FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 (ناول)

نیلوفر

 

پیغام آفاقی

کے

 نام

جنہوں نے

میرے اندر دنیا کو

 فکشن نگار کی نگاہ سے

 دیکھنے کا شعور بیدار کیا

 

شفق، دھنک، مہتاب، گھٹائیں ، تارے، نغمے،  بجلی، پھول

اس دامن میں کیا کیا کچھ ہے، وہ دامن ہاتھ آئے تو

 

ٹرین اب یوپی سے دلی کی طرف گامزن تھی۔ ٹرین کی اندرونی بتیاں بجھ چکی تھیں اور مسافر سونے لگے تھے۔ لیکن ٹرین کی گڑگڑاہٹ کے ساتھ ویریندر کے ارادے ہچکولے کھا رہے تھے۔ وہ ایک بہت بڑی مہم پر جا رہا تھا۔ کتنا چیلنجنگ تھا یہ سب کچھ لیکن اس کے گھر والوں نے تو یقین کر رکھا تھا کہ وہ آئی۔ اے۔ایس۔ بن کر ہی دلی سے لوٹے گا۔ اور اس کے لئے ہر طرح کا جوکھم اٹھانے کے لئے وہ تیار تھے۔ اسے رخصت کرتے وقت بابوجی کا خوشی سے دمکتا ہوا چہرہ یاد آ رہا تھا۔

دراصل ویریندر نایک جی کا بڑا بیٹا تھا۔ وہ گھرکے سبھی بچوں سے ذرا الگ تھا۔ نایک جی بچپن سے ہی اس کو بہت پیار کرتے تھے۔ گھر کے سبھی بچے گاؤں         کے اسکول میں پڑھنے جاتے تھے مگر نایک جی ویریندر کو سلطانپور شہر کے اسٹلا میرس کانونٹ میں پڑھنے بھیجتے تھے۔ جب وہ اسکول جانے کے لیے صاف ستھری ڈریس پہن کر گھر سے نکلتا تو نایک جی اسے گاؤں سے باہر سڑک تک چھوڑنے آتے۔ انھوں نے بچپن سے ہی ویریندر کو ایسی تربیت دی تھی کہ وہ مزاجاً افسر لگتا تھا۔ نایک جی ویریندر کو ہمیشہ ’’آپ‘‘ کہہ کر مخاطب کرتے تاکہ ویریندر کے دل و دماغ میں غیر مہذب سوسائٹی کوئی جگہ نہ بنا سکے۔ روز رات میں سونے سے پہلے ویریندر جب تک پڑھتا نایک جی بھی اپنے بستر میں جاگتے رہتے۔ گھر کے بچے شام کو اسکول سے واپس آنے کے بعد گائے بھینس کو چارہ پانی دیتے مگر ویریندر سے یہ کام کرانے کی گھر میں کسی کو اجازت نہ تھی۔

بچے ریوڑوں کے ساتھ بھیرو کے ساگر، تک گھومتے اور شام میں اس سنسان جگہ کی انوکھی کہانیاں سناتے مگر ویریندر کو ان کھلنڈرے بچوں کی صحبت میں کھیلنا کودنا منع تھا۔ وہ بابوجی سے یادوؤں کے سنہرے دور کی کہانیاں سنتے بڑا ہوا تھا کہ کبھی ’بھیرو کاساگر‘ آس پاس کے زمینداروں کے لیے تفریح کا خاص مرکز تھا۔ بھیرو، ڈوکی، کھیما وغیرہ جگہوں سے ملا ہوا یہ علاقہ اب ایک شمشان میں تبدیل ہو چکا تھا۔ ساگر کے چاروں طرف اونچی اونچی گھاس اُگ آئی تھی۔ اونچے اونچے مہوا کے درخت گدھوں اور چیلوں کے مسکن خاص بن چکے تھے۔ آس پاس کے گاؤں سے لوگ مردہ جانور یہاں ڈال جاتے اور شام کو ڈھانچے سے گوشت صاف ہو جانے کے بعد، ہڈیاں چمار اٹھا لے جاتے۔ کتنی بھیانک ہے وہ جگہ۔۔۔۔۔۔(اس نے ایک گہری سانس کے ساتھ کروٹ بدلی)

ویریندر کو شروع سے ہی پڑھنے لکھنے میں بہت دلچسپی تھی۔ وہ ہمیشہ اپنے کلاس میں ٹاپ کرتا۔ اور سب کی توجہ کا مرکز بنا رہتا۔ جب بارھویں کر چکا تو نایک جی نے الہ آبادیونیورسٹی میں اس کا داخلہ کرا دیا کیونکہ وہاں سے پڑھ کر بچے افسر آسانی سے بن جاتے تھے۔

نایک جی نے کسی دن اخبار میں I.A.S.کے رزلٹ میں کامیاب ہونے والوں کے بارے میں تفصیل دیکھی اور ان کے انٹرویوز پر نظر پڑی تو اسے انتہائی انہماک سے لفظ بہ لفظ پڑھا۔ وہیں نیچے دلی کے ایک کو چنگ سنٹر کا پتہ بھی درج تھا۔ انھوں نے فوراً اخبار کا وہ حصہ پھاڑ کر اپنے کرتے کی جیب میں رکھ لیا۔ جب اگلے اتوار کو ویریندر گھر آیا تو انھوں نے اخبار میں چھپی اس پوری رپورٹ کو دکھاتے ہوئے اسے دلی جانے کا مشورہ دیا۔ ویریندر نے کوچنگ کا پتہ نوٹ کر لیا۔ اس خبر کے مطابق کوچنگ جون میں شروع ہوتی تھی جس میں ابھی دو مہینے کا وقفہ تھا۔

ویریندر تبھی سے دلی جانے کی تیاری میں لگ گیا تھا۔ لیکن اس کے لیے رقم کی ضرورت تھی۔ نایک جی نے اپنے ریٹائرمنٹ کا کچھ پیسہ بیٹی کی شادی کے لیے فکس کر رکھا تھا۔اور باقی پیسے انھوں نے زمین کی نیلامی لینے میں خرچ کر ڈالے تھے۔ اس لیے پیسے کا انتظام بھی ہونا تھا۔ ویریندر کو معلوم تھا کہ بابو جی زمین نیلام لے لے کر زمین والے تو بن گئے تھے لیکن ابھی بھی مستقل آمدنی کا کوئی ذریعہ نہیں تھا۔ دو مہینوں کے پنشن کی رقم مقدموں پر خرچ ہو گئی۔ نایک جی نے ویریندر کے لیے کسی سے ادھار لینے کا فیصلہ کیا۔ F.D.وہ کسی بھی قیمت پر توڑنے کو تیار نہیں تھے۔ ویریندر کو محسوس ہو رہا تھا کہ کوچنگ کے لیے دلی جانا کوئی آسان کام نہیں تھا۔

 گئی رات تک نایک جی ویریندر کے دلی جانے کے لیے پورے پیسوں کا انتظام نہیں کر پائے تھے اور جب ویریندر نے ان کے قدرے خاموش چہرے کو دیکھا تو اسے شک ہو گیا تھا لیکن اس نے بات کو بدل کر آہستہ سے پوچھا۔

ویریندر۔ بابو جی ٹکٹ پرسوں کالے لوں یا کچھ دن بعد چلا جاؤں ؟

نایک جی نے صرف اتنا کہا۔۔۔: بیٹا کل دوپہر کے بعد بتاؤں گا۔

ویریندر جانتا تھا کہ بابوجی اتنی سکت تو رکھتے ہیں کہ ویریندر کو دلی بھیج سکیں اور تبھی انھوں نے یہ ہمت بھی کی تھی لیکن اس حوصلے کے پیچھے معاشی طاقت کے ساتھ ہمتِ مردانہ کا بھی بڑا دخل تھا۔ اس بات کا ویریندر کو پوری طرح احساس تھا۔ رات میں وہ نیند آنے سے پہلے کافی دیر تک گھر کے حالات کا تجزیہ کرتا رہا اور اس نے محسوس کیا کہ اگر پورا گھر ایک جٹ ہو کر ساتھ دے اور اپنی ضرورتوں پر لگام لگا کر اس کے. I.A.Sکی تیاری کو ترجیح دے تو پھر ایسا بھی نہیں تھا کہ وہ I.A.S.بن کر اپنے خاندان کا نام روشن کرنے میں کامیاب نہ ہو سکے کیونکہ بابوجی کی نوکری کے علاوہ جس سے وہ ریٹائر ہو چکے تھے کھیتی باڑی بھی تھی اور اگر چھوٹا بھائی راجیندر،جس کو پڑھنے میں دلچسپی نہیں ہے پوری طرح کھیتی پر دھیان دے تو یہ کام ممکن ہے۔

ویریندر کو کھیت کی طرف آتے ہوئے دیکھ کر راجیندر نے جلدی سے ہاتھ میں لگی مٹی صاف کی اور لپک کر مینڈ پر آگیا۔

’بھیّا————آپ!‘

ویریندر ——’میں تمہیں صبح سے ہی تلاش کر رہا تھا۔ رجو نے بتایا کہ تم کھیت پر ہو تو میں بھی ادھر ہی نکل آیا۔‘

(دونوں بھائی پیڑ کے سائے میں آ گئے۔ )

راجیندر: ’آپ کے ٹکٹ کا کیا ہوا۔ کب جا رہے ہیں دلّی؟‘

ویریندر—— ’ یار ٹکٹ تو ابھی نہیں کروایا ہے۔‘

’کیوں —— جانا نہیں ہے کیا ؟‘

ویریندر: ’نہیں یار، ایسی بات نہیں ہے۔ جانا تو میں چاہتا ہوں مگر کیسے جاؤں۔ اتنے بڑے کنبے کا خرچہ، اوپر سے ہماری پڑھائی لکھائی، اور پھر تمہارا رزلٹ بھی آنے والا ہے۔ تمہارے داخلے کا خرچہ بھی——(اتنا کہہ کر وہ تھوڑا رک گیا)

یار مجھے لگتا ہے کہ بابوجی سے میری پڑھائی کے خرچے کا انتظام نہیں ہو پائے گا۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ پڑھائی بیچ میں چھوڑ کر گھرواپس آنا پڑے۔ پھرتو بڑی بے عزتی ہو جائے گی۔

راجیندر:بھیا آپ دلّی جاؤ اور افسر بن کر آؤ۔میری چھوڑو۔میری لائن کچھ اور ہے۔ آپ تو جانتے ہی ہیں کہ مجھے پڑھائی لکھائی میں دلچسپی بالکل نہیں ہے۔ بس ابکی بارھویں نکل جائے تو پھر میں آگے یہ جھنجھٹ نہیں بڑھاؤں گا۔ میرے من میں تو کاروبار کا پلان ہے اور میں بمبئی جانا چاہتا ہوں۔ بمبئی ایسا شہر ہے کہ وہاں تو پیسے اڑتے ہیں۔ میں نے سنا ہے کہ صرف ہنر ہو انھیں بٹورنے کا تو دو چار سالوں میں ترقی دھری ہے۔

ویریندر۔ لیکن یار، لوگ کیا کہیں گے کہ بڑا بھائی تو پڑھ رہا ہے اور چھوٹے کو کما نے بھیج دیا۔

راجیندر۔ لوگوں کی بات چھوڑیئے میں تو یہ سوچ رہا ہوں کہ کل کو جب آپ بہت بڑے افسر بن کر آئیں گے تب ان سب کی بولتی بند ہو جائے گی۔ پھر دلی میں رہنے سہنے کا خرچ بھی تو ہے اور کو چنگ کی فیس وغیرہ۔ اگر میں اب نہیں کماؤں گا تو کب کماؤں گا۔ ویسے رجو کا بھی اب یہی من ہے کہ میں کچھ کماؤں دھماؤں۔

ویریندر۔ اچھا ————!وہ کچھ کہہ رہی تھی کیا؟

راجیندر۔ ہا ں ایک دن بات ہی بات میں کہنے لگی کہ کلو کی بیوی نے اچھا خاصا بینک بیلینس کر لیا ہے۔ کلو جب سے سعودیہ گیا ہے، گھر میں خوشحالی آ گئی ہے۔ میں چپ تھا تو کہنے لگی کہ اب کا تم گدیلا ہو جو زندگی بھر پڑھتے رہو گے۔ میں نے بھی سوچا کہ وہ ٹھیک ہی کہہ رہی ہے۔ جب پڑھنا بھی نہیں ہے تو کیوں نہ کمانے نکل پڑوں۔

یہی سب سوچتے سوچتے نہ جانے کب اسے نیند آ گئی۔

رات میں اس کی آنکھ کھلی تو پھر وہ دیر تک جاگتا رہا۔ کھڑکی سے باہر چاندنی رات میں ڈوبا منظر تیزی سے پیچھے بھاگ رہا تھا۔ سارے مسافر گہری نیند میں خرّاٹے لے رہے تھے لیکن اسے دیر تک دوبارہ نیند نہیں آئی۔ اس کے ذہن پر وہی پچھلی یادوں کی تیز ہوائیں چلتی رہیں۔اس کے گھر والوں نے اس سے اپنے خوابوں کو کتنی مضبوطی سے وابستہ کر رکھا تھا۔بابو جی تو یہ مانے بیٹھے تھے کہ اسے کلکٹر کے علاوہ اور کچھ بننا ہی نہیں ہے چاہے وہ کتنی ہی اچھی نوکری کیوں نہ ہو۔

دراصل نایک جی نے ویریندر سے وابستہ خوابوں کی بنیاد پر ایک دنیا کھڑی کر رکھی تھی۔

ایک دن نایک جی بتھرہ چوراہے کی چائے کی دکان پر اطمینان سے بیٹھ کر اخبار پڑھ رہے تھے۔ اسی بیچ ماسٹر کیدار نے آ کر سائکل کھڑی کی اور دوکان پر بیڑی خریدی۔نایک جی پر نظر پڑتے ہی بولے۔

حمید میموریل ڈگری کالج کے لئے ایک انگریزی لکچرر کی ضرورت ہے۔ ویریندر کو لگوا دیجئے نا، آپ کو منع نہیں کریں گے۔

نایک جی نے گھور کر انھیں دیکھا جیسے رائفل کی لبلبی چڑھا رہے ہوں اور پھر گلا صاف کرتے ہوئے کھنکدار آواز میں بولے۔

ارے یار کیا بات کرتے ہو————!ٹیچری۔۔۔۔۔۔۔! (اخبار نیچے رکھتے ہوئے قدرے مخاطب ہو کر) اسے چودہ کیلو میٹر دور شہر کے انگریزی اسکول میں اسی لیے پڑھایا ہے کہ وہ ٹیچر بنے۔ اس کو کلکٹر کے امتحان میں بیٹھنا ہے۔

یہ سن کر وہاں موجود لوگوں کی سانسیں رک گئیں۔

آس پاس کے گاؤں گوپال پور،بتھرہ،مکرہا وغیرہ کے بڈھے اتنے مقدمے باز ہیں کہ ان کا روز مرّہ یہی ہے کہ نہار منہ اٹھ کر نہایا دھویا ،بہو نے چائے دی،اور دوپہر کا ناشتے دان سائیکل میں لٹکا کر کادی پور تحصیل کی طرف نکل گئے۔ اب پورے دن صرف مقدمے بازی کی باتیں ہوں گی۔ تحصیل کادی پور کی دکانوں کی رونق ان بڈھوں کی وجہ سے ہر موسم میں برقرار رہتی ہے۔

نایک جی زمینداروں کی صف میں تیسری پشت تھے حالانکہ اب آزاد ہندوستان کے آئین میں زمینداری ختم ہو کر افسروں اور غیر افسروں کے حقوق متعین اور واضح کر دیے گئے تھے۔ مگر نایک جی نے انگریزوں کا دور دیکھا تھا اور اچھی طرح دیکھا تھا کہ کیسے بڑے بڑے زمیندار اور صاحب ثروت لوگ معمولی انگریز افسروں کے سامنے بھیگی بلّی بن جاتے تھے۔ نایک جی نے قلم اور افسری کا جادو اپنی جوانی میں خوب دیکھا تھا کہ کیسے قلم کی ذرا سی حرکت پر سورج پورب سے پچھم میں نکلنے لگتا تھا۔ اپنے بچوں میں سے کسی کو کلکٹر بنا نے کا خواب توا نھوں نے تبھی دیکھ لیا تھا۔

 صبح جب نایک جی تحصیل کادی پور پہنچے تو بڈھوں کی محفل پہلے سے ہی آراستہ ہو چکی تھی اور بڑی گہما گہمی دکھائی دے رہی تھی۔

 انھوں نے ایک جوان سے پوچھا۔بات کیا ہے؟

جوان نے نسبتاً دھیمی آواز میں نایک جی کے کان کے پاس منھ لا کر جواب دیا۔

 خان صاحب کے زمین کی نیلامی آج ہو جائے گی۔

(نایک جی ذرا سنبھلتے ہوئے)

اچھا۔۔۔۔۔!

 اور آرام سے بنچ کے ایک حصّے میں بیٹھ کر سوچنے لگے۔ پتہ نہیں D.M.صاحب کے دماغ میں کیا ہے؟

زمین کی نیلامی کے لیے جھنڈی پہلے بھی دو بار لگ چکی تھی مگر آج نیلامی طے تھی۔

یہ معاملہ ان بڈھوں کے بیچ اس طرح نمودا ر ہوا تھا جیسے گدّھوں کے بیچ کوئی موٹا تگڑا مردہ جانور آ جائے۔

نایک جی کورٹ کچہری کے معاملات میں اپنی مہارت کے لیے پورے علاقے میں مشہور تھے ایسی نہ جانے کتنی نیلامیاں انھوں نے اپنی تکڑم بازی کے زور پر تمام گدّھوں کے بیچ سے کھینچ کر اپنے قبضے میں کر لی تھیں۔ پچھلے سال ریٹائر ہو جانے کے باوجود وہ اپنے ریٹائرمنٹ کا پیسہ بھی D.M.پر تحفے تحائف میں پانی کی طرح بہا چکے تھے۔ آخر کار بازی ان کے ہاتھ لگی۔

لیکن اب نایک جی کو پیسہ اس طرح بہانا کھل رہا تھا کیونکہ بیٹی سُمِترا کی شادی سر پر تھی۔

نایک جی سوچ رہے تھے کہ اگر ان کا بیٹا D.M.بن جائے تو اس کے ایک فون سے ہی سب وارا نیارا ہو جائے اور مفت کے جوڑ توڑ سے نجات مل جائے۔ صرف ایک فون پر کھلہا نوں کی ساری رونق ان کے حصے میں آ جائے۔

زیادہ سے زیادہ زمین حاصل کرنے کی خواہش انھیں کبھی چین نہیں لینے دیتی تھی اس لیے وہ اپنی اس خواہش کی تکمیل کا کوئی ٹھوس اور مستقل ذریعہ چاہتے تھے۔ انھوں نے سوچا کہ D.M.بننا کوئی ڈاکٹری، انجینئری کا کورس تو ہے نہیں کہ پانچ چھ سال لگیں گے۔ اکثر انھیں خیال آتا کہ مشکل سے سال ڈیڑھ سال میں ہونہار ویریندر D.M.بن سکتا ہے۔

یہاں دور دراز تک کسی کو معلوم ہی نہیں تھا کہ آدمی کلکٹر کیسے بنتا ہے۔ لیکن نایک جی نے بہت پہلے پتہ کر لیا تھا کہ کلکٹر اور ایس۔پی بچہ کالج میں پانچ سال کورس کر کے نہیں بنتا۔ بلکہ یوپی ایس سی کے مقابلے میں لاکھوں امیدواروں کے بیچ سب سے زیادہ نمبر حاصل کر کے بنتا ہے۔ کلکٹر بننے کے لیے محنت سے پڑھائی کرنے کی ضرورت تھی جو کہ ہونہار ویریندر میں انھیں دکھائی دے رہی تھی۔

صبح ویریندر کی آنکھ کھلی تو ٹرین غازی آباد کے انڈسٹریل علاقے سے گزر رہی تھی۔ہنڈن ندی،پھر دور تک گریٹر نویڈا سے دلی تک کی عمارتیں رفتہ رفتہ جیسے ا فق پر طلوع ہونے لگیں اور اسے محسوس ہوا کہ وہ جس سروس میں جانے کی کوشش کر رہا ہے اس میں حاکم بن کر ایک دن ان تمام علاقوں کی شکل مزید تبدیل کرنے میں اس کا اہم رول ہو گا۔

میدانوں کے بیچ سے گزرتی اژدھے کی طرح دہاڑتی ہوئی ٹرین ،غازی آباد سے آگے بڑھنے پر عظیم الشان شہر کے نیچے جیسے رینگنے لگی۔ جمنا پار کرنے کے بعد جب ٹرین دلی اسٹیشن کے قریب پہنچی تو اس نے اپنا بیگ سیٹ کے نیچے سے نکالا، اس کی نظریں کھڑکی کے باہر دیکھ رہی تھیں اور اس کا ذہن سوچ رہا تھا ( آوٹرم لین) مکھر جی نگر نہ جانے کدھر ہے اس نے سامنے کے ایک آدمی سے پوچھا جس نے بتایا کہ وہ نئی دلی سے میٹرو میں بیٹھ کر G.T.B.کیمپ تک جا سکتا ہے آؤٹرم لین اور مکھر جی نگر وہیں واقع ہیں۔ پھر اس نے کچھ سوچتے ہوئے پوچھا—— آپ پہلی بار آ رہے ہیں ؟

ویریندر نے بڑی متانت سے کہا۔ میں سوِل سروس کی کوچنگ جوائن کرنے جا رہا ہوں اور اسے محسوس ہو ا جیسے آس پاس کے لوگ اسے ایسے دیکھ رہے ہیں جیسے وہ کسی مستقبل میں ہونے والے کلکٹر کو دیکھ رہے ہوں اور اس کی شخصیت پر ایک عجیب سنجیدگی اور بردباری چھا گئی۔

ٹرین سے اتر کر وہ میٹرو اسٹیشن پوچھتا ہوا آگے بڑھا۔ کسی نے ہاتھ سے سامنے کی طرف اشارہ کیا۔ سامنے دو فرلانگ دور ایک بہت بلند و بالا کئی منزلہ عمارت نظر آئی اس نے سوچا غالباً یہ میٹرو اسٹیشن کا ہیڈ کوارٹر ہو گا اس نے ایک آٹو کے قریب جا کر پوچھا ، مجھے میٹرو اسٹیشن جانا ہے۔ آٹو والے نے اسے چونک کر اوپر سے نیچے تک دیکھا۔

ویریندر کو ایسا لگا جیسے ڈرائیور اسے قطعی طور پر اجنبی سمجھ کر اس طرح دیکھ رہا ہے۔

ڈرائیور جواب دینے سے پہلے مسکرایا۔ سامنے کھڑا ایک مزدور بھی رک کر اس کا چہرہ دیکھنے لگا۔ بھائی صاحب یہ رہا میٹرو اسٹیشن اس نے سامنے دس قدم دور نیچے جاتی ہوئی سیڑھیوں کی طرف اشارہ کیا۔ ویریندر کو اپنی بیوقوفی کچھ عجیب سی لگی۔ نہ جانے یہ بیوقوفی تھی یا کچھ اور۔

ان سیڑھیوں سے اترتے ہوئے اسے احساس ہوا کہ زمین کے اندر ایک نہایت وسیع اور جدید ریلوے اسٹیشن ہے۔ پورا اسٹیشن ایر کنڈیشنڈ، صفائی ایسی کہ جیسے باریک بینی کے ساتھ چھوٹی سے چھوٹی چیز کو بھی پونچھا اور چمکایا گیا ہو۔ ایک زینے سے اتر کر کچھ دور چلا تھا کہ پھر دوسرا زینہ نیچے جانے لگا۔ وہاں سے چلا تھا کہ پھر تیسرا زینہ، ــ یقیناً یہ لائن اس شہر کی بلند و بالا عمارتوں کے ٹھیک نیچے سے جاتی ہو گی۔

زمین کے اندر کے سفر کا یہ تصور اسے ایک نئی دنیا سے آشنا کرا رہا تھا۔ جو اس کے ملک میں ہوتے ہوئے بھی اس کے لیے اب تک اجنبی تھا۔ وہ آگے بڑھ کر ٹکٹ لینے والوں کی قطار میں کھڑا ہو گیا۔کاونٹر کے بغل میں لگے بورڈ پر ہر جگہ کے کرائے کی فہرست تھی۔ دلّی کی اہم جگہوں کے نام بھی اس کے ذہن میں نقش ہونے لگے۔ کاونٹر سے اس کو روپیوں کے عوض ٹکٹ کی جگہ پیسے جیسا ایک گول ٹوکن ملا۔اسے لے کروہ آگے بڑھا۔ آگے سامان کی جانچ کے لیے ایکسرے مشین لگی تھی اور خود سکیورٹی گیٹ سے ہو کر گزرنا تھا۔ گیٹ پر کھڑے سکیورٹی مین نے اس کو کندھے سے پاؤں تک ٹٹول کر اندازہ لگایا کہ اس نے کوئی خطرناک چیز تو نہیں چھپا رکھی ہے۔ ان تمام تجربوں سے گزرتے ہوئے اسے ان خطروں کا شعور ہوا جس کے بارے میں یہ شہر پوری طرح محتاط تھا۔ ایک ہی شخص کیسے ایک I.A.S.آفیسر بھی ہو سکتا ہے اور ایک دہشت گرد بھی۔ یہ سوال اس کے ذہن میں اٹک سا گیا۔ اس نے سوچا کہ صرف ارادوں کے بدلنے سے یہ ممکن بھی ہے۔ ایک مندمل سا خیال اسے چھو گیا کہ جو لوگ I.A.S.میں نہیں آتے ہوں گے وہ کیا بنتے ہوں گے۔

سامنے اس کا سامان ایکسرے مشین سے باہر آ چکا تھا۔ وہ سامان لیکر آگے بڑھا۔ پلیٹ فارم پر جانے کے لیے کئی چھوٹے چھوٹے کالے رنگ کے دروازے ایک قطار میں بنے تھے۔ اور لوگ اپنے کوائن کو داہنی طرف ایک مخصوص جگہ مس کرتے تھے تو دروازے کے چھوٹے چھوٹے پھاٹک روبوٹ کی طرح پیچھے ہٹ جاتے تھے اور ایک مسافر کے گزرنے کے بعد خودبخود بند ہو جاتے تھے۔

جب اس کی باری آئی تو اس نے بھی اپنی مٹھی میں بند کوائن کو دو انگلیوں میں پکڑ کر اس جگہ مس کیا اور دروازے کے کھلتے ہی جلدی سے پار کر گیا جیسے اسے ڈر ہو کہ اس کے نکلنے سے پہلے ہی یہ کواڑ اسے دبوچ نہ لیں۔ حالانکہ حسبِ معمول ایسا کچھ بھی نہ تھا۔

 آگے پلیٹ فارم تھا جس کے دونوں سرے شہر کی عمارتوں کے سیکڑوں فٹ نیچے سے جانے والی سرنگوں میں کھو گئے تھے ان میں قندیل کی روشنی جل رہی تھی۔ سامنے بورڈ پر آنے والی میٹرو ٹرین جو ہر۵ منٹ پر آتی تھی، کی جانکاری بدلتے ہوئے اسکرین پر موجود تھی اور مسافروں کو پیلی لائن سے پیچھے رہنے کی ہدایت لگاتار دی جا رہی تھی۔ اس نے ایک مسافر سے احتیاطاً ٹرین کے سمت کی تصدیق کی۔ اسی بیچ کہیں سے تیز ہوا کا ایک ٹھنڈا جھونکا آیا، وہ چونک کر دیکھنے لگا۔

سرنگ کے اندھیرے سے آتی ہوئی ایک ٹرین نمودار ہوئی جو تقریباً ایک بے آواز گاڑی کی طرح چلی آ رہی تھی۔ ٹرین رکی، اس کا گیٹ کھلا۔ ایک جمّ غفیر تھا جو اندر سے اُبل پڑا اور ایک بڑا ہجوم اندر داخل ہونے لگا۔وہ بھی اپنے سامان کے ساتھ اندر آگیا۔

 ماڈرن دلی کی نمائندہ آبادی سے ٹرین بھری پڑی تھی۔ ہر چہرہ انتہائی شائستہ اور خوش لباس، جسے ٹرین کی صاف ستھری ٹھنڈی ہوا اور ایر کنڈیشنڈ کی فضا میں ایک جادوئی ماحول عطا کر رہا تھا۔ اوروں کو دیکھ کر اسے محسوس ہوا کہ اسے بھی اپنے کھڑے ہوئے دائیں بائیں ہٹنے اور سیٹ کی تلاش میں انتہائی احتیاط سے کام لینا چاہیے۔ تھوڑی دیر کے لیے اسے شبہ ہوا کہ یہاں اتنے ذہین اور ماڈرن لوگ اور نوجوان لڑکے لڑکیاں موجود ہیں۔ ایسے ملک میں اس کا I.A.S.میں آنا کیسے ممکن ہو گا۔ یہاں تو کسی کے پاس کسی طرح کی کوئی کمی نہیں تھی۔پھر ان کا مقابلہ اس کے جیسا لڑکا کیسے کرے گا۔ لیکن پھر اسے I.A.S.امتحانات کے رزلٹ کی یاد آئی۔ اور وہ تمام تفصیلات اور انٹرویوز یاد آئے جس میں ان لڑکے لڑکیوں کا ذکر تھا جنھوں نے دوسرے شہروں یا چھوٹے چھوٹے شہروں میں رہ کر بھی ان امتحانات میں کامیابی حاصل کی تھی اور ان میں کئی کامیاب امید وار تو انتہائی غریب گھرانوں سے تعلق رکھتے تھے۔

مائک سے نئے اسٹیشن کا نام اناؤنس ہوتا جا  رہا تھا اورسیٹ کے اوپر لگے اسکرین پر اسٹیشن کا نام لکھا ہوا تھا ——G.T.Bوہ گیٹ کے پاس آگیا۔ مسافروں کی بھیڑ کے ساتھ وہ بھی اترا۔

پلیٹ فارم پر آگے اس جدید ترین سرنگ سے باہر آنے کے لیے ایک جدید قسم کی سیڑھی بھی تھی اس نے فلمو ں میں دیکھا تھا کہ اس کے پائیدان خود ہی نیچے سے اوپر جاتے تھے اور مسافروں کو اوپر لے جاتے تھے۔ وہ پہلے تو نیچے رک کر دوسرے مسافروں کو اس پر جاتے ہوئے دیکھتا رہا اس کے بعد سیڑھی کے کنارے کو ہاتھ سے پکڑ کر اس نے بھی ایک سیڑھی پرپاؤں رکھ دیا اور اوپر پہنچنے کا انتظار کرنے لگا۔ مسلسل رفتار سے اوپر کی طرف بڑھتے ہوئے اسے محسوس ہوا کہ وہ اب تک کتنی گہرائی میں تھا۔ اوپر پہنچ کر پلیٹ فارم سے باہر جانے کا راستہ تلاش کرتے ہوئے اس کی نگاہیں سرخ رنگ کی ایک بورڈ پر رک گئیں۔

 اسٹیشن سے باہر آیا تو پھر وہی دنیا —— نئی دلی کی عمارتوں سے یہاں کی عمارتیں مختلف تھیں ، یہ ایک پرانی کالونی تھی جہاں کئی آبادی نئی بھی تھی۔ اس نے آوٹرم لین کا پتہ پوچھا جہاں اس کا ایک جاننے والا دوسال پہلے سے رہ رہا تھا۔ لیکن پھر اسے خیال آیا کہ اسے انسٹی ٹیوٹ میں پہنچنا ہے۔ اس نے آٹو والے کو کوچنگ انسٹی ٹیوٹ کا پتہ بتایا جو بترا سنیما کے پاس مکھر جی نگر میں تھا۔

٭٭٭

آوٹرم لین کے دونوں طرف کی چھوٹی موٹی عمارتوں کو دیکھتا ہوا سنسان سڑک سے گزرتا ہوا آٹو مکھرجی نگر کے بھیڑ بھاڑ والے سڑک پر پہنچا تو دائیں جانب اسے نوجوان لڑکے لڑکیوں کے چہرے کچھ زیادہ ہی نظر آئے۔تھوڑی دور جانے کے بعد آٹو داہنی جانب کی پتلی سڑک پر مڑ گیا اور ایک اندرونی چھوٹے سے چوراہے پر پہنچ کر ڈرائیور نے آٹو روک لیا۔

ڈرائیور۔ یہیں ہو گا۔ سارے کوچنگ سینٹر ادھر ہی ہیں۔

سامنے کچھ دور پر بترا سنیما تھا جس کے سامنے کے احاطے میں تین طرف چائے کی چھوٹی چھوٹی دکانیں تھیں۔ جہاں لڑکے لڑکیاں سیڑھیوں پر بیٹھے ،یا دیواروں کے کنارے کھڑے ہو کر چائے پیتے دکھائی دیے۔ اس پورے منظر میں اسے کچھ عجیب ضرور لگا لیکن وہ اسے کوئی نام نہ دے سکا۔

آٹو والے کوپیسہ دے کر بیگ ہاتھ میں اٹھائے اور ویریندر نے چاروں طرف نظر دوڑائی۔ سبھی عمارتوں پر طرح طرح کے بورڈ و بینر آویزاں تھے۔ کتابوں کی دکانیں ، پتلی گلیوں میں نیچے سے اوپر تک تیسری چوتھی منزلوں تک بورڈ ہی بورڈ نظر آ رہے تھے۔ یہاں Civil serviceکی کوچنگ انسٹی ٹیوٹ کا جال پھیلا ہوا محسوس ہوا۔ ایک بورڈ پر اس کی نظر ٹکی جہاں سائنس کے موضوع پر کوچنگ دینے کی دعوت تھی۔ پھر اس نے دوسرے تیسرے بورڈ دیکھے جن پر آرٹس کے مختلف موضوعات پر اچھی کوچنگ کی یقین دہانی کرائی گئی تھی۔ وہ تو یہ سب سوچے بغیر ہی ایک کوچنگ انسٹی ٹیوٹ کے پتے پر آگیا تھا۔ وہ یہاں کس سے پوچھے،کس سے مشورہ لے۔ کچھ سوچ کر اس نے ودّیا کوچنگ انسٹی ٹیوٹ کا پتہ پوچھا جو اس کے آگے کی بائیں طرف کی پتلی سڑک پر تیسری منزل پر تھا۔ اس کا بورڈ نیچے سے ہی دکھائی دے رہا تھا۔ بورڈ کے ٹھیک نیچے والی پتلی سیڑھی سے وہ اپنا سامان لیے ہوئے اوپر چڑھتا چلا گیا۔

تیسری منزل پر سامنے لکھا تھا’’ ودّیا کوچنگ‘‘ اس نے سامنے مصفیٰ شیشے کی طرف دیکھا۔ ایک لڑکی اندر بیٹھی کمپیوٹر اسکرین میں محو تھی۔ اس نے بغل میں نظر ڈالی تو کر سی پر بیٹھا ایک نوجوان فون پر کسی سے محو گفتگو تھا۔ ویریندر کو اندر کھڑا دیکھ وہ ذرا سا رکا اور اسے اوپر سے نیچے تک دیکھ کر اس نے انگلیوں سے ویریندر کو اندر جانے کا اشارہ کرتے ہوئے دوبارہ فون میں محو ہو گیا۔ ویریندر دروازے کے اندر داخل ہوا تو اس کے سامنے جو کچھ تھا اسے دیکھ کر بجلی کی روشنی کی طرح ایک جھٹکے کے ساتھ اسے خیال آیا کہ یہ دلی ہے۔ اس کے پیچھے کا دروازہ دھیرے دھیرے بند ہوتا ہوا مکمل طور پر بند ہو گیا۔

وہ لگ بھگ سحر زدہ عالم میں کھڑا تھا اور کمرے نے اس کو جیسے کسی مقناطیسی قوت سے جکڑ لیا تھا سامنے کرسی پر بیٹھی الٹرا ماڈرن لڑکی کی کم لباسی کمرے کی مکمل تنہائی میں اسے علم کے بجائے عالم حسن کا جلوہ دکھا رہی تھی۔ ایک گنگناتی ہوئی مسکراہٹ کے ساتھ اس نے ویریندر کو سامنے کی کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔

ویریندر کو ایک نئی دنیا میں داخل ہونے کا پہلی بار شدید احساس ہوا۔ اس کے ذہن میں زندگی کا پورا پس منظر گھوم گیا جو انتہائی ڈل، گرد آلود، کھردرا، بے رنگ اور بے کیف تھا۔

اس کے لیے سامنے بیٹھی لڑکی کی مسکراہٹ وہ چیز تھی جس کا اس نے فلمیں دیکھنے کے بعد خواب تو دیکھا تھا لیکن اس سے روبرو کبھی نہیں ہوا تھا۔ چند لمحوں کے لیے اس کے دماغ کی رگوں میں خون کی رفتار تیز ہو گئی۔ دنیا کی اعلیٰ ترین چیز تویوں ہی یہاں موجود تھی۔ اس کے کسی ساتھی نے بتایا تھا کہ بات کرنے پر کوچنگ والے فیس کم بھی کر دیتے ہیں۔ لیکن وہ Receptionistکی آنکھوں کی جادوئی کشش میں وہ سب کچھ بھول گیا جیسے بلّی کے سامنے توتا اپناسبق بھول جاتا ہے۔ لڑکی نے ویریندر کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر آہستہ سے پوچھا——

 جی۔بتائیے کس سے ملنا ہے؟

ویریندر—— میں کوچنگ میں داخلے کے سلسلے میں بات کرنا چاہتا ہوں۔

لڑکی——آپ کس بیچ میں داخلہ چاہتے ہیں ؟

(ویریندر اسے غور سے دیکھنے لگا جیسے کچھ سمجھ نہیں سکا ہو۔)

لڑکی——دراصل ہمارے یہاں دو بیچ چلتے ہیں۔ ایک صبح میں اور دوسرا شام میں۔ (گفتگو جاری رکھتے ہوئے) ان میں بھی دو بیچ ہیں۔ ایک بیچ تو ان بچوں کا ہے جو دونوں دور کے امتحانوں کی تیاری کے لیے داخلہ لیتے ہیں اور دوسرا صرف دوسرے دور کے امتحان کی تیاری کرنے والوں والوں کا بیچ ہے۔

لڑکی نے دراز سے دو پنوں کی ایک تفصیل نکال کر ویریندر کی طرف بڑھا دیا۔ ویریندر اس ورق کو بغور دیکھنے لگا جس میں سبھی بیچ کی الگ الگ فیس درج تھی۔ لڑکی نے ویریندر کو دوبارہ مخاطب کیا۔

لڑکی—— جو فیس اس کاغذ میں درج ہے وہ محض ایک کاغذی کاروائی ہے۔ہماری کوچنگ سبھی بیچوں کے ان بچوں کو کچھ آفر بھی فراہم کرتی ہے جو خاص طور سے گاؤں سے آتے ہیں اور پڑھنے لکھنے میں ہوشیار ہوتے ہیں۔

لڑکی کی اتنی ساری تفصیلات سے ویریندر الجھ سا گیا۔اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کہے۔وہ مسکرانے کی کوشش کرتا ہوا بولا۔

ویریندر—— میڈم میں اس لائن میں بالکل نیا ہوں۔ بلکہ میں آج ہی گھر سے آیا ہوں۔ میں یہ تفصیل رکھ لے رہا ہوں۔ میں چاہتا ہوں کہ ڈائرکٹر صاحب سے آپ میری ملاقات کروا دیجئے۔

لڑکی—— بہت اچھا۔ آپ ان سے کل مل سکتے ہیں۔

لڑکی——آپ کو روم لینے کی خاطر ہمارے انسٹی ٹیوٹ کی مدد چاہیے؟

ویریندر——جی۔

ویریندر لڑکی کی اپنائیت سے بھرپور والہانہ لہجے کے سامنے بس ہر بات میں جی جی کرتا رہا۔

لڑکی کی شیریں گفتگو میں مسحور ویریندر کو رہنے کے لیے کمرے کا خیال بھی نہیں آیا تھا اور وہ ابھی یوں ہی الجھا ہواسا لڑکی کو دیکھ رہا تھا جو کان میں ریسیور لگائے فون کا بٹن دبا کر اسے دیکھ رہی تھی کہ دوسری طرف سے کسی نے فون اٹھایا۔

لڑکی—— روشن جی ایک کمرہ چاہئے (لڑکی کے صرف ہونٹ ہلے اور اس نے ریسیور نیچے رکھ دیا پھر ویریندرسے مخاطب ہو کر) ابھی میں نے پرا پرٹی ڈیلر کو بلایا ہے آپ جا کر کمرہ دیکھ لیجئے۔

تھوڑی دیر میں ایک آدمی انتہائی سنجیدہ انداز میں اندر داخل ہو ا اس نے ویریندر پر ایک طائرانہ نظر ڈالی۔ لڑکی نے اسے اس آدمی کے ساتھ بھیج دیا۔ یہ یہاں کا ایک پرا پرٹی ڈیلر تھا جو خاص طور سے طلباء کو کرائے کے کمرے دلواتا تھا۔

گاؤں دیہات کی لمبی چوڑی گلیوں ، کھلے کھلے راستوں اور کشادہ مکانوں میں رہنے والا ویریندر جب تنگ و تاریک سیڑھیوں سے گزر گزر کر کمروں تک پہنچتا تو اس کا دم گھٹنے لگتا۔زیادہ تر کمروں میں روشنی بالکل نہیں تھی۔ پراپرٹی ڈیلر کے مطابق ان کمروں کا کرایہ قدرتی روشنی والے کمروں سے ذرا کم تھا۔کمروں کے باہر گیلری میں ٹفن کے ڈھیر، سوکھتے کپڑوں کی زنجیر کے درمیان سے گزر کر جب وہ بالکنی کی طرف جاتا تو معلوم ہوتا کہ یہاں روشنی تو ہے مگر کمروں میں ایک بستر کے علاوہ ایک سوئی بھی رکھنا محال ہے۔ اوپر سے کرایہ بھی بے تحاشہ۔ سڑک کے کنارے کمروں کی تنگ بالکونی اور سامنے ٹریفک کے شور کے درمیان اسے انہماک میں دقت آئے گی، سوچ کر وہ آگے بڑھ جاتا۔کئی جگہ تو مکانوں کے باورچی خانے کو ہی کرائے کے کمروں میں تبدیل کر دیا گیا تھا اوراس کی الماریاں کتابوں کے لئے مخصوص کر دی گئی تھیں۔ بیچ کے حصے میں بمشکل ایک فولڈنگ بچھا کر باقی کمروں سے ذرا رعایتی کرائے پر اٹھا دئے گئے تھے۔ لڑکوں کے ایک ہوسٹل میں مکان کے وسیع ڈرائنگ روم کو لکڑی کے ریل کے ڈبے نما بکس بنا کر پورے ہال میں آدھا درجن بچوں کی رہائش کا انتظام کر دیا گیا تھا۔

آخر کار بھاری بھرکم گیٹ کے سامنے پراپرٹی ڈیلر نے اپنی اسکوٹر روکی۔یہ اس کی لسٹ کا آخری مکان تھا۔ویریندر کو ساتھ آنے کا اشارہ کر وہ گیٹ کے اندر گھس گیا۔سنگ مرمر کی سیڑھیاں اور فرش، لگتا تھا ابھی دھو پونچھ کر چمکائی گئی ہوں۔ روم چوتھی منزل پر تھا۔اور ہر منزل پر اوپر جانے کے لئے اسپرنگ لگے دروازے ، جو دونوں ہاتھوں سے زور سے ڈھکیلنے پر کھلتے اور آگے بڑھتے ہی کھٹاک کی آواز کے ساتھ مضبوطی سے پیچھے یوں بند ہو جاتے جیسے اب انہیں قیامت تک کوئی کھول نہیں سکے گا۔ہر بار کھٹاک کی آواز پر ویریندر چونک پڑتا مگر فوراً ہی پراپرٹی ڈیلر کے ساتھ آگے بڑھنے لگتا۔دن بھر کا تھکا ویریندر اوپر پہنچا تو اس کی سانسیں بے قابو ہو چکی تھیں۔ وہ ابھی سانس ٹھیک ہی کر رہا تھا کہ پراپرٹی ڈیلر نے دروازے پر دستک دی۔

اندر سے آواز آئی——کون ہے؟

ڈیلر—— میں —— پراپرٹی ڈیلر، روم دکھانا ہے۔

اندر سے ایک لحیم شحیم نوجوان نمودار ہوا۔ دراز قد کچھ یوں کہ سینہ اندر دبا ہوا اور پیٹ باہر نکلا ہوا۔ بال جھڑے ہوئے جس پر مصنوعی فصل لہراتی ہوئی۔ رنگ سانولا، آنکھیں چمکدار انداز والہانہ، آواز میں سرسراہٹ۔ دروازہ کھولتے ہی پراپرٹی ڈیلر کے چہرے پر ایک لمحے کو نظر پڑی اور فوراًپھسل کر ویریندر کے اوپر جم گئی جیسے وہاں پہنچ گئی ہو جہاں اسے پہنچنا چاہیے۔وہ فوراًسمجھ گیا کہ آگے کیا ہو گا۔

اب پراپرٹی ڈیلر اسے روم کی لمبائی چوڑائی ،ٹیبل کرسیوں ،بیڈ اور ریک کی تفصیل گنا کر فوراً اپنے کمیشن کی بات پر آ جائے گا۔

اس نے ایک سرسری نظر ویریندر پر ڈالی اور ویریندر کے ماتھے پر پھیلے بھورے گھنگھرالے بالوں کی نسبتاً دراز لٹوں کے پاس آ کر ٹھہر گئی۔اس نے غالباً یہ محسوس کر لیا تھا کہ یہ لڑکا گاؤں سے آیا ہے۔

ویریندر کی وجیہہ شخصیت پر اس کی دراز لٹیں چار چاند لگا رہی تھیں۔ گورا چٹا رنگ،بھوری آنکھوں کے قریب دن بھر دھوپ میں گھومنے سے تکان کے گہرے کالے سائے،اور برابر سے دانتوں کی قطاروں کے کنارے خوبصورت ہونٹوں کی پہرے داری، جو دھوپ گرمی، بھوک وپیاس کی وجہ سے خشک ہو گئے تھے مگر اس کی خوبصورتی میں اضافے کی صورت میں کھڑے مسکرا رہے تھے۔

ویریندر ذرا آگے بڑھا تو زبیر نے فوراً لپک کر اس سے ہاتھ ملاتے ہوئے کہا میں —— زبیر۔جواب میں ویریندر نے بھی اپنا نام لیا اور دونوں پراپرٹی ڈیلر کی طرف دیکھنے لگے۔

ڈیلر—— تومیں O.K.سمجھوں ؟

ویریندر نے زبیر کی طرف دیکھا۔ کالے موٹے مگر پر رونق زبیر کے ہونٹوں کی ہلکی سی مسکراہٹ میں اسے کچھ اپنا پن سا لگا۔ اس نے ہاں میں سر ہلا دیا۔ اب وہ الٹی سیدھی اوبڑ کھابڑ سڑکوں سے گزرتا ہوا اپنی منزل تک پہنچ گیا تھا۔

جب پراپرٹی ڈیلر چلا گیا تو ویریندر نے اطمینان کی سانس لی۔ کمرے کی چارپائی جس پر ایک گندی سی بادامی رنگ کی چادر جگہ جگہ سے مڑی تڑی بچھی تھی۔ وہ بیٹھ گیا اور سرسر ی نگاہوں سے پورے کمرے کا جائزہ لینے لگا۔ ویریندر کی وجاہت زبیر کو بھا رہی تھی۔

ویریندر حالانکہ اب تک کافی تھک چکا تھا۔ جگہ کی تنگی اور کتابوں کی ریل بیل دیکھ کر وہ حیران تھا۔جتنا بڑا ہاسٹل تھا اتنی زمین تواس کے گاؤں میں مکانوں کے کنارے بارش کا پانی گرنے کے لیے چھوڑ دی جاتی ہے۔ ویریندرسوچ رہا تھا کہ وہ اس کمرے میں کیسے رہے گا۔ کمرہ کیا تھا—— ٹرین کی ایک کیبن کہہ سکتے ہیں۔ ایک بڑے سے ہال میں لکڑی کے بنے کپارٹمنٹ۔محض دو بسترکی جگہ۔بستر سے بالکل سٹی ہوئی ٹیبل،مگر کرسیاں ندارد۔ کیونکہ بستراور ٹیبل کچھ اس قدر پاس رکھے ہوئے تھے کہ کرسیوں کی ضرورت ہی ختم ہو گئی تھی۔ ایک طرف دیوار میں بڑی سی الماری جس کے دونوں پٹ بیچ سے علاحدہ، دونوں طالب علموں کی سہولت کی خاطر صرف خانہ پُری کر دیے گئے تھے۔ باقی بچی دیواروں میں کتابوں کے ریکس بنے ہوئے تھے گویا دیوار کا کہیں نام و نشان نہیں تھا۔

 آپ کہاں کے رہنے والے ہیں ؟

زبیر: مظفر پور

اچھا آپ بھی یوپی کے ہی ہیں۔

نہیں بہار والے مظفر پور کی بات کر رہا ہوں۔

زبیر نے گفتگو کو طول نہ دیتے ہوئے کہا کہ اب آپ فریش ہو جائیے باقی باتیں بعد میں کر لیں گے۔

ویریندر——جی بہت اچھا۔

اس کی سفید شرٹ کالی ہو چکی تھی۔ اس نے اپنی شرٹ کی طرف دیکھا اور ذہن پر زور ڈالنے لگا کہ اس نے سامانوں میں تولیہ کہاں رکھا ہے۔ اسے اس طرح فکر مند دیکھ کر زبیر نے پوچھا——کیا ہوا؟

ویریندر——پتہ نہیں سامان میں تولیہ کہاں رکھا ہے۔ اتنا کہتے کہتے اس نے سامانوں کا ایک بنڈل کھولا۔اتفاق سے تولیہ اسی بنڈل میں تھا۔

ویریندر جب باتھ روم سے فریش ہو کر واپس لوٹا تو زبیر پیپر بچھا کر رات کے کھانے پر اس کا انتظار کر رہا تھا۔

ویریندر—— اتنی جلدی آپ نے کھانا بھی بنا لیا۔ میری وجہ سے آپ کو تکلیف ہو رہی ہے۔

زبیر——ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ بغل میں ہی ایک ریسٹورنٹ ہے ’’اپنی رسوئی‘‘ گھر پر منگوانے کی سہولت ہے وہیں سے فون پر آرڈر دے کر منگوایا ہے۔

ویریندر۔ یہی تو اچھا ہے شہر میں ہر چیز فوراً تیار مل جاتی ہے۔ کوئی تکلیف کیے بغیر۔ابھی گاؤں ہوتا تو گھنٹوں چولہا پھونکتے تب کہیں جا کر کھانا ملتا، پھر بھی اتنی چیزیں تو ممکن ہی نہ تھیں۔ اسی لیے تو مجھے گاؤں کبھی اچھا نہیں لگتا۔ شہر کی زندگی اچھی ہوتی ہے۔

زبیر—— لیکن شہر میں رہنے کے ہزار خرچے بھی ہوتے ہیں۔ بنا موٹی کمائی کے دلی جیسے شہر میں رہنا ممکن نہیں ہے۔

ویریندر—— ہاں یہ بات آپ صحیح کہہ رہے ہیں۔ مگر سال دوسال کی بات ہے۔ ایشور کرے گا تو کچھ کر ہی لیں گے۔ (زبیر کو ویریندر کا کانفیڈنس اچھا لگ رہا تھا۔)

ہاں ٹھیک ہے مگر U.P.S.C.بھی——اتنا کہہ کر وہ رک گیا۔ اس نے سوچا کہ ابھی نیا نیا آیا ہے اس کو سچائی بتا کر دل شکنی نہیں کرنی چاہیے۔

٭٭٭

زبیر کو دلی میں رہتے ہوئے تین سال ہو چکے تھے۔ اب تک اسے U.P.S.C. کی باریکیوں سے واقفیت ہو گئی تھی۔ وہ سمجھ گیا تھا کہ U.P.S.C.کی تیاری کرنا تو آسان ہے مگر ٹارگیٹ پا لینا ایک بالکل الگ شئے ہے۔ مسابقتی امتحانات کے لیے ایک خاص طرح کی صلاحیت ضروری ہے اس کے بغیر ان امتحانات میں کامیابی ملنی ناممکن سی بات ہے۔ زبیر نے ویریندر کا بیک گراونڈ جاننے کے ارادے سے اس سے تھوڑا ڈیٹیل میں جاننا چاہا۔ اس نے پوچھا آپ نے پہلے بھی کبھی کو چنگ وغیرہ کی ہے یا P.T.وغیرہ دیا ہے۔

ویریندر۔ نہیں۔ ایک بار الہ آباد میں داخلہ لیا تھا اور کچھ دن کیا بھی مگر والد صاحب چاہتے تھے کہ میں ایم اے مکمل کر کے دلی آ جاؤں اور یہاں بہتر کوچنگ وگائڈنس کے ساتھ آگے بڑھوں تاکہ تیر ٹھیک نشانے پر لگے۔

زبیر——ایم اے میں کیا مضمون لیا تھا؟

ویریندر—— انگریزی لٹریچر میں ایم اے کیا ہے۔ مگر پہلے دور کے امتحان کے لیے ہسٹری کا انتخاب زیادہ مناسب لگا اس لیے ہسٹری اور ہندی لٹریچر کو Mainsکے لیے طے کر لیا ہے۔ میرا انتخاب ٹھیک ہے؟

زبیر—— کوئی بھی سبجیکٹ اہم یا غیر اہم نہیں ہوتا۔ اہم یہ ہے کہ آپ کتنا اچھا پرفارمینس دے پاتے ہیں۔ یہاں جب تک آپ رزلٹ اچھا نہیں لاتے تب تک آپ کتنا ہی پڑھتے ہوں۔ کوئی ماننے کو بالکل تیار نہیں ہوتا کہ آپ پڑھتے ہیں۔ لیکن کبھی ایسا بھی ہوتا ہے تمام محنت اور بہتر پرفارمینس کے باوجود بھی قسمت مات دے دیتی ہے۔(ایک گہری سانس لے کر)بس جو جیتا وہی سکندر۔

ویریندر کو بات چیت میں کافی مزہ آ رہا تھا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ جب محنت کروں گا تو رزلٹ کیسے نہیں آئے گا۔ (اطمینان کی سانس لے کر ) دیکھتے ہیں۔۔۔۔۔۔

رات کو جب کھانے کے بعد ویریندر سو گیا تو زبیر کافی دیر تک سوچتا رہا کہ اسے آگے کیا کرنا ہے کیونکہ اب اس کا آخری موقعہ تھا اور اب وہ کیا کرے گا اسے طے کر لینا نہایت ضروری ہو گیا تھا۔

نیند زبیر سے کو سوں دور تھی اس نے اٹھ کر لائٹ آن کر دیا۔ ویریندر گہری نیند میں سکون سے سورہا تھا۔مستقبل کی آنے والی ہر پریشانی اس کے چہرے کے سکون پر حیران ہو کر بغلیں جھانک رہی تھی۔ زبیر نے اس کے پرسکون چہرے کی طرف نظر دوڑائی تو اچانک اس کے لبوں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ اسے ویریندر بالکل اس بچے کی طرح معصوم لگا جس نے ابھی ابھی دنیا میں قدم رکھا ہو۔ اور ہر طرف خوشیوں کے ہجوم میں گھر ا مسکرا رہا ہو۔

زبیر نے سوچا اس سکون کو U.P.S.C.کی نظر لگ چکی ہے۔ اب آئے ہو اس  Competitionکی دنیا میں تو ابھی آگے اور بھی مرحلے آئیں گے۔ دیگر مراحل کے ساتھ اس سکون کو گرل فرینڈ کی ناراضگی اور تنک مزاجی اور سرخی دے گی اور پھر شروع ہو گا فون کا سلسلہ، پھر راتوں کو جاگنا اور پھر گرل فرینڈ کی Messageکے ذریعے مزاج پرُسی کا دور چلے گا۔ پھر بات وعدوں ارادوں تک پہنچے گی اور تب تک اس چہرے کی ساری رونق اور سکون اس کے Attemptکے گزرنے کے ساتھ ہی دفع ہو جائے گی اور بعد میں آنکھ کھلنے کے بعد پتہ چلے گا کہ کچھ نہ جانا ہم نے۔

زبیر کو یاد آ رہا تھا کہ جب کہ وہ پٹنہ سے چلا تھا تو اس نے اپنی خالہ زاد سے کہا تھا کہ آئی اے ایس کے لیے اٹیمٹ لے گا، نہیں ہو گا تو کوئی بات نہیں ،ایم اے اور ایم فل کر کے ریسرچ کرے گا اور لکچر ر بن جائے گا یا میڈیا وغیرہ میں چلا جائے گا۔ اور اس طرح محنت اور پیسہ رائگاں نہیں جائے گا۔

اور آج ساڑھے تین سال بعد وہ سوچ رہا تھا کہ یہ سب کچھ کیسے ہوا، کیونکر ہوا، کہ وہ ایک لاش بن کر رہ گیا ہے۔

٭٭٭

دوسرے دن صبح آٹھ بجے ویریندر کوچنگ انسٹی ٹیوٹ پہنچا تو ڈائرکٹر صاحب آ چکے تھے۔ اس نے ریسپشن پر جا کر ان سے ملنے کی پر میشن لی اور ان کے کیبن میں داخل ہو گیا۔

ڈائرکٹر——ہاں بتایئے۔

ویریندر—— سرمیں ذرا کلاسس اور فیس وغیرہ کے بارے میں جانکاری چاہتا ہوں۔

ڈائرکٹر ——(پوری توجہ اور پیارسے) آپ کو داخلہ کس کس کلاس میں چاہیے؟ مطلب آپ صرف اختیاری مضمون پڑھنا چاہتے ہیں یاG.S.میں بھی گائڈنس کی ضرورت ہے۔

ویریندر—— میں دونوں میں ہی داخلہ چاہتا ہوں۔ دراصل میں ابھی ابھی آیا ہوں اور چاہتا ہوں کہ Competitionکی ٹریک کو ایک بار اچھی طرح پکڑ لوں۔ آپ کی رائے میں کیا مناسب رہے گا۔

ڈائرکٹر —— اگر آپ اپنی تیاری میں ایک فکس ٹریک اپنائیں گے تو امتحان پاس کرنا زیادہ آسان ہو گا۔ ہمارے یہاں کوچنگ کے نتیجے بہت اچھے آتے ہیں اور بہت سے Studentایسے بھی Qualify کرتے ہیں جنہوں نے ابھی پہلی بار ہی Joinکیا ہے۔ یہ سب مناسب وسٹیک ٹریک کا ہی ایک گیم ہے۔ اگر آپ نے اپنے پلان کو پوری مستعدی اور لگن سے جاری رکھا تو آپ کے لیے اس امتحان کو نکالنا قدرے آسان ہو جائے گا۔ لیکن اگر آپ نے مناسب ٹریک پکڑے بنا ہی پڑھائی شروع کی تو آپ ودّوان بھلے ہی بن جائیں مگر Beurocrateبالکل نہیں بن سکتے۔

آپ کوئی ریسرچ اسکالر تو بننے آئے نہیں ہیں۔ آپ کو صرف اپنی ضرورت بھر ہی کتابوں کی اسٹڈی کرنی ہے جتنے میں آپ امتحان کے سوالات حل کرسکیں۔

ویریندر۔ سر میں چاہتا ہوں کہ آپ کی پوری گائڈنس لوں ( تھوڑا سا رک کر) اور فیس وغیرہ کس طرح جمع کرنا ہے۔

ڈائرکٹر —— دیکھئے ویریندر صاحب ہم کوئی پروفیشنل تو ہیں نہیں کہ ہم اپنے فائدے پر نظر رکھیں۔ ہمارا مقصد صرف Studentکی زیادہ سے زیادہ بھلائی کرنا اور انھیں افسر بننے میں پوری مدد کرنا ہے۔ کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ آپ کے سامنے ابھی پوری زندگی ہے۔ آج اگر ایک بھی دن آپ کا ضائع ہوا تو آگے مشکل ہو جائے گی۔ ہم آپ کے پیسے اور وقت دونوں کی فکر کرتے ہیں۔

ویریندر—— سر اگر با لکل صحیح حکمت عملی اختیار کروں تو زیادہ سے زیادہ کتنے وقت میں اس امتحان کو پاس کر سکتا ہوں۔

ڈائرکٹر—— صرف ایک سال چاہئے اس امتحان کی تیاری پر کمانڈ حاصل کرنے کے لیے۔لیکن اس کے لیے Studentکا بیک گراؤنڈ بھی دیکھنا پڑتا ہے کیونکہ اگر مضمون کیStudyپہلے سے نہیں ہے تو بہت ذہین طلباء کو بھی دوسرے مرحلے تک انتظار کرنا پڑسکتا ہے۔ لیکن ہم یہ بالکل نہیں چاہتے کہ Mis-guided کنڈیڈیٹس کی طرح جو بہت محنت بھی کرتے ہیں اور ذہین بھی ہوتے ہیں لیکن تیسری اور چوتھی کوشش کے بارے میں سوچتے ہیں۔ اس طرح ہمارے students سوچیں۔ ورنہ یہاں ہمیں یہ دیکھ کر بہت افسوس ہوتا ہے کہ بہت سے Studentصرف اچھی گائڈنس کی کمی کی وجہ سے اس میں تین تین چار چار سال گنوا دیتے ہیں۔ (ریسٹ چیر پر سیدھے بیٹھتے ہوئے) مجھے آپ ذرا یہ بتایئے کہ آپ کا بیک گراونڈ کیا ہے؟

ویریندر—— سر میں نے فلسفہ اور انگریزی لڑیچر سے بی اے کیا ہے لیکن میں نے اپنے سنیئروں سے سنا ہے کہ تاریخ کے ساتھ پہلے دور کا امتحان پاس کرنا ذرا آسان ہوتا ہے۔ اس لیے پہلے دور کے امتحان کے لیے میں نے تاریخ کے موضوع کا انتخاب کیا ہے۔

ڈائرکٹر——بالکل ٹھیک۔کیا پڑھنا ہے اسے جاننے سے سے پہلے یہ جاننا زیادہ ضروری ہے کہ کیا نہیں پڑھنا ہے۔ صحیح کتابوں کا انتخاب اور صحیح گائڈنس اس امتحان کے لئے اشد ضروری ہے کیونکہ کتابوں کا بازار طلباء کو گمراہ کر دیتا ہے۔ اسی لئے ہم دن رات ایک کر اپنے بچوں کی خاطر محنت کرتے ہیں۔ کوئی بھی مضمون بڑا یا چھوٹا، آسان یا مشکل نہیں ہوتا۔ دیکھنا صرف یہ ہوتا ہے کہ آپ کی ان مضامین پر گرفت کتنی اچھی ہے۔ محنت سبھی میں کرنی ہو گی جس میں ہم دن رات آپ کی مدد کریں گے کیونکہ صحیح ٹریک پر لے جانے کی ذمے داری ہماری ہے (مشفقانہ توجہ کے ساتھ) اس میں کبھی کوئی کمی نہیں آئے گی۔ آپ کسی بھی وقت Institute آ کر یا فون سے بھی مجھ سے مشورہ کر سکتے ہیں۔ کسی بھی موضوع پر ڈسکشن کر سکتے ہیں۔ By the way آپ کے پاپا کیا کرتے ہیں ؟

(ویریندر آمدنی کے بارے میں صحیح جانکاری نہیں دینا چاہتا ہے) یہ سوچ کر کچھ رکتے ہوئے بولا—— میرے پاپا کسان ہیں۔

ڈائرکٹر—— اچھا—— آپ کی پڑھائی کا خرچہ کیسے دیں گے؟

ویریندر—— کھیتی ہے اور اسی سے دیں گے۔

ڈائرکٹر۔ فیس کی تفصیل آپ کو مل گئی ہے؟

ویریندر۔ جی سر۔

(ذرا جھجکتے ہوئے ویریندر نے اپنی بات رکھی)

ویریندر۔ سر، ریسپشن سے پتہ چلا ہے کہ آپ کی کوچنگ میں کچھ رعائتی آفر بھی ہیں۔

ڈائرکٹر—— یس۔ دیکھئے—— ویسے تو ہم پہلے ہی بچوں سے زیادہ پیسے نہیں لیتے۔ اس مارکیٹ میں سب سے زیادہ رعایت پر کلاس صرف ہمارے ہی یہاں ہوتی ہے۔ لیکن اگر کوئی ایسی بات ہے تو ہم بعد میں اس پر بات کر لیں گے۔آپ یہ بتائیے کہ آپ کتنی قسطوں میں فیس جمع کر سکتے ہیں۔

ویریندر—— سر۔ ایک دو دن میں آپ کو بتا دونگا۔

ڈائرکٹر صاحب——ٹھیک ہے۔ It’s OK. Go ahead.

ڈائرکٹر صاحب نے کال بیل کی گھنٹی بجا دی۔

٭٭٭

ویریندر آج پہلے دن کلاس میں گیا۔ اسے بہت اچھا لگ رہا تھا۔ اتنے اچھے اچھے ٹیچروں اور Studentsکے بیچ وہ خود کو خوش نصیب محسوس کر رہا تھا کہ گاؤں سے اٹھ کر یہاں تک آیا ہے۔ اور جب وہ I.A.S.بن کر اپنے گاؤں لوٹے گا تو بابوجی کتنا خوش ہوں گے۔ اماں ہوتیں تو ضرور اس موقعے پر منتیں اتارنے غازی میاں کے میلے میں  جاتیں۔ دیدی تو  اتنی بلائیں لیں گی کہ میرا سر جھکائے جھکائے تھک جائے گا۔ پھر ایک خوبصورت گوری پتلی سی دلہن جو میرے نام کا منگل سوتر گلے میں پہن کر روز میرے بنگلے کے لان میں میرے ساتھ Badmintonکھیلے گی۔ دو خوبصورت گول مٹول بچے، شہر کے سب سے مہنگے اسکول میں ، اسکول بس سے پڑھنے جائیں گے۔

اتنے میں بغل سے ایک لڑکی کی آواز پر وہ چونک پڑا۔

وہ حیران ہو کر ادھر دیکھنے لگا۔ لڑکی نے آہستہ سے پوچھا (بغل والی سیٹ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے )یہاں کوئی بیٹھا ہے ؟

ویریندر۔نہیں خالی ہے۔

لڑکی نے اپنا بیگ رکھا اور(بالکل بے رخی کے انداز میں ) بیگ سے کاپی نکال کر کچھ لکھی ہوئی تحریریں جیسے دہرانے سی لگی۔

ویریندر نے دل میں سوچا  لگتا ہے بہت اچھی ہے پڑھنے میں۔ اس نے ضرور کئی Mainsلکھے ہوں گے۔

ابھی وہ کچھ بولنے کی ہمت جٹا ہی رہا تھا کہ کلاس میں روی سر آ گئے اور سبھی بچے کوئی آدھا تو کوئی پورا۔اپنی اپنی کرسی چھوڑ کھڑے ہوئے اور فوراً بیٹھ گئے۔

آج پہلی کلاس تعارفی تھی۔ سب نے اپنی جگہ کھڑے ہو کر اپنا مختصر تعارف کرایا۔ پوری کلاس میں تقریباً ڈیڑھ سو کے قریب لڑکے لڑکیاں تھیں۔جن میں پرانے بھی تھے جو دیواروں کے کنارے کھڑے تھے کیونکہ نئے طلباء سے کلاس روم کی ساری کرسیاں بھری ہوئی تھیں۔ تقریباً پندرہ کے قریب لڑکیاں آگے کی مخصوص صف میں بیٹھی ہوئی تھیں۔ ویریندر اس لڑکی کی باری آنے کا انتظار ہی کرتا رہا۔اس کو بعد میں معلوم ہوا کہ یہ تعارفی کلاس صرف نئے طلباء کے لیے تھی۔

ویریندر روز کلاس کے بعد زبیر سے ڈسکشن کرتا اور اپنا ٹسٹ پیپر بہت اچھے سے تیار کر کے دیتا۔ اس کے اچھے پر فارمینس پر سر بھی کافی خوش رہتے۔ پورے سال ویریندر نے کڑی محنت اور لگن سے پڑھائی کی اور پہلے دور کے امتحان سے پہلے اس نے کوچنگ میں Test Serizeبھی جوائن کیا۔ اب کلاس کے Top 10میں اس کا نام آنے لگا۔ وہ بھی اپنی تیاریوں اور نتیجوں سے کافی مطمئن تھا۔ روز صبح پوجا کرنے کے بعد ہی وہ کچھ منھ میں ڈالتا اور پوری محنت و لگن سے اپنی منزل کی طرف رواں دواں رہتا۔

٭٭٭

زبیر کے والد مظفر پور کے رام دیالوسنگھ کالج میں Adhocٹیچر تھے۔قلیل آمدنی بچوں کی بہترین پرورش میں مخل ثابت ہو رہی تھی۔سات بھائی بہنوں میں زبیر چوتھے نمبر پر تھا۔ زبیر کی پیدائش تک اس کی والدہ زبیدہ بیگم بچوں کی پرورش اپنی مرضی کے مطابق نہیں کر سکی تھیں۔

زبیر بچپن سے ہی بہت ذہین تھا۔ والدہ نے بیٹے کی اچھی پرورش کی غرض سے زبیر کو اپنی چھوٹی بہن شمشیدہ جس کے شوہر پٹنہ سے تقریباًسوکلومیٹرواقع باج پٹی میں کانسٹیبل تھے، کے پاس بھیج دیا تھا۔ زبیر کی پوری پڑھائی پٹنہ یونیورسٹی سے ہوئی تھی۔ایم اے Economic میں اس نے گولڈ میڈل حاصل کیا تھا جب ایک پولس فائرنگ میں زبیر کے خالو کا اچانک انتقال ہو گیا تو گھر کی حالت افسوسناک ہو گئی اور زبیر خالہ کی مدد کے طور پر ان کی بیٹی سے نکاح کر کے دلی تیاری کرنے چلا آیا تھا۔ تب سے اب تک ایک لمبا عرصہ گزر چکا تھا۔ کبھی کبھار خالہ سے فون پر بات کرنے کے علاوہ وہ پٹنہ کبھی گیا بھی نہیں۔

دراصل کو چنگ، پڑھائی اور امتحانوں کے لگاتار چلنے والے سلسلے کے علاوہ وہ اپنے خرچ کے لیے بچوں کو ٹیوشن بھی پڑھاتا تھا۔ پیسے کی تنگی کی وجہ سے وہ کبھی چاہ کر بھی فون پر لمبی بات نہیں کر پاتا تھا۔ اور اب اتنے سالوں میں اس کی عادت بھی پڑ چکی تھی خانہ بدوش زندگی کی۔

زبیر کو Mainsلکھتے ہوئے یہ چوتھی کوشش تھی۔ ہر بار وہ دوسرے دور کا امتحان پاس کر کے انٹرویو میں شریک ہوتا مگر انٹرویو میں چھٹ جاتا۔ وہ بار بار خود کو دہرا کر اپنی کمیاں پکڑنے کی کوشش کرتا مگر اس کو کچھ سمجھ میں نہ آتا کہ کمی کہاں رہ جاتی ہے۔

اس بار بھی زبیر مینس لکھ رہا تھا۔ اس نے تاریخ کے ساتھ دوسرا Option انتھروپولوجی لے لیا تھا اس لیے اسے کچھ زیادہ محنت کرنی پڑ رہی تھی۔

ایک دن اس کے دوست امت نے بتایا کہ ودّیا کوچنگ کے منیجر کو ایک History کے ٹیچر کی ضرورت ہے۔ چونکہ زبیر شروع سے ہی Brilliantطالب علم کے ساتھ ہی ایک بہت اچھا Speakerبھی تھا اس لیے اسے کوشش کرنی چاہئے اور ویسے بھی یہ اس کی آخری  کوشش تھی۔

امت کی بات، ایک بار تو سن کر زبیر نے ہوا میں اڑا دیا۔ کیوں کہ اس کو پورا یقین تھا کہ اگر By the wayاس نے U.P.S.C.نہیں نکالا تو Statesتو اس کے چٹکیوں کا تماشہ ہے۔ وہ ایک ہی بار میں کہیں نہ کہیں سیٹ ہو جائے گا۔ اور وہ غلط بھی نہیں تھا مگر قسمت کے آگے کبھی کبھی تدبیروں کو بھی شرمندہ ہونا پڑتا ہے۔

وہ صبح سے بیٹھا نوٹس بنا رہا تھا کہ ویریندر کمرے میں داخل ہوا۔ اس کا چہرہ اترا ہوا اور آنکھیں سرخ ہو رہی تھیں زبیر نے ایک نظر ویریندر کی طرف ڈالی تو ذرا رک گیا (پڑھنا روک کر)کیا ہوا ویریندر؟

ویریندر—— (چہرے پر ہنسی کا جھوٹا رنگ چڑھاتے ہوئے) کچھ تو نہیں۔

زبیر۔ تم مجھ سے کچھ چھپا نہیں سکتے۔ تمہارا چہرہ آئنے کی طرح تمہارے دل کی کیفیت بیان کر رہا ہے۔

(زبیر کو ویریندر سے چھوٹے بھائی جیسا لگاؤ ہو گیا تھا اور ویریندر اس کی دل سے عزت کرتا تھا) ویریندر کھانے کی پلیٹ چھوڑ کر زبیر کے قریب آگیا۔

زبیر نے اس کو اپنے پاس بٹھا لیا اور محبت سے پوچھا۔ اب بتا بھی دو۔

ویریندر——زبیر بھائی۔۔۔۔۔انسٹی ٹیوٹ کے نوٹس بورڈ پرمیرا نام بھی فیس کی ساری قسطیں نہ جمع کرنے والوں کی لسٹ میں لگا دیا گیا ہے۔ جبکہ شرط کے مطابق تو ابھی صرف پہلے دور کی کوچنگ کا پیسہ ہی جمع کرنا تھا، اور اسے میں جمع کرا چکا ہوں۔ پھر دوسرے دور کے امتحان کی کلاس تو دو مہینے بعد شروع ہو گی اور اسی وقت اس کی قسط دینی تھی۔ میں جب ریسپشن پراس سے متعلق بات کرنے گیا تو اس نے انتہائی بے رخی سے گفتگو کی——————!

زبیر(بات کاٹتے ہوئے):————! تو تم اس لیے پریشان ہو————! ارے یار، لگانے دو ان کو نام نوٹس بورڈ پر۔ داخلے کے وقت یہ لوگ بڑی بڑی باتیں کرتے ہیں مگر داخلہ ہو جانے کے بعد پھر دباؤ بنانا شروع کرتے ہیں اور پہلے دور کی کوچنگ کے درمیان میں ہی سارا پیسہ جمع کروا لیتے ہیں تاکہ آپ ان کی لاپرواہیوں سے تنگ آ کر کسی دوسرے انسٹی ٹیوٹ کا رخ نہ کر لیں ———— مگر تم فکر مت کرو۔ میں جیسا کہتا ہوں ویسا ہی کرو۔ دونوں دور کی کوچنگ کا پیسہ ایک ساتھ جمع مت کرتا۔

ویریندر——میری کلاس پر تو کوئی برا اثر نہیں پڑے گا؟

زبیر——یہ ابھی کچھ نہیں کرسکتے———— ہاں ———— ابھی پورا پیسہ مل جائے گا تو تمہاری پڑھائی ضرور متاثر ہو گی———— اتنی جلدی کورس ختم کر دیں گے کہ تم سوچتے ہی رہ جاؤ گے۔ بس تم اپنی پڑھائی پر دھیان دو۔ ان چھوٹی چھوٹی مشکلوں کی وجہ سے اپنا وقت برباد مت کرو۔

(زبیر لکھنا چھوڑ ویریندر کے ساتھ دسترخوان پر آ چکا تھا)

   ٭٭٭

کوچنگ جوائن کرنے کے بعد ویریندر کے شب و روز ایک مخصوص دائرے میں گھومنے لگے تھے۔ صبح پانچ بجے اٹھتا اور آٹھ سے بارہ بجے تک کلاس کر کے بارہ بجے روم پر واپس آتا اور پھر دوپہر کا کھانا کھا کر سو جاتا۔ جب آنکھ کھلتی تو گھڑی کی سوئی تین پر پہنچ چکی ہوتی۔ اٹھ کر ہاتھ منھ دھونے کے بعد وہ شام کی .G.Sکی کلاس کے لیے پڑھنے بیٹھ جاتا تاکہ کلاس میں جب موضوعات Discuss ہوں تو وہ پوری طرح استاد کے لکچر کے ساتھ چل سکے۔ اور پھر چھ بجے نہا دھو کر دوبارہ کلاس پہنچتا تو رات میں نو بجے کلاس چھوٹتی۔ کلاس سے نکلنے کے بعد رات کی سبزی خرید کر روم پر واپس آتا۔ تب تک کک آ چکی ہوتی تھی۔ تھوڑا آرام کر کے وہ رات کے کھانے سے فرصت پا کر پھر پڑھنے بیٹھ جاتا۔ کبھی کبھی جب وہ بہت تھک جاتا تو ان چائے خانوں میں پہنچ جاتا جہاں اس کے اکّے دکّے دوست مل جاتے۔ لیکن زیادہ تر اس کا ذہن کتابوں میں ہی گھسا رہتا۔ وہاں دوستوں کے درمیان بیٹھے ہوئے اکثر اس کو دلی شہر کی سفید پنڈلیوں و چکنی جلدوں والی الف لیلوی داستانیں سننے کو ملتیں جن کا ذکر وہ بڑے ذوق و شوق سے کرتے تھے۔ لیکن کبھی اس کی طرف رغبت نہیں ہوتی۔ اس کے نزدیک تو اس مقصد کو پورا کرنا ہی زندگی کی سب سے بڑی بات تھی جس کے لیے وہ یہاں آیا تھا۔ اسے اپنے کمرے پرواپس لوٹنے اور کتابوں کی ورق گردانی میں ہی سکون ملتا۔

لے دے کے اگر کسی Studentمیں اس کی کچھ دلچسپی تھی تو وہ تھی نشا جو بہت ذہین اور پڑھائی کے بارے میں Seriousتھی اور وہ رفتہ رفتہ ویریندر کے لیے Idealبنتی جا رہی تھی۔ وہ اس کے قریب جانا چاہتا تھا لیکن اس کے لیے کلاس میں اچھا پر فارمینس دے کر خود کواس کی دوستی کے لائق بنانا ضروری تھا۔

علی گڑھ کی رہنے والی نشا کے والد ریونیو بورڈ میں ایک اعلی عہدے پر فائز تھے۔انھوں نے اپنے پانچوں بچوں کی تعلیم و تربیت میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی تھی۔ سب سے بڑا بیٹا ایک سڑک حادثے کا شکار ہو کر اللہ کو پیارا ہو گیا باقی چاروں میں دو بیٹی اور دوب یٹے تھے۔

ان میں سب سے چھوٹی اور پاپا کی لاڈلی نشا کافی ذہین اور ہمیشہ باپ کی طرح اونچے خواب دیکھنے اور عمل کے ذریعے انھیں سچ کرنے کی عادی تھی۔ اس نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے بی ایس سی امتیاز کے ساتھ پاس کیا تھا۔والدین کی خوشی کے مطابق U.P.S.C.کی تیاری کرنے دلی آ گئی تھی۔ حالانکہ وہ شروع سے ہی ڈاکٹر بننے کی خواہشمند تھی مگر چونکہ والدین اسے ایک I.A.S.آفیسر کے رتبے کے لائق سمجھتے تھے اس لیے اس نے قسمت آزمانے کی ٹھان لی تھی۔وہ زیادہ تر خود کو لیے دیے رہتی تھی۔ اس نے دوسرے دور کے کئی امتحان دیے تھے اور اس بار بھی وہ جم کر پڑھائی کر رہی تھی۔ ویریندر بھی نشا سے حوصلہ افزائی حاصل کرتا اور رات دن کتابوں میں کھویا رہتا۔

اس طرح اس نے اپنے لیے ایک پر سکون اور چھوٹی سی ایسی دنیا بنا لی تھی جس میں مطالعے کے جنون کے سوا اور کچھ نہیں تھا۔ کبھی کبھی زبیر اس سے انتہائی سر پرستانہ انداز میں باتیں کرنے لگتا اور مقابلے کی تیاریوں کے بارے میں اپنے تجربات بتاتا تو وہ اسے بہت غور سے سنتا تھا۔ اسی درمیان زبیر کبھی کبھی اس سے چھوٹی موٹی تفریح کی باتیں بھی کر لیتا تھا۔ کہیں سے بھی اس کے ذہن میں کسی طرح کا کوئی تناؤ نہیں تھا۔ لیکن کبھی کبھی تناؤ ان دنوں ضرور پیدا ہو جاتا جب گھر سے پیسہ آنے میں کسی وجہ سے دیر ہو جاتی۔ کیونکہ مکان کا کرایہ وقت پر نہیں دینے پر مالک مکان اپنی پریشان کن کاروائیوں اور تیور کو دکھانے میں ذرا بھی نہیں چوکتا۔

تیسرے مہینے میں ایسا ہی ہوا جب وہ مطالعے کے دوران یہ بھی بھول گیا تھا کہ تاریخ کون سی ہے اور کمرے کے اندر تو وہ ایسے لیٹا ہوا تھا جیسے یہ اس کا اپنا ہی گھر ہو۔ اس نے Politicsکی کتاب آج رات مکمل ریویزن کرنے کے لیے مستعد ہو کر ورق گردانی شروع ہی کی تھی اور ایک ایک لفظ کے معنی میں داخل ہو کر مختلف ابواب کو کھنگالتا جا رہا تھا کہ اچانک دروازے پر دستک ہوئی اس نے دروازہ کھولا تو سامنے مالک مکان کھڑا تھا۔ چہرہ سخت ، نگاہیں کاٹنے والی اور ذہن کو جھنجھنا دینے والے خشک اور بازاری لہجے میں اس نے سیدھے کہا۔

مالک مکان—— آج پانچ تاریخ ہو گئی اور یہ کہہ کر وہ ویریندر کو سر سے پاؤں تک ایسے دیکھنے لگا جیسے اس نے کوئی بہت بڑی خطا کر ڈالی ہو۔

ویریندر —— گھر سے ابھی پیسہ آیا نہیں ہے۔ اس لیے۔۔۔

مالک مکان——مجھے اس سے کیا مطلب، پیسہ تو وقت سے دینا ہوتا ہے۔

ویریندر ——دوچار دنوں میں آتے ہی میں دے دوں گا۔

مالک مکان—— ایسے تھوڑی چلتا ہے۔مجھے بھی آگے ہزار خرچے ہوتے ہیں۔

(یہ کہہ کر مالک مکان گھورتے ہوئے اسے دیکھتا رہا اور وہ خاموش کھڑا رہا۔ دروازے کے پٹ کھلے رہے۔

مالک مکان—— میں کل آؤں گا۔ یہ کہہ کر وہ آنکھ دکھاتا چلا گیا۔

ویریندر نے بہت بے دلی سے دروازہ بند کیا اور دھم سے بستر پر آ گرا۔ اس کے ذہن کا سارا انہماک بری طرح چکنا چور ہو چکا تھا۔ دوبارہ کتاب کے اندر وہ کافی دیر تک داخل نہیں ہو پایا۔

اسے محسوس ہوا کہ پڑھائی کے علاوہ ان سب معاملات کو بھی ذہن میں مسلسل رکھنا ضروری تھا۔

اس نے گھر پر فون ملایا۔

چھوٹے بھائی نے ویریندر کو یقین دلایا کہ وہ جلد از جلد پیسہ بھیج دیں گے۔ اس بار گھر پر زیادہ پیسہ خرچ ہو گیا تھا اس لیے اس کا پیسہ آنے میں تھوڑی دیر ہو گئی۔ دیرسویر ہی سہی مگر پیسہ جائے گا ضرور۔

 ویریندر ان کو بالکل نہیں بتا پایا کہ دلی جیسے شہر میں یہ کوئی نہیں پہچانتا کہ وہ کس کا بیٹا ہے اور وہ کرائے دار مکان مالک کو اس بات پر مطمئن نہیں کر پائے گا کہ دیر سویر پیسہ آ ہی جائے گا کیونکہ وہ ایک با عزت اور صاحب حیثیت خاندان کا فرد ہے۔ اس نے تذبذب کے عالم میں بے بسی کے ساتھ ٹیلی فون پر بات ختم کر دی۔

مالک مکان کل ہی دروازے پر آ کر کھڑا ہو جائے گا اور پھر نہ جانے کیا کیا کرے گا۔ یہ خیال بار بار ویریندر کے ذہن میں اس طرح چھا جاتا تھا کہ وہ اپنا دھیان پڑھائی میں نہیں لگا پا رہا تھا۔ آج کلاس میں بھی لکچر سنتے سنتے وہ اسی طرف کھو گیا تھا۔ ادھر امتحان کے لیے اتنا پڑھنا تھا کہ ایک ایک لمحہ قیمتی تھا۔ چائے کی دکان پر چائے پیتے ہوئے اسے خیال آیا کہ وہ زبیر سے ادھار لے لے۔ پانچ دس دن کی ہی تو بات ہے۔ جب تک یہ دن ضائع ہونے سے بچ جائیں گے۔

چونکہ کرایہ دونوں کو پیسے اکٹھا کر کے دینا تھا اس لیے ویریندر زیادہ دن ٹال بھی نہیں سکتا تھا۔ آج جب شام میں زبیر روم پر آیا اور ویریندر سے باقی کرایہ دینے کی بات کی تو ویریندر بالکل سنجیدہ ہو گیا۔

زبیر۔ ارے یار کرایہ بھی دینا ہے۔ نہیں تو مکان مالک مانگنے آ جائے گا۔

ویریندر۔ زبیر بھائی کسی وجہ سے میرا پیسہ ابھی آنے میں ہفتہ بھر لگ جائیں گے۔

زبیر۔ اچھا (جیب سے سوسو کے کچھ نوٹ نکالتے ہوئے) ارے یار میرے پاس بھی اتفاق سے پورے پیسے نہیں ہیں۔ نہیں تو میں ہی پورا کرایہ دے دیتا۔

ویریندر کو کئی دنوں سے کچھ ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ اس قدر انہماک کی پڑھائی کو زبیر کچھ عجیب نظر سے دیکھ رہا تھا۔ اسے یقین تو نہیں آ رہا تھا لیکن اس کے دل میں یہ خیال آ رہا تھا کہ شاید اس کی پڑھائی اور ذہانت کو دیکھ کر زبیر کے دل میں یہ بات آنے لگی تھی کہ کہیں ایسانہ ہو کہ نیا آیا ہوا لڑکا کامیاب ہو جائے اور میں پھر رہ جاؤ ں۔ ویریندر نے اپنے دل میں ٹھان لیا کہ اب وہ زبیر سے بھی پیسے کی بات نہیں کرے گا۔ اور صرف نشا سے جو اس کی دوست ہے مدد مانگے گا۔

یہ بات پتہ نہیں کیسے مشہور ہو گئی تھی کہ نشا نے بال کٹنگ کروائی تھی اس کے اس نے تین ہزار روپئے دیے تھے۔ جس کو بھی یہ بات معلوم ہوتی تھی وہ نشا کے پیٹھ پر ڈھلتے ہوئے سیدھے بالوں کو غور سے دیکھنے لگتا۔ نشا دراصل ایک انجینئر کی بیٹی تھی۔ یہ الگ بات تھی کہ ایک انجینئر کے پاس بھی اتنے پیسے کہاں سے آتے تھے۔ اس کے پاس ایک مہینے میں دس دس ہزار روپئے آتے تھے یہ بات ویریندر کو کسی طرح معلوم تھی۔ ویریندر نے سوچا کہ آج پتہ نہیں نشا کے موڈ میں کیا آیا تھا کہ وہ خود اسے پیزا کھلانے اپنے ساتھ لے گئی تھی۔ ویریندر کی پرسنالٹی تو اسے یقیناً پسندتھی لیکن جب تک اس نے اپنی ذہانت کا ثبوت نہیں دیا تھا تب تک نشا نے اسے لفٹ نہیں دیا تھا۔ پیزا کھاتے ہوئے نشانے اتفاق سے خود ہی پوچھ لیا تھا کہ تم آج کلاس میں بہت کھوئے کھوئے سے نظرآ رہے تھے؟

ویریندر کو یہ محسوس کر کے کچھ اطمینان ہوا کہ نشا خود ہی اس کی پریشانی کے بارے میں اس قدر حساس ہے۔ اس نے پوری بات بتا دی۔ اور نشا کی طرف اس طرح دیکھنے لگا جیسے کہ وہ خود ہی بغیر مانگے پیسہ دینے کا آفر کر دے گی یا پر س نکال کے دے ہی دے گی۔ اسی دوران ویٹر نے بھی بل لا کر سامنے رکھ دیا۔ نشا اس طرح بل کو دیکھنے لگی جیسے کچھ الجھ گئی ہو۔ پھر اس نے ٹیبل سے پر س اٹھا کر نیچے اپنی گود میں رکھ لیا او ر یہ کہتے ہوئے کہ کتنے کابل ہے۔ پرچے کو بغور دیکھنے لگی۔

بل کو دیکھتے ہوئے 235روپئے کا، اسی بیچ وہ اندر سے تین نوٹ نکال چکی تھی لیکن جب اوپر لائی تو یہ تینوں ہزار ہزار کے نوٹ تھے۔ اس نے جلدی سے یہ نوٹ اندر رکھے اور پھر پرس میں جھانکتے ہوئے اس نے سو سو کے تین نوٹ نکالے۔

٭٭٭

کلاس میں ایک مہینے بعدسیدھے مینس کے لیے جوائن کرنے والی لڑکی بھارتی کچھ اتنی مختلف تھی کہ اس کی موجودگی سے پوری کلاس کا ماحول ہی بدل جاتا تھا۔ اس کی آنکھوں میں نہ تو اس طرح کا تحیر تھا جو نئے نئے با حوصلہ لڑکے لڑکیوں کی آنکھوں میں ہوتا تھا۔ نہ ہی چہرے پر کوئی تناؤ۔ دیکھنے سے ہی ایسا لگتا تھا کہ وہ کسی اور دنیا میں بھی ہے اور اس دنیا میں بھی۔ اس کے چہرے کی مسکراہٹ یہاں کی زندگی کی لڑائی سے بے پرواہ سی تھی جیسے وہ کوچنگ سنٹر کو اپنا شاہ راہ نہیں سمجھتی ہو بلکہ یہاں کچھ ایسا لینے آئی ہو جو صرف یہیں ملتا تھا۔ یعنی مقابلے کے امتحانوں کی تکنیک۔ اس بہانے اسے ان پرنٹڈ نوٹس میں بھی دلچسپی تھی جو یہاں دیئے جاتے تھے اور اس گائڈنس میں بھی جو امتحان میں اچھے نمبر لانے سے متعلق تھی لیکن مضمون گویا اس کا مسئلہ ہی نہیں تھا۔

وہ جب آوٹرم لین میں شفٹ ہوئی تو یہاں کی اس عجیب و غریب دنیا نے اسے بہت متاثر کیا۔ اس کا اپنی بالکونی میں کھڑی ہو کر سامنے چلتے ڈراموں کا شو دیکھنے کا وقت طے تھا۔ بالکونی کی طرف کھلنے والی کھڑکی کے پاس اس کی اسٹڈی میز کرسی لگی ہوئی تھی۔ دو بجے تک وہ اپنی کتاب کا بغور مطالعہ کرتی اور دو بجے کے بعد آوٹرم لین کی سونی گلیوں میں ہلکے قدموں کی چہل پہل اس کی غور و فکر کا موضوع بن جاتے۔ دن کے اجالوں میں شرافت کی نقاب اوڑھے جو لوگ اسے دکھائی پڑتے تھے وہ سب رات کے اندھیرے میں نقاب کے باہر ہو جاتے تھے کیونکہ اب وہ پوری طرح مطمئن ہوتے تھے کہ انھیں کوئی دیکھ نہیں رہا ہے مگر ان کو بالکل پتہ نہیں چلتا تھا کہ بالکونی میں بیٹھی بھارتی ان کے چہل قدمی کی الٹرا ساونڈ کرتی ہے اور ان کے کرداروں کے اندر موجود بڑے بڑے پتھروں کی شناخت وہ پوری باریک بینی سے کرتی۔

٭٭٭

آوٹرم لین اور آس پاس کے علاقوں میں سکون پذیر زیادہ تر لڑکیاں یوپی بہار کے پڑھے لکھے خاندانوں سے تعلق رکھتی تھیں۔ وہ آئیں کہیں سے بھی، آوٹرم لین کی دنیا انھیں متاثر ضرور کرتی تھی۔ کیوں نہ ہو ایک ہی پڑھائی، ایک ہی طرز زندگی، ایک ہی اوقات مصروفیت۔ وہی گنتی کے دن، وہی گنتی کی راتیں۔ پھر ضرورت کیوں نہ ہو ایک دوسرے کی۔

کوچنگ میں داخلے کے وقت ڈیڑھ سوطلباکے درمیان صرف دس گل اندام ہوتی تھیں تو لڑائی بڑھنا بالکل فطری تھا۔ جو زیادہ چھل بل کرسکتا ہے اچھے وقت گزارے گا اور جو نہیں کرسکتا وہ باقیوں کی تنقید میں محو رہے گا۔ بے چارہ فطرت سے بھاگ کر کہاں جائے۔ یہ فرار اس کے بس میں نہیں۔بھارتی اکثر ان دوستوں کے درمیان ایسے تنازعے دیکھتی جن کا اس پڑھائی سے دور دور تک کوئی واسطہ نہیں تھا۔ مگر پھر بھی وہ سب تھا۔

دراصل آوٹرم لین میں ایک الگ ہی دنیا آباد تھی جسے نہ تو Studentکی نا سمجھی اور نادانیوں کی دنیا میں شامل کر سکتے تھے اور نہ ہی سماج کے ذمے دار فرد کے طور پر یہاں کے Studentلڑکے لڑکیوں کو دیکھ سکتے تھے، ان کی سوچ اور زندگی کی گہری اندھیری راتیں ان کی پل دو پل کی چھوٹی چھوٹی خوشیوں کے بدلے پوری زندگی کو داؤ پر لگا دینے کی طاقت پیدا کر چکی تھی۔آج کوئی دھوکہ دیا اور زندگی سے چلا گیا تو کل ہی کوئی دوسرا اس اداس رات کو ادھار لیے پیسوں سے یا محبت کی جھوٹی شطرنجی چالوں سے روشنی دکھا کر منور کر دے گا۔وہاں کے کلچر میں صرف ایک پر مر مٹنے کی رسم پرانی ہو چکی تھی۔ وہاں Europeanکلچر کا جھنڈا بلند تھا۔ اور ہو بھی کیوں نہیں آخر یہ اکیسویں صدی تھی اور اس وقت ہم ترقی پذیر ملکوں کی نمایندہ پائدان پر کھڑے پوری دنیا کے کلچر کو مات دینے کی حالت میں ہیں۔

ان اونچی اونچی بلڈنگوں کے پیچھے کا حصہ جہاں زیادہ تر انجینئر صرف سیور اور پانی کی پائپوں کے لیے جگہ چھوڑے ہوتے تھے اور جہاں ان بلڈنگوں کے امیروں کے سجے سنورے کمروں کے صرف روشن دان کھلتے تھے جو کہ کمرے کی سب سے اونچی جگہ میں بنے ہوتے تھے تاکہ کبھی چاہ کر بھی اس پچھواڑے کی طرف ان کی نظر نہ چلی جائے۔ کھلے آسمان کے نیچے ایک پوری دنیا آباد تھی۔ ان گندی پائپوں کی گلیوں میں کسی شریف آدمی کا جھانکنا بالکل بھی شرافت وTradition کے خلاف تھا۔

ہاں ضرورت پڑنے پر سامنے کے بھاری بھر کم آہنی دروازوں کی کنڈیاں راتوں کے سناٹے میں ان پچھواڑے کی آباد ٹولیوں کی غیر مہذب آبادی کی کئی دلربا فرد کی خاطر خود بہ خود کھل جاتی تھیں۔ کیوں نہ ہو۔ جب کہ موقعہ اور دستور دونوں ہی ہاتھ آ جائے۔

ان غیر مہذب آبادیوں سے آباد اور چہکتا محلہ ان بلڈنگوں میں رہنے والوں کی برابری میں کسی درجہ بھی کم نہیں تھا۔ ایسا کوئی حادثہ یا خوشخبری، خوشی یا غم نہیں تھا جو ان دونوں کو با لکل ایک برابر نہ دکھاتا ہو۔ بلکہ ان محلوں کے گھروں اور ان کی جوان خوبصورت بیٹیوں و بہنوں کے لیے کمرے کی دیواروں کی ضرورت بھی پیش نہیں آتی تھی۔ جبکہ ان بلڈنگوں کے شریفوں کو اپنی شرافت کے ڈھونگ کی خاطر ان کے بستروں کے چاروں اور ایک مضبوط آہنی دیوار کھڑی پہرا دیتی تھی۔ آخر ان کی شرافت تھی ہی موم کی طرح۔ ان دیواروں کی آڑ میں ان شریفوں کی زندگی پوری طرح کلچرڈ وے میں گزرتی تھی۔ ان کی بہوئیں بھی ان کی بلڈنگوں کے چھت والے روم کے کرائے دار کی منظور نظر بن کر رہتی تھی۔ اگر پچھواڑے کے محلّوں کی جوان بہو بیٹیاں ان کے خوبصورت ململی بستروں کی زینت بنتی تھیں تو ان کی بہوئیں طالب علموں (U.P.S.C.)کے کھردرے اور سخت بستروں کی زندگی اپنے خوبصورت نازک اور مخمل جیسے جسموں سے آباد کرتی تھیں۔ بھارتی نے ایک گہری سانس لی۔۔۔۔۔۔۔کیا فرق تھا؟

دن کے اُجالے میں چھوٹے چھوٹے پیشے کرنے والے، اپنی ہی دنیا میں محو رہنے والے یہ لوگ نہ صرف اپنے صاحبوں کی خدمت (جھاڑو، برتن، Toiletباتھ روم) کرتے تھے بلکہ اتنے خوش مزاج، فراخ دل اور کھلے ذہن والے تھے کہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی اپنی جوان بیٹیوں کو مالک کی منظور نظر ہونے میں قطعی اعتراض نہیں جتاتے تھے۔ ایک طرح سے دیکھا جائے یہی اصل میں Western کلچر کے صحیح حامی تھے۔ کم سے کم مکاری تو نہیں کرتے تھے۔

مگر ان بلڈنگوں کے شریفوں کو اپنی مکاری کا مادّہ بھی Developکرنے میں روز تھوڑا سا وقت ضائع کرنا پڑتا تھا۔ ان کی خوشحالی کو ملک کی خوشحالی سے جوڑ کر ہماری سرکار ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن دیکھ، مارچ کے مہینے تک اپنی امیری کا ڈھول پیٹ لیتی تھی۔مگر اس نے کوئی سروے اس پچھواڑے کی طرف کرنے کی کوشش نہیں کی اور ضرورت بھی کیا تھی۔ اگر ہر کوئی بلڈنگ میں ہی رہے گا۔روز اچھے اچھے کھانے کھائے گا کپڑے پہنے گا اور کوئی اس پچھواڑے کے محلے کو آباد نہ کرے گا تو پھر مالکوں کی زندگیوں پر بن آئے گی۔  Heart Attackسروے کی سوئی بے تحاشہ آگے بھاگے گی اور پھر اس کے چھان بین کے لیے کمیٹیاں بیٹھیں گی اور پھر سرکار کی نیند حرام ہو گی۔ اس سے اچھا تھا کہ اس مخلوق کو (پچھواڑے کی ) ان شریفوں کی خاطر یوں ہی جینے کا Constitutional Rightدے دیا جائے۔ کیونکہ یہ محلّے، کنگورہ نہ سہی بنیاد کی اینٹ ہی سہی، مگر اہم تو ضرور تھے۔

اسی پچھواڑے کی ایک لڑکی چمپا جو دیکھنے میں قبول صورت مگر جس کے جسم کے ہر اتار چڑھاؤ سے ایک کرن نکلتی رہتی تھی، وہ دن بھر کھڑے ہو کر Standپر کپڑے پریس کرتی۔ حالانکہ اس کی طبیعت سنجیدہ تھی مگر خوبصورت جسم کے اتار چڑھاؤ کی وجہ سے اکثر لوگوں کی نظروں میں آ جاتی۔

اس روڈ پرسامنے والے نکڑ کی دکان کا مالک گھنشیام عمر 70سال پیروں سے معذور بہ مشکل اٹھ سکتا تھا چمپا جب بھی دکان پر آتی بڈھے کی آنکھیں خوشی سے چمکنے لگتیں اور ہاتھوں پیروں میں جادوئی طاقت آ جاتی۔ آج جب وہ تیل لینے گئی تو اس نے کہا کہ تیل اوپر کی الماری میں رکھا ہے خود ہی آ کے نکال لو۔ جب اوپر اسٹول پر چڑھ کر نکالنے لگی تو بڈھے نے لپک کر اسے پیچھے سے مضبوطی سے پکڑ لیا۔ بظاہر تو اس کی مدد کر رہا تھا مگر دراصل اس کی رگوں میں اس سے حرارت پیدا ہو رہی تھی۔۔۔۔۔۔

 ٭٭٭

ایک دن کلاس روم میں روی سرنے بھارتی کے بیک گراونڈ کے بارے میں پوچھا تو اس نے بتایا کہ وہ زولوجی میں J.R.F. کا امتحان پاس کر اب پی ایچ ڈی کر رہی ہے۔

روی سر۔ جب آپ کا اکیڈمک ریکارڈ اتنا اچھا ہے تو آپ Civil Servicesمیں کیوں جانا چاہتی ہیں ؟

بھارتی۔ آپ میرے رکارڈ پر نہیں ان یونیورسٹیوں کے رکارڈ پر جائیے سر۔ آپ کو خود اندازہ ہو جائے گا۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ صرف یہیں مقابلہ ہے؟ وہاں کا مقابلہ الگ ہی طرح کا ہے۔ یہاں تو قلم کی طاقت سے کامیاب ہوا جا سکتا ہے لیکن وہاں تو جنگلوں اور ریگستانوں سے گزر کر منزل پر پہنچنے تک آدھے بال سفید ہو جاتے ہیں۔ علم کی روشنی چاندنی بکھیرنے لگتی ہے۔

 یہ کہہ کر وہ ہنسنے لگی۔

بھارتی کو آوٹرم لین کا علاقہ اپنے آپ میں ایک عجیب و غریب دنیا کی طرح لگتا تھا۔ یہاں دماغوں کی ایک ایسی منڈی سی پیدا ہو گئی تھی جس میں تیز لوگ تو اقتدار کی دنیا کے آفتاب و ماہتاب بن جاتے تھے اور باقی جم غفیر زندگی کی تاریک سمندروں میں کھوجاتے تھے۔ اس نے انھیں محلوں میں ایک کمرہ لے رکھا تھا۔ دراصل اس کا مسئلہ یہ تھا کہ اس نے اپنی پی ایچ ڈی کاکام دن رات لگ کر سواسال کے اندر ہی مکمل کر لیا تھا اور اب اس کی سمجھ میں یہ نہیں آ رہا تھا کہ وہ پانچ سال تک ملنے والے وظیفے کے سلسلے کو کیا کرے۔ کالے بال لے کر سفید بالوں کی قطار میں اسے اپنا وجود اٹ پٹا سا لگتا تھا۔ لیکن زندگی کی یہ بے ترتیب راہیں اس سے اٹھکھیلیاں کر رہی تھیں اور کرتی بھی تو کیا۔ نہ کلرکی کر سکتی تھی نہ ایجنٹی۔ نہ کاروبار نہ سیاست کہ اس کا سارا وجود اس کے ذہن کے انجن سے آگے بڑھ رہا تھا۔ سو اسے ایک دن لگا تھا کہ کیوں نہ دلی کے آوٹرم لین کے اس اسٹیشن تک چل کر دیکھا جائے۔ کیا پتہ زندگی اسے کسی اور ٹرین سے کسی اور منزل کی طرف لے جانا چاہتی ہو۔ اس کا تخلیقی ذہن اسے پوری دنیا کے بارے میں سوچنے پر مجبور کرتا تھا۔ نہ تو اسے بوسیدہ ماحول والی Academic دنیا پسند آتی تھی اور نہ ہی وہ پوری طرح اس مشین کا حصہ بننا چاہتی تھی جس میں ذہین ترین نوجوان کیریر کے سانچے میں ڈھلنے کے لیے پوری طرح اپنے کو پیش کر دیتے تھے۔ کہیں نہ کہیں وہ میڈیا کے ذریعے پچھڑے ہوئے ہندوستان کے ذہن میں ایک نیا شعور پیدا کرنا چاہتی تھی تو کہیں سیاست کے راستے وہاں پہنچ کر ملک کے کل پرزوں کو درست کرنے کا خواب دیکھتی تھی۔

انھیں خیالات میں گم آوٹرم لین کی گلی، کوچوں ،ریستوران اور پارکوں میں پتھروں ، گھاس اور بنچوں کے اوپر بیٹھے جان پہچان کے لڑکے لڑکیوں سے مسکرا کر بات کرنا اور ان کو سمجھنا اس کا مشغلہ بن گیا تھا۔ اور پھر ایک دن اسے محسوس ہوا کہ یہ جگہ بہت دلچسپ ہے۔

٭٭٭

نشا کو یاد تھا کہ پچھلے سال دوسرے دور کے امتحان کے دوران اسے بہت دقتوں کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ وہ سارے مضامین دہرا بھی نہیں سکی تھی۔ مگر اس بار وہ محتاط تھی۔ اس نے سوچا ویریندر پڑھنے لکھنے والاسمجھ دار لڑکا لگتا ہے۔ اگر نہیں بھی ہو تو کیا اس کی مدد تو کر ہی سکتا ہے۔ پھر ایک دوست تو ہونا ہی چاہیے (وہ سوچنے لگی) کہیں ویریندر سنجیدہ نہ ہو جائے۔ (پھراسے خیال آیا) دلّی پڑھنے آیا ہے اتنا پاگل تھوڑے ہی ہو گا۔ نشا نے سوچا وہ بات کر کے دیکھے گی نیا نیا آیا ہے۔ اوروں سے تو ابھی ٹھیک ہی ہو گا۔پھر اپنی بات کہنے میں کیا حرج ہے، منع کر دے گا تو کر دے۔ مگر ہاں کرے گا تومیں بھی سوجگہ اس کے کام آؤں گی۔

 آج کلاس سے نکلنے وقت نشا نے ویریندر کو مسکر ا کر دیکھا۔ کلاس میں ویریندر نے لگاتار سوالوں کے اچھے جواب دیے تھے۔ دروازے سے نکلتے ہوئے نشا نے اس سے پوچھا:

نشا—— تیاری کیسی چل رہی ہے؟

ویریندر——ٹھیک ہی ہے۔ آپ کی طرح میری انگریزی تو اچھی نہیں ہے لیکن ہمت کر رکھی ہے۔ دونوں ہنس پڑے۔

چلتے ہوئے دونوں ایک ہی ساتھ نیچے آئے اور سڑک کے کنارے ’’اپنی رسوئی‘‘ تک ساتھ آنے کے بعد نشا اسے Byeکہہ کر داہنی طرف کو چلی گئی۔ حالانکہ پہلے بھی نشا اس کے ساتھ ریسٹورنٹ گئی تھی۔ مگر اب تک تکلف سے گفتگو ہوتی تھی۔ مگر رفتہ رفتہ اس کا اعتماد بڑھ رہا تھا۔ویریندر کو یہ سب بہت اچھا لگا تھا آج وہ پہلی بار سرشاری کے عالم میں کب اپنے کمرے تک پہنچ گیا اسے اندازہ ہی نہیں ہوا۔اسے تو کمرے میں آنے کا احساس تب ہوا جب اس نے دیکھا کہ زبیر اپنی اٹیچی میں اپنا کپڑا وغیرہ رکھ رہا تھا۔

ویریندر—— زبیر بھائی کہاں کی تیاری ہے۔

زبیر—— یار میں گھر جا رہا ہوں۔ گھر سے فون آیا ہے جلدی گھر آ جاؤ۔ شبوکو اب ساتھ رکھنا ہے۔یہ کام بھی نپٹاہی آؤں۔ خالو کی وفات کے بعد لوگ میرے سر پر سوار ہیں۔ تم اپنی پڑھائی پر دھیان دینا۔ ادھر ادھر کے لفنگوں کے چکر میں مت پڑجانا۔ اور خبردار——! میری غیر موجودگی میں کہیں کسی لڑکی وڑکی کو روم پر مت لانا۔ ٹھیک ہے۔

ویریندر—— جی زبیر بھائی۔

زبیر—— میں جلدی آ جاؤں گا۔ تم فکر مت کرنا۔

٭٭٭

ویریندر آج کلاس سے نکلا تو نشا کے ہاتھ میں پرنٹیڈ نوٹس کا ایک بنڈل تھا۔ نشا نے بڑی متانت سے ویریندر کو اسے دیتے ہوئے کہا  ————’ ڈیر ان میں سے کچھ موضوعات کی بریفنگ کرنی ہے۔ ‘مگر کلا س میں وقت زیادہ ختم ہونے کی وجہ سے میں اسے کر نہیں پا رہی ہوں۔ آپ میری تھوڑی سی مدد کر دیجئے۔ یہ ہم دونوں کے کام آ جائیں گی۔ (نشا کہتی گئی) تم تو ابھی پی۔ٹی۔ پڑھ رہے ہو مگر مینس میں سبجیکٹ وائڈ ہو جاتا ہے اور تیاری کے دوران اتنا وقت نہیں مل پاتا کہ کوئی انہیں ڈیٹیل سے پڑھ سکے۔ جنرل اسٹڈی کے ساتھ ہی دو دو مضامین کا پھیلا ہوا syllabus  بہت زیادہ محنت طلب ہو جاتا ہے۔

ویریندر۔ مگر ابھی دوسرے دور کا امتحان تو بہت دنوں بعد ہے۔

نشا۔ (پیار سے) ڈیئر—— امتحان کے پرچے کچھ اس طرح سیٹ ہوتے ہیں کہ ایک پرچے سے دوسرے پرچے کے درمیان بمشکل ہی ایک دو دن کا وقفہ مل پاتا ہے۔ اور ہر روز دونوں وقت پرچہ دینے میں کمر آدھی رہ جاتی ہے۔اس لئے اگر پہلے سے ہی اسے بریف کر کے نہیں رکھوں گی تو بعد میں وقت نہیں ملے گا۔اگر امتحان کے دو مہینے پہلے ایک ریڈنگ سارے مضامین کی آپ نے نہیں لگا لی ہے تو پھر بھول جائیے آئی۔اے۔ایس۔ بننا۔

(ویریندر نشا کو خاموشی سے تکے جا رہا تھا۔)

ویریندر بالکل منع نہیں کر سکا۔ اس کی کلا س بھی دونوں وقت ہوتی تھی اور اسے بھی بہت ٹائم لگانا پڑ رہا تھا مگر اس نے وہ نوٹس لے لیے۔

 جنرل اسٹڈی کی کلا س میں نیا موضوع پڑھایا جانا تھا۔ مگر دو گھنٹے بالکل ہوا کی طرح نکل گئے۔ اور کلاس کا وقت ہو گیا۔ یہ نوٹس مینس کے لیے تھے ان پر وقت لگانے سے ویریندر کی کلاس کے موضوعات میں کوئی مدد نہیں ہو پا رہی تھی۔ اور ہر روز اسے کلاس میں پریشانی کا سامناکرنا پڑ رہا تھا۔ پھر بھی اس نے اس کام کو کرنا منظور کر لیا تھا۔ کیونکہ وہ ڈر رہا تھا کہ نشا کہیں ناراض نہ ہو جائے۔

کیونکہ نشا اس کی اچھی دوست تھی۔

آج شام میں وہ جنرل اسٹڈی کے کلاس کی تیاری کرنے بیٹھا تو اسے میز پر رکھا ہوا وہ بنڈل نظر آیا۔ وہ اس میں سے ایک Chapterنکال کر لکھنے لگا۔ ایک ہفتے میں ہی ان نوٹس کو واپس کر نا تھا—— دو گھنٹے روز۔

اگلے دن بھی دوپہر کے آرام کے بعد جب وہ پڑھنے بیٹھا تو نشا کے نوٹس ٹیبل پر رکھے تھے۔ وہ تھوڑی دیر پڑھنے کی نا کام کوشش کرتا رہا۔ اسے یا د آیا کہ ان نوٹس کو تو ایک ہفتے میں لکھ کر نشا کو دینا بھی ہے۔ اس نے اپنی کتاب بند کر نوٹس کا وہ بنڈل کھولا اور دوسرا Chapter نکال کے موضوعات کی بریفنگ کرنے لگا۔

٭٭٭

زبیرکی پریشانیاں ہر دن بڑھتی جا رہی تھیں۔ بیوی شبو کو ساتھ رکھنے کا خرچہ ٹیوشن سے پورا کرنا ناممکن تھا۔ اب کوچنگ انسٹی ٹیوٹ میں ٹیچنگ کے علاوہ زبیر کے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا۔ ابھی آخری کوشش کا نتیجہ بھی نہیں آیا تھا اس لیے پڑھائی کرتے رہنا بھی ضروری تھا۔ اس نے ڈائرکٹر حسن صاحب سے بات کر کے ورکشاپ میں انسٹی ٹیوٹ کے سبھی ٹیوٹروں سے بہت اچھا پرفارم کیا۔ ایک ایک لفظ کے ساتھ جب اس کے تجربوں کی چمک شامل ہوئی توفلاح کوچنگ کو تاریخ کے طالب علموں کا ایک اچھا خاصا Batchمل گیا اور پھر شروع ہوا زبیر کے استحصال کا ایک نایاب طریقہ۔

 حسن صاحب ہمیشہ خود کو تھوڑا الگ تھلگ اور اونچا دکھانے کی کوشش کرتے باقی ٹیچروں سے، کیونکہ ان کا سوچنا تھا کہ وہ آخر کار ڈائرکٹر ہیں۔ ہوئی جہاز سے سفر کرنے کی کوشش کرتے۔ لیپ ٹاپ اپنے ہاتھوں میں لیے پھرتے۔

جبکہ ٹیچروں کا سوچنا تھا کہ انھیں کے دم سے کوچنگ زندہ ہے۔ بیچ کے سارے بچے انکی نالج اور اچھا پر فارمینس دیکھ کر کوچنگ میں داخلہ لیتے ہیں۔ کچھ ان کے ذاتی تعلقات کی بنا پر آتے ہیں۔ پورا کورس ہم پورا کراتے ہیں تو غرور ڈائرکٹر کو کیوں ہو، اور پھر وہ اپنے عیش و آرام میں کوئی کمی بھی لانا نہیں چاہتے۔ اور ہمارے سامنے کوچنگ کے گھاٹے میں چلنے کا راگ الاپتے رہتے ہیں۔

اس کے پہلے کہ ہم ان سے Paymentکی خاطر کہیں وہ تو اپنا ہی رونا رونے لگتے ہیں کہ کوچنگ loss میں چل رہی ہے۔ پچھلے مہینے آگ لگ گئی تھی تو بہت پریشانی ہوئی۔ سارا بجلی کا سامان جل گیا۔ اب کوئی کچھ کہے تو کیا کہے۔

ادھر زبیر چونکہ پہلی بار کوچنگ میں پڑھانے گیا تھا تو کوشش کرتا کہ وہ ہر کلاس بہت اچھی طرح پڑھائے۔ وہ اپنی زندگی میں جو کچھ حاصل نہیں کر سکا اسے وہ اب دوسرے ہو نہار بچوں کے ذریعے حاصل کر اپنی تشفی کرنا چاہتا تھا۔ وہ بہت ایمانداری سے ایک ہی Topicکو کئی کئی بار پڑھاتا، سمجھاتا۔ وہ جانتا تھا کہ وہ جنھیں پڑھانے کی خاطر کلاس میں آیا ہے انھوں نے بھی اتنی ہی کتابیں پڑھی ہیں جتنی کہ زبیر نے۔ اس لیے اسی کی نالج و علم میں برابر، یہ Competitionمیں بیٹھنے والے بچوں کا گروپ اسے کسی بھی لا پرواہی پر ٹوک سکتے ہیں تو پھر طلبا کی نظر میں اس کی عزت نہیں رہے گی۔ اور پھر اسے اسی کوچنگ کو سیڑھی بھی تو بنانا ہے آگے کی زندگی کی خاطر۔

اتنی اچھی پر فارمینس کے لیے اسے راتوں میں کافی دیر تک جا گنا پڑتا اور صبح تڑ کے ہی اٹھ کر سبھی نوٹس جسے صبح کی بیچ میں پڑھانا ہے دہرانا پڑتا۔ رفتہ رفتہ اس کی محنت رنگ لانے لگی۔

زبیر زندگی کے کئی رنگوں سے اب تک رو برو ہو چکا تھا اور زیادہ کھل کر سوچنے کا عادی، سوفی صد پروفیشنل نظریوں والا انسان بن چکا تھا، مگر شبو ابھی ازدواجی زندگی، خواہشوں اور امیدوں کے سمندر میں غوطے لگانے کی حسرتوں کے ساتھ شروع کر رہی تھی۔ وہ دن بھر مہمانوں کی خاطر کرتی اور کھانا پکانے و کھلانے میں تھک جاتی اور دوپہر کا کھانا کوچنگ میں پہنچواتی یا کبھی کبھار خود ہی لے کر جاتی۔ اور شام کی چائے کے بعد وہ رات کی تیاری کرتی۔ کھانا پکانے کے بعد وہ اس قدر تھک جاتی کہ زبیر کی پڑھائی کی تین بجے ختم ہونے تک کا انتظار نہ کر پاتی اور بستر پر پڑتے ہی سو جاتی اور صبح جب اس کی آنکھ کھلتی تو زبیر لیمپ جلائے کتابوں پر جھکا جلدی جلدی کچھ نوٹ کرتا رہتا۔ یہ پھر اٹھ جاتی اور زبیر کے آٹھ بجے کوچنگ کے لیے جانے سے پہلے پہلے ناشتہ وغیرہ تیار کرتی اس کے کپڑے جو کہ پریس کروا کے منگوائے جاتے اسے پہننے کے لیے دیتی۔ غرضیکہ ابھی نئی نویلی دلہن گویا صرف کھانے پکانے کی خاطر یہاں لائی گئی تھی۔ کبھی شبّو کو یاد نہیں آتا کہ اس نے زبیر کے پیار کو محسوس کیا ہو۔ کچھ دیر اس کی باہوں میں منھ چھپا کہیں کھو گئی ہو۔ اس کی سانسوں میں اپنے وجود کو ضم کر کے دیکھا ہو۔ کبھی اپنی تکان کو اس کی آنکھوں کی کشش پر قربان کر دی ہو۔ کبھی اس کی چھیڑ چھاڑ کے پلوں میں روٹھنے منانے کے دور سے گزری ہو۔

اسے ہر پڑھنے لکھنے والوں سے نفرت ہوتی تھی۔ اسے اپنا Cookزیادہ سمجھدار لگتا جو کہ کھانا بنانے میں جلد بازی اس لیے کرتا کہ ابھی ابھی اس نے شادی کی ہے اور گھر پر کوئی اس کا انتظار کر رہا ہے۔ اس جلد بازی میں وہ کبھی کبھار کھانے میں نمک تو کبھی مرچ زیادہ کر دیتا۔ مگر شبو اس کی غلطیوں کی ذمے داری خود پر لے لیتی اور اسے ڈانٹ کھانے سے بچا لیتی۔

٭٭٭

زبیر نے ہر ممکن کوشش کی تھی کہ اس کی Publicityبڑھے اور زیادہ سے زیادہ Competitorاس کی پڑھانے کی Straightlyسے فائدہ اٹھا سکیں۔ مگر مکھر جی نگر کے ہر گلی محّلوں میں کوچنگوں کے پرچار میں لگے بڑے بڑے رنگین بینروں نے اس کے بینر کو کہیں دبا دیا۔ پرچار کے لیے اس نے اپنی پوری جمع پونجی لگا دی تھی۔ حالانکہ ڈائرکٹر صاحب نے اسے کچھ مالی تعاون کا دلاسادے رکھا تھا مگر عین وقت پر ان کونیا Lap-Top خریدنے کا شوق چرّا گیا اور وہ اپنے وعدے کو گول مول کر گئے۔ اور پھر نئے سیشن کے لیے بھی زبیر کا اپنا بیچ کچھ بہتر نہیں بن سکا۔

ادھر شبو کی طبیعت بھی اچانک خراب ہو گئی۔ اس کی طبیعت مسلسل خراب رہنے سے زبیر نے ڈاکٹر سے مشورہ کیا تو رات بھر اسے نیند نہیں آئی۔ حالانکہ اب تک وہ ۳۵ کا ہو چکا تھا اور اب باپ بننے کی اس کی خواہش بہت تھی مگر گھر کی مالی حالت نے اسے ایک بار پھر اس نعمت سے محروم کر دیا۔ اس نے ایک بار پھر شبو کا Abortionکروا دیا۔

شبو کا چہرہ زرد پڑ چکا تھا۔ وہ چار پائی پر لیٹی کہیں خلا میں گھور رہی تھی کہ زبیر کی آہٹ پر وہ اٹھ کر بیٹھنے کی کوشش کرنے لگی۔

زبیر—— ارے تم لیٹی رہو ڈاکٹر نے تم کو Completelyبیڈ پر لیٹنے کے لیے کہا ہے۔

شبو نے اپنی شعلے کی طرح جلتی نگاہیں زبیر کے چہرے پر جما دیں۔ اس نے سوچا کتنا بھیانک چہرہ ہے۔ یہ انسان نہیں خبیث ہے۔ اسے اپنے بچے سے محبت نہیں۔ اس نے دوبارہ قتل کیا ہے۔ اس نے میرے دل کے ٹکڑے کو ایک بار پھر مجھ سے الگ کرنے کی خاطر آری چلوائی ہے۔ کتنے محفوظ جگہ اسے اللہ نے رکھا تھا مگر اس جلاد نے۔۔۔اس کی آنکھوں سے آنسوؤں کے قطرے اس کے رخساروں پر بہہ نکلے۔ گویا گناہوں کی تلافی کر رہے ہوں۔

(شبو کی طرف بغور دیکھتے ہوئے) کیا سوچ رہی ہو۔۔۔ارے تم رو رہی ہو۔۔ (سر کو گود میں لیتے ہوئے) گھبراؤ مت انشا ء اللہ سب ٹھیک ہو جائے گا۔ اب کی بار اگر کوچنگ سے کچھ بہتر حاصل نہیں ہوا تو میں کوئی دوسرا کام دیکھوں گا۔

زبیر اس قدر مصروف رہتا کہ شبو کے لیے اس کے پاس تھوڑا بھی وقت نہیں ہوتا تھا۔ شام کو سارا کام ختم کر کے جب شبو زبیر کے کپڑوں پر استری کرنے بیٹھتی تو پینٹ کی جیب میں ہا تھ ڈال کر گھنٹوں اس لمس کو محسوس کرنے کی کوشش کرتی جو کہ نیند میں چوٗر زبیر سے حاصل کرنا اس کا حق تھا۔ مگر اب تو شبو کو اسی زندگی کی عادت پڑچکی تھی۔ کیونکہ زبیر کی مصروف زندگی اور خوب پیسے والا بڑا آدمی بننے کی خواہش نے اس کو دھوبی کا کتا بنا دیا تھا۔

رات میں زبیر کو پیاس محسوس ہوئی تو اس نے شبو کو دھیرے سے آواز لگائی—— شبو————! کوئی جواب نہیں ملا۔ وہ پھر سے نیند کی آغوش میں چلا گیا۔

اس نے تھوڑی دیر میں خشک ہونٹوں کو تھوک سے بھگوتے ہوئے دوبارہ ادھ کھلی نیند میں شبو کو آواز دی۔

زبیر نے پہلے بھی آواز لگائی تھی یہ بات اسے یاد تھی اب وہ اٹھ کر بیٹھ گیا اور بستر پر ہاتھ بڑھا کر اندھیرے میں ہی شبو کو جگانے کی خاطر ہاتھ بڑھایا۔ مگر بستر خالی ملا تو اس کی نیند اچانک غائب ہو گئی۔ اس نے فوراً سوئچ بورڈ کی طرف ہاتھ بڑھا کر لائٹ آن کر دیا۔ دروازہ قرینے سے بھیڑا ہوا تھا مگر شبو کمرے میں نہیں تھی۔

اس نے اٹھ کر باہر جھانکا (یہ سوچ کر کہ شاید ٹوائلٹ گئی ہو) تو ٹوائلٹ کا دروازہ باہر سے بند تھا۔ مگر باتھ روم میں کپڑے بکھرے ہوئے تھے۔ زبیر نے باتھ روم کا دروازہ کھلایا پا کر وہاں دیکھا تو شبو زمین میں ایک طرف سکون سے سوئی ملی۔ زبیر نے ہلا کر اسے جگایا تو شبو اچانک چونک پڑی۔

زبیر—— یہاں۔۔۔تم یہاں کیوں سو رہی ہو؟

شبو ابھی نیند سے پوری طرح جگی ہی تھی کہ اسے یاد آگیا۔ اس نے ذرا جھینپتے ہوئے کہا۔ میں کپڑے دھو رہی تھی۔ پتہ نہیں کیسے نیند آ گئی۔

٭٭٭

رزلٹ آنے پر بھارتی کیفے میں پہنچی تو وہاں لڑکے لڑکیوں کی ایک بھیڑ اندر جا رہی تھی اور باہر آ رہی تھی۔ گرم ہوا میں لہلہاتے ہوئے پھولوں کی طرح ایک بھیڑ اندر جاتی ہوئی اور جھلسے ہوئے پھولوں کی مانند واپس آتی بھیڑ جس میں چند چہرے مسکراتے ہوئے جوش میں ایسے نکل رہے تھے جیسے انھیں معلوم ہی نہ ہو کہ ان میں بیشتر مسکراہٹیں کسی آگ پر بلی چڑھنے والی ہیں۔ اندر گئی تو سامنے سے زبیر آ رہا تھا۔ اس کی آنکھیں ویران ہو چکی تھیں۔ بھارتی سے نظریں ملنے پر وہ سامنے آکر نہ جانے کیوں ٹھٹھک گیا۔ اور اس کا سرنیچے جھک گیا جیسے وہ زندگی سے ہار گیا ہو۔ اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے۔ مسکراہٹوں اور آنسوؤں کے اس آنکھ مچولی نے بھارتی کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ کیا ہے یہ سب کچھ——! کیا مصیبت ہے؟ تم تو کسی اور پیشے میں بھی جا سکتے تھے، تم نے یہ کیوں سوچ لیا کہ تم Civil Serviceمیں آ ہی جاؤ گے۔ کس نے کہا تھا تم سے کہ تم کامیاب ہو ہی جاؤ گے؟ کیا تمھیں نظر نہیں آتا کہ ہندوستان میں ہر سال کروڑوں بچے پیدا ہوتے ہیں لاکھوں بچے ذہین ترین قسم کے ہوتے ہیں۔ اور ان میں ریس کے گھوڑوں کی طرح جب دوڑ لگتی ہے تو صرف چند جواری کامیاب ہوتے ہیں۔ جوا کھیلا تھا تو روتے کیوں ہو؟ اس نے زبیر کے دونوں بازوؤں کو اپنے پنجوں میں جکڑ کر جھنجھوڑ دیا۔ چند لمحوں بعد زبیر نے اپنا سر اوپر اٹھایا۔ اس کی آنکھیں گویا آنسو بن کر بہہ گئی تھیں۔ وہاں دو خالی گہرائیاں لہرا رہی تھیں۔

بھارتی نے ’’اپنا پارک‘‘ پہنچ کر زبیر کو فون لگایا۔ زبیر ابھی کوچنگ سے کلاس لے کر نکلا ہی تھا فون سن کر وہ سیدھے ’’اپنا پارک‘‘ پہنچا۔ بھارتی بنچ کے دوسرے کنارے کی طرف کھسک گئی اور زبیر کو بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ زبیر بیگ فرش کی ہری گھاس پر رکھ کر بنچ پر اطمینان سے بیٹھ گیا۔ بھارتی فون پر کسی سے بات کر رہی تھی۔ فون جلدی جلدی ختم کر کے وہ زبیر سے مخاطب ہوئی۔

بھارتی—— ہائے زبیر۔ کیسا چل رہا ہے آپ کا کام دھام ؟

زبیر—— ٹھیک ہی ہے۔

بھارتی——اس بار تو بیچ ٹھیک ٹھاک بن گیا ہے۔

زبیر——ہاں یہ بیچ تو ٹھیک ہے۔ مگر ڈائرکٹر صاحب ہر مہینہ ایک نیا خرچہ سرمنڈھ دیتے ہیں اور بجٹ چوپٹ ہو جاتا ہے۔

بھارتی—— اب کی کیا کیا؟

زبیر——اب کی اکھلیش کو پیسہ دینے کی باری میری تھی۔ پچھلے دو بار کا پیسہ باقی ٹیچروں نے دیا تھا۔

بھارتی——اکھلیش وہی جو ہماری کوچنگ میں اپنے تجربات بانٹنے آئے تھے۔

زبیر—— جی ہاں وہی۔ وہ سلیکشن ولیکشن کچھ نہیں پایا ہے۔ میرے ہی ساتھ راؤز میں پڑھتا تھا۔ سارے اٹیمٹ ختم ہو گئے ہیں۔ اب بمبئی کی کسی پرائیوٹ فرم میں نوکری پکڑ لیا ہے۔ اب کوچنگ میں اپنے تجربات بانٹنے کا پیسہ کما کر گاڑی وغیرہ بھی لے چکا ہے۔ (حیرت سے بھارتی کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں )

زبیر——تو تم کو کیا لگتا ہے۔ یہ ککور متوں کی طرح پھیلے ہوئے کوچنگ انسٹیٹوٹ کسی کو گائڈنیس دیتے ہیں۔ یہ تو صرف گمراہ کرتے ہیں گمراہ (غصے سے اس نے اپنی مٹھیاں بھینچ لیں )امتحان قریب آنے تک اپنے کوچنگ میں بھیڑ بھاڑ بنائے رکھنے کا دکھاوا کرنے میں یہ بچوں کا Career  برباد کر دیتے ہیں۔ نوٹس کے بند پیکٹ کا کھلا مارکیٹ ان کے بزنس کا ایک حصہ ہے نہ کہ کسی کی نوکری کی ضمانت۔ اگر ہم نوٹس سے ہی I.A.S.بن جائیں تو پھر کوچنگ میں داخلہ کیوں لیتے ہیں۔ ورکشاپ میں اپنی قابلیت،گائڈنیس و بہتر Strategy  کا دکھاوا کر یہ Studentsکو پھانس لیتے ہیں۔ اور جب تک اس کو ان کوچنگوں کے جال میں اپنی حالت سمجھ میں آتی ہے تب تک وہ اپنا چانس کھو چکا ہوتا ہے۔ اور سوائے ان کی کوچنگوں کا دلال بننے کے اس کے پاس اور کوئی چارہ نہیں رہ جاتا۔

زبیر کی آنکھیں سرخ ہو گئیں تھیں بھارتی کو یاد آ رہا تھا کہ کیسے کوچنگ کے ڈائرکٹر نے اس کو I.A.S.بنانے کی گارنٹی لی تھی اور کہا تھا کہ ’’آپ جیسے بچوں پر ہم زیادہ محنت کرتے ہیں جو کسی فیلڈ میں خود کو ثابت کر چکے ہوتے ہیں ‘‘ بھارتی کو ان کی باتوں میں کسی مقناطیسی کشش سی محسوس ہوئی تھی۔ جب اس نے سر سے اپنے بیک گراونڈ کے بارے میں بتایا تھا تو سر نے اس کو بڑے ہی فخریہ نظروں سے دیکھا تھا۔ اور بھارتی کو اپنی کامیابی پر ایسا فخر ہوا تھا جتنا کہ اسے پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔ وہ خود کو ذرا خاص سمجھنے لگی تھی۔ مگر اسے بالکل پتہ نہیں چلا کہ وہ بھی اس بزنس کا ایک حصہ بن چکی ہے جو کہ آزادی کے بعد سے ہی کچھ خاص لوگوں کا پیشۂ خاص ہے۔ جنھوں نے خود تو اپنی زندگی کو برباد کیا اور دوسروں کی بھی Careerکے دوست کم دشمن بنے رنگ برنگے شیشوں کے اندر A.C.کی ٹھنڈک میں بیٹھے کتنے والدین کو بھو کے پیٹ سلا دیتے ہیں۔ کتنے بیوی بچوں کو بربادیوں کے اندھیرے غار میں اتر جانے پر مجبور کر دیتے ہیں۔

٭٭٭

ویریندر جس وقت زبیر کے گھر پہنچا اس وقت زبیر ابھی انسٹی ٹیوٹ سے لوٹا نہیں تھا۔ اس کی بیوی نے جو اسے پہچانتی تھی اسے بٹھایا۔ ویریندر نے دیکھا کہ سامنے کے دروازے کے آگے بیڈروم میں بستر پر اوپر نیچے Competitionکی کتابیں بھری پڑی ہیں۔

ویریندر—— زبیر بھائی نے تو کتابوں سے گھر بھر لیا ہے۔

شبو—— (چہرے پر ایک تلخ مسکراہٹ ابھری ) انھوں نے تو کتابوں سے ہی شادی کی ہوئی ہے نا۔میں چائے بناتی ہوں (کہہ کر کچن میں چلی گئی)

ویریندر—— آپ کو زبیر بھائی نے دلی میں کیا کیا دکھایا؟

شبو——دلّی میں ان کو دیکھ لیا یہی بہت ہے۔

ویریندر نے بہت غور سے شبو کو دیکھا لیکن پھر پتہ نہیں اسے کیا خیال آیا اور اس نے نظریں نیچی کر لیں اسی بیچ زبیر آگیا۔

زبیر —— ویریندر کے لیے چائے بناؤ بھائی۔

ویریندر —— بہت پڑھائی کر رہے ہیں زبیر بھائی۔

زبیر —— تخت پر لیٹتے ہوئے دیوار سے سر ٹکا کر گمبھیر آواز میں بولا——میں I.A.S.تو نہیں بن سکا مگرسیکڑوں I.A.S.پیدا کر کے دکھاؤں گا۔

ویسے تم کیا سوچتے ہو کہ جو لڑکے دس بیس نمبروں سے رہ جاتے ہیں وہ بالکل اتنے گدھے ہوتے ہیں کہ ان کو کلکٹر یا ٹیچر کی نوکری بھی نہیں آفر کی جائے۔ بکواس ہے یہ سارا سسٹم—— ایک ہی لڑکا کبھیP.T.تک میں نہیں آتا اور کبھی فائنل میں ٹاپ کر جاتا ہے (ایک ہاتھ کو دو سرے پر مارتے ہوئے) اس کا مطلب کیا ہے؟ میں کہتا ہوں کہ لاکھوں Appearہونے والے Candidatesمیں کم سے کم ایک لاکھ ایسے ہوتے ہی ہیں جو سب Talentمیں برابر ہوتے ہیں۔ ان میں صرف ہزار پانچ سو کو نوکری ملتی ہے۔ باقی کا کیا ہوتا ہے۔ ویسے ہی Talentوالے ۹۹ہزار کس کام کے رہ جاتے ہیں۔ نہ تو ایم اے ایم فل ٹھیک سے کر پاتے ہیں نہ وکالت کر پاتے ہیں نہ کوئی اور کورس۔ سرکار لاٹری چلاتی ہے لاٹری ایک ہزار کو چننے کے لیے چار لاکھ نوجوانوں کو Desertمیں لا کر چھوڑ دیتی ہے جہاں نہ پینے کے لیے پانی ہوتا ہے۔ نہ ہی سر پر کسی پیڑ کا سایہ۔ ہم جیسے لوگ وہی دماغ رکھتے ہوئے چوہے کی طرح گرم ریت میں بل کھودنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔

 اس کی آواز لرزنے لگی تھی۔ اس نے احتجاج میں اپنی آنکھیں بند کر لی تھیں۔ اور اس کے دونوں ہاتھ اس کے سر کے پیچھے جا چکے تھے۔ جس کے سہارے اس کا سر  دیوار پر ٹکا ہوا تھا۔

ویریندر بالکل خاموش صرف یہی سوچتا رہا کہ اس کے لیے امکانات تو بند نہیں ہوئے تھے لیکن ایک خوف ایک بے یقینی نے اسے بھی اندر سے تھوڑی دیر کے لیے دبوچ لیا۔

جب شبو چائے لے کر آئی تو زبیر نے آنکھ ہلکے سے کھول کر چائے کی پیالی کو بغیر ادھر دیکھے ہوئے اپنی طرف کھینچ لی۔

 شبو دونوں کو چائے دے کر کچن کی طرف مڑی ہی تھی کہ دھماکے دار ڈھول کی آواز سن کر بالکونی میں نکل آئی۔ جوان عورتوں اور مردوں کا ہجوم پھولوں سے سجی کار کے سامنے میوزک کی دھن پر ناچ رہا تھا۔شبو خاموشی سے کھڑے ہوئے چمکتے دمکتے اس ہجوم کو دیکھنے لگی۔ سارا قافلہ گزر گیا  مگر شبو ابھی بالکونی میں کھڑی کہیں خیالوں میں گم تھی۔ ویریندر بھی اس کے پیچھے ہی کھڑا تھا۔ اس بات سے وہ بالکل بے خبر تھی۔ ویریندر نے شبو کے چہرے کو غور سے دیکھا، وہ کہیں اور تھی۔ اس نے از راہِ مذاق کہا——بھابی—— کہاں کھو گئیں ؟

ویریندر کی آواز پرشبو چونک پڑی۔

شبو(گہری سانس لے کر) ——پھرکسی کی شادی ہو رہی ہے۔ اتنا کہہ کر وہ بھاری قدموں سے چلتی ہوئی کمرے میں آ گئی۔

ویریندر کافی دیر تک سوچتا رہا۔ کئی بار اس کا دل کیا کہ وہ زبیر بھائی سے بات کرے، مگر اس کی ہمت نہیں ہوئی۔ یہ ان کا ذاتی معاملہ تھا۔ وہ دخل اندازی کیسے کرے؟

٭٭٭

پہلے دور کے امتحان (Prelims)کا اڈمٹ کارڈ آ چکا تھا۔ 23مئی صبح 9:30بجے اس کے اختیاری مضمون کا پیپر تھا۔ تین گھنٹے کے پرچے کے بعد درمیان میں 2:30گھنٹے کا وقفہ تھا۔ اس نے اڈمٹ کارڈ پر اپنے امتحان کا سنٹر بغور پڑھا۔یہ مالویہ نگر کے کسی اسکول کا پتہ تھا اور داہنی طرف اسکین کی ہوئی اس کی چھوٹی سی تصویر مسکرا رہی تھی۔ وہ تصویر کو کچھ پل بغور دیکھتا رہا اور پھر اس کارڈ کو کمرے کے کونے میں موجود چھوٹی سی مندر میں بنی سیڑھیوں پرلا کر رکھ دیا۔ اور کافی دیر تک کہیں خیالوں میں گم رہا۔

۲۲/ مئی کی شام میں جب اس نے نشا کو فون لگایا تو وہ بھی تیار ہو کر نکل ہی رہی تھی۔ دونوں نے مارکیٹ سے جا کر کل کے لیے کچھ کھانے پینے کا سامان Glucon.Dتھوڑی بہت دوائیاں ناشتے میں لینے کے لیے ہلکی پھلکی چیزیں خریدی۔اور لوٹ کر ’’اپنا پارک‘‘ میں بیٹھ کر کل کے امتحان کے بارے میں گفتگو کرنے لگے۔

نیشا کا سنٹر بھی مالویہ نگر کے اسی اسکول میں تھا کیونکہ دونوں نے فارم ایک ساتھ جمع کئے تھے۔

٭٭٭

دوسرے دن علی الصبح ہی ویریندر آٹو لے کر مکھر جی نگر پہنچا تو نشا تیار ہو کر باہر ہی کھڑی ملی۔ نشانے انتہائی سادہ اور ہلکے نیلے رنگ کا چوڑی دار پائجامہ کرتا پہنا ہوا تھا جو کہ اس کے سانولے چہرے کو افسرانہ سنجیدگی بخشنے میں مددگار ثابت ہو رہا تھا۔ جب آٹو رِنگ روڈ پر پہنچا تو یوں محسوس ہوا کہ جیسے دلی شہر میں صرف نوجوان رہتے ہیں اور پورا شہر ہی امتحان دینے کے لیے نکل پڑا ہو۔ صاف ستھرے کپڑوں اور سادہ و سنجیدہ چہروں کے ساتھ شہر کے نوجوان بسوں ،اور آٹو زمیں بیٹھے بھاگے چلے جا رہے تھے۔ میٹرو اسٹیشن میں ٹکٹ لینے والوں کی لمبی قطار باہر سڑک تک آ چکی تھی۔ اور ابھی بھی جوانوں کا ہجوم آتا ہی جا رہا تھا۔ آج ویریندر کو اندازہ ہوا کہ اس جیسے کروڑوں نوجوان اپنے شب و روز امتحان کی کامیابی کے خواب میں گزار رہے ہیں ان کے چہروں کی معصومیت اور سنجیدگی میں ہندوستان کا مستقبل لہلہا رہا تھا۔

امتحان کے سنٹر پر پہنچا تو انٹری شروع ہو چکی تھی۔ دونوں نے اپنا سامان ایک بیگ میں ڈال کر گیٹ کیپر کے حوالے کیا اور صرف اڈمٹ کارڈ اور پنسل ربر کٹر و ایک قلم لے کر امتحان کے ہال میں پہنچے تو دیکھا کہ اور بھی لوگ وہاں اپنے رول نمبر تلاش کر رہے ہیں۔ تھوڑی دیر کی چہل قدمی کے بعد ویریندر کو اپنا رول نمبر مل گیا اور پھر اس کی خوشی کا ٹھکانہ نہیں رہا جب اس نے دیکھا کہ آگے والی سیٹ نشا کے رول نمبر کی تھی۔

دونوں اپنی اپنی سیٹ پر خاموشی سے بیٹھ گئے۔ ویریندر کے دل کی دھڑکن رہ رہ کر بڑھتی جا رہی تھی۔ پہلے دور کے امتحان میں ویریندر کا یہ پہلا موقع تھا نشا تو قدرے پر سکون اور جیسے دل ہی دل میں کچھ دہراتی ہوئی سی معلوم ہو رہی تھی مگر ویریندر کے چہرے سے گھبراہٹ کے آثار نمایاں تھے۔ تھوڑی دیر میں گھنٹی بجی اور ایک آدمی ہاتھوں میں کاپیوں کا بنڈل سنبھالے ہوئے کمرے میں داخل ہوا۔ وہ ہر میز پر ایک ایک کاپی رکھتا ہوا گزر گیا۔ ویریندر نے جب قلم کھول کر کاپی کا کالم بھرنا شروع کیا تو اسے ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے کہ وہ آج تقدیر کی ہر بلندی کو فتح کر چکا ہے۔ یہ امتحان تو محض ایک Process ہے۔ امتحان کا یہ پرچہ حالانکہ ابھی کامیابی کا پہلا زینہ تھا مگر اس کا دل بلّیوں اچھل رہا تھا اس نے ہر کالم قرینے سے سجائے۔ کاپی کے اوپری صفحہ میں بنے کالم کو بھرنے کی پریکٹس اسے کلاس روم میں بھی کرائی گئی تھی مگر آج سچ مچ وہاں تک پہنچ کر وہ خود کو سب سے خوش قسمت سمجھ رہا تھا۔

ابھی دس منٹ گزرے ہوں گے کہ ایک اور گھنٹی بجی اور ایک آدمی پرچوں کا سیل کیا ہوا پیکٹ لے کر کمرے میں آیا اور ایک ہلکی سی نظر گھڑی پر ڈال کر پیکٹ کو چاک کیا اور آگے والی میز کے پاس سے جلدی جلدی پرچہ بانٹتا ہوا گزرنے لگا۔ جب ویریندر کے ہاتھ میں اس کا پرچہ آگیا تو اس نے بڑے احتیاط اور پوری توجہ سے ایک کے بعد ایک کر کے سوالوں پر نظر دوڑانا شروع کیا۔

ایک بار گی تو اسے ایسا محسوس ہوا جیسے کہ وہ غلطی سے کہیں دوسرے امتحان کے پرچے کو ہاتھ میں لے لیا ہو اس نے دوبارہ پرچے کا فرنٹ پیج چیک کیا۔ سب کچھ ٹھیک تھا۔ اس نے اپنی جیب سے سفید رومال نکالی اور ماتھے کا پسینہ پوچھ کر اسے جیب میں رکھا اور پھر پرچے کو سمجھنے کی کوشش میں مصروف ہو گیا۔

دوسرے دن ویریندر کوچنگ سنٹر میں پہنچا تو واپس آ کر امید وار اپنے اپنے سوال نامے دکھا کر اپنے جواب بتا رہے تھے اور روی سران کو بتا رہے تھے کہ کس نے کتنے جواب سہی دیے ہیں۔ ویریندر کو یہ سن کر اطمینان ہوا کہ اس نے کافی سوالوں کے جواب صحیح دیے ہیں اور اس کا پرفارمینس اچھا رہا ہے۔ اس کے بعد تقریباً دو مہینے تک اس کا وقت کچھ تو گھومنے پھر نے میں اور کچھ گاؤں میں جا کر گزرا۔ اس نے اپنی اچھی تیاری اور کامیابی کی پوری امید کا ذکر پورے جوش و خروش سے کیا گھر والے بھی بیحد خوش تھے کہ اگلے سال تک ویریندر سول سرونٹ ہو کر آسکتا ہے۔ نایک جی کو اپنا گھر اور اس کا دروازہ گاؤں کے دوسرے مکانوں کے مقابلے میں بلند و بالا محل کی طرح اٹھتا ہوا محسوس ہوا۔

ویریندر چند ہی دنوں بعد دلی واپس آگیا اور مینس کی تیاری میں پوری طرح جٹ گیا۔

ویریندر بالکونی میں بیٹھ کر اخبار پڑھ رہا تھا اور قلم سے ضرورت کے مطابق اس میں انڈر لائن بھی کرتا جا رہا تھا۔ مگر تھوڑی تھوڑی دیر میں اس کا قلم رک جاتا اور وہ کچھ سوچنے لگتا۔ جب سے. P.T کا رِزلٹ آیا تھا نشا تھوڑی بدلی بدلی سی لگتی تھی وہ نہ جانے کیوں اتنی کھنچی کھنچی سی تھی کہ اس کو لگتا ہے کہ میں محنت نہیں کرتا۔

اس کو میری سچائی پر یقین کیوں نہیں ہوتا۔ تھوڑا انتظار تو کرنا ہی پڑتا ہے۔ آج نہیں تو کل سب ٹھیک ہو جائے گا۔ وہ اٹھ کر بالکونی میں آگیا۔ انسان گرتا ہے تو اس لئے کہ وہ پھر پوری طاقت کے ساتھ اٹھ سکے۔ وہ ہارتا ہے اس لئے کہ پوری قابلیت اور اعتماد کے ساتھ جیت سکے۔ وہ بالکونی سے کمرے میں آگیا اور کپڑے بدل کر بترا کی طرف نکل پڑا۔

٭٭٭

بعد میں کورس ختم کرنے اور نیا بیچ بیچ میں ہی شروع کر دینے کی وجہ سے کوچنگ میں بچوں کو Printedنوٹس ملنے لگے۔ چونکہ ویریندر کے لیے تاریخ بالکل نیا سبجکٹ تھا اس لیے بنا ڈسکشن کے Printedنوٹس اسے بند پیکٹ کی طرح لگتے۔مگر اب تک اس نے فیس کی ساری قسطیں جمع کر دی تھیں اور اب وقت بھی نہیں رہ گیا تھا کہ وہ کسی اور سے کوئی مدد لے سکے۔ لہٰذا خاموشی سے امتحان کی تیاری کرنا ہی زیادہ مناسب تھا۔

خیر اس نے پورا جی جان لگا دیا۔ مگر جب اگست کے پہلے ہفتے میں P.T.کا نتیجہ آیا تو وہ رہ گیا تھا۔ اسے بہت صدمہ ہوا، سرنے اور دوستوں نے بھی سمجھایا کہ پہلی بار میں P.T.ہونا تھوڑا مشکل ہوتا ہے۔ لیکن اگلی بار وہ P.T. Sureنکال لے گا۔

زبیر نے کہا—— فکر مت کرو۔ اب کی بار کوچنگ وغیرہ کا جھنجھٹ ختم ہو جائے گا تو تمھیں روم میں بیٹھ کر صرف پڑھنا ہی رہے گا۔ اس لیے اگلی بار کی تیاری پوری کرو۔

ویریندر——بابو جی بھی یہی کہہ رہے تھے۔

٭٭٭

ویریندر کے بابوجی ویریندر کا  اڈمٹ کارڈ گھر کے پتے پر منگواتے اور دوچار روز ساتھ لے کر گھومتے اور لوگوں کو بتاتے کی ان کا بیٹا I.A.S.کے امتحان میں بیٹھتا ہے۔ لوگ اسے دیکھ کر سکتے میں آ جاتے۔ حالانکہ ویریندر کو یہ سب کچھ اچھا نہیں لگتا تھا مگر وہ بابو جی کی خوشی کی خاطر خاموش رہ جاتا۔

وہ اسے D.M.بننے والا کاغذ کہتے تھے۔ کچھ لوگ تو یہ جانتے تھے کہ وہ ابھیD.M.کا امتحان دے رہا ہے اور کچھ دور دراز تک تو یہ بات بھی مشہور ہو چکی تھی کہ نایک جی کا بیٹا D.M.بن گیا ہے۔

پوسٹ مین دروازے پر آ کر رکا تو نایک جی نے پوچھا۔

 کیسے ہو پریم چندر؟ کیا خوشخبری لائے ہو؟

پوسٹ مین——آپ کا رجسٹری لیٹر ہے۔

نایک جی—— لپک کر پہنچتے ہوئے۔ ذرا دیکھو تو اس پر ویریندر بابو کی تصویر ہے؟

پوسٹ مین——ہاں کوئی تصویر ہے لیکن آج میں چشمہ بھول گیا ہوں۔ اس لیے آپ ہی دیکھ لیجئے۔

نایک جی——ہاں۔۔۔۔۔۔۔!ہم ٹھیک سمجھ رہے تھے۔(پیار سے پوسٹ مین کو دیکھتے ہوئے) اب تو ہار سب بزرگن کے آشرواد رہے تو سب ٹھیک ہوئی جائی۔

٭٭٭

بھارتی یوں تو رہنے والی گاؤں کی تھی۔ مگر تعلیم کے لمبے سفر میں اس نے Competition  دینے والوں کے عبرتناک انجام بھی اپنی آنکھوں سے دیکھے تھے۔ وہ ایک فوجی کی بیٹی تھی اور باقاعدہ تعلیم یافتہ گھرانے سے تعلق رکھتی تھی۔ اس کو کیریر کے کئی Option  لے کر چلنے کا ہنر بچپن سے ہی سکھایا گیا تھا۔ اسے سنی سنائی باتوں پر یقین نہیں ہوتا تھا جب تک کہ وہ خود اپنے مشاہدے سے کوئی چیز پرکھ نہ لے۔

 وہ جنرل اسٹڈی کے لیے میگزین خریدتی تو سب سے پہلے اس میں چھپے انٹرویو کے صفحات پھاڑ کر پھینک دیتی اسے رٹی رٹائی، گھسی گھسائی باتوں کو پڑھنا بالکل اچھا نہیں لگتا تھا۔ اس کا ماننا تھا کہ ہر طالب علم کی اپنی ایک سوچ ہوتی ہے اور سب کی پڑھائی کے اوقات اور Capacity  میں بھی فرق ہوتا ہے۔ اس لیے دوسروں کی طرح خود کو سولہ گھنٹے پڑھنے کی خاطر آمادہ کرنا اور اپنی Capacity  کے خلاف جانا بالکل ٹھیک نہیں۔ دوسروں کی لکیروں پر سردھننے سے کوئی سولہ گھنٹے کرسی تو توڑ سکتا ہے مگر پڑھائی بالکل نہیں کر سکتا۔

اسے کوچنگ انسٹی ٹیوٹ کے اس ٹریڈیشن سے بڑی کوفت ہوتی کہ ہر مہینے کوئی نہ کوئی U.P.S.C کوالی فائی کیا ہوا شخص آتا ہے اور کلاس کے سبھی بچے اس سے ایک ہی سوال پوچھتے ہیں اور تقریباً جواب بھی ایک ہی ہوتا ہے۔ آپ کی کامیابی کا راز کیا ہے؟ یہ سوال اس سے کیوں پوچھا جاتا ہے۔ یہ لوگ خود سے کیوں نہیں پوچھتے کہ جب سو بیمار ہیں تو انار کسی ایک کے ہی ہاتھ لگے گا۔

اس دن کلاس ختم ہوئی تو ڈائرکٹر نے اعلان کیا کہ شام والی کلاس میں ایک نئے افسرکی ملاقات آپ سے کروائیں گے۔ میں چاہتا ہوں کہ آپ لوگوں کی گائڈنیس میں ذرّہ برابر بھی کوتاہی نہ ہونے پائے۔ آپ اپنے اپنےConfusion  ان سے ڈسکس کر کے اپنی پوری تسلی کر لیں ہماری یہی خواہش ہے۔

بھارتی نے غور سے دیکھا تو کلاس کے بچوں کے چہرے ڈائرکٹر کی اس مشفقانہ برتاؤ سے چمک اٹھے تھے۔ اور چہروں پر ایک اطمینان کی کیفیت صاف دکھائی دے رہی تھی۔

بھارتی کو پچھلے افسر اکھلیش کمار کے سلسلے میں زبیر سے ہوئی گفتگو یاد آ گئی۔ اسے سخت نفرت ہو رہی تھی انسٹی ٹیوٹ کے ڈائرکٹر سے۔ مگر وہ خاموش رہی۔ ابھی اسے اپنا کورس بھی پورا کرنا ہے۔

مکھرجی نگر کا ’اپنا پارک‘ شام کے وقت پر رونق ہو جاتا تھا۔ پارک کے بیچوں بیچ قطار میں کئی بنچ ایک دوسرے کے سامنے رکھی ہوئی تھیں۔یہ عاشقوں کی جنت تو تھا ہی، کمپی ٹیٹرس کا بھی میٹنگ پلیس تھا۔شام کو یہاں اکثر بحث و مباحثے ہوتے۔ بھارتی کی ملاقات ویریندر اور زبیر سے اسی پارک میں ہوئی تھی۔ تب سے بھارتی بھی ان بحث مباحثوں میں ان کے ساتھ رہتی تھی۔ حالانکہ زبیر اب ان محفلوں میں کم ہی بیٹھتا تھا مگر آج جب بھارتی پارک میں پہنچی تو ویریندر کے ساتھ زبیر بھی موجود تھا۔

٭٭٭

جب بھارتی ’’اپناپارک‘‘ پہنچی تو زبیر اور ویریندر دونوں آ چکے تھے۔ صبح کا  اخبار بنچ پر پڑا تھا۔ وہ اخبار دیکھنے لگی۔بیرون ممالک میں ہندوستانی طالب علموں پر ہونے والے علاقائی منافرت کے حملوں پر نظر پڑتے ہی وہ تھوڑی دیر کو رک گئی اور سوچنے لگی۔ اسے سنجیدہ  دیکھ کر زبیر نے اسے ٹوکا تو وہ چونک پڑی۔

زبیر ——کیا بات ہے؟ کیا کچھ خاص خبر ہے؟

بھارتی——جی (گہری سانس لے کر) بیرون ممالک میں ہندوستانی طالب علموں پر علاقائی منافرت بھرے حملے کیے جا رہے ہیں۔

زبیر—— تواس میں اتنا سنجیدہ ہونے والی کیا بات ہے؟

بھارتی——(حیرت سے) سنجیدہ ہونے کے لیے اس سے بڑا موضوع اور کیا ہو سکتا ہے کہ ہمارے ملک کے نوجوان کسی اجنبی زمین پر رہ کر پڑھائی کر رہے ہیں۔ اپنے شب وروز اس امید میں گزار رہے ہیں کہ ایک دن وہ اپنے پیروں پر کھڑے ہوں ، پورے خاندان کی کفالت کر سکنے لائق ہو جائیں گے۔ اور ان کے ساتھ اس طرح کا سلوک۔۔۔

زبیر—— مرنے دو سالوں کو۔ سب امیر ہیں۔ ان میں کوئی ہمارا تھوڑی ہے

بھارتی——(حیرت سے زبیر کے چہرے کو دیکھنے لگی)کیا؟ امیر ہیں (معنی خیز نظروں سے دیکھتے ہوئے) مطلب۔۔۔ !

زبیر——مطلب سب امیروں کے بچے ہیں۔ وہ باہر پڑھنے کیوں جاتے ہیں۔ کیا ان کو ہندوستان کے اندر پڑھنے کی سہولیات نہیں ملتیں۔

بھارتی—— ملتی ہیں۔ مگر باہر سے اڈوانس ٹیکنا لوجی اور بہتر کرنے کی خواہش ساتھ لاتے ہیں۔

زبیر—— کچھ نہیں کرتے۔ بڑے آدمی بن کر وہ امیر سے اور امیر بن جائیں گے اور ہم یہیں کے یہیں رہ جائیں گے۔

بھارتی——تو مقابلہ کرو نہ ان سے۔ اسی سماج میں  Awareness  پیدا کیجیے، سب ٹھیک ہو جائے گا۔

زبیر——کیا خاک ٹھیک ہو جائے گا۔ یہاں ہمارے ساتھ بھی تعصب برتا جاتا ہے۔ پرائمری اسکول سے لے کر یونیورسٹی تک ہمارے ساتھ منافرت کا رویّہ اپنایا جاتا ہے۔ کسی کے لیے گڈّھا کھودیں گے تو ان کو بھی گہری کھائیاں ہی ملیں گی۔

بھارتی—— میں بھی جانتی ہوں کہ یہ سب ہوتا ہے۔ مگر میں سمجھتی ہوں کہ ہمیں اور مضبوط ہونے کی ضرورت ہے تاکہ سامنے والا ہمارے ساتھ بُرا بر تاؤ کرنے کی ہمت نہ کر سکے۔

زبیر——ان کی ہر شعبے میں پہچان ہوتی ہے۔ صاحب اقتدار کی نسل اور قبیلے کے حساب سے Toppers  کی لسٹ طے ہوتی ہے ہم کہاں جائیں ؟ ہمیں تو یہ بھی پتہ نہیں چلتا کہ ہم رشوت بھی کس کو دیں۔

بھارتی—— ہمیں خود کو اتنا آگے لانا ہو گا کہ ہم بھی ہر شعبے میں اپنا رشتے دار ڈھونڈ نکالیں اور فخر سے اپنا کام کرواسکیں۔ بغیر تعلیم کے ہم کچھ نہیں کر سکتے۔ جب تک گھروں میں بچوں کی تربیت اس بنیاد پر کی جاتی رہے گی کہ تم کو نوکری نہیں ملے گی۔ تم بڑے ہو کر یا تو بمبئی کے چور بازار میں پرانے جینس کا دھندا کرو گے یا پھر عرب میں کسی امیر کی بکری چراؤ گے۔ تب تک وہ بچہ بڑا ہو کر کیا بنے گا کیا کرے گا؟ سماج میں اپنی حیثیت کس طرح بحال رکھے گا یہ بات اسے سوچنے کا موقعہ کب دیا جاتا ہے؟

زبیر—— ماں باپ سب مجبوری کے تحت کرتے ہیں۔ اگر بچے کو اسکول بھیج دیں تو گھر کا خرچہ کیسے چلے۔ شام کو اسکول سے واپس آ کے وہ کھائے گا کیا؟ جیسے سوالات اسے اسکول کا منھ دیکھنے کا موقعہ نہیں دیتے۔

بھارتی—— غریبی کی سب سے بڑی وجہ کاہلی ہوتی ہے۔ نہیں تو دنیا میں چرند و پرند بھی کبھی بھو کے نہیں سوتے پھر یہ انسان تو ایک ہزار ہنر کا مالک ہے۔ وہ محنت و مشقت، دماغ و Ideas  کسی کی بھی روٹی کھا سکتا ہے۔ مگر اپنی کاہلی کو وہ غریبی کی چادر سے ڈھک کر صرف بد نصیبی کی لاٹھی پکڑے کھڑا رہتا ہے۔ اور اپنی انھیں کمزوریوں کا شکار نسل درنسل وہ نیچے سے نیچے گرتا چلا جاتا ہے۔

زبیر—— آپ کا مطلب ہے کہ جو عرب میں بکری چراتے ہیں اور بمبئی میں چندی کا دھندا کرتے ہیں وہ محنت نہیں کرتے؟

بھارتی—— کرتے ہیں۔ مگر بیل کے کھیت جوتنے اور ایک Scientist کے Invention میں بہت فرق ہوتا ہے۔ جب بچوں کو تعلیم کی ضرورت والدین کی Priority  سے باہر رہتی ہے تو وہ بڑے ہو کر زندگی میں کمائی کے Options  کھو دیتا ہے۔

زبیر——دنیا میں کوئی بھی ماں باپ ایسے نہیں جو بچوں کو تعلیم دلانا نہیں چاہتے ہوں۔

بھارتی——بالکل ٹھیک۔ مگر صرف چاہنے اور عملی اقدام میں فرق ہوتا ہے۔ بڑے شہر ہوں یا چھوٹے موٹے گاؤں غربت کی جڑوں میں کاہلی آپ کو ہر جگہ دیکھنے کو مل جائے گی۔ حالات تو یہاں تک خراب ہیں کہ گھر میں ایک کمانے والا کسی شہر یا بیرون ممالک میں روزی روٹی کی تلاش میں بھٹکتا رہتا ہے اور یہاں گھروں کے بزرگ دن بھر گلیوں و محلوں میں بیٹھ کر تاش چٹکاتے ہیں۔ بچہ بڑوں کو ہی فالو کرتا ہے۔ وہ دیکھتا ہے کہ ماں تو منھ میں پان کھائے ہوئے محلے کے گھروں میں بیٹھی غپّیں ہانک رہی ہے اور گھر کے بڑے بوڑھے دن بھر گلیوں میں بیٹھ کر تاش کھیل رہے ہیں تو وہ معصوم پڑھنے کے بجائے دوسرے سبھی کام کرنے لگتا ہے۔ کیونکہ اب اس کی نظر میں یہ سب کرنا کوئی گناہ نہیں۔ ان سب برائیوں کی جڑ میں جہالت ہی پھل پھول رہی ہے۔

زبیر——آپ کا اشارہ مسلم سماج کی طرف ہے؟

بھارتی——میں ہر اس سماج کی بات کر رہی ہوں جو اپنے پچھڑے پن کا رونا روتے ہیں اور چھو منتر میں اپنے دکھ و غریبی کا حل ڈھونڈتے ہیں۔ دوسروں پر انگلی اٹھانے کی بجائے اگر آج ہی ہم اٹھ پڑیں اور مشکلوں کا حل ڈھونڈنے لگیں تو آج نہیں تو کل ہم حل تلاش ہی لیں گے۔ مگر شروعات ضروری ہے۔ اور بنا دیر کیے ہوئے۔ ورنہ صرف آنسو بہانے سے کچھ نہیں ہو گا، سوائے اپنی روشنی گنوانے کے۔

٭٭٭

آج نشا کا فون آیا تو ویریندر سورہا تھا۔ اس نے فون رسیو کیا تو نشا نے ذرا ناراض ہوتے ہوئے کہا۔ کیا کر رہے ہو ویرو؟ آج ایک ہفتے ہو گئے مگر تم نے مجھے وہ نوٹس نہیں دیے۔ مجھے اسے پڑھنا ہے۔ پلیز جلدی کر دو نا۔

ویریندر——بس تھوڑے سے اور بچے ہیں۔ میں کوشش کرتا ہوں جلدی کرنے کی۔

نشا—— (پیار سے چمکارتے ہوئے) چلو اٹھو اب۔

ویریندر اٹھ کے بیٹھ گیا۔ نیند ابھی تک آنکھوں میں بھری تھی۔ اس نے باتھ روم میں جا کر پانی سے منھ اچھی طرح دھویا اور ہاتھ منہ ٹاول سے پونچھ کر Study Chair پر آ کر بیٹھ گیا۔

آج ویریندر خوش تھا۔ اس تنک مزاج دوست کا کام اس نے آج پورا کر دیا تھا۔ وہ نہا دھو کر شام کو جب چائے پینے کی غرض سے باہر جانے لگا تو نوٹس کا پیکٹ ہاتھ میں لے لیا۔ وہ آج نشا کو سر پر ائز دے گا۔ بترا سینما کے پاس آٹو سے اتر کر نشا کو فون ملایا۔

ویریندر—— ہیلو نشا ،کہاں ہو؟

نشا—— ویرو۔۔۔۔میں پٹیل چیسٹ آئی ہوں۔

ویریندر—— میں بھی آ رہا ہوں۔

نشا——ویریندر میں یہاں ایک کتاب لینے آئی تھی۔وہ یہاں مل نہیں پائے گی۔ اس لیے میں واپس آ رہی ہوں۔

ویریندر—— میں تمہارا انتظار کر رہا ہوں۔

نشا—— نہیں تم چلے جاؤ۔ مجھے کچھ اور کام بھی ہے۔ تھوڑی دیر ہو جائے گی۔میں کل ملتی ہوں تم سے۔ ویریندر ابھی فون کان کے پاس لگائے بات کر ہی رہا تھا کہ بتراسنیما کے گیٹ پر کھڑی بھیڑ میں نشا کے چہرے پر اس کی نگاہ جا کر رک گئی۔ نشا چھ سے نو والے شو کی لائن میں لگی سنیما کے انٹری گیٹ کی طرف دھیرے دھیرے بڑھ رہی تھی۔ ویریندر کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں وہ کچھ دیر تک بالکل سکتے کے عالم میں کھڑا رہا۔ اس کی ہمت نہیں ہوئی کہ وہ دوبارہ نشا کو فون ملائے۔ اسے ایسا صدمہ لگا کہ اس کو کھڑا ہونا بھی مشکل ہونے لگا۔

آج رات بھر اسے نیند نہیں آئی۔ صبح ہوئی تو اس کا سر درد کے مارے پھٹا جا رہا تھا۔ ابھی وہ اٹھنے کی سوچ ہی رہا تھا کہ اتنے میں فون کی گھنٹی بجی۔ اس نے موبائل اٹھا کر دیکھا تو نشا کا فون تھا۔ اسے نشا سے اتنی نفرت ہو رہی تھی کہ موبائل اٹھا کر پھینک دینے کو جی چاہا۔ مگر پھر اس کے ذہن میں آیا کہ اگر میں نشا سے دوری بڑھا لوں تو کوئی دوسرا میری جگہ آ جائے گا۔ اسے تو کوئی فرق نہیں پڑتا مگر مجھے پڑتا ہے۔ فون کی گھنٹی لگاتار بجے جا رہی تھی۔ آخر کا ر اس نے فون اٹھایا۔

ویریندر—— ہیلو (کمزور آواز کے ساتھ )

نشا——ویرو کیا ہوا؟ تم فون کیوں نہیں اٹھا رہے ہو؟

ویریندر—— (ذرا سا رکتے ہوئے) میں سورہا تھا۔

نشا—— ویرو۔۔۔وہ نوٹس پورے ہو گئے کیا؟

ویریندر—— ہاں ہو گئے۔

نشا——تو صاحب کب تشریف لا رہے ہیں۔

(ویریندر کی نیند پوری نہیں ہوئی تھی۔ وہ ابھی اور سو نا چاہتا تھا۔ مگر پھر بھی وہ کچھ کہہ نہیں پایا)

ویریندر—— بولو۔۔۔ کب آؤں ؟

نشا—— ابھی آ جاؤ۔۔۔ (ذرا جھجکتے ہوئے)

ویریندر—— ٹھیک ہے۔ (اتنا کہہ کر اس نے فون رکھ دیا)

٭٭٭

ویریندر ’اپنی رسوئی‘ سے گزرنے والی سڑک کے نکڑ کی سگریٹ کی دکان سے سگریٹ خرید رہا تھا کہ سامنے سے نشا آتی ہوئی دکھائی دی۔ویریندر نے جلدی سے سگریٹ کے پیکٹ کو پینٹ کی جیب میں ٹھونس لیا مگر کوشش بیکار گئی۔ وہ رنگے ہاتھوں پکڑا جا چکا تھا۔ نشا اس کے قریب پہنچی تو ویریندر کا چہرہ مارے شرم کے سرخ ہو رہا تھا۔

نشا——کیا چھپا رہے ہو؟

ویریندر——(سمجھ گیا کہ جھوٹ بولنا ٹھیک نہیں ) س۔س۔سگریٹ ہے۔

نشا—— تم سگریٹ پیتے ہو؟

ویریندر——نہیں ، عادی نہیں ہوں۔

نشا—— تو یہ کیا ہے؟

ویریندر——صرف ایک ہفتے سے پی رہا ہوں۔

نشا——(بات کو زیادہ طول نہ دیتے ہوئے) اچھا چھوڑو۔یہ بتاؤ کہ تم یو۔پی۔ایس۔سی۔ گئے تھے؟

ویریندر—— ایک ہفتہ پہلے ہی ہو آیا ہوں۔

نشا (حیرت سے)—— اچھا، تو مجھے بتایا کیوں نہیں۔

ویریندر——(اس کا چہرہ مایوسیوں کی لکیروں سے بھر گیا) بس یوں ہی۔

نشا—— نمبر کس پیپر میں کم ہیں ؟کہیں پھر تو وہی نہیں۔۔۔؟

ویریندر——( سگریٹ جلا کر ہونٹ سے لگاتے ہوئے) ہاں ، پھر وہی۔

یہ انگریزی تو میرے لئے ایک بھیانک عفریت بن گئی ہے۔ ہر بار صرف اس چھوٹے سے پرچے کی وجہ سے باقی مضامین کے بارے میں کچھ پتہ ہی نہیں چل پاتا کہ کیسے رہے۔ اچھا کیا تھا یا نہیں ، کچھ نہیں معلوم۔

(اس نے دھواں آسمان کی طرف چھوڑتے ہوئے پیٹ ہلکا کیا)

نشا—— تم اتنا فکر مند ہو کر اپنی انرجی کیوں برباد کرتے ہو۔ اگر تم کو لگتا ہے کہ یہ پرچہ تمہاری کامیابی میں رکاوٹ ثابت ہو رہا ہے تو تم اس کی بھی کوچنگ کیوں نہیں لے لیتے۔ میریڈین کوچنگ میں اس کی کلاس ہوتی ہے۔اس میں زیادہ کچھ تھوڑے ہی پڑھنا ہے۔ بس کوالیفائی ہی تو کرنا ہے۔

ویریندر—— یہی تو مجھے بھی لگتا ہے۔سب کیا کہیں گے کہ مجھے اتنی بھی انگریزی نہیں آتی کہ میں معمولی سا پرچہ حل کرسکوں ؟

نشا——تم کو اپنی کم اور کہنے والوں کی فکر زیادہ ہے۔ تم خود سوچو اگر تم کوچنگ کر لو گے تو تمہاری سال بھر کی محنت یوں خاک میں تو نہیں ملے گی۔

(دونوں بات کرتے ہوئے ’’اپنا پارک‘‘ کی طرف نکل آئے)

٭٭٭

ویریندر کے دو سال انتہائی جوش و خروش میں گزر گئے۔ ہر چند کہ اس کے لئے دلی جیسے بے حس اور بے درد شہر میں جینا آسان نہیں تھا کہ یہاں ہر قدم پر اس کے ساتھ اجنبیوں سا سلوک ہوتا تھا لیکن I.A.S.میں آنے کا خواب اور گھر والوں کی ہمت افزائی نے اس کو انتہائی اعتماد کے ساتھ اپنی تیاری جاری رکھنے میں مدد کی۔ اس دوران اس کے دوستوں کا حلقہ بھی بن گیا اور وہ یہاں خاصہ گھر جیسا محسوس کرنے لگا۔ مکھر جی نگر اور آوٹرم لین کی گلیوں میں گھومتے ہوئے اسے ایسا لگتا تھا جیسے یہ محض اس کی اگلی زندگی کے لئے ایک ہوائی اڈا ہے۔ اس کی نظروں کے سامنے پرانے اسٹوڈنس کی عجیب و غریب حرکتیں بھی تھیں۔ لیکن اس نے کبھی اس کی طرف توجہ نہیں دی۔ حالانکہ زبیر مسلسل اسے پڑھائی کے علاوہ تفریح کرنے کی ترغیب بھی دیتا تھا۔ اب تک کے سبھی امتحان اس نے مکمل اعتماد کے ساتھ دیے اور اس کے بارے میں اس نے اپنے گھر والوں کو اعتماد بھرے فون کئے۔ امتحان کے دنوں میں اس نے رات رات بھر جاگ کر تیاریاں کیں۔ کوچنگ میں بھی اچھا پرفارم کیا۔ اسے پوری امید تھی کہ اس کو اسی سال مینس لکھنے کا موقعہ مل جائے گا۔ یہی بات اس نے گھر والوں کو بھی بتا رکھی تھی۔ ادھر اس کے امتحان میں شریک ہونے کا وقت آیا اور ادھر نایک جی نے پوری برادری و علاقے میں یہ خبر پھیلا دی کہ کوچنگ والوں نے کہا ہے کہ ویریندر امتحان میں کامیاب ہو جائے گا۔ نتیجے کے ایک دن پہلے کی شام دوستوں کے ساتھ چائے پیتے ہوئے ویریندر اپنے پر چوں اور سوالوں کا گرم جوشی سے ذکر کرتا رہا۔ٹیوٹر نے بھروسا دلایا کہ اس نے اچھا اسکور کیا ہے۔

لیکن نتیجہ میں اس کا نام نہیں آیا تو اس کی وجہ پر غور کیا گیا اور یہ طے ہوا کہ اصل امتحان تو مکمل تیاری کے بعد ہوتا ہے اور ویریندر پہلے سے بھی زیادہ بلند حوصلے کے ساتھ اس Attemptکی تیاری میں لگ گیا۔ لیکن کہیں نہ کہیں وہ محسوس کرنے لگا کہ در اصل اس کی تیاری مکمل ہو چکی ہے اور اس کی نا کامی محض چانس کی بات تھی۔ اور اسے ایسا لگنے لگا جیسے اسے خواہ مخواہ پورا سال کاٹنا ہے اور انتظار کرنا ہے۔ اس احساس کے تحت وہ پرانی کتابوں کو دہراتے ہوئے اکثر بے زاری محسوس کرنے لگا۔ اور اٹھ کر کسی نہ کسی کے پاس تفریح کے لئے چلا جاتا اور ان دوستوں کی رنگ برنگی زندگی کے بارے میں سن کر اور دیکھ کر اپنا اچھا خاصہ وقت کاٹ دیتا۔ اور اس میں اسے تضیعِ اوقات کا قطعی احساس نہیں ہوتا۔ امتحان قریب آنے پر ایک بار اس نے پھر زوروں کی تیاری شروع کی۔ لیکن اس بار مکمل اعتماد کے باوجود کامیاب نہ ہو سکا۔ اس بار کی ناکامی کی خبر نے گھر میں چہ می گوئیاں شروع کر دیں۔

ویریندر کی ناکامی نے اس کے ذریعے پیدا کردہ تمام حوصلوں کو مسمار کر کے رکھ دیا اور وہ بے چین سا ہو گیا اب تک اس کی دوستی کئی دوسرے لڑکے لڑکیوں سے ہو چکی تھی جن کا یہ آخری Attemptتھا اور سب اچانک ہی پریشان ہو گئے اور کسی دوسرے روزگار کی تلاش کے بارے میں متفکر ہو گئے۔ اس پورے دور میں یعنی تیسرے سال میں صرف نشا اس کے ساتھ تھی جس کی تیاری بتا رہی تھی کہ وہ یقیناً کامیاب ہو جائے گی اور ویریندر کے لئے نشا ایک مینارۂ نور بن گئی تھی۔ اور وہ جذباتی طور پر کامیابی کے لئے نشا سے جڑ گیا تھا۔

لیکن تیسرے نتیجے نے جہاں نشا کو کامیابی دی وہیں ویریندر کو زبردست جھٹکا دیا اور زبیر کو تسکین کہ اس کا روم میٹ بھی کامیاب نہیں ہوا۔ ایک دن ویریندر نے یہ طے کیا کہ وہ ان ساری صحبتوں کو ختم کر لے گا جس میں اس کا وقت برباد ہوتا ہے۔ اس نے آلتو فالتو کی تمام چیزیں اپنے کمرے سے نکال پھینکیں جن کا اس کے Studyسے تعلق نہیں تھا جیسے اسپورٹس کے کپڑے ، گانے کی سیڈیز، فلم کی سیڈیز، نشا کے سارے گفٹس وغیرہ وغیرہ۔۔۔

اور پھر اس نے اپنے کو سب سے کاٹ کر رکھنے کی کوشش کی کہ ایک دن زبیر پھر  آ دھمکا اور اس کو کامیابی کے نسخے بتانے لگا۔ لیکن پتہ نہیں کیسے اب کوشش کے باوجود بھی وہ رویزن نہیں کر پا رہا تھا۔ ٹسٹ سیریزمیں بھی اس کے نمبر کم آنے لگے۔ اور پھر اسے ایسا لگنے لگا کہ اس کے ذہن کی طاقت کہیں کھو گئی ہے اب کہیں سے کوئی حوصلہ افزائی ،امید بھری نظروں کی ہمت افزائی، بڑوں کا اعتماد، کچھ بھی ساتھ نہیں دے رہا تھا۔ اور اب اس کا شمار نسبتاً نا کام لوگوں میں ہونے لگا تھا۔ دوسرے لڑکے بھی اب اس کی بات پر توجہ نہیں دیتے تھے۔

ایک دن اسے یہ محسوس ہونے لگا کہ امتحان میں تو وہ کامیاب ہو نہیں پا رہا ہے۔ دوسری طرف اس کے چہرے کی رونق اور آنکھوں کی چمک کہیں غائب ہوتی جا رہی تھی اور اس کی جوانی کے بہترین دن یوں ہی برباد ہو رہے تھے۔ ایک Restaurantمیں بجتے ہوئے ایک گانے نے اس کے دل میں اور بھی آگ لگا دی۔SMSجو دل ہلکا کرنے کے لئے تھے وہ ویریندر کے اوپر بجلی کی طرح اثر کرنے لگے کہ یہ زندگی کی حقیقت بھی تھی اور پھر آج ہاتھ میں اخبار تھا جس میں اس کا نام نہیں تھا۔

آج اچانک ہی ویریندر کو زبیر کی بہت یاد آئی زبیر کو اپنے مکان میں گئے ڈیڑھ دو مہینے ہو گئے تھے۔ جب سے اس کی بیوی آئی تھی۔ وہ ادھر ادھر کم ہی دکھائی دیتا تھا۔ اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ وہ اپنا زیادہ تر وقت بیوی کو دینے لگا تھا۔ بلکہ بیوی کے آنے کے بعد کمانے کا دھن ایسا سوار ہوا کہ اب وہ ایک آزمائشوں سے بھرے دوراہے پر آگیا تھا۔ وہ اپنے Ambitionsکو بھول نہیں پا رہا تھا اور خود کوکسی نہ کسی شکل میں کامیاب دیکھنے پر بضد تھا۔ اور اس کے لیے وہ ہر چند کہ I.A.S.میں نہیں آسکا تھا لیکن ایک دن ایک کوچنگ انسٹی ٹیوٹ کھولنے کا خواب دیکھ رہا تھا۔ لیکن اس کے لیے سخت محنت سے پڑھائی کر کے موجودہ سنٹرس میں اپنی دھاک جمانی ضروری تھی۔ وہ اپنی کمسن شبو کو وقت دینے کے بجائے صرف اسے تسلی دیتا اور الگ تھلگ کتابوں میں غرق رہتا۔ بیوی سے ہلکی پھلکی باتیں کرنے تک کی اس کو فرصت نہیں تھی۔

٭٭٭

زبیر کے نام کا ایک خط روم پر آیا پڑا تھا۔ ویریندر وہ خط لے کر زبیر کے یہاں پہنچا اندر داخل ہوا تو زبیر اند ر کے کمرے سے نکلا۔ وہ خاصا خوش تھا۔ویریندر نے محسوس کیا کہ گھر کافی بدلا بدلاسا ہے۔ اسے خیال آیا کہ ساری کتابیں یہاں سے غائب ہیں اور پرانی سیکینڈ ہینڈ تخت کی جگہ ایک خوبصورت بیڈ، بیٹھنے کے لیے چھوٹے سے کمرے کی مناسبت سے خوبصورت تپائیاں اور پورے گھر میں کئی سامان نئے نئے تھے۔ اس نے قدرے حیرت زدہ ہو کر پوچھا۔

ویریندر——زبیر بھائی آپ کی کتابیں کہاں گئیں ؟

زبیر نے ہنستے ہوئے کہا۔ پہنچ گئیں وہیں جہاں سے آئی تھیں۔ میں نے کتابوں کی دنیا دیکھ لی۔ کچھ نہیں رکھا ہے۔ لکچر دینے میں

ویریندر—— پھر کر کیا رہے ہو؟

زبیر—— ابھی کس لیے پوچھ رہے ہو؟ Attemptلو یار۔ تم آ جاؤ گے۔ اس سے آگے اس نے کچھ بھی نہیں کہا۔ (ویریندر خاموش ہو گیا)

زبیر کی بیوی شبو بھی بدلی بدلی نظر آ رہی تھی۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے گھر کے اس ماحول میں وہ کافی خوش ہے۔ زبیر جو اب اس خط کو پڑھنے کے بعد یوں ہی ایک طرف رکھ رہا تھا ویریندر سے پھر مخاطب ہوا۔

زبیر—— میں پندرہ دنوں کے لیے کسی کام سے دلی سے باہر جا رہا ہوں۔ اپنی بھابھی کا خیال رکھنا۔ فون کرتے رہنا۔

ویریندر کا پھر ایک بار جی چاہا کہ وہ پوچھے کہ زبیر کیا کر رہا ہے۔ مگر زبیر کی سنجیدگی کے آگے وہ ہمت نہیں کرسکا۔

 جوامید وار B.A.کر کے تیاری کرنے لگتا تھا وہ اس وقت تک مطمئن رہتا تھا جب تک کہ اس کے Attemptبچے ہوتے تھے مگر اس کی اصل پریشانی و چہرے کی رونق لق و دق میدان میں تب تبدیل ہونے لگتی تھی جب کہ Attemptکے ساتھ ہی وقت و عمر کے ساتھ کسی اور کورس میں کچھ کر لینے کا وقت گزر چکا ہوتا تھا۔ تب یونیورسٹیوں سے جڑے ہوئے امیدوار Careerکو Riskyنہ مان کر آگے چلتے رہتے تھے اورسوِل سروسز میں Selectنہ ہونے پر پوری طرح غیر مطمئن رہنے کی گنجائش نہیں چھوڑتے اور جوڑ توڑ جگاڑ سے کہیں نہ کہیں سیٹ ہو ہی جاتے تھے مگر اس امیدوار کا حشر عبرتناک ہو جاتا تھا جس نے اپنیCareer Age گنوا کر خالی ہاتھ لیے چہرے پر نا کامیوں کی شکن لیے واپس اپنی بے گانی ولا پروا ہو چکی فیملی میں پہنچتا تھا۔

تب تک گھر کے لوگوں کا رویہ تبدیل ہو چکا ہوتا تھا۔

ہر کوئی اب اسے چلتے پھرتے رہنا دیکھنا چاہتا تھا۔ سبھی عزت خاطر نا امیدی کی نذر ہو چکی ہوتی تھی۔

بچے بھی اسے ایک Failureکی طرح دیکھNegativeخیال ذہنوں میں لے کر بڑے ہوتے تھے۔ والدین کا یقین لہو لہان ہو جاتا تھا۔

یونیورسٹی سے جڑے ہوئے اور سیدھے چھوٹی یا بڑی جگہوں سے بی اے ایم اے کی ڈگری لے کر U.P.S.C.کی تیاری میں آنے والے امیدواروں کے چہروں پر ان کی اصل دلی حالت کی جھلک موجود ہوتی تھی۔ وہ 60سال سے آزاد اس ملک کے دو بڑے طبقوں کی صاف صاف نمائندگی کرتے ہوئے آزادی و خوشحالی کے سپنوں کی اصل حقیقت بیان کرتے تھے۔

٭٭٭

یو۔ پی۔ایس۔سی۔ اپنا کام اتنا خفیہ انداز سے کرتی تھی کہ نتیجہ آنے کے ایک دن پہلے تک خودٹاپرس کو بھی نہیں معلوم رہتا تھا کہ وہ کل ٹاپ کر رہا ہے۔ اس خبر تک سب سے پہلے پہنچ جانے کی لائن میں تمام کوچنگ انسٹی ٹیوٹ ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتے تھے۔ صبح نمودار ہونے سے پہلے ان کے سازوسامان ٹاپرس کے دروازے تک پہنچ چکے ہوتے تھے۔ کیوں نہ ہو، آخر اسی سے اگلے سال کا لائحہ عمل تیار ہونا تھا۔

اگلے سال کوچنگ انسٹی ٹیوٹ میں بچوں کی بھیڑ ان کے اسی رسوخ کا عمدہ پھل ہوتے تھے۔

فلاح انسٹی ٹیوٹ کے ڈائرکٹر حسن صاحب نے آج ہی ارجنٹ میٹنگ بلا کر ٹاپرس کے بارے میں جلد از جلد معلومات مہیا کرنے کی تلقین سب ٹیوٹرس کو کی تھی اور ان ٹاپرس تک پہنچنے کا فری ایر ٹکٹ مہیا کرانے کی بات بھی طے ہو گئی تھی۔ان کی کوشش تھی کہ ِٹاپ ٹین کے اگر تین امیدواروں سے بھی ڈیلنگ کامیاب رہی تو اگلے سال کا بیچ دیکھنے لائق ہو گا۔ کوچنگ کے اس بازار کی رونق اپنی سمت موڑنا ضروری تھا۔ ان چھوٹے چھوٹے انسٹی ٹیوٹس سے ہر سال بہت نقصان ہو جاتا تھا۔ بہت سے بچے دوسرے دلالوں کے ہاتھ آ جاتے تھے۔ اس کے علاوہ دلی کے باہر دوسرے شہروں پٹنہ اور لکھنؤ میں تو فلاح انسٹی ٹیوٹ کی شاخیں کامیابی سے ترقی کی طرف گامزن تھیں۔مگر ملک کے دوسرے حصوں میں بھی اپنی شاخیں قائم کر دور دراز کے بچوں کو بھی اس انسٹی ٹیوٹ کی طرف متوجہ کرنا اہم مقصد تھا۔ سبھی ٹیچرس کو ہدایت ملی تھی کہ وہ انسٹی ٹیوٹ اپنی گاڑی سی آئیں تاکہ اچھا تاثر ابھرے۔ دنیا چمک دمک میں یقین رکھتی تھی اور ہمیں بھی اس یقین پر ایمان لانا تھا۔

تمام کوششوں کے باوجود حسن صاحب کے ہاتھوں سے بازی پھسل گئی۔اور بترا سنیما کے ٹھیک سامنے موجود کوشل انسٹی ٹیوٹ کے ڈائرکٹر ونے دوبے بہت جگاڑو قسم کا انسان نکلا۔ اس نے یو۔پی۔ایس۔سی۔ کے کلرک کو ٹاپرس کی خبر پہلے اسے بتانے کی قیمت چکا ،بازی مار لی تھی۔

وِنے دوبے جب ایرپورٹ سے ٹیکسی لے سنیل کمار کے گھر پہنچا تو وہاں بھیڑ لگی ہوئی تھی۔ سنیل کمار ایک رکشہ چلانے والے مزدور کا بیٹا تھا۔ اپنی محنت اور لگن کی بنیاد پر وہ کامیابی کی منزل تک پہنچا تھا۔ باہر سے اندر تک لوگوں کا تانتا لگا ہوا تھا۔ سب اس کو کسی کوچنگ میں پڑھے بنا ہی اپنی محنت اور لگن کی بنیاد پر اس شاندار کامیابی کے لئے سراہتے نہیں تھک رہے تھے۔ ونے دوبے نے جب سنیل کمار کو بتایا کہ وہ رات کی فلائٹ سے دلی سے آیا ہے اور اس سے تنہائی میں کچھ باتیں کرنا چاہتا ہے تو سنیل کمار نے اسے گھر کے اندر بلا لیا۔

وِنے دوبے—— پہلے تو ڈھیروں بدھائیاں آپ کی کامیابی کے لئے

سنیل—— شکریہ۔

وِنے دوبے—— آپ کی محنت رنگ لائی۔ آپ نے اپنی لگن کی بنیاد پر جو کامیابی حاصل کی ہے وہ بے مثال ہے۔ ہمارے ملک کو آپ جیسے نوجوانوں کی سخت ضرورت ہے۔ اتنی چھوٹی سی کمائی میں آپ نے ہمت باندھے رکھی یہ بہت بڑی بات ہے۔

سنیل—— جی بس بزرگوں کے آشیرواد سے سب ہوسکا ہے۔

وِنے دوبے——آپ ہمارے لئے بہت خاص ہیں۔ ہم آپ کا تجربہ چھاپ کر ملک کے کونے کونے تک پہنچانا چاہتے ہیں جس سے دوسرے ہونہار بچوں کو روشنی ملے۔ اس طرح آپ ایک خطہ ہی نہیں پورے ملک کی کامیابی میں حصہ دار ہوں گے۔

(ذرا قریب آ کر)

اگر آپ میری ذرا سی مدد کریں تو ہمیں ان بچوں کو ہندوستان کی اس بڑی سروس میں آنے میں اپنی محنت اور بہتر طریقے سے صرف کر سکتے ہیں۔

سنیل کمار نے وِنے دوبے کو سوالیہ نظروں سے دیکھا۔

وِنے دوبے—— بات دراصل یہ ہے کہ میں آپ کا ایک انٹرویو ریکارڈ کر کے ملک کے ہر گوشے تک پہنچانا چاہتا ہوں۔

سنیل کمارنے دوبے کو غور سے دیکھا۔

دوبے—— اب آپ کو ایشور نے اتنی بڑی کرسی دی ہے تو نہ جانے کتنے لوگ آپ کے قلم سے فیض پائیں گے(مسکراتے ہوئے) ایک چھوٹا سا تحفہ قبول کر کے آپ ہم پر بھی احسان کیجئے۔

وِنے دوبے نے روپیوں سے بھرا بریف کیس سنیل کمار کے ہاتھوں میں تھما دیا۔

دوسرے دن صبح حسن صاحب کی آنکھ کھلی تو انہوں نے دیکھا کہ ٹی۔وی۔ پر ٹاپر سنیل کمار کا انٹرویو آ رہا تھا۔

’’میری کامیابی کا سہرا دلّی کی کوشل انسٹیٹیوٹ کو جاتا ہے جنہوں نے بہت محنت سے اس امتحان میں میری رہنمائی کی۔‘‘

حسن صاحب کا منھ کھلا کا کھلا رہ گیا۔

دوسرے دن جب وہ کوچنگ پہنچے تو کوشل انسٹی ٹیوٹ کے سامنے فریشرز کی بھیڑ لگی ہوئی تھی۔ ان میں بیشتر لڑکے پوربی یو۔پی۔ اور بہار کے دکھائی دے رہے تھے۔

٭٭٭

کیبل ٹی وی پر آج شام اگروال پبلک اسکول میں ہوئے کلچر ل پروگرام کی خبر آ رہی تھی۔ بچوں کے رنگا رنگ کلچرل پروگرام اور کچھ ہونہار بچوں کی تقریبوں کے بعد وہاں کی لوکل A.D.M.نشا مائک پر آئی جو چیف گیسٹ تھی۔ اس کے مائک پر آتے ہی سیکڑوں لڑکیوں اور لڑکوں نے بیحد جوش و خروش کے ساتھ اس طرح تالیاں بجائیں کہ تالیاں رکنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھیں۔ مسرت سے تمتماتے چہرے اور ہنسی اور قہقہے سے بھر پور لہجے میں نشا بچوں کو خاموش ہونے کا اشارہ کر رہی تھی۔ پورا ماحول اس طرح اس کے ڈائس پر آنے سے چوکنا ہو گیا تھا جیسے وہ کوئی بہت بڑی فلم اسٹار سے بھی زیادہ مشہور ہستی ہو۔ A.D.M.نشا نے مکمل خاموشی ہونے کے بعد مسکراتے ہوئے کہا۔

میں آپ لوگوں کو اپنی کامیابی کا راز بتاتی ہوں۔ میں کوئی ایسی طالب علم نہیں تھی جو کلاس میں ٹاپ کرتی ہو۔ کئی بار میں اپنی کلاس میں دوسرے تیسرے یا پانچویں چھٹی پوزیشن میں بھی آئی۔ لیکن یہ دوسرے لوگ جو کبھی مجھ سے اوپر آئے وہ ڈاکٹر انجینئر وغیرہ بن گئے۔ لیکن میں نے ہندوستان کی سب سے بڑی سروس کو اپنی منزل بنا رکھی تھی۔

میں نے نہ دن کو دن سمجھا نہ رات کو رات اور پاگلوں کی طرح ایک نشے کی حالت میں اپنی تیاری میں جٹی رہی کیونکہ مجھے بہت آگے جانا تھا آج اگر میں یہاں کھڑی ہوں تو اس کی وجہ میری کڑی محنت ہے اور صرف کڑی محنت۔ اور میں آپ کو یقین دلاتی ہوں کہ اگر آپ بھی کڑی محنت کریں تو یہاں تک پہنچ کر اپنے ماں باپ اور خاندان کا نام روشن کر سکتے ہیں اور دیش کو ترقی کے راستے پر لے جانے کی سب سے بڑی ذمے داری کا پرچم اپنے ہاتھ میں لے سکتے ہیں۔

بچوں کے چہرے مستقبل کے اس بڑے خواب سے آہستہ آہستہ اس طرح سہرزدہ ہو گئے تھے کہ اب ان کی پلکوں نے جھپکنا بند کر دیا تھا۔

 ویریندر کے اندر ایک طوفان سا سر سرانے لگا۔ اس کا دماغ کہیں دور ریگستان کے کسی تپتے صحرا میں دوڑنے لگا۔ اس نے مجھ سے قطع تعلق کیوں کر لیا——؟کیا میں اس کی جگہ ہوتا تو ایسا کرتا۔اس کے دل نے فوراً جواب دیا—— ہرگز نہیں۔میں ایسا ہرگز نہیں کرتا۔ مگر پھر دوسرا سوال—— کیا تم نے دیکھا نہیں کہ طاقت کے اس بازار میں دوست تو دوست میاں بیوی کے رشتے بھی ایک منٹ میں پارے کی طرح حرکت میں آ جاتے ہیں۔ قلم کی طاقت آخرکار دونوں کے بیچ آسمان زمین کا خلا حائل کر دیتی ہے تم تودوست تھے۔ تم نے کیسے سوچ لیا کہ تمہارا اس سے سات جنموں کا رشتہ ہے۔ پھر ایک سوال ——کیا تم ہو اس کے لائق؟ ہاں اب تم جواب نہیں دے سکتے۔ اس کی شان و شوکت ،آگے پیچھے حفاظتی دستوں کا ہجوم، اور نہ جانے کیا کیا ——ہے تمہارے پاس ایسا کچھ؟تم کیا سمجھتے ہو—— یہ لڑائی عورت اور مرد،وفادار اور بے وفا کے درمیان کی ہے—— نہیں ——یہ طاقت کی جنگ ہے۔ یہاں کوئی نہ مرد ہے اور نہ ہی عورت ——صرف طاقت ہی اس کی پہچان ہے۔ یہ دونوں تو صرف اس بھاری بھرکم مشین کے کل پرزے ہیں ، جس کے ہاتھ میں طاقت آئی، وہی کمزور کو کنارے کر دے گا۔ یہ قدرت کا اصول بھی تو ہے—— تو پھر تم کیوں عورت اور مرد کی وفاداریاں تول رہے ہو—— سب بیکار ہے————!

ایک آندھی سی اٹھی۔ اس کی آنکھیں پھیل گئیں وہ اپنی جگہ سے اٹھا کونے میں ایک اینٹ کا ٹکڑا پڑا تھا۔ اس نے ٹکڑا اٹھایا اور ٹی وی کے اسکرین پر پوری قوت سے دے مارا۔ چٹاخ کی ایک آواز کے ساتھ کمرے میں رکھا T.V. setتاریک ہو گیا۔

٭٭٭

ویریندر یوں ہی آوارہ گردوں کی طرح گھوم کر واپس آنے کے بعد بے سدھ لیٹا ہوا تھا کہ اس کے فون کی گھنٹی بجی۔ اب وہ گھنٹی بجنے پر فون بھی بڑی بیزاری سے اٹھایا کرتا تھا جیسے اپنے جاننے والوں کو بھی جتانا چاہتا ہو کہ وہ اپنی جگہ بہت مطمئن ہے۔ اور اسے کسی کی کوئی خاص ضرورت نہیں ہے۔ چھ سات بار گھنٹی بجنے کے بعد اس نے فون اٹھایا۔ اور ہیلو کہا۔ دوسری طرف سے ایک خشک مردانہ آواز آئی:

یہ کس کا فون ہے؟

ویریندر—— آپ کون ؟

آواز ——میں کرائم برانچ سے بول رہا ہوں۔ آپ کانام کیا ہے؟

(ویریندر کو جیسے سانپ سونگھ گیا۔ وہ اٹھ کے بیٹھ گیا)

ویریندر——میں ویریندر یادو۔

آواز——کیا کرتے ہیں ؟

ویریندر——میں Civil Servicesکی پڑھائی کرتا ہوں۔

آواز—— آپ کا پتہ کیا ہے؟

ویریندر—— آپ۔۔۔۔۔۔۔

آواز—— آپ ابھی فوراً لودھی روڈ تھانے پر آ جائیے۔ آپ کا یہاں انتظار ہو رہا ہے۔

ویریندر فوراً آٹو لے کر لودھی روڈ پہنچا۔ جہاں اسے بلایا گیا تھا۔ وہاں یونیفارم میں دس پندرہ افسر اور پولیس کے لوگ موجود تھے۔ اس نے وہاں جا کر ایک سب انسپکٹر سے اپنا نام بتایا۔اچھا اچھا۔۔۔ادھر آئیے۔ وہ اسے اندر دو تین اور افسروں کے سامنے لے گیا اور اس کا تعارف کرایا۔ سبھی اس کی طرف کڑی نگاہوں سے دیکھنے لگے۔ تین پھول والے افسر نے سب انسپکٹر سے کہا۔ پہچان کرواؤ۔ سب انسپکٹر ویریندر کو لے کر ایک چھوٹے سے ہال میں پہنچا۔ وہاں تین لاشیں ایک قطار سے رکھی ہوئی تھیں۔ سب انسپکٹر نے آگے بڑھ کر ایک لاش کی پاؤں کی طرف سے چادر ہٹائی۔ ویریندر کا ما تھا ٹنکا۔ یہ پینٹ تو زبیر پہنتا تھا۔ پھر وہی بلٹ وہی شرٹ اور شرٹ پر گولی کے نشان اور نکلے ہوئے خون کے دھبّے۔ سب انسپکٹر غور سے ویریندر کے چہرے کے تاثرات کو دیکھ رہا تھا۔

سب انسپکٹر—— اسے پہچانتے ہو؟

ویریندر تذبذب میں پڑا صرف چپ رہا۔

سب انسپکٹر نے چادر لاش کے چہرے سے ہٹا دیا۔

اب تو پہچان لیا ہو گا!

ویریندر کی آواز گلے میں اٹک گئی۔ صرف سر ہلا کر بولا جی۔

سب انسپکٹر——کون ہے؟

ویریندر—— ان کا نام زبیر ہے۔

سب انسپکٹر—— کہاں رہتا تھا؟

ویریندر ——پتہ۔۔۔993،آؤٹرم لین کیمپ۔

سب انسپکٹر—— تم اسے کیسے جانتے ہو؟

ویریندر——پہلے یہ میرے روم پارٹنر تھے۔ یہ بھی Civil Servicesکی تیاری کر رہے تھے۔

چار چانس کے بعد بھی کامیاب نہیں ہوئے۔انٹرویو کلیر نہیں ہو پاتا تھا۔ اس کے بعد کوچنگ میں پڑھانے لگے تھے۔ اس کے بعد انھوں نے کوچنگ میں پڑھانا بند کر کے کوئی اور کام شروع کیا تھا۔

سب انسپکٹر—— (غور سے اسے دیکھا)۔ کیا کام؟

ویریندر——یہ مجھے نہیں معلوم۔

سب انسپکٹر——نہیں معلوم ! پکی بات۔

ویریندر——جی واقعی نہیں معلوم۔

سب انسپکٹر نے دوبارہ لاش کو ڈھک دیا اور واپس آتے ہوئے ہال کے بیچ میں کہا۔ یہ پولیس انکاؤنٹر میں مارا گیا ہے۔

ویریندر  کا سر جھنجھلا اٹھا۔

سب انسپکٹر——اس کے گھر میں اور کون ہے؟

ویریندر—— اس کی بیوی۔

سب انسپکٹر——ویریندر مجھے لگتا ہے تم واقعی نہیں جانتے لیکن تم بنا بتائے کہیں جانا نہیں۔ تفتیش میں تمہاری ضرورت پڑسکتی ہے۔ کہیں باہر جانے سے پہلے مجھ سے اسی فون پر پوچھ لینا ——کہیں جانا تو نہیں ہے؟

ویریندر—— نہیں سر۔میں نے اپنا آخری مینس کا امتحان دیا ہے۔ اگر کلیر ہو گیا تو انٹرویو دوں گا۔ اس کی تیاری کر رہا ہوں۔

سب انسپکٹرOK, Keep on, Do not get disturb. you can go.——

جب بھارتی کی آنکھ کھلی تو ابھی سورج پوری طرح نکلا نہیں تھا اور گرمیوں کی خوبصورت صبح اپنی پوری رونق کے ساتھ نمودار ہو چکی تھی۔ وہ اٹھ کر آیئنے کے سامنے کھڑی ہو گئی اور اپنے بالوں کو ٹھیک کر کے فریش ہونے لگی ٹریک سوٹ پہن کر سیڑھیوں سے نیچے اتری تو دیکھا کہ ایک خوبصورت سی کار اس کی. P.Gکے گیٹ سے بالکل سٹی ہوئی کھڑی تھی اور ڈرائیور بے چینی سے گھر کے مین گیٹ کی طرف باربار دیکھ لیتا تھا۔ اس نے گیٹ کی طرف دیکھا تو ایک خوبصورت دوشیزہ نرم و نازک ادا اور چھوٹے چھوٹے زلفوں کی گھٹاؤں سے گھرے چاند جیسے چہرے کو ایک چھوٹے سے آئینے میں دیکھتی ہوئی کار کی طرف لپکی آ رہی تھی اور اس کی ماں ایک ٹفن باکس لیے اس کے پیچھے پیچھے دوڑی آئی۔

ماں —— بیٹا، اسے رکھ لو۔

سکھویندر—— نہیں مام۔ میں نہیں لو ں گی۔ (ہونٹوں کی لپ سٹک ٹھیک کرتے ہوئے)

ماں ——بیٹا دن بھر بھوکی رہو گی۔میرا من نہیں لگے گا۔

سکھویندر—— (تیز آواز میں ) بول دیا نا نہیں لوں گی۔ ڈرائیور چلو۔

اور ڈرائیور نے کار اسٹارٹ کر دی اور ہلکی سی سوں کی آواز کے بعد گیٹ کے پاس صرف ماں ٹفن لیے کھڑی تھی۔

بھارتی یہ تماشہ روز دیکھتی تھی۔ صبح سویرے ہر گلی میں ایک خوبصورت کار ان بھاری کولہوں اور معصوم چہروں والی دوشیزاؤں کو Collect  کر لیتی اور رات گیارہ سے دو کے بیچ انھیں اجڑے بالوں اور بے رونق چہروں اور سوکھے پپڑی بھرے لپ سٹک والے ہونٹوں کے ساتھ ان کے گھروں کے دروازوں پر چھوڑ جاتی۔ یہ تھیں ہمارے کال سنٹروں کی رونق اور باس کے کیبنوں کی زینت۔

دراصل وہ عورت بھارتی کی مکان مالکن تھی اور اس نے بیٹیوں کو زیادہ سر چڑھا رکھا تھا۔ ویسے تو اس کی تین بیٹیاں تھیں مگر سکھویندر ان میں سب سے زیادہ خوبصورت اور ضدی تھی۔ بارھویں پاس کر کے ایک پرائیویٹ کمپنی میں باس کی پی اے بن گئی تھی۔ اس کی مقناطیسی خوبصورتی ہی اس کی کوالیفکیشن تھی۔ آوٹرم لین کے مکان مالکوں کے بچوں میں یہ بات کسی Competition  سے کم اہمیت نہیں رکھتی تھی کہ کس کی بیٹی کتنی خوبصورت ہے اور کس کی بیٹی باس سے کتنا قریب ہے۔ ان کے خیال میں زیادہ پڑھنا ضروری نہیں بلکہ باس کو خوش رکھنا زیادہ اہم تھا۔ سبھی مکان مالک اونچی اونچی بلڈنگیں کھڑی کر کے انھیں ہاسٹل میں تبدیل کر کے چین کی نیند سوتے تھے اور بیٹیاں باس کی کمپنی کی ترقی کی خاطر رات بھر جاگتیں۔

آنٹی کرایہ داروں کے لیے بہت نفرت بھری نظر رکھتی تھیں وہ کہتی تھیں کہ لڑکی کو زیادہ پڑھانے میں وقت برباد نہیں کرنا چاہیے۔ جتنی جلدی ہو انھیں کماؤ بنانے کی کوشش کرنی چاہیے۔بھارتی کو صبح صبح لڑکیوں کو ماڈرن اور کماؤ بنانے پر کم سے کم ایک Solidلکچر تو سننے کو مل ہی جاتا ہے۔مکان مالکن کا صبح سے شام تک بچیوں کو ناشتہ بنا کر دینے اور گھر کے سبھی کاموں کو نمٹانے میں گزر جاتا تھا۔ عمر ۶۰ کو پار کر چکی تھی، ایک ہزار بیماریاں گھیرے ہوئے تھیں۔ بیٹیوں کو گھرکا کام کرنے کی تربیت انھوں نے کبھی دی ہی نہیں۔ اب بڑی ہو کر بھی وہ ماں کے ہی ہاتھ سے بنی روٹیاں کھاتی تھیں اور ماں خوش تھی کہ بیٹیاں ماڈرن اور کماؤ ہیں۔

آج مکان مالکن کو اپنے دروازے پر کھڑی دیکھ بھارتی حیران رہ گئی۔ صبح صبح میرے کمرے پر آئی ہیں۔۔۔۔۔۔۔! چہرے پر اس قدر سکون کہ رشی منی بھی شرما جائیں۔ بھارتی نے جلدی سے دروازہ پوری طرح کھول دیا۔

بھارتی—— آنٹی آیئے پلیز۔

مکان مالکن ——نہیں بیٹا۔ میں ذرا جلدی میں ہوں۔ (ڈبّے کا ڈھکن کھولتے ہوئے) یہ لو مٹھائی——!

بھارتی——(چہرے پر مصنوعی خوشی لاتے ہوئے) مٹھائی ——کس بات کی آنٹی—— ؟

مکان مالکن ——بیٹا۔ سکھویندر نے شادی کر لی ہے——!

بھارتی ——ارے ——یہ کب ہوا——! ہمیں پتہ تک نہیں چلا——!

مکان مالکن——بات دراصل یہ ہے کہ بیٹا سکھویندر نے کورٹ میرج کی ہے اپنے باس کے ساتھ اور ہنی مون کے لیے سوئٹزرلینڈ چلی گئی۔ فون کیا تھا تو بولی کی ابھی وہ ذرا Busyہے۔ وقت ملتے ہی ممّا سے ملنے آئے گی۔

سکھویندر پچھلے پندرہ دنوں سے گھر نہیں آئی تھی۔ اب بات رفتہ رفتہ پورے محلّے میں پھیل چکی تھی۔ پچھلے ایک ہفتے سے مکان مالک Tension کی وجہ سے نشے میں دھت لیٹا تھا اور آنٹی کی B.P. ہائی ہو گئی تھی۔ کیسے پتہ کرے کہ وہ کہاں گئی؟ آج صبح سکھویندر کا فون آیا کہ وہ سوئزرلینڈ میں ہے اور آرام سے ہے۔

چھ مہینے بعد سکھویندر گھر لوٹی تو پوری طرح بدل چکی تھی۔ اس کے رخساروں کی سرخی داغ دھبوں سے بھر گئی تھی۔ وہ سوئزرلینڈ نہیں بلکہ آسٹریلیا کی فلائٹ سے دلّی آئی تھی۔

بھارتی کمرے میں لوٹی تو اس کا کال لیٹر دروازے کے پاس پڑا ملا۔ نہ جانے کیوں اسے محسوس ہوا کہ وہ اپنی قسمت کا فیصلہ انٹرویو بورڈ کے ان لوگوں کے ہاتھوں میں قطعی طور پر نہیں دے سکتی جنھیں اتنا شعور نہیں کہ وہ انتخاب کے نام پر انسانوں کے ٹڈی دل کو ہر سال شکاریوں کی طرح بلا کر جوق در جوق تباہی کی بھٹی میں ڈھکیل دیتے ہیں۔ جن کا وژن خود اتنا کمزور ہو وہ Talent کی پہچان کیا کریں گے۔

٭٭٭

تقریباً سال گزر گیا مگر ویریندر کو گھر جانے کی ہمت نہیں پڑی۔ لگاتار نا کامیوں کے بڑھتے بوجھ تلے دبا ویریندر گاؤں کیسے جائے۔ گھر کے لوگ تو اسے کبھی کچھ نہیں کہتے ہیں مگر گاؤں والوں کا منھ کون روکے۔ دن بھر چوراہے پر بیٹھے پورے گاؤں کے مسئلوں پر گرما گرم بحثیں ہوا کرتی ہیں۔ کس کے گھر میں کیا پکا ہے آج ؟کون بھوکا سوئے گا، کل کس کے زمین کی مینڈ کاٹی جائے گی، کل نہر سے نکلی نالیاں کس کے فصل کو ڈبو کر برباد کریں گی، جیسے موضوعات وہاں بار ہوں مہینے ڈسکس کیے جاتے ہیں۔ لاکھ پردوں میں چھپی گھر کی بہو بیٹیاں چوراہے سے گزریں مگر ان کے چہروں کی لکیریں بھی گن لی جاتی ہیں۔ ویریندر کو اس چوراہے سے سے ہو کر گزرنا نہ پڑے اس لیے اکثر بس چوراہے پر پہنچنے سے دو کلو میٹر پہلے ہی وہ اتر جاتا اور پھر کھیتوں کی پتلی مینڈوں سے ہوتا ہوا گاؤں کے پیچھے سے اپنے گھر آتا۔ پھر بھی پڑوسیوں کی نظر اس پر پڑہی جاتی۔ نظر پڑتے ہی سب سے پہلا سوال یہی ہوتا کہ ابھی کتنا دن پڑھو گے بھیا؟ ویریندر کو اس سوال کا جواب دینے میں پسینہ چھوٹ جاتا۔ اس لیے وہ کوشش کرتا کہ کوئی نظر نہ آئے۔

٭٭٭

امتحان دینے کے بعد اس نے گھر جانے کا ارادہ کیا تو پھر وہی چوراہا اور وہاں بیٹھے لوگوں کا ہجوم۔ سوال پر سوال یہ سب سوچ کر وہ کانپ اٹھا۔ مگر گھر جانا بھی ضروری تھا بابو جی کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی۔ اس نے ہمت باندھ لی اور دل میں سوچ لیا کہ اب کی کسی نے بھی سوال کیا تو نہیں چھوڑوں گا اور سیدھا جواب دوں گا کہ ان کے بچوں نے کیا حاصل کر لیا جو وہ ہماری انکوائری کرتے پھرتے ہیں۔

سلطانپور جنکشن پر ٹرین سے اتر کر اس نے گاؤں کے لیے بس پکڑی۔ جب بس دندناتی ہوئی کادی پور پہنچی تو ویریندر نے دھیرے سے اپنا بیگ لیا اور ادھر اُدھر دیکھ کر بس سے اتر ایک نائی کی دکان میں گھس گیا۔ نائی نے کرسی کے پیچھے ٹنگی ٹاول کو جھاڑ کر دوبارہ وہیں لٹکا دی اور اپنا استورا لے جٹ گیا حجامت کرنے۔ آدھے گھنٹے میں اس نے پوری صفائی کے ساتھ ویریندر کے چہرے کو چمکا دیا مگر ویریندر کا دل بیٹھا جا رہا تھا کہ حجامت ختم ہونے کے بعد وہ کہاں جائے گا۔

اس نے گھڑی پر نظر ڈالی ابھی صرف پانچ بجے تھے۔ ابھی اندھیرا ہونے میں کافی دیر ہے۔ اس نے جیب سے پرس نکال نائی کو پیسے دیئے اور محبت سے پوچھا۔

ویریندر—— بھائی صاحب یہاں کوئی مال وال ہے؟

نائی—— مال! (حیرت سے دیکھتے ہوئے)

ویریندر—— ہاں ہاں مال۔

نائی——(ادھر اُدھر دیکھتے ہوئے) میں ان سب چکروں میں نہیں پڑتا بھائی صاحب۔ چھوٹی سی دکان ہے۔ روزی روز گار سے لگا ہوں۔ گھر پریوار کی دیکھ بھال بھر کما لیتا ہوں۔

ویریندر—— (ویریندر فوراً سمجھ گیا کہ اس نے بات سمجھا نہیں۔) ارے بھائی صاحب۔ میں تو اس مال کی بات کر رہا ہوں جہاں پر کپڑے وغیرہ سامانوں کی ایک بڑی بلڈنگ ہوتی ہے۔ اس میں A.C.وغیرہ ہوتی ہے۔

نائی—— (قدرے لاپرواہی کے انداز میں ) ہوتا ہو گا۔ مجھے معلوم نہیں ہے۔

ویریندر ادھر اُدھر دیکھ رہا تھا کہ اس کی نظر سامنے والی دکان پر پڑی، پھوس کی جھوپڑی قدرے جھکی ہوئی تھی۔ اور سڑک پر گاڑیوں میں بیٹھے سواریوں کو اندر دیکھنے کا کوئی چانس نہیں تھا۔ اس نے بیگ اٹھایا اور سڑک پار کر اس جھونپڑی میں گھس گیا۔ یہ چائے کی دکان تھی۔ چائے والے کو ایک کپ چائے کا اشارہ کر جلدی سے اخبار اٹھا کر پڑھنے لگا۔

 اب اس کو اطمینان ہوا کہ باقی کے ڈھائی گھنٹے وہ آرام سے یہاں گزار کر پھر گاؤں جانے والی بس پکڑے گا۔

اچانک اسے اندھیرے راستے میں ’’بھیرو کے ساگر‘‘ سے گزرنے والی سنسان سڑک یاد آئی ————ساتھ ہی وہ ساری بھوتوں کی کہانیاں اسے یاد آ گئیں جسے وہ بچپن سے سنتا آیا تھا۔ اندھیری رات میں وہ اس راستے سے کیسے گزرے گا————؟ ڈر کے خوف سے اس نے نیچے کا ہونٹ دانتوں میں دبا لیا۔ چائے کی چسکی کے ساتھ ہی مہوا کے درختوں کی بھیانک سیاہی اس کے دل  و دماغ کو جھنجھلا گئی ——مگر کوئی راستہ بھی نہیں تھا—— وہ ہمت کر لے گا ——اس نے سارے خوف کو جھٹک کر سوچا——،انہی خیالوں میں گم اس کی نظر سڑک کی طرف گئی تو بس کھڑی تھی اور کنڈکٹر مسافروں کو آواز لگا رہا تھا۔

ویریندر گھر پہنچا تو رات کے نو بج چکے تھے۔ اور گھر کے لوگ بستر پر جانے کی تیاریاں کر رہے تھے بلکہ بچے تو سو بھی چکے تھے۔ اس کے جوتوں کی آواز پر نایک جی اندھیرے میں دیکھنے کی کوشش کرنے لگے کہ کون ہے۔ اتنے میں ویریندر نے جھک کر ان کا پیر چھو لیا۔ نایک جی نے آشیر واد دیا اور اپنی بغل میں پلنگ پر بٹھا لیا۔

٭٭٭

ویریندر کی بیوی سُدھاراجیندر کی بھاوج تھی مگر عمر میں اس سے کافی چھوٹی تھی وہ ایک بچے کی ماں بن چکی تھی مگر چہرے پر وہی صبح کی نمی اور خوبصورتی موجود تھی۔ اور پھر وہ ایک I.A.S.کی ہونے والی بیوی تھی۔ اگر آج ہی وہ حسن سلوک سے سدھا کا دل نہیں جیت لے گا تو کل تو ویسے بھی اس سے ملاقات دو بھر ہو گا۔ آخر سب نہ سہی کچھ تو نیکیاں اسے یاد رہیں گی اور پھر سدھا اگر اس کی بھلائیوں کی قائل رہے گی تو کل ویریندر بھیا سے رشتہ استوار کرنا نسبتاً آسان ہو گا۔ حالانکہ ویریندر کی پڑھائی لکھائی کا سارا خرچ وہی دیتا تھا مگر کل کس نے دیکھا ہے۔ آنکھ پلٹتے دیر نہیں لگتی۔ اپنی اولاد منھ پھیر لیتی ہے پھر پٹیدار کو کیا کہیں گے۔ یہاں تو صرف حسن سلوک ہی بعد میں کام آئے گا۔ باقی سب کون یاد رکھتا ہے۔

راجیندر ہر تیج تیوہار پر بھاوج سدھا کے لیے نئے کپڑے ضرور  بنواتا۔ وہ سوچتا کہ بھیا ابھی کما نہیں رہے ہیں تو کیا ہوا۔ کھیتی سے جیسے سارا کام ہو رہا ہے ویسے یہ بھی ہونا ضروری تھا تاکہ ان کو کچھ محسوس نہ ہو۔ بابو جی بوڑھے ہو چلے تھے اور انھیں دن بھر کچہری سے ہی فرصت نہیں ملتی تھی۔ وہ اس قدر کچہری کے عادی تھے کہ علی الصبح کچہری نکل جاتے تو پھر دیر رات کو ہی گھر لوٹتے۔ پورے دن گھر کی ذمے داریوں سے ان کا نہ تو پہلے کبھی لینا دینا تھا اور نہ اب ہے۔ وہاں دن بھر بیٹھ ویریندر کے I.A.S.بن کر جلدی ہی D.M.کی پوسٹ کو ر کرنے کی باتیں کرتے اور اپنے ہم عمروں کے بیچ اپنی زندگی کامیاب ہو جانے کا بکھان کرتے نہ تھکتے۔

حالانکہ راجیندر کی بیوی کو یہ سب ناز برداریاں ایک آنکھ نہ بھاتیں اور راجیندر کی غیر موجودگی میں وہ سبھی کسر پوری کر لیتی مگر شوہر کے آگے خاموش رہ جاتی اور جب راجیندر اسے کل کی خوبصورت تصویر دکھاتا تو وہ سدھا سے جلن کرنے لگتی۔ غرضیکہ اسے کسی بھی پل چین نہیں تھا۔ مگر شوہر کی ناراضگی جھیلنا اس کو بالکل گوار ا نہیں تھا۔ اس لئے وہ راجیندر کی ہر بات پر ہاں ہاں کر دیتی اور اس کی خوشیاں جیت کر خوش ہو اگلے مورچے پر ڈٹ جاتی۔

اس دن دیوالی کی آنے والی رات تھی ڈھیر سارا گنا آنگن میں رکھا ہوا تھا اور سبھی بیٹھ کراسے چوس رہے تھے۔ حالانکہ سدھا بھی وہاں موجود تھی مگر ذرا خاموش خاموش تھی۔ راجیندر ذرا حالت سمجھ کر اس کی دل جوئی کرنے کی کوشش کرنے لگا۔

سدھا —— بھیا ! آپ ان کو سمجھاتے کیوں نہیں کچھ کام دھام کریں کب تک ایسے چلے گا۔ شادی کو اتنے دن ہو گئے۔ ابھی تک کچھ نہیں ہوا تو آگے بھی کیا ہو گا۔

راجیندر—— بھابھی دھیرج رکھئے۔ ایشو ر چاہے گا تو سب ٹھیک ہو جائے گا

سدھا ——کیا خاک ٹھیک ہو جائے گا۔ پورا گھر آپ اکیلے سنبھال رہے ہیں۔ آخر آپ کے بھی تو بال بچے ہیں۔ ان کا مستقبل بھی تو دیکھنا ہے اور پھر ایشور کی دیا سے تین تین بیٹیاں آپ کے ہی حصے میں آ گئی ہیں۔

راجیندر—— بھابھی قسمت پلٹتے دیر نہیں لگتی۔ کب اس کی دیا جوش میں آ جائے گی کیا پتہ اور پھر ہر بار مینس تو لکھ رہے ہیں نہ۔جہاں یہی امتحان نکلا انٹرویو میں کوئی مائی کا لال کیا روک پائے گا۔

سدھا حالانکہ صرف بارھویں ہی پاس تھی مگر امبیڈکر نگر جیسے چھوٹے سے شہر کی رہنے والی اچھی سوسائٹی میں اٹھی بیٹھی تھی۔ وہ جانتی تھی کہ I.A.S.کے کیا معنی ہوتے ہیں اور اسی معنی نے اسے شہر سے گاؤں میں لا پٹکا تھا۔ سدھا کے بابوجی B.N.K.Bاکبر پور میں انگریزی کے لکچرر تھے۔ وہ جانتے تھے کہ I.A.S.بن جانے کے بعد رشتہ کر سکنا ان کے بس کی بات نہیں ہو گی اور ابھی تیاری کے دوران ہی رشتہ ذرا سستے مہنگے نمٹا لیں گے اور پھر آگے اور بھی کام ہیں۔ ایک بھٹا کھولنے کا پلان ہے۔ مگر جب تک سب کام نہ نپٹ جائے یہ کام نہیں ہو سکتا۔ اس لئے اپنی پائی پائی سے جوڑی گئی رقم دس لاکھ Cashداماد و بیٹی کے نام بینک میں جمع کر کے وہ اس فرض سے سبکدوش ہو گئے تھے۔

سدھا کے پتا جی نے شادی سے پہلے ہی شرط رکھ دی تھی کہ جب تک ویریندر کا Careerبن نہیں جاتا تب تک سدھا کا گونا نہیں کروائیں گے۔ مگر نایک جی نے بھی زندگی میں گھاس نہیں کھودا تھا۔ شادی ہونے تک وہ خاموشی سے ہاں ہاں کرتے رہے مگر انھوں نے دل میں طے کر لیا تھا کہ ایک بار شادی ہو جانے دو پھر میں دکھا دوں گا کہ نایک کیا چیز ہے۔ شادی کے ایک ہی سال کے اندر انھوں نے سدھا کے پتا جی کا دروازہ گھس دیا۔ گونا کرا بہو کو گھر لے آئے مگر آخر تک وہ سدھاکی پڑھائی جاری رکھنے کا وعدہ کرنا نہ بھولے۔ سدھا کے پتا جی رشتے دار سے تنازعہ مول نہیں لینا چاہتے تھے اور پھر بیٹی کا معاملہ تھا اس لیے خاموشی سے سب برداشت کر لیا۔

سدھا کے سسرال میں بہو کو اسکول بھیجنے کا کوئی چلن نہیں تھا اس لئے اس کا پرائیویٹ بی اے کا فارم بھروا دیا گیا۔ مگر گھر میں تین دیورانیاں اور تھیں۔ کیسے ممکن تھا کہ وہ پڑھے گی اور باقیاں کام کریں گی۔ علی الصبح اٹھ کر بابو جی کا ناشتہ تیار کرنا ، گھر میں تین تین بھینسیں تھیں (گھر کے اندر ہی چارہ مشین تھی) تا کہ بہوئیں اندر ہی کام کر لیں۔ گوبر پاتھنے البتہ گھر کے پچھواڑے کی کھلی زمین پر جانا پڑتا جو کہ مہینہ دو مہینہ نئی دلہن ہونے کی وجہ سے سدھا سے نہیں کروایا گیا مگر کب تک۔آخر کار پاری بند ھ گئی اور باری باری سب بہوئیں اپنے اپنے حصے کا کام کرتی رہیں۔B.A.IIIمیں سدھا کا ایک Paperمیں بیک آگیا اور اسی سال کے آخر تک وہ جب بہت بیمار ہوئی اور بیک پیپر نہیں دے سکی تو اس کامن پڑھائی سے اچٹ گیا اور پھر ماں بننے کے ساتھ ساتھ سب کچھ چھوٹ چھاٹ گیا۔ وہ بھول گئی کہ وہ کبھی پڑھتی بھی تھی۔ اس نے گاؤں کے رنگ میں رنگ جانا ہی مناسب سمجھا۔

٭٭٭

ہر بار Mainsسے باہر ہو جانے کے بعد ویریندر کو بیحد صدمہ ہوتا۔ نتیجہ کی خبر ملتے ہی نایک جی صدمہ سے کھانا پینا چھوڑ چار پائی پکڑ لیتے مگر بیٹے کا فون آتے ہی جوانوں کی طرح کھنک دار آواز میں اسے اگلے امتحان کی خاطر جوش دلاتے۔ ویریندر حالانکہ ہر بات سے بخوبی واقف تھا اور وہ جانتا تھا کہ بابوجی اس کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں اور دراصل اب ان کی بوڑھی ٹانگیں جواب دینے لگی ہیں اس صدمہ کی تھر تھراہٹ کو برداشت کرنے میں۔مگر وہ بھی وقت پرسارا فیصلہ چھوڑ چکا تھا۔

اب ویریندر کو اپنا مستقبل خود ہی طے کرنا تھا۔ اسے والد صاحب کی بیماری کے دوران کبھی کبھی دو دو تین تین مہینے گھر پر گزارنے پڑے کیونکہ بہنیں سسرال میں تھیں اور کبھی کبھار ہی آسکتی تھیں اور چھوٹے بھائی کی بیوی بہت لا پروائی کرتی تھی کیونکہ اس کا کہنا تھا کہ صرف اس کے ہی شوہر کماتے ہیں اور پورا گھر بیٹھ کے کھاتا ہے تو وہ بھی اپنے شوہر کی طرح ان سب کی غلامی نہیں کرے گی۔

 ٭٭٭

آوٹرم لین میں رہتے ہوئے اور مکھر جی نگر کے کوچنگ انسٹی ٹیوٹ کے نیچے کی گلیوں میں کتابوں کی دکانوں اور چائے خانوں کی مانوس دنیا ہی اب اس کی دنیا بن گئی تھی۔ یہاں کون تھا جو اسے نہیں پہچانتا تھا۔ آئس کریم ،پکوڑے والے، پان کی دکان والے، لوکل آٹو والے ہوں یا رکشے والے۔ وہ ان سے ایسے باتیں کرتا تھا جیسے وہ اس علاقے کا پرانا رہنے والا ہے۔ پراپر ٹی ڈیلر سے بھی اس کی دوستی ہو چکی تھی اور اکثر اس کے ساتھ بیٹھ کر وہ ان لڑکے لڑکیوں کے کمروں میں سے بھی ہو آتا تھا جن کو اس نے روم دلائے تھے۔ کبھی کبھی پراپرٹی ڈیلر کو کینٹین میں بیٹھ کر کھانا بھی کھلا دیتا تھا۔ کیونکہ کئی لڑکے لڑکیوں نے اسی کے حوالے سے اس سے کمرہ لیا تھا۔

لڑکے لڑکیوں کو ایک دوسرے کے نوٹس دلانے جیسی ترکیبوں کے ذریعے اس نے اپنی اچھی خاصی ساکھ بنا رکھی تھی اور اگلے امتحان میں یقینی طور پر کامیابی کا وہ اس عالی شان طریقے سے جھنڈا لہراتا تھا کہ نئے پرانے امید وار یہ بالکل ہی بھول جاتے تھے کہ وہ تین بار ناکام ہو چکا ہے۔

رعب میں لینا اور اچھی کوچنگ کے پتے دے کر کوچنگ والوں سے کمیشن لینا ، اور جیب میں آئے پیسے کو مال مفت سمجھ کر لڑکیوں پر اڑانا۔ اور اس طرح بور کرتی ہوئی زندگی سے بدلہ لینا اس کا کردار بن گیا تھا۔ رفتہ رفتہ دلی کی رہائش اور وضع قطع کو اس نے نہ صرف سمجھ لیا تھا بلکہ اس کا بہترین استحصال بھی سیکھ گیا تھا۔ برانڈڈ کپڑے، پابندی سے شیو کرنا، آنکھوں پر پر اثر چشمہ اور سلیقے سے کٹے ہوئے بال جدید ترین بلٹیں ، قیمتی موبائل اور خاص طور سے ووڈلینڈ کے جوتے اس کا معیار بن گئے تھے۔ دھیرے دھیرے اس نے یوپی کے دیہی زبان کا لہجہ پوری طرح چھوڑ دیا تھا اور کوشش کرتے کرتے اب انگریزی کے پر اثر جملے وہ بالکل مغربی انداز میں بولنے لگا تھا۔ اندر سے وہ جتنا کھو کھلا ہو گیا تھا باہر سے اتنا ہی بھرپور تھا۔ ایسے چلتا پھرتا جیسے I.A.S.میں کامیاب ہونے کے علاوہ ایک I.A.S.افسر کی ساری خوبیاں اس کے اندر پیدا ہو گئی ہوں۔ اس نے بترا سنیما کے گراونڈ کے کنارے نیچے بیٹھنا کبھی کا چھوڑ دیا تھا اور اب وہ با قاعدہ نئے ملنے والوں کو رسٹورینٹ میں لے جا کر پکوڑے کے ساتھ کافی پلاتا اور پھر سیدھے انھیں چوتھی منزلوں پر لے جا کر بھاری بھر کم انداز میں کوچنگ ڈائرکٹر سے ان پر توجہ دینے کی تاکید کرتا اور ان کی ذہانت کی تعریف کرتے ہوئے یہ کہہ کران کی فیس کم کرانے کا دکھاوا بھی کرتا کہ یہ نو وارد اس کے کوچنگ کا نام روشن کرے گا۔

وہ اکثرسوچتا میں ہی ایک ہوں پورے ہندوستان میں۔ ہر شہر میں دوچار دس کوچنگ انسٹی ٹیوٹ چل رہے ہیں۔ ہرذہین لڑکا یا لڑکیI.A.S.بننے کا ہی خواب دیکھتا ہے اور جگہیں کتنی ہیں جیسے آسمان میں رکھا ہوا چاندEverestکی چوٹی سب کو دکھائی دیتی ہے کھائیاں اورسیدھی کھڑی چٹانیں اور برفیلی وادیاں جس میں انسان کا خون جم جائے یہ سب ان لوگوں کو کیوں دکھائی نہیں دیتے۔ میرے دماغ میں کیا کوئی ہوائی جہاز رکھا ہوا ہے کہ اس سے اڑ کر وہاں پہنچ جاؤں گا۔ کتابیں وہی ہیں لیکن اس پر چھوٹے چھوٹے کتوں سے لے کر بڑے بڑے شیر تک خوں خوار جبڑوں کے ساتھ بھڑے ہوئے ہیں۔ اس کو بابوجی سمجھتے کیوں نہیں۔I.A.S.بات ہی چانس لینے والی ہے۔ یہاں انھوں نے یقین کا جھنڈا کیوں پھہرا دیا ہے۔یہ نہیں سوچا کہ جب یہ جھنڈا گرے گا تو میرے اوپر ذلتوں کی کتنی بارش ہو گی۔ کیا منہ دکھائیں گے یہ ان لوگوں کے سامنے جس سے انھوں نے میرے نام پر موٹی موٹی گڈیاں لے رکھی ہیں۔

سوچتے سوچتے وہ گھبرا اُٹھتا۔میں کس سے Shareکروں۔ کامیابی ہو بھی سکتی ہے اور نہیں بھی لیکن یہ سب تماشہ کھڑا کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ میں تو اپنے لہو کا چراغ جلا کر اس کی روشنی میں پڑھوں تو بھی یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ کامیابی مل ہی جائے گی۔ اسے Competitionایک خوفناک درندے کے کھلے ہوئے جبڑوں کی طرح دکھائی دینے لگا۔ پتہ نہیں کیسے ایک بار اس کا پورا جسم سردہو گیا۔ اسے بالآخر دلّی کی ان گلیوں میں ہی آخری پناہ گاہ دکھائی دینے لگی۔ میں بھی کہیں ادھر ہی چلا جاؤں گا جس راستے پر میرے جیسے سبھی چلے جاتے ہیں۔

اسے معلوم تھا کہ وہ کاغذ کی کشتی پر چل رہا ہے اگر کشتی ڈوب گئی جس کے پورے  امکانات ہیں تو وہ اس صورتِ حال کا مقابلہ نہیں کر پائے گا۔ اس کے بعد کیا ہو گا،یہ اس نے حالات اورقسمت کے اوپر چھوڑ دیا۔ اب جب اس سے اس کی کامیابی کے بارے میں پوچھا جاتا تو اچانک اس کی آنکھوں کی چمک کہیں غائب ہو جاتی۔ لیکن فی الحال اس نے اسی طرح زندہ رہنا اور کوشش کرنا سیکھ لیا تھا۔

رفتہ رفتہ اس امتحان کی بلند چٹانیں انتہائی نا قابل اعتبار ثابت ہو رہی تھیں اور جب ایک ایک سال اس سے پھسلنے لگا تو وہ اپنی ٹھوس تیاری پر بھروسہ کرنے کے بجائے Hysteria کے Factorsکا سہارا لیتے ہوئے صرف ان لوگوں پر نظر ٹکائے رکھا جو کامیابی کی منزل تک دو تین ناکامیوں کے بعد پہنچ گئے تھے۔ وہ اب پوری طرح محض امید کے پنکھوں پر اڑنے کی کوشش میں مصروف رہنے لگا۔ اسے کسی آدمی کی بات اچھی نہیں لگتی تھی جو نا کامی کی طرف کبھی اشارے کرتا تھا کیونکہ وہ نا کامیوں کی دنیا کو دیکھنا ہی نہیں چاہتا تھا۔ اور آخری امتحان تک وہ پوری طرح Hysteriaکے عالم میں رہتا۔ آخری موقعہ بھی کھو کر اس کو پتہ چلا کہ وہ خواب و خیال اور شناخت کی ایک ایسی اونچائی پر پہنچ چکا تھا جس کے آگے راستہ ختم تھا اور نیچے پہاڑوں جیسی بھیانک کھائی تھی۔ تب تک اس کی کئی جڑیں بھی کٹ چکی تھیں مثلاً Academic Recordجس پر اس نے توجہ نہیں دی خراب ہو چکا تھا اورکسی بھی طرح کی افسری کی عمر نکل چکی تھی اور دوسری طرف اس کے گھر والے اور احباب اس سے پوری امید لگائے بیٹھے تھے کہ وہ اپنے خوابوں کو سچا کر کے لوٹے گا۔ اب وہ کیا کرے گا یہ سوچ کر اس کا دماغ درد کے مارے جیسے پھٹنے لگا۔

اس کی آنکھیں لگاتار چھت کو گھورے جا رہی تھیں اور دماغ پورے جسم تک اپنا دائرہ بڑھا چکا تھا۔اب وہ بھی ان لاکھوں نوجوانوں میں شامل ہو جائے گاجو پوری طرح ٹوٹ کر اپنا منھ چھپانے کے لئے جگہ تلاش کرنے لگتے ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے ان کی وہ دنیا بھی ٹوٹ پھوٹ جاتی ہے جس میں وہ اپنی نوجوانی کے سارے خواب پورے کر رہے تھے۔اب وہ بھی زبیر کی طرح کرائم اور لمبی جدو جہد والے راستے کو چنے گا لیکن یہ سارے راستے وہ تھے جن کے لئے اس کے پاس کوئی تعلیم ،تربیت یا روایت نہیں تھی۔اور پھر وہ کہاں جائے گا؟ کسی بے نام و نشان دنیا میں ————!اس کی نظر میں I.A.S.کی تیاری اور امتحان کا پورا Processایک ایسا Processدکھائی دے رہا تھا کہ جس میں چند ذہین نوجوان سرکا ر کے ہاتھ تو لگ جاتے تھے لیکن اس Process میں لاکھوں نوجوان بلی چڑھا دیے جاتے تھے کیونکہ ان کے بارے میں سرکار اپنی کوئی ذمے داری نہیں سمجھتی۔ جبکہ یہ سب کچھ سرکا ر کے انتخابی عمل کا ہی ایک عبرتناک حصہ تھا۔ نوجوانوں کو اس طرح کا خواب دکھانا اور نا کام نوجوانوں کے بارے میں کچھ نہیں سوچنا سر کار کی طرف سے ایک جوا کا کھیل رچانے جیسا تھا۔ وہ بستر سے اٹھ کر ٹہلنے لگا۔

ویریندر کے کمرے سے پورب کی طرف چار پانچ کوٹھیاں چھوڑ کر آگے کئی مکانوں میں شمال مشرقی علاقوں سے آئے ہوئےCandidatesرہتے تھے جن کی ایک الگ ہی دنیا تھی۔ عام طور سے دوسرے لڑکے لڑکیاں ان کے درمیان نہیں جاتے تھے۔ ایک دن ویریندر کو نیچے کوئی یار دوست نہیں نظر آیا اور وہ ادھر ادھر نظر دوڑا ہی رہا تھا کہ ادھر سے شیکھرجس نے اس کے ساتھ ہی کوچنگ لی تھی اور پچھلے چار سال سے وہ یہیں رہ رہا تھا آتا دکھائی دیا۔ شیکھر نے اسے اپنے کھینچے ہوئے بھوں اور تنی ہوئی پلکوں سے مسکرا کر دیکھا۔

ویریندر نے اس سے ہاتھ ملایا اور اس کے ساتھ چلتا ہوا اس کی طرف نکل گیا۔

عام طور سے دوسرے Studentادھر کبھی نہیں جاتے تھے۔ لیکن North-East کی لڑکیوں کو اکثر دوسرے لڑکوں کے ساتھ آتے جاتے دیکھا جاتا تھا اور ان کے بارے میں طرح طرح کی کہانیاں ’’سفیدپنڈلیوں ‘‘ کے نام سے آوٹرم لین میں گردش کرتی تھیں۔ ویریندر جب شیکھر کے ساتھ اس کے کمرے پر گیا تو وہاں بیٹھے Studentنے اسے عجوبے کی طرح دیکھا۔ ویریندر کو تجسس تو بہت دنوں سے تھی لیکن آج اسے ان لوگوں کو قریب سے دیکھنے کا موقعہ ملا۔ دیواروں پر لگی نیم عریاں تصویریں مہنگے و قیمتی سامانوں سے بھرے ریک۔وہ ایکدم سے متحیر تھا۔

کچن کے دروازے پر بیٹھ کر ایک لڑکاکسی جانور کا چمڑا چھیل رہا تھا۔ اس نے غور سے دیکھا تو اسے اندر سے ابکائی آنے لگی۔ یہ کوئی کتا تھا۔ وہ وہاں سے اٹھ کر جانا ہی چاہتا تھا کہ ایک چنکی نے گلاس میں بیر اس کی طرف بڑھایا۔ لڑکیاں نیم برہنہ آ جا رہی تھیں۔ وہ کبھی کبھی بیر یا وسکی بھی پینے لگا تھا۔ یہ محسوس کرتے ہوئے بھی کہ یہ گلاس کتے بلیوں کی بو باس میں اچھی طرح سنا ہوا ہو گا۔ بیر کے خیال میں ڈوب کر اس نے گلاس منھ سے لگا لیا۔ ادھر ایک طرف وسٹرن میوزک (Rock Music)، ہزار واٹ کے اسپیکر پر گونجنے لگا اور سفید پنڈلیاں رقص کرنے لگیں۔دوسری طرف کتے کے ٹکڑے بننے لگے۔ ہنستے مسکراتے چہروں میں وہ کھو سا گیا۔

دوسرے دن صبح اسے یا د آ رہا تھا کہ اس نے گذشتہ رات وہسکی بھی پی تھی۔ سفید پنڈلیوں کی پھسلن اسے ابھی تک یاد تھی۔ اس نے چمکتے بالوں کے بیچ رقص بھی کیا تھا۔ اور کباب بھی کھائے تھے۔ اسے ابکائی سی آئی۔ پھر اس نے جیسے اندر سے ایک چیخ سی ماری ہو۔ بیکار ہے یہ سب سو چنا۔

دوسرے دن باہر بالکونی پر آیا تو دیکھا کہ نیچے کافی لوگ جمع ہو کر شور و غل کر رہے تھے۔ نیچے اتر کر کسی سے پوچھا تو معلوم ہوا کہ سامنے والے پارک میں جس کتیا نے بہت دنوں سے چھ بچے دیے تھے جو ادھر اُدھر کودتے پھرتے تھے اور محلے کے بچے ان کو اپنے پیچھے پیچھے دوڑاتے تھے تو کبھی اپنے آگے آگے لیکن رفتہ رفتہ ایک ایک کر کے چند دنوں پہلے سارے بچے غائب ہو نے لگے۔ کل اچانک وہ کتیا بھی غائب ہو گئی تھی۔

٭٭٭

ویریندر نے فون رکھ دیا وہ دلّی چھوڑ کر چلا جائے! تو پھر آیا کیوں تھا اس کو یہاں وقت،پیسہ، جوانی و خوبصورتی سب کچھ برباد کر کے کیا ملا! یہ سو چ کر وہ رات بھر جاگتا رہا۔ نیند اس سے کوسوں دور اور بد نصیبی قریب کھڑی باہیں پھیلائے اس کی منتظر اور بے صبر سی نظر آ رہی تھی۔وہ اب اس اسٹیج پر پہنچ چکا تھا جہاں سے پیچھے مڑنے کے سارے راستے بند تھے اور آگے کھائیوں کی ایک لمبی قطار جھائیں جھائیں کی پایل بجاتی اس کی اور گھور رہی تھی۔ اس نے سوچا۔ کیا اچھا ہوتا اگر میں نے U.P.S.C.میں آنے کی بجائے کوئی پروفیشنل ڈگری لے لی ہوتی۔ بی اے کرنے کے بعد سے آفر بھی اسے آئے تھے مگر اسے تو صرف I.A.S.ہی بننا تھا اور اس ملک کی تعمیر نو کے لیے پورا دم خم لگانا تھا۔ اب وہ اپنی زندگی کی اگلی منزل بھی طے کر پانے کی حالت میں نہیں تھا۔ وہ جو چار سال سے International Relationپر گتھیاں سلجھاتے باقی وقت گزارنے اور کا نفیڈنس کی ایک دنیا اپنی اندرون میں تعمیر کر کے پورا افسربن چکا تھا اب وہ خود اپنی ہی زندگی کے شب و روز کو گزارنے کی صورت کا خیال کر کے ہی خوف کھا رہا تھا۔ ایک سرکاری مہر نہ ملنے کی وجہ سے اس کی ساری قابلیت بے معنی ہو گئی تھی۔

اس نے اپنی انگلیوں کو غور سے دیکھا۔ اتنی خوبصورت اور کہیں کہیں لگاتار لکھتے رہنے سے گانٹھ کی شکل کے ٹھوس نشان اس کی لگن اور محنت کی گواہی دے رہے تھے۔ اس نے سوچا کہ پورے وقت یہ انگلیاں میری ہر ایک محنت کی گواہ رہی ہیں اس نے دیکھا یہ انگلیاں ہندوستان کے مستقبل کا فیصلہ لکھنے کی خاطر تھیں۔ میں انہیں کہیں اور استعمال کرتا تو یہ ان کے ساتھ بہت بڑی نا انصافی ہو تی۔اکثر فرصت کے اوقات میں وہ اپنی انگلیوں کو بغور دیکھ کر ایسا سوچا کرتا تھا۔

مگر آج وہی انگلیاں ایک معصوم و بے گناہ مجرم کی طرح اس کی طرف دیکھ رہی تھیں۔ تم نے کیا کیا ! میری طاقت کا استعمال تم نے کہاں کر دیا کہ اب پچھتا رہے ہو۔ ہم تو تمہاری غیر مشروط غلام ہیں۔

اسے خیال آیا کہ اسی بیچ میں اسے کسی طرح ایک ایک سال کے ٹکڑوں کی حقیقی زندگی بھی گزارنی پڑی جیسے اس نے ادھار میں جینا شروع کر دیا ہو۔ یعنی بابوجی کو بھی یہ یقین دلا کر کہ وہ I.A.S.بن جائے گا پیسے منگاتا رہا۔اور ٹینشن فری رہنے کی خاطر اسی طرح خرچ کرتا رہا۔ اسی درمیان اسے یہ بھی احساس ہوا کہ زندگی کے اس دور کی خوشیاں اپنے آپ میں بہت اہم تھیں اوراس نے ان کو کھو نا نہیں چاہا تھا۔ اس کو پوری طرح Enjoyکرنے کے لئے اس بڑے شہر میں بے پناہ مواقع بھی ملے۔ اپنے ارد گرد کے لوگوں کو یہ یقین دلانے کے لئے کہ وہ نادان اور غیر ذمے دار نہیں تھا وہ سب کو یقین دلاتا رہا کہ اس کی تیاری بہت اچھی چل رہی تھی اور وہ ایک ریگو لر محنت کرنے والے Candidateکے طور پر اپنے Time Tableوغیرہ کا سب کو احساس دلاتا رہا تھا۔

٭٭٭

آج ہولی تھی اور صبح سے ہی بچے پچکاریوں میں رنگ بھرکے ایک دوسرے پر پھینک رہے تھے۔ نایک جی کل شام کو سمترا کے سسرال گئے ہوئے تھے مگر ابھی تک لوٹے نہیں تھے۔ گھر میں ہر طرف بچے دوڑ بھاگ مچائے ہوئے تھے۔ سُدھا صبح سویرے سے ہی نہا دھو کر پوجا پاٹ کررسوئی میں گھسی گوجھیا بنانے میں محو تھی۔ ویریندر کی آنکھ کھلی تو اس نے چھت پرآس پاس دیکھا سبھی لوگ اٹھ کر جا چکے تھے اور دھوپ اس کی پیٹھ کو پوری طرح گرم کر چکی تھی۔ اسے یاد آیا کہ رات میں گرمی اور حبس کی وجہ سے وہ چھت پرسونے آگیا تھا۔ اس نے سوچا سدھا کہا ہے؟

اتنا سوچ کر وہ سیڑھیوں سے نیچے اتر کر آنگن میں آیا تو دیکھا کہ سُدھا آنگن میں رکھی بالٹی میں بھانگ گھولنے میں مصروف ہے۔ اس نے ایک نظر بالٹی پر پھرسُدھاپرڈالی اور اپنے بالوں پر ہاتھ پھیرتا ہوا باہر آ گیا۔ گاؤں کے نوجوان جھنڈ کے جھنڈ چہروں پر رنگ پوتے ہوئے آتے جاتے دکھائی دے رہے تھے۔ وہ کچھ دیر دالان میں پلنگ پر بیٹھا رہا۔

اسے یاد نہیں تھا کہ کبھی اس نے ان گاؤں کے بچوں و بزرگوں کے درمیان کوئی کھلنڈرا پن کیا ہو، کسی شرارت پر گاؤں سے کوئی شکایت بابوجی تک آئی ہو۔ اسے آؤٹرم لین کی ہولی یاد آ گئی۔ نشا کے ساتھ گزارے ہوئے لمحوں کو یاد کر کے وہ ایک دم سے سنجیدہ ہو گیا۔ سانولے رنگ کے ساتھ ہلکے رنگوں کے سوٹ اس پر کتنے اچھے لگتے تھے۔ ہولی میں تو وہ دن بھر رنگوں کے ڈر سے کھڑکی سے جھانکتی تک نہیں تھی۔

اس نے کروٹ بدلی۔

اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا توسُدھا دروازے کے پیچھے ساڑی کا پلّو چہرے پر جھکائے ہوئے کھڑی اس کی طرف دیکھ رہی تھی۔ ویریندر ایک دم سے اسے پہچاننے کی کوشش کرنے لگا۔ سُدھا نے دھیرے سے پوچھا:

 سُدھا——طبیعت تو ٹھیک ہے آپ کی۔۔۔!

ویریندر——(پلک جھپکاتے ہوئے) ہاں میں ٹھیک ہوں۔

 سُدھا——فریش ہو جائیے۔میں آپ کے لیے چائے لاتی ہوں۔

ویریندر——میں فریش ہوں۔ (دھیرے سے) ذرا ایک لوٹا بھانگ تو لانا۔

 سُدھا——(حیرت سے) بھانگ۔۔۔!آپ کے لیے۔۔۔!

ویریندر——کیوں ؟ میں بھانگ نہیں پی سکتا؟ آج ہولی ہے۔۔۔!تم کو معلوم نہیں کیا۔۔۔؟ آج توسب لوگ بھانگ پیتے ہیں۔بابوجی کہاں ہیں ؟

 سُدھا——بابوجی ابھی جوالاپورسے لوٹے نہیں ہیں۔

ویریندر——وہاں کیوں گئے تھے؟

 سُدھا——سمترا کوتیوہاری پہنچانے گئے تھے۔ ہوسکتا ہے کہ رنگ کے ڈر سے نہ نکلے ہوں۔ شام تک آ جائیں گے۔ آپ فریش ہو جائیے۔

ویریندر——میں بالکل فریش ہوں۔ جاؤ بھانگ لاؤ۔(اب وہ اٹھ کر بیٹھ گیا)

 سُدھا کچھ سوچتی ہوئی الٹے قدموں مڑی اور آنگن میں آ کر کھڑی ہو کر سوچنے لگی کہ کیا کرے۔ بابوجی بھی نہیں ہیں۔ کس سے پوچھے کہ اس کو کیا کرنا چاہیے۔ انھوں نے کبھی بھانگ نہیں پی ہے۔ پہلی بار پئیں گے تو طبیعت بھی خراب ہوسکتی ہے۔ (اس کی ایک لمبی سانس نکل گئی)

ان کا کہا بھی ٹال نہیں سکتی۔ کیا کرے،اسی فکر میں ابھی کھڑی سوچ ہی رہی تھی کہ اتنے میں ویریندر آنگن میں آگیا اور لوٹا اٹھا کر بالٹی میں سے بھانگ بھر کر منہ سے لگا لیا اور ایک سانس میں پورا پی گیا۔ اس نے چار پانچ لوٹا بھانگ بنا رکے پی لیا اور لوٹا وہیں آنگن میں پٹک دیا۔ باہر آ کر پلنگ پر آنکھ بند کر کے نیم دراز ہو گیا۔سر میں سفید انگوچھا پوری طرح لپیٹ لیا تاکہ باہر کا شور غل اس کے کانوں تک نہ پہنچے۔

کافی دیر تک وہ جوں کا توں لیٹا رہا۔ تھوڑی دیر بعداس نے اپنی آنکھ کھولی تو اس کو دالان کے کنارے دھان کے پوال پڑے دکھائی دیے۔ اس کو اچھا نہیں لگا کہ آج تیوہار کے دن اس کے دالان میں پوال بکھرا ہوا ہے اس نے اٹھ کر انھیں قرینے سے سمیٹا اور دالان کے دوسرے کنارے لے جا کر رکھ دیا۔ اور آ کر پھر لیٹ گیا۔  سُدھا تھوڑی تھوڑی دیر میں اس کو دیکھ جاتی کہ کہیں نشے کی شدت طبیعت نہ خراب کر دے۔ دو منٹ کے بعداس نے آنکھ کھولی تواس کو محسوس ہوا کہ وہ پوال بکھرا ہوا ہے اس کو بڑا غصہ آیا۔ اس نے اٹھ کر دالان کے کنارے سے پوال کو قرینے سے سمیٹا اوردوسرے کنارے پرلا کر پٹک دیا اور پھر آ کر لیٹ گیا۔پوال کو سمیٹنے اور رکھنے کا یہ سلسلے شام تک چلتا رہا۔ یہاں تک کہ اس کی دونوں ٹانگیں سوج گئیں۔  سُدھا سہمی ہوئی ایک کنارے کھڑی یہ ماجرا دیکھتی رہی۔ اس کی ہمت نہیں ہوئی کہ وہ ویریندر کو ٹوک دے۔

٭٭٭

آج صبح سے ہی ’’بھیرو کے ساگر‘‘ پر چیلوں اور گدھوں کی پرواز یہ بتا رہی تھی کہ وہاں کوئی خوراک آ چکا ہے۔ صبح سویرے سے ہی چماروں نے قیاس آرائی شروع کر دی تھی کہ شام تک ان میں سے کسی کو کام ملنے والا ہے۔ انھوں نے آس پاس کے گاوؤں میں پتہ کرنا شروع کر دیا کہ کس کا جانور مرا ہے تاکہ بھاؤ تاؤ طے کر لیں۔ لیکن ابھی تک مالک کا پتہ نہیں چلا تھا۔

شام ہو چکی تھی۔ اونچی گھاسوں کے درمیان سے بھاگتا ہوا ایک نحیف سا کتا کچھ دوری پر آ کر رُک گیا اور منہ میں پکڑے ہوئے چمڑے کے بیلٹ کو پنجوں میں مضبوطی سے جکڑ کر جلدی سے نوچ کھانے کی کوشش میں تھا کہ پیچھے سے ایک موٹے تگڑے کتے نے اس پر حملہ کر کے شکار چھین کر آن کی آن میں اونچی گھاسوں کے درمیان غائب ہو گیا۔

بیلٹ ————!یہ تو بابو لوگ پہنتے ہیں۔

(ایک نے دوسرے کو دیکھا)

اور پھر آٹھ دس چمار گھاس کو چیرتے ہوئے اندر گھس گئے ساگر کی خشک سطح پر دیواروں کے کنارے ایک کنکال موجود تھا۔ پورے کنکال پر گوشت کا ایک رتی بھی باقی نہیں تھا۔

یہ کون ہے———— ؟یکبارگی سب گھبرا گئے۔

کہیں کسی کا قتل  تو نہیں ہوا   ————؟

(سب نے ایک دوسرے کو سوالیہ نظروں سے دیکھا)

مگرکنکال سے کوئی بھی جانکاری ملنا مشکل تھا۔

کھوپڑی پر بندھا انگوچھا کھولو(ایک نے دوسرے سے کہا)

سفید انگوچھا خون میں بھیگ کر سوکھ چکا تھا مگر اس کی گرفت ابھی تک جیوں کی تیوں تھی۔ اسی لیے شاید کھوپڑی کا وہ حصہ ابھی تک محفوظ تھا۔

انگوچھے کی گانٹھ کھول کر اسے ہٹا دیا گیا۔ دوسفید پتلیاں آسمان کی طرف مسلسل تکے جا رہی تھیں۔

٭٭٭

مصنفہ کی اجازت اور تشکر کے ساتھ

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید