فہرست مضامین
- سنن ابن ماجہ
- امام ابن ماجہ
- نرمی اور مہربانی
- غلاموں باندیوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنا
- سلام کو رواج دینا (پھیلانا)
- سلام کا جواب دینا
- ذمی کافروں کو سلام کا جواب کیسے دیں؟
- بچوں اور عورتوں کو سلام کرنا
- مصافحہ
- ایک مرد دوسرے مرد کا ہاتھ چومے
- (داخل ہونے سے قبل) اجازت لینا
- مرد سے کہنا کہ صبح کیسی کی؟
- جب تمہارے پاس کسی قوم کا معزز شخص آئے تو اس کا اکرام کرو
- چھینکنے والے کو جواب دینا
- مرد اپنے ہمنشین کا اعزاز کرے
- جو کسی نشست سے اٹھے پھر واپس آئے تو وہ اس نشست کا زیادہ حقدار ہے
- عذر کرنا
- مزاح کرنا
- سفید بال اکھیڑنا
- کچھ سایہ اور کچھ دھوپ میں بیٹھنا
- اوندھے منہ لیٹنے سی ممانعت
- علم نجوم سیکھنا کیسا ہے
- ہوا کو برا کہنے کی ممانعت
- کون سے نام اللہ تعالی کو پسند ہیں؟
- ناپسندیدہ نام
- نام بدلنا
- نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا اسم مبارک اور کنیت دونوں کا بیک وقت اختیار کرنا
- اولاد ہونے سے قبل ہی مرد کا کنیت اختیار کرنا
- القابات کا بیان
- خوشامد کا بیان
- جس سے مشورہ طلب جائے وہ بمنزلہ امانت دار ہے
- حمام میں جانا
- بال صفا پاؤڈر استعمال کرنا
- وعظ کہنا اور قصے بیان کرنا
- شعر کا بیان
- ناپسندیدہ اشعار
- چوسر کھیلنا
- کبوتر بازی
- اللہ تعالی سے بخشش طلب کرنا
- نیکی کی فضیلت
- لاحول ولاقوۃ الا باللہ کی فضیلت
- امام ابن ماجہ
- دعاؤں کا بیان
- دعا کی فضیلت
- رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی دعا کا بیان
- ان چیزوں کا بیان جن سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پناہ مانگی
- جامع دعائیں
- عفو (درگزر) اور عافیت (تندرستی) کی دعا مانگنا
- جب تم میں سے کوئی دعا کرے تو اپنے آپ سے ابتداء کرے (پہلے اپنے لئے مانگے )
- دعا قبول ہوتی ہے بشرطیکہ جلدی نہ کرے
- کوئی شخص یوں نہ کہے کہ اے اللہ اگر آپ چاہیں تو مجھے بخش دیں
- اسم اعظم
- اللہ عزوجل کے اسماء کا بیان
- والد اور مظلوم کی دعا
- دعا میں حد سے بڑھنا منع ہے
- دعا میں ہاتھ اٹھانا
- صبح و شام کی دعا
- سونے کے لئے بستر پر آئے تو کیا دعا مانگے؟
- رات میں بیدار ہو تو کیا پڑھے؟
- سختی اور مصیبت کے وقت کی دعا
- کوئی شخص گھر سے نکلے تو یہ دعا مانگے
- گھر داخل ہوتے وقت کی دعا
- سفر کرتے وقت کی دعا
- باد و باراں کا منظر دیکھتے وقت یہ دعا پڑھے
- مصیبت زدہ کو دیکھے تو یہ دعا پڑھے
- خو ابو ں کی تعبیر کا بیان
- مسلمان اچھا خواب دیکھے یا اس کے بارے میں کسی اور کو خواب دکھائی دے
- خواب میں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زیارت
- خواب تین قسم کا ہوتا ہے
- جو ناپسندیدہ خواب دیکھے
- جس کے ساتھ شیطان کھیلے تو وہ وہ خواب لوگوں کو نہ بتائے
- خواب کی تعبیر جیسے بتائی جائے (ویسے ہی) واقع ہو جاتی ہے لہذا دوست (خیر خواہ) کے علاوہ کسی اور کو خواب نہ سنائے
- خواب کی تعبیر کیسے دی جائے؟
- جھوٹ موٹ خواب ذکر کرنا
- جو شخص گفتار میں سچا ہو اسے خواب بھی سچے ہی آتے ہیں
- خواب کی تعبیر
- لا الہ الا اللہ کہنے والوں سے ہاتھ روکنا
- اہل ایمان کے خون اور مال کی حرمت
- لوٹ مار کی ممانعت
- مسلمان سے گالی گلوچ فسق اور اس سے قتال کفر ہے
- رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا فرمان کہ میرے بعد کافر نہ ہو جانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں اڑانا شروع کر دو
- تمام اہل اسلام اللہ تعالی کے ذمے ( پناہ) میں ہیں
- تعصب کرنے کا بیان
- سواد اعظم (کے ساتھ رہنا )
- ہونے والے فتنوں کا ذکر
- فتنہ میں حق پر ثابت قدم رہنا
- جب دو (یا اس سے زیادہ) مسلمان اپنی تلواریں لے کر آمنے سامنے ہوں
- فتنہ میں زبان روکے رکھنا
- گوشہ نشینی
- عورتوں کا فتنہ
- نیک کام کروانا اور برا کام چھڑوانا
- اللہ تعالی کا ارشاد اے ایمان والو! تم اپنی فکر کرو کی تفسیر
- سزاؤں کا بیان
- مصیبت پر صبر کرنا
- زمانہ کی سختی
- علامات قیامت
- قرآن اور علم کا اٹھ جانا
- امانت (ایمانداری) کا اٹھ جانا
- قیامت کی نشانیاں
- زمین کا دھنسنا
- بیداء کا لشکر
- دابۃ الارض کا بیان
- آفتاب کا مغرب سے طلوع ہونا
- ترک کا بیان
- دنیا سے بے رغبتی کا بیان
- دنیا کی فکر کرنا کیسا ہے؟
- دنیا کی مثال
- جس کو لوگ کم حیثیت جانیں
- فقیر کی فضیلت
- فقیروں کا مرتبہ
- فقیروں کے ساتھ بیٹھنے کی فضیلت
- جو بہت مالدار ہیں ان کا بیان
- قناعت کا بیان
- آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی آل کی زندگی کے متعلق بیان
- آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی آل کا نیند کے لئے بستر کیسا تھا؟
- آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اصحاب کی زندگی کیسے گزری؟
- عمارت تعمیر کرنا؟
- توکل اور یقین کا بیان
- تواضع کا بیان اور کبر کے چھوڑ دینے کا بیان
- شرم کا بیان
- حلم اور بردباری کا بیان
- غم اور رونے کا بیان
- عمل کے قبول نہ ہونے کا ڈر رکھنا
- ریا اور شہرت کا بیان
- حسد کا بیان
- بغاوت اور سرکشی کا بیان
- تقویٰ اور پرہیزگاری کا بیان
- لوگوں کی تعریف کرنا
- نیت کے بیان میں
- انسان کی آرزو اور عمر کا بیان
- نیک کام کو ہمیشہ کرنا
- گناہوں کا بیان
- توبہ کا بیان
- موت کا بیان اور اس کے واسطے تیار رہنا
- قبر کا بیان اور مردے کے گل جانے کا بیان
- حشر کا بیان
- حوض کا ذکر
- شفاعت کا ذکر
- دوزخ کا بیان
- جنت کا بیان
سنن ابن ماجہ
حصہ ششم
امام ابن ماجہ
نرمی اور مہربانی
علی بن محمد، وکیع، اعمش، تمیم بن سلمہ، عبد الرحمن بن ہلال عبسی، حضرت جریر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو نرمی اور مہربانی سے محروم ہے وہ خیر اور بھلائی سی محروم ہے۔
٭٭ اسماعیل بن حفص، ایلی، ابو بکر بن عیاش، اعمش، ابی صالح، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اللہ تعالی مہربان ہیں اور مہربانی کو پسند فرماتے ہیں اور مہربانی کی وجہ سے وہ کچھ عطا فرماتے ہیں جو درشتی اور سختی پر نہیں فرماتے۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، محمد بن مصعب، اوزاعی، ہشام بن عمار، عبد الرحمن بن ابراہیم، ولید بن مسلم، اوزاعی ، ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اللہ تعالی مہربان ہیں اور تمام کاموں میں مہربانی کو پسند فرماتے ہیں۔
غلاموں باندیوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنا
ابو بکر بن ابی شیبہ، وکیع، اعمش، معرور بن سوید، حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا یہ (غلام باندیاں ) تمہارے بھائی ہیں (اولاد آدم ہیں ) اللہ تعالی نے انہیں تمہارے قبضہ ( اور ملک) میں دے دیا ہے انہیں وہی کھلاؤ جو خود کھاتے ہو او روہی پہناؤ جو خود پہنتے ہو اور انہیں مشکل کام کا حکم مت دو اگر مشکل کام کا حکم دو تو ان کی مد د بھی کرو (کہ خود بھی شریک ہو جاؤ)۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، علی بن محمد، اسحاق بن سلیمان، مغیرہ بن مسلم فرقد سبخی، مرہ طیب، حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا بد خلق شخص جنت میں نہ جائے گا۔ صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا اے اللہ کے رسول آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے تو ہمیں بتایا ہے کہ اس امت میں پہلی امتوں سے زیادہ غلام اور یتیم ہوں گے؟ (بہت ممکن ہے کہ بعض لوگ ان کے ساتھ بد خلقی کریں ) فرمایا جی ہاں لیکن ان کا ایسے ہی خیال رکھو جیسے اپنی اولاد کا خیال رکھتے ہو اور انہیں وہی کھلاؤ جو خود کھاتے ہو۔ صحابہ نے عرض کیا ہمیں دنیا میں کون سی چیز فائدہ پہنچانے والی ہے؟ فرمایا گھوڑا جسے تم باندھ رکھو اس پر سوار ہو کر راہ خدا میں لڑو تمہارا غلام تمہارے لئے کافی ہے اور جب وہ نماز پڑھے (مسلمان ہو جائے ) تو وہ تمہارا بھائی ہے۔
سلام کو رواج دینا (پھیلانا)
ابو بکر بن ابی شیبہ، ابو معاویہ، ابن نمیر، اعمش، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے تم جنت میں داخل نہ ہو گے یہاں تک کہ ایمان لے آؤ اور تم صاحب ایمان نہ ہو گے کہ آپس میں محبت کرو اور کیا میں تمہیں ایسی بات نہ بتاؤں کہ جب تم وہ کرو گے تم باہم محبت کرنے لگو گے اپنے درمیان سلام کو رواج دو۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، اسماعیل بن عیاش، محمد بن زیاد، حضرت ابو امامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہمیں سلام کو عام کرنے کا امر فرمایا۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، محمد بن فضیل ، عطاء بن سائب، حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا رحمن کی پرستش (عبادت) کرو اور سلام کو رواج دو۔
سلام کا جواب دینا
ابو بکر بن ابی شیبہ، عبد اللہ بن نمیر، عبید اللہ بن عمر، سعید بن ابی سعید مقبری، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک مرد مسجد میں آئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مسجد کے ایک کونے میں تشریف فرما تھے انہوں نے نماز ادا کی پھر حاضر خدمت ہوئے سلام عرض کیا۔ آپ نے فرمایا وعلیک السلام۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، عبد الرحیم بن سلمان، زکریا، شعبی، ابی سلمہ، ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان سے کہا کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام تمہیں سلام کر رہے ہیں انہوں نے جواب میں کہا وَعَلَیْہِ السَّلَامُ وَرَحْمَۃُ اللَّہِ
ذمی کافروں کو سلام کا جواب کیسے دیں؟
ابو بکر، عبدہ بن سلمان ، محمد بن بشر، سعید، قتادہ، حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب اہل کتاب میں سے کوئی تمہیں سلام کرے تو جواب میں (صرف اتنا) کہا کرو وَعَلَیْکُمْ۔
٭٭ ابو بکر، ابو معاویہ، اعمش، مسلم، مسروق، ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس کچھ یہودی آئے اور کہا اَلسَّامُ عَلَیکُم اے ابو القاسم ! آپ نے فرمایا وَعَلَیْکُمْ۔
٭٭ ابو بکر، ابن نمیر، محمد بن اسحاق ، یزید بن ابی حبیب، مرثد بن عبد اللہ یزنی، حضرت ابو عبد الرحمن جہنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کل میں سوار ہو کر یہودیوں کے پاس جاؤں گا تو تم انہیں پہلے سلام نہ کرنا اور جب وہ سلام کریں تو تم صرف وَعَلَیْکُمْ کہنا۔
بچوں اور عورتوں کو سلام کرنا
ابو بکر، ابو خالدالحمر، حمید، حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہمارے پاس آئے ہم بچے (جمع) تھے آپ نے ہمیں سلام کیا۔
٭٭ ابو بکر، سفیان بن عیینہ، ابن ابی حسین، شہر بن حوشب، حضرت اسماء بنت یزید رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتی ہیں ہم عورتوں کے پاس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا گزر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہمیں سلام کیا۔
مصافحہ
علی بن محمد، وکیع، جریر بن حازم، حنظلہ بن عبد الرحمن سدوسی، حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم نے عرض کیا اے اللہ کے رسول کیا ہم ایک دوسرے کے لئے جھکا کریں؟ آپ نے فرمایا نہیں ہم نے عرض کیا پھر ایک دوسرے سے معانقہ کیا کریں؟ فرمایا نہیں البتہ مصافحہ کر لیا کرو۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، ابو خالد، الاحمر، عبد اللہ بن نمیر، الاجلح، ابی اسحاق ، حضرت براء بن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو دو مسلمان بھی ایک دوسرے سے ملیں اور مصافحہ کریں جدا ہونے سے قبل ہی ان کے گناہ بخش دئیے جاتے ہیں۔
ایک مرد دوسرے مرد کا ہاتھ چومے
ابو بکر بن ابی شیبہ، محمد بن فضیلم، یزید بن ابی زیاد، عبد الرحمن بن ابی لیلیٰ، حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ ہم نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا دست مبارک چوما۔
٭٭ ابو بکر، عبد اللہ بن ادریس، غندر، ابو اسامہ، شعبہ، عمرو بن مرۃ، عبد اللہ بن سلمہ، حضرت صفوان بن عسال رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ یہودیوں کی ایک جماعت نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہاتھ چومے۔
(داخل ہونے سے قبل) اجازت لینا
ابو بکر، یزید بن ہارون، داؤد بن ابی ہند، ابی نضرہ، حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے تین بار اجازت طلب کی حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اجازت نہ دی (جواب ہی نہ دیا) تو حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ واپس ہو لئے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کے پاس کسی کو بھیجا (اور پوچھا کہ) آپ کیوں واپس ہوئے فرمانے لگے میں نے تین بار اجازت طلب کی جس کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہمیں امر فرمایا کہ اگر اجازت مل جائے تو داخل ہو جائیں اور اگر اجازت نہ ملے تو واپس ہو جائیں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا تم اس حدیث کا میرے پاس ضرور ثبوت لاؤ ورنہ میں یہ کروں گا (حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے محض تاکید و احتیاط کے لئے ایسا فرمایا ورنہ حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ خود ثقہ تھے ) چنانچہ حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنی قوم کی مجلس میں آئے اور انہیں قسم دی (کہ جس نے یہ حدیث سنی ہو وہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں گواہی دے ) کچھ لوگوں نے حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ گواہی دی (کہ ہم نے بھی یہ حدیث سنی ہے ) تب حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کو چھوڑا۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، عبد الرحیم بن سلیمان، واصل بن سائب، ابی سورہ، حضرت ابو ایوب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ ہم عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سلام تو ہمیں معلوم ہو گیا۔ اجازت کیسے طلب کی جائے؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا مرد سُبْحَانَ اللَّہِ اور اللَّہُ أَکْبَرُ الْحَمْدُ لِلَّہِ کہے اور کھنکھارے اور اہل خانہ کو اپنی آمد سے باخبر کر دے۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، ابو بکر بن عیاش، مغیرہ، حارث، عبد اللہ بن نجی، حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں (گھر) حاضری کے لئے میرے لئے دو وقت مقرر تھے ایک رات میں ایک دن میں جب بھی میں آتا اور آپ نماز میں مشغول ہوتے تو (میرے اجازت طلب کرنے پر) آپ کھنکھار دیتے۔
(
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، وکیع، شعبہ، محمد بن منکدر، حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اجازت طلب کی تو فرمایا کون ہے؟ میں نے عرض کیا میں۔ اس پر نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میں میں (کیا ہے نام لو)۔
مرد سے کہنا کہ صبح کیسی کی؟
ابو بکر، عیسیٰ بن یونس، عبد اللہ بن مسلم، عبد الرحمن بن سابط، حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! صبح کیسی کی؟ فرمایا خیریت ہے۔ اس مرد سے بہتر ہوں جس نے روزہ کی حالت میں صبح نہیں کی اور نہ ہی بیمار کی عیادت کی۔
٭٭ ابو اسحاق ہروی ابراہیم بن عبد اللہ بن ابی حاتم، عبد اللہ بن عثمان بن اسحاق بن سعد بن ابی وقاص، مالک بن حمزہ بن حضرت ابو اسید ساعدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیان فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم حضرت عباس بن عبد المطلب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس تشریف لے گئے اور ان سے فرمایا السَّلَامُ عَلَیْکُمْ۔ انہوں نے جواب دیا وَعَلَیْکَ السَّلَامُ وَرَحْمَۃُ اللَّہِ وَبَرَکَاتُہُ۔ فرمایا کس حال میں صبح کی؟ عرض کیا خیریت سے ہم اللہ کی تعریف کرتے ہیں اے اللہ کے رسول۔ ہمارے ماں باپ آپ پر فدا ہوں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کیسے صبح کی ! فرمایا الْحَمْدُ لِلَّہِ میں نے بھی خیریت سے صبح کی۔
جب تمہارے پاس کسی قوم کا معزز شخص آئے تو اس کا اکرام کرو
محمد بن صباح، سعید بن مسلمہ، ابن عجلان، نافع، حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب تمہارے پاس کسی قوم کا معزز شخص آئے تو اس کا اعزاز کرو۔
چھینکنے والے کو جواب دینا
ابو بکر بن ابی شیبہ، یزید بن ہارون، سلیمان تیمی، حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دو مردوں کو چھینک آئی آپ نے ایک کو جواب دیا (یَرْحَمُکَ اللَّہُ کہا) اور دوسرے کو جواب نہ دیا عرض کیا گیا اے اللہ کے رسول ! آپ نے ان میں سے ایک کو جواب دیا اور دوسرے کو جواب نہ دیا (اس کی کیا وجہ ہے؟) فرمایا اس نے اللہ کی حمد کی (الْحَمْدُ لِلَّہِ کہا) اور دوسرے نے اللہ کی حمد نہیں کی۔
٭٭ علی بن محمد، وکیع، عکرمہ بن عمار، ایاس بن حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا چھینکنے والے کو تین بار جواب دیا جائے اور اس کے بعد بھی چھینک آئے تو اسے زکام ہے۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، علی بن مسہر، ابن ابی لیلیٰ عیسیٰ ، عبد الرحمن بن ابی لیلیٰ، حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب تم میں سے کسی کو چھینک آئے تو اسے الْحَمْدُ لِلَّہِ کہنا چاہئے اور پاس والوں کو جواب میں یَرْحَمُکَ اللَّہُ کہنا چاہئے۔ پھر چھینکنے والے کو چاہئے کہ وہ ان کو جواب میں کہے۔ یَہْدِیکُمُ اللَّہُ وَیُصْلِحُ بَالَکُمْ (کہ اللہ تمہیں راہ راست پر رکھے اور تمہارے مال کو درست فرمائے )۔
مرد اپنے ہمنشین کا اعزاز کرے
علی بن محمد، وکیع، ابی یحییٰ طویل، زید عمی، حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب کسی مرد سے ملتے اور گفتگو فرماتے تو اپنا چہرۂ انور اس کی طرف سے نہ پھیرتے (اس کی طرف متوجہ رہتے ) یہاں تک کہ وہ واپس ہو جائے (اور اپنا چہرہ دوسری طرف پھیر لے ) اور جب آپ کسی مرد سے مصافحہ کرتے تو اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ سے الگ نہ کرتے یہاں تک کہ وہ اپنا ہاتھ الگ کرے اور کبھی نہ دیکھا گیا کہ آپ نے کسی ہمنشین کے سامنے پاؤں پھیلائے ہوں۔
جو کسی نشست سے اٹھے پھر واپس آئے تو وہ اس نشست کا زیادہ حقدار ہے
عمرو بن رافع، جریر، سہیل بن ابی صالح، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی اپنی نشست سے اٹھے پھر واپس آئے تو وہی اس نشست کا زیادہ حقدار ہے۔
عذر کرنا
علی بن محمد، وکیع، سفیان، ابن جریح، ابن میناء، جوذان، دوسری سند محمد بن اسماعیل، وکیع، سفیان، ابن جریج، عباس بن عبد الرحمن، حضرت جوذان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو اپنے بھائی سے معذرت کرے اور وہ معذرت قبول (کر کے معاف) نہ کرے۔ تو اس کو محصول لینے والے کی خطاء کے برابر گناہ ہو گا۔ دوسری سند سے یہی مضمون مروی ہے۔
مزاح کرنا
ابو بکر، وکیع، زمعہ بن صالح، زہری، وہب بن عبد زمعہ، ام سلمہ، علی بن محمد، وکیع، زمعہ بن صالح، زہری، عبد اللہ بن وہب بن زمعہ، ام المومنین سیدہ ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتی ہیں کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے انتقال سے ایک سال قبل بغرض تجارت بصریٰ گئے آپ کے ساتھ حضرت نعیمان اور سویبط بن حرملہ بھی تھے یہ دونوں حضرات بدر میں شریک ہوئے تھے نعیمان کے ذمہ زاد (توشہ) تھا اور سویبط کی طبیعت میں مزاح بہت تھا انہوں نے نعیمان سے کہا کہ مجھے کھانا کھلاؤ کہنے لگے حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو آنے دو سویبط نے کہا کہ اچھا (مجھے کھانا نہیں دیا) تو میں تمہیں پریشان کروں گا (رستہ میں ) ایک جماعت سے گزر ہوا تو سویبط نے (الگ ہو کر) ان سے کہا تم مجھ سے میرا ایک غلام خریدتے ہو؟ کہنے لگے ضرور وہ باتونی ہے وہ تمہیں کہتا رہے گا کہ میں آزاد ہوں اگر تم اس کی باتوں میں آ کر اسے چھوڑ دو گے تو میرے غلام کو خراب مت کرو کہنے لگے نہیں ہم آپ سے خرید تے ہیں۔ الغرض انہوں نے دس اونٹوں کے عوض غلام سویبط سے خرید لیا پھر نعیمان کے پاس آئے اور گردن میں عمامہ یا رسی باندھنے لگے نعیمان نے کہا کہ یہ تمہارے ساتھ مذاق کر رہے ہیں میں آزاد ہوں غلام نہیں ہوں کہنے لگے اس نے ہمیں یہ بات بتا دی تھی وہ لوگ نعیمان کو لے کر چلے گئے حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ آئے تو لوگوں نے انہیں سب ماجرا بیان کیا آپ اس جماعت کے پیچھے گئے اور ان کو اونٹ واپس کر کے نعیمان کو لائے۔ جب واپس نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ کو یہ واقعہ سنایا تو آپ ہنس دئیے اور آپ کے صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی سال بھر تک اس واقعہ پر ہنستے رہے۔
٭٭ علی بن محمد، وکیع، شعبہ، ابی تیاح، حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہمارے ساتھ گھل کر رہتے (اور مزاح بھی کرتے ) کبھی میرے چھوٹے بھائی سے فرماتے اے ابو عمیر کیا ہوا نغیر؟ وکیع فرماتے ہیں کہ نغیر ایک پرندہ تھا جس سے ابو عمیر کھیلا کرتے تھے۔
سفید بال اکھیڑنا
ابو بکر بن ابی شیبہ، عبدہ بن سلیمان، محمد بن اسحاق ، حضرت عبد اللہ بن عمر بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سفید بال اکھیڑ نے سے منع فرمایا اور ارشاد فرمایا یہ مومن کا نور ہے۔
کچھ سایہ اور کچھ دھوپ میں بیٹھنا
ابو بکر بن ابی شیبہ، زید بن حباب ، ابی منیب، حضرت بریدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دھوپ اور سائے کے درمیان بیٹھنے سے منع فرمایا۔
اوندھے منہ لیٹنے سی ممانعت
محمد بن صباح، ولید بن مسلم، اوزاعی، یحییٰ بن ابی کثیر، قیس بن حضرت طخفۃ غفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھے مسجد میں پیٹ کے بل سوتا ہوا پایا تو اپنے پاؤں سے مجھے ہلایا اور فرمایا تم اس طرح کیوں سوتے ہو یہ سونے کا وہ انداز ہے جو اللہ کو پسند نہیں یا فرمایا کہ جس سے اللہ تعالی ناراض ہوتے ہیں۔
٭٭ یعقوب بن حمید بن کاسب، اسماعیل بن عبید اللہ ، محمد بن نعیم بن عبدللہ مجمر، ابن طخفہ غفاری، ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت مجھ پر گزرے اور میں پیٹھ کے بل پڑا ہوا تھا آپ نے لات سے مجھ کو مارا اور فرمایا اے جندب (یہ نام ابو ذر کا اور بعض نسخوں میں جنیدب ہے وہ تصغیر ہے ) جندب کی شفقت اور مہربانی کیلئے یہ تو سونا دوزخ والوں کاہے۔ اس کی سند میں یعقوب بن حمید مختلف فیہ ہے۔
٭٭ یعقوب بن حمید بن کاسب، سلمہ بن رجاء، ولید بن جمیل دمشقی، قاسم بن عبد الرحمن، حضرت ابو امامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک شخص پر سے گذرے جو اوندھے منہ مسجد میں سو رہا تھا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اٹھ کر بیٹھ یہ دوزخیوں کا سونا ہے (اس کی سند میں ولید بن جمیل اور سلمہ بن رجا اور یعقوب بن حمید سب مختلف فیہ ہیں )۔
علم نجوم سیکھنا کیسا ہے
ابو بکر، یحییٰ بن سعید، عبید اللہ بن اخنس، ولید بن عبد اللہ، عبد اللہ، یوسف بن ماہک، ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس نے علم نجوم میں سے کچھ حاصل کیا اس نے سحر کا ایک شعبہ حاصل کیا اب جتنا زیادہ حاصل کرے اتنا ہی گویا سحر زیادہ حاصل کیا۔
ہوا کو برا کہنے کی ممانعت
ابو بکر، یحییٰ بن سعید، اوزاعی، زہری، ثابت زرقی، ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا مت برا کہو ہوا کو وہ اللہ کی رحمت سے ہے۔ وہ اللہ کی رحمت لے کر آتی ہے اور عذاب بھی لاتی ہے۔ البتہ اللہ جل جلالہ سے ہوا کی بھلائی مانگو اور اس کی برائی سے پناہ چاہو۔
کون سے نام اللہ تعالی کو پسند ہیں؟
ابو بکر، خالد بن مخلد، عمری، نافع، ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا بہتر اور زیادہ پسند ناموں میں سے اللہ تعالی کے نزدیک یہ نام ہیں عبد اللہ اور عبد الرحمن۔
ناپسندیدہ نام
نصر بن علی، سفیان ، ابی زبیر، جابر، حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اگر میں زندہ رہا تو انشاء اللہ آئندہ رباح ، نجیح ، افلح، نافع اور یسار نام رکھنے سے ضرور منع کر دوں گا۔
٭٭ ابو بکر، معتمر بن سلیمان، رکین، حضرت سمرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے منع فرمایا کہ ہم اپنے غلاموں کے نام ان چار میں کوئی رکھیں افلح نافع رباح اور یسار۔
٭٭ ابو بکر، ہاشم بن قاسم، ابو عقیل، مجالد بن سعید، شعبی، حضرت مسروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ملا تو پوچھنے لگے تم کون ہو؟ میں نے عرض کیا مسروق بن اجدع۔ اس پر حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے سنا کہ اجدع ایک شیطان کا نام ہے۔
نام بدلنا
ابو بکر، غندر، شعبہ، عطاء بن ابی میمون، ابو رافع، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا نام برّہ تھا (اس کا معنی ہے نیک اور صالحہ) تو ان سے کہا گیا کہ آپ خود ہی اپنی تعریف کرتی ہیں (کہ نام پوچھا جائے تو جواب میں کہتی ہیں برّہ یعنی صالحہ) اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کا نام زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہ رکھ دیا۔
٭٭ ابو بکر، حسن بن موسی، حماد بن سلمہ، عبید اللہ، نافع، حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ایک صاحبزادی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا نام عاصیہ (نافرمان) تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کا نام جمیلہ رکھ دیا۔
٭٭ ابو بکر، یحییٰ بن یعلیٰابو محیاۃ، عبد الملک بن عمیر، ابن اخی عبد اللہ بن سلام، حضرت عبد اللہ بن سلام رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا اسوقت میرا نام عبد اللہ بن سلام نہ تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے میرا نام عبد اللہ بن سلام رکھ دیا۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا اسم مبارک اور کنیت دونوں کا بیک وقت اختیار کرنا
ابو بکر بن ابی شیبہ، سفیان بن عیینہ، ایوب، محمد، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ابو القاسم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میرا نام اختیار کر لولیکن میری کنیت مت اختیار کرو۔
٭٭ ابو بکر، ابو معاویہ، اعمش، ابی سفیان، حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میرا نام اختیار کر لو لیکن میری کنیت مت اختیار کرو۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، عبد الوہاب ثقفی، حمید، حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بقیع (مدینہ کے قبرستان) میں تھے کہ کسی شخص نے دوسرے کو آواز دے کر کہا اے ابو القاسم ! تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس کی طرف متوجہ ہوئے۔ اس نے عرض کیا میں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو نہیں پکارا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میرا نام اختیار کر سکتے ہو لیکن میری کنیت مت اختیار کرو۔
اولاد ہونے سے قبل ہی مرد کا کنیت اختیار کرنا
ابو بکر بن ابی شیبہ، یحییٰ بن ابی بکیر، زہیر بن محمد، عبد اللہ بن عقیل، حمزہ بن صہیب حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت صہیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا آپ کی کنیت ابو یحی کیسے ہے جبکہ آپ کی اولاد ہی نہیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ میری کنیت ابو یحیی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے رکھی۔
٭٭ ابو بکر، وکیع، ہشام بن عروہ، زبیر، ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے عرض کیا کہ میرے علاوہ تم بیویوں رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کنیت رکھی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم ام عبد اللہ ہو۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، وکیع، شعبہ، ابی تیاح، حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہمارے پاس تشریف لائے۔ میرا ایک چھوٹا بھائی تھا اسے فرماتے اے ابو عمیر۔
القابات کا بیان
ابو بکر، عبد اللہ بن ادریس، داؤد، شعبی، حضرت ابو جبیرہ بن ضحاک رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم انصاریوں کے بارے میں یہ آیت (وَلَا تَنَابَزُوْا بِالْاَلْقَابِ) 49۔ الحجرات:11) مت پکارو برے لقبوں سے نازل ہوئی۔ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہمارے پاس تشریف لائے۔ ہم میں سے کسی مرد کے دو نام تھے اور کسی کے تین۔ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کبھی کسی ایک نام سے پکارتے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے عرض کیا جاتا کہ اسے اس نام سے غصہ آتا ہے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (وَلَا تَنَابَزُوا بِالْأَلْقَابِ) 49۔ الحجرات:11)۔
خوشامد کا بیان
ابو بکر، عبد الرحمن بن مہدی، سفیان بن حبیب بن ابی ثابت، مجاہد، ابن معمر، حضرت مقداد بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہمیں خوشامد یوں کے چہروں پر مٹی ڈالنے کا حکم فرمایا۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، غندر، شعبہ، سعد بن ابراہیم بن عبد الرحمن بن عوف، معبدجہنی، حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ ارشاد فرماتے سنا ایک دوسرے کی خوشامد اور بے جا تعریف سے بہت بچو کیونکہ یہ تو ذبح کرنے کے مترادف ہے۔
٭٭ ابو بکر، شبابہ شعبہ، خالدحذاء، عبد الرحمن بن حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ کے پاس ایک شخص نے دوسرے کی تعریف کی۔ اس پر رسول اللہ نے فرمایا تجھ پر افسوس ہے تو نے اپنے بھائی کی گردن ہی کاٹ ڈالی۔ کئی بار یہی دہرایا پھر فرمایا اگر تم میں سے کوئی اپنے بھائی کی تعریف کرے تو یوں کہے کہ میرا اس کے متعلق یہ گمان ہے اور میں اللہ کے سامنے کسی کو پاک نہیں کہتا۔
جس سے مشورہ طلب جائے وہ بمنزلہ امانت دار ہے
ابو بکر بن ابی شیبہ، یحییٰ بن ابی بکیر، شیبان، عبد الملک بن عمیر، ابی سلمہ، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس سے مشورہ طلب کیا جائے (اسے امانت داری سے مشورہ دینا چاہیے کیونکہ) وہ امین ہے۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، اسود بن عامر، شریک، اعمش، ابی عمرو شیبانی، حضرت ابو مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس سے مشورہ طلب کیا جائے (اسے امانت داری سے مشورہ چاہئے کیونکہ) وہ امین ہے۔
٭٭ ابو بکر، یحییٰ بن زکریابن ابی زائدہ، علی بن ہاشم، ابن ابی لیلیٰ، ابی زبیر، حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب تم میں سے کسی سے اس کا بھائی مشورہ طلب کرے تو اسے چاہئے کہ اپنے بھائی کو (اچھا) مشورہ دے۔
حمام میں جانا
عبدہ بن سلیمان، علی بن محمد، خالی یعلی، جعفر بن عون، عبد الرحمن بن زیاد بن انعم افریقی، عبد الرحمن بن رافع، حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا عجم کے علاقوں پر تمہیں فتح حاصل ہو گی اور وہاں تمہیں کمرے ملیں گے۔ جنہیں حمام کہا جاتا ہے ان میں مرد بغیر ازار کے نہ جائیں اور عورتوں کو ان میں جانے سے منع کرنا۔ الا یہ کہ بیمار ہو یا بحالت نفاس ہو (تو ستر چھپا کر جا سکتی ہے )۔
٭٭ علی بن محمد، وکیع، ابو بکر بن ابی شیبہ، عفان، حماد بن سلمہ، عبد اللہ بن شداد، ابی عذرہ ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مردوں اور عورتوں کو حمام میں جانے سے منع فرمایا۔ پھر مردوں کو تو ازار پہن کر جانے کی اجازت مرحمت فرما دی اور عورتوں کو اجازت نہ دی۔
٭٭ علی بن محمد، وکیع، سفیان، منصور، سالم بن ابی جعد، حضرت ابو الملیح ہذلی فرماتے ہیں کہ حمص کی کچھ عورتوں نے ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ان کی خدمت میں حاضری کی اجازت چاہی۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا شاید تم ان عورتوں میں سے ہو جو حمام میں جاتی ہیں؟ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے سنا جو عورت خاوند کے گھر کے علاوہ اپنے کپڑے اتارے اس نے (عصمت و حیاء کا) پردہ پھاڑ دیا جو اللہ اور اس کے درمیان تھا۔
بال صفا پاؤڈر استعمال کرنا
علی بن محمد، عبد الرحمن بن عبد اللہ حماد بن سلمہ، ابی ہاشم ، رمانی، حبیب بن ابی ثابت، حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب (بال صفا پاؤڈر) لگاتے تو اپنے مقام ستر سے ابتداء کرتے اور باقی مقامات پر ازواج رضی اللہ تعالیٰ عنہن میں سے کوئی لگاتی۔
٭٭ علی بن محمد، اسحاق بن منصور، کامل ابی علاء، حبیب بن ابی ثابت، حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بال صفا پاؤڈر لگایا اور زیر ناف خود اپنے ہاتھوں سے لگایا۔
وعظ کہنا اور قصے بیان کرنا
ہشام بن عمار، ہقل بن زیاد، اوزاعی، عبد اللہ بن عامر اسلمی، حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا لوگوں کے سامنے وعظ نہیں کہتا مگر حاکم یا اس کی طرف سے وعظ پر مامور یا ریا کار۔
٭٭ علی بن محمد، وکیع، عمری، نافع، حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ یہ قصہ خوانیاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور حضرات شیخین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مبارک زمانوں میں نہ تھی۔
شعر کا بیان
ابو بکر، ابو اسامہ، عبد اللہ بن مبارک، یونس، زہری، ابو بکر بن عبد الرحمن بن حارث، مروان بن حکم، عبد الرحمن بن اسود بن عبد یغوت، حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا بعض شعر پُر حکمت ہوتے ہیں۔ (یعنی ایسے شعر سننے یا کہنے میں کوئی قباحت نہیں )۔
٭٭ ابو بکر، ابو اسامہ، زائدہ، سماک، عکرمہ، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرمایا کرتے تھے کہ بعض شعر پُر حکمت ہوتے ہیں۔
٭٭ محمد بن صباح، سفیان بن عیینہ، عبد الملک بن عمیر، ابی سلمہ، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا سب سے زیادہ سچی بات جو کسی شاعر نے کہی ہو لبید کی یہ بات (شعر) ہے۔ غور سے سنو ! اللہ کے علاوہ ہر چیز فنا اور ختم ہو جانے والی ہے۔ اور قریب تھا کہ امیہ بن ابی الصلت اسلام قبول کر لیتا۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، عیسیٰ بن یونس، عبد اللہ بن عبد الرحمن بن یعلی عمرو بن حضرت سرید رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو امیہ بن ابی الصلت کے اشعار میں سے سو (100) قافیے سنائے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہر قافیہ کے بعد فرماتے اور سناؤ اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا قریب تھا کہ یہ اسلام لے آتا۔
ناپسندیدہ اشعار
ابو بکر، حفص، ابو معاویہ، وکیع، اعمش، ابی صالح، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا مرد کا پیٹ پیپ سے بھر جائے کہ وہ بیمار ہو جائے یہ بہتر ہے اس سے کہ شعر سے پیٹ بھرے۔ حفص کی روایت میں بیمار ہو جائے کے الفاظ نہیں ہیں۔
٭٭ محمد بن بشار، یحییٰ بن سعید، محمد بن جعفر، شعبہ، قتادہ، یونس بن جبیر، محمد بن سعد بن ابی وقاص، حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تم میں سے کسی کا پیٹ پیپ سے بھرجائے یہاں تک کہ وہ بیمار پڑ جائے بہتر ہے اس سے کہ شعر سے بھرے۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، عبید اللہ ، شیبان، اعمش، عمرو بن مرہ یوسف بن ماہک، عبید بن عمیر، ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا لوگوں میں سب سے بڑا جھوٹا وہ شخص ہے جو کسی ایک شخص کی ہجو کرتے کرتے قبیلہ کی ہجو کر دے (کہ ایک شخص کے برے ہونے سے پوری قوم تو بری نہیں ہو گی۔) اور وہ شخص ہے جو اپنے والد سے اپنے نسب کی نفی کرے (اور کسی دوسرے کی طرف نسبت کرے ) اور اپنی والدہ کے حق میں زنا کا اعتراف کرے (کیونکہ جب اپنے آپ کو اپنی والدہ کے شوہر کے علاوہ کسی اور کا بیٹا قرار دیا تو گویا اپنی ماں پر زنا کی تہمت لگائی)۔
چوسر کھیلنا
ابو بکر بن ابی شیبہ، عبد الرحیم بن سلیمان، ابو اسامہ، عبید اللہ بن عمر، نافع، سعید بن ہند، حضرت ابو موسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو چوسر کھیلے اس نے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نافرمانی کی۔
٭٭ ابو بکر، عبد اللہ بن نمیر، ابو اسامہ، سفیان، علقمہ بن مرثد، سلیمان بن حضرت بریدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو چوسر کھیلے گویا اس نے اپنے ہاتھ خنزیر کے گوشت اور خون میں ڈبوئے۔
کبوتر بازی
عبد اللہ بن عامر بن زرارہ، شریک، محمد بن عمرو، ابی سلمہ بن عبد الرحمن، ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دیکھا کہ ایک شخص پرندہ کے پیچھے لگا ہوا ہے تو فرمایا شیطان ہے جو شیطان کے پیچھے لگا ہوا ہے۔
٭٭ ابو بکر، اسود بن عامر، حماد بن سلمہ، محمد بن عمرو، ابو سلمہ، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دیکھا کہ ایک شخص کبوتری کے پیچھے لگا ہوا ہے تو فرمایا شیطان ہے جو شیطان کے پیچھے لگا ہوا ہے۔
٭٭ ہشام بن عمار، یحییٰ بن سلیم طائفی، ابن جریج، حسن بن ابی حسن، حضرت عثمان سے بعینہ روایت مذکور ہے۔
٭٭ ابو نصر محمد بن خلف عسقلانی، رواد بن جراح، ابو ساعدی، حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک شخص کو کبوتر کے پیچھے دیکھا تو فرمایا شیطان ہے جو شیطان کے پیچھے لگا ہوا ہے۔
اللہ تعالی سے بخشش طلب کرنا
ابو بکر بن ابی شیبہ، محمد بن بشر، محمد بن عمرو، ابی سلمہ، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا میں اللہ سے بخشش طلب کرتا ہوں اور توبہ کرتا ہوں دن میں سو مرتبہ۔
٭٭ علی بن محمد، وکیع، مغیرہ بن ابی حر، سعید بن ابی بردہ بن حضرت ابو موسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا میں اللہ سے بخشش طلب کرتا ہوں اور توبہ کرتا ہوں دن میں ستر مرتبہ۔
٭٭ علی بن محمد، مغیرہ بن ابی حر، سعید بن ابی بردہ بن ابی موسیٰ حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ اپنے اہل خانہ سے بات کرنے میں میری زبان بے قابو تھی لیکن اہل خانہ سے بڑھ کر کسی اور کی طرف تجاوز نہ کرتی تھی (کہ ان کے والدین یا کسی اور رشتہ دار کے متعلق کچھ دوں البتہ ان کے متعلق کوئی سخت کلمہ زبان سے نکل جاتا تھا) میں نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اس کا تذکرہ کیا تو فرمایا تم استغفار کیوں نہیں کرتے۔ روزانہ ستر مرتبہ استغفار کیا کرو۔
٭٭ عمر بن عثمان بن سعید، کثیر بن دینارحمصی، محمد بن عبد الرحمن بن عرق، حضرت عبد اللہ بن بسر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا خوشخبری ہے اس کیلئے جو اپنے نامہ اعمال میں بکثرت استغفار پائے۔
٭٭ ہشام بن عمار، ولید بن مسلم، حکم بن مصعب، محمد بن علی بن عبد اللہ بن عباس، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو استغفار کو لازم کر لے اللہ تعالی ہر پریشانی میں اس کے لئے آسانی پیدا فرما دیں گے اور ہر تنگی میں اس کے لئے راہ بنا دیں گے اور اسے ایسی جگہ سے رزق عطا فرمائیں گے جہاں سے اس کا گمان بھی نہ ہو۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، یزید بن ہارون، حماد بن سلمہ، علی بن زید، ابی عثمان، ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دعا میں فرمایا کرتے تھے اے اللہ! مجھے ان لوگوں میں سے بنا دیجئے جو نیکی کر کے خوش ہوتے ہیں اور برائی سرزد ہو جائے تو استغفار کرتے ہیں۔
نیکی کی فضیلت
علی بن محمد، وکیع، اعمش، معزور بن سوید، حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اللہ تعالی فرماتے ہیں جو ایک نیکی لائے اسے دس گنا اجر ملے گا اور اس سے بڑھ کر بھی اور جو بدی لائے تو بدی کا بدلہ اس بدی کے بقدر ہو گا بلکہ کچھ بخشش بھی ہو جائے گی اور جو ایک بالشت میرے قریب ہو میں ایک ہاتھ اس کے قریب ہوتا ہوں اور جو ایک ہاتھ میرے قریب آئے میں دو ہاتھ اس کے قریب ہوتا ہوں اور جو چل کر میرے پاس آئے میں دوڑ کر اس کے پاس جاتا ہوں اور جو زمین بھر خطائیں کر کے میرے پاس آئے لیکن میرے ساتھ کسی قسم کا شریک نہ کرتا ہو میں اسی قدر مغفرت لے کر اس سے ملتا ہوں۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، علی بن محمد، ابو معاویہ، اعمش، ابی صالح، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میں اپنے بندے کے میرے متعلق گمان کے ساتھ ہوں (اس کے موافق معاملہ کرتا ہوں ) اور جب وہ مجھے یاد کرے میں اس کے ساتھ ہی ہوتا ہوں اگر وہ مجھے (اپنے جی میں یاد کرے تو میں بھی اس کو اپنے جی میں یاد کرتا ہوں اور اگر وہ مجھے مجمع میں یاد کرے تو میں اس سے بہتر مجمع میں اس کو یاد کرتا ہوں اور اگر وہ میرے ایک بالشت قریب ہو تو میں ایک ہاتھ اس کے قریب ہوتا ہوں اور اگر وہ چل کر میرے پاس آئے تو میں دوڑ کر اس کے پاس آتا ہوں۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، ابو معاویہ، وکیع، اعمش، ابی صالح، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ابن آدم کا ہر عمل دس گنا سے سات سو گنا تک بڑھایا جاتا ہے۔ اللہ تعالی فرماتا ہے کہ روزہ اس سے مستثنی ہے کیونکہ روزہ میری خاطر ہوتا ہے۔ میں خود ہی اس کا بدلہ عطا کروں گا۔
لاحول ولاقوۃ الا باللہ کی فضیلت
محمد بن صباح، جریر، عاصم احول، ابو عثمان ، حضرت ابو موسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھے لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ إِلَّا بِاللَّہِ کہتے سنا تو فرمایا اے عبد اللہ بن قیس ! یہ ان کا نام ہے ) میں جنت کے خزانوں میں سے ایک کلمہ تمہیں نہ بتاؤں؟ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم ! ضرور فرمائیے۔ فرمایا کہو لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ إِلَّا بِاللَّہِ۔ دوسری سند سے بھی یہی مضمون مروی ہے۔
٭٭ علی بن محمد ، وکیع ، اعمش ، مجاہد ، عبد الرحمن بن ابی لیلی ، ابو ذر بیان فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میں جنت کے خزانوں میں سے ایک کلمہ تمہیں نہ بتاؤں؟ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول !ضرور فرمائیے۔ فرمایا کہو لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ إِلَّا بِاللَّہِ۔
٭٭ یعقوب بن حمید، عدنی، محمد بن معن، خالد بن سعید، ابو زینب، حضرت حازم بن حرملہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے قریب سے گزرا تو (آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ) فرمایا حازم ! لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ إِلَّا بِاللَّہِ بکثرت کہا کرو کیونکہ یہ جنت کا ایک خزانہ ہے۔
دعاؤں کا بیان
دعا کی فضیلت
ابو بکر بن ابی شیبہ، علی بن محمد، وکیع، ابو ملیح مدنی، ابو صالح، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو اللہ پاک سے دعا نہ مانگے اللہ تعالی اس سے ناراض ہوتے ہیں۔
٭٭ علی بن محمد، وکیع، اعمش، ذر بن عبد اللہ ہمدانی، سبیع کندی، حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا دعا عبادت ہی تو ہے۔ پھر یہ آیت تلاوت فرمائی (وَقَالَ رَبُّکُمُ ادْعُوْنِیْٓ اَسْتَجِبْ لَکُمْ) 40۔غافر:60) اور تمہارے پروردگار نے فرمایا مجھ سے دعا کرو میں قبول کروں گا۔
٭٭ محمد بن یحییٰ ، بن داؤد، عمران قطان، قتادہ، سعید بن حسن، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اللہ پاک کے نزدیک دعا سے زیادہ پسندیدہ کوئی چیز نہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی دعا کا بیان
علی بن محمد، وکیع، سفیان، اعمش، عمرو بن مرہ جملی، خالد، عبد اللہ بن حارث، قیس بن طلق حنفی، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم یہ دعا مانگا کرتے تھے رَبِّ أَعِنِّی وَلَا تُعِنْ عَلَیَّ وَانْصُرْنِی وَلَا تَنْصُرْ عَلَیَّ وَامْکُرْ لِی وَلَا تَمْکُرْ عَلَیَّ وَاہْدِنِی وَیَسِّرْ الْہُدَی لِی وَانْصُرْنِی عَلَی مَنْ بَغَی عَلَیَّ رَبِّ اجْعَلْنِی لَکَ شَکَّارًا لَکَ ذَکَّارًا لَکَ رَہَّابًا لَکَ مُطِیعًا إِلَیْکَ مُخْبِتًا إِلَیْکَ أَوَّاہًا مُنِیبًا رَبِّ تَقَبَّلْ تَوْبَتِی وَاغْسِلْ حَوْبَتِی وَأَجِبْ دَعْوَتِی وَاہْدِ قَلْبِی وَسَدِّدْ لِسَانِی وَثَبِّتْ حُجَّتِی وَاسْلُلْ سَخِیمَۃَ قَلْبِی اے میرے پروردگار ! میری مد د فرمائیے اور میرے خلاف (کسی دشمن کی) مد د نہ فرمائیے اور میری نصرت فرمائیے اور میرے خلاف نصرت نہ فرمائیے اور میرے حق میں تدابیر کر دیجئے اور میرے خلاف تدبیر نہ فرمائیے اور مجھے ہدایت پر قائم رکھئے اور ہدایت کو میرے لئے آسان کر دیجئے اور جو میری مخالفت کرے اس کے خلاف (میری) مد د فرمائیے۔ اے میرے پروردگار ! مجھے اپنا مطیع بنا لیجئیے اور آپ (عزوجل) اپنے لئے رونے گڑگڑانے والا اور اپنی طرف رجوع کرنے والا بنا لیجیئے۔ اے میرے رب ! میری توبہ قبول فرمائیے اور میرا گناہ دھو دیجئیے اور میرے دل کو راہ راست پر رکھئیے اور میری زبان کو درست کر دیجئیے اور میری حجت کو مضبوط کر دیجئیے۔ ابو الحسن طنافسی کہتے ہیں میں نے وکیع سے کہا کہ میں وتر میں یہ دعا پڑھ لیا کروں؟ فرمایا جی ہاں۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، محمد بن ابی عبیدہ، اعمش، ابی صالح، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں خادم مانگنے کیلئے حاضر ہوئیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان سے فرمایا میرے پاس خادم نہیں کہ تمہیں دوں وہ واپس ہو گئیں۔ اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ان کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا جو تم نے مانگا وہ تمہیں زیادہ پسند ہے یا اس سے بہتر چیز تمہیں پسند ہے؟ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان سے کہا کہو کہ غلام سے بہتر چیز مجھے پسند ہے۔ انہوں نے یہی عرض کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہو اللَّہُمَّ رَبَّ السَّمَاوَاتِ السَّبْعِ وَرَبَّ الْعَرْشِ الْعَظِیمِ رَبَّنَا وَرَبَّ کُلِّ شَیْئٍ مُنْزِلَ التَّوْرَاۃِ وَالْإِنْجِیلِ وَالْقُرْآنِ الْعَظِیمِ أَنْتَ الْأَوَّلُ فَلَیْسَ قَبْلَکَ شَیْئٌ وَأَنْتَ الْآخِرُ فَلَیْسَ بَعْدَکَ شَیْئٌ وَأَنْتَ الظَّاہِرُ فَلَیْسَ فَوْقَکَ شَیْئٌ وَأَنْتَ الْبَاطِنُ فَلَیْسَ دُونَکَ شَیْئٌ اقْضِ عَنَّا الدَّیْنَ وَأَغْنِنَا مِنْ الْفَقْرِاے اللہ ! سات آسمانوں کے رب اور عرش عظیم کے رب ہمارے رب اور ہر چیز کے رب توراۃ انجیل اور قرآن عظیم کو نازل فرمانے والے۔ آپ ہی اول ہیں۔ آپ سے پہلے کوئی چیز نہ تھی۔ آپ ہی آخر ہیں۔ آپ کے بعد کچھ نہ ہو گا۔ آپ ظاہر (غالب) ہیں۔ آپ سے پڑھ کر کوئی چیز نہیں اور آپ پوشیدہ ہیں۔ آپ سے بڑھ کر پوشیدہ کوئی چیز نہیں۔ ہمارا قرض ادا فرما دیجئیے اور ہمیں فقر سے غناء عطاء فرما دیجئے۔
٭٭ یعقوب بن ابراہیم دوراقی، محمد بن بشار، عبد الرحمن بن مہدی، سفیان ، ابی اسحاق ، ابی احوص، حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم یہ دعا مانگا کرتے تھے (اللَّہُمَّ إِنِّی أَسْأَلُکَ الْہُدَی وَالتُّقَی وَالْعَفَافَ وَالْغِنَی) اے اللہ ! میں آپ سے ہدایت تقویٰ پاکدامنی اور غنی مانگتا ہوں۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، عبد اللہ بن نمیر، موسیٰ بن عبیدہ، محمد بن ثابت، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم یہ دعا مانگا کرتے تھے اللَّہُمَّ انْفَعْنِی بِمَا عَلَّمْتَنِی وَعَلِّمْنِی مَا یَنْفَعُنِی وَزِدْنِی عِلْمًا وَالْحَمْدُ لِلَّہِ عَلَی کُلِّ حَالٍ وَأَعُوذُ بِاللَّہِ مِنْ عَذَابِ النَّارِ اے اللہ ! جو علم آپ نے مجھے عطا فرمایا۔ مجھے اس سے نفع عطا فرما اور مجھے ایسا علم دیجئیے جو میرے لئے نافع ہو اور میرے علم میں اضافہ فرما دیجئے۔ ہر حال میں اللہ کے لئے تعریف اور شکر ہے اور میں دوزخ کے عذاب سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں۔
٭٭ محمد بن عبد اللہ بن نمیر، اعمش، یزید رقاشی، حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ بکثرت یہ دعا مانگا کرتے تھے اللَّہُمَّ ثَبِّتْ قَلْبِی عَلَی دِینِکَ اے اللہ ! میرے دل کو اپنے دین پر استقامت عطا فرما دیجئیے۔ ایک مرد نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! آپ کو ہمارے بارے میں اندیشہ ہے حالانکہ ہم آپ پر ایمان لا چکے اور جو دین آپ لائے اس کی تصدیق کر چکے۔ فرمایا بلاشبہ دل اللہ کی انگلیوں میں سے دو انگلیوں کے درمیان ہے۔ وہ انکو پلٹ دیتے ہیں اور اعمش (راوی) نے اپنی دونوں انگلیوں سے اشارہ بھی کیا۔
٭٭ محمد بن رمح، لیث بن سعد، یزید بن ابی حبیب، حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رسول اللہ کی خدمت میں عرض کیا مجھے کوئی دعا سکھا دیجئے۔ جو نماز میں بھی مانگا کروں۔ فرمایا کہو اللَّہُمَّ إِنِّی ظَلَمْتُ نَفْسِی ظُلْمًا کَثِیرًا وَلَا یَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ فَاغْفِرْ لِی مَغْفِرَۃً مِنْ عِنْدِکَ وَارْحَمْنِی إِنَّکَ أَنْتَ الْغَفُورُ الرَّحِیمُ اے اللہ ! میں نے اپنی جان پر بہت ظلم کیا اور آپ ہی گناہوں کو بخشنے والے ہیں۔ لہذا میری اور بخشش اور مجھ پر رحمت فرمائیے بلاشبہ آپ بہت بخشنے والے اور بہت مہربان ہیں۔
٭٭ علی بن محمد، وکیع، مسعر، ابو مرزوق، ابی وائل، حضرت ابو امامہ باہلی فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم باہر تشریف لائے۔ آپ لاٹھی پر ٹیک لگائے ہوئے تھے۔ جب آپ نے دیکھا کہ ہم کھڑے ہو گئے تو فرمایا ایسا مت کرو جیسا فارس کے لوگ اپنے بڑوں کے ساتھ کرتے ہیں۔ ہم نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! آپ ہمارے حق میں دعا فرما دیں۔ فرمایا اللَّہُمَّ اغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا وَارْضَ عَنَّا وَتَقَبَّلْ مِنَّا وَأَدْخِلْنَا الْجَنَّۃَ وَنَجِّنَا مِنْ النَّارِ وَأَصْلِحْ لَنَا شَأْنَنَا کُلَّہُ اے اللہ ! ہماری بخشش فرما۔ ہم پر رحمت فرما اور ہم سے راضی ہو جا اور ہماری عبادات قبول فرما اور ہمیں جنت میں داخل فرما اور ہمیں دوزخ سے نجات عطا فرما اور ہمارے تمام کام درست فرما۔ راوی کہتے ہیں کہ ہم نے چاہا کہ آپ ہمارے لئے مزید دعا فرمائیں۔ فرمایا میں نے تمہارے لئے ہر لحاظ سی جامع دعا نہ کر دی۔ (یعنی یقیناً کر دی)۔
٭٭ عیسیٰ بن حماد مصری، لیث بن سعد، سعید بن ابی سعید مقبری، عباد بن ابی سعید، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم یہ دعا مانگا کرتے تھے اللَّہُمَّ إِنِّی أَعُوذُ بِکَ مِنْ الْأَرْبَعِ مِنْ عِلْمٍ لَا یَنْفَعُ وَمِنْ قَلْبٍ لَا یَخْشَعُ وَمِنْ نَفْسٍ لَا تَشْبَعُ وَمِنْ دُعَائٍ لَا یُسْمَعُ اے اللہ! میں چار چیزوں سے آپ کی پناہ چاہتا ہوں ایسے علم سے جو نفع نہ دے ایسے دل سے جو ڈرے نہیں (متواضع نہ ہو) ایسے پیٹ سے جو سیر نہ ہو اور ایسی دعا سے جو قبول نہ ہو۔
ان چیزوں کا بیان جن سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پناہ مانگی
ابو بکر بن ابی شیبہ، عبد اللہ بن نمیر، علی بن محمد، وکیع، ہشام بن عروہ، سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ان کلمات سے دعا مانگا کرتے تھے للَّہُمَّ إِنِّی أَعُوذُ بِکَ مِنْ فِتْنَۃِ النَّارِ وَعَذَابِ النَّارِ وَمِنْ فِتْنَۃِ الْقَبْرِ وَعَذَابِ الْقَبْرِ وَمِنْ شَرِّ فِتْنَۃِ الْغِنَی وَشَرِّ فِتْنَۃِ الْفَقْرِ وَمِنْ شَرِّ فِتْنَۃِ الْمَسِیحِ الدَّجَّالِ اللَّہُمَّ اغْسِلْ خَطَایَایَ بِمَائِ الثَّلْجِ وَالْبَرَدِ وَنَقِّ قَلْبِی مِنْ الْخَطَایَا کَمَا نَقَّیْتَ الثَّوْبَ الْأَبْیَضَ مِنْ الدَّنَسِ وَبَاعِدْ بَیْنِی وَبَیْنَ خَطَایَایَ کَمَا بَاعَدْتَ بَیْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ اللَّہُمَّ إِنِّی أَعُوذُ بِکَ مِنْ الْکَسَلِ وَالْہَرَمِ وَالْمَأْثَمِ وَالْمَغْرَمِ اے اللہ ! میں پناہ مانگتا ہوں دوزخ کے فتنہ سے اور دوزخ کے عذاب سے اور تونگری کے فتنہ کے شر سے اور ناداری کے فتنہ کے شر سے اور مسیح (کانے ) دجال کے فتنہ کے شر سے۔ اے اللہ ! میری خطاؤں کو دھو ڈال برف اور اولوں کے پانی سے اور میرے دل کو خطاؤں سے ایسے صاف کر دیجئیے جیسے آپ نے سفید کپڑے کو میل سے صاف بنایا اور میرے اور میری خطاؤں کے درمیان اس طرح دوری پیدا کر دیجئیے (مجھے خطاؤں سے اتنا دور کر دیجئیے ) جس طرح آپ نے مشرق و مغرب کے درمیان دوری کی۔ اے اللہ ! میں آپ کی پناہ مانگتا ہوں سستی اور بڑھاپے سے اور گناہ سے اور تاوان سے۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، عبد اللہ بن ادریس، حصین، ہلال، حضرت فروہ بن نوفل فرماتے ہیں کہ میں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے دریافت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کیا دعا مانگا کرتے تھے؟ فرمانے لگیں آپ یہ دعا مانگا کرتے تھے مَّ إِنِّی أَعُوذُ بِکَ مِنْ شَرِّ مَا عَمِلْتُ وَمِنْ شَرِّ مَا لَمْ أَعْمَلْ اے اللہ ! میں آپ کی پناہ مانگتا ہوں ان کاموں کے شر سے جو میں نے کئے اور ان کاموں کے شر سے جو میں نے نہیں کئے۔
٭٭ ابراہیم بن منذر حزامی، بکر بن سلیم، حمید، خراط، کریب ، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہمیں یہ دعا اس طرح سکھایا کرتے تھے جس طرح قرآن کی سورت سکھاتے تھے۔ اللَّہُمَّ إِنِّی أَعُوذُ بِکَ مِنْ عَذَابِ جَہَنَّمَ وَأَعُوذُ بِکَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ وَأَعُوذُ بِکَ مِنْ فِتْنَۃِ الْمَسِیحِ الدَّجَّالِ وَأَعُوذُ بِکَ مِنْ فِتْنَۃِ الْمَحْیَا وَالْمَمَاتِ اے اللہ ! میں عذاب جہنم سے آپ کی پناہ مانگتا ہوں اور عذاب قبر سے آپ کی پناہ مانگتا ہوں اور کانے دجال کے فتنہ سے آپ کی پناہ مانگتا ہوں اور زندگی اور موت کے فتنہ سے آپ کی پناہ مانگتا ہوں۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، ابو اسامہ، عبد اللہ بن عمر، محمد بن یحییٰ بن حبان , اعرج، ابی ہریرہ ، ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک شب میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو بستر پر نہ پایا تو تلاش کیا۔ میرا ہاتھ (اندھیرے میں ) آپ کے تلووں کو لگا۔ آپ مسجد میں تھے اور (سجدہ میں ) آپ کے پاؤں کھڑے تھے۔ آپ یہ دعا مانگ رہے تھے اللَّہُمَّ إِنِّی أَعُوذُ بِرِضَاکَ مِنْ سَخَطِکَ وَبِمُعَافَاتِکَ مِنْ عُقُوبَتِکَ وَأَعُوذُ بِکَ مِنْکَ لَا أُحْصِی ثَنَائً عَلَیْکَ أَنْتَ کَمَا أَثْنَیْتَ عَلَی نَفْسِکَ اے اللہ! میں آپ کی رضامندی کی پناہ چاہتا ہوں۔ آپ کی ناراضگی سے اور آپ کے درگزر کی پناہ چاہتا ہوں آپ کی سزا سے اور میں آپ ہی کی پناہ چاہتا ہوں آپ سے۔ میں آپ کی تعریف پوری نہیں کر سکتا۔ آپ ایسے ہی ہیں جیسے آپ نے خود اپنی تعریف فرمائی۔
٭٭ ابو بکر، محمد بن مصعب، اوزاعی، اسحاق بن عبد اللہ ، جعفر بن عیاص، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اللہ کی پناہ مانگو محتاجی سے اور قلت سے اور ذلت سے اور ظالم بننے سے اور مظلوم بننے سے۔
٭٭ علی بن محمد، وکیع، اسامہ بن زید، محمد بن منکدر، حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اللہ سے علم نافع مانگا کرو اور علم غیر نافع سے اللہ کی پناہ مانگا کرو۔
٭٭ علی بن محمد، وکیع، اسرائیل، ابو اسحاق ، عمرو بن میمون، سیدناعمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پناہ مانگا کرتے تھے بزدلی سے بخل سے اور رذیل عمری سے اور عذاب قبر سے اور دل کے فتنہ سے۔ وکیع فرماتے ہیں کہ دل کے فتنہ سے مراد یہ ہے کہ آدمی غلط عقیدہ پر مرے اور اسے اس عقیدہ سے توبہ کا موقع نہ ملے۔
جامع دعائیں
ابو بکر، یزید بن ہارون، ابو مالک سعد بن حضرت طارق رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کی خدمت میں ایک مرد حاضر ہوا اور عرض کیا اے اللہ کے رسول ! میں اپنے رب سے (دعا) مانگوں تو کیا عرض کروں؟ فرمایا کہا کرو اللَّہُمَّ اغْفِرْ لِی وَارْحَمْنِی وَعَافِنِی وَارْزُقْنِی اے اللہ! میری بخشش فرما۔ مجھ پر رحمت فرما۔ مجھے عافیت عطا فرما اور مجھے رزق عطا فرما اور آپ نے انگوٹھے کے علاوہ باقی انگلیاں جمع کر کے فرمایا کہ یہ کلمات تمہارے لئے تمہارے دین اور دنیا کو جمع کر دیں گے۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، عفان، حماد بن سلمہ، جبر بن حبیب، ام کلثوم بنت ابی بکر، ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے انہیں یہ دعا تعلیم فرمائی اللَّہُمَّ إِنِّی أَسْأَلُکَ مِنْ الْخَیْرِ کُلِّہِ عَاجِلِہِ وَآجِلِہِ مَا عَلِمْتُ مِنْہُ وَمَا لَمْ أَعْلَمْ وَأَعُوذُ بِکَ مِنْ الشَّرِّ کُلِّہِ عَاجِلِہِ وَآجِلِہِ مَا عَلِمْتُ مِنْہُ وَمَا لَمْ أَعْلَمْ اللَّہُمَّ إِنِّی أَسْأَلُکَ مِنْ خَیْرِ مَا سَأَلَکَ عَبْدُکَ وَنَبِیُّکَ وَأَعُوذُ بِکَ مِنْ شَرِّ مَا عَاذَ بِہِ عَبْدُکَ وَنَبِیُّکَ اللَّہُمَّ إِنِّی أَسْأَلُکَ الْجَنَّۃَ وَمَا قَرَّبَ إِلَیْہَا مِنْ قَوْلٍ أَوْ عَمَلٍ وَأَعُوذُ بِکَ مِنْ النَّارِ وَمَا قَرَّبَ إِلَیْہَا مِنْ قَوْلٍ أَوْ عَمَلٍ وَأَسْأَلُکَ أَنْ تَجْعَلَ کُلَّ قَضَائٍ قَضَیْتَہُ لِی خَیْرًا اے اللہ ! میں آپ سے تمام خیر مانگتی ہوں۔ دنیا کی بھی اور آخرت کی بھی۔ جو مجھے معلوم ہے اور جس کا مجھے علم نہیں اور میں آپ کی پناہ مانگتی ہوں تمام تر شر سے دنیا کے اور آخرت کے جس کا مجھے علم ہے اس سے اور جس کا مجھے علم نہیں اس سے بھی۔ اے اللہ ! میں آپ سے وہ بھلائی مانگتی ہوں جو آپ سے آپ کے بندہ اور نبی نے مانگی اور میں آپ کی پناہ مانگتی ہوں۔ اے اللہ ! میں آپ سے جنت مانگتی ہوں اور اس کے قریب کرنے والے اعمال و اقوال بھی اور میں آپ کی پناہ مانگتی ہوں دوزخ سے اور ہر اس قول و عمل سے جو دوزخ کے قریب کرے اور میں آپ سے یہ سوال کرتی ہوں کہ ہر فیصلہ جو آپ نے میری بابت فرمایا اسے خیر بنا دیجئیے۔
٭٭ یوسف بن موسیٰ قطان، جریر، اعمش، ابو صالح، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی نے ایک شخص سے فرمایا تم نماز میں کیا پڑھتے ہو؟ عرض کیا تشہد کے بعد اللہ تعالی سے جنت کا سوال کرتا ہوں اور دوزخ سے پناہ مانگتا ہوں اور واللہ ! میں آپ کی گنگناہٹ اور معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ (جو ہمارے امام ہیں ) کی گنگناہٹ نہیں سمجھتا (کہ آپ اور معاذ کیا دعا مانگتے ہیں ) فرمایا ہم بھی اسی کے گرد (جنت کا سوال اور دوزخ سے پناہ) گنگناتے ہیں۔
عفو (درگزر) اور عافیت (تندرستی) کی دعا مانگنا
عبد الرحمن بن ابراہیم دمشقی، ابن ابی فدیک، سلمہ بن وردان، حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں ایک شخص حاضر ہوا اور عرض کیا اے اللہ کے رسول ! کون سی دعا افضل ہے؟ فرمایا اپنے رب سے عفو اور عافیت مانگو۔ پھر دوسرے روز آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا اے اللہ کے رسول ! کیا دعا افضل ہے؟ فرمایا اپنے رب سے عفو اور عافیت طلب کرو۔ پھر تیسرے روز حاضر خدمت ہو کر عرض کیا اے اللہ کے نبی ! کیا دعا افضل ہے؟ فرمایا اپنے رب سے دنیا و آخرت میں عفو اور عافیت کا سوال کرو۔ جب تمہیں دنیا آخرت میں عفو اور عافیت مل جائے تو تم فلاح یافتہ ہو گئے۔
٭٭ ابو بکر، علی بن محمد، عبید بن سعید، شعبہ، یزید بن خمیر، سلیم بن عامر، اوسط بن اسماعیل، ابو بکر فرماتے ہیں کہ جب نبی اس دنیا سے تشریف لے گئے تو انہوں نے سیدنا ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یہ فرماتے سنا کہ رسول اللہ میری اس جگہ گزشتہ سال کھڑے ہوئے۔ اس کے بعد حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو رونا آ گیا۔ کچھ دیر بعد فرمایا سچ کا اہتمام کرو کہ یہ نیکی کے ساتھ ہی ہو سکتا ہے اور یہ دونوں چیزیں جنت میں (لے جانے والی) ہیں اور جھوٹ سے بچو کیونکہ جھوٹ گناہ کے ساتھ ہوتا ہے اور یہ دونوں دوزخ میں (لے جانے والی) ہیں اور اللہ تعالی سے عافیت اور تندرستی مانگتے رہو کیونکہ کسی کو بھی یقین (ایمان) کے بعد تندرستی سے بڑھ کر کوئی نعمت نہیں دی گئی اور باہم حسد نہ کرو۔ ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو۔ ایک دوسرے سے قطع تعلق (بلا عذر شرعی) نہ کرو اور ایک دوسرے منہ مت موڑو کہ پشت اس کی طرف رکھو اور بن جاؤ اللہ کے بندے ! بھائی بھائی۔
٭٭ علی بن محمد، وکیع، کہمس بن حسن، عبد اللہ بن بریدہ، ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! فرمائیے اگر مجھے شب قدر نصیب ہو جائے تو کیا دعا کروں؟ فرمایا اللَّہُمَّ إِنَّکَ عَفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّی کہنا اے اللہ ! آپ بہت درگزر فرمانے والے ہیں۔ درگزر کرنے کو پسند کرتے ہیں اس لئے مجھ سے درگزر فرمائیے۔
٭٭ علی بن محمد، وکیع، ہشام صاحب دستوائی، قتادہ، علاء بن زیاد عدوی، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ بندہ اس دعا سے بہتر کوئی دعا نہیں مانگتا (اللَّہُمَّ إِنِّی أَسْأَلُکَ الْمُعَافَاۃَ فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ) اے اللہ ! میں آپ سے دنیا و آخرت میں عافیت مانگتا ہوں۔
جب تم میں سے کوئی دعا کرے تو اپنے آپ سے ابتداء کرے (پہلے اپنے لئے مانگے )
حسن بن علی خلال، زید بن حباب، سفیان، ابو اسحاق ، سعید بن جبیر، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اللہ تعالی ہم پر اور قوم عاد کے بھائی (ان کی طرف مبعوث نبی حضرت ہود علیہ السلام پر رحمت فرمائیے۔
دعا قبول ہوتی ہے بشرطیکہ جلدی نہ کرے
علی بن محمد، اسحاق بن سلیمان، مالک بن انس، زہری، ابی عبید مولیٰ عبد الرحمن بن عوف، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم میں سے ایک کی دعا قبول ہوتی ہے بشرطیکہ جلد بازی نہ کرے۔ کسی نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! جلد بازی کیسے؟ فرمایا یہ کہے کہ میں نے اللہ سے دعا مانگی مگر اللہ نے قبول ہی نہیں کی۔ (یعنی سنی ہی نہیں )۔
کوئی شخص یوں نہ کہے کہ اے اللہ اگر آپ چاہیں تو مجھے بخش دیں
ابو بکر، عبد اللہ بن ادریس، ابن عجلان، ابی زیاد، اعرج، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم میں کوئی ہرگز یہ کہے اے اللہ ! اگر آپ چاہیں تو مجھے بخش دیں۔ مانگنے میں پختگی اختیار کرنی چاہیے (کہ اے اللہ ! آپ ضرور مجھے بخش دیں کہ آپ کے علاوہ کوئی بخشنے والا نہیں ) کیونکہ اللہ پر کوئی زبردستی کرنے والا نہیں۔
اسم اعظم
ابو بکر، عیسیٰ بن یونس، عبد اللہ بن ابی زیاد، شہر بن حوشب، سیدہ اسماء بنت یزید رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اسم اعظم ان دو آیتوں میں ہے (وَاِلٰہُکُمْ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ ۚ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ الرَّحْمٰنُ الرَّحِیْمُ) 2۔ البقرۃ:163) اور سورہ فاتحہ کی ابتدائی آیتیں )
٭٭ عبد الرحمن بن ابراہیم دمشقی، عمرو بن ابی سلمہ، عبد اللہ بن علاء، قاسم دوسری سند عبد الرحمن بن ابراہیم دمشقی، عمرو بن ابو سلمہ، عیسیٰ بن موسیٰ ، غیلان بن انس، قاسم، ابی امامہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی کا اسم اعظم جس کے ساتھ دعا مانگی جائے تو قبول ہوتی ہے۔ تین سورتوں میں ہے۔ سورہ بقرہ سورہ آل عمران اور طہ۔ یہ حدیث قاسم سے بواسطہ ابو امامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ مرفوعاً مروی ہے۔
٭٭ علی بن محمد، وکیع، مالک بن مغول، عبد اللہ بن حضرت بریدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو ایک شخص کو یہ کہتے سنا اللَّہُمَّ إِنِّی أَسْأَلُکَ بِأَنَّکَ أَنْتَ اللَّہُ الْأَحَدُ الصَّمَدُ الَّذِی لَمْ یَلِدْ وَلَمْ یُولَدْ وَلَمْ یَکُنْ لَہُ کُفُوًا أَحَدٌ تو فرمایا اس نے اللہ تعالی سے اسم اعظم کے ذریعہ سوال کیا جس کے ذریعہ سوال کیا جائے تو وہ مالک عطا فرماتا ہے اور اس کے ذریعہ دعا کی جائے تو اللہ قبول فرماتا ہے۔
٭٭ علی بن محمد، وکیع، ابو خزیمہ، انس بن سیرین، حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک مرد کو (دعا میں ) یہ کہتے سنا للَّہُمَّ إِنِّی أَسْأَلُکَ بِأَنَّ لَکَ الْحَمْدَ لَا إِلَہَ إِلَّا أَنْتَ وَحْدَکَ لَا شَرِیکَ لَکَ الْمَنَّانُ بَدِیعُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ ذُو الْجَلَالِ وَالْإِکْرَامِ تو فرمایا اس نے اللہ تعالی کے اسم اعظم کے ذریعہ اللہ سے سوال کیا جس کے ذریعہ مانگا جائے تو اللہ عطا فرماتا ہے اور اس کے ذریعہ دعا مانگی جائے تو اللہ قبول فرماتا ہے۔
٭٭ ابو یوسف صیدلانی محمد بن احمد رقی، محمد بن سلمہ، فزاری، ابی شیبہ، عبد اللہ بن عکیم جہنی، ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو (دعا میں ) یہ کہتے سنا (اللَّہُمَّ إِنِّی أَسْأَلُکَ بِاسْمِکَ الطَّاہِرِ الطَّیِّبِ الْمُبَارَکِ الْأَحَبِّ إِلَیْکَ الَّذِی إِذَا دُعِیتَ بِہِ أَجَبْتَ وَإِذَا سُئِلْتَ بِہِ أَعْطَیْتَ وَإِذَا اسْتُرْحِمْتَ بِہِ رَحِمْتَ وَإِذَا اسْتُفْرِجَتَ بِہِ فَرَّجْتَ) اور ایک روز آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اے عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ! تمہیں معلوم ہے کہ مجھے اللہ تعالی نے اپنا وہ نام بتا دیا ہے کہ جب وہ نام لے کر دعا کی جائے تو اللہ تعالی قبول فرماتے ہیں۔ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! میرے ماں باپ آپ پر قربان۔ مجھے وہ نام سکھا دیجئے۔ فرمایا تمہارے لئے وہ مناسب نہیں اے عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا۔ فرماتی ہیں یہ سن کر میں ہٹ گئی اور کچھ دیر بیٹھی پھر کھڑی ہوئی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا سر مبارک چوما۔ پھر عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ! مجھے وہ اسم تعلیم فرما دیجئے۔ فرمایا عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ! تمہیں سکھانا تمہارے لئے ہی موزوں نہیں اس لئے کہ مناسب نہیں کہ تم اسم کے ذریعہ دنیا کی کوئی چیز مانگو۔ فرماتی اللَّہُمَّ إِنِّی أَدْعُوکَ اللَّہَ وَأَدْعُوکَ الرَّحْمَنَ وَأَدْعُوکَ الْبَرَّ الرَّحِیمَ وَأَدْعُوکَ بِأَسْمَائِکَ الْحُسْنَی کُلِّہَا مَا عَلِمْتُ مِنْہَا وَمَا لَمْ أَعْلَمْ أَنْ تَغْفِرَ لِی وَتَرْحَمَنِی) کہا (مَا عَلِمْتُ مِنْہَا وَمَا لَمْ أَعْلَمْ أَنْ تَغْفِرَ لِی وَتَرْحَمَنِی) یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مسکرائے اور ارشاد فرمایا وہ اسم انہیں اسماء میں سے ہے جن سے تم نے (ابھی) دعا مانگی۔
اللہ عزوجل کے اسماء کا بیان
ابو بکر بن ابی شیبہ، عبدہ بن سلیمان، محمد بن عمرو، ابی سلمہ، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اللہ تعالی کے ایک کم سو یعنی ننانوے نام ہیں۔ جو انہیں یاد کر لے (سمجھ کر اور اس کے مطابق اعتقاد بھی رکھے ) وہ جنت میں داخل ہو گا۔
٭٭ ہشام بن عمار، عبد الملک بن محمد صنعانی، ابو منذر زہیر بن محمد تیمی، موسیٰ بن عقبہ، عبد الرحمن اعرج، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اللہ تعالی کے ننانوے نام ہیں۔ ایک کم سو۔ اللہ تعالی طاق ہیں طاق کو پسند فرماتے ہیں جو ان ناموں کو محفوظ کر لے وہ جنت میں داخل ہو گا اور وہ اسماء یہ ہیں اَللہ یہ نام اللہ تعالی کی ذات کے لئے مخصوص ہے۔ غیر اللہ پر اس کا اطلاق نہیں ہو سکتا نہ حقیقتاً نہ مجازا۔ اس ذاتی نام کو چھوڑ کر باقی جتنے نام ہیں وہ سب صفاتی نام ہیں۔ یعنی اللہ تعالی کی کسی صفت ہی کے اعتبار سے ہیں۔ اَلوَاحِد سردار کامل جو سب سے بے نیاز اور سب اس کے محتاج ہیں۔ اَلاولُ سب سے پہلا یعنی اس سے پہلے کوئی موجود نہ تھا۔ اَلاَخِر سب سے پچھلا۔ یعنی جب کوئی نہ رہے وہ موجود رہے گا۔ اَلظَّاہِرُ آشکارا ہر چیز کا وجود ظہور اللہ تعالی کے وجود سے ہے لہذا کائنات کی ہر چیز اور ہر ہر ذرہ اس کی ہستی اور وجود پر روشن دلیل ہے لہذا اللہ تعالی خوب ظاہر ہے۔ اس کا ایک مطلب غالب بھی ہے یعنی وہ ایسا غلبہ والا ہے کہ اس سے اوپر کوئی قوت نہیں ہے۔ اَلبَاطِنُ پوشیدہ۔ اس کی ذات کی کنہ اور اس کی صفات کے حقائق تک عقل کی رسائی نہیں ہے۔ کسی ایک صفت کا احاطہ بھی کوئی نہیں کر سکتا۔ نہ اپنی رائے سے اس کی کچھ کیفیت بیان کر سکتا ہے لہذا اس اعتبار سے اس سے زیادہ کوئی پوشیدہ نہیں ہے۔ نیز وہ ایسا چھپا ہے کہ اس سے پرے کوئی جگہ نہیں جہاں اس کی آنکھ سے اوجھل ہو کر پناہ مل سکے۔ اَلخَالِقُ مشیت اور حکمت کے مطابق ٹھیک اندازہ کرنے والا اور اس اندازہ کے مطابق پیدا کرنے والا۔ اس نے ہر چیز کی ایک خاص مقدار مقرر کر دی۔ کسی کو چھوٹا اور کسی کو بڑا اور کسی کو انسان اور کسی کو حیوان کسی کو پہاڑ اور کسی کو پتھر اور کسی کو مکھی اور کسی کو مچھر غرض ہر ایک کی ایک خاص مقدار مقرر کر دی ہے۔ اَلبَارِی بلا کسی اصل کے اور بلا کسی خلل کے پیدا کرنے والا۔ اَلمُصوِّرُ طرح طرح کی صورتیں بنانے والا کہ ہر صورت دوسری صورت سے جدا اور ممتاز ہے۔ اَلمَلِکُ بادشاہ حقیقی اپنی تدبیر اور تصرف میں مختار مطلق۔ اَلحَقُّ ثابت اور برحق۔ اس کی خدائی اور شہنشائی حق ہے اور حقیقی ہے۔ اس کے سوا سب غیر حقیقی اور ہیچ ہے۔ اَلسَّلَامُ آفتوں اور عیبوں سے سالم اور سلامتی کا عطا کرنے والا۔ اَلمُؤمِنُ مخلوق کو آفتوں سے امن دینے والا اور امن کے سامان پیدا کرنے والا۔ اَلمُہِیمِنُ ہر چیز کا نگہبان۔ اَلعَزِیزُ عزت والا اور غلبہ والا۔ کوئی اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا اور نہ کوئی اس پر غلبہ پا سکتا ہے۔ اَلجَبَّارُ جبر اور قہر والا۔ ٹوٹے ہوئے کا جوڑنے والا اور بگڑے ہوئے کا درست کرنے والا۔ اَلمُتَکَبِّرُ انتہائی بلند اور برتر جس کے سامنے سب حقیر ہیں۔ اَلرَّحمٰنُ نہایت رحم والا۔ اَلرَّحِیمُ بڑا مہربان۔ اَللَّطِیفُ باریک بین یعنی ایسی خفی اور باریک چیزوں کا ادراک کرنے والا جہاں نگاہیں نہیں پہنچ سکتیں۔ بڑا لطف وکرم کرنے والا بھی ہے۔ اَلخَبِیرُ بڑا آگاہ اور باخبر ہے۔ وہ ہر چیز کی حقیقت کو جانتا ہے۔ ہر چیز کی اس کو خبر ہے۔ یہ ناممکن ہے کوئی چیز موجود ہو اور اللہ کو اس کی خبر نہ ہو۔ اَلسَّمِیعُ سب کچھ سننے والا۔ اَلبَصِیرُ سب کچھ دیکھنے والا۔ العلیم بہت جاننے والا۔ جس سے کوئی چیز مخفی نہیں ہو سکتی۔ اس کا علم تمام کائنات کے ظاہر اور باطن کو محیط ہے۔ اَلعَظِیمُ بہت عظمت والا۔ اَلبَارُّ بڑا اچھا سلوک کرنے والا۔ اَلمُتَعَالِ بہت بلند۔ اَلجَلِیلُ۔ بزرگ قدر۔ اَلجَمِیلُ بہت جمال والا۔اَلحَیُّ بذات خود زندہ اور قائم بالذات جس کی ذات قائم ہو جس کی حیات کو کبھی زوال نہیں۔ اَلقَیُّومُ کائنات عالم کی ذات وصفات کا قائم رکھنے والا اور تھامنے والا۔ اَلقَادِرُ قدرت والا۔ اسے اپنے کام میں کسی آلہ کی بھی ضرورت نہیں اور وہ عجز اور لاچارگی سے پاک اور منزہ ہے۔ اَلقَاہِرُ غلبہ والا۔ اَلعَلِیُّ بہت بلند و برتر کہ اس سے اوپر کسی کا مرتبہ نہیں۔ اَلحَکِیمُ بڑی حکمتوں والا۔ اس کا کوئی کام حکمت سے خالی نہیں اور وہ ہر چیز کی مصلحتوں سے واقف ہے۔ اَلقَرِیبُ بہت قریب۔ اَلمُجِیبُ دعاؤں کا قبول کرنے والا اور بندوں کی پکار کا جواب دینے والا۔ اَلغَنِیُّ بڑا بے نیاز اور بے پرواہ۔ اسے کسی کی حاجت نہیں اور کوئی بھی اس سے مستغنی نہیں۔ اَلوَہَّابُ بغیر غرض کے اور بغیر عوض کے خوب دینے والا۔ بندہ بھی کچھ بخشش کرتا ہے مگر اس کی بخشش ناقص اور ناتمام ہے کیونکہ بندہ کسی کو کچھ روپیہ پیسہ دے سکتا ہے مگر صحت اور عافیت نہیں دے سکتا جبکہ اللہ تعالی کی بخشش میں سب کچھ ہی داخل ہے۔ اَلوَدُودُ بڑا محبت کرنے والا۔ یعنی بندوں کی خوب رعایت کرنے والا اور ان پر خوب انعام کرنے والا۔ اَلشَّکُورُ بہت قدردان۔ اَلمَاجِدُ بڑی بزرگی والا بزرگ مطلق۔ اَلوَاجِدُ غنی اور بے پرواہ کہ کسی چیز میں کسی کا محتاج نہیں یا یہ معنی کہ اپنی مراد کو پانے والا جو چاہتا ہے وہی ہوتا ہے۔ اَلوَالِی کارساز اور مالک اور تمام کاموں کا متولی اور منظم۔ اَلرَّاشِدُ راہ راست پر لانے والا۔ اَلعَفُوُّبہت معاف کرنے والا۔ اَلغَفُورُ بہت بخشنے والا۔ اَلحَلِیمُ بڑاہی بردبار۔ اسی لئے علانیہ نافرمانی بھی اس کو مجرمین کو فوری سزا پر آمادہ نہیں کرتی اور گناہوں کی وجہ سے وہ رزق بھی نہیں روکتا۔ اَلکَرِیمُ بہت مہربان۔ اَلتواب توبہ قبول کرنے والا۔ اَلرَّبُّ پروردگار اَلمَجِیدُ بڑا بزرگ۔ وہ اپنی ذات اور صفات اور افعال میں بزرگ ہے۔ اَلوَلَیُّ مد دگار اور دوست رکھنے والا یعنی اہل ایمان کا محب اور ناصر۔ اَلشَّہِیدُ حاضر و ناظر اور ظاہر و باطن پر مطلع اور بعض کہتے ہیں کہ امور ظاہرہ کے جاننے والے کو شہید کہتے ہیں اور مطلق جاننے والے کو علیم کہتے ہیں۔ اَلمُبِینُ حق و باطل کو جدا جدا کرنے والا۔ اَلبُرہَانُ دلیل۔ اَلرَّؤُوفُ بڑاہی مہربان جس کی رحمت کی غایت اور انتہاء نہیں۔ اَلمُبدِئُ پہلی بار پیدا کرنے والا اور عدم سے وجود میں لانے والا۔ اَلمُعِیدُ دوبارہ پیدا کرنے والا۔ پہلی بار بھی اسی نے پیدا کیا اور قیامت کے دن بھی وہی دوبارہ پیدا کرے گا اور معدومات کو دوبارہ ہستی کا لباس پہنائے گا۔ اَلبَاعِثُ مردوں کو زندہ کر کے قبروں سے اٹھانے والا اور سوتے ہوؤں کو جگانے والا۔ اَلوَارِثُ تمام موجودات کے فنا ہو جانے کے بعد موجود رہنے والا۔ سب کا وارث اور مالک جب سار اعالم فنا کے گھاٹ اتار دیا جائے گا تو وہ خود ہی فرمائے گا (لِمَنِ المُلکُ الیَومُ) آج کے دن کس کی بادشاہی ہے؟ اور خود ہی جواب دے گا۔ (للہِ الوَاحِدِ القَہَّارِ) ایک قہار اللہ کی۔ اَلقَوِیُّ بہت زور آور۔ اَلشَّدِیدُ سخت۔ اَلضَّارُّ اَلنَّافِعُ ضرر پہنچانے والا یعنی نفع اور ضرر سب اس کے ہاتھ میں ہے۔ خیر اور شر اور نفع و ضرر سب اس کی طرف سے ہے۔ اَلبَاقِی ہمیشہ باقی رہنے والا۔ یعنی دائم الوجود جسکو کبھی فنا نہیں اور اس کے وجود کی کوئی انتہا نہیں۔ اللہ تعالی واجب الوجود ہے۔ ماضی کے اعتبار سے وہ قدیم ہے اور مستقبل کے لحاظ سے وہ باقی ہے۔ ورنہ اس کی ذات کے لحاظ سے وہاں نہ ماضی ہے اور نہ مستقبل ہے اور وہ بذات خود باقی ہے۔ اَلوَقِیُّ بچانے والا۔ اَلخَافِضُ الرَّافِعُ پست کرنے والا اور بلند کرنے والا۔ وہ جسکو چاہے پست کرے اور جس کو چاہے بلند کرے۔ اَلقَابِضُ تنگی کرنے والا۔ اَلبَاسِطُ فراخی کرنے والا۔ یعنی حسی اور معنوی رزق کی تنگی اور فراخی سب اس کے ہاتھ میں ہے۔ کسی پر رزق کو فراخ کیا اور کسی پر تنگ کیا۔ اَلمُعِزُّ اَلمُذِلُّ عزت دینے والا اور ذلت دینے والا۔ وہ جسکو چاہے عزت دے اور جسکو چاہے ذلت دے۔ اَلمُقسِطُ عدل وانصاف قائم کرنے والا۔ اَلرَّزَّاقُ بہت بڑا روزی دینے والا اور روزی کا پیدا کرنے والا۔ رزق اور مرزوق سب اسی کی مخلوق ہے۔ ذُوالقُوَّۃِ قوت والا۔ اَلمَتِینُ شدید قوت والا جس میں ضعف اضمحلال اور کمزوری کا امکان نہیں اور اس کی قوت میں کوئی اس کا مقابل اور شریک نہیں۔ اَلقَائِمُ ہمیشہ قائم رہنے والا۔ اَلدَّائِمُ برقرار۔ اَلحَافِظُ بچانے والا۔ اَلوَکِیلُ کارساز یعنی جس کی طرف دوسرے اپنا کام سپرد کر دیں وہی بندوں کا کام بنانے والا ہے۔ الْفَاطِرُ پیدا کرنے والا۔ السَّامِعُ سننے والا۔ الْمُعْطِی عطا کرنے والا۔ الْمُحْیِی زندگی دینے والا۔ الْمُمِیتُ موت دینے والا۔ الْمَانِعُ روک دینے اور باز رکھنے والا۔ جس چیز کو وہ روک لے کوئی اس کو دے نہیں سکتا۔ الْجَامِعُ سب لوگوں کو جمع کرنے والا یعنی قیامت کے دن اور مرکب اشیاء میں تمام متفرق چیزوں کو جمع کرنے والا۔ الْہَادِی سیدھی راہ دکھانے اور بتانے والا کہ یہ راہ سعادت ہے اور یہ راہ شقاوت ہے اور سیدھی راہ پر چلانے والا بھی ہے۔ الْکَافِی کفایت کرنے والا۔ الْأَبَدُ ہمیشہ برقرار الْعَالِمُ جاننے والا۔ الصَّادِقُ سچا۔ النُّورُ وہ بذات خود ظاہر اور روشن ہے اور دوسروں کوظاہر اور روشن کرنے والا ہے۔ نور اس چیز کو کہتے ہیں کہ جو خود ظاہر ہو اور دوسرے کوظاہر کرتا ہو۔ آسمان و زمین سب ظلمت عدم میں چھپے ہوئے تھے۔ اللہ نے انکو عدم کی ظلمت سے نکال کر نور وجود عطا کیا۔ جس سے سب ظاہر ہو گئے۔ اس لئے وہ نور السموات والارض یعنی آسمان و زمین کا نور ہے۔ الْمُنِیرُ روشن کرنے والا۔ التَّامُّ ہر کام کو پورا کرنے والا۔ الْقَدِیمُ ازلی۔ الْوِتْرُ یکتا (طاق اکیلا) الْأَحَدُ ذات وصفات میں یکتا اور یگانہ۔ یعنی بے مثال اور بے نظیر۔ الصَّمَدُ جو کسی کا محتاج نہیں۔ ہر ایک اس کا محتاج ہے۔ الَّذِی لَمْ یَلِدْ جس کی اولاد نہیں۔ وَلَمْ یُولَدْ اور جو کسی کی اولاد نہیں۔ وَلَمْ یَکُنْ لَہُ کُفُوًا أَحَدٌ احد اور کوئی اس کا ہمسر نہیں۔
والد اور مظلوم کی دعا
ابو بکر، عبد اللہ بن بکرسہمی، ہشام دستوائی، یحییٰ بن ابی کثیر، ابی جعفر، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تین دعائیں قبول ہوتی ہیں ان میں کچھ شک نہیں۔ (1) مظلوم کی دعا (2) مسافر کی دعا اور (3) والد کی دعا اولاد کے حق میں۔
٭٭ محمد بن یحییٰ، ابو سلمہ، حبابہ، عجلان، ام حفص، صفیہ بنت جریر، ام حکیم بنت جریر، حضرت ام حکیم بنت وداع خزاعیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ ارشاد فرماتے سنا والد کی دعا (اللہ کے خاص) حجاب تک پہنچ جاتی ہے۔ (یعنی قبول ہوتی ہے )۔
دعا میں حد سے بڑھنا منع ہے
ابو بکر بن ابی شیبہ، عفان، حماد بن سلمہ، سعیدجریری، ابی نعامہ، حضرت عبد اللہ بن مغفل نے اپنے صاحبزادے کو یہ دعا مانگتے سنا اے اللہ! میں آپ سے مانگتا ہوں سفید محل جنت کے دائیں حصہ میں جب میں جنت میں داخل ہوں۔ تو فرمایا پیارے بیٹے ! اللہ سے جنت مانگو اور دوزخ سے اللہ کی پناہ مانگو (اوربس) کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے سنا عنقریب کچھ لوگ دعا میں حد سے بڑھنا شروع کر دیں گے۔
دعا میں ہاتھ اٹھانا
ابو بشربکر بن خلف، ابن ابی عدی، جعفر بن میمون، ابی عثمان، حضرت سلمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تمہارا پروردگار بہت با حیاء اور کریم (معزز و مہربان اور جواد فیاض) ہے۔ اسے اس بات سے حیاء آتی ہے کہ اس کا بندہ اس کے سامنے اپنے دونوں ہاتھ پھیلائے پھر وہ اس کے ہاتھ خالی اور ناکام لوٹا دے۔
٭٭ محمد بن صباح، عائذ بن حبیب، صالح بن حسان، محمد بن کعب قرظی، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جب تم اللہ سے دعا مانگو تو اپنی ہتھیلیاں اوپر رکھو اور ہاتھوں کی پشت اوپر مت رکھو اور جب فارغ ہو جاؤ تو دونوں ہاتھ اپنے چہرہ پر پھیر لو۔
صبح و شام کی دعا
ابو بکر، حسن بن موسی، حماد بن سلمہ، سہیل بن ابی صالح، حضرت ابو عیاش رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو صبح کے وقت یہ دعا مانگے لَا إِلَہَ إِلَّا اللَّہُ وَحْدَہُ لَا شَرِیکَ لَہُ لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ وَہُوَ عَلَی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیرٌ تو اسے حضرت اسماعیل کی اولاد میں سے ایک غلام آزاد کرنے کے برابر اجر ملے گا اور اس کی دس خطائیں معاف کر دی جائیں گی اور وہ شام تک شیطان سے محفوظ رہے گا اور شام کو یہی کلمات پڑھے تو صبح تک ایسا ہی رہے گا۔ راوی کہتے ہیں ایک مرد کو خواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زیارت ہوئی تو انہوں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! ابو عیاش آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی طرف منسوب کر کے یہ یہ حدیث بیان کرتے ہیں۔ فرمایا ابو عیاش نے سچ کہا۔
٭٭ یعقوب بن حمید بن کاسب، عبد العزیز بن ابی حازم، سہیل، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا صبح کو یہ دعا پڑھا کرو اللَّہُمَّ بِکَ أَصْبَحْنَا وَبِکَ أَمْسَیْنَا وَبِکَ نَحْیَا وَبِکَ نَمُوتُ اے اللہ ! ہم نے صرف آپ کی وجہ سے (قدرت سے ) صبح کی اور آپ ہی کی قدرت سے شام کی اور آپ ہی کی خاطر جیئں گے اور آپ ہی کی خاطر جان دیں گے اور شام ہو تو بھی یہی دعا مانگا کرو اللَّہُمَّ بِکَ أَمْسَیْنَا وَبِکَ أَصْبَحْنَا وَبِکَ نَحْیَا وَبِکَ نَمُوتُ وَإِلَیْکَ الْمَصِیرُ۔
٭٭ محمد بن بشار، ابو داؤد، ابن ابی زناد، ابان بن عثمان، حضرت ابان بن عثمان فرماتے ہیں کہ میں نے سیدنا عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یہ فرماتے سنا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے سنا جو بندہ بھی ہر روز صبح اور شام کو یہ کلمات کہے سْمِ اللَّہِ الَّذِی لَا یَضُرُّ مَعَ اسْمِہِ شَیْئٌ فِی الْأَرْضِ وَلَا فِی السَّمَائِ وَہُوَ السَّمِیعُ الْعَلِیمُ تین بار۔۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ اسے کوئی ضرر پہنچے۔ راوی کہتے ہیں کہ حضرت ابان کو فالج تھا۔ ایک شخص ان کی طرف (تعجب سے ) دیکھنے لگا تو حضرت ابان نے اس سے کہا دیکھتے کیا ہو۔ حدیث ایسے ہی ہے جیسے میں نے بیان کی لیکن ایک روز میں پڑھ نہ سکا (بھول گیا) تاکہ اللہ تعالی اپنی اٹل تقدیر مجھ پر جاری فرما دیں۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، محمد بن بشر، مسعر، ابو عقیل، سابق، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے خادم حضرت ابو سلام رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو بھی مسلمان یا انسان یا بندہ (راوی کو لفظ میں شک ہے کہ کیا فرمایا تھا) صبح شام یہ کلمات کہے رَضِیتُ بِاللَّہِ رَبًّا وَبِالْإِسْلَامِ دِینًا وَبِمُحَمَّدٍ نَبِیًّا تو اللہ تعالی اسے روز قیامت ضرور راضی اور خوش فرمائیں گے۔
٭٭ علی بن محمدطنافسی، وکیع، عبادہ بن مسلم، جبیر بن ابی سلمیان بن جبیر بن مطعم، حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم صبح شام یہ دعائیں نہیں چھوڑا کرتے تھے۔ (یعنی ضرور مانگتے تھے ) ( اللَّہُمَّ إِنِّی أَسْأَلُکَ الْعَفْوَ وَالْعَافِیَۃَ فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ اللَّہُمَّ إِنِّی أَسْأَلُکَ الْعَفْوَ وَالْعَافِیَۃَ فِی دِینِی وَدُنْیَایَ وَأَہْلِی وَمَالِی اللَّہُمَّ اسْتُرْ عَوْرَاتِی وَآمِنْ رَوْعَاتِی وَاحْفَظْنِی مِنْ بَیْنِ یَدَیَّ وَمِنْ خَلْفِی وَعَنْ یَمِینِی وَعَنْ شِمَالِی وَمِنْ فَوْقِی وَأَعُوذُ بِکَ أَنْ أُغْتَالَ مِنْ تَحْتِی) وکیع نے کہا کہ آخری جملہ میں دھنسنے سے پناہ مانگی۔
٭٭ علی بن محمد، ابراہیم بن عیینہ، ولید بن ثعلبہ، عبد اللہ بن حضرت بریدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا (سید الاستغفار) اللَّہُمَّ أَنْتَ رَبِّی لَا إِلَہَ إِلَّا أَنْتَ خَلَقْتَنِی وَأَنَا عَبْدُکَ وَأَنَا عَلَی عَہْدِکَ وَوَعْدِکَ مَا اسْتَطَعْتُ أَعُوذُ بِکَ مِنْ شَرِّ مَا صَنَعْتُ أَبُوئُ بِنِعْمَتِکَ وَأَبُوئُ بِذَنْبِی فَاغْفِرْ لِی فَإِنَّہُ لَا یَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ اے اللہ! آپ میرے پروردگار ہیں۔ آپ کے علاوہ کوئی معبود نہیں۔ آپ نے مجھے پیدا فرمایا۔ میں آپ کا بندہ ہوں۔ میں آپ کے عہد (عہد الست) اور وعدہ پر بقدر استطاعت قائم ہوں۔ میں نے جو احکام کئے ان کے شر سے میں آپ کی پناہ چاہتا ہوں۔ آپ کے انعامات کا قائل اور معترف ہوں اور اپنے گناہوں کا اقراری۔ اس لئے میری بخشش فرما دیجئے کہ گناہوں کو صرف آپ ہی بخشتے ہیں۔ جو بندہ یہ کلمات دن یارات میں کہے پھر اسی دن یارات کو اسے موت آ جائے تو ان شاء اللہ جنت میں داخل ہو گا۔
سونے کے لئے بستر پر آئے تو کیا دعا مانگے؟
محمد بن عبد الملک بن ابی شوارب، عبد العزیزبن مختار، سہیل، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب سونے کیلئے بستر پر آتے تو یہ دعا مانگا کرتے اللَّہُمَّ رَبَّ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ وَرَبَّ کُلِّ شَیْئٍ فَالِقَ الْحَبِّ وَالنَّوَی مُنْزِلَ التَّوْرَاۃِ وَالْإِنْجِیلِ وَالْقُرْآنِ الْعَظِیمِ أَعُوذُ بِکَ مِنْ شَرِّ کُلِّ دَابَّۃٍ أَنْتَ آخِذٌ بِنَاصِیَتِہَا أَنْتَ الْأَوَّلُ فَلَیْسَ قَبْلَکَ شَیْئٌ وَأَنْتَ الْآخِرُ فَلَیْسَ بَعْدَکَ شَیْئٌ وَأَنْتَ الظَّاہِرُ فَلَیْسَ فَوْقَکَ شَیْئٌ وَأَنْتَ الْبَاطِنُ فَلَیْسَ دُونَکَ شَیْئٌ اقْضِ عَنِّی الدَّیْنَ وَأَغْنِنِی مِنْ الْفَقْرِ اے اللہ ! آسمانوں اور زمین کے رب اور ہر چیز کے رب ! دانے اور گٹھلی کو چیرنے والے (اگانے والے ) تورات انجیل اور قرآن عظیم کو نازل فرمانے والے۔ میں ہر جانور کی برائی سے آپ کی پناہ میں آتا ہوں کہ جس کی پیشانی آپ کے قبضہ میں ہے۔ آپ اول ہیں آپ سے پہلے کوئی چیز نہ تھی اور آپ ہی آخر ہیں آپ کے بعد کچھ نہیں۔ آپ ہی ظاہر ہیں آپ سے اوپر کوئی چیز نہیں اور آپ ہی باطن ہیں کہ آپ سے زیادہ پوشیدہ کوئی چیز نہیں۔ میری طرف سے قرض ادا کر دیجئے اور مجھے مفلس سے غنی کر دیجئے۔
٭٭ ابو بکر، عبد اللہ بن نمیر، عبید اللہ، سعید بن ابی سعید، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی اپنے بستر پر لیٹنے کا ارادہ کرے تو اپنے ازار کا کنارہ کھول لے اور اس سے اپنا بستر جھاڑ لے۔ اس لئے کہ اسے معلوم نہیں کہ اس کے پیچھے بستر پر کیا کچھ آیا (کوئی موذی چیز ہی آ سکتی ہے ) پھر دائیں کروٹ پر لیٹ جائے۔ پھر یہ دعا پڑھے۔ رَبِّ بِکَ وَضَعْتُ جَنْبِی وَبِکَ أَرْفَعُہُ فَإِنْ أَمْسَکْتَ نَفْسِی فَارْحَمْہَا وَإِنْ أَرْسَلْتَہَا فَاحْفَظْہَا بِمَا حَفِظْتَ بِہِ عِبَادَکَ الصَّالِحِینَ اے اللہ ! آپ ہی کے بھروسہ پر میں نے اپنی کروٹ رکھی (لیٹا) اور آپ ہی کے امر سے میں اٹھوں گا۔ اگر آپ میری جان روک لیں تو اس پر رحمت فرمائیں اور اگر چھوڑ دیں (اور میں بیدار ہوں ) تو اس کی ایسے ہی حفاظت فرمائیے جیسے آپ اپنے نیک بندوں کی حفاظت فرماتے ہیں۔
٭٭ ابو بکر، یونس بن محمد، سعید بن شرحبیل، لیث بن سعدعقیل، ابن شہاب، عروہ بن زبیر، ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب اپنے بستر پر تشریف لاتے تو اپنے دونوں ہاتھوں میں پھونکتے اور معوذتین پڑھتے اور دونوں ہاتھ پورے جسم پر پھیر لیتے۔
٭٭ علی بن محمد، وکیع، سفیان، ابو اسحاق ، حضرت براء بن عاذب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک شخص سے فرمایا جب تم سونے کے لئے اپنے بستر پر آؤ تو یہ دعا پڑھا کرو اللَّہُمَّ أَسْلَمْتُ وَجْہِی إِلَیْکَ وَأَلْجَأْتُ ظَہْرِی إِلَیْکَ وَفَوَّضْتُ أَمْرِی إِلَیْکَ رَغْبَۃً وَرَہْبَۃً إِلَیْکَ لَا مَلْجَأَ وَلَا مَنْجَأَ مِنْکَ إِلَّا إِلَیْکَ آمَنْتُ بِکِتَابِکَ الَّذِی أَنْزَلْتَ وَنَبِیِّکَ الَّذِی أَرْسَلْتَ اے اللہ ! میں نے اپنا چہرہ آپ کے لئے جھکا دیا اور اپنی پشت پر آپ کے سہارے پر رکھی اور اپنا معاملہ آپ کے سپرد کر دیا۔ آپ کی طرف رغبت سے اور آپ ہی کے خوف سے کوئی ٹھکانہ نہیں اور کوئی پناہ نہیں آپ سے مگر آپ ہی کا ڈر ہے۔ میں آپ کی کتاب پر ایمان لایا جو آپ نے اتاری اور آپ کے نبی پر (ایمان لایا) جنہیں آپ نے بھیجا۔ اگر تم اسی رات میں مر گئے تو تمہاری موت فطرت (دین حق) پر آئی اور اگر تم نے صبح کی تو تمہیں بہت بھلائی حاصل ہوئی۔
٭٭ علی بن محمد، وکیع، اسرائیل، اسحاق ، ابی عبیدہ، حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب سونے کے لئے اپنے بستر پر تشریف لاتے تو اپنا دایاں ہاتھ رخسار مبارک کے نیچے رکھتے پھر کہتے اللَّہُمَّ قِنِی عَذَابَکَ یَوْمَ تَبْعَثُ أَوْ تَجْمَعُ عِبَادَکَ اے اللہ ! مجھے اپنے عذاب سے بچا دیجئے۔ جس روز آپ اپنے بندوں کو اٹھائیں گے جمع کریں گے۔
رات میں بیدار ہو تو کیا پڑھے؟
عبد الرحمن بن ابراہیم دمشقی، ولید بن مسلم، اوزاعی، عمیر بن ہانی، جنادہ بن ابی امیہ، حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو رات میں اچانک بیدار ہو اور بیدار ہو کر یہ دعا پڑھے (َا إِلَہَ إِلَّا اللَّہُ وَحْدَہُ لَا شَرِیکَ لَہُ لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ وَہُوَ عَلَی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیرٌ سُبْحَانَ اللَّہِ وَالْحَمْدُ لِلَّہِ وَلَا إِلَہَ إِلَّا اللَّہُ وَاللَّہُ أَکْبَرُ وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ إِلَّا بِاللَّہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیمِ) پھر یہ دعا مانگے اے اللہ ! میری بخشش فرما دیجئے۔ اس کی بخشش ہو جائے گی۔ راوی حدیث ولید کہتے ہیں کہ یا میرے استاذ امام اوزاعی نے یہ الفاظ کہے کہ کوئی بھی دعا مانگے قبول ہو گی۔ پھر اگر کھڑا ہو کر وضو کرے پھر نماز پڑھے تو اس کی نماز بھی قبول ہو گی۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، معاویہ بن ہشام، شیبان، یحییٰ، ابی سلمہ، حضرت ربیعہ بن کعب اسلمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دروازہ کے پاس رات گزارتے اور وہ رات میں نبی کو بہت دیر تک یہ کہتے سنتے سُبْحَانَ اللَّہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے سُبْحَانَ اللَّہِ وَبِحَمْدِہِ
٭٭ علی بن محمد، وکیع، سفیان، عبد الملک بن عمیر، ربعی، بن حراش، حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب رات میں بیدا ہوتے تو کہتے (الْحَمْدُ لِلَّہِ الَّذِی أَحْیَانَا بَعْدَ مَا أَمَاتَنَا وَإِلَیْہِ النُّشُورُ۔)
٭٭ علی بن محمد، ابو حسین، عباد بن سلمہ، عاصم بن ابی نجود بن سلمہ، عاصم بن ابی نجود، شہر بن حوشب، ابی ظبییہ، حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو بندہ بھی رات کو باوضو سوئے پھر رات میں اچانک اس کی آنکھ کھلے اس وقت وہ دنیا یا آخرت کی جو چیز بھی مانگے گا اللہ تعالی اسے ضرور عطا فرمائیں گے۔
سختی اور مصیبت کے وقت کی دعا
ابو بکر، محمد بن بشرح، علی بن محمد، وکیع، عبد العزیزبن عمر بن عبد العزیز، عمر بن عبد العزیز، عبد اللہ بن جعفر، حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھے کچھ کلمات سکھائے جو میں مصیبت میں پڑھتی ہوں۔ (اللَّہُ اللَّہُ رَبِّی لَا أُشْرِکُ بِہِ شَیْئًا ا)
٭٭ علی بن محمد، وکیع، ہشام صاحب دوستوائی، قتادہ، ابی عالیہ، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مصیبت کے وقت یہ دعا مانگا کرتے تھے (لَا إِلَہَ إِلَّا اللَّہُ الْحَلِیمُ الْکَرِیمُ سُبْحَانَ اللَّہِ رَبِّ الْعَرْشِ الْعَظِیمِ سُبْحَانَ اللَّہِ رَبِّ السَّمَوَاتِ السَّبْعِ وَرَبِّ الْعَرْشِ الْکَرِیمِ) وکیع راوی نے ایک مرتبہ ہر کلمہ کی ساتھ لا الہ الا اللہ کا اضافہ بھی کیا۔
کوئی شخص گھر سے نکلے تو یہ دعا مانگے
ابو بکر بن ابی شیبہ، عبیدہ بن حمید، منصور، شعبی، حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب اپنے دولت کدہ سی باہر تشریف لے جاتے تو یہ کہتے اللَّہُمَّ إِنِّی أَعُوذُ بِکَ أَنْ أَضِلَّ أَوْ أَزِلَّ أَوْ أَظْلِمَ أَوْ أُظْلَمَ أَوْ أَجْہَلَ أَوْ یُجْہَلَ عَلَیَّاے اللہ ! میں آپ کی پناہ چاہتا ہوں گمراہ ہونے پھسل جانے سے ظلم کرنے سے ظلم کئے جانے سے جہالت کرنے سے اور اس سے کہ میرے ساتھ کوئی جہالت کا برتاؤ کرے۔
٭٭ یعقوب بن حمید بن کاسب، حاتم اسماعیل، عبد اللہ بن حسین، عطاء بن یسار، سہیل بن ابی صالح، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے جب اپنے دولت کدہ سے باہر تشریف لاتے تو ارشاد فرماتے بِسْمِ اللَّہِ لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ إِلَّا بِاللَّہِ التُّکْلَانُ عَلَی اللَّہِ
٭٭ عبد الرحمن بن ابراہیم دمشقی، ابن ابی فدیک، ہارون بن ہارون، اعرج، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ارشاد فرمایا جب مرد اپنے گھر یا کوٹھری کے دروازہ سے باہر آئے تو دو فرشتے اس کے مقرر ہوتے ہیں۔ جب یہ کہے بِسْمِ اللَّہِ۔ تو وہ کہتے ہیں تیری راہنمائی کی گئی اور جب وہ کہتا ہے َا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ إِلَّا بِاللَّہِ تو کہتے ہیں تیری حفاظت کی گئی اور جب وہ کہتا ہے تَوَکَّلْتُ عَلَی اللَّہِ۔ تو وہ کہتے ہیں تیری کفایت کی گئی۔ پھر اس سے اس کے دونوں شیطان ملتے ہیں تو فرشتے ان سے کہتے ہیں کہ تم اس آدمی سے کیا (شرک کروانا) چاہتے ہو جس کی راہنمائی ہو چکی کفایت ہو چکی حفاظت بھی ہو چکی۔
گھر داخل ہوتے وقت کی دعا
ابو بشربکر بن خلف، ابو عاصم، ابن جریج، ابو زبیر، جابر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے سنا جب مرد اپنے گھر میں داخل ہو اور داخل ہوتے ہوئے اللہ کو یاد کرے اور کھاتے وقت بھی (مثلاً بسم اللہ کہے ) تو شیطان (اپنے لشکر سے ) کہتا ہے تمہارے لئے (اس گھر میں ) نہ سونے کیلئے جگہ ہے نہ رات کا کھانا اور جب آدمی گھر میں داخل ہو جائے اور داخل ہوتے وقت اللہ کو یاد نہ کرے تو شیطان کہتا ہے کہ تمہیں رات کیلئے ٹھکانہ مل گیا اور جب کھاتے وقت اللہ کو یاد نہیں کرتا تو شیطان کہتا ہے کہ تمہیں رات کیلئے ٹھکانہ اور رات کا کھانادونوں مل گئے۔
سفر کرتے وقت کی دعا
ابو بکر، عبد الرحیم بن سلیمان، ابو معاویہ، عاصم، حضرت عبد اللہ بن سرجس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ سفر کے وقت یہ دعا پڑھتے اللَّہُمَّ إِنِّی أَعُوذُ بِکَ مِنْ وَعْثَائِ السَّفَرِ وَکَآبَۃِ الْمُنْقَلَبِ وَالْحَوْرِ بَعْدَ الْکَوْرِ وَدَعْوَۃِ الْمَظْلُومِ وَسُوئِ الْمَنْظَرِ فِی الْأَہْلِ وَالْمَالِ اے اللہ ! میں آپ کی پناہ میں آتا ہوں۔ سفر کی تھکاوٹ اور تکلیف سے اور سفر سے لوٹنے کے بعد بری حالت سے (کہ ناکام لوٹوں یا پہنچوں تو گھر میں مالی جانی نقصان یا بیماری کی حالت دیکھوں ) اور ترقی کے بعد تنزلی سے اور مظلوم کی بد دعا سے اور گھر یا مال کا براحال دیکھنے سے۔ ابو معاویہ کی روایت میں ہے کہ واپسی پر بھی آپ یہی دعا فرماتے۔
باد و باراں کا منظر دیکھتے وقت یہ دعا پڑھے
ابو بکر بن ابی شیبہ، یزید بن مقدام بن شریح، مقدام، ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی کسی بھی افق سے بادل آتا دیکھتے تو جس کام میں مشغول ہوتے اسے چھوڑ دیتے اگرچہ (نفلی) نماز ہی کیوں نہ ہو اور اس کی طرف منہ کر کے کہتے اللَّہُمَّ إِنَّا نَعُوذُ بِکَ مِنْ شَرِّ مَا أُرْسِلَ بِہِ اے اللہ ! ہم آپ کی پناہ میں آتے ہیں۔ اس شر سے جس کے ساتھ اسے بھیجا گیا اگر وہ برستا تو فرماتے اللَّہُمَّ سَیْبًا نَافِعًا مَرَّتَیْنِ أَوْ ثَلَاثَۃً اے اللہ ! جاری اور نافع پانی عطا فرما دو یا تین مرتبہ اور اگر اللہ کے امر سے بادل چھٹ جاتا تو آپ اس پر اللہ کا شکر بجا لاتے۔
٭٭ ہشام بن عمار، عبد الرحمید بن حبیب بن ابی عشرین، اوزاعی، نافع، قاسم بن محمد، ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بارش دیکھتے تو ارشاد فرماتے اللَّہُمَّ اجْعَلْہُ صَیِّبًا ہَنِیئًا۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، معاذبن معاذ، ابن جریج، عطاء، ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب ابر دیکھتے تو آپ کا چہرہ متغیر ہو جاتا رنگ بدل جاتا۔ آپ کبھی اندر آتے کبھی باہر جاتے کبھی سامنے آتے اور کبھی منہ پھیر لیتے (غرض اضطراب اور بے چینی طاری رہتی) جب بارش ہوتی تو آپ کی یہ کیفیت جاتی رہتی۔ میں نے آپ سے اس کا تذکرہ کیا تو فرمایا تمہیں کیا خبر !شاید یہ ایسا ہی ہو جیسے قوم ہود نے کہا جب انہوں نے اپنی وادیوں کا طرف ابر آتا دیکھا کہ یہ بادل ہے جو ہم پر برسے گا (اس میں پانی نہیں ) بلکہ یہ وہی عذاب ہے جس کی تمہیں جلدی تھی۔ آیت کے آخر تک۔
مصیبت زدہ کو دیکھے تو یہ دعا پڑھے
علی بن محمد، وکیع، خارجہ بن مصعب، ابی یحییٰ عمرو بن دینار، آل زبیر، سالم، حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو اچانک مصیبت زدہ کو دیکھ کر یہ پڑھے الْحَمْدُ لِلَّہِ الَّذِی عَافَانِی مِمَّا ابْتَلَاکَ بِہِ وَفَضَّلَنِی عَلَی کَثِیرٍ مِمَّنْ خَلَقَ تَفْضِیلًا تو وہ اس مصیبت سے عافیت میں رہے گا خواہ کوئی کسی قسم کی مصیبت ہو۔
خو ابو ں کی تعبیر کا بیان
مسلمان اچھا خواب دیکھے یا اس کے بارے میں کسی اور کو خواب دکھائی دے
ہشام بن عمار، مالک بن انس، اسحاق بن عبد اللہ بن ابی طلحہ، حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا مرد صالح کا نیک خواب نبوت کا چھیالیسواں حصہ ہے
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، عبد الاعلی، معمر، زہری، سعید، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا مومن کا خواب نبوت کا چھیالیسواں حصہ ہے
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، ابو کریب، عبید اللہ بن موسیٰ شیبان، قراس، عطیہ، حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا نیک مرد کا خواب نبوت ستر حصوں میں سے ہے
٭٭ ہارون بن عبد اللہ حمال، سفیان بن عیینہ، عبید اللہ بن ابی یزید، سباع بن ثابت، حضرت ام کعبیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتی ہیں کہ میں نے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا نبوت ختم ہو چکی (اب کسی قسم کا کوئی نبی نہیں آئے گا اور خوشخبری دینے والی باتیں باقی ہیں (ان میں نیک خواب بھی داخل ہیں )
٭٭ علی بن محمد، ابو اسامہ عبد اللہ بن نمیر، عبید اللہ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ عنہما فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا نیک خواب نبوت ستر حصوں میں سے ہے
٭٭ علی بن محمد، وکیع، علی بن مبارک، یحییٰ بن ابی کثیر، ابی سلمہ، حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اللہ تعالی کے ارشاد لہم البشری فی الحیوۃ الدنیا کی تفسیر دریافت کی (ترجمہ یہ ہے کہ دنیا اور آخرت میں خوشخبری ہے ) فرمایا اس سے مراد نیک خواب ہے جو مسلمان دیکھے یا اس کے بارے میں کوئی اور دیکھے
٭٭ اسحاق بن اسماعیل ایلی، سفیان بن عیینہ، سلیمان بن سحیم، ابراہیم بن عبد اللہ بن معبد بن عباس، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مرض وفات میں (اپنے حجرے کا) پردہ اٹھایا (دیکھا تو) نماز کی صفیں ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پیچھے قائم کی فرمایا اے لوگو نبوت کی خوشخبری دینے والی چیزوں میں کچھ باقی نہ رہا (کہ نبوت ختم ہو چکی ہے ) البتہ نیک خواب ان میں سے باقی ہیں جو مسلمان دیکھے یا مسلمان کے متعلق کوئی اور دیکھے
خواب میں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زیارت
علی بن محمد، وکیع، سفیان، ابی اسحاق ، ابی احوص، حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس نے مجھے خواب میں دیکھا اس نے مجھے بیداری میں دیکھا (یعنی اس کی مثال دیکھا ہے مجھے ہی دیکھا کسی اور کو نہیں ) کیونکہ شیطان بھی میری صورت میں نہیں آ سکتا
٭٭ ابو مروان عثمانی ، عبد العزیز بن ابی حازم، علاء بن عبد الرحمن، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس نے مجھے خواب میں دیکھا تو اس نے مجھے ہی دیکھا کیونکہ شیطان میری صورت میں نہیں آ سکتا
٭٭ محمد بن رمح، لیث بن سعد، ابو زبیر، حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس نے مجھے خواب میں دیکھا اس نے مجھے ہی دیکھا کیونکہ شیطان میری صورت میں نہیں آ سکتا
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، ابو کریب، بکر بن عبد الرحمن، عیسیٰ بن مختار، ابن ابی لیلیٰ، عطیہ، حضرت ابو سعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس نے مجھے خواب میں دیکھا اس نے مجھے ہی دیکھا کیونکہ شیطان میری صورت اختیار نہیں کر سکتا
٭٭ محمد بن یحییٰ ، سلیمان بن عبد الرحمن دمشقی، سعدان بن یحییٰ بن صالح خمی، صدقہ بن ابی عمران، عون بن حضرت ابو جحیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس نے مجھے خواب میں دیکھا گویا اس نے مجھے بیداری دیکھا کیونکہ شیطان میری شکل اختیار کر ہی نہیں سکتا
٭٭ محمد بن یحییٰ ، ابو ولید، ابو عوانہ، جابر، عمار، سعید بن جبیر، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس نے مجھے خواب میں دیکھا اس نے مجھے ہی دیکھا کیونکہ شیطان میری صورت میں نہیں آ سکتا
خواب تین قسم کا ہوتا ہے
ابو بکر بن ابی شیبہ، ہودہ بن خلیفہ، عوف، محمد بن شیرین، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا خواب تین قسم کا ہوتا ہے اللہ کی طرف سے خوشخبری دل کے خیالات اور شیطان کی طرف سے ڈراوا لہذا تم میں سے کوئی ایسا خواب دیکھے جو اسے اچھا معلوم ہو تو چاہیے بیان کر دے اور اگر ناپسندیدہ چیز دیکھے تو کسی کو نہ بتائے اور کھڑا ہو کر نماز پڑھے
٭٭ ہشام بن عمار، یحییٰ بن حمزہ، یزید بن عبیدہ، ابو عبید اللہ مسلم بن مشکم، حضرت عوف بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا خواب تین قسم کا ہوتا ہے ایک شیطان کی طرف سے ہولناک اور ڈراؤنا خواب تاکہ انسان رنجیدہ اور پریشان ہو دوسرا آدمی بیداری جو سوچتا ہے اسی کے بارے میں خواب مبں دیکھتا ہے تیسرا نبوت کے چھیالیس حصوں میں سے ایک ہے (مسلم بن مکشم راوی کہتے ہیں ) میں نے کہا آپ نے خود نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے یہ بات سنی؟ جی ہاں میں نے خود نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے یہ بات سنی میں نے خود نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے یہ بات سنی (دو مرتبہ تاکیداً فرمایا )
جو ناپسندیدہ خواب دیکھے
محمد بن رمح مصری، لیث بن سعد، ابو زبیر، حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی ناپسندیدہ خواب دیکھے تو بائیں طرف تین بار تھوکے اور تین بار شیطان سے اللہ کی پناہ مانگے (اعوذ باللہ پڑھ لے ) اور جس کروٹ پر تھا اسے بدل لے
٭٭ محمد بن رمح، لیث بن سعد، یحییٰ بن سعید، ابو سلمہ، عبد الرحمن بن عوف، حضرت ابو قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اچھا خواب من جانب اللہ ہوتا ہے اور برا خواب شیطان کی طرف سے ہوتا ہے تم میں سے کوئی بھی برا خواب دیکھے تو تین بار بائیں طرف تھتکار دے اور تین بار تعوذ پڑھے اور جس کروٹ پر تھا اسے بدل کر دوسری کروٹ اختیار کر لے
٭٭ علی بن محمد، وکیع، معمری، سعید مقبری، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی ناپسندیدہ خواب دیکھے تو کروٹ بدل لے اور بائیں طرف تین بار تھتکار دے اور اللہ سے اچھے خواب کا سوال کرے اور برے خواب سے پناہ مانگے
جس کے ساتھ شیطان کھیلے تو وہ وہ خواب لوگوں کو نہ بتائے
ابو بکر بن ابی شیبہ، محمد بن عبد اللہ بن زبیر، عمر بن سعید بن ابی حسین عطاء بن ابی رباح، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا میں نے (خواب میں ) دیکھا کہ میرا سر اڑا دیا گیا میں نے دیکھا کہ وہ گھوم رہا ہے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا شیطان تم میں سے ایک کے پاس آ کر ڈراتا ہے پھر وہ شخص صبح کو لوگوں کو بتاتا ہے (ایسا نہیں کرنا چاہیے )
٭٭ علی بن محمد، ابو معاویہ، اعمش، ابو سفیان ، حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم خطبہ ارشاد فرما رہے تھے کہ ایک شخص حاضر ہوا اور عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں نے خواب میں دیکھا کہ میری گردن کاٹ دی گئی اور سر گر گیا اور میں اس کے پیچھے گیا اور اٹھا کر واپس رکھ دیا تو رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب تم میں سے کسی کے ساتھ شیطان خواب میں کھیلے تو وہ ہرگز لوگوں کے سامنے بیان مت کیا کرو
٭٭ محمد بن رمح ، لیث بن سعد، ابو زبیر، حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جب تم میں سے کوئی برا خواب دبکھے تو لوگوں کو شیطان کے اپنے ساتھ کھیل کی خبر نہ دے
خواب کی تعبیر جیسے بتائی جائے (ویسے ہی) واقع ہو جاتی ہے لہذا دوست (خیر خواہ) کے علاوہ کسی اور کو خواب نہ سنائے
ابو بکر، ہشیم، یعلی بن عطاء، وکیع بن عدس عقیلی، حضرت ابو زرین رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا خواب ایک پرندہ کے پاؤں پر ہوتا ہے جب تک تعبیر بیان نہ کی جائے جب تعبیر دے دی جائے تو (بتانے کے موافق ہی) واقع ہو جاتا ہے (ایسا عموماً ہوتا ہے لیکن یہ لازم نہیں ) اور خواب نبوت کا چھیالیسواں حصہ ہے اسے دوست یا سمجھدار کے سامنے ہی ذکر کرنا چاہیے
خواب کی تعبیر کیسے دی جائے؟
محمد بن عبد اللہ بن نمیر، اعمش، یزید رقاشی، حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا خواب کی تعبیر نام اور کنیت دیکھ کر بتاؤ اور خواب پہلے تعبیر دینے والے کی تعبیر کے موافق ہو جاتا ہے
جھوٹ موٹ خواب ذکر کرنا
بشر بن ہلال صواف، عبد الوارث بن سعید، ایوب، عکرمہ، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس نے (خواب نہ دیکھا) اور جھوٹ موٹ ذکر کیا کہ میں نے ایسا ایسا خواب دیکھا اسے جو کے درمیان گرہ لگانے کا حکم ہو گا اور (چونکہ گرہ لگانا ناممکن ہے اس لئے ایسا نہ کرنے پر پھر عذاب دیا جائے گا
جو شخص گفتار میں سچا ہو اسے خواب بھی سچے ہی آتے ہیں
احمد بن عمرو بن سرح مصری، بشر بن بکراوزاعی، ابن سیرین، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا قرب قیامت میں مومن کا خواب جھوٹا نہ ہو گا اور اسی کا خواب سچا ہو گا جو گفتار میں (بھی) سچا ہو گا اور مومن کا خواب نبوت کا چھیالیسواں حصہ ہے
خواب کی تعبیر
یعقوب بن حمید بن کاسب مدنی، سفیان بن عیینہ، زہری، عبید اللہ بن عبد اللہ ابن عباس جنگ احد سے واپس ہوئے تو ایک شخص حاضر ہوا اور عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں نے خواب دیکھا کہ ایک سائبان ہے (ابر کا ٹکڑا) جس میں سے گھی اور شہد ٹپک رہا ہے اور دیکھا کہ لوگ ہاتھ پھیلا پھیلا کر اس میں سے لے رہے ہیں کسی نے زیادہ لیا اور کسی نے کم اور میں نے دیکھا کہ ایک رسی (زمین سے ) مل رہی ہے اور آسمان تک پہنچتی ہے میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اسی رسی کو تھاما اوپر چلے گئے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بعد ایک اور شخص نے اسے تھاما اور اوپر چلا گیا پھر ایک اور مرد نے تھاما تو وہ رسی ٹوٹ گئی لیکن پھر جوڑ دی گئی بالآخر وہ بھی اوپر چلا گیا اس پر حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مجھے اس خواب کی تعبیر بیان کرنے کا موقع دیجیے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ٹھیک ہے بتاؤ کیا تعبیر ہے؟ عرض کیا سائبان (ابر کا ٹکڑا) تو اسلام ہے اور جو گھی شہد ٹپک رہا ہے وہ قرآن ہے اس کی شیرینی اور نرمی ہے اور جو اس کو ہاتھ پھیلا پھیلا کر حاصل کر رہے ہیں وہ قرآن حاصل کرنے والے ہیں کوئی کم لے رہا ہے اور کوئی زیادہ اور وہ رسی جو آسمان تک پہنچتی ہے اس سے وہ حق مراد ہے جس پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم قائم ہیں (یعنی تنفیذ اسلام) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اسے تھاما اور اسی حالت میں اوپر چلے گئے پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بعد اسے ایک شخص تھامے گا (آپ کا خلیفہ بنے گا) اور اس کے ذریعے اوپر چلا جائے گا پھر ایک اور شخص اسے تھامے گا اور اس کے ذریعے اوپر چلا جائے گا پھر ایک اور مرد اسے تھامے گا اور اس کے لیے رسی ٹوٹ جائے گی پھر اس کے لیے اسے جوڑا جائے گا اور وہ بھی اس کے ذریعے اوپر چلا جائے گا حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ ترک خلافت کے لیے تیار ہو گئے تھے پھر خواب میں زیارت سے مشرف ہوئے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اے عثمان جو کرتہ (خلافت) اللہ نے تمہیں پہنایا ہے اپنی خوشی سے اسے مت اتارنا بیدار ہو کر عہد کیا کہ خلافت نہ چھوڑیں گے بالآخر اسی حالت میں شہید ہوئے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم نے کچھ درست بیان کیا اور کچھ خطاء ہوئی تم سے۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں آپکو قسم دیتا ہوں مجھے ضرور بتائیے کہ میں نے کیا غلطی کی اور کیا صحیح بیان کیا؟ فرمایا اے ابو بکر قسم مت دو حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی ایسی ہی روایت نقل کی ہے
٭٭ ابراہیم بن منذرحزامی، عبد اللہ بن معاذ صنعانی، معمر، زہری، سالم، حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں غیر شادی شدہ نوجوان تھا رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانے میں چنانچہ میں مسجد ہی رات گزارتا تھا ہم (صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ) میں سے جو بھی کوئی خواب دیکھتا تو نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں عرض کرتا میں نے دعا مانگی اے اللہ گر میرے لیے آپ کے یہاں خیر ہے (اور میں اچھا ہوں ) تو مجھے خواب دکھائیے جس کی تعبیر مجھے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بتائیں میں سویا تو دیکھا کہ دو فرشتے پاس آئے اور مجھے لے کر چلے پھر انہیں اور فرشتہ ملا اور اس نے (مجھے ) کہا گھبرانا مت وہ دونوں فرشتے مجھے دوزخ کی طرف لے گئے اور اس میں انسان ہیں کچھ کو میں نے پہچان لیا پھر وہ مجھے دائیں طرف لے گئے صبح ہوئی تو میں نے اپنا خواب اپنی ہمشیرہ ام المومنین سیدہ حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بتایا کہ یہ خواب انہوں نے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں عرض کیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ عبد اللہ مرد صالح ہے اگر رات کو نماز زیادہ پڑھے (تو بہت اچھا ہو) راوی کہتے ہیں کہ اسی وجہ سے عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ رات کو زیادہ نماز پڑھا کرتے تھے
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، حسن بن موسیٰ اشیب، حماد بن سلمہ، عاصم بن بہدلہ، مسیب بن رافع، حضرت خرشہ بن حر فرماتے ہیں کہ میں مدینہ طیبہ حاضر ہوا اور مسجد نبوی میں چند عمر رسیدہ افراد کے ساتھ بیٹھ گیا اتنے میں ایک شخص اپنی لاٹھی ٹیکتے ہوئے تشریف لائے تو لوگوں نے کہا جسے جنتی مرد کو دیکھنے سے خوشی ہو تو وہ ان کی زیارت کر لے وہ ایک ستون کے پیچھے کھڑے ہوئے اور دو رکعتیں ادا کیں میں ان کے پاس گیا اور ان سے کہا کہ کچھ لوگوں نے یہ بات کہی فرمانے لگے اَلحَمدُ للہِ جنت اللہ تعالی کی ہے اللہ تعالی جسے چاہیں گے جنت میں داخل فرمائیں گے میں نے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے عہد مبارک میں خواب دیکھا میں نے دیکھا کہ ایک مرد میرے پاس آیا اور کہا چلو میں اس کے ساتھ چل دیا وہ مجھے لے کر ایک بڑے راستہ میں چلا پھر میرے سامنے ایک راستہ آیا جو میرے بائیں طرف کو میں نے اس پر چلنا چاہا تو وہ بولا کہ تم اس راستہ والوں میں سے نہیں پھر مجھے اپنے دائیں طرف راستہ دکھائی دیا میں اس پر چلا یہاں تک کہ میں ایک پھسلن والے پہاڑ پر پہنچا تو اس نے میرا ہاتھ تھام لیا اور مجھے سہارا دے کر چلایا جب میں اس کی چوٹی پر پہنچا تو وہاں ٹھہر نہ سکا اور نہ ہی کسی چیز کا سہارا لے سکا اچانک ایک لوہے کا ستون دکھائی دیا جس کی چوٹی پر ایک سونے کا کڑا تھا اس شخص نے پکڑا اور زور دیا یہاں تک کہ میں نے اس کڑے کو تھام لیا تو کہنے لگا تم نے مضبوطی سے تھام لیا میں نے کہا ہاں تو اس نے ستون کو ٹھوکر لگائی لیکن میں نے کڑے کو تھامے رکھا وہ معمر شخص کہنے لگے میں نے یہ خواب نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں عرض کیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم نے بڑا اچھا خواب دیکھا بڑا راستہ میدان حشر ہے اور جو راستہ بائیں طرف دکھائی دیا تھا وہ دوزخیوں کا راستہ تھا اور تم دوزخی نہیں اور جو راستہ دائیں طرف دکھائی دیا وہ جنتیوں کا راستہ تھا اور پھسلن والا پہاڑ شہداء کی منزل ہے اور جو کڑا تم نے تھاما تھا وہ اسلام کا کڑا ہے اسے مرتے دم تک مضبوطی سے تھامے رکھنا اس لیے مجھے امید ہے کہ میں جنتی ہوں (حضرت خرشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں تحقیق سے معلوم ہوا کہ) وہ حضرت عبد اللہ بن سلام رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں
٭٭ محمود بن غیلان، ابو اسامہ، بریدہ، ابو بردہ، حضرت ابو موسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا میں نے خواب میں دیکھا کہ میں کھجوروں والی زمین کی طرف ہجرت کر رہا ہوں تو مجھے یہ خیال ہوا کہ یہ یمامہ ہجر ہے لیکن وہ تو مدینہ تھا اور میں نے اسی خواب میں دیکھا کہ میں نے تلوار ہلائی تو اس کا سر الگ ہو گیا معلوم ہو گیا کہ یہ وہ نقصان تھا جو احد کے دن اہل ایمان کو ہوا پھر میں نے دوبارہ تلوار کو حرکت دی تو وہ پہلے سے بھی اچھی ہو گئی یہ وہ فتح ہے جو اللہ نے تعالی نے عطاء فرمائی
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، محمد بن بشر، محمد بن عمرو، ابی سلمہ، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میں نے خواب میں سونے کے دو کنگن دیکھے میں نے انہیں پھونک ماری (تو وہ اڑ گئے ) میں نے اس کی تعبیر یہ سمجھی کہ یہ دونوں کذاب مسیلمہ اور اسود عنسی ہیں
٭٭ ابو بکر، معاذبن ہشام، علی بن صالح، سماک، قابو س، حضرت ام الفضل رضی اللہ تعالیٰ عنہ عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں نے خواب میں دیکھا کہ میرے گھر میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اعضاء میں سے کوئی ٹکڑا ہے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم نے اچھا خواب دیکھا فاطمہ کے یہاں لڑکا ہو گا تم اس کو دودھ پلاؤ گی چنانچہ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاں حضرت حسین یا حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہوئے تو میں نے انہیں دودھ پلایا اس وقت میں قثم کی زوجیت میں تھی میں اس بچہ کو لے کر نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں لائی اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی گود بٹھا دیا بچہ نے پیشاب کر دیا تو میں نے اس کے کندھے پر مارا اس پر نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم نے میرے بچہ کو تکلیف دی اللہ تم پر رحم فرمائے
٭٭ محمد بن بشار، ابو عاصم، ابن جریج، موسیٰ بن عقبہ، سالم بن عبد اللہ ، عبد اللہ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا میں نے خواب میں دیکھا ایک سیاہ فام عورت بکھرے بالوں والی مدینہ سے نکلی اور مہیعہ جحفہ میں جا ٹھہری تو اس کی تعبیر میں نے یہ سمجھی کہ مدینہ میں وباء تھی جسے جحفہ کی طرف منتقل کر دیا گیا
٭٭ ابن رمح، لیث بن سعد، ابن ہاد، محمد بن ابراہیم تیمی، اب سلمہ بن عبد الرحمن طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ دور دراز علاقہ سے دو شخص نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ایک ساتھ مشرف باسلام ہوئے ان میں سے ایک دوسرے سے بڑھ کر جدوجہد اور عبادت و ریاضت کرتا تھا یہ زیادہ عبادت کرنے والا لڑائی میں شریک ہوا بالآخر شہید ہو گیا دوسرا اس کے بعد سال بھر تک زندہ رہا پھر انتقال کر گیا حضرت طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ میں جنت کے دروازے کے پاس کھڑا ہوں دیکھتا ہوں کہ میں ان دونوں کے قریب ہی ہوں جنت کے اندر سے ایک شخص نکلا اور ان میں سے بعد میں فوت ہونے والے کو (جنت میں داخلہ) کی اجازت دی کچھ دیر بعد پھر نکلا اور شہید ہونے والے کو اجازت دی پھر لوٹ کر آیا اور مجھے کہنے لگا واپس ہو جا ابھی تمہارا وقت نہیں آیا صبح ہوئی تو میں نے یہ خواب لوگوں کو سنایا لوگوں کو اس سے بہت تعجب ہوا رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ معلوم ہوا اور تمام قصہ سنایا تو فرمایا تمہیں کس بات سے حیرانگی ہو رہی ہے؟ صحابہ نے عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ان دونوں میں پہلا شخص زیادہ محنت و ریاضت کرتا تھا پھر شہید بھی ہوا اور (اس کے باوجود) دوسرا جنت میں اس سے پہلے داخل ہوا فرمایا کیا دوسرا اس کے بعد ایک برس زندہ نہیں رہا؟ صحابہ نے عرض کیا بالکل رہا فرمایا اسے رمضان نصیب ہوا تو اس نے روزے رکھے اور سال بھر اتنے اتنے سجدے کئے (نمازیں ادا کیں ) صحابہ نے عرض کیا یہ بات تو ضرور ہے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا پھر تو ان دونوں کے درجوں میں آسمان و زمین سے فاصلہ ہے
٭٭ علی بن محمد، وکیع، ابو بکرہدلی، ابن سیرین، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں میں خواب میں (گلے میں ) طوق کو اچھا نہیں سمجھتا اور (پاؤں میں ) بیڑی کو اچھا سمجھتا ہوں کیونکہ یہ دین میں ثابت قدمی ہے
لا الہ الا اللہ کہنے والوں سے ہاتھ روکنا
ابو بکر بن ابی شیبہ، ابو معاویہ، حفص بن غیاث، اعمش، ابی صالح، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا مجھے یہ حکم ہے کہ لوگوں سے قتال کرتا رہوں یہاں تک کہ وہ لَا إِلَہَ إِلَّا اللَّہُ کہیں جب لَا إِلَہَ إِلَّا اللَّہُ کہہ لیں تو انہوں نے اپنے خون اور مال مجھ سے محفوظ کر لئے الا یہ کہ کسی کے بدلہ میں ہو (مثلاً حد یا قصاص) اور ان کا حساب اللہ عز وجل کے سپرد ہے
٭٭ سوید بن سعید، علی بن مسہر، اعمش، ابی سفیان، حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا مجھے حکم ہے کہ لوگوں سے قتال کروں یہاں تک کہ وہ لَا إِلَہَ إِلَّا اللَّہُ کہیں جب لَا إِلَہَ إِلَّا اللَّہُ کے قائل ہو جائیں گے تو مجھ سے اپنے خونوں اور مالوں کو محفوظ کرا لیں گے الا یہ کہ کسی شخص حق کے عوض ہو اور ان کا حساب اللہ عز و جل کے سپرد ہے
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، عبد اللہ بن بکرسہمی، حاتم بن ابی صغیرہ، نعمان بن سالم عمرو بن حضرت اوس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں بیٹھے ہوئے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہمیں واقعات سنا رہے تھے اور نصیحت فرما رہے تھے کہ ایک مرد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس آیا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سرگوشی کی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اسے لے جاؤ اور قتل کر دو جب اس نے پشت پھیری تو رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اسے بلا کر پوچھا کیا تم گواہی دیتے ہو کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں؟ اس نے کہا جی ہاں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا لے جاؤ اس کا راستہ چھوڑ دو (کچھ نہ کہو) کیونکہ مجھے امر ہے کہ لوگوں سے قتال کروں یہاں تک کہ وہ لَا إِلَہَ إِلَّا اللَّہُ کے قائل ہو جائیں جب وہ ایسا کر لیں گے تو مجھ پر ان کے خون اور مال حرام ہو جائیں گے
٭٭ سوید بن سعید، علی بن مسہر، عاصم بن حضرت سمیط بن سمیر فرماتے ہیں کہ نافع بن ارزق اور ان کے ساتھی (حضرت عمران بن حصین رضی اللہ تعالیٰ عنہ) آئے اور کہنے لگے آپ تو ہلاک ہو گئے فرمایا میں ہلاک نہیں ہوا کہنے لگے کیوں نہیں (تم ہلاک ہو گئے )؟ فرمایا میں کیونکر ہلاک ہوا کہنے لگے اللہ تعالی کا ارشاد ہے اور کفار سے قتال کرتے رہو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور سب دین (نظام) اللہ کا ہو جائے فرمایا ہم نے کفار سے قتال کیا یہاں تک کہ انہیں ختم کر دیا اور دین (نظام) سب اللہ کا (قائم) ہو گیا اگر تم چاہو تو میں تمہیں ایک حدیث سناؤں تو میں نے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنی کہنے لگے آپ نے بذات خود رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنی ہے؟ فرمایا جی ہاں میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر تھا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اہل اسلام کا ایک لشکر کفار کی طرف روانہ کیا جب اس لشکر کا کفار سے سامنا ہوا تو انہوں نے کفار کے ساتھ بہت جنگ کی بالآخر کفار (بھاگ کھڑے ہوئے اور) اپنے کندھے مسلمانوں کی طرف کر دیئے میرے ایک عزیز نے ایک مشرک مرد پر نیزے سے حملہ کیا جب اس نے مشرک پر قابو پا لیا تو مشرک کہنے لگا أَشْہَدُ أَنْ لَا إِلَہَ إِلَّا اللَّہُ میں مسلمان ہوتا ہوں لیکن میرے عزیز نے اسے نیزہ مار کر قتل کر دیا جب رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضری ہوئی تو عرض کرنے لگا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں تو تباہ ہو گیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک یا دو مرتبہ دریافت فرمایا تم نے کیا کیا اس نے ساری بات سنا دی رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم نے اس کا پیٹ چیر کر اس کے دل کی حالت کیوں نہ معلوم کر لی؟ عرض کرنے لگا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اگر میں اس کا پیٹ چیرتا تو کیا مجھے اس کے دل کی حالت معلوم ہو جاتی؟ فرمایا پھر اس کی زبانی بات ہی قبول کر لیتے جبکہ تم اس کے دل کی بات کسی طرح بھی معلوم نہ کر سکتے تھے حضرت عمران رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کے بارے میں خاموشی اختیار فرمائی تھوڑی ہی دیر میں (میرا وہ عزیز) مر گیا (شاید شدت ندامت کی وجہ سے موت آئی ہو) ہم نے اس کو دفن کیا تو صبح کے وقت اس کی لاش زمین پر (قبر سے باہر ہی) پڑی تھی لوگوں نے سوچا شاید دشمن نے قبر کھود کر یہ حرکت کی پھر اسے دفن کیا اور لڑکوں کو کہا انہوں نے پہرہ دیا صبح لاش پھر زمین پر پڑی تھی ہم نے سوچا شاید لڑکوں کی آنکھ لگ گئی (اور دشمن کو اس حرکت کا موقع مل گیا) ہم نے پھر دفن کیا اور خود پہرہ دیا صبح لاش پھر زمین کے اوپر تھی بالآخر ہم نے لاش ایک گھاٹی میں ڈال دی دوسری روایت بھی اسی طرح ہے اس میں یہ اضافہ بھی ہے کہ جب زمین نے (تیسری بار) بھی اسے باہر ڈال دیا تو نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اطلاع دی گئی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا زمین تو اس سے برے آدمی کو بھی قبول کر لیتی ہے لیکن اللہ تعالی تمہیں لَا إِلَہَ إِلَّا اللَّہُ کی عظمت دکھانا چاہتے ہیں
اہل ایمان کے خون اور مال کی حرمت
ہشام بن عمار، عیسیٰ بن یونس، اعمش، ابو صالح ، حضرت ابو سعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر فرمایا غور سے سنو سب سے زیادہ حرمت والا آج کا دن ہے سنو سب سے زیادہ حرمت والا مہینہ یہ مہینہ ہے سب سے زیادہ حرمت والا شہر یہ (مکہ) ہے غور سے سنو تمہارے (مسلمانوں کے ) خون اور اموال تمہارے اوپر اسی طرح حرام ہیں جیسے آج کے دن کی اس ماہ اور اس شہر میں حرمت بتاؤ کیا میں نے پہنچا دیا سب نے عرض کیا جی ہاں فرمایا اللہ گواہ رہنا
٭٭ ابو قاسم بن ابی ضمرہ، نصر بن محمد بن سلیمان خمصی، عبد اللہ بن ابی قیس نصری، حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دیکھا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کعبہ کا طواف فرما رہے تھے اور فرما رہے تھے تو کیا عمدہ ہے اور تیری خوشبو کس قدر عمدہ ہے تو کتنا عظیم ہے اور تیری حرمت کتنی عظیم ہے قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی جان ہے مومن کی حرمت اس کے مال و جان کی حرمت اللہ کے نزدیک تیری حرمت سے عظیم تر ہے اور مومن کے ساتھ بدگمانی بھی اسی طرح حرام ہے ہمیں حکم ہے کہ مومن کے ساتھ اچھا گمان کریں
٭٭ بکر بن عبد الوہاب، عبد اللہ بن نافع، یونس بن یحییٰ ، داؤد بن قیس، ابو سعید مولیٰ عبد اللہ بن عامر بن کریز، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا ہے ہر مسلمان کی جان مال اور عزت دوسرے مسلمان پر حرام ہے (اور اس کے لئے قابل احترام ہے )
٭٭ احمد بن عمرو بن سرح مصری، عبد اللہ بن وہب، ابی ہانی، عمرو بن مالک جنبی، حضرت فضالہ بن عبید رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا مومن تو وہی ہے جس سے لوگوں کی جانیں اور اموال امن میں رہیں اور مہاجر وہی ہے جو گناہوں اور برائیوں کو چھوڑ دے
لوٹ مار کی ممانعت
محمد بن بشار، محمد بن مثنی، ابو عاصم ابن جریج ، ابن زبیر، حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو علانیہ لوٹ مارتا پھرے وہ ہم (مسلمانوں ) میں سے نہیں
٭٭ عیسیٰ بن حماد، لیث بن سعد، عقیل ابن شہاب، ابو بکر بن عبد الرحمن بن حارث بن ہشام، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب زانی زنا کرتا ہے وہ مومن ہو کر زنا نہیں کرتا اور شراب پینے والا مومن ہو کر شراب نہیں پیتا اور چور مومن ہونے کی حالت میں چوری نہیں کرتا اور لوٹ مار کرنے والا لوٹ مار نہیں کرتا کہ لوگ اپنی نگاہیں اس طرف اٹھا رہے ہوں اس حال میں کہ وہ مومن ہو
٭٭ حمید بن مسعدہ، یزید بن زریع، حمید، حسن، حضرت عمران بن حصین رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو ڈاکہ ڈالے وہ ہم میں سے نہیں
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، ابو الاحوص، سماک، حضرت ثعلبہ بن حکم رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ہونے دشمن کی بکریاں پکڑ لیں ہم نے (تقسیم سے قبل ہی) انہیں لوٹ کر اپنی ہانڈیاں چڑھا دیں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ان ہانڈیوں کے پاس سے گزرے تو امر فرمایا چنانچہ سب الٹ دی گئیں پھر فرمایا لوٹ جائز نہیں
مسلمان سے گالی گلوچ فسق اور اس سے قتال کفر ہے
ہشام بن عمار، عیسیٰ بن یونس ، اعمش، شقیق، حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا مسلمان سے گالی گلوچ فسق ہے اور اس سے قتال کفر ہے (بشرطیکہ بلا وجہ شرعی ہو شرعی وجہ تو جائز ہے مثلاً بغاوت )
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، محمد بن حسن اسدی، ابو ہلال، ابن سیرین، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا مسلمان سے گالی گلوچ فسق ہے اور اس سے قتال کفر ہے
٭٭ علی بن محمد، وکیع، شریک، ابی اسحاق ، محمد بن سعد، حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا مسلمان سے گالی گلوچ فسق ہے اور اس سے قتال کفر ہے
رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا فرمان کہ میرے بعد کافر نہ ہو جانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں اڑانا شروع کر دو
محمد بن بشار، محمد بن جعفر، عبد الرحمن بن مہدی، شعبہ، علی بن مدرک، ابو زرعہ بن عمرو بن جریر، حضرت جریر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حجۃ الوداع کے موقع پر رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا لوگوں کو خاموش کراؤ پھر فرمایا میرے بعد کافر نہ ہو جانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں اڑانا شروع کر دو
٭٭ عبد الرحمن بن ابراہیم ، ولید بن مسلم، عمر بن محمد، حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا نادانو میرے بعد کافر نہ ہو جانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں اڑانے لگو
٭٭ محمد بن عبد اللہ بن نمیر، محمد بن بشر، اسماعیل، قیس، حضرت صنابح احمسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا غور سے سنو میں حوض (کوثر) پر تمہارا پیش خیمہ ہوں اور تمہاری کثرت پر دوسری امتوں کے مقابلہ میں فخر کروں گا اس لئے میرے بعد ہرگز (کسی مسلمان کو بلاوجہ شرعی) قتل نہ کرنا
تمام اہل اسلام اللہ تعالی کے ذمے ( پناہ) میں ہیں
عمر بن عثمان بن سعید بن کثیر بن دینارحمصی، احمد بن خالد ذہبی، عبد العیزیز بن ابی سلمہ ماجشون، عبد الواحد بن ابی عون، سعد بن ابراہیم، عابس یمانی ، سیدنا حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو نماز صبح ادا کرے وہ اللہ کے ذمہ (پناہ) میں ہے لہذا اللہ کے ذمہ مت توڑو (اس کو مت ستاؤ) جو ایسے شخص کو قتل کرے اللہ تعالی اسے بلوا کر اوندھے منہ دوزخ میں ڈالیں گے
٭٭ محمد بن بشار، روح بن عبادہ، اشعث، حسن، حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو نماز صبح ادا کرے وہ اللہ کے ذمہ (پناہ) میں ہے
٭٭ ہشام بن عمار، ولید بن مسلم، حماد بن سلمہ، ابو مہزم یزید بن سفیان، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا مومن اللہ کے نزدیک بعض فرشتوں سے بڑھ کر لائق اعزاز اور محترم ہے
تعصب کرنے کا بیان
بشر بن ہلال صواف، عبد الوارث بن سعید، ایوب، غیلان بن جریر، زیاد بن ریاح، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو اندھا دھند جھنڈے تلے ہو کر لڑے اور عصبیت کی طرف بلاتا ہو یا عصبیت کی وجہ سے غصہ میں آتا ہو تو اس کا مارا جانا جاہلیت (کی موت) ہے
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، زیاد بن ربیع یحمدی، عباد بن کثیر شامی، حضرت فسیلہ فرماتی ہیں میں نے اپنے والد کو یہ فرماتے سنا کہ میں نے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے دریافت کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کیا یہ بھی تعصب ہے کہ آدمی اپنی قوم سے محبت کرے؟ فرمایا نہیں یہ تعصب نہیں بلکہ تعصب یہ ہے کہ آدمی (ناحق اور) ظلم میں بھی اپنی قوم کا ساتھ دے
سواد اعظم (کے ساتھ رہنا )
عباس بن عثمان دمشقی، ولید بن مسلم، معان بن رفاعہ سلامی، ابو خلف اعمش، حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا بلا شبہ میری امت گمراہی پر مجتمع (متفق) نہ ہو گی جب تم اختلاف دیکھو تو سواد اعظم (قرآن و سنت پر عمل پیرا) کا ساتھ دو
ہونے والے فتنوں کا ذکر
محمد بن عبد اللہ بن نمیر، علی محمد، ابو معاویہ ، اعمش، رجاء انصاری، عبد اللہ بن شداد بن ہاد، حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک روز طویل نماز پڑھائی جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سلام پھیرا تو صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے آج طویل نماز کی فرمایا میں رغبت اور ڈر کی نماز ادا کی اللہ عز وجل سے اپنی امت کے حق میں تین چیزیں مانگیں دو تو مجھے اللہ تعالی نے عطا فرما دیں اور تیسری پھیر دی میں نے اللہ سے مانگا کہ سب پر کوئی غیر دشمن مسلط نہ ہو اللہ تعالی نے یہ عطا فرما دی اور میں نے اللہ تعالی سے یہ مانگا کہ میری امت ڈوب کر ہلاک نہ ہو اللہ تعالی نے یہ بھی مجھے عطا فرما دی اور میں نے اللہ تعالی سے مانگا کہ یہ آپس میں نہ لڑیں اللہ تعالی نے میری یہ بات (دعا) پھیر دی
٭٭ ہشام بن عمار، محمد بن شعیب بن شابو ر، سعید بن بشیر، قتادہ، ابو قلابہ، عبد اللہ بن زید، ابو اسماء، رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے آزاد کردہ غلام حضرت ثوبان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا زمین میرے لئے سمیٹ دی گئی یہاں تک کہ میں نے زمین کے مشرق و مغرب کو دیکھ لیا اور مجھے دونوں خزانے (یا سرخ) اور سفید یعنی سونا اور چاندی دیئے گئے (روم کا سکہ سونے کا اور ایران کا چاندی کا ہوتا تھا) اور مجھے کہا گیا کہ تمہاری (امت کی) سلطنت وہی تک ہو گی جہاں تک تمہارے لئے زمین سمیٹی گئی اور میں نے اللہ سے تین دعائیں مانگیں اول یہ کہ میری امت پر قحط نہ آئے کہ جس سے اکثر امت ہلاک ہو جائے دوم یہ کہ میری امت فرقوں اور گروہوں میں نہ بٹے اور (سوم یہ کہ) ان کی طاقت ایک دوسرے کے خلاف استعمال نہ ہو (یعنی باہم کشت و قتال نہ کریں ) مجھے ارشاد ہوا کہ جب میں (اللہ تعالی) کوئی فیصلہ کر لیتا ہوں تو کوئی اسے رد نہیں کر سکتا میں تمہاری امت پر ایسا قحط ہرگز مسلط نہ کروں گا جس میں سب یا (اکثر) ہلاکت کا شکار ہو جائیں اور میں تمہاری امت پر اطراف و اکناف ارض سے تمام دشمن اکٹھے نہ ہونے دوں گا یہاں تک کہ یہ آپس میں نہ لڑیں اور ایک دوسرے کو قتل کریں اور جب میری امت میں تلوار چلے گی تو قیامت تک رکے گی نہیں اور مجھے اپنی امت کے متعلق سب سے زیادہ خوف گمراہ کرنے والے حکمرانوں سے ہے اور عنقریب میری امت کے کچھ قبیلے بتوں کی پرستش کرنے لگیں گے اور (بت پرستی میں ) مشرکوں سے جا ملیں گے اور قیامت کے قریب تقریباً جھوٹے اور دجال ہوں گے ان میں سے ہر ایک دعویٰ کرے گا کہ وہ نبی ہے اور میری امت میں ایک طبقہ مسلسل حق پر قائم رہے گا ان کی مد د ہوتی رہے گی (منجانب اللہ) کہ ان کے مخالف ان کا نقصان نہ کر سکیں گے (کہ بالکل ہی ختم کر دیں عارضی شکست اس کے منافی نہیں ) یہاں تک کہ قیامت آ جائے امام ابو الحسن (تلمیذ ابن ماجہ فرماتے ہیں کہ جب امام ابن ماجہ اس حدیث کو بیان کر کے فارغ ہوئے تو فرمایا یہ حدیث کتنی ہولناک ہے
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، سفیان بن عیینہ، زہری، عروہ، زینب ، ام سلمہ، حبیبہ، حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نیند سے بیدار ہوئے آپ کا چہرہ انور سرخ ہو رہا تھا۔ فرمایا خرابی ہے عرب کے لئے ایسے شر کی وجہ سے جو قریب آ چکا آج یاجوج ماجوج کی سر میں سے اتنا کھل گیا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے انگلی سے دس کا ہندسہ بنایا حضرت زینب فرماتی ہیں میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ہم میں صالح لوگ ہوں تب بھی ہم ہلاک ہو جائیں گے؟ فرمایا (جی ہاں ) جب برائی زیادہ ہو جائے۔
٭٭ راشد بن سعیدرملی، ولید بن مسلم، ولید بن سلیمان بن ابی سائب، علی بن یزید، قاسم ابی عبد الرحمن، حضرت ابو امامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا عنقریب ایسے فتنے ہوں گے کہ ان کے دوران مرد ایمان کی حالت میں صبح کرے گا اور شام کو کافر بن چکا ہو گا سوائے اس کے جسے اللہ علم کے ذریعہ زندگی (ایمان) عطا فرمائے۔
٭٭ محمد بن عبد اللہ بن نمیر، ابو معاویہ، اعمش، شقیق، حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں بیٹھے ہوئے تھے کہ فرمانے لگے تم میں کس کو فتنہ کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی حدیث یاد ہے؟ میں نے کہا مجھے۔ فرمایا تم بہت جرائت (اور ہمت) والے ہو (کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے وہ باتیں پوچھ لیتے تھے جو دوسرے نہیں پوچھ پاتے تھے ) فرمایا کیسے فتنہ ہو گا؟ میں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ ارشاد فرماتے سنا آدمی کیلئے فتنہ (آزمائش و امتحان) ہے اہل خانہ اور اولاد اور پڑوسی (کہ کبھی ان کی وجہ سے آدمی غفلت کا شکار ہو جاتا ہے ) اور اس آزمائش میں (اگر آدمی صغیرہ گناہ کا مرتکب ہو جائے ) نماز روزے صدقہ اور امربالمعروف نہی عن المنکر اس کا کفارہ بن جاتے ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا میری مراد یہ فتنہ نہیں۔ میں نے تو اس فتنہ کے متعلق کہا جو سمندر کی طرح موجزن ہو گا۔ تو حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا اے امیرالمومنین آپ کو اس اس فتنہ سے کیا غرض آپ کے اور فتنہ کے درمیان ایک دروازہ (حائل ہے جو) بند ہے فرمایا وہ دروازہ توڑا جائے گا یا کھولا جائے گا؟ عرض کیا کھولا نہیں جائے گا بلکہ توڑا جائے گا فرمایا پھر تو وہ بند ہونے کے قابل نہ رہے گا ہم (حاضرین) نے حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے عرض کی کہ کیا حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو علم تھا کہ دروازہ سے کون مراد ہے فرمایا بالکل وہ تو ایسے جانتے تھے جیسے انہیں یہ معلوم ہے کہ کل دن کے بعد رات آئے گی میں نے انہیں ایک حدیث سنائی تھی جس میں کچھ مغالطہ اور فریب دہی نہیں ہے ہمیں حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ہیبت مانع ہوئی کہ پوچھیں کہ وہ دروازہ کون شخص تھا اس لئے ہم نے مسروق سے کہا انہوں نے پوچھ لیا تو فرمایا کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ خود تھے۔
٭٭ ابو کریب، ابو معاویہ، عبد الرحمن محاربی، وکیع، اعمش، زید بن وہب، حضرت عبد الرحمن بن عبدرب الکعبہ فرماتے ہیں کہ میں حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ کعبہ کے سائے میں تشریف فرما تھے لوگ آپ کے گرد جمع تھے میں نے انہیں یہ فرماتے سنا ایک بار ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہمراہ سفر میں تھے کہ ایک منزل پر پڑاؤ ڈالا ہم میں سے کوئی خیمہ لگا رہا تھا کوئی تیر اندازی کر رہا تھا۔ کوئی اپنے جانور چرانے لے گیا تھا اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے منادی نے اعلان کیا کہ نماز کے لئے جمع ہو جائیں ہم جمع ہو گئے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا بلاشبہ مجھ سے قبل ہر نبی پر لازم تھا کہ اپنی امت کے حق میں جو بھلی بات معلوم ہو وہ بتائے اور جو بات ان کے حق میں بری معلوم ہو اس سے ڈرائے اور تمہاری اس امت کے شروع حصہ میں سلامتی اور عافیت ہے اور اس کے آخری حصہ میں آزمائش ہو گی اور ایسی ایسی باتوں کی جن کو تم برا سمجھو گے پھر ایسے فتنہ ہوں گے کہ ایک کے مقابلہ میں دوسرا ہلکا معلوم ہو گا تو مومن کہے گا کہ اس میں میری تباہی ہے پھر وہ فتنہ چھٹ جائے گا۔ لہذا جسے اس بات سی خوش ہو کہ دوزخ سے بچ جائے اور جنت میں داخل ہو تو اسے ایسی حالت میں موت آنی چاہیئے کہ وہ اللہ تعالی پر اور یوم آخر پر ایمان رکھتا ہو اور اسے چاہئے کہ لوگوں کے ساتھ ایسا معاملہ رکھے جیسا وہ پسند کرتا ہو کہ لوگ اس کے ساتھ رکھیں اور جو کسی حکمران سے بیعت کرے اور اس کے ہاتھ میں بیعت کا ہاتھ دے اور دل سے اس کے ساتھ عہد کرے تو جہاں تک ہو سکے اس کی فرمانبرداری کرے پھر اگر کوئی دوسرا شخص آئے اور (حکومت میں ) پہلے سے جھگڑے تو اس دوسرے کی گردن اڑا دو حضرت عبد الرحمن فرماتے ہیں کہ میں نے لوگوں کے درمیان سے سر اٹھا کر کہا میں آپ کو اللہ کی قسم دیتا ہوں بتائیے آپ نے خود یہ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنی تو حضرت عبد اللہ بن عمرو نے اپنے کانوں کی طرف اشارہ کر کے فرمایا کہ میرے دونوں کانوں نے یہ حدیث سنی اور میرے دل نے اسے محفوظ رکھا۔
فتنہ میں حق پر ثابت قدم رہنا
ہشام بن عمار، محمد بن صباح، عبد العزیزبن ابی حازم، عمارہ بن حزم، حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ تمہارا اس وقت کیا حال ہو گا جب لوگ (آٹے کی طرح) چھانے جائیں گے اور (چھلنی میں یعنی دنیا میں ) آٹے بھوسے کی طرح برے لوگ باقی رہ جائیں گے ان کے عہد اور امانتیں خلط ملط ہو جائیں گی اور برے لوگ مختلف ہو کر ایسے ہو جائیں گے یہ کہہ کر آپ نے اپنی انگلیوں میں انگلیاں داخل کیں صحابہ نے عرض کیا اللہ کے رسول ہم اس وقت کیا کریں جو بات اچھی سمجھو (قرآن و سنت کے دلائل سے ) اسے اختیار کر لینا اور جو بری سمجھو اسے ترک کر دینا اور صرف اپنی فکر کرنا اور عوام کا معاملہ (ان کے حال پر) چھوڑ دینا۔
٭٭ احمد بن عبدہ، حماد بن زید، ابو عمران جونی، مشعث بن طریف، عبد اللہ بن صامت، حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اے ابو ذر ! اس وقت تمہارا کیا حال ہو گا جب لوگوں پر موت طاری ہو گی (وبا طاعون وغیرہ کی وجہ سے ) حتی کہ قبر کی قیمت غلام کے برابر ہو گی میں نے عرض کیا جو اللہ اور اللہ کے رسول کو ہی علم ہے (کہ کیا کرنا چاہئے ) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا صبر کرنا اور فرمایا اس وقت تمہاری کیا حالت ہو گی جب لوگوں پر بھوک طاری ہو گی حتی کہ تم مسجد آؤ گے تو واپس اپنے بستر (گھر) تک جانے کی ہمت و استطاعت نہ ہو گی اور بستر سے اٹھ کر مسجد نہ آ سکو گے میں نے عرض کیا کہ اللہ اور اس کے رسول کو زیادہ علم ہے (کہ اس وقت کیا کرنا چاہئے ) یا کہا کہ (وہ کروں گا) جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میرے لئے پسند فرمائیں۔ فرمایا اس وقت حرام سے بچنے کا خصوصی اہتمام کرنا۔ پھر فرمایا اس وقت تمہاری کیا حالت ہو گی جب لوگوں کا قتل عام ہو گا۔ یہاں تک کہ حِجَارَۃُ الزَّیْتِ (مدینہ میں ایک جگہ کا نام ہے ) خون میں ڈوب جائے گا میں نے عرض کیا کہ جو اللہ اور اس کے رسول میرے لئے پسند کریں۔ فرمایا تم جن لوگوں میں سے ہو انہی کے ساتھ مل جانا (یعنی مدینہ والوں کے ساتھ) میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول کیا میں اپنی تلوار لے کر ایسا (قتل عام) کرنے والوں کو نہ ماروں۔ فرمایا پھر تو تم بھی ان (فتنہ کرنے والوں ) میں شریک ہو جاؤ گے اس لئے تم اپنے گھر میں گھس جانا میں نے عرض کیا کہ اگر فسادی میرے گھر میں گھس آئیں تو کیا کروں فرمایا اگر تمہیں تلوار کی چمک سے خوف آئے تو چادر منہ پر ڈال لینا تاکہ وہ قتل کرنے والا تمہارا اور اپنا گناہ سمیٹ کر دوزخی بن جائے۔
٭٭ محمد بن بشار، محمد بن جعفر، عوف، حسن، اسید بن متشمس، حضرت ابو موسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہمیں فرمایا قیامت کے قریب ہرج (خون ریزی) ہو گی۔ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ہرج سے کیا مراد ہے؟ فرمایا خون ریزی کسی مسلمان نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ہم تو اب بھی ایک سال میں اتنے اتنے مشرکوں کو قتل کر دیتے ہیں اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا مشرکوں کا قتل نہ ہو گا بلکہ تم ایک دوسرے کو قتل کرو گے حتی کہ مرد اپنے پڑوسی کو، چچازاد بھائی کو، قرابت دار کو قتل کرے گا لوگوں میں کسی نے عرض کیا اے اللہ کے رسول اس وقت ہماری عقلیں قائم ہوں گی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا نہیں۔ اس زمانہ میں اکثر لوگوں کی عقلیں سلب ہو جائیں گی اور ذروں کی طرح (ذلیل و خوار) لوگ باقی رہ جائیں گے۔ پھر حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا بخدا میرا گمان ہے کہ میں اور تم اس زمانہ کو پائیں گے اور بخدا اگر وہ زمانہ ہم پر آیا تو ہمارے لئے (اس جنگ سے ) نکلنے کی کوئی راہ نہ ہو گی جیسا کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ اس میں سے نہ نکل سکیں گے جیسے داخل ہوئے تھے ویسے ہی۔
٭٭ محمد بن بشار، صفوان بن عیسیٰ ، عبد اللہ بن عبید، حضرت عدیسہ بنت اہبان فرماتی ہیں کہ جب سیدنا علی کرم اللہ وجہہ یہاں بصرہ تشریف لائے تو میرے والد کے پاس آئے اور فرمایا اے ابو سلمہ ! ان لوگوں کے خلاف میری مد د نہ کرو گے؟ عرض کیا ضرور پھر اپنی تلوار نکال لا۔ باندی تلوار لے آئی تو ایک بالشت کی مقدار تلوار نیام سے نکالی دیکھا تو وہ لکڑی کی تھی۔ قرم کہنے لگے میرے پیارے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے چچازاد بھائی نے مجھے یہ تاکید فرمائی تھی کہ جب مسلمانوں کے درمیان فتنہ ہو تو تلوار لکڑی کی بنالینا آپ چاہیں تو (یہی تلوار لے کر) میں آپ کے ساتھ نکلوں فرمایا مجھے تمہاری اور تمہاری تلوار کی کچھ حاجت نہیں۔
٭٭ عمران بن موسیٰ لیثی، عبد الوارث بن سعید، محمد بن حجادہ، عبد الرحمن بن ثروان ہذیل بن شرحبیل، حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا قیامت کے قریب فتنے ہوں گے سیاہ تاریک شب کے حصوں کے مانند ان فتنوں میں مرد صبح ایمان کی حالت میں کرے گا تو شام کفر کی حالت میں اور کوئی شام ایمان کی حالت میں کرے گا تو صبح کفر کی حالت میں۔ ان فتنوں میں بیٹھنے والا کھڑے ہونے والے اور کھڑا ہونے والا چلنے والے سے اور چلنے والا دوڑنے والے سے بہتر ہو گا (اس وقت) اپنی کمانیں توڑ دینا اور کمانوں کے چلے کاٹ دینا اپنی تلواریں پتھروں پر مار کر کند کر لینا اگر تم میں سے کسی کے پاس کوئی گھس آئے اور (مارنے لگے ) تو وہ سیدنا آدم علیہ السلام کے دو بیٹوں (ہابیل اور قابیل) میں سے بہتر کی طرح ہو جائے۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، ثابت، حضرت محمد بن مسلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا عنقریب فتنہ ہو گا اور افتراق و اختلاف ہو گا جب یہ حالت ہو تو اپنی تلوار لے کر احد پہاڑ پر جانا اور اس پر مارتے رہنا یہاں تک کہ ٹوٹ جائے پھر اپنے گھر بیٹھے رہنا یہاں تک کہ خطا کار ہاتھ یا فیصلہ کن موت تم تک پہنچے فرمایا یہ حالت آن پہنچی اور میں نے وہی کیا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا
جب دو (یا اس سے زیادہ) مسلمان اپنی تلواریں لے کر آمنے سامنے ہوں
سوید بن سعید، مبارک بن سحیم، عبد العزیزبن صہیب، حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو دو مسلمان بھی اپنی تلواریں لے کر ایک دوسرے کے سامنے آئیں تو قاتل اور مقتول دونوں دوزخ میں ہوں گے۔
٭٭ احمد بن سنان، یزید بن ہارون، سلیمان تیمی، سعید بن ابی عروبہ، قتادہ، حسن ، حضرت ابو موسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب دو مسلمان اپنی تلواریں لئے ایک دوسرے کے سامنے آئیں تو قاتل اور مقتول دونوں دوزخ میں ہوں گے صحابہ نے عرض کیا اے اللہ کے رسول یہ تو قاتل ہے مقتول کا کیا جرم ہے۔ فرمایا یہ اپنے ساتھی کو قتل کرنا چاہتا تھا۔
٭٭ محمد بن بشار، محمد بن جعفر، شعبہ، منصور، ربعی بن حراش، حضرت ابو بکرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب دو مسلمانوں میں سے ایک اپنے بھائی پر ہتھیار اٹھائے تو وہ دونوں دوزخ کے کنارے پر ہیں جونہی ایک دوسرے کو قتل کرے گا دونوں ہی دوزخ میں داخل ہو جائیں گے۔
٭٭ سوید بن سعید، مروان بن معاویہ، عبد الحکم سدوسی، شہر بن حوشب، حضرت ابو امامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا لوگوں میں سب سے بدترین مقام اللہ کے یہاں اس بندہ کاہے جو اپنی آخرت دوسرے کی دنیا کی خاطر برباد کرے۔
فتنہ میں زبان روکے رکھنا
عبد اللہ بن معاویہ جمحی، حماد بن سلمہ، لیث، طاؤس، زیاد، حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ایک فتنہ ایسا ہو گا جو تمام عرب کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا اس میں قتل ہونے والے دوزخ میں جائیں گے اس زبان (سے بات) تلوار کی ضرب سے زیادہ سخت ہو گی۔
٭٭ محمد بن بشار، محمد بن حارث، محمد بن عبد الرحمن بن بیلمانی، حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا فتنوں سے بہت بچنا اس لئے کہ فتنوں میں زبان (سے بات) تلوار کی ضرب کی مانند ہو گی۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، محمد بن بشر، محمد بن عمرو، حضرت علقمہ بن وقاص کے پاس ایک مرد گزرا جو صاحب شرف تھا حضرت علقمہ نے اس سے کہا تمہارے ساتھ قرابت ہے اور تمہارا میرے اوپر حق ہے اور میں نے دیکھا کہ تم ان احکام کے پاس جاتے ہو اور جو اللہ چاہتا ہے گفتگو کرتے ہو اور میں نے صحابی رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم حضرت بلال بن حارث مزنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یہ فرماتے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم میں سے ایک اللہ کی خوشنودی کی ایک بات کہتا ہے اسے گمان بھی نہیں ہوتا کہ یہ بات کہاں تک پہنچے گی (اور کس قدر موثر اور اللہ کی خوشنودی کا باعث ہو گی) تو اللہ عزوجل اس ایک بات کی وجہ سے قیامت تک کے لئے اپنی خوشنودی اس کے لئے لکھ دیتے ہیں اور تم میں سے ایک اللہ کی ناراضگی کی بات کہتا ہے اسے گمان بھی نہیں ہوتا کہ یہ بات کہاں تک پہنچے گی اللہ عزوجل اس بات کی وجہ سے قیامت تک کے لئے اپنی ناراضگی اس کے حق میں لکھ دیتے ہیں۔ حضرت علقمہ نے فرمایا نادان غور کیا کرو کہ تم کیا گفتگو کرتے ہو اور کون سی بات کہتے ہو میں بہت سے باتیں کرنا چاہتا ہوں لیکن بلال بن حارث رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سنی ہوئی حدیث مجھے وہ باتیں کہنے سے مانع ہو جاتی ہے۔
٭٭ ابو یوسف صیدلانی، محمد بن احمد رقی، محمد بن سلمہ، ابن اسحاق ، محمد بن ابراہیم، ابی سلمہ، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا آدمی اللہ کی ناراضگی کی کوئی بات کر بیٹھتا ہے اس میں کچھ حرج بھی نہیں سمجھتا حالانکہ اس کی وجہ سے وہ دوزخ کی آگ میں ستر برس گرے گا۔
٭٭ ابو بکر، ابو احوص، ابی حصین ابی صالح، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو اللہ پر اور یوم آخرت پر ایمان رکھے اسے چاہئے کہ بھلائی کی بات کہے یا خاموش رہے۔
٭٭ ابو مروان محمد بن عثمان عثمانی، ابراہیم بن سعد، ابن شہاب، محمد بن عبد الرحمن بن ماعز عامری، حضرت سفیان بن عبد اللہ ثقفی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول مجھے ایسی بات بتائیے کہ مضبوطی سے تھامے رکھوں فرمایا کہو میرا پروردگار اللہ ہے پھر اس پر استقامت اختیار کرو۔ میں نے عرض کیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو میرے متعلق سب سے زیادہ کس چیز سے اندیشہ ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی زبان پکڑی اور فرمایا اس سے۔
٭٭ محمد بن ابی عمر عدنی، عبد اللہ بن معاذ، معمر، عاصم ابن ابی نجود، ابی وائل، حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں ایک سفر میں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہمراہ تھے ایک روز میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے قریب ہوا ہم چل رہے تھے میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول مجھے ایسا عمل بتا دیجئے جو مجھے جنت میں داخل کرا دے اور دوزخ سے دور کر دے۔ فرمایا تم نے بہت عظیم اور اہم بات پوچھی ہے اور جس کے لئے اللہ آسان فرما دیں یہ اس کے لئے بہت آسان بھی ہے تم اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی قسم کا شرک نہ کرو نماز کا اہتمام کرو زکوٰۃ ادا کرو اور بیت اللہ کا حج کرو پھر فرمایا میں تمہیں بھلائی کے دروازے نہ بتاؤں؟ روزہ ڈھال ہے اور صدقہ خطاؤں (کی آگ) کو ایسے بجھا دیتا ہے جیسے پانی آگ کو بجھا دیتا ہے اور درمیان شب کی نماز (بہت بڑی نیکی ہے ) پھر یہ آیت تلاوت فرمائی۔ تتجافی جنوبھم عن المضاجع سے جزاء بماکانوا یعملون تک۔ پھر فرمایا سب باتوں کی اصل اور سب سے اہم اور سب سے بلند کام نہ بتاؤں؟ وہ (اللہ کے حکم کو بلند کرنے اور کفر کا زور توڑنے کیلئے ) کافروں سے لڑنا ہے پھر فرمایا میں تمہیں ان سب کاموں کی بنیاد نہ بتاؤں میں نے عرض کیا ضرور بتلائیے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی زبان پکڑ کر فرمایا اس کو روک رکھو میں نے عرض کیا اے اللہ کے نبی جو گفتگو ہم کرتے ہیں اس پر بھی کیا مواخذہ ہو گا؟ فرمایا اے معاذ لوگوں کو اوندھے منہ دوزخ میں گرانے کا باعث صرف ان کی زبان کی کھیتیاں (گفتگو) ہی تو ہو گی۔
٭٭ محمد بن بشار، محمد بن یزید بن خنیس مکی، سعید بن حسان مخزومی، ام صالح، صفیہ بنت شیبہ، ام المومنین سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا آدمی کا کلام اس کیلئے وبال ہے اس کے حق میں بھلا نہیں سوائے نیکی کا حکم کرنا برائی سے روکنا اور اللہ عزوجل کی یاد کے۔
٭٭ علی بن محمد، یعلی، اعمش، ابراہیم، حضرت ابو الشعثاء فرماتے ہیں کہ کسی نے حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے عرض کیا کہ ہم اپنے حکام کے پاس جا کر بات چیت کرتے ہیں اور جب ہم ان کے پاس سے نکل آتے ہیں تو ان باتوں کے خلاف کہتے ہیں (مثلاً ان کے سامنے تعریف کرنا اور پس پشت مذمت کرنا) فرما یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے عہدمبارک میں ہم اسے نفاق شمار کرتے تھے۔
٭٭ ہشام بن عمار، محمد بن شعیب بن شابو ر، اوزاعی، قرۃ بن عبد الرحمن بن حیوئیل، زہری، ابی سلمہ، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا آدمی کے اسلام کی خوبیوں میں سے ایک یہ ہے کہ بے مقصد (کام کی بات) کو ترک کر دے۔
گوشہ نشینی
محمد بن صباح، عبد العزیز بن ابی حازم، یعجہ بن عبد اللہ بن بدر جہنی، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا لوگوں میں بہترین زندگی اس مرد کی ہے جو راہ خدا میں اپنے گھوڑے کی لگام تھامے ہوئے ہو اور اس کی پشت پر اڑتا پھرے جب بھی گھبراہٹ یا خوف کی آواز سنے اڑ کر اس تک پہنچے شہادت کی موت یا کفار کو قتل کی تلاش میں ایسے مواقع کی تاک رکھے اور ایک وہ مرد بھی جو اپنی چند بکریاں لئے کسی پہاڑ کی چوٹی پر یا کسی وادی میں ہو نماز قائم کرے زکوٰۃ ادا کرے اور اپنے پروردگار کی عبادت میں مشغول رہے یہاں تک کہ اسے موت آ جائے اور لوگوں کے متعلق بھلا ہی سوچتا رہا۔
٭٭ ہشام بن عمار، یحییٰ بن حمزہ، زبیدی، زہری، عطاء بن یزیدلیثی، حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک مرد نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کون سا انسان افضل ہے؟ فرمایا راہ خدا میں لڑنے والا اپنی جان اور اپنے مال کے ذریعہ۔ عرض کیا اس کے بعد کون سا افضل ہے؟ اس کے بعد وہ مرد جو کسی گھاٹی میں رہے اور اللہ عزوجل کی عبادت کرے اور لوگوں کو اپنے شر سے مامون رکھے۔
٭٭ علی بن محمد، ولید بن مسلم، عبد الرحمن بن یزید بن جابر، بسر بن عبید اللہ، ابو ادریس خولانی، حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جہنم کے دروازوں پر بلانے والے ہوں گے جو ان کی بات مانے گا اسے دوزخ میں ڈال دیں گے میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ان کی پہچان ہمیں بتا دیجئے فرمایا وہ (شکل وصورت ورنگ وروپ میں ہماری طرح ہوں گے ہماری زبانوں میں گفتگو کریں گے میں نے عرض کیا اگر وہ زمانہ اور حالات) مجھ پر آئیں تو مجھے آپ کیا امر فرماتے ہیں؟ فرمایا مسلمانوں کی جماعت اور ان کے حکمران کا ساتھ دینا اگر مسلمانوں کی کوئی جماعت (جمعیت) نہ ہو اور نہ ہی (صحیح اور شرع کے موافق) امام و حکمران ہو تو ان تمام جماعتوں سے الگ تھلگ رہنا اگرچہ تم کسی درخت کی جڑ چباؤ (بھوک کی وجہ) حتی کہ تمہیں اسی حالت میں موت آ جائے۔
٭٭ ابو کریب، عبد اللہ بن نمیر، یحییٰ بن سعید، عبد اللہ بن عبد الرحمن انصاری، حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا عنقریب مسلمان کا بہترین مال کچھ بکریاں ہوں گی جنہیں وہ پہاڑوں کی چوٹیوں اور بارانی مقامات (چراگاہوں کا رخ کرے گا فتنوں سے اپنا دین بچانے کے لئے بے قرار (بھاگتا) رہے گا۔
عورتوں کا فتنہ
محمد بن رمح، لیث بن سعد، ابن ہاد، عبد اللہ بن دینار، حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اے عورتوں کی جماعت صدقہ کیا کرو اور استغفار کی کثرت کیا کرو کیونکہ میں نے دوزخیوں میں زیادہ عورتیں دیکھیں ان میں سے ایک عورت نے عرض کیا اے اللہ کے رسول کیا وجہ ہے کہ اہل دوزخ میں ہم خواتین زیادہ ہیں؟ فرمایا تم لعن طعن بہت کرتی ہو اور خاوند کی ناشکری (اور ناقدری) کرتی ہو میں نے کسی ناقص عقل اور ناقص دین والے کو نہ دیکھا کہ کسی سمجھدار پر حاوی ہو جائے تم سے بڑھ کر۔ عرض کرنے لگی اے اللہ کے رسول عقل اور دین میں (ہم) ناقص کیسے ہیں؟ فرمایا عقل میں تو اس طرح ناقص ہو کہ دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کے مساوی ہے یہ عقل میں ناقص ہونے کی وجہ سے ہے اور چند (دن اور) راتیں نماز نہیں پڑھ سکتیں رمضان کے روزے نہیں رکھ سکتیں یہ دین میں ناقص ہونا ہے۔
نیک کام کروانا اور برا کام چھڑوانا
ابو بکر بن ابی شیبہ، معاویہ بن ہشام، ہشام بن سعد، عمر بن عثمان، عاصم بن عثمان، عروہ، ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے سنا کہ امربالمعروف اور نہی عن المنکر کرتے رہو قبل ازیں کہ تم دعائیں مانگو اور تمہاری دعائیں قبول نہ ہوں (امربالمعروف اور نہی عن المنکر ترک کرنے کی وجہ سے )۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، عبد اللہ بن نمیر، ابو اسامہ اسماعیل بن ابی خالد، حضرت قیس بن ابی حازم فرماتے ہیں کہ سیدنا ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کھڑے ہوئے اللہ کی حمد وثناء کے بعد فرمایا اے لوگو! تم یہ آیت پڑھتے ہو یَا (یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا عَلَیْکُمْ اَنْفُسَکُمْ ۚلَا یَضُرُّکُمْ مَّنْ ضَلَّ اِذَا اہْتَدَیْتُمْ) 5۔ المائدہ:105) اے ایمان والو! تم اپنی جانوں کی فکر کرو گمراہ ہونے والے کی گمراہی تمہیں ضرر نہیں پہنچا سکتی جبکہ تم خود راہ راست پر ہو اور ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ ارشاد فرماتے سنا جب لوگ برائی کو دیکھیں پھر اسے ختم نہ کرائیں تو بعید نہیں کہ اللہ تعالی ان سب کو (بروں اور نیکوں کو) اپنے عذاب میں مبتلا کر دیں (اس دنیا میں )۔
٭٭ محمد بن بشار، عبد الرحمن بن مہدی، سفیان، علی بن بذیمہ، حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا بنی اسرائیل میں جب کوتاہی آئی تو ایک مرد اپنے بھائی کو مبتلائے معصیت دیکھ کر اس سے روکتا اور اگلے روز اس کے ساتھ کھاتا پیتا اور مل جل کر رہتا اور گناہ کی وجہ سے اس سے ترک تعلقات نہ کرتا تو اللہ تعالی نے ان کے قلوب کو باہم خلط کر دیا انہی کے متعلق قرآن کریم میں یہ ارشاد ہے لُعِنَ الَّذِینَ کَفَرُوا مِنْ بَنِی إِسْرَائِیلَ عَلَی لِسَانِ دَاوُدَ وَعِیسَی ابْنِ مَرْیَمَ حَتَّی بَلَغَ وَلَوْ کَانُوا یُؤْمِنُونَ بِاللَّہِ وَالنَّبِیِّ وَمَا أُنْزِلَ إِلَیْہِ مَا اتَّخَذُوہُمْ أَوْلِیَائَ وَلَکِنَّ کَثِیرًا مِنْہُمْ فَاسِقُونَ تک راوی کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تکیہ لگائے ہوئے تھے آپ بیٹھ گئے اور فرمایا تم عذاب سے نہیں بچ سکتے یہاں تک کہ ظالم کے ہاتھ پکڑو اور اسے حق (اور انصاف) پر مجبور نہ کرو۔ دوسری سند سے یہی مضمون مروی ہے۔
٭٭ عمران بن موسی، حماد بن زید، علی بن زید بن جدعان، ابی نضرہ، حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہمارے درمیان خطبہ کیلئے کھڑے ہوئے دوران خطبہ یہ بھی فرمایا غور سے سنو کسی مرد کو جب وہ حق سے واقف ہو حق کہنے سے لوگوں کی ہیبت ہرگز مانع نہ ہونی چاہئے۔ راوی کہتے ہیں اس کے بعد حضرت ابو سعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ رو پڑے اور فرمایا بخدا ہم نے کئی چیزیں (ناحق) دیکھیں لیکن ہم ہیبت میں آ گئے۔
٭٭ ابو کریب، عبد اللہ بن نمیر، ابو معاویہ، اعمش عمرو بن مرہ، ابی بختری، حضرت ابو سعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم میں سے کوئی بھی اپنی تحقیر نہ کرے۔ صحابہ نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ہم میں سے کوئی اپنی تحقیر کیسے کر سکتا ہے؟ فرمایا اس طرح کہ کوئی معاملہ دیکھے اس بارے میں اللہ کا حکم اسے معلوم ہو پھر بیان نہ کرے تو روز قیامت اللہ عزوجل فرمائیں گے تمہیں فلاں معاملہ میں (حق بات) کہنے سے کیا مانع ہوا؟ جواب دے گا لوگوں کا خوف تو اللہ رب العزت فرمائیں گے صرف مجھ ہی سے تمہیں ڈرنا چاہئے تھا۔
٭٭ علی بن محمد، وکیع، اسرائیل، ابو اسحاق ، عبید اللہ بن حضرت جریر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس قوم میں بھی اللہ کی نافرمانیاں کی جائیں جبکہ وہ قوم (نافرمانی سے بچنے والے ) ان نافرمانوں سے زیادہ غلبہ اور قوت والے ہوں اور (بصورت نزاع) اپنابچاؤ کر سکتے ہو (اس کے باوجود بھی نافرمانی کو ختم نہ کرائیں تو) اللہ تعالی ان سب کو سزادیتا ہے۔
٭٭ سعید بن سوید، یحییٰ بن سلیم، عبد اللہ بن عثمان بن خثیم، ابی زبیر، حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ جب سمندری مہاجرین رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس واپس پہنچے تو آپ نے فرمایا تم نے حبشہ میں جو عجیب باتیں دیکھیں وہ ہمیں نہیں بتاؤگے۔ ان میں سے چند نوجوانوں نے عرض کیا ضرور اللہ کے رسول! ایک مرتبہ ہم بیٹھے ہوئے تھے کہ وہاں کے درویشوں کی ایک بڑھیا سر پر پانی کا مٹکا اٹھائے ہمارے پاس سے گزری تو اس نے اپنا ایک ہاتھ اس کے دونوں کندھوں کے درمیان رکھا پھر اسے دھکا دیا وہ گھٹنوں کے بل گری اور اس کا مٹکا ٹوٹ گیا جب وہ اٹھی تو اس کی طرف متوجہ ہو کر کہنے لگی تمہیں عنقریب علم ہو جائے گا اے مکار جب اللہ تعالی کرسی قائم فرمائیں گے اور اولین وآخرین کو جمع فرمائیں گے اور ہاتھ پاؤں اپنے کرتوت بیان کریں گے اس وقت تمہیں علم ہو گا کہ اللہ کے یہاں میرا اور تمہارا کیا فیصلہ ہوتا ہے رسول اللہ نے فرمایا اس بڑھیا نے سچ کہا سچ کہا اللہ تعالی کیسے اس قوم کو پاک کریں جس میں کمزور کی خاطر طاقتور سے مواخذہ نہ کیا جائے۔
٭٭ قاسم بن زکریا بن دینار، عبد الرحمن بن مصعب، محمد بن عبادہ واسطی، یزید بن ہاورن، اسرائیل، محمد بن حجادہ، عطیہ عوفی، حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا افضل جہاد ظالم بادشاہ کے سامنے انصاف کی بات (کہنا) ہے۔
٭٭ راشد بن سعید رملی، ولید بن مسلم، حماد بن سلمہ، ابو غالب، حضرت ابو امامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ (حج کے موقع پر) جمرہ اولی کے قریب ایک مرد نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس آیا اور عرض کیا اے اللہ کے رسول! کون ساجہاد افضل ہے؟ آپ خاموش رہے جب آپ نے جمرہ ثانیہ کی رمی تو اس نے پھر یہی پوچھا آپ خاموش رہے جب آپ نے جمرہ عقبہ کی رمی کی تو اپناپاؤں رکاب میں رکھ کر پوچھا وہ سائل کہاں ہے؟ اس نے عرض کیا میں ہوں اے اللہ کے رسول۔ فرمایا ظالم حکمران کے سامنے حق بات کہنا (افضل جہاد ہے )۔
٭٭ ابو کریب، ابو معاویہ، اعمش، اسماعیل بن رجاء، ابی سعید خدری، قیس بن مسلم، طارق بن شہاب، حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ مردان نے عید کے روز منبر نکلوایا (اور خطبہ دینے کے لئے عیدگاہ میں رکھوایا) پھر نماز سے قبل ہی خطبہ شروع کر دیا تو ایک مرد نے کہا (اے مروان تم نے سنت کے خلاف کیا تم نے اس دن منبر نکلوایاحالانکہ (اس سے قبل) منبر نکالا نہیں جاتا تھا اور نماز سے قبل ہی خطبہ شروع کر دیا حالانکہ نماز سے قبل خطبہ نہیں ہوتا تھا اس پر حضرت ابو سعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا ان صاحب نے اپنی ذمہ داری پوری کر دی میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے سنا تم میں سے جو بھی خلاف شرع کام دیکھے اور اسے چاہئے کہ زور بازو سے اسے مٹادے اگر اس کی استطاعت نہ ہو تو زبان سے روک دے اور اگر اس کی بھی استطاعت نہ ہو تو زبان سے روک دے اور اگر اس کی بھی استطاعت نہ ہو تو دل ودماغ سے کام لے اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے۔
اللہ تعالی کا ارشاد اے ایمان والو! تم اپنی فکر کرو کی تفسیر
ہشام بن عمار، صدقہ بن خالد، عتبہ بن ابی حکیم، عمرو بن جاریہ، حضرت ابو امیہ شعبانی فرماتے ہیں کہ میں حضرت ابو ثعلبہ خشنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا آپ اس آیت کے بارے میں کیا فرماتے ہیں۔ کہنے لگے کون سی آیت؟ میں نے عرض کیا (یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا عَلَیْکُمْ اَنْفُسَکُمْ ۚلَا یَضُرُّکُمْ مَّنْ ضَلَّ اِذَا اہْتَدَیْتُمْ) 5۔ المائدہ:105) اے ایمان والو! تم اپنی فکر کرو گمراہ (کی گمراہی) تمہارے لئے باعث ضرر نہیں بشرطیکہ تم راہ راست پر رہو فرمانے لگے میں نے اس آیت کی تفسیر ایسی ذات سے دریافت کی جو خوب واقف تھی یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم۔ تو آپ نے فرمایا بلکہ تم امر بالمعروف کرتے رہو اور نہی عن المنکر کرتے رہو۔ یہاں تک کہ جب دیکھو کہ بخیل کی بات مانی جاتی ہے اور خواہش کی پیروی کی جاتی ہے اور دنیا کو (دین پر) ترجیح دی جاتی ہے اور ہر شخص کو اپنی رائے پر ناز ہے (خواہ وہ کتاب و سنت اجماع امت اور قیاس مجتہد سے ہٹ کر ہی ہو) ایسے میں تم کوئی ایسا کام (خلاف شرع) دیکھو کہ اس ختم کرنے کی تم ذرا بھی قدرت نہیں تو تم صرف اپنی ذات کی فکر کرو اس لئے کہ تمہارے بعد صبر کے دن آنے والے ہیں ان میں (صحیح دین پر) مضبوطی سے قائم رہنا انگارہ کو ہاتھ میں دبانے کی مثل ہو گا ان ایام میں عمل کرنے والے کو پچاس آدمیوں کے برابر اجر ملے گا جو اس کی طرح عمل کرتے ہوں۔
٭٭ عباس بن ولید دمشقی، زید بن یحییٰ بن عبیدالخزاعی، ہیثم بن حمید، ابو معید حفص، غیلان مکحول، حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کسی نے عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم! ہم امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کب ترک کر سکتے ہیں؟ فرمایا جب تم میں وہ امور ظاہر ہوں جو تم سے پہلی امتوں میں ظاہر ہوئے ہم نے عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہم سے پہلی امتوں میں کیا امور ظاہر ہوئے۔ فرمایا گھٹیا لوگ حکمران بن جائیں اور معزز لوگوں میں فسق و فجور آ جائے اور علم کمینے لوگ حاصل کر لیں (راوی حدیث) حضرت زید فرماتے ہیں کہ گھٹیا لوگوں کے علم حاصل کرنے کا مطلب یہ ہے کہ بے عمل فاسق لوگ علم حاصل کریں (اور بے عمل ہی رہیں )۔
٭٭ محمد بن بشار، عمرو بن عاصم، حماد بن سلمہ، علی بن زید، حسن، جندب، حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا مومن کے لئے مناسب نہیں کہ اپنے آپ کو ذلیل کرے؟ ہم نے عرض کیا اپنے آپ کو ذلیل کرنے سے کیا مراد ہے؟ فرمایا جس آزمائش کو برداشت نہیں کر سکتا اس کے درپے ہو۔
٭٭ علی بن محمد، محمد بن فضیل، یحییٰ بن سعید، عبد اللہ بن عبد الرحمن ابو طوانہ، نہار عبدی، حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے سنا اللہ تعالی روز قیامت بندہ سے پوچھیں گے کہ جب تم نے خلاف شرع کام دیکھا تو روکا کیوں نہیں؟ پھر خود ہی اس کا جواب تلقین فرمائیں گے تو بندہ عرض کرے گا اے میرے پروردگار میں نے آپ (کے رحم) سے امید وابستہ کر لی تھی اور لوگوں (کی ایذاء رسانی) سے مجھے خوف تھا۔
سزاؤں کا بیان
محمد بن عبد اللہ بن نمیر، علی بن محمد، ابو معاویہ، برید بن عبد اللہ بن ابی بردہ، ابی بردہ، حضرت ابو موسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اللہ تعالی ظالم کو ڈھیل دیتے ہیں لیکن جب اس کی گرفت فرماتے ہیں تو پھر چھوڑتے نہیں اس کے بعد یہ آیت تلاوت فرمائی (وَکَذٰلِکَ اَخْذُ رَبِّکَ اِذَآ اَخَذَ الْقُرٰی وَہِىَ ظَالِمَۃٌ) 11۔ہود:102)۔
٭٭ محمود بن خالد دمشقی، سلیمان بن عبد الرحمن ابو ایوب، ابن ابی مالک، عطاء بن ابی رباح، حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا اے جماعت مہاجرین پانچ چیزوں میں جب تم مبتلا ہو جاؤ اور میں خدا کی پناہ مانگتا ہوں اس سے کہ تم ان چیزوں میں مبتلا ہو۔ اول یہ کہ جس قوم میں فحاشی اعلانیہ ہونے لگے تو اس میں طاعون اور ایسی ایسی بیماریاں پھیل جاتی ہیں جو ان سے پہلے لوگوں میں نہ تھیں اور جو قوم ناپ تول میں کمی کرتی ہے تو وہ قحط مصائب اور بادشاہوں (حکمرانوں ) کے ظلم و ستم میں مبتلا کر دی جاتی ہے اور جب کوئی قوم اپنے اموال کی زکوٰۃ نہیں دیتی تو بارش روک دی جاتی ہے اور اگر چوپائے نہ ہوں تو ان پر کبھی بھی بارش نہ برسے اور جو قوم اللہ اور اس کے رسول کے عہد کو توڑتی ہے تو اللہ تعالی غیروں کو ان پر مسلط فرما دیتا ہے جو اس قوم سے عداوت رکھتے ہیں پھر وہ ان کے اموال چھین لیتے ہیں اور جب مسلمان حکمران کتاب اللہ کے مطابق فیصلے نہیں کرتے بلکہ اللہ تعالی کے نازل کردہ نظام میں (مرضی کے کچھ احکام) اختیار کر لیتے ہیں (اور باقی چھوڑ دیتے ہیں تو اللہ تعالی اس قوم کو خانہ جنگی اور) باہمی اختلافات میں مبتلا فرما دیتے ہیں۔
٭٭ عبد اللہ بن سعید، معن بن عیسیٰ ، معاویہ بن صالح، حاتم بن حریث، مالک بن ابی مریم، عبد الرحمن بن غنم اشعری، حضرت ابو مالک اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میری امت کے کچھ لوگ شراب پئیں گے اور اس کا نام بدل کر کچھ اور رکھ دیں گے ان کے سروں پر باجے بجائے جائیں گے اور گانے والی عورتیں گائیں گی اللہ تعالی انہیں زمین میں دھنسا دیں گے اور ان کی صورتیں مسخ کر کے بندر اور سور بنا دیں گے۔
٭٭ محمد بن صباح، عمار بن محمد، لیث، منہال، زاذان، حضرت براء بن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا (ۙاُولٰۗىِٕکَ یَلْعَنُہُمُ اللّٰہُ وَیَلْعَنُہُمُ اللّٰعِنُوْنَ) 2۔ البقرۃ:159)۔ اس آیت میں لاعنون سے مراد زمین کے چوپائے ہیں۔
٭٭ علی بن محمد، وکیع، سفیان، عبد اللہ بن ابی جعد، حضرت ثوبان رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کوئی چیز عمر کو نہیں بڑھا سکتی سوائے نیکی کے اور کوئی چیز تقدیر کو نہیں ٹال سکتی سوائے دعا کے اور مرد اپنے گناہ کی وجہ سے رزق سے محروم کر دیا جاتا ہے۔
مصیبت پر صبر کرنا
یوسف بن حماد، یحیی بن درست، حماد بن زید، عاصم، مصعب بن سعد، حضرت سعید بن وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول! لوگوں میں سب سے زیادہ سخت مصیبت کس پر آتی ہے؟ فرمایا انبیاء پر پھر جو ان کے بعد افضل اور بہتر ہو درجہ بدرجہ بندہ کی آزمائش اس کے دین کے اعتبار سے ہوتی ہے اور اس کے دین میں پختگی ہو گی تو اس کی آزمائش سخت ہو گی اور اگر اس کے دین میں نرمی ہو گی تو اس کی آزمائش بھی اسی کے اعتبار سے ہو گی مصیبت بندے سے ٹلتی نہیں یہاں تک کہ اسے ایسی حالت میں چھوڑتی ہے کہ وہ زمین پر چلتا پھرتا ہے اور اس کے ذمہ ایک بھی خطا نہیں رہتی۔
٭٭ عبد الرحمن بن ابراہیم، ابن ابی فدیک، ہشام بن سعد، زید بن اسلم، عطاء بن یسار، حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ کو شدید بخار ہو رہا تھا میں نے اپنا ہاتھ آپ پر رکھا تو چادر کے اوپر بھی (بخار کی) حرارت محسوس ہو رہی تھی میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول آپ کو اتنا شدید بخار ہے۔ فرمایا ہمارے ساتھ ایسا ہی ہوتا ہے آزمائش بھی دگنی ہوتی ہے اور ثواب بھی دگنا ملتا ہے میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول لوگوں میں سب سے زیادہ سخت آزمائش کن پر ہوتی ہے؟ فرمایا انبیاء کرام پر۔ میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول! ان کے بعد؟ فرمایا ان کے بعد نیک لوگوں پر بعض نیک لوگوں پر فقر کی ایسی آزمائش آتی ہے کہ اوڑھے ہوئے کمبل کے علاوہ ان کے پاس کچھ بھی نہیں ہوتا اور نیک لوگ آزمائش سے ایسے خوش ہوتے ہیں جیسے تم لوگ وسعت اور فراخی۔
٭٭ محمد بن عبد اللہ بن نمیر، وکیع، اعمش، شقیق، حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ گویا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس وقت میری نگاہوں کے سامنے ہیں کہ آپ ایک نبی کی حالت بتا رہے ہیں کہ ان کی قوم نے انکو مارا وہ اپنے چہرے سے خون پونچھتے جاتے اور کہتے جاتے اے میرے پروردگار میری قوم کی بخشش فرما دیجئے کیونکہ وہ جانتی نہیں۔
٭٭ حرملہ بن یحییٰ ، یونس بن عبد الاعلی، عبد اللہ بن وہب، یونس بن یزید، ابن شہاب، ابی سلمہ بن عبد الرحمن بن عوف، سعید بن مسیب، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہم حضرت ابراہیم سے زیادہ شک کے حقدار ہیں جب (لیکن) جب (ہمیں شک نہیں ہوا تو ان کو کیسے ہو سکتا ہے البتہ) انہوں نے (عین الیقین حاصل کرنے کے لئے ) عرض کیا اے میرے پروردگار مجھے دکھا دیجئے کہ آپ مردوں کو کس طرح زندہ فرماتے ہیں فرمایا کیا تمہیں یقین نہیں؟ عرض کیا کیوں نہیں (یقین تو ہے ) لیکن اپنا دل مطمئن کرنا چاہتا ہوں اور اللہ تعالی حضرت لوط پر رحم فرمائے کہ وہ زور آور حمایتی کی تلاش میں تھے اور اگر میں اتنا عرصہ قید گزارتا جتنا حضرت یوسف رہے تو میں بلانے والے کی بات مان لیتا۔
٭٭ نصر بن علی جہضمی، محمد بن مثنی، عبد الوہاب، حمید، حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ جنگ احد کے روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا دندان مبارک شہید ہوا اور سر میں زخم ہوا جس سے خون آپ کے چہرہ انور پر بہنے لگا تو آپ اپنے چہرہ سے خون پونچھتے جاتے اور فرماتے جاتے کہ وہ قوم کیسے کامیاب ہو سکتی ہے جس نے اپنے نبی کے چہرہ کو خون سے رنگین کیا حالانکہ نبی انکو اللہ کی طرف بلا رہا تھا اس پر اللہ تعالی نے یہ آیت نازل فرمائی (لَیْسَ لَکَ مِنَ الْاَمْرِ شَیْءٌ اَوْ یَتُوْبَ عَلَیْھِمْ) 3۔ آل عمران:128) (ترجمہ) آپ کو کچھ اختیار نہیں۔
٭٭ محمد بن طریف ابو معاویہ، اعمش، ابی سفیان، حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک روز حضرت جبرائیل علیہ السلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے آپ غمزدہ بیٹھے تھے خون سے رنگین تھے اہل مکہ نے آپ کو مارا تھا (یہ مکہ کا واقعہ ہے ) عرض کیا کیا ہوا؟ فرمایا ان لوگوں نے میرے ساتھ یہ یہ سلوک کیا عرض کیا آپ پسند کریں گے کہ میں آپ کو (اللہ کی قدرت کی) ایک نشانی دکھاؤں؟ (یہ آپ کا دل بہلانے کیلئے اور تسلی دلانے کے لئے ہوا) فرمایا جی ہاں حضرت جبرائیل علیہ السلام نے وادی سے دوسری طرف ایک درخت کی طرف دیکھا تو کہا اس درخت کو بلائیے آپ نے اس درخت کو بلایا وہ چلتا ہوا آیا اور آپ کے سامنے کھڑا ہو گیا حضرت جبرائیل علیہ السلام نے عرض کیا اس سے کہئے کہ واپس ہو جائے آپ نے اس سے کہا وہ لوٹ کر واپس اپنی جگہ چلا گیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میرے لئے (یہ نشانی) کافی ہے۔
٭٭ محمد بن عبد اللہ بن نمیر، علی بن محمد، ابو معاویہ، اعمش، شقیق، حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جن لوگوں نے کلمہ اسلام پڑھا ان سب کا شمار کر کے مجھے بتاؤ ہم نے عرض کیا اے اللہ کے رسول آپ کو ہمارے بارے میں (دشمن سے ) خدشہ ہے حالانکہ ہماری تعداد چھ سات سو کے درمیان ہے (ہم دشمن کا مقابلہ کر سکتے ہیں ) رسول اللہ نے فرمایا تم نہیں جانتے ہو سکتا ہے تم پر آزمائش آئے فرماتے ہیں پھر ہم پر آزمائش آئی یہاں تک کہ ہمارے مرد بھی چھپ کر ہی نماز ادا کرتے۔
٭٭ ہشام بن عمار، ولید بن مسلم، سعید بن بشیر، قتادہ، مجاہد، ابن عباس، حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے روایت کرتے ہیں کہ جس شب آپ کو معراج کرایا گیا تو ایک موقع پر آپ نے عمدہ خوشبو محسوس کی۔ پوچھا اے جیرائیل یہ خوشبو کیسی ہے؟ کہنے لگے یہ ایک کنگھی کرنے والی عورت اور اس کے دو بیٹوں اور خاوند کی قبر کی خوشبو ہے اور ان کا واقعہ یہ ہے کہ خضر بنی اسرائیل کے معزز گھرانہ سے تھے ان کے راستہ میں ان کے پاس آ کر انہیں اسلام کی تعلیم دیتا جب خضر جوان ہوئے تو ان کے والد نے ایک عورت سے ان کی شادی کر دی۔ خضر نے اس عورت کو اسلام کی تعلیم دی اور اس سے عہد لیا کہ کسی کو اطلاع نہ دیں (کہ خضر نے مجھے اسلام کی تعلیم دی) اور خضر عورتوں سے قربت (صحبت) نہیں کرتے تھے چنانچہ انہوں نے اس عورت کو طلاق دے دی والد نے دوسری عورت سے ان کی شادی کرا دی خضر نے اسے بھی اسلام کی تعلیم دی اور اس سے بھی یہ عہد لیا کہ کسی کو نہ بتائے ان میں سے ایک عورت نے تو راز رکھا لیکن دوسری نے فاش کر دیا (فرعون نے گرفتاری کا حکم دے دیا) اس لئے یہ فرار ہو کر سمندر میں ایک جزیرہ میں پہنچ گئے وہاں دو مرد لکڑیاں کاٹنے آئے ان دونوں نے خضر کو دیکھ لیا ان میں سے بھی ایک نے راز رکھا اور دوسرے نے راز فاش کر دیا اور لوگوں کو بتا دیا کہ میں نے خضر کو (جزیرہ میں ) دیکھا ہے لوگوں نے پوچھا تو اس نے بات چھپا دی حالانکہ فرعون کے قانون میں جھوٹ کی سزا قتل تھی الغرض اس شخص نے اسی عورت سے شادی کر لی جس نے خضر کا راز رکھا تھا (یہ عورت فرعون کی بیٹی کے سر میں کنگھی کیا کرتی تھی) ایک مرتبہ یہ کنگھی کر رہی تھی کہ کنگھی (اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر) گر گئی بے ساختہ اس کے منہ سے نکلا بسم اللہ! فرعون نے ان سب کو بلوایا اور خاوند بیوی کو اپنا دین چھوڑنے پر مجبور کیا۔ یہ نہ مانے تو اس نے کہا میں تمہیں قتل کر دوں گا۔ انہوں نے کہا کہ اگر تم نے ہمیں قتل ہی کرنا ہے تو ہمارے ساتھ یہ احسان کرنا کہ ہمیں ایک ہی قبر میں دفن کرنا۔ اس نے ایسا ہی کیا معراج کی شب نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اسی قبر کی خوشبو محسوس کر کے جبرائیل علیہ السلام سے پوچھا تو انہوں نے سب قصہ سنایا۔
٭٭ محمد بن رمح، لیث بن سعد، یزید بن ابی حبیب، سعد بن سنان، حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا ثواب اتنا ہی زیادہ ہو گا جتنی آزمائش سخت ہو گی اور اللہ تعالی جب کسی قوم کو پسند فرماتے ہیں تو اس کی آزمائش کرتے ہیں جو راضی ہو اس سے راضی ہو جاتے اور جو ناراض ہو اس سے ناراض۔
٭٭ علی بن میمون رقی، عبد الواحد بن صالح، اسحاق بن یوسف، اعمش، یحییٰ بن اثاب، حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو مومن لوگوں سے میل جول رکھے اور ان کی ایذاء پر صبر کرے اسے زیادہ ثواب ہوتا ہے اس مومن کی بہ نسبت جو لوگوں سے میل جول نہ رکھے اور ان کی ایذاء پر صبر نہ کرے۔
٭٭ محمد بن مثنی، محمد بن بشار، محمد بن جعفر، شعبہ، قتادہ، حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس شخص میں تین خوبیاں ہوں اس نے ایمان کا ذائقہ (حلاوت) چکھ لیا جو شخص کسی سے صرف اللہ (کی رضاء) کے لئے محبت رکھے اور جسے اللہ اور اس کے رسول سے باقی ہر چیز (اور انسان) سے بڑھ کر محبت ہو اور جسے دوبارہ کفر اختیار کرنے سے آگ میں گرنا زیادہ پسند ہو بعد ازیں کہ اللہ نے اسے کفر سے نجات دی۔
٭٭ حسین بن حسن مروذی، ابن ابی عدی، ابراہیم بن سعید جوہری، عبد الوہاب بن عطاء، راشد ابو محمد حمانی، شہر بن حوشب، ام درداء، حضرت ابو الدرداء فرماتے ہیں کہ میرے محبوب صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھے وصیت فرمائی کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک مت ٹھہرانا اگرچہ تمہارے ٹکڑے ٹکڑے کر دیئے جائیں اور تمہیں نذر آتش کر دیا جائے اور فرض نماز جان بوجھ کر مت ترک کرنا کیونکہ جو عمداً فرض نماز ترک کر دے تو اللہ تعالی کا ذمہ اس سے بری ہے (اب وہ اللہ کی پناہ میں نہیں ) اور شراب مت پینا کیونکہ شراب نوشی ہر شر (برائی) کی کنجی ہے۔
زمانہ کی سختی
غیاث بن جعفر رحبی، ولید بن مسلم، ابن جابر، ابو عبدربہ، حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ ارشاد فرماتے سنا دنیا میں مصیبت اور آزمائش کے علاوہ کچھ باقی نہیں رہا۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، یزید بن ہارون، عبد الملک بن قدامہ جمحی، اسحاق بن ابی فرات، مقبری، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا عنقریب لوگوں پر دھوکے اور فریب کے چند سال آئیں گے کہ ان میں جھوٹے کو سچا اور سچے کو جھوٹا، خائن کو امانت دار اور امانت دار کو خائن سمجھا جائے گا اور اس زمانہ میں امور عامہ کے بارے میں کمینہ اور حقیر آدمی بات چیت کرے گا۔
٭٭ واصل بن عبد الاعلی، محمد بن فضیل ، اسماعیل اسلمی، ابی حازم، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے دنیا ختم نہ ہو گی یہاں تک کہ مرد قبر کے پاس سے گزرے گا تو اس پر لوٹ پوٹ ہو گا اور کہے گا اے کاش اس قبر والے کی جگہ میں ہوتا اور یہ دین (شوق آخرت اور ایمان) کی وجہ سے نہ ہو گا بلکہ دنیوی مصائب و آلام کی وجہ سے ہو گا۔
٭٭ عثمان بن ابی شیبہ، طلحہ بن یحییٰ ، یونس، زہری، ابی حمید، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم چھانٹ لئے جاؤ گے جیسے عمدہ کھجور ردی کھجور میں سے چھانٹ لی جاتی ہے بالآخر تم میں نیک لوگ اٹھ جائیں گے اور برے لوگ باقی رہ جائیں گے اگر ہو سکے تو تم بھی مر جانا۔
٭٭ یونس بن عبد الاعلی، محمد بن ادریس شافعی، محمد بن خالد جندی، ابان بن صالح، حسن ، حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا معاملہ (دنیا) میں شدت بڑھتی ہی جائے گی اور دنیا میں ادبار (افلاس اخلاق رذیلہ) بڑھتا ہی جائے گا لوگ بخیل سے بخیل تر ہوتے جائیں گے اور قیامت انسانیت کے بدترین افراد پر قائم ہو گی اور (قرب قیامت حضرت مہدی کے بعد) کامل ہدایت یافتہ شخص صرف حضرت عیسیٰ بن مریم ہوں گے۔
علامات قیامت
ہناد بن سری، ابو ہشام رفاعی، محمد بن یزید، ابو بکر بن عیاش، ابو حصین، ابو صالح ، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا مجھے اور قیامت کو اس طرح بھیجا گیا اور آپ نے اپنی انگلیاں ملا لیں۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، وکیع، سفیان ، فرات قزاز، ابی طفیل، حضرت حذیفہ بن اسید رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بالاخانہ سے ہمیں جھان کا ہم آپس میں قیامت کا تذکرہ کر رہے تھے۔ ارشاد فرمایا جب تک دس نشانیاں ظاہر نہ ہوں قیامت قائم نہ ہو گی دجال، دھواں اور سورج کا مغرب سے طلوع۔
٭٭ عبد الرحمن بن ابراہیم، ولید بن مسلم، عبد اللہ بن علاء، بسر بن عبید اللہ ، ابو ادریس خولانی، حضرت عوف بن مالک اشجعی فرماتے ہیں کہ میں غزوہ تبوک کے موقعہ پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا آپ چمڑے کے ایک خیمہ میں تھے میں خیمہ کے سامنے بیٹھ گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ارے عوف اندر آؤ۔ میں نے (ازراہ مزاح) عرض کیا اے اللہ کے رسول میں پورا اندر آ جاؤں؟ (شاید خیمہ چھوٹا تھا) فرمایا پورے ہی آ جاؤ کچھ دیر بعد فرمایا اے عوف یاد رکھو قیامت سے قبل چھ باتیں ہوں گی ایک میرا اس دنیا سے جانا۔ فرماتے ہیں یہ سن کر مجھے شدید رنج ہوا فرمایا اس کے بعد (دوسری نشانی) بیت المقدس کا (مسلمانوں کے ہاتھ) فتح ہونا سوم ایک بیماری تم پر ظاہر ہو گی جس کی وجہ سے تمہیں اور تمہاری اولادوں کو اللہ تعالی شہادت سے سرفراز فرمائیں گے اور تمہارے اعمال کو پاک صاف کریں گے۔ چہارم تمہارے پاس مال و دولت خوب ہو گا حتیٰ کہ مرد کو سو اشرفیاں دی جائیں پھر وہ ناراض ہو گا۔ پنجم تمہارے درمیان ایک فتنہ ہو گا جو ہر ہر مسلمان کے گھر میں داخل ہو گا۔ ششم تم میں اور رومیوں میں صلح ہو گی پھر رومی تم سے دغا کریں گے اور اسی جھنڈوں تلے اپنی فوج لے کر تمہاری طرف آئیں گے ہر جھنڈے کے نیچے بارہ ہزار فوجی ہوں گے۔
٭٭ ہشام بن عمار، عبد العزیز دراوردی، عبد اللہ بن عبد الرحمن انصاری، حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا قیامت قائم نہ ہو گی یہاں تک کہ تم اپنے امام (حکمران) کو قتل کرو اور اپنی تلواروں سے باہم لڑو اور تمہارے بدترین لوگ تمہاری دنیا (حکومت) کے وارث ہوں گے۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، اسماعیل بن علیہ، ابی حیان، ابی زرعہ، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم لوگوں میں باہر تشریف رکھتے تھے کہ ایک مرد نے حاضر خدمت ہو کر عرض کیا اے اللہ کے رسول قیامت کب قائم ہو گی؟ فرمایا جس سے قیامت کے متعلق پوچھا گیا ہے اسے پوچھنے والے سے زیادہ علم نہیں۔ البتہ میں تمہیں قیامت کی کچھ علامات اور نشانیاں بتا دیتا ہوں جب باندی اپنے مالک کو جنے (بیٹی ماں کے ساتھ باندیوں کا سلوک کرے ) تو یہ قیامت کی ایک نشانی ہے اور جب ننگے پاؤں ننگے بدن والے (گنوار اور مفلس) لوگوں کے حکمران بن جائیں تو یہ بھی قیامت کی نشانی ہے اور جب بکریاں چرانے والے ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر عمارتیں بلند کرنے لگیں تو یہ بھی قیامت کی نشانی ہے اور قیامت کا علم ان پانچ امور میں سے ہے جن کو اللہ تعالی کے علاوہ کوئی بھی نہیں جانتا اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ آیت پڑھی (اِنَّ اللّٰہَ عِنْدَہٗ عِلْمُ السَّاعَۃِ ۚ وَیُنَزِّلُ الْغَیْثَ ۚ وَیَعْلَمُ مَا فِی الْاَرْحَامِ ) 31۔لقمان:34) (ترجمہ) بلاشبہ اللہ ہی کے پاس ہے قیامت کا علم اور وہی نازل فرماتا ہے بارش اور اسی کو (بیک وقت) معلوم ہے جو کچھ سب رحموں میں ہے (اس کی پوری تفصیل کے ہونے والے بچہ کی عمر کتنی ہو گی رزق کتنا ہو گا وہ سعادت مند ہو گا یا بدبخت) آخر تک۔
٭٭ محمد بن بشار، محمد بن مثنی، محمد بن جعفر، شعبہ، قتادہ، حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے (ایک مرتبہ) فرمایا میں تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی وہ حدیث نہ سناؤں جو میں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنی (اس کی خصوصیت یہ ہے کہ) میرے بعد کوئی بھی تمہیں وہ حدیث نہ سنائے گا میں نے آپ کو یہ فرماتے سنا قیامت کی نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ علم اٹھ جائے گا جہالت پھیل جائے گی بدکاری عام ہو گی شراب پی جائے گی مرد کم رہ جائیں گے عورتیں زیادہ ہو جائیں گی یہاں تک کہ پچاس عورتوں کا انتظام ایک مرد کرے گا۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، محمد بن بشر، محمد بن عمرو، ابی سلمہ، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا قیامت اس وقت تک قائم نہ ہو گی جب تک کہ دریائے فرات میں سے سونے کا پہاڑ نہ نکلے اور لوگ اس پر باہم کشت و خون کریں گے چنانچہ ہر دس میں سے نو مارے جائیں گے۔
٭٭ ابو مروان عثمانی، عبد العزیز بن ابی حازم، علاء بن عبد الرحمن ، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا قیامت قائم نہ ہو گی یہاں تک کہ مال (زیادہ ہونے کی وجہ سے پانی کی طرح) بہنے لگے اور فتنے ظاہر ہوں اور ہرج زیادہ ہو جائے۔ صحابہ نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ہرج کیا ہے۔ فرمایا قتل قتل قتل۔ تین بار فرمایا۔
قرآن اور علم کا اٹھ جانا
ابو بکر بن ابی شیبہ، وکیع، اعمش، سالم بن ابی جعد، حضرت زیاد بن لبید رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی نے کسی بات کا ذکر کر کے فرمایا یہ اس وقت ہو گا جب علم اٹھ جائے گا میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم علم کیسے اٹھ جائے گاحالانکہ ہم خود قرآن پڑھتے ہیں اور اپنے بیٹوں کو پڑھاتے ہیں اور ہمارے بیٹوں کو (اسی طرح نسل در نسل) قیامت تک پڑھاتے رہیں گے فرمایا زیاد تیری ماں تجھ پر روئے (یعنی تم نادان نکلے ) میں تو تمہیں مدینہ کے سمجھ دار لوگوں میں شمار کرتا تھا کیا یہ یہود و نصاریٰ تورات اور انجیل نہیں پڑھتے لیکن اس کی کسی بات پر عمل نہیں کرتے۔
٭٭ علی بن محمد، ابو معاویہ، ابی مالک اشجعی، ربعی بن حراش، حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اسلام پرانا ہو (کر مٹنے کے قریب) ہو جائے گا یہاں تک کہ کسی کو بھی روزہ نماز قربانی اور صدقہ (وغیرہ کے متعلق کسی قسم) کا علم نہ رہے گا اور اللہ کی کتاب ایک ہی رات میں ایسی غائب ہو گی کہ زمین میں اس کی ایک آیت بھی باقی نہ رہے گی اور انسانوں کے کچھ قبائل (یا گروہ) ایسے رہ جائیں گے کہ ان میں بوڑھے مرد اور بوڑھی عورتیں کہیں گی ہم نے اپنے آباؤ اجداد کو یہ کلمہ پڑھتے سنا لا الہ الا اللہ اس لئے ہم بھی یہ کلمہ کہتے ہیں حضرت حذیفہ کے شاگرد صلہ نے عرض کیا لا الہ الا اللہ سے انہیں کیا فائدہ ہو گا جب انہیں نماز کا علم ہے نہ روزہ کا نہ قربانی اور صدقہ (ان سب کا مطلقاً) کوئی علم نہیں اس پر حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کی طرف سے منہ پھیر لیا انہوں نے دوبارہ سہ بارہ عرض کیا حذیفہ منہ پھیرتے رہے تیسری مرتبہ میں ان کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا اے صلہ !لا الہ الا اللہ انہیں دوزخ سے نجات دلائے گا تین بار یہی فرمایا۔
٭٭ محمد بن عبد اللہ بن نمیر، وکیع، اعمش، شقیق، حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا قیامت کے قریب زمانہ میں علم اٹھ جائے گا اور جہالت اترے گی اور ہرج بڑھ جائے گا ہرج قتل کو کہتے ہیں۔
٭٭ محمد بن عبد اللہ بن نمیر، علی بن محمد بن عبد اللہ بن نمیر، علی بن محمد، ابو معاویہ، اعمش، شقیق، حضرت ابو موسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تمہارے بعد ایسازمانہ بھی آئے گا کہ جہالت اترے گی علم اٹھ جائے گا اور ہرج بڑھ جائے گا۔ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا اے اللہ کے رسول! ہرج کیا ہے؟ فرمایا قتل۔
٭٭ ابو بکر، عبد الاعلی، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشاد نقل کرتے ہیں کہ زمانہ مختصر ہو جائے گا (وقت بے برکتی مصروفیات اور تفکرات کی وجہ سے بہت جلد گزرے گا) اور علم کم ہو جائے گا (قلوب میں ) بخل ڈال دیا جائے گا اور فتنے ظاہر ہوں گے اور ہرج بڑھ جائے گا۔ صحابہ نے عرض کیا اے اللہ کے رسو ل! ہرج کیا ہے؟ فرمایا قتل۔
٭٭ علی بن محمد، وکیع، اعمش، زید بن وہب، حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہمیں (ایک موقع پر) دو باتیں بتائیں میں ان میں سے ایک تو دیکھ چکا اور دوسری کا مجھے انتظار ہے۔ آپ نے ہمیں بتایا کہ امانت مردوں کے دلوں کی جڑ میں یعنی وسط میں اتری اور قرآن اترا تو ہم (صحابہ) نے قرآن سیکھا اور سنت کو سمجھا (جس سے ایمانداری بڑھ گئی) پھر آپ نے ہمیں امانت کے اٹھ جانے کے بارے میں بتایا فرمایا مرد سوئے گا نیند کے دوران اس کے دل سے امانت سلب ہو جائے گی لیکن دل میں نقطے کی طرح امانت کا نشان اور اثر باقی ہو گا پھر جب دوبارہ سوئے گا تو اس کے دل سے مزید امانت اٹھالی جائے گی صبح اس کا اثر اتنا باقی رہ جائے گا جتنا آبلہ جیسے تم اپنے پاؤں پر انگارہ لڑھکاؤ تو کھال پھول جائے تو تمہیں وہ جگہ ابھری ہوئی نظر آئے گی حالانکہ اس میں کچھ بھی نہیں ہے۔ یہ کہہ کر حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مٹھی بھر کنکریاں لے کر اپنی پنڈلی سے لڑھکائیں فرمایا اس کے بعد لوگ معاملات خرید و فروخت کریں گے۔ لیکن ان میں کوئی بھی امانت دار نہ ہو گا یہاں تک کہ کہا جائے گا فلاں قبیلہ میں ایک مرد امانتدار ہے اور یہاں تک کہ ایک مرد کی بابت کہا جائے گا کہ وہ کتنا سمجھدار دانشمند (بہادر) اور ظریف و مستعد ہے حالانکہ اس کے دل میں رائی برابر بھی ایمان نہ ہو گا اور مجھ پر ایک زمانہ ایسا گزرا کہ مجھے یہ پرواہ نہ تھی کہ میں کس سے معاملہ کر رہا ہوں کیونکہ اگر وہ مسلمان ہے تو اسلام کی وجہ سے وہ امانت داری پر مجبور ہوتا اور اگر وہ یہودی نصرانی ہے تو اس کا عامل (حاکم) انصاف کرے گا اور اب میں صرف فلاں فلاں سے معاملہ کرتا ہوں۔
امانت (ایمانداری) کا اٹھ جانا
محمد بن مصفی، محمد بن ابن حرب، سعید بن سنان، ابو زاہریہ، ابی شجرہ کثیر بن مرہ، حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اللہ عزوجل جب کسی بندہ کو ہلاک کرنے کا ارادہ فرماتے ہیں تو اس سے حیا نکال لیتے ہیں جب اس سے حیا نکل جائے تو تمہیں وہ شخص (اپنے اعمال بد کی وجہ سے ) ہمیشہ خدا کے قہر میں گرفتار ملے گا تو اس سے امانتداری سلب ہو جاتی ہے تو وہ تمہیں ہمیشہ چوری (بد دیانتی) اور خیانت میں مبتلا نظر آئے گا اور جب وہ چوری اور خیانت میں مبتلا ہوا تو اس کے دل سے رحم ختم کر دیا جاتا ہے اور جب وہ رحم سے محروم ہو گیا تو تمہیں وہ ہمیشہ ملعون اور مردود نظر آئے گا اور جب تم اسے ہمیشہ ملعون و مردود دیکھو تو اس کی گردن سے اسلام کی رسی نکل گئی۔
قیامت کی نشانیاں
علی بن محمد، وکیع، سفیان، فرات قزاز، عامر بن واثلہ ابی طفیل کنانی، حضرت حذیفہ بن اسید ابو سریحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ (ایک مرتبہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بالاخانہ سے ہماری طرف متوجہ ہوئے ہم آپس میں قیامت کا تذکرہ کر رہے تھے فرمایا قیامت قائم نہ ہو گی یہاں تک کہ دس نشانیاں ظاہر ہوں۔ سورج کا مغرب سے طلوع ہونا، دجال، دھواں ، دابۃ الارض کا نکلنا، خروج یاجوج ماجوج، خروج عیسیٰ بن مریم علیہ السلام اور تین (نشانیاں ) زمین کا (مختلف جہت میں ) دھنسنا ایک مشرق میں اور ایک مغرب میں اور ایک جزیرہ عرب میں۔ دسویں نشانی آگ ہے جو عدن کے نشیب ابین سے نکلے گی اور لوگوں کو ہانک کر ارض محشر کی طرف لے جائے گی دن اور رات میں جب لوگ آرام کی خاطر ٹھہریں گے تو آگ بھی ٹھہر جائے گی۔
٭٭ حرملہ بن یحییٰ ، عبد اللہ بن وہب، عمرو بن حارث، ابن لہیعہ، یزید بن ابی حبیب، سنان بن سعد، حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا چھ باتوں سے پہلے پہلے نیک عمل کر لو سورج کا مغرب سے طلوع ہونا اور دھواں اور دابۃ الارض اور دجال ہر ایک کی خاص آفت (موت) اور عام آفت (طاعون وباء وغیرہ)۔
٭٭ حسن بن علی خلال، عون بن عمارہ، عبد اللہ بن مثنی، ثمانہ بن عبد اللہ بن انس، انس بن مالک، حضرت ابو قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا قیامت کی نشانیاں دو سو سال کے بعد ہی ظاہر ہوں گی (جب بھی ہوں دو صدی سے قبل کوئی بڑی نشانی ظاہر نہ ہو گی)۔
٭٭ نصر بن علی جہضمی، نوع بن قیس، عبد اللہ بن مغفل، یزید رقاشی، حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میری امت کے پانچ طبقات ہوں گے چالیس سال تک نیکی اور تقویٰ والے لوگ ہوں گے ان کے بعد ایک سو بیس سال تک ایک دوسرے پر رحم کرنے والے اور باہمی تعلقات اور رشتہ داریوں کو استوار رکھنے والے لوگ ہوں گے پھر ان کے بعد ایک سو ساٹھ برس تک ایسے لوگ ہوں گے جو ایک دوسرے سے دشمنی رکھیں گے اور تعلقات توڑیں گے اس کے بعد قتل ہی قتل ہو گا۔ نجات مانگو نجات۔ دوسری روایت میں ہے فرمایا میری امت کے پانچ طبقات ہوں گے ہر طبقہ چالیس برس کا ہو گا میرا طبقہ اور میرے صحابہ کا طبقہ تو اہل علم اور اہل ایمان کا طبقہ ہے اور دوسرا طبقہ چالیس سے اور اسی کے درمیان نیکی اور تقویٰ والوں کاہے اس کے بعد پہلے کی طرح روایت ہے۔
زمین کا دھنسنا
نصر بن علی جہضمی، ابو احمد، بشیر بن سلیمان، سیار، طارق، حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا قیامت کے قریب صورتیں بگڑیں گی اور زمین دھنسے گی اور پتھروں کی بارش ہو گی۔
٭٭ ابو مصعب، عبد اللہ بن زید بن اسلم، ابو حازم بن دینار، حضرت سہل بن سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے سنا میری امت کے آخر میں زمین دھنسے گی صورتیں بگڑیں گی اور سنگباری ہو گی۔
٭٭ محمد بن بشار، محمد بن مثنی، ابو عاصم، حیوۃ بن شریح، ابو صخر، حضرت نافع سے روایت ہے کہ ایک مرد حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا عرض کرنے لگا کہ فلاں نے آپ کو سلام کہا ہے۔ فرمایا مجھے معلوم ہوا ہے کہ اس نے دین میں نئی بات ایجاد کی ہے اگر واقعی اس نے بدعت ایجاد کی ہے تو اسے میری طرف سے سلام مت کہنا کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے سنا کہ میری امت (یا اس امت) میں صورتیں بگڑیں گی اور زمین میں دھنسایا جائے گا اور سنگباری ہو گی اور یہ سب کچھ منکرین تقدیر کے ساتھ ہو گا۔
٭٭ ابو کریب، ابو معاویہ، محمد بن فضیل، حسن بن عمرو، ابو زبیر، حضرت عبد اللہ بن عمر فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میری امت میں زمین میں دھنسنا صورتیں بگڑنا سنگباری (یہ سب طرح کے عذاب) ہوں گے۔
بیداء کا لشکر
ہشام بن عمار، سفیان بن عیینہ، امیہ، صفوان بن عبد اللہ بن صفوان، حضرت عبد اللہ بن صفوان فرماتے ہیں کہ ام المومنین سیدہ حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مجھے بتایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ فرماتے سنا ایک لشکر اس گھر (کو گرانے ) کا ارادہ کرے گا اہل مکہ اس سے لڑیں گے جب وہ لشکر مقام بیداء (یا وسیع میدان) میں پہنچے گا تو ان کے درمیان کے لوگ دھنس جائیں گے اور شروع والے آخر والوں کو پکاریں گے۔ الغرض وہ سب دھنس جائیں گے ان میں کوئی بھی نہ بچے گا سوائے ایک قاصد کے جو ان کا حال بتائے گا۔ جب حجاج کا لشکر آیا تو ہمیں خیال ہوا کہ شاید یہی وہ لشکر ہے ایک مرد نے کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ نے حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق جھوٹ نہیں بولا اور یہ کہ حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے متعلق جھوٹ نہیں بولا۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، فضل بن دکین، سفیان، سلمہ بن کہیل، ابی ادریس مرہبی، مسلم بن صفوان، حضرت صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا لوگ اس گھر کی خاطر لڑائی اور جنگ سے باز نہ آئیں گے حتی کہ ایک لشکر لڑائی کرے گا (لڑائی کے ارادہ سے چلے گا) جب وہ مقام بیداء یا وسیع میدان میں پہنچے گا تو ان کے اول وآخر سب دھنسا دیئے جائیں گے اور درمیان والے بھی نہ بچ سکیں گے۔ میں نے عرض کیا اگر اس لشکر میں کوئی مجبور اً اور زبردستی سے شریک ہوا؟ فرمایا اللہ تعالی (قیامت میں ) ان سب کو ان کی نیت کے مطابق اٹھائیں گے۔
٭٭ محمد بن صباح، نصر بن علی، ہارون بن عبد اللہ، سفیان بن عیینہ، محمد بن سوقہ، نافع بن جبیر، حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس لشکر کا تذکرہ فرمایا جسے دھنسایا جائے گا تو میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ہو سکتا ہے ان میں کوئی ایسا ہو جسے زبر دستی لایا جائے۔ فرمایا (قیامت کے روز) انہیں ان کی نیتوں کے مطابق اٹھایا جائے گا ( اور معاملہ کیا جائے گا)۔
دابۃ الارض کا بیان
ابو بکر بن ابی شیبہ، یونس بن محمد، حماد بن سلمہ، علی بن زید، اوس بن خالد، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ ایک جانور نمودار ہو گا اس کے پاس حضرت سلیمان بن داؤد علیہما السلام کی انگشتری اور حضرت موسیٰ بن عمران علیہما السلام کا عصا ہو گا وہ عصا سے مومن کے چہرہ کو روشن کرے گا اور انگشتری سے کافر کی ناک پر نشان لگائے گا حتیٰ کہ ایک جگہ کے لوگ جمع ہوں گے تو ایک کہے گا اے مومن اور دوسرا کہے گا اے کافر (یعنی ایک دوسرے کو نشان سے پہچان لیں گے )۔
٭٭ ابو غسان ، محمد بن عمرو، زنیج، ابو تمیلہ، خالد بن عبید، عبد اللہ بن حضرت بریدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مجھے مکہ کے قریب ایک جنگل میں لے گئے وہاں خشک زمین تھی اس کے ارد گرد ریت تھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا دابۃ (جانور) اس جگہ سے برآمد ہو گا وہ جگہ تقریباً ایک بالشت تھی حضرت ابن بریدہ فرماتے ہیں اس کے کئی سال بعد میں نے حج کیا تو والد صاحب نے دابۃ الارض کے عصا کے بارے میں بتایا (کہ ایسا ہو گا) میرے اس عصاء کے برابر (لمبا اور موٹا)۔
آفتاب کا مغرب سے طلوع ہونا
ابو بکر بن ابی شیبہ، محمد بن فضیل، عمار بن قعقاع، ابی زرعہ، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے سنا قیامت قائم نہ ہو گی یہاں تک کہ آفتاب مغرب سے طلوع ہو اور جب آفتاب (مغرب سے ) طلوع ہو گا اور لوگ اسے دیکھ لیں گے تو اہل زمین ایمان لے آئیں گے لیکن یہ وقت وہی ہو گا جب ایمان لانا ان لوگوں کیلئے سود مند نہ ہو گا جو اس سے قبل ایمان نہ لائے تھے۔
٭٭ علی بن محمد، وکیع، سفیان، ابی حیان تیمی، ابو زرعہ، ابن عمرو بن جریر، حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا علامات قیامت میں سب سے پہلے ظاہر ہونے والی نشانی آفتاب کا مغرب سے طلوع ہونا اور چاشت کے وقت دابۃ الارض کا لوگوں کے سامنے آنا ہے۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، عبید اللہ بن موسیٰ ، اسرائیل، عاصم ، زر، حضرت صفوان بن عسال رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا مغرب کی طرف ایک دروازہ کھلا ہوا ہے جس کی چوڑائی ستر برس (کی مسافت ہے یہ دروازہ توبہ کیلئے برابر کھلا رہے گا تاآنکہ سورج اس (مغر ب) کی طرف سے طلوع ہو سو جب آفتاب اس جانب سے طلوع ہو جائے تو اس وقت اس نفس کے لئے ایمان لانا سودمند نہ ہو گا جو اس سے قبل ایمان نہ لایا یا (اس گناہگار شخص کیلئے توبہ کرنا سودمند نہ ہو گا جس نے ) ایمان کی حالت میں کوئی نیک عمل (توبہ و رجوع الی اللہ) نہ کیا ہو۔
٭٭ محمد بن عبد اللہ بن نمیر، علی بن محمد، ابو معاویہ، اعمش، شقیق، حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا دجال بائیں آنکھ سے کانا ہو گا اس کے سر پر بہت زیادہ بال ہوں گے اس کے ساتھ ایک جنت اور ایک دوزخ ہو گی لیکن اس کی دوزخ (درحقیقت اور انجام کے لحاظ سے ) جنت اور اس کی جنت دوزخ ہو گی۔
ترک کا بیان
ابو بکر بن ابی شیبہ، سفیان بن عیینہ، زہری، سعید بن مسیب، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا قیامت قائم نہیں ہو گی یہاں تک کہ تم لڑو ایسے لوگوں سے جن کے جوتے بالوں کے ہوں گے (یا ان کے بال اتنے لمبے ہوں گے کہ جوتوں تک لٹکتے ہوں گے ) اور قیامت نہیں قائم ہو گی یہاں تک کہ تم لوگ ایسے لوگوں سے جن کی آنکھیں چھوٹی ہوں گی (یعنی ترک سے جیسے بریدہ نے روایت میں تصریح کی ہے۔ اس کو نکالا ابو داؤد نے )۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، سفیان بن عیینہ، ابی زناد، اعرج، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا قیامت قائم نہ ہو گی یہاں تک کہ تم لڑو گے ایسے لوگوں سے جن کی آنکھیں چھوٹی ہوں گی اور ناکیں موٹی ہوں گی (اٹھی ہوئی) ان کے منہ سرخ ہوں گے یعنی ترک لوگوں سے (ان کے منہ ایسے ہوں گے جیسے سپریں تہ بر تہ (یعنی موٹے اور پر گوشت رخسار) اور قیامت نہیں قائم ہو گی یہاں تک تم ایسے لوگوں سے لڑو گے جن کی جوتیاں بالوں کی ہوں گی۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، اسود بن عامر، جریر بن حازم، حسن، عمر بن تغلب سے روایت ہے میں نے سنا آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے تھے قیامت کی نشانیوں میں سے ہے یہ کہ تم ایسے لوگوں سے لڑو گے جن کے منہ چوڑے ہیں گویا ان کے منہ سپریں ہیں تہ برتہ اور قیامت کی نشانیوں میں سے ہے یہ کہ تم ایسے لوگوں سے لڑو گے جن کے جوتے بالوں کے ہوں گے۔
٭٭ حسن بن عرفہ، عمار بن محمد، اعمش، ابو صالح، حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا قیامت قائم نہ ہو گی یہاں تک کہ تم ایسے لوگوں سے لڑو گے جن کی آنکھیں چھوٹی ہوں گی منہ چوڑے ہوں گے ان کی آنکھیں گویا ٹڈی کی آنکھیں ہوں گی اور منہ ان کے گویا سپریں (ڈھالیں ) ہیں تہ بر تہ اور بال کے جوتے پہنیں گے اور سپریں (ڈھالیں ) ان کے پاس ہوں گے اور اپنے گھوڑے کھجور کے درخت سے باندھیں گے۔
دنیا سے بے رغبتی کا بیان
ہشام بن عمار، عمرو بن واقد قرشی، یونس بن میسرہ بن حلبس، ابو ادریس خولانی، حضرت ابو ذرغفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا دنیا کا زہد یہ نہیں کہ آدمی حلال چیز کو اپنے اوپر حرام کر لے اور نہ یہ ہے کہ اپنا مال تباہ کر دے لیکن زہد اور درویشی یہ ہے کہ آدمی کو اس مال پر جو اس کے ہاتھ میں ہے اس سے زیادہ بھروسہ نہ ہو جتنا اس مال پر ہے جو اللہ کے ہاتھ میں ہے اور دنیا میں جب کوئی مصیبت آئے تو اس سے زیادہ خوش ہو بنسبت اس کے کہ مصیبت نہ آئے دنیا میں اور آخرت کے لئے اٹھا رکھی جائے۔ ہشام نے کہا ابو ادریس خولانی نے کہا یہ حدیث اور حدیثوں میں ایسی ہے جیسے کندن سونے میں۔
٭٭ ہشام بن عمار، حکم بن ہشام، یحییٰ بن سعید، ابو فروۃ صحابئی رسول حضرت ابو خلاء رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب تم دیکھو کہ کسی آدمی کو کہ دنیا میں اس کو رغبت نہیں ہے اور وہ شخص کم گو بھی ہے تو اس کی صحبت میں رہو حکمت اس کے دل پر ڈالی جائے گی۔
٭٭ ابو عبیدہ بن ابی سفر، شہاب بن عباد، خالد بن عمرو قرشی، سفیان ثوری، ابی حازم، سہل بن سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس ایک شخص آیا اور کہنے لگا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مجھ کو کوئی ایسا کام بتلائیے جب میں اس کو کروں تو اللہ تعالی بھی مجھ کو دوست رکھے اور لوگ بھی دوست رکھیں۔ آپ نے فرمایا دنیا سے نفرت کر اللہ تعالی تجھ کو دوست رکھے گا اور جو کچھ لوگوں کے پاس ہے اس سے نفرت کر۔ کسی سے دنیا کی خواہش مت کر لوگ تجھ کو دوست رکھیں گے۔
٭٭ محمد بن صباح، جریر، منصور، ابی وائل، سمرہ بن سہم سے روایت ہے میں ابو ہاشم بن عتبہ کے پاس گیا ان کو برچھا لگا تھا۔ معاویہ رضی اللہ عنہ ان کی عیادت کو آئے ابو ہاشم رونے لگے معاویہ نے کہا ماموں جان کیوں روتے ہو درد کی شدت سے یا دنیا کا رنج ہے اگر دنیا کا رنج ہے تو اس کا کیا رنج ہے؟ ابو ہاشم نے کہا میں ان دونوں میں سے کسی کیلئے نہیں روتا لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھ کو ایک نصیحت کی تھی مجھے آرزو رہ گئی کاش میں اس کی پیروی کرتا آپ نے مجھ سے فرمایا تھا شاید تو ایسا زمانہ پائے جب لوگ مالوں کو تقسیم کریں گے تو تجھ کو کافی ہے دنیا کے مالوں میں سے ایک خادم اور ایک جانور سواری کیلئے جہاد میں لیکن میں نے دنیا کے مال کو پایا اور جمع کیا۔
٭٭ حسن بن ابی ربیع، عبد الرزاق، جعفر بن سلیمان، ثابت، حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیمار ہوئے تو سعید بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان کی عیادت کو گئے دیکھا تو وہ رو رہے ہیں۔ سعد نے کہا تم کیوں روتے ہو بھائی کیا تم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی صحبت نہیں اٹھائی کیا یہ بات تم میں نہیں ہے؟ سلمان نے کہا میں ان دو باتوں میں سے ایک بات کی وجہ سے بھی نہیں روتا نہ تو دنیا کی حرص کی وجہ سے بخیلی کی راہ سے اور نہ اسوجہ سے کہ میں آخرت کو برا جانتا ہوں لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھ کو ایک نصیحت کی تھی اور میں دیکھتا ہوں کہ اپنے تئیں میں نے اس میں فرق کیا۔ سعد نے کہا کیا نصیحت کی تھی؟ سلمان نے کہا آپ نے فرمایا تھا تم میں سے ایک کو دنیا میں اس قدر کافی ہے جتنا سواری کو کافی ہوتا ہے لیکن تو اے سعد جب حکومت کرے تو اللہ سے ڈر کر کرنا اور جب تقسیم کرے تو اللہ سے ڈر کر کرنا اور جب کسی کام کا قصد کرے تو اللہ سے ڈر کر کرنا ثابت نے کہا مجھے خبر پہنچی کہ سلمان نے کہا نہیں چھوڑا مگر بیس پر کئی درہم وہ ان کے خرچ میں سے ان کے پاس باقی رہ گئے تھے۔
دنیا کی فکر کرنا کیسا ہے؟
محمد بن بشار، محمد بن جعفر، شعبہ، عمر بن سلیمان، عبد الرحمن بن ابان بن حضرت ابان بن عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ مروان کے پاس سے ٹھیک دوپہر کے وقت نکلے میں نے کہا اس وقت جو مروان نے زید بن ثابت کو بلا بھیجا تو ضرور کچھ پوچھنے کیلئے بلایا ہو گا میں نے ان سے پوچھا انہوں نے کہا مروان نے ہم سے چند باتیں پوچھیں جن کو ہم نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا تھا میں نے آپ سے سنا آپ فرماتے تھے جس شخص کو بڑی فکر دنیا کی ہی ہو تو اللہ تعالی اس کے کام پریشان کر دے گا اور اس کی مفلسی دونوں آنکھوں کے درمیان کر دے گا اور دنیا اس کو اتنی ہی ملے گی جتنی اس کی تقدیر میں لکھی ہے اور جس کی نیت اصل آخرت کی طرف ہو تو اللہ تعالی اس کے سب کام درست کر دے گا اس کے پھیلاؤ کو اس کی دلجمعی کیلئے اور اس کے دل میں بے پرواہی ڈال دے گا اور دنیا جھک مار کر اس کے پاس آئے گی۔
٭٭ علی بن محمد، حسین بن عبد الرحمن ، عبد اللہ بن نمیر، معاویہ نصری، نہشل، ضحاک، اسود بن یزید سے روایت ہے عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا میں نے سنا تمہارے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے کہ آپ فرماتے تھے جو شخص سب فکروں کو چھوڑ کر ایک فکر لے گا یعنی آخرت کی فکر تو اللہ تعالی اس کی دنیا کی فکریں اپنے ذمہ لے لے گا اور جو شخص طرح طرح کی دنیا کے فکروں میں لگا رہے تو اللہ تعالی پرواہ نہ کرے گا وہ چاہے جس مرضی وادی میں ہلاک ہو۔
٭٭ نصر بن علی جہضمی، عبد اللہ بن داؤد، عمران بن زائدہ، ابی خالد والبی، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے ابو خالد نے کہا میں یہی سمجھتا ہوں کہ ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کو مرفوعاً روایت کیا کہ اللہ فرماتا ہے اے آدم کے بیٹے تو اپنا دل بھر کر فراغت سے میری عبادت کر میں تیرا دل بھر دوں گا تونگری سے اور تیری مفلسی دور کر دوں گا اور اگر تو ایسا نہیں کرے گا تو میں تیرا دل (دنیا کے ) بکھیڑوں سے بھر دوں گا اور تیری مفلسی دور نہیں کروں گا۔
دنیا کی مثال
محمد بن عبد اللہ بن نمیر، محمد بن بشر، اسماعیل بن ابی خالد، قیس بن ابی حازم، مستورد سے روایت ہے جو بنی فہر میں سے تھے وہ کہتے تھے میں نے سنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے آپ فرماتے تھے دنیا کی مثال آخرت کے مقابلہ میں ایسی ہے جیسے تم میں سے کوئی اپنی انگلی سمندر میں ڈالے پھر دیکھے کہ کتنا پانی اس کی انگلی میں لگتا ہے۔
٭٭ یحییٰ بن حکیم، ابو داؤد، مسعودی، عمرو بن مرۃ، ابراہیم، علقمہ، حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک بورئیے پر لیٹے۔ آپ کے بدن میں اس کا نشان پڑ گیا میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میرے ماں باپ آپ پر قربان کاش آپ ہم کو حکم دیتے تو ہم آپ کے واسطے بچھونا کر دیتے اور آپ کو یہ تکلیف نہ ہوتی۔ آپ نے فرمایا میں تو دنیا میں ایسا ہوں جیسے ایک سوار ایک درخت کے تلے سایہ کے لئے اتر پڑے پھر تھوڑی دیر میں وہاں سے چل دے۔
٭٭ ہشام بن عمار، ابراہیم بن منذرحزامی، محمدصباح، ابو یحییٰ زکریا بن منظور، ابو حازم، حضرت سہل بن سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ تھے ذوالحلیفہ میں آپ نے دیکھا تو ایک مردہ بکری پیر اٹھائے ہوئے پڑی تھی۔ آپ نے فرمایا تم کیا سمجھتے ہو یہ اپنے مالک کے نزدیک ذلیل ہے قسم خدا کی جس کے قبضے میں میری جان ہے البتہ دنیا اللہ کے نزدیک اس بکری سے بھی زیادہ ذلیل ہے اس کے مالک کے نزدیک اور اگر دنیا اللہ کے نزدیک ایک مچھر کے بازو کے برابر بھی نہیں رکھتی تو اللہ تعالی اس میں سے ایک قطرہ پانی کا کافر کو پینے نہ دیتا۔
٭٭ یحییٰ بن حبیب بن عربی، حماد بن زید، مجالد بن سعیدہمدانی، قیس بن ابی حازم ہمدانی، مستورد بن شداد سے روایت ہے میں چند سواروں کے ہمراہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ تھا اتنے میں ایک بکری کے (مردہ) بچہ پر گزرے جو راہ میں پھینک دیا گیا آپ نے فرمایا دیکھو تم جانتے ہو کہ یہ حقیر ہے اپنے مالک کے نزدیک؟ لوگوں نے کہا بے شک ! تب ہی اس کو پھینک دیا۔ آپ نے فرمایا قسم اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے البتہ دنیا اللہ تعالی کے نزدیک اس سے بھی زیادہ ذلیل ہے جتنا یہ ذلیل ہے اپنے مالک کے نزدیک۔
٭٭ علی بن میمون رقی، ابو خلید عتبہ بن حماد دمشقی، ابن ثوبان، عطاء بن قرہ، عبد اللہ بن ضمرہ سلولی، ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے میں نے سنا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ارشاد فرماتے تھے دنیاملعون ہے اور جو کچھ دنیا میں ہے وہ بھی ملعون ہے مگر اللہ تعالی کی یاد میں اور جن کو اللہ تعالی پسند کرتا ہے اور عالم اور علم سیکھنے والا۔
٭٭ ابو مروان محمد بن عثمان عثمانی، عبد العزیز بن ابی حازم، علاء بن عبد الرحمن، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا دنیا قید خانہ ہے مسلمان کیلئے اور جنت ہے کافر کے لئے۔
٭٭ یحییٰ بن حبیب بن عربی، حماد بن زید، لیث، مجاہد، ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے میرے جسم میں سے کوئی عضو تھاما اور فرمایا اے عبد اللہ دنیا میں اس طرح رہ جیسے مسافر رہتا ہے یا جیسے راہ چلتا رہتا ہے اور اپنے تئیں قبر والوں میں سے شمار کر۔
جس کو لوگ کم حیثیت جانیں
ہشام بن عمار، سوید بن عبد العزیز، زید بن واقد، بسر بن عبید اللہ ، ابی ادریس خولانی، حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کیا میں تجھ سے بیان نہ کروں جنت کا بادشاہ کون ہے؟ میں نے عرض کیا جی ہاں بیان فرمائیے۔ آپ نے فرمایا جو شخص کمزور ناتواں ہو لوگ اس کو کم قوت سمجھیں اور وہ پرانے کپڑے پہنے ہوئے ہو وہ اگر قسم کھائے اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے بھروسے پر تو اللہ سبحانہ و تعالیٰ اس کو سچا کرے گا۔
٭٭ محمد بن بشار، عبد الرحمن بن مہدی، سفیان، معبد بن خالد، حضرت حارثہ بن وہب سے روایت ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کیا میں تجھ کو نہ بتلاؤں جنت کے لوگ کون ہیں ہر ایک ضعیف ناتواں جس کو لوگ کمزور جانیں کیا میں تم کو نہ بتلاؤں دوزخ کے لوگ ہر ایک سخت مزاج بہت روپیہ جوڑنے والا اور اکڑ والا۔
٭٭ محمد بن یحییٰ، عمرو بن ابی سلمہ، صدقہ بن عبد اللہ، ابراہیم بن مرہ، ایوب بن سلیمان، حضرت ابو امامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا سب سے زیادہ جس پر لوگوں کو رشک کرنا چاہئے میرے نزدیک وہ مومن ہے جو ہلکا پھلکا اور نمار میں اس کو راحت ملتی ہو پوشیدہ ہو لوگوں میں اور لوگ اس کی پرواہ نہ کرتے ہوں اس کا رزق بمشکل زندگی بسر کرنے کے مطابق ہو۔ اس کی موت جلدی واقع ہو جائے اس کا مال وراثت کم ہو اور اس پر رونے والے تھوڑے ہوں۔
٭٭ کثیر بن عبید اللہ حمصی، ایوب بن سوید، اسامہ بن زید، عبد اللہ بن حضرت ابو امامہ حارثی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا بزاذت (سادگی) ایمان میں داخل ہے۔
٭٭ سوید بن سعید، یحییٰ بن سلیم، ابن خیثم، شہر بن حوشب، حضرت اسماء بنت یزید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے آپ فرماتے تھے کیا میں تم میں سے بیان نہ کروں ان لوگوں کا حال جو اللہ کے بہتر بندے ہیں۔ لوگوں نے عرض کیا کیوں نہیں یا رسول اللہ بیان فرمائیے۔ آپ نے فرمایا بہتر تم میں وہ لوگ ہیں کہ انکو جب کوئی دیکھے تو اللہ کی یاد آئے۔
فقیر کی فضیلت
محمد بن صباح، عبد العزیز بن ابی حازم، سہل بن سعد ساعدی، علی سے روایت ہے کہ ایک شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سامنے سے گزرا آپ نے فرمایا تم اس شخص کے بارے میں کیا کہتے ہو؟ انہوں نے عرض کیا آپ کی رائے ہو وہی ہم بھی کہتے ہیں ہم تو سمجھتے ہیں کہ یہ شخص اشراف میں سے ہے۔ اگر یہ کہیں نکاح کا پیام بھیجے تو لوگ اس کو قبول کریں گے اور اگر کسی کی سفارش کرے تو لوگ اس کی سفارش کو مان لیں گے اور اگر کوئی بات کہے تو لوگ اس کو توجہ سے سنیں گے یہ سن کر آپ خاموش رہے پھر ایک دوسرا شخص گزرا آپ نے فرمایا اس کے بارے میں تم کیا کہتے ہو؟ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! بخدا یہ تو مسلمانوں کے فقراء میں سے ہے یہ بیچارہ اگر کہیں نکاح کا پیام بھیجے تو لوگ اس کو قبول نہ کریں گے اور اگر سفارش کرے تو اس کی سفارش نہ سنیں گے اور اگر کوئی بات کہے تو لوگ اس کی بات نہ سنیں گے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا یہ شخص بہتر ہے پہلے شخص سے دنیا بھر کے لوگوں سے۔
٭٭ عبید اللہ بن یوسف جبیری، حماد بن عیسیٰ، موسیٰ بن عبیدہ، قاسم بن مہران، حضرت عمران بن حصین رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا بے شک اللہ تعالی دوست رکھتا ہے محتاج مومن کو جو عیال دار ہو کر سوال سے باز رہتا ہے (اور فقر اور فاقہ پر صبر کرتا ہے اکثر اہل اللہ ایسے ہی لوگ ہوتے ہیں نہ بھیک مانگنے والوں میں عیالداری کے ساتھ کم معاشی اور پھر قناعت اور صبر ہی فضیلت کیا کم ہے۔
فقیروں کا مرتبہ
ابو بکر بن ابی شیبہ، محمد بن بشر، محمد بن عمرو، ابی سلمہ، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا مسلمانوں میں جو فقیر ہیں وہ مال داروں سے آدھا دن پہلے جنت میں جائیں گے اور آدھا دن پانچ سو برس کاہے۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، بکر بن عبد الرحمن، عیسیٰ بن مختار، محمد بن ابی لیلیٰ، عطیہ عوفی، حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا مسلمان فقیر یا مہاجر فقیر مال داروں سے پانچ سو برس پہلے جنت میں جائیں گے۔
٭٭ اسحاق بن منصور، ابو غسان بہلول، موسیٰ بن عبیدہ، عبد اللہ بن دینار، حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے مہاجرین میں جو لوگ فقیر تھے انہوں نے شکایت کی آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے کہ اللہ تعالی نے مالدار مہاجرین کو ان کے اوپر فضیلت دی ہے آپ نے فرمایا اے فقراء کے گروہ! میں تم کو خوش خبری دیتا ہوں کہ فقراء مومنین مال داروں سے آدھا دن یعنی پانچ سو برس پہلے جنت میں جائیں گے۔ موسیٰ بن عبیدہ نے پھر یہ آیت پڑھی ( وَاِنَّ یَوْمًا عِنْدَ رَبِّکَ کَاَلْفِ سَنَۃٍ مِّمَّا تَعُدُّوْنَ) 22۔ الحج:47)۔
فقیروں کے ساتھ بیٹھنے کی فضیلت
عبد اللہ بن سعید کندی، اسماعیل بن ابراہیم تیمی، ابو یحییٰ، ابراہیم ابو اسحاق مخزومی، مقبری، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے حضرت جعفر بن ابی طالب فقیروں سے محبت کرتے تھے ان کے پاس بیٹھا کرتے ان سے باتیں کرتے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جعفر کی یہ کنیت رکھی تھی ابو المساکین یعنی مسکینوں کے باپ۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، عبد اللہ بن سعید، ابو خالد احمر، یزید بن سنان، ابی مبارک، عطاء، حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا مسکینوں سے محبت رکھو اس لئے کہ میں نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنی دعا میں فرماتے تھے یا اللہ ! مجھ کو چلا مسکین اور میرا حشر کر مسکینوں میں۔
٭٭ احمد بن محمد بن یحییٰ بن سعید قطان، عمرو بن محمد عنقزی، اسباط بن نصر، سعد، ابی سعد ازدی، ابو کنود، خباب سے روایت ہے اس آیت کی تفسیر میں (وَلَا تَطْرُدِ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ رَبَّہُمْ بِالْغَدٰوۃِ وَالْعَشِیِّ یُرِیْدُوْنَ وَجْہَہٗ ۭ مَا عَلَیْکَ مِنْ حِسَابِہِمْ مِّنْ شَیْءٍ وَّمَا مِنْ حِسَابِکَ عَلَیْہِمْ مِّنْ شَیْءٍ فَتَطْرُدَہُمْ فَتَکُوْنَ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ) 6۔ الانعام:52) یعنی مت نکال ان لوگوں کو جو صبح شام اللہ کی یاد کرتے ہیں اپنے پاس سے انہوں نے کہا کہ اقرع بن حابس تمیمی اور عیینہ بن حصن فزاری آئے دیکھا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم صہیب اور بلال اور عمار اور خباب کے پاس بیٹھے ہیں اور چند غریب مومنین کے ساتھ۔ جب اقرع اور عیینہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے گرد ان لوگوں کو دیکھا تو ان کو حقیر جانا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس آ کر آپ سے خلوت کی اور عرض کیا ہم یہ چاہتے ہیں کہ آپ ہمارے لئے ایک مقام اور وقت آنے کے مقرر کر دیجئے جس کی وجہ سے عرب لوگوں کو ہماری بزرگی معلوم ہو کیونکہ آپ کے پاس عرب کی قوموں کے قاصد آتے ہیں اور ہم کو شرم معلوم ہوتی ہے کہ وہ دیکھیں ہم کو ان غلاموں کے ساتھ بیٹھا ہوا۔ تو جب ہم آپ کے پاس آئیں آپ ان کو اپنے پاس سے اٹھا دیا کیجئیے پھر جب ہم فارغ ہو کر چلے جائیں تو آپ کا اگر جی چاہے ان کے ساتھ بیٹھئے۔ آپ نے فرمایا ہاں یہ ہو سکتا ہے انہوں نے کہا آپ ایک تحریر اس مضمون کی لکھ دیجئیے آپ نے کاغذ منگوایا اور جناب علی مرتضی کو لکھنے کے لئے بلایا۔ خباب کہتے ہیں کہ ہم لوگ ایک کونے میں (خاموش) بیٹھے تھے کہ جو مرضی اللہ اور اس کے رسول کی۔ اتنے میں حضرت جبرائیل علیہ السلام اترے اور یہ آیت لائے (وَلَا تَطْرُدِ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ رَبَّہُمْ بِالْغَدٰوۃِ وَالْعَشِیِّ یُرِیْدُوْنَ وَجْہَہٗ ۭ مَا عَلَیْکَ مِنْ حِسَابِہِمْ مِّنْ شَیْءٍ وَّمَا مِنْ حِسَابِکَ عَلَیْہِمْ مِّنْ شَیْءٍ فَتَطْرُدَہُمْ فَتَکُوْنَ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ) 6۔ الانعام:52) یعنی مت ہانک اپنے پاس سے ان لوگوں کو جو اللہ کی یاد کرتے ہیں صبح اور شام وہ اللہ کی رضا مندی کے طالب ہیں تیرے اوپر ان کا حساب کچھ نہ ہو گا اور تیرا ان پر کچھ نہ ہو گا اگر تو ان کو ہانک دے تو تو ظالموں میں سے ہو جائے گا۔ پھر اللہ تعالی نے اقرع بن حابس اور عیینہ کا ذکر کیا تو فرمایا (وَکَذٰلِکَ فَتَنَّا بَعْضَہُمْ بِبَعْضٍ لِّیَقُوْلُوْٓا اَہٰٓؤُلَاۗءِ مَنَّ اللّٰہُ عَلَیْہِمْ مِّنْۢ بَیْنِنَا ۭ اَلَیْسَ اللّٰہُ بِاَعْلَمَ بِالشّٰکِرِیْنَ 53 وَاِذَا جَاۗءَکَ الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِاٰیٰتِنَا فَقُلْ سَلٰمٌ عَلَیْکُمْ کَتَبَ رَبُّکُمْ عَلٰی نَفْسِہِ الرَّحْمَۃَ) 6۔ الانعام:53) خباب نے کہا یہ جب آیتیں اتریں تو ہم پھر آپ سے نزدیک ہو گئے یہاں تک کہ ہم نے اپنا گھٹنا آپ کے گھٹنے پر رکھ دیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا یہ حال ہو گیا کہ آپ ہمارے ساتھ بیٹھتے تھے اور جب اٹھنے کا آپ قصد کرتے تو آپ کھڑے ہو جاتے اور ہم کو چھوڑ دیتے تو یہ آیت اتاری (وَاصْبِرْ نَفْسَکَ مَعَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ رَبَّہُمْ بِالْغَدٰوۃِ وَالْعَشِیِّ یُرِیْدُوْنَ وَجْہَہٗ وَلَا تَعْدُ عَیْنٰکَ عَنْہُمْ) 18۔ الکہف:28) یعنی روکے رکھ اپنے آپ کو ان لوگوں کے ساتھ جو اپنے مالک کی یاد کرتے ہیں صبح اور شام اور (وَلَا تُطِعْ مَنْ اَغْفَلْنَا قَلْبَہٗ عَنْ ذِکْرِنَا) 18۔ الکہف:28) یعنی مت کہا مان ان لوگوں کا جن کے دل ہم نے غافل کر دئیے اپنی یاد سے۔ خباب نے کہا پھر تو یہ حال ہو گیا کہ ہم برابر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ بیٹھے رہتے جب آپ کے اٹھنے کا وقت آتا تو ہم خود اٹھ جاتے اور آپ کو چھوڑ دیتے اٹھنے کے لئے۔
٭٭ یحییٰ بن حکیم، ابو داؤد، قیس بن ربیع، مقدام بن شریح، حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے یہ آیت ہم چھ آدمیوں کے بارے میں اتری میں ، ابن مسعود، صہیب، عمار، مقداد اور بلال میں قریش کے لوگوں کے ساتھ بیٹھنا نہیں چاہتے انکو آپ اپنے پاس سے ہٹا (دھتکار) دیجئے اس بات کو سن کر آپ کے دل میں آیا جو اللہ کو آنامنظور تھا پھر اللہ تعالی نے یہ آیت اتاری (وَلَا تَطْرُدْ الَّذِینَ یَدْعُونَ رَبَّہُمْ بِالْغَدَاۃِ وَالْعَشِیِّ یُرِیدُونَ وَجْہَہُ) 6۔ الانعام:52) اس کا ترجمہ اوپر گزر چکا۔
جو بہت مالدار ہیں ان کا بیان
ابو بکر بن ابی شیبہ، ابو کریب، بکر بن عبد الرحمن عیسیٰ بن مختار، محمد بن ابی لیلیٰ، عطیہ عوفی، حضرت ابو سعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا خرابی ہے بہت مال والوں کی (کیونکہ اکثر ایسے مال دار خدا سے غافل ہو جاتے ہیں مگر جو کوئی مال کو اس کی طرف لٹا دے اور اس طرف اور اس طرف اور اس طرف آپ نے چاروں طرف اشارہ کیا دائیں اور بائیں اور آگے اور پیچھے۔
٭٭ عباس بن عبد العظیم عنبری، نضر بن محمد، عکرمہ بن عمار، ابو زمیل، سماک، مالک بن مرث ہننی، حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو لوگ بہت مالدار ہیں انہی کا درجہ قیامت کے دن سب سے پست ہو گا مگر جو کوئی مال اس طرف اور اس طرف لٹائے اور حلال طریقے سے کمائے۔
٭٭ یحییٰ بن حکم، یحییٰ بن سعید قطان، محمد بن عجلان، حضرت ابو ہریرہ سے بھی ایسے ہی روایت ہے۔
٭٭ یعقوب بن حمید بن کاسب، عبد العزیز بن محمد، ابو سہیل بن مالک، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میں تو یہ نہیں چاہتا کہ احد پہاڑ کے برابر میرے پاس سونا ہو اور تیسرا دن گزرنے کے بعد اس میں سے کچھ سونا میرے پاس باقی رہے البتہ جو میں قرض کے ادا کرنے کیلئے رکھ چھوڑوں اس کے علاوہ۔
٭٭ ہشام بن عمار، صدقہ بن خالد، یزید بن ابی مریم، ابی عبید اللہ مسلم بن مشکم، حضرت عمرو بن غیلان ثقفی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اللَّہُمَّ مَنْ آمَنَ بِی وَصَدَّقَنِی وَعَلِمَ أَنَّ مَا جِئْتُ بِہِ ہُوَ الْحَقُّ مِنْ عِنْدِکَ فَأَقْلِلْ مَالَہُ وَوَلَدَہُ وَحَبِّبْ إِلَیْہِ لِقَائَکَ وَعَجِّلْ لَہُ الْقَضَائَ وَمَنْ لَمْ یُؤْمِنْ بِی وَلَمْ یُصَدِّقْنِی وَلَمْ یَعْلَمْ أَنَّ مَا جِئْتُ بِہِ ہُوَ الْحَقُّ مِنْ عِنْدِکَ فَأَکْثِرْ مَالَہُ وَوَلَدَہُ وَأَطِلْ عُمُرَہُ اے اللہ ! جو کوئی میرے اوپر ایمان لائے اور میری تصدیق کرے اور جو میں لایا (یعنی قرآن) اس کو حق جانے تیرے پاس سے تو اس کے مال اور اولاد کو کم کرے اور اپنی ملاقات اس کو پسند کر دے (یعنی موت) اور اس کی قضا (موت) جلدی کر اور جو کوئی میرے اوپر ایمان لائے اور میری تصدیق نہ کرے اور یہ نہ جانے کہ میں جو لے کر آیا ہوں وہ حق ہے تیرے پاس سے تو اس کا مال بہت کر اور اس کی اولاد بہت کر اور اس کی عمر لمبی کر۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، عفان، غسان بن برزین، عبد اللہ بن معاویہ جمحی، غسان بن برزین، سیار بن سلامہ، براء سیطی، نقادہ اسدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھ کو ایک شخص کے پاس ایک اونٹنی مانگنے کے لئے بھیجا لیکن اس شخص نے نہ دی پھر آپ نے مجھ کو ایک دوسرے شخص کے پاس بھیجا اس نے ایک اونٹنی بھیجی جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کو دیکھا تو فرمایا یا اللہ برکت دے اس میں اور برکت دے اس کو جس نے یہ بھیجی۔ نقادہ نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دعا کیجئے اللہ تعالی برکت دے اس کو بھی جو اس کو لے کر آیا ہے آپ نے کہا اس کو بھی برکت دے جو اس کو لے کر آیا ہے پھر آپ نے حکم دیا دودھ دوہنے کا دودھ دوہا گیا۔ آنحضرت نے فرمایا اللہ فلاں شخص کا مال بہت کر دے (جس نے اونٹنی نہیں بھیجی تھی) اور فلاں شخص کو روزانہ رزق دے۔
٭٭ حسن بن حماد، ابو بکر بن عیاش، ابی حصین، ابو صالح، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہلاک ہوا بندہ دینار کا اور بندہ درہم کا اور بندہ چادر کا اور بندہ شال کا اگر اس کو یہ چیزیں دی جائیں تب وہ راضی ہے اور جو نہ دی جائیں تو وہ کبھی اپنے امام کی بیعت پوری نہ کرے۔
٭٭ یعقوب بن حمید، اسحاق بن سعید، صفوان ، عبد اللہ بن دینار، ابی صالح، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تباہ ہوا بندہ دینار (اشرفی) اور بندہ درہم (روپیہ) کا اور بندہ شال کا ہلاک ہوا اور دوزخ میں اوندھا گرا خدا کرے جب اس کو کانٹا لگے تو کبھی نہ نکلے (یہ بد دعا ہے لالچی شخص کیلئے۔ )۔
قناعت کا بیان
ابو بکر بن ابی شیبہ، سفیان بن عیینہ، ابو زناد، اعرج، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تونگری بہت اسباب رکھنے سے نہیں ہوتی بلکہ تونگری یہ ہے کہ دل بے پرواہ ہو (اور جو اللہ دے اس پر قناعت کرے )۔
٭٭ محمد بن رمح، عبد اللہ بن لہیعہ، عبید اللہ بن ابی جعفر، حمید بن ہانی، خولانی، ابو عبد الرحمن جبلی، حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا بے شک نجات پائی اس نے جس کو اسلام کی ہدایت ہوئی اور ضرورت کے موافق روزی دی گئی اور اس پر قناعت کی۔
٭٭ محمد بن عبد اللہ بن نمیر، علی بن محمد، وکیع، اعمش، عمارہ بن قعقاع، ابی زرعہ، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا یا اللہ! محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی آل کو ضرورت کے موافق روزی دے یا بقدر ضرورت۔
٭٭ محمد بن عبد اللہ بن نمیر، یعلی بن اسماعیل بن ابی خالد، نفیع، حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کوئی مالدار یا محتاج ایسا نہیں ہے جو قیامت میں یہ آرزو نہ کرے کہ اللہ تعالی اس کو دنیا میں حاجت کے موافق رزق دیتا بہت مالدار نہ کرتا کیونکہ فقراء کے مراتب عالیہ کو دیکھیں گے۔
٭٭ سوید بن سعید، مجاہد بن موسی، مروان بن معاویہ، عبد الرحمن بن ابو سلمہ، سلمہ بن عبید اللہ بن ابی شمیلہ، سلمہ بن عبید اللہ، حضرت عبید اللہ بن محصن سے روایت ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو شخص تم میں سے امن کے ساتھ صبح کرے اور اس کے پاس اس دن کا کھانا بھی ہو تو گویا ساری دنیا اس کیلئے اکٹھی ہو گئی۔
٭٭ ابو بکر، وکیع، ابو معاویہ، اعمش، ابو صالح، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا دنیا میں اپنے سے کم والے کو دیکھو اور اپنے سے زیادہ والے کو مت دیکھو۔ ایسا کرنے سے امید ہے کہ تم اللہ تعالی کی (کسی) نعمت کو حقیر نہ جانو گے۔
٭٭ احمد بن سنان، کثیر بن ہشام ، جعفر بن برقان، یزید بن اصم، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا بیشک اللہ تعالی تمہاری صورتوں اور مالوں کو نہیں دیکھے گا بلکہ تمہارے عملوں اور دلوں کو دیکھے گا۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی آل کی زندگی کے متعلق بیان
ابو بکر بن ابی شیبہ، عبد اللہ بن نمیر، ابو اسامہ، ہشام بن عروہ، ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ ہم آل محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) ایک ایک مہینہ اس طرح سے گزارتے کہ گھر میں آگ نہ سلگائی جاتی اور ہمارا کھانا (فقط) یہی ہوتا کھجور اور پانی۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، یزید بن ہارون، محمد بن عمرو، ابی سلمہ، ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ آل محمد پر ایک مہینہ گزر جاتا اور کسی گھر سے آپ کے گھروں میں سے دھواں نہ نکلتا۔ ابو سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا پھر کیا کھاتے تھے؟ انہوں نے کہا کھجور اور پانی۔ البتہ ہمارے ہمسائے تھے ان کے گھروں میں بکریاں پلی ہوئیں تھیں تو وہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس دودھ بھیج دیا کرتے۔
٭٭ نصر بن علی، بشر بن عمر، شعبہ، سماک، حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دیکھا آپ بھوک سے کروٹیں بدلتے پیٹ کو الٹتے اور (کبھی تو) ناکارہ کھجور بھی آپ کو نہ ملتی کہ اسی سے پیٹ بھر لیں۔
٭٭ احمد بن منیع، حسن بن موسیٰ شیبان، قتادہ، حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا آپ کئی بار فرماتے تھے قسم ہے اس کی جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے آل محمد کے پاس صبح کو ایک صاع غلہ کا یا کھجور کا نہیں ہے۔ حالانکہ ان دنوں میں آپ کی نو ازواج تھیں۔
٭٭ محمد بن عبد اللہ مغیرہ، عبد الرحمن بن عبد اللہ مسعودی، علی بن بدیمہ، ابی عبیدہ، حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ارشاد فرمایا آل محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے پاس صبح کے وقت نہیں ہے ماسوا ایک مد اناج کے۔
٭٭ نصر بن علی ، شعبہ، عبد الا کرم، حضرت سلیمان بن صرد رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہمارے پاس آئے پھر ہم تین دن تک ٹھہرے رہے اور ہم کو اناج نہ ملا کہ آپ کو کھلاتے۔
٭٭ سوید بن سعید، علی بن مسہر، اعمش، ابی صالح، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس گرم کھانا (تازہ پکا ہوا) آیا آپ نے اس کو کھایا جب فارغ ہوئے تو فرمایا اللہ کا شکر ہے اتنے دنوں سے میرے پیٹ میں گرم کھانا نہیں گیا بلکہ کھجور وغیرہ پر گزر بسر فرماتے رہے ہیں۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی آل کا نیند کے لئے بستر کیسا تھا؟
عبد اللہ بن سعید، عبد اللہ بن نمیر، ابو خالد، ہشام بن عروہ، ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے آن حضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا بستر چمڑے کا تھا اس کے اندر خرما کی چھال بھری تھی۔
٭٭ واصل بن عبد الاعلی، محمد بن فضیل عطاء بن سائب، جناب علی مرتضی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میرے اور فاطمہ زہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آئے ہم دونوں ایک سفید اونی چادر اوڑھے ہوئے تھے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جناب فاطمہ زہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جہیز میں دی تھی اور ایک تکیہ دیا تھا جس کے اندر اذخر کی گھاس بھری ہوئی اور ایک مشک پانی کیلئے۔
٭٭ محمد بن بشار، عمرو بن یونس، عکرمہ بن عمار، سماک حنفی ابو زمیل، عبد اللہ بن عباس، خلیفہ دوم حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس گیا آپ ایک بورئیے پر بیٹھے ہوئے تھے میں بھی بیٹھ گیا آپ صرف ایک تہہ بند باندھے تھے دوسرا کوئی کپڑا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بدن پر نہ تھا اور بوریہ کا نشان آپ کی کمر پہ پڑا ہوا تھا اور میں نے دیکھا تو ایک مٹھی بھر جو شاید ایک صاع ہوں گے اور ببول کے پتے تھے ایک کونے میں اور مشک جو لٹک رہی تھی یہ دیکھ کر میری آنکھوں سے بے اختیار آنسو نکل آئے۔ آپ نے فرمایا اے خطاب کے بیٹے تو کیوں روتا ہے؟ میں نے عرض کیا اے اللہ کے نبی میں کیوں نہ روؤں۔ یہ بوریا آپ کے مبارک پہلو میں نشان ڈالے اور آپ کا خزانہ کل اس قدر اس میں کوئی چیز میں نہیں دیکھتا سوائے اس کے جو میں دیکھ رہا ہوں اور کسری اور قیصر کو دیکھئے کیسے میووں اور نہروں میں رہتے ہیں حالانکہ آپ اللہ کے نبی اور اس کے برگزیدہ ہیں اس پر آپ کا یہ توشہ خانہ آپ نے فرمایا اے خطاب کے بیٹے کیا تو اس پر راضی نہیں کہ ہم کو آخرت ملے اور ان کو دنیا، میں نے کہا کیوں نہیں۔
٭٭ محمد بن طریف، اسحاق بن ابراہیم بن حبیب، محمد بن فضیل، مجالد، عامر، حارث، حناب علی مرتضی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی صاحبزادی (سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا) میرے پاس روانہ کی گئیں اور اس رات کو ہمارا بچھونا کچھ نہ تھا سوائے بکری کی کھال کے۔
٭٭ محمد بن عبد اللہ بن نمیر، ابو کریب، ابو اسامہ، زائدہ، اعمش، شقیق، ابو مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہم کو صدقہ کا حکم کرتے تو ہم میں سے کوئی جاتا اور مزدوری کرتا یہاں تک کہ ایک مد لاتا اس کو صدقہ دیتا اور آج کے دن اس شخص کے پاس لاکھ روپیہ موجود ہے شقیق نے کہا جیسے ابو مسعود اپنی طرف اشارہ کرتے تھے (یعنی میں ایسا ہی کرتا تھا اور اب میرے پاس ایک لاکھ روپیہ موجود ہیں۔)
آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اصحاب کی زندگی کیسے گزری؟
ابو بکر بن ابی شیبہ، وکیع، ابو نعامہ، خالد بن عمیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے عتبہ بن غزوان نے ہم نے منبر پر خطبہ سنایا تو کہا میں سا تواں آدمی تھا آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ اور ہمارے پاس کچھ کھانا نہ تھا صرف درخت کے پتے کھاتے تھے یہاں تک کہ ہمارے مسوڑھے چھلنی ہو گئے۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، غندر، شعبہ، عباس جریری، ابو عثمان ، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے لوگ بھوکے ہوئے اور وہ سات آدمی تھے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھ کو سات کھجوریں دیں ہر آدمی کیلئے ایک کھجور۔
٭٭ محمد بن یحییٰ بن ابی عمر عدنی، سفیان بن عیینہ، محمد بن عمرو، یحییٰ بن عبد الرحمن بن حاطب، عبد اللہ بن حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے جب یہ آیت اتری (ثُمَّ لَتُسْأَلُنَّ یَوْمَئِذٍ عَنْ النَّعِیمِ) 102۔ التکاثر:8) (یعنی تم اس دن پوچھے جاؤ گے نعمت کے بارے میں ) تو زبیر نے کہا کون سی نعمت ہمارے پاس ہے جس سے پوچھے جائیں گے؟ صرف دو چیزیں ہیں کھجور اور پانی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا نعمت کا زمانہ قریب ہے۔
٭٭ عثمان بن ابی شیبہ، عبدہ بن سلیمان، ہشام بن عروہ، وہب بن کیسان، حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہم کو روانہ کیا تین سو آدمیوں کو (جہاد کیلئے ) اور ہمارا توشہ ہماری گردنوں پر تھا خیر ہمارا توشہ ختم ہو گیا یہاں تک کہ ہر شخص کو ہم سے ہر روز ایک کھجور ملتی لوگوں نے کہا اے ابو عبد اللہ بھلا ایک کھجور سے آدمی کا کیا بنتا ہو گا؟ انہوں نے کہا جب وہ بھی نہ رہی تو اس وقت ہم کو اس کی قدر معلوم ہوئی۔ آخر ہم سمندر کے کنارے آئے وہاں ہم نے دیکھا ایک مچھلی پڑی ہے جس کو دریا نے پھینک دیا ہے ہم اس میں سے اٹھارہ دن تک کھاتے رہے۔
عمارت تعمیر کرنا؟
ابو کریب، ابو معاویہ، اعمش، ابو سفر، حضرت عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہمارے اوپر سے گزرے ہم ایک جھونپڑا بنا رہے تھے۔ آپ نے فرمایا یہ کیا ہے؟ ہم نے عرض کیا ہمارا مکان پرانا ہو گیا ہے ہم اس کو درست کر رہے ہیں آپ نے فرمایا میں تو دیکھتا ہوں موت اس سے جلد آنے والی ہے۔
٭٭ عباس بن عثمان دمشقی، ولید بن مسلم، عیسیٰ بن عبد الاعلی بن ابی فروہ، اسحاق بن ابی طلحہ، حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک گول مکان کے دروازے پر سے گزرے جو ایک انصاری کا تھا آپ نے فرمایا یہ کیا ہے؟ لوگوں نے عرض کیا گول بنگلہ جس کو فلاں شخص نے بنایا ہے۔ آپ نے فرمایا جو مال ایسی چیزوں میں خرچ ہو وہ قیامت کے دن وبال ہو گا اس کے مالک پر یہ خبر اسی انصاری کو پہنچی اس نے اس کو گرا دیا پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ادھر سے گزرے تو اس گول بنگلے کو نہیں دیکھا اس کا حال پوچھا لوگوں نے عرض کیا آپ نے جو فرمایا تھا اس کی خبر جب مکان کے مالک کو پہنچی تو اس نے اس کو گرا دیا۔ آپ نے فرمایا اللہ اس پر رحم کرے اللہ اس پر رحم کرے۔
٭٭ محمد بن یحییٰ ، ابو نعیم، اسحاق بن سعید بن عمرو بن سعید بن عاص، سعید، حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے میں نے اپنے آپ کو دیکھا جب ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس رہتے تھے میں نے ایک کوٹھڑی بنالی جو بارش اور دھوپ سے مجھ کو بچاتی اور اس کے بنانے میں اللہ تعالی کی مخلوق نے میری مد د نہیں کی تھی۔
٭٭ اسماعیل بن موسیٰ ، شریک، ابی اسحاق ، حارثہ بن مضرب سے روایت ہے ہم خباب کی عیادت کو گئے انہوں نے نے کہا میری بیماری لمبی ہو گئی اور اگر میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے یہ نہ سنا ہوتا آپ فرماتے تھے کہ موت کی آرزو مت کرو تو میں موت کی آرزو کرتا اور آپ نے فرمایا بندے کو ہر ایک خرچ کرنے میں ثواب ملتا ہے مگر مٹی میں خرچنے کا یا یوں فرمایا کہ عمارت میں خرچنے کا ثواب نہیں ملتا۔
٭٭ حرملہ بن یحییٰ، عبد اللہ بن وہب، ابن لہیعہ، ابن ہبیرہ، ابی تمیم جیسنانی حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا آپ فرماتے تھے اگر تم جیسا چاہئے ویسا اللہ پر توکل کرو تو تم کو اس طرح سے روزی دے جیسے پرندوں کو دیتا ہے صبح کو وہ بھوکے اٹھتے ہیں اور شام کو پیٹ بھرے ہوئے آتے ہیں۔
توکل اور یقین کا بیان
ابو بکر بن ابی شیبہ، ابو معاویہ، اعمش، سلام ، حبہ اور سواء سے روایت ہے دونوں خالد کے بیٹے تھے کہ ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس گئے آپ کچھ کام کر رہے تھے ہم نے اس کام میں آپ کی مد د کی آپ نے فرمایا تم دونوں روزی کی فکر نہ کرنا جب تک تمہارے سر ہلتے رہیں (زندہ رہو) اس لئے کہ ماں بچے کو سرخ جنتی ہے اس پر کھال نہیں ہوتی پھر اللہ تعالی اس کو روزی دیتا ہے۔
٭٭ اسحاق بن منصور، ابو شعیب صالح بن زریق عطار، سعید بن عبد الرحمن جمحی، موسیٰ بن علی بن رباح، حضرت عمر بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا آدم کے دل میں بہت سی راہیں ہیں پھر جو شخص اپنے دل کو سب راہوں میں لگا دے تو اللہ تعالی پرواہ نہ کرے گا اس کو کسی راہ میں ہلاک کر دے اور جو شخص اللہ تعالی پر بھروسہ کرے تو سب راہوں کی فکر اس کو جاتی رہے گی۔
٭٭ محمد بن طریف، ابو معاویہ، اعمش، ابی سفیان، حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے میں نے سنا آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے آپ فرماتے تھے تم میں سے کوئی نہ مرے مگر اس حال میں کہ وہ اللہ تعالی سے نیک گمان رکھتا ہو۔
٭٭ محمد بن صباح، سفیان بن عیینہ، ابن عجلان، اعرج، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا قوی مسلمان اللہ تعالی کو زیادہ پسند ہے ناتواں مسلمان سے ہر بھلائی میں تو حرص کر پھر اگر تو مغلوب ہو جائے تو کہہ اللہ تعالی کی تقدیر ہے اور جو اس نے چاہا وہ کیا اور ہرگز اگر مگر مت کر اگر شیطان کا دروازہ کھولتا ہے جب اس طور سے ہو کہ تقدیر پر بے اعتمادی نکلے اور انسان کو یہ عقیدہ ہو کہ یہ ہمارے فلاں کام کرنے سے یہ آفت آئی۔
٭٭ عبد الرحمن بن عبد الوہاب، عبد اللہ بن نمیر، ابراہیم بن فضل، سعید مقبری، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا حکمت کا کلمہ گویا مسلمان کی گم شدہ چیز ہے جہاں اس کو پائے وہ اس کا زیادہ حقدار ہے۔
٭٭ عباس بن عبد العظیم عنبری، صفوان بن عیسیٰ، عبد اللہ بن سعید بن ابی ہند، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا دو نعمتیں ایس ہیں کہ بہت سے لوگ ان میں ناشکری کر رہے ہیں۔ ایک تو تندرستی اور دوسرے فراغت (بے فکری)۔
٭٭ محمد بن زیاد، فضیل بن سلیمان، عبد اللہ بن عثمان بن خثیم، عثمان بن جبیر، حضرت ابو ایوب سے روایت ہے ایک شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس آیا اور عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مجھ کو کوئی بات فرمائیے لیکن مختصر۔ آپ نے فرمایا جب تو نماز میں کھڑا ہو تو ایسی پڑھ گویا تو اب اس دنیا سے رخصت ہونے والا ہے اور ایسی بات منہ سے مت نکال جس سے آئندہ عذر کرنا پڑے اور جو کچھ لوگوں کے پاس ہے اس سے مایوس ہو جا۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، حسن بن موسیٰ ، حماد بن سلمہ، علی بن زید، اوس بن خالد، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو شخص بیٹھ کر حکمت کی بات سنے پھر لوگوں سے وہی بات بیان کرے جو اس نے بری بات سنی ہے اپنے ساتھی سے تو اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک شخص چروا ہے کے پاس آیا اور اس سے کہا اے چروا ہے مجھکو ایک بکری ذبح کرنے کے لئے دے۔ وہ بولا جا اور گلہ میں سے (جو بھی بکری تجھے ) اچھی معلوم ہو اس کا کان پکڑ کر لے جا۔ پھر وہ گیا اور کتے کا کان پکڑ کر لے چلا۔
تواضع کا بیان اور کبر کے چھوڑ دینے کا بیان
سوید بن سعید، علی بن مسہر، علی بن میمون رقی، سعید بن مسلمہ، اعمش، ابراہیم، علقمہ، حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا وہ شخص جنت میں نہ جائے گا جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر غرور ہو اور وہ شخص دوزخ میں نہ جائے گا جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر ایمان ہو۔
٭٭ ہناد بن سری، ابو الاحوص، عطاء بن سائب، اغر ابی مسلم ، ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اللہ سبحانہ و تعالیٰ فرماتا ہے تکبر میری چادر ہے اور بڑائی میرا ازار پھر جو کوئی ان دونوں میں سے کسی کیلئے مجھ سے جھگڑے میں اس کو جہنم میں ڈالوں گا۔
٭٭ عبد اللہ بن سعید، ہارون بن اسحاق ، عبد الرحمن محاربی، عطاء بن سائب، سعید بن جبیرین، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی ایسی ہی روایت ہے۔
٭٭ حرملہ بن یحییٰ ، ابن وہب، عمرو بن حارث، ابی ہیثم، حضرت ابو سعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو شخص اللہ عزوجل کی رضا مندی کے واسطے ایک درجہ کا تواضع کرے تو اللہ تعالی اس کا ایک درجہ بلند کرے گا اور جو کوئی اللہ تعالی کے سامنے ایک درجہ تکبر کرے تو اللہ تعالی اس کا ایک درجہ گھٹا دے گا یہاں تک کہ أَسْفَلِ السَّافِلِینَ (سب سے نچلا درجہ) میں اس کو رکھے گا۔
٭٭ نصر بن علی، عبد الصمد، سلم بن قتیبہ، شعبہ، علی بن زید، حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے مدینہ کی ایک لونڈی آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ہاتھ پکڑتی پھر آپ اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ میں سے نہ نکالتے یہاں تک وہ آپ کو لے جاتی جہاں چاہتی اپنے کام کے لئے۔
٭٭ عمرو بن رافع، جریر، مسلم اعور، انس بن مالک سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بیمار کی عیادت کرتے جنازے کے ساتھ جاتے غلام اگر دعوت دیتا تو بھی قبول کرتے گدھے سوار ہوتے اور جس دن بنی قریظہ اور بنی نضیر کا واقعہ ہوا اس دن آپ ایک گدھے پر سوار تھے اس کی رسی خرما کی چھال کی تھی آپ کے نیچے ایک زین تھا خرما کا پوست کا جو گدھے پر رکھا تھا یہ سب امور آپ کی تواضع اور انکساری پر دلالت کرتے ہیں۔
٭٭ احمد بن سعید، علی بن حسین بن واقد، مطر، قتادہ، مطرف، حضرت ابن عباس بن حمار رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے لوگوں کو خطبہ سنایا تو فرمایا بے شک اللہ تعالی نے مجھ کو وحی بھیجی کہ تواضع کرو یہاں تک کہ کوئی مسلمان دوسرے پر فخر نہ کرے۔
شرم کا بیان
محمد بن بشار، یحییٰ بن سعید، عبد الرحمن بن مہدی، شعبہ، قتادہ، عبد اللہ بن ابی عتبہ، ابو سعید خدری سے روایت ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو کنواری لڑکی سے بھی زیادہ شرم تھی جو پردے میں رہتی ہے اور آپ جب کسی چیز کو برا جانتے تو آپ کے مبارک چہرے میں اس کا اثر معلوم ہوتا۔
٭٭ اسماعیل بن عبد اللہ رقی، عیسیٰ بن یونس، معاویہ بن یحییٰ ، زہری، حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہر دین والوں میں ایک خصلت ہوتی ہے اور اسلام کی خصلت حیا ہے۔
٭٭ عبد اللہ بن سعید، سعید بن محمد وراق، صالح بن حیان، محمد بن کعب قرطی، ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی ایسے ہی روایت ہے۔
٭٭ عمرو بن رافع، جریر، منصور، ربعی بن حراش، عقبہ بن عمر، ابو مسعود انصاری اور عقبہ بن عمرو سے روایت ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا لوگوں کے پاس جو اگلے پیغمبروں کے کلام میں سے رہ گیا ہے وہ یہ ہے جب تو شرم نہ کرے تو جو جی چاہے وہ کر۔
٭٭ اسماعیل بن موسیٰ ، ہشیم، منصور، حسن ، حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا حیا ایمان میں داخل ہے اور فحش گوئی جفا ہے اور جفا دوزخ میں جائے گی۔
٭٭ حسن بن علی خلال، عبد الرزاق، معمر، ثابت، انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس چیز میں فحش ہو وہ اس کو عیب دار کر دے گا تو انسان ضرور فحش سے عیب دار ہو جائے گا اور حیا جس چیز میں آ جائے وہ اس کو عمدہ کر دے گی۔
حلم اور بردباری کا بیان
حرملہ بن یحییٰ، عبد اللہ بن وہب، سعید بن ابی ایوب، ابو مرحوم، سہل بن معاذ بن انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو شخص اپنا غصہ روک لے اور وہ طاقت رکھتا ہو اس کو استعمال کرنے کی تو اللہ تعالی اس کو قیامت کے دن لوگوں کے سامنے بلائے گا اور اس کو اختیار دے گا جس حور کو چاہے وہ پسند کر لے۔
٭٭ ابو کریب محمد بن علاء ہمدانی، یونس بن بکیر، خالد بن دینار شیبانی، عمارہ عبدی، ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے اتنے میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا عبد القیس کے قاصد آن پہنچے اور کوئی اس وقت دکھلائی نہیں دیتا تھا خیر ہم اسی حال میں تھے کہ اتنے میں عبد القیس کے قاصد آن پہنچے اور اترے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس آئے لیکن ان میں ایک شخص تھا اشج عصری (سر پھٹا ہوا)۔ اس شخص کا نام منذر بن عائذ تھا وہ سب کے بعد آیا اور ایک مقام میں اترا اور اپنی اونٹنی کو بٹھایا اور اپنے کپڑے ایک طرف رکھے پھر آنحضرت کے پاس آیا بڑے اطمینان اور سہولت سے۔ آنحضرت نے فرمایا اے اشج تجھ میں دو خصلتیں ہیں جن کو اللہ تعالی دوست رکھتا ہے ایک تو حلم دوسرے تو دۃ (یعنی وقار اور تمکین سہولت) اشج نے عرض کیا یا رسول اللہ ! یہ صفتیں مجھ میں خلقی ہیں یا نئی پیدا ہوئی ہیں؟ آپ نے فرمایا نہیں خلقی ہیں۔
٭٭ ابو اسحاق ہروی، عباس بن فضل انصاری، قرۃ بن خالد، ابو جمہرہ، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اشج عصری سے فرمایا تجھ میں دو خصلتیں ہیں جن کو اللہ تعالی دوست رکھتا ہے حلم اور حیا۔
٭٭ زید بن احزم، بشر بن عمر، حماد بن سلمہ، یونس بن عبید، حسن ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کوئی گھونٹ پینے کا ثواب اللہ تعالی کے پاس اتنا نہیں ہے جتنا غصہ کا گھونٹ پینے کا اللہ کی رضا مندی کے لئے۔
غم اور رونے کا بیان
ابو بکر بن ابی شیبہ، عبید اللہ بن موسیٰ اسرائیل، ابراہیم بن مہاجر، مجاہد، مورق عجلی، ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میں وہ باتیں دیکھتا ہوں جن کو تم نہیں دیکھتے اور سنتا ہوں جن کو تم نہیں سنتے آسمان چرچر کر رہا ہے اور کیونکر چرچر نہ کرے گا اس میں چار انگلیوں کی جگہ بھی باقی نہیں ہے جہاں ایک فرشتہ اپنی پیشانی رکھے ہوئے اللہ تعالی کو سجدہ نہ کر رہا ہو قسم خدا کی اگر تم وہ جانتے جو میں جانتا ہوں تو تم تھوڑا ہنستے اور زیادہ روتے اور تم کو بچھونوں پر اپنی عورتوں کے ساتھ مزہ نہ آتا اور تم جنگلوں کو نکل جاتے اللہ تعالی سے فریاد کرتے ہوئے قسم خدا کی مجھے تو آرزو ہے کاش میں ایک درخت ہوتا جس کو لوگ کاٹ ڈالتے۔
٭٭ محمد بن مثنی، عبد الصمد بن عبد الوارث، ہمام، قتادہ، حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اگر تم جانتے وہ باتیں جو میں جانتا ہوں تو تم تھوڑا ہنستے اور بہت روتے۔
٭٭ عبد الرحمن بن ابراہیم، محمد بن ابی فدیک، موسیٰ بن یعقوب زمعی، ابی حازم، عامر بن عبد اللہ بن زبیر سے روایت ہے ان کے باپ نے ان سے بیان کیا کہ ان کے اسلام میں اور اس آیت کے اترنے میں جس میں اللہ تعالی نے ان پر عتاب کیا صرف چار برس کا فاصلہ تھا (وَلَا یَکُوْنُوْا کَالَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ مِنْ قَبْلُ فَطَالَ عَلَیْہِمُ الْاَمَدُ فَقَسَتْ قُلُوْبُہُمْ ۭ وَکَثِیْرٌ مِّنْہُمْ فٰسِقُوْنَ) 57۔ الحدید:16)۔
٭٭ بکر بن خلف، ابو بکر حنفی، عبد الحمید بن جعفر، ابراہیم بن عبد اللہ بن حنین، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا بہت مت ہنسو۔ اس لئے کہ بہت ہنسنے سے دل مردہ ہو جاتا ہے۔
٭٭ ہناد بن سری، ابو الاحوص، اعمش، ابراہیم، علقمہ، حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھ سے فرمایا مجھ کو قرآن سنا۔ میں نے آپ کو سورۃ نساء سنائی جب میں اس آیت پر پہنچا (فَکَیْفَ اِذَا جِئْنَا مِنْ کُلِّ اُمَّۃٍۢ بِشَہِیْدٍ وَّجِئْنَا بِکَ عَلٰی ہٰٓؤُلَاۗءِ شَہِیْدًا) 4۔ النساء:41) اس وقت کیا حال ہو گا جب ہم ہر ایک امت پر گواہ کر کے لائیں گے اور تجھ کو ان لوگوں پر گواہ کر کے لائیں گے تو میں نے آپ کو دیکھا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔
٭٭ قاسم بن زکریا بن دینار، اسحاق بن منصور، ابو رجاء خراسانی، محمد بن مالک، حضرت براء رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ تھے ایک جنازے میں آپ قبر کے کنارے بیٹھ کر رونے لگے یہاں تک کہ مٹی گیلی ہو گئی آپ کے آنسوؤں سے پھر آپ نے فرمایا اے بھائیو اس کے لئے تیاری کرو۔
٭٭ عبد اللہ بن احمد بن بشیر بن ذکوان دمشقی، ولید بن مسلم، ابو رافع، ابن ابی ملیکہ، عبد الرحمن بن سائب، سعد بن ابی وقاص سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا رو اگر رونا نہ آئے تو رونے کی صورت بناؤ۔ آخرت کی یاد کر کے۔
٭٭ عبد الرحمن بن ابراہیم دمشقی، ابراہیم بن منذر، ابن ابی فدیک، حماد بن ابی حمید زرقی، عون بن عبد اللہ بن عتبہ بن مسعود، حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس مسلمان بندے کی آنکھ سے آنسو نکلیں اگرچہ مکھی کے سر کے برابر ہوں اللہ کے ڈر سے پھر وہ بہیں اس کے منہ پر تو اللہ تعالی اس (کے جسم) کو حرام کر دے گا دوزخ پر۔
عمل کے قبول نہ ہونے کا ڈر رکھنا
ابو بکر، وکیع، مالک بن مغول، عبد الرحمن بن سعد ہمدانی، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے میں نے عرض کیا یا رسول اللہ (وَالَّذِینَ یُؤْتُونَ مَا آتَوْا وَقُلُوبُہُمْ وَجِلَۃٌ) سے کیا وہ لوگ مراد ہیں جو زنا کرتے ہیں اور چوری اور شراب پیتے ہیں؟ آپ نے فرمایا نہیں اے ابو بکر کی بیٹی اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو روزہ رکھتے ہیں صدقہ دیتے ہیں نماز پڑھتے ہیں اور پھر ڈرتے ہیں شاید ہمارے اعمال قبول نہ ہوں۔
٭٭ عثمان بن اسماعیل بن عمران دمشقی، ولید بن مسلم عبد الرحمن بن یزید بن جابر، ابو عبد، حضرت معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ارشاد فرماتے ہیں اعمال صالح کی مثال برتن کی سی ہے جب برتن میں نیچے اچھا ہو گا تو اوپر بھی اچھا ہو گا اور جو نیچے خراب ہو گا اس کے اوپر بھی خراب ہو گا۔
٭٭ کثیر بن عبیدالحمصی، بقیہ، ورقاء بن عمر، عبد اللہ بن ذکوان ابو زناد، اعرج، ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا آدمی جب لوگوں کے سامنے نماز اچھی طرح سے ادا کرے اور تنہائی میں بھی اچھی طرح سے ادا کرے تو اللہ تعالی فرماتا ہے یہ میرا بندہ سچا ہے۔
٭٭ عبد اللہ بن عامر بن زرارہ، اسماعیل بن موسیٰ ، شریک بن عبد اللہ بن اعمش، ابو صالح، ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میانہ روی اختیار کرو اور صحیح راستہ مضبوط تھا اس لئے کہ کوئی تم میں سے ایسا نہیں جس کا عمل اس کو نجات دے۔ لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ کیا آپ کو بھی آپ کا عمل نجات نہیں دے گا آپ نے فرمایا مجھ کو بھی نہیں مگر یہ کہ اللہ تعالی اپنا فضل و کرم کرے۔
ریا اور شہرت کا بیان
ابو مروان عثمانی، عبد العزیزبن ابو حازم، علاء بن عبد الرحمن ، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اللہ جل جلالہ فرماتا ہے میں تمام شریکوں میں سے زیادہ بے پرواہ ہوں شرک سے پھر جو کوئی ایسا عمل کرے جس میں کسی اور کو شریک کرے تو میں اس عمل سے بیزار ہوں کبھی اس کو قبول نہ کروں گا۔ وہ اسی کے لئے ہے جس کو شریک کیا۔
٭٭ محمد بن بشار، ہارون بن عبد اللہ حمال، اسحاق بن منصور، محمد بن بکر برسانی، عبد الحمید بن جعفر، زیاد بن میناء بن جعفر، زیاد بن مینائ، حضرت ابو سعید بن فضالہ سے روایت ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب اللہ تعالی اگلوں اور پچھلوں کو قیامت کے دن اکٹھا کرے گا یعنی اس دن جس کے ہونے میں کچھ شک نہیں تو پکارنے والا پکارے گا جس نے کسی عمل میں خدا تعالی کے ساتھ اور کسی کو شریک کیا تو وہ اس کے ثواب بھی اللہ تعالی کے سوا دوسرے شخص سے مانگے اس لئے کہ اللہ تعالی تمام شریکوں کی شرکت سے بے پرواہ ہے۔
٭٭ عبد اللہ بن سعید، ربیح بن عبد الرحمن بن ابی سعیدخدری، ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم برآمد ہوئے ہم دجال کا ذکر کر رہے تھے۔ آپ نے فرمایا میں تم کو وہ بات نہ بتلاؤں جس کا ڈر دجال سے زیادہ ہے تم پر میرے نزدیک۔ ہم نے عرض کیا بتلائیے آپ نے فرمایا پوشیدہ شرک اور وہ یہ ہے کہ آدمی کو دیکھ کر اپنی نماز کو زینت دے۔
٭٭ محمد بن خلف عسقلانی، رواد بن جراح، عامر بن عبد اللہ ، حسن بن ذکوان، عبادہ بن نسی، حضرت شداد بن اوس سے روایت ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا سب سے زیادہ مجھ کو اپنی امت پر جس کا ڈر ہے وہ شرک کاہے میں یہ نہیں کہتا کہ وہ سورج یا چاند یا بت کو پوجیں گے لیکن عمل کریں گے غیر کے لئے اور دوسری چیز کا ڈر ہے وہ شہوت خفیہ ہے۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، ابو کریب، بکر بن عبد الرحمن، عیسیٰ بن مختار، محمد بن ابی لیلیٰ عطیہ، حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو شخص لوگوں کو سنانے کیلئے نیک کام کرے گا اللہ تعالی بھی اس کی رسوائی قیامت کے دن لوگوں کو سنا دے گا اور جو کوئی ریا کرے گا اللہ تعالی بھی اس کی ذلت لوگوں کو دکھلا دے گا۔
٭٭ ہارون بن اسحاق ، محمد بن عبد الوہاب، سفیان ، سلمہ بن کہیل، حضرت جندب سے بھی ایسی ہی روایت ہے۔
حسد کا بیان
محمد بن عبد اللہ بن نمیر، محمد بن بشر، اسماعیل بن ابی خالد، قیس بن ابی حازم، حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا حسد جائز نہیں مگر دو شخصوں سے ایک تو اس شخص سے جس کو اللہ تعالی نے مال دیا ہے وہ اس کو نیک کاموں میں خرچ کرتا ہے دوسرے اس شخص سے جس کو اللہ تعالی نے علم دیا ہے وہ اس پر عمل کرتا ہے اور دوسروں کو بھی سکھاتا ہے۔
٭٭ یحییٰ بن حکیم، محمد بن عبدللہ بن یزید، سفیان، زہری، سالم حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا حسد نہیں کرنا چاہئے مگر دو شخصوں سے ایک تو وہ شخص جس کو اللہ تعالی نے حافظ بنایا وہ اس کو پڑھتا ہے دن رات۔ دوسرے وہ شخص جس کو اللہ تعالی نے مال دیا ہو وہ اس کوخرچ کرتا ہے رات اور دن۔
٭٭ ہارون بن عبد اللہ حمال، احمد بن زہیر، ابن ابی فدیک، عیسیٰ بن ابی عیسیٰ حناط، ابو زناد، حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا حسد نیکیوں کو کھا لیتا ہے جیسے آگ لکڑیوں کو کھا جاتی ہے اور صدقہ گناہوں کو بجھا دیتا ہے اور نماز نور ہے مومن کا اور روزہ ڈھال ہے دوزخ سے۔
بغاوت اور سرکشی کا بیان
حسین بن حسن مروزی، عبد اللہ بن مبارک، ابن علیہ، عیینہ بن عبد الرحمن حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کوئی گناہ ایسا نہیں ہے جس سے آخرت کے عذاب کے ساتھ جو اللہ تعالی نے اس کیلئے تیار کر رکھا ہے دنیا میں بھی عذاب دینا لائق ہو سوائے بغاوت اور رشتہ داری قطع کرنے کے۔
٭٭ سوید بن سعید، صالح بن موسیٰ ، معاویہ بن اسحاق ، عائشہ بنت طلحہ، ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا سب سے جلدی جس چیز کا ثواب پہنچتا ہے وہ نیکی کرنا ہے اور رشتہ داری نبھانا اور سب سے جلدی جن کا عذاب آتا ہے وہ بغاوت ہے اور رشتہ داری قطع کرنا۔
٭٭ یعقوب بن حمید، داؤد بن قیس، ابی سعید، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا آدمی کو یہی برائی کیلئے کافی ہے اور اس کی تباہی کیلئے کہ اپنے بھائی مسلمان کو حقیر جانے۔
٭٭ حرملہ بن یحییٰ ، عبد اللہ بن وہب، عمرو بن حارث، یزید بن ابی خبیب، سنان بن سعد، حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اللہ تعالی نے مجھ کو وحی بھیجی کہ آپس میں ایک دوسرے سے تواضع کرو اور کوئی دوسرے پر (ظلم) اور سرکشی نہ کرے۔
تقویٰ اور پرہیزگاری کا بیان
ابو بکر بن ابی شیبہ، ہاشم بن قاسم ، ابو عقیل، عبد اللہ بن یزید، ربیعہ بن یزید، عطیہ بن قیس، عطیہ سعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے وہ صحابی تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا آدمی پرہیز گاری کے درجہ کو نہیں پہنچتا۔ یہاں تک کہ جس کام میں برائی نہ ہو اس کو چھوڑ دے اس کام کے ڈر سے جس میں برائی ہو۔
٭٭ ہشام بن عمار، یحییٰ بن حمزہ، زید بن واقد، مغیث بن سمی، حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے کہا گیا کون سا آدمی افضل ہے؟ آپ نے فرمایا صاف دل زبان کا سچا لوگوں نے کہا زبان کے سچے کو تو ہم پہچانتے ہیں لیکن صاف دل کون ہے؟ آپ نے فرمایا پرہیز گار پاک صاف جس کے دل میں نہ گناہ ہو نہ بغاوت نہ بغض نہ حسد۔
٭٭ علی بن محمد، ابو معاویہ، ابی رجاء، بردہ بن سنان، مکحول، واثلہ بن اسقع، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اے ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ! تو پرہیز گاری کر سب سے زیادہ عابد تو ہو گا اور تو قناعت کر سب سے زیادہ شاقر تو ہو گا اور تو لوگوں کے لئے وہی چاہ جو اپنے لئے چاہتا ہے تو مومن ہو گا اور جو تیرا ہمسایہ ہو اس سے نیک سلوک کر تو مسلمان ہو گا اور ہنسی کم کر اس لئے کہ بہت ہنسنا دل کو مار ڈالتا ہے۔
٭٭ عبد اللہ بن محمد بن رمح، عبد اللہ بن وہب، ماضی بن محمد، علی بن سلیمان، قاسم بن محمد، ابو ادریس خولانی، ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تدبیر کے برابر کوئی عقل مندی نہیں اور کوئی پرہیز گاری اس کے مثل نہیں ہے کہ آدمی حرام سے باز رہے اور کوئی حسب اس کے برابر نہیں ہے کہ آدمی کے اخلاق اچھے ہوں۔
٭٭ محمد بن خلف عسقلانی، یونس بن محمد، سلام بن ابی مطیع، قتادہ، حسن، حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا حسب مال ہے اور کرم تقوی۔
٭٭ ہشام بن عمار، عثمان بن ابی شیبہ، متمر بن سلیمان، کہمس بن حسن، ابی سلیل ذویب بن نفیر، حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میں ایک کلمہ یا ایک آیت جانتا ہوں اگر سب آدمی اسی پر عمل کریں تو وہ کافی ہے۔ لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ وہ کون سی آیت ہے؟ آپ نے فرمایا ( وَمَنْ یَّتَّقِ اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّہٗ مَخْرَجًا) 65۔ الطلاق:2) یعنی جو کوئی اللہ سے ڈرے اللہ اس کے لئے ایک راہ نکال دے گا گزر اوقات کی اور اس کی فکر دور کر دے گا۔
لوگوں کی تعریف کرنا
ابو بکر بن ابی شیبہ، یزید بن ہارون ، نافع بن عمرجمحی، امیہ بن صفوان، حضرت ابو زہیرثقفی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے خطبہ سنایا نباوہ یا بناوہ جو ایک مقام ہے طائف کے قریب آپ نے فرمایا قریب ہے کہ تم جنت والوں کو دوزخ والوں سے تمیز کر لو گے۔ لوگوں نے عرض کیا یہ کیونکر ہو گا یا رسول اللہ آپ نے فرمایا تعریف کرنے سے اور برائی کرنے سے۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، ابو معاویہ، اعمش، جامع بن شداد، کلثوم خزاعی سے روایت ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس ایک شخص آیا اور کہنے لگا یا رسول اللہ مجھے کیسے پتہ چلے گا میں نے فلاں کام نیک کام کیا اور جب برا کام کیا تو آپ نے فرمایا جب تیرے پڑوسی تجھ سے کہیں تو نے اچھا کیا تو تو نے اچھا کام کیا اور جب کہیں برا تو سمجھ لے کہ برا کام کیا۔
٭٭ محمد بن یحییٰ، عبد الرزاق، معمر، منصور، ابی وائل، عبد اللہ ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا ہے۔
٭٭ محمد بن یحییٰ، زبید بن اخزم، مسلم بن ابراہیم، ابو ہلال، عقبہ بن ابی ثبیت، ابو جوزاء، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جنت والا وہ شخص ہے جس کے کان بھر جائیں لوگوں کی تعریف اور ثناء سے سنتے سنتے اور دوزخ والا شخص ہے جس کے کان بھر جائیں لوگوں کی ہجو اور برائی سے سنتے سنتے۔
٭٭ محمد بن بشار، ابو محمد بن جعفر، شعبہ، ابی عمران ضونی، عبد اللہ بن صامت، حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے میں نے عرض کیا ایک آدمی خالص خدا تعالی کیلئے کوئی کام کرتا ہے لیکن لوگ اس سے محبت کرنے لگتے ہیں اس کام کی وجہ سے۔ آپ نے فرمایا یہ نقد خوشخبری ہے مومن کو۔
٭٭ محمد بن بشار، ابو داؤد، سعید بن سنان ابو سنان شیبانی، حبیب بن ابی ثابت، ابو صالح، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے ایک شخص نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں ایک عمل کرتا ہوں وہ مجھے اچھا لگتا ہے اسطرح سے کہ لوگ اس کو سن کر میری تعریف کرتے ہیں۔ آپ نے فرمایا تجھ کو دوہرا ثواب ملے گا ایک تو پوشیدہ عمل کرنے کا اور دوسرا اعلانیہ عمل کرنے کا۔
نیت کے بیان میں
ابو بکر بن ابی شیبہ، یزید بن ہارون، محمد بن رمح، لیث بن سعد، یحییٰ بن سعید، محمد بن ابراہیم تیمی، علقمہ بن وقاص، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے وہ لوگوں کو خطبہ سنا رہے تھے تو کہا کہ میں نے سنا جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے آپ فرماتے تھے ہر ایک عمل کا ثواب نیت سے ہوتا ہے اور ہر ایک آدمی کو وہی ملے گا جس کی وہ نیت کرے سو جس آدمی نے اللہ و رسول کیلئے ہجرت کی تو اس کی ہجرت اللہ و رسول کے لئے ہو گی اور جس کی ہجرت دنیا کمانے کی نیت سے ہو یا کسی عورت سے نکاح کرنے کی ہو اس کی ہجرت انہی چیزوں کی طرف ہو گی۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، علی بن محمد، وکیع، اعمش، سالم بن ابی جعد، حضرت ابو کبشہ انماری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اس امت کے لوگوں کی مثال چار شخصیتوں کی طرح ہے ایک تو وہ شخص جس کو اللہ تعالی نے مال اور علم دیا وہ اپنے کے موافق عمل کرتا ہے اپنے مال میں اور اس کو خرچ کرتا ہے اپنے حق میں دوسرے وہ شخص جس کو اللہ تعالی نے علم دیا لیکن مال نہیں دیا وہ کہتا ہے اگر مجھ کو مال ملتا تو میں پہلے شخص کی طرح اس پر عمل کرتا آپ نے فرمایا یہ دونوں شخص برابر ہیں ثواب میں۔ تیسرے وہ شخص جس کو اللہ تعالی نے مال دیا لیکن علم نہیں دیا وہ اپنے مال میں بے حد لغو اخرا جات کرتا ہے چوتھے وہ شخص جس کو اللہ تعالی نے علم دیا نہ مال لیکن وہ کہتا ہے اگر میرے پاس مال ہوتا تو میں تیسری شخص کی طرح اس کو صرف کر ڈالتا۔
٭٭ احمد بن سنان، محمد بن یحییٰ ، یزید بن ہارون، شریک، لیث، طاؤس، ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا لوگوں کا حشر ان کی نیتوں پر ہو گا۔
٭٭ زہیر بن محمد، زکریا بن عدی، شریک، اعمش، ابی سفیان ، جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی ایسی ہی روایت ہے۔
انسان کی آرزو اور عمر کا بیان
ابو بشر بکر بن خلف، ابو بکر بن خلاد باہلی، یحییٰ بن سعید، سفیان ، ابی یعلی، ربیع بن خثیم، حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک خط مربع کھینچا اور اس مربع کے بیچ میں ایک اور خط کھینچا اور اس بیچ والے خط کے دونوں طرف بہت سے خط کھینچے اور ایک خط اس مربع کے باہر کھینچا پھر آپ نے فرمایا تم جانتے ہو یہ کیا ہے؟ انہوں نے کہا اللہ تعالی اور اس کا رسول خوب جانتا ہے۔ آپ نے فرمایا یہ بیچ کا خط آدمی ہے اور یہ جو اس کے دونوں طرف خط ہیں یہ بیماریاں اور آفتیں ہیں جو ہمیشہ اس کو کاٹتی اور ڈستی رہتی ہے چاروں اطراف سے اگر ایک آفت سے بچا تو دوسری آفت میں مبتلا ہوتا ہے اور یہ جو چار خط اس کو گھیرے ہوئے ہیں یہ اس کی عمر ہے اور جو خط اس مربع سے باہر نکل گیا وہ اس کی آرزو ہے۔
٭٭ اسحاق بن منصور، نضر بن شمییل، حماد بن سلمہ، عبد اللہ بن ابو بکر، حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا یہ آدمی ہے اور یہ اس کی عمر ہے اپنی گردن کے پاس ہاتھ رکھا پھر اپنا ہاتھ آگے پھیلایا اور فرمایا یہاں تک اس کی آرزو بڑھی ہوئی ہے۔
٭٭ ابو مروان محمد بن عثمان عثمانی، عبد العزیز بن ابی حازم، علاء بن عبد الرحمن، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے بوڑھے کا دل جوان ہوتا ہے دو چیزوں کی محبت میں ایک تو زندگی کی محبت میں دوسرے مال کی محبت میں۔
٭٭ بشر بن معاذ ضریر، ابو عوانہ، قتادہ، حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا آدمی بوڑھا ہوتا جاتا ہے اور دو چیزیں اس میں جوان ہوتی جاتی ہیں ایک تو مال کی حرص دوسرے عمر کی حرص۔
٭٭ ابو مروان عثمانی، عبد العزیزبن ابی حازم، علاء بن عبد الرحمن، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اگر آدمی کے پاس دو وادیاں بھر کر مال ہو پھر بھی اس کا جی چاہے کہ (کاش) ایک اور ہوتی۔ اس کے نفس کو کوئی چیز بھرنے والی نہیں سوائے مٹی کے۔
٭٭ حسن بن عرفہ، عبد الرحمن بن محمد محاربی، محمد بن عمرو، ابی سلمہ، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میری امت کے اکثر عمریں ساٹھ سے لیکر ستر تک ہوں گی اور ان میں سے کم ہی ایسے لوگ ہوں گے جو ستر سے تجاوز کریں گے۔
نیک کام کو ہمیشہ کرنا
ابو بکر بن ابی شیبہ، ابو الاحوص ابی اسحاق ، ابی سلمہ، حضرت ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے قسم اس کی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو لے گیا (دنیا سے ) آپ نے انتقال نہیں فرمایا یہاں تک کہ آپ اکثر نماز بیٹھ کر ادا کرتے اور آپ کو بہت پسند وہ عمل تھا جو ہمیشہ کیا جائے اگرچہ تھوڑا ہو۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، ابو اسامہ، ہشام بن عروہ، ام المومنین جناب عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک عورت میرے پاس بیٹھی تھی اتنے میں آپ تشریف لائے آپ نے پوچھا یہ کون عورت ہے؟ میں نے عرض کیا فلانی عورت جو رات کو نہیں سوتی۔ آپ نے فرمایا چپ رہ کر ایسا عمل کرو جس کی طاقت رکھو سدا نباہنے کی اور ہمیشہ کرنے کی کیونکہ قسم خدا کی اللہ تعالی نہیں تھکے ثواب دینے سے تم ہی تھک جاؤ گے عمل کرنے سے۔ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا آپ کو وہ عمل پسند تھا جس کو آدمی ہمیشہ کرے۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، فضل بن دکین، سفیان، جریری، ابی عثمان ، حضرت حنظلہ کاتب التمیمی الاسیدی سے روایت ہے ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس تھے آپ نے جنت اور دوزخ کا بیان کیا گویا ہم ان دونوں کو دیکھنے لگے پھر میں اپنے گھروالوں اور بچوں کے پاس گیا اور ہنسا اور کھیلا بعد اس کے مجھے وہی خیال آیا جس میں میں پہلے تھا (یعنی جنت اور جہنم کا) میں نکلا اور ابو بکر صدیق سے ملا۔ میں نے کہا میں تو منافق ہو گیا منافق ہو گیا کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی صحبت میں میرا دل اور طرح کا تھا اور اب اور طرح کا ہو گیا۔ ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا ہمارا بھی یہی حال ہے پھر حنظلہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں آئے اور آپ سے بیان کیا۔ آپ نے فرمایا اے حنظلہ اگر تم اس حال پر رہو جیسے میرے پاس رہتے ہو تو فرشتے تم سے مصافحہ کریں تمہارے بچھونوں پر یا راستوں میں اے حنظلہ ایک ساعت ایسی ہے دوسری وہسی ہے۔
٭٭ عباس بن عثمانی دمشقی، ولید بن مسلم، ابن لہیعہ، عبد الرحمن اعرج، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اتنا ہی عمل کرو جتنے کی طاقت تم میں ہے جو ہمیشہ ہو اگرچہ تھوڑا ہو۔
٭٭ عمرو بن رافع، یعقوب بن عبد اللہ اشعری، عیسیٰ بن جاریہ، جابر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک شخص پر سے گزرے جو ایک پتھر کی چٹان پر نماز پڑھ رہا تھا پھر آپ مکہ کی طرف گئے اور تھوڑی دیر وہاں ٹھہرے جب لوٹ کر آئے تو دیکھا وہ شخص اسی حال پر نماز پڑھ رہا ہے آپ کھڑے ہوئے اور دونوں ہاتھوں کو ملایا اور فرمایا اے لوگو! تم لازم کر لو اپنے اوپر میانہ روی کو اس لئے کہ اللہ تعالی نہیں اکتا جاتا ثواب دینے سے تم ہی اکتا جاتے ہو عمل کرنے سے۔
گناہوں کا بیان
محمد بن عبد اللہ بن نمیر، وکیع، اعمش، شقیق ، حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کیا ہم سے مواخذہ ہو گا ان اعمال کا جو ہم نے جاہلیت کے زمانہ میں کئے۔ آپ نے فرمایا جس نے اسلام کے زمانہ میں کئے۔ آپ نے فرمایا جس نے اسلام کے زمانہ میں نیک کام کئے اس کو جاہلیت کے عملوں کا مواخذہ نہ ہو گا اور جس نے برا کیا اس سے اول اور آخر دونوں اعمال کا مواخذہ ہو گا۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، خلاد بن مخلد، سعید بن مسلم بن بانک، عامر بن عبد اللہ بن زبیر، عوف بن حارث، ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھ سے ارشاد فرمایا تو ان گناہوں سے بچی رہ جن کو لوگ حقیر جانتے ہیں اس لئے کہ اللہ تعالی ان کا بھی مواخذہ کرے گا۔
٭٭ ہشام بن عمار، حاتم بن اسماعیل، ولید بن مسلم، محمد بن عجلان، قعقاع بن حکیم، ابی صالح، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا مومن جب گناہ کرتا ہے تو اس کے دل میں ایک سیاہ دھبہ پڑجاتا ہے پھر اگر توبہ کرے وہ آئندہ کیلئے اس سے باز آئے اور استغفار کرے تو اس کا دل چمک کر صاف ہو جاتا ہے یہ دھبہ داغ دور ہو جاتا ہے اور اگر اور زیادہ گناہ کرے تو یہ دھبہ سیاہ ہو جاتا ہے اور ان سے یہی مراد ہے اس آیت میں (کَلَّا بَلْ ۫ رَانَ عَلٰی قُلُوْبِہِمْ مَّا کَانُوْا یَکْسِبُوْنَ) 83۔ المطففین:14) یعنی گناہ سے ڈرتے رہنا اور اس کی عادت ہو جانا۔
٭٭ عیسی بن یونس رملی، عقبہ بن علقمہ بن خدید معافری، ارطاۃ بن منذر، ابی عامر الہانی، حضرت ثوبان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے نبی نے فرمایا میں جانتا ہوں ان لوگوں کو جو قیامت کے دن تہامہ کے پہاڑوں کے برابر نیکیاں لے کر آئیں گے لیکن اللہ تعالی ان کو اس غبار کی طرح کر دے گا جو اڑ جاتا ہے۔ ثوبان نے عرض کیا یا رسول اللہ ان لوگوں کا حال ہم سے بیان کر دیجئے اور کھول کر بیان فرمائیے تاکہ ہم لاعلمی سے ان لوگوں میں نہ ہو جائیں۔ آپ نے فرمایا تم جان لو کہ وہ لوگ تمہارے بھائیوں میں سے ہیں اور تمہاری قوم میں سے اور رات کو اسی طرح عبادت کریں گے جیسے تم عبادت کرتے ہو لیکن وہ لوگ یہ کریں گے کہ جب اکیلے ہوں گے تو حرام کاموں کا ارتکاب کریں گے۔
٭٭ ہارون بن اسحاق ، عبد اللہ بن سعید، عبد اللہ بن ادریس، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے پوچھا گیا اکثر لوگ کس چیز کی وجہ سے جنت میں جائیں گے؟ آپ نے فرمایا اللہ تعالی سے ڈرنے کی وجہ اور حسن خلق کی وجہ سے اور پوچھا گیا اکثر کس چیز کی وجہ سے دوزخ میں جائیں گے؟ آپ نے فرمایا منہ اور شرمگاہ کی وجہ سے منہ سے بری باتیں نکالیں گے اور شرمگاہ سے حرام کریں گے۔
توبہ کا بیان
ابو بکر بن ابی شیبہ، شبابہ، ورقاء، ابی زناد، اعرج، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا بے شک اللہ عزوجل تم میں سے کسی کے توبہ کرنے سے ایسا خوش ہوتا ہے جیسے کوئی اپنی گم شدہ چیز پانے سے۔
٭٭ یعقوب بن حمید بن کاسب مدینی، ابو معاویہ، جعفر بن برقان، یزید بن اصم، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اگر تم اتنے گناہ کرو کہ آسمان تک پہنچ جائیں پھر تم توبہ کر تو اللہ تعالی تم کو معاف کر دے اس قدر اس کی رحمت وسیع ہے۔
٭٭ سفیان بن وکیع، فضیل بن مرزوق، عطیہ، حضرت ابو سعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا بے شک اللہ تعالی اپنے بندوں کے توبہ کرنے سے اس شخص سے زیادہ خوش ہوتا ہے جس کا ایک اونٹ بے آب ودانہ جنگل میں کھو جائے وہ اس کو ڈھونڈتا رہے یہاں تک کہ تھک کر اپنا کپڑا اوڑھ لے اور لیٹ جائے یہ سمجھ کر اب مرنے میں کوئی شک نہیں پانی سب اسی اونٹ پر تھا اور اس جنگل میں پانی تک نہیں اتنے میں وہ اونٹ کی آواز سنے اور کپڑا اپنے منہ سے اٹھا کر دیکھے تو اسی کا اونٹ آتا ہو۔
٭٭ احمد بن سعید دارمی، محمد بن عبد اللہ رقاشی، وہیب بن خالد، معمر، عبد الکریم، ابو عبیدہ بن عبد اللہ، حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا بے شک گناہ سے توبہ کرنے والا ایسا ہے جیسے وہ جس نے گناہ نہیں کیا۔
٭٭ احمد بن منیع، زید بن حباب، علی بن مسعدہ، قتادہ، حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا سارے آدمی گناہ گار ہیں اور بہتر گناہ گار وہ ہیں جو توبہ کرتے ہیں۔
٭٭ ہشام بن عمار، سفیان ، عبد الکریم، زیاد بن ابی مریم، ابن معقل سے روایت ہے میں اپنے باپ کے ساتھ عبد اللہ کے پاس گیا وہ کہتے تھے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ندامت ہی توبہ ہے میرے باپ نے کہا تم نے یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا ہے کہ ندامت توبہ ہے؟ انہوں نے کہا ہاں۔
٭٭ راشد بن سعید رملی، ولید بن مسلم، ابن ثوبان، مکحول، جبیر بن نفیر، حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا بے شک اللہ تعالی بندے کی توبہ قبول کرتا ہے جب تک اس کی جان حلق میں نہ آئے اس کے بعد قبول نہیں کیونکہ عالم آخرت کا ظہور شروع ہو گیا بعضوں نے کہا یہ کافروں سے خاص ہے لیکن اس تخصیص پر کوئی دلیل نہیں ہے۔
٭٭ اسحاق بن ابراہیم بن حبیب، معتمر، ابو عثمان، حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے ایک شخص نبی کے پاس آیا اور عرض کیا کہ اس نے ایک عورت کا بوسہ لیا۔ وہ اس کا کفارہ پوچھنے لگا آپ نے اس سے کچھ نہیں فرمایا تب اللہ تعالی نے یہ آیت اتاری (وَاَقِمِ الصَّلٰوۃَ طَرَفَیِ النَّہَارِ وَزُلَفًا مِّنَ الَّیْلِ ۭ اِنَّ الْحَسَنٰتِ یُذْہِبْنَ السَّیِّاٰتِ ۭ ذٰلِکَ ذِکْرٰی لِلذّٰکِرِیْنَ) 11۔ہود:114) یعنی دن کے دونوں کناروں میں نماز پڑھ اور رات کے حصوں میں بے شک نیکیاں دور کر دیتی ہیں برائیوں کو تب وہ شخص بولا یہ حکم خاص میرے لئے ہے؟ آپ نے فرمایا نہیں جو کوئی میری امت میں سے اس پر عمل کر لے۔
٭٭ محمد بن یحییٰ، اسحاق بن منصور، عبد الرزاق، معمر، زہری، حمید بن عبد الرحمن، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ایک شخص نے گناہ کئے تھے جب اس کی موت آن پہنچی تو اپنے بیٹوں کو یہ وصیت کی کہ جب میں مر جاؤں مجھ کو جلانا پھر پیسنا پھر تیز ہوا میں میری خاک سمندر میں ڈال دینا اس لئے کہ اللہ مجھ کو پکڑ لے گا تو ایسا عذاب کرے گا کہ ویسا عذاب کسی کو نہیں کیا خیر اس کے بیٹوں نے ایسا ہی کیا اللہ تعالی نے زمین کو حکم دیا کہ جو تو نے لیا ہے وہ حاضر کر حکم ہوتے ہی وہ شخص اپنے مالک کے سامنے کھڑا تھا۔ مالک نے اس سے پوچھا تو نے ایسا کیوں کیا؟ وہ بولا اے میرے داتا! تیرے ڈر سے آخر مالک نے اس کو بخش دیا۔
٭٭ زہری، حمید بن عبد الرحمن، ابو ہریرہ سے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ایک عورت دوزخ میں گئی ایک بلی کی وجہ سے جس کو اس نے باندھ رکھا تھا نہ اس کو کھانا دیا نہ چھوڑا کہ وہ زمین کے کیڑے کھاتی یہاں تک کہ مر گئی۔ زہری نے کہا ان دونوں حدیثوں سے یہ مطلب نکلتا ہے کہ کسی آدمی کو اپنے اعمال پر بھروسہ نہ کرنا چاہئے کہ ضرور ہم جنت میں جائیں گے اور نہ اللہ کی رحمت سے مایوس ہونا چاہئے۔
٭٭ عبد اللہ بن سعید، عبدہ بن سلیمان، موسیٰ بن مسیب ثقف، شہر بن حوشب، عبد الرحمن بن غنم، حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا بے شک اللہ فرماتا ہے اے میرے بندو تم سب گنہگار ہو مگر جسکو میں بچا رکھوں تو مجھ سے بخشش مانگو میں تم کو بخش دوں گا اور جو کوئی تم میں سے یہ جانے کہ مجھ کو گناہ بخشنے کی طاقت ہے پھر مجھ سے بخشش چاہے میری قدرت کی وجہ سے تو میں اس کو بخش دوں گا اے میرے بندو تم سب گمراہ ہو مگر جس کو میں راہ بتلاؤں تو مجھ سے راہ کی ہدایت مانگو میں تم کو راہ بتلاؤں گا اور تم سب محتاج ہو مگر جس کو میں مالدار کروں تو مجھ سے مانگو میں تم کو روزی دوں گا اور اگر تم میں جو زندہ ہیں جو مرچکے ہیں۔ اگلے اور پچھلے اور دریا والے اور خشکی والے یا تر اور خشک اور سب مل کر اس بندے کی طرح ہو جائیں جو میرے سب بندوں میں زیادہ پرہیز گار اور زیادہ متقی ہے تو میری سلطنت میں ایک ذرہ برابر زیادہ نہ ہو گا اور اگر یہ سب مل کر اس بندے کی طرح ہو جائیں جو انتہا درجہ کا بدبخت ہے میرے بندوں میں تو میری سلطنت میں ایک مچھر کے بازو کے برابر کمی نہیں آ سکتی ان خر دماغوں کی مخالفت اور سرکشی اور بغاوت سے بہ نسبت سابق کے ایک ذرہ برابر فتور اور اگر تم میں سے جو زندہ ہیں مر چکے ہیں اگلے پچھلے صحرائی یا تر و خشک سب مل کر جہاں تک ان کی آرزو پہنچے جہاں تک خیال ان کا بلند پرواز کرے مجھ سے مانگیں تو میرے خزانہ دولت میں سے کچھ کم نہ ہو گا مگر اس قدر کہ جیسے کوئی تم میں سے سمندر کے کنارے پر گزرے اور اس میں سے ایک سوئی ڈبو دے پھر اس کو نکال دے اس کی وجہ یہ ہے کہ میں سخی ہوں اور میرا دینا صرف کہہ دینا ہے جہاں میں نے کوئی بات چاہی اس سے کہتا ہوں ہو جا وہ جاتی ہے۔
موت کا بیان اور اس کے واسطے تیار رہنا
محمود بن غیلان، فضل بن موسیٰ ، محمد بن عمر، ابی سلمہ، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا لذتوں کو توڑنے والی چیز موت کا اکثر ذکر کیا کرو۔
٭٭ زبیر بن بکار، انس بن عیاض، نافع بن عبد اللہ، فروہ بن قیس، عطاء بن ابی رباح، ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ تھا اتنے میں ایک مرد انصاری آپ کے پاس آیا اور سلام کیا پھر عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم! کون سا مومن افضل ہے تمام مومنوں میں سے؟ آپ نے فرمایا جس کے اخلاق اچھے ہوں پھر اس نے پوچھا کون سا دانا ہے ان میں سے؟ آپ نے فرمایا جو موت کو بہت یاد کرتا ہے اور موت کے بعد کے لئے اچھی تیاری کرتا ہے وہی عقلمند ہے۔
٭٭ ہشام بن عبد الملک حمصی، بقیہ بن ولید، ابن ابی مریم، ضمرہ بن حبیب، ابی یعلی شداد بن اوس سے روایت ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا عقلمند وہ ہے جو اپنے نفس کو مسخر کر لے اور موت کے بعد کیلئے عمل کر لے اور عاجز وہ ہے جو نفس کی خواہش پر چلے پھر اللہ پر آرزوئیں لگائے۔
٭٭ عبد اللہ بن حکم بن ابی زیاد، سیار، جعفر، ثابت حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک جوان کے پاس گئے وہ مر رہا تھا آپ نے فرمایا کیا حال ہے؟ وہ بولا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم! میں اللہ سے مغفرت کی امید رکھتا ہوں لیکن اپنے گناہوں سے ڈرتا ہوں۔ آپ نے فرمایا دو باتیں ایک وقت میں جس بندے کے دل میں جمع ہوں تو اللہ اس کو وہ دے گا جو اس کو امید ہو گی اور جس سے وہ ڈرتا ہے اس سے اس کو محفوظ رکھے گا۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، شبابہ، ابن ابی ذئب، محمد بن عمرو بن عطاء، سعید بن یسار، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا مردے کے پاس فرشتے آتے ہیں یعنی مرنے کے قریب اگر وہ شخص نیک ہوتا ہے تو کہتے ہیں نکل اے پاک جان جو پاک بدن میں تھی تو نیک ہے اور خوش ہو جا اللہ کی رحمت اور خوشبو سے اور ایسے مالک سے جو تیرے اوپر غصہ نہیں ہے برابر اس سے یہی کہتے رہتے ہیں یہاں تک کہ جان بدن سے نکل جاتی ہے پھر فرشتے اس کو آسمان کی طرف چڑھا لے جاتے ہیں آسمان کا دروازہ کھلتا ہے۔ وہاں کے فرشتے پوچھتے ہیں کون ہے یہ؟ فرشتے جواب دیتے ہیں فلاں شخص ہے وہ کہتے ہیں مرحبا ہے پاک نفس جو پاک بدن میں تھا اندر داخل ہو جا تعریف کیا گیا اور خوش ہو جا اللہ کی رحمت سے اور خوشبو سے اور اس مالک سے جو تجھ پر غصہ نہیں ہے برابر اس سے یہی کہا جاتا ہے یہاں تک کہ روح اس آسمان تک پہنجتی ہے جہاں اللہ عزوجل ہے اور جب کوئی برا آدمی ہوتا ہے تو فرشتے کہتے ہیں اے ناپاک نفس جو ناپاک بدن میں تھا نکل برائی کے ساتھ اور خوش ہو جا گرم پانی اور پیپ اور اس جیسی اور چیزوں سے پھر اس سے یہی کہتے رہتے ہیں یہاں تک کہ وہ نکل جاتا ہے پھر اس کو چڑھاتے ہیں آسمان کی طرف وہاں کا دروازہ نہیں کھلتا وہاں کے فرشتے پوچھتے ہیں کون ھے یہ؟ فرشتے کہتے ہیں فلاں شخص ہے وہ کہتے ہیں مرحبا نہیں ہے اس ناپاک نفس کیلئے جو ناپاک بدن میں تھا لوٹ جابرائی کے ساتھ تیرے لئے آسمان کے دروازے نہیں کھلیں گے آخر اس کو چھوڑ دیتے ہیں آسمان پر سے وہ قبر کے پاس آ جاتی ہے۔
٭٭ احمد بن ثابت جحدری، عمر بن شیبہ، عبیدہ، عمر بن علی، اسماعیل بن ابی خالد، قیس بن ابی حازم، حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب تم میں سے کسی کو موت کسی زمین میں ہوتی ہے تو وہاں جانے کی حاجت پڑتی ہے جب اپنے انتہا کے مقام تک پہنچ جاتی ہے تو اللہ تعالی اس کی روح قبض کرتا ہے اور قیامت کے دن وہاں کی زمین کہے گی اے مالک یہ تیری امانت ہے۔
٭٭ یحییٰ بن خلف، ابو سلمہ، عبد الاعلی، سعید، قتادہ، زرارہ بن اوفیٰ سعد بن ہشام، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو شخص اللہ تعالی سے ملنا چاہے اللہ تعالی بھی اس سے ملنا چاہے گا اور جو اللہ تعالی سے ملنا برا جانے اللہ تعالی بھی اس سے ملنابرا جانے گا پھر آپ سے عرض کیا گیا یا رسول اللہ! اللہ سے ملنے کو برا جاننا یہ ہے کہ موت کو برا جانے اور ہم میں سے تو ہر کوئی موت کو برا جانتا ہے۔ آپ نے فرمایا یہ موت کے وقت کا ذکر ہے جب ایک بندے کو خوشخبری دی جاتی ہے تو اللہ تعالی کی مغفرت اور رحمت کی تو وہ اللہ سے ملنا پسند کرتا ہے اور اللہ بھی اس سے ملنا پسند کرتا ہے۔
٭٭ عمران بن موسی، عبد الوارث بن سعید، عبد العزیزبن صہیب، حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کوئی تم میں سے موت کی تمنا نہ کرے کسی آفت کی وجہ سے جو اس پر اترے اگر ایسا ہی موت کی خواہش ضرور پڑے تو یوں کہے یا اللہ تعالی مجھ کو زندہ رکھ جب تک جینا میرے لئے بہتر ہو اور مجھ کو اٹھا لے جب مرنا میرے لئے بہتر ہو۔
قبر کا بیان اور مردے کے گل جانے کا بیان
ابو بکر بن ابی شیبہ، ابو معاویہ، اعمش، ابی صالح، حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا انسان میں سب چیز گل جاتی ہے مگر ایک ہڈی وہ ریڑھ کی ہڈی ہے اسی سے ترکیب دی جائی گی پیدائش قیامت کے دن۔
٭٭ محمد بن اسحاق ، یحییٰ بن معین، ہشام بن یوسف، عبد اللہ بن بحیر، ام ہانی سے روایت ہے جو مولی تھا عثمان بن عفان کا کہ حضرت عثمان جب کسی قبر پر کھڑے ہوتے تو روتے یہاں تک کہ ان کی داڑھی تر ہو جاتی لوگ ان سے کہتے آپ جنت اور دوزخ کا بیان کرتے ہیں اور نہیں روتے اور قبر کو دیکھ کر روتے ہیں۔ انہوں نے کہا آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا قبر پہلی منزل ہے آخرت کی منزلوں میں سے اگر اس منزل میں آدمی نے نجات پائی تو اس کے بعد کی منزلیں زیادہ آسان ہوں گی اور اگر اس میں نجات نہیں پائی تو اس کے بعد کی منزلیں اور زیادہ سخت ہوں گی اور حضرت عثمان نے کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میں نے کوئی چیز ہولناک نہیں دیکھی مگر قبر اس سے زیادہ ہولناک ہے یعنی جتنی ہولناک چیزیں میں نے دیکھی ہیں قبر ان سب میں زیادہ ہولناک ہے۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، شبابہ، ابن ابی ذئب، محمد بن عمرو بن عطاء، سعید بن یسار، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب مردہ قبر میں جاتا ہے تو جو شخص بھی نیک ہوتا ہے وہ اپنی قبر میں بٹھایا جاتا ہے نہ اس کو ہول ہوتا ہے نہ اس کا دل پریشان ہوتا ہے اس سے پوچھا جاتا ہے تو کس دین پر تھا وہ کہتا ہے دین اسلام پر پھر اس سے پوچھا جاتا ہے اس شخص کے باب میں تو کیا کہتا ہے اس وقت مومن کو جمال نبوی نظر آتا ہے یا آپ کا نام لے کر پوچھا جاتا ہے وہ کہتا ہے محمد اللہ کے رسول ہیں ہمارے پاس دلیلیں اور کھلی نشانیاں لے کر آئے اللہ کے پاس سے ہم نے ان کی تصدیق کی پھر اس سے پوچھا جاتا ہے کیا تو نے اللہ کو دیکھا وہ کہتا ہے بھلا اللہ تعالی کو کون دیکھ سکتا ہے پھر اس کے لئے ایک طرف سے کھڑکی کھولی جاتی ہے دوزخ کو وہ آگ دیکھتا ہے اس سے کہا جاتا ہے دیکھ اللہ تعالی نے تجھ کو اس سے بچایا پھر ایک دوسرا دریچہ جنت کی طرف کھولا جاتا ہے وہ وہاں کی تازگی اور لطافت کو دیکھتا ہے اس سے کہا جاتا ہے یہی تیرا ٹھکانا ہے اور اس سے کہا جاتا ہے تو یقین پر تھا اور یقین پر مرا اور یقین ہی پر اٹھے گا اللہ چاہے تو۔ اور برا آدمی قبر میں بٹھایا جاتا ہے اس کا دل پریشان گھبرایا ہوتا ہے اس سے پوچھا جاتا ہے تو کس دین پر تھا وہ کہتا ہے میں نہیں جانتا پھر پوچھا جاتا ہے اس شخص کے بارے میں کیا کہتا ہے وہ کہتا ہے میں نے لوگوں کو کچھ کہتے سنا تو تھا میں نے بھی ویسا ہی کہا پھر جنت کی طرف ایک کھڑکی کھولی جاتی ہے وہ اس کی تازگی اور بہار جو اس میں دیکھتا ہے اس سے کہا جاتا ہے دیکھ اللہ تعالی نے تجھے اس سے محروم کیا پھر ایک کھڑکی دوزخ کی طرف کھول جاتی ہے وہ آگ کو دیکھتا ہے تلے اوپر ہو رہی ہے ایک کو ایک توڑ رہی ہے اس سے کہا جاتا ہے یہ تیر اٹھکانا ہے تو شک میں تھا اور اسی پر مرا اور اسی پر اٹھے گا اگر اللہ تعالی چاہے۔
٭٭ محمد بن بشار، شعبہ، علقمہ بن مرثد، سعد بن عبیدہ، حضرت براء بن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اللہ تعالی ثابت رکھتا ہے ایمان والوں کو مضبوط قول پر یہ آیت قبر کے عذاب میں اتری میت سے پوچھا جاتا ہے تیرا رب کون ہے؟ وہ کہتا ہے میرا رب اللہ ہے اور میرے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہیں یہی مراد ہے اس آیت (یُثَبِّتُ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَفِی الْاٰخِرَۃِ) 14۔ ابراہیم:27) کے۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، عبد اللہ بن نمیر، عبید اللہ بن عمیر، نافع، حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب کوئی تم میں سے مر جاتا ہے تو اس کا ٹھکانا اس کے سامنے پیش کیا جاتا ہے صبح اور شام اگر وہ جنت والوں میں سے ہے تو جنت والوں میں سہی اور اگر دوزخ والوں میں سے تو دوزخ والوں میں اور کہا جاتا ہے یہ تیرا ٹھکانا ہے یہاں تک کہ تو اٹھے قیامت کے دن۔
٭٭ سوید بن سعید، مالک بن انس، ابن شہاب، عبد الرحمن حضرت کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا مومن کی روح ایک پرندے کی شکل میں جنت کے درختوں میں چگتی پھرتی ہے یہاں تک کہ قیامت کے دن اپنے اصلی بدن میں ڈالی جائے گی۔
٭٭ اسماعیل بن حفص ایلی، ابو بکر بن عیاش، اعمش، ابی سفیان، حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب میت کو قبر میں داخل کیا جاتا ہے تو اس کو نظر آتا ہے جیسے سورج ڈوبنے کے قریب ہے وہ بیٹھتا ہے اپنی دونوں آنکھوں کو ملتے ہوئے اور کہتا ہے مجھ کو نماز پڑھنے دو چھوڑ دو۔
حشر کا بیان
ابو بکر بن ابی شیبہ، عباد بن عوام، حجاج، عطیہ، حضرت ابو سعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا صور والے دونوں فرشتے ان کے ہاتھوں میں دو نرسنگھے ہیں وہ ہر وقت دیکھ رہے ہیں کب ان کو حکم ہوتا ہے پھونکنے کا۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، علی بن مسہر، محمد بن ابی عمرو، ابو سلمہ، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے مدینہ منورہ کے بازار میں ایک یہودی نے کہا قسم ہے اس کی جس نے موسیٰ کو تمام آدمیوں پر فضیلت بخشی ایک مرد انصاری نے یہ سن کر اس کو ایک طمانچہ مارا اور کہا تو یہ کہتا ہے اور ہم میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم موجود ہیں پھر اس کا ذکر نبی سے ہوا آپ نے فرمایا اللہ فرماتا ہے اور صور پھونکا جائے گا تو سارے آسمان اور زمین والے بے ہوش ہو جائیں گے پھر دوسری بار پھونکا جائے گا تو یکایک سب لوگ کھڑے ہوئے ایک دوسرے کو دیکھتے ہوں گے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میں سب سے پہلے اپنا سر اٹھاؤں گا تو میں دیکھوں گا جناب موسیٰ عرش کا ایک پایہ تھامے ہوئے ہیں میں اب بھی نہیں جانتا کہ وہ مجھ سے پہلے سر اٹھائیں گے یا وہ ان لوگوں میں سے ہوں گے جن کو اللہ نے مستثنی نے کیا اور جو کوئی یوں کہے میں یونس بن متی سے بہتر ہوں اس نے جھوٹ کہا۔
٭٭ ہشام بن عمار، محمد بن صباح، عبد العزیز بن ابی حازم، عبید اللہ بن مقسم، حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے میں نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم منبر پر تھے فرماتے تھے پروردگار آسمانوں اور زمین کو اپنے ہاتھ میں لے لے گا اور آپ نے مٹھی بند کر لی پھر کھولی پھر بند کی پھر کہے گا میں جبار ہوں میں بادشاہ ہوں کہاں ہیں دوسرے جبار دوسرے متکبر جو اپنے آپ کو جبار سمجھتے تھے اور یہ فرما کر نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جھکتے تھے اور دائیں اور بائیں طرف یہاں تک کہ میں نے منبر کو دیکھا وہ نیچے سے ہلتا تھا میں کہتا تھا شاید آپ کو وہ لے کر گر پڑے گا۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، ابو خالد احمر، حاتم بن صغیرہ، ابن ابی ملیکہ، قاسم، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم! لوگ قیامت کے دن کیونکر حشر کئے جائیں گے۔ آپ نے فرمایا ننگے پاؤں ننگے بدن۔ میں نے کہا عورتیں بھی اسی طرح؟ آپ نے فرمایا اسی طرح میں نے کہا یا رسول اللہ پھر شرم نہ آئے گی؟ آپ نے فرمایا اے عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا وہاں ایسی فکر ہو گی کہ کوئی دوسرے کی طرف نہ دیکھے گا۔
٭٭ ابو بکر، وکیع، علی بن علی بن رفاعیہ، حسن، حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا لوگ قیامت کے دن تین بار پیش کئے جائیں گے دو پیشیوں میں تکرار اور عذرات ہوں گے آخر تیسری پیشی میں تو کتابیں اڑ کر ہاتھوں میں آ جائیں گی کسی کے داہنے ہاتھ میں کسی کے بائیں ہاتھ میں۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، عیسیٰ بن یونس، ابو خالد احمر، ابن عون، نافع، حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس دن لوگ کھڑے ہوں گے سارے جہان کے مالک کے روبرو آپ نے فرمایا نصف کانوں تک اپنے پسینہ میں غرق کھڑے ہوں گے۔
حوض کا ذکر
محمود بن خالد دمشقی، مروان بن محمد، محمد بن مہاجر، عباس بن سالم دمشقی حضرت ابو سلام حبشی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ خلیفہ عمر بن عبد العزیز مجھے اپنے پاس آنے کا پیغام بھیجا۔ میں نے ہر چوکی پر تازہ دم گھوڑا (لے کر جلد جانے کی نیت سے ) ان کے پاس پہنچا۔ انہوں نے کہا میں نے تجھے اور تیری سواری کو تکلیف دی مگر ایک حدیث سننے کے لئے۔ میں نے کہا بے شک امیرالمومنین انہوں (خلیفہ) نے کہا میں نے سنا ہے کہ تو حوض کوثر کے متعلق بیان کرتا ہے ثوبان سے۔ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے مولی تھے تو میں یہ چاہتا ہوں کہ اس حدیث کو تیرے منہ سے سنوں۔ میں نے کہا مجھ سے ثوبان نے بیان کیا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے مولی تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ میرا حوض اتنا بڑا ہے جیسے عدن سے ایلہ تک اس کا پانی دودھ سے زیادہ سفید اور شیریں شہد سے زیادہ ہے۔ اور اس کے برتن اتنے بے شمار ہیں جیسے آسمانوں پر ستارے جو انسان اس میں سے ایک گھونٹ بھی لے گا اسے پھر کبھی پیاس نہ لگے گی اور سب سے پہلے مہاجرین اور میلے کچیلے کپڑوں والے جو سروں سے پریشان لگتے ہیں جو کبھی عمدہ عورتوں سے نکاح نہیں کر سکتے اور ان کے لئے دروازے نہیں کھولے جاتے۔ ابو سلام بیان کرتے ہیں حدیث سن کر عبد العزیز بہت روئے کہ ان کی داڑھی تر ہو گئی۔ پھر کہنے لگے میں نے تو خوب سے خوبصورت عورت سے نکاح بھی کیا اور میرے دروازے بھی کھلے ہیں۔ میں اب اس طرح کروں گا کہ کبھی کپڑے نہ تبدیل کروں نہ سر میں کنگھی کروں یہاں تک کہ پریشان لگوں۔
٭٭ نصر بن علی، ہشام، قتادہ، حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میرے حوض کے دونوں کناروں میں اتنا فاصلہ ہے جتنا صنعاء اور مدینہ میں ہے یا جیسے مدینہ اور عمان میں ہے۔
٭٭ حمید بن مسعدہ، خلاد بن حارث، سعید بن ابی عروبہ، قتادہ، حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حوض کوثر پر سونے اور چاندی کیلئے بے شمار کوزے (برتن) ہیں جن کا شمار آسمان کے تاروں میں ہے۔
٭٭ محمد بن بشار، محمد بن جعفر، شعبہ، علاء بن عبد الرحمن، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم قبرستان آئے اور سلام کیا قبرستان والوں کو تو ارشاد فرمایا السَّلَامُ عَلَیْکُمْ دَارَ قَوْمٍ مُؤْمِنِینَ وَإِنَّا إِنْ شَائَ اللَّہُ تَعَالَی بِکُمْ لَاحِقُونَ پھر ارشاد فرمایا کہ میری خواہش ہے کہ کاش میں اپنے بھائیوں کو دیکھوں تو صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کیا ہم آپ کے بھائی نہیں ہیں؟ تورسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ تم لوگ میرے اصحاب ہو میری وفات کے بعد جو لوگ پیدا ہوں گے میرے بھائی ہوں گے اور میں تمہارا پیش خیمہ ہوں حوض کوثر پر۔ اصحاب رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے عرض کیا یا رسول اللہ جن لوگوں کو آپ نے دیکھا نہیں آپ انہیں کیسے پہچانیں گے؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ ایک شخص کے پاس گھوڑے سفید پیشانی اور سفید ہاتھ پاؤں والے ہوں اور وہ خالص مشکی سیاہ گھوڑوں میں مل جائیں تو کیا وہ اسے نہیں پہچانے گا؟ صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا بے شک پہچان لے گا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا میری امت کے لوگ قیامت کے دن سفید پیشانی اور سفید ہاتھ پاؤں والے ہو کر آئیں گے وضو کی وجہ سے آپ نے فرمایا میں تمہارا پیش خیمہ ہوں گا (یعنی میں وہاں حوض کوثر پر تمہارا استقبال کروں گا اور میں ہی تمہیں پانی پلاؤں گا) پھر ارشاد فرمایا چند لوگ (میری امت میں سے ایسے ہوں گے جنہیں بھولے بھٹکے اونٹ کی طرح وہاں سے ہانک دیا جائے گا) اور میں انہیں اپنی طرف بلاؤں گا اور مجھ سے کہا جائے گا یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے تمہارے بعد تمہارے دین کو بدل دیا تھا اور ہمیشہ دین سے ایڑیوں پر منحرف ہوتے رہے پھر میں کہوں گا دور ہو جاؤ۔
شفاعت کا ذکر
ابو بکر بن ابی شیبہ، ابو معاویہ، اعمش، ابو صالح حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا ہر نبی کی ایک دعا ہوتی ہے جو ضرور قبول ہوتی ہے (اپنی امت کیلئے ) تو ہر نبی نے اپنی دعا جلدی کر کے دنیا میں ہی پوری کر لی لیکن میں نے آخرت کیلئے اپنی دعا کو چھپا رکھا ہے اپنی امت کی بخشش کیلئے تو میری دعا ہر اس شخص کیلئے ہو گی جس نے شرک نہ کیا ہو گا۔
٭٭ مجاہد بن موسی، ابو اسحاق ہروی، ابراہیم بن عبد اللہ بن حاتم، ہشیم، علی زید بن جدعان، ابی نضرہ، حضرت ابو سعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا حضرت آدم کی اولاد کا سردار ہوں اور مجھے اس پر کوئی غرور نہیں ہے (یہ تو اللہ کا فضل اور نعمت ہے ) اور روز قیامت زمین سب سے پہلے میرے لئے پھٹے گی (میں قبر سے باہر نکلوں گا) میں غرور سے نہیں کہتا اور میں سب سے پہلے شفاعت کروں گا اور میری شفاعت سب سے پہلے منظور ہو گی اس پر مجھے کچھ غرور نہیں ہے اور میں یہ بھی کوئی غرور سے نہیں کہتا کہ روز قیامت میں حمد (اللہ کی تعریف) کا جھنڈا میرے ہاتھ میں ہو گا۔
٭٭ نصر بن علی، اسحاق بن ابراہیم بن حبیب، بشر بن مفضل، سعید بن یزید، حضرت ابو سعید سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جہنم کے لوگ جو جہنم میں رہیں گے وہ نہ اس میں مریں گے نہ جیئیں گے (بے آرام رہیں گے ) لیکن کچھ لوگ ایسے ہوں گے کہ آگ ان کے گناہوں اور خطاؤں کی وجہ سے ان کو جکڑے گی اور ان کو ختم کر ڈالے گی یہاں تک کہ وہ کوئلہ کی طرح ہو جائیں گے اور اس وقت ان کی شفاعت کا حکم ہو گا اور وہ گروہ در گروہ جنت کی نہر پر پھیل جائیں گے اور جنت کے لوگوں سے کہا جائے گا کہ ان پر جنت کا پانی ڈالو اور وہ اس طرح اگیں گے جیسے دانہ نالی کے بہاؤ میں اگتا ہے بہت جلد بڑھتا ہے کھاد اور پانی کی وجہ سے۔ ایک شخص یہ حدیث سن کر بولا کہ ایسے لگتا ہے کہ جیسے حضور پاک جنگل میں بھی رہے ہیں اور زراعت کا حال بھی پوری طرح جانتے ہیں کہ کس جگہ دانہ خوب اگتا ہے۔
٭٭ عبد الرحمن بن ابراہیم دمشقی، ولید بن مسلم، زہیر بن محمد، جعفر بن محمد، حضرت جابر سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ارشاد فرماتے تھے کہ روز قیامت میری شفاعت ان لوگوں کیلئے ہو گی جو میری امت میں سے بہت نیک پرہیزگار ہیں یعنی صلحاء اور اولیاء کرام کی شفاعت ترقی کے درجات کیلئے ہو گی۔
٭٭ اسماعیل بن اسد، ابو بدر، زیاد بن خیثمہ، نعیم بن ابی ہند، ربعی بن حراش، حضرت موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ مجھے اختیار ملا ہے کہ یا شفاعت کروں یا میری آدھی امت کو جنت ملے اور آدھی دوزخ میں جائے تو میں نے شفاعت کو اپنایا کیونکہ وہ تو عام ہو گی کافی ہو گی اور تم سمجھتے ہو کہ میری شفاعت صرف پرہیزگاروں کیلئے ہو گی نہیں وہ ان سب سے پہلے ہو گی جو گناہگار خطاکار اور قصوروار ہوں گے۔
٭٭ نصر بن علی، خالد بن حارث، سعید، قتادہ، حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ روز قیامت سب مومنین اکھٹے ہوں گے پھر اللہ ان کے دلوں میں ڈالے گا اور وہ کہیں گے کہ کاش ہم کسی کی سفارش اپنے آقا کے پاس لے جائیں اور اس تکلیف سے رہائی پائیں (کیونکہ میدان حشر میں گرمی کی شدت پسینے کی کثرت اور پیاس حد سے زیادہ ہو گی) آخر تمام امت حضرت آدم کی خدمت میں آئیں گے اور کہیں گے کہ آپ سارے آدمیوں کے باپ ہیں اور اللہ نے اپنے ہاتھ سے آپ کی تعمیر کی اور اپنے فرشتوں سے آپ کو سجدہ کرایا۔ اب آپ ہماری سفارش کریں اپنے مالک سے کہ وہ ہمیں اس جگہ سے نکال کر کسی آرام دہ جگہ پر لے جائیں وہ کہیں گے کہ میرا مرتبہ ایسا نہیں کہ اس وقت میں مالک سے کچھ عرض کر سکوں وہ اپنے گناہوں کو یاد کر کے لوگوں سے بیان کریں گے کہ البتہ تم لوگ ایسے وقت میں حضرت نوح کے پاس جاؤ وہ پہلے رسول ہیں جن کو اللہ نے زمین والوں کے پاس بھیجا۔ پھر یہ لوگ حضرت نوح کے پاس آئیں گے (ان سے بھی وہی کہیں گے جو حضرت آدم سے کہا) وہ بھی کہیں گے کہ میں اس قابل نہیں اور یاد کریں گے اپنے اس سوال کو جو انہوں نے دنیا میں اللہ سے کہا تھا جس کا انہیں علم نہ تھا اور شرم کریں گے اس وقت مالک کے پاس جانے میں اور سوال یاد کریں گے وہ یہ تھا کہ طوفان کے بعد نوح نے اللہ سے عرض کیا کہ تو نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ میرے گھر والوں کو تو بچالے گا اب بتا میرا بیٹا کہاں ہے جو اپنی بے وقوفی سے کشتی پر سوار نہیں ہوا اور ڈوب گیا تھا۔ اس پر اللہ کا عتاب ہوا اور ارشاد ہوا کہ وہ تیرے گھر والوں سے نہ تھا (اور جو بات تجھ کو معلوم نہیں وہ مت پوچھ) اور کہیں گے کہ تم البتہ موسیٰ کے پاس جاؤ اور وہ اللہ کے ایسے بندے ہیں جن سے اللہ نے بات کی اور ان کو توراۃ نازل کی پھر یہ سب لوگ حضرت موسیٰ کے پاس جائیں گے وہ کہیں گے کہ میں اس قابل نہیں جو انہوں نے دنیا میں بغیر کسی وجہ سے خون (قبطی کا) کیا تھا اس کو یاد کریں گے (حالانکہ یہ عمداً نہ تھا) انہوں نے صرف ڈرانے کیلئے ایک مکا لگایا تھا اور وہ مر گیا البتہ تم حضرت عیسیٰ کے پاس جاؤ وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں اور اللہ کا کلمہ اور روح ہیں پھر یہ سب حضرت عیسیٰ کے پاس آئیں گے وہ کہیں گے کہ میں اس قابل نہیں کیونکہ میری امت نے مجھے خدا بنا کر پوجا اس وجہ سے مجھے اللہ کے سامنے جاتے ہوئے شرم آتی ہے البتہ تم حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس جاؤ ان کے اگلے پچھلے سب گناہ معاف ہیں۔ آپ نے فرمایا وہ میرے پاس آئیں گے میں ان کے ساتھ چلوں گا ان کی ہر خواہش پوری کرنے کیلئے (آفرین ہے آپ کی ہمت اور محبت پر) دو صفوں کے درمیان سے (مومنوں کی) اپنے رب سے آنے کی اجازت مانگوں گا اور جب میں اپنے مالک کو دیکھوں گا اسی وقت سجدے میں گر پڑوں گا اور جب تک اللہ کو منظور ہو گا میں سجدے میں ہی رہوں گا پھر اللہ حکم کرے گا اے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سر اٹھا اور کہہ جو کہنا چاہتا ہے ہم اس کو سنیں گے اور جو تو چاہے گا ہم دیں گے اور جس کی تو سفارش کرے گا ہم منظور کریں گے۔ میں اس کی تعریف کروں گا اسی طرح سے جس طرح وہ خود مجھے سکھا دے گا۔ اس کے بعد شفاعت کروں گا لیکن میری شفاعت کیلئے ایک حد مقرر کر دی جائے گی کہ جو لوگ اس قابل ہوں گے انہی کی سفارش قبول ہو گی۔ اس کے بعد میں دوبارہ اللہ عزوجل کے پاس آؤں گا۔
٭٭ سعید بن مروان، احمد بن یونس، عنبسہ بن عبد الرحمن، علاق بن ابی مسلم، ابان بن عثمان، ابن عثمان، حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا قیامت کے دن تین لوگ شفاعت کریں گے۔۔ انبیاء یعنی پیغمبر۔۔ علماء کرام۔۔ پھر شہداء۔
٭٭ اسماعیل بن عبد اللہ رقی، عبید اللہ بن عمرو، عبد اللہ بن محمد بن عقیل، طفیل بن حضرت ابی بن کعب سے روایت ہے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب قیامت کا دن ہو گا تو میں سارے انبیاء کرام کا امام ہوں گا اور ان کا خطیب اور ان کی شفاعت کرنے والا اور یہ میں فخر کیلئے نہیں کہتا بلکہ حق تعالی نے یہ نعمت مجھے عطا فرمائی اس کو ظاہر کرتا ہوں۔
٭٭ محمد بن بشار، یحییٰ بن سعید، حسین بن ذکوان، ابی رجاء عطار، حضرت عمران بن حصین رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میری شفاعت کی وجہ سے کچھ لوگ جہنم سے نکالے جائیں گے ان کا نام (ہی) جہنمی ہو گا۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، عفان، وہیب، خلاد، عبد اللہ بن شقیق، حضرت عبد اللہ بن ابی الجدعاء سے روایت ہے انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا آپ فرماتے تھے قیامت کے دن میری امت کے ایک شخص کی شفاعت سے بنی تمیم سے زیادہ شمار میں لوگ جنت میں داخل ہوں گے عرض کیا یا رسول اللہ آپ کے سوا یہ شخص بھی شفاعت کریں گے؟ آپ نے فرمایا ہاں میرے سوا۔ عبد اللہ بن شقیق نے کہا میں نے ابن الجدعاء سے پوچھا تم نے یہ حدیث نبی سے سنی ہے؟ انہوں نے کہا ہاں میں نے سنی ہے۔
٭٭ ہشام بن عمار، صدقہ بن خالد، ابن جابر، سلیم بن عامر، عوف بن مالک اشجعی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم جانتے ہو مالک نے آج کی رات مجھ کو کون سی دو باتوں میں اختیار دیا؟ ہم نے عرض کیا اللہ اور اس کا رسول خوب جانتا ہے آپ نے فرمایا پروردگار نے مجھ کو اختیار دیا ہے کہ یا میں تیری آدھی امت کو جنت میں داخل کر دیتا ہوں یا تو شفاعت کی اجازت لے لے میں نے شفاعت کو اختیار کیا ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ! آپ اللہ سے دعا فرمائیے کہ ہم کو آپ کی شفاعت نصیب کرے۔ آپ نے فرمایا وہ تو ہر مسلمان کیلئے ہو گی۔
دوزخ کا بیان
محمد بن عبد اللہ بن نمیر، یعلی، اسماعیل بن ابی خالد نفیع ابی داؤد، انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تمہاری دنیا کی آگ دوزخ کی آگ کے ستر جزوں میں سے ایک جز ہے اور اگر وہ دوبارہ بجھائی نہ جاتی پانی سے تو تم اس سے فائدہ نہ لے سکتے اور اب یہ آگ اللہ تعالی سے دعا کرتی ہے کہ دوبارہ اس کو دوزخ میں نہ ڈالا جائے۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، عبد اللہ بن ادریس، اعمش، ابو صالح، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا دوزخ نے اپنے مالک کی جناب میں شکایت کی اور اس نے عرض کیا اے مالک! میں خود ایک دوسرے کو کھا گئی۔ آخر مالک نے اس کو دو سانس لینے کا حکم دیا ایک سردی میں ایک گرمی میں تو تم جو سردی کی شدت پاتے ہو یہ دوزخ کے زمہریر طبقہ کی سردی ہے اور جو تم گرمی پاتے ہو یہ اس کی گرم ہوا ہے۔
٭٭ عباس بن محمد، دوری، یحییٰ بن ابی بکیر، شریک، عاصم، ابی صالح، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا دوزخ ہزار برس تک سلگائی گئی اس کی آگ سفید ہو گئی پھر ہزار برس تک سلگائی گئی تو اس کی آگ سرخ ہو گئی پھر ہزار برس تک سلگائی گئی تو وہ سیاہ ہو گئی اب اس میں ایسی سیاہی ہے۔ جیسے اندھیری رات میں ہوتی ہے۔
٭٭ خلیل بن عمرو، محمد بن سلمہ حرانی، محمد بن اسحاق ، حمید طویل، حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا قیامت کے دن کافروں میں سے وہ شخص لایا جائے گا جس کی دنیا بڑی عیش سے گزری ہو اور کہا جائے گا کہ اس کو جہنم میں ایک غوطہ دو اس کو ایک غوطہ جہنم میں دے کر نکالیں گے پھر اس سے پوچھیں گے اے فلانے کبھی تو نے راحت دیکھی ہے وہ کہے گا نہیں میں نہیں جانتا راحت کیا ہے اور مومن کو لایا جائے گا جس کی دنیا بڑی سختی اور تکلیف سے گزری ہو گی اور حکم ہو گا اس کو جنت میں ایک غوطہ دو پھر وہاں سے نکال کر اس کو لائیں گے اور پوچھیں گے اے فلانے تو نے کبھی سختی اور تکلیف بھی دیکھی ہے وہ کہے گا مجھے کبھی سختی اور بلا نہیں پہنچی۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، بکر بن عبد الرحمن عیسیٰ بن مختار، محمد بن ابی لیلیٰ، عطیہ عوفی، حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا بے شک کافر (دوزخ میں ) بڑا کیا جائے گا یہاں تک کہ اس کا دانت احد پہاڑ سے بڑا ہو گا (اس سے اس کی صورت بگاڑنا اور دوزخ کا بھرنا منظور ہو گا) اور پھر اس کا سارا بدن دانت سے اتنا ہی بڑا ہو گا جتنا تمہارا دانت سے بڑا ہے۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، عبد الرحمن بن سلیمان، داؤد بن ابی ہند، حضرت عبد اللہ بن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے میں ایک رات ابو بردہ کے پاس تھا اتنے میں حارث بن قیس ہمارے پاس آئے اور اس رات کو ہم سے یہ حدیث بیان کی کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میری امت میں کوئی شخص ایسا بھی ہو گا جس کی شفاعت سے اتنے لوگ جنت میں جائیں گے کہ انکار شمار مضر کی قوم سے زیادہ ہو گا اور میری امت میں ایسا بھی ہو گا جو دوزخ کیلئے بڑا کیا جائے گا یہاں تک کہ وہ دوزخ کا ایک کونہ ہو جائے گا۔
٭٭ محمد بن عبد اللہ بن نمیر، محمد بن عبید، اعمش، یزید رقاشی، حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا دوزخیوں پر رونا بھیجا جائے گا وہ روئیں گے یہاں تک کہ آنسو ختم ہو جائیں گے پھر خون روئیں گے یہاں تک کہ ان کے چہروں میں نالوں کی طرح نشان بن جائیں گے اگر ان میں کشتیاں چھوڑی جائیں تو وہ بہہ جائیں۔
٭٭ محمد بن بشار، ابن ابی عدی، شعبہ، سلیمان، مجاہد، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ آیت پڑھی (یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ حَقَّ تُقٰتِھٖ وَلَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَاَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ) 3۔ ال عمران:102) اے ایمان والو اللہ سے ڈرو جیسا حق اس سے ڈرنے کاہے اور مت مرو مگر مسلمان رہ کر اور فرمایا کہ اگر ایک قطرہ زقوم (دوزخیوں کی خوراک) کا زمین پر ٹپک آئے تو ساری دنیا والوں کی زندگی خراب کر دے پھر ان لوگوں کا کیا حال ہو گا جن کے پاس سوائے اس کے اور کوئی کھانا نہ ہو گا۔
٭٭ محمد بن عبادہ واسطی، یعقوب بن محمد زہری، ابراہیم بن سعد، زہری، عطاء بن یزید، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا دوزخ کی آگ سارے بدن کو کھا لے گی مگر سجدے کا مقام چھوڑ دے گی اللہ نے آگ پر اس کا کھانا حرام کر دیا ہے یعنی جو اعضاء سجدہ کرنے میں لگتے ہیں ان میں سجدہ کے مقام محفوظ رہ جائیں گے ان سے یہ بھی نکلتا ہے کہ بعض مسلمان بھی دوزخ میں جائیں گے۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، محمد بن بشر، محمد بن عمرو، ابو سلمہ، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا قیامت کے دن موت کو لائیں گے اس پل صراط پر کھڑا کرائیں گے اور کہا جائے گا۔ اے جنت والو! وہ یہ آواز سن کر گھبرا کر ڈرتے ہوئے اوپر آئیں گے ایسا نہ ہو کہ وہ جہاں ہیں وہاں سے نکالے جائیں پھر پکارا جائے گا اے دوزخ والو! وہ اوپر آئیں گے خوش خوش کہ شاید ان کے نکالنے کیلئے حکم ہو گا اتنے میں کہا جائے گا تم اس کو پہچانتے ہو؟ وہ کہیں گے ہاں یہ موت ہے پھر حکم ہو گا اس کو پل صراط پر ذبح کر دیں گے وہ بصورت ایک مینڈھے کے ہو گی اللہ تعالی کی قدرت سے کہہ دیا جائے گا اب دونوں فرشتے ہمیشہ رہیں گے اپنے اپنے مقاموں میں موت کبھی نہ آئے گی۔
جنت کا بیان
ابو بکر بن ابی شیبہ، ابو معاویہ ، اعمش، ابی صالح، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اللہ تعالی فرماتا ہے میں نے اپنے نیک بندوں کیلئے وہ سامان اور لذتیں تیار کی ہیں جنکو نہ کسی آنکھ نے دیکھا اور نہ کسی کان نے سنا اور نہ کسی آدمی کے دل پر وہ گزرا۔ ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا ان لذتوں کو تو چھوڑ دو جن کو اللہ تعالی نے بیان کر دیا ان کے سوا کتنی بے شمار لذتیں ہوں گی اگر تم چاہتے ہو تو یہ آیت پڑھو (فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّآ اُخْفِیَ لَہُمْ مِّنْ قُرَّۃِ اَعْیُنٍ ۚ جَزَاۗءًۢ بِمَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ) 32۔ السجدہ:17) تک۔ ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس میں قراۃ العین پڑھتے تھے جمع کے ساتھ اور مشہور قرأت قرۃ اعین ہے بہ صیغہ واحد یعنی کوئی نفس نہیں جانتا جو مومنین کے لئے آنکھوں کی ٹھنڈکیں چھپا کر رکھی گئی ہیں یہ بدلہ ہے ان کے نیک اعمال کا۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، ابو معاویہ، حجاج، عطیہ، حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ایک بالشت برابر جنت میں ساری دنیا سے اور جو اس میں ہے اس سب سے بہتر ہے۔
٭٭ ہشام بن عمار، زکریا بن منظور، ابو حازم، حضرت سہل بن سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ایک کوڑا رکھنے کے برابر جگہ جنت میں بہتر ہے دنیا اور مافیہا۔
٭٭ سوید بن سعید، حفص بن میسرہ، زید بن اسلم، عطاء بن یسار، حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا آپ فرماتے تھے جنت میں سو درجے ہیں ہر درجہ کا فاصلہ دوسرے درجہ سے اتنا ہے جتنا آسمان اور زمین کا فاصلہ اور سب درجوں سے اوپر جنت میں فردوس ہے اور جنت کا درمیان بھی وہی ہے اور عرش فردوس پر ہے اسی میں سے جنت کی نہریں پھوٹتی ہیں تو تم جب اللہ تعالی سے مانگو تو فردوس مانگو۔
٭٭ عباس بن عثمانی دمشقی، ولید بن مسلم، محمد بن مہاجر انصاری، ضحاک معافری، سلیمان بن موسی، کریب، حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک دن اپنے اصحاب سے فرمایا کیا کوئی شخص جنت کیلئے کمر نہیں باندھتا اس لئے کہ جنت کی مثل دوسری کوئی شے نہیں ہے قسم خدا کی جنت میں نور ہے چمکتا ہوا اور خوشبو دار پھول ہے جو جھوم رہا ہے اور محل ہے بلند اور نہر ہے جاری اور میوے ہیں بہت اقسام کے پکے ہوئے اور بی بی ہے خوبصورت خوش اخلاق اور جوڑے ہیں بہت سے اور ایسا مقام ہے جہاں ہمیشہ تازگی بہار ہے اور بڑا اونچا اور محفوظ اور روشن محل ہے لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہم اس کیلئے کمر باندھتے ہیں آپ نے فرمایا ان شاء اللہ کہو پھر کیا اور اس کی رغبت دلائی۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، محمد بن فضیل عمارہ بن قعقاع، ابی زرعہ، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اول جماعت جو جنت میں جائے گی وہ چودھویں رات کے چاند کی طرح ہو گی۔ پھر ان سے قریب ایک بہت روشن تارے کی طرح آسمان میں نہ وہ پیشاب کریں گے نہ پائخانہ نہ ناک سنکیں گے نہ تھوکیں گے۔ ان کی کنگھیاں سونے کی ہوں گی اور ان کا پسینہ مشک کا ہو گا اور ان کی انگیٹھیاں عود کی ہوں گی یعنی عود ان میں جل رہا ہو گا بیویاں بڑی آنکھوں والی حوریں ہوں گی سارے جنتیوں کی عادتیں ایک شخص کی عادتوں کے مثل ہوں گی اور سب اپنے باپ آدم کی صورت پر ہوں گے ساٹھ ہاتھ کے لمبے۔ ترجمہ بعینہ گزر چکا ہے۔
٭٭ واصل بن عبد الاعلی، عبد اللہ بن سعید، علی بن منذر، محمد بن فضیل عطاء بن سائب، محارب بن عثار، حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کوثر ایک نہر ہے جنت میں اس کے دونوں کنارے سونے سے بنے ہوئے ہیں اور پانی بہنے کے مقام میں یا قوت اور موتی ہیں اس کی مٹی مشک سے زیادہ میٹھی ہے اور برف سے زیادہ سفید ہے۔
٭٭ ابو عمر ضریر، عبد الرحمن بن عثمان ، محمد بن عمرو، ابو سلمہ، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جنت میں ایک درخت ہے اس کے سایہ میں (گھوڑے کا) سوار سو برس تک چلتا رہے گا اور درخت تمام نہ ہو گا اتنا بڑا ہے اور تم اگر چاہتے ہو تو یہ آیت پڑھو (وَّظِلٍّ مَّمْدُوْدٍ 30ۙ وَّمَاۗءٍ مَّسْکُوْبٍ 31ۙ ) 56۔ الواقعہ:30) یعنی جنت میں لمبا اور دراز سایہ ہے۔
٭٭ ہشام بن عمار، عبد الحمید بن حبیب بن ابی عشرین، عبد الرحمن بن عمرو اوزاعی، حسان بن عطیہ، حضرت سعید بن المسیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے وہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ملے ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان سے کہا میں اللہ سے یہ دعا کرتا ہوں مجھ کو اور تم کو جنت کے بازار میں ملائے۔ سعید نے کہا کیا وہاں بازار ہے؟ انہوں نے کہا ہاں مجھ سے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بیان کیا کہ جنت کے لوگ جب جنت میں داخل ہوں گے تو وہاں اتریں گے اپنے اپنے اعمال کے درجوں کے لحاظ سے پھر ان کو اجازت دی جائے گی ایک ہفتہ کے موافق دنیا کے دنوں کے حساب سے یا جمعہ کے دن کے موافق کیونکہ جنت میں دنیا کی طرح دن اور رات نہ ہوں گے اور بعضوں نے کہا جنت میں بھی جمعہ کا دن ہو گا۔ وہ اللہ تعالی کی زیارت کریں گے اور پروردگار ان کیلئے اپنا تخت ظاہر کرے گا اور پروردگار خود نمودار ہو گا جنت کے باغوں میں سے اور منبر سونے کے اور منبر چاندی کے یہ سب کرسیاں ہوں گی اور مالک اپنے تخت شاہی پر جلوہ گر ہو گا یہ دربار عالی شان ہے ہمارے مالک کا اور جو کوئی جنت والوں میں کم درجہ ہو گا حالانکہ وہاں کوئی کم درجہ نہیں وہ مشک اور کافور کے ٹیلوں پر بیٹھیں گے اور ان کے دلوں میں یہ ہو گا کہ کرسی والے ہم سے زیادہ نہیں ہیں درجہ میں۔ ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا میں نے عرض کیا یا رسول اللہ کیا ہم اپنے پروردگار کو دیکھیں گے؟ آپ نے فرمایا ہاں کیا تم ایک دوسرے سے جھگڑا کرتے ہو چودھویں رات کے چاند اور سورج کے دیکھنے میں ہم نے کہا نہیں۔ آپ نے فرمایا اسی طرح اپنے مالک کے دیکھنے میں بھی جھگڑا نہ کرو گے اور اس مجلس میں کوئی ایسا باقی نہ رہے گا جس سے پروردگار مخاطب ہو کر بات نہ کرے گا یہاں تک کہ وہ ایک شخص سے فرمائے گا اے فلانے تجھ کو یاد ہے تو نے فلاں فلاں دن ایسا ایسا کام کیا تھا اس کے بعض گناہ اس کو یاد دلائے گا وہ کہے گا اے میرے مالک کیا تو نے میرے گناہ بخش نہیں دئیے اور تیری بخشش کے وسیع ہونے ہی کی وجہ سے تو میں اس درجہ تک پہنچا پھر وہ اسی حال میں ہوں گے کہ ناگہاں ایک ابر اوپر سے آن کر انکو ڈھانپ لے گا اور ایسی خوشبو برسائے گا کہ ویسی خوشبو انہوں نے کبھی نہیں سونگھی ہو گی پھر پروردگار فرمائے گا اب اٹھو اور جو میں نے تمہاری خاطر کیلئے تیار کیا ہے اس میں جو جو تمہیں پسند آئے وہ لے لو اور ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا اس وقت ہم ایک بازار میں جائیں گے جس کو ملائکہ گھیرے ہوں گے اور اس بازار میں ایسی چیزیں ہوں گی جن کی مثل نہ کبھی آنکھوں نے دیکھا نہ کانوں نے سنا نہ دل پر ان کا خیال گزرا اور جو ہم چاہیں گے وہ ہمارے لئے اٹھا دیا جائے گا نہ وہاں کوئی چیز بکے گی نہ خریدی جائے گی اور اسی بازار میں سب جنت والے ایک دوسرے سے ملیں گے پھر ایک شخص سامنے آئے گا جس کا مرتبہ بلند ہو گا اور اس سے وہ شخص ملے گا جس کا مرتبہ کم ہو گا وہ اس کا لباس اور ٹھاٹھ دیکھ کر ڈر جائے گا لیکن ابھی اس کی گفتگو اس شخص سے ختم نہ ہو گی کہ اس پر بھی اس سے بہتر لباس بن جائے گا اور اس کی وجہ یہ ہے کہ جنت میں کسی کو رنج نہ ہو گا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا پھر ہم اپنے اپنے مکان میں لوٹیں گے وہاں ہماری بیویاں ہم سے ملیں گی اور کہیں گی اہلاً و سہلاً و مرحبا! تم تو ایسے حال میں آئے کہ تمہارا حسن اور جمال اور خوشبو اس سے کہیں عمدہ ہے جس حال میں تم ہم کو چھوڑ کر گئے تھے ہم ان کے جواب میں کہیں گے آج ہم اپنے پروردگار کے پاس بیٹھے۔
٭٭ ہشام بن خالد ازرق، ابو مروان دمشقی، خالد بن یزید بن ابی مالک، خالد بن معدان، حضرت ابو امامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس شخص کو اللہ تعالی جنت میں داخل کرے گا اس کو ستر پر دو، یعنی بہتر بیویاں نکاح میں کر دے گا تو دو بڑی آنکھ والی حوروں میں سے عنایت فرما دے گا اور ستر بیویاں جن کا وہ وارث ہو گا دوزخ والوں میں سے ، ان میں سے ہر ایک بیوی کی شرمگاہ نہایت خوبصورت ہو گی اور اس کا ذکر ایسا ہو گا جو کبھی نہ جھکے گا۔ ہشام بن خالد نے کہا دوزخ والوں میں سے وہ مرد مراد ہیں جو دوزخ میں جائیں گے اور اہل جنت ان کی عورتوں کے وارث ہو جائیں گے۔ جیسے فرعون کی بیوی اس کے وارث بھی اہل جنت ہو جائیں گے کیونکہ وہ مومنہ تھی۔
٭٭ محمد بن بشار، معاذ بن ہشام، عامر احوص، ابی صدیق، حضرت ابو سعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا مومن جب اولاد کی خواہش کرے گا جنت میں تو حمل اور وضع حمل اور بچہ کا بڑا ہونا سب ایک ساعت میں ہو جائے گا اس کی خواہش کے موافق۔
٭٭ عثمان بن ابی شیبہ، جریر، منصور، ابراہیم، عبیدہ، حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میں جانتا ہوں اس کو جو سب دوزخیوں میں اخیر میں دوزخ سے نکلے گا اور سب جنتیوں میں اخیر میں جنت میں جائے گا وہ ایک شخص ہو گا جو دوزخ سے گھسٹتا ہوا (پیٹ اور ہاتھوں کے بل نکلے گا) اس سے کہا جائے گا جا جنت میں داخل ہو جا وہ وہاں جائے گا اس کو معلوم ہو گا کہ جنت بھری ہوئی ہے وہ لوٹ کر آئے گا اور عرض کرے گا مالک میں نے تو اس کو بھری ہوئی پایا ہے پروردگار فرمائے گا جا جنت میں داخل ہو جا وہ جائے گا اس کو بھری ہوئی معلوم ہو گی وہ لوٹ آئے گا اور عرض کرے گا مالک وہ تو بھری ہوئی ہے پروردگار فرمائے گا جا جنت میں داخل ہو جا تجھے اتنی جگہ ملے گی جیسے دنیا تھی اور دس دنیا کے برابر یا یوں فرمائے گا تیری جگہ دس دنیا کے برابر ہے وہ عرض کرے گا اے مالک تو مجھ سے مذاق کرتا ہے یا مجھ سے ہنستا ہے حالانکہ تو بادشاہ ہے۔ راوی نے کہا میں نے دیکھا جب آپ نے یہ حدیث بیان کی تو آپ ہنسے یہاں تک کہ آپ کے اخیر دانت کھل گئے تو یہ کہا جاتا ہے کہ یہ شخص سب سے کم درجہ والا ہو گا جنتیوں میں۔
٭٭ ہناد بن سری، ابو الاحوص، ابی اسحاق ، زید بن ابی مریم، حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو شخص جنت کو تین بار مانگے تو جنت کہتی ہے یا اللہ تعالی اس کو جنت میں داخل کرے اور جو شخص تین بار دوزخ سے پناہ مانگے تو دوزخ کہتی ہے یا اللہ تعالی اس کو پناہ میں رکھ دوزخ سے۔
٭٭ ابو بکر بن ابی شیبہ، احمد بن سنان، ابو معاویہ، اعمش، ابی صالح ، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم میں سے کوئی ایسا نہیں ہے کہ اس کے دو ٹھکانے نہ ہوں ایک جنت میں دوسرا جہنم میں۔ جب وہ مر جائے گا اور دوزخ میں چلا گیا (معاذاللہ) تو جنت والے اس کا ٹھکانا لا وارث سمجھ کر لے لیں گے (أُولَئِکَ ہُمْ الْوَارِثُونَ) وہی وارث ہیں جو وارث ہوں گے فقط فردوس کے۔ کے یہی معنی ہیں۔
٭٭٭
ماخذ:
http://www.esnips.com/web/hadeesbooks
ایم ایس ایکسل سے تبدیلی، پروف ریڈنگ اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید