FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

 

فہرست مضامین

سورج چاند نگاہیں میری

 

 

                ندا فاضلی

 

جمع و ترتیب: اعجاز عبید

 

 

 

 

 

میں جیون ہوں

 

وہ جو

پھٹے پرانے جوتے گانٹھ رہا ہے

وہ بھی میں ہوں

 

وہ جو گھر گھر

دھوپ کی چاندی بانٹ رہا ہے

وہ بھی میں ہوں

 

وہ جو

اڑتے پروں سے امبر پاٹ رہا ہے

وہ بھی میں ہوں

 

وہ جو

ہری بھری آنکھوں کو کاٹ رہا ہے

وہ بھی میں ہوں

 

سورج چاند

نگاہیں میری

سال مہینے راہیں میری

 

کل بھی مجھ میں

آج بھی مجھ میں

چاروں اور دشائیں میری

 

اپنے اپنے

آکاروں میں

جو بھی چاہے بھر لے مجھ کو|

 

جن میں جتنا سما سکوں میں

اتنا

اپنا کر لے مجھ کو

 

ہر چہرہ ہے میرا چہرہ

بے چہرہ اک درپن ہوں میں

مٹھی ہوں میں

جیون ہوں میں

٭٭٭

 

 

 

 

چرواہا اور بھیڑیں

 

جن چہروں سے روشن ہیں

اتہاس کے درپن

چلتی پھرتی دھرتی پر

وہ کیسے ہوں گے

 

صورت کا مورت بن جانا

برسوں بعد کا ہے افسانہ

پہلے تو ہم جیسے ہوں گے

 

مٹّی میں دیواریں ہوں گی

لوہے میں تلواریں ہوں گی

آگ، ہوا

پانی امبر میں

جیتیں ہوں گی

ہاریں ہوں گی

 

ہر یگ کا اتہاس یہی ہے

اپنی اپنی بھیڑیں چن کر

جو بھی چرواہا ہوتا ہے

ا س کے سر پر نیل گگن کی

رحمت کا سایہ ہوتا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

اٹھ کے کپڑے بدل، گھر سے باہر نکل، جو ہوا سو ہوا

رات کے بعد دن، آج کے بعد کل، جو ہوا سو ہوا

 

جب تلک سانس ہے، بھوک ہے پیاس ہے، یہ ہی اتہاس ہے

رکھ کے کاندھے پہ ہل، کھیت کی اور چل، جو ہوا سو ہوا

 

خون سے تر بتر، کر کے ہر رہگزر، تھک چکے جانور

لکڑیوں کی طرح، پھر سے چولہے میں جل، جو ہوا سو ہوا

 

جو مرا کیوں مرا، جو جلا کیوں جلا، جو لٹا کیوں لٹا

مدتوں سے ہیں گم، ان سوالوں کے حل، جو ہوا سو ہوا

 

مندروں میں بھجن مسجدوں میں اذزاں، آدمی ہے کہاں ؟

آدمی کے لئے ایک تازہ غزل، جو ہوا سو ہوا

٭٭٭

 

 

 

 

 

چھوٹا آدمی

 

تمہارے لئے

سب دعا گو ہیں

تم جو نہ ہو گے

تو کچھ بھی نہ ہو گا

اسی طرح

مر مر کے جیتے رہو تم

 

تمہی ہر جگہ ہو

تم ہی مسئلہ ہو

تم ہی حوصلہ ہو

 

مصور کے رنگوں میں

تصویر بھی تم

مصنف کے لفظوں میں

تحریر بھی تم

تمہارے لئے ہی

خدا باپ نے

اپنے اکلوتے بیٹے کو

قُرباں کیا ہے

سبھی آسمانی کتابوں نے

تم پر!

تمہارے عذابوں کو آساں کیا ہے

 

خدا کی بنائی ہوئی اس زمیں پر

جو سچ پوچھو،

تم سے محبت ہے سب کو

تمہارے دکھوں کا مداوا نہ ہو گا

تمہارے

دکھوں کی ضرورت ہے سب کو

تمہارے لئے سب دعا گو ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

یہ زندگی

 

یہ زندگی

آج جو تمہارے

بدن کہ چھوٹی بڑی نسوں میں

مچل رہی ہے

تمہارے پیروں سے

چل رہی ہے

تمہاری آواز میں گلے سے

نکل رہی ہے

تمہارے لفظوں میں

ڈھل رہی ہے

 

یہ زندگی۔۔۔۔۔!

جانے کتنی صدیوں سے

یوں ہی شکلیں

بدل رہی ہے

بدلتی شکلوں

بدلتے جسموں میں

چلتا پھرتا یہ اک شرارہ

جو اس گھڑی

نام ہے تمہارا !

اسی سے ساری چہل پہل ہے

اسی سے

روشن ہے ہر نظارہ

 

ستارے توڑو

یا گھر بساؤ

الم اٹھاؤ

یا سر جھکاؤ

تمہاری آنکھوں کی روشنی تک

ہے کھیل سارا

یہ کھیل ہو گا نہیں دوبارہ

یہ کھیل ہو گا نہیں دوبارہ

٭٭٭

 

 

ماں

 

بیسن کی سوندھی روٹی پر کھٹی چٹنی جیسی ماں

یاد آتی ہے چوکا ،باسن، چمٹا، پھکنی جیسی ماں

 

بان کی کھری کھاٹ کے اوپر ہر آہٹ پر کان دھرے

آدھی سوئی آدھی جاگی تھکی دوپہری جیسی ماں

 

چڑیوں کی چہکار میں گونجے رادھا، موہن، علی علی

مرغے کی آواز سے کھلتی گھر کی کنڈی جیسی ماں

 

بیوی، بیٹی، بہن، پڑوسن، تھوڑی تھوڑی سی سب میں

دن بھر اک رسی کے اوپر چلتی نٹنی جیسی ماں

 

بانٹ کے اپنا چہرہ، ماتھا، آنکھیں جانے کہاں گئی

پھٹے پرانے اک البم میں چنچل لڑکی جیسی ماں

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

نئی نئی آنکھیں ہوں تو ہر منظر اچھا لگتا ہے

کچھ دن شہر میں گھومے لیکن، اب گھر اچھا لگتا ہے

 

ملنے جلنے والوں میں تو سارے اپنے جیسے ہیں

جس سے اب تک ملے نہیں وہ اکثر اچھا لگتا ہے

 

میرے آنگن میں آئے یا تیرے سر پر چوٹ لگے

سناٹوں میں بولنے والا پتھر اچھا لگتا ہے

 

چاہت ہو یا پوجا سب کے اپنے اپنے سانچے ہیں

جو مورت میں ڈھل جائے وہ پیکر اچھا لگتا ہے

 

ہم نے بھی سوکر دیکھا ہے نئے پرانے شہروں میں

جیسا بھی ہے اپنے گھر کا بستر اچھا لگتا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

دستکیں

 

دروازے پر ہر دستک کا

جانا پہچانا

چہرہ ہے

روز بدلتی ہیں تاریخیں

وقت مگر

یوں ہی ٹھہرا ہے

 

ہر دستک ہے ‘ا س کی’ دستک

دل یوں ہی دھوکہ کھاتا ہے

جب بھی

دروازہ کھلتا ہے

کوئی اور نظر آ جاتا ہے

 

جانے وہ کب تک آئے گا ؟

جس کو برسوں سے آنا ہے

یا بس یوں ہی رستہ تکنا

ہر جیون کا جرمانہ ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

منھ کی بات سنے ہر کوئی، دل کے درد کو جانے کون

آوازوں کے بازاروں میں، خاموشی پہچانے کون

 

صدیوں صدیوں وہی تماشا، رستہ رستہ لمبی کھوج

لیکن جب ہم مل جاتے ہیں، کھو جاتا ہے جانے کون

 

جانے کیا کیا بول رہا تھا، سرحد، پیار، کتابیں، خون

کل میری نیندوں میں چھپ کر، جاگ رہا تھا جانے کون

 

میں ا س کی پرچھائیں ہوں یا، وہ میرا آئینہ ہے

میرے ہی گھر میں رہتا ہے، میرے جیسا جانے کون

 

کرن کرن الساتا سورج، پلک پلک کھلتی نیندیں

دھیمے دھیمے بکھر رہا ہے، ذرہ ذرہ جانے کون

٭٭٭

 

 

مختلف

 

 

کبھی بادل، کبھی کشتی، کبھی گرداب لگے

وہ بدن جب بھی سجے کوئی نیا خواب لگے

 

ایک چپ چاپ سی لڑکی، نہ کہانی نہ غزل

یاد جو آئے کبھی ریشم و کم خواب لگے

 

ابھی بے سایہ ہے دیوار کہیں لوچ نہ خم

کوئی کھڑکی کہیں نکلے کہیں محراب لگے

 

گھر کے آنگن میں بھٹکتی ہوئی دن بھر کی تھکن

رات ڈھلتے ہی پکے کھیت سی شاداب لگے

٭٭٭

 

 

 

 

وہ شوخ شوخ نظر سانولی سی ایک لڑکی

 

وہ شوخ شوخ نظر سانولی سی ایک لڑکی

جو روز میری گلی سے گزر کے جاتی ہے

سنا ہے

وہ کسی لڑکے سے پیار کرتی ہے

بہار ہو کے، تلاش بہار کرتی ہے

نہ کوئی میل نہ کوئی لگاؤ ہے لیکن

نہ جانے کیوں

بس اسی وقت جب وہ آتی ہے

کچھ انتظار کی عادت سی ہو گئی ہے مجھے

ایک اجنبی کی ضرورت سی ہو گئی ہے مجھے

 

میرے ورانڈے کے آگے یہ پھوس کا چھپر

گلی کے موڑ پہ اکھڑا ہوا سا اک پتھر

وہ ایک جھکتی ہوئی بدنما سی نیم کی شاخ

اور اس پہ جنگلی کبوتر کے گھونسلے کا نشاں

یہ ساری چیزیں کہ جیسے مجھی میں شامل ہیں

میرے دکھوں میں میری ہر خوشی میں شامل ہیں

میں چاہتا ہوں کہ وہ بھی یوں ہی گزرتی رہے

ادا و ناز سے لڑکے کو پیار کرتی رہے

٭٭٭

 

 

 

 

نئی نئی پوشاک بدل کر، موسم آتے جاتے ہیں

پھول کہاں جاتے ہیں، جب بھی جاتے ہیں لوٹ آتے ہیں

 

شائد کچھ دن اور لگیں گے، زخمِ دل کے بھرنے میں،

جو اکثر یاد آتے تھے وہ کبھی کبھی یاد آتے ہیں

 

چلتی پھرتی دھوپ چھاؤں سے، چہرہ بعد میں بنتا ہے،

پہلے پہلے سبھی خیالوں سے تصویر بناتے ہیں

 

آنکھوں دیکھی کہنے والے، پہلے بھی کم کم ہی تھے،

اب تو سب ہی سنی سنائی باتوں کو دہراتے ہیں

 

اس دھرتی پر آ کر سب کا، اپنا کچھ کھو جاتا ہے،

کچھ روتے ہیں، کچھ اس غم سے اپنی غزل سجاتے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

کچھ طبیعت ہی ملی تھی ایسی چین سے جینے کی صورت نہ ہوئی

جس کو چاہا اسے اپنا نہ سکے جو ملا اس سے محبت نہ ہوئی

 

جس سے جب تک ملے دل ہی سے ملے دل جو بدلا تو فسانہ بدلا

رسمِ دنیا کی نبھانے کے لئے ہم سے رشتوں کی تجارت نہ ہوئی

 

دور سے تھا وہ کئی چہروں میں پاس سے کوئی بھی ویسا نہ لگا

بے وفائی بھی اسی کا تھا چلن پھر کسی سے بھی شکایت نہ ہوئی

 

وقت روٹھا رہا بچے کی طرح راہ میں کوئی کھلونا نہ ملا

دوستی بھی تو نبھائی نہ گئی دشمنی میں بھی عداوت نہ ہوئی

٭٭٭

 

 

 

 

 

دیوار ودر سے اتر کے، پرچھائیاں بولتی ہیں

کوئی نہیں بولتا جب، تنہائیاں بولتی ہیں

 

پردیس کے راستے میں لٹتے کہاں ہیں مسافر

ہر پیڑ کہتا ہے قصہ، پروائیاں بولتی ہیں

 

موسم کہاں مانتا ہے تہذیب کی بندشوں کو

جسموں سے باہر نکل کر انگڑائیاں بولتی ہیں

 

سننے کی مہلت ملے تو آواز ہے پت جھروں میں

اجڑی ہوئی بستیوں میں آبادیاں بولتی ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

تم یہ کیسے جدا ہو گئے

ہر طرف ہر جگہ ہو گئے

 

اپنا چہرہ نہ بدلہ گیا

آئینے سے خفا ہو گئے

 

جانے والے گئے بھی کہاں

چاند سورج گھٹا ہو گئے

 

بےوفا تو نہ وہ تھے نہ ہم

یوں ہوا بس جدا ہو گئے

 

آدمی بننا آساں نہ تھا

شیخ جی آپ ہو گئے

٭٭٭

 

 

 

 

والد کی یاد میں

 

 

تمہاری قبر پر میں

فاتحہ پڑھنے نہیں آیا،

مجھے معلوم تھا، تم مر نہی سکتے

تمہاری موت کی سچی خبر

جس نے اڑائی تھی، وہ جھوٹا تھا،

وہ تم کب تھے؟

کوئی سوکھا ہوا پتّہ، ہوا میں گر کے ٹوٹا تھا

میری آنکھیں

تمہارے منظروں میں قید ہیں اب تک

میں جو بھی دیکھتا ہوں، سوچتا ہوں

وہ، وہی ہے

جو تمہاری نیک نامی اور بد نامی کی دنیا تھی

کہیں کچھ بھی نہیں بدلا،

تمہارے ہاتھ میری انگلیوں میں سانس لیتے ہیں،

میں لکھنے کے لئے کاغذ قلم جب بھی اٹھاتا ہوں،

تمہیں بیٹھا ہوا میں اپنی کرسی میں پاتا ہوں

بدن میں میرے جتنا بھی لہو ہے،

وہ تمہاری لغزشوں ناکامیوں کے ساتھ بہتا ہے،

میری آواز میں چھپ کر تمہارا ذہن رہتا ہے،

مری بیماریوں میں تم

مری لاچاریوں میں تم

تمہاری قبر پر جس نے تمہارا نام لکھا ہے،

وہ جھوٹا ہے، وہ جھوٹا ہے، وہ جھوٹا ہے،

تمہاری قبر میں میں دفن ہوں

تم مجھ میں زندہ ہو،

کبھی فرصت ملے تو

فاتحہ پڑھنے چلے آنا

٭٭٭

 

 

 

 

 

نظم بہت آسان تھی پہلے

 

گھر کے آگے

پیپل کی شاخوں سے اچھل کے

آتے جاتے بچوں کے بستوں سے

نکل کے

رنگ برنگی

چڑیوں کی چہکار میں ڈھل کے

نظم مرے گھر جب آتی تھی

میرے قلم سے جلدی جلدی

خود کو پورا لکھ جاتی تھی،

اب سب منظر بدل چکے ہیں

چھوٹے چھوٹے چوراہوں سے

چوڑے رستے نکل چکے ہیں

بڑے بڑے بازار

پرانے گلی محلے نگل چکے ہیں

نظم سے مجھ تک

اب میلوں لمبی دوری ہے

ان میلوں لمبی دوری میں

کہیں اچانک بم پھٹتے ہیں

کوکھ میں ماؤں کے سوتے بچے ڈرتے ہیں

مذہب اور سیاست م لکر

نئے نئے نعرے رٹتے ہیں

بہت سے شہروں بہت سے ملکوں سے اب ہوکر

نظم مرے گھر جب آتی ہے

اتنی زیادہ تھک جاتی ہے

میری لکھنے کی ٹیبل پر

خالی کاغذ کو خالی ہی چھوڑ کے

رخصت ہو جاتی ہے

اور کسی ٖفٹ پاتھ پہ جاکر

شہر کے سب سے بوڑھے شہری کی پلکوں پر

آنسو بن کر

سو جاتی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

یہ دل کٹیا ہے سنتوں کی یہاں راجا بھکاری کیا

وہ ہر دیدار میں زردار ہے گوٹا کناری کیا

 

یہ کاٹے سے نہیں کٹتے یہ بانٹے سے نہیں بنٹتے

ندی کے پانیوں کے سامنے آری کٹاری کیا

 

اسی کے چلنے پھرنے، ہنسنے رونے کی ہیں تصویریں

گھٹا کیا، چاند کیا، سنگیت کیا، بادِ بہاری کیا

 

کسی گھر کے کسی بجھتے ہوئے چولہے میں ڈھونڈ ا س کو

جو چوٹی اور داڑھی میں رہے وہ دین داری کیا

 

ہمارا میر جی سے متفق ہونا ہے ناممکن

اٹھانا ہے جو پتھر عشق کا تو ہلکا بھاری کیا

٭٭٭

 

 

 

 

بات کم کیجے ذہانت کو چھپائے رہیے

اجنبی شہر ہے یہ، دوست بنائے رہیے

 

دشمنی لاکھ سہی، ختم نہ کیجے رشتہ

دل ملے یا نہ ملے ہاتھ ملائے رہیے

 

یہ تو چہرے کی شباہت ہوئی تقدیر نہیں

اس پہ کچھ رنگ ابھی اور چڑھائے رہیے

 

غم ہے آوارہ اکیلے میں بھٹک جاتا ہے

جس جگہ رہیے وہاں ملتے ملاتے رہیے

 

کوئی آواز تو جنگل میں دکھائے رستہ

اپنے گھر کے در ودیوار سجائے رہیے

٭٭٭

 

 

 

ایک نظم

 

(شیلا کنی کے لئے)

 

یہ سچ ہے

جب تمہارے جسم کے کپڑے

بھری محفل میں چھینے جا رہے تھے

اس تماشے کا تماشائی تھا میں بھی

اور میں چپ تھا

 

یہ سچ ہے

جب تمہاری بے گناہی کو

ہمیشہ کی طرح سولی پہ ٹانگا جا رہا تھا

اس اندھیرے میں

تمہاری بے زبانی نے پکارا تھا مجھے بھی

اور میں چپ تھا

 

یہ سچ ہے

جب سلگتی ریت پر تم

سر برہنہ

اپنے بیٹے بھایئوں کو تنہا بیٹھی رو رہی تھیں

میں کسی محفوظ گوشے میں

تمہاری بے بسی کا مرثیہ تھا

اور میں چپ تھا

 

یہ سچ ہے

آج بھی جب

شیر چیتوں سے بھری جنگل سے ٹکراتی

تمہاری چیختی سانسیں

مجھے آواز دیتی ہیں

مری عزت، مری شہرت

مری آرام کی عادت

مرے گھر بار کی زینت

مری چاہت، مری وحشت

مرے بڑھتے ہوئے قدموں کو بڑھ کر روک لیتی ہے

میں مجرم تھا

میں مجرم ہوں

میری خاموشی میرے جرم کی زندہ شہادت ہے

میں ان کے ساتھ تھا

جو ظلم کو ایجاد کرتے ہیں

میں ان کے ساتھ ہوں

جو ہنستی گاتی بستیاں

برباد کرتے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

برندابن کے کرشن کنھیا اللہ ہو

بنسی، رادھا، گیتا گیّا، اللہ ہو

 

تھوڑے تنکے تھوڑے دانے تھوڑا جل

ایک ہی جیسی ہر گوریا اللہ ہو

 

جیسا جس کا برتن ویسا اس کا تن

گھٹتی بڑھتی گنگا میا اللہ ہو

 

ایک ہی دریا نیلا پیلا لال ہرا

اپنی اپنی سب کی نیااللہ ہو

 

مولویوں کا سجدہ پنڈت کی پوجا

مزدوروں کی ہیّا ہیّا اللہ ہو

٭٭٭

 

 

 

 

ہر ایک بات کو چپ چاپ کیوں سنا جائے

کبھی تو حوصلہ کر کے نہیں کہا جائے

 

تمہارا گھر بھی اسی شہر کے حصار میں ہے

لگی ہے آگ کہاں کیوں پتہ کیا جائے

 

جدا ہے ہیر سے رانجھا کئی زمانوں سے

نئے سرے سے کہانی کو پھر لکھا جائے

 

کہا گیا ہے ستاروں کو چھونا مشکل ہے

یہ کتنا سچ ہے کبھی تجربہ کیا جائے

 

کتابیں یوں تو بہت سی ہیں میرے بارے میں

کبھی اکیلے میں خود کو بھی پڑھ لیا جائے

٭٭٭

 

 

 

 

 

کٹھ پتلی ہے یا جیون ہے جیتے جاؤ سوچو مت

سوچ سے ہی ساری الجھن ہے جیتے جاؤ سوچو مت

 

لکھا ہوا کردار کہانی میں ہی چلتا پھرتا ہے

کبھی ہے دوری کبھی ملن ہے جیتے جاؤ سوچو مت

 

ناچ سکو تو ناچو جب تھک جاؤ تو آرام کرو

ٹیڑھا کیوں گھر کا آنگن ہے جیتے جاؤ سوچو مت

 

ہر مذہب کا ایک ہی کہنا جیسا مالک رکھے رہنا

جب تک سانسوں کا بندھن ہے جیتے جاؤ سوچو مت

 

گھوم رہے ہیں بازاروں میں سرمایوں کے آتش دان

کس بھٹی میں کون ایندھن ہے جیتے جاؤ سوچو مت

٭٭٭

 

 

 

 

 

کسی بھی شہر میں جاؤ کہیں قیام کرو

کوئی فضا کوئی منظر کسی کے نام کرو

 

دعا سلام ضروری ہے شہر والوں سے

مگر اکیلے میں اپنا بھی احترام کرو

 

ہمیشہ امن نہیں ہوتا فاختاؤں میں

کبھی کبھار اعقابوں سے بھی کلام کرو

 

ہر ایک بستی بدلتی ہے رنگ روپ کئی

جہاں بھی صبح گزارو ادھر ہی شام کرو

 

خدا کے حکم سے شیطان بھی ہے آدم بھی

وہ اپنا کام کریگا تم اپنا کام کرو

٭٭٭

 

 

 

 

 

میں اپنے اختیار میں ہوں بھی نہیں بھی ہوں

دنیا کے کاروبار میں ہوں بھی نہیں بھی ہوں

 

تیری ہی جستجو میں لگا ہے کبھی کبھی

میں تیرے انتظار میں ہوں بھی نہیں بھی ہوں

 

فہرست مرنے والوں کی قاتل کے پاس ہے

میں اپنے ہی مزار میں ہوں بھی نہیں بھی ہوں

 

اوروں کے ساتھ ایسا کوئی مسئلہ نہیں

اک میں ہی اس دیار میں ہوں بھی نہیں بھی ہوں

 

مجھ سے ہی ہے ہر ایک سیاست کا اعتبار

پھر بھی کسی شمار میں ہوں بھی نہیں بھی ہوں

٭٭٭

 

 

 

 

 

نزدیکیوں میں دور کا منظر تلاش کر

جو ہاتھ میں نہیں ہے وہ پتھر تلاش کر

 

سورج کے ارد گرد بھٹکنے سے فائدہ

دریا ہوا ہے گم تو سمندر تلاش کر

 

تاریخ میں محل بھی ہے حاکم بھی تخت بھی

گم نام جو ہوئے ہیں وہ لشکر تلاش کر

 

رہتا نہیں ہے کچھ بھی یہاں ایک سا سدا

دروازہ گھر کا کھول کے پھر گھر تلاش کر

 

کوشش بھی کر، امید بھی رکھ ، راستہ بھی چن

پھر اس کے بعد تھوڑا مقدر تلاش کر

٭٭٭

 

 

 

 

 

وقت بنجارہ صفت لمحہ بلمحہ اپنا

کس کو معلوم یہاں کون ہے کتنا اپنا

 

جو بھی چاہے وہ بنا لے اسے اپنے جیسا

کسی آئینے کا ہوتا نہیں چہرہ اپنا

 

خود سے ملنے کا چلن عام نہیں ہے ورنہ

اپنے اندر ہی چھپا ہوتا ہے رستہ اپنا

 

یوں بھی ہوتا ہے وہ خوبی جو ہے ہم سے منسوب

اس کے ہونے میں نہیں ہوتا ارادہ اپنا

 

خط کے آخر میں سبھی یوں ہی رقم کرتے ہیں

اس نے رسماً ہی لکھا ہو گا ’تمہارا اپنا‘

٭٭٭

 

 

 

 

 

یقین چاند پہ، سورج میں اعتبار بھی رکھ

مگر نگاہ میں تھوڑا سا انتظار بھی رکھ

 

خدا کے ہاتھ میں مت سونپ سارے کاموں کو

بدلتے وقت پہ کچھ اپنا اختیار بھی رکھ

 

یہی لہو ہے شہادت یہی لہو پانی

خزاں نصیب سہی، ذہن میں بہار بھی رکھ

 

گھروں کے طاقوں میں گلدستے یوں نہیں سجتے

جہاں ہیں پھول وہیں آس پاس خار بھی رکھ

 

پہاڑ گونجیں، ندی گائے ی، ہ ضروری ہے

سفر کہیں کا ہو دل میں کسی کا پیار بھی رکھ

٭٭٭

 

 

 

 

ملالہ ملالہ

 

آنکھیں تیری چاند اور سورج

تیرا خواب ہمالہ۔۔۔

 

وقت کی پیشانی پہ اپنا نام جڑا ہے تونے

جھوٹے مکتب میں سچا قرآن پڑھا ہے تونے

اندھیاروں سے لڑنے والی

تیرا نام اجالا۔۔۔۔ ملالہ ملالہ

 

اسکولوں کو جاتے رستے اونچے نیچے تھے

جنگل کے خونخوار درندے آگے پیچھے تھے

مکے کا ایک امی تیرے لفظوں کا رکھوالا۔۔۔۔ ملالہ ملالہ

 

تجھ پہ چلنے والی گولی ہر دھڑکن میں ہے

ایک ہی چہرہ ہے تو لیکن ہر درپن میں ہے

تیرے رستے کا ہم راہی ، نیلی چھتری والا۔۔ ملالہ ملالہ

٭٭٭

 

 

 

تیرا نام نہیں

 

 

تیرے پیروں چلا نہیں جو

دھوپ چھاؤں میں ڈھلا نہیں جو

وہ تیرا سچ کیسے،

جس پر تیرا نام نہیں؟

 

تجھ سے پہلے بیت گیا جو

وہ اتہاس ہے تیرا

تجھ کو ہی پورا کرنا ہے

جو بن باس ہے تیرا

تیری سانسیں جیا نہیں جو

گھر آنگن کا دیا نہیں جو

وہ تلسی کی رامائن ہے

تیرا رام نہیں

 

تیرا ہی تن پوجا گھر ہے

کوئی مورت گڑھ لے

کوئی پستک ساتھ نہ دے گی

چاہے جتنا پڑھ لے

تیرے سر میں سجا نہیں جو

اکتارے پر بجا نہیں جو

وہ میرا کی سمپتی ہے

تیرا شیام نہیں

٭٭٭

 

 

 

 

 

کبھی کبھی یوں بھی ہم نے اپنے جی کو بہلایا ہے

جن باتوں کو خود نہیں سمجھے اوروں کو سمجھایا ہے

 

میرو غالب کے شعروں نے کس کا ساتھ نبھایا ہے

سستے گیتوں کو لکھ لکھ کر ہم نے گھر بنوایا ہے

 

ہم سے پوچھو عزت والوں کی عزّت کا حال کبھی

ہم نے بھی اک شہر میں رہ کر تھوڑا نام کمایا ہے

 

ا س کو بھولے مدت گزری لیکن آج نہ جانے کیوں

آنگن میں ہنستے بچوں کو بے کارن دھمکایا ہے

 

اس بستی سے چھوٹ کے یوں تو ہر چہرے کو یاد کیا

جس سے تھوڑی سی ان بن تھی وہ اکثر یاد آیا ہے

 

کوئی ملا تو ہاتھ ملایا، کہیں گئے تو بات بھیکی

گھر سے باہر جب بھی نکلے، دن بھر بوجھ اٹھایا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

دنیا جسے کہتے ہیں مٹی کا کھلونا ہے

مل جائے تو مٹی ہے کھو جائے تو سونا ہے

 

اچھا سا کوئی موسم ،تنہا سا کوئی عالم

ہر وقت کا رونا تو بیکار کا رونا ہے

 

برسات کا بادل تو دیوانہ ہے کیا جانے

کس راہ سے بچنا ہے کس چھت کو بھگونا ہے

 

غم ہو کہ خوشی دونوں، کچھ دور کے ساتھی ہیں

پھر رستہ ہی رستہ ہے، ہنسنا ہے نہ رونا ہے

 

یہ وقت جو تیرا ہے، یہ وقت جو میرا ہے

ہر گام پہ پہرا ہے، پھر بھی اسے کھونا ہے

 

آوارہ مزاجی نے پھیلا دیا آنگن کو

آکاش کی چادر ہے دھرتی کو بچھونا ہے

٭٭٭

 

دوہے

 

لے کے تن کے ناپ کو، گھومے بستی گاؤں

ہر چادر کے گھیر سے، باہر نکلے پاؤں

 

گھر کو کھوجیں رات دن گھر سے نکلے پاؤں

وہ رستہ ہی کھو گیا جس رستے تھا گاؤں

 

چیخے گھر کے دوار کی لکڑی ہر برسات

کٹ کر بھی مرتے نہیں، پیڑوں میں دن رات

 

راستے کو بھی دوش دے، آنکھیں بھی کر لال

چپل میں جو کیل ہے، پہلے اسے نکال

 

اوپر سے گڑیا ہنسے، اندر پولم پول

گڑیا سے ہے پیار تو، ٹانکوں کو مت کھول

 

درپن میں آنکھیں بنیں، دیواروں میں کان

چوڑی میں بجنے لگی، ادھروں کی مسکان

 

میں کیا جانوں تو بتا، تو ہے میرا کون

میرے من کی بات کو، بولے تیرا مون

 

چڑیوں کو چہکاکر دے، گیتوں کو دے بول

سورج بن آکاش ہے، غوری گھونگھٹ کھول

 

سنا ہے اپنے گاؤں میں، رہا نہ اب وہ نیم

جسکے آگے مند تھے، سارے وید حکیم

 

بوڑھا پیپل گھاٹ کا، بتیائے دن رات

جو بھی گزرے پاس سے، سر پہ رکھ دے ہاتھ

 

میں بھی تو بھی یاتری، آتی جاتی ریل

اپنے اپنے گاؤں تک، سب کا سب سے میل

 

پنچھی مانو، پھول، جل، الگ الگ آکار

ماٹی کا گھر ایک ہی، سارے رشتےدار

 

اندر مورت پر چڑھے ، گھی، پوری ،مشٹھان

مندر کے باہر کھڑا، ایشور مانگے دان

 

سیتا راون رام کا، کریں وبھاجن لوگ

ایک ہی تن میں دیکھیے، تینوں کا سنجوگ

 

وہ صوفی کا قول ہو، یا پنڈت کا گیان

جتنی بیتے آپ پر، اتنا ہی سچ جان

 

سات سمندر پار سے، کوئی کرے بیوپار

پہلے بھیجے سرحدیں، پھر بھیجے ہتھیار

 

یوں ہی ہوتا ہے صسدا، ہر چونر کے سنگ

پنچھی بن کر دھوپ میں، اڑ جاتا ہے رنگ

 

جیون بھر بھٹکا کیے، کھلی نہ من کی گانٹھ

ا س کا راستہ چھوڑکر، دیکھی ا س کی بات

 

جیون کے دن رین کا، کیسے لگے حساب

دیمک کے گھر بیٹھ کر، لیکھک لکھے کتاب

 

یگ یگ سے ہر باغ کا، یہ ہی ایک اصول

جسکو ہنسنا آ گیا، وہ ہی مٹی پھول

 

عیسٰی، اللہ، ایشور، سارے منتر سیکھ

جانے کب کس نام سے ملے زیادہ بھیک

 

اسٹیشن پر ختم کی بھارت تیری کھوج

نہرو نے لکھا نہیں قلی کے سر کا بوجھ

٭٭٭

 

 

 

 

ابھی وقت سے ہاتھا پائی ہے زندہ

میں زندہ ہوں جب تک لڑائی ہے زندہ

 

کہا عید کے روز قربانیوں نے

خدا کے کرم سے قصائی ہے زندہ

 

مغل دور آیا بھی، آکے گیا بھی

مگر راکھی والی کلائی ہے زندہ

 

ابھی سے نہ تہذیب پر تبصرہ کر

ابھی تو بہت سی خدائی ہے زندہ

 

کبھی شہر سے دور جاکے بھی بیٹھو

پرندوں کی نغمہ سرائی ہے زندہ

٭٭٭

ماخذ: کاویہ کوش سے

ہدی سے رسم الخط کی تبدیلی ، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید