فہرست مضامین
دریچہ ہائے خیال
جون ایلیا کی نظمیں
جمع و ترتیب: حسنین حیدر، اعجاز عبید
میرے غصے کے بعد بھی تم نے
کب تجھ کو مہکنا ہے، کب تجھ کو دمکنا ہے
اے رنگِ یقیں افروز، اے بوئے گماں انگیز
میرے غصے کے بعد بھی
فارہہ کیا بہت ضروری ہے
ہر کسی شعر ساز کو پڑھنا
کیا میری شاعری میں کم ہے گداز
کیا کسی دل گداز کو پڑھنا
یعنی میرے سوا بھی اور کسی
شاعرِ دل نواز کو پڑھنا
کیا کسی اور کی ہو تم محبوب
کیوں کس فن طراز کو پڑھنا
یعنی خود اپنے ہی کرشموں کی
داستانِ دراز کو پڑھنا
ٹھیک ہے گر تمہیں پسند نہیں
اپنی رُوداد کو پڑھنا
واقعی، تم کو چاہئے بھی نہیں
مجھ سے بے امتیاز کو پڑھنا
کیوں تمہاری اَنا قبول کرے
مجھ سے اِک بے نیاز کو پڑھنا
میرے غصے کے بعد بھی تم نے
نہیں چھوڑا مجازؔ کو پڑھنا
٭٭٭
رُو پوشی
یاد میں خوف ہے
سخت اُفتاد ہے
جاں گسل جبرِ تعزیر ایجاد ہے
لمحہ لمحہ درختانِ پُر سایہ کی شامِ ناشاد میں خوف ہے
خش خشِ بادِ تنہائی افتاد ہے
پرتوِ نیم رنگِ گماں ہائے دِل زاد میں خوف ہے
میں تو اب یاد سے
یاد کے جاں گسل جبرِ تعزیر ایجاد سے
اپنے دل کو بچائے ہوئے
بود کی رایگانی میں روپوش ہوں
خود فراموش ہوں
یاد میں خوف ہے
٭٭٭
فریبِ آرزو
صندلیں پیکر، تمہارے بازوؤں کے درمیان
فارہہ کا غم بھلانے کے لیے آیا ہوں
زندگی کی اک حقیقت کو تمہارے رو برو
ایک افسانہ بنانے کے لیے آیا ہوں
فارہہ کی یاد میرے حافظے سے چھین لو
اپنا سرمایہ لٹانے کے لیے آیا ہوں
انتقاماََ چاہئے اب مجھ کو اک حالِ طرب
آج طنزاً مسکرانے کے لیے آیا ہوں
اب تو ہر نقشِ خیالی کو مٹانا ہے مجھے
اب تو سب کچھ بھول جانے کے آیا ہوں
کر کے تعمیر اک بتخانہ برائے بندگی
کعبۂ نخوت کو ڈھانے کے لیے آیا ہوں
اب تو بس تم ہو فقط تم! فارہہ کچھ بھی نہیں
تم کو سینے سے لگانے کے لیے آیا ہوں
میری خوش منظر جوانی بھی تو کوئی چیز ہے
تم سے اس کی داد پانے کے لیے آیا ہوں
رائگاں اب تک گئے میرے سخن کے معجزے
تازہ اعجازی دکھانے کے لیے آیا ہوں
کاش تم میری جبین کو چوم لو، ہاں چوم لو!
مطلعِ فن جگمگانے کے لیے آیا ہوں
تم سے بھی شاید مجھے غم کا عطیہ ہی ملے
پھر بھی تازہ زخم کھانے کے لیے آیا ہوں
شاخِ دل کو لمحہ لمحہ اِک نُمو تو چاہیے
زندگی کو اِک فریبِ آرزو تو چاہیے
٭٭٭
دھُند چھائی ہوئی ہے جھیلوں پر
اُڑ رہے ہیں پرندے ٹیلوں پر
سب کا رُخ ہے نشیمنوں کی طرف
بستیوں کی طرف، بنوں کی طرف
اپنے گَلوں کو لے کے چرواہے
سرحدی بستیوں میں جا پہنچے
دلِ ناکام میں کہاں جاؤں
اجنبی شام، میں کہاں جاؤں
٭٭٭
تمثیل
(پہلا منظر)
میں لمحوں کا گدا گر تھا
تمہارے جاوداں افروز لمحوں کی پذیرش کا گداگر تھا
سراسر اک گداگر
ایک بے کشکول و کاسہ ایک بے کوچہ بہ کوچہ
بے صدا و بے دعا از خود گزشتہ اک گداگر تھا
جو گمانِ پُر سرو سودا کے جاں پرور سراغ آرزو آگیں میں
رفتہ اور آئندہ کے خوابوں کی گدائی پیشہ کرتا ہے
خیالوں کو ، نفس بودش خیالوں کو ، ابد اندیشہ کرتا ہے
یہ اک تمثیل تھی بے صحنۂ تمثیل
اور جو کچھ تھا یہی تھا بس یہی کچھ تھا
(دوسرا منظر)
پھر اس کے بعد جانانہ
تمہاری جاودانہ آرزو کے بازوانِ مرمریں
میرے، مرے آغوش کے مرگِ سفیدِ بے فغاں میں
میری دل جُو زندگی تھے ارجمندی تھے
میں جن میں خرم و خُرسند رہتا تھا
یہ میری دم بہ دم کی زندگی کی صحنہ تابی تھی
مری ہر آرزو پہلو بہ پہلو سبزہ گوں تھی اور شہابی تھی
َ
(تیسرا منظر)
پھر اس کے بعد کے منظر میں
(یعنی اس گھڑی)
جو پیش آیا ہے وہ کچھ یوں ہے کہ میں تم میں
تمہارے جاں فزا آغوش کی نزدیک تر خوشبوئی میں
اور اس کے گرداگرد میں دم توڑ دیتا ہوں
پھر اس کے بعد زندہ ہو کے اُٹھتا ہوں
قیامت کی ہنسی ہنستا ہوں
پھر سکتے میں رہ جاتا ہوں
آخر اک نہایت خندہ آور گریہ کرتا ہوں
٭٭٭
زہرِ ناب کا دن
**جاوید معنی کی وفات پر**
ہم سے بے واسطہ نہیں ہے وہ
وہ یہیں تھا یہیں کہیں ہے وہ
کر گیا ہے وہ رَم کسی جانب
اک غزالِ غزل زمیں ہے وہ
میرا جاوید، معنی جاوید
خود بھی ایک شعر دل نشیں ہے وہ
میں ہوں اپنا حریفِ سخت کماں
روزِ ہیجاں مری کمیں ہے وہ
در شبِ کوچ یارِ من فروخت
کہ مرا سالکِ گزیں ہے وہ
آخرش میرا ہی تو ہے شاگرد
سب جہاں ہیں، وہیں نہیں ہے وہ
کیسے میں سہہ سکوں گا ہجر اس کا
کہ میرا ناز و نازنیں ہے وہ
خاک گنجینۂ زمیں ہو خاک
زیرِ گنجینۂ زمیں ہے وہ
غم میں غالب کا سہہ رہا ہوں آج
آج عارف کا ہم نشین ہے وہ
اب زمیں بوس آستاں ہوں میں
آسماں مرتبہ جبیں ہے وہ
اُس نے مارا ہے اپنے مرشد کو
کِس بَلا کا جہنمیں ہے وہ
اب رگوں میں مری بچا ہے جو خوں
مالِ مژگاں و آستیں ہے وہ
پڑ گیا چین، دل ہوا یک سو
وہ جو تھا اب کہیں نہیں ہے وہ
نالہ ہا، شور ہا، تپیدن ہا
میرے ہوتے کفن گزیں ہے وہ
آج کا دن نہیں شراب کا دن
آج ہے جونؔ زہرِ ناب کا دن
٭٭٭
انگارے
تم
تمہارا نام
لیکن میں نے یہ نام پہلی بار تم سے ہی سُنا ہے
کون ہو تم
کون تھیں تم
اب رہا میں یعنی میں
میں تو کبھی تھا ہی نہیں
تھا ہی نہیں میں
اور سارے کاغذوں پر صرف انگارے لکھے ہیں
صرف انگارے
٭٭٭
تھی گر آنے میں مصلحت حائل
تھی گر آنے میں مصلحت حائل
یاد آنا کوئی ضروری تھا
دیکھیے ہو گئی غلط فہمی
مسکرانا کوئی ضروری تھا
لیجیے بات ہی نہ یاد رہی
گُنگُنانا کوئی ضروری تھا
گُنگُنا کر مری جواں غزلیں
جھُوم جانا کوئی ضروری تھا
مجھ کو پا کر کسی خیال میں گُم
چھُپ کے آنا کوئی ضروری تھا
اُف وہ زلفیں ، وہ ناگنیں ، وہ ہنسی
یوں ڈرانا کوئی ضروری تھا
اور ایسے اہم مذاق کے بعد
رُوٹھ جانا کوئی ضروری تھا
٭٭٭
تمہارے اور میرے درمیاں
تمہارے اور میرے درمیاں اک بات ہونا تھی
بِلا کا دن نکلنا تھا بَلا کی رات ہونا تھی
بلا کا دن بھی نکلا اور بَلا کی رات بھی گزری
عذابِ ذات بھی گزرا فنائے ذات بھی گزری
٭٭٭
دریچہ ہائے خیال
چاہتا ہوں کہ بھول جاؤں تمہیں
اور یہ سب دریچہ ہائے خیال
جو تمہاری ہی سمت کھلتے ہیں
بند کر دوں کہ کچھ اسطرح کہ یہاں
یاد کی اک کرن بھی آنہ سکے
چاہتا ہوں کہ بھول جاؤں تمہیں
اور خود بھی نہ یاد آؤں تمہیں
جیسے تم صرف اک کہانی تھیں
جیسے میں صرف اک فسانہ تھا
٭٭٭
اس رائیگانی میں
سو وہ آنسو ہمارے آخری آنسو تھے
جو ہم نے گلے مل کر بہائے تھے
نہ جانے وقت ان آنکھوں سے پھر کس طور پیش آیا
مگر میری فریب وقت کی بہکی ہوئی آنکھوں نے
اس کے بعد بھی
آنسو بہائے ہیں
مرے دل نے بہت سے دکھ رچائے ہیں
مگر یوں ہے کہ ماہ و سال کی اس رائیگانی میں
مری آنکھیں
گلے ملتے ہوئے رشتوں کی فرقت کے وہ آنسو
٭٭٭
معمول
جانے کب سے
مجھے یاد بھی تو نہیں جانے کب سے
ہم اک ساتھ گھر سے نکلتے ہیں
اور شام کو
ایک ہی ساتھ گھر لوٹتے ہیں
مگر ہم نے اک دوسرے سے
کبھی حال پرسی نہیں کی
نہ اک دوسرے کو
کبھی نام لے کر مخاطب کیا
جانے ہم کون ہیں؟
٭٭٭
تمہارا فیصلہ جاناں
تمہارا فیصلہ جاناں مجھے بے حد پسند آیا
پسند آنا ہی تھا جاناں
ہمیں اپنے سے اتنی دور تک جانا ہی تھا جاناں
بجا ہے خانماں سوز آرزوؤں ، تیرہ امّیدوں،
سراسر خوں شدہ خوابوں ، نوازش گر سرابوں،
ہاں سرابوں کی قَسم یک سر بجا ہے
اب ہمارا جان و دل کے جاوداں ، دل جان رشتے کو
اور اس کی زخم خوردہ یاد تک تو بے نیازانہ
بھُلا دینا ہی اچھا ہے
وہ سرمایا ، وہ دل سے بے بہا تر جاں کا سرمایا
گنوا دینا ہی اچھا ہے
زیانِ جاودانی کے گلہ افروز داغوں کو
بجھا دینا ہی اچھا ہے
تمہارا فیصلہ جاناں! مجھے بےحد پسند آیا۔ ۔ ۔
٭٭٭
تا کجا
کہاں ہے سمتِ گماں وہ جہانِ جاں پرور
کہ جس کی شش جہتی کا فسونِ چشم کشا
دلوں میں پھیلتا ہے منزلوں میں پھیلتا ہے
جہاں سخن ہے سماعت ، نظر ہی منظر ہے
جہاں حروف لبوں سے کلام کرتے ہیں
جہاں وجود کے معنی خرام کرتے ہیں
٭٭٭
ماخذ:
http://raikhtablog.blogspot.com/2015/06/blog-post_42.html
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید