FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

دھُوپ کے پگھلنے تک

 

حصہ چہارم

 

               امجد جاوید

 

 

 

 

 

 

عصر کا وقت ہونے والا تھا جب ماسڑدین محمد اور فہد دونوں دالان میں بیٹھے ہوئے تھے۔ ماسٹر دین محمد نے اس سے پوچھا

’’فہد پتر۔ !کیا تمہیں یقین ہے کہ نعمت علی رقم لینے کے بعد تمہاری زمین تمہارے حوالے کر دے گا۔ ‘‘

’’آپ کیا سمجھتے ہیں۔ کیا وہ اپنی بات سے مکر سکتا ہے ؟ ‘‘ فہد نے رائے لی

’’مجھے یہ شک ہے اس لیے ہے کہ نعمت علی ساری زندگی چوہدریوں کا مزارع رہا ہے۔ اور اب اس کی آئندہ نسل بھی چوہدریوں کے مزارع ہی ہے۔ ممکن ہے کہ چوہدری ہی نیاسے اس کام پر لگایا ہو۔ ‘‘ ماسٹر دین محمد نے اپنی رائے دی تو فہد بولا

’’اسی لیے میں نے گاؤں کے چند بزرگوں کے سامنے اسے رقم دینی ہے۔ اگر وہ رقم لے کر پھر گیا تو کیا ہوا۔ ہم نے جو وعدہ کر لیا ہے۔ اسے تو اب نبھانا ہے۔ ‘‘

’’ہاں۔ تم بھی صحیح کہہ رہے ہو۔ زیادہ سے زیادہ یہی ہو گا نا رقم ڈوب جائے گی۔ چلو، کوئی بات نہیں ، تم اپنا وعدہ نبھاؤ۔ ‘‘ماسٹر دین محمد نے کہا

اتنے میں سلمٰی اندر سے آ گئی۔ اس کے ہاتھ میں کپڑے کی پوٹلی تھی۔ اس نے وہ لا کر فہد کو دے دیتے ہوئے کہا

’’فہد۔ ! یہ لیں آپ کی امانت آپ دیکھ لو، اتنی ہی رقم ہے جتنی آپ نے مجھے سنبھال کر رکھنے کے لیے دی تھی۔ کیا اتنی ہی رقم ان لوگوں کو دینی ہے ؟‘‘

’’وہ جو سراج والی رقم دی تھی، وہ اس میں شامل ہے نا، تم نے دیکھ لی ہے پوری ہے ؟‘‘ فہد نے پوچھا

’’ہاں وہ اس میں شامل ہے، میں نے دیکھ لی تھی۔ پوری ہے۔ ‘‘ سلمی نے بتایا

’’تو بس پھر ٹھیک ہے۔ اچھا استاد جی، وہ میرا انتظار کر رہے ہیں۔ انہوں نے عصر سے پہلے وقت دیا تھا۔ تھوڑا سا وقت رہتا ہے۔ ‘‘ فہد نے ماسٹر دین محمد کی طرف دیکھتے ہوئے کہا

’’ہاں ، تم چلو۔ میں بھی آتا ہوں ، وضو کر کے۔ ‘‘ ماسٹر دین محمد نے کہا اور اٹھ گیا۔ اس دوران فہد نے نوٹوں کی ایک گڈی اٹھا کر اپنی جیب میں ڈالی اور باقی رقم اسی طرح پوٹلی میں باندھ کو واپس سلمی کو دے دی۔ تبھی سلمٰی نے کہا

’’فہد۔ !اپنا خیال رکھئے گا۔ خدا نخواستہ وہاں کچھ ایسی ویسی بات نہ ہو جائے۔ ‘‘

’’کیا ہو سکتا ہے؟‘‘فہد نے مسکراتے ہوئے پوچھا

’’کچھ بھی، ان چوہدریوں کا کیا اعتبار۔ ‘‘ سلمی نے کہا

’’اللہ کرم کرے گا۔ تم پریشان نہیں ہونا۔ میں اپنا خیال رکھوں گا۔ فہد نے کہا اور اٹھ کر باہر چلا گیا۔

قسمت نگر کے چوراہے میں لوگ اکٹھے تھے۔ بابا نعمت اور اس کا بیٹا نذیر آ چکا تھا۔ پاس ہی سراج تھا جسے دیکھ کر ایک بزرگ نے پوچھا

’’کیوں بھئی سراج، ابھی تک فہد نہیں آیا۔ اسے رقم دینا یاد بھی ہے کہ نہیں ؟‘‘

’’آ جاتا ہے جی، ابھی آ جاتا ہے وہ اپنے وعدے کے مطابق رقم ادا کرے گا۔ ‘‘ سراج نے انہیں یقین دلایا

’’کیا اسے علم نہیں کہ ہم نے نماز کے وقت تک اس کا انتظار کرنا ہے۔ ہم اتنے لوگ اس کے منتظر ہیں۔ ‘‘ بزرگ نے کہا

’’بزرگو۔ !آپ پریشان مت ہوں۔ بس وہ آنے ہی والا ہو گا اور نماز کے وقت سے پہلے ہی آئے گا۔ ‘‘ سراج نے حتمی انداز میں کہا تو نعمت علی نے تحمل سے کہا

’’اچھا چلو آ جاتا ہے وہ۔ ‘‘

فہد کے نہ ہونے سے جو ایک بے چینی پھیلی ہوئی تھی۔ اس وقت ختم ہو گئی، فہد کی گاڑی وہاں چوراہے میں آ کر رکی۔ سب لوگ اس کی طرف دیکھنے لگے۔ فہد کار سے اتر کر ان کی طرف آ گیا۔ اس نے آتے ہی سلام کیا تو سبھی نے اس کے سلام کا جواب دیا۔ وہ بیٹھ گیا تو اسی بزرگ نے پوچھا

’’ فہد پتر، کیا تم اپنے وعدے مطابق رقم دے رہے ہو؟‘‘

اس پر فہد نے اپنی جیب میں سے نوٹوں کی گڈی نکال کر اس بزرگ کی جانب بڑھا تے ہوئے کہا

’’یہ لیں ، گن کر پوری کر لیں۔ ‘‘

اس بزرگ نے وہ رقم لے کر نعمت علی کو دے دی۔ وہ گننے لگا۔ وہ رقم گن چکا اور اس نے تصدیق کر دی تو بزرگ نے کہا

’’ٹھیک ہے رقم آ گئی، آج سے زمین فہد کے حوالے، میں پٹواری سے کہہ دیتا ہوں۔ سب دعا کرو رب سائیں ہم پر کرم کرے۔ وہ سب دعا کرنے لگے۔ قسمت نگر کی تاریخ نے ایک نیا رخ لے لیا تھا۔ حالات بدلتے ہی لوگوں کی سوچ بھی تبدیل ہونے لگی تھی۔ سبھی لوگ وہاں سے اٹھ گئے تو فہد بھی سراج کے ساتھ وہاں سے اپنے گھر آ گیا۔

سلمٰی اپنے گھر چارپائی پر بیٹھی کتاب پڑھ رہی تھی لیکن اس کا سارا دھیان فہد کی طرف تھا۔ ہر آہٹ پر وہ چونک اٹھتی تھی۔ ایسے میں دستک ہوئی تو اس نے فوراً اٹھ کر دروازہ کھولا۔ فہد اندر آ گیا۔ سلمٰی اپنا آنچل سنبھالتی ہوئی واپس اسی چارپائی کی جانب بڑھی جہاں اس کی کتاب پڑی تھی۔۔۔فہد نے اس کے قریب آ کر ایک کاغذ بڑھاتے ہوئے کہا

’’یہ کاغذ لو اور اسے سنبھال کر رکھ دو۔ یہ معاہدہ نامہ ہے۔ جو ابھی ہوا۔ ‘‘

’’اتنی دیر ہو گئی آپ کو وہاں۔ کافی دیر کے گئے ہوئے تھے آپ۔ ‘‘سلمٰی نے وہ کاغذ پکڑتے ہوئے پوچھا

’’ وہاں سے تو میں آ گیا تھا۔ بس ادھر گھر میں آ کر بیٹھ گئے تھے۔ وہیں باتیں کرتے، چائے پیتے دیر ہو گئی۔ دیکھا، کچھ بھی نہیں ہوا، تم یونہی خواہ مخواہ ڈر رہی تھی۔ استاد جی باہر ہیں کیا؟‘‘ اس نے بتاتے ہوئے پوچھا تو سلمی نے کہا

’’ہاں۔ !تھوڑی دیر ہوئی ہے انہیں گئے ہوئے۔ نماز پڑھ کر ہی آئیں گے۔ ‘‘

’’اچھا، وہ تمہارے پاس کچھ مزید رقم پڑی ہوئی ہے نا؟‘‘ فہد نے پوچھا

’’جی، وہ محفوظ ہے۔ ‘‘ اس نے تیزی سے کہا

’’تم ایسے کرو، اس میں سے اپنے لیے کچھ چیزیں خرید لو جو تمہارا دل چاہے۔ ‘‘ فہد نے کہا

’’نہیں۔ !اب میں اپنے لیے چیزیں نہیں خریدوں گی۔ بلکہ میں جو اپنا سکول بناؤں گی۔ اب اس کے لیے چیزیں خریدنی ہیں۔ ‘‘ سلمی نے وہی جواب دیا جس کی فہد کو توقع تھی۔ اسی لئے اس نے کہا

’’وہ جب موقعہ آئے گا تو دیکھا جائے گا۔ تم فکر کیوں کرتی ہو۔ ‘‘

’’فہد۔ !میں نے ہی اس کی فکر کرنی ہے۔ آپ نے ہوم ورک کا کہا تھا، وہ میں نے پورا پلان کر لیا ہے اور ہاں یاد آیا۔ بابا عمر حیات کی طرف سے شادی میں شامل ہونے کا پیغام آپ کے لیے آیا ہے۔ ‘‘

’’آپ اور ہم کیا ہم سب کو آیا ہے اور جو استاد جی کہیں گے ویسا ہی ہو گا۔ اچھا، اب میں چلتا ہوں۔ ‘‘فہد نے کہا

’’لیکن کھانا آپ نے ادھر ہی کھانا ہے۔ میں آج آپ کی پسند کا بنا رہی ہوں۔ ‘‘ سلمی نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا

’’ چلو ٹھیک ہے۔ ویسے تمہیں کیسے پتہ کہ مجھے کیا پسند ہے اور کیا نہیں۔ ‘‘

’’آپ کو پتہ نہیں۔ میں آپ کے لیے کتنا سوچتی ہوں خود سے بھی زیادہ۔ ‘‘ یہ کہتے ہوئے وہ ایک دم سے شرما گئی تو فہد بھی مسکرا دیا۔ وہ شرما تے ہوئے اٹھ کر اندر کی جانب بڑھ گئی۔ فہد اٹھا اور باہر کی جانب چلا گیا۔ سلمٰی کچن میں کھڑی پیا ر بھری نگاہوں سے اسے جاتا ہوا دیکھتی رہی۔

٭٭

 

چوہدری کبیر اپنے ڈیرے میں بیٹھا ہوا تھا۔ اس کے دماغ میں انسپکٹر کی باتیں گونج رہی تھیں۔ وہ آگ بگولا ہوا بیٹھا تھا۔ اتنے ماکھا نے آ کر کہا

’’وہ جی، فہد نے اپنے وعدے کے مطابق رقم کی ادائیگی کر دی ہے۔ نعمت علی اور اس کے بیٹے نذیر نے رقم لے کر زمین فہد کے حوالے کر دی ہے۔ ‘‘

اس بات نے اسے مزید آگ لگا دی۔

’’اس کا مطلب ہے وہ سمجھائے بھی نہیں سمجھے۔ اس کی تو اب انہیں سزا ضرور ملے گی۔ چلو آؤ میرے ساتھ دیکھتے ہیں کون زمین کا قبضہ لیتا ہے اور کون دیتا ہے ان کی نسلیں یاد رکھیں گی کہ حکم عدولی کرنا کتنا بڑا جرم ہے۔ ‘‘

یہ کہتے ہوئے وہ اٹھا اور اپنی گاڑی کی ج انب بڑھا۔ جب تک اس نے گاڑی سٹارٹ کی، ملازمین بھاگم بھاگ اس کے ساتھ بیٹھتے چلے گئے۔ گاڑی ڈیرے سے باہر چلی گئی۔ گاڑی مختلف راستوں سے ہوتی ہوئی فہد کی زمین کے پاس آ کر رک گئی۔ سامنے ہرے بھرے کھیت لہرا رہے تھے۔ چوہدری اور ملازمین نے باہر آ کر دیکھا۔ وہاں کوئی دکھائی نہیں دیا۔ اس لئے سرسراتے ہوئے چوہدری کبیر بولا

’’یہاں پر کوئی بھی نہیں ہے؟قبضہ لینے والا اور نہ قبضہ دینے والا۔ آؤ چلیں۔ ‘‘یہ کہہ کر وہ واپس گاڑی میں بیٹھا اور وہاں سے چل دیا۔

چوہدری کبیر کی گاڑی قسمت نگر کے چوراہے میں آ کر رکی۔ وہاں چند لوگ بیٹھے ہوئے تھے۔ جنہوں نے اسے دیکھا تو پریشان ہو گئے۔ چوہدری کبیر نے حنیف دوکاندار کو آواز دی تو وہ بھاگ کر قریب ان کے قریب آ گیا تو چوہدری کبیر نے اس سے پوچھا

’’اوئے، یہاں نذیرا تھا ہمارا مزارع؟‘‘

’’آج دیکھا تھا میں نے۔ یہاں فہد سے اس نے رقم لی ہے۔ پٹواری بھی تھا۔ اس کے سامنے زمین کی کاشتکاری سے دستبردار ہونے والے کاغذ پر انگوٹھا لگایا ہے۔ گاؤں کے بہت سارے لوگ یہاں جمع تھے۔ ‘‘ حنیف دوکاندار نے تیزی سے وہ تفصیل بھی بتا دی جو اس نے نہیں پوچھ تھی۔ اس پر چوہدری کبیر نے حنیف دوکاندار کو نظر انداز کرتے ہوئے خود کلامی کے سے انداز میں غصے سے کہا

’’چلو، اس کے گھر چلتے ہیں۔ ‘‘

یہ کہتے ہوئے اس نے اپنی گاڑی آگے بڑھا لی۔ تبھی حنیف دوکاندار دوکان کی طرف چلا گیا تو چھاکے نے سر نکال کر انہیں جاتے ہوئے دیکھ کر کہا

’’اللہ خیر کرے۔ نکا چوہدری بڑے غصے میں ہے۔ کہیں ۔۔۔‘‘

وہ بڑبڑاتے ہوئے سوچ کر لرز گیا۔ جیپ دھول اڑاتی چلی گئی۔ اس سے رہا نہیں گیا وہ بھی پیچھے چل پڑا۔

بابا نعمت علی کی بہو صفیہ اپنے گھر میں چارپائی پر بیٹھی سلائی کر رہی تھی۔ اس کی ساری توجہ اسی طرف تھی۔ ایسے میں دونوں باپ بیٹا گھر میں آ گئے۔ بابا نعمت علی ایک چارپائی پر بیٹھا ہے تو صفیہ جلدی سے اٹھ گئی تو وہاں نذیر بیٹھتے ہوئے اپنی جیب سے رقم نکال کر اپنی بیوی کی جانب بڑھاتے ہوا بولا

’’یہ لے بھاگوانے۔ !یہ رقم سنبھال کے رکھ۔ اب جو کرنا ہے اس رقم ہی سے کرنا ہے۔ ‘‘

’’تو کیا فہد نے اتنی رقم دے دی؟ لگتا ہے وہ بڑا امیر بندہ ہے۔ بڑی دولت ہے اس کے پاس۔ ‘‘ صفیہ نے نوٹوں کی گڈی کی جانب دیکھتے ہوئے کہا تو بابا نعمت علی بولا

’’شکر کرو۔ میں نے تم لوگوں کی بات مان لی اور اس کے پاس چلا گیا۔ میں نے سوچا بھی نہیں تھا کہ اتنی وہ رقم دے دے گا۔ وہاں اس کی زمین پر چوہدری کے ڈنگروں کا چارہ ہی اگتا ہے۔ بھلا ہو اس کا اس نے میری بات مان لی۔ ‘‘

’’اُو ابا اس نے بھی سوچا ہو گا کہ عدالت کچہری کے چکروں میں کیا پڑیں۔ اپنی زمین لینے کے لیے اس کے پاس یہی آسان راستہ تھا۔ ورنہ وہ لڑ جھگڑ کر تو زمین لے نہیں سکتا تھا۔ ‘‘ نذیر نے اپنے رائے دی۔

’’وہ کچھ نہ کچھ طاقت رکھتا ہے، ورنہ ایویں ہی تھانے سے نہ آ جاتا وہ۔ جس طرح پولیس اسے پکڑ کر لے گئی تھی اور یہ لوگوں کو یقین ہے کہ اسے چوہدریوں نے ہی پکڑوایا تھا۔ کیا وہ اتنی جلدی واپس آ جاتا؟‘‘ بابا نعمت علی نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا

’’بات تو ٹھیک ہے لیکن وہ لڑ جھگڑ کر زمین نہیں لے سکتا تھا۔ جس طرح چوہدری نے کہا تھا مجھے اس میں تو فہد کا پَتّہ ہی صاف ہو جانا تھا۔ ‘‘ نذیر نے کہا

’’اب تم ان چوہدریوں سے بچ کر رہنا اور فہد سے بنا کر رکھنا اور جو تو نے دوکان بنانے کا سوچا ہے نا، اسے خوب عقل سمجھ سے چلانا۔ ‘‘ بابے نعمت علی نے اسے سمجھایا تو صفیہ نے کہا

’’یہ بڑا اچھا ہوا ہے کہ اب ہم مزارع نہیں رہے ورنہ نذیر کے بعد میرے بچے بھی انہی کی غلامی کرتے رہتے۔ اب ہم اپنی محنت کریں گے۔ اپنا کھائیں۔ چوہدریوں کی غلامی سے تو بچے۔ اب میرے بچے بھی پڑھ لکھ جائیں گے۔ ‘‘

’’اسی لیے تو یہاں سے جا رہے ہیں۔ تو جا اور اس رقم کو اندر لے جا کر سنبھال اور پھر ہمیں کچھ کھانے کے لیے دے۔ بہت بھوک لگی ہے۔ وہاں سارا دن گذر گیا ہے۔ ‘‘ نذیر نے کہا تو صفیہ اندر کی طرف چلی گئی۔ نعمت علی پھر سے اپنے بیٹے کو سمجھاتے ہوئے کہا

’’اب تو چند دن ادھر ادھر رہنا۔ چوہدری کے ہتھے لگنے کی ضرورت نہیں۔ وہ تو چاہے گا کہ ہم اس کے مزارع ہی رہیں۔ اب ہم نے ادھر نہیں رہنا۔ ‘‘

’’جی بابا ہماری تیاری تو ہے۔ بس آج کل میں نکل جائیں گے۔ زیادہ وقت یہاں گذارنے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ ‘‘ نذیر نے کہا اور چارپائی پر لیٹ گیا

کچھ ہی دیر بعد صفیہ ان کے لئے کھانا لے کر آ گئی۔ دونوں باپ بیٹے نے خوب سیر ہو کر کھایا۔ صفیہ برتن اٹھا کر اندر گئی تو اتنے میں ان کا دروازہ دھڑ سے کھلا۔ انہوں نے چونک کر دیکھا تو نذیر تڑپ کر اٹھا۔ ایک گن لئے ہوئے بدمعاش ان کے گھر میں گھس آیا تھا۔ نذیر نے اس کی طرف دیکھ کر انتہائی غصے میں کہا

’’اُوے تیری جرات کیسے ہوئی میرے گھر میں یوں داخل ہونے کی۔ ‘‘

’’اور تجھے جرات کیسے ہوئی پوچھنے کی۔ یہ گھر چوہدریوں کا ہے، جسے چاہیں اور جب چاہیں دے دیں۔ ‘‘ بدمعاش نے حقارت سے جواب دیا

’’کیا بکواس کر رہا ہے تو، نکل باہر ورنہ دھکے دے کر ۔۔۔‘‘ نذیر نے کہنا چاہا لیکن اس بدمعاش نے اسے ٹوکتے ہوئے کہا

’’تجھے باہر لے جانے کو تو میں اندر آیا ہوں ، چل باہر۔ ‘‘

یہ سن کر نذیر ٹھٹک گیا، اس نے کہا

’’ تو کہنا کیا چاہتا ہے؟

بدمعاش منہ سے کچھ نہیں بولا، گن اس کی طرف کر کے باہر نکلنے اشارہ کیا۔ نذیر کو جب اس نے گن پوائنٹ پر رکھ لیا تو وہ تینوں سہم گئے۔ نذیر اس کے آگے لگ کر باہر آ گیا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ چوہدری کبیر کی گاڑی اس کے گھر کے سامنے تھی اور وہ غضب ناک انداز میں اس کی طرف دیکھ رہا تھا۔ انتہائی غصے میں نذیر کی طرف دیکھتے ہوئے وہ گاڑی میں سے اترتے ہوئے پوچھا۔

’’اُوئے نذیرے۔ !تمہاری یہ جرات کیسے ہوئی ہم سے پوچھے بغیر تم نے معاہدہ کر لیا۔ رقم بھی پکڑ لی اور قبضہ بھی دے دیا ؟‘‘

اتنے میں بابا نعمت علی دونوں ہاتھ جوڑتا ہوا آگے بڑھا اور منت بھر انداز میں چوہدری کبیر سے بولا

’’معاف کر دیں جی چوہدری صاحب، میں بتاتا ہوں کہ میں نے۔۔۔‘‘

’’بھونک نہیں ، ساری شیطانی ہی تیری ہے بڈھے۔ ‘‘ چوہدری کبیر نے کہا تو نذیر تڑپتے ہوئے بولا

’’اُوئے چوہدری ۔۔۔تمیز سے بات کر۔۔۔ہم تیرے مزارع تھے۔۔۔ غلام نہیں ، ۔۔۔ ہم نے زمین کا نہیں ، ۔۔۔اپنی فصل کا سودا کیا ہے۔ ‘‘

اس کے یوں کہنے پر چوہدری کبیر کا دماغ ایک دم سے گھوم گیا، اس نے انتہائی غصے میں کہا

’’اچھا تو اب تیری زبان بھی چلنے لگی ہے، کاٹ کے رکھ دوں گا۔ ‘‘

’’نہیں چوہدری جی، میں کہہ رہا ہوں نا میں ۔۔۔‘‘ بابا نعمت علی نے کہنا چاہا تو وہ اس کی بات کاٹتے ہوئے بولا

’’میں اپنے خلاف کسی کو سوچنے بھی نہیں دیتا اور تم میرے سامنے بات کر رہے ہو۔ ‘‘

یہ کہتے ہوئے وہ غضب ناک ہو کر آگے بڑھتا ہے اور اس نے نعمت علی کے اس قدر زور سے تھپڑ مار ا۔ کہ وہ لڑکھڑا کر دور جا گرا۔

اس پر نذیر پاگلوں کی طرح آگے بڑھا اور چوہدری کبیر کو للکارتے ہوئے کہا

’’بس کر اوئے چوہدری۔ !میں نے اپنی مرضی سے پیسے لیے ہیں۔ میں مزارع ہوں۔ کوئی غلام نہیں۔ میرے اباکا اس معاملے میں کوئی عمل دخل نہیں ہے۔ اب اس سے آگے ہاتھ مت بڑھانا۔ ‘‘

’’اوئے۔ !تو بھی میرے سامنے بولتا ہے تیری یہ اوقات۔۔۔‘‘ چوہدری کبیر نے غصے کی شدت سے کہا اور اس پر تھپڑوں ، گھونسوں کی بارش کر دی۔ اس دوران نعمت علی اسے روکا، منت کرتا رہا، صفیہ نے بھی آ کر ہاتھ جوڑے چوہدری کبیر کو روکتی رہی۔ وہاں بہت سارے لوگ جمع ہو گئے تھے۔ ان میں چھاکا بھی یہ سارا منظر دیکھ رہا تھا، لیکن کسی میں یہ جرات نہیں ہوئی کہ وہ چوہدری کبیر کو روک لیتے۔ چوہدری کبیر نے اپنے قریب کھڑے گن بردار سے گن پکڑ لی اور اس کے بٹ سے نذیر کو مارنے لگا، تبھی نذیر پاس کھڑے ایک غنڈے کی طرف لڑکھڑا کر گیا اور اگلے ہی لمحے اس سے گن چھین لی۔ ہاتھ میں گن آتے ہی اس نے گن کا رخ چوہدری کبیر کی طرف کر کے بولٹ مار دیا۔ تبھی سناٹا چھا جاتا ہے۔ وہاں موجود ہر شخص نے اپنی سانسیں روک لیں۔

نذیر نے چوہدری زمان پر گن تانی ہوئی تھی۔ اس کے چہرے پر قہر برس رہا تھا۔ اس نے دھاڑتے ہوئے کہا

’’بہت ہو چکا چوہدری، تم لوگ غریبوں کو انسان ہی نہیں سمجھتے، تمہارے لیے ہم جیسے مزارع صرف جانور ہیں۔ جن کی رسی جس طرف چاہے موڑ دی۔ جب چاہا کسی کو بے عزت کر دیا۔ ‘‘

اس کی آنکھوں میں خون اتر اہوا دیکھ نعمت علی تیزی سے آگے بڑھا اور گن پکڑتے ہوئے بولا ’’نہیں نذیرے، اپنا ہاتھ روک لے، ہم یہاں رہیں گے ہی نہیں۔ چھوڑ دے۔ ‘‘

’’نہیں ابا۔ !یہ جس کو جب چاہیں دھکے مار دیں ، انہیں ذلیل کریں ، بے عزت کر دیں ، خدا بنے ہوئے ہیں یہ بے غیرت۔ ‘‘

وہ گن چھڑاتے ہوئے اپنے باپ کی دیکھ کر بات کر رہا تھا۔ اس کی توجہ بٹی ہوئی تھی۔ تبھی چوہدری زمان نے ایک لمحے کو اس کی جانب دیکھا اور پھر انتہائی تیزی سے نذیر کی طرف گن سیدھی کر کے فائر کر دیا۔ نذیر سمیت سبھی لوگ حیرت زدہ رہ گئے۔ اگلی ہی لمحے نذیر لہو میں لت پت زمین پر جا گرا اور تڑپنے لگا۔ ہر بندہ ساکت رہ گیا۔ تبھی چوہدری زمان انتہائی حقارت سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا

’’اوئے۔ !سب لوگ سن لو۔ اب کسی نے بھی ہمارے خلاف سوچنے کی جرات کی تو اس کا انجام اس نذیرے سے بھی بد تر کیا جائے گا۔ کوئی بھی شک، شبے میں نہ رہے۔ ‘‘

یہ کہتے ہوئے اس نے چاروں طرف لوگوں کی جانب دیکھا اور اپنی گاڑی کی جانب بڑھا اور بیٹھ کر چلا گیا۔ صفیہ دھاڑ یں مارتے ہوئے بھاگ کر اپنے شوہر کے پاس گئی۔ وہ چیختی چلاتی رہی۔ وہاں ہر کوئی خاموش تھا۔ چھاکے کے چہرے پر بے تحاشا غصے کے ساتھ ایسا افسردہ تاثر طاری تھی، جس میں انتہائی بے بسی تھی۔ روتی ہو ئی صفیہ کی مدد کو کوئی نہیں پہنچا۔ بابا نعمت اور صفیہ نذیر کے بے جان وجود سے لپٹ کر دھاڑیں مار رہے تھے۔ ان کی تو زندگی اجڑ گئی تھی۔

رات ہونے تک قسمت نگر کے قبرستان میں ایک نئی قبر کا اضافہ ہو چکا تھا۔ نعمت علی کے ساتھ کچھ لوگ قبر پر مٹی ڈال چکے تھے۔ تازہ پھولوں کے ساتھ اگر بتیاں سلگ رہی تھیں۔ سرہانے چراغ جلا دیا گیا تھا۔ لوگوں نے دعا مانگ کر منہ پر ہاتھ پھیرا اور آہستہ آہستہ قبرستان سے نکلتے چلے گئے۔

پولیس اپنی کاروائی کر کے جا چکی تھی۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ نے بھی وہی بتایا تھا، جسے سارے قسمت نگر نے دیکھا تھا۔ نامعلوم افراد کے خلاف ایف آئی آر درج ہو گئی تھی، جس کا کوئی مدعی نہیں تھا۔

رات کے ایسے ہی وقت حویلی کے ڈرائنگ روم میں چوہدری جلال اور بشریٰ بیگم بیٹھے ہوئے باتیں کر رہے تھے۔ ایسے میں رانی نے اندر آئی اور مودب لہجے میں بولی

’’وہ باہر منشی آیا ہے، آپ سے فوراً ملنا چاہتا ہے۔ ‘‘

’’ہاں۔ !بلاؤ اسے۔ ‘‘ چوہدری جلال نے عام سے انداز میں کہا تو رانی پلٹ کر دروازے کے باہر چلی گئی۔ بشریٰ بیگم اپنا آنچل درست کر نے لگی۔ تبھی منشی فضل دین تیزی سے اندر آیا، اسے دیکھ کر چوہدری جلال نے حیرت سے پوچھا، ’’ہاں منشی۔ !کیا بات ہے، خیر تو ہے نا؟‘‘

’’خیر ہی تو نہیں ہے جی، ‘‘ منشی نے تشویش زدہ لہجے میں کہا تو چوہدری جلال پر سکون انداز میں بولا

’’کیوں کیا ہوا ہے؟‘‘

’’وہ مزارع نعمت علی ہے نا جی، اور اس کا بیٹا نذیر۔۔۔‘‘وہ کہتے کہتے رک گیا تو چوہدری جلال نے غصے میں کہا

’’ اوئے آگے بول، چپ کیوں کر گیا ہے۔ ‘‘

’’جی، اس نذیرے کو نکے چوہدری نے کچھ دیر پہلے قتل کر دیا ہے۔ ‘‘ منشی نے ایک دم سے کہہ دیا تو چوہدری جلال اور چوہدرانی نے چونک کر دیکھا پھر چوہدری جلال نے پوچھا

’’کبیر اب کدھر ہے ؟ کیسے ہو ایہ؟‘‘

’’نکے چوہدری جی تو ڈیرے پر آ گیا ہے۔ اور۔۔۔‘‘

اس نے یہ کہہ کر ساری روداد سنا دی۔ ساری بات سن کر چوہدری جلال بولا

’’ہوں۔ ! کبیر سے کہو فوراً یہاں آئے۔ تم فون کر کے وکیل کو بلاؤ۔ میں دیکھتا ہوں۔ ‘‘

’’جی بہتر، میں فون کر کے ہی ڈیرے پر جاتا ہوں۔ ‘‘

منشی یہ کہہ کر واپس پلٹ گیا اور چوہدری سوچ میں پڑ گیا۔ تبھی بشریٰ بیگم نے تشویش سے کہا

’’چوہدری صاحب۔ !اب کیا ہو گا۔ یہ کبیر نے۔۔۔‘‘

’’پہلے کیا ہوتا ہے، کبیر کو پہلے کچھ ہوا ہے کبھی، کچھ نہیں ہوتا اُسے۔ ‘‘

’’یہ لڑکا بڑا اَتھرا ہو گیا ہے۔ ایک جیتے جاگتے انسان کو اس نے مار دیا۔ یہ اس نے ٹھیک نہیں کیا ہے۔ میرا بہت دل گھبرا رہا ہے۔ ‘‘ یہ کہتے ہوئے بشریٰ بیگم رو دی۔

’’حوصلہ رکھو بیگم حوصلہ۔ کیا ہوا ہے تمہیں ، کبیر کے سامنے یہ بات مت کر نا۔ مان لیا کہ اس نے یہ غلط کیا ہے۔ مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ تم میرے بیٹے کو بزدل بنا دو۔ میں نے کہا ہے نا۔ میں سب سنبھال لوں گا۔ کچھ نہیں ہو تا۔ ‘‘چوہدری جلال نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا اور اٹھ کر بڑے پر سکون انداز میں باہر کی جانب چلا گیا۔ بشریٰ بیگم سوگوارسی سوچوں میں ڈوبی وہیں سوگوار بیٹھی رہی۔

٭٭

 

دن چڑھ آیا تھا، بابا نعمت علی کے گھر کے باہر زمین پر دری بچھائے کافی سارے لوگ بیٹھے ہوئے دعا مانگ رہے تھے۔ ان میں فہد اور سراج نمایاں تھے۔ وہ سبھی مسجد میں نماز پڑھنے کے بعد سیدھے اسی کے پاس چلے گئے تھے۔ دُعا مانگ کر ذرا سی دیر میں خاموش بیٹھے رہے۔ پھر فہد نے تعزیت کرتے ہوئے کہا

’’بہت افسوس ہوا بابا نعمت علی، ہم سب نے ایسا تو نہیں چاہا تھا۔ ‘‘

’’ہاں فہد بیٹا۔ !میں نے امن چاہا تھا۔ سوچا تھا ہم مزارع چوہدریوں کا حکم ٹال نہیں سکیں گے۔ تمہاری اور ان کی لڑائی میں مارے تو ہمی نے جانا تھا۔ یہی سوچا تھا۔ مگر کیا معلوم وہ ہمیں معاف تو کیا کریں گے۔ نظر انداز بھی نہ کر سکے۔ میرے پتر کی میری ہی نگاہوں کے سامنے ۔۔۔‘‘ یہ کہتے ہوئے بابا نعمت علی رونے لگا۔ وہ چند لمحے خاموش رہے پھراسے دلاسا دیتے بولا

’’میں نے بھی یہی چاہا تھا اس لیے آپ کو رقم دی تھی کہ امن رہے اور بات نہ بڑھے۔ چوہدریوں کو یہ بات پسند نہیں آئی اور ہمیشہ کی طرح کمزور پر ہاتھ اٹھانے سے باز نہیں آئے۔ ‘‘

’’ہاں۔ !میں تمہیں ہی نہیں۔ کسی کو بھی کچھ نہیں کہتا، مجھے کسی سے کوئی گلہ نہیں ہے، بس میری قسمت میں ہی ایسا ہونا تھا۔ بڑھاپے میں یہ دکھ بھی دیکھنا تھا۔ میرا مقدر ہی ہار گیا۔ ‘‘

’’کسی کے ظلم کو آپ اپنا مقدر کیوں کہتے ہو بابا۔ کم از کم ظلم کو تو ظلم کہیں نا، آپ لوگ خود ہی اسے اپنا مقدر اور قسمت مان لیں گے تو پھر وہ ظلم کرتے رہیں گے۔ ظالم کا ہاتھ تو روکنا ہو گا نا بابا۔ ‘‘ فہد نے غصے میں کہا

’’ہم کیا کر سکتے ہیں میرے جیسا غریب آدمی ان چوہدریوں کا کیا بگاڑ سکتا ہے۔ ان کا اور ہمارا کیا مقابلہ۔۔۔‘‘ نعمت علی نے بے بسی سے کہا توسراج بولا

’’بابا تم ان کے خلاف کچھ کرنے والے تو بنو، ہم تمہارے ساتھ ہیں۔ ہم کریں گے ان ظالموں کا مقابلہ؟‘‘

’’کب تک کرو گے ان کا مقابلہ؟ ان کے ہاتھ اتنے لمبے ہیں۔ جہاں تک ہم سوچ بھی نہیں سکتے۔ میں جانتا ہوں پتر، اگر وہ نذیر کو ختم کر سکتے ہیں تو کسی اور کو بھی نہیں چھوڑیں گے۔ میں ایسی کوئی بات سوچنا نہیں چاہتا۔ جو ہونا تھا، وہ ہو گیا۔ میں کچھ نہیں کرنا چاہتا۔ ‘‘ نعمت علی نے اسی بے بسی سے کہا توسراج بولا

’’ہم لوگوں کی یہی سوچ تو انہیں حوصلہ دے دیتا ہے اور وہ ظلم پر ظلم کرنے چلے جا رہے ہیں۔ تم ہمت تو کرو بابا ہم تمہارے ساتھ ہیں۔ ‘‘

’’نہیں۔ !سراج پتر۔ !میں کچھ نہیں کرنا چاہتا۔ میں کوئی ہمت نہیں کرنا چاہتا۔ مجھ میں نہیں ہے حوصلہ۔ ‘‘ نعمت علی نے سر نفی میں ہلاتے ہوئے کہا تو فہد بولا

’’بابا۔ !ہم کوئی زور زبردستی نہیں کرنا چاہتے۔ تم سوچ لو پھر بتا دینا۔ میں سمجھتا ہو کہ اس وقت تم کس طرح کے غم بھرے حالات میں سے گذر رہے ہو۔ ‘‘

’’مجھے اب کیا سوچنا ہے فہد۔ !میری تو ساری سوچیں ہی ختم ہو گئی ہیں۔ ایک بیٹا تھا وہ بھی منوں مٹی تلے جا سویا۔ نہیں میں نے اب یہاں رہنا ہی نہیں ہے۔ چلے جانا ہے یہاں سے، مجھے کچھ نہیں کرنا۔ کچھ نہیں کرنا مجھے۔ ‘‘ نعمت علی نے خوف زدہ ہوتے ہوئے کہا تو فہد اور سراج نے چونک کر اسے دیکھا۔ پھر فہد نے سوچتے ہوئے کہا

’’چلو، جیسے تمہاری مرضی۔ اچھا، اب ہم چلتے ہیں۔ ‘‘

یہ کہہ کر وہ اٹھا اور چل دیا۔ اس کے ساتھ دوسرے کئی لوگ بھی تھے۔ فہد تو اپنے گھر کی جانب چل دیا تو کچھ لوگ چوراہے کی طرف چلے گئے۔

چوراہے پر موجود لوگوں کو ایک بہت بڑا موضوع مل گیا ہوا تھا۔ کافی لوگ وہاں موجود تھے۔ ان میں چاچا سوہنا جو بڑے دھیان سے ان کی سنتا چلا جا رہا تھا۔ ایک بندہ کہہ رہا تھا

’’یار نذیرے کا بڑا دکھ ہو ہے۔ کل یہاں کتنا ٹھیک ٹھاک خوش باش ہمارے درمیان تھا اور آج بے چارہ ہم میں نہیں رہا۔ ‘‘

اس پر حنیف دوکاندار نے کہا

’’ہاں یار۔ !اگر یہ فہد والا معاملہ درمیان نہ ہو تا تو انہوں نے اس نذیرے کو کیا کہنا تھا۔ وہ تو ان کا مزارع تھا۔ ‘‘

’’بس یار۔ !اس کی ایسے ہی لکھی ہوئی تھی۔ ‘‘

وہاں موجود ایک دوسرے شخص نے کہا تو حنیف دوکاندار طنزیہ لہجے میں بولا

’’ایسے لکھی ہوئی نہیں تھی۔ اصل میں بابے نعمت نے لالچ کیا۔ فہد نے اسے رقم کا لالچ دیا اور وہ فوراً تیار ہو گیا۔ چوہدری ایویں ہی کسی کو سزا نہیں دیتے۔ مالک کی وفاداری کرنے کی بجائے فہد کا ساتھ دینے لگے۔ ‘‘

’’میں نے تو یہ سنا ہے کہ انہوں نے چوہدری سے پوچھا ہی نہیں تھا۔ خود ہی رقم کی بات کی اور لے کر ہضم کرنا چاہتے تھے۔ ‘‘ ایک تیسرئے بندے نے چسکہ لیا

’’اصل میں یہ سارا چکر فہد کا چلا یا ہوا ہے نا۔ وہ اپنی زمین واپس لینا چاہتا تھا۔ یہ بات بھلا کون نہیں جانتا۔ اس کا ہی کیا دھرا ہے سب۔ وہ انہیں لالچ نہ دیتا۔ تو آج نذیر ہمارے درمیان ہوتا۔ ‘‘ حنیف دوکاندار نے جوش سے ان کی طرف دیکھ کر کہا

’’اور کیا اب چوہدریوں سے فہد لڑ تو نہیں سکتا تھا نا۔ یہی کرنا تھا۔ ‘‘

پہلا شخص بولا توا س پر چاچے سوہنے نے سر اٹھتے ہوئے کہا

’’اُو سن اُوئے حنیف، کچھ تو انصاف کی بات کرو، اس میں بھلا فہد کا کیا قصور ہے۔ بابا نعمت علی خود گیا تھا فہد کے پاس اور رقم یہاں طے ہوئی تھی۔ گاؤں کے لوگوں کے درمیان یہاں۔ اور پھر مجھے یہ بتا، چوہدری کو ن ہو تے ہیں اتنی بڑی سزادینے والے۔ یہ تم لوگ تو جانتے ہو نا کہ وہ زمین فہد ہی کی تھی۔ ویسے بھی اس سارے واقعے میں فہد کا قصور کیا ہے؟‘‘

’’او بس کر چاچا۔ !بابا نعمت نے غلطی کی اور اب اس کا خمیازہ بھگت رہا ہے۔ باقی رہی سزا دینے یا نہ دینے کی بات۔ تو طاقتور کے سامنے کون رک سکتا ہے۔ وہ تو جو جی آئے گا، کرے گا۔ ‘‘ حنیف دوکاندار نے لاپرواہی سے یوں کہا جیسے وہ چوہدریوں کی بات کر رہا ہو۔

’’طاقت کا نشہ کمزوروں پر ہی کیوں اترتا ہے۔ فہد اسی گاؤں میں ہے۔ سب کے سامنے پھر رہا ہے۔ اس نے بھی تو اپنا گھر واپس لیا تھا۔ اسے کچھ کیوں نہیں کہتے تمہارے یہ چوہدری۔ ‘‘ چاچے سوہنے کے لہجے میں حقارت اتر آئی تھی۔

’’ہاں۔ !یہ بات تو ہے۔ فہد یونہی چوہدریوں سے ٹکر لینے آ گیا۔ اسے اب تک کیوں نہیں کچھ کہتے یہ چوہدری۔ ‘‘ وہاں موجود ایک بندے نے ہاں میں ہاں ملائی تو حنیف دوکاندار نے تنک کر کہا

’’چلو مان لیتے ہیں کہ اس کے پاس عقل سمجھ ہو گی۔ کوئی نہ کوئی شے ضرور ہو گا۔ پر حقیقت یہ ہے کہ فہد کے ساتھ دینے پر نذیرے کا قتل کیا ہوا۔ ہم نے تو یہ دیکھنا ہے۔ کوئی کس کے ساتھ کیا کرتا ہے۔ ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہی نہیں۔ ‘‘

’’کوئی دوسرا اگر فہد کا ساتھ دے گا تو اس کے ساتھ بھی کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ ‘‘ ایک نے کہا

’’تُو چاچا۔ !یہاں بیٹھ کر چپ چاپ یہ کنتوری کھیل ایویں فہد کی تعریفیں مت کیا کر، پہلے کیا ہوا ہے تیرے ساتھ؟‘‘ حنیف دوکاندار نے اسے یاد دلایا تو چاچا سوہنا بولا

’’ وہ تیرے چوہدریوں کی بے غیرتی تھی، طاقت کے زور پر لوگوں کو خوف زدہ کرتے ہیں۔ وہ چوہدریوں کی طاقت نہیں کمزور لوگوں کا گھٹیا حربہ تھا۔ میرا ساتھ بھی تو پھر فہد نے دیا۔ اس کا جگر دیکھ۔ اُوے جاؤ اوئے، تم لوگوں کو خوف نے مار دیا ہے۔ تم تو پہلے ہی مرے ہوئے ہو۔ ‘‘یہ کہہ کر وہ اپنے دھیان ہو کر کنتوری کھیلنے لگا۔ دوسرے لوگ کچھ دیر خاموش رہے پھر ادھر ادھر بکھر گئے۔ قسمت نگر میں یہی موضوع زیر بحث تھا۔

سلمی اپنے گھر کے صحن میں انتہائی افسردہ بیٹھی ہوئی تھی۔ اس کے چہرے پر سوگواریت پھیلی ہوئی تھی۔ اتنے میں ماسٹر دین محمد گھر میں داخل ہوا اور آہستہ قدموں سے چلتا ہوا چارپائی پہ آ کر بیٹھ گیا۔ چند لمحے خاموشی سے گذر گئے تو سلمٰی نے دھیمے لہجے میں پوچھا

’’دفنا دیا نذیر کو اتنی جلدی دفنا دیا گیا۔ ‘‘

ماسٹر دین محمد نے ایک طویل سرد آہ بھرتے ہوئے کہا

’’اور پتر۔ !کب تک ایسا نہ کرتے وہ، ان کا کوئی رشتے دار بھی تو نہیں تھا۔ جس کے انتظار میں وہ جنازہ رکھ چھوڑتے۔ ‘‘

’’ابا جی۔ اس کا قتل ہوا ہے۔ چوہدری کبیر نے اتنے لوگوں کے سامنے اسے گولی مار دی۔ اتنا بڑا ظلم ہو گیا اور کوئی پوچھنے والا بھی نہیں ، یوں جیسے کچھ بھی نہ ہوا ہو؟‘‘ سلمی نے غصے میں کہا تو ماسٹر دین محمد نے اس کی طرف دیکھا۔ سلمی کے لہجے میں جو آگ تھی اس نے بخوبی محسوس کی تھی۔ اسی لئے دھیمے لہجے میں بولا

’’یہ کون سا اس علاقے میں نئی بات ہوئی ہے۔ کیا کرتے وہ نذیر کے بے جان جسم کو ؟تھانے اور ہسپتالوں میں لے گئے، کون سنتا ان کی۔۔۔ وہی کاروائی اور ان چوہدریوں سے کیا مقابلہ بھلا ان کا۔ ‘‘ ماسٹر دین محمد نے کہا

’’وہ ان کا مزارع ہی تھا۔ کوئی زر خرید غلام تو نہیں تھا۔ پرانے وقتوں کا ان کے ساتھ تھا۔ کوئی بھی اچھاسلوک کیا جا سکتا تھا۔ اس نے ایسا کیا جرم کر دیا تھا۔۔۔انہوں نے تو لڑائی جھگڑے اور فساد سے بچنا چاہا تھا۔ ‘‘ اس نے دکھ سے کہا

’’یہی تو ان کی غلطی تھی۔ چوہدری کا مزارع ہو کر اس نے زمین فہد کے حوالے کر دی۔ اور چوہدریوں سے پوچھے بغیر رقم بھی لے لی، یہ ان کی نظروں میں جرم نہیں تو اور کیا ہے؟‘‘ماسٹر دین محمد نے کہا توسلمٰی تیزی بولی

’’زمین کون سا چوہدریوں کی ملکیت تھی۔ انہوں نے بھی تو فہد کی زمین پر قبضہ کیا ہوا تھا۔ چلو یہ بھی مانا کہ ان کی غلطی تھی۔ کیا اس کی اتنی بڑی سزانذیر کی بیوی صفیہ اس کے بچے ۔۔۔ وہ تو بے یار و مدد گار ہو گئے نا، چوہدریوں نے ذرا بھی نہیں سوچا کہ ان کا کیا ہو گا؟‘‘

’’پتر۔ !جنگ میں ہار یا جیت کا فیصلہ کسی کے حق میں بھی ہو۔ تباہی میدان جنگ کی ہوتی ہے۔ انہوں نے غلط فیصلہ کیا یا نہیں کیا اس زمین نے ہی نذیر کی بھی جان لے لی۔ ‘‘ماسٹر دین محمد نے دکھ سے کہا

’’اباجی۔ !اس زمین نے نذیر کی جان نہیں لی۔ چوہدریوں کی ضد لالچ اور غرور نے لی ہے۔ وہ اس علاقے کی ہر شے کو اپنی ملکیت سمجھتے ہیں یہاں تک کہ انسانوں پر بھی اپنا حق جتاتے ہیں۔ وہ جب چاہیں کسی کو بیوہ کر دیں۔ جب دل چاہا بچے یتیم کر دیں۔ یہ ظلم نہیں تو اور کیا ہے ابا جی ؟‘‘ سلمی نے احتجاجی لہجے میں کہا

’’میں کب کہتا ہوں یہ ظلم نہیں ہے۔ مگر کیا کر سکتے ہیں ہم بتاؤ، کچھ نہیں ہو سکتا نا۔ یہ جلنے کڑھنے والی باتیں ہی کر سکتے ہیں ہم۔ ‘‘ماسٹر دین محمد آہستگی سے بولا

’’یہ لوگ چپ چاپ کیوں ظلم سہتے رہتے ہیں۔ آواز کیوں نہیں اٹھاتے۔ خوف کے اندھیرے میں اپنی اپنی جگہ ظلم سہتے جا رہے ہیں۔ ‘‘ سلمی نے دکھ سے کہا توماسٹر دین محمد خوفزدہ انداز میں بولا

’’چھوڑ و، ان باتوں کو، ہم کچھ نہیں کر سکتے۔ اس لیے تم نہ سوچا کرو ایسی باتیں۔ ‘‘

’’کیوں نہ سوچوں ، ایک عورت کو بیوہ کر دیا گیا۔ بچوں کو یتیم بنا دیا اور ہم سوچیں بھی نہ۔ میں جاؤں گی صفیہ کے پاس۔ مجھ سے جو ہو سکا، میں اس کے لیے کروں گی۔ ‘‘ سلمی نے ہمدردی سے کہا تو ماسٹر دین محمد تیزی سے بولا

’’کیا کرو گی تم ؟کچھ دیر اس کے ساتھ بیٹھ کر آنسو بہا لو گی۔ اسے تسلی دلاسے دے دو گی اور اپنے دل میں چوہدریوں کے لیے نفرت لے کر آ جاؤ گی، بس۔ ‘‘

’’میں کچھ نہ کچھ تو کروں گی نا۔ چاہے مجھ سے کچھ ہو سکا یا نہ ہو سکا۔ ‘‘ وہ حتمی لہجے میں بولی اور اٹھ کر اندر چلی گئی۔ ماسٹر دین محمد نے ایک بار اس کی طرف دیکھا اور بے بسی سے سر جھکا لیا۔

زیادہ دیر نہیں گذری تھی، سلمی اکیلی ہی صفیہ کے گھر جا پہنچی۔ صفیہ غم سے نڈھال تھی۔ وہ دونوں کمرے میں بیٹھی ہوئی تھیں۔ صفیہ سسکیوں میں رو رہی تھی۔ سلمیٰ اس کے پاس غم زدہ بیٹھی ہوئی تھی۔ وہ سمجھ رہی تھی کہ صفیہ کا دکھ کیا ہے۔ جب وہ دل کا بوجھ ہلکا کر چکی تو صفیہ بولی

’’میں سمجھتی ہوں سلمٰی اس میں فہد کا یا کسی کا بھی کوئی قصور نہیں ہے۔ یہ سچ ہے کہ چوہدریوں نے میرے شوہر کو لڑنے مرنے کے لیئے آمادہ کر لیا تھا۔ اور میرے سسر نے جو کیا وہ غلط تھا یا ٹھیک، ان چوہدریوں کو تھوڑا بہت میرے بچوں کا خیال بھی نہیں آیا۔ ‘‘

’’انہوں نے ظلم کیا ہے۔ اتنی بڑی سزا؟پھر وہ کون ہوتے ہیں اتنی بڑی سزا دینے والے۔ انہیں کوئی پوچھتا ہی نہیں ہے؟‘‘ سلمی نے غصے میں کہا

’’سلمٰی۔ !کوئی انہیں پوچھے یا نہ پوچھے مگر میں اپنے شوہر کا انتقام ضرور لوں گی۔ ‘‘ صفیہ نے پر جوش لہجے میں ایک عزم سے کہا توسلمٰی نے چونکتے ہوئے پوچھا

’’کیا کرو گی تم، تم اکیلی عورت تھانے کچہروں میں کیا کر سکو گی۔ کون پوچھے گا تمہیں ؟‘‘

’’کوئی بھی نہ پوچھے۔ میں اپنی کوشش تو ضرور کروں گی۔ مجھے یقین ہے وہ جو اوپر نیلی چھت والا ہے نا۔ میری مدد ضرور کرے گا۔ میں انصاف کا ہر دروازہ کھٹکھٹاؤں گی، میں چوہدریوں کو معاف نہیں کروں گی۔ ‘‘ صفیہ کے لہجے میں ویسا ہی عزم تھا

’’دیکھ لو۔ !تمہارا یہ غصہ اور انتقام کی باتیں وقتی نہ ہوں۔ ‘‘ سلمی نے سوچتے ہوئے لہجے میں پوچھا

’’نہیں سلمٰی۔ !ایسا نہیں ہو گا۔ میں کل تک انتظار کروں گی۔ میرے سسر نے کچھ نہ کیا تو پھر میں خود باہر نکلوں گی۔ ‘‘ صفیہ نے کہا

’’صفیہ۔ !اگر تم ہمت کرو۔ تو چاہے تیرا کوئی ساتھ دے نہ دے، مگر میں ہر قدم پر تمہارے ساتھ ہوں۔ ‘‘یہ کہتے ہوئے سلمی نے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا تو صفیہ نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا، پھر بولی

’’تم۔ !سلمٰی تم میرا ساتھ دوں گی؟‘‘

’’ہاں۔ !میں ۔۔۔تم دیکھنا۔ آج جن کے خوف سے لوگ دبے ہوئے ہیں کل یہی ہماری طاقت بن جائیں گے۔ ہم اپنی پوری کوشش کریں گے۔ بس تم ثابت قدم رہنا۔ ‘‘ سلمی نے حوصلہ مند لہجے میں کہا

’’نہیں۔ !میں نے فیصلہ کر لیا ہوا ہے، میں اپنے شوہر کا انتقام ضرور لوں گی۔ چاہے وہ جتنے بھی طاقتو ر ہیں۔ میں انتقام لے لوں گی یا پھر زندہ نہیں رہوں گی اپنے بچوں کے ساتھ جل مروں گی۔ ‘‘

یہ کہہ کر صفیہ نے اپنے آنسو صاف کر دئیے۔ صفیہ کا عزم بھرا چہرہ یہ ظاہر کر رہا تھا کہ جو کچھ وہ کہہ رہی ہے، وہی اس کے دل میں بھی ہے۔ اسے دیکھ کر سلمی کا حوصلہ بڑھ گیا تھا۔ وہ محسوس کر سکتی تھی کہ چوہدریوں کے بارے میں جو نفرت اس کے اندر ہے، ویسی ہی صفیہ میں بھی موجود ہے۔

٭٭

 

حویلی کے کاریڈور میں چوہدری جلال اور منشی فضل دین آمنے سامنے کھڑے باتیں کر رہے تھے۔ چوہدری بڑے کروفر اور پر سکون انداز میں جبکہ منشی مودب انداز میں کافی گھبرایا ہوا تھا۔ جب وہ بولا تو اس کے لہجے میں بھی گھبراہٹ تھی

’’چوہدری صاحب۔ !کل رات ہی وہ نذیرے کو دفنا دیا گیا تھا۔ میں نے ادھر اُدھر لوگوں کو سمجھا دیا ہے۔ مجھے نہیں لگتا کہ وہ بابا نعمت علی کسی بھی قسم کی کوئی کاروائی کرے گا۔ ‘‘

’’اسے اچھی طرح سمجھا دیا ہے نا۔ ‘‘چوہدری جلال نے پوچھا تو منشی نے کہا

’’جی، جی، وہ تو میں نے اسے اچھی طرح سمجھا دیا ہے۔ میں رات کچھ دیر بیٹھا رہا ہوں اس کے پاس اور آتے ہوئے میں نے کچھ نوٹ بھی اس کی مٹھی میں دے دیئے تھے۔ اب تک اگر اس نے کچھ نہیں کیا تو پھر بھی نہیں کرے گا۔ ‘‘

’’تم کیسے کہہ سکتے ہو کہ وہ کچھ نہیں کرے گا۔ وہ فہد بھی تو انہیں ورغلا سکتا ہے۔ تمہارا کیا خیال ہے۔ وہ کوئی کوشش نہیں کرے گا۔ اس نعمت علی کا کوئی پکا بندوبست کرنا تھا۔ ‘‘ چوہدری جلال نے تشویش سے کہا تو منشی بولا

’’میرا نہیں خیال کہ نعمت علی کسی بھی قسم کی کاروائی کرے گا۔ و ہ تو خود بے چارہ معافی مانگ رہا تھا کہ اس سے غلطی ہو گئی۔ وہ کہاں فہد کی باتوں میں آنے والا ہے۔ آپ فکر نہ کریں جی۔ ‘‘

’’نہیں۔ نہیں منشی۔ کوئی اعتبار نہیں ہے۔ توایسے کر، اسے یہاں بلا۔ میں کروں گا اس سے بات۔ میں دیکھنا چاہتا ہوں کہ وہ اندر سے کیا ہے؟‘‘چوہدری جلال نے کہا تو منشی سر ہلاتے ہوئے بولا

’’جیسے آپ کا حکم میں ابھی کوئی بندہ اس کو بلانے کے لئے بھیج دیتا ہوں۔ آپ خود کر لیجئے گا بات۔ ‘‘

’’ہاں۔ !ایسے ہی کرو۔ وہ آج شام سے پہلے پہلے میرے پاس آ جائے۔ ‘‘چوہدری جلال نے حکم دیا

’’جی، وہ آ جائے گا۔ ‘‘ منشی نے یقین سے کہا اور پھر ایک لمحے بعد جھجکتے ہوئے بولا، ’’ ایک بات کہنا چاہتا ہوں آپ سے؟‘‘

’’ہاں بولو منشی۔ !کیا کہنا چاہ رہے ہو۔ ‘‘ چوہدری جلال نے کہا تو منشی بولا

’’جہاں تک میں سمجھتا ہوں۔ یہ معاملہ یہیں دب جائے گا اور پھر آپ خود نعمت علی سے بات کر لیں گے۔ لیکن۔ !اب وقت ہے کہ آپ نکے چوہدری کو زیادہ ڈھیل نہ دیں۔ ورنہ معاملات اس قدر خراب ہو سکتے ہیں کہ ہمارے ہاتھ میں نہیں رہ سکیں گے۔ ‘‘

اس کے یوں کہنے پر چوہدری جلال نے سوچتے ہوئے کہا

’’بات تو تم ٹھیک کہہ رہے ہو منشی۔ !میں بھی یہی چاہتا ہوں میرے خیال میں تو اسے ڈھیل دینی ہی نہیں چاہیے تھی۔ لیکن اب کیا کریں۔ منہ زور گھوڑے کو لگام دینے میں بھی ذرا وقت تو لگتا ہے۔ ‘‘

’’جی۔ !آپ ٹھیک کہ رہے ہیں۔ لیکن لگام دی جائے تبھی نا۔ ‘‘

منشی نے خوشامدانہ انداز میں کہا تو چوہدری جلال اسے سمجھاتے ہوئے بولا

’’یہ معاملہ دب جائے تو پھر میں اسے سمجھاتا ہوں۔ بلکہ سمجھانا کیا ہے۔ اسے ریشمی زنجیروں میں جکڑ دیتے ہیں۔ دیکھتے ہیں پھر، خیر۔ !علاقے کے لوگوں کا رد عمل کیا ہے؟‘‘

’’کچھ اتنا خاص نہیں ہے۔ انہیں کیا پڑی ہے کہ کسی کا خواہ مخواہ ساتھ دیتے پھریں۔ وہ فہد کے آنے سے ذرا ہلچل ہوئی تھی، وہ ساری ختم ہو کر رہ گئی ہے۔ سکون ہے اب ہر طرف۔ تھانیدار نے اپنا کام دکھا دیا ہے۔ اب تک کوئی مدعی سامنے نہیں آیا۔ ‘‘ منشی نے سب اچھا کی رپورٹ دے دی تو چوہدری جلال نے سر ہلایا اور اندر کی جانب بڑھتے ہوئے بولا

’’ٹھیک ہے۔ میں نے بلوایا ہے وکیل کو، کوئی مشورہ کرتے ہیں۔ ‘‘

یہ کہتے ہوئے چوہدری جلال اندر چلا گیا اور منشی کافی دیر تک کاریڈور میں بیٹھا سوچتا رہا۔ یہاں تک کہ وکیل جمیل اختر آ گیا۔

ڈرائینگ روم میں وکیل جمیل اختر صوفے پر بیٹھا گہری سوچ میں تھا اور منشی قریب خاموش کھڑا تھا۔ اتنے میں چوہدری جلال آ گیا تو وکیل اٹھ کر کھڑا ہو گیا۔ چوہدری جلال خوش دلی سے کہا

’’بیٹھیں بیٹھیں وکیل صاحب بیٹھیں تشریف رکھیں۔ ‘‘یہ کہہ کر وہ بھی سامنے والے صوفے پر بیٹھ گیا۔ وکیل اس کی جانب متوجہ ہو تے ہوئے بولا

’’جی چوہدری صاحب۔ !فرمائیں۔ ‘‘

’’وہ آپ نے نذیرے کے بارے میں سن لیا ہو گا۔ جو ہمارا مزارع تھا اور اسے اپنے کبیر نے ۔۔۔‘‘ چوہدری جلال نے کہا

’’جی میں نے سنا ہے یہ اپنے منشی نے مجھے ساری بات بتا دی ہے۔ اب اس معاملے کو دیکھنا تو پڑے گا میں دیکھتا ہوں۔ ‘‘ وکیل نے ہولے سے کہا تو چوہدری جلال بولا

’’وکیل صاحب۔ ! آپ بڑی ڈھیلی سی بات کر رہے ہیں کیا بات ہے۔ آپ کو ہم پر یقین نہیں رہا یا آپ کی وکالت کو کچھ ہو گیا ہے؟‘‘

’’چوہدری صاحب۔ !بات یہ نہیں ہے۔ ابھی اسی طرح کا ایک معاملہ نپٹایا ہے۔ اس کی ابھی گرد تک نہیں بیٹھی۔ کوئی فیصلہ سامنے نہیں آیا۔ تو ایک اور معاملہ سامنے آ گیا ہے۔ ‘‘ وکیل نے جواب دیا

’’تو کیا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ آپ اس معاملے کو حل نہیں کر پائیں گے۔ کیا ہو گیا ہے آپ کو؟اگر آپ نہیں کر سکتے تو۔۔۔‘‘چوہدری جلال نے کہتے ہوئے اپنی بات ادھوری چھوڑ دی تو وکیل نے سمجھانے والے انداز میں کہا

’’نہیں۔ !اس معاملے کو حل کرنا مشکل ہے، ناممکن نہیں۔ کیونکہ اس معاملے کو حل کرنے میں وقت لگے گا۔ ‘‘

’’کیا مشکل ہے اس میں وکیل صاحب، مجھے بتاؤ۔ میں اسے دور کر دوں گا۔ اور وقت۔۔۔یہ کیا کہہ رہے آپ؟‘‘ چوہدری جلال نے الجھتے ہوئے پوچھا

’’یہی تو اصل مسئلہ ہے چوہدری صاحب۔ !یہ معاملہ حل نہیں ہو گا۔ بلکہ اسے دبانا پڑے گا۔ اس کی چند وجوہات ہیں۔ سب سے پہلی وجہ تو یہ ہے کہ اگر کوئی بھی مدعی اٹھ کھڑا ہوا اور اس نے نکے چوہدری کا نام لے دیا، تو بہت زیادہ مشکل ہو جائے گی۔ دوسرا اگر ملک نعیم اگر سیاست دان ہے تو وہ اس میں ضرور دلچسپی لے گا۔ یہ معاملہ اس سے چھپا نہیں رہ سکے گا۔ وہ ضرور اسے اُچھالے گا۔ اور تیسرا فہد یہاں سر پر موجود ہے۔ حل ہوتا ہوا معاملہ بھی بگڑ سکتا ہے۔ ‘‘ وکیل نے بتایا

’’اس معاملے کو دبانے کے لیے کیا کیا جا سکتا ہے۔ آپ کیا کہتے ہیں ؟‘‘چوہدری جلال نے پھر پوچھا

’’سیدھی سی بات ہے۔ یہیں کا معاملہ ہے، یہیں دبا دیں۔ نذیرے کے لواحقین کو راضی کرنا پڑے گا۔ تا کہ ان میں سے کوئی بھی مدعی نہ بن جائے۔ پھر کوئی چاہے جو مرضی کرے۔ کم از کم قانونی گرفت نہیں ہو گی۔ ‘‘ وکیل نے سمجھایا تو چوہدری جلال نے کہا

’’آپ کی بات سمجھ میں آ رہی ہے۔ ‘‘

’’اور آپ یہ بات چوہدری کبیر کو بھی اچھی طرح سمجھا دیں کہ اگر انہوں نے سیاست کرنی ہے۔ تو عوام کا دل جیتیں۔ اس طرح تو نہیں چلے گا۔ اب زمینی حقائق کچھ دوسری طرح کے ہیں۔ ‘‘ وکیل نے سمجھایا

’’آپ ٹھیک کہتے ہیں وکیل صاحب۔ !لیکن یہ سمجھ نہیں آ رہی کہ ایسے کیا زمینی حقائق ہیں جو آپ کو خوف زدہ کر رہے ہیں۔ خیر۔ !ان کے لواحقین میں اتنی جرات نہیں کہ و ہ ہمارے سامنے کھڑے ہوں۔ جن لوگوں کو ضروری ہے۔ آپ انہیں مل لیں۔ ‘‘ چوہدری جلال نے حقارت بھرے لہجے میں کہا تو وکیل بولا ’

’ٹھیک ہے چوہدری صاحب۔ !اب مجھے اجازت۔ میں بہت جلدی میں آیا تھا۔ ‘‘

’’ٹھیک ہے۔ آپ فون پر مجھے بتا دیں کہ کیا بنا۔ ‘‘ چوہدری جلال نے کہا تو وکیل نے اٹھتے ہوئے چوہدری جلال سے ہاتھ ملایا اور باہر نکلتا چلا گیا۔ تبھی چوہدری نے منشی کی طرف دیکھ کر کہا

’’منشی۔ !وہ کیا نام ہے اس کا۔ نعمت علی۔ میں نے اسے بلانے کو کہا تھا۔ ‘‘

’’جی شام کو بلوانے کا کہا تھا اُسے۔ وہ آ جائے گا۔ ‘‘ منشی نے تیزی سے کہا تو چوہدری جلال بولا

’’دھیان سے، بہت دھیان سے، ابھی جاؤ، وہ کہیں نکل نہ جائے اور اسے سب سمجھا بھی دینا، سمجھ گئے نا؟‘‘

’’جی میں سمجھ گیا۔ ‘‘ منشی نے کہا اور و ہ بھی باہر کی جانب چل دیا۔ چوہدری جلال وہیں بیٹھا ہوا، سوچوں میں کھو گیا۔ اسے حالات کی سمجھ آ رہی تھی۔

٭٭

 

رات کا ابھی پہلا ہی پہر تھا۔ بابا نعمت علی اور منشی دونوں حویلی کے اس کاریڈور میں کھڑے تھا، جہاں ملگجی سی روشنی تھی، اور وہیں چوہدری جلال ایک صوفے پر بیٹھا ان کی طرف دیکھ رہا تھا۔ بابا نعمت نے قریب جا کر اسے سلام کیا تو چوہدری جلال نے چند لمحے اس کی طرف دیکھتے رہنے کے بعد کہا

’’نعمت علی۔ !تم جانتے ہو کہ میں نے تمہیں کیوں بلایا ہے؟‘‘

’’جی، چوہدری صاحب۔ !میں جانتا ہوں۔ مجھے منشی نے ساری بات بتا دی ہے۔ ‘‘ اس نے دھیرے سے جواب دیا تو چوہدری جلال نے کہا

’’دیکھ نعمت علی۔ !جو ہونا تھا۔ وہ ہو گیا۔ تم لوگوں کا کتنا قصور ہے۔ یا تم لوگوں کو کسی نے بہکا دیا۔ ان باتوں کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ یا پھر بتاؤ۔ کوئی فائدہ ہے؟‘‘

’’نہیں سرکار کوئی فائدہ نہیں۔ ‘‘ بابا نعمت علی دھیمے سے بولا تو چوہدری جلال نے رعب سے کہا

’’تو پھر یہ وقت ان باتوں کے سوچنے کا نہیں۔ سوچیں گے یا نہیں سوچیں گے، اس سے تمہارا بیٹا تو واپس نہیں آ جائے گا۔ لیکن۔ !مجھے تمہارے دکھ کا احساس ہے۔ ‘‘

’’آپ بڑے لوگ ہیں۔ آپ ہی ہمارا احساس کریں لیکن چوہدری صاحب۔ !اب میں یہاں نہیں رہوں گا یہاں سے کہیں دور چلا جاؤں گا۔ میں پہلے بھی یہاں نہیں رہنا چاہتا تھا۔ آپ ہمیں معاف کر دیں۔ ہم یہاں سے چلے جائیں گے۔ ‘‘ بابانعمت علی ڈرتے ہوئے کہا

’’میں تمہیں روک تو نہیں سکتا۔ یہ تمہاری مرضی ہے کہ تم کیا کرتے ہو۔ میں تو تمہارا احساس کرتے ہوئے، تمہارا خیال کرتے ہوئے تیری مدد کرنا چاہتا ہوں۔ ‘‘ چوہدری نے کہا اور اپنی جیب سے نوٹوں کی گڈی نکال کر میز پر رکھ دی۔

’’یہ کیا چوہدری صاحب؟‘‘بابا نعمت علی نے حیرت سے پوچھا تو چوہدری جلال نے کہا

’’یہ تھوڑی سی رقم ہے اسے اپنے پاس رکھ۔ ‘‘ چوہدری جلال نے کہا تو نعمت علی نے بولنا چاہا لیکن چوہدری نے ہاتھ کے اشارے سے اسے منع کر تے ہوئے بولا، ’’تو اگر یہاں سے جانا چاہتا ہے تو چلا جا، جہاں مرضی جاؤ یا پھر یہیں رہنا چاہو تو رہو۔ میں تمہیں تھوڑی زمین دے دیتا ہوں تو اس پر کھیتی باڑی کرتا رہ، تجھے کوئی نہیں پوچھے گا۔ اپنا کھاتا پیتا رہ۔ ‘‘

’’میں ۔۔۔میں کچھ سمجھا نہیں ؟‘‘ بابا نعمت علی نے الجھتے ہوئے پوچھا تو چوہدری جلال نے کہا

’’یہ رقم اٹھاؤ یہ تیری ہے۔ اور جو میں نے کہا۔ اس پر سوچ لو۔ اگر کوئی بات تمہیں سمجھ نہیں آئی تو یہ منشی تمہیں سمجھا دیتا ہے بولو۔ !کیا کہتے ہو، رقم لے کر سب کچھ بھول جاتے ہو یا۔۔۔‘‘

’’میں سمجھ گیا، میں سمجھ گیا۔ آپ کیا کہنا چاہ رہے ہو۔ ‘‘ بابا نعمت علی نے تیزی سے کہا اور آگے بڑھ کر نوٹوں کی گڈی اٹھا لی۔ تب چوہدری جلال نے کہا

’’اور یہ تمہیں یاد رہے گا ناکہ اس معاملے کی کسی کو کانوں کان خبر نہ ہو؟‘‘

’’نن۔۔۔ نن ۔۔۔نہیں جی، کسی کو نہیں ہو گی خبر۔ ‘‘ بابا نعمت علی خوف زدہ لہجے میں بولا

’’تو بس پھر جاؤ۔ جو تمہیں کرنا ہے۔ وہ منشی کو بتا دینا۔ یہاں رہ کر کھیتی باڑی کرنی ہے یا یہاں سے چلے جانا ہے اب جاؤ۔ ‘‘ چوہدری جلال نے نخوت سے کہا تو بابا نعمت علی بے بسی سے سر ہلاتے ہوئے بولا

’’جی، میں بتا دوں گا۔ بتا دوں گا میں۔ ‘‘

یہ کہتے ہوئے وہ تیز قدموں سے باہر کی جانب چلا گیا۔ اس کے ساتھ ہی منشی بھی نکلتا گیا۔ چوہدری جلال کے چہرے پہ پریشانی ختم ہو گئی تھی۔

بابا نعمت علی گھر میں آیا تو صفیہ کمرے غم زدہ نڈھال بیٹھی سوچوں میں گم تھی۔ تبھی بابا نعمت علی نے اندر آ کر دیکھا۔ اس کی نگاہ سوئے ہوئے بچوں پر پڑی۔ پھر صفیہ کی طرف دیکھتا ہوا قریب پڑی چار پائی پر بیٹھ گیا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ صفیہ سے بات کیسے کرے۔ کچھ دیر خاموش رہ کر وہ بولا

’’صفیہ۔ !بیٹی تمہیں پتہ ہے نا چوہدری جلال نے مجھے بلایا تھا۔ میں گیا تھا اس کے پاس۔ ‘‘

یہ سن کر صفیہ نے طنزیہ انداز میں پوچھا

’’کیا حکم دیا ہے اس نے؟‘‘

’’وہ تو بس یہی چاہتا ہے کہ نکا چوہدری بچ جائے۔ اس لیے وہ ہمیں زمین دینے کو بھی تیار ہے اور یہ رقم دی ہے۔ ‘‘ بابا نعمت علی نے بے بسی سے کہا اور چوہدری کی دی ہوئی رقم اس کے سامنے رکھ دی۔ صفیہ نے اس رقم کو دیکھا بھی نہیں بلکہ بڑے ٹھہرے ہوئے لہجے میں پوچھا

’’تم نے کیا کہا بابا؟‘‘

’’میں کیا کہہ سکتا ہوں۔ بیٹی، ہم چوہدریوں کا مقابلہ تو نہیں کر سکتے۔ یہاں رہیں گے تو لوگوں کے طعنے مار دیں گے۔ میں تو یہی کہتا ہوں کہ ہم یہاں سے دور کہیں اور چلے جائیں ‘‘

’’بابا۔ !ابھی تو نذیرے کی قبر والی مٹی بھی خشک نہیں ہوئی۔ اور تم یہاں سے جانے کی بات کر رہے ہو۔ اور یہ جو تو نے رقم میرے سامنے رکھ دی ہے کیا یہ نذیر کا خون بہا ہے یا اس کے خون کی قیمت، کیا تمہاری نگاہ میں نذیر کے خون کی اتنی ہی قیمت تھی؟‘‘

’’نہیں ایسا نہیں ہے۔ ہم کمزور اور بے بس ہیں۔ ہم کچھ بھی نہیں کر پائیں گے۔ تم غلط سوچ رہی ہو۔ یہاں رہے تو نذیر کا غم بھول نہیں پائیں گے۔ یہ بچے بھی ہم سے سوال کرتے رہیں گے۔ ہم یہاں سے چلے جائیں گے تو شاید۔۔۔‘‘ بابا نعمت علی اسے سمجھا نہیں پا رہا تھا

’’یہ بچے تو پھر بھی سوال کریں گے۔ تب کیا بتائیں گے بابا؟‘‘ صفیہ نے طنزیہ پوچھا

’’کچھ نہ کچھ تو کہنا ہی پڑے گا۔ ہم نے اگر چوہدری کی بات نہ مانی تب بھی تو یہ گھر خالی کرنا پڑے گا۔ تم تیاری کر لو بیٹی۔ کل نذیر کی قل خوانی کے بعد ہم یہاں سے چلے جائیں گے۔ بس تم تیار رہنا۔ ‘‘ جب اس نے بے بسی محسوس کی تو یہ کہہ کر باہر نکل گیا۔ صفیہ نڈھال سی سوچوں میں گم ہو گئی۔ رقم وہیں پڑی رہی۔ اچانک صفیہ رو دی پھر روتے ایک دم سے خاموش ہو گئی جیسے اس نے کوئی فیصلہ کر لیا ہو۔

٭٭

 

رات کا پہلا پہر ختم ہونے کا تھاسراج اور چھاکا فہد کے گھر صحن میں بیٹھے ہوئے باتیں کر رہے تھے۔ تبھی سراج نے اچانک پوچھا

’’ یار کافی دیر ہو گئی ہے، فہد نہیں آیا ابھی تک؟ اور تو بھی میرے سامنے بیٹھا بات تو کر رہا ہے لیکن کہیں کھویا ہوا ہے۔ یہ تمہیں ہوا کیا ہے۔ اتنا کھویا کھویا سا کیوں ہے۔ کوئی پریشانی ہے ؟‘‘

’’نہیں یار۔ !پریشانی تو کوئی نہیں ہے۔ لیکن دکھ بہت ہو رہا ہے۔ یہ جو چوہدری کبیر نے کیا ہے نا، اچھا نہیں کیا۔ ‘‘ چھاکا کے لہجے میں دکھ گُلا ہوا تھا۔ توسراج بولا

’’یہ کون سا ان کے لیے یا اس علاقے کے لوگوں کے لیے نئی بات ہے۔ جب تک لوگ ان کے خلاف نہیں اٹھ کھڑے ہوں گے۔ وہ تو ظلم کرتے رہیں گے۔ ‘‘

’’پہلے میں نے کبھی اپنی آنکھوں کے سامنے ایسا ہوتا نہیں دیکھا تھا۔ سنی سنائی اور آنکھوں دیکھی میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ وہ منظر، وہ چیخیں ، وہ دھاڑیں۔ میری نگاہوں کے سامنے سے ہٹتے ہی نہیں ہیں۔ یار۔ !زندگی یوں بھی سستی ہو جاتی ہے۔ میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔ اور پھر جو میرے ساتھ گذری، میں نہیں بھول سکتا، میں بہت اذیت میں ہوں یار۔ ‘‘ چھاکے نے دکھی لہجے میں کہا

’’اس کا مطلب ہے میرا بھائی بھی اس طرح اذیت میں تھا۔ ‘‘سراج اس کی طرف دیکھ کر بولا

’’اب میں محسوس کر سکتا ہوں کہ وہ کیوں گواہی دینا چاہتا تھا۔ میں نے یہ پورا واقعہ اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ بہت ظلم کیا اس نے۔ ‘‘ چھاکے نے آنکھیں بند کر کے کہا توسراج بولا

’’کب تک یہ ظلم کرتے رہیں گے۔ آخر ایک دن ایسا تو آئے گا۔ جب انہیں اپنے گناہوں کا حساب دینا ہے۔ پتہ نہیں لوگ کیوں نہیں سمجھتے اس کبیر کو تو اب لگام دینا ہو گی۔ ‘‘

’’ورنہ بہت سارے گھر اجڑ جائیں گے۔ اس نے اپنے باپ کی طاقت کا بہت غلط استعمال شروع کر دیا ہے۔ اس سے بھلائی کی توقع نہیں رکھی جا سکتی۔ ‘‘ چھاکا حتمی انداز میں بولا

’’چھاکے۔ !تو مایوس نہ ہو میرے بھائی۔ !چاہے دیر سے صحیح لیکن ایک دن آئے گا۔ ان کا ظلم ہی انہیں ختم کر کے رکھ دے گا۔ یہ بھی تو قانونِ فطرت ہے۔ تو پریشان نہ ہو۔ ہم نے ہی ان کا راستہ روکنا ہے۔ کوئی باہر سے نہیں آئے گا۔ ہم ہی ان کا ہاتھ روکیں گے۔ ‘‘ سراج دانت پیستے ہوئے بولا تو چھاکے نے غصے میں کہا

’’ہاں۔ !ایسا ہو گا۔ میں ، فہد کا پتہ کرتا ہوں۔ ‘‘

’’چل میں بھی چلتا ہوں تیرے ساتھ۔ ‘‘سراج نے کہا تو دونوں اٹھتے چلتے گئے۔

قسمت نگر میں صبح کے سورج کی روشنی پھیل چکی تھی۔ مسجد میں نماز کے بعد چند لوگ ہی رہ گئی تھے۔ جن میں چھاکا، سراج اور فہد بھی تھے۔ بابا نعمت کے پاس ماسٹر دین محمد بیٹھا ہوا تھا۔ انہی چند لوگوں کے درمیان قل خوانی کی دعا ہو گئی تو لوگ مسجد سے نکل آئے۔ فہد بھی دوسرے لوگوں کے ساتھ نکل آیا اور مسجد کے باہر کھڑے ہو کر باتیں کر نے لگا۔ وہیں ایک بندے نے سوال کیا تھا کہ نذیر کی قل خوانی میں اتنے کم بندے کیوں ہیں ؟ جس پر فہد نے کہا

’’اس گاؤں میں آج ہم نذیرے کی قل خوانی پر اکٹھے ہوئے ہیں۔ یہ چند لوگ ہی اس لیے آئے ہیں کہ نذیر غریب آدمی تھا اور وہ چوہدریوں کی نگاہ میں نہیں آنا چاہتے۔ ڈرتے ہیں چوہدریوں سے۔ ‘‘

’’تم ٹھیک کہتے ہو۔ غریب تو تھا وہ۔ پر لوگ چوہدری کے خوف سے لوگ نہیں آئے۔ ‘‘ ایک بوڑھے نے گویا اس کی بات کی تصدیق کر دی۔ تب فہد نے انتہائی طنزیہ انداز میں لوگوں کی طرف دیکھ کر کہا

’’کل ایسا ہی واقعہ گاؤں کے کسی اور جوان کے ساتھ پیش آ سکتا ہے تو پھر اس کے لیے بھی کوئی نہیں آئے گا۔ سب جانتے ہیں۔ قتل کس نے کیا ہے مگر پولیس ایک فیقے نامی بندے کو پکڑ کر لے گئی ہے۔ جس نے اقرار جرم بھی کر لیا ہے۔ ظالم تو صاف بچ گیا نا۔ ‘‘

’’وارث ہی مدعی نہیں بنے۔ چوہدری تو فیقے کی ضمانت کروا لے گا۔ کیس کی عدم پیروی کی وجہ سے وہ فیقا بھی بچ جائے گا۔ ایویں چند دن ہی پولیس کا مہمان رہے گا نا۔ ‘‘ ایک بزرگ سے بندے نے کہا توسراج بولا

’’فہد۔ !کیا تمہیں نہیں پتہ کہ انصاف کے لیے کیا کچھ کرنا پڑتا ہے کتنا پیسہ لگانا پڑتا ہے۔ دفتروں کی خاک چھاننا پڑتی ہے۔ اتنی ہمت تھی ان لوگوں میں۔ ‘‘

’’جب گواہ ہی نہیں ملیں گے تو عدالت بھی کچھ نہیں کر سکے گی۔ فیصلہ ثبوت اور پکی گواہی پر ہوتا ہے نا۔ ‘‘ بزرگ نے سمجھاتے ہوئے کہا تو فہد بولا

’’کیا یہاں کے لوگ کچھ بھی نہیں کر سکتے؟ذرا حوصلے کی دیر ہے۔ یوں خوف زدہ رہے تو یہ ظلم ہوتا ہی رہے گا۔ آج نذیر قتل ہوا کل کوئی اور قبر میں چلا جائے گا۔ ‘‘

’’ ہونی کو کیسے ٹال سکتے ہیں بیٹا۔ کیا کر سکتے ہیں ہم کچھ نہیں کر سکتے۔ ‘‘

یہ کہتے ہوئے وہ بزرگ وہاں سے چل دیا۔ فہد اور سراج دوسر ے لوگوں سے باتیں کرنے لگے۔

انہیں یہ معلوم ہی نہیں تھا کہ قسمت نگر کی گلیوں میں ایک بھونچال آ چکا ہے۔ صفیہ اپنے تینوں بچوں کے ساتھ اپنے گھر سے نکل پڑی تھی۔ اس کا اپنا دوپٹہ ہاتھ میں پکڑا ہوا تھا۔ اس کے چہرے پر انتہا درجے کی سنجیدگی تھی۔ صفیہ گلی میں آ رہی تھی۔ لوگ اسے دیکھ رہے تھے۔ وہ کسی کی طرف دیکھے بناء چلتی چلی جا رہی تھی۔ مختلف گلیوں سے ہوتی ہوئی وہ چوک میں آ گئی۔ اس کے ساتھ کئی بچے، عورتیں اور نوجوان بھی تماشہ دیکھنے کی غرض سے ساتھ ہو لئے تھے۔ فہد اور سراج کے ساتھ کھڑے ہوئے لوگوں نے اس کی طرف دیکھا۔ وہ ان کے قریب آ کر، فہد کے سامنے رک گئی۔ تبھی ایک آدمی نے اس سے پوچھا

’’صفیہ۔ !کیا بات ہے؟تم یہاں کیوں آئی ہو؟‘‘

’’میں فہد کے پاس آئی ہوں۔ ‘‘یہ کہہ کر اس نے اپنے آنچل کا پلو کھولا، اس میں سے نوٹ نکال کر فہد کے سامنے ڈھیر کر تے ہوئے بولی، ’’یہ ہے وہ رقم ہے جو میرے سائیں نے تم سے لی تھی۔ اور اسی جرم میں چوہدری کبیر نے اسے قتل کر دیا۔ میرے گھر والے تو میرا ساتھ نہیں دیتے۔ مگر میں تمہارے پاس آئی ہوں۔ تا کہ تم میری مدد کرو۔ ‘‘

’’کھل کر بات کرو تم کیا کہنا چاہتی ہو؟‘‘ فہد نے سکون سے پوچھا تو صفیہ تلخی بھرے لہجے میں بولی

’’میں تم سے مدد مانگنے آئی ہوں۔ مرد ہو تو وعدہ کرو ورنہ سر جھکا کر پرے ہٹ جاؤ۔ ‘‘

’’میں تمہاری مدد کروں گا مگر۔۔۔ ‘‘ فہد نے کہنا چاہا تو صفیہ تڑپ کر ہذیانی انداز میں بولی

’’تم بھی اگر مگر کرنے لگے ہو۔ مجھے تو ماسٹر جی کی دھی سلمٰی نے کہا تھا کہ گاؤں میں تم ہی ایک مرد ہو جو میری مدد کر سکتے ہو۔ لیکن اب جا کر اسے بتا دوں گی کہ تم بھی اگر مگر کر نے لگے ہو۔ لگتا ہے تم بھی مرد نہیں ہو۔ ‘‘

’’میں تمہاری مدد کروں گا لیکن کل اگر تجھے کوئی مجبوری آن پڑی تو۔۔۔‘‘فہد نے انتہائی تحمل سے پوچھا

’میرے بچوں کو یتیم کرنے والا پھانسی پر لٹکتا ہوا دیکھنا چاہتی ہوں۔ جانتی ہوں اس کام میں بہت سی رقم لگے گی۔ وہی دینے آئی ہوں۔ یہ رقم اٹھا لو۔ یہ لو میرے گہنے بھی لے لو، جان مانگو گے تو جان بھی دے دوں گی۔ پر میری بانہہ کو تھام لے۔ مجھے انصاف دلا دے۔ ‘‘ صفیہ نے دہائی دیتے ہوئے کہا تو فہد چند لمحوں تک اس کی طرف دیکھتا رہا پھر بولا

’’آؤ میرے ساتھ۔ ‘‘

’’فہد۔ !خود کو اکیلا مت سمجھنا۔ میں صفیہ کو بتا دینا چاہتا ہوں کہ ابھی یہاں پر مرد ہیں۔ چلو، میں بھی تمہارے ساتھ چلتا ہوں۔ ‘‘ سراج نے جذباتی ہوتے ہوئے کہا تو چھاکا بولا

’’میں بھی چلتا ہوں فہد، میں نے نذیر کا قتل اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے، صرف میں نے ہی نہیں ، گاؤں کے لوگوں نے بھی دیکھا ہے لیکن تم بھی جانتے ہو اور میں بھی، ان میں سے کوئی بھی گواہی نہیں دے گا۔ یہ سب ان ظالم چوہدریوں سے ڈرتے ہیں میں چشم دید گواہ ہوں۔ میں گواہی دوں گا۔ ‘‘

وہاں پر کھڑا ہوا ہر شخص حیرت زدہ تھا۔ شاید قسمت نگر کی قسمت میں کچھ اور ہی لکھا جانے والا تھا۔ تبھی فہد نے با اعتماد انداز میں صفیہ سے کہا

’’ آؤ چلیں۔ ‘‘

چھاکے نے بکھرے ہوئے نوٹ اٹھا کر صفیہ کے پلو میں ڈال دئیے اور پھر وہ سب ایک طرف چل دئیے۔ فہد نے اپنا سیل فون نکالا اور جعفر کو تمام صورت حال سے آگاہ کر دیا۔ وہ اس وقت سرکاری رہائش گاہ پر تھا۔

جعفر کو جیسے ہی قسمت نگر کی صورت حال معلوم ہوئی اس نے سب سے پہلے مائرہ کا نمبر ملایا اور سیل فون کان سے لگا کر انتظار کرنے لگا۔ اس وقت مائرہ تیار ہو کر گھر سے باہر نکل رہی تھی۔

’’ ہیلو جعفر کیسے ہو؟‘‘ مائرہ نے کہا تو جعفر نے پوچھا

’’تم کیسی ہو۔ میرا خیال ہے ابھی آفس تو نہیں ہو ؟‘‘

’’ ابھی آفس کے لیے گھر سے نکل رہی ہوں۔ تم خیریت سے تو ہو نا۔ تمہارا لہجہ کچھ ٹھیک نہیں لگ رہا مجھے۔ ‘‘ مائرہ نے سنجیدہ ہوتے ہوئے کہا تو جعفر بولا

ٹھیک ہوں۔ خیر سنو۔ !مجھے تمہاری مدد کی ضرورت ہے۔ ‘‘

’’مدد۔ !بولو جعفر، اس میں اتنا اجازت لینے کی کیا ضرورت ہے۔ کوئی مسئلہ ہے تو بتاؤ۔ ‘‘ مائرہ نے کہا تو جعفر نے قسمت نگر کے تازہ واقعہ کے بارے میں سب تفصیل سے بتا دیا۔ مائرہ جوں جوں سنتی گئی، اس کے چہرے کا رنگ بدلتا گیا۔

’’ کاش جعفر۔ یہ سب مجھے فہد بتاتا۔ خیر تم فکر نہیں کرو۔ میں سب کر لیتی ہوں۔ اوکے ہم بعد میں بات کرتے ہیں۔ میں آفس پہنچ جاؤں۔ ‘‘ اس نے حسرت سے کہا اور فون بند کر دیا۔ جعفر چند لمحوں تک فون کو تکتا رہا پھر کچھ سوچتے رہنے کے بعد ملک نعیم کو فون کر کے فوراً اپنے آفس میں ملنے کا کہا۔

تقریباً دو گھنٹے بعد جعفر کے آفس میں ملک نعیم بیٹھا ہوا تھا۔ دونوں کے چہرے پر سنجیدگی تھی۔ ان کے درمیان چائے کے پیالیاں دھری ہوئی تھیں۔ چائے پیتے ہوئے، وہ پرسکون انداز میں بات کر رہے تھے، جعفر کہہ رہا تھا

’’یہاں آتے ہی جہاں میں نے ماحول کو سمجھا ہے، وہاں میں نے وہ معلومات بھی لی ہیں کہ یہ چوہدری لوگ اتنا ظلم کیوں کرتے ہیں۔ ‘‘

’’کیا پتہ چلا آپ کو؟‘‘ ملک نعیم نے پوچھا

’’یہی کہ یہ سب آپ کی وجہ سے ہو رہا ہے۔ ‘‘

جعفر نے اطمینان سے کہا تو ملک نعیم نے اس کی طرف حیرت سے دیکھتے ہوئے کہا

’’میری وجہ سے مطلب، کیا کہنا چاہتے ہیں آپ؟‘‘

ملک نعیم نے پیالی میز پر رکھتے ہوئے کہا تو جعفر پر جوش لہجے میں بولا

’’ہاں ، آپ لوگ ظلم ہوتا تو دیکھتے ہیں لیکن اس کے خلاف آواز نہیں اٹھاتے۔ غریب لوگ کہاں آواز اٹھا سکتے ہیں۔ یہ تو آپ جیسے لوگوں کی ذمہ داری ہے ناکہ جو چوہدری جیسے بھلے نہیں لیکن تھوڑی بہت قوت رکھتے ہیں۔ ‘‘

’’آپ ٹھیک کہتے ہیں لیکن وسائل پر ہمارا کوئی اختیار نہیں۔ ہماری آواز دبا دی جاتی ہے۔ مثلاً اگر مدعی ہی مقدمہ لڑنا نہ چاہے تو وکیل کیا کر سکتا ہے۔ ‘‘ ملک نعیم نے ایک طویل سانس لے کر کہا تو جعفر بولا

’’آپ ہمت کریں راستے خود بخود نکل آئیں گے۔ مخلوق خدا کو ان ظالموں سے نجات دلائیں۔ میں آپ کے ساتھ ہوں۔ وہ اگر اپنے وسائل کو آزماتے ہیں تو کیا آپ ان کمزوروں سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے۔ بہت کچھ ہو سکتا ہے۔ ‘‘

’’مثلاً، بتائیں۔ کیا ہوسکتا ہے؟‘‘ ملک نعیم نے پوچھا

’’شاید آپ کو معلوم نہیں ہے، چوہدری کبیر نے پھر ایک قتل کر دیا ہے اور مقتول کی بیوہ تھانے پہنچ جانے والی ہے۔ وہ کچھ دیر بعد تھانے میں رپورٹ کرے گی۔ اب اس کی مدد کرنے والا کون ہے؟ کیا یہ آپ کی ذمہ داری نہیں بنتی عوام کا نمائندہ فقط ووٹ لینے والا تو نہیں ہوتا۔ ان کے دکھ درد میں شریک ہوتا ہے۔ ‘‘

جعفر نے انتہائی جذباتی لہجے میں کہا ملک نعیم نے احتجاجی لہجے میں کہا

’’یہی تو بات ہے کہ لوگ آتے ہی نہیں ہیں۔ اگر وہ خاتون میرے پاس آ جاتی تو میں ویسے ہی اس کی مدد کرتا۔ خیر۔ !میں سمجھ گیا کہ آپ اصل میں کیا کہنا چاہ رہے ہیں۔ میں اس خاتون کی بھر پور مدد کروں گا۔ ‘‘

’’تو پھر آپ کو اس علاقے سے الیکشن میں کوئی نہیں ہرا سکتا۔ یہ میرا وعدہ ہے۔ ‘‘

جعفر نے حتمی لہجے میں کہا تو ملک نعیم بولا

’’یہ تو وقت بتائے گا کہ کیا ہونا ہے اور کیا نہیں ہونا۔ بہر حال میں چلتا ہوں۔ ‘‘یہ کہتے ہوئے وہ کھڑا ہو گیا پھر مصافحہ کے لیے ہاتھ بڑھا۔ جعفر نے کھڑے ہو کر ہاتھ ملایا تو ملک نعیم چل دیا۔ جعفر کے مسکراہٹ تھی۔ اس نے اپنے سیل فون پر فہد کے نمبر ملائے۔ تب اسے معلوم ہو گیا کہ وہ نور پور تھانے پہنچ گئے ہیں۔

فہد سمیت وہ سارے تھانے کے اندر چلے گئے جو قسمت نگر سے ان کے ساتھ آئے تھے۔ ان کے ساتھ پریس بھی تھا۔ تھانیدار وہاں سے اٹھ کر باہر آیا تو انہیں دیکھ کر ٹھٹک گیا۔ تبھی تھانیدار نے بڑے رعب دار انداز میں کہا

’’یہ اتنا ہجوم لے کر کدھر آ گئے ہو؟‘‘

’’اس خاتون کا شوہر قتل ہو گیا ہے یہ اس کی ایف آئی آر دوبارہ درج کروانے آئی ہے اور ہم اس کے ساتھ ہیں۔ اس کی ایف آئی آر دوبارہ درج کرو۔ یہ مدعی ہے۔ ‘‘ فہد نے سکون سے کہا

’’ تم وکیل بن کر آئے ہو۔ خی رکب ہوا یہ قتل اور کہاں ہوا ؟ ‘‘ تھانیدار طنزیہ انداز میں بولا

’’یہ تو لکھنے بیٹھیں گا۔ تبھی سب بتائے گی نا۔ تم لکھو۔ ‘‘ سراج نے اس سے کہیں زیادہ طنزیہ لہجے میں کہا، تھانیدار نے اس کی طرف دیکھا، پھر ایک نگاہ لوگوں پر ڈالی اور تحمل سے بولا

’’ابھی تو میں سرکاری کام سے جا رہا ہوں۔ ابھی وقت نہیں ہے میرے پاس تم لوگ انتظار کرو۔ اتنے میں جو لکھوانا ہے۔ وہ درخواست میں لکھ لو میں آتا ہوں۔ ‘‘

یہ کہہ کر وہ جانے لگا تو فہد نے اسے بازو سے پکڑ کر روکتے ہوئے کہا

’’اس خاتون کا شوہر قتل ہوا ہے اور یہ۔۔۔‘‘

’’اوئے تم لوگ کیا ہو۔ میری بات سمجھ میں نہیں آئی تمہیں۔ جب میں نے کہہ دیا ہے تو انتظار کرو۔ تم زیادہ وکیل بننے کی کوشش مت کرو۔ ‘‘ تھانیدار غصے میں بولا

’’دیکھو تھانیدار۔ !میرا اپنا ذاتی معاملہ تھا نا تو میں خاموشی سے چلا گیا۔ تجھے کچھ نہیں کہا۔ لیکن یہ جو تم کر رہے ہو۔ یہ غلط ہے اور اب اگر بات کرو تو وہ تمیز سے کرنا ورنہ پھر تمہیں ابھی سمجھانا پڑے گا کہ بات کیسے کرتے ہیں۔ ‘‘ فہد نے کہا

’’تم سمجھاؤ گے مجھے صحیح کیا ہو تا ہے اور غلط کیا ہوتا ہے۔ میں جانتا ہوں تم کیا شے ہو۔ لیکن یہ نہیں جانے کہ ’قنون‘ کی طاقت کیا ہوتی ہے۔ چلو ادھر جا کر بیٹھ جاؤ۔ ‘‘

لفظ اس کے منہ ہی میں تھے کہ تھانے میں چینل کی گاڑی آ رکی اور اس میں سے لوگ نکل آئے۔ سب سے آخر میں مائرہ گاڑی میں سے نکلی۔ انہیں دیکھ کے تھانیدار ٹھٹک گیا۔ فہد نے بھی خوشگوار حیرت سے انہیں دیکھا اور فہد سے تھانیدار کی طرف دیکھ کر پوچھا

’’اب جا کر دکھاؤ تھانیدار صاحب۔ اور انہیں اپنی بد تمیز زبان میں جواب دو، یہ میڈیا ہے، اب تم جو کہو گے یا کرو گے۔ اس کے ذمے دار تم خود ہو گے۔ ‘‘

اتنے میں مائرہ، فہد کے قریب آ رک گئی۔ دونوں نے ایک دوسرے کو نگاہیں بھر کر دیکھا۔ ان کی آنکھوں میں نجانے کون کون سے جذبے تیر رہے تھے۔ تبھی مائرہ نے لہجے میں پیار اور جذبات کی شدت سے بے قابو ہوتے ہوتے ہوئے فہد سے پوچھا

’’کیسے ہو فہد؟‘‘

تب فہد نے خود پر قابو رکھتے ہوئے کہا

’’ میں ٹھیک ہوں ، تم سناؤ؟‘‘

’’میں سب بتا دوں گی، لیکن پہلے یہ۔۔۔ ‘‘ یہ کہتے ہوئے تھانیدار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس کی طرف متوجہ ہو تے ہوئے بولی، ’’انسپکٹر، کیا معاملہ ہے اس خاتون کا؟‘‘

’’ اس نے کیا بتانا ہے، یہ تو چوہدری کا زر خرید ہے، میں بتاتی ہوں۔ ‘‘ صفیہ نے غصے میں کہا اور ساری روداد مختصر انداز میں بتا دی۔ سارا ماجرا سن کر مائرہ نے تھانیدار سے کہا

’’آپ اس خاتون کی ایف آئی آر درج نہیں کر رہے ہو۔ کیا آپ پر کوئی سیاسی دباؤ ہے۔ یا آپ نے رشوت لی ہوئی ہے۔ کیا وجہ ہے؟‘‘

تھانیدار نے کیمرے کی طرف گھبرا کر دیکھتے ہوئے کہا

’’ایساکچھ نہیں ہے۔ میں نے ایف آئی آر درج کر لی ہوئی ہے، میں پوری کوشش کر کے تفتیش کر رہا ہوں ، یہ لوگ خواہ مخواہ دباؤ ڈال رہے ہیں۔ ‘‘

’’کیا دباؤ ڈال رہے ہیں ؟ یہ خاتون یہاں کے ایم این اے کے بیٹے پر الزام لگا رہی ہے۔ کیا اس کی وجہ یہ تو نہیں کہ ایف آئی آر نہیں کٹی آج تیسرا دن ہے؟‘‘ مائرہ نے پوچھا تو تھانیدار نے گھبراتے ہوئے کہا

’’یہ لوگ ہمارے پاس آج ہی آئے ہیں۔ ہمیں کوئی اطلاع نہیں ہے۔ ہم نے تو نامعلوم افراد کے خلاف ہی ایف آئی آر کاٹی ہے۔ فیقا نامی آدمی گرفتار ہوا ہے، اس نے اقبالی جرم بھی کر لیا۔ ‘‘

’’ لیکن یہ خاتون خود مدعی بن کر اپنی ایف آئی آر ایم این اے کے بیٹے کے خلاف لکھوانا چاہ رہی ہے، قتل کے اس مقدمے کے بارے میں اس کا کوئی بیان نہیں لیا گیا۔ اور اب آپ اس کی بات سننے کی بجائے، کسی سرکاری کام سے جا رہے ہیں۔ جو اتنا اہم ہے۔ ان باتوں کا کیا جواب ہے آپ کے پاس ؟‘‘ مائرہ نے پوچھا

’’وہ میں ۔۔۔وہ میں ۔۔۔‘‘ تھانیدار نے اٹکتے ہوئے کہا

’’آپ یہ مان کیوں نہیں لیتے کہ آپ پر سیاسی دباؤ ہے۔ جس کی وجہ سے آپ نے ایف آئی آر تک غلط درج کی۔ ان چوہدریوں کے بچے جو مرضی کرتے رہیں۔ اور آپ ان کا ساتھ دے رہے ہیں۔ کیا یہ سمجھ لیا جائے کہ آپ محکمے کے ملازم نہیں۔ چوہدری کے زر خرید غلام ہیں۔ ‘‘مائرہ نے غصے میں کہا تو تھانیدار فوراً پینترہ بدلتے ہوئے کہا

’’ جیسا یہ کہتے ہیں میں ویسی ہی ایف آئی آر درج کرتا ہوں۔ ‘‘

’’وہ تو تمہیں کرنی پڑے گی، جلدی کریں۔ یہ خبر معمولی نوعیت کی نہیں ہے۔ یہ پوری دنیا میں جائے گی۔ یہ نا ہو کہ چوہدری کی نوکری کرتے کرتے اپنی نوکری سے بھی جاؤ اور قانون تمہیں سزا الگ دے۔ ‘‘

مائرہ نے کہا تو تھانیدار بغیر چوں و چراں کئے بولا

’’آؤ۔ ‘‘

فہد کے ساتھ صفیہ اور سراج اندر چلے گئے۔ چشم دید گواہ کے لئے چھاکا وہیں تھا کچھ دیر بعد۔ صفیہ کے ہاتھ میں کاغذ تھا۔ چوہدریوں کے خلاف ایف آئی آر کٹ گئی تھی۔ انسپکٹر افسردہ سا بیٹھا ہوا تھا۔ فہد اور مائرہ ایک دوسرے کی طرف دیکھتے ہوئے، مسکرادئیے۔ کچھ دیر بعد وہ سب تھانے سے باہر آ چکے تھے۔

اسی لمحے ملک نعیم کی گاڑی تھانے کے دروازے پر رکی۔ وہ گاڑی سے اتر کر جلدی سے آگے بڑھا تو ملک نعیم کو پہچان کر لوگ اس کے ارد گرد جمع ہو گئے۔ مائرہ سے جب تعارف ہوا تو اس نے ملک نعیم سے کہا

’’ اچھا ہوا آپ یہیں مل گئے، ورنہ مجھے آپ کے گھر آنا پڑتا۔ ‘‘

’’ میں تو اب بھی آپ کو دعوت دیتا ہوں کہ آپ میرے گھر تشریف لائیں۔ ‘‘

باتوں کے دوران مائرہ نے کیمرے کو اشارہ کر دیا۔ مائرہ نے مائیک اس کے سامنے کیا تو بھی سمجھ گیا۔ تبھی مائرہ نے سوال کیا

’’آپ کا شمار علاقے کے سرکردہ افراد میں ہوتا ہے، آپ بھی سیاست کرتے ہیں۔ قسمت نگر میں یہ جو بھیانک قتل ہوا ہے اور اس کا الزام آپ ہی کے سیاسی مخالف کے بیٹے پر ہے، جو اس وقت ایم این اے ہے اور حکومت میں بھی شامل ہے، آپ اس کے بارے میں کیا کہتے ہیں ؟‘‘

’’قسمت نگر میں جو بہیمانہ قتل ہوا ہے، میں اس کی زبردست مذمت کرتا ہوں۔ یہ سراسر ظلم ہے۔ بات یہ نہیں کہ وہ میرے سیاسی حریف ہیں ، بلکہ کسی بھی معاشرے میں جرم برداشت نہیں کیا جا سکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے قتل ہوا، کس نے کیا، اس کا جو بھی مجرم ہے، میں حکومت وقت سے یہ اپیل کروں گا کہ وہ جلد از جلد مجرموں کو گرفتار کے انہیں کیفر تک پہنچائیں۔ ‘‘ ملک نعیم نے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا تو مائرہ نے دوسرا سوال کرتے ہو پوچھا

’’ کیا آپ کا فرض نہیں بنتا کہ اس مظلوم کی مدد کریں ، اس کا شوہر قتل ہوا ہے جو اس کا اوراسے خاندان کا واحد سہارا تھا؟ اور اگر آپ چاہتے ہیں کہ اس خاتون کا شوہر قتل ہوا ہے، اسے جلد از جلد انصاف ملے۔ انصاف کے حصول کے لیے آپ اس خاتون کی کیا مدد کریں گے؟‘‘

’’سچی بات تو یہ ہے یہ خاتون ابھی تک میرے پاس نہیں آئی۔ میں نے بھی آپ ہی کی طرح سنا ہے، اور اس کے لیے میں قسمت نگر تھانے میں آیا ہوں۔ جہاں تک مجھ سے ہو سکا، اسے انصاف کے حصول میں مدد دینے کے لیے میں پوری کوشش کروں گا۔ اور جیسی یہ مجھ سے مدد چاہے گی میں اسے دوں گا۔ ‘‘ ملک نعیم نے کہا تو مائرہ نے پوچھا

’’کیا آپ ایسا صرف اس لیے کریں گے کہ اس میں آپ کے سیاسی مخالف چوہدری جلال کے بیٹے کا نام ملزم کے طور پر آ رہا ہے؟‘‘

’’وہ میرا سیاسی مخالف ہے، میں یہ مانتا ہوں لیکن جرم تو جرم ہے وہ جس نے بھی کیا ہے، اسے سزا ضرور ملنی چاہے۔ میں آپ میڈیا سے بھی اپیل کروں گا کہ آپ بھی مجرموں تک پہنچنے میں مدد دیں۔ میں اس خاتون کو اس کا حق دلانے کا اعلان کرتا ہوں۔ ‘‘

ملک نعیم نے ایک عزم سے کہا تو مائرہ نے اگلا سوال کیا

’’کیا آپ کا یہ اعلان محض سیاسی لوگوں کے بیان کی طرح ہو گا یا آپ اس بارے پیش رفت بھی کریں گے؟‘‘

’’اگر آپ یہ کہنا چاہ رہی ہیں کہ ملزم کوئی سیاسی اثر و رسوخ استعمال کر کے بچ جائیں گے تو ایسا ہر گز نہیں ہو گا۔ ملزم جتنا بھی طاقتور ہو گا، اسے قانون کی گرفت میں لانے کے لیے میں بھر پور مدد کروں گا۔ یہ میرا وعدہ رہا آپ یقین رکھیں کہ یہ سیاسی وعدہ نہیں ہو گا۔ ‘‘ ملک نعیم کے اتنا کہنے پر مائرہ نے کیمرے کو اشارہ کیا تواس کے ساتھ ہی کیمرہ بند کر دیا گیا۔

’’بہت شکریہ ملک صاحب۔ اب ہم چلتے ہیں۔ ‘‘ مائرہ نے اخلاقاً کہا تو ملک نعیم نے کہا

’’نہیں آپ چلیں گھر، کھانا کھا کر جائیں گے۔ آئیں آپ سب۔ ‘‘

’’بہت شکریہ ملک صاحب، پھر کبھی سہی، اس وقت ہمیں رپورٹ مکمل کرنے قسمت نگر جانا ہے۔ ‘‘

’’جیسے آپ کی مرضی۔ ‘‘ اس نے کہا اور تھانے کے اندر چلا گیا۔ اس دوران مائرہ اپنے چینل کے لوگوں کے ساتھ گاڑی کی طرف جاتے ہیں اور قریب کھڑے فہد سے بولی

’’ آؤ چلیں۔ ‘‘

’’ چلو۔ ‘‘ فہد نے کہا اور اپنی گاڑی میں بیٹھ گیا۔ سراج ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ چکا تھا۔ اس کے ساتھ دوسرے بھی جانے کو تیار تھے۔ مائرہ نے حسرت بھری نگاہوں سے اسے دیکھا اور اپنی گاڑی کی طرف بڑھ گئی۔ گاڑیاں آگے پیچھے قسمت نگر کی جانب روانہ ہو گئی۔

٭٭

 

حویلی کے کاریڈور میں چوہدری جلال انتظار کرنے کے سے انداز میں ٹہل رہا تھا۔ اتنے میں منشی فضل دین آ گیا تو چوہدری اس کی جانب متوجہ ہو گیا۔ منشی بڑے مودب انداز میں بولا

’’چوہدری صاحب۔ !وہ نذیرے کی بیوہ صفیہ ۔۔۔وہ فہد کے ساتھ تھانے کی طرف گئی ہے۔ ایف آئی آر لکھوانے۔ اس کے ساتھ گاؤں کے کچھ لوگ بھی ہیں۔ ‘‘

’’مگر۔ !تم تو کہہ رہے تھے کہ نعمت علی ان سب کو لے کر یہاں سے چلا جائے گا؟‘‘

چوہدری جلال نے ماتھے پر تیوریاں ڈال کے پوچھا تو منشی بولا

’’اس نے تو مجھے یہی کہا تھا۔ لیکن صفیہ نے اپنے شوہر کا بدلہ لینے کا گاؤں کے چوک میں اعلان کیا ہے۔ اور وہ خود گئی ہے فہد کے پاس، وہ اسے لے کر تھانے کی طرف چلا گیا ہے۔ ‘‘

’’چل یہ شوق بھی پورا کر لیں۔ ان کے دل میں کوئی’ ہرکھ‘ نہ رہ جائے۔ میں تو انہیں بہت کچھ دے دینا چاہتا تھا۔ تم ایسے کرو۔ فون کر کے انسپکٹر کو ساری بات سمجھا دو، ایف آئی آر درج نہیں ہونی چاہئے۔ چاہے کچھ بھی ہو جائے۔ میں اتنے میں دیکھ لیتا ہوں۔ ‘‘ چوہدری جلال نے کہا تو منشی تیزی بولا

’’جی، وہ میں کہہ دیتا ہوں۔ کیا یہ بات میں وکیل صاحب کو بھی بتا دوں۔ ‘‘

’’ہاں۔ !اسے بھی بتا دو۔ انسپکٹرسے کہو کہ وہ صفیہ وغیرہ کو الگ لے جا کر بات کر لے۔ فی الحال انہیں ٹال دے، پھر بعد میں دیکھتے ہیں۔ لگتا ہے یہ عورت ایسے نہیں سمجھنے والی۔ ‘‘ چوہدری جلال نے غصے میں کہا

’’اصل میں اسے سمجھانے والا ہی تو اس کے ساتھ ہے۔ اگر وہ اس کا ساتھ نہ دے تو اس عورت کی کیا جرات کہ وہ تھانے کا رخ کرے۔ پہلے کبھی ایسا ہوا ہے؟‘‘ منشی نے تبصرہ کیا

’’منشی۔ !میں بھی سمجھ رہا ہوں کہ فہد اصل میں کیا چاہتا ہے۔ ابھی اس معاملے میں دیکھوں گا، وہ کرتا کیا ہے۔ پھر اس کا پتہ صاف کرنا ہی پڑے گا۔ خیر۔ !تم سے جو کہا ہے وہ دیکھو، فون کرو میں آ کر اوپر بات کرتا ہوں۔ ‘‘

’’جی بہتر۔ ‘‘یہ کہہ کر منشی اندر کی جانب بڑھ گیا تو چوہدری بھی آہستہ قدموں سے اس کے پیچھے چل پڑا۔

منشی نے تھانے دار کو فون ملایا تاکہ اسے ہدایت دے سکے کہ چوہدری جلال کیا چاہتا ہے لیکن وہ تھانے میں نہیں تھا۔ تھانے کے منشی نے تمام روداد بتا دی۔ فون رکھ کر اس نے ایف آئی آر درج ہونے کے بارے میں چوہدری جلال کا بتایا تو وہ ایک دم سے پریشان ہو گیا۔ کچھ دیر سوچتے رہنے کے بعد کہا

’’ وہ اے ایس پی جعفر سے بات کراؤ۔ ‘‘

چوہدری جلال کے چہرے پر پریشانی تھی۔ منشی فون ملا رہا تھا۔ رابطہ ہوتے ہی رسیور بڑھاتے ہوئے کہا

’’یہ لیں چوہدری صاحب بات کریں۔ ‘‘

’’ اے ایس پی جعفر۔ !یہ کیا کر دیا ہے آپ کے انسپکٹر نے۔ ایف آئی آر درج کر دی۔ کیا اسے آپ نے سمجھایا نہیں تھا میری آپ سے تفصیلی بات ہو چکی ہے پھر بھی۔۔۔‘‘ چوہدری جلال نے دبے دبے غصے میں کہا

’’جی۔ !سمجھایا تو تھا اسے لیکن میڈیا کے سامنے وہ کیا کر سکتا تھا۔ اسے ایف آئی آر درج کرنا پڑی۔ عینی شاہد بھی تو ان کے ساتھ تھا۔ وہ تو کیا، میں خود کو بے بسی محسوس کر رہا ہوں۔ ‘‘ جعفر نے جواب دیا

’’تم جانتے ہو کہ میں نے تمہیں بتایا تھا کہ یہ سب سیاسی مخالفت میں ہو رہا ہے۔ یہ اچھا نہیں ہوا اے ایس پی۔ ‘‘ چوہدری جلال نے دھمکاتے ہوئے کہا تو وہ بولا

’’یہ اچھا ہوا ہے یا برا، میں نہیں جانتا۔ میں تو نیا آیا ہوں چوہدری صاحب۔ !میں کیا کر سکتا ہوں۔ یہ سب پریس کی وجہ سے ہوا ہے۔ سارا معاملہ آپ کے سامنے ہے۔ ‘‘

’’لیکن آپ اس بات کا تو خیال کریں نا کہ ہمیں خواہ مخواہ پھنسایا جا رہا ہے۔ کل جب اوپر سے حکم آیا تو آپ ہی پر دباؤ آئے گا۔ ‘‘ چوہدری جلال نے دھمکایا تو جعفر بولا

’’میں نے کوئی غیر قانونی کام نہیں کیا، میں کہاں تک قتل چھپا سکوں گا۔ اگر آپ کے بیٹے نے قتل نہیں کیا تو یقین رکھیں ، اسے کچھ نہیں ہو گا لیکن اگر اس نے واقعی قتل کیا ہے تو اسے کوئی قانون کی گرفت سے نہیں بچا سکتا، نہ آپ کی سیاست، نہ آپ کی دولت اور نہ اثر و رسوخ۔ ایک عام آدمی اور آپ میرے لئے برابر ہیں۔ ‘‘

چوہدری جلال کی انّا پر یہ لفظ بجلی بن کر گرے۔ اسے یہ گمان ہی نہیں تھا کہ ایک آفیسر اسے یوں جواب دے گا۔ اس لئے غصے بھرے رعب سے بولا

’’وہ میں جانتا ہوں کہ مجھے کیا کرنا ہے۔ آپ ہمارے لیے کیا کر سکتے ہیں ؟‘‘

’’ اب تو سارا معاملہ آپ کے ہاتھ میں ہے۔ کسی طرح اس خاتون کو منا لیں۔ صلح تو کرنی پڑے گی پھر دیکھتے ہیں ، کیا ہو سکتا ہے۔ ‘‘ جعفر نے سکون سے کہا

’’آپ سے کچھ نہیں ہو گا، اب میں کر کے دکھاتا ہوں۔ ‘‘

چوہدری جلال نے غصے میں فون منشی کو تھما دیا۔ پہلی بار اسے اپنے لہجے کے کھوکھلے پن کا احساس ہوا تھا۔

چوہدری جلال نے کچھ دیر سوچا اور پھر اچانک بولا

’’ اوئے منشی۔ ! وکیل کے آنے سے پہلے، جس طرح بھی ہوسکے، وہ چاچے سوہنے کو لے آؤ۔ اس کا بیٹا ہی ہے نا چشم دید گواہ، میری بات سمجھ رہے ہو نا۔ ‘‘

’’ جی میں سمجھ گیا۔ ابھی گیا۔ ‘‘ منشی نے کہا اور تیزی سے باہر کی جانب چل دیا۔

چوراہے میں پہنچ کر منشی نے دور ہی دیکھ لیا، چاچا سوہنا زمین پر بچھی چادر پر بنی کنتوری کھیل رہا تھا۔ اس نے گاڑی وہیں رکوا دی۔ پھر اتر کر سیدھا چاچے سوہنے کے پاس چلا گیا۔ سب کو نظر انداز کر کے اس نے چاچے سوہنے سے سلام کیا تو چاچے سوہنے نے منشی کی طرف حیرت سے دیکھ کر پوچھا

’’خیر تو ہے نا منشی۔ !بڑی تیزی میں آئے ہو۔ ‘‘

’’خیر تو تیرے پتر کی نہیں ہے جو نکے چوہدری کے خلاف گوائیاں دیتا پھرتا ہے۔۔ کدھر ہے وہ۔۔۔‘‘ منشی نے بڑے رعب سے کہا تو چاچا سوہنا بولا

’’ساری خیریں اسی کی طرف سے ہیں منشی۔ جس نے پیدا کیا ہے اور رہی بات میرے پتر کی گواہی کی، میں اس کے معاملے میں دخل نہیں دیتا جو اس کا دل چاہئے کرے۔ ‘‘

’’تو جانتا ہے کہ تو کیسی بات کر رہا ہے۔ تیرے جیسے کمی کمینوں کی ہمت یہ ہونے لگی کہ اب وہ چوہدریوں کے خلاف گواہیاں دیتے پھریں ، سنو۔ ! چاہے اس کے معاملے میں دخل دیتے ہو یا نہیں۔ ابھی میرے ساتھ چلو اور چوہدری صاحب کو یہی بات بتا دو۔ ‘‘ منشی نے کہا

’’ مجھے کیا لینا دینا تیرے چوہدریوں سے، میں کیوں جاؤں۔ ‘‘چاچا سوہنا بولا

’’ دیکھ سوہنے۔ ! ابھی میں آیا ہوں۔ یہ نہ ہو کہ پہلے کہ طرح اب تجھے بندے ہی اٹھا کر لے جائیں۔ ‘‘

’’ بات سن اوئے منشی۔ ! پہلے کی بات اور تھی، اب ہمارا بندو بست ہے۔ ہم کمی کمین تو پہلے ہی مرے ہوئے ہیں ، یہ نہ ہو کہ تجھے یا تیرے چوہدری کو لے کر مر جائیں۔ ‘‘ چاچا سوہنا تلخی سے بولا تو منشی نے کافی حد تک نرم پڑتے ہوئے کہا

’’ لیکن چوہدری صاحب کے پاس تو جانا ہی پڑے گا۔ ‘‘

’’کیوں ، جانا پڑے گا؟‘‘ چاچے سوہنے نے اکتاتے ہوئے کہا تو منشی نے تاک لیا کہ چاچا سوہنا ہتھے سے اکھڑ گیا ہے۔ اب جتنی اس سے بات کی تو یہ چوراہے میں بیٹھ کر ان کی بے عزتی ہی کرتا رہے گا۔ اس نے سوچا کہ اس سے تو بعد میں بھی نپٹا جا سکتا ہے۔ اس لئے فوراً پینترا بدلتے ہوئے بولا

’’لیکن اپنے پتر کو خود ہی سمجھا دو۔ ورنہ ہمارا سمجھایا بہت برا ہو گا۔ ‘‘

’’میں کہہ دوں گا اسے۔ ‘‘ چاچا سوہنانے لاپرواہی سے جواب دیا تو منشی بولا

’’تمہیں کہنا ہو گا اور وہ جو فہد کے ساتھ گھومتا پھرتا ہے نا، وہ زیادہ دن گھوم پھر نہیں سکے گا۔ یہ بھی اسے سمجھا دینا۔

’’یار منشی۔ !اتنی تلخ زبان کیوں استعمال کرتے ہو۔ تو نے بتا دیا میں اسے کہہ دوں گا۔ اب جاؤ، مجھے یہ چال چلنی ہے۔ ‘‘ چاچا سوہنا بولا اور پھر کھیلتے ہوئے زور سے چال چلی۔ منشی چند لمحے تک اس کی طرف دیکھتا رہا پھر پلٹ کر گاڑی میں بیٹھ گیا۔ چاچے سوہنے نے اس کی طرف دھیان ہی نہیں دیا۔

منشی واپس حویلی پلٹا تو چوہدری جلال کے پاس وکیل بیٹھا ہوا کاغذات نکال رہا تھا۔ چوہدری جلال اس کی جانب دیکھ رہا تھا۔ منشی ان کے قریب جا کر کھڑا ہو گیا۔ تبھی وکیل نے کاغذات بڑھاتے ہوئے کہا

’’چوہدری صاحب۔ !چھوٹے چوہدری کی ضمانت قبل از گرفتاری ہو گئی ہے۔ جس طرح ہوئی ہے، یہ میں جانتا ہوں۔ ویسے آپ بھی بے خبر نہیں ہیں۔ ‘‘

چوہدری جلال نے وہ کاغذات پکڑ کر ایک طرف رکھتے ہوئے پوچھا

’’سارا معاملہ آپ کے سامنے ہے، اس صورت حال میں آپ کیا مشورہ دیتے ہیں۔ آگے کیا ہو گا؟‘‘

’’آگے کیا ہو گا؟اس کا فیصلہ ابھی نہیں کیا جا سکتا۔ ‘‘

وکیل نے سوچتے ہوئے جواب دیا تو چوہدری جلال نے تشویش سے پوچھا

’’کیوں ؟کیس بھی آپ ہی لڑیں گے۔ اپنی مدد کے لیئے جتنے چاہیں وکیل اپنے ساتھ لے لیں۔ ‘‘

’’بات یہ نہیں ہے چوہدری صاحب۔ !میرا نہیں خیال کہ ہم یہ کیس زیادہ لمبا لے جا سکیں گے۔ سیاست میں اب وہ طریقے نہیں رہے کہ آپ دھونس دھاندلی یا جبر سے عوام پر حکمرانی کر سکیں۔ آپ جانتے ہیں کہ ملک نعیم نے پریس کانفرنس کر کے اس عورت کی بھر پور مدد کا اعلان کر دیا ہے۔ کیونکہ بقول آپ کے کہ وہ اب متحرک ہو گیا ہے اور سیاسی معاملات میں دلچسپی لے رہا ہے، وہ اب اس کیس میں دلچسپی لے گا۔ کیوں لے گا یہ بھی آپ جانتے ہیں۔ وہ میڈیا میں اس معاملے کو اچھالے گا۔ اور۔۔۔‘‘

وکیل نے صورت حال کو تفصیل سے بتانا چاہا تو چوہدری جلال نے اسے ٹوکتے ہوئے کہا

’’کچھ بھی ہو وکیل صاحب۔ !ابھی ایک زمانے تک سیاست کا یہی طریقہ رائج رہے گا۔ سیاسی پارٹیاں کہاں ان چھوٹے موٹے سیاست دانوں کو آگے لے کر آتی ہیں۔ اور پھر اختیار کن لوگوں کے پاس ہے۔ یہ آپ کو اچھی طرح معلوم ہے۔ ایف آئی آر کے لئے کتنے لوگوں نے زور لگایا اور ضمانت یونہی ہو گئی۔ یہ بات بھی سمجھیں آپ۔ ابھی کچھ نہیں بدلہ، اختیار جہاں پہلے تھے اب بھی وہیں ہے، عوام تو پاگل ہے جو تبدیلی کی باتیں کرتے نہیں تھکتی اور لیڈر انہیں بے وقوف بنا رہے ہیں۔ سب چل رہا ہے۔ ‘‘

’’لیکن یہ دیکھیں کہ اس عورت کو حمایت مل گئی۔ پہلے ایسا نہیں ہوتا تھا۔ ‘‘ وکیل نے اسے جواباً کہا تو چوہدری جلال نے مسکراتے ہوئے کہا

’’اُو وکیل صاحب۔ !آپ جس ماحول کی بات کر رہے ہیں۔ وہاں لوگ دال روٹی کے چکر سے نکلیں گے تو سوچیں گے۔ ماضی میں کتنے بڑے بڑے جلوس نکلا کرتے تھے۔ اب کیوں نہیں۔ لوگوں کو روٹی کے جھمیلے سے فرصت ہی نہیں۔ وہ کیا سڑکوں پر آئیں گے۔ ہم نے اس بے وقوف عوام کو کر ہی ایسا دیا ہے۔ ‘‘

’’مگر ایسے ہی حالات انقلاب کو جنم دیتے ہیں۔ عظیم تبدیلی آتی ہے۔ خیر۔ !میں نے بہت سوچ سمجھ کر بتایا ہے کہ ملک نعیم اس پوزیشن میں ہے کہ وہ سیاسی فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ اور پھر آپ فہد کو نظر انداز نہیں کر سکتے۔ سو اس معاملے کا حل صلح کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ ‘‘ وکیل نے صاف گوئی سے کہا تو چوہدری جلال نے بھڑک کر کہا

’’کیا کہنا چاہتے ہیں آپ؟میں اور صلح کروں ؟‘‘

’’جتنی جلدی صلح ہو جائے گی۔ یہ معاملہ اتنی جلدی دب جائے گا۔ مخالفین بھی سیاسی فائدہ نہیں اٹھا پائیں گے۔ معاملہ بہر حال صلح پر ہی ختم ہو گا۔ اس کے لیے کوشش کریں۔ ‘‘ وکیل نے تحمل سے کہا

’’وکیل صاحب۔ !آپ تو خوامخواہ گھبرا رہے ہیں حالات ایسے بھی نہیں ہیں۔ آپ کیس کی تیاری کریں۔ سب ٹھیک ہو جائے گا۔ ‘‘ چوہدری جلال نے لاپرواہی سے کہا تو وکیل سر ہلاتے ہوئے بولا

’’آپ کی مرضی ہے چوہدری صاحب۔ !میں کیا کہہ سکتا ہوں۔ اب کیس چلے گا تو ہم دیکھیں گے کہ کیا کرنا ہے۔ اب مجھے اجازت۔ ‘‘

’’ہاں ٹھیک ہے۔ ‘‘ چوہدری جلال نے کہا تو وکیل ہاتھ ملاتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا۔

وہ چلا گیا تو، چوہدری بھی کھڑا ہوا ہے اور منشی نے چوراہے میں ہونے والی بات بتا دی۔ جس سے اس کی تیوریوں پر بل پڑے، اگلے ہی لمحے وہ نارمل ہوتا ہوا بولا

’’ ٹھیک ہے منشی، اور کچھ کہنا ہے ؟‘‘

’’چوہدری صاحب۔ !وہ عورت اب فہد کی بات مان رہی ہے۔ یہ صلح ہے تو مشکل لیکن نا ممکن نہیں ہے۔ صفیہ کو منایا جا سکتا ہے۔ ‘‘

’’جس طرح بھی ہو۔ اب یہ معاملہ ختم ہونا چاہئے۔ ‘‘

چوہدری جلال نے اکتاتے ہوئے کہا تو منشی نے جلدی سے کہا

’’آپ فکر نہ کریں۔ ‘‘

یہ کہہ کر وہ اندر کی جانب گیا۔ جبکہ دوسری طرف بشریٰ بیگم کا افسردہ چہرے کے ساتھ ان کی باتیں سن چکی تھی۔ وہ اپنے بیٹے کہ کے لئے کچھ اور ہی سوچ رہی۔ ایک ماں ہونے کے ناطے اس کی سوچ کچھ اور ہی تھی۔

ایسے وقت میں چوہدری کبیر اپنے ڈیرے پر بیٹھا ٹیلی وژن دیکھ رہا ہے۔ تبھی ماکھا لنگڑاتا ہوا اندر آیا تو اس کی طرف متوجہ ہو کر چوہدری کبیر نے ٹی وی کی آواز کم کرتے ہوئے پوچھا

’’ہاں بولو۔ !کوئی پتہ چلا؟‘‘

’’جی چوہدری صاحب۔ !وہ بات سچی ہے۔ جو صفیہ نے گاؤں کے چوک میں فہد سے کہی تھی۔ ‘‘ ماکھے نے جواب دیا تو چوہدری کبیر نے پوچھا

’’تمہارا مطلب ہے صفیہ جو اپنی فریاد لے کر فہد کے پاس گئی تھی، اسے سلمٰی نے بھیجا تھا ؟اس کے کہنے پر وہ فہد کے پاس گئی تھی۔ ‘‘

’’جی چوہدری صاحب۔ !بالکل ایسا ہی ہوا ہے۔ میں نے تصدیق کر لی ہے۔ ‘‘ ماکھے نے بتایا

’’صفیہ کی ایک ہی دن میں اتنی ہمت نہیں ہو سکتی کہ وہ میرے خلاف پرچہ کٹوانے تھانے چل پڑے۔ سلمٰی نے ہی اس کا ذہن میں آگ بھری ہے۔ ‘‘ چوہدری کبیر نے خود کلامی کے سے انداز میں کہا

’’جی وہ اس سے برابر ملتی رہی ہے۔ اور اب بھی اس کے پاس جاتی ہے۔ ‘‘ ماکھا تیزی سے بولا

’’تو پھر اصل میں وہی میری دشمن ہوئی، جسے میں دل سے چاہتا ہوں۔ پر کوئی بات نہیں ، میں تو اسے بڑے پیار سے نظر انداز کرتا چلا آ رہا تھا، مگر مجھے لگتا ہے، اب اس کا بہت سارا خیال رکھنا پڑے گا۔ ‘‘ چوہدری کبیر نے دانت پیستے ہوئے غصے میں کہا

’’اصل وجہ تو فہد کا یہاں آنا ہے، اس کی وجہ سے سلمیٰ میں اتنا حوصلہ آ گیا ہے۔ ورنہ پہلے تو اس نے کبھی اونچی آواز میں بات نہیں کی تھی کسی کے سامنے۔ ‘‘ ماکھے نے کہا

’’تم ٹھیک کہتے ہو۔ فہد کے آنے ہی سے تو انہیں سانس لینا نصیب ہوا ہے مگر وہ فہد ۔۔۔وہ کب تک رہے گا۔ وہ بھی تو، اب نہیں رہنے والا خیر۔ !تم جاؤ۔ ! میں دیکھتا ہوں کیا کرنا ہو گا۔ ‘‘یہ کہہ کر اس نے ریموٹ اٹھا کر ٹی وی کی آواز اونچی کر تے ہوئے ساری توجہ ٹی وی سکرین کی جانب کر لی۔ ماکھا لمحہ بھر کھڑا رہا پھر باہر چلا گیا۔ چوہدری کبیر کی نگاہیں تو ٹی وی اسکرین پر تھیں لیکن وہ کچھ اور سوچ رہا تھا۔

٭٭

 

ماسٹر دین محمد عصر کی نماز پڑھ کر گھر آیا تو دالان میں پڑی چارپائی پر بیٹھ گیا۔ سلمی کچن میں بیٹھی کام کر رہی تھی۔ اس نے اپنے باپ کا چہرہ دیکھا تو اٹھ کر اس کے پاس آ کے بیٹھ گئی۔ پھر بڑے نرم سے انداز میں پوچھا

’’ابا جی۔ !آپ کچھ پریشان سے لگ رہے ہیں۔ کیا بات ہے ؟کیا ہوا؟‘‘

ماسٹر دین محمد چند لمحے خاموش رہا پھر سلمٰی کی طرف دیکھ کر بولا

’’صفیہ مدد لینے فہد کے پاس گئی، وہ اس کی مدد کرنے کو تیار ہو گیا ہے۔ کیا تو نے اسے فہد کے پاس بھیجا تھا۔ ‘‘

’’ہاں۔ !میں نے اسے فہد کے پاس بھیجا تھا۔ میں نے اسے حوصلہ دیا ہے کہ وہ انصاف کے لیے کوشش کرے۔ ‘‘سلمی نے عزم سے کہا

’’تم جانتی ہو۔ تمہارا یہ حوصلہ دینا ایک نئی جنگ کی بنیاد بن سکتا ہے۔ اس کا کیا نتیجہ ہو گا۔ یہ سوچا ہے تم نے؟‘‘ ماسٹر دین محمد نے گہری سنجیدگی سے پوچھا تو سلمی بولی

’’حد سے بڑھا ہوا خوف انسان کو دلیر بنا دیتا ہے۔ جنگ ہو گی یا امن رہے گا، میں اس کے بارے میں نہیں جانتی مگر یہ مجھے پتہ ہے کوئی تو ہو جو چوہدریوں کے سامنے کھڑا ہو اور اب وقت آ گیا ہے ابا جی۔ ‘‘

’’کیا تمہیں یہ سوچ فہد نے دی ہے۔ اس نے کہا تھا کہ صفیہ کو اس کے پاس بھیجے؟‘‘ ماسٹر دین محمد نے ایک خیال کے تحت پوچھا

’’نہیں اباجی۔ !میں نے خود صفیہ سے کہا تھا۔ اس مظلوم عورت کا کوئی بھی ساتھ نہ دے، لیکن میں ضرور ساتھ دوں گی۔ ‘‘ سلمی نے حتمی لہجے میں کہا

’’تم کیا کر سکتی ہو، ساری زندگی ہم۔۔۔‘‘ماسٹر دین محمد اسے سمجھاتے ہوئے بولا تو وہ اس کی بات کاٹ کر بولی

’’ان کا ظلم سہتے رہیں ہیں۔ ظلم اس وقت تک بڑھتا رہتا ہے جب تک کوئی اس کے سامنے ڈ ٹ نہیں جاتا۔ میں نے فیصلہ کر لیا ہے۔ اب مجھے نہیں ڈرنا زیادہ سے زیادہ یہ ہو گا کہ وہ ہمیں مار دیں گے۔ لیکن ابا جی مجھے یہ بتائیں کہ پہلے ہم کون سے زندہ ہیں۔ ‘‘

’’اس کا مطلب ہے تم نے صفیہ کا ساتھ دینے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ ‘‘ ماسٹر دین محمد نے پوچھا

’’جی، میں اس کا ہر طرح سے ساتھ دوں گی۔ ‘‘

وہ فیصلہ کن لہجے میں بولی توماسٹر دین محمد نے کہا

’’جیسے تمہاری مرضی پتر!میں نے تو زندگی گذار لی۔ ‘‘

’’آپ فکر نہ کریں ابا جی، سب ٹھیک ہو جائے گا۔ ‘‘سلمٰی نے اسے تسلی دیتے ہوئے کہا

’’ خیر۔ ! وہ فہد اور صفیہ نور پور سے واپس آ گئے ہیں۔ ان کے ساتھ ایک صحافی لڑکی بھی ہے۔ مجھے پیغام ملا ہے کہ وہ فہد کے ساتھ ادھر آئیں گے۔ ‘‘ ماسٹر دین محمد نے کہا تو سلمی چونک گئی۔

’’ جی، اچھا۔ ‘‘ یہ کہتے ہوئے وہ اٹھ گئی۔ ماسٹر دین محمد اپنی سوچوں میں کھو گیا۔

زیادہ وقت نہیں گذرا کہ باہر ہارن کی آواز آئی۔

’’لگتا ہے مہمان آ گئے ہیں۔ ‘‘ ماسٹر دین محمد نے اونچی آواز میں کہا توسلمی آنچل درست کرتے ہوئے اٹھ گئی

’’جی، میں دیکھتی ہوں۔ ‘‘

سلمی نے دروازہ کھولا۔ پہلے فہد اور پھر مائرہ اندر آ گئی۔ مائرہ نے گھر پر ایک طائرانہ نگاہ ڈالی، پھر سلمی کو دیکھ کر ٹھٹک گئی۔ سلمی آگے بڑھ کر اسے ملی، پھر اسے ساتھ لے کر ماسٹر کے پاس آ گئی۔ ماسٹردین محمد نے اس کے سر پر پیار دیتے ہوئے کہا

’’ اچھا تو یہ بیٹی صحافی ہے، بیٹھو بیٹا۔ ‘‘

مائرہ، ان کے قریب کرسی پر بیٹھتے ہوئے بولی

’’سلمی آؤ نا، تم بھی میرے پاس بیٹھو۔ ‘‘

’’میں آپ کے لیے کچھ لے آؤں ، مطلب۔۔۔‘‘ اس نے کہنا چاہا تو مائرہ اس کی بات کاٹ کر بولی

’’ او چھوڑو، ادھر فہد کے گھر سے بہت اچھی چائے پی کر آئی ہوں۔ اب دل نہیں کر رہا۔ کچھ دیر بعد تمہارے ہاتھ کا بنا ہوا کھانا کھاؤں گی۔ اور یہ تم کیا آپ جناب لے کر بیٹھ گئی ہو، ہم دوست ہیں یار۔ ‘‘

’’تو میں تمہارے لیے کھانے کا بندوبست کرتی ہوں۔ ‘‘ سلمی نے کہا تو مائرہ بولی

’’تم ادھر بیٹھو میں نے تم سے کچھ باتیں کرنی ہیں ، کھانا بھی ہم بنا لیں گے۔ ‘‘سلمی بیٹھ گئی تو وہ ماسٹردین محمد کی طرف دیکھ کر بولی، ’’اور سنائیں انکل ‘‘

’’اللہ کا شکر ہے بیٹا لو تم لوگ باتیں کرو، میں ابھی آتا ہوں۔ ‘‘

ماسٹردین محمد نے کہا اور باہر نکلتا چلا گیا۔ تب فہد نے کہا

’’سلمی، اب تم اپنے پراجیکٹ کے بارے میں بتاؤ یہ تمہاری بہت ہیلپ کرے گی۔ ‘‘

’’ہاں ہاں بتاؤ۔ ‘‘ مائرہ نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا، پھر کچھ دیر بعد وہ باتوں میں کھو گئیں۔

٭٭

 

فہد اپنے گھر داخل ہوا تو سراج اکیلا ہی صحن میں چار پائی پر بیٹھا ہوا تھا۔ وہ سامنے والی چارپائی آ کر بیٹھ گیا تو سراج نے پوچھا

’’ مہمان چلے گئے۔ ‘‘

’’ ہاں چلے گئے۔ اور یار میں نے تم سے پوچھنا تھا کہ و ہ موبائل فون ٹاور لگانے والوں سے تمہارا رابطہ ہو گیا تھا؟‘‘فہد نے پوچھا

’’ہاں۔ !وہ میرے ساتھ ویسا ہی معاہدہ کر گئے ہیں جیسے تم نے کہا تھا۔ انہوں نے اپنا کام بھی شروع کر دیا ہے۔ کہہ رہے تھے کہ دنوں میں کام مکمل کر لیں گے۔ ‘‘ سراج نے جواباً کہا تو بولا

’’چلو ٹھیک ہے۔ ‘‘ پھر ادھر اُدھر دیکھتے ہوئے پوچھا، ’’ یہ چھاکا کدھر ہے ؟‘‘

اس سے پہلے کہ سراج جواب دیتا، ان کے پھاٹک پر دستک ہوئی اس کے ساتھ ہی انہیں عمر حیات آتا ہوا دکھائی دیا۔ اس نے آتے ہی سلا م کیا اور آ کر ان کے قریب بیٹھ گیا۔ سراج نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا

’’سناؤ چاچا عمر حیات کیا حال ہے، کیسے آنا ہوا؟

’’میں ٹھیک ہوں پتر۔ !اور میں آیا اس لیے ہوں کہ کل میں یہاں سے جا رہا ہوں۔ کل اپنا زمینوں کا قبضہ لے لو۔ ‘‘ عمر حیات نے سکون سے کہا

’’اتنی جلدی جا رہا ہے چاچا ابھی چند دن اور رہ لیتا۔ ‘‘ سراج نے اخلاقاً کہا تو وہ بولا

’’کیا کرنا ہے رہ کر جب جانا ہے تو بس جانا ہے۔ میں نے کل پٹواری کو بلایا ہے۔ تم بھی اپنے لوگوں کو لے آنا، ممکن ہے چوہدری کوئی خرابی کرنے کی کوشش کرے۔ ‘‘

عمر حیات نے تشویش سے کہا۔ اس پر فہد نے چونکتے ہوئے تحمل سے پوچھا

’’چاچا۔ !تمہیں یہ خیال کیوں آیا کہ وہ خرابی بھی کر سکتا ہے، اس کا ڈر کیوں ہے ؟‘‘

’’دیکھو پتر، چوہدری نے تو آگے نہیں آنا، وہ تو ہلہ شیری ہی دے گا نا۔ اس نے میرے بھائیوں کو آگے کرنا ہے۔ اور میرے بھائی پہلے ہی سے غصے میں ہیں۔ ایک تو میں نے اپنی بیٹی کا رشتہ انہیں نہیں دیا، دوسرا زمین ان کے ہاتھ سے نکل گئی ہے۔ ‘‘ عمر حیات نے وجہ بتا دی

’’ہاں چاچا، وہ تو اپنا غصہ نکالنے کی کوشش کریں گے۔ میرا خیال ہے وہ اب کچھ نہیں کرے گا۔ ‘‘

فہد نے پر یقین لہجے میں کہا توسراج بولا

’’فہد کے ذہن میں شاید نہ ہو لیکن میں نے اس کا بندوبست کر لیا ہوا ہے۔ ‘‘

’’چلو اچھا ہے، اللہ کرے وہ کچھ نہ ہی کریں تو بہتر ہے۔ پھر بھی تم لوگ اپنا دھیان رکھنا۔ ‘‘

عمر حیات نے دعائیہ انداز میں کہا تو فہد بولا

’’ہاں چاچا کیوں نہیں ہم اپنا پورا دھیان رکھیں گے۔ ‘‘

’’اچھا پتر۔ اب میں چلتا ہوں ، کل میں نے صرف زمین ہی تمہارے حوالے کرنی ہے، میں نے کل ہی یہاں سے چلے جانا ہے۔ ‘‘ یہ کہتے ہوئے عمر حیات اٹھنے لگا تو فہد جلدی سے بولا

’’ چاچا، ابھی بیٹھو، چائے تو پی لو۔ ‘‘

’’ میں نے ابھی پی ہے۔ اور پھر کافی کام ہیں۔ ‘‘ یہ کہہ کر اس نے دونوں سے ہاتھ ملایا اور باہر کی جانب چلا گیا۔

’’بولو۔ !کیا کرنا ہے اب؟‘‘ سراج نے فہد کی طرف دیکھ کر پوچھا تو وہ بولا

’’یہی۔ !زمینوں کا قبضہ لیں گے اور کیا۔ ‘‘ اس پر سراج تھوڑا فکر مند ہو گیا جبکہ فہد کے چہرے پر سکون تھا۔

اگلی صبح وہ فہد چھاکا اور سراج ان زمینوں میں جا پہنچے، جو انہوں نے عمر حیات سے خریدی تھیں۔ وہاں پٹواری کے ساتھ اور کافی سارے لوگ تھے۔ کنواں پر درخت تلے بیٹھ کر پٹواری نے کاغذات تیار کئے جو اس نے دستخط اور انگوٹھوں کے بعد فہد کے حوالے کر دئیے۔ یہ مرحلہ امن اور صلح سے حل ہو گیا۔ کسی بندے نے بھی شر انگیزی نہیں۔ زمین کا قبضہ بخیر و عافیت ہو گیا۔ اسی وقت عمر حیات نے اپنے گھر کی چابی بھی اس کے حوالے کر دی۔ دعائے خیر ہوئی اور وہ سب وہاں سے آ گئے۔ چاچا عمر حیات بھی گاؤں چھوڑ کر چھوڑ کر چلا گیا۔

’’تو پھر چاچا عمر حیات چلا گیا۔ وہ بھی ان چوہدریوں کا ستایا ہوا تھا۔ میرا نہیں خیال کہ اب وہ کبھی پلٹ کر یہاں آئے گا۔ آئے گا بھی کیوں ؟‘‘ سلمی نے فہد کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ وہ دونوں دالان میں بیٹھے ہوئے تھے۔ فہد نے وہ کاغذات سلمی کو دے دئیے تھے۔

’’ہاں۔ !اگر اس نے یہاں آنا ہوتا تو وہ اپنا سب کچھ بیچ کر جاتا کیوں۔ لگتا ہے اس نے بھی بڑا صبر کیا ہے۔ سلمٰی، یہ بستیاں بھی محبت کے ساتھ بستی ہیں۔ یہ نفرت، یہ ظلم بستیوں کو ہی نہیں اجاڑتے۔ انسانوں کو بھی ایک دوسرے سے دور کر دیتے ہیں۔ ‘‘ فہد نے دکھ سے کہا توسلمٰی بھی افسوس ناک لہجے میں بولی

’’پتہ نہیں بے چارہ یہاں سے کتنا دکھی ہو کر گیا ہو گا۔ ‘‘

’’ہاں۔ !زمین کا قبضہ دیتے وقت اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے تھے۔ اور پھر اس سے یہاں رہا نہیں گیا، فوراً چلا گیا۔ ‘‘ فہد نے وہ لمحات یاد کرتے ہوئے بتایا

’’مجھے تو ڈر تھا کہ کہیں زمین کا قبضہ لیتے وقت چوہدری کے لوگ نہ مداخلت کر دیں۔ وہاں پھر سوائے لڑائی جھگڑے کے اور کیا ہونا تھا۔ ‘‘ سلمی نے تشویش زدہ لہجے میں کہا تو فہد بولا

’’جب کوئی لڑائی جھگڑے کے لیے تل جائے تو پھر لڑنا بھی پڑتا ہے۔ لیکن مجھے نہیں لگتا کہ چوہدری اب مزید مجھ پر دھونس جمائے گا۔ اس نے اگر کچھ کرنا ہوتا تو اب تک کر چکا ہوتا۔ ‘‘

’’اس نے سکون تو برباد کیا ہوا ہے نا؟‘‘ سلمی نے نفرت سے کہا تو فہد مسکراتے ہوئے بولا

’’کسی کا سکون چھین لینے والے پہلے خود بے سکون ہوتے ہیں۔ دراصل وہ اندر سے بہت زیادہ بزدل ہوتے ہیں۔ یہی بزدلی چھپانے کے لیے وہ کمزوروں پر ہاتھ اٹھاتے رہتے ہیں۔ تا کہ دوسروں پر اپنا رعب دکھاتے رہیں۔ خیر۔ ! چھوڑو ان باتوں کو۔ ‘‘

’’تو پھر اور کیا باتیں کریں ؟‘‘ سلمی نے مسکراتے ہوئے پوچھا تو فہد نے گہری سنجیدگی سے کہا

’’چاچے عمر حیات کا گھر اب خالی ہو گیا ہے۔ اور تمہیں پتہ ہے نا کہ اب تم نے وہاں پر کیا کرنا ہے؟‘‘

’’میں جانتی ہوں کہ مجھے کیا کرنا ہے، وہ گھر اب فقط سکول ہی نہیں ہو گا۔ وہاں اور بہت سارے کام ہوں گے۔ آپ مجھے بتاتے جائیں ، میں کرتی چلی جاؤں گی۔ اب اتنا حوصلہ آ گیا ہے مجھ میں۔ ‘‘

سلمی نے عزم سے کہا تو فہد سمجھاتے ہوئے بولا

’’ تم اُسے اپنی ضرورت کے مطابق ٹھیک کروا لو۔ اس میں چند دن لگ جائیں گے پھر تم اپنا کام شروع کر دو۔ ‘‘

’’ہاں یہ ٹھیک ہے، ویسے پیپر ورک تو میں نے کب کا شروع کر دیا ہوا ہے۔ ‘‘

’’ گڈ، مجھے تم سے یہی اُمید تھی۔ اب میں نے کچھ کاغذات دیکھنے ہیں کمرے میں ، تم ایک کپ چائے لے آؤ میرے لئے۔ ‘‘

’’جیسے آپ کی مرضی۔ ‘‘سلمٰی نے کھڑا ہوتے ہوئے کہا۔ تبھی فہد کھڑا ہوا اور باہر والے کمرے کی جانب چلا گیا۔ سلمٰی اسے محبت پاش نگاہوں سے دیکھتی رہی۔

فہد کمرے میں موجود، سامنے پڑے کاغذات میں الجھا ہوا تھا۔ سلمٰی کمرے میں آ کر چائے کا مگ اس کے سامنے رکھا اور خود ایک جانب ہو کر بیٹھ گئی۔ فہد نے اس کی طرف دیکھ کر مسکراتے ہوئے پوچھا

’’ایسے کیا دیکھ رہی ہو ؟‘‘

’’میں یہ دیکھ رہی ہوں کہ کیا میں آپ کی مدد کر سکتی ہوں۔ ‘‘ وہ بھی مسکراتے ہوئے بولی

’’مدد۔ !ان کاغذات کے بارے میں ، یہ تو مختلف دستاویزات ہیں۔ تم انہیں سمجھ نہیں پاؤ گی۔ یہ مجھے ہی دیکھنا ہوں گے، اگر کوئی اور بات ہے تو بتاؤ۔ ‘‘ فہد اس کے چہرے کی طرف دیکھ کر بولا

’’میں دراصل آپ سے ایک بات کرنا چاہ رہی تھی۔ ‘‘ اس نے ہولے سے کہا تو فہد نے سنجیدگی سے پوچھا

’’بات، بولو۔ کیا بات ہے؟‘‘

’’میں وہ دراصل صفیہ کے بارے میں بات کرنا چاہتی ہوں اس بے چاری کا کیا ہو گا؟ ایف آئی آر تو درج ہو گئی۔ لیکن کیا اسے انصاف مل سکے گا؟‘‘ سلمی نے پوچھا

’’کیوں نہیں ملے گا اسے انصاف، ملے گا اور ضرور ملے گا۔ اصل میں ہم لوگوں سے اُمید لگا بیٹھتے ہیں کہ شاید وہ ہمیں انصاف دیں گے مگر اسے بھول جاتے ہیں جو حقیقی منصف ہے۔ وہ سب دیکھ رہا ہے، بس ظالم کی رسی دراز کر دیتا ہے۔ ‘‘ فہد نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا

’’لیکن وہ صفیہ وہ تو مایوس ہو رہی ہے نا، اسے حوصلہ تو میں اور آپ ہی دیں گے نا۔ ‘‘ سلمی نے یاد دلایا

’’بے شک۔ !انسان ہی ایک دوسرے انسان کے لیے وسیلہ ثابت ہوتے ہیں۔ ظاہر ہے اسے انصاف ملنے میں کچھ وقت تو لگے گا نا۔ ‘‘ فہد نے کہا

’’اور وقت کا کوئی اندازہ نہیں ہے کہ کب تک۔ وہ بیوہ ہو چکی ہے اس کے بچے ہیں۔ وہ ان کی روزی روٹی پوری کرے گی یا انصاف کے لیے عدالتوں میں دھکے کھاتے پھرے گی؟ ایسا نظام کیوں نہیں بن جاتا، جہاں ہر شخص کو تحفظ کا احساس ہو اور اگر کوئی ظالم ظلم کرے تو اسے فوراً سزا مل جائے۔ ‘‘ سلمی کے لہجے میں گویا آگ بھری ہوئی تھی، جس پر فہد نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے تحمل سے کہا

’’یہی سسٹم ہی تو ہے۔ جس نے ان ظالموں کو بہت طاقتور بنا دیا ہوا ہے۔ اور عوام ظلم پر ظلم سہتے چلے جا رہے ہیں۔ اسی سسٹم ہی کو بدلنا ہے۔ ‘‘

’’کیسے بدلے گا یہ سسٹم؟‘‘ سلمی نے بے صبری سے پوچھا تو فہد بولا

’’عوامی طاقت سے، اگر ہم جمہوریت چاہتے ہیں تو عوام کا شعور ہی اس سسٹم کو بدل سکتا ہے ورنہ۔۔۔‘‘

’’ورنہ۔ !ہم ایسے ہی ظلم سہتے رہیں گے۔ ‘‘ سلمی نے اس کی بات کاٹ کر کہا

’’نہیں۔ !اب وقت بدل گیا ہے سلمٰی۔ !سسٹم پہلے ذہن میں بدلتا ہے۔ پھر اس کے مطابق عمل ہوتا ہے۔ عوام کو یہ شعور آ جائے کہ انہوں نے اپنا حق کیسے لینا ہے توسب بدل جائے گا۔ تم فکر نہ کروسب ٹھیک ہو جائے گا۔ ‘‘ فہد نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا

’’مجھ سے تو اس بے چاری کا دکھ نہیں دیکھا جاتا۔ مجھے سے جو ہو سکا میں اس کی ہر طرح سے مدد کروں گی۔ اس کے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں۔ ‘‘ سلمی نے گلو گیر لیجے میں کہا تو فہد بولا

’’تم کیا سمجھتی ہو۔ !کیا میں تمہارے اس دکھ سے واقف نہیں ہوں۔ میرے بھی وہی جذبات ہیں۔ جو تمہارے ہیں۔ کیا تم نہیں جانتی ہو کہ اب ہمارے دکھ سکھ سانجھے ہیں ؟‘‘

’’جانتی ہوں۔ !اسی لیے تو پورے حوصلے کے ساتھ صفیہ کی مدد کر رہی ہوں۔ میں اسے انصاف دلا کر ہی رہوں گی۔ ‘‘ سلمی نے عزم سے کہا

’’بس تمہارا یہی اعتماد مجھے حوصلہ دیتا ہے۔ جو اب میری اصل طاقت ہے۔ ہم دونوں مل کر یہی عوامی شعور دیں گے۔ ‘‘ فہد نے اسے محبت پاش نگاہوں سے دیکھتے ہوئے کہا۔ جس پر سلمٰی شرما گئی اور وہاں سے اٹھ کر باہر چلی گئی۔ فہد مسکراتے ہوئے اپنے کام میں مشغول ہو گیا۔ وہ سلمی کے حوصلے پر خوش تھا۔

٭٭

 

شام کے سائے رات میں ڈھل چکے تھے۔ جعفر اپنے آفس میں تھا۔ اس کے ساتھ مائرہ تھی۔ دونوں آفس آمنے سامنے بیٹھے ہوئے باتیں کر رہے تھے۔ جعفر نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے پوچھا

’’ہو گئی رپورٹنگ تمہاری؟‘‘

’’ہاں ہو گئی۔ ‘‘ مائرہ نے دھیمے سے کہا اور پھر لمحہ بھر بعد میں بولی، ’’جعفر۔ !زندگی میں اتنی گھٹن کہاں سے آ جاتی ہے ؟سانس لیتے ہوئے بھی اتنی مشکل ہو جاتی ہے دل کرتا ہے کہ سانس ہی نہ لیا جائے۔ ‘‘

جعفر نے چونک کر اسے دیکھا اور پوچھا

’’مائرہ۔ !اتنی مایوسی؟کیا ہو گیا ہے تمہیں۔ کیوں ایسافضول سوچ رہی ہو ؟‘‘

’’یہ فضول سوچیں نہیں ہیں۔ میرے حالات کا وہ دیا ہوا تاثر ہے۔ جیسے میں بڑی شدت سے محسوس کر رہی ہوں۔ ‘‘ اس نے جواب دیا تو جعفر بولا

’’لیکن مجھے یوں لگ رہا ہے کہ تمہیں آرام کرنے کی ضرورت ہے۔ دن رات کام کر کے تم تھک چکی ہو اتنی محنت نہیں کرتے۔ جس سے بندہ مایوس ہو جائے۔ ‘‘

’’تم نہیں سمجھ سکو گے جعفر اور سمجھ سکتے بھی نہیں ہو۔ ‘‘ مائرہ نے حسرت بھرے انداز کہا توجعفرمسکراتے ہوئے بولا ’’کیوں ، میں کیوں نہیں سمجھ سکتا؟حالانکہ تم خود مجھے ذہین قراد دے چکی ہو۔ ‘‘

’’پھر بھی تم نہیں سمجھ سکتے۔ ‘‘ وہ ایک دم سے بدلی ہوئے لہجے میں بولی۔ صاف ظاہر تھا کہ وہ بات بدل گئی ہے۔ جعفر نے یونہی ضد کرتے ہوئے کہا

’’چلو بتاؤ۔ کیوں ، میں کیوں نہیں سمجھ سکتا؟‘‘

’’ایک عورت کیا سوچتی ہے اور کیسے سوچتی ہے۔ کیا تم ایسا سوچ سکتے ہو۔ اگر تم ایسا دعویٰ کرو تو میرے خیال میں تمہارے مرد پن پر۔۔۔‘‘ مائرہ کہتے ہوئے ایک دم سے رک گئی اور پھر مسکرا دی۔ جعفر نے تیزی سے پوچھا

’’یہ تم کیا کہہ رہی ہو؟‘‘

’’اسی لئے کہہ رہی ہو ہر بات بحث کے لئے نہیں ہوتی۔ ‘‘ وہ کہتے ہوئے ہنس دی تو جعفر بولا

’’لگتا ہے آج کل تمہارے ساتھ کوئی پرابلم چل رہا ہے اگر میں کوئی مدد کر سکوں تو بتاؤ۔ رئیلی۔ !میں بندہ بڑا مخلص ہوں اور۔۔۔‘‘

’’تمہیں کس نے کہہ دیا ہے کہ میرے ساتھ کوئی پرابلم چل رہا ہے یونہی بس تم تو۔ ‘‘ مائرہ نے کہا اور بات ہوا میں اُڑا دی جیسے کچھ بھی نہ ہوا ہو۔

’’کسی کو بتانے کی کیا ضرورت ہے مائرہ۔ تمہاری یہ آواز چیخ چیخ کر کہہ رہی ہے۔ اس پر تمہارا یہ کھویا ہوا لہجہ کسی بھی بات کا ٹھیک طرح سے جواب نہیں دینا۔ اور تمہارے چہرے کی اڑی ہو ئی رنگت۔ اسے میں کیا کہوں ؟‘‘ جعفر نے گہری سنجیدگی سے کہا۔ اس پر مائرہ اعتراف کرنے کے سے انداز میں بولی

’’تم ٹھیک کہتے ہو اور تمہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ میں ایسی کیوں ہو گئی ہوں ، میں فہد کو نہیں بھلا پا رہی ہوں۔ ‘‘ اس کے یوں کہنے پر جعفر کے چہرے پر حسرت بھرا تاثر پھیل گیا۔ تبھی وہ خود پر قابو پاتے ہوئے بولا

’’اوکے۔ تم کچھ بھی مت سوچو، اب ایسے کرو کچھ دیر آرام کر لو، پھر ہم قسمت نگر چلتے ہیں اور فہد سے جا کر ملتے ہیں۔ خوب گپ۔۔۔‘‘

’’نہیں ، مجھے آج ہی واپس جانا ہے۔ مجھے رپورٹ تیار کرنی ہے اسے ان ائیر بھی جانا ہے۔ میں کام سے آئی ہوں یونہی سیر کے لیے نہیں۔ میں ابھی کچھ دیر بعد نکلوں گی، اورسفر بہت لمبا ہے۔ سلمی اور ماسٹر جی سے مل آئی ہوں۔ دونوں بہت اچھے ہیں۔ ‘‘ اس نے یوں کہا جیسے وہ دل کچھ اور چاہ رہی ہو لیکن اس کی زبان پر کچھ اور ہو۔ جعفر چند لمحے اس کی طرف دیکھتا رہا۔ مائرہ نے نگاہیں چرا لیں تو وہ بولا

’’اوکے، جیسا تم چاہو لیکن ذرا سا آرام کر لو، پھر کھانا وغیرہ کھا کر نکل جانا۔ ‘‘

’’ اوکے، چلو۔ ‘‘ مائرہ نے افسردہ مسکراہٹ کے ساتھ کہا اور اٹھ گئی۔ تو جعفر بھی اٹھ گیا۔ دونوں ہی اپنے اپنے طور پر بہت کچھ سوچ رہے تھے، مگر اظہار کی ہمت نہیں پا رہے تھے۔

مائرہ چلی گئی تو جعفر کو اپنے اکیلے پن سے بے چینی ہونے لگی۔ اس وقت اسے پتہ چلا کہ مائرہ اس کے لئے کتنی اہم ہے۔ چاہئے وہ اس کی محبت کا اعتراف نہیں کرتی بلکہ فہد کی محبت کا دم بھرتی ہے لیکن اس کی قربت ہی سے امید بندھی ہوئی تھی۔ جعفر سے بیٹھا نہیں گیا۔ بلکہ اٹھ کر چل دیا۔ اس کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ فہد کے پاس جائے اور اس سے بہت ساری باتیں کرے۔ مگر حالات نے یہ مجبوری ان کے درمیان لا کھڑی کی تھی۔ وہ ملک نعیم کی طرف نکل گیا۔ اس وقت جعفر بغیر یونیفارم کے تھا۔

ملک نعیم گھر پر ہی تھا۔ یوں اچانک اسے دیکھ کر وہ پہلے تو کچھ بھی نہ سمجھا۔ ذرا دیر بعد وہ دونوں کاریڈور میں کرسیاں بچھائے بیٹھے ہوئے تھے۔ دھیمی روشنی تھی۔ وہ دونوں باتیں کر رہے تھے۔ جعفر نے مسکراتے ہوئے اس سے کہا

’’ملک صاحب میں یوں خاموش سے اس لیے آپ کے پاس آیا ہوں کہ پولیس والا اگر اپنے کسی نجی کام کے لیے بھی کسی کے پاس چلا جائے تو لوگ سو طرح کی باتیں بناتے ہیں۔ ‘‘

اس پر ملک نعیم نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا

’’آپ کا اپنا گھر ہے جیسے مرضی ملنے کے لیے آئیں۔ ‘‘ یہ کہہ کر اس نے خوشگوار حیرت سے کہا، ’’ وہ آپ کی دوست رپورٹر کافی تیز ہے۔ اس نے خبر کے ساتھ میری پریس کانفرنس بھی چلا دی۔ حالانکہ وہ ابھی یہیں تھی۔ ‘‘

’’انٹرنیٹ کا زمانہ ہے۔ اس نے ابتدائی خبر بھیج دی تھی۔ ابھی تفصیلی رپورٹ بعد میں آئے گی۔ ویسے میں ٹی وی پر آپ کی پریس کانفرنس دیکھی ہے اور اس کا بڑا اثر بھی ہوا ہے۔ مجھے اوپر سے کافی کہا جا رہا ہے کہ میں پوری دیانتداری سے اس معاملے کو دیکھوں۔ اور کچھ دھمکیاں بھی مل رہی ہیں۔ بتانا میں چاہ رہا ہوں کہ چوہدری کی دسترس جہاں تک بھی ہے، اب میری راہ میں وہ رکاوٹ نہیں۔ مجھے خوف نہیں۔ ‘‘ جعفر نے کہا تو ملک نعیم بولا

’’خوف تو مجھے بھی نہیں ہے۔ لیکن وہ کب اور کیا سازش کر لیں اس کا تو اندازہ نہیں ہے نا؟‘‘

’’میں مانتا ہوں کہ آج وہ طاقتور ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ ہمیشہ ہی ایسا رہے گا۔ اسے اسی کے میدان میں شکست دینا ہو گی۔ جس میں وہ دوسروں کو شکست دینا چاہتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں اس بات کو۔ خیر میری ایک تجویز ہے آپ کے لیے۔ ‘‘ جعفر نے کہا

’’جی فرمائیں۔ ‘‘ ملک نعیم بولا

’’آپ نے فہد کے بارے میں تو سنا ہو گا؟ جو قسمت نگر میں رہتا ہے اور اس کی۔۔۔‘‘

وہ کہتے کہتے رُک گیا تو ملک نعیم جلدی سے بولا

’’بالکل، کیوں نہیں یہ وہی نوجوان ہے۔ جو اس وقت چوہدریوں کا اکیلے ہی مقابلہ کر رہا ہے۔ باوجود کوشش کے چوہدری اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکے۔ صفیہ کی وہی مدد کر رہا ہے۔ میں اس سے براہ راست ملا تو نہیں مگر اس کے بارے میں سنا بہت ہے۔ شاید آج تھانے میں دیکھا بھی ہو، میں اس سے ملنا چاہتا ہوں۔ ‘‘

’’کیا آپ چاہیں گے کہ آپ اس کی مدد کریں ؟‘‘ اس نے پوچھا تو ملک نعیم تیزی سے بولا

’’بالکل، میں اس سے ملنا چاہتا ہوں اور اگر قسمت نگر کی قسمت بدلنے میں وہ میرا ساتھ دے تو یقیناً یہ کایا جلدی پلٹ سکتی ہے۔ ‘‘

’’تو پھر آپ جب چاہیں اس سے مل لیں۔ ان حالات میں آپ دونوں کی ملاقات بہت ضروری ہے۔ ‘‘ جعفر نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا تو ملک نعیم نے پوچھا

’’تو اس طرح کیا آپ پس منظر میں رہیں گے؟‘‘

’’ملک صاحب اس کے بغیر چارہ نہیں ہے۔ میرے جتنے بھی اختیارات ہوں۔ وہ بہر حال محدود ہیں۔ اور میں انہی اختیارات ہی سے کام لینا چاہتا ہوں۔ ‘‘ جعفر نے کہا ملک نعیم حتمی لہجے میں بولا

’’آپ ٹھیک کہتے ہیں اور میں سمجھتا ہوں اس بات کو میں بہت جلد فہد سے خود ملوں گا۔ ‘‘

’’نعیم صاحب۔ !اپنے حلقے میں عوامی رابطہ بڑھائیں۔ میں اور میرے دوست آپ کے ساتھ ہیں۔ بپھرا ہوا دریا سوائے تباہی کے کچھ نہیں کرتا۔ جبکہ پر سکون دریا سے بہت کچھ حاصل کیا جا سکتا ہے۔ آپ اپنے لوگوں کو مضبوط کریں۔ تا کہ آنے والے الیکشن میں وہ آپ کا ساتھ دے سکیں۔ ‘‘ جعفر نے صلاح دی

’’ٹھیک ہے۔ میں پوری کوشش کرتا ہوں۔ ، اب تو عوام بھی خاصی سیانی ہو گئی ہے۔ جہاں مفاد ہوتا ہے۔ وہیں کام دیتے ہیں۔ ورنہ پوچھتے ہی نہیں۔ ‘‘ ملک نعیم نے ہنستے ہوئے کہا تو جعفر نے تصحیح کرتے ہوئے کہا

’’عوا م نہیں۔ عوام میں سے چند لوگ۔ ‘‘

’’ آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ ‘‘ ملک نعیم نے کہا اور پھر ان کے درمیان لمبی باتیں چل نکلیں۔ رات گئے جعفر وہاں سے نکلا اور واپس آ کر اس وقت تک نہیں سویا جب تک مائرہ اپنے گھر نہیں پہنچ گئی۔

٭٭

 

صفیہ افسردہ سی چولہے کا پاس بیٹھی اپنے بچوں کو روٹی کھلا رہی تھی۔ بچے بھی خاموش سے تھے۔ اس کی سوچوں کے لئے یہی خیال کافی تھا کہ وہ آئندہ آنے والا وقت کیسے گذارے گی۔ اس کے بچوں کا مستقبل کیا ہو گا۔ وہ اپنے شوہر کا بدلہ لینے کے لئے قانون کا سہارا تو لے چلی ہے، کیا قانون اسے انصاف دے گا؟وہ انہی سوچوں میں کھوئی ہوئی تھی کہ اس کے گھر کا دروازہ کھلا اور اس کے سسر نعمت علی کے ساتھ منشی فضل دین گھر میں آ کر صحن میں بچھی چارپائیوں پر بیٹھ گئے۔ تبھی نعمت علی نے اونچی آواز میں اسے پکارتے ہوئے کہا

’’صفیہ۔ !اُو بیٹی صفیہ۔ ذرا ادھر تو آنا۔ دیکھ منشی جی آئیں ہیں۔ تجھ سے بات کرنا چاہتے ہیں۔ جلدی آ ذرا۔ ‘‘

اس پر صفیہ نے خشمگیں نگاہوں سے ان کی طرف دیکھا، لمحہ بھر کو سوچا اور پھر اٹھ کر ان کے قریب چارپائی پر آ کر بیٹھ گئی۔ تب منشی فضل دین دھیمے سے لہجے میں بولا

بیٹی صفیہ۔ !تو اس گاؤں کی بیٹی ہے۔ ہمیں تیرا خیال ہی نہیں ، تیرا احساس بھی ہے۔ چوہدری تو وڈھے لوگ ہیں۔ ہم جیسے غریبوں کا ان سے کیا مقابلہ۔ میں تیرے ہی فائدے کے لیے بات کرنے آیا ہوں۔ اگر تو ٹھنڈے دل و دماغ سے میری بات سن لو۔ ‘‘

’’کہو منشی۔ کیا کہنا چاہتے ہو۔ ‘‘ اس نے بھی دھیمے لہجے میں کہا تو نعمت علی بولا

’’ہاں ہاں بول منشی۔ تُو اطمینان سے اپنی بات کہہ۔ صفیہ سمجھ دار ہے۔ ‘‘

’’دیکھ بیٹی۔ تو ساری زندگی یوں اکیلی تو نہیں رہ سکتی۔ آخر تجھے اپنا گھر چاہئے۔ تیرے بچوں کے سر پر سایہ چاہئیے۔ تو نے ان کی پرورش کرنی ہے۔ ان بچوں کا کیا ہو گا۔ یہ سب سوچاہے تو نے؟‘‘ منشی نے پوچھا

’’میں نے کیا سوچنا ہے منشی۔ !اب سوچنے کے لیے رہ کیا گیا ہے۔ ‘‘ صفیہ بولی

’’آج نہیں تو کل۔ !سوچنا تو پڑے گا۔ ہم نذیر کو واپس تو نہیں لا سکتے۔ پر ایسا تو کچھ کر سکتے ہیں کہ تجھے تحفظ ملے اور تیرے بچے بھی سکون کی زندگی گذاریں۔ ‘‘ منشی نے کہا تو صفیہ نے اس کی طرف دیکھا اور بولی

’’منشی۔ !کھل کر بات کہہ، آخر تو کہنا کیا چاہتا ہے ؟‘‘

’’تو آرام سے اس گھر میں عدت پوری کر، اگر تو چوہدری کے ساتھ صلح کر لے گی تو یہ گھر تجھے ہمیشہ کے لیے مل جائے گا۔ تیرے بچوں کی پرورش کے لیے چوہدری خود ذمہ داری لے لیں گے۔ جیسے تو چاہے گی۔ ‘‘ منشی نے بڑے نرم لہجے میں کہا نعمت علی

’’اور بیٹی۔ !میرا کیا ہے۔ آج ہوں کل نہیں ہوں گا تو نے بھی زندگی گذارنی ہے۔ اگر تو چاہے تو تیری شادی بھی ہم۔۔۔‘‘

’’بابا۔ !تو یہ کیا بات کر رہا ہے ؟‘‘ صفیہ نے حیرت سے کہا تو منشی نے جلدی سے کہا

’’شرع میں کوئی شرم نہیں ہے پتر، خیر۔ !تو عدت پوری کر اور چوہدریوں سے صلح کر لے۔ اسی دن یہ گھر تیرے نام لگا دیا جائے گا۔ تو مالک ہو گی اس گھر کی چل میں کوشش کر کے زمین کا ٹکڑا بھی تیرے نام کروا دوں گا۔ بس تو ہاں کر۔ ‘‘

’’منشی۔ !یہ جو تو مجھے لالچ دے رہا ہے۔ کیا یہ نذیر کے خون کی قیمت ہے۔ جو تو چوہدریوں کی طرف سے مجھے دینے آیا ہے۔ تو کیا سمجھتا ہے کہ میں مان جاؤں گی؟‘‘ صفیہ نے ایک دم سے غصے میں کہا تو نعمت علی بھی غصے بولا

’’چپ کر ناہنجار۔ !تجھے پتہ نہیں کہ تو کس سے بات کر رہی ہے۔ ‘‘

’’مجھے پتہ ہے بابا، میں کس سے بات کر رہی ہوں ، پر میں نذیر کے خون کا سودا نہیں کر سکتی۔ ‘‘ وہ حتمی لہجے میں بولی تو نعمت علی نے کہا

’’یہ بھی تو سوچ تو جائے گی کہاں ؟‘‘

اس پر صفیہ نے چونک کر اسے دیکھا۔ نعمت علی نے بہت بڑی بات کہہ دی تھی۔ ایک لمحے میں سارے ناطے توڑ دئیے تھے۔ ایک دم سے ہر تعلق پرایا کر دیا۔

’’نعمت علی۔ !یہ جو آج اس کے ساتھ ہیں نا۔ چند دن گذرنے دے۔ یہ کہیں بھی دکھائی بھی نہیں دیں گے۔ ابھی اس کا دماغ ان لوگوں نے خراب کر رکھا ہے۔ جب وہ نہ رہے تو اس کی عقل ٹھکانے آئے گی۔ کون اپنے گھر سے مفت روٹیاں کھلاتا ہے۔ ‘‘ منشی نے حقارت سے کہا صفیہ بولی

’’منشی۔ !جس اللہ نے پیدا کیا ہے نا، وہی پالنے والا بھی ہے۔ چاہے ساری دنیا میرا ساتھ چھوڑ جائے، میں نذیر کا بدلہ لے کر رہوں گی۔ یہاں تک کہ تم سب لوگ مل کر مجھے مار دو۔ ‘‘

یہ کہتے ہوئے وہ اٹھی اور واپس اپنے بچوں کے پاس جا بیٹھی۔ تبھی منشی نے اٹھتے ہوئے کہا

’’تم پھر بھی سوچ لو صفیہ۔ بہت غور کرنا ہماری باتوں پر۔ زندگی جذباتی باتوں سے نہیں کٹتی۔ حقیقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ‘‘

صفیہ نے ان کی جانب دیکھا ہی نہیں وہ یوں اپنے بچوں کو روٹی کھلانے میں مصروف ہو گی۔ جیسے اس نے سنا ہی کچھ نہ ہو۔

’’میں اسے سمجھاؤں گا۔ فی الحال اس کے دماغ پر غصہ سوار ہے۔ اتر جائے گا۔ ‘‘ نعمت علی نے منشی سے کہا

’’ہاں۔ !سمجھانا اسے، اس میں ہی بھلا ہے۔ ‘‘

منشی نے کہا اور وہ باہر کی جانب چل دیا اور نعمت علی سوچوں میں گم چارپائی پر بیٹھ گیا۔ اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ اسے کیسے سمجھائے۔

سارا دن وہ صفیہ کو سمجھاتا رہا لیکن صفیہ نے اس کی بات نہیں مانی۔ وہ تھک ہار گیا۔ اسے یقین ہو گیا کہ اس کی بہو، اس کی بات نہیں مانے گی۔ شام ہوتے ہی نعمت علی جھجکتے ہوئے حویلی چلا۔ جہاں پورچ کے پاس منشی اس کے انتظار میں تھا۔ وہ قریب آ کر رک گیا تو منشی نے پوچھا

’’ہاں بھئی نعمت علی۔ !کیا کہتی ہے تمہاری بہو۔ وہ مانتی ہے نا نہیں ؟‘‘

’’تم جانتے ہو منشی۔ !ابھی اس کا دکھ تازہ ہے اس کے دماغ پر غصہ سوار ہے۔ میں اس سے کروں گا بات، وہ مان جائے گی۔ ‘‘ نعمت علی دھیمے سے لہجے میں کہا تو منشی طنزیہ لہجے میں بولا

’’کب مانے گی وہ۔ چوہدری صاحب نے اتنی بڑی رقم اس لئے نہیں دی کہ وہ انکار کر دے اس کا دماغ خراب ہو گیا ہوا ہے۔ چوہدری صاحب صرف اقرار سنیں گے بس، اس کے علاوہ کچھ نہیں۔ ‘‘

’’میں نے کہا ہے نا، میں اسے منا لوں گا۔ سمجھ جائے گی۔ ‘‘ نعمت علی نے بے بسی سے کہا

’’دیکھ۔ !چوہدری جی کو بہانے کرنے والے لوگ بالکل بھی پسند نہیں ہیں۔ اسے مناؤ۔ ورنہ تمہارے سمیت یہاں سے کوئی بھی نہیں جا سکے گا۔ تم لوگ نرمی کی زبان نہیں سمجھتے شاید۔ ‘‘ منشی نے سخت لہجے میں کہا

’’قتل تو میرا بیٹا ہوا ہے۔ اور وہ میری بہو ہے، میں مانتا ہوں کہ وہ چند لوگوں کی باتوں میں آ گئی ہے۔ اس لیے کچھ دن تو لگیں گے نا۔ میں پوری کوشش کر کے منالوں گا۔ ‘‘ نعمت علی نے اسے منانے والے انداز میں کہا

’’پھر وہی کوشش۔ !ایسی بات پھر چوہدری صاحب کے سامنے مت کرنا اسے مناؤ۔ یا سمجھاؤ، کچھ بھی کرو۔ وہ خود جائے تھانے اور اپنا کیس خود ختم کروائے۔ ور نہ تم جانتے ہو۔ ہم نے بھی تو چوہدریوں کا نمک کھایا ہے۔ ‘‘ منشی نے حقارت سے کہا اور نعمت علی کو جانے کا اشارہ کیا۔ نعمت علی نے حسرت سے اسے دیکھا اور پھر دھیرے سے ماتھے پر ہاتھ لے جا کر سلام کر کے واپس پلٹ گیا۔

٭٭

 

روشن صبح میں سورج ابھی نکل ہی رہا تھا۔ سراج اور فہد دونوں کھیتوں میں چہل قدمی کرتے ہوئے آ رہے تھے۔ یہ وہ صبح تھی، جس کے بعد انہوں نے ایک بہت بڑا کام کرنے کی ٹھا ن لی تھی۔ رات کی ہوئی پلاننگ کو حتمی صورت دے رہے تھے۔ ایسے میں چھاکا انہیں دور سے آتا ہوا دکھائی دیا۔ اسے دیکھ کر سراج نے مزاحاً کہا

’’چھاکا آ رہا ہے۔ اللہ کرے کوئی خیر کی خبر ہی لا رہا ہو۔ ‘‘

فہد نے اسے مسکراتے ہوئے دیکھ کر کہا

’’وہ خبر ہی لایا ہے یا پھر کام سے بھاگ کر آ گیا ہے۔ ‘‘

وہ دونوں مسکرادئیے۔ اتنے میں چھاکا قریب آ گیا اور آتے ہی بڑے جوش سے بولا

’’یار تم دونوں ادھر ہو۔ میں پتہ نہیں ، کہاں کہاں سے ڈھونڈ کر آیا ہوں۔ ‘‘

’’بولو۔ بات کیا ہے کیوں ڈھونڈ رہے تھے۔ ‘‘ سراج نے پوچھا تو چھاکا بولا

’’دو باتیں ہیں۔ ایک تو وہ ٹاور والے آئیں ہیں۔ ان سے مل لیں جا کر اور دوسری بات یہ ہے کہ کل منشی گیا تھا صفیہ کے پاس۔ ‘‘

اس پر سراج نے تشویش سے پوچھا

’’ کب ؟کیا کرنے گیا تھا؟‘‘

’’مجھے یہ پتہ چلا ہے کہ وہ صبح کے وقت چاچے نعمت علی کے ساتھ اس کے پاس گیا اور صلح کر لینے کے عوض بہت زیادہ لالچ دیا ہے۔ یہاں تک کہ گھر اور زمین بھی دینے کو کہا ہے۔ ‘‘ چھاکے نے بتایا

’’کیا جواب دیا پھر صفیہ نے؟‘‘ فہد نے پوچھا

’’وہ تو نہیں مانی، لیکن چاچے نعمت کی زبانی سنا ہے کہ و ہ بہت جلد مان جائے گی۔ ‘‘ اس نے جواب دیا

’’اگر صفیہ مان گئی تو پھر بہت برا ہو گا یار۔ ‘‘ سراج نے تشویش سے کہا تو فہد بولا

’’دیکھ سراج۔ !ہمارا جو فرض تھا۔ وہ ہم نے پورا کیا۔ اب اگر وہ ہماری مدد چاہے گی تو ہم اس کے ساتھ ہوں گے۔ اگر وہ چوہدریوں سے کسی بھی وجہ سے صلح کر لیتی ہے تو وہ ایسا کر سکتی ہے۔ ہم اسے روک تو نہیں سکتے۔ یہ اس کی مرضی ہے۔ اس کی سوچ ہے۔ ‘‘

’’لیکن۔ !اگر وہ صلح کر لیتی ہے تو پھر ہم جو اتنا آگے چلے گئے ہیں چوہدری کی مخالفت میں پھر کسی پر کیا اعتبار رہ جائے گا۔ یہ بھی تو سوچ۔ اسے روکنا ہو گا۔ ‘‘ سراج نے کہا تو فہد سمجھاتے ہوئے بولا

’’تم خواہ مخواہ پریشان ہو گئے ہو سراج۔ میر انہیں خیال کہ وہ چوہدریوں سے صلح کرے گی۔ اگراس نے صلح کرنی ہوئی تو ہم اسے نہیں روک سکتے۔ بلکہ اچھا ہے۔ ابھی دیکھ لیتے ہیں کہ وہ اپنے ارادے میں کتنی مضبوط ہے۔ باقی چوہدریوں کی مخالفت، تو پہلے ہماری ان کے ساتھ کون سی محبت چل رہی ہے۔ ‘‘

’’آخر یار عورت ذات ہے۔ وہ دھمکیوں میں آ سکتی ہے۔ لالچ بھی ہو ۔۔۔‘‘ سراج نے کہنا چاہا تو فہد بولا

’’کچھ نہیں ہوتا۔ تو ذرا تحمل سے کام لے، دیکھ کیا کرتی ہے وہ۔ سب سب بھول جا، اس پر سوچ جو ہم نے آج کرنا ہے، چل وہ تیرے ٹاور والے آئے ہیں۔ پہلے ان سے ملتے ہیں ، تاکہ وہ تو جائیں۔ ‘‘

’’چلو، مگر یہ صفیہ والی بات کو یونہی مت لینا۔ ‘‘

سراج نے اسے سمجھایا تو فہد نے جلدی سے کہا

’’ہاں ہاں دیکھتے ہیں۔ ‘‘

وہ تینوں وہاں سے گھر کے لئے چل دئیے۔

ٹاور والوں سے ملنے کے بعد فہد اپنی کار میں سلمی کے گھر پہنچا اور اسے اپنے ساتھ لے کر سکول کے سامنے جا پہنچا۔ جہاں کبھی وہ پڑھا تھا۔ ایک لمحے کے لئے اس کے دل میں ٹیس اٹھی۔ ماضی اسے اپنی لپیٹ میں لے لینا چاہتا تھا۔ مگر فوراً ہی اس نے خود پر قابو پا لیا۔ اس نے دیکھاسکول کی عمارت پر زنگ آلود تالا پڑا ہوا تھا۔ فہد کی گاڑی وہاں آ کر رکی اور اس میں سے فہد اور سلمی باہر آ گئے۔ انہی لمحات میں اطراف میں سے سراج اور چھاکا نکلے۔ سراج کے ہاتھ میں گن تھی۔ اس کے ساتھ کافی سارے اسلحہ بردار لوگ تھے۔ سلمی بہت جذباتی ہو رہی تھی۔ اس کے گالوں پر آنسو رواں تھے۔ فہد نے کار میں سے ہتھوڑا نکالا۔ وہ ہاتھ میں ہتھوڑا لئے آگے بڑھا ہے اور تالے پر ضرب لگانے لگا۔ تالا ٹوٹ گیا تو فہد نے سلمی کو ساتھ لیا اور سکول میں داخل ہو گیا۔ چھاکا اور سراج ان کے ساتھ تھے۔ اندر جا کر انہوں نے گھنٹی لی اور سلمی کے ہاتھ میں دے دی۔ سلمی اس گھنٹی کو اپنے ہاتھ میں لئے چند لمحے دیکھتی رہی۔ پھر بڑے جذباتی انداز میں گھنٹی بجانے لگی۔ ایک ضرب، دوسری ضرب تیسری ضرب۔

ٹن۔۔۔ٹن۔۔۔ٹن۔۔۔

گھنٹی کی آواز پورے قسمت نگر میں پھیل گئی۔ لوگ چونک اٹھے۔ سکول بیل بج رہی تھی۔ گھر، بازار، گلی، کھیت، راستے سب جگہ آوازسنی جا رہی تھی۔ لوگ حیران ہو کر سن رہے تھے۔ ماسٹر دین محمد وہ آواز دھیمی مسکراہٹ سے یوں سن رہا ہے جیسے کوئی نغمہ ہو۔ چوراہے میں بھی سکول کی گھنٹی سنائی دے رہی تھی۔ حنیف دوکاندار اور چاچا سوہنا بھی سن رہے تھے۔

حنیف دوکاندار نے حیران کن انداز میں پوچھا

’’یہ ہمارے گاؤں کے سکول کی گھنٹی بج رہی ہے نا؟‘‘

’’حقیقت تو یہی ہے حنیف، لگتا ہے قسمت نگر کی بدلتی ہوئی قسمت کو اب کوئی نہیں روک سکتا۔ ‘‘ چاچے سوہنے نے خوشگوار انداز میں اپنے رائے دی

’’او چاچا کوئی خدا کا خوف کرو۔ اتنے برس ہو گئے چوہدریوں نے یہ سکول نہیں کھلنے دیا۔ اب گاؤں میں ایک نئی مصیبت کھڑی ہو جائے گی۔ یہ گھنٹی تو کسی نئے شر کی آواز ہے۔ ‘‘

حنیف دوکاندار نے خوف زدہ ہوتے ہوئے کہا تو چاچا سوہنا بولا

’’نہیں ، بالکل نہیں ، یہ شر کی نہیں ، خیر کی آواز ہے۔ تعلیم ہر بچے کا بنیادی حق ہے۔ چوہدری کون ہوتے ہیں ، ان معصوم بچوں کو ان کے حق سے محروم کرنے والے۔ ‘‘

’’یہ بھی فہد کی نئی شرارت ہے۔ دیکھنا اب خون خرابہ ہو گا۔ یہ بندہ کسی کو چین نہیں بیٹھنے نہیں دے رہا۔ جب سے یہ گاؤں میں آیا ہے۔ کوئی نہ کوئی فساد ہی پڑا رہتا ہے۔ ‘‘حنیف دوکاندار نے کہا

’’وہ تم جیسے بے ضمیروں کو جھنجھوڑ رہا ہے کہ نیند سے اٹھو اور اپنا حق پہچانو۔ وہ ظالموں کو للکار رہا ہے مگر ظالم بجائے اس کا سامنا کرنے کے کمزوروں پر ہاتھ اٹھا رہے ہیں اور کمزور خواہ مخواہ خوف سے دبے جا رہے ہیں۔ یہ تبدیلی ہے۔ اب نہ بدلا تو کبھی نہیں بدلے گا۔ ‘‘ چاچے سوہنے نے اسے دیکھتے ہوئے حقارت سے کہا

’’یہ تیرے جیسے چند اُسے شہہ دے رہے ہیں۔ اس وقت تمہارا پتہ بھی نہیں چلنا جب چوہدری اپنی آئی پر آ گئے۔ ‘‘ حنیف دوکاندار نے ڈرایا تو چاچا سوہنا بولا

’’تو آ جائیں نا اپنی آئی پر، کس نے روکا ہے، فہد کا سامنا کرتے ہوئے کیوں ڈرتے ہیں۔ سکول کھل گیا ہے۔ اب اس میں بچے پڑھیں گے۔ اب چوہدری جو مرضی کر لیں یہ بند نہیں ہو گا۔ ‘‘

’’دیکھو کیا ہوتا ہے، سکول بند ہوتا ہے یا اس کے کھولنے والے۔۔۔‘‘ حنیف دوکاندار کہتے ہوئے خاموش ہو گیا اور پلٹ کر اپنی دوکان کی طرف چلا گیا۔

سکول کی گھنٹی بج رہی تھی اوراس وقت تک بجتی رہی جب تک سارے قسمت نگر نے نہ سن لیا۔

فہد اور ماسٹر کھانا کھا چکے تو سلمٰی چائے لے کر آ گئی اور پھر ان کے پاس ہی بیٹھ گئی۔ تبھی ماسٹردین محمد نے کہا

’’سکول کا تالا تو توڑ دیا ہے تم لوگوں نے، ایک خواب تھا وہ پورا ہو گیا، لیکن یہ چوہدری اسے برداشت نہیں کر پائیں گے۔ وہ ضرور۔۔۔‘‘

’’سکول کا تالا توڑنے سے پہلے میں نے سب سوچ لیا تھا اور اس کا بندو بست بھی کر لیا تھا۔ آپ کوئی فکر نہ کریں میں نے محکمہ تعلیم کے آفیسر ز سے بھی بات کر لی ہے۔ بلکہ آج کل میں آپ کے پنشن کیس کا فیصلہ بھی ہو جائے گا۔ آپ بس دیکھیں ، ان چوہدریوں کی بے بسی۔ اب آپ بالکل فکر نہ کریں۔ ‘‘ فہد نے انہیں حوصلہ دیتے ہوئے کہا تو ماسٹر دین محمد بولا

’’فہد پتر۔ !یہ اب تشویش والی بات یہ ہے اگر صفیہ مان گئی تو اب تک جو تمہاری کوششیں ہیں۔ وہ سب رائیگاں جائیں گی۔ دشمنی بھی بڑھ جائے گی۔ یہ تم لوگوں کو پہلے سوچنا چاہئے تھا نا کہ اس کا اثر ورسوخ بہت زیادہ ہے۔ ‘‘

’’بات اثرورسوخ کی نہیں اور نہ ہی دشمنی کی ہے۔ بات یہ ہے کہ اگر صفیہ دباؤ میں آ کر ان کی بات مان لیتی ہے تو پھر چوہدری کے جبر کا جال توڑنا مشکل ہو جائے گا۔ لیکن یہ نا ممکن تو پھر بھی نہیں ہے۔ ‘‘ فہد نے سنجیدگی سے کہا

’’میں تمہارے حوصلے کی داد دیتا ہوں فہد۔ !اس قدر مشکل حالات میں بھی تم حوصلہ نہیں ہارے ہو۔ جبکہ میرے کہنے کا مقصد یہ ہے یہ بیٹا کہ بندہ اپنی لڑائی تو لڑ سکتا ہے۔ کسی کی لڑائی کیا لڑے۔ اب صفیہ جیسی کمزور عورت ان کا دباؤ کب تک برداشت کر ے گی۔ ‘‘ ماسٹر دین محمد نے کہا تو سلمٰی بولی

’’ہم اس کا سہارا ہیں۔ مجھے پورا یقین ہے کہ جتنا مرضی وہ اس پر دباؤ ڈالیں۔ صفیہ نہیں مانے گی۔ وہ ان کے لالچ میں بھی نہیں آئے گی۔ ‘‘

’’کسی کا کیا اعتبار۔ !فرض کیا وہ لالچ یا دباؤ میں آ جاتی ہے تو ہم اس کا کیا کر سکتے ہیں ؟ جبکہ چوہدری تو ہر ممکن کوشش کریں گے نا معاملہ اس کے بیٹے کا ہے۔ اب معاملہ صفیہ پر ہے۔ اس کا کوئی بھی فیصلہ حالات کا رخ موڑ سکتا ہے۔ ‘‘ ماسٹر دین محمد نے کہا تو فہد بولا

’’آپ ٹھیک کہتے ہیں استا دجی، میں مان لیتا ہوں کہ وہ لالچ یا دباؤ میں آ کر اپنا فیصلہ تبدیل کر ے گی۔ تو پھر کیا ہوا۔ چوہدری کے ساتھ ہمارے حالات تو ویسے ہی رہیں گے۔ اور اگر دشمنی بڑھتی ہے تو پھر بڑھ جائے۔ ‘‘

’’ابا جی، آپ گھبرائیں مت۔ میں ابھی اس سے ملتی ہوں۔ اسے حوصلہ دوں گی۔ جس طرح کا سہارا چاہے گی میں اسے دوں گی۔ ‘‘ سلمی نے کہا توماسٹر دین محمد پوچھا

’’کیا سہارا دو گی۔ کیا دے سکتی ہو تم۔ چوہدری تو اسے روپے پیسے اور زمین کا لالچ دے رہے ہیں۔ تم کیا دے سکتی ہو۔ کیا ہے تمہارے پاس؟‘‘

’’کیا نہیں ہے سلمٰی کے پاس استا د جی۔ گھر، روپیہ پیسہ، زمین سب کچھ ہے سلمی کے پاس۔ ‘‘

اس کے یوں کہنے پر ماسٹر دین محمد چند لمحے خاموش رہا پھر بولا

’’میں تو اپنی رائے دے رہا تھا۔ باقی تم لوگ جانو کہ کیا فیصلہ کرتے ہو۔ ‘‘

’’آپ پریشان نہ ہوں سب ٹھیک ہو جائے گا۔ میری ساری کوششوں کا محور فقط صفیہ نہیں ہے اور بہت کچھ ہے۔ ‘‘ فہد نے کہا تو ماسٹر دین محمد بولا

’’تم جو بہتر سمجھتے کرو۔ میں کیا کہہ سکتا ہوں۔ ‘‘

’’آپ ناراض ہیں ؟‘‘ فہد نے اچانک پوچھا تو ماسٹر دین محمد نے جلدی سے کہا

’ او نہیں پتر۔ !میں تم سے کیوں ناراض ہونے لگا۔ میں آئندہ آنے والے حالات کی سختی سے آگاہ کر رہا تھا۔ ‘‘

اس پر فہد نے اپنے استاد کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر حوصلہ مند لہجے میں کہا

’’ آپ پریشان نہ ہوں سب ٹھیک ہو جائے گا۔ اچھا، اب میں چلتا ہوں۔ ‘‘

ماسٹر دین محمد نے اپنا سر ہلایا تو فہد اٹھ کر چل دیا۔

فہد گھر پہنچا تو ملک نعیم اس کے انتظار میں بیٹھا ہوا تھا۔ فہد کو خوشگوار حیرت ہوئی۔ وہ برے تپاک سے ملا۔ اسے عزت کے ساتھ بٹھایا۔ پھر فہد اور ملک نعیم دونوں کمرے میں خوشگوار موڈ میں بہت دیر تک علاقے اور اس کی صوت حال پر باتیں کرتے رہے۔ تبھی ملک نعیم نے کہا

’’آپ سے اتنی ڈھیر ساری باتیں کر کے مجھے بڑا حوصلہ ملا ہے۔ خیر۔ !باتیں اور ملاقاتیں تو اب ہوتی رہیں گی۔ ‘‘

’’کیوں نہیں ملک صاحب۔ !آپ جیسا سیاسی بندہ، سیاست کے بغیر بھلا کہاں رہ سکتا ہے اور پھر جدوجہد تو اس جاگیردار کے خلاف ہے جس نے جبر سے علاقے پر حکمرانی کر رکھی ہے۔ میرا مقصد تو اس جبر کے خلاف لڑنا ہے۔‘‘

فہد نے گہری سنجیدگی سے کہا رو ملک نعیم صاف انداز میں بولا

’’سیاست یا الیکشن جیتنا ہی میرا مقصد نہیں ہے مجھ سے یہ ظلم نہیں دیکھا جاتا۔ میں نے پہلے بھی اپنی بساط مطابق کوشش کی تھی، اب بھی کر رہا ہوں۔ ‘‘

’’یہ تو بہت اچھی بات ہے۔ میں آپ کے ساتھ ہوں۔ ‘‘

فہد نے زور دار لہجے میں کہا رو ملک نعیم حتمی لہجے میں بولا

’’تو پھر یہ طے ہوا کہ نذیر کا خون رائیگاں نہیں جائے گا۔ ہم اس مظلوم عورت کی ہر ممکن مدد کریں گے۔ اور اس کے لیے چاہے جو بھی کرنا پڑے۔ ظاہر ہے اسے سیاسی ایشو بنائیں گے تو ہی اس مظلوم عورت کی فریاد سنی جائے گی۔ ‘‘

’’اسے قانونی مدد بھی تو فراہم کرنی ہے۔ ‘‘ فہد نے یاد دلایا رو ملک نعیم نے کہا

’’میں ہوں نا۔ اس میں جو خرچ وغیرہ ہو گا، وہ میں کروں گا۔ آپ کو اس معاملے میں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ بہترین وکیلوں کی مدد لیں گے۔ ‘‘

’’چلیں یہ تو طے ہو گیا۔ اس کے علاوہ جو آپ کہیں میں حاضر ہوں۔ ‘‘ فہد نے خوش ہوتے ہوئے کہا

’’میں تو یہاں تک سوچ رہا ہوں کہ یہاں لوگوں کو روزگار کے زیادہ سے زیادہ مواقع دوں تاکہ وہ ساری زندگی کمی کمین نہ رہیں اپنے پاؤں پر خود کھڑے ہو جائیں۔ ‘‘ ملک نعیم نے اپنی خواہش کا اظہار کیا

’’میں بھی اس نہج پر سوچ رہا ہوں دیکھیں ، جاگیر دار ہو نا سرمایہ دار دونوں کو اپنے منافع سے غرض ہے۔ لیکن مزدور کو وہ فائدہ کہاں ہے، روزگار کے مواقع کون پیدا کر تا ہے‘‘ فہد نے بھی اپنا خیال بتایا رو ملک نعیم بولا

’’میں سمجھ رہا ہوں آپ کی بات، فہد آپ ملے ہونا تو مجھے نئی توانائی مل گئی ہے۔ اس علاقے کا سیاسی سیٹ اپ بھی نئے سرے سے دیکھیں گے۔ ظاہر ہے، کچھ وقت بعد ہم نے الیکشن میں تو جانا ہی ہے۔ اس وقت تک ہمیں سیاسی طور پر مضبوط ہونا ہے۔ ‘‘

’’عوام اب با شعور ہے ملک صاحب۔ !عوامی فائدے کی بات تو بہت ہوتی ہے۔ لیکن عملی طور پر کچھ نہیں ہوتا۔ عوام اب تنگ آ گئے ہیں ان خالی خولی وعدوں سے اب وقت آ گیا ہے کہ ان کے لیے کچھ کرنا ہو گا ورنہ آپ اور ہم انقلاب کی چاپ تو سن رہے ہیں۔ ‘‘ فہد نے اسے آنے والے وقت کا احساس دلایا

’’بالکل۔ !تب پتہ نہیں۔ اس انقلاب کے بعد جو سیٹ اپ بنے گا۔ اس میں ہم کہاں ہوں گے۔ یہ شاید ہم ابھی سوچ نہیں رہے ہیں۔ خیر۔ !فی الحال مجھے اجازت دیں ، گاؤں تک پہنچتے کافی وقت ہو جائے گا۔ اب ملاقات تو ہوتی رہے گی۔ ‘‘ملک نعیم نے اجازت چاہی تو فہد خوش دلی سے بولا

’’کیوں نہیں ، ضرور ہو گی ملاقات۔ ‘‘

یہ کہتے ہوئے وہ کھڑا ہو گیا۔ دونوں نے ہاتھ ملایا، پھر ملک نعیم دروازے کی جانب بڑ ھ گیا۔ جاتے ہوئے اس کے چہرے پر خاصی خوشی تھی۔

٭٭

 

حویلی کے ڈرائینگ روم میں بشریٰ بیگم گہری سوچوں میں گن بیٹھی ہوئی تھی۔ کچھ دیر پہلے رانی اسے چائے دے گئی تھی جو اب تک ویسے پڑی ٹھنڈی ہو رہی تھی۔ رات کی باتیں اسے بھول نہیں رہی تھیں۔ پہلی بار اس نے چوہدری جلال کو بدلا ہوا محسوس کیا تھا۔ اس وقت بھی وہ لان میں اکیلا بیٹھا ہوا تھا۔

رات چوہدری جلال خواب گاہ میں تھا۔ بشریٰ بیگم نے اس کی محویت دیکھ کر پوچھا

’’کیا سوچ رہے ہیں آپ ؟‘‘

’’سوچنا کیا بیگم۔ !دنیا داری کے مسائل تھوڑے ہیں۔ ایک کو حل کرو تو دوسرا سامنے آ کھڑا ہو تا ہے۔ اردگرد پھیلے ہوئے تھوڑے جھنجھٹ ہیں۔ ان کے لئے سوچنا تو پڑتا ہے۔ ‘‘ چوہدری جلال نے عجیب سے لہجے میں کہا تو بشریٰ بیگم نے اس کے لہجے پر غور کرتے ہوئے بولی

’’آپ پہلے کبھی اتنے فکر مند دکھائی نہیں دیئے، آپ مجھے ٹال رہے ہیں ؟‘‘

’’بیگم۔ !تمہیں معلوم ہی ہے کہ معاملہ کیا چل رہا ہے۔ میں نے کبیر کو بہت سمجھا یا کہ حالات اب پہلے جیسے نہیں رہے ہیں۔ مگر وہ مانا ہی نہیں۔ یہ وقت بھی آنا تھا کہ ایک معمولی عورت ہمارے سامنے آ کھڑی ہو گی۔ اور وہ ہماری مجبوری بن جائے گی۔ ‘‘ چوہدری جلال نے کہا

’’میں نے وکیل کی ساری باتیں سن لی تھیں۔ چوہدری صاحب۔ !اس سے پہلے کی حالات مزید ہمارے ہاتھ سے نکل جائیں۔ ہمیں انہیں سنبھالنا ہو گا۔ صفیہ اگر مان جاتی ہے تو پھر معاملہ ختم ہو سکتا ہے نا؟‘‘ بشریٰ بیگم بولی

’’مشکل تو یہی ہے۔ وہ ہمارے مخالفین کے ہاتھوں میں ہے۔ معاملہ اگر اپنے ہی علاقے میں رہتا تو کوئی بات نہیں تھی لیکن۔ ! مخالفین اسے بہت دور تک لے جانا چاہتے ہیں۔ اس کے اثرات ٹھیک نہیں ہوں گے۔ ‘‘ چوہدری جلال نے سوچتے ہوئے لہجے میں کہا

’’کیا فہداس قدر مضبوط ہو گیا ہے کہ آپ اسے نہیں روک پا رہے ہیں ؟ اس نے تشویش سے پوچھا تو چوہدری جلال نے نخوت سے کہا

’’فہد۔ !اُسے تو میں ابھی ایک چیونٹی کی طرح مسل دوں لیکن اس وقت وہ ایسی عورت کے پیچھے کھڑا ہوا ہے۔ جیسے وہ مظلوم بنانے پر تلا ہوا ہے۔ اگر اس وقت اسے کچھ کہتے ہیں تو وہ بھی مظلوم بن جائے گا۔ ‘‘

’’لے دے کر بات صفیہ پر ہی آن ٹکتی ہے نا چوہدری صاحب۔ !اگر آپ اجازت دیں تو میں کوشش کر کے دیکھتی ہوں۔ میں چلی جاتی ہوں اس کے پاس۔ ‘‘ بشریٰ بیگم نے مان سے کہا تو چوہدری جلال نے انکار میں سر ہلاتے ہوئے کہا

’’نہیں ، ابھی ہم پر ایسا وقت نہیں آیا۔ لوگ کیا کہیں گے۔ کیا میں اتنا کمزور ہو گیا ہوں کہ اپنے معاملات کے لئے تمہیں کسی کے پاس بھیجوں نہیں۔ ایسا کبھی نہیں ہو گا۔ ‘‘

’’چوہدری صاحب۔ !یہ معاملہ میرے بیٹے کا بھی ہے۔ میں اگر آپ کی بیوی ہوں تو ایک بیٹے کی ماں بھی ہوں کیا میں اپنے بیٹے کے لیے اتنا بھی حق نہیں رکھتی ہوں۔ کہ اس کے لئے کچھ کر سکوں۔ ‘‘ وہ جذباتی انداز میں بولی تو چوہدری جلال نے کہا

’’میں ہوں نا اور اس معاملے کو دیکھ رہا ہوں ، تمہیں فکر کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ ٹھیک ہو جائے گا سب کچھ۔ ‘‘

’’نہیں چوہدری صاحب۔ !مجھے اپنے بیٹے کے لیے ایک کوشش کر لینے دیں۔ مجھے معلوم ہے کہ آپ نے بھی کوشش کی ہیں۔ لیکن وہ نہیں مانی میں ایک بار۔۔۔‘‘ بشریٰ بیگم نے کہنا چاہا تو چوہدری جلال نے سختی سے کہا

’’بیگم۔ !تم مجھے مجبور کر رہی ہو۔ مجھے احساس دلا رہی ہو کہ میں کچھ نہیں کر پاؤں گا۔ میں کوشش کر رہا ہوں نا۔ ‘‘

’’مجھے یقین ہے کہ وہ میری بات مان جائے گی۔ ‘‘

بشریٰ بیگم نے بحث کرتے ہوئے کہا تو چوہدری جلال نے چڑتے ہوئے کہا

’’نہیں۔ چاہے یقین بھی ہے۔ لیکن میں نے جب کہہ دیا ہے تو بس کہہ دیا اب تم سوجاؤ۔ ‘‘چوہدری یہ کہہ کر دوسری طرف دیکھنے لگا۔ بشریٰ بیگم غم زدہ سی کروٹ بل کر لیٹ گئی۔ وہ تب سے سوچ رہی تھی۔ پھر اسے بات کرنے کا موقعہ ہی نہ ملا تھا۔ چوہدری جلال باہر لان میں بیٹھا ہوا تھا۔ اس نے رانی کو بلایا اور اسے باہر لان میں چائے لانے کا کہہ کر چوہدری جلال کے پاس جانے کے لئے اٹھ گئی۔

چوہدری جلال اور بشریٰ بیگم لان میں تھے اور رانی انہیں چائے سرو کر رہی تھی۔ بشریٰ بیگم نے ادھر ادھر کی باتوں میں چوہدری جلال کا موڈ بہتر کرنے کی کوشش کی تھی۔ ایسے میں چوہدری کبیر کی گاڑی پورچ میں آ رکی۔ وہ گاڑی میں سے نکلا اور تیزی سے ان کی جانب آ گیا۔ اس کے چہرے پر انتہائی غصے کے آثار تھے۔ بشریٰ بیگم نے اسے دیکھتے ہوئے پوچھا

’’آؤ کبیر، چائے پیو گے؟‘‘

چوہدری کبیر نے ماں کی بات سن کر غصے میں کہا

’’ بابا۔ ! پہلے تو فہد ہی یہاں کے لوگوں کو ہمارے خلاف بھڑکاتا پھر رہا تھا۔ لیکن اب ماسٹر دین محمد کی بیٹی سلمی اور صفیہ دونوں مل کر واضح طور پر ہمارے خلاف اعلان جنگ کر رہی ہیں۔ ‘‘

اس کے یوں کہنے پر چوہدری جلال اور بشریٰ بیگم نے چونک کر اسے دیکھا۔ چوہدری جلال چند لمحے اس کی طرف دیکھتا رہا پھر بولا

’’ہوا کیا کبیر بیٹا۔ کچھ بتاؤ گے بھی؟‘‘

’’اتنے برس سے جو سکول ہم نے بند کروا دیا ہوا تھا۔ وہ آج سلمی اور فہد نے جا کر کھول دیا ہے اور انہوں نے اعلان کیا کہ اب یہ سکول روزانہ کھلے گا۔ بولیں اب کیا کرنا چاہئے؟‘‘

یہ خبر چوہدری جلال کے لئے کسی تازیانے سے کم نہیں تھی، یہ اس کی انّا کے لئے بہت بڑا جھٹکا تھا۔ وہ خاموش ہی تھا کہ بشریٰ بیگم نے کہا

’’مگر اس میں اتنا غصے میں آنے کی کیا ضرورت ہے۔ تیرے بابا دیکھ لیتے ہیں۔ تم ذرا صبر سے کام لو۔ ‘‘

’’نہیں بیگم۔ ! یہ صبر کرنے والا کام نہیں ہے، سکول کی گھنٹی، ہماری شکست کی صدا ہے۔ یہ برداشت نہیں ہو گی۔ ‘‘ چوہدری جلال نے دبے دبے غصے میں کہا تو چوہدری کبیر بولا

’’اتنے برس سے جو ہمارا رعب و دبدبہ یہاں کے لوگوں پر طاری ہے، وہ انہوں نے چیلنج کر دیا ہے۔ کب تک انہیں نظر انداز کرتے رہے گے۔ ‘‘

’’سکول چلائے گا کون، ہماری مرضی کے بغیر یہاں عملہ نہیں آسکتا۔ پہلے کیا یہاں عملہ آیا، سب اپنے گھروں میں بیٹھے تنخواہیں لے رہے ہیں۔ میرے پتر جہاں تک چیلنج کرنے کی بات ہے، اس کی انہیں سزا بھگتنا پڑے گی۔ ‘‘

’’لیکن بابا، انہیں روکنا تو ہو گا؟‘‘ چوہدری کبیر نے غصے میں کہا۔ پھر لمحہ بھر خاموشی کے بعد بولا، ’’ بابا آپ وقت حالات اور سیاست کے قیدی بن کر رہ گئے ہیں۔ میں آپ کو فقط بتانے آیا ہوں ، میں انہیں روکوں گا۔ ابھی اور اسی وقت۔ ‘‘

’’تم کچھ بھی نہیں کرو گے اور تمہیں کوئی ضرورت نہیں اس بارے میں سوچو بھی۔ ‘‘ بشریٰ بیگم نے تیزی سے کہا تو چوہدری کبیر نے سنی ان سنی کرتے ہوئے کہا

’’دن بدن ان کا حوصلہ بڑھتا جا رہا ہے۔ اور کی مصلحت حالات خراب کر رہی ہے، ایک دن سب کچھ ہاتھ سے نکل جائے گا۔ میں یہ تماشہ نہیں دیکھ سکتا۔ ‘‘

’’تم صرف تم تماشہ دیکھو، کہا نا تمہیں کچھ نہیں کرنا۔ ‘‘ بشریٰ بیگم نے درُشتی سے کہا تو چوہدری کبیر نے حیرت سے اپنی ماں کو دیکھا اور اٹھ کر وہاں سے چل دیا۔ دونوں نے اس کی طرف دیکھا اور خاموش رہے۔ رانی نے کچھ برتن اٹھائے اور وہاں سے چل دی۔

٭٭

 

شام ڈھل کر رات میں بدل چکی تھی۔ صفیہ اپنے گھر کے اکلوتے کمرے میں زمین پر بیٹھی رو رہی تھی۔ اس کا دھیان نجانے کہاں تھا۔ اس کے قریب اس کے بچے چارپائی پر پڑے سو رہے تھے۔ وہ شام ہی سے رو رہی تھی۔ ایسا دکھ اس کے اندر سرائیت کر گیا تھا کہ آنسو خشک ہی نہیں ہو رہے تھے۔ جیسے وہ سوچتی، اس کا دکھ مزید بڑھ جاتا۔ جیسے اس کے اندر ساون برستے برستے رک ہی نہ رہا تھا، انتقام کی آگ ہی اتنی زیادہ تھی۔

ڈھلتی ہوئی شام کے وقت صفیہ چارپائی پر بیٹھی تھی۔ وہ سوئی سے کوئی کپڑا سی رہی تھی۔ باہر سے بابا نعمت علی آیا تو وہ اسے دیکھ کر اٹھ گئی۔ بابا خاموشی سے آ کر بیٹھ گیا۔ تبھی صفیہ نے دھیرے سے پوچھا

’’خیر تو ہے بابا۔ !سارا دن کہاں تھے۔ پلٹ کر گھر ہی نہیں آئے ؟کچھ کھایا پیا بھی نہیں ہے صبح سے۔ ‘‘

’’کھانا پینا کیا ہے بیٹی۔ !جب ہر طرف خوف کا اندھیرا چھا جائے تو پھر کھانے پینے کا خیال کہاں رہتا ہے۔ بھوک پیاس تو جیسے اُڑ گئی ہے۔ کچھ سوچ سمجھ ہی نہیں آتی۔ کیا کروں اور کیا نہ کروں ؟‘‘

بابا نعمت علی بے بسی سے سوچا تو صفیہ نے پوچھا

’’کیا کرنا چاہتا ہے تو بابا؟‘‘

’’ سو دفعہ تمہیں سمجھا یا ہے بیٹی۔ ہم غریب لوگ چوہدریوں کا مقابلہ نہیں کر سکتے، اب توہم یہاں سے کہیں اور بھی نہیں جا سکتے کہ چلو اپنی جان بچا کر کسی طرف نکل جائیں۔ ‘‘

بابا نعمت علی روہانسا ہوتے ہوئے بولا تو صفیہ نے حیرت سے پوچھا

’’ایسی کیا بات ہو گئی ہے بابا۔ تو ایسے کیوں سوچ رہا ہے۔ ‘‘

’’میں تو کچھ بھی نہیں سوچ رہا۔ میری اب سوچ کہاں رہی ہے۔ مجھے تو حکم کا پابند کر دیا گیا ہے۔ ‘‘ بابا نعمت علی نے صاف انداز میں کہہ دیا

’’کیسا حکم۔ !ضرور انہوں نے تمہیں ڈرایا دھمکایا ہو گا۔ پر تو انہیں بتا دے میں مر تو سکتی ہوں ، لیکن میں بدلہ ضرور لوں گی۔ ‘‘ اس نے بھی صاف کہہ دیا تو بابا نعمت علی نے غصے سے کہا

’’کیسے لے گی بدلہ، اتنی رقم ہے تیرے پاس جو تو خرچ کر سکے، جن لوگوں کے سر پر تو بڑی بڑی باتیں کر رہی ہے نا۔ وہ کل تیرے ساتھ نہ رہے تو کیا کرے گی۔ کون دے گا اتنی دیر تک تیرا ساتھ، تیرے ساتھ کون تھانے کچہریوں کے دھکے کھائے گا۔ کل کو جو تو تھک ہار کر چوہدریوں کے سامنے ہاتھ جوڑے گی، اچھا نہیں ہے کہ تو آج ان کی بات مان لے۔ ‘‘ بابا نعمت علی نے اسے سمجھایا تو صفیہ نے مضبوط لہجے میں کہا

’’ان کی بات ماننے سے پہلے میں مر جانا قبول کر لوں گی۔ ‘‘

’’تو پھر مرنے کے لیے تیار ہو جا۔ انہوں نے کہہ دیا ہے کہ اگر تو نہیں مانی نا تو پھر۔۔۔‘‘ وہ بے بسی سے کہتے ہوئے خاموش ہو گیا تو صفیہ نے کہا

’’وہ یہ بھی کر کے دیکھ لیں۔ جیتے جی تو انہوں نے مجھے اور میرے بچوں کو مار ہی دیا ہے اب جان سے بھی مار دیں۔ میں نہیں ڈرتی ان سے۔ ‘‘

’’دیکھ تو سمجھ جا، وہ جو دے رہے ہیں۔ لے کر صبر شکر کر لے۔ ورنہ بہت پچھتانا پڑے گا۔ کیوں عذاب کو دعوت دے رہی ہے۔ کون ہے تیرا جو تجھے سنبھال لے گا۔ اپنے مستقبل کا سوچ، اپنے بچوں کا سوچ۔ ‘‘بابا نعمت علی نے غصے میں کہا اور چارپائی سے اٹھ کر باہر کی طرف نکل جاتا ہے۔ صفیہ ایک دم سے افسردہ ہو گئی۔ اسے کوئی بھی حوصلہ دینے والا نہیں تھا۔ کیا وہ اپنا حق بھی نہیں لے سکتی ؟ جس نے جرم کیا، اسی کی طرف داری ہو رہی ہے۔ کیسا نظام ہے۔ اس نے آسمان کی جانب دیکھا اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ پھر آنسو تھے کہ تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے۔

رات ڈھلتی چلی جا رہی تھی۔ صفیہ اپنے کمرے میں افسردہ بیٹھی رو رہی تھی۔ اس کے بچے سو گئے ہوئے تھی اتنے میں دروازہ پر دستک ہوئی۔ اس نے چونک کر سر اٹھایا، پھر دروازہ کھولنے کے لیے اٹھی۔ اس نے لالٹین اٹھائی اور صحن پار کر کے دروازہ کھولا تو سامنے بشریٰ بیگم کو کھڑی دیکھ کر حیرت زدہ رہ گئی۔ اس کے ساتھ حویلی کی ایک ملازمہ رانی تھی۔ صفیہ کے منہ سے سرسراتے ہوئے نکلا

’’چوہدرانی جی۔ آپ؟‘‘

چوہدرانی نے اس کی طرف دیکھا اور نرم لہجے میں بولی

’’اندر آنے کے لیے نہیں کہوں گی صفیہ؟‘‘

’’آں ، آؤ آؤ چوہدرانی آؤ۔ ‘‘ صفیہ نے کہا دروازے میں سے ہٹ گئی۔ چوہدرانی بشریٰ بیگم اندر آ گئی۔ بچے سوئے پڑے تھے۔ وہ دونوں آمنے سامنے تھیں اور رانی ایک جانب کھڑی تھی۔ بشریٰ بیگم خاموش تھی

’’کہو چوہدرانی جی، کیسے آنا ہوا اور وہ بھی اس وقت؟‘‘ باوجود کوشش کے صفیہ کے لہجے میں طنز در آیا تھا، اس پر بشریٰ بیگم نے نرم لہجے میں کہا

’’رات کے اندھیرے میں کسی کے دروازے پر یا تو کوئی چور جاتا ہے یا پھر بہت مجبور، تمہارے سامنے ایک مجبور ماں کھڑی ہے۔ تم چاہو تو اس کی جھولی بھر سکتی ہو۔ ‘‘

’’چوہدرانی۔ میرا اللہ تو کسی کے ساتھ بے انصافی نہیں کرتا پھر یہ جھولیاں بھرواتے رہنا، تم لوگوں کا ہی مقدر کیوں۔ ہے کوئی اس کا جواب؟‘‘ صفیہ نے غصے میں پوچھا تو بشریٰ بیگم بولی

’’میں مانتی ہوں کہ میرے بیٹے سے ظلم ہو گیا۔ اس کے لیے میں تمہارے دروازے پر اس لیے چل کر آئی ہوں کہ تم بھی ماں ہو۔ میرے دکھ کو سمجھو گی اور۔۔۔‘‘

’’میں بھی تو ماں ہوں۔ کیا میرے یہ بچے مٹی کے کھلونے ہیں یا ان میں جان ہی نہیں ہے۔ ان کے سر سے تمہارے بیٹے نے باپ کا سایہ چھین لیا تو میں ماں ہو کر ان کا دکھ محسوس نہیں کرتی، کیا ہم غریبوں کے جذبات نہیں ہوتے۔ ہم سانس نہیں لیتے، ہمیں دکھ نہیں ہوتا؟‘‘صفیہ غصے کی شدت میں کہتی چلی گئی تو بشریٰ بیگم نے اسی نرم لہجے میں کہا

’’میں تمہارا دکھ سمجھتی ہوں لیکن جو ہونا تھا وہ ہو گیا صفیہ، اب نذیر واپس تو نہیں آئے گا، تم ان بچوں کے مستقبل کے لیے جو مانگو میں دینے کو تیار ہوں بس میرے بیٹے کو معاف کر دو۔ ‘‘

’’نہیں۔ !تم نہیں دے پاؤ گی، اور نہ ہی تمہیں ہمارے دکھ کا احساس ہے۔ اگر احساس ہوتا نا تو یوں میرے زخموں پر نمک چھڑنے نہ آ جاتی۔ ‘‘وہ انتہائی دکھ سے بولی تو بشریٰ بیگم نے مان سے پوچھا

’’تم مانگ کر تو دیکھو صفیہ۔ میں دوں گی۔ بولو؟‘‘

’’کیا تم اپنا بیٹا مجھے دے سکتی ہویا میرے بچوں کی طرح اس کے باپ کا سایہ دے سکتی ہواسے بھی یتیم کر سکتی ہو۔ ‘‘صفیہ نے غصے میں کہا تو بشریٰ بیگم بھی غصے میں بولی

’’یہ کیا بک رہی ہو؟‘‘

’’ابھی تو میں نے بات کی ہے اور چوہدرانی تم اپنے آپ میں نہیں رہی۔ دکھ سمجھتی ہو میرا؟تم لوگ کیوں نہیں سمجھے ہو کہ غریب بھی حق پر ہو سکتا ہے۔ تم میرے سر کے سائیں کا خون خریدنے آئی ہو۔ ‘‘

صفیہ نے نفرت سے کہا تو بشریٰ بیگم غصے میں بولی

’’ہوش کی دوا کر صفیہ۔ !تم جس کی زبان بول رہی ہو۔ وہ تمہیں کچھ نہیں سے سکتی؟‘‘

’’کون کسی کو کچھ دے سکتا ہے، ابھی تم نے بھی دعویٰ کیا تھا۔ سنو چوہدرانی۔ !مجھے اس دنیا میں انصاف ملے یا نہ ملے لیکن قیامت کے دن تم لوگوں کا گریبان میرے ہاتھ میں ہو گا۔ میں اپنے شوہر کے قاتل کو سزا دلوا کر رہوں گی۔ اس دنیا میں کوشش کرو گی۔ اگلے جہان میرا ربّ مجھے انصاف دے گا۔ ‘‘

وہ غصے بھرے لہجے میں تیز انداز میں بولی تو بشریٰ بیگم نے حقارت سے کہا

’’ابھی تم ہوش میں نہیں ہو۔ جب ہوش میں آؤ، تو میرے پاس آ جانا۔ میں تمہیں۔ تمہارے تصور سے بھی زیادہ دے دوں گی۔ ‘‘یہ کہتے ہوئے اس نے رانی کو چلنے کا اشارہ کیا۔ وہ دونوں باہر کی جانب چلی گئی تو صفیہ بے بس ہو کر رونے لگ گئی۔ پھر نجانے کب اس کی آنکھ لگ گئی۔

صبح کے وقت صفیہ چولہے کے پاس بیٹھی آگ جلانے کی کوشش کر رہی تھی۔ تبھی بابا نعمت علی گھر میں آیا ہے اور آتے ہی پوچھا

’’صفیہ۔ !یہ میں کیا سن رہا ہوں رات چوہدرائن آئی اور تو نے اسے خالی ہاتھ لوٹا دیا۔ تیرا دماغ تو نہیں خراب ہو گیا۔ جانتی ہو وہ ہمارے ساتھ کیا کر سکتے ہیں ؟‘‘

’’کیا کر سکتے ہیں۔ یہی نا کہ وہ ہمیں مار دیں گے۔ تو مار دیں۔ ایسی زندگی جی کر ہم کیا کریں گے۔ جس میں ہمیں کوئی پوچھنے والا نہ ہو۔ ‘‘ اس نے نفرت سے جواب دیا تو بابا نعمت بولا

’’اصل میں تیرا دماغ خراب کیا ہے ماسٹر دین محمد کی بیٹی نے، دیکھ لینا وہ تیرا ساتھ نہیں دے سکے گی۔ وہ خود ساری زندگی چوہدری کے سامنے اونچی سانس نہیں لے سکے۔ وہ تیرا کیا ساتھ دیں گے؟‘‘

’’جب خون کے رشتے ہی سفید ہو جائیں تو پھر کوئی ساتھ دے یا نہ دے نذیر تیرا بھی تو بیٹا تھا بابا۔ تو ان سے بدلہ لینے کی بجائے مجھے خوف زدہ کر رہا ہے؟‘‘ صفیہ نے جتایا تو بابا نعمت نے سمجھایا

’’بدلہ تو وہاں لیا جاتا ہے جہاں طاقت ہو۔ ہم بے طاقت بے بس لوگ بھلا ان سے کیا بدلہ لے سکتے ہیں۔ ہم لوگ تو سکون سے سانس لے لیں ، یہی غنیمت ہے۔ ‘‘

’’تو پھر ہمیں جینے کا بھی کوئی حق نہیں ہے بابا۔ ‘‘ صفیہ غصے میں بولی

’’تُو پہلے ایسی تو نہیں تھی۔ بات مان جایا کرتی تھی۔ لیکن جب سے ماسٹر دین محمد کی بیٹی نے تیرا دماغ خراب کیا ہے۔ تو آگ اگل رہی ہے۔ میری بات مان جاکیوں اس بڑھاپے میں میری زندگی خراب کر رہی ہے۔ مان جا۔ ورنہ ۔۔۔‘‘ وہ غصے میں کہتا ہوا رک گیا۔

’’ورنہ کیا بابا تو کہنا کیا چاہتا ہے۔ ‘‘ وہ ایک دم بھڑک اٹھی تو وہ بھی غصے میں بولا

’’میں یہی کہنا چاہتا ہوں تو اگر میری بات نہیں مانے گی۔ تو پھر تیرا ہمارا تعلق کیا رہ جائے گا۔ تو پھر جہاں جانا چاہئے چلی جا۔ ‘‘

’’بابا۔ !تو کبھی اتنا کمزور تو نہیں تھا۔ میں ان بچوں کو لے کر چلی جاؤں گی۔ نہیں رہوں گی، چلی جاؤں گی۔ ‘‘ اس نے بھی کہا

’’ہاں ہاں چلی جا ہماری جان تو عذاب میں نہیں رہے گی نا‘‘ بابا نعمت نے تنگ آتے ہوئے کہا تو فیصلہ کن انداز میں بولی

’’چلی جاؤں گی۔ ‘‘

یہ کہتے ہوئے وہ ایک دم سے رو دی۔ بابا چند لمحے کھڑا رہا پھر باہر نکل گیا۔ صفیہ دھاڑیں مار کر رونے لگی۔

صفیہ اپنے گھر کے صحن میں دھری چارپائی پر بیٹھی رو رہی تھی۔ ایسے میں سلمی اس کے گھر میں داخل ہوئی۔ اس نے دور سے دیکھا اور پریشان ہو گئی۔ وہ اس کے قریب گئی تو صفیہ نے اس کی طرف دیکھا اور مزید شدت سے رونے لگی۔ تب سلمٰی نے تشویش سے کہا

’’کیا ہوا صفیہ۔ !کیوں رو رہی ہو۔ کیوں بُلایا مجھے۔ خیریت تو ہے نا۔ ‘‘

’’بابا نے مجھے اس گھر سے نکل جانے کو کہہ دیا ہے۔ ‘‘صفیہ نے سسکتے ہوئے کہا اور شدت سے روپڑی توسلمٰی نے چونکتے ہوئے کہا

’’اُوہ!وہی ہوا ناجس کا ڈر تھا۔ پر تم گھبراتی کیوں ہو کیوں حوصلہ ہار رہی ہو۔ میں ہوں نا۔ ‘‘

’’تم کب تک میرا اور میرے بچوں کا بوجھ اٹھا پاؤ گی۔ میں محنت مزدوری کر کے اپنے بچوں کا پیٹ پال لوں گی۔ لیکن یوں میرے سر سے چھت چھین لی جائے گی۔ میں نے کبھی سوچابھی نہیں تھا۔ کہاں جاؤں گی؟‘‘ صفیہ نے روتے ہوئے کہا

’’تو حوصلہ کر اور چل میرے ساتھ کہتے ہیں ، ایک در بند سو در کھلے۔ اپنا سامان اگر لینا چاہتی ہے تو لے لو اور سیدھی میرے پاس آ جا، اپنے بچوں کو لے کر۔ میں تمہارا سہارا بنوں گی۔ ‘‘ سلمی نے اسے حوصلہ دیتے ہوئے کہا

’’تم کیسے؟‘‘ صفیہ نے حیرت سے پوچھا

’’میں نے کہا نا، فکر کرنے کی کوئی بات نہیں ہے۔ یہ رونا دھونا بند کرو اور چلو میرے ساتھ۔ ‘‘ سلمی نے کہا

’’سلمٰی۔ !کیا مجھے انتظار نہیں کرنا چاہئے۔ بابا غصے میں کہہ کر تو گیا ہے۔ شاید اسے اپنے پوتوں کا خیال آ جائے۔ مجھے جلد بازی نہیں کرنی چاہیے۔ ‘‘ اس نے سوچتے ہوئے کہا توسلمٰی بولی

’’تم چاہو تو انتظار کر لو مگر ایک دن تجھے اس گھر سے جانا ہو گا۔ یہ چوہدریوں کی ملکیت ہے۔ بہر حال تم جب چاہو اور جس وقت چاہو میرے پاس آ سکتی ہو۔ میں تمہاری ہر ضرورت کا خیال رکھوں گی۔ ‘‘

’’تو پھر میں دیکھ لوں بابا کو؟‘‘صفیہ نے پوچھا

’’ہاں دیکھ لوجیسے تمہارا دل چاہئے۔ ‘‘ سلمی نے اس کی بات مانتے ہوئے کہا۔ صفیہ نے حسرت بھری نگاہوں سے اس گھر کی در و دیوار پر نگاہ ڈالی اور پھر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ سلمی اسے دلاسا دینے لگی۔

ماسٹر دین محمد اور فہد دالان میں بیٹھے ہوئے باتیں کر رہے تھے۔ فہد نے کہا

’’استاد جی۔ آپ ایک دو دن میں تیار رہیں۔ آپ کو میرے ساتھ نور پور جانا ہو گا۔ وہ آپ کا پینشن کیس منظور ہو گیا ہے۔ وہاں سے چیک لینا ہو گا۔ ‘‘

’’اُو پتر۔ میں جانتا ہوں ان محکمے والوں کو۔ اتنی جلدی کہاں وہ چیک دینے والے ہیں۔ ابھی مہینہ ڈیڑھ مہینہ تو لگ ہی جائے گا۔ یہ محکمے فرض شناسی سے کام کریں نا تو اس ملک کے آدھے مسائل خود بخود حل ہو جائیں۔ ‘‘ماسٹر دین محمد نے کہا۔ اسی وقت سلمی باہر گیٹ سے اندر آ گئی۔ دونوں نے اس کی طرف دیکھا۔ وہ قریب آ کر رک گئی توماسٹر دین محمد نے اس سے پوچھا

’’خیر تو تھی صفیہ نے بڑی جلدی میں تمہیں بلایا تھا؟‘‘

’’وہ بابا نعمت علی نے اسے اپنے گھر سے نکل جانے کو کہا ہے۔ چوہدریوں کی بات نہ ماننے پر۔ ‘‘ سلمی نے افسردگی سے کہا

’’تو پھر۔ تم نے کیا کہا؟‘‘ ماسٹر دین محمد نے پوچھا

’’میں نے کہا۔ آ جاؤ۔ میرے گھر میں اس کی ذمہ داری لیتی ہوں۔ آپ کہیں ۔۔۔‘‘

یہ کہتے ہوئے اس نے سوالیہ انداز میں ان دونوں کی طرف دیکھا تو فہد نے تیزی سے مشورہ دیتے ہوئے کہا

’’ٹھیک کہا تم نے۔ وہ جب بھی آئے تم اسے چاچے عمر حیات کے گھر ٹھہرا دو۔ اگر وہ وہاں خطرہ محسوس کرے تو یہاں۔ جیسا تم چاہو۔ ‘‘

’’اب اگر اس کی ذمہ داری لی ہے تو پوری طرح سے نبھانا۔ یاد رکھنا، اس کے آنے کے ساتھ۔ تمہیں دکھ اور پریشانیاں بھی مل سکتی ہیں۔ ‘‘ ماسٹر دین محمد نے سمجھایا

’’مجھے احساس ہے ابا جی، میں نے یہ ذ مے داری صرف ایک مظلوم کا ساتھ دینے کے لیے لی ہے۔ ‘‘

سلمی نے کہا توماسٹردین محمد نے سکون سے حوصلہ دیا

’’تو پھر گھبرانا نہیں ، وہ اوپر والا تیرا ساتھ ضرور دے گا۔ ‘‘

’’آپ چائے وغیرہ پی، میں لاؤں ؟‘‘ سلمی نے پوچھا تو فہد نے کہا

’’نہیں۔ !ضرورت نہیں۔ میں بھی ذرا سراج کی طرف جا رہا ہوں۔ تمہاری وجہ سے استادجی نے مجھے بلوا لیا۔ اچھا، میں اب چلتا ہوں۔ ‘‘یہ کہتے ہوئے وہ اٹھ کر چل دیا۔ سلمٰی نے اسے محبت بھری نگاہوں سے دیکھا اور اندر چلی گئی۔

٭٭

 

چوہدری کی حویلی میں در آنے والی وہ صبح اتنی خوشگوار نہیں تھی۔ چوہدری جلال گہری سنجیدگی کے ساتھ دالان میں بیٹھا گہری سوچ میں گم تھا۔ چہرے پر غصے کے تاثرات پھیلے ہوئے تھے۔ ایسے میں بشریٰ بیگم چائے لے کر دھیرے دھیرے قریب آئی اور میز پر چائے رکھ کر اس کی سامنے والی کرسی پر بیٹھ گئی۔ چوہدری جلال نے اس کی طرف دیکھا اور پھرسرد لہجے میں پوچھا

’’تمہیں جب میں نے روکا تھا کہ اس نیچ ذات کی عورت کے پاس نہیں جانا تو پھر تم کیوں گئیں ؟‘‘

’’چوہدری صاحب۔ ! میں نے پہلے بھی آپ سے کہا ہے کہ میں ماں ہوں۔ اور میں اپنے بیٹے کے لیے۔۔۔‘‘ بشریٰ بیگم نے کہنا چاہا مگر وہ کی بات ٹوک کر بولا

’’مگر شوہر کی حکم عدولی کر چکی ہو۔ کیا میں سمجھ لوں کہ اب تمہیں شوہر سے زیادہ اپنا بیٹا عزیز ہو گیا ہے۔ جو کہ واقعی گنہ گار ہے۔ ‘‘

’’میں ایسا سوچ بھی نہیں سکتی سرتاج کہ میں آپ کی حکم عدولی کروں۔ ‘‘یہ کہتے ہوئے وہ اس کے سامنے دونوں ہاتھ جوڑتے ہوئے بولی، ’’مجھے معاف کر دیں۔ پہلی اور آخری بار معاف کر دیں۔ ‘‘

’’تم جانتی ہو بیگم، اِن نیچ ذات کے لوگوں کے بارے میں۔ ان لوگوں سے نرم لہجے میں بھی بات کر لو تو یہ سر پر چڑھ جاتے ہیں۔ جس کا ثبوت یہ ہے کہ اس نے تمہاری بات نہیں مانی۔ ‘‘چوہدری جلال نرم پڑتے ہوئے بولا تو بشریٰ بیگم نے اپنے دونوں ہاتھوں سے چائے کی پیالی اٹھا کر اسے دیتے ہوئے کہا

’’اس کے دماغ میں تو بہت آگ بھری ہوئی ہے۔ وہ کوئی بات سننا ہی نہیں چاہتی۔ ‘‘

’’وہ اس وقت پوری طرح دشمنوں کے ہاتھ میں ہے۔ وہ اسے ہتھیار کے طور پراستعمال کر رہے ہیں۔ لیکن نہیں جانتے ان کا سامناکس سے ہے۔ وہ کچھ بھی نہیں کر سکے گی۔ ‘‘ چوہدری جلال نے حقارت سے کہا اور پیالی پکڑ لی

’’کہیں میرے بیٹے کبیر کو کچھ۔۔۔‘‘ بشریٰ بیگم نے جان بوجھ کر فقرہ ادھورا چھوڑ دیا

’’میرا بھی وہ بیٹا ہے اگر اسے کچھ ہوتا ہے تو پھر ہماری سیاست کا کیا فائدہ میں تو ان کی اچھل کو دیکھ رہا ہوں۔ کبیر محفوظ ہے۔ ‘‘

یہ کہتے ہوئے اس نے چائے کی پیالی اٹھا لی اور ہلکا سپ لیا۔ بشریٰ بیگم حسرت و یاس سے اپنے شوہر کی جانب دیکھتی رہی، جو سوچ میں کھویا ہوا سپ لے رہا تھا۔ تبھی بشریٰ نے چونکتے ہوئے پوچھا

’’کہاں ہے میرا کبیر وہ حویلی میں تو نہیں ہے۔ ‘‘

’’ڈیرے پر ہے بلوا لو اسے، اگر بلا سکتی ہو تو، کیونکہ آج سکول کی گھنٹی پھر بجے گی اور وہ لوگ یہ گھنٹی یونہی نہیں بجا رہے ہیں۔ میں نے اسے بہت سمجھایا، وہ نہیں مان رہا۔ ‘‘ چوہدری نے بے بسی سے کہا

’’ مطلب، دشمن یہ چاہتے ہیں کہ تصادم ہو اور۔۔۔‘‘

بشریٰ بیگم نے کہا اور پریشانی کے عالم میں اٹھ کھڑی ہوئی، چوہدری جلال نے پیالی واپس میز پر رکھ دی۔

چوہدری کبیر اضطرابی انداز میں ڈیرے کے کوریڈور میں ٹہل رہا تھا۔ اس کے چہرے پر گہری سنجیدگی اور غصے کے تاثرات نمایاں تھے۔ اتنے میں ماکھا آ گیا تو چوہدری کبیر نے پوچھا

’’ہاں بول ماکھے، کیا خبر ہے۔ آج بھی انہوں نے سکول کھولنا ہے یا پھر بس تالا توڑنے ہی کا شوق تھا اور ایک دن ہی گھنٹیاں بجا کر غائب ہو گئے؟‘‘

’’نہیں چوہدری صاحب، سلمی کچھ بچوں کے ساتھ سکول کی طرف ہی جا رہی ہے اور اس کی حفاظت کے لیے فہد اور اس کے ساتھ بندے بھی موجود ہیں۔ ‘‘ ماکھے نے بتایا تو چوہدری کبیر نے چونکتے ہوئے پوچھا

’’کتنے بندے لیے پھرتے ہیں ؟‘‘

’’تھوڑے سے ہیں۔ ‘‘ ماکھے نے بتایا

’’او خیر ہے، جتنے بھی ہوں۔ تیاری کرو سکول تو بند ہونا ہی ہے۔ آج اس فہد کی زندگی کی کتاب بھی بند کر دیتے ہیں۔ دیکھتا ہوں کون سکول چلاتا ہے؟‘‘ چوہدری کبیر نے غصے میں کہا تو ماکھا بولا

’’جو حکم چوہدری صاحب۔ ‘‘

چوہدری کبیر کاریڈور سے نکلا، میز پر پڑے ہولسٹر میں ریوالور نکالا اور پھر اپنی کار میں جا بیٹھا۔ چوہدری کبیر گاڑی نے سٹارٹ کر لی۔ اس دوران اس کے ملازمین بھی ایک دوسری جیپ میں بیٹھنے لگے۔ ایسے میں

ڈیرے کے پھاٹک میں گاڑی آ کر رک گئی۔ اس میں سے منشی نے نکل کر مودب انداز میں دروازہ کھولا۔ تو بشریٰ بیگم باہر نکل آئی۔ چوہدری کبیر جہاں تھا وہیں رک گیا۔ وہ حیرت سے اپنی ماں کو دیکھتے ہوئے جلدی میں اپنی گاڑی میں سے باہر آ کر غصے میں اپنی ماں سے بولا

’’آج تک حویلی کی کوئی عورت ڈیرے پر نہیں آئی۔ یہ بات آپ جانتی ہو ماں ، ایسا کیا ہو گیا ماں کہ۔۔۔‘‘

’’کہاں جا رہا ہے تو؟‘‘ بشریٰ بیگم نے پوچھا

’’جن لوگوں نے سکول کھولا ہے نا انہیں سبق دینے جا رہا ہوں۔ ‘‘ چوہدری کبیر نے طنزیہ لہجے میں کہا تو بشریٰ بیگم سکون سے بولی

’’ چل میں بھی تیرے ساتھ چلتی ہوں۔ ‘‘

’’او کیا ہو گیا ہے ماں ، میں کوئی کچ کی گولیاں کھیلنے نہیں جا رہا۔ میرا راستہ مت روک۔ ‘‘ چوہدری کبیر نے احتجاجاً کہا تو بشریٰ بیگم اسی سکون سے بولی

’’میں تیری گاڑی میں بیٹھ رہی ہوں۔ تو چاہے تو مجھے سکول لے جایا واپس حویلی۔ میں نے تیرے باپ سے وعدہ کیا ہے کہ اب تجھے کوئی خون نہیں کرنے دوں گی۔ ‘‘

وہ اپنا آنچل سنبھالتے ہوئے چوہدری کبیر گاڑی میں جا بیٹھتی۔ وہ بے بسی میں چند لمحے سوچتا رہا پھر ملازمین کو واپس جانے کا اشارہ کر کے اپنی گاڑی میں جا بیٹھا۔

حویلی کے ڈرائینگ روم میں چوہدری جلال، وکیل اور چوہدری کبیر تینوں صوفوں پر بیٹھے باتیں کر رہے تھے۔ منشی کھڑا تھا۔ چوہدری کبیر غصے میں کہہ رہا تھا۔

’’ بابا میں تو پہلے ہی کہہ رہا تھا کہ یہ جو اچانک یہاں تماشے ہونا شروع ہو گئے ہیں ، یہ کوئی فہد کا کمال نہیں بلکہ اس کے پیچھے ملک نعیم ہے۔ وہی سب کچھ کروا رہا ہے۔ ‘‘

’’نکے چوہدری جی آپ کے پاس اس بات کا کوئی ثبوت ہے؟ یا فقط آپ کا اندازہ ہے؟‘‘ وکیل نے پوچھا

’’دوسری بار الیکشن ہارنے کے بعد وہ اچانک خاموش ہو گیا اور ہم نے اس کی خاموشی کو نظرانداز کر دیا مگر وہ اندر ہی اندر ہمارے خلاف سازشیں کرتا رہا۔ یہاں تک کہ صفیہ کے لیے اس نے پریس کانفرنس کر دی تو وہ کھل کر سامنے آیا۔ اب وہ باقاعدہ فہد سے مل کر گیا ہے، یہاں اس گاؤں میں آ کر، اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہو سکتا ہے۔ ‘‘

’’یہ ثبوت نہیں ہیں نکے چوہدری صاحب۔ ‘‘ وکیل نے کہا تو چوہدری جلال بولا

’’آپ کہنا کیا چاہ رہے ہیں وکیل صاحب۔ ‘‘

’’ذرا غور کریں چوہدری صاحب، ریونیو آفیسر نے فہد کے حق میں فیصلہ دیا تو آپ نے اس کا تبادلہ کروا دیا۔ ڈی ایس پی تبادلہ کروا گیا، اس نے سیاسی دباؤ برداشت نہیں کیا۔ مطلب آپ کی بات نہیں مانی اور جواس کی جگہ اے ایس پی آیا ہے اس کا موڈ کوئی آپ کے حق میں نہیں لگتا۔ وہ سیدھے سیدھے فہد کی بات کرتا ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے چوہدری صاحب، کیا ملک نعیم، انتظامی طور پر اتنی اپروچ رکھتا ہے؟‘‘ وکیل نے سمجھایا تو چوہدری جلال نے سوچتے ہوئے کہا

’’لگتا نہیں ہے کہ وہ اتنی اپروچ رکھتا ہو گا۔ ‘‘

’’نہیں آپ یقین سے بات کریں۔ ‘‘ وکیل نے پوچھا

’’نہیں ، نہ اس کی ہمت ہے اور نہ اس کے اس قدر تعلقات ہیں۔ ‘‘ اس نے حتمی لہجے میں کہا تو وکیل بولا

’’تو پھر سوچئے چوہدری صاحب، کہیں آپ سیاسی طور پر ناکام تو نہیں ہو رہے؟ آپ کا اثر و رسوخ کدھر گیا؟ یا پھر مان لیں کہ ملک نعیم اپروچ رکھتا ہے اور وہ سیاسی طور پر مضبوط ہو گیا ہے۔ ‘‘

’’میرا ذہن نہیں مانتا کہ وہ اتنا بڑا کھیل، کھیل سکتا ہے۔ جہاں دشمن کی کمزوریوں اور خامیوں پر نظر رکھی جاتی ہے، وہاں اس کی خوبیوں پر بھی نگاہ ہوتی ہے۔ وہ اتنی ہمت نہیں کر سکتا۔ ‘‘ چوہدری جلال حتمی لہجے میں بولا

’’کیا وہ ہمت کر بھی نہیں سکتا؟‘‘ وکیل نے پوچھا

’’ اگر اس نے حوصلہ کر ہی لیا ہے تو اس کا راستہ روکنا بہت ضروری ہو گا۔ ‘‘ اس نے بات سمجھتے ہوئے کہا

’’کب راستہ روکیں گے آپ جب اس کے مہرے مضبوط ہو کر آپ کو شہہ مات دینے کے لئے آپ کے سر پر آ پہنچیں گے؟‘‘ وکیل نے کہا تو چوہدری کبیر تڑپ کر بولا

’’بابا، اجازت دیں ملک نعیم کا ہی پتّہ صاف کر دیتے ہیں سارے مہرے خود ہی پٹ جائیں گے۔ ‘‘

’’پتّہ صاف کر دینا بہت آسان ہو تا ہے نکے چوہدری جی۔ مگر پھر اسے سنبھالنا مشکل ہو جاتا ہے، یہ احساس ہو گا آپ کو۔ میں کبھی بھی یہ مشورہ نہیں دوں گا۔ ‘‘ وکیل نے کہا تو چوہدری کبیر انتہائی طنزیہ لہجے میں بولا

’’تو پھر کیا کریں وکیل صاحب، اب ان کی منت تو کرنے سے رہے۔ ‘‘

’’یہ وقت جوش کا نہیں ہوش کا ہے۔ کچھ لو کچھ دو کا اصول اپنا کر سیاست کریں۔ علاقے کے لوگوں کو اعتماد میں لیں۔ ان پر نوازشیں کریں۔ ڈرانے دھمکانے کی بجائے ان کو یہ باور کرائیں کہ آپ ان کے ہمدرد ہیں۔ ان کے چھوٹے چھوٹے کام کروا دیں۔ اپنی سیاسی جماعت میں اثر ورسوخ بڑھائیں۔ ‘‘یہ کہہ کر وہ ایک لمحہ کے لئے رکا اور پھر چوہدری جلال کی طرف دیکھ کر بولا، ’’آپ نے ساری زندگی سیاست کی ہے کیا آپ نہیں جانتے؟ ‘‘

’’میں تو جانتا ہوں وکیل صاحب، لیکن کبیر کو کون سمجھائے۔ یہ جو چند لوگ یہاں کھیل تماشے کر رہے ہیں ان کی کوئی اوقات ہی نہیں ہے۔ بس اصل وجہ تک پہنچنا ہے۔ اس کی سمجھ آ گئی تو یہ سب خود بخود ختم ہو جائے گا۔ ‘‘ چوہدری جلال نے سمجھانے والے انداز میں کہا

’’ یہی بات اس وقت سمجھ آئے گی جب یہ نکے چوہدری سیاست سیکھیں گے، تو پتہ چلے گا۔ ‘‘

وکیل نے سمجھایا تو چوہدری جلال بولا

’’وہ تو میں نے آپ سے کہا ہے۔ آپ اسے سمجھائیں۔ باقی میں سب دیکھ لوں گا۔ ‘‘ یہ کہہ کر اس نے منشی کی طرف دیکھ کے پوچھا

’’ دیکھو کھانا لگ گیا ہے؟‘‘

’’جی لگ گیا ہے، آپ آئیں۔ ‘‘

اس نے کہا توسبھی اٹھ گئے تو منشی فون کی طرف بڑھ گیا۔ اس نے تھانے کے نمبر ڈائل کئے اور انتظار کرنے لگا۔ کچھ دیر بعد تھانیدار نے فون اٹھا لیا۔ اس نے منشی کو پہچانتے ہوئے پوچھا

’’اوئے منشی جی کیا حال ہے تیرا؟ کیسے کیا فون؟‘‘

’’میں ٹھیک ہوں ، سن، تیرے ذمے لگانا ہے۔ ‘‘

’’کام، کیسا کام ؟‘‘ اس نے پوچھا

’’تو ہے کہ نہ حویلی آیا ہے اور نہ ڈیرے پر، اور نہ ہی تو فون پر ملتا ہے۔ لگتا ہے نئے اے ایس پی نے تجھ سے کوئی زیادہ ہی کام لینا شروع کر دیا ہے۔ ‘‘ منشی نے طنزیہ لہجے میں کہا تو تھانیدار چڑتے ہوئے بولا

’’اوئے کام کیا منشی، اس اے ایس پی نے تو پڑھنے پا دیا ہے۔ یہ پہلا افسر ہے جس کی ابھی تک مجھے سمجھ نہیں آئی۔ اور جس دن اس کی مجھے سمجھ آ گئی اس کی ساری افسری گھما کر رکھ دوں گا۔ خیر، تو کام بول۔ ‘‘

’’کام یہ ہے کہ وہ جو چھاکا ہے نا، اسے کچھ دن اس طرح اندر رکھنا ہے کہ وہ باہر نہ آ پائے۔ بس اتنا سا کام ہے، جو تو نے کرنا ہے۔ ‘‘ منشی نے بتایا

’’کچھ دن، مطلب؟‘‘ اس نے پوچھا

’’ہاں ، اگر بات نہیں مانتا تو پھر اسے لمّا بھیج دے مجھے تو کوئی اعتراض نہیں ہے۔ ‘‘ منشی نے کہا

’’اؤے مدعا کیا ڈالنا ہے اس پر؟ دیکھ تجھے پتہ ہے نئے افسر کا، جو کام بھی ہو نا ہے وہ پھر پکا ہی ہونا ہے۔ ‘‘ تھانیدار نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا

’’میں کون سا کہہ رہا ہوں کہ تو کچا کام کر۔ کام تو پکا ہی ہونا چاہئیے۔ وہ خود کو چشم دید گواہ بنائے پھرتا ہے نا نذیر کا۔ ‘‘منشی نے اسے سمجھایا تو تھانیدار نے اکتائے ہوئے انداز میں کہا

’’اؤئے ایک تو یہ چشم دید گواہوں نے میری مت مار دی ہے۔ ویسے چوہدری کبیر کو بھی چاہئیے کہ ہتھ ہولا رکھے وہ بھی نا۔ ‘‘

’’اور یہ وڈھے لوگ جانے کہ وہ کیا کرتے ہیں۔ چھاکے پر جو مدعا ڈالنا ہے اور جیسے ڈالنا ہے وہ بتا دینا میں سارا بندوبست کر دوں گا۔ ‘‘ منشی نے اس کی بات نظر انداز کرتے ہوئے کہا

’’وہ تو ٹھیک ہے بتا دوں گا۔ پر ہم جو چوہدریوں کی اتنی غلامی کر رہے ہیں اِدھر اُدھر جو دینا ہے وہ بھی ہم پلّے ہی دیں۔ ‘‘ تھانیدار نے کہا

’’کتنا چاہئے ہو گا اس کام لے لیے؟‘‘ منشی نے پوچھا

’’کام دیکھ لو، رقم بھی خود طے کر لو تم نے کون سا نئی رقم دینی ہے۔ تجھے پتہ تو گاڑی بنا پیٹرول کے نہیں چلتی۔ ‘‘ اس نے واضح انداز میں کہا تو منشی بولا

’’تو مدعا ڈال، رقم تجھے پہنچ جائے گی۔ ‘‘

’’بس تو کوئی کام کا بندہ تلاش کر کے رکھ باقی فکر نہ کر۔ ‘‘ تھانیدار نے بھی یقین دہانی کروا دی تو منشی بولا

’’بندے بڑے، اب میں فون رکھتا ہوں۔ ‘‘

منشی نے رسیور کریڈل پر رکھ دیا۔

بشریٰ بیگم افسردہ سی بیٹھی سوچ رہی تھی کہ رانی آ گئی۔ اس نے پاس بیٹھ کر ہولے سے پوچھا

’’بیگم صاحبہ، آپ تو بہت زیادہ ہی پریشان ہو گئی ہیں۔ ‘‘

’’معاملہ میرے پتر کا ہے۔ کیا مجھے پریشان نہیں ہونا چاہیے۔ یہ کوئی میرے بس کی بات ہے پتہ نہیں کیا ہو گا۔ ‘‘بشریٰ بیگم نے حسرت سے کہا تورانی قالین پر صوفے کے ساتھ بیگم کے پاس بیٹھتے ہوئے بولی

’’بیگم صاحبہ۔ ! بھلا مجھے بتائیں۔ آپ اگر یونہی پریشان رہیں تو کیا یہ معاملہ حل ہو جائے گا۔ نہیں نا‘‘

’’تم کہتی تو ٹھیک ہو لیکن یہ میرا دل جو ہے نا، بہت ڈر رہا ہے۔ پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا۔ ‘‘ بشریٰ بیگم نے سوچتے ہوئے کہا تورانی بولی

’’آپ ماں بن کر سوچ رہی ہیں نا لیکن پریشانی سے کچھ نہیں ہو گا۔ ‘‘

’’تو پھر اور کیا کروں میں۔ اس صفیہ کو منانے گئی تھی لیکن اس نے تو کوئی اُمید بھی نہیں چھوڑی۔ ‘‘ بشریٰ بیگم نے حسرت سے کہا۔ اس دوران چوہدری کبیر نے کمرے میں آتے ہوئے اپنی ماں کی بات سن لی۔ تبھی اس نے دبے دبے غصے میں کہا

’’آپ نے وہاں جا کر اچھا نہیں ماں۔ نہیں جانا چاہئے تھا وہاں۔ ‘‘

’’ تم۔ !میں تو اس کے پاس۔۔۔‘‘بشریٰ بیگم نے چونک کر کہا تو چوہدری کبیر حقارت سے بولا

’’یہ ہماری شان اور مرتبے کے خلاف ہے کہ آپ اس کمی کمین عورت کے دروازے پر چل کر گئی ہو۔ زیادہ سے زیادہ کیا ہوتا پولیس پکڑ کر لے جاتی مجھے، سزا ہو جاتی۔ میں مر جاتا۔ ‘‘

’’اللہ نہ کرے پتر۔ !یہ تو کیسی باتیں منہ سے نکال رہا ہے۔ براہو دشمنوں کا تمہارے سرپر تو میں نے ابھی سہرے دیکھنے ہیں۔ ‘‘ بشریٰ بیگم نے تیز لہجے میں کہا

’’ہاں۔ یہ بات کی ہے نا آپ نے کام کی، میں یہی بات کرنے کے لیے آپ کے پاس آیا ہوں۔ ‘‘ اس نے کہا تو بشریٰ بیگم نے چونک کر کہا

’’یہی بات۔ !کیا مطلب، تم کہنا کیا چاہ رہے ہو۔ ‘‘

’’آپ نے ایک دفعہ مجھ سے پوچھا تھا نا کہ میری پسند کون ہے؟‘‘چوہدری کبیر نے کہا

’’ہاں پوچھا تھا کون ہے وہ بتاؤ مجھے، میں اسے ہی تمہاری دلہن بناؤں گی۔ بتا پتر؟‘‘بشریٰ بیگم نے خوش ہو کر کہا تو چوہدری کبیر بولا

’’تو سنوماں ، میری پسند، ماسٹر دین محمد کی بیٹی سلمٰی ہے، وہی میری دلہن بنے گی۔ ‘‘

’’یہ۔۔۔ یہ کیا کہہ رہے ہو تم، سلمٰی، وہ کیوں ؟‘‘بشریٰ بیگم نے شدید حیرت سے کہا تو چوہدری کبیر مسکراتے ہوئے بولا

’’اس کیوں کا جواب، میں اس وقت دوں گا، جب وہ میری دلہن بن گئی۔ ‘‘

’’بیٹا، کہاں وہ کہاں تم ؟یہ جوڑ بنتا ہی نہیں ہے۔ تم خواہ مخواہ ضد کر رہے ہو۔ ایسا مت سوچو، تمہارا معاملہ جلدی ختم ہو جائے گا تو ہم تمہیں بہت اونچے گھرانے سے دلہن لا کر دیں گے۔ پھر ایسا نہیں سوچنا۔ ‘‘ وہ انکار کرتے ہوئے بولی

’’ماں۔ !میں نے کہہ دیا۔ اور بہت سوچ سمجھ کر یہ کہا ہے۔ وہ ہر حال میں میری دلہن بنے گی۔ اور بس۔ ‘‘ چوہدری کبیر نے فیصلہ کن انداز میں کہا اور اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔ بشریٰ بیگم حیرت زدہ سی بیٹھی رہ گئی۔ رانی نے اس کی طرف دیکھا اور گھبرا کر پلٹ گئی۔

رات کا دوسرا پہر ابھی ختم نہیں ہوا تھا۔ چوہدری جلال حویلی کے دالان میں بیٹھا گہری سوچ میں کھویا ہوا۔ بشریٰ بیگم نے اسے یوں دیکھا تو دبے قدموں سے اس کے پاس آئی تو چوہدری نے اس کی طرف دیکھ کر ایک طویل سانس لیا۔

’’آپ نے سونا نہیں۔ رات اتنی گہری ہو گئی ہے۔ ‘‘ بشریٰ بیگم نے پوچھا تو چوہدری جلال اس کی بات کو نظر انداز کرتے ہوئے بولا

’’بیگم۔ !یہ جو تو نے کبیر کی ضد بارے مجھے بتایا ہے، یہ ٹھیک نہیں ہے۔ ماسٹر دین محمد کو ساری زندگی ہم نے دبا کر رکھا ہے اس کی بیٹی سلمٰی بارے کبیر کی خواہش ۔۔۔یہ بات میری سمجھ میں نہیں آ رہی ہے؟‘‘

’’میں نے اپنے طور پر معلوم کیا چوہدری صاحب۔ !اپنا کبیر۔ اس سلمٰی کے لیے اپنے دل میں محبت پال چکا ہے۔ جس کا اظہار وہ کرتا رہا ہے۔ ہم ہی غافل رہے ہیں۔ ‘‘

بشریٰ بیگم نے اس پر واضح کر دیا تو چوہدری جلال نے چونکتے ہوئے کہا

’’کیا مطلب۔ !یہ محبت کیا ہوتی ہے۔ فضول ضد ہے کبیر کی یہ۔ اسے یہیں ختم کر نا ہو گی یہ ضد۔ بتا دینا اسے میں ایسا کبھی نہیں ہونے دوں گا۔ ‘‘

’’میں بھی نہیں چاہتی کہ کبیر ایسی خواہش کرے۔ لیکن اگر سختی سے روکیں گے تو ممکن ہے وہ ہماری بات نہ مانے اور ۔۔۔‘‘ بشریٰ بیگم نے کہنا چاہا تو وہ بات کاٹ کر بولا

’’کچھ بھی کر لے۔ ایسا ممکن نہیں ہو گا۔ ‘‘ پھر ایک دم سے خاموش ہو کر لمحہ بھر لکے لئے سوچا اور بولا، ’’بیگم۔ !تم نے یہ معلوم نہیں کیا کہ اس لڑکی سلمٰی نے ہی کبیر پر ڈورے ڈالے ہوں ؟‘‘

’’وہ کبیر سے نفرت کرتی ہے۔ ‘‘ بشریٰ بیگم نے ہولے سے کہا تو چوہدری جلال سمجھتے ہوئے بولا

’’تو پھر وہ ایسا صرف اپنی ضد اور انا کے لیے کرنا چاہتا ہے۔ اسے سمجھا دو وہ ایسی فضولیات میں نہ پڑے۔ بلکہ اس جاگیر کو سنبھالنے کے لیے خود کو تیار کرے۔ اگر میں نہ رہا تو وہ کچھ نہیں کر پائے گا۔ ‘‘

’’اللہ نہ کرے، آپ کیسی باتیں کر رہے ہیں۔ میں آپ کو یہی بتانا چاہ رہی کہ آپ پریشان نہ ہوں۔ میں اسے آہستہ آہستہ منا لوں گی۔ اس کے ذہن سے سلمٰی نکال دوں گی۔ آپ اس کے لیے جلدی دلہن دیکھ لیں۔ پھر وہ سب بھول جائے گا۔ ‘‘ بشریٰ بیگم نے اسے حوصلہ دیتے ہوئے کہا

’’ایسا ہی کرنا ہو گا۔ بس یہ نذیر والے معاملے کی دھول کم ہو جائے۔ پھر اس کی شادی کر دیتے ہیں۔ ‘‘ چوہدری جلال نے حتمی انداز میں کہا تو بشریٰ بیگم بولی

’’یہی بہتر رہے گا۔ آپ آئیں۔ آرام کریں۔ رات بہت ہو گئی ہے۔ ‘‘

’’چلو۔ ‘‘

چوہدری جلال اٹھا گیا۔ وہ دونوں چلتے ہوئے اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئے۔

٭٭

 

صبح کی نماز کے بعد فہد اور سراج چہل قدمی کی اور گھر کے صحن میں آ کر بیٹھ گئے۔ وہ باتیں کر رہے تھے کہ چھاکا آ گیا، اس نے آہستہ سے سلام کیا اور کچن کی طرف جانے لگا۔ تبھی سراج نے اس ک طرف دیکھتے ہوئے خوشگوار موڈ میں پوچھا

’’اوئے چھاکے۔ !بڑا چپ چاپ ہے۔ خیر تو ہے ابّے نے تو نہیں مارا ؟‘‘

’’کیا ہوا ہے تجھے، کیوں پریشان ہے؟‘‘ فہد نے بھی اس کا چہرہ دیکھ کر پوچھا تو چھاکا بولا

’’پریشانی توہے، چوہدری کا منشی آیا تھا ابیّ کے پاس ۔۔۔دھمکی لگانے۔ ‘‘

’’کہیں وہ نذیرے والے کیس میں تو نہیں ؟‘‘ سراج نے تیزی سے پوچھا

’’ہاں۔ !کہہ رہا تھا کہ میں اپنا بیان واپس لے لوں۔ ‘‘ چھاکے نے جواب دیا تواس نے کہا

’’ہوں ، یار انہوں نے تو ایسا کرنا ہی ہے اب، لگتا ہے چوہدری قانونی جنگ ہار کر بد معاشی پر اتر آئے ہیں۔ ‘‘

’’وہ پہلے کون سا قانونی جنگ لڑتے ہیں۔ غنڈہ گردی ہی تو کرتے ہیں ، جس کی وجہ سے لوگ ان سے خوف زدہ ہیں اور اس غنڈہ گردی کے لیے انہوں بدمعاش پالے ہوئے ہیں۔ خیر چھاکے، وہ جو کچھ بھی کہیں ان کی چھوڑ انہوں نے تو کہنا ہی ہے یہ بتا، تو اور تیرا ابا کیا کہتے ہیں ‘‘ فہد نے پوچھا

’’کچھ نہیں ، ابیّ نے تو صرف مجھے بتایا ہے اور کوئی بات نہیں کی اور میں میں تو وہی کہوں گا نا جو آپ لوگ کہیں گے۔ ‘‘ چھاکے نے کہا تو فہد بولا

’’کیوں ، تم ہماری زبان کیوں بولو گے نہیں ، چھاکے، ہم لوگوں کے کہنے پر نہ جا، اپنے اندر سچ بولنے کی ہمت پیدا کر۔ وہی سچ کہنے کا حوصلہ کر جو اصل حقیقت ہے۔ چوہدری زیادہ سے زیادہ جان سے مروا دے گا، اس سے آگے وہ کیا کر سکتا ہے، یہ سوچ لے۔ ‘‘ یہ کہہ کر فہد چھاکے کے دل پر ہاتھ رکھ کر بولا، ’’ یہ جو کہتا ہے وہ کر۔ ‘‘

’’نہیں فہد۔ !میں نے فیصلہ کر لیا ہوا ہے۔ میں نے تو وہی کہنا ہے جو حقیقت ہے۔ میں نے اپنی آنکھوں سے یہ سب کچھ دیکھا ہے۔ میں آنکھیں بند نہیں کر سکتا۔ ‘‘ چھاکے صاف لہجے میں کہا توسراج بولا

’’تو پھر کیا غم ہے۔ یہ رونی صورت کو ختم کر۔ ‘‘

’’میں پریشان اس لیے نہیں ہوں کہ انہوں نے مجھے دھمکی دی یا وہ میرے کسی فیصلے پر اثر انداز ہوں گے۔ میں پریشان اس لیے ہوں کہ اگر میری وجہ سے نکے چوہدری کو سزا ہوتی ہوئی نظر آئی تو وہ مجھے مارنے کی پوری کوشش کریں گے۔ اس طرح صفیہ کو انصاف تو نہیں مل سکے گا۔ ‘‘چھاکے نے اپنی پریشانی کی وجہ بتائی تو فہد نے ہنستے ہوئے کہا

’’اب وہ وقت ختم ہو چکا ہے چھاکے۔ کبیر جس طرح پہلے اس علاقے میں بدمعاشی کر رہا تھا نا، اب ویسا نہیں کر سکے گا۔ اسے اب ہم سے چھپ کر ہی رہنا ہو گا۔ ‘‘

’’تو حوصلہ کر چھاکے ایسا کچھ نہیں ہو گا۔ کیا ہم نہیں ہیں۔ اور پھر تجھے کیا، تیری تو پورے علاقے میں دس پچھ ہو گئی ہے۔ ‘‘ سراج نے خوشگوار انداز میں ہنستے ہوئے کہا تو وہ تینوں ہنس دیئے۔ تبھی فہد نے کہا

’’چل اب جلدی چائے ہی پلا دے۔ تیرے انتظار میں بیٹھے ہوئے تھے۔ تیرے ہاتھ کی چائے کا تو چسکا ہی لگ گیا ہے۔ ‘‘

’’ سیدھے ناشتہ ہی بنا میری جان، وہ تیرا شیخ آفتاب بھی تو آتا ہو گا۔ ‘‘ سراج نے یاد دلایا تو فہد نے کہا

’’ او ہاں یار، کچھ کھانے کو دے دے۔ اس کے ساتھ پتہ نہیں کتنا وقت لگتا ہے۔ ‘‘

’’ ابھی لو۔ ‘‘ چھاکے نے کہا اور کچن میں گھس گیا۔

فہد، سراج اور شیخ آفتاب کھیتوں کے درمیان پھرتے ہوئے زمین دیکھ رہے تھے۔ ان کے انداز سے یہی ظاہر ہو رہا تھا جیسے وہ زمین کا سروے کر رہے ہوں۔ وہ چلتے ہوئے سڑک کنارے آ گئے، جہاں گاڑیاں کھڑی تھیں اور ان کے پاس شیخ آفتاب کا ڈرائیور اور گن مین کھڑے تھے۔ شیخ آفتاب نے خوشگوار لہجے میں کہا

’’زمین تو میں نے دیکھ لی فہد صاحب۔ !یہ فیکٹریوں کے لیے انتہائی مناسب جگہ ہے۔ میں ایسی ہی جگہ چاہتا تھا اور چوہدری جلال میری راہ میں رکاوٹ بنا ہوا تھا۔ ‘‘

’’یہ چاچے عمر حیات کی زمین تھی جو میں نے خریدی ہے۔ چوہدری جلال میری بھی راہ میں آیا تھا۔ مگر اب نہیں ، اب آپ یقین رکھیں۔ وہ کوئی رکاوٹ پیدا نہیں کرے گا۔ ‘‘

فہد نے اسے یقین دلایا تو شیخ آفتاب بولا

’’فہد صاحب، ان سیاستدانوں کا کوئی بھروسہ نہیں۔ آپ نہیں جانتے، ہمارے ہاں سیاست کسے کہتے ہیں ؟‘‘

’’جانتا ہو شیخ صاحب، دھوکا دینا، جھوٹ بولنا اور دوسروں کو کچل کر اپنے مفادات حاصل کرنے ہی کو سیاست سمجھا جاتا ہے۔ ‘‘ فہد نے کہا

’’ہمارا سیاسی کلچر ہی یہی بن چکا ہے کہ دولت لگاؤ اور دولت کماؤ حلال حرام، قومی مفاد، اور عوام کی خدمت ان کے نزدیک کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ سیاست بھی ایک کاروبار کی صورت اختیار کر گیا ہے۔ سرمایہ لگا کر ایم پی اے، ایم این اے بن جاؤ، خوب کرپشن کرو، لوٹ مار کرو اور دولت بناؤ۔ غریب آدمی تو الیکشن کے اخراجات پورے نہیں کر سکتا۔ ‘‘شیخ آفتاب نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا تو فہد سکون سے بولا

’’ لیکن، بات تو ووٹ پر آ کر ختم ہوتی ہے نا شیخ صاحب، غریب اگر اپنے جیسے کسی بندے کو ووٹ دے دیں تو وہ ایم این اے بن جائے گا۔ ‘‘

’’ مگر، غریب کو ووٹ کی طاقت کا شعور نہیں۔ وہ بے چارہ ان سیاست دانوں کی غلامی میں پھنسا ہوا ہے۔ ‘‘ شیخ آفتاب نے حقیقت بتائی تو فہد حوصلہ افزا لہجے بولا

’’اب غریب نکلے گا، کم از کم اس علاقے سے تو نکلے گا۔ خیر، ہم اپنی بات کریں۔ ‘‘

’’میرے پاس یہاں زمین نہیں تھی۔ ورنہ میں چوہدری کی پیدا کردہ رکاوٹیں ختم کر دیتا۔ خیر، اُسے چھوڑیں ، آپ بتائیں یہ سارے معاملات طے کرنے کے لیے آپ کب آ رہے ہیں ہمارے پاس ؟ ‘ ‘

شیخ آفتاب نے پوچھا تو فہد نے کہا

’’ آپ جب چاہیں۔ ویسے تو ملک نعیم صاحب نے آپ سے بات کر لی ہو گی۔ ‘‘

فہد نے اپنا عندیہ دیاتو اس نے لمحہ بھر سوچا اور بولا

’’میں تو کہتا ہوں آج ہی ملاقات ہو جائے، کچھ منظر نکھرے تو باقی باتیں بھی ہو جائیں گی۔ ‘‘

’’چلیں آج ہی سہی، آپ ملک صاحب کے ہاں پہنچیں ، میں بھی وہیں آ جاتا ہوں۔ ‘‘

’’ میں دو گھنٹے بعد آپ کا وہیں انتظار کروں گا۔ ‘‘یہ کہہ کر شیخ آفتاب نے اپنا ہاتھ بڑھایا تو دونوں نے اس سے ہاتھ ملایا۔ ڈرائیور گاڑی میں بیٹھا۔ وہ بھی، گن مین بھی اور ہاتھ ہلاتے چلے گئے۔ فہد اور سراج نے ایک دوسرے کو دیکھا اور پھر اپنی گاڑی کی جانب بڑھ گئے۔

ملک نعیم کے گھر میں فہد، شیخ آفتاب، ملک نعیم اور سراج بیٹھے ہوئے باتیں کر رہے تھے۔ شیخ آفتاب کہہ رہا تھا ’’یہ تو طے ہے ملک صاحب کہ اس علاقے میں فیکٹریاں لگانی ہیں۔ چوہدری جلال نے ہمیشہ مخالفت کی ورنہ میں تو سرمایہ لگانے کو بالکل تیار بیٹھا ہوں۔ ‘‘

’’شیخ آفتاب۔ !یہ ٹھیک ہے کہ آپ سرمایہ اپنے منافع کے لیے لگا رہے ہیں۔ لیکن یہ اس علاقے کے لیے ضروری بھی ہے۔ کیونکہ یہاں غربت ہے، بے روز گاری ہے، ہسپتال نہیں ، کوئی بڑا سکول نہیں۔ فیکٹریاں لگانے کے ساتھ آپ کو یہ سہولیات دینا ہوں گی۔ ‘‘ فہد نے کہا رو ملک نعیم بولا

’’بے شک۔ !یہی تو پہلی ترجیح ہے۔ سرمایہ دار کا منافع عوام میں سے ہو کر آتا ہے۔ ‘‘

’’میں نے سوچاہے کہ میں نے وہاں سے کئی برس تک منافع نہیں کمانا، سیدھی بات ہے میں نے اپنی ضد پوری کرنی ہے۔ میری زندگی میں صرف چوہدری جلال ہی ایسا شخص آیا ہے جس نے میری راہ میں رکاوٹیں پیدا کیں۔ خیر۔ !آپ جو بھی اور جیسی بھی شرائط رکھیں جو طے کرنا چاہیں کریں۔ مجھے کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔ ‘‘ شیخ آفتاب نے واشگاف انداز میں کہہ دیا تو فہد بولا

’’میری صرف ایک شرط ہے۔ اس علاقے کے لوگوں کی خوشحالی، اور بس۔ ‘‘

’’ہم بھی تو یہی چاہتے ہیں۔ آپ نے سکول کھول کر علاقے پر بہت احسان کیا ہے۔ اب یہ بند نہیں ہونے دیں گے۔ میں نے خود محکمے والوں سے بات کی ہے۔ ‘‘ ملک نعیم نے کہا

’’تو پھر طے ہو گیا۔ آپ جیسے چاہیں پیپرز بنوا لیں۔ مجھے منظور ہو گا۔ ‘‘ یہ کہتے ہوئے شیخ آفتاب نے فہد کی جانب ہاتھ بڑھا دیا۔ فہد نے ہاتھ ملایا تو ملک نعیم اور سراج کے چہرے پر مسکراہٹ گہری ہو گئی۔

٭٭

 

صفیہ اپنے گھر میں چارپائی پر بیٹھی دال چُن رہی تھی کہ نعمت علی گھر میں آ گیا۔ وہ اسے گھر میں دیکھ کر مسکرادیا۔۔ صفیہ نے حیرت سے اسے دیکھا۔ وہ قریب پڑی چارپائی پر بیٹھتے ہوئے بولا

’’مجھے معلوم تھا کہ تم کہیں نہیں جاؤ گی۔ تیرا ہمارے سوا ہے کون۔ اچھا کیا تو نے میری بات مان لی۔ اب تو چاہئے تو یہ گھر اپنے نام لکھوا لینا۔ چوہدری ہمیں یہ گھر دے دیں گے۔ ‘‘

’’بابا۔ !یہ تو کیسی باتیں کر رہا ہے۔ یہ سچ ہے کہ تمہارے سوا ہمارا ہے کون مگر میں یہاں اس لیے نہیں ہوں کہ میں نے اپنے شوہر کے قاتلوں کو معاف کر دیا ہے۔ ‘‘

صفیہ نے واشگاف انداز میں کہا تو بابا نعمت علی کی تیوریوں پر بل پڑ گئے۔ وہ غصے میں بولا

’’تو پھر تُو یہاں کیوں ہے۔ میں نے تمہیں یہاں سے چلے جانے کو کہا تھا۔ ‘‘

’’چلی جاؤں گی اور اگر چلی گئی تو پلٹ کر بھی واپس نہیں آؤں گی۔ ‘‘ صفیہ نے کہا

’’دیکھو صفیہ۔ !تمہارے پاس دو ہی راستے ہیں یا تو چوہدریوں کی بات مان لے اور یہاں پرسکون زندگی گذار یا پھر دربدر کی ٹھوکریں کھانے کے لیے چلی جا۔ میں بھی مجبور ہو گیا ہوں۔ میں چوہدریوں کے سامنے بہانے بنا بنا کر تھک چکا ہوں۔ ‘‘ بابا نعمت علی نے ہار مانتے ہوئے کہا تو صفیہ بولی

’’تو مجبور نہ ہو بابا۔ !میں چلی جاتی ہوں۔ ‘‘

’’تو پھر چلی کیوں نہیں جاتی ہو۔ یہاں بیٹھی کیا کر رہی ہو۔ تم اب میری ذمے داری نہیں ہو۔ بابا نعمت علی نے چیخ کر کہا۔ آخری لفظ کہتے ہوئے بابا کا گلہ رندھ گیا۔ صفیہ نے اس کی جانب دیکھا۔ و ہ اٹھ کر باہر کی جانب چلا گیا۔ صفیہ نے اپنے بچوں کی طرف دیکھا پھر دکھ اور حسرت سے بولی

’’چلو بیٹا۔ !اب ہم یہاں سے چلیں۔ اب ہم یہاں نہیں رہ سکتے۔ ‘‘

اس نے آنکھوں میں آئے آنسو صاف کئے اور اپنے بچوں کو لے کر باہر نکل گئی۔ وہ سیدھی سلمٰی کے گھر جا پہنچی۔ اس وقت ماسٹر دین محمد صحن میں بیٹھا ہوا تھا جب دروازے میں صفیہ آن کھڑی ہوئی۔ اس کے ساتھ بچے تھے۔ ماسٹر دین محمد کی نگاہ اس کی طرف اٹھی تو بولا

’’آ جاؤ بیٹی، آؤ۔ آ جاؤ، وہاں کیوں کھڑی ہو۔ ‘‘ یہ کہا پھر سلمٰی کو آواز دی، ’’سلمٰی اُو پتر سلمٰی۔ ‘‘

دروازے کی طرف سے صفیہ آ گئی تو اندر کی جانب سے سلمٰی وہاں آ گئی۔

’’میں آ گئی ہوں سلمٰی۔ ہمیشہ کے لیے وہ گھر چھوڑ کر آ گئی ہوں۔ ‘‘صفیہ نے کہا

’’میں یہ تو نہیں کہتی کہ تم نے اچھا کیا یا برا لیکن یہاں تمہیں کوئی پریشانی نہیں ہو گی۔ آؤ بیٹھو۔ ‘‘ سلمی نے کہا

’’میں محنت مزدوری کروں گی۔ اپنے بچوں کا پیٹ پال لوں میں کوشش کروں گی کہ جلدی۔۔۔‘‘ اس نے کہنا چاہا تو ماسٹردین محمد نے تحمل سے کہا

’’اُو بیٹی۔ !تو بیٹھ۔ !کچھ کھا پی لے، پھر یہ باتیں سوچتی رہنا اللہ نے تیرے لیے چھت کا بندوبست بھی کر دیا ہے۔ وہ رزق دینے والا ہے۔ وہی دے گا۔ تو بیٹھ سب ٹھیک ہو جائے گا۔ ‘‘

’’میرے لیے چھت کا بندوبست؟‘‘ صفیہ نے حیرت سے پوچھا توسلمٰی نے بتایا

’’ہاں۔ وہ چاچے عمر حیات والا گھر خالی ہے نا، تو اپنا سامان ادھر ہی رکھ لینا۔ ادھر رہنا چاہو تو بھی ہمیں پریشانی نہیں۔ بس اب تم نے ان باتوں کو نہیں سوچنا۔ تو بیٹھ میں ان بچوں کے لیے کچھ کھانے کو لاتی ہوں۔ ‘‘

صفیہ نے تشکر بھرے انداز میں ان دونوں کی طرف دیکھا اور وہیں ایک چار پائی پر بچوں کو لے کر بیٹھ گئی۔

صفیہ نے جہاں چاچے عمر حیات والے گھر میں ڈیرہ ڈال لیا، وہیں سلمی نے اسی گھر کو اپنا آفس بنا لیا۔ لیکن یہ ابھی باقاعدہ نہیں ہوا تھا۔ سلمی ابھی اپنے گھر ہی کام کرتی تھی۔ اس وقت سلمٰی دالان میں میز پر کافی سارے کاغذ پھیلائے بیٹھی تھی۔ صفیہ اس کے پاس زمین پر بیٹھی ہوئی اسے دیکھ رہی تھی۔ جب فہد گھر میں آیا۔ اس نے بڑے غور سے اسے دیکھا اور خوشگوار موڈ میں پوچھا

’’کیا ہو رہا ہے۔ یہ اتنا بڑا دفتر کیوں لگایا ہوا ہے۔ ‘‘

’’آپ بیٹھیں تو میں آپ کو بتاؤں۔ ‘‘ اس نے خوش ہوتے ہوئے کہا۔ فہد قریب پڑی کرسی پر بیٹھ کے بولا

’’بیٹھ گیا اب بولو۔ ‘‘

’’ پہلی بات تو یہ ہے کہ صفیہ اپنا چھوڑ کر ہمیشہ کے لئے اپنے پاس آ گئی ہے۔ میں نے اسے سب سمجھا دیا۔ جدھر چاہے رہے۔ ‘‘

’’ ٹھیک ہے اور دوسر بات؟‘‘ فہد نے پوچھا۔

’’میں نے اپنا کام شروع کر دیا ہے۔ پہلے میں گاؤں کے ان غریب لوگوں کی لسٹ بنا رہی ہوں جو کسی نہ کسی حوالے سے مدد کے مستحق ہیں۔ بعد میں یہ فیصلہ کریں گے کہ انہیں اپنے پاؤں پر کیسے کھڑا کیا جا سکتا ہے تاکہ وہ اپنی کمائیں اور خود کھائیں۔ ‘‘ سلمی نے بتایا تو فہد بولا

’’یہ تو بہت اچھا ہے، جب تک ہم خود انحصار نہیں ہوں گے۔ ان جاگیرداروں کے چنگل سے تو نہیں نکل سکتے۔ ‘‘

’’مسئلہ بھی تو یہیں ہے نا۔ ان کے چنگل سے نکل کر خود انحصاری تک کے درمیان سہارے کی ضرورت ہے، اس پر ہمیں سوچنا ہے۔ اور ان کے لیے کچھ کرنا ہے۔ ‘‘ سلمی نے گہری سنجیدگی سے کہا تو صفیہ نے پوچھا

’’میں چائے بناؤں آپ کے لیے؟‘‘

’’ہاں۔ !بناؤ۔ لیکن ذرا جلدی۔ میں نے ابھی نور پور کے لیے نکلنا ہے۔ یہ استاد جی کدھر ہیں ؟‘‘

’’ساتھ والے گاؤں ، اپنے کسی دوست کے پاس گئے ہیں۔ آپ کہاں گئے ہوئے تھے۔ ‘‘ سلمی نے پوچھا تو صفیہ ان کے پاس سے اٹھ کر کچن کی طرف چلی گئی۔

’’جیسا کام تم کر رہی ہو، ویسا ہی میں کر رہا ہوں۔ دیکھو میں نے چاچے عمر حیات کی زمین اس لیے خریدی ہے کہ اس پر فیکٹری لگاؤں۔ تاکہ لوگوں کو روزگار ملے اور وہ خود انحصار ہو کر چوہدریوں کے چنگل سے نکل آئیں۔ ‘‘ فہد نے کہا توسلمی بولی

’’فیکٹری لگانا کوئی معمولی بات ہے، اس کے لیے بڑا سرمایہ چاہئے؟‘‘

’’میرے پاس اتنا سرمایہ ہے کہ ایک کی بجائے دس فیکٹریاں یہاں لگا لوں۔ مگر میں چاہتا ہوں کہ یہاں کے لوگ بھی میرے ساتھ شامل ہو جائیں۔ ‘‘ فہد نے جواب دیا تو سلمی نے جلدی سے پوچھا

’’وہ کیوں ؟‘‘

’’شیخ آفتاب نے بہت کوشش کی فیکٹری لگانے کی مگر چوہدری نے اس کی چلنے نہیں دی۔ وہ سرمایہ اٹھا کر پھرتا رہا لیکن کسی نے زمین نہ دی۔ اب میں نے زمین خریدی ہے تو میرے ساتھ پارٹنر بننا چاہتا ہے۔ میرے ساتھ مقامی لوگ ہوں گے تو میری ہی قوت میں اضافہ ہو گا نا۔ صبح سے اسی کے ساتھ تھا۔ اب بات آئی سمجھ میں۔ ‘‘

’’جی سمجھ گئی۔ ‘‘ سلمی نے مسکراتے ہوئے کہا تو فہد لسٹ اٹھا کر پڑھنے لگا۔

٭٭

 

حویلی کے ڈرائینگ روم میں بشریٰ بیگم بیٹھی ہوئی تھی۔ رانی اس کے لیے چائے کا مگ لے آئی تورانی نے وہ مگ اسے تھماتے ہوئے کہا

’’یہ لیں بیگم صاحبہ۔ !‘‘

’’ کبیر کہاں ہے؟ ابھی تیار نہیں ہوا؟‘‘ بشریٰ بیگم نے مگ پکڑتے ہوئے پوچھا تو رانی بولی

’’وہ جی، تیار ہو کر ادھر ہی آ رہے ہیں۔ ‘‘

لفظ اس کے منہ ہی میں تھے کہ چوہدری کبیر اندر سے وہیں آ گیا۔ بشریٰ بیگم نے چائے کا سپ لے کر مگ رکھ دیا اور کبیر کی طرف دیکھ کو بولی، ’’کدھر جا رہے ہو؟‘‘

’’ڈیرے پر۔ ‘‘ اس نے کہا اور پھر اپنی ماں کی طرف دیکھ کر بولا، ’’کیوں خیر ہے ماں ، جو آپ ایسے پوچھ رہی ہیں آج؟‘‘

’’میں نے تم سے بات کرنی ہے۔ بیٹھو۔ ‘‘

کہیں۔ !‘‘ یہ کہہ کر وہ پاس پڑی کرسی پر بیٹھ گیا تو بشریٰ بیگم نے اس کی طرف دیکھ کر کہا

’’ تیرے بابا سے میری بات ہوئی تھی۔ وہ تمہاری اس سلمٰی کا نام بھی نہیں سننا چاہتے۔ وہ جانتے ہیں کہ تم صرف ضد میں آ کر اسے اپنی دلہن بنانا چاہتے ہو۔ اس لیے۔۔۔‘‘

بشریٰ بیگم نے کہنا چاہا تو چوہدری کبیرمسکراتے ہوئے ہولے سے بولا

’’ماں ، میں نے ضد کی ہے یا خواہش، میری دلہن سلمی ہی بنے گی، کوئی دوسری نہیں۔ ‘‘

’’تم کون ہوتے ہو اکیلے فیصلہ کرنے والے جو فیصلہ چوہدری صاحب کریں گے وہی ہو گا۔ ‘‘ بشریٰ بیگم نے غصے میں پوچھا تو چوہدری کبیر سکون سے بولا

’’ماں تو بہت بھولی ہے، شادی اس سے میں نے کرنی ہے فیصلہ بھی میرا ہی ہو گا۔ ‘‘

’’تو پاگل ہو گیا ہے۔ جو میں کہہ رہی ہوں۔ تم اسے سمجھنے کی کوشش کیوں نہیں کر رہے ہو۔ کیوں فضول بحث کرتے ہو۔ ‘‘ وہ اکتاتے ہوئے بولی تو چوہدری کبیر نے جذباتی انداز میں کہا

’’ماں آپ نہیں جانتی ہو۔ وہ میرے لیے کیا ہے۔ ‘‘

’’کیا ہے وہ تمہارے لیے، ذرا مجھے بھی تو معلوم ہو میں اس۔۔۔‘‘ بشریٰ بیگم نے حیرت سے پوچھا تو وہ مزید کہنا چاہتی تھی تو اس نے انگلی کھڑی کر کے اسے خاموش رہنے کا اشارہ کر دیا۔ وہ حیرت اور غصے میں اسے دیکھتی رہی۔ چوہدری کبیر مسکراتا ہوا اٹھ کر بیرونی دروازہ عبور کر گیا۔ رانی اسے جاتا ہوا دیکھتی رہی۔

دوپہر سے ذرا پہلے چوہدری جلال صوفے پر بیٹھا سوچ رہا تھا۔ چند لمحے بعد منشی فضل دین وہاں آ گیا۔ وہ چوہدری کی جانب متوجہ ہو کر بولا

’’چوہدری صاحب۔ !آپ تک جو خبر پہنچی ہے وہ ٹھیک ہے۔ میں نے تصدیق کر لی ہے۔ سیٹھ آفتاب نے وہ جگہ اپنی فیکٹریوں کے لیے پسند کر لی ہے۔ جو فہد نے عمر حیات سے خریدی ہے۔ ‘‘

’’اس کا مطلب ہے سیٹھ آفتاب اب بھی اپنی ضد پر قائم ہے۔ وہ یہاں فیکٹریاں لگانا اب تک نہیں بھولا۔ ‘‘ چوہدری جلال نے حقارت سے کہا تو منشی بولا

’’لگتا تو یہی ہے۔ کیونکہ اس نے زمین پسند کر کے فہد سے بات کر لی ہے۔ ‘‘

’’منشی۔ !جب تک یہ فہد یہاں نہیں آیا ان لوگوں کی ہمت نہیں پڑی کہ وہ میری مرضی کے بغیر یہاں فیکٹریاں لگانے کا سوچ سکیں۔ اس فہد نے انہیں رستہ دے دیا ہے۔ یہ ہمارے لیے اچھا نہیں ہے۔ ‘‘ چوہدری جلال نے سوچتے ہوئے کہا

’’سچی بات تو یہ ہے چوہدری صاحب۔ !آپ نے شروع ہی سے فہد کے بارے میں غلط اندازہ لگایا۔ نکا چوہدری ٹھیک کہتا تھا۔ اسے یہاں پیر جمانے ہی دینا چاہیں تھے۔ وہ کھلے عام لوگوں کو آپ کے بارے میں بھڑکا رہا ہے۔ اس کا وجود ہمارے لیے بہت بڑا خطرہ بن گیا ہے چوہدری صاحب۔ ‘‘ منشی نے اسے باور کرایا

’’تم ٹھیک کہتے ہو۔ وہ ہمیں ہر طرح سے زچ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ میں اب سمجھا ہوں کہ وہ ہم سے کس طرح انتقام لینا چاہتا ہے۔ اب اسے یہاں نہیں رہنا چاہئے۔ ‘‘ چوہدری جلال نے سر ہلاتے ہوئے کہا

’’تو پھر جتنی جلدی ہو سکے، اس کا کام ہو جانا چاہئے، ورنہ مشکل پیدا کرتا چلا جائے گا وہ ہمارے لئے۔ ‘‘ منشی نے بڑی خطرناک صلاح دی تو چوہدری جلال اس کی ہاں میں ہاں ملاتا ہوا بولا

’’ہاں۔ !اب اس کا بندوبست کرنا ہی پڑے گا اس پر ایسے ہاتھ ڈالنا ہے کہ وہ پھڑک نہ سکے۔ ‘‘

’’لیکن آپ پہلے نکے چوہدری والا معاملہ دیکھ لیں۔ ‘‘ منشی نے یاد دلایا تو چوہدری جلال کو یاد آ گیا

’’وہ نعمت علی سے پوچھو، اگر اس کی بہو نہیں مانتی تو۔۔۔‘‘

’’میں سمجھ گیا، ان کا یہی حل ہے لیکن اگر میں کہوں کہ فہد ہی جو اس مسئلے کا جڑ ہے تو۔۔۔‘‘ منشی نے سوالیہ نشان چھوڑ دیا تو چوہدری جلال لمحہ بھر توقف کے بعد بولا’’اس کے بارے میں نے سوچ لیا ہے۔ بس چند دن مزید ہیں۔ ہاں ڈرائیو رسے کہو گاڑی نکالے۔ نور پور پر جانا ہے۔ ‘‘

منشی نے حکم سن کر اپنا سر ہلایا اور جلدی سے باہر کی جانب چلا گیا۔

سہ پہر کے وقت چوہدری جلال اور بشریٰ بیگم دونوں لان میں تھے۔ چوہدری کبیر دھیرے دھیرے چلتا ہوا ان کے پاس آ کر بیٹھ گیا۔ ان دونوں کے چہرے پر تاثر یہی تھا کہ وہ اس سے کوئی اہم ترین بات کرنا چاہ رہے ہیں۔ اس لئے چوہدری کبیر نے پوچھا

’’جی بابا۔ !آپ نے مجھے بلایا۔ خیریت تو ہے نا۔ ‘‘

’’ ہاں۔ !خیریت ہے اگر تم چاہو تو ورنہ شاید نہ ہو سکے۔ ‘‘ چوہدری جلال نے کسی تاثر کے بغیر کہا

’’کیا مطلب۔ ایسی کیا بات ہو گئی ہے۔ ‘‘ چوہدری کبیر سکون سے بولا تو بشریٰ بیگم نے کہا

’’بات یہ کبیر۔ وقت ایسا آ گیا ہے، جب ہمیں کچھ فیصلے کر لینے چاہیں۔ ورنہ حالات ہمارے ہاتھ سے ریت کی طرح نکل جائیں گے۔ ‘‘

’’ایسا کیا ہو گیا ہے بابا، آپ لوگ کیوں اتنے پریشان ہیں۔ ‘‘ چوہدری کبیر نے حیرت سے پوچھا ’’یہی بات کرنے تمہیں بلایا ہے اور یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ تمہیں معلوم ہے کہ ابھی نذیر کا معاملہ ختم نہیں ہوا اور تم نے ایک نئی ضد شروع کر دی ہے، اور ایسی ضد جسے نہ عقل تسلیم کرتی ہے اور نہ ہماری خاندانی روایات۔ ‘ ‘ چوہدری جلال نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا تو وہ بولا

’’تو میں کون سا اس ماسٹر کی بیٹی کو اس حویلی کی زینت بنانا چاہتا ہوں۔ جس سے ہماری خاندانی روایت ٹوٹ جائے گئی۔ ‘‘

اس نے کہا تو دونوں میاں بیوی چونک گئے۔ تبھی چوہدری جلال نے الجھتے ہوئے پوچھا

’’کیا مطلب۔ !تم کہنا کیا چاہتے ہو؟‘‘

’’میں تو فہد کو ذہنی اذیت چاہتا ہوں میں سلمٰی کو اس حویلی میں نہیں لاؤں گا بلکہ نوکرانی بنا کر نورپور میں رکھوں گا۔ اس کی جرات کیسے ہوئی کہ میرے خلاف نذیر کی بیوی کو بھڑکانے کی۔ ‘‘ چوہدری کبیر نے حقارت سے کہا تو چوہدری جلال نے سوچتے ہوئے کہا

’’ہوں۔ !تو یہ سوچ رہے ہو تمہاری؟‘‘

’’کیونکہ آپ فہد کو زندہ رکھنا چاہتے ہیں۔ ان لوگوں کو صرف فہد کی وجہ سے اتنا حوصلہ ملا ہے کہ وہ ہمارے خلاف سر اٹھا سکیں۔ اور یہ جو حالات ہمارے خلاف ہو رہے ہیں۔ صرف اور صرف اسی وجہ سے ہیں۔ ‘‘ چوہدری کبیر نے اپنے باپ کو دلیل دی

’’کبیر۔ !تم نہیں سمجھتے ہو۔ وقت کا تقاضا یہ ہے کہ اگر اسے راستے سے ہٹاتے ہیں نا تو پھر ہمارے پاس حالات سدھارنے کا بھی موقعہ نہیں رہ جاتا۔ شاید تم نہیں جانتے اس نے بچپن سے لے کر اب تک ہمارے خلاف ہی قوت جمع کی ہے۔ ‘‘چوہدری جلال نے کہا

’’تو پھر فیصلہ کر لیں۔ ہمیں کیا کرنا ہے۔ یوں حالات کے ہاتھ سے نکلتے دیکھتے رہیں یا پھر ان حالات پر قابو پا لیں۔ ‘‘ چوہدری کبیر نے پوچھا چوہدری جلال دھیمے سے لہجے میں بولا

’’ان حالات پر قابو پانا ہی ہو گا کبیر‘‘

’’تو بس پھر، میں جو کرتا ہوں ، مجھے کرنے دیں۔ ‘‘ چوہدری کبیر نے مسکراتے ہوئے کہا تو بشریٰ بیگم تیزی سے خوف زدہ لہجے میں بولی

’’خدارا کچھ ایسا نہ کرنا جو ہمارے لیے نئی مصیبت بن جائے میرے بیٹے، پہلے ہی ہم بہت اذیت سے گذر رہے ہیں بہت ہو چکا یہ خون خرابہ۔ ‘‘

’’ماں۔ !فیصلہ ہو چکا ہے، ‘‘ چوہدری کبیر نے حتمی لہجے میں کہا اور اٹھ کر اندر کی جانب بڑھ گیا۔ بشریٰ بیگم کے چہرے پر اذیت بھرے جذبات ابھر آئے تھے، اسے یہ فیصلہ پسند نہیں آیا تھا۔

اسی شام وکیل جمیل اختر حویلی کے ڈرائنگ روم میں تھا۔ چوہدری جلال نے اسے بلوایا تھا کہ یہ اچانک ملک نعیم کیسے سر اٹھانے لگا ہے، یہاں تک کہ اس کے ساتھ فہد اور شیخ آفتاب جیسے لوگ بھی آن ملے تھے۔ وہ اس سوال کا جواب چاہتا تھا کہ ایسا آخر کیا ہو گیا ہے کہ وہ مضبوط ہو رہے ہیں۔ وہ قدرے غصے میں بات کر رہا تھا

’’یہ سب کیا ہو رہا ہے وکیل صاحب۔ !ہم پرکھوں سے یہاں پر سیاست کر رہے ہیں۔ آج تک علاقے میں ہماری اتنی مخالفت نہیں ہوئی جتنی اب ہو رہی ہے۔ لو گ جگہ جگہ بیٹھ کر ہمارے ہی خلاف باتیں کر رہے ہیں۔ ‘‘

’’چوہدری صاحب۔ !ایسا تبھی ہوتا ہے جب کسی بھی سیاست دان کی اپنے حلقے میں سیاسی گرفت کمزور ہو جائے، مفاد پرست تو کچھ بھی نہ ہونے سے بہت کچھ بنا لیتے ہیں۔ دیکھنا یہی ہو گا کہ سیاسی گرفت کمزور کیوں ہو گئی ؟‘‘ وکیل نے بڑے تحمل سے کہا

’’کیوں ہو گئی آپ سب کا خیال کیا؟‘‘ اس نے بھی کافی حد تک تحمل سے پوچھا

’’یہ لوگ آپ کو کیا بتائیں ، انہوں نے تو وہی کیا ہے جو آپ نے کہا۔ ان کے پاس ووٹ تو ہیں۔ لیکن وہ صلاحیت نہیں جس سے بدلتے ہوئے حالات کا رخ دیکھ سکیں۔ کیا آپ نے علاقے کے ان با اثر لوگوں سے رابطہ رکھا۔ جو اپنے طور پر چھوٹی چھوٹی قومیں ہیں۔ ‘‘ وکیل نے پوچھا

’’آپ کیسی باتیں کر رہے ہیں وکیل صاحب۔ نور پور کے چھوٹے موٹے کاموں سے لے کر اسمبلی تک چھوٹے بڑے اداروں میں ان کے کام نکلوائے ہیں۔ سفارشیں کی ہیں۔ نوکریاں دلوائیں ہیں جائز اور نا جائز سارے کام ہوتے ہیں۔ اور رابطہ کیسے ہوتا ہے۔ ‘‘ چوہدری جلال نے الجھتے ہوئے کہا تو وکیل بولا

’’چوہدری صاحب۔ !میں بار بار عرض کر تا رہا ہوں کہ اب سیاست اور حالات کا رخ بدل گیا ہے۔ اب عوام کو شعور ہے۔ کامیاب وہی ہو گا جو عوامی خدمت کرے گا، اسی کے ہاتھ میں سیاسی گرفت ہو گی۔ ‘‘

’’وکیل صاحب میں آپ کی اسی بات سے اختلاف کرتا آیا ہوں۔ میں چاہوں تو ایک ہی دن میں پانسہ پلٹ کر رکھ دوں بس چند بندوں کو قابو کرنے کی بات ہے یہ نہ عوامی شعور سے ہو گا اور نہ عوامی خدمت سے۔ میرے خیال میں اصل معاملہ یہ ہے کہ مفاد پرست لوگ سیاسی بلیک میلنگ پر اتر آئے ہیں۔ کیا خیال ہے۔ ‘‘

یہ سن کر وکیل کا چہرہ اتر گیا۔ اس نے تحمل سے کہا

’’آپ درست کہہ رہے ہیں۔ لیکن غلط میں بھی نہیں کہہ رہا۔ علاقے کی چھوٹی چھوٹی قوتوں کو ساتھ لے کر ہی چلنا ہو گا۔ ‘‘

’’آپ کا کیا خیال ہے۔ ملک نعیم یہ جو اپنے ہونے کا ناکام ثبوت دے رہا ہے۔ میں اس سے گھبرا جاؤں۔ آپ اپنا گروپ مضبوط کریں۔ میں علاقے کی سیاست کو خود دیکھتا ہوں۔ ‘‘ چوہدری جلال نے کہا تو وکیل بولا

’’جیسے آپ کی مرضی۔ میں آپ کو نور پور کی صورت حال بارے بتا دیتا ہوں ، پھر جیسا آپ کہیں ، ویسا ہی ہو گا‘‘

وہ دونوں باتیں کرنے لگے۔

وکیل چلا گیا تو چوہدری جلال نے بہت دیر تک سوچتا رہا۔ اسے اپنی تمام تر مشکلات کی وجہ صرف اور صرف فہد ہی لگا۔ اس کے یہاں آنے ہی سے حالات اس کے قابو میں نہیں رہے تھے۔ اس سے پہلے کہ سب کچھ اس کے ہاتھ سے نکل جائے، اس نے فہد ہی کو راستے سے ہٹانے کا فیصلہ کر لیا۔ اسی رات چوہدری جلال اپنے ڈیرے پر جا پہنچا۔ جیسے ہی اس کی گاڑی رکی اس کے پیچھے ہی ایک اور کار آن رکی۔ اس میں سے ایک نوجوان نکلا، جس نے جین اور لیدر جیکٹ پہنی ہوئی تھی۔ اس کا چہرہ کافی حد تک ڈھکا ہوا تھا۔ چوہدری جلال نے اس کی طرف غیر جذباتی انداز میں دیکھا تو کاشی نے مسکراتے ہوئے اس سے ہاتھ ملایا۔ چوہدری جلال نے غیر جذباتی انداز میں کہا

’’بہت عرصے بعد ملاقات ہوئی ہے کاشی۔ ‘‘

’’آپ نے یاد ہی اتنے عرصے بعد کیا ہے۔ اس دوران آپ کو کام نہیں پڑا، آج کام پڑا تو آپ نے بلوا لیا۔ ‘‘ کاشی نے اس کی طرف بہت سنجیدگی سے جواب دیا

’’ہاں تمہاری یاد، خیر معاملہ ہی کچھ ایسا آ پڑا ہے، میں تو سیدھے سیدھے اس کا حل کر لیتا لیکن یہ سیاست درمیان میں آ گئی۔ ووٹوں کی فکر میں معاملہ ہاتھ سے نکلتا جا رہا ہے۔ ‘‘

چوہدری جلال نے اپنی الجھن بتائی تو کاشی سکون سے بولا

’’ ہم کس لئے ہیں چوہدری صاحب، ہم حاضر ہیں۔ بولیں ، آپ کے مقابلے میں کوئی اور سیاست دان آ گیا ہے کیا؟‘‘

’’ایک چھوٹا سا سیاست دان تو پہلے ہی تھا لیکن اس کے علاوہ ایک غیر اہم سا بندہ ہے جسے شروع میں نے اہمیت ہی نہیں دی تھی۔ اب وہ دردسر بن گیا ہے۔ ‘‘ چوہدری نے کہا تو کاشی لاپرواہی سے بولا

’’اب میں آ گیا ہوں نا، سکون ہو جائے گا۔ کہیں تو آج رات ہی اس کا کام کر دیتا ہوں۔ ‘‘

’’نہیں۔ !اتنی بھی جلدی نہیں ہے۔ تم آؤ نا، سکون سے بیٹھ کر بات کرتے ہیں۔ معاملہ یہاں کا ہی نہیں نور پور کا بھی ہے۔ میں تمہیں تفصیل سے سمجھا دیتا ہوں۔ آؤ۔ ‘‘ چوہدری جلال نے کہا اور کاشی کو لے کر اندر کی جانب بڑھ گیا

٭٭٭

 

تشکر: مصنف جنہوں نے فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید