FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

دھڑکنوں کا رقص

 

 

مائرہ مشتاق

 

 

 

ڈاؤن لوڈ کریں

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل

 

 

زندگی میں پہلی دفعہ وہ گھر سے اتنے دور اکیلے سفر کر رہی تھی۔  اس نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ اس کے خوابوں کو اس طرح سے تکمیل مل جائے گی۔  جہاں ایک طرف زندگی اسے خوش کن باغ دکھا رہی تھی تو دوسری طرف خوف کی لہر نے اسے اپنی لپیٹ میں لیا ہوا تھا۔  اسے جو کچھ ملنے جا رہا تھا اس کا سوچ کر ہی اس کی آنکھوں کے گوشے بھیگنے لگے اور آنسو کی ایک بوند اس کے گلابی چہرے کو تر کر گئی۔ ۔ ۔

اس نے بیگ سے ٹشو نکالا اور اپنا چہرہ خشک کیا۔  بہت سی نظروں نے اس کے چہرے کا تعاقب کیا۔ وہ بہت خائف ہو گئی۔  اس کا دل چاہا کہ کاش وہ واپس اسی نگری میں لوٹ جائے جہاں اس کے بابا جان ہیں لیکن منزل کے اتنے قریب آ کر اسے واپسی کے راستے دھندلے محسوس ہونے لگے ۔ ۔

————————–

رات کا آخری پہر تھا۔  سامنے ایک بوسیدہ عمارت تھی جہاں پر ہر روز جانے کتنی ہی کلیوں کو نوچا جاتا تھا۔  بدن سے گوشت کے ساتھ ساتھ روح نوچنے والے اس پہر بھی یہاں موجود تھے ۔  اسی عمارت کے کونے میں ایک ہال نما کمرہ تھا جہاں محفل جمی ہوئی تھی اور ہر عمر کے مرد حضرات موجود تھے جن میں اکثر تو نشے میں تھے ۔  پیروں میں گھنگھرو باندھے ۔ چہرے پر گھونگھٹ سجائےاور ہونٹوں پر تبسم سجائے شیبا کا رقص جاری تھا۔  جب سے شیبا نے کوٹھے پر قدم رکھا تھا تب سے یہاں تو ہر دوسرے دن اس کا مجرا ہوتا ۔  اس نے آتے ہی سب کو اپنا دیوانہ بنا دیا تھا- اس کی ویران آنکھوں میں جھانکنے والا آج بھی موجود تھا لیکن وہ خوابوں کی دنیا میں رہنے والی لڑکی نہیں تھی۔  اس نے بہت سی طوائفوں کے خوابوں کے محل کو ٹوٹتے دیکھا تھا۔  مگر دل تھا کہ بے قرار ہو رہا تھا۔ ۔ ۔ ۔  پیاس تھی کہ بجھ نہیں رہی تھی۔ ۔ ۔ ۔  تشنگی تھی کہ بڑھ رہی تھی۔ ۔ ۔

————————-

ذمل شاہ صاحب کی اکلوتی صاحبزادی تھی۔  شاہ صاحب ہنزہ سے تعلق رکھتے تھے اور اپنے علاقے میں ان کا خاص مقام تھا۔  ان کی حویلی پر ہر وقت عقیدت مندوں کا ہجوم ہوتا تھا جو اپنی مرادیں لے کر آتے اور کوئی بھی عقیدت مند خالی ہاتھ نہ لوٹتا۔  شاید اسی لئے آپ پر اللہ کا بڑا کرم رہتا۔

ذمل کو بچپن سے ہی فائن آرٹس کا شوق تھا اسی لئے وہ ہمیشہ ہی گھر میں کچھ نہ کچھ جدت ضرور لاتی رہتی۔ ۔ ۔  کبھی پورے گھر کے پردے کارپٹ بدلوا دیتی تو کبھی کوئی ڈیکوریشن آئیٹمز بنا دیتی۔ ۔ ۔ ۔

ذمل نے اپنی سہیلی پری کی مدد سے مانچیسٹر سکول آف آرٹس میں آن لائن اپلائے کیا۔  اسے کامل یقین تھا کہ وہاں اس کو داخلہ نہیں ملے گا مگر شاید قسمت اس پر مہربان تھی اسی لئے چند روز میں ہی اسے بذریعہ ای میل داخلے کی اطلاع موصول ہوئی جس کے مطابق اگلے چند روز میں اسے تمام تر فارمیلٹیز کے ساتھ ساتھ فیس بھی جمع کروانی تھی ورنہ اس کی جگہ کسی اور کا نام آ جاتا۔  فیس کا تو خیر کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ سارا مسئلہ تو شاہ صاحب کی اجازت کا تھا۔  اسے لگا کہ اگر شاہ صاحب کو خبر ملی تو وہ اسے کبھی بھی اتنے دور نہیں بھیجیں گے مگر اس کے بات کرنے پر معاملہ برعکس نکلا۔  شاہ صاحب کو ذمل پر بہت فخر ہونے لگا اور انہوں نے خوشی خوشی اسے اجازت دے دی اور اسی خواب کی تکمیل کے لئے وہ مانچسٹر روانہ ہو رہی تھی۔ ۔ ۔ ۔

————————

ذمل ٹشو بیگ میں واپس رکھ رہی تھی کہ اچانک ایک مردانہ آواز اس کی سماعتوں سے ٹکرائی۔

"لگتا ہے آپ کو گھر کی یاد ستا رہی ہے ۔  اس طرح رونے سے سفر کیسے کٹے گا۔ ” آواز میں اتنی اپنائیت تھی کہ ذمل کو وہ اجنبی کوئی بہت قریبی لگنے لگا۔

"اب ہر کوئی آپ کی طرح تو نہیں ہوتا۔ ” کانچ کی گڑیا نے جواب دیا۔

"بائے دا وے آئی ایم ارش مصطفیٰ فرام کراچی اینڈ یو؟؟ ” سوال پوچھنے والا جواب کا منتظر تھا مگر کوئی جواب نہ آیا۔ ۔ ۔ ۔

چند لمحوں بعد ذمل نے گلا کھنکارا اور جواب دیا "ذمل فرام ہنزہ”

"اوہ واؤ ہنزہ از مائے ڈریم پلیس” ارش کی آنکھوں کی چمک ذمل نے محسوس کی اور اس نے مسکرانے پر ہی اکتفا کیا۔

"آپ کو شاید کوئی جوک یاد آ گیا ہے مجھے بھی بتائیں ناں مس ذمل۔ ” ارش شرارت کا عنصر لئے ہوئے تھا۔

"جب خواب تکمیل کے مرحلے پر ہوں تو مسکان اپنا راستہ بنا لیتی ہے مسٹر ارش۔ ” ذمل نے سنجیدگی سے جواب دیا۔

” کیا آپ اپنے خواب شیئر کرنا پسند کریں گی؟؟” ارش کو اس معصوم لڑکی کے خوابوں تک رسائی حاصل کرنا تھی۔

"کیا ہم ایک دوسرے کو جانتے ہیں مسٹر ارش۔ ؟؟ ذمل اس سے بیزار آ چکی تھی اس لئے سوال پر سوال کیا۔

"Maybe in future if you allow”

ارش مسکراہٹ دبا کر بولا۔

"اب اگر آپ نے ایک لفظ بھی بولا ناں تو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ” ذمل کا پارہ ہائی ہو گیا تھا۔  اس کے ساتھ بیٹھا شخص اس کی برداشت سے باہر تھا۔  اس نے خونخوار نظروں سے اسے دیکھا۔  وہ ابھی اور بہت کچھ کہنا چاہتی تھی مگر ان آنکھوں کی نمی دیکھ کر خاموش ہی رہی۔

اس کے بعد ارش نے معذرت کی اور کرب سے آنکھیں میچ لیں ۔  وہ نہیں جانتا تھا کہ یہ لڑکی چھوٹے سے مذاق کو اس قدر سنجیدگی سے لے گی۔  باقی کا سفر بہت خاموشی سے طے ہوا اور پتا ہی نہیں چلا کب مانچیسٹر ائرپورٹ آ گیا۔

ذمل ائرپورٹ سے سیدھی اپنے مطلوبہ ہاسٹل کے لیئے روانہ ہو گئی۔  شاہ صاحب نے پہلے سے ہی ڈرائیور کا انتظام کر رکھا تھا۔  اپنے شہر سے باہر جانا تو کوئی بڑی بات نہیں تھی البتہ سات سمندر پار وہ پہلی مرتبہ آئی تھی۔  وہ ڈر رہی تھی کہ پتہ نہیں ہاسٹل کس طرح کا ہو گا اور یہاں کے لوگ کس طرح کے ہوں گے ۔  پورے راستے وہ یہی سب سوچتی رہی اور کب ہاسٹل آیا پتا ہی نہیں چلا۔  اسے تب ہوش آیا جب ڈرائیور نے ہارن دے کر اسے متوجہ کیا۔  وہ اپنا سامان لے کر اتری اور کافی دیر بت بنی کھڑی ہاسٹل دیکھتی رہی۔  اس کے اندر خوف کی لہر نے پھر سے سر اٹھانے کی کوشش کی مگر اس نے اسے کچل دیا اور اندر کی جانب بڑھ گئی۔  اپنا کمرہ ڈھونڈنے میں اسے دس منٹ لگے اور بالآخر وہ کمرے میں پہنچ ہی گئی۔  اپناسامان رکھنے کے بعد وہ شاور لینے چلی گئی اور جب واپس لوٹی تو وہاں ایک اور لڑکی کو پایا۔  وہ کافی خوش شکل لڑکی تھی۔  اس نے مسکرا کر اپنا تعارف کروایا۔

"ہائے ذمل میں مسکان ہوں اور میں انڈیا سے ہوں ۔  ہم دونوں یہ روم شیئر کریں گے ”

"تم یہ بتاؤ کہ میرا نام کیسے جانتی ہو۔ ۔ ؟؟” ذمل نے سرد مہری سے پوچھا۔

"وہ میں تمہارے آنے سے پہلے ہی الاٹمنٹ لسٹ دیکھ چکی ہوں اور کافی دنوں سے تمہارا انتظار کر رہی تھی۔ ” مسکان کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ ۔

"اچھا سہی ہے مجھے کچھ دیر سونے دو۔ پہلے ہی بہت تھک چکی ہوں ۔ ” ذمل نے سنجیدگی سے کہا۔  مسکان کو ذمل کے اس رویے سے بہت تکلیف پہنچی ۔  اس نے سوچا تھا کہ آج کی رات وہ دونوں اپنے اپنے شہر کی باتیں کریں گی مگر ان بھوری آنکھوں والی لڑکی نے تو کچھ دیر بھی اس سے بات کرنا مناسب نہ سمجھا مگر اس نے سوچ لیا تھا کہ ان بھوری آنکھوں والی لڑکی سے وہ دوستی ضرور کرے گی۔

————————–

ہم نے دیکھا تھا فقط شوق کی خاطر

یہ نہ سوچا تھا کہ تم دل میں اتر جاؤ گے

اتنے لمبے سفر کے بعد وہ کافی تھک گیا تھا اور سونا چاہتا تھا مگر نیند اس کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔  اس کی آنکھوں میں ایک ہی عکس سما گیا تھا اور وہ اس عکس کو اپنے روبرو چاہتا تھا۔  اسے دیکھنے کی طلب بڑھ رہی تھی مگر وہ آنکھوں میں سما کر بھی بہت دور محسوس ہونے لگا۔  اس نے دل سے دعا کی کہ کاش وہ اس چہرے کو بار ہا دیکھے اور شاید وہ لمحہ قبولیت کا تھا اسی لیئے اگلے ہی دن اس کی دعا رنگ لے آئی اور ارش کو ذمل کا دیدار میسر ہوا۔ ۔ ۔ ۔

————————-

ارش مصطفیٰ پاکستان کے معروف بزنس مین احمد مصطفیٰ کا صاحبزادہ تھا۔  وہ تین بہن بھائی تھے ۔  اس کا بڑا بھائی احمر والد کے ساتھ بزنس سنبھالے ہوا تھا اور چھوٹی بہن اقصیٰ میڈیکل کی سٹوڈنٹ تھی۔  اس کی والدہ شہر بانو ہاؤس وائف تھیں اور انھوں نے اپنی اولاد کی تربیت میں کوئی کمی نہیں چھوڑی تھی۔  ارش ہمیشہ سے ہی بہت حقیقت پسند تھا۔  وہ نہیں جانتا تھا کہ جہاز پر اس کے نشست کے ساتھ بیٹھی لڑکی کیوں اس کی آنکھوں میں سما گئی تھی۔

———————-

رات کو ذمل بھوکے پیٹ ہی سو گئی تھی۔  اس پر تو نیند کا بھوت سوار تھا اسی لیئے صبح اٹھتے ساتھ ہی سب سے پہلے اس کا دل کچھ کھانے کو چاہا۔  مسکان چائے بنا رہی تھی۔  ذمل جلدی سے فریش ہو کر آ گئی۔  مسکان نے ذمل کو دیکھتے ہی جلدی سے کپ میں چائے نکالی اور ساتھ میں بریڈ اور بٹر بھی لے آئی۔  جانے کیوں وہ بھوری آنکھوں والی لڑکی کو ناراضگی کا موقع نہیں دینا چاہتی تھی۔

ذمل نے محسوس کیا کہ مسکان کچھ بجھی بجھی سی تھی۔  رات والی مسکراہٹ کی جگہ اب سنجیدگی آ گئی تھی ۔  اسے اپنے رات والے رویے پر شرمندگی ہونے لگی۔  اس نے سوچا کہ کیا تھا اگر وہ دو منٹ اس لڑکی سے اچھے سے بات کر لیتی۔  اس نے اپنے رات والے رویے پر معافی مانگی اور مسکان نے خوشدلی سے اسے معاف کر دیا۔  اس نے ذمل کو دوستی کی پیشکش کی جو اس نے فوراً قبول کر لی کیونکہ وہ اب اس لڑکی کو ہرٹ نہیں کرنا چاہتی تھی۔

ناشتے کے بعد وہ دونوں تیار ہونے لگیں ۔  ذمل نے گرین شرٹ کے ساتھ سکن ٹائٹ پہنا اور اپنے جھیل جیسے بالوں کو شولڈر پر کھلا چھوڑ رکھا تھا۔  اس کے کانوں میں ڈائمنڈ کے ٹاپس ہمیشہ موجود رہتے جو اسے بابا جان نے پچھلی سالگرہ پر دیئے تھے ۔  آنکھوں میں کاجل ذمل کے سراپے کو مزید دلکش بنا رہا تھا۔  اس نے ہینڈ بیگ لیا اور مسکان کا انتظار کرنے لگی۔  وہ حسن کا مکمل پیکر لگ رہی تھی۔

تھوڑی ہی دیر میں مسکان بھی آ گئی اور اسے دیکھتے ہی حلق سے چیخ نکل گئی۔

"اوہ ذمل یہ تم ہو۔  آئی وونٹ بلیو کہ کوئی اتنا خوبصورت کیسے ہو سکتا ہے ۔ ”

"ہاہا یار کسی کا تو مجھے پتا نہیں مگر ذمل اتنی ہی خوبصورت ہے ۔ ” ذمل نے بھی مسکراہٹ دبا کر جواب دیا۔

"سچ میں یار خدا نے تمہیں کتنا مکمل تخلیق کیا اور ایک میں ہوں ۔ ” مسکان نے پھر سے ذمل کی تعریف کی۔

"اچھا یار یہ حسن کے قصیدے پھر کبھی۔  ابھی چلو پہلے ہی ہم لیٹ ہو چکے ہیں ۔ ” وہ دونوں ایک ساتھ ہنس دیں ۔

ان کا آرٹس سکول بیس منٹ کی واک پر تھا۔  موسم کافی خوشگوار تھا جس کی وجہ سے وہ دونوں موسم انجوائے کر رہی تھیں ۔  ذمل کو مانچسٹر بہت خوبصورت لگنے لگا اور آج وہ کل کی طرح پریشان بھی نہیں تھی۔  شاید یہ مسکان کا ساتھ تھا جو اسے حوصلہ دیئے ہوا تھا۔  قدرت بھی انسان کو ایسے موقعے پر نوازتی ہے جب وہ بالکل نا امید ہو جاتا ہے ۔

کل مسکان کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ واپس لوٹ جائے مگر آج وہ اپنے خواب کو حقیقت کا روپ دھارتے ہوئے دیکھنا چاہتی تھی۔ ۔ ۔  اس کا آرٹس سکول اس کے بالکل سامنے تھا اور یہ سب اسے خواب لگ رہا تھا۔

————————-

نور محمد کو کوٹھے پر آئے دوسرا مہینہ تھا۔  پہلی مرتبہ تو وہ دوستوں کے کہنے پر آیا تھا مگر اس نازنین کی ایک جھلک دیکھنے کے بعد اسے کچھ دکھائی نہ دینے لگا۔  اس کا دل ہر کام سے اچاٹ ہونے لگا اور وہ صرف اس نازنین کے بارے میں سوچنے لگا۔  وہ خود کو کائنات کی ایسی نا مکمل تخلیق سمجھنے لگا جسے مکمل ہونے کے لئے شیبا کی اشد ضرورت تھی۔  شیبا نے بھی اس کے پیغامِ الفت تک رسائی حاصل کر لی تھی مگر اس میں اتنی سکت نہیں تھی کہ وہ خوابوں کی رنگین دنیا میں قدم رکھتی۔  وہ جانتی تھی کہ طوائفوں کے خواب بھی ریت جیسے ہو تے ہیں جو بکھرنے میں زیادہ وقت نہیں لیتے ۔  خدا کی اس بھری دنیا میں ایک طوائف کے جسم کو نوچنے والے بھیڑیئے تو بہت ہیں مگر بیوی بنا کر رکھنے والے بہت نایاب۔ ۔ شاید صفر۔ ۔ ۔  اس نے اپنی ساری زندگی کوٹھے کے نام کر دی تھی جہاں سے رہائی کی صرف ایک ہی صورت ممکن تھی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  موت جو کہ ہر قدم ہمارا تعاقب کیئے ہوئے ہے ۔ ۔ ۔

ذمل اور مسکان کے کالج پہنچنے تک گھڑی کی سوئیاں دس بجا چکی تھی۔  مسکان اپنے ڈیپارٹمنٹ میں چلی گئی تو ذمل بھی اپنی کلاس ڈھونڈنے لگی۔  اس نے نوٹس بورڈ سے ٹائم ٹیبل دیکھا۔  سر رابرٹ کی کلاس شروع ہوئے دس منٹ ہو چکے تھے ۔  وہ تیز قدموں کے ساتھ کلاس کی جانب چلی گئی۔  کلاس میں اس نے قدم رکھا ہی تھا کہ کہ سر رابرٹ نے اسے روک لیا اور باہر نکل جانے کو کیا۔  انھوں نے کہا کہ جس سٹوڈنٹ کو وقت کی پابندی کا احساس نہیں وہ بے شک کلاس میں نہ آئے۔  آج اس کا پہلا دن تھا اسی لیئے اس دن کو یادگار بنانے کے لیئے وہ بہت کچھ سوچ کر آئی تھی مگر پوری کلاس کے سامنے اتنی عزت افزائی کے بعد اس کا سارا موڈ خراب ہو گیا۔  اس کا رونے کو بہت جی چاہا۔  بابا جان سے اتنے دور وہ آ تو گئی تھی مگر یہاں کوئی بھی اس کا اپنا نہیں تھا۔  وہ باہر نکل گئی اور لان میں جا کر ایک بینچ پر بیٹھ گئی۔  اس نے اپنا سر جھکا لیا اور اپنے آنسوؤں کو باہر کا راستہ دیا۔  آنسوؤں کا بند تھا کہ تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔  جب وہ جی بھر کر رو لی تو اس نے سوچا کہ ایک دفعہ پورا کالج تو دیکھ لے ۔  وہ بینچ پر سے اٹھی اور اندر کی جانب بڑھ گئی۔  تھوڑا آگے جا کر اسے اپنا وجود کسی کی نظروں کی زد میں آتا محسوس ہوا مگر اِدھر اُدھر نظر دوڑانے پر اُسے کوئی نظر نہ آیا تواسے یہ اپنا وہم لگا۔  اس نے اس خیال کو جھٹک دیا اور آگے بڑھ گئی۔

ذمل کو جب کیفے نظر آیا تو اس کی بھوک بڑھ گئی اور وہ کچھ کھانے کے خیال سے اس طرف چلی گئی۔  کیفے پہنچنے پر اسے مسکان بھی نظر آ گئی۔  مسکان کے ساتھ کوئی لڑکا تھا جسے دیکھتے ہی ذمل کے ذہن میں وہی پاکستانی سوچ آ گئی کہ شاید وہ اس کا بوائے فرینڈ ہو تو کیوں وہ کباب میں ہڈی بنے ۔ ۔ ۔  وہ بھی انڈین کباب میں پاکستانی ہڈی۔ ۔ ۔ ۔ اسی لیئے وہ اکیلی ہی بیٹھ گئی اور ہاٹ کافی کا آرڈر دیا۔  تین بجے تک جب وہ پورا کیمپس گھوم چکی تو اس نے مسکان کو ٹیکسٹ کیا اور دونوں ٹھنڈے موسم کو انجوائے کرتے ہوئے ہاسٹل آ گئیں ۔

————————

نور محمد نے سوچ لیا تھا کہ آج کچھ بھی ہو وہ شیبا تک اپنے دل کی بات پہنچا کے رہے گا۔  اسی لئے مجرا ختم ہونے کے بعد وہ وہاں رک گیا اور ایک عورت نما مرد ببلی کو شیبا سے ملوانے کو کہا۔  ببلی نے پہلے تو بہت منع کیا کہ اگر کسی کو بھی پتا چل گیا تو اس کی خیر نہیں مگر نور محمد کے آگے اس کی مزاحمت کام نہیں آئی۔  بالآخر نور محمد شیبا کی خوابگاہ میں آ گیا۔  سرخ مخملی پردوں سے سجی خواب گاہ میں جا بجا پھول بکھرے ہوئے تھے اور کئی ایرانی فانوس سجے ہوئے تھے جو کسی اور ہی دنیا کا منظر پیش کر رہے تھے ۔  شیبا اپنے بستر پر لیٹی آرام فرما رہی تھی۔  وہ ابھی تک وہی کالا فراک زیب تن کئے ہوئی تھی جس میں ابھی کچھ دیر قبل باہر قیامت ڈھا کر آئی تھی۔  اس کے فراک میں جا بجا نگینے لگے ہوئے تھے اور وہ بلا کی حسین لگ رہی تھی۔  نور محمد کی آہٹ سے اس کی آنکھ کھل گئی اور وہ ایک دم سے اٹھ کر بیٹھ گئی ۔

"اوہ تو آپ بھی باقی مردوں کی طرح میری صورت کے اسیر ہو گئے اور آج یہاں تک چلے آئے۔  میں ہی پاگل تھی جو کچھ اور سمجھ بیٹھی تھی۔  شاید بھول بیٹھی کہ مرد تو سب ایک جیسے ہوتے ہیں ۔  کتنی قیمت لگائی ہے اس جگہ تک آنے کے لئے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ” وہ دل ہی دل میں سوچ کر رہ گئی اور بولی تو صرف اتنا۔۔

"فرمایئے حضور کس طرح سے خدمت کروں آپ کی۔ ۔ ۔ ۔ ” اس کے چہرے پہ مخصوص مسکراہٹ سج گئی جو ہر طوائف کا خاصہ ہوتی ہے ۔

"آپ شاید مجھے غلط سمجھ رہی ہیں ۔  میں یہاں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ” شیبا اس کی بات مکمل ہونے سے پہلے ہی بول گئی۔

"ہاں ہم ہی شاید آپ کو غلط سمجھ بیٹھے تھے لیکن اب ہمیں سب سمجھ آ گئی ہے ۔ ” اب کے اس کی بات کی کاٹ نور محمد کو محسوس ہوئی اسی لئے بولا

"جب سے آپ کو دیکھا ہے کچھ اور دیکھنے کو دل ہی نہیں چاہتا۔  مجھے کہیں پر بھی سکون نہیں ملتا اور نہ ہی نیند آتی ہے ۔  ایسا لگتا ہے کہ اگر میں سو گیا تو آپ کو کھو دوں گا۔  جب یہاں سے جاتا ہوں تو لگتا ہے کہ میری روح تو آپ کے پاس ہی رہ گئی ہے ۔ میں صرف جسم گھسیٹ ریا ہوں ۔  آپ کے پاس آ کر میں مکمل ہو جاتا ہوں ۔  میرے وجود کو مکمل کر دیں ” نور محمد اپنے دل کا حال سنا چکا تھا اور اب وہ فیصلے کا منتظر تھا۔

اس کی بات سن کر شیبا نے اپنا رخ دوسری طرف موڑ لیا۔  اس لمحے وہ کمزور نہیں پڑنا چاہتی تھی مگر شاید وہ کمزور پڑ رہی تھی۔  زندگی میں پہلی دفعہ اسے احساس ہوا کہ وہ کوئی کھلونا نہیں بلکہ ایک جیتی جاگتی عورت ہے جس کو محبت بھرے لمس کی ضرورت ہے ۔  اس وقت وہ خود کو کوئی طوائف نہیں بلکہ صرف ایک عورت سمجھ رہی تھی۔  ایک۔ ۔ ۔ دو۔ ۔ ۔ تین۔ ۔ ۔  آنسو اس کی آنکھوں سے لگا تار بہنے لگے ۔  وہ دل کو سمجھائی ساری باتیں فراموش کر بیٹھی۔  بس یاد رہا تو صرف اتنا کہ اس کی زندگی میں بہار نے قدم رکھ لیئے ہیں مگر شاید خدا کو اس کی کچھ پل کی خوشی بھی عزیز نہیں تھی۔  اسی لیئے ایک پل کو اس کے ذہن میں جھماکا ہوا اور اسے اپنی اوقات یاد دلا گیا۔  اس نے اپنے بھیگے چہرے کو خشک کیا اور خود کو مضبوط کر کے بولی

"یہاں پر آنے کے تو بہت راستے ہیں صاحب مگر ایک دفعہ داخل ہونے کے بعد سب بند ہو جاتے ہیں ”

اس کی اس بات سے نور محمد کے دل کو کچھ ہوا۔  اس نے سوچ لیا کہ اب وہ شیبا کو اس غلاظت سے نکال کر رہے گا۔

"میرا آپ سے وعدہ ہے کہ آپ کو بہت جلد یہاں سے ہمیشہ کے لیئے لے جاؤں گا۔ ” یہ بول کر وہ وہاں سے نکل گیا اور شیبا کے دل میں امید کا نیا چراغ تھما گیا۔

————————–

کلاس میں سر رابرٹ کا لیکچر شروع تھا۔  انھوں نے کلاس سے سوال کیا کہ انسانی شخصیت میں کون سی چیز ایک آرٹسٹ تک اپنا عکس نمایاں کرتی ہے ۔  پیٹر کر مطابق کسی انسان کی زبان ہی اس کی ساری کہانی بیان کر دیتی ہے جبکہ بیلا کے نزدیک مسکراہٹ ہی انسان کی گہرائی بیان کرنے میں اہم ہے ۔  زبان جیسے سہارے کی ضرورت انھیں پڑھتی ہے جنہیں مسکراہٹ کی پہچان نہیں ۔  سر رابرٹ کو شاید یہ جواب مطمئن نہیں کر رہے تھے ۔ ۔ ۔

پہلی رَو میں دوسری کرسی پر بیٹھے شخص کی نظروں میں بس ایک ہی عکس سمایا ہوا تھا۔ ۔ ۔ ۔  بھوری آنکھوں کا عکس۔ ۔ ۔  جنہوں نے اسے پہلی ہی نظر میں اسیر کر دیا تھا اور جن میں اتنی کشش تھی کہ وہ پہلی نظر کی قید سے آزاد ہی نہیں ہو سکا۔  رابرٹ سر نے اسے مخاطب کیا تو عکس دھندلایا اور وہ حال میں پہنچ گیا

"سر میرے خیال میں انسان کی آنکھیں اس قدر جادوئی ہیں ہے کہ جب ایک آرٹسٹ انہیں دیکھ لے تو انہیں گہرائی سمیت کینوس پر اتار سکتا ہے ۔  آنکھیں ہی انسانی شخصیت کا عکس لیئے ہوتی ہیں اور اگر ایک آرٹسٹ ان میں چھپی تحریر کو نہ پڑھ سکے تو وہ آرٹسٹ کیسے ۔ ۔ ۔ ۔ ”

ارش ابھی جواب دے ہی رہا تھا کہ اس کی نظر دروازے سے داخل ہوتے وجود پر پڑی۔  اسے یہ سب نظر کا دھوکا لگنے لگا۔ ۔ ۔  وہ یہاں کیسے ہو سکتی ہے اور بھلا کیوں آئے گی وہ یہاں ۔ ۔ اسے تو اپنے خواب پورے کرنے ہیں ۔ ۔  تو کیا اس کا خواب سکول آف مانچسٹر ۔ ۔ ۔ ۔ وہ دل ہی دل میں سوچنے لگا۔  ان کاجل نما آنکھوں میں اس قدر گہرائی تھی کہ ارش کا دل چاہا وہ ان تک رسائی حاصل کر لے ۔  آج شاید دعا کی قبولیت کا دن تھا اسی لئے تو کل مانگی دعا آج اس طرح پوری ہو گئی اور وہ حسن کا پیکر اس کے اتنے سامنے تھا کہ وہ اس کو چھو بھی سکتا تھا۔  اس نے دل ہی دل میں اللہ کا شکر ادا کیا۔ ۔ ۔  مگر یہ کیا۔ ۔ ۔ ۔  رابرٹ سر نے محض چند لمحے لگائے تھے اسے کلاس سے آؤٹ کرنے میں ۔ ۔ ۔  اور وہ کچھ بول بھی نہیں سکی حالانکہ کل تو وہ کتنا بولی تھی۔ ۔ ۔  ارش کا جی چاہا کہ وہ سر سے پوچھے کہ کیا ہو جاتا اگر وہ اس کانچ کی گڑیا کی خاطر اپنے اصول بھلا دیتے مگر یہ اس کے اختیار سے باہر تھا۔

جانے ذمل کی آنکھوں میں کیسی بے بسی اُمڈ آئی کہ ارش سے رہا نہیں گیا اور وہ بھی کلاس سے نکل گیا۔  وہ نہیں جانتا تھا کہ وہ یہ سب کیا کر رہا ہے اور نہ ہی وہ کچھ جاننا چاہتا تھا۔  جانے اللہ نے دل بھی کیا چیز بنائی ہے کہ یہ انسان کی سوچ کے سب راستوں کو مفلوج کر کے رکھ دیتا ہے اور انسان خود کو پنجرے میں قید پنچھی کی مانند سمجھتا ہے ۔ پنچھی بھی ایسا کہ اپنی اس قید سے رہائی بھی نہیں طلب کرتا۔ ۔ ۔  ذمل اب ایک بینچ پر جا کر بیٹھ گئی اور لگاتار آنسو بہانے لگی۔  کاش کہ کوئی ارش سے ان آنسوؤں کی قیمت پوچھتا جو سیدھا اس کے دل پر اتر رہے تھے ۔ ۔ ۔ ۔ کسی وحی کی صورت۔ ۔ ۔  کاش کہ ارش کے اختیار میں ہوتا تو وہ اسے ہی سب بتا سکتا مگر وہ جانتا تھا کہ اگر وہ اس کے دو قدم قریب ہو گا تو وہ چار قدم دور ہو جائے گی۔  کتنی ہی دیر ذمل آنسو بہاتی رہی اور پھر اٹھ کر چلی گئی۔  ارش بھی کلاس میں آ گیا مگر وہ ارش اب بدل گیا تھا۔ اس کے دل کی دنیا میں اب طوفان آ گیا تھا جو کیا کچھ بہا کر لے جائے گا کوئی نہیں جانتا تھا۔ ۔ ۔ ۔  سوائے اس پاک ذات کے۔

————————–

آج ننھی کا رزلٹ تھا۔  ہر سال کی طرح اس سال بھی اُس کا رزلٹ نمایاں رہا۔  اس نے گوجرانوالا بورڈ میں نویں میں ٹاپ کیا تھا۔  اس کے گھر تو جیسے عید کا سماں تھا۔ سارے عزیز اور محلے والے اس کی خوشیوں میں شریک ہونے اس کے گھر جمع ہوئے تھے ۔ عفت نے سب کے لئے روح افزا بنائی اور ساتھ میں چاچا شکور سے جلیبی بھی منگوائی۔  آج پھر سے عفت کی بیٹی نے اس کا سر فخر سے بلند کر دیا تھا۔ اس کی خوشی دیدنی تھی۔

ننھی کے ابو اسد ملک ایک کپڑے کی فیکٹری میں ملازم تھے اور وہ خود سکول سے آنے کے بعد محلے کے بچوں کو ٹیوشن پڑھاتی۔  اس کی امی عفت بہت دیندار خاتون تھیں ۔  دو کمروں اور ایک کچن باتھ پر مشتمل کوارٹر میں چھ زندگیاں گزر بسر کر رہی تھیں ۔

ننھی اپنے بہن بھائیوں میں سے زیادہ ذہین تھی۔  اس کے چھوٹے دونوں بھائی منا اور کاکا ہر سال کی طرح اس سال بھی فیل ہوئے تھے اور بڑی بہن پروین نے تو کبھی سکول کی شکل بھی نہیں دیکھی تھی۔ ننھی سب میں سے خوبصورت تھی اسی لیئے اس کی سہیلیاں اسے چاند کہہ کر چھیڑتی رہتیں ۔  محلے کے ہر اوباش لڑکے کا اس پر دل آ چکا تھا مگر اس نے سوچ لیا تھا کہ وہ ڈاکٹر بنے گی اور اپنے اماں ابا کا نام اونچا کرے گی۔

۔۔۔۔۔

ذمل کو کالج جاتے ہوئے ہفتہ ہو گیا تھا اور کئی مرتبہ اُس کا ارش سے سامنا بھی ہوا تھا مگر اُن میں کبھی کوئی بات نہیں ہوئی۔  ارش نے بارہا کوشش کی کہ وہ ذمل سے اپنے رویئے کے لئے معذرت کرے لیکن وہ ہمت نہیں کر سکا۔

مانچسٹر میں آج مطلع کافی ابر آلود تھا۔ ایسا لگتا تھا بادل کھل کے برسیں گے ۔  ذمل کا کالج جانے کو بالکل جی نہیں تھا مگر اٹینڈنس شارٹ ہونے کے ڈر سے اس کی نیند اڑن چھو ہو گئی۔  وہ جلدی سے بیڈ سے اٹھی اور نہانے چلی گئی۔  اس نے سیاہ لانگ شرٹ اور ساتھ میں جینز پہنی۔ آنکھوں کے گرد کاجل لگایا۔ لائٹ سا آئی شید لگایا اور فریش ریڈ لپ گلوس لگا کر خود کو آئینے میں دیکھتے ہوئے سوچنے لگی کہ اگر خدا نے اُسے خوبصورت نہ بنایا ہوتا تو کیا اس بناؤ سنگھار کی کوئی اہمیت ہوتی۔ ۔ ۔  شاید نہیں کیونکہ لوگ سب سے پہلے چہرہ دیکھتے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔  اسے اپنے حسن پر رشک آنے لگا اور اس نے مزید جاذب نظر آنے کے لئے موسم کی مناسبت سے سیاہ لانگ کوٹ اوڑھا اور شولڈر پر سیاہ بیگ لٹکا کر چل دی۔ ۔ ۔ ۔

کلاسز ختم ہونے کے بعد وہ کیفے کی طرف قدم بڑھانے لگی۔ ۔  راستے میں اسے ارش نظر آ گیا۔  اُسے دیکھتے ہی ذمل کے چہرے پر مسکراہٹ در آئی۔  آج ذمل نے اسے مخاطب کیا

"مسٹر ارش مصطفیٰ کیسے مزاج ہیں آپ کے ۔ ۔ ؟؟”

ارش اُس کے اس طرح مخاطب کرنے پر بوکھلا گیا اورسپاٹ چہرے کے ساتھ بولا

"بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے ۔ ۔ ۔ ۔ ”

اس کی آواز شاید ذمل تک نہیں پہنچی اسی لئے اس وہ بولی

"لاؤڈ پلیز۔ ۔ ۔ ”

"وہ ایکچولی اُس دن کے لیئے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ” ذمل نے بیچ میں ہی اس کی بات کاٹ دی

"اوہ تو آپ معافی مانگنا چاہ رہے ہیں ۔ ۔ ۔  انٹرسٹنگ۔ ” ذمل کافی بدلی بدلی سی لگ رہی تھی۔  یہ لہجہ تو کسی اور کا ہی تھی۔  آج اس لہجے میں ارش کو پرانی ذمل کہیں بھی نظر نہیں آ رہی تھی۔

"ہاں معافی تو مانگ رہا ہوں اور اس دن بھی مانگی تھی۔  شاید آپ نے وہ بات دل پر ہی لے لی تھی۔  میرا وہ مقصد بالکل بھی نہیں تھا۔ ” ارش کا لہجہ اب معذرت لیئے ہوئے تھا۔

"جاؤ معاف کیا۔  اب میرا دل اتنا چھوٹا بھی نہیں ہے کہ معاف نہ کر سکوں ۔ ” مسکراہٹ نے پھر سے ذمل کے ہونٹوں کا رخ کیا۔  ارش نے اس لمحے کے کبھی نہ ختم ہونے کی دعا مانگی مگر وقت کب بھلا کسی کے لئے رکتا ہے ۔ ۔ ۔

"تھینک یو۔

"Would you like to have some coffee with me۔ ۔ ??”

"نیکی اور پوچھ پوچھ۔ ۔ ۔ ۔ ” ذمل بھی پھر اپنے نام کی ایک تھی۔ ۔ ۔ ۔ ۔

باتیں کرتے کرتے وہ کیفے تک آ گئے۔  آج کا دن ارش کے لئے بہت خاص تھا۔  آج ذمل اُس کے سامنے والے ٹیبل پر تھی اور اپنی مرضی سے اُس کے ساتھ لمحوں کو بانٹنے آئی تھی۔  ارش کے لیئے یہ سب کسی معجزے سے کم نہیں تھا۔

"شکر ہے ایک پہاڑ تو سر ہوا۔ ” وہ دل ہی دل میں خوش ہوا۔

"جی تو مسٹر ارش مصطفیٰ آپ کے کراچی میں تو ایک عدد سمندر بھی ہے ۔  کتنا اتراتے ہو نہ تم لوگ اس پر جیسے سمندر نہ ہوا کچھ اور ہی ہو گیا۔ ” ذمل نے بھی کراچی والوں کو اس میں شامل کر دیا تھا۔  اب بھلا اُس کو کون بتاتا کہ ارش اُن میں سے نہیں ہے جنہیں اس سب پر ناز ہو۔ ۔  جواب تو ارش کو ہی دینا تھا اسے لیئے بولا

"کبھی کراچی آنا ہوا تو دیکھ لینا کہ سمندر اتنا بڑا ہے کہ اس پر اترایا جا سکے ۔ ۔ ”

"مجھے کوئی شوق نہیں کراچی وراچی کا۔  ہمارے ہنزہ میں اتنی جھیلیں ہیں کہ گننے لگو تو گنتی ختم ہو جائے گی مگر جھیلیں نہیں ۔  کبھی آنا ہنزہ میں تو دیکھ لینا خود ہماری جھیلوں کا سمندر سے کیا مقابلہ۔ ۔ ۔ ” ذمل نے اتنا زور دار قہقہہ لگایا کہ ارش کو حیرت ہونے لگی۔ ۔ ۔

"خدایا آج سورج کہیں مغرب سے تو نہیں نکل گیا یا نکلنا ہی بھول گیا۔ ۔ ۔ ” ارش دل ہی دل میں بولا۔

"جی تو ذمل کب بلا رہی ہیں پھر آپ ان جھیلوں کی سیر کروانے ۔  ہم کراچی والوں کو بھی تو یہ کرشمے دکھائیں ۔ ۔  ”

ارش نے مسکراہٹ دبائے۔ سنجیدہ چہرہ لیئے پوچھا۔

"جب آنا چاہو آ جانا مجھ سے امید نہ رکھنا کہ میں انوائیٹ کروں گی یا ہنزہ میں کہیں ملوں گی بھی۔ ۔ ۔ ” ذمل نے کافی ختم کی۔ بیگ شولڈر کے ساتھ لگایا اور اٹھ کر جانے لگی تو ارش بولا

"اب دعوت دی ہے آنے کی تو بلائیں گی بھی آپ۔ ۔ ۔ ” ان دونوں میں بے تکلفی کافی حد تک بڑھ گئی تھی اور انہیں پتہ بھی نہیں چلا۔ ۔ ۔

"امپاسیبل۔ ۔ ۔ ۔ ” دونوں مل کر ہنسے لگے اور وہاں سے اٹھ کر چلے گئے۔ ۔ ۔ ۔

————————-

شیبا کے دل کی دنیا میں امید کی کرن تھما کر نور محمد کہیں غائب ہی ہو گیا۔  مہینہ گزر گیا تھا مگر اُس کی کوئی خبر نہیں ملی۔  شیبا کا دل انجانے وسوسوں کا شکار ہو گیا تھا۔  وہ دن رات اُس کے آنے کی دعائیں مانگتی مگر سب بے سود۔ ۔ ۔ ۔  اُس کے پاس انتظار کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔  آخر دو مہینے بعد شیبا کے دل کو قرار آ ہی گیا۔ ۔ ۔  نور محمد لوٹ آیا تھا مگر اُس کی حالت بہت ابتر تھی۔ ۔ ۔ ۔  ایسے لگتا تھا جیسے میلوں کا تھکا مسافر گھر کو لوٹتا ہے ۔ ۔ ۔  شیبا سارے گلے شکوے بھول گئی۔  اُس سے نور محمد کی یہ حالت دیکھی نہیں گئی۔

"کیا حالت بنا دی ہے آپ نے اپنی۔ ۔ ۔ ۔  اپنا نہ سہی میرا خیال تو کر لیتے ۔ ۔ ۔ ۔  کتنا پریشان تھی میں آپ کے لیئے۔ سب خیریت تو ہے نہ بتائیں مجھے ۔ ۔ ۔  کیا ہوا ہے آپ کی زندگی میں ۔ ۔ ۔ ۔ ” شیبا ایک دم رو دی تو نور محمد نے اُسے سینے سے لگا لیا اور بولا

"میری امی مجھے چھوڑ کر چلی گئی ہیں شیبا۔ ۔ ۔  کیسے بتاؤں میں تمہیں کیا تھی وہ میرے لیئے۔ ۔ ۔  اللہ نے انہیں اتنی جلدی کیوں بلا لیا۔ ۔ ۔  دس سال پہلے ابا اور اب امی۔ ۔ ۔ ” شیبا نے اُس کے آنسوؤں کو بہہ جانے دیا اور خود بھی آنسو بہانے لگی۔ ۔ ۔  کتنی ہی دیر بعد وہ بولی

"آپ کی امی اللہ کو اتنی پیاری تھیں نور کہ اللہ نہ انھیں بلا لیا۔ ۔ ۔  جانے والوں کو روکنے کا اختیار کسی کے پاس بھی نہیں ۔ ۔  اللہ قرآن میں فرماتا ہے کہ ہر ذی روح کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  ہم انسان اتنے ناشکرے کیوں ہوتے ہیں نور۔ ۔ ۔  اللہ نے اتنے سال آپ کو آپ کی امی کا ساتھ دیا۔ میں بھی تو ہوں ۔ میری ماں بھی نہیں رہی مگر میں نے اللہ سے شکوہ نہیں کیا۔ ۔ ۔  جانتے ہو کیوں ۔ ۔ ۔  ؟؟؟” بھیگے چہرے کے ساتھ وہ پوچھنے لگی۔

"کیوں شیبا۔ ۔  ” نور محمد نے استفسار کیا۔

"کیونکہ اتنے سال میری اماں میرے ساتھ تھی تو میں نے ایک دفعہ بھی اللہ کا شکر ادا نہیں کیا کہ اُس نے مجھے اتنی بڑی نعمت دی تو کیوں میں اُسے بلانے پر اللہ سے گلہ کروں ۔ ۔ ۔ ۔  میں بھی اماں سے بہت پیار کرتی تھی لیکن میں نے خدا کے فیصلے کو تسلیم کیا۔  ہم انسانوں کے پاس کوئی اور چارہ نہیں ہے نور۔ ۔ ۔ ۔ ”

شیبا کی باتیں نور محمد کے دل پر حرف بہ حرف اترنے لگیں ۔  اُس کے دل میں شیبا کی قدر اور بڑھ گئی۔  کچھ ہی دنوں میں اُس کے پیار بھرے لمس نے نور محمد کی زندگی کو پھر سے نارمل کر دیا۔ ۔ ۔ ۔

————————-

ننھی کو شہر کے سب سے بڑے کالج میں پری میڈیکل میں داخلہ ملا تھا اور اس کی تعلیم بھی فری تھی۔  ہر ایک اُسے رشک کی نگاہ سے دیکھتا سوائے پروین کے ۔  پروین ہمیشہ سے ہی اپنی بہن سے حسد کرتی تھی۔  وہ اکثر ننھی کی سکول کی کتابیں چھپا دیتی تا کہ سکول میں اُسکی بے عزتی ہو مگر ایسا کبھی نہیں ہوا۔  بچپن میں جو بھی چیز ننھی کے لیئے آتی پروین اُسے اپنے لیئے پسند کر لیتی۔  ننھی کو اپنی بہن سے بہت پیار تھا اسی لیئے وہ کبھی اسے منع نہ کرتی۔  عفت بھی پروین کو ہمیشہ سمجھاتی رہتی مگر سب بے سود۔ ۔  ننھی نہیں جانتی تھی کہ پروین اس کی بہن نہیں ایک ناگن ہے جو اُسے ذلت کے گھڑے میں ڈال دے گی۔ ۔ ۔ ۔

ننھی کافی دیر سے بس سٹاپ پر کھڑی بس کا انتظار کر رہی تھی مگر آج بس آنے میں کافی دیر ہو گئی تو اُس نے سوچا رکشے پر چلی جائے۔  وہ آگے بڑھی ہی تھی کہ کسی نے اُس کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔ ۔ ۔ ۔  اس کی سانسیں رک گئی۔ ۔ ۔ ۔  قدم جکڑ گئے۔ ۔  خوف کی لہر اس کے پورے وجود میں پھیل گئی۔ ۔ ۔ ۔ ۔

"آج تو جان چلی جائے گی۔ ۔ ۔ ” اس نے دل میں سوچا اور پیچھے مڑی۔ ۔ ۔ ۔

"تم۔ ۔ ۔ ۔ ” اس کے حلق سے زوردار چیخ نکلی۔ ۔ ۔ ۔

—–

نور محمد اب شیبا کے بغیر زندگی کا تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔  شیبا اُس کے لیئے پزل کا وہ آخری حصہ تھی جس سے تصویر مکمل ہو جاتی۔  شیبا کو دیکھتے ہی اُسے ایسا لگتا جیسے صحرا میں پانی نظر آ گیا ہو۔ ۔ ۔  اس کی منزل صرف شیبا تھی۔ ۔ ۔  ادھر شیبا کا بھی یہی حال تھا۔  ہر وقت اس کی نظروں کے سامنے ایک ہی چہرہ رہتا۔ ۔ ۔  دن رات وہ اس چہرے کو لیئے سہانے خواب بنتی رہتی۔ ۔ ۔

"شیبا اب ہمیں شادی کر لینی چاہیئے۔ ۔  ” نور محمد نے بالآخر وہ بات بول ہی دی جس کا شیبا کو ایک سال سے انتظار تھا۔  اس کے چہرے پر مخصوص مسکراہٹ سج گئی جو صرف نور محمد کے لیئے تھی۔ ۔

"لیکن ہماری شادی کے بعد کی زندگی کیسے گزرے گی نور۔ ” شیبا کو وسوسوں نے گھیر لیا۔

"میرے ہوتے تم فکر کیوں کرتی ہو جان۔ ۔ ۔  میں تمہیں وہ زندگی دوں گا جس کے تم ہمیشہ سے خواب دیکھتی رہی ہو۔  رانی بنا کر رکھوں گا تمہیں ۔ ” نور نے شیبا کو سہانے باغ دکھائے تو شیبا نے آنکھیں میچ لیں اور خود کو تصورات میں لے گئی جہاں سرخ پھولوں سے سجے بستر پر نور اور شیبا کے سوا کوئی تیسرا نہیں تھا۔ ۔ ۔ ۔  کتنا حسین تھا یہ احساس کہ اب شیبا کی زندگی کے سارے دکھوں کا مداوا ہو جائے گا۔

"کس طرح آپ یہاں سے لے کر جائیں گے نور۔ ۔ ۔  شبنم بیگم کبھی بھی مجھے یہاں سے نہیں جانے دے گی۔ ” شیبا کو اس وقت شبنم سے بہت خوف محسوس ہو رہا تھا۔  شبنم اس کوٹھے کی مالکن تھی اور یہ کوٹھا پُرکھوں سے ان کی خاندانی ملکیت تھا۔

"اُس کی تم فکر نہ کرو۔  میں اسے منہ مانگی قیمت ادا کر دوں گا۔  کل آؤں گا تمہیں اپنی دنیا میں لے جانے ۔ ۔ ۔ ۔ ”

"کیسے کٹے گی آپ کے بغیر یہ رات نور۔ ۔ ۔  مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے ۔ ۔ ۔  آج آپ یہاں ہی رک جائیں ۔ ” شیبا نے اسے رکنے کی پیشکش کی۔

"میری جان جہاں اتنا انتظار کیا وہاں ایک رات اور کر لو۔ ۔ ۔  مجھے کچھ ضروری کام نبٹانے ہیں ۔ ۔ ۔ ” نور محمد کل آنے کا وعدہ کر کے چلا گیا۔

————————-

وہ باغ میں تنہا بیٹھی ہوئی تھی۔ ۔ ۔ اس کے ہاتھ میں سرخ پھول تھا۔ ۔ ۔  باغ کے ساتھ ہی ایک جھیل تھی۔ ۔ ۔ ۔ ۔  خوبصورت مگر پراسرار۔ ۔ ۔  اسے اس جھیل سے بہت خوف محسوس ہو رہا تھا مگر اسے انتظار کرنا تھا۔ ۔ ۔ ۔  انتظار طویل ہوتا جا رہا تھا مگر آنے والا اب تک نہیں آیا تھا۔ ۔ ۔  کتنا کٹھن تھا یہ انتظار۔ ۔ ۔ ۔ وہ سُولی پر لٹک رہی تھی۔ ۔ ۔  اچانک ہی وہ اسے دور سے آتا دکھائی دیا تو اُس کے چہرے پر سے خوف زائل ہوا۔ ۔ ۔ ۔  وہ اُس کے قریب آ رہا تھا۔ ۔ ۔  لیکن یہ کیا اتنے قریب آنے کے بعد وہ اسے چھوڑ کر کیسے جا سکتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔  کیسے وہ اس کے پاس آنے کے بجائے دور چلا گیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔

اس کا چہرہ آنسوؤں سے تر ہو گیا تو اس نے آنکھیں کھولیں ۔ ۔ ۔  یہ کیسا خواب تھا۔ ۔  اس نے وضو کیا اور جائے نماز بچھا کر دعا مانگنے لگی

"اے اللہ تو نے مجھ سے میرا سب کچھ لے لیا مگر میں نے شکوہ نہیں کیا۔ ۔  اپنی قسمت سمجھ کر قبول کر لیا۔ ۔ ۔  اب ایک نور ہی تو بچے ہیں میرے پاس وہ کیوں لے رہا ہے مالک۔ ۔ ۔  تجھے تیری عظمت کا واسطہ نور کو مجھ سے دور نہ کر۔ ۔  میری زندگی میں جلتے چراغوں کو مت بجھا اللہ۔ ۔ ۔  مجھے اس دلدل سے نکلنے دے ۔ ۔ ۔ میرا واحد سہارا مت چھین۔ ۔ ۔ ۔ ” آج کی رات شیبا نے اللہ سے اپنے لیئے نور کا ساتھ مانگا۔ ۔ ۔ ۔  وہ دعائیں مانگتے مانگتے کب سو ئی پتا ہی نہیں چلا۔ ۔

————————-

کبھی شور ہیں کبھی چُپ سی ہیں

یہ بارشیں بھی تو تم سِی ہیں

جو بَرس گئی تو بہار ہیں

جو ٹھہر گئی تو قرار ہیں

کبھی آ گئیں یونہی بے سبب

کبھی چھا گئیں یونہی روز و شب

کبھی شوخ ہیں کبھی گم سی ہیں

یہ بارشیں بھی تو تم سی ہیں

کسی یاد میں کسی رات کو

اِک دَبی ہوئی سی راکھ کو

کبھی یوں ہوا کہ بجھا دیا

کبھی خود سے خود کو جلا دیا

کبھی بوند بوند میں غم سی ہیں

یہ بارشیں بھی تو تم سی ہیں ۔ ۔

مانچسٹر میں بارش خوب ذور و شور کے ساتھ برس رہی تھی۔ ۔ ۔  ہر طرف جھل تھل تھا۔ ۔ ۔ ۔  ارش اپنے کمرے میں ہیٹر لگائے بیٹھا ذمل سے ہوئی آج کی ملاقات کے بارے میں سوچ رہا تھا۔  کتنی معصومیت اور اپنائیت تھی اُس چہرے پر۔ ۔ ۔ ۔  اور آنکھوں کی گہرائی۔ ۔ ۔ ۔  ارش نے کبھی بھی اتنی گہری آنکھیں نہیں دیکھی تھیں ۔ ۔  ایک داستان چھپی تھی اُن میں جسے ارش ہر حال میں پڑھنا چاہتا تھا۔  شاید اُس کی زندگی میں سب کچھ مکمل ہونے کے باوجود بھی ایک کمی سی تھی مگر وہ کیا تھی۔ یہ سوال ارش کو مزید پریشان کر رہا تھا۔  باہر بارش ہو رہی تھی اور اندر یادیں محوِ رقص تھیں ۔ ۔  ذمل کی یادیں جن سے فرار کی کوئی صورت ممکن نہیں تھی۔  ۔ ۔

————————-

"تم۔ ۔ ۔ ۔ ” ننھی کے حلق سے زور دار چیخ نکلی۔ ۔

"ہاں یہ میں ہی ہوں ماہم۔ جسے تم شاید بھول چکی ہو۔  ”

ماہم ننھی کے ساتھ پڑھتی تھی۔  وہ دونوں بیسٹ فرینڈز تھیں ۔  ماہم چار سال پہلے ہی اپنے گھر والوں کے ساتھ کہیں چلی گئی تھی۔  کہاں ۔ ۔ ۔  یہ ننھی نہیں جانتی تھی۔ ۔ ۔  اسی لیئے آج اسے اسطرح اچانک دیکھ کر ننھی کی خوشی کے مارے چیخ نکل گئی۔

"نہیں یار تم بھی کوئی بھولنے والی چیز ہو۔  پاگل نہ ہو تو۔ ۔ ۔ کہاں چلے گئے تھے تم لوگ۔ ۔ ” ننھی نے ماہم کو گلے لگایا اور گال کو چوما۔

"بس چاند کیا بتاؤں ابو جی کا ٹرانسفر کراچی ہو گیا تھا اسی لیئے ہم سب وہاں شفٹ ہو گئے۔  پرسوں جاسم بھائی کی شادی کا کارڈ ملا تو چلے آئے۔  پھوپھو نے خصوصی تاکید کی کہ اگر ہم نہ آئے تو ان کا ہم سے رشتہ ختم۔ اس لیئے آنا پڑا۔ ” ماہم نے ایک سانس میں ہی پوری کہانی سنا دی۔

"جاسم بھائی وہی ہیں ناں جن کی منگنی تم سے ہوئی تھی۔ ۔ ۔ ؟؟” ننھی نے ماہم سے سوال کیا تو اس کی آنکھیں سرخ ہو گئیں ۔

"ہیں تو وہی مگر امی نے رشتہ ختم کر دیا تھا۔  امی کو پھوپھو ایک آنکھ نہیں بھاتی تھی۔  اچھا چھوڑو اس سب کو۔ تم نے شادی پر ضرور آنا ہے ۔ ”

"وعدہ تو نہیں مگر کوشش کروں گی۔ ۔ ۔ ” اتنے میں ننھی کی بس آ گئی تو اس نے اجازت چاہی۔ ۔

————————–

آدھی رات کو ننھی کی آنکھ کھل گئی ۔  اسے کافی پیاس لگ رہی تھی تو وہ بیڈ پر سے اٹھی اور پانی لینے کچن کی جانب چلی گئی۔  پانی پی کر وہ واپس مڑی تو اسے ایک سایا سا باہر نظر آیا۔  جب وہ باہر گئی تو وہاں کوئی بھی نہیں تھا۔  وہ واپس اپنے کمرے میں آ گئی۔  نیند تو اب اُسے آنے سے رہی تھی اسی لیئے وہ کمرے میں ٹہلنے لگی۔  ایک مرتبہ پھر اُسے کوئی سایا نظر آیا۔  اس نے جلدی سے کھڑکی بند کی اور بیڈ پر لیٹ گئی۔ ۔ ۔  کافی دیر وہ بلاوجہ چھت کو گھورتی رہی۔ ۔ ۔ ۔  کب نیند آئی کچھ خبر نہیں ۔

۔۔۔۔۔۔۔

"ذمل اٹھ بھی جاؤ اب۔ کتنا سوتی ہو تم۔ ۔ ۔  پوری رات گیم آف تھرونز دیکھنے کا مشورہ  تمہیں تمہاری مرحومہ نانی نے تو نہیں دیا۔ ” یہ مسکان تھی جو کافی دیر سے ذمل کو جگانے کی کوشش کر رہی تھی۔  خدا جانے کہاں سے ذمل کے دماغ میں یہ سیزن دیکھنے کا بھوت آ گیا۔  کل تک تو اچھی بھلی تھی۔

"صبر کرو میری دادی اماں ۔  کان پھٹ گئے میرے تمہاری چوں چوں سن کے ۔  تم جاؤ میں آ جاؤں گی۔ ” ذمل نے سوچا وہ مسکان کو بھیج کر نیند پوری کر لے گی۔

"اگر تم نے ایسا سوچا بھی کہ مجھے بھیجنے کے بعد تم پھر سے سو جاؤ گی تو دیکھ لینا” جانے کہاں سے مسکان نے ذمل کے ارادے بھانپ لیئے۔

"اب اٹھتی ہو یا لاؤں میں پانی۔ ” جو کام مسکان خود نہیں کر سکتی تھی وہ پانی کی چند بوندیں کر دیتیں ۔ ۔ ۔  یہ دھمکی اکثر کام آ جایا کرتی تھی اور آج بھی ایسا ہی ہوا۔

ذمل جلدی سے اٹھی اور ٹائم دیکھا۔  گھڑی کی سوئیاں ساڑھے نو بجا چکی تھیں ۔

"مسکان کی بچی تم مجھے پہلے نہیں جگا سکتی تھی۔  آج تو کوئز بھی ہے ۔  مارے گئی میں ۔

"جلدی کرو پہلے ہی تمہاری وجہ سے بہت دیر ہو گئی ہے ۔ ” ذمل نے جلدی سے منہ ہاتھ دھوئے۔ کپڑے بدلے ۔ بال برش کیئے۔ کاجل لگایا اور ریڈی ہو گئی۔  چاہے کتنی ہی دیر ہو جائے کاجل لگائے بغیر وہ باہر نہیں نکلتی تھی۔ ۔ ۔  وہ اکثر کہا کرتی لوگوں کو زندہ رہنے کے لیئے پانی ضرورت ہے مگر مجھے ۔ ۔ ۔ تھوڑا سا کاجل۔ ۔ ۔  مسکان اسے چھیڑتی رہتی کہ اگر کاجل نہ ہوتا تو میڈم کا کیا ہوتا۔ ۔ ۔ ۔ ۔

اب وہ دونوں تیز تیز قدم بڑھاتی کالج کی طرف جانے لگیں ۔  راستے میں انھوں نے کافی خرید لی تا کہ پیٹ کو سہارا دیا جا سکے ۔ ۔ ۔  کالج پہنچنے تک کافی ختم ہو چکی تھی۔ ۔ ۔ ۔

ذمل کلاس میں پہنچی تو ایک سیٹ خالی رہتی تھی۔ ۔ ۔ ۔  ارش کے ساتھ والی۔ ۔ ۔  ذمل کے چہرے پر مسکراہٹ در آئی۔

"اوہ تو آج ان محترم کے ساتھ بیٹھنا پڑے گا۔ ۔ ۔  واہ ذمل۔ ۔ ۔  کیسا شکار ملا۔ ۔ ۔ ۔  پُور لِٹل سول۔ ۔ ۔ ۔  آج تو اسے خوب تنگ کرنا ہے ۔ ۔ ۔ ۔  ذمل ارش کے ساتھ بیٹھ گئی اور سرگوشی کرنے لگی۔ ۔

"تو مسٹر ارش کوئی سرچ آپریشن کیا ہماری جھیلوں پر یا ابھی تک کورے کاغذ کی طرح ہو۔ ”

"وہ تو میں آپ کے ساتھ ہی دیکھ لوں گا۔ ۔  آپ کے ہوتے سرچ کرنے کی ضرورت کسے ہے ۔ ۔ ۔ ” ارش کے چہرے پر شوخی در آئی۔

"لگتا ہے آپ ابھی مجھے جانتے نہیں ۔ اس لیئے یہ سب بول رہے ہیں ۔ ۔  ذمل نے جو بول دیا سو بول دیا۔ ۔ ۔  میرا ساتھ پانے کے لیئے آگ کا دریا پار کرنا پڑتا ہے ۔ ۔ ۔ ” ذمل نے ہلکے سے آنکھ ماری۔ ۔ ۔ ۔

"آپ کے ساتھ کے لیئے ہم کوئی بھی دریا پار کر سکتے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ "ذمل نے ارش کی آنکھوں میں جھانکا۔ ۔  اُس ایک پل میں ذمل کی دھڑکنوں میں انتشار آ گیا تو ایک دم ہی اس نے آنکھیں جھکا لیں ۔

تیری با توں میں تو پیار کے تیور کم تھے

مگر جب آنکھوں میں دیکھا ہم ہی ہم تھے

"مذاق بہت اچھا کرتے ہیں آپ مسٹر ارش۔ ۔ ۔  کہاں سے سیکھا یہ۔ ۔ ۔ ” ذمل نے شوخ لہجے میں پوچھا۔

"گردش دوراں سے ۔ ۔ ۔ ۔ ” دونوں ایک ساتھ ہی ہنس دیئے۔  کل تک تو دونوں میں بات چیت بھی نہیں تھی اور آج کس طرح ہنسی مذاق کر رہے تھے ۔ ۔ ۔  جیسے کوئی بچپن کے دوست۔ ۔ ۔ ۔

میم ٹینا نے کلاس کو ایک گروپ اسائنمنٹ دی اور انھوں نے سب کے گروپس خود ہی بنا لیئے تھے ۔ ۔ ۔  ذمل اور ارش کا نام ایک ہی گروپ میں تھا۔ ۔ ۔

"اب ان محترم کے ساتھ پروجیکٹ بھی کرنا پڑے گا۔ ۔ ۔  چلو کوئی تو ملا یہاں ہنسی مذاق کو۔ ورنہ میں تو بور ہی ہو جاتی۔ ۔ ۔ ۔ ” ذمل دل ہی دل میں خوش ہو رہی تھی اور دور کہیں قسمت کی دیوی بھی کھڑی مسکرا رہی تھی۔ ۔ ۔ ۔

————————-

منزلوں کی بات چھوڑو کس نے پائیں منزلیں

اک سفر اچھا لگا ۔ ۔ ۔ ۔  ۔ ۔ ۔  اک ہمسفر اچھا لگا

"شیبا جی آپ نے مجھے یاد کیا۔ ۔ ۔ ” ببلی شیبا کے بلاوا بھیجنے پر حاضر ہوا تھا اور آتے ہی بلانے کا مقصد پوچھا۔

"ہاں آج نور آئیں گے مجھے لینے اُن کی خوب خدمت کرنا۔ ۔ ۔ ”

"آپ کہیں جا رہی ہیں شیبا جی۔ ۔ ۔ ؟؟” ببلی نے معصومانہ سوال کیا۔

"ہاں ببلی میں اس سب سے فرار چاہتی ہوں ۔ ۔  تنگ آ گئی ہوں میں یہاں ۔ ۔ ۔  نور کے ساتھ نئی زندگی میرا انتظار کر رہی ہے ببلی۔ ۔ ۔ ” امیدوں کے چراغ تھامے شیبا نے جواب دیا

"لیکن شیبا جی طوائف کچھ بھی کر لے طوائف ہی رہے گی۔ ۔ ۔  اُس کی حقیقت کبھی نہیں بدل سکتی۔ ۔  ایک طوائف زیادہ دیر تک مرد کے دل پر راج نہیں کر سکتی۔ ۔ ۔ ۔  آپ مت جائیں شیبا جی۔ ۔ ۔  ایسا نہ ہو واپسی کے سب دروازے بند ہو جائیں ۔ ۔ ۔ ” ببلی کو اندیشوں نے گھیر لیا تھا۔  وہ شیبا کا راز دار اور اچھے برے وقتوں کا ساتھی تھا۔

"ببلی کوئی بھی عورت اپنی مرضی سے طوائف نہیں بنتی۔ ۔  یہ تو قسمت کا کھیل ہے ۔  مجھے اپنی قسمت بدلنے کا موقع ملا ہے وہ کیسے گنوا دوں ۔ ۔ ۔ ” شیبا نے نم آنکھوں کے ساتھ جواب دیا۔

"لیکن شیبا جی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ” شیبا نے ببلی کی بات مکمل ہونے سے پہلے ہی کاٹ دی۔

"ببلی تم تو ایسی باتیں نہ کرو۔ ۔ ۔  مجھے تمہارے حوصلے کی ضرورت ہے ۔ ۔ ۔  میں نے بہت ہمت کر کے یہ فیصلہ کیا ہے ۔ ۔ ۔  اب آگے بڑھنے کے سوا کوئی راستہ نہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ” شیبا نے جس راستے پر قدم بڑھائے تھے اس پر اسے صرف نور کا ساتھ درکار تھا۔ ۔  وہ صبح سے نور کی راہ دیکھ رہی تھی۔ ۔ ۔ ۔  امیدوں کے جلتے چراغوں کی لو مدھم ہو رہی تھی۔ ۔ ۔  مگر دل کو یقین تھا کہ نور ضرور آئے گا۔ ۔ ۔ ۔

————————-

شہر بانو آجکل اپنے بیٹے ارش کے لیئے رشتہ ڈھونڈنے میں مگن تھیں ۔  بلقیس نے انھیں بہت سی تصویریں دکھائیں مگر ان کا دل کسی کے لیئے نہیں مان رہا تھا۔

"شہر بانو آپ ان تصویروں کو چھوڑ کیوں نہیں دیتیں ۔  ہمارا ارش ابھی چھوٹا ہے ۔ پہلے اُسے پڑھائی تو مکمل کر لینے دیں پھر دیکھ لینا یہ سب۔ ” یہ احمد مصطفیٰ تھے جو کافی دنوں سے بیگم صاحبہ کو سمجھا رہے تھے مگر ان کی سمجھ میں ایک بات بھی نہ آتی تھی۔

"آپ بھی کیسی باتیں کرتے ہیں احمد۔ ابھی سے لڑکی دیکھیں گے تو تین چار سال میں شادی ہو گی ناں ۔ ۔ ” شہر بانو بھی بہت ضدی تھیں ۔ ۔ ۔

"امی وہ سرمد انکل کی بیٹی بھی تو ہے ناں عنایہ۔ کتنی گڈ لکنگ ہے ناں وہ۔  بھائی کے ساتھ تو خوب جچے گی۔ ” یہ اقصیٰ تھی جسے اپنے بھائی کے سر پر سہرا سجانے کی ماں سے بھی زیادہ جلدی تھی۔

"نہیں بیٹا وہ کافی بے باک لڑکی ہے ۔  ایسے لگتا ہے کہ شرم و حیا اُس کر چھو کر بھی نہیں گزری۔  ارش کے ساتھ سوٹ نہیں کرے گی وہ۔ ” شہر بانو ارش کے لیئے کوئی حور پری نہیں دیکھ رہی تھیں بلکہ انھیں اپنے بیٹے کے لیئے شرم و حیا کے پیکر والی لڑکی چاہیئے تھی جو شاید آجکل ناپید تھیں ۔

"مجھے لگتا ہے کہ ہمیں تھوڑا ویٹ کر لینا چاہیئے۔  ارش خود اپنے لیئے کوئی لڑکی سلیکٹ کر لے تو زیادہ اچھا رہے گا۔ ۔  آخر زندگی تو اُسی نے گزارنی ہے ” احمد مصطفیٰ کی بات سُن کر شہر بانو نے بھی حامی بھر لی۔ ۔ ۔ ۔

———————

نور محمد اپنے آپ کو خوش قسمت ترین مرد سمجھ رہا تھا۔  اُس نے جس کی طلب کی تھی وہ اس کی دسترس میں قدم رکھنے والی تھی۔ ۔  زندگی کو رنگوں سے بھرنے والی شہزادی اس سے ایک دن کی دُوری پر تھی۔ ۔ ۔  لیکن اُس کے دل کو ایک پل بھی چین نہیں آ رہا تھا۔ ۔ ۔  کل اُسے بہت سے کام نبٹانے تھے ۔ ۔

——————–

مولا اب تو کہہ دے کُن

مولا اب تو یار ملا دے

شبنم بیگم آج بہت خوش تھیں ۔ ۔  انھوں نے سویرے ہی کوٹھے کو رنگ برنگے پھولوں سے سجایا۔ ۔ ۔  مہمانوں کے لیئے اپنی نگرانی میں خصوصی پکوان تیار کروائے۔ ۔ ۔  شیبا کے لیئے خاص بیوٹیشن کا انتظام کروایا۔ ۔ ۔  شیبا کا دل کسی انہونی کی پیشن گوئی کر رہا تھا۔  اسے لگ رہا تھا کہ یہ سب اہتمام نور محمد کے لیئے تو نہیں ہوا ہو گا۔ ۔ ۔  تو پھر کس کے لیئے۔ ۔ ۔  وہ انہی سوچوں میں غرق تھی کہ ببلی دوڑا دوڑا وہاں پہنچ گیا۔

"شیباجی آپ فوراً یہاں سے بھاگ جائیں ۔ ۔ ۔  اگر آج نہیں گئی تو شاید نور محمد کو ہمیشہ کے لیئے کھو دیں گی۔ ۔ ۔ ”

"یہ تم کیا کہہ رہے ہو ببلی۔ میرا دل بیٹھا جا رہا ہے ۔  پوری بات بتاؤ مجھے ۔ ۔ ۔ ” شیبا کو لگا کہ امید کا آخری چراغ بھی بجھنے والا ہے ۔ ۔ ۔

"میں نے ابھی ابھی شبنم بیگم کو کسی سے فون پر بات کرتے سنا ہے ۔ ۔  وہ آپ کو کسی کے ہاتھ فروخت کر رہی ہیں اور اس کے بدلے میں انھوں نے بنگلہ۔ ۔ ۔  گاڑی۔ ۔ ۔ ۔  جواہرات۔ ۔ ۔  اور پتا نہیں کیا کیا مانگا ہے ۔ ۔  وہ آپ کو لینے کے لیئے آنے ہی والا ہو گا۔ ۔  ” ببلی نے جلدی سے شیبا کو ساری روداد سنا دی۔

"میں کیسے جاؤں ببلی۔ ۔ ۔  میرے پاس تو نور محمد کا کوئی ایڈریس نہیں ہے ۔ ۔ ۔ ” ببلی نے دکھ بھری آواز میں کہا

"میں آپ کو اڈے تک چھوڑ آتا ہوں ۔ آپ فوراً یہ شہر چھوڑ دیں ۔ ۔ ۔ ۔ ” ببلی کو شیبا کی بہت فکر تھی۔  اس لیئے اس نے چھوٹا سا حل بتایا۔

شیبا سجدہ ریز ہو گئی اور گڑگڑانے لگی۔ ۔

"اے اللہ یہ کیسی آزمائشیں ہیں جو بڑھتی ہی جا رہی ہیں ۔ ۔ ۔  مجھے اس آزمائش سے نکال دے اللہ۔ ۔ ۔  اگر میرے خواب توڑنے ہی تھے تو کیوں دکھائے پھر ایسے خواب۔ ۔ ۔  کیوں نور محمد کو میرے قریب کیا۔ ۔ ۔  کیوں ۔ ۔ ۔ میں بہت کمزور ہوں ۔ تو تو بہت طاقت ور ہے ۔ ۔ ۔  میرا امتحان ختم کر دے ۔ ۔ ۔  مجھے راستہ دکھا دے مالک۔ ۔ ۔ ”

شاید اللہ کو شیبا کا گڑ ڑانا پسند تھا اسی لیئے تو اس نے اسے آزمائش میں ڈالا تھا۔ ۔ ۔  اب اِس آزمائش سے نکلنے کا واحد راستہ بھی اللہ کو دکھانا تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔

مہندی لگے گی تیرے ہاتھ

ڈھولک بجے گی ساری رات

جا کر تم ساجن کے پاس

بھول نہ جانا یہ دن رات

آج جاسم کی مہندی کا فنکشن تھا۔  ہر طرف رونق ہی رونق تھی۔ ۔ ۔  پورا گھر رنگ برنگی لائٹوں سے سجایا گیا تھا۔ ۔ ۔  فنکشن کی مناسبت سے لان میں اسٹیج بنا ہوا تھا۔ ۔ ۔  میوزک کی آواز گھر کے ہر کونے میں پھیل رہی تھی۔ ۔ ۔  ننھی ادھر ہی مہمانوں کے بیچ ایک کونے میں بیٹھی ہوئی تھی۔ ۔  اس نے پرپل شرٹ اور گرین کامدار لہنگا پہنا ہوا تھا۔ ۔ ۔  بال جُوڑے میں مقید۔ ۔ ۔ ۔ میک اپ کے نام پر صرف لائٹ سی لپ اسٹک لگائے۔ ۔ ۔ ۔  سفید دودھیا کلائیوں میں گرین چوڑیاں پہنے ۔ ۔ ۔  سب سے منفرد دِکھ رہی تھی۔ ۔ ۔

"ارے تم یہاں کونے میں بیٹھی ہو۔ ۔  میں نے ہر جگہ تمہیں تلاش کر لیا تھا۔ ۔ ۔ ” اچانک ہی ماہم وہاں ٹپک پڑی۔

"تمہیں پتا ہے مجھے اس طرح کی گیدرنگز بالکل پسند نہیں ہیں ۔  وہ تو تمہاری ضد کی وجہ سے آنا پڑا۔ ۔ ۔ ” ننھی اٹھ کر ماہم سے گلے ملی۔ ۔

"تم تو ابھی تک ویسی ہی ہو۔ ۔ ۔  گرو اپ یار۔ ۔ ۔  یہ محفلیں تو زندہ دلی کی پہچان ہیں ۔  اب میں آ گئی ہوں ناں دیکھنا تمہیں کیسے سیدھا کرتی ہوں ” ننھی کا ہاتھ تھامے ماہم نے اپنائیت سے کہا۔ ۔ ۔

"یہ محفلیں مردہ دلی کی پہچان ہیں ماہم۔ ۔  ہم کیوں ان پر پانی کی طرح پیسہ بہائے چلے جاتے ہیں ۔ ۔ ۔  صرف اور صرف جھوٹی شان و شوکت کے چکر میں ۔ ۔ ۔  مجھے تو اس سب سے بہت وحشت ہوتی ہے ۔ ۔ ۔  کب ہم اس سب سے آزاد ہوں گے ” ننھی کے لب و لہجے میں اچانک ہی دکھ در آیا تھا جسے ماہم محسوس کیئے بنا نہ رہ سکی۔

"چلو یار اس طرف چل کر ڈانس دیکھتے ہیں ۔ ۔ ۔  تم یقیناً انجوائے کرو گی۔ ” ننھی کو لیئے ماہم لان کے اُس حصے میں آ گئی جہاں جاسم کی کزنز ڈانس کر رہی تھیں ۔ ۔ ۔  یہاں آنے پر واقعی ننھی کا موڈ کچھ دیر کے لیئے ٹھیک ہو گیا۔ ۔  ماہم نے خدا کا شکر ادا کیا۔ ۔ ۔

————————-

"بھائی آپ کو پتا ہے میں اور مما آپ کے لیئے لڑکی پسند کر رہے تھے ۔ ” اپنے بھائی کو ہر بات سے واقف رکھنا اقصیٰ اپنا فرض سمجھتی تھی۔ ۔ ۔

"ڈئیر تو پھر آپ کو کوئی پسند بھی آئی۔ ۔ ۔ ” ارش جب شرارت کے موڈ میں ہوتا تو اقصیٰ کو آپ کہہ کر مخاطب کرتا۔ ۔ ۔

"ہاں بھائی آئی ہے ایک لڑکی پسند اور مجھے پتا ہے وہ آپ کے لیئے بیسٹ رہے گی۔ ۔ ” بھائیوں کو ستانے کا حق تو بہنوں کو ہوتا ہی ہے اور وہ بھی اس معاملے میں تو سب سے پہلا حق انہی کا بنتا ہے ۔ ۔ ۔

ارش کو لگا اس کا دل کسی نے مٹھی میں بھینچ لیا ہے ۔ ۔ ۔  اس نے خود کو بند کمرے میں محسوس کیا۔ ۔  جہاں ہر طرف اندھیرا ہی اندھیرا تھا۔ ۔ ۔ ۔

"بھائی۔ ۔ ۔  بولیں کچھ۔ ۔ ” ارش کی خاموشی محسوس کر کے اقصیٰ بولی

اگلے ہی لمحے ارش خود کو نارمل کرتے بولا۔ ۔

"کون ہے وہ۔ ۔ ۔ ؟؟”

"میں نے امی کے ساتھ مل کر پسند کی ہے ۔ ۔ ۔  شکل و صورت کوئی خاص نہیں ہے ۔ مجھے پتا ہے آپ کو اس کی شکل کا اچار تو نہیں ڈالنا ناں ۔ ۔ ۔  آنکھیں اس کی اندر کو دھنسی ہوئی ہیں لیکن وقت کے ساتھ ٹھیک ہو جائیں گی۔ ۔ ۔  اور ناک۔ ۔ ۔  اس کی تو بات ہی نہ کریں ۔ ۔  لگتا ہے جیسے کوئی ہاتھی چڑیا گھر سے آ گیا ہو۔ ۔ ۔  اور آپ کو پتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ” اقصیٰ نہ جانے اور کتنا چھیڑتی۔ ارش خود ہی بول پڑا۔ ۔

"شکر ہے کوئی لڑکی پسند نہیں آئی۔ ۔ ۔  تم نے تو مجھے ڈرا ہی دیا تھا۔ ۔ ۔ ” ایک انجانی خوشی ارش کے رگ و پے میں سرائیت کر گئی۔ ۔ ۔

"اس کا مطلب آپ کو کوئی پسند آ گئی ہے وہاں ۔ ۔ ۔ ”

"شاید ایسا ہی ہو۔ ۔ ۔ ” ارش ابھی خود بھی اپنی حالت نہیں سمجھ رہا تھا کسی اور کو کیا سمجھاتا۔ ۔

"بھائی بتائیں ناں پلیز۔ ۔  مجھے بھی تو بھابھی کا نام پتا چلنا چاہیئے۔ ۔ ۔ ” اقصیٰ سے اپنی خوشی سنبھالے نہیں جا رہی تھی اسی لیئے اسے بھابھی کا نام جاننے کی جلدی تھی۔ ۔ ۔

"بتاؤں گا ڈئیر مگر ٹھیک وقت پر۔ ۔  ابھی تو اس کا نام ایک امانت ہے جس سے خیانت کی صورت ممکن نہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ” ارش نے سوچ لیا کہ جب تک وہ ذمل کے دل تک رسائی حاصل نہ کر لے تب تک اُس کا نام نہیں بتائے گا۔ ۔ ۔

"چلیں بھائی پھر وقت کا انتظار رہے گا۔ ۔ ۔  اور ایک بات۔ ۔ ۔ ۔  بھابھی کو زیادہ تنگ نہ کرنا۔ ۔ ۔ ” اقصیٰ کو تو ابھی سے ہے بھابھی کی فکر ستانے لگی۔ ۔ ۔

"آپ کا حکم سر آنکھوں پر۔ ۔ ۔ ۔  اچھا ابھی چلتا ہوں پروجیکٹ کا تھوڑا کام کرنا ہے ۔ ۔ ۔  تمہاری بھابھی غصہ کریں گی۔ ۔ اپنا خیال رکھنا۔ ۔  اللہ حافظ۔ ۔ ۔ ”

"اللہ حافظ بھائی۔ ۔ ۔  آپ بھی بہت زیادہ خیال رکھنا۔ ۔ ” دو آنسو اقصیٰ کے گال کو تر کر گئے۔ ۔ ۔  اسے بھائی کی یاد ستانے لگی ۔ ۔ ۔

اللہ نے بہنوں کا دل بھی کس چیز سے بنایا ہے ۔ ۔  اس میں بھائی کی محبت ہر چیز پر غالب رہتی ہے ۔ ۔  بھائیوں کو خوب تنگ کرتی ہیں مگر پیار بھی سب سے زیادہ کرتی ہیں ۔ ۔ ۔ ۔  ان کے پیار کا ہر انداز نرالا ہوتا ہے ۔ ۔ ۔  بھائیوں پر بہت مان ہوتا ہے انھیں کہ ان کے بھائی ہمیشہ ان کے ساتھ ہوں گے ۔ ۔  ایک پل کے لیئے بھی ان سے دوری برداشت نہیں کر سکتی ۔ ۔  مگر وہی بھائی جب سات سمندر پار چلے جاتے ہیں تو خود کو مضبوط کر لیتی ہیں ۔ ۔  اکیلے میں جتنے بھی آنسو بہا لیں گی مگر کسی کے سامنے مجال ہے اپنا دل کھولیں ۔ ۔ ۔ ۔

———————–

زندگی بن کے تم بچھڑ جاؤ

فیصلہ تھا یہ آسمانوں کا

شیبا نے جلدی سے اپنا لہنگا تبدیل کیا۔  عام سا گھریلو سوٹ پہنا اور بڑی سی شال اوڑھ کر کوٹھے کے پچھلے دروازے سے باہر کی جانب گئی۔ ۔ ۔  ببلی وہاں اس کے انتظار میں تھا۔ ۔  اس نے عبایہ پہنا ہوا تھا تا کہ کوئی اُسے پہچان نہ سکے ۔ ۔ ۔  اسے دیکھتے ہی شیبا کی جان میں جان آئی۔

"ہمیں جلدی جانا ہو گا شیبا جی۔ کہیں کوئی دیکھ نہ لے ۔ ۔ ” ببلی کو شیبا کی فکر خود سے زیادہ تھی۔ ۔ ۔  وہ دونوں تیز قدموں کے ساتھ چلنے لگے ۔ ۔ ۔  تھوڑی دور جا کر انھیں رکشہ مل گیا۔ ۔ ۔  آدھے گھنٹے بعد وہ اڈے میں تھے ۔  وہاں سے ببلی نے کراچی کا ٹکٹ لیا اور شیبا کو بس میں بٹھا دیا۔ ۔  اُس نے شیبا سے وعدہ کیا کہ نور محمد کے ملتے ہی وہ اُسے حقیقت بتا دے گا۔ ۔ ۔

شہرِ دل کا جو مکیں ہے وہ بچھڑتا کب ہے

جس قدر دور گیا۔ آنکھ سے اوجھل نہ ہوا

شیبا بس میں بیٹھ چکی تھی مگر اس کا دل کسی صورت نہیں مان رہا تھا۔ ۔  اگر نور وہاں آ گئے تو مجھے نہ پا کر کیا ہو گا۔ ۔ ۔  وہ سوچیں گے میں نے اُن سے بے وفائی کی۔ ۔ ۔  یا خدا میں کیا کروں ۔ ۔  آگے بھی گہری کھائی ہے اور پیچھے بھی۔ ۔ ۔  تُو جانتا ہے میں اس ذلت میں زندگی نہیں گزار سکتی۔ ۔  جب بھی کوئی بھیڑیا میرا جسم نوچنے آیا تو تجھ سے مدد مانگی کہ شاید تو بچا لے ۔ ۔  مگر ہر دفعہ میری روح چھلنی ہو گئی۔ ۔ ۔  پھر بھی تجھ سے مانگنا نہیں چھوڑا کیونکہ اماں ہمیشہ کہتی تھی کہ دعا تو ایک دستک کی طرح ہے ۔ ۔ ۔  جس سے کبھی نہ کبھی دروازہ کھل جاتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔  میں دستک کر کر کے تھک گئی ہوں ۔ ۔ ۔  اب تو دروازہ کھول دے ۔ ۔ ۔

اللہ کبھی کبھی اپنے بندوں کو آزماتا ہے ۔ اس لیئے نہیں کہ وہ انھیں تکلیف میں دیکھنا چاہتا یے بلکہ اس لیئے وہ ان کا نام اپنے اُن خاص بندوں میں لکھنا چاہتا ہے جو اس سے بار بار مانگتے ہیں ۔ ۔ ۔  مگر تھکتے نہیں ۔ ۔ ۔  ایسے بندوں کے لیئے اُس کے ہاں دوہرا اجر یے ۔ ۔ ۔

————————-

ہماری خواہشیں تو

دل کے باغیچے میں

اُڑتی تتلیاں ہیں

کہ جن کے رنگ کچے

اور عمریں مختصر ہیں

"بابا جان آپ میری فکر بالکل نہ کریں ۔  میں یہاں بہت خوش ہوں ۔  مسکان میرا بہت خیال رکھتی ہے ” ذمل نے شاہ صاحب کی پریشانی دور کرنے کے لیئے وضاحت دی۔ ۔

"ہم جانتے ہیں کہ ہماری بیٹی ہر جگہ خود کو ایڈجسٹ کر لیتی ہے ۔ ۔ ۔  بالکل پانی کی طرح۔ ۔ ۔ ” شاہ صاحب کا ذمل پر مان بڑھنے لگا۔ ۔  ان کا سر فخر سے چوڑا ہو گیا۔ ۔

"بابا جان آپ کی بیٹی پانی کی طرح مضبوط بھی تو ہے ۔ ۔ ۔  جو اپنا راستہ بنانا جانتی ہے ۔ ۔ ”

"ہم جانتے ہیں کہ آپ کو کچھ بھی سمجھانے کی ضرورت نہیں پڑے گی بیٹا۔ ۔ ۔  آپ خود بہت سمجھدار ہیں ۔ ۔  اور سب سے بڑھ کر ہمیں اپنی تربیت پر پورا یقین ہے کہ آپ ہمارا سر کبھی نہیں جھکنے دیں گی۔ ۔ ”

"بابا جان میرے لیئے آپ کی عزت سب سے زیادہ امپارٹنٹ ہے ۔  کسی اور چیز کی کوئی ویلیو نہیں ۔ ” ذمل کو اپنے بابا جان پر ڈھیروں پیار آ گیا جنہوں نے اس کی ہر خواہش پوری کی۔ ۔ ۔ ۔

"جیتی رہیں ۔ ۔ ۔  ہمیں آپ سے اسی جواب کی توقع تھی۔ ۔ ۔ ”

"اللہ حافظ بابا جان۔ ۔ ۔  لو یو۔ ” ذمل نے فون رکھ دیا اور خود سے عہد کیا کہ وہ ہمیشہ اپنے بابا جان کا مان رکھے گی۔ ۔ ۔ ۔

———————–

اُسے کیوں بتا دوں

‏ اُسے کتنا چاہا ہے

کتنا سوچا ہے

محبت تو خوشبو ہے

‏ جو خود ہی محسوس ہوتی ہے

ایک ہی پروجیکٹ پر کام کرنے کی وجہ سے ذمل اور ارش میں کافی انڈر سٹینڈنگ ہو گئی تھی۔ ۔ ۔  وہ دونوں لیٹ نائیٹ تک کام کرتے رہتے ۔ ۔ ۔  کام کے دوران انھیں کسی اور چیز کا ہوش تک نہ رہتا۔ ۔  اسی محنت کی بدولت ان کا پروجیکٹ ایگزیبیشن کے لیئے سلیکٹ کیا گیا جو کہ نیکسٹ ویک پیرس میں منعقد ہونی تھی۔ ۔ ۔ ۔

اسی خوشی میں آج ذمل اور ارش نے باقی فرینڈز کے لیئے پارٹی رکھی تھی۔ ۔  ذمل خوب دل سے تیار ہو رہی تھی۔ ۔ ۔  کیوں نہ ہوتی۔ آخر کو پارٹی تو اسی کی تھی۔ ۔ ۔  اُس نے ریڈ ساڑھی ذیب تن کی۔ ۔  گلے میں ڈائمنڈ نیکلس ڈالا۔ ۔ ۔  کانوں میں ڈائمنڈ ٹاپس ہمیشہ ہی ہوتے مگر اُس وقت ایسے چمک رہے تھے جیسے چودھویں کا چاند۔ ۔ ۔  آنکھوں میں کاجل لگایا۔ ۔ ۔  موقعے کی مناسبت سے لائٹ سا میک اپ کیا۔ ۔ ۔  ہونٹوں پر ریڈ لپ سٹک سجائی۔ ۔ ۔  پنسل ہیل پہنی۔ ۔ ۔  خود کو ایک دفعہ آئینے میں دیکھا۔ ۔ ۔ اس کی تیاری مکمل ہو گئی تھی۔ ۔ ۔  ذمل سب سے پہلے پارٹی میں پہنچ گئی تھی۔ ۔ ۔  ارش ابھی تک نہیں آیا تھا۔  اُس نے اسے ٹیکسٹ کیا۔ ۔

"چیک دا ٹائم۔ ۔ ۔  اب آ رہے ہو یا انویٹیشن بھیجوں ۔ ۔ ”

"آ رہا ہوں ۔ ۔ ۔  اب انتظار کی سولی پر لٹک کے پتا چل گیا ہو گا کہ انتظار موت جیسا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ” ٹیکسٹ لکھتے وقت ارش کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی۔

"موت کا کیا کام اب اس ٹائم۔ ۔ ” ذمل نے لکھ کر بھیج دیا۔ ۔ ۔

"تمہیں کچھ نظر جو نہیں آتا۔ ۔ ۔  موت تو آ ہی جائے گی تمہارا انتظار کرتے کرتے ۔ ۔ ۔ ” ارش بھی ذمل کو خوب تنگ کر رہا تھا۔ ۔ ۔

"فلرٹ کرنا کب چھوڑو گے تم ارش۔ ۔ ۔ ” اب اسے چھیڑنے کی باری ذمل کی تھی۔

"جب تم میرے دل کی بات سمجھ جاؤ گی۔ ۔ ۔ ” ارش نے بھی خوب بنا کر جواب دیا۔ ۔

"وہ تو کبھی نہیں ۔ ۔ ۔  دل کی بات سمجھنے کے لیئے اقرار ضروری ہوتا ہے ۔ ۔ ۔ ”

"امی میرے لیئے لڑکی دیکھ رہی ہیں ۔ ۔ ۔  کہیں دیر نہ ہو جائے۔ ۔ ۔ ”

ایک طرف ارش اپنے دل کی بات ذمل تک پہنچا رہا تھا۔ ۔ ۔  وہاں دوسری طرف ذمل اس سب کو مذاق کا حصہ سمجھ رہی تھی۔ ۔ ۔  اسی لیئے جواب لکھتے وقت وہ انجوائے کر رہی تھی

"دیکھنے دو ان کا حق ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ”

اتنے میں ارش مصطفیٰ اس کے عین سامنے آ گیا۔ ۔ ۔  گرے سوٹ پہنے ۔ ۔ ۔  کف کو فولڈ کیئے۔ ۔ ۔  رسٹ پر برانڈڈ واچ پہنے ۔ ۔ ۔  بالوں کو جیل لگائے۔ ۔ ۔  چہرے کو مسکراہٹ سے سجائے۔ ۔ ۔  وہ وجیہہ مرد لگ رہا تھا۔ ۔ ۔  اسے دیکھ کر کسی بھی لڑکی کا دل بے قابو ہو جاتا اور وہ اسے پانے کی تمنا کرتی۔  ۔ مگر ذمل اُن عام لڑکیوں کی طرح نہیں تھی۔ ۔ ۔  ارش کے دل میں اُس کا خاص مقام تھا۔ ۔  اور اس کے دل کی دنیا اس ایک نام سے ہی روشن رہتی۔ ۔ ۔ ۔  ذمل۔ ۔ ۔

ذمل کو دیکھ کر ارش کے چہرے پر مسکراہٹ در آئی۔ ۔ ۔  اس کی دھڑکنیں رقص کرنے لگیں ۔ ۔ ۔  اس کا دل چاہا کہ وہ اپنے دل کی بات ذمل تک پہنچا دے مگر اتنے میں مسکان اور لیزا بھی آ گئیں ۔ ۔ ۔  ارش کے دل کی بات دل میں ہی دب گئی۔ ۔ ۔

————————-

نور محمد خوب تیار ہو کر شیبا کو لینے آیا تھا۔ ۔ ۔  کریم کلر کی شیروانی پہنے اور گلے میں گلاب کی مالا ڈالے وہ نہایت پُر وقار لگ رہا تھا۔ ۔ ۔  اس کی شخصیت میں ایک رعب تھا جو اُسے مکمل کر رہا تھا۔ ۔ ۔  اس کے دوست بھی اس کے ہمراہ تھے ۔ ۔ ۔ اس نے شبنم بیگم کو فون کر کے خاص تاکید کی تھی کہ شیبا کے لیئے سب انتظام وہ اپنی نگرانی میں کروائیں ۔ ۔ ۔  اسی لیئے شبنم بیگم نے کسی چیز کی کسر نہیں چھوڑی تھی۔ ۔  سارا پیسہ تو نور محمد کا تھا۔ ۔ ۔

مولوی صاحب نے نکاح پڑھوانا شروع کر دیا ۔ ۔ ۔ ۔  نور محمد کی زندگی میں شیبا کی جگہ آج بھرنے والی تھی۔ ۔ ۔  اس کی خوشی دیدنی تھی۔ ۔ ۔  شبنم بیگم کے قدم شیبا کے کمرے کی طرف بڑھنے لگے ۔ ۔  انھوں نے دروازے پر دستک دی مگر کوئی جواب نہ آیا۔ ۔  شبنم بیگم نے دروازے کا ناب گھمایا۔ ۔ ۔  ایک جھٹکے کے ساتھ دروازہ کھلا۔ ۔ ۔  اور سامنے کا منظر دیکھتے ہی شبنم بیگم کی سانسیں رکنے لگیں ۔ ۔ ۔  شیبا وہاں کہیں بھی نہیں تھی۔ ۔ ۔ ۔

——————–

اگر روشنی، روشنی میں ملے بھی تو کیا فائدہ ہے ؟

اندھیرے میں آؤ!

یہاں آ کے چمکو !

قسم ہے !

مصلّوں سے بھٹکے ہوئے آنسووں کی !

سیہ کار لوگوں کے دل قیمتی ہیں

جو اک بار یہ روشنی میں نہا لیں

تو پھر عمر بھر یہ اجالوں کا معنی نہیں بھولتے ہیں

سو ہم جو سیاہی بھرے صف بہ صف ہیں

تمھاری تجلّی کا عمدہ ہدف ہیں

سو تم !روشنی

لا تخف اپنی پوری توانائی لاؤ

بھلا اُن بتائے ہوؤں کو بتانے میں کیوں مر رہی ہو ؟

ادھر آ کے دیکھو !

کہ ہم جو ازل سے زمانے کی دھتکار پر ہیں

جنہیں بد دعاؤں کے چرخوں پہ کاتا گیا ہے

یہاں سے اُٹھائے، وہاں سے ہٹائے، اچھوتوں کے مانند

دھکّوں پہ پلتے

سوالی بنے

اپنے اَسوَد دلوں کی سیاہی لئے اب درِ یار پر ہیں !

سو تم روشنی !

ہم سیاہی بھروں کو منوّر بناؤ

ہم ان پڑھ دلوں کو اجالوں کا معنی بتاؤ

محبّت

ذرا اس اندھیرے میں آؤ

یہاں آ کے چمکو !!

* ————————–

ننھی مہندی کے فنکشن سے کافی دیر سے لوٹی تھی۔  اُسے ماہم کے کزن فاخر نے گھر ڈراپ کیا تھا۔ ۔ ۔  وہ کپڑے بدلنے کے بعد بیڈ پر لیٹی آج رات کا واقعہ سوچ رہی تھی۔ ۔ ۔ ۔ ۔  فاخر اُسے بار بار بیک ویو مِرر سے دیکھے جا رہا تھا۔ ۔ ۔  وہ بہت نروس ہو گئی تھی۔  اس طرح کسی اجنبی کے ساتھ بیٹھ کر اسے عجیب سا لگ تھا مگر ساتھ ہی ماہم پر یقین تھا کہ اُس نے کوئی ایسا ویسا لڑکا نہیں بھیجا ہو گا۔ ۔ ۔  وہ انہی سوچوں میں تھی کہ فاخر نے ٹیپ پر میوزک پلے کیا اور ساتھ خود بھی گنگنانے لگا۔ ۔ ۔ ۔

تم جو آئے زندگی میں بات بن گئی

عشق مذہب عشق میری ذات بن گئی

اُس نے فاخر کی آنکھوں میں اپنے لیئے پسندیدگی دیکھ لی تھی۔ ۔ ۔  وہ کوئی نو عمر لڑکی تو تھی نہیں جو یہ سب نہ سمجھ سکتی۔ ۔ ۔  اس کے لیئے یہ سب بالکل نیا تھا۔ ۔ ۔  وہ فاخر کو کوئی بھی اُمید نہیں دلانا چاہتی تھی اسی لیئے گھر سے تھوڑے فاصلے پر ہی گاڑی رکوا دی اور اُس کے جانے کے بعد گھر کی طرف آئی۔ ۔ ۔ ۔

——————————

ہم جو چلتے ہیں

تیرے عشق کے انگاروں پر

‘سنو

پاؤں تو جلتے ہیں

مگر دل کو قرار آتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔

آج کی پارٹی اپنے اختتام کو پہنچی تھی۔  سب لوگ جا چکے تھے ۔ ۔ ۔  ذمل اور ارش ہی بچے تھے ۔ ۔ ۔  وہ دونوں پارکنگ کی طرف بڑھنے لگے ۔ ۔ ۔

"ذمل آج کا دن میرے لیئے بہت خاص ہے کیونکہ تم میرے ساتھ ہو۔ ۔ ۔  میں اسے مزید خاص بنانا چاہتا ہوں خیالات کو لفظی جامہ پہنا کر۔ ۔ ۔ ۔ ” ارش ذمل تک اپنی فیلنگز پہچانے کا سوچ رہا تھا مگر جانے کیا سوچ کر خاموش رہا۔

"کیا سوچ رہے ہر ارش۔ ۔ ۔ ؟؟” ذمل کے اس طرح پکارنے پر ارش چونکا

"یہی کہ آج تم کتنی پیاری لگ رہی ہو۔ ۔ ۔  بس ایک چیز کی کمی ہے ۔ ۔ ۔ ” ارش کے چہرے پر مسکراہٹ گہری ہو گئی۔ ۔ ۔

"کس چیز کی کمی ہے ۔ ۔ ؟؟” ذمل نے متجسس ہو کر پوچھا۔  ارش نے ایک دم سے ذمل کا ہاتھ پکڑ لیا۔ ۔ ۔  یہ سب اتنے اچانک ہوا کہ وہ کچھ سوچ ہی نہ سکی۔ ۔ ۔

"کیا ہے یار۔ ۔ ۔  آرام سے پکڑو۔ ۔  میں نے کون سا کچھ کہنا ہے ۔ ۔ ۔ ” ذمل کے ہاتھ پر ارش نے اپنی گرفت اور مضبوط کر لی۔ ۔ ۔ ۔

"یہی تو مسئلہ ہے کہ تم کچھ کہتی نہیں ہو۔ ۔ ۔ ۔  مجھے تو اُس دن کا انتظار ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ” ذمل نے ارش کی بات قطع کی۔ ۔

"جس دن میں تمہارے دل کی بات سمجھوں گی۔ ۔ ۔ ۔  آئی نو یہی بولو گے تم اب۔ ۔ ۔ ”

"میرے ساتھ رہ کر بہت سمجھدار ہو گئی ہو۔ ۔ ۔  اسی لیئے مشورہ دے رہا ہوں کہ اس ساتھ کو ہمیشہ کے لیئے قبول کر لو۔ ۔ ۔ ” ارش نے مزاحیہ انداز میں کہا۔ ۔ ۔

"ارش تم ایک بات کیوں بھول جاتے ہو کہ میں ذمل ہوں ۔ ۔ ۔  ذمل۔ ۔ ۔ ۔  کوئی عام لڑکی نہیں ۔ ۔ ۔ ” لیکن اُس پل ذمل خود کو ایک عام لڑکی ہی سمجھ رہی تھی جسے ارش کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ رکھ کر کتنا تحفظ ملا تھا۔ ۔ ۔

"اسی لیئے تو تم خاص ہو۔ ۔ ۔  کہ تم ذمل ہو۔ ۔ ۔ ” ارش کی آنکھوں میں ذمل کے لیئے بے پناہ پیار امڈ آیا۔ ۔ ۔  ذمل نے آنکھیں جھکا لیں ۔ ۔

وہ دونوں اب گاڑی کے پاس تھے ۔ ۔ ۔  ارش نے ذمل کے لیئے دروازہ کھولا۔ اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے بٹھایا اور خود ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ گیا۔ ۔ ۔

"میں سوچ رہی ہوں کہ تمہاری بیگم کا کیا بنے گا ارش۔ ۔ ۔  مجھے تو ابھی سے ہی اُس پر ترس۔ ۔ ٰ۔ ۔ ” وہ بولتے بولتے خاموش ہو گئی۔ ۔

"مجھے کچھ جلنے کی بُو آ رہی ہے ۔ ۔  کہیں تمہارا دل۔ ۔ ۔  ” ذمل نے ہاتھ کے اشارے سے ارش کو چپ کروایا۔

"تم نے جس طرف اپنے قدم بڑھائے ہیں ناں ارش وہ تمہاری منزل نہیں ہے ۔ ۔ ۔  مشرقی لڑکیاں قربانی کا دوسرا نام ہیں ۔ ۔ ۔ ” ذمل بنا سوچے سمجھے بول گئی تھی۔ اسے بعد میں اس بات کا احساس ہوا۔ ۔ ۔ ۔  باقی کا سفر بہت خاموشی سے طے ہوا۔ ۔ ۔ ۔  ارش نے ذمل کو اس کے ہاسٹل ڈراپ کیا۔ ۔

"اس مشرقی لڑکی کو میں قربانی نہیں دینے دوں گا ذمل ۔ ۔ ۔  یہ میری زندگی کا بھی سوال ہے ۔ ۔ ۔ ” ارش نے خود کلامی کی۔ ۔ ۔

————————-

محبت۔۔ ۔۔ ایک سرگوشی،

کسی فنکار کے ہاتھوں سے

جھڑتا۔۔ ۔۔ ۔ بے خودی کا راگ

محبت بارشوں کے موسموں میں یاد کی کایا،

محبت جلتے تپتے راستوں پر پھیلتا سایہ،

محبت اک قضا بن کر بھی آتی ہے

کئی لوگوں کے جیون میں،

محبت مرگِ گل بھی ہے۔۔ ۔ !!

محبت یاس کی صورت

اک ایسی پیاس کی صورت

کبھی جو۔۔ ۔۔ بجھ نہیں پاتی

محبت اک اداسی ہے

بلا کی خامشی بھی ہے

محبت موسموں کو حسن کا پیغام دیتی ہے،

محبت چاہنے والوں کو یہ انعام دیتی ہے،

قبولیت کے دروازوں پہ مہکی اِک دعا بھی ہے

محبت اک سزا بھی ہے

محبت پت جھڑوں کا نام

محبت اک سلگتی شام۔۔ ۔

"جانے کہاں ہے یہ لڑکی۔ ۔ ۔  کمرے میں تو کہیں بھی نہیں ۔ ۔ ۔  ہر طرف تو دیکھ چکی ہوں میں ۔ ۔ ۔ ” شبنم بیگم دل ہی دل میں شیبا کو کوس رہی تھیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اتنے میں باتھ کا دروازہ کھلا اور شیبا کمرے میں داخل ہوئی۔ ۔ ۔  وہ مکمل دلہن کا روپ لیئے ہوئی تھی۔ ۔ ۔ ۔

"تم نے تو میری جان ہی نکال دی تھی۔ ۔  میں نے سوچا کہیں بھاگ ہی نہ گئی ہو۔ ۔ ۔  اللہ تیرا شکر۔ ۔ ۔ ۔ ۔  چلو اب باہر۔ ۔ ۔  پہلے ہی بہت دیر ہو گئی ہے ۔ ۔ ۔ ” شبنم بیگم شیبا کو لیئے اس کمرے میں آ گئیں جہاں نکاح ہو رہا تھا۔ ۔ ۔  شیبا کو نور محمد کے ساتھ والے صوفے پر بٹھایا گیا۔ ۔  اس کا چہرہ گھونگٹ میں چھپا تھا اس لیئے نور محمد اُسے نہیں دیکھ سکا۔ ۔

"کیا آپ کو یہ نکاح قبول ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ؟؟” مولوی صاحب پوچھے جا رہے تھے مگر دوسری طرف سے کوئی جواب نہیں آیا۔ ۔ ۔

"کیا آپ کو یہ نکاح قبول ہے ۔ ۔ ۔ ” مولوی صاحب نے پھر سے پوچھا۔ ۔  سب لوگ شیبا کے جواب کے منتظر تھے ۔ ۔  اس کی تو زبان پر تالا تھا شاید۔ ۔ ۔  شبنم بیگم نے شیبا کے کان میں کچھ کہا تو وہ فوراً بولی۔ ۔ ۔

"جی قبول ہے ۔ ۔ ۔ ” نور محمد کے دل کو تو مانو قرار آ گیا۔ ۔ ۔  خدا نے شیبا کو اس کا مقدر بنا دیا۔ ۔ ۔  میلوں کے تھکے مسافر کو منزل مل گئی ۔ ۔ ۔  آج وہ شیبا کو پورے مان سے ۔ ۔ ۔  اپنی بیوی کی حیثیت سے گناہوں کے جہاں سے لے جائے گا۔ ۔ ۔  اس پار جہاں خوشیاں ہی خوشیاں ہیں ۔ ۔ ۔

شیبا نے خود کو کافی دیر سے سنبھالا ہوا تھا۔ ۔ ۔  اس کا دل شدت سے چاہ رہا تھا کہ وہ اللہ کے حضور سجدہ ریز ہو جائے۔ ۔ ۔  اس کی زندگی۔ ۔ ۔  اس کا نور آج اس کا محرم بن چکا تھا۔ ۔ ۔  اتنی آزمائشوں کے بعد اللہ نے اس کی سن لی۔ ۔ ۔  اسے اللہ پر بے پناہ پیار آ رہا تھا۔ ۔ ۔

شبنم بیگم کے کوٹھے پر پہلی مرتبہ نکاح پڑھوایا گیا تھا۔ ۔ ۔  سب طوائفیں شیبا کے لیئے دل سے خوش تھیں کیونکہ انھیں شیبا نے فرار کا راستہ دکھایا تھا۔ ۔ ۔  ان سب کو اُمید کی کرن دکھ رہی تھی کہ شاید کوئی نور محمد اُن کے لیئے بھی آئے گا۔ ۔ ۔ ۔

————————–

دیکھ کتنا تجھے چاہا ہے کبھی غور تو کر

ہم تو ایسے کبھی اپنے طلب گار نہ تھے

ذمل جب سے پارٹی سے لوٹی تھی کچھ مضطرب سی تھی۔  وہ اپنی کیفیت نہیں سمجھ پا رہی تھی۔ ۔  اُسے اچانک کیا ہو گیا تھا۔ ۔  اس کے جملے اس کے کانوں میں گونجنے لگے ۔ ۔ ۔ ۔ وہ اس کا تمسخر اڑا رہے تھے ۔ ۔ ۔ ۔

"مشرقی لڑکی۔ ۔ ۔ ۔  مشرقی لڑکی۔ ۔ ۔ ۔  کب تک سینے میں اپنے جذبات چھپا کے رکھو گی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  تم کچھ بھی کر لو محبت کی چنگاری کو نہیں بجھا سکو گی۔ ۔ ۔  اس کو تم جتنا بجھانا چاہو گی یہ اتنا بھڑک اٹھے گی۔ ۔ ۔ ۔  جانتی ہو محبت کی طاقت۔ ۔ ۔ ۔  یہ جلا کر رکھ دے گی۔ ۔ ۔  راکھ کر دے گی مگر تُم اُف تک نہیں کرو گی۔ ۔  ”

"ذمل ارش کتنا ہینڈسم۔ ۔  کتنا کیئرنگ ہے ناں ۔ ۔  میں نے نوٹ کیا ہے وہ تمہارے علاوہ کسی کو آنکھ اُٹھا کر نہیں دیکھتا۔ ۔ ۔  کیا اُس نے کھل کر بتایا تمہیں کچھ۔ ۔ ۔ ۔ ؟؟” مسکان ذمل کے پاس آ کر بیٹھ گئی اور اس سے پوچھنے لگی۔ ۔

"مجھے تو ایسا کچھ نہیں لگتا۔ ۔  ہم صرف اچھے دوست ہیں اور کچھ بھی نہیں ۔ ۔ ۔ ” یہ سچ تھا کہ ذمل نے ہمیشہ ارش کو ایک اچھا دوست ہی سمجھا۔ ۔  اس سے زیادہ کچھ بھی نہیں ۔ ۔

"میں نے نوٹ کیا ہے جب سے تم پارٹی سے آئی ہو کچھ ٹھیک نہیں لگ رہی۔ ۔ ۔  جب میں آئی تھی تب تو بالکل ٹھیک تھی۔ ۔ ۔ کسی نے کچھ کہا کیا۔ ۔ ۔ ؟؟” مسکان کو ذمل کی فکر ہونے لگی۔ ۔

"نہیں یار تم سب کے ہوتے ہوئے مجھے کوئی کچھ کہہ سکتا ہے ۔ ۔  آئی ایم لکی ٹو ہیو یو آل بائے مائی سائیڈ۔ ۔

(I am Lucky to have you all by my side)”

"آئی وش ایسا ہی ہو۔ ۔  اچھا اُس مسٹر ہینڈسم سے میں خود پوچھ لوں گی کہ کیا ہوا تم دونوں کے بیچ۔ ۔ ۔ ” مسکان نے ذمل کو آگاہ کیا۔ ۔ ۔

۔ "تم اُس سے کچھ نہیں پوچھو گی۔ ۔ ۔  وہ پتا نہیں کیا سوچے گا۔ ۔ ۔  میں بالکل ٹھیک ہوں ۔ ۔ ۔ ” ذمل نے ہلکے سے مسکرا کر مسکان کو تسلی دی۔ ۔ ۔  اُس کے بعد مسکان نے اس بارے میں کوئی سوال نہیں کیا۔ ۔ ۔  وہ دونوں کچھ دیر اِدھر اُدھر کی باتیں کرتی رہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

————————–

جانے کیوں ہر امتحان کے لیئے

زندگی کو میرا پتا یاد رہتا ہے

شیبا بس میں بیٹھ گئی اور بس چلنے کا انتظار کرنے لگی۔ ۔ ۔  جانے اُس کے دل کو کیا ہوا کہ وہ ایک دم سے نکلی اور فیصلہ سنایا کہ وہ کوٹھے پر واپس جائے گی۔ ۔  ببلی نے اُسے بہت سمجھایا مگر وہ نہ مانی۔ ۔ ۔  اس نے سب کچھ وقت پر چھوڑ دیا۔ ۔ ۔  جو اس کے مقدر میں ہو گا وہ اُسے ملے گا۔ ۔  چاہے وہ نور محمد ہو یا کوئی اور۔ ۔ ۔  اُس کا دل بار بار یہی گواہی دے ریا تھا کہ نور محمد اُس کی قسمت میں لکھا جا چکا ہے ۔ ۔  اور اگر وہ آج چلی گئی تو کبھی نور محمد کو نہیں پا سکے گی۔ ۔ ۔  اسی لیئے وہ اللہ کو آزمانے چلی تھی۔ ۔ ۔

وہ کوٹھے پر واپس آ گئی۔ ۔ ۔  بیڈ پر سب کچھ ویسے ہی بکھرا پڑا تھا جیسے وہ چھوڑ کر گئی تھی۔ ۔  جلدی سے اس نے لہنگا پہنا۔ ۔ ۔  نیکلس ڈالا اور اپنا میک اپ ٹھیک کیا جو گرمی کی تمازت سے بگڑ چکا تھا۔ ۔ ۔  ایک آخری دفعہ خود کو آئینے میں دیکھا۔ ۔  وہ مکمل دلہن کا روپ لے چکی تھی۔ ۔ ۔ ۔  ایک چیز کی کمی تھی۔ ۔ ۔  چوڑیوں کی۔ ۔ ۔ ۔  اتنے میں باہر دروازے پر دستک ہوئی۔ ۔ ۔  دروازہ نہیں کھلا۔ ۔  ۔ شبنم بیگم نے ناب گھمایا اور کمرے میں قدم رکھا۔ ۔ ۔  شیبا کو ہر طرف ڈھونڈا مگر نہ ملی۔ ۔  شیبا نے جلدی سے اپنی کلائیوں میں سونے کی آٹھ چوڑیاں پہنیں اور باہر آ گئی۔ ۔ ۔ ۔

————————-

"چاند تم نے کیا جادو چلا دیا ہے فاخر پر۔ ۔ ۔ ۔ ” ماہم آج کافی دن بعد ننھی کے گھر آئی تھی اور آتے ہی فاخر کا قصہ لے کر بیٹھ گئی۔

"کیا مطلب ماہم۔ ۔  کھل کے بتاؤ مجھے ۔ ۔ ۔ ” ننھی ماہم کی بات کا مطلب سمجھ چکی تھی مگر انجان بن رہی تھی۔ ۔ ۔

"جب سے فاخر نے تمہیں دیکھا ہے اُسکی ذبان پر صرف تمہارا ہی نام ہے ۔ ۔ ۔  وہ تمہارے لیئے سیریس ہے یار۔ ۔ ۔ ”

"سیریس ہے تو اپنے گھر والوں کو بھیج دے ۔ ۔  میں اس کھیل میں شامل نہیں ہو سکتی۔ ۔ ۔ ” ننھی نے ایسے شانے اچکائے جیسے اُسکی نہیں کسی اور کی بات ہو رہی ہو۔ ۔

"یہی تو مسئلہ ہے اس نے پھپو سے بات کر لی ہے ۔ ۔ ۔ ۔  پھپھو کو تو اس کے لیئے اپنی بھانجی پسند ہے ۔ اسی لیئے گھر میں ایک طوفان آ گیا ہے ۔ ۔ ۔ ” ماہم نے اسے اطلاع دی۔ ۔

"تم اُسے سمجھاؤ ماہم کہ وہ اپنی امی کی بات مان لے ۔ ۔  مجھے ایسے بدنام نہ کرے ۔ ۔ ۔  میرے گھر والوں کو اِس بات سے بہت فرق پڑے گا۔ ۔ ۔ ۔ ” ننھی کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ ۔ ۔

"میں نے اُسے بہت سمجھایا مگر وہ نہیں سمجھ رہا۔ ۔  اس نے بولا وہ شادی کرے گا تو صرف تم سے ۔ ۔ ۔ ۔  پھپو تو مجھے کوس رہی ہیں کہ کیوں میں نے تمہیں شادی پر بلایا۔ ۔ ۔ ” پریشانی ماہم کی آنکھوں سے بھی جھلک رہی تھی۔ ۔ ۔ ۔

"یار تم ایک دفعہ اس سے مل لو۔ ۔  شاید وہ تمہاری بات سمجھ جائے۔ ۔  ” ماہم نے ایک مشورہ دیا۔ ۔ ۔

"مجھے مشکل میں نہ ڈالو ماہم۔ ۔  تم اچھے سے جانتی ہو میں ایسا کچھ نہیں کروں گی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ”

ننھی نے ماہم کے کہنے پر فاخر کر لیئے خط لکھا۔ ۔ ۔ ۔  ننھی نہیں جانتی تھی کہ پروین نے دروازے پر کھڑے دونوں کی باتیں سُن لی تھیں اور وہ اپنی چال چلنے کا سوچ رہی تھی۔ ۔ ۔ ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

محبت اس طرح بھیجو۔ ۔ ۔

کہ جیسے پھول پہ تتلی اترتی ہے ۔ ۔ ۔

ہوا میں ڈولتی،

پر تولتی تتلی۔ ۔

لرزتی، کپکپاتی، پنکھڑیوں کو پیار کرتی ہے ۔ ۔

تو ہر پتۤی نکھرتی ہے ۔ ۔

محبت اس طرح بھیجو۔ ۔

کہ جیسے چار سُو خوشبو بکھرتی ہے ۔ ۔

محبت اس طرح بھیجو۔ ۔

کہ جیسے خواب آتا ہے ۔ ۔

جو آتا ہے تو دروازے پہ دستک تک نہیں ہوتی۔ ۔

بہت سرشار لمحے کی، مدھُر چُپ میں ۔ ۔

کسی ہلکورے لیتی آنکھ کی خاطر۔ ۔

کسی بے تاب سے ملنے، کوئی بے تاب آتا ہے ۔ ۔

محبت اس طرح بھیجو۔ ۔

کہ جیسے جھیل میں مہتاب آتا ہے ۔ ۔

————————-

ننھی کی طرف سے آنے کے بعد ماہم نے فاخر کو بہت سمجھایا کہ وہ اس کی دسترس میں نہیں ۔ اس لیئے وہ پھپھو کی بات مان لے ۔ ۔ ۔ ۔  مگر فاخر کی آنکھوں میں کچھ کر گزرنے کی تحریر دیکھ کر وہ ڈر گئی۔ ۔ ۔ وہ جانتی تھی کہ فاخر نے ہار ماننا نہیں سیکھا۔ ۔ ۔  اُسے قائل کرنا مشکل ہی نہیں ۔ نا ممکن تھا۔ ۔  ماہم اُسے ننھی کا خط دے کر چلی گئی۔ ۔ ۔  وہ اُس پر ایسے جھپٹا جیسے اقلیم کا خزانہ ہاتھ لگ گیا ہو۔ ۔ ۔ ۔  فاخر نے وہ خط کھولا اور پڑھنے لگا۔ ۔ ۔ ۔

"پلیز میری آپ سے ایک چھوٹی سی ریکیوسٹ ہے کہ میرا نام اپنی زبان پر نہ لائیں ۔ میں غریب ضرور ہوں مگر عزت دار ہوں ۔ ۔ ۔  میرے لیئے میری عزت بہت قیمتی ہے ۔ ۔  پلیز آپ اپنی امی کی بات مان لیں ۔ ۔ ۔  میرے وجود کو اتنا داغ دار نہ کریں کہ مجھے اس سے نفرت ہونے لگے ۔ ۔ ۔ ”

خط پڑھنے کے بعد اُس کی آنکھیں سُرخ بگولہ ہو گئیں ۔ ۔ ۔ ۔  ننھی کو حاصل کرنے کا جنون مزید بڑھ گیا۔ ۔ ۔  اُس نے فیصلہ کر لیا کہ اب کچھ بھی ہو جائے وہ اُسے حاصل کر کے رہے گا۔ ۔ ۔  وہ جلدی سے گھر سے باہر نکل گیا۔ ۔ ۔ ۔  پیچھے اس کی امی اسے پکارتی رہ گئیں ۔ ۔ ۔  ماں کا دل دہل کر رہ گیا۔ ۔ ۔  کچھ بہت بُرا ہونے والا تھا۔ ۔ ۔ ۔  قسمت کی سیاہی بہت سی زندگیوں میں اندھیرا بھرنے والی تھی۔ ۔ ۔

————————–

حرف زباں سے رکوع تک ۔ ۔ !!!

آنکھ کے نیل سے سجود تک ۔ ۔ !!

میرا عشق تیرے گرد ہے ۔ ۔ !!!

فریاد سے "کن فیکون” تک۔ ۔ !!

شیبا نور محمد کی حویلی میں قدم رکھ رہی تھی۔ ۔ ۔  کتنی شاندار حویلی تھی۔ ۔ ۔  لان میں رنگ برنگے پھولوں کی مہک ہر سُو بکھر رہی تھی۔ ۔ ۔ ۔  اُدھر بیچوں بیچ ایک فوارہ تھا جس کے گرد رنگ برنگی لائٹیں لگی ہوئی تھیں ۔ ۔ ۔ ۔  اس پانی میں ان لائٹوں کا عکس نمایاں تھا۔ ۔ ۔  کس قدر دلکش منظر تھا یہ۔ ۔ ۔ ۔  وہاں سے کچھ فاصلے پر نظر دوڑاؤ تو دو وجود کرسیوں پر بیٹھے ہوئے تھے ۔ ۔ ۔  ایک تو کوئی چالیس سے پینتالیس سال کا مرد تھا اور دوسری تیس پینتیس سال کی عورت تھی۔ ۔ ۔

"شیبا وہ وقار بھائی اور شہلا بھابھی ہیں ۔ ۔ ۔  بھابھی کی نیچر بہت اچھی ہے ۔ ۔  دیکھنا اِدھر آتی ہوں گی ابھی۔ ۔ ۔  جبکہ بھائی سے تم کوئی اُمید نہ رکھنا۔ ۔ ۔ ” شیبا کو اب ادھر رہنا تھا اسی لیئے نور محمد نے ان دونوں کا تعارف کروانا ضروری سمجھا۔ ۔

شیبا کو شہلا بہت پسند آئی۔ ۔  وہ اُسے بہت تپاک سے ملی اور اسے اس کے کمرے تک لے آئی۔ ۔ ۔

"تم یہاں آرام کرو۔ میں ابھی نور کو بھیجتی ہوں ۔ ۔ ” شہلا نے بہت اپنائیت سے شیبا کا دوپٹا سیٹ کیا اور چلی گئی۔ ۔  ماضی کے دریچے کی کھڑکی کھلی اور شیبا کے دل میں درد کی ایک ٹیس اٹھی۔ ۔ ۔ ۔

"کیا بہنیں ایسی ہوتی ہیں ۔ ۔ ۔  ہاں ۔ ۔ ۔ ۔  شاید ایسی ہی ہوتی ہوں گی۔ ۔ ۔ ۔ ” وہ کچھ ہی لمحوں میں ماضی سے نکل آئی۔ ۔ ۔ ۔

—————————

وہ پوچھتے ہیں _______ ہم سے کیا ہہوا ہے ۔ ۔ !

کیسے بتائیں انھیں کے انھی سے عشق ہوا ہے ۔ ۔

آج ذمل کالج نہیں آئی تھی۔  اُس کے سر میں شدید درد تھا۔  مسکان نے اُسے ٹیبلٹ دے کر سُلا دیا تھا۔ ۔ ۔  مسکان اپنے ڈیپارٹمنٹ کی طرف جا رہی تھی کہ ارش سے سامنا ہو گیا۔ ۔

"کیا ہوا آج ذمل نہیں آئی تمہارے ساتھ۔ ۔ ۔ ؟؟ ارش کو ذمل کی فکر ستانے لگی۔

"ہاں اُس کے سر میں درد تھا۔ ۔  میں نے ٹیبلٹ دے دی تھی اُسے ۔ ۔ ” مسکان نے ارش کو ذمل کی غیر حاضری کی وجہ بتائی۔ ۔

"زیادہ مسئلہ تو نہیں ہے ناں ۔ ۔ ؟؟ میں سوچ رہا ہوں اُسے ڈاکٹر کو دکھا دوں ۔ ۔ ۔ ” ارش کے چہرے پر شدید پریشانی کے آثار تن گئے۔ ۔ ۔ ۔

"نہیں ایسا کوئی زیادہ مسئلہ نہیں ۔ ۔ ۔  مجھے یہ بتاؤ کل ایسا کیا ہوا تھا پارٹی میں ۔ ۔ ۔ ” مسکان کے اس سوال پر ارش کو شدید جھٹکا لگا۔ ۔ ۔ ۔

"کیا مطلب تمہارا۔ ۔ ۔ ۔  کھل کے بتاؤ۔ ۔  ذمل نے کچھ بتایا۔ ۔ ؟؟؟

"جب سے ذمل پارٹی سے آئی ہے بہت پریشان ہے ۔ ۔ ۔  میں نے پوچھا بھی لیکن مجھ سے اُس نے کچھ شیئر نہیں کیا۔ ۔ ۔  میں تمہاری فیلنگز سمجھتی ہوں ارش لیکن ذمل کو ہرٹ مت کرنا” مسکان کو ذمل بہت عزیز تھی۔ اسی لیئے تو ارش کے سامنے حقیقت بتائی۔ ۔ ۔

"شاید وہ خود سے لڑ رہی ہے مسکان۔ ۔  مگر زیادہ دیر تک لڑ نہیں سکے گی۔ ۔ ۔  محبت کا بیچ پودا بننے میں زیادہ وقت نہیں لگاتا۔ ۔ ۔ ۔  یہ سچائی ذمل بھی جان جائے گی۔ ۔ ۔  ”

—————————

لپٹا ہے میرے دل سے کسی راز کی صورت

وہ شخص کہ جس کو میرا ہونا بھی نہیں ہے

یہ عشق و محبت کی روایت بھی عجیب ہے

پانا بھی نہیں ہے اسے کھونا بھی نہیں ہے

آج صبح سے ننھی کے دل میں ایک بے سکونی سی تھی۔ ۔ ۔  جیسے کوئی انہونی ہونے والی ہو۔ ۔ ۔  گھر میں اُس کا دل نہیں لگا تو وہ ماہم کی طرف چلی گئی۔ ۔ ۔  ماہم کی زبانی اُسے پتا چلا کہ اُس کا خط پڑھتے ہی فاخر کہیں چلا گیا تھا اور ابھی تک نہیں آیا۔ ۔ ۔  فون بھی نہیں اُٹھا رہا۔ ۔ ۔  ننھی کے دل کو کچھ ہوا۔ ۔ ۔

"ماہم وہ خود کو کچھ کر نہ بیٹھے ۔ ۔  تم دوبارہ نمبر ٹرائی کرو۔ ۔ ۔ ” ننھی کی پریشانی اُس کے چہرے سے عیاں تھی۔ ۔ ۔  ماہم نے دوبارہ نمبر ٹرائی کیا۔  دوسری طرف سے کسی اجنبی کی آواز ماہم کی سماعتوں سے ٹکرائ

"آپ جلدی سے سٹی ہاسپٹل آ جائیں ۔ ۔ ۔  فاخر کا ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ”

————————–

شیبا عروسی جوڑے میں ملبوس اپنے بیڈ پر بیٹھی تھی۔ ۔ ۔  اس کے سارے اندیشے دُور ہو گئے تھے ۔ ۔ ۔ ۔  محبت کے سحر نے اُس کے پورے وجود کو نکھار دیا تھا۔ ۔ ۔  نور کو پانے کا احساس کس قدر حسین تھا۔ ۔ ۔ ۔  اُس نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ قسمت اُس پر اس قدر مہربان ہو جائے گئی۔ ۔ ۔  زندگی نے اُس سے

"کن سے فیکون تک”

عجیب لڑکی ہو۔۔

آنسوؤں کو پیتی ہو۔۔

زہر زندگی کے سب

ساتھ لے کے جیتی ہو۔۔

چاندنی کے ہالے کو

صبح کے اجالے کو

روشنی کے بادل میں

جھلملاتے آنچل میں

باندھ کے یوں رکھتی ہو۔۔

تم عجیب لڑکی ہو۔۔

چھپ کے آہیں بھرتی ہو۔۔

روشنی سے ڈرتی ہو۔۔

اپنے سارے سپنوں کو

یوں چھپا کے رکھتی ہو۔۔

جیسے سارے خوابوں پر

عشق کے عذابوں پر

بس تمہارا ہی حق ہے

ایسے باتیں کرتی ہو۔۔

تم عجیب لڑکی ہو۔۔

خواب بنتی پھرتی ہو۔۔

خواب کے جھروکوں سے

مجھ کو تکتی رہتی ہو۔۔

ان گنت سوالوں سے

ان کہے جوابوں سے

بس الجھتی رہتی ہو۔۔

خواب دیکھتی بھی ہو۔۔

ٹوٹنے سے ڈرتی ہو۔۔

تم عجیب لڑکی ہو۔۔

تم وفا کی باتوں پر

مسکراتی رہتی ہو۔۔

گہری گہری آنکھوں سے

دور بیں نگاہوں سے

سب کو دیکھا کرتی ہو۔۔

اور سب سے چھپ کے پھر

آنسوؤں کو پیتی ہو۔۔

جانے کیسے جیتی ہو۔۔

تم۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ عجیب لڑکی ہو۔ ۔

————————–

وقار اور شہلا لان میں بیٹھے اپنے آنے والے بچے کے بارے میں پلاننگ کر رہے تھے ۔ ۔ ۔  شہلا کے پہلے ہی دو مس کیرج (miscarriage) ہو چکے تھے ۔ ۔ ۔  اس دفعہ ڈاکٹر نے خُوب احتیاط کا مشورہ دیا تھا۔ ۔ ۔  اچانک ہی وقار کی نظر شیبا پر پڑی۔ ۔ ۔  وقار نے شیبا کے بارے میں جو رائے قائم کی تھی۔ وہ اُسے اس کے بر عکس لگی تھی۔ ۔ ۔ ۔ ۔  معصومیت اُس کے چہرے سے عیاں تھی۔ ۔ ۔  طوائفوں والی کوئی بھی ادا اُس میں ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملی۔ ۔ ۔

"تو یہ ہے میرے بھائی کے دل کو فتح کرنے والی۔ ۔ ۔  ویلکم ٹو دی سویٹ وِلا شیبا۔ ۔ ۔ ۔

Welcome to the sweet Villa Sheeba”

وہ دل ہی دل میں بڑبڑایا۔ ۔ ۔ ۔

وقار کو اپنی سوچوں میں چھوڑ کر شہلا کے قدم شیبا کی طرف بڑھ گے ۔ ۔ ۔  وہ نہیں جانتی تھی کہ خدا جب کُن کہتا ہے تو دل کیسے بدل جاتے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

—————————

گھر سے نکلتے ہی فاخر نے ننھی کے گھر کی طرف گاڑی بڑھائی۔ ۔ ۔  چند لمحے لگے تھے اسے فیصلہ کرنے میں کہ وہ ننھی کے گھر والوں سے بات کرے گا۔ ۔ ۔  اگر وہ نہیں مانے تو اُس کے پاس ایک اور حل تھا۔ ۔ ۔  وہ ننھی کو اٹھا کر لے آئے گا۔ ۔ ۔ ۔

فاخر کا سر درد سے پھٹا جا رہا تھا۔ ۔ ۔  اُسے ڈرائیو کرنے میں مشکل ہو رہی تھی مگر اسے اپنی محبت کو حاصل کرنا تھا۔ ۔ ۔  وہ کسی اور کے نام کے ساتھ اپنا نام نہیں جوڑ سکتا تھا۔ ۔ ۔ ۔  ایک دم ہی سامنے سے ایک ٹینکر تیزی سے آیا اور اس کی گاڑی کو کچل گیا۔ ۔ ۔ ۔  اللہ کے کسی نیک بندے نے اسے ہسپتال پہنچا دیا تھا۔ ۔  اسے شدید گہری چوٹیں آئی تھیں ۔ ۔ ۔ ۔  ڈاکٹر نے اڑتالیس گھنٹے کا ٹائم دیا تھا۔ ۔ ۔  اگر ان اڑتالیس گھنٹوں میں اُسے ہوش نہ آیا تو کوما میں چلے جانے کا خطرہ تھا۔ ۔ ۔ ۔

—————————–

وہ لڑکی شاید پاگل تھی

کیا صبر تھا اس دیوانی کا

کیا ضبط محبت کرتی تھی

آنکھوں میں نیم نشہ سا تھا

با توں سے دیوانی لگتی تھی

ہمراز نہ تھا اس کا کوئی

بس رب سے باتیں کرتی تھی

دن رات ہی گم صم رہتی تھی

کچھ شرم و حیا کا پیکر تھی

کچھ نرم مزاج وہ دکھتی تھی

اک شام کے آنچل میں اکثر

جذبات چھپائے رکھتی تھی

ڈرتی تھی جدا ہونے سے

یا پیار سے شاید ڈرتی تھی

ہے رشک مجھے اس پاگل پہ

کیا خوب محبت کرتی تھی

ہمراز نہ تھا اس کا کوئی

بس رب سے باتیں کرتی تھی۔ ۔

محبت اور نفرت کا بھی کیسا گہرا تعلق ہے ۔ ۔  ایک طرف تو محبت نے شیبا کے مدھم چراغوں میں نور محمد کی صورت روشنی بھری تھی تو دوسری طرف نفرت نے پروین کی صورت اس کی زندگی کو اندھیروں سے آشنا کرایا تھا۔ ۔ ۔ ۔  محبت کے سہارے یہ دنیا سانس لے رہی ہے مگر نفرت کسی دیمک کی طرح اسے چاٹ رہی ہے ۔  ۔

—————————

آج بھی پیاری ہے مجھے تیری ہر نشانی

چاہے وہ دل کا درد ہو یا آنکھوں کا پانی

پیرس کی فلائیٹ میں صرف دو دن باقی تھے ۔ ۔  اسی لیئے ارش اور ذمل خریداری کرنے قریبی مارکیٹ آئے تھے ۔ ۔  ذمل کی نظر ایک وائیٹ فراک پر ٹک گئی تھی جس پر گولڈن کام بہت نفاست سے ہوا تھا۔ ۔ ۔ ۔  اس نے سوچا کہ پہلے وہ جیولری خرید لے ۔ اس کے بعد یہ فراک پیک کروا دے گی۔ ۔  جیولری سیکشن میں اُسے کافی ٹائم لگ گیا۔ ۔  جب وہ واپس آئی تو سیلز میں نے بتایا کہ وہ تو بِک چکا ہے ۔ ۔ ۔

"چلو ارش یہاں سے چلتے ہیں ۔ ۔  ایک چیز پسند آئی اور وہ بھی کوئی اور لے اُڑا۔ ۔ ۔ ” ذمل کا موڈ بگڑ چکا تھا۔ ۔ ۔

"ہاں چلو کچھ کھا لیتے ہیں پہلے ۔ ۔  کب سے میرے پیٹ میں چوہوں نے ناچ شروع کیا ہوا ہے ۔ ۔ ۔ ” ارش کو واقعی کافی دیر سے بھوک لگی تھی مگر اسے ذمل کے فری ہونے کا انتظار تھا۔

"چھی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ چھی۔ ۔ ۔ ۔  ارش میں سوچ رہی ہوں یہ چوہے اندر پہنچے کیسے ۔ ۔ ۔ ؟؟” ذمل نے کانوں کو ہاتھ لگایا۔ ۔ ۔

"یہ تو صرف تمہاری بدولت ہی ممکن ہوا ہے ۔ ۔ ۔ ۔  جتنا ٹائم تم نے لگایا۔ ۔ ۔  شکر ہے سانپ نہیں پہنچ گئے ۔ ۔ ۔ ” ارش نے جیکٹ کی جیب میں ہاتھ ڈالتے ہوئے کہا۔

"میرے ساتھ رہو گے تو عیش کرو گے ۔ ۔ ۔ ۔  دیکھ لو فری میں چوہے مل گئے تمہیں ۔ ۔ ۔ ۔  ورنہ بھوکے ہی مر جاتے ۔ ۔ ۔ ” ذمل نے ہنستے ہوئے کہا

"ایسا عیش کس کو چاہیئے۔ ۔  میں تو چاہتا ہوں کہ زندگی بھر تمہارے ہاتھ کی بنی ڈشز کو ٹیسٹ کرتا رہوں ۔ ۔ ۔ ” ارش نے ذمل کے دونوں ہاتھ تھام کر اسے اپنے عین سامنے کر دیا۔ ۔ ۔  ذمل نے آنکھیں جھکا دیں ۔ ۔ ۔  شاید وہ ان میں لکھی تحریر کو چھپانا چاہتی تھی۔ ۔ ۔

میں مینڈک بھی بہت اچھا بنا لیتی ہوں ارش۔ ۔ ۔ ” اس کی بڑی بڑی آئی لیشز نے آنکھوں کو ڈھانپ رکھا تھا۔ ۔ ۔ ۔  جیسے بادلوں میں چھپا کوئی چاند ہو۔ ۔ ۔

"پھر تو ہم دونوں صبح صبح مینڈک پکڑنے جایا کریں گے ۔ ۔ ۔ ۔  مل کے کھائیں گے دونوں ۔ ۔ ۔ ۔ ” ارش نے ذمل کی تھوڑی کو ایک ہاتھ سے اُوپر کیا۔ ۔ ۔  ذمل کی نظریں ارش سے ٹکرائیں ۔ ۔ ۔ ۔  آنسو کا قطرہ ذمل کی آنکھ سے نکل کر ارش کی ہتھیلی کو بھگو گیا۔ ۔ ۔ ۔

"ان آنسوؤں کو ضائع مت ہونے دو ذمل۔ ۔  میں ان سب کا حساب ایک دن ضرور لوں گا۔ ۔ ۔ ۔ ” ذمل بھیگے چہرے کے ساتھ مسکرائی۔ ۔ ۔ ۔ ۔  ارش کے اندر ایک سکون بھر گیا۔ ۔ ۔ ۔  اب کی بار ذمل نے ارش کا ہاتھ تھاما۔ ۔ ۔

"میں خود سے لڑتے لڑتے ہار گئی ہوں ارش۔ ۔ ۔ اب اور سکت نہیں ہے مجھ میں ۔ ۔ ۔  تم نے ٹھیک کہا تھا میرا مرض عشق ہے ۔ ۔ ۔  آج مجھے اعتراف کرنے دو کہ میں تم سے عشق کرنے لگ گئی ہوں ۔ ۔ ۔  کب۔ ۔  کیسے ۔ ۔ ۔ ۔ کیوں ۔ ۔  میں نہیں جانتی۔ ۔ ۔  صرف اتنا جانتی ہوں کہ یہ زہر میرے اندر تک پھیل چکا ہوں ۔ ۔ ۔  لیکن میں تمہیں کھونے سے ڈرتی ہوں ارش۔ ۔ ۔  جس دن میں تمہیں کھو دوں گی وہ دن میری زندگی کا آخری دن ہو گا۔ ۔ ۔ ۔  میرا مان تمہارے حوالے ہے ارش۔ ۔ ۔ ۔  اسے کبھی نہ توڑنا۔ ۔ ۔ ” ذمل کی سوچیں فرار کا راستہ ڈھونڈ رہی تھیں ۔ ۔ ۔  مگر اُس نے انھیں اندر ہی دبا دیا۔ ۔ ۔ کتنا مشکل ہوتا ہے کسی اپنے کو حالِ دل بتانا۔ ۔ ۔

محبتوں کے اقرار میں ہم اتنے تنگ دل کیوں ہوتے ہیں کہ ہماری سسکیاں اندر ہی دب جاتی ہیں ۔ ۔ ۔  اور نفرتوں

کے اقرار میں اتنے منہ پھٹ ہوتے ہیں کہ ہمیں اپنے رشتے ناتے نظر نہیں آتے ۔ ۔ ۔  نفرت کے آگے ہر چیز ہار مان لیتی ہے ۔ ۔ ۔

—————————–

اسد ملک کے بڑھتے قدموں کو پروین نے روک لیا۔ ۔ ۔

"ابا کہاں ڈھونڈیں گے اُسے آپ۔ ۔  جانے وہ کہاں اپنے عاشق کے ساتھ گل کھلا رہی ہو گی۔ ۔ ۔ ۔ ” عفت نے زوردار تھپڑ پروین کو رسید کیا۔

"کیا کہہ رہی ہو اپنی بہن کے بارے میں پروین۔ ۔ ۔  کچھ تو خدا کا خوف کرو۔ ۔ ۔ ۔  اپنی نفرت کی آگ میں اتنا مت جلو کہ اپنا وجود بھی جلا بیٹھو۔ ۔ ۔ ” عفت سرخ آنکھیں لیئے پروین پر دھاڑی۔ ۔ ۔

"ایک منٹ رکو۔ ۔ ۔  کیا کہہ رہی ہو پروین۔ ۔ ۔  کہاں ہے ہماری ننھی۔ ۔ ۔ ۔ ” اسد ملک کی آنکھیں سوال کر رہی تھیں ۔ ۔ ۔

"ابا میں نے اُسے صبح رفیق کے ساتھ جاتے دیکھا تھا۔ ۔ ۔  پہلے بھی ایک مرتبہ میں نے چھت پر اُن دونوں کو ساتھ میں دیکھا تھا۔ ۔  ننھی کو میں نے بہت سمجھایا مگر وہ باز نہیں آئی شاید۔ ۔ ۔ ” پروین نے پتا پھینک دیا تھا۔ ۔ ۔  کتنی آسانی سے وہ اپنی بہن کو داغ دار کر رہی تھی۔ ۔

"آپ اس کا یقین مت کریں ۔ ۔ ۔  یہ تو ہے ہی جھوٹی۔ ۔  آپ جائیں میری ننھی کو ڈھونڈیں ۔ ۔  جانے وہ کہاں ہو گی۔ ۔ ۔ ” عفت اشک بار آنکھیں لیئے بولی۔ ۔ ۔  اس کو پروین کی کسی بات پر یقین نہیں تھا۔

"ابا میں خدا کی قسم کھا کر کہتی ہوں کہ میں سچ کہہ رہی ہوں ۔ ۔ ۔  ننھی ایک بدکردار لڑکی ہے ابا۔ ۔  میں کیوں اتنا بڑا جھوٹ باندھوں گی۔ ۔ ۔ ۔ ” پروین نے اسد ملک کی نظر میں ننھی کا کردار مشکوک کر دیا تھا۔ ۔ ۔

"خدا سے ڈرو پروین۔ ۔ ۔  اتنا بڑا الزام مت لگاؤ میری بچی پر۔ ۔ ۔  اگر پوری دنیا بد کردار ہو جائے تب بھی میری بچی کا دامن پاک ہو گا۔ ۔ ۔ ۔  جائیں میری بچی کو ڈھونڈیں ۔ ۔ ۔  خدا کے لیئے جائیں ۔ ۔ ۔ ” عفت التجا کر رہی تھی مگر پروین کی لگائی آگ پورے گھر کو بھسم کر رہی تھی۔ ۔ ۔

"ابا اگر آپ کو میرا یقین نہیں ہے تو چلیں میرے ساتھ۔ ۔ ۔ ۔ ” پروین نے گیٹ کھولا ہی تھا کہ ننھی اور رفیق باہر کھڑے تھے ۔ ۔ ۔  پروین بازی جیت چکی تھی۔ ۔

—————————

جب اللہ اپنے خزانوں میں سے تمہیں نوازنا چاہتا ہے اور التجاؤں کی قبولیت کا وقت آتا ہے تو وہ پکارتا ہے ۔ ۔ ۔

"کن فیکون”

ہو جا

اور پھر وہ ہو جاتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

اسی لمحے آسمان، ستارے، چاند، سورج، وقت، قسمت، بادل، قدرت اور کائنات کی سازشیں اور شاید دنیا کا ہر ایک ذرہ مل کر تمھیں تمھاری منزل تک لے آتے ہیں اللہ کی مرضی پوری کرنے کے لیے اور وہ ہو کر رہتا ہے جو منظورِ خدا ہوتا ہے ۔ ۔ ۔ ۔

نور محمد نے کمرے میں قدم رکھا۔ ۔ ۔ ۔  آج سب کچھ بدلا بدلا سا تھا۔ ۔ ۔  ایک وجود کے آنے سے کمرے میں بہار آ گئی تھی۔  شیبا چہرہ جھکائے بیٹھی تھی۔  نور محمد اس کے قریب آ کر بیٹھا اور اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا۔  کیسا دلکش احساس تھا کہ وہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ۔ ۔ ۔  ایک دوسرے کے محرم بن چکے تھے ۔ ۔ ۔ ۔  شیبا نے اپنی نظریں اوپر کیں اور بولی

” نور میں آپ سے کبھی بھی کچھ نہیں مانگوں گی۔ ۔  میرے لیئے آپ کا ساتھ ہی سب کچھ ہے ۔  آج اپنے نام کے ساتھ آپ کا نام دیکھ کر میری زندگی مکمل ہو گئی ہے ۔ ۔ ۔  زندگی سے سارے گلے ختم ہو گئے ہیں ۔ ۔ ۔  اب میں سکون سے مر سکوں گی۔ ۔ ۔ ۔ ”

"شیبا میں نے زندگی میں اتنی محرومیاں دیکھی ہیں کہ خدا پر سے میرا یقین ختم ہو گیا تھا۔ ۔ ۔  مگر پھر تم میری زندگی میں آئی۔ ۔ ۔  جب جب میں نے تمہیں دیکھا۔ تب تب خدا سے تعلق قائم ہوتا گیا۔ ۔ ۔  پھر میں تمہیں اپنی دعاؤں میں مانگنے لگا۔  تم نے مجھے دعا کرنا سکھایا ہے شیبا۔ ۔  میرا وعدہ ہے کہ تمہارے سارے دکھوں کا ازالہ کر دوں گا۔ ۔ ۔ ” نور محمد نے شیبا کی آنکھوں پر اپنے پیار کا لمس چھوڑا۔ ۔

آج کی رات شیبا نے نور محمد کی امامت میں نماز پڑھی۔ ۔  دونوں کو منزل مل گئی تھی۔ ۔ ۔  دونوں کو خدا پر ڈھیروں پیار آ رہا تھا۔ ۔  دُور آسمانوں پر عفت کی روح یہ منظر دیکھ کر مسکرا رہی تھی۔ ۔ ۔ ۔

—————————

چپکے سے بھیجا تھا ایک پھول اُسے

خوشبو نے ساریے شہر میں تماشہ بنا دیا

ذمل کمرے میں آرام کر رہی تھی کہ باہر دستک ہوئی۔  کورئیر والا اس کے نام کا ایک لفافہ دے کر گیا۔ ۔  اس نے جلدی سے لفافہ کھولا تو اندر وائٹ فراک دیکھ کر اس کی چیخ نکل گئی۔ ۔  وہ تو اچھا تھا مسکان اس ٹائم وہاں نہیں تھی ورنہ اُسے خوب چھیڑتی۔ ۔ ۔  فراک کے ساتھ ایک چھوٹا سا کارڈ بھی تھا جس پر لکھا تھا

"چھوٹا سا تحفہ ایک ناچیز طرف سے ۔ ۔ ۔  تم جس چیز پر نظر رکھ لو تو اسے تمہاری دسترس میں ضرور کروں گا۔ ۔ ۔ ۔  آج ڈنر پر یہ پہن کر آنا۔ ۔ ۔  وینیو ٹیکسٹ کر دیا ہے ۔ ۔ ۔

تمہارا ارش۔ ۔ ۔ ”

ذمل کی مسکراہٹ گہری ہوتی چلی گئی۔ ۔ ۔  اچھا تو یہ تم نے غائب کروایا تھا۔ ۔  اسی لیئے تو بڑے آرام سے اپنی شاپنگ کر رہے تھے ۔ ۔ ۔ ۔

 

"میری ذات ذرۂ بے نشان”

کہو ‘

وہ دشت کیسا تھا ؟

جدھر سب کچھ لُٹا آئے

جدھر آنکھیں گنوا آئے

کہا !!!

سیلاب جیسا تھا — بہت چاہا کہ بچ نکلیں، مگر — سب کچھ بہا آئے

کہو ‘

وہ ہجر کیسا تھا؟

کبھی چھُو کر اُسے دیکھا

تو تم نے کیا بھلا پایا

کہا !!!

بس آگ جیسا تھا — اُسے چھو کر تو — اپنی رُوح یہ تن من جلا آئے

کہو ‘

وہ چاند کیسا تھا ؟

فلک سے جو اُتر آیا

تمھاری آنکھ میں بسنے

کہا !!!

وہ خواب جیسا تھا — نہیں تعبیر تھی اُس کی — اُسے اِک شب سُلا آئے

کہو ‘

وہ عِشق کیسا تھا؟

بِنا سوچے بِنا سمجھے

بنا پرکھے کیا تم نے

کہا !!!

تتلی کے رنگ جیسا — بہت کُجا، انوکھا سا — جبھی اُس کو بھلا آئے

کہو ‘

وہ نام کیسا تھا ؟

جسے صحراؤں اور چنچل

ہواؤں پر لکھا تم نے

کہا !!!

بس موسموں جیسا — نہ جانے کِس طرح کِس پل — کِسی رو میں مِٹا آئے

—————————-

چوبیس گھنٹے گزر چکے تھے مگر فاخر کو ابھی تک ہوش نہیں آیا تھا۔  ڈاکٹرز کو کسی معجزے کا انتظار تھا۔  ہسپتال میں سوگ کی سی کیفیت تھی۔  کسی کو کھانے کا ہوش تھا اور نہ ہی پینے کا۔  ہر کوئی خدا کے حضور فاخر کی زندگی کی دعائیں مانگ رہا تھا۔  ماں کے آنسو عرش کو چیر کر اس پار جا رہے تھے ۔

"اے اللہ ہم بہت گنہگار۔ بہت سیاہ کار ہیں ۔ ۔  تُو تو رحیم ہے ۔ کریم ہے مالک ۔ ۔  ہماری التجاؤں کو پورا کر دے ۔ ۔  فاخر کی اس حالت کی ذمہ دار صرف میں ہوں ۔ تو مجھے سزا دے ۔ ۔  میرے فاخر کو زندگی دے دے اللہ۔ ۔ ۔ ۔  معاف کر دے مجھے ۔ ۔ ”

—————————

آج شیبا کا اس حویلی میں پہلا دن تھا۔  وہ صبح چھ بجے اٹھی۔  نہا دھو کے فجر پڑھی۔  سورہ رحمٰن کی تلاوت شروع کی۔  ایک آیت پر آ کر وہ رک گئ

"تو تم اپنے پروردِگار کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے ۔ ۔ ۔ ”

اس سے پہلے بھی شیبا نے بہت دفعہ یہ آیت پڑھی تھی مگر اس وقت اسے لگا یہ آیت اللہ نے صرف اسی کے لیئے اتاری ہے ۔ ۔ ۔  آنسوؤں کا ریلا اس کے چہرے کو تر کر گیا مگر آج یہ آنسو شکرانے کے طور پر نکل رہے تھے اور اس کے سارے وجود کو دھو رہے تھے ۔ ۔ ۔  ایک سکون ہی سکون اس کے اندر تک سرائیت کر گیا۔ ۔ ۔

تلاوت ختم کرنے کے بعد شیبا نور محمد کی پاس بیٹھی اور اپنے گیلے بال اُس کے چہرے پر جھٹکے ۔ ۔ ۔  نور محمد نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا اور اپنے پیار کا لمس اس کے ہاتھ پر چھوڑا۔

"اٹھ جائیں نماز کا ٹائم ختم ہو جائے گا۔ ۔  یہ سب کرنے کے لیئے بہت ٹائم ہے ۔ ۔ ” شیبا نے اپنا ہاتھ چھڑوایا اور سنگار میز کے سامنے آ کر آئینے میں خود کو دیکھنے لگی۔ ۔ ۔  مسکراہٹ اس کے چہرے پر گہری ہوتی چلی گئی۔ ۔ ۔

ٹھیک ہی کہا ہے کسی نے اللہ انسان کو اتنا ہی آزماتا ہے جتنا وہ برداشت کر سکتا ہے ۔ ۔  صبر کرنے والوں کے لیئے اس کے ہاں بہت بڑا اجر ہے ۔ ۔ شیبا کو اجر مل گیا تھا۔ ۔ ۔

—————————

میں وہ کس طرح سے کروں بیاں

جو کیئے گئے ہیں ستم یہاں

سنے کون میری یہ داستان

کوئی ہم نشیں ہے نہ راز داں

"دیکھ لیں ابا اپنی چہیتی کے کرتوت۔ ۔  اب تو آ گیا آپ کو میرا یقین۔ ۔ ۔ ” ننھی کو رفیق کے ساتھ دیکھتے ہی پروین بول پڑی۔ ۔

اسد ملک کی آنکھوں میں خون در آیا تھا۔ ۔ ۔  ایسے لگ رہا تھا ناگن کا وار کامیاب ہو گیا ہو۔ ۔ ۔

"ننھی تم ادھر آؤ میرے پاس۔ ۔ ۔ ” عفت کی ممتا اپنی بیٹی کو سینے سے لگانے کے لیئے تڑپ رہی تھی مگر اسد ملک نے اس کے قدم جھکڑ لیئے۔

"جہاں سے منہ کالا کر کے آئی ہو وہاں ہی لوٹ جاؤ۔ اس سے پہلے کہ میں کچھ کر بیٹھوں ۔ ۔ ۔  اس گھر میں تمہاری کوئی جگہ نہیں ہے ۔ ۔ ” اسد ملک بہت ضبط سے بولے ۔ ۔ ۔  شاید وہ اپنی ہمت آزما رہے تھے ۔ ۔ ۔

"ابا میں نے ایسا کوئی کام نہیں کیا جس سے آپ کو شرمندگی ہو۔  بارش بہت تھی تو میں رفیق بھائی کی دکان پر بیٹھ گئی۔ ۔ ۔  آپ کو اپنی ننھی پر یقین کیوں نہیں ابا کہ آپ کی ننھی آپ کی خاطر اپنی جان دے دے گی مگر اپنے وجود کو داغ دار نہیں ہونے دے گی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ” ننھی کی آنکھوں سے نکلتے آنسو سیدھے اسد ملک کے دل پر گر رہے تھے ۔ ۔ ۔ ۔  زندگی میں پہلی مرتبہ وہ رو رہی تھی۔ ۔  وہ بھی اپنے ابا کی وجہ سے ۔ ۔ ۔

"عفت اسے سمجھا دو کہ اس گھر سے اس کا رشتہ ہمیشہ کے لیئے ختم۔ ۔  اسے اپنی زندگی پیاری ہے تو یہاں سے چلی جائے۔ ۔ ۔ ” اسد ملک کا دل ننھی کی بے گناہی پر یقین کرنے کو کہہ رہا تھا مگر پروین کی لگائی آگ نے ہر طرف پردے ڈال دیئے تھے ۔ ۔ ۔  یہ آگ انھیں کچھ بھی سوچنے کا موقع نہیں دے رہی تھی۔

"خدا کے لیئے میری بچی کے ساتھ اتنا بڑا ظلم نہ کرو پروین۔ ۔  روکو اپنے ابا کو۔ ۔  بتاؤ ان کو کہ یہ سب جھوٹ ہے ۔ ۔  میری بچی معصوم ہے ۔ ۔ ۔ ” عفت پروین کے پیروں میں گر گئی۔ ۔ ۔  آسمان لرز گیا تھا مگر پروین کا دل نہیں کانپا تھا۔ ۔ ۔  اس نے اماں کو پیروں سے جھٹکا۔ ۔ ۔  ننھی سے اماں کی یہ حالت دیکھی نہیں گئی تو اس نے انھیں اوپر اٹھایا اور چارپائی پر بٹھا دیا۔ ۔ ۔  اسد ملک نے ساری کاروائی دیکھی۔ ۔ ۔

"اسے بتا دو کہ فوراً سے پہلے یہاں سے دفع ہو جائے۔ ۔ ۔ ” اسد ملک اپنا حکم سنا کر اندر کمرے میں چلے گئے۔ ۔ ۔

"میری بچی میں جانتی ہوں کہ تُو بے گناہ ہے ۔ ۔ ۔  یہ سب پروین کی لگائی آگ ہے ۔ ۔ ۔  میں اسے کبھی معاف نہیں کروں گی۔ ۔ ۔ ۔ ” عفت نے ننھی کو اپنے سینے میں چھپا دیا۔ ۔  ممتا کی چھاؤں میں ننھی کو قرار مل گیا تھا۔ ۔ ۔ ۔

"اماں میرے لیئے تیرا یقین ہی کافی ہے ۔ ۔  تُو ابا کو بتا دینا کہ ننھی دوبارہ کبھی انھیں اپنی شکل نہیں دکھائے گی۔ ۔ ۔  میری زندگی تو اس اعتبار کے سہارے قائم تھی اماں جو آج ختم ہو گئی۔ ۔ ۔ ”

عفت ننھی کو پکارتی رہ گئی مگر وہ چلی گئی۔ ۔ ۔ ۔  جب ایک باپ کا اپنی بیٹی پر یقین ختم ہو جائے تو ایسی چاردیواری کی اہمیت ختم ہو جاتی ہے ۔ ۔ ۔

اک ادھوری غزل کے مصرعے پہ آنسو دیکھ کر

کل رات میری ڈائری میں اک تتلی مر گئی۔ ۔ ۔

پروین کا کھیل ختم ہو چکا تھا۔ ۔ ۔ ۔  اس کی لگائی آگ نے پورا گھر بھسم کر دیا تھا۔ ۔ ۔ ۔  وہ نہیں جانتی تھی کہ اس آگ میں ایک دن وہ خود بھی جھلس جائے گی۔ ۔ ۔ ۔

—————————-

میں جو سوچوں تو میرا خیال تم

میں جو مانگوں تو میری دعا تم

ذمل آج ٹائم سے پہلے ہی ڈنر کے لیئے پہنچ گئی تھی۔ ۔  شاید اسے ارش کو دیکھنے کی جلدی تھی۔ ۔ ۔  جب سے اسے اپنے دل کی کیفیت پتا چلی تھی وہ بہت سرشار رہتی تھی۔ ۔  خوشی اس کے ہر انگ سے عیاں تھی۔ ۔ ۔

ارش نے ہوٹل کی لابی میں قدم رکھا۔ ۔ ۔ ۔  بلیک پینٹ کوٹ پہنے ۔ کف کو فولڈ کیئے۔ بالوں کو جیل لگائے۔ برانڈڈ رسٹ واچ پہنے اور آنکھوں میں ایک چمک لیئے وہ ایک مکمل وجیہ مرد لگ رہا تھا۔  آج ذمل کی دھڑکنیں بھی ارش کے نام سے محوِ رقص تھیں ۔ ۔ ۔  ذمل نے ارش کی طرف قدم بڑھائے۔ ۔ ۔ ۔  ارش نے اسے اپنا دایاں ہاتھ اس کے کندھے پر رکھا اور وہ دونوں اپنے مخصوص ٹیبل پر آ گئے۔ ۔ ۔ ۔  ذمل آج بہت خوش تھی۔ ۔ ۔  شاید قسمت اس کانچ کی گڑیا کو دکھوں سے دور رکھنا چاہتی تھی۔ اسی لیئے اپنے قلم سے اس کی زندگی میں روشنی بھر رہی تھی۔ ۔ ۔

"ارش آج کی رات میرے لیئے بہت خاص ہے ۔ ۔ ۔ ” ذمل اپنی سوچ پر خود ہی ہنس دی۔ ۔

"میں تمہارے ساتھ ہوں اس لیئے ذمل۔ ۔ ” ارش نے ذمل کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا۔ ۔ ۔  ذمل کو لگا اس کی چوری پکڑے گئی ہے ۔ ۔  شرمساری سے اس نے آنکھیں جھکا لیں ۔ ۔ ۔  اس کے ڈائمنڈ ٹاپس جگمگانے لگے ۔ ۔ ۔ ۔  سفید فراک میں وہ کوئی حور لگ رہی تھی جسے دنیا پر اپنا محرم چننے کے لیئے بھیجا گیا ہو۔ ۔ ۔

"ارے بدھو کیا کہہ رہے ہو تم۔ ۔  کل ہم پیرس جا رہے ہیں نہ اسی لیئے خاص ہے ۔ ۔ ۔  تم بھی بس۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ” ذمل نے اپنا موبائیل اٹھایا اور چپکے سے ارش کی پکچر کلک کی۔ ۔ ۔

"تمہارے خواب پورے ہو رہے ہیں ذمل۔ ۔ ۔  میرا ایک خواب ہے وہ بھی پورا کر لو۔ ۔ ۔ ۔ ” ارش نے ذمل سے موبائیل لیا اور سائیڈ پر چھوڑ دیا۔

کھانا سرو ہو چکا تھا۔  ارش نے پہلے ذمل کی طرف ڈش بڑھائی۔ ۔ ۔  کتنا خوبصورت احساس تھا کہ ارش کے لیئے ذمل ہر چیز میں پہلے تھی۔ ۔  یہ بھی پیار کا ایک انداز تھا جو ذمل کو پسند آیا۔ ۔  ذمل نے اپنی پلیٹ میں کھانا ڈالا اور ڈش ارش کو پاس کی۔ ۔ ۔ ۔

"اس خواب کو خواب ہی رہنے دو تو اچھا ہے ۔ ۔ ۔  وی آر جسٹ فرینڈز۔ ۔ ۔ ” ذمل کی آواز دھیمی ہو گئی۔

"اگر ایسی بات ہے تو یہ بات میری آنکھوں میں جھانک کر بولو ذمل۔ ۔ ۔  تمہاری آنکھیں سب ان کہی باتیں کہہ دیتی ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ” ارش نے ذمل کے ہاتھ پر اپنی گرفت مضبوط کر لی۔ ۔ ۔  ذمل نے خود کو ارش کے حصار میں پایا۔ ۔

"شاید ارش ٹھیک ہی کہتا ہے اس کی منزل صرف میں ہی ہوں ۔ ۔ ۔  تو پھر قسمت سے کیسے لڑ سکتی ہوں میں ۔ ۔ ۔ ۔ ” ذمل دل ہی دل میں سوچنے لگی۔ ۔ ۔

"تم مانو یا نہ مانو اب تمہاری سوچوں پر بھی میری حکمرانی ہے ۔ ۔ ۔ ۔  اس لیئے ہتھیار ڈال دو۔ ” ارش کی مسکراہٹ گہری ہو گئی۔ ۔ ۔  ذمل نے ارش کی خوشیوں کے لیئے اللہ سے دعا کی۔ ۔ ۔ ۔

"میری سوچوں میں تم کہیں بھی نہیں ہو ارش۔ ۔ ۔  فلرٹ کرنے سے باز آ جاؤ اب۔ ۔ ” ذمل نے ارش کو چھیڑنے کا سوچ لیا۔ ۔ ۔ ۔

"ایک دن تم خود اقرار کرو گی ذمل اور وہ دن اب دُور نہیں ۔ ۔ ۔  ہتھیار تو تمہیں ڈالنے پڑیں گے ۔ ۔ ۔ ۔ ” ارش نے ایک ہاتھ سے ذمل کے بالوں کو ماتھے سے پیچھے ہٹایا۔ ۔ ۔ ڈائمنڈ ٹاپس چمک اٹھے ۔ ۔ ۔

"بدھو ارش میں کوئی مستری تو نہیں ہوں جو ہتھیار ڈالوں گی۔ ۔ ۔ ۔ ” ذمل نے چکن ونگز کھاتے ہوئے کہا۔ ۔ ۔ ۔

"تم بھی سارے رومینس کا ستیا ناس کر دیتی ہو۔ ۔ ۔ ۔ ” ارش نے مصنوعی سنجیدگی لیئے ذمل کو گھورا۔

باہر چاندنی رات تھی۔ ۔ ۔  چاند پوری آب و تاب سے چمک رہا تھا۔ ۔ ۔  کھانے کے بعد ارش اور ذمل ایک ساتھ واک کرنے لگے ۔ ۔ ۔ ۔ اس کو ذمل چاند کی مانند لگنے لگی۔ ۔ ۔  قریب ہو کر بھی اتنے دور۔ ۔ ۔  وہ دونوں واک کرتے کرتے ایک پول کے کنارے بیٹھ گئے۔ ۔ ۔  کافی دیر باتیں کرتے رہے ۔ ۔ ۔  وقت کا پہیہ اپنے ساتھ سب کچھ لے جا رہا تھا۔ ۔ ۔ ۔  ما سوائے ان یادوں کے ۔ ۔ ۔

—————————

میں تمہیں بھول بھی تو سکتا تھا

ہاں مگر یہ نہیں ہوا مجھ سے

چھتیس گھنٹے بعد فاخر کو ہوش آ گیا تھا۔ ۔ ۔  ہوش میں آتے ہی اس نے سب سے پہلے ننھی کا نام لیا۔ ۔ ۔  رقیہ بیگم نے اسی ٹائم اپنے ملازم کو ننھی کی طرف بھیجا۔ ۔  پروین نے اُسے بتایا کہ ننھی اپنے کسی عاشق کے ساتھ بھاگ گئی ہے ۔ ۔ ۔ ۔  یہ بات فاخر کو پتا چلی تو اسے شدید صدمہ پہنچا۔ ۔  وہ لڑکی جس نے اپنی عزت کی خاطر اسے پیچھے ہٹ جانے کو کہا وہ کیسے اتنا بڑا قدم اٹھا سکتی ہے ۔ ۔ ۔  فاخر کو ہرٹ اٹیک آیا تھا اور وہ جان کی بازی ہار گیا تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔  ہر سُو ماتم ہی ماتم تھا۔ ۔ ۔  بہت سی زندگیاں پروین کے ایک جھوٹ کی وجہ سے زندگی سے روٹھ رہی تھیں ۔ ۔

 

"محبت کا طلسمی منتر”

ملے گا کیا دلوں میں _____ نفرتیں رکھ کر

بہت مختصر ہے زندگی مسکرا کے ملا کرو

پروین اور رفیق ایک دوسرے کو دل و جان سے چاہتے تھے ۔  رات کو جب سارے سو جاتے تو رفیق اس سے ملنے اس کے گھر آ جایا کرتا۔  وہ دونوں پوری رات چھت پر بیٹھے پیار بھری باتیں کرتے رہتے ۔ ۔ ۔

پروین نے رفیق کی گود میں سر رکھا ہوا تھا اور وہ بہت پیار سے اس کے بالوں میں انگلیاں پھیر رہا تھا جب پروین نے سوال کیا۔ ۔

"رفیق کب لے کر جائے گا تُو مجھے یہاں سے ۔ ۔  اب مجھ سے مزید دوری برداشت نہیں ہوتی۔ ۔ ۔ ؟؟”

"یہاں سے کوئی بھی کہیں نہیں جائے گا میری رانی۔ ۔  میں اور تُو اسی گھر میں رہیں گے ہمیشہ۔ ۔ ۔ ” رفیق نے اپنائیت سے اسے کہا۔

 

"ایسا کیسے ہو سکتا ہے رفیق۔ ۔ ۔  اس گھر میں کیسے رہ سکتے ہیں ہم۔ ۔ ؟؟ پروین نے متجسس ہو کر سوال کیا۔

"وہ سب تُو مجھ پر چھوڑ دے ۔ جیسا میں کہوں گا تُو بس ویسا ہی کرنا۔ ۔ ۔ ” رفیق کا شاطر دماغ بہت کچھ سوچ چکا تھا۔

"تُو بتا مجھے کیا کرنا ہو گا۔ ۔  میں تیری خاطر کچھ بھی کرنے کو تیار ہوں ۔ ۔ ” رفیق کو پانے کے جنون میں پروین ہر بازی کے لیئے تیار تھی۔

"ننھی کا راستہ صاف کرنا ہو گا۔ ۔ ” رفیق نے سرگوشی کی۔ ۔  پروین کے چہرے پر خوشی کی لہر آ گئی۔ ۔ ۔  یہی تو وہ ہمیشہ سے چاہتی تھی۔ ۔ ۔ ۔

"اچھا ابھی میں چلتا ہوں کافی دیر ہو گئی ہے ۔  ایسا نہ ہو کوئی جاگ جائے۔ ۔ ۔ ” رفیق پھر آنے کا وعدہ کر کے چلا گیا۔

اسی ٹائم ننھی کی آنکھ کھلی۔  وہ پانی لینے کچن کی جانب چلی گئی۔  پانی لے کر وہ واپس مڑی تو اُسے ایک سایا سا باہر نظر آیا۔  رفیق کو اندر لائٹ جلتی نظر آئی تو وہ سیڑھیوں کے نیچے چھپ گیا۔  جب ننھی باہر گئی تو وہاں کوئی بھی نہیں تھا۔  وہ واپس اپنے کمرے میں آ گئی۔  اسی وقت رفیق دیوار پھلانگ کر جانے لگا تو ننھی کو پھر سے اس کا سایا نظر آیا مگر وہ اتنی ڈر گئی کہ اپنے کمرے سے باہر نہیں نکلی۔  اس نے جلدی سے کھڑکی بند کی اور بیڈ پر لیٹ گئی۔ ۔  کافی دیر وہ بلا وجہ چھت کو گھورتی رہی۔ کب نیند آئی کچھ خبر نہیں ۔

—————————

شیبا کی شادی کو کافی دن گزر گئے تھے ۔  دن کو نور محمد اور وقار زمینوں پر چلے جاتے تو شہلا اور شیبا بیٹھی باتیں کرتی رہتیں ۔ ۔  وہ دونوں کافی گھل مل گئی تھیں ۔ ۔ ۔  آج شہلا کا موڈ شاپنگ پر چلنے کو تھا۔ اس نے شیبا کو بھی ساتھ تیار کیا کہ وہ بھی اپنے لیئے کچھ لے لے ۔ ۔ ۔  وہ دونوں ڈرائیور کے ساتھ قریبی مارکیٹ آ گئیں ۔

"شیبا تمہیں پتا ہے پہلے میں کتنی اکیلی ہوتی تھی۔ ۔  لیکن اب تمہارے آنے سے مجھے میری بہن مل گئی ہے ۔ ۔ ” کپڑوں کی دکان سے نکلتے ہوئے شہلا نے کہا۔

"رشتے تو صرف دل کے ہوتے ہیں بھابھی۔ ۔  میری حقیقت جاننے کے باوجود آپ نے ہمیشہ میرا خیال رکھا۔ ۔  آپ بھی مجھے بہت عزیز ہیں ۔ ۔ ” شیبا کے دل میں شہلا کے لیئے بہت احترام تھا اسی لیئے زبان سے اقرار کر رہی تھی۔ ۔ ۔

"مجھے پہلے سے پتا تھا کہ نور کوئی ایسی ویسی لڑکی کو بیاہ کر نہیں لائے گا۔  ضرور اُس میں کچھ خاص ہو گا جو اس کی زندگی میں آئے گی۔ ۔ ۔  تم نے حویلی میں آنے کے بعد اپنے کردار سے یہ بات ثابت کر دی شیبا۔ ۔ ۔  اب تو وقار بھی نور کے فیصلے سے بہت خوش ہیں ۔ ۔ ۔ ” شہلا کی ان با توں سے شیبا کو بہت حوصلہ ملا۔ ۔ ۔  شہلا کافی تھک گئی تو اس نے باقی کی شاپنگ اگلے ہفتے پر ڈال دی۔ ۔ ۔ ۔  وہ دونوں واپس حویلی آ گئیں ۔ ۔

—————————

‏اس قدر خلوص سے چاہتے ہیں تجھے

تیرا عشق بخشش کا وسیلہ ہو جیسے

ذمل اور ارش پروجیکٹ ایگزیبیشن کے لیئے پیرس جا رہے تھے ۔ ۔  اس دفعہ بھی ان دونوں کی نشستیں ساتھ ساتھ تھیں ۔ ۔ ۔  مگر ایک واضح فرق تھا۔ ۔ ۔  پچھلی مرتبہ وہ دونوں اجنبی تھے مگر اس دفعہ ایک دوسرے کا سب کچھ تھے ۔ ۔ ۔  ذمل اس سفر کے لیئے ارش سے بھی زیادہ ایکسائیٹڈ تھی۔ ۔  ارش کے ساتھ تین دن گزارنے کا خیال ہی اسے خوش کرنے کے لیئے کافی تھا۔ ۔ ۔

"ذمل تمہیں یاد تو آئی ہو گی ہماری پہلی ملاقات۔ ۔ ۔ ” ذمل اپنی سوچوں میں گُم تھی جب ارش نے چٹکی بجا کر اُسے مخاطب کیا۔

"وہ تو میں کب کی بھول چکی ہوں ۔  اس میں یاد کرنے والی کوئی بات ہی نہیں تھی بدھو۔ ۔ ۔ ” ذمل نے شانے اچکائے۔

"مجھے تو اچھے سے یاد ہے ۔ ۔  تمہارا وہ غصہ میں کیسے بھول سکتا ہوں ۔ ” ارش نے ذمل کی آنکھوں میں جھانک کر کہا۔

"تمہیں بھی کیا ضرورت تھی میرے ساتھ اتنا فری ہونے کی۔ ۔ ۔ ” ذمل نے بیگ کے زپ کی طرف اشارہ کیا۔

"میں نے سوچا اکیلی لڑکی ہے ۔ ۔  تھوڑی سی چھیڑ خانی کر لی جائے۔ ۔ ۔ ” ارش نے ذمل کے بالوں کی ایک لٹ کو ماتھے سے پیچھے کیا۔

"اگر میری جگہ وہاں کوئی اور ہوتی تو کیا ہوتا۔ ۔ ۔ ” ذمل نے مصنوعی سنجھیدگی لیئے اسے گھورا۔ ۔

"تو بھی آج میرے ساتھ تم ہوتی۔ ۔  کیونکہ اس کا نام ذمل نہیں ہوتا۔ ۔ ۔ ۔ ” ارش نے ذمل کے ہاتھ اپنے سامنے کیئے اور کچھ ڈھونڈنے لگا۔

"کیا ڈھونڈ رہے ہو ان ہاتھوں میں ۔ ۔ ۔ ” ذمل نے اپنے ہاتھوں کی جانب دیکھتے ہوئے پوچھا۔

"میں سوچ رہا تھا کہ کب ان ہاتھوں پر میرے نام کی مہندی لگے گی۔ ۔ ۔ ۔ ” ارش نے ان ہاتھوں کو تھوڑا اور قریب کیا۔

"کبھی بھی نہیں ۔ ۔ ۔  مجھے مہندی بالکل بھی پسند نہیں ۔ ۔ ۔ ” ذمل نے عجیب سی شکل بنائی۔ ۔

"لیکن مجھے تو مہندی والے ہاتھ بہت پسند ہے ۔ ۔ ۔  میری خاطر مہندی تو تمہیں لگانی پڑے گی۔ ۔ ۔ ” ارش نے ان ہاتھوں کو اپنے مردانہ ہاتھوں میں سمیٹ لیا۔ ۔  ذمل کے اندر ایک خوشگوار احساس نے جنم لیا۔ ۔ ۔

 

"تمہاری خاطر تو نہیں لیکن کسی اور کی خاطر لگانی ہی پڑی گی۔ ۔ ۔ ” ذمل نے آہستہ سے کہا۔

"اب یہ کسی اور کون ہے ۔ ۔ ۔ ؟؟” ارش جانتا تھا کہ ذمل یہ سب اسے تنگ کرنے کے لیئے بول رہی ہے ۔ ۔ ۔  اتنی آسانی سے تو وہ نہیں مانے گی۔ ۔

"جس کے نام کی مہندی میرے ہاتھوں پر لگے گی۔ ۔  جس کی زندگی میں میری وجہ سے روشنی ہو جائے گی۔ ۔ ۔ ” ذمل کی آنکھوں میں جگنو چمک اٹھے ۔

"ابھی کچھ دیر پہلے تک تو تمہیں مہندی پسند نہیں تھی۔ ۔  یہ اچانک سے کیسے پسند آ گئی۔ ۔ ” ارش نے آنکھوں میں خفگی لیئے ذمل سے سوال کیا۔

"کیا پتا کسی کی خاطر میری پسند بدل جائے۔ ۔ ۔ "ذمل نے اپنی نظریں جھکا لیں ۔

—————————

تم مجھے خاک بھی سمجھو تو کوئی بات نہیں

یہ بھی اڑتی ہے تو آنکھوں میں سما جاتی ہے

بارش پھر سے تیز ہو گئی تھی۔ ۔ ۔  ننھی ابھی تک بے یقینی میں تھی۔ ۔ ۔  اس نے پروین کی خاطر بہت قربانیاں دی تھیں مگر پروین نے اس کی زندگی کو کہاں پہنچا کر رکھ دیا تھا۔ ۔ ۔  اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ اتنی رات کو وہ کہاں جائے اور کس سے مدد مانگے ۔ ۔ ۔  ایک سوچ کے تحت اسے ماہم کا خیال آیا۔ ۔ ۔  اس نے چہرے کو دوپٹے میں چھپایا اور ماہم کو ملنے جانے لگی۔ ۔

ماہم کی پھپھو کے گھر کے باہر اتنا رش دیکھ کر وہ پریشان ہو گئی۔  اس نے ایک عورت کو روک کر وجہ پوچھی تو اُس نے فاخر کی موت کا بتایا۔  ننھی کے پیروں سے زمین کھسک گئی۔  جلدی سے وہ وہاں سے نکل گئی۔ ۔

تھوڑا دُور ہی اسے ایک بس سٹیشن نظر آیا تو وہاں جا کر بیٹھ گئی۔ ۔  بہت سی میلی نگاہوں نے اُس کا تعاقب کیا۔  وہ بہت ڈر گئی تھی۔ ۔  آخر کو تھی تو لڑکی۔ وہ بھی خوبصورت اور جوان۔ ۔  صبح ہوتے ہی وہ بے وجہ سڑکوں پر پھرنے لگی۔ ۔ ۔  اُسے بہت بھوک لگ گئی تھی مگر اس کے پاس پیسے نہیں تھے کہ کچھ کھا پی سکے ۔ ۔  وہ وہیں فٹ پاتھ پر بیٹھ کر بھیک مانگنے لگی۔ ۔ ۔  جب تھوڑے سے پیسے جمع ہو گئے تو اس نے ایک روٹی اور ساتھ میں چائے لی۔ ۔ ۔  اسے گھر کی یاد ستا رہی تھی۔ ۔ ۔  اس نے بمشکل ہی آدھی روٹی کھائی اور کافی دیر وہیں بیٹھ کر رونے لگی۔

—————————

"رفیق تُو کچھ کرتا کیوں نہیں ہے ۔ ۔  اب مجھ سے مزید برداشت نہیں ہوتی یہ منحوس ننھی۔ ۔ ۔ ” پروین نے رفیق کو اپنا دکھڑا سنایا۔

"صبر کر میری رانی صبر۔ ۔ ۔  بہت جلد ہی ہم اس کو انجام تک پہنچائیں گے ۔ ۔  تُو بس اُس پر کڑی نظر رکھ۔ ۔ ۔  وہ کہاں جاتی ہے ۔ کس سے ملتی ہے سب بتا مجھے ۔ ” رفیق نے پروین کو اپنے سینے سے بھینچ لیا۔

"تُو فکر نہ کر رفیق میں آگے سے دھیان رکھوں گی۔  تُو بس اپنی تیاری پوری رکھیں ۔  بچنے نہ پائے وہ۔ ۔ ” پروین نے آنکھیں بند کر لیں اور اپنی آنے والی زندگی کے سہانے باغ دیکھنے لگی۔ ۔ ۔ ۔

—————————

تیرے ہاتھ بناؤں پنسل سے،

پھر ہاتھ پہ تیرے ہاتھ رکھوں،

کچھ سیدھا الٹا فرض کروں،

کچھ الٹا سیدھا ہو جائے __!!!

کمرے میں پہنچتے ہی ذمل نے سب سے پہلے بابا اور پھر مسکان کو کال کی۔ ۔  ارش اور ذمل کے کمرے ساتھ ساتھ ہی تھے ۔  دونوں نے سامان کمروں میں رکھا اور فریش ہونے کے بعد ڈنر کرنے چلے گئے۔ ۔

ریسٹورنٹ کے لان میں ہی ان کو ٹیبل ملا۔ ۔  وہاں کافی رش تھا۔  بہت سے نوجوان کپلز وہاں آئے ہوئے تھے ۔ ۔  تھوڑی دیر بعد ہی بیس بائیس سالہ لڑکی ان کے ٹیبل کی طرف آئی اور بولی

"میں شزا ہوں پاکستان سے ۔ ۔  ہم لوگ دو سال پہلے یہاں شفٹ ہوئے ہیں ۔ ۔ ۔  ماشاء اللہ مجھے آپ کا کپل بہت پیارا لگا۔ ۔  بالکل کسی شہزادے اور شہزادی کی طرح ” وہ لڑکی کافی ہنستے ہوئے بول رہی تھی۔

"تھینک یو شزا۔  یہ میری مسز ہیں ذمل اور میں ان کا مسٹر ارش” ارش نے ایک سمائل شزا کی طرف پاس کی۔

"ایکچیولی میں سوچ رہی تھی کہ آپ لوگ ہمارے ساتھ لنچ کریں کسی دن۔ ۔ ۔  میں آپ کو اپنی دادی سے بھی ملواؤں گی۔ ۔  انھیں آپ جیسے کپلز بہت پسند ہیں ۔ ۔ ” شزا نے ان دونوں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ ۔ ۔ ۔

"ہم یہاں صرف تین دن کے لیئے ہیں ایگزیبیشن کے سلسلے میں ۔ ۔ ۔  تھینک یو سو مچ فار انویٹیشن۔ ۔ ۔ ۔ ” ارش نے پھر سے ایک سمائل پاس کی۔ ۔ ۔

"ارش اِس طرح شزا مزا کے ساتھ بات کر رہا ہے جیسے کوئی بچپن کی سہیلی ہو اس کی۔ ۔ ۔ ” ذمل دل ہی دل میں مسوس کر رہ گئی۔

"اچھا آپ مجھے اپنی ایگزیبیشن پر انوائیٹ کریں ناں بھائی۔ ۔  میں ضرور آؤں گی۔ ۔ ۔  پرامس۔ ” شزا کی معصومیت ارش کو اچھی لگی۔  اُسے اقصیٰ یاد آنے لگی۔ ۔ ۔

"تمہیں پتا ہے شزا میری ایک بہن ہے ۔ بالکل تمہاری طرح۔ ۔ ۔  تمہیں دیکھ کر مجھے اس کی یاد آ گئی۔ ۔ ۔ ۔ ” ذمل کے دل سے شزا کے لیئے حسد نکل گیا۔ ۔ ۔ ۔

"یہ لو کارڈ۔ اس پر ایڈریس مینشن ہے ۔ ۔  تم ضرور آنا۔  ہم انتظار کریں گے ۔ ۔ ۔ ” ذمل نے شزا کو ایک کارڈ تھمایا۔ ۔ ۔  کارڈ لینے کے بعد شزا نے ان دونوں کی فیس بُک آئی ڈیز لیں ۔ ۔ ۔ ۔  جلدی سے اُن کو ریکیوسٹ بھیجی۔ ۔ ۔ ۔  ان کے ساتھ ایک سیلفی لی اور پوسٹ کر دی۔ ۔ ۔

اس کے جانے کے بعد ارش اور ذمل کافی دیر ہنسنے لگے ۔ ۔ ۔ ۔  اچانک ذمل کو کچھ یاد آیا تو اُس نے اپنے لب کھولے

"میں کب سے تمہاری مسز ہو گئی ہوں بدھو۔ ۔  تمہاری مسز بننے کا کوئی شوق نہیں ہے مجھے ۔ ۔ ۔ ” ذمل نے ہاتھ کے اشارے سے منع کیا۔

"دیکھ لو سب کو ہمارا کپل کتنا پسند ہے ۔ ۔ ۔  ایک تم ہی شور کرتی رہتی ہو۔ ۔ ” ارش نے ذمل کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا۔

"تم کیا ہر ٹائم مجنو بنے پھرتے ہو ۔ ۔ ۔  اپنے لیئے کوئی لیلا ڈھونڈ لو جا کر مسٹر مجنو۔ ۔ ۔ ” ذمل نے شرارتاً کہا۔ ۔

"تُم جو ہو میری لیلا۔ ۔  میری ہیر۔ ۔ ۔  میری سسی۔ ۔ ۔  کسی اور کی ضرورت نہیں مجھے ۔ ۔ ۔ ۔ ” ارش نے اس کے ہاتھ پر اپنی گرفت مضبوط کر لی۔ ۔ ۔ ۔  ذمل کے رخسار گلابی پڑنے لگے ۔ ۔ ۔  اس نے اپنا چہرہ جھکا لیا۔ ۔

"کھانا کھانے آئے ہیں ہم بدھو۔ ۔ ۔  ان با توں کو پھر کبھی کر لیں گے ۔ ۔ ۔ ۔ ” ذمل نے اپنے ہاتھ پیچھے کئے اور مینیو دیکھنے لگی۔ ۔  ارش کو اس کی آنکھوں میں اپنا عکس دکھائی دے رہا تھا۔ ۔ ۔ ۔

"مسز ارش۔ ۔ ۔ ۔ ” وہ دل ہی دل میں ہنسا۔ ۔ ۔

 

"وہ اِک شب کہ جسے بھولنے کی حسرت ہے ”

سنو! تم نے کبھی ساحل پہ

بکھری ریت دیکھی ہے ؟

سمندر ساتھ بہتا ہے

مگر اس کے مقدر میں

ہمیشہ پیاس رہتی ہے۔۔ ۔

سنو! تم نے کبھی صحرا میں

جلتے پیڑ دیکھے ہیں ؟

سبھی کو چھاؤں دیتے ہیں

مگر ان کو صلے میں

ہمیشہ دھوپ ملتی ہے۔۔ ۔

سنو! تم نے کبھی شاخوں سے

بچھڑتے پھول دیکھے ہیں ؟

وہ خوشبو بانٹ دیتے ہیں

بکھر جانے تلک

لیکن ہوا کا ساتھ دیتے ہیں۔۔ ۔

سنو! تم نے کبھی میلے میں

بجتے ڈھول دیکھے ہیں ؟

عجب ہے المیہ ان کا

بہت ہی شور کرتے ہیں

مگر اندر سے خالی ہیں۔۔ ۔

یہی میرا فسانہ ہے

بس

اتنی سی پہیلی ہے

یہی میری کہانی ہے

—————————

صبح سے شیبا کا جی گھبرا رہا تھا۔  کافی متلی بھی ہو رہی تھی۔  شہلا اسے ڈاکٹر کے پاس لے کر گئی تو پتا چلا کہ وہ پریگننٹ ہے ۔  اس نے دل ہی دل میں اللہ کا شکر ادا کیا۔ ۔

گھر آ کر شیبا سارا دن کمرے سے باہر ہی نہیں نکلی۔  اسے شہلا سے بہت شرم آ رہی تھی۔  وہ تو شہلا اسے کھانے کے لیئے اپنے ساتھ لاؤنج میں ذبردستی لے آئی ورنہ وہ کمرے میں ہی پڑی رہتی۔  کھانے پر نور محمد سے اس کی نظر نہیں مل رہی تھی۔  وہ ایک عجیب کیفیت میں گھری ہوئی تھی۔

"شیبا وہ بھابھی بتا رہی تھیں کہ تمہاری طبیعت کچھ ٹھیک نہیں ۔ ۔ ۔  ڈاکٹر کے پاس بھی لے کر گئی تھیں تمہیں ۔ ۔ ” نور محمد نے بریانی کھاتے ہوئے شیبا کو مخاطب کیا۔

"وہ۔ ۔ ۔ نہیں ۔ ۔ ۔  میں ۔ ۔ ۔ ۔  ٹھیک ہوں ۔ ۔ ۔ ” شیبا نے دوپٹے میں چہرہ چھپا کر اٹک اٹک کر بتایا۔

"کیا بتایا ڈاکٹر نے ۔ ۔ ۔ ؟؟” نور محمد کو شیبا کی فکر ہو رہی تھی اسی لیئے پوچھا۔

"وہ۔ ۔ ۔ ۔  جج۔ ۔ ۔ ۔  جی۔ ۔ ۔ ۔  کچھ۔ ۔ ۔ نہیں ۔ ” شیبا لال پیلی پڑ گئی۔

"یہی کہ اس گھر میں ایک بچے کا اضافہ ہونے والا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ” شہلا نے ہنستے ہوئے اعلان کیا۔ ۔

"مبارک ہو تائی جان۔ ۔ ۔ ” نور محمد نے سرشاری میں شہلا کو مبارکباد دی۔ ۔ ۔  وقار نے بھی بھائی کو گلے لگایا۔ ۔ ۔

شیبا سب سے پہلے وہاں سے اٹھ کر کمرے میں آ گئی۔ ۔ ۔  سب کے قہقہوں کی آوازیں اسے وہاں آ رہی تھیں ۔ ۔  خوشیوں نے اس کی زندگی میں مزید رنگ بھر دیئے تھے ۔ ۔

—————————-

یہ راز۔ ۔ ۔ ۔  فقط تتلیاں سمجھتی ہیں

چمکتے رنگ بھی جینا محال کرتے ہیں !!

ذمل اور ارش کی ایگزیبیشن کافی اچھی جا رہی تھی۔ ۔ ۔  شزا بھی وہاں آ گئی تھی لیکن اس کی دادی خراب طبیعت کے باعث نہیں آ سکیں ۔ ۔  ذمل اور شزا میں کافی بے تکلفی ہو گئی تھی۔  وہ دونوں باتیں کرتے کرتے ایک سائیڈ پر آ گئیں ۔

"اچھا ذمل بھابھی یہ بتائیں کہ ارش بھیا پہلی مرتبہ آپ کو کہاں ملے ۔ ۔ ۔ ؟؟”

"میں نہیں کوئی بھابھی۔ ۔  اس ارش کے ساتھ کون گزارہ کر سکتا ہے شزا۔ ۔ ۔ ” ذمل نے ارش کی طرف اشارہ کیا جو دور کھڑا انھیں دیکھ کر مسکرا رہا تھا۔

"بھابھی نہیں تو پھر کیا ہیں آپ ذمل بھابھی۔ ۔ ” شزا بیگ سے پانی کی بوتل نکالتے ہوئے پوچھنے لگی۔ ۔ ۔

"مجھے بھابھی نہ بولا کرو شزا۔ ابھی تو میں بچی ہوں ۔ ۔ ۔ ” ذمل نے مصنوعی سنجھیدگی سے اسے گھورا۔

"اچھا تو پھر میں آپ کو بولوں گی مسز ارش۔  ” شزا نے ایک جاندار قہقہہ لگایا۔ ۔

"میں کوئی مسز ارش نہیں ہوں پاگل لڑکی۔ ۔  ابھی تو مجھے زندگی کو انجوائے کرنا ہے ۔ ۔  مسز بننے میں بہت وقت ہے ۔ ۔ ۔ ” ذمل نے شزا کو کہنی ماری۔

"آہم آہم۔ ۔ ۔  بن جائیں گی مسز بھی۔ ۔ ۔  دل سے لفظوں کو تو نکالیں پھر دیکھنا کیسے بنتی ہیں آپ میری بھابھی۔ ۔ ۔ ” شزا نے شرارت سے ذمل کا ناک کھینچتے ہوئے کہا۔

"اُف شزا کی بچی۔ ۔ ۔  چھوڑو میرا ناک۔ ۔ ۔ ” ذمل نے شزا کے ہاتھ سے اپنا ناک چھڑوایا۔ ۔ ۔  اتنے میں ارش بھی ادھر آ گیا تھا۔ ۔  اس نے شزا کے سر پر ہلکے سے تھپڑ رسید کیا۔ ۔

"کیوں ستا رہی ہو اپنی بھابھی کو شزا۔ ۔ ۔ ۔  دیکھو کیسی پکوڑے جیسی ناک ہو گئی ہے اس کی؟”

"بھابھی نہیں ہیں یہ میری۔ ۔  ذمل آپی ہیں صرف۔ ۔  آپ کی حرکتیں ایسی نہیں کہ آپ دونوں کی شادی ہونے دوں میں ۔ ” شزا نے ذمل کے لال پڑتے ناک کو تھوڑا اور کھینچا۔ ۔

"میری حرکتیں تو ٹھیک ہیں ۔ ان میڈم کو سمجھاؤ کہ اپنی حرکتیں درست کریں اور میرے دل کی بات سمجھیں ۔ ۔ ” ارش ذمل کے پاس آیا اور اس کے ناک پر ہلکے سے اپنی انگلیاں پھیرنے لگا۔ ۔ ۔  ذمل کو لگا اس کا سارا درد ختم ہو گیا ہے ۔ ۔  اس نے دل سے دُعا مانگی کہ ارش مرتے دم تک اس کے ساتھ رہے ۔ ۔ ۔ ۔

"آپ دونوں رومیو جولیٹ اپنا رومینس جاری رکھیں ۔ ۔  میں چلتی ہوں ۔ ” شزا ان دونوں سے اجازت لے کر چلی گئی۔ ۔ ۔

—————————

یہ جو فٹ پاتھ پہ_____ آسودہ ہیں

ان کے ذہنوں میں بھی گھر ہوتے ہیں

ننھی نے دن تو فٹ پاتھ پر پڑے پڑے گزار دیا تھا مگر رات کو اُسے چھت کا سہارا چاہیئے۔  یہی سوچ کر وہ چاچا شکور کے گھر کی طرف جانے لگی۔  وہ جانتی تھی کہ چاچا شکور دل کے بہت اچھے ہیں اور وہ اسے اپنے گھر میں پناہ ضرور دیں گے مگر وہاں پہنچ کر ان کے گھر کے باہر اسے بڑا سا تالا لگا ہوا نظر آیا۔

"شاید سب لوگ گاؤں چلے گئے ہیں چھٹیاں منانے ۔ ” ننھی نے دل ہی دل میں سوچا۔ ۔

وہ واپس پلٹ رہی تھی کہ اسے ایک بلی دیوار پھلانگتی ہوئی نظر آئی۔ ۔ ۔ ۔  وہ بھی تھوڑی دیر بعد دیوار پھلانگ کر اندر چلی گئی۔ ۔ ۔  سامنے ہی برامدے میں چارپائی پڑی ہوئی تھی۔ ننھی وہیں لیٹ گئی۔ ۔  وہ دن بھر اتنا تھک چکی تھی کہ ایک دم ہی اُسے نیند آ گئی۔ ۔

آدھی رات کو شور سے ننھی کی آنکھ کھل گئی۔ ۔  یہ شور اسے گھر کے باہر سے آ رہا تھا۔

"یا خدایا۔ ۔ ۔  کہیں چاچا لوگ واپس تو نہیں آ گئے۔ ۔ ۔ ” وہ دل ہی دل میں بڑبڑائی۔ ۔

اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ اب وہ کہاں جائے۔ ۔  جلدی سے وہ چارپائی کے نیچے چھپ گئی۔ ۔ ۔  تھوڑی دیر بعد تین جوان لڑکے دیوار پھلانگ کر اندر داخل ہوئے۔  وہ تینوں نشے میں تھے ۔ ۔  ننھی کی تو جان ہی نکل گئی۔ ۔  وہ آیت الکرسی کا ورد کرنے لگی۔ ۔ ۔

"یا خدایا! اب یہاں کبھی نہیں آؤں گی۔ ۔ ۔  بس ایک دفعہ یہاں سے نکال دے ۔ ۔ ۔ ” وہ دل ہی دل میں دعائیں مانگ رہی تھی۔ ۔ ۔  اس کا چہرہ آنسوؤں سے تر ہو گیا۔ ۔

"وہ دیکھو وہاں کوئی ہے وہ چارپائی کے ساتھ۔ ۔ ” ان میں سے ایک لڑکے نے تقریباً چیختے ہوئے دوسرے کو بتایا۔  ننھی نے کرب سے آنکھیں میچ لیں ۔ ۔ ۔ ۔  وہ جان چکی تھی کہ آگے کیا ہونے والا ہے ۔ ۔ ۔

ہر طرف اذیت ہی اذیت تھی۔ ۔ ۔ ۔  قیامت ہی قیامت تھی۔ ۔ ۔

—————————

"رفیق تجھے پتا ہے ایک لڑکے کا منحوس ننھی پر دل آ گیا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ” رات کے آخری پہر جب رفیق جانے لگا تو پروین نے اسے بتایا۔

"تُو نام بتا اُس عاشق کا۔ پھر دیکھیں کیسے ختم کرتا ہوں میں اُسے ۔ ۔  ننھی کی خوشی کو اذیت میں بدلتے ہوئے دیکھے گی میری رانی۔ ۔ ” رفیق نے پروین کے ماتھے کو چومتے ہوئے پوچھا۔

"نہیں رفیق ہمیں اسے زندہ رکھنا ہو گا۔ ۔  تب ہی تو ہمارا مقصد پورا ہو گا۔ ۔ ۔ ” پروین کا شاطر دماغ رنگین مستقبل کے خواب بُن رہا تھا۔

"کیا کہہ رہی ہے تُو۔ ۔  میری سمجھ میں تیری یہ بات نہیں آئی۔ ۔ ۔ ”

"آج ننھی نے اُس لڑکے کو خط بھیجا ہے ۔  ایک دن وہ اُس سے ملنے بھی جائے گی۔ ۔ ۔  بس وہ دن آنے دے ۔ ۔ ۔  ننھی کو روک لے گا تُو اپنے پی سی او۔ ۔ ۔ ” پروین نے اپنا پلان بتایا۔

"یہ بات ہے میری رانی۔ ۔  اب سمجھ آئی ہے مجھے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  اور پھر وہی ہو گا جو ہم چاہیں گے ۔ ” وہ دونوں ہنسنے لگے ۔ ۔

—————————-

آسمانوں سے روشنی جیسا

مجھ پر الہام اک ستارہ کر

"امی آپ اتنی جلدی کیوں چلی گئیں ۔ ۔ ۔  آپ نے کیوں نہیں سوچا کہ آپ کے جانے سے میری زندگی کتنی نامکمل ہو جائے گئی۔ ۔ ۔  یہ خلا جو آپ چھوڑ گئی ہیں یہ کبھی نہیں بھرنے ہو گا امی۔ ۔ ۔  میری ہر خوشی آپ کے بغیر ادھوری ہے ۔ ۔ ۔  واپس آ جائیں امی۔ ۔  ” سرخ بستر پر ایک شہزادی لیٹی ہوئی گڑ گ    ڑا رہی تھی۔ ۔ ۔  اچانک ہی کمرے میں نورانی روشنی نمودار ہوئی اور ایک خوشگوار مہک کمرے میں پھیل گئی۔ ۔ ۔  ہوا کے نرم جھونکے نے شہزادی کے بالوں کو چھویا۔ ۔ ۔  وہ اپنی امی کا لمس پہچان چکی تھی۔ ۔ ۔  اس کی امی اُسے لینے آئی تھی۔ ۔ ۔  شہزادی نے آنکھیں بند کر لیں ۔ ۔  چہرے پر پرسکون مسکراہٹ سج گئی۔ ۔ ۔ ۔  اسے اپنی امی کے پاس جانے کی جلدی تھی۔ ۔ ۔ ”

"آپ اسے مت لے کر جائیں ۔ ۔ ۔  رک جائیں پلیز۔ ۔ ۔  رک جائیں ۔ ۔ ۔ ” ارش نیند میں بڑبڑا رہا تھا مگر وہ نورانی روشنی اسے ساتھ لے کر جا رہی تھی۔ ۔  ارش کی آنکھ کھل گئی۔ ۔ ۔  وہ پسینے میں نہایا ہوا تھا۔ ۔ ۔  یہ خواب وہ پچھلے کئی دنوں سے دیکھ رہا تھا مگر اسے شہزادی کی شکل نظر نہیں آ رہی تھی۔ ۔  آج اس نے شکل دیکھ لی تھی اسی لیئے خوفزدہ ہو گیا تھا۔ ۔ ۔ ۔  اس نے جلدی سے ایک نمبر ٹرائی کیا۔ ۔ ۔  بیل جا رہی تھی مگر کوئی اٹھا نہیں رہا تھا۔ ۔ ۔  دوبارہ نمبر ٹرائی کیا۔اس دفعہ اس نے اٹھا لیا تھا۔ ۔

"کیا ہے ارش اس وقت کیوں فون کیا۔ ۔ ۔ ” ذمل نے گھڑی پر ٹائم دیکھا فجر کا وقت تھا۔

"تم ٹھیک ہو ذمل۔ ۔  مجھے تمہاری فکر ہو رہی ہے ۔ ۔ ۔ ۔  ” ارش کی آواز میں درد ذمل کو محسوس ہوا۔ ۔

"میں بالکل ٹھیک ہوں ارش لیکن میرا دل بہت گھبرا رہا ہے ۔ ۔  میری ساری غلطیوں کو معاف کر دینا۔ ۔ ” پتا نہیں کیا ہوا ذمل ایک دم رونے لگی۔ ۔

"سب ٹھیک ہو گا ذمل۔ ۔  میں ہوں تمہارے ساتھ۔ تم اس طرح معافی مت مانگو۔ ۔ ۔ ۔ ” ارش کو ذمل کا رونا بالکل بھی پسند نہیں آیا۔

"ارش کیا پتا دوبارہ مجھے یہ موقع نہ ملے ۔ ۔  ہو سکے تو معاف کر دینا پلیز۔ ۔ ۔ ” ذمل کی سسکیاں ارش کو سنائی دے رہی تھیں ۔ ۔

ارش کو کمرے میں حبس محسوس ہو رہا تھا۔ ۔  وہ اٹھ کر بالکونی میں چلا گیا مگر حبس برقرار۔ ۔ ۔ ۔

"تم ایسا نہ بولو ذمل۔  میرے دل کو تکلیف ہوتی ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ” ارش کے دل کو کچھ ہوا۔ ۔ ۔

"کل ہم آئفل ٹاور ملیں گے ارش۔ ۔ ۔ ۔  میں ان لمحات کو یادگار بنانا چاہتی ہوں ۔ ۔ ۔ ” ذمل نے کہہ کر فون بند کر دیا۔ ۔ ۔

میری کہانی کے اختتام سے ___ ذرا پہلے

اے مصنف! ایک بار سہی۔ اُسے میرا لکھنا

ارش نے دوبارہ نمبر ملایا مگر وہ آف ہو چکا تھا۔ ۔  وہ رات اُس نے کانٹوں پو گزاری۔ ۔ ۔  ہر پل بے چینی تھی۔ ۔ ۔  ذمل کی بھی یہی کیفیت تھی۔ ۔ ۔  اسے کسی کروٹ نیند نہیں آئی۔ ۔ ۔  اسے صرف ایک ہی چیز خوفزدہ کر رہی تھی۔ ۔ ۔ ۔ ۔  موت۔

—————————

رات کو نور محمد کمرے میں آیا تو اس کے ہاتھ میں ایک ڈبیا تھی۔ ۔ ۔  وہ سیدھا شیبا کے پاس بیڈ پر گیا اور ڈبیا کھول کر اس کے سامنے کر دی۔ ۔ ۔  اندر سونے کے دو خوبصورت کنگن تھے ۔ ۔

"اس کی کیا ضرورت تھی نور۔ ۔ ۔  آپ کو پتا ہے آپ سے مجھے آپ کے علاوہ کچھ بھی نہیں چاہیئے۔ ۔ ۔ ” شیبا نے نور محمد کے ہاتھ سے ڈبیا لے کر سائیڈ پر رکھ دی۔ ۔

"یہ سب میں اپنی خوشی سے کرتا ہوں شیبا۔  تم اس طرح میری محبت کو ٹھکرایا نہ کرو۔  تم نے مجھے جو تحفہ دیا اُس کے برابر یہ کچھ بھی نہیں ۔ ۔ ” نور محمد نے شیبا کے کندھے کے گرد اپنے بازو حمائل کر دئیے ۔ ۔ ۔

"آپ کی محبت ہی تو میرا حاصل ہے نور۔  اس کو ٹھکرا کر میں کیسے زندہ رہ سکتی ہوں ۔ ۔ ” شیبا کے ڈبیا سے کنگن نکالے اور نور محمد کی ہتھیلی پر رکھے ۔ ۔ ۔  نور محمد نے اپنے ہاتھوں سے اسے کنگن پہنائے۔

"اب آئے ہیں یہ اپنی صحیح جگہ پر۔ ۔ ۔ ” نور محمد نے اس کے دودھیا ہاتھوں کو چوما۔ ۔ ۔ ۔  زندگی پل پل مسکرا رہی تھی۔ ۔ ۔ ۔

 

"اگر قسمت مہربان ہوتی___ تو یوں نہ ہوتا”

میں مسکراتا ہوا، آئینے میں ابھروں گا

وہ رو پڑے گی اچانک سنگھار کرتے ہوئ

صبح آٹھ بجے:

تھوڑی دیر کے لیئے ذمل کی آنکھ لگ گئی تھی۔ ۔  وہ فجر سے جاگ رہی تھی اس لیئے نیند کا غلبہ آ گیا تھا۔  اس نے بہت ڈراؤنا خواب دیکھا تھا۔ ۔  ایک دم سے وہ اٹھ گئی۔ ۔ ۔

دس بجے:

جب ذمل کی آنکھ کھلی تو دس بج چکے تھے ۔ ۔ ۔ ۔  اس نے گلاس میں پانی انڈیلا اور ایک ہی سانس میں پی گئی۔ ۔  اس کے بعد وہ کافی دیر بیڈ پر اوندھے منہ لیٹی رہی۔ ۔ ۔  اس کا بیڈ سے اترنے کا دل نہیں کر رہا تھا۔ ۔ ۔

گیارہ بجے:

ذمل بیڈ سے اٹھی اور شاور لینے چلی گئی۔ ۔  اس نے میرون شرٹ اور ساتھ میں بلیک جینز پہنی۔ ۔ ۔  آج اس نے اپنے سیاہ چمکدار بالوں کو کیچر میں جکڑ  لیا تھا۔ ۔  آنکھوں میں کاجل لگایا اور ہونٹوں پر گلوس۔ ۔  اس سے زیادہ اس کا دل نہیں کیا۔ ۔ ۔

ساڑھے بارہ بجے:

ذمل کمرے سے نکلی اور بے وجہ پیرس کی سڑکوں پر گھومنے لگی۔ ۔  اس نے ارش کے لیئے ڈریس شرٹ اور ساتھ میں رسٹ واچ خریدی۔  اسے لگا کہ اگر اُس نے آج ارش کو کچھ نہیں دیا تو شاید کبھی نہیں دے سکے ۔ ۔ ۔ ۔

دوپہر دو بجے: ذمل کمرے میں واپس آئی تو موبائیل آن کیا۔ ۔  ارش کے پچاس میسجز آئے ہوئے تھی۔ ۔  وہ باری باری سب کو پڑھنے لگی۔ ۔ ۔ ۔

"کہاں ہو ذمل۔ ۔ ۔ ”

"نمبر کیوں آف ہے ۔ ۔ ۔ ”

"کمرہ بھی لاک ہے تمہارا۔ ۔  مجھے پریشانی ہو رہی ہے ۔ ”

"پلیز ایسے مت کرو۔  جہاں بھی ہو واپس آ جاؤ۔ ”

"آئی مس یو ٹُو مچ ذمل۔ ۔ ۔ ”

"تم صبح سے بھوکی ہو۔ ۔  چلو کچھ کھانے چلیں ۔ ”

"تم ایسا کیوں کر رہی ہو ذمل۔ ”

"میرا دل تمہارے بغیر بہت اداس ہے ۔  لوٹ آؤ ذمل۔ ”

"میں کافی شاپ پر تمہارا انتظار کر رہا ہوں ۔ ۔ ”

"گھنٹہ گزر گیا تمہاری راہ دیکھتے ۔ ۔  آ جاؤ اب۔ ”

"آج تم سے بہت کچھ کہنا ہے ذمل۔ ۔ ۔ ”

"آج کا دن ہم مل کر یادگار بنا لیں گے ۔ ۔ ۔ ”

"تم مجھے ستا رہی ہو ناں ۔ ۔  میں جانتا ہوں ۔ ۔ ۔ ”

"آئفل ٹاور ہمارا انتظار کر رہا ہے ذمل۔ ۔ ”

"یہ مشرقی لڑکیاں اتنا انتظار کیوں کرواتی ہیں ذمل۔ ۔ ”

اور بھی بہت سے ٹیکسٹ تھے ۔ ۔  ذمل کی آنکھوں کے گوشے بھیگ گئے۔ ۔ ۔

"ارش مجھے ایسا لگ رہا ہے جیسے میری زندگی موت کے قریب تر ہے ۔ ۔  اگر میں نہ رہی تو تم کیسے رہو گے ۔ ۔  مجھے معاف کر دو۔ ۔ ۔  میں چاہتے ہوئے بھی تمہاری زندگی کو مکمل نہیں کر سکتی۔ ۔ ” ذمل نے خود کلامی کی۔ ۔ ۔

—————————

ننھی کو گھر سے نکالنے کے بعد اسد ملک کو کہیں بھی چین نہیں آ رہا تھا۔  ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے انھوں نے بہت بڑا گناہ کر دیا ہو۔  ساری رات وہ اپنے کمرے میں ٹہلتے رہے ۔ ۔  انہیں ننھی کی یاد آ رہی تھی۔ ۔ ۔  اس ننھی کی جو ہر مشکل وقت میں باپ کا سہارا بنی تھی۔  عفت کو بھی جہاں ننھی بٹھا کر گئی تھی وہ وہیں بیٹھی رہی۔  اس کو کسی چیز کا ہوش نہیں تھا۔ ۔ ۔

آج پروین نے رفیق سے بریانی اور کولڈ ڈرنک منگوا لی تھی۔  ان دونوں نے ساتھ میں کھانا کھایا۔ ۔  پروین کے لیئے جشن کا دن تھا۔  کھانے کے بعد وہ دونوں قریب ہی ایک پارک میں گئے۔  اب پروین کو روکنے والا کوئی نہیں تھا۔ ۔

رفیق پروین کو جھولا دے رہا تھا جب اس نے سوال کیا

"کب کرے گا تُو مجھ سے شادی رفیق۔  اب تو منحوس بھی چلی گئی۔ ۔ ۔ ۔ ”

"بس کچھ دن اور میری رانی۔ ۔ ۔  پھر میں ہوں گا اور تم۔ ۔  صبر کر بس۔ ۔ ۔ ۔ ” رفیق نے پروین کو تسلی دی۔ ۔ ۔ ۔

—————————

دکھوں سے میرا تعلق بحال رکھتی ہے

یہ زندگی میرا کتنا خیال رکھتی ہے۔۔ !!

"وہ دیکھو وہاں کوئی ہے وہ چارپائی کے ساتھ۔ ۔ ۔ ” ان میں سے ایک لڑکے نے تقریباً چیختے ہوئے دوسرے کو بتایا۔  ننھی نے کرب سے آنکھیں میچ لیں ۔ ۔ ۔

وہ لڑکا چارپائی کے پاس آیا۔ ۔ ۔  ارد گرد نظر دوڑائی تو ایک بلی نظر آئی۔ ۔ ۔

"کچھ بھی نہیں ہے یہاں سوائے اس بلی کے ۔ ۔ ” اس لڑکے نے دوسرے کو بتایا۔  ننھی نے اپنے منہ پر ہاتھ رکھ دیا۔ ۔  وہ اپنی سسکیوں کو دبانا چاہتی تھی۔ ۔ ۔

وہ لڑکے کافی دیر وہاں کونے میں بیٹھ کر نشہ کرتے رہے ۔  ننھی کو اس بدبو سے وحشت ہو رہی تھی لیکن اسے انتظار کرنا تھا۔ ۔ ۔  ان لڑکوں کے جانے کا انتظار۔ ۔ ۔  مسجد میں اذانوں کی آواز سنائی دی تو تینوں لڑکے دیوار پھلانگ کر چلے گئے۔ ۔ ۔ ۔  ننھی کی جان بچ گئی تھی۔ ۔  اس نے اللہ کا شکر ادا کیا۔ ۔ ۔

—————————

"نور آپ کو بیٹا چاہیئے یا بیٹی۔ ۔ ۔ ” شیبا نے سیب کا ٹکڑا منہ میں لے جاتے ہوئے پوچھا۔

"شیبا تمہارے وجود سے بیٹا جنم لے یا بیٹی مجھے تو دونوں ہی عزیز ہوں گے ۔ ۔ ۔ ” نور محمد نے پرسکون لہجے میں بتایا۔ ۔

"لیکن مجھے تو بیٹے پسند ہیں نور۔ ۔  بیٹی کے نصیب سے بہت ڈرتی ہوں میں نور۔ ۔ ۔ ۔ ” شیبا کو اپنا تلخ ماضی یاد آنے لگا۔ ۔

"تم سب بھول جاؤ شیبا۔ ۔  ماضی کی راکھ کریدنے سے کچھ حاصل نہیں ۔  دیکھ لینا ہم اپنے بچے کو دنیا کی ہر خوشی دیں گے ۔ ۔ ۔ ” نور محمد نے شیبا کو اپنے قریب کیا۔ ۔  اس کے قرب سے شیبا کے وجود میں نئی روشنی بھر گئی۔ ۔ ۔ ۔

—————————

دوپہر تین بجے:

ارش ایک مرتبہ پھر سے ذمل کے کمرے کی طرف گیا۔ ۔  اس مرتبہ پہلی بیل پر ہی ذمل نے دروازہ کھلا۔ ۔  وہ ایک دم ہی ذمل پر برس پڑا۔

"کہاں چلی گئی تھی تُم ذمل۔ ۔ ۔  یہ سوچ کر ہی میری جان نکل گئی تھی کہ خدانخواستہ تمہیں کچھ ہو گیا تو۔ ۔ ۔ ۔  کیوں کیا تم نے میرے ساتھ ایسا”۔ ۔ ۔ ۔ وہ ذمل کو جھنجھوڑنے لگا۔ ۔

"کچھ نہیں ہوا مجھے ۔ ۔  میں بالکل ٹھیک ہوں ۔ ۔ ۔  وہ میں ذرا مارکیٹ تک گئی تھی۔ ۔  اندر آؤ تم باہر کیوں کھڑے ہو۔ ۔ ۔ ” ذمل اس طرح پرسکون کھڑی بتا رہی تھی جیسے کچھ ہوا ہی نہیں ۔ ۔  اس نے سائیڈ پر ہو کر ارش کو راستہ دیا۔

"اور میرے میسجز۔ ۔  ایک کا بھی ریپلائی دینا ضروری نہیں سمجھا تُم نے ۔ ۔ ۔ ” ارش اندر داخل ہوتے ہوئے اس سے پوچھنے لگا۔ ۔ ۔

"بیٹری ڈیڈ ہو گئی تھی۔  ابھی ہی پڑے تمہارے میسجز۔ ۔  ریپلائی کر ہی رہی تھی کہ تم آ گئے۔ ۔ ۔ ” ذمل نے موبائیل اٹھا کر اسے دکھایا۔ ۔  سکرین پر اسی کے میسجز چمک رہے تھے ۔ ۔ ۔

"اچھا بدھو معاف کر دو ناں اب۔ ۔  غلطی ہو گئی۔ ۔ ۔ ” ذمل نے کانوں کو ہاتھ لگا کر ارش سے معافی مانگی۔ ۔ ۔  ارش نے اس کے ہاتھ نیچے کیئے۔ ۔

"جہاں پیار ہو وہاں معافی کی ضرورت نہیں پڑتی ذمل۔ ۔ ۔ ۔ ” اس کے ہاتھوں کو ارش نے اپنے چہرے سے لگایا۔ ۔  ذمل نے آنکھیں میچ لیں ۔ ۔ ۔

"کاش ارش تم یوں ہی رہو ہمیشہ۔ ۔ ۔ ۔ ” ذمل نے اس پل دل سے ارش کو مانگا۔  قسمت اس کانچ کی گڑیا کے لیئے آنسو بہا رہی تھی۔ ۔

وہ دونوں کافی دیر باتیں کرتے رہے ۔ ۔  ارش جانے لگا تو ذمل نے اُسے شرٹ اور رسٹ واچ دی۔ ۔ ۔

"آج یہی پہن کر آنا۔ ۔ ۔ ۔  اس ملاقات کو یادگار بنانا ہے ارش۔ ۔ ۔ ۔ ” ذمل نے دروازے میں کھڑے ہو کر اسے کہا۔ ۔ ۔

—————————

ننھی کے جانے کے مہینے بعد ہی پروین نے دھوکے سے اسد ملک سے سب کچھ رفیق کے نام کروا دیا۔ ۔ ۔  وہ محبت میں اس قدر اندھی ہو گئی تھی کہ اسے اپنے بوڑھے ماں باپ کا خیال تک نہیں آیا۔ ۔  اسے ہر طرف رفیق ہی نظر آتا۔ ۔ ۔  اسد ملک نے دکان چھوڑ دی تھی۔ ۔  ان میں لوگوں کا سامنا کرنے کی سکت نہیں تھی۔ ۔ ۔  کچھ ٹائم تک تو گھر کا گزارہ چلتا رہا مگر جب پروین کو بوڑھے ماں باپ بوجھ محسوس ہونے لگے تو اس نے ایک سرد شام کو ان کو گھر سے نکال دیا۔ ۔ ۔

—————————

میری آنکھوں میں خواب تھے ہی نہیں

میری آنکھوں میں __ ایک صورت تھی

شام ساڑھے چار بجے:

ارش اور ذمل ایک ریستوران میں بیٹھے کھانا کھا رہے تھے ۔ ۔  آج ذمل نے اپنے ہاتھوں پر مہندی لگائی تھی۔ ۔ ۔ مہندی کی خوشبو ارش کو مزید دیوانہ بنا رہی تھی۔ ۔ ۔  اس نے ذمل کے ہاتھ قریب کیئے اور ان میں اپنا نام ڈھونڈنے لگا۔ ۔ ۔

"نہیں ملے گا تمہیں اپنا نام ارش۔ ۔ ۔ ۔  قسمت اتنی مہربان کیسے ہو سکتی ہے ۔ ۔ ۔ ” اداس دل نے قسمت سے شکوہ کیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔

"یہ دیکھو ذمل یہاں رہا A۔ ۔ ۔

کتنا پیارا لگ رہا ہے تمہارے ہاتھوں پر میرا نام۔ ۔ ۔ ۔ ” ارش نے اس کے ہاتھوں کو اپنے چہرے سے لگایا۔ ۔ ۔ ۔  مہندی کی دلفریب مہک نے ساز بکھیرنے شروع کر دئیے ۔ ۔ ۔  فضا معطر ہو گئی تھی۔ ۔ ۔

"یہ تو مہندی کا ڈیزائن ہی ایسا ہے ارش۔ ۔ ۔  تم زیادہ خوش نہ ہو۔ ۔ ۔ ” ذمل نے اداس مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔ ۔ ۔ ۔

"مجھے سب پتا ہے ۔ ۔ ۔  تم مجھ سے کچھ بھی نہیں چھپا سکتی ذمل۔ ۔ ۔ ” ارش نے ذمل کی آنکھوں میں جھانکا۔ ۔ ۔  وہاں ہر طرف اسی کے ساز بکھرے پڑے تھے ۔ ۔ ۔ ۔

—————————

"کیسی بات کر رہے ہیں آپ۔ ۔  ذمل آپ ہی کی امانت ہے ۔ ۔  جب چاہیں لے جائیں ۔ ۔ ۔ ” شاہ صاحب کسی سے فون پر بات کر رہے تھے ۔ ۔ ۔ ۔

"کچھ دنوں تک ہم آئیں گے اپنی امانت لینے ۔ ۔ ۔  اس عید پر ہم ذمل بیٹی کو اپنے گھر میں دیکھنا چاہتے ہیں ۔ ۔ ” دوسری طرف سے آواز آئی۔ ۔ ۔

"آپ کا حکم سر آنکھوں پر۔ ۔ ۔  مہروز بھی ہمیں بہت عزیز ہے ۔ ۔  ہم نے بہت سالوں سے اس دن کا انتظار کیا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ”

شاہ صاحب بہت خوش تھے ۔ ۔  انھیں ہر طرف ذمل کے ساتھ مہروز دکھائی دے رہا تھا۔ ۔ ۔  وہ نہیں جانتے تھے کہ ذمل کا دل اب کس نام سے دھڑکتا ہے ۔ ۔  جب آسمانوں سے فیصلے آ جاتے ہیں تو زمین والوں کو قبول کرنے پڑتے ہیں اور کچھ ایسے ہی فیصلے لکھے جا چکے تھے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

 

"øمیں اپنی ہستی مٹا رہا ہوں ”

میری نظر نے اُسے بس دل تک آنے کی اجازت دی

روح میں سما جانے کا ______ ہنر اس کا اپنا تھا

نور محمد شیبا کا ہر طرح سے خیال رکھ رہا تھا۔  وہ اسے کسی بھی چیز کی کمی نہ محسوس ہونے دیتا۔  شیبا کو اپنی زندگی پر ناز ہونے لگا۔ ۔ ۔  اسے یقین ہو گیا تھا کہ خدا اپنے بندے کو ایک حد سے زیادہ نہیں آزماتا۔  وہ جب نوازنے پر آتا ہے تو اپنے خزانوں سے بے تحاشا نوازتا ہے ۔

شہلا بھابھی نے بیٹے کو جنم دیا تھا۔  شیبا ان کا ہر طرح سے خیال رکھتی۔  وہ انھیں بہن کی کمی کسی طور بھی نہ محسوس ہونے دیتی۔  ہر طرف خوشیوں کا سماں تھا۔  ایک مہینے بعد شیبا کے ہاں بیٹی کے جنم سے خوشیاں دوبالا ہو گئی تھیں ۔ ۔  اس گول مٹول بچی کے نقش بالکل اپنی ماں جیسے تھے ۔ ۔ ۔  شیبا ہر وقت اس کے اچھے نصیب کی دعا مانگتی رہتی۔ ۔ ۔

—————————-

شام چھ بجے:

ذمل بیٹ کراؤن سے ٹیک لگائے لیٹی ہوئی تھی۔ ۔  اس کا دل بہت بے چین ہو رہا تھا۔  دل کو ہر پل ارش درکار تھا مگر ذمل کو سب ختم ہوتا دکھائی دے رہا تھا۔ ۔

ساڑھے چھ بجے:

ذمل کے اندر کی گھٹن اسے بے سکون کر رہی تھی۔  وہ بیڈ سے اٹھی اور سیدھی بالکونی میں آ گئی۔  گزرے ماہ و سال کی یادوں نے اسے جھکڑ لیا تھا۔ ۔ ۔  وہ بچپن کی وادی میں کھو گئی تھی۔ ۔ ۔

رات سات بجے:

ذمل کمرے میں آئی اور آج کی ایک آخری کال کرنے لگی۔ ۔ ۔  دوسری طرف پہلی گھنٹی پر ہی فون اٹھا لیا گیا اور ملنے والی خبر نے ذمل کی سانسیں کھینچ لی۔ ۔ ۔ ۔

رات آٹھ بجے:

ذمل سنگار میز کے سامنے بیٹھ گئی اور خود کو آئینے میں دیکھنے لگی۔ ۔  کتنی بوڑھی لگنے لگی تھی وہ ان دو دنوں میں ۔ ۔  اس کے چہرے کی رونق ڈھونڈنے سے بھی نہیں مل رہی تھی۔ ۔ ۔  وقت سب بدل دیتا ہے ۔ ۔ ۔  اس نے دل ہی دل میں سوچا۔ ۔

رات ساڑھے آٹھ بجے:

ذمل باتھ سے نکل رہی تھی کہ اس کا پاؤں بہت زور سے سلپ ہوا۔ ۔  وہ منہ کے بل گرنے لگی تھی کہ اس نے دیوار کا سہارا لے لیا۔ ۔ ۔

رات نو بجے:

ذمل نے گولڈن نیٹ کا فراک اور ساتھ میں میچنگ ٹائٹ پہنا۔ ۔  بالوں کو کھلا چھوڑ دیا۔ ۔ ۔  آنکھوں میں کاجل لگایا۔ ۔  ہونٹوں کو لائٹ سے گلوز سے سجایا۔ ۔ ۔  میچنگ کلچ اٹھایا۔ ۔ ۔  پنسل ہیل پہنی۔ ۔ ۔  خود کو آئینے میں دیکھا۔ ۔ ۔

"ارش آخری ملاقات کے لیئے تیار رہو۔ ۔ ۔ ۔ ” ایک تلخ مسکراہٹ کے ساتھ وہ کمرے سے نکل گئی۔ ۔ ۔

—————————-

رفیق نے پروین سے شادی کر لی تھی۔  شروع کے دو مہینے تک وہ دونوں ایک خوشحال زندگی گزار رہے تھے لیکن آہستہ آہستہ ان میں تلخیاں بڑھنے لگیں ۔  رفیق سارا سارا دن گھر سے باہر رہنے لگا اور پروین گھر کے کاموں میں خود کو مصروف رکھتی۔  رات کو آتے ہی رفیق اس پر بلاوجہ برس پڑتا۔  پروین کے ہر کام میں اسے نقص نظر آنے لگا۔  پروین کو ایک آس تھی کہ جب وہ ماں بن جائے گی تو سب ٹھیک ہو جائے گا لیکن قدرت اپنا انتقام لینے کو تیار کھڑی تھی۔ ۔ ۔

—————————-

شیبا سوپ پی رہی تھی جب نور محمد کمرے میں آیا اور آتے ہی بچی کو گود میں لے لیا۔ ۔ ۔

"شیبا تم نے ہماری گڑیا کا کوئی نام سوچا۔ ۔ ۔ ؟؟

"میں کیسے سوچوں نور۔ ۔ ۔  نام تو آپ کو ہی رکھنا ہے ۔ ۔ ۔ ” شیبا نے سوپ کا پیالہ سائیڈ ٹیبل پر رکھتے ہوئے کہا۔ ۔

"تمہیں پتا ہے مجھے ہمیشہ سے ذمل نام بہت پسند ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ” نور محمد نے ذمل کے ماتھے پر بوسہ دیا۔ ۔ ۔  وہ لمحہ کتنا خاص ہوتا ہے جب آپ کے وجود کا حصہ آپ کے ساتھ ہو۔ ۔ ۔

"ٹھیک ہے پھر اس گڑیا کا نام ہے ۔ ۔ ۔ ۔  ذمل۔ ۔ ۔  ذمل نور محمد۔ ۔ ۔ ” شیبا کے لبوں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ ۔

"تمہارا بہت شکریہ شیبا۔ ۔  اتنا بڑا تحفہ دینے کے لیئے۔ ۔ ۔ ۔ ”

"اس میں تمہارا بھی حصہ ہے نور۔ ۔  سارا کریڈٹ شیبا کو مت دو۔ ۔ ۔ ” شہلا نے دروازے سے جھانکتے ہوئے کہا۔ ۔ ۔  نور اس کی بات پر ہنسنے لگا۔ ۔ ۔ ۔  جب کہ شیبا نے شرم سے نظریں جھکا لیں ۔ ۔ ۔ ۔

—————————-

رات نو بجے:

ارش کو ذمل سے ملنے کی بہت جلدی تھی۔  اس نے سوچ لیا تھا کہ آج وہ ذمل تک دل کی سچائیوں سے بات پہنچائے گا۔ ۔  پھر ذمل کو ماننا ہی پڑے گا۔ ۔ ۔  اس نے ذمل کی دی ہوئی شرٹ اور ساتھ میں ڈریس پینٹ پہنی۔ ۔ ۔  کف کو فولڈ کیا۔ ۔ ۔  ذمل کی دی رسٹ واچ پہنی۔ ۔ ۔  بالوں کو جیل لگایا۔ ۔ ۔ ۔  ڈریس شوز پہنے اور آئینے میں نظر دوڑائی۔ ۔ ۔ ۔ ۔  ذمل کا چہرہ وہاں ابھرتا ہوا نظر آیا۔ ۔ ۔

"دیکھو مسز ارش ہر جگہ تم ہی تم ہو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ” ہنستا چہرہ لیئے وہ کمرے سے باہر نکل گیا۔ ۔ ۔

—————————-

دل کی حسرت مٹ چکی ہے

اب اپنی ہستی مٹا رہا ہوں

پروین کے گھر سے نکالنے کے بعد اسد ملک اور عفت وہیں اپنے گھر کے باہر بیٹھ گئے۔ ۔ ۔  عفت ساری رات ننھی کے لیئے آنسو بہاتی رہی۔ ۔  کچھ پل کے لیئے اس کی آنکھ لگ گئی تھی۔  اسد ملک نے جگانا ضروری نہیں سمجھا لیکن جب زیادہ دیر ہو گئی تو ان کو فکر ہو گئی کیونکہ عفت نیند کی اتنی پکی نہیں تھی۔ ۔ ۔  انہوں نے عفت کو ہلایا مگر اس کی روح کب کی پرواز کر چکی تھی۔ ۔  اسد ملک کے رونے سے پروین بیدار ہو گئی۔ ۔  جب اسے باہر جا کر صورت حال کا علم ہوا تو دنیاداری کی خاطر اس نے عفت کی میت کو گھر میں رکھا اور سارے انتظام رفیق کی مدد سے کروائے۔ ۔ ۔

————————-

منزل پیچھے چھوڑ آیا ہوں _____ اپنی رفتار کی روانی میں

جب مڑ کر دیکھا تو میں خود ہی نہیں ہوں اپنی کہانی میں

ننھی صبح سویرے ہی چاچا شکور کے گھر سے نکل آئی تھی۔ ۔  آج پھر وہ ہائی وے پر جا کر بھیک مانگنے لگی۔ ۔ ۔  کچھ پیسے ہوئے تو اس نے چائے پراٹھا لیا۔ ۔  ناشتہ کرتے وقت وہ سوچ رہی تھی کہ کب تک وہ اس طرح بھیک مانگتی رہے گی۔ ۔  اسے کوئی نہ کوئی کام کرنا چاہیئے۔ ۔  لیکن کیا۔ ۔ ۔

"ہاں میں کسی صاحب کے گھر میں کام کر لوں گی۔ ۔  یوں مجھے چھت بھی مل جائے گی۔ کھانا بھی اور تحفظ بھی۔ ۔ ” وہ دل ہی دل میں سوچنے لگی۔ ۔ ۔ ”

شام کو وہ ایک بنگلے کے باہر تھی۔ ۔  اس نے چوکیدار سے بیگم صاحبہ کو بلوانے کو کہا۔ ۔ ۔  چوکیدار اسے گیسٹ روم میں لے گیا۔ ۔ ۔  بیگم صاحبہ کو وہ بہت معصوم لگی تھی۔ ۔ ۔  انہوں نے فوراً اسے کام پر رکھ لیا۔ ۔ ۔ ۔  ننھی نے سکون کا سانس لیا مگر زندگی ابھی بہت کچھ دکھانے والی تھی۔ ۔ ۔

—————————

کوئی اُس کو بتائے کہ اُس کی خاطر،

چاند، ستارے اور جگنو سب بلائے ہیں

رات دس بجے:

ذمل اور ذمل آئیفل ٹاور پہنچ گئے تھے ۔  موسم میں خنکی بڑھ گئی تھی۔ ۔  ارش نے ذمل لو اپنی بانہوں کے حصار میں لے لیا۔ ۔ ۔  سب کچھ بہت بھلا محسوس ہو رہا تھا۔ ۔ ۔ ۔  کافی دیر ارش ذمل پرانی یادوں کا ذکر کرتے رہے ۔ ۔

"ذمل آج مجھے تم سے وہ کہنا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  جو میں ہمیشہ سے کہنا چاہتا ہوں ۔ ۔ ” ارش ذمل کے عین سامنے آ گیا اور اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولا۔ ۔

"بولو ارش ایسا بھی کیا کہنا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ” ذمل سب کچھ جانتے ہوئے بھی انجان بن گئی۔

ارش نے اپنی جیب سے ایک ڈبیا نکالی۔ ۔ ۔  ذمل کے عین سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا۔ ۔ ۔ ۔  ڈبیا میں سے انگوٹھی نکالی۔ ۔ ۔ ۔  ذمل کا دائیاں مخروطی ہاتھ اپنے بائیں ہاتھ میں لیا اور اس کو انگوٹھی پہنانے لگا۔ ۔ ۔ ۔  ذمل نے ایک جھٹکے کے ساتھ اپنا ہاتھ چھڑوا لیا۔

"یہ سب کیا ہے ارش۔ ۔ ۔  مجھے ایسا مذاق بالکل پسند نہیں ہے ۔ ۔ ۔ ”

"یہ مذاق نہیں ہے ذمل۔ ۔ ۔  کسی کو چاہنا۔ ۔ ۔  کسی کی طلب کرنا۔ ۔ ۔  مذاق تو نہیں ہے ۔ ۔ ۔

I want to marry you Zumal۔ ۔ ۔  Will you marry me۔ ۔ ??”

ارش کی آواز بھر گئی تھی۔ ۔  اسے ذمل کا یہ رویہ بالکل پسند نہیں آیا۔

"ارش تم نے ایسا سوچا بھی کیسے ۔ ۔  میں نے ہمیشہ تمہیں اپنا اچھا دوست سمجھا۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں ۔ ۔ ۔  تم دوستی جیسے رشتے کو اتنا آگے کیسے لے آئے۔ ۔ ۔ "ذمل کی آواز ارش کو کسی کھائی سے آتی محسوس ہوئی۔ ۔ ۔

"یہ سفر میں نے اکیلے تو نہیں طے کیا ذمل۔ ۔  تم بھی تو میرے ہم قدم رہی ہو۔ ۔ ۔  پھر ایسا کیوں ۔ ۔ ۔ ۔ ؟؟” ارش دو قدم اور ذمل کے قریب ہو گیا۔ ۔

ذمل نے کوئی جواب نہیں دیا۔  وہ تیز قدموں کے ساتھ وہاں سے نکل گئی۔ ۔  ارش وہیں پتھر کا بُت ہو گیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

اچانک ہی ایک زوردار چیخ سنائی دی۔ ۔  سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں ارش نے اس آواز کو پہچان لیا تھا۔ ۔ ۔  وہ دیوانہ وار اس طرف دوڑنے لگا۔ ۔ ۔  لوگوں کے بیچ میں سے راستہ بناتے ہوئے وہ اس کے قریب پہنچ گیا تھا۔ ۔ ۔

"ایک کار کسی لڑکی کو کچل کر چلی گئی ہے ۔ ۔ ۔  بہت خون بہہ گیا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ” ارش کی سماعتوں میں یہ آواز پڑی۔ ۔  اس سے آگے بھی وہ بہت کچھ کہہ رہے تھے مگر ارش کے سامنے اندھیرا چھا گیا۔ ۔  وہ وہیں ڈھے گیا۔ ۔ ۔

نگر ویران ہو جائے گا سارا ۔ ۔ ۔ ۔ !

اسے روکو وہ ہجرت کر رہا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ !

 

"بہاریں جب نہیں اپنی۔ ۔ ۔  تو پھر کیا آرزو کرنا”

کسی کو الوداع کہنا

بہت تکلیف دیتا ہے

امیدیں ٹوٹ جاتی ہیں

یقین پہ بے یقینی کا کہر کچھ ایسا چڑھتا ہے

دکھائی کچھ نہیں دیتا، سجھائی کچھ نہیں دیتا

دعا کے لفظ ہونٹوں پر مسلسل کپکپاتے ہیں

کسی خواہش کے اندیشے

ذہن میں دوڑ جاتے ہیں

گماں کچھ ایسا ہوتا ہے

کہ جیسے مل نہ پائیں گے

یہ گہرے زخم فرقت کے کسی سے سل نہ پائیں گے

کبھی ایسا بھی ہو یارب

دعائیں مان لیتا ہے

تو کوئی معجزہ کر دے، تو ایسا کر بھی سکتا ہے

میرے ہاتھوں کی جانب دیکھ انھیں تو بھر بھی سکتا ہے

جدائی کی یہ تیکھی دھار دلوں کا خون کرتی ہے

جدائی کی اذیت سے

میرا دل اب بھی ڈرتا ہے

جدائی دو گھڑی کی ہو تو کوئی دل کو سمجھائے

جدائی چار پل کی ہو تو کوئی دل کو بہلائے

جدائی عمر بھر کی ہو

تو کیا چارہ کرے کوئی

کہ اک ملنے کی حسرت میں بھلا کب تک جیئے کوئی

میرے مولا کرم کر دے، تو ایسا کر بھی سکتا ہے

میرے ہاتھوں کی جانب دیکھ

انھیں تو بھر بھی سکتا ہے

—————————-

ذمل نے آج کی آخری کال اپنے بابا کو ملائی۔ ۔

"السلام علیکم بابا کیسے ہیں آپ۔ ۔ ۔ ”

"میں ٹھیک ہوں میری جان۔ ۔ ۔  آپ کو ہی فون کرنے والا تھا۔ ۔ ” شاہ صاحب نے فون اٹھاتے ہی بتایا۔ ۔

"کیوں بابا خیریت۔ ۔ ۔ ؟؟” ذمل نے دل سے دعا کہ کہ کوئی بری خبر نہ ہو۔ ۔ ۔

"سب خیریت ہے ۔ ۔  ایک سرپرائز ہے آپ کے لیئے۔ ۔ ۔ ” نور محمد کی آواز میں ایک جوش تھا جو ذمل نے محسوس کیا۔ ۔

"کیسا سرپرائز بابا۔ ۔ ۔  بتائیں ناں پلیز۔ ۔ ۔ ” ذمل نے اپنا ایک ہاتھ دل پر رکھ لیا۔ ۔  اسے ڈر لگنے لگا۔ ۔

"وقار بھائی کا فون آیا تھا۔ ۔ ۔  وہ جلدی ہی آپ کے لیئے آنے والے ہیں ۔ ۔ ”

"کیا مطلب بابا۔ ۔ ۔  میرے لیئے کیوں ۔ ۔ ۔ ۔ ” ذمل نے نا سمجھی کے انداز میں پوچھا۔ ۔

"وقار بھائی نے بچپن میں ہی مہروز کے لیئے آپ کی بات کی تھی۔ ۔ ۔  اب وہ آپ دونوں کی شادی کروانا چاہتے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ” ذمل کو لگا کسی نے اس کی سانسیں کھینچ لی ہیں ۔ ۔  اس سے مزید کچھ بولا نہیں جا رہا تھا۔ ۔ ۔

"اللہ حافظ بابا۔ ۔ ۔ ” کہہ کر اس نے فون رکھ دیا۔ ۔ ۔

—————————

مہروز دو سال کا تھا جب شہلا اور وقار آسٹریلیا چلے گئے تھے ۔ ۔  شروع میں وہ دو تین سال بعد پاکستان چکر لگا لیا کرتے تھے لیکن مہروز کی اسٹڈیز کی وجہ سے کافی سالوں سے وہ نہیں آ سکے تھے ۔  شہلا کو ذمل ہمیشہ سے ہی پسند تھی۔ ۔ ۔  وقار اور شہلا نے نہ صرف پاکستان آنے کا پروگرام بنا ڈالا بلکہ ذمل کو بھی ساتھ لانے کا عہد کر لیا۔ ۔  ان کی اگلے ہفتے کی فلائٹ تھی۔ ۔ ۔ ہر طرف خوشیوں کے ساز بکھر گئے تھے ۔ ۔

—————————

بہاریں جب نہیں اپنی ___ تو پھر کیا آرزو رکھنا

یہ گلشن مانگے کی خوشبو سے مہکایا نہیں جاتا

ارش ذمل کو انگوٹھی پہنانے لگا تو اس نے ایک جھٹکے سے اپنا ہاتھ پیچھے کر دیا۔  مہروز کا سننے کے بعد اس میں سکت نہیں تھی کہ وہ مزید ارش کے ساتھ قدم بڑھا سکے ۔ ۔  اس نے اپنی محبت کو دوستی کا نام تو دے دیا تھا لیکن اس کے دل کی ہر دھڑکن ارش کا نام لے رہی تھی۔ ۔  وہ اندر ہی اندر مر رہی تھی لیکن اس نے اپنی دھڑکنوں کو دبا دیا تھا۔ ۔ ۔

وہ جانتی تھی کہ اگر آج اس نے قدم نہ روکے تو وہ کبھی بھی اس بھنور سے نہیں نکل سکے گی۔ ۔  مہروز اس کا مقدر بننے والا تھا اور اسے یہ سچائی قبول کرنی پڑے گی۔ ۔  وہ تیز قدموں کے ساتھ وہاں سے جانے لگی۔ ۔ ۔  اسے اپنا آپ بہت بھاری لگ رہا تھا۔ ۔  ایک قدم چلنا بھی جیسے دریا پار کرنے کے برابر ہو۔ ۔ ۔  وہ روڈ کراس کرنے والی تھی کہ ایک کار آئی اور اسے ٹکر مار گئی۔ ۔ ۔  ایک چیخ اس کے حلق سے نکلی۔ ۔ ۔  ہر طرف خون ہی خون تھا۔ ۔ ۔ ۔  ذمل نے آنکھیں بند کر دیں ۔ ۔ ۔ ۔

—————————

ننھی بہت خوش تھی کہ اسے رہنے کو چھت مل گئی ہے ۔ ۔  بیگم صاحبہ اس کا بہت خیال رکھتیں ۔ ۔  ایک دن وہ بیگم صاحبہ کے ساتھ بازار گئی تو اسے منا نظر آیا۔  اس نے بتایا کہ اماں تو کافی مہینوں پہلے مر گئی ہے اور ابا بھی شہر چھوڑ کر کہیں چلا گیا ہے ۔  منا اور کاکا کو ابا والی فیکٹری میں کام بھی مل گیا تھا اور رہنے کے لیئے جگہ بھی۔  ننھی کو اماں کا سن کر بہت دکھ ہوا۔  وہ کافی دیر منا سے باتیں کرتی رہی اور پھر بیگم صاحبہ کے ساتھ آ گئی۔ ۔ ۔

—————————

اب آگے ڈھونڈتے ہو کیا مجھے تم اس کہانی میں

میں وہ کردار ہوں جو انجام تک لایا نہیں جاتا

ارش نے دیکھا ذمل خون سے لتھڑی پڑی ہے ۔ ۔  وہ وہیں اس کے پاس بیٹھ گیا۔ ۔  اس نے ذمل کے ہاتھوں کو اپنے چہرے سے لگایا اور انھیں چومنے لگا۔ ۔  اس کے آنسو ذمل کے ہاتھوں پر گرنے لگے مگر ذمل کے وجود میں کوئی حرکت نہیں ہوئی۔ ۔ ۔  وہ وہیں بے حس و حرکت پڑی رہی۔ ۔ ۔

"کوئی اسے اٹھاؤ اور ہسپتال تک لے جاؤ۔ ۔ ۔ ” ہجوم میں سے ایک آواز آئی۔ ۔

یہ آواز ارش کو ہوش میں لے آئی۔ ۔  اس نے ذمل کو اٹھایا اور ایک گاڑی میں ڈال دیا۔ ۔ ۔  ذمل کا سر اس کی گود میں تھا۔ ۔  گاڑی میں ہر طرف خون بکھر گیا تھا۔ ۔  ارش کے کپڑوں پر بھی جا بجا خون تھا۔ ۔ ۔ ۔

"میری اتنی سی بھی خوشی نہیں دیکھی گئی آپ سے ۔ ۔ ۔  اتنے پاس لا کر بھی ذمل کو اتنے دور کر دیا۔ ۔ ۔ ۔  آخر کیا بگاڑا تھا ذمل نے ۔ ۔ ۔  کیوں کیا ایسا۔ ۔ ۔  کیوں ۔ ۔ ” وہ خدا سے شکوہ کرنے لگا۔ ۔

—————————

ذمل چار سال کی ہو گئی تھی۔ ۔ ۔  نور محمد نے اسے سکول میں داخل کروا دیا تھا۔ ۔ ۔  آج اس کا سکول میں پہلا دن تھا۔ ۔ ۔  وہ بہت پر جوش تھی۔ ۔

"امی۔ ۔  بابا دیکھ لینا میں سکول میں بالکل بھی نہیں روؤں گی۔ ۔ ۔ ۔ ” ذمل نے خود اعتمادی سے کہا تھا مگر جب شیبا اور نور محمد اسے کلاس میں چھوڑ کر واپس آنے لگے تو ذمل شیبا کی ٹانگوں سے لپٹ کر خوب روئی۔ ۔ ۔

"امی میں نے گھر واپس جانا ہے ۔ ۔ ۔ ۔  مجھے یہاں نہیں رکنا۔ ۔ ۔ ” شیبا نور محمد کو دیکھ کر مسکرانے لگی۔ ۔ ۔ ۔

ذمل کی ٹیچر نے جلدی سے اسے کھلونا دیا تو تھوڑی ہی دیر میں وہ بہل گئی۔ ۔ ۔  شیبا اور نور محمد نے سکون کا سانس لیا۔ ۔ ۔

—————————

محبت خوبصورت کسی اور دنیا میں ہو گی

یہاں ہم پر جو گزری ہے وہ ہم ہی جانتے ہیں

پروین کی زندگی بے رنگ ہو گئی تھی۔ ۔  اس نے رفیق کی خاطر ہر بازی کھیلی تھی مگر رفیق اسے دھتکار کر چلا گیا تھا۔ ۔  رفیق نے دوسری شادی کر لی تھی۔ ۔  اس کا کہنا تھا کہ جو عورت اسے اولاد نہیں دے سکتی وہ خوشی کیسے دے سکتی ہے ۔ ۔  پروین گھر کی نوکرانی بن کر رہ گئی تھی۔ ۔ ۔  رفیق اپنی دوسری بیوی کے خوب ناز نخرے اٹھاتا۔ ۔  پروین سے یہ سب برداشت نہیں ہو رہا تھا۔ ۔ ۔  وہ ایک آخری بازی کھیلنا چاہتی تھی۔ ۔ ۔ ۔  کسی بھی قیمت پر۔ ۔ ۔

—————————

تیری محبت میں تعمیر ہوا تھا جو ایک شخص

تیری جدائی میں زار  زار تقسم ہوا جا رہا ہے

"آپ کے پیشنٹ کا بہت خون بہہ گیا ہے ۔ ۔  فوری طور پر ان کا آپریشن کرنا پڑے گا ورنہ برین ہیمرج بھی ہو سکتا یے ۔ ۔ ۔ ” ڈاکٹر نے ذمل کو دیکھنے کے بعد ارش کی طرف فارم بڑھائے۔ ۔

فارم پر دستخط کرتے وقت ارش کے ہاتھ کپکپا رہے تھے ۔ ۔ ۔

"ڈاکٹر صاحب کسی بھی طرح ذمل کو بچا لیں ۔ ۔ ۔ ” ارش نے دستخط کرتے وقت ڈاکٹر سے التجا کی۔ ۔ ۔

"ہم پوری کوشش کریں گے لیکن کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ ۔ ۔  آپ دعا کریں ۔ ۔  دعا سے بڑی کوئی طاقت نہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ”

ذمل آپریشن تھیٹر میں موجود تھی۔ ۔  وہ اندر موت سے لڑ رہی تھی اور باہر ارش خدا سے لڑ رہا تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔

 

"تُو بوند بوند ۔ ۔ ۔  میری سانسوں میں ”

میں بارش کی برستی بوند نہیں

جو برس کر تھم جاتی ہے

میں خواب نہیں

جسے دیکھا اور بھلا دیا

میں شمع نہیں

جسے پھونکا اور بجھا دیا

میں ہوا کا جھونکا نہیں

جو آیا اور گزر گیا

میں چاند بھی نہیں

جو رات آئی اور ڈھل جائے

میں تو وہ احساس ہوں

جو تجھ میں لہو بن کر گردش کرے

میں تو وہ رنگ ہوں

جو تیرے دل پہ چڑھے تو کبھی نہ مٹے

میں وہ گیت ہوں

جو تیرے لبوں سے جدا نہ ہو گا

خواب، عبارت، ہوا کی طرح

چاند بوند، شمع کی طرح

میرے مٹنے کا سوال ہی نہیں

کیوں کہ میں تو محبت ہوں

اور محبت کو زوال نہیں

—————————–

دو گھنٹے گزر چکے تھے مگر ابھی تک ڈاکٹرز آپریشن تھیٹر میں تھے ۔  ارش کی جان اٹکی ہوئی تھی۔ ۔

"اگر ذمل کو کچھ ہو گیا تو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ” اس سے آگے وہ نہیں سوچ سکتا تھا۔

وہ کوریڈور میں ایک بینچ پر بیٹھا ہوا تھا جب ایک چالیس پینتالیس سالہ عورت اس کے پاس ہی بیٹھ گئی۔ ۔ ۔ ۔

"اُس سے کیوں نہیں مانگتے بچے جس نے آپ کو یہ زخم دیئے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ” اس عورت نے ارش کے کندھے پر اپنا ہاتھ رک کر اسے متوجہ کیا۔ ۔

"اس نے کچھ دینا ہی ہوتا تو اس حالت میں کیوں لاتا مجھے ۔ ۔ ۔ ۔ ” ارش نے خالی نگاہوں سے اس عورت کو دیکھا۔ ۔

"اس کے در سے کوئی خالی نہیں لوٹتا۔ ۔  آزما کر دیکھیں اسے بچے ۔ ۔ ۔  جھولی بھر دے گا وہ آپ کی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ” اس عورت کے چہرے پر سکون ہی سکون تھا۔

"آپ کو کچھ دیا ہے اس نے جو آپ اتنے یقین سے کہہ رہی ہیں ۔ ۔ ” ارش اب پوری طرح اس عورت کی طرف متوجہ ہو چکا تھا۔

"ہاں مجھے دیا ہے اس نے ۔ ۔ ۔  بیٹا دیا ہے بہت دعاؤں کے بعد ۔ ۔ ۔ ۔  بیس سال۔ ۔ ۔  بیس سال کے انتظار کے بعد اس نے میری گود بھری۔ ۔ ۔ ۔ ” ایسا لگ رہا تھا اس عورت کی آنکھیں ابھی تر ہو جائیں گی۔ ۔ ۔

"تو آپ کا بیٹا کہاں ہے اب۔ ۔ ۔ ۔ ؟” ارش نے پوچھا۔ ۔ ۔

"گھر ہے وہ۔ ۔ ۔  پانچ سال کا ہو گیا ہے ۔ ۔ ۔  یہاں رات کی ڈیوٹی ہوتی ہے تو وہ اپنی دادی کے پاس ہوتا ہے ۔ ۔ ۔  آپ بھی اس سے مانگ لو بیٹا۔ ۔ ۔  سب ٹھیک کر دے گا وہ۔ ۔ ۔ ” وہ اس کے سر پر ہاتھ پھیر کر وہاں سے چلی گئی۔ ۔ ۔

—————————

یہ غم کیا دل کی عادت ہے ۔ ۔ ؟ نہیں تو

کسی سے کچھ شکایت ہے ۔ ۔ ؟ نہیں تو

ننھی نے جیسے ہی عفت سے ماہم کی طرف جانے کی اجازت مانگی۔ پروین کا شیطانی دماغ نے بہت کچھ سوچ لیا۔  وہ سیدھی رفیق کی طرف گئی اور اسے بتایا کہ ننھی کے واپس آتے ہی وہ اپنا کام کر دے ۔ ۔ ۔

رفیق کب سے ننھی کا انتظار کر رہا تھا مگر اس نے آنے میں کافی دیر لگا دی تھی۔  رفیق کو اپنا مقصد ناکام ہوتا دکھائی دینے لگا۔ ۔ ۔ اچانک ہی طوفانی بارش شروع ہو گئی۔ ۔ ۔  تھوڑی دیر بعد رفیق کو ننھی وہیں پی -سی -او کے باہر بھیگتی دکھائی دی تو اس نے اسے اندر بلا لیا۔ ۔ ۔  ننھی نے سوچا بھی نہیں تھا کہ جسے وہ بھائی کہہ کر بلاتی تھی۔ وہ ایک بھیڑیا ہو گا۔ ۔

—————————

‏محسُوس خُود کو تیرے بِنا میں نے کبھی کیا نہیں

‏تُو کیا جانے، لمحہ کوئی میں نے کبھی جِیا نہیں !!

ذمل کا سکول کا پہلا دن بہت اچھا رہا تھا۔ ۔ ۔  اگلے دن اس نے بالکل بھی تنگ نہیں کیا اور سیدھی کلاس میں جا کر بیٹھ گئی۔ ۔ ۔  کچھ ہی دنوں میں پری سے اس کی دوستی ہو گئی تھی۔ ۔  وہ دونوں پورے سکول میں ہر جگہ ایک ساتھ دکھائی دینے لگیں ۔ ۔

شیبا کو اطمینان ہو گیا تھا کہ ذمل اب سکول میں سیٹ ہو گئی ہے ۔ ۔  اسے نے گھر سے ملازموں کو چھٹی دے دی تھی اور سارے کام وہ خود کرتی۔  نور محمد اسے بہت سمجھاتا کہ وہ اتنا کام نہ کیا کرے لیکن اس کا ایک ہی جواب ہوتا

"میں یہ سب اپنے دل سے کرتی ہوں نور۔ ۔  آپ پر کوئی احسان تو نہیں کرتی۔ ۔ ۔ ۔  اگر آپ نے آئندہ ایسا بولا تو میں آپ سے بات کرنا چھوڑ دوں گی” اور وہ سچ مچ ایسا ہی کرتی۔ ۔ ۔  دو تین دن تک نور محمد سے ناراض رہتی۔ ۔ ۔

————————–

جانتے ہو ____ محبت کیا ہے

اپنے عشق کو خدا سے مانگنا

اس عورت کی باتیں سننے کے بعد ارش کو امید کی ایک کرن نظر آئی۔ ۔  اس نے وضو کیا اور پرئیر روم چلا گیا۔ ۔  وہاں اس نے عشاء پڑھی اور اس کے بعد اللہ کے حضور سجدہ ریز ہو گیا

"اے اللہ مجھے مانگنا نہیں آتا لیکن میں تجھ سے ذمل کی زندگی کی بھیک مانگتا ہوں ۔ تیرے علاوہ کوئی نہیں جس سے مانگوں ۔  تو ہی نہیں دے گا تو اور کون دے گا۔ ۔  اے اللہ میرے اعمال اس قابل نہیں ہیں کہ میں کچھ مانگ سکوں لیکن تو مانگنے والوں کو پسند کرتا ہے ۔ ۔  اے اللہ تُو رحیم و کریم ہے ۔ ۔ ۔  دعاؤں کو قبول کرنے والا ہے ۔ ۔  مجھے اکیلا مت چھوڑ۔ ۔ ۔  میری مدد فرما۔ ۔ ”

اس نے اپنا سر اٹھایا تو اس کا چہرہ بھیگ چکا تھا۔ ۔ ۔  وہ اٹھا اور آپریشن تھیٹر کی طرف جانے لگا۔ ۔

"مبارک ہو۔ ۔  آپ کا پیشنٹ اب سیف ہے ۔ ۔ ۔ ” ڈاکٹر نے اسے دیکھتے ہوئے بتایا۔ ۔  ارش کو لگا اس کے اوپر سے بہت بڑا بوجھ اتر گیا ہے ۔ ۔  وہ بھیگے چہرے کے ساتھ مسکرانے لگا۔ ۔ ۔

"کیا میں اسے مل سکتا ہوں ۔ ۔ ۔ ” ارش نے ڈاکٹر سے پوچھا۔

"ابھی وہ بے ہوش ہیں ۔  جیسے ہی ہوش میں آتی ہیں آپ مل لینا۔ ۔ ۔ ۔ ” ارش کافی پر سکون ہو گیا تھا۔ ۔ ۔

"اللہ تیرا شکر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ” اس نے دل میں اللہ کا شکر ادا کیا۔ ۔

—————————

غیروں کو کیا پڑی ہے کہ رسوا کریں مجھے

ان ساذشوں میں ہاتھ کسی آشنا کا ہے

ننھی کو بیگم صاحبہ کے ساتھ رہتے ہوئے دو سال ہو گئے تھے ۔ ۔  ان دو سالوں میں وہ کافی بدل چکی تھی۔  سب گھر والے اسے گھر کا ہی فرد سمجھتے ۔ ۔ ۔  اسے اللہ سے کوئی گلہ نہیں تھا۔ ۔  وہ اپنی زندگی سے بہت مطمئن تھی۔ ۔ ۔  بیگم صاحبہ نے اسے پارلر کا کام سکھا دیا تھا۔ ۔  وہ سارا ان کے ساتھ پارلر پر رہتی۔ ۔  اپنی زندگی کو مصروف رکھنے کے لیئے رات کو وہ بیگم صاحبہ کی ایک سہیلی کے بچوں کو ٹیوشن پڑھا لیتی۔ ۔  زندگی بہت تیز دوڑ رہی تھی۔ ۔ ۔

 

"اے زندگی__ تجھے ڈھونڈوں کہاں ”

گفتگو کے لمحوں میں

دیکھ ہی نہیں پاتے

ہم تمھارے چہرے کو

تم ہماری آنکھوں کو

آج ایسا کرتے ہیں

چشم و لب کو پڑھتے ہیں

بات چھوڑ دیتے ہیں ۔  ۔  ۔

جانے کیا لمحہ ہو گا

جب یہ ہاتھ ہاتھوں سے

گر کبھی جدا ہو گا

آج ایسا کرتے ہیں

ضبط جان پرکھتے ہیں

ہاتھ چھوڑ دیتے ہیں ۔  ۔  ۔

کاش کوئی سمجھا دے

لوگ کس طرح دل کی

منزلیں الگ کر کے

ساتھ چھوڑ دیتے ہیں

آج ایسا کرتے ہیں

بے سبب بکھرتے ہیں

ذات توڑ دیتے ہیں ۔  ۔  ۔

—————————

ذمل کو ہوش آ گیا تھا۔  ارش اندر گیا اور اس کے پاس ہی بیٹھ گیا۔ ۔  کافی دیر ذمل خالی خالی آنکھیں لیئے ارش کو دیکھتی رہی۔ ۔  اس کی آنکھوں کے گوشے بھیگنے لگے ۔ ۔  ارش نے اس کے آنسو پونچھے ۔ ۔ ۔  ذمل کچھ نہیں بولی۔ ۔ ۔

"میں تم سے کچھ بھی نہیں پوچھوں گا ذمل۔ ۔  تم نے جو بولا وہ تمہارا فیصلہ تھا۔ ۔ ۔  اس پر میرا کوئی اختیار نہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ” ذمل کو لگا اس نے جو دو قدم دور کیئے تو ارش چار قدم پیچھے ہٹ گیا۔ ۔ ۔

"تم مجھ پر پورا اختیار رکھتے ہو ارش۔ ۔  پوچھو مجھ سے کیوں کیا میں نے ایسا۔ ۔ ۔  میں بتاؤں گی تمہیں ۔ ۔ ۔ ۔  شروع سے آخر تک سب بتاؤں گی۔ ۔ ۔  مجھے اپنے سحر سے آزاد مت کرو ارش۔ ۔ ۔ مجھے تنہا مت کرو ارش۔ ۔ ۔ ” ذمل کا دل ایک دم سے اداس ہو گیا۔ ۔ ۔ ۔  اس کے اندر چھن سے کچھ ٹوٹ گیا۔ ۔ ۔  اس کی سسکیاں اندر ہی اندر دب گئیں ۔ ۔ ۔

"میں کیوں کچھ بولوں ارش۔ ۔ ۔  تم تو آنکھیں پڑھ لیتے ہو۔ ۔ ۔  تو پڑھو آج میری آنکھیں ۔ ۔ ۔  دیکھو یہ تمہیں روک رہی ہیں ۔ ۔ ۔ ” ذمل نے آنکھیں بند کر دیں ۔ ۔ ۔  ارش اٹھ کر باہر آ گیا۔ ۔ ۔

کتنا تکلیف دہ ہوتا ہے نہ کسی جان سے پیارے کو اپنے سے دور جاتے ہوئے دیکھنا اور اس کو روکنے کا اختیار بھی نہ رکھنا۔ ۔ ۔  ذمل نے سوچا تھا کہ ارش اس سے وجہ پوچھے گا تو وہ سب بتا دے گی۔ ۔ ۔  اسے لگا تھا کہ ارش سب ٹھیک کر دے گا۔ ۔ ۔  مگر ارش نے فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ ذمل کو مجبور نہیں کرے گا۔ ۔ ۔ ۔

—————————

وقت ہر زخم کا مرہم تو نہیں ہو سکتا

درد کچھ ہوتے ہیں تا عمر رلانے والے

"ننھی تم کدھر سے آ رہی ہو۔ ۔ ۔ ؟؟” رفیق نے ننھی کو بیٹھنے کی جگہ دی اور پوچھنے لگا۔ ۔ ۔

"وہ رفیق بھائی میں ذرا اپنی سہیلی کی طرف گئی ہوئی تھی۔ ۔ ۔ ” ننھی نے ڈرتے ڈرتے جواب دیا۔

"جھوٹ نہ بول۔ ۔  مجھے سب پتا یے تو اپنے کمینے عاشق کے پاس گئی تھی۔ ۔ ” رفیق کی آنکھیں سرخ ہو گئیں ۔ ۔

"رفیق بھائی میں جھوٹ نہیں بول رہی۔ ۔  میں ماہم کے پاس ہی گئی تھی۔ ۔ ۔ ” ننھی وہاں سے اٹھنے لگی۔ ۔ ۔

"بھائی۔ بھائی۔ بھائی۔ ۔  مت بولا کر تُو مجھے بھائی۔ ۔  باہر دیکھ موسم کتنا پیارا ہے ۔ ۔ ۔  صرف میں اور تو ہیں اندر۔ ۔ ۔ ” رفیق نے ننھی کے قریب ہونے کی کوشش کی۔ ۔ ۔

"رفیق بھائی خدا کا خوف کریں کچھ۔  آپ کی بھی تو بہنیں ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ” ننھی نے رفیق کو دھکا دیا اور دروازے کی طرف بھاگی۔  رفیق نے اس کے ہاتھ پکڑ لیا۔ ۔  اس کا چہرہ اپنی طرف موڑا اور گال پر ایک تھپڑ رسید کیا۔ ۔ ۔  ننھی کی روح تک لرز گئی۔ ۔ ۔

—————————

‏جیت لے جائے کوئی مجھ کو نصیبوں والا

زندگی نے مجھے ____ داؤ پہ لگا رکھا ہے

شزا دوسرے دن ہی ذمل سے ملنے آ گئی تھی۔ ۔ ۔  اس نے بُکے سائیڈ پر چھوڑا اور ارش پر برس پڑی۔ ۔

"کیوں نہیں بتایا آپ نے مجھے پہلے ۔ ۔ ۔  کل سے دونوں کے نمبر بند ہیں ۔ ۔  کتنی فکر ہو رہی تھی مجھے آپ دونوں کی۔ ۔ ”

"اسے کچھ مت بولو شزا۔ ۔ ۔  یہ تو کل سے میرے لیئے خوار ہو رہا ہے ادھر۔ ۔  ٹائم ہی نہیں ملا اسے بتانے کا۔ ۔ ۔ ” ذمل نے ارش کو دیکھتے ہوئے کہا۔ ۔ ۔  ارش کو ذمل بہت بیگانی سی لگی۔ ۔ ۔ ۔

"یہ خواری تو زندگی بھر کی ہے ۔ ۔  ابھی تو ایک دن ہی ہوا ہے ۔ ۔ ۔ ” شزا کا موڈ قدرے بحال ہو گیا تھا۔ ۔

"یہ کوئی مذاق نہیں ہے شزا۔ ۔ ۔  سوچ سمجھ کر بات کیا کرو۔ ” شزا نے نوٹ کیا ارش کافی خفا خفا سا تھا۔ ۔ ۔  ذمل نے بھی نظریں پھیر لیں ۔ ۔

"سچ ہی تو بولا ہے ۔ ۔  مذاق تو نہیں ہے یہ۔ ” شزا بھی خفا ہو گئی۔ ۔

"ڈاکٹر نے اسے آرام کرنے کا بتایا ہے ۔ ۔ آؤ ہم باہر چلتے ہیں ۔ ” ارش شزا کو لے کر باہر کوریڈور میں آ گیا۔ ۔  وہ نہیں چاہتا تھا کہ کوئی ایسی بات ہو جسس ذمل مزید ہرٹ ہو۔ ۔

"یہ بتائیں یہ سوگ کس بات کا۔  اب تو ذمل آپی ٹھیک ہیں ناں ۔ ۔ ۔ ” شزا اور ارش بینچ پر بیٹھ گئے۔

"تم ذمل کے سامنے اب ایسی کوئی بات مت کرنا شزا۔ ۔ ۔ ۔  اس کے نزدیک ہم صرف دوست ہیں ۔ ۔ ۔  اس سے زیادہ کچھ نہیں ۔ ۔ ۔ ” ارش نے اداس مسکراہٹ کے ساتھ بتایا۔

"لیکن آپ دونوں تو دوست سے زیادہ۔ ۔  میں ذمل آپی سے بات کرتی ہوں ۔ ” شزا اٹھ کر جانے لگی تو ارش نے اسے روک لیا۔ ۔

"کچھ مت پوچھنا شزا۔ ۔ ۔  بیٹھو ادھر۔ ” شزا کافی دیر ایک بہن کی طرح ارش کا درد بانٹتی رہی۔ ۔ ۔  شام کو وہ ذمل سے مل کر واپس چلی گئی۔ ۔ ۔

—————————

رفیق باپ بننے والا تھا لیکن یہ بچہ پروین سے نہیں ۔ اس کی دوسری بیوی سے جنم لینے والا تھا۔  پروین سے یہ سب ہضم نہیں ہو رہا تھا۔  اس نے سوچ لیا کہ وہ رفیق کو اتنی بڑی خوشی نہیں دیکھنے دے گی۔  ۔  اس نے رات کا کھانا بنایا اور اس میں زہر ملا دیا۔  یہ کھانا اس نے رفیق اور اس کی بیگم کے آگے رکھ دیا۔ ۔

"کھانا دے کے ادھر کھڑی نہ ہو جایا کر۔ ۔  دفع ہو جا کر کام دیکھ۔ ” رفیق نے پروین کو کھری کھری سنائی۔

"جا رہی ہوں ۔  تو یہ کھانا خود بھی کھا اور اپنی ووٹی کو بھی ٹھوس دے ۔ ۔ ۔ ۔ ” پروین غصے سے پھنکارتی ہوئی کمرے میں چلی گئی۔

پروین نے ایک بیگ میں اپنا ضروری سامان ڈالا اور ایک آخری نظر رفیق کے کمرے پر ڈالی۔  دو مردہ وجود وہاں پر پڑے تھے ۔

"میرے ساتھ بہت غلط کیا تُو نے رفیق۔ ۔ ۔  تیری خاطر میں نے اپنی بہن کو برباد کیا۔ ۔ ۔  اماں ابا کو گھر سے نکالا۔ ۔ ۔  یہ گھر تیرے نام کیا اور تو بے وفا مرد نکلا۔ ۔ ۔  وہی مرد جس کو بیوی سے زیادہ بچہ پیارا ہوتا ہے ۔ ۔ ۔  کیا ہو جاتا اگر ہم کوئی بچہ گود لے لیتے ۔ ۔  اپنے حصے کی زندگی تو ساتھ میں گزارتے ۔ ۔  جس بچے کی خاطر تو نے مجھے دھتکارا اٹھ کر دیکھ اس کا انجام۔ ۔ ۔  تُم سب اسی قابل تھے کہ مر جاؤ۔ ۔ ” پروین کافی دیر رفیق کے سینے پر سر رکھ کر روتی رہی۔ ۔ ۔

"محبت تو میں تجھ سے کر بیٹھی تھی رفیق لیکن اس نفرت پر میرا اختیار نہیں ۔ ۔ ۔  چاہ کر بھی نفرت نہیں کر سکتی۔ ۔  میرا مقدر محبت کی چنگاری میں جلنا ہے اور یہ میرا اپنا فیصلہ تھا۔ ۔ ۔ ۔ ” پروین نے کمرے میں آ کر اپنا بیگ اٹھایا اور وہاں سے چلی گئی۔ ۔ ۔

—————————

یہ خاموشی جو اب کہ گفتگو کے بیچ ٹھہری ہے

‏یہی اک بات ساری گفتگو میں سب سے گہری ہے

ارش نے مسکان کو فون کر کے اپنے نہ آنے کی وجہ بتا دی تھی۔  وہ بہت پریشان ہو گئی تھی۔ ۔  وہ بھی پیرس آنا چاہتی تھی مگر ارش نے اسے یہ کہہ کر روک لیا کہ کچھ دنوں بعد وہ خود واپس آ جائیں گے ۔ ۔

اب تک ذمل کا نمبر آن ہو گیا تھا۔  شام کو اس نے ذمل کے نمبر پر فون کیا۔ ۔

"کیسی ہو ذمل۔ ۔ ۔ ؟” مسکان کی پریشانی اس کی آواز سے نمایاں تھی۔ ۔

"میں بالکل ٹھیک ہوں ۔ ۔  بس ایک چھوٹا سا ایکسیڈنٹ ہو گیا تھا۔ ۔ ”

"یار ارش بہت پریشان ہے ۔ ۔ ۔  تمہارا یہ چھوٹا سا ایکسیڈنٹ اس کے لیئے بہت بڑا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  جلدی سے ٹھیک ہو جاؤ پلیز۔ ۔ ” مسکان نے ذمل سے ایک ریکیوسٹ کی۔ ۔ ۔

"کیوں اس نے کچھ کہا۔ ۔ ۔ ” ذمل کو لگا ارش نے مسکان کو سب بتا دیا یے ۔ ۔ ۔

"ضروری نہیں کہ ہر بات کہی جائے ذمل۔ ۔  کچھ باتیں محسوس کی جاتی ہیں ۔ ۔  ورنہ پچھتانا پڑتا ہے ۔ ۔ ” مسکان کے نرم لہجے میں بتایا۔ ۔ ۔

"اچھا۔ ۔  میں نے کچھ بھی محسوس نہیں کیا۔ ۔ ۔  تم سناؤ باقی سب کیسے ہیں ۔ ۔ ۔ ؟” ذمل اس ٹاپک پر مزید کوئی بات نہیں کرنا چاہتی تھی۔ ۔  اسی لیئے بات بدلی۔ ۔ ۔

"سب ٹھیک ہیں اور تم دونوں کا انتظار کر رہے ہیں ۔ ۔ ۔ یہاں سب کچھ ویران سا لگتا یے ذمل۔ ۔ ۔  یہ کمرہ تمہیں بہت مس کر رہا ہے ۔ ۔ ” جانے کیوں اس پل مسکان رونے لگی۔ ۔ ۔

"آ جاؤں گی یار۔ ۔  سینٹی تو نہ ہو اب۔ ۔ ۔ ” ذمل نے ہلکا سا قہقہہ لگایا مگر ان سب کی یاد اس کی آنکھوں کو بھی تر کر گئی۔ ۔ ۔

"تم آرام کرو ذمل۔ ۔  اپنا بہت خیال رکھنا۔ ۔  پھر فون کرون گی۔ ۔ ۔ ”

"ٹیک کئیر مسکان۔ ۔ ۔ ” ذمل نے موبائیل سائیڈ پر رکھ دیا اور آنکھیں موند لیں ۔ ۔ ۔ ۔

—————————

‏بکھر گئے ہیں جو ٹوٹ کر ہم

‏تو بن گئے بے مثال کیسے ۔ ؟؟

باہر کسی کے شور کی آواز سنائی دی تو ننھی نے ایک دم دروازہ کھولا۔  چاچا شکور اور ساتھ میں محلے کے مولوی صاحب اسی طرف آ رہے تھے ۔

"ننھی تم اس ٹائم یہاں ۔ ۔ ۔  سب خیریت تو ہے ۔ ۔ ۔ ؟؟” چاچا شکور نے فکر مندی سے ننھی کی طرف دیکھا۔ ۔

"جج۔ ۔ ۔ جی ۔ ۔ ۔ ۔  وہ۔ ۔ ۔  مم۔ ۔  میں ذرا ماہم کے گھر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ” ننھی سے اتنا ہی بولا گیا۔ ۔ ۔

"تو یہاں کیا کر رہی ہے ۔ ۔ ۔ ”

"چچ۔ ۔ ۔ ۔  چاچا۔ ۔ ۔ ۔  بارش۔ ۔ ۔ ” ننھی نے آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے بتایا۔ ۔

"رفیق ادھر آ ذرا۔ ۔  اس بچی کو گھر تک چھوڑ آ۔ ۔  دیکھ تو ساری بھیگ گئی ہے ۔ ۔ ۔ ” چاچا نے رفیق کو اشارہ کر کے باہر بلایا۔ ۔

"نن۔ ۔ ۔ نن۔ ۔ ۔  نہیں چاچا۔ ۔ ۔  می۔ ۔ ۔ میں ۔ ۔ ۔  چلی جاؤں گی۔ ۔ ۔ ۔ ” ننھی نے کانپتے ہوئے بتایا۔ ۔  وہ رفیق کے ساتھ نہیں جانا چاہتی تھی لیکن چاچا کو کچھ بتا بھی نہیں سکتی تھی۔ ۔  ساری بدنامی تو اسی کی ہوتی۔ ۔ ۔

"حالات ٹھیک نہیں ہیں ۔ ۔  اپنا بچہ ہے رفیق۔ ۔ ۔  تجھے چھوڑ آئے گا۔ ۔ ” چاچا نے ننھی کے سر پر ہاتھ رکھا۔ ۔ ۔

رفیق نے دکان بند کی اور ننھی کے ساتھ جانے لگا۔ ۔  چاچا نے سکون کا سانس لیا۔ ۔ ۔  راستے میں ننھی رفیق سے دور ہو کر چلنے لگی۔ ۔  ان دونوں میں کوئی بات نہیں ہوئی۔

—————————-

ذمل کو ہسپتال میں ایک ہفتہ ہو گیا تھا۔ ۔  ارش اس کا بہت خیال رکھ رہا تھا۔ ۔  ابھی بھی وہ اسے ذبردستی سوپ پلا رہا تھا۔

"ارش مجھے یہ سوپ پسند نہیں ہے ۔ ۔  کیوں پلا رہے ہو ذبردستی۔ ۔ ۔ ” ذمل نے سوپ سائیڈ پر دھکیلنا چاہا۔ ۔

"کیوں کہ تمہیں جلدی سے ٹھیک ہونا ہے ۔ ۔ ۔  اور پھر ہمیں یہاں سے واپس بھی تو جانا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ” ارش نے چمچ اس کے منہ میں ڈالا۔ ۔ ۔

"مجھے نہیں ٹھیک ہونا۔ ۔  ایسے ہی ٹھیک ہوں میں ۔ ۔  جاؤ تم یہاں سے ۔ ۔ ۔ ” ذمل نے غصے سے کہا۔ ۔ ۔

"ذمل ضد نہیں کرتے ۔ ۔  پلیز اتنی سی بات مان لو میری۔ ۔ ۔ ” ارش نے ایک چھوٹی سی التجا کی۔ ۔

"اچھا ٹھیک ہے لیکن ہاف سے زیادہ نہیں ۔ ۔ ۔ ” ارش نے شکر کیا کہ ذمل ہاف پر ہی مان گئی۔ ۔ ۔

 

"میرے خواب ریزہ ریزہ”

کسی بھی موڑ یا اگلے پڑاؤ پر،

جدا ہی ہم کو ہونا ہے

تو آؤ پھر

یہیں اپنے اثاثوں کو الگ کر لیں

یہ جتنے زخم دل پر ہیں،

ادھر میری طرف کر دو

کہ تم اکثر یہ کہتے تھے،

یہ سب میری بدولت ہیں

تو پھر یہ زخم میرے ہیں، مجھے دے دو

مگر ٹھہرو

ذرا دیکھو

یہاں کچھ خواب بھی ہوں گے،

جو مل کر ہم نے دیکھے تھے،

انہیں تقسیم کرنا ہے

سو یوں کر لو

سہانے خواب تم رکھ لو،

ادھورے سب مجھے دے دو

کہ میری یوں بھی عادت ہے،

مجھے ٹوٹی ہوئی چیزوں سے اک بے نام رغبت ہے

سو آدھے خواب تم رکھ لو،

یہ آدھے خواب میرے ہیں

چلو تقسیم کا قصہ یہیں اب ختم کرتے ہیں

مگر ٹھہرو،

یہیں ٹھہرو

یہاں تم سے مجھے اک بات کہنی ہے،

مجھے اک عہد لینا ہے

کسی بھی موڑ یا اگلے پڑاؤ پر،

نہ مڑ کے دیکھنا مجھ کو

کہ مڑ کر دیکھنے سے عہد کمزور پڑتے ہیں،

ارادے ٹوٹ جاتے ہیں

صبر کے جام ہاتھوں سے پلوں میں چھوٹ جاتے ہیں

بہت نقصان ہوتا ہے

تم یہ نقصان مت کرنا

خیالی اس کہانی میں حقیقی رنگ مت بھرنا

—————————-

ذمل اب بہتر ہو گئی تھی۔  ڈاکٹر نے اسے سفر کرنے کی اجازت دے دی تھی۔  آج دوپہر کو ہی وہ اور ارش مانچسٹر پہنچے تھے ۔  مسکان نے نوٹ کیا تھا ذمل کافی اداس سی تھی۔  خود سے کوئی بات بھی نہیں کرتی۔ ۔ ۔  اس نے وجہ جاننے کہی بہت کوشش کی مگر ذمل بہانے کرتی۔ ۔ ۔

"یار ٹھیک ہو جاؤں گی میں ۔ ۔  وہ اتنے دن ہسپتال رہی ہوں اس وجہ سے تھوڑی ایسی ہو گئی ہوں ۔ ۔ ”

 

ذمل اندر ہی اندر بجھ گئی تھی۔  وہ یہ حقیقت ماننے کو تیار ہی نہیں تھی کہ ارش اس کی زندگی سے اتنی آسانی سے چلا جائے گا۔  اس نے تو بہت آگے کا سوچا ہوا تھا۔ ۔ ۔

وہ بیڈ پر کافی دیر دراز لیٹی رہی مگر نیند نہیں آئی۔ اسی لیئے باہر کھلی فضا میں آ گئی۔ ۔  تب ہی ارش کا ٹیکسٹ آیا۔ ۔

"مانچسٹر آج کتنا خوش ہو گا ناں ۔ ۔  آج تم جو آ گئی ہو۔ ۔ ۔ ”

"ہاں ۔ ۔  شاید ایسا ہی ہو۔ ۔ ۔ ” اداس دل سے اس نے لکھا۔ ۔ ۔

"اور ابھی تک سوئی نہیں ۔ ۔  کیا ہو رہا ہے ۔ ۔ ۔ ؟؟” جب کچھ بات کرنے کو نہ ملا تو ارش نے یہ سوال کیا۔ ۔ ۔

"کچھ بھی نہیں ۔ ۔ ۔  باہر لان میں بیٹھی ہوئی ہوں ۔ ۔ ۔ ” ذمل نے ایک پھول توڑا اور اس کی پتیاں الگ کرنے لگی۔ ۔

"مسکان بھی ساتھ ہے یا اکیلی ہو۔ ۔ ۔ ۔ ؟؟

"مسکان تو سو گئی ہے ۔ ۔ ۔ ۔  میرا تو روز کا مسئلہ ہے نیند کا۔ ۔ ” ذمل نے سارہ پتیاں ہوا میں بکھیر دیں ۔ ۔ ۔

"اچھا میں آتا ہوں پھر ہم باہر چلیں گے ۔ ۔  کوئی بہانہ نہیں چلے گا۔ ۔ ۔ ۔ ”

"اوکے ۔ ۔ ۔  جلدی آنا۔ ۔ ۔ ” جانے کیوں ذمل نے یہ ٹیکسٹ لکھ دیا تھا۔ ۔ ۔

شاید وہ ارش کو بتانا چاہ رہی تھی کہ مسٹر بدھو زیادہ انتظار نہیں ہوتا۔ ۔ ۔ ۔  جلدی آؤ اور آ کر لے جاؤ۔ ۔ ۔

—————————-

عدل و انصاف فقط حشر پر نہیں موقوف

زندگی خود بھی گناہوں کی سزا دیتی ہے

پروین پہلی مرتبہ رات کو اس طرح سے اکیلی جا رہی تھی۔  اس کے پاس نقدی اور بہت سا زیور تھا۔  اس کا دل بہت ڈر رہا تھا لیکن اس نے خود کو مضبوط کیا ہوا تھا۔ ۔  بس اسٹیشن پہنچ کر اس نے کراچی کا ٹکٹ لیا۔  بس گیارہ بجے آنی تھی اور ابھی دس ہوئے تھے ۔  وہیں ایک بینچ پر اس کی آنکھ لگ گئی۔ ۔ ۔  جب وہ اٹھی تو دیکھا اس کا سامان غائب تھا۔ ۔ ۔  اس نے بہت ڈھونڈا مگر سامان کہیں بھی نہیں ملا۔ ۔  وہ پوری طرح سے لٹ چکی تھی۔ ۔ ۔

—————————-

وقت نے مجھ سے معذرت کر لی

میرے سب سے بڑے خسارے پر

وقار بھائی کی فیملی آج ہنزہ پہنچ گئی تھی۔  شاہ صاحب ان سے مل کر بہت خوش ہوئے۔ ۔  پورے گھر میں ہر سو رونق ہو گئی تھی۔ ۔  سب لوگوں نے رات کا کھانا ایک ساتھ کھایا۔ ۔  کھانے کے بعد سب لان میں آ گئے اور پھر چائے کا دور چلا۔ ۔  کافی دیر مہروز اور ذمل کی شادی کی باتیں ہوتی رہیں ۔ ۔

"نور محمد تم نے ذمل سے بات کی ہے یا نہیں ۔ ۔ ۔ ؟؟ وقار نے نور محمد سے استفسار کیا۔ ۔

"کیسی بات کر رہے ہیں آپ وقار بھائی۔ ۔  میں نے اسے اطلاع دے دی ہے ۔ ۔ ” نور محمد نے چائے کا سپ لیتے ہوئے بتایا۔

"نور تم نے اس سے اس کی رضامندی بھی پوچھی ہے یا نہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ؟؟” شہلا بھی بول پڑی۔ ۔

"بھابھی وہ میری بیٹی ہے ۔ ۔ ۔  میری مرضی میں ہی اس کی مرضی ہے ۔ ۔ ۔  وہ آجکل کی لڑکیوں جیسی نہیں ہے ۔ ۔ ۔ ” نور محمد کا سر تن گیا۔ ۔  اسی اپنی ذمل پر پورا مان تھا اسی لیئے تو اسے اتنے دور بھیجا تھا۔ ۔ ۔

"لیکن ہے تو وہ ایک لڑکی نور۔ ۔  میرا دل بہت ڈرتا ہے کہ کہیں اس کے ساتھ کوئی زیادتی۔ ۔ ” نور محمد نے شہلا کی بات کاٹ دی۔

"بھابھی ایسا کچھ نہیں ہے ۔ ۔ ۔  اپنے اندیشوں کو دور کر دیں تو سب ٹھیک ہو جائے گا۔ ۔ ۔ ”

کافی دیر لان کی رونق بحال رہی۔ ۔  دو بج گئے تو سب لوگ اپنے کمروں میں چلے گئے۔ ۔ ۔

——————————-

میں نرم مٹی ہوں تم روند کر گزر جاؤ

کہ میرے ناز تو بس کوزہ گر اٹھاتا تھا

ذمل لان میں بیٹھی ہوئی تھی۔ ۔  ابھی کچھ دیر پہلے ہی ارش کا فون آیا تھا۔ ۔ ۔ ۔  اس نے سوچ لیا تھا کہ آج وہ ارش کو سب کچھ بتا دے گی۔ ۔ ۔  پھر ارش کا جو بھی فیصلہ ہو۔ ۔ ۔  اسی اثناء میں اس کا موبائیل بجنے لگا۔ ۔  بابا جان کالنگ۔ ۔ ۔ ۔

"السلام علیکم بابا۔ ۔  کیسے ہیں آپ۔ ۔ ۔ ؟ اس نے موبائیل کان کے ساتھ لگایا۔ ۔

"میں ٹھیک۔ ۔ ۔  کیسی ہے میری بیٹی۔ ۔  ابھی تک جاگ رہی ہے ۔ ۔ ۔ ؟؟” نور محمد نے ذمل کا حال پوچھا۔ ۔ ۔

"جی بابا میں ٹھیک ہوں ۔ ۔ ۔  بس نیند نہیں آ رہی تھی۔ ۔  آپ بتائیں ۔ ۔ ۔ ”

"وقار بھائی لوگ آ گئے ہیں ۔ ۔  کب آ رہی ہیں آپ۔ ۔ ۔ ” نور محمد کی آواز میں جوش ذمل کو محسوس ہوا۔ ۔ ۔

"بابا نیکسٹ ویک میرے ایگزامز ہیں ۔  اس کے بعد ہی سمسٹر بریک ہو گی۔ ۔  ” اب کے اس کا لہجہ کافی دھیما ہو گیا۔ ۔ ۔

"ٹھیک ہے ۔ ۔  ہم نے آپ کی شادی کی ڈیٹ بھی فکس کر لی ہے ۔ ۔ ۔  اگلے مہینے کے آخر میں آپ کی شادی ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ” نور محمد نے جیسے بم پھوڑا تھا۔ ۔ ۔

"لیکن بابا اتنی جلدی۔ ۔ ۔ ” ذمل کو اپنی آواز کسی کھائی سے آتی محسوس ہوئی۔ ۔

"وقار بھائی کا فیصلہ ہے یہ اور ہمیں آپ پر پورا مان ہے کہ آپ بھی اس فیصلے کو دل سے قبول کریں گی۔ ۔ ۔ ”

"اللہ حافظ بابا۔ ۔ ۔ ” ذمل بے آواز رونے لگی۔ ۔ ۔

—————————

کہانیاں ‘ دَراز مُحبتوں کی،

کیوں مُختصر سی ہوتی ہیں

ذمل چھ سال کی ہو گئی تھی۔  شیبا ایک دفعہ پھر سے ماں بننے والے تھی اور اب کی بار وہ ایک بیٹے کو جنم دینے والی تھی۔ ۔  ڈیلیوری میں ایک مہینہ باقی تھا جب وقار اور شہلا بھی پاکستان آ گئے۔ ۔  شیبا بہت احتیاط کر رہی تھی۔  وہ اپنا ہر قدم پھونک کر رکھ رہی تھی لیکن کتنی بھی احتیاط کیوں نہ کی جائے قسمت کو کون بدل سکتا ہے ۔ ۔ ۔

ایک دن شیبا کا پاؤں سیڑھیوں سے پھسل گیا اور وہ گر گئی۔ ۔  وہ درد سے بلک رہی تھی۔ ۔  نور محمد نے اس کو فوراً ہاسپٹل پہنچا دیا تھا۔ ۔  ڈاکٹرز نے فوری طور پر آپریشن شروع کیا لیکن وہ شیبا اور اس کے بچے کو بہیں بچا سکے تھے ۔ ۔  خوشیوں کو کسی کی نظر لگ گئی تھی۔ ۔

کافی دنوں تک تو شہلا ہی ذمل کو سنبھالتی رہی لیکن پھر شہلا واپس آسٹریلیا چلی گئی۔ ۔  اس نے ذمل اور نور محمد کے لیئے خصوصی ملازمہ کا انتظام کیا۔ ۔  نور محمد ذمل کی طرف دیکھتا ہی نہیں تھا۔ ۔  ہر ٹائم کمرے میں بند رہتا۔ ۔  بہت ٹائم لگا تھا اسے نارمل ہونے میں ۔ ۔ ۔  آخر ذمل کو اپنے بابا مل گئے تھے ۔

—————————–

وہ جو رستے میں مجھے چھوڑ گیا ہجر کے بیچ،

اس پہ بھی کھول ذرا عشق کی رمزیں مولا۔ ۔ !!!

ذمل نے ٹراؤزر اور ساتھ میں شرٹ پہنی ہوئی تھی۔ ۔  بابا کی کال کے بعد اس کا دل کپڑے بدلنے کو نہیں کیا۔ ۔ ۔ ۔  وہ اندر گئی۔ ۔ ۔  منہ پر پانی کے چھینٹے ڈالے ۔ ۔  بالوں میں پونی باندھی اور باہر آ کر بیٹھ گئی۔ ۔  تھوڑی دیر بعد ارش بھی آ گیا تھا۔  وہ دونوں ایک قریبی پارک میں آ گئے۔ ۔ ۔

"ذمل آج میں تم سے جو بھی پوچھوں گا تمہیں سچ بتانا پڑے گا۔ ۔ ۔ ” ارش نے ذمل کے ہاتھ تھامے ۔

"کیا پوچھنا ہے تم نے ۔ ۔ ؟؟ ذمل نے جھکی نظروں کے ساتھ پوچھا۔ ۔ ۔

"تم یہ سب کیوں کر رہی ہو۔ ۔ ؟؟ کیوں تکلیف دے رہی ہو خود کو۔ ۔ ۔ ؟؟ ارش نے ایک ہاتھ سے ذمل کا چہرہ اوپر کیا۔ ۔ ۔

"میں کوئی تکلیف نہیں دے رہی۔ ۔  تم غلط سمجھ رہے ہو۔ ۔ ” ذمل نے اپنا ہاتھ چھڑوا لیا۔ ۔ ۔

"جھوٹ بولنا کب سے شروع کر دیا ہے تم نے ۔ ۔ ؟؟ ہاں بولو۔ ۔ ؟؟”

"میں نے کوئی جھوٹ نہیں بولا ارش۔ ۔  تم کیوں ہماری دوستی کو غلط سمجھ رہے ہو۔ ۔ ۔ ۔ "ذمل یہ کہہ کر وہاں سے اٹھ گئی۔ ۔

"یہ سب میری طرف دیکھ کر کہہ سکتی ہو۔ ۔ ۔ ” ارش کی آواز پر ذمل اس کی طرف مڑی۔ ۔ ۔

"ایک مرتبہ نہیں ۔ ہزار مرتبہ بولوں گی ارش۔ ۔ ۔  وی۔ ۔ ۔  آر۔ ۔ ۔ ۔  جسٹ۔ ۔ ۔  فرینڈز۔ ۔ ۔  آئی۔ ۔  ڈونٹ۔ ۔ ۔  لَو۔ ۔  یو۔ ۔ ۔ ” وہ خود کو مضبوط کر کے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہنے لگی۔ ۔ ۔

ذمل یہ کہہ کر آ کر گاڑی میں بیٹھ گئی۔ ۔ ۔  ارش ساکت ہو گیا تھا۔  کافی دیر وہیں کھڑا رہا۔ ۔ ۔  ذمل نے ہارن بجانے شروع کیئے تو وہ اس طرف آیا۔ ۔

"یہ سب روم میں جا کر کر لینا۔ ۔ ۔  مجھے ہاسٹل ڈراپ کر دو پلیز۔ ۔ ۔ ” ذمل نے سیٹ کے ساتھ اپنا سر ٹکا دیا۔ ۔

"ذمل تم اتنی بے حس کیسے ہو سکتی ہو۔ ۔ ۔ ۔ ” ارش ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھتے ہوئے بڑبڑایا۔ ۔ ۔  ذمل خاموش رہی۔ ۔ ۔

باقی کا سفر بہت خاموشی سے طے ہوا۔ ۔ ۔  ارش نے ذمل کو ڈراپ کر دیا تھا۔ ۔  اس نے کافی دیر  سے خود کو مضبوط کیا ہوا تھا لیکن اب مزید نہیں ۔ ۔  وہ سیدھی واش روم میں گئی اور زور سے رونے لگی۔ ۔ ۔  اس نے نل آن کر دیا تھا تا کہ مسکان تک آواز نہ جائے۔  ۔ ۔

"سب ختم ہو گیا ہے ارش۔ ۔  اپنے ہاتھوں سے میں نے ختم کر دیا سب۔ ۔ ۔  مجھے معاف کر دو۔ ۔ ۔”

"جا چکے ہو مگر نہیں جاتے ”

میں جب بہت تھک جاتی ہوں تو

زندگی کے صفحات

واپس پلٹ کر دیکھنا شروع کر دیتی ہوں

اور اس صفحے پر آ کر رک جاتی ہوں

جہاں زندگی تمہیں مجھ سے ملاتی ہے

اور میں دیکھتی ہوں کہ

زندگی تو اس صفحے سے آگے بڑھی ہی نہیں

وہی صفحہ، صفحۂ زیست رہا

باقی سب تو آتے جاتے موسم ٹھہرے ۔ ۔ ۔

—————————-

ذمل کے پیپر شروع ہو گئے تھے اور ان دنوں اس نے خود کو ارش سے بہت دور رکھا ہوتا تھا۔  اس نے اپنا فون بند کر دیا تھا اور پیپر ختم کرتے ساتھ ہی وہ ہاسٹل آ جاتی۔  ارش نے کئی مرتبہ مسکان کے نمبر پر اس سے بات کرنا چاہی مگر وہ ہمیشہ منع کر دیتی۔  اس کی سمجھ میں کچھ بھی نہیں آ رہا تھا کہ ذمل ایسا کیوں کر رہی ہے اور نہ ہی مسکان کو ذمل کچھ بتا رہی تھی۔  آج اس کا آخری پیپر تھا۔ ۔ ۔  کل سے سب نے اپنے اپنے گھروں کو چلے جانا تھا۔  ارش کلاس کے باہر ذمل کا انتظار کر رہا تھا۔  جیسے ہی وہ باہر نکلی ارش اس کا بازو پکڑ کر اسے سائیڈ پر لے گیا۔ ۔  ذمل نے اس کے گال پر ایک زور دار تھپڑ رسید کیا اور اپنی انگلیوں کے نشان وہاں ثبت کر دئیے ۔

"چھوڑو میرا ہاتھ اور آئندہ ایسا کرنے کی کوشش بھی مت کرنا۔ ۔ ” ذمل غصے سے سیخ پا ہو گئی۔

"نہیں چھوڑتا۔  کیا کر لو گی تم ہاں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ؟؟” ارش نے اس کا بازو  زور سے دبوچا۔ ۔  اور اس کو دیوار کے ساتھ لگا لیا۔

ذمل درد سے کراہ رہی تھی۔  اس نے مزاحمت کی بہت کوشش کی مگر ارش جیسے مرد کے آگے اس کی مزاحمت کام نہ آئی۔

"میری زندگی کوئی کھیل نہیں ہے ذمل جسے تم اس طرح روند کر چلی جاؤ اور میں دیکھتا رہ جاؤں ۔  اب تم دیکھو کیا کرتا ہوں میں ۔ ۔ ۔ ۔ ”

ذمل کے آنسو لگا تار اس کا چہرہ بھگو رہے تھے مگر ارش پر تو جیسے جنون سوار تھا۔  ذمل نے التجا کی۔

"تم نے جو کرنا ہے جا کر کر لو لیکن مجھے جانے دو۔ ۔ ۔ ۔  چھوڑو میرا ہاتھ۔ ۔ ۔ ”

"ارش اتنی آسانی سے تمہیں ہار نہیں سکتا ذمل۔ ۔ ۔  ” ایک جھٹکے کے ساتھ اس نے ذمل کو پرے دھکیلا اور وہاں سے چلا گیا۔ ۔ ۔  ذمل کافی دیر وہیں دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھی روتی رہی۔  اس نے ارش کا یہ روپ پہلی مرتبہ دیکھا تھا اور وہ بہت ڈر گئی تھی۔  وہ نہیں جانتی تھی کہ ارش کیا کرنے والا ہے ۔ ۔  مسکان پیپر دے کر نکلی تو اس نے ذمل کو ایک کونے میں دیکھا۔ ۔  وہ دونوں ہاسٹل آ گئیں ۔ ۔ ۔

——————————-

ننھی کی بیگم صاحبہ اپنی فیملی کے ساتھ امریکہ سیٹل ہو رہی تھیں ۔  ننھی انہیں بہت عزیز تھی۔  وہ اسے بھی ساتھ لے کر جانا چاہتی تھیں مگر اس نے منع کر دیا۔  وہ پاکستان میں ہی رہنا چاہتی تھی۔ ۔  اسی لیئے بیگم صاحبہ نے ننھی کو اپنی ایک جاننے والی کے ہاں بھجوا دیا۔  دو مہینے تک تو اس نے ننھی کو برداشت کیا لیکن پھر اس کو کسی کے ہاتھ فروخت کر دیا۔ ۔  اس طرح وہ کوٹھے پر پہنچ چکی تھی۔ ۔ ۔  شبنم بیگم نے اس کا نام شیبا رکھ دیا تھا۔ ۔

—————————–

اچھے وقتوں کو بھُول جانے میں

‏تم کو دو پَل ___ ہمیں زمانے لگے

سب لوگ اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے تھے لیکن ارش ابھی تک مانچسٹر میں تھا۔  اس نے سوچا تھا کہ وہ اس مرتبہ گھر جا کر سب کو ذمل کا بتائے گا مگر اب کیا بتانا رہ گیا تھا۔ ۔  سب کچھ تو ذمل کی بیوقوفیاں ختم کر چکی تھیں ۔ ۔  اسے ذمل کو اس طرح جھٹکنے پر بہت غصہ آ رہا تھا لیکن وہ بھی کیا کرتا۔ ۔  ذمل نے اسے مجبور کر دیا تھا۔ ۔

وہ اپنے کمرے میں بیٹھا گزرے وقت کو سوچ رہا تھا۔ ۔  سب کچھ کتنا اچھا جا رہا تھا۔ پھر ایسا کیا ہوا کہ ذمل کو یہ سب کرنا پڑا۔ ۔  وہ کڑی سے کڑی جوڑ رہا تھا لیکن ابھی تک اس کے ہاتھ کچھ نہیں لگا تھا۔ ۔ ۔  اس کا ذہن ماؤف ہو گیا تھا۔ ۔ ۔

—————————–

پروین جس بس میں کراچی جا رہی تھی اس کا ایکسیڈنٹ ہوا تھا اور وہ کھائی میں گر گئی تھی۔  ریسکیو ٹیم بہت دیر بعد پہنچی تھی۔  آدھے سے زیادہ لوگ مارے گئے تھے اور جو زخمی تھے وہ بہت کریٹیکل تھے ۔  پروین بھی زخمیوں میں تھی۔  ڈاکٹرز کو اس کی ایک ٹانگ کاٹنی پڑی تھی۔ ۔ ۔  اس کے ساتھ کوئی نہیں تھا اس لیئے اسے ایک دارالامان میں ڈال دیا تھا۔ ۔ ۔  وہ سارا سارا دن اپنی پرانی زندگی کو یاد کر کے آنسو بہاتی رہتی۔ ۔  اس نے اپنے ہاتھوں سے کتنے لوگوں کی خوشیاں برباد کی تھیں ۔ ۔ ۔  آج وہ خود خالی ہاتھ رہ گئی تھی۔ ۔ ۔  وہ ہر وقت موت کی دعا کرتی رہتی لیکن موت بھی نہ آتی۔ ۔ ۔  اب اسے اپنی باقی زندگی انہی پچھتاووں کے سہارے گزارنی تھی۔

——————————

حال پوچھ کے شرمندہ نہ کیجیئے

حال وہی ہے جو آپ نے بنا رکھا ہے

سب گھر والے ذمل کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے تھے ۔ ۔  ذمل میں جان تھی سب کی۔ ۔ ۔  ذمل بہت کوشش کر رہی تھی وہ اپنی کیفیت کو کسی پر اجاگر نہ کرے لیکن کچھ نہ کچھ ایسا ضرور ہو رہا تھا جو سب کو شک میں ڈال دیتا۔ ۔  وہ جہاں بیٹھ جاتی وہیں بیٹھی رہتی۔ ۔  کسی سے کوئی بات نہ کرتی۔ ۔  کھانا بھی بہت کم کھاتی۔ ۔ ۔  رات کو بلاوجہ ٹیرس پر آ کر بیٹھ جاتی۔ ۔ ۔  اسے اپنی لائف میں کوئی انٹرسٹ نہیں رہا تھا۔ ۔ ۔  شہلا نے نور محمد کو باقی تو کچھ نہیں بتایا لیکن اتنا ضرور بتایا کہ ذمل بہت کمزور پڑ گئی ہے ۔  نور محمد نے اس سے بات کی لیکن اس نے یہی کہہ کر مطمئن کر دیا کہ ایگزامز دینے کی وجہ سے اسے کمزوری ہو گئی ہے ۔ ۔ ۔

—————————-

تباہ ہو کے بھی رہتا ہے دل کو دھڑکا سا

کہ رائیگاں نہ چلی جائے رائے گانی مری

ارش کے گھر سے بہت فون آ گئے تھے کہ وہ گھر کیوں نہیں آتا لیکن وہ ہمیشہ ہی کوئی نہ کوئی بہانہ کر دیتا۔ ۔  اسے اپنی زندگی کا کوئی مقصد نظر نہیں آ رہا تھا۔ ۔  وہ ساری رات بلاوجہ سڑکوں پر گھومتا رہتا اور دن کو بند کمرے میں سویا رہتا۔  آج مسکان نے اسے فون پر بتایا تھا کہ ذمل شادی کر رہی ہے ۔ ۔  اسے کچھ نہ کچھ کرنا ہو گا۔ ۔ ۔  ارش کے لیئے یہ خبر بہت غیر یقینی تھی۔ ۔  اسے ذمل سے یہ توقع نہیں تھی۔ ۔ ۔  اس نے پاکستان جانے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ ۔

——————————

چاند کو آخر شب سوچ میں ڈوبا دیکھا

‏ایک لمحے کو سہی، کوئی تو تجھ سا دیکھا

رات کافی گہری تھی۔ ۔  ذمل ٹیرس پر بیٹھی ہوئی تھی جب شہلا وہاں آ گئی اور اس کے ساتھ بیٹھ گئی۔ ۔

"ذمل بیٹا مجھے آپ سے ایک ضروری بات کرنی ہے ۔ ۔  آپ مجھ سے کچھ مت چھپانا پلیز۔ ۔ ۔ ”

"جی تائی جان بولیں آپ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ” ذمل نے بہت نرم لیجے میں بولا۔ ۔

"میں جاننا چاہتی ہوں کہ کون سی ایسی بات ہے جو آپ کو اس طرح سے توڑ رہی ہے ۔ ۔  أپ میرے ساتھ اپنا دکھ شیئر کر سکتی ہو۔ ۔ ۔ ” شہلا نے اپنا ہاتھ اس کے کندھے پر رکھ دیا۔ ۔

"تائی جان ایسی کوئی بات نہیں ہے ۔ ۔ ۔  آپ سب لوگ میرے لیئے پریشان نہ ہوں ۔  میں بالکل ٹھیک ہوں ۔ ” ذمل نم آنکھوں کے ساتھ مسکرائی۔ ۔ ۔

"ہم سب پریشان نہیں ہوں گے تو کون ہو گا ذمل۔  ہم سب آپ کے اپنے ہیں ۔  آپ کی خوشیوں سے بڑھ کر ہمارے لیئے کچھ نہیں ہے ۔ ۔ ۔  آپ مجھے بتائیں ۔ ۔ ۔  میں سب ٹھیک کر دوں گی۔ ۔ ۔ ” شہلا نے ذمل کے دل تک پہنچنے کی کوشش کی۔ ۔ ۔ ۔

"سچ تائی جان کیا آپ سب ٹھیک کر سکتی ہیں ۔ ۔ ۔  لیکن نہیں ۔ ۔  اب کچھ ٹھیک نہیں ہو سکتا تائی جان۔ ۔  میں نے سب کچھ غلط کر دیا ہے ۔ ” اس کا دل چیخ رہا تھا لیکن زبان سے کچھ نہیں بولی۔ ۔ ۔

"ذمل بتاؤ بیٹا۔ ۔ ۔  میں آپ کی تائی ہونے سے پہلے آپ کی ماں ہوں ۔ ۔  نور محمد کو تو آپ نے مطمئن کر دیا ہے لیکن آپ کا درد میں نے محسوس کیا ہے ۔ ۔  میں آپ کو گھٹ گھٹ کر زندگی گزارتے نہیں دے سکتی۔ ۔ ۔ ”

ذمل نے آنسوؤں کا بند توڑ دیا۔ ۔ ۔  شہلا بہت پریشان ہو گئی تھی۔ ۔ ۔

"تائی جان مجھے امی بہت یاد آ رہی ہیں ۔ ۔ ۔  کیوں چلی گئی ہیں امی۔ ۔ ۔  کیا کچھ ٹائم کے لیئے میری امی واپس نہیں آ سکتی۔ ۔ ۔  ” وہ سسک رہی تھی۔ ۔ ۔  بلک رہی تھی۔ ۔  شہلا کی جان نکل رہی تھی۔ ۔  اتنی مضبوط ذمل اس کے سامنے ریزہ ریزہ ہو رہی تھی۔ ۔ ۔

ذمل نے کافی دیر اس کے کندھے پر اپنا سر رکھ کر آنسو بہائے اور پھر اٹھ کر اندر چلی گئی۔ ۔ ۔  شہلا سوچوں کے سمندر میں غرق ہو گئی۔ ۔ ۔ ۔

 

"مبارک ہو تم کو __ یہ شادی تمہاری”

یہ تیری آنکھوں پہ حلقے سے پڑ گئے کیسے

مجھے تو تُو نے کہا تھا کہ تُو بھلا دے گا

ذمل کی شادی میں ایک ہفتہ رہ گیا تھا۔  اس کی ساری شاپنگ لاہور سے ہوئی تھی۔  شہلا نے ذمل کو بہت فورس کیا تھا کہ وہ بھی اس سب میں انٹرسٹ لے مگر وہ یہی کہتی کہ آپ کی لی ہوئی ہر چیز مجھے پسند آ جاتی ہے ۔ ۔  آپ خود ہی لے لیا کریں ۔ ۔  شادی کا جوڑا رہتا تھا جس کے لیئے شہلا ذبردستی ذمل کو اپنے ساتھ لائی تھی۔ ۔

ذمل اور شہلا اب ایمپوریم مال میں موجود تھیں ۔  کافی دیر سے وہ لہنگا پسند کر رہی تھیں مگر کوئی خاص پسند نہیں آ رہا تھا۔  آخر ایک لہنگا شہلا کو پسند آیا۔  اس نے ذمل سے پوچھا تو اس نے بھی حامی بھر لی۔ ۔  چار گھنٹے کی محنت کے بعد اب شہلا تھوڑی پرسکون تھی۔ ۔ ۔ ۔ ۔  شہلا نے دوپٹا ذمل کے سر پر رکھ کر دیکھا۔ ۔

"کسی کی نظر نہ لگے میری بیٹی کو۔ ۔ ۔ ” شہلا نے ذمل کے ماتھے پر پیار کیا۔ ۔

لہنگا خریدنے کے بعد انھوں نے باقی اسسریز لیں اور سیدھی بار بی کیو ٹو نائٹ چلی گئیں ۔  ادھر ذمل نے ارش کو بیٹھے دیکھ لیا تھا۔ ۔  اس کے ساتھ کوئی لڑکی بھی تھی۔ ۔  ذمل نے سوچا یہ اقصیٰ ہی ہو گی۔ ۔ ۔  کھانا کھاتے ہوئے ذمل نے کئی مرتبہ ارش کو دیکھا۔ ۔  کتنا کمزور ہو گیا تھا ارش۔ ۔  اس کی آنکھوں کے گرد ہلکے پڑ گئے تھے اور اس کی ہنسی کتنی کھوکھلی محسوس ہوتی تھی۔ ۔  ذمل نے بہت مشکل سے خود کو سنبھالا۔ ۔ ۔  جب وہ بِل پے کرنے کے بعد باہر جانے لگے تو ارش کی نظر ذمل پر پڑی۔ ۔  وہ رش میں سے ہوتا ہوا باہر گیا۔ ۔ ۔  اس کی نظر نے دور تک اس کو ڈھونڈا مگر وہ کہیں نظر نہیں آئی۔ ۔

——————————

مہندی میں تین دن باقی تھے جب مسکان بھی پاکستان آ گئی تھی۔  ذمل کو تو جیسے سہارا مل گیا تھا۔  مسکان کے ساتھ وہ کافی بہتر فیل کر رہی تھی۔ ۔ ۔

سارے رشتہ دار اس شادی میں شرکت کرنے آ گئے تھے ۔ ۔  حویلی میں ہر طرف چہل پہل تھی۔ ۔  اس گھر کی پہلی شادی تھی اور سارے ارمان بھی تو پورے کرنے تھے ۔ ۔ ۔

آج ڈھولکی کا فنکشن تھا۔ ۔ ۔  ذمل کو اسٹیج پر لا کر بٹھا دیا تھا۔ ۔  اورنج اور پرپل کنراسٹ کے سوٹ میں وہ کافی پیاری لگ رہی تھی۔  اس کے چہرے کو گھونگٹ میں چھپا دیا گیا تھا تا کہ اس کو نظر نہ لگ جائے۔ ۔  ساری عورتیں ڈھولک کی تھاپ پر گانے گا رہی تھیں ۔ ۔ ۔  چھوٹی بچیاں ڈانس کر رہی تھیں ۔ ۔ ۔  شہلا کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا۔ ۔ ۔  اس نے دل سے ان خوشیوں کے قائم رہنے کی دعا مانگی۔ ۔ ۔

—————————-

نور محمد۔ شہلا اور وقار اس وقت نور محمد کے کمرے میں موجود تھے ۔ ۔ ۔  شہلا کافی دیر سے اپنی بات منوانے کی کوشش کر رہی تھی لیکن نور محمد کو یہ سب ٹھیک نہیں لگ رہا تھا۔ ۔

"شہلا بھابھی یہ سب نا ممکن ہے ۔ ۔  آپ کیسے اتنا بڑا فیصلہ کر سکتی ہیں ۔ ۔ ۔ ”

"میں نے جو بھی کیا ہے سوچ سمجھ کر کیا ہے نور۔ ۔  اس وقت ہم سب کی زندگیوں کے لیئے یہی بہتر ہے ۔ ۔ ”

"نور محمد ذمل پر ہمارا بھی اتنا ہی حق ہے جتنا تمہارا ہے ۔ ۔  اگر ہم نے ایسا سوچا ہے تو کچھ غلط نہیں ہے ۔ ۔  ویسے بھی شادی کے بعد تو ذمل کو تم سے الگ ہی ہونا ہو گا۔ ۔ ۔ ” وقار بھی نور محمد کو نرم لہجے میں سمجھا رہا تھا۔ ۔

"زندگی بار بار تو نہیں ملتی نور۔ ۔  ایک ہی دفعہ ملتی ہے اور میں اسے اس طرح سے خراب نہیں کر سکتی۔ ۔ ۔ ” شہلا یہ کہہ کر کمرے سے نکل گئی۔ ۔

"سوچ لو۔ ۔ ۔  ان شاء اللہ سب ٹھیک ہو جائے گا۔ ۔ ” وقار نے نور محمد نے کاندھے پر ہاتھ رکھے ۔ ۔ ۔

—————————–

کبھی لوٹ آئیں تو پوچھنا نہیں، دیکھنا انہیں غور سے

جنہیں راستے میں خبر ہوئی کہ یہ راستہ کوئی اور ہے

کافی دیر سے ذمل کو ایک انجانے نمبر سے فون آ رہا تھا مگر وہ اٹینڈ نہیں کر رہی تھی۔ ۔  مسکان اسے سمجھا رہی تھی۔ ۔

"ذمل ایک مرتبہ دیکھ تو لو کون ہے ۔ ۔  ہو سکتا یے ضروری کال ہو۔ ۔ ۔ ”

"یار یہ پاکستانیوں کا کام ہی ایسا ہے ۔ ۔ ۔  اگر بات کرنی ہے تو نام تو ٹیکسٹ کر دو اپنا۔ ۔ ” ذمل نے موبائیل ٹیبل پر رکھتے ہوئے کہا۔ ۔ ۔

ایک مرتبہ پھر موبائیل وائبریٹ ہوا۔  ۔  اس مرتبہ ذمل نے کال اٹینڈ کر دی۔ ۔

"کیا ہے ۔ ۔ ۔  کیوں کب سے تنگ کیئے جا رہے ہو۔ ۔ ۔ ” ذمل غصے سے گویا ہوئی۔ ۔

"وہی جسے تم دورا ہے پر کھڑا کر کے چلی گئی ہو۔ ۔ ۔ ۔ ” ذمل کو لگا اس نے یہ کال اٹینڈ کر کے بہت بڑی غلطی کر دی ہے ۔ ۔ ۔ ۔  وہ کال بند کرنے ہی لگی تھی کہ دوسری طرف سے آواز آئی

مری خاموشیوں کو تم کوئی معنی نہیں دینا

جدائی کی سبھی باتیں مری آنکھوں میں پڑھ لینا

مری اس مسکراہٹ میں،

اگر محسوس کر پاؤ

تو میرے آنسوؤں کی تم نمی محسوس کر لینا

کہیں جو رہ گئی ہے وہ کمی محسوس کر لینا

مری سوچیں !

مرے الفاظ کا جب روپ لیتی ہیں

تمہارا عکس بنتا ہے

مری نیندوں میں جب جب رتجگوں کے دیپ جلتے ہیں

تمہارا ذکر چلتا ہے

تمہاری یاد ماضی کے دریچے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

"دوبارہ اس نمبر پر کال مت کرنا پلیز۔ ۔ ” اس نے یہ کہہ کر فون بند کر دیا۔ ۔ ۔  اسے مسکان پر بہت غصہ آ رہا تھا۔ ۔ ۔

"کیوں دیا تم نے اسے میرا نمبر۔ ۔  ذرا سا سکون میں رہنے دو مجھے مسکان۔ ”

۔ "میں نے نہیں دیا۔ ۔  دینا ہوتا تو تم سے پوچھ لیتی۔ ۔  میرے پاس تو اس کا پاکستان والا نمبر ہی نہیں ۔ ۔ ” مسکان نے کافی صفائی سے جھوٹ بولا۔ ۔

"اگر مجھے پتا چلا کہ یہ نمبر تم نے دیا تو تمہیں شوٹ کر دوں گی مسکان۔ ۔ ۔ ۔ ” ذمل غصے سے فون بیڈ پر پٹخ کر واش رام میں گھس گئی۔ ۔ ۔

—————————

کوئی حد نہیں عمر کی۔ کوئی ذات کا لحاظ نہیں

عشق نے جسے چاہا ______ اسے سرِ عام نچایا

"تیر ٹھیک جگا پر لگا ہے ارش۔ ۔ ۔  اس نے تمہاری کال اٹینڈ کی ۔ ۔  پہلی کامیابی مبارک ہو۔ ۔ ” مسکان نے باہر آ کر ارش کو فون کیا۔ ۔

"اس کا ری ایکشن کیسا تھا۔ ۔ ؟” ارش نے گاڑی ڈرائیو کرتے ہوئے پوچھا۔

"قسم سے اگر تم یہاں ہوتے تو تمہیں شوٹ کر دیتی۔ ۔ "مسکان نے جاندار قہقہہ لگایا۔ ۔ ۔

"اتنا آسان نہیں ہے مجھے شوٹ کرنا۔ ۔  اپنی اس سہیلی کو سمجھا دینا۔ ”

"ہاہاہا ارش۔ ۔  وہ کچھ سمجھے تو سمجھاؤں ۔ ۔ ۔ اچھا میں پوری کوشش کروں گی کہ ذمل کو کسی طرح باہر لا سکوں ۔ ۔  تم اپنی تیاری پوری رکھنا۔ ” مسکان کافی دیر ارش سے بات کرتی رہی۔ ۔

—————————

مری روشنی ترے خدّ و خال سے مختلف تو نہیں مگر

تُو قریب آ تجھے دیکھ لوں تُو وہی ہے یا کوئی اور ہے

مسکان ارش کو حویلی سے لمحہ با لمحہ باخبر رکھ رہی تھی۔  ارش نے اسے پاکستان اسی مقصد کے لیئے بلایا تھا۔ ۔  ذمل یہی سمجھ رہی تھی کہ مسکان اس کے انوائیٹ کرنے پر آئی ہے مگر وہ نہیں جانتی تھی کہ اس کی پیٹھ پیچھے کتنا بڑا کھیل کھیلا جا رہا تھا۔ ۔

"برباد تو تم ہو کے رہو گی ذمل۔ ۔ ۔  میری نہیں تو کسی کی نہیں ۔ ۔ ” ارش نے سینڈ کا بٹن دبایا اور ایک تلخ مسکراہٹ اس کے چہرے پر سج گئی۔ ۔

اس ٹیکسٹ نے ذمل کو بہت خوفزدہ کر دیا تھا۔ ۔  وہ ارش سے واقف تھی کہ وہ بلاوجہ اتنی بڑی بات نہیں کر سکتا۔ ۔ ۔  اس کی آنکھوں میں نیند کا نام و نشان بھی نہیں تھا۔ ۔  وہ ٹیرس پر جا کر بیٹھ گئی اور اپنا اگلا قدم سوچنے لگی۔ ۔ ۔

—————————

اللہ اللہ کر کے مہندی کا دن بھی آ گیا تھا۔  پوری حویلی میں روشنیوں کا عکس تھا۔ ۔  برقی قمقمے ہر طرف سجے ہوئے تھے ۔  اندرونی کمروں کو گیندے کے پھولوں سے سجایا ہوا تھا۔ ۔  مہمان باہر لان میں بیٹھے خوش گپیوں میں مصروف تھے ۔ ۔ ۔

"جلدی کرو مسکان بیٹا۔ ۔  باہر سب لوگ دلہن کا انتظار کر رہے ہیں ۔ ۔ ” شہلا تیسری مرتبہ ذمل کو دیکھنے آئی تھی لیکن مسکان نے ابھی تک اسے تیار نہیں کیا تھا۔ ۔ ۔

"بس آنٹی میں اپنے بال سیٹ کر لوں پھر ذمل کو بھی دیکھتی ہوں ۔ ۔ ۔ ” مسکان نے بالوں میں پِن لگاتے ہوئے شہلا کو بتایا۔ ۔ ۔

بال بنانے کے بعد مسکان نے ذمل کو تیار کیا۔ ۔  اس کے ساتھ ایک سیلفی بنائی اور ارش کو وٹس ایپ کی۔ ۔

"میری دلہن کو کتنے اچھے سے سجایا ہے تم نے ۔ ۔ ۔  تھینک یو مسکان۔ ۔ ۔ ۔ ” ارش نے فوراً ریپلائی کیا۔ ۔ ۔

—————————

لڑکیوں نے ذمل کو اسٹیج پر لا کر بٹھا دیا تھا۔ ۔ ۔  اس نے پنک اور گرین کنٹراسٹ میں لہنگا پہنا ہوا تھا۔ ۔  بال دائیں طرف کندھے پر پھینکے ہوئے تھے ۔ ۔ ۔  بائیں طرف نفاست سے جھومر لگا ہوا تھا۔ ۔ ۔  دوپٹے کو سلیقے سے سیٹ کیا گیا تھا۔  کلائیوں میں موتیا کے گجرے اس کے سراپے کو مزید خوبصورت بنا رہے تھے ۔ ۔ ۔ ۔  ہر کوئی اس کے حسن کو سراہ رہا تھا۔ ۔

بیگ گراؤنڈ میں میوزک لگا ہوا تھا اور لڑکیاں اپنے اپنے ڈانس کے جلوے دکھا رہی تھیں ۔ ۔ ۔  مسکان بھی سب سے آگے آگے تھی۔ ۔  کون سا ذمل کی شادی روز ہونے والی تھی۔

مہندی ہے رچنے والی

ہاتھوں میں گہری لالی

کہیں سکھیاں اب کلیاں

ہاتھوں میں کھلنے والی ہیں

تیرے من کو جیون کو

نئی خوشیاں ملنے والی ہیں

ذمل کو مہندی لگانے کی رسم شروع ہو گئی تھی۔  سب سے پہلے شہلا نے مہندی لگائی تھی اور پھر لڈو کھلایا۔  کتنے سال انتظار کیا تھا اس نے اس دن کے لیئے۔ ۔ ۔  ذمل کو اپنی بہو کے روپ میں دیکھنے کے لیئے۔ ۔  ذمل کی آنکھیں بھیگ گئیں ۔ ۔ ۔  اسے شیبا کی یاد آنے لگی۔ ۔ ۔  شہلا مہندی لگا کر وہیں اس کے پاس بیٹھ گئی اور اس کے آنسو صاف کیئے۔ ۔ ۔  تھوڑی دیر میں اس نے خود کو سنبھال لیا تھا۔ ۔ ۔  پھر باقی لڑکیوں نے بھی باری باری اس کو مہندی لگائی۔ ۔ ۔  مہندی کا فنکشن رات تین بجے ختم ہوا اور پھر مسکان ذمل کو کمرے میں لے آئی۔ ۔

"محبت۔ ۔  خواب۔ ۔ ۔  سفر”

ذمل مہندی کے کپڑے بدل کر کمرے میں آئی تو مسکان سوئی پڑی تھی۔ ۔  اس نے وضو کیا۔ فجر پڑھی اور اللہ سے دعا مانگنے لگی۔ ۔

"اے اللہ آپ نے میرے دل کو ارش کی محبت سے لبریز کیا اس میں آپ کی کوئی مصلحت ہو گی۔  میں آپ سے ارش کو نہیں مانگوں گی اور نہ ہی اپنے دل سے اس کی محبت ختم کرنا مانگوں گی۔ ۔  میں جانتی ہوں جو محبت آپ ڈال سکتے ہیں تو وہ نکال بھی سکتے ہیں ۔ ۔ ۔  آپ مجھے صبر دے دیں ۔ ۔  مجھے سکون دے ہیں اللہ۔ ۔  مجھے اتنا حوصلہ دیں کہ میں مہروز کو قبول کر سکوں تا کہ بابا کا سر میری وجہ سے نہ جھکے ۔ ۔ ۔  اے اللہ میں بہت کمزور ہوں لیکن آپ کو طاقتور ہیں ۔  آپ کے لیئے تو سب کچھ ممکن ہے ۔ ۔ ۔  میرے دل کو پاک کر دیں اللہ۔ ۔  اس میں اپنا نور بھر دے ۔ ۔ ۔ ”

ذمل وہیں جائے نماز پر ہی سو گئی۔ ۔ ۔  صبح دس بجے اس کی آنکھ کھلی۔ ۔  مسکان ابھی تک سوئی ہوئی تھی۔ ۔  اس کا دل قدرے مطمئن ہو گیا تھا۔  وہ جانتی تھی کہ اللہ نے اس کے لیئے اس کے گمان سے بھی زیادہ بہتر سوچا ہو گا۔ ۔ ۔

اس نے منہ ہاتھ دھویا اور کمرے میں آ کر بیڈ کراؤن سے ٹیک لگا کر اپنے میسجز چیک کرنے لگی۔ ۔  ایک میسج پر آ کر وہ پلک جھپکنا ہی بھول گئی۔ ۔

"آج کا دن ہماری زندگی کے لیئے بہت اسپیشل ہو گا ذمل نور محمد کیونکہ آج ہماری جیت ہو گی۔ ۔ ۔ ۔

تمہارا ارش۔ ۔ ۔ ۔ ”

ذمل نے موبائیل آف کیا اور سائیڈ پر دراز میں ڈال دیا۔ ۔  شہلا کمرے میں ناشتہ لے کر آئی تھی۔ ۔

"میں نے سوچا آج آپ کو ناشتہ کروا دوں ۔ ۔  اس کے بعد تو آپ کے ہاتھ کا بنا ناشتہ کرنا پڑے گا مجھے ۔ ۔  کیوں ذمل۔ ۔ ”

"تھینک یو تائی جان۔ ۔ ۔  میرا اتنا خیال رکھنے کے لیئے۔ ۔  میں مسکان نے ساتھ کر لوں گی ناشتہ۔ ۔  آپ آرام کر لیں ۔ ”

"جیسی آپ کی مرضی۔ ۔ ۔ ” شہلا اس کے ماتھے پر پیار کر کے کمرے سے چلی گئی۔ ۔  اس کے بعد ذمل نے مسکان کو جگایا۔ ۔ ۔

—————————

کیوں اتر جاتے ہیں دل میں خاموشی سے

وہ لوگ جن سے مقدر کے ستارے نہیں ملتے

"بھائی آپ کو لگتا ہے جو کچھ ہو رہا ہے وہ ٹھیک ہے ۔ ۔ ۔ ” ارش موبائیل پر لگا ہوا تھا جب اقصیٰ اس کے کمرے میں آ گئی ۔ ۔

"یہ سب اسی طرح سے ہونا لکھا تھا اقصیٰ۔ ۔ ۔  ہم چاہ کر بھی کچھ نہیں کر سکتے ۔ ۔ ” ارش کے آنکھوں میں ٹوٹے خوابوں کی کرچیاں صاف دکھائی دے رہی تھیں ۔

"آپ بہت برے ہیں بھائی۔ ۔  اس میں اس معصوم کا کیا قصور۔ ۔  کیوں کر رہے ہیں آپ ایسے ۔ ۔ ۔ "اقصیٰ رو دینے کو تھی لیکن ارش نے اسے اپنے ساتھ لگا لیا۔ ۔ ۔

"تمہیں اپنے بھائی پر ٹرسٹ ہونا چاہیئے اقصیٰ۔ ۔ ۔  سب ٹھیک ہو جائے گا۔ ۔ ۔ ”

————————–

آخر کار وہ دن آ ہی گیا تھا جس کا سب کو بے صبری سے انتظار تھا۔ ۔  حویلی میں ہر طرف گہما گہمی تھی۔ ۔ ۔  پوری حویلی کو گلاب کے پھولوں سے سجایا گیا تھا۔  گلاب کی دلفریب مہک ہر سُو ایک فسوں بکھیر رہی تھی۔ ۔  اندر کمروں میں ہر طرف لڑکیاں ہی گھسی ہوئی تھیں ۔ ۔  ان کی تیاری ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔

بارات رات آٹھ بجے آنی تھی۔ ۔ ۔  ساری تیاریاں مکمل ہو گئی تھیں ۔ ۔ ۔  شہلا اور وقار ہی سب سنبھال رہے تھے ۔ ۔ ۔

"ارے شہلا یہ دولہا کہاں رہ گیا۔ ۔ ۔  کب شروع ہوں گے فنکشن۔ ” یہ روزی خالہ تھیں جو کراچی سے اس شادی میں شرکت کے لیئے آئی تھیں

"خالہ آپ اس طرف بیٹھ جائیں ۔  بارات آتی ہی ہو گی۔ ۔ ۔  ہمیں بھی اسی کا انتظار ہے ۔ ۔ ۔ ” شہلا نے خالہ کو راستہ دیا۔ ۔ ۔

—————————

مسکان اپنا میک اوور کروا رہی تھی جب ارش کی کال آئی۔ ۔ ۔

"سسٹر ایک منٹ۔ ۔  ضروری کال ہے میری۔ ۔ ۔ ” مسکان ایک سائیڈ پر آ گئی۔ ۔ ۔

"مسکان سب ٹھیک جا رہا ہے ناں ۔  اسے کوئی شک تو نہیں ہوا۔ ۔ ؟؟”

"ابھی تک تو اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا۔ ۔ بدھو ہے وہ بہت۔ ۔ ”

"یہ بتاؤ میری دلہن تیار ہوئی یا نہیں ۔ ۔ ۔ ؟؟” ارش کو شرارت سوجھی۔ ۔ ۔

"بیوٹیشن کے ساتھ ہی ہے وہ۔ ۔  اچھا میں بعد میں بات کرتی۔ ۔ ۔ ۔  تم ذرا جلدی آنا۔ ۔ ۔ ” مسکان نے فون بند کر دیا۔ ۔

————————–

"آپ کی مہندی کا کلر تو بہت ڈارک آیا ہے ۔ ۔  لگتا ہے بہت پیار کرتے ہیں آپ کے ہسبنڈ آپ سے ۔ ۔ ۔ ” ذمل کا دوپٹا سیٹ کرتے وقت بیوٹیشن بولی۔ ۔

"ہاں ۔ ۔ ۔  شاید کرتے ہوں گے ۔ ۔  میں نے کبھی پوچھا نہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ” ذمل نے بے دلی سے کہا۔ ۔  اسے اپنی مہندی میں کوئی انٹرسٹ نہیں تھا۔ ۔

"یہ کیسے ہو سکتا ہے ۔ ۔ ۔  میں نے تو سنا ہے کہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ” وہ بول رہی تھی کہ مسکان نے دروازے سے داخل ہوتے وقت اس کی بات کاٹ دی۔ ۔

"چھ بج گئے ہیں سسٹر تھوڑا جلدی کریں ۔ ۔  لیکن کوئی کمی نہیں رہنی چاہیے ۔ ۔ ۔ ۔  شہزادی لگنی چاہیئے ذمل۔ ”

"بس اب اتنا ٹائم نہیں لگے گا۔ ۔ ۔  فائنل ٹچ رہتا یے صرف۔ ۔ ۔ ” ذمل کو چوڑیاں پہناتے ہوئے وہ بولی۔ ۔ ۔ ۔

"ہماری ذمل چاند کا ٹکڑا لگ رہی ہے ۔  دیکھو ذمل ذرا آئینہ۔ ۔ ۔ ” مسکان نے ذمل کا چہرہ آئینے کی طرف کیا۔ ۔ ۔  ذمل نے مسکرانے پر اکتفا کیا۔ ۔

—————————

کبھی یوں بھی آ میرے روبرو

تجھے پاس پا کے میں رو پڑوں

ذمل اب اسٹیج پر موجود تھی۔ ۔  اس نے فریش ریڈ لہنگا پہنا تھا جس پر گولڈن ہیوی کام ہوا تھا۔ ۔ ۔  گلے میں گولڈ کا بڑا سیٹ تھا جو شہلا کی طرف سے تھا۔ ۔ ۔  سفید دودھیا کلائیوں میں سونے کے بڑے کنگن تھے ۔ ۔ ۔  دوپٹا بہت سلیقے سے سر پر سیٹ ہوا تھا۔ ۔ ۔  وہ بالکل فیری لگ رہی تھی۔ ۔ ۔  سب کی نظریں اسی پر ٹھہر گئی تھیں ۔ ۔

"بارات آ گئی۔ ۔ ۔  بارات آ گئی۔ ۔ ۔ ” باہر شور مچ گیا تھا۔ ۔  ہر طرف شہنائیوں کی گونج تھی۔ ۔ ۔  منجھلے أتش باذی کرتے دکھائی دے رہے تھے ۔ ۔  ذمل کو اس شور سے وحشت ہو رہی تھی۔ ۔ ۔  ابھی کچھ دیر پہلے تک وہ بالکل ٹھیک تھی مگر اب اس کا دل بے وجہ اداس ہو گیا تھا۔ ۔ ۔

مسکان اس کے پاس آ کر بیٹھ گئی۔ ۔ ۔  ایک سیلفی بنائی اور ارش کو بھیج دی۔ ۔ ۔

"ذمل تم کیا موڈ بنا کر بیٹھی ہوئی ہو۔ ۔  اپنی شادی کو انجوائے کرو یار۔ ۔ ۔ ۔  یہ دن بار بار نہیں آتا۔ ۔ ” مسکان نے ذمل کے ہاتھ پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔ ۔

"یہ کیسی شادی ہے مسکان۔ ۔  شادی ہوتی تو شاید میں خوش ہوتی۔ ۔ ۔ ” ذمل کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ ۔

"اب تم پچھتا رہی ہو ذمل۔ ۔  میں نے کتنا سمجھایا تھا لیکن تم نے ایک نہیں سنی۔ ۔ ۔  اب اس سب کو فیس کرنا پڑے گا ذمل۔ ۔ ۔ ” مسکان نے ٹشو بیگ سے نکالا اور ذمل کے آنسو صاف کیئے۔ ۔

"اور خبردار اب میرے سامنے رونا دھونا کیا تو۔ ۔ ۔  سارا میک اپ خراب ہو جائے گا۔ ۔ ۔ ” مسکان نے کلچ سے چیونگم نکالی اور چبانے لگی۔ ۔ ۔  نہ چاہتے یوئے بھی ذمل مسکرا دی۔ ۔

————————–

میری روح کو_____لازم سا ہو گیا ہے

خیال تیرا ہے ____ سانس جیسا

"ذمل بنت نور محمد کیا آپ کو یہ نکاح قبول ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ” ذمل کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ مولوی صاحب کیا کیا پوچھ رہے ہیں ۔ ۔ ۔  اس کے لیئے سب سے مشکل کام اس نکاح کو قبول کرنا تھا۔ ۔ ۔

"مہروز وقار میرا تم سے یہ کاغذی رشتہ تو جڑ جائے گا لیکن میرے دل کا کیا کرو گے ۔ ۔ ۔ ” ذمل نے ایک نظر اپنے بابا پر ڈالی اور نکاح نامے پر سائن کر دیا۔ ۔ ۔ ۔

—————————

‏روگ ہو تم، تو

رُوح میں پل جاؤ

عشق ہو تو

جنوں میں ڈھل جاؤ

گر گماں ہو

یقیں بن جاؤ

تم میرے ہم نشین بن جاؤ۔ ۔ ۔

ہر طرف خوشیاں ہی خوشیاں بکھر گئی تھیں ۔ ۔  فضا معطر ہو گئی تھی۔  سب لوگ دولہے کو مبارکباد دے رہے تھے ۔ ۔ ۔  مٹھائیاں بانٹی جا رہی تھیں ۔ ۔ ۔  آتش بازی ہو رہی تھی۔ ۔ ۔  پوری حویلی میں جشن کا سماں تھا۔

دولہے کو دلہن کے ساتھ لا کر بٹھا دیا گیا تھا۔ ۔  ارش نے تو اپنی دلہن کو دیکھ لیا تھا لیکن گھونگٹ کی وجہ سے ذمل ارش کو نہیں دیکھ سکی تھی۔ ۔  وہ تو بے آواز آنسو بہائے جا رہی تھی۔ ۔ ۔

"ان سب آنسوؤں کا جساب لوں گا مسز ارش آپ سے ۔ ۔ ۔  چلیئے ذرا گھر۔ ۔ ۔ ” ارش دل ہی دل میں مسکرانے لگا۔ ۔

دودھ پلائی کی رسم شروع ہو گئی تھی اور یہ رسم مسکان کر رہی تھی۔ ۔ ۔

"ارش جلدی سے میرے پچاس ہزار نکالو بھئی۔ ۔  اتنا حق تو بنتا یے اب۔ ۔ ۔ ۔ ۔  ورنہ ذمل کے بغیر ہی جانا پڑے   گا۔ ۔ ”

ذمل نے ارش کا نام سن لیا تھا۔ ۔ ۔  اس کے پیروں تلے ذمین نکل گئی تھی۔ ۔ ۔  یا ذمین واپس رکھ دی گئی تھی۔ ۔  اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا کہ یہ سب کیسے ہو گیا۔ ۔ ۔  وہ بے یقینی کی کیفیت میں تھی۔ ۔ ۔  اس کے آنسو مزید گرنے لگے ۔ ۔  مگر یہ آنسو خوشی کے آنسو تھے ۔ ۔ ۔  اس کے ہر سو جلترنگ بجنے لگے ۔ ۔ ۔ ۔

————————–

مسکان نے آتے ساتھ ہی شہلا کو ذمل کی ساری سچائی بتا دی تھی۔ ۔  شہلا نے فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ ذمل کی خوشیوں کو اس طرح قربان نہیں ہونے دے گی۔ ۔ ۔  اس کی خوشیوں کی خاطر وہ کچھ بھی کر سکتی تھی۔ ۔  پہلے اس نے ارش کی ماما سے بات کی۔ ۔  انھیں ارش نے پہلے ہی سب بتا دیا تھا۔ انھیں کیا اعتراض ہو سکتا تھا۔ ۔ ۔ اس کے بعد شہلا نے وقار اور مہروز سے بات کی۔ ۔  وہ دونوں بھی اس کی بات کو جلدی سمجھ گئے تھے لیکن نور محمد کو سمجھانے میں بہت وقت لگا تھا۔ ۔  اسے بیٹی کی خوشیاں عزیز تھیں لیکن شادی کے اتنے قریب آ کر یہ سب بہت غلط لگ رہا تھا۔ ۔  خاندان کی عزت کا سوال تھا۔ ۔  یہ مسئلہ بھی شہلا نے ہی حل کیا۔ ۔  اس نے خاندان کے بزرگوں کو بتا دیا کہ مہروز فی الحال ذمل سے شادی نہیں کر سکتا۔ ۔  اسے ایمرجنسی میں آسٹریلیا جانا پڑ گیا ہے ۔ ۔ ۔  خاندان کی عزت کو دیکھتے ہوئے ذمل کے لیئے ایک اچھا رشتہ دیکھ لیا ہے ۔ ۔ ۔

ذمل سے یہ بات چھپانے کا مشورہ مسکان کا تھا۔ ۔  وہ چاہتی تھی کہ ذمل کو آخری ٹائم پر آ کر یہ سب پتا چلے تا کہ اس کی خوشی بھی لاکھوں میں ہو۔ ۔ ۔

————————-

‏ساری دنیا کی محبت سے کنارہ کر کے

ہم نے رکھا ہے فقط خود کو تمھارا کر کے

ساری رسموں کے بعد ذمل اب ارش کے کمرے میں موجود تھی۔ ۔  پورے کمرے کو گلاب کی پتیوں سے سجایا گیا تھا۔ ۔ ۔  گلاب کی مہک ایک فسوں بکھیر رہی تھی۔ ۔  ذمل کا پورا وجود نکھر گیا تھا۔ ۔  دل ایک ہی نام پر دھڑک رہا تھا۔ ۔ ۔  ارش۔ ۔ ۔

ارش دروازے سے اندر داخل ہوا۔ ۔ ۔  ذمل نے نظریں جھکا لیں ۔ ۔  اس کا دل ذور سے دھڑکنے لگا۔ ۔ ۔  ذمل کی طرف آنے کی بجائے وہ سیدھا واش روم گیا اور کپڑے چینج کر کے باہر آیا۔ ۔

"ان کپڑوں کو چینج کرو اور سو جاؤ۔ ۔  مجھے بہت نیند آ رہی ہے ۔ ۔ ۔ ” ارش نے مسکراہٹ دبا کر بظاہر سنجھیدہ چہرے کے ساتھ کہا۔ ۔

ارش وہیں بیڈ کے ایک طرف لیٹ گیا۔ ۔ ۔  ذمل کو بہت غصہ آ گیا تھا۔ ۔  وہ ویسے ہی بیٹھی رہی۔ ۔ ۔  اس نے کوئی حرکت نہیں کی۔ ۔

"جب یہی سب کرنا تھا تو شادی کیوں کی تھی۔ ۔ ۔  تم سے اچھا تو وہ مہروز ہے ۔ ۔ ۔ ” ذمل غصے میں بڑبڑانے لگی۔ ۔ ۔  ارش کی مسکراہٹ گہری ہو گئی۔ ۔ ۔  اس نے اپنے گرد چادر لپیٹ دی۔ ۔

"شادی مجھ سے کی یے اور میری نیند خراب کر کے کیسے مزے سے سو رہا ہے ۔ ۔  پہلے تو بڑا پیار یاد آ رہا تھا۔ ۔ ۔ ۔ ” وہ بیڈ سے اٹھنے لگی تو ارش اٹھا اور اس کے پاس آ کر بیٹھ گیا۔ ۔

"جتنا تم نے ستایا ہے ناں ذمل اس کے آگے تو یہ کچھ بھی نہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ” اس نے ذمل کے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے لیئے۔ ۔ ۔

"تو کیا اس سب کا بدلہ یوں لو گے ارش۔ ۔ ۔ ” ذمل کی آنکھوں سے آنسو نکلنے لگے جو اس کے چہرے کو تر کر گئے۔

"بدلہ تو لے لیا ہے ۔ ۔  تمہی۔  اپنی بیوی بنا کر۔ ۔ ۔ ” ارش نے اس کے ناک پر چٹکی کاٹی۔ ۔ ۔

"میں تو مجبور تھی ارش۔ ۔ ۔  ایک بیٹی تھی میں ۔ ۔ ۔  بابا کا مان کیسے توڑ سکتی تھی۔ ۔ ۔  تم نے کیوں اتنی دیر کر دی آنے میں ۔ ۔ ۔ ۔ ” ارش اب ذمل کے آنسوؤں کو اپنی پوروں پر چن رہا تھا۔ ۔

"تم نے خود ہی مجھے منع کر دیا تھا۔ ۔  سارے راستے تو تم نے بند کر دئیے تھے ۔ ۔  پھر میں کیسے تم تک پہنچ پاتا ذمل۔ ۔ ۔ ” ارش نے اس کو اپنے قریب کیا۔ ۔ ۔  اس کی سانسوں کی مہک ذمل تک پہنچ رہی تھی جو اسے مزید دیوانہ بنا رہی تھی۔ ۔ ۔ ۔

"ہر بات تو سچ نہی کہہ سکتی میں ارش۔ ۔  کچھ باتیں تمہیں خود سمجھنی پڑیں گی۔ ۔ ۔ ۔ ” ذمل نے خود کو ارش کے حصار میں چھپا لیا۔ ۔ ۔  ارش نے لیمپ آف کر دیا۔ ۔ ۔ ۔  ذمل کو یہ سب کچھ ایک حسین خواب لگ رہا تھا۔ ۔ ۔  زندگی اسے کتنا نواز رہی تھی۔ ۔ ۔

————————–

میرا لہجہ ___ میری باتیں

بہت ہی عام ___ ہیں لیکن

میں جذبہ پاک رکھتی ہوں

محبت خاص رکھتی ہوں

شادی کو ہفتہ گزر گیا تھا۔ ۔  ارش اور ذمل آج ہنزہ کی جھیلیں دیکھنے آئے ہوئے تھے ۔ ۔ ۔  وہ لوگ اتا آباد جھیل پر ایک کشتی میں موجود تھے ۔ ۔ ۔

"دیکھو مسز ارش میں نے کیا کہا تھا کہ ایک دن تم خود مجھے یہاں کی سیر کرواؤ گی۔ ۔ ۔ ”

"مجھے کچھ بھی یاد نہیں ہے بدھو۔ ۔ ۔  میں تو سب بھول چکی ہوں ۔ ۔ ” ذمل اپنے ماتھے پر آئی لِڈ کو پیچھے کرتے ہوئے بولی۔ ۔ ۔

"اچھا یہ بتاؤ یہ کونسی جھیل ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ” ارش نے ذمل کے قریب ہو کر سرگوشی کی ۔ ۔

"بدھَو کے بدھو ہی رہو گے تم۔ ۔ ۔  کتنی مرتبہ بتانا پڑے گا یہ ہے اتا آباد جھیل اور یہ یہاں کی بہت خاص جھیل ہے ۔ ۔ ۔  ”

"جیسے تم میرے لیئے بہت خاص ہو۔ ۔ ۔ ۔ ” ارش نے ذمل کو اپنے قریب کر دیا۔ ۔ ۔  دور کہیں قسمت کی دیوی سنہرے قلم سے ان کی قسمت لکھ رہی تھی۔ ۔ ۔

محبت کرنا۔ محبت کے خواب دیکھنا گناہ نہیں ہے ۔ ۔  محبت تو وہ پاکیزہ جذبہ ہے جسے اللہ خود ہمارے دلوں میں ڈالتا ہے ۔ ۔ ۔  محبت کو پانے کے لیئے کسی بھی حد کو پار کرنا غلط ہے ۔ ۔  اگر آپ کی لگن سچی ہوئی تو اللہ آپ کو ضرور نوازے گا۔ ۔ ۔ ۔  اپنی محبت اتنی پاکیزہ رکھیں کہ اللہ بھی دیکھے تو کہے "کُن فَیَکون”

٭٭٭

ماخذ:

https://www.facebook.com/UrduNovelsnbooks/posts/1933395633615915:0

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

ڈاؤن لوڈ کریں

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل