FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

راجدھانی ایکسپریس

(ناول)

 

حصہ اول

 

ڈاکٹر سلیم خان

 

 

 

 

اے ایمان والو!اگر کوئی فاسق تمہیں خبر دے تو اس کی اچھی تحقیق کر لیا کرو ۰۰۰۰

(سورہ الحجرات)

 

چشمہ پہن لیا ہے صحافی سے مانگ کر

تب سے ہی آسماں کو زمیں کہہ رہا ہوں میں

(مبشر میوء)

 

 

 

مکمل ناول ڈاؤن لوڈ کریں

 

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل

 

 

 

انتساب

 

مرنجان مرنج رفیق و دمساز

مولانا ارشد سراج الدین مکی صاحب

کے نام

جن کا اور میرا ساتھ اس کتاب کے چنگو اور منگو جیسا ہے

 

 

 

چنگو اور منگو کی اس داستان میں

بیان کردہ واقعات اور کردار حقیقی نہیں خیالی ہیں

ان کی مشابہت اتفاقی ہے۔

اس لیے کہ وہ کسی کے بھی بارے میں کچھ بھی کہتے ہیں۔

 

 

 

 

۱

 

دہلی انتخابات کے نتائج سارے ٹی وی چینلس پر زور و شور سے نشر ہو رہے تھے۔ نامور صحافی چوں گیری لال عرف چنگو کی آنکھیں ان حیرت انگیز مناظر کو دیکھ رہی تھیں جن کا تصور محال تھا۔ اپنے حواس خمسہ کے اوپر سے اس کا اعتماد اٹھ گیا تھا اس کے باوجود اس کے ہاتھ گرم گرم معلومات قلمبند کر رہے تھے۔ ہمہ تن گوش چنگو اپنے تازہ مضمون میں غرق تھا کہ جیسے ہی شاہ جی منہ لٹکائے ٹی وی کے پردے پر نمودار ہوئے اس کے بچپن کا یار منگیری لال عرف منگو بن بلائے آ دھمکا۔

چنگو سمجھ گیا کہ اب اس کا کام بند ہو جائے گا یہ نووارد مصیبت نہ کچھ دیکھنے کی اجازت دے گی اور نہ سننے کی مہلت عطا کرے گی بس پردھان جی کی طرح اپنے من کی بات سناتی رہے گی اور اپنا گن گاتی رہے گی۔ چنگو معذرت خواہانہ انداز میں ہاتھ جوڑ کر بولا بھائی منگیری لال معاف کرنا میں فی الحال ذرا مصروف ہوں۔ کیا یہ ممکن ہے کہ تم اپنے بچے کچے کام نمٹا کر آ کر کچھ دیر بعد آ جاؤ تاکہ ہم لوگ فرصت سے گپ شپ کر سکیں۔

منگیری چہک کر بولا کام؟ کیسا کام؟؟؟ اب تو آم ہی آم؟

چنگو نے حیرت سے کہا ا س موسم میں آم؟ تمہارا دماغ تو ۰۰۰۰۰۰۰

منگو بات کاٹ کر بولا ارے بھائی کیوں اپنا وقت خراب کرتے ہو جو شئے موجود ہی نہ ہو وہ خراب کیسے ہو سکتی ہے۔ ویسے اگر آم خراب بھی ہو جائے تو چنتا کی کوئی بات نہیں بلا تکلف کھڑکی سے باہر پھینک دینا۔ ہر طرف ہماری پارٹی کا جھاڑو چل رہا ہے صفائی ہو جائے گی۔

تمہاری پارٹی۔ تمہیں کس احمق نے اپنی پارٹی میں لے لیا۔

منگیری سینہ ٹھونک کر بولا بھئی مجھے کون روک سکتا ہے۔ تمہیں یاد ہو گا ایک زمانے تک میں بھی انّا تھا تم بھی انّا تھے۔ اب ہم سب عام آدمی ہیں۔ عاپ ہماری پارٹی ہے اگر اجگر کینچلیوال بھی ہمیں روکنے کی جرأت کرے گا تو ہم لوگ اسے خاص آدمی بنا کر پارٹی سے نکال دیں گے۔

یہ اجگر کہاں سے بیچ میں آ گیا؟

منگو بولا یہ ہمارے چہیتے رہنما کی نئی عرفیت ہے۔

لیکن تم لوگ کوئی اچھا سانام بھی تو رکھ سکتے تھے یہ کیا۰۰۰۰۰۰

منگو بولا بھئی یہ نام ہم لوگوں نے نہیں رکھا بلکہ دشمنوں کی مہربانی ہے

کیا مطلب، انہوں نے ایک برا نام رکھا اور تم لوگوں نے اپنا لیا؟

شروع میں ہمیں بھی بہت برا لگا لیکن جب اس کی وجہ معلوم ہوئی تو اس قدر پسند آیا کہ اب ہم انہیں آپس میں اسی نام سے پکارتے ہیں۔

کیا تم وہ وجہِ تسمیہ مجھے بھی بتانے کی زحمت کرو گے؟

کیوں نہیں جس طرح وہ ہمارا چہیتا رہنما ہے اسی طرح تم میرے جگری دوست بھی تو ہو۔ سنگھیوں کو اندیشہ ہے کہ اجگر کمل کو نگل جائے گا اور ہمیں یقین ہے۔

اور یہ کینچلیوال بھی کوئی بات ہوئی؟

یہ تو ہمارے سابق دوستوں کا دیا ہوا نام ہے۔ سریندر یادو کہتے ہیں کہ جب ہم اس پر حملہ کرتے ہیں تو یہ اپنی کینچلی تھما کر نکل جاتا ہے اس لئے یہ کیجریوال نہیں کینچلیوال ہے ویسے تم چاہو تو اے کے ۴۷ کہا کرو یہ آسان ہے۔

منگیری کے آم اور منگیری کی باتیں اب چنگو کی سمجھ میں آنے لگی تھیں۔ ٹیلی ویژن کب کا بند ہو چکا تھا اور چنگو کے قلم کا سر نہ جانے کب وجئے ماکن کی مانند قلم ہو چکا تھا۔ اب صرف اس کے کان سن رہے تھے۔ اگر چنگو کے علاوہ کوئی اور منگیری کے منہ سے یہ جملہ سنتا کہ وہ کیجریوال کو عاپ سے نکال دے گا تو شاید بیہوش ہو کر گر جاتا لیکن اسے پتہ تھا یہ عام آدمی ہے یہ کچھ بھی کر سکتا ہے یہ پردھان جی کے ہوش اڑا سکتا ہے تو کیجریوال بیچارا کس کھیت کی مولی ہے۔ چنگو نے منگو سے کہا جی ہاں بھائی مجھے پتہ ہے تم کچھ بھی کر سکتے ہو اب بتاؤ کہ یہاں کیا کرنے کیلئے آئے ہو؟

منگیری بولا ا]تنے ساری اوٹ پٹانگ باتوں کے بعد تم نے یہ پہلا کام کا سوال کیا ہے؟ خیر میں تو اپنی فتح کا جشن منانے کیلئے تمہارے پاس حاضر ہوا تھا لیکن تم تو بالکل سنگھیوں کی مانند منہ لٹکائے، آستین چڑھائے مجھ پر چڑھ دوڑے۔

چنگو اپنی صفائی پیش کرتے ہوئے بولا نہیں بھائی ایسی بات نہیں در اصل تمہارے آنے سے قبل میں بھی عام آدمی پارٹی کی کامیابی کا جشن ٹیلی ویژن پر دیکھ رہا تھا تاکہ اخبار کیلئے مضمون لکھ سکوں۔ ایک ایسا مضمون کہ جس کو دیکھ کر تمہارا، میرا مطلب ہے ہمارا کیجریوال بھی خوش ہو جائے۔

منگیری بولا کیجریوال کو خوش کرنے کی خاطر تمہیں چنداں زحمت کرنے کی ضرورت نہیں۔ اس کو دہلی کی عوام نے اس قدر خوشی نواز دیا ہے کہ نواز شریف بھی حیرت زدہ ہے۔ اس کے پاس اپنی خوشی کو رکھنے کیلئے جگہ نہیں اس لئے اب وہ مرکزی حکومت سے گزارش کر کے آم کے خالی گودام کرائے پر لینے والا ہے تاکہ آم کا موسم آنے تک اس سے کام چلائے اور جب ایوان پارلیمان کے آنگن میں لگے پیڑوں پر آم کا پھل پک کر تیار جائے تو پھر اس کا مزہ لے سکے۔

چنگو نے کہا دیکھو منگیری جب سے اپنے اناجی دہلی چھوڑ کر نندی گرام رخصت ہوئے ہیں ۰۰۰۰۰۰۰۰

منگیری درمیان میں ٹوک کر بولا ابے بیوقوف تو اناجی کے گاؤں کا نام تک نہیں جانتا؟ میں کیجریوال کو بول کر تجھے بھی ان کے پاس بھجوا دوں گا۔ منگیری اس طرح بول رہا تھا گویا چنگو کو کالا پانی روانہ کر دے گا۔

تو مجھے کہاں بھجوائے گا؟ اچھا اب تو ہی اناجی کے گاؤں کا نام بتا ہے؟

وہ تو میں بھی نہیں جانتا لیکن یہ جانتا ہوں کہ نندی گرام نہیں ویسے فکر کی کوئی بات نہیں کیجریوال جانتا ہے۔ وہ سب جانتا ہے وہ تجھے بنا ٹکٹ بھجوا دے گا۔ منگیری کا انداز ایسا تھا گویا وہ چنگو کا نہیں بلکہ کیجریوال کا لنگوٹیا یار ہے۔

کیوں؟تجھے کیسے پتہ چل گیا نندی گرام انا جی کا گاؤں نہیں ہے؟

منگیری بڑے اعتماد بولا تو کیا مجھے کوئی معمولی آدمی سمجھتا ہے؟

نہیں بھائی منگو پہلے تو میں تجھے عام آدمی سمجھتا۔ اب پتہ چلا تو کیجریوال کا خاص آدمی ہے لیکن یہ نندی گرام کا کیا ماجرا ہے؟

در اصل میں نندی گرام  جا چکا ہوں؟

اچھا! تو وہاں کیسے پہنچ گیا؟

منگو سینہ پھلا کر بولا وہ در اصل سی پی ایم والے مجھے وہاں لے گئے تھے۔

چنگو یہ سن کر پریشان ہو گیا۔ سی پی ایم والے اس احمق کو کیوں لے گئے؟ اس نے سوال کیا وہاں تو سی پی ایم کے خلاف تحریک چل رہی تھی۔ وہ تجھے یہاں دہلی سے کیوں لے گئے؟

یہی تو تم جیسا احمق صحافی نہیں سمجھ سکتا۔ ہم لوگ در اصل وہاں اس تحریک کا زور توڑنے کیلئے گئے تھے۔ ہمارا کام تھا مظاہرین میں شامل ہو کر ہلڑ بازی کر کے تحریک کو بدنام کرنا۔

اس کام کیلئے دہلی سے لوگوں کو لے جانے کی ضرورت میری سمجھ میں نہیں آتی؟ کیا بنگال میں قحط الرجال ہے؟

وہ لوگ باہر والوں کی مدد سے یہ کام کرانا چاہتے تھے تاکہ اگر دھر لئے جائیں تو کسی کو شک نہ ہو۔

وہاں تو پولس ان کی اپنی تھی جب سیاں بھے کوتوال تو ڈر کا ہے کا؟

سچ تو یہ ہے کہ آج کل سیاسی جماعتوں کو پولس سے زیادہ تم جیسے خونخوار صحافیوں کا ڈر لگا رہتا ہے۔

یہ کہانی دہلی انتخاب سے زیادہ دلچسپ ہو گئی تھی۔ تم نے وہاں کیا کیا؟

ہم نے وہاں جا کر گاؤں والوں کی خوب دھنائی کی اور کیا؟

اچھا! چنگو نے تعجب سے پوچھا لیکن تم تو ۰۰۰۰۰۰

منگو بولا ہاں ہاں سی پی ایم نے تو صرف ہلڑ مچانے کے پیسے دئیے تھے لیکن ممتا نے کہا تم گاؤں والوں کو خوب مارو پیٹو تاکہ سی پی ایم کو خوب بدنام کیا جا سکے۔

اوہو! تم نے نمک حرامی تو نہیں کی؟

بھئی ہم نے وہ بھی کیا جو ممتا دیدی نے کہا تھا۔

کیوں؟ چنگو نے سوال کیا۔

اس لئے کہ وہ اوپر کی آمدنی تھی۔ سی پی ایم کی حکومت تھی اور ہم اس کے مہمان تھے اس لئے ہمیں کسی کا ڈر بھی نہیں تھا۔

یار منگو میں تو تمہیں اناجی کا آدمی سمجھتا تھا لیکن تم تو کچھ اور ہی نکلے۔

یہ تم سے کس نے کہہ دیا کہ میں اناجی کا آدمی نہیں ہوں بلکہ جب سے انہوں نے کیجریوال کو مبارکباد دے دی ہے کچھ زیادہ ہی ان کا آدمی ہو گیا ہوں۔

یہ کچھ زیادہ کیا ہوتا؟

اتنا بھی نہیں جانتے۔ زیادہ تو بس زیادہ ہوتا ہے لیکن کچھ زیادہ مثلاً دہلی میں ہماری کامیابی تمہیں نہیں لگتا کہ کچھ زیادہ ہو گئی ہے۔

مجھے کیا خود کیجریوال نے ابھی ابھی ٹیلی ویژن پر اس کا بڑی انکساری کے ساتھ اعتراف کیا ہے۔

بھائی جس پیڑ پر آم زیادہ ہوتے ہیں وہ جھکا ہوا ہوتا ہے اور ببول کے درخت کو دیکھو وہ کڑوا کسیلادرخت کس طرح اکڑا ہوا ہے۔

( معصومیت سے ) کس کی طرح؟مطلب تمہارا اشارہ کس طرف ہے؟

تم بہت بھولے ہو میرے دوست چنگو ۔ بھئی اپنے پردھان جی کی طرح۔ کل سے ان کا چہرہ ٹیلی ویژن پر کیا نہیں دکھائی دیا کہ تم انہیں بھول ہی گئے۔

میں انہیں اتنی آسانی سے نہیں بھول سکتا۔ انا جی کی تحریک کے بعد میں بالکل بے روزگار سا ہو گیا تھا لکھنے کیلئے کوئی ڈھنگ کا موضوع ہی نہیں ملتا۔

منگو نے پہلی بار سوال کیا پھر؟ پھر کیا ہوا؟

پھر؟ پھر پردھان جی مل گئے اور میں ان کے بھجن گانے لگا۔ میری آمدنی بھی تمہاری طرح دوگنی ہو گئی۔ اول تو اخبار والے خوشی خوشی مضمون شائع کرنے لگے اور نذرانہ بھی دینے لگے۔ مضمون چھپ جاتا تو میں اس کی نقل پردھان جی کے دفتر بھیج دیتا وہاں سے بھی ہر ماہ چیک آ جاتا۔ سچ تو یہ ہے کہ جب سے وہ پردھان جی امیدوار بنے میرے تو اچھے دن اسی وقت سے آ گئے۔

اس دوران میں نے بھی خوب کمائی کی۔ پہلے تو بنارس میں ڈیرہ ڈال دیا۔ پھر ہریانہ، مہاراشٹر اور جموں کشمیر۔ قسم سے پہلی بار کشمیر گیا تو وہاں سے واپس آنے کا من نہیں کرتا تھا لیکن کیا کروں پاپی پیٹ یہاں واپس لے آیا۔

تجھے کشمیر کا دکھ ہے میرے دوست منگو میں تو پردھان جی کے ساتھ امریکہ، جاپان اور آسٹریلیا کی سیر کر کے چلا آیا لیکن اب لگتا ہے کہ ان کے چکر میں رہیں گے تو جشودھا بین کے گاؤں کیا نام ہے تمہیں پتہ ہے؟

اس گاؤں کا نام جاننے سے کیا فائدہ وہاں پردھان جی نہ صرف صحافیوں بلکہ ہم جیسے سیاسی کارکنان کی ضرورت سے بھی بے نیاز ہوں گے۔ بس وہ اور ان کی بین میرا مطلب بیوی ہو گی۔ خوب گزرے گی جو مل بیٹھیں گے ۰۰۰۰۔

چنگو بولا جی ہاں میں بھی یہی سوچتا ہوں کہ اب اگر پردھان جی دہلی میں بھی رہے تو ان پر لکھنے سے اپنا گزارہ نہیں ہو گا۔

کیوں؟

دہلی کے انتخابی نتائج سے پتہ چل گیا ہے کو لوگ ان کے بارے میں پڑھ پڑھ کر پک گئے ہیں۔ اب ان کی تعریف میں لکھے جانے والے مضامین کا چھپنا مشکل ہے اور ان کے خلاف لکھے جانے والے مضمون پر روپیہ نہیں ملتا۔ مجھے تو ڈر ہے کہیں ٹاڈا لگا کر جیل نہ بھجوا دیں بلکہ سہراب الدین کی طرح انکاؤنٹر نہ کروا دیں۔

منگو نہایت ہمدردانہ انداز میں بولا ایسے مایوس نہیں ہوتے میرے شیر۔ اب تم اپنا سرُ بدل دو اور کیجریوال جی کی تعریف و توصیف شروع کر دو مضامین بھی چھپنے لگیں گے اور دکشنا کا بندوبست تمہارا یہ دوست کروا دے گا۔ منگو بلا کی خود اعتمادی کے ساتھ ہانک رہا تھا اس لئے چنگو کو اعتماد کرنا پڑا۔

اچھا تو مجھے کرنا کیا ہو گا؟

تم اناجی سے ملنے ان کے گاؤں جاؤ گے اور ان کا انٹرویو لے کر آؤ گے۔ منگو احکامات صادر کر رہا تھا۔

تم نے ابھی بلا ٹکٹ کہا تھا؟ بھئی بلا ٹکٹ میں اتنا لمبا سفر کیسے کروں گا؟

کیسے کرو گے؟ ہوائی جہاز میں تو کوئی بلا ٹکٹ سفر نہیں کر سکتا اس لئے لامحالہ ریل سے اور کیسے؟ کوئی ٹکٹ پوچھے تو کہہ دینا کہ میں کیجریوال کا قاصد ہوں اور ان کے کہنے پر اناجی سے ملنے جا رہا ہوں بس کوئی تمہیں ٹچ نہیں کر سکتا۔ کیا سمجھے؟ اور اگر کوئی گڑبڑ کرے تو ۰۰۰۰۰۰

چنگو نے کہا ہاں یہی میں پوچھنے والا تھا۔

مجھے پتہ تھا۔ کیجریوال کی طرح مجھے بھی سب پتہ چلنے لگا ہے۔ اگر کوئی پریشان کرے تو فون پر مجھ سے بات کروا دینا۔ میں سب ٹھیک کر دوں گا۔

چنگو جانتا تھا کہ اِس شیخ چلی کو اگر مشکل میں فون کیا جائے تو کمبخت فون لینے کی غلطی ہی نہیں  کرے گا۔ اس نے کہا وہ تو ٹھیک ہے۔ میں رالے گن سدھی جب جاؤں گا، سو جاؤں گا لیکن اب تو مجھے کچھ لکھنے دے تاکہ اس وقت اپنا پیٹ بھر سکوں۔

یہ تجھے اچانک رالے گن جانے کی کیا سوجھی؟

چنگو نے حیرت اس کی جانب دیکھ کر پوچھا ابھی تو تو کہہ رہا تھا کہ اناجی کے گاؤں جاؤں۔ ان کا گاؤں رالے گن نہیں تو کون سا ہے؟

اچھا اچھا میں سمجھ گیا۔ ویسے مجھے یاد آیا کیجریوال نے انہیں حلف برداری کی تقریب میں آشیرواد دینے کیلئے آنے کی دعوت دے رکھی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ وہ ضرور آئیں گے۔ تو یہیں ان سے مل کر انٹرویو لے لینا۔ اتنے دور جانے کی کیا ضرورت؟ منگو نے بڑی صفائی کے ساتھ پینترا بدل رہا تھا۔

ہاں یار یہ اچھا ہے لیکن وہ کب آنے والے ہیں؟ تجھے تو پتہ ہی ہو گا؟

انہوں نے ابھی تک دعوت قبول نہیں کی ورنہ کیجریوال مجھے ضرور بتاتا۔

چنگو نے اسے چھیڑنے کیلئے کہا کہیں ایسا نہ ہو کہ روٹھے پیا میرا مطلب روٹھے انا جی کو منانے کیلئے وہ تجھے اپنا قاصدِ خاص بنا کر بھیج دے۔

منگو کو یہ مذاق پسند نہیں آیا وہ بولا تو میری چھوڑ اور اپنی سوچ۔

میرا کیا؟ مجھے تو بس انٹرویو لینا ہے جو میرے لئے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔

لیکن چنگو تو ان سے وہی سوال پوچھنا جو کمار وشواس تجھے لکھ کر دیں اور ان کا وہی جواب لکھنا جو سسودیہ جی بتائیں کیا سمجھے؟ اپنی طرف سے کوئی بات نہ لکھ دینا۔

چنگو نے حیرت سے پوچھا اور اناجی کی طرف سے؟

ان کی بھی وہی باتیں شائع کرنا جس کی اجازت سسودیا جی سے ملے۔

چنگو نے پوچھا یہ درمیان میں سسودیا کہاں سے آ گیا؟

اوہو تم نہیں جانتے۔ یہ اب دہلی کا نائب وزیر اعلیٰ ہے اور کیجریوال کو جسے بھی کچھ دینا ہو گا اسی کے ہاتھ سے دیا جائے گا۔

لیکن آشیرواد کون دے گا؟ انا یا سسومیرا مطلب ہے سسودیا؟

بھئی کیجریوال کو انا اور تم کوسسودیا دکشنا کے ساتھ آشیرواد بھی دیں گے۔

چنگو بولا سمجھ گیا مگر لوگ آشیرواد لینے جاتے ہیں دینے نہیں آتے۔

وقت وقت کی بات ہے دوست انتخاب جیتنے سے قبل لوگ آشیرواد لینے جاتے ہیں لیکن کامیابی کے بعد آشیرواد دینے والے خود چل کر آتے ہیں۔ تجھے یاد ہے کسی زمانے میں پردھان جی کے پاس کیجریوال کیلئے وقت نہیں تھا اب کیسے نکل آیا؟

ہاں یار تیری یہ بات تو کم از کم درست ہے۔

یہی کیوں میری سب باتیں درست ہیں اور سن میں تجھے اپنا مضمون شائع کرانے کی زبردست ترکیب بتاتا ہوں تو اپنا مضمون میرے کارٹون کے ساتھ بھیج دے۔ اس کارٹون کے طفیل اگر وہ پہلے صفحہ پر نہ لگے تو میرا نام بھی منگو نہیں کیا سمجھا؟

تیرا کارٹون؟ بھئی کارٹون تو مشہور لوگوں کا بنتا ہے تاکہ کارٹونسٹ چہرہ جتنا چاہے بگاڑے قاری ایک نظر میں پہچان جائے۔ تجھے کون جانتا ہے؟

بے وقوف میرا کارٹون سے مراد میرا بنایا ہوا کارٹون۔ وہ کارٹون جس کا خالق یہ خاکسار ہے۔

اچھا! ایک لکیر توسیدھی کھینچ نہیں سکتا، تو نے کیسے کارٹون بنا دیا؟

منطق غلط ہے۔ کارٹون کے اندر کوئی لکیر سیدھی نہیں ہوتی لیکن زمانہ بدل گیا ہے۔ گوگل کے اس دور میں کارٹونسٹ کا آرٹسٹ ہونا ضروری نہیں ہے۔

اچھا تو پھر کیا ضروری ہے؟

اس کے پاس انٹرنیٹ کا ہونا کافی ہے۔ گوگل پر جاؤ چند تصویریں نکالو ان کو فوٹو شاپ میں لے جا کر کھچڑی پکاؤ اور کارٹون تیار۔ یہ کہہ کر اس نے چنگو کو ایک شکاری کی تصویر دکھلا دی جو ایک بندر کو پکڑ کر لے جا رہا تھا۔ شکاری کے دھڑ پر کیجریوال کا سر اور بندر کے گردن پردھان جی کا چہرہ لگا ہوا تھا۔

چنگو نے مسکرا کر پوچھا اگر نتائج الٹے آتے تو؟

چہرے بدل جاتے اور کیا؟ شکاری کی جگہ بندر آ جاتا اور بندر کی جگہ شکاری۔

یار منگو بے وقوف بنانے کیلئے تجھے کوئی اور نہیں ملا۔ صبح سے کم از کم دس لوگ مجھے واٹس ایپ پر یہ کارٹون بھیج چکے ہیں اور اب تو کہہ رہا ہے کہ یہ تو نے بنایا ہے۔ جھوٹ کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔

اس میں جھوٹ کی کیا بات ہے؟ جن دس لوگوں نے یہ کارٹون بھیجا تو کیا ان سب نے اسے بنایا ہے؟

نہیں سب ایک ہی کارٹون کیسے بنا سکتے ہیں؟

کیا ان میں سے کسی نے دعویٰ کیا ہے کہ یہ اس کی اپنی تخلیق ہے؟

نہیں! سب تمہاری طرح ڈھٹائی کے ساتھ جھوٹ نہیں بول سکتے؟

اگر انہوں نے بنایا نہیں تو بھیجا کیسے؟

ارے بھائی یہ کیا بات ہے؟کسی نہ کسی نے تو اسے بنایا ہی ہو گا۔ انہوں نے تو بس یہ کیا اس کارٹون کو وصول کیا اور آگے بڑھا دیا۔

بہت خوب اب یہ بتاؤ ٔ کہ وہ کارٹون بنانے والا کوئی اور۰۰۰۰۰ تمہارا یہ دوست منگو کیوں نہیں ہو سکتا؟ کیا تم یقین کے ساتھ اس کا انکار کر سکتے ہو؟

چنگو چپ ہو گیا۔

منگو نے کہا بولو چپ کیوں ہو؟ بولتے کیوں نہیں؟ اس کے بعد حاتم طائی کے انداز میں بولا میں تو کہتا ہوں اپنے نام سے بھیج دو مجھے اس پر کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔ میں عام آدمی ہوں میرا دل بہت بڑا ہے تم نے نہیں دیکھا باپ کو ۵ فیصد نشستیں بھی نہیں ملیں مگر ان کو ہم نے حزب اختلاف کی کرسی دان کر دی۔

یہ باپ کون ہے؟

جیسے آپ ویسے باپ، وہی اپنی بھاجپ اور کون؟

اچھا تو یہ راجہ ہریش چندر کی چتا پر پانی ڈالنے کی وجہ؟

ارے بھائی اپنی جیب سے کیا جاتا ہے اور وہ ۳کر بھی کیا لیں گے؟ ہمارے احسان تلے دبے رہیں گے۔

چنگو بولا مان گئے استاد تم نے تو پردھان جی کو بھی مات دے دی۔

منگو بولا اب یہ جی جی کرنا چھوڑو اور مضمون لکھو۔

 

 

 

۲

 

چنگو کا موڈ منگو نے چوپٹ کر دیا تھا۔

وہ بولا اب تم ہی بتاؤ کہ کیا لکھوں؟

اب یہ بھی میں بتاؤں؟ اس کے بعد فلمی انداز میں بولا کچھ الگ ہٹ کر لکھو تاکہ کہانی ہِٹ ہو جائے۔

’’ہٹ کے ‘‘ سے تمہاری کیا مراد ہے؟

منگو بولا مطلب کچھ مختلف مثلاً آپ کے پاپ میں شاذیہ کا ہاتھ۔

کون شاذیہ حسن جس نے پہلا ہندی پاپ سانگ میرا مطلب نغمہ گایا تھا ’’آپ جیسا کوئی میری زندگی میں آئے تو بات بن جائے ‘‘؟

یار وہ بیچاری تو کب کی مر کھپ گئی اب اس کو کون یاد کرتا ہے؟

تو پھر شاذیہ کہاں سے آ گئی۔ میں سمجھا نہیں؟

(رازدارانہ انداز میں )یہ اندر کی بات ہے۔ تم کسی اور نہیں بتانا۔

مضمون توسب کیلئے ہو گا تم کہہ رہے ہو کہ کسی نہیں بتانا۔

منگو بولا تم میری بات نہیں سمجھے میرا مطلب ہے کسی کو یہ نہیں بتانا کہ یہ بات تمہیں کس نے بتائی ہے ویسے آج کل اخبارات میں اس قدر جھوٹ چھپتا ہے کہ لوگ خبروں اور تجزیوں پر کم ہی اعتبار کرتے ہیں۔

جی ہاں وہ تو ٹھیک ہے لیکن تم ’’ آپ کے کس پاپ‘‘ کی بات کر رہے ہو؟

پہلے تو سمجھ لو کہ یہ ہندی کا پاپ نہیں ہے وہ تو سنگھ پریوار کے لوگ کرتے ہیں یہ انگریزی کا پاپ ہے یعنی پاپ میوزک ہے! کیا سمجھے؟

چنگو بولا وہی تو میں نے بھی کہا تھا اب اندر کی بات بتاؤ۔

یہ اس وقت کی بات ہے جب پردھان جی ایک کے بعد قلعہ فتح کرتے چلے جا رہے تھے اور کیجریوال فکر مند تھے کہ کہیں دہلی کے انتخابات کی تاریخ کا اعلان نہ ہو جائے۔ اس زمانے میں ایک دن کیجریوال نے شاذیہ علمی سے کہا تم تو صحافت سے سیاست کی دنیا میں آئی تھیں اور وہیں لوٹ گئیں لیکن میں تو کہیں کا نہیں رہا۔

شاذیہ نے حیرت جتاتے ہوئے کہا میں نہیں سمجھی؟

اے کے نے کہا یوں تو میرا تعلق بنیا سماج سے ہے لیکن میں اپنا آبائی پیشہ پرچون کی دوکان چھوڑ کر سرکاری ملازم بن گیا۔ وہاں سے استعفیٰ دے کرغیرسرکاری تنظیم چلانے کی کوشش کی وہ نہیں چلی توا ناکو ساتھ لے کر عوامی تحریک چلا دی۔ تحریک فلاپ ہوئی تو پارٹی بنا کر الیکشن لڑ گ    یا۔ انتخاب میں ناکامی کے باوجود کانگریس کی مدد سے حکومت بنائی لیکن پھر مظاہرہ کر کے اسے بھی گنوا دیا۔ پارلیمانی انتخاب میں پی ایم کا خواب دیکھ کر اترا تو بازی الٹ گئی اور ار تھی اٹھانے کیلئے چار ایم پی ہاتھ لگے۔ اب اگر دہلی میں اپنی پارٹی ہار جائے تو مجھے اندیشہ ہے رائے دہندگان اور ارکان پارلیمان میری سیاست کا انتم سنسکار کر کے اکالی دل اور کانگریس کی جانب نکل جائیں گے۔

شاذیہ نے کہا وہ تو ہو کر رہے گا۔ آپ لوگ میری بات مان کر نہیں دیتے۔ میں صاف سیدھی بات کرتی ہوں تو سیکولرزم کے چکر میں میرے پیچھے پڑ جاتے ہو۔

تم تو اپنے جوش میں سارے ہندوؤں کو اپنی پارٹی سے بھگا کر بی جے پی کے دروازے پر پہنچا دو گی۔ دوبارہ ویسی غلطی نہ کرنا ورنہ ۲۸ کے ۸ ہو جائیں گے۔

چنگو بیزار ہو کر بولا یار تمہارے یہ اشارے کنائے میں سمجھ نہیں پا رہا ہوں۔

یار چنگو تم تو اخبار والے آدمی ہو۔ تمہیں یاد نہیں گزشتہ سال ماہِ اپریل میں انتخابی مہم کے دوران شاذیہ نے اپنے بیان سے ایک سیاسی دھماکہ کر دیا تھا۔

جی ہاں بی جے پی اور کانگریس دونوں نے مل کر اس پر خوب تنقید کی تھی۔

منگو بولا وہ تو ٹھیک ہے لیکن اس نے کہا کیا تھا یہ یاد ہے تمہیں؟

چنگو نے بڑی سادگی سے اعتراف کر لیا کہ ٹھیک سے یاد نہیں ہے۔

یہی تو بات ہے اس کیلئے بڑے لوگوں کی سنگت میں بیٹھنا پڑتا ہے ان کی جوتیاں ۰۰۰۰۰

چنگو بولا پھر تم ۰۰۰۰۰۰۔

کیا کروں یار عادت سے مجبور ہوں خیر شاذیہ نے کہا تھا کہ مسلمان فرقہ پرست نہیں ہے لیکن وہ کچھ زیادہ ہی سیکولر ہو گیا ہے۔ اب اسے فرقہ پرست بن جانا چاہئے۔ اسے اپنے بارے میں سوچنا چاہئے۔ مسلمان کانگریس، بی جے پی اور ایس پی کے سیاسی غلام بن گئے ہیں۔ اروند کیجریوال آپ کے اپنے ہیں۔ تم سب سیکولرزم کے چکر میں دوسروں کو ووٹ دے دیتے ہو اور اپنا ہی نقصان کرتے ہو۔

چنگو کو یہ بیان یاد آ گیا۔ یہ ایک سچ منگو کے ساری دروغ گوئی کو نگل گیا وہ بولا ہاں یار کمال کی یادداشت پائی ہے تم نے، ماننا پڑے گا۔

منگو نے کہا یہ بیان تو ذرائع ابلاغ میں خوب گونجا تھا لیکن اس کے بعد جو کچھ شاذیہ نے کہا تھا وہ اس سے بھی زیادہ اہم تھا۔

اچھا وہ کیا تھا مجھے یاد نہیں۔

اس نے کہا تھا یہ بات بہت متنازع ہے لیکن میں اس کو کھل کر کہوں گی۔

جی ہاں مجھے یاد آ گیا لیکن شاید عاپ نے اس بیان سے دامن جھٹک دیا تھا

یار وہ تو ایک سیاسی ضرورت تھی جس کے پیشِ نظر ایسا کرنا پڑا۔ اس وقت امام بخاری کی تائید لینے سے بھی تو انکار کر دیا گیا تھا لیکن اندر ہی اندر عاپ والے شاذیہ کی حکمتِ عملی پر کام کرتے رہے اور مسلمانوں کو یقین دلاتے رہے کہ سیکولرزم کو گولی مارو اور اپنا فائدہ سوچو اپنا۔ اب تم ہی بتاؤ کہ اس پر مسلمانوں نے اس بار عمل کیا یا نہیں؟

چنگو بولا مان گئے استاد تمہاری بات صد فیصد درست ہے اس جانب تو ابھی تک کسی بڑے سے بڑے مبصر کی نگاہ نہیں گئی۔ میرا مطلب ہے آج تک کا چانکیہ بھی اپنی ترچھی نظر سے اسے دیکھ نہیں سکا۔

منگو ۵۶ انچ کاسینہ پھلا کر پردھان جی کے انداز میں بولا جاتی کیسے ۰۰۰۰

چنگو نے ٹوکا پھر ۰۰۰۰۰

منگو واپس آیا اور گویا ہوا بھائی نظر جاتی کیسے؟

جی ہاں شاذیہ نے خود اپنا نظریہ بدل لیا تھا اور جھاڑو پھینک کر کمل تھام لیا۔

منگو بولا وہی تو! اس نے بی جے پی والوں کو اپنے دام گرفتار کر کے شیشے میں اتار لیا ۰۰۰۰۰۰۰۰۔

یار پھر تم بہک گئے۔ یہ بتاؤ کہ ایسی سخت جان شاذیہ آخر بی جے پی کے اندر کیوں چلی گئی؟

منگو رام دیو بابا کے لب و لہجہ میں بولا دھیرج رکھو بیٹا سب سمجھ میں آ جائے گا۔ شاذیہ نے اپنا منصوبہ بتایا اس کے دلائل اس قدر قوی تھے کیجریوال کو اتفاق کرنا پڑا۔ وہ آہستہ سے بولے شاذیہ تمہاری بات درست ہے لیکن یہ نازک معاملہ ہے اس کام کو بڑی حکمت کے ساتھ انجام دینا ہو گا ورنہ لینے کے دینے پڑ جائیں گے۔

شاذیہ بولی یہ حکمت وکمت کے پیچ و خم میں نہیں جانتی میں تو ایک بیباک صحافی ہوں جو درست سمجھتی ہوں کہتی ہوں اور اس پر کھلم کھلا عمل کرتی ہوں کیا سمجھے؟

کیجریوال نے کہا مجھے سب پتہ ہے اس لئے کہ ایک زمانے تک میں بھی اسی حماقت میں مبتلا تھا۔ میری رائے ہے کہ اب تم بھی اپنی حق گوئی سے رجوع کر لو۔ مجھے اس کی محدود افادیت کا احساس ہے مگر مسلمانوں کی آبادی چند علاقوں میں مرکوز ہے اس لئے ہم کانگریس کی چار پانچ نشستوں سے زیادہ فائدہ نہیں اٹھا سکتے۔ مجھے لگتا ہے اس کے علاوہ کوئی نیا اور انوکھا انداز اختیار کرنا ہو گا۔

شاذیہ سوچ میں پڑ گئی اور پھر بولی میرا خیال ہے اس کیلئے ہمیں رامچندر جی کی حکمت عملی اختیار کرنی ہو گی۔

کیجریوال نے حیرانی سے پوچھا اوہو تم رام بھکت کب سے ہو گئیں ۰۰۰۰۰

ہندوستانی سیاست میں کوئی بھی، کبھی بھی، کچھ بھی بن سکتا ہے اور آج کل رام بھکتی سے آسان کیا ہے؟ رام زادہ بننے کیلئے دوسروں کو حرامزادہ قرار دینا کافی ہے۔

منگو اپنی من گھڑت کہانی اس اعتماد کے ساتھ سنا رہا تھا گویا خود بہ نفس نفیس اس محفل میں شریک رہا ہو۔ چنگو بیزاری سے بولا یار تم بلاوجہ اِدھر اُدھر نکل جاتے ہو یہ بتاؤ کہ آگے کیا ہوا؟

آگے وہی ہوا جو رامائن میں درج ہے۔

چنگو پھر کنفیوژ ہو گیا اور بولا پہیلیاں نہ بجھواؤ سیدھا جواب دو۔

تم بہت بھولے ہو اتنا بھی نہیں جانتے کہ پھر شاذیہ آگے بڑھ کر راون کے گھر کی بھیدی میرا مطلب ہے وبھیشن بن گئی۔

چنگو کی سمجھ میں آ گیا کہ منگو شاذیہ کے بارے میں کیا اول فول بک رہا ہے۔ وہ بولا یار کیا یہ کچھ زیادہ نہیں ہو رہا ہے؟ میرے گلے سے یہ بات نہیں اترتی۔

مسئلہ گلے کا ہوتا تو میں تمہیں وِکس کی گولی دے دیتا بلکہ جب سے کیجریوال کو کھانسی لگی ہے میں ایکشن ۵۰۰۰اپنے ساتھ رکھتا ہوں۔

چنگو نے پوچھا ۵۰۰۰؟

یار تم صفر کے چکر میں پڑ کر کام کی بات چھوڑ دیتے ہو۔

چنگو معذرت چاہتے بولا معافی چاہتا ہوں آگے کیا ہوا؟

بدقسمتی سے دماغ کی درستی کیلئے آج تک کسی نے کوئی دوائی نہیں بنا ئی۔ اس کیلئے تو سنا ہے بجلی کے جھٹکے دئیے جاتے ہیں۔

ویسے تمہاری باتیں کیا بجلی کے جھٹکوں سے کم ہیں، لگے رہو منّا بھائی لگے رہو۔

منگو بولا شکریہ تمہیں اگر میری بات پر یقین نہیں آتا تو یہ دیکھو کہ شاذیہ نے بی جے پی کے اندر جا کر کیا کیا گل کھلائے؟

وہ بیان بازی سے آگے نہیں جا سکی اس بیچاری کو تو ٹکٹ بھی نہیں دیا گیا۔

منگو بولا دیا نہیں گیا یا لیا نہیں گیا؟ اسے پتہ تھا کیا حشر ہونے والا ہے۔ تم مجھے عاپ یا کانگریس سے بی جے پی میں جانے والے ایک امیدوار کا نام بتا دو جس کی ضمانت ضبط نہیں ہوئی ہے۔ پردھان جی نے کہا تھا ضمانت کی ضبطی میں عاپ کا عالمی ریکارڈ ہے۔ دہلی میں بی جے پی کی شکست بھی ریکارڈ توڑ ہے۔

وہ تو ٹھیک ہے لیکن میری سمجھ میں نہیں آتا کہ اس نے شاہ جی جیسے گھاگ آدمی کو اپنے دام میں کیسے گرفتار کر لیا؟

وہ کیا خاک گھاگ ہے۔ اس شکست کے بعد بھی اگر اس گھامڑ کندۂ نا تراش کے بارے میں تمہاری رائے نہیں بدلی تو کسی بجلی کے جھٹکے سے تمہارے دماغ درست نہیں ہو گا۔ میں نے سنا ہے کہ وہ اپنے بیٹے کی شادی کے بعد اپنے زیر زمین گروہ کو منظم کرنے میں لگ گیا ہے۔

زیر زمین گروہ میں سمجھا نہیں؟

وہی انڈر ورلڈ جو احمد آباد بلڈروں سے ہفتہ وصولی کرتا تھا۔ اس کے سارے حواری میرا مطلب ہے معطل پولس افسران نہ صرف بحال بلکہ اعلیٰ عہدوں پر فائز ہو چکے ہیں۔ وہ دھندہ اب بلا روک ٹوک خوب چلے گا۔

چنگو نے محسوس کیا یہ احمق پھر بہک گیا وہ بولا یار تم مجھے شاذیہ اور شاہ جی کی بات بتاتے کہیں اور ۰۰۰۰۰

ہاں یار کیا کیا جائے گاڑی ہمیشہ اسٹیشن پر ہی نہیں رکتی بلکہ کبھی کبھار بیچ میں سگنل پر بھی تو رک جاتی ہے۔

لیکن تمہاری گاڑی کا تو اکثر پٹری سے اتر کر اِدھر اُدھر بھاگتی رہتی ہے۔

منگو نے مصنوعی ناراضگی سے کہا اگر تم بور ہو رہے ہو تو میں کھسک لوں۔

نہیں یار!دوستوں کی بات کا برا نہیں مانتے تم ٹی وی دیکھو میں تمہارے لئے چائے بنا کر لاتا ہوں۔ تم آج واقعی بڑے زبردست انکشافات کر رہے ہو۔ چنگو سوچ رہا تھا اس بار تو اس کا مضمون ذرائع ابلاغ میں کینسر کی مانند پھیل جائے گا اور لوگ بدعنوانی کے عفریت کویکسر فراموش کر دیں گے۔

چنگو جب چائے کی پیالیوں کے ساتھ واپس آیا تو ٹیلی ویژن بند تھا۔ اس نے پوچھا تم نے اسے کیوں بند کر دیا۔

منگو گمبھیر لہجے میں بولا میں کچھ سوچ رہا تھا اور یہ کمبخت سوچنے نہیں دیتا۔

تمہاری بات درست ہے لیکن کیا مجھے نہیں بتاؤ گے کہ کیا سوچ رہے تھے؟

منگو راجناتھ کے انداز میں بولا یہی کہ اب تم کیا پوچھو گے؟ بھئی پہلے سے تیاری کر لینا اچھا ہوتا ہے ورنہ اچانک ۰۰۰۰۰۰تم تو سمجھ گئے نا۔

میں سب سمجھ گیا اب تم یہ چائے پیو اور مجھے بتاؤ کہ وہ چمتکار کیسے ہو گیا؟

وہ یعنی کیا؟عشق، وشق، پیار، ویار؟

نہیں یار وہی شاذیہ اور گرو جی ۰۰۰۰۰ میرا مطلب ہے شاہ جی عرف گرو جی کا چکر؟

ہاں ہاں یاد آیا منگو نے بات آگے بڑھائی در اصل بات یہ ہے شاہ جی وہ ڈھول ہیں جو دور کے لوگوں کو سہانے لگتے ہیں۔ قریب والے ان کا پولم پول جانتے ہیں اس لئے پارٹی کے اندر ان کا کوئی احترام نہیں ہے سب انہیں پردھان جی کی کٹھ پتلی سمجھتے ہیں۔

وہ تو ٹھیک ہے لیکن اس کا میرے سوال سے کیا تعلق؟

بہت گہرا تعلق ہے۔ مذکورہ بالا وجہ کے چلتے دہلی کے گھاگ سیاستداں تو گرو جی کو پوچھ کر نہیں دیتے تھے۔ جب ان کو کوئی گھاس نہیں ڈالتا تھا اس دور میں شاذیہ نے پارٹی میں قدم رکھا اور اپنی چکنی چپڑی باتوں سے ان کا دل جیت لیا۔ شاذیہ کے بارے میں میں کیا کہوں تم تو جانتے ہی ہو کہ مارکنڈے کاٹجو جیسا جہاندیدہ سابق جج اور دانشور بھی انہیں کرن جی سے زیادہ خوبرو اور خوش پوش وزیر اعلیٰ کے عہدے کا امیدوار قرار دے چکا ہے۔

ہاں بھئی دوستی کا راز تو کھل گیا اب بتاؤ آگے کیا ہوا؟

ہوا یہ کہ منگو ایک ٹھنڈی آہ بھر کر بولا دہلی کی حد تک شاذیہ ان کی مشیر خاص بن گئی اور اس کا نتیجہ جو کچھ ہوا وہ تم نے دیکھ لیا بلکہ ساری دنیا نے دیکھ لیا اب تو سنا ہے امریکی انتظامیہ بھی ان انتخابی نتائج کی بنیاد پر پردھان جی کا سیاسی قد و قامت طے کر رہا ہے بلکہ ان کے عبرتناک انجام کی پیش گوئی بھی ہونے لگی ہے۔

اتنی جلدی یہ تو صرف دہلی ہے۔

منگو نے کہا یار ایک بات بتاؤ تم امریکہ میں بھنگ کھا کر سو تو نہیں رہے تھے؟ تم نے نہیں دیکھا کہ وہ کس قدر تیز لوگ ہیں۔

بھئی میں کیا دیکھتا اس وقت تو ساری دنیا صرف پردھان جی کو دیکھ رہی تھی۔

یہ اس وقت کی بات تھی لیکن اب دہلی کے عام آدمی نے نہ صرف پردھان جی کو دیکھ لیا ہے بلکہ انہیں آئینہ بھی دکھا دیا ہے۔

یار تم شاذیہ اور گرو جی کو چھوڑ کر امریکہ کیا گئے کہ پھر لوٹ کر ہی نہیں آئے۔

معاف کرنا یار دہلی واپس آتے ہیں۔ ہوا یہ کہ ایک دن گرو جی جموں کشمیر کے انتخابی نتائج پر بغلیں بجا رہے تھے تو شاذیہ نے کہہ دیا گرو جی آپ تو سکے کا صرف ایک رخ دیکھ رہے ہیں۔ قومی انتخاب میں عاپ کے ۹۰ فیصد امیدواروں کی ضمانت ضبط ہوئی تھی مگر وادیِ کشمیر میں بی جے پی سو فیصد امیدواروں کی ضمانت ضبط ہو گئی۔

گرو جی نے چڑ کر کہا شاذیہ میں کیا بتاؤں یہ تمہاری قوم کے لوگ ہیں نامسلمان، یہ بہت بڑی مصیبت ہیں۔ ان کو بہلانا پھسلانا اور بے وقوف بنانا بے حد مشکل ہے میری سمجھ میں نہیں آتا کہ ان کا کیا کیا جائے؟

شاذیہ بولی گرو جی آپ مسلمانوں کا پیچھا چھوڑئیے ویسے بھی وہ بہت کم ہیں بلکہ ہندو بھائیوں پر توجہ دیجئے ورنہ دہلی میں بھی وہی ہو جائے گا جو کشمیر میں ہوا ہے۔

گرو جی بولے نہیں شاذیہ یہ نہیں ہو سکتا۔ دہلی دل والوں کا شہر ہے۔ یہاں جھنڈے والان کے دفتر میں برسوں سے سنگھ پریوار کا جھنڈا لہراتا ہے۔

مگر جھنڈے والان میں بھی لوگوں کا آنا جانا بہت کم ہو گیا ہے؟

نہیں شاذیہ یہ نہیں ہو سکتاشاید تم کسی کانگریسی کے بہکاوے میں آ گئی ہو؟

اچھا گرو جی ایک بات بتائیے آپ ایک عرصے سے دہلی میں ہیں۔ پہلے تو عدالت نے آپ کو تڑی پار کیا آپ یہاں چلے آئے اس کے بعد عدالتی پابندی اٹھی تو نئی ذمہ داری آپ کے پیروں کی بیڑی بن گئی۔ آپ مجھے بتائیے کہ کیا آپ نے کبھی جھنڈے والان جانے کی زحمت کی؟

گرو جی نے سر جھکا کر کہا نہیں ۰۰۰۰کبھی نہیں۔

شاذیہ نے پو چھا کیوں؟

اس لئے کہ اس ضرورت ہی پیش نہیں آئی۔

شاذیہ کا کام ہو گیا وہ بولی یہی تو میں کہہ رہی ہوں چونکہ عام آدمی کی ضرورت وہاں پوری نہیں ہوتی اس لئے وہ وہاں نہیں جاتا۔

 

 

 

 

 

۳

 

چنگو بولا یار منگو تم پھر کہیں اور نکل گئے۔

بھئی دیکھو اس میں میرا کوئی قصور نہیں وہ تو گرو جی اور شاذیہ جی آرایس ایس کے مرکز جھنڈے والان چلے گئے میرا مطلب ہے نہیں گئے تو میں کیا کر سکتا ہوں؟ خیر اس گفتگو نے گرو جی کو دہلی کی بابت سنجیدہ کر دیا۔ وہ بولے شاذیہ تو تم کیا کہنا چاہتی ہو؟ تم تو دلی والی ہو۔ تم آپ کو اور ہم کو دونوں کو جانتی ہو اب تمہارا کیا مشورہ ہے۔

شاذیہ جو موقع کی تلاش میں تھی فوراً بولی گرو جی میں تو آپ کو بت اچکی ہوں کہ اپنے ہندو بھائیوں کی جانب توجہ دیں انہیں بے وقوف بنانے کی سعی کریں۔

گرو جی بولے لیکن شاذیہ یہ دہلی والے میرا مطلب دہلی کے بی جے پی والے نہ میری سمجھ میں آتے ہیں اور یہ نہ میری بات سمجھ پاتے ہیں۔ اگر ان کو قابو میں کرنے کی کوئی ترکیب تمہارے پاس ہو تو مجھے بتاؤ۔

شاذیہ بولی میں تو کہوں گی کہ آپ ان کا چکر چھوڑ دو۔

گرو جی نے چونک کر کہا یہ تم کیا کہہ رہی ہو شاذیہ جس طرح کیجریوال آپ کو نہیں چھوڑ سکتا میں باپ کو یعنی بھاجپ کو نہیں چھوڑ سکتا؟

گرو جی آپ تو جانتے ہی ہیں کہ میں بلا دلیل کوئی بات نہیں کرتی۔

وہ تو میں جانتا ہوں لیکن تمہارے اس مشورے کی منطق سمجھ میں نہیں آئی۔

بات در اصل یہ ہے کہا ول تو اپنی پارٹی کا ہارڈ کور کیڈر، میرا مطلب ہے نیکر دھاری سویم سیوک بہت کم ہیں اور دوسرے کمل پر نشان لگانا ان کی مجبوری ہے۔

یہ مجبوری کا کیا قصہ ہے؟

بھئی یہ لوگ چاہیں نہ چاہیں پنجہ یا جھاڑو تو تھامیں  گے نہیں؟ میں تو کہتی ہوں عام آدمی پر توجہ دو جو دن بہ دن عاپ کے چنگل میں پھنستا جا رہا ہے۔

گرو جی بولے میں نہیں جانتا کہ تمہاری ہر بات مجھے درست کیوں لگتی ہے؟

شکریہ گرو جی یہ تو آپ کا حسنِ نظر ہے۔ آپ اتنے مہان انسان ہیں کہ مجھ جیسی ادنی ٰ ۰۰۰۰۰۰

اگر تمہارے علاوہ کوئی اور تمہارے لئے ادنیٰ کا لقب استعمال کرتا تو میں اس پر ٹاڈا لگا دیتا لیکن کیا کروں تمہیں سزا نہیں دے سکتا۔ اب تم ہی بتاؤ کہ اس عام آدمی کیلئے ہمیں کیا کرنا ہو گا؟

گرو جی آپ نے تو سنا ہی ہو گا لوہا لوہے کو کاٹتا ہے میں تو کہتی ہوں ہمیں جھاڑو کو جھاڑو سے مارنا ہو گا۔

شاذیہ جھاڑو تو جھاڑو سے ہی سے مارا جاتا ہے لیکن اس کا ہم سے کیا تعلق؟

آپ یہ نہ بھولیں کہ عاپ کا انتخابی نشان جھاڑو ہے میرا خیال ہے اگر ہم عوام کو یہ سمجھانے میں کامیاب ہو جائیں کہ عام آدمی پارٹی سے بہتر جھاڑو ہم لگا سکتے ہیں تو وہ عاپ پر باپ کو ترجیح دینے سے نہیں ہچکچائے گا۔

لیکن یہ کیونکر ممکن ہے ہیں؟ ہم کمل کو جھاڑو سے بدل تو نہیں سکتے؟

میں کمل کو بدلنے کی نہیں بلکہ جھاڑو لگانے کی بات کہہ رہی تھی۔ کیا یہ نہیں ہو سکتا کہ ہم ’’سوّچھ بھارت ‘‘ کا نعرہ لگا کر جھاڑو لگانے کی ملک گیر مہم شروع کر دیں اور اس کا افتتاح خود وزیر اعظم فرمائیں۔ آپ تو جانتے ہیں وہ جس کام کا بھی بیڑہ اٹھاتے ہیں اس میں چار چاند لگا دیتے ہیں چاہے وہ جھاڑو ہی کیوں نہ ہو؟

منگو کی لن تانی سے پریشان چنگو بیچ میں بول پڑا تو کیا تمہارا مطلب ہے ’’سوچھ بھارت ‘‘ کا آئیڈیا پردھان جی کا نہیں بلکہ شاذیہ علمی کا تھا؟

منگو بات بناتے ہوئے بولا جب تک پردھان جی نے اسے قبول نہیں کیا تھا وہ کسی کا بھی رہا ہو لیکن جب انہوں نے خود اپنے ہاتھ میں جھاڑو اٹھا لیا اس کے بعد سے ’’جملہ حقوق بحق۰۰۰۰۰۰‘‘تم سمجھ گئے ہوو گے۔

چنگو نے بات پوری کی اس کا سب کچھ ان کے نام سے محفوظ ہو جاتا ہے۔

یار چنگو ایک بات بتاؤں تمہارے اور گرو جی کے اندر بلا کی مشابہت ہے۔

(چڑھ کر) یار گالی بھی دینی ہے تو ایسی بری گالی نہ دو۔

منگو ہنس کر بولا برا نہیں مانتے۔ میں نے یہ اس لئے کہا کہ گرو جی نے بھی شاذیہ کی تجویز پر ہو بہو یہی کہا تھا کہ ’’ اچانک اس کا آغاز کچھ اٹ پٹا نہیں لگتا؟‘‘

اچھا تو پھر شاذیہ نے کیا جواب دیا؟

شاذیہ مجھ سے کم حاضر جواب تھوڑی نہ ہے اس نے جھٹ کہا اس مسئلہ کا میرے پاس ایک نہایت معقول حل ہے۔ جب سے ہماری سرکار نے اقتدار سنبھالا ہے ہر قومی رہنما کے یوم پیدائش پر ہم ایک نیا شوشہ چھوڑ دیتے ہیں بشرطیکہ اس کا تعلق نہرو خاندان سے نہ ہو۔

گرو جی نے تائید کی اور بولے جی ہاں شاذیہ ٹی وی کے پردے پر نظر آنے کیلئے کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی پڑتا ہے؟

شاذیہ بولی یہ مجھ سے زیادہ کون جانتا گرو جی میں خود اسی دنیا سے آئی ہوں اس لئے کیوں نہ گاندھی جینتی کے شبھ مہورت پر یہ مہم چھیڑ دی جائے۔ ویسے بھی سنا ہے گاندھی جی خاصے نفاست پسند انسان تھے اور صفائی کا کام کرنے والے طبقات کے شانہ بشانہ وہ بصد شوق کام کیا کرتے تھے۔

گرو جی بولے دیکھو شاذیہ دنیا بھر میں گاندھی جی کی جو بھی قدرو منزلت ہو ہمارے پریوار میں وہ ایک اختلافی شخصیت ہیں۔ آج کل تو لوگ ان کے قاتل ناتھو رام گوڈسے کیلئے پدم وبھوشن کا مطالبہ کرنے لگے ہیں۔ اس کے نام کی یادگار تعمیر کرنے جا رہے ہیں ایسے میں کہیں ایسا نہ ہو کہ لینے کے دینے پڑ جائیں؟

نہیں گرو جی ایسا نہیں ہو گا جو ان کے مخالفین ہیں وہ سوچیں گے گاندھی جی اسی لائق تھے کہ ان کی جینتی پر ملک سے جھاڑو مار کر ان کے اصول و نظریات کو کوڑے دان میں ڈال دیا جائے لیکن جو گاندھی بھکت ہیں وہ سمجھیں گے سرکار راشٹر پتا کو خراجِ عقیدت پیش کر رہی ہے۔ میں تو کہتی ہوں گاندھی جینتی کے موقع پر اگر ہم جھاڑو لگانے لگیں تو کانگریس اور عام آدمی پارٹی دونوں کا صفایا ہو جائے گا۔

گرو جی بولے بظاہر تو تمہارا مشورہ معقول لگتا ہے لیکن مجھے سوچنے کیلئے وقت دو۔ میں پردھان جی سے مشورہ کئے بغیر اس بابت کوئی فیصلہ نہیں کر سکتا۔

ابھی ۲ اکتوبر میں کافی وقت ہے آپ آرام سے مشورہ کریں اور اگر کوئی مشکل پیش آئے تو اس ادنی ٰ خادم کو یاد فرمائیں۔ گرو جی کا شکریہ ادا کر کے شاذیہ نے رخصت لی۔ شاذیہ کے نادر روزگار تجویز نے گرو جی کا دل خوش کر دیا انہوں نے اپنے نام سے اسے پردھان جی کی خدمت میں پیش کر دیا۔ پردھان جی بھی بہت خوش ہوئے اور کہا دہلی آنے کے بعد تم دن بہ دن ذہین ہوتے جا رہے ہو لیکن یاد رکھو ۰۰۰

میں اپنی حدود جانتا ہوں آپ سے آگے جانے کی جرأت نہیں کروں گا۔

پردھان جی نے حیرت سے کہا اگر عاپ سے ہم لوگ آگے نہیں بڑھ پائے تو اس ہنگامہ کی ضرورت ہی کیا ہے؟

گرو جی نے جواب دیا میری مراد عام آدمی پارٹی سے نہیں تھی۔ ان کمبختوں نے نام ہی ایسا رکھا ہے کہ بار بار غلط فہمی ہو جاتی ہے لیکن اب ہم نے بھی عوام کو کنفیوژ کرنے کا ماسٹر پلان بنا لیا ہے۔

پردھان جی نے وہی تجویز اپنے نام سے مارگ درشن کمیٹی میں رکھی اور بغیر کسی بحث کے اتفاق رائے سے اسے منظور کر لیا گیا۔ پھر کیا تھا ہر طرف جھاڑو لہرانے لگا سڑکوں پر کچرا پھیلانے اور ہٹانے کی مہم کچھ ایسے شروع ہوئی کہ پردھان جی کے سب بڑے دشمن سنجے جوشی کو بھی جھاڑو اٹھا کر میدان میں اترنا پڑا۔

چنگو نے پوچھا یار تم کبھی کیجریوال کے ساتھ ہوتے تو کبھی پردھان جی کے ساتھ۔ کبھی شاذیہ کے ساتھ تو کبھی گرو جی کے ساتھ یہ کیا ماجرا ہے؟

منگو بولا دیکھو یہ عام آدمی پارٹی کا دور ہے اس میں پیڑ گننے کے بجائے صرف آم سے مطلب رکھا کرو کیا سمجھے؟ اگر یہ معلومات تمہارے لئے مفید نہیں ہے تو میں اپنی داستان بند کر دیتا ہوں۔ میرے پاس ویسے بھی بہت کام ہے۔

چنگو نے کہا یار کام تو ہوتا ہی رہے گا اور باتیں بھی ہوتی رہیں گی کیوں نہ کسی طعام گاہ میں چل کر کھانا کھایا جائے؟

یہ تو ایسا ہی جیسے ایک تیر سے کانگریس اور عاپ کا صفایا۔

چنگو بولا لیکن ہوا یہ کہ ایک ساتھ کمل اور ہاتھ ڈھیر ہو گئے۔

دوست یہ سیاست ہے اس میں ایسے چمتکار ہوتے رہتے ہیں۔

کھانے کے بعد جب دونوں دوست گھر لوٹے تو منگو جماہی لے رہا تھا۔ چنگو نے سوچا اگر اس دلچسپ موڑ پر یہ بھسما سور سو گیا تو نہ جانے کب بیدار ہو گا اور کوئی بعید نہیں کہ جاگنے کے بعد ساری کہانی بھول جائے۔ کھانے پر ہونے والے خرچ کو وصول کرنے خاطر چنگو نے چائے کی پیشکش کر دی جسے منگو نے بصد شوق قبولی کیا۔ منگو کو سوچنے کا نادر موقع ہاتھ آ گیا۔ منگو نے گرم چائے کی چسکی لیتے ہوئے کہا بھئی مزہ آ گیا مان گئے استاد بڑے میاں تو بڑے میاں چھوٹے میاں سبحان اللہ۔

چنگو نے گمان کیا منگو پردھان جی اور گرو جی کے بارے میں کچھ کہنے کیلئے سماں باندھ رہا ہے۔ اس نے کہا اس میں کیا شک ہے؟ بڑے میاں نے کچھ سوچ سمجھ کر ہی چھوٹے میاں کا انتخاب کیا ہو گا۔

میں سمجھا نہیں دوست تم کس چھوٹے اور بڑے میاں کا ذکر کر رہے ہو؟

وہی سفید اور کالی داڑھی والی جوڑی جو کلیان جی آنند جی بنے ہوئے ہیں۔

منگو بولا یار تم تو سیاست سے سیدھے فلمی دنیا کی جانب نکل گئے۔

یار میں تو مثال دے رہا تھا خیر تم کس کا ذکر کر رہے تھے۔

منگو بولا میں تو زبردست کھانے کے بعد گرم گرم چائے کی تحسین کر رہا تھا۔

چنگو کو اپنی غلطی کا احساس ہوا وہ بولا معذرت میں بہت دور نکل گیا تھا۔

کوئی بات نہیں اب تم جہاں پہنچے ہو وہیں سے بات آگے بڑھاتے ہیں۔

جی ہاں جی ہاں اب یہ بتاؤ کہ پھر آگے کیا ہوا۔

ہوا یہ کہ جب کیجریوال نے دیکھا کہ بی جے پی والوں نے جھاڑو دن دہاڑے اس سے چھین لیا ہے تو انہوں نے شاذیہ کے ساتھ ایک خفیہ میٹنگ طے کی اور بولے شاذیہ بی جے پی والے تو جھاڑو کے ساتھ سارے ذرائع ابلاغ پر چھا گئے ہیں۔ اب ہمارا کیا ہو گا؟

شاذیہ بولی وہی ہو گا جو منظورِ خدا ہو گا۔

کیجریوال نے پریشان ہو کر کہا شاذیہ ہماری حالت خراب ہے اور تمہیں مذاق سوجھ رہا ہے۔ مجھے تو ڈر ہے کہ کل کو ہم جھاڑو لے کر میدانِ عمل میں اتریں گے تو لوگ سمجھیں گے کہ ہم بھی بی جے پی کی صفائی مہم میں حصہ لے رہے ہیں۔

کیا واقعی معاملہ اس قدر خراب ہو گیا ہے؟

جی ہاں آج کل ہر طرف عاپ کے بجائے باپ کا جھاڑو چل رہا ہے۔

میں کوئی ایسی ترکیب لگاتی ہوں کہ یہ جھاڑو کھل کر بکھر جائے۔

وقت نہیں ہے کسی بھی وقت انتخابی تاریخ کا اعلان ہو سکتا ہے۔

چنتا نہ کریں۔ جھاڑو کے بکھرنے تک گرو جی اعلان نہیں کریں گے۔

کیجریوال کو شاذیہ کی خوداعتمادی نے حیرت میں ڈال دیا تھا۔ شاذیہ جب گرو جی سے ملنے کیلئے ان کے دفتر میں گئی تو وہ بہت خوش تھے انہوں نے بتایا بھئی تمہارا صفائی مہم والا آئیڈیا تو بے حد کامیاب ہوا ہے۔ ہمارے سویم سیوک نہ صرف بھارت کی دھرتی بلکہ برطانیہ اور امریکہ کی سڑکوں پر بھی جھاڑو لگا کر اپنا اور ہمارا نام روشن کر رہے ہیں۔

وہ تو ٹھیک ہے گرو جی لیکن آپ کے ہاتھ میں ابھی تک جھاڑو نہیں نظر آیا۔

یہی بات میں تمہارے متعلق بھی کہہ سکتا ہوں۔ در اصل ہم لوگ جھاڑو لگوانے والے ہیں۔ جھاڑو لگانے والے اور ہی لوگ ہیں۔

گرو جی کی اس بات نے شاذیہ کے ۱۴ طبق روشن کر دئیے اور وہ اپنے ذہن میں ایک نادر ترکیب خد و خال مرتب کرنے لگی۔ اس نے اپنے آپ کو سنبھال کر کہا گرو جی آپ کی یہ بات تو درست ہے جب سے میں نے عاپ کو چھوڑا ہے جھاڑو ہاتھ میں نہیں لیا لیکن یہ بھی تو غلط ہے کہ انسان وہ بات کہے جو خود نہ کرے۔ اس لئے بہت جلد آپ میرے ہاتھ میں جھاڑو دیکھیں گے۔

جی ہاں شاذیہ مجھے یقین ہے ٹی وی والے تمہارے ہاتھ میں جھاڑو دیکھ کر سمرتی ایرانی کو بھول جائیں گے بلکہ میں تو کہتا ہوں اگر تم دونوں کی تصاویر ایک ساتھ شائع ہو جائیں تو لوگ سمرتی کی تصویر کے نیچے لکھ دیں گے ’’ساس بھی کبھی بہو تھی‘‘۔

میں تو کہتی ہوں لوگ آپ کے حسنِ ظرافت سے واقف نہیں ہیں ورنہ وہ پردھان جی کو بھول جائیں۔ اس تعریف و توصیف نے گرو جی کے اندر اس قدر ہوا بھر دی کہ وہ پھول کر کپّا ہو گئے۔ اس سے قبل کہ وہ غبارہ پھٹتا شاذیہ اجازت لے کر نکل گئی اب اس کا دماغ ایک خطرناک منصوبے پر کام کر رہا تھا۔

شاذیہ نے گھر آ کر انڈیا اسلامک سینٹر کے سربراہ سے رابطہ قائم کیا اور بولیں کیوں جناب کب تک پردھان جی سے روٹھے رہیں گے۔

وہ بولے شاذیہ تم سے کس نے کہہ دیا کہ میں ناراض ہوں۔ مجھے پتہ ہے پانی میں رہ کر مگرمچھ کے ساتھ بیر ممکن نہیں لیکن کیا بتاؤں بات بنتی ہی نہیں ہے۔

ایسی کیا بات ہے؟ آپ مجھ سے کہتے تو میں کوشش کرتی۔

جی ہاں میں تو بھول ہی گیا تھا تم آج کل وہاں پہنچی ہوئی ہو خیر بات در اصل یہ ہے کہ انڈیا انٹر نیشنل کی یہ قدیم روایت ہے کہ وہ ہر منتخب وزیر اعظم کو اپنے یہاں آنے کی دعوت دیتا ہے۔ میں نے اس پر عمل کرتے ہوئے مودی جی کو بھی اس کی دعوت دی مگر نہ جانے کیسے اردو پریس کو اس کی بھنک لگ گئی اور اس نے ہنگامہ کھڑا کر دیا جس سے پردھان جی نے ڈر کر معذرت کر لی۔

شاذیہ خوش ہو کر بولی بھئی مبارک ہو آپ نے تو بڑی ڈراؤنی ہستی کو ڈرا دیا۔

شاذیہ تمہاری یہ بیباکی مجھے کسی مصیبت میں نہ ڈال دے۔ میں تو خود ڈرا سہما رہتا ہوں ایسے میں کسی اور کو کیا خوفزدہ کر سکتا ہوں؟

دیکھئے جناب ایسے کام حکمت سے کئے جاتے ہیں۔

حکمت جس چڑیا کا نام ہے اسے میں نہیں جانتا۔

جناب میرا مطلب ہے سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔

ناگ پنچمی کا تہوار آنے والا ہے لوگ سانپ کو دودھ پلانے کیلئے اس میں پانی ملا رہے ہیں اور تم سانپ کو مارنے کی بات کر رہی ہو۔ مجھے لگتا ہے کہ تمہارے ارادے خطرناک ہیں۔

آپ تو بڑے بھولے بھالے انسان ہیں ایک معمولی محاورہ بھی نہیں سمجھتے خیر میرا مشورہ یہ ہے کہ آپ اسلامک سینٹر پرسوچھ بھارت مہم کا اہتمام کریں۔ ابھی تک کسی غیر سرکاری بلکہ نیم سرکاری مسلم تنظیم نے بھی اس میں حصہ نہیں لیا۔ آپ پہل کریں گے تو ذرائع ابلاغ میں خوب چرچہ ہو گا میں تو کہتی ہوں کہ آپ چھا جائیں گے۔

یہ نہایت عمدہ تجویز ہے لیکن ذرائع ابلاغ میں چھانے کیلئے کسی مشہور و معروف شخصیت کا اس میں شریک ہونا لازمی ہے۔

آپ کہیں تو وزیر اعظم کو بلا لاؤں؟

جی نہیں میں کسی نئے تنازع میں پھنسنا نہیں چاہتا اس لئے کوئی کمتر اسامی ڈھونڈو ورنہ پھر کھایا پیا کچھ نہیں گلاس پھوڑا بارہ آنہ۔

آپ نے ممبئی کی زبان کیسے سیکھ لی؟ کیا آپ وہاں رہ چکے ہیں۔

آپ بہت بھولی ہیں شاذیہ جی لگتا ہے آپ بالی ووڈ کی فلمیں نہیں دیکھتیں۔

جی ہاں اگر ایسا ہے تو میں گرو جی کو بلوا لیتی ہوں آج کی تاریخ میں پردھان جی کے بعد سب سے زیادہ اثرورسوخ انہیں کا ہے۔

تم کس گرو کی بات کر رہی ہو؟ میں نہیں جانتا۔

میرا مطلب ہے شاہ جی کیا آپ انہیں نہیں جانتے؟

کیسی بات کرتی ہو انہیں کون نہیں جانتا لیکن مجھے نہیں لگتا کہ وہ اس مرکز کیلئے اپنا قیمتی وقت فارغ کریں گے۔

آپ وہ کام مجھ پر چھوڑ دیجئے میں سب ٹھیک کر دوں گی۔ شاذیہ نے بڑی صفائی کے ساتھ صدرِ مرکز کو شیشے میں اتار لیا تھا۔ اس نے جب گرو جی کو آئی آئی سی کی صفائی مہم میں شرکت کی دعوت دی تو ان کا احساس جرم پیروں کی بیڑی بن گیا اور انہوں نے کہا میری رائے یہ ہے کہ یہ کام تم بی جے پی دہلی کے صدر ستیش اپادھیائے کے ساتھ مل کر کرو۔ ویسے بھی اسے ذرائع ابلاغ کے عدم توجہی کی شکایت ہے۔

شاذیہ بولی اس میں شکایت کی کیا بات؟ جب وہ بڑے لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے تو نظر انداز ہو جاتا ہے۔

تم سے بھی شکایت ہے کہ اس کو نظر انداز کر کے براہِ راست مجھ سے رابطہ کرتی ہو۔

شاذیہ نے سوچا اچھا اگر ایسا ہے تو اسے سبق سکھانا ضروری ہے۔ اس نے اپادھیائے سے رابطہ کیا۔ اپادھیائے بڑی آسانی سے راضی ہو گئے اس لئے کہ شاذیہ پر احسانمندی کا یہ نادر موقع وہ گنوانا نہیں چاہتے تھے۔

شاذیہ نے صفائی مہم کی کمان اپنے ہاتھ میں سنبھالی اور آزاد پور مارکیٹ سے کوڑا کرکٹ منگوانے کا اہتمام کیا۔ اس کے پیچھے حکمت یہ تھی کہ رنگ برنگے سڑے ہوئے پھل اور سبزیاں ٹی وی کے پردے پر نمایاں نظر آئیں۔ جب سارا پروگرام بن گیا تو شاذیہ نے اپنے خاص چینل پر موجود ایک ساتھی کو بتا دیا کہ کچراکس وقت انڈیا اسلامک سینٹر پر پہنچنے والا ہے۔ اب کیا تھا ٹی وی کیمرہ کچرے کی گاڑی سے پہلے وہاں تعینات ہو چکا تھا۔

گاڑی پر موجود مزدوروں کے فرشتے بھی نہیں جانتے تھے کہ کیمرے کی آنکھ ان پر لگی ہوئی ہے۔ ان لوگوں بڑے انہماک کے ساتھ گاڑی کا کچرا خالی کیا۔ انڈیا اسلامک سینٹر کے ملازمین کی نگرانی میں اسے بڑی نفاست سے پھیلایا گیا اور پھر اپادھیائے جی تشریف لائے۔ اس مہم میں پہلی بار نقلی کچرے کی اصلی صفائی عمل میں آئی۔ کوڑے کی بدبو سے اپادھیائے کا دماغ خراب ہو گیا اور وہ درمیان ہی سے میدان چھوڑ کر بھاگ کھڑے ہوئے۔ اس کے بعد جن مزدوروں نے گاڑی خالی کی تھی انہیں لوگوں نے کچرے کو گاڑی میں بھرنے کی زحمت گوارہ کی اور اپنا انعام وصول کر کے لوٹ گئے۔

صفائی مہم کی فلم پہلے ایک ٹی وی چینل پر نشر ہوئی اور پھر دنیا بھر کے ٹی وی چینلس نے اس پاکھنڈ کا پردہ فاش کر دیا۔ اس طرح اپادھیائے جی کو انتخابی میدان سے بے دخل کر کے کچرے کے ڈبے میں پھینک دیا گیا۔

 

 

 

 

 

۴

 

اپادھیائے پر جھاڑو چل جانے کے بعد دہلی کی بی جے پی لیڈرشپ کا سپڑا صاف ہو گیا۔ عاپ نے اپادھیائے کے بجلی بنانے والی کمپنیوں کے ساتھ تعلق کو بے نقاب کر کے ان کا فیوز اڑا دیا۔ اب دہلی کے اندر بی جے پی بے چہرہ ہو چکی تھی۔ مرکز میں وزیر بن جانے کے بعد سابق وزیر اعلیٰ ڈاکٹر ہرش وردھن کی دلچسپی کم ہو چکی تھی۔ شاذیہ نے گرو جی کو دہلی میں بی جے پی کی بے چہرگی کا احساس دلایا تو وہ بولے دیکھو شاذیہ ہمارے لئے فی الحال ایک پردھان جی کا چہرہ کافی ہے اور سچ تو یہ ہے کہ وہ اپنے سوا کسی اورپسند بھی نہیں کرتے۔ ان کو تو صرف وہی خود اچھے لگتے ہیں۔

شاذیہ بولی لیکن جناب عوام ان کے چہرے سے اب بور ہونے لگے ہیں اس لئے وقت آ گیا ہے کہ آپ خود آگے آئیں۔

گرو جی نے احمقانہ انداز میں اپنے گنجے سر پر ہاتھ پھیر کر کہا شاذیہ لگتا ہے تم مجھے ایسی جگہ لے جا کر مرواؤ گی جہاں دو گھونٹ گنگا جل بھی میسر نہیں آئے گا۔

گرو جی آپ پردھان جی کے خاص آدمی ہیں آپ کا کون بال بیکا کر سکتا۔

جی ہاں لیکن پردھان جی گنجے سر والے کے بال بھی اکھاڑ سکتے ہیں۔ جہاں تک قربت کا سوال ہے ایک زمانے میں ہرین پنڈیا مجھ سے زیادہ ان سے قریب ہوا کرتا تھا اور تم تو جانتی ہو اس بیچارے کا کیا حشر ہوا؟

لیکن کیا آپ کو لگتا ہے کہ کسی وزیر اعلیٰ کے امیدوار کو آگے کئے بغیر ہم لوگ انتخاب جیت جائیں گے؟

گرو جی برجستہ بولے کیوں نہیں؟ مہاراشٹر، ہریانہ اور جھار کھنڈ میں کہاں تھا کوئی ہمارا امیدوار؟ بس پردھان جی ہی سب کیلئے کافی ہو گئے۔

وہاں ہمارے خلاف کوئی مضبوط امیدوار بھی تو موجود ہی نہیں تھا۔ کانگریس کے للو پنجو لوگوں کو ہرانے اور اروند کیجریوال کو شکست دینے میں بہت بڑا فرق ہے۔

لیکن پردھان جی وارانسی میں اسے بری طرح ہرا بھی تو چکے ہیں۔

ایک بات جان لیجئے گرو جی جس طرح وارانسی کے رائے دہندگان جانتے تھے کیجریوال جیت کر بھی وزیر اعظم نہیں بن سکتا اسی طرح دہلی کے ووٹرس کو پتہ ہے کہ پردھان جی اگر بی جے پی کو کامیاب کرا دیں تب بھی وزیر اعلیٰ نہیں بن سکتے۔ اس فرق کو اگر ہم نے نظر انداز کر دیا تو دہلی کی بازی الٹ سکتی ہے۔

شاذیہ نے گرو جی کو فکر مند کر دیا تھا۔ وہ بولے مجھے تو تمہاری منطق درست لگتی ہے لیکن میں یہ بات پردھان جی کے گوش گزار نہیں کر سکتا۔

اس میں کون سی بڑی بات ہے اگر آپ مناسب سمجھیں تو میں کوشش کروں؟

تم! تم کیا بات کرتی ہو؟ تم یہ بات انہیں بتاؤ گی؟

کیوں نہیں۔ مجھے کیا؟ وہ مجھے پارٹی کی صدارت سے تھوڑی نا ہٹا سکتے ہیں؟

آج تم کیسی بہکی باتیں باتیں کر رہی ہو؟ تم جب پارٹی کی صدر ہو ہی نہیں تو وہ تمہیں کیسے ہٹائیں گے بھلا؟

یہی تو میں بھی کہہ رہی ہوں چونکہ مجھے کسی نقصان کا اندیشہ نہیں ہے اس لئے میں جو من میں آئے کہہ سکتی ہوں؟

کیسی باتیں کرتی ہو شاذیہ وہ ملک کے پردھان سیوک ہیں۔ تم کو ان کی ناراضگی کا ڈر نہیں لگتا؟

وہ میرا کیا بگاڑ سکتے ہیں زیادہ سے زیادہ پارٹی سے نکلوا دیں گے اور کیا؟

وہی تو میں کہہ رہا ہوں کہ اگر تمہیں پارٹی سے نکلوا دیا گیا تو تم کہاں جاؤ گی؟

وہیں! جہاں سے آئی تھی۔ میرا کیا؟

کیا غداری کے باوجود وہ خودسر کیجریوال تمہیں پارٹی میں واپس لے لے گا۔

شاذیہ کو اپنی غلطی کا احساس ہو گیا اس نے پینترا بدلتے ہوئے کہا گرو جی آپ میری بات نہیں سمجھے۔

اس میں سمجھنے کا کیا ہے۔ ساری دنیا جانتی ہے کہ تم عاپ کو چھوڑ کر آئی۔ تم نے جھاڑو ہاتھ میں لے کر ہمارے جنرل وی کے سنگھ کے مقابلے انتخاب بھی لڑا ہے۔

آپ کی بات درست ہے لیکن میں عاپ کے اندر پیدا تو نہیں ہوئی جیسے کہ راہل جی کانگریس میں پیدا ہوئے ہیں۔

گرو جی بولے ہاں سو تو ہے۔ تم آپ کے اندر کیسے جنم لے سکتی تھیں جبکہ اس وقت وہ پارٹی خود عالمِ وجود میں نہیں آئی تھی۔ اس جھاڑو والی جماعت کو ابھی جمعہ جمعہ آٹھ ہی دن تو ہوئے ہیں۔

تب تو تم آپ کو پتہ ہی ہو گا کہ میں عاپ میں کہاں سے آئی تھی؟

جی ہاں، سنا ہے تم صحافت کی دنیا میں کچھ کر رہی تھیں۔

آپ نے صحیح سنا۔ میں وہیں سے آئی ہوں اور وہیں لوٹ جاؤں گی۔

تب تو تم بہت خطرناک ہو۔ تم نے اگر ٹی وی پر جا کر ہمارے سارے راز فاش کر دئیے تو ہمارے لئے مشکل کھڑی ہو جائے گی۔

اوہو گرو جی، آپ تردید کر دینا۔ لوگ میری نہیں آپ کی سنیں گے۔

گرو جی بولے لیکن اگر۰۰۰۰۰۰

اگر کوئی ثبوت سامنے آ جائے تو کہہ دینا وہ انتخابی جملہ بازی تھی۔

وہ بھی ٹھیک ہے لیکن دیکھو اب تم جانے کی بات اپنی زبان پر نہیں لانا۔

شاذیہ نے معصومیت سے پوچھا کیوں؟

اس دہلی میں تمہارے سوا کون ہے جو میری بات سنتا سمجھتا ہے؟ ایک تم ہو کہ آنکھیں دکھاتی رہتی ہو۔

اگر ایسا ہے تو میں کبھی نہیں جاؤں گی۔

گرو جی خوش ہو گئے اور بولے مجھے پتہ ہے شاذیہ بلکہ مجھے تو یقین ہے کہ تم کبھی لوٹ کر نہیں جاؤ گی اور تم دیکھنا ایک دن میں تمہیں کہاں پہنچا دوں گا۔ یہ ایرانی اورسشما تمہارے سامنے پانی بھریں گی پانی۔ کیا سمجھیں؟

شاذیہ نے دل میں سوچا یہ احمق نہیں جانتا کہ میں آئی ہی کب ہوں جو واپس جاؤں گی میرے دل کے جھروکے میں تو اب بھی جھاڑو کا پنکھا جھلتا ہے۔ بات دور نکل گئی تھی اس لئے موضوع پر آتے ہوئے وہ بولی گرو جی ہم لوگ دہلی کے وزیر اعلیٰ پر گفتگو کرتے ہوئے کہیں اور نکل گئے۔

اگر میرے بس میں ہو تو گورنر جنرل سے کہہ کر تمہیں آج ہی دہلی کا وزیر اعلیٰ بنا دوں مگر تم تو جانتی ہی ہو؟۰۰۰۰۰۰

میں تو جانتی ہوں گرو جی لیکن آپ نہیں جانتے کہ دہلی میں اگر کیجریوال کے ٹکر کا کوئی امیدوار میدان میں نہیں اتارا گیا تو بازی الٹ جائے گی اور مجھے نہیں لگتا کہ ہمارے دہلی کے لنگڑے گھوڑوں میں سے کوئی اس کا مقابلہ کر سکتا ہے۔

مجھے بھی اس کا علم ہے اور پردھان جی بھی یہ جانتے ہیں ویسے تمہاری مثال غلط ہے وہ گھوڑے کب ہیں؟ وہ تو کتوں کی مانند ایک دوسرے کو بھنبھوڑتے رہتے ہیں بلکہ کبھی کبھار ہم لوگ بھی ان کی زد میں آ جاتے ہیں۔

شاذیہ اپنی منزل سے ایک قدم قریب آ گئی تھی وہ خوش ہو کر بولی آپ کی بات صد فیصد درست ہے میں تو کہتی ہوں ان پاگل کتوں کو گولی ماردو۔

دہلی کے بجائے احمد آباد ہوتا تو میں یہی کرتا لیکن یہاں کی پولس ہمارے نہیں بلکہ ہمارے سب سے بڑے دشمن راجناتھ بلکہ ناگناتھ کے ہاتھ میں ہے۔

آپ اپنے وزیر داخلہ کے بارے میں یہ کیا کہہ رہے ہیں؟

اس میں حیرت کی کیا بات ہے۔ کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ کل کو پردھان جی سے کوئی اونچ نیچ ہو جائے تو اس کا سب سے بڑا فائدہ کون اٹھائے ہو گا؟ وہ تو نہ جانے کب سے اس کی تاک میں بیٹھا ہے لیکن کیا کرے کوئی داؤں نہیں چلتا۔ خیر سچ تو یہ کے ہمارے لئے راہل باباسرے سے کوئی خطرہ ہی نہیں ہے بلکہ اس کی حماقتوں سے ہمارا بھلا ہوتا رہتا ہے ہمیں تو بس ٹھاکر صاحب سے ڈر لگتا ہے۔

جیسے فلم شعلے میں ویرو اور روی ڈرتے تھے۔

نہیں ایسی بات نہیں۔ جیسے میں اور جیٹلی پردھان جی کے آدمی ہیں وہ دنوں ٹھاکر کے آدمی تھے۔

تو پھر آپ گبر کی بات تو نہیں کر رہے ہیں۔

ویسے ہمارے پردھان جی کسی گبرّسے کم تھوڑے ہی ہیں۔ انہوں نے ٹھاکر کو دونوں ہاتھوں سے معذور کر رکھا ہے۔

ہم لوگ پھر سے دور نکل گئے۔

گرو جی نے سوچا اس بیوقوف پر وزارتِ اعلیٰ کی کرسی کا بھوت سوار ہے۔ وہ بولے یہ نازک معاملہ ہے اس مسئلہ پر میں غور کر کے جواب دوں گا۔

ٹھیک ہے لیکن کہیں پہلے آپ پہلے آپ کے چکر میں گاڑی نہ نکل جائے۔

نہیں تم چنتا نہ کرو بہت جلد میں کوئی اپائے نکال لوں گا۔ گرو جی نہ تو شاذیہ کی دلآزاری کرنا چاہتے تھے اور نہ ہی وزیر اعظم کی ناراضگی مول لینا چاہتے تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے لیکن شاذیہ کے اصرار سے انہیں اندیشہ ہو چلا تھا کہ اس کھیل میں سانپ اور لاٹھی کے بجائے سپیرا مارا جائے گا۔ وہ سانپ کے بجائے اپنے سر پر لاٹھی مار کر خود کو ہلاک کر لے گا۔

چنگو جمائیاں لے رہا تھا اسے نیند آنے لگی تھی۔ وہ بولا منگو رات کافی ہو چکی ہے اب تو آدھی رات میں کہاں جائے گا۔ میرا خیال ہے تو یہیں سو جا کل صبح چلے جانا میں تیرے لئے بستر لگاتا ہوں۔

منگو انگڑائی لے کر بولا یہ اچھا آئیڈیا ہے باقی کی کہانی کل صبح ۰۰۰۰۰۰۔

چنگو سو تو گیا لیکن خواب میں بھی گرو جی چلے آئے اور کہانی آگے چل پڑی۔

 

 

 

 

۵

 

گرو جی کے گھر پر احمد آباد سے ان کے سمدھی آئے تھے۔ ان کی ہونے والی بہو کے چچا سیٹھ نتھو بھائی کا اصرار تھا کہ وہ وزیر اعظم سے ملنا چاہتا ہے۔ گرو جی نے اسے سمجھایا کہ وزیر اعظم بہت بڑی ہستی ہیں وہ ہر ایرے غیرے نتھو خیرے سے ملاقات نہیں کرتے۔ یہ سن کر نتھو بھائی چڑھ گیا اور کہنے لگا یہ شادی نہیں ہو سکتی اس لئے کہ جو لوگ ہمارا احترام نہیں کرتے وہ ہماری بیٹی کے ساتھ اچھاسلوک کیسے کریں گے؟

گرو جی کی ایک حماقت سے سارا کھیل بگڑ گیا۔ ان کا لڑکا اپنے چچا سسر کے ہاتھ پیر جوڑنے لگا لیکن وہ ٹس سے مس ہونے کیلئے تیار نہیں تھے۔ آخر ان کا سمدھی گرو جی کے قریب آ کر ان کے کان میں بولا معاف کرنا یہ ذرا ضدی طبیعت کا بندہ ہے۔ ویسے آپ تو وزیر اعظم کے دایاں ہاتھ ہیں اس لئے ملاقات کا کوئی جگاڑ کیجئے آپ تو اچھے اچھوں کو ٹہلا دیتے ہیں اس بیوقوف بوڑھے کو بھی گھما دیجئے۔ اگر کچھ نہیں تو اسے پردھان جی کے کسی ہم شکل سے ملا دیجئے بیچارہ بہل جائے گا۔

گرو جی کو اس تجویز پر ہنسی آ گئی۔ غصہ ہوا ہو گیا وہ بولے ایسی کیا بات ہے میں اسے ۵۶ انچ والے اصلی پردھان جی سے ملاؤں گا لیکن وقت کا تعین وہ کریں گے آخر وزیر اعظم ہیں۔ بات طے ہو گئی جب وہ وقت دیں گے تب ملاقات ہو گی۔

دو دن بعد گرو جی نے موقع نکال کر پردھان جی سے کہا آپ تو جانتے ہی ہیں دو ماہ بعد وجئے کی شادی ہونے والی ہے اس کی تفصیل طے کرنے کیلئے میرے گھر پر سمدھی آئے ہوئے ہیں۔

پردھان جی نے چونک کر پوچھا جہیز میں آنا کانی تو نہیں کر رہے ہیں۔ ان کو بتا دو کہ جلد ہی ونجارہ رہا ہونے والا ہے۔ وہ سانبھا چھوٹ گیا تو سب کو دیکھ لے گا۔

آپ کو مغالطہ ہو گیا یہ پریم وواہ ہے اس میں وہ سب نہیں ہوتا؟

تو کیا ہوا؟ تم تو بنیا آدمی ہو لین دین کے بغیر تمہارا نوالہ تر نہیں ہوتا؟

ہاں وہ سب تو ہو چکا میں تو کہہ رہا تھا کہ پریم وواہ میں دنگا فساد نہیں ہوتا۔

بھائی میں تو سنیاسی ہوں میرا نہ پریم سے رشتہ ہے اور نہ وواہ سے ناطہ۔

میں یہ بھی جانتا ہوں کہ آپ کا لین دین اور دنگا فساد سے بڑا گہرا تعلق ہے۔

ہاں تو بتاؤ میں تمہاری کیا مدد کر سکتا ہوں؟

گرو جی کی من مراد پوری ہو گئی انہوں نے فوراً جھولی پھیلا کر وردان مانگ لیا سرکار آپ کوئی وقت بتائیں تو میں انہیں آپ کی سیوا میں آشیرواد کیلئے بھیج دوں۔

و جئے کو تو آشیرواد دے چکا ہوں شادی کے بعد بہو کو بھی دے دوں گا۔

جی نہیں سرکار اتنا ولمب نہ کریں ورنہ و جئے کنوارہ ہی رہ جائے گا آپ دوچار دن میں دو چار منٹ کا وقت نکالیں یہ کافی ہے۔

تب تو تمہیں میری دعوت کرنی پڑے گی اور میں اپنے حفاظتی دستے کے ساتھ پدھاروں گا ان کا بھی سواگت ستکار کرنا ہو گا۔ پردھان جی کو یقین تھا کہ یہ مہا کنجوس مکھی چوس خود ہی چالاکی سے بات ٹال دے گا لیکن ان کی حیرت کا ٹھکانا نہ رہا جب گرو جی بلا توقف تیار ہو گئے اور کہا بندہ حاضر ہے آپ سمئے بتائیں۔

پردھان جی سمجھ گئے دال میں کچھ کالا ہے لیکن پھر سوچاکیوں نہ اس کا پتہ دال چکھنے کے بعد لگایا جائے۔ انہوں نے کہا میں ایسا کرتا ہوں کہ کل ہوائی اڈے سے آتے ہوئے گھر جانے کے قبل تمہارے پاس آ جاتا ہوں۔ وہاں سے ڈھوکلہ جلیبی کھا کر لوٹ جاؤں گا منہ بھی میٹھا ہو جائے گا اور وہ تم کیا کہہ رہے تھے آشیرواد ۰۰۰۰۰

جی ہاں وہی آپ ہمارے گھر کس سمئے پدھاریں گے۔

۷ بجے شام تمہارا کیا خیال ہے؟

بہت شبھ مہورت ہے شریمان ہم سب آپ کا انتظار کریں گے۔

پردھان جی نے کہا تم نے کسی جیوتش آچاریہ سے پوچھے بغیر ہی اسے شبھ مہورت گھوشت کر دیا کہیں ستاروں کا کھیل تو نہیں سیکھ لیا۔

جناب آپ کے قدم شبھ ہیں جہاں جاتے وہ جگہ پوِتر ہو جاتی ہے اور سب سے شبھ گھڑی بھی وہی ہوتی ہے جب آپ کے شبھ چرن کہیں پڑتے ہیں۔

تم پر بھی دہلی کا رنگ چڑھنے لگا ہے احمد آباد میں تو تم ایسے نہیں تھے۔

جی ہاں سر یہ آپ کی دیا کرپا ہے ورنہ میں کس قابل ہوں۔ کل میں اپنے مہمانوں کے ساتھ آپ کا انتظار کروں گا۔

گرو جی نے جب نتھو لال کو بتایا کہ پردھان جی بذاتِ خود اس سے ملاقات کیلئے آ رہے ہیں تو وہ پھول کر کپّا ہو گیا۔

اب وہ لوگ اپنا آگے کا منصوبہ بنانے لگے۔ گرو جی کے سمدھی نے پوچھا تو کیا ہم لوگ رات ۹ بجے تاج محل دیکھنے کیلئے آگرہ نکل سکتے ہیں۔

گرو جی نے کہا ۹ کیوں ۸ بجے ہی روانہ ہو سکتے ہو۔

نتھو نے پوچھا کیا وہ ہمارے ساتھ کھانا نہیں کھائیں گے؟

گرو جی نے کہا بھائی وہ وزیر اعظم ہیں ان کے پاس اتنا وقت کہاں وہ تو بس ۷ بجے آئیں گے اور دس منٹ بعد آپ سب کے ساتھ احمد آباد کی گائے بکری مصالحے والی چائے پی کر روانہ ہو جائیں گے۔

نتھو لال کا موڑ خراب ہو گیا وہ بولا اس سے کیا فائدہ؟ ایسے آنے سے تو بہتر ہے کہ وہ آئیں ہی نہیں۔ یہ تو ہماری تو ہیں ہے میں تو کہتا ہوں آپ انہیں منع کر دیں۔

اب گرو جی کیلئے نیا مسئلہ کھڑا ہو گیا۔ وہ بولے بھئی اس کی ضرورت نہیں ان کو آنے دو اور واپس چلے جانے دو اگر آپ کو نہیں ملنا ہے تو آپ نہ ملنا۔

نتھو بھائی نے کہا ہمارے خاندان کی ریت یہ ہے کہ اگر ہمارا بڑا نہیں ملتا تو چھوٹے بھی نہیں ملتے اور فی الحال یہاں موجود لوگوں میں سب سے بڑا میں ہوں سمجھے

گرو جی کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اس پاگل کا کیا کیا جائے؟ انہوں نے پریشان ہو کر اپنے سمدھی کی جانب دیکھا تو اس نے آنکھ دبا کر اشارہ کیا۔ اس کا مطلب تھا آپ اسے بھول کر اپنا کام کیجیے۔ اس سے میں نمٹ لوں گا۔

گرو جی نے اطمینان کا سانس لیا کہ فون کی گھنٹی بج گئی سامنے شاذیہ تھی۔ دعا سلام کے بعد اس نے پوچھا کیوں پردھان جی سے بات ہوئی یا نہیں۔ آپ میری اس بات کو سنجیدگی سے نہیں لے رہے ہیں لیکن میں آپ کو خبردار کر دوں کہ یہ معاملہ آپ کو اتنا مہنگا پڑے گا کہ صدارت کی کرسی خطرے میں پڑ جائے گی۔ دہلی میں ایسی شکست ہاتھ لگے گی کہ لوگ آپ کا متبادل تلاش کرنے لگیں گے۔

گرو جی نے سوچا اس پاگل عورت میں اور نتھ لال میں کوئی فرق نہیں ہے دونوں اگر کسی بات کے پیچھے پڑ جائیں تو بس پڑ ہی جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا دیکھو شاذیہ میں فی الحال اپنے مہمانوں کے ساتھ ذرا مصروف ہوں کل وہ یہاں سے آگرہ جا رہے ہیں وہاں سے احمد آباد نکل جائیں گے اس کے بعد اس مسئلہ پرسوچتے ہیں۔

یہ اچھا ہے میں بھی پرسوں شہر سے باہر جانے والی ہوں اس لئے کیوں نہ کل شام ہم لوگ مل لیں۔

شام نہیں رات کو مل سکتے ہیں میرا مطلب ہے رات ۸ ساڑھے ۸ بجے۔

بہت بہتر کیا اتنی رات گئے آپ پارٹی کے دفتر آئیں گے۔

نہیں ایسا کرو تم میرے گھر آ جانا۔

بہت خوب کل ملاقات ہوتی ہے رات ۸ بجے۔ شاذیہ نے فون بند کر دیا۔

دوسرے دن پردھان جی کی تقریر لمبی ہو گئی اور ۶ بجے تک ان کا جہاز دہلی نہیں پہنچا۔ نتھو بھائی ۶ بجے سے آگرہ جانے کیلئے تیار بیٹھے تھے لیکن گھر والے انہیں کسی نہ کسی بہانے ٹال رہے تھے جب پردھان جی ۷ بجے تک نہیں آئے تو دیگر لوگوں نے بھی اپنا سازوسامان گاڑی میں رکھنا شروع کر دیا۔ نتھو لال کے علاوہ کسی اور کو تو پردھان جی میں دلچسپی تھی نہیں وہ سب ٹی وی پر ان کا چہرہ دیکھ دیکھ کر اوب چکے تھے۔ ساڑھے سات بجے وہ قافلہ روانہ ہو گیا۔ مہمانوں کے ساتھ گرو جی کی بیٹا، بیٹی اور اہلیہ بھی آگرہ کیلئے نکل کھڑے ہوئے۔

گرو جی پریشان تھے۔ اب ان کے سامنے مسئلہ پردھان جی کو منع کرنے کا تھا لیکن اس سے قبل کہ وہ انہیں فون کرتے شاذیہ گھر میں داخل ہوتے ہوئے بولی عجب ویرانی سی ویرانی ہے کوئی آفت آنے والی ہے کیا؟

دھیرے بولو کہیں پردھان جی نہ آ جائیں میں انہیں فون لگا رہا تھا۔

وہ تو ٹھیک ہے لیکن بھابی جی کہاں ہیں؟ وہ تو نہ جانے میری آہٹ سنتے ہی آپ سے پہلے دوڑی چلی آتی ہیں سب ٹھیک تو ہے نا؟

کیا مطلب؟

میرا مطلب ہے طبیعت وغیرہ ۰۰۰۰

وہ بے وقوف عورت نہیں جانتی کہ اس عمر میں اب کیا ہو گا؟ اور پھر ہونی کو کون ٹال سکتا ہے؟ تم نے تو سنا ہی ہو گا ہونی تو ہو کے رہے انہونی نہ ہوئے۔

اوہو آج تو آپ بڑے موڈ میں لگتے ہیں بلاؤں کیا بھابی جی کو؟

اسے کیا بلاؤ گی وہ تو آگرہ روانہ ہو چکی ہے۔

شاذیہ آگرہ سن کر چونک پڑی۔ اس نے کہا ارے! آپ نے انہیں آگرہ کیوں بھیج دیا آج کل تو دہلی میں بھی علاج ہو جاتا ہے۔

علاج؟ کیسا علاج؟

وہی دماغ کا علاج۔ پہلے لوگ پاگلوں کو آگرہ کے پاگل خانے میں لے جاتے تھے آج کل انتخاب میں کامیاب کر کے دہلی بھیج دیتے ہیں۔

تم بھی شاذیہ غضب کرتی ہو۔ تم جیسا ظریف انسان میں نے نہیں دیکھا۔ آتے ہی مجھے اپنی باتوں میں الجھا دیا دو منٹ رکو میں پردھان جی کو منع کر دوں پھر تم سے بات کرتا ہوں۔

شاذیہ کی سمجھ میں نہیں آیا کہ یہ احمق اپنے دام میں از خود چل کر آنے والے شکار کو بھگا رہا ہے لیکن اس سے پہلے کہ وہ کچھ بولتی گرو جی کہہ رہے تھے۔ سوامی جی آپ کو تاخیر ہو گئی ہم لوگ تو آپ کا انتظار کرتے کرتے ۰۰۰۰۰۰

شاذیہ نے پیچھے سے کہا امول مسکا۔

پردھان جی چونک کر بولے یہ کون ہے؟ یہ کس کی آواز آ رہی ہے کوئی دشمن کا جاسوس تمہارے آس پاس تو نہیں ہے۔ مجھے تو اسٹنگ آپریشن کا خطرہ لگ رہا ہے۔

گرو جی بولے نہیں صاحب یہ ہمارے مہمان ہیں آپس میں بات کر رہے ہیں۔ آپ ایسا کریں کہ ۰۰۰۰۰۰۔

میں تمہارے گھر کے موڑ پر ہوں اور دو منٹ میں پہنچ رہا ہوں بس۔

فون کٹ گیا اور گرو جی کے پیروں تلے سے زمین کھسک گئی۔ انہوں نے فوراً نوکر کو آواز لگائی اور کہا وہ سب سامگری لے آ جو پردھان جی کے لئے منگائی تھی۔

رامو بولا صاحب وہ سب تو مالکن جی اپنے ساتھ آگرہ لے گئیں۔ انہوں نے کہا یہاں رکھ کر خراب کرنے سے بہتر ہے ساتھ لے چلیں راستے میں کھا لیں گے۔

گرو جی نے اپنا سر پیٹ لیا اور بولے اچھا جو کچھ ہے جلدی سے لے آ۔

رامو نے پوچھا مگر کیا لاؤں کچھ تو کہیے۔ میں کیا جانوں کہ انہیں کیا پسند ہے؟

تو اندر چل میں بھی آتا ہوں کام کرنے کے بجائے زبان چلاتا ہے۔ گرو جی اندر گئے اور باہر پردھان منتری کا قافلہ آ کر رکا۔ جیسے ہی حفاظتی دستہ اے ۴۷ کے ساتھ اترا شاذیہ سنبھل گئی اس نے باہر آ کر وزیر اعظم کا استقبال کیا۔ پردھان جی نے مسکرا کر پوچھا اوہو تو آپ بھی موجود ہیں بہت خوب۔

شاذیہ بولی میں ہی تو ہوں اور کوئی نہیں ہے۔

کیا وہ موٹو ۰۰۰۰ ابھی تو کہہ رہا تھا کہ ۰۰۰۰۰۰۰۰

مہمان مر گئے!شاذیہ نے گرو جی کا جملہ دوہرا دیا۔

آپ بہت ذہین ہیں اسی لئے آپ کا گرویدہ ہے خیر وہ ہے کہاں؟

اندر گئے ہیں ابھی آتے ہیں۔ اگرمناسب سمجھیں تو یہیں لان میں بیٹھیں۔

جی ہاں موسم تو باہر بیٹھنے کا ہے۔

شاذیہ اور پردھان جی لان میں پڑی آرام کرسیوں پر آمنے سامنے بیٹھ گئے۔ گرو جی نے نوکر کے ساتھ باہر آتے ہوئے انہیں ساتھ ساتھ دیکھا تو کہا مر گئے۔ آج تو پرلیہ آنے والا ہے۔ شاذیہ انہیں دیکھ کر کھڑی ہو گئی اور بولی گرو جی آپ بیٹھیں۔ نوکر سامان کی ٹرالی چھوڑ کر دور پڑی ہوئی کرسی کی جانب لپکا اور وہاں موجود کرسی اور تپائی پاس لے آیا۔ گرو جی نے پرنام کیلئے ہاتھ جوڑے تو پردھان جی بولے آج کل بھابی جی کا کام بھی آپ ہی سنبھالے ہوئے ہیں۔

کیا کریں وہ بیوقوف عورت مہمانوں کے ساتھ آگرہ چلی گئی۔

لیکن آپ تو عقلمند نکلے جو انہیں بلا لیا۔

شاذیہ کو پردھان جی کی فقرے بازی گراں گزری لیکن اس سے پہلے کہ وہ کسی رد عمل کا اظہار کرتی گرو جی بول پڑے مجھے کیا پتہ تھا کہ اچانک وہ نکل جائے گی۔ میں نے تو انہیں پہلے ہی بلا لیا تھا۔

میں سمجھتا تھا کہ تمہیں سب پتہ ہے۔ ویسے آج دن بھر اس قدر بھاگ دوڑ رہی کہ میں تھک کر چور ہو گیا۔ یہاں تمہارے باغ کا ماحول بڑا خوشگوار ہے دو منٹ میں طبیعت بحال ہو گئی۔

آپ ڈھوکلہ کھائیے، چائے پیجئے پھر دیکھئے گائے بکری کا کمال۔

یہ درمیان میں گائے بکری کہاں سے آ گئی؟

اوہو آپ بھول گئے گائے بکری چائے لیکن میں نہیں بھول سکتا کیونکہ میں ہی آپ کو ادھار میں یہ پتی بھیجا کرتا اور آپ چائے بنا کر اسے نقد بیچا کرتے تھے۔

پردھان جی نے ڈانٹ کر کہا بکواس بند کرو۔

گرو جی ڈر گئے اور بولے معاف کرنا سرکار شما چاہتا ہوں مجھ سے بھول ہو گئی۔ در اصل میں بھول ہی گیا تھا کہ یہاں شاذیہ جی بھی بیٹھی ہوئی ہیں۔

پردھان جی نے چائے کی چسکی لیتے ہوئے کہا خیر کام کی بات کرو۔

گرو جی نے چونک کر کہا کام کی بات کون سی کام کی بات؟

شاذیہ بولی میں بتاتی ہوں وہی دہلی انتخاب والی بات۔

پردھان جی دہلی انتخاب کا نام سن کر چوکنے ہو گئے اور بولے یہ تو اپنی شادی کے وقت بھی ایسا کھویا ہوا نہیں تھا جیسا کہ آج کل ہے، خیر شاذیہ تم بولو۔

گرو جی نے سوچا اب یہ لڑکی خود بھی مرے گی اور مجھے بھی مروائے گی۔

شاذیہ بولی جناب میرا خیال ہے کہ دہلی کا میدان مارنے کیلئے کیجریوال کے سامنے کوئی تگڑا وزیر اعلیٰ کا امیدوار اتارنا ناگزیر ہے ورنہ بات نہیں بنے گی۔

پردھان جی نے کہا میں تم سے اتفاق کرتا ہوں لیکن ہماری دہلی کی فوج پھسڈی ہے ان کے اندر آپسی لڑائیاں ہیں اور ہم اپنے کسی گجراتی وفا دار و اطاعت گزار کو دہلی کے وزیر اعلیٰ کا امیدوار کیسے بنا سکتے ہیں؟

شاذیہ نے کہا آپ کی بات صد فیصد درست ہے لیکن میرے پاس ایک ایسی ترکیب ہے کہ لوہا لوہے کو کاٹے گا اور ہم دور کھڑے تماشہ دیکھیں گے۔ آپ یقین کریں کیجریوال کے غبارے کی ہوا پچک سے نکل جائے گی۔

پردھان جی کا چہرہ کمل کے پھول کی مانند کھِل گیا وہ بولے تو تم نے وہ رام بان اپائے اس موٹو کو کیوں نہیں بتایا؟

شاذیہ مسکرا کر بولی آپ نے جب سے انہیں چانکیہ اور میں آف دی میچ کے خطاب سے نوازا ہے یہ کسی کی سنتے کب ہیں؟

پردھان جی نے گرو جی کی جانب دیکھ کر کہا کیا یہ شکایت درست ہے؟

گرو جی بولے سرکارمیں آج کل آپ کے بعد انہیں کی سنتا ہوں۔

شاذیہ بولی سن تو لیتے ہیں لیکن مانتے نہیں ہیں۔

پردھان جی نے کہا فکر نہ کرو سنتا ہے تو مانے گابھی، تم لوہے والی بات بتاؤ۔

شاذیہ بولی جی ہاں جناب میں یہ کہتی ہوں اگر کیجریوال کے سامنے کرن بیدی کے ہاتھ میں کمل تھما کر میدان میں اتار دیا جائے تو یقین جانیں وہ پہلی ہی گیند میں بولڈ ہو جائے گا۔

پردھان جی نے زوردار قہقہہ لگا کر کہا کیجریوال کا کیا حشر ہو گا میں نہیں جانتا لیکن یقین کرو تمہارے اس رام بان سے میں تو گھائل ہو گیا ہوں۔ مجھے نہیں پتہ تھا کہ تم اس قدر ذہین ہو لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کرن کو اس کام کیلئے تیار کون کرے گا؟

شاذیہ بولی آپ اس کی فکر نہ کریں اگر آگیہ ہو تو میں کوشش کر سکتی ہوں۔

پردھان جی بولے نیک کام اور پوچھ پوچھ اگر اس معاملے میں تمہیں کوئی تعاون درکار ہو تو براہ راست میرے سکریٹری بدھو سنگھ سے رابطہ کرنا کیا سمجھیں۔

اس کی کوئی ضرورت نہیں میرے لئے آپ لوگوں کا آشیرواد کافی ہے۔

پردھان جی بولے اچھا یاد آیا اس نے مجھے آشیرواد دینے کیلئے بلایا اور مہمانوں کو بھگا دیا۔ خیر اچھا ہی ہوا۔ ویسے بھی میرا اس کے سمدھی سے کیا واسطہ تم سے ملاقات ہو گئی اور باتوں باتوں میں دہلی کے حوالے سے ایک اہم فیصلہ بھی ہو گیا۔ اب ہماری نیک خواہشات تمہارے ساتھ ہیں مجھے یقین ہے کہ جس دن کرن بیدی پولیسیا ڈنڈا لے کر دہلی کی سڑکوں پر اتریں گی یہاں کے سارے جھاڑو ڈنڈے کے بغیر ٹھونٹ بن کر رہ جائیں گے۔

جی ہاں جناب کرن بیدی کی موجودگی میں جب آپ والے جھاڑو چلائیں گے تو خاک انہیں کے منہ پر اڑے گی۔

پردھان جی نے کہا اچھا میں چلتا ہوں چلو بھائی موٹا سیٹھ آج تو مزہ آ گیا۔ شاذیہ تم تو جانتی ہی ہو گی کہ گجراتی میں موٹا کے معنیٰ بڑا ہوتے ہیں۔

جی ہاں ویسے اگر موٹا بھائی بڑا نہ بھی ہو تو بھی بڑا لگتا ہے خیر میں بھی چلتی ہوں کافی تاخیر ہو گئی ہے۔

گرو جی بولے لیکن اب تم اپنا شہر سے باہر جانے کا منصوبہ کرن بیدی کے راضی ہونے تک ملتوی کر دو کیا سمجھیں۔ شاذیہ پردھان جی کے قافلے کے پیچھے چل پڑی۔ ہائی سیکیورٹی کے سبب شاذیہ کا راستہ اپنے آپ صاف ہوتا جا رہا تھا۔

 

 

 

 

۶

 

صبح سویرے چنگو نے اپنی روزمرہ کی ضروریات سے فارغ ہو کر منگو کو آواز دی۔ ابے او کمبھ کرن تو اٹھے گا یا میں اکیلے ہی ناشتہ کر آؤں۔

ناشتے کا نام سن کر منگو کی نیند ہوا ہو گئی وہ بولا یار تم تو بی جے پی والوں کی صحبت میں  بالکل ہی بے مروت ہو گئے ہو یہ اکیلے والی بات ٹھیک نہیں ہے۔

میرے بھائی یہ میرے سوال کا جواب نہیں ہے مجھے لگی ہے بھوک اب یا تو تو میرے ساتھ چل یا میں چلا۔

اچھا تو ایک کپ گرم گرم چائے بنا تب تک میں حمام سے آتا ہوں۔

ایک کیوں؟ دو کیوں نہیں؟

منگو حمام میں داخل ہوتے ہوئے بولا بھئی میرے لئے ایک کپ اور اس کے آگے تیری مرضی۔ سارے محلے کو فتح کی خوشی میں چائے پلا۔ میں منع کرنے والا کون ہوتا ہوں بھلا؟

کھڑکی کے پاس بیٹھ کر چائے پیتے ہوئے منگو نے پو چھا ہاں تو دوست رات میں کیا کہہ رہا تھا؟

تو مجھے بتا رہا تھا کہ شاذیہ نے کس طرح گرو جی کو شیشے میں اتار کر کرن بیدی کو بھاجپ کا امیدوار بنا دیا۔

منگو بولا تو گویا کہانی ایک نہایت ہی دلچسپ موڑ پر جا کر ٹھہر گئی تھی۔

لیکن اب مجھے آگے کے بارے میں جاننے کی چنداں ضرورت نہیں۔

یہ سن کر منگو ہکّا بکّا رہ گیا وہ بولا کیوں مزہ نہیں آ رہا ہے کیا؟

نہیں ایسی بات نہیں ہے۔

پھر کیا بات ہے؟

بات در اصل یہ ہے کہ آگے کی کہانی مجھے پتہ ہے۔

تجھے پتہ ہے! تو تو مجھ سے پہلے گھوڑے بیچ کر سو گیا تھا۔ وہ تو میں تیری خاطر رات دیر تک تمام واقعات کو یاد کرتا رہا اور انہیں ترتیب دیتا رہا۔

واقعی لیکن تو جو کچھ سوچتا رہا میں خواب میں دیکھتا رہا اس لیے اب ضرورت نہیں ہے۔ مجھے سب پتہ چل گیا اگر یقین نہیں آتا ہو تو میں ساری روداد سنا دوں۔

منگو کیلئے یہ ناقابلِ یقین تھا وہ بولا اگر ایسا ہے تو مجھے بتا کہ آگے کیا ہوا؟

چنگو نے اپنا خواب سنایا تو منگو کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔ وہ بولا یار تم تو گھر کے بھیدی نکلے تمہیں تو سب پتہ ہے۔ پھر مجھے کیوں بلا وجہ پریشان کر رہے تھے۔ کہیں میرا امتحان تو نہیں لے رہے تھے ہاں؟

نہیں دوست بات در اصل یہ ہے کہ کل تک مجھے کچھ پتہ نہیں تھا۔ رات کو جوسپنا دیکھا سنادیا تاکہ تم تصدیق کر دو اور کوئی بات خلاف واقعہ ہو تو اصلاح ہو جائے؟

نہیں یار تم سچے خواب دیکھنے لگے ہو۔ مبارک ہو۔ اب مجھے یقین ہو گیا ہے تم ایک دن بہت بڑے صحافی بنو گے۔ ساری دنیا میں تمہارا نام ہو گا۔ میں لوگوں سے فخر کے ساتھ کہوں گا کہ ایک زمانے میں منگو یعنی میں بھی چنگو کا دوست ہوا کرتا تھا۔ میں اس کے ساتھ چائے پیتا تھا اور ناشتہ کرتا تھا۔

اور پوّا نہ لگاؤ بھائی چلو ناشتہ کرنے کیلئے چلتے ہیں سورج سر پر آ رہا ہے۔

ناشتے کے دوران منگو نے پوچھا یار یہ بتا کہ تو نے اپنے خواب میں اتنا ہی دیکھا یا کچھ اور بھی۔

بدقسمتی سے میری نیند غلط وقت کھل گئی۔ اس سے پہلے کہ مجھے پتہ چلتا شاذیہ نے کرن کو کیسے راضی کیا میں جاگ گیا۔ کاش میں کچھ اور دیر تک سوتا لیکن افسوس!!!

یار تم کس قدر ناشکرے انسان ہو؟تم نے خواب میں اندر کی وہ باتیں دیکھ لیں جو کوئی باہر والا آدمی جان ہی نہیں سکتا الّا یہ کہ اندر والے راز فاش کر دیں اس کے باوجود خوش ہونے کے بجائے رنجیدہ ہو۔

چنگو کو اپنی غلطی کا احساس ہوا وہ بولا نہیں دوست یہ بات نہیں۔ مجھے تو بے حد خوشی ہے کہ تم نے میرے خواب کی تصدیق کر دی مگر وہ پورا ہو جاتا تو اچھا تھا۔

منگو درویشانہ انداز میں بولا بھئی چنگو خواب بھی کہیں پورے ہوتے ہیں؟ خواب تو ہمیشہ ادھورے ہی رہتے ہیں بلکہ اس دنیائے فانی میں وہ کون سی شئے ہو بہو شرمندۂ تعبیر ہوتی ہے۔ ہماری خواہش، آرزو، تمنا اور ارمان سب ایک پانی کے بلبلے کی مانند سطح آب پر آنے کے بعد ۰۰۰۰۰

جی ہاں منگو تمہاری بات درست ہے ایسا کون ہے جس کے سارے سپنے ساکار ہوتے ہوں اس معاملے میں تو پردھان جی اور گرو جی کی جوڑی اور چنگو منگو کی رفاقت میں کوئی فرق نہیں ہے۔ کیا راجہ کیا رنک سارے لوگ یکساں ہیں۔ پردھان جی کو دیکھو احمد آباد میں بیٹھ کر دہلی کا تخت جیت لیا اور دہلی میں بیٹھ کر یہاں کا تخت ہار گئے۔ قدرت کا کتنا بڑا مذاق ہے اپنے آپ کو خوش بخت اور دوسروں کو بدقسمت کہنے والا یہ شخص آج اپنی تقدیر پر آنسو بہا رہا ہے۔

چنگو بولا جی ہاں میں بھی یہ سوچ رہا تھا گزشتہ سال جبکہ دہلی کی مرکزی اور ریاستی حکومت کانگریس کے پنجے میں جکڑی ہوئی تھی دہلی اسمبلی میں بی جے پی سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھر آئی اور اسے ۳۲ نشستیں مل گئیں جو نصف سے صرف ۳ کم تھی اور اس بار صرف ۳۔ یار سچ بتاؤں کون سوچ سکتا تھا کہ یہ ہو جائے گا؟ کیا یہ کسی کے خواب و خیال میں بھی ممکن تھا۔ میں تو یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ خود کیجریوال نے بھی ایسا بھیانک سپنا کبھی نہیں دیکھا ہو گا۔

منگو بولا دوست یہ تو تیری قیاس آرائی ہے لیکن یقین کر کل جب میں نے کیجریوال کو فون کر کے مبارک باد دی تو اس نے بھی یہی کہا۔ مجھے پتہ تھا دہلی کے لوگ ہم سے محبت کرتے ہیں لیکن اس قدر محبت کرتے ہیں اس کا علم نہیں تھا۔

چنگو سوچنے لگا کل دن بھر تو منگو اس کے ساتھ تھا اوراس کو کوئی فون کرتے نہیں دیکھا؟ منگو نے سوال کیا یار یہ بات چیت کب ہوئی؟

منگو ہنس کر بولا یار ایک بات بتا کیا تو ہی خواب دیکھ سکتا ہے تیرا یہ حقیر فقیر دوست نہیں دیکھ سکتا؟

چنگو کو اپنی غلطی کا احساس ہو گیا۔ اس نے نادانستہ اپنے عزیز دوست کی دلآزاری کر دی تھی۔ وہ بولا تم بلا وجہ برا مان گئے میرا مطلب یہ نہیں تھا پھر بھی معذرت چاہتا ہوں۔

اس قدر تکلف کی ضرورت نہیں میرے لئے تو یہی کافی ہے کہ تم بھی کہہ دو کہ منگو تمہارا خواب بھی سچا ہے بس۔ یہ بندۂ بے دام اس سے زیادہ کچھ نہیں چاہتا۔

ا گر یہی بات ہے تو میں اعلان کرتا ہوں کہ تمہارے خواب سچے ہیں اور دعا کرتا ہوں کہ میرے عزیز دوست منگیری لال عرف منگو کے سارے سپنے ساکار ہوں۔

منگو نے چائے کی آخری چسکی لیتے ہوئے کہا یار میرا خیال ہے مجھے اب چلنا چاہئے۔ تمہیں اپنا مضمون بھی لکھنا ہے اور مجھے  ۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰ منگو خلاء میں دیکھتے ہوئے سوچ کے گہرے سمندر میں ڈوب گیا۔

چنگو اس کا جملہ پورا کرتے ہوئے بولا تمہیں مجھ کو بتانا ہے کہ کیا لکھنا ہے چلو اپنے ڈیرے پر چلتے ہیں۔

گھر پہنچنے کے بعد چنگو نے جب منگو سے آگے کی بات بتانے کیلئے اصرار کیا تو وہ بولا یار تم کیوں بلا وجہ میرا سر کھا رہے ہو آگے کی کہانی آج رات کو خواب میں دیکھ لینا بس۔

منگو کی ناراضگی ابھی ختم نہیں ہوئی اس لئے چنگو اسے مناتے ہوئے بولا میرے اچھے دوست اب غصہ تھوک دو۔ دیکھو میں معافی بھی مانگ چکا ہوں اور پھر میں رات کا انتظار نہیں کر سکتا مجھے اپنا کالم مکمل کر کے بھیجنا بھی تو ہے۔

تو کیا مسئلہ ہے رات کے بجائے ابھی گھوڑے بیچ کر سوجاؤ تمہیں کس کی چاکری کرنی ہے۔ ہم آزاد معاش لوگ ہیں اپنی مرضی سے سوتے ہیں اور اپنی مرضی سے جاگتے ہیں۔ ہم پر کسی کا زور نہیں چلتا۔

جی ہاں دوست لیکن خوابوں پر بھی تو کسی کا زور نہیں چلتا خود اپنا بھی نہیں۔

چنگو کی زبان سے اس قدر حکمت بھری بات سن کر منگو چونک پڑا اور بولا یار غضب کر دیا تم نے۔ آزادی کو کس قدر وسعت عطا کر دی کہ مردِ آزاد کے خواب بھی ہر طرح کے جبر و کراہ سے آزاد ہوتے ہیں ان پر بھی کسی کا زور نہیں چلتا۔

نہیں دوست اس معاملے میں آقا وہ غلام سب برابر ہیں۔ کوئی بادشاہ بھی اگر چاہے تو شہنشاہ بننے کا خواب نہیں دیکھ سکتا لیکن ایک فقیر بغیر چاہے اپنے خواب میں پلک جھپکتے شہنشاہِ اعظم بن جاتا ہے۔ کسی فردِ بشر کو اپنے خواب پر اختیار نہیں ہے۔ سب اس معمولی سی شئے کے آگے بے اختیار ہیں۔

منگو بولا جی ہاں میرے دوست یہ خواب ہمیں اپنی کم مائے گی کا احساس دلاتے ہیں۔ اپنے حدود و قیود سے واقف کراتے ہیں۔ وہ مقناطیسی غیر مرئی سرحدیں جو نظر نہیں آتیں مگر جن کے حصار میں ہم گھرے ہوئے اور جنہیں چاہ کر بھی ہم پھلانگ نہیں سکتے۔

چنگو نے جب دیکھا کہ گفتگو کا دھارا سیاست سے نکل کر فلسفہ کی حدود میں داخل ہو گیا ہے تو منگو واپس لاتے ہوئے بولا تم یہ تسلیم بھی کرتے ہو کہ اس خواب کا آنا ضروری نہیں ہے پھر بھی مجھے اس کے پیچھے لگا رہے ہو۔

منگو نے پھر فلسفیانہ جواب دیا یار چنگو اگر ہم خوابوں کے پیچھے دوڑنا بند کر دیں تو ہماری زندگی کا پہیہ اپنے آپ رک جائے۔ ابن آدم اپنے خوابوں کے سہارے ہی آگے بڑھتا ہے۔ ہمیں پتہ ہوتا ہے کہ ان میں اکثر و بیشتر ٹوٹ پھوٹ کر بکھر جائیں گے۔ اس کے باوجود ہم خواب دیکھنے سے باز نہیں آتے۔

اب چنگو کے سامنے ایک نئی الجھن کھڑی ہو گئی۔ وہ اس حقیقت کا انکار بھی نہیں کر سکتا تھا مگر یہ بات صبح سے جاری گفتگو کی نفی بھی کرتی تھی۔ اسے ڈر تھا کہ کہیں اس کے سوال پر منگو پھر سے ناراض نہ ہو جائے اس لئے بڑے احتیاط سے اس نے سوال کیا لیکن منگو ابھی تو تم کہہ رہے تھے کہ ہم اپنی مرضی خواب تک نہیں دے سکتے اور اب یہ کہہ رہو کہ ہم خواب دیکھتے ہیں اور ان کے سہارے اپنی زندگی گزارتے ہیں یہ تضاد کچھ سمجھ میں نہیں آیا اس لئے وضاحت چاہتا ہوں۔

اپنے دوست کی اس لاچاری پر منگو کو رحم آ گیا وہ بولا چنگو مجھے یہ تسلیم کرنے میں عار نہیں کہ اب تم خاصے ذہین ہو گئے ہو پہلے تمہیں اس طرح کی تضاد بیانی کا احساس تک نہیں ہوتا تھا اور میں جو من میں آئے کہہ دیا کرتا تھا لیکن اب مجھے اس بابت احتیاط کرنا پڑے گا۔ منگو کسی پروفیسر کے انداز میں گفتگو کر رہا تھا اس نے اپنی بات جاری رکھی اور بولا لیکن مجھے خوشی ہے کہ تم میری باتوں کو غور سے سنتے ہو اور اس پر غور و فکر بھی کرتے ہو۔

چنگو نے پھر سوال کیا تو استاد کہیں آپ یہ تو نہیں کہہ رہے ہیں کہ لوگ آپ کی باتوں پر توجہ نہیں دیتے؟

چنگو کا تیر غلط نشانے پر لگا تھا لیکن منگو نے اپنے آپ کو سنبھال کر کہا نہیں ایسی بات نہیں توجہ تو سارے لوگ دیتے ہیں لیکن بات ان کی سمجھ میں نہیں آتی۔

لیکن استاد آپ ایسی بات کہتے ہی کیوں ہیں جو ان کی عقل سے پرے ہو؟

اس سوال پر منگو چڑھ گیا اور بولا تم بھی عجب بے وقوف آدمی ہو۔ کیا تم چاہتے ہو کہ میں بھی ان احمقوں کی سطح تک گر جاؤں اور اپنی عقل کو داغدار کر لوں۔

عقل داغدار؟؟؟یہ تو آج پہلی بار سنا ہے۔

تم نے ابھی تک سنا ہی کیا ہے۔ عقل پر بٹہ لگنا سنا ہو گا؟ اب اگر کسی کی عقل پر بٹہ لگ جائے تو وہ داغدار ہی ہو گی اس میں غلط کیا ہے؟لیکن لوگ وہی لگے بندھے محاورے سننے کے عادی ہوتے ہیں کسی ندرت کا ادراک ہی نہیں کر پاتے۔

ایسا کیوں ہوتا ہے؟

تم ابھی بچے ہو نہیں سمجھو گے۔ تم نے ابھی اس دنیا کو دیکھا ہی نہیں ہے۔

لیکن استاد لوگ تو کہتے ہیں ہم دونوں لنگوٹیا یار ہیں اس لئے ہم عمر ہوئے؟

طبعی عمر سے کیا ہوتا ہے بیٹے؟ تم اگر اپنی ساری عمر کسی کنوئیں میں مینڈک کی مانند گزار دو تو تمہیں کیسے پتہ چلے گا کہ باہر کی دنیا میں کیا کچھ ہے؟

لوگ اپنے کنوئیں سے باہر نکلنے کی کوشش کیوں نہیں کرتے؟

منگو کو چنگو کا دست سوال دراز کرنا اچھا لگ رہا تھا وہ اپنے آپ کو بہت بڑا عالم الدّہرسمجھنے لگا تھا۔ منگو بولا اس کی بے شمار وجوہات ہیں میرے دوست کچھ لوگوں کی سستی اور کاہلی ان کے آڑے آ جاتی ہے۔ کچھ لوگوں کی عافیت پسندی ان کے قدموں کی زنجیر بن جاتی ہے۔ کچھ لوگ اندیشوں میں گرفتار ہو کر سہم جاتے ہیں۔ کوئی عیش و عشرت کے پھیرے میں پڑ کر اپنے آپ کو معذور محض کر دیتا ہے۔ کوئی خوف و دہشت کا شکار ہو جاتا ہے۔ کسی کو ہوس دنیا کنوئیں کی طے میں لے جاتی ہے غرض کہ اس کی وجوہات اگر میں گناتا رہوں تو شام ہو جائے گی اور تفصیل سمجھانے لگوں تو تمہارے ساتھ میری عمر بھی اسی کنوئیں کے اندر بیت جائے گی اس لئے مجھے اجازت دو میں چلتا ہوں۔

چنگو علم و حکمت کی اتنی بھاری خوراک کا اہل نہیں تھا اس لئے اس کا دماغ چکرا گیا لیکن جب اسے ہوش آیا تو منگو باہر سڑک پر پہنچ چکا تھا۔ اب اسے اپنا بنیادی سوال یاد آیا جسے منگو اِدھر اُدھر گھما کر نکل گیا تھا۔ چنگو نے دیکھا کہ منگو جانے کی جلدی میں اپنی سگریٹ کی ڈبیا اور ماچس ساتھ لینا بھول گیا ہے۔ اس نے لپک کر انہیں اٹھایا اور استاد استاد کی صدا لگاتا سڑک کی جانب دوڑا۔

منگو نے جب آواز سنی تو پریشان ہو گیا۔ بڑی مشکل سے وہ اس مصیبت سے پیچھا چھڑا کر بھاگ کھڑا ہوا تھا اسے امید نہیں تھی منگو اس کے تعاقب میں نکل آئے گا۔ پہلے تو اس نے چنگو کی آواز کو ان سنا کر دیا لیکن جب محسوس کیا کہ وہ قریب سے قریب تر ہوتی جا رہی ہے تو مڑ کر پیچھے دیکھا۔

منگو کو مڑتا دیکھ کر چنگو نے سگریٹ والا ہاتھ بلند کر دیا اور اسے دیکھ کر گویا منگو کے قدموں میں زنجیر پڑ گئی۔ وہ اپنی جگہ ٹھہر گیا۔ چنگو جب اس کے قریب آیا تووہ بولا یار معاف کرنا میں جلدی میں ۰۰۰۰۰۰۰تمہارا بہت شکریہ تم نے زحمت کی ۰۰۰۰۰۰۰۰اور اس کے سامنے ہاتھ پھیلا دئیے۔ چنگو نے ہاتھ آگے بڑھانے کے بعد اسے پیچھے کھینچ لیا۔ منگو بولا یہ کیا اگر دینا نہیں ہے تو اتنی دور دوڑے کر کیوں آئے؟

میں تو یہ دینے کیلئے آیا ہوں لیکن استاد آپ کو میرے سوال کا جواب دینا ہو گا۔

یار اب یہ استاد اور شاگرد کا کھیل بند کرو بہت سوال جواب ہو چکے اب کوئی نیا سوال نہیں ہو گا آج کا کوٹہ ختم کیا سمجھے۔ لاؤ میری سگریٹ اور لائیٹر۰۰۰ قسم خدا کی اس کی بہت ضرورت محسوس ہو رہی ہے۔

چنگو بولا میں کوئی نیا سوال نہیں کر رہا ہوں میں تو وہی پرانا سوال دوہرا رہا ہوں کہ آپ کبھی تو کہتے ہیں کہ انسان اپنی پسند کا خواب دیکھ نہیں سکتا وہ اس کے دائرۂ اختیار سے باہر ہے اور کبھی کہتے ہیں کہ انسان خواب دیکھتا ہے اور اس کے سہارے زندگی گزارتا ہے یہ کیا چکر ہے؟ میری گزارش ہے کہ آپ اس کا جواب میری عقل کے مطابق آسان بنا کر دیں تاکہ میں اسے سمجھ سکوں ورنہ میں پاگل ہو جاؤں گا۔

منگو کو اچانک اس سوال کا جواب سوجھ گیا جس سے پیچھا چھڑا کر وہ نہ جانے کن گلیوں سے گھومتا پھرتا سیدھی سڑک پر آیا تھا۔ وہ بولا برخوردار تم اپنے بارے میں یہ خوش فہمی چھوڑ دو کہ مستقبل قریب یا بعید میں پاگل ہو جاؤ گے۔ میرے خیال میں تو تم کب کے پاگل ہو چکے ہو۔

استاد لیکن وہ سوال؟؟؟

منگو بولا تو لو اس کا جواب بھی سن لو بات در اصل خواب دو طرح کے ہوتے ہیں جیسے کہ یہ سگریٹ اور لائیٹر۔ ایک آنکھ بند کر خواب کی حالت میں دیکھے جاتے ہیں جن پر کسی کو اختیار نہیں ہوتا اور دوسرے وہ جنہیں انسان ہوش کے عالم میں آنکھیں کھول کر شعوری طور پر سجاتا ہے۔ اب مجھے یہ تو بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ کون سا سگریٹ ہے اور کون سا لائیٹر۔

جی نہیں اتنی عقل تو اس کنوئیں کے مینڈک میں بھی ہے یہ لیجئے آپ کی سگریٹ اور مجھے اجازت دیجئے شکریہ۔

چنگو کے ہاتھ سے سگریٹ کی ڈبیا کو لے کر ایک سگریٹ منگو نے اپنے ہونٹوں پر رکھی اور دوسری چنگو کی جانب بڑھائی۔ اس کے بعد پہلے چنگو کی سگریٹ جلائی اور پھر اپنی۔ اسی کے ساتھ دونوں دوست ایک ہی شاہراہ پر مختلف سمتوں میں چل پڑے۔ دونوں اپنے گھروں کی جانب رواں دواں تھے جو اس نقطۂ اشتراک سے مخالف سمتوں میں واقع تھے اروند کیجریوال اور کرن بیدی کی طرح سوچ رہے تھے۔

دنیا ہے خواب، حاصلِ دنیا خیال ہے

انسان خواب دیکھ رہا ہے خیال میں

 

 

 

۷

 

چنگو کی سگریٹ گھر آتے آتے بجھ چکی تھی۔ اس نے کرسی پر بیٹھ کر اپنا کمپیوٹر کھولا اور جیسے ہی تختۂ حرف پر انگلی رکھی ان سوالات کے جواب اپنے آپ وارد ہونے لگے جن کیلئے وہ منگو کی منت سماجت کر رہا تھا۔ اگر کرن بیدی کا بی جے پی کی وزارتِ اعلیٰ کا امیدوار بن جانا منصوبہ بند سازش مان لیا جائے تو شاذیہ کا کرن کو تیار کرنے کیلئے کوئی محنت کرنا بے معنیٰ سوال تھا۔ اب چنگو چشمِ تصور میں وزیر اعلیٰ کا امیدوار بن جانے کے بعد کرن بیدی کی ایک ایک حرکت یکے بعد دیگرے دیکھ رہا تھا۔ چنگو کی انگلیاں کمپیوٹر کے پردے پر بھاجپ کی ناکامی کی وجوہات رقم کر رہی تھیں۔ وہ بیک وقت دس انگلیوں سے لکھتا تھا اس کے باوجود تمام انگلیاں مل کر اس کے یکہ و تنہا دماغ کا مقابلہ نہیں کرپا رہی تھیں۔ اس کے اندر بپا طوفان دیکھتے دیکھتے مضمون بن گیا۔

سب سے پہلے اس نے کرن بیدی کے ذریعہ دہلی کے تمام ارکان پارلیمان کو اپنے گھر بلا بھیجنے کا واقعہ درج کیا۔ ایک ایسی عورت جسے پارٹی میں داخل ہوئے جمعہ جمعہ ۸ دن بھی نہیں ہوئے تھے برسوں سے پارٹی کی خدمت کرنے والے معززین کے نام سمن جاری کر رہی تھی۔ ان کو پارٹی کے دفتر میں نہیں   اپنے گھر پر بلوا رہی تھی ایسا تو کوئی پارٹی کا دشمن ہی کر سکتا تھا۔ جس نے ابھی تک بلدیاتی انتخاب میں  بھی حصہ نہیں  لیا تھا لاکھوں کے فرق سے کامیاب ہونے والے ارکان پارلیمان کو ہدایات دے رہی تھی۔

کرن کی رعونت کا یہ عالم تھا کہ اس نے مرکزی وزیر ڈاکٹر ہرش وردھن کی تاخیر کا تک لحاظ نہیں کیا اور ان کے آنے سے قبل گھر سے نکل گئی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ انہیں بے نیل و مرام لوٹنا پڑا ایسا برا سلوک تو وزیر اعظم نے حزب اختلاف تک سے نہیں کیا تھا کہ ان کو اپنے گھر بلا کر خود باہر نکل گئے ہوں۔ اس سے قبل کے گرو جی کرن بیدی کے سر پر نظم کا ڈنڈا چلاتے کرن نے بی جے پی کی کارپوریشن کے ارکان کو برا بھلا کہہ دیا کہ اگر وہ کام نہیں کریں گے تو ان پر جھاڑو چل جائے گا۔

ا س پولیسیا رویہ نے بی جے پی کے کارکنان کی عزت نفس کو چکنا چور کر دیا اور وہ اندر ہی اندر افتراق و انتشار کا شکار ہونے لگے لیکن ان میں گرو جی کا خوف اس قدر زیادہ تھا کہ کوئی زبان کھولنے کی ہمت نہیں کرتا تھا۔ چنگو کو یاد آیا کہ جب ذرائع ابلاغ میں کرن بیدی کا ڈھول زور و شور سے پیٹا جا رہا تھا اور کرن بیدی کو خاتونِ آہن (Iron lady) کے خطاب سے نوازا جا رہا تھا وہیں کیجریوال کو بھگوڑا(I run man) کہا جا رہا تھا۔ اس طلسم کو توڑنا بیدی کیلئے بہت بڑا چیلنج تھا۔ اس کام کیلئے وہ ٹائمز ناؤ کے پروگرام میں ارنب کے سامنے آ گئیں اور درمیان سے بھاگ کھڑی ہوئیں پھر کیا تھا راتوں رات منظر نامہ بدل گیا کرن بیدی کو بھگوڑی یعنی(I run lady) کے خطاب سے نواز دیا گیا اور کیجریوال نے انہیں کھلے مباحثے کیلئے چیلنج کر کے (Iron man) کا تمغہ جیت لیا۔ یہ کرن اور کیجریوال کی مشترکہ بڑی کامیابی تھی جسے لوگ ایک کی فتح اور دوسرے کی شکست سمجھتے رہے۔ چنگو ہر واقعہ کو ایک خاص عینک سے دیکھ رہا تھا۔

کرن کے پاس اپنی پارٹی کی بیخ کنی کیلئے وقت بہت کم تھا اس لئے وہ بڑی تیزی دکھا رہی تھی۔ اسی کوشش میں اس نے رویش کمار کو بھاگتے دوڑتے ایک ایسا انٹرویو دے دیا جو سیاسی خودکشی کے مترادف تھا اگر وقت نہیں تھا تو رویش کو نہ بلاتیں اور اگر بلا ہی لیا تھا تو ٹھہر کر گفتگو کرتیں لیکن ہر دو صورت میں بی جے پی کا فائدہ تھا اس لئے کرن نے تیسرا راستہ اختیار کیا۔

اس دوران گرو جی اپنے ارکان پارلیمان کی بدزبانی سے پریشان تھے اور مختلف وزراء کو دہلی کی تشہیر پر لگانے میں جٹے ہوئے ہوئے تھے اس لئے وہ کرن بیدی کی جانب توجہ نہ دے سکے۔ کرن بیدی نے ایک اور دھماکہ کیا اور پارٹی مینی فیسٹو سے پہلے اپنا ویژن ڈاکیومینٹ ذرائع ابلاغ کے حوالے کر دیا جس نے مینی فیسٹوکو بے معنیٰ کر دیا۔ جب پانی سر اونچا ہو گیا تو گرو جی نے پردھان جی کو میدان میں اتارا اور کرن کے گلا خراب ہونے کا بہانہ بنا کر خاموش کر دیا گیا لیکن اس وقت تک کرن بیدی بی جے پی کی لٹیا ڈبو چکی تھیں اور اب پردھان جی کیلئے بھی اسے باہر نکالنا ممکن نہیں  تھا۔ نتیجتاً عزت مآب اپنے دس لاکھ کے کوٹ سمیت غرقاب ہو گئے۔

چنگو نے اپنا مضمون مکمل کر کے اسے منگو کو میل کیا اور فون کر کے کہا بھائی منگو تمہاری دعا اور دوا سے مضمون پورا ہو گیا ہے۔ میں نے اسے تمہیں روانہ کر دیا ہے اب یہی التجا ہے کہ اس پر ایک نظر ڈال دو اور ضروری حذف و اضافہ فرما دو۔

منگو بولا میں تمہارے مضمون میں کمی بیشی کی جرأت کیسے کر سکتا ہوں؟

چنگو نے التجا کی جب میری جانب سے اجازت ہے تو تمہیں کیا اعتراض ہے اور پھر تم میرے اچھے دوست بھی تو ہو اس لئے اگر کوئی اہم چیز چھوٹ گئی ہو تو اسے شامل کر دو اور اگر کوئی غلط بات درج ہو گئی ہو تو اسے نکال دو۔

میں نے تم سے بات کرتے ہوئے سرسری نگاہ ڈال لی ہے۔ یہ اپنی نوعیت کا نہایت منفرد اور ممتاز تجزیہ ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ تم لکھتے لکھتے تھک گئے اور درمیان ہی میں قلم پھینک دیا۔

کیوں؟

اس لئے کہ انتخابی نتائج کا ایک بھی قابلِ ذکر واقعہ تم نے نہیں لکھا۔ ایسا لگتا ہے کہ تم نے نتائج سے قبل یہ مضمون لکھا اور نظر ثانی کئے بغیر روانہ کر دیا۔

چنگو نے کہا یار تم تو کالج کے صحافتی استاد سے بھی تیز نکلے مجھے یقین ہے کہ اس قدر جلدی وہ بھی اس عیب کی نشاندہی نہیں کر پاتے۔

اب مکھن بازی چھوڑو اور اپنا ادھورا کام پورا کرو۔

دیکھو دوست مجھے جو کچھ کرنا تھا میں کر چکا اب تمہیں جو بھی کرنا تم کرو میں اوب ہو چکا ہوں اور اب ٹی وی پر خبریں بند کر کے فلم دیکھ رہا ہوں۔

منگو بولا ٹھیک ہے اور پھر وہ اس مضمون کی مرّمت میں لگ گیا۔ سب سے پہلے اس نے کرن بیدی کے اس بیان کا ذکر کیا جس میں کہا گیا تھا کہ میں نہیں ہاری بی جے پی ہاری ہے۔ کرن بیدی کوبی جے پی میں لانے کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ اگر جیت جائیں تو سارا کریڈٹ پردھان جی کے سر اور ہار جائیں تو کرن بیدی کو بلی کی بکری بنا دیا جائے لیکن یہاں تو بکری قصائی کو آنکھیں دکھا رہی تھی۔

اس بیان سے ناراض ہو کر پارٹی نے شکست کا جائزہ لینے والی پارلیمانی بورڈ کی میٹنگ میں کرن بیدی کو مروّتاً بھی دعوت نہیں دی۔ شاید وہ خود بھی وہاں جا کر رسوا ہونا نہیں چاہتی تھیں لیکن کرن تو درکنار اس میں گرو جی بھی شریک نہیں ہوئے۔ وہ اپنے بیٹے کی شادی کا بہانہ بنا کر غائب ہو گئے اور پردھان جی نے انہیں ذلیل ہونے سے بچا لیا۔ منگو نے یہ بھی لکھا کہ شکست کے بعد شاذیہ کے علاوہ بی جے پی کا کوئی رہنما کرن بیدی سے ملنے نہیں گیا۔ اس لئے کہ شاذیہ کی من مراد پوری ہو گئی تھی۔ منگو نے گوگل سے ان کی ایک پرانی تصویر پر یہ لکھ کر خبر کے ساتھ نتھی کر دی کہ انتخابی نتائج کے بعد دونوں سہیلیاں ایک ساتھ۔ اس تصویر میں دونوں بے حد خوش نظر آ رہی تھیں۔ اس طرح گویا منگو نے مضمون کی دھار خوب تیز کر دی تاکہ عاپ کے دفتر سے چنگو کا معاوضہ جاری ہو جائے۔

چنگو کے مضمون نے سیاسی حلقوں میں زلزلہ برپا کر دیا۔ اس شام سارے ٹی وی چینلس پر شاذیہ علمی اور کرن بیدی کا گٹھ جوڑ بحث کا موضوع بن گیا اس لئے کہ کسی نے اس زاویہ پر غور ہی نہیں کیا تھا۔ اس انکشاف سے شاذیہ اور کرن دونوں گھبرا گئیں اور زیر زمین چلی گئیں۔ ٹی وی والوں کی لاکھ کوشش کے باوجود وہ تصدیق یا تردید کرنے کیلئے کسی کے ہاتھ نہیں آئیں۔ شاید ٹی وی چینلس والے بھی یہی چاہتے تھے اس لئے کہ اس بابت ابہام کے سبب اس گفتگو میں خوب نمک مرچ لگانے کا موقع میسر آ گیا تھا۔ ویسے بھی کیجریوال کی حلف برداری تک ان کے پاس ناظرین کو متوجہ کرنے کیلئے کوئی گرما گرم موضوع نہیں تھا۔ وہ اس تنازع کو خوب اچھال رہے تھے۔ عاپ اور باپ دونوں اسے من گھڑت بتا رہے تھے لیکن اس کے باوجود بحث جاری تھی۔

اس دوران ابھی تک چینل نے چنگیری لال عرف چنگو کو اپنے چینل پر آنے کی دعوت دی اور بڑی اچھی رقم کی پیشکش بھی کی۔ چنگو اس کیلئے راضی ہو گیا لیکن اس کے بعد اسٹار والے بھی اس کے پاس پہنچ گئے اور اسے اپنے ساتھ لے جانے پر اصرار کرنے لگے۔ چنگو کیلئے یہ نا ممکن تھا کہ بیک وقت وہ دونوں جگہ جاتا۔ اس نے اسٹاروالوں سے کہا کہ وہ مونگیری لال عرف منگو سے رابطہ قائم کریں اس لئے کہ اس معلومات کا اصل مآخذ اسی کی ذات گرامی ہے۔ وہی چشم دید گواہ ہے۔

اسٹار والے یہ جان کر اچھل پڑے۔ چند گھنٹوں کے بعد دونوں دوست شہر کے مشہور بیوٹی پارلر میں سجائے جا رہے تھے۔ ان کی مالی حالت وہاں پر جھاڑو لگانے والوں سے بھی خراب تھی مگر کیجریوال کے جھاڑو کی برکت سے وہ اپنی حجامت بنا رہے تھے۔ منگو کہہ رہا تھا چنگو کون کہتا ہے کہ اچھے دن نہیں آئے؟

چنگو بولا جی ہاں لیکن ہمارے اچھے دن پردھان جی کی وجہ سے نہیں بلکہ کیجریوال کے سبب آئے ہیں۔

اس شام منگو نے اپنی چرب زبانی سے اچھے اچھوں کے چھکے چھڑا دئیے۔ وہ اس صفائی سے جھوٹ بول رہا تھا کہ ناظرین تو کجا سیاستداں اور صحافی برادری بھی حیران تھی ایسا لگتا تھا جیسے چوہوں کے درمیان کوئی بدمعاش بلی آ گئی ہے جو چوہوں کو دوڑا دوڑا کر مار رہی ہے اس شام اسٹار نے سارے ٹی وی چینلس پر سبقت لے لی اور منگو کو کئی چینلس والوں کی جانب اپنے یہاں کام کرنے کی پیشکش بھی موصول ہو گئی۔ یہ مختلف قسم کے کام تھا۔ کوئی اس کے انداز بیان پر فریفتہ ہو گیا تھا اور چاہتا تھا کہ اسے اپنے پروگرام ناظم یعنی اینکر بنا دے۔ کسی نے اس سے کہا کہ وہ پرائم ٹائم پروگرام کیلئے موضوعات وضع کرے اور سوالات مرتب کر کے دے۔ کوئی اسے اپنے پروگرام کا مشیر بنانا چاہتا تھا کوئی اس کے روابط سے فائدہ اٹھانا چاہتا تھا۔

منگو نے کسی سے نہ ہاں کہاں اور نہ انکار کیا وہ اندازہ لگانے کی کوشش کر رہا تھا کہ کون سا کام اس کی صلاحیتوں کے مطابق ہے اور کس میں استحکام و آمدنی زیادہ ہے۔ اس کے برخلاف چنگو رنگ جمانے میں بری طرح نا کام رہا۔ اس کے سنجیدہ، متین اور ٹھوس جوابات نے کسی کو متاثر نہیں کیا۔ ٹی وی والوں نے اسے دوبارہ زحمت دینے کے منافقانہ وعدے پر ٹرخا دیا۔

اسٹو ڈیو کے باہر چنگو ٹیکسی کا انتظار کر رہا تھا کہ سامنے ایک خوبصورت گاڑی آ کر رکی اور خود کار دروازہ اپنے آپ کھل گیا۔ چنگو نے چونک کے اس کی جانب دیکھا تو اندر سے آواز آئی کہاں جانا ہے؟

گاڑی کے اندر نامور صحافی چندن مترا براجمان تھے۔ وہ کچھ دیر قبل اس کے ساتھ پینل میں موجود تھے۔ چنگو نے جھجکتے ہوئے کہا مجھے آزاد پور جانا ہے۔

اندر سے جواب ملا آؤ بیٹھو۔

شکریہ جناب آپ کو زحمت ہو گی میں ٹیکسی۰۰۰۰۰۰

چندن نے ڈانٹ کر کہا بکواس مت کرو اندر بیٹھو۔ چنگو گھبرا کر اندر بیٹھ گیا۔

چندن مسکرا کر بولا یہ اس طرح ڈرے سہمے کیا بیٹھو ہو؟کیا میں تمہیں کوئی خونخوار درندہ لگتا ہوں؟

جی نہیں جناب آپ کیسی باتیں کرتے ہیں۔ اتنی خوبصورت گاڑی میں بھلا کوئی خونخوار کیسے لگ سکتا ہے؟

تو گویا یہ گاڑی کا کمال ہے۔ سائیکل رکشہ پر میں تمہیں درندہ لگ سکتا ہوں۔

آپ تو میرے منہ میں الفاظ ڈال رہے ہیں۔ بہتر ہے کہ آپ مجھے اتار دیں مجھے پھر ڈر لگنے لگا ہے۔

چندن بولا یار چنگیری لال تم بھی عجیب آدمی ہو جب قلم اٹھاتے ہو اچھے اچھوں کو ڈرا دیتے ہو اور قلم رکھ کر مجھ جیسے بے ضرر انسان سے بھی۰۰۰۰۰۰

چنگو کے ذہن میں بکواس والی دھمکی گونجی جو چندن بے ضرر ہونے کی نفی کر رہی تھی۔ وہ بولا جی نہیں جناب ایسی بات نہیں آپ ویسے تو بھلے مانس ہیں لیکن ابھی جس طرح آپ نے ڈانٹ کر مجھے اندر آنے کیلئے کہا۰۰۰۰۰۰۰

چندن کا فلک شگاف قہقہہ ہوا میں گونجا وہ بولا جب میں نے تمہیں پروگرام دیکھا تو مجھے اپنا ماضی یاد آ گیا اور اب تمہاری یہ بات سن کر یقین ہو گیا۔

چندن کی جلیبی جیسی باتیں سن کر چنگو بولا میں سمجھا نہیں جناب؟

انسان اپنوں کو ڈانٹتا ڈپٹتا ہے پرائے سے کیا سروکار جائیں چولہے بھاڑ میں

چنگو پوچھنے جا رہا تھا کہ وہ ماضی والی بات؟ ۰۰۰۰۰مگر درمیان میں ڈرائیور بول پڑا جناب ہم لوگ آزاد پور پہنچ چکے ہیں وہ سامنے سبزی مارکیٹ کا چوراہا ہے۔

اوہو پتہ بھی نہیں چلا بہت خوب میں اپنے محلے میں آ گیا ہوں۔ آپ مجھے یہیں کہیں اتار دیجئے میرا گھر قریب ہے میں چلا جاؤں گا بہت شکریہ بڑی نوازش۔

گاڑی ہے تو پیدل کیوں؟ ڈرائیور کو بتاؤ وہ تمہیں گھر کے پاس اتارے گا۔

شکریہ لیکن میرا گھر تو پیچھے چھوٹ گیا۔ بھیا تم یہ کرو کہ گول چکر سے گاڑی پیچھے موڑ لو اور پھر دوسری سڑک پر بائیں جانب مڑ جانا۔ ڈرائیور نے تائید میں سر ہلایا۔

دائیں جانب کو جانے والی سڑک خاصی تنگ تھی۔ کھدے ہوئے اس لا وارث راستے پر لوگ چندن کی گاڑی کو حیرت سے دیکھ رہے تھے۔ ڈرائیور من ہی من میں چنگو کو کوس رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ اگر صاحب ساتھ نہ ہوتے تو آزاد پور چورا ہے سے آگے نہ آتا لیکن کیا کریں نوکری میں سب کرنا پڑتا ہے۔ کچھ دیر بعد چنگو بولا بھیا یہیں روک دو یہی میرا گھر ہے۔ گاڑی رک گئی۔

چنگو نے چندن کا شکریہ ادا کیا تو وہ اپنائیت سے بولا کیوں ایک کپ چائے بھی نہیں پلاؤ گے؟

چنگو پر یہ جملہ بجلی بن کر گرا۔ وہ شرمسار ہو کر بولا کیوں نہیں صاحب یہ میری خوش بختی ہے کہ آپ جیسا بڑا صحافی میری کٹیا میں آ رہا ہے۔ رام قسم میں تو شبری سے زیادہ خوش نصیب ہوں۔ آئیے تشریف لائیے۔ اس کے بعد چنگو ڈرائیور کو مخاطب کر کے بولا آئیے بھائی صاحب آپ بھی تنک چائے پانی۔

ڈرائیور کو کسی نے پہلی بار صاحب کے ساتھ چائے پینے کی دعوت دی تھی اس کے باوجود وہ ناک سکیڑ کر بولا نہیں بابو ہم یہیں ٹھیک ہیں۔

چنگو اور چندن ڈیرے کی جانب بڑھے تو گاڑی بھی آگے بڑھ گئی چنگو بولا یہ کیا؟ یہ آپ کو چھوڑ کر کہاں جا رہا ہے؟

تم اس کی چنتا نہ کرو وہ زیادہ دور نہیں جائے گا چونکہ یہاں سے پیچھے مڑنا ممکن نہیں ہے اس لئے آگے کسی موڑ سے لوٹ آئے گا۔

چنگو نے دروازے کا قفل کھولتے ہوئے کہا آپ کا ڈرائیور ہے آپ اسے خوب سمجھتے ہیں۔ ویسے آدمی سمجھدار لگتا ہے۔

جی نہیں اگر عقلمند ہوتا تو چائے کی دعوت کو نہیں ٹھکراتا۔ خیر پسند اپنی اپنی خیال اپنا اپنا۔ کمرہ بے ترتیبی کا شکار تھا۔ ساری چیزیں اِدھر اُدھر پھیلی ہوئی تھیں۔ چنگو نے کھڑکی کے پاس پڑی کرسی کو جھٹکا۔ جناب آپ اس پر تشریف رکھیں میں ابھی گرم گرم چائے بنا کر لاتا ہوں یہ کہہ کر چنگو نے پنکھے کا بٹن دبا دیا۔ پنکھا ایک خاص انداز میں ریں ریں کرنے لگا۔ چندن بولا موسم خوشگوار ہے اسے بند کر دو۔

چنگو نے پنکھا بند کر دیا۔ وہ ایسا ہے کہ کچھ تیل پانی مسئلہ ہے۔

چندن بولا جی ہاں مجھے پتہ ہے۔

 

 

 

۸

 

چنگو کے کمرے کو دیکھ کر چندن اپنے ماضی میں کھو گیا۔ وہ سوچنے لگا کس قدر یکسانیت ہے چنگو کے حال اور اس کے ماضی میں۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب وہ دہلی کے خبردار چینل میں ایک نامعلوم اینکر کے طور پر کام کرتا تھا۔ نہ اس کو کوئی جانتا تھا اور نہ اس کا چینل ہی مشہور تھا اس لئے دونوں کسمپر سی کا شکار تھے۔ ملک میں لگی ایمرجنسی ختم ہو چکی تھی اور انتخاب کی گہما گہمی تھی۔ اس دوران چینل کے مالک رگھو ناتھ پرشاد نے اس کی ملاقات پردھان منتری پد کے لئے جنتا پارٹی کے امیدوار مرار جی بھائی سے کرائی جنہیں لوگ احترام سے سردار کہتے تھے اور وہ اسے پیار سے خبردار کہہ کر پکارتے تھے۔ چندن کے ذمہ یہ کام تھا کہ سردار کے ساتھ رہے اور ان کی خبریں تیار کروا کے چینل کو بھجوائے۔

اپنے چینل پر ایک جعلی جائزہ پیش کر کے چندن نے سردار کو فون پر پوچھا۔ کیوں جناب سردار صاحب اب تو آپ مطمئن ہیں۔ آپ کا پیسہ وصول ہوا یا نہیں؟

سردار: (غمگین لہجے میں) ہم پیار میں جینے والوں کو چین کہاں آرام کہاں؟

کس کے پیار کی بات ہو رہی ہے؟ کرسی کے یا بسنتی کے؟

(چونک کر) کرسی تو ٹھیک ہے لیکن یہ بسنتی کون ہے؟ آج کل تو میں تانگہ وانگہ چھوڑ کر ہوائی جہاز پر سواری کرنے لگا ہوں۔

آپ اس احمد آبادی حسینہ کو بھول گئے جس کی جاسوسی کروایا کرتے تھے۔

بھئی تم نے تو پرانے زخم ہرے کر دئیے۔ الیکشن کی گہما گہمی میں تو میں اپنے آپ کو بھول گیا تھا؟

وہ بھی ٹھیک ہے لیکن آپ جیسے گاندھی وادی کو پریم ولاس کی باتیں زیب نہیں دیتیں۔ یہ آپ کو کیا ہو گیا ہے سردار صاحب؟

کیوں؟ کیا گاندھی وادی انسان نہیں ہوتا؟ اور وہ پیار نہیں کر سکتا؟

کیوں نہیں؟کیوں نہیں؟ جناب آپ نے تو آج کل ایک عاشق مزاج بلا نوش سنگھی پرچارک کو ہمنوا بنا رکھا جو اتفاق سے شاعر بھی ہے۔ مجھے پتہ ہے کہ وہ جب بھی شراب کے نشے میں ٹنُ ہو جایا کرتا ہے تو محبت کے نغمے گاتا ہے۔ کہیں آپ نے بھی تو۰۰۰۰۰۰۰۰۰(چندن کی زبان لڑکھڑا گئی)

میں نے؟ میں نے کیا تم رک کیوں گئے؟ بولو تم تو اپنے ہی آدمی ہو۔

جی نہیں۔ کچھ نہیں۔ میں سوچ رہا تھا کہ کہیں آپ نے بھی گاندھی جی کے شراب بندی والے اصول کو پامال کر کے دوچار پیگ نہیں لگا لیے۔

ارے بھائی سنگھیوں کو بہکنے کیلئے سوم رس کا سہارا لینا پڑتا تھا ہم تو بس پشکولا پر گذارا کر لیتے ہیں۔

پشکولا کی اصطلاح چندن کو پسند آئی وہ بولا آپ نے اچھا کیا جو نیا نام ایجاد کر لیا ورنہ آپ کے پسندیدہ مشروب کا نام لیتے ہوئے بھی مجھے گھن آتی ہے۔

اس میں گھن کی کیا بات ویسے یہ ایجاد میری نہیں ہے۔ دکنی زبان کے مشہور شاعر سلیمان خطیب نے اسے وضع کیا اور میں نے اپنا لیا۔

چلو ٹھیک ہے کہیں وہ آپ کی عادت شریفہ نہ اپنا لیں؟ شاعر جو ہے۔

بے وقوف! وہ مسلمان ہے شراب تو پی سکتا ہے مگر پشکولا کو ہاتھ نہیں لگا سکتا۔

چندن مطلب پر آ گیا اور بولا وہ تو ٹھیک ہے لیکن اس سروے کے بعد تو آپ کا پیسہ وصول ہو گیا ہو گا اس لئے آپ بھی ہماری آخری قسط بھجوا دیجئے۔

ابھی کہاں؟ ابھی تو انتخاب ایک مہینہ چلیں گے اور اس کے بعد رائے شماری ہو گی تب جا کر ہم وزیر اعظم بنیں گے۔

وہ تو ٹھیک ہے لیکن آپ کے وزیر اعظم بننے یا نہ بننے سے ہمارا کیا تعلق؟

کیا مطلب؟ کیا تم نہیں چاہتے کہ میں وزیر اعظم بنوں؟

یہ آپ سے کس نے کہا کہ میں یہ نہیں چاہتا۔ میں تو چاہتا ہوں کہ آپ بغیر الیکشن کے وزیر اعظم بن جائیں لیکن کیا کریں مجبوری ہے؟

ابھی تو تم نے کہا میرے وزیر اعظم بننے یا نہ بننے سے تمہارا کیا تعلق؟

جی جناب وہ تو میں اپنے ٹھیکہ کی بات کر رہا تھا۔ ہمارے درمیان یہ معاملہ طے پایا تھا رائے دہندگی تک بتدریج انتخابی سروے کر کے جنتا پارٹی کو ۲۷۲ تک پہنچا دیں گے سو ہم نے اسے ۲۷۵ پر پہنچا دیا اس لئے ہمارا کام پورا ہو گیا اب ہمیں اپنا معاوضہ مل جانا چاہئے۔

سو تو ہے لیکن ایسی بھی کیا جلدی ہے؟ چند روز رک جاؤ۔ اس کے بعد سود سمیت سارا قرض چکا دیا جائے گا۔

لیکن یہ تو وعدہ خلافی ہے۔ آپ لوگوں نے کہا تھا جائزے کے دو دن بعد ساری بقایا جات چکا دی جائیں گی اب تو چار دن گزر چکے ہیں اور آپ لوگوں کے وعدے پر تو اب بھولی بھالی عوام بھی اعتماد نہیں کرتی۔

ارے بھائی تم کہاں دوچار دنوں کا رونا لے کر بیٹھ گئے۔ ایک مرتبہ میں کرسی پر بیٹھ گیا تو برسوں عیش کرو گے سالہاسال۔ دیکھا نہیں تم نے آخر ایمرجنسی ختم کر کے انتخاب کرانے پڑے کہ نہیں؟ یہ تو پہلی کامیابی ہے دوسرا مرحلہ انتخاب ہے اور پھر ہم ہی ہم ہوں گے۔ ہماری لہر چل رہی ہے۔

جی ہاں جناب مجھے یقین ہے کہ یہی ہو گا لیکن میں اب مزید انتظار نہیں کر سکتا اس لئے آپ کی بھلائی اس میں ہے کہ آج شام تک رقم بھجوا دیں۔

اچھا! مجھے دھمکی دیتا ہے؟ ہم سے جو ٹکراتا ہے مٹی میں مل جاتا ہے۔ اگر رقم نہیں پہنچی تو تم کیا کر لو گے؟

دیکھئے جناب ویسے بھی ہم پر سرکارکادباؤ ہے۔ ہم تو بس یہ کریں گے آج سے اپنا لب و لہجہ تبدیل کر کے چار دن بعد ایک نیا جائزہ پیش کر دیں گے جس میں وہ اعداد و شمار ناظرین کے سامنے رکھ دیئے جائیں گے جن کو ہم نے آپ کی خاطر بدل دیا تھا۔ اس سے ہماری کھوئی ہوئی ساکھ بھی بحال ہو جائے گی نیز مرکزی حکومت کی نظر کرم کے بھی مستحق ہو جائیں گے۔

کچھ تو شرم کرو۔ میں تمہیں شریف آدمی سمجھتا تھا لیکن تم تو بڑے کمینے نکلے۔

آپ ہی کیا ساری دنیا وہی سمجھتی ہے جو آپ سمجھتے ہیں۔ اس لئے کیسی شرم؟

سمجھ گیا۔ میں تو یونہی مذاق کر رہا تھا تمہیں اپنی بقایا جات آج شام تک مل جائیں گی لیکن اتنا یاد رکھو کہ تمہارا کام ابھی ختم نہیں ہوا ہے بلکہ یہ تو اسی وقت ختم ہو گا جب میرا کام شروع ہو گا۔

شکریہ جناب لیکن بات در اصل یہ ہے کہ ہم لوگ جو کچھ کر سکتے تھے کر چکے اب گیند عوام کے پالے میں ہے۔ جن پر ہمارا کوئی اختیار نہیں۔ اب ان کی مرضی ہے کہ گیند کو گول کے اندر ماریں یا میدان کے باہر اچھال دیں۔

یار اس موقع پر تم گیند کے میدان سے باہر جانے کی بات نہ کرو مجھے بہت ڈر لگتا ہے۔ اتنا کچھ کرنے کے بعد بھی اگر جام لبوں سے چھن جائے تو کیسا لگے گا؟ تمہیں بولو کیسا لگے گا؟

بھئی یہ تو میخوار کا مسئلہ ہے۔ بیچنے والے کے لئے تویکساں ہے چاہے بوتل کھو جائے، ٹوٹ جائے، پی لی جائے یا کسی اورکو ہدیہ کر دی جائے دوکاندار کواس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اس کا مال بک گیا منافع مل گیا بات ختم۔

یار تجھ سے بڑا خبر فروش نہیں دیکھا لیکن سچ بتاؤں تمہاری تمامتر کوششوں کے باوجود مجھے اطمینان نہیں ہوتا۔ کوئی ایسی ترکیب بتاؤ کہ سب کچھ یقینی ہو جائے۔

ایسا چمتکار تو کوئی جادوگر ہی کر سکتا ہے یہ ہم جیسے صحافی کے بس کی بات نہیں۔

تم چمتکار اور جادوگر کی بات مت کرو۔ جانتے ہوئے گزشتہ دنوں میں بنگال جب میں تقریر کر رہا تھا تو کیا ہوا؟

جی نہیں چونکہ بنگال کے جلسوں میں لوگ کم آ رہے تھے اس لئے ہم لوگوں نے ان خبروں کا بلیک آؤٹ کر رکھا تھا۔ اب آپ ہی بتا دیجئے کہ کیا ہوا؟

(ہنس کر) یہی کہ میں نے حسب معمول لوگوں سے کہا کہ ہماری سرکار آئے گی تو مہنگائی کم ہو جائے گی۔ بیروزگاری دور ہو جائے گی۔ خوشحالی کا دور دورہ ہو گا۔ بھارت سوپر پاور بن جائے گا وغیرہ وغیرہ۔

پتہ ہے۔ یہ سب تو آپ ہر جلسہ میں کہتے ہیں۔ اس میں نیا کیا ہے؟

وہ در اصل آخر میں حسب عادت میں نے نعرہ لگایا ’’اب کی بار‘‘ عوام نے جواب دیا ’’پی سی سرکار‘‘۔ میں نے اپنے لوگوں سے پوچھا کہ یہ پی سی سرکار کون ہے؟ لوگوں نے بتایا یہ بنگال مشہور جادوگر ہے۔

تو آپ نے یہ کیوں نہیں پوچھا کہ کیا وہ آپ سے بھی بڑا جادوگر ہے؟

(قہقہہ لگا کر) کیوں نہیں؟ میں نے پوچھا تو جانتے ہو اس کا کیا جواب ملا؟

(حیرت سے) کیا؟

جواب تھا۔ جی ہاں سیاست میں آپ سے بڑا کوئی بازیگر اور بنگال میں پی سی سرکار سے بڑا جادوگر کوئی نہیں ہے۔

اس حجتِّ بنگال کے بعد آپ نے کیا کیا؟

ہم نے پی سی سرکار کو پکڑ کر اپنی پارٹی کا ٹکٹ دے دیا۔ اب وہ بنگال میں ہمارے لئے چمتکار کرنے جا رہا ہے۔

سردار نے فون بند کیا اور آواز لگائی ارے او سانبھا۔ چل بدل چینل اور ایم ٹی وی چلا دے۔ جیسے ہی چینل بدلا گیا اس پر عزیز نازاں کی قوالی جھوم برابر جھوم شرابی شروع ہو گئی۔ سردار بولا ارے یہ کیا بسنتی یہاں بھی نہیں ہے؟ یہ چینل بھی بدل دے۔ خبردار چینل پر ڈھلتا سورج ڈھلتے ڈھلتے ڈھلتا ہے ڈھل جائے گا چل رہا تھا۔ سردار نے غصے سے ٹی وی بند کیا اور پھر فون لگا کر چندن پر برس پڑا۔ یہ کیا مایوسی پھیلانے والی قوالی لگا رکھی ہے تم لوگ تو طلوع سے پہلے ہی غروب کا راگ الاپنے لگے

چندن بولا سرکار یہ آپ کو کیا ہو گیا ہے؟ کہیں آپ کا دماغ ابھی سے تو ۰۰۰۰۰۰۰۰

سردار بھڑک کر دہاڑا لگتا ہے تیرا دماغ درست کرنا پڑے گا۔ اگر حلف لینے کے بعد تیرے دماغ کو پلپلا نہیں کیا تو میرا نام بھی سردار نہیں۔

چندن ہنس کر بولا جناب پہلے آپ کی حلف برداری تو ہو جائے اس کے بعد اگر آپ میرا بھیجا کچا بھی چبا جائیں تو مجھے اعتراض نہ ہو گا۔

اوئے بدبخت!تجھے نہیں معلوم کہ میں سبزی خور ہوں۔

اوہو بڑے پارسا بنتے ہو اگر ایسے ہی پاکباز ہو تو پہلے پشکولا سے توبہ کرو۔

اب چپ کر ورنہ میں تجھے زندہ دفن کر دوں گا۔

فون کے ساتھ چندن عرف خبردار کے بھاگیہ کا دوار بھی بند ہو گیا۔ اس سانحہ کے بعد سردار نے چندو کو خبردار چینل کی ملازمت سے نکلوا دیا۔

خبردار چینل سے نکل کر کچھ دنوں تک چندن مارا مارا پھرا اور بالآخر لالہ جی کے اخبار راجدھانی ایکسپریس کے شرن میں آ گیا۔

 

 

 

 

۹

 

چنگو جب چائے اور گلوکوز بسکٹ لے کر آیا تو دیکھا کہ چندن کہیں اور ہی کھویا ہوا ہے۔ اس نے اپنے ہاتھ کی کشتی تپائی پر رکھی اور سامنے والی کرسی بیٹھ گیا۔ کرسی کی چرمراہٹ چندن کو ماضی سے حال میں لے آئی۔ چائے کا کپ چندن کی جانب بڑھاتے ہوئے چنگو نے پوچھا آپ کس سوچ میں گم ہیں آپ کو میرا گھر کیسا لگا؟

چنگو سب کچھ میری توقع کے عین مطابق ہے۔ مجھے پتہ تھا کہ ایسا ہی ہو گا۔

لیکن ہماری ملاقات تو آج پہلی بار ہوئی اور آپ کو کیسے پتہ چل گیا؟

(قہقہہ لگا کر) تم نے سنا ہو گا تاریخ اپنے آپ کو دوہراتی رہتی ہے۔ یہ معاملات صرف حکمرانوں کے ساتھ نہیں ہوتے بلکہ ہم جیسے عام لوگوں کے ساتھ بھی ہوتے ہیں لیکن فرق یہ ہے کہ ہمارا ذکر نہیں ہوتا۔

وہ کیوں؟

اس لئے کہ حکمراں چند ہوتے ہیں اس لئے تاریخ انہیں کی لکھی جاتی ہے۔ رعایا کی تاریخ کوئی نہیں لکھتا۔

چنگو کیلئے یہ حیرت انگیز انکشاف تھا اس نے سوال کیا لیکن جناب تاریخ داں بھی تو رعایا میں سے ہوتا ہے۔ اس کے باوجود وہ عوام کو نظر انداز کر کے حکمرانوں کے واقعات کیوں لکھتا ہے؟

یہ سوال در اصل تم جیسے صحافی کو نہیں پوچھنا چاہئے۔ ہم لوگ خود رائے دہندگان کے بجائے ان کے نمائندوں کے بارے میں کیوں لکھتے ہیں حالانکہ ہم خود ووٹرس ہیں۔ محکوم ہونے کے باوجود ہمارا قلم ان نمائندوں کی خدمت کرتا ہے جو اقتدار پر فائز ہوتے ہیں۔ کیا ہم لوگ عوام کو نظر انداز نہیں کرتے؟

جی ہاں چونکہ آپ عرصۂ دراز سے صحافت کے پیشے میں ہیں اس لئے اس کی وجوہات پر آپ سے بہتر اور کون روشنی ڈال سکتا ہے؟

اس کے دو اہم اسباب ہیں ایک تو ہمارے قارئین اپنے جیسے لوگوں کے بارے میں پڑھنا نہیں چاہتے وہ حکمرانوں کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں اس لئے سارے اخبارات، ریڈیو اور ٹی وی پر انہیں کے قصے چھائے رہتے ہیں۔

اور وہ دوسری وجہ؟

اب یہ بھی بتانا پڑے گا۔ دان دکشنا میرا مطلب ہے انعام و اکرام اس کا دوسرا سبب ہے۔ تم نے کیا کسی بڑے سے بڑے شاعر کو باد شاہِ وقت کے علاوہ کسی اور کی شان میں قصیدہ پڑھتے سنا ہے۔

لیکن اب تو سلطانیِ جمہور کا زمانہ آ چکا ہے۔

مگر پھر بھی سرکاری خزانہ عملاً عوام کے نہیں حکمرانوں کے قبضے میں ہے۔

لیکن ہمیں حکمرانوں کی مذمت و تنقید کی جو آزادی ہے؟اس کا کیا؟

جی ہاں! اختیار و آزادی تو ہے مگراس کے بھی حدود و قیود ہیں۔ حکومت کے خلاف آزادی کا استعمال اول تو سرکاری مراعات سے محرومی کا سبب بنتا ہے اور آگے چل کر بلواسطہ یا بلا واسطہ غضب و عتاب کا شکار بھی کرتا ہے۔

(جوش میں آ کر) اپنی بلا سے کیا فرق پڑتا ہے؟

جی ہاں جب تک تم اس کمرے میں رہتے ہو اور بس یا ٹرین میں سفر کرتے ہو کوئی خاص فرق نہیں پڑتا لیکن جو لوگ میرے جیسی گاڑی میں چلتے ہیں ان کا جینا دوبھر کرنا سرکار کیلئے بہت آسان ہوتا ہے۔

میں سمجھا نہیں؟ چنگو نے سوال کیا۔

بات نہایت آسان ہے جو انعام و اکرام سے نواز سکتا وہ تعذیب و تشدد کا بھی تو شکار کر سکتا ہے اس کے پاس پولس ہے، فوج ہے، دنیا بھر کے تفتیشی ادارے ہیں، عدالت ہے اور ذرائع ابلاغ ہے۔

ذرائع ابلاغ؟؟؟ ۰۰۰۰۰۰

چندن نے اس کا جملہ کاٹ دیا۔ عدالت تو شواہد کو سننے کے بعد سزا سناتی ہے لیکن ہم لوگ بغیر ثبوت کے تختۂ دار تک پہنچا دیتے ہیں۔

آپ کی یہ بات تو میری سمجھ میں آ گئی۔

واقعی! در اصل یہی سمجھانے کیلئے میں نے تمہارے ساتھ یہاں آنے کا فیصلہ کیا تھا۔ تم نوجوان ہو میں نہیں چاہتا کہ تم اس نوعمری میں کسی مشکل میں پھنس جاؤ۔

آپ کو یہ اندیشہ کیوں لاحق ہوا کہ میں کسی مصیبت میں پھنس سکتا ہوں؟

ایک تو تمہارا مضمون دیکھ کر مجھے اندازہ ہوا کہ تم بہت جری ہو اور دوسرے تمہارے جوابات سن کر میں نے محسوس کیا کہ تم بہت بھولے ہو۔

کیا یہ انسانی عیوب ہیں جن سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہئے۔

جی نہیں! یہ میں نے نہیں کہا در اصل یہ تو خوبیاں ہیں لیکن جب تمہارا پالا بدمعاشوں سے پڑتا ہے تو یہ انہیں عیب نظر آتا ہے اس لئے احتیاط لازمی ہے۔ اس کی مضرت رسانی سے آگاہ کرنے کیلئے میں نے تمہارے ساتھ یہاں آنے کا قصد کیا۔

چندن اب چنگو کو اپنا کرم فرما نظر آ رہا تھا اس کی نظر میں چندن کا احترام بڑھ گیا تھا۔ وہ بولا میں آپ کا ممنون ہوں لیکن کیا میں اس کی وجہ جان سکتا ہوں؟

اس کی وجہ ویسے تو میں بت اچکا ہوں لیکن تم نے غور نہیں کیا۔

میں معذرت چاہتا ہوں۔

دیکھو ایک زمانے میں تمہاری ہی مانند میں بھی نہایت دلیر اور نیک تھا۔ اپنے گاؤں سے دہلی آ کر کرول باغ میں اسی طرح کے ایک کمرے میں ٹِک گیا تھا۔

چنگو نے کہا کرول باغ تو امیر کبیر لوگوں کی بستی ہے وہاں ایسا کمرہ؟

چندن بولا تمہاری بات درست ہے۔ فی الحال میری کوٹھی وہیں حکیم اجمل خان روڈ پر ہے لیکن آج سے ۳۰ سال قبل وہ شہر کے باہر ایک ویران سا علاقہ تھا جس میں پاکستان سے آئے ہوئے مہاجر آباد تھے۔ تم یقین کرو کہ اگر میرے پاس اپنے کمرے کی کوئی تصویر ہوتی تو تم کہتے یہ تمہارے کمرے کا منظر ہے۔

چنگو بولا اور تحریر؟

چندن ایک ٹھنڈی آہ بھر کر کہا ان تحریروں کی بابت میں تمہیں کیا بتاؤں؟ میرے سینے میں آگ لگی ہوئی تھی جو میں اپنے الفاظ میں ڈال دیتا تھا اور جو بھی انہیں پڑھتا تھا اس کے سینے میں ایک الاؤ جل اٹھتا تھا۔ وہ زمانہ!!!وہ زمانہ ہی کچھ اور تھا۔

وہ مضامین کہاں ہیں میں انہیں پڑھنا چاہتا ہوں۔

تم ان کو نہیں پڑھ سکتے چنگو انہیں کوئی نہیں پڑھ سکتا۔

کیوں؟ ایسی کیا بات ہے کہ انہیں کوئی نہیں پڑھ سکتا؟

میں نے ان سب کو جلا کر راکھ کر دیا۔

چنگو یہ سن کر حیرت زدہ رہ گیا ایک ایسا شخص جس کو اپنی تحریروں سے بے حد محبت ہو آخر اس نے ایسا کیوں کیا؟ چندن نے چنگو کی آنکھوں میں اس کا سوال پڑھ لیا وہ بولا تم جاننا چاہتے ہو کہ میں نے ایسا کیوں کیا؟

جی ہاں اگر آپ مناسب سمجھیں۔

چندن بولا وہ چتا میں نے با دلِ ناخواستہ لالہ جی کے کہنے پر جلائی اور اس میں اپنا ضمیر پھونک دیا۔ تم یقین کرو اس کے بعد سے میں ایک راکھ کے ڈھیر میں تبدیل ہو گیا ہوں۔ ایک ایسی راکھ کا ڈھیر جسے سونے کے کلش میں رکھ کر گنگا جل میں بہانے کیلئے لے جایا جا رہا ہے۔ برسوں سے یہ سفر جاری ہے میں نہیں جانتا کہ یہ کب اپنے اختتام کو پہنچے گا؟

یہ درمیان میں لالہ جی کہاں سے آ گئے؟

چندن بولا لاہور سے دہلی آئے تھے لالہ جی۔ تقسیم ہند سے قبل وہ لاہور سے راجدھانی ایکسپریس نام کا اخبار نکالتے تھے۔ اخبار قیام پاکستان کا سخت مخالف تھا۔ جب پاکستان بن گیا تو ان کا وہاں رہنا محال ہو گیا۔ وہ دیگر مہاجرین کے ساتھ بھاگ کھڑے ہوئے اور اس طرح ان کا گھر بار سب چھن گیا۔ دہلی میں لٹے پٹے لالہ چیت رام کے ساتھ ان کی ننھی سی بیٹی تھی چیتنا اور اخبار راجدھانی ایکسپریس کا رجسٹریشن تھا۔ ان دونوں کے علاوہ لالہ چیت رام کے پاس کچھ بھی نہیں تھا۔

لالہ جی نے اپنے اخبارات کے تراشے دکھلا دکھلا کر دہلی کی حکومت سے خوب مراعات حاصل کیں یہاں تک کہ شہر کے بند ہونے والے اخبار خلافت کا دفتر انہیں عطا کر دیا گیا اور اسی کے اوپری منزل پر ہجرت کر جانے والے اخبار کے مالک کا گھر بھی ان کے حصے میں آ گیا۔ اس وقت ان کا اخبار دہلی کے مہاجرین کے دل کی آواز بن گیا۔ سخت گیر ہندو طبقے کی اسے حمایت حاصل ہو گئی تھی اور اس اخبار کے مختلف شہروں سے ایڈیشن نکلنے لگے۔ اس کی اشاعت اردو کے مقابلے ہندی میں کئی گنا بڑھ گئی لیکن اردو زبان سے قلبی وابستگی کے سبب وہ اسے عرصۂ دراز تک چلاتے رہے۔

خبردار ٹی وی چینل سے نکال باہر کئے جانے کے بعد جب مختلف اخبارات کے چکر کاٹتے ہوئے میں لالہ جی کے پاس پہنچا تو انہوں نے مجھ سے پوچھا ہم لوگ جلد ہی انبالہ سے اپنا نیا ایڈیشن نکالنے والے ہیں کیا تم وہاں جانے کیلئے تیار ہو؟ مرتا کیا نہ کرتا میں فوراً تیار ہو گیا۔

لالہ جی نے آگے کہا اس سے قبل چند ہفتے تم یہیں دہلی میں کام کر کے ہمارے طور طریقوں سے واقف ہو جاؤ اور وہاں جانے کے بعد انہیں خطوط کام کرو۔ میں بلا چوں چرا راضی ہو گیا تو وہ سمجھ گئے میں بہت مجبور ہوں۔ اس کا فائدہ اٹھانے کیلئے انہوں نے ایک نیا پانسہ پھینکا اور بولے اس تربیتی دورانیہ میں چونکہ تم سے ہمارے ادارے کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا اس لئے تمہیں نصف تنخواہ ملے گی لیکن جس دن سے تم انبالہ کے دفتر میں کام شروع کر دو گے تمہاری تنخواہ دو گنی ہو جائے گی کیا سمجھے؟

میں نے تو تنخواہ دریافت ہی نہیں کی تھی۔ میں نے اس پر بھی حامی بھر لی۔ میں ملازمت کیلئے اس قدر پریشان ہو چکا تھا کہ مجھے لالہ جی کی پر شرط قابلِ قبول۔ میں جب لالہ جی کے کمرے سے نکلنے کیلئے اٹھا تو وہ ناصحانہ انداز میں بولے دیکھو یہ دوچار مہینے تمہارے لئے بہت اہم ہیں۔ اس میں تم جو سنسکار سیکھو گے وہ زندگی بھر تمہارے ساتھ رہیں گے اس لئے انہیں سعادت جانو اور اس کا زیادہ سے فائدہ اٹھاؤ۔ چندن اپنی آپ بیتی سنا کر من ہلکا کر رہا تھا۔

میں نے جب لالہ جی سے مصافحہ کیلئے ہاتھ بڑھایا تو انہوں نے خوش ہو کر پوچھا اچھا تو برخوردار یہ بتاؤ کہ تم نے اس ملاقات میں کیا سیکھا؟

میں اس زمانے میں نہایت منہ پھٹ نوجوان تھا جو من میں آتا تھا وہ بولتا پہلے تھا سوچتا بعد میں تھا۔ میں نے صاف گوئی سے کام لیتے ہوئے کہا لالہ جی میں نے آج یہ سیکھا ہے کہ اگر کوئی مجبور ہاتھ آ جائے تو جی بھر کے اس کا استحصال کرو؟یہ جملہ ادا کرنے کے بعد مجھے اندیشہ ہوا کہ کہیں لالہ جی مجھ سے خفا نہ ہو جائیں اور ملازمت کا یہ خواب شرمندۂ تعبیر ہونے قبل ہی چکنا چور نہ ہو جائے۔

لالہ جی خلاف توقع خوش ہو کر بولے بھئی تمہاری تحریروں نے مجھے غلط فہمی کا شکار کر دیا تھا اور میں نے تمہیں جذباتی نوجوان سمجھ لیا تھا لیکن تم نے تو پہلی ہی ملاقات میں وہ بھرم توڑ دیا۔ تم نہایت سمجھدار ہو اس لئے مجھے یقین ہے کہ بہت تیزی سے ترقی کرو گے۔ جاؤ کام میں جٹ جاؤ میں تمہارے ساتھ ہوں۔ مجھے لالہ جی کا ’میں‘ بہت کھٹکا لیکن میں مصلحتاً خاموش رہا یہ دوسراسبق تھا جو میں نے لالہ جی سے سیکھا تھا۔

لالہ جی کی استحصالی ذہنیت کے سبب سارا عملہ ان سے نفرت کرتا تھا لیکن میرے لیے وہ فرشتہ صفت انسان تھے جنہوں نے ایک بے بدر نوجوان کو ایسے وقت میں سہارا دیا تھا جس کا کوئی پرسانِ حال نہیں تھا۔ میں نے خوب دل لگا کر کام کرنا شروع کر دیا۔ میں تمہاری طرح اکیلا رہتا تھا۔ شام میں میرے پاس کو ئی مشغلہ یا دوست و احباب نہیں تھے۔

لالہ جی کو جب یہ معلوم ہوا تو وہ شام میں مجھے اپنے ذاتی کاموں میں لگانے لگے۔ سودہ سلف لے آؤ۔ فلاں کو یہ کاغذ دے آؤ۔ فلاں سے پیسے لے آؤ وغیرہ وغیرہ اس طرح کے ڈھیروں کام ان کے پاس تھے۔ اس دوران کبھی کبھار خوش ہو کر مجھے کچھ کھلا پلا دیتے تھے۔ کبھی انعام کے طور پر دو چار روپیہ میری ہتھیلی پر رکھ دیتے تھے۔ اس زمانے میں دس روپیہ کے اندر مجھ جیسا تنہا فرد ہفتہ بھر کا راشن لے آتا تھا۔ مجھے جس دن بخشش ملتی میں کرول باغ کی مشہور سناتنی ہوٹل میں جا کر دال مکھنی کھاتا اور لالہ جی کو دعائیں دیتا۔

چنگو نے بیچ میں سوال کیا لیکن وہ انبالہ والا ایڈیشن نکلا یا نہیں۔

کیوں نہیں لیکن لالہ جی نے مجھے وہاں نہیں بھیجا بلکہ دہلی میں روک لیا۔ میرے اوپر ان کا اعتماد بحال ہو گیا تھا۔ مضامین کے سبب مجھے شہرت ملنے لگی تھی میری تعریف میں جب کسی قاری کا خط لالہ جی کے پاس آتا تو وہ مجھے اپنے پاس بلاتے اور حوصلہ افزائی کرتے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک خط نہیں بلکہ ایک ہزار خط ہیں۔ جب ایک ہزار سے زیادہ لوگوں کو مضمون پسند آتا ہے تو ان میں ایک خط لکھنے کی زحمت کرتا ہے۔ دفتر میں لوگ مجھے لالہ جی کا چمچہ کہہ کر پکارتے تھے۔ میرے سامنے وہ لالہ جی کی برائی کرنے سے ڈرتے تھے لیکن میں نے کبھی کسی کی شکایت نہیں کی۔ لالہ جی نے بھی مجھے دوچار بار چغلی کیلئے اکسایا لیکن میں فطرتاً اس جانب مائل نہیں ہوا۔

چنگو بولا تب تو لالہ جی آپ سے ناراض ہو گئے ہوں گے۔

چندن نے کچھ سوچ کر کہا ناراض تو نہیں لیکن مایوس ضرور ہوئے ہوں گے لیکن میں اس قدر احمق تھا کہ اسے محسوس تک نہ کر سکا۔ مجھے تو بس اپنے کام سے کام تھا۔ پڑھنا لکھنا اور لالہ جی خدمت کرنا یہی شب و روز کا معمول تھا۔ دن مہینوں اور سالوں میں بدلتے جا رہے تھے۔ اس دوران ایک مرتبہ دیپاولی کا تہوار آیا تو لالہ جی نے مجھ سے پوچھا کیوں بھائی دیوالی کی تیاری ہو گئی یا نہیں؟

میں بولا ہمیں کیا تیاری کرنی ہے لالہ جی۔ ہمارے یہاں کون آتا ہے؟

لالہ جی بولے تب پھر تم چھٹی کے دن کیا کرتے ہو؟

میں لوگوں کے پاس چلا جاتا ہوں۔

اچھا لیکن تم ہمارے گھر تو کبھی آئے نہیں جبکہ ہمارے یہاں مہمانوں کی کافی چہل پہل ہوتی ہے۔ شہر کے نامی گرامی لوگ ہم سے ملنے آتے ہیں۔

جی ہاں مجھے پتہ ہے میں نے سادگی سے جواب دیا۔ اسی لئے میں نہیں آتا ان بڑے بڑے لوگوں میں مجھ جیسے عام آدمی کا کیا کام؟ ہاں شرما جی، مشرا جی وغیرہ مجھے بلا لیتے ہیں تو ان کے گھر چلا جاتا ہوں۔

لالہ جی کو اپنی غلطی کا احساس ہو گیا انہوں نے کہا اچھا تو میں بھی تمہیں دعوت دیتا ہوں اس دیوالی کے دن تم میرے گھر بھی آ جانا۔

میں نے معصومیت سے پوچھا لالہ جی کوئی کام ہے کیا؟

لالہ جی ہنس کر بڑے پیار سے بولے نہیں بے وقوف ہم دیوالی کی ساری تیاری پہلے ہی کر لیتے ہیں۔ اس دن تو صرف تہوار مناتے ہیں۔

میں نے کہا شکریہ زہے نصیب۔ میں جب چلنے لگا تو لالہ جی نے پوچھا تم دیوالی کی تیاری کا سوال ٹال گئے بھئی کوئی گھر نہیں آتا تو کیا ہوا تم تو جاتے ہو۔ نئے کپڑے تو سل گئے ہوں گے۔

اتفاق سے اس بار میں نے کپڑے نہیں سلائے تھے۔ میں بولا نہیں جناب ابھی دو مہینے پہلے جو کپڑے سلے تھے وہ نئے ہی ہیں اس لئے میں نے اس بار۰۰۰۰۰۰۰۰لالہ جی سمجھ گئے اور بولے تو تم نے بونس کا کیا کیا؟

یہ خاصہ ذاتی سوال تھا اس لئے میں اس پر خاموش ہو گیا لالہ جی بولے تم چپ کیوں ہو گئے کہیں جوا سٹہ وغیرہ میں تو نہیں ہار گئے؟

میں بولا جی نہیں سرکار میں اس پاپ کے قریب نہیں پھٹکتا۔

لالہ جی نے پھر اپنا سوال دوہرا دیا۔ تب وہ روپئے کیا ہوئے؟

میں بولا وہ میں نے ۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰گاؤں میں اپنی بوڑھی ماں ۰۰۰۰۰۰۰۰اور پڑوس میں رہنے والی منہ بولی بہن کیلئے کپڑے خرید لئے۔ ہمارے گاؤں والا ایک آدمی جا رہا تھا تو اس کے ہاتھ بھجوا دئیے۔ نہ جانے کتنے سال بعد اس بار دیوالی پر میری ماں نئے کپڑے پہنے گی۔ یہ کہتے کہتے میری زبان لرز گئی اور آنکھوں میں آنسو چھلکنے لگے۔

لالہ جی بھی یہ سن کر اداس ہو گئے۔ ان کے یہاں لوگوں کی تنخواہ اس قدر کم تھی کہ مشکل سے گزارہ ہوتا تھا۔ کچھ لوگوں نے لڑ جھگڑ کر اپنی تنخواہ بڑھوا لی تھی لیکن ایسا کرنا میرے مزاج کے خلاف تھا اس لئے میں وہیں پڑا تھا جہاں سے میں نے کام کی ابتداء کی تھی۔

ماحول جذباتی ہو چکا تھا چنگو نے پوچھا صاحب ایک اور کپ؟

چندن نے خالی گلاس کی جانب اشارہ کر کے کہا نہیں پانی لے آؤ۔ چنگو پانی لے آیا اس وقت تک چندن اپنے آپ کو سنبھال چکا تھا۔

 

 

 

 

۱۰

 

چندن نے پانی پینے کے بعد بات آگے بڑھائی لالہ جی کو پہلی مرتبہ میری حالت پر رحم آیا بلکہ ممکن ہے کسی کی حالت پر رحم کا یہ پہلا موقع ہو۔ انہوں نے کہا ابھی چیتنا ٹیکسٹائل جاؤ اور وہاں پر اپنے لئے کپڑے سلوا لو۔

میں نے کہا شکریہ لالہ جی آپ کی بڑی مہربانی لیکن دو دن بعد دیوالی ہے سارے درزیوں نے نئے کپڑے لینے بند کر دئیے ہیں اس لئے یہ کام دیوالی کے بعد پر رکھ چھوڑتے ہیں۔

لالہ جی بگڑ کر بولے میں جو کہتا ہوں وہ سنو زیادہ زبان مت چلاؤ۔ وہ کیا اس کا باپ تمہارے کپڑے سل کر دے گا تم اب اپنا وقت ضائع کئے بغیر سیدھے چمپت لال کے پاس جاؤ۔ میں چمپت لال کا پتہ لے کر وہاں سے چمپت ہو گیا۔

چیتنا ٹیکسٹائل کرول باغ کی ایک بہت بڑی دوکان تھی۔ وہاں پہنچنے کے بعد یاد آیا کہ دوچار بار میں لالہ جی اور ان کی بیٹی کے جوڑے اس دوکان سے لے جا چکا تھا۔ اب میں تذبذب کا شکار ہو گیا۔ یہاں پر کپڑے تو بہت مہنگے ہوں گے اگر کہیں لالہ جی نے اس کی قیمت تنخواہ میں سے کاٹ لی تو پیٹ پر کپڑا باندھ کر سونا پڑے گا لیکن لالہ جی کے حکم کی سرتابی کرنے کی جرأت میرے اندر نہیں تھی اس لئے ڈرتے ڈرتے دوکان کے اندر داخل ہو گیا۔

کاؤنٹر پر ایک بوڑھا آدمی بیٹھا تھامیں نے اس کے پاس پہنچ کرآہستہ سے کہا جناب مجھے لالہ جی نے بھیجا ہے۔ وہ فوراً اپنی جگہ پر کھڑا ہو گیا اور بولا تمہارا نام چندن تو نہیں ہے؟ میں نے سر ہلا کر تائید کی۔ وہ دراز سے ٹیپ نکال کر باہر آ گیا۔ اس کے ہاتھ میں ایک پنسل اور لمبا سا رجسٹر تھا۔ باہر آ کر وہ میرا ناپ لینے لگا درمیان میں وہ مجھ سے سوال کرتا اور پنسل کسی ماہر درزی کی مانند کان پر لگا لیتا۔

میں سمجھ گیا یہی چمپت لال ہے۔ اپنے کام سے فارغ ہو کر وہ پھر سے میز کے پیچھے پہنچ گیا اور مجھے کپڑے دکھلانے لگا۔ میں نے کہا دیکھئے جناب میں معمولی آدمی ہوں اس قدر قیمتی لباس زیب تن نہیں کرتا۔

چمپت لال بولا آپ قیمت کی چنتا نہ کریں بس کپڑا اور رنگ پسند کریں باقی کام ہم پر چھوڑ دیں۔

میں نے کہا ایسی بات ہے تو یہ کام میں آپ پر چھوڑتا ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ آپ کی پسند مجھ سے بہتر ہو گی۔

بوڑھے چمپت نے حیرت سے میری جانب دیکھا اور بولا اس میں شک نہیں کہ تمہاری بات صد فیصد درست ہے لیکن میری ۵۰ سالہ پیشہ ورانہ زندگی میں تم پہلے آدمی ہو جس نے اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے اس لئے میں اپنے قدر داں کو چائے پلائے بغیر واپس نہیں بھیج سکتا۔

میں گھبرا کر بولا جی نہیں اس کی ضرورت نہیں۔ آپ فی الحال کافی مصروف ہیں پھر کسی وقت آ کر آپ کی چائے پی لوں گا۔

وہ بولا نہیں برخوردار خوشی جب ہو تو اس کو منا لینا چاہئے ممکن ہے دوبارہ جب تم آؤ تو میں کسی بات پر رنجیدہ ہوں۔ اس فرصت کا بھلا کیا فائدہ جو پر مسرت نہ ہو اس لئے ادھر پیچھے کمرے میں آؤ ہم لوگ دو گھڑی بیٹھ کر باتیں کرتے ہیں۔ چائے پیتے ہیں اس کے بعد تم نکل جانا۔ فرصت تو شاید اس جنم میں مجھے کبھی نصیب نہیں ہو گی اور اگلا جنم ہو گا بھی یا نہیں یہ میں نہیں جانتا۔

میں با دلِ ناخواستہ گلے کی پشت پر بنے کمرے میں چلا گیا جہاں وہ درزی نما دوکان کا مالک پہلے سے براجمان تھا۔ یہ اچھا خاصہ دفتر تھا اس نے مجھے بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ میں بیٹھ گیا تو وہ بولا تم محسوس کر رہے ہو گے کہ میں بہت خوش ہوں۔

میں نے تائید کی جی ہاں مجھے اس کی وجہ معلوم ہے ابھی ابھی آپ نے ۰۰

چمپت بولا وہ تو ایک سبب ہے جس کا میں نے ذکر کر دیا تھا لیکن اور بھی کئی وجوہات ہیں مثلاً پہلی بار لالہ جی نے کسی کو اپنی دوکان پر یہ کہہ کر بھیجا کہ اس کے کپڑے سلوا دو اور تو اور یہ بھی کہا پیسوں کی فکر نہ کرنا۔ یہ ایک ایسا چمتکار ہے کہ اگر میں سپنے میں بھی دیکھ لیتا تو اس پر وشواس نہیں کرتا۔

اس میں حیرت کی کیا بات ہے لالہ جی بڑے آدمی ہیں۔ یہ دوکان ان کی اپنی ہے ایسے میں اگر وہ ایسا کہہ دیں تو اس میں کون سی بڑی بات ہے؟

یہی تو بڑی بات ہے کہ اس معمولی سی بات کو سننے کیلئے میرے کان ترس گئے اور مجھے یقین ہو گیا کہ ایسا کبھی نہیں ہو سکتا لیکن آج وہ بھرم ٹوٹ گیا۔ تم نے لالہ جی کو بدل کر رکھ دیا تم مہان ہو نوجوان تم مہان ہو۔ تمہاری وجہ سے ایک سنگدل انسان موم بن گیا تم نے اس کے اندر انسانیت کا چراغ روشن کر دیا۔ لالہ جی ساری دنیا کو بیدار کرنے کیلئے راجدھانی ایکسپریس نام کا اخبار نکالتے رہے لیکن ان کا اپنا ضمیر سویا ہوا تھا مگر تم نے اسے جگا دیا۔ یہ ایک نا ممکن ہدف تھا مجھے بتاؤ کہ یہ معجزہ کیسے ہو گیا؟

چمپت کی حیرت میری عقل سے پرے تھی۔ میں بولا جناب سچ تو یہ ہے کہ میں نے کچھ بھی نہیں کیا وہ تو لالہ جی کی کرپا ہے کہ انہیں مجھ پر رحم آ گیا اور انہوں نے مجھے آپ کے پاس بھیج دیا۔

یہی تو میں پوچھ رہا ہوں کہ لالہ جی کو تم پر رحم کیسے آ گیا؟ انہوں نے تم پر کرپا کیوں کی؟پچھلے ۳۰ سالوں میں ان کو کسی پر رحم نہیں آیا۔

چمپت کے سوالات سے پریشان ہو کر موضوع بدلنے کیلئے میں نے کہا آپ بار بار لالہ جی سے اپنی ۳۰ سال پرانی رفاقت کا ذکر کر رہے ہیں۔ کیا آپ ان کے رشتے دار ہیں؟کون ہیں آپ؟

وہ بولا میں! میں چمپت لال ہوں۔ لالہ جی کا دوست تو نہیں مگر شناسا اس لئے کہ ان کا کوئی دوست نہیں ہے۔

کوئی دوست نہیں؟ یہ کیسے ہو سکتا ہے؟؟

کیوں نہیں ہو سکتا اگر کوئی کسی کا دوست نہ ہو تو کوئی اوراس کا دوست کیسے ہو سکتا ہے؟ لالہ جی کی صرف ٹھن ٹھن گوپال سے دوستی ہے وہ اس کے سوا کسی سے پیار نہیں کرتے۔ دن رات اسی کی توڑ جوڑ میں لگے رہتے ہیں۔ تم یہ دوکان دیکھ رہے ہو؟ لالہ جی کی ہے۔ آگے چیتنا ہوٹل، چیتنا کرانہ، چیتنا اسٹیل مارٹ غرض کے چیتنا کے نام سے جو کچھ بھی ہے انہیں کا ہے۔

میں نے پوچھا تو کیا لالہ جی کسی کو یہ نام استعمال کرنے نہیں دیتے؟

جی نہیں ایسی بات نہیں یہ نام ان کے ساتھ اس قدر منسوب ہو گیا کہ اس علاقہ میں لوگوں نے اپنی دوکانوں کا نام بدل دیئے۔ اب اگر کوئی اس نام کی دوکان کھولے تو لوگ سمجھ لیں گے کہ یہ لالہ چیت رام کی نیا کاروبار ہے لیکن مجھے اس بات پر فخر ہے لالہ جی کی پہلی دوکان یہی چیتنا ٹیکسٹائل ہے جو کسی زمانے میں میرا گھر تھا۔

چمپت لال کے اس دعویٰ پر میں چونک پڑا اس لئے کہ اس میں کوئی افسوس کا پہلو نہیں تھا۔ میں نے سوال کیا آپ کا گھر تھا میں نہیں سمجھا۔

بیٹے یہ بہت پرانی بات ہے۔

میں نے درمیان میں کہہ دیا جی ہاں مجھے پتہ ہے ۳۰ سال پرانی بات۔

جی ہاں وہی ۳۰یا ۳۵ کے آس پاس جب لٹے پٹے لالہ جی لاہور سے یہاں وارد ہوئے تھے۔ اس وقت وہ اخبار راجدھانی ایکسپریس کو دوبارہ شروع کرنے کیلئے سرکاری دفاتر کے چکر لگا رہے تھے لیکن درمیان میں کام چلانے کیلئے اپنی جمع پونجی جو ساتھ لے کر بھاگے تھے اسے سود پر چڑھا رکھا تھا۔ میں ایک درزی کی دوکان میں کام کرتا تھا اور میرا مالک لالہ جی سے بھی گیا گذرا تھا۔

لالہ جی سے گیا گذرا؟ میں نہیں سمجھا۔

لالہ جی تو کم از کم میٹھی چھری سے حلال کرتے ہیں وہ تو جھٹکا کا قائل تھا۔ چمپت لال نے رک کر پوچھا جھٹکا تو تم سمجھتے ہی ہو گے؟

دہلی میں رہنے والا کون ایسا آدمی ہے جو حلال اور جھٹکا کا فرق نہیں جانتا؟

چمپت نے اپنی بات جاری رکھی جی ہاں یہ بھی ٹھیک ہے اور پھر تم تو اخبار والے آدمی ہو تم لوگ تو ہر خاص و عام کو بلا تفریق حلال کر دیتے ہو۔

( نس کر) جی نہیں خاص کو حلال اور عام آدمی کو جھٹکا۔

یہ سن کر چمپت لال کا فلک شگاف قہقہہ بلند ہوا جسے سن کر باہر کام کرنے والے نوکر چاکر دفتر میں آ گئے۔ اس نے ڈانٹ کر پوچھا کیوں کوئی کام نہیں ہے؟

ان میں سے ایک بولا ۔ جناب خیریت تو ہے نا؟

چمپت لال نے کرختگی سے کہا جاؤ اپنا کام کرو کام چور کہیں کے۔

مجھے اس کا رویہ پسند نہیں آیا وہ سمجھ گیا اور بولا یہ لاتوں کے بھوت ہیں ان کے ساتھ یہی سلوک کرنا پڑتا ہے ورنہ یہ کام کے بجائے سرپر بیٹھ کر مونگ دلیں گے۔

میں نے کہا آپ نے یہ لالہ ۰۰۰۰۰۰۰۰

چمپت لال نے میرا جملہ کاٹ دیا اور بولے جی ہاں جب انہوں نے مجھے اپنا شراکت دار بنایا تو سب سے پہلا سبق یہی سکھایا ورنہ میں بھی تمہاری طرح ۰۰۰۰۰۰تم سمجھ گئے نا۔

میں بولا جی ہاں چمپت لال جی سب سمجھ گیا

بڑے سمجھدار آدمی ہو بہت جلدی سمجھ جاتے ہو۔

شکریہ لیکن آپ لوگ ایک دوسرے کے شراکت دار بنے کیسے؟

وہی تو میں بتانے جا رہا تھا کہ ان لوگوں نے بیچ میں خلل ڈال دیا۔

جی ہاں مجھ کو بھی ان کے رویہ پر تعجب ہوا اس طرح اچانک دفتر میں داخل ہو جانا حیرت انگیز تھا۔

اس میں ان لوگوں کا قصور نہیں ہے۔ اگر وہ ۳۰ سال قبل مجھ سے ملے ہوتے تو انہیں اس قہقہہ پر کوئی حیرت نہ ہوتی لیکن ان بیچاروں نے کبھی مجھے اس طرح ٹھہاکا مار کر ہنستے نہیں دیکھا اس لئے عالمِ تحیر میں بے ساختہ دوڑ پڑے خیر میں نے بھی اپنی ڈانٹ سے اس کا اثر زائل کر دیا۔ اب وہ ایسی جرأت دوہرا نہیں سکتے۔

مجھے چمپت لال کی شخصیت میں دلچسپی پیدا ہو گئی تھی وہ بھی اپنی زندگی کی کتاب میرے سامنے کھولنے کیلئے بیتاب تھا جیسا کہ اب میں ہوں۔

چنگو بولا شکریہ جناب! آپ کی دلچسپی سے زیادہ مجھے اشتیاق ہے۔

شکریہ چنگو آج میں چمپت لال کی قلبی کیفیت کا اندازہ کر رہا ہوں۔ میں سمجھ رہا ہوں کہ وہ مجھے اپنی داستانِ حیات سنا کر کس قدر شادمان ہوا ہو گا۔

چنگو نے پوچھا ہاں تو پھر چمپت لال نے کیا بتایا؟ وہ کس طرح لالہ چیت رام کا شراکت دار بننے میں کامیاب ہو گیا؟

چندن بولا وہ کہانی بڑی دلچسپ ہے۔ اس نے بتایا جب اسے پتہ چلا کہ لالہ جی سود پر قرض دیتے ہیں تو وہ بھی ان کے پاس پہنچ گیا اور بولا مجھے سلائی مشین خریدنے کیلئے قرض چاہئے۔

لالہ جی بولے قرض تو مل جائے گا لیکن اس کے عوض تم کیا رہن رکھو گے۔ میرے پاس سونا چاندی تو تھا نہیں میں نے کہا جناب میرے پاس ایک گھر ہے وہی رہن رکھ لیجئے۔

لالہ جی بہت خوش ہوئے انہوں نے قرض کے کاغذ بنوائے اور مجھے قرض دے دیا۔ اس طرح میرا گھر مکان اور دوکان دونوں بن گیا۔ میرا کاروبار تو چل پڑا تھا لیکن آمدنی اس قدر کم تھی کہ مشکل سے اپنا اور گھر والوں کا پیٹ پلتا تھا۔ جو بچت ہوتی تھی وہ دوا دارو کی نذر ہو جاتی تھی۔ میں جب بھی لالہ جی سے مہلت مانگتا وہ مسکرا دیتے۔ میں ان کے اس مشفقانہ رویہ سے بہت خوش تھا اور سوچا کرتا تھا کہ کبھی میرے بھی اچھے دن آئیں گے اور میں لالہ جی کا سارا قرض سود سمیت چکا دوں گا لیکن وہ دن کبھی نہیں آیا۔

چنگو نے چونک کر پوچھا اچھا تو پھر کیا ہوا؟

چندن بولا چمپت لال کے مطابق ہوا یہ کہ ایک دن لالہ جی پولس اور عدالت کے منشی سمیت اس کے دوکان نما گھر پر پہنچ گئے اور حساب کر کے بتا دیا کہ اب پانی سر سے اوپر ہو چکا ہے۔ اب یہ مکان کرکی ہو گا اور اس سے قرض ادا کیا جائے گا۔

یہ فرمان سن کر چمپت کے پیروں تلے سے زمین کھسک گئی۔ وہ اپنی مشین سمیت گھر سے ہاتھ دھو بیٹھا تھا۔ وہ ہاتھ پیر جوڑنے لگا رونے گڑگڑانے لگا لیکن کسی کو اس کی حالت پر رحم نہیں آیا۔ پولس حوالدار نے اسے ڈانٹ کر کہا اب اپنا رونا بند کر اور باہر نکل نہیں تو میں تجھے پکڑ کر جیل میں ڈال دوں گا۔

وہ بھی بگڑ کر بولا دیکھئے حوالدار صاحب آپ مجھے ڈرانے کی کوشش نہ کریں میں آپ کی بندوق سے ڈرنے والا نہیں ہوں۔ اس چھت کے باہر میرا کوئی سائبان نہیں ہے اس لئے آپ یہ کریں کہ مجھے یہیں گولی مار دیں نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری۔ اس کے بعد یہیں میری چتا جلا دیجئے اور جب اس کے شعلے سرد ہو جائیں تو میری راکھ جمنا میں بہا کر یہ مکان لالہ جی کے حوالے کر دیجئے ان کا سینہ ٹھنڈا ہو جائے گا۔ میری آخری خواہش یہ ہے میرے ساتھ میری یہ مشین بھی جلے گی۔ میرے بعد اسے کوئی اور نہیں چلائے گا۔

یہ ایک نہایت مضحکہ خیز ضد تھی اور حیرت انگیز مطالبہ تھا لیکن عدالت کا منشی یہ سن کر نرم پڑ گ یا۔ اس نے لالہ جی کو مخاطب کر کے کہا کیا آپ اسے کچھ اور مہلت نہیں دے سکتے؟

لالہ جی بگڑ کر بولے کیسی مہلت جناب جس نے اس طویل مدت میں ایک پیسہ ادا نہیں کیا اس کو آپ وقت دینے کی بات کر رہے ہیں؟

اس بھلے مانس نے پوچھا لیکن اب یہ کہاں جائے گا کچھ تو سوچیں کوئی اپائے نکالیں کے سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہیں ٹوٹے۔

سپاہی بولا اپائے تو اس نے خود سجھا دیا ہے۔ یہ مرنے کیلئے تیار ہے اور میں مارنے کیلئے۔

منشی ڈانٹ کر بولا تم چپ رہو جی۔ بکواس نہ کرو۔ مجھے اپنا کام کرنے دو۔ یہ کہہ کر وہ لالہ جی کے ساتھ سامنے پیڑ کے نیچے چلا گیا اور دونوں آپس میں بات کرنے لگے۔ اس بیچ چمپت لال نے حوالدار سے پوچھا کیا تم واقعی مجھے مارنے کیلئے اتاؤلے ہو رہے ہو۔

حوالدار نے کہا ابے اوئے چمپت لال کے بچے میں بھی تو یہ سوال کر سکتا ہوں کہ کیا تم واقعی میری گولی سے مر کر یہاں اپنی چتا جلوانا چاہتے ہو؟

ارے بھائی اس طرح کون مرنا چاہتا ہے میں نے یونہی غصے میں کہا تھا۔

جی ہاں اور اس طرح کون مار سکتا ہے میں نے بھی یونہی مذاق میں ۰۰۰۰۔

ماحول کچھ خوشگوار ہوا تو سامنے سے لالہ جی اور منشی جی آتے دکھلائی دئیے۔ منشی جی نے کہا ہاں تو چمپت لال تمہارا اصل مسئلہ کیا ہے؟

چمپت بولا یہی کہ یہ گھر بک جائے گا تو میں کہاں رہوں گا؟

اور کوئی مسئلہ منشی جی نے دوسرا سوال کیا؟

ہاں دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ کیا کھاؤں گا؟ میرا مطلب ہے کہاں کام کروں گا؟ اس لئے کہ میرا مکان اور دوکان یہی ہے؟

منشی جی بولے اگر تمہیں یہیں رہنے کو مل جائے اور تمہارا کام یہیں پر چلتا رہے تو تب تو تمہارے سارے مسائل حل ہو جائیں گے؟

جی ہاں تب تو کوئی مسئلہ نہیں۔

لیکن اس صورت میں تمہیں اس مکان کا کرایہ ادا کرنا ہو گا۔

یہ تو میرا پشتینی مکان ہے میں اس کا کرایہ کسے ادا کروں گا؟

لالہ جی کو اس لئے کہ آج کے بعد مکان کے مالک وہ ہوں گے۔

چمپت کی سمجھ میں سارا معاملہ آ گیا تھا وہ بولا اور اگر کرایہ ادا نہ کر سکا تو؟

جواب سپاہی نے دیا اس صورت میں تمہیں اس دوکان نما مکان سے نکال باہر کیا جائے گا اور اگر تم نے گولی مارنے پر اصرار کیا تو سامنے فٹ پاتھ پر تمہاری چتا جلے گی۔ جس میں تمہاری چہیتی مشین بھی ہو گی۔ کیا سمجھے؟

چنگو بولا چندن جی! چمپت لال تو عجیب و غریب صورتحال میں پھنس گیا تھا۔ اچھا تو پھر آگے کیا ہوا؟

چندن بولا در اصل چمپت لال بھی اسی تذبذب کا شکریہ ہو گیا۔ وہ بولا سرکار مجھے نہیں لگتا کہ میں کرایہ ادا کرنے کیلئے کچھ بچا پاؤں گا اس لئے کہ اگر ایسا کر پاتا تو قرض ادا کر دیا ہوتا اور یہ نوبت ہی نہیں آتی۔

منشی جی بولے مجھے اس کا اندازہ ہے اس لئے میں نے لالہ جی سے بات کی اور ان کو ایک راستہ سجھایا ہے بشرطیکہ تم اس پر راضی ہو جاؤ؟

چمپت نے پوچھا وہ کون سا راستہ ہے جس سے ۰۰۰۰۰۰۰۰

حوالدار بولا اب وہ سانپ اور لاٹھی کی کہانی چھوڑو اور آگے بڑھو اس لئے کہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ سانپ بھی نہ مرے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے بس سپیرہ مر جائے ۰۰۰ ۰۰

چمپت لال نے کہا ہاں بھائی سمجھ گیا اب منشی جی کو بولنے دو۔

منشی جی بولے ایک راستہ یہ ہے تم یہ دوکان لالہ جی کو بیچ دو اور ان کے ملازم بن جاؤ اس صورت میں نفع نقصان کے مالک لالہ جی ہوں گے اور تم ہر ماہ اپنی تنخواہ پاو گے۔ چمپت لال اس پر راضی ہو گیا لالہ جی کاغذات اپنے ساتھ لائے تھے جو انہوں نے منشی جی کے حوالے کئے۔

چمپت لال نے اس پر دستخط کر دئیے تو لالہ جی نے پوچھا چمپت لال تم کب سے اپنے گھر میرا مطلب گاؤں نہیں گئے ہو؟

چمپت بولا یہی کچھ ۶ ماہ سے۔

لالہ جی بولے یہ۵۰۰ روپئے پکڑو اور گھر جاؤ لیکن دو ماہ بعد واپس آنا۔

چمپت نے پوچھا کیا مطلب آپ ابھی سے اپنے وعدے سے مکر رہے ہیں؟

لالہ جی بولے نہیں میں یہ کہہ رہا ہوں دو ماہ بعد بلا تاخیر آ جانا اور چاہو تو اپنے پریوار کو بھی لے آنا۔

چمپت بولا دھنیا باد لالہ جی آپ بہت بڑے آدمی ہیں بہت اونچا مذاق کرتے ہیں جو ہم جیسوں کی سمجھ میں نہیں آ سکتا۔ میں گھر کیلئے کچھ ضروری سامان خرید کر رات کی گاڑی سے نکل جاؤں گا۔

لالہ جی بولے اور۰۰۰۰۰

چمپت لال نے ہنس کر کہا اور دو ماہ بعد ہی واپس آؤں گا۔

دو ماہ کے بعد چمپت لال واپس آیا تو وہ دوکان نما مکان کو پہچان نہ سکا۔ وہاں ایک دو منزلہ عمارت کھڑی تھی اور چیتنا ٹیکسٹائل کا بڑا سا بورڈ آویزاں تھا۔ اب یہ صرف درزی کی دوکان نہیں تھی بلکہ کپڑوں کی ایسی دوکان تھی جس میں سلائی کی سہولت بھی موجود تھی۔ ملبوسات کے علاوہ ایک حصہ پردوں کا بھی تھا جہاں لوگ اپنی پسند کے پردے کا کپڑا خرید کر اپنی مرضی سے سلا سکتے تھے۔ ناپ لینے کیلئے دوکان سے ایک درزی گاہکوں کے گھر جاتا تھا۔ لالہ جی نے اس طرح کی چند دوکانیں کناٹ پیلس کے امیر کبیر علاقے میں دیکھ رکھی تھیں لیکن کرول باغ میں یہ اس طرز کی پہلی دوکان تھی۔

کرول باغ دن بہ دن خوشحال ہونے لگا تھا اس لئے چیتنا ٹیکسٹائل بہت جلد مقبول ہو گئی۔ فرصت کے اوقات میں لالہ جی بذاتِ خود دوکان کا کام کاج دیکھتے تھے۔ کاروبار چل نکلا تو انہوں نے آس پاس کی دوکانیں خرید کر اس کی توسیع کر دی اوپر کے حصے میں ایک مکان بنا کر چمپت لال کے حوالے کر دیا اور آگے چل کر چمپت لال کو اپنا شراکت دار بنا کر خوددوسرے کاروبار میں مصروف ہو گئے۔

چنگو نے پوچھا لیکن شراکت دار بنانے والی بات سمجھ میں نہیں آئی؟

چندن نے کہا یہ بات میری سمجھ میں بھی بہت بعد میں آئی۔ لالہ جی کی منطق یہ تھی کہ اگر تم کسی کاروبار پر بذاتِ خود توجہ دینے سے قاصر ہو توکسی قابلِ اعتماد آدمی کو شراکت دار بنا کر اس سے کنارہ کشی اختیار کر لو۔ ان کے خیال میں ایسا کرنے کے کئی فائدے ہیں ایک تو نوکر چاکر چوری چکاری نہیں کرتے یعنی مالی خرد برد پر لگام لگ جاتی ہے دوسرے کام چوری کے امکانات بھی ختم ہو جاتے ہیں۔ اس لئے کہ پارٹنر اس کاروبار کو اپنا سمجھ کر خوب محنت کرتا ہے۔ جب منافع ہوتا تو اس سے سونے والے اور جاگنے والے سارے شراکت دار بھرپور فیضیاب ہوتے ہیں۔

چنگو بولا ماننا پڑے گا بظاہر بے وقوف نظر آنے والے لالہ جی حقیقت میں نہایت زیرک انسان تھے۔

چندن نے تائید کی لیکن ان کی ساری ذہانت کاروبار کی نذر ہو گئی۔

جناب! آپ تو چمپت لال میں ایسے الجھے کہ اپنی کہانی بھول گئے۔

چندن نے گھڑی کی جانب دیکھ کر کہا آج کافی وقت ہو گیا باقی قصہ پھر کبھی ویسے اگر تم چاہو تو ہمارے اخبار راجدھانی ایکسپریس سے منسلک ہو سکتے ہو۔

چنگو بولا زہے نصیب۔

چندن نے کہا تنخواہ تو ٹھیک ملے گی مگر ہماری پالیسی کا پاس و لحاظ رکھنا ہو گا۔

چنگو بولا شکریہ جناب میں اس پیشکش پر غور کروں گا اور ایک دو دن میں جواب دوں گا۔ آپ نے اس غریب خانے پر آ کر میری جو عزت افزائی کی اس کیلئے میں ممنون ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ ہم جلد ایک ساتھ کام کریں گے۔

چندن اپنا کارڈ تھما کر دروازے کی جانب بڑھا چنگو اس کے ساتھ گاڑی تک آیا۔ دونوں نے پھر سے مصافحہ کیا اور گاڑی چل پڑی۔

 

 

 

۱۱

 

راجدھانی ایکسپریس کی ملازمت سے چنگو کی زندگی میں استحکام آ گیا۔ اس دوران اس نے چمپو نامی قلمی نام سے لکھنے کا سلسلہ بھی شروع کیا۔ اس نام سے وہ ایسی ساری باتیں لکھ مارتا تھا جو راجدھانی ایکسپریس کی پالیسی کے خلاف ہوتی تھیں۔ اس کا چندن کو بھی علم تھا گویا اس کو اپنے مدیر کی بلا واسطہ توثیق حاصل تھی۔ چنگو کے ذہن میں اخبار کے بانی لالہ جی ایک طلسماتی شخصیت تھے۔ وہ جاننا چاہتا تھا کہ ان کی ساری وراثت کا مالک چندن کیسے بن گیا لیکن افسوس کے جس روز چندن اپنی آپ بیتی سنا رہا تھا چمپت لال کا قصہ طول پکڑ گیا اور وہ راز فاش نہ ہو سکا۔

ایک دن دفتر میں کام کرتے ہوئے تاخیر ہو گئی سارے لوگ روانہ ہو گئے اور صرف چنگو باقی رہ گیا ایسے میں چندن دفتر میں داخل ہوا۔

چنگو نے پوچھا کیوں خیریت؟

چندن بولا ویسے تو میں ایک کاغذ لینے کیلئے آیا تھا لیکن اگر تمہارے پاس وقت ہو تو میں مستقبل کی منصوبہ بندی کے حوالے سے کچھ بات کرنا چاہتا ہوں۔

چنگو بولا میں سارا کام بند کر کے ابھی آپ کے کمرے میں حاضر ہوتا ہوں۔

چندن کو چنگو پر بہت اعتماد تھا لیکن اخبار کی ترویج و اشاعت کیلئے اسے چوپڑہ اور اگروال سے مشورہ کرنا پڑتا تھا۔ جب بھی وہ چنگو کو اس گفتگو میں شامل کرنے کی کوشش کرتا اس سے کہہ دیا جاتا وہ قلم کا مزدور کیا جانے کے بازار کا بھاؤ کیا ہے؟ اس روز جب چندن کو موقع ملا تو اس نے دل کھول کر چنگو سے گفتگو کی اور اس کی تجارتی ذہانت کا قائل ہو گیا۔ اس سے پہلے کہ چندن اپنی گفتگو ختم کر کے دفتر سے نکلتا چنگو بولا جناب میں اس ادھوری داستان کی تکمیل کا مشتاق ہوں جسے آپ نے درمیان میں چھوڑ دیا تھا۔

چندن نے پوچھا تم کس بات کا ذکر کر رہے ہو میں نہیں سمجھا؟

وہی کہ جب دورانِ گفتگو آپ چیتنا ٹیکسٹائل میں داخل ہوئے تو پھر شریمان چمپت لال نے ہمیں اغوا کر لیا۔

چندن ہنس کر بولا تمہیں اب بھی وہ بات یاد ہے میں تو بھول ہی گیا تھا۔

چنگو ہنس کر بولا ممکن ہے پوری تفصیل سننے کے بعد میں بھی بھول جاؤں لیکن اس ادھوری کہانی کو میں کبھی بھول نہیں سکتا وہ بار بار میرے ذہن میں چل پڑتی ہے اور مجھے نہ جانے کہاں کہاں بھٹکاتی ہے؟ خدا کیلئے آپ مجھے اس پھیرے سے نکالیں۔

بھئی ہمیں بھی تو پتہ چلے کہ تم ۰۰۰۰۰۰۰۰

نہیں جناب اس سے پہلے کہ ہم پھر کسی اور جانب نکل جائیں میرا خیال ہے ہمیں لوٹ کر چیتنا ٹیکسٹائل میں آ جانا چاہئے۔

اگر ایسا ہے تو یوں ہوا کہ میں اپنا ناپ دے کر واپس چلا آیا۔ مجھے یقین تھا کہ یہ کپڑے دیوالی کے بعد ہی سل کر آئیں گے لیکن جب دوسرے دن میں دفتر پہنچا تو ایک خوبصورت سے صندوق میں وہ میرے منتظر تھے۔ میری خوشی کا ٹھکانا نہ رہا۔ زندگی میں پہلی بار میں اس قدر قیمتی لباس زیب تن کرنے والا تھا۔ میں اس بکس کو لے کر سیدھا لالہ جی کے کمرے میں گیا اتفاق سے وہ موجود تھے میں نے وہ کپڑے ان کے قدموں میں رکھ دیئے تووہ بولے ارے یہ کیا کر رہے ہو؟

میں نے کہا صاحب میرا تو جی چاہتا ہے کہ اپنا سر آپ کے قدموں میں رکھ دوں۔ بچپن میں والد کا سایہ میرے سر سے اٹھ گیا تھا۔ اس کے بعد میری ماں نے محنت مزدوری کر کے میری پرورش کی۔ اس کی شدید خواہش ہوتی کہ دیوالی کے موقع پر میرے لئے جیسے تیسے نئے کپڑوں کا انتظام کر دے۔ کبھی وہ اپنی کوشش میں کامیاب ہو جاتی اور جب ناکام رہتی تو پرانے کپڑے دھو کر رکھ دیتی۔ اس طرح میں نے بچپن سے جوانی کی دہلیز پر قدم رکھا۔ میں کبھی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ اس طرح کا لباس بھی میرے نصیب میں ہو گا سچ تو یہ ہے کہ آپ نے میری تقدیر بدل دی۔

بھاگیہ ودھاتا اوپر بیٹھا ہے میں کون ہوں کسی کا مقدر بدلنے والا۔ جاؤ خوش رہو لیکن دیوالی والے دن ہم سے ملنے ضرور آنا۔ میں نے وعدہ کیا اور باہر نکل آیا۔

سچ تو یہ ہے کہ اس روز لالہ جی مجھے بہت اچھے لگے تھے۔ دوسرے دن جب میں نے آئینے میں اپنے آپ کو دیکھا تو پہچان نہیں سکا۔ لباس نے میری شخصیت کو پوری طرح بدل دیا تھا۔ میں پہلے تو چمپت لال کے پاس پہنچا اور شکریہ ادا کیا وہ بہت خوش ہوا۔ اس نے کہا میں نے ہزاروں گاہکوں کیلئے دیوالی کا جوڑا سلا ہے لیکن کوئی کمبخت دیوالی ملنے نہیں آیا۔ تم پہلے ۰۰۰۰۰۰۰۰

ارے تو صاحب میں آپ کا گاہک تھوڑی نہ ہوں۔ میں نے نہ تو کپڑے خریدے اور نہ سلائی کی اجرت ادا کی۔

اگر ایسی بات ہے تو یہ سب لالہ جی کی کرپا ہے تم ان کو ملے یا نہیں؟

آپ کا گھر پہلے پڑتا ہے تو سوچا آپ کو پرنام کر لوں پھر آگے جاؤں۔

یہ سن کر چمپت خوشی سے باولا ہو گیا۔ اس نے کھلا پلا کر اپنے گھر سے رخصت کیا۔ لالہ جی اپنی کوٹھی کے صدر دروازے پر ہی مل گئے۔ میں نے آگے بڑھ کر ان کے چرن چھوئے انہوں نے آشیرواد دیا اور بولے کہ بڑے اچھے سمئے آئے در اصل پنڈت جی نے لکشمی پوجا کیلئے اسی کا مہورت نکالا ہے اس لئے تم یہ کرو کہ شام میں آنا بلکہ کل صبح آ جانا فرصت سے بات کریں گے۔ شام میں مہمانوں کی بڑی گہماگہمی رہتی ہے۔ میں شکریہ ادا کر کے اپنے دفتری دوستوں کے پاس لوٹ آیا اور بڑے دھوم دھام سے دیوالی منائی۔

دوسرے روز مجھے پھر لالہ جی کے گھر جانا تھا وہ بھاؤ بیج کا دن تھا میں جیسے ہی پہنچا کچھ دیر میں لالہ جی بیٹی بھائی کا تحفہ لے کر کمرے میں داخل ہو گئی۔ یہ دیکھ کر لالہ جی بے چین ہو گئے انہوں نے کہا بیٹی ہم لوگ ایک ضروری بات کر رہے ہیں اس لئے تم بعد میں آنا۔ مجھ کو لالہ جی کا رویہ کچھ عجیب سا لگا۔ وہ اپنی بیٹی کا بہت خیال کیا کرتے تھے۔ پہلی بار انہوں نے اس طرح چیتنا کا دل توڑ دیا۔ لالہ جی کچھ اوٹ پٹانگ مسائل پر گفتگو کرتے رہے۔ مجھے توقع تھی کہ وہ آخر میں از خود اپنی بیٹی چیتنا کو بلائیں گے لیکن ایسا نہیں ہوا۔ میرے اندر جرأت نہیں تھی کہ میں آواز دیتا اس لئے چپ چاپ لوٹ آیا لیکن لالہ جی کا سلوک میرے گلے کی پھانس بن گیا۔

میں لالہ جی کی مشکل سے ناواقف تھا۔ دولت کی حرص و ہوس کے سبب ان اکلوتی بیٹی بے توجہی کا شکار ہو گئی تھی۔ ایسا نہیں ہے کہ چیتنا کیلئے رشتے نہیں آئے لیکن چونکہ لالہ جی بے حد لالچی انسان تھے اس لئے وہ دوسروں کو بھی اپنے اوپر قیاس کرتے تھے۔ ان کو ایسا لگتا تھا کہ یہ سب دولت کی خاطر چیتنا سے شادی کے خواہشمند ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ ایسے لوگوں نے بھی رشتے بھیجے تھے لیکن ایسا بھی نہیں کہ سارے لوگ اسی قبیل کے تھے اور کوئی دولت کی خاطر بھی آتا تو اس میں غلط کیا تھا؟

لالہ جی کے بعد ان کا سارا مال و متاع ان کی بیٹی کی وراثت تھی اور اس کے شوہر کو آپ سے آپ اس کا مالک بن جانا تھا لیکن اس حقیقت کا اعتراف لالہ جی نے اس وقت کیا جب چیتنا کی عمر ڈھلنے لگی تھی وہ تیس کی سرحد کو پار کر گئی تھی اور اب رشتوں کے آنے کا سلسلہ بھی رک گیا تھا۔ لوگوں نے سوچ لیا کہ اس لڑکی میں کوئی عیب ہے جس کے سبب اس کا باپ اسے پرائے گھر بھیجنا نہیں چاہتا۔

لالہ جی کا سارا کاروبار نہایت قابل اعتماد شراکت داروں کے ہاتھ میں تھا۔ لالہ جی نے قانونی ماہرین کی مدد سے ایسے کاغذات تیار کروا رکھے تھے کہ ان میں سے کسی کا دھوکہ دینا تقریباً نا ممکن تھا۔ سب سے اہم بات یہ تھی دوکان کی ملکیت میں کوئی شریک نہیں تھا ساری جائیداد صرف اور صرف ان کے نام تھی اس لئے پارٹنر شپ سے الگ ہونے والے کیلئے اس جگہ سے دستبردار ہونا لازمی تھا۔ اب مسئلہ صرف اخبار اور بیٹی کا تھا۔ لالہ جی اس بابت مجھ سے پر امید تھے لیکن مجھے اس کا علم نہیں تھا۔

میں ان کا اخبار بھی سنبھال سکتا تھا اور بیٹی کی ذمہ داری بھی لے سکتا۔ میرے گھر جمائی بن جانے کی صورت میں چیتنا کو کسی پرائے گھر میں جانے کی ضرورت بھی نہیں تھی اور ایسے میں بڑھاپے کے اندر لالہ جی کی دیکھ ریکھ کا مسئلہ بھی حل ہو جاتا تھا۔ لالہ جی یہی سوچ کر مجھ پر احسانات کر رہے تھے اور غالباً اسی موضوع پر گفتگو کرنے کیلئے دیوالی کے موقع پر گھر بلایا لیکن بے وقوف چیتنا مجھے بھائی بنانے پر تل گئی اس سے سارا کھیل بگڑ گ یا۔ لالہ جی کو چنتا اس بات کی تھی کہ میری عمر چیتنا سے کم تھی اور ہندوستانی معاشرے میں زیادہ عمر والی دلہن معیوب سمجھی جاتی ہے۔

ایک ہفتہ بعد لالہ جی نے مجھے اپنے دفتر میں بلا کر بڑے احتیاط کے ساتھ چیتنا سے شادی کی پیشکش کی اور ان کی حیرت کا ٹھکانا نہ رہا جب انہوں نے دیکھا کہ میں بلا توقف راضی ہو گیا۔ یہ دیکھ لالہ جی کا حوصلہ بڑھا انہوں نے کہا دیکھو بیٹے چیتنا بڑے نازوں کی پلی ہے۔ اس کا کسی اور گھر میں جابسنا ذرا مشکل ہو سکتا ہے اس لئے میں چاہتا ہوں کہ جماہی راجہ ہمارے ہی غریب خانے میں آن بسیں تمہیں اس پر کوئی اعتراض تو نہیں ہے۔

میں بولا میرے لیے یہ اعزاز اور خوش نصیبی ہے۔

لالہ جی نے جب یہ دیکھا تو کچھ اور آگے بڑھے اور بولے دیکھو بیٹے کسی اخبار میں ملازمت کرنا اور اس کے مالک ہونے میں بڑا فرق ہے۔ مالک کی ذمہ داریاں بہت زیادہ ہوتی ہیں اس لئے مجھے ڈر ہے کہ اگر شادی کے بعد تمہارے قلم کی دھار اسی طرح تیز رہی تو نہ صرف اخبار بند ہو جائے گا بلکہ میری بیٹی بھی بلا سبب ابتلاء و آزمائش میں گرفتار ہو جائے گی۔

میں  نے کہا لیکن میں اس بابت کیا کر سکتا ہوں؟

لالہ جی بولے اگر برا نہ مانو تو میں چاہتا ہوں تم اپنی ساری ماضی کی تحریریں اس اگنی میں جھونک دو جس کے پھیرے لے کر تم وواہ کے بندھن میں بندھو گے۔

کیا آپ چاہتے ہیں میں قلم پھینک کر صرف نوٹ گننے کی مشین بن جاؤں۔

لالہ جی نے دیکھا کہ بات بگڑنے لگی ہے تو بولے نہیں بیٹے میں چاہتا ہوں کہ تم لکھنے پڑھنے کا کام ذرا احتیاط کے ساتھ کرو۔ سرکار دربار سے کوئی ایسا جھگڑا مول نہ لو کہ جس سے برسوں کا تعمیر شدہ محل زمین بوس ہو جائے۔

میں   نے کہا لالہ جی چندن وعدہ کرتا ہے کہ کبھی آپ کو مایوس نہیں کرے گا۔

یہ سن کر لالہ جی خوشی سے پاگل ہو گئے اور انہوں نے اپنی بیٹی سے پوچھے بغیر شادی کی تیاری شروع کر دی۔ لالہ جی مجھے سوچنے کا موقع نہیں دینا چاہتے تھے۔ میری شادی اس قدر جلدی میں ہوئی کہ میں نے نہ اپنے گھر والوں کو بتایا نہ بلایا۔ مجھے یقین تھا کہ میں جب بھی اپنی ماں کو اس کی اطلاع دوں گا وہ ناراض نہیں ہو گی۔

میری اور چیتنا کی ازدواجی زندگی ہنسی خوشی گزر رہی تھی۔ اس کو احساس تھا کہ میں نہایت نیک اور شریف النفس بندہ ہوں اور اپنی کم عمری کے باوجود اس کے والد کی شرائط پر نکاح کر لیا ہے اس لئے وہ بہت احسانمند تھی۔ لالہ جی اپنے فیصلے سے بے حد خوش تھے اس لئے کہ سارا کچھ ان کی توقعات کے مطابق ہوا تھا۔ وہ اپنی ایک ایک ذمہ داری میرے حوالے کر کے ریٹائرمنٹ کی جانب بڑھنے لگے تھے۔

ایک دن میں نے چیتنا سے کہا میری جان میں ایک بات تم سے کہنا چاہتا ہوں لیکن ڈرتا ہوں کہیں تم یا لالہ جی اس کا غلط مطلب نہ سمجھو یا برا نہ مانو۔

چیتنا بولی جی نہیں میرے سرتاج یہ کیسے ہو سکتا ہے میں آپ کی کسی بات کا برا مانوں؟ ہندو ناری تو اپنے پتی کو پرمیشور کے درجے پر رکھتی ہے۔

میں  خوش ہو کر بولا وہ تو ٹھیک ہے لیکن پھر بھی رشتوں میں دراڑ پڑتے دیر نہیں لگتی اس لئے احتیاط ضروری ہے۔

آپ کی بات بجا ہے لیکن آپ جو سوچتے ہیں بلا تکلف کہیں۔

میں  نے حوصلہ پا کر کہا چیتنا گاؤں میں میری ایک بہت بوڑھی ماں ہے۔

اچھا لیکن آپ نے تو کبھی نہ ان کے بارے میں بتایا اور نہ شادی میں بلایا۔

جی ہاں بتایا اس لئے نہیں کہ کسی نے پوچھا ہی نہیں اور بلایا اس لئے نہیں کہ انہیں کہاں رکھتا اور ان کا خیال کون کرتا وہ بہت ضعیف ہیں؟

اچھا تو گاؤں میں کون ان کی دیکھ ریکھ کرتا ہے؟

گاؤں میں تو میرے بہت سارے اعزہ و اقارب ہیں۔ کوئی ان کی بھانجی ہے کوئی بھتیجی ہے۔ بھائی بہنیں بھابی نند اور ان کے بچے بالے سب ایک محلے میں رہتے ہیں اس لئے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔

مسئلہ کیوں نہیں ہے؟ یہ گمبھیر سمسّیا ہے ان کو آپ کے ساتھ ہونا چاہئے مجھے ان کی خدمت کرنی چاہئے۔ یہ میری غلطی ہے کہ میں نے اب تک ان کے بارے میں معلومات حاصل نہیں کی لیکن اب چونکہ مجھے پتہ چل گیا ہے اس لئے میں خود ان کے پاس جاؤں گی اور ان کو اپنے ساتھ لاؤں گی۔

چیتنا نے ایک نیا مسئلہ کھڑا کر دیا۔ میں بولا اگر وہ نہ آنا چاہیں تو؟

چیتنا بولی یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ دنیا کی کون سی ماں اپنے بال بچوں کے ساتھ رہنا نہیں چاہتی الا یہ کہ کوئی بہت بڑی مجبوری ہو اور مجھے ایسا کچھ نظر نہیں آتا۔

لیکن وہ کہاں رہیں گی؟

یہیں ہمارے ساتھ اور کہاں؟ آپ یہ کیا بہکے بہکے سوالات کر رہے ہیں؟

لیکن اگر لالہ جی کو اعتراض ہوا تو؟

انہیں کیوں اعتراض ہو سکتا ہے؟ ویسے وہ میرے بابا ہیں میں انہیں سنبھال لوں گی تم ان کی فکر نہ کرو۔

پھر کیا تھا چیتنا نے لالہ جی سے بات کی اور انہوں نے اپنی بیٹی کی تائید کی مگراس کو سمجھایا کہ چندن کے گاؤں جانے کی زحمت نہ کرے۔ چندن اپنی ماں کو یہاں کوٹھی میں لے آئے گا اور وہ ہمارے ساتھ رہے گی لیکن چیتنا نہیں مانی۔ اسے اندیشہ تھا کہ کہیں میری ماں شہر آنے سے منع نہ کر دے۔ اسے یقین تھا کہ اگر وہ خود جا کر ان سے ملے گی تو وہ انکار نہیں کر سکیں گی۔

چیتنا کو دیکھ کر میری ماں چاندنی دنگ رہ گئی اور دون بعد اس کے ساتھ شہر آنے پر راضی ہو گئی۔ اس نے سوچا بھی نہیں تھا کہ اس کا چندن ایسی اچھی بہو لے آئے گا۔ ان دو دنوں میں ایک وقت کا کھانا بھی ہم دونوں نے اپنے گھر پر نہیں کھایا۔ سارا وقت رشتے داروں سے ملنے ملانے اور دعوتیں اڑانے میں نکل گیا۔

دہلی میں میری والدہ چاندنی جب لالہ جی کی کوٹھی میں آئی تو اس کے ہوش اڑ گئے۔ گھر کے اندر ایک خوشگوار ماحول بن گیا۔ مجھے لالہ جی کے ذریعہ باپ کا پیار ملنے لگا اور چیتنا کو چاندنی کی صورت ماں میسر آ گئی۔ ہم دونوں بچپن میں یتیم ہو گئے تھے لیکن شادی کے بعد زندگی کا وہ خلاء بھی پُر ہو گیا۔ سب کچھ ٹھیک ہو چکا تھا کہ ایک دن جب میں اپنے دفتر کیلئے نکلنے لگا تو چیتنا نے آ کر بتایا بابا کی طبیعت خراب ہو رہی ہے۔

میں نے دیکھا وہ سانس لینے میں دقت محسوس کر رہے ہیں۔ داہنے ہاتھ میں شدید درد بھی تھا جو دل کی جانب سے نکل کر پھیل جاتا تھا۔ دو نوکروں کی مدد سے میں لالہ جی کو اسپتال لے گیا۔ لالہ جی کو انتہائی نگہداشت کے کمرے ( آئی سی سی یو ) میں بھرتی کر دیا گیا۔ ڈاکٹروں کا خیال تھا کہ ان پر دل کا بہت شدید دورہ پڑا ہے۔ میں نے چیتنا کو دلاسہ دینے کیلئے فون کیا تو اس نے بتایا کہ اچانک ماں جی کی طبیعت بگڑ گئی ہے اس لئے فوراً گھر آؤ اور انہیں بھی دوا خانہ لے جاؤ۔

میرے گھر آنے تک چاندنی دیوی کا سورگ واس ہو چکا تھا۔ میں ان کے کریا کرم کی تیاری میں لگ گیا۔ اس دوران اسپتال سے فون آیا اور ڈاکٹروں نے بتایا کہ لالہ جی بھی کیلاش واسی ہو گئے ہیں میری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کروں تو کیا کروں؟میں اسپتال کی طرف دوڑا اور لالہ جی کی لاش کو لے کر کوٹھی میں واپس آیا جہاں چاندنی دیوی کو شمشان لے جانے کی تیاری ہو چکی تھی۔ اب لالہ جی کے آخری سفر کی تیاریاں شروع ہو گئیں۔ جاننے والوں کی آمد کا تانتا لگ گیا۔

لالہ جی کے پھیلے ہوئے کاروبار میں کام کرنے والے ملازمین کی تعداد سیکڑوں تھی اس کے علاوہ ان کے دوست و احباب پاس پڑوس وغیرہ وغیرہ۔ لالہ چیت رام جی کے سوگ میں کرول باغ کا بازار آدھے دن کیلئے بند کر دیا گیا تھا۔ اس روز کرول باغ کی شمشان بھومی میں دو لوگوں کا انتم سنسکار کیا گیا۔ دونوں کو اگنی دکھانے کی ذمہ داری مجھے ادا کرنی پڑی۔ گھر آنے کے بعد چیتنا اور میں ایک دوسرے سے لپٹ کر بہت دیر تک زار و قطار روتے رہے۔ ہم دونوں پھر ایک بار شعور کے عالم میں یتیم ہو چکے تھے۔ وہ ہمارا پہلی بار اور آخری بار ایک دوسرے کے سا تھ مل کر رونا تھا۔ اس کے بعد کوئی ایسا موقع نہیں آیا۔

چندن نے جب اپنی داستان ختم کی تو ماحول سوگوار ہو گیا تھا۔ اس نے پوچھا چنگو کیا تم میرے ماضی کے بارے میں مزید کچھ جاننا چاہتے ہو؟

چنگو بولا جی نہیں صاحب آپ کا بہت شکریہ۔

چندن بولا چنگو تمہیں یاد ہے کہ اس گفتگو کے آغاز میں تمہارے گھر پر میں نے کیا کہا تھا؟

جی ہاں جناب مجھے اچھی طرح یاد ہے آپ نے کہا تھا کہ تاریخ اپنے آپ کو دوہراتی ہے اور ایسا نہ صرف حکمرانوں کے ساتھ بلکہ ہم جیسے عوام کے ساتھ بھی ہوتا ہے فرق صرف یہ ہے کہ تاریخ کی کتابوں میں ہمارا ذکر نہیں ہوتا۔

چندن بولا بھئی کمال کی یادداشت ہے۔ تم نے میری بات کو لفظ بہ لفظ یاد کر لیا سچ تو یہ ہے کہ مجھے بھی صرف مفہوم یاد تھا الفاظ یاد نہیں تھے۔

آپ کی نوازش ہے۔ الفاظ ایسے متاثر کن تھے کہ قلب و ذہن پر نقش ہو گئے۔

چندن بولا میں اسی فقرے پر اپنی آج کی گفتگو ختم کرتے ہوئے تمہیں بتاتا چلوں کہ میری بھی ایک بیٹی ہے میگھنا۔

چندن کی زبان سے یہ جملہ سن کر چنگو ہکا بکا رہ گیا۔ اس کے منہ سے بے ساختہ نکلا اور وہ اگنی والی شرط بھی ہو گی۔

چندن نے کہا بے شک۔

چنگو بولا میں سوچوں گا۔

چندن نے کہا تم میں اور مجھ میں یہی ایک فرق ہے کہ جو کچھ میں بغیر سوچے سمجھے کر دیا کرتا تھا وہی تم سوچ سمجھ کر کرتے ہو۔

چنگو نے پھر ایک بار چندن کا شکریہ ادا کیا اور چندن کمرے سے باہر نکل گیا۔

وہ اپنے آپ کو خاصہ ہلکا پھلکا محسوس کر رہا تھا اور چندن بھی بے حد خوش تھا۔ وہ جانتا تھا کہ سوچ بچار کے بعد چنگو کا جواب کیا ہو گا؟

وقت کے ساتھ چندن کی دلچسپی اخبار سے کم ہو کر دوسرے کاروبار میں بڑھتی چلی گئی تھی۔ اسے اخبار کیلئے ایک قابلِ اعتماد اور باصلاحیت فرد کی تلاش تھی۔ چنگو سے ملنے کے بعد اس کو ایسا لگا تھا کہ شاید وہ اپنی منزل پر پہنچ چکا ہے۔

 

 

 

 

۱۲

 

اسٹار چینل پر شہرہ آفاق انٹرویو کے بعد تو منگیری لال عرف منگو کی لاٹری لگ گئی تھی۔ ویسے وہ خود نہایت آرزومند طبیعت کا مالک تھا لیکن اسی کے ساتھ حقیقت پسند بھی تھا۔ اس کے حسین سپنے ہواؤں اور فضاؤں میں لہرانے کے بجائے زمین کے اندر اپنی جڑیں پھیلاتے تھے۔ منگو کو یقین تھا کہ ایک دن وہ کسی بڑے تالاب کی بڑی مچھلی ضرور بنے گا لیکن جانتا تھا کہ ہنوز دلی دور است۔ فی الحال اس کے سامنے دو متبادل تھے۔ اول تو یہ کہ کسی بڑے تالاب کی چھوٹی مچھلی بن جائے یا چھوٹے تالاب کی بڑی مچھلی بننا پسند کرے۔

چنگو اور منگو میں بنیادی فرق یہی تھا چنگو کسی بڑے تالاب کی چھوٹی مچھلی بن کر پرسکون زندگی گذارنے کا قائل تھا لیکن منگو کا خیال تھا کہ بڑے تالاب کی چھوٹی مچھلیاں کبھی بھی بڑی مچھلی نہیں بن پاتیں۔ اس کو چونکہ بڑے تالاب کی بڑی مچھلی بننا تھا اس لئے پہلے مرحلے میں اس نے مجوزہ سماچار منورنجن نامی چھوٹے تالاب کو اسٹار جیسے بڑے تالاب پر ترجیح دینے کا فیصلہ کیا اور چنائی سیٹھ کے دفتر میں  پہنچ گیا۔

چنائی سیٹھ نے بڑے ارمانوں سے فیشن چینل شروع کیا تھا لیکن بہت جلد ان پر انکشاف ہوا کہ مہنگائی کے سبب بہت کم لوگ فیشن کر پاتے ہیں اس لئے ان کا چینل دیکھنے والوں کی تعداد بھی بہت کم ہے۔ ٹی آر پی کم ہونے کے سبب مشتہرین متوجہ نہیں ہوتے۔ جو بھولے بھٹکے اشتہار دیتے بھی ہیں تو یہ کہہ کر ادائیگی سے مکر جاتے ہیں کہ فیشن چینل پر اشتہار دیکھ کر پرانے گاہکوں نے بھی ہمیں خیرباد کر دیا ہے۔

اس صورتحال سے تنگ آ کر چنائی سیٹھ نے فیشن چینل کو دھارمک چینل میں بدل دیا۔ اب کیا تھا مختلف مندروں اور مٹھوں کے سادھو سنتوں  کی لائن لگ گئی۔ چنائی سیٹھ اپنے چینل کا وقت انہیں فروخت کر دیتے جس پروہ پروچن سناتے۔ ایسا کرنے سے پہلے تو پروڈکشن کا خرچ ختم ہو گیا۔ سارے پروگرام مفت میں بننے لگے اور پھر ان سادھو سنتوں کے بھکت وقت مقر رہ پر ٹی وی کے سامنے آ کر بیٹھنے لگے۔ ان لوگوں نے سوشیل میڈیا کے ذریعہ اپنے دوست و احباب اور قرابت داروں میں اس کا پرچار شروع کر دیا اس طرح مفت میں چینل کی اشتہار بازی بھی ہونے لگی۔

اس برقی دھرم پرچار سے سادھو سنتوں کے اچھے دن آ گئے۔ ان کے مندروں میں بھکتوں کی تعداد اور دان پیٹیوں میں دکشنا کی مقدار بڑھنے لگی جس کا ایک حصہ چنائی سیٹھ کی جیب میں آ جاتا تھا۔ سنتوں کے بھکت اپنے سوامی کے پروگرام میں اشتہار دینا کارِ ثواب سمجھتے تھے اس لئے اشتہار کیلئے ترسنے والے چنائی سیٹھ کا یہ مسئلہ بھی حل ہو گیا۔ مختصر یہ کہ فیشن چینل کا دھارمک سوروپ چل نکلا۔

اس خالص دھارمک چینل کی کامیابی کے بعد چنائی سیٹھ نے اپنے ایک نیم مذہبی تفریحی چینل کا آغاز کیا جس کا نام دھارمک منورنجن چینل تھا۔ اس پر رامائن، مہابھارت، وید، پُران اور پنچ تنترا وغیرہ کی کہانیوں کو ڈرامائی انداز میں پیش کیا جاتا تھا۔ یہ چینل بھی کامیاب ہو گیا اس لئے کہ پاپ میوزک کی فحاشی و عریانیت سے بچنے کیلئے لوگ اس کو غنیمت جانتے تھے۔ اہل خانہ کے ساتھ خود بیٹھ کر دیکھتے اور اولاد کو ترغیب دیتے۔ اس خاندانی تفریح نے بچوں اور بوڑھوں کو یکجا کر دیا تھا۔

یکے بعد دیگرے دو کامیابیوں نے چنائی سیٹھ کے حوصلے بلند کر دیئے۔ اب وہ ذرائع ابلاغ کی دنیا کا بے تاج بادشاہ بن جانا چاہتے تھے۔ اسٹار چینل پر منگو کو دیکھ کر چنائی سیٹھ اس پر فدا ہو گئے۔ وہ سمجھ گئے کہ یہ لمبی ریس کا گھوڑا ہے۔ مونگیری لال عرف منگو سپنوں کا بہت بڑا سوداگر بھی تھا لیکن بدقسمتی سے کوئی بڑا گاہک اس کے ہاتھ نہیں لگ رہا تھا۔ چنائی سیٹھ میں منگو کو اپنے خوابوں کی تعبیر نظر آ گئی تھی۔ منگو سے ملاقات کے بعد چنائی سیٹھ کو اندازہ ہو گیا کہ وہ صرف الفاظ کا بازیگر نہیں ہے بلکہ اس کا دماغ نادر افکار و خیالات کی آماجگاہ ہے۔ اس کے پرواز کی بلندی روایتی ذہن کی رسائی پرے ہے۔ ٹاٹ میں لپٹا یہ ہیرا عوام و خواص کی نگاہوں سے اوجھل ہے۔

چنگو نے چنائی سیٹھ کو اپنے مجوزہ خبروں کے چینل کو جلد از جلد شروع کرنے کا مشورہ دیا۔ اس کی دلیل یہ تھی کہ ہندوستان جیسے غریب ملک میں عوام کی سب سے سستی تفریح سیاست ہے۔ اس لئے خبروں کے چینل خوب چلتے ہیں۔ اس دوکان پر مہنگائی کا کوئی اثر نہیں ہوتا بلکہ جب کوئی مکار سیاستداں کالا دھن واپس لا کر غریبی ہٹانے کا نعرہ بلند کرتا ہے تو ان چینلس پر ناظرین کی بھیڑ بڑھ جاتی ہے۔

منگو کی باتوں سے چنائی سیٹھ کو اپنے فیشن چینل کی ناکامی یاد آ گئی۔ انہوں نے کہا یہ بات مبنی بر صداقت معلوم ہوتی ہے مٹھی بھر امیروں کو لبھانے کے بجائے کروڑوں غریبوں کا استحصال فائدے کا سودہ ہے۔

منگو نے تائید میں کہا اجلی خبروں کے اس کالے دھندے میں اوپر کی آمدنی بھی بہت ہے۔ ہمارے ملک میں اگر کوئی اپنا خون پسینہ ایک کر کے محنت سے کمائے تو اس بیچارے کو اچھی خاصی رقم ٹیکس کے طور پر ادا کرنی پڑتی ہے لیکن میز کے نیچے سے ہونے والی آمدنی پوری کی پوری جیب میں چلی آتی ہے۔ اس کے بابت نہ لینے والا کچھ بولتا ہے اور نہ دینے والا زبان کھولتا ہے۔ اس طرح گویا سرکاری سرپرستی میں زیر زمین دولت کا ایک خزانہ گردش کرتا رہتا ہے اور خواص الناس مستفید ہوتے رہتے ہیں۔

چنائی سیٹھ چنگو کی تجویز کے اس حصے سے خوش ہو گئے اور انہوں نے خبروں کے بازار میں قدم رنجا فرما کر نیا بیوپار کرنے کا ارادہ کر لیا۔

منگو انہیں  مبارکباد دیتے ہوئے بولا جناب صارفیت کے دور میں سیاست جھوٹ کے پنکھ لگا کر اڑتی ہے اور ذرائع ابلاغ پر دھن برساتی ہے۔ سرمایہ داروں اور سیاستدانوں کے گٹھ جوڑ سے سیاسی ابلاغ میں مال و دولت کی ریل پیل ہے۔ اندھا دھندسماچار بنانے والوں اور دکھانے والوں کے وارے نیارے ہیں۔

چنائی سیٹھ نے اس کا شکریہ ادا کیا اور بولے مجھے خوشی ہے کہ اس نئے سفر میں تم جیسا ذہین نوجوان میرا دست راست ہے۔ ہم ان جدید مواقع کا استعمال کر کے اپنی تجوری بھریں گے۔

منگو بولا لیکن جناب یہاں پہلے ہی بہت مسابقت ہے۔ اس لئے ہمیں بڑی تیاری کے ساتھ اس تالاب میں اترنا ہو گا۔

چنائی سیٹھ بولے مجھے اس کا اندازہ ہے مگر یقین بھی ہے کہ تمہاری ذہانت اور تنوع پسندی سے ہمارا نیا چینل بہت جلد کامیابیوں کو بلندیوں پر پہنچ جائے گا۔ تم کورے کاغذ کی طرح ہو منگو تم پر کسی سیاسی جماعت کا ٹھپہ نہیں ہے اس لئے ہم تمہاری مدد سے تمام سیاسی جماعتوں کو اپنا گاہک بنا سکیں گے۔

بات آگے بڑھانے سے قبل چنائی سیٹھ بولے ہونا تو یہ چاہیے کہ اس موقع پر جشن منایا جائے لیکن ابھی اور باتیں باقی ہیں اس لئے پارٹی کو شام تک موخر کرتے ہیں۔ کیا خیال ہے؟

منگو نے بھرپور تائید کی اس لیے کہ وہ اس خوشگوار ماحول کا پورا پورا قائدہ اٹھا لینا چاہتا تھا۔ چنائی سیٹھ کو شیشی میں اتارنے کا یہ بہترین موقع تھا۔

چنائی سیٹھ نے فون پر مدھو بالا کو چائے ناشتہ لانے کا حکم دیا اور جب وہ چائے کی کشتی رکھ کر جانے لگی تو سیٹھ نے کہا تم کہاں جا رہی ہو؟ یہیں بیٹھو اور ہماری باتوں کو غور سے سنو۔ ہمارے نئے چینل میں تمہیں اہم ذمہ داری ادا کرنی ہے۔

مدھو بالا کاغذ قلم سنبھال کر ایک طرف بیٹھ گئی۔ چنائی سیٹھ نے منگو سے سوال کیا تمہارے خیال میں خبروں کے حوالے سے پرائم ٹائم کیا ہے۔ اس لئے کہ مذہبی اور نیم مذہبی چینل کے اہم ترین اوقات ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ دھارمک چینل پر سب سے زیادہ لوگ علیٰ الصبح ہوتے ہیں جبکہ تفریح کیلئے خواتین دوپہر اور مرد شام کا وقت پسند کرتے ہیں۔

منگو بولا میرے خیال میں خبریں دیکھنے کے لیے صبح ۷ سے ۹ اور شام میں ۷ تا ۱۰ بجے کے درمیان سب سے زیادہ ناظرین ٹی وی کے سامنے رہتے ہیں۔

چنائی سیٹھ نے پوچھا تمام ہی چینلس پر صبح کے پروگراموں میں جویکسانیت پائی جاتی ہے اس کی کیا وجہ ہے؟

اس کی وجہ یہ ہے کہ صبح میں کسی کو فرصت نہیں ہوتی اور دفتر جانے کی جلدی میں لوگوں کو جو بھی دکھا دیا جائے دیکھ لیتے ہیں۔ صبح میں شاذونادر ہی چینل بدلا جاتا ہے۔

ہمیں اپنے چینل کی انفرادیت قائم کرنے کیلئے کیا کرنا ہو گا؟

میرا خیال ہے کہ آپ کے مذہبی چینل کا تقدیر کے ستارے والا پروگرام دلچسپی کا سبب بن سکتا ہے۔ ہر آدمی جاننا چاہتا ہے کہ اس کا دن کیسے گذرے گا؟

چنائی سیٹھ نے کہا وہ بھی میں کئی چینلس پر دیکھ چکا ہوں۔

مجھے پتہ ہے لیکن وہ لوگ ماحول نہیں بناتے۔ ان کا اینکر سرے سے ماہر فلکیات نظر ہی نہیں آتا اور نہ وہ معقول زبان بولتا ہے اس لئے کوئی اسے سنجیدگی سے نہیں لیتا۔ آپ کے دھارمک چینل سے اگر اصلی دھرماچاریوں کو اس میں شامل کیا جائے تو لوگوں کا اعتماد بڑھے گا۔

اچھا یہ بتاؤ کہ کس قسم کی خبریں صبح کے اوقات میں پسند کی جاتی ہیں؟

رات میں عام طور پر کوئی نئی واردات نہیں ہوتی اس لئے جو کچھ ناظرین شب میں سونے سے قبل دیکھ چکے ہوتے ہیں وہی باسی مال صبح میں پروسنا پڑتا ہے۔ صبح چونکہ سیاسی خبریں تازہ نہیں ہوتیں اس لئے سماجی، تعلیمی اور تفریحی چیزوں کو پیش کیا جانا چاہئے اس لئے کہ ہر انسان خوشگوار موڈ میں دن شروع کرنا چاہتا ہے۔

چنائی سیٹھ نے گم سم مدھو بالا سے کہا مجھے امید ہے تم یہ باتیں نوٹ کر رہی ہو؟

مدھو بالا نے جواب دیا جی ہاں میں لکھنے کے علاوہ ریکارڈ بھی کر رہی ہوں تاکہ اگر کوئی بات لکھنے سے رہ جائے تو اسے سن کر شامل کیا جا سکے۔

چنائی سیٹھ نے تعریفی لہجے میں کہا منگو یہ ہمارے چینل کی سدا بہار بلبل ہے جو ہر سرد و گرم میں ساتھ رہی۔ فیشن چینل پر مقبولیت کے بعد جب سادھو سنتوں کے تعارف پر اسے مامور کیا گیا تو وہ خوش ہو کر اسے مینکا کہنے لگے اور اب دھارمک ڈراموں کے اندر مشکل ترین کردار میں اپنے فن کا لوہا منواتی ہے۔

منگو بولا تب تو انہیں ہر فن مولا کہنا چاہیے۔

یہ خوبصورت اور نہایت ذہین ہے۔ میں اپنی ہر منصوبہ بندی کی نشست میں اسے شریک رکھتا ہوں۔ یہ ہمارے چینلس کے ریڑھ کی ہڈی جوہے۔

منگو بولا مثال کچھ جمی نہیں سیٹھ صاحب۔

اچھا تو تم ہی اس کیلئے کوئی بہتر تمثیل بیان کر دو۔

میں تو کہوں گا کہ یہ آپ کے چینلس کا دھڑکتا ہوا دل ہے کہ جس کی نغمگی سارے جہان میں گونجتی ہے۔

اپنی تعریف سن کر مدھو بالا شرما گئی اور بولی زہے نصیب یہ آپ کا حسنِ نظر ہے ورنہ یہ کنیز ۰۰۰۰۰۰۰

چنائی سیٹھ بولے لگتا ہے تمہیں مغل اعظم ازبر ہے۔

منگو نے کہا اگر مغل اعظم کے مکالمہ مدھو بالا کو یاد نہ ہوں تو کس کو۰۰۰۰۰

چنائی سیٹھ نے بات کاٹ دی اب تم سلیم نہ بنو ورنہ میرے طوطے اڑ جائیں گے اور مجھے مہا بلی اکبر اعظم بن جانا پڑے گا۔

مدھو بالا نے کہا آپ لوگوں کی دلچسپ گفتگو سن کر مجھے خیال ہو رہا ہے کہ کیوں نہ اپنے تفریحی چینل پر مغل اعظم کا سلسلہ شروع کیا جائے۔ مہابھارت کے تو کئی ٹی وی ورژن آ چکے ہیں مگر مغل اعظم نامی ٹی وی سیریل کا خیال کسی کو نہیں آیا۔

منگو بولا جی ہاں چنائی سیٹھ مجھے حیرت ہے کہ آپ کے پاس انارکلی موجود ہے پھر بھی آپ نے مغل اعظم بنانے کی کوشش کیوں نہیں کی؟

چنائی سیٹھ بولے در اصل مجھے ابھی تک دلیپ کمار نہیں ملا تھا اس لئے میں نے ان خطوط پر نہیں سوچا لیکن اب مل گیا ہے اس لئے مغل اعظم ضرور بنے گی۔

مدھو بالا بولی سر اگر برا نہ مانیں تو ایک بات کہوں؟

نہیں اس میں برا ماننے کی کیا بات ہے بولو۔

سربات یہ ہے اس ٹی وی کی مغل اعظم میں سلیم جو بھی ہو لیکن اکبر ۰۰۰۰۰

مدھو بالا خاموش ہو گئی منگو نے جملہ پورا کیا۔ مہابلی یہی ہوں گے۔

چنائی سیٹھ نے کہا ایک شرط پر کہ انارکلی تم اور سلیم یہ ہو۔ چلو کھانا کھاتے ہیں کافی وقت ہو گیا اور مجھے تو ڈاکٹر کی صلاح کے مطابق ہر دو گھنٹے میں کچھ نہ کچھ کھانا ہی چاہیے۔ ورنہ سر چکرانے لگتا ہے۔

مدھو بالا فوراً اٹھی اور کہا ٹھیک ہے آپ لوگ پانچ منٹ بعد کھانے کی میز پر تشریف لائیں میں تب تک خورد و نوش کا بندوبست کرتی ہوں۔

مدھو بالا کے اندر جاتے ہی منگو چنائی سیٹھ کے ساتھ باہر آ گیا۔

منگو ! ایک بات بتاؤ تمہارے سامنے تو کئی آفرس تھے پھر تم نے میرے ساتھ کام کرنے کو ترجیح کیوں دی؟

اس سوال کا حقیقی جواب منگو کیلئے نقصان دہ تھا اس لئے وہ ایک نیا جھوٹ گھڑ کر بولا سچ تو یہ ہے کہ آپ کے اسٹوڈیو کا یہ گھریلو ماحول میرے پاؤں کی زنجیر بن گیا۔ یہاں پر کس قدر اپنائیت ہے ایسا محسوس ہی نہیں ہوتا کہ ہم کسی دفتر میں ہیں۔ ساراعملہ گویا ایک بڑے خاندان کا حصہ جس کا نہایت خلیق سربراہ چنائی سیٹھ ہے۔

تم نے میرے دل کی بات کہہ دی منگو ۔ میرے چینل دھارمک منورنجن کے سارے پروگرام یہیں بنتے ہیں۔ اس پر کام کرنے والے سارے لوگ اسٹوڈیو کے ملازم بلکہ میرے افرادِ خانہ ہیں۔ قلمکار صبح سے شام تک رامانند ساگر اور بی آر چوپڑہ وغیرہ کی رامائن اور مہابھارت کا چربہ اپنے الفاظ میں ڈھالتے رہتے ہیں۔ ہدایتکار اپنی ذمہ داری نبھاتے ہیں اور اداکار اپنا کام کرتے ہیں۔ کوئی بھجن لکھتا ہے تو کوئی اسے موسیقی سے سجاتا ہے۔ سب ایک دوسرے کا معاون و مددگار ہیں کوئی مالک یا ٹھیکیدار نہیں ہے۔

تو کیا یہ چمیلی، رنگیلی، وجینتی اور مدھو بالا وغیرہ؟

یوں سمجھ لو کہ یہ سب میری بیٹیاں ہیں۔ ان پر دست درازی تو دور کوئی نگاہِ غلط بھی نہیں ڈال سکتا اس لئے کہ کسی کو سزا دینے کیلئے چنائی سیٹھ پولس یا عدالت کا محتاج نہیں ہے۔

منگو کو ایسا محسوس ہوا کہ گویا چنائی سیٹھ اس کو دھمکی دے رہا ہے۔ اس نے سن رکھا تھا کہ چینلس کی دنیا میں آنے سے قبل چنائی سیٹھ زیر زمین سامراج کا مالک تھا لیکن اب اس پر انکشاف ہوا گو کہ رسی جل چکی ہے مگر اس کے بل نہیں گئے۔

چنائی سیٹھ اپنے موبائل پر مخصوص ڈائل ٹون سن کر سمجھ گیا کہ کھانا لگ چکا ہے وہ بھجن کے انداز میں بولا ’ چلو بلاوہ آیا ہے کھانے نے بلایا ہے ‘۔

کھانے کی میز پر پھر سے چینل کی منصوبہ بندی شروع ہو گئی۔ سیٹھ جی نے پوچھا اچھا تو شام کے تین گھنٹوں کی بابت تمہارا کیا خیال ہے؟

میں تو سوچتا کہ ہم لوگ ہر آدھے گھنٹے میں صرف پانچ منٹ خبر سنائیں اس طرح تین گھنٹے کے اندر صرف آدھا گھنٹہ خبروں کیلئے ہو۔

خبروں کے چینل اس قدر کم خبر؟

اس سے بار بار ایک خبر کو دیکھنے کی زحمت سے ناظرین کو نجات مل جائے گی۔

اس تجویز کو سن کر مدھو بالا چونک پڑی اور درمیان میں کہہ دیا کیا زبردست بات ہے۔ میں تو خبروں کے چینل اسی لئے نہیں  دیکھ پاتی کہ ایک ہی بات آخر انسان بار بار کیسے دیکھے اور ویسے بھی بریکنگ نیوز لکھ کر آتی ہی رہتی ہے۔

جی ہاں ہمیں بھی غیر اہم خبروں کو سنانے کے بجائے پڑھانے پر اکتفاء کرنا چاہئے تاکہ دوہرانے کی نوبت ہی نہ آئے۔

چنائی سیٹھ نے پوچھا ٹھیک ہے آدھا گھنٹہ ہو گیا باقی ڈھائی گھنٹوں کا کیا؟

میرے خیال میں اگر دھارمک اور اور دھارمک تفریحی چینلس کا تجربہ دوہرا دیا جائے تو خبروں کی دنیا میں تہلکہ مچ جائے گا اور معاشی مشکلات بھی حل ہو جائیں گی۔

چنائی سیٹھ کی سمجھ میں بات نہیں آئی مگر مدھو بالا سمجھ گئی اس لئے جب انہوں نے پوچھا کہ یہ کیسے ممکن ہے؟

مدھو بالا بولی کیوں نہیں ہم لوگ جس طرح ڈی سی پر وقت سادھو سنتوں کو وقت فروخت کر دیتے ہیں اسی طرح یہاں سیاستدانوں کو بیچ دیں۔

منگو بولا جی ہاں بالکل درست۔ میں تو کہتا ہوں تم یہاں کیا کر رہی ہو تمہیں تو کسی سیاسی جماعت میں ہونا چاہئے۔

چنائی سیٹھ کی قہر آلود نگاہوں کو دیکھ کر منگو بولا میں تو یونہی مذاق کر رہا تھا۔

چنائی سیٹھ قہقہہ لگا کر بولے میں بھی مذاق میں دیکھ رہا تھا۔

مدھو بالا ڈر گئی کہیں مذاق مذاق میں بات بگڑ نہ جائے۔ وہ بولی دھارمک تفریح والی بات میرے بھی سر کے اوپر سے نکل گئی۔

منگو نے کہا کیا تم اخبار میں سیاسی طنزو مزاح نہیں پڑھتیں مثلاً نشیمن اخبار کا تھپڑاخیں کالم یا انقلاب میں ارتضیٰ نشاط کی رباعی۔

ہاں ضرور پڑھتی ہوں۔

اس میں اور کلدیپ نیر کے سنجیدہ تجزیہ میں کیا فرق ہے؟

چنائی سیٹھ بولے ’ آدھی حقیقت اور آدھا فسانہ‘ ہوتا ہے۔

زبردست! آپ نے پروگرام کا نام تجویز کر دیا۔ ہم ایسا ہی ایک پروگرام رات ۸ سے ۹ کے درمیان پیش کریں گے جبکہ سب سے زیادہ ناظرین ٹی وی کے سامنے ہوتے ہیں۔

مدھو بالا بولی کیا میں پورا نام تجویز کر سکتی ہوں۔

چنائی سیٹھ نے کہا کیوں نہیں۔ بولو۔

’’کہتا ہے منگو سارا زمانہ۔ آدھی حقیقت آدھا فسانہ‘‘۔

چنائی سیٹھ نے تالی بجا کر کہا بھئی زبردست آج تمہیں کیا ہو گیا ہے۔ تم نے تو منگو عرف منگیری لال کو بھی مات دے دی مجھے نہیں پتہ تھا کہ ۰۰۰۰۰

مدھو بالا بولی یہ تو ان کی صحبت کا اثر ہے۔

چنائی سیٹھ بولا پھر وہی مغل اعظم۔

جی نہیں اس نے تو ’’ میرا نام جوکر‘‘ رکھ دیا۔ خیر یہ بتاؤ کہ سیاسی طنزو مزاح میں اور سنجیدہ تبصروں میں کیا چیز مشترک ہے؟

مدھو بالا بولی کردار اصلی ہوتے ہیں، پس منظر بھی حقیقی ہوتا ہے لیکن واقعات اور مکالمات میں خرد برد کی جاتی ہے۔

بالکل درست چنائی سیٹھ بولے لیکن اگر کوئی ہمارے خلاف عدالت میں پہنچ جائے یا ہمارے دفتر میں گھس کر توڑ پھوڑ کر دے تو لینے کے دینے پڑ جائیں گے۔

دیکھئے سیٹھ اخبار میں ایسے مضامین ہر روز شائع ہوتے ہیں مگر وہ رد عمل نہیں ہوتا لوگ کارٹون کو کارٹون سمجھتے ہیں اس پر ناراض نہیں ہوتے۔ ویسے اگر ہم یہ اعلان لکھ دیں کہ اس خیالی داستان سے مماثلت اتفاقی ہے تو قانونی تحفظ بھی مل جائے گا۔

مدھو بالا بولی سیٹھ جی ویسے اگر کسی فلم کے خلاف احتجاج ہو جائے یا کسی اخبار کے دفتر پر حملہ ہو جائے تو مادی نقصان کی بھرپائی انشورنس والے کر دیتے ہیں مگراس سے عوامی مقبولیت میں بے پناہ اضافہ ہو جاتا ہے۔

سیٹھ جی اگر آپ کی ناراضگی کا خطرہ نہ ہوتا تو میں پھر سے وہی کہتا ۰۰۰۰۰۔

چنائی سیٹھ مسکرا کر بولے دیکھو میں اس مدھو بالا کو خوب جانتا ہوں۔ یہ میٹھے پانی کی مچھلی سیاست کے گندے تالاب میں جی نہیں سکتی۔ ویسے اگر تم چاہو تو میں نئے چینل کی مقبولیت بڑھانے کیلئے پرانے دوستوں سے حملہ کروا دوں؟ لیکن تمہارے خیال میں اس سماچار چینل کا نام کیا ہو میں تو سماچار درشن سوچ رہا تھا۔

اس نیم سیاسی اور نیم تفریحی چینل کا بہتر نام سماچار منورنجن ہونا چاہیے۔

پھر تو ہر آدھے گھنٹے میں ایک بار فیشن چینل کی حسیناؤں البیلی، چمیلی اور وجینتی وغیرہ کو خوب بن ٹھن کر اپنی دلفریب اداؤں کے ساتھ خبریں سنانے کیلئے آنا پڑے گا۔

چنائی سیٹھ نے کہا اگر ایسا ہوا تو سارے دل پھینک عاشق مزاج نوجوان فلمی چینل چھوڑ کر سماچار منورنجن سے مقناطیس کی مانند چپکے رہیں گے۔

 

 

 

 

۱۳

 

فیشن ٹی وی کا نیا چینل سماچار منورنجن دن دونی رات چوگنی ترقی کر رہا تھا۔ عام آدمی پارٹی کی غیر معمولی مقبولیت کے پس منظر میں اس پر ہر شام ایک خاص پروگرام نشر ہوتا ہے ’’آم کے آم گٹھلیوں کے دام‘‘جس کی اینکر مس مدھو بالا اپنے خاص انداز میں اہم سیاسی موضوعات پر صحافی اور دانشور حضرات سے گفتگو کرتی تھی۔ اس پروگرام میں کبھی کبھار سیاسی اور فلمی ہستیاں بھی شریک ہو جایا کرتی تھیں۔

اتوار کی شام کو اس کے ناظرین کی تعداد سب سے زیادہ رہتی تھی اس لئے ایک خصوصی سلسلہ وار سیاسی ڈرامہ ’’کمل چھاپ زعفرانی چائے خانہ ‘‘ شروع کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس ڈرامہ کا خالق منگو تھا۔ سماچار منورنجن نے یہ بھی طے کیا کہ اس ڈرامے کو نشر کرنے سے قبل مدھو بالا اپنے مخصوص انداز میں ناظرین سے منگو کا تعارف کرائے گی۔ منگو اس کا پس منظر بتائے گا تاکہ عوام اس سے بھرپور تفریح حاصل کریں۔ اس پروگرام کے آخر اور درمیان میں مناظر کی مناسبت سے فلمی نغمے پیش کرنے کا کام مدھو بالا کو دیا گیا تاکہ لوگ یکسانیت سے بور نہ ہوں۔

اس سلسلے کی ابتدا میں مدھو بالا نے ایک اجنبی کے طور منگو کا تعارف کرایا۔ وہ اپنے مخصوص انداز میں ہاتھ جوڑ کر بولی بھائیو اور بہنو آج ہمارے مہمان بالکل تازہ آم کی طرح ہیں۔ یہ ان لوگوں میں سے نہیں ہیں جو مختلف سیاسی جماعتوں کے ترجمان ہیں اور جن کو اپنی پارٹی کے ہر غلط کام کا جواز پیش کرنے کی تنخواہ ملتی ہے۔ یہ ان دلالوں میں سے بھی نہیں ہیں جو اجرت کے عوض کسی بھی ملزم کی وکالت کیلئے جنتا کی عدالت میں شور پکار کرنے لگتے ہیں۔ یہ عام آدمی ہے مونگیری لال عرف منگو ۔

کیمرا گھوم کر منگو کی طرف آیا اور پھر سے مدھو بالا کی طرف لوٹ گیا جو کہہ رہی تھی ان کے نام کی خاص بات یہ ہے اگر اسے ذرا سا بگاڑو تو انگریزی میں آم یعنی مینگو ہو جاتا ہے۔ خیر اس سے پہلے کہ میں منگو لال جی سے کچھ کھٹے میٹھے سوال کروں چاہتی ہوں کہ ان کے ماضی کے بارے میں اہم معلومات پیش کروں۔

اس سے پہلے کہ مدھو آگے بولتی منگو بیچ میں بول پڑا مس مدھو بالا کیا آپ نے مجھے آم کا درخت سمجھ لیا ہے جو خاموشی کے ساتھ ٹھنڈا سایہ اور میٹھے پھل دیتا ہے۔

مدھو بالا بولی جی نہیں ہم نے آپ کو بولنے کیلئے بلایا ہے۔

اچھا! مجھے یہ جان کر خوشی ہوئی ورنہ میں تو سمجھ رہا تھا کہ صرف آپ ہی بے تکان بولتی رہیں گی اور میں بھی ناظرین کی مانند آپ کو دیکھ دیکھ کر خوش ہوتا رہوں گا۔

منگو کا اس طرح درمیان میں بولنا طے شدہ منظر نامہ کے خلاف تھا بلکہ تعارف کے بعد سوال پوچھنے پر اسے خطاب کرنا تھا۔ اس طرح اچانک درمیان میں کود جانے سے مدھو بالا خاصی پریشان ہو گئی تھی اور اس کیلئے پروگرام کو آگے بڑھانا مشکل ہو گیا۔ سامعین کو منگو کی برجستگی پسند آئی اور وہ مدھو کی گھبراہٹ پر خوش ہو گئے۔

مدھو بالا اپنے آپ کو سنبھال کر بولی جی ہاں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ آپ خود اپنا تعارف کرائیں۔

اس سوال کے جواب میں مونگیری لال نے خاص فلسفیانہ انداز میں اپنا چہرہ بگاڑ کر کہا عام آدمی کا اتہاس بہت پرانا ہے۔ آپ کیا چاہتی ہیں کہ میں کس یگ سے شروع کروں، ست یگ سے تریتا سے یا ۰۰۰۰۰۰۰

مدھو بالا درمیان میں بول پڑی جی نہیں آپ اتنے دور نہ جائیں بس کل یگ بلکہ صرف یہ بتائیں کہ آج کل آپ کیا کرتے ہیں؟

میں فی الحال ’کمل چھاپ زعفرانی چائے خانہ چلاتا ہوں ‘

بہت خوب مدھو بولی بڑا منفرد نام رکھا ہے آپ نے اپنے چائے خانے کا؟

آپ کی پسندیدگی کا شکریہ۔ نوازش۔

اچھا یہ بتائیں کہ آپ کو یہ چائے خانہ کھولنے کا خیال کیوں آیا؟

ویسے تو اس کی بھی طویل تاریخ لیکن اگر میں مختصر بتاؤں تو جدید ہندوستان کی تاریخ میں ۳۰ مئی۲۰۱۵؁ سنہری حروف میں لکھے جانے کا حقدار ہے۔ اس لئے کہ اس روز وزیر اعظم نے حلف برداری کے ۳۷۰ دنوں کے بعد پہلی مرتبہ سچ بولنے کی جرأت کی۔ اس دن کی غیر معمولی اہمیت اس لئے بھی ہے کہ ممکن ہے دوبارہ وہ ایسی غلطی کبھی نہ کریں یہاں تک کہ ان کی مدت عمل ختم ہو جائے۔

مدھو نے درمیان میں روک کے پوچھا جناب عالی چونکہ وزیر اعظم کی کذب بیانیوں کے ٹھاٹیں مارتے سمندر میں سے سچ کا موتی ڈھونڈ نکالنا جوئے شیر لانے سے کم نہیں اس لئے برائے کرم آپ خود اس کی تفصیل بتلائیں ورنہ ہمارے ناظرین پریشان ہو جائیں گے۔

منگو بولا جی نہیں ایسی بات نہیں ملک بچہ بچہ جانتا ہے کہ انہوں نے کہا تھا ’’جو اچھے دن آنے والے تھے آ چکے ‘‘۔ اس مختصر سے کوزے میں سمندر سمایا ہوا ہے۔ اس کے ایک معنی تو یہ ہے کہ ان کے اپنے اچھے دن آ چکے ہیں اور اب ان کے اس سے بہتر دن نہیں آئیں گے۔

بہت خوب جناب اپنے اس معرکۃ الا آرا جملے کا یہ مطلب تو وہ خود بھی نہیں جانتے ہوں گے۔ اب دوسرے معنیٰ بتانے کی بھی زحمت فرمائیں۔

اسٹوڈیو میں مانیٹر کے سامنے بیٹھا چنائی سیٹھ سوچ رہا تھا کہ اس مدھو بالا کو منگو سے ملتے ہی نہ جانے کیا ہو جاتا ہے وہ مغل اعظم کی زبان بولنے لگتی ہے۔ اس کا کچھ کرنا پڑے گا۔ منگو نے کہا اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ ان کے سب سے بڑے بھکت گوتم اڈانی کے بھی اچھے دن آ چکے ہیں۔ جن کے خزانے میں ایک سال کے اندر ۴۸ فیصد کا اضافہ ہوا ہے اور جس طرح پردھان سیوک سیاست کے میدان میں اول مقام پر ہیں اسی طرح وہ بھی دھن دولت کے بازار میں پہلے نمبر پر پہنچ گئے ہیں۔

ناظرین میں سے جن لوگوں کو شروع میں یہ دھوکہ ہوا تھا کہ منگو بی جے پی نواز ہے ناراض ہونے لگے اور یرقانی خاندان کے مخالفین کی بانچھیں کھلنے لگیں۔ مدھو نے پوچھا ہاں تو ہمارے ناظرین اس کا تیسرا مطلب جاننے کیلئے بے چین ہیں۔

کیوں نہ ہوں؟ اس لئے کہ تیسرا اہم ترین مطلب یہ ہے کہ عوام اب اچھے دنوں کی توقع کرنا چھوڑ دیں۔ فی الحال جو دگر گوں صورتحال ہے وہی ان کے ’’ اچھے دن‘‘ ہیں۔ اس سے اچھے دن کبھی نہیں آئیں گے۔

مدھو بالا کا چہرہ اتر گیا۔ اس نے روہانسی آواز میں کہا منگو جی یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں۔ اگر یہ اچھے دن ہیں تو برے دن کس کو کہتے ہیں؟

منگو بولا اس سوال کا جواب پردھان منتری جی نے اپنی بھاشن میں دیا ہے۔ ان کے مطابق حزب اختلاف کے برے دن آ چکے ہیں اور وہ ہمیشہ رہیں گے۔

یہ تو حزب اختلاف کے بارے میں پیشن گوئی ہے لیکن ہم جیسے عام لوگوں کے بارے میں انہوں نے کیا کہا؟

اس بابت ان کی خاموشی گواہ ہے کہ اب عوام کے برے دن ان کے ساتھ ہی جائیں گے۔

یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں منگو جی! ناظرین کا کچھ تو خیال کیجئے وہ سب ٹی وی بند کر کے بھاگ جائیں گے۔

تو کیا آپ چاہتی ہیں کہ میں جھوٹ بولوں؟ اور ناظرین بھاگ کر بھی کہاں جائیں۔ آپ نے وہ مشہور نغمہ نہیں سنا

اجی روٹھ کر اب کہاں جایئے گا

جہاں جایئے گا ہمیں پائیے گا

مدھو بالا بولی ہم ایسا کرتے ہیں کہ اپنے ناظرین کا غم غلط کرنے کیلئے درمیان میں یہ رومانی نغمہ دکھاتے ہیں اور پھر بریک کے بعد حاضر ہوتے ہیں۔

ٹی وی کے پردے پر اچانک۱۹۶۵؁ کی سپرہٹ فلم آرزو کا نغمہ دکھایا جانے لگا۔ کسی سیاسی پروگرام میں گلوکارہ لتا منگیشکر کی خوبصورت آواز اور شنکر جے کشن کا مدھر سنگیت کیا کہنے۔ حسرت جے پوری کے بول اداکارہ سادھنا اور راجندرا کمار کے دل کی آواز بن گئے تھے۔ بریک کے دوران ناظرین کے بھاگ جانے کا خطرہ ٹل گیا تھا۔

بریک کے بعد مدھو بالا بولی

جو دل میں ہے ہونٹوں پہ لانا بھی مشکل،

مگر اس کو دل میں چھپانا بھی مشکل

نظر کی زباں سے سمجھ جائیے گا،

سمجھ کر ذرا غور فرمائیے گا

اجی روٹھ کر اب ۰۰۰۰۰

خلاف توقع منگو نے کہا یہ آپ ناظرین کو کہاں بھیجنے لگیں میں تو کہتا ہوں:

یہ کیسا نشہ ہے، یہ کیسا اثر ہے،

نہ قابو میں دل ہے، نہ بس میں جگر ہے

ذرا ہوش آ لے چلے جائیے گا،

ٹھہر جائیے گا، ٹھہر جائیے گا،

اجی روٹھ کر اب ۰۰۰۰۰

مدھو گھبرا کر بولی جناب آپ میری بات کا غلط مطلب سمجھے۔ میں تو اچھے دنوں کے آس میں جینے والوں کے دل کی کیفیت بیان کر رہی تھی۔ بھکت تو نہ اپنی مشکل زبان پر لا سکتے ہیں اور نہ چھپا سکتے ہیں اوپر سے آپ مایوسی بڑھا رہے ہیں

بہلانے پھسلانے کے دن لد گئے اب ہمیں ہوش میں آ جانا چاہئے۔ آج کل ایک عجیب نحوست ملک پر منڈلا رہی ہے۔ پہلے بے موسم کی برسات نے تباہی مچائی اس کے بعد زلزلہ آ گیا۔ زمین کے بعد سورج غضب ناک ہو گیا اور دو ہزار سے زیادہ لوگ جان بحق ہو گئے۔ موسم باراں کی آمد آمد تھی محکمۂ موسمیات نے اعلان کیا کہ اس سال پھر قحط کا امکان ہے۔

لیکن اس میں پردھان جی کا کیا قصور؟ ان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد اگر یکے بعد دیگرے آسمانی آفات کا نزول شروع ہو جائے تو وہ کیا کر سکتے ہیں؟

یہ آپ نے درست کہا لیکن ہم یعنی عوام بھی تو ہاتھوں پر ہاتھ دھرے نہیں بیٹھ سکتے ہمیں تو کچھ نہ کچھ کرنا ہی ہو گا۔

ہم کیا کر سکتے ہیں؟ مزید چار سال تو برداشت کرنا ہی پڑے ہے۔

ایسا آپ کیوں سوچتی ہیں؟ ہندوستان کی عوام نے بی جے پی کو کامیاب کیا۔ پارٹی اپنا رہنما بدل بھی تو سکتی ہے؟

خیر اس کا تو کوئی امکان نہیں ہے آپ کوئی اور حل بتائیں۔

اس کا کوئی اور حل نہیں ہے حکومت ترقی کی شرح کم کر چکی ہے اور مہنگائی میں اضافہ کا امکان ظاہر کیا  جا چکا ہے یہی وجہ ہے کہ حصص مارکٹ میں گراوٹ آئی ہے۔ یونیٹیک جیسی بڑی کمپنی کے شیئر ۵۰ فیصد نیچے چلے گئے ہیں۔

مدھو بولی جی ہاں کل اسی پروگرام ایک ماہر معاشیات بتا رہے تھے ایک طرف شیئر بازار نیچے کی جانب دوسری جانب ڈالر کی قیمت اوپر کو چل پڑی ہے۔ ایسے میں وہ بیچارے جائیں تو کہاں جائیں؟

وہ دنیا بھرتو گھوم چکے اب اسرائیل جانے کا پروگرام بنا رہے ہیں۔

آپ ناظرین کو بہت مایوس کر رہے ہیں اس لئے کوئی تو خوشخبری سنائیں؟

کیا آپ نے نہیں سنا کہ عالمی بازار میں تیل کی قیمتوں میں کمی پردھان جی نے بڑے فخر کے ساتھ اپنے آپ کو خوش قسمت کہا تھا؟

سنا تو ہے لیکن نہ پٹرول کا بھاؤ کم ہو رہا ہے اور نہ ڈیزل کا اس لئے قیمتوں کی اس کمی سے عوام کا تو کوئی بھلا نہیں ہوا۔

پہلے آپ مجھ پر مایوسی پھیلانے کا الزام لگا رہی تھیں اور اب خود وہی کرنے لگیں۔ یہ منگو کا نہلے پہ دہلا تھا۔

مدھو بالا بولی پردھان جی تو چلے گئے لیکن آپ تو یہیں بیٹھے بیٹھے میرے سوال کا جواب دینے کے بجائے مجھے ادھر اُدھر ٹہلا رہے ہیں۔ یہ نہیں بتا رہے ہیں کہ آخر یہ چائے خانہ کھولنے کا خیال آپ کو کیوں اور کیسے آیا؟

کیوں کا جواب تو بہت آسان ہے۔ آج کل ہر چائے والے کو لگتا ہے کہ وہ کبھی نہ کبھی وزیر اعظم بن جائے گا لیکن کیسے کا جواب مشکل ہے۔

اگر ایسا ہے تو منگو جی اس جواب کو آئندہ اتوار تک موقوف کر دیتے ہیں۔ اس لئے کہ آج کا وقت ختم ہوا لیکن کیا میں یہ توقع کروں کہ آئندہ ہفتہ آپ اپنے موضوع سے انحراف کرنے کے بجائے سوالات کے سیدھے جواب دیں گے؟

منظرنامہ سے ہٹ کر یہ سوال مدھو بالا نے شرارتاً اپنی جانب سے بڑھا دیا تھا اس کے جواب میں منگو کو بھی شرارت سوجھی اور وہ ایک دم سے بگڑ کر بولا کیا آپ کے چینل پر مہمانوں کے ساتھ ایسا اہانت آمیز سلوک کیا جاتا ہے۔ اگر مجھے پتہ ہوتا تو میں کبھی اِدھر کا رخ نہ کرتا خیر غلطی ہو گئی اب دوبارہ یہاں قدم نہ رکھوں گا۔ یہ کہہ کر منگو اپنی جگہ سے اٹھا اور سیٹ سے باہر کی جانب چل پڑا۔

منگو کے اس رویہ سے سارا عملہ پریشان ہو گیا۔ پروگرام کے ہدایتکار دنیش کرمارکر نے گھبرا کر ۱۹۶۵؁ کی فلم میرے صنم کا مشہور نغمہ ’’جائیے آپ کہاں جائیں گے۔ یہ نظر لوٹ کے پھر آئے گی‘‘ چلا دیا۔ ناظرین کو او پی نیر کی موسیقی اور مجروح کی شاعری نے اپنی جانب متوجہ کر لیا۔

اس بیچ مدھو بالا اور کرمارکر یہ طے کرنے میں جٹ گئے کہ آگے کیا جائے؟ کرمارکر نے مدھو سے پوچھا یہ آخر میں تم نے اپنی طرف سے کیا بڑھا دیا؟

مدھو بولی اس بد دماغ منگو نے نہ جانے کتنی بار منظر نامہ سے انحراف کیا مگر میں برا ماننے کے بجائے اسے سنبھالتی رہی اب آخر میں ایک مرتبہ میں نے وہی کیا تو اس میں ایسے ناراض ہونے کی کیا بات ہے؟

کرمارکر بولا منگو ایک لا ابالی طبیعت کا آدمی ہے۔ اس سے احتیاط لازمی ہے وہ تو خیر مجھے اس گانے کی سوجھی ورنہ سارا کھیل بگڑ جاتا۔

مدھو نے پوچھا اب کیا کیا جائے؟

کرمارکر بولا نغمہ ختم ہونے والا ہے تم یہ بات اپنے دماغ سے نکال دو کہ منگو نے کیا کر دیا۔ آگے سب کچھ طے شدہ منصوبے کے مطابق ہو گا۔

گانے کے بعد مدھو بالا ناظرین سے مخاطب ہو کر بولی مجھے امید ہے کہ یہ نیا سلسلہ آپ کو پسند آیا ہو گا اور ابھی تو ابتداء ہے جیسے جیسے یہ آم میرا مطلب ہے مینگو پکتا جائے گا اس کا سواد بڑھتا جائے گا۔ آج کیلئے اجازت دیجئے آئندہ ہفتہ ہماری ملاقات ہو گی اسی وقت آپ کے پسندیدہ پروگرام ’’آم کے آم گٹھلیوں کے دام میں ‘‘۔

 

 

 

 

 

۱۴

 

منگو جیسے ہی باہر نکلا اس کو چمیلی نے بتا یا چنائی سیٹھ آپ کے منتظر ہیں۔ منگو شکریہ ادا کر کے چنائی سیٹھک کمرے میں چلا گیا۔ چنائی سیٹھ نہیں جانتے تھے کہ اختتام میں کیا گڑ بڑ ہوئی۔ ان کے خیال وہ سب طے شدہ تھا۔ اس لئے وہ بہت خوش تھے۔ منگو کو دیکھ انہوں نے کہا بھئی کمال ہو گیا۔ تمہارا تو پرومو ہی ہٹ ہو گیا۔ تم دونوں نے کمال اداکاری کی مدھو بالا کے چہرے سے تو ایسا لگتا تھا کہ واقعی اس کے ہاتھ سے طوطے اڑ گئے ہیں۔ میں نے تو محسوس کیا کہ مدھو بالا کا پونر جنم ہو گیا ہے۔

حاسد منگو پر مدھو کی اس قدر تعریف گراں گزری وہ بولا آپ ایسا کریں کہ مغل اعظم کے بجائے نیا ٹی وی سیریل شروع کریں ’مدھو بالا کا پونر جنم‘ رام قسم بہت چلے گا۔

مدھو بالا کا پونر جنم یہ کیا بات ہوئی میری سمجھ میں نہیں آیا؟

میں سماچار منورنجن کی نہیں دھارمک منورنجن کی بات کر رہا تھا۔ پونر جنم تو ویسے بھی ہندو آستھا کا اہم حصہ ہے۔ آپ کے بے شمار ناظرین اس پر وشواس رکھتے ہیں۔ اس لئے آپ آستھا کے نام پر جو بھی دکھائیں گے وہ چلے گا اور آپ کا کام بھی چل جائے گا۔ اگر چاہیں تو انت میں کسی دھرماچاریہ سے اس پر مختصر پروچن بھی کرا دیں۔

چنائی سیٹھ سنجیدہ ہو گئے انہوں نے کہا آئیڈیا اچھا ہے۔ میرے خیال میں ہندوشاستروں کے اندر بہت ساری پونر جنم کی کہانیاں مل جائیں گی۔

کہانیاں کیوں مدھو بالائیں مل جائیں گی!کرمارکر کو اس کام میں  لگا دیجئے۔

چنائی سیٹھ پونر جنم کے چکر میں بہت دور نکل گئے تھے واپس آ کر بولے یار جنم جنمانتر کا چکر چھوڑو تمہارے ’کمل چھاپ زعفرانی چائے خانہ‘‘ کے دوران ہی مجھے عاپ کے دفتر سے فون آیا اور ان کے رابطہ عامہ کے سربراہ نے اس سلسلے کے سرپرستی کی پیشکش کر دی۔ بھئی یہ تو کمال ہو گیا۔

کون شنکر تو نہیں تھا۔ منگو نے تکا لگایا جو نشانے پر بیٹھا۔

اوہو تم اسے کیسے جانتے ہو؟

میں کس کس کو جانتا ہوں اور کون کون مجھے جانتا ہے یہ آپ نہیں جانتے۔

(قہقہہ لگا کر) میں تو بس اتنا جانتا ہوں کہ تم بہت پہنچے ہوئے ۰۰۰۰۰

ٹھیک ہے وہ بہت چھوٹا مہرہ ہے میں آپ کو سسودیہ سے ملاؤں گا۔ اصلی زمامِ کار تو انہیں کے ہاتھ میں ہے۔

یار منگو کار تو سمجھ میں آ گئی یہ زمام کس کو کہتے ہیں؟

(ہنس کر) سیٹھ جی زمام کا مطلب لگام ہوتا ہے۔

لیکن لگام تو گھوڑے کو لگتی ہے کار میں اس کا کیا کام؟

یہ انگریزی کار نہیں بلکہ فارسی کار ہے۔

ارے بھئی کار تو کار ہے انگریزی ہو جاپانی، چینی ہو یا اطالوی کسی کا لگام سے سروکار نہیں ہوتا۔ کار کو لگام لگانے والی بات تو میری سمجھ میں نہیں آتی۔

اچھا زبان کو لگام لگانے والی بات سمجھ میں آتی ہے۔

(چونک کر) یہ محاورہ تو ہم بچپن سے سنتے آئے ہیں۔

اچھا تو یہ بتائیے کہ ننھی سی زبان پر لگام لگانا زیادہ مشکل ہے یا گاڑی پر؟

ارے بھئی منگو زبان پر وہ گھوڑے والی لگام تھوڑی نا لگتی ہے۔

وہی تو میں بھی کہہ رہا ہوں کہ کار پر بھی گھوڑے والی لگام نہیں لگتی۔

چلو مان لیا لیکن کار کو لگام کی ضرورت ہی کیا ہے؟

منگو کو مزہ آنے لگا وہ بولا اچھا بتائیے کہ گھوڑے کی لگام کیا کام کرتی ہے؟

لگام کھینچو تو گھوڑا رک جاتا ہے۔ اس کا رخ لگام کی مدد سے بدلا جاتا ہے۔

اچھا تو گاڑی چلاتے وقت یہ سب نہیں کرنا پڑتا؟

کیوں نہیں بریک، کلچ اور اسٹیرنگ کی مدد سے یہ سارے کام کئے جاتے ہیں

یہی تو فرق ہے جاندار گھوڑے اور بے جان کار میں۔ عقلمند گھوڑے کیلئے ایک لگام کافی ہے لیکن احمق گاڑی کیلئے تین تین آلات کی ضرورت پیش آتی ہے۔

لیکن پھر بھی انہیں لگام تو نہیں کہتے۔

اب آپ جو چاہیں کہیں چمیلی کو البیلی کہہ دیں، مدھو بالا کو وجینتی مالا کہہ دیں کیا فرق پڑتا ہے۔ ویسے بھی ہر سیریل میں ان کے نام مختلف ہوتے ہیں۔ فارسی زبان میں کار مطلب کام ہوتا مثلاً کاریگر یعنی کام کرنے والا۔

اوہو آج کاریگر کا مطلب معلوم ہوا لیکن کام پر لگام والی بات پھر بھی سمجھ میں نہیں آئی۔

وہی زبان والی بات اگر زبان پر لگام نہ لگائی جائے تو کیا ہوتا ہے؟

حادثہ پیش آتا ہے یوں سمجھو کہ کام بگڑ جاتا ہے۔

آپ نے خود اپنے سوال کا جواب دے دیا سیٹھ جی کام بگڑ جاتا ہے۔

(زوردار قہقہہ) بھئی منگو قسم خدا کی منطق میں تمہارا جواب نہیں ناظرین کی مانند اب مجھے بھی کمل چھاپ زعفرانی چائے خانے میں مہ نوشی کا اشتیاق ہو رہا ہے۔

دیکھئے سیٹھ جی اگر آپ کے مسابقین نے آپ کی شراب نوشی مشہور کر دی تو دھارمک چینل کے سارے ناظرین بھاگ جائیں گے۔

تم ابھی اس میدان میں نئے ہو۔ ہمارے سارے پراچین راجہ مہاراجہ، دیوی دیوتا سوم رس کا سیون( نوش) کرتے تھے۔ ہم انہیں خوب خوشنما بنا کر دکھاتے ہیں اور اس کی مدد سے بڑی بڑی شراب کمپنیوں کے نام سے بکنے والے پانی کا اشتہار نشر کرتے ہیں۔ مہ خواروں کیلئے تو نام ہی کافی ہے۔

آپ پانی کا اشتہار نشر کرتے ہیں یا شراب کا؟

بھئی ہم تو نام مشتہر کرتے ہیں۔ اس کے پانی یا شراب ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ نام اور بوتل دیکھ کر شرابیوں کو رال ٹپکنے لگتی ہے۔

تو گویا آپ کا دھارمک چینل بھی شراب جیسی برائی کو پھیلانے کا کام کرتا ہے

دیکھو منگو ہم لوگ تشہیر کا کاروبار کرتے ہیں۔ ہماری وفاداری اپنے گاہک سے ہے۔ وہ ہمیں جس شئے کی تشہیر کی قیمت دیتا ہے ہم ایمانداری سے اس کا پرچار کر دیتے ہیں۔ کوئی امرت لائے یا زہر ہم اس کے ساتھ تفریق و امتیاز کا معاملہ نہیں کرتے۔ اب خریداروں کی مرضی پر ہے کہ وہ سونا خریدیں یا مٹی۔ ہمارا کوئی اختیار نہ دوکاندار پر ہے اور نہ خریدار پر۔

لیکن سیٹھ جی لوگ اپنی اولاد کو اچھے سنسکار سے لیس کرنے کیلئے دھارمک چینل دیکھتے ہیں اور ہم انہیں ۰۰۰۰۰۰۰۰

منگو میں اس میدان کے پرانا کھلاڑی ہوں۔ میں تو یہ جانتا ہوں دودھ بے حد مفید اور ضروری شئے ہے اس کے باوجود دودھ والے کو گھر گھر جا کر بیچنا پڑتا ہے جبکہ شراب کیلئے مہ خوار دوکانوں اور مہ خانوں کی جانب دوڑے چلے جاتے ہیں۔ یہ وہی لوگ ہیں جن کیلئے تم پریشان ہو۔ کیا تم اس کی وجہ بتا سکتے ہے؟

سیٹھ جی یہ خلش میرے ذہن میں بھی تھی لیکن شراب کے خلاف خواتین کے احتجاج سے مجھے اپنے سوال کا جواب میں مل گیا۔

اچھا وہ کیسے؟

پہلے تومیں یہ سوچنے پر مجبور ہو گیا کہ آخر خواتین ہی شراب کے خلاف بڑے پیمانے پر سڑکوں پر کیوں اترتی ہیں مرد کیوں نہیں نکلتے حالانکہ مردوں کی بھی بہت بڑی تعداد شراب نوشی نہیں کرتی؟

جی ہاں یہ دلچسپ فرق ہے مگر میں نے اس پر غور نہیں کیا۔

در اصل مردوں کے شراب پینے سے پورا گھر برباد ہوتا ہے اور گھر کی نگراں تو عورت ہے وہ اپنے خاندان کی تباہی نہیں دیکھ سکتی اس لئے سراپا احتجاج بن جاتی ہے۔

لیکن منگو اس کا میرے سوال سے کیا تعلق؟

اس تناظر میں غور کیجئے کہ بفرضِ محال دودھ والے کی طرح شراب والا بھی گھر گھر پہنچنے لگے تو یہ خواتین اس کا کیا حشر کریں گی؟ وہ اسی بوتل سے شراب فروش کا سر پھوڑ دیں گی۔ اس لئے دودھ والے کی طرح اس کا استقبال ممکن نہیں ہے۔

چلو تمہاری بات مان لیتے لیکن جو شراب پیتا ہے وہ خود اپنے عمل کا سزاوار ہے ہم بیچ میں کہاں سے آ گئے؟

سیٹھ جی کیا ہماری اپنے سماج کے تئیں کوئی ذمہ داری نہیں ہے؟

(غمناک ہو کر) ایک زمانے میں  تمہاری طرح میں بھی سماج کے بارے میں سوچتا تھا لیکن وقت کے ساتھ سب کچھ بدل گیا۔ کالج سے نکل چنا سوامی زیر زمین دنیا کا چنا دادا بن گیا اور جب واپس آیا تو چنائی سیٹھ تھا۔ سب کچھ بدل گیا منگو سب کچھ۔

لیکن سیٹھ اچھا ہی ہوا جو آپ دادا گیری چھوڑ اس مہذب پیشے میں آ گئے۔

نہیں منگو !میرا خیال تم سے مختلف ہے۔ چنائی سیٹھ سے چنا دادا اچھا تھا۔

منگو نے حیرت سے سوال کیا! وہ کیوں؟ یہ آپ کیسے کہہ سکتے ہیں؟

میں یہ اس لئے کہہ رہا ہوں کہ چنا دادا کا ظاہر اور باطن یکساں تھا۔ وہ چنائی سیٹھ کی مانند سفید پوش بھیڑیا نہیں تھا۔ وہ لوگوں کے سامنے پیپسی کی بوتل میں شراب ڈال کر پینے کیلئے مجبور بھی نہیں تھا۔

اور چنا سوامی؟

وہ تو فرشتہ تھا فرشتہ۔ آج جب میں اس کے بارے میں سوچتا ہوں تو مجھے یقین ہی نہیں آتا کہ وہ میں تھا۔ مجھے تو لگتا ہے بھری جوانی میں چنا سوامی کا قتل ہو گیا۔

منگو نے بے ساختہ ایک احمقانہ سوال کر دیا۔ کس نے اسے قتل کیا؟

چنا دادا نے اور کس نے؟ تم نے میری بات دھیان سے نہیں سنی اور یہ چنائی سیٹھ جو تمہارے سامنے بیٹھا ہے نا یہ چنا دادا کا قاتل ہے۔ اس نے دادا کا گلا گھونٹ کر اسے مار ڈالا۔ یہ قاتل ہے قاتل۔ جب یہ احساس جرم مجھے کچوکے دیتا ہے تو میں اپنے ضمیر کی آواز کو دبانے کیلئے شراب کے نشے میں ڈوب جاتا ہوں لیکن افسوس کہ بہت جلد وہ تالاب بھی میری سڑی گلی لاش کو اوپر اچھال دیتا۔ کنارے پر پھینک دیتا ہے۔

منگو کے سامنے چنائی سیٹھ کی شخصیت کھل گئی تھی۔ منگو کو اس سے ہمدردی ہونے لگی تھی وہ جانتا تھا اب چنائی کیا کرنے والا اس لئے جلدی سے سوال کیا سیٹھ جی میرے ایک آخری سوال کا جواب دیجئے۔ یہ سب کیوں اور کیسے ہوا؟

اس سوال کا جواب بھی تمہارے پروگرام کے آخری جواب جیسا ہے۔ کیوں کا جواب مختصر مگر کیسے کا طویل!!! حرص و ہوس کی شاہراہ پر جلد از جلد اوپر اٹھنے کی اندھا دھند خواہش نے میری بینائی چھین لی اور میں پستیوں کے دلدل میں دھنستا چلا گیا۔ مجھے خبر ہی نہیں ہوئی اور جب احساس ہوا تو واپسی کے سارے راستے مسدود ہو چکے تھے۔ چنائی سیٹھ نے چمیلی کو پکارا جو حکم کی منتظر تھی اور منگو سے کہا جاؤ!تم اب جا سکتے ہو۔

میں آج نہیں جاؤں گا سیٹھ جی اگر آپ اجازت دیں تو میں بھی آپ کے ساتھ پہلی بار ۰۰۰۰۰۰۰۰۰

چنائی سیٹھ کو معصوم چنا سوامی یاد آ گیا جو پہلی بار پانڈو حوالدار کے اصرار پر ڈرا سہما ساغرومیناکی دنیا میں آیا تھا اور پھر واپس نہیں ہوا لیکن منگو خود برضا و رغبت اس دلدل میں قدم رکھنے کیلئے بے چین تھا۔ چنائی سیٹھ نے پوچھا منگو ! کیوں تمہیں آج اس لال پری کی ضرورت کیوں پیش آئی؟

چنائی سیٹھ آپ نے میرا ضمیر جگا دیا۔ کیا ہم خبر فروش سفید پوش عوام کو فریب نہیں دیتے۔ وہ ہم پر اعتماد کرتے ہیں اور ہم ان کی پشت میں چھرا گھونپ دیتے ہیں۔ وہ سچ جاننے کیلئے ہمارے پاس آتے ہیں اور ہم سچائی کی میٹھی پرت کے اندر جھوٹ کا زہر ان کے گلے سے اتار دیتے ہیں۔ چنا دادا تو ایک بار میں قتل کر دیتا تھا ہم بار بار نہ جانے کتنے لوگوں کی کردار کشی کرتے ہیں اور پھر بھی ۰۰۰۰۰۰۰۰۰

چمیلی ایک بوتل اور دو جام لے کر پہنچ چکی تھی۔

چنائی سیٹھ نے جوش میں آ کر اعلان کیا یہ جام صحت مونگیری لال عرف منگو کے نام ہے۔ مجھے یقین ہے کہ بہت جلد اتوار کی شام کو ۸ سے ۹ بجے تک شہر میں کرفیو کا ماحول ہو گا۔ ہرکس و ناکس ٹی وی کی کھڑکی سے زعفرانی مہ خانے میں جھانکے گا۔

منگو بولا مہ خانہ نہیں چائے خانہ چنائی سیٹھ۔

ایک ہی بات ہے منگو کیا چائے خانہ اور کیا مہ خانہ۔ سب یکساں ہے!!!

دوچار گھونٹ نے منگو کو مد ہوش کر دیا۔ اب اس کے کانوں میں میرے صنم فلم کا وہ نغمہ گونج رہا تھا جس پر پروگرام ختم ہوا تھا:

جائیے آپ کہاں جائیں گے

یہ نظر لوٹ کے پھر آئے گی

دور تک آپ کے پیچھے پیچھے

میری آواز چلی آئے گی

کچھ دیر بعد جب لال پری کا نشہ سر چڑھ کر بولنے لگا تو آشا پاریکھ کی جگہ مدھو بالا آ گئی اور بسواجیت کی جگہ اس نے لے لی۔ چار پیگ کے بعد چنائی سیٹھ نے جاتے ہوئے اپنے نوکروں  کو حکم دیا اسے یہیں سلا دو۔ یہ اس کی شب عروسی ہے۔ پہلی رات کوئی گھر نہیں جاتا اب یہ صبح میں جائے گا۔

چنائی سیٹھ تو ایسے گئے جیسے کہ کچھ ہوا ہی نہ ہو لیکن منگو رات بھر اسٹوڈیو کے مہمان خانے میں ایک ہی نغمہ دیکھتا رہا۔ سابقہ فیشن چینل کے شاندار مہمان خانے میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی تھی۔ ساری دیواریں نیم عریاں خواتین کی قد آدم تصاویر سے اٹی پڑی تھیں اور ان کے درمیان مونگیری لال عرف منگو مستقبل کے حسین سپنے بن رہا تھا کہ اچانک سورگ کی اپسرا مدھو بالا کی آہٹ نے خوابوں میں خلل ڈال دیا۔ منگو نے چونک کرسوال کیا میں کہاں ہوں؟

مدھو بالا کو یہ سوال اٹ پٹا سا لگا وہ بولی کیا آپ واقعی نہیں جانتے کہ کہاں ہیں یا مجھ سے دل لگی کر رہے ہیں؟

منگو ہنس کر بولا مجھے وشواس ہے کہ میں سورگ لوک میں ہوں۔

یہ کیسے ہو سکتا ہے سوامی۔ میں جو آپ کے سامنے ہوں۔

مدھو بالا کے زبان سے سوامی سن کر منگو اس پر فدا ہو گیا اور بولا کیوں؟ اپسرائیں اگر سورگ میں نہیں تو کیا نرک میں ہوتی ہیں؟

مدھو بالا کھلکھلا کر بولی ست یگ کی اپسرا کوکل یگ میں سورگ سے فیشن چینل کے اسٹوڈیو میں بھیج دیا گیا ہے۔ اگر وشواس نہ ہو تو ۰۰۰۰۰۰یہ کہہ کر مدھو بالا نے تالی بجائی اور اس کی پکار پر چمیلی، رنگیلی، اور وجینتی مہابھارت کے سیٹ سے اٹھ کر منگو کے خواب میں چلی آئیں۔ میک اپ میں وہ سب جنت کی حور بنی ہوئی تھیں لیکن اس سے قبل کے منگو ان سے دل لگی کرتا چنائی سیٹھ بھسماسور کے بھیس میں نمودار ہو گئے اور چیخ کر بولے ارے تم سب یہاں کیا کر رہی ہو؟ جاؤ اپنا کام کرو۔ ساری لڑکیاں ایک ایک کر کے جانے لگیں مگر مدھو بالا اپنی جگہ سے نہیں ہٹی۔

چنائی سیٹھ نے پوچھا مدھو کیا تم نے میرا حکم نہیں سنا؟

مدھو بولی اب میں صرف اپنے خوابوں کے شہزادے کی کنیز ہوں۔ اگر یہ حکم دیں گے تو میں آگ میں کود جاؤں گی اور اگر کہیں گے تو ساری دنیا کو آگ لگا دوں گی۔

مدھو بالا کے تیور دیکھ کر چنائی سیٹھ سہم گئے۔ انہوں نے کہا میں نے بڑی محنت سے یہ سامراج کھڑا کیا ہے خدا کیلئے مجھ پر رحم کرو۔

منگو حیرت سے یہ منظر دیکھ رہا تھا۔ چنائی سیٹھ دُم دبا کر باہر جا رہے تھے۔

منگو نے مدھو بالا سے کہا تم نے تو چمتکار کر دیا۔ اس سورگ کے مالک کو ہی یہاں سے چمپت کر دیا۔

یہ عشق ہے سوامی جو لوہے کو موم بنا دیتا ہے چنائی کس کھیت کی مولی ہے۔

میں جانتا ہوں مدھو مجھے پتہ ہے۔ میں تم سے معذرت چاہتا ہوں کہ اچانک پروگرام سے اٹھ کر چلا آیا مجھے ڈر تھا کہ تم ناراض ہو جاؤ گی لیکن کمال ذہانت کا مظاہرہ کرتے ہوئے تم نے وہ نغمہ چلا کر میرا دل جیت لیا۔

اس میں میرا کوئی حصہ نہیں تھا سوامی وہ تو کرمارکر کا دماغ تھا لیکن بہر حال ہوا کا رخ بدل گیا ورنہ اپنے نئے چینل کا بیڑہ غرق ہو جاتا۔

یہ سن کر منگو کی آنکھ کھل گئی۔ صبح ہو چکی تھی اس نے آواز لگا کر مہمان خانے کے خادم ہنومان کو بلایا اور چائے کا حکم دے دیا۔ ہنومان نے بتایا کہ اس کو گھر پہچانے کیلئے چنائی سیٹھ کی ہدایت کے مطابق گاڑی تیار ہے۔

منگو اپنے چہرے پر پانی مار کر دروازے کی جانب جا رہا تھا تو میک روم کے اندر سے اسے کھسر پسر کی آواز سنائی دی۔ وہ وہیں رک کر ہمہ تن گوش ہو گیا۔ اخبار کے مطالعہ میں غرق مدھو بالا سے رنگیلی سوال کر رہی تھی اس سمع و بصر کے دور میں زمانۂ قدیم کے اخبارات کے اندر تمہاری دلچسپی میری سمجھ میں نہیں آتی۔

مدھو بالا بولی در اصل کیمرے سے زیادہ مجھے قلم پر اعتبار ہے۔

چمیلی بولی یہ لو ان کی سنو ہم تو سنتے آئے تھے آنکھوں دیکھا سچ اور کانوں سنا جھوٹ اور یہ اپنی آنکھوں سے کیمرے کی تصاویر دیکھ کر بھی ان پر اعتماد نہیں کرتیں۔

دیکھو چمیلی مجھے اپنی آنکھ پر تو اعتماد ہے لیکن کیمرے کی آنکھ پر نہیں۔ کیمرہ چند ہاتھوں کے اختیار ہوتا ہے اور تم تو جانتی ہو کہ نشر ہونے سے قبل ایڈٹنگ کی میز پر کیا کچھ نہیں ہوتا؟

لیکن قلم بھی تو کسی نہ کسی کے ہاتھ میں ہوتا ہے؟یہ رنگیلی کا سوال تھا۔ اس سوال نے منگو کی غلط فہمی کو دور کر دی کہ خوبصورت لڑکیاں احمق ہوتی ہیں۔

مدھو بالا بولی تمہاری بات درست ہے۔ لیکن تحریر خود گواہی دیتی ہے کہ کون مردِ آزاد اپنے دل کی بات لکھ رہا ہے کس کا قلم دولت کا غلام ہے۔

رنگیلی نے سوال کیا۔ کیا!آج کے مادہ پرستانہ دور میں بھی دل والے میرا مطلب ہے دل کی بات کہنے والے لوگ موجود ہیں؟

مدھو بالا بولی کیوں نہیں! راجدھانی ایکسپریس کا یہ چمپو۔ اس کے حرف حرف سے سچائی ٹپکتی ہے۔ میں تو اس کا کوئی مضمون نہیں چھوڑتی۔

چمیلی نے کہا اوہو تو کون ہے وہ جو ہماری مدھو کے دل پر راج کرتا ہے؟

رنگیلی بولی میں نے اس کے بارے میں معلوم کرنے کی خاطر راجدھانی ایکسپریس سے رابطہ کیا تھا لیکن ان لوگوں نے یہ کہہ کر معذرت کر لی کہ جن صاحب کا یہ قلمی نام ہے وہ اپنے آپ کو گمنام رکھنا چاہتے ہیں۔

چمیلی بولی حیرت ہے نام و نمود کے دور میں بھی ایسے لوگ موجود ہیں۔

مدھو بالا بولی یہی تو میں کہتی ہوں کہ ۰۰۰۰۰۰۰۰

منگو جانتا تھا کہ راجدھانی ایکسپریس میں چمپو کے نام سے اس کے دوست چنگو کے مضامین شائع ہوتے ہیں۔ اس سے رہا نہ گیا۔ اس نے دروازے پر دستک دے دی۔

مدھو بالا نے دروازہ کھول کر پوچھا ارے آپ اتنی صبح آ گئے؟ اس وقت تو کوئی نہیں آتا۔

اچھا تو آپ کیسے آ گئیں اور کیا آپ بھوت پریت سے باتیں کر رہی تھیں؟

جی نہیں رنگیلی درمیان میں بول پڑی۔ اس کا مطلب ہے اس وقت مرد نہیں آتے۔ ہمارا کیا ہے؟ ہم لوگ آ جاتے ہیں۔

منگو بولا ہاں اور گھر کے بجائے یہاں گپ شپ میں لگ جاتی ہیں۔ ایک ہی بات ہے گھر ہو یا دفتر کیا فرق پڑتا ہے۔

چمیلی منہ بسور کر بولی نہیں ایسی بات نہیں۔ ہم یہاں کام کرتی ہیں۔

جی ہاں سمجھ گیا کام مثلاً اخبار پڑھنا وغیرہ۔ یہ سن کر مدھو بالا کے ہاتھ سے اخبار زمین پر گر گیا۔ منگو بولا اور سنو رنگیلی آئندہ اگر کوئی معلومات حاصل کرنا ہو تو اخبار کے دفتر میں فون کرنے کے بجائے مجھ سے رابطہ کر لینا کیا سمجھیں۔

میں نہیں سمجھی رنگیلی نے جواب دیا۔

چمیلی بولی تو کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ راجدھانی ایکسپریس کا چمپو کون ہے؟

جی ہاں میرا دوست چنگو وہ کالم لکھتا ہے۔

مدھو بالا نے حیرت سے پوچھا تو کیا آپ انہیں جانتے ہیں؟

یہ بھی کوئی سوال ہے؟ چنگو اور میں بچپن کے لنگوٹیا یار ہیں۔

اچھا یہ تو بڑی خوشی کی بات ہے۔ کیا مجھے ان سے ملا سکتے ہیں۔ میں ان کی بہت بڑی ۰۰۰۰۰۰۰۰۰

سمجھ گیا۔ مداح ہوں۔ چنگو کے بہت سارے مداح ہیں مگر وہ میرا مداح ہے کیا سمجھیں؟

سمجھ گئی۔ رنگیلی بولی اور کل پروگرام کے بعد تو چنائی سیٹھ اور میں بھی اپنے فین کلب میں شامل ہو گئے ہیں۔

شکریہ نوازش لیکن ذرا اپنی اس سہیلی کو سمجھاو کہ سراب کے پیچھے بھاگنے کے بجائے حقائق سے آنکھیں چار کرے۔

منگو کے اس جملے کا مطلب کسی کی سمجھ میں نہیں آیا۔ مدھو بالا نے سوال کیا وہ تو ٹھیک ہے لیکن آپ مجھے اپنے دوست سے کب ملائیں گے؟

منگو بیزار ہو کر بولا کہو تو ابھی لے چل کر ملاقات کرا دوں؟

ابھی ابھی تو آپ آئے ہیں۔

میں آیا نہیں!جا رہا ہوں۔ یہ کہہ کر منگو صدر دروازے کی جانب بڑھ گیا۔

چمیلی، رنگیلی اور مدھو کی سمجھ میں منگو کی یہ بات بھی نہیں آئی۔ مدھو بالا بولی اس پاگل کا تو آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔

رنگیلی نے تائید کی جی ہاں سب کچھ الٹا پلٹا ہے لیکن مجھے ڈر ہے کہ زعفرانی چائے خانے کے اندر کہیں تمہارا بھی سب کچھ الٹ پلٹ نہ جائے۔

مدھو بالا نے ڈانٹا چپ بدمعاش۔

اور تینوں سہیلیاں ہنس پڑیں۔

 

 

 

 

 

۱۵

 

مدھو بالا نے پھر ایک بار آم کے آم گٹھلیوں کے دام میں ناظرین اور منگو کا استقبال کیا منگو نے بھی ہاتھ جوڑ کر جواب دیا۔ اسی کے ساتھ ٹی وی کے پردے پر کونے میں ایک یہ لکھا جانے لگا کہ آپ ایک خیالی داستان دیکھ رہے ہیں۔ اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس کے کردار اور واقعات فرضی ہیں اور مماثلت اتفاقی ہے۔ مگر سچ تو یہ ہے کہ ان الفاظ کو کوئی بھی پڑھ نہیں رہا تھا۔ سارے لوگوں کی توجہ منگو اور مدھو کی جانب مرکوز تھیں۔ سب لوگ کمل کی حقیقت اور چائے خانے کا فسانہ جاننے میں دلچسپی رکھتے تھے۔

مدھو بالا بولی جی ہاں تو جناب آپ یہ بتا رہے تھے کہ کمل چھاپ زعفرانی چائے خانہ کھولنے کا خیال آپ کو کیسے آیا؟

جیسا کہ آپ جانتی ہیں میرا نام مونگیری لال ہے اور میرے حسین سپنے ساری دنیا میں مشہور ہیں۔ یہ چائے خانہ در اصل میرے ایک خواب کی تعبیر ہے۔

بہت خوب تو پہلے آپ اپنا خواب بتائیے اور پھر ہم اس کی تعبیر دیکھیں گے۔

جی شکریہ میں نے ایک دن سپنے میں دیکھا کہ ہمارے شہر جھمری تلیا میں ایک چائے کی دوکان کے کھلنے کا اعلان ہو رہا ہے۔ آب و تاب کے ساتھ قلب شہر میں ایک بڑا سا بورڈ آویزاں کر دیا گیا ہے جس میں ایک جانب مرجھایا ہوا کمل اور دوسری جانب مسکراتے ہوئے چائے والے کی تصویر ہے درمیان میں لکھا ہے ’کمل چھاپ زعفرانی چائے خانہ ‘۔

مدھو بالا نے درمیان میں ٹوک کر پوچھا اچھا تو یہ خواب آپ نے ایک دن دیکھا یعنی آپ دن دہاڑے خواب دیکھتے ہیں۔

میں آپ کے اس سوال کا جواب ضرور دوں گا لیکن آپ پہلے یہ بتائیے کہ ایک دن میں کتنے گھنٹے ہوتے ہیں؟

یہ بھی کوئی سوال ہے؟ ساری دنیا جانتی ہے کہ ۲۴ گھنٹے۔

اچھا اگر چوبیسوں گھنٹے دن ہوتا ہے تو کیا رات نہیں ہوتی؟

مدھو بالا چکرا گئی۔ وہ بولی جناب رات بھی ہوتی لیکن کہنے کو یہی کہا جاتا ہے کہ ایک دن میں ۲۴ گھنٹے ۰۰۰۰۰۰۰۰۔

جی ہاں جیسا کہ آپ نے ابھی کہا ’’ کہنے کو یہی کہا جاتا ہے کہ‘‘ میں نے ایک دن خواب دیکھا حالانکہ وہ سپنا دن یا رات دونوں میں سے کسی ایک میں ۰۰۰۰۰

جی ہاں میں سمجھ گئی تو آپ چائے خانے کے اعلان کی بابت کچھ بول رہے تھے۔ برائے کرم اسے پورا کیجئے۔

آپ کی نوازش ہے لیکن کیا میں  یہ توقع کروں کہ آپ درمیان میں  کوئی اوٹ پٹانگ سوال نہیں کریں  گی؟

میں  معذرت چاہتی ہوں جناب۔

خیر کوئی بات نہیں اس بورڈ پر یہ خوشخبری درج تھی کہ چند ماہ کے اندر جب یہ چائے خانہ کھل جائے گا تو سب مل کر یہاں چائے پر چرچا کریں گے۔ چائے مفت ملے گی بسکٹ کفایتی داموں پر فراہم کئے جائیں گے۔ جن کی غذائیت اور ذائقہ ایسا ہو گا کہ لوگ کھانا بھول جائیں گے۔

گویا بھوک اور غربت کے مسائل اپنے آپ حل ہو جائیں گے؟

جی ہاں آپ نے درست سمجھا۔ اس بورڈ پر لکھا تھا اس چائے خانے میں پتی، شکر اور ایندھن بیرونِ ملک جمع کالے دھن کی واپسی سے مہیا کی جائے گی۔

یعنی اس چائے خانے کو چلانے کا بوجھ سرکاری خزانے پر نہیں پڑے گا؟

کیسی بات کرتی ہیں آپ اس سے خزانے کا بوجھ ہلکا ہو گا۔ پہلے کالا دھن سرکاری خزانے میں آئے گا اور پھر اس طرح کے کاموں پر خرچ کیا جائے گا۔

بہت خوب لیکن اس طرح کے اعلانات کے علاوہ بھی وہاں کچھ تھا؟

کیوں نہیں چائے خانے کے بورڈ کے اوپر لگے لاؤڈ اسپیکر پر صبح کے وقت نمو نمو کے بھجن کیرتن، دوپہر میں ترقی و خوشحالی کے پر جوش ترانے اور شام میں ڈسکو کے کیف آگیں نغمے بجتے تھے۔

پھر اس کا کیا نتیجہ نکلا؟

لوگ اس شور شرابے میں کچھ ایسے مد ہوش ہوئے کہ ایک سونامی چل پڑی جس میں ہاتھ، گھڑی، سائیکل، جھاڑو اور ہاتھی وغیرہ سب بہہ گئے۔

اچھا پھر اس تباہی کے بعد کیا ہوا؟

سونامی کا خمار اترا تو لوگ چائے خانے کی تعمیر کا وعدہ بھول گئے مگر میں نے اسے یاد رکھا اور سرکار کی مدد سے اس خواب کو شرمندۂ تعبیر کرنے میں لگ گیا۔ ایک سال کی محنت اور مشقت کے بعد پردھان جی کے آشیرواد سے گرو جی نے اس کا افتتاح کر دیا۔

(چہک کر) آپ نے تو خواب کے ساتھ اس کی تعبیر بھی بتا دی۔ بہت خوب۔ اب ہم چاہتے ہیں آپ اس چائے خانے میں ہونے والی دلچسپ چرچا کی چند جھلکیاں بھی ہمارے ناظرین کو دکھائیں؟

منگو بولا مجھے پتہ تھا کہ آپ یہ مطالبہ ضرور کریں گی اس لئے میں اپنے چائے خانے میں لگے سی سی ٹی وی کی کچھ فلمیں اپنے ساتھ لے آیا تھا آپ چاہیں تو اپنے ناظرین کو دکھا سکتی ہیں۔

مدھو بالا نے اعلان کیا ہم ان جھلکیوں کو ضرور دیکھیں گے مگر بریک کے بعد

یہ اعلان سن کر منگو نے ناراضگی سے ایک سردآہ بھری۔

مدھو بالا نے ناظرین کی جانب دیکھ کر کہا ہمارے اس مہمان کا دل رکھنے کیلئے اور آپ لوگوں کا دل بہلانے کیلئے آئیے ۱۹۷۱؁ کی فلم بن پھول کا مشہور نغمہ سنیے جسے آنند بخشی نے لکھا اور لکشمی کانت پیارے لال نے موسیقی سے نوازا۔ اسی کے ساتھ پردے پر ببیتا تھرکنے لگی اور گانا چل پڑا:

آہیں نہ بھر ٹھنڈی ٹھنڈی، خطرے کی ہے ٹھنڈی

گرم گرم چائے پی لے، نرم نرم ہاتھوں سے،

گرم گرم چائے پی لے

بریک کے بعد منگو نے کہا ناظرین تو لیجیے آپ کی خدمت حاضر ہے۔ کمل چھاپ زعفرانی چائے خانے کی آدھی حقیقت آدھا فسانہ۔

ناظرین پردے پر دیکھ رہے تھے کہ مفت چائے کی امید میں لوگ جوق در جوق چائے خانے پر پہنچ رہے ہیں مگر دروازے پر بندوق بردار جیٹلی دربان بنے کھڑے ہیں اور سامنے لگے کاؤنٹر کی جانب اشارہ کر کے کہہ رہے ہیں پہلے وہاں سے کوپن لو پھر اندر جاؤ۔

لوگوں نے کہا تمہارا دماغ خراب ہے ہمیں تو ڈیڑھ سال سے یہ بتایا جا رہا ہے کہ یہاں زعفرانی کڑک چائے مفت میں ملے گی۔

جیٹلی بولے اس میں کیا شک ہے، چائے تو مفت ہی میں ملے گی مگر وہ اندر آنے کی فیس ہے۔ تم سے یہ تو نہیں کہا گیا تھا کہ چائے خانے میں داخلہ مفت ہو گا۔

لوگ شش و پنج میں گرفتار ہو گئے۔ ایک بولا لیکن بھائی کسی چائے خانے میں داخلے کی فیس تھوڑی نا ہوتی ہے۔

جیٹلی نے وکیلی انداز میں مسکرا کر کہا لیکن جن عام چائے خانوں میں داخلہ فیس نہیں ہوتی ان میں چائے بھی تو مفت میں نہیں ملتی؟ دیکھو یہ بہت ہی خاص چائے کی دوکان ہے ایک زمانے میں ملک کا وزیر اعظم یہاں چائے بنایا کرتا تھا اور کوئی بعید نہیں کہ یہاں چائے پی کر کل کو تم بھی وزیر اعظم بن جاؤ۔

یہ سن کر بہت سارے لوگ خوشی خوشی کوپن کے کاؤنٹر کی جانب چل دئیے۔

ایک بوڑھا کسان بھوپندر سنگھ بولا میں نے سنا ہے آئندہ ۲۵ سال یہی پردھان جی سرکار چلائیں گے۔ تب تک توہم مر کھپ جائیں گے۔

جیٹلی نے کہا دیکھو اس قدر مشکل سوالات کا جواب میں رٹ کر نہیں آیا ویسے چہرے سے تم کسان لگتے ہو؟ بھوپندر سنگھ نے سرہلا کر تائید کی تو جیٹلی نے اسے وزیر زراعت رادھا موہن سنگھ کے کمرے کی جانب بڑھا دیا۔

بھوپندر نے حیرت سے پوچھا بیک وقت رادھا بھی اور موہن بھی یہ مرد ہے یا عورت؟

جیٹلی نے چڑ کر کہا دیکھو ان دونوں کے علاوہ ایک تیسری صنف بھی ہوتی ہے تم ایسا کرو کہ اپنے سوال کا جواب انہیں سے معلوم کرو۔

بھوپندر سنگھ رادھا موہن کی خدمت میں حاضر ہو گیا اور پوچھا جناب آپ بیک وقت رادھا بھی ہیں اور موہن بھی یہ بات سمجھ میں نہیں آئی؟

رادھا موہن بولے تم چہرے سے جاٹ لگتے ہو اس لئے ہمارے بہار کو نہیں جانتے وہاں لالو، ربڑی اور میسا جیسے نام ہوتے ہیں۔ میرے بیٹے کا نام کیلاش گنگا ہے تم پوچھو گے کہ پربت یا ندی میری بیوی چمپا چمیلی ہے اب تم ہی کہو کہ کیا یہ دونوں پھول ایک ہی شاخ پر کھل سکتے ہیں؟ اس طرح کے فضول سوالات میں اپنا وقت ضائع نہ کرو یہ بتاؤ کہ کام کیا ہے؟

بھوپندر سنگھ کو اپنی غلطی کا احساس ہو گیا۔ اس نے کہا صاحب معافی چاہتا ہوں۔ میں نے جیٹلی جی سے ایک سوال کیا تھا تو انہوں نے جواب دینے کے بجائے آپ کے پاس روانہ کر دیا۔

ارے وہ تو بہت بڑے وکیل ہیں۔ جس پرشن کا اتر وہ نہیں جانتے ہم جیسا جاہل جپاٹ کیسے جان سکتا ہے خیر پوچھو۔

جیٹلی جی نے کہا اس چائے خانے میں چائے پینے والا آدمی پردھان منتری بھی بن سکتا ہے تو ہم نے سوال کیا۔ سنا ہے اگلے ۲۵ سال تو یہی پردھان سیوک ملک کی خدمت کرنے والے ہیں۔ اس وقت تک تو ہم لوگ مر کھپ جائیں گے اس لئے پردھان منتری کیسے بنیں گے؟

تمہاری دونوں باتیں درست ہیں۔ پردھان جی نہ آئندہ ۲۵ سالوں تک کرسی چھوڑنے کا ارادہ رکھتے ہیں اور نہ تمہارے ۲۵ سالوں تک جینے کا کوئی امکان ہے۔ اسی لئے اڈوانی جی سمیت ہم سب نے وزیر اعظم بننے کاسپنا دیکھنا چھوڑ دیا ہے۔ اب ہم لوگ اپنی اولاد کے بارے میں فکر مند ہیں اور میں تو کہتا ہوں تم بھی اپنی اولاد کے بارے میں کیوں نہیں سوچتے وہ اگر یہاں کی زعفرانی کڑک چائے پئیں گے تو ممکن ہے وزیر اعظم بن جائیں۔

وزیر اعظم بن جائیں گے کھیت میں ہل کون چلائے گا اناج کون اگائے گا؟

ہمارے وزیر اعظم بہت تیز آدمی ہیں وہ ساری دنیا کا دورہ کر کے اناج باہر سے درآمد کر لیں گے۔ تمہیں اس کیلئے پریشان ہونے کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔

رادھا موہن کی بات سن کر کسان حیران رہ گیا وہ بولا جناب اگر ہم لوگ کھیتی نہیں کریں گے تو کیا کریں گے؟

تم لوگ بھی عیش کرو گے جیسا کہ ہم کر رہے ہیں۔

لیکن وقت گزاری کیلئے کچھ تو۰۰۰۰

بھئی اس چائے خانے میں آ کر چائے پیو، صبح کے وقت بھجن، دوپہر کو۰۰۰۰

بھوپندر نے جملہ کاٹ کر کہا صاحب گزشتہ ڈیڑھ سال سے یہ سب ہم لوگ باہر ہی باہر سن رہے ہیں۔ اس کیلئے کوپن لے کر اندر آنے کی کیا ضرورت؟

چونکہ ہم لوگ پہلے باہر تھے اس لئے آپ لوگوں کا منورنجن باہر ہی باہر کر دیا کرتے تھے لیکن اب ہم اندر آ گئے ہیں اس لئے باہر کا لاؤڈ اسپیکر جلد ہی بند کر دیا جائے گا اور ان دلفریب نغموں سے محظوظ ہونے کی خاطر اندر آنا لازمی ہو گا۔ مجھے یقین ہے کہ ان ڈیڑھ سالوں میں جو لت لگ چکی ہے وہ تمہیں چین سے بیٹھنے نہیں دے گی بلکہ کھیت، کھلیان اور گھر ہر جگہ سے یہاں کھینچ کر لے آئے گی۔

بھوپندر نے کہا وہ ٹھیک ہے مگر یہ ٹکٹ کا کیا چکر ہے؟

بھئی دیکھو دنیا میں کوئی چیز مفت میں نہیں ملتی کیا تم اپنا اناج مفت کے اندر بازار میں ڈال آتے ہو؟

بھوپندر لاجواب ہو گیا لیکن جناب ڈیڑھ سال سے تو ۰۰۰۰۰۰۰

بھائی نمونے کا مفت اشتہار عارضی تھا، مستقل بلا قیمت بھلا کیا ملتا ہے؟

جی سرکار سمجھ گیا لیکن اگر ہم کھیتی نہیں کریں گے تو ہماری زمین بنجر ہو جائے گی۔

جی نہیں ایسا نہیں ہو گا۔ سرکار آپ لوگوں سے زمین خرید کر صنعتکاروں کو مہیا کر دے گی تاکہ وہاں کارخانے لگائے جا سکیں۔

(بگڑ کر)ہم اپنے باپ دادا کی زمین سرکار کو کیوں دیں گے بھلا؟ کیا آپ سمجھتے ہیں ہم یہ سب ہونے دیں گے؟

کیسے نہیں ہونے دو گے؟ تم کون ہوتے ہو روکنے والے؟

ہم! اس دھرتی کے مالک ہیں۔ سرکار کون ہوتی ہے ہم سے زمین چھین کر صنعتکاروں کو دینے والی اور ان سرمایہ داروں کی کیا مجال کہ وہ ہماری زمین پر اپنا کارخانہ لگائیں؟

بھوپندر کے یہ تیور دیکھ کر رادھا موہن آگ بگولا ہو گئے۔ وہ بولے تم اپنے آپ کو کیا سمجھتے ہو اور سرکار کو کیسے روک سکتے ہو؟ ہم اس کیلئے تحویل اراضی کا قانون بنائیں گے اور اگر آپ لوگوں نے اس قانون کی خلاف ورزی کی تو پولیس آپ سب کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے ٹھونس دے گی۔ بھوپندر کے چہرے پر ہوائیاں اڑ تے دیکھ کر رادھا موہن سمجھ گیا کہ اس کا کام ہو چکا ہے۔ اب وہ اپنا لہجہ نرم کر کے بولا اچھا تو بھوپندرسنگھ ذرا یہ بتاؤ کہ کیا کوئی اپنی زمین جیل میں ساتھ لے کر جا سکتا ہے اور وہاں کھیتی باڑی کر سکتا ہے؟

رادھا موہن کی دھمکی سن کر کسان ترقی و خوشحالی کے سارے ترانے بھول گیا۔ اس بیچ رادھا موہن کے ایک دست راست نے آ کر بھوپندر کے کان میں کہا چودھری صاحب اس زعفرانی چائے کا خیال اپنے دل سے نکال دو۔ اگر چائے پر یہ چرچا اسی طرح جاری رہی تو کوئی بعید نہیں کہ رادھا موہن آپ کو ملک بدر کر کے پاکستان روانہ کر دیں۔

ڈرا سہما بھوپندر سنگھ جس وقت چائے خانے سے باہر جا رہا تھا سامنے سے چند نوجوان اندر آ رہے تھے۔ جیٹلی نے مسکرا کر ان کا استقبال کیا اور بولے آئیے آئیے آپ جیسے نوجوانوں کی قوم کو بہت ضرورت ہے۔

ان نوجوانوں کا لیڈر راہل بولا جناب قوم کی ضرورت کو چھوڑئیے اور ہماری ضرورت کو پورا کیجئے۔

جیٹلی نے کہا کیوں نہیں؟ مجھے تو وزیر اعظم نے اسی کام کیلئے فارغ کر رکھا بولو تمہارا کیا مسئلہ ہے؟

صاحب ہم سب بیروزگار ہیں۔ ہم لوگ ڈیڑھ سال سے انتظار کر رہے تھے کہ یہ زعفرانی چائے خانہ کھلے گا تو ہمیں روزگار مل جائے گا مگر۰۰۰۰۰۰

کس مگر کی بات کر رہے ہو؟

اس مگر مچھ کی بات جس کی آنکھوں میں فریبی آنسو ہوتے ہیں۔ جو خود نہیں روتا بلکہ دوسروں کو رلاتا ہے۔

جیٹلی جی سمجھ گئے یہ ان سے نہیں پردھان منتری سے نالاں ہے۔ وہ بولے تم تو بس غصہ کئے جاتے ہو اپنا مسئلہ ہی نہیں بتاتے۔

ہم لوگ یہاں روزگار کیلئے آئے تو ہم سے کہا گیا کہ یہاں ملازمت تو نہیں ملے گی روزی روزگار کے مسائل پر چرچا ہو گی اور ممکن ہے اس زعفرانی چائے پر چرچا کے نتیجے میں کوئی حل نکل آئے۔ ہم نے سوچا چلو یہ بھی ٹھیک ہے۔

جیٹلی کے چہرے پر ایک خوش کن مسکراہٹ پھیل گئی۔ وہ بولے جی ہاں تم لوگ مجھے چہرے سے رجائیت پسند اور حوصلہ مند لگتے ہو۔ مجھے یقین ہے کہ تم بہت جلد برسرِ روزگار ہو جاؤ گے۔

لیکن کیسے؟ کیا یہ چمتکار اپنے آپ ہو جائے گا؟ سوٹ بوٹ والی یہ سرکار ہمارے لئے کچھ کرے گی بھی یا نہیں؟

جی نہیں ایسی بات نہیں مگر آپ لوگ چرچا تو کرو۔ اس کے بغیر تو کچھ نہیں ہو گا۔ اس چرچا میں بڑی تاثیر ہے پردھان جی کو دیکھو وہ چائے پر چرچا کرتے کرتے ملک کے وزیر اعظم بن گئے۔ ہمارے لئے ان کی ذات و صفات میں بڑا نمونہ ہے۔

راہل کا ساتھی مکُل بولا لیکن جناب چائے پر چرچا کیلئے اندر کیسے جائیں وہ خودکار جاپانی دروازہ تو ٹکٹ کا درشن کئے بنا نہیں کھلتا؟

جی ہاں یہ تو من مندر کا پہلا ضابطہ ہے یہاں دکشنا کے بغیر پرساد نہیں ملتا۔

یہ من مندر درمیان میں کہاں سے چلا آیا؟

ارے بھائی جہاں من کی بات ہوتی ہے وہی من مندر ہوتا ہے۔

نکل نے کہا لیکن جناب وہ نقد نہیں لیتا کریڈٹ کارڈ سے ادائیگی چاہتا ہے

جیٹلی جی بولے تو کیا تمہارے پاس کریڈٹ کارڈ نہیں ہے؟

راہل بولا صاحب کارڈ تو دور ہمارا بنک میں کھاتا تک نہیں ہے؟

جی ہاں یو پی اے سرکار غریبوں کو بنک میں کھاتہ کھولنے سے روکتی تھی لیکن ہم نے قانون بنا کر رکاوٹ دور کر دی ہے سب کا کھاتہ کھولنا اب بنک پر لازم ہے۔ اگر کوئی انکار کرے تو اس پر کار روائی ہو گی۔

مکل نے سوال کیا لیکن جناب اس کا فائدہ کیا ہے؟ ہمارے پاس بنک میں رکھنے کیلئے پیسے کہاں ہیں؟

تم اس کی بالکل فکر نہ کرو سرکار جن دھن یوجنا کے تحت آپ لوگوں کے کھاتے میں رقم جما کرے گی۔ پہلے کھاتہ تو کھولو۔

نکل بگڑ کر بولا آپ جھوٹ بولتے ہیں میرے والد نے اسی جھانسے میں آ کر خاندان کے سارے افراد کا الگ الگ کھاتہ کھول دیا اور ایک ہزار روپئے بنک میں جمع کر آئے لیکن ان کھاتوں میں ابھی تک ایک پھوٹی کوڑی نہیں آئی۔

تم اپنے والد کو سمجھاو۔ انہیں بتاؤ کہ دھیرج رکھیں۔ ابھی تو ہماری سرکار کا ہنی مون بھی ختم نہیں ہوا۔ ہمیں کچھ تو موقع ملنا چاہئے۔

نکل بولا اب اس کا کوئی امکان نہیں ہے۔ وہ بچپن سے سنگھ کی شاکھاؤں میں جاتے رہے ہیں لیکن اب اس قدر بد ظن ہو گئے ہیں کہ انہوں نے اپنی کالی ٹوپی اور خاکی نیکر کی نیلامی کیلئے لگا رکھی ہے لیکن یقین کریں اس کا کوئی خریدار ہی نہیں آتا۔

جیٹلی نے پوچھا تو اب وہ برہنہ ۰۰۰۰۰

نکُل بولا جی نہیں اب وہ اپنی پرانی سفیددھوتی اور گاندھی ٹوپی پہنتے ہیں۔

جیٹلی نے کہا لیکن وہ لاٹھی؟

مکُل بولا جہاں تک لاٹھی کا سوال ہے وہ سنگھ میں جانے سے قبل ان کے پاس تھی سو اب بھی ہے۔

جیٹلی نے دیکھا ماحول خراب ہو رہا ہے تو وہ بولے دیکھئے۔ ہماری پرمپرا کے انوسار مہمان بھگوان کا سوروپ ہوتا ہے اس لئے میں آپ کو اس بار کیلئے فری پاس دئیے دیتا ہوں۔ آپ لوگ اندر جا کر چرچا کیجئے لیکن یہ مہمان داری صرف ایک وقت کی ہے اگلی بار آپ کو کوپن لے کر اندر جانا ہو گا۔

نوجوان اندر چائے خانے میں گئے تو وہاں رقص و سرود کی محفل سجی ہوئی تھی۔ کئی ہال بنے ہوئے تھے کسی میں وزیر اعظم امریکہ کے اندر مشہور پاپ سنگر کے ساتھ تھرک رہے تھے۔ کسی کمرے میں جاپان کے اندر ڈھول بجاتے ہوئے نظر آ رہے تھے۔ کہیں پر وہ ازبکستان کے اندر انگریزی بانسری بجاتے ہوئے دکھائی دے رہے تھے۔ کسی کمرے میں چین کے اندر ان کے سواگت میں بجنے والا سنگیت سنایا جا رہا تھا تو کہیں ہندوستان کے مختلف حصوں میں ہونے والی ان کی تقاریر اور ان پر بنائی گئی فلمی پیروڈیاں نشر ہو رہی تھیں۔

اس ماحول میں آنے کے بعد کچھ دیر تک تو نوجوان یہ بھی بھول گئے کہ وہ کس کام کے لئے اندر آئے تھے۔ ہر کوئی سحرزدہ اِدھر اُدھر دیکھ رہا تھا۔ اس بیچ مکل کو پیاس لگی تووہ ایک طرف لگے پانی کے نلکے کے پاس گیا۔ اس نے نلکا کھولا تو پانی کے بجائے آواز آئی۔ پہلے بازو کی مشین میں سکہ ڈالو پھر اُس میں سے ایک سوّچھ بھارت والی پانی کی بوتل نکل آئے گی۔

مکل نے کہا عجب تماشہ ہے ہم سے تو کہا گیا تھا یہاں چائے مفت ہے۔

مشین نے جواب دیا چائے تو مفت ہے مگر پانی نہیں۔ کل یگ میں گنگا جل کو بھی سوچھ کرنے پر خرچ ہوتا ہے۔ اس کی قیمت کون چکائے گا؟

نکل بولا ایسا کرتے ہیں آج ترتیب بدل دیتے ہیں پہلے یہاں چائے پی لو پھر گھر جا کر پانی پی لینا۔

وہ سب چائے کے کاؤنٹر پر لائن لگا کر کھڑے ہو گئے۔ جب ان کی باری آئی تو انہیں ایک کپ میں کھولتا ہوا پانی دے دیا گیا۔ اس میں پتی تھی نہ شکر۔ جب وہ حیرت سے اسے دیکھنے لگے تو ایک پکارنے والا بولا۔ خود بھی چلئے اور دوسروں کو بھی چلنے کا موقع دیجئے۔

اب وہ سارے نوجوان چائے کی پیالی میں گرم پانی لے کر ایک طرف جمع ہو گئے۔ اس پیالی نے ان کا موضوع بحث بدل دیا تھا اب وہ روزگار کے بجائے چائے پر چرچا کرنے لگے تھے۔ راہل نے کہا کیا یہی کمل چھاپ زعفرانی کڑک چائے ہے؟

مکُل بولا شاید ہم جیسے مفت خوروں کیلئے ایسی چائے ہو جو باقاعدہ کوپن خرید کر داخل ہوتے ہیں ان کو ممکن ہے مختلف چائے دی جاتی ہو۔

اس پر جو نوجوان آخر میں تھا اس نے کہا جی نہیں میں نے اپنے پیچھے والے کے کپ میں بھی جھانک کر دیکھا وہ بھی یہی تھامے ہوئے تھا۔ ایک اور نوجوان جو سب سے آگے تھا وہ بولا جی ہاں وہ سچ کہتا ہے میں نے اپنے سے آگے والے کے کپ میں بھی یہی کھولتا ہوا پانی دیکھا۔

ہال میں موجود دیگر لوگ گرم گرم پانی کے ساتھ پردھان جی کی تیز تند تقاریر کا مزہ لے رہے تھے لیکن نوجوان چونکہ اس سحر سے نکل چکے تھے۔ انہوں نے نعرے بازی شروع کر دی اور نمو نمو مردہ باد کا شور کرنے لگے۔ اسے دیکھ کر راجناتھ کے بندوق بردار حفاظتی دستے نے انہیں گھیر لیا اور پوچھا کیا پریشانی ہے؟

ہمارے ساتھ دھوکہ ہوا ہے ہمیں چائے کے بجائے نرا پانی تھما دیا گیا ہے۔

حفاظتی دستے کے کماندار نے کہا اگر آپ لوگوں کو کوئی شکایت ہے تو یہاں دادرسی کا شعبہ موجود ہے آپ لوگ وہاں چل کر اپنی شکایت درج کروائیں۔ آپ کی شکایت سنی جائے گی۔ اس طرح تمام نوجوان راشٹر بہو ایرانی جی کے کمرے کی جانب بزورِ قوت ہانک دئیے گئے۔

سمرتی نے مسکرا کر ان کا سواگت کیا اور پوچھا آپ لوگوں کا کیا مسئلہ ہے؟ مجھے بتائیں میں اسے حل کروں گی۔

راہل بولا ہمیں چائے کے نام پر کھولتا ہوا پانی دے دیا گیا ہے؟

سمرتی بولی یہ تمہیں کیسے پتہ چلا کہ یہ چائے نہیں بلکہ صرف پانی ہے؟

مکُل بولا مجھے یہ بے رنگ نظر آتا ہے بالکل پانی کی مانند بے رنگ۔

سمرتی جی بولیں اوہو میں سمجھ گئی تمہاری نظر کمزور ہے۔ میں اس کا مفت میں علاج کرواؤں گی اور اگر عینک کی ضرورت ہوئی تو اس کا بھی بندوبست کروا دوں گی۔

اس الٹی منطق سے بگڑ کر راہل بولا مسئلہ صرف رنگ کا نہیں ذائقہ کا بھی ہے۔ یہ پانی کی طرح بے ذائقہ ہے۔

سمرتی مسکرا کر بولی اچھا مجھے پتہ ہے یہ بھی ایک بیماری ہے۔ مجھے اس کا ذاتی تجربہ ہے۔ میں جب بھی کھانا بناتی تھی میری کھوسٹ ساس کو اس میں کوئی ذائقہ نہیں آتا تھا۔ میں وزیر صحت سے کہہ کر آپ کا علاج کرواؤں گی۔ کاش کہ میری ساس زندہ ہوتی تو میں اس کا بھی علاج کرواتی۔ مجھے یقین ہے کہ علاج کے بعد اگر وہ میرے ہاتھوں کے لذیذ پکوان کھاتی تو انگلیاں چاٹتی رہ جاتی۔

نوجوانوں کو سمرتی جی اپنی لچھے دار باتوں سے شیشے میں اتار کر بولیں آپ لوگ ایسا کریں کہ اس گرما گرم چائے کا مزہ لیں اور وزیر اعظم کے غیر ملکی دوروں کی ویڈیو دیکھیں۔ آخری ہال میں آئی پی ایل میچ کی نشریات کا بھی اہتمام کیا گیا ہے۔

نکُل بولا لیکن میڈم اب تو یہ پانی بھی ٹھنڈا ہو گیا ہے۔

سمرتی نے کہا آپ لوگ بحث و مباحثہ میں اپنا قیمتی وقت ضائع کریں گے تو یہی ہو گا۔ میں تو کہتی ہوں عمر ضائع ہو جائے گی جوانی کا جوش ٹھنڈا ہو جائے گا۔

یہ سن کر راہل نے پوچھا میڈم وہ جو اس چائے خانے میں کالے دھن سے اجلے بسکٹ بن کر ملنے والے تھے ان کا کیا ہوا؟

سمرتی نے سوچا اب معاملہ خطرناک حدود میں داخل ہو رہا ہے۔ وہ بولیں دیکھئے مجھے کچھ نئے کپڑے خریدنے کیلئے گوا جانا ہے اس لئے آپ لوگ پڑوس والے کمرے میں شاہ جی کے پاس جائیں وہ آپ کے باقی ماندہ سوالوں کے جوابات دیں گے۔ میں انہیں فون کئے دیتی ہوں۔

نوجوانوں نے شاہ جی کے کمرے کا رخ کیا اور پردے پر مدھو بالا نمودار ہو گئی۔ وہ بولی ناظرین کرام ان ترنگی نوجوانوں کو تو چائے کا مزہ نہیں آ رہا ہے اور آ بھی کیسے سکتا ہے؟جب اقتدار ہاتھ سے نکل جاتا ہے تو کچھ بھی اچھا نہیں لگتا۔ خیر مجھے یقین ہے کہ آپ نے چائے خانے کی جھلکیوں سے بھر پور لطف لیا ہو گا۔ اب آپ ایک ہفتہ بعد دیکھیں گے شاہ جی سے ان کی ملاقات کیسی رہی۔ اس وقت تک انتظار کیجئے اور جاتے جاتے یہ۱۹۶۳ء کی مشہور فلم بندنی کا نغمہ سنیے جسے شیلندر نے لکھا اور سچن دیو برمن نے سنگیت دیا۔ آواز آپ کے من پسند مکیش کی ہے:

او جانے والے ہو سکے تو لوٹ کے آنا

یہ چائے، یہ پانی، اسے تم بھول نہ جانا

 

 

 

۱۶

 

ایرانی جی نے فون لگایا تو اداس بیٹھے شاہ جی کا موڈ بن گیا۔ انہوں نے سوچا چلو کچھ گپ شپ ہو جائے گی تو دل بہل جائے گا۔ شاہ کا موڈ بھانپ کر ایرانی نے سوال کیا، کیوں شاہ جی آپ کی آواز بوجھل ہے کافی تھکے ہوئے لگ رہے ہیں۔

شاہ جی بولے دہلی کی یہ گرمی مار ہی ڈالے گی۔

سمرتی نے قہقہہ لگا کر کہا آپ موسم کا حال بیان کر رہے ہیں یا سیاسی حالات پر تبصرہ فرما رہے ہیں؟

دونوں ہی سمجھ لو یہاں تو ایک سے بڑھ کر مشکل جنم لے رہی ہے۔

ایک مصیبت کا تو پتہ ہے یہ دوسری کہاں سے آ گئی؟

تم تو سیدھے میرے گھر میں گھس گئیں۔ فی الحال میں ازدواجی نہیں بلکہ سیاسی صورتحال پر اظہار خیال کر رہا ہوں۔

وہی تو! میں نے سیاسی سوال کیا تھا آپ بلا وجہ اسے اپنے گھر میں لے گئے۔ میرا مطلب یہ تھا جھاڑو والے کیجریوال سے تو میں واقف ہوں لیکن وہ بیچارہ پہلے یادو اور بھوشن کے چکر میں پھنس گیا تھا اور اس کے بعد یاور جنگ سے برسرِ جنگ ہو گیا ہے۔ میرا خیال ہے کہ اب اس سے ہمیں کوئی خاص خطرہ نہیں ہے۔

جی ہاں تمہاری بات کسی حد تک درست ہے پھر بھی ہر روز وہ کسی نہ کسی تنازع کے سبب ذرائع ابلاغ پر چھایا رہتا ہے۔

اچھا ہی ہے اس کی بدنامی میں ہمارا فائدہ ہی فائدہ ہے۔

جی نہیں سمرتی تم نہیں جانتیں ایک زمانے تک پردھان جی اپنی بدنامی کے سبب میڈیا پر چھائے رہے۔ سیاست میں ذرائع ابلاغ کے اندر نظر آتے رہنا ضروری ہے اور یہ مثل تو تم نے سنی ہی ہو گی بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہو گا؟

وزیر اعظم بھی تو اپنے غیر ملکی دوروں کے سبب ٹی وی پر نظر آ جاتے ہیں۔

لیکن عوام کو متنازع خبروں میں دلچسپی زیادہ ہوتی ہے اس لئے میڈیا والے بہت جلد ان کی خبریں ہٹا دیتے ہیں اور ہر شام بحث و مباحثہ پر وہی دونوں چھائے رہتے ہیں۔

سمرتی بولے دونوں یعنی کیجری اور مودی نا؟

نہیں راہو اور کیتو۔

میں نہیں سمجھی؟

تم اب بھی بہو کی مانند بھولی ہو ساس نہیں بنیں میرا مطلب ہے راہل اور کیجری۔ کیجریوال تو خیر ایوان پارلیمان میں نہیں ہے لیکن راہل نہ ہمیں لوک سبھا کے اندر چین سے بیٹھنے دیتا ہے اور نہ باہر۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ چھٹی منانے کے بہانے کہاں چلا گیا تھا فی الحال ساری خفیہ ایجنسیاں وہی پتہ لگانے میں جٹی ہوئی ہیں۔

کیوں یہ تو اس کا نجی معاملہ ہے؟ ہمیں اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟

فرق کیوں نہیں پڑتا۔ ہم یہ معلوم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ وہ چھٹیوں پر کیا کھا کر آ گیا جو اس قدر تبدیل ہو گیا؟ اس کے اندر توانائی کا ایک طوفان جوش مارنے لگا۔ پہلے تو یہ حال تھا کہ وہ کیا کہتا تھا خود اس کی سمجھ میں نہیں آتا تھا اور اب ایسا ہے کہ جو وہ نہیں کہتا مبصرین وہ سب بھی سمجھ لیتے ہیں۔

میں تو کچھ بھی نہیں سمجھی؟

( بیزار ہو کر)معاف کرنا میڈم سمجھنے کیلئے شکل و صورت کافی نہیں بلکہ دماغ بھی درکار ہوتا ہے۔ نہ جانے کیا دیکھ کر وزیر اعظم نے آپ کو یہ اہم قلمدان دے دیا۔

سمرتی کو فوراً آج تک چینل کے اشوک سنگھل کا سوال یاد آیا وہ ناراض ہو کر بولیں شاہ جی آپ میرا اپمان تو نہیں کر رہے ہیں؟

میں ایسی جرأت کیسے کر سکتا ہوں؟ میں تو آپ کے حسن کی تعریف کر رہا تھا کہ ساس کی عمر میں بھی آپ بہو لگتی ہیں۔

شکریہ لیکن راہل نے ایسا کیا کر دیا جو آپ اس قدر فکر مند ہو گئے۔

کیا نہیں کیا؟ پہلے تو اس نے ہمیں سوٹ بوٹ والی سرکار کے لقب سے نواز دیا جو اچھے دنوں کی طرح زبان زدِ عام ہو گیا ہے۔ اس کے بعد کسانوں کی دہائی دینے لگا اور وزیر اعظم کے غیر ملکی دوروں کو مذاق بنا دیا۔

ہاں تو کیا مسئلہ ہم اس کا جواب بھی تو دے سکتے ہیں؟

کیوں نہیں لیکن اس سے پہلے کہ ہم جواب دیتے وہ کیدار ناتھ مندر کی جانب نکل گیا۔ وہاں سے لوٹ کر آیا تو کسانوں سے ملاقات کیلئے کبھی پنجاب تو کبھی ودربھ۔ ہم نے اس کے بہنوئی وادرہ کو گھیرنے کوشش کی تو اس نے وہ وار بھی ہمیں پر یہ کہہ کر الٹ دیا اور کہا کہ مجھ سے بدلہ لو میرے رشتے داروں سے نہیں۔

آپ کو تو پتہ ہے میں نے امیٹھی کا دورہ کر کے اس کو مدافعت میں ڈال دیا۔

یہ تمہاری خوش فہمی ہے بہو رانی تم امیٹھی سے واپس آئیں تو اس نے وہاں بننے والے فوڈ پارک کا قضیہ اچھال دیا۔ ہم نے کسانوں کو بہلانے کیلئے چینل کھولا تو وہ ماہی گیروں کا مسیحا بن کر کھڑا ہو گیا۔

لیکن کسانوں کے مسائل کا ٹی وی چینل سے کیا تعلق؟

لگتا ہے تمہیں وہ چینل دیکھنے کی فرصت نہیں ملی ورنہ یہ سوال نہ کرتیں۔ ویسے پردھان جی نے کسانوں کو خطاب کرنے کیلئے سرکار کی سالگرہ کے موقع پر دین دیال اپادھیائے کے گاؤں میں عظیم الشان جلسہ رکھا مگر اس کے جواب میں وہ امبیڈکر کے جنم دن پر ان کے گاؤں پہنچ گیا اور وہاں جئے بھیم کا نعرہ بلند کر دیا۔ اسی لئے ہم لوگ اس جڑی بوٹی کا پتہ لگانے کی کوشش کر رہے ہیں جس نے اس کی کایا پلٹ دی؟

شاہ جی اس کا پتہ لگا کر آپ کریں گے کیا؟

یہ اندر کی بات ہے تم کسی کو بتاؤ گی تو نہیں؟

میں کسی کو کیوں بتانے لگی کیا آپ کو مجھ پر وشواس نہیں ہے۔ آج کل تو کمار وشواس بھی مجھ پر بھروسہ کرتا ہے۔

نہیں ایسی بات نہیں میں تو یوں ہی کہہ رہا تھا۔

تو پھر بتائیے کہ آپ اس معلومات کا کیا کریں گے؟

بھئی ظاہر ہم وہ جڑی بوٹی منگوائیں گے۔ اس کی پہلی خوراک تو وزیر اعظم کھائیں گے اس لئے کہ اس ایک سال میں ان کی عمر دس سال بڑھ گئی ہے اور دوسری ۰۰۰۰۰۰شاہ جی رک گئے۔

اور دوسری کون کھائے گا؟

ظاہر ہے اگر وہ اجازت دیں تو میں کھاؤں گا؟

سمرتی بولی اور میرا کیا ہو گا؟

اگر بچ گئی تو پردھان جی سے پوچھ کر میں ایک خوراک کا بندو بست تمہارے لئے بھی کر دوں گا آخر تم گجراتن ہو تمہارا حق دوسروں سے زیادہ ہے۔

سمرتی نے کہا شکریہ لیکن اگر وہ اجازت نہ بھی دیں تو آپ مجھے چپ چاپ ایک خوراک دے دینا اس لئے کہ امیٹھی میں راہل کا مقابلہ تو مجھے ہی کرنا ہے۔ میں تو کہتی ہوں کیوں نہ وہ جڑی بوٹی ہمارے سارے ارکان پارلیمان کو کھلا دی جائیں؟

ارے یہ تم نے کیا کہہ دیا؟ ایسا خیال بھی تم اپنے ذہن میں کبھی نہ لانا۔ ہم نہیں چاہتے کہ سارے ارکان وزیر اعظم کی طرح سمارٹ ہو جائیں۔ ہم تو چاہتے ہیں کہ وہ کندۂ نا تراش رہیں اور دن رات نمو نمو کی رٹ لگائے رکھیں۔

سمجھ گئی کہیں آپ اس جڑی بوٹی کی تلاش میں اپنے رام دیو بابا کے پاس کرنال تو نہیں گئے تھے۔

اس پاکھنڈی کا نام نہ لو۔ اس کے تیور ابھی سے بدلنے لگے ہیں۔ اس نے زی ٹی وی پر ہماری سرکار کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ وزیر اعظم اس سے بہت ناراض ہیں اور دیکھنا اس کے آشرم پر جو فائرنگ ہوئی ہے نا اس کے چلتے رام دیو کے بھی آسارام باپو کے پاس جانا پڑ سکتا ہے۔

میں تو کہتی ہوں وزیر اعظم کو ان باتوں سے ناراض ہونا چھوڑ دینا چاہئے؟

وہ کیوں؟

اس لئے کہ وہ کس کس کا منہ بند کریں گے۔ کبھی سوامی عدالت میں جانے کی دھمکی دیتا ہے تو کبھی شوری ٹی وی کے پر شور کرنے لگتا ہے۔ کہیں گووندآچاریہ تنقید و تضحیک کرتا ہے تو کہیں جیٹھ ملانی لعنت ملامت پر تُل جاتا ہے۔ آخر وہ کس کس کو جیل بھیجیں گے اور اپنے ہی پریوار کے لوگوں کو جیل بھیجنے کا انرتھ ہم کیسے کر سکتے ہیں؟

کہاں کا پریوار اور کیسا انرتھ؟ ساری رامائن اور مہابھارت پریوار اور اقتدار کی لڑائی ہی تو تھی۔ یہ تو ہماری سنسکرتی اور پرمپرا ہے۔ اس معاملے میں ہم کسی پر رحم نہیں کھاتے۔ پہلے راہل سے نمٹ لیں تو دیکھنا ان لوگوں کا کیا حال کرتے ہیں۔

سمرتی بولی مجھے نہیں لگتا کہ وہ دن آئے گا اس لئے کہ میرا خیال ہے جلد ہی راہل ہماری بازی سمیٹ دے گا۔

لگتا ہے تم پردھان منتری کے بجائے راہل کی بولی بول رہی ہو۔

راہل نے مجھے انتخاب میں شکست تو دی لیکن مجھے شکایت نہیں ہے۔

اچھا تو کیا کمار وشواس سے شکوہ ہے؟ میں تو کہتا ہوں کہ اگر وہ کچھ لے دے کر بیٹھ جاتا تب بھی تمہارے لئے راہل کو ہرانا مشکل تھا۔ ہم نے تو جان بوجھ کر اسے بٹھانے کی کوشش نہیں کی بلکہ اس کی ہوا بناتے رہے۔ ہمیں توقع تھی کہ وہ راہل کے ووٹ کاٹے گا اور تم جیت جاؤ گی لیکن اس بار ہمارا قیاس غلط نکلا مگر تم چنتا نہ کرو اگلی بار تم ضرور کامیاب ہو جاؤ گی۔

(ناراض ہو کر)اس کا مطلب ہے اگلی بار بھی مجھے اسی دیوار سے اپنا سر پھوڑنا پڑے گا۔ شاہ جی اتنا یاد رکھیے کہ اگلی بار اگر کمار وشواس جھاڑو لے کر وہاں گیا تو رائے دہندگان جھاڑو سے مار کر بھگا دیں گے میں تو کہتی ہوں ضمانت ضبط ہو جائے گی۔

اپنی بلا سے مجھے یقین ہے کہ تم کمار وشواس کی مدد کے بغیر جیت جاؤ گی۔

جائیے کسی اور کو بہلائیے پھسلائیے۔ جب گزشتہ بار کی سونامی مجھے کامیاب نہیں کر سکی تو آئندہ کی تھکی ماندی لہریں میرا کیا بھلا کر سکیں گی اور ہاں یاد رکھیے نہ سونامی روز روز آتی ہے اور نہ لاٹری بار بار لگتی ہے کیا سمجھے؟

شاہ جی سمجھ گئے کہ آج اس بہو کے تیور تیز ہیں اس لئے وہ موضوع بدلنے کیلئے بولے وہ سب تو ٹھیک ہے لیکن اگر تمہیں نہ راہل سے شکایت اور نہ وشواس سے شکوہ ہے تو تم ناراض کس سے ہو؟

میں ۰۰۰۰میں آپ سے اور کس سے؟

مجھ سے ۰۰۰۰۰۰۰میں نے تمہارا کیا بگاڑا ہے؟

جی ہاں یہ بھی درست ہے کہ آپ تو صرف ایک رو بوٹ ہیں رو بوٹ، جو آقا کے اشارے پر بے چوں چرا عمل کرتا ہے۔ مجھے ان سے گلہ ہونا چاہیے۔

شاہ جی کو حیرت کا اور بڑا جھٹکا لگا۔ یہ تم کیا کہہ رہی ہو سمرتی اپنے سب سے بڑے محسن کیلئے تمہاری زبان پریہ الفاظ زیب نہیں دیتے۔

سچ کڑوا ہوتا شاہ جی بہت کڑوا۔ آپ اسی کڑواہٹ سے پریشان ہیں۔

کیا برا کیا پردھان جی نے تمہارا؟

کیا یہ سچ نہیں ہے کہ انہوں نے میرے محفوظ حلقۂ انتخاب بڑودہ سے خود الیکشن لڑا اور مجھے بلی کا بکرا بنا کر امیٹھی بھیج دیا۔ ویسے اگر ان میں جرأت تھی تو وہ بھی راہل یا کیجریوال کی طرح صرف ایک حلقۂ انتخاب سے الیکشن لڑتے۔ مجھے یقین ہے کہ کم از کم راہل ایسا نہیں کرے گا۔

تم یہ کیوں نہیں بھولتیں کہ تمہاری شکست کا خیال کئے بغیر انسانی وسائل کا اہم قلمدان تمہارے سپرد کر دیا گیا۔

اسی احسانمندی سے مجھے الجھن ہوتی ہے۔ مجھے حق چاہئے بھیک نہیں؟

مجھے تو اب ایسا لگ رہا کہ میں سمرتی ایرانی سے نہیں بلکہ لال کرشن اڈوانی سے بات کر رہا ہوں۔ تم یہ نہ بھولو تمہاری نقلی ڈگری کا مقدمہ عدالت میں زیر سماعت ہے۔ اس بنیاد پر تم کو برخواست کر کے اپنی نیک نامی بڑھانے کا نادر موقع ہنوز موجود ہے۔

شاہ جی آپ مجھے نقلی ڈگری کا طعنہ اور وزارت کے چھن جانے کی دھمکی دے رہے ہیں تو سن لیجیے کہ ایسی وزارت کو میں اپنی جوتی کی نوک پر رکھتی ہوں۔ جہاں تک ڈگری کا سوال ہے سیاست کی اس پاکھنڈی دنیا میں اصلی ہے ہی کیا؟ نہ چائے اصلی نہ چائے والا اصلی۔ سوٹ بھی جعلی اور بوٹ بھی نقلی بلکہ اس کی نیلامی تک قریب تھا۔ میں نے کئی سال سیریل میں کام کیا مگر اس قدر لباس نہیں بدلے جتنے وزیر اعظم نے ایک سال میں بدل دئیے۔ اتنا جھوٹ نہیں بولا جتنا انہوں نے ایک سال میں بول دیا۔ مجھے تو اس ڈھونگی دنیا سے الجھن ہونے لگی جہاں اداکاری کو حقیقت کے لباس میں پیش کیا جاتا ہے جبکہ فلم اور ٹی وی پر حقائق کو فسانے کا لباس پہنا کر دکھلایا جاتا ہے اس لئے وہ مستحسن ہے اور یہ معیوب ہے۔

شاید تمہیں نہیں پتہ اور میں بھی بھول گیا تھا کہ میرا ہر فون ٹیپ ہوتا ہے اگر ہماری یہ بات چیت وزیر اعظم نے سن لی تو تمہارے ساتھ میرا بھی بیڑا غرق ہو جائے گا۔ اوہو یہ میں کیا کہہ گیا۔ تم نے تو مجھے مروا ہی دیا سمرتی اب جلدی سے فون بند کرو میں تو بنا موت مارا گیا۔ مجھے ڈر ہے کہ میرا حال سنجے جوشی جیسا نہ ہو جائے۔

یہ سنجے جوشی کون ہے؟ اس کے ساتھ کیا ہوا۔ آپ پر کیا گزرے گی اور میرا کیا ہو گا؟ یہ سارے سولات میرے لئے بے معنیٰ ہیں۔ میں اس کی پرواہ نہیں کرتی۔

شاہ جی نے غصے سے فون پٹخ دیا۔

سمرتی نے دیکھا کہ شاہ جی کا پارہ چڑھ گیا ہے تو اسے اپنی غلطی کا احساس ہو گیا۔ وہ دوبارہ فون لگا کر بات بدلنے کیلئے نرمی بولی شاہ جی ناراض تو نہیں ہو گئے؟

سمرتی تمہاری اس ادا پر اسکول کے زمانے کا ایک گیت یاد آ گیا جسے شاید گلزار نے لکھا تھا۔ ’’تجھ سے ناراض نہیں زندگی حیران ہوں میں ۰۰۰‘‘

اسی کے ساتھ مدھو بالا پردے پر آ گئی اور بولی ناظرین کرام اب ایک بریک کا وقت ہے لیکن اس سے پہلے کہ ہم وقفہ میں جائیں آپ لوگ۱۹۸۳ء کی فلم معصوم کا یہ نغمہ سنیں جسے پنچم نے سروں سے سجایا تھا:

تجھ سے ناراض نہیں زندگی حیران ہوں میں،

حیران ہوں میں

تیرے معصوم سوالوں سے پریشان ہوں میں

جینے کیلئے سوچا ہی نہیں درد سنبھالنے ہوں گے

مسکرائے تو مسکرانے کے قرض اتارنے ہوں گے

مسکراؤں کبھی تو لگتا ہے جیسے ہونٹوں پہ قرض رکھا ہے

بریک کے بعد سمرتی فون پر شاہ جی سے پوچھ رہی تھی لیکن آپ کرنال گئے کیوں تھے؟ یہ تو آپ نے بتایا ہی نہیں۔

میں وہاں وزیر اعلیٰ منوہر لال کھتّر کے حلقۂ انتخاب میں مرکزی سرکار کی سالگرہ کا جشن منانے گیا تھا۔

اوہو آپ نے مجھ سے کیوں نہیں کہا میں بھی ساتھ ہو لیتی۔

میں نے معلوم کیا تو تم راہل کو گھیرنے امیٹھی گئی ہوئی تھیں۔

شاہ جی امیٹھی تو چھوڑئیے یہاں ہمارے چائے خانے میں مجھے راہل کے حواریوں نے گھیر رکھا ہے اور اب آپ ہی اس چکرویوہ سے نکالیے۔

ساس بھی کبھی بہو تھی کے بعد مہابھارت کی تیاری ہو رہی ہے کیا؟

(مسکرا کر) سیاست کی دنیا میں تو روز ہی مہابھارت چھڑی رہتی ہے اسی لئے شاید سشما جی گیتا کو راشٹر گرنتھ بنانا چاہتی ہیں۔

سشما کو اب گیتا کے بجائے سیتا کا دھرم پالن کر کے اگنی پریکشا دینے کی تیاری کرنی چاہئے ورنہ کسی نامعلوم ملک کے دورے سے واپس آتے ہوئے اس کا جہاز بھی ملیشیائی ہوائی جہاز کی مانند غائب ہو جائے گا۔

شاہ جی آپ نہیں بدلے وہی پرانے تیور وہی انداز فکر اب بھی موجود ہے جو پنڈیہ، سہراب الدین اور پرجا پتی کا کانٹا نکالتے وقت تھا۔

مثل مشہور ہے بندر بوڑھا بھی ہو جائے تو قلابازیاں کھانا نہیں بھولتا۔

کیسی باتیں کرتی ہیں شاہ جی آپ کے سر پر بال نہیں ہیں تو کیا ہوا ابھی آپ کی داڑھی کالی ہے اس لئے کون کہتا ہے کہ آپ بوڑھے ہو چکے ہیں۔

( سرد آہ بھر کر) سچ کہوں دہلی کی شکست اور کرنال جیسے جلسوں نے مجھے بوڑھا کر دیا ہے۔

کرنال میں آخر ہوا کیا؟کہیں ہمارے ارکان پارلیمان دہلی کی مانند وہاں پر بھی تو آپس میں نہیں لڑ پڑے اور ہریانوی لوگوں کی لڑائی تو اللہ کی پناہ دیکھتے دیکھتے لاٹھیاں نکل آتی ہیں۔

جی نہیں وہاں اسٹیج پر مکمل امن و امان تھا۔ وزیر اعلیٰ اور سارے ارکان پارلیمان تہذیب کے دائرے میں تھے لیکن نیچے میدان مکمل قبرستان بنا ہوا تھا۔

قبرستان! میں نہیں سمجھی۔

اس میں سمجھنے کی کیا بات ہے لوگ پھٹکے ہی نہیں۔

یہ کیسے ہو گیا کیا عوام کو ٹھیک طریقہ سے بلایا نہیں گیا یا ان کی آمدو رفت کے معقول انتظامات نہیں کئے گئے؟ آپ جیسے منتظم کے ہوتے یہ بدنظمی ناقابل فہم ہے۔

سمجھ میں نہیں آتا یہ کیسے ہو گیا؟ہریانہ کے سارے وزراء اور ۸ ارکان پارلیمان وزیر اعلیٰ کے ساتھ موجود ہوں اور جلسہ ناکام ہو جائے سمجھ سے باہر ہے۔ وہ تو اچھا ہوا وزیر اعظم نے وہاں کا قصد نہیں کیا ورنہ بہت خواری ہوتی۔

اب اچھے دنوں والا نعرہ بہت گھس پٹ گیا ہے اس لئے عوام کو متوجہ کرنے کیلئے کوئی نیا فقرہ اچھالنا ہو گا۔

تم سے کس نے کہا کہ اچھے دنوں کی خاطر لوگوں کو بلا یا گیا تھا۔ ہندوستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہم نے عوام سے کہا تھا کہ آپ کی سرکاراز خود اپنا حساب دینے آئی ہے اس کے باوجود عوام نے دلچسپی نہیں لی۔

شاہ جی کیا بنیا بھی سیاست میں آ کر تجارت کا بنیادی اصول بھول جاتا ہے؟

(حیرت سے ) میں نہیں سمجھا۔ میرے لئے سیاست تو کیا عبادت بھی تجارت ہے۔

مجھے نہیں لگتا! کیا آپ نہیں جانتے کہ حساب کتاب لین دین کے بعد ہی ہوتا ہے پہلے نہیں۔

یہ سب جانتے ہیں۔ لین دین کا حساب دینے کیلئے ہی تومیں کرنال گیا تھا۔

شاہ جی سچ تو یہ کہ ہم لوگوں نے ابھی تک عوام کو دیا ہی کیا ہے جو اس کا حساب دیں۔ ہم تو صرف اشتہار بازی کر رہے ہیں جو مفت میں ہوتی ہے۔ جب لین دین ہو جائے گا تو حساب کتاب کیلئے بھی لوگ جمع ہو جائیں گے۔

تو کیا ہم نے ابھی تک عوام کی فلاح و بہبود کیلئے کچھ بھی نہیں کیا؟

نہیں ایسا نہیں ہے کسان فصلوں کی تباہی کے بعد نقصان بھرپائی کا مطالبہ کیا تو ہم اسے کسان چینل دے دیا جو اسے گھر بیٹھے مل جاتا ہے۔ من کی بات بھی گھر کے اندر ہی ہو جاتی ہے تو بھلا وہ آپ کے جلسے میں کیوں آئے؟

تم تو میرے زخموں پر مرہم رکھنے کے بجائے نمک پاشی کر رہی ہو۔

جی نہیں سرکار! ایسی جرأت میں کیسے کر سکتی ہوں؟ لیکن یہ بتا دوں کہ اس میں چنتا کی کوئی بات نہیں ہے۔ ہمارا زر خرید میڈیا اس جلسے کے ساتھ کسی اور کامیاب خطاب عام کی تصاویر نتھی کر کے اسے نہایت شاندار جلسہ بنا دے گا۔

سمرتی جی دوسروں کو بے وقوف بنانا جس قدر آسان ہے خود اپنے آپ کو بہلانا شاید اتنا ہی مشکل ہے۔

ٹھیک ہے اب میں ایک آسان کام آپ کو سونپ رہی ہوں۔ آپ ہریانہ کے جاہل جاٹوں کو بھول کر ان پڑھے لکھے نوجوانوں کو حساب کتاب دیجئے میرا خیال ہے جتنی ضرورت ان کو آپ کی ہے اتنی ہی ضرورت آپ کو ان کی بھی ہے۔

سمرتی نے فون رکھا اور پردے پر مدھو بالا نمودار ہو گئی۔ بھائیو اور بہنو! اس چائے پر چرچہ تو ایسی دلچسپ ہے کہ اسے روکنے کا من نہیں کرتا اور آپ لوگوں کی اٹھنے خواہش نہیں ہوتی ہو گی خیر وقت کا کیا جائے۔ ہم آپ سے اس لوک گان کے ساتھ اجازت لیتے ہیں۔ اسی کے ساتھ پردے پر نوجوانوں کا قافلہ شاہ جی کے دفتر کی جانب رواں دواں تھا اور عقب میں ترانہ چل رہا تھا:

ہم ہوں گے کامیاب۔

ہم ہوں گے کامیاب ایک دن

من میں ہے وشواس، پورا ہے وشواس

ہم ہوں گے کامیاب ایک دن

 

٭٭٭

تشکر: مصنف جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

 

 

مکمل ناول ڈاؤن لوڈ کریں

 

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل