FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

داستانیں

 

 

                غلام ابن سلطان

 

 

 

 

 

           حادثہ

 

 

 

سال کی آخری رات تھی اس کے ساتھ ہی ہر چہرے پر نئے برس دو ہزار پندرہ کی آمد کی خوشی دیدنی تھی۔ شہر کی ایک کچی آبادی کے ایک گم نام کوچے میں مقیم ناصف بقال پر یہ رات بہت بھاری تھی۔اس کی عمر ستر سال ہو چکی تھی اور اس کے اعضا مضمحل ہو چکے تھے اور عناصر میں اعتدال عنقا تھا ۔ اس کے خرابات آرزو پر حسرت و یاس کا بادل ٹُوٹ کر برس گیا۔ ایک عادی دروغ گو،قحبہ خانہ ،چنڈو خانہ اور کسینو کے مالک، منشیات کے تاجر ،سمگلر ،پیمان شکن ،محسن کش اور ابن الوقت درندے کی حیثیت سے ناصف بقال کی معاشرے میں کوئی قدر و منزلت نہ تھی۔وہ غمِ جہاں کا حساب کرنے میں خجل ہو رہا تھا کہ اسے ماضی کے کئی دیرینہ رفیق بے حساب یاد آئے۔اس عالم پیری میں جب جانگسل تنہائیوں کا زہر اس کے ریشے ریشے میں سرایت کر گیا تو وہ ثباتی،ظلی ، شعاع ،تمنا،زادو لُدھیک ،اکی ،عارواور رنگو کو یاد کر کے آہیں بھرنے لگا۔ایام گزشتہ کی کتاب کی ورق گردانی کرتے کرتے وہ سوچنے لگا کہ عیش و طرب اور وصل کے برس تو گھڑیوں کے مانند بیت گئے مگر تنہائیوں کی گھڑیاں تو اب برسوں پر محیط دکھائی دیتی ہیں ۔ اس کی آنکھوں کی نیند اُڑ چکی تھی اور دل کی تاریکی اس کے مقدر کی سیاہی کے مانند اس کی رُ و سیاہی بنتی چلی گئی۔اس کی بُوم جیسی آنکھیں لُٹی محفلوں کی دھُول سے اٹ گئی تھیں ۔ ساٹھ سال کی عمر میں وہ واقعی سٹھیا گیا تھا اوراس کی عقل پر ایسے پتھر پڑ گئے تھے کہ اس نے ہیرا منڈی کی رذیل اور جسم فروش نو جوان طوائفوں ثباتی اور ظلی سے ٹُوٹ کر محبت کی۔زادو لُدھیک اپنی داشتہ ظلی کو سیڑھی بنا کر ناصف بقال سے مالی مفادات حاصل کرتا رہا اور اپنی تجوری مسلسل بھرتا رہا۔ رنگو نے بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کے لیے اپنی اہلیہ ثباتی کو ناصف بقال کی خدمت پر مامور کر دیا جوہر وقت ناصف بقال کی محبت کادم بھرتی اور ساتھ ہی اپنی جمع پونجی میں اضافہ کر کے اسے کر گس کی طرح نو چتی رہتی ۔ناصف بقال ہمہ وقت حسین و جمیل طوائفوں کے جھُرمٹ میں راجا اِندر بن جاتا ،دادِ عیش دیتا ، خوب ہنہناتا اور اپنے جنسی جنون کی تسکین کا ہر قبیح حربہ استعما ل کرتا۔حقائق سے شپرانہ چشم پوشی اس شُوم کا وتیرہ بن چکا تھا۔بیتے دنوں کو یاد کر کے وہ اس قدر رویا کہ روتے روتے فرط غم سے وہ نڈھال ہو گیا اور آنے والے وقت کے متوقع عذاب کے تصور سے اس کی گھگھی بندھ گئی۔اپنی پتھرائی آنکھوں سے وہ دروازے کی طرف دیکھنے لگا لیکن اب یہاں کسی کی آمد متوقع نہ تھی۔ اس کے پروردہ تمام بھوکے فصلی بٹیرے اورسب چڑیاں دانے چُگ کر لمبی اُڑان بھر گئیں ۔ اس کے ساتا روہن کا بھی کہیں اتا پتا نہیں ملتا۔

وہ مسلسل اپنی گدھے کے بالوں سے بنی ہوئی وِگ کو کھجلا رہا تھا اور اپنے ہاتھ کی اُنگلی میں ٹھنسی ہوئی عقیق کے بڑے نگینے والی چاندی کی انگوٹھی کو ہلا رہا تھا ۔لنڈے کا تھری پیس سوٹ پہنے یہ کلین شیو خضاب آلودہ بُڈھا کھوسٹ اپنی حسرتوں پر آنسو بہانے کے لیے تنہا رہ گیا تھا۔وہ اپنی خمیدہ کمر پر ہاتھ رکھ کر اپنے شکنوں سے بھرے بستر سے اُٹھا،موٹے شیشوں والی نظر کی عینک اُتاری اور شپر جیسی بند آنکھوں پر پانی کے چھینٹے مار کر ان کے گدلے پن کی صفائی کی کوشش کرنے لگا۔حرام کا مال کھا کھا کر وہ پھُول کر کُپا ہو گیا تھا۔ اس کے منہ کا ذائقہ بدل چکا تھا اور زبان کی کڑواہٹ کا اثر لہجے کی تلخی ،بے ہود ہ گوئی،خلجان اور ہذیان کی صورت میں سامنے آیا۔اب اسے ثباتی اور ظلی کے ہاتھ سے تیار کیا ہوا کھانا میسر نہ تھا بل کہ ریڑھی سے نان حلیم خرید کر زہر مار کرتا تھا ۔سب سے بڑھ کر المیہ یہ ہوا کہ اس کی اپنی اہلیہ نے بھی اپنی بیٹیوں کو ساتھ لیا اور شاہی محلے میں اپنے آبائی کوٹھے میں بسیرا کر لیا۔ اس جگہ خوب سے خوب ترکی جستجو کا سلسلہ جاری تھا اور یہاں ان کی پانچوں گھی میں تھیں ۔اپنی ناک میں اُنگلیاں ٹھونستے ہوئے لڑکھڑاتا ہوا یہ چکنا گھڑا با ہر نکلا۔سڑک پر ایک جگہ لکھا تھا ’’نیا سال مبارک ‘‘۔جب اس نے یہ تحریر پڑھی تو وہ مگر مچھ کے آنسو بہانے لگا۔بے وفا ساتھیوں نے اس کی زندگی اجیرن کر دی تھی اور اس کے لیے تو ایک ایک لمحہ بلائے جان بن گیا تھا ۔اس کی زندگی کے تمام موسم خزاں کی زد میں تھے۔اب تو اس کی حیات کے لرزہ خیز اور اعصاب شکن افسانوی ماحول میں ہر طرف ذلت ،تخریب،نحوست ،بے برکتی ،بے توفیقی،بے ضمیری ،بے غیرتی ،بے حیائی ،بے حسی اور بد بختی کے کتبے آویزاں ہو چکے تھے۔وہ دبے پاؤں واپس اپنے کمرے میں آ گیا اور اپنے ماضی کے حالات کے بارے میں سوچنے لگا۔ہر طر ف ہو کا عالم تھا ،اس کے کمرے کی ایک کھڑکی کھلی تھی جس سے باہر کا سارا منظر صاف دکھائی دیتا تھا ۔ ممبئی کے نوجوان نئے سال کے استقبال کی تیاریوں میں مصروف تھے۔اس کے لیے تو یہ تیاریاں دل آزاریوں کے سوا کچھ نہ تھیں ۔ ہمیشہ کی طرح وہسر شام نشے کی بڑی مقدار استعمال کر کے بے سدھ ہو گیا تھا۔اب اس کا نشہ ٹُو ٹنے لگا تھا۔ مسموم حالات کی حدت کے باعث اس کا دماغ تو پہلے ہی طویل رخصت پر تھا اب دل و جگر کی آگ بجھانے کی خاطراس نے برف میں لگی صراحیِ مے اپنے حلق میں اُنڈیلی اور پھر سے وادیِ خیال کو مستانہ وار طے کرنے کی ٹھان لی۔

اسی اثنا میں اس نے حکیم سیالوی کو دیکھا جو اسے دلاسا دے رہے تھے۔اسے وہ دن یاد آ گئے جب اس نے عالم شباب میں داد عیش دینے اور شراب و شباب کے ساتھ ہمہ وقت سنگت کا آغاز کیا تو اس کی اخلاق با ختگی ،جنسی جنون اور بے راہ روی کی نفرت انگیز داستانیں ہر شخص کی زبان پر تھیں ۔منشیات کے بے تحاشا استعمال سے وہ نشاط اور بے خودی کے عالم میں ہر ناصح کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتا اور ان کی نصیحت کو سنی ان سنی کر دیتا۔حکیم سیالوی نے اُسے بہت سمجھایا کہ منشیات کے استعمال سے انسان موت کی جانب تیزی سے بڑھنے لگتا ہے ۔ منشیات فروش پر جب سب بلائیں تمام ہو جاتی ہیں تو مرگ نا گہانی اسے دبوچ لیتی ہے ۔سب ناصح اسے سمجھاتے رہے لیکن اس کے دماغ میں تو خناس سما گیا تھا کہ وہ راجا اندر ہے اوراسے پریوں کا اکھاڑاسجانے کا اختیار ہے۔وقت پر لگا کر اُڑتا رہا اس کی کتاب زیست سے شباب کا باب اپنے اختتام کو پہنچا۔اس کے بعد مختلف بیماریوں نے اسے اپنے نرغے میں لے لیا۔پہلے ایک گردے میں پتھری کا آپریشن ہوا پھر دوسرے گردے میں پتھری کی تشخیص ہوئی۔اس کے بعد پِتے اور معدے میں پتھری اور ساتھ ہی مثانے میں غدود اور پتھری سے وہ زندہ در گور ہو گیا۔اس کی تمام جمع پونجی ان بیماریوں کے علاج معالجے اور پیچیدہ نوعیت کے آپریشن کی بھینٹ چڑھ گئی۔جان لیوا دکھوں ،لرزہ خیز اور اعصاب شکن حالات اور جا نگسل تنہائیوں میں اس کے احباب ایسے غائب ہوئے جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔جب اس کی امیدوں کے پھول کھلنے کی توقع تھی تو ہوس پرستوں نے انھیں کا نٹوں سے فگار کر دیا ۔جن لوگوں کی رفاقت کو اس نے چراغ راہ سمجھا تھا وہی اسی کا گھر پھونک کر تماشا دیکھتے رہے۔اس دنیا کے آئینہ خانے میں دکھوں کا جال بچھا کر سب ساتھی اسے تماشا بنا کر چلتے بنے۔وہ زندگی بھر رنگ ،خوشبو اور حُسن و خوبی کے استعاروں سے مزین گُل ہائے رنگ رنگ کی تمنا میں سر گرداں رہا۔اب اس کی شامت اعمال نے یہ دن دکھائے کہ عالم پیری میں اس کی آنکھوں میں کالا مو تیا اُتر آیا ۔اب شدید ضعف بصارت کی ماری اس کی پتھرائی ہوئی کرگسی آنکھوں میں لُٹی محفلوں کی دھُول اُڑتی رہتی تھی۔حالات اسے اس موڑ پرلے آئے کہ اگرچہ اس کی یادداشت بُری طرح متاثر ہو چُکی تھی لیکن اُسے نہ صرف چھٹی کا دودھ یاد آگیا بل کہ نانی کی یاد بھی ستانے لگی ۔جس کے پاس ہر چیز کی فراوانی ہوتی تھی اس کو بھی آٹے دال کا بھاؤ معلوم ہو گیا۔ جس گھر میں پہلے حسین و جمیل مغنیاؤں کے پُرسوز نغمے گُو نجتے تھے اب اس گھر میں ہر طرف اُلّو بولتے تھے۔

حکیم سیالوی کو دیکھتے ہی ناصف بقال کی آنکھیں ساون کے بادلوں کی طرح برسنے لگیں اور اس نے اپنی داستان غم بیان کی اور گردوں ،پتے ،مثانے اور معدے کی پتھری اور آپریشن کے عذاب کا احوال بیان کیا۔ اس نے بتایا کہ جسم کے تمام بڑے اعضا میں بڑی بڑی پتھریوں کا بن جانا معالجوں کے لیے بھی ناقابل فہم تھا۔سب حکیم اور ڈاکٹر اس انتہائی پیچیدہ ،جان لیوا اور تکلیف دہ روگ کو ایک عذاب سے تعبیر کرتے تھے ۔ان پتھریوں کے علاج نے اسے مفلس و قلاش کر دیا اور وہ کوڑی کوڑی کا محتاج ہو گیا۔یہ سنتے ہی حکیم سیالوی صاحب نے اپنے دبنگ لہجے میں کہا کہ ایک راندہ ء درگاہ زانی اور شرابی کو دنیا والے تو سنگسار نہ کر سکے لیکن فطرت کی تعزیریں تمھیں اندرونی طور پر رفتہ رفتہ سنگسار کرتی جا رہی ہیں ۔میں نے تمھیں بہت سمجھایا تھا لیکن تمھاری عقل پر تو پتھر پڑ گئے تھے۔وہ دن دور نہیں جب حالات یہ رخ اختیار کریں گے کہ فطرت کی سنگساری کا یہ سلسلہ تمھیں مکمل طور پر منہدم کر دے گا۔ تمھاری شامتِ اعمال کے باعث ہونے والی تمھاری اس سنگساری کے نتیجے میں تم زینہ زینہ وقت کی تہہ میں اُتر جاؤ گے زمین کا بوجھ قدرے کم ہو جائے گا اور ہر شخص یہ کہے گا کہ خس کم ہونے سے گلشنِ ہستی کی پاکیزگی میں اضافہ ہوا ہے۔

ناصف بقال ،رنگو ،اکی،زادو لُدھیک عارو اور تارو سب کے سب رسوائے زمانہ بد معاش تھے۔ ان اُجرتی بد معاشوں اور پیشہ ور لُٹیروں نے قتل و غارت کا جو بازار گرم کر رکھا تھا اس کے باعث زندگی کی تمام رُتیں بے ثمر ہو گئی تھیں ۔ ممبئی کے قحبہ خانوں میں ان کی پروردہ جسم فروش رذیل طوائفوں ثباتی،ظلی،شعاع اور تمنا نے بے حیائی اور فحاشی کی انتہا کر دی تھی۔ منشیات کے کالے دھن اور خرچی کی آمدنی نے ان عقل کے اندھوں کو انسان دشمنی کے مکروہ جرائم میں مبتلا کر دیا۔زاد ولُدھیک اور ناصف بقال نے اپنی بد اعمالیوں سے زندگی کو پتھر کے زمانے کے ماحول میں پہنچا دیا۔ وقت کے اس سانحہ کو کیا نام دیا جائے کہ یہ جاہل اپنی جہالت کا انعام حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ ان موذی و مکار بگلا بھگت جنونیوں اور خون آشام دہشت گردوں کی شقاوت آمیز نا انصافیوں اور بے رحمانہ انتقامی کارروائیوں کے باعث کئی گھر بے چراغ ہو گئے ۔انسانیت کی توہین ،تذلیل ،تضحیک اور بے توقیری ان ننگ انسانیت درندوں کا وتیرہ تھا ۔ان مخبوط الحواس ،فاتر العقل اور جنسی جنونی درندوں نے ہمیشہ خو دکو کہکشاں کا مکیں سمجھااور مظلوم انسانیت کو راستے کا پتھر سمجھتے ہوئے اسے زد جاروب کھانے پر مجبور کر دیا۔ناصف بقال نے اگرچہ اپنے ضمیر کا گلا گھونٹ دیا تھا لیکن اس کے دل سے کبھی کبھی ایک ہوک سی اُٹھتی کہ اس کی ذلت، رُو سیاہی ،تباہی اور جگ ہنسائی میں زادو لُدھیک،تارو، عارو،رنگو ، اکی ،ظلی اور ثباتی کا قبیح کردا ر شامل ہے۔ معاشرے میں ان کو کالی بھیڑیں ،گندے انڈے ،سفید کوے اور عفونت زدہ غلیظ مچھلیاں سمجھا جاتا تھا اور یہ سب مردود خلائق تھے ۔یہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی ناصف بقال اپنے ان قریبی احباب کے خلاف کچھ نہ کر سکا اور ایک خارش زدہ سگ راہ کے مانند ان کے تلوے چاٹتا رہتا۔کُوڑے کے ڈھیر سے ذاتی مفادات کے استخواں نو چنے اور بھنبھوڑنے کی کریہہ عادت اسے ورثے میں ملی تھی۔ بعض لوگو ں کا خیال ہے کہ زادو لدھیک اور ناصف بقال کے آباکاگھاس کھودنے اور کتے گھسیٹنے پر مدار تھا ۔یہ بھی سننے میں آیا کہ سو پُشت سے ان کے آبا کا پیشہ گدا گری ، منشیات فروشی رہزنی اور لوٹ مار تھا۔ان کے گھروں کی عورتیں قحبہ خانے کی زینت بن کر خرچی کے ذریعے زر و مال سمیٹ لیتیں اور اپنے مردوں کے لیے عیاشی کا سامان فراہم کرتیں ۔ناصف بقال اور زادو لُدھیک کے سبز قدم جہاں بھی پڑتے وہاں ویرانی ڈیرے ڈال لیتی۔ان کی صرف زبان ہی کالی نہیں تھی بل کہ بد اعمالیوں کے باعث ان کی رو سیاہی کی داستانیں بھی زبان زد عام تھیں ۔ اس کے سارے ہم نوالہ و ہم پیالہ ساتھی اب اس سے نفرت کرتے تھے ۔ان موقع پرست فصلی بٹیروں نے ہمیشہ گرگٹ کی طرح رنگ بدلے۔وہ جانتا تھا کہ یہ سب طوطا چشم اور مارِ آستین ہیں اور ان کے ساتھ ربط رکھنا دہکتے ہوئے انگاروں سے کھیلنے کے مترادف تھا۔اس کے باوجود وہ راجا اِندر بنا پریوں کے اکھاڑے میں دادِ عیش دیتا رہا۔اپنی طویل زندگی میں اس نے آدمی کے لاکھوں رُوپ دیکھے،ہر وضع اور ہر قماش کے آدمی سے اُس کا پالا پڑا ،چلتے پھرتے ہوئے مُردوں سے ملاقاتیں ہو تی رہیں لیکن وہ کسی ایک بھی معتبر انسان کو تلاش کرنے میں کامیاب نہ ہو سکا جو اس کا محرم راز بن سکے۔ اب وہ جان گیا تھاکہ وہ زندگی کے حقیقی شعور سے یکسر بے بہرہ ہے ۔اپنے شام و سحر کی کشتیوں کو سیل زماں کے مہیب تھپیڑوں کے باعث گرداب میں غرقاب ہوتا دیکھ کر وہ تڑپ اُٹھتا۔اب وہ دشتِ جنوں میں تنہا بھٹک رہا تھا اور سرابوں کے عذابوں میں کوئی اس کا پُرسانِ حال نہ تھا۔اب اسے یہ معلوم ہو گیا تھا کہ سیرِ جہاں کا حاصل حیرت و حسرت کے سوا کچھ بھی تو نہیں ۔اب تو سفر کی دھُول ہی اس کا پیرہن بن گیا تھا۔

اس کی زندگی میں ہمیشہ نئی سے نئی ابتلا کا طوفان بپا رہا لیکن وہ ابتدا کی فکر و احتیاط اور انتہا کے کرب یا صدمات سے بے نیاز عشق و جنوں کے سرابوں میں سر گرداں رہا۔اب اسے قضا کے ہاتھوں زندگی کا دریچہ بند ہوتا محسوس ہو رہا تھا اور خورشید محشر کی تیز شعاعوں نے اس کی نگاہوں کو خیرہ کر دیا تھا۔وہ بار بار یہ سوچتا کہ وہم و گماں کے موسم میں اس کی ناکام زندگی اس طرح بکھر گئی جیسے خزاں کے مسموم ماحول میں بُور لدے چھتناروں کے خشک پتے ہر سُو بکھر جاتے ہیں اس کے قریۂ جاں میں اعصاب شکن سناٹوں ،جان لیوا تنہائیوں ،غیر مختتم رسوائیوں ،جگ ہنسائیوں ، رُو سیاہیوں ،مسموم ہواؤں ،موہوم تمناؤں اور تلخ یادوں کی خزاؤں نے مستقل ڈیرے ڈال رکھے تھے۔اب تو جگر کی آگ بجھانے والی مے انگبین اور ما اللحم سہ آتشہ اسے میسر نہ تھا۔ اس تشنگی اور جنسی بھوک سے اس کے اعصاب شل ہو چکے تھے اور وہ بہت خجل ہو رہا تھا۔یاس و ہراس پر مبنی سوچییں اُ س کے لیے سوہان روح بن چکی تھیں ۔اسے یوں محسوس ہوتا تھا کہ ایام گزشتہ کی یہ لرزہ خیز یادیں ہی اس کی روح قبض کر لیں گی۔وہ ان خیالوں میں گم تھا کہ اچانک اس کے سامنے چڑیلیں ،ڈائنیں اور پچھل پیریاں گھومنے لگیں ۔ان کے ساتھ دیو ،بھوت اور آدم خور بھی تھے۔اس نے غور سے دیکھا تو مافوق الفطرت عناصر کے ہجوم میں اسے کچھ پرانے آشنا چہرے بھی دکھائی دئیے ان میں ظلی،ثباتی،تمنا ،رنگو،زادو لُدھیک،اکی ،عارو اور تاروبھی شامل تھے۔اپنے حقیقی رُوپ میں یہ ننگ انسانیت درندے بہت خوف ناک دکھائی دے رہے تھے۔ اکثر غارت گر بندِ قبا اور لباس کے تکلف سے بے نیاز ،شرم و حیا کو بارہ پتھر کر کے رقص کرتے ہوئے ایک دوسرے سے پیمان وفا باندھ رہے تھے۔ اس نے انھیں متوجہ کرنے کی بہت کوشش کی لیکن کسی نے اس کی آہ و فغاں پر دھیان نہ دیا۔چور محل میں جنم لینے والے مشکوک نسب کے سانپ تلے کے یہ بچھواس کے لیے مارِ آستین ثابت ہوئے۔جنسی جنون ،ہوس،کالے دھن اور عشق لا حاصل کے اندھے سفر میں وہ محرومیوں ،مایوسیوں ،ناکامیوں ،نا مرادیوں اور بربادیوں کے ابتلا میں صحرا کے ایک تنہا شجر کے مانند تھا جسے سمے کی دیمک نے چُپکے چُپکے اندر سے کھا کر کھوکھلا کر دیا تھا اور اب اس میں کسی غنچے کے کِھلنے کی توقع نہ تھی۔ ا س کی زندگی کے خزاں رسیدہ بوسیدہ شجر پر بُوم ،شپر،کرگس اور زاغ و زغن کا بسیرا تھا۔

ابھی وہ پریشانی کے عالم میں یہ سب مناظر دیکھ رہا تھا کہ اچانک اس کی نگاہ دور کھڑے الم نصیبوں اور جگر فگاروں پر پڑی۔اس نے ان سب کہ پہچان لیا یہ سب وہی مجبور لوگ تھے جنھیں اس نے زندگی بھر بے پناہ اذیت اور عقوبت میں مبتلا رکھا۔وہ اپنے دِل کو سِل بنا چُکا تھا اور اس کے غیظ و غضب سے دُکھی انسانیت پر جو کوہِ ستم ٹُوٹااس کے باعث ان مظلوموں کی روح زخم زخم اور دل کرچی کرچی ہو گیا ۔اس کے بے رحمانہ انتقام اور شقاوت آمیز نا انصافیوں نے ان مجبوروں کی اُمیدوں کی فصل غارت کر دی اور ان مظلوموں کی صبح و شام کی محنت اکارت چلی گئی۔ان کی گریہ و زاری کو دیکھ کر وہ جان گیا کہ اس کے بہیمانہ سلوک کی وجہ سے گلستان میں جو بادِ صر صر چلی اس نے گلشنِ زیست کی کلیوں اور غنچوں کو جھُلسا دیا۔اس کے جبر نے مجبوروں کی آہ و فغاں کو اس طرح مہیب سناٹوں کی بھینٹ چڑھا دیا کہ ان کے ہونٹوں کی مسکان تک چھین لی۔ بے وفائی اور پیمان شکنی سے لذتِ ایذا حاصل کرنا اس کا وتیرہ تھا یوں وہ جس شہر میں بھی گیا اسے مانندِ کُوفہ بنا دیا۔اس کی خود غرضی اور ابن الوقتی ضرب المثل تھی یہاں تک کہ قیس جیسے رمیدہ ہجر گزیدہ کو بھی اس کے دست جفا کار نے بدن دریدہ بنا دیا۔وہ سو چنے لگا کہ سیلِ زماں کے تھپیڑوں کے درد سے چکیدہ بے بس انسانیت اس کی ہوس ناکی کے باعث مکمل انہدام کے قریب پہنچ گئی۔ مصیبت کی اس گھڑی میں بار بار اس کے دل میں یہ خیال آتا کہ اس نے ہوس ،جنسی جنون ،حُسن و رومان،منشیات فروشی،چنڈو خانوں اور قحبہ خانوں کے گورکھ دھندوں بے حسی اور بے ضمیری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے ضمیر کا گلا گھونٹ کر بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کا کوئی موقع کبھی ہاتھ سے جانے نہ دیا۔اس نے قبضہ مافیا سے مل کر یتیموں ،بیواؤں ،بے نواؤں اور مظلوموں کی املاک پر ہاتھ صاف کیا۔زندگی کی اقدار عالیہ اور درخشاں روایات کو بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکنے میں اس کے قبیح کردار کو ہر شخص نے نفرت کی نگاہ سے دیکھا۔ سب لوگ اسے موذی و مکار فرعون قرار دیتے تھے ۔اس نے کِشتِ دہقاں اور مفلوک الحال لوگوں کی عزت و آبرو لوٹ لی۔وہ سوچنے لگا کہ اس کے بُغض و کینہ کے باعث لوگوں کی زندگی اجیرن ہو گئی۔اس نے بے شمار لوگوں کی آرزوؤں کا خون کیا۔ وہ زندگی بھر ان قسمت سے محروم لوگوں کی شہ رگ کا خون پیتا رہا اور یہ جگر فگار لوگ لبِ اظہار پر تالے لگا کر خون تھوکتے رہے اور سد اخون کے آنسو پیتے رہے۔اگرچہ ان مصیبت زدوں کے رفو گر ان کے چاک گریباں سیتے رہے لیکن اس نے ہمیشہ ان کے گریباں کو تار تار کیا اور ان کو معاشرتی زندگی میں زبون و خوار کیا ۔ان غریبوں کی آنکھیں ساون کے بادلوں کی طرح برستی رہیں مگر اس قدر بے حسی کا شکار تھا کہ کبھی ٹس سے مس نہ ہوا۔ان میں کئی لوگ ایسے بھی تھے جو پنی فگار انگلیوں سے کچرے کے ڈھیر سے رزق تلاش کر کے پیٹ کی آگ بجھاتے تھے لیکن جبر کی اندھی قوت کو استعمال کر کے وہ ان ناتوانوں سے بھی بھتہ وصول کر کے اپنی آتشِ انتقام کو ٹھنڈا کرتا رہا۔ اس نے بشیر ،منیر اور کئی ستم زدوں کو دیکھا جو اس کی نا انصافیوں اور مظالم کے باعث زندگی کی بازی ہار گئے اور عدم کی بے کراں وادیوں کی جانب سدھار گئے۔ ملک کے تمام اُجرتی قاتلوں اور پیشہ ور بد معاشوں کے ساتھ اس کے قریبی مراسم تھے۔وہ سب کے ساتھ شریکِ جرم رہا اور خوب گلچھرے اُڑائے یہ سب درندے اسے تنہا چھوڑ کر نہ جانے کس جہاں میں کھو گئے ،کسی نے اس کے شکستہ دل کا حال کبھی نہ پُوچھا۔اس نے مظلوم لوگوں کو پُکار ا مگر سب نے نفرت سے اسے دیکھا اپنا دامن جھاڑا،آسمان کی طرف نگاہ کی اور اپنی اپنی راہ لی۔ سب سوچ رہے تھے کہ خالق کائنات نے اب تک اس نمرود کے عرصۂ حیات کو کیوں بڑھا رکھا ہے ۔ ایسے جو فروش گندم نما بُزِ اخفش کو تو اب تک مر جانا چاہیے ۔وہ یہ سوچ کو آہیں بھرنے لگا کہ اس کی زندگی اسی سمت جا رہی ہے جیسے شام ڈھلے طیور اپنے آشیانوں کو لوٹ جاتے ہیں ۔اپنی زندگی کی شام کے وقت وہ موت کی آہٹ کو محسوس کر رہا تھا۔ جا نگسل تنہائیوں اور تاریک شب و روز کے بھیانک سناٹوں نے اُسے زندہ در گور کر دیا تھا۔اب نہ تو اس کی کوئی امید بر آتی اور نہ ہی اسے مسموم حالات کے مہیب بگولوں سے بچ نکلنے کی کوئی صورت نظر آتی تھی۔

اب اس کی پرورش کرنے والے اس کے والدین اس کے سامنے تھے ۔انھوں نے اپنی زندگی کے آخری دنوں میں اس نو عمر لڑکے کو اس حقیقت سے آگاہ کر دیا تھا کہ اس کے حقیقی والدین کا کسی کو علم نہیں ۔یہ بہت پُرانی بات ہے کہ سال ۱۹۴۶میں ممبئی کے ایک جاروب کش چنگڑو کو کوڑے کے ڈھیر سے چادر میں لپٹا ایک نو مولود بچہ ملا۔ممبئی کے متمول اور معمر تاجر جوڑے روپن مل اور اس کی بیوی کا منی نے اسے گود لے لیا ۔ گرد و نواح کے سب لوگ کہتے تھے کہ سانپوں کے بچے کبھی وفا نہیں کرتے خواہ انھیں اپنے ہاتھ کی چُلّی میں دودھ پلایا جائے اسی طرح انگور کی نرم و نازک بیل کو اگر کیکر پر چڑھا دیا جائے تو خار ِمغیلاں کی نشتر زنی سے انگور کا ہر خوشہ چھلنی ہو جاتا ہے۔جب وہ جوان ہوا تو اس نے روپن مل اور کامنی کو ہلاک کر دیا اور ان کی لاشیں جلا دیں ۔ اس نے سب کو یہ بتایا کہ یہ اموات چو لھا پھٹ جانے کے باعث ہوئیں ۔ ان کی ساری جائیداد اب اس کی ملکیت تھی۔ اس نے اپنے محسنوں کو سوخٖتہ بدنوں کے ساتھ دیکھا تو اس پر کپکپی طاری ہو گئی۔ان کا بے بسی کے عالم میں جل کر راکھ ہو جانا وہ کبھی بھلا نہ پایا ۔کامنی اور روپن مل نے اس کے سامنے رو رو کر جان بخشی کی التجا کی لیکن اس پر مطلق اثر نہ ہوا۔وہ بھی آج اس کی طرف دیکھ کر نفرت سے منہ موڑ کر چلے گئے۔

اچانک ناصف بقال نے دیکھا کہ اس کے سامنے ایک پر اسرار شخص کھڑا ہے ۔اس نے کھا جانے والی نگاہوں سے اس شخص کو دیکھا۔اس شخص نے بھی قہر بھری نگاہوں سے ناصف بقال کو گھورا اور نفرت کا اظہار کیا۔کئی جوتشی، رمال اور نجومی اُسے بتا چکے تھے کہ ایک بھوت اور آسیب مسلسل اس کے تعاقب میں رہتا ہے۔اس بھوت نے ناصف بقال کی زندگی کی رعنائیوں کو گہنا دیا ہے۔کئی مندروں کی یاترا کرنے ،مورتیوں کے سامنے سر جھکانے ،صدقہ خیرات کرنے اور گنگا نہانے کے با وجود ناصف بقال اس بھوت اور آسیب سے چھُٹکارا حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہو سکا۔ آج اس کے سامنے یہ بھوت اپنے چہرے پر بھبھوت مل کر جس ڈھٹائی کے ساتھ کھڑا اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر باتیں کر رہا تھا وہ اس کے لیے تشویش اور اضطراب کا باعث تھا۔ناصف بقال اس نتیجے پر پہنچا کہ ہو نہ ہو یہی وہ بھوت ہے جس نے اس کی زندگی کو غم کا فسانہ بنا کر اسے دنیا کے آئینہ خانے میں تماشا بنا دیا ہے۔ا س بھوت کی کا رستانی کی وجہ سے وہ نہ تو تین میں رہا اور نہ ہی تیرہ میں ۔ اسے یقین ہو گیا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ اس بھوت کی سفاکی نے اسے جس اذیت اور عقوبت میں مبتلا کر رکھا ہے،اس کا انتقام لیا جائے۔ وہ عجیب الخلقت اور پُر اسرار بھوت ایک ناگہانی آفت کے مانند ناصف بقال کو مسلسل گھُور رہا تھا اور مسلسل اس کا منہ چِڑا رہا تھا ۔اس کے جواب میں ناصف بقال بھی اسے غیظ و غضب اور قہر بھری نگاہوں سے دیکھ رہا تھا ۔اب ناصف بقال کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا ۔ جسمانی کمزوری اور شدید ذہنی دباؤ کے باوجود اس نے سمجھا کہ اب فیصلے کی گھڑ ی آ گئی ہے اور اس بھُوت کو منہ توڑ جواب دینا بہت ضروری ہے۔ یقیناً یہی وہ بھوت ہے جس کے بارے میں گزشتہ کئی برسوں سے نجومی ،جوتشی اور رمال اسے متنبہ کرتے چلے آئے ہیں ۔اس نے اپنی پوری قوت کو مجتمع کیا، ایک لمبی جست لگائی اور ایک زور دار مکہ سامنے کھڑے بت کی گردن پر رسید کیا ۔ایک زور دار آواز سے سامنے دیوار پر لگا بہت بڑا قد آدم آئینہ ٹُوٹ کر کرچی کرچی ہو گیا۔نشے میں دھت ناصف بقال منہ کے بل آئینے کی کرچیوں کے ڈھیر پر جا گرا۔شکستہ آئینے کی ایک لمبی اور تلوار کی طرح تیز کرچی اس بھیڑئیے کی شہ رگ پر پھر گئی۔ کمرے کے فرش پر عفونت زدہ سیاہ خون ہر طرف بہہ رہا تھا۔وہ درندہ جو آتشِ سیّال سے زندگی بھر گرم رہا اب ہمیشہ کے لیے ٹھنڈا ہو چکا تھا۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

             گھامڑ دھُول پور

 

 

 

ایک عذاب اور ٹلا، ایک دردِ لادوا سے نجات ملی، ایک بلائے بے درماں سے چھٹکارا ملا، پیشہ ور منشیات فروش، ندیدہ جنسی جنونی، بے ضمیر بھتہ خور، بے غیرت اُٹھائی گیرا، کالے دھن کا متوالا، زیرِ زمین دنیا کا بے حس حاکم، رسوائے زمانہ اچکا، بدنام ڈاکو، سفاک رہزن، اجرتی بدمعاش، خطر ناک رسہ گیر اور شقی القلب قاتل گھامڑ دھُول پوری اپنے شریکِ جرم پالتو سگِ آوارہ زاہد و لُدھڑ کے ہمراہ گزشتہ شب ڈکیتی کی ایک بُزدلانہ واردات میں ہلاک ہو گیا۔ گاؤں کی ایک معمر بیوہ نے اپنی بیٹی کے ہاتھ پیلے کرنے کے لیے گزشتہ بیس سال میں جہیز کا جو سامان اور زیورات بنائے تھے اس کی مخبری ان بد معاشوں اور قاتلوں کو ہو گئی تھی۔ اس ضعیف، ناتواں، بے بس و لاچار، مفلس و قلاش اور ستم رسیدہ بیوہ کی یتیم بچی کا جہیز لُوٹتے وقت یہ دونوں ڈاکو رنگے ہاتھوں پکڑے گئے اور فطرت کی سخت تعزیروں میں جکڑے گئے۔ بُڑھیا کے گھر کے آنگن میں سو سال پرانا ایک گہرا کنواں تھاجسے اب پینے کا پانی بھرنے کے لیے استعما ل نہیں کیا جاتا تھا۔ بڑھیا نے اس کنویں کو کیکر کے ڈھینگروں اور دھان کی پرالی سے ڈھانپ رکھا تھا۔ رات کی تاریکی میں دونوں ڈاکو جب زیورات اور سامان لُوٹ کر نکلے تو وہ پرالی پر سے گزرے اور دھڑام سے گہرے کنویں میں جا گِرے۔ سیکڑوں خارِ مغیلاں ان کے لباس کو تار تار کرتے ہوئے ان کے جسم میں پیوست ہو گئے۔ ہر سرِ خار اس قدر تیز تھا کہ ان ڈاکوؤں کا پورا جسم فگار ہو گیا اور ان کا سارابدن خون میں لت پت ہو گیا۔ اتنے گہرے کنویں سے باہر نکلنا ان ڈاکوؤں کے لیے ممکن ہی نہ تھا۔ اس غیر متوقع حادثے کے باعث ڈاکو حواس باختہ ہو گئے اور ان کا آتشیں اسلحہ ان کے ہاتھ سے چھُوٹ کر کنویں میں ڈوب گیا۔ گاؤں کے لوگوں نے کنویں میں رسے پھینک کر ان ڈاکوؤں کو باہر نکالا تو ان کی جان میں جان آئی لیکن اجل گرفتہ ڈاکو یہ نہیں جانتے تھے کہ ان کی جان تو کوئی دم کی مہمان ہے۔ اپنی یتیم بیٹی کے ہاتھ پیلے کرنے کی فکر سے نڈھال بُڑھیا نے طمانچے مار مار کر ان ننگِ انسانیت سفاک ڈاکوؤں کا منہ لال کر دیا۔ اس کے بعد گاؤں کے لوگوں نے جُوتے مار مار کر ان خون آشام درندوں کا بھرکس نکال دیا۔ گھامڑ دھُول پُوری اور زاہدو لُدھڑ کا منہ کا لا کر کے ان کا سر مونڈ دیا گیا اور ساتھ ہی ان ابلیس نژاد بھیڑیوں مونج کی دو رسیوں میں پر وکر ان کے ہار دونوں ڈاکوؤں کے گلے میں ڈال کر انھیں ایک خارش زدہ خچرپر سوار کر کے انھیں گاؤں کے گلی کُوچوں میں گھمایا گیا۔ نوعمر لڑکوں کی غُلیل سے غُلہ بازی اور سنگ زنی سے اِن مُوذی و مکار درندوں کی آشفتہ سری کی برقِ تپاں ہمیشہ کے لیے ٹھنڈی ہو گئی، یہ دونوں گُرگ اپنے انجام کو پہنچے اور اِن کی آنکھیں مُند گئیں اور یوں زمین کا یہ بھاری بوجھ قدرے کم ہو گیا جس نے بے بس اور مظلوم انسانیت کا ناک میں دم کر رکھا تھا۔ گھامڑ دھُول پوری اور زاہدولُدھڑ کا نام سنتے ہی لوگ لاحول پڑھتے اور پورے شہر کی ندامت، لعنت، ملامت اور خِست و خجالت ان سفہا اور اجلاف و ارذال کا تعاقب کرتی۔ لوگ جھولیاں اُٹھا کر انھیں بد دعائیں دیتے اور کہتے کہ یہ بد اعمال جلد زینۂ ہستی سے اُتر کر عدم کو سدھاریں۔ مشکوک نسب کے یہ خون آشام کر گس زادے جہاں بھی قیام کرتے، وہاں کے درودیوار پر ذلت، تخریب، بے حسی، بے غیرتی، بے ضمیری، بے شرمی، بے حیائی، نحوست، نجاست، بددیانتی اور بد بختی کے کتبے آویزاں ہو جاتے۔ گھامڑ دھُول پوری اور زاہدو لُدھڑ کی ہلاکت کی خبر سن کر مظلوموں کے چہرے کِھل اُٹھے، ظالموں کے دل دہل گئے اور مفت خور لیموں نچوڑ، جو فروش گندم نما، بگلا بھگت اور بھتہ خور چُلّو میں اُلّو بن کر بہل گئے۔ چڑھتے سورج کے وہ پجاری جن کے لیے ہوا کا رُخ پہچاننا مرغِ باد نما سے بھی زیادہ سہل ہوتا ہے وہ بھی گھامڑ دھُول پوری اور زاہدو لُدھڑ کی ہلاکت کے بعد چہل پہل دیکھنے کی خاطر اس طرف سے ٹہل گئے اور اس ہونی کو دیکھنے میں پہل کی۔ ایک بات قابل غور تھی کہ سب سفیدکوے، کالی بھیڑیں اور گندی مچھلیاں اپنا سا منہ لے کر رہ گئیں۔ ان کے لیے تو نہ جائے رفتن اور نہ پائے ماندن والا معاملہ تھا۔

گھامڑ دھُول پُوری اور زاہدو لُدھڑ کی جوانی بھی سماج کے لیے ایک بلائے نا گہانی بن گئی۔ اس عرصے میں انھوں نے چربہ ساز، سارق، کفن دُزد متشاعر کی حیثیت سے واہی تباہی بکنا وتیرہ بنایا اور اس طرح جو رُوسیاہی ان کے حصے میں آئی اس میں کوئی ان کا شریک و سہیم نہیں تھا۔ اردو زبان کے کلاسیکی شعرا کے کلام پر انھوں نے جو مشقِ ستم کی وہ ان کی فکری کجی، بے بصری، کور مغزی، علمی تہی دامنی اور ذہنی افلاس کی دلیل ہے۔ گھامڑ دھُول پوری ادبی محفلوں میں اپنے ہم نوالہ و ہم پیالہ نکٹے زاہدو لُدھڑ اور ساتا روہن کے ہم راہ بن بلائے پہنچ جاتا اور وہاں خوب ہنہناتا۔ عالمِ پیری میں شعرو ادب کی مخلوط محفلوں میں یہ سینگ کٹا کر بچھڑوں میں شامل ہو جاتا اور نجی محفلوں میں زنان خانے میں پریوں کا اکھاڑا سجا کر راجا اِندر بن جاتا۔ ایسے پُر تعیش ماحول میں اِس نا ہنجار کی متعفن باچھیں اور کالے دھن سے بھری جیبیں کھُل جاتیں۔ اگرچہ یہ متفنی جعل ساز فلسفہ اور شاعری کی ابجد سے بھی واقف نہ تھا لیکن رواقیت کاداعی بن کر ہذیان بکنا اس ابلہ کا وتیرہ بن گیا۔ ہیرا منڈی میں ہر شام یہ پھیکے اور باسی پکوان کی عفونت اور سڑاند کے باوجود ہر اونچی دکان کے پھیرے لگاتا۔ جب یہ ٹُن ہوتا اور اس کی جیب خالی ہوتی تو وہاں اکثر منہ کی کھاتا لیکن اس چکنے گھڑے پر پھٹکار اور دھتکار کا کوئی اثر ہی نہ ہوتا اور یہ تھالی کا بینگن گالیاں کھا کے بھی بے مزا نہ ہوتا اور کفن پھاڑ کر ہرزہ سرا ہو نا ا س کی عادت تھی۔ مشاعروں میں بھی اس کی خوب درگت بنتی لیکن یہ نا ہنجار اپنی تذلیل، توہین اور تضحیک کو اپنی پذیرائی پر محمول کرتا اور اس پر بھی یہ پھول کپا ہو جاتا۔ مشاعروں میں اس پر جو گلے سڑے ٹماٹر، پچکے ہوئے بینگن، رِستے ہوئے کدو، بد رنگ گوبھی، عفونت زدہ کھیرے، گاجریں، پالک، پودینہ، دھنیاں، مولیاں، پیٹھے اور دو ہفتے کے باسی شلجم پھینکے جاتے یہ خسیس وہ سب کی سب باسی سبزیاں اکٹھی کر لیتا اور ایک بڑا گٹھڑ اپنے گنجے سر پر اٹھا کر رنگو کنجڑے کے گھر پہنچاتا جو یہ سبزیاں خوب صورت شاپنگ بیگز میں ڈال کر ان لوگوں کے گھر بھیج دیتا جو کالا دھن کما کر نو دولتیے بن چکے تھے۔ اِن گھٹیا عیاشوں کے مطبخ میں یہ گلی سڑی سبزیاں بھیج کر رنگو کنجڑا اپنے گھر کے اخراجات پورے کرتا۔ شہر کے بڑے بڑے سمگلروں، منشیات فروشوں، بھتہ خوروں، سٹہ بازوں اور جرائم پیشہ افراد کے گھروں میں کام کرنے والی خادمائیں رنگو کنجڑے ہی سے سبزیاں لے جاتی تھیں اور رنگو کی رسد کا واحد ذریعہ اسی قسم کے تھڑے والے ہی تھے۔ رنگو رذیل شہر کے تمام قصابوں سے چھیچھڑے مُفت مانگ کر لاتا اور ان تما م بھُوکی بلیوں کو فروخت کرتا جو سدا چھیچھڑوں کے خوابوں میں کھوئی رہتی تھیں۔ اس کے علاوہ یہ چھیچھڑے وہ بلیاں بھی ہاتھوں ہاتھ لیتیں جو نو سو چوہے ڈکار لینے کے بعد گنگا نہانے کے لیے بے چین رہتی تھیں۔ چھیچھڑوں کے کباب بلیوں کو گرانی کے عذاب سے نجات دلاتے اور جب کوئی ان کے کباب میں ہڈی بنتا تو تو بلیوں کا عتاب ان کو اپنی اوقات یا د دلا دیتا تھا۔ کباب، سبزیاں اور کھانا پکانے والے اس بات سے بے نیاز رہتے کہ وہ کھانے والوں کو کیا کھلا رہے ہیں۔ حریص کو تو سدا اپنی حرص و ہوس کی حشر سامانیوں سے کام ہوتا ہے۔ ہوا و ہوس کے اس اندھے کھیل میں حد سے گزرنے والے اس بات سے بے تعلق تھے کہ کسی کی کشتی پار لگتی ہے یاکسی کا بیڑا غرق ہوتا ہے۔ حفظانِ صحت اور صفائی کے معاملات ان کی بلا جانے۔ گھامڑ دھُول پُوری منزل سے ناآشنا شراب کے نشے میں بد مست سرابوں کے عذابوں کو سہتے سہتے گلشنِ ادب میں بُوم، شپر اور کرگس کے مانند جا پہنچتا اور زاغ و زغن کی طرح اپنی کریہہ آواز سے نحوست ونجاست کو عام کرتا اور صبح و مسا طوفِ جام کرتا۔ یہ خرکار جب مثل خر اپنی ڈھینچوں ڈھینچوں کی آواز نکالتا تو سب کے سب سامعین لاحول پڑھتے اور اس سے مخول کرتے۔ اس خرِ مجہول کی خار افشانیِ ہذیان کے چند نمونے پیش ہیں :

خضاب آلودۂ غیظ و غضب ہیں بال و سر تیرے

تُو اے بُومِ صنم مرنے سے پہلے بد گُماں ہو جا

کفش میں مجھ سے رودادِ زقن سہتے نہ ڈر کژدم

پڑا ہو جس پہ کل چھاپہ وہ میرا آستاں کیوں ہو

بے ضمیروں سے ہا تھا پائی کیا

سر جھکایا جو چھپ کے وار کیا

دِلِ صد چاک کی شتابی سے

زیست گزری ہے کس خرابی سے

ہائے مہماں تجھے ہوا کیا ہے

میزباں کی بھلا سزا کیا ہے

بیٹھ کہ پھر ہولی کا سامانِ سفر غازہ کریں

سیمرغِ سوختہ و کرگس و خر تازہ کریں

گھامڑ دھول پوری اور زاہدو لُدھڑ کی حیاتِ رائیگاں کی کہانی میں کوئی شخص دلچسپی نہیں لیتا حالانکہ ایسے راندہ ء درگاہ درندے جب تک زندہ رہتے ہیں، زمین کا لرزہ خیز بوجھ بنے رہتے ہیں اور زندگی کی تمام رُتوں کو بے ثمر کر کے مجبوروں کی زندگی کے تلخ حقائق کو خیال و خواب بنا دیتے ہیں۔ سیلِ زماں کے تھپیڑوں کی زد میں آنے کے بعد یہی ابلیس نژاد سفہا جب اپنے انجام کو پہنچتے ہیں تو ان کی حیات کا افسانہ عبرت کا تازیانہ ثابت ہو کر انھیں مخلوق کی نگاہوں میں تماشا بنا دیتا ہے۔ اس کہانی کے سبھی کردار دراصل کردار سے عاری تھے وہ اسی شاخِ تمنا پر آری چلاتے رہے جس پر ان کا آشیا نہ تھا۔ ان کے بھید جاننے والے بتاتے ہیں کہ یہ اسی تھالی میں چھید کرتے رہے جس میں یہ کھانا زہر مار کرتے تھے۔ گھامڑ دھُول پوری، زاہد و لُدھڑ اور اس کے پالتو سگان راہ کے سب راز جاننے والے خورو لُدھیک کا سوپُشت سے آبائی پیشہ گداگری تھا۔ اس کے علاوہ اس کے خاندان کے کچھ افراد جاروب کش، تسمہ کش اور بادہ کش بھی تھے۔ زندگی کی کشا کش میں خورو لُدھیک جب گُزشتہ دَہائی کے دوران آئینۂ ایام میں اپنی کج ادائی کو دیکھتا تو اسے پورا عالم دُہائی دیتا سنائی دیتا۔ خورو لُدھیک جسے حادثۂ وقت نے جہالت کا انعام دیا تو وہ مورخ بن بیٹھا۔ پرائمری فیل یہ ابلہ جو طویل عرصہ تک مقامی عدالت میں عر ضی نویس رہا، دیکھتے ہی دیکھتے سیا ہ نویس اور شجرہ نویس بن بیٹھا۔ کئی خاندانوں کے شجرہ نسب کے قدیم دیمک خوردہ مخطوطے اس نے نہ جانے کیسے اور کہاں سے ڈھونڈ نکالے کہ انھیں دیکھ کر تحقیق کے سرابوں میں بھٹکنے والے آبلہ پا اش اش کر اُٹھے۔ اس چراغِ نیم شب نے ایک ادیبہ فضیحت سے آخری ملاقات میں ماضی کے کئی حقائق پر پڑی ابلقِ ایام کے سُموں کی گرد پہلی بار اپنی زبان سے چاٹتے ہوئے کہا۔

’’ آخری عہدِ مغلیہ میں جہاں دار شاہ کے عہدِ حکومت میں نعمت خان کلانونت کی عاقبت نا اندیشی کے باعث جو ُروسیاہی اس کے حصے میں آئی وہ تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے۔ اسی زمانے میں دہلی کے نواح میں نعمت خان کلانونت نے ہند، سندھ کے سب پائمال اور خوار و زبوں چکلہ داروں کو دہلی شہر میں اکٹھا کیا اور انھیں شہرسے دُور ایک ریگستان میں خوب صورت اور پر تعیش کوٹھے تعمیر کر کے دئیے۔ چنڈو خانوں، قحبہ خانوں اور عشرت کدوں پر مشتمل اس بستی کا نام کلانونت نگر رکھا۔ اس نئی بستی میں عشق و مستی اور جنس و جنون کی کھلی چھُٹی کے باعث یہاں جنگل میں منگل کی کیفیت رہتی تھی۔ شراب اور شباب کے دلدادہ سب مست بندِ قبا سے بے نیاز شرم و حیا کو بارہ پتھر کر کے دنگل کے دوران سب حدوں کو پھلانگ جاتے۔ نعمت خان کلانونت کے سبز قدم اس آسیب زدہ بستی کے سب جرائم کو ہوا دیتے تھے۔ ‘‘

’’کلانونت نگر کے لیے زمین اور مکانوں کی تعمیر کے لیے درکار رقم کہاں سے ملی‘‘ فضیحت نے حیرت سے کہا ’’نعمت خان کلانونت کو اس کی کیا ضرورت پڑی تھی کہ وہ ملک بھر کے رذیل اور ننگِ انسانیت جنسی جنونیوں اور اخلاق باختہ نفسیاتی اور جنسی مریضوں کو اکٹھا کر کے ان کے آرام و آسائش میں خجل ہو تا پھرے۔ ‘‘

’’ضرورت ہی تو ایجاد کی ماں اور فریاد کی نانی ہے اور پُوری دنیا اس کی دیوانی مستانی ہے۔ ‘‘ خورو لُدھیک کفن پھاڑ کر غرایا ’’کلانونت نگر میں نعمت خان کلانونت، اس کی چچا زاد بہن لال کنور اور لال کنور کی سہیلی زہرہ کنجڑن کے نام کا کھوٹا سکہ چلتا تھا۔ لال کنور جب جہاں دار شاہ کی بیوی بنی تو وہ امتیاز محل کا شاہی لقب پا کر ملکہ ء ہند بن بیٹھی۔ اس وقت سارا شاہی خزانہ ایک جسم فروش رذیل طوائف کے قبضے میں تھا۔ سب بھانڈ، بھڑوے، رجلے، خجلے، بھگتے، مسخرے، لُچے، شہدے، ڈُوم، ڈھاڑی، طبلچی، ڈھولچی، موسیقار اور کلاکار جو پہلے کلانونت نگر میں زندگی کے دن پورے کر رہے تھے، لال کنور اور زہرہ کنجڑن کے قصرِ شاہی میں پہنچتے ہی لا ل قلعے میں جا گھُسے اور انھیں شاہی خلعت اور جاگیرسے نوازا جاتا۔ نعمت خان کلانونت کو ملتان کا منصب دار بنا دیا گیا۔ اب سچ مچ عقابوں کے آشیانوں میں زاغ و زغن، بُوم و شپر اور کرگس گھُس گئے۔ ‘‘

بہلو خان نے کان کھجاتے ہوئے اور دُم ہلاتے ہوئے کہا’’سنا ہے کبھی کبھی مٹی کی قسمت بھی جاگ اُٹھتی ہے۔ کلانونت نگر کے مکینوں نے تو پھر اپنے مخالف کینہ پرور حاسدوں اور دام پھیلائے ناوک انداز مہ جبینوں اور ان پر مرنے والے کمینوں سے خوب بدلے لیے ہوں گے۔ ‘‘

’’ ہاں ! یہ سب لوگ بدلے بدلے سے دکھائی دیتے تھے اس لیے مہ جبیں حسینوں نے ان کے خوب لتے لیے۔ ‘‘خورو لُدھیک نے ہنہنا کر کہا ’’لال کنور اور زہر ہ کنجڑن نے جسم و جاں کے بدلے خرچی سے بے دریغ زر و مال جمع کر نا شروع کر دیا۔ یہاں تک کہ شاہِ بے خبر اور اس کے خاندان کے بے ضرر اور بے بس افراد بھی ان طوائفوں کے دست نگر بن کر رہ گئے۔ ‘‘

’’ فطرت کی تعزیریں بہت سخت ہوتی ہیں، وہاں دیر تو ہو سکتی ہے مگر اندھیر کا کوئی تصور ہی نہیں کر سکتا۔ ‘‘ بہلو خان نے غراتے ہوئے کہا ’’جہاں دار شاہ کو مغل شہزادے فرخ سیر نے موت کے گھاٹ اُتار دیا اور فروری ۱۷۱۲ میں وہ فاتحانہ انداز میں جب قصر شاہی میں داخل ہوا تو کلانونت نگر کے سب مکین روپوش ہو گئے۔ بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی آخر ایک نہ ایک دن بکرے کی گردن تیز چھُری کے نیچے آئے گی۔ ‘‘

’’ سچ کہتے ہو یہی تو اصل حقائق ہیں جن پر کوئی غور نہیں کرتا۔ جہاں دار شاہ کی ہلاکت کے وقت وقت میرے دادا جو جلاد کے منصب پر فائز تھے ایک ہاتھی پر سوار تھے اور انھوں نے ایک نیزے کی نوک پر جہاں دار شاہ کا زخمی اور کٹا ہوا سر اُٹھا رکھا تھا۔ جہاں دار شاہ کا دھڑ ایک اور ہاتھی کی دُم سے بندھا سنگلاخ زمین پر گھسٹتا چلا ا ٓ رہا تھا۔ اس ہاتھی پر میری دادی سوار تھی جو شہر کی مشہور نائکہ اور گائیکہ تھی۔ ‘‘ خورو لُدھیک نے کہا ’’اس زمانے میں یورپی اور ا فریقی تاجر ہندوستان میں تجارت کی غرض سے داخل ہو چُکے تھے۔ شاہی محل میں بھی بیگمات کے علاج کے لیے غیر ملکی طبیب اور فرنگی معالج اکثر بے روک چلے آتے تھے۔ لال کنور اور زہرہ کنجڑن دونوں طوائفوں کو جوڑوں اور پٹھوں کے در دکا عارضہ لا حق تھا۔ کلانونت نگر میں ان کے کئی کشتۂ ستم اُلّو اور اُّلّو کے پٹھے عطائی ہمہ وقت ان طوائفوں کے لیے کُشتے بنانے میں مصروف رہتے تھے۔ لال کنور کا علاج ایک انگریز معالج کرتا تھا جب کہ زہرہ کنجڑن نے اپنے علاج کے لیے ایک حبشی فزیو تھراپسٹ کی خدمات حاصل کر رکھی تھیں۔ ان دونوں طوائفوں کو اپنے علاج اور مساج سے فرصت ہی نہ ملتی تھی۔ ان کے عارض کو دیکھ کر جہاں دارشاہ دنیا و ما فہیا سے بے خبر ہو جاتا اور بر ملا کہتا کہ اس کی زندگانی تو عارضی ہے۔ فرخ سیرکے ہاتھوں جہاں دار شاہ کی ہلاکت کے بعد جب لا ل کنور اور زہر ہ کنجڑن اپنے ذہن پر حسرت و ندامت کا بوجھ لیے دل شکستہ قصر شاہی سے فرار ہو ئیں تو دونوں کا پاؤں بھاری تھا اور مسلسل علاج بھی جاری تھا۔ ‘‘

’’ یہ واقعات تو بہت سنسنی خیز ہو تے چلے جا رہے ہیں۔ ‘‘ فضیحت نے اپنی انگشت اپنی ناک پر رکھتے ہوئے کہا’’ جہاں دار شاہ کی زندگی تو واقعی عارضی ہی ثابت ہوئی اس لیے کہ فرخ سیر کے سپاہیوں نے اس گھٹیا عیاش نام نہاد بادشاہ کو موت کے گھاٹ اُتار کر بے غیرتی اور بے ضمیری کے ایک بھیانک تاریک اور قابل نفرت باب کوختم کر دیا۔ مصیبت کی اس گھڑی میں لا ل کنور اور زہرہ کنجڑن پر کیا گزری؟‘‘

’’ لال کنور اور زہرہ کنجڑن نے اپنے مداحوں اور اہلِ کرم کا تماشا دیکھنے کی خاطر گڑوی بجا کر گیت گانے والی بھکارنوں کا بھیس بنا لیا اور ایک گدھا گاڑی پر سوار ہو کر دہلی سے ۳۱۹ کلو میٹر جنوب میں واقع شہر گوالیار کے قلعہ سے چند کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ایک بے چراغ نواحی بستی میں ایک کٹیا میں سر چھپانے اور جان بچانے میں کام یاب ہو گئیں۔ اس زمانے میں گرد و نواح کا سارا کُوڑا کرکٹ گدھا گاڑیوں میں بھر کر گوالیار سے باہر کچھ فاصلے پر واقع گہرے کھڈوں میں پھینک دیا جاتا تھا۔ ‘‘خورو لُدھیک نے منہ میں افیون کی گولی ڈالی اور حقے کے کش لگاتے ہوئے کہا’’ یورپی اقوام کی یہاں آمد اور ہوسِ ملک گیری کے باعث یہاں ہر طرف گدھوں کے ہل پھر گئے۔ شہر اور گردو نواح کی بستیوں کے باشندے اپنے طور پر بھی کچرا اور کباڑ ان کھڈوں میں گِرا جاتے۔ ان کھڈوں سے عفونت اور سڑاند کے اس قدر بھبھوکے اُٹھتے تھے کہ وہاں سے گزرنا اور سانس لینا دشوار تھا۔ میر ا دادا اکرو لُدھیک جو پیشے کے اعتبار سے جلاد تھا میر ی دادی شعاع کو ساتھ لے کر ہر صبح اور شام کو بلا ناغہ ان کھڈوں میں پڑے کُوڑے کے اُونچے اُونچے ڈھیروں کو پھرولتا اور کام کی چیزوں کی تلاش میں غلاظت کے ہر انبار کو سُو نگھتا اور ٹٹو لتا تھا۔ اکرو اور شعاع دونوں پیار کے بندھن میں بندھے تھے اور ہر وقت ایک دوسرے کی محبت کے گُن گاتے تھے۔ اس رومان بھری فضا میں غمِ ایام کو فراموش کر کے وہ دونوں ایک دوسرے سے راز و نیاز کی باتیں کرتے۔ میری ماتا جی اور پِتا جی نے بھی اپنا آبائی پیشہ جاری رکھا۔ اہلِ جور اچھی طرح جانتے ہیں کہ میں جلاد ابن جلاد ہوں اور عفونت زدہ کُوڑے کے ہر ڈھیر کا دریوزہ گر اور خانہ زاد ہو ں۔ میں وہ کُوزہ ہوں جس کی گِل کُوڑے کے ڈھیر سے لی گئی تھی۔ ‘‘

’’کُوڑے کے متعفن ڈھیر پر بیٹھ کر پیار، محبت اور حسن و رومان کی باتیں کرنا غلیظ ذہنیت کی عکاسی کرتا ہے۔ ‘‘ فضیحت نے حقارت سے کہا ’’تم تو جلاد ابن جلاد ہو، تم سے بھلا نفاست اور عطر بیزی کی توقع کیسے کی جا سکتی ہے ؟۔ کُوزے میں سے وہی کچھ باہر نکلتا ہے جو کہ اس میں موجود ہو تا ہے۔ ‘‘

’’سچ ہے کہ میرا شجرہ نسب یہی ہے لیکن کچھ درندوں کا شجرہ نسب تو اس قدر مشکوک ہوتا ہے کہ وہ اپنے حقیقی باپ کے نام سے بھی واقف نہیں ہوتے۔ ‘‘خورو لُدھیک نے اپنے میلے دانت پیستے ہوئے کہا ’’کُوڑے کے ڈھیر سے مفادات اور جاہ و منصب کے استخواں نو چنے اور بھنبھوڑنے والے خارش زدہ سگانِ راہ ہر دور میں موجود رہے ہیں۔ میرے آبا کا سو پشت سے یہی پیشہ ہے اور مجھے اس پر کوئی ندامت نہیں کہ ہم اروڑی پھرول لوگوں نے کئی لعل و یاقوت کُوڑے کے ڈھیر سے اُٹھائے اور اہلِ ثروت کی خالی جھولی میں ڈال کر زندگی کی نئی راہیں اور خشمگیں نگاہیں دکھائیں۔ مجھے یہ تسلیم کرنے میں کوئی تامل نہیں کہ میں جلاد ابن جلاد ابن جلاد ہو ں۔ ہا ہا ہا!‘‘

’’کان کھو ل کر سُن لو میں بھی صیا د ابن صیاد ابن صیاد ہوں۔ ‘‘بہلو خان ایسے غرایا جیسے باسی کڑی میں اُبال آ گیا ہو۔ اس نے بغلیں بجاتے ہوئے کہا ’’میرا تعلق اہلِ ہوس، ابن الوقت اور مفاد پرست طبقے سے ہے۔ میرے منہ نہ لگنا ورنہ کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہو گے۔ ‘‘

’’اپنی اپنی ڈفلی اور اپنا اپنا راگ ختم کرو۔ ‘‘فضیحت نے اپنے خضاب آلودہ بال سنوارتے ہوئے کہا ’’جلا اور صیاد کی بیداد گری بجا لیکن یہاں تو بات شجرہ نسب کی ہو رہی تھی۔ لوڈ شیڈنگ کے آغاز سے پہلے گھامڑ دھُول پُوری اور زاہدو لُدھڑکی حیات کے افسانے کے ناخواندہ ابواب پر روشنی ڈالی جائے۔ ‘‘

’’ ڈفلی اور راگ کی بات کر کے تو تم نے میرے دل کے زخموں کو پھر سے تاز ہ کر دیا ہے۔ میں جب بھی غمِ جہاں کا حساب کرتا ہوں تو مجھے اپنے جدِ امجد تان سین کی یاد بے حساب ستانے لگتی ہے۔ ہمارے آبا و اجداد نے دہلی سے گوالیار جانے کا آہنگ اس لیے کیا تھا کہ وہ اُس آہنگِ سازِ محفل کو سننے کے آرزو مند تھے جس کے تار موت کے بے رحم ہاتھوں نے توڑ دئیے۔ اِسی شہر میں تان سین کی آخری نشانی موجود ہے جو سُر، لے اور راگ کی دل خراش کہانی کہی جا سکتی ہے۔ روشنی تو نگاہ کی ضیا کے عکس کا نام ہے جب آنکھ ہی بند ہو تو طلوعِ صبح کا احساس کیسے ہو سکتا ہے۔ ‘‘خور ولُدھیک نے بغلیں جھانکتے ہوئے ہرزہ سرائی جاری رکھی ’’میرے پِتا گھُونسہ ہذیانی اور ماتا تلچھٹ ویرانی کی زندگی تپسیا کی عجب کہانی ہے۔ انھوں نے کُوڑے کے ہر ڈھیر کی خاک چھانی، ہر استخواں کو نوچنے کے لیے کئی ہفت خواں طے کیے۔ کُوڑے کے یہ ڈھیر مافوق الفطرت عناصر کی آماجگاہ تھے۔ انھوں نے کُوڑے کے ڈھیر پر بیٹھ کر اپنی انا کو کچل کر چلہ کشی مدام کی اور جنس و جنوں کی رسم عام کی۔ ہر پچھل پیری، ڈائن، چڑیل، دیو، بھُوت، پری اور آدم خور مخلوق کے ساتھ ان کے قریبی تعلقات تھے۔ وہ بد روحوں سے ہم کلا م ہو کر ایامِ گزشتہ کی کتاب کی ورق گردانی کرتے آئینہ ء ایام میں مستقبل میں پیش آنے والے واقعات کی دھُندلی سی تصویر بھی دیکھ لیتے تھے۔ اس میں کوئی شُبہ نہیں کہ نمک کی کان میں جو بھی رہتا ہے وہ نمک بنے یا نہ بنے نمکین ضرور ہو جاتا ہے۔ میرے آنجہانی والدین کی ساری زندگی اس پُر اسرار مخلوق کے ساتھ گزری جس کے نتیجے میں وہ ان ہی کے رنگ میں رنگے گئے۔ اب میں بھی اپنے آنجہانی والدین کی طرح بن گیا ہوں اور میری بیوی صبوحی بھی ایک کلموہی ڈائن بن چُکی ہے۔ ہماری مثال ققنس کی سی ہے کہ جب ہمارے والدین کی چِتا راکھ میں بدل گئی تو اس راکھ میں سے میرا اور صبوحی کا وجود بر آمد ہوا۔ ‘‘

’’ یہ بھی اچھی رہی کہ اس وقت ایک بھوت اور چڑیل میرے سامنے ہے۔ ‘‘فضیحت نے حیرت سے کہا’’گھامڑ دھُول پوری اور زاہدو لُدھڑ کی عبرت ناک کہانی تو ابھی شروع ہی ہوئی تھی کہ تم بے پر کی اُڑانے لگے جب کہ تمھارے خاندان کا ایک فرد خلیل خان جو فاختہ اُڑایا کرتا تھا وہ بال و پر اور قوت پرواز رکھتی تھی۔ تم نہ جانے کس جہاں اور وہم و گُماں میں کھو جاتے ہو کہ حقائق کو بیان کرنے سے ہچکچاتے ہو اور سننے والوں کو ترساتے ہو۔ ‘‘

’’کہانی شروع ہو گئی ہے تو اپنے انجام کو بھی پہنچ ہی جائے گی۔ ‘‘صبوحی نے چمگاڈر جیسی آنکھیں مٹکاتے ہوئے کہا ’’پہلے تو مُردہ گدھے کے گوشت سے تیا ر کی گئی یہ تکا بوٹی کھائیں ساتھ ہی یہ ما اللحم چہار آتشہ، اور شراب بھی نوشِ جاں کریں۔ یہ شراب ہم اپنی بھٹی میں تیار کرتے ہیں جو ہم نے گوالیار کے کھڈوں میں کُوڑے کے ڈھیر میں لگا رکھی ہے۔ نسل در نسل ہم مُردہ خانے، قحبہ خانے، چنڈو خانے صنم خانے اور عقوبت خانے بنا کر اپنی تجوریاں بھر رہے ہیں۔ ہمارا یہ دھندا کالا دھن کمانے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ یہ بات خانۂ دِل میں بٹھا لینی چاہیے کہ کالا دھن کمانے والے کو اپنی رو سیاہی اور جگ ہنسائی سے ہراساں نہیں ہو نا چاہیے۔ ایسا زمانہ آنے والا ہے کہ عشاق جب کوئے یار سے نکلیں گے تو سُوئے مُردار چلیں گے۔ تمھارے یہاں آنے سے پہلے رابن ہُڈ، ہلاکو خان، شداد، فرہاد، مجنوں، چنگیز خان، نمرود اور فرعون ہمارے مہمان تھے۔ ان کی خاطر مدارت کے لیے چڑیلیں کاسۂ سر میں انسانی خون بھر کر لائیں۔ بہت سی ڈائنیں بھی ہمارے لیے تازہ خون اور گوشت لاتی ہیں اور ہماری خوب تواضع کرتی ہیں۔ اگر چاہو تو میں ڈائنوں، چڑیلوں، بد روحوں اور بھُوتوں سے تمھیں ابھی ملوا سکتی ہوں۔ میں خود بھی ایک ڈائن ہوں آؤ میرے گلے لگ جاؤ۔ ‘‘

’’مجھے تو اس ضیافت سے معاف رکھیں۔ ‘‘فضیحت اپنی عرق آلو پیشانی کو اپنے تر دامن سے صاف کرتے ہوئے کہا ’’ کُوڑے کے ڈھیر کی خاک چھانتے چھانتے تم خود بھی کُوڑا کرکٹ بن گئے ہو۔ تمھاری ہر بات نحوست، نجاست، نخوت، خباثت، خست اور خجالت سے لبریز ہوتی ہے۔ تم جب بات کرتے ہو تو تمھارے منہ سے گندگی جھڑتی ہے۔ ‘‘

’’منہ سنبھال کر بات کرو اور ہمارے سامنے آئیں بائیں شائیں کرنے کی ضرورت نہیں ورنہ میں تمھارے ساتھ وہ سلوک کروں گی کہ تمھیں اپنی نانی اور چھٹی کے دودھ کی یاد ستانے لگے گی اور تم جائیں، دائیں اور سائیں سائیں کرتی پھرو گی۔ ‘‘صبوحی نے کھسیانی بلی کی طرح کھمبا نوچتے ہوئے اور قہر بھری آنکھیں دکھاتے ہوئے زہر بھرے لہجے میں کہا’’ بجا کہ ہم مردار خور اور حرام خور ہیں لیکن تم تو زندہ انسانوں کا خون پی جاتی ہو اور پھر بھی شیخی خور بن رہی ہو۔ اب میرے بِن بلائے مہمانوں کی ہڈ بیتی پر مبنی افسانوں کو بھی سُن لو۔ ‘‘

اچانک ایک تیشہ برادر بُوڑھا وہاں آ دھمکا اور بولا ’’میرا نام فرہاد ہے سب جانتے ہیں کہ سنگ تراشی میں میرا کمال میرے کچھ کام نہ آیا، میں نے دُودھ کی نہر رواں کر دی مگر ایک پیمان شکن بادشاہ کی شقاوت آمیز نا انصافیوں کے باعث میں اُس کی بیٹی شیریں کے وصل سے محروم رہا۔ اگر میں تلنگانہ میں کسی نہر کی بھل صفائی کرتا تو کوئی تلنگا مجھے میری مزدوری سے محروم نہ کرتا۔ میرا واسطہ ایک ایسے بادشاہ سے پڑ گیا جو دِل کا مفلس و قلاش تھا۔ اس دنیا میں نیکی اور بھلائی کا صلہ کسی کو نہیں ملتا۔ کاش میں نے آخری وقت تیشہ اپنے سر پر مارنے کے بجائے پیمان شکن فرعون کے سر پر مارا ہوتا تو ایک درندہ پنے انجام کو پہنچ جاتا لیکن میرے جذباتی فیصلے نے ایک ظالم کو مزید تقویت دی۔ ‘‘

ایک نو جوان لنگڑاتا ہوا آگے بڑھا اور کہنے لگا ’’ میرا نا م مہینوال ہے، میں نے اپنی ٹانگ کاٹ کر اس کے تکا بوٹی بھون کر اپنی محبوبہ سوہنی کو پیش کیے جو اس نے جی بھر کر کھائے اور اگلے روز اسی قسم کے مزید خوش ذائقہ تکا بوٹی اور کبابوں کی فرمائش کی۔ وہ مجھے کرب میں دیکھ کر لذتِ ایذا حاصل کرتی رہی اور آخر کار دریائے چناب کی طوفانی لہریں مجھے بہا لے گئیں جہاں سیکڑوں نہنگوں نے میری تکا بوٹی کر ڈالی۔ یہاں وفا کا بدلہ جفا اور سزا کے سوا کچھ بھی تو نہیں اور محبت کا سراب ایک پیہم عذاب ہے۔ ‘‘

تلوار ہاتھ میں تھامے، سر پر خود پہنے، پشت پر ترکش میں تیر اور کمان سجائے، زرہ بکتر پہنے اور سیاہ چادرسے اپنا منہ چھپائے نشے میں دھت ایک خطرناک بد معاش ہرزہ سرا ہو ا ’’میرا نام رابن ہُڈ ہے۔ چھے سوسال قبل میں نے ڈکیتی اور خون ریزی کے جس گھناونے دھندے کی قبیح رسم شروع کی اب تک وہ رائج ہے۔ ساری دنیا مجھے خوف اور دہشت کی علامت سمجھتی ہے۔ جفا کے سب ہنگامے میرے دم سے تھے کوئی میرا عذاب کہاں سے لائے گا؟دنیا بھر کے ڈاکو ہر دور میں میرے قبیح کام کی تقلید بھی کرتے رہیں گے اور مجھ پر تنقید بھی کرتے رہیں گے۔ سچ تو یہ ہے کہ آج مغربی دنیا میں ہر طرف ڈاکو راج ہے جو میرے لیے بہت بڑا خراج تحسین ہے۔ میں زندگی بھر ڈاکے ڈالتا رہا عیاش امیروں سے دولت چھین کر اپنی تجوری بھرتا رہا لیکن سب کچھ یہیں رہ گیا۔ اس دنیا کا مال و دولت اور اثاثہ سب فریب ہے یہ کبھی وفا نہیں کرتا۔ میں ڈاکے ڈالتا رہا اور کئی بار موت سے بال بال بچا لیکن موت ہمیشہ زندگی کے تعاقب میں رہتی ہے ایک دن ڈاکہ زنی کے دوران موت نے مجھے دبوچ لیا۔ ‘‘

’’بات کہاں سے کہاں جا پہنچی لیکن اصل کہانی جہاں سے شروع ہوئی تھی ابھی وہاں سے بال برابر بھی آگے نہیں بڑھی۔ ‘‘خورو لُدھیک جو ابھی ابھی اپنی کُٹیا سے کسی انسان کا تازہ خون پی کر آیا تھا، اُس نے اپنی خون سے لتھڑی باچھیں اپنے گریبان سے صاف کرتے ہوئے کہا ’’ لال کنور اور زہرہ کنجڑن جب گوالیار پہنچیں تو انھیں اس بات کا شدت سے احساس ہوا کہ اب ان کا زمانہ بیت چکا ہے اور سیلِ زماں کے مہیب تھپیڑوں میں ان کی کشتیِ جاں ہچکولے کھاتی پھرتی ہے لیکن انھوں نے ہمت نہ ہاری اور ایک مشاطہ سے مِل کر ان کہنہ مشق، آزمودہ کار اور جسم فروش رذیل طوائفوں نے نئے شکار پھانسنے کے لیے نئے جال تیار کرنے کی مکمل منصوبہ بندی کر لی۔ چھے ماہ کی مسلسل ریاضت، رنگ نکھارنے والی کریموں، جڑی بُوٹیوں اور کُشتوں کے استعمال سے نہ صر ف وہ جسمانی طور پر پُر کشش ہو گئیں بل کہ اُ ن کا رنگ بھی پہلے سے کہیں زیادہ نکھر گیا۔ ا س کے ساتھ ہی موسیقی اور رقص کی تربیت بھی انھوں نے حاصل کر لی۔ اب انھیں اس بات کا یقین ہو گیا کہ کہ وہ ناز و ادا اور عشوہ و غمزہ کے تیروں سے عشاق کے کشتوں کے پشتے لگا سکتی ہیں اور خرچی کی وافر آمدنی سے ان کے سب دلدر دور ہو جائیں گے۔ یہ عجیب بات ہے کہ یہ دونوں طوائفیں اپنی کوکھ میں پروان چڑھنے والے بچوں کے بارے میں بہت فکر مند اور مضطرب تھیں اور اس اُجڑے دیار میں ان کا جی نہ لگتا تھا۔ ‘‘

’’ہر ماں کو اپنے نو مولود بچوں کی فکر دامن گیر ہوتی ہے۔ ‘‘فضیحت نے کہا ’’لال کنور اور زہرہ کنجڑن کی سوچ میں تعجب کی کون سی بات ہے ؟‘‘

یہ سُن کر خورو لُدھیک کی باچھیں کِھل اُٹھیں اور وہ بچھیرے کی طرح ہنہنایا ’’ایک معزز خانہ دار خاتون جبماں بننے والی ہوتی ہے تو اس کی سوچ اور ایک طوائف جب با دِلِ نا خواستہ ماں بننے والی ہوتی ہے تو ان دونوں کی سوچ میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ ‘‘

’’ ماں تو صرف ماں ہوتی ہے اس میں کوئی حدِ فاصل نہیں۔ صرف درد آشنا ہی ایک ماں کے دردِ دِل کو سمجھ سکتا ہے ‘‘فضیحت نے تلملاتے ہوئے کہا ’’بے حس پتھر اور بے درد درندے ماں کی مامتا اور اس کی تڑپ کی کیفیت کو کیسے سمجھ سکتے ہیں۔ ‘‘

’’اب اس کے بعد کے واقعات سنو گی تو تمھیں تمام فرق معلوم ہو جائے گا۔ ‘‘خورو لُدھیک نے کڑیالا چباتے ہوئے اور پھُنکارتے ہوئے کہا’’دسمبر کی ایک شام تھی اس قدر سردی پڑ رہی تھی کہ رگوں میں خون جم رہا تھا لیکن دو عورتوں کا خون اس قدر پتلا ہو گیا تھا کہ ہر ایک نے اپنی گود میں ایک پوٹلی اُٹھا رکھی تھی اور وہ گدھا گاڑی پر سوار گوالیار کے پرانے شہر سے نکل کر لشکر سے گزرتی ہوئی پھُول باغ سے ہوتی ہوئی گوالیار کے قدیم کھڈوں کی طرف بڑھ رہی تھیں۔ علاقے کی دائی گائتری کے ذریعے پِتا جی کو پہلے سے اس معاملے کی بھنک پڑ گئی تھی۔ وہ جانتے تھے کہ لال کنور اور زہرہ کنجڑن جیسی ڈائنیں انسانی ہمدردی سے عاری ہوتی ہیں۔ مشکوک نسب کے ایسے نومولود بچوں کو اُن کی مائیں رات کی تاریکی میں اپنے گناہوں کی اذیت سے بچنے کے لیے گوالیار کے کھڈوں میں پھینک کر ان سے نجات حاصل کرتی تھیں۔ فضا میں بڑے بڑے بُوم اور شِپر نیچی پرواز کر رہے تھے۔ بُوم جب کسی آبادی میں رات کے وقت نیچی پرواز کرتے ہیں تو سب شُوم اسے بُرا شگون سمجھ کر سہم جاتے ہیں۔ کئی پُر اسرار طیور، دیو ہیکل جانور، حشرات اور ہیولے دکھائی دے رہے تھے جن کی وجہ سے پتا پانی ہو رہا تھا۔ گوالیار کے کھڈوں اور ویرانے کی زمین کانپ رہی تھی دُور اُفق پر سر خ آندھی کے آثار نمو دار ہوئے۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ فضا کی سب چڑیلیں، بد روحیں اور ڈائنیں اپنی ہم پیشہ، ہم مشرب و ہم راز سہیلیوں کو خوش آمدید کہنے کی خاطر کُوڑے کے ڈھیر کے گرد جمع ہیں۔

ا س ویرانے میں ہر طرف ہُو کا عالم تھا۔ گدھا گاڑی گوالیار کے کھڈوں کے قریب پہنچی تو پِتا جی پہلے ہی کُوڑے کے ڈھیر کے نزدیک چہرے پر بھبھوت مل کر کافور، ہر مل، اکڑا، پوہلی، دھتورا، حنظل، لوبان، سونف اور کاسنی سلگا کر ان کی دھونی رمائے ایک خون آلود متعفن چادر پر لیٹے بد روحوں سے راز و نیاز کی باتوں میں مصروف تھے۔ انھوں نے چاندنی رات میں دونوں طوائفوں کو پہچان لیا لیکن ان طوائفوں نے یہ سمجھا کہ یہ کوئی بھُوت، دیو یا آدم خور ہے جو پلک جھپکتے میں ان گٹھڑیوں کو اُچک کر اپنی راہ لے گا۔ سب سے پہلے لا ل کنور نے سفید رنگ کی ایک چادر کو کھولا اور اس میں دو روتے ہوئے نو مولود بچوں کو کُوڑے کے ڈھیر پر پھینک دیا۔ لا ل کنور کے بعد کے بعد زہرہ کنجڑن نے ایک پیلی چادر کی گٹھڑی کھول کر دو بچوں کو کُوڑے کے ڈھیر پر پھینک دیا۔ ان نو مولود بچوں کی چیخ پُکار سُن کر بھی یہ چڑیلیں ٹس سے مس نہ ہوئیں اور مُڑ کر ایک نظر بھی ان نو خیز پھولوں کو نہ دیکھا۔ دونوں پان کی جگالی کرتی ہوئی بڑے اطمینان کے ساتھواپس اپنے قحبہ خانے میں جلد پہنچنے کے لیے وہ اپنی گدھا گاڑی کی طر ف چل دیں۔

لال کنور بولی’’ میں نے اپنے دشمن کی غلیظ نشانیوں کو کُوڑے کے ڈھیر پر پھینک دیا ہے۔ اس گورے نے میرے جسم کو نوچا لیکن یہ نہ سوچا کہ اس کا نتیجہ کیا نکلے گا۔ مجھے سبز باغ دکھا کر خود کالا باغ چلا گیا اور کبھی میری خبر تک نہ لی۔ مجھے تو وہ تماشا بنا کر چل دیا لیکن اب اس کی اولاد عبرت کی مثال بنے گی اور ان کا تماشا ہر کوئی دیکھے گا۔ ‘‘

زہرہ کنجڑن نے آگ بگولا ہو کر کہا ’’ تم جانتی ہو کہ مجھے بھی ایک کالے ناگ نے ڈس لیا۔ وہ کافر مجھے کافرستان لے جانے کا جھانسہ دیتا رہا لیکن نا معلوم وہ کافر کس قبرستان میں جا کر روپوش ہو گیا۔ میں نے اس بد صورت کالے اژدہا کی قابلِ نفرت نشانیوں کو یہاں پھینک دیا ہے۔ سانپ کے بچے کبھی وفا نہیں کرتے خواہ ان کو چُلّو میں دُودھ پِلایا جائے۔ ‘‘

زہرہ کنجڑن نے گدھے کو چابک مارا اور گدھا تڑپتا، تلملاتا اور دوڑتا ہوا ان طوائفوں کے مقدر کی تاریکیوں کی طرح بھیانک اندھیروں میں گُم ہو گیا۔ یہ رات ان طوائفوں کی زندگی کی ایسی رات تھی جس کی سحر کبھی نہ ہو سکی۔ ان چڑیلوں کے جانے کے بعد پِتا جی نے سب سے پہلے سفید رنگ کے کپڑے میں لپٹے بچو ں کو دیکھا، یہ سفیدرنگ کے جڑواں بچے تھے جن میں سے ایک لڑکا تھا اور ایک لڑکی تھی۔ اب وہ پیلے رنگ کی چادر کے قریب آئے تو یہ دیکھ کر حیرت زدہ رہ گئے کہ یہ کالے رنگ کے دو جڑواں بچے تھے جن میں سے ایک لڑکا اور ایک لڑکی تھی۔

اس دوران ماتا جی ایک چٹان( جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ ہنومان جی کی نشانی ہے ) کی یاترا کرنے اور وہاں گھٹنے ٹیکنے کے بعد کُوڑے کے ڈھیر کے قریب آ پہنچیں۔ چار بچوں کو گھر لا کر وہ اس لیے بہت خوش تھے کہ کئی بے اولاد جوڑوں نے ان سے یہ کہہ رکھا تھا کہ جب کوئی اس قسم کا مشکوک نسب کا بچہ ملے تو وہ فی الفور انھیں دے دیں اور منہ مانگا انعام حاصل کریں۔ پِتا جی نے نئے جوڑے بنائے اور ایک کالے بچے کے ساتھ ایک گوری بچی کو ملا دیا اور اسی طرح ایک گورے بچے کے ساتھ ایک کالی بچی کا جوڑ بنا دیا۔ کالا بچہ اور گوری بچی تو اسی روز گو الیار کے قدیم شہر کے ایک معمر، متمول اور بے اولاد تاجر ٹھاکر موہن کو دے دیا۔ ٹھا کر ان بچوں کو دیکھ کر خوشی سے پھولا نہ سمایا اور پِتا جی کو ایک ہزار اشرفی انعام میں دی۔ اگلے روز ماتا جی اور پِتا جی نے فیصلہ کیا کہ گورا بچہ اور کالی بچی آگرہ میں مقیم ادھیڑ عمر کے بے اولاد صراف کر تار کے حوالے کیے جائیں۔ کرتا ر نے بھی ان بچوں کو بڑی خوشی سے قبول کیا اور پِتا جی کو پندرہ سو اشرفیاں انعام میں دیں۔ سیلِ حوادث کے بگولے بیتے دنوں کی یادوں کو خس و خاشاک کے مانند اُڑا لے جاتے ہیں۔ اس واقعہ کے بعد کسی نے میرے والدین کے دِلِ شکستہ کا کبھی حال نہ پوچھا۔ میرے والدین نے راز داری کی خاطر لبِ اظہار پر تالے لگا لیے۔

وقت پر لگا کر اُڑتا رہا اور یہ نو مولود بچے اپنے نئے آشیانوں میں پروان چڑھتے رہے۔ اُدھر لال کنور اور زہر ہ کنجڑن نے اپنا آبائی پیشہ اختیار کر لیا اور قحبہ خانوں کی زینت بن گئیں۔ ماضی اپنے مستقبل سے بے خبر اپنے انجام کی طر ف بڑھ رہا تھا۔ سولہ سال بیت گئے تو ایک دِن ٹھاکر مو ہن کے بچوں نے تاج محل دیکھنے کی فرمائش کی۔ ٹھاکر اپنے دونوں بچوں اور بیوی کو ساتھ لے کر آگرہ پہنچا اور اپنے دیرینہ دوست صراف کرتار کے ہاں قیام کیا۔ دونوں خاندانوں کا یہ میل ملاپ طویل عرصے کے بعد ہوا تھا۔ وراثت اور جائیداد کے مسائل کے باعث تمام سرکاری دستاویزات میں انھوں نے ان بچوں کو ہمیشہ اپنی حقیقی اولاد ہی ظاہر کیا۔ بچوں کو دیکھ کر ٹھاکر نے حیرت اور مسرت کے ملے جُلے جذبات سے کہا :

’’لوگ کہتے ہیں کہ جوڑے افلاک کی وسعتوں میں بنتے ہیں لیکن کچھ جوڑے ایسے بھی ہوتے ہیں جو زمین پر ذہن و ذکاوت اور فکر و خیال کی مدد سے بنائے جا سکتے ہیں۔ کرتار مجھے اس قسم کے جوڑے بنانے کی اجازت دے دو۔ ‘‘

’’تم جیسا چاہو کر لو ٹھاکر، تمھیں اختیار ہے ‘‘کرتار صرف نے مسکراتے ہوئے کہا’’ مجھے تمھارا ہر فیصلہ منظور ہے۔ ‘‘

ٹھاکر نے کہا ’’تم اپنے گورے بیٹے کے لیے میری گوری بیٹی لے لو اور میں اپنے کالے بیٹے کے لیے تمھاری کالی بیٹی کو اپنی بہو بنا لوں گا۔ ‘‘

’’میں اس فیصلے پر راضی ہوں۔ ‘‘کرتار نے کہا ’’آج ہی یہ کام کر لیا جائے۔ ‘‘

شام کو جب ٹھاکر واپس گھر جا رہا تھا تواس کے ہم راہ اپنا کالا بیٹا اور کرتار صراف کی کالی بیٹی تھی جو کہ اب اس کی بہو بن چُکی تھی۔ اس نے اپنی گوری بیٹی کرتار صراف کے گورے بیٹے کو دے دی تھی۔ ‘‘

لوگ شادی کو بالعموم خانہ آبادی کا نام دیتے ہیں لیکن یہ شادی کیا ہوئی کہ یہیں سے ٹھاکر اور صراف کی خانہ بربادی کا آغاز ہو گیا۔ یہ نو بیاہتا جوڑے ہنسی خوشی جب اپنے گھروں میں پہنچے تو شبِ عروسی کے بعد علی الصبح دونوں دلھنیں پُر اسرار حالات میں اپنے اپنے کمروں میں مُردہ پائی گئیں۔ ٹھاکر اور صراف کے اپنے بیٹوں نے اُسی روز اپنی پرورش کرنے والے محسنوں کی زندگی کی شمع گُل کر دی۔ اب گورا اور کالا نوجوان بلا شرکتِ غیرے اپنے آبا کی جائیداد کے وارث بن گئے۔ جب ان عیاشوں کو بغیر محنت کیے اس قدر وافر مقدار میں مفت کا مال مل گیا تو انھوں نے اسے بڑی بے رحمی سے بے دریغ لُٹایا۔ جب تمام جمع پُونجی جوئے، منشیات اور سٹے بازی میں ضائع ہو گئی تو یہ نا ہنجار ڈاکو بن گئے اور اس گھناونے دھندے میں رابن ہُڈ کو بھی مات دے دی۔

’’اُف !یہ انہونی کس قدر لرزہ خیز ہے۔ ‘‘ بہلو خان نے چونک کر کہا ’’کیا اس کالے ا ور گورے نوجوان کا اتا پتا تمھیں معلوم ہے ؟‘‘

’’ہاں میں سب کچھ جانتا ہوں لیکن اب کچھ نہیں ہو سکتا۔ ‘‘ خورو لُدھیک نے سر کھجاتے ہوئے کہا’’ وہ یہاں سے بہت دُور چلے گئے ہیں۔ ‘‘

’’جہاں بھی چلے گئے ہیں میں ان سے فوری طور پر ملوں گی اور ان کو تمام حقائق سے آگا ہ کروں گی۔ ‘‘فضیحت نے آہ بھر کر کہا ’’ان نوجوانوں کی بے حس اور بے غیرت ماؤں کو تو مر جانا چاہیے۔ ‘‘

’’ ڈکیتی کی ایک لرزہ خیز واردات میں دوسفاک ڈاکوؤں نے ان طوائفوں کا کام تمام کر دیا ۔ ‘‘خورو لُدھیک نے کہا’’اس کہانی کے آخری دو کردار بھی گزشتہ روز اپنی الگ دنیا بسانے کے لیے یہاں سے چلے گئے۔ ‘‘

’’تمھاری ہر با ت ایک اُلجھن اور پہیلی ہوتی ہے ‘‘ فضیحت نے پریشانی کے عالم میں کہا’’ اس کہانی کے آخری دو کردار کون سے ہیں۔ اب یہ ایک ایسا معما جو نہ تو سمجھنے کا ہے اور نہ ہی تم ہمیں یہ سمجھا سکے ہو۔ کیا طوائفوں کے بیٹوں کو اپنی حقیقی ماؤں اور بہنوں کے بارے میں تمام راز معلوم ہو گئے تھے۔ ‘‘

’’اس بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ ‘‘خورو لُدھیک نے کہا ’’فطرت کی تعزیریں نہایت سخت ہوتی ہیں۔ کوئی چیرہ دست مجرم فطرت کی تعزیروں سے بچ نہیں سکتا۔ ‘‘

’’کہانی کے وہ دو آخری کردار کو ن تھے ؟ ‘‘بہلو خان نے بُڑ بُڑاتے ہوئے کہا’’ اب ہمیں کن بھول بھلیوں میں لے کر جا رہے ہو ؟ پہیلیاں نہ بجھواؤ ہمیں صاف صاف بتا دو کہ کہانی کے آخری دو کرداروں سے تم کس طرح واقف ہو اور وہ دونوں کردار کس طرح اپنے انجام کو پہنچے ؟

تو پھر سُن لو ‘‘خورو لُدھیک نے اپنے گنجے سر پر ہاتھ پھیر کر اپنی پچکی ہوئی ناک پر دھری موٹے سفید شیشوں والی عینک میں سے جھانکتے ہوئے کہا ’’گورا تو گھامڑ دھُول پُوری تھا اور کالا زاہدو لُدھڑ تھا۔ ‘‘

٭٭٭

 

 

 

 

           ماضی کے جھروکے

 

 

یہ بے چراغ شہر کیا تھا اسے تو عبرت سرائے دہر کی حیثیت حاصل تھی۔ اس شہرِ نا پُرساں سے دُور میلوں پر پھیلے ہوئے ویرانے اور صحرا میں ایک کھنڈر تھا جس میں ماضی کے گھٹیا عیاش اکٹھے ہو کر ایام گزشتہ کی دیمک خوردہ، عفونت زدہ اور منحوس کتاب کے اوراقِ پارینہ کی ورق گردانی اور عشرتِ فانی کی نوحہ خوانی کرتے۔ یہ کھنڈر ماضی کا ایک ایسا پُر اسرارمکان تھا جو حال میں عبرت کا ایک نشان بن گیا۔ ماضی کی داستانوں کے مٹتے نقوش کا امین یہ کھنڈر جو چار ہزار سال قبل مسیح کی تعمیر بتا یا جاتا تھا، اب ستم ہائے روزگار کا رہین تھا۔ اسے سکندر کے جر نیل سلوکس نے تعمیر کیا تھا اور اس میں یونان میں حسن کی دیوی ’’ ہیرا ‘‘کا ایک قدِ آدم مجسمہ بھی تعمیر کیا تھا۔ اب یہ کھنڈر حشرات اور ابابیل کی پناہ گاہ تھا، اس کے بوسیدہ شہتیروں سے بے شمار فربہ اور بد وضع چھپکلیاں چمٹی رہتیں۔ چھتوں کے ساتھ چمگادڑ پیمان وفا باندھ کر اُلٹے لٹکے رہتے۔ سنگِ مر مر کا بنا کھنڈر کا کہنہ فرش تو اُچکے اکھاڑ کر اپنے گھر لے گئے تھے البتہ قدیم فرش کی جگہ چمگادڑوں کے ضماد سے ایک مضبوط فرش بن چُکا تھا جہاں سے اُٹھنے والی عفونت اور سڑاند سونگھ کر متلی آنے لگتی تھی۔ اس کھنڈر کا فنِ تعمیر ٹیکسلا اور مو ہنجو دڑو کے تعمیراتی اندازسے بہت مماثل تھا۔ اس عالمِ آب وگِل کے ایسے لرزہ خیز اور اعصاب شکن واقعات کے بارے میں جان کرانسان کا پِتا پانی ہو جاتا ہے اور دِل دہل جاتے ہیں۔ پُرانے بزرگوں نے نسل در نسل چلنے والی سینہ بہ سینہ روایات کی بنا پر یہ بات بتائی کہ جس جگہ اب ویرانہ موجود ہے وہاں چار ہزار سال قبل حدِ نگاہ تک سر سبز و شاداب کھیت، ہری بھری فصلیں اور بُور لدے چھتنار کی فراوانی تھی۔ ساتھ ہی صاف پانی کی ایک گہری جھیل تھی جس میں دریا سے نکلنے والا ایک نالہ بہتا ہوا آتا اور دریا کا تازہ، شیریں اور خنک پانی لا کر اس جھیل کا دامن صاف، پاکیزہ اور شفاف پانی سے بھر دیتا۔ ایک زمانہ تھا جب ا س جگہ گھنے اور سایہ دار اشجار کی کثرت تھی اور ہر موسم کے تازہ اثمار سے فیض یاب ہونے کے لیے ملک کے طول و عرض سے سیاح یہاں پہنچتے اور سیر و تفریح سے لطف اندوز ہوتے تھے۔ بعض اوقات بیرونی ممالک کے مہم جُو اور طالع آزماسیاح بھی ان ٹیلوں، صحراؤں اور کھنڈرات میں دفن ماضی بعید کے خزائن کی جُستجُو میں یہاں کی خاک چھاننے کے لیے آ پہنچتے۔ حسن و رومان کے متوالے اس حسین علاقے میں رنگ رلیاں منانے کے لیے پہنچتے اور حسنِ فطرت سے لطف اندوز ہوتے تھے۔ نا معلوم کن لوگوں کی بد اعمالیوں اور سیاہ کاریوں نے اس عمارت کو کھنڈر میں بدل دیا۔

اس کھنڈر سے کچھ دُور ایک جھیل تھی، جو سوہنی جھیل کے نام سے مشہور تھی۔ گجرات کی لوک داستان سوہنی مہینوال کے حوالے سے اس جھیل کو بہت شہرت ملی تھی۔ اکثر لوگوں کی یہ رائے تھی کہ سوہنی اور مہینوال نے اپنے عشق کی ابتدا اسی جھیل کے گہرے پانیوں کی غواصی سے کی تھی۔ اس پُر اسرار جھیل کے مشرقی کنارے پر ملاحوں اور ماہی گیروں کی ایک بستی تھی۔ اس بستی کے کچے گھروندوں میں اگرچہ پتھر کے زمانے کا ماحول تھا لیکن یہاں حسنِ فطرت کی فراوانی تھی۔ مہ جبیں سوانیاں، ان کی الہڑ جوانیاں ا ور چاندی کی گردنوں میں سونے کی گانیاں دیکھ کر حسن پرست دِل تھا م لیتے۔ یہ بات زبان زدِ عام تھی کہ قدیم زمانے میں اس جھیل میں بہت سی جل پریاں رہتی تھیں۔ ان جل پریوں کا جسم تو مچھلیوں جیسا تھا لیکن چہرے کی ساخت حسین و جمیل لڑکیوں جیسی تھی۔ جب بستی کی نوجوان لڑکیاں جھیل سے پانی بھرنے جاتیں تو اکثر جل پریاں انھیں دیکھ کر گہرے پانی میں غوطہ لگا لیتیں۔ چندے آفتاب چندے ماہتاب نوجوان لڑکیاں ان حسین جل پریوں کو دیکھ کر رشک کرتی تھیں اور ان سے ملنے کے لیے بے قرار رہتی تھیں۔ اپنے معمول کے مطابق ہر روز صبح سویرے منہ اندھیرے بستی کی نوجوان لڑکیاں جھیل میں تیرنے، نہانے اور پینے کے لیے پانی کے گھڑے بھرنے کے لیے جاتی تھیں۔ یہ تمام حسین و جمیل لڑکیاں تیراکی کی ماہر تھیں اور گہرے پانی میں غوطہ لگانے سے انھیں کوئی خوف نہ تھا۔ نواحی بستی کے نوجوان لڑکے جب جھیل کے کنارے کھیلنے کے لیے آتے تو یہ حسین جل پریاں پانی کی سطح پر تیر کر اپنے حسن کے جلووں سے اُنھیں مسحور کر دیتی تھیں۔ حسنِ بے پروا کی بے حجابی نوجوان لڑکوں کو بے تاب کر دیتی اور وہ اس آس پر بے خطر جھیل میں کُود پڑتے کہ شاید قسمت یاوری کر ے اور وہ کسی جل پری کے لمس یا وصل سے نشاط حاصل کر نے میں کامیاب ہو جائیں۔ حُسن و رومان کی داستانیں اسی جھیل کے گہرے پانیوں کی غوطہ خوری اور غواصی کے دوران میں رقم ہوتی تھیں۔ اس کے بعد یہ ہوتا کہ کوئی نو خیز جل پری بستی کی سب سے حسین ترین لڑکی کے جسم میں حلول کر جاتی اور بستی میں رہنے والے اپنے پسند کے نوجوان سے پیمانِ وفا باندھ لیتی تھی۔ یہ سلسلہ ہمیشہ جاری رہتا اور بستی کی ہر نوخیز حسینہ اپنی ہم جو لیوں کے ساتھ جھیل کے گہرے پانیوں میں جل پری کے ساتھ راز و نیاز کے لیے پہنچتی۔ جل پری اس کی مشکل آسان کر دیتی اور اس کے جسم میں متشکل ہو کر اپنی پسند کے نوجوان کو اپنا شریکِ حیات منتخب کر لیتی۔ اس جھیل کے بارے میں زاہد ا لُدھڑ نے بتایا:

’’یہ قصہ ہے جب کا کہ زاہد ا لُدھڑ جواں تھا۔ سوہنی جھیل کے گہرے پانیوں میں توحسین و جمیل جل پریاں تیرتی تھیں لیکن جھیل کے کناروں کی دلدل میں بے شمار خون آشام نہنگوں کے نشیمن تھے۔ عہدِ جوانی میں میرے ساتھی کڑما بھٹیارا، رنگا اور آسفا میرے ساتھ شامل ہو کر سوہنی جھیل کے کنارے دادِ عیش دیتے اور نت نئے حسینوں کی جستجو میں خجل ہوتے تھے۔ جل پریوں کی تمنا میں ہم آشفتہ سروں نے اپنی جاں تک داؤ پر لگا دی اس کے نتیجے میں وہ زخم کھائے کہ آج تک منہ کا ذائقہ کڑوا ہے اور قلب اور روح پر جو گھاؤ لگے ان کا تریاق کہیں سے نہ ملا۔ ہم چاروں نے ہذیانی کیفیت میں اس طوفانی، رومانی اور ہیجانی جھیل میں چھلانگ لگائی تا کہ کسی مہ جبیں جل پری کو پکڑلیں لیکن دلدل میں چھُپے خون آشام نہنگوں نے ہماری ٹانگوں کو پکڑ لیا اور ہمیں بُری طرح جکڑ لیا۔ یہ خونخوار نہنگ ہماری فربہ ٹانگوں کا سارا گوشت اپنے تیز اور نوکیلے دانتوں سے نوچ کر ہڑپ کر گئے۔ ایک ماہ تک ٹُلا عطائی ہمارا علاج کرتا رہا اور ہمارے زخموں پر سرخ مرچ، شہد اور نمک چھڑکتا رہا تب کہیں جا کر نہنگوں کی نوچی ہوئی ہماری لاغر ٹانگیں ہمارے فربہ جسم کا بوجھ اُٹھانے کے قابل تو ہو گئیں لیکن جل پریوں کی تمنا میں ہماری جو درگت بنی اس کے باعث ہم سب کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہے۔ اس لرزہ خیز اور جان لیوا سانحہ سے بچ نکلنے کے بعد ہم نے کبھی سوہنی جھیل کا رخ نہیں کیا۔ حسن و عشق کے ہم چاروں متوالوں کی قسمت میں کسی جل پری کا وصل تو نہ تھا البتہ قحبہ خانے کا رخ کرنے سے یہ طوائفیں ہمارے پلے پڑ گئیں۔ ‘‘

’’ کن جنسی جنونیوں سے ہمارا پالا پڑ گیا ہے جنھیں پل کی خبر نہیں۔ اے بھڑوے ہم تمھارے پلے نہیں پڑے بل کہ تم جیسے ناکارہ، جنسی جنونی اور گھٹیا عیاش ہمارے گلے پڑ گئے۔ ‘‘ ڈھڈو کُٹنی اور رذیل طوائف ظلو جو نیم عریاں لباس پہنے ہوئے تھی اپنے میلے دانت پیستے ہوئے بولی ’’اپنے عہدِ جوانی میں ہم بھی خود کو کسی جل پری سے کم نہیں سمجھتے تھے اور ہمارے دیوانے ہمیں چودھویں کا چاند اور خورشید جمال قرار دیتے تھے۔ ہند اور سندھ سے آنے والے ہمارے ہزاروں دیوانے ہماری ایک ادا پر اپنی متاع حیات تک نچھاور کرنے پر تُل جاتے تھے۔ ہم نے وصل، رقص و سرود اور جسم فروشی کو نیا آہنگ دیا۔ اپنی اُٹھتی جوانی میں متاعِ جسم و جاں کو لُٹا کر ہم نے جو کچھ کمایا اس میں سے تمھیں بھی بغیر کوئی اذیت اُٹھائے بہت بڑا حصہ مِل گیا۔ ہماری ممبئی، کاٹھیاواڑ، بنارس اور تلنگانہ کی سب جائداد تم تلنگوں نے غارت کر دی۔ تم عیاش بھڑووں اور مسخروں سے ایک واجبی ساتعلق ہوا تو سب تدبیریں اُلٹی ہو گئیں، اب تو ہمیں کوئی پُو چھتا بھی نہیں۔ تم بہت نا قدرے ہو ہمارے پالتو باگڑ بِلے ہونے کے باوجود ہمیں کو میاؤں کر تے ہو تمھیں تو چُلّو بھر پانی میں ڈُوب مرنا چاہیے۔ آہ!تم جیسے چکنے گھڑے اور تھوتھے چنے ان لرزہ خیز اور اعصاب شکن اذیتوں کو کیسے سمجھ سکتے ہیں جن سے ایک طوائف کو ہر لمحہ گزرنا پڑتا ہے۔ ‘‘

’’ تمھاری لمبی اور کالی زبان تمھارے دماغ سے بہت آگے نکل چُکی ہے۔ مظلوم انسانیت پر تمھاری بد اعمالیوں اور سیا ہ کاریوں کے باعث جو کوہِ ستم ٹُوٹا ہے، اُس پر تو تمھیں اس کائنات کا خالق ہی پُوچھے گا۔ ‘‘ اپنا گنج نہاں کرنے کی غرض سے آسفا نے اپنے سر پر گدھے کی دُم کے بالوں سے تیار کی گئی عفونت زدہ وِگ اوڑھ رکھی تھی۔ وہ اس بد وضع وِگ کو کھجاتے ہوئے بولا’’ میں شکوہ سنج تو نہیں لیکن ہم نے تمھاری خاطر کیا کیا نہ کیا پہلے اپنے دل پہ جبر کر کے اپنے دماغ کو جبری رخصت پر روانہ کیا اس کے بعد اپنے ضمیر کا گلا گھونٹ کر تمھارے لیے عقل کے اندھے اور گانٹھ کے پُورے دِل پھینک عیاشوں کی جستجو میں خجل ہو نا ہمارا مقدر بن گیا تا کہ تم بے دریغ اپنا جسم بیچو اور اور یہ کھوٹا سکہ چلا کر اندھا دھند خرچی بٹور کر اپنی تجوری بھر سکو اور تمھارے قحبہ خانے کے مکروہ کاروبار میں وسعت ہو۔ ہمارا کیا ٹھکانہ، ہم تو رنگ، خوشبو اور حسن و خوبی کے تمام استعاروں کے لیے فنا کا پیغام بن گئے۔ چمن میں جب بھی بادِ سموم چلے گی ہمارا ذکر ضرور ہو گا۔ دِلوں میں سنگ بھرے ہم پھر آئیں گے اور شہروں کو ویرانوں میں بدل دیں گے، کھنڈرات میں حشرات کی نشو و نما بڑھائیں گے اور جنس و جنوں کی فراوانی اور ہوس کی ارزانی کو یقینی بنائیں گے۔ ‘‘

کڑما بھٹیارا اب تک دُم دبائے بیٹھا تھا، اچانک اس نے دُم لہرائی اور کفن پھاڑ کر منہ سے جھاگ نکالتے ہوئے پھنکارا’’میں نے حسن و رومان اور جنس و جنوں کے بے شمار ہنگامے دیکھے ہیں۔ یہ سب کے سب ذلت و رسوائی سے شروع ہوتے ہیں اور رو سیاہی اور جگ ہنسائی پر ختم ہوتے ہیں۔ بھڑوے کے بارے میں یہ مثل مشہور ہے کہ اس کی آشفتہ سری کا مداواسنگ زنی ہی سے ممکن ہے۔ ‘‘

نا معلوم کس سبز قدم شُوم کی نظر اس گلشن کو کھا گئی کہ جہاں پہلے سر و و صنوبر، چیڑ و دیودار، سنبل و اخروٹ، شمشاد و چنار اور گُل ہائے رنگ رنگ دھنک رنگ منظر نامہ پیش کرتے تھے، اب وہاں ہر طرف خرابات ہیں جن میں ہر وقت خاک اُڑتی رہتی ہے۔ وادی اب ویرانے میں بدل چُکی ہے، جھیل کا پانی خُشک ہو چُکا ہے اور جو پانی سے سیراب ہونے کی تمنا رکھتے تھے ان کا واسطہ سکوت کے صحرا کے اعصاب شکن اور جان لیوا سرابوں سے پڑتا ہے۔ ہوسِ زر کا مکروہ جال، جنسی جنون کا باؤلا پن، انسان دشمنی کا قبیح سلسلہ، گھٹیا ذاتی مفادات کا غیر مختتم سلسلہ، رقصِ مے اور ساز کی لے جب فکر و خیا ل پر حاوی ہو جائے تو زندگی کی تمام رُتیں بے ثمر اور کلیاں شرر ہو کر رہ جاتی ہیں۔ اس وسیع و عریض صحرا اور ہیبت ناک ویرانے میں اب روئیدگی اور نمو کے آثار بہت کم تھے، کئی دُور اُفتادہ مقامات، سوکھے درختوں اور خار دار جھاڑیوں کے نیچے دھتورا، بھنگ، پوست، جال، پِیلوں، لانی، پیلی بُوٹی(کسکوٹا)، تھوہر، پوست، اکڑا، بھکڑا، زقُوم، پوہلی، کریر، باتھو، اکروڑی، الونک، تاندلہ، پُٹھ کنڈا، سُنج آونا، جنڈ، تھوہراورجوانہہ اُگے تھے۔ حنظل، بیر، پیلوں اور ڈیہلے ہی یہاں کے دستیاب پھل تھے۔ طائران خوش الحان یہاں سے کب کے لمبی اُڑان بھر چکے تھے۔ اس ویران علاقے کے بے شمار قوی الجثہ جان دار ڈائنو سار کے نقشِ قدم پر چل کر دائمی مفارقت دے گئے۔ قحط الرجال اور جہد للفنا کے اس دور میں اب تو اس اُجاڑ صحرا میں نسل در نسل جو جان دار گزران کر رہے تھے ان میں چمگادڑ، چُغد، بُوم، کرگس، زاغ و زغن، بِجُو، خا ر پُشت اور مافوق الفطر ت عناصر شامل تھے۔ حیران کُن بات یہ تھی کہ یہاں مقیم سب اُلّو اور اُلّو کے پٹھے، کرگس اور کرگس زادے پر پھیلا کر اور چونچ ہلا کر ان درندوں سے ہم کلام ہوتے تھے اور ان کے ہر کام میں مشیر اور دخیل ہوتے تھے۔ ان مسخروں کے گرد و نواح میں بے شمار عقرب اور ان کے اقارب، سانپ اور سانپ تلے کے بچھو موجود رہتے۔ لوگوں نے کئی بار اس علاقے میں اژدہا اور اس کے بچے بھی دیکھے جن کی موجودگی نے جنگلی حیات کی زندگی اجیرن کر دی۔ جنگل کے ماحول میں جنگل کے قانون کے باعث زندگی کے تمام موسم اپنی رعنائی کھو بیٹھے۔ وہ جان مار کر کام کرتے لیکن مارِ آستین ہمیشہ ان کے در پئے آزار رہتے۔ مکروہ صورت اور کالی زبانوں والے بے شمار سبز قدم دیو اور بھوت یہاں کثرت سے پائے جاتے تھے۔ یہ سب مافوق الفطرت عناصر حالات کی شکستہ قبروں کے کتبوں کی صورت میں جہاں پیمان وفا اور رومان کا شاخسانہ معلوم ہوتے تھے وہاں یہ عبرت کا تازیانہ بھی تھے۔

زاہدا لُدھڑ نے ایک دن بر ملا کہا ’’وہ دن گئے جب ہم اس انجمنِ وبال میں تنہا تھے اور اکیلے خلیل خان نے از خود چمن زارِ خیال سے فاختائیں اُڑانے کی ذمہ داری سنبھال رکھی تھی۔ اب یاس و ہراس کے اس ماحول میں ہمارے بے شمار ہم زباں، نوحہ خواں اور ہم مشرب و ہم راز موجود ہیں۔ ہمارا طالع آزما، مہم جُو اور ابن الوقت ساتھی خلیل خان ہوا میں گرہ لگا کر بے مقصد فاختائیں اُڑانے کے بجائے ہمارے لیے نئی نویلی فاختاؤں کو نت نئے جھانسے دے کر پھانس کر لاتا ہے اور ہم سب کا دل بہلاتا ہے۔ ایک ظلو کی بے وفائی ہمیں مایوس نہیں کر سکتی وہ نہیں تو اور سہی۔ ‘‘

جھُٹ پُٹے کے وقت اس ویرانے میں زندگی کے دن پورے کرنے والی مخلوق کے چہروں کی تھکن، اضطراب اور خوابوں کی گھُٹن دیکھ کر یہ گُمان گُزرتا کہ یہ سب کے سب گردشِ حالات کے ستم سہنے کے بعد انتہائی نا خوش و بیزار ہیں۔ ماضی کے مہم جُو عناصر نے ابتلا اور حوادث کی جو فصل بوئی تھی، اس کا ثمر آنے والی نسلیں صدیوں سے اُٹھا تی چلی آ رہی تھیں۔ طویل عرصے سے یہ علاقہ آدم خور قبائل کا مسکن تھا۔ زندگی کے کٹھن سفر کی جان لیوا اذیتوں کی پھانس دیکھنے والوں کے دِل میں چُبھ رہی تھی۔ اس کھنڈر میں جو تارک الدنیا سادھو ہر وقت دھُونی رمائے دل کی ویرانی کے قصے سناتے رہتے تھے، ان میں کڑما بھٹیارا، زاہد ا لُدھڑ، رنگا اور آسفاشامل تھے۔ ان سفہا نے آدم خور قبائل کے ساتھ پیمانِ وفا باندھ کر خود کو آدم خور قبیلے کا فرد قرار دیا۔ اور ہر وقت ایک خارش زدہ سگِ راہ کی طرح آدم خور قبیلے کے سردار کے تلوے چاٹتے تھے۔ سردار بھی ان موذیوں پر بہت ترس کھاتا تھا۔ معاشرتی زندگی میں عام لوگوں کی توہم پرستی، جہالت اور وہم و گُمان کا اسیر ہونے کے باعث ان ننگِ انسانیت درندوں کی تفریح طبع اور جنسی جنون کی تسکین کے فراواں مواقع میسر تھے۔ یہ سب شاطر، چور، ٹھگ اور اُچکے خود کو ماہرِ فلکیات، نجومی، رمال، جوتشی، دست شناس، قیافہ شناس اور عامل ظاہر کرتے۔ ان بگلا بھگت عیاروں اور جو فروش گندم نما مکاروں نے ترک دنیا کے پردے میں اپنے جنسی جنون کو نہاں کر رکھا تھا۔ مرغن غذائیں، تازہ پھل اور حلوے مانڈے کھا کر یہ سانڈ جنسی جنون اور منشیات کے عادی بن چُکے تھے۔ جو رسوائے زمانہ جسم فروش رذیل طوائفیں ان کی جنسی تسکین اور ان کے پیٹ کا دوزخ بھرنے میں مصروف رہتی تھیں ان میں صبو، ظلو، تحرو اور گُلو شامل تھیں۔ ان میں سے ہر ایک رسوائے زمانہ طوائف اور نائکہ تھی انھیں۔ قحبہ خانے میں اپنے مکروہ دھندے سے ہر عقل کے اندھے اور گانٹھ کے پُورے بندے کو زُلفوں کے پھندے اور ناز و انداز کے شکنجے میں جکڑنے کا انھیں طویل تجربہ تھا۔ کڑما بھٹیارا بدنام نائکہ گُلو کا شوہر تھا، ظِلو نے زاہدا لُدھڑسے بیاہ کا سوانگ رچا رکھا تھا، رنگا نے بدنام رقاصہ اور رذیل طوائف تحروسے شادی کر رکھی تھی جب کہ صبو نے آسفا کی داشتہ کی حیثیت سے ذلت اور تخریب کی وادی میں قدم جما رکھے تھے۔ یہ سب بے غیرت بھڑوے اپنی شریکِ حیات رذیل طوائفوں کے سامنے نِکُو بنے رہتے، اپنی بیویوں کی گالیاں سُن کے بھی بے مزا نہ ہوتے اور کوئی ان طوائفوں کی زبان کو لگام دینے والا نہ تھا۔ پینترے باز ٹھگوں، جرائم پیشہ لُٹیروں، منشیات فروش سیلانیوں اور بھتہ خور جو گیوں کے اس گروہ کے ارکان کے روّیے میں عجیب تضاد تھا۔ ہر روز نئے شکار کی تلاش میں سر گرداں یہ سب کے سب ڈھونگی مر د تو بُوم اور شپر کی طرح ویرانوں میں مقیم تھے جب کہ ان کی بیویاں شہر میں اپنے اپنے قحبہ خانوں میں دادِ عیش دیتی تھیں اور خرچی سے اپنی تجوری بھر نے میں ہمہ وقت مستعد اور مصروف رہتی تھیں۔ اپنے تاریک ماضی سے بے خبر اس آئینہ خانے میں ہر کوئی اپنے حال میں بد مست تھا اور کسی کو مستقبل کی کوئی فکر نہ تھی۔ ایک بات حیران کُن تھی کہ سب عادی دروغ گو، پیشہ ور ٹھگ، بھانڈ، بھڑوے، بھگتے، تلنگے، لُچے، شُہدے، بدنام اچکے اور رجلے خجلے گو اپنے آبا و اجداد کو یاد کر کے مگر مچھ کے آنسو بہاتے مگر کوئی بھی اپنے اسلاف کے بارے میں اچھی رائے نہ رکھتا تھا۔ سب یہی کہتے کہ ان کے پیش ر وڈُوم اس قدر شُوم تھے کہ وہ ان کے لیے کوئی میراث یا جائیداد چھوڑ کر نہیں مرے۔ ان میں سے ہر ننگِ وجود مُردہ کفن پھاڑ کر اپنے دلی رنج کا اظہار کرتے ہوئے تقدیرِ جہاں کے عقدوں سے بے خبر ہمہ وقت اپنی پھُوٹی ہوئی قسمت پر پیچ و تاب کھاتا اور اپنے رفتگاں کو بُری طرح کوستا رہتا۔ اس طرح اپنی ہرزہ سرائی اور ہذیان گوئی سے اپنے فریب خوردہ ہم نشینوں کو جو مردار خور کرگسوں کی آغوش میں پل کر پروان چڑھے، اُنھیں زندگی سے بیزار کرنے کی مذموم کوششوں میں مصروف رہتا۔ ان کے ہراساں شب و روز کو دیکھ کرایسا محسوس ہوتا تھا کہ یہ سب نا ہنجار اس بات پر متفق تھے کہ ان کی مجنونانہ زندگی میں رنگینیاں ان کی توقع سے کہیں کم ہیں۔ شراب اور شباب سے ہمہ وقت نشاط حاصل کرنے کے ارمان ان کی کرگسی آنکھوں سے رواں ہونے والی فاسد جوئے خوں میں بہہ گئے۔ حیف صد حیف انھوں نے اپنی زندگی میں راجا اِندر اور راسپوٹین بننے کا جو پُر آشوب اور نجس خواب دیکھا تھا وہ شرمندۂ تعبیر تو نہ ہو سکا البتہ اس منحوس خواب کو اس قدر لائق تعزیر قرار دیا گیا اور سب لوگ سنگِ ملامت لیے ان پر ٹُوٹ پڑے۔ دنیا والوں کی اس شقاوت سے ان درندوں کا دل ہی ٹُوٹ گیا اور صبر کا دامن ہاتھ سے چھُوٹ گیا۔ مہ جبینوں سے ان کی سیکڑوں ملاقاتیں رہیں لیکن اس کے باوجود یہ ہر قحبہ خانے اور چنڈُو خانے کو حسرت بھری نگاہ سے دیکھتے اور بے اختیار پُکار اُٹھتے یہ کوئی عریانی سی عریانی ہے ساتھ ہی انھیں اپنے گھر کی یاد ستانے لگتی جہاں کے بے تاب حسین اور منہ زور شباب کی مالک الہڑ دوشیزائیں اور زہرہ جبیں مکین خر مستی کے عالم میں بندِ قبا باندھنے کے تکلف سے بے پروا اپنی دل نشیں نگاہوں کے تیروں سے تماشائیوں کو گھائل کر دیتے اور تابِ نظارہ رکھنے والے کسی جنسی جنونی کو یہ شکوہ نہ رہتا کہ اچھا مال الگ باندھ کر نہاں کر دیا گیا ہے۔

اپنی عملی زندگی میں کڑما بھٹیارا، زاہد ا لُدھڑ، رنگا اور آسفاگرگٹ کے مانند رنگ بدلنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے۔ یہ بھڑوے اپنی طوائف بیویوں کے سامنے چُلّو میں اُلّو بن کر اپنی انا اور ضمیر کا گلا گھونٹ کر زر، زن، مال و دولت اور جنس و جنوں کی خاطر ہر قبیح ہتھکنڈہ اپناتے اور بے غیرتی اور بے ضمیری کی مجسم تصویر بن کر ہر طرف ہنہناتے پھرتے۔ اپنے دکھاوے کے نام نہاد شوہروں کی بے حسی کو دیکھ کر یہ طوائفیں تکبر کے باعث حسن کی دیویاں بن بیٹھیں اور اُلفت اور چاہت کا جواب بھی یہ کراہت اور حقارت آمیز بے وفائی کی صورت میں دیتی تھیں۔ بے وفا اور ہر جائی حسین زندگی کی یہ تلخ حقیقت اکثر فراموش کر دیتے ہیں کہ ہر ابن الوقت، طالع آزما، بے وفا اور ہوس کا مارا ہرجائی مہم جُو حسین جب چڑھتے سورج کی پُوجا کرنے لگتا ہے تو کہیں نہ کہیں سے کوئی دوسرا مہ جبیں نمودار ہو کر اس کی جگہ لے لیتا ہے۔ وقت کے دریا کی طغیانی اور پیہم روانی میں کوئی بند حائل نہیں ہو سکتا۔ جب نالوں کو گزرنے کے لیے راہ نہ ملے تو یہ نالے اس شدت سے چڑھتے ہیں کہ سب کچھ بہا لے جاتے ہیں۔ سیلِ زماں کی مہیب موجیں جس طرف اُٹھتی ہیں، راستے ان کی قدم بوسی کے لیے آگے بڑھتے ہیں۔ عطر بیز ہوائیں، دل آویز صدائیں، وسعت افلاک، عشاق کاسینۂ صد چاک اور آب و گِل کا یہ کھیل دلوں کے میل ملاپ اور نگار دل کی نمو سے وابستہ ہے۔ دل کے کھلنے اور مرجھانے کا فکر و خیال سے گہر ا تعلق ہے۔ دل ٹوٹ جائے تو اس کے ساتھ ہی شہر کا شہر سائیں کرتا محسوس ہوتا ہے اور اس کے ساتھ ہی آرزوؤں اور امنگوں کے شگوفے بھی مرجھا جاتے ہیں۔ مسلسل شکستِ دل کے باعث یہ بھڑوے ان طوائفوں سے مایوس ہو تے چلے جا رہے تھے۔ ان طوائفوں کی بیٹیاں بھی اب جوانی کی حدود میں قدم رکھ چکی تھیں اور اپنی ماؤں کی تقلید کر رہی تھیں۔

چرخ ابلق ایام پر سوار تیزی سے راہِ جہاں سے گزر جاتا ہے اور کسی کو کانوں کان خبر بھی نہیں ہوتی کہ اس کے لمحات اب بیت چُکے ہیں۔ کڑما بھٹیارا، زاہد ا لُدھڑ، رنگا اور آسفاکی کتابِ زیست سے شباب کا باب اپنے اختتام کو پہنچا تو انھیں اس بات کا شدت سے احساس ہوا کہ اب تو بھری دنیا میں کوئی ان کا پُرسان حال ہی نہیں رہا۔ سب سے بڑھ کر المیہ یہ ہوا کہ ان کی بیٹیاں بھی اب ان سے دُور رہتیں اور ان سے دامن بچا تی رہتیں۔ ان نو جوان لڑکیوں کا یہ خوف و اندیشہ بے جا بھی نہ تھا کیونکہ ان بھڑووں کی آنکھ میں سور کا بال تھا اور یہ ہر حسینہ کو بُری نظر سے دیکھتے تھے۔ نفرتو ں اور حقارتوں کے تیر کھا کر جب کڑما بھٹیارا نے پلٹ کر دیکھا تو اس کی اہلیہ اور بد نام طوائف گُلو اپنی دو نوجوان بیٹیوں کو ساتھ لیے اس کا منہ چڑا رہی تھی اور اس نے اپنے لیے نیا شریکِ حیات چُن لیا تھا۔ زاہد ا لُدھڑ کو بھی یہ دن دیکھنا پڑا کہ اس کی بیوی ظِلو اور اُس کی تین نوجوان بیٹیوں نے اس پر تین حرف بھیجے اور ایک معمر مگر بے حد متمول شخص سے پیمانِ وفا باندھ کر اس کے گھر جا بسی۔ تحرو جو ایک زمانے میں رنگا کو دیکھ دیکھ کر جیتی تھی اب اس سے اتنی متنفر اور ناخوش و بیزار ہوئی کہ اسے اپنی زندگی سے نکال باہر کیا اور اپنی چار حسین و جمیل جوان بیٹیوں کو ساتھ لیے منشیات کے ایک سمگلر کے ساتھ عہدِ وفا استوار کر لیا۔ آسفا جو صبو کا دیوانہ تھا صبو کی بے وفائی کے باعث وہ بھی عالمِ پیری میں دماغی توازن کھو بیٹھا اور فقیروں کے بھیس میں دربہ در اور خاک بہ سر مارا مارا پھرتا تھا۔ صبو نے جب آسفا کی ہئیتِ کذائی دیکھی تو اس نے بھی ہر اعتبار سے ناکارہ آسفا سے جان چھُڑا لی اور اپنی پانچ نو جوان بیٹیوں کو اپنے رنگ میں رنگ کر کالا دھن کمانے اور خرچی سے تجوری بھرنے کی خاطر ایک ڈاکو کو شریک حیات اور شریکِ جُرم بنا لیا اور شہر کے ایک خوش حال علاقے میں رقصِ مے، ساز کی لے اور جنس و جنون کی نئی داستانیں رقم کرنے کا کریہہ سلسلہ شرو ع کر دیا۔ ماضی کی جسم فروش رذیل طوائفیں سب کی سب نائکہ کے روپ میں اپنا مکروہ دھندا بدستور چلا رہی تھیں۔ سینہ چاکانِ چمن سے ملنے کی خاطر ہر شہرسے لا تعدادسینہ چاک کچے دھاگے سے کھنچے چلے آتے تھے۔ نصف صدی قبل کی ان حریص، ہوس کی ماری، بے حیا اور ضمیر فروش طوائفوں کی مشکوک نسب کی چندے آفتاب اور چندے ماہتاب بیٹیاں ہی اب ان حرام خوروں کے لیے، ان کے نئے بے غیرت شوہروں کے لیے اور نو دولتیوں کے لیے دلی عیش و نشاط اور بے خودی کا وسیلہ تھیں۔ ان پُرانی پیشہ ور اور بدنام طوائفوں نے اپنے نئے شکار اس عیاری سے اپنے دام میں پھنسالیے کہ اپنے نئے اور پُر تعیش گھروں کو قحبہ خانوں میں بدل دیا۔ خرچی کی فراوانی نے ان طوائفوں کے نئے گھروں کو ایسے عشرت کدوں میں بدل دیا تھا جہاں سب مست شرم و حیا کو بارہ پتھر کر کے، بندِ قبا سے بے نیاز جی بھر کر دادِ عیش دیتے تھے۔ ان معمر بدنام طوائفوں کی نوجوان بیٹیاں بھی اپنی ماؤں سے آگے نکل گئیں اور اپنے سو پُشت کے پیشے سے جنسی جنون اور لُوٹ مار کی انتہا کر دی۔ ماضی کے وہ بے غیرت اور بے ضمیر بھڑوے جو کبھی ان طوائفوں کے شوہر کہلاتے تھے تھے اب ان کے لیے کھوٹے سکے بن چُکے تھے۔ دُور ویرانوں اور جنگلوں میں اپنی کمین گاہوں کے ان نا ہنجار مکینوں نے کئی کمینوں سے مل کر نئے شکار پھانسنے کے لیے نئے جال تیار کیے۔ کہتے ہیں جب چور کے اعضا مضمحل ہو نے لگتے ہیں اور عناصر میں اعتدال عنقا ہو جاتا ہے تو جسمانی کم زوری کے باعث وہ چوری کرنے کے قابل تو نہیں رہتا لیکن عیاری اور سادیت پسندی جو اس کی گھُٹی میں پڑی ہوتی ہے اس سے وہ باز نہیں آتا۔ اسی طرح بھڑوے بھی بھیڑئیے کے مانند ہوتے ہیں جب ان کے منہ کو خون لگ جائے تو پھر ان کی خون آشامی کی لت کبھی نہیں چھُوٹتی۔ بھڑوے بھی سادیت پسندی کے روگ میں مبتلا ہوتے ہیں ان کو چھیڑنا تو بِھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈالنے کے مترادف ہے۔ اپنے گھٹیا اور مذموم مقاصد کی تکمیل کی خاطر بھڑوے خست و خجالت کی انتہائی پستی تک جانے پر ہمہ وقت اُدھار کھائے بیٹھے رہتے ہیں۔ ہوسِ زر اور سادیت پسندی کے مریض کڑما بھٹیارا، زاہدا لُدھڑ، رنگا اور آسفا اگرچہ فلکیات، نجوم، رمل، قیافہ شناسی، دست شناسی اور جادو ٹونے کی ابجد سے بھی واقف نہ تھے اس کے باوجود ان جعل سازوں نے اپنے مکر کی چالوں سے سادہ لوح لوگوں کو لُوٹنے کے لیے عجیب و غریب سوانگ رچا رکھے تھے۔ بھگوا الفا پہنے یہ تارک الدنیا سادھو خو دکو عامل اور نجومی ظاہر کرتے۔ گنڈے اور جادو ٹونے کی آڑ میں یہ بے غیرت اور بے ضمیر بھڑوے ذلت اور تخریب کے انتہائی قبیح دھندے میں مصروف تھے۔ اس منحوس اور مکروہ دھندے میں انھیں جن پرانے آشنا چہروں اور دیرینہ رفیقوں کی آشیر باد حاصل تھی ان میں گُلو، ظِلو، تحرو اور صبو شامل تھیں۔ بدلتے ہوئے حالات اور نئی ضروریات کے تحت نئے گھر بسانے کے باوجود ان جسم فروش رذیل طوائفوں نے اپنے سابقہ شریکِ جُرم ساتھیوں سے کاروباری تعلقات بر قرار رکھے۔ یہ بات کسی با شعور شخص سے پوشیدہ نہ تھی کہ یہ سب عیار بھڑوے اور بد نام طوائفیں ایک ہی تھالی کے چٹے بٹے ہیں اور کچھ عرصے سے ان کی الگ راہیں بھی مصلحت کی وجہ سے ہیں ورنہ ان کی منزل ہمیشہ کی طرح اب بھی ایک ہی ہے۔ اپنی آنکھوں پر ٹھیکری رکھے وہ اس منزل کی جانب ہنہناتے ہوئے بگٹٹ بھاگے چلے جا رہے تھے جہاں کالے دھن کی چکا چوند عقل و خرد کو تہس نہس کر کے اقدار و روایات کو ملیا میٹ کرنے اور شرم و حیا کا سفینہ غرقاب کرنے کی کوششیں صبح و مسا جاری رہتی تھیں۔ جانگسل تنہائی اور سناٹوں کے صحرا اور سرابوں کے عذابوں سے ملحق یہ تباہ کن منزل جنسی جنون، لُوٹ مار اور ہوسِ زر تھی اور اس منزل کی جستجو میں ذہنی افلاس کے مارے یہ سب چکنے گھڑے وادیِ حسن و رومان کو مستانہ وار طے کرنے میں بہت بے حسی، سفاکی ڈھٹائی، بے ضمیری اور بے غیرتی کا مظاہر کر رہے تھے۔ سماجی اور معاشرتی زندگی میں تمناؤں کی زخم خوردہ بے شمار مصیبت زدہ عورتیں اپنے زخموں کے اندمال اور درد کے درماں کی خاطر بڑی توقعات لے کر ان کے پاس آتیں مگریہ ننگِ انسانیت درندے نہ صرف ان کو زر و مال سے محروم کر دیتے بل کہ اُن کی متاعِ عصمت و ناموس بھی لُوٹ لیتے اور ان کو دردِ لا دوا دے کر کُو بہ کُو رسوائی اور جگ ہنسائی کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور کر دیتے۔

گردشِ حالات نے عجب گُل کِھلایا ان چاروں عیاروں کی کمین گاہ نے راجا اِندر کے اکھاڑے کی شکل اختیار کر لی۔ انھوں نے عملیات اور ٹونے کا جو ڈھونگ رچایا تھا وہ سادہ لوح لوگوں کی توہم پرستی کے باعث بے حد مقبول ہونے لگا۔ بنارس کے گردو نواح اور پُورے ملک سے ضعیف الاعتقاد لوگوں کا یہاں تانتا بندھا رہتا۔ اچانک ایک تبدیلی یہ رونما ہوئی کہ ان سب ننگِ انسانیت درندوں کی شکلیں مکمل طور پر بگڑ گئیں۔ آسفا کا حلیہ لنگور سے مشابہ تھا اور وہ خود کو ہنومان جی کا چیلا ظاہر کرتا تھا۔ اس نے سنجیونی بوٹی سے علاج کا سلسلہ شروع کر دیا۔ اس کے دوسرے جرائم پیشہ ساتھیوں کی شکل بھی بدل گئی، کڑما بھٹیارا نئے روپ میں سگِ آوارہ بن گیا تھا، نئی صورت میں رنگا اب ریچھ کی شکل میں موجود تھا جب کہ زاہد ا لُدھڑ کی شکل جنگلی سور میں بدل گئی تھی۔ بعض لوگوں کا خیال تھا کہ ان سب ضمیر فروش عیاروں نے اپنے چہرے پر خوف ناک درندوں اور جنگلی جانوروں کے مکھوٹے چڑھا رکھے ہیں لیکن ان درندوں کی شکلیں دیکھ کر اس بات کا پُختہ یقین ہو جاتا کہ شاید اجلاف و ارذال کی مشکوک نسب کی اولاد یہ بد بخت متفنی اور سفاک چیرہ دست سفہا فطرت کی سخت تعزیروں کی زد میں آ چُکے ہیں اور یہ عجیب الخلقت مسخرے عبرت کا نشان بن گئے تھے۔

سیلِ زماں کے مہیب تھپیڑے کرو فر اور جاہ جلال کی سب کرشمہ سازیوں کو خس و خاشاک کے مانند بہا لے جاتے ہیں۔ آئینۂ ایام کی ادائیں، گردشِ لیل و نہار کی رِدائیں اور کردہ گناہوں کی عبرت ناک سزائیں جب کسی شخص کے لیے پیہم جفائیں بن جائیں تو خواہ وہ شترِ بے مہار پر بھی سوار ہو اور اس کا رعب و دبدبہ جہاں گیر ہی کیوں نہ ہو، ایک خارش زدہ سگِ راہ بھی اس کا عناں گیر ہو سکتا ہے اور اُس مُوذی کی اِس طرح ٹانگ کھینچتا ہے اور ایذا پہنچاتا ہے کہ اسے نانی کے ساتھ ساتھ چھٹی کے دودھ کی یاد بھی ستانے لگتی ہے۔ نوشتۂ تقدیر کے مسموم اثرات، گردشِ حالات کی اس ستم ظریفی اور ابن الوقت عناصر کی اس سفلگی کو کیا نام دیا جائے کہ جب عیش و طرب کے متوالوں کو ہوش آتا ہے تو یہ دیکھ کر ان کے ہوش اُڑ جاتے ہیں کہ ان کا زمانہ تو کب کا بیت چکا ہے، پُلوں کے نیچے سے آبِ رواں اب بہہ کے ان کی دستر سے دُور نکل گیا ہے۔ اپنے شہرِ آرزو اور نگارِ دل ستاں کے اُجڑنے پروہ تنہا آنسو بہاتے ہیں اور آہیں بھرتے ہیں۔ آئینہ ء ایام میں اپنے اعمال کا جائزہ لینے کے بعد یہ حقیقت روز روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ کوئی شخص بھی اپنی شدید تمنا اور دلی آرزو کے باوجود بیتے ہوئے لمحات اور آب رواں کے لمس سے از سرِ نو کسی طرح بھی فیض یاب نہیں ہو سکتا۔ ان درندوں کی داشتاؤں اور بیگمات بھی آشوبِ زمانہ سے بچ نہ سکیں۔ گُلو، ظِلو، تحرو اور صبو چاروں طوائفوں کی شکلیں بُری طرح مسخ ہو گئیں۔ اب وہ ڈائنوں اور چڑیلوں کے روپ میں عبرت کا نشان بن چُکی تھیں۔ ایک زمانہ تھا کہ ان طوائفوں کے ہزاروں شیدائی انھیں دیکھ دیکھ کر جیتے تھے، وقت نے ایسی کروٹ لی کہ اب یہی طوائفیں سانس گِن گِن کر زندگی کے دن پورے کر رہی تھیں لیکن کوئی ان کا پرسان حال نہ تھا۔ صدائے جرس کے فریب میں وہ اب تک اپنے ماضی کے شیدائیوں اور حسن کے پرستاروں کی راہ دیکھتی تھیں مگر جان لیواسکوت کے صحرا میں ان قسمت سے محروم ماضی کی حسیناؤں کے نالہ، فریاد، آہ اور زاری پر کوئی توجہ نہ دیتا تھا۔ اپنی آہ و فغاں کی نامرادانہ باز گشت ان طوائفوں پر لرزہ طاری کر دیتی۔ لوگ جب انھیں دیکھتے تو خوف کے مارے ان کی گھگھی بندھ جاتی اور کم سِن بچے چیختے چلاتے ہوئے اپنی ماؤں کے سینے سے چمٹ جاتے۔ جب کوئی بچہ شرارت کرتا تو اس کی ماں اسے خبردار کرتی اور کہتی کہ اگر اس نے پھر کوئی غلط حرکت کی تو اسے گلو، ظلو، تحرو یا صبو کے سامنے پھینک دے گی۔ یہ سنتے ہی شریر بچہ ڈر جاتا اور آئندہ کے لیے شرارت سے باز آ جاتا۔ یہ راز تو سب پر کھُل چکا تھا کہ اپنی اصلیت کے اعتبار سے زندگی بھی ایک ادق، غیر مانوس اور بیرونی دنیا کی زبان کے مانند ہے، جس کی معنویت تک رسائی ہر شخص کی دسترس میں نہیں۔

کڑما بھٹیارا، زاہد ا لُدھڑ، رنگا اور آسفا نے اس ویرانے میں واقع کھنڈر میں ہنومان، خمریات کے دیوتا اور حسن و رومان کی دیوی کے مجسمے بھی نصب کر رکھے تھے۔ یہ چاروں ساتھی سنجیونی بُوٹی، آبِ حیات اور عرقِ شفا اپنے کھنڈر میں تیار رکھتے اور آنے والوں کو بھاری قیمت پر فروخت کرتے تھے۔ جلد ہی یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح ہر طرف پھیل گئی کہ ہنومان، خمریات کے دیوتا اور حسن و رومان کی دیوی کے چرنوں میں بیٹھ کر تپسیا کرنے والے یہ سیلانی جو گی اور تارک الدنیا سادھو اب گیانی سنت بن چکے ہیں۔ اب شیرِ قالی ہیں اور ان کی زبان کالی ہو چُکی ہے اور ان کے منہ سے نکلنے والی ہر بات کالنقش فی الحجر ثابت ہوتی ہے۔ انھوں نے نہ صر ف اپنے ہم زاد کو اپنا تابع کر رکھا ہے بل کہ بے شمار آدم خور، پریاں، دیو، جن، بھوت، ڈائنیں اور چڑیلیں بھی ان کے ایک اشارے پر ہر کام کرنے کو تیار ہیں۔ نوجوان عورتیں روزانہ بہت بڑی تعداد میں اس کھنڈر میں پہنچتیں اور مورتیوں کے سامنے جسم و جاں کے سب فسانے کھول کر رکھ دیتیں۔ اس کے ساتھ ہی قیمتی ملبوسات، زر و مال اور ہیرے جواہرات بھی ان مورتیوں پر نچھاور کرتیں اور مجاوروں کو بھی راضی کرتی تھیں۔ یہ نا ہنجار اس موقع سے فائدہ اُٹھاتے اور اپنی ہوس اور جنسی جنون کی تسکین کی صورت تلاش کر لیتے۔ حیران کن بات یہ تھی کہ اس ویرانے میں جرائم پیشہ افراد بھی پناہ گزین تھے۔ ان میں رہزن، چور، اچکے، ٹھگ، اٹھائی گیرے، کرائے کے قاتل اور اجرتی بد معاش شامل تھے۔ اس کھنڈر میں لوگوں نے کئی بار کان کٹے، سر کٹے، اور ناک کٹے آدم خور بھی دیکھے جو دنیا و ما فیہا سے بے خبر مُردار خوری میں مصروف رہتے تھے۔ کھنڈر کا ماحول انتہائی پر اسرار تھا، اس میں ماضی کے جو مُردے بھی دیکھے گئے انھوں نے ذلت عام اور فنائے دوام کے دربار میں انتہائی پست اور قابلِ نفرت مقام حاصل کیا۔ ان میں راسپو ٹین، راجا اِندر، رابن ہُڈ، ڈائر، میر جعفر، میر صادق، راجا داہر، ہیمو بقال، پر تھوی راج، نعمت خان کلانونت، لال کنور، زہرہ کنجڑن، انار کلی، دلآرام، نادر شاہ درانی، نمرود، فرعون، نظام سقہ اور سلطانہ ڈاکو شامل تھے۔ ماضی میں نامرادانہ زیست کرنے والے ان مُردوں سے ان بھڑووں کی رازدارانہ ملاقاتوں کا سلسلہ ہمیشہ جاری رہتا تھا۔ ان میں سے ہر ایک مُردے کی زندگی کا پُر درد افسانہ عبرت کا تازیانہ تھا۔ رسوائے زمانہ ڈاکو زاہد ا لُدھڑ نے اپنے خاندان کے قریبی عزیز اور جرائم پیشہ مہمان سلطانہ ڈاکو سے کہا:

’’تمھاری زندگی اور آج کی زندگی میں کیا فرق ہے ؟تم نے ڈکیتی کی وادیِ پُر خار میں قدم کیوں رکھا ؟‘‘

سلطانہ ڈاکو نے خنجر لہراتے ہوئے کہا ’’ میری جنم بھومی اتر پردیش ہے یہیں میری آنول نال گڑی ہے۔ ہماری زندگی کی ڈکیتیوں اور آج کی ڈکیتیوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ ہم امیروں کے گھروں میں ڈاکہ ڈالتے اور اس طرح لُوٹا ہوا سامان مفلس و قلاش فاقہ کش لوگوں میں تقسیم کر دیتے تھے لیکن آج کے ڈاکو تو غریبوں، مظلوموں اور محروموں کو لُوٹ کر اپنی اور اپنے امیر سر پرستوں کی تجوریاں بھرتے ہیں۔ میں بچپن میں پڑوسیوں کے گھر سے مرغی کا ایک انڈہ چُرا کر لایا۔ میری ماں نے چوری کا وہ انڈہ مرچ، مصالحے اور دیسی گھی ڈال کر تل کر پراٹھے کے ساتھ مجھے کھلایا۔ چوری کا یہ انڈہ کھا کر مجھے بہت مزہ آیا بس یہیں سے چوری کرنے کی لت پڑ گئی اور کسی نے مجھے کبھی نہیں ڈانٹا۔ لُوٹ مار اور قتل و غارت کے ذریعے جب منہ کو خون لگ جائے تو پھر اس سے چھٹکارا حاصل کرنا ممکن ہی نہیں۔ ‘‘

رابن ہڈ نے بندوق کی نالی کو چُوم کر کہا ’’میں نے بنک لُوٹنے سے اپنے دھندے کا آغاز کیا۔ بلا امتیاز امیروں اور غریبوں سب کے خون سے ہولی کھیلی اور ہر ڈکیتی میں کشتوں کے پشتے لگا دئیے مگر ڈکیتی، آبروریزی اور خونریزی کی ہر واردات کے بعد قانون کی گرفت سے محفوظ رہا۔ میں نے نہ صرف اپنی تجوری بھری بل کہ قانون کے محافظو ں کو بھی راضی کیا۔ جنگل کے قانون کے مطابق مجبوروں کے چام کے دام چلائے۔ اگر کسی نے میرے خلاف زبان کھولنے کی کوشش کی تو میں نے اس کی زبان گدی سے کھینچ لی۔ یہی میری دہشت، قوت اور ہیبت کا راز تھا کہ میں نے فسطائی جبر کا ہر انداز اپنایا اور دکھی انسانیت پر عرصۂ حیات تنگ کر دیا۔ ‘‘

سلطانہ ڈاکو نے آہ بھر کر کہا’’ تم حاکم قوم کے ڈاکو تھے اس لیے کوئی تمھارا بال بیکا نہ کر سکا جب کہ میں محکوم اور مظلوم قوم سے تعلق رکھتا تھا۔ تمھارے آقاؤں نے کِشتِ دہقاں اور تخت و تاج تک لُوٹ لیے اس کے باوجود وہ معزز ٹھہرے۔ وہ تاجر کے روپ میں آئے اور تاج ور بن بیٹھے، ہزاروں لوگوں کو ان سفاک قاتلوں نے موت کے گھاٹ اتار دیا مگر کسی طرف سے ان کی اس ڈکیتی اور قتلِ عام کے خلاف کوئی احتجاج نہ ہوا۔ ایک ڈاکے کی واردات میں مجھے سے ایک شخص مارا گیا تو مجھے 7جولائی 1924کو تختۂ دار پر لٹکا دیا گیا مگر کوئی آنکھ نم نہ ہوئی۔ سب پتھر بن گئے نہ کسی نے دامن چاک کیا اور نہ ہی کسی نے بال کھولے۔ میرے ہاتھ میں تیشۂ زر ہوتا تو میرے ہاتھ میں بھی انصاف کا پتھر آ جاتا۔ ‘‘

زاہد الُدھڑ نے دُم ہلاتے ہوئے سلطانہ ڈاکو سے مخاطب ہو کر کہا’’سنا ہے تم نے پھانسی سے پہلے اپنی ماں سے آخری ملاقات کے دوران اپنی ماں کے کان میں سرگوشی کرتے وقت اس ضعیفہ کا کان کاٹ کر چبا ڈالا تھا۔ کیا حالات کی سنگینی نے تمھیں حرام خور کے ساتھ ساتھ آدم خور بھی بنا دیا تھا۔ ‘‘

’’ہاں یہ بات بالکل صحیح ہے۔ ‘‘سلطانہ ڈاکو نے اپنے بد وضع دانت پیستے ہوئے کہا ’’میں نے اپنی ماں کے کان میں یہ بات سرگوشی کے انداز میں کہی تھی کہ اگر اس نے مجھے بچپن میں پہلا انڈہ چُرا کر لانے پر روکا ہوتا تو میں کبھی حرام خور، چور، اچکا، ڈاکو یا قاتل نہ بنتا۔ اس کے ساتھ ہی میں نے اپنی ماں کے وہ کان کُتر لیے جنھوں نے میرے خلاف کی جانے والی ہر سچی بات سُنی ان سُنی کر دی اور میری اصلاح پر کبھی توجہ نہ دی۔ ‘‘

’’تمھاری بات درست ہے۔ ‘‘رابن ہُڈ نے کہا ’’کاش ہر ماں اپنی اولاد کی تربیت پر توجہ دے تا کہ اس کی اولاد غلط ڈگر پر نہ چل سکے۔ میرا نسب بھی مشکوک تھا اور میری تربیت میں بھی خامی رہ گئی تھی جس کی وجہ سے میں نے ہوس، جنسی جنون اور قتل و غارت کی انتہا کر دی۔ ‘‘

ڈائر نے یہ باتیں دُم دبا کر اور کان ہلا کر سُنیں اس کے بعد اس نے اپنا خون آلود جبڑا اپنی متعفن آستین سے صاف کیا اور کفن پھاڑ کر یوں ہرزہ سرائی کی ’’میں نے جلیاں والا باغ میں نہتے عوام کے خون کی ہولی کھیلی اس کے بعد مجھے انعام اور اعزاز سے نوازا گیا۔ ‘‘

’’یہ وقت وقت کی بات ہے اور قسمت کے کھیل ہیں۔ ‘‘نظام سقہ بولا’’ ہر دور میں تم جیسے خونخوار درندوں کو حکومتی آشیر باد حاصل ہوتی ہے، اس لیے تم شیدی فولاد خان کوتوال اور نعمت خان کلانونت کی طرح قانون کی گرفت سے بچ جاتے ہو۔ میں نے بھی پُورے برِ صغیر پر حکومت کی لیکن میرے بہم رسانیِ آب کے منصوبوں کو طاقِ نسیاں کی زینت بنا دیا گیا ہے۔ ہائے وہ دور کہاں سے لاؤں ؟اب سقے، ماشکی، مشکیں، پنگھٹ، پنہاریاں، گھڑے اور گھڑونچیاں، تہذیب و ثقافت کے قدیم آثار تاریخ کے طوماروں میں دب گئے۔ ہم سقوں سے کج ادائی مت کرو جب ظالم لوگ تمھاری مُشکیں کس کے تمھیں نارِ نمرود میں پھینکیں گے اور تم پیار سے ہمیں مدد کے لیے پُکارو گے تو ہم پانی سے مشکیں بھر کر لائیں گے اور تمھیں اس دنیا میں آتشِ انتقام کے دوزخ میں جلنے سے بچائیں گے۔ ‘‘

یہ سُن کر سب مُردے قہقہے لگانے لگے اور کھنڈر کی بھٹیوں میں کشید کی جانے والی دیسی شراب انسانی کھوپڑیوں میں ڈال کر پینے میں مصروف ہو گئے۔

کئی بار تاریک راتوں میں اس کھنڈر میں لیلیٰ، سسی، لال کنور، زہرہ کنجڑن، سوہنی، صاحباں اور شیریں کو بھی دیکھا گیا۔ ماضی کی رومانی داستانوں کے یہ کردار یہاں اکثر آتے اور اپنے حالِ زبوں کی روداد بیان کر کے بے مہریِ عالم کے واقعات کی جانب توجہ مبذول کراتے۔

جب سسی نے پنوں کا ذکر کیا تو وہ فرطِ غم سے نڈھال تھی، اس نے گلو گیر لہجے میں کہا ’’ ہوس کے مارے ہوئے یہاں کے کٹھور جنسی جنونی بھنبھور کو ویران کر دیتے ہیں، سوہنی کو چناب کی طوفانی لہریں بہا لے جاتی ہیں، شیریں کو جوئے شِیر کا فریب نگل لیتا ہے، صاحباں کو مرزا کی ہوس نے منتقم بنا دیا، لال کنور اور زہر ہ کنجڑن کے لیے جہاں دار شاہ کے کینہ پرور جا نشین اجل کا پروانہ ساتھ لائے اور لیلیٰ جو مجنوں کی تلاش میں نکلی تھی اسے نجد کے صحرا نے زینہ ء ہستی سے ایسے اُتارا کہ اس کا کہیں اتا پتا نہ ملا۔ وقت کا یہ کمینہ پن نہیں تو اور کیا ہے کہ ہر سینہ میں کینہ بھرا ہے اور بے لوث محبت عنقا ہو چکی ہے۔ ‘‘

لال کنور نے کہا ’’میں وہ طوائف ہوں جس نے مغل شہنشاہ جہان دار شاہ کے عہد میں ملکۂ ہند کے منصب تک رسائی حاصل کی اور شاہی خزانے پر ہاتھ صاف کیا۔ ہر طوائف کو اپنے مستقبل کی خاطر نگاہ بلند رکھنی چاہیے۔ جب لوگ ہماری عزت و آبرو لُوٹ لیتے ہیں تو ہمیں بھی ان کی دولت لوٹنے کا حق حاصل ہے۔ ‘‘

یہ باتیں سن کر سب لوگ محوِ حیرت تھے کہ زمانے کے حالات نے کیا رخ اختیار کر لیا ہے۔

ان چاروں طوائفوں کی شامتِ اعمال مسلسل ان کے تعاقب میں تھی۔ آخر وہ لمحہ آ پہنچا جب ان طوائفوں کی نوجوان بیٹیوں نے اپنی ان ضعیف و ناتواں ماؤں کو جن کی شکلیں مسخ ہو چُکی تھیں، جُوتے مار مار کر اپنے عشرت کدوں سے نکال دیا۔ صبو کی بڑی بیٹی غصے سے آگ بگولا ہو گئی اور اپنی ماں اور اس کی ہم جولیوں کو غلیظ گالیاں دیتے ہوئے بولی:

’’تم نے ہمیں برباد کر دیا اور ہمیں اسی راہ پر لگا دیا جس پر تم زندگی بھر چل کر ذلت، رسوائی، تخریب، بے برکتی اور نحوست کا نشانہ بنیں۔ تم نے ہماری زندگی کے ساتھ کھلواڑ کیا۔ ‘‘

’’ہم نے تم پر کبھی کوئی جبر نہیں کیا، تمھیں اختیار تھا کہ تم ہماری بات نہ مانتیں اور اپنی مرضی سے اپنی پسند کے مطابق اپنے لیے الگ راستے کا انتخاب کر لیتیں۔ ‘‘ظلو نے مگر مچھ کے آنسو بہاتے ہوئے کہا ’’عیش و عشرت اور زر و مال کی ہوس نے تمھیں اندھا کر دیا تھا، اس لیے تم نے اپنی مرضی سے طوائف کے پیشے کا انتخاب کیا اور جی بھر کر لوٹ مار کی۔ ‘‘

’’میں تمھارے ساتھ وہی سلوک کروں گی جو سلطانہ ڈاکو نے پھانسی سے پہلے اپنی ماں سے کیا تھا۔ ‘‘ظلو کی بیٹی نے کہا ’’تم جہاں جاؤ گی دو طرفہ ندامت اور پورے علاقے کی لعنت و ملامت تمھارا تعاقب کر ے گی۔ تم ڈائنیں اور چڑیلیں بن چُکی ہو اب ہماری نظروں سے دُور ہو جاؤ۔ ہمیں تمھارے سائے سے بھی نفرت ہے، ہماری تباہی میں تمھار ا برابر کا حصہ ہے۔ تم جیسی ماں کے نقشِ قدم پر چلنا مکمل انہدام اور ذلت و رسوائی کی تاریک راہوں اور نا گہانی موت کی بھیانک وادیوں میں لے جاتا ہے۔ ‘‘

’’ منہ سنبھال کر بات کرو، چھاج تو بولے مگر چھلنی کیوں بولے جس میں سیکڑوں چھید ہیں۔ اپنی اصلیت کو فراموش نہ کرو اور اپنی اوقات میں رہو، ‘‘ظلو نے زخمی ناگن کی طرح پھن لہرا کر کہا’’ تم سب کے ساتھ تمھارے باپ وہی سلوک کر چکے ہیں جو غلام قادر روہیلہ نے شاہ عالم کی بیٹیوں کے ساتھ کیا تھا۔ تمھارے باپ نے تو غلا م قادر روہیلہ کو بھی مات دے دی اور تمھاری عزت و آبرو بھی محفوظ نہ رہنے دی۔ ہم پر اُنگلی اُٹھانے سے پہلے اپنے گریبان میں تو جھانک لو۔ تُف ہے ایسی سوچ پر۔ ‘‘

یہ سننا تھا کہ ان ضمیر فروش رذیل طوائفوں کی جسم فروش بیٹیاں ان پر جھپٹیں اور ان کو بُر ی طر ح زدو کوب کیا اور اپنے عشرت کدوں سے نکال باہر کیا۔

چاروں ضعیف طوائفیں اپنا دامن جھاڑ کر اشک بار آنکھوں سے اپنی بیٹیوں کے گھر سے باہر نکلیں۔ ان کی پیش رو آزمودہ کار طوائفیں جو بات کہا کرتی تھیں کہ طوائف کا بُڑھاپا اس کے لیے نِرا سیاپا اور عذاب ہوتا ہے اس لیے ہر جسم فروش طوائف کو یا تو عہدِ شباب ہی میں عدم کے کُوچ کے لیے رختِ سفر باندھ لینا چاہیے یا اپنے لیے کسی معتمد رفیقِ سفر کا انتخاب کر لینا چاہیے جو پریشاں حالی اور درماندگی میں اس کا سہارا بن سکے۔ عالمِ پیری میں طوائف کی زندگی کا سفر تو اُفتاں و خیزاں کٹ جاتا ہے لیکن آلامِ روزگار کی صعوبتوں کے باعث اس کا پُورا وجود کرچیوں میں بٹ جاتا ہے۔ اپنی نا مرادانہ زیست کا سفر طے کرنے کے لیے ان طوائفوں کو کچھ زادِ راہ الگ سے باندھ کر رکھ لینا چاہیے تھا ورنہ زندگی کی تمام رُتیں آج یوں بے ثمر نہ ہوتیں۔ اب انھیں اس بات کا پُختہ یقین ہو چکا تھا کہ ان کا عہد اپنے اختتام کو پہنچ چکا ہے، سب بلائیں تمام ہو چکی ہیں اب تو صرف مرگِ نا گہانی کا انتظار ہے۔ اب پچھتائے کیا ہو سکتا تھا اب تو ان کی اپنی پروردہ نمک حرام چڑیوں نے ان کی اُمیدوں کی فصل غارت کر دی تھی اور ان کی صبح و شام کی محنت اکارت چلی گئی تھی۔ یہ لاغر طوائفیں جب اپنی سابقہ چھوڑی ہوئی منزل اور مسافت کو یاد کرتیں تو ان کی آنکھیں بھیگ بھیگ جاتیں۔ ان کے دل کی ویرانی کا یہ حال تھا کہ اب تو ان کے کشکول میں کوئی بھیک ڈالنے پر بھی آمادہ نہ تھا۔ حالات کے جان لیوا ستم سہہ کر انھوں نے گوشۂ عافیت کی تلاش میں اسی ویرانے کا رُخ کیا جہاں ان کے پُرانے آشنا بھڑوے ڈیرہ ڈالے نئے سوانگ رچا کر بیٹھے تھے۔

آشوبِ زمانہ کے ہاتھوں خوار و زبوں ماضی کی بدنام جسم فروش طوائفیں گُلو، ظِلو، تحرو اور صبو چیتھڑوں میں ملبوس در بہ در اور خاک بہ سر ہو گئیں۔ جون کا مہینہ تھا اور منگل کا دن تھا، سورج سوا نیزے پر آ چکا تھا۔ تپتے صحرا میں ہر طرف خارِ مغیلاں بکھرے تھے جن کی زباں پیاس سے سُوکھ گئی تھی، ان آبلہ پا طوائفوں کی صحرا نوردی سے بے شمار خارِ مغیلاں اپنی دیرینہ پیاس بجھانے کے قابل ہو گئے۔ خار دار جھاڑیوں کو ہٹاتے ہٹاتے ان طوائفوں کی اُنگلیاں فگار ہو چُکی تھیں، مضمحل اور لاغر جسم چھلنی ہو گیا تھا۔ چار میل کی کٹھن مسافت طے کرنے کے بعدسہ پہر کے وقت جب وہ اپنے پُرانے بھڑوے رفیقوں کی کمین گاہ میں پہنچیں تو پیاس کی شدت اور سفر کی صعوبت کے باعث وہ نیم جان تھیں۔ ان طوائفوں نے جن چیتھڑوں سے اپنا تن ڈھانپ رکھا تھا وہ پسینے اور خون کے دھبوں سے اس قدر بد وضع اور متعفن ہو چکا تھا کہ پاس کھڑے لوگوں کے لیے سانس لینا دشوار تھا۔ زاہد ا لُدھڑ برف میں لگی صراحی ء مے لیے آگے بڑھا اور اس نے مے ارغوانی سے ان طوائفوں کی خوب تواضع کی۔ وہاں موجود سب رندوں نے شراب سے لبا لب بھرے کے کئی پیالے یکے بعد دیگرے غٹا غٹ اپنے بھاڑ جیسے حلق میں اُنڈیل لیے۔ آسفا نے اپنی سفاکی کا نشانہ بننے والے مقتولین کے کاسۂ سر میں اپنی دیرینہ ساتھیوں کو ما اللحم سہ آتشہ پلایا۔ کڑما بھٹیارا جو حرام خور بن چکا تھا ان رذیل طوائفوں کے لیے سگِ آوارہ کی رانیں بھون کر لایا۔ سگانِ راہ کی بھُنی ہوئی گرما گرم رانیں دیکھ کر سب باؤلے عیاشوں اور پیشہ ور بد معاشوں کے منہ میں جھاگ بھر گیا۔ رنگا بھلا کب پیچھے رہنے والا تھا، وہ آگے بڑھا اور اس نے اپنی پرانی داشتاؤں کے سامنے رنگ رنگ کے پھلوں کے ڈھیر لگا دئیے جن میں ڈیہلے، پیلوں، حنظل، تربوز، خربوزہ، آم، انگور، خوبانی، آلو بخارہ، لوکاٹ، لیچی، آڑو اور انناس شامل تھے۔ کافرستان اور قزاقستان سے اندرون ملک پھل لاد کر لے جانے والے ٹرک ڈرائیور رات کے وقت خارستان ہوٹل پر قیام کرتے۔ اُچکوں، بد معاشوں اور رہزنوں کا یہ ٹولہ یہ پھل اکثر خارستان ہوٹل پر کھڑے ٹرکوں سے لُوٹ کر لاتا تھا یا ٹرک ڈرائیور بھتہ کے طور پر انھیں پھلوں کی ٹوکریاں دے کر ان مفت خور، لیموں نچوڑ بے غیرتوں اور بے ضمیروں سے اپنی جان چھڑاتے۔ اس پُر تکلف ضیافت میں جو طعام ملا اسے ڈکارنے کے بعد طوائفوں کی جان میں جان آئی۔ زاہد ا لُدھڑ چار قیمتی ساڑھیاں لایا جو اس نے اپنی ہوس کا نشانہ بننے والی اور زندگی کی بازی ہارنے والی حسیناؤں کی لاشیں بوری میں بند کر کے ٹھکانے سے پہلے اس مقصد سے اپنی تحویل میں لے لی تھیں کہ کسی نو خیز حسینہ کو تحفہ دے کر اسے فریب دیا جا سکے۔ عملیات اور جادو ٹونے کی غرض سے قیمتی زنانہ ملبوسات بڑی تعداد میں ان درندوں نے سادہ لوح عورتوں سے بٹور کر سنبھال رکھے تھے۔ ان طوائفوں نے پانی کے تالاب کا رخ کیا، وہاں چلو میں پانی بھر کر اس میں ڈوب مرنے کے لیے نہیں بل کہ نہا کر کپڑے بدل کر بننے سنورنے کی غرض سے وہ وہاں پہنچی تھیں۔ وہ سب ماضی کی بھولی ہوئی داستان آج رات پھر سے دہرانے کی بے تاب تمنا سے سرشار تھیں۔

شام کے سائے گہرے ہو رہے تھے، اندھیرے بڑھنے لگے چراغ جل رہے تھے اور ساتھ ہی طوائفوں کے غم بھی خوشی میں ڈھل رہے تھے۔ ظلو نے اپنے نیم عریاں لباس سے سب کو حیرت زدہ کر دیا۔ یہاں پہنچ کر وہ قدرے سکون محسوس کر رہی تھی، وہ بولی:

’’ یہاں تو جنگل میں منگل کا سماں ہے اور ساری تھکن دُور ہو گئی ہے۔ حسن اور رومان کی شکتی بہت قوی اور دل کش ہوتی ہے لیکن سمے کی دیمک نہایت خاموشی سے اسے کھاتی رہتی ہے اور ایک وقت ایسا بھی آتا ہے جب پیمان وفا کا سر بہ فلک نخلِ تناور گھائل ہو کر دھڑام سے زمیں بوس ہو جاتا ہے۔ اب ہم سایہ طلب یہاں پہنچے ہیں، آلامِ روزگار کی دھوپ نے ہمیں جھلسا دیا ہے۔ اپنے برہنہ سر پر تمھارے خیال کی ردا اوڑھے ہم تو کانٹوں پر چل کے یہاں آئے ہیں۔ تنہائیوں کا زہر پی کر ہم نیم جاں ہو گئے ہیں، تم لوگوں نے ہمارے بعد زندگی کا سفر تنہا کیسے کاٹا؟‘‘

صبو نے اپنے چہرے پر اس طرح لیپا پوتی کی کہ ماضی کی یادیں تازہ ہو گئیں۔ اس نے مگر مچھ کے آنسو بہاتے ہوئے کہا’’ بے رحم وقت کے قاتل تیشوں نے ہماری روح کو زخم زخم اور دل کو کرچی کرچی کر دیا ہے۔ ہمارے وہ شیدائی جو ہمیں دیکھ کر زندگی بسر کرتے تھے ایسے غائب ہوئے ہیں جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ تم ہمیں اس قدر یاد آئے کہ اب تو دل کی نازک رگیں ٹُوٹ پھُوٹ کا شکار ہیں اور ہم چراغِ سحری ہیں۔ ہمیں اپنے ہاں پناہ دو تا کہ ہم اپنی آخری ہچکی تمھاری آغوش میں لے سکیں۔ یہ تو بتاؤ کہ ہمارے بعد تم نے اپنی جانگسل تنہائیوں کے زہر کا تریاق کیسے تلاش کیا؟‘‘

زاہد ا لُدھڑ غرایا ’’ہمارا دل کر توڑ کر تم نے تو قصرِ غیر میں ڈیرے ڈال دئیے تھے۔ ہم نے اپنی زندگی کا سفر تنہا کیسے کاٹا تمھیں اس سے کیا ؟ تم بگولے کی طرح اُٹھیں اور گرد کی طر ح بیٹھ گئیں، اب یہی گرد راہ تمھاری مانگ میں ہے۔ تم نے یہاں آنے میں بہت دیر کر دی کاش تم نے شام کے وقت ڈُوبتے ہوئے خورشیدِ جہاں تاب کی حالت پر دھیان دیا ہوتا۔ چڑھتے سورج کی پرستش کرنے والے موقع پرستوں کو یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ ہر چڑھتا ہوا سورج بالآخر غروب بھی ہوتا ہے۔ اب تو بہت جلد تمھاری زندگی کی شام ہونے والی ہے جو تمھاری زندگی کے منحوس ایام کے سب عقدے کھول رہی ہے۔ ‘‘

آسفا دُم ہلاتے ہوئے ہرزہ سرا ہوا ’’ہم تمھیں سایہ کیسے فراہم کریں ہم تو خود گندگی اور کُوڑے کے ڈھیر سے زندگی بھر مفادات کے استخواں نوچتے رہے ہیں۔ آلامِ روزگار کی چلچلاتی دھوپ میں ہماری اُمیدوں کے سب نہال تو کب کے پامال ہو چُکے ہیں۔ نخیلِ زیست کی چھاؤں عنقا ہے اور دل کے گلشن میں اثمار و اشجار کا کہیں اتا پتا نہیں ملتا۔ ہماری زندگی کے بے آب و گیاہ ریگستان میں سرابوں کے جان لیوا عذابوں کے سوا کیا رکھا ہے ؟فلسفہ اور منطق میں میری مہارت اور میری کمالِ نے نوازی میرے کسی کام نہ آئی۔ حسن پرستی ہمارا شیوہ تھا جب کہ تم سب مشتاقِ جفا تھیں اور سادیت پسندی اور محسن کُشی تمھاری گھُٹی میں پڑی تھی۔ زاہد ا لُدھڑ سچ کہتا ہے کہ ہم نے تنِ داغ داغ لُٹا دیا ہے ہماری خاک میں اب کچھ بھی باقی نہیں بچا۔ تمھارے گھروں اور ہمارے بھرو ں میں بہت فرق ہے۔ ‘‘

’’یہ گھروں اور بھروں والی بات میں نہیں سمجھ سکی۔ ‘‘صبو نے اپنے خضاب آلود بھیانک سیاہ بالوں اور کالے چہرے پرہاتھ پھیرتے ہوئے کہا’’ تم ہر بات میں فلسفہ اور منطق کی دُور کی کوڑی کیوں گھسیٹ لاتے ہو ؟تمھارے جیسے جاہل جب وقت کے حادثے کے نتیجے میں اپنی جہالت کا انعام پا لیتے ہیں تو رواقیت کے داعی بن بیٹھتے ہیں۔ تمھاری مثال اجلاف و ارزال کی اولاد اس متفنی چور کی ہے جو ضعیفی کے باعث چوری تو نہیں کر سکتا لیکن اپنی گھُٹی میں پڑی ہیرا پھیری سے باز نہیں آتا۔ ‘‘

’’ تم میرے منہ لگ رہی ہو !مشکوک نسب کی رذیل جسم فروش طوائف تمھاری یہ جسارت ناقابلِ برداشت ہے۔ ‘‘تم نے کالے دھن سے اپنے گھروں کو زمین کے اوپر تعمیر کر رکھا ہے اور ان کو رنگ و روغن کے ذریعے سجایا ہے جو دور سے بہت خوب صورت دکھائی دیتے ہیں لیکن ان کے اندر جا بہ جا اطراف و جوانب سے آنے والی گندگی اور غلاظت کے ڈھیر لگے ہیں۔ ہم نے چوری اور ڈکیتی کے مال سے اپنے بھروں کو ایک سرنگ کی شکل میں ویران کھنڈرات میں زمین کے نیچے تعمیر کیا ہے جو عام لوگوں کی آنکھوں سے اوجھل رہتے ہیں۔ تم چونکہ ر وشنیِ چشم اور دلِ بینا سے محروم ہو اس لیے تمھاری بند آنکھوں پر تو نمودِ سحر کے ادراک کا بھی کوئی امکان نہیں۔ ‘‘

ایک عادی دروغ گو اور بد نا م جسم فروش رذیل طوائف کی حیثیت سے ظِلو نے بھیگی بلی کی طرح کھمبا نوچتے ہوئے کہا ’’ میرے خیال میں زاہد ا لُدھڑ اور آسفا جیسے مہا بھڑوے اور سبز قدم کسی بھی معاشرے اور سماج کے لیے ننگِ وجود، نا سور اور زمین کا بوجھ ثابت ہوتے ہیں۔ ایسے ننگِ انسانیت درندے انسانی ہمدردی، خلوص و دردمندی اور تہذیب و شائستگی سے کوسوں دُور ہوتے ہیں۔ ہماری بھر پُور جوانی میں ہماری جاری خرچی کی دھوم سُن کر ہر طرف سے بے شمار مست کچے دھاگے سے کھنچے چلے آتے تھے، ہمارا رقص، سریلے گیت اور جسم کی رعنائی اور دل کشی پتھروں کو بھی موم کر دیتی تھی اور کئی ابلیس نژاد درندے ہمارے زیرِ دام آ گئے۔ یہ ہمارے مقسوم اور گردشِ افلاک کی بات ہے کہ اب عالمِ پیری میں ہمارے دوا علاج پر اُ ٹھنے والے بھاری خرچے دیکھ کرسب خسیس شُوم، رئیس اور ڈُوم اچانک معدوم ہو گئے ہیں۔ ہند اور سندھ کے ہر نو جوان کی راہ میں ہم نے کاروباری تقاضوں کے عین مطابق خندہ پیشانی سے بلا امتیاز اپنا جسم اور دیدہ و دِل فرشِ راہ کر دیا اور جنسی جنونیوں کی خدمت میں کوئی کسر اُٹھا نہ رکھی۔ ہمیں ایسا متعفن اور گندا ماحول ملا جس کے مسموم اثرات نے ہمیں سدا پراگندہ روزی اور پراگندہ دل رکھا۔ جب ہمارے تمام اعضا مضمحل ہو گئے اور عناصر میں اعتدال نہ رہا تو ہمیں گھر سے ایسے نکال دیا گیا جیسے دودھ سے مکھی نکال دی جاتی ہے۔ اس وقت ضعیفی کے عالم میں ہمیں خدمت کی ضرورت پڑی تو سب عیاش طوطا چشم بن گئے اور ہمارے ہزاروں پرستاروں نے آنکھوں پر ٹھیکری رکھ لی۔ سچ تو یہ ہے کہ طوائف کے حسن و جمال کی سب چکا چوند شباب کی ابتدا تک ہے، اس کی انتہا کی خبر لانے والا کوئی نہیں ہوتا۔ اور تو اور ہماری کوکھ سے جنم لینے والی ہماری بیٹیوں نے بھی ہمیں غلیظ گالیاں دیں اور جُوتے مار مار کر ہمیں ادھ موا کر دیا۔ وہ یہ بات کبھی فراموش نہ کریں کہ ایک جسم فروش طوائف کی مثال بھی ققنس کی سی ہے۔ جب ایسی طوائف مر جاتی ہے تو اس کی راکھ سے ایک نئی طوائف جنم لیتی ہے جو اس کی تقلید کرتے ہوئے اس کے مکروہ دھندے کو جاری رکھتی ہے۔ ایسا نہیں کہ ہم مر جائیں گے تو ظالم دنیا والے ہمیں بھُلا ہی دیں گے بل کہ ہمارے پرستار ہماری جنسی خدمات کی گواہی دیں گے۔ ‘‘

گُلو نے مکار لومڑی کی طرح اپنے عفونت زدہ خون آلود دانت نکال کر کہا ’’تم بھڑووں نے ہمیں ہند اور سندھ کا مورا بنا دیا۔ نہایت بے دردی سے ہمارے سودے کیے، ہمارا نرم و نازک حسین جسم منشیات کے عادی گھٹیا عیاشوں کے ہاتھ بھاری قیمت میں نیلام کیا مگر اس کے عوض ہمیں بہت کم خرچی ادا کی، تم نے ہمارا استحصال کیا ا ور خرچی کی ڈھیروں دولت خرد برد کر لی۔ تمھارے بھیجے ہوئے زمانے بھر کے خون آشام کرگس مسلسل ہمارے جسم کو نوچتے اور بھنبھوڑتے رہے، ہماری شہ رگ کا خون پیتے رہے اور ہمارے جسم سے خون کا آخری قطرہ تک نچوڑتے رہے، یہاں تک کہ ہماری ہڈی پسلی ایک کر دی۔ اب تو ہم یہاں سے کہیں نہ جائیں گے، اس لیے کہ شامتِ اعمال کے باعث تمھاری طرح ہماری بھی شکل مسخ ہو گئی ہے اور دیکھنے والے ہمیں ڈائنیں اور چڑیلیں سمجھتے ہیں۔ یہیں پہ مرنا ہی اب ہماری زندگی کی آخری تمنا ہے۔ ‘‘

کڑما بھٹیار کڑیالہ چباتے ہوئے ہنہنایا ’’تمھیں تو کوئی پُوچھتا تک نہ تھا، یہ ہم تھے کہ جو تمھارے پرستاروں کی تلاش میں خجل ہوتے پھرتے تھے۔ ہم نے ہمیشہ تمھارا بچا کھچا کھانا زہر مار کیا اور اپنی انا پر وار

کیا۔ تمھاری بے وفائی اور کج ادائی پر زار رونا ہمارا معمول بن گیا۔ تم اب آئے ہو جب تمھاری اپنی بیٹیوں نے بھی تمھیں دھتکار دیا ہے۔ تف ہے ایسی سوچ پر، اب ہمیں تم سے کوئی دلچسپی نہیں۔ ‘‘

’’ہمیں بھی اب کسی سے کوئی دلچسپی نہیں۔ ‘‘ ظِلو نے اپنی کٹی ناک میں اُنگلی ٹھونستے ہوئے کہا ’’یہ سچ ہے کہ ہماری بیٹیوں نے ہمیں جُوتے مار کر گھر سے نکالا۔ ان لڑکیوں کے باپ کا نام کسی کو معلوم نہیں لیکن تم نے بھی انھیں اپنی مجنونانہ ہوس کا نشانہ بنا کر پنا منہ کالا کیا۔ وہ وقت دُور نہیں جب ان نو جوان طوائفوں کو سمے کے سم کے ثمر کامسموم ماحول اسی حال کو پہنچائے گا جس میں ہم پہنچ چکے ہیں۔ ہم اپنے کیے پر نادم ہیں اور آج سے پھر ہماری راہیں اور منزل ایک ہے۔ ‘‘

’’تو آج سے ہم بھی پھر سے تمھارے خادم ہیں۔ ‘‘زاہد ا لُدھڑ نے اپنے کٹے ہوئے کان اور کٹی ہوئی ناک کھجاتے ہوئے اور چڑیل ظِلو سے بے اختیار لپٹتے ہوئے کہا ’’ہم سب مِل کر آخری سانس تک زندگی کی رعنائیوں سے فیض یاب ہو ں گے۔ اے میرے ہم پیشہ، ہم مشرب، ہم راز اور ہم نوالہ و ہم پیالہ ساتھیو!اب دیر نہ کرو اپنی ان قدیم داشتاؤں اور ماضی کی حسیناؤں کو شتابی سے اپنے گلے لگا لو۔ ستاروں کی چال اور وقت کے وبال کو سمجھو۔ ‘‘

یہ سنتے ہی کڑما بھٹیارا نے گُلو کو، رنگا نے تحرو کو اور آسفا نے صبو کو گلے لگا لیا اور ایک دوسرے کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے ویران کھنڈر میں واقع اپنے اپنے چار ہزار سال پرانے فن تعمیر کی نشانی زیرِ زمین غار نما بھروں اور چنڈو خانوں کی جانب چل دئیے۔ ہر طرف سناٹا تھا راستے کے دونوں طرف انسانی کھوپڑیاں اور انسانی ہڈیاں بکھری پڑی تھیں۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ یا تو دستِ قضا نے ہاتھوں میں درانتی سنبھال رکھی ہے اسی لیے تو سروں کی فصل سے کھلیان پٹ چُکے ہیں یا یہاں آدم خور قبیلے رہتے ہیں جن کی خون آشامی کا واضح ثبوت ہر طرف بکھرے ہوئے انسانی استخواں ہیں۔ جلد ہی سب درندے اپنے بھروں میں داخل ہو گئے ان بھروں میں سونے چاندی اور ہیرے جواہرات کے انبار لگے تھے جنھیں دیکھ کر طوائفوں کی آنکھیں کھُلی کی کھُلی رہ گئیں اور وہ للچائی ہوئی نظروں سے اس پر تعیش مقام کو دیکھنے لگیں۔

اگلی صبح اس کھنڈر میں ایک دعوت کا اہتمام کیا گیا۔ اس دعوت میں بے شمار مُردے، جن، بھوت، چڑیلیں، دیو اور آدم خور موجود تھے۔ دعوت میں جو عجیب الخلقت مخلوق موجود تھی اسے دیکھ کر لرزہ طاری ہو جاتا تھا۔ اچانک ایک طرف سے آدم خوروں کو ایک ٹولہ نمودار ہوا جو بُلند آواز سے پُکار رہا تھا :

’’آدم بُو! آدم بُو!آدم بُو ‘‘

آدم خوروں کے اس گروہ کے سردار کے منہ سے خون بہہ رہا تھا۔ اس نے للکار کر کہا ’’ہم ابھی تین گدھوں کا ناشتا کر کے آئے ہیں۔ ہم آدم خور ہیں لیکن گردشِ فلک نے ہمیں مردار خور، گدھا خور اور سگ خور بنا دیا ہے۔ گزشتہ شام سے ہمیں یہاں سے آدم بُو آ رہی ہے۔ یقیناً یہاں تمھارے علاوہ کچھ نئے انسان موجود ہیں وہ ہمارے حوالے کر دو ورنہ جنگ ہو گی۔ ‘‘

کڑما بھٹیارا جو سگِ آوارہ، زاہد ا لُدھڑ اب جنگلی سور، رنگا اب ریچھ اور آسفا لنگور کی شکل میں وہاں موجود تھے۔ انھوں نے بہ یک زبان کہا:

’’ہماری سابقہ بیویاں اور بدنام طوائفیں ہمارے بھروں میں موجود ہیں۔ ‘‘

’’انھیں پکڑ کر یہاں پیش کیا جائے۔ ‘‘آدم خور قبیلے کے سردار نے کہا ’’آج کی دعوت ان کے گوشت سے ہو گی۔ ‘‘

چار چڑیلیں جنھوں نے اپنے کریہہ چہرے پر بھبھوت مَل رکھے تھا تیزی سے بھروں سے ان طوائفوں کو گھسیٹتے ہوئے آدم خوروں کے سردار کے سامنے لائیں۔ اگرچہ ان طوائفوں کی شکلیں بُری طرح مسخ ہو چُکی تھیں اور یہ چڑیلوں اور ڈائنوں کا روپ دھار چُکی تھیں لیکن انھوں نے اپنے چہرے کی جس طرح لیپا پوتی کی تھی اور آنکھیں اُلّو کی آنکھ کے کاجل سے کالی کر رکھی تھیں، ہاتھوں اور پیروں پر بھیرے کی مہندی لگا رکھی تھی اور ہونٹوں پرسرخی لگا رکھی تھی اس سے یہ تاثر ملتا تھا کہ ان کے دل میں ابھی جنس و جنون کی ہوس اور وصل کی تمنا چٹکیاں لے رہی ہے۔

کریہہ شکل کی ان طوائفوں کو دیکھ کر آدم خور قبیلے کا سردار بولا ’’تم کون ہو اور یہاں تم کس کی اجازت سے آئی ہو۔ جنگل کے قانون کے تحت آدم خوروں اور مردار خوروں کی اس بستی میں کوئی انسان میری اجازت کے بغیر قیام نہیں کر سکتا۔ ‘‘

’’ہم پر رحم کیا جائے اور ہماری جان بخشی کی جائے۔ ‘‘چاروں طوائفوں نے بہ یک آواز اپنے سابقہ شوہروں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ’’یہ ہمارے پرانے جیون ساتھی ہیں۔ شہر میں واقع اپنے گھروں سے بے نیلِ مرام نکلنے کے بعد ہمیں اپنی چھوڑی ہوئی منزل یاد آئی اور اس وقت ہم نے اپنے ان سابقہ شوہروں کے بھروں میں پناہ لے رکھی ہے۔ ‘‘

آدم خوروں کے سردار نے قہر بھری نگاہوں سے ان چاروں بھڑووں کو دیکھا اور کہا’’ یہ چاروں تو عرصہ ہوا خود کو آدم خور اور مردار خور ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اور اپنے آپ کو ہمارے خونخوار قبیلے کا فرد ظاہر کرتے ہیں۔ اگر ان میں سے کوئی تمھاری جان بخشی کی التجا کرے گا تو وہ اپنی جان سے جائے گا۔ ‘‘

یہ سنتے ہی یہ چاروں بھڑوے مل کر بولے ’’ہمارا تو ان طوائفوں کے ساتھ اب سرے سے کوئی تعلق ہی نہیں رہا، یہ جھوٹ بول رہی ہیں۔ ہم نے انھیں ہر گز پناہ نہیں دی، یہ تورات کو ہمارے بھروں میں خود گھس گئی تھیں۔ ان جسم فروش رذیل طوائفوں نے تو طویل عرصہ قبل ہم سے ناتہ توڑ لیا تھا۔ یہ کڑی سزا کی مستحق ہیں۔ ‘‘

آدم خور قبیلے کے سردار نے طوائفوں کی طرف اشارہ کر کے آدم خوروں سے کہا ’’آدم کے طعام کا پہلا مرحلہ شروع کیا جائے۔ ‘‘

یہ سننا تھا کہ سب آدم خور چڑیلیں اور بھوت ان طوائفوں پر ٹُوٹ پڑے۔ طوائفوں کی آہ و فغاں پر کسی نے توجہ نہ دی اور پلک جھپکتے میں آدم خور ان رذیل طوائفوں کا خون پی کر گوشت ہڑپ کر گئے۔

’’اب آدم کے طعام کا دوسرا مر حلہ شروع ہو گا۔ ‘‘آدم خور قبیلے کے سردار نے کہا ’’یہ عادی دروغ گو، پیمان شکن، بگلا بھگت اور عیار کڑما بھٹیارا، زاہد ا لُدھڑ، رنگا اور آسفا ہمیشہ گرگٹ کی طرح رنگ بدل لیتے ہیں۔ رات انھوں نے اپنی چھوڑی ہوئی قبیح منزل کو سینے سے لگانا اور اپنا تھُوکا ہو ا چاٹنا پسند کیا، اب انھیں اس عیاری، مکاری اور غداری کا سبق سکھانا ضروری ہے۔ اب دیر نہ کرو اور جی بھر کر ان فربہ درندوں کے جسم کے بخیے ادھیڑ دو اور ان کا چربیلا گوشت مزے سے کھاؤ کھاؤ۔ جن طوائفوں نے ان بھڑووں کو پائمال اور خوار و زبوں کیا اور انھیں اپنے گھرو ں سے بے گھر کیا یہ مسخرے انھیں پھر سے اپنے بھروں میں لے گئے اور گلچھرے اُڑاتے رہے۔ بے ضمیری، بے غیرتی، بے حسی، عیاری، مکاری، غداری اور نمک حرامی کی سزا مرگِ مفاجات کے سوا اور کیا ہو سکتی ہے۔ ‘‘

یہ حکم سنتے ہی سب آدم خوروں نے ان چاروں مسخروں کی تکا بوٹی کر دی اور ہر طرف ان کا خون بہنے لگا جسے آدم خوروں نے فوراً اپنی زبان سے چاٹ لیا۔ سب آدم خوروں نے ان فربہ بھڑووں کا گوشت پیٹ بھر کر کھایا۔ تمام آدم خوروں کے چہرے اس بے تکلفانہ ماحول میں پُر تکلف ضیافت میں چربیلا گوشت کھانے کے بعد اطمینان سے کِھل اُٹھے۔ ان چاروں منحوس بھڑووں اور جنسی جنونی مسخروں کے بھروں میں موجود سیم و زر کے زیورات ہیرے، جواہرات اور زر و مال کے انبار دیوزادوں اور بھوتوں نے اُٹھائے اور گہرے سمندر میں غرقاب کر دئیے۔

٭٭٭

تشکر: مصنف جنہوں نے فائلیں فراہم کیں

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید