FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

دوڑ

               ممتا کالیا

ہندی سے ترجمہ: اعجاز عبید

 

وہ اپنے آفس میں گھسا۔ شائد اس وقت بجلی کی کٹوتی شروع ہو گئی تھی۔ مین ہال میں امرجینسی ٹیوب لائٹ جل رہی تھی۔ وہ اس کے سہارے اپنے کیبن تک آیا۔ اندھیرے میں میز پر رکھے کمپیوٹر کی ایک بد شکل سی سلئیوٹ بن رہی تھی۔ فون، انٹر کام سب بے جان لگ رہے تھے۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے ساری فطرت بے ہوش پڑی ہے۔

بجلی کے رہتے یہ چھوٹا سا کمرہ اس کی سلطنت ہوتا ہے۔ تھوڑی دیر میں آنکھ اندھیرے کی عادی ہوئی تو میز پر پڑا ماؤس بھی نظر آیا۔ وہ بھی بے حرکت تھا۔ پون کو ہنسی آ گئی، نام ہے چوہا پر کوئی شرارت نہیں۔ بجلی کے بنا پلاسٹک کا ننھا سا کھلونا ہے بس۔

"بولو چوہے کچھ تو کرو، چوں چوں ہی صحیح،” اس نے کہا۔ چوہا پھر بھی بیجان پڑا رہا۔

پون کو یکایک اپنا چھوٹا بھائی سگھن یاد آیا۔ رات میں بسکٹوں کی تلاش میں وہ دونوں رسوئی گھر میں جاتے۔ رسوئی میں نالی کے راستے بڑے بڑے چوہے دوڑ لگاتے رہتے۔ انہیں بڑا ڈر لگتا۔ رسوئی کا دروازہ کھول کر بجلی جلاتے ہوئے چھوٹو لگاتار میاؤں میاؤں کی آوازیں منھ سے نکالتا رہتا کہ چوہے یہ سمجھیں کہ رسوئی میں بلی آ پہنچی ہے اور وہ ڈر کر بھاگ جائیں۔ چھوٹو کا جنم بھی ’مارجار یونی‘ کا ہے۔

پون زیادہ دیر ان یادوں میں نہیں رہ پایا۔ ایکا ایک بجلی آ گئی، اندھیرے کے بعد چکا چوند کرتی بجلی کے ساتھ ہی آفس میں جیسے زندگی لوٹ آئی۔

داتار نے ہاٹ پلیٹ پر کافی کا پانی چڑھا دیا، بابو بھائی زیراکس مشین میں کاغذ لگانے لگے اور شلپا کابرہ اپنی ٹیبل سے اٹھ کر ناچتی ہوئی سی چتریش کی ٹیبل تک گئی۔ "یو نو ہمیں نرولاز کا کانٹریکٹ مل گیا۔”

پون پانڈے کو اس نئے شہر اور اپنی نئی نوکری پر ناز ہو گیا۔ اب دیکھیئے بجلی چار بجے گئی، ٹھیک ساڑھے چار بجے آ گئی۔ پورے شہر کو ٹائم زون میں بانٹ دیا ہے، صرف آدھا گھنٹے کے لئے بجلی گل کی جاتی ہے، پھر اگلے جون میں آدھا گھنٹہ۔ اس طرح کسی بھی علاقے پر زور نہیں پڑتا۔ نہیں تو اس کے پرانے شہر یعنی الہ آباد میں تو یہ عالم تھا کہ اگر بجلی چلی گئی تو تین تین دن تک آنے کے نام نہ لے۔ بجلی جاتے ہی چھوٹو کہتا۔ "بھیا، ٹرانسفارمر دھڑام بولا تھا، ہم نے سنا ہے۔”

امتحان کے دنوں میں ہی شادی بیاہ کا موسم ہوتا۔ جیسے ہی محلے کی بجلی پر زیادہ زور پڑتا، بجلی فیل ہو جاتی۔ پون جھنجھلاتا۔ "ماں، ابھی تین چیپٹر باقی ہیں، کیسے پڑھوں۔” ماں اس کی ٹیبل کے چار کونوں پر چار موم بتیاں لگا دیتی اور بیچ میں رکھ دیتی، اس کی کتاب۔ ایک نئے تجربے کی امنگ میں پون، بجلی جانے پر اور بھی اچھی طرح پڑھائی کر ڈالتا۔پون نے اپنی ٹیبل پر بیٹھے بیٹھے دانت پیسے۔ یہ بےوقوف لڑکی ہمیشہ غلط آدمی سے مخاطب رہتی ہے۔ اسے کیا پتہ کہ چتریش کی چوبیس تاریخ کو نوکری سے چھٹی ہونے والی ہے۔ اس نے دو جمپس مانگے تھے، کمپنی نے اسے جمپ آؤٹ کرنا ہی بہتر سمجھا۔ اس وقت تلواریں دونوں طرف کی تنی ہوئی ہیں۔ چتریش کو جواب ملا نہیں ہے پر اسے اتنا اندازہ ہے کہ معاملہ کہیں پھنس گیا ہے۔ اسی لئے پچھلے ہفتے اس نے ایشین پینٹس میں انٹرویو بھی دے دیا۔ ایشین پینٹس کا ایریا منیجر پون کو نرولاز میں ملا تھا اور اس سے دون کی لے رہا تھا کہ تمہاری کمپنی چھوڑ چھوڑ کر لوگ ہمارے یہاں آتے ہیں۔ پون نے چتریش کی سفارش کر دی تاکہ چتریش کا جو فائدہ ہونا ہے وہ تو ہو، اس کی کمپنی کے سر پر سے یہ سردرد ہٹے۔ وہیں اسے یہ بھی خبر ہوئی کہ نرولاز میں روز بیس سلینڈر کی کھپت ہے۔ آئی۔او۔ سی اپنے ایجنٹ کے ذریعے ان پر دباؤ بنائے ہوئی ہے کہ وہ سال بھر کا کنٹراکٹ ان سے کر لیں۔ گرجر گیس نے بھی عرضی لگا رکھی ہے۔ آئی۔او۔ سی کی گیس کم دام کی ہے۔ امکان تو یہی ہے کہ ان کے ایجنٹ شاہ اینڈ سیٹھ لنٹراکٹ پا جائیں گے پر ایک چیز پر بات اٹکی ہے۔ کئی بار ان کے یہاں مال کی سپلائی ٹھپ پڑ جاتی ہے۔ پبلک سیکٹر کے سو جھگڑے۔ کبھی کارندوں کی ہڑتال تو کبھی ٹرک ڈرائیوروں کی شرطیں۔ ان کے مقابلے گرجر گیس میں مانگ اور فراہمی کے بیچ ایسا توازن رہتا ہے کہ ان کا دعویٰ ہے کہ ان کا ادارہ مطمئن کنزیومرس کی دنیا ہے۔

چھوٹو اسی بہانے بجلی گھر کے چار چکر لگا آتا۔ اسے چھٹپن سے بازار گھومنے کا چسکا تھا۔ گھر کا چھوٹا موٹا سودا لانے، پوسٹ آفس، بجلی گھر کے چکر لگانے میں یہ شوق اب لت میں بدل گیا تھا۔ امتحانوں کے دنوں میں بھی وہ کبھی نئی پینسل خریدنے کے بہانے تو کبھی یونیفارم استری کروانے کے بہانے گھر سے غائب رہتا۔ جاتے ہوئے کہتا۔ "ہم ابھی آتے ہیں۔” لیکن اس سے یہ نہ پتہ چلتا کہ حضرت جا کہاں رہے ہیں۔ جیسے مراٹھی میں، گھر سے جاتے ہوئے مہمان یہ نہیں کہتا کہ میں جا رہا ہوں، وہ کہتا ہے "می ییتو” یعنی میں آتا ہوں۔ یہاں گجرات میں اور مزے کا رواج ہے۔ گھر سے مہمان وداع لیتا ہے تو میزبان کہتے ہیں۔ "آؤ جو۔” یعنی پھر آنا۔

یہ ٹھیک ہے کہ پون گھر سے اٹھارہ سو کلومیٹر دور آ گیا ہے۔ پر ایم۔اے کے بعد کہیں نہ کہیں تو اسے جانا ہی تھا۔ اس کے ماں باپ یہ ضرور چاہتے تھے کہ وہ وہیں ان کے پاس رہ کر نوکری کرے پر اس نے کہا۔ "پاپا، یہاں میرے لائق سروس کہاں؟ یہ تو بیروزگاروں کا شہر ہے۔ زیادہ سے زیادہ نورانی تیل کی مارکیٹنگ مل جائے گی۔” ماں باپ سمجھ گئے تھے کہ ان کا آسمان چھونے والا بیٹا کہیں اور بسے گا۔

پھر یہ نوکری پوری طرح پون نے خود ڈھونڈی تھی۔ ایم۔ اے فائنل کی جنوری میں جو چار پانچ کمپنیاں ان کے کالج میں آئیں، ان میں بھائی لال بھی تھی۔ پون پہلے دن پہلے انٹرویو میں ہی چن لیا گیا۔ بھائی لال کمپنی نے اسے اپنی ایل۔پی۔ جی۔ یونٹ میں ٹرینی اسسٹینٹ منیجر بنا لیا۔ ادارے کا قانون تھا کہ اگر ایک نوکری میں کسی طالب علم کا انتخاب ہو جائے تو وہ باقی کے تین انٹرویو نہیں دے سکتا۔ اس سے زیادہ سے زیادہ طلباء کو موقع مل سکتا تھا۔ اور کیمپس میں آپسی مقابلے کی ہوڑ میں کمی آئی تھی۔۔ پون کو بعد میں یہی افسوس رہا کہ اسے پتہ ہی نہیں چلا کہ اس کے کالج میں وپرو، ایپل اور بی۔پی۔ سی۔ ایل جیسی کمپنیاں بھی آئی تھیں۔ فی الحال اسے یہاں کوئی شکایت نہیں تھی۔ اپنے دوسرے کامیاب ساتھیوں کی طرح اس نے سوچ رکھا تھا کہ اگر ایک ہی سال کے اندر اگر اسے تنخواہ میں اضافہ یا ہائر گریڈ نہیں دیا گیا تو وہ یہ کمپنی چھوڑ دے گا۔

سی۔ پی۔ روڈ چوراہے پر کھڑے ہو کے اس نے دیکھا، سامنے سے شرد جین جا رہا ہے۔ یہ ایک اتفاق ہی تھا کہ وہ دونوں الہ آباد میں سکول سے ساتھ پڑھے اور اب دونوں کو احمدآباد میں نوکری ملی۔ بیچ میں دو سال شرد نے آئی۔اے ایس کے مقابلہ جاتی امتحان میں برباد کئے، پھر کپٹیشن فیس دے کر سیدھے آئی۔ایم۔اے احمدآباد میں داخلہ لے لیا۔

اس نے شرد کو روکا۔

 "کہاں؟”

"یار پزا ہٹ چلتے ہیں، بھوک لگ رہی ہے۔”

وہ دونوں پزا ہٹ میں جا بیٹھے۔ پزا ہٹ ہمیشہ کی طرح لڑکے لڑکیوں سے گلزار تھا۔ پون نے کوپن لئے اور کاؤنٹر پر دے دیئے۔

شرد نے جھجھکتے ہوئے کہا۔ "میں تو جین پزا لوں گا۔ تم جو چاہے کھاؤ۔”

"رہے تم وہیں کے وہیں سالے۔ پجز کھاتے ہوئے بھی جین ازم نہیں چھوڑیں گے۔”

احمدآباد میں ہر جگہ مینو کارڈ میں باقاعدہ جین کھانے شامل رہتے جیسے جین پزا، جین آملیٹ، جین برگر۔

پون کھانے کے معاملے میں آزاد خیال تھا۔ اس کا ماننا تھا کہ ہر کھانے کی ایک خاصیت ہوتی ہے۔ اسے اسی انداز میں کھایا جانا چاہئیے۔ اسے کسی قسم کی ملاوٹ سے چڑھ تھی۔

مینو کارڈ میں جین پزا کے آگے اس میں پڑنے والی چیزوں کا خلاصہ بھی دیا تھا، ٹماٹر، شملہ مرچ، پتّہ گوبھی اور تیکھی میٹھی چٹنی۔

شرد نے کہا۔ "کوئی خاص فرق تو نہیں ہے، صرف چکن کی چار پانچ کترن اس میں نہیں ہوگی، اور کیا؟”

"ساری لذت تو ان کترنوں کی ہے، یار۔” پون ہنسا۔

"میں نے ایک دو بار کوشش کی پر کامیاب نہیں ہوا۔ رات بھر لگتا رہا جیسے پیٹ میں مرغا بول رہا ہے ککڑوں کوں۔”

"تمھیں جیسوں سے مہاتما گاندھی آج بھی سانسیں لے رہے ہیں۔ ان کے پیٹ میں بکرا میں میں کرتا تھا۔” شرد نے ویٹر کو بلا کر پوچھا۔ "کون سا پزا زیادہ بکتا ہے یہاں۔”

"جین پزا۔” ویٹر نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔

"دیکھ لیا،” شرد بولا۔ "پون، تم اس کو ایپرشئیٹ کرو کہ سات سمندر پار کی ڈش کو پہلے ہم انڈینائز کرتے ہیں، پھر کھاتے ہیں۔ گھر میں ممی بیسن کا ایسا لذیذ آملیٹ بنا کر کھلاتی ہیں کہ انڈا اس کے آگے پانی بھرے۔”

"میں تو جب سے گجرات آیا ہوں بیسن ہی کھا رہا ہوں۔ پتہ ہے بیسن کو یہاں کیا بولتے ہیں ؟ چنے کا لوٹ۔”

پتہ نہیں یہ جین دھرم کا اثر تھا یا گاندھی واد کا، گجرات میں گوشت، مچھلی اور انڈے کی دوکانیں مشکل سے دیکھنے میں آتیں۔ ہوسٹل میں رہنے کی وجہ سےپون کے لئے انڈا ناشتے میں لازمی تھا پر یہاں صرف اسٹیشن کے آس پاس ہی انڈا ملتا۔ وہیں تلی ہوئی مچھلی کی بھی گنی چنی دوکانیں تھیں۔ پر اکثر میم نگر سے اسٹیشن تک آنے کی اور ٹریفک میں پھنسنے کی اس کی خواہش نہیں ہوتی۔ تب وہ کسی اچھے ریستوراں میں نان ویجی ٹیرئن کھا کر اپنی طلب پوری کرتا۔

وہ اپنے پرانے دن یاد کرتے رہے، دونوں کے بیچ میں لڑکپن کی بیشمار بیوقوفیاں کامن تھیں اور پڑھائی کی جد و جہد۔

پون نے کہا۔ "پہلے دن جب تم امداباد آئے تب کی بات بتانا ذرا۔”

"تم کبھی امداباد کہتے ہو کبھی احمدآباد، یہ چکر کیا ہے۔”

"ایسا ہے اپنا گجراتی کلاینٹ احمدآباد کو امداباد ہی بولنا مانگتا، تو اپن بھی ایسائچ بولنے کا۔”

"میں کہتا ہوں یہ ایک دم بیوپاری شہر ہے، سو فی صد۔ میں چالیس گھنٹے کے سفر کے بعد یہاں اترا۔ ایک تھری وہیلر والے سے پوچھا۔ "آئی۔اے۔ ایم۔ چلو گے ؟” کدر بولنے سے” اس نے پوچھا۔ میں نے کہا۔ "بھائی، وسترا پور میں جہاں مینیجری کی پڑھائی ہوتی ہے، اسی جگہ جانا ہے۔” تو جانتے ہو سالا کیا بولا، ٹو ہنڈریڈ بھاڑا لگے گا۔ میں نے کہا، تمہارا دماغ تو ٹھیک ہے۔ اس نے کہا۔ "صاب آپ ادر سے پڑھ کر بیس ہزار کی نوکری پاؤ گے، میرے کو ٹو ہنڈریڈ دینا آپ کو زیادہ لگتا کیا ؟”

"تمہارا سر گھوم گیا تھا؟”

"بائی گاڈ۔ مجھے لگا وہ ایک دم ٹھگو ہے۔ پر جس بھی تھری وہیلر والے سے میں نے بات کی سب نے یہی ریٹ بتایا۔”

"مجھے یاد ہے، شام کو تم نے مجھ سے مل کر سب سے پہلے یہی بات بتائی تھی۔”

"سچی بات تو یہ ہے کہ اپنے گھر اور شہر سے باہر آدمی ہر روز ایک نیا سبق سیکھتا ہے۔”

"اور بتاؤ، جاب ٹھیک چل رہا ہے؟”

"ٹھیک کیا یار، میں نے کمپنی ہی غلط چن لی۔”

"بینر تو بڑا اچھا ہے، سٹارٹ بھی اچھا دیا ہے؟”

"پر پراڈکٹ بھی دیکھو۔ بوٹ پالش۔ حالت یہ ہے کہ ہندستان میں صرف دس فی صدی لوگ چمڑے کے جوتے پہنتے ہیں۔”

"باقی نوے کیا ننگے پیر پھرتے ہیں؟”

"مذاق نہیں، باقی لوگ چپل پہنتے ہیں یا فوم شوز۔ فوم کے جوتے کپڑوں کی طرح ڈٹرجینٹ سے دھل جاتے ہیں اور چپل چٹکانے والے پالش کے بارے میں کبھی سوچتے نہیں۔ پالش بکے تو کیسے؟”

پون نے غور سے ریسوتراں میں کچھ پیروں کی طرف دیکھا۔ زیادہ تر پیروں میں فوم کے موٹے جوتے تھے۔ کچھ پیروں میں چپلیں تھیں۔

"ابھی ہیڈ آفس سے فیکس آیا ہے کہ مال کی اگلی کھیپ بھجوا رہے ہیں۔ ابھی پچھلا مال بکا نہیں ہے۔ دوکاندار کہتے ہیں وہ اور زیادہ مال سٹور نہیں کریں گے، ان کے یہاں جگہ کی قلت ہے۔ ایسے میں میری سنشائن شو پالش کیا کریں؟”

"ڈیلر کو کوئی گفٹ آفر دو، تو وہ مال نکالے۔”

"سب کو سنشائن رکھنے کے لئے وال ریک دیئے ہیں، ڈیلرس کمیشن بڑھوایا ہے پر میں نے خود کھڑے ہو کر دیکھا ہے، کاؤنٹر سیل نہیں کے برابر ہے۔”

پون نے مشورہ دیا۔ "کوئی ترکیب سوچو۔ کوئی انعامی اسکیم، ہالی ڈے پروگرام؟”

"انعامی اسکیم کا سجھاؤ بھیجا ہے۔ ہمارا ٹارگیٹ کنزیومر سکولی طلباء ہیں۔ اس کی دلچسپی ٹافی یا پین میں ہو سکتی ہے، ہالی ڈے پروگرام میں نہیں۔”

"ہاں، یہ اچھی اسکیم ہے۔”

"بائی گاڈ، اگر پبلک سکولوں میں چمڑے کے جوتے پہننے کا طریقہ نہ ہوتا تو ساری بوٹ پالش کمپنیاں بند ہو جاتیں۔ انھیں کے بوتے پر باٹا، کیوی، بلی، سنشائن سب زندہ ہیں۔”

"اس لحاظ سے میری پراڈکٹ بڑھیا ہے۔ ہر سیزن میں ہر طرح کے آدمی کو گیس سلینڈر کی ضرورت رہتی ہے۔ لیکن یار، جب تھوک میں پراڈکٹ نکالنی ہو، یہ بھی بھاری پڑ جاتی ہے۔”

پون اٹھ کھڑا ہوا۔ "تھوڑی دیر اور بیٹھے تو یہاں ڈنر ٹائم ہو جائے گا۔ تم کہاں کھانا کھاتے ہو آج کل۔”

"وہیں جہاں تم نے بتایا تھا، موسی کے یہاں۔ اور تم؟”

"میں بھی موسی کے یہاں کھاتا ہوں پر میں نے موسی بدل لی ہے۔”

"کیوں؟”

"وہ کیا ہے یار موسی کڑھی اور کریلے میں بھی گڑ ڈال دیتی تھی اور کھانا پروسنے والی اس کی بیٹی کچھ ایسی تھی کہ جھیلی نہیں جاتی تھی۔”

"ہماری والی موسی تو بہت سخت مزاج ہے، کھاتے وقت آپ واک مین بھی نہیں سن سکتے۔ بس کھاؤ اور جاؤ۔”

"یار، کچھ بھی کہو اپنے شہر کا خستہ سموسہ بہت یاد آتا ہے۔”

شہر میں جگہ جگہ گھروں میں خواتین نے ماہواری حساب پر کھانا کھلانے کا انتظام کر رکھا تھا۔ نوکری پیشہ کنوارے نوجوان ان کے گھروں میں جا کر کھانا کھا لیتے۔ روٹی، سبزی، دال اور چاول۔ نہ رایتہ نہ چٹنی نہ سلاد۔ تین سو پچاس روپئے مہینہ، ایک وقت۔ ان عورتوں کو موسی کہا جاتا۔ بھلے ہی ان کی عمر پچیس ہو یا پچاس۔ رات ساڑھے نو کے بعد کھانا نہیں ملتا۔ تب یہ لڑکے اڈپی بھوجنالیہ میں ایک مسالہ دوسا کھا کر سو جاتے۔ اتنی تکلیف میں بھی ان نو جوانوں کو کوئی شکایت نہ ہوتی۔ اپنے ڈھنگ سے رہنے اور جینے کا آنندسب کے اندر۔

گھر گرہستھی والے ساتھی پوچھتے۔ "زندگی کے اس ڈھنگ سے تکلیف نہیں ہوتی؟”

"ہوتی ہے کبھی کبھی۔” انوپم کہتا۔ "سنہ 84 سے باہر ہوں۔ پہلے پڑھنے کی خاطر، اب کام کی۔”

کبھی کبھی چھٹی کے دن انوپم لِٹی چوکھا بناتا۔ باقی لڑکے اسے چڑھاتے۔

"تم انوپم نہیں، انوپما ہو۔” وہ بیلن ہاتھ میں نچاتے ہوئے کہتا۔ "ہم اپنے لالو انکل کو لکھوں گا ادھر میں تم سب بترو ایک سیدھے سادے بہاری کو ستاتے ہو۔”

جب آپ اپنا شہر چھوڑ دیتے ہیں، اپنی شکایتیں بھی وہیں چھوڑ آتے ہیں۔ دوسرے شہر کا ہر منظر پرانی یادوں کو کریدتا ہے۔ من کہتا ہے ایسا کیوں ہے ویسا کیوں نہیں ہے؟ ہر گھر کے آگے ایک عدد ٹاٹا سومو کھڑی ہے۔ ماروتی 800 کیوں نہیں؟ دلیل کی طاقت سے طے کیا جا سکتا ہے کہ یہ اس خاندان کی ضرورت اور معاشی حیثیت کا شناخت نامہ ہے۔ پر یادیں ہیں کہ لوٹ لوٹ آتی ہیں سول لائنس، ایلگن روڈ اور چیتھم لائنس کی سڑکوں پر جہاں ماچس کی ڈبیوں جیسی کاریں اور سٹیرنگ کے پیچھے بیٹھے نمکین چہرے طبیعت تر و تازہ کر جاتے۔ اف، نئے شہر میں سب کچھ نیا ہے۔ یہاں دودھ ملتا ہے پر بھینسیں نہیں نظر آتیں۔ کہیں سائیکل کی گھنٹی ٹنٹناتے دودھ والے نظر نہیں آتے۔ بڑی بڑی سجی سجائی ڈیری شاپ ہیں، اییرکنڈیشنڈ، جہاں قد آدم چمچماتی سٹیل کی ٹنکیوں میں ٹونٹی سے دودھ نکلتا ہے۔ ٹھنڈا، پاسچرائزڈ۔ وہیں ملتا ہے دہی، دودھ، پیڑا اور شری کھنڈ۔

یہی حال ترکاریوں کا ہے۔ ہر کالونی کے گیٹ پر صبح تین چار گھنٹے ایک اونچا ٹھیلا ترکاریوں سے سجا کھڑا رہے گا۔ وہ گھر گھر گھوم کر آواز نہیں لگاتا۔ استریاں اس کے پاس جائیں گی اور خریداری کریں گی۔ اس کے ٹھیلے پر خاص اور عام ترکاریوں کا انبار لگا ہے۔ ہری شملہ مرچ ہے تو لال اور پیلی بھی۔ گوبھی ہے تو بروکولی بھی۔ سلاد کی شکل کا تھائی کیبیج بھی دکھائی دے جاتا ہے۔ خاص ترکاریوں میں کسی کی بھی قیمت ڈیڑھ دو سو روپئے کلو سے کم نہیں۔ یہ بڑے بڑے لال ٹماٹر ایک طرف رکھے ہیں کہ دور سے دیکھنے پر پلاسٹک کی گیند لگتے ہیں۔ یہ ٹماٹر کیاری میں نہیں،لیب میں اگائے گئے لگتے ہیں۔ قیمت دس روپئے پاؤ۔ ٹماٹر کا سائزاتنا بڑا ہے کہ ایک پؤ میں ایک ہی چڑھ سکتا ہے۔ دس روپئے کا ایک ٹماٹر ہے۔ بھگوان، کیا ٹماٹر بھی این۔آر۔ آئی۔ ہو گیا۔ شکاگو میں ایک ڈالر کا ایک ٹماٹر ملتا ہے۔ ہندوستان میں بھی ٹماٹر اسی سمت میں بڑھ رہا ہے۔ ترکاریاں عالمی بازار کی جنس بنتی جا رہی ہیں۔ ان کا گلوبلائزیشن ہو رہا ہے۔ پون کو یاد آتا ہے اس کے شہر میں گھورے پر بھی ٹماٹر اگ جاتا تھا۔ کسی نے پکا ٹماٹر کوڑے کرکٹ کے ڈھیر پر پھینک دیا، وہیں پودا لہلہا اٹھا۔ دو ماہ بیتتے نہ بیتتے اس میں پھل لگ جاتے۔ چھوٹے چھوٹے لال ٹماٹر، رس سے بھرے، یہاں جیسے بڑے بے جان اور بناوٹی نہیں، اصل اور کھٹ مٹھے۔

شہر کے بازاروں میں گھومنا پون، شرد، دیپیندر، روجوندر اور شلپا کا شوق بھی ہے اور روز مرہ کا عمل بھی۔ روجوندر کور پالیوشن پر پروجیکٹ رپورٹ تیار کر رہی ہے۔ کندھے پر پرس اور کیمرہ لٹکائے کبھی وہ ایلس برج کے ٹریفک جام کی تصویر اتارتی ہے تو کبھی بازار میں جنریٹر سے نکلنے والے دھوئیں کا جائزہ لیتی ہے۔

دیپیندر کہتا ہے۔ "روجو تمہاری رپورٹ سے کیا ہوگا۔ کیا ٹیمپو اور جینریٹر دھواں چھوڑنا بند کر دیں گے؟”

روجو سگریٹ کا آخری کش لے کر اس کا ٹوٹا پیر کے نیچے کچلتی ہے۔ "مائی فٹ ! تم تو میرے جاب کو ہی چیلینج کر رہے ہو۔ میری کمپنی کو اس سے مطلب نہیں ہے کہ گاڑیاں دھوئیں کے بغیر چلیں۔ اس کا منصوبہ ہے کہ ہوا صاف کرنے کی مشینیں بنانے کی۔ ایک ہربل سپرے بھی بنانے والی ہے۔ اسے ایک بار ناک کے پاس سپرے کر لو تو دھوئیں کا پالیوشن آپ کی سانس کے راستے اندر نہیں جاتا۔”

"اور جو پالیوشن آنکھ اور منھ کے راستے جائے گا وہ؟”

"تو منھ بند رکھو اور آنکھ میں ڈالنے کو آئی ڈراپ لے آؤ۔”

پون کے منھ سے نکل جاتا ہے۔ "میرے شہر میں پالیوشن نہیں ہے۔”

"آ ہا ہا، پوری دنیا میں پالیوشن زیر غور آ رہا ہے اور یہ پون کمار آ رہے ہیں سیدھے سورگ سے کہ وہاں پالیوشن نہیں ہیں۔ تم الہ آباد کے بارے میں رومانٹک ہونا کب چھوڑو گے؟”

روجو ہنستی ہے۔ "واٹ ہی مینس از وہاں پالیوشن کم ہے۔ ویسے پون میں نے سنا ہے یو۔پی۔ میں ابھی بھی کچن میں لکڑی کے چولہے پر کھانا بنتا ہے۔ تب تو وہاں گھر کے اندر ہی دھواں بھر جاتا ہوگا؟”

"الہ آباد گاؤں نہیں شہر ہے، کاول ٹاؤن۔ تعلیم کی دنیا میں اسے مشرق کا آکسفورڈ کہتے ہیں۔” شلپا کابرہ بات چیت میں وقفہ دیتی ہے۔

 "ٹھیک ہے، اپنے شہر کے بارے میں تھوڑا رومانٹک ہونے میں کیا ہرج ہے۔”

پون احسان مندی کی نظروں سے شلپا کو دیکھتا ہے۔ اسے یہ سوچ کر برا لگتا ہے کہ شلپا کی غیر موجودگی میں وہ سب اس کے بارے میں ہلکے پن سے بولتے ہیں۔ پون کا ہی دیا ہوا لطیفہ ہے شلپا کابرہ، شلپا کا برا(Bra)۔

"وشواس نی جوت گھرے گھرے گرجر گیس لاوے چھے” (اعتماد کی روشنی گرجر گیس گھر گھر لاتی ہے)۔ یہ نعرہ ہے پون کی کمپنی کا۔ اس پیغام کا پروپیگینڈا کرنے کا کانٹرکٹ شیبہ کمپنی کو ساٹھ لاکھ میں ملا ہے۔ اس نے بھی سڑکیں اور چوراہے رنگ ڈالے ہیں۔

اٹیچی میں کپڑے، آنکھوں میں سپنے اور باطن میں اضطراب لئے نہ جانے کہاں کہاں سے نوجوان لڑکے نوکری کی خاطر اس شہر میں آ پہنچے ہیں۔ بڑی بڑی سروس انڈسٹری میں کام کرنے والے یہ نو جوان سویرے نو سے رات نو تک ان تھک محنت کرتے ہیں۔ ایک دفتر کے دو تین لڑکے مل کر تین یا چار ہزار تک کے کرائے کا ایک فلیٹ لے لیتے ہیں۔ سبھی برابر کا شیئر کرتے ہیں کرایا، دودھ کا بل، ٹائلیٹ کا سامان، لانڈری کا خرچ۔ اس انجان شہر میں جم جانا ان کے آگے نوکری میں جم جانے جیسا ہی چیلینج ہے، ہر مرحلے پر۔ کہاں اپنے گھر میں یہ لڑکے شہزادوں کی طرح رہتے تھے، کہاں سارے عیش و آرام کے بغیر، گھر سے اتنی دور یہ سب کامیابی کی جد و جہد میں لگے ہیں۔ نہ انھیں کھانے کی فکر ہے نہ آرام کی۔ ایک آنکھ کمپیوٹر پر گڑائے یہ کھانے کی جیسے رسم ادا کر لیتے ہیں اور پھر لگ جاتے ہیں کمپنی کے بزنس ٹارگیٹ کو حاصل کرنے میں۔ ظاہر ہے، بیوپاریا نفع کے ٹارگٹ اتنے اونچے ہوتے ہیں کہ ان کے حصول کا سکھ ہر ایک کو حاصل نہیں ہوتا۔ یہ حصول، اس دنیا میں، ایک چار پہیا دوڑ ہے جس میں سٹیرنگ آپ کے ہاتھ میں ہے پر باقی سارے کنٹرول کمپنی کے ہاتھ میں۔ وہی طے کرتی ہے آپ کو کس رفتار سے دوڑنا ہے اور کب تک۔ایل۔ پی۔ جی۔ سیکشن میں کام کرنے والوں کے حوصلے اور حسرتیں بلند ہیں۔ سب کو یقین ہے کہ وہ جلد ہی آئی او۔سی۔ کو گجرات سے نکال باہر کریں گے۔ ڈائریکٹر سے لے کر ڈلیوری مین تک میں کام کے لئے یہی مستعدی اور وفاداری ہے۔ مین نگر میں جہاں جی۔جی۔ سی۔ ایل کا دفتر ہے، وہ ایک خوبصورت عمارت ہے، تین طرف ہریالی سے گھری۔ سامنے کچھ اور خوبصورت مکان ہیں جن کے برامدوں میں بڑے بڑے جھولے لگے ہیں۔ بغل میں سینٹ زیویرس سکول ہے۔ چھٹی کی گھنٹی پر جب نیلے یونیفارم پہنے چھوٹے چھوٹے بچے سکول کے پھاٹک سے باہر بھیڑ لگاتے ہیں تو جی۔جی۔ سی۔ ایل کے لال سلنڈروں سے بھری لال گاڑیاں بڑا اچھا کانٹراسٹ بناتی ہیں لال نیلا، نیلا لال۔

بیسویں صدی کے آخری دہے کے تین جادوئی حروف نے بہت سے نوجوانوں کے جیون اور سوچ کی سمت ہی بدل ڈالی تھی۔ یہ تین حروف تھے ایم۔بی۔اے۔ نوکریوں میں ریزرویشن کی آندھی سے ڈرے اچھے خاندانوں کے ماں باپ دھڑادھڑ اپنے بیٹے بیٹیوں کو ایم۔بی۔ اے میں داخل ہونے کی صلاح دے رہے تھے۔ جو بچہ پون، شلپا اور روجوندر کی طرح کیٹ، میٹ جیسی داخلے کے امتحان پاس کر لے وہ تو ٹھیک، جو نہ نکال پائے اس کے لئے لمبی چوڑی کپٹیشن فیس دینے پر ایم۔بی۔ اے کے دروازے کھلے تھے۔ ہر بڑے ادارے نے یہ دو طرح کے کورس بنا دیئے تھے۔ ایک کے ذریعے وہ اپنا نام بناتی تھی تو دوسری کے ذریعے دولت۔ سماج کی طرح تعلیم میں بھی طبقے بنتے جا رہے تھے۔ ایم۔بی۔ اے میں لڑکے سال بھر پڑھتے، پروجیکٹ بناتے، رپورٹ پیش کرتے اور ہر مرحلے کے امتحانوں میں پاس ہونے کی جی توڑ محنت کرتے۔ ایم۔ایم۔ ایس میں رئیس صنعت کاروں، سیٹھوں کے بگڑے شاہزادے این۔آر۔ آئی۔ کوٹے سے داخلہ لیتے، جم کر وقت برباد کرتے اور دو کی جگہ تین سال میں ڈگری لے کر اپنے والد کا بزنیس سنبھالنے یا بگاڑنے واپس چلے جاتے۔

شرد کے باپ الہ آباد کے نامی ڈاکٹر تھے۔ پون کو ایم۔بی۔ اے میں داخل کروانے کی ان کی کوششیں نا کامیاب رہیں تو انہوں نے ایک مشت کپٹیشن فیس دے کر اس کا نام ایم۔بی۔ اے میں لکھوا دیا۔ ایم۔بی۔ اے۔ ڈگری کے بعد انہوں نے اپنے رسوخ سے اسے سنشائن بوٹ پالش میں نوکری بھی دلوا دی پر اس میں کامیاب ہونا شرد کی ذمہ داری تھی۔ اسے اپنے باپ کا کٹھور چہرہ یاد آتا اور وہ سوچ لیتا نوکری میں چاہے کتنی فضیحت ہو وہ سہہ لے گا مگر باپ کی حقارت وہ نہیں سہہ سکے گا۔ کمپنی کے ایم۔ ڈی۔ جب تب ہیڈ آفس سے آ کر چکر کاٹ جاتے۔ وہ اپنے مینیجروں کو بھیج کر جائزہ لیتے اور شرد اور اس کے ساتھیوں پر برس پڑتے۔

 "پورے مارکیٹ میں بلّی چھائی ہوئی ہے۔ شو رومس سے لے کر ہورڈنگ اور بینر تک، سب جگہ بلّی ہی بلی ہے۔ آپ لوگ کیا کر رہے ہیں۔ اگر سٹوریج کی قلت ہے تو بلی کے لئے کیوں نہیں، سنشائن ہی کیوں؟”

 شرد اور ساتھی اپنے پرانے دلائل پیش کرتے تو ایم۔ڈی۔ تامرپرنی صاحب اور بھڑک جاتے۔

 "بلی پالش کیا فوم شوز پر لگائی جا رہی ہے یا اس سے چپلیں چمکائی جا رہی ہیں؟”

اس بار انہوں نے شرد اور اس کے ساتھیوں کو حکم دیا کہ شہر کے موچیوں سے بات کر رپورٹ دیں کہ وہ کون سی پالش استعمال کرتے ہیں اور کیوں؟

ایم۔ڈی۔ تو پھوں پھاں کر چلتے بنے، لڑکوں کو موچیوں سے سر کھپانے کے لئے چھوڑ گئے۔ شرد اور اس کے ساتھی صبح نو سے بارہ کے بیچ شہر کے موچیوں کو ڈھونڈتے، ان سے بات کرتے اور نوٹس لیتے۔ دراصل بازار میں روز بروز مقابلہ کڑا ہوتا جا رہا تھا۔ مصنوعات، تقسیم اور فروخت کے بیچ تال میل بٹھانا مشکل کام تھا۔ ایک ایک پروڈکٹ کی ٹکر میں بیس بیس تبادل پروڈکٹ تھے۔ ان سب کو بہترین بتاتے اشتہارات تھے جن کے پرچار پرسار سے مارکیٹنگ کا کام آسان کی بجائے مشکل ہوتا جاتا۔ خریدار کے پاس ایک ایک چیز کے کئی چمکدار متبادل تھے۔

روجوندر نے پرانی کمپنی چھوڑ کر انڈیا لیور کے ٹوتھ پیسٹ ڈویزن میں کام سنبھالا تھا۔ اسے آج کل دنیا میں دانت کے سوا کچھ نظر نہیں آتا تھا۔ وہ کہتی۔ "ہماری پروڈکٹ کے ایک ایک آئٹم کو اتنا مشتہر کر دیا گیا ہے کہ اب اس میں بس صابن ملانے کی کسر باقی ہے۔” ریڈیو اور ٹی۔ پر دن میں سو بار ناظرین اور سامعین کے محسوسات کو جھکجھوڑتا اشتہار مارکیٹنگ کی کوششوں میں چیلینج اور وارننگ کا کام کرتا۔ کنزیومر بہت زیادہ امید کے ساتھ ٹوتھ پیسٹ خریدتا جو یکبارگی پوری ہوتی نظر نہ آتی۔ وہ واپس اپنے پرانے ٹوتھ پیسٹ پر آ جاتا بنا یہ سوچے کہ اسے اپنے دانتوں کی بناوٹ، کھانے پینے کی قسموں وغیرہ پر بھی غور کرنا چاہئیے۔

شرد کو لگتا بوٹ پالش بیچنا سب سے مشکل کام ہے تو روجوندر کو لگتا گاہکوں کے منھ نیا ٹوتھ پیسٹ چڑھوانا چیلینج سے بھرا ہے۔ اور پون پانڈے کو لگتا وہ اپنی کمپنی کا ٹارگیٹ، بزنیس ٹارگیٹ، کیسے پورا کرے۔ خالی وقت میں اپنے اپنے پروڈکٹ پر بحث کرتے کرتے وہ اتنا پروڈکشن کرتے کہ لگتا کہ کوئی سٹہ کھیل رہے ہیں۔ پون میوزک سسٹم پر گانا لگا دیتا۔ "یہ تیری نظریں جھکی جھکی، یہ تیرا چہرہ کھلا کھلا۔ بڑی قسمت والا ہے۔۔۔”

 "سنی ٹوتھ پیسٹ جسے ملا” روجوندر گانے کی لائن پوری کرتی۔

ایناگرام فائنینس کمپنی کے توسط سے شہر میں تین روزہ ثقافتی پروگرام کا انعقاد ہوا۔ گجرات یونیورسٹی کے عظیم الشان کیمپس میں بے حد حسین سجاوٹ کی گئی۔ گجرات ویسے بھی پنڈال کی تعمیر میں ندرت کے لئے مشہور رہا ہے، پھر اس پروگرام کے لئے بجٹ کی کوئی حد نہ تھی۔ پون، شلپا، روجو، شرد اور انوپم نے پہلے ہی اپنے پاس منگوا لئے۔ پہلے دن رقص کا پروگرام تھا، اگلے دن سازوں پر موسیقی اور پنڈت بھیم سین جوشی کا گانا، ہرپرساد چورسیا کا بانسری وادن اور شو کمار شرما کا سنتور وادن۔ احمدآباد جیسے تجارتی اور صنعتی شہر کے لئے یہ ایک انوکھا ثقافتی سنگم تھا۔

پروگرام کا مکمل انتظام اے۔ایف۔ سی۔ کے نوجوان مینجروں کے ذمے تھا۔ کھلے میدان میں پندرہ ہزار ناظرین کے بیٹھنے کا انتظام تھا۔ منڈپ کے چار کونوں اور بیچ بیچ میں دو جگہ بڑے بڑے سپر سکرین لگے تھے جن پرسٹیج کے فنکاروں کی فلم دکھائی دے رہی تھی۔ اس سے،سٹیج سے دور بیٹھے ناظرین کو بھی فنکار کے قریب ہونے کا احساس ہو رہا تھا۔ سیٹوں سے ہٹ کر، باہری دیوار کے قریب ایک سنیک بازار لگایا گیا تھا۔ پروگرام میں داخلہ مفت تھا، حالانکہ کھانے پینے کے لئے سب کے لئے پچاس روپئے فی کس کے حساب سے کوپن خریدنا لازمی تھا۔

دوسرے دن پون بھیم سین جوشی کو سننے گیا تھا۔ سپر سکرین پر بھیم سین جوشی مہا بھیم سین جوشی نظر آ رہے تھے۔ "سب ہے تیرا” انترے پر آتے آتے انہوں نے ہمیشہ کی طرح سر اور لے کا سماں باندھ دیا۔ لیکن پون کو اس بات سے الجھن ہو رہی تھی کہ آس پاس کی سیٹوں کے ناظرین کی دلچسپی گانے سے زیادہ کھانے پینے میں تھی۔ وہ بار بار اٹھ کر سنیک بازار جاتے، وہاں سے انکل چپس کے پیکٹ اور پیپسی لاتے۔ دیکھتے ہی دیکھتے پورے ماحول میں راگ اہیر بھیرو کے ساتھ کر کر چر چر کی آوازیں بھی شامل ہو گئیں۔ زیادہ تر حاضرین کے لئے وہاں دیکھے جانے کے انداز میں موجودگی زیادہ اہم تھی۔

پون نے اپنے شہر میں اس فنکار کو سنا تھا۔ مہتا سنگیت سمتی کے ہال میں کھچاکھچ بھری بھیڑ جو موسیقی کے زیر اثر مبہوت  سی تھی۔الہ آباد میں آج بھی ادب اور سنگیت کے جانکار اور دلچسپی لینے والے بے شمار نظر آتے ہیں۔ وہاں اس طرح بیچ میں اٹھ کر کھانے پینے کا کوئی سوچ بھی نہیں سکتا۔

اپنے شہر کے ساتھ ہی گھر کی یاد امڈ آئی۔ اس نے سوچا پروگرام ختم ہونے پر وہ گھر فون کرے گا۔ ماں اس وقت کیا کر رہی ہوں گی، شائد دہی میں جامن لگا رہی ہوں گی۔۔دن کا آخری کام۔ پاپا کیا کر رہے ہوں گے، شائد خبروں کی پچاسویں قسط سن رہے ہوں گے۔ بھائی کیا کر رہا ہوگا۔ وہ ضرور ٹیلیفون سے چپکا ہوگا۔ اس کی وجہ سے فون اتنا بزی رہتا ہے کہ خود پون کو اپنے گھر بات کرنے کے لئے بھی پی۔سہ۔ او۔ پر ایک ایک گھنٹے بیٹھنا پڑ جاتا ہے۔ آخر کار جب فون ملتا ہے سگھن سے پتہ چلتا ہے کہ ماں پاپا کی ابھی ابھی آنکھ لگی ہے۔ کبھی ان سے بات ہوتی ہے، کبھی نہیں ہوتی۔ جب ماں نیند بھری آواز میں پوچھتی ہیں۔ "کیسے ہو پنو، کھانا کھا لیا، چٹھی ڈالا کرو۔” وہ ہر بات پر ہاں ہاں کر دیتا ہے۔ پر تسلی نہیں ہوتی۔ اس کا اپنی ماں سے بے حد فعال رشتہ رہا ہے۔ فون جیسے آلے کو بیچ میں ڈال کر، صرف اس تک پہنچا جا سکتا ہے، اسے زندہ نہیں کیا جا سکتا۔ وہ ماں کے چہرے کی ایک ایک جنبش دیکھنا چاہتا ہے۔ باپ ہنستے ہوئے بہت حسین لگتے ہیں۔ اتنی دور بیٹھ کر پون کو لگتا ہے ماتا، باپ اور بھائی اس کے البم کی سب سے خوب صورت تصویریں ہیں۔ اسے لگا اب سگھن کس سے الجھتا ہوگا۔ سارا دن اس پر لدا رہتا تھا، کبھی تکرار میں کبھی لاڑ میں۔ کئی بار سگھن اپنا چھٹپن چھوڑ کر بڑا بھیا بن جاتا۔ پون کسی بات سے ناراض ہوتا تو سگھن اس سے لپٹ لپٹ کر مناتا۔ "بھیا، بتاؤ کیا کھاؤ گے؟ بھیا، تمہاری شرٹ آئرن کر دیں؟ بھیا، ہمیں سبل لائنس لے چلو گے؟”

ادب کے عاشق ماں باپ کے کارن گھر میں کمرے کتابوں سے اٹے پڑے تھے۔ سکول کی پڑھائی میں باہری کتابیں پڑھنے کا موقع نہیں ملتا تھا، پھر بھی جو تھوڑا بہت وہ پڑھ جاتا تھا، اپنے پاپا اور ماں کے اکسانے کے باعث۔ انہوں نے اسے پریم چند کی کہانیاں اور کچھ مضامین پڑھنے کو دیئے تھے۔ "کفن”۔ "پوس کی رات” جیسی کہانیاں اس کے ذہن پر نقش ہو گئی تھیں لیکن مضامین کے حوالے سب گڈ مڈ ہو گئے تھے۔

مطالعے کے لئے اب فرصت بھی نہیں تھا۔ کمپنی کی کرم بھومی نے اسے اس زمانے کا ابھیمنیو بنا دیا تھا۔ گھر کی بہت ہڑک اٹھنے پر فون پر بات کرتا۔ ایک آنکھ بار بار میٹر سکرین پر اٹھ جاتی۔ چھوٹو کوئی چٹکلا سنا کر ہنستا۔ پون بھی ہنستا، پھر کہتا۔ "اچھا چھوٹو، اب کام کی بات کر، چالیس روپئے کا ہنس لئے ہم لوگ۔” ماں پوچھتی۔ "تم نے گدا بنوا لیا؟” وہ کہتا۔ "ہاں ماں، بنوا لیا۔” سچائی یہ تھی کہ گدا بنوانے کی فرصت ہی اس کے پاس نہیں تھی۔ گھر سے فوم کی رضائی لایا تھا، اسی کو بستر پر گدے کی طرح بچھا رکھا تھا۔ پر اسے پتہ تھا کہ "نہیں” کہنے پر ماں نصیحتوں کے ڈھیر لگا دیں گی۔ "گدے کے بغیر کمر اکڑ جائے گی۔ میں یہاں سے بنوا کر بھیجوں؟ اپنا دھیان بھی نہیں رکھ پاتا، ایسی نوکری کس کام کی۔ پبلک سیکٹر میں آ جا، چین سے تو رہے گا۔”

احمدآباد الہ آباد کے بیچ ایس۔ٹی۔ ڈی کال کی پلس ریٹ دل کی دھڑکن جیسی سرپٹ چلتی ہے – 3-6-9-12۔ پانچ منٹ بات کر ابھی من بھی نہیں بھرا ہوتا کہ سو رپوئے نکل جاتے۔ تب اسے لگتا "ٹائم از منی”۔ وہ اپنے کو دھتکارتا کہ گھر والوں سے بات کرنے میں بھی وہ مہاجنی دکھا رہا ہے پر شہر میں دوسری مدوں پر اتنا خرچ ہو جاتا کہ فون کے لئے پانچ سو سے زیادہ گنجائش بجٹ میں نہ رکھ پاتا۔

سنیچر کی شام پون ہمیشہ کی طرح ابھیشیک شکلا کے یہاں پہنچا تو پایا وہاں کا ماحول الگ ہے۔ اکثر یہ ہوتا کہ وہ، ابھیشیک، اس کی بیوی راجل اور ان کے ننھے بیٹے انکر کے ساتھ کہیں گھومنے نکل جاتا۔ لوٹتے ہوئے وہ باہر ہی ڈنر لے لیتے یا کہیں سے بڑھیا سبزی پیک کرا کر لے آتے اور بریڈ سے کھاتے۔ آج انکر ضد کر رہاتھا کہ پارک میں نہیں جائیں گے، بازار جائیں گے۔ راجل اسے منا رہی تھی۔ "انکر پارک میں تمہیں بھالو دکھائیں گے اور خرگوش بھی۔”

"وہ سب ہم نے دیکھ لیا، ہم بجال دیکھیں گے۔”

ہار کر وہ بازار چل دیئے۔ کھلونوں کی دوکان پر انکر اڑ گیا۔ کبھی وہ ایئرگن ہاتھ میں لیتا کبھی ٹرین۔ اس کے لئے طے کرنا مشکل تھا کہ وہ کیا لے۔ پون نے الیکٹرانک بندر اسے دکھایا جو تین بار کودتا اور کھوں کھوں کرتا تھا۔

انکر پہلے تو چپ رہا۔ جیسے ہی وہ لوگ دام چکا کر بندر پیک کرا کر چلنے لگے، انکر مچلنے لگا۔ "بندر نہیں گن لینی ہے۔” راجل نے کہا۔ "گن گندی، بندر اچھا۔ راجا بیٹا بندر سے کھیلے گا۔”

"ہم ٹھائیں ٹھائیں کریں گے۔ ہم بندر پھینک دیں گے۔”

پھر سے دوکان پر جا کر کھلونے دیکھے گئے۔ دل نہ چاہنے پر بھی ایئرگن پھر نکلوائی۔ ابھی اسے دیکھ، سمجھ رہے تھے کہ انکر کا دھیان پھر بھٹک گیا۔ اس نے دوکان پر رکھی سائیکل دیکھ لی۔ "چھکل لینا، چھکل لینا۔” وہ چلاّنے لگا۔

"ابھی تم چھوٹے ہو۔ ٹرائسکل گھر میں ہے تو۔” راجل نے سمجھایا۔

ابھیشیک کی قوتِ برداشت ختم ہو رہی تھی۔ "اس کے ساتھ بازار آنا مصیبت ہے، ہر بار کسی بڑی چیز کے پیچھے لگ جائے گا۔ گھر میں کھلونے رکھنے کی جگہ بھی نہیں ہے اور یہ خریدتا چلا جاتا ہے۔”

بڑی مہارت سے انکر کا دھیان واپس بندر میں لگایا گیا۔ دوکاندار بھی اب تک اکتا چکا تھا۔ اس سب چکر میں اتنی دیر ہو گئی کہ اور کہیں جانے کا وقت ہی نہیں بچا۔ واپسی میں وہ لا گارڈن سے ملحق مارکیٹ میں بھیل پوری، پانی پوری کھانے رک گئے۔ مارکیٹ گاہکوں سے ٹھساٹھس بھرا تھا۔ انکر نے کچھ نہیں کھایا، اسے نیند آنے لگی۔ کسی طرح اسے کار میں لٹا کر وہ گھر آئے۔

ابھیشیک نے کہا۔ "پون تم لکی ہو، ابھی تمہاری جان کو نہ بیوی کا جھنجھٹ ہے نہ بچے کا۔”

 راجل تنک گئی۔ "میرا کیا جھنجھٹ ہے تمہیں؟”

"میں تو جنرل بات کر رہا تھا۔”

"یہ جنرل نہیں سپیشل بات تھی۔ میں نے تمہیں پہلے کہا تھا میں ابھی بچہ نہیں چاہتی۔ تم کو ہی بچے کی پڑی تھی۔”

پون نے دونوں کو سمجھایا۔ "اس میں جھگڑے والی کوئی بات نہیں ہے۔ ایک بچہ تو گھر میں ہونا ہی چاہئیے۔

 ایک سے کم تو پیدا بھی نہیں ہوتا، اس لئے ایک تو ہوگا ہی ہوگا۔” ابھیشیک نے کہا۔ "میں بہت تھکا ہوا ہوں۔ نو مور ڈسکشن۔”

لیکن راجل کا موڈ خراب ہو گیا۔ وہ گھر کے آخری کام نپٹاتے ہوئے بھنبھناتی رہی۔ "ہندستانی مرد کو شادی کے سارے سکھ چاہئیے، بس ذمے داری نہیں چاہئیے۔ میرا کتنا حرج ہوا۔ اچھی بھلی سروس چھوڑنی پڑی۔ میری سب کلیگس کہتی تھیں راجل اپنی آزادی چوپٹ کر دو گی اور کچھ نہیں۔ آج کل تو ڈرنکس کا زمانا ہے۔ ڈبل انکم نو کڈس (دوہری آمدنی، بچے نہیں)۔ سینٹمینٹ کے چکر میں پھنس گئی۔”

کسی طرح رخصت ہو کر پون وہاں سے نکلا۔

کمپنی نے پون اور انوپم کا تبادلہ راج کوٹ کر دیا۔ وہاں انہیں نئے سرے سے آفس شروع کرنا تھا، ایل۔پی۔ جی۔ کا رٹیل مارکیٹ سنبھالنا تھا اور پورے سوراشٹر میں جی۔جی۔ سی۔ کا جال پھیلانے کے امکانات پر پروجیکٹ تیار کرنا تھا۔

تبادلے اپنے ساتھ تکلیف بھی لاتے ہیں پر ان دونوں کو اتنی نہیں ہوئی جتنے کا خدشہ تھا۔ ان کے لئے احمدآباد بھی انجانا تھا اور راجکوٹ بھی۔ پردیسی کے لئے پردیس میں پسند کیا، ناپسند کیا۔ احمدآباد میں اتنی جڑیں جمی بھی نہیں تھیں کہ اکھڑے جانے پر درد ہو۔ پر احمدآباد راجکوٹ روڈ پر ڈیلکس بس میں جاتے وقت دونوں کو یہ ضروری لگ رہا تھا کہ وہ ہیڈ آفس سے برانچ آفس کی اور دھکیل دیئے گئے ہیں۔

گرجر گیس سوراشٹر کے گاؤوں میں اپنے پاؤں پسار رہی تھی۔ اس کے لئے وہ اپنے نئے ٹرینیز کو دورے اور پرچار کا وسیع پروگرام سمجھا چکی تھی۔ اطلاعات، قوت، معیشت وغیرہ کے لئے الگ الگ ٹیمیں گاؤں گاؤں کام کرنے نکل پڑی تھیں۔ یوں تو پون اور انوپم بھی ابھی نئے ہی تھے پر انہیں ان چھبیس ٹرینی افسروں کے کام کی جانچ اور انتظام کرنا تھا۔ راجکوٹ میں وہ ایک دن ٹکتے کہ اگلے ہی دن انہیں سورت، بھروچ، انکلیشور کے دورے پر بھیج دیا جاتا۔ ہر جگہ کسی تین ستارہ ہوٹل میں انھیں ٹکایا جاتا، پھر اگلا مقام۔

سورت کے پاس زنجیرہ میں بھی پون اور انوپم گئے۔ وہاں کمپنی کے تیل کے کوئیں تھے۔ لیکن پہلا تجربہ کمپنی کی دولت کی نہیں، بحرِ عرب کے ذخیروں کی ہوئی۔ ایک طرف ہرے بھرے پیڑوں کے بیچ واقع بڑی بڑی فیکٹریاں، دوسری طرف لہراتا بحرِ عرب۔

ایک دن انہیں ویرپور بھی بھیجا گیا۔ راجکوٹ سے پچاس میل پر اس چھوٹے سے قصبے میں جلرام بابا کا شکتی پیٹھ تھا۔ وہاں کے پجاری کو پون نے گرجر گیس کی اہمیت سمجھا کر چھ گیس کنیکشن کا آرڈر لیا۔ کچھ ہی دیر میں جلرام بابا کے بھکتوں اور انہیں پسند کرنے والوں میں خبر پھیل گئی کہ بابا نے گرجر گیس استعمال کرنے کا حکم دیا ہے۔ دیکھتے دیکھتے شام تک پون اور انوپم نے دو سو چونسٹھ گیس کنیکشن کا آرڈر حاصل کر لیا۔ ویسے گرجر گیس کا مقابلہ ہر جگہ آئی۔او۔ سی سے تھا۔ لوگ صنعتی اور گھریلو استعمال کے فرق کو اہمیت نہیں دیتے۔ جس میں چار پیسے بچیں، وہی انہیں بہتر لگتا۔ کئی جگہ انہیں پولیس کی مدد لینی پڑی کہ گھریلو گیس کا استعمال صنعتی اکائیوں میں نہ کیا جائے۔

کریٹ دیسائی نے چار دن کی چھٹی مانگی تو پون کا ماتھا ٹھنک گیا۔ پرائیویٹ کمپنی میں دو گھنٹے کی چھٹی لینا بھی فضول خرچی سمجھا جاتا تھا پھر یہ تو اکٹھے چار دن کا مسئلہ تھا۔ کریٹ کی غیر حاضری کا مطلب تھا ایک دیہاتی حلقے سے چار دنوں کے لئے بالکل کٹ جانا۔

"آخر تمہیں ایسا کیا کام آ پڑا؟”

"اگر میں بتاؤں گا تو آپ چھٹی نہیں دیں گے۔”

"کیا تم شادی کرنے جا رہے ہو؟”

"نہیں سر۔ میں نے آپ کو بولا نہ میرے کو ضرور جانا مانگتا۔”

بہت کریدنے پر پتہ چلا کریٹ دیسائی سرل مارگ کے کیمپ میں جانا چاہتا ہے۔ راجکوٹ میں ہی تیرہ میل دور پر اس کے سوامی جی کا کیمپ لگے گا۔

"جو کام تمہارے ماں باپ کے لائق ہے وہ تم ابھی سے کرو گے۔” پون نے کہا۔

"نہیں سر، آپ ایک دن کیمپ کے میڈیٹیشن میں بھاگ لیجیے۔ من کو بہت شانتی ملتی ہے۔ سوامی جی کہتے ہیں، میڈیٹیشن پرپیرس یو فار یور منڈیز۔” (دھیان لگانے سے آپ اپنے سومواروں کا سامنا بہتر ڈھنگ سے کر سکتے ہیں۔)

"تو اس کے لئے چھٹی کی کیا ضرورت ہے۔ تم کام سے لوٹ کر بھی کیمپ میں جا سکتے ہو۔”

"نہیں سر۔ پوجا اور دھیان فل ٹائم کام ہے۔”

پون نے بے دلی سے کریٹ کو چھٹی دے دی۔ من ہی من وہ بھنبھناتا رہا۔ ایک شام وہ یوں ہی کیمپ کی طرف چل پڑا۔ دماغ میں کہیں یہ بھی تھا کہ کریٹ کی موجودگی جانچ لی جائے۔

راجکوٹ جونا گڑھ لنک روڈ پر داہنے ہاتھ کو بڑے سے پھاٹک پر "دھیان شور سرل مارگ” کا بورڈ لگا تھا۔ تقریباً آزاد شہر بسا تھا۔ کاروں کا قافلہ آ جا رہا تھا۔ اتنی بھیڑ تھی کہ اس میں کریٹ کو ڈھونڈھنا ممکن ہی نہیں تھا۔ جستجو میں پون اندر گھسا۔ عظیم الشان میدان میں ایک طرف بڑی سی کھلی جگہ گاڑیاں کھڑی کرنے کے لئے چھوڑی گئی تھی جو تین چوتھائی بھری ہوئی تھی۔ وہیں آگے کی جانب لال پیلے رنگ کا پنڈال تھا۔ دوسری طرف ترتیب سے تمبو لگے ہوئے تھے۔ کچھ تمبوؤں کے باہر کپڑے سوکھ رہے تھے۔ اس حصے میں بھی ایک پھاٹک تھا جس پر لکھا تھا ” داخلہ منع ہے۔”

پنڈال کے اندر جب پون گھسنے میں کامیاب ہوا تب سوامی جی کا پروچن ختم ہونے ہی والا تھا۔ وہ نہایت شانت، گہری، گمبھیر آواز میں کہہ رہے تھے۔ "پریم کرو، صرف کسی جان سے پریم کرو۔ پریم کوئی ٹیلیفون کنیکشن نہیں ہے جو آپ صرف ایک آدمی سے بات کریں۔ پریم وہ آلوک ہے جو پورے کمرے کو، پورےجیون کو آلوکت کرتا ہے۔ اب ہم دھیان کریں گے۔ اوم۔”

ان کے "اوم” کہتے ہی پانچ ہزار سامعین سے بھرے پنڈال میں سناٹا کھنچ گیا۔ جو جہاں جیسا بیٹھا تھا ویسا ہی آنکھ موند کر دھیان میں مگن ہو گیا۔

آنکھیں بند کر پانچ منٹ بیٹھنے پر پون کو بھی لا محدود شانتی کا احساس ہوا۔ کچھ کچھ ویسا جب وہ لڑکپن میں بہت بھاگ دوڑ کر لیتا تھا تو ماں اسے زبردستی اپنے ساتھ لٹا لیتی اور تھپکتے ہوئے ڈپٹتی۔ "بچہ ہے کہ آفت۔ چپ چاپ آنکھ بند کر، اور سو جا۔” اسے لگا اگر کچھ دیر اور وہ ایسے بیٹھ گیا تو واقعی سو جائے گا۔

اس نے ہلکے سے آنکھ کھول کر آس پاس دیکھا، سب دھیان میں مگن تھے۔ دیکھنے سے سبھی وی۔ آئی۔ پی قسم کے بھکت تھے، جیب میں جھانکتا موبائل فون اور گھٹنوں کے بیچ دبی منرل واٹر کی بوتل انہیں ایک الگ درجہ دے رہی تھی۔ کامیابی کے ریکارڈ تلاش کرتے یہ بھکت جانے کس جیٹ رفتار سے دن بھر دوڑتے تھے، اپنی بزنس یا نوکری کے ٹارگیٹ کی تکمیل کے کل پرزے بنے افراد۔ پر یہاں اس وقت یہ شانتی کے پناہ گزیں تھے۔

کچھ دیر بعد سبھا بکھر گئی۔ سب نے سوامی جی کو مون نمن کیا اور اپنی گاڑیوں کی سمت چل دیئے۔ پارکنگ پر گاڑیوں کی گھراہٹ اور تیکھے ہارن سنائی دینے لگے۔ واپسی میں پون کا کریٹ کے لئے غصہ ٹھنڈا ہو چکا تھا۔ اسے اپنا مکمل اعصابی نظام صحت مند لگ رہا تھا۔ اسے یہ بہتر لگا کہ آپادھاپی سے بھری زندگی میں چار دن کا وقت دھیان کے لئے نکالا جائے۔ سوامی جی کے خیالات بھی اسے اورجنل اور تازگی سے بھرے لگے۔ جہاں زیادہ تر گرو لوگ دھرم پر اپنا زور دیتے ہیں، کریٹ کے سوامی جی صرف روحانی طاقت پر زور دیتے رہے۔ سوچ، دل اور روح کی پاکی اور صفائی ان کے سرل مارگ کے اصول تھے۔

سرل مارگ مشن کے بھکت ان بھکتوں سے بالکل الگ تھے جو اس نے اپنے شہر میں سال در سال ماگھ میلے میں آتے دیکھے تھے۔ عاجزی کی مورت بنے وہ بھکت غیر معمولی تکلیفیں جھیل کر پریاگ کے سنگم تک پہنچتے۔ نجی سرمائے کے نام پر ان کے پاس ایک عدد میلی کچیلی گٹھری ہوتی، ساتھ میں بوڑھی ماں یا آجی اور انٹی میں دس بیس روپئے۔ کمبھ کے موقع پر لاکھوں کی تعداد میں یہ بھکت گنگا میا تک پہنچتے، ڈبکی لگاتے اور مکتی کی تمنا کے ساتھ گھر واپس لوٹ جاتے۔ اسم کی بجائے مضارع بن کر جیتے وہ بھکت بس اتنا سمجھتے کہ گنگا پاک ہے اور ان کے سارے گناہوں کو دھو ڈالنے والی۔ اس سے زیادہ دلیل ان کا مقصد بھی نہیں تھا۔

پر کریٹ کے سوامی کرشنا سوامی جی مہاراج کے بھکت لوگوں میں ایک سے ایک تعلیم یافتہ، اعلیٰ عہدے دار افسران، اور تجار تھے۔ کوئی ڈاکٹر تھا تو کوئی انجینئر، کوئی بینک افسر تو کوئی پرائیویٹ سیکٹر کا منیجر۔ یہاں تک کہ کئی چوٹی کے کلاکار بھی ان کے بھکتوں میں شمار کئے جاتے تھے۔ سال میں چار بار وہ اپنا کیمپ لگاتے، دیش کے الگ الگ شہروں میں۔ پورے دیش سے ان کے بھکت وہاں پہنچتے۔ ان کے کچھ بدیشی بھکت بھی تھے جو ہندوستانیوں سے زیادہ سودیشی بننے اور نظر آنے کی کوشش کرتے۔

پون نے دوچار بار سوامی جی کا پروچن سنا۔ سوامی جی کی تقریر پُر اثر تھی اور شخصیت بہت پر کشش۔ وہ جنوبی ہند کی تہمد کے اوپر ہندوستانی کرتا دھارن کرتے۔ دوسرے دھرم آچاریوں کی طرح نہ انہوں نے بال بڑھا رکھے تھے، نہ داڑھی۔ وہ مانتے تھے کہ آدمی کو اپنا خارجی روپ بھی اندرونی روپ کی طرح پاک صاف رکھنا چاہئیے۔ ان کا حقیقت پسندی نظریۂ زندگی ان کے بھکتوں کو بہت صحیح لگتا۔ وہ سب بھی اپنے سچ  کو تیاگ کر نہیں، اس میں سے چار دن کی مہلت نکال کر اس روحانی ہالی ڈے کے لئے آتے۔ وہ اسے ایک "تجربہ” مانتے۔ سوامی جی ایک دم دھار دار، پر اعتماد انگریزی میں ہندوستانی روحانی طاقت اور اس کی اہمیت سمجھاتے، بھکتوں کا سر دیش پریم سے اونچا ہو جاتا۔ سوامی جی ہندی بھی بخوبی بول لیتے۔ عورتوں  کے کیمپ میں وہ اپنی آدھی تقریرہندی میں دیتے اور آدھی انگریزی میں۔

سرل مارگ مشن شروع کرنے سے قبل سوامی جی پی۔پی۔ کے۔ کمپنی میں ایکزیکیوٹیو مینیجر تھے۔ مشن کی بناوٹ،انتظام اور کاموں کے منصوبوں میں ان کی انتظامی مہارت دیکھنے کو ملتی تھی۔ کیمپ میں اتنی بھیڑ جمع ہو جاتی تھی لیکن نہ کہیں بد انتظامی ہوتی نہ نقصِ امن۔ انجانے میں پون ان سے متاثر ہوتا جا رہا تھا۔ پر کوئی بھی تاثر اس پر مستقل ٹھہر نہیں پاتا تھا کیونکہ کام کے سلسلے میں اسے راجکوٹ کے آس پاس کے علاقوں کے علاوہ بار بار احمدآباد بھی جانا پڑتا۔ احمدآباد میں دوستوں سے ملنا بھی بھلا لگتا۔ ابھیشیک کے یہاں جا کر انکر کی نئی شرارتیں دیکھنا بھی اچھا لگتا۔

ابھیشیک نے وجوالائزر سے آئڈیا سمجھا۔ سکرپٹ لکھی گئی۔ اب اشتہاری فلم بننی تھی۔ انہیں ایسی ماڈل کی تلاش تھی جس کی شخصیت میں دانت اہم ہوں، ساتھ ہی وہ خوبصورت بھی ہو۔ اس کے علاوہ دو ایک جملوں کے ڈائیلاگ بولنے کا اسے شعور ہو۔ ان کے پاس ماڈلس کی ایک مستقل فہرست تھی پر اس وقت وہ کام نہیں آ رہی تھی۔ مشکل یہ تھی کسی بھی پروڈکٹ کا پرچار کرنے میں ایک ماڈل کا چہرہ دن میں اتنی بار میڈیا پر دکھایا جاتا کہ وہ اسی پروڈکٹ کے اشتہارسے چپک کر رہ جاتا۔ اگلے کسی اشتہار میں اس ماڈل کو لینے سے اشتہار ہی پٹ جاتا۔ نئے چہروں کی بھی کمی نہیں تھی۔ روز ہی اس علاقے میں نئی لڑکیاں جوکھم اٹھانے کو تیار تھیں پر انہیں ماڈل بنائے جانے کا بھی ایک اصول تھا۔ اگر سب کچھ طے ہونے کے بعد کیمرا مین اسے ناپاس کر دے تب اسے لینا مشکل تھا۔ابھیشیک جس اڈورٹائزنگ کمپنی میں کام کرتا تھا اس میں آج کل ایک دوسری کمپنی کی ٹکر میں ٹوتھ پیسٹ کی جنگ چھڑی ہوئی تھی۔ دونوں کے اشتہار ایک کے بعد ایک ٹی۔ کے چینلوں پر دکھائے جاتے۔ ایک میں ڈینٹسٹ کا بیان ثبوت کی طرح دیا جاتا تو دوسرے میں اسی بیان کا رد۔ دونوں ٹوتھ پیسٹ ملٹی نیشنل کمپنیوں کے تھے۔ ان کمپنیوں کا جتنا سرمایہ ٹوتھ پیسٹ کے بنانے میں لگ رہا تھا لگ بھگ اتنا ہی اس کے پرچار میں۔ ٹوتھ پیسٹ تقریباً ایک سے تھے، دونوں کی رنگت بھی ایک تھی پر کمپنی مختلف ہونے سے ان کا اختلاف کو ہائی لائٹ کرنے اور بہتر ثابت کرنے کی ہوڑ مچی تھی۔ اسی کے لئے ابھیشیک کی کمپنی کرسینٹ کارپوریشن کو نوے لاکھ کا اشتہاری کمپئین ملا تھا۔

آج کل ابھیشیک کے ذمے ماڈل کا انتخاب تھا۔ وہ ایک بیوٹی پارلر کی مالکن نکیتا پر دباؤ ڈال رہا تھا کہ وہ اپنی بیٹی تانیہ کو ماڈلنگ کرنے دیں۔ اس سلسلے میں وہ کئی بار "روزیز” پارلر میں گیا۔ اسی کو لے کر میاں بیوی میں تناؤ ہو گیا۔

راجل کا ماننا تھا کہ روزیز اچھی جگہ نہیں ہے۔ وہاں حسن کے بزنیس کی آڑ میں غلط دھندے ہوتے ہیں۔ اس کا کہنا تھا کہ اشتہاری فلم بنانے کا کام ان کی کمپنی کو ممبئی اکائی کرے، یہاں احمدآباد میں اچھی فلم بننا ممکن نہیں ہے۔ ابھیشیک کا کہنا تھا کہ وہ بمبیا اشتہاری فلموں سے اکتا گیا ہے۔ وہ یہیں اورجنل کام کر دکھائے گا۔

"یوں کہو کہ تمہیں ماڈل کی تلاش میں مزہ آ رہا ہے۔” راجل نے طعنہ مارا۔

"یہی سمجھ لو۔ یہ میرا کام ہے، اسی کی مجھے تنخواہ ملتی ہے۔”

"مزے ہیں۔ تنخواہ بھی ملتی ہے، لڑکی بھی ملتی ہے۔” ابھیشیک اکھڑ گیا۔ "کیا مطلب تمہارا؟ تم ہمیشہ ٹیڑھا سوچتی ہو۔ جیسے تمہارے ٹیڑھے دانت ہیں ویسی ٹیڑھی تمہاری سوچ ہے۔”

راجل کا، اوپر نیچے کا ایک ایک دانت ٹیڑھا اگا ہوا تھا۔ مخصوص زاوئے سے دیکھنے پر وہ ہنستے ہوئے اچھا لگتا تھا۔ "شروع میں اسی بانکے دانت پر آپ فدا ہوئے تھے۔” راجل نے کہا۔ "آج آپ کو یہ بھدا لگنے لگا۔”

"پھر تم نے غلط لفظ استعمال کیا۔ بانکا لفظ دانت کے ساتھ نہیں بولا جاتا۔ بانکی ادا ہوتی ہے، دانت نہیں۔”

"لفظ اپنی جگہ سے ہٹ بھی سکتے ہیں۔ پتھر نہیں ہیں جو اٹل رہیں۔”

"تم اپنی زبان کی کمزوری چھپا رہی ہو۔”

"کوئی بھی بات ہو، سب سے پہلے تم میری برائیاں گنانے لگتے ہو۔”

"تم میرا دماغ خراب کر دیتی ہو۔”

"اچھا سوری، پر اب تم نکیتا کے یہاں نہیں جاؤ گے۔ اس سے اچھا ہے تم یونیورسٹی کی لڑکیوں میں صحیح چہرہ تپاش کرو۔”

"تپاس نہیں، تلاش کرو۔”

"تلاش صحیح پر تم روزیز نہیں جاؤ گے۔”

جب سے راجل نے نوکری چھوڑی اس کے اندر عدم تحفظ کا جذبہ گھر کر گیا تھا۔ ساڑھے چار سال کی نوکری کے بعد وہ صرف اس لئے ہٹا دی گئی کیونکہ اس کی اڈورٹائزنگ ایجینسی مانتی تھی کہ گھر اور دفتر دونوں مورچے سنبھالنا اس کے بس کی بات نہیں۔ خاص طور پر جب وہ حاملہ تھی، اس کے ہاتھ سے سارے اہم کام لے کر سادھنا سنگھ کو دے دیئے گئے۔ انکر کے پیدا ہونے تک دفتر میں ماحول اتنا بگڑ گیا کہ وضع حمل کے بعد بھی راجل نے استعفیٰ دے دیا۔ پر تب سے وہ شوہر کے لئے بڑی مشکوک ہو گئی تھی۔ اسے لگتا تھا ابھیشیک اتنا مصروف نہیں جتنا وہ ڈرامہ کرتا ہے۔ پھر اڈورٹائزنگ کمپنی کی دنیا ویسے بھی بہت پر کشش تھی۔ روز نئی نئی لڑکیاں ماڈل بننے کا خواب آنکھوں میں لئے ہوئے کمپنی کے در کھٹکھٹاتیں۔ ان کے استحصال کیے امکانات سے انکار نہیں کیا جا سکتا تھا۔

اڈورٹائزنگ ایجینسی کا سارا جھنجھٹ خود دیکھ لینے سے ادھر کئی دنوں سے راجل کو جو دوسرے سوال پریشان کر رہے تھے، ان پر وہ ابھیشیک کے ساتھ بحث کرنا چاہتی تھی۔ پر ابھیشیک جب بھی گھر آتا، لمبی بات چیت کے موڈ میں ہرگز نہ ہوتا۔ بلکہ وہ چڑچڑا ہی لوٹتا۔ اس دن وہ کھانا کھا رہے تھے۔ ٹی۔وی۔ چل رہا تھا۔ خبروں سے پہلے "سپارکل” ٹوتھ پیسٹ کا اشتہار فلیش ہوا۔ اس کی کاپی ابھیشیک نے تیار کی تھی۔

انکر چلایا۔ "پاپا کا ایڈ، پاپا کا ایڈ۔”

یہ اشتہار آج پانچویں بار آیا تھا پر وہ سب دھیان سے دیکھ رہے تھے۔ اشتہار میں پارٹی کا منظر تھا جس میں ہیرو کے کچھ کہنے پر ہیروئن ہنستی ہے۔ اس کی ہنسی میں ہر دانت میں موتی گرتے ہیں۔ ہیرو انہیں اپنی ہتھیلی پر روک لیتا ہے۔ سارے موتی اکٹھے ہو کر "سپارکل” ٹوتھ پیسٹ کی ٹیوب بن جاتے ہیں۔ اگلے شاٹ میں ہیرو ہیروئن تقریباً بوسے میں مصروف جاتے ہیں۔

ابھیشیک نے کہا۔ "راجل کیسا لگا ایڈ؟”

"ٹھیک ہی ہے۔” راجل نے کہا۔ اس کے حوصلہ افزائی سے خالی لہجے سے ابھیشیک کا موڈ اکھڑ گیا۔ اسے لگا راجل اس کے کام کو زیرو گریڈ دے رہی ہے۔

"ایسی شمشان آواز میں کیوں بول رہی ہو؟”

"نہیں، میں سوچ رہی تھی، اشتہار کتنا مبالغہ کرتے ہیں۔ سچائی یہ ہے کہ نہ کسی کے ہنسنے سے پھول جھڑتے ہیں نہ موتی، پھر بھی محاورہ ہے کہ پیٹا چلا جا رہا ہے۔”

"سچائی تو یہ ہے کہ ماڈل لینا بھی سپارکل استعمال نہیں کرتی ہیں۔ وہ مخالف کمپنی کا ٹکّو استعمال کرتی ہے۔ پر ہمیں سچائی نہیں، پراڈکٹ بیچنی ہے۔”

"پر لوگ تو تمہارے اشتہاروں کو ہی سچ مانتے ہیں۔ کیا یہ ان کے تئیں دھوکا نہیں ہے؟”

"بالکل نہیں۔ آخر ہم ٹوتھ پیسٹ کی جگہ ٹوتھ پیسٹ ہی دکھا رہے ہیں، گھوڑے کی لید نہیں۔ سبھی ٹوتھ پیسٹوں میں ایک سی چیزیں پڑی ہوتی ہیں۔ کسی میں رنگ زیادہ ہوتا ہے کسی میں کم۔ کسی میں فوم زیادہ، کسی میں کم۔”

"ایسے میں کاپی رائٹر کی اخلاقیات کیا کہتی ہے؟”

"او شٹ۔ سیدھا سادہ ایک پراڈکٹ بیچنا ہے، اس میں تم اخلاقیات اور سچائی جیسے بھاری بھرکم سوال میرے سر پر دے مار رہی ہو۔ میں نے آئی۔ایم۔ اے۔ میں دو سال بھاڑ نہیں جھونکا۔ وہاں سے مارکیٹنگ سیکھ کر نکلا ہوں۔ آئی کین سیل اے ڈیڈ ریٹ (میں مرا ہوا چوہا بھی بیچ سکتا ہوں) یہ سچائی، اخلاقیات سب میں درجہ چار تک مارل سائنس میں پڑھ کر بھول چکا ہوں۔ مجھے اس طرح کی ڈوز مت پلایا کرو، سمجھی؟”

راجل من ہی من اسے گالی دیتی برتن سمیٹ کر رسوئی میں چلا گئی۔ ابھیشیک منھ پھیر کر سو گیا۔ اگلے دن پون آیا۔ وہ انکر کے لئے چھوٹا سا کرکٹ بیٹ اور گیند لایا تھا۔ انکر فوراً بالکنی سے اپنے دوستوں کو آواز دینے لگا۔ "شبو، رنجھن، جلدی آؤ، بیٹ بال کھیلنا۔”

ابھیشیک ابھی آفس سے نہیں لوٹا تھا۔ راجل نے دو گلاس کولڈ کافی بنائی۔ ایک گلاس پون کو تھما کر بولی۔ "تمہیں اشتہاروں کی دنیا کیسی لگتی ہے؟”

"بہت اچھی، جادوئی۔ راجل، ملک کی ساری حسین لڑکیاں اشتہاروں میں چلی گئی ہیں، تبھی راجکوٹ کی سڑکوں پر ایک بھی حسینہ نظر نہیں آتی۔”

"بڑ مت ہانکو، سیرئیس لی بولو، ایسا نہیں لگتا کہ مارکیٹنگ کے لئے اشتہار جھوٹ پر جھوٹ بولتے ہیں۔”

"مجھے ایسا نہیں لگتا۔ یہ تو کمپین ہے، اس میں سچ اور جھوٹ کی بات کہاں آتی ہے؟”

تبھی ابھیشیک بھی آ گیا۔ آج وہ اچھے موڈ میں تھا۔ اس کے ٹوتھ پیسٹ والے اشتہار کو بہترین اشتہار کا انعام ملا تھا۔ اس نے کہا۔ "راجل، کل تم مجھے کنڈیم کر رہی تھیں، آج مجھے اسی کاپی پر ایوارڈ ملا۔”

"کانگریچلیشنس۔” پون اور راجل نے کہا۔

"کل تو تم لعنتیں کس رہی تھیں۔ میری پردادی کی طرح بول رہی تھیں۔”

"جب ایتھکس کی بات آئے گی میں پھر کہوں گی کہ اشتہار جھوٹ بولتے ہیں۔ پر ابھی، ایسا نہیں ہے کہ صرف تم ایسا کرتے ہو، سب ایسا کرتے ہیں۔ جنتا کو بےوقوف بناتے ہیں۔”

"جنتا کو تعلیم اور خبربھی تو دیتے ہیں۔” پون نے کہا۔

"پر ساتھ میں جنتا کی امیدوں کو بڑھا کر اس کا پیسہ برباد کرواتے ہیں۔” راجل نے کہا۔

"ہاں، ہاں، آج تک میں نے ایسا اشتہار نہیں دیکھا جو کہتا ہو یہ چیز نہ خریدیئے۔”

 ابھیشیک نے کہا۔

 "اشتہار کی دنیا خرچ اور بکری کی دنیا ہے۔ ہم سپنوں کے سوداگر ہیں، جسے چاہئیے بازار جائے، سپنوں اور امیدوں سے بھری ٹیوب خرید لیں۔ یہ اشتہار کا ہی کمال ہے کہ ہمارے تین افراد والے پریوار میں تین طرح کے ٹوتھ پیسٹ آتے ہیں۔ انکر کو دھاریوں والا ٹوتھ پیسٹ پسند ہے، تمہیں وہ شوڈشی والا اور مجھے سانس کی بو دور کرنے والا۔ ٹوتھ پیسٹ تو پھر بھی غنیمت ہے، تمہیں پتہ ہے ڈٹرجینٹ کی اشتہار بازی میں اور بھی اندھیر ہے۔ ہم لوگ سونا ڈٹرجینٹ کی ایڈ فلم جب شوٹ کر رہے تھے تو سیورس کے کلین ڈٹرجینٹ سے ہم نے بالٹی میں جھاگ اٹھوائے تھے۔ کلین میں سونا سے زیادہ جھاگ پیدا کرنے کی طاقت ہے۔”

پون نے کہا۔ "دراصل بازار کی معاشیات میں اخلاقیات جیسا لفظ لا کر، راجل، تم صرف کنفیوژن پھیلا رہی ہو۔ میں نے اب تک پانچ سو کتابیں تو مینیجمینٹ اور مارکیٹنگ پر پڑھی ہوں گی۔ ان میں ایتھکس پر کوئی چیپٹر نہیں ہے۔”

سٹیلا ڈمیلو انٹرپرائز کارپوریشن میں برابر کی پارٹنر تھی اور اس کی کمپنی گرجر گیس کمپنی کو کمپیوٹر سپلائی کرتی تھی۔ پہلے تو وہ پون کے لئے کاروباری چٹھیوں پر محض ایک دستخط تھی پر جب کمپیوٹر کے دو ایک مسائل سمجھنے پون شلپا کے ساتھ اس کے آفس گیا تو اس دبلی پتلی ہنس مکھ لڑکی سے اس کا اچھا تعارف ہو گیا۔

سٹیلا کی عمر مشکل سے چوبیس سال تھی پر اس نے اپنے ماں باپ کے ساتھ آدھی دنیا گھوم رکھی تھی۔ اس کی ماں سندھی اور باپ عیسائی تھے۔ ماں سے اسے گوری رنگت ملی تھی اور باپ سے تراش دار نین نقش۔ جینس اور ٹاپ میں وہ لڑکا زیادہ اور لڑکی کم نظر آتی۔ اس کے آفس میں ہر وقت گہماگہمی رہتی۔ فون بجتا رہتا، فیکس آتے رہتے۔ کبھی کسی فیکٹری سے بیس کمپیوٹرس کا ایک ساتھ آرڈر مل جاتا، کبھی کہیں کانفرنس سے بلاوا آ جاتا۔ اس نے کئی تکنیشین رکھے ہوئے تھے۔ اپنے بزنیس کے ہر پہلو پر اس کی تیز نظر رہتی۔

اس بار پون اپنے گھر گیا تو اس نے پایا وہ اپنے نئے شہر اور کام کے بارے میں گھر والوں کو بتاتے وقت کئی بار سٹیلا کا ذکر کر گیا۔ سکھن بی۔اس۔ سی۔ کے بعد ہارڈویئر کا کورس کر رہا تھا۔ پون نے کہا۔ "تم اس بار میرے ساتھ راجکوٹ چلو، تمہیں میں ایسے کمپیوٹر ورلڈ میں داخلہ دلاؤں گا کہ تمہاری آنکھیں کھلی رہ جائیں گی۔”

سگھن نے کہا۔ "جانا ہوگا تو حیدرآباد جاؤں گا، وہ تو سائبر سٹی ہے۔”

"ایک بار تم اینٹرپرائز جوائن کرو گے تو دیکھو گے وہ سائبر سٹی سے کم نہیں۔”

ماں نے کہا۔ "اس کو بھی لے جاؤ گے تو ہم دونوں بالکل اکیلے رہ جائیں گے۔ ویسے ہی یہ سینیئر سٹیزن کالونی بنتی جا رہی ہے۔ سب کے بچے پڑھ لکھ کر باہر چلے جا رہے ہیں۔ ہر گھر میں، سمجھو، ایک بوڑھا، ایک بوڑھی، ایک کتا اور ایک کار بس یہ رہ گیا ہے۔”

"الہ آباد میں کچھ بھی بدلتا نہیں ہے ماں۔ دو سال پہلے جیسا تھا ویسا ہی اب بھی ہے۔ تم بھی راجکوٹ چلی آؤ۔”

"اور تیرے پاپا؟ وہ یہ شہر چھوڑ کر جانے کو تیار نہیں ہے۔”

پاپا سے بات کی گئی۔ انہوں نے صاف انکار کر دیا۔ "شہر چھوڑنے کی بھی ایک عمر ہوتی ہے، بیٹے۔ اس سے اچھا ہے تم کسی ایسی کمپنی میں ہو جاؤ جو آس پاس کہیں ہو۔”

"یہاں میرے لائق نوکری کہاں، پاپا۔ زیادہ سے زیادہ نینی میں نورامینٹ کی مارکیٹنگ کر لوں گا۔”

"دہلی تک بھی آ جاؤ تو؟ سچ، دہلی آنا جانا بالکل مشکل نہیں ہے۔ رات کو پریاگ راج ایکسپریس سے چلو، سویرے دہلی۔ کم سے کم ہر مہینے تمہیں دیکھ تو لیں گے۔ یا کلکتے آ جاؤ۔ وہ تو مہانگر ہے۔”

"پاپا، میرے لئے شہر اہم نہیں ہے، کیرئیر ہے۔ اب کلکتے کو ہی لیجیے۔ کہنے کو مہانگر ہے پر مارکیٹنگ کے نظریئے سے ایک دم لدھڑ۔ کلکتے میں پروڈیوسرس کا مارکیٹ ہے، کنزیومرس کا نہیں۔ میں ایسے شہر میں رہنا چاہتا ہوں جہاں کلچر ہو نہ ہو، کنزیومر کلچر ضرور ہو۔ مجھے تہذیب و ثقافت نہیں، گاہکوں کا کلچر چاہئیے، تبھی میں کامیاب رہوں گا۔” ماں باپ کو پون کی باتوں نے مایوس کر دیا۔ بیٹا اس امید کو بھی ختم کئے دے رہا تھا جس کی ڈور سے بندھے بندھے وہ اسے ٹائمس آف انڈیا کی دہلی ویکینسیز کے کاغذ ڈاک سے بھیجا کرتے تھے۔

رات جب پون اپنے کمرے میں چلا گیا راکیش پانڈے نے اپنی بیوی سے کہا "آج پون کی باتیں سن کر مجھے بڑا دھکا لگا۔ اس نے تو گھر کے سنسکاروں کو ایک دم ہی تیاگ دیا۔”

ریکھا دن بھر کے کام سے پست تھی”پہلے تمہیں ڈر تھا کہ بچے کہیں تم جیسے آئیڈیلسٹ نہ بن جائیں۔ اسی لئے اسے ایم۔ بی۔ اے کرایا۔ اب وہ حقیقت پسند بن گیا ہے تو تمہیں تکلیف ہو رہی ہے۔ جہاں جیسی نوکری کر رہا ہے، وہیں کے قاعدے قانون تو قبول کرے گا۔”

"یعنی تمہیں اس کے ایٹٹیوڈ سے کوئی شکایت نہیں ہے۔” راکیش حیران ہوئے۔

 "دیکھو، ابھی اس کی نئی نوکری ہے۔ اس میں اسے پاؤں جمانے دو۔ گھر سے دور جانے کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ بچہ گھر بھول گیا ہے۔ کیسے میری گود میں سر رکھ کر دوپہر کو لیٹا ہوا تھا۔ ایم۔ بی۔اے کر کے یہیں چپل چٹکاتا رہتا، تب بھی تو ہمیں پریشانی ہوتی۔”

ریکھا کا چچیرا بھائی بھی ناگپور میں مارکیٹنگ منیجر تھا۔ اسے تھوڑا انداز تھا کہ اس میدان میں کتنا سخت مقابلہ ہوتا ہے۔ وہ ایک پھٹیچر سے اسکول میں ٹیچر تھی۔ اس کے لئے بیٹے کی کامیابی فخر کا موضوع تھی۔ اس کی ساتھ کی ٹیچرس کے بچے پڑھائی کے بعد طرح طرح کی جد و جہد میں لگے تھے۔

کوئی آئی۔اے ایس، پی۔سی۔ ایس۔ کے امتحانوں کو پار نہیں کر پا رہا تھا تو کسی کو بینک کا مسابقتی امتحان ستا رہا تھا۔ کسی کا بیٹا کئی انٹرویو میں ناکام ہونے کے بعد نشے کی لت میں پڑ گیا تھا تو کسی کی بیٹی ہر سال پی۔ایم۔ ٹی میں اٹک جاتی۔ زندگی کے پچپنویں سال میں ریکھا کو یہ سوچ کر بہت اچھا لگتا کہ اس کے دونوں بچے پڑھائی میں اول رہے اور انہوں نے خود ہی اپنے کیرئیر کی سمت مقرر کر لی۔ سگھن ابھی چھوٹا تھا پر وہ بھی جب اپنے کیرئیر پر غور و فکر کرتا، اسے شہروں میں ہی امکانات نظر آتے۔ وہ دوستوں سے مانگ کر دیش ودیش کے کمپیوٹر جرنل پڑھتا۔ اس کا زیادہ وقت ایسے دوستوں کے گھروں میں بیتتا جہاں کمپیوٹر ہوتا۔

راکیش بولے۔ "تم سمجھ نہیں رہی ہو۔ پون کے بہانے ایک پوری کی پوری نوجوان نسل کو پہچانو۔ یہ اپنی جڑوں سے کٹ کر جینے والے لڑکے سماج کی کیسی تصویر تیار کریں گے۔”

"اور جو جڑوں سے جڑے رہے ہیں انہوں نے ان ننیانوے سالوںمیں کون سا انقلاب کیا ہے۔ تمہیں اتنی ہی تکلیف ہے تو کیوں کروایا تھا پون کو ایم۔بی۔ اے؟ گھر کے برامدے میں دوکان کھلوا دیتے، ماچس اور صابن بیچتا رہتا۔”

"تم مورکھ ہو، ایسا بھی نہیں لگتا مجھے، بس میری بات کاٹنا تمہیں اچھا لگتا ہے۔”

"اچھا اب سو جاؤ۔ اور دیکھو، صبح پون کے سامنے پھر یہی بحث مت چھیڑ دینا۔ چار روز کو بچہ گھر آیا ہے، راضی خوشی رہے، راضی خوشی جائے۔”

ریکھا نے رات کو تو بیٹے کی سائڈ لی لیکن اگلے دن سکول سے گھر لوٹی تو پون سے اس کی کھٹ پٹ ہو گئی۔ دوپہر میں دھوبی کپڑے استری کر کے لایا تھا۔ آٹھ کپڑوں کے بارہ روپئے ہوتے تھے پر دھوبی نے سولہ مانگے۔ پون نے سولہ روپئے دے دیئے۔ پتہ چلنے پر ریکھا اکھڑ گئی۔ اس نے کہا۔ "بیٹے، کپڑے لے کر رکھ لینے تھے، حساب میں اپنے آپ کرتی۔”

پون بولا۔ "ماں کیا فرق پڑا، میں نے دے دیا۔”

ریکھا نے کہا۔ "ٹورسٹ کی طرح تم نے اسے من مانے پیسے دے دیئے، وہ اپنا ریٹ بڑھا دے گا تو روز بھگتنا تو مجھے پڑے گا۔”

پون کو ٹورسٹ لفظ پتھر کی طرح چبھ گیا۔ اس کا گورا چہرہ غصے سے لال ہو گیا۔

"ماں، آپ نے مجھے ٹورسٹ کہہ دیا۔ میں اپنے گھر آیا ہوں، ٹور پر نہیں نکلا ہوں۔”

شام تک پون کچکچاتا رہا۔ اس نے باپ سے شکایت کی۔ باپ نے کہا۔ "یہ نہایت ٹچی سی بات ہے۔ تم کیوں پریشان ہو رہے ہو۔ تمہیں پتہ ہے تمہاری ماں کی زبان بے لگام ہے۔ چھوٹی سی بات پر کڑی سی بات جڑ دیتی ہے۔”

نوکری لگ جانے کے ساتھ پون بہت نازک مزاج ہو گیا تھا۔ اسے آفس میں اپنا مقام اور طاقت یاد آئی۔

"دفتر میں سب مجھے پون سر یا پھر مسٹر پانڈے کہتے ہیں۔ کسی کی ہمت نہیں کہ میری حکم عدولی کرے۔ گھر میں کسی کو اپنی مرضی سے میں چار روپئے نہیں دے سکتا۔”

ریکھا سہم گئی۔ "بیٹے، میرا مطلب یہ نہیں تھا میں تو صرف یہ کہہ رہی تھی کہ کپڑے روز استری ہوتے ہیں، ایک بار ان لوگوں کو زیادہ پیسے دے دو تو یہ ایک دم سر چڑھ جاتے ہیں۔”

 اور بھی چھوٹی چھوٹی کتنی ہی باتیں تھیں جن میں ماں بیٹے کا نظریہ ایک دم الگ تھا۔ پون نے کہا۔ "ماں، میرا جنم دن اس بار یوں ہی نکل گیا۔ آپ نے فون کیا پر گریٹنگ کارڈ نہیں بھیجا۔”

ریکھا حیران رہ گئی۔ "بیٹے گریٹنگ کارڈ تو باہری لوگوں کو بھیجا جاتا ہے۔ تمہیں پتہ ہے تمہارا جنم دن ہم کیسے مناتے ہیں۔ ہمیشہ کی طرح میں مندر گئی، سکول میں سب کو مٹھائی کھلائی، رات کو تمہیں فون کیا۔”

"میرے سب کولیگز ہنسی اڑا رہے تھے کہ تمہارے گھر سے کوئی گریٹنگ کارڈ نہیں آیا۔”

ماں کو لگا انہیں اپنے بیٹے کو پیار کرنے کا نیا طریقہ سیکھنا پڑے گا۔ مشکل سے پانچ دن ٹھہرا پون۔ ریکھا نے سوچا تھا اس کی پسند کی کوئی نہ کوئی ڈش روز بنا کر اسے کھلائے گی پر پہلے ہی دن اس کا پیٹ خراب ہو گیا۔ پون نے کہا۔ "ماں، میں لیمو پانی کے سوا کچھ نہیں لوں گا۔ دوپہر کو تھوڑی سی کھچڑی بنا دینا۔ اور پانی کون سا استعمال کرتے ہیں آپ لوگ؟”

"وہی جو تم جنم سے پیتے آئے ہو، گنگا جل آتا ہے ہمارے نل میں۔” ریکھا نے کہا۔

"تب سے اب تک گنگا جی میں نہ جانے کتنا پیشاب پاخانہ شامل ہو چکا ہے۔ میں تو کہوں گا یہ پانی آپ کے لئے بھی مہلک ہے۔ ایکواگارڈ کیوں نہیں لگاتے؟”

"یاد کرو، تمھیں کہا کرتے تھے فلٹر سے اچھا ہے ہم اپنے سسٹم میں قوت مدافعت کا اضافہ کریں۔”

"وہ سب فضول کی جذباتیت تھی، ماں۔ تم اس پانی کی ایک بوند اگر مائکروسکوپ کے نیچے دیکھ لو تو کبھی نہ پیو۔”

پون کو اپنی جنم بھومی کا پانی راس نہیں آ رہا تھا۔ شام کو پون نے سگھن سے بارہ بوتلیں منرل واٹر منگایا۔ رسوئی کے لئے ریکھا نے پانی ابالنا شروع کیا۔ نل کا پانی زہر کی مانند ہو گیا۔ دیش میں پردیسی ہو گیا پون۔

طبیعت کچھ سنبھلنے پر اپنے پرانے دوستوں کی تلاش کی۔ پتہ چلا کہ اکثر دوست شہر چھوڑ چکے ہیں یا اتنے ٹھنڈے اور اجنبی ہو گئے ہیں کہ ان کے ساتھ دس منٹ بتانا بھی سزا محسوس ہوتی ہے۔

پون نے دکھی ہو کر پاپا سے کہا۔ "میں ناحق اتنی دور آیا۔ سگھن سارا دن کمپیوٹر سینٹروں کی خاک چھانتا ہے۔ آپ اخباروں میں لگے رہتے ہیں۔ ماں صبح کی گئی شام کو لوٹتی ہیں۔ کیا ملا مجھے یہاں آ کر؟”

"تم نے ہمیں دیکھ لیا، کیا یہ کافی نہیں؟”

"یہ کام تو میں اینٹرپرائز کے سیٹلائٹ فون سے بھی کر سکتا تھا۔ مجھے لگتا ہے یہ شہر نہیں جسے میں چھوڑ کر گیا تھا۔”

"شہر اور گھر رہنے سے ہی بستے ہیں، بیٹا۔ اب اتنی دور ایک انجان جگہ کو تم نے اپنا ٹھکانہ بنایا ہے۔ پرائی زبان، پہناوا اور کھانے پینے کے باوجود وہ تمہیں اپنا لگنے لگا ہوگا۔”

"سچ تو یہ ہے پاپا جہاں ہر مہینے تنخواہ ملے، وہی جگہ اپنی ہوتی ہے اور کوئی نہیں۔”

"صرف معاشیات سے زندگی نہیں کٹتی پون، اس میں تھوڑا فلسفہ، تھوڑی روحانیت اور ڈھیر سی جذباتیت بھی پنپنی چاہئیے۔”

"آپ کو پتہ نہیں دنیا کتنی تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے۔ اب مذہب، فلسفہ، اور روحانیت زندگی میں ہر وقت رسنے والے پھوڑے نہیں ہیں۔ آپ سرل مارگ کے کیمپ میں کبھی جا کر دیکھیئے۔ چار پانچ دن کا کورس ہوتا ہے، وہاں جا کر آپ میڈی ٹیٹ کیجئے اور چھٹے دن واپس اپنے کام سے لگ جائیے۔ یہ نہیں کہ ڈی۔سی۔ بجلی کی طرح ہمیشہ کے لئے اس سے چپک جائیے۔”

"تم نے تو ہر چیز کی پیکیجنگ ایسی کر لی ہے کہ جیب میں سما جائے۔ دھرم کی کپسیول بنا کر بیچتے ہیں آج کل کے گرو۔ صبح صبح ٹی۔ وی۔ کے سبھی چینلوں پر ایک نہ ایک گرو تقریر کرتا رہتا ہے۔ پر ان میں وہ بات کہاں جو شنکراچاریہ میں تھی یا سوامی وویکانند میں۔”

"ہر پرانی چیز آپ کو بہتر لگتی ہے، یہ آپ کی نظر کی خرابی ہے، پاپا۔ اگر ایسا ہی ہے تو نئی چیزوں کا آپ استعمال بھی کیوں کرتے ہیں، پھینک دیجیے اپنا ٹی۔وی۔ سیٹ، ٹیلیفون اور کوکنگ گیس۔ آپ نئی چیزوں کا فائدہ بھی لوٹتے ہیں اور ان پر تنقید بھی کرتے ہیں۔”

"پون، میری بات صرف چیزوں تک نہیں ہے۔”

"مجھے پتہ ہے۔ آپ روحانیت اور مذہب پر بول رہے تھے۔ آپ کبھی میرے سوامی جی کو سنئے۔ سب سے پہلے تو انہوں نے یہی سمجھایا ہے کہ مذہب جہاں ختم ہوتا ہے، روحانیت وہیں شروع ہوتی ہے۔ آپ بچپن میں مجھے شنکر کا فلسفہ سمجھاتے تھے۔ میرے کچھ پلے نہیں پڑتا تھا۔ آپ نے زندگی میں مجھے بہت کنفیوز کیا ہے پر سرل مارگ میں ایک دم سیدھی سچی حقیقت پسندباتیں ہیں۔”

پتا جی دیکھتے رہ گئے۔ ان کے بیٹے کی شخصیت میں دنیا داری، روحانیت اور حقیقت پسندی کی کیسی تین دھارٍٍائیں بہہ رہی ہیں۔

راجکوٹ آفس سے پون کے لئے ٹرنک کال آیا کہ سوموار کو وہ سیدھے احمدآباد آفس پہنچے۔ سبھی مارکیٹنگ مینیجروں کی اعلیٰ لیول کی بیٹھک تھی۔ پون کا من یکایک امنگ سے بھر گیا۔ پچھلے پانچ دن پانچ زمانوں کی طرح بیتے تھے۔ جاتے جاتے وہ خاندان کے تئیں بہت جذباتی ہو آیا۔

"ماں، تم راجکوٹ آنا۔ پاپا، آپ بھی۔ میرے پاس بڑا سا فلیٹ ہے۔ آپ کو ذرا بھی دقت نہیں ہوگی۔ اب تو کک بھی مل گیا ہے۔”

"اب تیری شادی بھی کر دیں، کیوں۔” ریکھا نے پون کا دل ٹٹولا۔

"ماں، شادی ایسے تھوڑے ہی ہوگی۔ پہلے تم میرے ساتھ سارا گجرات گھومو۔ ارے وہاں میرے جیسے لڑکوں کی بڑی پوچھ ہے۔ وہاں کے گجو لڑکے بڑے پچکے پچکے سے ہوتے ہیں۔ میرا تو پاپا جیسا قد دیکھ کر ہی لٹو ہو جاتے ہیں سب۔”

"کوئی لڑکی دیکھ رکھی ہے کیا؟” ریکھا نے کہا۔

"ایک ہو تو نام بتاؤں۔ تم آنا تمہیں سب سے ملوا دوں گا۔”

"پر شادی تو ایک سے ہی کرنی ہوتی ہے۔” پون ہنسا۔ بھائی کو لپٹاتا ہوا بولا۔ "جان ٹماٹر، تم کب آؤ گے۔”

"پہلے اپنا کمپیوٹر بنا لوں۔”

"اس میں تو بہت دن لگیں گے۔”

"نہیں بھیا، ممی ایک بار دہلی جانے دیں تو نہرو پلیس سے باقی کا سامان لے آؤں۔”

"لے یہ ہزار روپئے تو رکھ لے کام آئیں گے۔”

میٹنگ میں بھاگ لینے والے سبھی ممبروں کو پرسڈینسی میں ٹھہرایا گیا تھا۔ دو دن کے چار سیشنس میں تقسیم کے سبھی پہلوؤں پر کھل کر بحث ہوئی۔ حیرانی کی بات یہ تھی کہ ایندھن جیسی لازمی شے کو بھی خواہش کے مطابق گاہک کی ضرورت کے زمرے میں رکھ کر اس کے بڑھاوے اور ترقی کا پروگرام تیار کیا جا رہا تھا۔ بہت سی ایندھن کمپنیاں میدان میں آ گئی تھیں۔ کچھ ملٹی نیشنل تیل کمپنیاں ایل۔ پی۔ جی۔ اکائی کھول چکی تھیں، کچھ کھولنے والی تھیں۔ دوسری طرف کچھ صنعت کاروں نے بھی ایل۔ پی۔ جی، بنانے کے حقوق حاصل کر لئے تھے۔ اس سے مقابلہ تو بڑھ ہی رہاتھا۔ معمول کے گاہک بھی کم ہو رہے تھے۔ نجی صنعت کار موٹھا بھائی نانو بھائی اپنی سبھی فرموں میں اپنی بنائی ایل۔پی، جی۔ استعمال کر رہے تھے جبکہ پہلے وہاں جی۔سی۔ سی۔ ایل۔ کی سلینڈر جاتی تھی۔ ملٹی نیشنل کمپنیوں کی فطرت تھی کہ شروع میں وہ اپنے پروڈکٹ کا دام بہت کم رکھتیں۔ جب اس کا نام اور پراڈکٹ لوگوں کی نگاہ میں چڑھ جاتے وہ دھیرے سے اپنا دام بڑھا دیتی۔ جی۔ سی۔ سی۔ ایل۔ کے مالکوں کے لئے یہ سب تبسیلیاں سردرد پیدا کر رہی تھیں۔ انہوں نے صاف طور پر کہا۔ "پچھلے پانچ سال میں کمپنی کو ساٹھ کروڑ کا گھاٹا ہوا ہے۔ ہم آپ سب کو بس دو سال دیتے ہیں۔ یا گھاٹا کم کیجئے یا اس اکائی کو بند کیجئے۔ ہمارا کیا ہے، ہم ڈینم بیچتے تھے، ڈینم بیچتے رہیں گے۔ پر یہ آپ لوگوں کا فیلیور ہوگا کہ اتنی بڑی بڑی ڈگری اور تنخواہ لے کر بھی آپ نے کیا کیا۔ آپ سٹڈی کیجئے ایسا کیا ہے جو ایسو اور شیل میں ہیں اور جی۔سی۔ سی۔ ایل۔ میں نہیں۔ وہ بھی ہندستانی کارندوں سے کام لیتے ہیں، ہم بھی۔ وہ بھی وہی لال سلنڈر بناتے ہیں۔ ہم بھی۔”

نو عمر مینیجروں میں ایم۔ ڈی۔ کی اس سپیچ سے کھلبلی مچ گئی۔ ایل۔ پی۔ جی۔ سیکشن کے افسران کے چہرے اتر گئے۔ آخری سیشن شام سات بجے ہوا تب بہتوں کو لگا جیسے یہ ان کا وداعی تقریب بھی ہے۔

پون بھی تھوڑا اکھڑ گیا۔ وہ اپنی رپورٹ بھی پیش نہیں کر پایا کہ سوراشٹر کے کتنے ہی گاؤوں میں اس کی اکائی نے نئے آرڈر لئے اور کہاں کہاں سے دوسری کمپنیوں کو پچھاڑ دیا۔ رپورٹ کی ایک کاپی اس نے ایم۔ڈی۔ کے سیکریٹری گائیکواڑ کو دے دی۔

راجکوٹ جانے سے پہلے ابھیشیک سے بھی ملنا تھا۔ انوپم اس کے ساتھ تھا۔ انہوں نے گھر پر فون کیا۔ پتہ چلا ابھی دفتر سے نہیں آیا۔

وہ دونوں آشرم روڈ اس کے دفتر کی طرف چل دیئے۔ انوپم نے کہا۔ "میں تو گھر جا کر سب سے پہلے اپنا بایوڈاٹا اپ ٹو ڈیٹ کرتا ہوں۔ لگتا ہے یہاں چھٹنی ہونے والی ہے۔”

پون ہنسا۔ "ملٹی نیشنل کمپنیوں سے لڑنے کا سب سے اچھا طریقہ ہے کہ ان میں خود گھس جاؤ۔”

انوپم نے خوشی جتائی۔ "واہ بھائی، یہ تو میں نے سوچا بھی نہیں تھا۔”

ابھیشیک اپنا کام سمیٹ رہا تھا۔ دوستوں کو دیکھ کر چہرہ کھل اٹھا۔

"پچھلے بارہ گھنٹے سے میں اس پریت کے آگے بیٹھا ہوں۔” اس نے اپنے کمپیوٹر کی طرف اشارہ کیا۔ "اب میں اور نہیں جھیل سکتا۔ چلو کہیں بیٹھ کر کافی پیتے ہیں، پھر گھر چلیں گے۔”

وہ کافی ہاؤس میں اپنے مستقبل سے زیادہ اپنی کمپنیوں کے مستقبل کی فکر کرتے رہے۔ابھیشیک نے کہا۔ "نجی سیکٹر میں سب سے خراب بات وہی ہے، نتھنگ از آن پیپر۔ ایم۔ڈی۔ نے کہا گھاٹا ہے تو ماننا پڑے گا کہ گھاٹا ہے۔ پبلک سیکٹر میں کام کرنے والے سر پر چڑھ جاتے ہیں، پائی پائی کا حساب دکھانا پڑتا ہے۔”

پھر بھی پبلک سیکٹر میں بیمار اکائیاں کی بیشمار ہیں۔ پرائیویٹ سیکٹر میں ایسا نہیں ہے۔”

ابھیشیک ہنسا۔ "مجھ سے زیادہ کون جانے گا۔ میرے پاپا اور چاچا دونوں پبلک سیکٹر میں ہیں۔ آج کل دونوں کی کمپنی بند چل رہی ہیں۔ پر پاپا اور چاچا دونوں بے فکر ہیں۔ کہتے ہیں لیبر کورٹ سے جیت کر ایک ایک پیسہ وصول کر لیں گے۔”

ابھیشیک کی کمپنی کی ساکھ اونچی تھی اور ابھیشیک وہاں پانچ سال سے تھا مگر نوکری کو لے کر عدم تحفظ کا احساس اسے بھی تھا۔ یہاں ہر دن اپنی کامیابی کا ثبوت دینا پڑتا۔ کئی بار کلاینٹ کو پسند نہ آنے پر اچھی بھلی کاپی میں تبدیلیاں کرنی پڑتی تو کبھی پورا پروجیکٹ ہی کینسل ہو جاتا۔ تب اسے لگتا وہ ناحق اشتہار کی منتظمی میں پھنس گیا، کوئی سرکاری نوکری کی ہوتی، چین کی نیند سوتا۔ پر پٹری بدلنا ریلوں کے لئے آسان ہوتا ہے، زندگی کے لئے مشکل۔ اب یہ اس کا دیکھ بھالا سنسار تھا، اسی میں جد و جہداور کامیابی پوشیدہ تھی۔ ابھیشیک نے ڈلائٹ سے چلی پنیر پیک کروایا کہ گھر چل کر کھانا کھائیں گے۔ جیسے ہی وہ گھر میں داخل ہوئے دیکھا راجل اور انکر باہر جانے کے لئے بنے ٹھنے بیٹھے ہیں۔ انہیں دیکھتے ہی وہ چہک کر بولے۔ "اہا، تم آ گئے۔ چلو آج باہر کھانا کھائیں گے۔ انکر شام سے ضد کر رہا ہے۔”

ابھیشیک نے کہا۔ "آج گھر میں ہی کھاتے ہیں، میں سبزی لے آیا ہوں۔”

راجل بولی۔ "تم نے صبح وعدہ کیا تھا شام کو باہر لے چلو گے۔ سبزی فرج میں رکھ دیتے ہیں، کل کھائیں گے۔”

راجل تالے لگانے میں مصروف ہو گئی۔ ابھیشیک نے پون اور انوپم سے کہا۔ "سوری یار، کبھی کبھی گھر میں بھی کاپی غلط ہو جاتی ہے۔”

تینوں تھکے ہوئے تھے۔ پون نے تو اٹھارہ سو کلومیٹر کا سفر کیا تھا۔ پر راجل اور انکر کا جوش ٹھنڈا کرنا انہیں ظلم لگا۔

سٹیلا اور پون نے اپنی جنم پتریاں کمپیوٹر سے میچ کیں تو پایا چھتیس میں سے چھبیس گن ملتے ہیں۔ پون نے کہا۔ "لگتا ہے تم نے کمپیوٹر کو بھی رشوت دے رکھی ہے۔”

سٹیلا بولی۔ "یہ پنڈت تو بنا رشوت کے کام کر دیتا ہے۔” کشش، دوستی اور دلجوئی کے بیچ کچھ دیر کو انہوں نے یہ بھلا ہی دیا کہ اس رشتے کی مساوات کس طرح بیٹھے گی۔

سٹیلا کے ماں باپ آج کل شکاگو گئے ہوئے تھے۔ سٹیلا کے ای میل کے جواب میں انہوں نے ای میل سے بدھائی بھیجی۔ پون نے ماں باپ کو فون پر بتایا کہ اس نے لڑکی پسند کر لی ہے اور وہ اگلے مہینے یعنی جولائی میں ہی شادی کر لیں گے۔

پانڈے خاندان پون کی خبر پر سن سا رہ گیا۔ نہ انہوں نے لڑکی دیکھی تھی نہ اس کا گھربار۔ اس اچانک وقوعے کے باعث ان کے من میں سب سے پہلے شک پیدا ہوا۔ راکیش نے بیوی سے کہا۔ "پنو کے دماغ میں ہر بات فتور کی طرح اٹھتی ہے۔ ایسا کرو، تم ایک ہفتے کی چھٹی لے کر راجکوٹ ہو آؤ۔ لڑکی بھی دیکھ لینا اور پنو کو بھی ٹٹول لینا۔ شادی کوئی چار دنوں کا کھیل نہیں، ہمیشہ کا رشتہ ہے۔ انٹر سے لے کر اب تک درجنوں دوست رہی ہیں پنو کی، ایسا چٹ پٹ فیصلہ تو اس نے کبھی نہیں کیا۔”

"تم بھی چلو، میں اکیلی کیا کر لوں گی۔”

"میں کیسے جا سکتا ہوں۔ پھر پنو سب سے زیادہ تمہیں مانتا ہے، تم ہو آؤ۔”

راستے بھر ریکھا کو لگتا رہا کہ جب وہ راجکوٹ پہنچے گی، پون تالی بجاتے ہوئے کہے گا۔ "ماں، میں نے یہ مذاق اسی لئے کیا تھا کہ تم دوڑی آؤ۔ ویسے تو تم آتی نہیں۔”

اس نے اپنے آنے کی خبر بیٹے کو نہیں کی تھی۔ من میں اسے چونکانے کا اضطراب تھا۔ ساتھ ہی یہ بھی کہ اسے پریشان نہ ہونا پڑے۔ احمدآباد سے راجکوٹ کا بس کا سفر اسے بھاری پڑا۔ تیز رفتار کے باوجود تین گھنٹے آسانی سے ہی لگ گئے۔ ڈائری میں لکھے پتے پر جب وہ سکوٹر سے پہنچی چھ بج چکے تھے۔ پون تبھی آفس سے لوٹا تھا۔ انوپم بھی اس کے ساتھ تھا۔ اسے دیکھ پون خوشی سے باؤلا ہو اٹھا۔ بانہوں میں اٹھا کر اس نے ماں کو پورے گھر میں نچا دیا۔ انوپم نے جلدی سے خوب میٹھی چائے بنائی۔ تھوڑی دیر میں سٹیلا وہاں آ پہنچی۔

پون نے ان کا تعارف کرایا۔ سٹیلا نے ہیلو کیا۔ پون نے کہا۔ "ماں، سٹیلا میری بزنس پارٹنر، لائف پارٹنر، روم پارٹنر تینوں ہے۔”

انوپم بولا۔ "ہاں، اب جی۔ چاہے چولہے بھاڑ میں جائے۔ تم تو انٹرپرائز کے سلیپنگ پارٹنر بن گئے۔”

سٹیلا نے کہا۔ "پون ڈارلنگ، جتنے دن میم یہاں پر ہیں میں مسیز چھجنانی کے یہاں سوؤں گی۔”

سٹیلا رات کے کھانے کا انتظام کرنے رسوئی میں چلی گئی۔ پھر پون اسے چھوڑنے مسیزچھجنانی کے گھر چلا گیا۔ پون کو کچھ کچھ اندازہ تھا کہ ماں سے تنہا گفتگو کوئی آسان نہیں ہوگی۔ اس نے انوپم کو بیچ والے شخص کی طرح ساتھ بٹھائے رکھا۔

بارہ بجے انوپم کا صبر کا پیمانہ چھلک گیا۔ اس نے کہا۔ "بھائی میں سونے جا رہا ہوں۔ صبح آفس بھی جانا ہے۔”

کمرے میں اکیلے ہوتے ہی ریکھا نے کہا۔ "پنو یہ چلبلی لڑکی تجھے کہاں مل گئی؟”

پون نے کہا۔ "تمہیں تو ہر لڑکی چلبلی نظر آتی ہے۔ اس کا لاکھوں کا کاروبار ہے۔”

"پر لگتی تو دو کوڑی کی ہے۔ یہ تو بالکل تمہارے لائق نہیں۔”

"یہی بات تمہارے بارے میں دادی ماں نے پاپا سے کہی تھی۔ کیا انہوں نے دادی ماں کی بات مانی تھی، بتائیے۔”

ریکھا کا پورا تن بدن جیسے جل اٹھا۔ اس کا اپنا بیٹا، ابھی کل کی اس چھوکری کا مقابلہ اپنی ماں سے کر رہا ہے اور ان سب معلومات کا غلط استعمال کر رہا ہے جو گھر کا لڑکا ہونے کے ناطے اس کے پاس ہیں۔

"میں نے تو ایسی کوئی لڑکی نہیں دیکھی جو شادی کے پہلے ہی میاں کے گھر میں رہنے لگے۔”

"تم نے دیکھا کیا ہے ماں؟ کبھی الہ آباد سے نکلو تو دیکھو گی نہ۔ یہاں گجرات، سوراشٹر میں شادی طے ہونے کے پہلے لڑکی مہینے بھر سسرال میں رہتی ہے۔ لڑکا لڑکی ایک دوسرے کے طور طریقے سمجھنے کے بعد ہی شادی کرتے ہیں۔”

"پر یہ سسرال کہاں ہے؟”

"ماں، سٹیلا اپنا کاروبار چھوڑ کر تمہارے قصبے میں تو جانے سے رہی۔ اس کا ایک ایک دن قیمتی ہے۔”

ریکھا بھڑک گئی۔ "ابھی تو یہ بھی طے نہیں ہے کہ ہم اس رشتے سے متفق ہیں یا نہیں۔ ہماری رائے کا تمہارے لئے کوئی مطلب ہے یا نہیں۔”

"بالکل ہے تبھی تو تمہیں خبر کی، نہیں تو اب تک ہم نے سوامی جی کے آشرم میں جا کر شادی کر لی ہوتی۔”

بالکل غلط بات کر رہے ہو پنو، یہی سب سنانے کے لئے بلایا ہے مجھے۔”

"اپنے آپ آئی ہو۔ بنا خبر دیئے۔ تمہارے ارادے بھی مشکوک تھے۔ تمہیں میرا ٹائم ٹیبل پوچھ لینا چاہئیے تھا۔ مان لو میں باہر ہوتا۔”

ریکھا کو رونا آ گیا۔ پون پر نا پسندیدہ حقیقت پسندی کا دورہ پڑا جس کے تحت اس نے اپنی شکایتوں کے تیروں سے اسے زخمی کر دیا۔

"میں صبح واپس چلی جاؤں گی، کوئی ڈھنگ کی گاڑی نہیں ہوگی تو مال گاڑی میں چلی جاؤں گی پر اب ایک منٹ تیرے پاس نہیں رہوں گی۔”

پون کی سختی کا صندوق ٹوٹ گیا۔ اس نے ماں کو بانہوں میں بھرا۔ "ماں، کیسی باتیں کرتی ہو۔ تم پہلی بار میرے پاس آئی ہو، میں تمہیں جانے دوں گا بھلا۔ گاڑی کے آگے لیٹ جاؤں گا۔”

دونوں روتے رہے۔ پون کے آنسو ریکھا کبھی جھیل نہیں پائی۔ چوبیس سال کو ہونے پر بھی اس کے چہرے پر اتنی معصومیت تھی کہ ہنستے اور روتے وقت بالکل بچہ لگتا تھا۔ ان لمحوں میں ماں بیٹا بن گئی اور بیٹا ماں۔ پون نے ماں کے آنسو پونچھے، پانی پلایا اور تھپک تھپک کر شانت کیا اسے۔

صبح تیز سنگیت کی آواز سے ریکھا کی نیند ٹوٹی۔ ایک پل کو وہ بھول گئی کہ وہ کہاں ہے۔ "ہو رام جی میرا پیا گھر آیا” سی۔ڈی سسٹم پر پورے والیوم پر چل رہا تھا اور انوپم رسوئی میں چائے بنا رہا تھا۔ اس نے ایک کپ چائے ریکھا کو دی۔ "گڈ مارننگ۔” پھر اس نے سنگیت کا والیوم تھوڑا کم کیا۔ "سوری، صبح مجھے خوب زور زور سے گانا سننا اچھا لگتا ہے۔ اور پھر پون بھیا کو اٹھانے کا اور کوئی طریقہ بھی تو نہیں۔ آنٹی! سویرے پونے نو تک سوتے رہتے ہیں اور نو بجے اپنے آفس میں ہوتے ہیں۔”

"صبح چائے ناشتہ کچھ نہیں لیتا؟”

"کسی دن سٹیلا بھابھی ہمارے لئے ٹوسٹ اور کامپلان تیار کر دیتی ہیں۔ پر زیادہ تر تو ایسے ہی بھاگتے ہیں ہم لوگ۔ لنچ ٹائم تک پیٹ میں نقارے بجنے لگتے ہیں۔”

چاول میں کنکر کی طرح لگا پھر سٹیلا کا نام۔ کہاں سے لگ گئی یہ بلا میرے بھولے بھالے بیٹے کے پیچھے، ریکھا نے اداسی سے سوچا۔

"ہٹو آج میں بناتی ہوں ناشتہ۔”

رسوئی کی پڑتال کرنے پر پایا گیا کہ ٹوسٹ اور ملک شیک کے سوا کچھ بھی بننا ممکن نہیں ہے۔ تھوڑے سے برتن تھے، جو جھوٹے پڑے تھے۔

"ابھی بھرت آ کر کرے گا۔ آنٹی آپ پریشان مت ہوئیے گا۔ بھرت کھانا بنا لیتا ہے۔”

"پون تو باہر کھاتا تھا۔”

"آنٹی، ہم لوگ کا ٹائم گڑبڑ ہو جاتا تھا۔ موسی لوگ کے یہاں ٹائم کی پابندی بہت تھی۔ ہفتے میں دو ایک دن بھوکا رہنا پڑتا تھا۔ کئی بار ہم لوگ ٹور پر رہتے ہیں۔ تب بھی پورے پیسے دینے پڑتے تھے موسی کو۔ اب تینوں کا لنچ باکس بھرت پیک کر دیتا ہے۔”

تبھی بھرت آ گیا۔ پون کی پرانی جینس اور ٹی شرٹ پہنے ہوئے یہ بیس بائیس سال کا لڑکا تھا جس نے سر پر پٹکا باندھ رکھا تھا۔ انوپم کے بتانے پر اس نے نمستے کرتے ہوئے کہا۔ "پون بھائی نی با آوی چھے۔” (پون بھائی کی ماں آئی ہیں۔)

غضب کی پھرتی تھی اس میں۔ کل پون گھنٹے میں اس نے کام سنبھال لیا۔ روٹی بنانے کے پہلے وہ ریکھا کے پاس آ کر بولا۔ "با تمے کیٹلا روٹلی کھاتو؟” (ماں، تم کتنی روٹی کھاتی ہو؟)

یہ سیدھا سا جملہ تھا پر ریکھا کے من پر ڈھیلے کی طرح پڑا۔ اب بیٹے کے گھر میں اس کی روٹیوں کی گنتی ہوگی۔ اس نے جل بھن کر کہا۔ "ڈیڑھ۔”

"وہ (دو) چلے گا۔” کہہ کر بھرت پھر رسوئی میں چلا گیا۔ اس بیچ پون نہا کر باہر نکلا۔

ریکھا سے رہا نہیں گیا۔ اس نے پون کو بتایا۔ پون ہنسنے لگا۔ "ارے ماں، تم تو پاگل ہو۔ بھرت کو ہمیں لوگوں نے کہہ رکھا ہے کہ کھانا بالکل برباد نہ جائے۔ ناپ تول کر بنائے۔ اسے ہر ایک کا اندازہ ہے کون کتنا کھاتا ہے۔ گھر کھلا پڑا ہے، تم جو چاہو بنا لینا۔”

ریکھا کو لگا اس ناپ تول کے پیچھے ضرور سٹیلا کا ہاتھ ہوگا۔ اس کا بیٹا تو ایسا حسابی کبھی نہیں تھا۔ خود یہ جم کر برباد کرنے میں یقین کرتا تھا۔ ایک بار ناشتہ بنتا، دو بار بنتا۔ پون کو پسند نہ آتا۔ شہزادے کی طرح فرما دیتا۔ "آلو کا ٹوسٹ نہیں کھائیں گے، آملیٹ بناؤ۔” اب آملیٹ تیار ہوتا وہ دانت صاف کرنے باتھ روم میں گھس جاتا۔ دیر لگا کر باہر نکلتا۔ پھر ناشتہ دیکھتے ہی بھڑک جاتا۔ "یہ انڈے کی ٹھنڈی لاش کوئی کھا سکتا ہے؟ مالتی پراٹھا بناؤ نہیں تو ہم ابھی جا رہے ہیں باہر۔” گھر کی پرانی ملازمہ مالتی میں ہی اتنا صبر تھا کہ ریکھا کی غیر موجودگی میں پون کے نخرے پورے کرے۔ کبھی بنا کسی اطلاع کے تین تین دوست ساتھ لے آتا۔ سارا گھر ان کی مہمان نوازی میں جٹ جاتا۔

پون نے کہا۔ "بھرت، میرا لنچ پیک مت کرنا، دوپہر میں میں گھر آ جاؤں گا۔” پھر ریکھا سے کہا۔ "ماں کیا کروں، آفس جانا ضروری ہے، دیکھو کل کی چھٹی کا جگاڑ کرتا ہوں کچھ۔ تم پیچھے سے ٹی۔ وی دیکھنا، سی۔ ڈی۔سن لینا۔ کوئی دقت ہو تو مجھے فون کر لینا۔ سامنے پٹیل آنٹی رہتی ہے، کوئی ضرورت ہو تو ان سے بات کر لینا۔” تبھی سٹیلا پھولوں کا گلدستہ لئے آئی۔

"گڈ مارننگ، میم۔” اس نے گلدستہ ریکھا کو دیا۔ اس میں چھوٹا سا گفٹ کارڈ لگا تھا۔ "سٹیلا پون کی اور سے۔”

پھولوں کے بجائے ریکھا دھیان سے اس چٹ کو دیکھتی رہی۔ پون تاڑ گیا۔ اس نے کہا۔ "ماں یہ ہم دونوں کی طرف سے ہے۔” اس نے گفٹ کارڈ میں پین سے سٹیلا اور پون کے بیچ کاما لگا دیا۔

ریکھا کو تھوڑا اطمینان ہوا۔ اس نے دیکھا سٹیلا کے چہرے کے خد و خال تھوڑے بدلے۔

سٹیلا نے اپنا لنچ باکس اور آفس بیگ اٹھایا۔ "بائے، سی یو ان د اوننگ میم، ٹیک کیئر۔”

اسی کے پیچھے پیچھے پون، انوپم بھی گاڑی کی چابی لے کر نکل گئے۔

اکیلے گھر میں بستر پر پڑی پڑی ریکھا دیر تک سوچتی رہی۔ بیچ میں آرزو ہوئی کہ راکیش سے بات کرے پر ایس۔ٹی۔ ڈی کوڈ ڈائل کرنے پر ادھر سے آواز آئی۔ "یہ سودھا تمارے فون پر نتھی چھے۔” فون کی ایس۔ٹی۔ ڈی پرالیکٹرانک تالا تھا۔ ایک بار پھر ریکھا کو لگا اس گھر پر سٹیلا کا کنٹرول بہت گہرا ہے۔

ریکھا کے تین دن کے قیام میں سٹیلا صبح شام کوئی نہ کوئی تحفہ اس کے لئے لے کر آتی۔ ایک شام وہ اس کے لئے آبھلا (شیشے) کی کڑھائی کی خوبصورت چادر لے کر آئی۔ پون نے کہا۔ "جیسے پیر شاہ پر چادر چڑھاتے ہیں ویسے ہم تمہیں منانے کو چادر چڑھا رہے ہیں، ماں۔”

"پیر اولیا کی مزار پر چادر چڑھاتے ہیں، مجھے کیا مردہ مان رہے ہو؟”

"نہیں ماں مردہ تو انہیں بھی نہیں مانا جاتا۔ تم ہر اچھی بات کا برا مطلب کہاں سے ڈھونڈ لاتی ہو۔”

"پر تم خود سوچو۔ کہیں کانچ کی چادر بستر پر بچھائی جاتی ہے۔ کانچ پیٹھ میں نہیں چبھ جائیں گے۔”

سٹیلا نے ان دونوں کا سنواد سنا۔ اس نے پون کے زانو پر ہاتھ مارا۔ "آئی گاٹ اٹ۔ میم اسے وال ہیگنگ کی طرح دیوار پر لٹکا لیں۔ پوری دیوار کور ہو جائے گی۔”

پون نے تعریف کی نظروں سے اسے دیکھا۔ "تم جینیس ہو، سلی۔”

چادر پلاسٹک بیگ میں ڈال کر ریکھا کے سوٹ کیس کے اوپر رکھ دی گئی۔

ریکھا کو رات میں یہی سپنا بار بار آتا رہا کہ اس کے بستر پر شیشے والی چادر بچھی ہے۔ جس کروٹ وہ لیٹتی ہے اس کے بدن میں شیشے چٹ چٹ کر کے ٹوٹ کر چبھ رہے ہیں۔

اس نے صبح پون سے بتایا کہ وہ چادر نہیں لے جائے گی۔ پون اکھڑ گیا۔ "آپ کو پتہ ہے ہمارے تین ہزار گفٹ پر خرچ ہوئے ہیں۔ اتنی قیمتی چیز کی کوئی قدر نہیں آپ کو؟”

ریکھا کو لگا اگر اس وقت وہ تین ہزار ساتھ لائی ہوتی تو منھ پر مارتی سٹیلا کے۔ مگر بظاہر اس نے کہا۔ "پنو، اس لڑکی سے کہنا ول بنا کر رکھ لے ہر چیز کا، میں وہاں جا کر پیسے بھجوا دوں گی۔”

"آپ کبھی سمجھنے کی کوشش نہیں کرو گی۔ وہ جو بھی کر رہی ہے، میری مرضی سے، میری ماں کے لئے کر رہی ہے۔ اب دیکھو وہ آپ کے لئے راجدھانی ایکسپریس کا ٹکٹ لائی ہے، یہاں سے امداباد وہ اپنی ایسٹیم میں خود آپ کو لے جائے گی۔ اور کیا کرے وہ، ستی ہو جائے۔”

"ستی اور ساوتری کے گن تو اس میں دکھ نہیں رہے، اچھی کیریرسٹ بھلے ہی ہو۔”

"وہ بھی ضروری ہے، بلکہ ماں وہ زیادہ ضروری ہے۔ تم تو اپنے آپ کو تھوڑا بہت رائٹر بھی سمجھتی ہو، اتنی دقیانوس کب سے ہو گئیں کہ میرے لئے چراغ لے کر ستی ساوتری ڈھونڈنے نکل پڑو۔ وی آر میڈ فار ایچ ادر۔ ہم اگلے مہینے شادی کر لیں گے۔”

"اتنی جلدی۔”

"ہمارے ایجنڈا پر بہت سارے کام ہیں۔ شادی کے لئے ہم زیادہ سے زیادہ چار دن خالی رکھ سکتے ہیں۔”

"کیا سول میرج کرو گے؟” ریکھا نے ہتھیار ڈال دیئے۔

سوامی جی سے پوچھنا ہوگا۔ ان کا کیمپ اس بار ان کے مکھیہ آشرم، منپکم میں لگے گا۔”

"کہاں؟”

"مدراس سے تیس پینتیس میل دور ایک جگہ ہے، ماں۔ میں تو کہتا ہوں آپ وہاں جا کر دس دن رہو۔ آپ کی بےچینی، پریشانی، بے وجہ چڑھنے کی عادت سب ٹھیک ہو جائے گی۔”

"میں جیسی بھی ہوں ٹھیک ہوں۔ کوئی ٹھالی بیٹھی نہیں ہوں جو آشرموں میں جا کر رہوں۔ نوکری بھی کرنی ہے۔”

"چھوٹی سی نوکری ہے تمہاری چھوڑ دو، چین سے جیو ماں۔”

"اسی چھوٹی سی نوکری سے میں نے بڑے بڑے کام کر ڈالے پنو، تو کیا جانتا نہیں ہے؟”

"پر آپ میں زندگی کو سمجھنے کی کمی ہے۔ سٹیلا کے ماں باپ کو دیکھو۔ اپنی لڑکی پر وشواس کرتے ہیں۔ انہیں پتہ ہے وہ جو بھی کرے گی، سوچ سمجھ کر کرے گی۔”

تلملا گئی ریکھا۔ بیٹیاں پرائی ہو جاتی ہے، یہ تو اس نے دیکھا تھا پر بیٹے پرائے ہو جائیں، وہ بھے شادی کے پہلے۔

"یہ تیرا آخری فیصلہ ہے؟”

"ہاں، ماں۔سوامی جی نے بھی اس رشتے کو او۔کے۔کر دیا ہے۔”

"اپنے پاپا کو پوچھا تک نہیں اور سب تے کر لیا۔”

"ان سے میں فون پر بات کر لوں گا۔ ویسے سوامی جی سب کے سپر پاپا ہے، وہ سوچ سمجھ کر حامی بھرتے ہیں۔ انہوں نے بھی اس ڈیل پر مہر لگا دی۔”

"ڈیل کا کیا مطلب ہے۔ تم ابھی شادی جیسے رشتے کی گمبھیرتا نہیں جانتے۔ شادی اور تجارت الگ الگ چیزیں ہیں۔”

"کوئی بھی نام دو، اس سے فرق نہیں پڑتا۔ اگلے مہینے آپ چوبیس کو مدراس پہنچو۔ سوامی جی کی سالگرہ پر چوبیس جولائی کو بڑا بھاری جلسہ ہوتا ہے، کم سے کم پچاس شادیاں کراتے ہیں سوامی جی۔”

"اجتماعی شادیاں؟”

ہاں۔ ایک گھنٹے میں سب کام پورا ہو جاتا ہے۔” آپریشن کی طرح بیٹے نے سب کچھ طے کر رکھا تھا۔ پہلے بیٹے کو لے کر ماں باپ کے ارمانوں کے لئے اس میں کوئی گنجائش نہیں تھیں۔

ماں نے آخری دلیل دی۔ "تو کھرماس میں شادی کرے گا۔ اس میں شادیاں منحوس ہوتی ہیں۔” پون نے پاس آ کر ماں کے کندھے کو پکڑا۔ "ماں میری پیاری ماں، یہ میں بھی جانتا ہوں اور تم بھی کہ ہم لوگ ان باتوں میں یقین نہیں کرتے۔ سلی کے ساتھ جب بندھن میں بندھ جاؤں وہی میرے لئے مبارک مہینہ ہے۔”

زخمی دل اور سن دماغ لئے ریکھا لوٹ آئی۔ شوہر اور چھوٹے بیٹے نے جو بھی سوال کئے، ان کا وہ کوئی سلسلےوار جواب نہیں دے پائی۔

"میرا پنو اتنا کیسے بدل گیا۔” وہ کڑھتی رہی۔

پون نے فون پر ماں کی بخیر واپسی کی خبر لی۔ سگھن سے ای میل پتہ لیا اور دیا اور اپنے پاپا سے بات کرتا رہا۔ "پاپا، آپ اپنی شادی یاد کرو اور ماں کو سمجھانے کی کوشش کرو۔ میں لڑکی کو ڈچ(دھوکا) نہیں کر سکتا۔”

راکیش عقل کا غلاف چڑھائے بیٹے کی آواز سنتے رہے۔

"ٹھیک ہے”۔”اچھا ہوں” کے علاوہ ان کے منھ سے کچھ نہیں نکلا۔ اس دن کسی نے کھانا نہیں کھایا گیا۔ راکیش نے کہا۔ "ہمیں یہ بھی سوچنا چاہئیے کہ اس لڑکی میں ضرور ایسی کوئی خاصیت ہوگی کہ ہمارا بیٹا اسے چاہتا ہے۔ تم نے دیکھا ہوگا۔”

"مجھے لگا سٹیلا بڑی اچھی منتظم ہے۔ مجھے تو وہ لڑکی کی بجائے منیجر زیادہ لگی” ریکھا نے کہا۔

"تو اس میں برائی کیا ہے۔ پون دفتر بھلے ہی مینیج کر لے گھر میں تو اسے ہر وقت ایک منیجر چاہئیے جو اس کا دھیان رکھے۔ یہاں یہ کام تم اور سگو کرتے تھے۔”

"پر شادی ایک دم الگ بات ہوتی ہے۔”

"کوئی الگ بات نہیں ہوتی۔ لڑکی کام سے لگی ہے۔ تمہارے جانے پر لگاتار تم سے ملتی رہی۔ اپنا وقاراسی میں ہے کہ بچوں سے ٹکراؤ کی حالت نہ آنے دیں۔”

"پر سب کچھ وہی طے کر رہی ہے، ہمیں صرف سر ہلانا ہے۔”

"تو کیا برائی ہے۔ تم اپنے کو فیمنسٹ کہتی ہو۔ جب لڑکی سارے انتظام میں پہل کرے تو تمہیں برا لگ رہا ہے۔”

"ہم اس سارے پلان میں کہیں نہیں ہے۔ ہمیں تو پنو نے اٹھا کر طاق پر رکھ دیا ہے، پچھلے سال کے گنیش لکشمی کی طرح۔”

"سب یہی کرتے ہیں۔ کیا ہم نے ایسا نہیں کیا۔ میری ماں کو بھی ایسا ہی دکھ ہوا تھا۔”

ریکھا بھڑک اٹھی۔ "تم سٹیلا کا مجھ سے مقابلہ کر رہے ہو۔ میں نے تمہارے گھر خاندان کی دھوپ چھاؤں جیسے کاٹی ہے، وہ کاٹے گی ویسے۔ بس بیٹھے بیٹھے کمپیوٹر جوڑ نے کے سوا اور کیا آتا ہے اسے۔ ایک ٹائم کھانا نوکر بناتا ہے۔ دوسرے ٹائم باہر سے آتا ہے۔ دودھ تک گرم کرنے میں دلچسپی نہیں ہے اسے۔”

"مجھے لگتا ہے تم غیر ضروری طور پر پریشان ہو۔ میرا لڑکا غلط انتخاب نہیں کر سکتا۔”

"اب تم اس کی لے میں بول رہے ہو۔”

کئی دنوں تک ریکھا کی بے چینی بنی رہی۔ اس نے اپنی دوسری ٹیچر ساتھیوں سے صلاح کی۔ جو بھی گھر آتا، اس کی بےچینی بھانپ جاتا۔ اس نے پایا ہر خاندان میں ایک نہ ایک ان چاہی، من چاہی شادی ہوئی ہے۔

اسے اپنے دن یاد آئے۔ بالکل ایسی تڑپ اٹھی ہوگی راکیش کے ماں باپ کے کلیجے میں جب ان کی دیکھی بے شمار لڑکیوں کو ٹھکرا کر اس نے ریکھا سے شادی کا طے کیا۔ اس کے دوستوں تک نے اس نے کہا۔ "تم کیا ایک دم پاگل ہو گئے ہو؟” دراصل وہ دونوں ایک دوسرے کی ضد تھے۔ راکیش تھے لمبے، تگڑے، سندر اور ہنس مکھ، ریکھا تھی چھوٹی، دبلی، کم صورت اور کٹکھنی۔ بولتے وقت وہ زبان کو چاقو کی طرح استعمال کرتی تھی۔ اس کے اسی تیور نے راکیش کو کھینچا تھا۔ وہ اس کی دوچار نظموں پر دل دے بیٹھا۔ راکیش کا بھلا چاہنے والوں کا خیال تھا کہ اول تو یہ شادی ہوگی نہیں اور ہو بھی گئی تو چھ مہینے میں ٹوٹ جائے گی۔

ریکھا کو یاد آتا گیا۔ شادی کے بعد کے مہینوں میں وہ لاکھ گھر کا کام، سکول کی نوکری، خرچ کو بوجھ سنبھالتی، ماں جی اس کے تئیں اپنی تلخی نہیں چھوڑتیں۔ اگر کبھی پتا جی یا راکیش اس کی کسی بات کی تعریف کر دیتے تو اس دن اس کی شامت ہی آ جاتی۔ ماں جی کی نظروں میں ریکھا چلتا پھرتا چیلینج تھا۔

جی۔سی۔ سی۔ ایل لگاتار گھاٹے میں چلتے چلتے اب ڈوبنے کے کگار پر تھی۔ کارندوں کی چھٹنی شروع ہو گئی تھی۔ ایم۔ بی۔ اے۔پاس لڑکوں میں اتنا صبرنہیں تھا کہ وہ ڈوبتے جہاز کا مستول سنبھالتے۔ سبھی کسی نہ کسی متبادل کی کھوج میں تھے۔

پون نے گھر پر فون کر کے اطلاع دی کہ اس کا سلیکشن ملٹی نیشنل کمپنی میل میں ہو گیا ہے۔ نئی نوکری میں جوائن کرنے سے پہلے اس کے پاس تین ہفتے کا وقت ہوگا۔ اسی دوران وہ گھر آئے گا اور جی بھر کر رہے گا۔

اگلے ہفتے پون نے کمپیوٹر پر بنا ہوا صاف ستھرا تخلیقیت سے مکمل خط بھیجا جس میں اس کی شادی کا دعوت نامہ تھا۔ سوامی جی کے پروگرام کے مطابق شادی دہلی میں ہونی تھی۔ شہروں کی دوریاں اور اجنبیت اس کی زندگی میں اہمیت نہیں رکھتی تھیں۔ بیٹے کے منصوبوں پر متعجب ہونا جیسے زندگی کا حصہ ن گیا تھا۔ اپنے نام کے مطابق ہی وہ پون ہوا کی رفتار سے ساراانتظام کر رہا تھا۔

اس بیچ وقت ضرور مل گیا تھا کہ ریکھا اور راکیش اپنی بے اطمینانی کو صبر کا روپ دے سکے۔ جب دہلی میں رام کرشن پورم میں سرل مارگ کے کیمپ میں انہوں نے دس ہزار لوگوں کی بھیڑ میں اجتماع شادی کا منظر دیکھا تو انہیں محسوس ہوا کہ اس انعقاد میں روایتی رسوم سے کہیں زیادہ وقار اور اعتماد ہے۔ نہ کہیں ماں باپ کا مہاجنی رول تھا نہ ڈرامے بازی۔ سوامی جی کی موجودگی میں دلہن کو ایک سادہ منگل سوتر پہنایا گیا، پھر شادی کو نوٹری کے ذریعے رجسٹر کیا گیا۔ آخر میں سبھی حاضرین میں لڈو بانٹ دیئے گئے۔ لڑکیوں کے سرپرستوں کے چہروں پر احسان مندی کی چمک تھی۔ لڑکوں کے سرپرستوں کے چہرے کچھ بجھے ہوئے تھے۔

اب تک اپنے غصے پر ریکھا اور راکیش قابو پا چکے تھے۔ نئے تجربے سے گزر نے کی خوشی میں انہیں سٹیلا سے کوئی شکایت نہیں ہوئی۔ وہ پون اور بہو کو لے کر گھر آئے۔ دو دن شلوار سوٹ پہننے کے بعد سٹیلا نے کہہ دیا۔ "میں دوپٹہ نہیں سنبھال سکتی۔” وہ واپس اپنی پسندیدہ پوشاک جینس اور ٹاپ میں نظر آئی۔ اس کی مصروفیت بھی اس طرح کی تھی کہ لباس کو لے کر جھگڑا نہیں کیا جا سکتا تھا۔ اس نے یہاں اپنی ساتھی فرم سے ربط کر کے سگھن کو کمپیوٹر کے پارٹس دلا دیئے۔ سگھن نے فخر کے ساتھ اعلان کیا۔ "میری جیسی بھابھی کبھی کسی کو نہ ملی ہے نہ ملے گی۔” سٹیلا کمپیوٹر مینیو پر جتنی ایکسپرٹ تھی، رسوئی گھر کی مینیو پر اتنی ہی اناڑی۔ لگاتار گھر سے باہر ہوسٹلوں میں رہنے کی وجہ سے اس کے ذہن میں کھانے کا کوئی خاص تصور نہیں تھا۔ وہ انڈا آلو، چاول ابالنا جانتی تھی یا پھر میگی۔

ماں نے کہا۔ "اتنی بے مزہ چیزیں تم کھا سکتی ہو؟”

سٹیلا نے کہا۔ "میں تو بس کیلوری گن لیتی ہوں اور آنکھ موند کر کھانا نگل لیتی ہوں۔”

"پر ہو سکتا ہے پون مزے دار کھانا کھانا چاہے۔”

"تو وہ کوکنگ سیکھ لے۔ ویسے بھی وہ اب چینئی جانے والا ہے۔ میں راجکوٹ اور احمدآباد کے بیچ چلتی پھرتی رہوں گی۔”

"پھر بھی میں تمہیں تھوڑا بہت سکھا دوں۔”

اب پون نے ٹانگ اڑائی۔ وہ یہاں ماں باپ کا آشیرواد لینے آیا تھا، ان کے احکام نہیں۔

"ماں، جب سے میں نے ہوش سنبھالا، تمہیں سکول اور رسوئی کے بیچ دوڑتے ہی دیکھا۔ مجھے یاد ہے جب میں سو کر اٹھتا تم رسوئی میں ہوتیں اور جب میں سونے جاتا، تب بھی تم رسوئی میں ہوتیں۔ تمہیں چاہئیے کہ سٹیلا کے لئے اس کی زندگی بھٹی نہ بنے۔ جو تم نے سہا، وہ کیوں سہے۔؟”

ریکھا کی بھویں تن گئیں۔ حالانکہ بیٹے کی دلیل کی وہ قائل تھی۔

دوپہر میں لیٹے اسے لگا ہر پیڑھی کا پیار کرنے کا ڈھنگ الگ اور انوکھا ہوتا ہے۔ سٹیلا بھلے ہی کمپیوٹر پر آٹھ گھنٹے کام کر لے، رسوئی میں آدھ گھنٹے نہیں رہنا چاہتی۔ پون بھی نہیں چاہتا کہ وہ رسوئی میں جائے۔

ریکھا نے کہا۔ "یہ دال روٹی تو بنانی سیکھ لے۔”

پون نے جواب دیا کھانا بنانے والا پانچ سو روپئے میں مل جائے گا ماں، اسے باورچی تھوڑی بنانا ہے۔”

"اور میں جو ساری عمر تم لوگوں کی باورچی، دھوبن، جما دارنی بنی رہی وہ؟”

"غلط کیا آپ نے اور پاپا نے۔ آپ چاہتی ہیں وہی غلطیاں میں بھی کروں۔ جو گن ہے اس لڑکی کے انہیں دیکھو۔ کمپیوٹر وزرڈ ہے یہ۔ اس کے پاس بل گیٹس کے دستخط سے چٹھی آتی ہے۔”

"پر کچھ لڑکیوں والی خصوصیات بھی تو پیدا کرنی ہوں گی اسے۔”

"ارے ماں، آج کے زمانے میں مرد اور عورت کی الگ الگ دنیا نہیں رہی ہے۔ آپ تو پڑھی لکھی ہو، ماں۔ وقت کی دستک پہچانو۔ اکیسویں صدی میں یہ سڑے گلے خیالات لے کر نہیں چلنا ہے ہمیں، ان کی چھٹی کر ڈالو۔”

سٹیلا کی عادت تھی جب ماں بیٹے میں کوئی بحث ہو تو وہ بالکل بیچ میں نہیں بولتی تھی۔ اس کی زیادہ دلچسپی مسئلوں کے ٹھوس حلوں میں تھی۔ اس نے باپ سے کہا۔ "میں آپ کو آپریٹ کرنا سکھا دوں گی۔ تب آپ دیکھئے گا ایڈٹنگ کرنا آپ کے لئے کتنا آسان کام ہوگا۔ جہاں مرضی ہو، ترمیم کر لیں جہاں مرضی ہو، مٹا دیں۔”

ریکھا کی کئی کہانیاں اس نے کمپیوٹر پر اتار دیں۔ بتایا۔ "میم اس ایک فلاپی میں آپ کی سو کہانیاں آ سکتی ہیں۔ بس یہ ڈسکیٹ سنبھال لیجیے، آپ کا سارا ادب اس میں ہے۔”

اچنبھے میں رہ گئے وہ دونوں۔ ریکھا نے کہا۔ "اب تم ہماری ہو گئی ہو۔ میم نہ بولا کرو۔”

"او۔ مام صحیح۔” سٹیلا ہنس دی۔

بچوں کے واپس جانے میں بہت تھوڑے دن بچے تھے۔ راکیش اس بات سے اکھڑے ہوئے تھے کہ شادی کے فوراً بعد پون اور سٹیلا ساتھ نہیں رہیں گے بلکہ ایک دوسرے سے تین ہزار میل کے فاصلے پر ہوں گے۔

انہوں نے دونوں کو سمجھانے کی کوشش کی۔ پون نے کہا۔ "میں تو کمٹ کر چکا ہوں میل کو۔ میرا چینئی جانا طے ہے۔”

"اور جو کمٹ مینٹ جیون ساتھی کو دیئے وہ؟”

پون ہنسا۔ "پاپا، جملے بازی میں آپ کا جواب نہیں۔ ہماری شادی میں کوئی بھاری بھرکم وعدوں کی ادلا بدلی نہیں ہوئی۔”

"بہو اکیلی انجان شہر میں رہے گی؟ آج کل زمانہ اچھا نہیں ہے۔”

"زمانہ کبھی بھی اچھا نہیں تھا، پاپا، میں تو پچیس سال سے دیکھ رہا ہوں۔ پھر وہ شہر سٹیلا کے لئے انجان نہیں ہے۔ ایک اور بات، راجکوٹ میں جرم و تشدد یہاں کا ایک پرسینٹ بھی نہیں ہے۔ راتوں میں لوگ بنا تالا لگائے سکوٹر پارک کر دیتے ہیں، چوری نہیں ہوتی۔ پھر آپ کی بہو کراٹے، تائکوانڈو میں ماہر ہے۔”

"پر پھر بھی شادی کے بعد تمہارا فرض ہے ساتھ رہو۔”

"پاپا، آپ بھاری بھرکم لفظوں سے ہمارا رشتہ بوجھل بنا رہے ہیں۔ میں اپنا کیرئیر، اپنی آزادی کبھی نہیں چھوڑوں گا۔ سٹیلا چاہے تو اپنا بزنس چینئی لے چلے۔”

"تم تو ترقی رام ہو۔ میں چینئی پہنچوں اور تم سنگاپور چلے جاؤ تب !” سٹیلا ہنسی۔

پتہ چلا پون کے سنگاپور یا تائیوان جانے کی بھی بات چل رہی تھی۔

ریکھا نے کہا۔ "یہ بار بار اپنے کو ڈسٹرب کیوں کرتی ہو۔ اچھی بھلی کٹ رہی ہے سوراشٹر میں۔ اب پھر ایک نئی جگہ جا کر سنگھرش کرو گے؟”

"وہی تو ماں۔ منزلوں کے لئے جد و جہد تو کرنی ہی پڑے گی۔ میری لائن میں چلتے رہنا ہی ترقی ہے۔ اگر یہیں پڑا رہ گیا تو لوگ کہیں گے، دیکھا کیسا لدھڑ ہے، کمپنی ڈوب رہی ہے اور یہ کیسا بیانکا کی طرح اس میں پھنسا ہوا ہے۔”

باتیں راکیش کو بہت چبھیں۔ "تم اپنی ترقی کے لئے پتنی اور کمپنی دونوں چھوڑ دو گے؟”

"چھوڑ کہاں رہا ہوں، پاپا، یہ کمپنی اب میرے لائق نہیں رہی۔ میری صلاحیت کا استعمال اب "میل” کرے گی۔ رہی سٹیلا۔ تو یہ اتنی مصروف رہتی ہے کہ انٹرنیٹ اور فون پر مجھ سے بات کرنے کی فرصت نکال لے یہی بہت ہے۔ پھر جیٹ، سہارا، انڈین ایرلائنس کا بزنس آپ لوگ چلنے دو گے یا نہیں۔ صرف سات گھنٹے کی اڑان سے ہم لوگ مل سکتے ہیں۔”

"یعنی سیٹیلائٹ اور انٹرنیٹ سے تم لوگوں کی ازدواجی زندگی چلے گی؟”

"یس پاپا۔”

"میں تمہاری پلاننگ سے ذرا بھی خوش نہیں ہوں، پنو۔ ایک اچھی بھلی لڑکی کو اپنا جیون ساتھی بنا کر کچھ ذمے داری سے جینا سیکھو۔ اور بیچاری جی۔سی۔سی ایل۔ نے تمہیں اتنے سالوں میں کام سکھا کر قابل بنایا ہے۔ کل تک تم اس کے گن گاتے نہیں تھکتے تھے۔ تمہاری ایتھکس کو کیا ہوتا جا رہا ہے؟”

پون چڑھ گیا۔ "میرے ہر کام میں آپ یہ کیا ایتھکس، موریلٹی جیسے بھاری بھرکم پتھر مارتے رہتے ہے۔ میں جس دنیا میں ہوں وہاں ایتھکس نہیں، پروفیشنل ایتھکس کا ضرورت ہے۔ چیزوں کو نئی نظر سے دیکھنا سیکھئیے نہیں تو آپ پرانے اخبار کی طرح ردی کی ٹوکری میں پھینک دیئے جائیں گے۔ آپ جینریشن گیپ پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس سے کیا ہوگا، آپ ہی دکھی رہیں گے۔”

"تم ہماری پیڑھی میں پیدا ہوئے ہو، بڑے ہوئے ہو، پھر جینریشن گیپ کہاں سے آ گیا۔ اصل میں پون ہم اور تم ساتھ بڑے ہوئے ہیں۔”

"ایسا آپ کو لگتا ہے۔ آپ کو آج بھی کے۔ ایل۔ سہگل پسند ہے، مجھے بابا سہگل، اتنا فاصلہ ہے ہمارے آپ کے بیچ۔ آپ کو پرانی چیزیں، پرانے گیت، پرانی فلمیں سب اچھی لگتی ہیں۔ ڈھونڈ ڈھونڈ کر آپ کباڑ اکٹھا کرتے ہیں۔ ٹی۔وی۔ پر کوئی پرانی فلم آئے آپ اس سے بندھ جاتے ہیں۔ اتنا فلم بور نہیں کرتی جتنا آپ کی یادیں بور کرتی ہیں۔۔۔نمی ایسے دیکھتی تھی، ایسے بھاگتی تھی، اس کے ہونٹ ان کسڈ لپس کہلاتے تھے۔ میرے پاس ان قصے کہانیوں کا وقت نہیں ہے۔ تکنیکی زاویۂ نظرسے کتنی خراب فلمیں تھیں وہ۔ ایک ڈائیلاگ بولنے میں ہیروئن دو منٹ لگا دیتی تھی۔ آپ بھی تو آدھی فلم دیکھتے نہ دیکھتے اونگھ جاتے ہیں۔”

ریکھا نے کہا۔ "باپ کو اتنا لمبا لیکچر پلا دیا۔ یہ نہیں دیکھا کہ تیری بھلائی کی ہی سوچ رہے ہیں وہ۔”

"جب میں یہاں خوش رہتا تھا تب بھی تو آپ لوگ دکھی تھے۔ آپ نے کہا تھا ماں کہ آپ کے بڑے بابو کے لڑکے تک نے ایم۔بی۔ اے انٹرنس پاس کر لی۔ اس وقت مجھے کیسا لگا تھا۔”

"سبھی ماں باپ اپنے بچوں کو معاشی معنوں میں کامیاب بنانا چاہتے ہیں تاکہ کوئی انہیں پھسڈی نہ سمجھے۔”

"وہی تو میں نے کیا۔ آپ کے اوپر ان تین حروف کا کیسا جادو چڑھا تھا، ایم۔بی۔ اے۔ آپ کو اس وقت لگا تھا کہ اگر آپ کے لڑکے نے ایم۔ بی۔ اے۔نہیں کیا تو آپ کی ناک کٹ جائے گی۔”

"ہمیں تمہاری ڈگری پر فخر ہے، بیٹا، پر شادی کے ساتھ کچھ تال میل بھی بٹھانے پڑتے ہیں۔”

"تال میل بڑا گڑبڑ لفظ ہے۔ اس کے لئے نہ میں سٹیلا کی رکاوٹ بنوں گا نہ وہ میری۔ ہم نے پہلے ہی یہ بات صاف کر لی ہے۔”

"پر اکیلا پن۔۔۔”

"یہ اکیلا پن تو آپ سب کے بیچ رہ کر بھی مجھے ہو رہا ہے۔ آپ میرے نظرئے سے چیزوں کو دیکھنا نہیں چاہتے۔ آپ نے مجھے ایسے سمندر میں پھینک دیا ہے جہاں مجھے تیرنا ہی تیرنا ہے۔”

"تم پڑھ لکھ لئے، یہ غلطی بھی ہماری تھی کیوں؟”

"پڑھ تو میں یہاں بھی رہا تھا پر آپ اپنے خواب پورے کرنا چاہتے تھے۔ آپ کے خواب میرے لئے سنگھرش بن گئے۔ یہ مت سوچیے کہ سنگھرش اکیلے آتا ہے۔ وہ سبق بھی سکھاتا چلتا ہے۔”

راکیش لا جواب ہو گئے۔ انہیں لگا جتنا نا پختہ وہ بیٹے کو مان رہے ہیں، اتنا وہ نہیں ہے۔

سٹیلا کا ریل رزرویشن دو دن پہلے کا تھا۔ اس کے جانے کے بعد پون کا سامان سمیٹنا شروع ہوا۔ اس نے چھوٹے سے "اوڈسی” سوٹ کیس میں قرینے سے اپنے کپڑے جمع لئے۔ بیگ میں نہایت ضروری چیزوں کے ساتھ لیپٹاپ، منرل واٹر اور موبائل فون رکھ لیا۔

جانے کے دن اس نے ماں کے نام بیس ہزار کا چیک کاٹا۔ "ماں، ہمارے آنے سے آپ کا بہت خرچ ہوا ہے، یہ میں آپ کو پہلی قسط دے رہا ہوں۔ تنخواہ ملنے پر اور دوں گا۔”

ریکھا کا گلا رندھ گیا۔ "بیٹے، ہمیں تم سے قسطیں نہیں چاہئیے۔ جو کچھ ہمارا ہے سب تمہارا اور چھوٹو کا ہے۔ یہ مکان تم دونوں آدھا آدھا بانٹ لینا۔ اور جو بھی ہے اس میں برابر کا حصہ ہے۔”

"اب بتاؤ، حساب کی بات تم کر رہی ہو یا میں؟ اتنے سال کی نوکری میں میں نے کبھی ایک پیسہ آپ دونوں پر خرچ نہیں کیا۔”

ریکھا نے چیک واپس کرتے ہوئے کہا۔ "رکھ لو نئی جگہ پر کام آئے گا۔ دو شہروں میں گرہستھی جماؤ گے، دوہرا خرچ بھی ہوگا۔”

"سوچ لو ماں، لاسٹ آفر۔ پھر نہ کہنا پون نے گھر پر ادھار چڑھا دیا۔”

بچوں کے جانے کے بعد گھر یکبارگی بھائیں بھائیں کرنے لگا۔ سگھن نے سافٹ ویر کا انٹرنس ٹیسٹ پاس کر کے دہلی میں ڈیڑھ سال کا کورس جوائن کر لیا۔ ریکھا اور راکیش ایک بار پھر اکیلے رہ گئے۔

اکیلے پن کے ساتھ سب سے جان لیوا ہوتے ہیں اداسی اور احساسِ شکست! وہ دونوں صبح کی سیر پر جاتے۔ انجینئرنگ کالج کے احاطے کی صاف ہوا کچھ دیر کو طبیعت بہلا دیتی کہ کالونی کا کوئی نہ کوئی جانا پہچانا چہرہ نظر آ جاتا۔ بات صحت اور موسم سے ہوتی ہوئی لازمی بچوں پر آ جاتی۔ کالج کی ریلنگ پر گٹھیا سے گٹھیائے پیروں کو تھوڑا آرام دیتے سنہا صاحب بتاتے، ان کا امت ممبئی میں ہے، وہیں اس نے قسطوں پر فلیٹ خرید لیا ہے۔ سونی صاحب بتاتے، ان کا بیٹا ایچ۔سی۔ ایل کی طرف سے نیویارک چلا گیا ہے۔ مجیٹھیا کا چھوٹا بھائی کینیڈا میں ہارڈویئر کا کورس کرنے گیا تھا، وہیں بس گیا ہے۔

یہ سب کامیاب اولادوں کے ماں باپ تھے۔ ہر ایک کے چہرے پر خوف اور تشکیک کے سائے تھے۔ بچوں کی کامیابی ان کی زندگی میں سناٹا بن رہی تھی۔

"اتنی دور چلا گیا ہے بیٹا، پتہ نہیں ہمارا کریا کرم کرنے بھی پہنچے گا یا نہیں؟” سونی صاحب کہہ کر چپ ہو جاتے۔

ریکھا اور راکیش ان سب سے ہٹ کر گھومنے کی کوشش کرتے۔ انہیں لگتا جو بےچینی وہ رات بھر جیتے ہیں اسے صبح صبح لفظوں کا جامہ پہنا ڈالنا اتنا ضروری تو نہیں۔ یوں دن بھر بات میں چھوٹو اور پون کا دھیان آتا رہتا۔ گھر میں پاؤ بھر سبزی بھی پوری ختم نہ ہوتی۔ ماں کہتی۔ "لو چھوٹو کے نام کی بچی ہے یہ۔ پتہ نہیں کیا کھایا ہوگا اس نے؟”

راکیش کو پون کا دھیان آ جاتا۔ "اس کے جاب میں دورہ ہی دورہ ہے۔ اتنا بڑا ایریا اسے دے دیا ہے کیا کھاتا ہوگا۔ وہاں سب چاول کے کھانے ملتے ہیں، میری طرح اسے بھی چاول بالکل پسند نہیں۔”

دونوں کے کان فون پر لگے رہتے۔ فون اب ان کے لئے کونے میں رکھا ایک آلہ نہیں، بات چیت کا ذریعہ تھا۔ پون جب اپنے شہر میں ہوتا فون کر لیتا۔ اگر چار پانچ دن اس کا فون نہ آئے تو یہ لوگ اس کا نمبر ملاتے۔ اس وقت انہیں چھوٹو کی یاد آتی۔ فون ملانے، اٹھانے، ایس۔ٹی۔ ڈی۔ کا الیکٹرانک تالا کھولنے، لگانے کا کام چھوٹو ہی کیا کرتا تھا۔ اب وہ فون ملاتے پر ڈرتے ڈرتے صحیح نمبر دبانے پر بھی انہیں لگتا نمبر غلط لگ گیا ہے۔ کبھی پون فون اٹھاتا پر زیادہ تر ادھر سے یہی مشینی آواز آتی – "یو ہیو ریچڈ د وایس میل باکس آف نمبر 9844014988۔

ریکھا کو وایس میل کی آواز بڑی منحوس لگتی۔ وہ اکثر پون سے کہتی۔ "تم خود تو باہر چلے جاتے ہو، اس چڑیل کو لگا جاتے ہو۔”

"کیا کروں ماں، میں تو ہفتہ ہفتہ باہر رہتا ہوں۔ لوٹ کر کم سے کم یہ تو پتہ چل جاتا ہے کہ کون فون گھر پر آیا۔”

سگھن کے ہوسٹل میں فون نہیں تھا۔ وہ باہر سے مہینے میں دو بار فون کر لیتا۔ اسے ہمیشہ پیسوں کی تنگی ستاتی۔ مہینے کے شروع میں پیسے ملتے ہی وہ کمپیوٹر کے مہنگی رسائل خرید لیتا، پھر کبھی ناشتے میں کٹوتی، کبھی کھانے میں کنجوسی برتتا۔ دہلی اتنی مہنگی تھی کہ بیس ورپئے روز آنے جانے میں نکل جاتے جبکہ اس کے باوجود بس کے لئے گھنٹوں دھوپ میں کھڑا ہونا پڑتا۔ ایک سیمیسٹر پورا کر جب وہ گھر آیا ماں پاپا اسے پہچان نہیں پائے۔ چہرے پر ہڈیاں نکل آئی تھیں۔ شکل پر سے پہلے والا، چھلکتا بچپنا غائب ہو گیا تھا۔

بیگ اور اٹیچی سے اس کے چیکٹ میلے کپڑے نکالتے ہوئے ریکھا نے کہا۔ "کیوں کبھی کپڑے دھوتے نہیں تھے۔”

اس نے گردن ہلا دی۔

"کیوں؟”

"ٹائم کہاں ہے ماں۔ روز رات تین بجے تک کمپیوٹر پر پڑھنا ہوتا ہے۔ دن میں کلاس۔”

"باقی لڑکے کیسے کرتے ہیں؟”

"لانڈری میں دھلواتے ہیں۔ میرے پاس پیسے نہیں ہوتے۔”

راکیش نے کہا۔ "جتنے تمہیں بھیجتے ہیں، اتنے تو ہم پون کو بھی نہیں بھیجتے تھے۔ ایک طرح سے تمہاری ماں کی پوری تنخواہ ہی چلی جاتی ہے۔”

"اس زمانے کی بات پرانی ہو گئی، پاپا۔ اب تو اکیلی چپ سو روپئے کی ہوتی ہے۔”

"کیا ضرورت ہے اتنے چپس کھانے کی؟” ریکھا نے بھویں سکوڑیں۔

سگھن ہنس دیا۔ "ماں، پوٹیٹو چپس نہیں، پڑھنے کے چپ کی بات کرو۔ یہ تو ایک میگزین ہے، اور نہ جانے کتنی ہیں جو میں افورڈ نہیں کر پاتا۔ میرے کورس کی ایک ایک سی۔ ڈی کی قیمت ڈھائی سو روپئے ہوتی ہے۔”
ناشتے کے بعد وہ بنا نہائے سو گیا۔ اس کی میلی جینس رگڑتے ہوئے ماں سوچتی رہی، اس کے کپڑوں سے اس کے سنگھرش کا پتہ چل رہا ہے۔ جب تک وہ گھر پر تھا ہمیشہ صاف ستھرا رہتا تھا۔ دوپہر میں اسے کھانے کے لئے اٹھایا۔ بڑی مشکل سے وہ اٹھا، چار نوالے کھا کر پھر سو گیا۔ تبھی اس کے پرانے دوست یوگی کا فون آ گیا۔ اس کی ہارڈ ڈسک اٹک رہی تھی۔ سگھن نے کہا وہ اس کے یہاں جا رہا ہے، مرمت کر دے گا۔

"تم تو سافٹ ویئر پروگرامنگ میں ہو۔” راکیش نے کہا۔

"وہاں میں نے ہارڈویئر کا بھی ایوننگ کورس لے رکھا ہے۔” سگھن نے جاتے جاتے کہا۔

ہم اپنے بچوں کو کتنا کم جانتے ہیں۔ ان کے ارادے، ان کی منزل، ان کا جد و جہد کا راستہ، سب تنہائی کا ہوتا ہے، کوئی اور شامل نہیں اس میں۔ راکیش نے سوچا۔ اس کی یادداشت میں وہ ابھی بھی لیلا دکھانے والا چھوٹا سا کشن کنہیا تھا جبکہ وہ انفارمیشن ٹکنالوجی کے ایسے سنسار میں ہاتھ پیر پھٹکار رہا تھا جس کے اور چھور پوری دنیا میں پھیلے تھے۔

ریکھا نے کہا۔ "جو میں نہیں چاہتی تھی وہ کر رہا ہے چھوٹو۔ ہارڈویئر کا مطلب ہے میکینک بن کر رہ جائے گا۔ ایک بھائی منیجر دوسرا، میکینک۔”

راکیش نے ڈانٹ دیا۔ "جو بات نہیں سمجھتی، اسے بولا مت کرو۔ ہارڈ وئیر والوں کو ٹیکنیشین کہتے ہیں، میکینک نہیں۔ باہر کے ممالک میں سافٹویر انجینئر سے زیادہ ہارڈویئر انجینئر کماتے ہیں۔ تمہیں یاد ہے جب یہ چھوٹا سا تھا، تین سال کا، میں نے اسے ایک روسی کتاب لا کر دی تھی "میں کیا بنوں گا؟” با تصویر تھی وہ۔”

ریکھا کا موڈ بدل گیا۔ "ہاں، میں اسے پڑھ کر سناتی تھی تو یہ بہت خوش ہوتا تھا۔ اس میں ایک جگہ لکھا تھا، میکینک اپنے ہاتھ پیر کتنے بھی گندے رکھیں اس کی ماں کبھی نہیں مارتی۔ اسے یہ بات بڑی اچھی لگتی۔ وہ تصویر تھی نہ، بچے کے دونوں ہاتھ گریز سے لتھڑے ہیں اور ماں اسے کھانا کھلا رہی ہے۔”

"پر چھوٹو کمزور بہت ہو گیا ہے۔ کل سے اسے وٹامن دینا شروع کرو۔”

"مجھے لگتا ہے یہ کھانے پینے کے پیسے کاٹ کر ہارڈویئر کورس کی فیس بھرتا ہوگا۔ شروع کا چپ ہے۔ اپنی ضرورتیں بتاتا تو ہے ہی نہیں۔”

ابھی سگھن کو صبح شام دودھ دلیہ دینا شروع ہی کیا تھا کہ ہاٹ میل پر اسے تائیوان کی سافٹ وئیر سے نوکری کا بلاوا آ گیا۔ پھر ہو گئی اس کی تھکان اور چپی۔ کہنے لگا۔ "مجھے دس دنوں سے اس کا انتظار تھا۔ سارے بیچ نے ایپلائے کیا تھا پر پوسٹ صرف ایک تھی۔”

ماں باپ کے چہرے پھیکے پڑ گئے۔ ایک لڑکا اتنی دور مدراس میں بیٹھا ہے۔ دوسرا چلا جائے گا ایک ایسے پردیس جس کے بارے میں وہ سپیلنگ سے زیادہ کچھ نہیں جانتے۔

راکیش کہنا چاہتے تھے سگھن سے۔ "کوئی ضرورت نہیں اتنی دور جانے کی، تمہارے میدان میں یہاں بھی نوکری ہے۔”

پر سگھن منظوری بھیج چکا تھا۔ پاسپورٹ اس نے پچھلے سال ہی بنوا لیا تھا۔ وہ کہہ رہا تھا۔ "پاپا، بس ہوائی ٹکٹ اور پانچ ہزار کا انتظام آپ کر دو، باقی میں مینیج کر لوں گا۔ آپ کا خرچ میں پہلی پے (Pay) میں سے چکا دوں گا۔”

ریکھا کو لگا سگھن میں سے پون کا چہرہ جھانک رہا ہے۔ وہی مہاجنی انداز اور رویہ۔ اسے یہ بھی لگا کہ جوان بیٹے نے ایک منٹ کو نہیں سوچا کہ ماں باپ یہاں کس کے سہارے زندہ رہیں گے۔

دوسرے ممالک میں رہنے والے صرف سیاح اور پنچھی نہیں ہوتے، بچے بھی ہوتے ہیں۔ وہ دوڑ دوڑ کر درزی کے یہاں سے اپنے نئے سلے کپڑے لاتے ہیں، سوٹ کیس میں اپنا سامان اور کاغذات جماتے ہیں، منی بیلٹ میں اپنا پاسپورٹ، ویزا اور چند ڈالر رکھ کر، روانہ ہو جاتے ہیں انجان ممالک کے سفر پر، ماں باپ کو صرف اسٹیشن پر ہاتھ ہلاتے چھوڑ کر۔

پلیٹ فارم پر لڑکھڑاتی ریکھا کو اپنے تھرتھراتے ہاتھ سے سبھالتے ہوئے راکیش نے کہا۔ "ٹھیک ہی کیا چھوٹو نے۔ جتنی ترقی یہاں دس سال میں کرتا اتنی وہ وہاں دس مہینوں میں کر لے گا۔ جینیس تو ہے ہی۔”

کالونی کے گپتا میاں بیوی بھی ان کے ساتھ اسٹیشن آئے ہوئے تھے۔ مسیزگپتا نے کہا۔ "وائرل فیور کی طرح ودیش وائرس بھی بہت پھیلا ہوا ہے آج کل۔”

"خود کچھ بھی کہہ لو، ہمارا چھوٹو ایسا نہیں ہے۔ اس کے فیلڈ میں یہاں کچھ زیادہ ہے ہی نہیں۔ کہہ کر گیا ہے کہ ٹرکس آف دی ٹریڈ سیکھتے ہی میں لوٹ آؤں گا۔ یہی رہ کر بزنس کروں گا۔”

"اجی رام کہو۔” گپتا جی بولے۔ "جب وہاں کے عیش و آرام میں رہ لے گا تب لوٹنے کی سوچے گا؟ یہ ملک، یہ شہر، یہ گھر سب جیل لگے گا جیل۔”

"لیٹس ہوپ فار د بیسٹ۔” راکیش نے سب کو چپ کیا۔

گھر وہی تھا، در و دیوار وہی تھے، گھر کا سامان وہی تھا، یہاں تک کہ روٹین بھی وہی تھا پر پون اور سگھن کے ماں باپ کو مانو بن باس مل گیا۔ اپنے ہی گھر میں وہ بے چین پنچھی کی طرح کمرے کمرے پھڑپھڑاتے ڈولتے۔ پہلے دو دن تو انہیں بستر پر لگتا رہا جیسے کوئی انہیں ہوا میں اڑاتا ہوا لے جا رہا ہے۔ جب تک سگھن کا وہاں سے فون نہیں آ گیا، ان کے پیروں کی تھرتھراہٹ نہیں تھمی۔

چھوٹے بیٹے کے چلے جانے سے بڑے بیٹے کی غیر موجودگی بھی نئے سرے سے کھلنے لگی۔ دن بھر میں چھوٹے چھوٹے کرشمے اور کارنامے، بچوں کو پکار کر دکھانے کا دل چاہتا، کبھی کسی کتاب میں پڑھا اچھا سا اقتباس، کبھی اخبار میں چھپی کوئی دلچسپ ضخبر، کبھی بغیچے میں کھلا نیا گلاب، اس سب کو بانٹنے کے لئے وہ آپس میں پورے ہوتے ہوئے بھی آدھے تھے۔ راکیش صبح اٹھتے ہی اپنے چھوٹے سے ہفت روزہ کی ادارت میں مصروف ہو جاتے، ریکھا ککر چڑھانے کے ساتھ کاپیاں بھی جانچتی رہتی پر گھر بھائیں بھائیں کرتا رہتا۔ صبح آٹھ بجے ہی جیسے دوپہر ہو جاتی۔

بچے گھر کے تانے بانے میں کس قدر سمائے ہوتے ہیں، یہ ان کی غیر موجودگی میں ہی پتہ چلتا ہے۔ دفتر جانے کے لئے راکیش سکوٹر نکالتے۔ صبح کے وقت سکوٹر کو کک لگانا انہیں ناگوار لگتا۔ وہ پہلی کوشش کرتے کہ انہیں لگتا سگھن کا پیر سکوٹر کی کک پر رکھا ہے۔ "لاؤ پاپا، میں سٹارٹ کر دوں۔” امید بھری نظر دائیں بائیں اٹھتی پھر اڑیل سکوٹر پر بے دلی سے ٹھہر جاتی۔

رسوئی میں طاق بہت اونچے لگے تھے۔ ریکھا کا قد صرف پانچ فٹ تھا۔ اوپر کے طاقوں پر کئی ایسے سامان رکھے تھے جن کی ضرورت روز نہ پڑتی۔ پر پڑتی تو سہی۔ ریکھا ایک پیر پٹرے پر اچک کر مرتبان اتارنے کی کوشش کرتی پر کامیاب نہ ہو پاتی۔ سٹول پر چڑھنا فریکچر کو کھلا بلاوا دینا تھا۔

آخر کارجب وہ چمٹے یا کلچھی سے کوئی چیز اتارنے کو ہوتی اسے لگتا کہیں سے آ کر دو جانے پہچانےہاتھ مرتبان اتار دیں گے۔ ریکھا باؤلی بن ادھر ادھر کمروں میں بچے کو ڈھونڈتی پر کمروں کی ویرانی میں کوئی تبدیلی نہ آتی۔ کالونی میں کم و بیش سبھی کی یہی حالت تھی۔ اس بڈھا بڈھی کالونی میں صرف گرمی کی لمبی چھٹیوں میں کچھ رونق دکھائی دیتی جب سب کے نواسے پوتے اندر باہر دوڑتے کھیلتے دکھائی دیتے۔ ورنہ یہاں چہل پہل کے نام پر صرف سبزی والوں کے یا ردی خریدنے والے کباڑیوں کے ٹھیلے گھومتے نظر آتے۔ بچوں کو محفوظ مستقبل کے لئے تیار کر کے ہر گھر کے ماں باپ خود ایک دم غیر محفوظ جی رہے تھے۔

شائد عدم تحفّظ کے احساس سے لڑنے کے لئے ہی یہاں کی جن کلیان سمتی پرتی ہر منگل کسی ایک گھر میں سندر کانڈ کا پاٹھ منعقد کرتی۔ اس دن وہاں جیسے بڑھوا منگل ہو جاتا۔ پاٹھ کے نام پر سندر کانڈ کا کیسٹ میوزک سسٹم میں لگا دیا جاتا۔ تب گھر کے ساز اور سامان پر باتیں ہوتیں۔

ڈائننگ ٹیبل پر مائکروویو اوون دیکھ کر مسیا گپتا مسیز مجیٹھیا سے پوچھتیں۔ "یہ کب لیا؟”

مسیز مجیٹھیا کہتیں۔ "اس بار دیور آیا تھا، وہی دلا گیا ہے۔”

"آپ کیا پکاتی ہیں اس میں؟”

"کچھ نہیں، بس دلیہ کھچڑی گرم کر لیتے ہیں۔ جھٹ سے گرم ہو جاتا ہے۔”

"ارے، یہ اس کا استعمال نہیں ہے، کچھ کیک ویک بنا کر کھلائیے۔”

"بچے پاس ہوں تو کیک بنانے کا مزہ ہے۔”

پتہ چلا کسی کے گھر میں ویکیوم کلینر پڑا دھول کھا رہا ہے، کسی کے یہاں فوڈ پروسیسر۔ لمبے گرہستھ جیون میں اپنی ساری امنگ خرچ کر چکی یہ عقل مند خواتین بوریت کی چلتا پھرتا کراہتا دستاویز تھیں۔ ریکھا کو ان منگلواری بیٹھکوں سے دہشت ہوتی۔ اسے لگتا آنے والے سالوں میں اسے ان جیسا ہو جانا ہے۔

اس کا من بار بار بچوں کے بچپن اور لڑکپن کی یادوں میں الجھ جاتا۔ گھوم پھر کر وہی دن یاد آتے جب پنو چھوٹو دھوتی سے لپٹ لپٹ جاتے تھے۔ کئی بار تو انھیں سکول بھی لے کر جانا پڑتا کیونکہ وہ پلو چھوڑتے ہی نہیں۔ کسی جلسے یا تقریب میں اسے مدعو کیا جاتا تب بھی ایک نہ ایک بچہ اس کے ساتھ ضرور چپک جاتا۔ وہ مذاق کرتی۔ "مہارانی لکشمی بائی کی پیٹھ پر بچہ دکھایا جاتا ہے، میرا انگلی سے بندھا ہوا۔”

کیا دن تھے وہ ! تب ان کی دنیا کی دھُری ماں تھی، اسی میں تھا ان کا سنسار اور کائنات۔ ماں کی گود ان کا جھولا، پالنا اور پلنگ۔ ماں کی نظر ان کی فطرت کی توسیع۔ پون کی ابتدائی پڑھائی میں ریکھا اور راکیش دونوں ہی باولے رہے تھے۔ وہ اپنے سکوٹر پر اس کی سکول بس کے پیچھے پیچھے چلتے جاتے یہ دیکھنے کہ بس کون سے راستے جاتی ہے۔ سکول کی جھاڑیوں میں چھپ کر وہ پون کو دیکھتے کہ کہیں وہ رو تو نہیں رہا۔ وہ شاہزادے کی طرح روز نیا فرمان سناتا۔ وہ دوڑ دوڑ کر اس کی تمنا پوری کرتے۔ امتحان کے دنوں میں وہ اس کی نیند سوتے جاگتے۔

ریکھا کے کلیجے میں ہوک سی اٹھتی، کتنی جلدی گزر گئے وہ دن۔ اب تو دن مہینوں میں بدل جاتے ہیں اور مہینے سال میں، وہ اپنے بچوں کو بھر نظر دیکھ بھی نہیں پاتی۔ ویسے اسی نے تو انہیں سارے سبق یاد کرائے تھے۔ اسی عمل میں بچوں کے اندر تیزی، مستعدی پیدا ہوئی، ٹیلنٹ، اور اونچی تمنائیں آئیں۔ وہی تو سکھاتی تھی انہیں "زندگی میں ہمیشہ آگے ہی آگے بڑھو، کبھی پیچھے مڑ کر مت دیکھو۔” بچوں کو عملی دنیا میں تیار کرنے کے لئے وہ ایک کہانی سناتی تھی۔ پون اور سگھن کو یہ قصہ سننے میں بہت مزہ آتا تھا۔ سگھن اس کی دھوتی میں لپٹ کر تتلاتا۔ "مما، جب بییا جنتل منتل پل چر گیا تب کا ہوا؟” ریکھا کے سامنے وہ لمحہ ساکار ہو اٹھتا۔ پوری رفتار سے بتانے لگتی۔ "پتہ ہے پنو ایک بار ہم دہلی گئے۔ تو ڈھائی سال کا تھا۔ اچھا بھلا میری انگلی پکڑے جنتر منتر دیکھ رہا تھا۔ ادھر راکیش مجھے دھوپ گھڑی دکھانے لگے ادھر تو کب ہاتھ چھڑا کر بھاگا، پتہ ہی نہیں چلا۔ جیسے ہی میں دیکھوں پون کہاں ہے، ہے بھگوان تو تو جنتر منتر کی اونچی سیڑھی چڑھ کر سب سے اوپر کھڑا تھا۔ میری حالت ایسی ہو گئی کہ کاٹو تو خون نہیں۔ میں نے ان کی طرف دیکھا۔ انہوں نے ایک بار غصے سے مجھے گھورا۔ "دھیان نہیں رکھتی؟”

گھبرا یہ بھی رہے تھے پر تجھے پتہ نہیں چلنے دیا۔ سیڑھی کے نیچے کھڑے ہو کر بولے۔ "بیٹا، بنا نیچے دیکھے، سیدھے اتر آؤ، شاباش، کہیں دیکھنا نہیں۔”

پھر مجھ سے بولے۔ "تم اپنی ہائے توبہ روک کر رکھو، نہیں تو بچہ گر جائے گا۔ تو کھم کھم ساری سیڑھیاں اتر آیا۔ ہم دونوں نے اس دن پرساد چڑھایا۔ بھگوان نے ہی رکشا کی تیری۔”

بار بار سن کر بچوں کو یہ قصے ایسے یاد ہو گئے تھے جیسے کہانیاں۔

پون کہتا۔ "ماں، جب تم بیمار پڑی تھیں، چھوٹو سکول سے سیدھے اسپتال آ گیا تھا۔”

"سچی۔ ایسا اس نے خطرہ مول لیا۔ کے۔جی دو میں پڑھتا تھا۔ سینٹ اینتھنی میں تین بجے چھٹی ہوئی۔ آیا جب تک اسے ڈھونڈے، بس میں بٹھائے، یہ چل دیا باہر۔”

پون کہتا۔ "ویسے ماں اسپتال سکول سے دور نہیں ہے۔”

"ارے کیا؟ چوراہا دیکھا ہے وہ بالسنوالا۔ چھ راستے پھوٹتے ہیں وہاں۔ کتنی ٹرکیں چلتی ہیں۔ اچھے بھلے لوگ چکرگھنی ہو جاتے ہیں سڑک پار کرنے میں اور یہ ایڑیاں اچکاتا جانے کیسے سارا ٹریفک پار کر گیا کہ مما کے پاس جانا ہے۔

سگھن کہتا۔ "ہمیں پچھلے دن پاپا نے کہا تھا کہ تمہاری ممی مرنے والی ہے۔ ہم اس لئے گئے تھے۔”

"تم نے یہ نہیں سوچا کہ تم کچل جاؤ گے۔”

"نہیں۔” سگھن سر ہلاتا۔ "ہمیں تو مما چاہئیے تھی۔”

اب اس کے بنا کتنی دور رہ رہا ہے سگھن۔ کیا اب یاد نہیں آتی ہوگی؟ کتنا قابو رکھنا پڑتا ہوگا اپنے پر۔

خوش قسمت ہوتے ہیں وہ جن کے بیٹے بچپن سے ہوسٹل میں پلتے ہیں، دور رہ کر پڑھائی کرتے ہیں اور ایک دن باہر باہر ہی بڑے ہوتے جاتے ہیں۔ ان کی ماؤں کے پاس یادوں کے نام پر صرف خط اور خبر ہوتی ہے، فون پر ایک آواز اور کرسمس کے گریٹنگ کارڈ۔ پر ریکھا نے تو رچ رچ کر پالے ہیں اپنے بیٹے۔ ان کے گو موت میں گیلی ہوئی ہے، ان کے آنسو اپنے پلوسے سکھائے ہیں، ان کی ہنسی اپنے باطن میں اتاری ہے۔

راکیش کہتے ہیں۔ "بچے اب ہم سے زیادہ جیون کو سمجھتے ہیں۔ انہیں کبھی پیچھے مت کھینچنا۔”

رات کو پون کا فون آیا۔ ماں باپ دونوں کے چہرے کھل گئے۔

"طبیعت کیسی ہے؟”

"ایک دم ٹھیک۔” دونوں نے کہا۔ اپنی کھانسی، الرجی اور درد بتا کر اسے پریشان تھوڑے کرنا ہے۔

"چھوٹو کی کوئی خبر؟”

"بالکل مزے میں ہے۔ آج کل چینی بولنا سیکھ رہا ہے۔”

"وی۔سی۔ڈی۔ پر پکچر دیکھ لیا کرو، ماں۔”

"ہاں، دیکھتی ہوں۔” صاف جھوٹ بولا ریکھا نے۔ اسے تو وی۔ سی۔ڈی۔ میں ڈسک لگانا کبھی نہیں آئے گا۔

پچھلی بار پون مائکروویو اوون دلا گیا تھا۔ فون پر پوچھا۔ "مائکروویو سے کام لیتی ہو؟”

"مجھے اچھا نہیں لگتا۔ سیٹی مجھے سنتی نہیں، مری ہر چیز زیادہ پک جائے۔ پھر سبزی ایک دم سفید لگے جیسے کچی ہے۔”

"اچھا یہ میں لے لوں گا، آپ کو براؤننگ والا دلا دوں گا۔”

"سٹیلا کہاں ہے؟”

پتہ چلا اس کے ماں باپ شکاگو سے واپس آ گئے ہیں۔ پون نے چہکتے ہوئے بتایا۔ "اب چھوٹی ممی بزنس سنبھالے گی۔ سٹیلا بس وزٹ دے سکے گی۔”

وزٹ لفظ کھٹکا پر وہ الجھے نہیں۔ پھر بھی فون رکھنے کے پہلے ریکھا کے منھ سے نکلا۔ "تبھی ہم سے ملنے نہیں آئے۔”

"آئیں گے ماں، پہلے تو جیٹ لیگ (تھکان) رہا، اب بزنس میں گھرے ہیں۔ ویسے آپ کی بہو آپ لوگوں کی ملاقات پلان کر رہی ہے۔ وہ چاہتی ہے کسی ہالی ڈے ریزورٹ (سیر سپاٹے کی جگہ) میں آپ چاروں اکٹھے دو تین دن رہو۔ وہ لوگ بھی آرام کر لیں گے اور آپ کے لئے بھی چینج ہو جائے گا۔”

"اتنے تام جھام کی کیا ضرورت ہے؟ انہیں یہاں آنا چاہئیے۔”

"یہ تم سٹیلا سے فون پر ڈسکس کر لینا۔ بہت لمبی بات ہو گئی، بائے۔”

کچھ دیر بعد ہی سٹیلا کا فون آیا۔ "مام، آپ کمپیوٹر آن رکھا کرو۔ میں نے کتنی بار آپ کے ای میل پر میسیج دیا۔ ممی نے بھی آپ دونوں کو ہیلو بولا تھا، پر آپ کا سسٹم آف تھا۔”

"تمہیں پتہ ہی ہے، جب سے چھوٹو گیا ہم نے کمپیوٹر پر خول اڑھا کر رکھ دیا ہے۔”

"او نو مام۔ اگر آپ کے کام نہیں آ رہا تو یہاں بھجوا دیجیے۔ میں منگوا لوں گی۔ اتنی یوز فل چیز آپ لوگ ویسٹ کر رہے ہیں۔”

ریکھا کہنا چاہتی تھی کہ اس کے ماں باپ ان سے ملنے نہیں آئے۔ پر اسے لگا شکایت اسے چھوٹا بنائے گی۔ وہ ضبط کر گئی۔ لیکن جب سٹیلا نے اسے اگلے مہینے واٹر پارک کے لئے بلاوا دیا، اس نے صاف انکار کر دیا۔ "میری چھٹیاں ختم ہیں۔ میں نہیں آ سکتی۔ یہ چاہیں تو چلے جائیں۔”

اس پروگرام میں راکیش کی بھی دلچسپی نہیں تھی۔

کئی دنوں کے بعد ریکھا اور راکیش انجینیرینگ کالج کمپس میں گھومنے نکلے۔ ایک ایک کر جانے پہچانے چہرے نظر آتے گئے۔ اچھا لگتا رہا۔ منہاج صاحب نے کہا۔ "گھومنے میں ناغہ نہیں کرنا چاہئیے۔ روز گھومنا چاہئیے، چاہے پانچ منٹ گھومو۔” انہیں سے پتہ چلا۔ کالونی کے سونی صاحب کو دل کا دورہ پڑا تھا، ہاسپٹل میں بھرتی ہیں۔

ریکھا اور راکیش فکرمند ہو گئے۔ مسیز سونی چونسٹھ سال کی گٹھیا زدہ عورت ہے۔ اسپتال کی بھاگ دوڑ کیسے سنبھالے گی؟

"دیکھو جی، کل تو میں نے بھوشن کو بیٹھا دیا تھا وہاں پر۔ آج تو اس نے بھی کام پر جانا تھا۔”

ریکھا اور راکیش نے طے کیا وہ شام کو سونی صاحب کو دیکھ کر آئیں گے۔

پر سونی کے دل نے اتنی مہلت نہ دی۔ وہ تھک کر پہلے ہی دھڑکنا بند کر بیٹھا۔ شام تک کالونی میں اسپتال کی مارچیوری وین سونی کی میت اور ان کی اپاہج بیوی کو اتار کر چلی گئی۔

سونی کی لڑکی کو خبر دی گئی۔ وہ دہرہ دون بیاہی تھی۔ پتہ چلا وہ اگلے دن رات تک پہنچ سکے گی۔ مسیز سونی سے سدھارتھ کا فون نمبر لے کر انہیں کے فون سے انٹرنیشنل کال ملائی گئی۔

مسیز سونی شوہر کے سوگ میں سوچنے سمجھنے کے نا قابل ہو رہی تھیں۔ فون میں وہ صرف روتی اور کلپتی رہیں۔ "تیرے ڈیڈی، تیرے ڈیڈی۔۔۔” تب فون منہاج صاحب نے سنبھالا۔ "بھئی سدھارتھ، بڑا ہی برا ہوا۔ اب تو جلدی سے آ کر اپنا فرض پورا کر۔ تیرے انتظار میں فیونرل روک کے رکھیں؟”

ادھر سے سدھارتھ نے کہا۔ "انکل، آپ ممی کو سنبھالئے۔ آج کی تاریخ سب سے منحوس ہے۔ انکل، میں جتنی بھی جلدی کروں گا، مجھے پہنچنے میں ہفتہ لگ جائے گا۔”

"ہفتے بھر باڈی کیسے پڑی رہے گی؟” منہاج صاحب بولے۔

"آپ مردہ گھر میں رکھوا دیجیے۔ یہاں تو مہینوں باڈی مارچیوری میں رکھی رہتی ہے۔ جب بچوں کو فرصت ہوتی ہے فیونرل کر دیتے ہیں۔”

"وہاں کی بات اور ہے۔ ہمارے ملک میں اییرکنڈیشنڈ مردہ گھر کہاں ہیں۔ اوئے پتر تیرا باپ اپر چلا گیا تو انی دوروں بیٹھا بہانے بنا رہا ہے۔”

"ذرا ممی کو فون دیجیے۔”

کالونی کے سبھی گھروں کے لوگ انتظام میں جٹ گئے۔ جس کو جو یاد آتا گیا، وہی کام کرتا گیا۔ سویرے تک پھول، گلال، شال سے ارتھی ایسی سجی کہ سب اپنی محنت پر خود دنگ رہ گئے۔ پر اس مشکل کام کے دوران کئی لوگ بہت تھک گئے۔ منہاج صاحب کے دل کی دھڑکن بڑھ گئی۔ ان کے لڑکے نے کہا۔ "ڈیڈی، آپ رہنے دو، میں گھاٹ چلا جاتا ہوں۔”

بھوشن نے ہی مکھاگنی دی۔

ریکھا، مسیز گپتا، مسیز یادو، مسیز سنہا اور دوسری عروتیں مسیج سونی کے پاس بیٹھی رہیں۔ مسیز سونی اب کچھ اپنے حواس پر ابو پا چکی تھیں۔ "آپ سب نے دکھ کی گھڑی میں ساتھ دیا۔”

"یہ تو ہمارا فرض تھا۔” کچھ آوازیں آئیں۔

ریکھا کے منھ سے نکل گیا۔ "ایسا کیوں ہوتا ہے کہ کچھ لوگ فرض پہچانتے ہیں، کچھ نہیں۔ ارے سکھ میں نہیں، پر دکھ میں تو ساتھ دو۔”

مسیز سونی نے کہا۔ "اپنے بچے کے بارے میں کچھ بھی کہنا برا لگتا ہے پر سدھو نے کہا میں کسی کو بیٹا بنا کر سارے کام کروا لوں۔ ایسا بھی کبھی ہوتا ہے۔”

"اور ریڈی میڈ بیٹے مل جائیں، یہ بھی کہاں ممکن ہے۔ بازار میں سب چیز مول جاتی ہے، پر بچے نہیں ملتے۔”

"ایسا ہی پتہ ہوتا ہے کہ پچیس برس پہلے خاندانی منصوبہ بندی کیوں کرتے۔ ہونے دیتے اور چھ بچے۔ ایک نہ ایک تو پاس رہتا۔”

"ویسے اتنی دور سے جلدی سے آنا ہو بھی نہیں سکتا تھا۔” مسیز مجیٹھیا نے کہا۔ "ہماری ساس مری تو ہمارے دیور کہاں آ پائے۔”

"پر آپ کے پتی تو تھے نہ؟ انہوں نے اپنا فرض نبھایا۔”

اس اچانک وقوعے نے سب کے لئے سبق کا کام کیا۔ سبھی نے اپنے وصیت نامے سنبھالے اور بینک کھاتوں کے بیورے۔ کیا پتہ کب کس کا بلاوا آ جائے۔ الماری میں دوچار ہزار روپئے رکھنا ضروری سمجھا گیا۔

کالونی کے فرصت پسند بزرگوں کی خاصیت تھی کہ وہ ہر کام مشن کی طرح ہاتھ میں لیتے۔ جیسے کبھی انہوں نے اپنے دفتروں میں فائلیں نپٹائی ہوں گی ویسے وہ ایک ایک کر اپنی ذمہ داریاں نپٹانے میں لگ گئے۔ سنہا صاحب نے کہا۔ "بھئی، میں نے تو ایکادشی کو گئودان بھی جیتے جی کر لیا۔ پتہ نہیں امت بمبئی سے آ کر یہ سب کرے یا نہیں۔”

گپتا جی بولے۔ "ایسے سورگ میں سیٹ رزرو نہیں ہوتی۔ بیٹے کا ہاتھ لگنا چاہئیے۔”

شریواستو جی کے کوئی لڑکا نہیں تھا، اکلوتی لڑکی ہی تھی۔ انہوں نے کہا۔ "کسی کے بیٹا نہ ہو تو؟”

"تب اسے ایسی تڑپھڑ نہیں ہوتی جو سونی صاحب کی مسیز کو ہوئی۔”

ریکھا یہ سب دیکھ سن کر دہشت سے بھر گئی۔ ایک تو ابھی اتنی عمر رسیدہ وہ نہیں ہوئی تھی کہ اپنا ایک پیر شمشان میں دیکھیں۔ دوسرے، اسے لگتا یہ سب لوگ اپنے بچوں کو ولین بنا رہے ہیں۔ کیا بوڑھے ہونے پر جذبات سمجھنے کی اہلیت جاتی رہتی ہے؟

کالونی کے ہر کٹھور فیصلے پر اسے لگتا میں ایسی نہیں ہوں، میں اپنے بچوں کے بارے میں ایسی بے رحمی سے نہیں سوچتی۔ میرے بچے ایسے نہیں ہیں۔

رات کا آخری نیوز  بلیٹن سن کر وہ ابھی لیٹے ہی تھے کہ فون کی لمبی گھنٹی بجی۔ گھنٹی کے ساتھ ساتھ دل کا تار بھی بجا۔ "ضرور چھوٹو کا فون ہوگا، پندرہ دن سے نہیں آیا۔” فون پر بڑکو پون بول رہا تھا۔ "ہیلو ماں، کیسی ہو؟ آپ نے فون نہیں کیا؟”

"کیا تھا پر آنسرنگ مشین کے بولنے سے پہلے کاٹ دیا۔ تم گھر میں نہیں ٹکتے۔”

"ارے ماں، میں تو یہاں تھا ہی نہیں۔ ڈھاکہ چلا گیا تھا، وہاں سے ممبئی اترا تو سوچا سٹیلا کو بھی دیکھتا چلوں۔ وہ کیا ہے اس کی شکل بھی بھولتی جا رہی تھی۔”

"تم نے جانے کی خبر نہیں دی۔”

"آنے کی تو دے رہا ہوں۔ میرا کام ہی ایسا ہے۔ اٹیچی ہر وقت تیار رکھنی پڑتی ہے۔ اور سنو، تمہارے لئے ڈھاکائی ساڑیاں لایا ہوں۔”

نہال ہو گئی ریکھا۔ اتنی دور جا کر اسے ماں کی یاد بنی رہی۔ فوراً بہو کا دھیان آیا۔

"سٹیلا کے لئے بھی لے آنی تھی۔”

"لایا تھا ماں، اسے اور چھوٹی ممی کو پسند ہی نہیں آئیں۔ سٹیلا کو وہیں سے جینس دلا دی۔ چلو تمہارے لئے تین ہو گئیں۔ تین سال کی چھٹی۔”

"میں نے تو تم سے مانگی بھی نہیں تھیں۔” ریکھا کی آواز بھیگ اٹھی۔

ایک اچھے منیجر کی طرح پون باپ سے مخاطب ہوا۔ "پاپا، اتوار سے میں سوامی جی کے دھیان کمپ میں چار دن کے لئے جا رہا ہوں۔ سنگاپور سے میرے باس اپنی ٹیم کے ساتھ آ رہے ہیں۔ وہ دھیان کمپ دیکھنا چاہتے ہیں۔ آپ بھی منپکم آ جائیے۔ آپ کو بہت شانتی ملے گی۔ اپنے اخبار کا ایک خاص نمبر پلان کر لیجیے سوامی جی پر۔ اشتہار خوب ملیں گے۔ یہاں ان کی بہت بڑی ششیہ منڈلی ہیں۔”

راکیش ہوں ہاں کرتے رہے۔ ان کے لئے جگہ کی دوری، انجانی زبان، چھٹی کی قلت، کئی روڑے تھے راہ میں۔ وہ اسی میں مگن تھے کہ پنو انہیں بلا رہا ہے۔

"چھوٹو کی کوئی خبر؟”

"ہاں، پاپا اس کا تائپے سے خط آیا تھا۔ جاب اس کا ٹھیک چل رہا ہے پر اس کی چال ڈھال ٹھیک نہیں لگی۔ وہ وہاں کی لوکل پالٹکس میں حصہ لینے لگا ہے۔ یہ چیز نقصان دہ ہو سکتی ہے۔”

راکیش گھبرا گئے۔ "تمہیں اسے سمجھانا چاہئیے۔”

"میں نے فون کیا تھا، وہ تو نیتا کی طرح بول رہا تھا۔ میں نے کہا، نوکری کو نوکری کی طرح کرو، اس میں اصول، ٹھوکنے کی کیا ضرورت ہے۔”

"اس نے کیا کہا؟”

"کہہ رہا تھا – بھیا، یہ میرے وجود کا سوال ہے۔”

ریکھا کو پریشانی کا احساس ہوا۔ اس نے فون راکیش سے لے لیا۔ "بیٹے، اس کو کہو فوراً واپس آ جائے۔ اسے چین تائیوان کے جھگڑے سے کیا مطلب۔”

"ماں، میں سمجھا ہی سکتا ہوں۔ وہ جو کرتا ہے اس کی ذمے داری ہے۔ کئی لوگ ٹھوکر کھا کر ہی سنبھلتے ہیں۔”

"پنو، تیرا اکلوتا بھائی ہے سگھن، تو پلہ جھاڑ رہا ہے۔”

"ماں، تم فون کرو، چٹھی لکھو۔ اڑیل لوگوں کے لئے میری برداشت کافی کم ہو گئی ہے۔ میری کوئی شکایت ملے تو کہنا۔”

دہشت سے دہل گئی ریکھا۔ فوراً چھوٹو کو فون ملایا۔ وہ گھر پر نہیں تھا۔ اسے ڈھونڈنے میں دو ڈھائی گھنٹے لگ گئے۔ اس بیچ ماں باپ کا برا حال ہو گیا۔ راکیش بار بار باتھ روم جاتے۔ ریکھا ساڑی کے پلو میں اپنی کھانسی دبانے میں لگی رہی۔

آخر چھوٹو سے بات ہوئی۔ اس نے مساوات سمجھائی۔

"ایسا ہے پاپا، اگر میں لوکل لوگوں کی تائید میں نہیں بولوں گا تو یہ مجھے برباد کر دیں گے۔”

"تو تم یہاں چلے آؤ۔ انفوٹیک میں یہاں بھی اچھی سے اچھی نوکریاں ہیں۔”

"یہاں میں جم گیا ہوں۔”

"پردیس میں آدمی کبھی نہیں جم سکتا۔ تمبو کا کوئی نہ کوئی کھونٹا اکھڑا ہی رہتا ہے۔”

"ہندستان اگر لوٹا تو اپنا کام کروں گا۔”

"یہ تو اور بھی اچھا ہے۔”

"پر پاپا، اس کے لئے کم سے کم تیس چالیس لاکھ روپئے کی ضرورت ہوگی۔ میں آپ کو لکھنے ہی والا تھا۔ آپ کتنا انتظام کر سکتے ہیں، باقی جب میں جمع کر لوں تب آؤں۔”

راکیش ایک دم گڑبڑا گئے۔ "تمہیں پتہ ہے گھر کا حال۔ جتنا کماتے ہیں اتنا خرچ کر دیتے ہیں۔ سارا پونچھ پانچھ کر نکالیں تو بھی ایک ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ نہیں ہوگا۔”

"اسی بنا پر مجھے واپس بلا رہے ہیں۔ اتنے میں تو پی۔سی۔او بھی نہیں کھلے گا۔”

"تم نے بھی کچھ جوڑا ہوگا اتنے برسوں میں۔”

"پر وہ کافی نہیں ہے۔ آپ نے ان برسوں میں کیا کیا؟ دونوں بچوں کا خرچ آپ کے سر سے اٹھ گیا، گھومنے آپ جاتے نہیں، پکچر آپ دیکھتے نہیں، دارو آپ پیتے نہیں، پھر آپ کے پیسوں کا کیا ہوا؟”

راکیش آگے بول نہیں پائے۔ بچہ ان سے روپئے آنے پائی میں حساب مانگ رہا تھا۔

ریکھا نے فون جھپٹ کر کہا۔ "تو کب آ رہا ہے چھوٹو؟”

سگھن نے کہا۔ "ماں جب آنے لائق ہو جاؤں گا تبھی آؤں گا۔ تمہیں تھوڑا انتظار کرنا ہوگا۔”

٭٭٭

اصل کا ماخذ: گدیہ کوش ڈاٹ آرگ

ترجمے سے پہلے سکرپٹ کی تبدیلی:

http://uh.learnpunjabi.org

کے ذریعے

ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید