FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

دھُوپ کے پگھلنے تک

 

حصہ سوم

 

               امجد جاوید

 

 

 

 

 

چھاکا تیار ہو کر باہر جانے کے لئے صحن میں آیا تو چاچے سوہنے نے اسے دیکھ کر پوچھا

’’اوئے کدھر جا رہا ہے تو اس ویلے؟‘‘

’’پتہ کروں کہ سراج ابھی آیا ہے کہ نہیں۔ ورنہ پھر مجھے اکیلے ہی تھانے جانا پڑے گا۔ فہد کے لیے کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی ہو گا نا کیونکہ اک ہی تو چھاکا ہے اس پنڈ میں جس کی پورے علاقے میں دس پوچھ ہے۔ ‘‘ چھاکے نے کہا توچاچا سوہنا بولا

’’او جان دے پتر، تو کیا کر سکتا ہے۔ تجھے تو کوئی تھانے میں داخل نہیں ہونے دے گا۔ اوئے ہماری اوقات ہی کیا ہے۔ ‘‘

’’بات اوقات کی نہیں ، دوستی کی ہے، میں جا رہا ہوں۔ ‘‘ یہ کہہ کر چھاکا باہر جانے لگا تو اتنے میں ان کا دروازہ کھلا اور ماکھا اپنے بندوں کے ساتھ دھڑ دھڑ اندر آ گیا۔ ماکھے کو اس طرح اندر آتے دیکھ کر چھاکا بولا

’’اوئے ماکھے۔ تجھے تمیز نہیں ہے کہ کسی کے گھر کیسے آتے ہیں۔ ‘‘

ماکھے نے جواب نہیں دیا بلکہ اسے گریبان سے پکڑتے ہوئے بولا، ’’ بس، اب آواز نہیں نکالنی۔ ‘‘ یہ کہتے ہوئے اس نے چھاکے کو دھکا دے کر اپنے ساتھ آئے لوگوں سے کہا، ’’ لے چلو اسے۔ ‘‘

’’یہ، یہ۔۔۔ کیا کر رہے ہو ماکھے؟‘‘ چاچے سوہنے نے کہا تو اس نے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر خاموش رہنے کا اشارہ کیا۔ اس دوران اس کیساتھ آئے بندوں نے چھاکے کو پکڑ لیا۔ تب ماکھے نے حقارت سے کہا

’’ذات کی کوڑھ کِرلی اور چھتیروں کو جپھے۔ پنڈ کی تھاں تھاں پر دونوں چوہدریوں کے خلاف باتیں کرتے ہو، برا بھلا کہتے ہو چوہدریوں کو۔ ظلم کرتے ہیں چوہدری ۔۔۔ چل، ڈیرے پر وہیں چل کر تم سے بات کرتے ہیں۔ ‘‘

’’دیکھ ماکھے تو چھاکے کو چھوڑ دے۔ میں تیرے ساتھ چلتا ہوں۔ یہ تو پاگل ہے، میں جا کر چوہدری سے معافی مانگ لوں گا۔ ‘‘ چاچا سوہنا منت بھرے انداز میں بولا تو ماکھے نے انتہائی تضحیک سے کہا

’’ اوئے چلو آگے لگو، وہیں ڈیرے پر چل کر بات کرتے ہیں۔ ‘‘

یہ کہہ کر ماکھا باہر کی جانب نکلا تواس کے ساتھ آئے بندے ان دونوں کو آگے لگا کر باہر کی جانب چل دئیے۔

ماکھے نے ان دونوں کو لے جا کر ڈیرے پر پھینک دیا۔ کچھ ہی دیر بعد چوہدری کبیر کی کار ڈیرے میں داخل ہوئی۔ کار روک کر چوہدری کبیر باہر آیا۔ اس کے سامنے چاچا سوہنا اور چھاکا بندھے ہوئے پڑے تھے۔ کبیر نے ان کی طرف بڑے غصے سے دیکھا اور ان کے قریب پڑی کرسی پر بیٹھ گیا۔ اسے دیکھ کر چاچا سوہنا منت بھرے انداز میں بولا

’’چوہدری ہم سے ایسا کیا جر م ہو گیا ہے کہ یہ لوگ ہمیں باندھ کر یہاں لے آئے ہیں۔ ‘‘

اس پر چوہدری کبیر نے اس کی طرف نہایت حقارت سے دیکھا اور پھر غصے میں بولا

’’اوئے سوہنے۔ ! چوکوں میں بیٹھ کر ہمارے خلاف باتیں کرتا ہے اور تیرا یہ پتر، ہمارے دشمنوں کے ساتھ دن رات پھرتا ہے ہمارے خلاف سازشیں کرتا ہے۔ اوئے یہ کوئی جرم ہی نہیں ہے؟‘‘

اس کے یوں کہنے پر چاچا سوہناخوف زدہ ہو کر بولا

’’چوہدری جی، ہم کمی کمین، ہماری اوقات ہی کیا ہے جو آپ کے خلا ف سوچیں بھی، منہ سے کوئی بات نکل گئی ہو گی۔ معاف کر دیں چوہدری صاحب، آئندہ چھاکا کبھی ان کے ساتھ نظر نہیں آئے گا۔ ‘‘

’’اوئے نظر تو یہ اب ویسے بھی نہیں آئے گا۔ تجھے پتہ ہے کہ ہم اپنے دشمنوں کو کبھی نہیں چھوڑتے۔ یہ بھی ایسا غائب ہو گا کہ۔۔۔‘‘ چوہدری کبیر نے غصے میں کہا توچاچاسوہناتڑپ کر بولا

’’نہ، نہ نکے چوہدری صاحب نہ، خدا کے لیے ایسا مت کرنا۔ یہ بے وقوف ہے۔ فہد کے پاس ملازمت کرتا ہے۔ میں نے عرض کیا ہے نا اب یہ کبھی ان کے پاس نہیں جائے گا پوچھ لیں چاہئے اس سے پوچھ لیں۔ ‘‘

’’میں پوچھتا نہیں سوہنے، حکم دیتا ہوں۔ اس کے مر جانے سے علاقے کے لوگوں کو پتہ چل جائے گا کہ جو بندہ بھی ہمارے خلاف سوچے گا، اس کا انجام کیا ہوتا ہے۔ اُوئے لے جا ماکھے اسے۔ شکل گم کر اس کی۔ ‘‘ چوہدری کبیر نے اسی غرور سے کہا تو چھاکے نے غضب ناک نگاہوں سے چوہدری کبیر کی طرف دیکھا۔ چاچا سوہناشدت سے بولا

’’خدا کے لیے رحم کریں نکے چوہدری جی، خدا کے لیے رحم کریں۔ معاف کر دیں اسے، معاف کر دیں۔ ‘‘

لیکن چاچے سوہنے کی ایک نہیں سنی گئی۔ ماکھے اور دوسرے ملازمین چھاکے کو کھینچ کر اندر لے گئے۔

’’ہونہہ معافی، اس وقت یاد نہیں آیا جب ہمارے خلاف فہد کا ساتھ دے رہے تھے۔ ‘‘ چوہدری کبیر نے کہا توچاچا سوہنا بے دم سا ہو گیا۔

’’رحم کریں چوہدری جی رحم۔ ‘‘ چاچے سوہنے نے منت کرتے ہوئے کہا تو چوہدری کبیر نے سوچتے ہوئے کہا

’’ایک ہی صورت ہے سوہنے، تیرا پتر بچ سکتا ہے، جیسا ہم کہیں ویسا کرنا ہو گا۔ ‘‘

’’میں ویساہی کروں گا آپ حکم دیں۔ ‘‘ چاچا سوہنا تیزی سے بولا

’’تو پھر سن ۔۔۔تُو امین ارائیں کے قتل کا چشم دید گواہ ہے۔ ‘‘

یہ سن کر وہ حیرت سے بولا

’’یہ، یہ، کیسے ہو سکتا ہے؟‘‘

’’تو نے امین ارائیں کو اپنی ان آنکھوں سے قتل ہوتے ہوئے دیکھا ہے اور اس کا قاتل فہد ہے۔ ‘‘

چاچے سوہنے نے پاگلوں کی طرح اسے دیکھا اور سرسراتے ہوئے بولا

’’یہ، یہ، کیا چوہدری جی۔ ‘‘

’’اس کی گواہی تم تھانے اور عدالت میں دو گے۔ اگر یہ گواہی نہیں دی تو تیرا پتر نہیں رہے گا۔ یہی تیری سزا ہے۔ بول تو چشم دید گواہ ہے، تُو گواہی دے گا؟‘‘

یہ سن کر چاچا سوہنا پھوٹ پھوٹ کر روتے ہوئے بولا

’’ہاں چوہدری جی، میں امین ارئیں کے قتل کا چشم دید گواہ ہوں۔ میں نے اس کا قتل ہوتے دیکھا ہے، میں گواہی دوں گا، میں گواہی دوں گا۔ پر میرا پتر تو بچ جائے گا نا؟‘‘

’’ہاں ، پھر تیرا پتر بچ جائے گا۔ ورنہ سمجھو، وہ اوپر پہنچ گیا۔ ‘‘ چوہدری کبیر نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا

’’نہیں چوہدری جی، ہم آپ کی رعایا ہیں ، ہو گا وہی جو آپ کہیں گے۔ ‘‘ چاچا سوہنا روتے ہوئے بولا

’’چل ٹھیک ہے جا، کل جا کر تھانے میں گواہی دے دینا، تیرا پتر گھر آ جائے گا۔ اب جا شکل گم کر اپنی چل۔ ‘‘

چاچے سوہنے نے بے بسی سے کبیر کی طرف دیکھا اور روتا ہوا وہاں سے چل دیا۔ آگے جاتے ہوئے وہ پیچھے مڑ مڑ کر دیکھتا رہا۔ اس کی حالت دیکھ کر چوہدری کبیر کے ہونٹوں پر مسکراہٹ مزید گہری ہوتی چلی گئی۔

٭٭

 

چاچا سوہنا اپنی روداد سنا کر خاموش ہو گیا۔ تھانیدار ایک طرف پریشان کھڑا تھا۔ فہد ایک کرسی پر براجمان تھا۔ جعفر نے تھانیدار کی طرف غضب ناک انداز میں دیکھا پھر سخت لہجے میں پوچھا

’’کیا یہ غلط کہہ رہا ہے؟‘‘

’’سر جی، میرا اس میں کیا قصور؟یہ کس سے بلیک میل ہوا ، کیسے ہوا؟ مجھے تو اس کا علم نہیں ، اس نے جو بیان دیا میں نے وہ لکھ لیا۔ ‘‘ تھانیدار نے اپنا دامن بچانے کی کوشش کی تو جعفر نے دھاڑتے ہوئے پوچھا

’’خالی پیپر پر؟میں سمجھ گیا کہ اس میں تیرا کتنا قصور ہے۔ تیرے جیسے کالے لوگوں نے محکمے کی حالت بری کی ہوئی ہے۔ سنو۔ ! میں نہ تو تمہیں معطل کروں گا، ، اور نہ ہی تیرا یہاں سے تبادلہ ہونے دوں گا۔ تو جانتا ہے کہ یہ تیرے لیے کتنی بڑی سزا ہو گی۔ ‘‘

تھانیدار یہ سن کر ایک دم سے چکرا گیا۔ اگلے ہی لمحے اس نے پینترا بدلتے ہوئے کہا

’’سر جی، میرا قصور نہیں ہے۔ آپ جو حکم کریں گے، میں تو وہی کروں گا نا جی۔ ‘‘

’’تو پھر ایسا کر، فوری طور پر چھاکے کو لے کر قتل والی جگہ پر پہنچ، میں وہ موقعہ دیکھنا چاہتا ہوں۔ اب میں نے یہ نہیں سننا کہ وہ چوہدری کے ڈیرے پر نہیں تھا۔ ‘‘ جعفر نے کہا تو تھانیدار فوراً ہی سیلوٹ مارتے ہوئے بولا

’’میں سمجھ گیا جی، میں جاتا ہوں جی‘‘

یہ کہتے ہوئے وہ فورا پلٹ گیا۔ اس کے جانے کے بعد چاچے کی طرف متوجہ ہو کر جعفر نے پوچھا

’’ان بندوں کو جانتے ہو تم؟‘‘

’’جی وہ چوہدریوں کے نوکر چاکر ہیں ، خاص کر نکے چوہدری کے۔ ‘‘

’’جاؤ چاچا۔ ابھی کچھ دیر تک تیرا بیٹا نہ آئے تو بتانا۔ میں ابھی یہیں ہوں۔ ‘‘

جعفر نے کہا تو چاچا سوہنا ممنونیت سے بولا

’’بہت مہربانی، بڑا شکریہ، میرے پاس دعاؤں کے سوا کچھ نہیں ہے صاحب جی۔ ‘‘

’’تم جاؤ میں تم سے بعد میں ملوں گا۔ ‘‘ جعفر نے کہا

چاچا وہاں سے چلا گیا۔ تبھی فہد نے کہا

’’تمہیں نہیں اندازہ یہاں لوگ کس قدر خوف زدہ ہیں۔ جب تک چوہدریوں کا یہ خوف ختم نہیں ہو گا۔ لوگ مجھ پر بھروسہ نہیں کریں گے۔ ‘‘

’’ہوں میں سمجھتا ہوں خیر۔ ‘‘ یہ کہہ کر اس نے تھانے میں موجود دوسرے لوگوں سے باتیں کرنے کا سوچا اور انہیں اپنے پاس بلانے لگا۔

٭٭

 

کار ڈرائیو کرتے ہوئے مائرہ کے چہرے پر پریشانی تھی۔ اس نے اپنی کار جعفر کے گھر کے سامنے کار روکی اور پھر اُتر کر بیل دے دی۔ چند لمحے انتظار کرنے بعد اس نے دو بارہ بیل دی تو گھر کا ملازم باہر آ گیا اس نے مائرہ کو پہچانتے ہوئے کہا

’’جی مائرہ صاحبہ آپ آ جائیں اندر؟‘‘

مائرہ نے اس کی بات سنی ان سنی کرتے ہوئے پوچھا

’’جعفر کہاں ہے۔ وہ فون کیوں نہیں پِک کر رہا ہے خیریت تو ہے نا؟‘‘

’’جی فون کا تو مجھے پتہ نہیں ، ویسے وہ کل شام کے یہاں نہیں ہیں۔ ان کا تبادلہ ہو گیا ہے۔ مجھے بھی انہوں نے فون پر بتایا تھا۔ کل شام سے وہ یہاں گھر نہیں آئے۔ ‘‘

اس پر مائرہ نے حیرت سے پوچھا

’’تبادلہ؟ وہ کہاں ، کیا وہ یہاں نہیں ہے؟‘‘

’’جی نہیں۔ ان کا اچانک تبادلہ کسی دور کے قصبے نور پور میں ہو گیا ہے۔ ‘‘ ملازم نے بتایا

’’حیرت ہے، مجھے بتایا ہی نہیں اس نے۔ فون بھی نہیں مل رہا ہے۔ ‘‘ مائرہ نے حیرت بھرے انداز میں کہا تو ملازم بولا

’’بتا یا نا کہ وہ اچانک یہاں سے نکلے ہیں اور بہت جلدی میں تھے۔ اور آپ آئیں اندر بیٹھیں۔ میں چائے بناتا ہوں آپ کے لئے۔ ‘‘

’’نہیں میں اب چلتی ہوں۔ مجھے آفس سے دیر ہو رہی ہے۔ اچھا، اس سے جب بھی رابطہ ہو میرے بارے میں بتانا۔ ‘‘ مائرہ نے کہا اور کار کی جانب پلٹی تو ملازم نے کہا

’’جی بہتر۔ ‘‘

مائرہ مڑ کر کار میں جا بیٹھی اور اگلے چند لمحوں میں وہ کار بڑھا کر چلی گئی۔

مائرہ اپنے آفس میں آئے زیادہ وقت نہیں ہوا تھا۔ وہ اپنے لیپ ٹاپ پر مصروف تھی۔ ایسے میں اس کا سیل فون بجا۔ پہلے تو وہ اس کال کو نظر انداز کرتی رہی۔ پھر سرسری سا فون سکرین دیکھ کر چونک کر فون اٹھا لیا۔ فون رسیو کر کے مائرہ نے تعجب سے کہا

’’ہیلو۔ !‘‘

’’میں فہد بات کر رہا ہوں مائرہ۔ !کیسی ہو ؟‘‘

اس کی آواز سن کر مائرہ خوشی سے جھوم اٹھی

’’فہد تم۔۔۔ مجھے تو یقین ہی نہیں ہو رہا ہے کہ یہ تم بات کر رہے ہو۔ کیسے ہو تم۔ ٹھیک تو ہو نا؟

’’ہاں میں ٹھیک ہوں۔ تمہیں یقین کیوں نہیں آ رہا۔ کیا میں نے پہلے کبھی بات نہیں کی ؟ فہد نے کہا تو وہ بولی

’’تو پھر آج اتنے عرصے بعد تمہیں میرا خیال کیسے آ گیا۔ تم ٹھیک تو ہو نا؟‘‘

’’میں ٹھیک ہوں۔ تمہارا کیا مطلب، میں ٹھیک نہیں ہوں گا۔ تبھی تمہیں فون کروں گا۔ کیا تم یہی آس لگائے بیٹھی ہو۔ ‘‘ وہ ہنستے ہوئے بولا

’’نہیں نہیں میرا مطلب یہ نہیں تھا۔ یہ اچانک تمہارا فون آنا، تو شاید۔۔۔‘‘ وہ کہتے کہتے خاموش ہو گئی۔

’’ میں نے اس وقت فون کیوں کیا۔ اس کی تفصیلات میں پھر کسی وقت سناؤں گا۔ اس وقت مجھے تمہاری یاد آئی تو میں نے فون کر لیا۔ خیر چھوڑو۔ !بتا ؤ۔ کیسا چل رہا ہے سب۔ ‘‘ اس نے خوشدلی سے کہا

’’سب ٹھیک ٹھاک چل رہا ہے۔ بس تمہاری کمی شدت سے محسوس کرتی ہوں۔ اب تو ماما نے بھی میری شادی کے لیے کہنا چھوڑ دیا ہے۔ تم سناؤ۔ کیسے ہو۔ تمہارا جی لگ گیا ہے وہاں پر۔ کب آ رہے ہو واپس؟‘‘ مائرہ نے پوچھا تو وہ دھیرے سے بولا

’’پتہ نہیں ، میں کچھ کہہ نہیں سکتا۔ خیر۔ !تم اپنا بہت خیال رکھنا۔ میں پھر فون کروں گا، اللہ حافظ‘‘

’’میں انتظار کروں گی۔ اللہ حافظ‘‘ مائرہ نے کہا تو دوسری طرف سے فون بند ہو گیا۔ وہ حیرت سے فون کو دیکھتی رہی پھر اپنے خیالوں میں کھو گئی۔

٭٭

 

حویلی کے پورچ میں کار کھڑی ہوئی تھی۔ چوہدری جلال حویلی سے باہر نکلا۔ وہ کا ر میں بیٹھنے لگا تو سامنے سے منشی کو تیز تیز آتا دیکھ کر چونک گیا۔ منشی تیزی سے قریب آیا تو چوہدری جلال نے پوچھا

’’اوئے خیر تو ہے منشی تجھے؟‘‘

’’وہ تھانیدار، فہد کو عدالت نہیں لے جا سکا۔ تھانے میں اچانک کوئی نیا اے ایس پی آ گیا ہے۔ ‘‘ منشی نے مودب لہجے میں اور پھولی سانس کے درمیان کہا تو چوہدری جلال چونکتے ہوئے بولا

’’نیا اے ایس پی؟میری اجازت کے بغیر یہ کیسے ممکن ہے۔ کل تک تو ایسی کوئی بات نہیں تھی۔ یہ راتوں رات کیا ہو گیا ہے؟‘‘

’’جی چوہدری صاحب، پتہ کریں ، یہ کوئی جعلی لوگ ہی نہ ہوں۔ ‘‘

’’کہتا کیا ہے وہ نیا اے ایس پی؟‘‘ چوہدری جلال اس کی بات نظرانداز کر کے بولا

’’ابھی تھانیدار کا پیغام آیا ہے۔ اس نے بندہ بھیجا ہے۔ اسی نے تفصیل بتائی ہے۔ اس نے آتے ہی فہد کی ہتھکڑی اتروا دی۔ کہتا ہے میں خود تفتیش کروں گا۔ اس نے تو آتے ہی تھانیدار کو دیوار کے ساتھ لگا دیا۔ پتہ کریں جی یہ تبادلہ ہو کیسے گیا؟‘‘ منشی نے تیزی سے کہا

’’میں ابھی نور پور ہی جا رہا ہوں۔ وہاں جاتے ہی معلوم کرتا ہوں کہ یہ کیا بات ہوئی ہے۔ تم کبیر سے کہو وہ تھانے کے معاملات کا خیال رکھے۔ ‘‘ چوہدری جلال نے لاپرواہی سے کہا تو منشی بولا

’’جی میں کہہ دیتا ہوں۔ دیکھیں چوہدری صاحب اگر معاملہ الٹا ہو گیا تو بہت غلط ہو جائے گا۔ ‘‘

’’اوئے تو ایویں ڈر رہا ہے۔ میں جا رہا ہوں نا۔ تمہیں جو کہا ہے وہ کرو۔ ‘‘ چوہدری جلال نے اسے جھڑکتے ہوئے کہا تو وہ مودب لہجے میں بولا

’’جی چوہدری صاحب‘‘

یہ کہہ کر وہ پیچھے ہٹ گیا۔ چوہدری جلال کا ر میں بیٹھا تو کار چل پڑی۔ منشی حویلی کی طرف بڑھتا چلا گیا۔

٭٭

سلمٰی اپنے کمرے میں اداس بیٹھی ہوئی سوچوں میں کھوئی تھی کہ اسے دستک کی آواز آئی۔ وہ چونک گئی جیسے کوئی خوشی کی نوید مل گئی ہو۔ وہ فوراً اٹھی اور باہر کی جانب لپکی۔ وہ والہانہ پن میں دروازے تک گئی۔ اس کے انداز میں اضطراب تھا۔ اس نے جلدی سے دروازہ کھولا، سامنے فہد کھڑا تھا۔ اس نے خوشی سے اسے راستہ دیا تو وہ اندر آ گیا۔ دونوں صحن میں آئے توسلمٰی نے دبی دبی خوشی میں پوچھا

’’آپ آ گئے، کیوں لے گئے تھے آپ کو؟‘‘

’’ہاں میں آ گیا اور کیوں لے گئے تھے۔ اس کا مجھے بھی نہیں پتہ۔ لیکن تم نے بنا پوچھے یونہی دروازہ کھول دیا۔ کوئی اور بھی ہو سکتا تھا۔ ‘‘ فہد نے کہا توسلمٰی بولی

’’میں آپ کی دستک پہچانتی ہوں۔ اور مجھے یقین تھا کہ یہ آپ ہی ہیں کوئی دوسرا نہیں ہو سکتا۔ ‘‘

’’سلمٰی۔ !اتنا یقین ہے میر ی ذات پر؟‘‘ فہد نے پوچھا

’’ہاں۔ !اب تو خود سے بھی زیادہ ہے۔ اور مجھے تو یہ بھی یقین ہے کہ آپ کو کچھ نہیں ہو سکتا۔ ‘‘

اس پر فہد نے چونک کر اسے دیکھا اور بات بدلتے ہوئے پوچھا

’’استاد جی کہاں ہیں ؟وہ پریشان تو ہوں گے؟‘‘

’’ہاں۔ !وہ بہت پریشان تھے۔ پھر کوئی خیر خبر بھی تو نہیں تھی آپ کی۔ ان کی طبعیت خراب ہونے لگی تھی۔ میں نے انہیں دوائی دے دی۔ اب وہ اندر پڑے سو رہے ہیں۔ انہیں جگا دوں ؟‘‘ سلمی نے تیزی سے کہا

’’نہیں سونے دو انہیں۔ میں انہیں کچھ دیر بعد آ کرمل لوں گا۔ ابھی مجھے ایک کام سے جانا ہے۔ بس یہی بتانے آیا تھا کہ اب پریشان نہیں ہونا۔ ‘‘ فہد نے کہا توسلمٰی جلدی سے بولی

’’آپ آؤ نا، کچھ کھا لو آپ نے کچھ نہیں کھایا ہو گا؟‘‘

’’نہیں ، ابھی نہیں ، میں بس بتانے آیا تھا کہ میں ٹھیک ہوں واپس آ گیا ہوں ، پریشان نہیں ہونا۔ ‘‘ فہد نے کہا تو وہ زیادہ اضطراب سے بولی

’’آپ کچھ دیر تو بیٹھیں ، میں آپ کے لیے چائے بنا کر لاتی ہوں پھر باتیں کریں گے۔ ‘‘

اس پر فہد نے اس کے چہرے پر دیکھا پھر ذرا سوچ کر بولا

’’چل بناؤ چائے، میں بیٹھتا ہوں۔ ‘‘

یہ سن کر سلمٰی جیسے خوشی سے نہال ہو گئی۔ وہ تیزی سے اندر چلی گئی۔ فہد اسے مسکراتے دیکھتا ہوا صحن میں پڑی کرسی کی طرف بڑھ گیا۔

٭٭

 

قسمت نگر اور نور پور سے ہٹ کر ایک چھوٹا سا گاؤں عزیز آباد تھا۔ ملک نعیم کا ڈیرہ اسی گاؤں سے باہر تھا۔ ملک نعیم بڑا خدا ترس انسان تھا۔ لوگوں کو اس سے بہت ساری امیدیں رہتی تھیں۔ دو بار اس نے قومی اسمبلی کا الیکشن لڑا۔ اس کا مقابلہ چوہدری جلال سے ہوتا اور وہ دونوں بار الیکشن ہار گیا تھا۔ وہ لمبے قد کا باریش اور سنجیدہ انسان تھا۔ اگرچہ اس کی شخصیت با رعب تھی لیکن وہ اندر سے بہت نرم دل واقع ہوا تھا۔ اس وقت ملک نعیم ڈیرے کے ایک کمرے میں صوفے پر بیٹھا ہوا اخبار پڑھ رہا تھا۔ اتنے میں اس کا مزار ع بخشو اندر آ گیا۔ ملک نعیم نے اسے اخبار کے اوپر سے دیکھا اور خوشگوار انداز میں پوچھا

’’اوئے آ بخشو، کیا حال ہے تیرا تمہاری بیٹی کی شادی تو ٹھیک ٹھاک ہو گئی ہے نا؟‘‘

’’جی ملک صاحب آپ کی مہربانی سے سب ٹھیک ہو گیا ہے۔ میں یہی بتانے اور آپ کا شکریہ ادا کرنے آیا تھا۔ آپ میری مدد نہ کرتے تو میں اپنی بیٹی۔۔۔‘‘

تبھی ملک نعیم نے اس کی بات کاٹتے ہوئے عاجزی سے کہا

’’اوئے بخشو شکر ادا کر اس سوہنے پروردگار کا، جس نے مجھے دیا اور میں نے تمہیں دیا۔ اس میں میری کیا مہر بانی ہے بھلا۔ ‘‘

’’ نہیں ملک صاحب، جتنا آپ نے دیا، اتنا میں ساری زندگی نہیں کما سکتا تھا میری بیٹی عزت سے اپنے گھر رخصت ہو گئی۔ ‘‘ بخشو نے ممنونیت سے کہا تو ملک نعیم نے کہا

’’اچھا، اچھا، ٹھیک ہے۔ اب خدا کے لیے اس کا ڈھنڈورا نہ پیٹتے پھرنا جو تھوڑی بہت نیکی کی ہے وہ بھی ضائع ہو جائے۔ ‘‘ لفظ اس کے منہ ہی میں تھے کہ اتنے میں اس کا خاص ملازم کریم داد اندر آ کر بولا

’’ملک صاحب۔ ! وہ باہر نیا اے ایس پی آیا ہے، کہہ رہا ہے کہ آپ سے ملنا چاہتا ہے۔ ‘‘

’’ نیا اے ایس پی؟ وہ یہاں کیوں ، خیر بلاؤ اسے اور بخشو اب تو جا۔ ‘‘ ملک نعیم نے کہا تو کریم داد باہر چلا گیا۔

’’اللہ آپ کا بھلا کرے، اللہ آپ کو اور زیادہ دے۔ ‘‘

یہ کہتے ہوئے بخشو بھی باہر چلا گیا تو جعفر اندر آ گیا۔ ملک نعیم نے اٹھ کر اس سے ملایا۔ ہاتھ ملاتے ہوئے جعفر نے کہا

’’ملک نعیم صاحب مجھے جعفر رضا کہتے ہیں۔ ‘‘

’’پلیز تشریف رکھیں جعفر صاحب۔ ‘‘

دونوں آمنے سامنے صوفوں پر بیٹھ گئے تو جعفر نے کہا

’’میں نے آج صبح ہی نور پور میں چارج لیا ہے اور آج ہی مجھے قسمت نگر میں ایک تفتیش کے لیے جانا پڑا۔ وہیں سے مجھے آپ کے بارے میں معلوم ہوا تو سوچا آپ سے ملتا چلوں۔ ‘‘

’’بہت اچھا کیا آپ نے، فرمائیں میں آپ کی کیا خدمت کر سکتا ہوں۔ ‘‘ ملک نعیم نے پوچھا

’’ ملک صاحب، خدمت میری نہیں اپنے علاقے کے لوگوں کی کیجئے۔ انہیں آپ کی بہت ضرورت ہے۔ ‘‘

جعفر کی یہ بات سن کر ملک نعیم ایک لمحے کے لئے چونک گیا۔ پھر دھیمے لہجے میں بولا

جعفر صاحب، میں نے دو بار ایم این اے کا الیکشن لڑا ہے اور دونوں بار ہار گیا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ علاقے کے عوام مجھے نہیں چاہتے۔ باقی جو مجھ سے ہو سکتا ہے، وہ میں کرتا رہتا ہوں۔ ‘‘

’’عوام آپ کو نہیں چاہتے، کیا صرف یہی وجہ ہے؟‘‘ جعفر نے پوچھا تو ملک نعیم نے اس کی بات سمجھتے ہوئے کہا

’’میں آپ کی بات سمجھ رہا ہوں کہ آپ کہنا کیا چاہتے ہیں ، دیکھیں عوام پر خوف کی فضا طاری ہے کہ نجانے کیا ہو جائے گا۔ یہ غنڈہ گردی ہے اور جو کچھ چوہدری جلال کرتا ہے، شاید وہ مجھ سے نہ ہو سکے۔ بس ایسی ہی وجوہات ہیں۔ ‘‘

’’ملک صاحب، اگر آپ مایوس نہیں ہوئے اب بھی آپ میں ہمت اور حوصلہ ہے۔ تو آپ آئیں میرے آفس، مجھے آپ سے بہت ساری باتیں کرنا ہیں۔ ‘‘ جعفر نے ایک دم سے کہا تو ملک نعیم نے مسکراتے ہوئے کہا

’’میں اللہ کی رحمت سے کبھی مایوس نہیں ہوا جعفر صاحب۔ اس نے جو کام مجھ سے لینا ہے خود ہی لے لے گا۔ میں ایک دو دن میں آپ کے ہاں آؤں گا اور آپ سے مل لوں گا۔ ‘‘

’’تو یہ طے ہوا میں آپ کا انتظار کروں گا۔ اب مجھے اجازت دیں۔ ‘‘ جعفر نے کہا

’’ایسے کیسے جا سکتے ہیں۔ آپ کچھ کھائے پئے بغیر تو نہیں جا سکتے آپ۔ ‘‘ ملک نعیم نے خوشگوار لہجے میں کہا

’’پھر سہی، بہت سارے مواقع آئیں گے، ابھی وقت نہیں ہے۔ ‘‘ جعفر یہ کہتے ہوئے اٹھ گیا۔ ملک نعیم بھی ساتھ میں اٹھا۔ دونوں باہر کی جانب چل پڑے۔

انہی لمحات میں سراج کے ڈیرے پر سراج اور رانی، دونوں ایک کھیت کے کنارے بیٹھے ہوئے باتیں کر رہے تھے۔ اس کے چہرے پر حیرت کے ساتھ غصہ پھیلا ہوا تھا۔ اس نے منتشر لہجے میں کہا

’’رانی۔ ! یہ کیسی دنیا ہے بندہ کس پر اعتبار کرے؟‘‘

’’اگر تم فہد کے حوالے سے بات کر رہے ہو نا تو تم غلط سوچ رہے ہو۔ ‘‘ رانی نے کہا

’’کیا مطلب تم اس طرح کیسے کہہ سکتی ہو؟‘‘ اس نے پوچھا تورانی بولی

’’میں ٹھیک کہہ رہی ہوں سراج۔ چوہدریوں نے تمہیں اور فہد کو الگ الگ کرنے کی بہت بڑی سازش کی ہے۔ یہ فہد کے قتل والی بات بھی غلط ہے۔ یہ سب میں نے اپنے کانوں سے سنا ہے۔ ‘‘

’’تم نے ؟‘‘ سراج نے بے یقینی کے سے انداز میں کہا تورانی سر ہلاتے ہوئے بولی

’’ہاں ہاں ، میں نے سنا۔ یہی بات بتانے تو میں یہاں تک، اس وقت یہاں تک آئی ہوں۔ ‘‘

یہ کہہ کر اس نے ساری روداد سنادی۔ سراج ہکا بکا رہ گیا۔ اس نے حیرت سے پوچھا

’’تم سچ کہہ رہی ہو نا؟‘‘

’’میں تم سے جھوٹ کیوں بولوں گی۔ خیر۔ ! اب اگر تم فہد سے الگ ہو ہی گئے ہو تو ایک طرح سے ٹھیک ہی ہوا ہے۔ جو ہونا تھا سراج، وہ تو ہو گیا۔ باقی زندگی سکون سے گذارنے کے لیے تم چوہدریوں سے صلح کر لو۔ ‘‘

’’یہ تیری سوچ ہے نا۔ خیر، تو اب جا گھر، باقی باتیں پھر کریں گے۔ ‘‘ سراج نے تیزی سے کہا تو رانی نے غصے ہوتے ہوئے کہا

’’سراج کیا ہو گیا ہے تمہیں ، میں نے تمہیں غلط مشورہ نہیں دیا۔ یہ بہت اچھا موقعہ ہے۔ تم مجھے آسانی سے حاصل کر سکتے ہو۔ ‘‘

اس پرسراج نے اضراری انداز میں کہا

’’میں سوچتا ہوں ہم اس پر پھر بات کریں گے۔ ‘‘

’’ ٹھیک ہے، تم کرتے رہنا بات، اچھا میں چلتی ہوں پھر۔ کرنا میرا انتظار۔۔۔‘‘

یہ کہہ کر وہ تنتناتے ہوئے اٹھی تو سراج بھی اٹھ گیا۔ سراج اپنی سوچوں میں گھوم کر رہ گیا تھا۔ اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ یہ ہو کیا گیا ہے۔ رانی نے اس کی طرف دیکھا اور پھر پلٹ کر چل دی۔ الجھا ہوا سراج پھر وہیں بیٹھ گیا۔

چاچا سوہنا اداس صورت لئے اپنے صحن میں بیٹھا ہوا تھا۔ اس نے دونوں ہاتھ اپنے سر پر یوں رکھے ہوئے تھے، جیسے اپنا سب کچھ لُٹا آیا ہو۔ اس نے بڑے دکھ بھرے لہجے میں یہ شعر پڑھے

’’چنتا فکر اندیشے آون بنھ بنھ صفاں قطاراں ۔۔۔وَس نئیں چلدا میرا قسمت ہتھ مہاراں ‘‘

اتنے میں مرغا بولا تو چاچے سوہنے نے چونک کر اس کی طرف دیکھا۔ دروازے میں سے چھاکا اندر آ گیا تھا۔ چاچا سوہنا انتہائی خوشی میں بڑھ کر اسے گلے لگایا اور دونوں ہاتھوں سے اس کا چہرہ ہاتھوں میں لیتے ہوئے ان زخموں کو دیکھا جہاں تشدد کے آثار تھے۔ اس نے بڑے درد مند لہجے میں کہا

’’تو ٹھیک توہے نا پتر؟

’’ہاں ابا، میں تو ٹھیک ہوں پر تو نے چنگا نہیں کیا فہد کے ساتھ؟‘‘ اس نے دکھی لہجے میں کہا

’’تو جانتا ہے چھاکے میں نے ایسا کیوں کیا؟تیری زندگی کا سوال تھا پتر۔ ‘‘ چاچا سوہنا بھی دکھ سے بولا

’’اور ابا تو بھی جانتا ہے، ایک چھاکے کے مر جانے سے قسمت نگر میں تو کیا، کہیں بھی کوئی فرق نہیں پڑنا تھا۔ لیکن اگر فہد کو کچھ ہو جاتا تو بہت سارے لوگوں کی قسمت میں اندھیرا چھا جاتا۔ ‘‘ چھاکے نے اس کی اہمیت بتائی

’’تجھے کیا پتہ چھاکے، اولاد کی محبت کیا ہوتی ہے۔ یہ محبت جب آزمائش میں پڑتی ہے نا تو کچھ بھی قربان کرنے کے لیے سوچنا نہیں پڑتا۔ ‘‘ چاچا سوہنا درد مندی سے بولا تو چھاکے نے کہا

’’ابا، اتنی عمر گذر گئی ان چوہدریوں کو نتھ ڈالنے والا کوئی پیدا نہیں ہوسکا۔ اب اگر کوئی آ گیا ہے تو اس کے ہاتھ اور بازو ہم ہی نے مضبوط کرنے ہیں یہ بات تو کیوں نہیں سمجھتا، اور پھر وہ بھی ہماری ہی ہاتھوں ابا؟‘‘ چھاکا رو دینے کو تھا۔

’’میں سب سمجھتا ہوں پتر اور مجھے اپنی غلطی کا احساس تھا، یہی وجہ ہے کہ میں نے وڈھے افسر کے سامنے ساری بات سچ سچ بتا دی۔ اب جو ہو گا وہ دیکھا جائے گا۔ ‘‘ چاچے نے کہا تو چھاکا دکھ سے بولا

’’اب میں تو ساری حیاتی فہد کو منہ دکھانے کے لائق نہیں رہا نا، کیسے سامنا کر پاؤں گا اس کا؟‘‘

’’تو فکر نہ کر میں جا کو معافی مانگ لوں گا اس سے۔ مان جائے گا۔ ‘‘ یہ کہہ کر وہ چند لمحے سوچتا رہا جیسے اسے کہنے کو لفظ تلاش کر رہا ہو، پھر جلدی سے بولا، ’’دیکھ تیرا ککڑ تیرے بنا کتنا اداس ہو گیا ہے۔ جا جا کر اسے کچھ کھلا پلا باقی اللہ سائیں بہتر کرے گا۔ میں وڈھے افسر کو بتا آؤں کہ تو گھر آ گیا ہے۔ ‘‘

’’وہ نور پور واپس چلا گیا ہے۔ ‘‘ چھاکے نے بتایا

’’اچھا چل تو آرام کر میں ابھی آتا ہوں۔ ‘‘ چاچے نے کہا اور باہر کی طرف چل دیا۔ چھاکا نڈھال سا چارپائی پر لیٹ گیا۔

٭٭

 

سہ پہر ہو چکی تھی۔ حویلی کے لان میں دونوں باپ بیٹا لان میں بیٹھے ہوئے چائے پی رہے تھے۔ اتنے میں منشی فضل دین آ کر ان کے قریب آ کر کھڑا ہو گیا۔ تب چوہدری کبیر نے پوچھا

’’ہاں بھئی منشی۔ !سنا وہ فہد والے معاملے کا کیا بنا؟‘‘

’’چوہدری جی۔ اس اے ایس پی نے اسے چھوڑ دیا ہے۔ بلکہ وہ اس کے ساتھ اس جگہ گیا، جہاں قتل ہوا تھا۔ موقعہ دیکھنے۔ ‘‘

یہ سن کر دونوں باپ بیٹے نے منشی کی طرف دیکھا۔ پھر چوہدری کبیر نے پوچھا

’’یہ اصل میں ہوا کیا ہے۔ کچھ پتہ چلا آپ تو گئے تھے نور پور؟‘‘

’’وہیں سے یہ پتہ چلا ہے کہ اس اے ایس پی کا تبادلہ خود آئی جی نے کیا ہے۔ اس تبادلے کے بارے ڈی ایس پی کو بھی رات ہی معلوم ہوا تھا۔ ایسے تبادلے۔ ایویں نہیں ہو جاتے۔ ‘‘ چوہدری جلال نے سوچتے ہوئے لہجے میں کہا تو چوہدری کبیر بولا

’’ممکن ہے یہ ملک نعیم کا کوئی کھیل ہو؟‘‘

’’نہیں۔ !ایسا ممکن نہیں ہے۔ ملک نعیم اتنا بڑا کھیل کھیلنے کا حوصلہ ہی نہیں رکھتا اور نہ ہی اس کے پاس اتنی طاقت ہے۔ اب فہد کو پوری سنجیدگی سے سمجھانا ہو گا۔ یہ بہت خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ ‘‘چوہدری جلال نے سنجیدہ سے لہجے میں کہا تو چوہدری کبیر نے چونکتے ہوئے پوچھا

’’کیا خطر ناک ہو سکتا ہے بابا۔ وہ کوئی لوہے کا بنا ہوا تو نہیں ہے۔ ایک گولی اس کا فیصلہ کر سکتی ہے۔ ‘‘

’’میں یہی دیکھنا چاہتا تھا کبیر وہ کتنی جلدی حوالات سے باہر آتا ہے۔ اب سمجھنا یہ ہے کہ وہ کس کی وجہ سے باہر آیا۔ مجھے کوئی اور ہی کھیل دکھائی دے رہا ہے۔ اس کے پیچھے کون ہے۔ اسے تلاش کرنا ہو گا۔ میں نے ایک بندے سے پتہ بھی کروایا لیکن اس نے کوئی خاص معلومات نہیں دیں۔ ‘‘ چوہدری جلال اس کی گولی کی بات کو نظر انداز کرتا ہوا بولا

’’تو پھر آپ سیدھے آئی جی سے ملیں۔ اور اس سے بات کریں۔ ‘‘چوہدری کبیر نے صلاح دی۔

’’ہاں۔ !بات کرنا پڑے گی۔ کوئی نہ کوئی سرا پتہ تو ضرور وہاں سے ملے گا۔ ‘‘ چوہدری جلال نے پر امید لہجے میں کہا تو منشی فضل دین نے کہا

’’بات یہ بھی سوچنے والی ہے چوہدری صاحب کہ اے ایس پی اچانک اس کے پیچھے تھانے کیوں پہنچ گیا۔ اوراسے کسی ضمانت کے بغیر چھوڑ دیا۔ کیا راز ہے اس میں ؟‘‘

’’ہاں۔ !یہ بات بھی غور کرنے والی ہے۔ کہیں ہمارا کوئی دشمن انہیں استعمال نہ کر رہا ہو۔ جو بڑے غیر محسوس انداز میں ہم پر وار کر رہا ہے۔ ‘‘ چوہدری جلال نے کہا

’’ایسا کون ہو سکتا ہے بابا۔ ‘‘چوہدری کبیر نے پوچھا

’’یہی تو اب سمجھنا ہو گا۔ میں خود منسٹر سے بات کرتا ہوں۔ ‘‘ چوہدری جلال نے کہا تو منشی بولا

’’جی ٹھیک ہے جی، میں ابھی فون لا دیتا ہوں۔ ‘‘

’’اور کبیر۔ !تم تھانیدار کو بلا کر تفصیل پوچھو، دیکھتے ہیں کون ہے ہمارا چھپا ہوا دشمن۔ جاؤ اور اسے ڈیرے پر بُلا کے پوچھو۔ ‘‘

چوہدری کبیر نے جواب نہیں دیا بلکہ اٹھ کر چل پڑا۔ چوہدری جلال سوچ میں گم ہو گیا۔ منشی فضل دین نے اس کی طرف دیکھا اور واپس حویلی کے اندر کی جانب پلٹ گیا۔

چوہدری کبیر صوفے پر بیٹھا سوچوں میں گم تھا۔ اس کے قریب فرش پر بیٹھا ماکھا گن صاف کر رہا تھا۔ ایسے میں تھانیدار وہاں آ گیا۔ اس کی طرف دیکھ کر چوہدری کبیر نے طنزیہ انداز میں پوچھا

’’اوئے آ بھئی تھانیدار صاحب، بڑا پریشان لگ رہا ہے۔ کیا بات اے ایس پی نے کچھ زیادہ ہی کھینچ دیا ہے تمہیں ؟‘‘

’’چوہدری تو میری چھوڑ، یہ بتا کہ وہ چھاکا کدھر ہے سوہنے کا پتر؟‘‘ یہ کہہ کر اس نے ایک لمحے کو خاموش ہو کر چوہدری کبیر کی آنکھوں میں دیکھا پھر بولا، ’’ میں جانتا ہوں۔ تمہارے ڈیرے پر سے کوئی تمہاری مرضی کے بغیر بندہ نہیں لے جا سکتا۔ لیکن اے ایس پی نے چھاپہ بھی نہیں مارا اور بندہ تم لوگوں کو خود ہی چھوڑنا پڑا، کیوں ؟‘‘

’’ یہ تو کیسی بات کر رہا ہے۔ ‘‘ چوہدری کبیر نے غصے میں کہا تو تھانیدار بولا

’’ نکے چوہدری جی، میں مانتا ہوں کہ تم لوگوں کا رعب و دبدبہ اس پورے علاقے پر ’’ تھا‘‘۔ مگر اب نہیں رہا۔ ‘‘

اس پر چوہدری کبیر نے بھڑک کر کہا

’’اوئے یہ کیا بکواس کر رہا ہے تو؟‘‘

’’میں ٹھیک کہہ رہا ہوں۔ اب تم لوگوں کی صرف بڑھک رہ گئی ہے۔ کر کچھ نہیں سکتے۔ کیا فائدہ ایم این اے ہونے کا ایک ڈی ایس پی کا تبادلہ ہو گیا اور پتہ ہی نہیں چلا۔ مان لو کہ اب علاقے پر گرفت ہی نہیں رہی، تم لوگوں کی توافسروں میں بھی وہ بات نہیں رہی۔ ‘‘ تھانیدار نے طنزیہ لہجے میں کہا تو چوہدری کبیر نے غصے میں کہا

’’لگتا ہے آج اے ایس پی کی جھڑکیوں سے تیرا دماغ خراب ہو گیا ہے۔ اور تو کچھ زیادہ ہی بول گیا ہے۔ ‘‘

’’میں زیادہ نہیں بولا بلکہ تم لوگوں کو اپنے بارے میں کچھ زیادہ ہی زعم ہے۔ ایک بندہ تم لوگ قابو نہیں کر سکے۔ وڈھے چوہدری صاحب ایک ڈی ایس پی سے کام نہیں لے سکے۔ فہد نے اپنی مرضی کا اے ایس پی لگوا لیا۔ ‘‘ تھانیدار نے حقیقت اسے بتائی تو بھڑک کر بولا

’’اب دیکھنا۔ اب ہوتا کیا ہے؟‘‘

’’نہیں نکے چوہدری جی، میرا مشورہ یہی ہے کہ اب بڑھکیں مارنا چھوڑ دیں اگر کچھ کر سکتے ہو تو کر لیں ورنہ بہت کچھ بگڑ جائے گا۔ چلتا ہوں۔ ‘‘یہ کہہ کر وہ اٹھا اور باہر کی طرف چل دیا۔ چوہدری کبیر ایک دم سے غصے میں اس قدر آ گیا کہ اس کی آنکھوں سے خون اترتا ہوا محسوس ہونے لگا۔

٭٭

 

سورج غروب ہو چکا تھا۔ فہد اپنے گھر کے صحن میں بیٹھا کچھ کاغذات پڑھنے میں گم تھا۔ اتنے میں اس کا دروازہ بجا تو وہ چونک گیا، پھر اس نے پوچھا

’’کون ہے آ جاؤ، دروازہ کھلا ہے۔ ‘‘

وہ دروازے کی طرف دیکھ رہا تھا کہ اتنے میں اسے سراج دروازے میں کھڑا دکھائی دیا۔ اس کا چہرہ پرکسی بھی قسم کے جذبے سے عاری تھا۔ فہد کسی غیر متوقع صورت حال کے لیے کھڑا ہو گیا۔ وہ کچھ اور ہی سوچ رہا تھا۔ سراج آگے بڑھ کے قریب آیا تواس کے چہرے پر شرمندگی اور ندامت کے آثار پھیل گئے۔ فہد تھوڑا سا پرسکون ہو گیا۔ سراج نے قریب دھیمے لہجے میں کہا

’’میں بہک گیا تھا فہد، مجھے معاف کر دو۔ میں تمہارا گنہ گا رہوں یار، ایک لمحے کے لیے بھی مجھے یہ سوچ نہیں آئی یہ کہ دشمنوں کا وار ہے۔ میں دوستی کا حق ادا نہیں کر سکا۔ فہد میں تیری دوستی کے لائق تو نہیں ہوں پر میں تیری منت تو کر سکتا ہوں کہ تو مجھے معاف کر دے؟‘‘

’’بات بہکنے یا نہ بہکنے کی نہیں ہے سراج، یقین کی ہوتی ہے۔ اپنوں پر یقین ہو نا تو انسان کبھی نہیں بہکتا۔ میں نے تم پر سب سے زیادہ اعتماد کیا تھا۔ کیا تجھے معلوم نہیں تھا کہ دشمن کتنا گھٹیا ہے۔ پھر بھی تم اس کے دھوکے میں آ گئے؟‘‘ فہد نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا۔

’’میں بے وقوف تھا نا، اس لیے ان کے دھوکے میں آ گیا۔ میں اپنی غلطی مانتا ہوں اور اپنی صفائی میں ایک بھی لفظ کہنے کا حق نہیں رکھتا، مگر تجھے اس بات کا تو یقین ہو گا نا کہ میرے خلوص میں کہیں کوئی کھوٹ نہیں ہے۔ ‘‘ سراج نے شرمندگی نے کہا تو فہد بولا

’’شیشے میں بال آ جائے نا تو پھر، خیر کیا چاہتے ہو اب تم۔ ‘‘

’’معافی مانگنے آیا ہوں۔ ‘‘ اس نے کہا اور دونوں ہاتھ اس کے سامنے جوڑ دیئے۔ فہد نے اس کے ہاتھ پکڑتے ہوئے چند لمحے خود پر قابو پاتا رہا، پھر مشکل سے بولا

’’نہیں کرو یار، دشمنوں نے بہت اُوچھا وار کیا تھا۔ میں بھی تیری جگہ ہوتا نا تو بہک جاتا چھوڑ بس۔ اب آگے کی سوچ۔ ‘‘ فہد نے اس کی طرف دیکھ کر کہا

’’میں بہت شرمندہ ہوں یار کہ تم پر اعتماد ہی نہیں کیا۔ میں کتنا غلط سوچتا رہا ہوں۔ ‘‘ سراج کی ندامت ختم ہی نہیں ہو رہی تھی۔ اس کیے آنسو چھلک پڑے۔ تو فہد بولا

’’کہا نا، ختم کر اس بات کو آ بیٹھ‘‘

’’تیرا بڑا دل ہے یار، میں ہی بے یقین تھا کہ تجھ پر یقین ہی نہیں کیا۔ ‘‘سراج نے آنسو پونچھتے ہوئے کہا

’’چل یا ر چھوڑ اس قصے کو بیٹھ جا اب‘‘ فہد نے کہا

’’بیٹھو کیسے؟ اُس چھاکے کو تو لے کر آئیں نا، جیسے مجھے معاف کر دیا، ویسے اسے بھی معاف کر دے۔ تجھے ساری حقیقت کا شاید نہیں پتہ۔ ‘‘ سراج نے کہا

’’مجھے معلوم ہے یا ر اور مجھے یہ بھی پتہ ہے کہ اب انہوں نے کیا کرنا ہے۔ کمینے دشمن کا وار بڑا گھٹیا ہوتا ہے۔ چل چھاکے کو لے آئیں۔ اس بے چارے کا کوئی قصور نہیں تھا۔ ‘‘ فہد نے ایک دم سے کہا تو وہ دونوں باہر کی طرف چل دئیے۔

٭٭

 

حبیب الرحمن اور بانو بیگم اپنے گھر کے ڈرائینگ روم میں ناشتے کی میز پر تھے۔ اتنے میں مائرہ بڑے خوش گوار موڈ میں وہیں آ گئی۔ اس کے چہرے پر خوشی کا تاثر پھیلا ہوا تھا۔ وہ بڑے اہتمام سے تیار ہوئی دکھائی دے رہی تھی۔ اس نے خوشی بھرے لہجے میں کہا

’’گڈ مارننگ پاپا، گڈ مارننگ ماما۔ ‘‘

’’ماشا اللہ۔ !آج تو بہت پیاری لگ رہی ہو۔ ‘‘ بانو بیگم نے اپنی بیٹی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا

’’اور بہت خوش بھی، کیا بات ہے؟‘‘حبیب الرحمن نے خوش ہو کر دیکھتے ہوئے پوچھا

اس دوران وہ ان کے پاس آ کر بیٹھ گئی۔

’’جی پاپا۔ میں آج بہت خوش ہوں۔ اور بات؟ بات تو کوئی بھی نہیں ہے۔ بس ویسے ہی آج خوش ہوں۔ ‘‘

’’کہیں میرے جاسوس بیٹے کو کوئی نئی اسائنمنٹ تو نہیں مل گئی ہے کیا؟‘‘حبیب الرحمن نے پوچھا

’’جاسوس یہ کیا بات ہوئی پاپا؟‘‘مائرہ خوشگوار حیرت سے بولی

’’اب یہ صحافی جاسوسی ہی کرتے ہیں تحقیقاتی رپورٹنگ کے نام پر۔ تم بھی تو Investigative رپورٹنگ کرتی ہو نا۔ ‘‘ حبیب الرحمن نے کہا تو مائرہ ہنستے ہوئے بولی

’’ تو پاپا میں جاسوس تھوڑی ہوں۔ ‘‘

’’کچھ بھی ہے آج میری بیٹی بہت خوش نظر آ رہی ہے اللہ نظر بد سے بچائے۔ ‘‘بانو بیگم نے پیار سے کہا

’’ماما بندے کا موڈ خوشگوار بھی تو ہو سکتا ہے۔ ‘‘ مائرہ نے منمناتے ہوئے کہا تو حبیب الرحمن بولا

’’ہاں ہاں کیوں نہیں۔ ہم تو تمہیں بہت خوش دیکھنا چاہتے ہیں۔ تم ایسے ہی ہمیشہ ہنستی مسکراتی رہا کرو۔ ‘‘

’’کیا لو گی بیٹا۔ ‘‘ بانو بیگم نے پوچھا تو مائرہ بولی

’’بس جوس لوں گی۔ !مجھے پہلے ہی بہت دیر ہو گئی ہے پاپا کو دیکھا تو ادھر آ گئی۔ ‘‘

یہ کہتے ہوئے اس نے گلاس میں جوس لیا پھر سپ لینے لگی۔ تبھی حبیب الرحمن نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا

’’ ابھی میرے ذہن میں پلان آیا ہے کہ اس آف کو ہم سب گھر پر رہیں گے۔ اور تمہارا فیورٹ بار بی کیو ہو گا۔ ‘‘

’’یس پاپا، بہت دن ہو گئے، ہم سب ایک ساتھ بھرپور دن منائیں گے‘‘ اس نے پر جوش انداز میں کہا۔ گلاس رکھ کر وقت دیکھا اور پھر اٹھتے ہوئے بولی، ’’میں چلتی ہوں دیر ہو گئی بائے۔ اللہ حافظ ماما، اللہ حافظ پاپا‘‘

’’اللہ حافظ‘‘ دونوں نے ایک ساتھ کہا اور ناشتے کی طرف متوجہ ہو گئے۔ مائرہ پورچ میں آ کر گاڑی کی جانب بڑھی تھی اس کا فون بج اٹھا۔ وہ فون رسیو کرتے ہوئے کار میں بیٹھ گئی۔

’’ ہیلو۔ !‘‘ مائرہ نے کہا

’’ کیسی ہو مائرہ؟‘ دوسری طرف جعفر نے پوچھا تبھی مائرہ نے غصے میں کہا

’’او جعفر۔ ! تم ؟ تم کہاں غائب ہو گئے ہو۔ نہ بتا کر گئے ہو اور اور فون بھی بند کیا ہوا ہے؟‘‘

’’بتاتا ہوں ، ذرا صبر تو کرو۔ اتنا غصہ بھی ٹھیک نہیں ، بتاؤ کیسی ہو ؟‘‘ جعفر نے سکون سے کہا

’’میں تو ٹھیک ہوں ، تم کہاں ہو، کدھر کالے پانی ہو گیا ہے تمہارا ٹرانسفر، کچھ پتہ تو چلے ادھر تم غائب ہوئے، اُدھر فہد کا فون آ گیا کل۔ ‘‘ وہ ایک دم سے بولی

’’میں اپنے بارے بھی بتاتا ہوں ، مگر وہ تم فہد کے فون بارے بتا رہی تھی۔ ‘‘ جعفر نے ہنستے ہوئے کہا تو وہ پر جوش لہجے میں بولی

’’جعفر۔ !میں بتاؤں۔ پہلے تو مجھے یقین ہی نہیں آیا کہ یہ فون فہد کا ہی ہے۔ یہاں تک کہ اس کی آواز سن کر بھی اچھی خاصی بدلی ہوئی تھی۔ ‘‘

’’پھر کیسے یقین آیا کہ وہ واقعتاً فہد ہی تھا۔ ‘‘ جعفر نے مزہ لیتے ہوئے پوچھا

’’تھا نہیں ، وہ ہے۔ سچ کہوں تو مجھے اب بھی یقین نہیں آ رہا ہے کہ اس نے مجھ سے بات کی۔ ویسے میں پہلے ڈر بھی گئی تھی۔ ‘‘ اس نے پر شوق لہجے میں بتایا

’’وہ کیوں ؟‘‘اس نے تیزی سے پوچھا

’’اس لیے کہ میں نے سوچا، وہ کہیں مصیبت میں نہ ہو۔ ہم نے ہی اسے کہا تھا کہ جب اسے ضرورت پڑے گی تو وہ ہمیں ضرور پکارے گا میں نے پوچھا بھی تھا۔ ‘‘ مائرہ نے کہا جعفر نے پوچھا

’’پھراس نے کیا کہا؟‘‘

’’اس نے کہا کہ وہ بالکل ٹھیک ٹھاک ہے۔ خوش ہے اور مزے میں ہے۔ ویسے بات بڑی مختصر ہوئی۔ پتہ نہیں وہ کہیں مصروف تھا۔ ہم اسے یاد ہیں۔ وہ ہمیں بھولا نہیں ، میں اس پر ہی بہت خوش ہوں۔ ‘‘ وہ جذباتی ہوتے ہوئے بولی تو جعفر نے کہا

’’مائرہ۔ !اتنے برس کی رفاقت محض چند ہفتوں میں یا چند مہینے میں بھلائی نہیں جا سکتی ہے۔ ہم اسے یاد ہیں اور بہت اچھی طرح یاد ہیں۔ اس کا پیار ہم سے ویسا ہی ہے۔ ‘‘

’’جعفر۔ !وہ ہمارے پاس نہیں آ سکتا؟کیا ہم اس کے پاس نہیں جا سکتے ؟میرا مطلب ہے۔ ایک دو دن کے لیے، اسے زیادہ تنگ نہیں کریں گے۔ ہماری آوئٹنگ بھی ہو جائے گی اور اس کے بار ے میں بھی پتہ چل جائے گا۔ ‘‘ مائرہ نے کہا تو جعفر نے مشکل سے ہنسی روکتے ہوئے کہا

’’بہت اچھا خیال ہے بنا لو کسی دن بھی پروگرام بنا لو چلے چلتے ہیں اس کے پاس۔ ویسے یہ دیکھنا بھی چاہیے کہ آخر وہ وہاں کر کیا رہا ہے۔ مگر ایک بات تو ہم بھول ہی گئے۔ جانا کہاں ہے؟اس کے گاؤں کا تو ہمیں پتہ ہی نہیں ہے، تمہیں پتہ ہے۔ بتایا اس نے؟‘‘

اس پر مائرہ ایک دم حیرت زدہ اور شرمندہ ہو گئی، اسی شرمندگی میں اس نے کہا

’’تم ہو نا تو مجھے اس انفارمیشن کی کیا ضرورت ہے۔ تمہیں اس کا پتہ ہے۔ ‘‘

’’ تو پھرسنو۔ ! میں اس کے پاس تھا اور اب اس سے کچھ فاصلے پر ایک قصبے میں تعینات ہوں۔ میں آناً فاناً یہاں کیوں آیا۔ یہ بھی سن لو۔ ‘‘

یہ کہہ کر اس نے ساری روداد مختصر انداز میں بتا دی۔ وہ حیرت اور دکھ کے ساتھ سن چکی تو جذباتی انداز میں بولی

’’میں کسی نجی کمپنی سے فوراً بات کرتی ہوں کہ وہ وہاں پر سیل فون سروس دے۔ مجھ سے رابطے میں رہنا، مجھ سے جو ہو سکا میں کروں گی اور بہت جلد وہاں تمہارے پاس آؤں گی۔ اللہ حافظ۔ ‘‘ یہ کہتے ہوئے اس سے بات نہیں ہو پا رہی تھی۔ اس نے فون بند کر دیا اور کتنے ہی لمحے یونہی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھی رہی۔ پھر اپنے آپ پر قابو پاتے ہوئے اس نے کار سٹارٹ کی اور چل دی۔

٭٭٭

تشکر: مصنف جنہوں نے فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید