FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

دیوالہ

 

 

 

 

                راجندر سنگھ بیدی

 

 

 

 

روپ متی، میری نند،جوان ہو چکی تھی۔ اس کی جوانی کا ثبوت شریر ہی نہ تھا اس کا، لچھن بھی تھے۔ وہ اس کا چونک کے بات کرنا، بے وجہ ہنسنا، بے سبب کی دلگیری، بدگمانی اور پھر، سب سے بڑی بات—— خواہ مخواہ کی راز داری!

مجھے یہ دنیا کبھی اچنبے کی بات نہ معلوم ہوئی اور نہ ہی اس میں کوئی بہت بڑا بھید دکھائی دیا۔ ہاں!—— بارہ ساڑھے بارہ کی تو تھی، جب باپو نے کانوینٹ سے مجھے اُٹھا لیا اور شادی کر دی۔ اُدھر شادی ہوئی، اِدھر میں مندروں کی اس بستی دیول نگری میں چلی آئی…یہ نیچے چونے گچ میں جو گول گول شیشے ٹنکے ہیں اور ساج کی لکڑی کا بڑا پھاٹک ہے، سب جبھی بنا تھا۔ ہاں، لوہے کے یہ موٹے موٹے کیل بعد میں گاڑے تھے اور دروازے پر گنیش جی کی مورتی؟— یہ بھی بعد ہی میں بنی تھی۔

میں یہیں، ہوا محل کے اس بخارچے میں بیٹھی تھی۔ ہونٹوں کا لاکھالکھوٹا مجھے خود بُرا لگ رہا تھا۔ مگر سسُر، جیٹھ وغیرہ سبھی پیڑھی پہ گئے ہوئے تھے۔ ددّا بھی مندر سے نہیں لوٹی تھیں۔ یہ بھی شہر میں نہ تھے۔ اتنا ہی پتہ تھا دیس بھر کی، ارنڈی قابو میں کرنے گئے ہیں۔ ایک بار قابو آ گئی تو اپنا گھر سونے کی اینٹوں سے بھر جائے گا، اگرچہ بہت سوں کے دیوالے نکل جائیں گے…

کھاتا پیتا گھر، یہاں سبھی فیشن کے طور پر کام کرتے تھے۔ کھائی پکائی کے علاوہ اور کیا تھا؟ صبح ہوتی تو ہم سوچتیں— —کیا پکے گا؟ دوپہر تھوڑے کپڑے اِدھر اُدھر پھینکنے کے بعد— شام کیا پکے گا؟ کوئی پوچھے۔ گھوم پھر کے ارہر اور اڑد ہی پہ پہنچتا ہے، تو واویلا کیسا؟ وہی روز کی باتیں ، روز کے چہرے! ساس میری دیکھنے میں بُری نہیں، لیکن کبھی بھنگن ہی اس سے اچھی لگنے لگتی۔ اس لیے جب گھر بھر سے جی اُوب جاتا تو میں یہاں آ بیٹھتی۔ تم نے دیکھا ہے نا بالوں کی ماں؟ یہ نجارچہ نیچے سے یوں ہی سا لگتا ہے، مگر ہے رامائن کا پُشپ بُوان۔ ایک اَٹھ کلیا کمل لال سیمنٹ کا جسے تھامے کھڑا ہے۔ گھر کی طرف پیٹھ کر کے دیکھو تو نیچے بازار میں سب آرجار دکھائی پڑتی ہے۔ بھنگی، چمار، کھاد کے نئے کارخانے میں کام کرنے والے مجور۔یوں گریب پر بدن میں محنت کا سُرور، چہرے پر صحت کا نور، سینہ تانے ہوئے یوں معلوم ہوتے ہیں جیسے چٹان سے چٹان پھوڑنے جا رہے ہوں۔ اس بات کی بھی پروا نہیں، مجوری ملے گی یا نہیں ملے گی۔ پھر اِکّے والے جن کی چھاتی کے تسلوں میں گالیاں ہی اُبلتی رہتی ہیں۔ دوسروں کو تو کم ہی دیتے ہیں، اپنے جانور کو زیادہ۔ اپنے آپ کو سب سے زیادہ۔ اور اس پہ بڑے خوش، مارا ماری کرتے جا رہے ہیں——تیز تیز، جیسے سویرا پورب سے کرنیں پھینکتے اُمڈتا ہے۔ اِدھر چھانٹا، اُدھر چابک۔ لوگ یوں اِدھر اُدھر بھاگتے ہیں جیسے رات کا اپرادھ دن ہوتے ہی کوٹھڑیوں، میلے کچیلے کپڑوں اور نالیوں میں جا چھپتا ہے۔ مُنیم ، دلال، سٹئی دھوتی کا پلّو سمیٹتے ہوئے ایک طرف ہو جاتے ہیں۔ مگر جو بیچ سڑک کے جا رہی ہیں، تو اپنی للائنیں— ہر وقت بیٹھے رہنے سے جن کے پیٹ میں ہوا، پیچھے مانس کے لودے چلے آئے ہیں، جیسے کسی نے بڑے بڑے تکیے باندھ دیے ہوں۔ چلتی ہیں تو پیچھے سے بُدّھ ویر، بُدّھ ویر کا جاپ ہوتا ہے۔ پرات کھیر کی ہاتھ میں، پانڈے جی ساتھ میں۔ دنیا جہان سے بے خبر۔ برائے نام گھونگھٹ کاڑھے، پتہ نہیں کس مندر کو جا رہی ہیں؟ بڑے سے بڑا لوہے کا ڈنڈا بھی ان راستے کے پتھّروں کو نہیں ہٹا سکتا——پھر اپنی جات برادری کے سیٹھ، جات باہر کے بیوپاری، جن کی ہڈیوں تک میں پانی پڑ گیا ہے۔ بیچ رانوں کے تھیلیاں، جن کی طنابیں تک کمر میں بندھی دِکھ رہی ہیں۔ تِس پہ بھی چھوکریوں کو گھور رہے ہیں۔ گھورتے مُشٹنڈے بھی ہیں لیکن ایک نگاہ میں پِل پڑنے والا پیار اور آشا، دوسرے کو نظروں میں گھِن اور نِراشا۔ چھوکریاں بھی تو ان سے نہیں شرماتیں۔ شرمائیں کن سے؟

ایسی باتیں دیکھ کے جی اور بھی گھبرا جاتا ہے۔ پھر میں سامنے دیکھ لیتی ہوں۔ پورا مارواڑ نظر آتا ہے۔ پتھّر ہی پتھّر بالُو ہی بالُو ۔ سورج کی روشنی آڑی پڑتی ہے تو بالُو کی کنی کنی دَمک اُٹھتی ہے۔ معلوم ہوتا ہے، اَن گِنت مُہریں پڑی ہیں۔ اُٹھا لو اور اندر باہر سب بھر لو۔ دیس بھر کا سونا رُوپا اسی دھرتی میں چلا آ رہا ہے۔ بس یہی جھوٹی چمک دمک ہے، ہریالی کہیں بھی نہیں۔ کہیں کوئی جھاڑی یا کُسل دُوب دکھائی دے جاتی ہے، لیکن درخت نام کو نہیں۔ دُور وِندھیا کے آنگن میں کوئی ٹِنسا کا پیڑ کھڑا ہے یا جھیل کے کنارے بجاسل سر ہلا رہا ہے۔ وہ بھی نیچے سے ٹُنڈ مُنڈ۔ اُوپرایک گُپھا سا ہے، وہی دل کی دھڑکن تیز کر رہا ہے۔ میں تو کہتی ہوں، کوئی ہمارا سب سونا لے لے اور ہریالی دے دے…

مان متی، میری ساس ، مجھے ہمیشہ یہاں بیٹھنے سے منع کرتی ہے۔ لیکن جب بھی میں یہیں بیٹھتی ہوں، ضد کے ساتھ، ٹھینگے کی طرح۔ اس کا کہنا ہے،کھڑکی میں بیٹھنا کام نہیں بہو بیٹی کا۔ کھڑکی میں بیٹھتی ہے تو گنگا۔ میں کہتی ہوں یہی حساب ہے تو پھر ہماری طرح کی سبھی گھریلو عورتیں گنگا ویشیا ہیں۔ ہمیں کھڑکی جھروکا بھی نہ ملے تو اس سے مر جائیں۔ ہے نا بابو کی ماں؟ کھڑکی کے لیے عورت ہو نہ ہو، عورت کے لیے کھڑکی بڑی ضروری ہے۔

لیکن اُس دن ہمیں کون ٹوک سکتا تھا؟ گو کل اشٹمی کا دن تھا۔ گوپیوں کے کاہن آج کے دن پیدا ہوئے تھے۔ رادھا بازار میں کوئی ہَماہَمی تھی؟——رام رام! ساری لوکائی اُمنگ کی طرح باہر چلی آئی تھی اور ترنگ کی طرح ناچتی، گاتی، بل کھاتی جا رہی تھی… سانول داس کے مندر کی طرف۔ اس میں عورتیں بھی بہت تھیں۔ جیسے ان کے بِنا سب ادھُورا ہے۔ دھکّے پڑتے تو بُرا بُرا منھ بناتیں۔ اُوپر سے گالیاں دیتیں، بھیتر سے خوش ۔ ایسا نہ ہوتا تو باہر ہی کیوں نکلتیں؟ یہ عجیب بات ہے۔ ہم عورتیں جس بات کو پسند نہیں کرتیں، آخر میں وہی کرتی ہیں۔ ہو سکتا ہے میں غلط کہہ رہی ہوں۔ مگر —ہمارے من کا پسارہ انوکھا ضرور ہے۔ مردوں کو اس بات کا کیا پتہ؟ وہ تو سارا پڑھ لکھ کے بھی جانگلوہی رہتے ہیں۔ بَس سیدھے—— فلاں کام کرو، نہیں مار دیں گے یا… خبردار! جو ساوتری کے ساتھ منڈوے کو گئیں۔ وہ اچھی عورت نہیں، ہوٹلوں میں جاتی ہے۔ کوئی پُوچھے ، تمھیں کیسے پتہ ہے جی؟ بے چارے! ہمیں جانے کیا سمجھتے ہیں؟ نہیں جانتے جتنی دیر میں ان کے دل میں ایک خیال آتا ہے، ہمارے من سے بیسیوں ہو کے نکل جاتے ہیں۔ ہاں، تو اُس دن سب عورتیں کھڑکیوں میں چلی آئیں۔ جڑت مڑت، انگ ، بانکڑی اور گہنوں کی نمائش تھی۔ سب عجیب سی نظروں سے نیچے بازار میں دیکھ رہی تھیں۔ پلّو سر سے ہٹے ہوئے، چوٹیاں نیچے لٹکی ہوئیں۔ یوں معلوم ہوتا تھا جیسے سیڑھیاں ہیں جو گھر کے بھیدی نے لٹکا رکھی ہیں، تاکہ باہر کا چور ان کے سہارے چلا آئے اور آنکھوں کی کھڑکی سے اندر کود پڑے۔ پھر کیا ہے؟

—— سامنے تجوری پڑی ہے، تالی گھر والوں کے پاس۔ ہمّت ہے تو توڑ لے…

کہاں تو میں اکیلی ہی بیٹھی تھی ،کہاں رُوپ متی، ساس، ددّا سبھی آ گئیں۔ جبھی پتہ چلا، ددّا تو کب سے آئی بیٹھی تھی۔ کہیں اندر کے مندر میں گھنٹی بجا رہی تھی۔ ددّا اور ساس دونو باہر دیکھ رہی تھیں، چہرے پر کوئی اثر نہیں۔ منھ بیرنگ لفافوں کی طرح۔ پیسے دو اور چھڑا لو۔ نہیں بھیجنے والے کو واپس ۔ ہاں رُوپو کا منھ کھلا تھا… میں نے کہا—

روپو! تو ادھر آ جا اچھّی—— میرے پاس۔

بولی——نہیں بھائی، میں ٹھیک ہوں۔

پیچھے سے ددّا بولی — ارے! پیار سے بُلاتی ہے بھابی۔ جاتی کیوں نہیں؟

روپو نے شک بھری نظروں سے میری طرف دیکھا۔ گویا مجھے اس کی کوئی بات پتہ چل جائے گی۔ میں نے یوں دیکھا جیسے نہیں چلے گی اور وہ اُٹھ کر میرے پاس آ گئی۔ میں نے جو اپنی بانہہ اس کے گرد ڈالی تو پتہ چلا، اس کے کولھے کتنے بڑے ہو گئے ہیں۔ ایک سال پہلے یہی روپو کچھ بھی نہ تھی۔ اب سبھی کچھ ہے۔ ابھی میں نے اُس سے پیار کی ایک بات بھی نہ کی تھی کہ ساس کی آواز آئی ——

بہُو! سر ڈھک اپنا کیسے بیٹھی ہے؟

میں نے اُسی دم اپنا ہاتھ کھینچ لیا اور سر ڈھکنے لگی۔میں تمھیں سچ کہتی ہوں بالو کی ماں۔ مجھے نہ پتہ تھا، میرے سر پہ کپڑا نہیں — ننگی ہی بیٹھی ہوں۔ اُن عورتوں کی طرح جو سامنے بخارچے میں کھڑی تھیں اور تن من سبھی کو ہوا لگوا رہی تھیں۔ میں پھر دونوں ہاتھ رکھ، یہاں کھڑکی میں ٹکا، ان پہ ٹھوڑی رکھ، نیچے دیکھنے لگی——

نیچے اب عورتیں تو کہیں کہیں تھیں۔ مرد ہی مرد تھے۔ چہوں اور کوئی لمبا، کوئی ناٹا، کوئی چھوٹا، کوئی موٹا۔ کسی نے داڑھی بڑھا رکھی ہے تو کوئی صفا چٹ۔ کسی نے سر کے بالوں کے پلیٹ بنا کندھے پہ پھینک رکھے ہیں، کوئی پان کھا رہا ہے اور تھوک رہا ہے۔کوئی بیڑی کی راکھ چٹکی سے گراتا ہے۔ کوئی لڑتا ہے، کوئی گالی دیتا ہے، کوئی گالی کھاتا ہے۔ لیکن اوپر کو سب دیکھ لیتے ہیں، بجلی کے تاروں کی طرف… اس سال کچھ زیادہ ہی مرد تھے۔ ایک دم یہ اتنے کہاں سے چلے آئے… بیچ میں ایک ٹھٹ سا بندھا تھا اور باقی کے سب اس کے گرد گھیرا ڈالے کھڑے تھے۔ اُن کے سروں پہ کوئی سات گز کی اونچائی پر ایک رسّی لٹک رہی تھی، جس کا ایک سرا رنگڑوں کے گھر اور دوسرا چھندواڑے کے سیٹھ کے ہاں سے بندھا تھا اور اس رسّی کے سہارے بازار کے عین بیچ مٹکی لٹک رہی تھی۔ یہ وہی مٹکی تھی جس میں ماتا جسودھا مکھن رکھ دیا کرتی تھی اور اوپر ٹانگ دیتی تھی۔ وہ سمجھتی تھی،نٹ کھٹ اس تک نہیں پہنچ پائے گا مگر وہ اپنے ساتھیوں کے کندھوں پہ چڑھ کر پہنچ ہی جاتے تھے۔

تو اس گھیرے میں سے نکل کر کچھ آدمیوں نے دوسروں کے کندھوں پر چڑھنا شروع کر دیا اور پھر ایک دوسرے کے گلے میں بانہیں ڈال، اندر کی طرف منھ کر کے کھڑے ہو گئے۔ پھر دوسرا پرا آیا تین آدمیوں کا اور پہلے چھ کے کندھوں پہ چڑھ کر کھڑا ہو گیا۔ آخر بھیڑ میں سے سانولے رنگ کا ایک جوان لڑکا نکلا اور پھُرتی سے باقی سب پہ یوں چڑھ گیا جیسے وہ مرد نہیں، سیڑھیاں ہیں۔ شکھر پہ پہنچ کے وہ کھڑا ہو گیا۔ اس کی قمیص میلی تھی اور اس پہ رنگ لگا ہوا تھا، بٹن کھلے تھے… میں تو تم سے سب بات کرسکتی ہوں، بالو کی ماں، جیسے تم مجھ سے کر لیتی ہو—— میرا دل دھڑک اُٹھا۔ اس لیے بھی کہ اس کے پَیر ابھی نہیں جمے تھے۔ وہ گِر بھی سکتا تھا۔ ایک دم اس کے پیر تھرّا ے اور وہ جھُک گیا اور پھر اسی دم تن کے کھڑا ہو گیا۔ اب اُس کے پیر جَم چکے تھے…

لوگوں میں ایک شور مچ گیا۔ وہاں کھڑے ہوتے ہی اس لڑکے نے سیدھا اس طرف دیکھا، جہاں میں بیٹھی تھی۔ ایک بجلی سی میرے بدن میں دوڑ گئی۔ پھر اس لڑکے نے دونوں ہاتھوں کے پنجے ایک دوسرے میں گاڑ دیے اور سر کے اوپر اُٹھا کر ہاتھ ہلائے، کانپا، سنبھلا… مجھے یوں لگ رہا تھا جیسے لُہو میرے منھ کو آ رہا ہے۔ میری کنپٹیاں تک کانپنے لگیں۔آخر اس نے ایک ہاتھ اوپر کر کے مٹکی تھام لی ۔ لوگوں میں خوشی کی ایک لہر دوڑ گئی۔ وہ مٹکی تک پہنچ گیا تھا۔ اب اس نے دونوں ہاتھوں سے اسے تھام رکھا تھا۔ اس نے پھر اس طرف دیکھا جہاں میں بیٹھی تھی۔ روپو بیٹھی تھی، ساس اور ددّا بیٹھی تھیں۔ مجھے ایسا لگا جیسے وہ میری ہی طرف دیکھ کر مُسکرا رہا ہے، جیسے وہ مجھے جانتا ہے۔ میں نے اُسے کبھی دیکھا ہے، لیکن جانے کتنی پُرانی بات ہے جس میں سمے نے تصویر دھو ڈالی ہے، لکیریں سی رہ گئی ہیں——

میں نے چور نظر وں سے رُوپو کی طرف دیکھا۔ وہ ابھی تک منھ کھولے بیٹھی تھی۔ جیسے بچے تماشے میں کھول کر بیٹھتے ہیں۔ مجھے یوں معلوم ہو رہا تھا جیسے میرا بدن جل رہا ہے۔ اس میں سینک نکل رہی تھی اور آس پاس بیٹھی عورتوں کو لگ رہی تھی۔ مجھے یقین ہے مجھ سے بُو اُٹھ رہی ہو گی مگر کسی نے کچھ کہا نہیں…

اب تک میری جیٹھانی بھی آ بیٹھی تھی۔ ایک میں ہی تھی جس کے ہال لاکھ کرنے پر بھی کوئی بچّہ نہ ہوا اور ایک وہ تھی ،ہر سال جس کے پیٹ میں سے ایک کیڑا باہر چلا آتا تھا۔ اور میری جیٹھانی کو وہم کی بیماری ہو گئی تھی۔ ایک میں تھی جسے کوئی چیز گندی نہ دکھائی دیتی تھی اور ایک وہ ،جسے ہر چیز غلاظت سے پٹی مری معلوم دیتی۔ ہر وقت ہاتھ، منھ ، کپڑے دھوتی رہتی۔ خاص طور پر نل۔ اب بھی وہ نل کو راکھ سے مانجھ کر ہاتھ دھوتی ہوئی چلی آئی تھی۔ ہاتھ تولیے سے نہ پونچھے تھے کیونکہ گھر میں ہر آتا جاتا، اسی تولیے کو استعمال کرتا تھا۔ آ کر اس نے گیلے ہاتھ بھی جھٹکے تو پانی کے چھینٹے مجھ پہ پڑے۔ یوں لگا جیسے اوڑ لگی دھرتی پہ برسات کی پہلی بوندیں پڑی ہوں اور بھک سے اُڑ گئی ہوں۔

میں مُڑکر دیکھا، روپو جا چکی تھی۔ شاید میرے پاس بیٹھ کر اُسے سینک لگ رہی تھی۔ یا پھر وُہی اس کی بھید بھری باتیں۔ کبھی پتہ نہ چلا اگلے دم کیا کرے گی؟ اتفاق سے نظر نیچے گئی، تو وہ اُسی ساج کے پھاٹک سے باہر کھڑی تھی اور اشٹمی کے جلوس کو دیکھ رہی تھی، جبھی وہ لڑکا لمبے لمبے ہاتھ ڈال کر مٹکی کے پانی کو باہر گِرا رہا تھا۔ پھر وہ ہاتھ مار مار کر اسے توڑنے لگا۔ مگر وہ مٹکی جانے کس مٹی سے بنی تھی کہ ٹوٹتی ہی نہ تھی۔ آخر وہ اُسے مُکّے مارنے لگا۔ جب اس پہ بھی نہ ٹوٹی تو اس نے مٹکی میں اپنا سر مارنا شروع کر دیا۔ جانے کیا ہوا؟ میری آنکھیں آپ سے آپ بند ہو گئیں۔ پھر تھوڑا کھلیں تو وہ ابھی تک سر ما ررہا تھا۔ اس سے پہلے کہ میں پھر آنکھیں نُوٹ لیتی، مٹکی پھوٹ چکی تھی اور لوگ شور مچا رہے تھے——

لڑکے نے چاروں طرف دیکھا۔ اس کے سر کو لگی ضرور تھی مگر چہرے سے اس نے کوئی بات ظاہر نہ ہونے دی۔ اس نے جیب سے میلا کُچیلا ایک رومال نکالا اور گردن پونچھ لی۔ پھر وہ اپنے آپ جھُک گیا اور ہولے ہولے نیچے اُتر نے لگا۔ اس کے پیر کانپ رہے تھے۔ نیچے کے پرے پہ پہنچ کے وہ لڑکھڑا گیا۔ وہ گرا… میں لپکی، مگر بے شمار لوگوں نے ہاتھ پھیلا کر اسے بچالیا۔ ددّا نے میری طرف دیکھا اور ہنس دی۔ ساس نے تیور چڑھا لیے۔ میں وہیں بیٹھی کی بیٹھی رہ گئی۔ نیچے دیکھا تو وہ لڑکا کہیں بھیڑ میں گُم ہو چکا تھا۔ میں یونہی مورکھوں کی طرح اس طرف دیکھتی رہتی۔ جی چاہا نیچے لپک جاؤں اور اُسے ڈھونڈ ڈھانڈ کے پوچھوں۔ کہیں بہت تو نہیں لگی؟ مگر… میں یہاں سے ایک دم کیسے جا سکتی تھی باہر؟ صدیوں کی بنی رسم کو پل بھر میں کیسے توڑ دیتی… مَن کو مار کے یہیں بیٹھی اور سوچتی رہی۔

رات آ گئی۔ اشٹمی کی رات۔ میری طبیعت جب تک بہت بوجھل ہو چکی تھی۔تنکا توڑ دھرا نہ کیا تھا لیکن اتنی تھک گئی تھی کہ بس… آج گھر میں ایک ہی چیز کام کی ہوئی اور وہ یہ کہ ارہر کی دال نہ پکی تھی اور نہ اُڑد ، نہ کڑھی ۔ میری جیٹھانی نے کٹھل کی وہ پیاری سبزی بنائی تھی کہ زبان سے الگ نہ ہوتی تھی۔ بالکل مانس کا مزہ تھا۔ ہاں، بالو کی ماں! تم سے کیا چھُپانا؟ میں نے مانس کھایا ہے۔ چوری چوری کئی بار کھایا ہے…

روپو آ گئی۔ ویسے ہی بے وجہ ہنستی ہوئی۔ یہاں بستر سے اُٹھنا دوبھر ہو رہا تھا، لیکن وہ تھی کہ اپنے سبک پانو پہ اِدھر سے اُدھر، اُدھر سے اِدھر پھسلتی جا رہی تھی۔ اتنی چہک اس میں کہاں سے چلی آئی؟ میری طرف دیکھ کر وہ شرارت سے مُسکرائی اور بولی——

بھیّا کب آنے والے ہیں چھوٹی بھابی؟

میں نے کہا —— کیوں؟

روپا سمجھتی تھی کہ اس کے بھائی کے نام پہ میں شرما جاؤں گی، جیسے دوسری عورتیں اپنے مرد کے نام پہ شرما جاتی ہیں۔ مگر، ہماری شادی اب کوئی نئی بات نہ تھی اور شرمانے کی اتنی بات ہی کہاں رہی تھی۔

روپا بولی ——پتہ بھی ہے آج ہنڈولے ہیں؟ وہ جھونٹا دیتی کہ آسمان سے جا لگتیں۔

اُونہہ!——میں نے بیزاری سے کہا اور چُپ ہو گئی۔

——روپا جنم اشٹمی کے دن مجھے اور اپنے بھیّا کو ہنڈولے میں بٹھاکر بڑی خوش ہوتی تھی۔ پتہ نہیں اسے کیا سواد آتا تھا۔ شاید یہ سمجھتی ہو گی رادھے شام کی جوڑی ہے۔ جب کہیں لمبا اور تیز جھونٹا دیتی، تو میں ڈر کر ان سے چمٹ جاتی اور روپا دیکھ کر بہت ہنستی۔ بیچ میں میں ایک دو بار گِر گئی اور یہ مجھے تھام بھی نہ سکے۔ میری جیٹھانی کے بچوں نے بیر کھا کھا کر گٹھلیاں جگہ جگہ پھینک رکھی تھیں۔ ایک میرے سر میں گھُس گئی۔ جب سے میں نے جھُولے ہنڈولے پہ بیٹھنا ہی چھوڑ دیا۔ بیٹھتی بھی ان کا سہارا لینے کی بجائے رسّہ تھام لیتی جس سے روپا کا سب تماشہ ختم ہو گیا۔

روپا بیٹھی رہی اور ہر قسم کی شرارتیں کرتی رہی۔ کبھی وہ میراؔ کے بھجن گانے لگتی۔ کبھی باجے میں فلم کا ریکارڈ لگا دیتی اور تالی بجا بجا کر ساتھ ناچنے لگتی۔ آج وہ بہت خوش تھی… جب تک اُن کے پِتا اور بڑے بھائی آ گئے تھے۔ میں جانتی تھی ددّا، ساس اور جیٹھانی ہنڈولے دیکھنے کی تیاریاں کر رہے ہیں۔ میں سوچ رہی تھی، اب سانول داس کے دیول جانے کے لیے کہا تو میں کیا بہانہ کروں گی؟ جبھی مجھے اس لڑکے کا خیال آ گیا جس نے مٹکی پھوڑی تھی۔ میں نے بڑے پیار سے رُوپا کو بُلاتے ہوئے کہا —

روپو—— تو نے دیکھا تھا آج کا جلوس؟

روپو نے ایک دم چونک کر میری طرف دیکھا اور بولی ——ہاں، بھابی!

میں نے پوچھا ——اور وہ ترپالی دیکھی تھی؟

روپا بولی— ہاں۔

اور وہ لڑکا؟

روپو نے پہلے انکار میں سر ہلا دیا اور پھر ——اقرار میں۔ وہ اتنی جلدی میں تھی کہ کچھ فیصلہ ہی نہ کر پائی۔ اس نے ایک تیز سی نظر مجھ پر پھینکی اور چُپ کھڑی ہو گئی۔

میں کچھ نہ سمجھی۔ اُلٹا میں ہی پوچھنے لگی——کون لڑکا بھلا؟

روپو نے منھ دوسری طرف کرتے ہوئے کہا ——مجھے کیا معلوم؟

ارے وہی!میں بولی —— مٹکی پھوڑ…

اور صرف روپا کو چھیڑنے کے لیے میں نے کہہ دیا۔ کیسے تمھاری طرف دیکھ دیکھ کے ہاتھ ہلاتا تھا۔ اشارے کرتا تھا، جیسے اچھی طرح جانتا ہو۔ میں چاہتی تھی روپا مجھے چھیڑے۔ مجھے کہے— وہ تمھیں بلا رہا تھا، بھابی!… مگر روپا چپ رہی۔

نہ صرف چُپ … اُس کی سانس تیزی ہو گئی۔ اس نے پھر مجھے دیکھا ،جیسے میرے اندر کی کوئی چیز ٹٹول رہی ہو۔ ایک پل کے لیے تو میں بھی گھرا گئی۔ پر میں نے سوچا، میں نے کیا کیا ہے جو خواہ مخواہ کی چور بنوں؟ میں نے دلیری سے رُوپا کو اور بنانا شروع کیا۔ جب وہ بہت گھبرائی تو میں سمجھی، اس کی تو عادت ہے؟… مجھے کیا پتہ، آج کیا ہونے والا ہے؟ میں نے مسکراتے، سر ہلاتے ہوئے کہا—کیسے سر مار مار کے مٹکی پھوڑی تھی اُس نے؟

روپا اسی طرح اُٹھ کھڑی ہوئی اور جانے لگی۔ میں نے دیکھا پہلو سے اس کی دھوتی پھٹی ہوئی تھی اور اس سے پرے کچھ خُون کے دھبّے تھے… روپا ایک سال سے رجسوّلا تھی۔ میں نے کہا وہ پھر شروع ہو گیا ہے اور یہ پھوہڑ نہیں جانتی۔

دھوتی تو بدل، کُتیا!——میں نے لفظوں کو تھوڑا چباتے ہوئے کہا——پھٹی پڑی ہے، سب لہُو لگا ہے۔

رُوپا کچھ مڑی اور دھوتی میں پھٹی ہوئی جگہ اور خون کے نشانوں کو چھپاتے ہوئے ہڑبڑا کر باہر نکل گئی۔

میں نے اس واقع کو کوئی خاص وہ نہ سمجھا۔ ایسا تو قریب قریب ہر لڑکی کے ساتھ ہوتا ہے، جب وہ عورت بنتی ہے۔ ہولے ہولے وہ اپنا آپ سنبھالنا سیکھ لیتی ہے۔ کئی جب بھی پھوہڑی رہتی ہیں… میں نے سوچا، یہ بھی پھوہڑی رہے گی—رُوپا!

رات جو کچھ ہوا، اس سے مجھے پتہ چلا یہ سب جادو کُتیا کے شبد نے جگایا ہے۔ مجھے کیا پتہ بالو کی ماں؟ تو تو جانتی ہے ہم یونہی پیار سے بھی ایک دوسری کو کُتیا کہا کرتی ہیں۔ میرا یہ مطلب تھوڑی تھا؟ ہم ہنڈولوں پہ گئے۔ روپئے پیسے، سونے چاندی کی ہمارے دیس میں کیا کمی؟ کنجوس لوگ، پیسے پیسے کے لیے مرنے والے… شادی بیاہ، تیج تیوہار پر سب کونوں کھدروں میں پڑی دولت اُٹھا لاتے ہیں اور بیچ چوراہے پہ رکھ دیتے ہیں۔ گویا کہہ رہے ہوں۔ دیکھو… دیکھو اور جلو۔ میں کیرت دات ہوں، جس کی دھن باد میں تین کوئلے کی کانیں ہیں۔ کلکتے میں ربڑ اور پلاسٹک کا سب سے بڑا کارخانہ ۔ بمبئی میں کاٹن گرین کے گودام اپنی روئی سے بھرے پڑے ہیں… تو سانول داس کے دیول میں لاکھوں کا چڑھاوا چڑھ گیا۔ میرے سسُر نے مورتیوں پر سونے کا پترا جڑوا دیا اور شیام سندر کی آنکھوں میں بڑے بڑے نیلم لگوا دیے۔

میں اگرچہ تھکی ہاری تھی مگر ساتھ چلی گئی تھی۔ یوں ہی… ایک امید کے ساتھ اور کچھ نہیں تو رونق دیکھ لوں گی۔ گھر میں کیا رکھا ہے؟ پڑی رہی تو اپنے آپ کو کھا جاؤں گی۔ وہاں بھیڑ میں دو چار دھکوں کے سوا اور کچھ نہ ملا… اور اس کے بعد ہم گھر چلے آئے۔ رُوپا نہیں آئی تھی۔ سب منت سماجت کرتے رہے مگر روپا نے ایک ہی نہ پکڑ لی۔ سب جانتے تھے یہ ایسا ہی کرتی ہے، اس لیے ساری پروا کے ہوتے ہوئے بھی کسی نے پروا نہ کی۔

لوٹتے سمے اور گھر پہنچ کے میں نے بار بار سوچا۔ یہ ہی آ جائیں۔ مگر، انھیں کیا پڑی تھی؟ اُنھیں تو دیس بھر کی ارنڈی چاہیے تھی۔ دنیا بھر کی دولت ، پیسے، پیسے اور پیسے کے سوا انھوں نے کچھ سوچا، نہ ان کے باپ دادا نے۔ ہماری کتنی خواہش ہوتی ہے، بالو کی ماں! ہم اپنے پتی کے ساتھ باہر جائیں۔ میں تو کہتی ہوں اس بات میں پتی پریم بھی اتنا نہیں ہوتا ،جتنا یہ خیال ہوتا ہے کہ باہر جائیں۔ اپنا آپ دکھائیں اور جب کوئی بہت دیکھے، تو اپنے ہی مرد کے کندھے پہ ہاتھ رکھ لیں اور کہیں ——بھگوان نے سب دیا ہے۔ تم کیا سمجھتے ہو! تم بیٹھو، ٹھنڈی ٹھنڈی سانسیں لو۔ آہیں بھرو، جلو، مرو…

ہاں، ہم اتنا ہار شنگار، زیور کپڑے کیوں پہنتی ہیں؟ اسی لیے نا کہ کوئی دیکھے مگر ہاتھ نہ بڑھائے اور پھر اس سارے انکار میں اقرار چھُپا ہوا۔ من کے کسی کونے میں ایک چیز پڑی رہتی ہے جو ہر آتے جاتے من چلے کی ہمّت کو للکارتی ہے…

گھر آتے ہی میں سیدھے اپنے کمرے میں چلی گئی۔ اندر سے دروازے بند کر کے میں نے اپنے سب کپڑے اتار دیے اور آئینے میں اپنا آپا دیکھنے لگی۔ کبھی ادھر سے کبھی اُدھر سے۔ پھر بتّی بُجھاکر ایسے ہی بستر میں لیٹ گئی۔ باہر کسی نے ہلکے سے دروازہ کھٹکھٹایا——

میں چونک اٹھی——کون؟—— میں نے پوچھا

آہستہ سے آواز آئی۔ میں —— روپا!

میں نے پاس پڑی چادر لپیٹ لی اور اُٹھ کر دروازہ کھولا۔ رُوپو اندر آئی۔ وہ رو رہی تھی۔ زار زار رو رہی تھی۔ آتے ہی وہ میرے قدموں پر گِر پڑی۔ اور بولی… میری لاج رکھ لو، بھابی! میں مر جاؤں گی۔ کسی سے کہہ دیا تو میں کہیں کی نہ رہوں گی۔

میری سمجھ میں جب تو کوئی بات نہ آئی۔ مگر ——ہم عورتیں!… میں نے یوں ہی کہہ دیا۔ نہیں، میں کسی سے نہ کہوں گی۔ اور پھر——یونہی … کیا ہوا؟ روپا بولی۔ تم ٹھیک کہتی ہو بھابی۔ وہ مجھے جانتا تھا۔

وہ کون؟ ——میں نے پوچھا۔

اب بنو مت ——وہ بولی۔ وہی مٹکی پھوڑ۔

تیرا ستیاناس! میں نے دل میں کہا…

روپا بولی۔ جب بھی رادھا بازار سے گزرتی، ناکے پہ مجھے مل جاتا، اشارے کرتا، سیٹیاں بجاتا۔ لیکن میں پاس سے گزر جاتی، بُرے بُرے منھ بناتی، گالیاں دیتی۔ لیکن آج، پتہ نہیں مجھے کیا ہوا۔ میں بھیڑ میں چلی گئی۔ صرف اس کے انگلی اُٹھانے پہ … اور پھر ہم دونوں بھیڑ سے نکل گئے اور شِومندر میں چلے گئے، جہاں مسافروں کے لیے کوٹھڑیاں بنی ہیں۔ میں کانپتی جا رہی تھی۔ آخر میں نے سوچا بھی کہ بھاگ کھڑی ہوؤں۔ مگر مجھے کچھ کرتے نہ بنی… اس کے بعد میں اندھی ہو گئی!

میں سچ کہتی ہوں بالو کی ماں۔ میرا سارا بدن کانپنے لگا۔ پہلے مجھے غصّہ آیا، نفرت پیدا ہوئی، پھر سب کچھ جانے کیسے اپنے آپ دھُل گیا۔ میں جی ہی جی میں اپنی مُورکھتائی پر ہنسی۔ مجھے جبھی کیوں نہ پتہ چلا، جب میں نے روپو سے یہ سب کہا تھا؟ ابھی بارہ دن ہی تو ہوئے تھے جب روپو نہائی… اور آج … اچھا، اچھا… تُو فکر نہ کر۔ میں نے رُوپو سے کہا۔ تو نے کون سا ایسا کام کیا ہے جو کسی ماں کی بیٹی نے نہیں کیا۔ مگر اب تو اپنا آپا سنبھال۔ مہینہ بھر اپنا حال بتاتی رہنا، مُردی۔ کچھ ہو گیا تو کہیں کی نہ رہ جائے گی۔ صبح میں تجھے میتھرے اُبال کر دے دوں گی۔ اب تو سو رہ۔ یہیںمیرے پاس۔ کہاں جائے گی؟ اُسی کولکی میں؟ سب سوچیں گے۔ یہ کیا ہو رہا ہے؟ کون چل رہا ہے۔ اس آدھی رات کے وقت؟——

——اور سُن ! میں تیری شادی کی بات چلاؤں گی۔ تو اُوں آں مت کیجیو۔کرنا بھی ہے تو بس دکھاوے کے لیے۔ اتنا ہی جتنا ہم سبھی کرتی ہیں۔ مٹکی پھوڑ یونہی سا ہے کوئی راج مجور۔ اس کا تو سوچ بھی مت… ہاں… جو بات اچھی نہیں ہے، اچھی نہیں ہے اور جو اچھی ہے سو اچھی ہے۔ بھگوان نے تو مرد عورت کو بنا دیا۔ اور جب سے دنیا بنی ہے، وہ ایک دوسرے کے پیچھے بھاگ رہے ہیں اور بھاگتے رہیں گے، جیسے چاند سورج بھاگتے ہیں۔ لیکن وہ بھی ایک راستے پر جاتے ہیں۔ یہ نہیں۔ اُس گلی، اُس بازار سے راستہ کاٹا اور پکڑ لیا ایک دوسرے کو۔ ایسا ہو تو یہ دُنیا، یہ سنسار، یہ دھرتی ، یہ آکاش، سب نشٹ ہو جائیں۔ سال کے دن کتنے ہوتے ہیں؟ ——تین سو پینسٹھ ۔ ان تین سو پینسٹھ دنوں میں ایک بار چاند سورج کو اور ایک بار سورج چاند کو پکڑ لیتا ہے اور بس… اس لیے انسان نے اس چاند سورج کا بھی راستہ بنا دیا ہے اور وہ ہے شادی کا راستہ۔ اس کے سوا کوئی دوسری چیز نہیں۔ شادی ہوتی ہے، تب ماں باپ بھائی بہن خود لڑکی کا ہاتھ پکڑ کر لڑکے کے ہاتھ میں دے دیتے ہیں۔ پھر تو کوئی راجہ مہاراجہ،جج، دیوان بھی کچھ نہیں کرسکتا…

اور میں نے روپا کو چھاتی سے لگا لیا۔ اس کی بہت کچھ تسلّی ہو گئی تھی۔ میرے پاس پڑے پڑے وہیں سوگئی——… نیند نہ آئی تو مجھے۔ یونہی جمائیاں لیتی اِدھر سے اُدھر اور اُدھر سے اِدھر پہلو بدلتی رہی۔ کبھی کبھی میرا ہاتھ روپا کے بدن پر پڑ جاتا۔ مگر وہ بے ہوش پڑی تھی۔ سب کچھ کر سُن کے ایک سُکھ کی نیند لے رہی تھی اور میں——

مٹکی پھوڑ … روپا کے بھیّا … روپا، آئینے میں اپنا بدن۔ یہ سب کچھ آنکھوں کے سامنے گھومتا رہا۔ پھر میں سوچنے لگی، یہ جو روپا سے کہتی رہی ہوں۔ سچ بھی ہے اور جھوٹ بھی۔ سچ اس لیے کہ کوئی قاعدہ قانون تو ہونا چاہیے۔ یوں ہی مرد عورت ایک دوسرے سے ملتے پھریں تو اولاد کو کون سنبھالے؟ کُنبہ کیسے بنے… اور جھوٹ اس لیے کہ شادی کے ایک دوسال تک سب ٹھیک رہتا ہے۔ پھر ہولے ہولے مرد عورت ایک دوسرے کو اتنا جان لیتے ہیں کہ پھر جاننے کی بات بھی نہیں رہتی، جیسے کوئی آدمی ہر سال آبو جایا کرے یا سوسر کی تحصیل کے ہزاروں چکّر کاٹ ڈالے۔پھرمسوری کی گھاٹیوں ہی پہ چڑھنے کا مزا ہے۔ نہیں روح سوجاتی ہے اور ہولے ہولے جسم بھی مردہ ہو جاتا ہے۔ جبھی تو … کسی دوسرے کا ہاتھ لگے تو جسم اور روح دونوں چونک کر جاگ اُٹھتے ہیں۔ بیاہتا جیون میں یہ سب ہو سکتا ہے۔ اگر عورت مائیکے ہی جاتی رہے، چاہے وہ صبر کا مائیکہ ہو یا مرد دورے پہ چڑھا رہے۔ کسی ایسی بڑی ریلوے کا گارڈ ہو جو مہینوں بعد گھر لوٹتی ہو… جب بھی … تبدیلی قانون ہے قدرت کا… ہمیشہ گرمی نہیں رہتی، نہ سردی رہتی ہے… شُکل پکش کی رات کا اپنا جادو ہے اور کرشن پکش کی رات کا اپنا… سانپ کی کھال بھی اچھی ہے اور مور کے پنکھ بھی۔ پھر رنگ ہیں، خوشبوئیں ہیں، آوازیں ہیں… اَن جانی، اَن گنت…

شادی بہت اچھی چیز ہے، بالو کی ماں۔ پر کیا سماں نہیں آیا اس میں تھوڑی سی تبدیلی آ جائے؟ یہ مرد عورت دونوں سے ایک ہی بات کہے۔ اس چھت کے تلے تم دونوں رہو گے۔ یہاں جو بچے پیدا ہوں گے، انسان ہی کے ہوں گے۔ مرد باہر کام پہ جایا کرے گا۔ عورت گھر سنبھالے گی اور بس … ہے بھگوان! میں کیا کچھ کہہ گئی۔ میرا مرا منھ دیکھو، بالُو کی ماں، جو ان باتوں میں سے ایک بھی کسی سے کہو۔ میں سچ کہتی ہوں، مجھے کئی بار خیال آتا ہے۔ میں بیوی ہونے کی بجائے ان کی پریتما ہوتی تو کتنی خوش رہتی——!

ساری رات میں نے جاگ کے کاٹی۔ ساری رات میں سُولی پر ٹنگی رہی۔ جب صبح ہوئی تو یہ چلے آئے۔ میں لپک کر دروازے کی طرف گئی مگر انھیں مجھ سے بات تھوڑی کرنا تھی۔ میری طرف تو دیکھا بھی نہیں۔ آنکھوں ہی آنکھوں میں اتنا ہی کہہ دیتے کہ ہاں بھئی، تو بھی کوئی ہے۔ باہر جانے والے کا کیا ہے؟ ہزار شکل دیکھ کے آتا ہے۔ ہم ہی گھر میں ایک دوسرے کا منھ تکا کرتی ہیں اور پڑے پڑے باسی روٹی کی طرح ہو جاتی ہیں۔ ہاتھ لگاؤ تو ٹھنڈی ٹھار، کھاؤ تو گرما گرم…

ارنڈی کا سوداگر ! ہُونہہ——پگڑی تو دیکھو۔ کیسے پیچ کے پیچ گلے میں پڑے ہیں جیسے مار کھا کے آیا ہے اور منھ پہ انجن کے کوئلے کا بُرادہ کھنڈ گیا ہے…کوئی جَم دُوت معلوم ہوتا ہے، نپنک کا بھُوت!… کمرے میں اور کسی کے جانے کی ہمّت نہ تھی۔ سوائے ددّا کے… ددّا گئی تو اسے بولے ——ددّا جی۔ اسے کہو۔ کچّی لسّی کا گلاس بنا دے۔

اس ساری نفرت کے باوجود میں اپنے آپ چل دی، لسّی بنانے۔ وہی صدیوں کی عادت، پل بھرمیں تھوڑی چلی جاتی ہے؟میں نے جی میں کہا۔ بڑا آیا ہے حکم چلانے۔ جیسے میں کوئی لونڈی باندی ہوں؟ ہاتھ جوڑے کھڑی ہوں؟ حکم کی دیر——؟ مگر میں نے جلدی سے کچّی لسّی بنا ڈالی۔ روپا بھی جاگتی تھی۔ لپک کے باہر جو نکلی تو گلاس سے ٹکرائی۔ لسّی سے میرے کپڑے تر ہو گئے… پھر جو بچی تھی بھیج دی۔

میں تمھیں سچ کہتی ہوں، بالو کی ماں۔ رات تک یہ باپ اور دونوں بیٹے باہر نہیں نکلے۔ آپس ہی میں کچھ کھُسر پھُسر کرتے رہے۔ میں نے سوچ لیا۔ یا گھر سونے کی اینٹوں سے بھر گیا اور یا پھر سب کچھ بِک گیا۔ یہ ارنڈی چیز ہی ایسی ہے۔ اگر تم اسے دیکھو تو بالکل پتہ نہیں چلتا، کسی کی قسمت بنا سکتی ہے یا بگاڑسکتی ہے۔ ہمارے دیس کی ارنڈی، توریے، مونگ پھلی میں وہ طاقت ہے، جو کسی دوسرے دیس کی دودھ بالائی میں نہیں۔ کسان ہل جوتتے ہیں، بیج بوتے ہیں۔ کارخانوں میں مجور محنت کرتے ہیں، لیکن ان کی قسمت کے فیصلے ان کمروں میں بیٹھے یہ سیٹھ لوگ کر ڈالتے ہیں، جو ہل چلانے میں نہیں، بونے میں نہیں، محنت مجوری کرنے میں نہیں۔

میں چاہتی تھی باہر آئیں تو آج ذرا ان سے دو باتیں کروں اور کہوں، پیسے کے پُجاریو! ایسی دُنیا بھی ہے جو پیسے کے سامنے ما تھا نہیں ٹیکتی۔ جیب سے پیسے نکال کر یوں پھینک دیتی ہے۔ مطلب کی چیز خرید لیتی ہے اور پھر چل دیتی ہے—— آگے—— دیکھو تو، تمھارے گھروں میں کیا ہو رہا ہے؟ مُہروں، سونے چاندی، ہیرے جواہرات کی کھان میں تم نے ہم سب کو قید کر دیا ہے اور ہم بھوکوں مر رہی ہیں۔ ہیر جواہر تو نہیں کھا سکتیں؟

وہ نکلے… باپ اور دونو بیٹے ۔ چہرے پر خوشی، نہ رنج۔ اور پھر گھر سے باہر چل دیے۔ ہم عورتیں ہکاّ بکّا کھڑی رہ گئیں، سوچنے لگیں آج ارہر میں کچھ کالا کالا ہے۔ ددّا آئی اور بولی۔ ارنڈی میں دس بارہ لاکھ کا گھاٹا پڑا ہے اور یہ لوگ دیوالے کے کاغذ لکھنے جا رہے ہیں۔ کل کچہری کھُلے گی تو داخل کر دیں گے…

دیوالہ! … ایسے کیا دیکھ رہی ہو، بالو کی ماں؟—— تمھارے لیے دیوالہ مر جانے کی بات ہے۔ ان سیٹھوں کے لیے نہیں۔ یہ تو جتنے دیوالے نکلیں، اتنے ہی امیر سمجھے جاتے ہیں۔ بات یہ ہے ہر دیوالے میں یہ کچھ اُوپر نیچے کرجاتے ہیں، جس سے لاکھ دو لاکھ کا فائدہ ہی ہوتا ہے، نقصان نہیں۔ اس سے پہلے میرا سسُر اور اس کے بیٹے چار دیوالے نکال چکے تھے اور یہ پانچواں تھا!

رات بھر یہ ’’مرد لوگ‘‘ نہ آئے۔ دن بھر کچہری میں رہے۔ شام کو میں اسی بخارچے میں بیٹھی تھی۔ سامنے اپنے سسُر کو آتے دیکھا۔ کمر کی طنابیں ڈھیلی کرتے ہوئے ۔ میرے جیٹھ کی موٹے شیشوں والی عینک ناک کی چونچ پر آ گئی تھی اور یہ!—— اُن کے منھ پہ تھوڑی اور کالک کھنڈ گئی تھی…

دو سال تک انھوں نے رُوپا کا کچھ نہ کیا۔ میں نے پہلے اس بیچاری کے خیال سے صاف صاف کچھ نہ کہا۔ اشارے اشارے میں سب کہہ دیا مگر انھوں نے میری ایک نہ مانی۔ کوئی امیر گھر دیکھنے میں وقت ضائع کر دیا۔ روپا نے اتنے عرصے میں زمین آسمان تک کر دیا۔ اسے اب ہر آدمی مٹکی پھوڑ نظر آتا تھا۔ کب تک گلی محلے کی نظروں سے یہ بات چھُپی رہ سکتی تھی؟ آخر ایک دن تینوں باپ بیٹوں نے مل کر روپا کو خوب پیٹا۔ چھڑانے میں مجھے بھی پڑ گئیں۔ پھر انھوں نے اسے ایک کوٹھڑی میں بند کر دیا۔

روپا کو تو کچھ زیادہ نہ محسوس ہوا، میں پاگل ہو گئی۔ اندر جاتی تو رو لیتی، باہر آتی تو رو دیتی۔ میں نے ساس کی منّتیں کیں۔ ددّا کے سامنے ما تھا رگڑا اور کہا۔ کیا یہ ضروری ہے؟ اچھا سا لڑکا دیکھو جو کھاتا کماتا ہو۔ باپ سیٹھ نہ ہو تو کسی اچھی نوکری میں ہو، لیکن یہ کسی ایسے کی تلاش میں تھے جو ان ہی کی جات برادری کا ہو، جن سے بیوپار کا رشتہ بھی بڑھے۔ مگر ایسا کوئی نہ تھا۔ تھا بھی تو بڑی ناک والا۔ بہت پیسے مانگتا تھا… لاکھ دو لاکھ کی بھی بات نہیں——پانچ لاکھ!

رُوپا کھل کھیلنے لگی۔ اس نے صاف کہہ دیا۔ شادی کروں گی تو اُسی مٹکی پھوڑ سے۔ مٹکی پھوڑ کا اصل نام شیتل داس تھا اور وہ آتشبازی کی دُکان کا مالک تھا۔ آمدنی کوئی اِتنی زیادہ نہ تھی لیکن دیوالی کے اِدھر اُدھر اتنا پیسہ کما لیتا تھا کہ سال بھر کے لیے کافی ہو۔ خود شیتل داس تھا مگر کام ہوائی پٹاخے کا۔ اپنا من شیتل ہو یا نہ ہو، لیکن دوسرے کا ضرور کر دیتا تھا… دیول نگری میں دو چار ہی بانکے تھے جن میں سے ایک وہ بھی تھا۔ ہر کھیل تماشے میں آگے، راس لیلا کا بندوبست اُس کے سپرد۔ وہ مہابھارت کا کنس تھا تو رامائن کا راون!

لیکن روپا اب اُسے نہ مل سکتی تھی۔ نہ اسے گوکل اشٹمی کے دن سانول داس کے دیول میں جانے کی اجازت تھی اور نہ راس لیلا، دسہرے میں حصّہ لینے کی چھٹی… مجھے تو اسے دیکھ دیکھ کر ترس آتا تھا۔ میرے دل میں جانے کیا کرانتی کی لہر اُٹھی۔ شِومندر جانے کے بہانے میں نے کپڑے وغیرہ پہنے اور چل نکلی۔ شیتل کی دُکان رادھا بازار اور رگھوناتھ بازار کے سنگم پہ تھی ،جہاں مہابیر جی کا مندر ہے اور لال رنگ بکھرا رہتا ہے، ہر آتے جاتے کو لگتا ہے۔ کاربیوہار پہ آنے جانے والے لوگ وہاں تھوڑی دیر کے لیے کھڑے ہوتے ہیں، ہاتھ جوڑتے ہیں، آنکھیں بند کرتے ہیں اور کچھ دیر کے بعد زنجیروں کے ساتھ لگی ہوئی گھنٹیوں کو بجاتے اور چل دیتے ہیں۔ سامنے، دائیں بائیں اور پیچھے گائیں بیٹھی جُگالی کرتی ہیں اور انھیں کوئی نہیں روکتا۔ کمیٹی بھی کچھ نہیں کرسکتی۔ کوئی موٹر تانگے والا آتا ہے تو رُک جاتا ہے اور پھر گاڑیوں کو اِدھر اُدھر سے گھُما کر اپنا راستہ بناتا اور چل دیتا ہے۔

میں جا کر شیتل کی دُکان پر کھڑی ہو گئی۔ کئی لڑکے اُس کی دُکان پر کام کرتے تھے۔ وہ صرف اپنے بالوں میں کنگھی کرتا اور لڑکوں کو موٹی موٹی گالیاں دیتا تھا۔ دسہرے کے اِدھر اُدھر کے دن تھے اور شیتل داس نے دُکان کے سامنے ایک طبیلے میں بانس اور کاغذ رکھے ہوئے تھے۔ میگھ ناد اور بھبھیشن بن چکے تھے اور اب روان بننے جا رہا تھا…

مجھے سامنے دیکھ کر وہ بولا … کیا چاہیے، پھُل جھڑیاں؟ میں نے کہا۔ پھُل جھڑی لینے نہیں آئی۔ دینے آئی ہوں۔

وہ کچھ نہ سمجھا۔ دُکان سے نیچے اُتر آیا۔ میرا تن بدن کانپ اُٹھا۔ میں پرے مُنھ کر کے راون کے ڈھانچے کی طرف دیکھنے لگی، جس نے طبیلے کا تین چوتھائی گھیر رکھا تھا۔ دس سر لگنے والے تھے۔ وہ اور ادھر گدھے کا سر لگنے سے پورا طبیلہ گھِرسکتا تھا۔ میں نے جلدی جلدی شیتل داس کے سر کی طرف دیکھا۔ ہر سال سینکڑوں مٹکیاں پھوڑنے سے جس پہ چھوٹے چھوٹے زخموں کے نشان پڑ گئے تھے۔ پھر میں نے جو کہنا تھا چپکے سے کہہ دیا۔ شیتل داس کا چہرہ چمک اُٹھا اور میں چل دی۔

شام کو بھاٹ چلے آئے، جو ہر سال ہمارے گھر میں آلا اُودل سنایا کرتے تھے۔ اور جسے سُن کر ہمیں بڑا جوش آتا تھا۔ ان میں سے ایک تھا جو خنجری بجاتا تھا اور وہ شیتل تھا، چونکہ یہ سب لوگ گھر کے اندر تھے، اس لیے رُوپا انھیں دیکھ سکتی تھی۔ شیتل کو دیکھتے ہی وہ کانپنے لگی۔ اس نے میری طرف دیکھا۔ میں منھ بھینچ کے ہنس دی۔

گھربھر میں کوئی بھی شیتل کو نہ پہچان سکا۔ پڑوسنیں بھی اُسے نہ جان پائیں۔ کم بخت ایسا بہرُوپیا تھا کہ کسی کو شک بھی نہ ہوا۔ ایک پہچانا تو پہچاننے والی نے، جو اس کے ایک ایک بل سے واقف تھی۔ رُوپا اندر بھاگنے لگی۔ میں نے اشارے سے منع کر دیا۔

میں کہتی ہوں بالو کی ماں۔ مجھے اس میں ذرا بھی لاج نہ لگی۔ اور نہ ایسا معلوم ہوا جیسے میں نے کوئی پاپ کیا ہے۔ اُلٹا یوں جان پڑا، جیسے کوئی بہت بڑے پُنّ کا کام کر رہی ہوں۔ ہمارے شاستر اس طرف تھے اور ددّا، ساس، جیٹھانی، سسُر، جیٹھ، یہ، وہ سب دوسری طرف …میں نے وقت کا ایسا بندوبست کیا تھا کہ ان کے آلااُودل شروع کرنے سے ختم کرنے تک رات ہو چکی تھی۔ اس کے بعد میں نے دیکھا، عورتوں میں سے رُوپا غائب ہے اور مردوں سے شیتل۔ باقی کے بھاٹ تُلسی جی سے کچھ پڑھتے رہے…

جب بہت دیر تک نہ آئے تو میں گھبرا گئی۔ اُٹھ کے گئی تو دیکھا، رُوپا اپنے کمرے میں لیٹی ہوئی چھت کو تک رہی ہے۔ میں نے اشارے سے پوچھا—— وہ کہاں گیا؟ رُوپا نے بتایا، پیچھے سیڑھیوں کے راستے سے غائب ہو گیا ہے۔ میں سمجھی بس مل لیا دونوں نے، اور کوئی بات نہیں ہوئی… مگر مجھے کیا پتہ۔ بات کہاں سے کہاں تک جا پہنچتی ہے——؟

گھر کے مرد لوگ پیڑھی پر سے چلے آئے… میں سچ کہتی ہوں۔ اس روز مجھے رُوپا کے بھیّا بُرے نہ لگے۔ انھیں خود بڑی حیرانی ہوئی کہ یہ آج اتنا پھُسلا کیوں رہی ہے؟ میں بڑی خوش تھی، جیسے مجھے، کچھ مل گیا ہے۔ مل بھی جاتا، بالو کی ماں تو اپنے آدمی کے لیے میرے دل میں پیار کم ہو جاتا؟ بالکل نہیں۔ اُلٹا بڑھتا ہی۔ میں سوچتی—— میں کیا کر آئی ہوں۔ ان بے چاروں کو کیا معلوم؟ جو لوگ عورت کو جتنی نہیں سمجھتے، بیوپار جائیداد کی چیز سمجھتے ہیں، جن کے دماغ میں شادی کا وہی پُرانا مہتّو گھُسا ہوا ہے جو آج سے ہزاروں سال پہلے تھا۔ اُنھیں اس بات کی کیا سمجھ؟

رات دو بجے میں ہڑبڑا کے اٹھی۔ گھربھر میں شور مچا ہوا تھا… روپا شیتل کے ساتھ دوڑ رہی تھی کہ پکڑی گئی۔ میرے ہاتھ پاؤں ٹھنڈے ہو گئے۔ روپا سے ہر طرح کے سوال کیے جا رہے تھے، مگر اُس نے ایک ہی چُپ لگا رکھی تھی۔ وہ ڈھیٹ بن گئی تھی۔ اس کا انداز کچھ ایسا تھا کہ کر لو جو میرا کرنا ہے، میں تو وہی کروں گی جو میرے من میں ہے۔

ایک بات اچھی ہوئی جو شیتل نکل چکا تھا۔ اس کے بارے میں کسی کو پتہ نہ چلا۔ وہ ہوتا تو سب کہہ ڈالتا۔ اُسے کیا پڑی تھی؟ وہ تو رسیا تھا، باقی رہی روپا کی بات۔ روپا کو کوئی مار بھی دیتا تو میرا نام نہ لیتی۔ وہ اتنی ناشکری نہ تھی!

اب سب کو ہاتھ پیر پڑ گئے۔ اتفاق سے دوسرے ہی دن گھر کے نائی نے بالاگھاٹ میں ایک رشتہ بتا دیا۔ ایسے سیٹھ کا نام لیا جس کے چھ دیوالے نکل چکے تھے اور جو بنولوں کا بیوپار کرتا تھا… سب کچھ جلدی سے طے ہو گیا۔رُوپا کو منانے کا کام میرے سپُرد کیا گیا۔ رُوپا کچھ مانی کچھ نہ مانی اور دنوں ہی میں برات بھی دروازے پر آ گئی۔

میں نے لڑکا دیکھا تو میری طبیعت خوش ہو گئی۔ شیتل تو اس کے مقابلے میں کچھ نہ تھا۔ یہ جوان، خوبصورت، لمبا چوڑا۔ میں رُوپا کے پاس بھاگی گئی اور اُسے سب بتا دیا۔ رُوپا مُسکرا دی۔ ایک روکھی پھیکی مسکراہٹ۔ میں تو ناچ اُٹھی جیسے رُوپا کی نہیں، میری شادی ہونے جا رہی ہے…

تم نے تو وہ شادی دیکھی ہے، بالو کی ماں؟——وہ شادی دیول نگری میں یادگار رہے گی۔ ان کے پِتا نے وہی کیا جو ہماری جات برادری کے لوگ کرتے ہیں۔ ایک لاکھ روپیہ لگا دیا۔ گھر میں کس نے نہیں کھایا؟ کون لاگ لے کے نہیں گیا؟ ہمیں وار کرنے،چھیڑنے کو پوری برات ملی اور پھر وہ ——دُولھوں کا دُولھا۔ وہ ہنگامہ ہوا، وہ شور مچا کہ بس… بینڈ باجے، گانے، روشنیاں، میری جیٹھانی کے بچّے خوش تھے۔ میں نے بلرام کو بُلایا اور کہا ——دیکھ ننھّے! تیری بُوا کی شادی ہو رہی ہے۔ اس بے چارے کو کیا پتہ، کیا ہوا اور کیا نہیں ہوا؟ اور کیا ہونے جا رہا ہے؟ وہ خوش تھا۔ ہاتھ میں ایک بڑا سا مہیسُو تھامے۔ اُس نے صرف اتنا سا کہا۔ میں بھی شادی کروں گا، چاچی!

میں نے کہا ——کس سے؟

بولا—— بُوا سے۔

ہشت!… ددّا جو پاس کھڑی تھی، بولی——

ڈولی گئی۔ وہ آتشبازی چھوٹی کہ رام رام۔ پانچ ہزار کا ٹھیکہ میں نے ان کو کہہ سُن کے شیتل کو دلوا دیا تھا اور وہ خود کھڑا اپنے سامنے چکّر چلوا رہا تھا جس میں سے سات رنگ کے پھول نکلتے تھے… ڈولی گئی! اب گھر میں ڈونوں، پَتلوں، کاغذ کے پھولوں، بیلوں، پھٹے ہوئے غُباروں، چلے ہوئے اناروں، چکّروں کے بانسوں، کانچ کے ٹکڑوں، فِرنی کی پلیٹوں کے سِوا کچھ نہ رہ گیا تھا۔ جتنا شور مچا تھا، اتنی ہی چُپ تھی…

کہیں دو مہینے کے بعد رُوپا آئی۔ اُس کے چہرے کا رنگ ہی اَور تھا۔ لڑکے نے اُسے اور اُس نے لڑکے کو بے حد پسند کیا تھا۔ رُوپا کے پاؤں زمین پر نہیں ٹکتے تھے۔ اب میں اس کے سامنے یہاں کی مٹکی پھوڑ کا نام لیتی تو رُوپا خود ہی منھ پہ ہاتھ رکھ دیتی۔ میں نے رُوپا سے کہا— رُوپ! دیکھا… میں نہ کہتی تھی؟ روپ بولی— اور تو کوئی بات نہیں بھابی!—— یہ مجھ سے بہت پیار کرتے ہیں۔ مگر دبُّو بہت ہیں گھر میں۔ کمانے والے میرے سسُر ہیں اور ان کے بڑے بھائی۔ اس لیے ہر چھوٹی بڑی بات کے لیے انھیں ان کے سامنے سر جھکانا پڑتا ہے۔ پھر مجھے ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے اُس کے گھر کے بڑے ہم سے کچھ اور چاہتے ہیں…

اور وہ تمھارے؟——میں نے شرارت سے پوچھا۔

وہ تو کچھ نہیں چاہتے، بَس… رُوپا نے کہا اور میری طرف دیکھ کے ہنس دی اور بولی— بہت وہ کرو گی بھابی تو ماروں گی، ہاں!

میں مارے خوشی کے رُو دی۔ لیکن مجھے کیا پتہ تھا ہمیشہ کے لیے رونا پڑ جائے گا۔ ہائے، یہ مرد!… رُوپا چار مہینے سے یہیں ہے اور کوئی لینے والا نہیں آیا۔ وہ روپیہ مانگتے ہیں اور یہ دینے پہ تیار نہیں۔ رُوپا نے ٹھیک کہا تھا۔ لڑکا دَبّو ہے۔بات اتنی ہے کہ اچھی شکل، جوانی سے کچھ نہیں ہوتا۔ جب تک مرد کماؤ نہ ہو، بیکار ہے!

انہی چند مہینوں میں رُوپا آدھی رہ گئی ہے۔ وہ بخارچے سے بھی نیچے نہیں جھانکتی، حالانکہ دوسرے تیسرے روز دیول نگری کا بانکا، شیتل آتشباز پیار کے گانے گاتا نکل جاتا ہے۔ کل سویرے میرے سسُر آئے۔ بہت خفا معلوم ہوتے تھے۔ اُس نائی کو گالیاں دے رہے تھے جس نے یہ رشتہ کرایا۔ کہہ رہے تھے ۔ ہم لڑکی کو کبھی نہ بھیجیں گے، چاہے ساری عمر گھر بیٹھی رہے۔ ہمارے ساتھ دھوکا ہوا ہے۔ رُوپا کے سسُر کا تو ایک بھی دیوالہ نہیں نِکلا!

٭٭٭

ماخذ:

http://baazgasht.com/tag/rajinder-sing-bedi/

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید