FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

فہرست مضامین

 جان، جگنو اور جزیرہ

 

(شعری مجموعہ)

ناصر ملک

 

انتساب

 

    اپنے بیٹے

          محمد شہر یار ناصر

           کے نام!

حروفِ سوختہ

’’احساس‘‘ جسے قصرِ ضمیر کی اولیں خشتِ بنا یا جذب و امتزاج کے سہارے نس نس میں سما جانے کا نام دیا جاتا ہے، نے میرے فن کے ظاہر کو ریزہ ریزہ تراش کر جبلی ضرورتیں پوری کرنے کے ساتھ ساتھ مجھے ’’غبارِ ہجراں ‘‘ کے پُر ہول سناٹوں سے نکالا اور ’’جان، جگنو اور جزیرہ‘‘ کی طرف دھکیل دیا۔ میں اِس غیر مختتم ظاہر و باطن کے پرسوچ سفر پر گامزن رہتے ہوئے خارجی عوامل کی اجتماعی نمو پر داخلی اضطراب کی تہیں چڑھاتا گیا۔ اپنی غیر مرئی ابلاغی توانائیوں کو شفاف و چمک دار آئینوی پیکر میں ڈھال کر ایسا فن پارہ تخلیق کرتا رہا جس نے کسی آن بھی میرے جذبہ و خیال اور بیان کے کمال کو ٹھیس نہیں پہنچائی۔ میں نے یہ قدر بھی ملحوظ خاطر رکھی کہ فن کے دشتِ جنوں میں کہیں بھی آدابِ برہنہ پائی پر حرف نہ آنے پائے، میری کسی بھی خارجی کوتاہی کے سبب تخلیقی محسوسات اور کرب کے بھید کے دامن پر کوئی بد نُما دھبہ ثبت نہ ہونے پائے یا ضمیرِ آدم کو آشکار کرتی نوکِ قلم کی روانیوں کے آڑے گردِ کارواں کا کوئی ذرہ نہ آنے پائے۔ کسی بھی وجہ سے میرے فن کا سفر کہیں رُکنے نہ پائے اور میرے قدم اِس دشتِ خارزار کے راستوں سے کج ادائی کا ارتکاب نہ کر پائیں ۔

’’جان‘‘ میرے سوختہ افکار کی مسلسل شکست و ریخت کی متزلزل اور نامکمل تاریخ پر اپنے گہرے اثرات مرتب کرنے والا استعارہ ہے جو بہ یک وقت مجھے زندگی کی رعنائیوں ، سوغاتوں اور نکہتوں سے روشناس کراتا ہے اور شریعتِ ہنر کا پابند رکھتے ہوئے جھوٹ بولنے سے بھی روکے رکھتا ہے۔

بلاشبہ اس نے نئے سفر، نئی منزل اور نئے قافلے کے جلو میں برہنہ پائی کو پختہ احساس کی توانائی، ذہنی آوارگی کو ظاہری ستائش اور ماہ و سال کی سنگیں انگلیوں کے مقابل میں تیقن اور اپنی ذات پر کامل بھروسے جیسی نعمتوں سے مالا مال کیا۔

’’جان‘‘ ہی تو وہ چشمِ معتبر تھی جس نے آبروئے ہستی سے گنجینۂ معانی و مفہوم کشید کئے اور فن کو کمالِ فن کی زمین پر سجا دیا اور ارتقائے فن کے مراحل میں لفظ لفظ کے خال و خد سنوارے۔ اس عہدِ گراں میں جس کے پیدا کردہ حبسِ دروں میں میرے چہار سُو ہنستے بستے گاؤں کی فصیح و بلیغ زبانیں یکایک مقفل ہو گئیں ، تھرکتے بدنوں کے قدم شل ہو گئے اور آنکھیں شوقِ منظر فہمی میں پتھرا گئیں ، مجھے یوں قوتِ گویائی کا امرت رَس پلایا کہ میری ہستی سے پھوٹنے والی صدائے ناتواں بپھر کر میرے اطراف میں پھیلتی چلی گئی اور قریہ قریہ گھومتی بازگشت کی استقامت نے گونگوں بہروں کے ہجوم میں پیدا ہونے والے جانکاہ احساس کی تمام تر کرچیاں اپنی زُبان سے چُن چاٹ لیں ۔

 ’’جان‘‘ بلاشبہ اُسی قوتِ نمو، بساطِ احساس اور ہویت کے تیقن کا نام ہے جس کا بدن قلم اور لہو روشنائی بن کر میرے سامنے رکھے موت کی یخ بستگی میں ملبوس کاغذی پیراہن کو بحرِ سخن بناتا گیا۔

 یہی ’’جان‘‘ جب غیر مرئی وجود کے ساتھ اضطراب کی سیاہ قبا اوڑھے میری تنہائی میں در آتی تو اپنے خمار آلود لہجے میں سرگوشی کی سی سرسراہٹ بکھیرنے لگتی اور جاگتے رہنے کی ترغیب دیتی۔

 پھر یہی ’’جان‘‘ جب ایک اُجلا پیکر اوڑھ کر میری نیم خوابیدہ و خواب گزیدہ شب میں اُترتی تو اضمحلال، تھکن اور ملال کی تمام تر رِدائیں ادھیڑ کر زندگی کا جیتا جاگتا احساس رَگ و پے میں سرایت کر دیتی۔

اور یہی ’’جان‘‘ جب کبھی لمحاتی گستاخی پر برانگیختہ ہو کر رُخ پھیرتی اور نیم وَا دروازے کی طرف گام بڑھاتی تو آنے، ہونے اور نہ ہونے کی تمام تر فلاسفی سے روشناس کر دیتی۔میری روئیدادِ مسافت میں کہیں تو ’’جان‘‘ کو نیم جان ہونے کی صعوبتوں سے واسطہ رہا، کہیں اِسے اپنا انتساب کسی نادیدہ وجود کے سپرد کرنا پڑا، کبھی اِس پر بڑی بے دردی کے ساتھ نقشِ گماں کو ثبت کیا گیا تو کہیں اِس کے کمزور بدن کی دن بھر آبیاری کی گئی۔ اِس نے کہیں بھی ہار نہیں مانی اور نہ ہی کہیں جذبۂ رقابت کو خود پر حاوی ہونے دیا۔

ایک ’’جگنو‘‘ جو کبھی ردائے غد کے ملگجے اُجالے میں تڑپتا تو انمٹ دُکھ کی تعبیر بن جاتا، سرِ شام سرِ رہگزار دکھائی دیتا تو حوصلے اور اُمید کی کرنیں بکھیرنے لگتا اور کبھی جب ٹمٹماتے ہوئے اچانک نگہِ نا پختہ کار سے اوجھل ہوتا تو یوں لگتا جیسے میں نے نصابِ زیست اپنی ہی کوتاہیوں کے سبب کھو دیا ہے۔

بے توازن دھڑکتے ’’جگنو‘‘ کا میری ذات کے اندھیاروں سے کچھ ایسا انمٹ ناتا استوار رہا کہ تمام تردد یعنی توانائیوں کی موجودگی میں ، حالات کی بے ساختہ میرے ہاتھ خود سپردگی میں اور رخشِ ہنر کی طنابوں پر میرے ہاتھوں کی مضبوط تر گرفت کے با وصف اُس کے مقابل میں خود کو پیروں پر کھڑا رکھنے میں کامیاب نہ ہو سکا۔

 ’’جگنو‘‘ کی متحرک اور غیر مسلسل روشن کرنوں نے کبھی تو میری آنکھوں کو خیرہ کیا اور کبھی میری نظر اور میرے قدموں کے بیچ قائم تعلق کی شہ رَگ کو کاٹ کر رکھ دیا اور مجھے یوں لگا جیسے مجھے سہارنے والی دھرتی نے اپنا دامن سمیٹ لیا ہو، میرے حصے میں سہاروں اور دِلاسوں کی جاہ پر ٹھوکریں اور بد بختیاں رکھ دی ہوں ۔

’’جگنو‘‘ بلاشبہ صدیوں کی تشنگی کے مقابل میں آس کا ایک قطرہ بن کر تابندہ رہا، اُمید کا روشن ستارہ بن کر نا اُمیدی کے سیاہ پوش افق پر ٹمٹماتا رہا اور سر بریدہ لفظوں کے بیچ آڑی ترچھی پگڈنڈی کو اُجالتا رہا۔

 کبھی کلی کو چھونے کی پاداش میں موت سے ہمکنار ہوا۔ کبھی کسی پُر سکوت حویلی کی بے کراں تنہائی میں بات کرنے کیلئے چلا آیا۔

کبھی اُسے میری استخوانی مٹھی میں پناہ نہ لینے کی کسک نے پُر ملال رکھا۔

 کربِ نارسا میں دل جوئی کا شوق چُرایا تو بھاگتا ہوا آن پہنچا۔

یوں بھی ہوا کہ پُرسِ ادا شناس کے بل پر کوئی اداس شام اُسے کلیوں کا اضطراب سونپ کر رخصت ہوئی تو کبھی یہ وقت بھی اُس نے دیکھا کہ اُسے خیرہ کن روشنیوں کے باوجود ’’بے نور‘‘ کہہ کر رَد کر دیا گیا۔

میری راتوں کے سیاہ دامن میں پناہ ڈھونڈنے والا جگنو میرے گھر تک پہنچا تو اُس کی ننھی ننھی اُڑانیں زمانے بھر کی آنکھوں میں چبھیں ۔

دیدہ دلیر جگنو اُس ناز آفریں کی نظارہ کشی کیلئے بھی سینہ سپر تھا جو سورج اوڑھ کے گھر سے نکلتا تھا اور سب کچھ جلاتا جاتا تھا۔

 میرا ننھا سا ہم سفر، میری دلجوئی کیلئے اتارا گیا روشنی کا ننھا سا پیکر، جگنو، مجھے تمام سفر کے دوران جان سے بھی پیارا رہا۔

نگاہِ جستجوکی ہر اُڑان وجودِ بے سپر کی معیت میں کسی اَن دیکھی پناہ کی جانب بڑھتی گئی۔ ایسی کھوہ، گپھا یا غار… جہاں سماج کے پروردہ عفریت نہ ہوں ، جہاں ضمیرِ انسانی کے اُجلے بدن سے کوئی جونک چمٹنے کی جسارت نہ کرتی ہو، جہاں وقت واقعتا یکساں رفتار سے سفر پر گامزن ہو اور عذابِ ہجراں کا سبب نہ بنتا ہو…

پھر دل نے بے اختیار ایسی تصوراتی پناہ گاہ کو ’’جزیرہ‘‘ کا نام دیتے ہوئے اپنی سمت کا آپوں آپ ہی تعین کرلیا۔

بلاشبہ آغازِ سفر کی تحریک ’’احساس‘‘ نے دی تھی اور گام گام پر حوصلہ افزائی کا کارِ پُر صعوبت بھی اُسی کے ذمہ رہا۔ متعین کردہ ’’جزیرے‘‘ کی تلاش میں نظرِ احساس نے اَن گنت اَن چھوئے مقامات پر مجھے مسند نشیں کیا مگر آنکھ سے روح تک بھری ہوئی غیر معمولی تشنگی سیراب ہونے کا نام ہی نہیں لیتی تھی اور لمحہ بہ لمحہ شوقِ آگہی مہمیز ہوتا جا رہا تھا۔ ہر بار محسوس ہوتا کہ یہی وہ مقام ہے، یہی وہ جزیرہ ہے جس کی تلاش میں مَیں نے اپنا حرف حرف دوڑایا تھا مگر ہر ملاقات کے بعد ملال اور تھکن عود کر آتی اور سمجھا جاتی کہ اِس سے آگے جہاں اور بھی ہے، اِس سے بہتر کوئی اور مقام بھی ہے ، چلتے رہو، چلتے رہو…

اور میں ، خانماں خراب، بے دست وپا، برہنہ و دریدہ فکر چلتا رہا، چلتا رہا…

نہ اَپنی سُدھ، نہ اطراف کا دھیان، نہ کسی ضابطے کا پاس…

کہیں دل کو ’’جزیرے‘‘ سے تشبیہہ دی گئی اوراُسے بحرِ جنوں نے چاروں طرف سے گھیرے میں لے لیا۔

کبھی اُس نے ماہِ جبیں کے چمکتے ہونٹوں کے اُبھاروں پر اپنے نام کی تختی لگائی، کہیں اِس کے بنجر پن پر انگلی اُٹھی، کبھی اِسے محبت کے جگنوؤں کا بسیرا کہہ کر پلکوں پر بٹھایا گیا، کسی مقام پر اِسے آس کے بے کراں سمندر کا جزیرہ کہہ کر پکارا گیا تو کسی موقع پر اِسے مایوسیوں کی علامت کا نام دیا گیا مگر کمالِ ضبط کا مظاہرہ کرتے ہوئے اِس نے مجھے بے گھر نہیں کیا، مجھے ہمیشہ اپنے دل میں جگہ دی اور پلکوں سے چوما۔

 میں اِسے زندگی کے کسی بھی لمحے میں بھول نہیں پایا ہوں ۔

’’جان‘‘ کی کھوجنا میں ، آس کے روشن ’’جگنو‘‘ کے جلو میں جب میں کسی ان دیکھے ‘‘جزیرے‘‘ کے سفر پر گامزن تھا تو مجھ تک ڈھارس بندھاتی چند آوازیں ایک تسلسل کے ساتھ پہنچ رہی تھیں ۔ وہ صدائیں ستائش کے جذبات سے مغلوب تھیں اور گام گام مجھے حوصلہ بخشتی جاتی تھیں ۔ میں اُن آوازوں کے تخلیق کاروں کا بیانِ احوال اور شکریہ کی پیش کاری خود پر فرض سمجھتا ہوں ۔

میرِ کارواں ، شہرِ خیال اور بے آب و گیاہ ریگزارِ جاں گسل کی خشک چھاتی سے نم، خوش بُو اور خوش گماں اَدبی سوتے کشید کر کے طشتِ از بام کرنے والے ڈاکٹر خیال امروہوی کی شفقت آمیز آرا کہ ’’ ناصر ملک نے انسانی زندگی کو ایک ایسے راستے پر ڈال دیا ہے جہاں ہجرت کا غبار محض غبار ہی نہیں رہتا بلکہ عود و عنبر بن کر مسافرانِ بے نوا کو اپنی آغوش میں لے لیتا ہے‘‘ اکیلے پن کی شدید نوعیت میں بھی کانوں میں سرگوشی بن کر سرسراتی ہے اور ضعفِ ہنر کو اتنی توانا ڈھارس سونپ جاتی ہے کہ کسی بھی تھکن، اضمحلال یا تخریب کو قریب پھٹکنے کا موقع میسر نہیں آتا۔مجھے اُن کی شخصیت پر کچھ نہیں لکھنا کہ اِس کی گنجائش ہی نہیں ، مجھے اُن کی پُرستائش، فکرِ دل گداختگی و کربِ عصرِ کج فہم سے معمور آنکھوں کے اُس مشفق عکس کو چومنا ہے جو مجھے دیکھتے ہی مترشح ہونے لگتا ہے۔ وہ جن کی انگلیوں نے اپنے حرف حرف کو قوتِ تخلیق بخشی،وہ جب مجھے سراہتے ہوئے اور دُنیا سے منواتے ہوئے ہمیشہ میری اَدبی کوتاہی اور فکری بے ساختگی کو پسِ پشت ڈال کر میرے شعر شعر کو سندِ اعتبار سونپتے جاتے ہیں تو میں اپنے آپ کو یک لخت ایسے جہانِ اعتبار میں کھڑا پاتا ہوں جہاں سب کچھ میرا ہوتا ہے۔ کوئی گوشہ مجھے ناشناس دکھائی نہیں دیتا۔ دل کشف و عرفان کے اُس حصارِ فکر کا گرویدہ دکھائی دیتا ہے جس کی پرورش ڈاکٹر خیال نے ریگزار ِ عصر کے محاذ پر چھلنی وجود کے بل پر کی اور اِس سلسلۂ جان کاہ کو کسی پَل منقطع نہیں ہونے دیا۔ میں ، میرا ہنر اور میرے خیالات کی یورشیں اُن کے جذبۂ احیائے ہنر اور سعیِ بقائے فن کو سلام پیش کرتے ہوئے فخروانبساط کا قوی احساس پاتے ہیں ۔

اِک صدائے ستائش، جو ٹیلی فون کے ننھے سے اسپیکر سے پھوٹی اور سماعت کے رَستے روح تک اعتماد اور اپنی ذات پر بھروسے کے توانا احساس کو اُتارتی گئی، بلاشبہ یکم نومبر ۲۰۰۶ء کو پہلی مرتبہ سنائی دی تھی۔یہ قوت بخش آواز شکیل عادل زادہ کی تھی اور یقینا یہ وہی یا اُسی قبیل کے ایک راہ رَو کی صدائے بازگشت تھی جس کی عظمت اور پختگی انسانی ذہنیت کو معراج عطا کرتی ہے۔ انسانی فکر ایسے ذہنوں کی دہلیز پر سجدۂ تعظیمی بجا لاتی ہے اور مجھے کہنا ہے کہ ایسی صدائیں حیات کا جزو یا نشاں نہیں ، مکمل اور غیر متزلزل زندگی ہیں اور وہ صدا کار بگولوں کے ہم سفر ہونے کے با وصف اپنے پیروکار رَہ نوردوں کیلئے خارزاروں کو گل و گلزار اور منزلوں کو آئینہ بنانے کیلئے اشک اور لہو کے چراغ جلاتے ہیں ۔ مدّت گزرنے کے بعد بھی میرے چہار سُو ایک جملہ گونج رہا ہے ’’ناصر! آپ کا اندازِ فکر اور قوتِ تحریر آپ کو بہت آگے لے جائے گی، کبھی تھکنا نہیں …‘‘ یہ الفاظ اُس نقاشِ عصر کے ہیں جس کی فنی قد و قامت کے مقابل میں عصرِ موجود خود کو بے سپر پاتا ہے۔ وہ عہدِ نا سپاس کہ جب مجھے لکھنا، بولنا اور پڑھنا سکھانے والا میرا گاؤں گونگا اور اندھا ہو گیا تھا، جب ایک موہوم سی تھکن اپنی غیر مرئی قبا مجھ پر تانے اپنی جسامت کو ہر آن بڑھائے جا رہی تھی، تب اِسی دِلاسے، اِسی ڈھارس نے مجھے نیا ولولہ دیا اور مجھ پر تنی قبائے ملال کھینچ لی اور میں ایک مرتبہ پھر آندھیوں کی تندی کے محاذ پر سینہ سپر چراغ بن گیا۔ اِک نئے سفر کی بنا پڑ گئی اور یقیناً یہ اعجازِ مسیحائی اُنہی چند الفاظ میں پنہاں تھا جو شکیل عادل زادہ کے معتبر لہجے نے عطا کئے تھے۔ماقبل، جب اُن کی ایک داستانِ شہرہ آفاق ’’بازی گر‘‘ مجھے لحظہ لحظہ اپنے جلو میں ، اپنے دل فگار حصار میں لئے افسانہ نگار بنانے جا رہی تھی، تب میں نے یہ سوچا بھی نہیں تھا کہ اُن کے جیسا عظیم شخص ایک دِن مجھ پر مہربان ہو گا اور وہ میرے اَدبی سفر میں اتنا اہم کردار اَدا کریں گے۔

جغرافیائی حدود و قیود سے قطعی ماورا، تہذیب کا اِشاریہ اور ماضی و حال کی سنہری خاک، حروف، ہی تو ہمارے لئے ادراک و آگہی کا مؤثر ترین ذریعہ ہیں ۔ تصویر مٹ جاتی ہے، تحریر کبھی نہیں مٹتی۔ شاید یہی وجہ رہی ہو کہ ہم چھوڑ جانے والوں کی قبروں کے ماتھے پر حروف سے سینچے جانے والے کرب انگیز کتبے سجاتے ہیں ۔ کسی بھی تہذیب میں مرنے والے کی قبر پر اُس کی تصویر نہیں لٹکائی گئی۔ میرے سچے دوست، میرے لفظوں کی گیرائیوں سے پیار کرنے والے، ظفر اقبال ظفر، نے کہا تھا ’’یہ کربِ ناتمام ہی تو ہے کہ جس نے ناصرؔ کو تصویر کشی، افسانہ نگاری، کالم نویسی اور شاعری جیسی جہتوں کی دشت نوردی پر مجبور کیا اور اتنا مجبور کیا کہ ناصرؔ ملک نے الفاظ کی بُنت کرتے کرتے اپنے دریدہ دامنِ احساس کی بخیہ گری کا ہنر بھی سیکھ لیا…‘‘ حرف شناس، تاریخ کے سفاک قلم سے ٹپکتے لہو کے تناظر میں اپنی ذات کا کرب آمیز سچ رکھ کر ماپنے والا، فگار سینہ و آبلہ پامسافتوں میں درپیش گرد کے ذرات کو پتلیوں کی جھپک سے شمار کرنے والا ظفر… ہاں ! وہی ظفرجو اپنی تشنہ کام زیست کو آسودہ کرنے کیلئے زمانے سے سانسیں مستعار نہیں لیتا۔ جو لہو لہو فاختاؤں کے پروں سے ٹپکنے والے خون سے اپنی پیاس نہیں بجھاتا۔ جو محبت کو آدرش، آدرش کو رہینِ ادب اور اَدب کو جستجوئے حیات کا نام دیتا ہے اور سکوتِ موج میں کردار سازی کے خارزاروں کو حروف کے تابندہ نقوش کے پہناوے دے کر طغیانیاں پیدا کرتا ہے۔ وہی اگر کہتا ہے کہ ناصر ملک نے بخیہ گری کا ہنر سیکھ لیا ہے، تو شاید یہی سچ ہے۔ شاید وہ جانتا ہے کہ مجھے، میرے ہنر کو ، میرے ٹوٹتے لہجوں کو اُس ہوا کا انتظار ہے جو آندھی کی طرح آئے اور جلتے گھروں کا اڑتا خاشاک و خس، آگ اگلتی چمنیوں کا دھواں ، غبارِ ہجراں ،مصلحت کے سرد خانوں کی روزنوں سے پھوٹتا کہر، خزاں رسیدہ درختوں کی لرزیدہ ٹہنیوں سے چپکے مردہ تتلیوں کے عبرت انگیز ننھے ننھے بدنوں سے پھوٹتی غیر محسوس بُو، فضا میں رَچے بارود کی تیز کٹیلی بدبُو اور طبقاتی تضاد اور ذات و نسل کے خود ساختہ تفرقات سے پیدا ہونے والے حبس کو اپنے ساتھ اُڑا کر لے جائے۔ شاید ظفر جانتا ہے کہ مجھے صدیوں کی تھکن کو اپنے وجودِ برہنہ پر اوڑھائے، اعصاب شکن انتظار کی کوفت کا بارِ عذاب گیں اُٹھائے،پُر ہول دشتِ خار پر نگہِ اُمید ثبت کئے ہوئے اُس انسان کی رہائی کی آرزو مضطرب رکھتی ہے جسے افراتفری، تعصب رَوی اور نفسا نفسی نے صدیوں سے کچھ اس طرح دار پر لٹکا رکھا ہے کہ اُس کے نہ تو زمین پر پاؤں ٹکتے ہیں اور نہ ہی آسمان اُسے اذنِ سفر بخشتا ہے۔

اور جب مِرے داخلی انتشار اور روح تک گھاؤ کیے ہوئے فطری اضطراب نے ’’غبارِ ہجراں ‘‘ کا پیرہن اَوڑھا تھا، تب میرے لفظوں سے پیار کرنے والے ایک دوست ’’رضی الدین رضی‘‘ جس کے قلم سے لفظوں کا نظم و ادراک تک پیار کرتا ہے، نے کہا تھا کہ ’’ناصر کے پاس کہنے کے لیے بہت کچھ ہے، تبھی وہ بیان کیلئے نئے راستے، نئے بہانے ڈھونڈتا رہتا ہے…‘‘  رضی نے شاید ٹھیک ہی کہا تھا کیونکہ وہ خود بھی غم گسارِ جذباتِ سوختہ ہے اور کشف و ایقان کے اُس حلقۂ دامِ خیال کا باسی ہے جہاں فن کار کی زُباں تلمیحِ اسرار کو پیمانۂ فکر و نظر عطا کرنے لگتی ہے۔اُسے بارہا سنا اور سُن کر مجھے یوں محسوس ہوا کہ وہ جونہی رَخشِ ہنر پر سوار ہوا ہو گا تو رہ گزارِ فن و دشتِ خار نے اُسے برہنہ پا کر دیا ہو گا۔ اُس کے زادِ سفر سے زین، لگام اور رکابیں دل گداختگی نے چُرا لی ہوں گی…شاید رضی فن کے سنگِ کرب زا سے جوئے شیر کھینچ لانے کیلئے تیشہ بکف نکلا تھا اور پھر اپنے جنوں کے حقیقی محرک کی تلاش میں سرگرداں ہو گیا تھا۔ ارتقائے فن کی راز اَفشائی کے شائق، رضی!میرے پاس تو شاید کہنے کیلئے ایک حرف بھی موجود نہیں ہے مگر چشمِ تر ایک سے ایک نیا منظر دھندلاہٹ میں سے کھوج نکالتی ہے اور میرا فن آئینہ بن کر کٹیلی کرنوں کو منعکس کرنے لگتا ہے۔ انعکاس کی پروردہ یہی شبیہ جب زمان و مکان کی نا آسودگیوں اور وحشتوں سے ماورا ہوتی ہے تو کسی فن پارے کی شکل اوڑھ لیتی ہے۔ لہجے میں تب اِک عجب تیقن عود کر آتا ہے جو لفظ لفظ کو معتبر کرتا جاتا ہے اور حسن پر حسنِ بیان کی آگہی اُتارتا جاتا ہے۔

اور تم تو ایک موج ہو جو بطنِ دریا سے جنم لیتی ہے اور وہیں گم ہو جاتی ہے… ایک دریا ہو جو بقول ظفر، اپنا پانی آپ پینا چاہتا ہے… ایک نیلگوں سمندرہو جو کسی دل فگار فکری سلطنت کے حیطۂ سرحد میں موجزن رہتا ہے…ایک خواہش ناتمام ہو جو چاند کی اَور اُچھلتی ہے اور سنگیں ساحل سے ٹکرا کر بے دَم ہو جاتی ہے… ہاں !تم وہی بے تکلف لہجے اور چمکتی آنکھوں والے جمشید ساحل ہی تو ہو جو سرگوشی کے سے انداز میں مجھ سے کہتا ہے ’’مجھے ایک ایسا دوست مل گیا جو لفظوں کے جنگل میں خیمہ زَن تھا اور میں جو حدِّ نظر پھیلے ہوئے اِس جنگل میں تن تنہا اپنی تعمیر میں جتا ہوا تھا، ناصر ملک کو پا کر میں بے حد خوش ہوا۔ لاکھوں نفوس پر پھیلا ہوا میرا یہ شہر اور اس شہر سے پَرے لفظوں کے جنگل میں ناصر ملک کی موجودگی میرے لیے خوشگوار جھونکے کی مانند تھی‘‘ … تو جمشید! مجھے بھی یہی کہنا ہے، یہی لکھنا ہے کہ دل جوئی کرتا ایک وجودِ پُر آفریں درکار مجھے بھی تھا جو تمہاری شکل میں مجھے بہ دستِ مقدر میسر آگیا ہے۔ یہاں بہ جزو چند حادثات، کارِ تعمیر ایسا کٹھن کام اپنے ہی دست و بازو کی توانائیوں کے بل پر کیا جاتا ہے اور انگلیاں اجتماعی طور پر اُٹھا کرتی ہیں ۔ لفظوں کے بنت کار تم بھی ہو، لفظوں کے کشیدہ کار ہم بھی ٹھہرے مگر یہ کیا کہ کسی نا شناسا مرحلۂ زیست پر اپنے قصرِ تحریر کی دہلیز تک نا معتبر اور غیر اہم لگنے لگتی ہے اور ’’احساس‘‘ ماورائی ملبوس پہن کر نظروں سے اوجھل ہونے لگتا ہے۔

محاذِ قلم پر بے سپر لڑتا وجودِ مضطرب، صابر عطا، جس کا حرف حرف اُس کے جذبوں کو دھڑکن عطا کر کے زندہ رکھتا ہے، جس کے شعر اُس کے فکری عروج کو مہمیز کرتے ہیں ،جس کی کھوج اور جستجو کا عمل اُسے معاشرتی کٹھنائیوں اور بدحواسیوں میں متحرک رکھتا ہے اور یقیناً وہی شخص جس کی ستائش نے زینہ بن کر مجھے ’’غبارِ ہجراں ‘‘ تک پہنچایا اور پھر کتنے اعتمادسے رائے زن ہوا کہ ’’ناصر ملک کی شاعری روح کے رَس سے مرصع ،دل کی دلیلوں سے بے نیاز اور نگاہ کی نوازی ہوئی ہے اور وہ ہمیشہ دِل سے لکھتے ہیں تبھی پڑھنے والے آنکھوں سے نہیں ، دل سے پڑھتے ہیں ‘‘ … دل گداختہ، جانِ سوختہ صابر تو مجھے آنکھ سے دیکھتا اور دل سے پڑھتا رہا تبھی اُسے مِرا دریدہ تَر وجود بھی مکمل اور اُجلا دکھائی دیتا رہا۔ شاید اُس کی آنکھوں میں قدرت کے ودیعت کردہ اُجالے ہی بھرے تھے کہ اُس کے نزدیک میں خاک بسر شفاف، میرا تن اُجلا اور میرا لفظ لفظ روشن رہا اور اِک سفر جو درپیش مجھے بھی تھا، اُسے بھی تھا، کٹتا گیا۔ آج سوچوں تو آگہی کے دَر کھلتے ہیں کہ یہ معیت، یہ ہمراہی اور لمحوں کی پروردہ شراکت کتنی معطر اور وضع دار تھی کہ وہ مجھے اور میں اُسے سہارا دیے چلتے رہے اور خارزارِ زیست کی عبورگی کا مرحلہ طے ہو گیا۔

حنیف سیماب،شہرِ خیال کا سرمست معمار، نسرینِ دل آفریں کی تماشا گری سے اکتایا ہوا، سماجی چولھے پر جلتی روٹی کو اشکوں سے بجھانے کا حوصلہ کار، کہتا ہے ’’ناصر ملک کے بالیدہ شعور کو جذبہ و شوق کی آنچ نے کندن بنا دیا ہے‘‘ …سنا، پَرکھا اور طَے ہوا کہ اُس ہم آہنگ نے کچھ بے جا بھی تو نہیں کہا۔ جذب و شوق پہ آتش کاری کا شغل تو برسوں سے برسرِ پیکارِ ذات چلا آ رہا ہے اور سیپ و صدف تک دسترس کا حصول شاید مقصدِ حیات مقرر ہوا ہے کہ بحرِ احساس ہے، بے ناخدا ناؤ ہے، اُبھری رَگوں والے مضمحل اور نڈھال بازو ہیں اور مَیں …مگر میرے ساتھ ساتھ حنیف کی محبتیں سفر گزیدہ ہیں جن کے شمار کا موزوں وقت یقیناً اَبھی نہیں آیا۔

’’اپنی دُنیائے مست و الست میں سوچوں کے دائرے بنتا ناصر تخلیقی دُنیا کا حقیقی آباد کار ہے‘‘…مِرے شہر، مِرے تپتے جلتے تھل اور مِرے ڈھیلی گردنوں والے ٹیلوں کو سدا کے لئے چھوڑ کر جانے والا آفتاب ملک، دُور بیٹھا، آنکھوں پر مِری محبت کی پٹی باندھے مجھے دیکھ رہا ہے اور ٹھہری ہوا کے سربستہ دوش پر مخاطب بھی کرتا جاتا ہے۔ اُسے کیا کہوں ، اُسے گلہ دوں تو کیا دوں کہ اُس نے مجھے، ہمیں اور ہمارے بعد آنے والوں کو کیوں چھوڑا تھا جو ایسے پکارنا ہی تھا؟ تب اپنی ہی بازگشت پوٹھوہار کے بے ساختہ پہاڑوں سے ٹکرا کر لوٹتی ہے اور سمجھاتی ہے کہ اے خود رو، بے ثمر اور محتاجِ آب و ہوا ریگستانی پودو! تمہارے ہاں کوئی آیا بھی ہے کیا کہ جانے والوں کا شکوہ تمہارے لبوں پر مچلنے لگا ہے؟…

اور اَب احوالِ جاں کنی، قصۂ دل فگار…اپنی ہستی میں پھیلی تیرگی میں چمکتے ہوئے اُس حسنِ تاب ناک و خیرہ کن خال و خدکا ماجرائے دل گسل… کہ جس کے اظہار میں کوئی سرمایۂ ہنر نہ تھا، کہ جس کے دستِ مسیحائی میں کوئی اعجاز کارفرما نہ تھا، کہ جو ’’تھا‘‘ بھی اور’’ نہیں ‘‘ بھی تھا شاید … مگر اُس نے مجھ جیسے پتھر کو مجسمہ سازبنا دیا، مجھ ایسے بھیگے کاغذ کو آغوشِ فکرِ سوختہ بنا دیا۔ خشک قلم کو خون کی روشنائی اور تخلیقی اسباب سمیٹ دیے اور پھر وقتِ رخصت اضطراب آمیز زادِ مسافت سونپ دیا جس نے کسی پَل بھی آنکھ نہیں لگنے دی، شعلۂ دِل کو بجھنے نہیں دیا اور ناآسودہ کانچ کی کرچیوں نے آنکھ بند نہیں ہونے دی اور میں اُسے ہی بُنتا گیا… چُنتا گیا… یہاں تک کہ مِرا عقیدہ، نظریہ اور ہنر مِرے ’’احساس‘‘ کو پختہ کرنے لگا۔

اور میں ہوں … نہیں ہوں … یا ’’ہوں ‘‘ اور ’’نہیں ہوں ‘‘ کے مابین معلق وجود بن چکا ہوں ، خبر نہیں رہی مگر خبر دینے والا کبھی شعور و فکر کی جاوید آنکھ سے اوجھل نہیں ہوا۔

 اے مہِ روشن! اے وجودِ ہم آہنگ! اے پیکرِ جمال و دلِ کشا! مِرے جملوں کی ندرتا، اُجلا پن، کیف پرور مناظر اور اُمید بھری حیرتیں … تِرے نام…

کہ مجھ سے مسافرِ دشت و صحرا کے کشکول میں یہی باقی ہے۔

 اور وہ سبھی تیرگیاں ،متاعِ درد جیسی تلخیاں اور احساس کی پسلیوں میں چبھتی کرچیاں … وہ سب مِرے نام…

کہ مجھے اِسی زادِ سفر کی ضرورت بے چین رکھتی ہے۔

اپنے احباب، بالخصوص ڈاکٹر اشولال، ڈاکٹر مزمل حسین، مزار خان، ڈاکٹر سید اختر حسین اختر، رفیق احمد نقش، سلیم ناز،حافظ مظفر محسن، ڈاکٹر امین طارق، شمس ملک، جسارت خیالی، طارق گوجر اور مقصود ثاقب کی بے پایاں محبتوں کا شکر گزار ہوں ۔

اور…میں جن کے لئے دل سے لکھتا ہوں اور وہ مجھے دِل سے پڑھتے ہیں ، اُن سے مخاطب ہوں کہ میں اتنا پختہ کار ہنرمند نہیں ہوں کہ مجھے انگلیاں اُٹھنے کا اندیشہ بے چین کرے اور ہاں مگر… میں ایسا لاپرواہ اور کج اَدا بھی فطرتاً واقع نہیں ہوا کہ مجھے احباب کی معتبر اور محبت آمیز رائے کی احتیاج ہی نہ رہے۔

مجھ ایسے تشنہ حرف کار کو آپ کے حرف حرف کی ضرورت تا دمِ آخر رہے گی۔

                                                            ناصر ملک

                                                            چوک اعظم

                                                             (۲۹۔جولائی ۲۰۰۸)

حمدِ ربّ تعالیٰ

دُنیا کی ہر زبان کا حسنِ ادا وہی

اپنا خدا جو آپ ہے ، میرا خُدا وہی

اپنا خیال آپ تو اپنا بدن بھی آپ

پوچھا گیا ’وہ کون ہے‘ دل نے کہا ’وہی‘

دستِ عطا سے منظروں کو بھی ملی زباں

صحنِ خیال میں نظر آتا رہا وہی

کوئی بھی سوچ اُس کا اِحاطہ نہ کر سکی

دے کر شعور و آگہی سب پر کھلا وہی

یوں تو سبھی جہان میں ہیں معترف مگر

جو اُس کے عشق میں ہے یقیناً جُدا وہی

نظمِ سخا پہ میرے دل و جان بھی نثار

لازم تھا نقشِ پائے محمدؐ ، ملا وہی

خالق سے پیار ہے مگر تخلیق سے نہیں

اَب بھی فریبِ ذات کا ہے مسئلہ وہی

ناصر جو قلب و جان پہ چھایا رہا سدا

عقلِ جہاں سے آج بھی ہے ماورا وہی

٭٭٭

نعتِ رسول ﷺ

کلام اُن کا تو نقشِ کلام اُنؐ کا ہے

رَہِ خلوص و صداقت مقام اُنؐ کا ہے

ہواؤ ! ڈھونڈ کے لاؤ تمام تَر کرنیں

چراغِ شام کے ہاتھوں میں جام اُنؐ کا ہے

یقیں نے چاند کے سینے پہ معجزہ لکھا

جہانِ نورِ خدا میں قیام اُنؐ کا ہے

زمیں کو اپنے مقدر پہ ناز ہے آخر

زمیں کا سارا زمانہ غلام اُنؐ کا ہے

ادائے رحم و سخا کے ہیں واقعے کیا کیا

زُبانِ شوق پہ ہر پل کلام اُن کا ہے

جو اپنے دِل میں محمدؐ کا عشق رکھتے ہیں

دیارِ عشق میں اعلیٰ مقام اُن کا ہے

گلوں پہ اَوس کے قطرے سلام لکھتے ہیں

وفورِ شوق کے ہونٹوں پہ نام اُنؐ کا ہے

مِرے نصاب میں ناصر خُدا نے لکھا ہے

وفا کرو کہ وفا کا نظام اُنؐ کا ہے

٭٭٭

نعتِ رسول ﷺ

پھول تاروں سے سجا ماہِ سخا کا نقشِ پا

اِک جہانِ نور ہے خیر الوریٰؐ کا نقشِ پا

اُنؐ کے قدموں سے ملا ہے اِک صراطِ مستقیم

ورنہ کس نے دیکھ رکھا تھا خدا کا نقشِ پا

اِس جہاں سے اُس نگر کا راستہ ہے کہکشاں

چوم لے گر اُمّتی نور الہدیٰ ؐ کا نقشِ پا

ایک انگلی کے اشارے میں چھپا تھا کیسا راز

ماہِ روشن آج تک ہے مصطفی ؐ کا نقشِ پا

کاروانِ مرتضیٰ پھر چل پڑا تھا شان سے

پیش روؐ نے جب دکھایا کربلا کا نقشِ پا

زادِ رہ میں آتشِ تر دامنی ہے منعمو!

اور آنکھوں میں امام الانبیاؐ کا نقشِ پا

ایک دُنیا کی جمی تھی ماہِ تاباں پر نظر

ماہِ تاباں چھو رہا تھا مجتبیٰ کا نقشِ پا

آسماں بھی جھک گیا تھا دیکھنے کو اُس گھڑی

کہکشاں کو میں نے لکھا جب حِرا کا نقشِ پا

قوتِ معجز نمائی پہ دل و جاں ہیں نثار

لامکاں کا راستہ بھی ہے وفا کا نقشِ پا

٭٭٭

اُس جیسا کوئی ایک سخی ہو…

 

            دُنیا نے اِک سورج مانگا

                                    کرنیں چاہیں ، رستا مانگا

            خیموں کی دہلیز پکڑ کر کوئی درس انوکھا چاہا

            ایک زمانہ لرزیدہ سا، شرمندہ سا، ساتھ کھڑا تھا

                                    مانگ رہا تھا

            دُنیا کا ہر ایک زمانہ ایک تمدن مانگ رہا تھا

            وہ تہذیب کا بانی لیکن، خیمے کی دہلیز کے اندر

                                    اپنے رب کو دیکھ رہا تھا، سوچ رہا تھا

            نخلِ جاں سے خون کے قطرے مانگ رہا تھا

            اُس تہذیب کی بنیادوں کو خون کے قطرے سونپ رہا تھا

            جس تہذیب میں سورج، کرنیں ، چاند ، ستارے

                                    ہر موسم کے پھول اُگے ہیں

            بارش، افشاں ، آس کے جگنو، نورِ اَنا ہے ، خود داری بھی

            عزم، اصول و مقتل، آنسو، صحرا، خون کے دریا بھی

            رستا، خاک ، گہر کی تاب زمانہ دیکھ رہا ہے

                                    آج بھی اُس تہذیب میں سانسیں پلتی ہیں

٭٭٭

وہ محوِ بقا ، نورِ سما ، گہرِ صدف ہے

وہ ابنِ علیؓ ، آلِ محمدؐ کا شرف ہے

دیکھو تو رہِ عشق میں منزل کا تعین

دربارِ نبیؐ ، کرب و بلا ، تختِ نجف ہے

ہر لفظِ ملامت ہے رواں سوئے منافق

تہذیب مگر آج بھی خیموں کی طرف ہے

اسلام کے دُشمن کو ذرا کھل کے بتا دو

وہ آج بھی شبیری ارادوں کا ہدف ہے

پھر اُمّتِ مسلم پہ کڑا وقت ہے ناصر

عبّاسؓ مگر آج بھی شمشیر بہ کف ہے

٭٭٭

یہ تقسیم بھی کتنی غیر آئینی ہے

جس نے میرے ہاتھ سے روٹی چھینی ہے

بارش میں بھی دھوپ چمکتی رہتی ہے

دل کا موسم کتنا غیر یقینی ہے

اِس سے بڑھ کر اور قیامت کیا ہو گی

اُس کے لہجے میں بھی نکتہ چینی ہے

مجھ کو دار پہ آخر اِک دن چڑھنا ہے

میری رائے کڑوی اور زمینی ہے

میرے دُکھ کی یکتائی بھی بول پڑی

اپنی چادر اپنے ہاتھوں سینی ہے

بِن مرضی کے وقت گزرتا جائے گا

وقت گزاری کا انداز مشینی ہے

کالی رات کا دامن اُجلا اُجلا ہے

بھیگی زُلف کی خوشبو بھینی بھینی ہے

اُن آنکھوں سے زہر چھلکتا دیکھا ہے

جن آنکھوں کی مَے ہونٹوں نے پینی ہے

شاید اُس نے سچ گوئی سے توبہ کر لی

ناصر اُس کی باتوں میں شیرینی ہے

٭٭٭

جب کبھی میرے مقابل میں ہنر اُس کا ہوا

تیرگی مجھ کو ملی رنگِ سحر اُس کا ہوا

مجھ پہ تو سایہ کشا تھی بخت کی تیرہ شبی

رہ گزارِ عصر کا سورج مگر اُس کا ہوا

ایک ہی رَستے پہ دونوں گامزن برسوں رہے

وہ نہیں بدلا مگر مجھ پر اَثر اُس کا ہوا

رہ گئیں محنت کشوں کے ہاتھ میں کچھ ٹہنیاں

جیت تاجر کی ہوئی ، سارا ثمر اُس کا ہوا

آج پھر گزرا زمانہ یاد آیا ہے اُسے

پھر ملالِ جاں گسل میں دِن بسر اُس کا ہوا

ایک نقطے میں سمٹ کے رہ گئی ہے زندگی

ایک پل میں طے جوانی کا سفر اُس کا ہوا

مقتلوں سے بچ کے جیسے عشق سے گزرے کوئی

آج دشتِ آگہی سے یوں گزر اُس کا ہوا

ہے پڑاؤ رائیگاں ناصر تمہارا شہر میں

ہجرتوں کے دور میں یہ بھی نگر اُس کا ہوا

٭٭٭

پُنل بھی سسی ہو گیا

 

رات کے پچھلے پہر کی چاندنی تھی اور تُو

اونچے ٹیلے پر کھڑی تھی، چاند نیچے آگیا

            ریت ٹھنڈی ہو گئی تھی سانس لیکن آگ تھی

            اک ہوائے ریگ تھی جو قربتوں کے شوق میں

            گیت تیرے گا رہی تھی تیری زُلفیں کھول کر

            جھومتی تھی، ناچتی تھی پیچ و خم کو چوم کر

یاد ہے اُس نے کہا تھا تیری زُلفیں تھام کر

            اے گھٹا! اس زندگی کو رات کرنا چاہیے

            رات کی تیرہ شبی کو ساتھ کرنا چاہیے

            ہر اَدائے ناز کو بھی مات کرنا چاہیے

            وقت کی نبضوں سے کوئی ہاتھ کرنا چاہیے

یاد ہے تُو نے کہا تھا وقت میرے ساتھ ہے

 یاد ہے تُو نے کہا، میں کانچ کی گڑیا نہیں

            دھڑکنوں کی تال پر میں ناچتی ہوں ، جاگتی ہوں

            میں رموزِ عشق سارے جانتی ہوں ، جاگتی ہوں

            سُن رہی ہوں گھنٹیوں کی چار سُو پھیلی صدا

            نقشِ پا کی جستجو میں بھاگتی ہوں ، جاگتی ہوں

یاد ہے تُو نے کہا تھا اپنی آنکھیں موند کر

            اِس فریبِ آگہی کی ذات کاجل ہو گئی

            رات اَندھی ہو گئی ہے، ریت پاگل ہو گئی

            قریہ قریہ گھومتی تھی چاندنی کے نُور میں

            موج تھی، عرفان پاکر آج ساحل ہو گئی

جاگتا کوئی نہیں تھا، جاگتی تھی تُو مگر

چاند تھک کے سو گیا تھا چاندنی کو اوڑھ کر

            تیرے شانے رات کی چادر سے خالی ہو گئے

            آنکھ کے جلتے دِیے اُن ساعتوں میں سو گئے

            بے کراں تھی پیاس جو تیرے لبوں پر جم گئی

            آس کے روشن جزیرے پپڑیوں میں کھو گئے

یاد ہے پھر اُس گھڑی تُو نے کہا تھا چیخ کر

            آگ کے دریا میں آخر تُو بھی پُنل ہو گیا

            رات کالی ہو گئی ہے ، چاند گھائل ہو گیا

            تھل کی سرکش ریت کا سینہ بھی پاگل ہو گیا

            آنکھ دُھندلی ہو گئی، شعلہ سا حائل ہو گیا

            یہ کہا تھا وقت کے سینے پہ خیمہ گاڑ دے

            یاس میں بھیگے ہوئے اوراق سارے پھاڑ دے

            پیاس کے صحرا میں کوئی دیدہ وَر ایسا تو ہو

             چشمِ تر میں ڈھانپ لے اور بازوؤں کی آڑ دے

اُس گھڑی مَیں جاگتا تھا، تیرا پُنل بن گیا

آندھیوں کو روکنے والی ہتھیلی بن گیا

            یاد ہے تُو نے کہا تھا اپنی بانہیں کاٹ دے

            وقت کی باندھی ہوئی زنجیرِ پا کو توڑ دے

            یاد ہے تُو نے کہا تھا تخت کی باتیں نہ کر

            یاد ہے تُو نے کہا تھا اونٹ سارے چھوڑ دے

            رات کے پچھلے پہر کی چاندنی ہے اور میں

            اونچے ٹیلے پر کھڑا ہوں نقشِ پا کو دیکھنے

            چاند مجھ سے پوچھتا ہے ماجرا یہ کیا ہوا؟

            ایک سسی کیلئے  پُنل بھی ’’سسی‘‘ ہو گیا

٭٭٭

مجھ کو میرے شہر میں بدنام کرنے کے لیے

آگیا ہے میرا گھر نیلام کرنے کے لیے

اَب ضروری ہو گیا ہے میرا تجھ کو چھوڑنا

زندگی میں اور بھی ہیں کام کرنے کے لیے

اُٹھ گیا ہے میکدے سے آج بھی خانہ خراب

رات بھر میں دو گھڑی آرام کرنے کے لیے

کس قدر بے چین تھا وہ قربتوں کا ایک پل

زندگی کو میری تشنہ کام کرنے کے لیے

معذرت مَیں بے اِرادہ رُک گیا تھا اُس گھڑی

انتسابِ جان تیرے نام کرنے کے لیے

چشمِ جاناں بَرملا یہ کہہ گئی ہے دوستو!

پیار کی دولت نہیں ہے عام کرنے کے لیے

آنکھ دُھندلی ہو گئی تھی ، ہونٹ پتھر ہو گئے

نقشِ دل کو راستوں پہ گام کرنے کے لیے

ایک سورج آ گیا تھا آئینے کے رُو بہ رُو

زلف کو کھلنا پڑا تھا شام کرنے کے لیے

آج ناصر چھڑ گیا ہے ماجرائے دِل رُبا

چاندنی میں اہتمامِ جام کرنے کے لیے

٭٭٭

جگنو کلی کو چھو کے گیا اور مر گیا

اِک موتیے نے دیکھ لیا اور مر گیا

حیرت سے دیکھتا ہے پلٹ کر مِرا جنوں

یہ کس نے اُس کو چوم لیا اور مر گیا

میری نظر نے کھوج لیا تھا چراغِ راہ

دل نے تڑپ کے روک دیا اور مر گیا

قصے وہ سن رہا تھا وفاؤں کے آج بھی

پھر دل پہ ہاتھ اُس نے رکھا اور مر گیا

میں تھا گناہ گار اُسے دیکھتا رہا

تائب نے اُس کو دیکھ لیا اور مر گیا

ایسا وفورِ شوق میں طے مرحلہ ہوا

آنکھوں میں اَشک آ کے رُکا اور مر گیا

اُس نے تمام رات ہی سوچا تو تھا مگر

عقدہ کوئی نہ کھول سکا اور مر گیا

ناصر وہ بات بات پہ ہوتا تھا کیوں خفا

پوچھا تو وہ بتا نہ سکا اور مر گیا

٭٭٭

اُس کو مِرے خلوص پہ کوئی شبہ نہیں

اُس کج ادا سے پھر بھی کوئی رابطہ نہیں

دل کے معاملات میں مدّ و جزر کہاں

اَب کے تعلقات میں شکوہ گلہ نہیں

تنہا میں چل دیا تھا یہی سوچتے ہوئے

دشتِ وفا میں راہ تو ہے ، قافلہ نہیں

خواہش بھی جاگتی ہے کہ پلٹے گا وہ مگر

اُس میں تو آج لوٹنے کا حوصلہ نہیں

وہ شخص باخبر تو ہے میرے ملال سے

آنے کا اُس کے پاس مگر راستہ نہیں

پھر مفلسوں نے رکھ دیے اُن کے سروں پہ تاج

جن رہبروں کا اُن سے کوئی واسطہ نہیں

شیشے میں دیکھ کر وہ ہوا مطمئن بہت

حسنِ ادا کے ہاتھ میں جو آئینہ نہیں

وہ بھی ضرور جاگتا ناصر تمام رات

لیکن کسی کے پاس تِرا ماجرا نہیں

٭٭٭

دِل کبھی بے طلب نہیں ہوتا

تو مجھے یاد کب نہیں ہوتا

جس کے عارض پہ اَوس تھم جائے

اُس کو جینے کا ڈھب نہیں ہوتا

تتلیاں اُس پہ بیٹھ جاتی ہیں

باغ میں پھول جب نہیں ہوتا

عشق کرتا ہے پرورش اپنی

عشق کا کوئی رب نہیں ہوتا

بے وجہ آنکھ نَم نہیں ہوتی

حادثہ بے سبب نہیں ہوتا

کس لیے دِل اداس رہتا ہے

جانے والا تو اَب نہیں ہوتا

عشق حرفوں کو خون دیتا ہے

عشق تو بے ادب نہیں ہوتا

کیوں اُسے خط میں بیوفا لکھوں

غم اُسے میرا کب نہیں ہوتا

وہ گھڑی موت سے بھی ظالم ہے

جس گھڑی دل میں رَب نہیں ہوتا

اُس کا جانا مثالِ حشر سہی

دُکھ مگر روز و شب نہیں ہوتا

وہ مجھے کیوں دکھائی دیتا ہے

میری محفل میں جب نہیں ہوتا

جس کے بدلے زبان ہاری تھی

گیت وہ زیرِ لب نہیں ہوتا

اَب وہ صورت گری نہیں ہوتی

حوصلہ دل کو اَب نہیں ہوتا

آئینہ بے زبان ہوتا ہے

ہاں مگر بے اَدب نہیں ہوتا

زندگی میں نے ہار دی ناصر

دُکھ مجھے بے سبب نہیں ہوتا

 ٭٭٭

نصیب

            ہجرت میں ریاضت کی تھکن میرے لیے تھی

            ریت میری تھی مگر رنگِ صدف اُس کے لیے تھا

            اے نوکِ سناں ! تیز چبھن میرے لیے تھی

            دِل مِرا آج مگر تیرا ہدف اُس کے لیے تھا

            جس شخص کے ماتھے پہ شکن میرے لیے تھی

            میں آج تلک تیشہ بہ کف اُس کے لیے تھا

٭٭٭

ایک کانٹا چبھ گیا تھا دل رُبا کے ہاتھ کو

باغباں نے کاٹ ڈالا تھا قضا کے ہاتھ کو

موتیا بھی چھپ گیا تھا چند پتے اوڑھ کر

ہائے اُس نے جب دَبایا مسکرا کے ہاتھ کو

ایک دِل کا ماجرا تھا زندگی پر چھا گیا

دل پہ یونہی رکھ دیا تھا کیوں جلا کے ہاتھ کو

تھک گیا تھا میں فضائے میکدہ سے آج بھی

جام لیکن چومتا تھا کج اَدا کے ہاتھ کو

ایک ننھے سے بھنور نے روک دی ہیں کشتیاں

یہ نجانے کیا ہوا ہے ناخدا کے ہاتھ کو

آج بھی دُزدِ حنا نے مار ڈالا تھا مجھے

کس طرح میں تھام لیتا بے وفا کے ہاتھ کو

دل کی دھڑکن رُک گئی تھی، آنکھ پتھر ہو گئی

جب چھڑایا تھا کسی نے تلملا کے ہاتھ کو

میں بھی ناصر زندگی کو بے وفا لکھتا رہا

زندگی بھی مانگتی تھی بے وفا کے ہاتھ کو

٭٭٭

میری مٹھی میں بھی جگنو آ سکتا تھا

اتنا پیارا جتنا سوچا جا سکتا تھا

اُس کو جانے کی جلدی تھی ورنہ میں بھی

آخر اِک دن اُس کے دل کو بھا سکتا تھا

میرا فن بھی ایک جدائی مانگ رہا تھا

ورنہ جانے والا واپس آ سکتا تھا

سننے والوں سے ڈرتا تھا ، چپ ہی رہتا

دل ہی دل میں غزلیں میری گا سکتا تھا

نازک تھا وہ کب دُنیا سے لڑ سکتا تھا

لیکن کوئی اِک دیوار تو ڈھا سکتا تھا

جلتے رہنا میرے لیکھوں میں لکھا تھا

ورنہ مجھ پہ کوئی بادل چھا سکتا تھا

کیکر کی جو شاخیں اَوڑھے جاگ رہا تھا

وہ بھی گھر میں رات کی رانی لا سکتا تھا

کیوں آنکھوں پر اُس نے روٹی باندھ رکھی تھی

میں بھی ناصر روکھی سوکھی کھا سکتا تھا

٭٭٭

آج تک وہ ماہِ تاباں اجنبی ہے کس لیے

اِس قدر بے کیف میری زندگی ہے کس لیے

جا چکی ہے نیند گھر سے پھول کلیاں اَوڑھ کر

چاندنی تُو میرے گھر میں جھانکتی ہے کس لیے

ہر طرف ہے موت کی سی خامشی چھائی ہوئی

ایسے عالم میں بھلا صورت گری ہے کس لیے

اے زمیں ! دوزخ کدہ ہے تُو غریبوں کیلئے

خون سے تُو رہبروں کو پالتی ہے کس لیے

اُس متاعِ آرزو کا خواب دھندلا ہو گیا

زندگی پھر بھی اُسی کو مانگتی ہے کس لیے

ماہِ من تو کھو چکا ہے اپنی تابِ ضو فشاں

رات کے پچھلے پہر میں روشنی ہے کس لیے

ایک مدت سے رہینِ بخیہ گر ہے آرزو

اَب رِدائے شوق مجھ پر تن گئی ہے کس لیے

میکدے کی رات نے تو ڈھل ہی جانا تھا مگر

آج ناصر آنکھ پتھر ہو گئی ہے کس لیے

٭٭٭

جزیرے کا سمندر

یاد ہے تُو نے لکھا تھا خط کے آخر میں کبھی

آس کے روشن جزیرے کا سمندر تُو نہیں

اِک فریبِ زندگی تھا تیرے گھر کا راستا

تیری دیوی میں نہیں ہوں ، میرا مندر تُو نہیں

            رات میری ڈھل گئی تھی، آنکھ نیلی ہو گئی

            بے ارادہ خواب تیرے بُن رہی تھی مَیں مگر

            میرے سینے کی گھٹن سے تو کبھی واقف نہ تھا

            تیرے دِل کی دھڑکنوں کو سُن رہی تھی مَیں مگر

            تیری آنکھوں میں بھرا تھا اِک وِچھوڑے کا دھواں

            چشمِ تر سے موتیوں کو چُن رہی تھی مَیں مگر

                        یاد ہے تُو نے لکھا تھا مجھ کو خط میں بے وفا

                        یہ بھی لکھا تھا کہ ناصر!  تُو کھڑا ہے ریت پر

                        ریت سِرکے گی تو منہ کے بَل گرو گے دفعتاً

                        شوقِ تشنہ کام تُو نے رَکھ دیا ہے ریت پر

                        تھل کی تپتی ریت تیری ہے مگر یہ سوچ لو

                        میں نے حرفِ بے صدا کو لکھ دیا ہے ریت پر

                        بے وجہ تُو دیکھتا ہے پیچھے مُڑ کے راستا

                        آندھیوں کی زَد میں تیرا نقشِ پا ہے ریت پر

                        تیرے پیچھے چل رہا ہے کاروانِ رنج و بُو

                        ایک دریا آگ کا بھی ناچتا ہے ریت پر

                        تیرا فن تو مانگتا ہے پھر جُدائی کا عذاب

                        اِس لیے تو بھی گھروندا مانگتا ہے ریت پر

یاد ہے مجھ کو تمہارے ہاتھ کا لکھا ہوا

            اے سراجِ خوش نُما ! یہ تو بتا پھر کیا ہوا؟

            ایک سوہنی آ گئی تھی جب چناں کو جھاگ کر

            اُس کے پیچھے جاگتا تھا اِک جہانِ اضطراب

            اُس گھڑی تُو تھک گیا تھا رات ساری جاگ کر

            ایک کربِ نارسا تھا اُس گھڑی سایہ کشا

            ایک جگنو جاگتا تھا، آگیا تھا بھاگ کر

            حرف تیرے جاگتے تھے، سو گیا تھا تُو مگر

            تیرے سینے پر لکھی تھی بارِ ہجراں کی تھکن

            لے رہا تھا کس لیے تو آج دل کا امتحاں

            یہ گریزِ مہر  و مہ ہے قربِ جاناں کی تھکن

            موجِ دریا مانگتی تھی اِک وجودِ بے سپر

            ہائے کیسی دُکھ بھری تھی دستِ نازاں کی تھکن

            پیچھے مُڑ کے دیکھتی تھی جب غبارِ رہ گزر

            اُس گھڑی پھر دیدنی تھی زُلفِ جاناں کی تھکن

            جس گھڑی وہ چھیڑتی تھی جاگ جاتا تُو اگر

            آج تیرے ہاتھ بھی خالی نہ ہوتے بے ثمر!

یاد ہے پھر میں نے اپنے خط میں لکھا تھا تجھے

            بن گیا ہوں میں جزیرے کا سمندر ، دیکھ لو

            میں تجھی کو ڈھونڈتا ہوں اے رہینِ زندگی

            سچ لکھا ہے تُو نے اپنے خط میں دل کا ماجرا

             آسمانِ زندگی! میں ہوں زمینِ زندگی

            مانگتا تھا مجھ سے میرا فن عذابِ جاوداں

            میں نے اُس کو دے دیا ہے پھر یقینِ زندگی

٭٭٭

بے بسی

اُس سے ملنے کی ساعت

 ہم پر کتنی بھاری تھی

اِک دیوار چنی تھی اُس نے

اِک دیوار ہماری تھی

٭٭٭

اُس محل کی تاب سے ہر سُو اندھیرا ہو گیا

دیکھتے ہی دیکھتے وہ گاؤں آدھا ہو گیا

پیش کرتا جا رہا تھا بے وفائی کے جواز

وہ نجانے کس طرح چالاک اتنا ہو گیا

میں ہنر میں طاق تھا یا اُس کا پیکر موم تھا

میرے ہاتھوں میں کھلا تو میرے جیسا ہو گیا

مل گیا ہے اُس کو بھی تشنہ لبی کا ذائقہ

وہ سراجِ رہ گزر بھی آج بینا ہو گیا

اُس کے آنے سے ملا تھا زندگی کو حوصلہ

اُس کا جانا زندگی میں موت جیسا ہو گیا

جگنوؤں کے قافلے دشتِ وفا کو چل دیے

جگمگاتے منظروں کا دیس میلا ہو گیا

سج گیا ہے دھڑکنوں سے بے وفا کا ماجرا

یہ مکانِ سوختہ بھی آج اُس کا ہو گیا

پھر صدائے ناتواں کے رقصِ فتنہ گام پر

راگ تشنہ رہ گئے تھے ، ساز گونگا ہو گیا

پھیلتی ہی جا رہی ہے داستانِ ناتمام

ناصر اُس کا دیکھنا بھی اِک تماشا ہو گیا

٭٭٭

اے لہرِ ناتواں ! رُک جا، کنارا ڈھونڈ لایا ہوں

میں رہبر تو نہیں لیکن اُجالا ڈھونڈ لایا ہوں

بظاہر تو مکمل ہے نصابِ زندگی میرا

مگر کچھ اور بھی دل میں چھپا تھا، ڈھونڈ لایا ہوں

جدائی میں اِسے مضبوط کرنا بھی ضروری ہے

دلِ مضطر نے مانگا تھا سہارا ڈھونڈ لایا ہوں

وہ مے خانہ نہیں دشتِ جنوں کا اِک سمندر تھا

جہاں سے جگنوؤں کا میں جزیرا ڈھونڈ لایا ہوں

لہو کی روشنائی سے مرے قاتل نے لکھا تھا

رہِ مقتل سجا دو ، اِک مسیحا ڈھونڈ لایا ہوں

محبت سے کبھی اُس نے مری جانب نہیں دیکھا

کہ اَب نخلِ فلک سے میں ستارا ڈھونڈ لایا ہوں

اُتارو اَب کوئی دریا محبت کے پہاڑوں سے

میں صحرائے محبت سے پیاسا ڈھونڈ لایا ہوں

چلو اَچھا ہوا تیری توجہ بٹ گئی ناصر

اُسی راہِ وفا سے میں اِشارا ڈھونڈ لایا ہوں

٭٭٭

لُطفِ ادا ہے شوق کی تشنہ لبی کے بعد

دیکھے گا کون آسماں کو آدمی کے بعد

میرے حروف روشنی بانٹیں گے حشر تک

دُنیا کرے گی یاد مجھے زندگی کے بعد

واعظ ڈرا رہا تھا زمانے کو بے جواز

کھلتا گیا جہانِ نمو مے کشی کے بعد

تیرا خیال خام ہی رہتا ہے رات بھر

کمزور ہو گیا ہوں تری بے رُخی کے بعد

مانا کہ ہو سکا نہ کبھی پُر سکوں مگر

دل سوگوار بھی تو نہیں عاشقی کے بعد

اِک سانس چل رہی تھی سرِ مقتلِ وفا

اِک جلترنگ بجنے لگی بے خودی کے بعد

نقشِ گماں کو جان پہ لکھتا رہا وجود

پڑھتا رہا جہان مِری جاں دَری کے بعد

گردِ سفر کو اَوڑھ کے سوئے ہو کس لیے

اِک امتحان اور ہے اِس زندگی کے بعد

ناصر دُکانِ شوق پہ بکنے لگے ہیں آج

خوابوں کے سلسلے بھی تو صورت گری کے بعد

٭٭٭

جو دے گیا تھا ڈھونڈ کر دل بَر اُداس شام

سایہ کشا ہے آج بھی مجھ پر اُداس شام

دِن بھر مَیں نخلِ جان کو دیتا رہا نمو

چھانے لگی ہے اُس پہ ستم گر اُداس شام

تینوں بڑی اُمید سے تکتے رہے مجھے

بجھتا ہوا چراغ ، مِرا گھر، اُداس شام

اِک شبنمی ظہور کی مجھ کو بھی ہے تلاش

ہے میرے دِل کو آج بھی اَزبر اُداس شام

جامِ شبِ وصال کی پھیلی ہیں کرچیاں

قربان ہو گئی ہے کسی پر اُداس شام

تابِ سراج رات کی خنکی میں ڈھل گئی

تڑپی جو میری آنکھ میں پَل بھر اُداس شام

جگنو کو دے کے چل پڑی کلیوں کا اضطراب

پُرسِ ادا شناس کے بل پر اُداس شام

اِک آس مل گئی اُسے جونہی وصال کی

سورج کے آ گئی تھی برابر اُداس شام

ناصر وہ شخص لوٹ کے آیا نہیں کبھی

جو گھر میں رکھ گیا تھا عدو گر اُداس شام

٭٭٭

بے وفا رَستا بدل کے آ گیا

گِر چلا تھا پھر سنبھل کے آ گیا

نا خداؤ! تم نے روکا ہی نہیں

خار زاروں پر وہ چل کے آ گیا

دامنِ تر کو جلاتا ہے مِرے

آنکھ میں تھا دِل پگھل کے آ گیا

دوستو! مایوس ہو کر آج میں

دستِ خواہش کو مسل کے آ گیا

عشق نے مضبوط اتنا کر دیا

ٹال کر لمحے اَجل کے آ گیا

ڈگریاں ہاتھوں میں تھامے شہر میں

بھوک زادہ پھر سنبھل کے آ گیا

آبروئے چشمِ ساقی کے لیے

آتشِ عصیاں میں جل کے آ گیا

ناصر اُس کے دیکھنے سے اُس گھڑی

دل بھی پہلو سے نکل کے آ گیا

٭٭٭

بے جرم مجرم

مفلس ہیں ، فاقہ کش جو یہاں بدنصیب لوگ

لائیں گے انقلاب وہی عن قریب لوگ

ملت کا خون چوسنے والے امیر تھے

کوٹھی لگے ہیں آج مگر ہم غریب لوگ

٭٭٭

آنگن میں اُجالوں کو اُترتے نہیں دیکھا

منظر کو بصارت نے ٹھہرتے نہیں دیکھا

ہوتا ہے اِعادہ مِرے اِس رنج و اَلم کا

بس عہدِ مسرت کو پلٹتے نہیں دیکھا

شعلہ تو بھڑکتا ہے مِرے سوزِ نہاں سے

پانی میں مگر دل کو دھڑکتے نہیں دیکھا

ممکن ہی کہاں تھا کہ اُترتا مِرے اندر

دریا میں سمندر کو اُترتے نہیں دیکھا

مانا کہ مصائب نے اُسے توڑ دیا ہے

آنکھوں کو مگر اُس کی چھلکتے نہیں دیکھا

جس طرح سے بدلی ہیں لکیریں مری ناصر

موسم کو بھی یوں میں نے بدلتے نہیں دیکھا

٭٭٭

مِرے دل کی جو حالت ہے دکھا بھی دوں تو کیا ہو گا

اُسے دُکھڑا وفا کا میں سُنا بھی دوں تو کیا ہو گا

زمانے بھر سے چھپ چھپ کے جہاں ملتے تھے ہم دونوں

گلوں سے میں وہی گوشہ سجا بھی دوں تو کیا ہو گا

مِرے گھر کی ضرورت سے کبھی واقف نہیں ہو گا

اُسے لا کر میں اپنے گھر بٹھا بھی دوں تو کیا ہو گا

عجب سوزِ دروں ہے جو مجھے شب بھر جگاتا ہے

دلِ مضطر کو جا کے اَب سلا بھی دوں تو کیا ہو گا

مجھے اُس نے محبت کی نگاہوں سے نہیں ڈھونڈا

میں چہرے سے سبھی پردے ہٹا بھی دوں تو کیا ہو گا

جو اِک ٹوٹی ہوئی چوڑی سے لکھا تھا کبھی اُس نے

شجر سے نام کو اپنے مٹا بھی دوں تو کیا ہو گا

مِرے دِل میں جہاں اُس کے تصور کے اُجالے تھے

وہیں ارمان سوئے ہیں ، جگا بھی دوں تو کیا ہو گا

مِرے مقسوم ! لا کر دے مجھے دستِ شفا کوئی

مگر ناصر گڑے مردے اُٹھا بھی دوں تو کیا ہو گا

٭٭٭

دل کو ہر دَم جوان رکھتے ہیں

ہم تِرا غم جوان رکھتے ہیں

ضعفِ دوراں جو ہم کو دیتا ہے

اُس کو بھی ہم جوان رکھتے ہیں

خزاں اُن سے خراج لیتی ہے

جن کو موسم جوان رکھتے ہیں

کاکلیں اُن کی مست کرتی ہیں

زلفِ برہم جوان رکھتے ہیں

بانٹ کر دِن ضعیف لوگوں میں

رات کو ہم جوان رکھتے ہیں

پیرہن آج بھی دریدہ ہے

اپنا دم خم جوان رکھتے ہیں

دُکھ میں آ کر جو پُرسہ دیتے ہیں

نسلِ آدم جوان رکھتے ہیں

چپ رہیں اور دِل سنے ، ایسا

ساز و سرگم جوان رکھتے ہیں

یادِ ماضی عذاب ہوتا ہے

چشمِ پُر نم جوان رکھتے ہیں

اِک پرانی سی اَوڑھ کر چادر

اپنا ہمدَم جوان رکھتے ہیں

چشمِ ساقی کا طنز کہتا ہے

حوصلہ کم جوان رکھتے ہیں

ہم محبت کو روزِ اوّل سے

آخری دَم جوان رکھتے ہیں

اُس کے ہونٹوں کی بات ہو ناصر

تابِ شبنم جوان رکھتے ہیں

-(ق) –

آج بھی راستے وفاؤں کے

خون سے غم جوان رکھتے ہیں

ایک بازو سے آج بھی عبّاس

سچ کا پرچم جوان رکھتے ہیں

٭٭٭

خواہشِ ناتمام

یہ آرزو تھی کہ مثلِ برگِ بہار آتا وہ زندگی میں

یا اَوس بن کے وہ پھول پتے مِری سحر کے نکھار دیتا

کہ جیسے شانوں پہ اُس کی زُلفیں بکھر کے خوشبو بکھیرتی تھیں

اِسی طرح سے وہ شبنمی سا وجود مجھ کو سنوار دیتا

            وہ اَبرِ باراں مِری زمیں کے نحیف پہلو اُجال دیتا

            وہ میری راتوں کو رنگ دیتا، وہ اپنی شامیں سنبھال دیتا

وہ میرے سارے غموں سے آنسو کشید کرتا، مجھے بچاتا

کبھی تو اپنی مٹھاس میری رَگوں میں بھرتا، مجھے بچاتا

            مگر ہتھیلی اگل رہی تھی مقدروں کے سراغ سارے

            وہ لمحہ لمحہ بجھا رہی تھی دل و نظر کے چراغ سارے

٭٭٭

تسلی نہ دِلاسا ہے

عجب دِل میں خلا سا ہے

مِری آنکھیں سمندر ہیں

سمندر تو پیاسا ہے

اگر مرنا قیامت ہے

تو جینا بھی سزا سا ہے

رَہا جو بے خبر مجھ سے

وہی میرا شناسا ہے

مِری صحبت میں رہ کے بھی

وہ کتنا بے وفا سا ہے

نہ مانے وہ بھلے دِل سے

مگر یہ دُکھ نیا سا ہے

میں جس پر شعر کہتا تھا

وہی اَب نا شناسا ہے

چلو ناصر اُٹھا لائیں

وہ پتھر ناخدا سا ہے

٭٭٭

مِرے شہر میں یہ تماشا ہوا تھا

مِرے روبرُو وہ بھی سمٹا ہوا تھا

رہا مست شب بھر جو خوابوں میں اپنے

وہی رَت جگوں کا ستایا ہوا تھا

پسِ آئینہ چھپ گیا عکسِ جاناں

کہ پلکوں پہ جس کو بٹھایا ہوا تھا

دکھائی دیا تھا مجھے دشتِ مجنوں

جو لیلیٰ کی آنکھوں میں اُترا ہوا تھا

سبب کیا بتاتا اُداسی کا مجھ کو

مِرے ہی لہو سے وہ میلا ہوا تھا

امارت کے قصے بھی اُس نے سنے تھے

مِرا گھر بھی برسوں سے دیکھا ہوا تھا

وہ کیا ماجرا تھا جسے پڑھ نہ پائے

وہ کس روشنائی سے لکھا ہوا تھا

کہاں جا کے رُکتا سفر جگنوؤں کا

کہ ہر سُو اندھیرا ہی پھیلا ہوا تھا

یہ دِل وہ جزیرہ تھا ناصر کہ جس کو

جنوں کے سمندر نے گھیرا ہوا تھا

٭٭٭

وفا کا شہر بھی اُس نے بسایا تھا کبھی دل میں

مجھے اُس نے بہانے سے بلایا تھا کبھی دل میں

وہ لڑکی تھی کہ شعلہ تھی جلاتی ہی گئی مجھ کو

جلانے کو مجھے اُس نے سجایا تھا کبھی دل میں

ہَوا میں راکھ اُڑتی ہے کبھی جا کر اُسے کہنا

کہ خوشبو کا محل اُس نے بنایا تھا کبھی دل میں

مِری بجھتی ہوئی آنکھیں اُجالا ساز تھیں کتنی

وفا کا جب ستارا جگمگایا تھا کبھی دل میں

تُو کیونکر ڈھونڈتا ہے اَب سمندر کی مسافت میں

وہ اِک بنجر جزیرہ جو بسایا تھا کبھی دل میں

بڑا ہی مطمئن تھا میں اُترتی شام سے پہلے

مگر بے نور جگنو کو چھپایا تھا کبھی دل میں

اُسے ناصر  میں کیا الزام دوں اس بے وفائی کا

گیا ہے اِس طرح جیسے وہ آیا تھا کبھی دل میں

٭٭٭

بہار،بادل اور بجلی

(تِرے آنے سے پہلے تک کا دورِ بے فکر)

تِرے آنے سے پہلے زندگی میں غم نہیں تھا، سُن

            اُترتی رات کا بستر سجا کے خواب بنتا تھا

            مِری راتوں کے دامن میں کئی جگنو چمکتے تھے

            مجھے نا مضطرب سوچیں سدا خوش حال رکھتی تھیں

            مِرے نخلِ فلک پہ سینکڑوں تارے دمکتے تھے

            فراغت کے مِرے لب پر مچلتے تھے کئی نغمے

            کہیں بجلی چمکتی تھی، کہیں بادل برستے تھے

تِرے آنے سے پہلے میں کبھی شب بھر نہ جاگا تھا

            کوئی پچھلا پہر میں نے جوانی میں نہ دیکھا تھا

            کبھی قاتل، کوئی مقتل کہانی میں نہ دیکھا تھا

تِرے آنے سے پہلے میں بہاروں کا پرندہ تھا

            گلوں کا اِک نگر آباد رکھتا تھا، سنو جاناں !

            میں دِل کی رہ گزر آباد رکھتا تھا، سنو جاناں !

            کوئی گردِ مسافت تھی نہ رُسوائی کے قصے تھے

            میں کرنوں سے سحر آباد رکھتا تھا، سنو جاناں !

            مِری خوشیوں میں شامل تھے بہاروں کے پڑاؤ بھی

            میں چڑیوں سے شجر آباد رکھتا تھا ، سنو جاناں !

            مِرے منظر سجا کرتے تھے ہر موسم کی نکہت میں

            میں ہر موسم میں گھر آباد رکھتا تھا، سنو جاناں !

تِرے آنے سے پہلے زندگی نے دیکھ رکھا تھا

            وہ ہر تازہ گماں جو وقت کو پُرسِ وفا دیتا

            وہ ہر تازہ جہاں جس میں محبت رقص کرتی تھی

            وہ ہر تازہ غزل جس میں اَدائے خوش خرامی تھی

            وہ ہر تازہ فسوں جس میں عنایت رقص کرتی تھی

            وہ ہر تازہ نظر جس پر فدا رنگِ چمن بھی تھا

            وہ ہر تازہ لہو جس میں حرارت رقص کرتی تھی

            وہ ہر تازہ صدف جس کا بدن پانی سے اُبھرا تھا

            وہ ہر تازہ اَدا جس پر عبادت رقص کرتی تھی

            وہ ہر تازہ مسافت جو رہینِ جستجو بھی تھی

            وہ ہر تازہ طلب جس پر مسافت رقص کرتی تھی

            وہ ہر تازہ وحی جس میں نیا حسنِ بیاں بھی تھا

            وہ ہر تازہ بیاں جس پر بشارت رقص کرتی تھی

            وہ ہر تازہ مہِ روشن کہ جس کا نور پھیلا تھا

            وہ ہر تازہ کرن جس کی تمازت رقص کرتی تھی

            وہ ہر تازہ شجر جس کی رَگیں سایہ نگلتی تھیں

            وہ ہر تازہ اَنا جس پر بغاوت رقص کرتی تھی

            ذرا تھک کر پلٹتا تھا، پلٹ کر سوچتا تھا میں

            کہ پابندِ سلاسل اِک جہاں کو دیکھتا تھا میں

یقیں میرا توانا تھا، بڑا مضبوط تھا میں بھی

تِرے آنے سے پہلے زندگی میں سوچتا تھا میں

            کبھی مجھ کو محبت کی ضرورت ہی نہیں ہو گی

            دکھوں کی میرے لہجے میں عبارت ہی نہیں ہو گی

            اُترتے ہیں زمانے کی نظر میں شبنمی قطرے

            مجھے ان آبگینوں سے محبت ہی نہیں ہو گی

            مِرے شانے اُٹھا پائیں گے کیونکر وقت کی اُترن

            برہنہ گر نہیں ہوں گا، قیامت ہی نہیں ہو گی

            تِرے آنے سے پہلے زندگی آسان تھی میری

            مِرے ہر سُو کھلا کرتے تھے گل ہائے وفا، جاناں !

٭٭٭

بُت،برکھا اور بے ثمر

(تِرے عہدِ وصال کا گمانِ خوش فہم)

تیرا آنا واقعہ تھا زندگی میں دل پذیر

نام میرا لکھ رہی تھی تیرے ہاتھوں کی لکیر

            اِک سراغِ رہ گزر تھا عشقِ جاناں کا پیام

            اضطرابِ جاں گسل نے دل کو مٹھی میں لیا

            ایک لمحہ دیکھتا تھا تابِ حسنِ جاوداں

            دھڑکنوں کے شور کو پھر ایک لمحہ مل گیا

تیرے آنے سے کھلا تھا عشقِ نو کا راستا

تیرے آنے سے ملی دِل کو صدائے لب کشا

            آئینہ میری نظر کے سامنے تھا، یوں لگا

            نورِ ماہِ شب سحر کے سامنے تھا، یوں لگا

            زندگی کے بھید مجھ پر کھل گئے تھے اُس گھڑی

            ایک جگنو میرے گھر کے سامنے تھا، یوں لگا

            رُک گیا تھا جب اُجالوں کی نمو کا قافلہ

            بُت سراجِ در بدر کے سامنے تھا، یوں لگا

            تیری صورت میں دکھائی دے گیا تھا ناخدا

            پیاس کا دریا شجر کے سامنے تھا، یوں لگا

            زندگی کو کون سا جانے سفر درپیش تھا

            اُس گھڑی میں بے ثمر کے سامنے تھا، یوں لگا

            یوں لگا تُو ہی مرادِ جستجو ہے کج ادا!

            نقش تیرا رہگزر کے سامنے تھا، یوں لگا

تیرے ملنے سے ملا تھا اِک جہانِ بے سراب

تیرے ملنے سے کھُلا تھا اَن کھِلا رنگِ گلاب

            تیری آنکھوں میں کھلا تھا تیرے دِل کا راستا

            دیکھتے ہی مل گیا تھا مجھ کو تیرا راستا

            ایک پُرسِ آگہی بندِ قبا کو چوم کر

            کھولتی ہی جا رہی تھی بے اُجالا راستا

            ڈھونڈتا تھا اُن دِنوں شاید ہجومِ پُر جنوں

            ہوش میں تھا، مانگتا تھا بے خودی کا راستا

            تیری آنکھیں کر رہی تھیں اُس گھڑی میرا طواف

            اُس گھڑی پھر سج گیا تھا چشم و دِل کا راستا

            ہاتھ پر لکھی ہوئی تھی نا شناسا داستان

            داستاں کے ہاتھ میں تُو نے دیا تھا راستا

            میں نے اپنے شہر میں دیکھا نہیں تھا چاند کو

            ایک سورج ڈھونڈتا تھا میرے گھر کا راستا

            یاد کرتا تھا تجھی کو آبلہ پائی کا شوق

            تیرے ہاتھوں کی لکیروں میں چھپا تھا راستا

            جب رہِ موجِ ہوا میں پیٹر بھی حائل نہ تھا

            تب چراغِ کم نفس نے دل سے مانگا راستا

            ایک جیسا غم ہمارے درمیاں تھا اُس گھڑی

            ایک جیسی زندگی تھی، ایک جیسا راستا

            بارہا تُو نے دکھایا تھا رُخِ روشن جمال

            بارہا مجھ پر کھلا تھا مقتلوں کا راستا

            اِک شعورِ جاں کنی تھا زادِ رہ کا پیرہن

            اِک مسافر پوچھتا تھا میرے گھر کا راستا

تیرے کھلنے سے ملی تھی میرے حرفوں کو زبان

عشق رکھتا جا رہا تھا وقت پر گویا مچان

تُو نے اپنا نام جب لکھا تھا میرے ہاتھ پر

ایک جگنو کی فضائے شب نے دیکھی تھی اُڑان

            تجھ کو پانے کا ارادہ کس قدر مضبوط تھا

            ناز کرتا تھا کہ مجھ کو مل گئی ہے زندگی

            اجنبی سا راستا تھا اور میرے ساتھ ساتھ

            کیا خبر تھی ہاتھ ملتی جارہی ہے زندگی

                        تیرا آنا واقعہ تھا زندگی میں دل پذیر

                        نام میرا لکھ رہی تھی تیرے ہاتھوں کی لکیر

            ٭٭٭

بوجھ، بستی اور بٹوارا

(تیرے عہدِ فراق کا گریۂ بے صدا)

ضعفِ دل پہ آگیا تھا بارِ ہجراں کا ثبات

میں نے ایسا حادثہ دیکھا نہ تھا پہلے کبھی

            شام کا سورج ہتھیلی پر اُٹھایا تھا کبھی

            لشکرِ نجمِ فلک کو ورغلایا تھا کبھی

            تیرے دَر کی دستکوں کا بوجھ دل پر لاد کر

            میں صدائے ناتواں کو ڈھونڈ لایا تھا کبھی

            بے وجہ پتھر گرایا تھا سکوتِ موج میں

            بے رُخی سے ہاتھ تُو نے جب چھڑایا تھا کبھی

            گونجتی تھیں مقتلوں کی داستانیں کُو بہ کُو

            جب دریدہ پیرہن پہ مسکرایا تھا کبھی

            جگنوؤں کے دیس میں پھیلی ہوئی تھی تیرگی

            تیرگی نے ہی چراغوں کو بجھایا تھا کبھی

            وحشتوں میں صبر کی تلقین کرتا کس طرح

            میرا خونِ دل بغاوت ڈھونڈ لایا تھا کبھی

بے ثمر! تیری محبت کا خمارِ نا رسا

مدّ توں میری زمینِ عشق پر چھایا رہا

ہاں مگر تُو آئینہ پیکر سہی اے خوش خرام!

بارہا دشتِ وفا میں تُو بھی آوارہ ہوا

                        ایک پرچھائیں مِری آنکھوں میں تڑپی رات بھر

                        پھر شکستِ عہد و پیماں پر اُٹھی چشمِ سحر

                        اِک غرورِ آگہی تھا مصلحت کے رو بہ رُو

                        ایک دشتِ خوف میں لپٹی ہوئی تھی رَہ گزر

                        دیکھتے ہی بُجھ گیا تھا وہ چراغِ مضمحل

                        مدّتوں پیتا رہا تھا جو مِرا خونِ جگر

            رہ گزر کی ہر خطا میری جبیں پر لکھ گیا

             ماجرائے رنج و بُو تشنہ زمیں پر لکھ گیا

            ہر زُباں پہ آگیا ہے قصۂ ماہِ وصال

            تیرگی کی داستاں لوحِ نگیں پر لکھ گیا

            وقت کے بہتے ہوئے دریا کی موجوں کا جنوں

            وقت اپنے ہاتھ سے روشن جبیں پر لکھ گیا

            زندگی کو مرحلوں میں بانٹتی تھی تُو مگر

            میں نے لکھا تھا، محبت مرحلہ ہوتی نہیں

             فیصلے سیلِ فنا کی موج ہیں ،تُو نے کہا

            میں نے لکھا تھا، جدائی فیصلہ ہوتی نہیں

                        ضعفِ دل پہ آگیا تھا بارِ ہجراں کا ثبات

                        میں نے ایسا حادثہ دیکھا نہ تھا پہلے کبھی

٭٭٭

ہم نشیں ! تیرا رکھاؤ نہیں بھولا اَب بھی

تیرے ہاتھوں کا الاؤ نہیں بھولا اَب بھی

وقت نے داغ تو سب دِل کے مٹا ڈالے تھے

ایک وہ روح کا گھاؤ نہیں بھولا اَب بھی

اے ہواؤ! مجھے اُس رات کی وہ سرگوشی

ہائے مت یاد دلاؤ، نہیں بھولا اَب بھی

جانے کس پہر میں آیا تھا بدن کا قاتل

دشت و دریا کا کٹاؤ نہیں بھولا اَب بھی

ذہن گو بارِ تعلق کا روادار نہیں

دل سے زخموں کا لگاؤ نہیں بھولا اَب بھی

بسترِ جاں پہ نہیں وصل کی شکنیں ناصر

دِل تو یادوں کا الاؤ نہیں بھولا اَب بھی

٭٭٭

وہ پنچھی جس طرح بچھڑا تھا اپنے آشیانے سے

جُدا ایسے ہوا تھا میں فراغت کے زمانے سے

اگر اُڑتا ہے وہ تو روٹھ جائے گی زمیں اُس کی

مگر مجھ پر فلک ٹوٹا اُسے اونچا اُٹھانے سے

لہو نے روک رکھی ہیں یزیدِ وقت کی راہیں

زمانہ کس طرح روکے مجھے خیمے لگانے سے

اُسی سیماب رُو نے ہاتھ میں پتھر اُٹھایا ہے

برہنہ ہو گیا ہوں میں جنوں کو آزمانے سے

میں لفظوں سے اُسے بنتا رہا تھا عمر بھر لیکن

اُسی نے آج توڑا ہے مجھے یونہی بہانے سے

اکیلا چھوڑ کر اُس نے مجھے سمجھا دیا تھا یہ

پلٹتا ہے کہاں بیتا ہوا لمحہ بُلانے سے

کھٹکتا ہوں میں فرعونِ جہاں کی سرخ آنکھوں میں

مگر ٹلتا نہیں پھر بھی غریبوں کو جگانے سے

کئی بچھو معیشت کے چھپے ہیں اِن چنگیروں میں

کہاں مہلت غریبوں کو ملی روٹی کمانے سے

مِرے ویران گھر کی وحشتیں ناصر بتاتی ہیں

اُسے جانے کی جلدی تھی وہ ڈرتا تھا زمانے سے

٭٭٭

کیا خبر تھی اِس طرح رستہ جُدا ہو جائے گا

وہ ہمیشہ کے لیے مجھ سے خفا ہو جائے گا

دھڑکنوں سے آج کیسی پھوٹتی ہے یہ صدا

دل بڑا ویران ہے ، کیا حادثہ ہو جائے گا

میں تو اپنے آپ سے ہی بے خبر ہوں آج کل

تُو بتا کیا ہو رہا ہے اور کیا ہو جائے گا

ایک تالا دیکھ کر رونے لگے ہو کس لیے

یہ جہاں سارا کسی دِن مے کدہ ہو جائے گا

دھوپ میں تنہا شجر کی گود خالی ہے تو کیا

جب خزاں کے پار اُترا تو ہرا ہو جائے گا

سوئے جاناں چل رہا ہوں بے ارادہ آج پھر

طے مگر یوں زندگی کا مرحلہ ہو جائے گا

نا شناسا بُو تجھے مقتل میں لائے گی کبھی

ایک کربِ نارسا تجھ کو عطا ہو جائے گا

اِک سراجِ رہ گزر ہے آج دِل کے روبرو

چند کرنیں بانٹ کر وہ پھر ہوا ہو جائے گا

بے کلی سی پھیلتی ہی جا رہی ہے چار سُو

رہبری کے شوق میں یہ گھر فنا ہو جائے گا

رات کا بجھتا چراغِ جاں بتاتا ہے مجھے

رات میں قرضِ وفا ناصر اَدا ہو جائے گا

٭٭٭

میں آندھی کا بگولا ہوں مجھے بادل نہیں کہنا

میں پاگل ہوں مگر مجھ کو کبھی پاگل نہیں کہنا

مِرا تجھ سے خفا ہونا بھلا کب زیب دیتا ہے

تِرے آدھے دوپٹے کو مگر آنچل نہیں کہنا

مجھے کرنیں ستاتی ہیں ، مجھے سورج جلاتا ہے

میں آنکھوں میں نہیں رہتا، مجھے کاجل نہیں کہنا

اُسے کہنا،محبت جگنوؤں کا اِک جزیرہ ہے

یہ دریا ہے ، سمندر ہے مگر دلدل نہیں کہنا

اَبھی اُترا نہیں ہے ذہن سے وہ بوجھ لغزش کا

مِرے ہاتھوں کی لرزش کو اَبھی ہلچل نہیں کہنا

رہینِ بخیہ گر تو ہے مگر ملحوظ خاطر ہو

مِری دستار کو تم نے کبھی ململ نہیں کہنا

محبت اضطرابِ زندگی کے ساتھ پلتی ہے

سکونِ دل کو ناصر مسئلے کا حل نہیں کہنا

٭٭٭

اندیشۂ فراق

کہا، ’’اے وقت کی ملکہ! بہت مغرور ہو لیکن

            تغافل کی اَدا اِک دن تجھے مایوس کر دے گی

            تجھے بے کیف کر دے گی

            تجھے بے آس شب کے جگنوؤں کو دیکھنا ہو گا‘‘

کہا، ’’تم ٹھیک کہتے ہو

            مگر کچھ سوچ کے بولو

            کہو! مایوسیاں کیا ہیں ؟

            کیا بے آس شب کے منظروں کا دُکھ مکمل ہے؟

            کیا بے کیف لمحے زندگی کی حد پہ اُگتے ہیں ؟

            نہیں ! ایسا نہیں جاناں !

            مجھے مغرور رہنے دو، مجھے مایوس رہنے دو

            میں پاگل ہوں ، مجھے بے کیف رہنے دو‘‘

کہا، ’’سمجھا نہیں ہوں میں ، ذرا کھل کر بتاؤ تو!‘‘

کہا، ’’جاناں ! میں جیسی ہوں ، مجھے ویسا ہی رہنے دو

            سبھی طعنے مجھے منظور ہیں لیکن حقیقت میں

            مجھے ہستی کے اُس حبسِ دروں کا خوف لا حق ہے

            جسے بارش اُگلتی ہے۔‘‘

٭٭٭

ضابطوں کے ببول لکھتا ہوں

زندگی کے اصول لکھتا ہوں

میں جُدائی کی نوحہ خوانی کو

ایک حرفِ ملول لکھتا ہوں

داستانِ وصال و ہجراں کو

ایک لمحے کی بھول لکھتا ہوں

آج بھی بولنے سے ڈرتا ہوں

آج بھی بے اصول لکھتا ہوں

دل میں شوقِ سفر نہیں ملتا

اِس سفر کو فضول لکھتا ہوں

ایک صحرا ہے میری ہستی میں

تجھ کو صحرا کا پھول لکھتا ہوں

حسرتِ ناتمام کو ناصر

آج رَستے کی دھول لکھتا ہوں

٭٭٭

بستی والوں نے اِک دولت والا ایسا دیکھا تھا

سورج بن کے جلتا رہتا ، کرنیں بانٹا کرتا تھا

گھر سے اُٹھتے شعلے دیکھ کے رونا کیسا لگتا ہے

شام ڈھلی تو اُس نے مجھ سے کتنے لاڈ سے پوچھا تھا

مفلس زادوں کو لقمے بھی خون کے بدلے ملتے ہیں

ایسا حاکم کیوں دھرتی نے اپنے رَب سے مانگا تھا

تیری زُلفیں ڈھونڈ رہی تھیں چلتی سانس کی گرمی کو

لیکن میری سانس رُکی تھی ، میرا دِل برفایا تھا

اُس شب جلتے بجھتے جگنو اُس سے ملنے آئے تھے

وہ بھی سورج اَوڑھ کے اپنے گھر سے تنہا نکلا تھا

بانجھ کتابوں کی قبریں تو شہر میں ہر سُو پھیلی تھیں

 لیکن حرف کو ہم نے گونگے کھیت میں اُگتے دیکھا تھا

کاغذ چننے والے ننھے ہاتھ میں چھالا دیکھا تو

میرے پہلو میں دل ناصر کتنی زور سے دھڑکا تھا

٭٭٭

وہ کرب جھیلنے کا ہنر بھی نہ دے سکا

مجھ کو ریاضتوں کا ثمر بھی نہ دے سکا

پسپا نہ کر سکی مجھے شب بھر ہوائے دار

ایسے میں وہ چراغِ سحر بھی نہ دے سکا

روشن خیال حکمراں آنکھیں خرید کر

مفلس کو ایک لقمۂ تر بھی نہ دے سکا

رختِ سفر میں چاہیے تھا شبنمی وجود

لیکن مجھے وہ کانچ کا گھر بھی نہ دے سکا

صحرا نے اُس کو نقشِ کفِ پا دکھا دیے

وہ راستوں کو رنگِ شجر بھی نہ دے سکا

وہ کبریائی فن کی مِرے مانتا تو تھا

مجھ کو مِری وفا کا ثمر بھی نہ دے سکا

وہ جس کو چشمِ تر نے کیا معتبر بہت

وہ داستاں کو حرفِ اثر بھی نہ دے سکا

ناصر وہ آ کے دیکھتا نبضِ وفا کو آج

جو زندگی کی کوئی خبر بھی نہ دے سکا

٭٭٭

فصیلِ درد کا سینہ شگاف کر دیتا

ادائے فیض سے وہ انکشاف کر دیتا

مِرے نصیب پہ روتا ہے آج کیوں منصف

مجاز تھا کہ وہ مجھ کو معاف کر دیتا

اَنا جواز کو کیسے قبول کر لیتی

مجھے شعور ہی اُس کے خلاف کر دیتا

مِرے نصاب کے سارے حروف چھپ جاتے

کھلی کتاب پہ زلفیں غلاف کر دیتا

نہ دیکھا شہر تِرا اِس لیے کبھی میں نے

کہ اُس کو معتبر میرا طواف کر دیتا

خبر نہ تھی مِری اُترن جہان پہنے گا

وگرنہ شوق کا ہر داغ صاف کر دیتا

وفا کے ضابطے جس نے بنائے تھے ناصر

عجب نہ تھا کہ وہی انحراف کر دیتا

٭٭٭

اُسے کہنا…

            کبھی تشنہ لبی ہونٹوں پہ تھم جائے، اُسے کہنا

            اُسے کہنا کہ ایسے میں وہ گھبرائے تو لوٹ آئے

                        زمانہ تو سدا مایوس کرتا ہے، اُسے کہنا

                        اُسے کہنا زمانہ جب کبھی روٹھے تو لوٹ آئے

                        سفر بے کیف رکھتا ہے اکیلے میں ، اُسے کہنا

                        اُسے کہنا، سفر آسان کرنا ہے تو لوٹ آئے

                        جُدائی میں بدن کو آگ لگتی ہے، اُسے کہنا

                        اُسے کہنا کہ چشمِ تر میں رہنا ہے تو لوٹ آئے

                        ملاقاتیں بھلانے سے نہیں بھولیں ، اُسے کہنا

                        اُسے کہنا کہ پھر ملنے کو جی چاہے تو لوٹ آئے

                        مِرے گھر کی فضائیں یاد کرتی ہیں ، اُسے کہنا

                        اُسے کہنا اگر وہ لوٹنا چاہے تو لوٹ آئے

٭٭٭

معمہ

            تُوت کی سوکھی ٹہنی جیسی

            پتلی پتلی، پنجر جیسی

            کالے تیل میں لتھڑی بانہیں

            اُس کی گردن سے لپٹی تھیں

            پیروں میں اِک نوٹ پڑا تھا

            چشمِ تر سے دو انگارے

            آج بھی نوٹ پہ ٹپکے تھے

            بولی، ’’مجھ کو بھوک نہیں ہے!‘‘

٭٭٭

رُخ سے پردہ ہٹا دیا اُس نے

ایک مقتل سجا دیا اُس نے

اُسے ہجرت کا شوق کتنا تھا

اپنا گھر تک جلا دیا اُس نے

بزمِ دل سے نکال کر مجھ کو

شکوۂ نارسا دیا اُس نے

ایک بھوکے نے مانگ لی روٹی

گھر سے کچلا اُٹھا دیا اُس نے

مقتلوں سے اَنا بچا لایا

میرا سر تھا جھکا دیا اُس نے

ایک خوشبو سی چار سُو پھیلی

کیا ہَوا میں ملا دیا اُس نے

میں نے دُنیا کے رنگ مانگے تھے

اپنا آنچل اُڑا دیا اُس نے

جس کی بنیاد اُس نے رکھی تھی

ہائے وہ گھر جلا دیا اُس نے

وہ عدو با کمال تھا کتنا

دار کو بھی سجا دیا اُس نے

٭٭٭

سوچا ہے وہی حد سے گزر جائے کسی روز

اچھا ہے مِرے دل سے اُتر جائے کسی روز

چپ چاپ سا بیٹھا مَیں اُسے دیکھ رہا ہوں

وعدوں سے وہی اپنے مُکر جائے کسی روز

اُس پر بھی کڑی بھوک میں اِک لمحہ وہ گزرے

چڑیوں کے تعاقب میں شجر جائے کسی روز

سانسیں بھی مٹاتی ہیں خد و خال وہاں پر

صحرا میں کوئی اہلِ ہنر جائے کسی روز

اِس قریۂ جاں میں بھی گریں نور کی کرنیں

دل تک بھی مِرے رنگِ سحر جائے کسی روز

خوشبو سا بدن اُس کا مِری سانس میں اُترے

وہ پھول مِرے گھر میں بکھر جائے کسی روز

اِس تاک میں بیٹھے ہیں تِرے رہبر و  ناصر

تُو راہ بھٹک جائے یا ڈر جائے کسی روز

٭٭٭

میرا دِن بے اَمان ہو جیسے

رات بھی نیم جان ہو جیسے

سانس بھی آج رُکتی جاتی ہے

آخری اِمتحان ہو جیسے

اُس عدو گر کا بانکپن ایسا

تتلیوں کی اُڑان ہو جیسے

رات کی رانیاں چہکتی ہیں

موتیا بے زُبان ہو جیسے

گھر کا رَستہ عجیب لگتا ہے

ہر قدم پر مچان ہو جیسے

ایسی جنبش لبوں پہ اُتری ہے

جان بھی نیم جان ہو جیسے

ایک دھڑکن وصال میں گزری

ایک لمحہ جوان ہو جیسے

آنکھ سے بے رُخی چھلکتی ہے

مجھ سے وہ بد گمان ہو جیسے

چار سُو اِک سکوت ہے ناصر

میرا گھر بھی مکان ہو جیسے

٭٭٭

فیصلہ پیش و پَس میں رہنے دے

گھر مِری دسترس میں رہنے دے

عمر میری تو اَوڑھ لی تُو نے

سانس تو میرے بس میں رہنے دے

دل نے ہجرت کا شوق پالا ہے

تاب اس نکتہ رَس میں رہنے دے

کب تلک زحمتیں اُٹھائے گا

جا، مجھے خار و خَس میں رہنے دے

اپنے ہاتھوں سے مار دے مجھ کو

یا دِلاسا قفس میں رہنے دے

یادِ ماضی کی کھوج میں دِل ہے

مت یاد دلا قسمیں رہنے دے

خوش گماں ہے مگر اُسے ناصر

فصلِ گل کی ہوس میں رہنے دے

٭٭٭

بے ارادہ میں چلا تھا بات کرنے کے لیے

وہ بھی رَستے میں کھڑا تھا بات کرنے کے لیے

ہونٹ میرے جل گئے ہیں کان بھی ہیں سوختہ

ہائے اُس نے کیوں کہا تھا بات کرنے کے لیے

اُس گھڑی میں جاگتا تھا ، سو گیا تھا، کیا پتہ

وہ ہی قصہ چھیڑتا تھا بات کرنے کے لیے

دیکھتا تھا چاند مجھ کو رات کے پچھلے پہر

میں جو پتھر ڈھونڈتا تھا بات کرنے کے لیے

اُس حویلی کے سکوتِ بے کراں میں دفعتاً

ایک جگنو آ گیا تھا بات کرنے کے لیے

اِس لئے وہ مانگتا تھا ہم سفر سایہ کشا

دھوپ میں تنہا کھڑا تھا بات کرنے کے لیے

ٹھونس دیتا تھا زمانہ میرے منہ میں آگ پھر

ہونٹ جب بھی کھولتا تھا بات کرنے کے لیے

اِک جہانِ حرف اُس کی مٹھیوں میں تھا مگر

وہ اجازت مانگتا تھا بات کرنے کے لیے

رات ناصر مانگتی تھی پھر چراغِ دل نوا

ایک جھونکا چل پڑا تھا بات کرنے کے لیے

٭٭٭

زندگی! تُو دور مجھ سے جا کھڑی ہے آج بھی

تہمتوں کی ہر نظر مجھ پہ گڑی ہے آج بھی

بخت کی تیرہ شبی ہے یا مِری فصلِ جنوں

بے بسو! مجھ پر قیامت کی گھڑی ہے آج بھی

لوگ قیدی ہو گئے ہیں گھر بنا کے شوق میں

بے گھروں کے سامنے دُنیا پڑی ہے آج بھی

دل سکوتِ موج کی تشنہ لبی پر ہے ملول

آنکھ وہمِ ابر و باراں سے لڑی ہے آج بھی

دل زدوں پر اُس سرابِ رہ گزر میں دفعتاً

خنجروں سے پھر مسیحائی جھڑی ہے آج بھی

پھر سراجِ عہد و پیماں نے جلائے ہیں نقوش

تالیوں کے شور میں وہ رو پڑی ہے آج بھی

آج بھی ناصر گھٹا سے خون برسا ہے یہاں

مقتلوں کا خوف ہے، منزل کڑی ہے آج بھی

٭٭٭

بخت بے احتیاج اُس کا تھا

کھیت میرا ، اَناج اُس کا تھا

ہر سزا ، منصفو! بجا لیکن

عشق پرور مزاج اُس کا تھا

حصّے بخرے اُسی کا حصہ تھے

دلِ پسپا ! خراج اُس کا تھا

ہر خطا کی سزا جدائی ہے

عشق میں یہ رواج اُس کا تھا

وقت نے کی عجب مسیحائی

درد میرا ، علاج اُس کا تھا

دل کی بستی بھی لٹ گئی آخر

جگنوؤں پر بھی راج اُس کا تھا

اِک جزیرہ تھا سامنے لیکن

لبِ ساحل سماج اُس کا تھا

مصلحت نے جھکا دیا اُس کو

ٹوٹ جاتا تو ’آج‘ اُس کا تھا

چھن گیا تو خبر ہوئی ناصر

گوہرِ تخت و تاج اُس کا تھا

٭٭٭

قسمت کی بات ہے کہ تیری بے بسی کے بعد

پھر قوم جی اُٹھی ہے تیری رخصتی کے بعد

تجھ کو تو بازوؤں پہ بہت ناز تھا مگر

دستار گر پڑی ہے تری خود کشی کے بعد

دھبے ردائے پاک پہ اتنے لگے کہ آج

دھرتی لرز اُٹھی تِری بخیہ گری کے بعد

غربت گھروں کے چولھے چراغوں کو کھا گئی

ہر آنکھ بجھ گئی ہے تری روشنی کے بعد

رہبر ! زمانِ غار ، یہ روشن خیالیاں

یہ قوم مر گئی ہے تری بُزدلی کے بعد

جاتے ہوئے بھی جھوٹ ترے لب پہ تھے مگر

جشنِ نجات دیکھنا تیرہ شبی کے بعد

ناصر ہے عبرتوں کا یہاں سلسلہ رواں

اک امتحان اور ہے اِس زندگی کے بعد

٭٭٭

مجھ سے بلند ہو گی میری ذات بعد میں

بکتے رہیں گے میرے خیالات بعد میں

اُس نے مِری وفا کا لیا امتحان یوں

پہلے جواب ، سارے سوالات بعد میں

آ کر شبِ فراق کی تلخی سمیٹ لو

لکھنے پڑیں گے اپنے کمالات بعد میں

کتنا زمانہ ساز ہے وہ شخص آج بھی

جو ہار کر بھی دے گیا ہے مات بعد میں

دشتِ وفا میں نقش بھی معدوم ہو گئے

کرتا رہا تھا یاد کوئی بات بعد میں

تیرہ شبو ! ستائشِ مقتل کے ساتھ ساتھ

پہلے جواز دیکھنا ، سوغات بعد میں

اُٹھتی ہیں انگلیاں مِری الفت پہ بے جواز

بدلی ہیں میرے یار کی عادات بعد میں

برسوں سمیٹتے وہ رہے میری کرچیاں

جو کرچیوں میں کھو گئے تھے ہاتھ بعد میں

دستِ حیات جگنوؤں کو ڈھونڈتا رہا

ناصر! سنا کہ ڈھل گئی تھی رات بعد میں

٭٭٭

اضطرابِ فکر

وہ گلی میں رُک گیا تھا آج میرے رو بہ رُو

اُس کی باتوں میں گھلی تھی اُس کے لہجے کی تھکن

ہو گیا تھا رقصِ تشنہ کام سے وہ مضمحل

چشم تر میں بھیگتی تھی ہر ستارے کی تھکن

            چاند بھی مرجھا گیا تھا، طُور دھندلا ہو گیا

            اِرتقائے زندگی کا نُور دھندلا ہو گیا

اپنے دِل پر ہاتھ رکھ کے اُس نے مجھ سے کہہ دیا

اِک سمندر کس لیے ہو گا ندی پر مطمئن

ڈھونڈتا ہے اِس جہاں میں تُو کوئی مومی وجود

 زندگی میں ہو نہیں سکتا کسی پر مطمئن

            مانتا ہوں سچ کہا تھا اُس نے میرے رو بہ رُو

            کس طرح ہو کوئی شاعر زندگی پر مطمئن؟

٭٭٭

اَب کہاں غم شناس ہے میرا

بے وجہ دِل اُداس ہے میرا

واہمے آج بھی جگاتے ہیں

بخت بھی وقفِ یاس ہے میرا

چشمِ تر میں نقوش لرزاں ہیں

غم یہاں بے لباس ہے میرا

جگنوؤں کو اُجال رکھا ہے

وہ ملے گا ، قیاس ہے میرا

ہیں بدن پر حقوق مقتل کے

دل مگر اُس کے پاس ہے میرا

٭٭٭

نئے دِنوں کی مسافت تمام کر لینا

اِسی کلام کو نقشِ کلام کر لینا

صعوبتوں کا جہاں ہے جہانِ حرف و ادب

رہینِ شوق ذرا تیز گام کر لینا

٭٭٭

شاعر کے تشکر کے ساتھ، جنہوں نے ان پیج فائل بھی عطا کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید