FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

 

 

فہرست مضامین

روداد سفرِ حجاز کی

 

 

 

 

آل احمد زیدی

 

 

ڈاؤن لوڈ کریں

 

 

ورڈ فائل

 

ای پب فائل

 

کنڈل فائل

 

 

تعارف

 

میرا تعلق افواج پاکستان کے ریسرچ شعبے سے رہا ہے، دوران ملازمت بہت اچھے مہربان دوستوں سے تعلق رہا ہے، ۱۹۷۲ء کی بات ہے ایک دن میں اپنے گھر، واقع سیٹیلائیٹ ٹاؤن، کے ایک کمرے میں مصروف نماز تھا کہ مجھے ایک سرگوشی سی محسوس ہوئی ’’ تم حج پر آؤ‘‘، میں نے اسے نظر انداز کر دیا۔ پھر اگلی مرتبہ مجھے ایسا محسوس ہوا کہ گویا مجھ سے کوئی حج پر آنے کے لئے کہہ رہا ہے، پھر تو یہ بات میرے ذہن میں بیٹھ گئی۔ انہی دنوں میرے آفس کے ایک دوست صوبیدار فضل کریم صاحب نے حج پر جانے کا ارادہ کیا اور مجھ سے اپنی چھٹیاں منظور کرانے کے لئے کہا تو میں نے ان سے دریافت کیا کہ آپ کس طرح جا رہے ہیں؟ انہوں نے بتایا کہ ایک گاڑی میں جا رہے ہیں اور اِن سمیت چھ افراد ہی۔ میں نے دریافت کیا کہ کیا میری گنجائش نکل سکتی ہے، انہوں نے منع کر دیا کہ گنجائش بالکل نہیں ہے۔ پھر کچھ دن بعد انہوں نے مجھے بتایا کہ جناب ایک صاحب جو ملتان سے تعلق رکھتے تھے، انہوں نے حج کا ارادہ ملتوی کر دیا ہے، لہٰذا آپ ہمارے ساتھ تشریف لے چلیں۔ میری تو خوشی کی انتہا نہ رہی، گھر میں اپنی اہلیہ ممتاز بیگم سے تذکرہ کیا تو انہوں نے بخوشی تائید کی اور اصرار کیا کہ آپ ضرور جائیں، ایک سنہری موقع مل رہا ہے، ضرور اپنا ارادہ پورا کریں۔ ان کی رضا مندی سے میرے لئے اب حج کرنا ممکن ہو پا رہا تھا۔ جو کچھ مختصر سا  زاد راہ تھا وہ لے کر ہمارا قافلہ عازم حج ہوا، جس کی تفصیل آگے آپ ہمارے حج کے سفر نامے میں پڑھ سکیں گے، میرا یقین ہے کہ ہر چیز کی تکمیل کا ایک وقت مقررہ ہوتا ہے، سفر نامے کی تفصیل تو عرصہ دراز سے تحریر شدہ تھی، لیکن اب اللہ کی توفیق سے چھپنے کے مراحل میں داخل ہو رہی ہے، لہٰذا موجودہ دور میں ہوائی جہاز سے سفر کرنے والوں کیلئے یہ سفر نامہ ایک حیرت انگیز تفصیل ہو گی، یہ سفر تقریب۲۱ دسمبر ۱۹۷۲ء کو ایک گاڑی میں سوار چھ افراد نے بذریعہ سڑک شروع کیا اور 6 ممالک سے گزرتے ہوئے، ہر قسم کے مد و جزر کا سامنا کر کے ۲۶ فروری ۱۹۷۳ء کو تکمیل تک پہنچا۔

آل احمد زیدی

۱۷ اپریل۲۰۱۷ء

 

 

 

 

نحمدُہٗ ونصلی علی رسولہ الکریم

 

 

روانگی براستہ جی ٹی روڈ

 

روز 1

 

21 دسمبر 1972 کے دن ایک چھوٹا سا قافلہ بشمول حاجی پیر لعل حسین، صوبیدار فضل کریم، محمد شریف چیمہ، باغ حسین، غلام سرور اور (مصنف) آل احمد زیدی کے فریضہ حج ادا کرنے کے لئے چکلالہ، راولپنڈی سے بذریعہ کار 3:30 بجے شام روانہ ہوا۔ جی ٹی روڈ کے رستے شام کو تقریباً ۵ بجے واہ شہر پہنچے جہاں ایک مسجد میں نماز عصر ادا کی اور پھر ۷ بجے شام نوشہرہ شہر میں بر مکان صفدر صاحب قیام کیا، صفدر صاحب نہایت مخلص انسان تھے، رات گئے تک پیر صاحب کے مریدین کا تانتا بندھا رہا ان میں قابل ذکر سعید صاحب اور صدیقی صاحب ہیں، محفل خوب گرم رہی، خاص طور سے صدیقی صاحب کی نعتوں نے ہم سب کے دلوں کو خوب گرمایا۔

 

کابل تک کا سفر اورمسلسل برف باری

 

روز 2

 

صبح یعنی 22 دسمبر کو انور صاحب نے، جو پیر صاحب کے مریدین میں سے ہیں، ناشتہ کرایا۔ پھر سب احباب نے تقریباً 10:30 بجے صبح ہمیں بڑی گرم جوشی سے رخصت کیا، ہزارہا دعائیں اور اشکبار آنکھیں ہمارے سامنے تھیں۔ نوشہرہ سے روانہ ہوئے اور تقریباً 12 بجے پشاور پہنچے۔ یہاں پر ہائی کورٹ میں ایک رجسٹرار صاحب اللہ والے تھے۔ ان سے ملاقات کی اور ساتھ چائے وغیرہ پی۔ انہوں نے کھانے پر اصرار کیا لیکن وقت کی تنگی کی وجہ سے نہ ٹھہر سکے۔ ان سے اجازت طلب کر کے لنڈی کوتل کے لئے روانہ ہو گئے۔ راستہ بڑا پر پیچ تھا اور دونوں جانب خشک پہاڑ تھے، بہرحال سڑک اچھی تھی اور موڑ کشادہ تھے۔

لنڈی کوتل تاریخی درہ خیبر کے راستے میں موجود ایک چھوٹا سا شہر ہے۔ اس شہر سے چند کلو میٹر کے فاصلے پر طور خم بارڈر ہے جو پاکستان اور افغانستان کی سرحد پر واقع ایک کراسنگ ہے۔ ہم یہاں پہنچ کر پہلے کسٹم آفس گئے، وہاں پر پاسپورٹ اور گاڑی کا اندراج کرایا، اندراج کرنے والے نہایت شریف تھے۔ انہوں نے رش کے باوجود ہمیں پہلے فارغ کیا اور سامان بھی چیک نہیں کیا اور ہمیں افغانستان کی حدود میں داخل ہونے کا پاس دے دیا اور اس طرح ہم جلال آباد شہر کی جانب گامزن ہوئے۔ راستہ خاصا پر خطر تھا اور دور دور تک کسی آبادی کا نام و نشان نہیں تھا۔ سڑک پر اتفاقاً کوئی گاڑی چلتی پھرتی نظر آتی تھی۔ اب چونکہ رات ہو گئی تھی لہٰذا ڈرائیونگ میں بڑی احتیاط کرنی پڑ رہی تھی، ویسے بھی یہاں پر لیفٹ ہینڈ ڈرائیونگ ہے۔ جلال آباد میں موسم بڑا خوشگوار تھا۔ لیکن تقریباً 9 بجے شب سے بارش شروع ہو گئی۔

یہاں پر سڑک کے ایک طرف اونچا پہاڑ ہے اور دوسری طرف دریائے کابل ہے جو کابل شہر تک ساتھ ساتھ چلتا ہے۔ کچھ ہی دیر بعد برف باری بھی شروع ہو گئی، سفر بدستور جاری رہا لیکن سڑک پر ایک ہو کا عالم تھا، اول تو ویسے ہی کوئی بندہ بشر نظر نہیں آ رہا تھا پھر ایسے عالم میں تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا، 10:30 بجے شب برف باری شدید تر ہو گئی اور گاڑی بھی ٹھنڈی ہونی شروع ہو گئی حالانکہ گاڑی کے اندر ہیٹر کی وجہ سے گرمی تھی اور سردی کا بالکل احساس نہیں ہو رہا تھا۔ اب سڑک پر برف اتنی گر چکی تھی کہ گاڑی نے چلنے سے انکار کر دیا اور پھسلنے لگی، ہم سب نے اتر کر دھکا لگایا اور کافی دور تک پیدل چلتے رہے، خدا خدا کر کے پھر گاڑی سڑک کے درمیان چلنی شروع ہوئی لیکن تھوڑی دور جا کر پھر پھسلنے لگی، اس وقت کا حال خدا ہی جانتا ہے، ڈرائیور بالکل لاچار ہو گیا اور جواب دے بیٹھا، ہم سب نے مل کر ایک بار اللہ تعالیٰ کو یاد کیا اور اس کی بارگاہ میں گڑگڑا کر دعا کی اور رحمت خداوندی جوش میں آ گئی اور ایک ٹرک ہماری رہنمائی کے لئے بھیجا، ہم نے مل کر پھر دھکا لگایا اور آہستہ آہستہ ٹرک کے پیچھے اس کے بنائے ہوئے راستہ پر چلنے لگے، خدا خدا کر کے 11:30 بجے شب کابل پہنچے، برف باری جاری تھی۔

 

کابل کی مہمان نوازی

 

کابل میں ہمارے ساتھی پیر صاحب کے ایک مرید، خوازق خان، جو کہ افغان فورس میں بریگیڈئیر تھے، ان کا مکان تلاش کیا، مکان ملنے کے باوجود ان سے نہ مل سکے کیونکہ ان کا گھر کافی بڑا تھا اوردستک کی آواز گھر والوں تک نہیں پہنچ رہی تھی۔ تو پھر فیصلہ کیا کہ ہوٹل تلاش کیا جائے۔ یہاں کی پولیس بہت اچھی مددگار ثابت ہوئی اور اس نے رات میں ہماری بڑی مدد کی اور رہنمائی کی۔ آخرکار رات ایک بجے ہم ہوٹل جاوید میں پہنچے، یہاں پر ایک کمرہ 240 افغان کے عوض لیا۔ ہوٹل کا کمرہ گو کہ چھوٹا تھا مگر گرم تھا اور مالک بہت انسان دوست تھا۔

 

روز 3، 4

 

جیسے تیسے بقیہ رات گزاری اور صبح 23دسمبرکو سویرے ہی خوازق خان گردیزی کے مکان کے لئے چل دئیے، جوں ہی یہاں پہنچے تمام تھکن اور پریشانی دور ہو گئی، خوازق خان بہت نیک دل اور مہمان نواز آدمی ہیں، انھوں نے فوراً ایک کمرہ ہمارے لئے خالی کر دیا اور اس میں ایک انگیٹھی جلوا دی جس کی وجہ سے تمام کمرہ گرم ہو گیا اور سردی کا بالکل احساس نہ رہا۔ موسم ابھی تک ٹھیک نہیں ہوا تھا، تقریباً دن کے 12، 1 بجے تک برف باری جاری رہی اور ہر طرف برف ہی برف نظر آ رہی تھی۔ ہر چیز برف میں ڈھکی بڑی بھلی لگ رہی تھی، موسم کی خرابی کے باعث ہم نے اپنا سفر 24 دسمبر کو بھی جاری نہیں رکھا اور خوازق خان کے مہمان رہے اس نے ہماری بہت خاطر مدارات کی اور عمدہ کھانے اور پھل کھلائے، ہر کھانے کے بعد سبز چائے کا قہوہ پینے کو ملتا تھا، دن بھر بابا جی (پیر صاحب) کے مرید آتے رہے اور بابا جی سے تعویذ وغیرہ لکھواتے رہے۔ اس طرح یہ دن گزر گیا۔

کابل شہر میں دو دن گزارے اور شہر سے کچھ آشنائی حاصل کی۔ اس شہر میں پختہ عمارتیں ہیں اور بہت عمدہ سڑکیں ہیں، یہاں پر رکشہ ٹیکسی چلتی ہیں، ٹیکسی 120 افغانی کرایہ لیتی ہے شہر میں خواہ کہیں بھی جانا ہو۔ یہ شہر پہاڑ کی وادی میں آباد ہے اس کے چاروں طرف برف پوش پہاڑ ہیں بیچ شہر میں دریا کابل بہتا ہے اس میں سرما میں پانی کم ہو جاتا ہے۔ کاروبار زیادہ تر سکھ کرتے ہیں، یہاں کے سکے کی قیمت بہت کم ہے، میوہ کی بڑی منڈی ہے اور انگور بارہ مہینہ ملتا ہے۔

 

قندھار کے راستے کی دشواری

 

روز 5

 

25 دسمبر کی صبح ناشتہ سے فارغ ہو کر ہم نے گاڑی مستری کو دکھائی تاکہ چیک کر لے کہ کوئی خرابی تو نہیں ہے۔ کابل سے دن 1:30 بجے ہم قندھار کے لئے روانہ ہوئے جہاں تک کا فاصلہ 500 کلو میٹر بذریعہ سڑک ہے۔ راستہ بہت عمدہ تھا لیکن ہر طرف برف ہی برف تھی، آبادی وغیرہ کا دور دور نشان نہیں تھا اور نہ ہی کوئی ہوٹل یا پٹرول پمپ وغیرہ تھا۔ سڑک اچھی ہے مگر آبادی نہ ہونے کی وجہ سے پر خطر ہے، اگر خدا نخواستہ کار وغیرہ راستے میں خراب ہو جائے تو زندگی کا اللہ حافظ ہے اور اگر لٹیروں سے بچ جائیں تو سردی اور برف کام تمام کر دے گی، راستے میں صرف غزنی ایک بڑا شہر ہے ورنہ قندھار تک کوئی اور شہر نہیں۔ تقریباً 170 میل تک کا فاصلہ طے کرنے کے بعد برف باری شروع ہو گئی اور اتنی شدید کہ10میٹر دور تک دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ برف کی زیادتی کی وجہ سے کار کے دونوں وائپر بیکار ہو گئے اور ایسی صورت میں سفر جاری رکھنا انتہائی مشکل ہو گیا لیکن اس جنگل و بیابان میں ٹھہرنا بھی موت کو دعوت دینا تھا۔ مجبوراً سفر جاری رکھا، گاڑی کی رفتار 10میل فی گھنٹہ کرنی پڑی، سڑک کے دونوں طرف برف کے فرش بچھے ہوئے تھے اور سڑک پر تقریباً چار، چار انچ برف جمع ہو گئی تھی، اگر کوئی ٹرک قریب سے گزرتا تھا تو امید کی اور زندگی کی رمق معلوم ہوتی تھی۔ ابھی قندھار پہنچنے کے لئے تقریباً 190 کلو میٹر کا سفر باقی تھا۔ بہر حال اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے جانے والا یہ قافلہ بڑے حوصلے اور ہمت سے رواں دواں تھا، کسی کے دل میں ذرہ برابر خوف نہیں تھا، خطرہ نہیں تھا، صرف اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا کر رہے تھے کہ اے باری تعالیٰ ہم سب تیرے گھر میں حاضری کے لئے جا رہے ہیں ہمارا سفر بخیریت پورا کر دے، رات کو 12 بجے قندھار پہنچے۔

 

روز 6

 

قندھار پہنچے تو رات زیادہ ہو چکی تھی اور رہائش کے لئے ہوٹل تلاش کرنا مشکل تھا۔ لہٰذا جو بھی ملا ادھر چلے گئے۔ ہوٹل انصاری میں قیام کیا۔ یہاں پر کرایہ 10 افغانی فی کس ادا کیا۔ ہوٹل کا انتظام بالکل ناقص تھا، یہاں تک کہ پانی بھی میسر نہ تھا، صبح اٹھ کر قریب مسجد میں گئے وضو وغیرہ کیا اور نماز ادا کی، یہ مسجد زیر زمین تھی۔ نماز ادا کرنے کے بعد ناشتہ کیا، کرنسی تبدیل کی اور اس کام سے فارغ ہوتے ہوتے 10:30 بج گئے اور پھر اگلے اسٹیشن ہرات کے لئے روانہ ہوئے۔

قندھار ویسے تو بڑا شہر ہے، یہاں پر مین روڈ پختہ ہے، لیکن اطراف میں کچی سڑکیں ہیں، عمارتیں پرانے طرز کی بنی ہوئی ہیں۔ اس کا بازار کافی لمبا چوڑا ہے لیکن اس میں ٹریفک یک طرفہ ہے، کاروبار کوئی خاص نہیں ہے چونکہ یہاں سردی سخت ہوتی ہے اور کم از کم 3، 4 ماہ برف جمی رہتی ہے۔ زبان کا مسئلہ کوئی خاص مشکل نہیں ہے، اکثر لوگ اردو یا پنجابی سمجھ لیتے ہیں۔ ایک ناگوار چیز جس کا ہمیں سامنا کرنا پڑا وہ یہ تھی کہ پیٹرول پمپ والے زیادہ ایمانداری سے کام نہیں لیتے، ایک تو پیٹرول خراب، دوسرا گیلن میں ناپتے ہیں اور پیسے زیادہ لیتے ہیں، اور غلط بیانی کرتے ہیں۔

 

گاڑی کی تین روزہ بریک

 

26 دسمبر کو قندھار سے 10:30 بجے صبح ہم ہرات شہر کے لئے روانہ ہوئے، ہرات کا فاصلہ 580 کلو میڑ ہے، یہاں پر روڈ پر ایک بڑی دقت پیش آتی ہے کہ کہیں میل کا پتھر نصب نہیں ہے اور نہ ہی سڑکوں پر سمت اور مقام کا نشان ہے، جس کی وجہ سے اکثر غلطی ہو جاتی ہے اور یہ بھی پتہ نہیں چلتا کہ آنے والا شہر کتنے فاصلے پر ہے اور کتنی دور سفر کر چکے ہیں، دوپہر ایک بجے کے قریب دلارام شہر، جو قندھار سے 240 کلو میٹر کے فاصلے پر ہے، پہنچے۔ یہاں پر اول نماز ادا کی، پھر کھانا کھایا اور چائے پی۔ یہاں پر راولپنڈی کے صدیق صاحب ملے جو اپنی گاڑی کا ڈائنمو خراب ہونے کی وجہ سے ٹھہرے ہوئے تھے۔

ہم نے اپنا سفر جاری رکھا لیکن ابھی 20-25 کلو میٹر ہی آگے گئے تھے کہ ہماری گاڑی کا ڈائنمو بھی جواب دے گیا۔ یہاں پر کوئی ٹھہرنے کی جگہ نہیں تھی لہٰذا بیٹری کے سہارے پر سفر جاری رکھا۔ تقریباً 50 کلو میٹر چلنے کے بعد شام کو 5:30 بجے کے قریب ایک مختصر سی آبادی نظر آئی، اب یہی مناسب سمجھا کہ واپس بجائے قندھار جانے کے یہاں پر ہی قیام کیا جائے اس جگہ کا نام چکاب ہے اور یہاں سے قندھار 240 کلو میٹر پیچھے ہے، یہاں ایک چھوٹا سا ہوٹل ہے، ہم نے اسی میں رات کا کھانا کھایا اور چائے وغیرہ پی، گاڑی کا ڈائنمو چونکہ خراب تھا لہٰذا رات کے اندھیرے میں بغیر ہیڈ لائیٹ کے سفر جاری رکھنے کا سوال ہی نہیں تھا۔

 

روز 7، 8، 9

 

اگلے دن، یعنی27 دسمبر، صبح کو سب سے پہلے ایک دوسرے ڈرائیور کی مدد سے گاڑی کا ڈائنمو کھول کر ٹھیک کرنے کی کوشش کی مگر بے سود۔ آخر کار چیمہ صاحب 12 بجے کے قریب ایک حاجی صاحب کی کار میں واپس قندھار شہر کی طرف روانہ ہوئے۔ اس کار والے حاجی صاحب نے قندھار تک کا کرایہ ۱۰ افغانی وصول کیا، قندھار جانے کا مقصد یہ تھا کہ پرانا ڈائنمو ٹھیک کرائیں اور احتیاطاً ایک نیا خرید لیں۔ چیمہ صاحب اگلے دن، یعنی 28 دسمبر، شام کو مغرب کے بعد ایک ڈائنمو لے کر آئے مگر لگانے پر معلوم ہوا کہ یہ فٹ نہیں ہے۔ کئی حضرات نے کوشش کی مگر بے سود، آخر ایک ڈرائیور مرد خدا نے ہمت کی اور ڈائنمو فٹ کر دیا اور دھکا لگا کر گاڑی اسٹارٹ کروا دی۔ اگلے دن، قریباً 10:30 بجے دن چکاب میں 3 دن قیام کے بعد بلا آخر روانہ ہوئے۔ ابھی بھی گاڑی کی حالت تسلی بخش نہیں تھی، لیکن یہاں ٹھہرنے کا بھی کوئی انتظام نہیں تھا۔ ہرات تقریباً 225 کلو میٹر دور تھا اور وہاں کچھ گاڑی کی مرمت کرائی جا سکتی تھی، تو سوچا کہ وہاں پہنچ کر ہی گاڑی کی تسلی بخش مرمت کروائیں گے۔

ابھی کوئی 15 کلو میٹر ہی چلے تھے کہ گاڑی نے پھر جواب دے دیا۔ اب اس جگہ ہر طرف برف ہی برف تھی اور کوئی سر چھپانے کی جگہ نہیں تھی، ہم نے گاڑی کو دھکا لگانا شروع کیا مگر اس مشقت سے بے حال ہو گئے۔ آخر ایک ٹرک والے کی منت سماجت کی اور کہا کہ وہ فراہ شہر، جو وہاں سے 50 کلو میٹر دور تھا، ٹو کر کے لے چلے۔ اس نے اس کے عوض 300 افغان طلب کئے۔

 

افغان ہوٹلوں کی منفرد روایت

 

فراہ روڈ میں لبِ سڑک ایک "ہوٹل فراہ روڈ”تھا، یہ بالکل انٹرکونٹینینٹل کی طرز کا پر آسائیش ہوٹل تھا، یہاں کا مینجر عبدالحکیم جو کہ پشاور کا تعلیم یافتہ تھا، بہت خوش اخلاقی سے ملا۔ یہ اردو بہت اچھی طرح بول سکتا تھا۔ ہم نے اپنی پریشانی اور مجبوری اس پر ظاہر کی تو اس نے ایک مستری بلا دیا جس نے گاڑی کی مرمت کی کوشش لیکن وہ بجلی کے کام سے ناواقف تھا لہٰذا کافی کوشش کے باوجود گاڑی نہ چل سکی، پھر ہم نے خوارزق خان کو کابل کال کی تاکہ یہاں پر کسی ملٹری یونٹ کو کہہ دے کہ وہ یا تو ہماری گاڑی کو ٹھیک کر دیں یا پھر ملٹری گاڑی ٹو کر کے ہمیں ہرات پہنچا دے۔ فون پر وہ صاحب مل نہیں سکے، جب فون پر اس کے گھر سے بات ہو رہی تھی تو اسی دوران دو چار اور صاحب بھی وہاں آ گئے اور یہ سمجھ کر کہ ہم خوارزق خان کے واقف ہیں انہوں نے بھی ہماری مدد شروع کر دی، آخر کار گاڑی ٹھیک ہو گئی لیکن اب مغرب کا وقت ہو چکا تھا، لہٰذا اگلی صبح چلنے کا پروگرام بنایا اور رات کو اسی ہوٹل میں قیام کیا، اس کا مینجر بے حد شریف آدمی تھا، اس نے ہم سے صرف 25 افغانی لئے ورنہ یہاں پر ریٹ 300-400 افغانی ہے۔

 

روز 10

 

فراہ ہوٹل میں ہر چیز بہت عمدہ تھی مگر ایک مشکل بات یہ تھی کہ پانی بجلی رات کے ۹ بجے کے بعد بند کر دیتے تھے۔ ہمیں اس کا علم نہیں تھا لہٰذا صبح کو بہت تکلیف ہوئی۔ آخر کار ساتھ ہی ایک چشمہ بہہ رہا تھا وہاں جا کر وضو کیا اور ایک بالٹی پانی بھی لے آئے گاڑی کو گرم کیا اور اس میں گرم پانی ڈالا اور اللہ کا نام لے کر 30 دسمبر کو فراہ روڈ سے 8:30 بجے ہرات کے لیے روانہ ہوئے۔ ابھی تقریباً 65 کلو میٹر سفر کیا تھا کہ گاڑی نے پھر جواب دے دیا۔ اتر کر دھکا لگایا، الٹے سیدھے تار ملائے، خدا خدا کر کے سفر شروع ہوا، یہ راستہ نہایت دشوار گزار تھا چونکہ تمام سڑک پر تقریباً 8-9 انچ برف تھی۔ گاڑی تیز نہیں چل سکتی تھی اور پھسلنے کا بے حد خطرہ تھا، ارد گرد پہاڑوں پر برف ہی برف تھی ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے کہ برف کے سمندر میں تیر رہے ہیں، اگر خدانخواستہ یہاں کوئی راستہ میں رک جائے تو اس کی زندگی کا اللہ ہی حافظ اور مالک ہے۔

 

ہرات شہر کے دلکش برف پوش نظارے

 

ہرات شہر شروع ہونے سے 25کلو میٹر قبل سڑک کے دونوں طرف درختوں کی قطار ہے۔ یہ دیودار کے درخت ہیں، ان پر پڑی برف ایسی معلوم ہو رہی تھی جیسے کسی نے سفید غبارے لٹکائے ہوئے ہیں، ہرات شہر کے اندر بھی 6-7انچ برف تھی، سڑکیں وغیرہ صاف تھیں۔ شہر میں باغ کے فرش کو دیکھ کرایسا معلوم ہوتا تھا جیسے کسی نے 4-6انچ موٹی سفید قالین کا ٹکڑا بچھایا ہوا ہے۔

ہم اللہ اللہ کر کے 11:30 بجے ہرات پہنچے اور سیدھے الیکٹریشن کی دکان پر آئے، یہاں آ کر گاڑی میں ڈائنمو لگوایا اور دوسری طرف جب نظر کی تو معلوم ہوا ٹائر پنکچر ہو گیا ہے اس کو کھولا اور پنکچر لگوایا اور ایک نیا ٹائر خریدا۔ تقریباً 4:30 بجے ہرات سے اسلام قلعہ روانہ ہوئے جو یہاں سے 128 کلو میٹر دور افغانستان کے بارڈر پر واقع ہے۔ ابھی کوئی 64کلو میٹر آگے گئے تھے کہ ایک بار پھر گاڑی کا ڈائنمو خراب ہو گیا۔ چنانچہ راستہ میں نماز مغرب ادا کی اور دھکا لگا کر بیٹری کے ذریعہ گاڑی چلانا شروع کی۔

 

ایران میں داخل اور تایباد میں قیام

 

تقریباً شام 7:30 بجے اسلام قلعہ میں واقع افغانستان ایران سرحدی پوسٹ پہنچے۔ ایران چیک پوسٹ افغان بارڈر سے تقریباً 13کلو میٹر دور ہے۔ یہاں پر ایرانی حکام نے ہر چیز کی پرتال کی، یہاں تک کہ بستر اور صندوق وغیرہ بھی۔ پھر کاغذات کے اندراجات کئے، اس کام میں 9:30 بج گئے اور بلا آخر ہم ایران کی حدود میں داخل ہو ہی گئے۔ یہاں پر پاکستانی بسوں کا قافلہ بھی کھڑا تھا، ان کے مستری کو گاڑی دکھائی مگر ان کے پاس وقت نہیں تھا۔ ہم پھر اللہ کے نام پر دھکا لگا کر گاڑی چلا کر تایباد شہر، جو کہ ایران افغان سرحد سے 32 کلو میٹر کے فاصلہ پر ہے، کے لیے روانہ ہوئے۔ یہاں پر رات 10:30 بجے پہنچے، چونکہ گاڑی کا ڈائنمو کام نہیں کر رہا تھا اور بیٹری بھی کمزور ہو گئی تھی، لہٰذا سفر جاری رکھنا مشکل تھا۔ ہم نے ” مسافر خانہ امید“ میں قیام کیا۔ ہوٹل والے نے ایک کمرے کے  8ثمن کرایا لیا۔

 

روز 11

 

تایباد بھی برفانی سردی والا علاقہ ہے اور یہاں پر بھی رات گئے پانی نلکوں میں جم جاتا ہے اور ضروریات کے لئے صبح سویرے نہیں ملتا۔ خوش قسمتی سے ہمارے ہوٹل کے ساتھ ہی ایک چشمہ بہہ رہا تھا جس پر جا کر ہم نے وضو کیا۔ خدا کی شان دیکھیں اتنی سردی میں اس نے اپنی قدرت سے کیسے گرم پانی کا چشمہ پیدا کیا۔ نماز سے فارغ ہو کر امام مسجد، جناب جمع ہو جاتی محمد حسین صاحب، جو ہمارے ساتھی صوبیدار فضل کریم کے کچھ واقف تھے، ان کی تلاش میں نکلے۔ مسجد میں جا کر معلوم ہوا کہ وہ وہاں موجود نہیں ہیں۔ مسجد سے ایک لڑکا ہم سب کو ان کے گھر لے گیا جہاں ان سے ہماری ملاقات ہوئی۔ انہوں نے چائے اور روٹی سے ہماری خاطر مدارات کی اور پھر موٹر ورکشاپ کا پتہ بتایا اور ایک لڑکے کو ہمراہ بھیجا۔ ہم پہلے دکان پر آئے اور معلومات حاصل کیں، پھر گاڑی کو دھکیل کر لائے۔ اس کی بیٹری ڈائنمو نکالا اور بیٹری چارج کرائی۔

تایباد چھوٹا سا شہر ہے، سڑکیں کچی ہیں، بسیں بہت عمدہ قسم کی ہیں، زبان زیادہ تر فارسی ہے اردو شاذ و نادر ہی کوئی بولتا یا سمجھتا ہے۔ ٹم ٹم، جس کے چاروں طرف سفید پولی تھین چڑھی ہوئی تھی، یہاں کی عام سواری ہے۔ بجلی کی سہولت تقریباً ہر دکان اور گھر میں ہے، سڑکوں پر بھی روشنی کا اچھا انتظام ہے۔ گاڑی ٹھیک کراتے کراتے ہمیں 4:00 بج گئے۔ گاڑی کی مرمت پر 1100 ریال خرچ ہوئے، مگر گاڑی پھر بھی تسلی بخش ٹھیک نہیں ہوئی، پھر بھی اللہ کا نام لے کر ہم 31 دسمبر کو اپنے سفر کی اگلی منزل مشہد شہر کے لئے روانہ ہوئے۔

 

 

مشہد کی منفرد روٹی

 

راستہ میں تقریباً 16 کلو میٹر چل کر فریمان شہر ہے، وہاں سے پھر برف باری کا سلسلہ شروع ہو گیا اور برف باری کا طوفان تیز سے تیز تر ہوتا گیا۔ سڑک پر 4-6 انچ برف پڑی ہوئی تھی اور پھسلن ہو رہی تھی۔ خیر اللہ کے کرم سے ہم بخیریت 9 بجے شب مشہد شہر پہنچ گئے۔ یہاں پر ہوٹل بنی حسن میں قیام کیا۔ اس کا کرایہ 20 ثمن ادا کیا، تمام شہر برف سے ڈھکا ہوا تھا۔ لوگ بیلچہ قسم کی چیز لے کر اپنی دکان کے آگے سے برف ہٹا رہے تھے۔ ہوٹل اچھا تھا لیکن پانی کی بہت قلت تھی اور صفائی ستھرائی کا یہاں کوئی احسن انتظام موجود نہ تھا۔ کچھ منفرد چیزیں جو نظر آئیں اس میں سے ایک چیز روٹی تھی جو تقریباً 2 فٹ لمبی ہوتی ہے جو ہوٹل والے پکا کر باہر کیل پر لٹکا دیتے ہی، روٹی کی قیمت ۵ ریال ہے۔ دوسری چیز جو بہت منفرد تھی وہ یہ کہ جو گاڑی گھر سے باہر کھڑی ہوتی ہے اس پر ایک سے دو فٹ تک برف جم جاتی ہے۔ اکثر لوگ ٹرک ساری رات اسٹارٹ رکھتے ہیں تاکہ انجن ٹھنڈا نہ ہو ورنہ صبح کو انجن گرم کرنے کے لئے اس کے نیچے آگ جلانی پڑتی ہے۔ مشہد کافی عمدہ اور بڑا شہر ہے۔ یہاں بجلی کی فراوانی ہے اور شہر میں جگہ جگہ شاہ ایران کے بت نصب ہیں۔

 

روز 12

 

اگلے دن نئے عیسوی سال، یعنی یکم جنوری 1973، کی صبح 9:30 بجے سفر حجاز کو جاری رکھتے ہوئے روانہ ہوئے۔ جس جگہ ہم نے گاڑی کھڑی کی تھی اس جگہ تقریباً 2-2 فٹ برف پڑی ہوئی تھی۔ گو کہ برف باری نہیں ہو رہی تھی پھر بھی سڑک یخ بستہ تھی اور کہیں کہیں 2-3 انچ برف جمی ہوئی تھی۔ سڑک کے کناروں پر 6-8 انچ تک برف تھی جس کو مشین کے ذریعے صاف کیا جا رہا تھا۔ خدا کی قدرت کا کچھ یوں کرنا ہوتا تھا کہ جب گاڑی خراب تو موسم اچھا ہوتا اور جب موسم خراب تو گاڑی ٹھیک چلتی رہتی۔ لیکن اللہ کا بڑا کرم رہا کہ رہنے کے لئے مناسب جگہ مل گئی اور راستے میں کہیں ایسی جگہ گاڑی خراب نہیں ہوئی جہاں رہنے کا بندوبست نہ تھا۔ مشہد سے برابر سڑک برف سے ڈھکی ہوئی تھی گویا برف کا سمندر تھا جس میں ہماری گاڑی تیر رہی تھی۔ تقریباً 97کلو میٹر کا سفر، قوچان سے بجنورد تک کا راستہ، انتہائی مشکل تھا۔ دونوں طرف اونچے اونچے برف پوش پہاڑ اور سڑک ڈھلوان تھی۔ یہ اللہ ہی کا کرم تھا کہ ہم اس سے گزر آئے اور رات تقریباً 11 بجے شاہ پسند (موجودہ نام آزاد شہر) پہنچے اور ہوٹل رضوان میں قیام کیا۔

 

تہران تک کاسفر، پہاڑی راستوں پر

 

روز 13

 

2 جنوری کو 9:30 بجے صبح شاہ پسند سے تہران کے لئے روانہ ہوئے۔ تقریباً 16 کلو میٹر تک کا علاقہ بہت سر سبز و شاداب تھا۔ سڑک کے دونوں طرف کھیت اور مالٹے کے باغات وغیرہ تھے۔ پہاڑوں پر برف جمی ہوئی تھی اور درخت بھی تھے۔ آمل شہر سے راستہ پھر خراب شروع ہو گیا۔ برف سڑک پر تقریباً 2-3 فٹ تھی اور راستہ پہاڑوں کے درمیان سے گزر رہا تھا۔ موڑ سخت خطرناک اور ڈھلوان پر تھے۔ آگے کا کچھ نظر نہیں آتا تھا اور شام بھی ہو رہی تھی۔ پہاڑی راستہ پر رفتار زیادہ سے زیادہ 10 میل فی گھنٹہ ہوتی ہے۔ ہم اللہ کو یاد کرتے ہوئے سفر جاری رکھے ہوئے تھے۔ یہاں پر خدا کی قدرت نظر آ رہی تھی، وہی خالق حقیقی تھا جو ہماری گاڑی کو چلا رہا تھا اور ہمیں ہمت دی ہوئی تھی ورنہ دونوں اطراف سر افلاک برف پوش پہاڑ اور ساتھ ہی دریا بہہ رہا تھا۔ سڑک کی ڈھلوان دیکھ کر ہیبت طاری ہو جاتی تھی اور حوصلے پست ہو جاتے تھے۔ خدا خدا کر کے یہ راستہ بخیریت تمام ہوا اور آبعلی پہنچے۔ یہاں سے تہران 65 کلو میٹر دور ہے، اور راستے میں تقریباً 12 سرنگیں آئیں جن کی لمبائی 2 فرلانگ سے 10 فرلانگ تک تھیں۔ ان کے اندر پتھروں کے سرخ نشان لگے ہوئے تھے جو روشنی پڑنے پر چمک جاتے تھے تاکہ ٹکر نہ لگے اور ان میں دو طرفہ ٹیوب لائٹ لگی تھیں۔ آخر کار رات کو 10:30 بجے تہران پہنچے اور علاقہ خیابان بارڈر جمیری میں ہوٹل نورد میں ٹھہرے۔

 

 

تہران کی شہری بے ہنگمی

 

روز 14

 

تہران میں غربت بہت زیادہ دیکھنے کو ملی۔ دکاندار ذرا کسی چیز کو ہاتھ لگانے کے دام مانگ لیتے ہیں اور ہر آدمی پوچھتا ہے کہ بیچنے کے لئے کوئی چیز ہے؟ مالٹا یہاں پر 50 ریال فی درجن ہے۔ یہاں پر صبح کو اکثر و بیشتر لوگ معلوم کرنے آئے، حاجی چیزے بفروشی؟ ہم نے کہا بھئی ہمارے پاس کچھ فروخت کرنے کے لئے نہیں ہے، تو وہ کہتے ہیں کوٹ دے دو، ٹوپی دے دو غرضیکہ جو چیز دیکھتے، کہتے کہ دے دو۔ اور یہاں پر اگر کوئی کسی جگہ کا پتہ معلوم کرے تو بتانے والا فوراً انعام مانگنے لگتا ہے۔ غرضیکہ ہر چیز اور ہر بات کے لئے پیسہ مانگا جاتا ہے۔ ایک جگہ راستہ میں ہم نے مالٹے خریدے، اول تو ہم ان کی زبان نہیں سمجھتے تھے دوسرے یہ پیچھا نہیں چھوڑتے تھے۔ جہاں کہیں گاڑی رکی مجمع لگ گیا، کوئی کچھ کہتا ہے اور کوئی کچھ۔ یہ جانتے ہوئے کہ ہم ان کی زبان نہیں سمجھتے، یہ اپنی بات کئے جاتے ہیں۔

تہران ایک بہت بڑا شہر ہے، یہاں پر اونچی اونچی پختہ عمارتیں ہیں جو کئی کئی منزلوں پر مشتمل ہیں۔ سڑکوں پر کاروں کا اس قدر رش ہوتا ہے کہ لگتا ہے زمین سے کاریں ابل رہی ہیں، زیادہ تر کاریں مرسڈیز ہیں۔ کسی سڑک پر چلے جاؤ، کاروں کا یہی حال ہو گا، سڑک پار کرنا بے حد دشوار ہے، ہر وقت گاڑیوں کا تانتا بندھا رہتا ہے۔ ہر چوک پر یا تو یادگاری کتبہ لگا ہوا ہے یا بادشاہ کا بت، اور کسی نہ کسی بادشاہی خاندان کے فرد کے نام سے موسوم ہے جیسے ولی عہد چوک وغیرہ۔ شہر کی روشنیوں سے لگتا ہے کہ بجلی کی بڑی فراوانی ہے۔

بتاریخ 3 جنوری، ہم ہوٹل سے دن تقریباً 8:30 بجے نکلے۔ ہمارے ایک ہمسفر ساتھی کو پاکستان کے سفارت خانہ میں کسی صاحب سے ملنا تھا۔ تقریباً ڈھائی گھنٹے مختلف سڑکوں پر گھومتے رہے مگر سفارت خانہ نہ ملا۔ مزہ کی بات یہ ہے کہ ہمیں ایک ورکشاپ میں وہاں ایک انگریزی دان ملا، اس سے سفارت خانہ کا راستہ معلوم کیا، اس نے بڑا نقشہ بنا کر سمجھایا لیکن جب سمجھا چکا تو کہنے لگا معاف کرنا یہ ہندوستان کا سفارت خانہ ہے۔

ہم چار و ناچار 12 بجے کے قریب پھر سفر کے لئے روانہ ہوئے۔ تھوڑی دور چلنے کے بعد پھر برف کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ سڑک کے دونوں جانب برف پوش پہاڑ تھے اور موڑ سخت خطرناک اور ڈھلوان پر تھے۔ گاڑی آہستہ آہستہ چل رہی تھی آخر کار ایک جگہ آ کر رک گئی۔ ایک تو یہاں پر برف بہت تھی اور آدھے آدھے ٹائر برف میں دھنسے جا رہے تھے، دوسرا برف سخت ہونے کی وجہ سے پھسلن ہو گئی تھی۔ یہاں پر چند مزدور سڑک پر مٹی ڈال رہے تھے، انہوں نے ہماری گاڑی کو دھکا لگایا اور برف سے نکالا۔ پھر ہم نے ان مزدوروں کی مدد سے ٹائر پر چِین چڑھائی اور سفر کے لئے روانہ ہوئے۔ رات 9 بجے ھمدان شہر پہنچے اور یہ طے پایا کہ رات ہو گئی ہے اس لیے یہیں قیام کیا جائے۔ ہوٹل زمرّد میں قیام کیا، اس نے شب باشی کے 20 ثمن لئے اور گاڑی گیراج میں کھڑی کر دی اوراس خدمت کے چوکیدار نے 35 ریال لئے۔

 

حادثے کا شکار

 

روز 15

 

4 جنوری کی صبح تقریباً 4:30 بجے اٹھے، نماز وغیرہ سے فارغ ہوئے گاڑی کا تیل پانی چیک کیا اور 7 بجے ایران عراق کے بارڈر خسروی کے لئے روانہ ہوئے۔ کرمان شاہ سے 97 کلو میٹر دور جا کر پھر سڑک پر برف جمنے کی وجہ سے پھسلن ملی، اور ایک جگہ گاڑی کو بہت سنبھالنے کی کوشش کی مگر وہ پھسل کرسڑک کے اندرونی جانب ایک گڑھے میں جا گری۔

گاڑی کا اگلا حصہ تمام کا تمام پچک گیا اور کیریر جس پر سامان لادا ہوا تھا دور جا گرا۔ اللہ نے بڑا کرم کیا کہ کسی کو زیادہ چوٹ وغیرہ نہیں آئی۔ خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہوا کہ گاڑی دوسری طرف نہیں گری جہاں دریا تھا ورنہ بچنے کے امکان نہیں تھے۔ اس وقت گاڑی ڈرائیور کے بجائے چیمہ صاحب چلا رہے تھے۔ اس ناگہانی افتاد سے ان کے ہوش گم ہو گئے۔ میرے پاس حفظ ما تقدم کے طور پر خمیرہ ابریشم حکیم ارشد والا موجود تھا، فوراً انہیں کھلایا تو چند لمحے بعد ان کے ہوش و حواس بجا ہوئے۔ بابا جی (ہمسفر ساتھی پیر لال حسین صاحب) کی کلائی میں جھٹکا آ گیا تھا، باقی سب حضرات بخیریت تھے۔

اس وقت سب نے مل کر اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء کی اور دعا کی کہ خداوند قدوس اس بے سر و سامانی میں ہماری مدد کر۔ اللہ کی رحمت جوش میں آ گئی اور اسی وقت کالج کے لڑکے سے بھری بس، جو پکنک منانے جا رہے تھے انہوں نے ہماری حادثہ کی شکار گاڑی گڑھے میں گری دیکھی تو اپنی بس فوراً روک لی اور سب کے سب نیچے اتر آئے۔ پہلے ہماری خیریت دریافت کی پھر سب نے مل کر گاڑی کو گڑھے سے باہر نکال کر سڑک پر کھڑا کر دیا۔

گاڑی کا اگلا حصہ پچک چکا تھا، اس کا پہیہ جام ہو گیا تھا اور چلنے کے قابل نہیں رہا تھا۔ کافی دیر بعد یہ طے پایا کہ ہم میں سے 4 صاحبان واپس کرمان شاہ شہر جائیں اور کرین کا بندوبست کریں تاکہ گاڑی کو ورکشاپ پہنچایا جا سکے، میں اور ڈرائیور باغ حسین گاڑی کی دیکھ بھال کے لئے کار میں ہی ٹھہر گئے۔ یہ چاروں صاحبان کرمان شاہ جا کر ایک ہوٹل قصر جدید میں قیام پذیر ہوئے اور ان میں سے دو فوراً پولیس آفس گئے تاکہ گاڑی کے لئے مدد طلب کی جائے۔ مگر افسوس پولیس نے ان کی کوئی مدد نہیں کی اور اسی تردد اور پریشانی کے عالم میں رات ہو گئی۔

میں ان صاحبان کے جانے سے پہلے اپنے دفتری تجربہ کی بنیاد پر کہہ چکا تھا کہ ہم پاکستان میں اتنی آسانی سے کرین کا بندوبست نہیں کر سکتے، یہ تو پھر دیارِ غیر ہے اور ہم یہاں کی زبان بھی نہیں سمجھتے۔ ادھر میں اور ڈرائیور گاڑی میں بیٹھے سردی میں سکڑ رہے تھے۔ اس وقت اس جگہ کا درجہ حرارت منفی  C17- ڈگری تھا، ہر طرف برف ہی برف تھی، یہاں تک کہ پینے کے لئے پانی بھی دستیاب نہیں تھا، صرف برف کو پگھلا کر ہی پانی دستیاب ہو سکتا تھا۔ ہر آنے والی موٹر کار اور جیپ میں سوار لوگ ہماری گاڑی کو دیکھ کر رُک جاتے اور خیریت معلوم کرنے کے بعد مدد کی کوشش کرتے مگر گاڑی کے پہئے جام تھے لہٰذا ہِل بھی نہیں سکتے تھے اور وہ مجبور ہو جاتے تھے۔

 

بے بسی میں رزق کا انتظام

 

تقریباً شام 5 بجے ایک سیاہ رنگ کی کار ہمارے قریب سے گزری اور پھر لوٹ کر آئی۔ اس میں ایک شریف آدمی اپنے بیوی بچوں کے ہمراہ سوار تھا۔ اس نے ہماری گاڑی دیکھی اور بہت افسوس کیا۔ اس نے ہماری مدد کرنی چاہی اور کار کے اردگرد پتھر رکھوائے۔ ہم سے معلوم کیا کہ کھانا کھایا ہے یا نہیں؟ ہم نے کہا ہمیں بھوک نہیں ہے اور نہ ہی ہم نے کھانا کھایا ہے، اس پر اس کی بیوی نے اس سے فارسی میں کچھ کہا، غالباً کھانے کے متعلق تھا۔ اس مرد خدا نے گاڑی کی ڈگی کھولی اور 7انڈے ابلے ہوئے، ایک سیر فرائی آلو، اچار اور اس کے ساتھ 5-6 روٹیاں دیں کہ رکھ لو پھر کھا لینا۔ میں نے خدا کا شکر ادا کیا کہ اس رحیم ذات نے کیسے جنگل میں اپنے بندوں کو رزق پہنچایا۔

اب سردی زیادہ ہوتی جا رہی تھی اور گاڑی میں مزید بیٹھنا مشکل ہوتا جا رہا تھا، اتنے میں ایک ملٹری افسر جیپ میں ادھر سے گزرا، اس نے اتر کر حالات معلوم کئے اور ہماری کار کو ٹو کرنے کی کوشش کی مگر گاڑی اپنی جگہ سے نہ ہلی۔ پھراس نے ہم سے کہا کہ یہاں سردی زیادہ ہے اور رات کو یہاں رہا نہیں جا سکتا، میں تمہیں قریب کے قہوہ خانہ میں پہنچا دیتا ہوں۔ یہ قہوہ خانہ اس جگہ سے ڈھائی کلو میٹر دور تھا، قہوہ خانہ پہنچ کر سب سے پہلے ہوٹل کے مالک نے چائے پلائی۔ اس وقت سردی زیادہ تھی لہٰذا میں انگیٹھی کے سامنے بیٹھ گیا اور گزرے ہوئے حالات کا جائزہ لینے لگا۔ اللہ بڑا مسبب الاسباب ہے جس نے ایسی جگہ پرکھانے کے لیے روٹی دی اور رہنے کے لئے جگہ۔ اپنی بے بسی پر اور بے کسی پر رونا آیا، تو معبودِ حقیقی کو یاد کیا اور اسی سے فریاد کی کہ اے کریم ذات مجھ پردیسی پر رحم کر اور غیب سے مدد فرما۔ اس قہوہ خانہ پر رات تقریباً 10:30 بجے تک صوبیدار فضل کریم صاحب کا انتظار کیا مگر سوئے اتفاق کہ ان سے ملاقات نہ ہو سکی۔ آخر ہوٹل والے نے لیٹنے کی جگہ دی جہاں پر جا کر میں اور ڈرائیور لیٹ گئے مگر نیند کا کوسوں دور تک پتہ نہیں تھا۔ تمام رات بے چینی میں گزری، خدا خدا کر کے صبح ہوئی۔

 

بندہ خداَ عبدالستار ایدھی

 

روز 16

 

بتاریخ 5جنوری، صبح اٹھ کر سورج نکلنے کا انتظار کیا، پھر کار کی طرف روانہ ہوئے۔ ہوٹل کے بیرے نے از راہ ہمدردی ایک بس روکی اور اس سے کہا کہ وہ ہمیں ہماری کار تک بغیر کرائے کے اتار دے۔ ہم بس میں سوار ہو کر کار کے پاس پہنچ گئے۔ ایک بار پھر اپنی حالت پر رونا آیا اور اللہ کے توکل پر گاڑی میں بیٹھ گئے اور اس کی بارگاہ میں رو رو کر عرض کی کہ مالک حقیقی ہماری واپسی کا بندوست کر دے۔

تھوڑی دیر میں کیا دیکھتا ہوں کہ صوبیدار صاحب ایک ایمبولینس کار سے اتر رہے ہیں۔ ان کو دیکھ کر بے اختیار رونا آ گیا، وہ بھی خود کو نہ سنبھال سکے اور رونے لگے اور ان کے ساتھ سرور صاحب بھی رونے لگے۔ میں نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ اپنوں میں سے کوئی نظر تو آیا۔ یہ ایمبولینس کراچی کے عبدالستار ایدھی صاحب کی تھی۔ یہ بڑے خدا ترس آدمی تھے، انہوں نے ہماری بڑی دل جوئی کی اور کہا اگر روپیہ پیسے کی ضرورت ہے تو لے لو اور جس قدر ضرورت ہو لے لو اور اس کے علاوہ میں آپ کی کیا مدد یا خدمت کر سکتا ہوں؟ ہم نے ان کا شکریہ ادا کیا اور کہا اللہ آپ کو اجر عظیم عطا کرے، ہمیں پیسوں کی ضرورت نہیں ہے۔ اب جائے حادثہ سے گاڑی واپس کرمان شاہ لے جانی تھی۔

صوبیدار صاحب پچھلی رات تقریباً 10 بجے، جب میں اور ڈرائیور قہوہ خانے پہ موجود تھے، میری تلاش میں کار کے پاس آئے تھے لیکن اندھیرے میں وہ پرچہ جو میں کار میں لٹکا گیا تھا وہ نہ دیکھ سکے اور میری عدم موجودگی سے بڑے پریشان ہوئے اور انہوں نے واپسی پر پولیس اسٹیشن رپورٹ کی کہ اسطرح ہمارے دو آدمی کار کے پاس تھے مگر اب لاپتہ ہیں۔ پولیس والے نے میرا اور ڈرائیور کا حلیہ بتایا اور کہا کہ میں انہیں نزدیک قہوہ خانے چھوڑ آیا ہوں آپ فکر نہ کریں۔

 

سواری کے لیے سواری اور در بدر کی خواری

 

جائے حادثہ سے آگے ہم کرند غرب شہر آئے تاکہ وہاں سے گاڑی کا بندوبست کریں تاکہ کار کو ٹو کیا جا سکے مگر باوجود کافی کوشش کے کوئی بندوبست نہ ہو سکا۔ ہم نے صبح سے تو کیا پچھلے دن سے کچھ نہیں کھایا تھا لہٰذا چائے پینے چلے گئے۔ وہاں کئی فوجی جوان اور افسر بیٹھے تھے، ان سے بات چیت ہوئی۔ ان میں سے ایک بہت شریف شخص تھا وہ کہنے لگا کہ اگر آپ کار کے پاس ہوتے تو میں اسی طرف سے آ رہا تھا، آپ کی کار ٹو کر کے لے آتا، اب میں ڈیوٹی پر ہوں تو واپس نہیں جا سکتا۔ پھر بھی وہ ہمارے ساتھ پولیس چوکی گیا اور پولیس افسر سے ہماری مدد کرنے کو کہا۔ پولیس افسر نے کہا یہ میرا کام نہیں ہے، میں مدد نہیں کر سکتا۔ اس فوجی نے اس کو بہت سمجھایا اور کہا یہ پردیسی ہیں ان کی مدد کرنا انسانیت کی مدد کرنا ہے۔ آخر اس پولیس افسر نے ایک سپاہی ساتھ کیا اور کہا ان کی کار کا بندوبست کر دے۔ اب پھر جائے حادثہ پر پہنچے، یہاں پر قریب ہی سڑک پر مزدور کام میں لگے ہوئے تھے۔ اس سپاہی نے ان مزدوروں کو بلایا، وہ اپنے گیتی بیلچے ہتھوڑے لے کر آ گئے اور مار مار کر گاڑی کے پہئے کواس قابل کر گئے کہ اب وہ پہئے جام نہیں تھے، بلکہ گاڑی چل سکتی تھی اور دھکا دے کر کار کو اس قہوہ خانہ تک لے آئے جہاں گزشتہ رات میں نے بسر کی تھی۔

ہمارا آپس میں یہ طے پایا کہ ہم کرمان شاہ چلیں اور گاڑی یہیں چھوڑ دیں چونکہ یہاں سے کار ٹو کرنے کا بندوبست نہیں ہو رہا تھا۔ کرمان شاہ سے بقیہ ساتھیوں کو ہم راہ لے کر کار ٹو کر کے اگلے شہر قصر شیریں لے جائیں گے، وہاں اس کی مرمت ہو سکے گی۔ ہم بس میں بیٹھ کر قریباً 4 بجے شام کرمان شاہ پہنچے۔ یہاں شریف صاحب اور پیر بابا جی کا برا حال تھا، چونکہ انہیں ہمارے متعلق کچھ نہیں معلوم تھا۔ سب ایک دوسرے کو مل کر بہت روئے اور اللہ کا شکر ادا کیا کہ اس رحمت باری نے ہم سب کو پھر اکٹھا کر دیا۔ شام کو ایک بس والے سے بات کی اور اس کو بتایا کہ ہماری کار اس مقام پر کھڑی ہے اس کو اور ہم سب کو قصر شیریں لے جانا ہے۔ اس نے کہا کرایہ 6 افراد کا 30 ثمن اور ٹو کرنے کے 30 ثمن ہوں گے۔ ہم نے کہا ٹھیک ہے مگر جب جیب دیکھی تو معلوم ہوا کہ صرف 10 ثمن جیب میں ہیں اور ابھی ہوٹل کا کرایہ بھی دینا ہے۔ میں اور صوبیدار صاحب فوراً بازار گئے تاکہ ڈالر تبدیل کرائیں مگر اتفاق کی بات یہ ہوئی کہ آج جمعہ تھا اور صرافہ بند تھا، چونکہ یہاں پر جمعہ کو چھٹی ہوتی ہے۔ پھر بڑی مشکل سے ایک دوکان کھلی ملی، اس سے20 ڈالر کے 140 ثمن ملے مگر اب کافی دیر ہو چکی تھی اور اندھیرے میں کار ٹو نہیں ہو سکتی تھی لہٰذا سفر کل صبح تک ملتوی کرنا پڑا۔

 

 

روز 17

 

تاریخ 6 جنوری ہو چلی تھی اور اب ایک ایک لمحے کی تاخیر گراں گزر رہی تھی، چونکہ حج کا وقت قریب سے قریب تر ہوتا جا رہا تھا اور مسافت کافی باقی تھی۔ صبح کو ناشتہ سے فارغ ہو کر بس والے سے بات کی، اول تو کوئی تیار ہی نہ ہوتا تھا اور جو ہوتا تھا وہ 100 ثمن سے کم نہ مانگتا تھا۔ مرتا کیا نہ کرتا آخر طے کیا 100 ثمن ہی دے دیں۔ سامان وغیرہ ہوٹل سے اٹھا کر لاری اڈے لائے اور بس پر چڑھایا، یہاں پر سامان خود ہی بس کی چھت پر رکھنا پڑتا ہے، کلینر یا مزدور نہیں چڑھاتا۔ تقریباً 9:30 بجے روانہ ہوتے ہوتے 10 بج گئے۔

 

قصر شیریں میں قیام

 

ایک بجے قصر شیریں پہنچے، بس ڈرائیور نے کار ورک شاپ کے سامنے کھڑی کر دی اور چلا گیا۔ کار کو مستری نے دیکھا اور کہا ایک ہفتہ لگے گا ٹھیک ہو جائے گی اور 1000 ثمن مزدوری ہو گی، ریڈیٹر ہمیں خود خرید کر دینا ہو گا۔ ورکشاپ کا مالک اہل تشیع میں سے تھا اور دوران گفتگو اس کو معلوم ہوا کہ میں سیّد ہوں تو وہ فوراً کرسی سے اٹھا اور نیچے بیٹھ گیا۔ میں نے وجہ معلوم کی تو کہنے لگا آپ سیّد ہیں میں آپ کے برابر کیسے بیٹھ سکتا ہوں۔ ہم نے مستری، جو کہ مالک کا بیٹا تھا، سے کہا کہ ہم حج کو جا رہے ہیں اور وقت کم ہے، ایسا کر دو کہ گاڑی چالو ہو جائے، باقی کام مڈگارڈ اور دوسری چیزیں ٹھیک نہ کرے، وہ ہم پھر بعد میں کرا لیں گے۔ مستری نے کہا ٹھیک ہے کل دوپہر تک کر دوں گا مزدوری 400 ثمن ہو گی۔ ہم بینک سے اسی وقت ڈالر تبدیل کرا لائے اور ریڈیٹر تلاش کرنا شروع کیا۔ کچھ لوگوں نے ہماری بڑی مدد کی ورنہ یہاں پر نیا یا پرانا کسی قسم کا ریڈیٹر نہیں ملتا۔ خدا خدا کر کے ایک پرانا ریڈیٹر ملا جو 150 ثمن کا تھا، تب جا کے ہماری گاڑی پر کام شروع ہوا۔ مستری کا والد بہت اچھا انسان تھا اور اس کو یہ بھی معلوم ہو چکا تھا کہ میں سیّد ہوں اور حج پر جا رہا ہوں۔ اس نے اپنے بیٹے سے کہا یہ ثواب کا کام ہے پہلے یہ کام کرے باقی سب کام چھوڑ دے اور ورکشاپ کا فی الحال دروازہ بند کر دے، ہم نے یہاں پر ہوٹل محمدی میں قیام کیا اور پھر کار ٹھیک ہونے کا انتظار کرنے لگے۔

 

روز 18

 

7 جنوری کو تقریباً 4 بجے کار ٹھیک ہو گئی مگر اب اس کی موجودہ حالت میں اور پہلی صورت میں زمین آسمان کا فرق تھا۔ اب تو اس کا حلیہ ہی تبدیل ہو گیا تھا۔ دوسرے فریم وغیرہ جو ٹیڑھا مڑا تڑا ہو گیا تھا، وہ سیدھا نہیں ہوا تھا، اسٹیرنگ الٹے ہاتھ کا تھا اور الٹی ہی طرف بھاگتا تھا۔ کار کا اس صورت میں چلانا خاصا مشکل تھا، اندازہ ہی نہیں ہوتا تھا کہ کتنا اسٹیرنگ موڑا جائے کہ کار صحیح سمت میں چلے۔ خیر، کار چلنے کے قابل ہو گئی تھی۔ اللہ کا نام لے کر 5 بجے شام قصر شیریں شہر سے عراق کے لئے روانہ ہو گئے۔ مغرب کے وقت ایران بارڈر پر کاغذات دکھائے اور اندر اجات کرائے اور طے پایا کہ آج تمام رات سفر کیا جائے۔ 1:30 بجے شب ہم بغداد شریف پہنچ گئے۔

 

عراق میں مسلسل سفر

 

روز 19، 20، 21

 

8 جنوری کو صبح 8:30 بجے شیخ عبدالقادر گیلانیؒ کے مزار، واقع بغداد، پر حاضری دی، نوافل پڑھے، فاتحہ پڑھی اور بھر عازم سفر ہوئے۔ 10:30 بجے بغداد شریف سے روانہ ہوئے اور ہمارے پاس اب وقت بہت ہی کم تھا اور عراق میں 800 کلو میٹر کا سفر تھا جو کہ وقت کی مناسبت سے کافی زیادہ تھا، لہٰذا ایک بار پھر فیصلہ کیا کہ تمام رات سفر کیا جائے۔ تمام دن اور رات سفر کرتے رہے اور 9 تاریخ کو بھی دن رات سفر کیا اور 10 تاریخ کی صبح کو تقریباً 5 بجے کویت بارڈر میں داخل ہوئے، اندراجات کرائے اور کویت میں داخل ہو گئے۔ چونکہ 36 گھنٹے سے متواتر سفر میں تھے، لہٰذا ڈرائیور نے جواب دے دیا کہ وہ اب مزید گاڑی نہیں چلا سکتا۔ ہم نے بھی کہا ٹھیک ہے 2، 3 گھنٹے آرام کر لیا جائے پھر روانہ ہوں گے۔

 

کویت کا نیک پاکستانی

 

کویت میں 5، 6 کلو میٹر جا کر ایک کھلی جگہ میں کار کھڑی کر دی اور زمین پر بغیر بستر کے لیٹ گئے، نیند تو نہیں آئی مگر ذرا تھکان دور ہو گئی۔ چائے پی کر تازہ دم ہوئے اور سفر کے لئے روانہ ہوئے۔ تقریباً 1:30 بجے دن سعودی عرب بارڈر کے قریب پہنچے۔ یہاں آ کر راستہ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا چونکہ سڑک بن رہی تھی۔ ایک کویتی نے ہمیں اس طرح سڑکوں کے چکر لگاتے دیکھا تو وہ سمجھ گیا کہ ان کو راستہ معلوم نہیں ہے، اس نے ہماری کچھ مدد کی۔ تھوڑی دور جا کر ایک صاحب اور مل گئے پھر انہوں نے ہماری رہنمائی کی، یہ دونوں صاحب کویت کے رہنے والے تھے۔ پھر ایک پاکستانی جو کہ یہاں GMC میں جنرل منیجر ہے وہ مل گیا۔ اس نے کہا کہ آپ میں سے ایک آدمی میری کار میں بیٹھ جائے اور ہماری کار اس کے پیچھے پیچھے چلی آئے، میں اس کار میں سوار ہو گیا۔ اس کی کار نہایت عمدہ تھی، اس میں علاوہ ہیٹر اور ٹیپ رکارڈر کے وائرلیس سیٹ بھی نصب تھا اور وہ کار میں بیٹھے بیٹھے اپنے دفتر میں اپنے ماتحت عملے کو ہدایت دے رہا تھا۔ اس بھلے آدمی نے ہماری 35، 40کلو میٹر تک رہنمائی کی اورسعودی عرب کے بارڈر زرقانی کے قریب چھوڑ دیا۔

 

مدت ویزا نظروں سے اوجھل اور سرزمینِ مقدس میں داخلہ

 

جوں ہی ہم کویت بارڈر سے فارغ ہوئے وہاں پر ہی سعودی عرب کی حکومت نے اپنا دفتر کھول رکھا تھا تاکہ زائرین حج کو تکلیف نہ ہو۔ ہم سب انٹرنیشنل پاسپورٹ پر سفر کر رہے تھے اور مختلف ممالک کے ٹرانزٹ ویزے لگوائے ہوئے تھے۔ کار کی خرابی اور حادثہ کی وجہ سے اور گاڑی کی سست رفتاری جو کہ برف کی وجہ سے تھی راستہ میں ہمارے شیڈول سے زیادہ وقت لگ گیا۔ یہاں تک کہ ویزہ کا ٹائم بھی ختم ہو گیا۔ اللہ کی شان، یہاں پر ایک عربی کھڑا تھا، ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے وہ ہمارے انتظار میں ہی تھا۔ وہ ہمارے لئے اللہ کا فرشتہ ثابت ہوا۔ ا اس نے ہمارے کاغذات بڑی عجلت میں ہم سے لئے اور فوراً بھاگ دوڑ کر کے جملہ اندراجات کرائے۔ کسی نے ویزہ کی تاریخ ختم ہونے کا نہیں پوچھا۔ اس تمام کام میں تقریباً 3 بج گئے اور ہم خدا خدا کر کے سرزمین مقدس یعنی سعودی عرب میں داخل ہوئے۔

رات کو تقریباً 10 بجے الدمام شہر پہنچے۔ کافی تھکے ہوئے تھے لہٰذا ٹھہرنے کا پروگرام بنایا۔ رات کافی ہو چکی تھی، ہوٹل تلاش کرنا بھی مشکل تھا اور دوسرے کسی ہوٹل میں جگہ نہیں تھی۔ ایک عربی باشندے نے ہماری رہنمائی کی اور ایک ہوٹل میں پہنچا دیا۔ یہاں آ کر سب سے پہلے کھانا کھایا پھر ٹھہرنے کے لئے کمرہ معلوم کیا، ہوٹل والے نے بتایا کہ کمرہ تو نہیں ہے لیکن اس نے بڑی مہربانی کی کہ ایک دوسرے ہوٹل کو فون کیا اور کہا اس طرح حاجی صاحبان آئے ہوئے ہیں اور ایک کمرہ درکار ہے، اس نے جواب دیا کہ کمرہ تو نہیں ہے البتہ میں ان کے سونے کا بندوبست کر دوں گا۔ یہ ہوٹل والا ہمیں خود دوسرے ہوٹل لے گیا، اب مزے کی بات یہ تھی کہ کھانا وغیرہ تو ہم نے کھا لیا تھا مگر ہمارے پاس سعودی عرب کا سکہ یا کرنسی نہیں تھا جو بل ادا کریں۔ ہم نے ہوٹل والے کو بتایا، اس نے کہا کوئی بات نہیں صبح کو ڈالر بدلوا کر دے دینا۔

 

روز 22

 

11 جنوری کی صبح ایک بنک گئے اور ڈالر تبدیل کرائے اور آ کر ہوٹل کا بل چکایا۔ قیام کے 10 ریال فی کس دینے پڑے، اس لحاظ سے یہ ہوٹل بہت مہنگا ثابت ہوا مگر رات تھی اور مجبوری بھی تھی اور کوئی چارہ کار بھی نہیں تھا۔ خیر اب کھانے والے ہوٹل میں آئے، چائے پینے کا ارادہ کیا، اتنی دیر میں ایک پاکستانی جو کہ سیالکوٹ کا رہنے والا تھا اور ہوٹل کے سامنے اس کی جرنل مرچنٹ کریانہ کی دکان تھی آ گیا۔ سلام دعا کے بعد بات چیت ہوئی، اسے ہم نے راستے کی تفصیلات بتائیں۔ وہ فوراً اپنی دوکان سے 3، 4 بسکٹوں کے ڈبے اور ٹن فوڈ وغیرہ لے آیا اور چائے وغیرہ کے دام بھی خود ہی ادا کئے ہم نے چیزیں لینے سے انکار کیا مگر وہ کہنے لگا لے جاؤ راستے میں کام آئیں گے۔

 

ایک دن کی مدت اور ایک ہزار میل

 

10 بجے کے قریب ہم الدمام شہر سے ریاض کے لئے روانہ ہوئے، اور مغرب کے وقت ریاض پہنچے۔ اب حج شروع ہونے میں صرف ایک دن باقی تھا اور ہمیں تقریباً 1200 کلو میٹر کا سفر کرنا باقی تھا۔ ہماری کار کی بھی حالت تسلّی بخش نہیں تھی اور کار 65 کلو میٹر کی رفتار سے زیادہ چل نہیں سکتی تھی، لہٰذا بغیر قیام کے سفر جاری رکھا۔ تقریباً 300 کلو میٹر کا فاصلہ ہی طے کیا تھا کہ اچانک کار کا بیرنگ ٹوٹ گیا۔ اس وقت رات کے دو ڈھائی بجے ہوں گے۔ ایک بار پھر اللہ کی یاد میں لگ گئے اور گڑ گڑا کر التجا کی کہ اے ذات پاک اب اتنے قریب آ گئے ہیں، ہمیں حج کی سعادت سے محروم نہ کر۔ میرے ہمسفر ساتھی حاجی صاحبان حالت کی نزاکت کی وجہ سے حج کی سعادت سے مایوس ہو گئے تھے مگر میں نے ان کے ایمان کو تازہ کیا اور کہا کہ اگر حج ہماری قسمت میں نہیں تھا تو ہم سب جائے حادثہ پر ہی وفات پا جاتے، لیکن اللہ نے ہمیں محفوظ رکھا۔ انشاء اللہ ہم حج ضرور کریں گے۔ اسی دعا اور امید میں رات گزاری۔

 

روز 23

 

بتاریخ 12 جنوری، صبح کے وقت ایک جیپ اس راستے سے گزری۔ اس کو روک کر اپنی حالت زار بتائی۔ وہ ہمارے قافلہ میں سے 3آدمیوں کو شقراء، جو یہاں سے 80 کلو میٹر دور تھا، لے گیا۔ وہاں سے ایک مستری کا بندوبست کیا اور ایک پرانا بیرنگ جو مستری کے پاس تھا لے کر واپس آئے۔ اس کاروائی میں تقریباً 2، 3 گھنٹے صرف ہوئے۔ مستری نے ٹوٹا ہوا بیرنگ نکال کر دوسرا پرانا بیرنگ جو وہ لے کر آیا تھا تبدیل کر دیا اور اجرت 150ریال لی۔ اس مشقت کے بعد سفر دوبارہ شروع ہو گیا۔ ابھی صرف 90 کلو میٹر گئے تھے کہ ایک شہر الدوادمی کے پاس آ کر کار کا اگلا ٹائر پھٹ گیا اور ساتھ ہی بریک بھی خراب ہو گئے۔

پہلے تو ارادہ ہوا کہ نیا ٹائر خرید لیں مگر یہاں پر ٹائروں کی دکان نہیں تھی اور پرانے ٹائر اس قابل نہیں تھے کہ انہیں خریدا جائے۔ دوسرا وقت بالکل نہیں تھا، نا چار، بادل نخواستہ پیر صاحب کو کار میں چھوڑ کر دوسری سواری کا بندوبست کرنے لگے۔ اب یہی طے پایا کہ کار کو یہیں الدوادمی شہر میں چھوڑ دیا جائے اور ہم تمام چھ افراد کسی طرح مکہ معظمہ کے لئے روانہ ہو جائیں۔ آخر کار ایک پک اپ گاڑی کرائے پر مکہ شریف تک کے لئے طے کی۔ اس پک اپ والے نے 150 ریال معاوضہ لیا۔ الدو ادمی سے تقریباً دو پہر 3 بجے مکہ شریف کے لئے روانہ ہوئے۔ ابھی تقریباً 800 کلو میٹر کا سفر باقی تھا۔

 

ایام حج-یوم اول

 

23 دن کے پرخطر راستوں، موسم کے مختلف مد و جزر، اور ان گنت سفری مشکلات کے بعد اب ہم اپنے سفر کی معراج، یعنی فریضہ حج میں شامل ہونے سے صرف چند سو کلو میٹر کے فاصلے پر تھے۔

بتاریخ 8 ذوالحجہ (13 جنوری) کی صبح صادق تقریباً 3:30 بجے طائف شہر پہنچے۔ یہاں پر سر راہ ہوٹل میں قیام کیا۔ اس نے ٹھہرنے کا ایک ریال اور ایک بالٹی پانی برائے غسل کے 2 ریال وصول کئے۔ نہا، دھو کر احرام باندھا، ناشتہ کیا اور 4 بجے کے قریب مکہ شریف کے لئے روانہ ہوئے۔ چونکہ مکہ یہاں سے 90، 100 کلو میٹر ہے اور راستہ سارا پہاڑی ہے، چنانچہ 10 بجے مکہ پہنچے۔ پک اپ گاڑی جس میں ہم سوار تھے چونکہ مکہ کی نہیں تھی لہٰذا شہر میں داخل نہیں ہو سکتی تھی اور ہمیں شہر کی حدود پر واقع اڈے پر ہی اترنا پڑا۔ یہاں سے ہم نے ایک ٹیکسی 30ریال پر معلم کے گھر تک کے لئے طے کی۔ اس معلم سے بابا جی (پیر صاحب) کے اچھے تعلقات تھے، کیونکہ اس سے پیشتر بھی وہ اسی معلم کے پاس ٹھہرے تھے۔ وہاں پہنچ کر جلدی جلدی ٹیکسی سے سامان اتارا، اور معلم کے گھر گئے، معلوم ہوا اس کے گھر میں کوئی نہیں ہے اور ٹھہرنے کا بندوبست نہیں ہو سکتا۔

بابا جی کی صاحب سلامت کام آئی، اور معلم کی بیوی نے کہا کہ اب حج شروع ہو چکا ہے لہٰذا آپ اپنا سامان کہیں بھی رکھ کر منیٰ چلے جائیں۔ آخر کار مکان کی آٹھویں منزل پر برآمدہ میں سامان رکھنے کی جگہ ملی، بڑی مشکل سے سارا سامان اس منزل پر پہنچایا اور پھر فوراً کعبہ شریف کے طواف کے لئے روانہ ہوئے۔ اور واپس معلم کے گھر آئے اور وہاں سے ایک مقامی آدمی کو ساتھ لیا تاکہ وہ ہمیں منیٰ لے جائے۔ معلم منیٰ میں اپنے حاجیوں کے لئے خیمہ لگاتے ہیں، ہمارا خیال تھا کہ بابا جی راولپنڈی سے اپنی اور ہماری آمد کے متعلق معلم کو لکھ چکے ہوں گے اور ایک خیمہ ہمارے لئے وہاں مختص ہو گا۔ جب ہم 3ریال فی کس ٹیکسی کا کرایہ دے کر منیٰ پہنچے تو معلوم ہوا وہاں بھی ہمارے ٹھہرنے کا کوئی بندوبست نہیں ہے، اب بڑی پریشانی ہوئی چونکہ حج کے ارکان کی رو سے 5 نمازیں جو کہ ظہر سے شروع ہوتی ہیں منیٰ میں ٹھہر کر ہی ادا کرنی تھیں، خیر سوئے اتفاق بابا جی کی ایک مریدنی ہاجرہ جو کبھی اس معلم کے گھر خادمہ کا کام کرتی رہی تھی مل گئی، اس نے ایک مختصر سے ڈیرہ میں رہنے کا بندوبست کر دیا اور ہم سب یاد اللہ میں مصروف ہو گئے۔

 

ایام حج- یوم دوم

 

اگلے دن صبح کو فجر کی نماز کے بعد فارغ ہو کر عرفات کے لئے روانہ ہوئے۔ وقوفِ عرفات حج کا سب سے بڑا فریضہ ہے اور عرفات کے مقام پر ادا کیا جاتا ہے۔ فجر کی نماز ادا کر کے منیٰ سے رخصت ہوئے اور راستے میں دعائیں وغیرہ مانگتے ہوئے چلتے رہے اور عرفات پہنچے۔ یہاں معلم کا معلوم کیا لیکن خیمہ یہاں بھی نہیں تھا، خیر ایک اور خیمہ میں دیگر حاجیوں کے ساتھ شامل ہو گئے چونکہ صرف دن ہی دن عرفات میں گزارنا تھا۔ یہاں پر نمازِ ظہر راولپنڈی کی جامع مسجد کے خطیب فیضی صاحب نے پڑھائی۔

عصر کی نماز پڑھ کر مزدلفہ چلنے کی تیاری کی۔ حج کی رُو سے مزدلفہ کی جانب سورج غروب ہونے پر عرفات سے روانہ ہوتے ہیں اور مغرب کی نماز ذرا دیر سے مزدلفہ میں ادا کرتے ہیں، عشاء بھی اسی کے بعد ادا کر لی جاتی ہے۔ مزدلفہ کے راستہ میں بے حد ہجوم تھا، بہر صورت مزدلفہ پہنچے اور خالی جگہ تلاش کی تاکہ بیٹھنے اور لیٹ جانے کی گنجائش نکل آئے۔ کافی دور جا کر ایسی جگہ نصیب ہوئی، کمبل ریت پر بچھا کر نماز مغرب ادا کی۔ آج کی رات خلاف معمول مزدلفہ میں زیادہ خنکی تھی ورنہ یہاں پر موسم گرم اور خشک رہتا ہے، خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ رات پھر بھی آرام سے بسر ہوئی گو کہ نہ بستر تھا اور نہ ہی کپڑے پہنے ہوئے تھے یعنی احرام میں تھے۔ یہاں پر ہی 49 کنکریاں پہاڑی سے جمع کیں اور ان کو دھویا چونکہ یہی کنکریاں شیطان کو مارنا تھیں۔

 

ایام حج- یوم سوم

 

صبح نماز فجر سے فارغ ہو کر پیدل سورج طلوع ہونے کے بعد منیٰ کے لئے روانہ ہوئے۔ منیٰ میں تین دن قیام کرنا تھا، منیٰ پہنچ کر بمشکل تمام خیمہ جو کہ مشترکہ تھا ملا، چونکہ ایک ہی جیسے ہزارہا خیمہ لگے ہوئے تھے اور تھوڑی دیر سانس لے کر قربانی کے لئے روانہ ہوئے۔ اول تو راستے میں بے پناہ رش مگر قربان گاہ میں تو الامان الحفیظ جو ایک بار گرا وہ پھر اٹھ نہ سکا، اس غریب کی ہڈیوں کا قیمہ ہو گی۔ ہجوم کے اس قدر تیز ریلے آ رہے تھے کہ خود کو سنبھالنا اور سیدھا کھڑا ہونا مشکل ہو رہا تھا۔ قربان گاہ میں اس قدر جانور ذبح ہوئے پڑے تھے کہ تل دھرنے کو جگہ نہیں تھی، بلکہ ایک ایک جانور کے اوپر 5، 6 جانور ذبح کر کے ڈالے ہوئے تھے۔ گویا بڑی مشکل اور نفسا نفسی کا عالم تھا، ایک قیامت تھی جو بپا ہوئی تھی۔ ہم نے ایک آدمی کے ذریعہ جلدی جلدی 4 دنبے خریدے اور ہر ایک نے اپنا دنبہ اپنے ہاتھ سے ذبح کیا۔ اور اسطرح حضرت ابراہیم خلیل اللہ کی سنت ادا کی۔ یہاں پر جانور کافی مہنگے تھے اور ہمارے ایک دنبہ کی قیمت 90 ریال تھی۔

اس فرض سے فارغ ہو کر واپس بمشکل تمام پہنچے کیونکہ راستے میں آدمیوں کا ایک سمندر تھا جس کو عبور کر کے بخیریت تمام خیمہ میں پہنچنا اللہ کریم کے معجزے سے کم نہیں تھا۔ تھوڑی دیر بعد ایک اور رکن حج کو پورا کرنا تھا، یعنی7 کنکریاں بڑے شیطان کو مارنی تھیں۔ تقریباً ڈیڑھ گھنٹہ سستا کر تازہ دم ہوئے اور ایک بار پھر جم غفیر کا مقابلہ کرنے نکلے اور بمشکل تمام الجمرۃ یعنی بڑے شیطان کے قریب پہنچے۔ ہم ساتھیوں کی آپس میں یہ طے پائی کہ دو صاحب جوتوں کے پاس کھڑے ہو جائیں اور باقی جا کر کنکریاں مار آئیں اور ان کی واپسی پر یہ صاحبان چلے جائیں۔ کنکریاں قریب سے قریب تر ہو کر ماری جاتی ہیں، شیطان مٹی کا ایک گول ستون ہے جو زمین سے تقریباً 4، 5 فٹ اونچا بنا ہوا ہے اور ’’بسم اللہ اللہ اکبر۔ اللہ شیطان کو ذلیل کر‘‘ کہہ کر یکے بعد دیگر کنکریاں مارنی پڑتی ہیں اور ہر بار وہی پڑھنا پڑتا ہے۔ یہاں بھی لوگوں کا ایک اژدحام تھا، جس میں لوگ کبھی کبار دب اور دم گھٹ کر مر جاتے ہیں۔ ہم نے بہت سے اس قسم کے حادثے کے شکار افراد کے جنازے دیکھے۔

کنکریاں مارنے کے کام سے فارغ ہو کر واپس خیمہ میں آئے اور پھر کچھ دیر آرام کیا۔ اب ہم اپنا احرام کھول چکے، کیونکہ حج کے احرام کی حالت میں ادا کرنے والے ارکان ہم پورے کر چکے تھے۔ منیٰ میں موجود خیمے میں آرام کرنے کے بعد طواف زیارت کعبہ اور سعی کے لئے حرم کعبہ کی جانب روانہ ہوئے۔ یہ بھی حج کے رکن میں سے ہے اور افضل یہ ہے کہ مغرب سے پہلے ادا کیا جائے اور واپس آ کر منیٰ ہی میں قیام کیا جائے۔ طواف خانہ کعبہ اور سعی بھی ایک بے حد کٹھن مرحلہ تھی چونکہ آدمی پر آدمی چڑھا جا رہا تھا، خیر اللہ کے کرم سے اس رکن کی ادائیگی سے بھی بخیریت تمام فارغ ہو گئے، مگر رش کی وجہ سے ہم ساتھی ایک دوسرے سے بچھڑ گئے۔ واپسی پر ایک موٹر پر بیٹھے جو منیٰ جا رہی تھی مگر اس نے معلوم نہیں منیٰ کے کس مقام پر اتار دیا جو ہمیں معلوم نہ تھا اب کبھی اس سڑک پر کبھی اس سڑک پر چکر کھاتے رہے اور معلم کا خیمہ تلاش کرتے رہے مگر وہ نہیں مل رہا تھا، کسی سے معلوم کرتے ہیں تو وہ بھی ہماری طرح اجنبی اور اگر کسی عربی باشندے سے معلوم کریں تواس کی عربی ہماری سمجھ میں نہ آئے۔ خیر مجھے کچھ سڑک کا نام اور قطعہ نمبر یاد تھا۔ دو گھنٹے ہلکان ہونے کے بعد ایک عربی شخص سے اس علاقے کا نقشہ دیکھ کر سڑک کا اندازہ لگایا اور جب خیمہ کے قریب پہنچے تو معلوم ہوا کہ اس سڑک سے ہم کئی بار گزر چکے ہیں۔ اس مشقت سے ہم کافی تھک چکے تھے تو بقیہ رات کو آرام کیا۔

 

بعد از حج مکہ شریف میں دس دنوں کا قیام

 

اگلے روز پھر 7، 7کنکریاں چھوٹے، اس سے بڑے اور سب سے بڑے شیطان کو مارنے گئے اور واپس آ کر آرام کیا۔ تیسرے دن پھر 7، 7 کنکریاں بعد نماز ظہر تینوں شیطانوں کو ماریں اور پھر واپس مکہ شریف معلم کے گھر جہاں سامان آٹھویں منزل پر رکھ گئے تھے آ گئے۔ یہاں پہنچے تو دیکھا کہ اس عمارت میں کوئی کمرہ خالی نہیں تھا، بمشکل تمام اسی آٹھویں منزل پر برآمدہ میں بستر لگائے، گو کہ پورے بستروں کے لئے جگہ نہ تھی تو دو دو آدمی ایک بستر پر سوئے۔ یہاں پر پانی کی کافی قلت تھی اور باہر سے اس منزل پر لانا بھی آسان کام نہ تھا، بہرحال جیسے تیسے 4، 5 روز گزارے، اس کے بعد نیچے کی منزل میں ایک مختصر سا کمرہ خالی ہوا جو ہمیں مل گیا اور ہم آرام سے رہنے لگے۔

مکہ شریف میں میں، صوبیدار صاحب اور سرور صاحب کی ایک پارٹی بن گئی تھی۔ ہمارا یہ پروگرام تھا کہ شب 9، 9:30 بجے اٹھتے اور حرم شریف کے لیے روانہ ہو جاتے اور وضو وغیرہ کر کے تہجد کی نماز ادا کرتے یہاں پر تہجد کی اذان 11 بجے ہوتی ہے۔ اس کے بعد 12 بجے فجر کی اذان اور اس کے فوراً بعد جماعت۔ ہم فجر کی نماز با جماعت پڑھتے، پھر فارغ ہو کر اپنے وظائف اور قرآن خوانی میں مصروف ہو جاتے اور اشراق کی نماز سے قبل یا بعد طواف خانہ کعبہ کر کے گھر آتے۔ واپسی پر راستے میں روٹی لے آتے اور اصلی گھی جو ہم پاکستان سے لائے تھے اس کے ساتھ لگا کر کھا لیتے۔ اسی اثنا میں چائے تیار ہو جاتی، وہ پیتے اور 2 گھنٹے آرام کر کے پھر ظہر کی نماز کے لئے چل دیتے۔ بھیڑ کی وجہ سے نماز سے 2، 3 گھنٹے پہلے جانا پڑتا تھا۔ ظہر کی نماز سے فارغ ہو کر کھانا کھا کر تھوڑا سا آرام کرتے پھر عصر کے لئے خانہ کعبہ پہنچ جاتے اور پھر عشا پڑھ کر واپس آتے۔

دوسری پارٹی بابا جی، چیمہ صاحب اور ڈرائیور کی تھی جو یہاں آ کر ہم سے کچھ کھچی کھچی سی رہتی تھی۔ ان کا پروگرام ہم سے بالکل مختلف تھا اور ہم سے میل نہ کھاتا تھا۔ باوجود معلوم ہونے کے کہ ہماری کار خراب ہے اور یہاں سے 700 کلو میٹر دور کھڑی ہے، یہاں اس پارٹی میں کسی کو تجسس نہیں تھا کہ کوئی واپسی کا پروگرام بنائیں۔ جو رقم گرہ میں تھی وہ روز بروز کم سے کم تر ہوتی جا رہی تھی مگر ظاہراً کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگ رہی تھی کہ کیا کیا جائے۔ کچھ احباب سے ادھار لینے کی کوشش کی مگر یہاں سب کا حال پتلا تھا۔ پھر پردیس میں موٹی رقم کون دیتا ہے۔ دن اسی طرح گزر رہے تھے جب ہم نے دیکھا کہ یہاں تو کوئی پروگرام نہیں بناتا تو اب خود ہی کچھ کیا جائے۔ میں احرام کی چادریں جو قربانی والے دن گندی ہو گئیں تھی اٹھا کر سرور صاحب کے ساتھ بالٹی لے کر ایک کنویں پر پہنچا اور ان کو دھوکر پاک کیا۔ اگلے دن سے اپنے مشاغل میں عمرہ کا اضافہ ہو گیا اور پہلے دن والدہ مرحومہ کے لئے عمرہ کیا۔ دوسرے دن والد صاحب کا خدا ان کا سایہ ہمیشہ ہمارے سروں پر قائم رکھے اور انہیں بھی حج کی سعادت سے بہرہ ور کرے آمین۔ ان کا عمرہ کرنے کے بعد تیسرے دن اپنی شریک حیات ممتاز بیگم کا عمرہ ادا کیا، ممتاز بیگم کا میرے حج پر آنے میں بڑا حصہ، دعائیں اور نا معلوم کیا کیا کچھ تھا۔

خانہ کعبہ دیکھ کر عجیب سکون محسوس ہوتا تھا۔ یہاں پر وظائف اور قرآن خوانی کا بھی ایک عجیب مزہ آتا تھا جو بیان نہیں کیا جا سکتا، میں نے یہاں پر ایک قرآن ختم کیا جو کہ میں نے پہلے سے شروع کیا ہوا تھا اور تین بار صلوٰۃ تسبیح پڑھی۔

 

پرانے قرض کی تازی مصیبت

 

روز 36

 

بتاریخ 25 جنوری، آج زبردستی لڑ جھگڑ کر پروگرام بنایا اور مدینہ منورہ کے لئے بذریعہ ٹیکسی بالعوض 130 ریال کا بندوبست کیا۔ جب ہم اپنا سامان ٹیکسی پر لادنے لگے تو ایک نئی مشکل آ کھڑی ہوئی۔ شروع سے ہمارے علم میں یہ تھا کہ بابا جی کا معلم، جس کے گھر پر ہم نے رہائش اختیار کی، کافی واقف ہے اور اس نے بابا جی کو 800 ریال دینے ہیں لہٰذا ہم اس کو قیام کے پیسے نہیں دیں گے۔ اب معلم کا تو انتقال ہو گیا تھا اور اس کا بیٹا اس کی جگہ نیا معلم بن گیا تھا۔ اب بابا جی کی پرانی رقم قابل وصول کی واپسی کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا اور معلم کا بیٹا بابا جی کو کوئی خاص اہمیت بھی نہیں دیتا تھا۔ خیر پیر صاحب کی مرحوم معلم کی بیوی سے بھی کافی اچھی دعا سلام تھی چونکہ جب بھی کسی کے ساتھ حج پر آتے تھے تو یہاں ہی قیام کیا کرتے تھے۔ انہوں نے اس سے کچھ طے کر لیا۔ جب ہم طواف الوداع خانہ کعبہ سے آئے تو پیر صاحب نے بتایا کہ 25 ریال فی کس کرایا قیام دینا ہے۔ یہ بات ہم پر بم کی طرح گری چونکہ ہمارے پاس تو آگے ہی رقم کم تھی، خیر مرتے کیا نہ کرتے، ہم نے رقم اکٹھی کی اور پیر صاحب کو دے کر بھیجا۔ اسی دوران ہم نے مل کر ٹیکسی پر سامان لادا۔ تھوڑی دیر میں کیا دیکھتے ہیں کہ پیر صاحب منہ لٹکائے آ رہے ہیں اور فرماتے ہیں کہ معلم کا لڑکا اپنی ماں سے لڑ رہا ہے اور کہتا ہے کہ 150 ریال فی کس کرایا لوں گا۔ اب بڑی پریشانی اور کسمپرسی کی حالت تھی۔ ایک طرف سامان ٹیکسی پر لادا  جا چکا تھا اور دوسری طرف کرایے کا مسئلہ آ گیا اور ہمارے پاس اتنی رقم بھی نہیں تھی۔ خیر سب نے مل کر معلم کے لڑکے سے بات چیت کی اور اس کو کار کے حادثے کی پوری روداد سنائی۔ اسنے ہماری روداد سن کر رقم بھی واپس کر دی اور کہا یہ رقم آپ میری طرف سے رکھ لیں۔

اللہ اللہ کر کے مکہ شریف سے مدینہ منورہ کے لئے روانہ ہوئے اور راستے میں ایک ہوٹل میں کھانا کھایا۔ یہاں ایک پلیٹ چاول ایک ریال اور آدھا سیر مچھلی 5 ریال کی تھی۔ رقم کافی خرچ ہوئی اور پیٹ بھی نہیں بھرا مگر پیر صاحب کا مچھلی کھانے کو دل چاہ رہا تھا لہٰذا ایسا کرنا پڑا۔ رات تقریباً 8 بجے مدینہ منورہ پہنچے۔ یہاں جس معلم کے ہاں ٹھہرنے کا خیال تھا اس کے پاس جگہ نہیں تھی، ہماری شامت اعمال۔ خیر یہاں بھی پیر صاحب کا ایک مرید مل گیا اور اس نے ایک کمرہ برائے دس یوم 150 ریال میں دلوا دیا اور اپنا کمیشن لے کر ایسا غایب ہوا کہ قیام کے دوران اپنی شکل تک نہ دکھائی۔ بعد میں ہمیں معلوم ہوا کہ یہاں پر اس قسم کی جگہ ایک ریال فی کس فی دن مل سکتی تھیں، پیر صاحب کی وجہ سے یہاں بھی کام خراب ہوا۔ پیر صاحب کے نزدیک روپیہ کی کوئی قیمت نہ تھی مگر ہماری شامت تھی۔

 

روز 37-45

 

مدینہ منورۃ کی با برکت فضاؤں میں

 

یہاں آ کر جمعہ، بتاریخ 26جنوری، سے چالیس نمازیں ادا کرنی شروع کیں۔ صبح نئے کپڑے پہن کر نہا دھو کر تیار ہوئے اور حضور مقبولﷺ کے دربار عالی مقام پر حاضر ہوئے، سلام عرض کیا اور نماز شروع کی۔ یہاں بھی ہمارے تین آدمیوں کی پارٹی بنی اور معمول بنا کہ صبح صادق اٹھ کر مسجد نبویﷺ میں حاضر ہوتے تہجد پڑھتے، پھر وظائف اور قرآن خوانی کرتے۔ ان سے فارغ ہو کر روضہ رسول پر سلام پڑھ کر واپس آتے ہوئے راستے میں روٹی لی، آ کر چائے بنائی اور ناشتہ کیا۔ دوسری پارٹی اب بھی علیحدہ کھانے وغیرہ کا بندوبست کر رہی تھی۔

 

ادھار کا مسئلہ اور عبد الستار ایدھی

 

مدینہ شریف میں ہمارا قیام 10 یوم کا تھا اور اس دوران تمام نمازیں با جماعت مسجد نبوی میں ادا کیں۔ اب یہاں پر بھی ادھار مانگنے کا سلسلہ شروع ہوا اور ہر بار ہمیں ایک نئی کہانی سنائی جاتی، مگر نتیجہ صفر ہی رہتا، یہاں کچھ نفسا نفسی کا عالم تھا۔ جب کہیں سے ادھار نہ مل سکا تو ہم نے پھر اس مرد خدا کی تلاش کی۔۔ عبد الستار ایدھی۔ آج ہم نے مسجد نبوی سے نکلتے ہوئے بڑی زاری سے دعا کی کہ رب کائنات ہماری مدد فرما، قدرت کی شان دیکھئے کہ جوں ہی مسجد سے باہر قدم رکھا، ایدھی صاحب سامنے ہی کھڑے تھے۔ انہوں نے کہا کہ میں آپ کو 150 ڈالر دے سکتا ہوں، ہم نے بھی اتنی ہی رقم کی ضرورت بتائی تھی۔ انہوں نے کہا میں نے بنک سے 13 روپیہ فی ڈالر خریدے ہیں وہ آپ لے لیں اور پاکستان پہنچ کر جب سہولت ہو دے دیں۔ اس دوران پیر صاحب اور چیمہ صاحب نے بھی کچھ رقم اپنے ذرائع سے اکٹھی کر لی تھی۔

 

واپسی کا سفر اور مدینہ سے رخصت

 

روز 46، 47

 

بتاریخ 4 فروری، رات کو سب نے کوشش کی کہ کوئی ٹیکسی مل جائے تاکہ شقرا جہاں پر گاڑی کا سامان پڑا تھا چلا جائے لیکن اس وقت کوئی بندوبست نہیں ہو سکا۔ آخر 5 فروری کی صبح کو مسجدنبوی سے نماز فجر سے فارغ ہو کر حضور سرور کائناتﷺ کی خدمت میں سلام عرض کیا اور اشکبار آنکھوں سے جانے کی رخصت مانگی اور آئندہ پھر حاضر ہونے کی دعا کی اور پھر چشم پر نم لیے مسجد سے باہر آئے۔ کئی ٹیکسی والوں سے بات کی آخر ایک ٹیکسی والا 150 ریال میں شقراء جانے کے لئے تیار ہوا، راستہ 800 کلو میٹر کے قریب تھا اور مدینہ سے 3:30 بجے روانہ ہوئے تھے اس وجہ سے ایک دن میں پہنچنا مشکل تھا۔ رات کو ایک جگہ سجیرہ میں قیام کیا۔ یہاں سے شقراء 65 کلو میٹر اور الدوادمی 130 کلو میٹر تھا۔ رات میں صلاح مشورہ کیا اور یہ بات طے ہوئی کہ ہم شقراء کی بجائے الدوادمی ہی چلیں جہاں کار کھڑی کر کے گئے تھے، ورنہ مشکل ہو گی۔ ہم نے ٹیکسی والے کو کہا، پہلے تو اس نے انکار کیا آخر 20 ریال زیادہ پر راضی ہو گیا۔

 

غمِ دوراں کی طرف واپسی

 

روز 48، 49

 

بتاریخ 6 فروری، دس بجے دن الدوادمی پہنچے۔ جس مستری کے پاس کار کھڑی کی تھی وہ بہت گرم جوشی سے ملا۔ اس سے ہم نے کار کی بیٹری چیک کرائی، خدا کی شکر بیٹری ڈاؤن نہیں ہوئی تھی، چھوٹی موٹی خرابی ٹھیک کرائی جس کی اس مستری نے کوئی اجرت نہ لی، صرف پچس دن کی چوکیداری کے 12 ریال لئے اور کہا کار ٹھیک ہے لے جاؤ، بیلنس کی خرابی صرف ریاض شہر میں دور ہو سکتی ہے میرے پاس اس کا سامان نہیں ہے۔ ہم الدوادمی سے شقراء پہنچے اور مستری جس کو کار کا ٹوٹا ہوا سامان دیا تھا تلاش کیا۔ وہ اپنی دکان پر موجود نہیں تھا لیکن تھوڑی دیر میں آ گیا، اس نے حال چال پوچھا، پھر ہم نے اس کو بتایا کہ جو پرانا والا بیرنگ اس نے ڈالا تھا وہ بالکل خراب ہو گیا ہے اور ہم کار کو الدوادمی چھوڑ کر حج کے لئے چلے گئے تھے۔ اور دوسرے بیرنگ کی قیمت تو صرف 10 ریال بنتی ہے جب کہ آپ نے ہم سے 150 ریال لئے، یہ بالکل نا انصافی ہے۔ مگر ایک دفعہ جو آدمی رقم لے لے وہ پھر بھلا واپس کہاں کرتا ہے۔ ہم نے اس سے کہا کہ وہ اس بھاری قیمت کی تلافی میں ہماری گاڑی کے ٹوٹے مڈگارڈ ہی ٹھیک کر کے لگا دے، مگر اس نے یہ کام کرنے سے انکار کر دیا اور کہا یہ بیکار ہے انہیں پھینک دیں اور ریاض شہر سے نئے لگوا لیں۔ ان کو ٹھیک کرنے کی مزدوری نئے پارٹس سے زیادہ ہو گی۔

مستری کے ساتھ بے سود ملاقات کے بعد ہم نماز مغرب کے لئے مسجد گئے، وہاں ہمیں ایک بچہ ملا جو نماز کے لئے آیا ہوا تھا اور وضع قطع سے پاکستانی معلوم ہوتا تھا۔ ہم نے اس سے دریافت کیا تو اس نے بتایا کہ وہ گجرات پاکستان کا رہنے والا ہے اور اس کا باپ یہاں 6، 7 سال سے حجام کا کام کر رہا ہے۔ ہمیں ایک مترجم کی ضرورت تھی لہٰذا اس نے ملنے کا پروگرام بنایا اور بچے سے کہا کہ بیٹا اپنے ابا سے ملوا دو، پیر صاحب کہنے لگے اس کو یہیں بلوا لو تو میں نے کہا کہ کام ہمارا ہے ہمیں خود اس سے ملنے جانا چاہئے۔ جب ہم میں سے کچھ افراد اس کے گھر پہنچے تو اس مرد خدا نے فوراً اپنے گھر کے دروازے ہم پر کھول دئیے اور کہا اندر آ جائیے، ہم نے کہا ہماری کار اور دو ساتھی ہوٹل میں ہمارا انتظار کر رہے ہوں گے، اس نے کہا آپ تشریف رکھیں میں انہیں بھی یہیں بلوا  لیتا ہوں۔ ہم نے اپنے آنے کی غرض بتائی، اس بھلے مانس نے کہا یہ آپ کا گھر ہے آرام کیجئے غرض و غایت بعد میں ہو گی۔ ہم نے انکار کیا مگر وہ مصر ہو گیا آخر ہمیں اس کے گھر قیام کرنا پڑا، اس نے بہت پر تکلف کھانا کھلایا اور اگلے دن ناشتہ کرایا اور عرض کی کہ 2، 3دن مزید قیام کریں۔ ہم نے اسے اپنی مجبوری بتائی۔ اس نے کہا کہ مستری سے بات چیت کرنے میں کوئی فائدہ نہیں ہے، آپ اس کار کو ریاض لے جائیں، وہاں پر ایک پاکستانی ورکشاپ ورشہ الباکستان محلہ ملز میں ہے، ان سے اسے ٹھیک کرا لیں۔

 

ریاض شہر اور پاکستانی مہمان نوازی

 

ہم نے اس نیک دل آدمی سے اجازت چاہی اور ریاض کے لئے روانہ ہوئے۔ بتاریخ 7 فروری، تقریباً دو پہر 2 بجے ریاض پہنچے۔ یہاں آ کر وہ پاکستانی ورک شاپ تلاش کرنے لگے لیکن وہ نہ مل سکی۔ پھر سوچا کہ فلائٹ لیفٹینینٹ ضیا صاحب، جن کے نام اور پتہ کا خط ہمارے ساتھی چیمہ صاحب نے اپنی امداد کے لئے ان کے بھتیجے میجر صغیر صاحب سے منیٰ میں لیا تھا، کو تلاش کیا جائے۔ آخر تلاش کرتے ہوئے ان کے محلہ میں پہنچے اور یہاں پر ایک کرنل صاحب کے مکان پر آئے یہ سوچ کر کہ پاکستانی ہیں ممکن ہے ضیا صاحب کو جانتے ہوں۔ کرنل انعام علی بڑی خندہ پیشانی سے پیش آئے اور کہا کہ بھئی مجھے معلوم نہیں لیکن چلتے ہیں آپ کے ساتھ تلاش کرا دیتا ہوں۔ ابھی چلے ہی تھے کہ ایک میجر صاحب مل گئے انہوں نے کرنل صاحب کو ضیا صاحب کا گھر بتایا اور ہم منزل پر پہنچ گئے۔ ضیا صاحب سے ملے اور ان کو وہ پرچہ دیا جو ان کے بھتیجے نے حج کے دوران منیٰ میں دیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ بیٹھیں چائے کا دور ہو جائے، مگر ہم نے انکار کر دیا اور کہا ہماری کار خراب ہے، ہمیں پاکستانی ورکشاپ ورشہ الباکستان پہنچا دیں۔ وہ فوراً تیار ہو کر ہمارے ساتھ ہو لئے اور ہمیں ورکشاپ میں لے گئے۔ جس سڑک پر ورکشاپ تھی ہم اس ہی سڑک سے ابھی گزرے تھے مگر یہ ورکشاپ ہمیں نہیں ملی تھی۔ ورکشاپ صوفی احمد صاحب کی تھی اور جملہ کام کرنے والے لاہور مزنگ سے تعلق رکھتے تھے، سب نے ہمیں ہاتھوں ہاتھ لیا اور اپنے رہنے والی جگہ میں قیام کی پیش کش کی۔ یہ سب لوگ انتہائی خلیق، ہمدرد اور رحم دل تھے۔ یہاں آ کر کار کو دکھایا۔ ورکشاپ کا مالک فوراً ہمارے ساتھ اپنی کار میں پرانے پارٹس دیکھنے گیا اور ایک جگہ سودا بھی ہو گیا۔ لیکن وہ 400 ریال مانگ رہا تھا اور ہم 200 ریال دینا چاہتے تھے، بات نہ بنی تو واپس آ گئے۔

لیفٹینینٹ ضیا صاحب بذات خود بہت نیک انسان تھے اور نہایت سادہ رہن سہن والے تھے۔ انہوں نے کہا کہ شام کا کھانا وہ لے کے آئیں گے۔ ان سے میں نے اپنے ایک جان پہچان والے وارث صاحب کا پتہ معلوم کیا، کہنے لگے میں ان کا گھر نہیں جانتا البتہ کل دفتر جا کر انہیں بتا دوں گا۔ رات 8:30 بجے وہ ایک بڑے ڈبہ میں کھانا، چاول، مرغی کا سالن اور ایک ٹھرمس میں چائے لے کر آئے۔ ہم سب نے سیر ہو کر کھایا، اور اللہ کا شکر ادا کیا اور ورکشاپ میں مستریوں کے کمرہ میں بستر لگا کر دراز ہو گئے۔

 

روز 50

 

8 فروری کی تاریخ کو صبح اول وقت ہماری کار پر کام شروع ہو گیا۔ ویلڈنگ کا تمام کام ختم کر کے ایک بار پھر کل والے سپیئر پارٹس کے دکان دار کے پاس گئے اور اس سے ان پرانی چیزوں کا 300 ریال میں سودا کیا اور اس کے سب پرزے علیحدہ کئے تاکہ لانے میں آسانی ہو۔ اسی دن تقریباً 10 بجے میرے عزیز وارث صاحب مجھ سے ملنے ورکشاپ آئے، میں اس وقت ورکشاپ میں کار کے پاس کھڑا ہوا مرمت کا کام دیکھ رہا تھا۔ وہ مجھے فوراً اپنے گھر لے گئے، اور ناشتہ کرایا۔ پھر وہ اپنے دفتر چلے گئے اور کہہ گئے کہ دوپہر کھانے پر پھر آؤں گا۔ ڈھائی بجے وارث صاحب کی دفتر سے چھٹی ہوئی اور وہ واپس آئے اور ہم نے مل کر کھانا کھایا اور پھر کہنے لگے کہ اپنے ساتھیوں کو بھی یہاں میری رہائش گاہ پر لے آؤ۔ میں نے کہا کہ ہم ورکشاپ پر بالکل ٹھیک ہیں اور کار کے قریب رہ کر اس کی مرمت کا کام آرام سے کراسکتے ہیں۔ وہ مصر رہے لیکن میں نے ہم سب کو ان کے گھر لے جانا مناسب نہ سمجھا۔ وارث صاحب رات کو بھی ہمیں کھانے کے لئے لے جانے آئے، مگر ورکشاپ کا دروازہ بند تھا اور ورکشاپ سے متصل رہائش گاہ کا دوسرا راستہ انہیں معلوم نہیں تھا، لہٰذا واپس چلے گئے، ضیا صاحب بھی شام کو ملنے آئے۔

 

روز 51

 

آج 9 فروری کو جمعہ کا دن تھا اور ورکشاپ کی چھٹی تھی۔ بہر حال جو گاڑی کا سامان کل سپیئر پارٹس کی دکان پر کھول کر رکھ آئے تھے اس کو لینے کے لئے ورکشاپ کی کارمیں مستری کے ہمراہ گئے اور سامان کار پر لاد کر واپس آئے۔ یہاں ورکشاپ پر وارث صاحب میرے منتظر تھے، آج دوپہر کا کھانا ضیا صاحب کے ہاں کھانا تھا، وہ کل مدعو کر گئے تھے۔ جمعے کے دن کی تیاری کے لیے میں، صوبیدار صاحب اور پیر صاحب، وارث صاحب کے ساتھ نہانے کے لئے ان کے گھر چلے گئے اور بقیہ حضرات ایک اور جگہ مستری شاہ دین کے ہمراہ چلے گئے۔ جوں ہی ہم وارث صاحب کے گھر پہنچے ناشتہ تیار تھا۔ ہم نے ناشتہ کیا اور اچھی طرح گرم پانی سے نہائے اور واپس ورکشاپ آئے۔

وارث صاحب نے شام کے کھانے پر بھی مدعو کیا۔ ورکشاپ پہنچے تو جمعہ کی نماز کا وقت ہو رہا تھا اور ہمارے ساتھی جمعہ کی نماز کو  جا چکے تھے، ہم شاہ دین کی کار میں بیٹھ کر بادشاہ کی مسجد میں جمعہ ادا کرنے گئے۔ ہمارے پہنچنے کے چند منٹ بعد جمعہ کی نماز شروع ہو گئی۔ جمعہ سے فارغ ہوئے تو اسی مسجد میں ضیا صاحب اور دیگر حضرات مل گئے۔ وہاں سے ضیا صاحب کے گھر گئے، بڑے پر تکلف کھانے کھلایا اور تازہ پھلوں سے ہماری تواضع کی۔ کھانے سے فارغ ہوئے تو ضیاء صاحب اپنی کار میں ہم سب کو ورکشاپ چھوڑ گئے اور شام کو آنے کا وعدہ کیا۔ حسب پروگرام وارث صاحب شام 7:30 بجے پہنچ گئے لیکن ضیاء صاحب ابھی تک نہیں آئے تھے۔ دوسرے چیمہ صاحب اور ڈرائیور شہر گئے تھے تو ہمیں ان کا انتظار کرنا پڑا۔ اسی اثنا میں ضیاء صاحب تھوڑی دیر میں آ گئے اور 200 ریال بطور امداد پیش کیے۔ چیمہ صاحب ابھی تک تشریف نہیں لائے تھے اور دیر کافی ہو گئی تھی (9 بجے) لہٰذا طے پایا کہ چلا جائے۔

ہم سب وارث صاحب کی کار میں ان کے گھر پہنچے، کھانے میں حلیم پیش کی گئی جو ہم نے بہت شوق سے کھائی۔ وارث بھائی نے پھر اپنی خدمات پیش کی اور کہا کہ انہی کے گھر ٹھہرا جائے، مگر ہم نے پھر اپنی مجبوری بتائی تو وارث صاحب ہم سب کو واپس ورکشاپ چھوڑ آئے اور کہنے لگے کہ تمہیں ناشتہ اور کھانے کی تکلیف ہو گی تو میں وہ پہنچا دیا کروں گا، ہم نے ان کی یہ پیشکش منظور نہیں کی کیونکہ ہم ان کو اتنی زحمت نہیں دینا چاہتے تھے اور نہ ہی ان کے گھر پر رکنا چاہتے تھے۔ بہر کیف وارث صاحب بہت اچھی طرح ہمدردی اور خندہ پیشانی سے پیش آتے رہے۔ وارث صاحب ائیر فورس میں ملازم تھے اور میرے عزیز تھے۔

 

روز 52

 

آج، بتاریخ 10 فروری، کار کا کام پھر شروع ہوا اور مستری اقبال تمام دن صرف ہماری کار ہی ٹھیک کرتا رہا۔ دوپہر میں ورکشاپ کے منتظم صوفی صاحب سب کو اپنے گھر اپنی کار میں بٹھا کر کھانے کے لئے لے گئے، یہاں پر مرغ پلاؤ، دہی، کیلے اور مالٹے تھے، کافی پر تکلف دعوت تھی۔

سواری کی بلا آخر صحتیابی

 

روز 53

 

۱۱ فروری کی تاریخ کو کار ٹھیک ہو گئی اور اگلے دن واپسی کا سفر اختیار جانے کا قصد کیا۔ شام کو وارث صاحب تشریف لائے اور میرے ساتھ بازار جانے کا پروگرام بنایا۔ بازار سے فاطمہ ( وارث صاحب کی بیگم) نے اپنے بھائیوں کے لئے دو سویٹر اور ایک فر والا کوٹ خریدا۔ آدھا کلو کاجو برائے ممتاز (میری بیگم) اور باجی صاحبہ کے لیے علیحدہ علیحدہ خریدے۔ اس خرید و فروخت میں رات کے 10 بج گئے۔ واپسی پر میز پوش یاد آیا پھر واپس بازار گئے اور میز پوش کے 2، 4 سیٹ پیس بعوض 16 ریال خریدے۔ گھر آ کر کھانا کھایا اور یہ سب سامان اور 2 پیکٹ کھجور ساتھ لے کر رات کو وارث صاحب مجھے واپس ورکشاپ چھوڑ گئے۔ دوران خریدی وارث صاحب اوران کی بیگم مصر تھیں کہ میں بھی کوئی چیز خرید لوں لیکن یہاں پر ریال روپیہ برابر تھا اور میرے حساب سے ہر چیز تین گنا قیمت میں پڑتی تھی۔ میں نے اسی میں بہتری سمجھی کہ کوئی چیز نہ خریدی جائے، وارث صاحب نے کہاکہ روپے کی فکر مت کرو، پاکستان پہنچ کر دے دینا، مگر قرض سے خریدنا کوئی عقلمندی نہیں تھی اور میرے پاس اتنی فالتو رقم نہ تھی کہ خریداری کرتا۔ دوسرے یہاں کوئی خاص چیز بھی نہ تھی یہ سب چیزیں پاکستان میں بھی مل جاتی ہیں۔

 

روز 54

 

12 فروری کی صبح کو ہم اللہ کا نام لے کر واپسی کے لیے عازم سفر ہوئے۔ ریاض سے الدمام کے لیے اپنی گاڑی میں روانہ ہوئے۔ راستہ بڑا طویل، تقریباً 400 کلو میٹر تھا اور ہر طرف لق و دق صحرا تھا۔ دور دور تک آدمی کا نشان نہ تھا، کہیں کہیں ایک آدھ ہوٹل نظر آ جاتا تھا۔ 11:30 بجے ایک جگہ پہنچے جہاں پر ہوٹل تھا، یہاں سے کھانا کھایا، گاڑی میں پیٹرول بھروایا اور روانہ برائے الدمام ہوئے۔ ابھی تھوڑی ہی دور پہنچے تھے کہ ایک پاکستانی وین ملی اس کی کمانی ٹوٹ گئی تھی۔ یہ قافلہ کے ساتھ تھی مگر اس قافلہ کی بسیں الدمام  جا چکی تھیں۔ انہوں نے ہمیں ایک پرچہ دیا کہ ان کے قافلہ والوں کو دے دیں، وہ پرچہ لے کر ہم روانہ ہوئے اور مغرب کے بعد الدمام پہنچے۔ یہاں پر لب سڑک ہی ہوٹل میں قیام کیا، ہوٹل والے نے ٹھہرنے کا ایک ریال فی کس کرایا لیا۔ پہنچنے کے فوراً بعد دال پکائی، روٹی اس ہوٹل پر ختم ہو گئی تھی تو ایک دوسری جگہ سے لے کر آئے، کھانا کھایا، فارغ ہو کر چائے پی اور نماز پڑھ کر سو گئے۔ وین والے کا پرچہ قافلہ والوں کو دے دیا اور انہوں نے بتایا کہ کمانی لے کر ایک آدمی پہلے ہی چلا گیا ہے چونکہ انہیں اطلاع پہلے ہی مل چکی تھی۔

 

کویت میں مختصر قیام

 

روز 55

 

13 فروری کو صبح 7 بجے الدمام سے زرقانی، جو کویت کی سرحد پر واقع تھا، کے لئے روانہ ہوئے۔ تقریباً 2 بجے زرقانی سے فارغ ہو کر کویت میں داخل ہوئے، کویت بارڈر پر دخول کا اندراج کرایا اور کویت سٹی شہر کی طرف چل دئیے جو یہاں سے تقریباً 120-100 کلو میٹر تھا۔ شام کو 4:30 بجے GMC کمپنی کے سامنے پہنچ کر نذیر احمد بھٹی جو اس کمپنی میں جنرل منیجر ہیں ان کا معلوم کیا۔ آج عاشورہ محرم تھا لہٰذا دفتر کی چھٹی تھی، میں نے احسان صاحب جو میرے رشتہ دار تھے اور کویت ہی میں رہتے تھے ان کو فون کیا۔ احسان صاحب کے دوست ونگ کمانڈر الطاف صاحب فون پر ملے مگر انہیں احسان صاحب کے گھر کا پتہ معلوم نہیں تھا، پھر بھی انہوں نے کہا کہ میں کوشش کرتا ہوں ورنہ کل انہیں ضرور اطلاع کر دوں گا۔ وہ کہنے لگے بہتر ہو گا آپ حاجی کیمپ میں ٹھہر جائیں۔ ہم سب مغرب کے وقت حاجی کیمپ پہنچے پہلے نماز ادا کی پھر وہاں ٹھہرنے کے بندوبست کے لئے پاکستانی سفارت خانہ کے دفتر گئے۔ وہاں بھٹی صاحب جن کو ہم تلاش کر رہے تھے مل گئے اور بھٹی صاحب بھی حاجی کیمپ کی انتظامیہ میں تھے۔ وہ ہم سب کو پہلے تو اپنے گھر لے گئے، کھانا وغیرہ کھلایا، چائے پلائی پھر ایک جگہ جو ان کے مکان سے قریب ہی تھی ہمارے ٹھہرنے کا بندوبست کر دیا۔ یہاں پر قاری یٰسین صاحب سے ملاقات ہوئی، یہ پنڈی کے قریب کے گاؤں کے رہنے والے تھے اور بابا جی کو اچھی طرح جانتے تھے، یہ صاحب جامعۃ الازہر مصر سے فارغ التحصیل تھے اور قرأت بہت اچھی کرتے تھے۔

 

پاکستان عراق سفارتی تلخی اور ہمارا ویزا

 

روز 56

 

14 فروری کی صبح کو بھٹی صاحب نے بڑا پر تکلف ناشتہ کرایا بھٹی صاحب کے گھر فون تھا، وہاں سے میں نے احسان صاحب کے دفتر فون کیا مگر ان کا پتہ معلوم نہ ہو سکا۔ ہمیں عراق کا ویزہ لینا تھا، لہٰذا جلدی جلدی قاری صاحب کو لے کر عراق سفارت خانہ پہنچے۔ فارم وغیرہ پُر کر کے جمع کرائے، انہوں نے کہا کل یعنی  15 فروری کو ویزہ ملے گا۔ عراق پاکستان تعلقات خراب ہونے کی خبر ہمیں مل چکی تھی۔ خبر کچھ یہ تھی کہ دس فروری 1973 کو اسلام آباد میں واقع عراقی سفارت خانہ میں پاک فوج کی ایجنسیوں نے چھاپا مار کر بھاری مقدار میں اسلحہ پکڑا تھا جو بلوچستان میں موجود علیحدگی پسندوں کو سپلائی کیا جانا تھا۔ پاکستانی حکومت نے عراقی سفیر کو غیر پسندیدہ شخصیت قرار دے کر ملک بدر کر دیا تھا۔ لہٰذا ہماری کوشش یہ تھی کہ جلد از جلد عراق کا ویزہ حاصل کیا جائے اور عراق میں ہمارے سفر کو جلدی عبور کیا جائے۔

دوپہر کو ہم بازار گئے اور وہاں سے قاری صاحب نے اچار کی بوتل لی اور روٹیاں خریدیں اور ہم نے مل کر کار میں بیٹھ کر کھائیں، کھانے سے فارغ ہو کر سمندر کے کنارے چلے گئے کچھ سیر و تفریح کرنے کے لیے، اب ظہر کا وقت ہو چکا تھا لہٰذا وہیں ساحل پر بڑے بڑے پتھروں پر اللہ کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہوئے اور نماز سے فارغ ہو کر واپس بھٹی صاحب کے گھر آئے۔ اب شام کے 4، 5 بج گئے تھے، میں نے وہیں سے ونگ کمانڈر الطاف صاحب کو فون کیا اور اپنے عزیز احسان صاحب کے بارے میں معلوم کیا، انہوں نے بتایا کہ انہوں نے احسان کو کسی صاحب کے ذریعہ مطلع کر دیا ہے اور وہ اسی علاقہ میں رہتے ہیں جہاں میں ٹھہرا ہوا ہوں، اب تو جستجو اور بھی بڑھ گئی، احسان صاحب کو معلوم تھا کہ میں حاجی کیمپ میں ٹھہرا ہوا ہوں اور وہ اطلاع ملتے ہی میرے لئے حاجی کیمپ پہنچے اور اعلان کرایا مگر میں تو وہاں ٹھہرا ہوا ہی نہیں تھا لہٰذا وہ ناکام واپس آ گئے ہوں گے۔ میں نے سوچا کہ یہ تو پتہ چل گیا ہے کہ وہ ہمارے قرب و جوار میں رہتے ہیں تو اب کچھ ترکیب کی جائے ان کے مکان کی تلاش میں۔ میں قریب ہی ایک نائی کی دکان تھی وہاں چلا گیا اور معلوم کیا کہ یہاں قریب میں کوئی ائیر فورس کے آدمی رہتے ہیں؟ میرا خیال تھا کہ اگر کسی پاکستانی ائیر فورس والے کا پتہ مل جائے تو احسان صاحب کا گھر معلوم کر لوں گا۔ میں نے جب دوکان والے کو احسان صاحب کا حلیہ بتایا تو اس نے کہا، وہی احسان صاحب جو اسی سال اپنی کار میں حج کو گئے تھے اور ان کے والدین جدہ سے حج کے لئے آئے تھے؟ میں نے کہا ہاں، وہی احسان صاحب، اس نے ایک ہندوستانی کی دکان بتائی اور کہا وہاں سے ان کا پتہ معلوم ہو جائے گا۔ میں اس دکان پر پہنچا، دکان والا مسلمان تھا اور بڑا خلیق تھا۔ اس نے کہا کہ احسان صاحب اس کی دکان سے سودا وغیرہ لیتے ہیں لیکن اس کو ان کے گھر کا پتہ نہیں، البتہ کہنے لگا مغرب کے بعد آئیے میرا بھائی آ جائے گا اور وہ آپ کو ان کے گھر بھجوا دے گا۔

میں نماز مغرب سے فارغ ہو کر پھر اس دکان پر پہنچا، دکان دار کا بھائی آ گیا تھا، اس نے ایک صاحب کو میرے ساتھ بھیجا جو اسی علاقے میں رہتا تھا، اس نے مجھے احسان صاحب کے گھر پہنچا دیا۔ یہاں آ کر معلوم ہوا کہ احسان صاحب حاجی کیمپ گئے ہیں اور مجھے تلاش کر رہے ہیں، ان کی بیگم مل کر بہت خوش ہوئیں اور کہنے لگیں کہ آپ یہیں ہمارے گھر ٹھہریں۔ میں نے کہا، میرے ساتھ اور بھی احباب ہیں لہٰذا میں نہیں ٹھہر سکتا، لیکن وہ مُصر ہو گئیں۔ ریاض والے وارث صاحب کی بیگم نے 10 ڈالرز دئیے تھے کہ کویت سے 2 عدد قینچی اور دو زگ زیگ سلائی والے پرزے خرید کر پاکستان لے جاؤں، ایک میری بیگم کے لیے اور ایک ان کی امی کے لیے۔ لہٰذا احسان صاحب کو کہا کہ بازار چلیں اور بیگم احسان بھی مع بچوں کے میرے ساتھ بازار گئیں۔ جس دکان سے چیزیں لینا تھیں وہ بند تھی اور اسٹین لیس سٹیل کی قینچی یہاں پر بہت مہنگی تھی، ایک کی قیمت تین دینار تھی اور پرزہ بھی اسی قیمت کا تھا۔ بازار سے فارغ ہو کر 10 بجے رات کو واپس آئے، کھانے سے فارغ ہو کر کچھ دیر گھریلو بات چیت کی اور پھر سو گئے۔ سرور صاحب نے ساڑھے ۹ دینار کا چار بینڈ کا ٹرانزسٹر ریڈیو خریدا اور میں نے ڈھائی دینار کی پیسنے والی مشین خریدی۔

 

عراقی سرزمین سے عجلت میں سفر

 

روز 57

 

15 فروری کی صبح سویرے اٹھے، تو احسان صاحب کی بیگم نے ناشتہ پیش کیا اور ہمارے راستے کے لئے پراٹھے اور قیمہ تیار کیا اور ایک ڈبہ میں بند کر کے دے دیا۔ پروگرام کے مطابق ہم عراق کا ویزہ لینے روانہ ہوئے جو کافی دیر میں ملا، لہٰذا پھر جائے قیام پر آ گئے۔ ابھی پہنچے ہی تھے کہ احسان صاحب آ گئے اور مجھے کھانے کے لئے گھر لے گئے۔ نماز سے فارغ ہو کر سامان باندھا اور احسان صاحب سے کہا کہ ہماری رہنمائی کریں اور عراق کو جو سڑک جاتی ہے اس پر چھوڑ دیں، وہ تیار ہو گئے۔ عصر کا وقت تھا، نماز سے فارغ ہو کر تقریباً 4:30 بجے شام کویت سٹی سے عراق بارڈر کی طرف روانہ ہوئے۔ مغرب کے بعد کویت بارڈر پر پہنچے خروج کرایا اور عراق میں داخل ہو گئے۔ یہاں پر سامان کی چیکنگ میں کافی دیر لگی، مگر ایک عراقی آدمی جو سفارت خانہ میں کام کرتا تھا اس کی ڈیوٹی تھی کہ وہ قافلے والوں کی مدد کرے۔ اس کا نام عبدالقادر تھا، اس نے ہمارا کام پھر بھی جلد کرا دیا۔ یہ صاحب بصرہ کے رہنے والے تھے اور ہماری کار میں بصرہ تک آئے اور ہمیں ایک سستے ہوٹل میں پہنچا دیا۔ یہ ہوٹل دریائے دجلہ اور فرات کے کنارے پر تھا، ہوٹل والے نے 150 فلس فی کس کرایا لیا اور ہم نے رات یہاں بسر کی۔

 

 

روز  58

 

بتاریخ 16 فروری، صبح کو اٹھ کر نماز وغیرہ سے فارغ ہوئے۔ پھر چائے بنائی اور روٹی خرید کر لائے اور خوب مزہ مزہ سے کھائی۔ یہاں سے قریب ہی دریا میں اسٹیمر سروس، یعنی کشتی سروس، چلتی ہے، جس سے دریا کے دوسرے طرف جانا ممکن تھا۔ ہم نے اپنی کار اسٹیمر پر بمعہ سامان لاد دی اور دریا پار کیا اور خرم شہر میں داخل ہو گئے۔ یہاں سے ایران بارڈر بالکل قریب تھا اور ہم عراق میں بذریعہ سڑک زیادہ سفر نہیں کرنا چاہتے تھے، ایک تو سیاسی وجہ تھی دوسرا ہمارا سفر بھی بچتا تھا۔ گاڑی میں سوار ہو کر ابھی تھوڑی ہی دور گئے تھے کہ کچا راستہ شروع ہو گیا اور کار ایک جگہ گارے میں دھنس گئی۔ یہاں پر پچھلی شب بارش ہوئی تھی جس کی وجہ سے سب مٹی گارا بن گئی تھی۔ کار دھنسنے کی وجہ سے ایک خاص قسم کی آواز دینے لگی تھی، روک کر دیکھا لیکن خرابی معلوم نہ ہو سکی۔ اسی دوران دو کاریں افغانیوں کی آ گئیں۔ ان کے ڈرائیوروں نے بھی کار کی جانچ پڑتال کی لیکن انہیں بھی خرابی معلوم نہ ہو سکی۔ ایک ڈرائیور نے کہا کہ کار کی مشینری بالکل ٹھیک ہے، آپ سفر جاری رکھو۔ ہم نے پھر بھی کسی مشکل صورتحال سے بچنے کے لیے گاڑی پر لوڈ کم کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس لیے میں اور صوبیدار صاحب افغانیوں کی کار میں بیٹھ گئے، تھوڑی دیر بعد عراقی بارڈر آ گیا، یہاں پر پہنچ کر خروج کرایا اور ایران کی طرف روانہ ہوئے۔ تقریباً ایک میل کے فاصلے پر ایرانی بارڈر تھا، یہاں بھی سامان کی چیکنگ ہوئی اور دخول کا اندراج کرایا۔ اس جگہ اچھا خاصا ڈیڑھ گھنٹہ لگ گیا۔ اس سے فارغ ہو کر ہم خرم شہر سے اھواز کی طرف روانہ ہوئے۔ اھواز پہنچنے کے بعد ہم اگلی منزل اندیمشک شہر کی طرف نکلے مگر وہ خاصی دور تھا، لہٰذا راستے میں ایک ہوٹل میں قیام کیا اور کھانا وغیرہ کھایا۔

 

سر راہ مسافروں سے مشورہ لینے کا نقصان

 

روز 59

 

بتاریخ 17 فروری، صبح کو چائے پی کی فارغ ہوئے اور اندیمشک کے لیے روانہ ہوئے۔ یہاں سے پہاڑی سلسلہ شروع ہو گیا، یہ پہاڑ کافی پر پیچ تھے اور برف سے ڈھکے تھے، مگر برف سڑک پر نہیں تھی، ابھی ہم راستے میں تھے کہ ایک کار ہمارے پاس سے گزری اور ہمیں رکنے کا اشارہ کیا۔ ہم نے اپنی کار روک لی، اور رکوانے کی وجہ معلوم کی۔ انہوں نے ہم سے نسوار کا پوچھا، ہم نے کہا کہ ہم نسوار نہیں کھاتے۔ اس کار والے نے ہماری منزل کا معلوم کیا، ہم نے کہا کہ ہم پاکستان جا رہے ہیں۔ اس نے کہا آپ تہران نہ جائیں بلکہ اصفہان کے راستے یزدکرمان سے پہنچ کر مشہد جائیں، تہران سے دوسرا راستہ برفانی ہے اور لمبا بھی ہے۔ اس شخص نے مزید کہا کہ وہ خود بھی اسی راستے سے آ رہا ہے اور یہ بہتر ہے۔

ہم بجائے تہران جانے کے اب اس نئے راستہ پر چل پڑے، مغرب کے وقت نماز ادا کی اور پھر دورود شہر جو کہ یہاں سے 40، 50 کلو میٹر تھا کے لیے روانہ ہوئے۔ یہ راستہ کچھ بہتر نہیں تھا، خیر اللہ کا نام لے کے چلتے رہے اور 8 بجے کے قریب دورود پہنچے، یہاں پر ایک ہوٹل کا پتہ کیا یہ قدرے مہنگا تھا، لہٰذا دوسرا ہوٹل تلاش کیا، لیکن خدا کا شکر کہ جلد ہی مل گیا۔ یہ ہوٹل نسبتاً سستا تھا۔ ہم ابھی کھانے سے فارغ ہو کر بیٹھے ہی تھے کہ ایک پولیس والا آ گیا اور ہم سے پاسپورٹ مانگے۔ ہم نے دریافت کیا کہ یہ کس سلسلے میں پاسپورٹ مانگے جا رہے ہیں۔ ہوٹل والے نے کہا کہ اس نے خود حفظ ماتقدم کے طور پر فون کر کے پولیس والے کو بلایا ہے۔ خیر ہم نے پاسپورٹ دکھا دئیے اور وہ پولیس والا چلا گیا۔ لیکن تھوڑی ہی دیر بعد پھر وارد ہو گیا اور کہنے لگا کہ پاسپورٹ اس کو دے دیں اور صبح کو پولیس چوکی سے لے لیں۔ ہم نے کہا کہ ہم نے صبح سویرے روانہ ہونا ہے لہٰذا پاسپورٹ نہیں دے سکتے۔ اس نے کہا کہ اس نے اپنی کار روائی پوری کرنی ہے، لہٰذا ایک آدمی ساتھ چلے اور پاسپورٹ واپس لے آئے۔ ہمارا ایک آدمی پولیس والے کے ساتھ گیا اور کار روائی ختم ہونے پر پاسپورٹ واپس لے آیا۔

 

روز 60

 

بتاریخ 18 فروری، صبح کو درورد شہر کہ اس ہوٹل سے اصفہان کے لئے روانہ ہوئے۔ اصفہان کافی دور تقریباً 300 کلو میٹر تھا، مگر ہم 3 بجے کے قریب اصفہان پہنچے۔ یہاں آ کر راستے کا معلوم کیا، لیکن یہاں کے لوگوں نے کہا کہ یہاں سے مشھد کا راستہ انتہائی خراب ہے اور اندیشہ ہے کہ آپ کی کار اس راستے پر خراب نہ ہو جائے، لہٰذا بہتر یہ ہے کہ آپ یہاں سے تہران جائیں اور وہاں سے مشہد براستہ آبعلی، ساحل کے راستے ہوتے جائیں۔ ہم سب نے مل کر مشورہ کیا اور پھر یہی طے پایا کہ تہران چلا جائے۔ ویسے اس وقت کے ضائع ہونے اور بیکار فاصلہ طے کرنے کا سب کو افسوس تھا، مگر اب کوئی چارہ کار نہیں تھا۔ خیر اللہ کا نام لے کر تہران کے لئے روانہ ہوئے۔ مغرب کے وقت ہم نے اپنی کار ایک جگہ روکی اور نماز ادا کی، ابھی ہماری نماز ادا ہی کر رہے تھے کہ ایک فوجی جیپ آ کر رکی اور اس میں سے ایک سپاہی وارد ہوا اور کہنے لگا یہ ممنوعہ علاقہ ہے آپ لوگ یہاں کیوں ٹھہرے ہیں۔ ہم نے کہا ہم نا واقف ہیں، اس نے کہا آپ کو بورڈ تو پڑھنا آتا ہے۔ خیر اس نے پاسپورٹ وغیرہ دیکھے اور پاسپورٹ نمبر وغیرہ لکھے، اس کے بعد وہ ہمیں اپنے افسر کے پاس لے گیا۔ ہم نے اس کو اپنی پوزیشن بتائی، بہرحال اس نے ہمیں جانے دیا اور کہا کہ خیال کریں، ہمیں یہ حکم ہے اور یہاں پر کوئی آدمی ٹھہر نہیں سکتا۔ اب ہم پھر اپنے سفر پر روانہ ہوئے، تہران یہاں سے 350 کلو میٹر تھا، لہٰذا ایک جگہ ولی جان سے 18 کلو میٹر پہلے ایک چھوٹے سے ہوٹل میں سر راہ قیام کیا، چونکہ اس وقت رات ہو گئی تھی اور ڈرائیور تھک گیا تھا۔

 

پھر وہی تہران اور شہری بے ہنگمی

 

روز 61

 

19 فروری کی صبح کو نماز اور ناشتہ سے فارغ ہو کر ہم تہران کے لئے روانہ ہوئے اور 12:30 بجے تہران پہنچے۔ یہاں آ کر سب سے پہلے کھانے کے لئے ایک ہوٹل میں داخل ہوئے، یہاں سیخ کباب اور نان کھانے کو ملے۔ کھانے سے فارغ ہو کر پاکستان سفارت خانہ تلاش کرنے کی ٹھانی۔ سفارت خانہ میں ہمارے ساتھی چیمہ صاحب کا ایک جاننے والا تھا۔ ہم اس سے پہلے بھی تہران شہر میں پاکستان سفارت خانہ ڈھونڈنے میں ناکام ٹھرے تھے تواس بار ہم نے ایک ٹیکسی لی اور اپنی کار اس کے پچھلے لگا دی۔ جب ہم سفارت خانہ میں پہنچے تو دفتر بند ہو چکا تھا۔ یہاں نماز ادا کی اور محمد ظہور صاحب جو اس وقت فون ڈیوٹی دے رہے تھے ان سے کونسلر کے متعلق معلوم کیا۔ انہوں نے بتایا کہ وہ صاحب یہاں نہیں ہوتے غالباً مشہد میں ہوں گے۔ پھر ہم نے ان صاحب سے کسی سستے ہوٹل کا معلوم کیا تو انہوں نے بتایا کہ وہ حال ہی آئے ہیں اور زیادہ واقفیت نہیں رکتے، مگر ہوٹل 6، 7 ثمن فی کس سے کم نہیں ملے گا۔ رہا ویزہ برائے افغانستان تو وہ کل آ جائیں تو ایک گھنٹہ میں مل جائے گا۔

اب رہائش کا مسئلہ سخت تھا اور ہمارے پاس رقم بھی وافر نہ تھی، اور ہمارے پاس جو عراقی اور کویتی کرنسی تھی وہ بھی کہیں اور کسی بنک میں تبدیل نہ ہو سکی۔ پھر بھی طے ہوا کہ مشہد روانہ ہوا جائے اور ویزہ برائے افغانستان وہاں سے لیا جائے۔ ابھی ہم کھڑے مشورہ کر رہے تھے کہ دو تین ایرانی حضرات نے ہماری منزل کا پتہ کیا اور کہا کہ آبعلی کا راستہ گو کہ صاف ہے مگر لمبا بہت ہے اور برف بھی ہے، دوسرا پہاڑی ہے۔ بہتر ہو گا کہ آپ خراسان کے راستے جو کہ میدانی علاقہ ہے جائیں۔ اب ہماری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کیا کیا جائے۔ آیا قیام تہران میں کریں اور پھر صبح ویزہ برائے افغانستان لے کر روانہ ہوا جائے یا پھر مشہد چلا جائے؟ پھر یہی طے ہوا کہ جیب اجازت نہیں دیتی بہتر ہے مشہد خراسان کے راستہ چلا جائے۔ ایک ایرانی از راہ ہمدردی ہماری کار میں بیٹھ گیا تاکہ سیدھے راستہ تک ہماری رہنمائی کرے۔ تہران بہت بڑا شہر ہے اور ٹریفک اس قدر زیادہ ہے کہ حد نہیں۔ تقریباً ایک ڈیڑھ گھنٹے میں مشکل سے شہر سے باہر نکلے، اس ایرانی کو اتار دیا اور اپنے سفر پر روانہ ہوئے۔ مغرب کا وقت ہو چکا تھا، نماز ادا کی اور اس خیال سے چل دئیے کہ جہاں سرِ راہ ہوٹل آئے گا رک جائیں گے۔ ارادہ تھا کہ 10، 12 بجے رات تک سفر کریں گے، مگر سڑک خراب ہونے کے باعث اور اپنی کار کی حالت کے مد نظر سفر جلد ختم کر دیا، اور گرمسار کے مقام پر ایک ہوٹل میں قیام کیا۔

 

مشہد تک کا انگریزی ”سفر“

 

روز 62

 

 

20 فروری کو صبح نماز فجر سے فارغ ہو کر دوبارہ عازم سفر ہوئے۔ مشہد جانے کی یہ سڑک بالکل ٹوٹی پھوٹی تھی گو کہ علاقہ میدانی تھا۔ البتہ کہیں کہیں سڑک قدرے بہتر تھی۔ یہاں سے ایک افغان بس بھی ہمارے ساتھ ہو لی، یہ بس بھی کچھ خراب تھی لیکن اب کوئی چارہ کار نہیں تھا، لہٰذا سفر اسی سڑک پر جاری رکھا۔ مشہد یہاں سے 400، 450 کلو میٹر تھا اور راستہ بتدریج خراب ہوتا جا رہا تھا، لہٰذا ایک سرِ راہ قہوہ خانے میں ٹھہرے اور رات بسر کی۔

 

روز 63

 

21 فروری کی صبح کو افغانیوں کے چولہے پر چائے پکائی چونکہ ہمارے چولہے میں ایک تو تیل نہیں تھا، دوسرا اس کی بتیاں نیچے گر گئی تھیں۔ چائے اور ناشتے سے فارغ ہو کر پھر خدا کا نام لے کر روانہ ہوئے۔ ہمارا خیال تھا کہ ایک ہی دن میں مشہد پہنچ جائیں گے اس لئے زیادہ کرنسی تبدیل نہیں کرائی تھی۔ اب ہم سب کے پاس کویتی اور عراقی کرنسی تھی مگر بیکار، چونکہ کوئی بھی بینک اس کو لینے کے لئے تیار نہ تھا اور راستہ میں جو چھوٹے چھوٹے شہر آ رہے تھے ان میں صرافہ نہیں تھا جو ان کو تبدیل کراسکتے۔ اب چیمہ صاحب کے پاس صرف 10 ثمن تھے، اس میں سے 9 ثمن کا پیٹرول ڈلوا لیا تھا، اور اب ہم سبزوار شہر کے لئے روانہ ہوئے۔ سبزوار بڑا شہر تھا اور ہمارا خیال تھا کہ یہاں کرنسی تبدیل ہو جائے گی یا صرافہ میں جا کر تبدیل کروا لیں گے۔ تقریباً 2:30 بجے سبزوار پہنچے، یہاں آ کر سب سے پہلے ایک قہوہ خانے میں رک کر نماز ادا کی اور پھر فارغ ہو کر صرافہ کا معلوم کیا، لیکن معلوم ہوا کہ یہاں صرافہ ہی نہیں ہے۔ عجب پریشانی کا عالم تھا، جیب میں پیسے ہیں لیکن بیکار، اور اس پر صبح سے بھوکے۔ خیر بینک کی طرف گئے، معلوم ہوا کہ بنک ۴ بجے کھلے گا، اللہ اللہ کرتے رہے اور دعا کرتے رہے کہ خداوند کریم ہماری مشکل حل کر دے۔ خدا خدا کر کے بنک کھلا اور چیمہ صاحب نے ڈالر کے بدلے ایرانی کرنسی لی۔ اس سے فارغ ہو کر قہوہ خانہ میں آئے، کھانا وغیرہ کھایا اور صبح کے واسطے کچھ میٹھی روٹیاں لیں۔ اب شام کے 5:30 بج چکے تھے اور مشہد شہر ابھی بھی 250 کلو میٹر مزید دور تھا۔ لہٰذا طے پایا کہ کچھ دیر اور سفر کیا جائے اور آگے راستہ میں جو بھی قہوہ خانہ آئے اس میں قیام کریں۔ اس سفر کو جاری رکھنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ آئندہ دن جمعرات کا تھا اور اس دن دفاتر آدھے دن کے ہوتے ہیں اور اگر ہم صبح بر وقت مشہد میں واقع افغانستان سفارت خانہ نہ پہنچے تو ویزہ لینا مشکل ہو جائے گا۔ رات 10 بجے شاہ تقی(موجودہ نام امام تقی) مقام پر پہنچے اور قہوہ خانے میں قیام کیا۔ یہاں سے مشہد تقریباً 65 کلو میٹر تھا۔

 

چند ساعتیں مشہد میں

 

روز 64

 

بتاریخ 22 فروری، صبح اول وقت ناشتہ کیا اور مشہد کے لئے روانہ ہوئے۔ شاہ تقی سے روانہ ہو کر 8:30 بجے صبح مشہد پہنچے اور افغانستان سفارت خانہ کی تلاش شروع کی۔ تھوڑی دیر اِدھر اُدھر سڑکوں پر ٹکر مارتے رہے لیکن ناکام۔ پھر ایک ایرانی کو اپنی کار میں بٹھایا، اس نے ہماری رہنمائی کی اور ہم کو افغانستان سفارت خانہ میں پہنچا دیا۔ یہاں آ کر آفس میں داخل ہوئے، فارم وغیرہ پُر کئے۔ سفارت خانے کے ملازمین نے بتایا کہ ویزہ پرسوں ملے گا چونکہ کل جمعہ ہے اور اگر دفتر کے کلرک سے فارم بھروائیں گے تو ویزہ 2 بجے تک مل جائے گا، فارم بھرنے کے 2 ثمن فی کس کلرک کو دینے ہوں گے۔ ہم نے طے کیا کہ 12 ثمن دے دیتے ہیں اور ویزہ لے لیتے ہیں۔

میں اور سرور صاحب اس کام سے فارغ ہو کر صرافہ کی تلاش میں نکل پڑے، اللہ کی کریمی کہ ایک پٹھان مل گیا اور اس نے ہماری صرافہ کے لئے رہنمائی کی۔ ہم نے اپنے کویتی اور عراقی سکے تبدیل کرائے اور واپسی پر حضرت علی بن موسى کاظمؓ صاحب کے مزار پر فاتحہ پڑھی۔ یہاں پر اہل تشیع حضرات کا زبردست جلوس اور ماتم ہو رہا تھا۔ مزار سے باہر آئے اور بازارسے گزرتے ہوئے کچھ پلاسٹک کی پلیٹیں خریدیں اور واپس سفارت خانہ پہنچے۔ یہاں پر دیگر ساتھی ویزہ لے چکے تھے اور ہمارا انتظار کر رہے تھے۔ ہم سب فوراً کار میں سوار ہوئے اور سفر کے لئے روانہ ہو گئے۔ راستے میں لوگوں کا ادھار اتارا، چونکہ جیب خرچی نہیں تھی تو 2، 3 روز سے چیمہ صاحب اور صوبیدار صاحب تمام خرچ اٹھا رہے تھے۔

 

افغانستان اور طوفان

 

شام 4:30 بجے کاریز کی سرحدی چوکی پر پہنچ کر خروج کا اندراج کرایا اور پھر افغانستان کے سرحدی علاقے اسلام قلع کے لئے روانہ ہوئے۔ 5 بجے اسلام قلع پہنچے، یہاں کافی دیر انتظار کرنا پڑا۔ نماز مغرب اسلام قلع کی مسجد میں ادا کی پھر بیرئیر سے نکل کر ایک ہوٹل میں کھانا کھایا اور ہرات کے لئے روانہ ہوئے۔ ہم صبح لگ بھگ 11:30 بجے مشہد سے جوں ہی روانہ ہوئے تھے تو آندھی کا سخت طوفان شروع ہو گیا اور کہیں کہیں تو ایسا ہوتا تھا کہ راستہ نظر ہی نہیں آتا تھا۔ لیکن خدا کے بھروسے پر سفر کرتے رہے۔ ہمارا خیال تھا کہ افغانستان میں داخل ہوں گے تو یہ طوفان ختم ہو جائے گا، لیکن یہ طوفان اس قدر طویل اور سخت تھا کہ صبح سے جاری ہونے کے باوجود ختم ہونے میں نہیں آ رہا تھا، بلکہ اس میں تیز بارش کا بھی اضافہ ہو گیا تھا، اور جھکڑ پہلے کی طرح چل رہے تھے۔ آخر خدا خدا کر کے 10:30 بجے ہرات پہنچے۔ اسلام قلعہ سے دو کاریں کراچی کی ہمارے ساتھ ہولی تھیں۔ ان میں جو لوگ سوار تھے وہ کافی اچھے تھے اور ایک دو جگہ ہماری وجہ سے ٹھہرے بھی اور ایک ہی ہوٹل میں قیام کیا۔ ہرات میں ہوٹل میں عجب دستور ہے کہ نہ ان میں پانی ہے نہ بجلی، ابھی ہم نماز سے فارغ ہی ہوئے تھے کہ بجلی بند ہو گئی اور پھر صبح تک نہ آئی۔

 

روز 65

 

بتاریخ 23 فروری، صبح کو نماز سے فارغ ہو کر ہرات سے آگے کے سفر کا آغاز کیا، راستہ میں بارش کا بڑا زور تھا جس کی وجہ سے ہمارے بستر وغیرہ بھی بھیگ گئے تھے۔ ہمارا ارادہ تھا کہ آج ہی کابل پہنچ جائیں گے، کابل یہاں سے 800 کلو میٹر دور تھا، دوسرا موسم بڑا خراب تھا، لہٰذا مغرب کے وقت قندھار پہنچے اور یہیں قیام کیا۔ ابھی ہم ہوٹل تلاش ہی کر رہے تھے کہ کراچی والے حضرات بھی آ گئے اور ہم نے مل کر ہوٹل تلاش کیا۔ ہوٹل سروس مہمند جو بس اڈے کے قریب تھا اس میں جگہ مل گئی۔ ہوٹل کا مالک بہت اچھا تھا، اس نے 25افغانی فی کس کرایا لیا، اور کھانے پینے کا بندوبست بھی کیا۔

 

ایک مرتبہ پھر کابل کی برف باری

روز 66، 67

 

بتاریخ 24 فروری، صبح کو چائے وغیرہ پی کر قندھارسے کابل کے لیے چلے۔ ابھی تھوڑے ہی دور گئے تھے کہ برف باری شروع ہو گئی، البتہ اللہ کا شکر تھا کہ سڑک صاف تھی۔ ویسے سڑک کے دونوں طرف 2، 3 فٹ برف پڑی ہوئی تھی۔ جوں ہی ہم کابل کے قریب پہنچے تو برف باری اور بھی شدید ہو گئی، خیر 4 بجے کے قریب کابل پہنچ گئے اور یہاں بریگیڈئیر خوازق کے ایک دفعہ پھر مہمان بنے۔ 24 اور 25 تاریخ کو بھی انہی کے گھر قیام کیا۔

25 فروری کی صبح کو جب ہم اٹھے تو دیکھا کہ بارش ہو رہی ہے اور اس کے ساتھ تھوڑی تھوڑی برف باری بھی شروع ہو گئی ہے۔ اب کچھ موسم بدل چکا تھا اور برف میں پہلی جیسی خنکی نہیں تھی۔ اس خوشگوار موسم میں برف پڑ رہی تھی اور ہم کابل کے بازار میں اپنے ایرانی سکے تبدیل کرا رہے تھے۔ اس وقت برف باری تیز ہو گئی تھی لہٰذا ہم بازار میں زیادہ اندر نہ جا سکے ورنہ ارادہ تھا کہ کچھ نہ کچھ خریداری کر لیں۔ ہم واپس گھر آئے اور آرام کیا، تقریباً ۱۱ بجے برف باری بند ہو گئی۔

 

 

گھر کی دہلیز پر

 

روز  68

 

26 تاریخ کی صبح کو چائے وغیرہ سے فارغ ہو کر کابل سے عازم راولپنڈی ہوئے۔ افغان بارڈر پر پہنچے، خروج کرایا اور طورخم بارڈر سے پاکستان میں داخل ہوئے۔ دوپہر کا کھانا پشاور میں کھایا اور پھر راولپنڈی کے لئے روانہ ہوئے۔ شام کے وقت ہم صدر راولپنڈی پہنچ گئے اور یہاں سے ہم سب ساتھی اپنے اپنے گھروں کے لئے روانہ ہوئے اور ایک دوسرے کو الوداع کہا۔ اس طرح اللہ کے فضل و کرم سے ہمارا یہ حج کا سفرجو اڑسٹھ(6 8) دنوں پر محیط رہا وہ اب اپنے اختتام کو پہنچا اور ہم سب اپنے گھروں میں بفضل خدا بخیریت تمام پہنچ گئے۔

 

تعارف سفرنامہ

 

ہمارا یہ کارواں 1972ء کی دسمبرکو 6 افراد اور 1 کار پر مشتمل حج بیت اللہ کے لیے روانہ ہوا۔ سفر کا آغاز جی ٹی روڈ راولپنڈی سے برستا سڑک ہویا۔ سڑک کے رستے ہم افغانستان، ایران، عراق، کویت اور بلا آخر اپنی منزل سعودی عرب پہنچے۔ راستے میں ہم سَر سبز پہاڑوں، برف پوش چٹانوں، خون جما دینی والی سرد ہواؤں، پر خطر راستوں اور تپتی ریت کے صحراؤں سے گزارتے ہوئے بارگاہ الٰہی میں حاضر ہوئے۔ ہر سفر کی طرح اِس سفر میں بھی کچھ مشکلات دَر پیش آئیں۔ ان مشکلات میں ہماری مدد اللہ تعالیٰ کی ذات نے اپنے نیک بندوں کے ذریعے ہماری فرمائی۔ انہیں نیک بندوں میں سے ایک شخصیت عبدالستار ایدھی مرحوم کی بھی ہے (اللہ انہیں غریق رحمت فرمائے )۔ سفر کے دوران حوادث اور ہماری سواری نے بے پناہ مشکلات حائل کیں، مگر اللہ کے گھر کے ان مہمانوں کی آمد کے انتظامات اللہ ہی کی جانب سے ترتیب شدہ تھے اور عام حالات میں نا ممکن نظر آنے والے اس حج کے سفر نے اپنے احسن انجام کو ہی پہنچنا تھا۔

ہمارا یہ سفر دو مہینوں پر محیط رہا اور اپنے اختتام پر بے پناہ یادیں اور زندگی بھر یاد رہ جانے والے تجربے دے گیا۔

آل احمد زیدی

٭٭٭

تشکر: ہشام نجم جن کے توسط سے اس کی فائل کا حصول ہوا

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

ڈاؤن لوڈ کریں

 

 

ورڈ فائل

 

ای پب فائل

 

کنڈل فائل