ایک ایسے طرز مطالعہ کا نام ہے جس میں موجود مواد کے صحیح یا غلط کو بعض محکمات کی روشنی میں پر کھا جاتا ہے۔‘‘ (۱۱)

تحقیق در اصل حقیقت کی تلاش کا نام ہے حقیقت چونکہ اکثر و بیشتر نظروں سے اوجھل ہوتی ہے اس لیے اس کو واضح کرنے کے لیے تحقیق کرنا پڑتی ہے گویا کسی بھی شے کی حقیقت کی تلاش وجستجو تحقیق کہلاتی ہے۔

ڈاکٹر نجم الاسلام نے تحقیق کے متعلق چند انگریزی محققین کی آراء کا ترجمہ پیش کیا ہے۔ (۱۲)

۱)۔ رسک (Rusk) تحقیق کیا ہے؟ ’’ایک نقطہ نظر اور تفتیش کا انداز یا ذہن کا ایک طریقہ کار۔ یہ وہ سوالات اٹھاتی ہے جو ابھی تک نہ اٹھائے گئے ہوں اور ایک خاص متعین طریق کار کے ساتھ ان کا جواب دینے کی کوشش کرتی ہے۔ یہ صرف نظریہ سازی نہیں بلکہ ایک کوشش ہے حقائق کے استخراج کی اور جب وہ یکجا کر لیے گئے ہوں تو مجتمع شکل میں ان کا سامنا کرنے کی‘‘

(Rusk, Robert R. Research in Education London, University of London Press, 1932).

۲)۔    اسمتھ (Smith) ’’تحقیق شامل ہے محتاط اور ناقدانہ تلاش و تفتیش اور جانچ پڑتال پرکھ کو جو حقائق یا اصولوں کی تلاش میں کی جائے نیز محنت اور تسلسل کے ساتھ کی ہوئی کھوج کو سچائی کو پا لینے کی تلاش میں کی جائے‘‘

)Smith, Henry Lester Education principal and practices bloomingtonin. Educational Publisher 1944.

۳)۔ وھٹنے (Whitney) ’’تحقیق سوچ و بچار کا ایک منضبط طریق کار ہے جو مخصوص آلات یا طریق عمل سے کام لے کر کسی مسئلے کا ایک مناسب حل نکالتی ہے جو معمولاتی ذریعوں سے حاصل نہ ہو یہ کسی مسئلے سے آغاز کرتی ہے حقائق کو جمع کرتی ہے ناقدانہ طور پر اس کا تجزیہ کرتی ہے اور اصل شہادت کی بنیاد پر فیصلوں تک پہنچتی ہے یہ شامل ہے اصل کام کی بجائے اس کے کہ محض شخصی رائے کا بوجھ ڈالا جائے یہ جاننے اور سمجھنے کی حقیقی خواہش سے پھوٹتی ہے از کہ ثابت کرنے کی خواہش سے‘‘ ایک اور موقع پر وھٹنے (Whitney) کا تحقیق کے متعلق کہنا یہ ہے کہ ’’تحقیق ایمانداری، جامعیت اور ذہانت کے ساتھ کی جانے والی کھوج ہے جو حقائق کے لیے اور کسی پیش نظر مسئلے کے حوالے سے ان کے معانی و مفاہیم پر اثرانداز ہونے والے نتائج کے لیے کی جاتی ہے کسی تحقیق کام کے نتائج کو اس مطالعاتی میدان میں مستند قابل توثیق اضافہ ہونا چاہے‘‘

(Whitney, Frederick Lawson, The element of research New York: Prentice Hall, 1950).

۴)۔ کرافورڈ (Crawford) ’’تحقیق کی تعریف اس طرح کی جا سکتی ہے کہ یہ ایک ایسے مسائل کے مطالعے کا طریقہ ہے جن کے مرحلوں کا استخراج، جزوی یا کلی طور سے، حقائق سے کیا جاتا ہو۔‘‘

)Crawford, cc: The technique of research in education- Los Angeles, University of Southern California 1927)

۵)۔    فشر (Fisher) ’’ارباب تحقیق وہ ہنر مند ہیں جو اپنی دلچسپی کے ایک موضوع پر کام کر کے، تحقیق نتائج تک پہنچنے کے لیے بہترین دستیاب و آلات و  وسائل کا انتخاب کرتے ہیں۔‘‘

)Fisher, Ronald 5: Social psychology and applied, Approach: New York, 5 Martins Press, 1982)

۶)۔    پال (Paul) ’’تحقیق کیا ہے؟ ایک منظم و مربوط تلاش غیر منکشف حقائق کی ایک انداز کی، جس کے ذریعے لوگ مسائل کی گتھیاں سلجھاتے ہیں اور کوشاں رہتے ہیں کہ انسانی جہت و ناواقفیت کی سرحدیں پیچھے دھکیل دیں،

(Paul D leedy practical research, planning design New York Macmillan Publishing Co. Inc 3rd ed. 1985 London, University of London Press)

۷)۔ چارٹرس (Charters)

        ’’تحقیق میں دو خصوصیات لازمی ہیں ایک مسئلہ جو ذریعے سے منتخب کیا گیا ہو دوسرے یہ کہ عالمانہ طریقے اور محتاط طور پر اس کا حال پا لیا گیا ہو۔‘‘

(Charters ww. pure research and practical research journal of education research, xii, No. sep 1925)

۸)۔    گڈ اور سیکٹس (Good & Scates)

 ’’تحقیق شامل ہے مسئلے کے تعین میں قابل لحاظ حد تک احتیاط کو اور مسئلے کا حل تلاش کرنے کے لیے بہترین طریقوں کے طے کرنے کو اور اس میں ہمیشہ ندرت یا نئے پن کا ایک عنصر ہوتا ہے۔

(Good, Carter v. and Douglas. E. Scates: Methods of research, New York Appleton Century Crofts 1954)

تحقیق کا مترادف انگریزی لفظ ریسرچ (research) لیا جاتا ہے جس سے مراد دوبارہ تلاش کرنا ہے۔ تحقیق کا مادہ ’’حق ق‘‘ ہے حق سے مراد حصہ بھی لیا جاتا ہے انگریزی میں اس کا مترادف (right) ہے ایسا فعل چیز یا نظریہ جو حق (right) پر مبنی ہو پیش کرنا تحقیق کہلائے گا، اس سے مراد حق کی تلاش بھی لی جاتی ہے حق جو معلوم ہے یا نہیں لیکن وہ موجود ہے اگر انگریزی لفظ (research) کو دیکھا جائے تو اس کے معنی بھی دوبارہ کھوج کے ہیں کوئی ایسی شے تلاش کرنا جو موجود ہے لیکن لاعلمی کی وجہ سے نظروں سے اوجھل ہے لفظ تحقیق کے لیے فی الوقت research سے بہتر مترادف موجود نہیں ہے۔

ڈاکٹر گیان چند کی متعین کردہ تعریف تحقیق کے عقدے کو بہت حد تک وا کر دیتی ہے وہ رقم طراز ہیں،

 ’’ریسرچ research ایک حقیقت پنہاں یا حقیقت مبہم کو افشا کرنے کا منضبط عمل ہے اور اسی تعریف سے تحقیق کا مقصد اولیٰ بھی صاف و شفاف ہو جاتا ہے نامعلوم یا کم معلوم کو جاننا یعنی جو حقائق ہماری نظروں سے اوجھل ہیں انہیں کھوجنا، جو سامنے تو ہیں لیکن دھندلے ہیں ان کی دھند دور کر کے انہیں آئینہ کر دینا۔‘‘ (۱۳)

گویا ہم اس ساری بحث سے یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ کہ تحقیق ایک ایسے طرز فکر کا نام ہے جو منظم اور سائنسی طریقہ کار کو بروئے کار لاتے ہوئے مخصوص میدانوں میں پیش نظر مسائل کا حل تلاش کرتی ہے یا اٹھائے گئے سوالوں کا جواب پیش کرتی ہے۔

تحقیق کی اہمیت و ضرورت

ادبی اصطلاح میں تحقیق ادب کی معتبر و با وقار افہام و تفہیم ہے یعنی تحقیق کی بدولت کسی ’’فن پارے‘‘ کی حیثیت اور اس کے عہد کا تعین اجاگر ہوتا ہے اس کے محاسن و معائب پرکھے جاتے ہیں۔

تحقیق حق کی تلاش کا دوسرا نام ہے تحقیق ایک موزوں، متوازن اور مگر یہ لائحہ عمل ہے تحقیق ایک فن قدیم ہے تحقیق کی اہمیت ہر شعبۂ تعلیم میں پائی جاتی ہے موجودہ دور میں تحقیقی عمل کے بغیر ارتقاء و بقا ممکن نہیں۔ بنی نوع انسان کے مسائل کے ابتداء کے ساتھ تحقیق بھی اپنا سفر طے کرتی گئی جیسے جیسے انسانی مسائل فزوں سے فزوں تر ہوتے گئے جنہوں نے گھمبیر صورت اختیار کر لی اور ویسے ویسے تحقیق بھی اپنا سفر طے کرتی گئی۔

تحقیق عمل کے ذریعے انسان نے اپنے مسائل کو حل کر کے اپنی زندگی کو آسان سے آسان تر اور انسان بہتر سے بہترین کی جستجو میں سرگرداں رہا۔ تاریخ شاہد ہے کہ مسائل کے حل کی ضرورت کے پیش نظر ازمنۂ قدیم کا ابن آدم درختوں کے پتوں اور کھال پر لکھتا تھا اور اسے زیب تن کرتا تھا جبکہ آج کا انسان دلکش کاغذ پر لکھ رہا ہے اور دل کش ملبوسات کو جسد خاکی کی زینت بنائے ہوئے ہے یوں نسل انسانی کا ارتقاء ممکنات کا حصہ بنا۔ طباعت و اشاعت میں نہ صرف خاطر خواہ ترقی ہوئی بلکہ انقلابات کے سماں پیدا ہوئے۔ قدیم چھاپہ خانوں کی جگہ جدید مشینی پرنٹرز نے طباعت کے کاموں میں سرعت کو فروغ دیا یہ سب تہذیبی و اقتصادی ترقی کی بدولت ہی ممکن ہو پایا۔

ڈاکٹر تبسم کاشمیری لکھتے ہیں:

 ’’تحقیق کا کام حال کو بہتر بنانا، مستقبل کو سنوارنا اور ماضی کی تاریکیوں کو روشنی ودیعت کرنا ہے۔‘‘ (۱۴)

بدوں از تحقیق انسانی ترقی کا عمل ممکن نہیں ہے تحقیق ہر شعبۂ حیات میں اہم کردار ادا کرتی ہے لیکن ادبی میدان میں اس کی اہمیت سے کسی صورت انکار ممکن نہیں۔ تحقیق ادبی نظریات کی گہرائی اور ماخذ تک رسائی میں مددگار و معاون ثابت ہوتی ہے اس سے حقائق زیادہ واضح اور مکمل ترین صورت میں سامنے آتے ہیں ادب میں بعض ایسے تصورات جنم لیتے ہیں جو غلط، ادھورے اور نامکمل ہوتے ہیں۔

ڈاکٹر عبدالرازق قریشی اس حوالے سے گویا ہیں:

 ’’تحقیق نہ صرف شک کو رفع اور ابہام کو دور کرتی ہے بلکہ آدمی کے لیے نئی نئی راہیں کھولتی ہے وہ مسائل کو حل کرتی ہے گتھیوں کو سلجھاتی ہے۔ اور خامیوں کو دور کرتی اور خوب سے خوب تر بناتی ہے۔‘‘

تحقیق کی بنیاد مطالعہ اور مشاہدہ پر ہوتی ہے تحقیق کسی خیال اور معلومات کو من و عن قبول نہیں کرتی بلکہ وہ خود انہیں دریافت کرتی ہے۔ تحقیق ادبی میدان میں ادیب، شاعر اور نقاد کے کارناموں پر روشنی ڈالتی ہے ان کے ادبی قد و قامت کا تعین کرتی ہے ادیب اور ادب کی قدر و قیمت میں اضافے اور استحکام کا باعث بھی تحقیق بنتی ہے۔

تحقیق کے کردار سے ادبی میدان میں کسی صورت انکار ممکن نہیں ہے مرورِ ایام کے ساتھ ساتھ اس کی ضرورت و اہمیت میں دن دگنی رات چگنی اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ تحقیق کی اسی ضرورت کے پیش نظر اب تحریکات، نظریات اور رجحانات پر زیادہ کام کیا جا رہا ہے یہ ایک لحاظ سے مستحسن اقدام ہے کہ وہ ادبی شخصیات جنہوں نے اپنے فکر و فن سے دنیائے ادب میں نہ صرف اپنی شناخت قائم کی ہے بلکہ اسے نئے ادبی زاویوں اور رویوں نیز انسانیت کو علوئے فکر سے روشناس کرایا جس سے نہ صرف عوام الناس اور قارئین علم و ادب ان کی ادبی خدمات اور تصانیف سے واقف ہوں گے بلکہ ادب کے بدلتے ہوئے رجحانات بھی عیاں ہو جائیں گے مزید برآں اکتسابِ فیض کے نئے امکانات روشن ہوں گے۔

دنیائے علوم میں تخلیق و تنقید کی طرح تحقیق کا کردار بھی بہت اہمیت کا حامل ہے۔ روز بروز تحقیق ادب کی ضرورت و اہمیت میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے تحقیق کی ضرورت مذکورہ کے پیش نظر ایک ایسی شخصیت کو تحقیق کے دائرہ میں شامل کیا گیا جن کی فکر و نظر کے بعض اثرات و نقوش ادب میں ان کی موجودگی و اہمیت کا حامل بنا دیتے ہیں اسی ضرورت کے پیش نظر میں نے ’’شبیر ناقدؔ کی تنقید نگاری‘‘ ابو البیان ظہور احمد فاتحؔ کا کیفِ غزل اور نقدِ فن کے تناظر میں، کو اپنی تحقیق کا موضوع بنایا ہے۔

شبیر ناقدؔ تنقید نگار، شاعر، ادیب، محقق اور تخلیقی صلاحیتوں کے حامل شخص ہیں۔ ادب میں ان کو ایک نمایاں مقام حاصل ہے۔

شبیر ناقدؔ کا نام تنقید کی دنیا میں نیا نہیں ہے تاہم اس سے پہلے ان پر کوئی بھی تحقیقی کام نہیں ہوا۔ میں نے اپنے اس تحقیقی مقالے میں ان کا تعارف بطور تنقید نگار کروایا ہے۔ شبیر ناقدؔ ایک عمدہ شاعر، سکہ بند نقاد اور ادیب ہیں ان تمام اصناف میں ان کی شخصیت ہر لحاظ سے منفرد ہے۔ انہوں نے خود کو صرف کتابوں تک محدود نہیں رکھا بلکہ اخبارات و جرائد میں بھی لکھتے رہے ہیں ہنوز بھی یہ سلسلہ جاری و ساری ہے۔

شبیر ناقدؔ نے اپنی ذہانت اور بصیرت سے اردو ادب کے میدان کو زرخیز کیا ہے اور ایک تنقید نگار کی حیثیت سے ہماری زندگی کے مختلف چھوٹے بڑے پہلوؤں کو اپنے موضوعات کا حصہ بنایا ہے ان موضوعات کا دائرہ بہت وسیع و عریض ہے جن میں معاشرتی، سماجی اور نفسیاتی قریباً ہر نوع کے موضوعات و معاملات کا حصہ ہیں۔

اس مقالے میں شبیر ناقدؔ کی شخصیت کو بطور تنقید نگار کے منفرد اور اہم پہلوؤں کو سامنے لایا جائے گا ان کی ذہنی فکر اور سوچ کی گہرائی کو واضح کر کے ان کے خیالات تک ان کی حیثیت کو اجاگر کرنے کی سعی جمیل کی جائے گی۔

شبیر ناقدؔ کسی خاص نقطہ نظر کی اندھا دھند تقلید کے قائل نہیں انہوں نے جس بھی موضوع پر خامہ فرسائی کی وہ ان کی حقیقت پسندی اور غیر جانبداری کا ترجمان ہے مذکورہ خصوصیات کسی بھی نقاد کے اوصاف جمیلہ کا جزو لاینفک ہوتی ہیں۔

 ’’شبیر ناقدؔ کی تنقیدی نگاری ابو البیان ظہور احمد فاتحؔ کا کیفِ غزل اور نقدِ فن کے تناظر میں‘‘ مقالے میں نہ صرف ادب کے طلباء اور تنقید کے قارئین کو بھی نہ صرف شبیر ناقدؔ کے بارے میں معلومات حاصل ہوں گی بلکہ اردو ادب میں تحقیق کی اہمیت بھی واضح ہو جائے گا۔

تحقیق کا دائرہ کار

تحقیق کا علم ایک ایسا تجربہ کرنا ہے جس میں زندگی کے متعلق ہر شعبے سے بحث کی جاتی ہے اس سے مراد ہر شعبے میں جستجو اور تجسس کے ساتھ ساتھ نئی راہوں کو متعین اور ہموار کرنا ہے تحقیق کا عمل دخل تو ہر شعبے میں ملتا ہے لیکن جو زمانہ عملی تحقیق سے زیادہ سروکار رکھتا ہے اس میں ذیل کے شعبوں میں تحقیق کا عمل زیادہ تر نمایاں ہے۔ سائنس، تاریخ، سماجی سائنسوں کے دوسرے علوم، ادب کی تاریخی یا عملی تحقیق ہوتی ہے۔ ادب کی تاریخی، سائنسی ادبیات میں انسانی کرداروں سے سروکار ہوتا ہے۔

ڈاکٹر گیان چند نے تحقیق کی دو قسموں میں درجہ بندی کی ہے۔

 ’’تحقیق کی دو قسمیں خالص یا نظریاتی تحقیق اور اطلاقی تحقیق ہیں۔‘‘ (۱۶)

تحقیق کا یہ فرق فطری علوم میں زیادہ نظر آتا ہے طبعیات میں کچھ محقق نظریاتی Theoretical تحقیق کار ہوتے ہیں دوسرے عملی تحقیق سے سروکار رکھتے ہیں۔ سائنس کی اطلاقی تحقیق طب، زراعت اور انجینئرنگ کے شعبے میں نمایاں ہے۔

تاریخ کی اطلاقی تحقیق کا عمدہ مظہر آثار قدیمہ کی کھوج کا عمل ہے میدان تحقیق کو ملحوظ خاطر رکھ کر یہ کہا جا سکتا ہے کہ تحقیق کی دو اہم ترین قسمیں تجزیاتی اور تاریخی تحقیق ہیں۔

ادبی تحقیق سائنس کی خالص تحقیق (Pure Research) کی طرح غیر اطلاقی سمجھی جاتی ہے اس کا طریقہ زیادہ تر تاریخی اور کچھ حصہ تجزیاتی ہوتا ہے۔

تحقیق کے اطلاقی اور تجزیاتی تحقیق و عمل سے ہٹ کر دیکھا جائے تو ہمیں تحقیق کی دو صورتیں نظر آتی ہیں۔

۱)۔ سندی تحقیق (Certified Research)

جس کی تکمیل مخصوص وقت میں کرنا ہوتی ہے اس کا ایک نگران متعین ہوتا ہے جس کی راہنمائی کے بغیر محقق آزاد تحقیق کا کام نہیں کر سکتا محقق کو تحقیقی عمل کرنے کے بعد اس کے کام کو ممتحنوں کی نظر ثانی سے گزرنا پڑتا ہے۔

۲)۔ غیرسندی تحقیق (Non Acknowledged Research)

جس کے لیے وقت کی کوئی قید نہیں ہوتی محقق اپنی منشا کے موضوع پر تحقیقی عمل سے گزرتا ہے تکمیل ہونے پر اسے ممتحنوں کے سامنے سے گزرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔

تحقیق جو خالص حقائق پر مبنی ہوتی ہے خالص تحقیق کہلاتی ہے دوسری تحقیق جو تنقیدی ہوتی ہے ایک مکمل تحقیق ہوتی ہے جس کے کسی پہلو میں تشنگی نہیں پائی جاتی۔

علم و ادب کی تحقیق کا ایک میدان سوانحی اور تاریخی تحقیق بھی ہے اسی میں کسی ادیب یا صنف کے اہم تخلیق کاروں کی تصانیف پر تحقیقی بحث کی جاتی ہے اس کا اندازہ زیادہ تر تاریخی تحقیق سے ملتا جلتا ہے تحقیق کا دائرہ کار بہت وسعت کا حامل ہے اگر علم و ادب کے حوالے سے دیکھا جائے تو اس میں کئی چھوٹے بڑے موضوعات شامل ہو سکتے ہیں ان میں چند ایک درج ذیل ہیں:

۱)۔ کوئی ایک ادیب جس کی تحریروں میں انفرادیت اور اچھوتا انداز ملتا ہو۔

۲)۔ کوئی صنف ادب جس کے نئے تجربات و انقلابی زاویے سامنے آئے ہوں۔

۳)۔ رجحان، تحریک، دبستان جن میں ایک مکتبہ فکر کا فاتحاد نظر آتا ہو اور سب کے ہاں موضوعاتی مماثلت ہو۔

۴)۔ علاقائی گروہی جائزہ جس میں ایک علاقے یا گروہ سے تعلق رکھنے والے ادیبوں کی تحاریر اور افکار پر تحقیق کی جاتی ہے۔

۵)۔ کوئی انجمن یا ادارہ جس نے کسی نئے زاویے کی طرف راہنمائی کی ہو یا کوئی نئی روایت سامنے لایا ہو جیسے انجمنِ پنجاب وغیرہ۔

۶)۔ ادبی لسانیات یعنی ادبی زبان کی خوبیاں، خامیاں اور ادب اور لسانیات کو ملانے والے موضوعات بھی تحقیق کے دائرے میں شامل ہیں۔

تحقیق مختلف موضوعات پر کی جا سکتی ہے ہر شعبے میں تحقیق کی مقتضیات مختلف ہوتی ہیں علمی و ادبی تحقیق میں سب سے اہم موضوع کسی شاعر و ادیب پر تحقیق ہے کسی بھی ادیب پر تحقیق سے پہلے چند باتوں کو مد نظر رکھنا ضروری ہے کسی ادیب پر قلم نہ اٹھایا جائے جس کے متعلق ہم آزادی سے تحقیق کرنے کے بعد ہم آزادی سے لکھنے کی جسارت نہ رکھتے ہوں یا اس شخصیت پر پہلے تحقیقی کام نہ ہوا ہو اور ان کی تصانیف میں کسی خاص میدان کی نمائندگی ملتی ہو۔ ل

کسی بھی شخص پر تحقیق کرتے وقت اس کے حالات زندگی کو ضرور دیکھا جائے لیکن معاشرتی و تہذیبی و تمدنی رجحانات کو نمایاں مقام دینا ضروری نہیں ہوتا۔ کسی بھی اہل ادب پر تحقیق کرتے ہوئے ان کے عوامل کا جائزہ لینا بھی انتہائی ناگزیر ہے جس سے ادیب کی ذات اور فن تاثر پذیر ہوتا ہے کسی بھی ادب سے وابستہ شخصیت کو زیر تحقیق لاتے ہوئے درج ذیل باتوں کا خصوصی خیال رکھا جاتا ہے۔

۱)۔ ادیب کی صحیح سوانح کی تشخیص و تشکیل کرنا۔

۲)۔ ادیب کی حقیقی قلمی تصویر کشی کرنا۔

۳)۔ ادیب کی تصانیف و تخلیقات کی زبانی و مکانی ترتیب۔

۴)۔ تخلیقات کا تنقیدی و تحقیقی جائزہ۔

ادیب پر تحقیق کرتے وقت اس کے حالات زندگی شخصیت اور تصانیف وغیرہ سے خاص طور پر مدد لی جائے گی۔

 مقالہ ہذا میں ’’شبیر نقاد کی تنقید نگاری ابو الیبان ظہور احمد فاتحؔ کا کیفِ غزل اور نقدِ فن کے تناظر میں‘‘ میں بھی اس کا خاص خیال رکھا گیا ہے کہ اس تحقیق کا مطمع نظر صرف شبیر ناقدؔ کی ادبی شخصیت کو اجاگر کرنا ہے اور ان کی شخصیت کے ہمہ جہت پہلو کو سامنے لانا بھی میری ترجیحات کا حصہ ہے اور ان کی تصانیف کے گلہائے نمایاں کو قارئین کے سامنے لانا مقصود ہے۔

تحقیق کا طریقہ کار

کسی بھی معاملے پر تحقیق کرنے کے لیے مواد کے دستیابی ذرائع کی تحقیق کرنا کہ وہ کس حد تک معتبر اور با وثوق ہے ایک محقق کے فرائض منصبی میں شامل ہے تحقیقی مواد کی جانچ پڑتال اور پرکھ کا عمل انتہائی وقت طلب ہوتا ہے علمی و ادبی اور لسانی تحقیق کے لیے سب سے بہترین ذریعہ دستاویزی ہوتا ہے تحقیق کار کو اپنے موضوع سے متعلق مواد کی جانکاری ہونی چاہیے۔

مواد کی فراہمی کا سب سے بہترین اور اہم ذریعہ مختلف سرکاری و نجی اداروں کی لائبریریاں، پبلک لائبریریز اور اخبارات و جرائد ہیں۔ دوسرا اہم ذریعہ عوامی رابطے ہیں جو مواد کے حصول اور تحقیق میں بہت موثر ثابت ہوتے ہیں بعض اوقات روایات اور واقعات کی تصدیق صرف عوام کے ذریعے ہوتی ہے ان دونوں قسموں کو Paper Source اور People Sourceکہا جاتا ہے۔

اردو ادب کے موجودہ دور میں جتنا مواد دستیاب ہے اسی سے کئی گنا مواد گوشہ گمنامی میں ہے جس کی کھوج لگانے کا طریقہ کار تحقیقی صداقت کی دلیل فراہم کرنا ہے ماخذ کو مواد بھی کہتے ہیں ماخذ سے مراد وہ مطبوعہ اور غیر مطبوعہ مواد سے حاصل شدہ نتائج ہیں جس کے اخذ واستفادے کی بدولت تحقیق کار اپنے موضوع سے متعلق نتائج حاصل کر کے اپنی تحقیق کو پایہ تکمیل تک پہنچاتا ہے چونکہ مواد ہی تحقیق کار کے غور و فکر کی بنیاد بنتا ہے اس لیے اس کی فراہمی بہت ہی ضروری ہے لہٰذا سب سے پہلے ان تصانیف کو تلاش کرنا ہو گا جو تحقیق کار کے موضوع تحقیق کے متعلق بنیادی حیثیت کی حامل ہوں گی بنیادی مواد کی اہمیت اس لیے مسلمہ و مصدقہ ہے کیونکہ اس سے محقق کو مزید مطلوبہ مواد کے اشاریے ملتے ہیں۔ جب ایک محقق کے پاس بنیادی مواد موجود ہو گا تو اس پر بسیط تحقیقی عمل کے بعد محقق پر یہ انکشاف ہو گا کہ مزید برآں اسے کس نوعیت کا مواد درکار ہے۔ اس ضمن میں ڈاکٹر عندلیب شادانی اپنے مقالے میں تحریر کرتے ہیں،

 ’’ریسرچ (Research) کا دار و مدار ماخذات و مراجع پر ہی ہوتا ہے اس لیے ہر نوع کے ماخذات و مصادر کی ایک مفصل و مجمل فہرست تیار کر لینی چاہیے۔‘‘(۱۷)

ادبی مواد متعدد انواع و اقسام سے عبارت ہوتا ہے جس کی نوعیات کی اقسام بندی کی جاتی ہے۔

۱)۔ اولین (Primary) اور ثانوی (Secondary) ماخذ

۲)۔ داخلی اور خارجی ماخذ۔

ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی اس کی تقسیم کچھ اس طرح کرتے ہیں:

الف۔ ’’بنیادی ماخذ (Primary Sources)

کسی بھی موضوع سے متعلق براہ رست معلومات فراہم کرنے والی کتب، مقالات، روزنامچہ، دستاویزات، مخطوطات اور خطبات وغیرہ مثلاً ایک واقعہ کے عینی شاہد کا بیان، خواہ تحریر کی شکل میں ہو یا تقر ری صورت میں، اس واقع سے متعلق تحقیق کا بنیادی ماخذ کہلائے گا۔ بنیادی ماخذ کو مصادر بھی کہتے ہیں۔‘‘

ب۔     ’’ثانوی ماخذ (Secondary Sources)

کسی بھی موضوع سے متعلق بالواسطہ معلومات فراہم کرنے والی کتب، مقالات اور دیگر تحریریں جن میں بنیادی ماخذ سے استفادہ کر کے لکھی جانے والی تحریریں اور تراجم وغیرہ بھی شامل ہیں۔ ایسی تحریروں کو مراجع بھی کہا جاتا ہے۔‘‘(۱۸)

ان دونوں اقسام کا اطلاق زیادہ تر کسی شاعر و نقاد و ادیب پر تحقیق کرنے کی صورت میں ہوتا ہے اولین مواد نہ ہر تحقیق ادیب کی تصنیفات اور دوسری تحریروں مثلاً مسودوں، ڈائریوں، خطوط، ذاتی لائبریری، اس کے اہل خانہ اور اس سے متعلق لکھنے والی شخصیات وغیرہ پر مشتمل ہوتا ہے ان کے علاوہ تاریخی دستاویزات، قانونی دستاویزات، طبی ریکارڈ، تعلیمی ریکارڈ اور ملازمت کا ریکارڈ وغیرہ بھی اولین ماخذ ہیں۔ بقیہ مواد ثانوی کہلائے گا۔

سید جمیل احمد رضوی اپنے مقالے میں یوں رقم طراز ہیں،

 ’’بنیادی ماخذ کے بارے میں یہ وہ دستاویزات ہوتی ہیں۔ جن میں ان واقعات وغیرہ کا ریکارڈ ہوتا ہے جن کو مصنف نے خود دیکھا اور اپنے کانوں سے سنا یعنی بنیادی مصادر میں چشم دید شہادت موجود ہوتی ہے جو تاریخی معقولیت اور قدر و قیمت بڑھا دیتی ہے۔ (ثانوی ماخذ کے بارے میں) وہ ریکارڈ ہوتے ہیں جنہیں فرد یا افراد یا ادارے مرتب کرتے ہیں جو خود واقعہ میں شریک نہیں ہوتے یا جنہوں نے خود اس واقعے کا مشاہدہ نہیں کیا ہوتا۔‘‘(۱۹)

داخلی اور خارجی مواد یا شہادت کا تعلق کسی متن سے ہوتا ہے ادبی تحریروں کے علاوہ بعض اوقات غیر ادبی تحریروں میں بھی ادیبوں کے بارے میں مفید معلومات میسر آ جاتی ہیں۔

ماخذ مواد کو ڈاکٹر گیان چند نے کچھ یوں تقسیم کیا ہے۔

۱۔      کتابیں جن کی دو قسمیں ہیں: ’’مطبوعہ‘‘، ’’ قلمی یا خطی‘‘

ان میں ادبی مخطوطات کے علاوہ مسودے، ڈائریاں، میونسپل رجسٹر وغیرہ بھی شامل ہیں۔

۲۔     جرائد اور ان کے علاوہ اخبار بھی شامل ہیں۔

۳۔     دوسرے کاغذات جن میں کسی مصنف کے۔۔ ۔ کاغذات، خطوط، تاریخی دستاویزات، قانونی دستاویزات بشمول مقدمے کی نقل، وصیت نامے، بیع نامے، زائچے، درسگاہوں میں داخلے اور امتحان کے فارم، ملازمت سے متعلق ریکارڈ، انکم ٹیکس ریکارڈ، طبی ریکارڈ، پاسپورٹ، راشن کارڈ اور گاڑی چلانے کا لائسنس وغیرہ۔

۴۔     بصری مواد یعنی فلم، ٹیلی ویژن اور فوٹو البم وغیرہ۔

۵۔     مائیکرو فلم، جس کے مواد کو (Micro Graphics)کہا جاتا ہے۔

۶۔     سمعی مواد، ریکارڈ یعنی کیسٹ (Cassette) ریڈیو کے ادبی پروگرام یعنی تقریریں، مباحث وغیرہ۔

۷۔     لوحیں، قبروں کے تعویذ، دیواروں پر لوحیں، قبروں کے گنبد اور دروازوں پر نقوش وغیرہ۔

۸۔     ملاقات (انٹرویو)

۹۔     مراسلت کے ذریعے استفسار، سوال نامے‘‘ (۲۰)

اس مقالے میں ’’شبیر ناقدؔ کی تنقید نگاری ابو البیان ظہور احمد فاتحؔ کا کیفِ غزل اور نقدِ فن کے تناظر میں‘‘ میں ان دونوں ماخذات سے مدد لی گئی ہے۔

بنیادی ماخذات میں شبیر ناقدؔ کی تصانیف سے خصوصی مدد لی گئی ہے جن میں درج ذیل کتابیں شامل ہیں۔

بنیادی ماخذ:

1۔ صلیب شعور غزلیات و نظمیات

2۔ آہنگ خاطر  غزلیات، نظمیات، گیت، قطعات

3۔ من دی مسجد سرائیکی شاعری

4۔ جادہ فکر     غزلیات و نظمیات

5۔ ابو الیبان ظہور احمد فاتحؔ کا کیفِ غزل تحقیق و تنقید

6۔ شاعراتِ ارضِ پاک  حصہ اول

7۔ شاعراتِ ارضِ پاک   حصہ دوم

8۔ شاعراتِ ارضِ پاک   حصہ سوم      

9۔ شاعراتِ ارضِ پاک   حصہ چہارم

10۔ نقد فن    تنقیدی مضامین

11۔ شاعراتِ ارضِ پاک        حصہ پنجم

12۔ شاعراتِ ارضِ پاک        حصہ ششم

13۔ صبح کاوش غزلیات و نظمیات

14۔ کتاب وفا  مجموعۂ  غزل

15۔ دل سے دور نہیں ہو تم             غزلیات و نظمیات

16۔ شاعراتِ ارضِ پاک حصہ ہفتم

17۔ شاعراتِ ارضِ پاک جامع ایڈیشن     حصہ اول

18۔ ابو البیان ظہور احمد فاتحؔ کا منشور نظم          تحقیق و تنقید

19۔ روح دی روہی سرائیکی شاعری

20۔ گنج آگہی   مجموعۂ  غزل

21۔ جہانِ عقل و جنوں غزلیات و نظمیات

22۔ زادِ سخن   اُردو شاعری

23۔ میزانِ تنقید       تنقیدی مضامین

24۔ تنقیدات  تنقیدی مضامین

25۔ حسنِ خیال        اُردو شاعری

26۔ رتجگوں کا سفر     اردو شاعری

27۔ طرزِ بیاں اردو شاعری

28۔ سفر نامہ نگاری کے انتقادی امکانات تنقیدی مضامین

29۔ شاعراتِ ارضِ پاک (جامع ایڈیشن)  حصہ دوم

30۔ تلمیحاتِ فضا اعظمیؔ نقد و نظر

31۔ عکاسِ احساس     اردو شاعری

32۔ نقدِ فکر و نظر       اردو شاعری

33۔ ریاضِ دانش      اُردو شاعری

34۔ فضا اعظمیؔ کی شاعری (تلمیحات کے آئینے میں)     تنقید

35۔ ضیافتِ اطفال     بچوں کیلئے نظمیں

(۲)۔ شبیر ناقدؔ سے بنفس نفیس ملاقات کی گئی ان کا انٹرویو لیا گیا۔ جس سے احوال و آثار کے مرتب کرنے میں بہت آسانی رہی۔

(۳)۔ شبیر ناقدؔ کی خطوط اور اخبارات کو دیئے گئے انٹرویوز سے بھی مدد لی گئی۔

(۴)۔ ادب میں تنقید اور دوسرے تنقید نگاروں کی تصانیف سے بھی استفادہ کیا گیا جس کے ماخذات و مراجع حوالہ جات کا حصہ ہیں۔

ثانوی ماخذ:

(۱)۔ شبیر ناقدؔ کی تنقیدی نکاری ابو البیان ظہور احمد فاتحؔ کا کیفِ غزل اور نقدِ فن کے تناظر میں‘‘ مقالے کے لیے بنیادی ماخذات کے ساتھ ساتھ ثانوی ماخذات سے بھی بھر پور استفادہ کی سعی جمیل کی گئی ہے تاکہ تحقیقی اعتبار سے کہیں بھی ممدوح مذکور کے تنقیدی کام کے حوالے سے تشنگی کا احساس نہ رہے۔

(۲)۔ شبیر ناقدؔ کے احباب جن میں معاصر شعراء، ادباء، ناقدین اور اہل ذوق قارئین سے رابطہ کیا گیا جن میں معدود چند کے اسمائے گرامی حسب ذیل ہیں:

(۱)۔ ابو البیان ظہور احمد فاتحؔ، جنہیں ان کے آموز گار ادب ہونے کا امتیاز و شرف حاصل ہے ادبی حوالے سے ان کی حیثیت شاعر، ہفت زبان اور استاد الشعراء کی ہے شعری حوالے کے علاوہ وہ ایک منضبط ادیب کے خصائص کے حامل بھی ہے۔

(۲)۔ شاعر علی شاعرؔ جو ایک شاعر و ادیب کی حیثیت سے جانے اور پہچانے جاتے ہیں جن کے ادارے ’’رنگِ ادب پبلیکیشن‘‘ کو شبیر ناقدؔ کی بیشتر تنقیدی کتب کو زیورِ طباعت سے آراستہ و پیراستہ کرنے کا اعزاز و افتخار حاصل ہے۔

(۳)۔ شبیر ناقدؔ کے ہمعصر اہل ادب میں جسارت خیالی (شاعر و ادیب)، ناصر ملک (شاعر، افسانہ نویس، ناول نگار)، سعید الظفر صدیقی (شاعر و ادیب)، صابر ظفر (شاعر و ادیب)، ڈاکٹر اختر ہاشمی (شاعر و نقاد) وغیرہ اور دیگر قریبی ادب دوست احباب شامل ہیں جن سے معلومات لی گئیں تاکہ تحقیقی مواد کو ایک اعتباری صورت میسر آئے جو راقم الحروف (مقالہ نگار) کی اولین ترجیح اور طمانیت قلب و خرد کا سامان ہے۔

(۳)۔ شبیر ناقدؔ کے متعلق جو تحریریں یا مقالے لکھے گئے ان سے بھی استفادہ کیا گیا نیز ان کی تخلیقات میں موجود ان کی شخصیت اور فن سے متعلق پرچھائیوں کو ضبط تحریر میں لایا گیا۔

(۴)۔ شبیر ناقدؔ کی شخصیت کے جو خاکے لکھئے گئے ان کو بھی شامل تحقیق کیا گیا۔

(۵)۔ مختلف نامور ادیبوں اور تنقید نگاروں نے جو شبیر ناقدؔ کے متعلق آراء پیش کی ہیں ان کو بھی اس مقالے کے مشمولات کا حصہ بنایا گیا تاکہ مقالہ ہٰذا کو ایک مکمل اور جامع تحقیقی حیثیت حاصل ہو۔

(۶)۔ ادبی اخبارات ورسائل کے مواد سے بھی معاونت حاصل کی گئی ہے۔

حواشی

۱۔ سید احمد دہلوی، مولوی، فرہنگ آصفیہ، جلد اول، لاہور، مرکزی اردو بورڈ ص: 595

۲۔ فیروز الدین، مولوی، فیروز اللغات اردو جامع، لاہور، فروز سنٹر، ص 312

3. A new english dictionary on historical principal

4. www.webstarsonlinedictionary

5. Cambridge Advanced Leaener 5 dictionary (Cambridge University Press),        p.1061

6. www.encarta.com

۷۔ عبدالودود قاضی، اصول تحقیق، مسؤلہ، تحقیق و تدوین، جلد اول مرتبہ: محمد ہاشم سید علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، 1978 ص: 36

۸۔ مالک رام، ’’اردو میں تحقیق‘‘، مسؤلہ، ’’اردو میں اصول تحقیق‘‘، جلد دوم، مرتبہ: ایم سلطانہ بخش، ڈاکٹر، اسلام آباد مقتدرہ قومی زبان طبع دوم، 2001ء، ص: 80

۹۔ گیان چند ڈاکٹر، ’’تحقیق کا فن‘‘، اسلام آباد: مقتدرہ قومی زبان طبع دوم، 2002ء، ص: 10

۱۰۔ نذیر احمد، ’’ تاریخی تحقیق کے بعض مسائل‘‘مسؤلہ تحقیق و تدوین، جلد اول، مرتبہ: محمد ہاشم سید، علی گڑھ شعبہ اردو، مسلم یونیورسٹی،        1978، ص: 52

۱۱۔ عبداللہ، ڈاکٹر سید، مباحث، لاہور، مجلس ترقی ادب، فروری 1965ء، ص: 365

۱۲۔ نجم الاسلام، ڈاکٹر، تحقیق کی چند تعریفات، مسؤلہ تحقیق شناسی مرتبہ: رفاقت علی شاہد، لاہور: القمر انٹرپرائزز 2003ء، ص: 27

۱۳۔ گیان چند، ڈاکٹر، ’’تحقیق کا فن‘‘، اسلام آباد: مقتدرہ قومی زبان طبع دوم، ص: 13

۱۴۔ تبسم کاشمیری، ڈاکٹر، ’’ادبی تحقیق کے اصول‘‘، اسلام آباد، مقتدرہ قومی زبان 1992ء، ص: 20

۱۵۔ ایضاً، ص: 24    ۱۶۔ ایضاً، ص: 48

۱۷۔ عبدالودود قاضی، ’’اصول تحقیق‘‘ مسؤلہ تحقیق و تدوین، جلد اول، مرتبہ: محمد ہاشم سید علی گڑھ، مسلم یونیورسٹی، 1978، ص: 40

۱۸۔ ایضاً، ص: 59

باب دوم

شبیر ناقدؔ کے سوانحی و فنی کوائف پر طائرانہ نظر

شبیر ناقدؔ کی سوانح حیات

حالاتِ زندگی:

اصل نام غلام شبیر اور ادبی نام شبیر ناقدؔ ہے۔ شبیر ناقدؔ یکم فروری 1974ء کو جنوبی پنجاب کے مردم خیز خطے ڈیرہ غازی خان کی تحصیل تونسہ شریف کے گاؤں ہیرو شرقی میں پیدا ہوئے۔ شبیر ناقدؔ کے والد کا نام اللہ وسایا ہے جو 2007ء میں انتقال فرما گئے۔ شبیر ناقدؔ کے والد بھی شعری مزاج رکھتے تھے اور بہت سے صوفیاء کرام کا عارفانہ کلام انہیں ازبر تھا۔ شبیر ناقدؔ کی والدہ ادبی ذوق نہیں رکھتی تھیں لیکن دانش و بصیرت سے مالامال تھیں۔ شبیر ناقدؔ کے دو بھائی اور تین بہنیں ہیں جن میں سے یہ سب سے چھوٹے ہیں۔ ان کے نام بالترتیب یہ ہیں:

1۔     نصیر احمد

2۔     بشیر احمد

3۔     فاطمہ بی بی

4۔     سکینہ بی بی

5۔     حلیمہ بی بی

(الف) ازدواجی زندگی:

دسمبر 1997ء میں شبیر ناقدؔ کی شادی صفیہ عنبرین سے ہوئی۔ یہ ان کی پہلی شادی تھی جو کامیاب نہ ہو سکی۔ اس کے بارے شبیر ناقدؔ کا کہنا ہے کہ:

 ’’دسمبر 1997ء میں صفیہ عنبرین سے عقد اول کیا۔ مزاجی ہم آہنگی نہ ہونے کی وجہ سے یہ رفاقت صرف پانچ سال کے عرصہ تک محیط رہی۔ ان سے ایک بیٹی بھی پیدا ہوئی تھی جو بعد از پیدائش وفات پا گئی تھی۔‘‘

(مقالہ نگار کے نام شبیر ناقدؔ کا خط، 2014ء، ص 2)

21 اکتوبر 2003ء میں ممتاز النسا سے دوسری شادی کی۔

(ب) اولاد:

شبیر ناقدؔ کی پہلی بیوی سے ایک بیٹی پیدا ہوئی جو پیدائش کے بعد وفات پا گئی۔ دوسری بیوی سے اللہ تعالیٰ نے ایک بیٹے سے نوازا جس کا نام محمد کاوش ہے جو اگست 2006ء میں پیدا ہوا۔ اس وقت آٹھویں جماعت کا طالب علم ہے۔ اس کے بعد دو بیٹوں کی پیدائش ہوئی جو پیدائش کے بعد وفات پا گئے۔ اس کے بعد بچوں کی پیدائش کا سلسلہ موقوف ہو گیا۔

(ج) تعلیم:

عہدِ طفولیت میں ہی شبیر ناقدؔ فطری طور پر پڑھنے لکھنے کی طرف زیادہ توجہ دیتے تھے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ علم و ادب کا ذوق مشیت سے ودیعت ہوا۔ عام بچوں کی طرح شبیر ناقدؔ کھیل کود کے مشاغل میں دلچسپی انتہائی کم لیتے تھے۔

لیل و نہار کا بیشتر حصہ حصولِ علم میں صرف ہوا۔ شبیر ناقدؔ نے 1992ء میں گورنمنٹ ہائی سکول ہیرو شرقی تحصیل تونسہ شریف ضلع ڈیرہ غازیخان سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ 1994ء میں گورنمنٹ کمرشل ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ تونسہ شریف سے ڈی کام پاس کیا۔ 2001ء میں پرائیویٹ طور پر بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان سے بی اے کیا اور 2003ء میں جامعہ ہذا سے ایم اے (اردو) کیا اور 2007ء کو مذکورہ جامعہ سے نجی طور پر پنجابی ادبیات میں پوسٹ گریجویٹ کیا۔

(د) ملازمت:

جولائی 1999ء میں شبیر ناقدؔ نے پاک آرمی میں شمولیت اختیار کی، آرٹلری سنٹر اٹک سے عسکری تربیت حاصل کی اور10 جولائی 2017ءکو حوالدار کے رینک پر ریٹائرمنٹ لی۔

(2) ادبی سفر کا آغاز:

شبیر ناقدؔ نے شاعری کا آغاز تو طالب علی کے زمانے سے ہی کر دیا تھا یعنی جب وہ نویں جماعت میں تھے۔ ان کے ادبی سفر کے آغاز کے بار میں  شاعر علی شاعرؔ کہتے ہیں:

 ’’شاعری کا باضابطہ آغاز تو نویں جماعت سے ہی ہو گیا تھا اولاً انگریزی، اردو، سرائیکی اور پنجابی زبان میں طبع آزمائی کی۔‘‘

(شاعر علی شاعر، 2014ء، ص 281)

ان کی اہم نظموں میں ’’Beauty”، ’’ٹیپو سلطان‘‘ اور ’’حریت‘‘ شامل ہیں۔ شبیر ناقدؔ نے شاعری کا باضابطہ آغاز 1996ء میں کیا اور ساتھ ہی نثر نگاری بھی شروع کر دی۔ اس کے بارے میں شبیر ناقدؔ خود کہتے ہیں:

 ’’میرے ادبی سفر کا آغاز 1996ء میں شاعری سے باضابطہ طور پر ہوا لیکن فوراً بعد ہی نثر نگاری بھی شروع کر دی۔ نظم و نثر میں ابو البیان ظہور احمد فاتحؔ سے اکتسابِ فیض کیا۔‘‘

(مقالہ نگار کے نام شبیر ناقدؔ کا خط، 2014ء، ص: 3)

شبیر ناقدؔ نے ابو البیان ظہور احمد فاتحؔ سے بھی فیض حاصل کیا۔ اس سلسلے میں شاعر علی شاعرؔ لکھتے ہیں:

 ’’شبیر ناقدؔ کا شمار پروفیسر ظہور احمد فاتحؔ کے ان تلامذہ میں ہوتا ہے جنہوں نے اپنے آموزگارِ ادب سے سب سے زیادہ اکتسابِ فیض کیا ہے۔ اس لیے انہیں ممتاز و منفرد مقام حاصل ہے۔ ان کی بسیار گوئی بھی اپنے استاد سے کچھ نہ کچھ مماثلت رکھتی ہے۔ ان کی پُر گوئی کا یہ عالم ہے کہ ان کے ابھی تک سترہ مجموعہ ہائے کلام زیورِ طباعت سے آراستہ ہو چکے ہیں لیکن ان کے غیر مطبوعہ کلام سے ایک درج شعری مجموعے بآسانی ترتیب پا سکتے ہیں۔ زبان و ادب کی خدمت کو احساسِ سود و زیاں سے بالاتر ہو کر روح کی ریاضت گردانتے ہیں۔ اس لیے بلا امتیاز شام و سحر گلشنِ شعر و ادب کی آبیاری میں منہمک رہتے ہیں۔ ادب ان کا اوڑھنا بچھونا ہے۔ ان کے معمولات ادبی خدمات سے عبارت ہیں۔ ادبی اعتبار سے ملک گیر رابطوں کے حامل ہیں۔ اگر کوئی تلمیذِ ادب راہنمائی کا خواستگار ہو تو بصد خلوص اس کی حاجت کشائی کرتے ہیں۔ ان کے شب و روز ان کی ادب سے وابستگی کے جنون کی حد تک غماز ہیں۔ گویا شبیر ناقدؔ راہِ ادب کے ان تھک راہی ہیں جو خلوص اور ریاضت پر یقین رکھتے ہیں۔‘‘

(شاعر علی شاعرؔ ، 2014ء، ص 281-282)

ملک بھر کے متعدد اخبارات و جرائد میں شبیر ناقدؔ کی بے شمار نثری و شعری تخلیقات شائع ہوئی ہیں۔ ان میں روزنامہ ’’نوائے وقت‘‘، ’’جنگ‘‘، ’’خبریں‘‘ اور ’’اوصاف‘‘ میں ان کی نثری اور شعری تخلیقات شائع ہوتی رہتی ہیں۔ اس کے علاوہ ادبی جرائد میں سہ ماہی ’’ادب معلی‘‘ لاہور، سہ ماہی ’’عالمی رنگِ ادب‘‘ کراچی، سہ ماہی ’’ارتقاء‘‘ حیدر آباد، سہ ماہی ’’لوحِ ادب‘‘ کراچی، سہ ماہی ’’غنیمت‘‘ کراچی، سہ ماہی ’’حرف‘‘ کوئٹہ، سہ ماہی ’’نوازش‘‘ لاہور، ماہنامہ ’’ارژنگ‘‘ لاہور، سہ ماہی ’’شاعری‘‘ کراچی، سہ ماہی ’’شعر و سخن‘‘ مانسہرہ سہ ماہی ’’عطا‘‘ ڈیرہ اسماعیل خان، سہ ماہی ’’زرنگار‘‘ فیصل آباد، سہ ماہی ’’فراست‘‘ بہاولپور، ماہنامہ ’’الہام‘‘ بہاولپور، ماہنامہ ’’سوجھلا ٹائمز‘‘ میانوالی، ماہنامہ ’’شاداب‘‘ لاہور، سہ ماہی ’’بدلوں‘‘ چارسدہ اور ماہنامہ ’’ادبیات‘‘ اسلام آباد وغیرہ میں شبیر ناقدؔ کا منظوم و منثور کلام شائع ہوتا رہا ہے۔

شبیر ناقدؔ کی تصانیف

شعری تصانیف

1۔ صلیبِ شعور:

دسمبر 2007ء میں ان کا اولیں شعری مجموعہ ’’صلیبِ شعور‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا جو غزلوں اور نظموں پر مشتمل تھا۔ اس کتاب میں اردو ادب کی طویل ترین غزل جسے ’’غزلنامہ‘‘ سے موسوم کیا گیا ہے۔ لفظ ’’غزل نامہ‘‘ بھی ان کی ذاتی اختراع ہے۔

بقول ظہور احمد فاتحؔ:

 ’’شبیر ناقدؔ کو اگر فطری شاعر کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔ تھوڑے سے وقت میں جس ریاض اور ہونہاری سے ان کا ہنر ارتقاء پذیر ہوا ہے، وہ یقیناً باعثِ طمانیت ہے۔ اگر چہ جواں فکر اور جواں شوق ہونے کے ناتے ان کی شاعری زیادہ تر جوانوں کے روایتی موضوع یعنی محبت کے گرد گھومنی چاہیے تھی لیکن یہ امر بھی خوش آئند ہے کہ انہوں نے زیادہ تر دیگر موضوعات کو بھی ساتھ ہی ساتھ بڑی خوش اسلوبی سے نبھایا ہے۔ غمِ دوراں، رنجِ ذات، امیدِ فردا، جرم و سزا، مطالعۂ  کائنات، جوابی رویے، سیاسیات، حقیقت پسندی، خیر خواہی اور خود شناسی جیسے اوصاف شامل ہیں جن کے باعث شبیر ناقدؔ کا شعری کینوس بہت وسیع ہو جاتا ہے۔ لہٰذا ہر ذوق رکھنے والا قاری ان کی کشیدِ جاں سے حظ اٹھا سکتا ہے۔ ان کے فنی و فطری تجربے ہر گاہ اپنی مخصوص بہار دکھاتے نظر آتے ہیں۔ ان کے ہاں صرف موضوعاتی تنوع نہیں پایا جاتا بلکہ ان کی کاوشیں اصنافِ شعر کے ہر شعبے میں اپنی پختگی کا لوہا منواتی نظر آتی ہیں۔‘‘

(ظہور احمد فاتحؔ، 2014ء، ص: 11-12)

2۔ من دی مسجد:

 ’’من دی مسجد‘‘ شاعر شبیر ناقدؔ کا پہلا سرائیکی مجموعہ ہے۔ یہ کتاب مارچ 2010ء میں فاتحؔ پبلی کیشنز کالج روڈ تونسہ شریف سے شائع ہوئی۔ یہ کتاب 174 صفحات پر مشتمل ہے۔ اپنے اس شعری مجموعے کا نام شبیر ناقدؔ نے اپنے ایک شعر سے اخذ کیا ہے:

میکوں کھا گئے ایہو ارمان یارو

میڈے من دی مسجد ہے ویران یارو

(شبیر ناقد، 2010، ص: 102)

من دی مسجد کے نام سے جو تقدس موجود ہے، وہ ہمیں آپ کے اس شعری مجموعے میں جگہ جگہ نظر آتا ہے۔ ’’من دی مسجد‘‘ کا انتساب آپ نے اپنے فرزند محمد کاوش کے نام کیا ہے۔ آپ نے اپنے اس مجموعۂ  کلام میں سرائیکی غزلوں، نظموں، قطعات، گیتوں، دوہڑوں اور سرائیکو کو شامل کیا ہے۔ سرائیکو کا نمونہ ملاحظہ ہو:

نت سوچاں سچویندی ونجے

اکوں روز رویندی ونجے

یاد تہاڈی

(پروفیسر یوسف چوہان، 2010ء، ص: 107)

آپ کا کلام ایک پر اثر اور ایک خاص لب و لہجہ لیے ہوئے ہے جو دھیرے دھیرے دل میں اتر جاتا ہے۔ آپ کے کلام میں سماجی کرب کا گہرا احساس ملتا ہے۔

3۔ آہنگِ خاطر:

 ’’آہنگِ خاطر‘‘ شبیر ناقدؔ کا شعری مجموعہ ہے جو فروری 2010ء میں فاتحؔ پبلی کیشنز تونسہ شریف سے شائع ہوا۔ یہ کتاب نظموں اور غزلوں پر مشتمل ہے۔ اس کے شروع میں ایک حمد باری تعالیٰ اور ایک نعت رسول مقبولؐ بھی لکھی گئی ہے۔ آہنگِ خاطر میں 87 نظمیں اور 81 غزلیات موجود ہیں۔ یہ کتاب شبیر ناقدؔ کے فن کا عظیم شاہکار ہے۔ شاعری کے حوالے سے آہنگِ خاطر بہت اہم کتاب ہے۔

شبیر ناقدؔ کا رومانوی اور جمالیاتی رویہ ’’آہنگِ خاطر‘‘ پر چھایا ہوا ہے۔ اس کے مشاہدے سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس میں بعض نظمیں وقتی صورتِ حال کو دیکھنے کے بعد وجود میں آئیں اور غزلوں پر بھی شبیر ناقدؔ نے بہت محنت و ریاضت کی ہے۔ ظہور احمد فاتحؔ ’’آئینہ بندی‘‘ کے عنوان سے لکھتے ہیں:

 ’’شبیر ناقدؔ کے کلام میں ایک وصف یہ بھی ہے کہ اس میں ہر صنف کے نمونے نظر آئیں گے۔ غزل کے علاوہ گیت اور نظم کی سب ہیئتی اقسام مثلاً مثنوی، ثلاثی، قطعہ، بند مخمس، مسدس، مثمن اور مستزاد شامل ہیں۔ انہوں نے خاصی متاثر کن آزاد نظمیں بھی لکھیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ فراوانی سے غزلیں اور نظمیں لکھنے کی وجہ سے ان کی آزاد نظموں میں بھی چلتے چلتے قافیہ و ردیف کا اہتمام پایا جاتا ہے۔ صنفی تنوع کے ساتھ ساتھ وسیع موضوعاتی تنوع بھی شبیر ناقدؔ کے ہاں مشاہدے میں آتا ہے۔ جس میں حمد، نعت، منقبت اور مرثیے کے رنگ بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ معاشرتی نظمیں بھی اپنی بہار کے رنگ دکھاتی نظر آتی ہیں اور کہیں ہلکا پھلکا مزاح بھی تبسم کی موجیں بکھیرتا نظر آتا ہے۔‘‘

(ظہور احمد فاتحؔ، 2010ء، ص: 17)

 ’’آہنگِ خاطر‘‘ ایک کہنہ مشق شاعر کے قلب و خرد کی آواز ہے جو کبھی سچائی کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوٹنے دیتا۔ اس کتاب کا انتساب منظوم اور والدہ محترمہ کے نام ہے جو ایک خوب صورت نظم کا درجہ رکھتا ہے جس کے مطالعے کے بعد قاری پر ماں کے رشتے کی اہمیت اور افادیت واضح ہو جاتی ہے۔ کتاب کا آغاز حسبِ روایت حمد و نعت اور سلام امام عالی مقام سے ہوتا ہے۔ مقبول ذکی مقبولؔ لکھتے ہیں:

 ’’شبیر ناقدؔ کی شاعری رنگوں کی حسین قوس و قزح ہے جس میں تصوف، رومان، مزاحمتی شاعری اور علامتی شاعری کے رنگ زیادہ نمایاں ہیں۔ ان کی شاعری خود میں بے پناہ دولتِ تاثر رکھتی ہے اور دلوں پر اثر کرنے کی عمیق صلاحیت سے متصف ہے۔ جدید تخیل کے ساتھ ساتھ رفعتوں کی حامل بھی ہے۔ ان کے فنی اوصاف و جواہر فکر و فن اور ادب سے پورا پورا انصاف کرتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔ فصاحت و بلاغت کی خصوصیات واضح طور پر مشاہدہ کی جا سکتی ہیں۔‘‘

(مقبول ذکی مقبولؔ ، 2014ء ص: 274)

4۔ جادۂ فکر:

 ’’جادۂ فکر‘‘ شبیر ناقدؔ کا چوتھا شعری مجموعہ ہے۔ یہ مئی 2014ء میں طلوعِ اشک پبلیکیشنز سے شائع ہوا۔ اس کتاب کا آغاز بھی حمد باری تعالیٰ اور نعت سرکارِ دو عالمؐ سے ہوتا ہے۔ یہ کتاب بھی نظمیات و غزلیات پر مشتمل ہے۔ ’’جادۂ فکر‘‘ شاعرِ با شعور شبیر ناقدؔ کی مسلسل چوتھی شعری کاوش ہے۔

شبیر ناقدؔ ایک فطری شاعر محسوس ہوتے ہیں جس میں تصنع و تفاخر کا نام و نشان تک نہیں۔ وہ تسلسل کے ساتھ لکھنے کے قائل ہیں۔ ایک برجستگی و بے ساختگی ان کے ہاں محسوس ہوتی ہے۔

ظہور احمد فاتحؔ لکھتے ہیں:

 ’’ہمارے خیال میں ان کا یہ شعری مجموعہ ایک دلچسپ بیاض ہے جس میں ہر طرح کے مضامین رنگارنگی دکھاتے نظر آتے ہیں۔ وہ شوکتِ الفاظ کے قائل نہیں لیکن چلتے چلتے برجستہ انداز میں خوبصورت صنائع پیش کر جاتے ہیں۔ ہمیں ان کی باقاعدہ نگاری بہت پسند ہے اگرچہ کیفیات کے تحت ہونے والی شاعری ایک سمندر کا سماں رکھتی ہے۔‘‘

(ظہور احمد فاتحؔ، 2014ء، ص: 13-14)

علاوہ ازیں ان کی شعری تصانیف درج ذیل ہیں۔

5۔ دل سے دور نہیں ہو تم

6۔ صبحِ کاوش         

7۔ کتابِ وفا

8۔ روح دی روہی            

9۔ گنجِ آگہی

10۔ جہانِ عقل و جنوں

11۔ زادِ سخن         

12۔ حسنِ خیال       

13۔ رتجگوں کا سفر

14۔ طرزِ بیاں        

15۔ نقدِ فکر و نظر             

16۔ عکاسِ احساس

17۔ ضیافتِ اطفال

نثری تصنیفات

1۔ ابو البیان ظہور احمد فاتحؔ کا کیفِ غزل:

شبیر ناقدؔ کی یہ کتاب جون 2013ء میں فاتحؔ پبلی کیشنز تونسہ سے شائع ہوئی۔ یہ ان کی نثری اور تنقیدی نوعیت کی تصنیف ہے۔ اس کتاب میں شبیر ناقدؔ نے اپنے استاد گرامی ظہور احمد فاتحؔ کی شخصیت اور ان کے دس شعری مجموعوں کی مشمولہ غزلیات کا انتہائی منطقی اور استدلالی انداز میں تجزیہ پیش کیا ہے جس سے ان کے نقدِ فن کا جوہر کھل کر سامنے آیا ہے اور تخلیقیت کی سطح بھی اجاگر ہوئی ہے۔ اس کتاب میں کل 12 مضامین ہیں۔ پہلا مضمون ابو البیان ظہور احمد فاتحؔ کے سوانحی و فنی تعارف پر مشتمل ہے۔ باقی کے عنوانات کچھ یوں ہیں (ابو البیان ظہور احمد فاتحؔ) شاعرِ رجائیت، شاعرِ حزن و ملال، شاعرِ رومان، شاعرِ عرفان و آگہی، ایک انسان دوست شاعر، اسلوبیاتی جائزہ، کلامِ فاتحؔ اور داخلی کیفیات، ظہور احمد فاتحؔ اور عصری رویے، ظہور احمد فاتحؔ کی طربیہ شاعری کے تناظر میں، سرخیل تعلیات، ظہور احمد فاتحؔ کی فنی دقیقہ سنجیاں، کثیر الجہات شاعر شبیر ناقدؔ نے اپنی اس کتاب میں ابو البیان ظہور احمد فاتحؔ کی شاعری کے جمالیاتی پہلو رجائیت اور رومانیت کو اپنے مضامین کا موضوع بنایا ہے۔ اس کے علاوہ شبیر ناقدؔ نے ان کی شاعری کا اسلوبیاتی جائزہ بھی لیا ہے۔ یہ کتاب ان کے فن کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ انہوں نے اپنے استاد گرامی کی شاعری پر لکھ کر پورا پورا حق ادا کیا ہے۔

2۔ شاعراتِ ارضِ پاک (حصہ اول):

شبیر ناقدؔ کی یہ کتاب جون 2013ء میں رنگِ ادب پبلی کیشنز کراچی سے شائع ہوئی۔ اس کتاب میں مختلف شاعرات کی ادبی کاوشوں پر شبیر ناقدؔ نے 26 مضامین لکھے ہیں اور نمونۂ  کلام بھی شامل کیا ہے۔ شبیر ناقدؔ نے عصری ضرورتوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے یہ کتاب نسائی حوالے سے لکھی۔ یہ کتاب طبقۂ  نسواں کے جذبات و خیالات کی عکاس ہے۔ یہ کتاب لکھ کر شبیر ناقدؔ نے بہت عظیم کام سرانجام دیا ہے۔ یہ کتاب نسائی ادب میں ایک تاریخی حوالہ بھی ثابت ہو سکتی ہے۔

ابو البیان ظہور احمد فاتحؔ کہتے ہیں کہ:

 ’’شبیر ناقدؔ کی نگارشات کا یہ مجموعہ عالمِ تنقید میں ایک نیا قدم ہے۔ ایک تازہ پیش رفت ہے اور ایک جدید سلسلہ شذرات ہے جو خود میں بے پناہ جواہرِ درخشاں لیے ہوئے ہے جو بہت سی نادرہ کار ادبی شخصیات کے حوالے ناقدانہ آراء کا مخزنِ گراں بہا ہے۔ نہ صرف خوبصورت اشعار کا گلدستہ ہے بلکہ حسین و جمیل شخصیات کا عکسِ دلکش بھی ہے۔‘‘

(ظہور احمد فاتحؔ، 2014ء۔ ص: 8)

شبیر ناقدؔ نے ’’شاعراتِ ارضِ پاک‘‘ کے حصہ اول میں مختلف شاعرات اور ان کے کلام کی خوبیوں کا ذکر کیا ہے جن کی فہرست یہ ہے۔

فہمیدہ ریاض کی نظم اور غیر روایتی تخیلات، بسملؔ صابری روایت و جدت کا سنگم، پروین شاکرؔ احساسِ محبت کے آئینے میں، ڈاکٹر نزہتؔ عباسی کا شعری کینوسی، حجابؔ عباسی کا شعری شعور، شبہؔ طراز تکلمِ جدید کی شاعرہ، بشریٰ فرحؔ لطیف جذبوں کی شاعرہ، حمیراؔ راحت تحیرِ عشق کی شاعرہ، ڈاکٹر نجمہ شاہینؔ کھوسہ عشق و الفت کی شاعرہ، جہاں آراء تبسمؔ پر آشوب کیفیات کی شاعرہ، آسناتھ کنولؔ نسائی احساسات کی شاعرہ، ایم زیڈ کنولؔ ، یاسمینؔ یاس، میمونہؔ غزل، حناؔ ء گل، ثمینہ گلؔ ، فرزانہ جاناںؔ ، آمنہؔ عالم، شبنمؔ اعوان، نیرؔ رانی شفق، زیبؔ النسا زیبی، ماریہؔ روشنی، حمیدہ سحرؔ کے کلام پر تنقیدی مضامین لکھے ہیں۔

3۔ شاعراتِ ارض پاک (حصہ دوم):

جون 2013ء میں شاعراتِ ارضِ پاک (حصہ دوم) شائع ہوا۔ شبیر ناقدؔ کی کتاب کی دوسری کڑی کے طور پر منظر عام پر آئی۔ یہ کتاب بھی تنقیدی مضامین و منتخب کلام پر مشتمل ہے۔ اس میں کل 37 مضامین شاعرات پر لکھے گئے ہیں۔ شبیر ناقدؔ نے اپنی کتاب میں بڑی خوبصورتی سے شاعرات کے ادبی کاموں کی تعریف کی ہے اور ان کا کلام پیش کیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ شبیر ناقدؔ نے شاعرات کے سوانحی کوائف بھی درج کیے ہیں۔

شاعراتِ ارضِ پاک کا مطالعہ کرنے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ہمارا نسائی ادب بھی کس قدر زرخیز اور پر مغز ہے۔ ہر قسم کی شعری لطافتیں اس نسائی ادب میں موجود ہیں۔ اس کتاب میں دورِ حاضر کی بیشتر شاعرات کا ذکر موجود ہے۔

4۔ شاعراتِ ارضِ پاک (حصہ سوم):

شبیر ناقدؔ کی کتاب ’’شاعراتِ ارض پاک‘‘ حصہ سوم نومبر 2013ء میں رنگِ ادب پبلی کیشنز کراچی سے شائع ہوئی۔ اس کتاب میں کل 34 مضامین ہیں۔ یہ شاعراتِ ارض پاک کی تیسری کڑی ہے۔ کتب کی ساری کڑیاں یہ بات واضح کرتی ہیں کہ اسے مقبولیت حاصل ہوئی ہے۔ اس لیے شبیر ناقدؔ نے اس سلسلے کو آگے بڑھایا ہے۔

طبقۂ  نسواں نے اپنے اپنے کلام سے اردو ادب کو بہت تقویت بخشی ہے۔ اس میں موجودہ تنقیدی مضامین شبیر ناقدؔ کی شبانہ روز محنت کا نتیجہ ہیں۔ اس کتاب میں شبیر ناقدؔ نے بسمل صابری، تزئین آرا، حمیرا راحت، ریحانہ روحی، شبہ طراز، ڈاکٹر فاطمہ حسن وغیرہ جیسی دورِ حاضر کی مشہور شاعرات کے بارے میں لکھا ہے اور ان کا منتخب کلام بھی پیش کیا ہے۔

5۔ شاعراتِ ارضِ پاک (حصہ چہارم):

 ’’شاعراتِ ارضِ پاک‘‘ کا حصہ چہارم شبیر ناقدؔ کی ان تھک کوششوں کے بعد جولائی 2014ء میں رنگِ ادب پبلی کیشنز کراچی سے شائع ہوا۔ اس کتاب کی چوتھی کڑی اس کی مقبولیت کا واضح ثبوت ہے۔ شبیر ناقدؔ نے فنِ تنقید میں نام کمایا اور طبقہ نسواں کے ساتھ اس کتاب کے ذریعے بھرپور انصاف کیا۔ ظہور احمد فاتحؔ لکھتے ہیں:

 ’’شبیر ناقدؔ ایسے نقاد ہیں جن کا مشرب خالصتاً تعمیری نوعیت کا ہے جن کا مطمحِ نظر عروسِ ادب کی تزئین و آرائش ہے۔ وہ گلشنِ شعر کی شادابی کو اپنا نصب العین بنائے ہوئے ہیں۔ ان کا قلم اگر کہیں تیزی پر بھی مائل ہوتا ہے تو اس کا مقام ڈاکٹر کے نشتر کا سا ہوتا ہے جو سراسر باعثِ خیر سمجھا جاتا ہے۔‘‘

(ظہور احمد فاتحؔ، 2014ء، ص: 8)

اس کتاب کو علمی و ادبی حلقوں میں نگاہِ استحسان سے دیکھا جاتا ہے۔ اس کو بہت قلیل عرصے میں بے پناہ مقبولیت حاصل ہوئی۔ ان مضامین پر تحقیق و تنقید دونوں عنصر غالب ہیں۔ یہ شاعراتِ ارضِ پاک کی تمام کڑیاں شبیر ناقدؔ کی ناقدانہ صلاحیتوں کی بھرپور عکاسی کرتی ہیں۔

6۔ شاعراتِ ارضِ پاک (حصہ پنجم):

یہ کتاب ’’شاعراتِ ارضِ پاک‘‘ کی پانچویں کڑی ہے اور مئی 2015ء میں شائع ہوئی۔ اس میں  بھی مصنف شبیر ناقدؔ نے 36 مضامین لکھے ہیں۔ شاعراتِ ارض پاک کی تمام کڑیوں کو نسائی حوالے سے بہت سراہا گیا ہے۔ شبیر ناقدؔ نے اپنی اس کتاب میں بھی مختلف شاعرات پر مضامین لکھے ہیں۔ انہوں  نے ادا جعفری کی جدت آمیز شاعری کو اپنا موضوع بنایا۔ علاوہ ازیں تسنیم کوثرؔ کو بطور زمانہ شناس شاعرہ کے بیان کیا ہے۔ شبیر ناقدؔ نے اپنے مضامین میں  شاعرات کی کوششوں کو سراہا ہے اور ان کو بیان کیا ہے۔ ان مضامین میں رضیہ فصیح احمد اور عصری آشوب، زہرا نگار منفرد فکر اپج کی شاعرہ، شاہین زیدی اور عمومی احساسِ محبت، فاخرہ بتول کی فکری عمومیت جیسے اہم موضوعات شامل ہیں۔

 ’’شاعراتِ ارضِ پاک‘‘ نے معاشرے میں تنگ نظری کو ختم کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس سے شاعرات میں حوصلہ پیدا ہوا ہے اور انہوں نے ادب میں بے پناہ اضافہ کیا۔ یہ شبیر ناقدؔ کا نسائی ادب کے حوالے سے ایک جرات مندانہ قدم ہے۔ ابو البیان ظہور احمد فاتحؔ کہتے ہیں:

 ’’شبیر ناقدؔ باعثِ تحسین ہیں کہ ان کی جگائی ہوئی یہ جوت اس قدر موثر اور دل کش ثابت ہوئی ہے کہ اس کی پذیرائی بڑھتی ہی جا رہی ہے۔ ان کے بے لاگ تبصرے، نقدِ فن کا عمدہ انداز، داد و تحسین کا بھرپور مظاہرہ، حوصلہ افزا کلمات کا برمحل استعمال اور معتدل انحرافات ایسے عناصر ہیں جن کے باعث ان کا خوانِ تنقید خوانِ یغما سے کم نہیں۔‘‘

(ظہور احمد فاتحؔ، 2015ء، ص: 6)

7۔ شاعراتِ ارضِ پاک (حصہ ششم):

شبیر ناقدؔ کی کتاب ’’شاعراتِ ارضِ پاک‘‘ کی چھٹی کڑی ہے جو مئی 2015ءمیں منظرِ عام پر آئی ہے۔ اس میں بھی شبیر ناقدؔ نے شاعرات کی شعری خصوصیات کو اپنے مضامین میں منتخب کلام کے ساتھ پیش کیا ہے۔ اس میں بسملؔ صابری روایت و جدت کا سنگم، پروین شاکرؔ احساسِ محبت کے آئینے میں، رخشندہؔ نوید محبت کے موسموں کی شاعرہ، شبنم شکیلؔ کے عمرانی رویے، طلعت اشارتؔ کے شعری ادراکات، کشورؔ ناہید کے شعری رجحانات، وغیرہ جیسے عنوانات شامل ہیں۔ اس کتاب میں کل 25 مضامین شامل ہیں۔

شبیر ناقدؔ کی یہ کتاب شعر و سخن کے حوالے سے اہم مقام رکھتی ہے۔ آپ ایک مشہور و معروف شاعر ہیں۔ جو فنِ تنقید اور انتقادی نفسیات سے بخوبی آگاہ ہیں۔ وہ عصری تقاضوں کو بھی سمجھتے ہیں اور فنی تلازموں سے بھی خوب آشنائی رکھتے ہیں۔

علاوہ ازیں شبیر ناقد کی نثری تصانیف حسبِ ذیل ہیں۔

8۔ شاعراتِ ارضِ پاک   حصہ ہفتم

9۔ شاعراتِ ارضِ پاک جامع ایڈیشن              حصہ اول

10۔ ابو البیان ظہور احمد فاتحؔ کا منشور نظم          تحقیق و تنقید

11۔ نقدِ فن    تحقیق و تنقید

12۔ میزانِ تنقید       تنقیدی مضامین

13۔ تنقیدات  تنقیدی مضامین

14۔ سفر نامہ نگاری کے انتقادی امکانات تنقیدی مضامین

15۔ شاعراتِ ارضِ پاک (جامع ایڈیشن)  حصہ دوم

16۔ تلمیحاتِ فضا اعظمیؔ نقد و نظر

17۔ فضا اعظمیؔ کی شاعری (تلمیحات کے آئینے میں)     تنقید

باب سوم

تنقید کا ارتقاء

اردو تنقید کی مختصر روایت

کسی بھی ادب میں تنقید کے ارتقاء کا احاطہ کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ اس حوالے سے بے شمار مسائل رکاوٹ بنتے ہیں۔ ان پر متضاد آرا اس عمل کو مزید پیچیدہ بنا دیتی ہیں۔ لہٰذا یہ فیصلہ نہیں کیا جا سکتا کہ تنقید کس طرح کی تحریر و انداز کو کہا جا سکتا ہے۔ اس حوالے سے بے شمار ترجیحات سامنے آتی ہیں تاہم تنقید ابتداء میں  تخلیق کے ساتھ وجود میں آئی اور اس کے بعد یہ مختلف ادوار میں ارتقائی مراحل سے گزر کر موجودہ صورت میں ہم تک پہنچی۔

تاہم اردو میں تنقید کا ایک مسلسل اور مستقل ارتقا ء ملتا ہے۔ اگرچہ اس میں مغرب کے تنقیدی ارتقا ء سی وسعت اور گہرائی موجود نہیں ہے کیونکہ یہاں تنقیدی نظریات پر فلسفیوں کی بجائے شاعروں اور ادیبوں نے اظہارِ خیال کیا ہے۔

 تاہم اردو تنقید کے بکھرے ہوئے نقوش قدیم شاعروں کے کلام میں ملتے ہیں اگرچہ یہ باقاعدہ تنقیدی حیثیت نہیں رکھتی لیکن ان میں بھی ایک معیار کا اندازہ ضرور ہوتا ہے۔ لہٰذا اردو تنقید کے سلسلے میں تذکرہ نویسی میں بالعموم شاعر کے حالاتِ زندگی، شخصیت، ماحول، بیان، کلام پر رائے تنقید اور انتخابِ کلام جیسی خصوصیات مشترک ہیں۔

اردو شعراء کے بارے میں لکھے گئے چند تذکروں کے نام درج ذیل ہیں:

نکات الشعراء   میر تقی میر

تذکرہ شعرائے اردو      امیر حسن

ریاض الصفحا اور تذکرہ ہندی      مصحفی

مخزنِ نکات    قائم چاند پوری

گلشنِ ہند مرزا علی لطف

تذکرہ ریختی گویاں گردیزی

مجموعۂ نغز قدرت اللہ قاسم

چمنستان الشعراء  لچھمی نرائین

گلستانِ سخن     مرزا قادر بخش

طبقات الشعراء   کریم الدین

اگرچہ کسی بھی تذکرے کو باقاعدہ تنقیدی تصنیف کا درجہ نہیں دیا جا سکتا لیکن ان میں موجودہ تنقیدی اشاروں سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا ہے۔ ڈاکٹر سید عبداللہ اس ضمن میں لکھتے ہیں:

 ’’اس زمانے میں ادبی تنقید کا بڑا مقصد یہ تھا کہ زبان کو متروکات اور غیر فصیح الفاظ سے پاک کیا جائے۔‘‘

(سید عبداللہ، 1986ء، ص: 215)

ناقدین کا کہنا ہے کہ تذکروں کے زمانے سے معیارِ تنقید کو پیشِ نظر رکھنا چاہیے۔ اس طرح اس دور کی تنقید کا مفہوم واضح ہو جاتا ہے۔ ڈاکٹر عبادت بریلوی تذکروں کے تنقیدی معیار کے بارے میں کہتے ہیں:

 ’’تذکروں میں  تنقید ہے لیکن اجمال کے ساتھ معیار ہیں لیکن وہ آج کل کے معیاروں سے مختلف ہے۔ ان میں صرف تنقیدی روایات اور تنقیدی شعور کو تلاش کرنا چاہیے۔ تنقید کے مکمل اور بہترین نمونوں کا ڈھونڈنا بے سود ہے۔‘‘

(عبادتِ بریلوی، 1979-80ء، ص: 33)

لہٰذا جدید تنقید کا انحصار انہی تذکروں میں موجود اشارات پر ہے چنانچہ ان تذکروں کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے۔ قدیم روایات میں یہ خاص اہمیت رکھتے ہیں۔ خواہ ان میں تنقید کی معمولی جھلکیاں  ہی دستیاب ہوں۔

دنیا بھر میں بہت سے معاشرتی و سیاسی سطح پر ایسے انقلابات ہوتے ہیں جنہوں نے ہر ملک کے ادب پر اپنا اثر ڈالا ہے۔ 1857ء کی جنگ کے بعد برصغیر پاک و ہند میں بھی ایسے ہی کچھ سیاسی و معاشرتی انقلابات رونما ہوئے جنہوں نے ادب کو کافی حد تک متاثر کیا۔ سرسید کی تحریک کا اثر دیگر شعبوں کی طرح ادب میں تنقید پر بھی ہوا ہے۔ اس سے پہلے تنقید اپنی وضع اور مربوط شکل میں موجود نہ تھی۔

سر سید کا رسالہ ’’تہذیب الاخلاق‘‘ اس سلسلے کی پہلی کڑی ثابت ہوا۔ اگرچہ اس رسالے میں سرسید کے علاوہ دیگر ناقدین جن میں  حالی، شبلیؔ اور آزاد نے اپنی قابلیت کا لوہا منوایا۔

اردو ادب میں تنقید کا باقاعدہ اور باضابطہ آغاز خواجہ الطاف حسین حالیؔ کی شہرہ آفاق کتاب ’’مقدمہ شعر و شاعری‘‘ سے ہوتا ہے جو پہلی مرتبہ دہلی میں 1993ء میں ’’دیوانِ حالی‘‘ کے ساتھ چھپا۔ مقدمہ شعر و شاعری کے اصولِ تنقید پر بھرپور انداز میں اظہار خیال کیا ہے اور شعر و شاعری کو مختلف پہلوؤں اور مختلف زاویوں سے دیکھنے کی سعی کی گئی ہے۔

مولوی عبدالحق کے بقول:

 ’’مقدمہ شعر و شاعری میں شاعری کی ماہیت، حیات اور معاشرے سے اس کا تعلق، اس کے لوازم، زبان کے مسائل، اردو شاعری کی اصنافِ سخن، ان کے عیوب و محاسن اور اصلاح پر نہایت معقول، مدلل اور مفکرانہ بحث کی ہے۔ اردو زبان پر تنقید کی یہ پہلی کتاب ہے۔‘‘

جدید تنقید کا ارتقا بلاشبہ حالیؔ سے ہوتا ہے۔ حالیؔ اپنی تنقید میں ادب اور زندگی کے تعلق کے استواری پر زور دیتے ہیں۔ ان کی تنقید اصلاحی ہے۔ حالیؔ نے مغربی تنقید کے نظریات سے بھی فائدہ اٹھایا مگر ان کی مغربی تنقید تک براہِ راست رسائی نہ تھی۔ مولانا حالیؔ پہلے ایسے نقاد ہیں جنہوں نے اپنے نظریات کو منظم انداز میں پیش کیا۔ ان کی تنقید مشرقی اور مغربی تنقید کا امتزاج پیش کرتی ہے۔ ’’یادگارِ غالب‘‘، ’’حیاتِ سعدی‘‘ اور ’’حیاتِ جاوید‘‘ میں انہی نظریوں کے عوامل کارفرما ملتے ہیں جن میں حالیؔ اپنی عملی تنقید میں اپنے اصولوں کو سامنے رکھ کر تنقید کرتے ہیں۔

ڈاکٹر عبادت بریلوی ان کی عملی تنقید کے حوالے سے لکھتے ہیں:

 ’’ان سے قبل اس طرح اصولوں کو سامنے رکھ کر باقاعدہ تنقید نہیں کی جاتی تھی۔ حالیؔ پہلے نقاد ہیں جنہوں نے اس طرف توجہ دی۔‘‘

(عبادت بریلوی، 1979-80ء، ص: 43)

مولانا شبلیؔ نعمانی نے نظریاتی تنقید اور اس کے مختلف مباحث و مسائل کو مفصل انداز میں تحریر کیا۔ ان کا تنقیدی سرمایہ ’’شعر العجم‘‘، ’’موازنہ انیس و دبیر‘‘ پر مشتمل ہے۔ شبلیؔ مشرقی ادب کے ساتھ ساتھ مغربی ادب سے بھی کسی حد تک واقف تھے۔ انہوں نے اپنے تنقیدی نظریات کو پیش کرنے کے لیے غور و فکر اور عقل و شعور سے کام لیا۔ وہ شاعری کی افادیت کے قائل ہیں۔ وہ اپنے بتائے ہوئے اصولوں کو عملی تنقید میں پیش نظر رکھتے ہیں۔ لیکن بعض اوقات کسی شاعر کے کلام کا جائزہ لیتے ہوئے ان اصولوں سے انحراف بھی کر جاتے ہیں۔ شبلیؔ کا مقامِ تنقید اردو میں آزادی رائے اور مجتہدانہ بحثوں کی وجہ سے منفرد ہے۔

مولانا محمد حسین آزاد عہدِ تفسیر کے نقادوں میں اولیت کا درجہ رکھتے ہیں۔ آبِ حیات ان کا اہم ترین مجموعہ ہے۔ محمد حسین آزاد کی ’’آبِ حیات‘‘ تذکرہ نگاری کا نقطۂ  عروج ہے۔ یہ کتاب تذکرہ نگاری سے ہٹ کر ادبی تاریخ، ادبی سوانح، ادبی تنقید اور لسانی تحقیق کے حوالے سے اپنا تعارف کراتی ہے۔

ڈاکٹر فرمان فتح پوری کہتے ہیں:

 ’’آبِ حیات اردو ادب کی پہلی تصنیف ہے جسے تذکرہ شعرا کے ساتھ ساتھ ہم اردو میں ادبی تاریخ، ادبی سوانح، ادبی تنقید اور لسانی تحقیق کا اولین نمونہ کہہ سکتے ہیں۔‘‘

(فرمان فتح پوری، 1998ء، ص: 61)

محمد حسین آزاد پر مشرقی نظریاتِ تنقید کا گہرا اثر ہے۔ وہ شاعری اور الہام تصور کرتے ہیں۔ ان کے ہاں معانی کی اہمیت بھی ہے لیکن اندازِ بیاں اور اسلوب کو وہ زیادہ اہم تصور کرتے ہیں۔ ان کی عبارت و اسلوب رنگین ہوتا ہے۔ وہ علمی تنقید میں مشرقی اصطلاحات کا بہت استعمال کرتے ہیں۔ البتہ بعض خامیوں کے باوجود تنقید میں آزاد کا مقام بہت اہم ہے۔

انیسویں صدی کے نصف آخر میں انگریزی زبان و ادب سے آگاہی کے باعث اردو تنقید کا روایتی منظر نامہ بھی بدلنا شروع ہوا اور بعد میں حالی، شبلیؔ اور آزاد کے ذریعے تنقید کا آغاز ہوا۔ ان میں حالیؔ کو اخلاقی و عمرانی، شبلیؔ کو ذوقی جمالیاتی اور آزاد کو لسانی و تہذیبی نقاد کہا جا سکتا ہے۔ یہ لوگ الگ الگ دبستان کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اردو تنقید نے اپنے ارتقائی سفر میں ان ابتدائی دبستانوں سے کسی نہ کسی طور پر رہنمائی ضرور حاصل کی ہے۔

مذکورہ اصحاب کی مساعی سے تنقید کی طرف توجہ اور دلچسپی لینے والوں نے اس طرف خاص توجہ کی۔ اس حوالے سے تین اہم نام جن میں وحید الدین، امداد امام اثر اور مہدی افادی شامل ہیں۔

وحید الدین سلیم نے تنقید کے موضوع پر کوئی مستقل تصنیف نہیں چھوڑی۔ وقتاً فوقتاً لکھے گئے چند تنقیدی مضامین کو ’’افاداتِ سلیم‘‘ کے زیرِ اثر سائنٹفک اندازِ تنقید اختیار کرنے کی کوشش کی ہے جیسے ادب و شاعری کو قافیہ پیمائی نہ سمجھنا اور زندگی معاشرے سے اس کا تعلق جوڑنا وغیرہ۔ وہ حالیؔ سے بھی بہت متاثر تھے۔ ان کے چند مضامین میں عملی تنقید کے نمونے بھی ملتے ہیں۔

 ’’افاداتِ سلیم میں صرف دو تین مضامین ایسے ہیں جن میں وحید الدین سلیم کی عملی تنقید کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ سودا کی ہجویہ نظمیں، میر کی شاعری اور دکن میں ایک رباعی کا شاعر بس یہ چند مضامین ہیں جن میں ان کی عملی تنقید کے نمونے ملتے ہیں۔‘‘

(عبادت بریلوی، 1979-80ء۔ ص: 203)

امداد امام اثرؔ نے دو جلدوں میں ’’کاشف الحقائق‘‘ کے نام سے کتاب چھوڑی ہے جس میں اصولِ تنقید کم اور عملی تنقید زیادہ ہے۔ انہوں نے اردو شاعری کی تمام اصناف کے لیے چند اصول وضع کیے اور ان کی روشنی میں اردو شعرا کے کام کا جائزہ لیا۔ اس لیے اردو تنقید میں ان کا بھی ایک مقام ہے۔

 ’’کاشف الحقائق‘‘ میں عملی تنقید کا پلہ بھاری ہے۔ اس میں اردو شاعری کے اصنافِ سخن پر بھی تنقید ہے اور شاعروں کے کلام پر بھی۔ امداد امام اثر کو اس اعتبار سے اہمیت حاصل ہے کہ انہوں نے اردو شاعری پر تنقیدی زاویہ نظر سے ایک مستقل کتاب لکھی ہے۔‘‘

(عبادت بریلوی، 1979-80ء، ص: 207)

اس زمانے میں مہدی افادی بھی اس زمانے کے تنقیدی رجحانات سے متاثر ہوئے۔ اس سلسلے میں ان کی تنقید میں شبلیؔ کے اثرات زیادہ نمایاں ہیں۔ انہوں نے تنقید کے حوالے سے کوئی الگ کتاب تو نہیں لکھی تاہم ان کے تنقیدی مضامین جو اخبارات و رسائل میں لکھے گئے ہیں، انہیں ’’افاداتِ مہدی‘‘ کے نام سے شائع کیا گیا۔

 ’’مہدی افادی کے تنقیدی نظریات افادی مہدی کے مختلف مضامین ادھر ادھر بکھرے ہوئے نظر آتے ہیں جن میں ان کے تنقیدی نظریات پر روشنی ملتی ہے۔‘‘

(عبادت بریلوی، 1979-80ء، ص: 211)

آزادؔ و حالیؔ نے تنقید کی جو شمع جلائی، اس کی روشنی نے کئی نوجوانوں کے راستے ہموار کیے۔ اس سلسلے میں مولوی عبدالحق کا نام بھی آتا ہے جنہوں نے اردو تنقید کے میدان میں گراں قدر خدمات سرانجام دیں۔ ان کی تنقید پر حالیؔ کے اثرات بہت نمایاں نہیں تاہم ایک اعتبار سے وہ حالیؔ سے مختلف ہیں کہ حالیؔ مغربی ادبیات سے پورے طور پر واقف نہ تھے جبکہ وہ مشرقی و مغربی دونوں علوم پر عبور رکھتے تھے۔

چنانچہ ان کی تنقید میں مشرقی اصطلاحات کا اکثر استعمال ملتا ہے۔ وہ مغربی ادبیات اور تنقید سے واقف ہونے کے باوجود اپنی تنقید میں مشرقی رنگ دینے کی شعوری کوشش کرتے ہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ تنقید میں قدامت پرست ہیں وہ نئے اصولوں کے حامی ہیں اور وہ اپنی تنقید میں مشرق و مغرب دونوں کے تنقیدی اصولوں سے کام لیتے ہیں۔ کلیم الدین لکھتے ہیں:

 ’’اردو تنقید میں تحقیقی دور کا آغاز باقاعدہ عبدالحق سے ہوتا ہے۔ عبدالحق کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے اردو کی متعدد کتابوں کو بہت تلاش، جستجو، دقتِ نظر اور باریکی بینی سے ترتیب دے کر انہیں ضائع ہونے سے بچایا ہے۔‘‘

(کلیم الدین احمد، 1978ء، ص: 45)

حافظ محمود شیرانی ایک اعلیٰ پائے کے محقق ہیں۔ ان کی تصانیف ’’تنقیدِ شعرا‘‘، ’’العجم‘‘، ’’پنجاب میں اردو‘‘، ’’آبِ حیات‘‘ اور ’’فردوسی پر چار مقالے‘‘ شامل ہیں۔

پروفیسر حامد حسن قادری ارد و ادب کے امیر نقاد ہیں جن کے نظریات ’’تاریخِ داستانِ اردو‘‘، ’’تاریخ و تنقید ادبیاتِ اردو‘‘ اور ’’نقد و نظر‘‘ میں ملتے ہیں۔ وہ مشرقی تنقید پر اپنا تمام تر دھیان صرف کرتے ہیں۔ ڈاکٹر عبادت بریلوی لکھتے ہیں:

 ’’وہ مشرق کی اہمیت کے قائل ہیں اسی وجہ سے انہوں نے اپنی تنقید میں مشرقی رنگ دیا ہے حالانکہ وہ مغربی تنقید سے ناواقف نہیں ہیں۔‘‘

(عبادت بریلوی، 1979-80ء، ص: 2185)

ڈاکٹر محی الدین زور بھی اردو ادب کے محقق ہیں لیکن ساتھ ہی ساتھ انہوں نے نقاد کے فرائض بھی ادا کیے ہیں۔ انہوں نے شعوری طور پر مغربی ادب کے اثرات قبول کیے ہیں۔

ڈاکٹر عبدالرحمٰن بجنوری ایسے نقاد ہیں جو یورپ کی کئی زبانیں جانتے تھے تاہم مغرب سے واقفیت نے ان میں مرعوبیت کی بجائے یہ اثر کیا کہ وہ اپنی ملکی چیزوں کو کمتر سمجھنے کی بجائے بلند مرتبہ سمجھنے لگے۔ اسی لیے ان کے ہاں تقابلی پہلو نمایاں ہیں۔ ان کی نوعیت ذوقی اور وجدانی ہے نہ کہ سائنسی۔ اس سلسلے میں ان کا مضمون ’’محاسن کلامِ غالب‘‘ خاص اہمیت کا حامل ہے جس میں انہوں نے زیادہ تر غالب کی جمالیات پر بحث کی اور ثابت کیا کہ مشرق کا یہ شاعرکسی طرح مغرب کے اکابر شعرا سے کم نہیں بجنوری کا انداز تاثراتی اور رومانوی ہے۔ اسی وجہ سے بجنوری کا یہ مقدمہ تنقید سے زیادہ تخلیقی ادب کی حیثیت رکھتا ہے۔ انہوں نے اس میں تقابلی تنقید کو خاص طور پر پیشِ نظر رکھا۔

 ’’بجنوری نے سب سے پہلے اس تقابلی تنقید کی بنیاد ڈالی جس میں تفصیل اور گہرائی کی خصوصیات ملتی ہیں۔ اس لیے انہوں نے اس کو اپنی تقابلی تنقید کے سلسلے میں خاص طور پر پیشِ نظر رکھا۔‘‘

(کلیم الدین احمد، 1978ء، ص: 25)

ان کے ہاں تنقید میں تقابل کے علاوہ تجربے کی خصوصیت بھی ملتی ہیں۔ غالب کی شاعری پر انہوں نے جو تنقید کی ہے اس میں شاید ہی کوئی پہلو ان کی نظر میں بچا ہو۔ یہ تمام خصوصیات ان کی تنقید میں نفسیات کر رنگ بھرتی ہیں۔ مجموعی حیثیت سے ڈاکٹر عبدالرحمان بجنوری کی حیثیت، اردو تنقید اور خصوصاً اس کے اندر مغرب کے اثرات کو لانے میں مسلمہ ہے۔ ان کی تقابلی تنقید معلومات افزا ہے۔ بعض جگہ وہ بہک بھی جاتے ہیں لیکن ان سے باوجود اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ بجنوری کی تنقید مغرب کے گہرے اثرات کا نتیجہ ہے۔ ان کی ہر بات میں مغربیت نمایاں ہے۔ اردو میں بجنوری کی عطا تنقید کی ایک مختصر سی کتاب اور چند متفرق مضامین ہیں۔ تاہم وہ اردو کے اہم ترین رومانوی نقادوں میں شمار ہوتے ہیں۔

بجنوری کی طرح نیاز فتح پوری نے تنقید میں صرف جذبے کو اساس نہیں بنایا بلکہ اس کے لیے عقلی اصول وضع کیے۔ عبدالماجد دریابادی نے بھی رومانوی تنقید کے حوالے سے شہرت حاصل کی۔ ان کی تنقید اساسی طور پر مہدی افادی کے مکتب سے تعلق رکھتی تھی۔

مجنوں گورکھپوری ایک رومانی نقاد کے برعکس ترقی پسند نقاد تھے۔ ان کی جدید تنقیدی تحریریں جن میں تاثراتی رنگ غالب ہے، ’’تنقیدی حاشیے‘‘ کے نام سے شائع ہوئیں۔ رومانی تحریک کا آخری زاویہ فراق گورکھ پوری ہے۔ وہ تاثراتی نوعیت کے نقاد ہیں۔ تنقید کے حوالے سے ان کی کتاب ’’اندازے‘‘ قابلِ ذکر ہے۔

تاثراتی و جمالیات تنقید کے بعد اردو تنقید میں ایک نمایاں رنگ سامنے آیا۔ یہ رنگ ترقی پسند تحریک کے زیرِ اثر پیدا ہوا۔ ان ترقی پسند نقادوں میں سجاد ظہیر، ڈاکٹر عبد العلیم، ڈاکٹر اختر حسین رائے پوری اور سید احتشام حسین قابلِ ذکر ہیں۔

سجاد ظہیر نے تنقید میں  ترقی پسند نقطۂ  نظر کو واضح کیا۔ ان کی تنقید میں مارکسی تنقید کی جھلک ملتی ہے۔ ان کے مضامین کا مجموعہ انقلاب کے نام سے شائع ہوا۔ اختر حسین رائے پوری نے تنقیدی حوالے سے سب سے پہلے ترقی پسند نقطہ نظر پیش کیا۔ سید احتشام حسین کی تنقیدی نوعیت کی کتاب ’’تنقیدی جائزے‘‘ بہت اہمیت کی حامل ہے۔

علاوہ ازیں قیامِ پاکستان کے بعد تنقید کے میدان میں ڈاکٹر سجاد باقر رضوی، ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا، ڈاکٹر سہیل احمد خاں، ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی، ڈاکٹر تحسین فراقی نے نمایاں مقام حاصل کیا۔ ان کے علاوہ ڈاکٹر وزیر آغا، انیس ناگی، ڈاکٹر سہیل بخاری، رشید امجد، مظفر علی، ڈاکٹر سید معین الرحمان، ڈاکٹر انور سدید، ڈاکٹر جمیل جالبی اور ڈاکٹر سعادت حسن سعید جیسے نقاد بھی تنقید کے میدان میں اپنا لوہا منوا رہے ہیں۔

باب چہارم

شبیر ناقدؔ کی اردو تنقید نگاری کا جائزہ

(ابو البیان ظہور احمد فاتحؔ کا کیفِ غزل اور مختلف شعراء کے تناظر میں)

ابو البیان ظہور احمد فاتحؔ کا سوانحی و فنی تعارف

اس مضمون میں نقاد عصر شبیر ناقدؔ نے ابو البیان ظہور احمد فاتحؔ کا سوانحی و فنی تعارف پیش کیا ہے اور شبیر ناقدؔ کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ جب بھی کوئی بات کرتے ہیں تو پورے پس منظر کے ساتھ بات کرتے ہیں اس طریقے سے ان کے بیان میں پختگی اور تحقیقی و تنقیدی انداز شامل ہو جاتا ہے انہوں نے تونسہ شریف جو علمی و ادبی لحاظ سے اہمیت کا حامل ہے اور پھر اسی خصوصیت کے تحت اس کو یونان صغیر بھی لکھا ہے اس الفت بھرے شہر میں بہت سے اہل علم و دانش نے جنم لیا اور شبیر ناقدؔ نے علمی و ادبی حوالے سے چند جلیل و قدر کرداروں کا ذکر بھی کیا ہے۔ ان میں خواجہ محمد سلیمانؒ تونسوی، خواجہ محمد نظام الدینؒ تونسوی، استاد فیض اللہ فیضؔ تونسوی، فکر تونسوی، خیر شاہؔ ، کہترتونسوی، اقبال سوکڑی، طاہر تونسوی، اور ارشاد تونسوی کے نام قابل ذکر ہیں۔

ان میں سب سے پہلے جن دو حضرات کا ذکر آتا ہے ان کا تعلق تو تصوف و ہذایت یعنی کہ علم الٰہی سے ہے اور باقی ماندہ افراد شعر و ادب سے وابستہ ہیں۔

شبیر ناقدؔ کے مطابق پروفیسر ظہور احمد فاتحؔ ۲۱ مارچ ۱۹۵۴ ء کو منگل کے دن شہر تونسہ شریف میں عبد اللطیف خان سکھانی کے گھر پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا پیشہ کھیتی باڑی تھا۔ ان کی والدہ خوش مزاج عورت تھیں اور فنون لطیفہ سے گہری دلچسپی رکھتی تھی جس کا اثر ظہور احمد فاتحؔ کے بچپن اور لڑکپن پر بطور خاص ہوا چنانچہ بچپن ہی سے یعنی کہ تیسری اور چوتھی جماعت سے ظہور احمد فاتحؔ کی طبیعت شاعری کی طرف راغب ہو گئی۔ شبیر ناقدؔ کے طرز تنقید کا خصوصی وصف یہ ہے کہ ان کی تحریر نظم و ضبط کی حامل ہوتی ہے وہ افکار و معاملات کو ایک خاص ارتقائی ترتیب سے پیش کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے بیان میں ربط و ضبط کی ایک عمیق فضا کارفرما محسوس ہوتی ہے۔

شبیر ناقدؔ لکھتے ہیں:

عبد اللطیف خان کا کنبہ شہر سے جنوبی مضافات میں واقع ان کی جھوک میں منتقل ہو گیا جسے شیران والا کہا جاتا ہے۔ (۱)

عبد اللطیف خان کا خاندان شہر سے جنوبی علاقوں میں موجود ان کی جھوک میں منتقل ہو گیا جسے شیران والا کہا جاتا ہے اور ظہور احمد فاتحؔ نے یہیں کھلی اور صاف ستھری فضا میں اپنا بچپن گزارا۔ ان کی بینائی پیدائشی طور پر کافی کمزور تھی اور رات کو دکھائی کچھ نہیں دیتا تھا مگر اس کے باوجود بھی انہوں نے اپنا بچپن عام بچوں کی طرح ہنستے کھیلتے گزارا۔ ان کے والد بصارت کی کمی کی وجہ سے ظہور احمد فاتحؔ کی تعلیم پر کوئی دلچسپی نہیں رکھتے تھے۔ لیکن پانچ چھ سال کی عمر وہ خود گورنمنٹ پرائمری سکول حیدر والا جو ان کی جھوک سے تقریباً ایک کلومیٹر شمال میں موجود ہے میں جا کر داخل ہو گئے ان دنوں اقبال کمالی وہاں پر پڑھاتے تھے جو بعد میں اقبال سوکڑی کے نام سے مشہور ہو گئے۔ مدرسے میں اتنے زیادہ کمرے نہیں تھے صرف ایک کمرہ تھا اور اسی اکلوتے کمرے میں تقریباً بیس پچیس طلباء پڑھتے تھے جن کا تعلق پرائمری کی مختلف جماعتوں سے تھا۔ ظہور احمد فاتحؔ کی علمی اہلیت دیکھتے ہی ان کے استاد نے ان کے والد سے سفارش کی کہ بچہ بہت ذہین ہے اور پڑھنے لکھنے کا شوق بھی رکھتا ہے لہٰذا ان کا نام مکمل طور پر داخل کیا جائے اور آپ داخلہ فارم پر دستخط کر دیں چنانچہ ظہور احمد فاتحؔ کے والد نے داخلہ فارم پر دستخط کر دیئے اسی طرح شبیر ناقدؔ کے ہاں بات کرنے کی ایک صعودی طرز ترتیب کارگر دکھائی دیتی ہے۔ محولہ بالا اقتباس میں انہوں نے اپنے ممدوح کے ادبی کمالات اور صفات کو براہ راست بیان نہیں کیا بلکہ انہوں نے کوائف نگاری کے تقاضے نبھاتے ہوئے ان کے بچپن کی ایک عمدہ تصویر کشی کی ہے۔

ان دنوں اقبال کمالی سرائیکی زبان میں شاعری کر رہے تھے اور لوگ ان کی سرائیکی زبان کے دوہڑے سنا اور گنگنایا کرتے تھے۔ ظہور احمد فاتحؔ کو بھی بچپن میں شاعری کا شوق تھا اور انہوں نے اقبال کمالی اور ان کے ساتھ ساتھ کئی دیگر شعراء کے دوہڑے بھی یاد کر لیے تھے۔ جب ظہور احمد فاتحؔ تیسری جماعت میں تھے تو انہوں نے ایک چھوٹی سے ڈائری بنا رکھی تھی جس میں مختلف شعراء کے دوہڑے لکھے ہوئے تھے شبیر ناقدؔ پروفیسر ظہور احمد فاتحؔ کی بچپن ہی سے شعر و شاعری کی طرف دلچسپی بتاتے ہوئے یوں رقم طراز ہیں۔

اسی عمر سے ہی علامہ اقبال کی بال جبریل پڑھنا اور لہک لہک کر اشعار کی ادائیگی کرنا شروع کر دی۔ (۲)

دِہ خدایا یہ زمین تیری نہیں تیری نہیں

تیرے آباء کی نہیں، تیری نہیں، میری نہیں

شبیر ناقدؔ کی تنقید نگاری کا خصوصی وصف یہ ہے کہ وہ کسی بات کے تاثر کو نامکمل نہیں رہنے دیتے۔ مثال کے طور پر یہاں انہوں نے ظہور احمد فاتحؔ کی کلامِ اقبال کی گہری وابستگی کا ذکر کرتے ہیں وہاں کلام اقبال میں سے ایک شعر مثال کے طور پر بھی پیش کرتے ہیں۔

ظہور احمد فاتحؔ کو شعر گوئی کے علاوہ دین کا علم سیکھنے کا بھی بہت شوق تھا اور ایک ماہ میں قرآن مجید ناظرہ ختم کر دیا۔ جوتھی جماعت تک تو وہ چاہ حیدر والا میں رہے پھر ۱۹۶۴ء میں واپس اپنے والدین کے ساتھ تو نسہ شریف آ گئے ان کے والد نے تین شادیاں کی تھیں دوسری بیوی سے زیادہ محبت کرتے تھے دوسری بیوی میں صرف ایک بیٹا ظہور احمد فاتحؔ پیدا ہوا۔ ظہور احمد فاتحؔ کو پڑھنے لکھنے کا بہت شوق تھا۔ وہ نصابی کتابوں کے علاوہ جو بھی کتاب ہاتھ میں لگتی اس کا مطالعہ ضرور کرتے۔

اللہ کی دین یہ ہے کہ ابھی تیسری جماعت میں پڑھتے تھے تو ایک ہجو لکھی جس کو سرائیکی زبان میں ’’وار‘‘ کہا جاتا ہے آٹھویں جماعت میں رمضان المبارک کے نام سے ایک نظم کہی غزل کا آغاز نویں جماعت میں کیا۔ اور یہ سب کچھ جس کاپی پر لکھتے رہے اس کا نام ’’گلزار خیالات نمبر ۱‘‘ رکھا۔ اس طرح انہوں نے اپنی کاوشیں جاری رکھیں اور چھ ماہ بعد دوسری کاپی ’’گلزار خیالات نمبر ۲‘‘ مکمل ہو چکی تھی۔ کالج ہذا میں ایک میگزین ’’الغازی‘‘ کے نام سے چھپتا تھا اور اس میں ان کی انگریزی میں ایک نظم A Painful Tune چھپی اسی طرح دوسرے سال ان کی ایک غزل شائع ہوئی جس کا مطلع تھا۔

کر رہا ہوں رات دن میں آہ کس کی جستجو؟

کسی کی یادیں پی گئیں میرے کلیجے کا لہو؟

اس غزل کے بارے میں شبیر ناقدؔ کچھ یوں بیان کرتے ہیں۔

 یہ غیر مردف غزل بہت پسند کی گئی اور اکثر طلباء فرمائش کر کے سنا کرتے تھے۔ (۳)

پروفیسر ظہور احمد فاتحؔ کی شاعری کے حوالے سے شبیر ناقدؔ کی معلومات سے یہ امر بخوبی واضح ہو جاتا ہے کہ وہ ظہور احمد فاتحؔ کے شعری سرمائے کی مکمل جانکاری رکھتے ہیں جسے ان کے تنقیدی کام کا تحقیقی زاویہ قرار دیا جا سکتا ہے بالفاظ دیگر ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ وہ تحقیق کو معتبر سمجھتے ہیں اور اندازوں سے کام نہیں چلاتے۔

۱۹۶۵ء میں گورنمنٹ پرائمری سکول نمبر ۳ میں پانچویں جماعت میں اچھے نمبروں سے امتحان پاس کیا۔ ۱۹۶۶ ء میں گورنمنٹ ہائی سکول تونسہ شریف سے آٹھویں جماعت سے ۶۷۱ نمبر لے کر پہلی پوزیشن پائی اور وظیفہ حاصل کیا۔ اسی طرح میٹرک کا امتحان درجہ اول میں ۷۴۳ نمبر حاصل کر کے پاس کیا۔

گورنمنٹ ہائی سکول میں جتنا بھی عرصہ گزارا اس عرصہ میں انہوں نے بزم ادب میں پوری دلچسپی کے ساتھ حصہ لیتے تھے اور انعامات بھی حاصل کئے اس دور کی ان کی دو نظمیں یادگار تھیں ان میں ’’میرے اساتذہ‘‘ اور دوسرے کا عنوان ’’الوداع میرے سکول‘‘ تھا۔ یہ نظمیں بہت پسند کی گئیں۔ اس طرح گورنمنٹ کالج ڈیرہ غازی خان میں اپنی پڑھائی کے دوران بہت سی نظمیں لکھیں جن کے نام ’’ڈاکٹر نذیر احمد شہید کی یادیں‘‘، ’’سقوط ڈھاکہ‘‘ اور ’’خون کے آنسو‘‘ ہیں۔ ان میں سے ’’سقوط ڈھاکہ‘‘ نظم ایک تقریب میں پڑھی گئی تو اگلے روز اخبار روزنامہ ’’نوائے وقت‘‘ میں لکھا ہوا تھا کہ

ظہور احمد فاتحؔ روتے ہوئے آئے اور سب کو رلا کر دیے گئے۔ (۴)

اس طرح ایک مرتبہ چشتیاں بہاولنگر کے گورنمنٹ کالج میں ایک بین الکلیاتی مشاعرہ ہوا۔ اس مشاعرے میں ظہور احمد فاتحؔ نے شرکت کی اور انعام سے نوازے گئے اس مشاعرے میں ظہور احمد فاتحؔ نے جو غزل پڑھی شبیر ناقدؔ نے اس غزل کے دو شعر درج کئے ہیں۔

خرمن ہے جس پہ ہر گھڑی گرتی ہیں بجلیاں

کیا کیجئے تعلق قلب و نظر کی بات؟

آلامِ روز گار فسردہ دلی جنوں

ایسے میں کیا کرے کوئی فکر و خبر کی بات؟

ان اشعار کو درج کرنے سے شبیر ناقدؔ نے یوں اپنی بات کے تاثر کو حتمی شکل دی ہے۔ ظہور احمد فاتحؔ جب انٹر میڈئیٹ میں پہنچے تو ان کی بینائی کمزور سے کمزور تر ہو گئی جس کی وجہ سے ان کو ایف۔ اے میں تعلیم ختم کرنا پڑی پھر چند سال بعد ۱۹۷۶ء میں ان کی شادی کر دی گئی۔ بینائی کی کمزوری کے باعث نہ تو وہ پڑھ سکتے تھے اور نہ ہی کوئی کاروبار کر سکتے تھے اور کاروبار کے لیے بھی سرمائے کی ضرورت تھی جو ان کے پاس نہیں تھا۔ ان کے والد صاحب نے بھی جواب دے دیا کہ میں کوئی مدد نہیں کر سکتا۔

لیکن اس کے باوجود بھی ظہور احمد نے ہمت اور حوصلہ بلند رکھا شبیر ناقدؔ نے ان کی حوصلہ مندانہ طبیعت کو اور زیادہ صاف و شفاف اور واضح کرنے کے لیے ایک شعر رقم کیا ہے۔

شوق ہر رنگ رقیب سر و سامان نکلا

قیس تصویر کے پردے میں بھی عریاں نکلا

مندرجہ بالا شعر کو شبیر ناقدؔ نے ظہور احمد فاتحؔ کے ذوق و شوق کی عکاسی کے لیے شامل مضمون کیا ہے۔ اس طرح پھر کافی غور و فکر کے بعد نتیجہ یہ نکلا کہ کتابوں اور کاپیوں کا کاروبار کیا جائے سو وہ کیا گیا اور ساتھ ہی اپنا شعر و شاعری کا کام بھی جاری رکھا اس طرح ۱۹۸۰ء میں ان کا پہلا مجموعہ کلام ’’آئینہ دل‘‘ کے نام سے شائع ہوا۔ ۱۹۸۳ء میں گورنمنٹ ڈگری کالج تونسہ شریف میں ایک مشاعرے کا انعقاد کیا گیا اور بہت سے شعراء کو بلایا گیا جن میں ظہور احمد فاتحؔ کا نام بھی شامل فہرست تھا۔ اتفاق کی بات ہے کہ جب وہ مجلس میں وارد ہوئے تو بجلی چلی گئی چنانچہ انہوں نے اپنی غزل کا ایک شعر کہا جس نے مجلس میں رنگ جما دیا اور وہ شعر یہ ہے۔

ایسا مانوس ہوا ہوں شب تاریک سے میں

تیری آمد پہ بھی قندیل جلائی نہ گئی

اس شعر کے بارے میں شبیر ناقدؔ کچھ یوں اپنا اظہار خیال پیش کرتے ہیں: ۔

تیرو نشتر کی طرح دل میں اتر گیا۔ (۵)

شبیر ناقد ایک نقاد ہونے کے ساتھ ساتھ اعلیٰ درجے کی شاعر بھی ہیں وہ اس امر سے بخوبی واقف ہیں کہ شعر قاری پر کس طرح اثر پذیر ہوتا ہے یعنی کہ وہ شاعری کی اثر آفرینی سے پوری طرح باخبر ہیں۔

ظہور احمد فاتحؔ کیونکہ ایک اعلیٰ ذہنیت کے مالک تھے۔ آنکھوں کی بینائی نہ ہونے کے باوجود انہوں نے بی۔ اے میں داخلہ لے لیا اور ایک کاتب کی منظوری کرائی گئی۔ تاکہ بی۔ اے کا امتحان دیا جائے پھر اس کے بعد ایم۔ اے کا امتحان بھی پاس کیا۔ اس طرح اردو کے ساتھ علم دین کا بھی شوق رکھتے تھے۔ انہوں نے چھ ماہ بعد ایم۔ اے اسلامیات کا امتحان پاس کیا۔ ۱۹۸۶ء میں اسلامیات کی آسامیاں آئیں اور پبلک سروس کمیشن کے امتحان میں چوتھے نمبر پر آ کر کامیابی سے ہمکنار ہوئے۔

ابو البیان ظہور احمد فاتحؔ نے ہر صنف میں طبع آزمائی کی ہے۔ غزل، نظم، قطعات، رباعی، مثنوی، مثلث، مخمس، مسدس اور نظم کی تمام ہیتوں میں طبع آزمائی کی ہے۔ انہوں نے سرائیکی، پنجابی، ہندی، عربی، فارسی اور انگریزی زبان میں بھی طبع آزمائی کی ہے اور بلوچی زبان میں بلوچی شاعری کا اردو زبان میں ایک منظوم ترجمہ کیا ہے اور ان کو شاعر ہفت زبان بھی کہا جاتا ہے۔

اس طرح ۱۹۸۰ء میں جب ان کا پہلا شعری مجموعہ ’’آئینہ دل‘‘ شائع ہوا تو وہ تونسہ شریف کے پہلے صاحب دیوان شاعر کہلائے۔ پھر ۱۹۹۳ء میں بلوچی کلام کا اردو ترجمہ ’’عکاس فطرت‘‘ اور ۱۹۹۵ء میں مختلف شعراء کے حوالے مختلف بلوچی اصناف کا ترجمہ ’’ہفت رنگ‘‘ کے نام سے شائع ہوا۔ ۲۰۰۴ء میں ان کا شعری مجموعہ ’’ساری بھول ہماری تھی‘‘ ۲۰۰۵ء میں ’’سنہرے خواب مت دیکھو‘‘، ۲۰۰۶ ء میں ’’حمدیہ‘‘ شاعری پر مشتمل شعری مجموعہ ’’روح ترے مراقبے میں ہے‘‘، ۲۰۰۷ ء میں نعتیہ کلام ’’سلام کہتے ہیں‘‘، ۲۰۰۸ میں ’’کچھ دیر پہلے وصل سے‘‘، ۲۰۰۹ء میں پہلا سرائیکی مجموعہ کلام ’’اساں بہوں دور و نجناں اے‘‘، اور ۲۰۱۰ء میں ’’محراب افق‘‘ کے نام سے غزلیات پر مشتمل مجموعہ کلام شائع ہوا۔ ہنوز یہ سلسلہ جاری و ساری ہے۔

پروفیسر ظہور احمد فاتحؔ ایک ایسے انسان ہیں جو بے پناہ ذہنی استعداد رکھتے ہیں۔ ان کے اشعار کی تعداد تقریباًستر ہزار کے قریب ہے اور جن سے سو سے بھی زیادہ شعری مجموعے ترتیب پا سکتے ہیں۔ انہوں نے اپنی ہر کاپی کا نام ’’گلزار خیالات‘‘ رکھا ہوا ہے۔ اس وقت ’’گلزار خیالات نمبر ۱۰۲‘‘ جاری ہے۔ ظہور احمد فاتحؔ ایک ریسرچ سکالر بھی ہیں وہ ’’سیرت کا تقابلی جائزہ‘‘ کے عنوان سے اسلامیات میں ایم۔ فل کر چکے ہیں۔ اور اب سرسید احمد فاضل محقق ہیں۔ ان پر ایم۔ اے کی سطح پر تحقیقی کام ہو چکا ہے۔ جن میں شازیہ عطاء کا انگریزی شذرہ ’’A Life is Struggle Not Complain‘‘ اور شمع نورین کا اردو مقالہ ’’زندگی ہے سعی پیہم شکر ہے شکوہ نہیں‘‘ قابل ذکر ہیں۔

شبیر ناقدؔ کا تنقیدی کام خصوصی نظم و ضبط کا حاصل ہے کہیں بھی بیان میں تشنگی کا پہلو اجاگر نہیں ہوتا۔ وہ اپنی بات کو مکمل جزئیات کے ساتھ پیش کرتے ہیں اور قاری کے ذہن میں اٹھنے والے سوالات کے جوابات بھی فطری انداز میں شامل بیان کرتے چلے جاتے ہیں انہوں نے ابو البیان ظہور احمد فاتحؔ کے سوانحی حوالے سے کوائف نگاری کے وہ جوہر دکھائے ہیں جس سے محسوس ہوتا ہے جیسے کوئی خود نوشت سوانح عمری مرتب کر رہا ہو۔

اس طریقے سے انہوں نے ابو البیان ظہور احمد فاتحؔ کی شخصیت کی مکمل تصویر کشی کی ہے۔

ظہور احمد فاتحؔ جمالیاتی احساسات کا شاعر:

تنقیدِ شعر کا شعبہ شاعری کے حوالے سے مختلف تاریخوں سے مزین ہے جن میں ہم آہنگی بھی ہے اور تفاوت کی فضا بھی لیکن سکہ بند نقاد شبیر ناقدؔ نے شاعری کی تعریف اپنے منفرد انداز میں کی ہے کہ ویسے تو جو لفظ شاعر ہے وہ ایک ایسی دنیا کی عکاسی کرنے والا ہے کہ جس پر نگاہ پڑتے ہی شعور و احساسات حسن و عشق سے ہمکنار ہو جاتا ہے اور اسی طرح شعریت کے حسن کی نرم و ناز کیفیت رگ رگ میں چلتی ہوئی محسوس ہوتی ہے کیونکہ یہ جو شاعر ہے یہ ادب کا ایک نمائندہ ہے اور یہ نمائندہ ادب کو تخلیق کرنے والا ہوتا ہے شاعر کے خیالات میں وسعت اور احساسات میں گہرائی ہوتی ہے اس طرح یہ کیفیت مختلف شعراء میں کم یا زیادہ پائی جاتی ہے۔ یہاں نقاد عصر شبیر ناقدؔ ابو البیان ظہور احمد فاتحؔ کی شاعری کا تجزیہ جمالیاتی احساسات کے حوالے سے کرتے ہیں اور وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے مختلف شعرائے کرام کے ادبی و فنی جمال پاروں کی تلاوت کی ہے۔ لیکن جو جمالیاتی ذوق ابو البیان ظہور احمد فاتحؔ کے ہاں ملتا ہے اس قدر زیادہ جمالیاتی ذوق کسی اور کے ہاں دکھائی نہیں دیا۔ بعض اوقات تو ایسے محسوس ہوتا ہے کہ جمال ہی ان کے کلام کا مستقل حوالہ ہے اسی طرح شبیر ناقدؔ نے ابو البیان ظہور احمد فاتحؔ کے کلام میں سے تنقیدی اکائی کے طور پر صرف ایک درجن غزلوں کا انتخاب کیا ہے جو جمالیاتی احساسات کی عکاسی سے عبارت ہیں لہٰذا چند اشعار ایک غزل کے مندرجہ ذیل ہیں۔

وہ برا تھا کہ بھلا جیسا تھا

خوش ادا اہلِ وفا جیسا تھا

وہی مہکار وہی نرم روی

سارا انداز صبا جیسا تھا

صورت ابر تھے گیسو اس کے

اس کا آنچل بھی گھٹا جیسا تھا

کیسے اس بت سے ہماری بنتی؟

جس کا پندار خدا جیسا تھا

ہم بھی فاتحؔ سے ملے تھے یارو

ہر سخن جس کا دعا جیسا تھا

یہ غزل مختصر بحر میں لکھی گئی ہے لیکن یہ تشبیہات کا فن کدہ ہے اگر اس غزل کو محبوب کے حسن و جمال کا قصیدہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔ چنانچہ اس کی خوش ادائی اہل وفا سے تعلق رکھتی ہے۔ یہ غزل اہل وفا کے تمام حسن و قبح یعنی کہ اچھائیوں اور برائیوں پر محیط ہے اس کی مہکار اور نرم روی بالکل صبا جیسی ہے اور وہ ابر جیسے گیسو، وہ گھٹا جیسا آنچل اور وہ خدائی پندار، اس کے حسن و جمال کی دلیل ہے۔ لہٰذا ایسے محبوب کا محب اپنے لبوں پر حرف دعا نہیں رکھے گا تو پھر کیا کرے گا اس طرح ابو البیان ظہور احمد فاتحؔ کا کبھی مئے کے لیے شہزادی کا استعارہ اور اس کی آمد پر مرحبا کہنا۔ اس کے ساتھ ساتھ سچ کو اپنا قبلہ ماننا اور عشق خلوص کو امام ٹھہرانا ان کے حسن و جمال کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ چنانچہ شبیر ناقدؔ ایک شاعر رنگین کے لیے اپنا اظہار خیال یوں پیش کرتے ہیں۔

شاعر رنگیں نوا یقیناً دیدہ بینا 7ہوا کرتا ہے جس کی وسعتیں اور باریک بینیاں شعر و ادب کی جان ٹھہرتی ہیں پروانوں کی جان سپاری یا شاعر کی خوش گفتاری ہر پہلو محلِ نظر رہتا ہے اور اسپر بس نہیں اپنے قیمتی مشوروں سے بھی ضرور نوازا جاتا ہے۔ (۲)

چنانچہ شبیر ناقدؔ اپنے ممدوح شاعر کے فکری و فنی حوالوں سے سیر حاصل تبادلہ خیال کرتے ہیں اور بیان کا کوئی پہلو تشنہ نہیں رہ جاتا۔ ان کے بیان میں وہ فصاحت و بلاغت ہے کہ قاری دوران قرأت عش عش کر اٹھتا ہے۔ اور ان کے قدرتِ بیان کی داد دیئے بغیر نہیں رہ پاتا۔ یہ خصوصیات ایک ماہر تنقید کی علامت ہیں کہ وہ فکری و فنی پہلوؤں کو مساوی انداز میں زیر بحث لائے۔

اس طرح ابو البیان ظہور احمد فاتحؔ نے اپنے کلام میں ایسی تراکیب استعمال کی ہیں جو صرف اس کے حصہ میں آتی ہیں یعنی کہ شاعر کا زلف محبوب کے پھندے سے آزاد ہونا، چاند سے چہرے کا غمگین نہ ہونا، محبوب کو خوش ادا کہنا، اشک کو انمول نگینہ قرار دینا آنکھ کو انگوٹھی سے تشبیہ دینا، پھر نگینے کا انگوٹھی میں جڑا رہنا، آنسو کا نہ ڈھلکنا، فقیر کی چمن سے وابستگی، گلاب کا راہ یار میں بچھ جانا، محبوب کے آنے کو ہلال عید قرار دینا اور محبوب کے جانے کو صبا کے جانے سے تشبیہ دینا حسن و جمال کی اہم تریں مثالیں ہیں۔ ابو البیان ظہور احمد فاتحؔ کی آخری غزل کے چند اشعار جو حسن و جمال کی عمدہ مثال ہیں درج ذیل ہیں۔

یہ کیا ہوا کہ زلف کا بادل بکھر گیا

آنکھوں میں اشک آ گئے کاجل بکھر گیا

مدت کے بعد خاک نے اوڑھی قبائے سرخ

کس کا لہو تھا جو سر مقتل بکھر گیا

ہر سمت پھیلتے گئے قوس قزح کے رنگ

شاید نگاہ میں تیرا آنچل بکھر گیا

خوشبو ترے خلوص کی تن من پہ چھا گئی

رگ رگ میں تیری یاد کا صندل بکھر گیا

کتنی کڑی سزا ملی ذوق جمال کی

پروانہ چوم کر لب مشعل بکھر گیا

اس طرح زلف کو بادل سے تشبیہ دے کر اسے بکھرانا، آنکھوں میں اشک کے آنے سے کاجل کا بکھر جانا، خاک کا قبائے سرخ اوڑھنا، لہو کو سرمقتل قرار دینا، قوس قزح کے رنگوں کا پھیلنا، آنچل کا بکھر جانا، محبوب کی یاد کے مہکتے جھونکوں کو صندل کا استعارہ پہنانا اور آخری شعر میں ذوق جمال کی نسبت سے مثال دے کر بات کی گئی ہے کہ پروانہ نے لبِ مشعل کا بوسہ لینے کی جرات کی تو ذوق و جمال کی ایسی سزا ملی کہ راکھ بن کر بکھر گیا۔

لہٰذا ان تمام مثالوں سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ شاعر ابو البیان ظہور احمد فاتحؔ وسیع ترین احساس جمال کے مالک ہیں۔ ان کا ذوق جمال دور دور تک پھیلا ہوا نظر آتا ہے۔ کہیں حسن محبوب کے حوالے سے اور کہیں حسین و جمیل کائنات کی نسبت سے اور کہیں خوبصورت حالات و واقعات کے تناظر میں ان کا ذوق جمالیات نظر آتا ہے۔ اور بعض اوقات حرف و الفاظ کو اس طرح سنوار سنوار اور خوبصورت بنا کر اشعار میں پِروتے ہیں کہ لعل و زمرد بھی ان پر رشک کرتے ہیں۔ اسی طرح شبیر ناقدؔ کی تنقید نگاری کا خصوصی وصف یہ ہے کہ وہ اپنے موقف کو منطقی اور مدلل انداز میں پیش کرتے ہیں یوں ان کی تحریر سے بالغ نظری کا پہلو اجاگر ہوتا ہے اور ان کا نقطۂ نظر بھی زیادہ اہمیت کا حامل ہو جاتا ہے۔

پروفیسر ظہور احمد فاتحؔ شاعرِ عرفان و آگہی:

ممدوحِ مقالہ عصر حاضر کے معروف نقاد تنقید اور مضمون نگاری کی تکنیک سے بخوبی واقف ہیں اس لیے بڑے معتبر انداز میں اپنے ہر تنقیدی مضمون سے پہلے ایک خوبصورت تمہید کا اہتمام کرتے ہیں۔ جو ان کے عنوانِ مضمون سے ربط و ضبط رکھتی ہے یوں وہ قاری کے ذہن میں مضمون کے مطالعے کے حوالے سے آمادگی کا عنصر پیدا کرتے ہیں۔ وہ اس امر سے بخوبی آشنا ہیں کہ بات کا آغاز کیسے کرنا ہے اور اس بات کو اپنے نفس مضمون کے ساتھ کیسے جوڑنا ہے۔ یہ قدرت کا ملہ قدرت بیان ہی سے میسر آتی ہے اس کے بعد وہ پروفیسر ظہور احمد فاتحؔ کی شاعری کے فکری وصف عرفان و آگہی کے حوالے سے بیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو علم کی بدولت ہی تمام مخلوقات پر فضیلت بخشی ہے اور اسی علم کی وجہ سے فرشتوں نے حضرت انسان کو سجدہ کیا۔ انہوں نے عرفان کی کئی منزلیں بتائی ہیں جن میں عرفان ذات، عرفان کائنات اور عرفان خالق کائنات شامل ہیں اور اس سے عیاں ہوتا ہے کہ فاضل نقاد شبیر ناقدؔ بھی عرفان کی منزلوں سے بخوبی آگاہ ہیں وہ تبصرہ کرتے ہیں کہ اگر ظہور احمد فاتحؔ کے کلام کا مطالعہ کیا جائے تو ایسے محسوس ہوتا ہے کہ ان کا کلام عرفان و آگہی کے وسیع پیمانے پر موجود ہے۔ وہ عرفان و آگہی کے ایسے چراغ روشن کرتے ہیں کہ دور دور تک نور پھیلتا ہوا نظر آتا ہے ان کے کلام میں جگہ جگہ حمد یہ کلام موجود ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کی محبت میں سرشار دکھائی دیتے ہیں۔ ان کا کلام عجز وانکساری سے بھر پور دکھائی دیتا ہے لہٰذا ظہور احمد فاتحؔ کے شعری مجموعے ’’روح تیرے مراقبے میں ہے‘‘ کی پہلی حمد کے چند اشعار ملاحظہ ہوں: ۔

میرا خالق میرا مالک میرا داتا تو ہے

میرے بگڑے ہوئے سب کام بناتا تو ہے

تو ہی افتادہ و درماندہ کو دیتا ہے کمال

اونچے اڑنے لگیں جو ان کو گراتا تو ہے

سرنگوں جو ہوں انہیں قرب عطا کرتا ہے

وہ جو مغرور ہوں سر ان کے جھکاتا تو ہے

اس کا دل لگتا نہیں عالم رنگ و بو میں

جس کے آئینہ ادراک پہ چھاتا تو ہے

ان حمدیہ اشعار کے بارے میں شبیر ناقدؔ اپنا اظہار خیال ان الفاظ میں پیش کرتے ہیں: ۔

ان حمدیہ اشعار میں کیسی ہمہ گیر ندائے فطرت ہے کس قدر عمیق اظہار بندگی ہے کیسی دل آویز توحید آموزی ہے کیا تقویٰ اور توکل ہے کس نوع کی وجدان آمیزی ہے اور کیسا بھر پور احساس عجز و نیاز ہے۔ (۷)

مندرجہ بالا اقتباس کی روشنی سے شبیر ناقدؔ کی قدرت بیان کا اندازہ بحسن و خوبی لگایا جا سکتا ہے مرکبات کے استعمال نے اسلوب کو خالص ادبی رنگ ڈھنگ عطا کیا ہے۔ جس سے متقدمین کی نثر کی یاد تازہ ہو جاتی ہے اب عرفان ذات کے حوالے سے پروفیسر ظہور احمد فاتحؔ کے دو اشعار جو عرفان ذات کی عکاسی کرتے ہیں درج ذیل ہیں۔

وصل ہو یا ہجر پل پل اضطراب

زندگی کیا ہے مسلسل اضطراب

خود کو گم کر دے کسی آزار میں

ہے تیری تکلیف کا حل اضطراب

یہاں شاعر صرف وصل یا ہجر کو بے قراری کا موجب نہیں ٹھہرا رہا بلکہ وہ پوری زندگی کو ایک مسلسل اضطراب کی مانند قرار دیتا ہے اور دوسرے شعر میں اس بے قراری یا بے چینی کا علاج بھی بتا رہا ہے کہ خود کو کسی بڑی تکلیف سے دوچار کر دے ٹھیک اسی طرح جیسے بادشاہ کی کشتی میں بیٹھا ایک غلام ڈر کے مارے اونچی اونچی آواز میں چیخ و پکار کر رہا تھا پھر بادشاہ نے سوچا اس کو کس طرح خاموش کرایا جائے پھر وہاں بیٹھے ایک دانا شخص کے مشورے سے اس کو دریا میں غوطہ دے دیا گیا اس کے بعد اس کو پانی سے نکال کر کشتی میں بٹھا دیا اور وہ سکون سے بیٹھا رہا۔ مذکورہ بالا تمثیل ایک شیخ سعدی کی ایک حکایت سے لی گئی ہے جس نے شبیر ناقدؔ کے بیان کو فزوں کو تر دیا ہے۔ اس سے یہ اندازہ بھی لگایا جا سکتا ہے کہ انہوں نے شیخ سعدیؒ سے بھی اکتسابِ فیض کیا ہے۔

اسی طرح غالب کا ایک شعر ہے۔

عشرت قطرہ ہے، دریا میں فنا ہو جانا

درد کا حد سے گزرنا، ہے دوا ہو جانا

یہ ایک حقیقت ہے کہ جب جزو کل سے ملتا ہے تو وہ کل میں شامل ہو کر خود بھی کل ہو جاتا ہے پھر اس جزو کی حیثیت باقی نہیں رہتی، بالکل اسی طرح درد حد سے بڑھ جاتا ہے تو اس کے لیے پھر کسی دوا کی ضرورت نہیں رہتی بلکہ وہ اپنی دوا آپ بن جاتا ہے۔

مولانا الطاف حسین حالیؔ یادگار غالب میں لکھتے ہیں: ۔

جب درد حد سے گزر جائے گا تو مر جائیں گے یعنی فنا ہو جائیں گے گویا قطرہ دریا میں کھپ جائے گا اور یہی اس کا مقصود ہے۔ پس دریا کا حد سے گزر جانا ہی اس کا دوا ہو جانا ہے۔ (۸)

ٹھیک اسی طرح پروفیسر ظہور احمد فاتحؔ بھی اپنے مندرجہ بالا شعر میں یہی بات کرتے ہیں کہ اپنی تکلیف کو ختم کرنے کے لیے خود کو کسی خوفناک تکلیف میں گم کر دے کیونکہ تکلیف کا حد سے گزر جانا ہی اس تکلیف کا دوا ہے یعنی جزو کا کل میں فنا ہونا ہی عین مقصود ہے۔ جیسے:

رنج سے خوگر ہو انسان تو مٹ جاتا ہے رنج

مشکلیں مجھ پر پڑیں اتنی کہ آسان ہو گئیں

یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ جب انسان کسی بات کا عادی ہو جائے تو وہ بات اس کے لیے کوئی حقیقت نہیں رکھتی۔ پروفیسر ظہور احمد فاتحؔ نے بھی اسی بات کو کہا ہے کہ اگر اپنی تکلیف سے چھٹکارا حاصل کرنا ہے تو کوئی بڑی خوفناک تکلیف میں گم ہو جا۔ ظہور احمد فاتحؔ کا یک اور شعر جو شاعرانہ تعلی کا حامل ہے درج ذیل ہے:

مرے عمل سے پریشاں ہے اہرمن فاتحؔ

قلم کو نیزہ بنا کر جہاد کرتا ہوں

یہ شعر شاعرانہ تعلی کا حامل ہے شاعرانہ تعلی کا مطلب جس شعر میں شاعر اپنی عظمت کو بیان کرتا ہے چنانچہ اس شعر میں بھی شاعر اپنی بڑائی بیان کر رہا ہے۔ اور ویسے بھی اللہ تعالیٰ نے انسان کو بہت سی خوبیوں کے ساتھ نوازا ہے ان تمام اوصاف میں سے جو سب سے بڑی خوبی ہے وہ مجاہدانہ وصف ہے اور جہاد کی کئی قسمیں ہیں۔ جہاد تلوار سے بھی کیا جاتا ہے اور قلم سے بھی کیا جاتا ہے ایک شاعر یا ادیب کا جہاد قلم کا جہاد ہوتا ہے جس کے آگے تمام شیطانی قوتیں پارہ پارہ ہو جاتی ہیں۔ اسی طرح ظہور احمد فاتحؔ بھی بیان کرتے ہیں کہ میں قلم کو ہتھیار کے طور پر یعنی نیزے کے طور پر جہاد کرتا ہوں وہ اپنی قلم کی طاقت سے بخوبی آگاہ ہیں اور وہ خیال کرتا ہے کہ اپنی قلم کی طاقت سے بڑی بڑی شیطانی قوتوں کو شکست دے سکتا ہے ظہور احمد فاتحؔ کا ایک اور شعر جو عرفان و آگہی کا مظہر ہے۔

راکھ بن جاؤں گا جب پا نہ سکوں گا تجھ کو

تیری چاہت میں سرِ طور نکل آیا ہوں

اس شعر میں شاعر اللہ تعالیٰ سے مخاطب ہے اور کہتا ہے کہ اگر تمہارا پیار میں نہ پا سکوں گا تو راکھ بن جاؤں گا کیونکہ میں تیری محبت میں کوہِ طور آپہنچا ہوں یعنی عشق کی انتہا کو پہنچ چکا ہوں واپس پلٹنا میرے بس میں نہیں ہے یعنی کہ کشتیاں جلا کر آیا ہوں اور واپسی کے تمام راستے ختم کر آیا ہوں اب عشق کا فنا ہونا تو مقدر ہو چکا ہے۔

جاں چھڑکتا ہے جنوں افکار دانش پہ مرے

اس طرح اسرارِ تکریمِ بشر لکھتا ہوں میں

ظہور احمد فاتحؔ کا یہ شعر عرفان ذات کے حوالے سے ایک بہترین مثال ہے وہ لکھتے ہیں کہ میرے افکار پہ جنوں جان چھڑکتا ہے اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ میں بشر کے لیے اسرار تکریم ہی کچھ اس انداز سے لکھتا ہوں کہ جو اہل جمال ہیں یعنی جو حسن و جمال کو پسند کرنے والے ہیں وہ اپنی محبت کا اظہار کئے بغیر نہیں رہ سکتے۔ پروفیسر ظہوراحمد فاتحؔ کا آخری شعر اگر اس کو تعلی سمجھا جائے یا عرفان ذات کے حوالے سے خیال کیا جائے تو وہ ہر لحا سے بھر پور اہمیت کا حامل ہے۔

خلوتوں میں جلوتوں کا ہم نے پایا ہے سرور

ہم وہاں پر بزم آراء ہیں جہاں کوئی نہیں

یہ شعر ہر لحاظ سے بے مثال ہے جس میں شاعر لکھتا ہے کہ میں تنہا یوں میں بھی انجمن کے مزے لوٹتا رہتا ہوں حالانکہ میرے پاس کوئی نہیں لیکن پھر بھی میں بزم آراء ہوں لہٰذا ان تمام مثالوں سے عیاں ہوتا ہے کہ پروفیسر ظہور احمد فاتحؔ کا کلام مقصدیت کا آلہ کار ہے لیکن اس کے باوجود بھی کچھ حضرات ایسے ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ وہ ادب برائے ادب کے قائل ہیں لیکن ہم انہیں بھی بالکل غلط قرار نہیں دیتے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ ان کا کلام ادب برائے زندگی کے طور پر بھی بے مثال ہے۔      

کیونکہ وہ زندگی سے محبت کرتے ہیں اور اس سے عشق کرتے ہیں وہ اس کے رازوں سے بخوبی آگہی رکھتے ہیں چنانچہ عرفان و آگہی ان کی شعر گوئی کی جان ہے اور پروفیسر ظہور احمد فاتحؔ کا کلام عرفان و آگہی کی ایک عمدہ دلیل ہے۔

اس مضمون میں مستند نقاد شبیر ناقدؔ کی تنقید نگاری اطلاقی تنقید کے تمام تر تقاضے پورے کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ انہوں نے پروفیسر ظہور احمد فاتحؔ کے شعری اسرار و رموز چاہے ان کا تعلق فن کی دنیا سے ہو یا دنیائے فکر سے ہو قاری کے لیے کھول کھول بیان کرتے ہیں۔ ان کے بیان میں اختصار و جامعیت بھی اور مقبولیت و مقصدیت بھی ہے وہ لا یعنی افکار و مباحث سے اجتناب کرتے ہیں جو ان کی پختہ کاری کی علامت ہے۔

ابو البیان ظہور احمد فاتحؔ شاعر رجائیت:

عام طور پر کہا جاتا ہے کہ دنیا میں دو طرح کے لوگ موجود ہیں ایک وہ لوگ ہیں جو ہر چیز پر معاملے کا مثبت پہلو دیکھتے ہیں۔ انہیں رجائیت پسند کہا جاتا ہے۔ دوسرے وہ لوگ ہیں جو ہر بات کا منفی پہلو دیکھتے ہیں انہیں قنوطیت پسند کہا جاتا ہے۔ یہاں شبیر ناقدؔ نے اپنے ممدوح ظہور احمد فاتحؔ کے رجائیت حوالے سے بات کی ہے کہ ایک مشہور مثال ہے کہ ’’دنیا امید پر قائم ہے‘‘ امید کو ’’رجا‘‘ بھی کہا جاتا ہے اور یہ حقیقت ہے کہ اسی کے ذریعے ہی زندگی کا سکون برقرار ہے۔ امید ایک ایسی چیز ہے جس سے ہماری زندگی کی دلکشی بحال رہتی ہے اور اسی کی وجہ سے ہماری آس کی شمعیں ہمیشہ روشن رہتی ہیں۔ رجائیت ہی ہے جو ہمیشہ خوفزدہ لوگوں کی رہنمائی کرتی آ رہی ہے رجا ایک آبِ حیات کی مانند ہے جس طرح آب حیات پینے سے انسان کو موت نہیں آتی اسی طرح رجا پر یقین رکھنے سے انسان کبھی خوف زدہ نہیں ہوتا بلکہ اس کی زندگی پر مسرت ہو جاتی ہے، دلوں کی دھڑکنیں برقرار رہتی ہیں اور آنکھوں کی چمک ہمیشہ موجود رہتی ہے چنانچہ ایسا شاعر جس کی شعر گوئی رجائیت سے بھر پور ہو وہ اپنے سماج کے لیے ایک غنیمت ہے۔ اس حوالے سے اگر ظہور احمد فاتحؔ کے کلام کا جائزہ لیا جائے تو ان کے کلام میں جگہ جگہ امید کی روشنی پھوٹتی ہوئی نظر آتی ہے اور اداس دلوں کی مسیحائی ہوتی ہے۔ ان کے افکار میں یا سیت نہیں بلکہ رجا کا عنصر پایا جاتا ہے ان کے کلام سے بخوبی ثابت کیا جا سکتا ہے کہ وہ شاعر رجائیت ہیں یا سیت نہیں۔ ظہور احمد فاتحؔ کے دو اشعار جو رجائی حوالے سے عمدہ نمونے ہیں درج ذیل ہیں۔

گھپ اندھیرے خود بخود سیماب پا ہو جائیں گے

من کے معمورے کو معمورِ ضیاء ہونے تو دو

جب یہ بولے گا تو محفل رنگ پر آ جائے گی

حضرتِ فاتحؔ کو ساقی لب کشا ہونے تو دو (۱)

ان اشعار میں رجائیت بھرپور انداز میں پائی جاتی ہے جو مایوسی کے اندھیروں کے پردے چاک کر دیتی ہے۔ دوسرے شعر میں شاعر کہتا ہے کہ اے ساقی ایک بار مجھے لب کشا یعنی لب کھولنے تو دو دیکھنا کہ محفل پہ کیسا رنگ آ جاتا ہے چونکہ شاعر کو اپنے اوپر بھروسہ ہے یعنی انہیں امید ہے کہ جب بھی وہ بولے گا تو محفل پر رنگ چھا جائے گا۔ ان اشعار میں ایک زبردست جذبہ اور بہترین تحریک کی کیفیت پائی جاتی ہے۔ یہ سارا جو کمال ہے وہ سب کا سب امید و رجا کی برکت سے ہے لہٰذا ان اشعار میں امید کی کرن نظر آتی ہے۔ ظہور احمد فاتحؔ کا ایک اور شعر جس میں رجائیت بھر پور انداز میں نظر آتی ہے۔

زندگی زندہ دلی سے جو گزاری ہم نے

موت بھی دے کے ہمیں جام بقاء گزرے گی

رجائیت ایک ایسا کرشمہ ہے جو صرف اہل رجا کے ہاں پایا جاتا ہے اور امید ہی ایک ایسی کرن ہے جو مردہ جسم میں بھی جان ڈال سکتی ہے۔ اسی طرح زندگی کو زندہ دلی کے ساتھ گزارنا بھی ایک ایسا کرتب ہے جس سے انسان موت سے بھی نہیں گھبراتا بلکہ اسی رجا کی وجہ سے موت بھی اپنے ہاتھوں سے اسے آب حیات پلا دیتی ہے لہٰذا زندہ دلی کے ساتھ زندگی گزارنا، موت سے بھی نہ خوف کھانا اور موت کو اپنے ہاتھوں سے آبِ حیات پلانا یہ سب رجائیت کی عمدہ مثالیں ہیں۔ شبیر ناقدؔ ظہور احمد فاتحؔ کی امید ورجا کے حوالے سے کچھ یوں تبصرہ کرتے ہیں: ۔

ایسی ہی یہ پر امید گفتگو رجائیت سے معمور اوراس کا حاصل کلام جگہ جگہ جنابِ فاتحؔ کا سخن جلوہ پیرا نظر آتا ہے۔ (۹)

شبیر ناقدؔ نے تاثراتی تنقید کے تقاضے نبھاتے ہوئے ابو البیان ظہور احمد فاتحؔ کی شاعری کے رجائی تاثر کو بھر پور انداز میں سراہا ہے۔ اور حوالے کے طور پر ان کا درج ذیل شعر دیا ہے۔

فاتحؔ دکھوں کی دھول سے جیون اجاڑ تھا

وہ آئے تو مریض کی حالت سدھر گئی

اس شعر میں شاعر بیان کرتا ہے کہ پہلے تو زندگی دکھوں بھری تھی اور دکھوں کی دھول سے جیون خراب تھا یعنی ویرانی کا سا عالم اور اس سے مریض کی حالت کا خراب ہونا اس کے بعد کسی کی آمد سے مریض کی حالت سدھر جانا یعنی شفا یاب ہو جانا یہ سب یقیناً رجائیت ہی کی بدولت ہے جس سے ہماری سوچ پر مسرت اور ہماری زندگی پر سکون گزرتی ہے ظہور احمد فاتحؔ کے کلام میں رجائیت کا پیغام جگہ جگہ ملتا جانا ہے ان میں شاعر رجائیت ثابت کرنے کے لیے شبیر ناقدؔ نے ان کے درج ذیل اشعار بھی پیش کیئے ہیں ؛

یقیناً انقلابِ حال میں کچھ دیر لگتی ہے

مگر سچ ہے زمانہ محتسب ہے اور عادل ہے

نہیں ساری خطا اس میں دل خوش فہم کی فاتحؔ

ستم یہ ہے تری نہ بھی تیری ہاں سے مماثل ہے

یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ اکثر اہلِ سخن زمانے سے شکوے کرتے رہتے ہیں وہ پوری دنیا سے بدگمان رہتے ہیں اور اہل جمال یعنی حسن و جمال کے مالک کی بے وفائی کا گلہ کرتے رہتے ہیں۔ پہلے شعر میں شاعر لکھتا ہے کہ حالات کو کروٹ لینے میں آخر کچھ وقت تو ضرور لگتا ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ جو زمانہ ہے وہ حساب لینے والا ہے اور انصاف کرنے والا بھی ہے لہٰذا یہ ایک ایسی بات ہے جو ایک مسلمان شاعر ہونے کے ناطے ان کی شان کے مطابق ہے کہ:

شبیر ناقدؔ کا تنقیدی شعور اسلامی تعلیمات سے مزین ہے وہ موقع محل کے مطابق احادیث کو بطور دلیل پیش کرتے ہیں یوں ان کا بیان تقویت سے ہم آہنگ ہو جاتا ہے۔

اسی طرح دوسرے شعر میں شاعر نے ذرا الگ طریقے سے بات کی ہے ویسے بھی شعرائے کرام اکثر سارا قصور وار اپنے دل کو ٹھہراتے ہیں لیکن یہاں ظہور احمد فاتحؔ فرماتے ہیں کہ سارا قصور ہمارے اس دل کا بھی نہیں ہے کہ تم پر یقین کر بیٹھا ہے کچھ نہ کچھ شفقت تو یار کے مزاج میں بھی موجود ہے کیونکہ اگر وہ ہمیں نہ بھی کرتا ہے تو پھر بھی اس میں امید کا کوئی نہ کوئی پہلو ضرور نظر آتا ہے جس میں اس کی ہاں کے امکانات پائے جاتے ہیں۔

چونکہ وہ ایک ایسے انداز سے کہتے ہیں جس سے امید کی کرن نظر آتی ہے اور محب اس سے ہاں سے ملتی ہوئی کوئی چیز سمجھ لیتا ہے یعنی محبوب کا جو انکار ہے وہ اقرار کی مانند یعنی مشابہت رکھتا ہے لہٰذا ان اشعار میں وہ بھر پور رجائیت نظر آتی ہے جو شاہد ہی کسی اور میں نظر آئے۔ یہ ظہور احمد فاتحؔ کا کمال فن ہے اور ان کی سخن گوئی کا وصف ہے جو انہیں دوسروں سے الگ تھلگ کرتا ہے لہٰذا یہ اشعار امید و رجا کے شاہکار کہے جا سکتے ہیں۔ ظہور احمد فاتحؔ کا ایک اور شعر جو مختصر بحر اور سہل ممتنع کے انداز میں ہے۔

چشم و دل میں دیئے جلیں فاتحؔ

کیوں اندھیرا خیال میں آئے؟

اس شعر میں شاعر لکھتا ہے کہ آنکھ اور دل میں رجائیت کے دیئے روشن ہونے چاہیں اور اندھیرے کا خیال تو بالکل دل و دماغ میں ہونا بھی نہیں چاہیے کیونکہ امید ہی ایک ایسی چیز ہے جس سے دل میں مایوسی کی کوئی لہر پیدا نہیں ہوتی اور اسی رجا ہی کی بدولت سے اداسی کے گھپ اندھیرے دور ہوتے چلے جاتے ہیں۔ شبیر ناقدؔ نے ظہور احمد فاتحؔ کے ان نظریات کو اچھے طریقے سے پیش کیا ہے۔ اسی طرح ظہور احمد فاتحؔ کا آخری شعر جس میں رجائیت جھلکتی نظر آتی ہے۔

تو اگر بے حجاب ہو جائے

چاندنی آب آب ہو جائے

اس شعر میں محبوب کے حسن و جمال کا کمال دکھایا گیا ہے کہ اگر وہ اپنے رخِ انور سے آنچل ہٹا دے یعنی نقاب ہٹا دے تو اس کے حسن کو دیکھ کر چاند بھی پانی پانی ہو جائے چنانچہ چاند کی چاندنی بھی محبوب کے حسن کے آگے کوئی معنی نہیں رکھتی اور ایسے عالم میں مایوسی و نا امیدی کی کہاں جگہ۔ اس طرح اس بحث سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ظہور احمد فاتحؔ رجائیت کا نمائندہ ہے اور ان کا کلام امید کی بھر پور ترجمانی کرتا ہے جس میں یاسیت و نا امیدی کی کوئی بات نہیں رہتی بلکہ ان کے ہاں امید فزوں سے فزوں تر ہوتی چلی جاتی ہے لہٰذا ظہور احمد فاتحؔ نہ تو خود قنوطیت پسند ہیں اور نہ ہی وہ اپنے قاری کو نا امیدی کا شکار ہونے دیتے ہیں بلکہ جگہ جگہ پرامید کے چراغ روشن کرتے چلے جاتے ہیں مندرجہ بالا مضمون میں شبیر ناقدؔ اپنے ممدوح پروفیسر ظہور احمد فاتحؔ کے شعری و موضوعاتی مؤقف کو ایک مستند نقاد کی طرح باور کراتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں ان کے طرز تحریر میں ایک بھر پور اعتماد کی فضا پائی جاتی ہے جو قاری کو دولت یقین سے ہمکنار کرتی ہے۔

ابو البیان ظہور احمد فاتحؔ : شاعر حزن و ملال:

حیاتِ انسانی مختلف نوعیت کے جذبات و احساسات سے عبارت ہے جن میں خوشی اور غم کو بنیادی حیثیت حاصل ہے خوشی کو لمحاتی مسرت سمجھا جاتا ہے جب کہ غم ایک دیرپا اور لازوال دولت ہے اس مضمون میں عہد حاضر کے معروف نقاد شبیر ناقدؔ نے حضرت فاتحؔ کی شاعری کے حزن و ملال کے تاثر کو اجاگر کرنے کی ایک وقیع کاوش کی ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو زمین پر ایک خلیفہ بنا کر بھیجا ہے اور یہاں وہ مختلف رویوں سے گزرتا ہے۔ بعض رویے ایسے ہیں جن سے اس کو مسرت و راحت حاصل ہوتی ہے اور کچھ ایسے ہیں جو اس کو اداس بنا دیتے ہیں جیسے گوتمؔ نے کہا تھا۔

 دنیا دکھوں کا گھر ہے۔

یا بقول ساحرؔ :

زندگی کیا کسی مفلسی کی قبا ہے جس میں

ہر گھڑی درد کے پیوند لگے جاتے ہیں

اس طرح میر تقی میرؔ کو غم کا شاعر کہا جاتا ہے اور یہ حقیقت ہے کہ غم کا اثر بہت دیر تک رہتا ہے۔ لہٰذا جن اہل سخن کے کلام میں غم کی کیفیت پائی جاتی ہے وہ کلام بہت متاثر کرنے والا ہوتا ہے اسی طرح ایک معتبر نقاد وہی ہوتا ہے جو تخلیق کار کی نسبت وسیع تر فکری و فنی ادراکات کا مالک ہو۔ ناقدؔ کی ژرف بینی اور اس کی وسیع تر ریاضت اسے اصحاب تخلیق سے اعلیٰ درجے کا فن کار بناتی ہے یہی وجہ ہے کہ نقاد کو نباض فن بھی کہا جاتا ہے۔ اس کا مطالعہ و مشاہدہ وسیع و عریض ہوتا ہے جسے وہ اپنے پیرائے میں بروئے کار لاتا ہے۔

اس مضمون میں بھی شبیر ناقدؔ کی وسعتِ مطالعہ کو بآسانی مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔ حزن و الم کے حوالے سے انہوں نے گوتم بدھ، جوشؔ ملیح آبادی، ساحرؔ لدھیانوی اور میر تقی میرؔ کی امثال پیش کی ہیں جن کا مطالعہ کرنے کے بعد یہ بات ہم بلا خوف تردید کہہ سکتے ہیں کہ شبیر ناقدؔ اپنے متقدمین کے کام کا بخوبی ادراک رکھتے ہیں۔

لہٰذا حزن و الم کے حوالے سے جب ہم ظہور احمد فاتحؔ کے کلام کا جائزہ لیتے ہیں تو ان کے کلام میں بھی رنج و الم کی کوئی کمی نہیں ہے۔ وہ قدم بہ قدم غم کی فضا کو قائم کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ظہور احمد فاتحؔ کا ایک شعر جو زندگی کی ناہمواری کی بھرپورعکاسی کرتا ہے۔ درج ذیل ہے۔

ہم جام پی رہے ہیں یا زہر پی رہے ہیں

کیسی یہ زندگی ہے مر مر کے جی رہے ہیں

اس شعر میں کیسی غم حیات کی عکاسی کی گئی ہے شاعر بیان کرتا ہے کہ ہم جام پی رہے ہیں لیکن ایسے لگتا ہے جیسے ہم زہر کو نوش فرما رہے ہیں یہ کیسی زندگی ہے اور ایسی زندگی کا کیا فائدہ جس میں مرمر کے جینا پڑ رہا ہے۔ اسی طرح ظہور احمد فاتحؔ کا ایک اور شعر جو دامن توجہ کھینچ رہا ہے حسب ذیل ہے۔

وہ شخص آج نہایت اداس لگتا تھا

نہ جانے کیا تھا کہ اتنا نراس لگتا تھا؟

ایک ایسان انسان جو کبھی مایوس نہ ہوا ہو ہمیشہ ہنستا مسکراتا رہا ہو اور اس پر اداسی کا غلبہ چھا جائے پھر سوال تو پیدا ہوتا ہے کہ آخر ایسا کیا ہو گیا ہے کبھی نہ مایوس ہونے والا آج اتنا کیوں نراس لگ رہا ہے۔ ایک ہمدرد دل رکھنے والا انسان پریشان تو ہوتا ہے کہ ایک ایسا شخص جس کو غم سے کوئی نسبت ہی نہ تھی اور آج اچانک اتنا اداس اس میں کوئی نہ کوئی راز تو پوشیدہ ہے جس کی وجہ سے ایک خوش مزاج آدمی دکھوں کی دلدل میں آ گیا۔ اسی طرح ظہور احمد فاتحؔ کا ایک اور شعر جس میں رنج و الم کی ایک فضا قائم کی گئی ہے۔

کبھی نہ دامنِ امید چھوڑنے والا

کوئی تو بات ہوئی وقفِ یاس لگتا ہے

اس شعر کے حوالے سے شبیر ناقدؔ نے کچھ یوں توضیحی انداز اختیار کیا ہے۔

وہ شخص جو فطرتاً رجائیت پسند تھا اور ہمیشہ آس کا دامن تھے سے رہتا ہے، خدا جانے کیا افتاد ٹوٹی کہ یاسیت کا شکار ہو گیا۔ جو دوسروں کو پیغامِ امید دیا کرتا تھا خود قنوطی بن بیٹھا، یہ المیہ نہیں تو کیا ہے؟

نقاد موصوف انسانی نفسیات سے خوب واقف ہیں اس لیے ان کے بیان میں نفسیاتی شواہد بکثرت ملتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ان کے انداز نگارش میں ایک پختگی کا عنصر پایا جاتا ہے۔

ظہور احمد فاتحؔ کا وہ شعر جس میں درد و غم کی جھلک واضح طور پر دکھائی دیتی ہے۔

نہ ڈوب جاؤں میں ان آنسووں کے طوفاں میں

اے بحر ذات کے ساحل ذرا ٹھہر جاؤ

اس شعر میں شاعر اپنے محبوب سے بڑے دلکش انداز میں مخاطب ہے اور کہتا ہے کہ میری ذات تو ایک سمندر کی مانند ہے اور تم میری ذات کے سمندر کے ساحل ہو لہٰذا تھوڑی دیر کے لیے رک جاؤ تاکہ آرام و سکون کی چند گھڑیاں ہمیں نصیب ہو جائیں۔ تمہیں اس بات کا بھی علم ہو نا چاہیے کہ میری زندگی کا جو سکون ہے وہ تمہاری ذات سے وابستہ ہے اسی طرح اگر تم میرے ساتھ کچھ دیر کے لیے ٹھہر جاؤ گے تو زندگی میں سکون آ جائے گا۔ اور اگر تم چلے گئے تو میں تیری جدائی کا غم برداشت نہیں کر پاؤں گا اور آنسوؤں کے طوفان میں ڈوب جاؤں گا۔ اس شعر میں اگر ایک طرف دیکھا جائے تو ایک زبردست انداز میں شاعرانہ مبالغہ کیا گیا ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ رنج و الم کی شدت کے ساتھ بھر پور نمائندگی بھی کی گئی ہے۔

دیکھا جو غم ہجر میں اشکوں کو برستے

دینے ہمیں آئی ہے گھٹا عید مبارک

شبیر ناقدؔ نے کہا کہ اس شعر میں کئی لوازمات کام کرتے نظر آتے ہیں۔ (۱) غم ہجر، (۲) اشکباری، (۳) گھٹا، (۴) عید مبارک، یعنی اس شعر میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ شاعر عید کے چاند کو دیکھ چکا ہے مگر محبوب کے آنے کے کوئی آثار نظر نہیں آتے اور محبوب سے الگ ہونے کا جو غم ہے وہ فزوں سے فزوں تر ہو گیا ہے یعنی اس کی شدت میں اضافہ ہو گیا برداشت کرنے کی جو قوت تھی وہ اب ختم ہو گئی ہے اب آنکھوں سے آنسوؤں کے رکنے کا کوئی سبب نہیں اسی طرح ایک طرف غم، ہجر اور پھر اشکوں کا برسنا دوسری طرف گھٹا کا آنا اور ساتھ ہی عید مبارک کہنا کیسے بھر پور انداز میں ایک گھمبیر قسم کے رنج و الم کی عکاسی کی گئی ہے۔ اسی طرح شبیر ناقدؔ ابو البیان ظہور احمد فاتحؔ کی شعری جزئیات کو پورے طور پر زیر بحث لاتے ہیں جس کی بدولت قاری کے لیے ظہور احمد فاتحؔ کے سخن فہمی کے ابو اب وا ہو جاتے ہیں۔

ظہور احمد فاتحؔ کا ایک اور شعر جس میں حزن و ملال کی ترجمانی کی گئی ہے۔

ادا یہ غیر کی ہوتی تو کوئی بات نہ تھی

یہ دکھ ہے میرا شناسا مرا حبیب نہیں

اس شعر میں اہل سخن اپنے محبوب کے بارے میں شکوہ کرتا ہے کہ مجھے اس بات کا دکھ ہے کہ میرا محبوب میرے دکھ سے نا آشنا بنا پھرتا ہے۔ اور یہاں کوئی غیر ہوتا اور وہ ایسا کرتا مجھے غم کی کوئی پرواہ نہ تھی مگر افسوس ہے تو صرف اس بات کا کہ اپنا دوست بھی اگر ایسا رویہ اختیار کرے اور سب کچھ جاننے کے باوجود بھی بیگانہ بننے کی کوشش کرے تو تکلیف تو ہوتی ہے۔

لہٰذا ظہور احمد فاتحؔ کا آخری شعر جس میں رنج و الم کو واضح طور پر بیان کیا گیا ہے درج ذیل ہے۔

وہی اداسی وہی غم وہی ہے تنہائی

بنا تھا جو میرا غم خوار ساتھ چھوڑ گیا

محب کے لیے محبوب کا چھوڑ جانا بہت بڑی تکلیف ہے اس شعر میں ایک اعلیٰ قسم کی صورتحال کی ترجمانی کی گئی ہے شاعر بیان کرتا ہے کہ جیسے وصل سے پہلے اداسی، غم اور تنہائی تھی آج وہی کہانی ایک بار پھر دوہرائی جا رہی ہے وہ دوست جو میرا غم خوار یعنی غم بانٹنے والا تھا اور اپنا قرب عطا کرتا تھا وہ آج چھوڑ گیا ہے لہٰذا پھر سے دل درد و غم کی گرفت میں آ گیا ہے۔

اسی طرح مندرجہ بالا امثال سے بات واضح ہوتی ہے کہ ظہور احمد فاتحؔ کے کلام میں حزن و ملال بھی بھر پور انداز میں موجود ہے ان کی سخن گوئی میں زبردست غم کی فضا موجود ہے۔ ان کا جو بیان کرنے کا انداز ہے اس میں رنج و الم کی ایک وسیع تر چھاپ ہے اگر ان کا سارا کلام درد و غم میں رچا ہوا نہیں تو یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ کسی بھی سخن گو کی ساری شاعری درد و غم کی نہیں ہوتی مگر ہاں ایک شاعر کا یہ کمال ہے کہ وہ اپنے احساسات سے قاری کو متاثر کر سکے اور ابو البیان ظہور احمد فاتحؔ کے کلام میں یہ چیز کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی نظر آتی ہے۔ مذکورہ بالا مضمون میں فاضل نقاد شبیر ناقدؔ نے پروفیسر ظہور احمد فاتحؔ کی شاعری کے حزینہ و المیہ عوامل کو بھر پور طریقے سے اجاگر کیا ہے۔ کثرت امثال کی بدولت شبیر ناقدؔ کا بیان وقیع اہمیت کا حامل ہو گیا ہے۔

ابو البیان ظہور احمد فاتحؔ :شاعرِ رومان:

اگر شبیر ناقدؔ کی تصنیف ’’ابو البیان ظہور احمد فاتحؔ کا کیفِ غزل کا موضوعاتی آفاق و اعماق کا مطالعہ کیا جائے تو اس کتاب کی تیاری کے حوالے سے معروف نقاد شبیر ناقدؔ کی وسیع تر تنقیدی عرق ریزی، اظہر من الشمس ہوتی ہے۔ انہوں نے گو ناگوں موضوعات پر قلم اٹھایا ہے۔ یوں وہ موضوعاتی تنقید کا حق ادا کرتے ہوئے پائے گئے ہیں۔ شبیر ناقدؔ کسی بھی موضوع کی وضاحت اپنی عمیق تنقیدی بصیرت سے کرتے ہیں۔ یوں ان کا زاویہ اظہار منفرد دکھائی دیتا ہے وہ بنے بنائے، سنے سنائے اور پڑھے پڑھائے مقولوں پر اکتفا نہیں کرتے۔ وہ خالصتاً اپنے ذاتی تنقیدی وجدان سے کام لیتے ہیں۔ آپ نے ادب کی کتابوں اور اہل ادب سے رومان کی تعریف سنی ہو گی۔ رومان کے حوالے سے ذرا شبیر ناقدؔ کی توضیح و تصریح بھی ملاحظہ کریں جو وہ ’’ابو البیان ظہور احمد فاتحؔ شاعر رومان‘‘ کے زیرِ عنوان لکھتے ہیں۔

کچھ الفاظ ایسے ہوتے ہیں جو صوری اور صوتی اعتبار سے بہت بھلے لگتے ہیں اور ایک جہانِ معانی خود میں سموئے ہوئے ہیں ایسے ہی خوبصورت الفاظ میں سے ایک لفظ رومان بھی ہے جو دیکھنے میں دلکش، سننے میں محظوظ کن اور دونوں اعتبار سے بے حد جاں نواز ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ تمام خوبصورت اور لطیف جذبات اس لفظ کی ترجمانی کرتے ہیں تو بے جا نہ ہو گا۔ اس پیار، الفت، چاہت، محبت اور عشق سب اس کے روپ ہیں۔ پسندیگی، شائستگی، وارفتگی، خود سپردگی اور از خود رفتگی سب اس کی صورتیں ہیں۔ یہ ایک ایسا جامع شبد ہے جس میں دلکشی بھی ہے اور دلنوازی بھی، جس میں خوشبو بھی ہے اور مٹھاس بھی، جس میں رنگ بھی ہیں اور روشنی بھی، جس میں امید بھی ہے اور بشارت بھی، جس میں وفا بھی ہے اور خلوص بھی بلکہ محبوب کے عشوے غمزے، جو رو ستم، بے داد و جفا اور ناز وغیرہ سب رومان کی ذیل میں آتے ہیں۔

ہمارا قوی خیال ہی ہے کہ آپ نے رومان کی تعریف اتنے وسیع پیرائے میں جس میں اختصار و جامعیت بھی ہے اور معقولیت و منطقیت بھی ہے، نہ کبھی پڑھی، لکھی اور سنی ہو گی یہ سب کچھ شبیر ناقدؔ کی تنقیدی کرشمہ کاری و نادار کاری کی بدولت ہے اس طرح شبیر ناقدؔ نے کہا کہ میں نے بہت سے اہل سخن کے ادبی و فنی جمال پاروں کی تلاوت کی ہے مگر جو رومان کی بھر پور فضا پروفیسر ظہور احمد فاتحؔ کے کلام میں دکھائی دی وہ کسی اور میں نظر نہیں آئی چنانچہ ظہور احمد فاتحؔ کے دو اشعار جن میں رومان واضح طور پر دکھائی دیتا ہے مندرجہ ذیل ہیں۔

ہمارے پیار کی دنیا مثال دینے لگی

یہ خوف ہے کہ جہاں کی اسے نظر نہ لگے

کبھی جو سونے لگوں میں تو یہ دعا مانگوں

تری طلب میں مری آنکھ تا سحر نہ لگے

ان اشعار میں شاعر بیان کرتا ہے کہ ہماری محبت ابھی جوان ہے اور ہماری چاہت اتنی بڑھ گئی ہے کہ ہمارے پیار کی نظیر دنیا دینے لگی ہے لیکن اب بھی مجھے یہ خوف ہے کہ میرے محبوب کو دنیا والوں کی بری نظر نہ لگ جائے دوسرے شعر میں شاعر اپنے محبوب سے مخاطب ہو کر کہتا ہے اے محبوب تری طلب مجھے بہت زیادہ پیاری ہے اور اس کے لیے میں اپنی نیند جیسی راحت کو قربان کر سکتا ہوں اور جب سونے لگتا ہوں تو یہی حرف دعا نکلتا ہے کہ تمہیں یاد کرتا رہوں اور اسی یاد میں رات گزار دوں میری آنکھ سحر تک لگے ہی نہ بلکہ تیری خیالوں میں کھویا رہوں۔ چنانچہ ظہور احمد فاتحؔ کا ایک اور شعر جس میں رومان کی ترجمانی کی گئی ہے۔

صبا کہیں بھی ہو فرحت نواز ہوتی ہے

جہاں بھی رہنا مثالِ سکون جاں رہنا

اس شعر میں شاعر اپنے محبوب کو نصیحت کر رہا ہے کہ اے محبوب تم جہاں بھی رہنا ایک سکون بن کر رہنا اور وہاں کے لوگ تم سے مسرت و راحت حاصل کریں ٹھیک اسی طرح جیسے صبا کہیں پر بھی ہو لیکن دوسروں سکون مہیا کرتی ہے اور تم بھی صبا کی طرح رہنا ہر کسی کو خوشیوں سے نواز دینا تاکہ تم ایک مثال بن جاؤ۔ جیسے حدیث نبوی ہے۔

 ’’بہترین لوگ وہ ہیں جو دوسروں کو فائدہ دیتے ہیں۔‘‘

شبیر ناقدؔ ایک راسخ العقیدہ مسلمان ہیں اس لیے ان کے تنقیدی نظریات و افکار میں اسلامی تصورات و تفکرات کی کار فرمائی واضح طور پر محسوس کی جا سکتی ہے۔ ان کے ہاں قرآنی و احادیثی عوامل کی جلوہ ریزی ہے۔ اسی طرح ظہور احمد فاتحؔ کا ایک اور شعر جس میں رومان کی ایک والہانہ انداز میں نمائندگی کی گئی ہے حسب ذیل ہے۔

تھا انتظار مجھے اس گھڑی کا مدت سے

پیام وصل، پیام سحر میں آیا ہے

اس شعر میں شاعر یوں کہتا ہے کہ مجھے اس وقت کا انتظار تھا یعنی محب کو وصال یار کا انتظار تھا اور اسی انتظار میں اسے بہت سی مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑا اور راتوں کو جاگنا پڑا تاکہ حسن یار کا دیدار ہو جائے لیکن ایسے چند لوگ ہوتے ہیں جن کی قسمت اچھی ہوتی ہے اور جن کے لیے صبح وصل محبوب کی بشارت لے کر آتی ہے تو پروفیسر ظہور احمد فاتحؔ بھی انہی لوگوں میں سے ایک ہیں جن کے لیے صبح پیام وصل لے کر آتی ہے لہٰذاس شعر میں شاعر نے کتنے اچھے انداز سے رومان کو واضح کیا ہے۔ چنانچہ ظہور احمد فاتحؔ کا ایک اور شعر جس میں رومان کو واضح طور پر عیاں کیا جاتا ہے۔

سنا دیتے غزل فاتحؔ کی اپنی مدبھری لے میں

کرم ہوتا اگر تم یہ ہمارا کام کر دیتے

شعر میں شاعر اپنے محبوب کے آگے اپنی خواہش کا اظہار کر رہا ہے اور وہ کہتا ہے کہ اے محبوب اپنی پیاری سی آواز کے ساتھ غزل سنا دو اگر تم ہمارا یہ کام کر دو تو آپ کا بہت احسان ہو گا۔ محب بڑی عاجزی کے ساتھ کہتا ہے کہ یہ کام اتنا دشوار یعنی مشکل تو نہیں اگر تم غزل کو تھوڑا سا گنگنا دو اور آپ کے غزل سنانے سے شاعر کی روح عش عش کرتے ہوئے جھوم اٹھے گی اور وہ ہمیشہ کے لیے آپ کا احسان مند رہے گا یعنی آپ کا یہ احسان گراں بار رہے گا بس ایک بار اپنی میٹھی آواز کے ساتھ غزل اگر سنا دیں۔

ابو البیان ظہور احمد فاتحؔ کے آخری دو اشعار جن میں رومان پوری طرح چھلکتا ہوا نظر آتا ہے۔

آڑے آتا ہے ہمیں ساتھی کی رسوائی کا خوف

ڈال کر ورنہ گلے میں سرخ دھاری کھیلتے

آپ ہو جاتے اگر تیار اے جان خلوص

زیست سے کچھ ساعتیں لے کر ادھاری کھیلتے

پہلے شعر میں شاعر اپنا اظہار خیال کچھ الگ انداز میں پیش کرتا ہے کہ میں ایک ایسی بازی کھیلتا یعنی پیار میں اپنے گلے کو کٹوا لیتا مگر میں ڈرتا ہوں کہ تم کہیں رسوا نہ ہو جاؤ آپ پر کوئی الزام نہ لگ جائے اگر تمہاری بدنامی کا خوف نہ ہوتا تو میں عشق میں یہ سب ضرور کر گزرتا صرف اسی بات کا ڈر ہے کہ لوگ آپ کو قاتل کہنا نہ شروع کر دیں اور قتل کا الزام آپ کے سر نہ آ جائے۔ بس آپ کو بدنامی کے داغ سے بچانے کے لیے ہمارا یہ شوق بھی پورا نہ ہوا۔ دوسرے شعر میں یہ بیان کرتا ہے کہ اے محبوب تم تو تیار ہی نہیں ہو اس پیار کی بازی کو کھیلنے کے لیے اگر تمہاری رضا مندی ہو جاتی تو پھر ہم اپنے جنون کو بھی دیکھتے اور اگر ہماری زندگی ختم بھی ہو جاتی تو ہم زندگی سے کچھ ساعتیں یعنی چند گھڑیاں ادھار لے لیتے۔

مندرجہ بالا مثالوں سے یہ بات واضح طور پر عیاں ہوتی ہے کہ پروفیسر ظہور احمد فاتحؔ کے کلام میں رومانیت کی گہری چھاپ ہے اور انہوں نے کتنے دلکش انداز میں رومان کو اپنے حروف و الفاظ میں پرویا ہے۔ اس لحاظ سے ہم ابو البیان ظہور احمد فاتحؔ کو ان کی شعری رومانیت کی وجہ سے حسرت موہانیؔ اور اختر شیرانیؔ کی صف میں کھڑا کر سکتے ہیں بلکہ ان سے بھی کہیں آگے نظر آتے ہیں۔ اگر موخرانہ کر معاملے کو ہم منطقی استدلال کے ساتھ پیش کریں تو اس کی صورت کچھ یوں بنتی ہے کہ حسرت موہانیؔ کے ہاں رومانیت کا وہ عمیق سلسلہ نہیں ہے جو ظہور احمد فاتحؔ کے سخن میں موج در موج موجزن ہے۔ اگر اختر شیرانیؔ کے حوالے سے بات کی جائے تو ان کے ہاں رومانوی حوالے سے راز داری کا پہلو معدوم ہے جس کی مثال اختر شیرانیؔ کے نسوانی کرداروں کی صورت میں پیش کی جا سکتی ہے مثلاً سلمیٰ، عذرا، ریحانہ، پروین، اور نسرین وغیرہ ان مثالوں میں سے کچھ کو ہم نے ان کے مصرعوں کی صورت میں پیش کرتے ہیں۔

سلمیٰ سے دل لگا کر بستی کی لڑکیوں میں بدنام ہو رہا ہوں

پروین سے کی ہے سرگوشی نسرین سے رشتے جوڑے ہیں

مذکورہ بحث سے یہ اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے اختر شیرانیؔ کے ہاں راز داری کا عمل مفقود ہے جب کہ پروفیسر ظہور احمد فاتحؔ کے ہاں راز داری کا عمل پورے طور پر کار فرما ہے۔

شبیر ناقدؔ جنہیں ایک مستند نقاد کی حیثیت حاصل ہے جہاں وہ تنقیدی بصیرت سے سرفراز ہیں وہ علم البیان کی جملہ باریکیوں سے آشنا ہیں۔ اس لیے ان کی تجزیات میں بسیط تنقیدی امکانات موجود ہیں۔ ان کی تنقیدات میں نفسیاتی تنقید کا عمل پورے طور پر کارگر ہے۔ اس لیے وہ اپنے مؤقف کو پورے طور پر باور کرانا جانتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے انتقادی شذرات میں دوران قرأت قاری کو کسی قسم کے شکوک و شبہات سے پالا نہیں پڑتا اور یہی امر شبیر ناقدؔ کی کامیابی کی دلیل ہے۔

ابو البیان ظہور احمد فاتحؔ ۔۔ ۔ ایک انسان دوست شاعر:

کائنات کے تمام تر علوم و فنون کی اساس اصلاح و فلاح انسانی پر رکھی گئی ہے وہ علم اور ہنر جو انسانیت کے استفادے سے محروم ہو اسے علم و ہنر کی معراج نہیں کہا جا سکتا، شاعری کو فنون لطیفہ میں ممتاز و منفرد مقام حاصل ہے شاعری کی یہ قدرو منزلت اس کی مقبولیت اور اثر آفرینی کے باعث ہے۔ عصر حاضر میں شاعری کا تجزیاتی مطالعہ انسانیت کے تناظر میں خصوصی اہمیت رکھتا ہے۔ اسی تنقیدی تقاضے کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے بالیدہ فکر نقاد شبیر ناقدؔ نے بھی ظہور احمد فاتحؔ کے سخن کا جائزہ بطور انسان دوست شاعر کی حیثیت سے بھی لیا ہے۔ اسی طرح ابنِ آدم کا خاص وصف انسانیت ہے اور انسانیت میں محبت اور اس کے تمام تر لوازمات آ جاتے ہیں۔

لہٰذا انسانیت جیسی خوبی سے ہر معمولی شخص کو اس خصوصیت سے بہرہ افروز ہونا چاہیے۔ مگر خاص طور پر شعرائے کرام یا ادیب انتہائی حساس طبیعت کے مالک ہوتے ہیں۔ ان کا بھی انسانیت سے گہرا تعلق ہوتا ہے اور جس شاعر کے سخن میں یہ فکری وصف موجود ہو ان کا کلام بہت اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ اسی حوالے سے اگر ہم ظہور احمد فاتحؔ کی سخن گوئی کا جائزہ لیں تو بلا خوفِ تردید کہہ سکتے ہیں کہ وہ ایک انسان دوست شاعر ہیں کیونکہ ان کی شاعری میں ایسے اشعار جا بجا بخوبی نظر آتے ہیں جن میں انسانی ہمدردیوں کی ایک احسن طریقے سے ترجمانی ہوتی ہے اسی حوالے سے ظہور احمد فاتحؔ کا ایک شعر درج ذیل ہے۔

سنگدل درپے آزار سہی پھر بھی مجھے

ہر گھڑی اس کی عنایت کا گماں رہتا ہے

اس شعر میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ محبوب سنگدل ہے اور محب کا حوصلہ دیکھیں کہ اس کی سنگدلی کے باوجود وہ ہر گھڑی یہ گماں رکھتا ہے کہ شاید کہیں بھی کرم فرما لے حالانکہ اس میں یہ خوبی موجود نہیں ہے لیکن پھر بھی شاعر میں یہ امید موجود ہے کہ کبھی تو وہ لطف و کرم کی نگاہ عنایت فرمائے گا۔ اب اس شعر میں پروفیسر ظہور احمد فاتحؔ نے اس مضمون کو کتنا عمدہ طریقے سے نبھایا ہے۔ لہٰذا ابو البیان ظہور حمد فاتحؔ کا ایک اور شعر جس میں اس نے ایک انسان دوست ہونے کے ناطے اپنے مضمون کو ایک دلکش انداز بخشا ہے۔

غمِ دوراں، غمِ جاناں، غمِ جاں

مرا دل کتنے خانوں میں بٹا ہے؟

شعر میں ظہور احمد فاتحؔ اپنے خیال کا اظہار کچھ اس انداز میں کرتے ہیں کہ میرا دل معلوم نہیں کتنے خانوں میں تقسیم ہو گیا ہے۔ اور اس دل کی کوٹھڑی میں مختلف قسم کے غم موجود ہیں۔ یعنی ایک دنیا کا غم ہے جو بحر بے کراں ہے دوسری جانب غم جاناں یعنی محبوب کا غم ہے جو بہت زیادہ تکلیف دہ ہے اور ان کے ساتھ تیسری طرف اپنی ذات کا غم ہے یہ بھی کسی تکلیف سے کم نہیں۔ اس شعر میں جس چیز کا سب سے زیادہ بغور مشاہدہ کیا گیا ہے وہ غم دوراں یعنی زمانے کی تکلیف ہے۔

اب پروفیسر ظہور احمد فاتحؔ کا کمال دیکھیں کہ انہوں نے سب سے پہلے زمانے کے دکھ کا ذکر کیا ہے اس کے بعد محبوب کا غم ہے آخر یہ اپنی ذات کا تذکرہ کیا ہے ایک انسان دوست کا یہی کمال ہوتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو کبھی بھی پہلے اہمیت نہیں دیتا اور اگر کہیں پہ اپنا ذکر کرنا لازمی ہو تو پھر اپنے آپ کا بالکل آخر پہ ذکر کرتے ہیں۔

ظہور احمد فاتحؔ کا ایک اور شعر جو دامنِ توجہ کھینچ رہا ہے مندرجہ ذیل ہے۔

میں اجاگر اسے کر دوں گا لہو سے اپنے

آپ کہتے ہیں اگر نقش وفا مدھم ہے

اس طرح ہر عہد میں مختلف قسم کے نقش نظر آتے ہیں اور زمانے میں جتنے بھی نقوش تھے شاعر کو ان سے صرف نقش وفا ہی پسند آیا ہے۔ نقش وفا اس لیے شاعر کو پسند ہے کیونکہ یہ انسان دوستی کی بہت بڑی خوبی ہے اور یہ انسان دوستی سخن گوئی کرنے والا کا وصفِ جمیل ہے۔ اس شعر میں شاعر لکھتا ہے کہ اگر نقشِ وفا مدھم ہے اور زمانے کے ہاتھوں سے یہ کمزور پڑ گ       یا ہے تو میں اپنا خون بہا کر اس کو اجاگر کر دوں گا جس سے یہ پوری طرح واضح نظر آئے۔ لہٰذا شبیر ناقدؔ ابو البیان ظہور احمد فاتحؔ کے بارے میں اپنا اظہار خیال یوں بیان کرتے ہیں۔

 ’’گویا ظہور احمد فاتحؔ انسان دوستی اور بشری ہمدردی کے لیے کسی قربانی سے دریغ کرتے نظر نہیں آئے۔‘‘

اسی طرح شبیر ناقدؔ کا ایک تنقیدی وصف جس کا ان کے ہاں پورا اہتمام پایا جاتا ہے کہ انہوں نے اپنے ہر تنقیدی مضمون میں موضوع کی مرکزیت کو پیش نظر رکھا ہے جس میں یہ امر بھی شامل ہے کہ ظہور احمد فاتحؔ کے موضوعاتی حوالے سے ایسے اشعار کا بھی انتخاب کیا ہے جو فکری حوالے سے موضوع کی مکمل پاسداری کرتے ہیں۔ اس حوالے سے انہوں نے اپنی تنقیدی پختگی کا یہ ثبوت بھی دیا ہے کہ وہ انتخاب شعر میں کچھ دور کی کوڑیاں بھی لائے ہیں۔ جنہیں عمومی نظر سے دیکھا جائے تو وہ موضوع کے تقاضے اپنے واضح طور پر پورے کرتے نظر نہیں آتے پران کی عمیق تنقیدی بصیرت کا اعجاز ہے کہ ان کا بیان مدلل اور با معنی رہتا ہے۔

لہٰذا ظہور احمد فاتحؔ کا ایک اور شعر جو ایک منفرد حیثیت کا حامل ہے وہ ملاحظہ ہو۔

ہمیں تو اس پہ بڑا فخر تھا مگر کیسے

سماج سے تیرا درویش جنگ ہار گیا

شروع سے ہی انسان دوست کا ایک طریقہ چلا آ رہا ہے کہ وہ معاشرتی بگاڑ اور سماجی بے راہ رویوں کے خلاف جنگ کرتا آ رہا ہے۔ لیکن پروفیسر ظہور احمد فاتحؔ سماج کو ایک اچھے زاویہ نگاہ سے دیکھتے ہیں اور ایک ایسا شخص جو معاشرے کی تلخیوں کو ایک احسن طریقے سے نبھاتا ہے اور تلخ رویوں کو برداشت کرتا ہے۔ اس قوت برداشت پر اس کی حوصلہ افزائی کرتا ہے تاکہ اس کے حوصلے بلند ہو جائیں اور وہ کبھی ہمت نہ ہارے۔ اس شعر میں کچھ ایسی حالت ملتی ہے یعنی ایک ایسا آدمی جو معاشرے کے بگاڑ اور سماج کی بے راہ روی کو برداشت کرتا ہے اور اس کے خلاف جنگ کرتا اور ساری تکلیفوں کو برداشت کرتا ہے مگر ایسا کیا ہوا جو وہ یہ جنگ ہار بیٹھا۔ لہٰذا ایک انسان دوست شاعر کے متعلق شبیر ناقدؔ یوں رقم طراز ہیں۔

 ’’ایک انسان دوست شاعر ان تمام امکانات کو پسندیدگی کی نظروں سے دیکھتا ہے جن میں عالم بشریت کے لیے سکھ اور سکون کا سامان ہو اور ان تمام چیرہ دستیوں کو ناپسندکرتا ہے جو فلاح انسانیت کے منافی ہوں۔‘‘

لہٰذا معروف نقاد شبیر ناقدؔ کی تنقیدات کا وصف خاص یہ ہے کہ ان کے طرز بیان میں انفرادیت کا پہلو پایا جاتا ہے۔ ان کے ہاں قاری کی قرات کے حوالے سے آمادگی کے وہ جملہ امکانات پائے جاتے ہیں جو کسی معتبر نقاد کی شناخت ہوا کرتے ہیں۔ اس طرح ظہور احمد فاتحؔ کے دو اشعار جن میں انسان دوست شاعر کی پوری طرح نمائندگی ہوتی ہے۔

شہر بے مہر تھا لوگ بے رحم تھے

پھر بھی ہونٹوں پہ حرفِ دعا رہ گیا

ہم پڑھاتے رہے ہیں کتابِ وفا

ہر جفا کار ہم سے خفا رہ گیا

شعر اول میں شاعر شہر اور شہر کے لوگوں کے بارے میں کہتا ہے کہ ہر کا یہ حال ہے کہ اس میں محبت و مروت کا کوئی نام نہیں اور جو اہل شہر ہیں وہ بڑے بے رحم ہیں جن کے اندر رحم نام کی کوئی چیز نہیں وہ الفت و وفا سے آشنا بھی نہیں ہیں لیکن ایسے حالات میں شاعر کے ہونٹوں پہ حرف دعا رہتا ہے یعنی اپنے شہر اور اہل شہر کے لوگوں کے لیے دعا مانگ رہا۔ جتنی مصیبتیں بھی اس پر آ پڑی ہیں انہوں نے سب کا سامنا کیا۔ اور ساری تکلیفوں کو برداشت کیا۔ لیکن اس بے رحمی کے باوجود بھی شاعر کی زبان سے ہمیشہ کلمہ خیر نکلتا رہا۔ شعر ثانی میں شاعر جواب دے رہا ہے کہ آخر ایسی کون سی وجہ ہے جس کے سبب لوگ اس سے ناراض ہیں۔ اس شعر میں پروفیسر ظہور احمد فاتحؔ بیان کرتے ہیں کہ وہ وفا کی کتاب کا درس دیتے رہے ہیں لیکن جو جفا کار لوگ تھے یعنی ہوس پرستوں کو میرا یہ کام اچھا نہ لگا جس کی وجہ سے وہ ہم سے ہمیشہ خفا رہ گئے اور وہ ہمیشہ مذاق اڑاتے رہے ہیں لیکن اب شاعر کی قوت برداشت کو دیکھیں کہ وہ ان سب کے تلخیوں کا سامنا کرتے رہے اور اپنے مقصد کو کبھی نہ چھوڑا وہ آج بھی اپنے فرض پر قائم ہیں۔ اسی طرح ظہور احمد فاتحؔ کا اخری شعر جو قابل ذکر ہے۔

مریضِ دل کا ہے پیغام ہم نشینوں کو

صدائے کرب کو حرفِ دعا کہا جائے

اس شعر کی توضیح و تشریح شبیر ناقدؔ کچھ اپنے انداز میں یوں کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

 ’’شعر میں شاعر ایک ایسا مشورہ دے رہا ہے جس پر عمل کر کے وہ انسان دوستی کے زمرے میں آ سکتے ہیں اور وہ مشورہ یہ ہے کہ مریض دل ہونے کے باوجود میں اپنے ہم نشینوں کو یہ ہدایت کروں گا کہ اگر دانستہ یا نا دانستہ ان لبوں سے کوئی آہ یا کراہ یا کوئی کلمۂ تاسف نکل بھی جائے تو اسے حرف شکایت کی بجائے حرف دعا کا نام دیا جائے۔‘‘

چنانچہ شبیر ناقدؔ شعری نفسیات سے مکمل واقفیت رکھتے ہیں کیونکہ وہ بذات خود ایک معتبر شاعر بھی ہیں اور ایک شاعر کی مدعا نگاری کے تمام تر تقاضوں کو بہتر انداز میں سمجھتے ہیں جنہیں وہ بحیثیت ناقدؔ انتہائی عمدہ انداز میں تصریح و تنقید کرتے ہیں۔

اس ساری بحث کا حاصل مطالعہ یہ ہے کہ پروفیسر ظہور احمد فاتحؔ ایک انسان دوست شاعر ہیں اور ان کی شاعری میں انسانی احساسات کی بھر پور انداز میں ترجمانی کی گئی ہے۔ انہوں نے معاشرے کی تلخیوں کا اظہار کیا ہے تو کہیں سماجی بے راہ رویوں کا ذکر کرتے ہیں۔ کہیں ظلم و ستم کے خلاف بغاوت کی ہے تو کہیں ان کی ناہمواریوں کو واضح کیا ہے۔ اس طرح اس مضمون میں شبیر ناقدؔ نے پروفیسر ظہور احمد فاتحؔ کے بطور انسان دوست شاعر تمام موضوعاتی امکانات کو بروئے کار لائے ہیں اس سلسلے میں وہ کامیاب و کامران نظر آئے اپنے کسی مضمون کا اختتام موضوع کے مطابق ابو البیان ظہور احمد فاتحؔ کے شعر پر کرتے ہیں جو قاری پر وسیع تاثر چھوڑ جاتا ہے اس تنقیدی نگارش میں بھی یہی معاملہ پایا جاتا ہے۔

ظہور احمد فاتحؔ کی شاعری کا اسلوبیاتی جائزہ:

شبیر ناقدؔ کی تنقیدی تصنیف ’’ابو البیان ظہور احمد فاتحؔ کا کیفِ غزل‘‘ کے مندرجات کا بغور مطالعہ کیا جائے تو ان کے ہاں جہاں فکری نوعیت کے مضامین ہیں فنی اعتبار کے شذرات بھی شامل ہیں۔ یعنی انہوں نے اپنی تنقید نگاری میں فکر و فن کا حسین امتزاج قائم کیا ہے۔ ’’ظہور احمد فاتحؔ کی شاعری کا سلوبیاتی جائزہ‘‘ ایک ایسا موضوع ہے جو بیک وقت فکری و فنی اہمیت رکھتا ہے اس مضمون میں وہ اسلوب کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہیں کہ اہل سخن کی طرز تحریر بہت نمایاں کردار ادا کرتی ہے جسے عموماً اسلوب کا نام دیا جاتا ہے یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ شاعری رمز و ایماء، کنایہ، صنعتوں کا استعمال، علم بیان اور تلمیحات کا آئینہ ہے۔ اس حوالے سے جب ہم ظہور احمد فاتحؔ کے کلام کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ بات واضح طور پر عیاں ہو جاتی ہے کہ ان کا انداز نگارش ایک خاص اہمیت کا حامل ہے ظہور احمد فاتحؔ کے دو اشعار جن سے ان کے اسلوب کو واضح کیا جاتا ہے درج ذیل ہیں۔

ہم نے نیندیں ترے نام ارسال کیں

اپنی تقدیر میں رتجگا رہ گیا

لاکھ طوفانِ اوہام آتے رہے

پھر بھی حق دل میں جلوہ نما رہ گیا

پہلے شعر میں محب اپنے محبوب سے مخاطب ہے اور کہتا ہے کہ اے محبوب ہم نے اپنی راحتیں اور سکون کو تیرے نام کر دیا ہے۔ اب ہماری تقدیر میں یعنی قسمت میں شب بیداری ہی رہ گئی ہے۔ دوسرے شعر میں شاعر کچھ یوں بیان کرتا ہے کہ جتنی بھی آندھیاں آ گئیں۔ جتنے طوفان آئے ان سب تکلیفوں کے باوجود پھر بھی ہمارے دل میں تیری آس کا دیا جلتا رہا۔

ان اشعار میں پروفیسر ظہور احمد فاتحؔ کے اسلوب کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ انہوں نے اپنے اشعار میں نیندیں ارسال کرنا، تقدیر میں رتجگا کا رہ جانا، لاکھوں طوفان اوہام کا آنا اور دل میں حق کا جلوہ نما رہ جانا تراکیب کا کتنی مہارت کے ساتھ استعمال کیا ہے۔ اسی طرح دوسرے شعر کی نوعیت کے حامل ڈاکٹر نبیل احمد نبیل کا ایک شعر ہے۔

آندھیاں ایسی اٹھیں بجھ گئے سورج لیکن

اک دیا ہم نے بہر طور جلا رکھا ہے

پروفیسر ظہور احمد فاتحؔ کا ایک اور شعر جو رعایتِ لفظی کا حامل ہے اس میں اسلوب کی گہری چھاپ نظر آتی ہے۔

فخر نہیں اچھے انسانوں کا شیوہ مغرور نہ ہو

اونچی ذات خدا کی، اس کو خوش نہیں آتے اونچے بول

اس شعر میں شاعر ایک انسان دوست ہونے کا فرض نبھا رہا ہے۔ وہ اپنے مغرور محبوب کو کہتا ہے کہ اے محبوب تم اپنے آپ پر اتنا فخر نہ کیا کرو اتنا غرور اچھا نہیں ہے کیونکہ مغرور ہونا ایک انسان کا شیوہ نہیں ہے۔ اونچی صرف اور صرف اللہ کی ذات ہے اس کے علاوہ کسی کی نہیں ہے کیونکہ وہ وحدہٗ لاشریک ہے اس کا کوئی شریک نہیں وہ بے مثل اور بے مثال ہے۔ لہٰذا تم اونچے بول نہ بولا کرو کیونکہ یہ اللہ کو پسند نہیں ہیں۔ چنانچہ تم اس سے پرہیز کیا کرو۔ یہی ایک انسان کا شیوہ ہے اور یہی سب سے بڑی کامیابی ہے۔ اس طرح ظہور احمد فاتحؔ نے شعر میں اللہ کی اونچی ذات کے مد مقابل کسی انسان کا اونچا بولنا، فخر کرنا اور مغرور ہونا جو ایک اچھے انسان کے لیے ٹھیک نہیں ہے کتنے عمدہ طریقہ سے الفاظ کو پرویا ہے۔ لہٰذا اسلوب نگارش کے حوالے سے ابو البیان ظہور احمد فاتحؔ کا ایک شعر ملاحظہ ہو۔

رہے میدان کس کے ہاتھ دیکھیں

فغان خونچکاں ہے اور قاتل

اس شعر کی توضیح و تصریح شبیر ناقدؔ اپنے الفاظ میں کچھ یوں کرتے ہیں۔

 ’’پہلے مصرع میں میدان ہاتھ میں رہنا اور دوسرے مصرع میں فغان خونچکاں کی ترکیب چست بندش کی حامل ہے جس کی وجہ سے مصرع کا حسن دو بالا ہو گیا ہے۔‘‘

پروفیسر ظہور احمد فاتحؔ کی شاعری میں جو اسلوبیاتی خصوصیات پائی جاتی ہیں۔ شبیر ناقدؔ انہیں موقع بموقع زیر بحث لائے ہیں وہ ان کی لفظیاتی بندشوں، مرکبات اور شعری ضائع بدائع کو اپنی تنقیدی نگارش میں لائے ہیں۔ اسلوبیاتی حوالے سے ابو البیان ظہور احمد فاتحؔ کے کلام کا ایسا کوئی پہلو نہیں ہے۔ جس پر انہوں نے اپنی تجزیاتی رائے نہ دی ہو۔ اسی طرح ظہور احمد فاتحؔ کا ایک شعر جو دامنِ توجہ کھینچ رہا ہے درج ذیل ہے۔

جو اہل حق ہیں وہ ہیں پریشاں جو اہل باطل ہیں شادماں ہیں

گماں گزرتا ہے دہر میں ہے تری خدائی علامتی سی

شعر کے مصرع اولیٰ میں شاعر لکھتا ہے کہ بڑے افسوس کی بات ہے کہ جو حق کو پسند کرنے والے یعنی اہل حق ہیں وہ پریشانی تذبذب کا شکار ہیں اور ان کے مقابلے میں جو کذب و جھوٹ کو پسند کرتے ہیں یعنی اہل باطل ہیں وہ خوش و خرم ہیں۔ لہٰذا ایسے محسوس ہوتا ہے کہ دہر میں تیری خدائی علامتی ہے اسی طرح شعر کے پہلے مصروع میں شاعر نے کمالِ فن سے دو بار صنعتِ تضاد کا استعمال کیا ہے یعنی اہل حق کے ساتھ اہل باطل اور پریشان کے ساتھ شادماں کا استعمال بہت زیادہ متاثر کن ہے اب ظہور احمد فاتحؔ کا ایک شعر جس میں اسلوب کی واضح طور پر نمائندگی کی گئی ہے حسب ذیل ہے۔

آنکھ بھر آئی تو معلوم ہوا

تو میرے دل میں بسا ہے کب سے؟

اس شعر میں شاعر لا علمی کا مظاہرہ کر رہا ہے کہ اے محبوب مجھے معلوم ہی نہ تھا کہ تم میرے دل میں موجود ہو۔ یہ تو آنکھ میں اشک فشانی ہوئی تو پتہ چلا کہ تو میرے دل میں کب سے بسا ہوا ہے لیکن میں نہیں جانتا تھا۔ لہٰذا اس شعر میں پروفیسر ظہور احمد فاتحؔ نے مختلف محاوروں کا استعمال کیا ہے ان میں آنکھ بھر آئی اور دل میں بسا ہے۔ ان محاوروں کو بڑے دلکش انداز میں انہوں نے پرویا ہے اسی طرح ایک شعر میں دو محاوروں کا استعمال کرنا یقیناً استادانہ مہارت کا غماز ہے اور یہ تکنیک کسی کسی سخن ور میں پائی جاتی ہے لیکن اس کا استعال پروفیسر ظہور احمد فاتحؔ کے کلام میں بھر پور انداز میں پایا جاتا ہے لہٰذا ابو البیان ظہور احمد فاتحؔ کے مختصر بحر کے دو اشعار جن میں اسلوب کی چاشنی پائی جاتی ہے درج ذیل ہیں۔

توڑ کہ سب حصار ظلمت کے

ہم زمانے میں نور بانٹیں گے

کاسۂ چشم کب سے ویراں ہے

کب تجلی حضور بانٹیں گے

ان اشعار کے بارے میں معروف نقاد شبیر ناقدؔ اپنا اظہار خیال کچھ اس انداز میں پیش کرتے ہیں۔

 ’’پہلے شعر میں حصار ظلمت کے اور نور بانٹیں گے گویا روگ اور اس کا مداوا ہے جو قابل غور ہے۔ دوسرے شعر میں کاسۂ چشم اور تجلی بانٹنا بے حد پر کیف کیفیات ہیں۔‘‘

شبیر ناقدؔ نے ظہور احمد فاتحؔ کے اسلوب کے پسِ پردہ کیفیات و واردات کا سراغ لگانے کی بھی کوشش کی ہے اسی طرح پروفیسر ظہور احمد فاتحؔ کے آخری دو اشعار جن میں اسلوب کو واضح طور پر عیاں کیا جاتا ہے۔ ملاحظہ ہوں۔

کسی کی قسمت بگڑ رہی ہے مگر خدائے قدیر چپ ہے

ستارے آمادۂ شرارت ہیں پر وہ گردوں سریر چپ ہے

نہ آہ و زاری نہ رخ پہ وحشت نہ اپنی تقدیر سے شکایت

برس رہے ہیں ستم کے پیکاں مگر تمہارا فقیر چپ ہے

ان اشعار میں شاعر اپنا اظہار خیال پیش کرتا ہے کہ کسی کی قسمت خراب ہو رہی ہے یعنی یہاں دو لوگوں کو بیان کیا گیا ہے ان میں سے ایک وہ لوگ ہیں جن کا استحصال ہو رہا ہے اور دوسرے وہ لوگ ہیں جو استحصال کر رہے ہیں یعنی ایک طبقہ ظالم ہے اور دوسرا مظلوم تو اس لیے شاعر لکھتا ہے کہ ایک پر ظلم ہو رہا ہے اور دوسرا ظلم کر رہا ہے مگر خدائے قدیر چپ یعنی خاموش ہے۔ اس طرح دوسرے شعر کے مصرع اولیٰ میں تین چیزوں کو بیان کر رہا ہے یعنی آہ و زاری نہ کرنا، رخ پہ جنون یا دیوانہ پن کا نہ ہونا اور نہ ہی اپنی تقدیر سے کوئی شکوہ کرنا اس شعر میں پروفیسر ظہور احمد فاتحؔ لکھتا ہے کہ ہمارے اوپر ظلم و ستم کے پہاڑ ٹوٹ رہے ہیں مگر اس کے باوجود بھی نہ کوئی آہ و زاری، نہ رخ پہ وحشت اور نہ اپنی تقدیر سے کوئی شکایت ہے اور آخر یہ شاعر اللہ سے مخاطب ہو کر کہتا ہے کہ ان سب دکھوں اور تکالیف کے باوجود بھی آپ کا فقیر چپ ہے اس کے لب پر کوئی شکوہ و شکایت نہیں ہے۔

لہٰذا اس ساری بحث سے معلوم ہوتا ہے کہ ابو البیان ظہور احمد فاتحؔ کے ہاں اسلوب کی ایک گہری چھپا ہے اور اسلوبیاتی حوالے سے وہ اپنی مثال آپ ہیں۔ پروفیسر ظہور احمد فاتحؔ کے اسلوب کے لحاظ سے ڈاکٹر محمود عالم۔ یوں تبصرہ کرتے ہیں۔

 ’’جناب فاتحؔ کے سخن سے فاتحیت ٹپکتی نظر آتی ہے، مصرعہ مصرعہ، شعر غمازی کر رہا ہے کہ مچھ پر سخن گستریِ فاتحؔ نے شفقت کی ہے۔‘‘

چنانچہ شبیر ناقدؔ ایک ایسے نقاد ہیں جو دوسرے ناقدین کی آراء پر کم ہی اکتفا کرتے ہیں بلکہ اپنے ذاتی تنقیدی عمل پر انحصار کرتے ہیں۔ اگر کسی نقاد کی رائے وسیع تنقیدی بصیرت کی حامل ہو تو وہ اس کا حوالہ ضرور دیتے ہیں۔

ابو البیان ظہور احمد فاتحؔ اور عصری رویے:

شبیر ناقدؔ اس امر سے بخوبی آشنا ہیں کہ شعر و ادب کے شعبے میں کون سے موضوعات زیادہ اہمیت کے حامل ہیں۔ اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ وہ عصری ادبی تقاضوں سے آگاہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے ’’ابو البیان ظہور احمد فاتحؔ کا کیفِ غزل‘‘ کے پیرائے میں زیادہ اہمیت کے حامل موضوعات کو شامل کیا ہے ہر ادب اپنے عہد کا ترجمان ہوتا ہے کسی بھی دور کو سمجھنے کے لیے اس عہد کے ادب کا مطالعہ انتہائی ناگزیر ہے۔ ایک سخن ور جو حساس الطبع ہوتا ہے اور اس کے حواس برق رفتاری سے کام کرتے ہیں اور اس کے کام سے اور اس کی حساسیت کا بطریقِ احسن مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔ عصری ادبی تقاضوں کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے عصری رویوں کی اہمیت و افادیت اظہر من الشمس ہے۔

اس لیے اس مضمون میں شبیر ناقدؔ ابو البیان ظہور احمد فاتحؔ کے سخن کا تجزیاتی مطالعہ عصری رویوں کے تناظر میں کیا ہے۔ تنقیدی اکائی کو مد نظر رکھتے ہوئے انہوں نے پروفیسر ظہور احمد فاتحؔ کے اٹھویں شعری مجموعہ ’’کچھ دیر پہلے وصل سے‘‘ مطبوعہ ۲۰۹ء کے نصف اول کی روشنی میں کیا ہے۔ یہاں اس امر کی وضاحت انتہائی ناگزیر ہے کہ ظہور احمد فاتحؔ کے سخن میں صنعت ایہام کا فطری انتظام پایا جاتا ہے ان کا سخن جو کہیں کہیں بظاہر مجاز کی ردا اوڑھے ہوئے ہے اگر اس کا دقت نظر سے تنقیدی مطالعہ کیا جائے تو اس میں عصری رویے جاگتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں اگر وسیع پیمانے پر بات کی جائے تو اس کے مجازی اور عصری رویوں کا ایک حوالہ ہے کیونکہ محبوب بھی اپنے عہد کی ایک اکائی ہوتا ہے۔

یوں ہم رومان کو بھی عصری رویوں کا ذیلی موضوع قرار دے سکتے ہیں جس کا انکشاف شبیر ناقدؔ کی تنقیدات کا مرہون منت ہے۔ مندرجہ بالا معروضات تک رسائی شبیر ناقدؔ کی انتقادیات کی بدولت ہی ممکن ہوئی ہے بصورت دیگر یہ پراسرار رموز قارئینِ ادب کے لیے پنہاں رہ جاتے جنہیں شبیر ناقدؔ کی عرق ریز تنقیدی بصیرت نے طشت از بام کر دیا ہے۔

شاعر اپنے عہد کی عکاسی کرتا ہے دوسرے لوگوں کی طرح اس کا مزاج نہیں ہوتا بلکہ شاعر کی طبیعت بڑی حساس ہوتی ہے۔ اور یہ جس معاشرے میں ہوتا ہے یہ اس سماج کا عکاس ہوتا ہے۔ ان کی طبیعت انسانیت کے وصف سے بہرہ افروز ہوتی ہے۔ ان کے عہد میں انسانوں پر جتنا بھی ظلم و تشدد ہوتا ہے شعراء اور ادباء ان کی ترجمانی کرتے ہیں۔ اس طرح ساری دنیا کا غم ان کا اپنا غم بن جاتا ہے لہٰذا اگر ہم ظہور احمد فاتحؔ کے کلام کو عصری رویے کا غماز کہا جائے تو یہ مبالغہ نہ ہو گا کیونکہ ابو البیان ظہور احمد فاتحؔ کی سخن گوئی میں عصری رویوں کی بھر پور انداز میں عکاسی کی گئی ہے اسی حوالے سے ان کے دو اشعار زیبِ قرطاس ہیں۔

ہم جام پی رہے ہیں یا زہر پی رہے ہیں

کیسی یہ زندگی ہے مر مر کے جی رہے ہیں؟

ہے قدر ان کی بے شک بے شک عظیم ہیں وہ

جو لوگ دوستی میں ہوتے ستی رہے ہیں

پہلے شعر میں شاعر زندگی کی سنگینیوں کو بیان کر رہا ہے کہ ہم جام پی رہے ہیں لیکن ایسے محسوس ہوتا ہے جیسے ہم زہر کو نوش فرما رہے ہیں کیا زندگی ایسی ہوتی ہے جس میں مرمر کے جینا پڑ رہا ہو۔ اگر زندگی اسی کو کہتے ہیں جس میں مر مر کے جیون گزارنا پڑے تو ہمیں ایسی زندگی کی ضرورت نہیں ہے جس میں اگر جام بھی بپا جائے تو بہ بھی زہر لگے۔ اسی طرح دوسرے شعر میں شاعر اہلِ دل کو خراج تحسین پیش کرتا ہے جو دوستی کے لیے اپنی جان کی بازی لگا دینے سے بھی کوئی عار محسوس نہیں کرتے۔ وہ دوستی کے لیے ہر رنج و الم کا بڑے احسن طریقے سے مظاہرہ کرتے ہیں۔ شاعر ان لوگوں کا کہتا ہے کہ وہ عظیم لوگ ہیں اور ان کی عظمت کو بھی سلام کہنا چاہیے جو دوستی میں ہر قسم کی تکالیف کو برداشت کرنے کے لیے سیسہ پلائی کی دیوار بن جاتے ہیں۔ لہٰذا ان اشعار میں جہاں شاعر نے منفی پہلوؤں کی وضاحت کی ہے وہاں مثبت پہلوؤں کو بھی بڑے عمدہ انداز میں بیان کیا ہے۔

اسی طرح نقادِ ادب میں اس مہان شخصیت کا نام ہے جو قارئین ادب کو کسی بھی فن پارے کی حقیقی روح سے آشنا کرتا ہے کیونکہ قاری کی نسبت ایک نقاد کی فکری و فنی رسائی وسیع تر ہوتی ہے۔ قاری کا ادراک سرسری اور ناقدؔ کی بصیرت فزوں تر ہوتی ہے اور یہی کردار شبیر ناقدؔ پروفیسر ظہور احمد فاتحؔ کے سخن کے حوالے سے ادا کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ابو البیان ظہور احمد فاتحؔ کے حوالے سے شبیر ناقدؔ کے تنقیدی کام نے ان کے سخن کو زیادہ وقیع تر اور معتبر کر دیا جو شبیر ناقدؔ کی عرق ریز تنقیدی طبیعت کے باعث ہوا ہے۔ اسی طرح ابو البیان ظہور احمد فاتحؔ کا ایک شعر جو عصری رویوں کا عکاس ہے درج ذیل ہیں۔

فاتحؔ ہماری شاعری آوازِ وقت ہے

ہم ترجمان دل ہیں توجہ سے سن ہمیں

اس شعر میں شاعر زمانہ اور اہل زمانہ سے بات کر رہا ہے کہ اے اہل دنیا ہمارے کلام کو پوری توجہ سے سنا جائے کیونکہ ہماری سخن گوئی کی آواز ایک وقت کی آواز ہے اور ساتھ ہی شاعر آگاہ کر رہا ہے کہ اے دل کی دنیا کے باسیو! کسی اور بات پر توجہ دینے کی ضرورت نہیں ہے صرف ہماری بات پر پورے ذوق و شوق کے ساتھ توجہ دو کیونکہ وہ ہم ہی ہیں جو ترجمان دل ہیں اور کوئی نہیں۔ لہٰذا ظہور احمد فاتحؔ کے بارے میں عصر حاضر کے فاضل نقاد شبیر ناقدؔ اپنے خیالات کا اظہار ان الفاظ میں پیش کرتے ہیں۔

 ’’گویا جہاں وہ عصری رویوں سے متاثر ہوتے ہیں وہاں اہل جہاں کو اپنے سخن سے متاثر کرنا بھی چاہتے ہیں۔‘‘

 ’’ابو البیان ظہور احمد فاتحؔ کا کیفِ غزل‘‘ کے تحقیق و تنقیدی مطالعہ سے یہ حقیقت بھی مبینہ طور پر آشکار ہوتی ہے کہ شبیر ناقدؔ جہاں نقدِ فن کا ملکہ رکھتے ہیں وہاں تخلیقی صلاحیتوں سے بھی معمور ہیں۔ اس لیے انہوں نے حضرت فاتحؔ کے ان اشعار کو اپنے تنقیدی شذرات کا حصہ بنایا ہے جو فکری و فنی اور زبان و بیان سے اعتبار سے خصوصی اہمیت کے حامل ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ شبیر ناقدؔ کی فن تنقید پر گرفت مضبوط ہوتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ چنانچہ پروفیسر ظہور احمد فاتحؔ کے دو اشعار میں عصری رویوں کی بھر پور انداز میں ترجمانی کی گئی ہے ملاحظہ ہوں۔

کاوش فکر و فن میں گزری ہے

زیست رنج و محن میں گزری ہے

شہر کے ہم فریب کیا جانیں؟

زندگی دشت و بن میں گزری ہے

پہلے شعر میں شاعر ابو البیان ظہور احمد فاتحؔ اپنی خدمات کو باور کراتے ہیں اور لکھتے ہیں کہ زندگی فکر و فن کی کاوشوں میں گزری ہے لیکن زندگی میں آلام و مصائب کی بھی کوئی کمی نہ رہی یعنی زندگی میں رنج و الم اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ رہے۔ شعرِ اولیٰ کے مصرعہ ثانی میں جو غمِ ذات کے حوالے سے بات کی گئی ہے حالانکہ پروفیسر ظہور احمد فاتحؔ ایک خوش خصال انسان ہیں۔ اور تبسم ہمیشہ ان کے زیرِ لب رہا ہے۔ یہاں انہوں نے غمِ ذات نہیں بلکہ غمِ کائنات کو اپنا موضوع بنایا ہے کیونکہ شعراء و ادباء حساس طبیعت کے مالک ہوتے ہیں دنیا کا غم ان کا اپنا غم بن جاتا ہے۔ اسی لیے یہاں شاعر نے کائنات کے غم کو غمِ ذات کے طور پر بیان کیا ہے۔ لہٰذا شعر ثانی میں ابو البیان ظہور احمد فاتحؔ نے دیہات کے لوگوں کو موضوع سخن بنایا ہے۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ جو لوگ ساحلوں اور جنگلوں میں زندگی بسر کرتے ہیں وہ شہر کے لوگوں کی فریب کاریوں کو نہیں جانتے ان لوگوں کو شہریوں کی چال چلن کا کوئی تجربہ نہیں ہوتا۔

اس لیے اگر وہ شہر میں آ بھی جائیں تو وہ آ کر پھنس جاتے ہیں اور یہ قید ان کے لیے کسی پنجرے سے کم نہیں ہوتی اسی حوالے سے علامہ اقبال کا ایک شعر شبیر ناقدؔ نے رقم کیا ہے جو درج ذیل ہے۔

قدرت کے مقاصد کی کرتا ہے نگہبانی

یا بندہ صحرائی یا مرد کہستائی

شبیر ناقدؔ نے پروفیسر ظہور احمد فاتحؔ کی سخن کی کچھ یوں تفسیر و توضیح بیان کی ہے کہ تشکیک کے تمام پہلو خود بخود فرو ہو جاتے ہیں ان کی تنقید نگاری میں ایک عمیق نفسیاتی وجدان پایا جاتا ہے کہ وہ اپنی بات کے پہلو بہ پہلو قاری کے ذہن میں اٹھنے والے استفسارات کا جواب خود بخود دیتے چلے جاتے ہیں۔ اس طرح سے قرات کرنے والے کی دلچسپی کا دامن بھی میلا نہیں ہوتا اور کئی پہلو تشنہ بھی نہیں رہتا یوں شبیر ناقدؔ کی تنقیدی منطقیت عیاں ہو جاتی ہے جو خود میں اعتراف کا ایک پہلو سموئے ہوئے ہے جس سے یہ اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ کہ وہ تنقید نگاری پر فکری دسترس رکھتے ہیں اور ان کے تنقیدی کام کی قدر و منزلت کا تعین بھی بآسانی کیا جا سکتا ہے لہٰذا ظہور احمد فاتحؔ کے دو اشعار جو عصری رویوں کے غماز ہیں حسب ذیل ہیں۔

روگ لگ جائے انا اور حسد کا جس کو

دل وہ تسکین سے محروم دکھائی دے گا

دیکھنا رنگ نہ بدلے گی کہانی کیا کیا؟

ہر قدم پر نیا مفہوم دکھائی دے گا

پہلے شعر میں شاعر ایک ناصح کا فرض نبھا رہا ہے۔ اکثر لوگ ابو البیان ظہور احمد فاتحؔ کو ادب برائے ادب کا قائل سمجھتے ہیں حالانکہ وہ ادب برائے زندگی کی بڑے دلکش انداز میں ترجمانی کرتے ہیں۔ یہاں شاعر نصیحت کر رہا ہے کہ جس دل میں انا پرستی اور حسد عروج پر ہو اسی دل غمگین کو کبھی بھی مسرت و راحت میسر نہیں آئے گی۔ وہ دل تسکین جیسی نعمت سے محروم دکھائی دے گا۔ اسی طرح شاعر کہتا ہے کہ اپنے دل کو سکون دینے کے لے انا اور حسد جیسی مہلک عوارض سے پرہیز کرنا ہو گا۔ چنانچہ دوسرے شعر میں پروفیسر ظہور احمد فاتحؔ طنز کا نشتر چلا رہا ہے لیکن اس کا مقصد صرف اور صرف اصلاحِ زمانہ ہے وہ لکھتا ہے کہ دیکھنا کہانی کتنے رنگ بدلتی ہے اور جا بچا آپ کو نیا مفہوم دکھائی دے گا۔ اس طرح مستند نقاد شبیر ناقدؔ ابو البیان ظہور احمد فاتحؔ کے بارے میں اپنا اظہار خیال یوں کرتے ہیں

 ’’جنابِ فاتحؔ نقادِ عالم ہیں وہ زمانے کی رگ رگ سے واقف ہیں اور اس کے رویوں کا گہرا مشاہدہ رکھتے ہیں پھر جہاں کہیں ضرورت ہوتی ہے اس پر بے لاگ تبصرہ کرنے سے بھی نہیں چوکتے اور حقیقت میں یہی ایک سخن ور کا فرض منصبی ہے۔‘‘

شبیر ناقدؔ کے تنقیدی افکار سے یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ وہ موضوعات کی فلسفیانہ تفہیم رکھتے ہیں انہوں نے ظہور احمد فاتحؔ کے سخن میں عصری رویوں کی تمام تر جہتیں متعارف کرائی ہیں۔ اس ضمن میں وہ حزن و الم کی ایک فکری مثلث سامنے لائے ہیں۔

علاوہ ازیں سماجی خبائث کا بیان عصری رویوں کے زمرے میں شبیر ناقدؔ کی عمیق موضوعاتی رسائی کا ترجمان ہے جیسے ان کا کمالِ فن سے تعبیر کیا جا سکتا ہے ہمیں یہ کہنے میں کچھ باک نیں ہے کہ ناقدؔ موصوف عمیق تنقیدی حسیات سے متصف ہیں۔ اسی طرح پروفیسر ظہور احمد فاتحؔ کا مختصر بحر کے حامل ایک شعر جس میں عصری رویوں کی بھر پور انداز میں عکاسی کی گئی ہے درج ذیل ہے۔

یوں کھائے ہیں، ہم نے دھوکے

راہبر سے بھی ڈر لگتا ہے

اس شعر میں شاعر بیان کرتا ہے کہ ہم نے بہت سے دھوکے کھائے ہیں۔ ہماری زیست رنج و الم میں گزری ہے آپس سے بھی وفا نہ ملی جہاں سے بھی کچھ ملا ہے دھوکا ہی ملا ہے لہٰذا اب تو ہمیں رہبر سے بھی ڈر لگتا ہے کہ کہیں یہ بھی دھوکا نہ دے جائے ٹھیک اسی طرح جیسے غالبؔ نے کہا تھا۔

کیا کیا خضر نے سکندر سے؟

اب کسے راہنما کرے کوئی؟

لہٰذا یہی صور تھال پروفیسر ظہور احمد فاتحؔ کے شعر میں بیان کی گئی ہے جیسا کہ ایک مشہور کہاوت ہے کہ ’’دودھ کا جلا چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے۔‘‘

اسی طرح شبیر ناقدؔ کلاسیکی شعریات سے بخوبی واقفیت رکھتے ہیں اور اسی احساس کو اپنے بیان کی زینت بناتے ہیں۔ موضوعاتی ضرورت کے تحت اور اپنے تنقیدی موقف کو باور کرانے کے لے اساتذہ کے اشعار کو اپنے تنقیدی حاشیہ آرائی کا حصہ بناتے ہیں۔

ابو البیان ظہور احمد فاتحؔ اپنی طربیہ شاعری کے تناظر میں:

اقلیم سخن کو فکری حوالے سے دو کلیدی تلازمات میں منقسم کیا جا سکتا ہے جو اپنی عمومی پہچان رکھتے ہیں تمام موضوعات کے سرچشمے انہیں دو موضوعات سے پھوٹتے ہیں ان دو موضوعات کو حزن و طرب کا نام دیا جاتا ہے حزن کے حوالے سے کی جانے والی شاعری حزینہ کلام کہلاتی ہے جسے غم و الم سے مملو سمجھا جاتا ہے جب کہ طربیہ شاعری کی فکری اساس احساسِ طرب پر رکھی گئی ہے اور طرب وہ پرمسرت جذبہ ہے جس سے ہر نوع کی شادمانی و خوش گواری مراد لی جا سکتی ہے۔

 شبیر ناقدؔ وہ بالیدہ فکر نقاد ہیں جو موضوعات کا بسیط اور فلسفیانہ ادراک رکھتے ہیں۔ ان کے افکار میں عمیق حسیاتی ونفسیاتی عمل کارفرما ہے۔ شبیر ناقدؔ نے ابو البیان ظہور احمد فاتحؔ کی غزل کے انتقادی عمل میں فکری حوالے سے حزن و طرب کی نسبت تنقیدی حاشیہ آرائی کی ہے جس سے اس احساس کو تقویت ملتی ہے کہ وہ شعر گوئی کے ان دو بنیادی موضوعات سے غافل نہیں ہوئے انہوں نے اس ضمن میں دو الگ الگ موضوعات کی صورت میں شذرات رقم کئے ہیں اور شذرہ ہٰذا طربیہ شاعری کے تناظر میں ہے۔ تمہید مضمون میں وہ فنونِ لطیفہ میں شاعری کی اہمیت کو نمایاں کرتے ہیں اور اسے گیرائی و گہرائی کا حامل فن قرار دیتے ہیں۔

شبیر ناقدؔ اس مضمون کا ضمن میں طربیہ شاعری کے کوائف بیان کرتے ہیں۔ ان کے مذکورہ کوائف میں بذلہ سنجی، طنز و مزاح اور خوش مزاجی شامل ہیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کا احاطہ موضوع سطحی طور پر ہر گز نہیں ہے بلکہ انہوں نے اس موضوع کو بے پایاں وسعت عطا کی ہے۔ اس سے نہ صرف شبیر ناقدؔ کی تنقیدی بصیرت اظہر من الشمس ہوتی ہے بلکہ ابو البیان ظہور احمد فاتحؔ کا کلام بھی فکری ترفع سے ہم آہنگ نظر آتا ہے۔ دو اشعار ملاحظہ ہوں۔

مرکبِ ہستی سبک رفتار تیرے دم سے ہے

خار زارِ زندگی گلزار تیرے دم سے ہے

دیدہ و دل میں ہیں تجھ سے مستیاں ہی مستیاں

بن پئے فاتحؔ ترا مے خوار ترے دم سے ہے

ویسے تو اہل سخن ہمیشہ اپنے محبوب کو شکوہ و شکایت کرتے رہتے ہیں اور ان سے بیزار رہتے ہیں۔ یہاں پہلے شعر میں شاعر اللہ تعالیٰ کی بزرگی کو بیان کرتا ہے اور اس کی عظمت و کبریائی کے پہلو بہ پہلو مشکور و ممنون رہتے ہوئے گویا ہے کہ اے پروردگار اس کائنات میں جو تیز رفتاری ہے وہ سب کچھ تیری وجہ سے ہے اور خار زار زندگی یعنی دکھوں بھری زندگی میں جو سکھ آتا ہے وہ بھی سب کچھ تیری وجہ سے ہے تو ہی خالق و مالک ہے لہٰذا جو بھی سکون میسر ہوتا ہے وہ تیرے ہی دم سے ہے شعر ثانی میں شاعر ساقی سے مخاطب ہو کر کہتا ہے اے ساقی تیرا مے پئے بغیر ہی دل و نگاہ میں مستیاں ہی مستیاں ہیں اور یہ سب مستیاں تیری وجہ سے ہیں یعنی جو مسرت و راحت مل رہی ہے یہ ساری خوشیاں اے ساقی تری وجہ سے ہی ہیں۔ اس طرح ابو البیان ظہور احمد فاتحؔ کا ایک شعر جو طربیہ شاعری کی عکاسی کرتا ہے حسب ذیل ہے:

ہائے وہ عشرت مدہوشیِ جاں

تیری آغوش میں سر ہو جیسے

اس شعر کی توضیح و تصریح شبیر ناقدؔ اپنے الفاظ میں کچھ یوں کرتے ہیں:

 ’’خوشی کی بہت سی کیفیتیں ہوا کرتی ہیں، عروج پر پہنچی ہوئی کیفیتِ طرب و صلِ محبوب ہے اور عروج وصل محبوب کی آغوش میں سر رکھنا ہے۔ اس لیے وہ معشوق کی گود میں سر رکھنے سے تشبیہ دے رہے ہیں گویا قدرت ان پر اس قدر مہربان ہے کہ وہ سرور بے پایاں کے مزے لوٹ رہے ہیں۔‘‘

شبیر ناقدؔ کسی بھی شعر کی صراحت کچھ اس انداز میں کرتے ہیں کہ شعر کی فکر کا کوئی بھی پہلو تشنۂ  اظہار نہیں ہوتا محولہ بالا شعر کی تشریح و تفسیر کے حوالے سے جہاں انہوں نے اپنے ممدوح شاعر کے شعر کی فکری احاطہ بندی کی ہے وہاں اختصار و        جامعیت کے تقاضے بھی نبھائے ہیں۔ خالصتاً فطری انداز میں اپنے بیان کو استوار کیا ہے۔ لا یعنی اور غیر ضروری جزئیات سے گریز کیا ہے جس سے یہ اندازہ بحسن بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ وہ قدرت بیان و ندرتِ بیان سے متصف ہیں۔

پروفیسر ظہور احمد فاتحؔ کا ایک اور شعر جس میں طربیہ شاعری کی ترجمانی کی گئی ہے ملاحظہ کیجئے۔

سمجھے نہ کرشمہ، کبھی اصحاب ہمارا

تھا رشک قمر کرمکِ شب تاب ہمارا

اس شعر میں شاعر اپنے احباب سے شکایت کر رہا ہے اور کہتا ہے کہ افسوس کی بات ہے کہ ہمارے ساتھی ہمیں نہ سمجھ سکے اور اور جو ہم نے کرشمے دکھائے ہیں انہوں نے ان کرشموں کو بھی نہ سمجھا مصرعہ ثانی میں شاعر اپنی عظمت کو بیان کر رہا ہے اور اپنے آپ کو ایسے جگنو سے تشبیہ دے رہا ہے جس کی چمک پہ چاند بھی رشک کرتا ہے یہاں شاعر بھر پور انداز میں طنز کا نشتر چلا رہا ہے کہ ہماری دلکشی پر چاند بھی رشک کرتا ہے۔ مگر ہمارے اصحاب ہماری کسی قسم کی قدر نہ کر سکے۔ چنانچہ اس شعر میں شاعر نے کتنے عمدہ طریقے سے خود کو جگنو سے تشبیہ دیتا قمر کا رشک کرنا اور اصحاب کا بے خبر ہوا تراکیب کو اپنے شعر میں پرویا ہے لہٰذا اس حوالے سے ظہور احمد فاتحؔ کا ایک اور شعر درج ذیل ہے۔

پی کے تیرے پیار کا آبِ حیات

دیکھنا اک دن خضر ہو جاؤں گا

یہاں محب اپنی محبت کو سب کچھ سمجھتے ہوئے محبوب کو کہتا ہے کہ جس دن تیرے پیار کا امرت پی لوں گا تو پھر خضر کے مقام پر پہنچ جاؤں گا یعنی مجھے دائمی زندگی مل جائے گی پھر کسی خوف و ہراس کا ڈر نہیں ہو گا۔ ٹھیک اسی طرح جیسے کسی اہل سخن نے نے کہا تھا:

ہر گز نہ مرد آں کر دلش زندہ شد بعشق

ثبت است بر جریدۂ عالم دوام ما

شبیر ناقدؔ کی تنقید نگاری اور نثر نویسی میں ادبی حوالے سے ایک کلاسیکی رچاؤ پایا جاتا ہے اور کیوں نہ ہو کیونکہ وہ روایت کے علمبردار ہیں۔ شعر و ادب کی کلاسیکی روایت کا پورا شعور رکھتے ہیں اور اس ادراک کی ترسیل وہ عند البیان کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ جہاں وہ اردو اساتذہ کے اشعار کو بر محل استعمال کرتے ہیں۔ جس سے یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ وہ اردو اور فارسی ادب کی عمیق جانکاری رکھتے یں۔ ان کی تحریر میں منطقیت کا عنصر جس کا استخراجی نتیجہ ہے۔ یہی وجہ سے کہ وہ اپنے ہم عنصر ناقدین سے ممتاز و ممیز مقام رکھتے ہیں کیونکہ وہ اردو کی اشتراکی زبانوں اور ان کے ادب سے بہرہ افروز ہیں۔ ظہور احمد فاتحؔ کا ایک اور شعر جو توجہ مبذول کرا رہا ہے ملاحظہ فرمائیں۔

ہے کسے معلوم فاتحؔ یہ کتاب شعر ہے

یا جمالِ یار کی تصویر ہے رکھی ہوئی

اس شعر کے مصرع اولیٰ میں شاعر کہتا ہے کہ کس کو کیا معلوم کہ یہ کتاب شعر گوئی کی ہے یا کہ حسنِ یار کی توضیح و تشریح ہے پھر مصرع ثانی میں شاعر خود ہی جواب دے رہا ہے کہ یہ تصنیف تو میرے محبوب کے حسن کی توضیح و تصریح ہے اس فنی و ادبی جمال پارے میں محبوب کے حسن کی مدح بیان کی گئی ہے جس سے اہلِ حسن اور اہلِ ذوق کے دلوں میں ایک امنگ پیدا ہوتی ہے اس طرح پروفیسر ظہور احمد فاتحؔ کا ایک شعر ملاحظہ کیجئے۔

اب حوصلے ہوں گے نہ کبھی پست ہمارے

اس بار عزائم ہیں زبردست ہمارے

اس شعر میں پروفیسر ظہور احمد فاتحؔ اپنی حوصلہ مندی کا اظہار کر رہا ہے اور وہ بیان کرتا ہے کہ اس بار تو ہمارے حوصلے کسی بھی صورت میں پست نہیں ہوں گے کیونکہ اس بار جو ہمارے ارادے ہیں وہ پہلے کی نسبت بہت پختہ اور دیرپا ہیں لہٰذا اب ہمیں کسی تکلیف کو کوئی خوف نہیں ہے ہم ہر مصیبت کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہیں۔ بالکل اسی طرح جیسے کسی سخن ور نے کہا تھا۔

برہم ہوں بجلیاں کہ ہوائیں خلاف ہوں

کچھ بھی ہو اہتمامِ گلستاں کریں گے ہم

کسی بھی اچھے نقاد کی مثال کسی ایسے بہترین فن کار سے دی جا سکتی ہے جو ہر طرح کا کردار بہترین طریقے سے ادا کر سکتا ہے۔ یہی معاملہ شبیر ناقدؔ پر صادق آتا ہے کہ انہوں نے جس نوعیت کے فکری یا فنی موضوع پر قلم اٹھایا اس کا صحیح معنوں میں حق نبھایا۔ وہ موضوع کے متعلق براہ راست اور بالواسطہ تمام تر معاملات کو زیر بحث لاتے ہیں۔ اس طرح ان کا قاری اپنے آپ کو فکر و فن کے بحر بے کراں میں مھسوس کرتا ہے۔

ابو البیان ظہور احمد فاتحؔ ؛سر خیل تعلیات:

دنیائے شعر میں کچھ فکری و فنی اصطلاحات ایسی نوعیت کی ہیں جنہیں صحت مند و توانا روایت کا مقام حاصل ہے۔ جنہیں شعری ضائع بدائع میں خصوصی اہمیت حاصل ہے جن کے اسباب و وجوہات میں ان کا اساتذہ سخن سے منسوب ہونا شامل ہے یہی وجہ ہے کہ متوسطین و متاخرین میں ان کا اعتبار قائم ہے شاعری کی فکری اصطلاحات میں جنہیں فنی حیثیت بھی حاصل ہے ان میں شاعرانہ تعلی کو معتبر مقام حاصل ہے جس کی اگر تعریف و تصریح کی جائے تو اس کی صورت کچھ یوں ہو گی کہ ایک شاعر اپنی فکری فنی اور شخصی عظمت کے حوالے سے شعر کے پیمانے میں جو اظہار کرتا ہے وہ بیان شاعرانہ تعلی قرار پاتا ہے۔

شبیر ناقدؔ کی تنقیدات کی روشنی میں شاعرانہ تعلی کے اسباب و وجوہات بہت سے ہیں جن میں ایک سبب شاعر کا فکری فنی ارتقاء ہے جس کا ادراک بذات خود شاعر کو بھی ہوتا ہے اپنے اس احساس کی ترسیل کے لیے وہ شاعر شاعرانہ تعلی کو بروئے کار لاتا ہے شبیر ناقدؔ کے نزدیک اس کا دوسرا سبب یہ ہے کہ جب کسی شاعر کو اپنی سماجیات میں اس کے فن شاعری کی وجہ سے قدرو منزلت سے نوازا جاتا ہے تو اس کے رد عمل کے طور پر شاعری میں شاعرانہ تعلی نمو پاتی ہے۔

شاعرانہ تعلی کی خصوصیت میں اس امر کو خصوصیت حاصل ہے کہ جو شاعر فکر و فن کی معراج پر ہو گا اس کے شعر میں موجود شاعرانہ تعلی کو خصوصی اعتبار حاصل ہو گا ہم ادب کی تحقیق و تنقید کے ادنی طالب علم ہیں ہماری مطالعاتی زندگی میں تنقیدی لحاظ سے کوئی ایسا مضمون بصارت نواز نہیں ہوا جو تنقیدی حوالے سے کسی شاعر کی تعلیمات کو زیرِ بحث لاتا ہو یہ شبیر ناقدؔ کی تنقیدی جدت طرازی کا مبینہ ثبوت ہے کہ انہوں نے ابو البیان ظہور احمد فاتحؔ کی غزلیہ شاعری کا تنقیدی مطالعہ تعلیاتی تناظر میں کیا ہے یوں یہ موضوع دنیائے تنقید میں جدت کا حامل قرار پاتا ہے اگر چہ متقدمین و متوسطین اور متاخرین کے سخن میں تعلیاتی شواہد پائے جاتے ہیں مگر ان تعلیات کا بیان تنقیدی مضمون کی صورت میں قبل از یں دیکھنے اور پڑھنے کو نہیں ملا۔ اسی طرح ابو البیان ظہور احمد فاتحؔ کے دو اشعار جو شاعرانہ تعلی کے حامل ہیں درج ذیل ہیں۔

پی کے تیرے پیار کا آب حیات

دیکھنا اک دن خضر ہو جاؤں گا

فن اگر اظہار کا طالب ہوا

میں بھی فاتحؔ مشتہر ہو جاؤں گا

ان اشعار میں شاعر شاعرانہ تعلی کو بروئے کار لایا ہے وہ محبت کو ہی سب کچھ سمجھتے ہوئے اپنے محبوب سے کہتا ہے کہ اے محبوب دیکھنا تیرے پیار کا آب حیات پی کے میں بھی ایک دن خضر ہو جاؤں گا۔ آب حیات کا تصور کچھ یوں ہے جسے نوش کرنے سے انسان حیاتِ ابدی سے ہم کنار ہو جاتا ہے۔ اسی طرح یہاں شاعر اپنی عاشقانہ عظمت کو بیان کرتے ہوئے اپنے پیار کو آب حیات کا نام دے رہا ہے۔ اس طرح شعر ثانی میں یہ کہا گیا ہے کہ میرے فن نے اگر اظہار کا تقاضا کیا تو میں بھی مشہور ہو جاؤں لہٰذا ان اشعار میں پروفیسر ظہور احمد فاتحؔ نے ایک فنی چابکدستی کے ساتھ شاعرانہ تعلی کو شعر کے پیرائے میں سمویا ہے۔ چنانچہ ظہور احمد فاتحؔ کا ایک اور شعر جس میں شاعرانہ تعلی کو برتا گیا ہے۔

ابنائے زمانہ نے کچھ قدر نہ کی اس کی

ورنہ ترے فاتحؔ کی تحریر سنہری تھی

مصرع اولیٰ میں شاعر زمانہ سے شکوہ کناں ہے کہ اہلِ زمانہ نے اسے قدرو منزلت سے نیں نوازا مگر فاتحؔ کی تحریر اعلیٰ پائے کی تھی۔ اسی طرح اس شعر میں شاعرانہ تعلی کو شاعر نے کتنے اچھے انداز میں شعر کی لڑی میں پرویا ہے۔ یہاں ابو البیان ظہور احمد فاتحؔ نے اپنے خیالات کا اظہار دو طرح سے کیا ہے ایک طرف تو وہ زمانہ سے شکایت کر رہا ہے دوسری طرف شکایت کے ساتھ ساتھ شاعرانہ تعلی کو زیر بحث لا رہا ہے۔ اس طرح پروفیسر ظہور احمد فاتحؔ کا ایک شعر جو شاعرانہ تعلی کی ایک عمدہ مثال ہے درج ذیل ہے۔

ورنہ کر ڈالوں گا فاتحؔ میں اسے پیوندِ خاک

آسماں میں حوصلہ ہے تو مٹا ہی دے مجھے

اس شعر کے بارے میں عصر حاضر کے مستند نقاد شبیر ناقدؔ اپنے خیالات کا اظہار کچھ یوں کرتے ہیں۔

 ’’زندگی کے حقائق یقیناً تلخ بھی ہوتے ہیں مگر ابو البیان ظہور احمد فاتحؔ ان تلخ حقائق کو بھی ایسی شیر ینی سے بیان کر جاتے ہیں کہ موت زندگی سے ہم آغوش محسوس ہوتی ہے۔‘‘

شبیر ناقدؔ نے حضرتِ فاتحؔ کی شاعرانہ تعلیات کے بیان میں جہاں بھر پور تنقیدی بصیرت کا مظاہرہ کیا ہے وہاں ان کا محققانہ شعور بھی روزِ روشن کی طرح آشکار ہو رہا ہے جس سے اس امر کا بخوبی یقین کیا جا سکتا ہے کہ انہوں نے حضرتِ فاتحؔ کے قلزمِ سخن میں اس طرح غواصی کر کے تعلیات کے جواہر نکالے ہیں اور قارئین شعر و نقد کو ایک عمدہ تنقیدی فن پارے سے نوازا ہے۔

اس جہان رنگ و بو میں امداس کے جملہ معاملات میں توازن و اعتدال کو خصوصی اہمیت حاصل رہی ہے اور رہے گی۔ یہی وجدانِ خاص ہے جو شبیر ناقدؔ کی تنقیدات کا خاصہ ہے ان کے بیان میں اختصار و جامعیت، معقولیت و منطقیت اور معروضیت کے اوصاف پائے جاتے ہیں۔ وہ افراط و تفریط کی ارائشوں سے اپنے دامن کو بچائے رکھتے ہیں صرف مقصدیت ہی ان کے پیش نظر ہوتی ہے جس پر وہ قلب و جاں نچھاور کرتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں یہ وہ علامات ہیں جو کسی بالیدہ فکر نقاد کو ظاہر کرتی ہیں۔ اس طرح ابو البیان ظہور احمد فاتحؔ کا شاعرانہ تعلی کا حامل ایک شعر ملاحظہ ہو۔

بے سبب اہلِ جہاں نے نہیں مانا فاتح

ہم نے ٹکرایا سر آہنی دیواروں سے

اس شعر میں پروفیسر ظہور احمد فاتحؔ لکھتے ہیں کہ ہماری فاتحیت شکوک و شبہات سے مبرا و ماورا ہے بلکہ اہل زمانہ نے بھی سر تسلیم خم کر دیا ہے اور لوگ ہمیں فاتحؔ تسلیم اس لیے کرتے ہیں کیونکہ ہم لوہے کی دیواروں سے بھی سر ٹکرانے سے گریزاں نہیں کرتے۔ لہٰذا اس شعر میں شاعر نے کتنے بھر پور انداز میں شاعرانہ تعلی کو برپا یا ہے اسی طرح خدائے سخن کا ایک شعر شبیر ناقدؔ نے بطور استشہاد درج کیا ہے۔

مستند ہے میرا فرمایا ہوا

سارے عالم پر ہوں میں چھایا ہوا

اس طرح خفیف شاعرانہ تعلی کے حوالے سے مرزا غالب کا ایک شعر شبیر ناقدؔ نے رقم کیا ہے جو حسبِ ذیل ہے۔

غیر کی موت کا غم کس لیے اے غیرتِ ماہ

ہیں ہوس پیشہ بہت وہ نہ ہو اور سہی

فنِ تنقید کی نسبت سے یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ وہی نقاد معتبر و کامران ہو گا جو اپنی کلاسیکی شعری روایت سے بہر افروز ہو گا اگر ہم شبیر ناقدؔ کے فنِ تنقید کو معیار کی کسوٹی پر جانچتے اور پرکھتے ہیں تو وہ اس معیار پر بطریق احسن پورا اترتے ہیں۔ اپنے بیان کی صراحت کے لیے انہوں نے متوسطین و متاخرین کے اشعار کو بطور استشہار پیش نہیں کیا بلکہ انہوں نے متقدمین پر ہی اکتفا کیا ہے جس سے اس حقیقت کا مبینہ ثبوت ملتا ہے کہ ان کا تخلیقی ذوق اور تنقیدی وجدان جس رفعت و عظمت کا حامل ہے اس لیے انہوں نے مبتدی اور نو آموز شعراء کے اشعار کو اپنے بیان کا حصہ نہیں بنایا یہ وہ روشن دلیل ہے جو از منہ فردا کے ہر با ذوق قاری اور ادب کا سنجیدہ مذاق رکھنے والے محقق و ناقدؔ کو یقیناً متاثر کرے گی۔

اسی طرح ابو البیان ظہور احمد فاتحؔ کے دو اشعار جو شاعرانہ تعلی کی بہترین مثالیں ہیں ملاحظہ کیجئے۔

ہمارے بعد پھر اس وضع کا ملزم نہ آئے گا

عدالت کے کٹہرے پر ہمارا نام لکھ دینا

جسے ہو کاٹنا فاتحؔ غرور و جبر کی شہ رگ

اسی خنجر کے دستے پر ہمارا نام لکھ دینا

ان اشعار میں شاعر نے زبردست انداز میں شاعرانہ تعلی کو زیر بحث لایا ہے پہلے شعر میں شاعر بیان کرتا ہے کہ ہماری وضع کا انداز ہمارے بعد کسی کو نہیں آئے گا لہٰذا عدالت کے کٹہرے پر ہمارا نام رقم کر دینا تاکہ ہمیشہ یاد رہے اسی طرح شعرِ ثانی میں شاعر لکھتا ہے کہ جس خنجر کے ساتھ غرور و تکبر کی شہ رگ کو جڑ سے الگ کرنا ہو تو اس پر ہمارا نام لکھ دینا پھر دیکھنا کہ ظلم و تشدد کا نام بھی باقی نہیں رہے گا کیونکہ یہ بھی ایک حقیقت مسلمہ ہے کہ شاعر اپنے عہد کا عکاس ہونا ہے اور ظلم و ستم کو برداشت نہیں کرتا اور دنیا کا غم اس کا اپنا غم بن جاتا ہے اسی لیے تو شاعر نے کہا ہے کہ عدالت کے کٹہرے پر ہمارے نام کو نظم کر دینا چاہیے کیونکہ ہمارے بعد ہماری وضع کا ملزم پھر ہمارے جیسا نہیں آئے گا اسی حوالے سے شبیر ناقدؔ نے فیض احمد فیض کے دو اشعار درج کئے ہیں جو ملاحظہ ہوں۔

کرو کج جبیں پر سر کفن مرے قاتلوں کو گماں نہ ہو

کہ غرورِ عشق کا بانکپن پسِ مرگ ہم نے مٹا دیا

جو رکے تو کوہ گراں تھے ہم جو چلے تو جاں سے گزر گئے

رہِ یار ہم نے قدم قدم تجھے یادگار بنا دیا

شبیر ناقدؔ وہ پختہ کار نقاد ہیں جو اپنے ممدوح کے شعری مزاج کا بحسن و خوبی ادراک رکھتے ہیں جیسے ایک حکیمِ حاذق مریض کی نبض پر ہاتھ رکھ کر اس کے جملہ عوارض کو بھانپ لیتا ہے اور اس کے بعد اس کا علاج تجویز کرتا ہے بعینہ شبیر ناقدؔ نبض شعر کو بھانپتے ہوئے شعر میں موجود تنقیدی امکانات کا ادراک رکھتے ہیں اور یہی منطق ان کے تمام تر تجزیاتی عمل پر محیط رہتی ہے۔ وہ بات پھیلانے اور بیان کو سمیٹنے کے عمل سے بخوبی آشنا ہیں، اس سلسلے میں وہ بیان کی مقتضیات کو مد نظر رکھتے ہیں یہی وجہ سے کہ ان کا انتقادی اظہار یہ کہیں بھی ضعف اور سست روی کا شکار نظر نہیں آتا۔

ابو البیان ظہور احمد فاتحؔ کی فنی دقیقہ سنجیاں:

اسلوبیاتِ ادبیات کے مباحث کا کلیدی حصہ ہیں اگر اسالیب کی درجہ بندی کی جائے تو ان کو دو بنیادی حصوں میں منقسم کیا جا سکتا ہے جو نثری و شعری اسالیب سے موسوم ہیں جہاں نظم و نثر کے اسلوب کی دیگر صورتیں ہیں وہاں ایک صورت دقیقہ سنجی کی بھی ہے یہ اسلوب کی وہ نوعیت ہے جو نظم و نثر دونوں کا احاطہ کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہے شبیر ناقدؔ نے پروفیسر ظہور احمد فاتحؔ کی شاعری کی نسبت سے دقیقہ سنجی کو موضوعِ بحث بنایا ہے جسے ان کے تنقیدی مزاج کی جدت طرازی سے موسوم کیا جا سکتا ہے اسی طرح بیان کرنے کے بہت سے طریقے ہیں جن میں ایک سہل اور دوسرا پیچیدہ ہے۔ سہل ایسا طریقہ ہے جو آسانی کے ساتھ سمجھ میں آ جائے اور پیچیدہ وہ ہے جس میں باریک بینیاں ہوتی ہیں جن کو سمجھنے میں دقت پیش آتی ہے اس کو دقیق سنجی کہا جاتا ہے اس حوالے سے ابو البیان ظہور احمد فاتحؔ ایک ایسے سخن ور ہیں جن کی سخن وری میں بہت سے پہلو نمایاں ہیں اور ان کئی پہلوؤں میں سے ایک دقیقہ سنجی ہے ان کی شاعری میں دقیقہ سنجی کی بہت سی مثالیں ملتی ہیں شبیر ناقدؔ نے ابو البیان ظہور احمد فاتحؔ کی شاعری میں سے دقیقہ سنجی کی مثالیں پیش کرنے سے پہلے جوش کا ایک شعر زیب قرطاس کیا ہے جو ملاحظہ ہو۔

لگا رہا ہوں مضامینِ نو کے پھر انبار

خبر کرو میرے خرمن کے خوشہ چینوں کو

مضمون ہٰذا میں نقاد موصوف نے شعری حوالے سے پروفیسر ظہور احمد فاتحؔ کی مختلف جہات کا اجمالی پیرائے میں احاطہ کیا ہے یہاں انہوں نے اپنے موضوع کے حوالے سے تبادلہ خیال کیا ہے وہاں انہوں نے اپنے شاعر ممدوح کے لسانیاتی تبحر اور قادر الکلامی کے حوالے سے کیا۔ ویسے تو فنی دقیقہ سنجی کثیر المعانی اصطلاح ہے جس میں فن کے جملہ امور زیر بحث آئے ہیں جن میں علم عروض، علمِ بیان، ہستیوں کی جانکاری اور لسانی حوالے سے جملہ امور شامل ہیں۔ لیکن شبیر ناقدؔ کا شذرہ ہذا صرف اسلوبیاتی تناظر کا حامل ہے جس میں اسلوبیاتی دقیقہ سنجی اور فکری دقیقہ سنجی کے حوالے سے تصریحات ملتی ہیں اس طرح پروفیسر ظہور احمد فاتحؔ کا ایک شعر جو دقیقہ سنجی کی ایک عمدہ مثال ہے درج ذیل ہے۔

ہوا ہے عرصہ کسی نے مجھ کو ڈسا نہیں ہے

جو سانپ کچھ زیرِ آستیں تھے کہاں گئے ہیں؟

اس شعر میں شاعر لکھتا ہے کہ عرصہ دراز سے کسی نے مجھ کو ڈسا نہیں ہے اور جو استیں کے سانپ تھے وہ کہاں گئے ہیں یعنی کہ جو چھپے دشمن تھے جو دوستی کی آڑ میں ایک چھپے ہوئے دشمن تھے معلوم نہیں کہاں گئے ہیں کیونکہ کافی عرصہ گزر گیا ہے انہوں نے کوئی دھوکا نہیں دیا۔ اس طرح اس شعر میں شاعر نے آستیں کے سانپ کی تراکیب کو استعمال کر کے شعر کی دلکش کو دوبالا کر دیا۔ اسی طرح ابو البیان ظہور احمد فاتحؔ کو خود بھی احساس ہے کہ سخن سنجی بہت پیچیدہ ہے اسی حوالے سے ان کا ایک شعر ملاحظہ ہو۔

سخت دشوار سخن سنجی ہے

شیشہ سازی کا ہنر ہو جیسے

اس شعر میں شاعر بیان کرتا ہے کہ سخن سازی میں سخن سنجی اتنا پیچیدہ ہے جیسے شیشہ سازی کا ہنر ہے کیونکہ شیشہ ساز جو ہوتا ہے جب وہ شیشے کا کام کرتا ہے تو اس کو بہت زیادہ احتیاط سے کام لینا پڑتا ہے اسی حوالے سے شبیر ناقدؔ نے خواجہ حیدر علی آتش کا ایک شعر رقم کیا ہے جو حسب ذیل ہے۔

بندشِ الفاظ جڑنے سے نگوں کے کم نہیں

شاعری بھی کام ہے آتشؔ مرصع ساز

اس طرح شبیر ناقدؔ نے اپنے مفہوم کو واضح طور پر بیان کرنے کے لیے میر تقی میرؔ کا ایک شعر درج کیا ہے۔ ملاحظہ کیجئے۔

لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام

آفاق کی اس کارگہِ شیشہ گری کا

اگر شبیر ناقدؔ کی تنقیدات کے تناظر میں بات کی جائے تو وہ کلاسیکی شعری روایت کا بھر پور ادراک رکھتے ہیں اور اسی ادراک کو اپنے بیان کا حصہ بناتے ہیں اور یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ جو اہل ادب کلاسیکیت سے آشنا ہیں ان کا فنی اور تنقیدی شعور معتبر و مستند ہوتا ہے۔ موضوع کی مناسبت سے اپنے طرز بیان میں اساتذہ کے اشعار کو اپنی تنقیدی حاشیہ آرائیوں کا حصہ بنانا نہ صرف شبیر ناقدؔ کا خاصہ ہے بلکہ صحت مند و توانا تنقیدی روایت کا حصہ ہے جس کی پرچھائیاں واضح طور پر شبیر ناقدؔ کے ’’نقد فن‘‘ میں مطالعہ و مشاہدہ کی جا سکتی ہیں۔ اس طرح پروفیسر ظہور احمد فاتحؔ کے دو اشعار جو دقیقہ سنجی کی عمدہ مثالیں ہیں درج ذیل ہیں۔

اشک وہ سیل ہے جو توڑ کے ہر بند شکیب

دامن و جیب و گریبان بھگونا چاہے

چشمہ چشم سے اک اشک نہ نکلے فاتح

ورنہ جی آج تو دل کھول کے رونا چاہے

ان اشعار میں شاعر نے کتنے عمدہ طریقہ سے دقیقہ سنجی کو برتا ہے اور کتنی فنی مہارت کے ساتھ استعاروں کا استعمال کیا گیا ہے۔

 انہوں نے اشک کو سیل کا اور بند کو شکیب کا استعارہ استعمال کیا ہے اس کے ساتھ دامن و جیب و گریبان کی تراکیب ایک ندرت کی حامل ہے۔ شعر ثانی میں چشمۂ چشم کا استعمال شعر کے حسن کو لفظوں سے فزوں تر کر رہا ہے اور اگر اس شعر کو شاعرانہ مبالغہ یا صنعتِ مبالغہ قرار دیا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔ اس طرح ابو البیان ظہور احمد فاتحؔ کا ایک اور شعر جو دقیقہ سنجی کی بہترین مثال ہے ملاحظہ کیجئے۔

ہے خاک نوردی، کبھی افلاک نوردی

فاتحؔ کہیں تھمتا نہیں سرخاب ہمارا

اس شعر کی توضیح و تصریح شبیر ناقدؔ اپنے الفاظ میں کچھ یوں کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

 ’’شعر ہذا میں اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ زندگی ایک مسلسل سفر ہے کبھی زمین پر کبھی آسمانوں پر راہوار شوق کو سرخاب قرار دیا گیا ہے جو ایک مثالی اور آئیڈیل پرندہ ہے۔‘‘

ابو البیان ظہور احمد فاتحؔ کے مختلف اشعار کو اپنی نگارش کا حصہ بناتے ہوئے شبیر ناقدؔ نے اس امر کو بھی ملحوظِ خاطر رکھا ہے کہ زبان و بیان اور تخیلات میں دقیقہ سنجی کا پہلو ضرور موجود ہو۔ موضوع کے تعین کے بعد اس کی حدود و قیود سے ماورا رہنا ان کے لیے دور از کار معاملہ ہے۔ اگر موضوع کی حد بندیوں کا احترام نہ کیا جائے تو ہر قسم کی نگارش اپنی تاثیرات کے کوائف سے محروم ہو جاتی ہے۔ یہی وہ اسباب وجوہات ہیں جو ان کی تنقیدی نگارشات میں زریں اصول کا درجہ رکھتے ہیں جن کے استخراجی نیچے کے طور پر ان کے ہاں معقولیت و منطقیت، اختصار و جامعیت اور معروضیت کے خصائص آشکار ہوئے ہیں۔ جن کے علی الرغم ان کا کام عصری تنقید میں ممتاز و ممیز نظر آتا ہے۔ ہمارے یہ معروضات شبیر ناقدؔ کی تنقیدات کے تحقیقی و تنقیدی مطالعے کا لازمی نتیجہ ہیں۔ ان کا تنقیدی وجدان کی بھرپور غواصی کے بعد ہمیں یہ گوہرِ نایاب ملے ہیں۔ ان کے بات کرنے کا انداز ایسا ہے جس سے یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ وہ اپنے ممدوح کے بیان کی نفسیات سے بخوبی واقف ہیں یہی وجہ ہے کہ ان کی تحریروں میں طرزِ استدلال بطریق احسن پایا جاتا ہے جس سے ان کے ایک معتبر و نقاد ہونے کی واضح دلیل ملتی ہے۔

ابو البیان ظہور احمد فاتحؔ کثیر الجہات کا شاعر:

ایک اچھے نقاد کی خصوصیات میں یہ امر مبادی حیثیت کا حامل ہے کہ وہ اپنے کام کا احاطہ کرنا جانتا ہو اور اس کی جزئیات کے حوالے سے کہیں بھی تشنگی کا پہلو نہ رہے۔ اس کے تنقیدی فن پاروں کو ملاحظہ کرتے ہوئے قاری، محقق اور کوئی دوسرا نقاد اس امر کی نشاندہی نہ کر سکے گا کہ نقاد موصوف سے یہ امر تشنۂ صراحت رہا ہے کیونکہ ایک سکہ بند نقاد اپنے ممدوح کے فکری و فنی حوالوں سے ایک کلی تنقیدی مطالعہ پیش کرتا ہے جس کی بدولت اس کے ممدوح کے فکر و فن سے تمام تر زاویوں کو جانچا اور پرکھا جا سکتا ہے۔ کتاب ہذا یعنی ’’ابو البیان ظہور احمد فاتحؔ کا کیفِ غزل‘‘ میں شبیر ناقدؔ نے مختلف موضوعات پر تنقیدی خامہ فرسائی کی ہے۔ آخری مضمون میں وہ اپنے تنقیدی کام کو سمیٹتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اس لیے انہوں نے ایک جامع عنوان قائم کیا ہے۔ جیسے ’’ابو البیان ظہور احمد فاتح‘‘ کثیر الجہات کا شاعر کا نام دیا ہے۔ جس کا منطقی نتیجہ یہ ہوا کہ سابقہ شذرات میں نقاد مذکور جو موضوعات زیر بحث نہیں لا پائے اس جامع موضوع کے تحت انہوں نے تمام عنوانات کو مجتمع کر دیا ہے تاکہ وہ اپنے ممدوح کی سخن سازی کے حوالے سے زیادہ سے زیادہ تنقیدی امکانات کی نشاندہی کر سکیں۔ سخن وروں کی یہ عظمت ہے کہ وہ اپنے تخیل کی وسعت پر بہت سی تخلیقات منظر عام پر لائے ہیں مگر ان اہل سخن میں سے کسی میں شعری وسعت زیادہ ہوتی ہے اور کسی میں کم اسی طرح شبیر ناقدؔ نے ابو البیان ظہور احمد فاتحؔ کی سخن وری کے حوالے سے جو مختلف جہتیں بیان کی ہیں وہ مندرجہ ذیل ہیں۔

۱۔ آخرت            ۲۔ استغناء             ۳۔ اعتبار              ۴۔ انتظار

۵۔ انقلاب نوید  ۶۔ تعلیات            ۷۔ تنقید        ۹۔ جنوں

۱۰۔ چھیڑ چھاڑ   ۱۱۔ حسن و جمال ۲۱۔ حق شناسی   ۱۳۔ خلوص و مروت

۱۴۔ خواب و خیال       ۱۵۔ دل        ۱۶۔ دنیا       ۱۷۔ دوستی

۱۸۔ ذات             ۱۹۔ رجائیت   ۲۰۔ رسوائی            ۲۱۔ شگفتگی

۲۲۔ غم و درد و سوز      ۲۳۔ معاملہ بندی و مکالمہ    ۲۴۔ منظر نگاری ۲۵۔ ہجر وصال

اس طرح پروفیسر ظہور احمد فاتحؔ کی شاعری کی جو بہت سی جہتیں بیان کی گئی ہیں ان میں سے چند کی تفصیل حسب ذیل ہے۔ چنانچہ کچھ شعراء ایسے ہوتے ہیں جو زندگی میں تغیر و تبدل کو اہمیت دیتے ہیں اور ان کی شاعری میں ایک انقلابی تبدیلیاں نظر آتی ہیں کیونکہ وہ زندگی میں جمود نہیں تحرک پیدا کرنا چاہتے ہیں اور ایسا تھرک جو انقلاب سے عبارت ہو اور انہیں اہلِ سخن میں سے ابو البیان ظہور احمد فاتحؔ کا نام بھی نمایاں ہے جن کی سخن سنجی میں نوید انقلاب کی امثال ملتی ہیں جو زینتِ طرطاس ہیں۔

درد کی ہر ٹیس ٹھہرے کی صدائے احتجاج

فصل گل آئی ہے زخموں کو ہرا ہونے تو دو

یقیناً انقلاب حال میں کچھ دیر لگتی ہے

مگر سچ ہے زمانہ محتسب ہے اور عادل ہے

یوسفِ گم گشتہ پھر ملنے کو ہے یعقوبِ جاں

مژدہ ہو مژدہ عروجِ چشمِ تر ہونے کو ہے

ہونے والا ہے عصائے موسیٰ پھر معجز نما

سامری کا سحر یکسر بے اثر ہونے کو ہے

ظلمتِ شب ہونے والی ہے گریزاں عنقریب

شب گزیدوں کو خبر کر دو سحر ہونے کو ہے

شاعری کو عموماً عالم مجذوبیت کی پیداوار سمجھا جاتا ہے اس لیے شعرائے کرام کو حلقہ جنوں کیشیاں کہا جاتا ہے لہٰذا پروفیسر ظہور احمد فاتحؔ کی شاعری میں بھی بہت سی ایسی مثالیں ملتی ہیں جن میں جنوں کی بھر پور عکاسی ہوتی ہے۔

میرے دل کا درد فزوں کرو کبھی یوں کرو

مجھے سرفرازِ جنوں کرو کبھی یوں کرو

جنوں حد سے بڑھے تو یہ حشر ہوتا ہے

نگاہ آبلہ پا ہے تو کیا تعجب ہے

تیرے فقیر کا انداز سرمدی سا تھا

اگر وہ قتل ہوا ہے تو کیا تعجب ہے

جنوں میں جو کئے گئے وہ فیصلے عجیب تھے

جو لٹ کے مطمئن رہے وہ منچلے عجیب تھے

دنیا میں رنج و الم بھی ملتے ہیں اور مایوسی و نامیدی بھی ہوتی ہے تو ایک اچھے شاعر کی خوبی یہ ہے کہ وہ درد و کرب کا خوشی کے ساتھ سامنا کرے اور زندگی سے نا امید نہ ہو بلکہ امید کا دامن تھامے رکھے اور مصیبتوں اور تکالیف کا خندہ پیشانی کے ساتھ مظاہرہ کرے اس حوالے سے ابو البیان ظہور احمد فاتحؔ کی سخن وری میں شگفتگی کے بہت نمونے ملتے ہیں جو درج ذیل ہیں:

کبھی بے رخی سے ملا کر و کبھی شوق سے

مرے ہمسفر کبھی یوں کرو کبھی یوں کرو

گئی شگفتہ مزاجی نہ تیرے فاتحؔ کی

اگرچہ روز عذابِ ملال میں گم ہے

شگفتہ بات کرو کچھ کہ وقت کٹ جائے

کہیں نہ فرطِ الم سے دماغ پھٹ جائے

غم بڑھے تو شراب ہو جائے

خانۂ  دل خراب ہو جائے

چاند سورج نہ کیسے گہنائیں

تو جو زیر نقاب ہو جائے

شاعری اظہار کیفیات کا نام ہے ان کیفیات میں ایک معاملہ بندی ہے جس میں محبوب کے درد و غم، ہجر و وصال، بے رخی، شکوہ و شکایت، محبوب کے عشوے، و غمزے اور ظلم و ستم کے تشدد کا بیان ہوتا ہے اور پھر کبھی کبھی شاعر اپنے محبوب سے ہم کلام ہوتا ہے جس کو مکالمہ کا نام دیا جاتا ہے اس طرح پروفیسر ظہور احمد فاتحؔ کے کلام میں معاملہ بندی اور مکالمہ کی بہت سی خوبصورت امثال ملتی ہیں۔

اشعار حسب ذیل ہیں۔

پہلے رنجش کا سبب کوئی بتا دے مجھ کو

پھر تجھے حق ہے کہ جو چاہے سزا دے مجھ کو

تو مرا گیت ہے رو رو کے تجھے گاؤں گا

میں ترا درد ہوں اشکوں میں بہا دے مجھ کو

اپنا بھی سمجھتے ہونا شاد بھی کرتے ہو

الفت بھی جتاتے ہو برباد بھی کرتے ہو

تو مری منزلِ مقصود نہیں تو نہ سہی

میری الجھی ہوئی راہیں مجھے واپس کر دے

رواں ہوئے ہیں جو آنکھوں سے اشک تھم تھم کے

ہیں شاخسانے تمہارے مزاجِ برہم کے

اپنے بیمار کی شہ رگ پہ وہ خنجر رکھ کر

مسکراتے ہوئے کہتے ہیں دوا کیسی ہے؟

ابو البیان ظہور احمد فاتحؔ کی سخن سازی میں دیگر صفات کے ساتھ ساتھ ایک صفت منظر نگاری کی بھی ہے کیونکہ جب وہ کسی چیز کو بیان کرتے ہیں تو وہ ایک تصویری مرقع کھینچ کے رکھ دیتے ہیں اس طرح منظر نگاری کے حامل اشعار ملاحظہ کیجئے۔

طلسمی ادائیں دامن دل کھینچ لیتی ہیں

جواں جوڑے، سہانے راستے، موسم کی رنگینی

کئے دیتے ہیں مجبور غزل گوئی مجھے فاتح

یہ بادل، بوندا باندی، زمزمے موسم کی رنگینی

کچھ حسن مآب سجیلے سے پہنے کپڑے بھڑکیلے سے

کبھی عشوے سے، کبھی غمزے سے دل لوٹتے ہیں پر حیلے سے

صبا مجھ سے سحر دم پوچھتی ہے روز گلشن میں

یہ قطرے اوس کے ہیں یا حسین پر یوں کے آئینے

شبیر ناقدؔ نے پروفیسر ظہور احمد فاتحؔ کے موضوعاتی حوالوں کو بھر پور انداز میں پیش کیا ایسے موضوعات جو ان کی شاعری میں بکثرت، واضح اور نمایاں ہیں۔ انہیں بڑی تفصیل سے نظر قارئین کیا ہے کہیں کہیں شعری استشہادات کی نسبت سے بحرِ ذخار کا سماں پیدا کر دیتے ہیں اور کہیں کہیں ایجاز و اختصار سے کام لیتے نظر آتے ہیں۔ ان کے اس انداز سے ان کے بیان میں تنوع اور بوقلمونی کے خصائص پیدا ہوتے ہیں اور ان کا انداز نگارش یکسانیت کا شکار نہیں ہوتا۔ ان کی نگارشاتی حکمتِ عملی سے یہ امر بحسن و خوبی واضح ہوتا ہے کہ وہ قاری کی نفسیات سے بہتر طور پر آشنا ہیں۔ یہ وہ عوامل ہیں جو شبیر ناقدؔ کی معتبر و منضبط تنقید نگاری کا جواز فراہم کرتے ہیں تنقیدی تاریخ میں ایسے ہی ناقدین کو قبولیت عام اور شہرت دوام میسر آئی ہے۔

کلام فاتحؔ اور داخلی کیفیات:

شبیر ناقدؔ کسی بھی موضوع کے حوالے سے منطقیت کے پیرائے میں بات کرتے ہیں جسے قلوب وا اذہان با آسانی قبول کریں ’’کلامِ فاتحؔ اور داخلی کیفیات‘‘ کے حوالے سے وہ یوں گویا ہیں کہ شعر ہمیشہ دو کیفیات سے ترتیب پاتا ہے۔ ان میں ایک داخلی اور دوسری خارجی ہے۔ بعض شاعر مزاجاً دوروں بین ہوتے ہیں یعنی داخلی دنیا سے زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں اور بعض طبقے بیرون بین یعنی خارجی دنیا سے زیادہ تعلق اور دلچسپی رکھنے والے ہوتے ہیں۔ داخلیت سے مراد یہ ہے کہ شاعر باہر کی دنیا سے غرض نہیں رکھتا بلکہ وہ صرف اپنے دل کی دنیا کی واردات کا اظہار کرتا ہے وہ دل کی دنیا کا باسی ہوتا ہے داخلیت میں واردات قلبی یعنی عشق و محبت کے مضامین اور ان کے مصائب و آلام کا بیان ہوتا ہے۔ اسی طرح جب ہم پروفیسر ظہور احمد فاتحؔ کے کلام کا جائزہ لیتے ہیں تو ان کے کلام میں داخلی کیفیات و احساسات وفور کے ساتھ ملتے ہیں۔ لہٰذا ابو البیان ظہور احمد فاتحؔ کے دو اشعار جن میں داخلی کیفیات کا بھر پور انداز میں اظہار کیا گیا ہے۔ درج ذیل ہیں۔

غمِ عشق سینے میں گھر کر گیا

یمِ زندگی کو بھنور کر گیا

تری یاد میں دل سے اک ہوک اٹھی

تصور ترا چشم تر کر گیا

پہلے شعر میں شاعر داخلی کیفیات کو بڑے اچھے انداز میں بیان کرتا ہے کہ عشق کے غم نے سینے میں گھر کر لیا ہے اور ہماری زندگی کو اس نے ہمیشہ کیلئے بھنور بنا دیا ہے۔ اب اس سے باہر نکلنا مشکل ہی نہیں بلکہ نا ممکن ہے۔ اس شعر میں شاعر نے دلی کیفیات کو کتنے احسن طریقے سے بیان کیا ہے اور عشق و محبت کی واردات و کیفیات اور اپنے دل کے احساسات و جذبات کو بڑے عمدہ انداز میں رقم کیا ہے۔ اسی طرح دوسرے شعر میں دو چیزوں کو شاعر نے بیان کیا ہے ان میں ایک یاد اور دوسرا تصور ہے۔ محب اپنے محبوب سے کہتا ہے کہ اے محبوب تری یاد نے دل میں ایک ہل چل سی مچا دی جس سے آہ و فغاں جاری ہو گئی اور دوسری جانب تیرا تصور ہے جس سے اشک فشانی ہو گئی۔ چنانچہ شاعر نے کتنا عمدہ طریقے سے دل کی واردات کو بیان کیا ہے۔ اسی طرح ظہور احمد فاتحؔ کا ایک اور شعر جس میں داخلیت موجود ہے۔ ملاحظہ ہو۔

یہ میرے درد دل کی آنچ کا اعجاز ہے شاید

مری چھاتی سے ٹکرا کر جو ہے اتنا حزیں پتھر

اس شعر میں شاعر اپنے دل کی تڑپ کو بیان کر رہا ہے کہ میرے دل میں جو تکلیف ہے شاید یہ اس کا کمال ہے کہ میرے سینے سے اگر پتھر بھی ٹکرا جائے تو وہ بھی افسردہ و غمگین ہو جاتا ہے۔ یعنی محب اپنے محبوب سے کہتا ہے کہ میرے دل میں اتنی آنچ موجود ہے جس کے آگے کوئی مصیبت بڑی نہیں ہے۔ یعنی میرا دل تکلیفوں کا گھر بن گیا ہے اور دل کی کوٹھڑی میں اتنے رنج و الم ہیں کہ ان کے آگے اور کوئی تکلیف محسوس نہیں ہوتی۔ لہٰذا یہ سب میرے دل کے درد کی آنچ ہی کا کرشمہ ہے کہ اگر اب کوئی پتھر بھی میرے سینے سے ٹکرائے تو وہ مجھے تکلیف دینے کی بجائے خود مایوس ہو جاتا ہے۔ چنانچہ پروفیسر ظہور احمد فاتحؔ کا ایک شعر جس میں داخلی کیفیات کو واضح طور پر بیان کیا گیا ہے درج ذیل ہے۔

جن کی مایہ غم کی پونجی درد کی دولت ملی

دل زدوں کو راس آئی ہے شناسائی بہت

اس شعر کی توضیح و تصریح نقادِ عصر شبیر ناقدؔ اپنے منفرد انداز میں کچھ یوں کرتے ہیں۔

 ’’دوستی اور شناسائی یقیناً بے حد نازک رشتہ ہے جو دل والوں کے لیے کسی ابتلا سے کم نہیں مگر ہمیں شناسائی کا تانا بہت راس آیا ہے اس کے باعث سرمایہ فن میسر آیا ہے متاع غم فراخ ہوئی اور ساتھ ساتھ دولت درد بھی مہیا ہوئی ہے گویا اپنے لیے دوستی ثمر آور ثابت ہوئی ہے۔‘‘

مذکورہ بالا امثال میں ممدوحِ مقالہ نقاد شبیر ناقدؔ نے ابو البیان احمد فاتحؔ کے مختلف نوعیت کے داخلی شواہد کو بڑی فراست کے ساتھ پیش کیا ہے۔ کہیں انہوں نے غمِ عشق کا حوالہ دیا ہے تو کہیں ہم زندگی کی بات کی ہے، کہیں یاد محبوب کا تذکرہ ہے تو کہیں تصورِ محبوب کا ذکر کیا ہے۔ کہیں دردِ دل کی آنچ کو بیان کیا ہے تو کہیں سرمایۂ غم کی نسبت سے بات کی ہے۔ یوں انہوں نے پروفیسر ظہور احمد فاتحؔ کی شاعری کی داخلی جہات کو نمایاں کیا ہے۔

اسطرح ظہور احمد فاتحؔ کا داخلی کیفیات کی مانند ایک شعر ملاحظہ ہو۔

کہے آزادی بھلی ہے کہ اسیری اچھی

گل گرفتوں سے تیری زلف کا خم پوچھتا ہے

اس شعر میں یہ بتایا گیا ہے کہ محب اپنے محبوب کی محبت میں گرفتار ہے اور محبوب کی زلف کا جو غم ہے وہ عاشق کے دل کو گھیرے ہوئے ہے اور سوال کرتا ہے کہ اب بتا تمہاری کیا کیفیت ہے حالانکہ دل محبوب کی زلفوں میں قید ہو کر بہت خوش ہے اور وہ ہمیشہ کے لیے اس زنجیر میں قید ہونا چاہتا ہے۔ اس سے آزادی حاصل کرنا نہیں چاہتا لیکن خمِ زلفِ دل گرفتہ سے پوچھتا ہے کہ اب کہیے آزادی اچھی لگتی ہے یا اسیری اس شعر میں داخلیت کے ساتھ ساتھ خارجیت بھی ہے لیکن شاعر نے خارجیت کو اس انداز سے بیان کیا ہے کہ اس میں بھی داخلیت چھلکتی ہے۔

اسی حوالے سے ظہور احمد فاتحؔ کا ایک اور شعر قابل توجہ ہو۔

ملحوظ ہے ہر بات پہ منشائے زمانہ

اے دوست کبھی دل کا کہا مان لیا کر

شاعر اپنے محبوب سے مخاطب ہے اور کہتا ہے کہ یہ کونسی بات ہوئی کہ ہر بات میں زمانے کی رضا موجود ہو۔ جو کام بھی کیا جائے کیا اسی کو مد نظر رکھتے ہوئے کیا جائے اور پھر دوسرے مصرع میں محب اپنے محبوب کو مشورہ دے رہا ہے کہ ہر بات زمانے کو سامنے رکھ کر نہ کی جائے بلکہ کبھی کبھی دل کی بات بھی مان لینی چاہے۔ ٹھیک اسی طرح جیسے علامہ اقبال نے کہا تھا۔

بہتر ہے دل کے ساتھ رہے پاسبانِ عقل

لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے

لہٰذا شبیر ناقدؔ کسی بھی شعر کی شرح وبسط اور اپنے تنقیدی موقف کو معتبر انداز میں پیش کرنے کے لیے شعر و ادب کے عہد آخر میں شعراء کے سخن سے منتخب اشعار اپنے پیرایۂ  تحریر میں لاتے ہیں یوں ان کا ان بیان وقیع و بلیغ ہو جاتا ہے اسی طرح ابو البیان ظہور احمد فاتحؔ کا ایک اور شعر جس میں داخلیت کو عیاں کیا گیا ہے حسب ذیل ہے۔

وا دیدۂ خاطر ہے جو آنکھوں میں نہیں تاب

ہم طالب دید رخ زیبا تو ہوئے ہیں

اس شعر میں غم ذات کے حوالے سے بات کی گئی ہے کیونکہ شاعر کی آنکھوں کی بینائی نہ ہونے کی وجہ سے وہ رخ یار کا دیدار نہیں کر سکتا۔ مگر حسن یار کا جلوہ دیکھے بغیر رہ بھی نہیں سکتا اس لیے انہوں نے اپنے دل کی آنکھوں کو کھلا رکھا ہوا ہے تاکہ محبوب کے حسن سے فیض یاب ہو سکے۔ اس طرح اس شعر میں داخلی کیفیات و احساسات کو بڑے عمدہ انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ لہٰذا پروفیسر ظہور احمد فاتحؔ کا آخری شعر جس میں داخلیت کو ایک منفرد انداز میں پرویا گیا ملاحظہ کیجئے۔

اگرچہ دل میں ہزار غم ہیں محبتیں بانٹتے رہیں گے

ہماری قسمت میں گو ستم ہیں محبتیں بانٹتے رہیں گے

یہاں شاعر اپنی حوصلہ مندی کا اظہار کر رہا ہے اور امید کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑ رہ۔ وہ کہتا ہے کہ ہمارے دل میں چاہے رنج و الم کے پہاڑ ٹوٹیں پھر قوتِ برداشت ہمارے اندر اتنی ہے کہ ہم محبتوں کو بانٹتے رہیں گے اور ہماری قسمت میں چاہے ستم ہی ستم ہوں اور راحت نام کی کوئی چیز نہ ہو ہم پھر بھی آس کی شمعوں کو روشن رکھیں گے اور ہمیشہ چاہتوں کو بانٹتے رہیں گے۔

لہٰذا مندرجہ ذیل امثال سے یہ ات واضح ہوتی ہے کہ ابو البیان ظہور احمد فاتحؔ کے کلام میں داخلیت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے جس میں واردات قلبی کو بھی بیان کیا گیا ہے اور غم ذات کے حوالے سے بھی بات کی گئی ہے۔

اسی طرح اگر ہم ان کی سخن گوئی کو داخلیت کا نام دے دیں تو یہ بھی بے جا نہ ہو گا کیونکہ ان کے کلام میں داخلی کیفیات وسیع پیمانے پر موجود ہیں اور ان کا گہرا مشاہدہ کیا گیا ہے۔ اسی طرح اگر عصر حاضر کے معروف نقاد شبیر ناقدؔ کی تنقید نگاری کو فنی و ہیئتی حوالوں سے دیکھا جائے تو ان کے شذرات کو جنہیں انہوں نے تین نمایاں حصوں میں منقسم کیا ہے جن کو تمہید، نفس مضمون کے اختتامیے میں وہ اپنے ممدوح شاعر پروفیسر ظہور احمد فاتحؔ کے حوالے سے فکر و فن کی نسبت سے ایک استخراجی اور تنقیدی رائے قائم کرتے ہیں جسے اس مضمون کا حاصل مطالعہ یا مرکزی مقصد کہا جا سکتا ہے۔

 ظہور احمد فاتحؔ کا نظریہ خرد:

اقلیم سخن ایک بحر بے کراں ہے جو تفکرات و تخیلات کے تنوع سے عبارت ہے۔ اس میں سخنور ہر قسم کی موضوعاتی طبع آزمائی کرتے ہیں اور جن اہل سخن میں قوت متخیلہ زیادہ ہو گی وہ اتنا زیادہ کامیاب و کامران ہو گا۔ اکثر و بیشتر شعرائے کرام کے کلام میں خرد کی نفی کی گئی ہے یا پھر سخن سازی میں عقل و خرد کو جنسِ بے مایہ سمجھا گیا ہے۔ اس طرح شبیر ناقدؔ نے اپنے بیان کو تقویت بخشنے کے لیے شاعر مشرق کے چند اشعار بطور استشہاد درج کئے ہیں جس سے خرد کی نفی ہوتی ہے۔

عقل عیار ہے سو بھیس بدل لیتی ہے

عشق بے چارہ نہ ملا ہے، نہ زاہد، نہ حکیم

عشق فرمودۂ  قاصد پہ سبک گامِ عمل

عقل سمجھی ہی نہیں معنیِ پیغام ابھی

بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق

عقل ہے محوِ تماشائے لبِ بام ابھی

بہتر ہے دل کے ساتھ رہے پاسبانِ عقل

لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے

ایک سکہ بند نقاد کا وصفِ خاص یہی ہے کہ وہ متقدمین و متوسطین کے کلام کو بھی اپنے کلام میں زیر بحث لاتا ہے جس سے اس کا بیان ابھر کر سامنے آتا ہے اور اس میں بے سروسامانی کا کوئی پہلو نظر نہیں آتا۔ اس شبیر ناقدؔ نے اپنے مضمون کو وسعت دینے کے لیے اور اپنے مفہوم کو واضح کرنے کے لیے مزید شعری نشاۃ ثانیہ کے امام حسرت موہانی کا ایک شعر درج کیا ہے جو زیبِ قرطاس ہے۔

خرد کا نام جنوں رکھ دیا، جنوں کا خرد

جو چاہے آپ کا حسنِ کرشمہ ساز کرے

نقاد موصوف اپنے موضوعاتی موقف کی تصریح کے لیے چند اپنے اشعار بھی زینت قرطاس لائے ہیں ان کے اشعار میں خرد کی بالادستی کو انتہائی واضح انداز میں محسوس کیا جا سکتا ہے۔ قارئین کے ذوق جمیل کی نظر ان کے صرف دو اشعار کئے جاتے ہیں:

محبتوں کی بساط لپٹی پڑا ہے جب سے خرد سے پالا

جنوں کا ناقدؔ فسوں نہیں ہے خرد کی حاصل حمایتیں ہیں

جو ہیں اہل دل وہ سداہیں پریشاں

جو اہل خرد ہیں سد شادماں ہیں

ایک نقاد دنیائے ادب کی وہ معتبر شخصیت ہوتی ہے جو علوم و فنون کے ادراک میں دستگاہ رکھتی ہے ہر قسم کے موضوعات پر خیال آرائی کرنا اس کے لیے کار دشوار نہیں ہوتا۔ وہ ادب کے ارتقائی سفر پر گہری نگاہ رکھتا ہے۔ اگر نقاد منصب تنقید کے ساتھ ساتھ تخلیق کا ملکہ بھی رکھتا ہو تو سونے پر سہاگہ ہے۔ بعینہ معاملہ ہمارے نقاد ممدوح شبیر ناقدؔ کا بھی ہے۔ وہ جہاں تنقیدی بصیرت سے مالا مال ہیں وہاں ان کے ہاں تخلیقی وفود بھی مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔ وہ اپنے موضوع کی وضاحت کے لیے اس وقت اپنے اشعار کو بروئے کار لاتے ہیں جب انہیں کلاسیکی اور نو کلاسیکی یا معاصر شعری ادب میں انہیں شعری امثال معدوم نظر آئیں۔ ان کا مقصد اپنے فن شعر کی نمو نہیں بلکہ موضوع کی ابلاغیت ہے۔ شذرہ ہذا میں اگر متقدمین کو مد نظر رکھا جائے تو انہیں کوئی پاسدار خرد نظر نہیں آیا بلکہ سب کو طرف دارِ خاطر پایا۔ طرف داریِ خرد کے حوالے سے انہیں متوسطین و متاخرین یا معاصر شعراء میں بھی انہیں خرد کی طرفداری کرنے والا کوئی نہیں ملا۔ با امر مجبوری انہوں نے بذات خود عقل کی پاسداری کا ذمہ اٹھا لیا اور اپنے اشعار کو بطور استشہاد پیش کیا جس سے موضوع سے وفاداری کا عمدہ ثبوت ملتا ہے۔ اس طرح جب ہم ابو البیان ظہور احمد فاتحؔ کے کلام کا جائزہ لیتے ہیں تو اس کے کلام میں ایسے بہت سے تصورات ملتے ہیں جس سے عقل و خرد کی مذمت کی گئی ہے لہٰذا اس حوالے سے پروفیسر ظہور احمد فاتحؔ کا ایک شعر ملاحظہ کیجئے۔

ہم نہیں حامل خرد مندی

عمر دیوانہ پن میں گزری ہے

اس شعر میں شاعر اپنی ذات کے حوالے سے بات کر رہا ہے کہ ہمیں عقل و خرد کا حامل انسان مت سمجھا جائے بلکہ ہماری ذات کا تعلق تو جنوں کے ساتھ ہے کیونکہ ہماری ساری عمر جنوں میں گزری ہے لہٰذا ہمارا خرد سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس شعر میں شاعر نے کتنا عمدہ طریقے سے خرد کی مذمت کی ہے اور خود کو جنوں کا کفیل قرار دے دیا ہے۔ اس طرح پروفیسر ظہور احمد فاتحؔ کا ایک شعر جو خرد کی مخالفت کے تناظر میں ایک نادر نمونہ ہے حسب ذیل ہے۔

شہر والوں کی خرد مندوں کی حالت دیکھ کر

یہ فضائے دشت یہ دیوانی اچھی لگی

اس شعر کے حوالے سے شبیر ناقدؔ کی توضیح تنقید کا رنگ ملاحظہ فرمائیں۔

مصرع اول میں اہل خرد کی حالت کا تذکرہ ہے جن کا محل شہر ہے اور مصرع ثانی میں اہل جنوں کا حوالہ ہے جن کے مسکن دشت زار ہیں اظہار یہ فرماتے ہیں کہ اول الذکر حضرات کی کیفیت دیکھتے ہوئے موخر الذکر احباب کی حیات و بود و باش کے سلوک و رویہ ہمیں بھلا لگا ہے ایسا لگتا ہے کہ وہ اس شعر میں اہلِ جنوں اور ان کے رہن سہن کو سنجیدگی کی نظر سے دیکھ رہے ہیں۔

اگر مذکورہ مضمون کے اختتام کو بنظرِ غائر ملاحظہ کیا جائے تو اس میں حقیقت پسندی اور غیر جانبداری کے عوامل بخوبی مشاہدہ کئے جا سکتے ہیں یوں شبیر ناقدؔ اپنے منصبِ تنقید سے انصاف کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔

ابو البیان ظہور احمد فاتحؔ کا کیفِ غزل کا مجموعی جائزہ:

کسی بھی نگارش یا فن پارے اور تصنیف کی تحقیقی و تنقیدی حوالے سے قدر و منزلت کا تعین کرنے کے لیے اس کے مندر جات کا مطالعہ ایک ناگزیر امر ہے جن کی بدولت کسی بھی نقاد کے کام کے منضبط یا غیر منضبط ہونے کی غمازی ہوتی ہے۔ اس حوالے سے اس معاملے کی جانچ پڑتال بھی بہت ضروری ہے کہ صاحب کتاب نے لایعنی موضوعات کو اپنی تصنیف کا حصہ تو نہیں بنایا کیونکہ دور از کار معاملات بدولت تصنیف اپنے تاثراتی کوائف سے محروم ہو جاتی ہے اور اس صورت میں نہ وہ کسی قاری اور نہ کسی محقق و نقاد کو متاثر کر سکتی ہے یوں اس کا کام معیارات کے تعیناتی پیمانوں پر پورا نہیں اتر سکتا۔ ایسی صورت میں وہ تصنیف کسی بھی تحقیق و تنقیدی روایت کا حصہ نہیں بن سکتی یوں اس نقاد کے لیے ادبی مقاصد کی بازیافت کا خواب شرمندہ تعبیر رہتا ہے۔

شبیر ناقدؔ تنقیدی ادب کی وہ بالیدہ فکر شخصیت ہیں جنہیں نقاد فن ہونے کے ساتھ ساتھ نباض فن ہونے کا شرف بھی حاصل ہے اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہ براہ راست نقدِ فن کی دنیا میں نہیں اترے قبل ازیں انہوں نے تخلیقی ادب کے جاں گداز مراحل طے کیے جن کا واضح ثبوت ان کی شعری تخلیقات و تصنیفات ہیں جن کا تذکرہ قبیل ازیں ابو اب میں کیا  جا چکا ہے۔ مشیت نے انہیں ادبی حوالے سے وہ موضوع طبیعت ودیعت کی ہے کہ وہ ہمہ وقت نظم و نثر پر قدرت رکھتے ہیں۔ وہ کوئی جزوقتی شاعر، ادیب اور نقاد نہیں ہیں بلکہ ہمہ وقتی حیثیت کے حامل ہیں وہ اپنی موضوعاتی مقتضیات کے باعث نظم و نثر دونوں کو بروئے کار لاتے ہیں۔ اگر کتابِ مذکور کے حوالے سے بات کی جائے تو کتاب ہذا کا انتساب شعری اعتبار کا حامل ہے جہاں انہوں نے اپنے ممدوح سے محبت و عقیدت کا حوالہ دیا ہے وہاں منظوم تنقید نگاری بھی کی ہے جوان کے شعری تبحر کی ایک درخشاں دلیل ہے۔ اس طرح نقاد موصوف ابو البیان ظہور احمد فاتحؔ کی سخن سازی کے حوالے سے لکھتے ہیں: ۔

پروفسیر ظہور احمد فاتحؔ کا کلام بلاغت نظام اکثر و بیشتر ایک آدرش کا حامل دکھائی دیتا ہے۔۔ ۔ اس کے باوجود بھی بہت سے حضرات ان کی شاعری ادب برائے ادب کے زمرے میں لاتے نظر آتے ہیں۔۔ ۔ لیکن ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ سخن دان موصوف کا کلام ادب برائے زندگی بھی لاریب ہے۔

کسی بھی تنقیدی تصنیف کے انضباط کا تعین کرنے کے لیے اس کے مندرجات کو زیر مطالعہ لانا ایک ناگزیر امر ہے۔ اس بات کا جائزہ لینا بھی بہت ضروری ہے کہ اس کے عنوانات کی ترتیب و تدوین میں فطری طریقہ ہائے کار مستعمل ہیں یا نہیں۔ شبیر ناقدؔ اپنی اس کتاب میں تنقید کے اس زریں اصول کو اگر مد نظر رکھتے ہیں وہ ایک ایسے نقاد ہیں۔ جو فن کو فنکار سے جدا نہیں سمجھتے اس لیے ابو البیان ظہور احمد فاتحؔ کا کیفِ غزل میں سوانحی و فنی کوائف کو اساسی حیثیت حاصل ہے تاکہ قاری، محقق اور نقاد ان کے ممدوح کو اس کے سوانحی حالات کے تناظر میں مشاہدہ و مطالعہ اور محاکمہ کر سکے اور اس کے لیے استخراجی نتائج کا حصول سہل تر ہو جائے وہ تنقید کی ارتقائی روایت کو بخوبی سمجھتے ہیں۔

پروفیسر ظہور احمد فاتحؔ کی شاعری کے حوالے سے ان کے لکھے ہوئے تنقیدی شذرات کے عنوانات کا اگر تحقیقی و تنقیدی مطالعہ کیا جائے تو اس میں قند شعر کی مکمل روایت سمٹتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ وہ شعر و سخن کی جمالیاتی اقدار کے بھی معترف ہیں۔ اس حوالے سے ان کا اولین شذرہ ’’ابو البیان ظہور احمد فاتحؔ جمالیاتی احساسات کا شاعر‘‘ قابلِ ذکر ہے۔ علاوہ ازیں بقیہ مضامین میں ایک موضوعاتی اور تنقیدی تنوع کارفرما ہے۔ ان کے نزدیک شاعری کے فطری خواص بھی خصوصیت کے حامل ہیں۔ اور وہ شاعری کا مطالعہ فلسفیانہ، حسیاتی اور نفسیاتی سطح پر کرنے کے قائل ہیں۔ ان کے ہاں داخلی اور خارجی حوالوں سے افراط و تفریط کا معاملہ نہیں ہے بلکہ ایک حسنِ اعتدال ہے جو بدرجۂ کمال ہے ان کا مضمون ’’شاعر عرفان و آگہی‘‘ اس حوالے کی ایک عمدہ مثال ہے۔

کتاب کے مندرجات کا بنظر غائر مطالعہ اس حقیقت کو آشکار کرتا ہے کہ انہوں نے ابو البیان ظہور احمد فاتحؔ کے نمایاں فکری و فنی نقوش کو قرطاس پر مرتسم کر دیا ہے۔ ادب کے ایک ادنی طالب علم ہونے کی حیثیت سے اس کتاب میں ہم نے یہ بھی محسوس کیا کہ کچھ ایسے موضوعات بھی ہیں جو دنیائے تنقید میں جزوی طور پر زیرِ بحث لائے گئے ہیں لیکن شذرات کے طور پر ہماری مطالعاتی زندگی کا حصہ نہیں ہیں۔ اس حوالے سے ’’ابو البیان ظہور احمد فاتحؔ سرخیل تعلیات‘‘ اور ’’ابو البیان ظہور احمد فاتحؔ کی فنی دقیقہ سنجیاں‘‘، قابلِ مطالعہ ہیں۔ شبیر ناقدؔ کی تنقیدات میں زندگی اور انسان کو خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ اس حوالے سے وہ جدید حربوں کا سہارا نہیں لیتے بلکہ اپنا ایک مخصوص و معتبر انداز اختیار کرتے ہیں اگر اس بات کو مثال کے پیرائے میں پیش کیا جائے تو ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ ’’ابو البیان ظہور احمد فاتحؔ ایک انسان دوست شاعر‘‘ کے عنوان کو ابو البیان ظہور احمد فاتحؔ ترقی پسند شاعر کے طور پر بھی دے سکتے تھے۔ لیکن انہوں نے ایسا ہر گز نہیں کیا۔

تنقید کے جملہ دبستانوں میں اسلوبیاتی دبستان جدید حیثیت و تناظر کا حامل بھی ہے۔ تنقیدی روایت میں اگرچہ اس کی جزوی استشہادات ملتی ہیں لیکن ازمنہ رفتہ میں اسے باضابطہ تنقیدی دبستان کی حیثیت حاصل نہیں رہی۔ شبیر ناقدؔ اسلوبیاتی تنقید کا عمیق درک رکھتے ہیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے حضرت فاتحؔ کی شاعری کو جو اسلوبیاتی جائزہ پیش کیا ہے وہ قابل ذکر ہے اگر ان کی تصنیفِ ہذا کے اسلوبیاتی پس منظر کے حوالے سے بات کی جائے تو زبان و بیان کا ایک اعلیٰ معیار روح رواں کی حیثیت اختیار کئے ہوئے ہے ان کی لفظیات میں فارسی و عربی کی چاشنی و شیرنی جہاں پائی جاتی ہے وہاں ہندی بھاشا کی سندرتا اور کو ملتا کو واضح طور پر مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔

اس طرح شبیر ناقدؔ ظہور احمد فاتحؔ کی شاعری کا اسلوبیاتی جائزہ کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کچھ ان الفاظ میں کرتے ہیں:

ظہور احمد فاتحؔ الفاظ کے ایسے بازی گر ہیں جن کے حضور لفظ اپنی تمام ہیئتوں سمیت ہاتھ باندھے کھڑے ہیں۔ جو قدرتِ کلام ان کے ہاں پائی جاتی ہے کہیں نہیں دکھائی دتی، رفعتِ خیال اپنی مثال آپ ہے، حسنِ تصور لاثانی ہے، بندش اور تراکیب کا اندراج مرصع اور اچھوتا ہے، تشبیہات و استعارات جگہ جگہ گل افشانی کرتے نظر آتے ہیں، صنائع بدائع کی کوئی کمی نہیں، ابہام و ایہام حسب موقع لطف ساماں نظر آتے ہیں۔

تصریحات بالا شبیر ناقدؔ کی کتابِ مذکورہ کی مفصل روشنی تو نہیں پیش کرتیں لیکن ایک اجمالی تحقیقی و تنقیدی جائزے کو ضرور پیش کرتی ہیں۔ رہوارِ قلم کی باگ کھینچتے ہوئے مذکورہ بالا مواد پر ہی اکتفا کیا جاتا ہے۔ تاکہ طوالت مقالہ کسی بھی قاری و محقق اور ناقدؔ کی طبع نازک پر بارِ گراں ثابت نہ ہو۔

آفتاب مضطرؔ کی نازک خیالی:

اگر دور جدید کے شعری کینوس پر فکری و فنی حوالے سے نظر دوڑائی جائے تو فکر و فن کے لحاظ سے کوئی چند ایسے اہل سخن ہوں گے جو سخن وری کا وسیع ادراک رکھتے ہوں گے باقی تقریباً تمام شعراء و ادباء کے تخیل میں یکسانیت نظر آئے گی۔ ایسے لگتا ہے جسے تخیل نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہی کیونکہ نہ موضوع میں تنوع ہے نہ کوئی ندرت کاری اور نہ کوئی جدت ہے تو نہ کوئی نازک خیالی کے اثرات نظر آتے ہیں مگر عہد حاضر کے وہ چند اہلِ سخن جن کی سخن سازی میں جدت طرازی بھی ہے اور ندرت کاری بھی۔ ان میں سے ایک آفتاب مضطر کا نام بھی نمایاں ہے۔ شبیر ناقدؔ نے عہد حاضر کے معروف شاعر آفتاب مضطرؔ کو نازک خیال کے طور پر پیش کیا ہے ان کا کہنا ہے کہ آفتاب مضطرؔ شعری نزاکتوں کو بخوبی سمجھتے ہیں اور وہ ان کا وسیع و عریض درک رکھتے ہیں۔ ان کے کلام میں تراکیب و فور کے ساتھ ملتی ہیں کیونکہ وہ زبان و بیان پر دسترس رکھتے ہیں۔ جس طرح کلاسیکی شعرائے اردو کو زبان دانی کے حوالے سے استاد تسلیم کیا گیا ٹھیک اسی طرح عصرِ حاضر کے مشہور شاعر آفتاب مضطرؔ نے بھی خدائے سخن کے آگے سر تسلیم خم کر دیا اور اپنی شاعری میں ان کی عظمت کا اعتراف کیا ہے اس حوالے سے ان کا ایک شعر ملاحظہ ہو۔

کٹھن تھا کھولنا اردو کی زلف کا ہر پیج

کھلا ضرور مگر میرؔ کے سخن سے کھلا

اس شعر میں شاعر نے کتنا عمدہ طریقہ سے ترکیب کو باندھا ہے اس طرح زلف کا پیج کھلنا اور وہ بھی میرؔ کے سخن سے کھلنا یہ ایک ندرت کاری کا حامل شعر ہے جس میں حسن دوبالا ہو گیا ہے اس طرح شبیر ناقدؔ آفتاب مضطرؔ کے بارے میں اپنا خیال یوں پیش کرتے ہیں۔

 ’’وہ ادب برائے زندگی کے قائل ہیں اس لیے ان کا سخن مقصدیت آمیز اور بہت سے افادی پہلو خود میں سموئے ہوئے ہے رفعتِ تخیل کی پیوند کاری ان کے کلام کو تاثیر کی بے پناہ دولت سے ہم کنار کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔‘‘

شبیر ناقدؔ کا طرزِ نقد کلاسیکی قواعد و ضوابط کا حامل ہے۔ وہ بڑے منضبط انداز میں اپنی بات بڑھاتے ہیں۔ کسی بھی شاعر کے فکری و فنی معیار کے حوالے سے قبل مجموعی شعری منظر نامے پہ نظر ڈالنا ضروری خیال کرتے ہیں وہ جہاں متقدمین و متوسطین کی شعری و تنقیدی روایت سے آگاہی رکھتے ہیں وہاں معاصر ادب پر بھی نظر رکھے ہوئے ہیں۔ اگر انتقادی حد بندیوں کو ملحوظ خاطر رکھا جائے تو شبیر ناقدؔ کا شمار عملی ناقدین میں ہوتا ہے۔ یعنی شبیر ناقدؔ کا تنقیدی کام عملی تنقید کے زمرے میں آتا ہے۔

اگر نظری حوالے سے بات کی جائے تو وہ کسی ایک نظریے کی طرف واضح جھکاؤ نہیں رکھتے یوں ان کے ہاں افراط و تفریط کا معاملہ نہیں پایا جاتا۔ لیکن یہ بھئی ایک مبینہ حقیقت ہے کہ ان کے ممدوح کے ہاں جو بھی نظریہ پایا جاتا ہے وہ اس کو مفصل پیش کرتے ہیں۔ جس سے یہ اندازہ بآسانی لگایا جا سکتا ہے کہ وہ نظری تنقید کا بھر پور مطالعہ رکھتے ہیں ان کے عملی نقاد ہونے کا ایک تحقیقی جواز یہ بھی ہے کہ وہ بذات خود بنیادی طور پر شاعر ہیں اس لیے وہ شعر کے فکری و فنی لحاظ سے محاسن و معائب کا بخوبی احاطہ کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ کہیں ان کے ہاں علمی و فنی مباحث ملتے ہیں تو کہیں ضائع بدائع کا بیان ملتا ہے وہ زبان و بیان کی جملہ نزاکتوں سے واقف ہیں ان کا ایک وصفِ خاص یہ بھی ہے کہ جس شاعر کی شاعری میں انہیں ادب برائے زندگی کا نظریہ نظر آتا ہے اسے بھر پور انداز میں سراہتے ہیں۔ اس طرح آفتاب مضطر کا ایک شعر جو رومانی حوالے سے ایک نادر نمونہ ہے مندرجہ ذیل ہے۔

بھلانے کی انہیں اس سے زیادہ کیا کریں کوشش

انہیں جب بھولنا چاہیں تو خود کو بھول جاتے ہیں

اس شعر میں شاعر بیان کرتا ہے کہ میں جب بھی اپنے محبوب کو بھلانے کی کوشش کرتا ہوں تو اس کو بھلا نہیں پاتا بلکہ اس کو بھول جانے کی بجائے خود کو بھول جاتا ہوں تو اس سے زیادہ اور کیا کوشش کروں جس کے ذریعے میں اپنے محبوب کو بھلا سکوں لہٰذا اس شعر میں شاعر نے کتنا عمدہ طریقہ سے رومانیت کو شعر میں سمویا ہے۔ بقول کسے:

نہیں آتی جو یاد ان کی، تو برسوں تک نہیں آتی

مگر جب یاد آتے ہیں تو اکثر یاد رہتے ہیں

اسی طرح فکری حوالے سے آفتاب مضطر کا ایک شعر ملاحظہ کیجئے۔

شعر کہنا، شاعری کرنا نہیں مشکل مگر

جس قدر سمجھا گیا ہے اس قدر آساں نہیں

شبیر ناقدؔ فکری حوالے سے آفتاب مضطر کے بارے میں اپنا اظہار خیال یوں کرتے ہوئے نظر آتے ہیں:

ان کے فکری کینوس میں بے پناہ وسعت پائی جاتی ہے اور اپنے موضوع کی وسعتوں کو دفعتاً سمیٹنے کے ہنر سے واقف ہیں شعر کے مختلف پیمانے میں فکر کا بحرِ بیکراں سمو دیتے ہیں۔

شبیر ناقدؔ تنقیدی حوالے سے شاعرِ ممدوح کے موضوعات کا احاطہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں وہ جہاں فنی خوبیوں کو آشکار کرتے ہیں وہاں فکری خصائص کو بھی پیش کرتے ہیں۔

امان اللہ کاظمؔ ایک بالیدہ فکر شاعر:

سخن سازی میں فکر روح رواں کا کردار ادا کرتی ہے۔ بہترین اہل سخن کا وصف خاص یہی ہے کہ ان کے تخیل میں وسعت ہوتی ہے اور جس کا فکری پھیلاؤ زیادہ ہو گا اس کا شعری کینوس اتنا ہی وسیع و عریض ہو گا۔ اس طرح شبیر ناقدؔ امان اللہ کاظمؔ کو ایک بالیدہ فکر شاعر ہونے کی حیثیت سے زیر بحث لائے جس سے امان اللہ کاظمؔ کی فکری وسعتوں کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ چنانچہ امان اللہ کاظمؔ کے ادبی کام کو عیاں کرنے کے لیے شبیر ناقدؔ نے ان کی تصانیف کا ذکر کیا ہے جن کے نام مندرجہ ذیل ہیں۔

       ۱۔ قندیل دل (اردو شعری مجموعہ)

       ۲۔ پیلیں ہنجھ نہ ماوے (سرائیکی شعری مجموعہ)

       ۳۔ کنڑ بُر (سرائیکی اکھاڑ اردو شرح پہلا حصہ)

       ۴۔ پیکرِ جلال و جمال (ناول بحوالہ ٹیپو سلطان)

       ۵۔ فاتحؔ اندلس (ناول بحوالہ طارق بن زیاد)

       ۶۔ ابو سلیمان سیف اللہ (ناول بحوالہ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ)

       ۷۔ بطلِ حریت (ناول بحوالہ سلطان صلاح الدین ایوبی)

       ۸۔ منگولیا کا دجال (ناول بحوالہ چنگیز خان)

       ۹۔ خونخوار بھیڑیا(ناول بحوالہ ہلاکو خان)

       ۱۰۔ کم سن فاتحؔ (ناول بحوالہ محمد بن قاسم)

       ۱۱۔ زیوس کا بیٹا (ناول بحوالہ سکندر اعظم)

       ۱۲۔ شرح بانگ درا (کلام اقبال)

       ۱۳۔ شرح بال جبریل (کلام اقبال)

       ۱۴۔ شرح ضرب کلیم (کلام اقبال)

       ۱۵۔ شرح ارمغان حجاز (کلام اقبال)

       ۱۶۔ خوننابِ خم (شرح دیوان حکیم مومن خان مومنؔ )

       ۱۷۔ ماء الحیات (شرح دیوان خواجہ میر دردؔ )

       ۱۸۔ تلخابۂ شیریں (شرح دیوان ساغرؔ صدیقی)

یہاں شبیر ناقدؔ نے سائنسی تنقید کے لوازمات کو بحسن خوبی نبھایا ہے۔ اگر ان کو عملی نقاد کے ساتھ ساتھ معروضی نقاد کہا جائے تو بے جا نہ نہ ہو گا۔ کیونکہ جب وہ کسی کے کلام کا جائزہ لیتے ہیں تو مطالعہ کرتے وقت کوئی بھی جزو ان کی نظروں سے اوجھل نہیں ہوتا۔ وہ ایک اچھے نقاد کے ساتھ ساتھ ایک اچھے محقق کے فرائض کو بھی نہیں بھولتے کیونکہ یہاں انہوں نے امان اللہ کاظمؔ کی فنی و فکری خوبیوں کا تذکرہ کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے سوانحی کوائف پر بھی طائرانہ نظر ڈالی ہے جس سے شبیر ناقدؔ کی محققانہ صلاحیت کا بھر پور انداز میں اندازہ لگایا جا سکتا ہے اس طرح امان اللہ کاظمؔ کا فکری حوالے سے ایک شعر ملاحظہ ہو۔

جب کے اس نے خود کو بے حجاب کیا

ذرے ذرے کو آفتاب کیا

اس شعر کی تصریح شبیر ناقدؔ اپنے الفاظ میں یوں کرتے ہیں۔

شعرِ مذکور میں تصوف کا فلسفہ ہمہ اوست کارفرما نظر آتا ہے ذرے ذرے میں فطرت کے رنگ ملاحظہ کرنا بھی عرفان و آگہی کی بہترین تمثیل ہے اسی فلسفے کو خواجہ میر درد نے بھی عند البیان خوبصورت انداز میں بیان کیا ہے بقول خواجہ میر دردؔ :

جگ میں آ کر ادھر ادھر دیکھا

تو ہی آیا نظر جدھر دیکھا

شبیر ناقدؔ کسی بھی ادبی شخصیت کے حوالے سے رقم طراز ہونے سے پہلے اسے کلی طور پر زیرِ مطالعہ لاتے ہیں جس کی بدولت انہیں اپنے ممدوح کے فکر و فن کا محاکمہ کرنے میں جہاں آسانی ہوتی ہے وہاں کامیابی بھی ہوتی ہے۔ اگر عصری تنقیدات کا مطالعہ کیا جائے تو عصرِ حاضر کے مضمون نگاروں میں مضمون نگاری کے حوالے سے ہیئت کا فقدان پایا جاتا ہے۔ ان کی نثری نگار شات سے ابتدائیہ، وسطانیہ اور اختتامیہ کا تعین نہیں کیا جا سکتا جب کہ شبیر ناقدؔ کے ہاں ایسا معاملہ ہر گز نہیں ہے۔ ان کے ہاں ایک منضبط ہیئتی عمل کارفرما ہے جسے آپ ابتداء، نفسِ مضمون اور اختتام کا نام بھی دے سکتے ہیں۔

شبیر ناقدؔ کی نثر نگاری میں میں کلاسیکی رچاؤ پایا جاتا ہے اور یہ رچاؤ مختلف جہات کا حامل ہے جنہیں ہیئت، اسلوب اور طرزِ نقد کا نام دیا جا سکتا ہے۔

نظری تنقید کی بجائے ان کا جھکاؤ عملی تنقید یا اطلاقی تنقید کی طرف ہے وہ براہ راست تنقیدی موضوعات کو کم زیر بحث لاتے ہیں بلکہ ادبیات کے پس منظر میں زیادہ قابل ذکر سمجھتے ہیں ان کا کام قاری کو شعور نقد سے آگاہ کرنے کے ساتھ ساتھ ادبیات سے روشناس کرانا بھی ہے۔ اگر ان کے اسلوب کے حوالے سے بات کی جائے تو ان کا اسلوب متروکات اور ثقالت سے ماوراء ہے جس میں غرابت کا عنصر معدوم ہے۔ ان کے جملوں کی نشست و برخاست میں تعقید لفظی کا خاص عمل دخل پایا جاتا ہے۔ ان کا طرز تحریر بہت سی نزاکتوں سے عبارت ہے۔ عام طور پر شاعری میں تنافرِ حرفی کو معیوب سمجھا جاتا ہے لیکن ان کے مکتب فکر میں یہ نثر کا عیب بھی ہے وہ اس کا خصوصی خیال رکھتے ہیں۔

امان اللہ کاظم کی سخن سازی میں بہت سی تخیلاتی جہتیں ملتی ہیں جن میں ایک رومان بھی ہے جس کی بہت سی امثال امان اللہ کاظمؔ کی سخن وری میں موجود ہیں اسی طرح رومانوی انداز کا حامل شعر ملاحظہ ہو۔

مرنے کے بعد میری آنکھیں کھلی رہیں

بس ان کے انتظار کا چسکا نہیں گیا

اس شعر میں محب اپنے محبوب سے مخاطب ہے اور کہتا ہے کہ اے محبوب میرے مرنے کے بعد بھی تیرے انتظار کا لطف رخصت نہیں ہوا۔ لہٰذا تیرے انتظار میں میری آنکھ بند نہیں ہوئی بلکہ کھلی رہی۔ اس طرح شبیر ناقدؔ نے اپنے مفہوم کو مزید واضح کرنے کے لیے ابو البیان ظہور احمد فاتحؔ کا ایک شعر بطور استشہاد رقم کیا ہے جو حسب ذیل ہے۔

آنکھ بند ہو جائے پھر بھی روبرو رہتے ہو تم

جاگتا ہے غم تمہارا پہرے داروں کی طرح

شبیر ناقدؔ کی مضمون نگاری کا وصفِ خاص یہ ہے کہ وہ اپنے موضوع کا بھر پور احاطہ کرتے ہیں۔ امان اللہ کاظمؔ کے کلام میں بہت سی شعری استشہادات کو بروئے کار لا کر انہوں نے اپنی تنقیدی حاشیہ آرائی کو ایک منطقی رنگ دے دیا ہے۔ وہ ایسے ہی بے پرکی اڑانے والے نقاد نہیں ہیں ان کی تنقیدات میں ممدوح اور نقاد ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ ایک اور بات جو ہم نے خاص طور پر مشاہدہ کی ہے وہ یہ ہے کہ وہ اپنے ہر مضمون کے اختتام میں اپنے ممدوح اہل قلم کے حوالے سے ایک منصفانہ رائے ضرور قائم کرتے ہیں جس سے ایک غیر جانبدارانہ تاثر جنم لیتا ہے۔

ڈاکٹر اختر ہاشمی۔۔ ۔ رجائی امکانات کا شاعر:

جدید دور میں اخلاقی قدریں معدوم ہو چکی ہیں اور اخلاص کے جذبات و احساسات ختم ہو چکے ہیں۔ نفسا نفسی کا عالم عروج پر پہنچ چکا ہے جس کی بدولت انسانیت نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہی۔ اس کے نتیجے میں حزن و ملال پروان چڑھا اور معاصر تغیر و تبدل سے ہمارا ادب بھی نہ بچ سکا۔ خاص طور پرسخن سازی بھی ان کے اثرات سے اپنا دامن نہ بچا سکی۔ اس طرح ہمارے شعراء میں مایوسی و نامیدی کی فضا چھائی ہوئی ہے جس میں امید نام کی کوئی چیز نظر نہیں آتی۔ لیکن چند اہل سخن ایسے ہیں جن کی سخن سازی میں امید و رجا کی بھر پور عکاسی ہوتی ہے۔

اردو میں رجائیت کی اصطلاح، انگریزی کی اصطلاح (Optimism)کے ترجمے کے طور پر استعمال کی جاتی ہے۔ رجائیت قنوطیت کی ضد ہے۔ رجائیت کا لفظ رجا سے بنا ہے جس کے معنی ’’امید‘‘ کے ہیں اور اصطلاحی طور پر اس کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ نظم و نثر میں مایوسی و نا امیدی کا منفی رویہ اختیار کرنے کی بجائے امید و رجا کا مثبت رویہ اختیار کرنا، زندگی کے روشن پہلوؤں پر نظر رکھنا، اچھے خیالات پیش کرنا اور برے خیالات سے گریز کرنا اور ہمیشہ آرزو اور امید کا دامن تھامے رکھنا۔

جہان تک شعر و ادب کا تعلق ہے تو اس میں تخلیقات و نگارشات کا روشن پہلو دیکھنا اور پھر مستقبل کے بارے میں پر امید نقطہ نظر رکھنا رجائیت کہلاتا ہے اور جن اہل سخن کے افکار میں رجائیت موجود ہو ان کو رجائیت پسند کہا جاتا ہے اور عہد حاضر کے سخنوروں میں سے ڈاکٹر اختر ہاشمی کا نام اس حوالے سے لائق ستائش ہے جن کی سخن سازی میں رجائی پہلوؤں کی بھر پور عکاسی ہوتی ہے۔ نقاد موصوف شبیر ناقدؔ ڈاکٹر اختر ہاشمی کو ایک رجائی امکانات کا شاعر کے حوالے سے زیر بحث لاتے ہیں اور ان کی سخن سازی میں رجائی خوابوں کی نشاندہی کرتے ہیں: ۔

ان کے ہاں زندگی کرنے کا بسیط عمیق عزم و حوصلہ ملتا ہے ان کے کلام میں آموز گاری کے امکانات بھی وسعت کے ساتھ پائے جاتے ہیں جو قاری کو حیات کے حوالے سے بے پناہ شعور سے ہم آہنگ کرتے ہیں وہ مصائب و آلام کے پر آشوب عہد میں بھی روشنی، زندگی اور مردنی رکھنے کا آدرش دیتے رہیں۔

شبیر ناقدؔ کی مضمون نگاری اور خصوصاً  تمہید نگاری کے اوصاف حمیدہ یہ ہیں کہ یا تو وہ اپنے مضمون کی تمہید میں کسی عصری وسماجی مسئلے کو زیر بحث لاتے ہیں یا کسی فکری و فنی موضوع کو موضوعِ بیان کرتے ہیں ان خوابوں سے ان کے افکار ایک ارتقائی پس منظر کے غماز ہوتے ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ عصری حالات و واقعات اور معاصر ادبیات پر نگاہِ ژرف بھی رکھتے ہیں یہ وہ قواعد و ضوابط زریں ہیں جو کسی بھی نقاد کی تنقیدی بصیرت کو نگاہ استحسان سے نوازتے ہیں۔ امور بالا کی پاسداری شبیر ناقدؔ کے ہاں بتدریج پائی جاتی ہے۔

شبیر ناقدؔ کے مضامین کی تمہیدات میں تنوعات کار فرما ہیں۔ کہیں وہ موضوع سے جڑے ہوئے پس پردہ عوامل کو اپنی تمہید کا حصہ بناتے ہیں جس سے ان کی تمہید میں تحیر کا پہلو نمایاں ہوتا ہے اور ان کی تنقید نگاری کی حسیاتی اور فلسفیانہ سطح بلند ہوتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ کہیں وہ مختصر سے تمہیدی عمل سے گزرنے کے بعد براہ راست اپنے موضوع کو زیر بحث لاتے یں۔ ان کی تمہیدات مختصر، متوسط اور طویل نوعیت کی ہیں۔

ضخامت کا یہ تنوع یکسانیت کی بیزاری سے قاری کو محفوظ و مامون رکھتا ہے۔

وہ اپنے ممدوح کے افکار میں پنہاں مختلف فکری خصوصیات کا احاطہ کرتے ہیں وہ قاری اور قلم کار کے درمیان رابطے کی فضا قائم کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ ان کے ممدوحان کو ان کے تنقیدی کام کے تناظر میں بخوبی سمجھا جا سکتا ہے وہ کسی بھی تخلیق کار کی اس کی تخلیقات کے پس منظر میں اس کی استخراجی اور منطقی تصویر پیش کرتے ہیں۔ یوں قاری کا فہم طالب استفسار نہیں رہتا۔ اسی طرح رجائی حوالے سے ڈاکٹر اختر ہاشمیؔ کا ایک شعر ملاحظہ ہو جس میں رجائیت کی بھر پور انداز میں نمائندگی کی گئی ہے۔

روشنی بن کے مسکرایا تھا

روح میں سب کی جگمگایا تھا

اس شعر میں کتنے عمدہ طریقے سے رجائیت کی عکاسی کی گئی ہے۔ انہوں نے قارئین ادب کو یاسیت سے نکال کر امید و رجا کی طرف لانے کی بھر پور انداز میں سعی کی ہے۔ ان کے افکار کا وصف خاص یہ ہے کہ وہ مسکراہٹوں کے حوالے دیتے ہیں اور رنج و الم، درد و کرب، حزن و یاس اور یاسیت و قنوطیت کی بجائے رجائیت کا سماں پیدا کرتے ہیں۔ اسی طرح ڈاکٹر اختر ہاشمی کا ایک شعر جو رجائی حوالے سے ایک نادر نمونہ ہے مندرجہ ذیل ہے۔

ہے راہوں سے محبت اور سفر سے اپنی یاری ہے

یہی ہے زندگی اپنی یہی دنیا ہماری ہے

اس شعر کی توضیح و تشریح نقاد موصوف شبیر ناقدؔ کچھ یوں کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

زیست کے پر بیچ سفر میں رجا کی بھر پور دولت کے باعث انہیں راہوں سے محبت ہے اور سفر سے دوستی ہے اسی امر سے ہی ان کی زندہ دل کا جواز ملتا ہے اسی انداز سے ہی وہ اپنی زندگی اور دنیا کا تعارف کراتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔

شبیر ناقدؔ بذاتِ خود ادب میں ایک رجائی نقطہ نظر رکھتے ہیں ان کا مکتبِ فکر مثبت افکار کی ترسیل سے عبارت ہے۔ اس لیے وہ رجائیت کے دل سے قدر دان پائے گئے ہیں انہی امور کی چکا چوند ڈاکٹر اختر ہاشمی کے حوالے سے لکھے گئے مضمون میں بھی شامل ہے۔

ارشد عباس ذکیؔ شاعر زیست و الفت:

زیست و الفت دونوں ایک دوسرے کے لے لازم و ملزوم ہیں ان کو الگ نہیں کیا جا سکتا کیونکہ یہ جہاں کے ایسے اساسی تلازمے ہیں جو کائنات کی روحِ واں ہیں اور ان کے معاملات ایک دوسرے کے ساتھ باہم مربوط ہیں۔ جیسے رنج و الم، درد و کرب، یاسیت و قنوطیت، عیش و نشاط اور طنز و مزاح یہ تمام جملہ جذبات واحسات زندگی اور محبت سے جڑے ہوئے ہیں۔ زیست و چاہت دونوں ایک دوسرے کا دامن تھامے ہوئے زندگی کی راہ پر گامزن ہیں۔ اس طرح شبیر ناقدؔ ایک نقاد ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بہترین محقق کے فرائض کو بھی سرانجام دیتے ہیں۔ وہ زیست والفت کے مفہوم کو واضح کرنے کے لیے یوں رقم طراز ہیں۔

کائنات کا سرنامۂ موضوع پریم ہے باقی سب موضوعات اس کے امدادی اور ذیلی عنوانات ہیں۔

شبیر ناقدؔ کے تنقیدی مضامین کے مطالعے اور سیر حاصل غواصی کے بعد یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ وہ نہ صرف شاعر اور نقاد ہیں بلکہ وہ ایک فلسفی بھی ہیں جس کا واضح ثبوت ان کا فلسفیانہ انداز بیان ہے۔ مختلف موضوعات کا حوالے سے ان کے نفسیاتی و حسیاتی آفاق و اعماق وقیع القدر ہیں یہی وجہ ہے کہ ان کا انداز بیان عالمانہ حیثیت کا حامل ہے۔

ان کے فن تنقید کی انہیں خصوصیات کی بدولت قاری ان کے نقدِ فن کے سحر میں مسحور ہو کے رہ جاتا ہے۔ بوریت کا کوئی امکان باقی نہیں رہتا۔ انہیں خصوصیات کا حامل ان کا ایک تنقیدی شذرہ ’’ ارشد عباس ذکیؔ شاعرِ زیست و الفت‘‘ بھی ہے۔ جو ان کی فلسفیانہ سوچ کی غمازی کرتا ہے۔ وہ کسی بھی موضوع کی وسعت کے حوالے سے اتنا دور تک جاتے ہیں کہ کائنات کی وسعتیں سمٹنا شروع ہو جاتی ہیں۔ اور موضوع کا سلسلہ زلفِ یار کی طرح دراز ہو جاتا ہے۔

عصر حاضر کے سخنوروں میں سے چند ایسے سخن گستر ہیں جن کی سخن سازی میں زیست و الفت کے مضامین کو بڑے احسن طریقے سے نبھایا گیا ہے۔ ان ہی چند اہلِ سخن میں سے ارشد عباس ذکیؔ کا نام بھی نمایاں ہے۔ جن کی شاعری میں زندگی اور محبت کے مضامین ملتے ہیں ان کی گفتار ان کے اسلوب کی چاشنی اور بات کرنے کا ڈھنگ ایسا ہے کہ دل کی تاروں کو چھوتے ہوئے آگے گزر جاتا ہے اس طرح ارشد عباس ذکیؔ کے زیست و الفت کے حامل دو اشعار ملاحظہ ہوں جس سے ان کی فکری بصیرت کا اندازہ بحسن خوبی لگایا جا سکتا ہے۔

ہم کسی پر نہیں ہیں بوجھ مگر

لوگ کیوں بے رخی سے ملتے ہیں؟

ان کا مرہم نہیں زمانے میں

زخم جو دوستی سے ملتے ہیں

ان اشعار میں شاعر استفہامیہ لہجہ بروئے کار لاتے ہوئے بیان کرتا ہے کہ جب ہم کسی کے اوپر کوئی بوجھ نہیں ہیں تو پھر اہل دنیا کیوں بے رخی کا رویہ اختیار کئے ہوئے ہے اور زیست میں ہر زخم کا کوئی مداوا ہوتا ہے۔ ہر مصیبت کا کوئی نہ کوئی حل ضرور ہوتا ہے مگر زخمِ دوستی ایک ایسا زخم ہے جس کا کوئی چارہ گر نہیں یہ ایک ایسی تکلیف ہے جس کی کوئی چارہ گری نہیں اور یہ ایک ایسا لازوال اور دائمی دکھ ہے جو ہر قسم کی چارہ گری سے مبرا و بے نیاز ہے۔ اس طرح ارشد عباس ذکیؔ کا ایک شعر جو زیست و الفت کی عمدہ مثال ہے درج ذیل ہے۔

وہ ایک شخص جو اپنا بنا کے بھول گیا

کبھی ملا تو اسے زندگی بنا لیں گے

اس شعر کی توضیح و تصریح شبیر ناقدؔ کچھ یوں کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

عالمِ ہجراں حزن و ملال کی پر آشوب کیفیات سے عبارت ہوتا ہے جہاں عمومی طور پر امید کی رمق دور دور تک بعید از قیاس ہوتی ہے رجا کی شمعیں روشن رکھنا، وصل کے خواب دیکھنا، زندگی سے محبت کی دلیل ہے حیات و الفت کا یہ امتزاج انتہائی پرکشش اور ر وح افزاء ہے۔

شبیر ناقدؔ نے اپنے اس مضمون میں اپنے دیگر مضامین کی طرح موضوعاتی حدود و قیود کا پورا پورا خیال رکھا ہے اس حوالے سے وہ اپنے شاعرِ ممدوح کی وہی شعری استشہادات پیش کرتے ہیں جو ان کے موضوع سے گہرا تعلق رکھتی ہیں اس حوالے سے انہوں نے دور از کار اشعار کو اپنے بیان کا حصہ بنانے کی سعی نا مشکور نہیں کی جس سے ان کے کام کی مقصدیت و منطقیت اور معروضیت کو بخوبی سمجھا جا سکتا ہے یعنی ان کا طرز نقد تنقید کے مکتب زریں کی آئینہ بندی کرتا ہے۔

ارشد عباس ذکیؔ نے غزل گوئی کے ساتھ ساتھ نظم گوئی میں بھی خوب طبع آزمائی کی ہے اور ان کی نظموں میں سادگی سہل ممتنع، منظر نگاری اور جزئیات نویسی پائی جاتی ہے۔ ان کے بیان کا وصف خاص یہ ہے کہ جب وہ کسی چیز کو بیان کرتے ہیں تو اس کا عمدہ مرقع پیش کر دیتے ہیں چنانچہ رومانوی انداز کی حامل نظم ’’محبت‘‘ کا کچھ حصہ ملاحظہ ہو۔

مرے دل میں محبت ہے

مری ہر سوچ پاکیزہ خیالوں سے سنورتی ہے

مرے وجدان میں تم ہو

مری آنکھوں میں جتنے خواب ہیں

وہ سب تمہارے ہیں

مرے ہر ذکر میں تم ہو

اسی طرح ارشد عباس ذکیؔ نے مختلف اصنافِ نظم پر طبع آزمائی کی ہے۔ جس طرح ان کی غزل گوئی میں رومانیت کے صحت مند و توانا حوالے ملتے ہیں اسی طرح ان کی نظموں میں بھی رومان کی کڑیاں مختلف انداز میں مل جاتی ہیں۔ ان کے بیان میں سادگی وسلاست ہے۔ انہوں نے گنجلک اور پیچیدہ الفاظ کو اپنی سخن گوئی میں لانے سے گریز کیا ہے لہٰذا یہی ان کی ابلاغیت کا ایک معتبر حوالہ ہے۔

اس طرح شبیر ناقدؔ کے مذکورہ مضمون کو ملاحظہ کرنے سے یہ جانکاری بخوبی ملتی ہے کہ ناقدؔ موصوف کو اپنے ممدوح کی نظم کے مقابلے میں غزل نے زیادہ متاثر کیا ہے اس لیے اپنے تنقیدی شذرے میں انہوں نے غزلیہ استشہادات پر زیادہ اکتفا کیا ہے اور نظمیاتی حوالے سے صرف ایک نظم کے تناظر میں بات کی ہے دیگر نظموں کا مذکورہ شاید ان کے نزدیک لائق اعتنا ء نہیں ہے۔

شبیر ناقدؔ کی تنقید کا ا ایک خصوصی وصف یہ ہے کہ وہ فکر و فن دونوں تلازمات کو معتبر انداز میں دیکھنے کے خواہاں ہیں یہی وجہ ہے کہ وہ فکر و فن اور نقد و نظر کی تمام تر نفسیات سے آشنا ہیں، ہمارے مذکورہ معروضات شبیر ناقدؔ کی تنقیدات کے حاصلِ مطالعہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔

باقی احمد پوری کا طرفہ اندازِ سخن:

طرفہ انداز سخن سے مراد کلام کا فکر کے حوالے سے نرالا، انوکھا، ندرت آمیز اور عمومی طرز تخیل سے ہٹ کر ہونا ہے۔ جب شاعر کے کلام میں فکری و سعتیں غیر معمولی ہوں گی تو پھر ان کی سخن سازی میں طرفگی کے عنصر کا پیدا ہونا بھی ایک لازمی اور فطری امر ہو گا جس سے جدت طرازی کے مظاہر عیاں ہوتے ہیں۔ معاصر اہل سخن میں ایسے شعراء جن کا انداز فکر طرفگی کا عنصر رکھتا ہے ان معروف سخنوروں میں سے باقیؔ احمد پوری کا نام بھی خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔ اور ناقدؔ موصوف شبیر ناقدؔ باقی احمد پوری کا کلام کو ’’طرفہ انداز سخن‘‘ کے طور پر زیر بحث لاتے ہیں اور ان کے مجموعہ ہائے کلام کے نام بھی درج کئے ہیں جو حسب ذیل ہیں۔

       ۱۔     باقیات

       ۲۔     نقش باقی

       ۳۔     صدر شک غزالاں               ۴۔     اب شام نہیں ڈھلتی

       ۵۔     محبت ہمسفر میری              ۶۔     غزل تم ہو

       ۷۔     اداسی کم نہیں ہوتی              ۸۔     اگر آنکھیں چھلک جائیں

       ۹۔     روانی

۱۰۔    ہمارا کیا ہے؟

اسی طرح شبیر ناقدؔ نے باقی احمد پوری کی مرتبات کی بھی تفصیل درج کی ہے۔

       ۱۔     دھوپ کے شاعر        ۲۔     غزل نامہ

       ۳۔     بین الاقوامی اردو شاعری         ۴۔     غزل آشنائی

       ۵۔     غزل آفرینی                  ۶۔     غزل فہمی

       ۷۔     ہمارے شاعر (حصہ اول و دوم)  ۸۔     جدید غزلیں

شبیر ناقدؔ کے فنِ تنقید میں یہ امر خصوصی طور پر مشاہدہ کیا گیا ہے کہ وہ جس اہل ادب کے حوالے سے بھی خامہ فرسائی کرتے ہیں ادبی حوالے سے اس کے اجتماعی کام کا کسی نہ کسی حد تک احاطہ ضرور کرتے ہیں جس سے کلی تنقید میں بھی مدد مل سکتی ہے اور یوں وہ اپنی ممدوح شخصیت کا اجتماعی ادبی پس منظر بھی پیش کر جاتے ہیں یعنی وہ کسی اہل ادب کو اس کے اجتماعی ادبی کام کے تناظر میں ضرور دیکھتے ہیں۔ یہی معاملہ باقیؔ احمد پوری کے حوالے سے مضمون میں بھی کارفرما ہے۔ اس طرح باقیؔ احمد پوری کا طرفہ انداز کے حوالے سے ایک شعر ملاحظہ ہو۔

ہزاروں لوگ ملتے ہیں جنہیں میں بھول جاتا ہوں

مگر تجھ سے تعلق غائبانہ یاد رہتا ہے

اس شعر کی توضیح و تنقید کے حوالے سے جہاں شبیر ناقدؔ نے باقیؔ احمد پوری کی طرفہ سخن سازی کے حوالے سے عکاسی کی ہے وہاں صنعت ایہام اور معرفت و مجاز کے فکری و فنی تلازمات کی نشاندہی بھی کی ہے۔ اس طرح باقیؔ احمد پوری کا ایک شعر جوان کی طرفہ بیانی کی بھر پور عکاسی کرتا ہے مندرجہ ذیل ہے۔

تنگ آئے ہوئے لوگ یہ کہتے ہیں خدا سے

پھر نوح کا طوفان کسی طوفان میں آوے

اس شعر کی توضیح و تنقید نقاد موصوف شبیر ناقدؔ اپنے الفاظ میں کچھ یوں کرتے ہیں۔

 ’’شعر میں آشوبِ ہستی کی روداد ہے اور زندگی سے بھر پور بیزاری کا اظہار ہے یہ ایک فطری امر ہے کہ جب انسان حالات کی چیرہ دستیوں سے تنگ آ جاتا ہے تو پھر اس کی حیات سے انسیت کم ہو جاتی ہے پھر وہ شہنازِ مرگ سے ہم آغوش ہونا چاہتا ہے۔‘‘

شبیر ناقدؔ کا اندازِ بیاں اختصار و جامعیت کا حامل ہے۔ وہ غیر ضروری تفاصیل سے فطری و شعوری طور پر اجتناب کرتے ہیں۔

ا ان کی توضیحات اس امر کی غماز ہے کہ وہ فنِ تلخیص نگاری میں بھی یہ ید طولیٰ رکھتے ہیں۔ ہمیں یہ کہنے میں کسی نوع کا تامل نہیں ہے کہ وہ دریا کو کوزے میں بند کرنے کا ہنر جانتے ہیں اور یہ کسی بھی بالیدہ فکر نقاد کی امتیازی خصوصیت ہوا کرتی ہے۔

امینؔ اُڈیرائی۔۔ غمِ ذات کا شاعر:

شعری افکارو تخیلات میں سخن ور کے احساسِ ذات کو بنیادی حیثیت حاصل ہے کیونکہ تخلیق کے تمام تر چشمے تخلیق کار کی ذات سے پھوٹتے ہیں۔ وہ تمام رنج و الم، حزن و ملال، درد و کرب، اور سوز و گداز جو اس کی ہستی سے تعلق رکھتے ہیں وہ تمام کے تمام ذات کے زمرے میں آتے ہیں یہی ایک حقیقت مسلمہ ہے کہ ذاتی تناظر کے بغیر کسی بھی اہلِ سخن کو نہیں سمجھا اور پرکھا جا سکتا کیونکہ یہی ذات ہی ہے جو اس کے ہنر کی نقاب کشائی کرتی ہے اس طرح کوئی بھی سخن ور ہو اس کی دنیا مختلف النوع موضوعات سے عبارت ہوتی ہے اور ان موضوعات پر طبع آزمائی کرنا اس کی اپنی صوابدید پر منحصر ہے چاہے تو کسی پر زیادہ خامہ فرسائی کرے اور اگر چاہے تو کم، موضوعات کی تخلیق میں سخن ساز کے سماجی حالات نمایاں کردار ادا کرتے ہیں اور وہ ان کا ترجمان ہوتا ہے ان انواع واقسام کے موضوعات میں سے ایک غمِ ذات کا حوالہ بھی نمایاں ہے جس میں واردات قلبی کو بیان کیا جاتا ہے۔ لہٰذا یہاں شبیر ناقدؔ امینؔ اڈیرائی کو غمِ ذات کے حوالے سے زیر بحث لاتے ہیں اور امینؔ اڈیرائی کا ایک شعر ملاحظہ ہو جس میں غمِ ذات کے عکاسی ہوئی ہے۔

تمام عمر گزاری ہے اک سزا کی طرح

ہمارا جرم بھی ٹھہرا تو مفلسی ٹھہری

اس شعر میں شاعر غمِ ذات کے حوالے سے بات کر رہا ہے کہ ساری زندگی سزا بن کے گزری ہے ہمارا جرم کیا تھا یہی کہ مفلسی و تنگدستی تھی لہٰذا اسی طرز کا حامل نقاد موصوف کا ایک شعر ملاحظہ ہو۔

میرا غریب ہونا میرا قصور ٹھہرا

سوزِ سخن کا باعث میرا شعور ٹھہرا

اگر شبیر ناقدؔ کی تنقیدات کے احساسات کے آئینے میں جھانکا جائے تو ان کے ہاں یہ احساس اجاگر ہوتا ہوا محسوس ہوتا ہے کہ ان کے ہاں تخلیق کار اور نقاد سنگ سنگ چلتے دکھائی دیتے ہیں جس سے نہ صرف ان کے تنقیدی ادراکات کو تقویت ملتی ہے بلکہ بیان میں انضباط و منطقبت کو فروغ ملتا ہے جس کی بدولت ان کے اپنے قاری، محقق اور نقاد پر گرفت مضبوط ہوتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں ان کے ہاں ایک خالص تنقیدی رچاؤ کارفرما نظر آتا ہے۔ ان کی تنقید اطلاقی تنقید کے عمدہ مظاہر پیش کرتی ہے۔ وہ اپنے موضوع کے حوالے سے جہاں جہاں شعر سے مختلف شعری امثال پیش کرتے ہیں وہاں کہیں کہیں مگر حسب موقع اپنے اشعار بھی نظر قارئین کرتے ہیں جس سے یہ مبینہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ وہ ایک سکہ بند نقاد ہونے کے ساتھ ساتھ قادر الکلام شاعر بھی ہیں جن کے ہاں جہاں موضوعاتی آفاق و اعماق ہیں وہاں فنی نوادرات بھی نمایاں ہیں۔ اس طرح آمینؔ اڈیرائی کا ایک شعر جو غمِ ذات کے حوالے سے ایک نادر نمونہ ہے مندرجہ ذیل ہے۔

خود آپ میں گم چاک گریباں لیے پھرتا ہوں

اس دشت میں اپنا یہ تماشا بھی نیا ہے

اس شعر کے بارے میں نقاد موصوف اپنا اظہار خیال یوں پیش کرتے ہیں: ۔

 ’’جب ہر طرف غم و الم کے بادل منڈلا رہے ہوں ہر سو نفسا نفسی کا عالم ہو اور کوئی پرسانِ حال نہ ہو جب اخلاقی اقدار پامال ہو رہی ہوں جب انسانیت منہ ڈھانپے فریاد کناں ہو جب ہر فرد یاس و حزن کی تصویر بنا ہوا ہو، جب احساسِ مروت ناپید ہو جائے، جب دامن ہستی تار تار ہو جائے اور کوئی رفو گر میسر نہ ہو تو پھر شاعر یوں مجبورِ بیاں ہو جاتا ہے اور اسے اپنی ذات طرفہ تماشہ دکھائی دیتی ہے۔‘‘

ایک عمومی تاثر یہ پایا جاتا ہے کہ شعر کی زبان میں یا شاعری میں ابلاغیت زیادہ پائی جاتی ہے مگر جب ہم شبیر ناقدؔ کی شعری تنقید کو بنظر غائر دیکھتے، سمجھتے اور پرکھتے ہیں تو ہمیں اس امر کا اعتراف گرنا پڑتا ہے کہ ان کے شاعر ان ممدوحان کے ہاں ابلاغیت کی اتنی عمدہ مثالیں نہیں ملتیں جتنی شبیر ناقدؔ کے مذکورہ ممدوح شاعر کا مندرجہ بالا شعر اور اس کے حوالے سے شبیر ناقدؔ کی تنقیدی تصریحات سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے اس طرح امینؔ اڈیرائی کا ایک شعر جس میں غم ذات کی بھر پور انداز میں عکاسی کی گئی ہے حسب ذیل ہے۔

روشنی توڑ کر ڈگر میں ہے

تیرگی صرف میرے گھر میں ہے

حیات انسانی جب اداسیوں کا شکار ہو جائے تو پھر انسان احساس محرومی میں مبتلا ہو جاتا ہے جس سے عہد کی چمک دمک اس کی محرومیوں میں مزید اضافہ کر دیتی ہے۔ لہٰذا اس شعر میں بھی کچھ اس طرح کی فضا ملتی ہے کہ شاعر لکھتا ہے کہ ہر سو روشنی ہی روشنی ہے مگر افسوس کہ صرف میرے گھر میں ہی اداسی ہی اداسی چھائی ہوئی ہے اس طرح شبیر ناقدؔ نے اپنے مفہوم کو واضح کرنے کے لیے حمیر راحت کا ایک شعر جو غم ذات کے حوالے سے اپنی مثال آپ ہے درج کیا ہے ملاحظہ ہو۔

کیوں گھور اندھیرا ہے مقدر میں تمہارے؟

بجھتے ہوئے سورج کی کرن پوچھ رہی ہے

شبیر ناقدؔ کو ہم اس لیے جدید نقاد کہتے ہیں کیونکہ ان کے ہاں جدید تنقیدی رویے پائے جاتے ہیں جن کی مختصر و اجمالاً جھلک کچھ یوں ہے اگر آپ کلاسیکی اور نیو کلاسیکی سرمائے پر غور کریں تو مختلف عصبیتی آلائشیں فن تنقید کے دامن کو آلودہ کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔ اگر متقدمین و متوسطین ناقدؔ ین کے تنقیدی کام سے یہ تلخ حقیقت بھی عیاں ہوتی ہے کہ وہ صنفی امتیازات کے جھمیلوں میں الجھے رہے ہیں صرف شاعری کے حوالے سے طبقہ مذکور کو نواز نے میں محو و منہمک رہے۔ شبیر ناقدؔ کی صنفی رواداری کا ایک بین ثبوت یہ بھی ہے کہ انہوں نے قارئین شعر و ادب کو شاعراتِ ارضِ پاک کا تاریخ ساز تنقیدی سلسلہ دیا۔ اگر مضمون ہذا کے حوالے سے بات کی جائے تو حمیرہ راحتؔ کے شعر کو مثال کے طور پر پیش کرنا بھی ان کی صنفی رواداری کی عمدہ مثال ہے جو قبل ازیں ناقدین کے ہاں مفقود ہے اور اس سے شبیر ناقدؔ کی جدید تنقید کا زاویہ ابھر کر سامنے آتا ہے۔

ارشد محمود ارشدؔ کا شعری عمق:

سخن سازی کا میدان بسیط و عریض ہے جو مختلف النوع افکار و تخیلات سے عبارت ہے اس میں جذبات و احساسات کو مختلف اسالیب کی صورت میں زیرِ بحث لایا جاتا ہے۔ اقلیم سخن میں بیان مختلف اقسام کا ہوتا ہے۔ مشکل بھی ہوتا ہے آسان بھی اور آسان تر بھی۔ جو کلام آسان تر ہوتا ہے اس کو سہل ممتنع کہا جاتا ہے یعنی کہ ایسا کلام جس کی قرات کرتے وقت قاری ایسے سمجھے کہ اس جیسا کلام تو میں بھی لکھ سکتا ہوں مگر بہت کاوش کرنے کے باوجود ایک مصرع بھی نہیں لکھ پاتا اس کلام کو سہل ممتنع کا نام دیا جاتا ہے۔ اور مشکل کلام وہ ہے جس میں باریک بینیاں ہوں جن کو سمجھنے میں دشواری پیش آئے تو ایسے کلام کو دقیقہ سنجی کہا جاتا ہے اگر اس میں اعلیٰ قوت تخیل اور وجدانی صلاحیتیں بھی شامل ہوں تو سخن شعری عمق کا حامل ہو جاتا ہے اسی پس منظر میں شبیر ناقدؔ نے ارشد محمود ارشدؔ کی شاعری کے حوالے سے اپنی تنقیدی تصریحات پیش کی ہیں۔ اس طرح ارشد محمود ارشدؔ کے دو اشعار جن میں شعری عمق کے بھر پور انداز میں عکاسی ہوتی ہے درج ذیل ہیں۔

کب تک رہے گا ریشمی زلفوں کے جال میں

اس قید سے نجات کی گرہیں تلاش کر

ارشدؔ تو اپنی زیست کے پا تال میں اتر

اسی اجنبی حیات کی گرہیں تلاش کر

ان اشعار میں شاعر کے شعوری احساس کا واضح اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ محبوب کے ریشمی زلفوں کے جال میں پھنسنے کی بجائے وہ اس قید سے نجات کا خو ستار ہے۔ محب ایسی گرہیں تلاش کرنا چاہتا ہے جس سے وہ زلفوں کی قید سے بچ جائے۔ شعر ثانی میں شاعر لکھتا ہے کہ اپنی زندگی کی گہرائی میں اتر کر دیکھ اور اس اجنبی سی حیات کی گرہوں کو تلاش کر تمہیں اندازہ ہو جائے گا کہ یہ قید کے علاوہ کچھ نہیں لہٰذا اس قید سے نکلنا ہو گا۔ اس طرح شعری عمق کے حوالے سے ارشد محمد ارشدؔ کا ایک شعر ملاحظہ ہو۔

اس لیے بھر بھری مٹی سے مجھ کو پیار ہے

خاک ہوں ہو جاؤں گا اس خاک میں تحلیل میں

اس شعر کے حوالے سے شبیر ناقدؔ اپنے خیالات کا اظہار اپنے الفاظ میں کچھ یوں کرتے ہیں۔

 ’’ارشد ایک دیش بھگت شاعر ہیں بلکہ دیش بھگتی ہونے پر فاخرو نازاں بھی ہیں اس لیے ان کے افکار میں وطن کی محبت اور بوباس روحی بسی ہے دیس سے ان کا رشتہ مضبوط بنیادوں پر استوار ہے انسانی جنم حیات و مرگ کے دو استعاروں میں مقید ہے وہ ان دونوں تلازمات کے ڈانڈے خاک سے ملاتے ہیں اور یوں خود خاکی ہونے کا جواز بھی پیش کر جاتے ہیں۔‘‘

شبیر ناقدؔ اپنی شعری تنقید میں اپنے ممدوح شاعر کے فکری و فنی حوالے سے کسی ایسے وصفِ خاص کو بیان کرتے ہیں جو قبل ازیں زیر بحث نہ لایا گیا ہو جسے شبیر ناقدؔ کی جدت طرازی کی عینی مثال کہا جا سکتا ہے۔ اس حوالے سے شبیر ناقدؔ کے کسی بھی مضمون کو لیا جا سکتا ہے۔ جس سے یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے۔ اس طرح ارشد محمود ارشدؔ کا ایک شعر جس میں اس کی شعری عمق کا بہتر اندازہ لگایا جا سکتا ہے جو حسب ذیل ہے:

ایک شبِ تاریک تو اتر رہی ہے کس لیے؟

ایک جگنو ہی بہت ہے روشنی کے واسطے

اس شعر میں شاعر رجائیت کے دامن کو تھامے ہوئے ہے اور شعر کے فقرہ اولیٰ میں محو استفسار ہے کہ اے تاریک رات کو کس لیے اتر رہی ہے روشنی کے لیے تو صرف ایک جگنو ہی کافی ہے اس طرح ارشد محمود ارشدؔ کی سخن وری میں رنج و الم، درد و کرب، اور مایوسی و نامیدی کی فضا نہیں بلکہ رجائیت کی فضا نظر آتی ہے۔

 نقاد موصوف شبیر ناقدؔ ارشد محمود ارشدؔ کی سخن سازی کے حوالے سے کچھ اس طرح رقم کرتے ہیں۔

 ’’وہ معاملات اور ابنائے زمانہ کو انتقادی زاویوں سے دیکھنے کے قائل ہیں اس لیے ان کے ہاں ایک غیر جانبداری کا عنصر بھی کار فرما ہے ان کے فکری زاویے وسیع ہیں کیونکہ وہ حقیقت پسندانہ طرز فکر رکھتے ہیں۔‘‘

شبیر ناقدؔ ایک ایسے نقاد ہیں جو اپنے تخلیق کار کے فکر و فن کی روح میں اتر جانے کا ہنر جانتے ہیں اس لیے ان کے ہاں ایک محویت کی فضا پائی جاتی ہے کیونکہ وہ کسی بھی فن پارے میں منہمک ہو جاتے ہیں یوں وہ تخلیقات کا اعلیٰ و ارفع تجزیاتی تجربہ رکھتے ہیں۔

بقا بلوچ نیرنگیِ افکار کا شاعر:

کسی بھی اہلِ سخن کے اندازِ فکر کی قدر و قیمت کا تعین کرنے کے لیے اس کا تنقیدی مطالعہ اس حوالے سے کیا جائے کہ اس نے اپنی قوت متخیلہ پر اپنے عہد کے رنگ و بو کو کس حد تک اجاگر کرنے کی سعی جمیل کی ہے اور کس حد تک وہ کامیاب ہوا ہے۔ اس طرح یہ بھی دیکھنا ہے کہ اس میں جدت و ندرت اور شعر و ادب میں اس کو کوئی منفرد مقام حاصل ہے یا نہیں۔ ارض پاک میں اعلیٰ ادب تخلیق ہر رہا ہے جس میں ادب کی تمام اصناف پر طبع آزمائی کی جا رہی ہے اس حوالے سے ادبی کتب اور جرائد و اخبارات اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ عہد بہ عہد نئی نئی تصانیف منصہ شہود پر آ رہی ہیں۔ عصر حاضر کے معتبر شعراء کرام میں بقاؔ بلوچ کا نام بھی سر فہرست ہے اس طرح نیرنگی کی فکر کے حوالے سے ان کے دو اشعار ملاحظہ ہوں۔

کئی آسمان ہیں اگر دیکھنے کی خواہش ہو

کئی جہاں ہیں اگر کوئی ڈھونڈنا چاہے

نیا سفر ہے نئے خواب ہیں، نئی پرواز

وہ ہم سے آن ملے جو افق نیا چاہے

ان اشعار سے واضح ہوتا ہے کہ بقاؔ بلوچ کے تخیل میں کتنی وسعت ہے۔ وہ نئے نئے جہاں کی سیر کراتے ہیں ان کا شعری کینوس تفکر و تدبر سے عبارت ہے ان کے ہاں بسیط و عریض موضوعات کی کارفرمائی ہے۔ ان کے تخیل کی چاشنی قاری کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے جس سے پھر وہ نئی دنیا کا متلاشی رہتا ہے اور جس سے امید و رجا کی وسیع و عریض فضا میں محو ہو جاتا ہے اور اس طرح ان کا جو اندازِ فکر ہے اس میں نیا سفر، نئے کواکب، نئی پرواز اور نئے افق کی سیر کراتا ہے جس میں جدت طرازی کے نظائر آشکار ہوتے ہیں اس طرح غمِ ذات کے حوالے سے بقاؔ بلوچ کے دو اشعار درج ذیل ہیں۔

اشک بوئے تو میرے آنگن میں

روز باہر سے آگرے پتھر

جب بھی تعبیر ڈھونڈنے نکلے

خواب پلکوں پہ ہو گئے پتھر

ان اشعار کے تناظر میں شبیر ناقدؔ بقاؔ بلوچ کے حوالے سے یوں تبصرہ کناں ہیں۔

 ’’ان کے سخن میں کربِ ذات کے نقوش شوخ، تیکھے، اور نمایاں ہیں جن میں ان کے احساسات کی شکنیں ہیں محرومیوں کی پر چھائیاں ہیں حسرتوں کی داستان ہے دکھ درد کے حوالے ہیں جو انہوں نے اپنے فکر و فن میں پالے ہیں جو درون ذات کا منظر پیش کرتے ہیں اسلوبیاتی ندرت نے اثر آفرینی اور شیرینی کو فزوں تر کر دیا ہے۔‘‘

شبیر ناقدؔ اپنے مضمون میں بقاؔ بلوچ کا بھر پور سوانحی تعارف پیش کیا ہے جس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ وہ شاعر کو شاعری سے جدا نہیں سمجھتے اس مضمون کا عنوان بقاؔ بلوچ کی شعری اپج کی غالب نمائندگی کو ظاہر کرتا ہے شبیر ناقدؔ ایک ایسے نباضِ فن ہیں کہ وہ کسی بھی شاعر کے موضوعاتی امکانات کا جلد اور بھر پور سراع لگاتے ہیں۔ بقاؔ بلوچ کے حوالے سے ان کے درج کردہ اشعار کہیں بھی موضوعاتی حدود و قیود سے ماوراء نظر نہیں آتے۔ اشعار کے اندراج کی نسبت سے شبیر ناقدؔ نے جہاں اپنے موضوع کی پاسداری کی ہے وہاں شاعر کے زور بیان اور شدت احساس کو بھی مد نظر رکھا ہے۔ اس لیے ان کا تمام تر شعری انتخاب قاری کو متاثر کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ انہوں نے موضوعاتی حوالے سے دور کی کوڑیاں لا کر اپنے ممدوح کے حوالے سے بات نہیں کی یہی وجہ ہے کہ ان کا اندازِ بیان جچا تلا ہے۔ اس طرح کا بقاؔ بلوچ کے دو اشعار جن میں فکری ندرت کی بھر پور عکاسی ہوتی ہے ملاحظہ کیجئے۔

مجھے شعر ایسا گوارا نہیں ہے

جو دست ہنر نے سنوار انہیں ہے

بقاؔ شعر کہنا تو آیا ہے تجھ کو

یہ لفظوں کو تو نے سنوارا نہیں ہے

ان اشعار میں یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ ان کی سخن سازی میں زیست و الفت کی بھر پور ترجمانی ہوتی ہے وہ زبان و بیان کے تقاضوں سے بخوبی واقف ہیں اور وہ اس پر کافی دستگاہ رکھتے ہیں۔ ان کا تخیلاتی کینوس وسعت کا حامل ہے جس کا اندازہ مذکورہ بالا اشعار میں بحسن خوبی لگایا جا سکتا ہے۔

شبیر ناقدؔ شاعری کا بھر پور فنی ادراک رکھتے ہیں اور وہ عروضی نفسیات سے بخوبی واقف ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے بقاؔ بلوچ کی کثرت سے استعمال ہونے والی بحر کا نہ صرف نام ہدیہ قارئین کیا ہے بلکہ اس بحر کا مکمل عروضی منظر قارئین کر دیا ہے۔ ہمیں یہ کہنے میں کوئی باک نہیں ہے کہ وہ علم عروض کی جانکاری میں ید طولیٰ رکھتے ہیں جو ہر نقاد کی تنقیدی ضرورت بھی ہے۔

جاوید رسول جوہرؔ اشرفی۔۔ ۔ ایک زمانہ شناس شاعر:

ایک سخن ور اپنے عہد کا عکاس ہوتا ہے وہ کیفیاتِ عالم کا نمائندہ ہوتا ہے اس میں گہری حساسیت پائی جاتی ہے جو اہلِ سخن حیات و کائنات کے اسرار و رموز کو سمجھنے کے لیے وسیع درک رکھتے ہیں تو وہ اپنے عہد کی قابل قدر ہستی میں شمار ہوتے ہیں ان کے خیالات میں ان کی معاشرت بہتر انداز میں سانس لیتی ہوئی محسوس ہوتی ہے جن شعرائے کرام کے کلام میں عصری شعور ملتا ہے ان کا نام ہمیشہ زندہ و جاوید رہے گا کیونکہ ان کے کلام میں ان کے عہد کی ترجمانی ہوتی ہے اور وہ ادب برائے زندگی کے نظریئے سے سرشار ہوتے ہیں۔ ایک زمانہ شناس سخن ور کا حقیقی مقصد ہی یہی ہے کہ وہ اپنے زمانے کی بھر پور عکاسی کرے۔ اس کی سخن سازی میں اس کے عصر کی وسیع تر غمازی کی گئی ہو اس طرح دور جدید کے عمدہ سخن گستروں میں جوہر کا نام بھی نمایاں ہے جن کے خیالات میں وسعت اور انداز بیان میں روانی پائی جاتی ہے اس طرح نقاد موصوف شبیر ناقدؔ ایک زمانہ شناس شاعر کے حوالے سے زیبِ قرطاس ہیں۔

 ’’عصری آشوب کی عکاسی بھی زمانہ شناسی کا ایک بھر پور اظہار ہے جو تخلیق کار اس طرز اظہار کا حامل ہے وہ نباضِ حیات بھی ہے اور رموز دانِ کائنات بھی ہے زیست کی آشوب زدگیوں کا تذکرہ در حقیقت انسانیت اور انسان دوستی کا ایک بالواسطہ طور پر درس بلیغ ہے۔‘‘

اگر شبیر ناقدؔ کے تنقیدی کام کو بنظر غائر دیکھا جائے تو ان کی تنقید نگاری میں روحِ عصر کو خصوصی حیثیت حاصل ہے ان کے ہاں جہاں اپنے عہد کی بھر پور پرچھائیاں مشاہدہ کی جا سکتی ہیں وہاں عصری مقتضیات کا برملا اظہار بھی ملتا ہے ان کا ایک خاص تنقیدی زاویہ یہ بھی ہے کہ وہ کسی بھی تخلیق کار کو اس کے عہد کے تناظر میں ضرور دیکھتے ہیں اس وصف خاص کے باعث معاصر تنقید میں ان کا اعتبار قائم و دائم ہے۔ اس طرح جاوید رسول جوہرؔ کے دو اشعار ملاحظہ ہوں جن میں زمانے کی بھر پور عکاسی ہوتی ہے۔

کب خوئے بربریت تبدیل ہو رہی ہے

انسانیت کی اب بھی تذلیل ہو رہی ہے

اب بھی وطن میں ہر سو لاشوں کے سلسلے ہیں

بارود کی مسلسل ترسیل ہو رہی ہے

ان اشعار میں سخن ور نے کتنے عمدہ طریقے سے اپنے عہد کی ترجمانی کی ہے۔ سماجی ظلم و ستم کے احساس کو آشکار کرنا بھی عہد شناسی کا بین ثبوت ہے۔ انسان کے حالات واقعات کو درست کرنے کی اصلاح ہی ان کا اصل مقصد ہے کیونکہ ایک شاعر اپنے عہد کا نمائندہ ہوتا ہے اور یہاں بھی جوہرؔ حالات دنیا پر زبردست انداز میں طنز کا نشتر چلا رہے ہیں مگر اس طنز کے پس پردہ ان کا مقصد حقیقی اپنے عہد کی اصلاح کرنا ہے اس طرح جوہرؔ کا ایک شعر جس میں عہد کی ترجمانی بھر پور انداز میں ملتی ہے درج ذیل ہے۔

بے حسی میری غضب ہے نفرتوں کی لہر میں

میں بھی پتھر ہو گیا ہون پتھروں کے شہر میں

شبیر ناقدؔ نے جاوید رسول جوہرؔ کے صرف کلام کے اس حصے کو زیر بحث لایا ہے جو ان کے موضوع سے متعلقہ ہے اس نسبت سے انہوں نے اپنے ممدوح کے فکری و فنی معیارات کو بھی مد نظر رکھا ہے کیونکہ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ اگر کسی سخن ور کے ہاں تمام تر شعری تلازمات ہوں گے تو اس کا نقاد نہ صرف تحسین ذوق کی نمائندگی کر پئاے گا بلکہ تحسین نقد کے لوازمات بھی نظر آئیں گے اس طرح نقاد موجود شبیر ناقدؔ کا اسی مفہوم کا حامل شعر ملاحظہ کیجئے۔

سماج سارا سو گیا ہے بے حسی کو اوڑھ کر

سپرد خاک ہو گیا ہے بے حسی کو اوڑھ کر

نقد شعر کے حوالے سے شبیر ناقدؔ جہاں شعر کے مجموعی منظر نامے کو بھی مد نظر رکھتے ہیں۔ جہاں انہیں موضوع کی مناسبت سے عمدہ مثال نظر آتی ہے اپنے بیان کو وسیع القدر بنانے کے لیے نظر قارئین ضرور کرتے ہیں۔ اس حوالے سے جہاں دیگر شعرائے کرام کے اشعار اپنی نگارشات کا حصہ بناتے ہیں شاذ شاذ اپنے اشعار کو بھی بروئے کار لاتے ہیں اس طرح سے ان کے اندر کا تخلیق کار اور نقاد ساتھ ساتھ چلتے ہیں یوں تنقید، تخلیق کے جلو میں سفر کرتی ہے۔

جسارتؔ خیالی۔۔ ۔ ترقی پسند افکار کا علم بردار:

اگر دنیائے ادب میں ادب برائے زندگی کو مد نظر رکھتے ہوئے دیکھا جائے تو ترقی پسند ہی وہ ادب ہے جو انقلابی تغیر رکھتا ہے جس میں انسانیت کی فلاح ہوتی ہے یہی وہ ادب ہے جس میں انسانوں کے حقوق کا خیال رکھا جاتا ہے اس طرح شذرہ ہذا میں نقاد موصوف جسارتؔ خیالی کو ترقی پسند افکار کا علم بردار کے طور پر زیر بحث لاتے ہیں اور جسارتؔ خیالی کے کلام کی فکری و فنی خوبیوں کو آشکار کرنے کے لیے چند ناقدین کی آراء کو بطور استشہاد درج کیا ہے ان میں سے نامور شاعر و نقاد ڈاکٹر اختر ہاشمی، جاوید رسول جوہرؔ اور مشہور شاعر، نقاد، افسانہ نگار، ناول نگار، مرتب اور صحافی شاعر علی شاعرؔ کا نام بھی نمایاں ہے چنانچہ جسارتؔ خیالی کے حوالے سے معروف شاعر و نقاد ڈاکٹر اختر ہاشمیؔ یوں گویا ہیں۔

جسارتؔ خیالی کے کلام کے بغور مطالعہ کے بعد یہ بات بڑے وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ ان کے کلام میں بلند خیالی، تخیل کی پرواز، ندرت فکر اور خیال کی جدت پائی جاتی ہے ان کو اشعار کی بنت، نئی ردیفوں کے انتخاب، قوافی کے چناؤ، الفاظ و تراکیب کے استعمال اور خیال کو سجا کر پیش کرنے میں ایسی مہارت ہے جیسا کہ احمد فرازؔ کو حاصل تھی اس خوبی نے جسارتؔ خیالی کو ان کے ہم عصروں اور ہم عمروں میں ممتاز و منفرد کر دیا ہے یہ انفرادیت ہی ان کی پہچان ہے۔

شبیر ناقدؔ نے ایک ترقی پسند شاعر کے حوالے سے تنقیدی حاشیہ آرائی کرنے سے قبل اس امر کو ناگزیر خیال کیا ہے کہ ترقی پسند ادب کی مقصدیت و افادیت اجاگر کی جائے۔ شبیر ناقدؔ اپنے ممدوح کو صرف اپنے تنقیدی زاویوں سے دیکھنے کے قائل نہیں ہیں بلکہ ارباب نقد و نظر کے ہاں اپنے ممدوح کی قدرو منزلت کا مطالعہ و مشاہدہ ضرور کرتے ہیں۔ یوں ان کی تنقید ایک اجتماعی تاثر لے کر ابھرنے کا فن جانتی ہے اور وہ کسی بھی نقاد کی رائے کے اس حصے کو پیش کرتے ہیں جس میں صحیح معنوں میں تنقیدی بصیرت پائی جاتی ہے اور جو متعلقہ ممدوح کے فکر و فن کے حوالے سے صحیح معنوں تصویر پیش کرے۔ اگر با الفاظ دیگر بات کی جائے تو وہ دیگر ناقدین آراء کے سلسلے میں انتخاب سے کام لیتے ہیں اور ان کا انتخاب حسنِ انتخاب کا درجہ رکھتا ہے اور یہی ایک عمدہ نقاد کی علامت بھی ہے اس طرح جسارتؔ خیالی کا ایک شعر جس میں عہد کی بھرپور انداز میں عکاسی کی گئی ہے مندرجہ ذیل ہے۔

تجھے کیا علم ہو، بچوں کا کیسے پیٹ پالا ہے؟

غریب شہر نے اپنا تو گردہ بیچ ڈالا ہے

شبیر ناقدؔ کے مطابق جسارتؔ خیالی کی سخن سازی میں اس کے عہد کی نمائندگی ہوتی ہے وہ اپنے ملک سے بے پناہ محبت کرتے ہیں۔ ایک حقیقی تخلیق کار کی اپنے وطن سے محبت کا سب سے بڑا مقصد یہی ہے کہ وہ دھرتی پر بسنے والے تمام انسانوں کے رنج و الم کو اپنا غم سمجھتا ہے اس طرح اس شعر میں وہ اپنی تہذیب و تمدن کے کھوکھلے پن کو ہدفِ تنقید بنا رہے ہیں اور انہوں نے اپنے عصر کی ناہموار یوں کو شعر میں سمونے کی عمدہ کوششیں کی ہے۔ لہٰذا جسارتؔ خیالی کی غزل کے چند اشعار جن میں ترقی پسند افکار کی بہترین انداز میں ترجمانی کی گئی ہے حسب ذیل ہیں۔

نہ آٹا ہے، نہ چینی ہے، نہ ملتا گھی ادھارا ہے

غریب شہر نے ہر پل اذیت میں گزارا ہے

چھپا کر مال بیٹھے ہیں جو غاصب شہر میں تیرے

جھپٹ کر چھین لو ان سے کہ ان پر حق تمہارا ہے

نہ کر ناداں غرور اتنا تو اپنی جاہ و حشمت پر

نہ خسرو ہے نہ قیصر ہے نہ کسریٰ ہے نہ دارا ہے

جسارتؔ خیالی نے ترقی پسند انداز فکر کو کتنا عمدہ طریقے سے نبھایا ہے۔ ان کے کلام میں تنوع و طرفہ موجود ہے اور موسیقیت کی فضا ملتی ہے۔ وہ اپنا حق مانگنے کے قائل نہیں بلکہ چھین لینے کے قائل ہیں یہ ان کا انقلابی رویہ ہے جو ان کی شاعری میں جا بچا محسوس کیا جا سکتا ہے ان کی نظر میں جو حق مانگنے سے نہیں ملتا وہ چھین لیا جائے۔ اس طرح اگر جسارتؔ خیالی کو ترقی پسند افکار کا علم بردار کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کیونکہ ان کے ہاں ترقی پسند افکار کا بحسن خوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اسی طرح نقاد موصوف شبیر ناقدؔ نے جسارت خیالی کی تمام تر خوبصورت ترکیبات جن میں ترقی پسند طرز فکر کی غمازی ہوتی ہے بطور استشہاد درج کی ہیں جو زینت قرطاس ہیں:

 ’’ان کے ہاں خوبصورت ترکیبات کا ایک جہاں آباد ہے جن میں بحر غم، غریب شہر، نظامِ میکدہ، دست حنا، لبِ آتش فشاں، چہرہ خونچکاں، شبِ الم، ورطۂ  ظلمات، گردشِ حالات، دشمنِ جاں، تلاشِ منزل، منزلِ نو، جشنِ سحر، فصلِ گل، شہرِ تمنا، خونِ جگر، بے آسرا و مجبور، نانِ جویں، متاعِ نظر، ، قلب و نظر، آبلہ پائی، عزمِ جادہ، قسامِ ازل، زخمِ ہستی، رخت سفر، لختِ جگر، دیدۂ تر، اہلِ جہاں، عزمِ نو بہ نو، نغمۂ  آزاد، نوعِ بشر، قوتِ بازوئے حیدر، پیغامِ سحر، صفحۂ ہستی، غرقِ غم، زخمِ جگر، بحر تلاطم، عالمِ انسانی، فہمِ قرآنی، بدعتِ فکری، مرکزِ اوہام، زیرِ دام، موجبِ آزار، نرگسِ بیمار، داغِ جبیں، احساسِ تشنگی، دخترِ زر، جدتِ اظہار، رندِ حق، شہرِ سخن، عزمِ بیکراں، جوشِ عمل، سیلِ اشک حصارِ ذات، تسخیرِ جہاں، خاکۂ  زیست، ہوسِ زر اور شرفِ انسانی جیسی نادر النظیر تراکیب شامل ہیں جن سے ان کے لسانی تبحر کا اندازہ ہوتا ہے۔‘‘

نقاد موصوف نے ان کی تراکیب کو بیان کر کے ایک تحقیقی زاویے کو آشکار کیا ہے جس کی بدولت ان کے ممدوح کے زبان و بیان کے معیار کو نہ صرف بخوبی سمجھا جا سکتا ہے بلکہ یہ بھی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ زبان و بیان پر کسی قدر دستگاہ رکھتے ہیں۔ مذکورہ تمام ترکیبات خود میں کائنات فکر سموئے ہوئے ہیں جن کی بدولت ان کے فکری کینوس کو بھی بطریق احسن سمجھا جا سکتا ہے یعنی ان کی ترکیبات میں افکارو تخیلات کی بھر پور جلوہ سامانی موجود ہے۔ ان ترکیبات کی بدولت ان کے ممدوح کے فارسی و عربی لسانیات کا ادراک ممکن ہوتا ہے۔ اور یہ رائے قائم کرنے میں سہولت پیدا ہوتی ہے کہ ان کے ممدوح نے کلاسیکی شعر و ادب اور زبان و بیان سے کس قدر استفادہ کیا۔ ان کی ترکیبات کے باعث ان کی قوت متخیلہ کے کلیدی اسرار و رموز کا سراع لگایا جا سکتا ہے۔

ذوالفقار گادھی کی خارجیت آمیز شاعری:

کائنات شعر بہت بسیط و عریض ہے اور اس میں سخن وری فکری اعتبار سے دو طرح کی ہوتی ہے ان میں ایک داخلیت ہے جس میں رنج و الم، درد و کرب، مایوسی و نامیدی، یاسیت و قنوطیت، سوز و گداز اور واردات قلبی کا بیان ہوتا ہے۔ اگر شاعر کبھی باہر کی بات کرتا ہے تو وہ اس گہرائی و گہرائی سے بیان کرتا ہے۔ کہ اس میں داخلیت جھلکتی ہوئی نظر آتی ہے اس طرح دوسری خارجیت ہے جس میں خارجی عوامل ہوتے ہیں۔ لہٰذا داخلیت کا تعلق دل سے ہے جب کہ خارجیت کا علاقہ عقل ہے بالفاظ دیگر داخلیت دل کی حکمرانی ہوتی ہے جب کہ خارجیت میں خرد کی کارفرمائی ہوتی ہے۔

تمام اہل سخن میں سے ہر سخن گستر کا اپنا ایک الگ زاویہ فکر ہوتا ہے اس طرح کوئی داخلیت پر دسترس رکھتا ہے تو کوئی خارجیت کا علم بردار ہوتا ہے لہٰذا شعرِ ہٰذا میں شبیر ناقدؔ نے ذوالفقار کادھی کو خارجیت آمیز شاعری کے حوالے سے پیش کیا ہے اور ان کے بیان کے مطابق ذوالفقار گادھی کی سخن سازی میں خارجیت کی امثال بکثرت ملتی ہیں۔ ان کا جوا انداز فکر ہے اس پر حزن ویاس کا رنگ نمایاں ہے۔ وہ حیاتِ انسانی کا مشاہد وسعت کے ساتھ کرتے ہیں۔ جہاں ان کو رنگینیاں مفقود نظر آتی ہیں اور بحر ظلمات تلاطم خیز موجیں نظر آتی ہیں لیکن پھر بھی وہ ’’رجا‘‘ کے دامن کو تھامے ہوئے ہیں ان کے ہاں یاسیت و قنوطیت نہیں ملتی بلکہ اس اور امید کی کرن نظر آتی ہے۔ ان کے موضوعات میں وسعت ہے۔

ان کی سخن سازی میں تنوع و تلون کی فضا، مناظر فطرت، عصری رویوں کا ذکر، حقیقت پسندی کے مظاہرے، فکر کی بالیدگی، زندگی کی آموزش، لفظیات میں ہندی بھاشا کی سندرتا اور کو ملتا شبدوں کی کرشمہ کا ری وسیع پیمانے پر موجود ہے۔ اس طرح شبیر ناقدؔ نے ذوالفقار گادھی کی سخن سازی میں خارجیت کے عنصر کو نمایاں اور واضح کرنے کے لیے ان کے چند اشعار بطور استشہاد درج کئے ہیں جو زیبِ قرطاس ہیں۔

تو نے دیکھا ہے اپنے گرد کبھی

آدمی آدمی کو کھاتا ہے

اپنی مرضی چلانے آتے ہو

یا مجھے آزمانے آتے ہو

کاغذی گلابوں میں سادگی نہیں ملتی

موسمی ہواؤں میں تازگی نہیں ملتی

کیوں پاٹ کروں نا گیتا کا

یہ گیتا پاک کویتا ہے

شبیر ناقدؔ کے فن تنقید میں مضمون نگاری کے حوالے سے فنی تجربات بھی پائے جاتے ہیں جنہیں ہیئتی تجربات کا نام دینا زیادہ مناسب ہو گا۔ ہیِئت کے حوالے سے مضمون نگاری کو دو مدارج میں منقسم کیا جا سکتا ہے۔ جنہیں ہم قدیم و جدید سے تعبیر کر سکتے ہیں قدیم ہئیت کلاسیکت کی علمبردار ہے جب کہ جدید جدے دیت کی آئینہ دار ہے۔ شبیر ناقدؔ نے اپنی مضمون نگاری میں زیادہ تر کی کلاسیکی ہئیت کو محبوب و مرغوب سمجھا ہے۔ اس حوالے سے ان کے ہاں فزوں تر امثال ملاحظہ کی جا سکتی ہی لیکن اس کا مطلب یہ بھی ہر گز نہیں ہے کہ وہ جدید طریقہ ہائے کار سے واقف نہیں ہیں بلکہ انہوں نے اس حوالے سے بھی بھر پور شواہد چھوڑے ہیں۔

ذوالفقار گادھی کے حوالے سے شبیر ناقدؔ کا یہ شذرہ جدید ہئیت کا حامل ہے جس سے آپ قدیم و جدید کا فرق ملاحظہ کر سکتے ہیں اور ایک خصوصی امر جو عام طور پر شبیر ناقدؔ کی تنقید نگاری کے حوالے سے زیر بحث لایا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ ان کی تنقیدات میں انحرافات کا رنگ شاذ و نادر ملتا ہے۔ اس حوالے سے ہم واضح کرتے چلیں کہ مذکورہ مضمون کے آخر میں انہوں نے اپنے ممدوح ذوالفقار گادھی کے حوالے سے اپنی انحرافی رائے ثبت کر دی ہے جو کچھ یوں ہے۔

 ’’ابھی انہوں نے جہاں فن کے ہفت آسمان سر کرنے ہیں اگرچہ منزل بہت دور ہے لیکن ان کی شعری صلاحیتیں ان کی قوت متخیلہ کے نئے امکانات کا پتہ دیتی ہے۔‘‘

اگر شبیر ناقدؔ کی اس رائے کو تین حصوں میں منقسم کیا جائے تو اولین حصہ بھر پور انحرافی صورت کا حامل ہے جو اپنے ساتھ دوسرے حصے کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے جب کہ تیسرا حصہ محنت اور ریاضت سے وقف کر دیا جاتا ہے۔ قارئین و محققین اور جمہور ناقدین یہاں سے انحرافات کا بخوبی سراع لگا سکتے ہیں۔

رضیؔ عظیم آبادی کا عارفانہ سخن:

عمومی طور پر معرفت آمیز سخن سے مراد ایسا کلام ہے جو عشق حقیقی سے متصف ہو۔ ایسی سخن سازی جو عقلی بصیرت، دانش مندانہ افکار، حکمت عملی اور معرفت الٰہی سے عبارت ہو عارفانہ کلام کے ذیل میں آتی ہے۔ اس طرح شذرہ ہذا میں بھی شبیر ناقدؔ رضیؔ عظیم آبادی کو عارفانہ کلام کے حوالے سے زیر بحث لائے ہیں۔ نقاد موصوف جتنا تنقیدی بصیرت رکھتے ہیں اتنی ہی محققانہ صلاحیتوں سے بھی مالا مال ہیں۔ انہوں نے رضیؔ عظیم آبادی کے عارفانہ کلام کو پیش کرنے سے پہلے اس کے سوانحی کوائف پر کچھ تبصرہ کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ رضیؔ عظیم آبادی کے والدین کی جائے پیدائش صوبہ بہار بھارت ہے جن کے جد اعلیٰ حضرت سید ابراہیم سپاہ گری کے شعبے سے منسلک تھے۔ ان کے والد ادب شناس اور ادب فہم شخصیت کے مالک تھے جو اردو، فارسی، ہندی اور سنسکرت پر لسانیاتی عبور رکھتے تھے۔ عام طور پر وہ اپنے بیٹے کو شیخ سعدی کی حکایتیں اور کبیرداسؔ کے دوہے سنایا کرتے تھے۔ اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اپنے بیٹے میں ادب ودیعت کرنے میں ان کا اہم کردار نمایاں ہے۔ اس کے علاوہ مشرقی پاکستان موجودہ بنگلہ دیش کے شہر چاٹگام کے سرسبز و شاداب کھیت، سبزہ زار وادیاں، بلند و بالا کوہسار، چائے، ربڑ کے باغات، ساگوان کے دراز قامت درخت اور پٹ سن کی کھیتیاں بھی ان کی سخن سازی کا سبب بنیں۔

بقول شبیر ناقدؔ کہ رضی عظیم آبادی نے اپنی ابتدائی تعلیم چاٹگام سے حاصل کی اور یہ وہی علاقہ ہے جسے ابن بطوطہ نے اپنے سفر نامہ میں جنت الفردوس کہا ہے اور 1968ء میں میٹرک کا امتحان پاس کیا اور ایف۔ اے کی ڈگری بھی یہیں سے حاصل کی۔ مشرقی پاکستان میں حالات نامساعد ہونے کی وجہ سے 1971ء میں ہجرت کر کے پاکستان کراچی سکونت پذیر ہوئے۔

1974ء؁ میں علامہ اقبال کالج ڈرگ میں بی۔ اے کی ڈگری کے بعد میں نیشنل موٹر لمیٹڈ کراچی میں کچھ برس ملازمت کرنے کے بعد 1987ء میں ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی۔ اس طرح عصر حاضر کے شعراء میں سے جن کے کلام میں عارفانہ بصیرت ملتی ہے۔ ان میں رضیؔ عظیم آبادی کا نام بھی نمایاں ہے۔ ان کے عارفانہ سخن کو نمایاں کرنے کے لیے شبیر ناقدؔ نے ان کے دو اشعار بطور مثال پیش کیے ہیں جن میں عارفانہ کلام کی بھر پور انداز میں عکاسی ہوتی ہے حسب ذیل ہیں۔

اپنے لب پر سوال رکھتا ہوں

کیا میں روزی حلال رکھتا ہوں؟

آئینے پاتے ہیں جلا مجھ سے

میں یہ کس کا جمال رکھتا ہوں

شبیر ناقدؔ بحیثیت نقاد فن تحقیقی و تنقید کو لازم و ملزوم خیال کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ان کی تنقید نگاری میں یہ دونوں تلازمات پہلو بہ پہلو چلتے ہیں یوں وہ اپنے ناقدانہ موقف کو بہتر انداز میں باور کرانے کی سعی جمیل کرتے ہیں۔ اسی خصوصیت کی بنا ء پر ان کی تنقید نگاری فزوں تر انضباط کی حامل ہے۔ تحقیقی آفاق و اعماق میں جھانکنا ان کی فطرت میں شامل ہے یوں وہ جزئیات نگاری کے عمدہ قرینے نبھا جاتے ہیں اور قاری کی سطح ذہن پر بھر پور انداز مرتب کرتے ہیں ایک پختہ کار نقاد کی طرح وہ اپنے منصب کی تمام تر ذمہ داریوں کا مکمل ادراک رکھتے ہیں اور اپنے فکری و فنی مباحث کو دفعتاًسمیٹھنے کے ہنر سے آشنا ہیں۔ مضمون مذکور میں تمہیدی انداز میں عارفانہ سخن کی مختصر و جامع اصطلاحی تعریف پیش کی ہے۔ وہ موضوعات کے حوالے سے مروجہ و مستعملہ توضیحات پر اکتفا نہیں کرتے بلکہ اپنی فہم و فراست، ذکاوت و دانش اور تحقیقی و تنقیدی بصیرت کو بروئے کار لاتے ہیں۔ انہیں وجوہات کی بناء پر ان کے ہاں غلط العام معاملات و مباحث اور افکارو نظریات معدوم ہیں۔ فکری حوالوں سے وہ روایتی روش پر قناعت نہیں کرتے بلک جدید زاویہ ہائے فکر آشکار کرتے ہیں اس لیے انہیں معاصر ناقدین میں ممتاز و منفرد مقام حاصل ہے۔ اس طرح رضیؔ عظیم آبادی کے عارفانہ کلام کے حوالے سے دو اشعار ملاحظہ ہوں۔

نظروں میں وقت کی وہی ٹھہرے ہیں محترم

جو دوسروں کے خواب پریشاں سمیٹ لائے

جچتی نہیں ہیں اس کو سمندر کی وسعتیں

وہ ناخدا جو کشتی میں طوفاں سمیٹ لائے

نقاد مذکور کا کہنا ہے کہ رضیؔ عظیم آبادی کی شاعری میں ضابطۂ اخلاق کی بھر پور انداز میں تعلیم ملتی ہے۔ ان کی سخن سازی میں ان کے جذبات و احساسات، تخیلات اور تفکرات و تدبرات فزوں میں فزوں تر ہوتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں ان کے افکار میں بے پناہ وسعت ہے اس طرح رضیؔ عظیم آبادی کا ایک شعر جس میں عارفانہ سخن کی اچھے انداز میں نمائندگی ہوتی ہے درج ذیل ہے:

رخ موڑتا رہا ہوں بگولوں کا عمر بھر

طوفان بھی میری راہ میں حائل نہیں رہا

شبیر ناقدؔ ایک ایسے نقاد ہیں جو معروضی نقطۂ نگاہ رکھتے ہیں اور وہ اس چیز سے بخوبی آگاہ ہیں کہ انتخاب شعر کے فن سے نبرد آزما کیسے ہونا ہے اور ان کا وصف خاص کہ موقع محل کی مناسبت سے شعر کو زیر بحث لانا ہے وہ اپنے آپ کو صرف اپنے ممدوح تک محدود نہیں رکھتے بلکہ اپنی بات کو وثوق کے ساتھ بیان کرنے کے لیے دیگر شعراء کے کلام کو بھی یہ موقع رقم کرتے ہیں بقول کسے:

طوفان کر رہا تھا مرے عزم کا طواف

دنیا سمجھتی رہی تھی کہ کشتی بھنور میں ہے

محولہ بالا تجزیات سے یہ نہ صرف رضیؔ عظیم آبادی کا عارفانہ فکری کینوس بلند ہوتا ہے بلکہ نقاد و منقود ہر ایک کے فلسفیانہ اور نفسیاتی وحسیاتی ادراکات بھی معتبر ہوئے ہیں۔

زاہدؔ علی سید کا خیال آفرین بیان:

شاعری مختلف طبائع کی پیداوار اور ترجمان ہوتی ہے مگر تجسس و جستجو دو ایسے تلازمات ہیں جو دعوت غور و فکر دیتے ہیں جن سے مختلف تخیلات کو پذیرائی ملتی ہے۔ اصل اسی حقیقت کے پس پردہ سخن ور کی خیال آفرینی کا فن کام کر رہا ہوتا ہے جسے بسیط حسیاتی و نفسیاتی اور فلسفیانہ ادراکات کا شاخسانہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس طرح شبیر ناقدؔ نے زاہدؔ علی سید کے شعری مجموعے ’’چراغ فکر‘‘ مطبوعہ جنوری ۲۰۱۲؁ء کی منتخب غزلیات کے منتخب اشعار پیش کر کے ان کے فکری کینوس میں مضامین آفرینی کے جو جواہر بکثرت ملتے ہیں۔ ان کو واضح کرنے کی سعی جمیل کی ہے۔ نقاد موصوف کا کہنا ہے کہ ان کے کلام میں وسیع و عریض ہمت و حوصلہ ہے لیکن اس بسیط حوصلے کے ساتھ ساتھ وہ اپنی بشری خامیوں کا بھی وسیع ادراک رکھتے ہیں جو اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ وہ ایک حقیقت پسند انسان ہیں اور اپنی قوتِ متخیلہ کے ذریعے بنی نوع انسان کے گلزار فہم و فکر کی آبیاری میں ہمہ وقت و ہمہ جہت مصروف و منہمک ہیں وہ اپنے قاری کو اس بات سے بخوبی آگاہ کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ کہ وہ ظلمات کو پسند نہیں کرتے اور قاری کے قلب و خرد کی حسیات کو جھنجھوڑ جھنجھوڑ کر اپنی ابلاغیت کا ثبوت دیتے ہیں اس طرح زاہدؔ علی سید کا ایک شعر جس میں خیال آفرین انداز بیان کی مبینہ دلیل ملتی ہے درج ذیل ہے۔

زاہدؔ بہت ہی سخت ہیں تصوف کی منزلیں

جنت نہیں ملے گی تمنائے خام سے

اس شعر کے حوالے سے شبیر ناقدؔ اپنے خیالات کا اظہار کچھ ان الفاظ میں کرتے ہیں۔

ان کا بیشتر کلام سراپا انتخاب ہے عند البیان وہ ایسی مضمون آفرینی کرتے ہیں کہ پڑھنے والے دنگ رہ جاتے ہیں وہ مسلسل خلوس اور ریاضت پر یقین رکھتے ہیں اور یہی تلقین ان کے کلام میں دکھائی دیتی ہے۔

شبیر ناقدؔ کی مضمون نگاری کا ایک وصف خاص یہ ہے کہ وہ نادر اور اچھوتے موضوعات پر خیال آرائی کرتے ہیں عام طور پر وہ عمومی معاملات جو اپنے تکراری وصف کی بدولت اپنی اہمیت کھو چکے ہیں ان سے صرف نظر کر جاتے ہیں۔ امرِ ہذا سے ناقدؔ و منقود دونوں کی جدت و ندرت عیاں ہوتی ہے۔ زاہدؔ علی سید کے حوالے سے ان کا مرقومہ شذرہ اسی قبیل کی عمدہ مثال ہے۔ موضوع اور اس کے عین مطابق اشعار کا انتخاب ناقدؔ مذکور کی جودت طبع کا عکاس ہے۔ ’’نقد فن‘‘ کے مندرجات سے یہ امر بخوبی واضح ہوتا ہے کہ شبیر ناقدؔ ہر قسم کے موضوعات پر اظہارِ خیال کی قدرت رکھتے ہیں جو ان کی بسیط تنقیدی بصیرت کی علامت ہے۔ خیال آفرینی کا موضوع اگرچہ تذکرے کی حد تک نیا نہیں ہے لیکن باضابطہ تنقیدی مضمون کی حیثیت سے خصوصیت کا حامل ہے۔ اس طرح زاہد علی سید کے خیال آفرینی کے حوالے سے تین اشعار ملاحظہ ہوں۔

الفت ہے تو اظہار تمنا بھی کیا کر

اے دوست کبھی ذکر ہمارا ابھی کیا کر

کچھ گردش حالات گوارا بھی کیا کر

ہونٹوں پر تبسم کا اجالا بھی کیا کر

کیوں تجھ پر گراں حرف ہنرمند ہے زاہدؔ؟

شاعر ہے تو تنقید گوارا بھی کیا کر

شبیر ناقدؔ کا کہنا ہے کہ زاہدؔ علی سید کی سخن سازی میں صرف سنجیدہ مضامین نہیں بلکہ اس کے کلام میں مسرت اور خوشگوار موضوعات بھی بدستور ملتے ہیں۔ ان کی سخن وری میں رومانیت کی ایک ایسی لہر ہے جو ہمہ وقت روح رواں کی حیثیت رکھتی ہے ان کے ہاں دولت ضبط کا ایک وسیع و عریض احساس پایا جاتا ہے اس طرح نقاد موصوف شبیر ناقدؔ نے زاہدؔ علی سید کی جولانیِ طبع اور خیال آفرینی بیان کو اجاگر کرنے کے لیے چند اشعار نظر قرطاس کئے ہیں جو حسب ذیل ہیں۔

وہ مجھے یہ روگ کیسا ناگہانی دے گیا؟

آگ دل کو دے گیا آنکھوں کو پانی دے گیا

ہیں سوالات آپ کی آنکھیں

میرے آنسو جواب کی صورت

ہر آرزو کے عکس میں ہے آپ کا جمال

دل سے نکالوں آپ کی تصویر کس طرح

اگر زاہدؔ علی سید کے شعری انتخاب جو اس مضمون کا حصہ ہے کا بغور مطالعہ کیا جائے تو یہ اندازہ ہوتا ہے کہ شبیر ناقدؔ موضوعاتی مقتضیات سے عہدہ برآ ہونے کا ہنر جانتے ہیں موضوعاتی حوالے سے وہ کہیں بھی افراط و تفریط کا شکار نہیں ہوتے جس سے ان کے فن تنقید کی بالیدگی اظہر من الشمس ہو جاتی ہے۔ شبیر ناقدؔ کا انداز نقد اس قدر دلکش اور دلآویز ہے کہ وہ اپنے ممدوح کے ساتھ ساتھ خود کو بھی امر کر جاتے ہیں۔

رضوان بابرؔ کی شعری رنگ سامانیاں:

شعری رنگ سامانی سے مراد وہ طرز سخن ہے جس سے شاعری کے متنوع رنگ واضح ہوں۔ شعری بو قلمونیاں ہیں جن کے ذریعے شاعری میں جان پیدا ہوتی ہے جس سخن سنجی میں شعری رنگ سامانیوں کی بھر مار ہو گی وہی سخن سازی بقائے دوام سے ہم آغوش ہو گی۔ اس طرح بقول شبیر ناقدؔ کے کہ عہد حاضر میں جن سخن وروں کا کلام ان خصوصیات سے مالا مال ہے ان میں رضوان بابرؔ کا نام بھی نمایاں ہے جنہوں نے کم عمری میں اتنی پذیرائی حاصل کی ہے ان کا کہنا ہے کہ رضوان بابرؔ کا شعری مجموعہ ’’زمینیں لپیٹ دی جائیں‘‘ ان کی وفات کے بعد اگست ۲۰۱۳ء؁ میں منصہ شہود پر آیا اس کے نصف اول کی غزلیات میں سے منتخب کلام کو شامل مضمون کیا گیا ہے۔ جس سے ان کے والہانہ پن کی بھر پور انداز میں عکاسی ہوتی ہے۔ انہوں نے اپنی سخن گستری میں مختلف رنگوں کے استعارات کو سمویا ہے جن میں سے ستارے، شمع، وصال، بہار، نشانی، لمس، خزاں، اجالا اور ہجر شامل ہیں۔ ان کی شاعری میں موانست و الفت کا جذبہ وافر انداز میں ملتا ہے جس سے واضح طور پر یہ محسوس کیا جا سکتا ہے کہ تا دم آخر وہ پیار کا دم بھرنے کے قائل تھے۔ ان کے کلام میں جو رومان نگاری ہے اس میں بھی داستانِ محبت پروئی ہوئی ہے۔ انہوں نے اپنی قوت متخیلہ کے ذریعے الفت کے جذبات و احساسات کو تقویت دوام بخشی ہے ان کے کلام میں پیار کی خوشبو بڑے والہانہ انداز میں رچی بسی ہوئی ہے اس حوالے سے شبیر ناقدؔ نے رضوان بابرؔ کے دو اشعار زیب قرطاس کئے ہیں جو حسب ذیل ہیں ؛

بچھڑتے وقت وہ بوسہ تمہارے ماتھے کا

وہ تیرا لمس تیری آخری نشانی تھی

خزاں میں بھی مرا سارا بدن گلابی تھا

وہ تیرا لمس تیری آخری نشانی تھی

رضوان بابرؔ کے حوالے سے شبیر ناقدؔ کے اس تنقیدی مضمون میں فکری حوالے سے شاعری کے مختلف رنگوں کو پیش کیا گیا ہے ان مختلف رنگوں کی قوس قزح میں رومان کا رنگ چوکھا اور تیکھا ہے اس موضوع کی بالا دستی کی بدولت ہم اسی موضوع کو سرخیل موضوعات قرار دے سکتے ہیں۔

ان کے اس مضمون کے مطالعے سے ایک تحقیقی، تخلیقی، تنقیدی اور وجدانی تصور اجاگر ہوتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ ناقدؔ موصوف کو منقود مذکور میں وہ اوصاف نظر آ رہے ہیں جو انگریزی شاعر کیٹس کے ہاں پائے جاتے ہیں اس بات کا اگرچہ ان کے مضمون میں کوئی واضح اشارہ انہوں نے اس لیے نہیں دیا کہ رضوان بابرؔ کی شاعری کیٹس کی شاعری سے بہت پیچھے ہے مگر ہمیں شبیر ناقدؔ کے اس مضمون میں درپردہ محولہ بالا تاثرات محسوس ہوتے ہیں۔ قارئین اور محققین و ناقدین اسے راقم کا تحقیقی و تنقیدی اجتہاد بھی قرار دے سکتے ہیں۔ اس طرح رضوان بابرؔ کا ایک اور شعر مذکورہ موضوع کے تناظر میں پیشِ خدمت ہے۔

سرخ پھولوں سے مجھے خون کی بو آتی ہے

ان گلابوں کو ذرا دور ہٹایا جائے

شبیر ناقدؔ ایک منجھے ہوئے نقاد ہیں اور وہ ایک اچھے نقاد ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اچھے شاعر بھی ہیں وہ نباضِ حیات و فن بھی ہیں وہ زندگی کا باریک بینی سے مطالعہ کرتے ہیں اور ان کی نبضوں سے پوری طرح واقف ہیں اس طرح ان کا کہنا ہے کہ رضوان بابرؔ کو زیست کی آشوب زدہ شکل بہت خوفناک نظر آتی ہے۔ وہ زندگی کو اپنی اصلی حالت میں دیکھنے کے خواہش مند ہیں جہاں سرور و کیف کی محفلیں ہوں، خوشیاں اور مسرتیں ہوں، جہاں اداسی اور مایوسی کا امکاں تک نہ ہو، جہاں مسرت و راحت ہو اور امن و سکون میسر ہو، جہاں مسرتیں رو بہ انحطاط نہ ہوں اور رنج و الم کو حاصل رسائی نہ ہو۔ اس طرح ان کے فکری کینوس میں جہاں بے پناہ حزن و ملال ہے وہاں رجائیت بھی بامِ عروج پر دکھائی دیتی ہے ان کی سخن سازی میں داخلیت اور خارجیت ایک دوسرے سے ہم آہنگ نظر آتی ہے جس سے جذبات و احساسات کا ایک نیا جہان آباد ہوتا ہے اس طرح شبیر ناقدؔ رضوان بابرؔ کی سخن سازی کے حوالے سے رقم طراز ہیں: ۔

ان کے سخن میں رنگ سامانی کے بے پناہ شواہد ہویدا، ہیں اور وہ اپنے قاری کو شعورِ حیات سے مرصع دیکھنا چاہتے ہیں۔

اس مضمون میں شبیر ناقدؔ نے رضوان بابرؔ کے شعری تنوع کو بھر پور انداز میں موضوع بیان بنایا ہے شبیر ناقدؔ کے ہاں گہرائی و گہرائی کے وہ فلسفے کارفرما ہیں کہ وہ اکثر اوقات اپنے ممدوح سے پیش رفت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ معاملہ ہذا لائق تحسین اور قابل اعتراض بھی ہے مگر کہیں کہیں ان کا انحرافی رنگ توازن و اعتدال کی فضا قائم کرتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ یوں شبیر ناقدؔ خود کو معتبر و منفرد باور کرانے میں کامیاب و کامران ہو جاتے ہیں۔ اس طریقے سے وہ اپنے قاری، ممدوح اور محقق و نقاد کی ہمدردی بھی حاصل کر لیتے ہیں۔

راشدؔ ترین۔۔ ۔ رومانی جذبات کا شاعر:

 ’’رومانیت‘‘ کا لفظ ’’رومانس‘‘ Romance سے بنا ہے۔ عہد قدیم میں لاطینی خاندان کی بعض بولیوں کو Romanz یا Romaniz یا Romanic کہا جاتا تھا اور ان میں لکھے گئے ادب کو رومانس Romance کہا جاتا تھا۔ شروع میں من گھڑت منظوم اور بعد ازاں نثری قصوں کو رومانس Romance کہا جاتا تھا۔ پھر مافوق الفطرت عناصر، عجیب و غریب واقعات اور عشق و محبت پر مبنی تحریروں کو رومانس Romanceکہا جانے لگا۔ سترھویں صدی عیسوی میں یہ لفظ رومانوی قصوں کی ہیئت اور مواد سے متعلقہ مفہوم میں مستعمل ہونے لگا۔ رومانویت کے حوالے سے مختلف آراء ملتی ہیں جن میں سے چند حسب ذیل ہیں۔

بقول کرمول:

 آزادی پسندی کے رجحانات کو رومانیت کا نام دیا جاتا ہے۔

رومانیت کے حوالے سے ڈیوڈ یشز کچھ یوں تبصرہ کرتے ہیں۔

مسرت، حسن اور جذبات کو رومانیت کی اساس قرار دیا جا سکتا ہے۔

جیکو لورین رومانیت کے طور پر اپنے خیالات کا اظہار کچھ ان الفاظ میں کرتے ہیں۔

رومانی رویہ عقل دشمنی، انانیت اور مصنوعی زندگی کے خلاف فطری جذبات کی وکالت کرتا ہے۔

اس طرح بعضوں نے عشق و محبت سے متعلقہ حالات و واقعات و کیفیات اور اسلوب میں غیر معمول شان و شوکت پر مبنی تحریر کو رومانیت کا نام دیا۔ بعضوں نے کہا کہ کوئی چیز اس وقت رومانی ہوتی ہے جب وہ انوکھی، عجیب و غریب، غیر متوقع اور مثالی یا تخیلی دکھائی دے۔ چنانچہ عصری رویوں میں بھی دنیائے ادب کے ناقدین کے درمیان رومان کا جذبہ باعث اختلاف رہا ہے کسی نے اس کی حمایت کی تو کسی نے اس کی مخالفت کی اور اس حوالے ہر سعی جمیل نا مکمل ہی رہی ہے لہٰذا یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ وہ شعری احساس ہے جو تاریخ سخن سازی میں شاداں و فرحاں رہا اگر سخن وری میں عشق و محبت کا ذکر نہ ہو تو کیف وسرور کی رعنائیاں ناپید ہو جاتی ہیں اور جن اہل سخن کی شاعری میں رومان کا تذکرہ موجود ہے تو ان کو کافی حد تک پذیرائی ملی ہے۔

اس طرح شبیر ناقدؔ راشد ترین کے شعری مجموعے ’’آؤ لوٹ جاتے ہیں‘‘ جو جون 2012ء میں منصہ شہود پر آیا کے طور پر رومانی جذبات کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ راشد ترین کا نام جنوبی پنجاب کی نمایاں ادبی شخصیات میں آتا ہے اور ادبی حلقوں میں وہ نگاہ استحسان سے دیکھے جاتے ہیں اور استاد شعراء میں ان کا شمار ہوتا ہے راشد کے کلام میں عجیب و غریب خیالات کی لہر دوڑتی ہوئی نظر آتی ہے اور ان کا کلام ایک نادر نمونہ ہے۔ ان کی زبان و بیان کے حوالے سے اگر بات کی جائے تو وہ روکھا پھیکا نہیں ہے۔ ان کے جذبات و احساسات میں ایک بالیدگی کا نمو پایا جاتا ہے ان کا اسلوب ان کی سخن سازی میں بھر پور تاثر پیدا کرتا ہے اس طرح رومانی حوالے سے راشد ترین کے دو اشعار ملاحظہ ہوں جن میں رومان کا رنگ بھر پور انداز میں چھلکتا ہوا نظر آتا ہے۔

ایسے نہ اپنی زلف کی زنجیر کر مجھے

میں آسمان کا چاند ہوں تسخیر کر مجھے

ویسے تو اس سے وصل کا امکان تک نہیں

مولا اسی کے ہاتھ کی تقدیر کر مجھے

شبیر ناقدؔ چونکہ ایک ایسے نقاد ہیں جو کلاسیکی رویوں کے ساتھ ساتھ عصری رویوں کا بھی بسیط و عریض ادراک و عرفان رکھتے ہیں اس طرح کسی بھی موضوع کے مطابق امثال کو بطور استشہاد درج کرنا یہ بھی کوئی فنی مہارت سے کم نہیں، وہ اپنے موضوع کی حدود و قیود میں رہتے ہوئے اس بات کا وسیع درک رکھتے ہیں کہ اس کے لیے کون سی مثال زیادہ موزوں رہے گی جس سے زیر بحث موضوع کی بھر پور انداز میں عکاسی ہو۔ اسی طرح شبیر ناقدؔ ’’راشد ترین۔۔ ۔۔ رومانی جذبات کا شاعر‘‘ کے حوالے سے اپنے تنقیدی تاثرات کو کچھ اس انداز میں پیش کرتے ہیں۔

راشد ترین کا کلام رومان کی دولت سے معمور ہے ان کے افکار میں جاذبیت اور اسلوب میں ایک اپنائیت کا احساس رچا بسا ہوا ہے۔ ان کے ہاں غضب کی روانی اور جولانی پائی جاتی ہے ان کے جذبوں میں وہ خلوص اور چاشنی ہے کہ قاری سرسری نہیں گزر پاتا۔

شبیر ناقدؔ راشد ترین کے رومانوی افق کو زیر بحث لانے سے پہلے رومان کے حوالے سے پائے جانے والے مختلف تنقیدی رویوں کو سامنے لاتے ہیں۔ وہ تنقیدی رویے کیا ہیں؟ در اصل وہ رومانوی پس منظر ہے رومانوی ارتقاء ہے اور رومان کے عروج و زوال کی مکمل اور جامع داستان ہے۔ اس سے یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ وہ انتقادی حوالوں سے موضوع کی قدرو قیمت سے آشنا ہیں اور اس راز تک بھی ان کو رسائی حاصل ہے کہ دنیائے تنقید میں اس موضوع کو کتنی پذیرائی ملی ہے اور اس کی مقبولیت کے کیا اسباب و علل ہیں؟ گویا تمام تر تنقیدی رموز علائم ان کے تجزیاتی کینوس کا حصہ ہیں۔

صابر ظفرؔ کے صوفیانہ ادراکات:

ربِ دو جہاں نے جب بنی نوع انسان کو تخلیق فرمایا تو اسے مختلف حسیات و کیفیات ودیعت فرمائیں اور اپنی ہر تخلیق کو مختلف طباع سے نوازا ہر سخن ور کے ہاں ادراکات مختلف نوعیت کے ہوتے ہیں۔ عصر حاضر کے ایسے شعرائے جن کے کلام میں صوفیانہ ادراکات کی بھر پور انداز میں عکاسی ہوتی ہے ان ہی میں سے صابر ظفرؔ کا نام بھی نمایاں ہے۔ نقاد موصوف شبیر ناقدؔ کا کہنا ہے کہ صابر ظفرؔ کا سخن صوفیانہ ادراکات سے منور و مزین اور معطر و معنبر ہے۔ ان کی طویل ترین غزل کا مجموعہ ’’سرِ بازار می رقصم‘‘ مطبوعہ مارچ 2013ء ہے جس سے ان کی عمیق صوفیانہ ادراکات اور سماجی شعور کی غمازی ہوتی ہے۔ ان کے تصوفانہ خیالات اپنے اندر ایک وجد و حال کی کیفیت رکھتے ہیں وہ بزم دنیا کو زاویۂ  نگاہِ عشق سے دیکھنے کی سعیِ جمیل کرتے ہیں اور مظاہرِ فطرت کے بھی بہ خوبی غماز ہیں جن میں زمین وآسمان اور سیار گان بھی شامل ہیں۔ ان کی نگاہ کمال دیکھیں کہ وہ سماج کی لہر ایک ادنی سی چیز کو چشم تصوف سے دیکھتے ہیں جس کی وجہ سے ان کو دینا محو رِقص اور وجد و حال کے عالم میں دکھائی دیتی ہے۔ وہ تصوف کو ہی مقصد زیست گردانتے ہیں انہیں افکار و خیالات کی پاسداری میں ان کی غزل کے تین اشعار ملاحظہ ہوں۔

سرِ بزمِ تحیر رو بروئے یار می رقصم

وفورِ عشق سے ام شب ستارہ وار می رقصم

زمیں ہے اور مثالِ گردشِ سیار می رقصم

مری قیمت وصولی جا رہی ہے مجھ کو نچوا کر

نہیں جب تک بکھرتے میرے تن کے تار می رقصم

شبیر ناقدؔ صابر ظفرؔ کے صوفیانہ ادراکات کے حوالے سے کچھ یوں تبصرہ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

       ان کی قوت متخیلہ کا کلیدی حوالہ رقص ہے جو بیک وقت وجدانی اور جنونی کیفیت کا حامل ہے جس میں عرفان و آگہی بھی ہے اور کیف و سرمستی بھی ہے وہ صوفیانہ نظریہ ہمہ از اوست کے شدت وحدت سے قائل ہیں اس لیے انہیں تمام تخلیقات میں خالقِ حقیقی کی جلوہ سامانی نظر آتی ہے چاہے وہ گل و گلزار ہوں یا خزاں کے آثار ہوں ان کا تعلق اس ذات کبریا سے مضبوط اور مستحکم بنیادوں پر استوار رہتا ہے۔

شبیر ناقدؔ ایک روکھے پھیکے نقاد نہیں بلکہ ان کی تنقیدات میں دل چسپی کا عنصر پایا جاتا ہے جو قاری کی طبیعت پر گراں نہیں گزرتا بلکہ ایک عجیب و غریب کیفیت پیدا ہو جاتی ہے جس سے قرأت کرنے کا ذوق اور بڑھتا جاتا ہے۔ ان کی جولانیِ طبع میں ایک بلاقسم کی روانی پائی جاتی ہے ان کا رہوارِ قلم محوِ گردش ہے جن کا جلد تھم جانا محال ہے۔ شذرہ ہذا میں انہوں نے صابر ظفرؔ کے کلام میں صوفیانہ ادراکات کو نمایاں کرنے کی سعیِ جمیل کی ہے۔ ان کی تنقید نگاری کا وصف خاص یہ ہے کہ جب بھی وہ کسی سخن گستر کے حوالے سے اپنے نظریات قلم بند کرتے ہیں تو سب سے پہلے اوائل میں ان کے سوانحی کوائف کو لازمی زیر بحث لاتے ہیں جس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ وہ اپنے ممدوح کا بہ خوبی علم رکھتے ہیں اور اس کے ہنر پر عمیق نظر رکھتے ہیں اس طرح صابر ظفرؔ کے صوفیانہ تصورات کے حوالے سے ان کی چند اشعار ملاحظہ کیجئے۔

کسی خطے سے ہر گز واسطہ میرا نہیں کوئی

سرِ منبر برنگِ شعلۂ  بیدار می رقصم

پیالے کی طرح اس کا بدن ہے میرے ہاتھوں میں

بہت مخمور می رقصم کہ بوسہ وار می رقصم

دوبارہ زندگی ملنے پہ دیکھو سر خوشی میری

میں اپنے قتل پر تو صورت اغیار می رقصم

سبب جن کی ہے سرشاری انہی کے سامنے رقصاں

مثال بوئے گل، پیش گل و گلزار می رقصم

سردر گاہ نابینا مجاور کی طرح ہوں میں

کہیں ممکن کہ مرشد کا کروں دیدار می رقصم

شبیر ناقدؔ کے مطابق کہ صابر ظفرؔ غزل سے والہانہ محبت رکھتے ہیں جو ان کی بسیط شعری ریاضت کا ثمر ہے۔ وہ اپنی طویل ترین غزل میں زیست کے حقیقی و عملی تصویر تصوف آمیز نقطہ نگاہ سے پیش کرتے ہیں۔ نقاد موصوف کا کہنا ہے کہ صابر ظفرؔ کو ملائیت سے کوئی نسبت نہیں اور نہ ہی دور دراز سے ان کا کوئی تعلق ہے انہوں نے اپنے کلام میں بین السطور تفہیم کے عمل کو سہل سے سہل تر بنانے کے لیے انتہائی عمدگی کے ساتھ شعری تمثیلات بھی سمو دی ہیں وہ تصوف کے قلزم بیکراں اور محیطِ بیکراں کی غواصی میں مصروف و منہمک نظر آتے ہیں وہ قدرتی و فطرتی معجزات کو بھی اپنی سخن سازی کا موضوع بیان بناتے ہیں۔

شبیر ناقدؔ کی تنقیدات میں ان کے تخیل میں افکار کے جاودانی و امکانی پہلو مثل مشعل فروزاں نظر آتے ہیں مذکور مضمون میں جس طویل غزل پر انہوں نے اپنی رائے قلمبند کی ہے تو اس کے ساتھ علمِ عروض کی بحروں میں سے ایک بحر حزج مثمن سالم کا بھی ذکر کیا ہے کہ متذکرہ غزل اسی بحر پر کہی گئی ہے اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ وہ فنِ عروض سے بہ حسن و خوبی آگہی رکھتے ہیں اور اس کا بسیط و عمیق علم رکھتے ہیں وہ اس کی نبضوں سے بخوبی واقف ہیں لہٰذا اگر اس کو نقادِ فن کے ساتھ ساتھ نباضِ فن کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔

ظریفؔ احسن کی روایت پسندانہ شاعری:

روایت ادب کا کلیدی تلازمہ ہے اور اساسِ ادب میں بھی روایت کے کردار کو ایک روح رواں کی حیثیت حاصل ہے روایت کے توسط ہی سے جدے دیت اور مابعد جدے دیت کو عمر حضر درکار ہے فردوس ادب میں جدت ایک نوخیز کلی کی حیثیت رکھتی ہے اس طرح جو کارنامے روایت پسندوں نے سرانجام دیئے جو ہر عصر میں تر و تازہ اور سدابہار رہے ہیں تو جدت پسند طبقہ کے لیے ان کا تصور کرنا بھی کار محال ہے۔ روایت وہ شاخ ثمر بار ہے جو ہر دور میں سرسبز و شاداب رہی ہے مذکورہ مضمون میں نقاد مالوف نے ظریف احسن کی روایت پسندانہ شاعری کے حوالے سے خامہ فرسائی کی ہے اور ان کی سخن سنجی کو روایت پسندانہ طور پر نمایاں کرنے کی سعی جمیل کی ہے۔ شبیر ناقدؔ کے مطابق ظریفؔ احسن 25جولائی 1954ء کو مظفر گڑھ میں پیدا ہوئے نقاد موصوف نے ظریفؔ احسن کے شعری مجموعہ ’’موسم موسم ملتے تھے‘‘ مطبوعہ 2007ء کے ثلث اول اور دوم کی منتخب غزلیات کے منتخب اشعار کو مذکورہ مضمون کے تناظر میں پیش خدمت کئے ہیں۔ جس سے ظریفؔ احسن کے کلام میں روایت پسندانہ سخن سازی کا بھر پور انداز میں مطالعہ کیا جا سکتا ہے اسی طرح ظریفؔ احسن کی ایک غزل کے دو اشعار نذر قارئین ہیں جس سے روایت پسندی کا اندازہ بہ خوبی لگایا جا سکتا ہے۔

اک عمر جن پہ جاں کو نچھاور کئے رہے

ان سے ہمارا حال بھی پوچھا نہیں گیا

کسی طرح کر رہے ہیں بسر آپ زندگی؟

ہم سے تو اپنے دکھ کو چھپایا نہیں گیا

اس طرح شبیر ناقدؔ اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ کلاسیکی اور نو کلاسیکی سخن ور کی یہ روایت رہی ہے کہ وہ اپنے اہل عصر اور محبوب سے شاکی و نالاں رہے ہیں۔ مذکورہ اشعار میں سے شعرِ اول میں بھی شاعر روایت کی پاسداری کرتے ہوئے اپنے محبوب سے شکوہ و شکایت کر رہا ہے اور اہلِ زمانہ کی ستم ظریفی کی داستاں بھی ہے۔ ظریفؔ احسن زندگی کو وقعت نظر سے دیکھنے کی سعیِ جمیل کرتے ہیں اور اس کے مصائب وا آلام و مسائل کا عمیق و عریض نظری سے مشاہدہ کرتے ہیں شبیر ناقدؔ ظریفؔ احسن کی روایت پسندانہ شاعری کے حوالے سے اپنے تنقیدی نظریات کچھ اس انداز میں پیش کرتے ہیں۔

ان کا بیشتر فکری کینوس روایت پسندانہ ہے ہماری روایتی شاعری میں خزن و ملال کے جذبوں کی بے حد وقعت اہمیت ہے ہمارے شاعر موصوف بھی غم کی عظمت و افادیت کے معترف ہیں وہ غم کو زندگی کا لازمی جزو گردانتے ہیں ان کے نزدیک غم و الم کے بغیر تعارف ہستی نامکمل ہے۔

مذکورہ مختصراً مگر اجمالا تبصرہ پر اگر غور کیا جائے تو یہ بات پایۂ  ثبوت کو پہنچتی ہے کہ شبیر ناقدؔ گلزارِ ادب کے کلاسیکی اور نو کلاسیکی ادب اور اثاثۂ  ادب سے بہ خوبی آگہی رکھتے ہیں۔ وہ اساسی روایت کے تلازمات کا علم رکھنے کے ساتھ ساتھ اکثر و بیشتر شعراء کے ہنر سے بھی واقف ہیں۔ شبیر ناقدؔ ایک ایسے نقاد ہیں جو اپنی بات کو قیاس آرائی سے نہیں بلکہ پورے وثوق سے کہتے ہیں۔ ان کے موضوع بیان میں ایک عجیب و غریب روانی پائی جاتی ہے جو قارئینِ ادب کے ذوق کو بڑھانے میں مددگار ثابت ہوتی ہے وہ حیات و کائنات کے اسرار و رموز کا عمیق مشاہدہ کرتے ہیں۔ ان کا فکری کینوس بسیط و عریض ہے اور اپنی ہر بات کو ثبوتوں اور دلائل کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔ اس طرح ظریف احسن کے اسی تناظر میں چند اشعار طالبِ التفات ہیں جن میں روایت پسندی کا بھر پور انداز میں مشاہدہ و معائنہ کیا جا سکتا ہے۔

یہ مجھ میں کون ہے جو بولتا ہے؟

فصیل ذات کے در کھولتا ہے

یہ دل واقف ہے آداب جنوں سے

سنبھل جانے سے پہلے ڈولتا ہے

رد کرے یا قبول اسی کا کام

مجھ کو مطلب، فقط دعا سے ہے

زیاں چار سو ہے کدھر جائیں ہم

ادھر جائیں یا پھر ادھر جائیں ہم

یہی ایک خواہش رہی عمر بھر

بکھرنے سے پہلے سنور جائیں ہم

سخن سنجی ہر عصر میں کتھارسس کی اہمیت کا ایک اہم ذریعہ تسلیم کی جاتی رہی ہے اور ہمیشہ رہے گی۔ سخن سازی وہ ہنر باکمال ہے جس سے عرفان ذات کے باب واہو جاتے ہیں جن کے اسباب و وجوہات کے حوالے سے کوئی یقینی بات نہیں کہی جا سکتی بہرحال یہ قدرت کا صلہ کا گراں قدر عطیہ ہے۔ نقاد ممدوح کے مطابق ظریف احسن نے روایتی موضوعات کو بہ حسن خوبی بیان کیا ہے ان کا پیرائیڈ اظہار بھی روایتی نوعیت کا ہے مگر صاف و شفاف مستند اور رواں دواں ہے، عروضی اعتبار سے انہوں نے مختلف بحور میں طبع آزمائی کی ہے۔ انسانی فطرت کا تقاضا ہے کہ وہ مشیت پر شاکر و قانع رہے۔ حق عبدیت بھی یہی ہے کہ انسان اپنی ضروریات احتیاجات کے سلسلے میں محو استدعا رہے باقی رہی قبولیت یا عدم قبولیت کی بات تو اس کا دارومدار مالک کل کی صوابدید پر منحصر ہے اس طرح شذرہ ہذا میں مشمولہ استشہادات اس بات کی غمازی کرتی ہیں کہ شبیر ناقدؔ بغیر کسی تحقیقی حوالے کے اپنی تنقیدی حاشیہ آرائی نہیں کرتے اور اس کے ساتھ یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ وہ علم عروض کا بھی بہ خوبی علم رکھتے ہیں۔

ڈاکٹر غنیؔ عاصم کا برجستہ اسلوب بیان:

افتاد طبع کی بے تکلفی برمستہ اسلوب بیان کو جنم دیتی ہے جس میں افکار و خیالات اور فہم و فہرست مختصر نوعیت کے ہوتے ہیں جس کے تحت موضوع بیان پیرایۂ اظہار میں فطری نوعیت کا ہو جاتا ہے جو ہر طرح کے تصنع سے مبرا و ماورا ہوتا ہے، دنیائے تخلیق میں اسلوب ہی ہے جس کے تحت کسی بھی تخلیق کار کا معائنہ کیا جا سکتا ہے اور یہ بہت ہی کم تخلیق کاروں کو ودیعت ہوتا ہے جس کے اسباب و وجوہات میں زود رس، فکری میلانی، جوہر وجدان، زود فہم اور جولانیِ طبع شامل ہیں۔ فن سخن سازی میں مندرجہ بالا اوصاف کے حامل شعراء کو شعوری ریاضت کی جاں سوز عرق ریزوں سے نہیں گزرنا پڑتا اور قارئین ادب تک ترسیل تخیل بھی سہل تر ہو جاتی ہے عصر حاضر کے ایسے شعراء جو اسی قبیل سے تعلق رکھتے ہیں ان میں ڈاکٹر غنی عاصم کا نام بھی نمایاں ہے جو کسی تعریف کا محتاج نہیں۔ نقاد موصوف کے مطابق ڈاکٹر غنی عاصم کے اب تک چھ شعری مجموعے منظر عام پر آ چکے ہیں جن کے نام مندرجہ ذیل ہیں۔

۱۔     لبِ بستہ

۲۔     امام شکستگان

۳۔     صبا صبا تیرے ہاتھ

۴۔     آنکھیں نہ کھولنا

۵۔     نکہت باد بہاری

۶۔     پشتِ آئینہ

شبیر ناقدؔ ایک بہترین نقاد ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اچھے محقق بھی ہیں وہ اپنے زور بیان کو بغیر تحقیق کے آگے نہیں بڑھاتے، وہ کسی بھی تخلیقی شاہکار کا معروضی نقطہ نگاہ سے مطالعہ کیے بغیر اپنا فیصلہ صادر نہیں کرتے۔ وہ نگارشات کا عمیق مشاہدہ کرنے کے بعد اپنے تنقیدی تجزیات قلمبند کرتے ہیں اس طرح مذکور مضمون میں شبیر ناقدؔ نے ڈاکٹر غنی عاصم کے برجستہ گفتار روبیاں کو واضح کرنے کے لیے مندرجہ ذیل محققین کی آراء کو شاملِ مضمون کیا ہے جو حسب ذیل ہیں۔

ڈاکٹر محمد ہاشم رقمطراز ہیں:

 ’’پشت آئینہ‘‘ غنی عاصم کی خوبصورت غزلوں پر مشتمل مجموعہ کلام ہے ان کی ہر غزل تصنع سے پاک ہے ان کی سوچ میں سچا اخلاص بلا تکلف کسی بھی بات کو صاف صاف کہہ دینے میں ان کی معاونت کرتا ہے وہ پہیلیاں نہیں بجھواتے نہایت ہی سادگی ہی سادگی اور آسانی سے ہر مشکل بات بیان کر دیتے ہیں۔ ابہام تو ان کی شاعری می ڈھونڈنے سے نہیں ملتا ان کا شعر سنتے ہی دل میں اتر جاتا۔

شعیب جاذب کچھ یوں لکھتے ہیں:

ان کے مجموعہ ہائے کلام میں روایت کا امتزاج تو ہے لیکن ان کا جدید اسلوب ہے جس کی بنیاد پر انہیں روایات کا شاعر نہیں کہا جا سکتا ’’پشت آئینہ‘‘ کی ترکیب اور نام ہی ان کی جدت طرازی کا کھلا ثبوت ہے۔

شبیر ناقدؔ کلاسیکی اور نوکلاسیکی کے علاوہ جدید اور جدے دیت کا علم بھی بخوبی رکھتے ہیں وہ اپنے عصر کے ادب سے بھی بہ حسن خوبی آگاہ ہیں اور اہلِ تخلیق سے نظریں نہیں چراتے بلکہ ان کے علم و ہنر سے آگہی رکھتے ہیں۔ مندرجہ بالا اقتباس اس امر کی دلیل ہیں کہ شبیر ناقدؔ کسی بھی حوالے سے جب اپنی تنقیدی حاشیہ آرائی کرتے ہیں تو پہلے اردگرد کے محققین و ناقدین کی آراء کو شامل مضمون کرنا از بس ضروری خیال کرتے ہیں۔ اس طرح غنی عاصم کے موخر الذکر شعری مجموعہ ’’پشت آئینہ‘‘ مطبوعہ 2013ء کی غزلیات کے منتخب اشعار کو ان کے برجستہ اسلوب بیان کے تناظر میں شامل مضمون کیا ہے اسی حوالے سے غنی عاصم کے چند اشعار نذر قارئین ہیں:

خوشیاں کم ارمان بہت ہیں

جینے کے سامان بہت ہیں

اگر غیر ہوتے شکایت بھی کرتے

ہمیں دکھ دیئے ہیں سدا دوستوں نے

مری ہی ذات کو مجھ پر اجاگر کیوں نہیں کرتا

خدا مجھ کو وہ اک لمحہ میسر کیوں نہیں کرتا

سوچوں گا محبت کے بھی عنوان پہ لیکن

پہلے وہ مرے ساتھ عداوت تو نبھانے

روایات کی ترجمانی کریں

ادھر آؤ باتیں پرانی کریں

شبیر ناقدؔ غنی عاصم کے کلام میں روایتی حوالے سے اپنے تنقیدی نظریات کچھ یوں پیش کرتے ہیں:

غنی عاصم روایات کے شید او شیفتہ ہیں وہ ایک کلاسیکی شعور رکھتے ہیں شعر و ادب میں روایت کی اہمیت و افادیت سے انکار ممکن نہیں ٹی ایس ایلیٹ کہتا ہے کہ اچھے ادب کی بنیاد روایت پر استوار ہوتی ہے۔

مشمولہ استشہادات سے یہ انکشاف ہوتا ہے کہ شبیر ناقدؔ کی کلاسیکی ادب پر گہری گرفت ہے جہاں کہیں مناسب محسوس ہو جہاں وہ دوسرے ناقدین و محققین کی آراء کو بھی ضرور رقم کرتے ہیں۔ شبیر ناقدؔ کی تنقیدات میں جہاں فکری اور اسلوبیاتی برجستگی نمایاں ہے وہاں تجسس کا پہلو بھی کارگر نظر آتا ہے جو طرفگیِ تخیل کا غماز ہے ایک حیرت واستعجاب کا عالم ہے ان کی تنقیدات میں جہاں اظہار برجستگی ہے وہاں اسلوب کی شیرینی بھی نمایاں ہو رہی ہے اور بہت مزہ پیدا کر رہی ہے ان کے اسلوب کا وصف خاص یہ ہے کہ ان کی اسلوب نگاری میں تکرارِ الفاظ معدوم ہے اور نقاد موصوف انسانی نفسیات کا عمیق ادراک رکھتے ہیں۔

فضا اعظمی کی نظم اور فکری وسعت:

نظم بلحاظ موضوع ہو یا بلحاظ ہیئت ہو یا فکری وسعتوں کی حامل ہوتی ہے اگر کسی سخن ور کے وسیع تر امکانات کا مشاہدہ کرنا ہو تو نظم ہی ہے جس کو زیر بحث لانا ہو گا کیونکہ قوت متخیلہ کے تمام تر زاویے نظم ہی میں نکھر کر سامنے آتے ہیں اور مکمل تخلیقی صلاحیتیں کھل کر سامنے آ جاتی ہیں دور جدید کے ایسے شعراء جن کی نظم نگاری میں فکری وسعت اور ندرت کاری نمایاں ہے انہیں میں سے ایک نام فضا اعظمی کا بھی ہے۔ نقاد موصوف کے مطابق اگر چہ یہ امر ناقدان ادب کے ہاں متنازعہ ہے کہ فضا اعظمی نظم کے شاعر ہیں یا غزل کے شاعر ہیں۔ یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ہمارے ممدوح نے غزل گوئی اور نظم نگاری دونوں میں خوب طبع آزمائی کی ہے اور دونو اصناف ادب میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے۔ ان کے کلام کو اگر نظم گوئی یا غزل گوئی کے حوالے پر جانچا جائے تو دونوں لحاظ سے ان کا کلام بین الاقوامی معیار کا حامل ہے اور فکری حوالے سے ان کی سخن گوئی ہمہ گیر اور ہمہ پہلو ہے اس طرح شبیر ناقدؔ فضا اعظمی کی سخنوری کے حوالے سے اپنے تنقیدی تاثرات کچھ یوں پیش کرتے ہوئے نظر آتے ہیں:

فضا اعظمی ایک جہاں دیدہ شخصیت اور شاعر ہیں انہوں نے تہذیب کے عروج و زوال کو بنظرِ غائر دیکھا ہے وہ تاریخ عالم کا عمیق ادراک رکھتے ہیں قومیں ان کے سامنے بنی اور مٹی ہیں یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری میں ایک عالمی تہذیبی شعور ملتا ہے۔

اسی طرح شبیر ناقدؔ نے اپنے موضوع بیان کو تقویت دینے کے لیے عالمی تہذیبی شعور کے حوالے سے فضا اعظمی کی نظم ’’رمز عروج و زوال‘‘ کا ایک اقتباس زینت قرطاس کیا ہے جو طالبِ التفات ہے:

عروج کیا ہے زوال کیا ہے؟

جو کل یقین تھا وہ اب گماں ہے

وہ جام جمشید اب کہاں ہے؟

زوال آدم کی داستاں ہے

صداقتِ افتخار کیا ہے؟

حقیقتِ پائیدار کیا ہے؟

وہ لمحہ بے ثبات جو تھا

وہ لمحۂ  بازیافت جو ہے

وہ صبح صادق وہ صبحِ کاذب

یقینِ محکم بھی مسئلہ ہے

شبیر ناقدؔ اسم با مسمّیٰ ہیں علاوہ ازیں وہ ایک اچھے شاعر بھی ہیں جو جتنا بڑا شاعر ہو گا اس کے اندر اتنا ہی وسیع و عمیق تنقیدی شعور بھی کارفرما ہو گا۔ شبیر ناقدؔ تو ویسے ہی ناقدان ادب میں شمار ہوتے ہیں۔ ان کی تنقیدات میں ان کے تنقیدی شعور کا بحسن خوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے ان کے اندر بسیط و عریض تنقیدی ادراکات کارفرما ہیں۔ وہ کلاسیکی نوکلاسیکی اور جدے دیت کا بہ خوبی علم رکھتے ہیں اور ادبی تاریخ عالم کا بھی عمیق درک رکھتے ہیں۔ وہ شاعری کے فکری و فنی لوازمات کو خوب جانتے ہیں کیونکہ شاعر ایک دنیا کا عکاس ہوتا ہے اور اس نے اپنے عہد کی غمازی کرنی ہوتی ہے اس طرح نقاد موصوف شعری روایت اور اس کے اصولوں سے خوب واقف ہیں۔ ان کی قوتِ متخیلہ بحرِ بیکراں ہے جس کے کنارے بعید از بصارت و بصیرت ہیں ان کا فکری کینوس بے حد وسعتوں کا حامل ہے ان کے تخیلات قاری کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیتے ہیں ان کے افکار میں گہرائی و گیرائی ہے ان کی جولانیِ طبع میں ایک بلاقسم کی روانی پائی جاتی ہے مگر ان کی تنقیدات میں صاف گوئی کا عنصر نمایاں ہے جس میں دل چسپی کا عنصر پایا جاتا ہے۔ اسی طرح فضا اعظمی کے کلام میں خزینۂ تاثرات کی حامل نظم ’’جبر تقدیر‘‘ کا ایک اقتباس نذر قارئین کیا ہے جو حسب ذیل ہے:

روح بے چین ہے غمناک ہے چشمِ شاعر

حافظہ زخم ہے احساس ابلتا ناسور

ہوش تندور ہے اور سیخ پہ ہے مرغِ خیال

شوخیِ فکر ہے آوارۂ  دشتِ لعنت

فہم و ادراک کی بستی جو خزاں دیدہ تھی

دھنس گئی زیر زمیں زلزلہ فہم کے بعد

شبیر ناقدؔ کے بقول کہ فضا اعظمی کے جذبات و احساسات میں بلا کی روانی اور جولانی پائی جاتی ہے۔ انہوں نے مختصر درمیانے اور طویل درجے کی نظموں پر طبع آزمائی کی ہے مگر ان کی جو طویل نظمیں ہیں وہ یک موضوعی حوالے سے اہم ہیں اور ان میں ان کی فکر زیادہ کھل کر سامنے آئی ہے۔ ان کے کلام میں محاکات نگاری اور منظر نگاری بھی کی گئی ہے علاوہ ازیں ان کا کلام تجریدی آرٹ کا بھی بہترین شاہکار نظر آتا ہے ان کا فنی جو ہر غزل گوئی اور نظم نگاری دونوں اعتبار سے کھل کر سامنے آیا ہے۔ انہوں نے عروضی اعتبار سے مفرد و مرکب دونوں بحور میں بھر پور سخن سنجی کی ہے اس طرح شذرہ ہذا میں بنظر غائر دیکھا جائے تو اس بات کا انکشاف ہوتا ہے کہ شبیر ناقدؔ فنِ عروض سے بھی آگہی رکھتے ہیں اور تمام تر عروضی تلازمات کا شعور رکھتے ہیں۔ وہ انتہائی خوش اسلوبی سے بات کرتے ہیں اگر ان کی تنقیدات میں زبان و بیاں کے حوالے سے دیکھا جائے تو ان کی لسانی تبحر علمی بھر پور انداز میں آشکار ہوتی ہے۔ ان کی تمام تر تنقیدات سراپا انتخاب ہیں وہ قاری کی ذہنی نزاکتوں کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اپنی گفتگو کو طرز تحریر میں لاتے ہیں اور قارئین ادب کے ذہین میں اٹھنے والے تمام تر سوالات کا جوابات بھی دیتے جاتے ہیں۔ ان کی تنقیدات عالمی معیار کی ہیں اور ان میں نقاد موصوف کے افکار کی وسعت کی غمازی ہوتی ہے ان کی تنقید نگاری میں فکری و فنی اور لسانی خصائص ان کی فن پر دسترس کے مظہر ہیں۔ لہٰذا تاریخِ شعر و سخن میں جب بھی ناقدینِ ادب کا تذکرہ ہو گا تو نقاد موصوف کا نام بھی تنقید نگاروں کی فہرست میں نمایاں حیثیت سے شامل ہو گا۔

فہیم شناس کاظمی کی دل کش منظومات:

اقلیم نظم بہت وسیع و عریض ہے اس کے کثیر الموضوعات ہیں جن کی وسعتیں ایک بحر بے کراں کی مثیل ہیں۔ میدان نظم کو مختلف النوع رنگوں کے افکار و خیالات سے مقفیٰ و مسجع کرنا، قوت متخیلہ میں معنی آفرینی، مضمون آفرینی اور خیال آفرینی کا فن برجستہ و فطری انداز میں لانا، اپنے اسالیب کو جاذبیت سے لبریز کرنا اور قارئین ادب کو اپنے جذبات و احساسات سے مسحور کرنا یہ مندرجہ بالا تمام خواص نظم نگار کے وہ خصائص ہیں جو اس کے فکر و فن کو دولت دوام سے نوازتے ہیں۔ عام تجربات و مشاہدات کی بات ہے کہ کثیر غزل گو بہت کم ہی نظم نگاری پر طبع آزمائی کر پاتے ہیں جس کے اسباب و وجوہات یہ ہیں کہ غزل گوئی ایجاز و اختصار اور جامعیت کی حامل صنف ہے اور غزل گو بحر کلیات کا شناور ہوتا ہے علاوہ ازیں نظم نگار اس کے برعکس ہے وہ جزئیات نگاری میں ید طولیٰ رکھتا ہے مندرجہ بالا تمام امور کا تعلق غزل گوئی اور نظم نگاری کے صنفی طباع کی تفریق کے باعث ہوتا ہے۔ اس طرح جذبات و احساسات و خیالات کے رچاؤ اور تنوع کی معیت میں دلکش اسلوبیاتی پیرایۂ اظہار میں بھر پور اور والہانہ انداز میں کثیر الموضوعات پر نظم نگاری کرنا فطری ابلاغ کی بین دلیل ہے جو ہر کہ و مہ کو مشیت سے ودیعت نہیں ہوتا اور پھر فطرت کی طرف سے یہ سعادت ہر کسی کو نہیں بلکہ کسی فرخندہ نصیب کو ہی میسر آتی ہے۔

مذکور مضمون میں شبیر ناقدؔ فہیم شناس کاظمی کی دلکش منظومات کے حوالے سے اپنی تنقیدی خیال آرائی پیش کی ہے ان کا کہنا ہے کہ فہیم شناس کی نظم نگاری میں ان کی دلکشی ان کے فکری و فنی دونوں کمالات پر محیط ہے۔ ان کی نظم گوئی کے من حیث المجموع شعبہ جات ان میں زبان و بیان، اسلوب، احساسات، ہیئت اور دیگر فنی لوازمات جزئیات نگاری، محاکات نگاری، منظر نگاری اور مکالمہ نگاری جو ان کی فن نظم کے کلیدی تلازمے ہیں سرا ہے جانے کا استحقاق رکھتے ہیں۔ شبیر ناقدؔ ایک ایسے منجھے ہوئے نقاد ہیں جو کسی بھی ادبی و فنی جمال پارے پر طائرانہ نظر نہیں ڈالتے بلکہ معروضی نقطہ نگاہ کے ساتھ اس کا تجزیہ و مشاہدہ کرتے ہیں اور وہ اپنے ہر شذرہ میں اپنے ممدوح کے سوانحی کوائف پر بھی اختصارانہ بحث کرنا ضروری خیال کرتے ہیں۔ اس طرح شذرہ ہذا میں بھی انہوں نے اپنے ممدوح فہیم شناس کاظمی کے سوانحی کوائف پر طائرانہ نظر ڈالی ہے۔

شبیر ناقدؔ کے مطابق فہیم شناس کاظمی جو ان کا اصل نام ہے اور یہ 11مئی 1956میں نواب شاہ میں سید ناظم حسین شاہ کاظمی کے گھر پیدا ہوئے۔ 1982ء سے ادبی و صحافتی خدمات میں مصروف و منہمک ہیں ان کا اولین شعری مجموعہ ’’سارا جہاں ہے آئینہ‘‘ 1999کو منصہ شہود پر آیا۔ ان کا مجموعہ ثانی ’’خواب سے باہر‘‘ 2009ء میں زیور طباعت سے آراستہ ہوا۔ 2013ء میں ’’راہداری میں گونجتی نظم‘‘ نظمیہ مجموعہ منظر عام پر آیا۔ ’’سندھ کی آواز‘‘ (جی ایم سید کے عدالتی بیان کا ترجمہ) 2002ء میں شائع ہوا۔ اس طرح تالیفی اعتبارسے ان کی پانچ تصانیف چھپ چکی ہیں جن میں ’’تیرے عشق نے مالا مال کیا‘‘ (صابر ظفر کی غزلوں اور گیتوں کا انتخاب مطبوعہ 2004ء)، ’’بوئے گل‘‘ جلد اول، شیخ ایاز 2010ء، ’’حلقہ مری زنجیر کا‘‘، جلد دوم، شیخ ایاز 2010ء، ’’سارتر کے مضامین، 2010ء اور ’’سارتر کے بے مثال افسانے‘‘‘‘، 2012ء شامل ہیں۔ اس طرح شبیر ناقدؔ فہیم شناس کاظمی کی نظمیات کے حوالے سے اپنی تنقیدی خیال آرائی کچھ یوں کرتے ہیں:

شاعر مذکور کی نظمیات میں ایک بھر پور نوعیت کی جولانی اور روانی ہے اور طرز اظہار فطری انداز میں ڈھلا ہوا ہے اور فکری تاثر بھی مسحور کن ہے تسلسل ایسا ہے کہ خیالات ایک دوسرے کے ساتھ باہم مربوط ہیں۔ مجموعی طور پر ان کی نظم کی بندش بہت چست اور عمدہ ہوتی ہے انہوں نے زبردست قسم کی کلائمکس نظمیں بھی کہی ہیں جو شعری ترفع اور تخلیقی پراسراریت کی دولت سے مالا مال ہیں۔

شبیر ناقدؔ فارسی زبان و ادب پر بھی دسترس رکھتے ہیں وہ اپنے شذرات میں جہاں کہیں موزوں خیال کرتے ہیں وہاں فارسی اشعار بھی صفحہ قرطاس پر لاتے ہیں اور اپنے موضوع بیان کو قوی سے قوی تر بنا دیتے ہیں مگر ان کی زبان و بیان اس قدر صاف اور الفاظ اتنا شستہ ہیں کہ قاری کے ذہن پر گراں نہیں گزرتے۔ ان کا انداز بیان اپنے اندر ابلاغیت کی بے پناہ قوت رکھتا ہے۔ نقاد موصوف ایک ایسے نقاد ہیں جو اپنے آپ کو لسانی گورکھ دھندوں اور فلسفیانہ موشگافیوں سے مبرا و ماوراء رکھتے ہیں وہ اپنی تنقیدات میں قارئین ادب کی طبعی نزاکتوں، لطافتوں اور نفاستوں کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہیں۔ نقاد موصوف نے جہاں اپنے ممدوح کی نظم نگاری کے فکری و فنی خصائص قلمبند کیے ہیں وہاں اپنے موضوع بیان کو وثوق دینے کے لیے بطور استشہاد ان کے اشعار بھی رقم کئے ہیں تاکہ بیان میں کسی قسم کی تشنگی کا کوئی پہلو نمایاں نہ ہو۔ اس طرح نقاد موصوف کی تنقیدات میں تنقیدی شعور وفور سے ملتا ہے جس کا بحسن خوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے اس طرح فہیم شناس کاظمی کی مختلف نظمیات کے مختلف منتخب اقتباسات لائقِ التفات ہیں۔

کوئی آگ پیئے کہ زہر پیئے

یا سانپ ڈسے کی موت مرے

اب دھوپ کے جل تھل دریا سے

کوئی اپنے منہ سے ریت بھرے

ہم نے تو پیالہ الٹ دیا

اور الٹ دیا

ہر اک منظر ہم کسی راستے پر چلتے ہوئے

داستان سے اگر نکل جائیں

پھر ہمیں تم تلاش مت کرنا

داستان سے نکلنے والوں کو

کوئی رستہ بھی راہ، نہیں دیتا

وہ سمندر زمین ہو یا افلاک

کوئی ان کو پناہ دیتا نہیں

وہ بھول چنتے چنتے

کتنی بدل گئی ہے؟

خوشبو میں ڈھل گئی ہے

مشمولہ بالا استشہادات و استخراج سے بہ خوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ شبیر ناقدؔ کے تنقیدی کینوس میں ایک پر تاثیر نوعیت کا انتقادی شعور آشکار ہوتا ہے۔ ان کی تنقیدات ماضی کی سرگزشت، حال کی کیفیات و واردات اور مستقبل کی پیش گوئی ہیں۔ وہ اپنے موضوع بیان کو انتہائی جامعیت کے ساتھ سمیٹنے کا فن جانتے ہیں۔

 نقاد موصوف متقدمین و متوسطین اور متاخرین کی بھر پوری جانکاری رکھتے ہیں اور جہاں کہیں انہیں تشنگی کا پہلو نظر آ رہا ہو وہاں وہ اپنے تنقیدی شذرات میں ان کے اشعار بھی درج کرنا ضروری سمجھتے ہیں اس طرح بطور امثال پیش کرتے جاتے ہیں تاکہ قاری کو قرات کرتے وقت کسی قسم کی کوئی دشواری پیش نہ آئے۔

کاوشؔ عمر کی ولولہ آگیں شاعری:

شاعر ایک دنیا کا عکاس ہوتا ہے وہ لفظوں کی بازی گری کا ہنر جانتا ہے اور الفاظ کو شاعری میں کس ڈھنگ سے برتنا ہے اس سلیقے سے بھی وہ بہ خوبی آگاہ ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں وہ انتخاب الفاظ میں بھی کافی دستگاہ رکھتا ہے جس کو وہ اپنی افتادِ طبع کے مطابق اپنی سخن سازی میں پروتا ہے۔ مختلف اہلِ سخن کا کلام مختلف رنگوں میں ڈھلا ہوا ہوتا ہے۔ بعض کا کلام فکر انگیز ہوتا ہے تو بعض کا غم انگیز، کسی کا کلام ترقی پسندی کا علمبردار ہوتا ہے تو کسی کا رومانیت پسند ہوتا ہے۔ مذکورہ مضمون میں نقاد مالوف شبیر ناقدؔ نے جس سخن ور کا ذکرِ خیر کیا ہے وہ استاد الشعراء کاوش عمر ہیں جنہیں وسیع حلقہ احباب اور بہت سے تلامذہ میسر آئے یوں ان کی ساری حیاتِ ثمین شعر و ادب کی خدمت میں بسر ہوئی۔

شبیر ناقدؔ کے بقول کہ کاوش عمر کی سخن سازی انتہائی منجی ہوئی اور جاندار نظر آتی ہے۔ ان کی شاعری میں جوش و ولولوں کی نمو ہوتی ہے۔ امنگیں بیدار ہوتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں اور آہنگ پروان چڑھتا ہوا نظر آتا ہے۔ تمنائیں گہری سانس لیتی ہوئی نظر آتی ہیں اور آرزوؤں کو مہمیز ہونے کا خوب موقع ملتا ہے۔ انہوں نے اپنے سخن میں مختصر و طویل دونوں بحور پر خوب طبع آزمائی کی ہے مگر ان کی جو بحور خاص طویل ہیں وہ مقفیٰ و مسجع اور پھر اسی کے ساتھ ساتھ داخلی قواضی سے سرشار ہیں ایسے محسوس ہوتا ہے جیسے ان کی سخن سازی میں ان کے اشعار کا چشمہ ابل پڑا ہو۔ ان کی جولانیِ طبع میں بلا کی روانی پائی جاتی ہے جس کی مثیل شاذ ہی کہیں نظر آئے۔ ان کے ممتاز منفرد ہونے کا سبب ان کا شعری وفور ہے۔ موضوع مذکورہ میں شبیر ناقدؔ نے کاوش عمر کے شعری مجموعہ ’’سنگ دشمن‘‘ مطبوعہ 2010ء کے ربع اول کی منتخب غزلیات کے منتخب اشعار کو اپنی تنقیدات کا حصہ بنایا ہے۔

ان کی شاعری کا وصف خاص یہی ہے جو کثیر الموضوعات ہے۔ وہ دولتِ تاثیر سے بھری پڑی ہے اور مالا مال ہونے کے ساتھ ساتھ جزئیات کے تمام جلوے جلوہ گرہیں۔ اہلِ سخن اپنی شاعری میں اپنی قوتِ متخیلہ کو باور کرانے کی بھر پور اہلیت رکھتا ہو۔ اس کے افکار و خیالات بسیط و عمیق رجائی امکانات اور مزاحمتی و انقلابی تاثرات کے حامل ہوں تاکہ وہ اپنے دور کو رجائیت افزاء امکانات اور طرب خیز عوامل سے ہمکنار کرسسکے تاکہ یاسیت و قنوطیت کو اس کے عہد میں پنپنے کے مواقع میسر نہ آئیں رجا اور امید کی کرنیں ضو پاشیاں کرتی رہیں اور افسردگیاں اور بیزاریاں فروکش ہو جائیں اس طرح خوشگوار جذبات و احساسات کو فروغ نصیب ہو اسی تناظر کی حامل غزل کے دو اشعار ملاحظہ ہوں جن میں ان کے شعری تموج کی غمازی اور ان کے ولولوں کی عکاسی ہوتی ہے۔

ایک دن دورِ عیش و طرب کی طرح غم کے یہ سلسلے بھی گزر جائیں گے

اشک تھم جائے گا آہ رک جائے گی، درد مٹ جائے گا، زخم بھر جائیں گے

اے دل اب ہجر کی کشمکش سے گزر، ان کے آنے نہ آنے کی پروا نہ کر

ابر چھٹ جائے گا، وقت کٹ جائے گا رات ڈھل جائے گی، دن گزر جائیں گے

شبیر ناقدؔ کاوش عمر کی ولولہ آگیں سخن سازی کے حوالے سے اپنی تنقیدی حاشیہ آرائی کچھ یوں کرتے ہیں:

ان کا سخن خارجیت اور داخلیت کا حسین امتزاج ہے اور ایک زبردست قسم کا شعری وفور نظر آتا ہے عند البیان قوافی کا استعمال بکثرت ملتا ہے ایک قادر الکلامی ہے جو اپنی بہار دکھائی نظر آتی ہے۔ داخلی اور خارجی جزئیات کا بیان پہلو بہ پہلو ملتا ہے حزینہ افکار ہیں جن میں عصری آشوب کی پیوند کاری بھی پائی جاتی ہے۔ نالہ و شیون کے حوالے ہیں کہیں کہیں تعلیاتی شواہد بھی پائے جاتے ہیں جس سے اندازہ ہوتا ہے شاعر موصوف اپنے فکری و فنی ادراکات کا بسیط شعور رکھتے ہیں۔

شبیر ناقدؔ اپنی تنقیدات میں اپنے ممدوح کے حوالے سے اپنے ہر شذرے میں سوانحی کوائف پر ضرور طائرانہ نظر ڈالنا خیال کرتا ہیں وہ ایک اچھے نقاد ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بہترین محقق کے فرائض کو بھی لازمی سرانجام دیتے ہیں وہ اپنی تنقید کے مختصر پیمانے میں بہت سے تلازمات کا اہتمام فنی چابکدستی سے کرتے ہیں اور مصرعوں کے دروست میں استادانہ فن مہارت کا پہلو کارفرما ہے۔ ان کی جولانی طبع میں ایک بلا قسم کی روانی و جولانی پائی جاتی ہے۔ اپنے موضوع بیان کے حوالے سے ان کی افتاد طبع مائل بہ طوالت ہے۔ ان کے اسلوب کی چاشنی اس قدر ہے کہ جیسے مالا میں موتی پروئے گئے ہوں۔ ان کی تنقیدات میں مصرع مصرع صدائیں دے کر ان کے آموز گار فن ہونے کا دعویٰ کر رہا ہے اس طرح کاوش عمر کی مختلف غزلیات کے مختلف اشعار ملاحطہ ہوں جن میں ان کی ولولہ آگیں شاعری کا بہ حسن خوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

کینہ پرور زمین فتنہ گر آسمان دل کا دشمن جہاں دل امنگوں کا گھر

نو بہ نو خواہشیں، نو بہ نو حسرتیں، آرزوئیں بہت، زندگی مختصر

ننگ، ناموس، ایمان، غیرت، شرف، دین دل، زندگی

عشق کے کھیل میں ایک ہی داؤ پر ہنس کے ہار آئے ہیں

عقل، دانش، خرد، فہم، ہوش، آگہی، علم، جودت، خبر

سب لٹا کر تیری مستیِ چشم پر مئے گسار آئے ہیں

منزل آرزو کا مسافر ہوں میں کب مجھے کوئی سہل ڈگر چاہیے

کوہ، تل، دشت، دریا، سمندر، افق، جھیل وادی، دمن پر خطر چاہیے

کیا خبر تجھ کو کیا کیا رہ شوق میں اے مرے سادہ دل ہم سفر چاہیے

ولولہ، جوش، مستی، جنوں، تمکنت، حوصلہ، عزم، ہمت جگر چاہیے

جام لبریز میں بے زروں کا لہو، اہلِ زر میں نمایاں درندوں کی خو

خون پیتا ہے انسان انسان کا، کون کہتا ہے انسان انسان ہے

شبیر ناقدؔ نے فطری طور پر ایک مشکل پسندی اور مہم جو طبیعت پائی ہے۔ ان کی تنقیدات فکری و فنی اور اسلوبیاتی حوالے سے مشکل پسندی کی ذیل میں آتی ہیں۔ لسانی تبحر علمی کے اعتبار سے ان کے اسلوب میں ہندی، فارسی اور عربی لفظیات کے چلن کی بھر مار ہے اس حوالے سے ان کی تنقید نگاری میں نظام ترکیبات بھی قابلِ غور ہے اور ان کے افکار و خیالات میں ترفع ہے۔ وہ ایسے نقاد ہیں جو اپنے آپ سے بھی بے خبر نہیں ہیں۔ وہ اپنی فکری و فنی معاملات کی دقیقہ سنجی سے بھی بخوبی آشنا ہیں اور یہی امر وہ اپنی انتقادیات میں بھی بھر پور کامیابی سے باور کراتے ہوئے نظر آئے ہیں ان کی تنقید نگاری میں عمرانی تنقیدی رویے بھی بکثرت ملتے ہیں جو ان کے افکار کی شدت وحدت کو فزوں تر کر رہے ہیں وہ اپنے استاد ہنر کا وسیع و عریض ادراک رکھتے ہیں وہ معراج سخن سے بخوبی آگہی رکھتے ہیں۔ نقاد موصوف کی تنقیدی حاشیہ آرائی میں بھر پور درس انقلاب چھلکتا ہوا نظر آتا ہے۔

 اس طرح جن اہل نظر قارئینِ ادب و اربابِ دانش اور محققین و ناقدین کو ان کی تنقیدات کی قرات کرنے کا موقع ملا وہ بحسن خوبی اندازہ لگا پائیں گے کہ شبیر ناقدؔ میدانِ نقدِ فن میں اپنی مثال آپ ہیں۔

ڈاکٹر مظہر حامدؔ کے سخن کی رومانی فضا:

رومانوی جذبات و احساسات تاریخِ شعر و ادب کی کھیتی کے ہر عصر میں روح رواں اور اعتبار ذوق و شوق رہے ہیں جن کی بدولت فن شعر کی لطافتیں، نفاستیں، اور نزاکتیں دو چند ہوئی ہیں اور پھر انہی کے سبب یہ ہنر مرصع سازی کا مثیل قرار پایا۔ یہی وجہ ہے کہ فنون لطیفہ کے جتنے بھی شعبے ہیں ان تمام شعبوں میں شاعری کو نمایاں مقام حاصل ہے اگر فکری اعتبار سے بنظر غائر تجزیہ و مشاہدہ کیا جائے تو اس بات کا انکشاف ہوتا ہے کہ فنِ شعر میں جذبۂ رومان کی پیوند کاری کی وجہ سے شعر کی فضا زعفران زار ہو جاتی ہے۔ مگر اس کے بغیر شعری اسلوب بے جان اور سپاٹ ہو جاتا ہے اور کلام کی فضا بوجھل سی لگتی ہے جس میں دلچسپی کا عنصر معدوم ہو جاتا ہے۔ دنیائے شعر میں پیہم کے پوتر جذبات و احساسات کو پیرایہ اظہار میں لانے کے لیے احساسات کی شدتِ وحدت کا ہونا ناگزیر ہے جس کے لیے پھر بھر پور اور قوی لہجہ اساسی و کلیدی کردار ادا کرتا ہے، مذکور مضمون میں نقاد موصوف شبیر ناقدؔ ڈاکٹر مظہر حامد کے کلام کو رومانی حوالے سے زیر بحث لائے ہیں اس طرح ڈاکٹر مظہر حامد کی غزل کے دو اشعار نذر قارئین ہیں جن میں رومانی فضا کی بھر پور انداز میں عکاسی ہوتی ہے۔

زمین کچھ اور یا پھر آسمان کچھ اور ہوتا ہے

محبت میں دل و جاں کا سماں کچھ اور ہوتا ہے

جنوں میں باخبر رہنا بھی معراجِ محبت ہے

کہ دیوانے کا اندازِ بیاں کچھ اور ہوتا ہے

شبیر ناقدؔ کا کہنا ہے کہ محبت، انس، پیار اور الفت انقلاب آفریں صورت حال اور جذبہ و ذوق و شوق کی حسیات و کیفیات سے عبارت ہے۔ داخلی اور خارجی جذبات و احساسات کی مکمل طور پر تبدیلی کا نام ہے۔ وجد و حال کے عالم میں زمین و فلک اور قلب و خرد میں ایک تغیر کی فضا محسوس ہوتی ہے۔

ڈاکٹر مظہر حامد کے کلام میں دیوانگی اور فرزانگی پہلو در پہلو چلتی ہے۔ جس کی امثال شاذ ہی کسی اور سخن ور کے کلام میں تجزیہ و مشاہدہ کی جا سکے گی۔ وہ نفسیاتِ انسانی اور معاملاتِ روحانی کا بسیط و عمیق ادراک رکھتے ہیں جس کے باعث ان کے تجربات و مشاہدات کے عکسِ جمیل کا انکشاف ہوتا ہے۔ شبیر ناقدؔ ڈاکٹر مظہر حامد کے کلام کے حوالے سےا پنے تنقیدی تاثرات پیش کرتے ہیں۔

کہیں کہیں بین السطور فلسفیانہ افکار کی جھلک بھی ملتی ہے جس سے ان کی بالیدہ فکری کی غمازی ہوتی ہے وہ شعر کے مختصر پیمانے میں بسیط و عمیق موضوع کو انتہائی قرینہ کاری کے انداز میں باندھتے ہیں ان کے تخیل کا تحیراتی پہلو یہ بھی ہے کہ محبوب بھی محب کے روپ میں جلوہ نما نظر آتا ہے۔

شبیر ناقدؔ ایک ایسے نقاد ہیں جو بغیر تحقیق کے اپنے موضوع بیان کو آگے نہیں بڑھاتے۔ وہ اپنے ہر شذرے میں اپنے شاعر ممدوح کے سوانحی و فنی کوائف کے تلازمات کا ذکر خیر کرنا ضروری خیال گردانتے ہیں۔ نقاد مالوف اپنی تنقیدات کے ہر سرنامہ موضوع میں اپنے ممدوح کے عصری حوالوں کو بھی زیر بحث لانا ناگزیر سمجھتے ہیں۔ وہ عمرانی تنقید کے پہلوؤں کو بھی زیر غور لاتے ہیں جس سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ شبیر ناقدؔ تمام تنقیدات کے بارے میں وسیع و عریض درک رکھتے ہیں۔ وہ معراجِ محبت اور اس کے لوازمات سے بہ خوبی آگاہ ہیں۔ ان کی تنقیدات میں ایک اخلاص اور رچاؤ پایا جاتا ہے جس سے ان کی تنقید نگاری کا لطف دوبالا ہو جاتا ہے۔ ان کی تنقید میں ایک جاذبیت و شیرینی ہے۔ وہ انسانی کج رویوں کا عمیق ادراک رکھتے ہیں وہ تنقید برائے تنقید نہیں کرتے بلکہ تنقید برائے اصلاح کرتے ہیں۔ ان کی تنقیدات بالیدگی کا مظہر ہیں ان کے تنقیدی کینوس میں ایک بوقلمونی ہے وہ عروضی محاسن اور عروضی تلازمات سے بہ خوبی آگہی رکھتے ہیں۔

نسیم سحر کے فکر مندانہ افکار:

در اصل انسانی طبع کی مختلف نوعیت کی عمیق حسیات و کیفیات ہوتی ہیں جن کی فکر مندی نمائندگی کرتی ہے جس سے افکار و خیالات میں بسیط باب وا ہوتے ہیں۔ جو سخن ساز اس خصوصیت سے متصف ہوتے ہیں ان کی سخن وری انتہائی وقعت والی اور گراں قدر ہوتی ہے جس میں وفور تخیل کے شواہد بھی بکثرت پائے جاتے ہیں مذکور مضمون میں نقاد موصوف شبیر ناقدؔ نے نسیم سحر کے کلام کے فکر مندانہ افکار کو قلمبند کیا ہے ان کے مطابق نسیم سحر کی گیارہ تصانیف زیور طباعت سے آراستہ ہو چکی ہیں جن میں زیادہ تر انہوں نے غزل میں طبع آزمائی کی ہے اس کے علاوہ انہوں نے حمد و نعت کو بھی مشقِ سخن بنایا ہے علاوہ ازیں نسیم سحر نے ہائیکو بھی لکھی ہے اس طرح نسیم سحر کی ایک غزل کے دو اشعار جو طالبِ التفات ہیں جن میں ان کے فکر مندانہ افکار کی بھر پور انداز میں غمازی ہوتی ہے مندرجہ ذیل ہیں:

بے اماں اس نے میرا گھرانہ کیا اور میں چپ رہا

پھر ہوا نے سخن فاتحانہ کیا اور میں چپ رہا

غیر محفوظ مجھ پر ہوئیں شہر کی چار دیواریاں

آندھیوں نے مجھے بے ٹھکانہ کیا اور میں چپ رہا

شبیر ناقدؔ کے مطابق مندرجہ بالا اشعار میں صبر و تحمل کی ایک وسیع و عریض داستان موجود ہے جو شاعر کی فنی کرشمہ کاری کی غماز ہے اس میں مشیت سے گلہ شکوہ بھی ہے اور سماج کے ظلم و ستم کا پہلو بھی موجود ہے اس طرح ان اشعار میں شاعر کے افکار و خیالات میں فکر مندی کے عوامل کے تہ در تہ اور پہلو در پہلو مظاہر فطرت اور مناظر فطرت کی ستم ظریفی کے شواہد بھی بکثرت تجزیہ و مشاہدہ کئے گئے ہیں۔ شذرہ ہذا میں شبیر ناقدؔ نسیم سحر کے کلام میں ان کے ادراکات کے حوالے سے اپنی تنقیدی خیال آرائی کچھ یوں کرتے ہیں:

نسیم سحر کے شعری مخزن میں امروزو فردا کے ادراکات ایک خاص رنگ و آہنگ میں جلوہ سامانی کر رہے ہیں امروز بھی ان کے ہاں حالات حاضرہ کے تناظر میں موجود ہے یوں ماضی و حال اور مستقبل سے باخبر نظر آتے ہیں ان کے فکری کینوس میں ایک زمانی تثلیث ہے جو ہر لحاظ سے ہمہ گیر اور ہمہ پہلو ہے۔

نقاد موصوف شبیر ناقدؔ انسانی نفسیات کا عمیق ادراک رکھتے ہیں وہ عمرانی کج رویوں اور عصری آشوب زدگیوں کا بھی وسیع و عریض درک رکھتے ہیں ان کی تنقیدات کا بنظر غائر اگر مطالعہ کیا جائے تو اس بات کا بہ خوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ شبیر ناقدؔ نفسیاتِ انسانی کا گہرا شعور رکھتے ہیں اور یہ انکشاف حدِ یقین کو پہنچتا ہے کہ بسیط حساسیت نے ان کی تنقیدات کو فکری بالیدگی سے ہم کنار کیا ہے۔ جس سے بہتر نظری و عملی نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ اس طرح نسیم سحر کی دو غزلوں کے دو دو منتخب اشعار

ملاحظہ ہوں جن میں ان کے فکر مندانہ افکار پوری آب و تاب سے نظر آتے ہیں۔

جتنے ہیں میری ذات کے پیکر سمیٹ لوں

یہ کائنات اپنے ہی اندر سمیٹ لوں

بکھرے ہوئے یہ قیمتی گوہر سمیٹ لوں

پھینکے ہیں دوستوں نے جو پتھر سمیٹ لوں

یہ کبھی جھوٹ نہیں بولتی، سچ بولتی ہے

جھوٹ کے دور میں بھی شاعری سچ بولتی ہے

تبصرہ شہر کے حالات پہ یہ ہے میرا

لفظ جھوٹے ہیں مگر خامشی سچ بولتی ہے

شبیر ناقدؔ اپنے شاعر ممدوح کی ذات کی وسعتوں سے آشنا اور ان کے کمالات کی بخوبی جانکاری رکھتے ہیں وہ حیات و کائنات کی وسعتیں ایک بحرِ بے کراں کی مانند نظر آتی ہیں ان سے بھی بحسن و خوبی آگاہ ہیں۔ شذرہ بالا استشہادات کے مطالعہ کے بعد اس احساس کو تقویت ملتی ہے کہ شبیر ناقدؔ فنِ نقد پر دسترس رکھتے ہیں اور یہ اعزاز ان کے مسلسل ریاضِ انتقاد کا ثمر ہے ان کے ہاں تنقیدی رویے بکثرت پائے جاتے ہیں مزید کاوشیں ان کے ہنرِ تنقید کو فزوں تر جلا بخشیں گی۔

نوید سروش کا حسرت آمیز کلام:

ربِ دو جہاں نے پیکر خاکی کو متنوع قسم کی حسیات و کیفیات ودیعت فرمائیں۔ خالقِ کائنات نے کار زارِ کائنات کا انصرام و انتظام کے لیے حضرت انسان کی آفرینش کو کلیدی تلازمہ قرار دیا اور بنی نوع انسان میں اس حوالے سے مختلف قسم کے خصائص پیدا کر دیئے جو انسانی سعی جمیل اور تگ و تاز کی شکل میں ہویدا ہوئے کیونکہ انسانی طباع متنوع جد و جہد، ضروریات و احتیاجات، تگ و تاز، امنگوں اور خواہشات سے عبارت ہے جن کی وجہ سے حضرت انسان ہمہ وقت مصروفِ عمل نظر آتا ہے مندرجہ بالا تمام مقتضیات کی لا حاصلی لامحالہ طور پر حسرتوں کے وجود کو جواز بخشتی ہے لہٰذا شاعر کے ہاں اس نوع کے احساسات موجزن ہوتے ہیں۔ مختلف سخنوروں کے کلام میں اس نوعیت کے جذبات و احساسات مختلف قسم کے موجزن ہوتے ہیں کسی کے ہاں کم پائے جاتے ہیں تو کسی کے ہاں زیادہ مقدار میں موجود ہوتے ہیں۔ مذکورہ موضوع بیان میں نقاد مالوف شبیر ناقدؔ نے نوید سروش کے کلام کے حسرت آمیز حوالے سے بات کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ نوید سروش کا کلام بلاغت نظام ہے جس میں حسرت آمیزی کے خواص بدرجہ اتم موجود ہیں۔ وہ عرصہ بیسار سے شعر و سخن کی خدمات میں مصروف و منہمک ہیں۔ ان کا اولین شعری مجموعہ ’’ ہم نشینی‘‘ جو مارچ 2014ء میں منصہ شہود پر آیا۔ تصنیف مذکورہ کے حوالے سے مختلف ارباب نقد و نظر نے اپنی الگ الگ آراء رقم کی ہیں جن میں سے چند کی آراء مندرجہ ذیل ہیں۔

معروف و مشہور نقاد ڈاکٹر انور سدید کچھ یوں گویا ہیں:

نوید سروش کی غزل میں رواں وقت نمودار ہوتا ہے پھر ان کی تخلیقی ذات سامنے آتی ہے۔ ان کے اظہار و ابلاغ میں کوئی چیز رکاوٹ نہیں بنتی لیکن اس کے ساتھ ہی مجھے ان کی تخلیقی شخصیت زمانے کو نئے تقاضوں کے مطابق تبدیل کرنے میں کوشاں نظر آتی ہے شاید یہ سندھ کی درویش دھرتی کے اثرات ہیں۔ جو غزل کی امیجری میں ظاہر ہوتے ہیں تو دل پر مستقل اثر چھوڑ جاتے ہیں۔ میں کہہ سکتا ہوں کہ اکیسویں صدی کی غزل کا ایک روپ نوید سروش نئے رنگوں میں ہمارے سامنے لا رہے ہیں۔ ان کے غرفۂ  غزل سے جو کرنیں ابھر رہی ہیں وہ نئے احساس کی آئینہ دار ہیں۔ میرا تاثر یہ بھی ہے کہ نوید سروش جب غم زمانہ سے دوچار ہوں تو ان پر غزل اترتی ہے لیکن جب اپنی ذات کی درزوں میں جھانکیں تو ان پر نظم نازل ہوتی ہے۔

نامور شاعرہ شبنم شکیل رقمطراز ہیں:

نوید نے نشاط و غم کے جذبوں کو اپنے اندر سمو کر کچھ ایسی تصویریں بنائی ہیں جو اس کی پہچان بن گئی ہیں۔

شبیر ناقدؔ ایک منجھے ہوئے نقاد ہیں جو اپنی تنقیدات میں قیاس آرائی سے کام نہیں لیتے بلکہ وہ وجدانی اور استدلالی طریقہ ہائے کار انجام دیتے ہیں۔ نقاد موصوف جب بھی اپنی تنقید نگاری میں اپنے ممدوح کے حوالے سے تنقیدی حاشیہ آرائی کرتے ہیں تو وہ محض اپنی قوتِ متخیلہ سے نہیں بلکہ ٹھوس ثبوتوں اور دلائل سے کام لیتے ہیں وہ اپنے ہر شذرے میں اپنے ممدوح کے سوانحی خاکے پر طائرانہ نظر ڈالنا ضرور خیال کرتے ہیں اور ان کی نقدِ فن میں موجود تمام شذرات کے مذکورہ مضامین کے حوالے سے تمہید ضرور باندھتے ہیں اور اس کو لازمی پایہ تکمیل تک پہنچاتے ہیں جس سے ان کے سر نامہ موضوع تک رسائی آسان سے آسان تر ہو جاتی ہے ان کی تمہید کا وصف خاص یہ ہے کہ قاری کو سمجھنے میں کسی قسم کی کوئی دشواری پیش نہیں آتی اور پھر ویسے بھی نقاد مالوف کی تنقیدی خصائص میں سے ایک وصف یہ بھی ہے کہ قاری کے اذہان میں اٹھنے والے تمام سوالات کے جوابات خود بخود مل جاتے ہیں جس سے قارئین ادب قرات کرنے میں کوئی دقت نہیں ہوتی اور وہ اس کے مفہوم تک آسانی سے رسائی بھی حاصل کر لیتے ہیں۔

اس طرح نوید سروش کی مختلف منتخب غزلوں کے متنوع قسم کے منتخبہ اشعار جو لائقِ التفات ہیں حسب ذیل ہیں جن میں حسرت امیزانہ انداز کی بھر پور انداز میں غمازی ہوتی ہے۔

آسمان تک اڑان کی حسرت

جسم پر جب کہ بال و پر بھی نہیں

کون توڑے گا یہ سکوت سروش؟

آج بھی تم رہے اگر خاموش

غیروں کا کیا ہے اپنے بھی رہنے اپنے نہیں رہے

جب اوج پر ہمارا مقدر نہیں رہا

جب سزائے غمِ ہستی سے گزر جاؤں گا

میں اجالوں کی طرح اور نکھر جاؤں گا

شہرتوں کو زوال آئے گا

شخصیت میں کمال آئے گا

شبیر ناقدؔ کا تنقیدی نقطہ نظر ایسا ہے جس میں گنجِ نقد کے چشمے پھوٹتے ہیں مندرجہ بالا تمام استخراجات سے اس بات کا انکشاف ہوتا ہے کہ نقاد موصوف تاریخ شعر و ادب کے دانائے اسرار و رموز ہیں وہ نوید سروش کے فکری کینوس سے پوری طرح آگاہ ہیں جس کی وجہ سے وہ اس کو شکتی کا آدرش اور انقلابی انداز فکر کا نام دیتے ہیں ان کے مطابق نوید سروش کے کلام میں ایک دعوت تحریک، غور و خوض اور تفکر و تعقل کے خصائص پائے جاتے ہیں۔ ان کا سخن تنوع و تلون کے خواص رکھتا ہے ان کی غزل میں عصری آشوب زدگیوں کا بھی صاف و شفاف مشاہدہ و تجزیہ کیا جا سکتا ہے۔ ان کا رشتہ روایت سے مضبوط اور مستحکم بنیادوں پر استوار ہے۔ شبیر ناقدؔ ایک سکہ بند نقاد ہیں وہ فن شاعری کا تاریخی و تہذیبی شعور رکھتے ہیں۔ وہ نوید سروش کے کلام کو ’’ادب برائے زندگی‘‘ کے زمرے کا حامل قرار دیتے ہیں۔ شبیر ناقدؔ ایک فلسفیانہ انداز فکر کے حامل نقاد ہیں۔ وہ کسی بھی سخن ور کے کلام کے حوالے سے اپنی خیال آرائی اس وقت تک پیش نہیں کرتے جب تک وہ ان کے کلام کا بنظر غائر بڑی گہرائی سے مطالعہ نہ کریں۔ وہ معروضی نقطہ نظر رکھنے والے نقاد ہیں وہ جب کسی کے کلام کی تلاوت کرتے ہیں تو قراتِ تصنیف کرتے وقت جزوی طور پر غور و خوض کرتے ہوئے نظر آتے ہیں اس طرح اگر شبیر ناقدؔ کے بسیط تنقیدی کینوس کے بنظر غائرانہ مطالعہ و مشاہدہ و تجزیہ سے اس بات کا انکشاف ہوتا ہے کہ وہ نقد فکر و فن پر خاص دستگاہ رکھتے ہیں۔

شبیر ناقدؔ کا انتقاد فن:

ربِ کائنات خالق موجودات و معدومات نے حضرت انسان کو تمام مخلوقات میں سے افضل و برتر تخلیق فرمایا اور ساتھ ہی اشرف المخلوقات کے تاج عظمت سے نوازا۔ عین تخلیق آدم علیہ السلام جب ملائکہ نے نقطہ اعتراض اٹھایا کہ انسان روئے ارضی پر فسادات برپا کرے گا پھر باری تعالیٰ نے ملائکہ کے نہ صرف اعتراضات کی تردید کی بلکہ یہ بھی فرمایا کہ جو کچھ میں جانتا ہوں وہ تم نہیں جانتے۔ انسان با لحاظ عقل و شور اور دانش و بصیرت تمام مخلوقات میں سے اعلیٰ و ارفع ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی ہر تخلیق میں بہت سے افادی پہلوؤں کو سمو دیا ہے۔ اس لیے کہا جاتا ہے کہ ’’سیچ چیز بدوں مصلحت نیست‘‘۔ اس ذاتِ عظیم نے ہر انسان میں کچھ منفرد خواص رکھ دیے ہیں اور اس کا میلان طبع اس کی زیست کی جہتوں کا تعین کرتا ہے اور یہ مختلف جہات زندگی کے الگ الگ شعبوں کی ترجمانی کرتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کوئی مرد میدان ہے تو کوئی ماہر سیاست دان ہے، کسی کو علم فلکیات پر تبحر حاصل ہے تو کوئی دینی علوم میں دستگاہ رکھتا ہے کچھ طبائع مائلِ فنونِ لطیفہ ہوتی ہیں۔ ان فنونِ لطیفہ میں علمِ موسیقی اور شعر و ادب کو خصوصی حیثیت حاصل ہے۔ ادب ایک ایسا شعبہ ہے جس کو زیادہ مقبولیت و دوام حاصل ہے۔

آج ہم جس نابغہ روزگار شخصیت کے حوالے سے تحقیقی و تنقیدی حاشیہ آرائی کر رہے ہیں اس کا تعلق دنیائے تخلیق و تنقید سے ہے یعنی ہماری مراد عصر حاضر کے معروف شاعر و نقاد شبیر ناقدؔ سے ہے۔ ہمارا موضوع بیان ان کی اردو ادب میں انتقادی خدمات کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ ہے۔ مقالہ ہذا میں ان کی نثری خدمات کے حوالے سے سیر حاصل بحث کی جائے گی۔ جب کہ ان کی دیگر ادبی خدمات کو مختصراً و اجمالاً پیش کیا جائے گا۔

علاوہ ازیں ان کے سوانحی کوائف اس مقالے کا ناگزیر حصہ ہوں گے۔ انہوں نے نظم و نثر دونوں شعبوں میں سبک رفتاری سے کام کیا ہے۔ کسی بھی شعبۂ حیات میں نمایاں خدمات سرانجام دینے کے لیے یہ امر انتہائی ضروری ہے کہ اس شعبے کی ذمہ داریوں کا پیشگی تعین کر لیا جائے۔ اگر انسان ان ذمہ داریوں کو پورا کرنے کی سکت رکھتا ہوں تو پھر رختِ سفر باندھا جائے۔ جہان ادب میں مختلف تخلیق کاروں اور اہل قلم کے ارتقائی مطالعہ سے یہ مبینہ حقیقت آشکار ہوئی ہے کہ جو اصحاب فکر و دانش اپنی ذمہ داریوں کا قبل از وقت تعین کر لیتے ہیں وہ زیادہ کامیاب و کامران ٹھہرتے ہیں اور انہیں اپنے شعبے میں منضبط و معتبر حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ یہی معاملہ شبیر ناقدؔ کا بھی ہے۔ وہ فنِ تنقید کی جملہ کٹھنائیوں سے آشنا ہیں۔ اس طرح نقاد موصوف کے حوالے سے ابو البیان ظہور احمد فاتحؔ نے یوں تنقیدی تاثر پیش کیا ہے۔

وہ ایک روکھے پھیکے نقاد نہیں بلکہ ان کی تنقید بھی فی نفسہ ایک نگارش کا درجہ رکھتی ہے جس میں دل چسپی کے بہت سے ساماں مضمر ہے۔

اگر پروفیسر ظہور احمد فاتحؔ کے مختصر اقتباس کے حوالے سے تحقیقی و تنقیدی خیال آرائی کی جائے تو ان کے بقول شبیر ناقدؔ کی تنقیدات میں جاذبیت کے بہت سے ساماں سموئے ہوئے ہیں جن میں نہ صرف تنقید اپنے بھر پور انداز میں موجود ہے بلکہ تخلیقیت سے بھی مالا مال ہیں۔

شبیر ناقدؔ ایک ایسے نقاد ہیں جو کلاسیکی ادب، نوکلاسیکی ادب اور معاصر ادب کا بحسن و خوبی ادراک رکھتے ہیں اور منجملہ فکری و فنی رموز و علائم کو ملحوظ خاطر رکھتے ہیں۔ وہ جس صنف ادب کے حوالے سے تنقیدی خیال آرائی کرتے ہیں اس کے تاریخی پس منظر کو بھی پیش نظر رکھتے ہیں۔ فنی معاملات میں وہ بہت سخت گیر واقع ہوئے ہیں یعنی وہ اپنی تنقید نگاری میں فنی معاملات پر سمجھوتہ کرتے ہوئے نظر نہیں آتے۔ یہی وصف خاص انہیں معاصر ناقدین سے ممتاز و منفرد کرتا دکھائی دیتا ہے۔ اگر فکری حوالے سے بات کی جائے تو وہ عصری علوم پر ایک خاص دسترس رکھتے ہیں علاوہ ازیں وہ سماجیات عالم کے عمیق شعور سے بھی بہرہ ور ہیں۔ سماجی حوالوں سے ان کے ہاں مثبت افکار کی کارفرمائی ہے۔ ان کے ہاں انسان دوستی کا حسیں آدرش ملتا ہے۔ ترقی پسندی یا جدے دیت کی ایک بھر پور لہر ہے جو روح رواں کی حیثیت رکھتی ہے۔ شبیر ناقدؔ کی تنقید نگاری میں فکر و فن اور سماجیات ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ افکار و فنون اور عمرانیات کی یہ مثلث ان کے کام کے معیار کو مزید معتبر کر رہی ہے۔ اس طرح شبیر ناقدؔ کے حوالے سے شاعر علی شاعرؔ اپنے خیالات کا اظہار کچھ یوں کرتے ہیں۔

انہوں نے اپنے ہر شذرے کے آغاز میں کسی فنی یا سماجی مسئلے کو موضوعِ بحث بنایا ہے جس سے ان کی فکر و فن سے فطری وابستگی کی عکاسی ہوتی ہے۔

شبیر ناقدؔ ادب و تنقید کے نظریاتی بندھنوں میں محصور و مقید نہیں ہیں اگر ان کے ہاں کسی نظریے کی فزوں تر جلوہ آرائی ہے تو وہ ادب برائے زندگی کا نظریہ ہے۔ جس کی اہمیت نہ صرف عہد موجود میں مسلمہ و مصدقہ ہے بلکہ ازمنۂ فردا میں بھی مزید معتبر و نمایاں ہو گی لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ ان کے ہاں ادب برائے ادب کے شواہد معدوم ہیں۔ بلکہ ادب برائے ادب کے نظریے کی فزوں تر آمیزش موجود ہے جس میں نوواردان ادب کے لیے راہنمائی کے وسیع تر امکانات پائے جاتے ہیں جس سے ان کی ادب سے مخلصانہ وابستگی اظہر من الشمس ہوتی ہے۔ ان کے نظریہ ادب برائے زندگی کے حوالے سے شاعر علی شاعرؔ کے تاثرات ملاحظہ ہوں:

فطری اعتبار سے وہ ادب برائے زندگی کے قائل ہیں لیکن ادب برائے ادب کی شمعیں بھی فروزاں نظر آتی ہیں۔

کسی بھی معتبر نقاد کے لیے یہ امر انتہائی ناگزیر ہے کہ وہ ادب کا سنجیدہ مذاق رکھتا ہو اور تمام تر پہلوؤں کا جائزہ غور و فکر اور تحقیق انداز میں لینے کی استعداد رکھتا ہو کوئی بھی بات کرنے سے پہلے کلی پس منظر سے واقف ہو، فکری و فنی معروضات کی بصیرت رکھتا ہو، جدید تحقیق و تنقیدی تغیرات کی آگہی رکھتا ہو، اور اپنے دور کے عالمی ادبی رویوں سے واقف ہو تب وہ اپنے تجربات کو استخراجی اور منطقی استدلال کے ساتھ پیش کر سکتا ہے۔ وہ نہ صرف اپنے عصر سے متاثر ہوتا ہے بلکہ اپنے عہد پر اپنے نقوش ثبت بھی کرتا ہے یوں وہ اپنے دور کے ادبی و تنقیدی دورانیے کے تناظر میں ناقابل فراموش قرار پاتا ہے۔ محولہ بالا مباحث شبیر ناقدؔ کی تنقیدات کے تحقیقی و تنقیدی مطالعے کے بعد سامنے آتی ہیں۔

شبیر ناقدؔ کی تنقید نگاری کو اگر تحقیقی اعتبار سے جزوی اور کلی زاویوں سے دیکھا جائے تو معیارات کی تمام تر مقتضیات پورا کرتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ زبان و بیان کی وہ قرینہ کاری ہے جو قاری کو مسحور و متوجہ کرنے کی پوری صلاحیت رکھتی ہے۔ اسالیب کے متنوع انداز نثر نگاری کے فن پر ان کی مہارت کی دلیل ہیں۔ کہیں سلاست نگاری ہے تو کہیں مسجع و مقفیٰ طرز نگارش زبردسیت دقیقہ سنجی کے ساتھ کارگر ہے۔ اردو اور اس کی اشتراکی زبانوں کا استخدام خود میں کرشمہ کاری کا پہلو لیے ہوئے ہے۔ فکر و فن کے حوالے سے بسیط و عریض امکانات ہیں جو آغوش کشا نظر آتے ہیں۔

٭٭٭

تشکر: ناصر ملک جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

ڈاؤن لوڈ کریں 

ورڈ فائل 

ای پب فائل 

کنڈل فائل